FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

تعلیمی تکنالوجی

مصنفہ: ڈاکٹرنسرین

مترجم: ابو مظہر خالد صدیقی

ادارت: ڈاکٹر محمد جنید ذاکر

 

فہرست

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

انتساب

عم محترم ابو الخیر صدیقی کے نام

جن کی پُر خلوص رہنمائی ہمیشہ میرے

ساتھ رہی۔

حصولِ علم طبعِ انسانی کا خاصہ ہے۔ غور و فکر، تدبر و تفکر، بھی اسی سے وابستہ متعدد اکائیاں ہیں۔ اور علم ایک گہرا سمندر ہے جو شخص اس میں جتنا غوطہ زن ہوتا ہے اتنے ہی موتی اس کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ عصرحاضر در اصل انفجار علوم کا دور ہے۔ آج ہر علم کو متعدد شعبہ جات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اور ہر علم و فن میں متخصصین کی کافی اہمیت ہے، تاہم ہمہ صلاحیتی شخصیت کو بھی قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ قدیم زمانہ کی بہ نسبت آج علم کا حاصل کرنا آسان ہو چکا ہے۔ مگر علم کی وسعت اور اس کے پھیلاؤ کا احاطہ کرنا بھی مشکل امر بن گیا ہے۔

قدیم زمانے میں علم ہاتھ سے تحریر کردہ مواد پر مشتمل مخطوطات کی شکل میں تھا۔ اسی لئے حصولِ علم بھی کافی دشوار اور کٹھن مرحلہ تھا۔ مگر طباعت نے علم کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا، اور عصرِ حاضر نے علم کو تکنالوجی سے مربوط کر کے اس کو ایک لافانی جہت عطا کی۔ آج انٹرنیٹ پر موجود متعدد سرچ انجن طلباء اور اساتذہ کے لئے ایک عالمی درسگاہ ثابت ہو چکے ہیں۔

گوگل سرچ انجن تو پوری دنیا کے علم کواکھٹاکرنے کے در پے ہے۔ یہاں پر سوال کرنے کی دیر ہے اور جوابات خودکار طور پر حاضر ہیں۔ سوشل نٹ ورک میں Facebook، Twitter، LinkedIn، MySpace، LiveJournal، Tagged، Orkut، myYearbook، Badoo، وغیرہ نے پوری دنیا میں تہلکہ مچادیا ہے۔ آج اگر کوئی شخص کسی بھی قسم کا سوال کرتا ہے تو ہزارہا افراد مطلوبہ جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔ بلکہ خود متعدد مفید کمرشل و نان کمرشل علمی ویب سائٹس فروغ علم میں کوشاں ہیں۔ مثلاً www.khanacademy.org/، www.dewsoftoverseas.com/، www.researchgate.net/، www.wikipedia.org/، وغیرہ لاثانی ویب سائٹس ہیں۔ جن پر علم کی جمع دہی کا کام جاری ہے۔

اور خودGoogleکی پیش کردہ ہر خدمت علمی میدان میں قابلِ تحسین ہے۔ جس سے نہ صرف حصولِ علم آسان ہو چکا ہے بلکہ حصول روزگار کے بھی جدید مواقع فراہم ہو چکے ہیں۔ بلکہ آن لائن حصولِ علم کو ترجیح دی جاری ہے۔ اور یہ رجحان کافی وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ متعدد ITکمپنیوں نے جدید آلات کو سافٹ ویر سے مربوط کر کے ایسے کمالات دکھائے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ بلکہ موبائل ٹکنالوجی نے انٹرنیٹ سے مربوط ہو کر علم کو ایک مٹھی میں بند کر دیا ہے۔ موبائل کی معروف کمپنیاں Nokia، Apple، Samsung، Blackberry، Iphone، Ericsson، HTC، Sony نے ایسے بہترین اپلیکیشن تیار کئے ہیں کہ ان میں اور کمپیوٹر میں کچھ زیادہ فرق نہیں رہ گیا ہے۔ اور پھر ترسیل کی رفتار کو بڑھانے کے لئے ۲Gسے ۳G، اور ۴Gکو متعارف کروایا جا رہا ہے۔ اور متعدد دقیق، علمی، فنی اور تاریخی مباحث کو ۳D یا ۴D Animations اور ویڈیوس کی شکل میں پیش کر کے فلمایا جا رہا ہے۔ اور Youtubeجیسے عالمی شہرت یافتہ منبع میں ان کا ارتکاز کیا جا رہا ہے۔

اسی وجہ سے آج کل کلاس روم کا تعلیمی ماحول بھی یکسر بدل چکا ہے۔ اور ہر کلاس روم میں انٹرنیٹ، ویڈیو کانفرس، پروجکٹر کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ بلکہ خود طلبہ اور اساتذہ میں تکنالوجی کے تئیں ایک خلا پایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ان تکنالوجیوں کو سند کا درجہ حاصل ہو رہا ہے۔ الغرض تعلیم بہت ہی غور طلب اور گہرا موضوع ہے، تعلیم بجائے خود منزل نہیں بلکہ منزل کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اسی لئے ہر شخص عصر حاضر سے ہم آہنگ ہونے کے لئے ان تمام خدمت گزار آلات اور تکنیکوں کو استعمال کرے اور ان سے فیضیاب ہو۔

میں نے ترجمہ کے لئے اس کتاب کا انتخاب اس لئے بھی کیا کہ ہماری حقیقی تعلیمی صورتحال کا ایک شماریاتی تجزیہ منظر عام پر لایا جائے اور حصول علم میں تکنالوجی سے ہمارے رشتہ کی تعین کی جائے۔ میں اس ضمن میں صاحبِ کتاب محترمہ ڈاکٹر نسرین صاحبہ کا سپاس گزار ہوں کہ آپ نے مجھ کو اس کتاب کے ترجمہ کی اجازت مرحمت فرمائی۔

اور استاد محترم ڈاکٹر محمد جنید ذاکر صاحب کا بھی صمیم قلب سے ممنون و شاکر ہوں کہ آپ نے بڑی ہی باریک بینی سے اس کتاب کے ترجمہ کی ادارت فرمائی۔ اور دوران ترجمہ ہر ہر لفظ اور اصطلاح پر آپ نے میری مشفقانہ رہنمائی کی۔ اگر آپ کی نگرانی مجھے نصیب نہ ہوتی تو میں اس کتاب کی طباعت کی ہمت نہ کرپاتا۔ اور میں پروفیسر محمد ظفر الدین صاحب (صدرشعبۂ ترجمہ) کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا کہ آپ نے 2007ء میں شعبۂ ترجمہ میں داخلہ سے نوازتے ہوئے اس فن میں محنت، لگن، اور مہارت کی طرف توجہ دلائی تھی۔ اور میں اپنے مشفق اساتذۂ کرام، عالیجناب ڈاکٹرخالد مبشر الظفر صاحب، عالیجناب ڈاکٹر سید محمود کاظمی صاحب، ڈاکٹر محترمہ کہکشاں لطیف صاحبہ، اور عالیجناب محمد ارشد شیخ سعدی صاحب، کا تہہ دل سے ممنون و شاکر ہوں کہ آپ نے ہمیشہ میری رہنمائی کی۔ بالخصوص استاد محترم فہیم الدین احمد صاحب کو میں کبھی بھلا نہیں سکتا کہ آپ نے نہ صرف اس فن کی تعلیم دی بلکہ وقتاً فوقتاً ترجمہ کی تکنیکوں سے بھی نوازتے رہے۔ اور اس کتاب کے ایک اہم حصہ کے ترجمہ میں آپ نے میری کافی مدد کی۔

یہاں پر میں اپنے عزیز دوست ظہیرالدین دانش اور مشفق چچا ابو الخیر صدیقی کو کبھی نہیں بھلا سکتا جنہوں نے اس کتاب کی طباعت کی طرف توجہ دلائی اور مسلسل اصرار کرتے ہوئے بذات خود اس نسخہ کو NCPUL روانہ کیا۔ اور برادرم غازی فہیم الدین، محمد اظہر عمری، عبد الماجد، اور سید بشارت مہدی کا بھی ممنون و شاکر ہوں کے آپ نے بھی اس کتاب کی اشاعت سے قبل نظرِ ثانی کی اور میری ہمت افزائی کی۔ أخی شقیق ابو عمر صدیقی، برادرم عبد الرحیم چاند، اور چھوٹے اور چہیتے بھائی اُسامہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی میرے لیے معاون ثابت ہوئے ورنہ اس کتاب کی طباعت میں مزید تاخیر ہو سکتی تھی۔

میں اخیراً دست بہ دعا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان سبھی مخلصین کی نیک تمناؤں کو پورا کرے۔ (آمین)

بابِ اوّل: تعارف

1.1                  تکنالوجی کیا ہے؟

1.2                  تعلیمی تکنالوجی کیا ہے؟

1.3                  کلاس روم تکنالوجی

1.4                  معلوماتی تکنالوجی: ایک نظریاتی ڈھانچہ

1.5                  کیسے معلوماتی تکنالوجی انسانوں کے لئے مددگار ثابت ہو سکتی ہے

1.6                  مسئلہ کی توجیہ

1.7                  مسئلہ کا بیان

1.8                  اصطلاحات کی تعریف

1.9                  مقاصدِ مطالعہ

1.10      مطالعہ کے مفروضات

1.11      مطالعہ کی تحدیدات

1.0     تعارف                   (Introduction)

عصرِ حاضر میں سائنسی معلومات کے دھماکہ خیز اضافے نے موجودہ علمی ڈھانچے اور ترسیلی عمل میں تبدیلیوں کو ضروری بنا دیا ہے۔ تعلیم کا اہم مقصد اور منصب ترسیل علم ہے جس میں مہارتیں اور رویے بھی شامل ہیں۔ اس میں علم، مہارت اور معلومات کو ایک مقام (منبع؍source) سے دوسرے مقام (قابلہ؍ Receiver) تک منتقل کرنا ہوتا ہے۔ حالیہ عرصے تک بھی یہ عمل اساتذہ کے ذریعہ براہِ راست یا مطبوعہ مواد کے ذریعے تکمیل پاتا رہا ہے اور کبھی کبھار سمعی وبصری آلات کے استعمال کے ذریعے پہنچایا جاتارہا۔ لیکن ترسیلی تکنالوجی میں ترقی نے انسانی خدمات کی جگہ لے لی ہے اور ترسیل علم کا کام اور مؤثر طور پر ہونے لگا ہے جس سے بیک وقت بلا لحاظ فاصلہ کئی مقامات پر بڑی تعداد میں لوگ مستفید ہو سکتے ہیں۔

1.1     تکنالوجی کیا ہے؟

(What is Technology?)

یہ ایک تکنیکی علم ہے جس میں، کسی فن، سائنس، یا مخصوص پیشہ سے متعلق اشیاء کو حاصل کرنے اور اس پر کام کرنے کے طریقہ سے بحث کی جاتی ہے، تکنالوجی وہ سائنسی طریقہ ہے جس میں جدید تکنیکوں کو فروغ دیا جاتا ہے سادہ زبان میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ تکنالوجی کسی کام کے منظم ارتقاء اور سائنسی تکنیک کے اطلاق کا نام ہے، تکنالوجی وہ طریقۂ کار ہے جس میں تکنیک کو سنوارا جاتا ہے یہ کوئی بند کتاب نہیں ہے، اس میں متحرک و تخلیقی انجینئروں اور سائنسدانوں کے لئے اختراع کے راستے ہموار ہیں اور یہ راہیں ہمیشہ اُن اساتذہ کے لئے بھی کھلے ہیں جو اپنے شاگردوں کی ترقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ پاؤلو فرائر Paulo Freire کے الفاظ میں ’’ تعلیم بھی سرمایہ کاری کی طرح کام کرتی ہے اور نئی نسل کو موجودہ نظام کی معقولیت سے منطقی طور پر منسلک و مربوط کرتی ہے انہیں اس پر عمل پیرا کرتی ہے اور یہ وہ مشقِ آزادی ہے جس کے ذریعے مرد یا عورت تنقیدی طور پر نمٹتے ہیں یا تخلیقی طور پر حقائق کے ساتھ ہوتے ہیں یا وہ یہ دریافت کرتے ہیں کہ اپنی دنیا کو تبدیل کرنے میں کس طرح حصّہ لیا جائے ‘‘۔

1.2     تعلیمی تکنالوجی کیا ہے؟

(What is Educational Technology?)

سائنسی اور تکنیکی ترقی اور اس کے استعمال کی وجہ سے تعلیمی میدان پر اثر پڑا ہے۔ اور یہ اثر اتنا گہرا اور وسیع پیمانے پر ہوا ہے کہ اس کی وجہ سے ایک نیا شعبۂ علم ابھرا جسے ہم تعلیمی تکنالوجی کہہ سکتے ہیں۔ یہ تدریس و اکتساب میں سائنسی طرز پر دلالت کرتی ہے اور نفسیات، سماجیات، ترسیلیات، لسانیات، اور دیگر متعلقہ میدانوں میں سائنسی و تکنیکی طریقے اور تصّورات کے برمحل استعمال پر زوردیتی ہے، اور یہ انتظامی اصولوں کی تشکیل اور اس کی مؤثر و کارکرد ترقی اور دستیاب مواد اور انسانی وسائل کا استعمال سکھاتی ہے۔

تعلیمی تکنالوجی کوئی ایسا نظریہ نہیں ہے جس کہ لئے مشینوں اور دیگر ہارڈویر کو استعمال کرنا ضروری ہے بلکہ تجربے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں ابلاغی آلات و وسائل کا استعمال ہے، تعلیمی تکنالوجی کے تصّور کو آسانی سے سمجھنے کے لیے ہم پوری دانشمندی کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کئی مفاہیم پر مشتمل ہے۔ سادہ زبان میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ’’ تعلیم تدریس و اکتساب کا عمل ہے ‘‘ جس کے ذریعے ایک نونہال اور بالغ مرد کی نشو و نما ہوتی ہے۔ تدریس صرف تفویضی عمل یا معلومات کی پیش کشی نہیں ہے اور اس طرح اکتساب صرف سماعت کے لئے نہیں بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو طالب علم کے مثبت رویے کو یقینی بناتا ہے۔

تعلیم کا اہم مقصد بچے کی شخصیت کا ارتقاء اور اسے معاشرہ کے ایک اچھے رکن کی حیثیت سے تیار کرنا ہے، اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ تعلیم جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ عصر حاضر کی معاشی و معاشرتی اور تکنیکی ترقی نے تعلیمی ترقی کی رفتار کو تیز کر دیا ہے۔ تعلیم کے ذریعے ہی ایک قوم، قومی اور بین الاقومی چیلنجز کا سامنا کر سکتی ہے۔ اسی لیے تعلیم کو نہایت مفید اور حالات سے ہم آہنگ ہونا چاہئے مختصر یہ کہ تعلیمی تکنالوجی میں ’’فروغ تعلیم‘‘ ’’اطلاقی طریقہ کا جائزہ‘‘ اور ’’اکتسابی امداد‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ اس طرح یہ تعلیمی مقاصد اور امکانات پر محیط ہے ذرائع ابلاغ اور اس کی خصوصیات، ذرائع ابلاغ کے انتخاب کا معیار ووسائل کا انتظام بھی اسی میں شامل ہے۔

1.3     کلاس روم میں تکنالوجی

(Technology in the Class-Room)

ہمارے نظامِ تعلیم میں تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں اور ہم ترقی کی جانب گامزن ہیں۔ محدود طریقۂ تعلیم کا نظام رفتہ رفتہ ختم ہو رہا ہے۔ اور ہمہ مقصدی کلاس روم کی راہ ہموارہو رہی ہے اورجدید طریقۂ کار کے اثر نے طلبہ کو دیر تک اسکول میں رہنے پر راغب کیا ہے۔ اور معلومات کی ترسیل کے لئے اسکول میں متعدد اہم تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ نئے ایجاد کردہ تعلیمی ذرائع ابلاغ کو بڑے پیمانے پر اپنایا جا رہا ہے اور یہ کئی اسکولوں میں تدریس کا جزوِ لاینفک بن چکے ہیں، ہمارے اسکولوں میں بڑی تعداد میں کئی قیمتی آلات مثلاً اوورہیڈ پروجکٹر، ٹیپ ریکاڈر، ٹی۔ وی سیٹ، اور سلائیڈ پروجکٹر کو استعمال کیا جا رہا ہے، اور لسانی تجربہ گاہیں قائم کی جا رہی ہیں۔

لیکن ان آلات کا حصول اُس وقت غیر اہم ہو جاتا ہے جب اساتذہ ان کے استعمال سے واقف نہیں ہوتے اور اسے بلا ناغہ کلاسیس میں پیش کرنے سے قاصر رہتے ہیں اس تعلق سے سنا جا رہا ہے کہ کئی اسکولوں میں پروجکٹر بند پڑے ہیں اور ان پر گرد جمی ہوئی ہے اور ٹی، وی سیٹ کنکشن سے بھی محروم ہیں اور لسانی تجربہ گاہوں کا مناسب استعمال تک نہیں ہو رہا ہے یہی ہمارے اسکولوں کی حقیقی صورتحال ہے۔

پالسی سازوں نے بتدریج اس مسئلہ کی شناخت کر لی ہے۔ اور وہ ضروری رہنمائی فراہم کر رہے ہیں تاکہ تعلیمی ذرائع ابلاغ کا استعمال کرنے کے لئے اساتذہ کی ہمت افزائی کی جائے۔ لیکن اس ضمن میں اساتذہ کی جانب سے مثبت رویے کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ ان آلات کو استعمال کرنے کے لیے اپنے فن کے ماہرین کی بھی ضرورت ہے۔

کمرۂ جماعت میں درس وتدریس کے لیے بہترین اساتذہ کی کمی کے نتیجے میں تعلیمی تکنالوجی میں دلچسپی بڑھ رہی ہے، جیسے ویڈیو ٹیپ، کے ذریعے ایک بہترین استاد بے شمار طلبہ تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ حالانکہ ماضی میں ایک استاد طلبہ کی ایک جماعت کی حد تک مقید ہو کر رہ جاتا تھا، حرکی تصویری فلمیں یہ ثابت کر چکی ہیں کہ اس کے ذریعے ہم انفرادی یا اجتماعی طور پر استفادہ کر سکتے ہیں فلم اسٹرپس آڈیو ٹیپ، ٹیپ ریکارڈ وغیرہ نے تدریسی مواد کو اکٹھا کرنے اور محفوظ کرنے میں آسانیاں فراہم کی ہیں، جن کی مدد سے ہم بہترین دروس کو محفوظ کر کے تشنگانِ علم تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

1.4 معلوماتی تکنالوجی: ایک نظریاتی ڈھانچہ

(Information Technology: A Conceptual framework)

کمپیوٹر کی ایجاد اور معلوماتی تکنالوجی کی ترقی بیسویں صدی کی اہم کامیابی ہے۔ اور یہ ترقی و ارتقاء علم کو پھیلانے کے لئے اہم وسیلے کے طور پر تسلیم کی جا چکی ہے۔ اور اس سے امید ہے کہ وہ تیز رفتار ترقی اور انسانیت کے لئے معاشرتی و معاشی فوائدپہنچاسکتی ہیں۔ وسیع پیمانے پر یہ ثابت ہو چکا ہے معلوماتی تکنالوجی ایک ایسا نظام مہیا کر رہی ہے جس سے تعلیمی ادارے مؤ ثر ہو سکتے ہیں اور مسابقتی فوائد سے مستفید ہو سکتے ہیں اور تکنالوجی کے ذریعے روزگار حاصل کر سکتے ہیں۔

اگر یہ تعلیمی ادارے معلوماتی تکنالوجی میں سرمایہ کاری کرنے میں ناکام ہو جائیں گے تو زوال اور انتظامی پسماندگی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ معلوماتی تکنالوجی ایک وسیع اصطلاح ہے، جو کمپیوٹر کے معلوماتی عمل اور انتظام کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے، اس نظام کے کلیدی اجزاء ہارڈویر، سافٹ ویر، اور انٹرنیٹ پر مشتمل ہیں جس کو معلوماتی تکنالوجی کے ماہرین نے بنایا، فروغ دیا اور مستحکم و منظم کیا ہے۔ معلوماتی تکنالوجی کے ذریعے یہ ادارے تعلیمی سرگرمیوں کو مؤثر طریقے سے فروغ دے سکتے ہیں اور معیاری تعلیم اور ماہرانہ خدمات فراہم کر سکتے ہیں۔

معلوماتی تکنالوجی کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک تپائی (Three-Legged Stool) ہے جس کے تین اہم پائے (۱) ہارڈویر (۲) سافٹ ویر (۳) اور ٹیلی کمیونیکیشن ہیں۔ معلوماتی تکنالوجی کے عمل میں تیز ترین ترقی کی وجہ حسابی و ترسیلی تکنالوجیوں کے عمل میں ہم آہنگی ہے اور سافٹ ویر صلاحیتوں کی اہم ترقی نے بھی نئے مواقع فراہم کئے ہیں۔

اس صورتِ حال میں تبدیل ہو سکتی ہے، معلوماتی تکنالوجی نے ہماری طرز زندگی اور روزگار پر اثر ڈالنا شروع کر دیا ہے اور مزید اثر ڈالنے کے امکانات ہیں۔ سادہ زبان میں یوں کہا جا سکتا ہے کمپیوٹر میں ترقی، برقی و ترسیلی آلات، نے معلوماتی تکنالوجی کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ کسی بھی کام کو مکمل طور پر انجام دے سکتی ہے۔ معلوماتی تکنالوجی اور کمپیوٹر تکنالوجی، دفعتاً وقوع پذیر کسی حادثہ کا نام نہیں۔ بلکہ یہ ایک مسلسل ارتقاء کا نام ہے ماضی پر نظرڈالنے سے ہمیں مستقبل کا تجزیہ کرنے کے لیے کار آمد معلومات فراہم ہو سکتے ہیں۔ ابتداء میں یہ تکنالوجی صرف کمپیوٹر کرپٹ (Computer Crept) تک محدود تھی۔ اور عام انسانوں کہ لئے یکسر غیر متوقع تھی۔

حقیقی معنوں میں اس کا آغاز 1950ء میں ہوا۔ ہر شخص اس سے متفق ہے کہ کمپیوٹر ایک عظیم باصلاحیت آلۂ ہے۔ ابتداء میں کم ہی لوگ اس سے واقف تھے۔ 1950ء اور 1960ء کے دوران ذرائع ابلاغ سے مائیکروپراسیسر کے متعلق خبریں وصول ہوتی رہیں۔ اس کے کچھ ہی دنوں بعد اسے تیار کیا گیا اور اسے بازار میں فروخت کیا جانے لگا۔ 1971ء، 1972ء اور 1980ء سے ہم رفتہ رفتہ اس کے ایسے مسائل سے آگاہ ہوتے گئے جن کے لیے ہم تیار نہیں تھے۔ اس کے باوجود ہمیں اس تکنالوجی کی ترقی کے کافی آثار و امیدیں ہیں اور اب بھی یہ میدان کار آمد ہے۔

ترقی پذیر معلوماتی تکنالوجی کے تعارف نے اس کی ساخت وفروغ میں ہمیں نئی دلچسپیاں فراہم کی ہیں۔ کمپیوٹر تکنالوجی کی معنیٰ خیز پیش قدمی، اور ترسلیات، ڈاٹا ایکسیس، اسٹوریج ڈویسیس، ترسیلی آلات، اور سافٹ ویر کی تخلیق نے تعلیمی اداروں کے لئے جدید مواقع کا عالمی قوسِ قزح تیار کیا ہے۔

نئی معلوماتی تکنالوجی کو مؤثر طریقہ سے چلانے کے علاوہ اور کئی مسائل درپیش ہیں۔ جس کے لیے ایک طویل مدت درکار ہے۔ تعلیمی اداروں کو حسبِ ذیل الجھنوں اور مسائل کا سامنا ہے۔

٭ تعلیمی اداروں کے لئے معلوماتی تکنالوجی اہم ہے جس کی اہمیت کو سمجھنا ہر ایک ادارے کے لیے ضروری ہے۔

٭ معلوماتی تکنالوجی ایک اعلیٰ سطحی مرحلہ وار کام ہے۔

٭ معلوماتی تکنالوجی کے اہم اثرات مرتب ہوئے ہیں اور یہ تعلیمی میدان میں تدریس و اکتساب کے لئے اہم ذریعہ بن گئی ہے۔ اور اب یہ تمام تعلیمی اداروں کے لیے پر کشش ہے۔

٭ معلوماتی تکنالوجی ایک ایسا انتظامی عمل ہے جو عالم گیر سطح پر آپس میں ایک دوسرے کو مربوط کرتا ہے۔ اور اس میں تعلیمی طریقوں کو تبدیل کرنے کی اہلیت ہے اور یہ مسابقت کے لیے ایک بنیاد ہے۔

1.5     معلوماتی تکنالوجی انسانیت کے لئے کہاں تک مدد گار ثابت ہو سکتی ہے

)How Far information Technology is Helpful for Human Being?)

عصرِ حاضر کی تکینکی ترقیات میں معلوماتی تکنالوجی کی دریافت نے اہم تعاون کیا ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ معلوماتی تکنالوجی نے تعلیمی زندگی کے تمام حقائق اور معلوماتی عمل کی جستجو میں اہم رول ادا کیا ہے۔ جس کے پیش نظر درج ذیل مقاصد ہیں:

(1                            یہ معلومات کو بروقت پیش کرتی ہے۔

(2                            درست معلومات فراہم کرتی ہے اور یہ حسابی غلطیوں سے مبرا ہے۔

(3                            درمیانی عمل سے گزرے بغیر بار بار اپنے نشانے تک خود کار رسائی کے ذریعہ ڈاٹا اخذ کر سکتی ہے۔

مختلف علوم میں اضافے کو مدّ نظر رکھتے ہوئے تعلیمی نظام میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور اعلیٰ تعلیم میں تبدیلیوں کا عمل بھی اسی بات کا مظہر ہے۔ یقیناً یہ کہا جا سکتا ہے کے معلوماتی تکنالوجی میں وہ طاقت ہے جس کے ذریعے یکساں خدمات تمام تعلیمی اداروں کے لیے ذمہ دارنہ طریقہ سے انجام دیے جا سکتے ہیں۔

دنیا تیزی سے تغیر پذیر ہے کچھ تغیرات معاشرتی، سیاسی، معاشی، اور تکنیکی ہیں اور دیگر ماحولیاتی ہیں جن میں چند ارتقائی وانقلابی بھی ہیں۔ تکنالوجی اور بالخصوص معلوماتی وترسیلیاتی تکنالوجی نے ان تبدیلیوں میں اہم رول ادا کیا ہے، یہ حقیقت ہے کہ معلوماتی تکنالوجی کی ترقی نے علم کے انتخاب اور اس کی نشر واشاعت میں بڑی سہولتیں پیدا کر دی ہیں جس سے شعبۂ تعلیم کو نئی منزلوں تک رسائی حاصل ہوئی ہے۔ تعلیمی شعبہ میں معلوماتی تکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے حسبِ ذیل تبدیلیوں سے ہم آہنگی ضروری ہے

٭ تعلیمی اداروں میں خدمات کی انجام دہی کے لیے معلوماتی تکنالوجی کی ضرورت ہے جس سے اہم تبدیلیاں واقع ہوں گی۔

٭ تعلیمی اداروں کے لیے اطلاعاتی تکنالوجی ضروری ہے تاکہ تعلیم کو مکمل طریقے سے مؤثر بنایا جا سکے۔

٭ معلوماتی تکنالوجی نے وقت اور فاصلے کے احساس کو تبدیل کر دیا ہے نئے تناظر میں تعلیمی ادارے علاقائی یا قومی نہیں رہے بلکہ عالمی حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔

1.6 مسئلہ کی توجیہ

(Justification of the Problem)

معلوماتی تکنالوجی کی تشکیل نے طلباء کی روزمرہ سرگرمیوں پر اور ان کی زندگی کے تمام پہلوں پر زبردست اثر ڈالا ہے اس تکنالوجی کے ذریعے طلبہ تسلسل کے ساتھ درست اور تازہ ترین معلومات صحیح وقت پر براہ راست حاصل کر رہے ہیں جو انھیں صحیح فیصلہ کرنے میں معاون ہو سکتی ہیں۔ بالخصوص ایسے طلبہ جنھیں مختلف تلون پذیر پیچیدہ معاملات سے سابقہ پڑتا ہے۔ وہ ایسے تمام طریقوں (Devices)سے واقف ہیں جن کی مدد سے وہ زندگی کو آسان اور خوشگوار بنا رہے ہیں۔

فنونِ لطیفہ، تجارت، سائنس، اور سماجیات کے مسائل سے متعلق تمام قسم کی اطلاعات کو تلاش کرنے کے لئے انٹرنیٹ کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور ہم کسی بھی موضوع پر سرعت کے ساتھ مناسب اور صحیح معلومات کو اخذ کر سکتے ہیں۔ ان تمام چیزوں نے طلبہ کی علمی سطح کو متاثر کیا ہے۔ جس سے طلبہ کی تعلیمی کامیابی پر بہت زیادہ اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ تعلیمی تکنالوجی نے کلاس روم تدریس و اکتساب کے عمل کو بڑی حد تک بدل کر رکھ دیا ہے۔

اساتذہ نے کلاس روم کے باہر طلبہ پر پڑنے والے ترسیل و ذرائع ابلاغ کے مسلسل اثرات کو محسوس کیا ہے۔ اساتذہ بھی تدریسی منصوبہ بندی اور اکتسابی جانچ کی ضرورت کو محسوس کیا ہے کہ طلبہ کی مختلف دلچسپیاں اور قابلیتیں ہوتی ہیں، ماحول و پس منظر کے لحاظ سے ان میں کافی فرق پایا جاتا ہے۔ اس طرح عصر حاضر کے اساتذہ نے مختلف اکتسابی تجربات کو پیش کرنے کی ضرورت محسوس کی جو طلباء کے انفرادی تفرق پر جچتے ہوں اور اس لحاظ سے معلوماتی تکنالوجی کے پیداکردہ طریقۂ کار اورذارئع ابلاغ کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔

تعلیمی میدان میں استاد کے کردار میں تبدیلی کی وجہ فلسفہ، نفسیات، سماجیات، تکنیکیات، اور تعلیم میں گنجلک اثرات کا نتیجہ ہے۔ مکتسب کے معاشراتی گرہیں کھولنی پڑتی ہیں۔ اسی لئے تعلیم میں بنیادی و اہم تبدیلی فطرت کے مطابق ہونی چاہیے چونکہ مکتسب کو معاشرہ کی گرہیں کھولنی ہوتی ہیں۔ طلبہ کے لئے اساتذہ کی یہ مخصوص تبدیلی تعلیمی عمل اور تعلیمی سرگرمیوں کو جوڑنے کہ لئے مرکزی حیثیت کی حامل ہے مخصوص اور واضح اکتساب، اساتذہ کے کلاس روم کردار کی تخمینِ نو کے لیے ناگزیر ہے۔

تعلیم کا مستقبل راست طور پر معیاری ومتوسط تخلیقی ذہن کے اساتذہ و طلبا پر منحصر ہے جن میں ایجاد و اختراع کی قابلیت ہو اس طرح تعلیمی اداروں میں معلوماتی تکنالوجی کا کردار غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اساتذہ کو عام تعلیمی مہارت کے علاوہ ذرائع ابلاغ میں بھی لیاقت کی ضرورت ہے۔ آج کل کلاس روم میں ایک قابل ذکر و قابل فہم تبدیلی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے کلاس روم کی فضا پر اہم فرق پڑا ہے۔ نفسیاتی مطالعے سے یہ بات صاف طور پر منکشف ہوتی ہے کہ کلاس روم کے ماحول اور فضا نے طلبہ کے تخلیقی و اکتسابی ماحول پر اثر ڈالا ہے۔

اس طرح کا ماحول تیار کرنے میں استاد کی خصوصیات، شاگرد سے تعلقات اور استاد کے شخصی رویے، نگرانی اور اس کا پیشہ وارانہ فلسفہ اور ساتھ ہی ساتھ اس کی زندگی کے اقدار بنیادی حیثیت کے حامل ہیں۔ ماضی میں استاد ک و مختارانہ حیثیت حاصل تھی، اور وہ اس پر عمل بھی کر سکتا تھا۔ لیکن بدلتے ہوئے تعلیمی مقاصد اور اس میدان میں مؤثر اکتساب اور جدید ترین نفسیاتی انکشافات نے استاد کے اس طرزِ عمل کو لاحاصل ہی نہیں بلکہ اکتساب کے لئے ضرر رساں ثابت کیا ہے۔

پیشرو طلباء کے مقابلے آج کل کے طلباء کا کردار زیادہ مشکل اور ذمہ دارانہ ہے ان حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے محقق نے ہدف مطالعہ کے لیے انڈر گریجویٹ طلبا کو منتخب کیا ہے جن پر قوم کے مستقبل کو سنوارنے کی زبردست ذمہ داری ہے، اس مطالعہ کے ذریعے محقق نے انڈر گریجویٹ طلبا کے رویے کو جاننے کی کوشش کی ہے اور معلوماتی تکنالوجی کی مدد سے تعلیمی میدان میں آنے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا ہے۔ اس مطالعہ کا ماحصل یہ ہے کہ ہم مستقبل میں کس طرح معلوماتی تکنالوجی کو اپنا سکتے ہیں اور یہ کس طرح تدریس و اکتساب کے عمل کو بہتر بنانے میں ممدومعاون ہو سکتی ہے اور تعلیم کے اس بدلتے ہوئے رخ سے کس حد تک طلبہ کواکیسویں صدی کی تیاری میں مدد مل سکتی ہے۔ یہی وہ حقائق ہیں جنھوں نے محقق کو معلوماتی تکنالوجی کی ضرورت اور اس سے متعلق مسائل پر سوچنے اور تحقیق کرنے پر مجبور کیا ہے۔ ذیل میں اس مسئلہ کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

1.7     مسئلہ کا بیان

(Statement of the Problem)

علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں مختلف معاشی و سماجی حیثیت رکھنے والے انڈر گریجویٹ طلباء و طالبات میں معلوماتی تکنالوجی کوسیکھنے کے تعلق سے رویّوں کا تقابلی مطالعہ

1.8     اصطلاحات کی تعریف

(Definitions Of the Terms)

درجہ ذیل اصطلاحات تحقیقی مقصد کے لیے استعمال کی گئی ہیں جن کی وضاحت ضروری ہے۔

} رویہ                                                      (Attitude)

کسی مخصوص مقصد کے پیش لفظ موافقت کو سمجھنے محسوس کرنے اور برتاؤ کے لیے کچھ لوگوں کے خاص طریقے کو رویہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور سمجھا جاتا ہے کہ یہ رویے تجربات سے مشتق ہے نہ کہ خلقی خصوصیات سے جن میں ہم ترمیم کر سکتے ہیں۔

} انڈر گریجویٹ طلباء(Male Undergraduates)

ایسے طلباء جو شعبۂ سماجی علوم کے تحت B.A میں زیرِ تعلیم ہیں انہیں تحقیقی مقصد کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔

} انڈر گریجویٹ طالبات (Female Undergraduates)

ایسی طالبات جو شعبۂ سماجی علوم کے تحت B.A میں زیرِ تعلیم ہیں انہیں تحقیقی مقصد کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔

}معلوماتی تکنالوجی (Information Technology)

بین الاقوامی انسا ئیکلوپیڈیا میں Husen اور دوسروں نے اصطلاح (Information Technology) معلوماتی تکنالوجی کی حسبِ ذیل تعریف کی ہے۔

اصطلاح(Information Technology)معلوماتی تکنالوجی تین اہم اجزاء پر مشتمل ہے۔

معلوماتی نظام کا انتظامیہ

Management Information System (MIS)

فیصلہ سازی میں معاون نظام

Decision Support System (DSS)

انسانی عنصر

(Human Factor)

(UNESCO) یونسکو نے معلوماتی تکنالوجی کو مخصوص تکنیک اور انجینئر نگ کے شعبہ میں شامل کیا ہے انتظامی تکنیک جو اطلاعات کے حصول میں شامل ہوتی ہے۔ جو کمپیوٹر کے اطلاعات اور انسانوں کے باہمی تعامل سے مربوط ہے۔ جو سماجی معاشی اور ثقافتی معاملات سے متعلق ہے۔

} سماجی و معاشی حیثیت (Socio Economic Status)

بین الاقومی تعلیمی لغت کے مطابق اصطلاح ( Socio Economic Status) سماجی و معاشی حیثیت کی تعریف اس طرح کی گئی ہے۔ ’’ کسی گروہ میں کسی بھی شخص کی سماجی یا معاشی حیثیت متعین کرنے کے لیے اس کی مالی حیثیت، پیشہ، تعلیم اور سماجی طبقہ پرمنحصر ہے۔ Loveringer(1940) کے مطابق ’’( Socio Economic Status) سماجی و معاشی حیثیت، کئی عناصر کا مجموعہ ہے۔ جس میں پیشہ، آمدنی اور گھریلو تہذیب کے خصائص کو شامل کیا جا سکتا ہے ‘‘۔

} جذبۂ اُمنگ کی سطح( Level of Aspiration)

لفظ Aspiration(جذبۂ اُمنگ) کوئی نیا لفظ نہیں ہے اس کو عام آدمی، فلسفی، مفکرین، اور ہر میدان میں کام کرنے والے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن جب ہم اسے اصطلاح ’’جذبۂ اُمنگ کی سطح‘‘ کے پس منظر میں دیکھتے ہیں تو ہم اس کے مفہوم کو محدود کر دیتے ہیں۔ اور اس کو احتیاط سے خالص نفسیات کے مفہوم کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اصطلاح جذبۂ اُمنگ کی سطح کا نفسیاتی سیاق میں مطلب یہ کہ ’’ یہ وہ معیار ہے جس تک اپنے پہلے تجربات و عمل کے ذریعے پہنچنے کی کسی فرد سے امید کی جا سکتی ہے۔ جذبۂ اُمنگ کا تصور اور اس کے مطالعہ کے طریق کار کو متعارف کرانے کا سہرا(Lewino)لینو اور (Dembo 1931) ڈیمبو کے سر جاتا ہے۔ جلد ہی (Frank,Hoppe)فرنک، ہوپ اور (Jucknot)جکنوٹ بھی اس تحقیق میں شامل ہوئے۔ جو مقاصد، رویّوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ جس نے یہ نتیجہ أخذ کیا کہ جذبۂ اُمنگ کی سطح کسی بھی شخص میں یکساں نہیں ہوتی۔ (Escalona)اسکالونا کی جانب سے ابتداء میں جذبۂ اُمنگ کی سطح کے نظریاتی تصّور کو پیش کیا گیا بعد میں اسے تفصیلی طور پر (Festingr 1942 )فیسٹنجر نے ’’Resultant Valence Theory.‘‘ کے نام سے پیش کیا۔ 1994ء میں (Lewins)لیوینس نے اس میں مزید اضافہ کیا۔

(Level of Aspiration) جذبۂ اُمنگ کی سطح کی تعریف کرنے کے لیے چند واقعات کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ ( Stanger and Karwoski 1962) سٹنجر اور کروسکی ( ۱۹۶۲)  نے اس کی یوں تعریف بیان کی ہے۔ کہ ’’ کوئی شخص اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جو سطح اُمنگ اور توقعات رکھتا ہے در اصل وہی چیز جذبۂ اُمنگ کی سطح کہلاتی ہے۔ (Frank 1935)فرنک (1935) نے اس کی یوں تعریف بیان کی ہے ’’کوئی شخص ماضی میں کئے گئے کام کوجس سے وہ واقف تھا اسے مستقبل میں صراحت و کمال کے ساتھ پیش کشی تک پہنچنے میں جذبۂ اُمنگ کی سطح سے واقف ہوتا ہے۔ ) (James Drever جیمس ڈریور نے اپنی ’’ لغتِ نفسیات‘‘ میں اس کی یوں تعریف کی ہے ’’ ایک ’’ Frame of Reference‘‘اصولی و قواعد جن میں خود احترامی ’’ Self – Esteem ‘‘شامل ہے یا بطورِ متبادل ایسا معیار جس کے حوالے سے ایک فرد تجربات سے گزر کر کامیابی یا ناکامی کے احساسات پاتا ہے۔

1.9     مقاصدِ مطالعہ

(Objectives Of the Study)

مطالعے کے اہم مقاصد درجہ ذیل ہیں:

(1)                    سماجی و معاشی حیثیت کے تناظر میں انڈر گریجویٹ طلبہ و طالبات میں معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحانات و رویّوں کی تحقیق کرنا۔

(2)                    جذبۂ اُمنگ کی سطح کے تناظر میں انڈر گریجویٹ طلبہ و طالبات میں معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحانات و رویّوں کی تحقیق کرنا۔

(3)                    اعلیٰ و ادنیٰ سماجی و معاشی حیثیت کے تناظر میں انڈر گریجویٹ طلبا میں معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحانات و رویّوں کی تحقیق کرنا۔

(4)                    اعلیٰ و ادنیٰ سماجی و معاشی حیثیت کے تناظر میں انڈر گریجویٹ طالبات میں معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحانات و رویّوں کی تحقیق کرنا۔

(5)                    اعلیٰ و ادنیٰ سماجی و معاشی حیثیت اور اعلیٰ سطحی جذبۂ اُمنگ کے تناظر میں انڈر گریجویٹ طلبہ میں معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحانات و رویّوں کی تحقیق کرنا۔

(6)                    اعلیٰ و ادنیٰ سماجی و معاشی حیثیت اور اعلیٰ سطحی جذبۂ اُمنگ کے تناظر میں انڈر گریجویٹ طالبات میں اطلاعاتی تکنالوجی کے تئیں رجحانات و رویّوں کی تحقیق کرنا۔

(7)                    ادنیٰ سماجی و معاشی حیثیت اور ادنیٰ سطحی جذبۂ اُمنگ کے تناظر میں انڈر گریجویٹ طلبہ میں معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحانات و رویّوں کی تحقیق کرنا۔

(8)                    ادنیٰ سماجی و معاشی حیثیت اور ادنیٰ سطحی جذبۂ اُمنگ کے تناظر میں انڈر گریجویٹ طالبات میں اطلاعاتی تکنالوجی کے تئیں رجحانات و رویّوں کی تحقیق کرنا۔

(9)                    اعلیٰ سماجی و معاشی حیثیت اور ادنیٰ سطحی جذبۂ اُمنگ کے تناظر میں انڈر گریجویٹ طلبہ میں اطلاعاتی تکنالوجی کے تئیں رجحانات و رویّوں کی تحقیق کرنا۔

(10)        اعلیٰ سماجی و معاشی حیثیت اور ادنیٰ سطحی جذبۂ اُمنگ کے تناظر میں انڈر گریجویٹ طالبات میں اطلاعاتی تکنالوجی کے تئیں رجحانات و رویّوں کی تحقیق کرنا۔

1.10مطالعہ کے مفروضات

(Hypotheses Of the Study)

(1)                    سماجی و معاشی حیثیت کے حامل انڈر گریجویٹ طلبہ و طالبات میں معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحانات اور رویّوں میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔

(2)                    جذبۂ اُمنگ کی سطح کے حامل انڈر گریجویٹ طلبہ و طالبات میں معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحانات اور رویّوں میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔

(3)                    ادنیٰ و اعلیٰ سماجی و معاشی حیثیت کے حامل انڈر گریجویٹ طلبہ میں معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحانات اور رویّوں میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے

(4)                    ادنیٰ و اعلیٰ سماجی و معاشی حیثیت کے حامل انڈر گریجویٹ طالبات میں معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحانات اور رویّوں میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے

(5)                    اعلیٰ سماجی و معاشی حیثیت کے حامل انڈر گریجویٹ طلبہ میں معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحانات اور رویّوں میں اعلیٰ سطحی جذبۂ اُمنگ میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔

(6)                    اعلیٰ سماجی و معاشی حیثیت کے حامل انڈر گریجویڈطالبات میں معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحانات اور رویّوں میں اعلیٰ سطحی جذبۂ اُمنگ میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔

(7)                    ادنیٰ سماجی و معاشی حیثیت کے حامل انڈر گریجویٹ طلبہ میں معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحانات اور رویّوں میں اعلیٰ سطحی جذبۂ اُمنگ میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔

(8)                    ادنیٰ سماجی و معاشی حیثیت کے حامل انڈر گریجویٹ طالبات میں معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحانات اور رویّوں میں اعلیٰ سطحی جذبۂ اُمنگ میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔

(9)                    اعلیٰ سماجی و معاشی حیثیت کے حامل انڈر گریجویٹ طلبہ میں معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحانات اور رویّوں میں ادنیٰ سطحی جذبۂ اُمنگ میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔

(10)        اعلیٰ سماجی و معاشی حیثیت کے حامل انڈر گریجویڈطالبات میں معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحانات اور رویّوں میں ادنیٰ سطحی جذبۂ اُمنگ میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔

1.11                      مطالعے کی تحدیدات

(Delimitations Of the Study)

ذیل میں مطالعے کی تحدیدات بیان کی گئی ہیں:

  1. یہ مطالعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے انڈر گریجویٹ طلبہ پر کیا گیا ہے۔
  2. یہ مطالعہ صرف شعبۂ سماجی علوم کے انڈر گریجویٹ طلبہ کو پیش نظر رکھ کر کیا گیا ہے۔
  3. محقق نے وقت کی قلت کے پیش نظر علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، کے شعبۂ سماجی علوم کے 100 انڈر گریجویٹ طلبہ و طالبات کو مطالعے کے لیے منتخب کیا ہے۔
  4. محقق نے اس مطالعے میں صرف سماجی و معاشی حیثیت اور سطح جذبۂ اُمنگ کا احاطہ شامل کیا ہے اور ایسے تمام عوامل و حقائق کو چھوڑ دیا ہے جو انڈر گریجویٹ طلبہ و طالبات کے رویّوں اور رجحانات پراثر انداز ہوتے ہیں۔
  5. اس مطالعے میں طلباء کی 18 تا 20 سال کی عمر کے مفروضہ کا خیال نہیں رکھا گیا۔

٭٭

حوالہ جات:

کتابیں:

1.Anand Bhushan & Malvinder Ahuja- Educational Technology: Theory and practice in teaching learning process Meerut, Vivek Publishers 1992.

  1. Aerospace Education foundation technology & Innovation in education, New York, Frederick, 1968.
  2. Cave john-Technology in school London, Routledge, 1986.
  3. Chaurasia G. Education-operation black board & education technology for schools Bhopal media center 1987.
  4. Cleary Alan & others – Educational Technology implication for early & special education , London, John Willey, 1976.
  5. Das R.C.: Educational Technology a basic text, N. Delhi sterling, 1993.
  6. De. Cecco John, P; Educational Technology readings in program instruction, New York, Holt , 1954.
  7. Dum WR & Methods instructional technology, London, Methuen, 1969.
  8. D. Unwin, Media & Methods instructional technology in higher education.
  9. Fred John Pula-Application and operation of Audio Visual equipment in education.

جرائد:

  1. Journal of educational technology, volume II Number 4, July 1999. All India Association for Educational Technology F-5/E, DDA, Munirka New Delhi, India.
  2. Journal of educational technology, all India association for educational technology volume II, Number 2, January 1999.
  3. Journal of Educational Technology. All India Association for Educational Technology, Volume II, Number 3, April 1999.
  4. Journal of educational technology, all India Association for Educational Technology, Volume 12, Number 1, October 1999.
  5. Journal of Educational Technology, Media and technology for Human Resource Development, Volume 12, Number 2003, January and April 2000.
  6. Journal of Higher Education, UGC, New Delhi, Vol. 20. No. 1 Spring 1997.
  7. Journal of Indian Education, National Council of Educational Research and training, November 1999.

مزید:

  1. Concise Oxford Dictionary of Current English , edited by powler, H.W
  2. International Encyclopedia of Education , Second Edition , Edited by Husen, T.
  3. The Concise Dictionary of Education , edited by Hawes and Hawes,
  4. International Dictionary of Education, Edited by page and Thomas , the English language book society and Kagan.
  5. New Webster’s dictionary of the English language, edited by powre, H.W.
  6. New Hindustan Times, 14, Nov 2000.
  7. The Hindustan Times, 24 Nov 2000.
  8. The Employment news, 14-20 April 2001.

٭٭٭

بابِ دوّم: متعلقہ ادب کا جائزہ

2.0                  متعلقہ ادب کا جائزہ

2.1                  بین الاقوامی منظر نامہ

2.2                  قومی منظر نامہ

2.0     متعلقہ ادب کا جائزہ

(Survey Of related Literature)

ادب ایک ایسا آئینہ ہے جو مستقبل کے لئے ماضی اور حال کے مناظر کو پیش کرتا ہے۔ تاکہ کسی بھی مسئلہ میں گہری بصیرت کو پروان چڑھایا جا سکے۔ اور تحقیق کے لئے رہنمایانہ خطوط پیش کئے جا سکیں۔ متعلقہ ادب کا جائزہ تحقیق کا ایک لازمی حصہ ہے۔ جس کو ذہن میں رکھتے ہوئے محقق نے متعلقہ ادب کا جائزہ لیا ہے۔ اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اکثرمطالعات موجودہ تحقیق سے براہِ راست تعلق نہیں رکھتے لیکن یہ موجودہ تحقیق کے لئے تقویت فراہم کرتے ہیں۔

قومی اور بین الاقوامی مطالعات کا تفصیلی منظرنامہ اس طرح ہے۔

2.1     بین الاقوامی منظر نامہ

(International Scenario)

سہولت کے لئے مطالعات کو مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ محققین درجہ ذیل سے تعلق رکھتے ہیں۔

1۔ بصری اور ETv پروگرام

(Video and ETV Programmes)

2۔ خُرد تدریس

(Micro Teaching)

3۔ سمعی و بصری پروگرام

(Radio and Audio Programmes)

4۔ منصوبہ بند اکتساب

(Programme Learning)

5۔ تدریسی آل

(Teaching Aids)

6۔ کمپیوٹر اعانتی تعلیم

(Computer Assisted Instruction)

2.2     قومی منظر نامہ

(National Scenario)

1۔ بصری اور ETv پروگرام

(Video and ETV programmes)

2۔ خُرد تدریس

(Micro Teaching)

3۔ سمعی وبصری پروگرام

(Radio and Audio Programmes)

4۔ اکتسابی پروگرام

(Programme Learning)

5۔ تدریسی امداد

(Teaching Aids)

6۔ کمپیوٹر اعانتی تعلیم                (Computer Assisted Instruction)

M.J, Albright, نے اس نکتہ کو عیاں کرنے کہ لئے ایک مطالعہ کیا کہ گزشتہ چند سالوں سے سٹلائیٹ ترسیلات میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ تاکہ فوقانی سطح تک تعلیم کو پہنچایا جا سکے۔ اس مطالعے کے اہم مقاصد درجہ ذیل ہیں:

1۔ کورسس تیار کرنے والوں کے لئے ان کی تیاری، پیشکشی، اور سٹلائیٹ کورسس کی جانچ کے لئے رہنمایانہ خطوط مرتب کرنا۔

2۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے ان کالجوں اور یونیورسٹیوں کی شناخت کرنا جو Credit Course Delivery کے لئے سٹلائیٹ استعمال کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔

3۔ اس بات کا یقین کرنا کہ وہ ادارے اپنے حقیقی کاموں میں ان رہنمایانہ خطوط کی کس حد تک پابندی کر رہے ہیں۔

تحقیقی مقالہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ، ٹیلی کمیونکشن کے شعبے میں نظرِ ثانی کرنا، فاصلاتی تعلیم، اور تعلیم بالغان کے میدان میں سٹلائیٹ کورسس کے 23 رہنمایانہ خطوط کے ذریعہ جائزہ لینا۔ مطالعہ کے موضوعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دستاویزی مواصلات کے مطابق 1984ء سے Credit Course Delivery کے لئے سٹلائیٹ استعمال میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے۔ نیشنل تکنالوجیکل یونیورسٹی گروپ میں سٹلائیٹ کا اوسط 8 اور 10 غیر N.Tuکا ہے۔

N.Tuکے B اور Non N.Tuکے 68 قسم کے کورسوں میں داخلہ ہوتا ہے، جن کورسوں میں طلبہ کے داخلہ کی شرح N.T.U میں 2.0 اورNon . N.T.U کورسوں میں 5.5 ہے۔ یہ مختلف النوع کورسس کافی اہم ہیں۔

Elemenoufi.M.A 1988نے دس بصری اسباق تیار کیے تھے۔ تاکہ طلبا کو انگریزی صوتیات کی تربیت دی جائے۔ جس سے استفادہ کرتے ہوئے ترجیحی طریقوں پر بصری مواد کو زبان سیکھنے والوں کے سامنے پیش کیا جا سکے۔

ان بصری اسباق میں زبان کی حالت وحرکت انگریزی صوتیات کے تشریحی و توضیحی الفاظ ترتیلی ترتیب کے تحت ہدایات و مشقیں پیش کی گئی تھیں اس مطالعے میں ESL عربی مکتسبین انگریزی بحیثیت زبان دوم کے دوگروپوں میں حصہ لیا تھا۔ اور مطالعہ مابعد اور ماقبل امتحانات پر مشتمل ہے جس میں TOEFL کے تقریری امتحان اور تلفظ کی تشخیص کے پیمانے کو استعمال کیا گیا ہے اور داخلی و خارجی زبانی تقریری مظاہرہ کو شامل کیا گیا ہے۔ مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کے اس کے نتائج قابل عمل تھے اور تجربات یہ بتاتے ہیں کہ ترسیل نظری اعتبار سے قابل استعمال تھی اور ہدفی زبان سے تلفظ کی حصولی کے لیے بہتر تھی۔

  1. خُرد تدریس (Micro Teaching)

John Percy’s کا یہ مطالعہ خُرد تدریس کی تحقیق کی ایک کوشش ہے جو زمبابوے کے تعلیمی پروگرام میں بصری آلات کے استعمال کے لیے کی گئی ہے۔ ایک نو آزاد ملک جہاں ابھی بھی آزادی سے قبل کا فرسودہ نظام تعلیم قائم ہے جسے کمیت و معیار دونوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اکتسابی وسائل کو کار کرد بنانے اور تعلیمی ماحول تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ مطالعہ مختلف قسم کے تعلیمی معاونین سے بحث کرتا ہے، جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ ویڈیو و دیگر آلات کے مقابلے کافی کارگرد ہے اور اسے اپنانے کے لائق ہے، اس کی مدد سے نہایت مؤثر طریقے پرکم وقت میں معلموں کی تربیت کی جا سکتی ہے۔

یہ طریقۂ کار کم وقت میں بہت ہی قابل اور تربیت یافتہ معلمین کو تیار کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ Carla, L.M. نے اپنی ایک تحقیق میں ٹیلی ویژن پر تعلیم سے متعلق اور کمپس اور غیر کمپس طلبا کے متعلق معلومات اکھٹا کئے ہیں۔

137کیمپس کے اور 49 غیر کیمپس کے تعلیمی ٹیلی ویژن طلبہ دونوں طلبہ پر Spssپروگرام کا استعمال کیا گیا۔ ان دونوں پر Chi-squareتکنیک اور T-testکو استعمال کرتے ہوئے معلومات کا تجزیہ کیا گیا۔ جس سے 05نتائج سامنے آئے۔ اس مطالعہ کے اہم نتائج غیر کیمپس طلبا اور کیمپس طلبا میں فرق کو ظاہر کرتے ہیں۔ 74% غیر کیمپس طلبہ نے کمرہ جماعت کا استعمال نہیں کیا۔ جبکہ کمپیس طلبانے عام طور پر ٹیلی ویژن پر تعلیمی کورسس سے اطمینان کا اظہار کیا۔

  1. سمعی وبصری پروگرام (Radio and Audio Programmes)

Ajaga Mikaila (1985) نے ایک مطالعہ کیا جو نائیجریاکے سماجی و ثقافتی عناصر اور اس سے متعلق معلومات اور افریقہ میں تعلیم سے متعلق موضوعات پر دستاویزی فلم کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں افریقی روایات اور تہذیب کو نمایاں کیا گیا ہے۔ ایسی دستاویزی فلمیں جو نائیجریاکی سماجی و ثقافتی حیثیت کے حامل ہیں اس مطالعے میں ان فلموں کے مشمولات کا تجزیہ کیا گیا۔ جس میں زیادہ تر فلمیں افریقی روایات اور فن پر پیش کی گئی تھیں۔ ان فلموں نے اس علاقہ کے حوالہ سے افریقی روایات کے تحفظ و فروغ میں اہم تعاون کیا ہے۔

تعلیمی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے 1986ء میں عطار عبداللہ اسحق نے ایک سروے کیا جس میں تعلیمی تکنالوجی کے استعمال میں ابتدائی اسکول ٹیچرس پر مردانہ جونیر کالج ٹیچرس کے تربیتی پروگرام کے اثر کو بتایا گیا ہے۔ اس سروے میں 200 ٹیچرس کا انتخاب کیا گیا اور انہیں سوالنامے دیے گئے جس کا صد فی صد جواب موصول ہوا۔ جس سے ٹیچرس میں تعلیمی تکنالوجی کی تربیت سے قبل اور تربیت کے بعد فرق کو ظاہر کرتا ہے۔

Kabli-Talla Hussan نے اپنے ایک مطالعہ میں 1986ء میں سعودی عرب کے ابتدائی اسکولوں میں تعلیمی ذرائع ابلاغ کے استفادہ کے اہم حدود کی شناخت کی ہے۔ اور اسے اجاگر کیا ہے۔ جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر اساتذہ اور صدر مدرسین نے تعلیمی ذرائع ابلاغ کو تعلیم کا لازمی جزو ماننے اور اسے استعمال کرنے کو ضروری قرار دیا ہے۔

  1. اکتسابِ پروگرام (Programme Learning)

Illinois State University، کے ایک گروپ پر تعلیمی مواد اور تعلیمی تکنالوجی کے استعمال پر Hultean, اور Crist, نے 1969ء میں ایک مطالعہ کیا طلبہ نے مطالعہ کے دو شرائط کے زیرِ اثر پروگرام میں شامل نصابی کتب کا مطالعہ کیا اور پروجکٹ کی تکمیل کے نتائج نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ نصابی کتب کے مقابلے پروجکٹ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے نصابی کتب کی کیا اہمیت ہے معلوم ہوتی ہے۔

A.Pikas, نے 1969ء میں روایتی تعلیم اور پروگرام کے تحت اکتساب کا مطالعہ کیا جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پروگرام کے تحت تعلیم پر روایتی تدریس کو افضلیت حاصل ہے۔ اس مطالعہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے منتخب طلبہ کو سوالنامے مہیا کئے گئے تھے، جس کے ذریعہ عملی امور کی تصدیق کی گئی۔ روایتی تدریس کی افضلیت معلوم کرنے جو مفروضہ اپنایا گیا تھا اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ روایتی تعلیم عملی طور پر ثبوت فراہم کرتی ہے کہ نصاب کو ایک وقفہ کے بعد فراہم کیا جائے اور اگر تدریس کے فوری بعد فراہم کیا جائے تو روایتی تعلیم زیادہ مفیدثابت ہوتی ہے۔ دیگر روایتی تعلیم کے تدریسی گروپ جس میں طلبہ صرف سماعت کے ذریعہ اکتساب کرتے ہیں ان کا بھی وہی حال ہے جیساکہ ہم نے پروگرام کے تحت اکتساب میں دیکھا ہے۔

Jamicson, نے 1969ء میں پروگرام کے تحت اکتساب پر ایک مطالعہ کیا اور اس نے اس مطالعہ میں مختلف سطحوں پر مختلف طریقہ کار کو دریافت کیا اور اس کی رہنمائی کی۔ پروگرام کے تحت اکتساب اور ’’انکشافی طریقۂ کار ‘‘ کے درمیان عمر کی چار سطحوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک مطالعہ کیا۔ جس کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ معیاری حسابی امتحان کے مظاہرے اور دماغی صلاحیت کی جانچ کے امتحان کے درمیان مثبت رشتہ اور باہمی ارتباط معلوم ہوتا ہے۔ تجرباتی اور اکتسابی دونوں میں بھی یہی بات ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن طے شدہ طریقۂ کار کے نتائج اس سے مختلف ہیں۔ جو ان سال اور عمر رسیدہ مکتسبین میں رہنمایانہ انکشافی طریقۂ کار کے ذریعہ حاصل کئے گئے نتائج اہم اور بہتر ہیں۔ جن مضامین کو اکتساب کے تجرباتی طریق کار کے لئے ترجیح دی گئی تھی وہ روایتی طریق کار سے مختلف تھے۔

Noble نے 1969ء میں ’’انفرادی تفرق‘‘ اور ’’فطری پروگرام‘‘ کے تحت ہدایات کا مطالعہ کیا۔ اس کا اہم مقصد ’’ انفرادی تفرق‘‘ میں باہمی رشتہ کی تلاش تھا۔ جیسا کہ طلبہ ریاضی کا اکتساب ہدایتی پروگرام کے تحت کرتے ہیں جنہیں تعلیمی مواد تدریسی مشین کے ذریعہ فراہم کیا گیا۔ اعادہ پروگرام کے تحت کیا گیا۔ یہ پروگرام تنظیمی، سماجی، اور نظم و نسق کے عناصر میں انفرادی فرق پر مشتمل تھے۔

Berglund, نے 1969ء میں ہدایت کے تحت پروگرام پر جزئی تقویت کے اثرات پر ایک مطالعہ پیش کیا نتائج حسبِ ذیل ہیں۔

(1)کوئی اہم شماریاتی فرق فی الفور یا تاخیر سے نصابی ذرائع کو طلبہ تک پہچانے کے بعد جو تجربہ کیا گیا اس میں کوئی فرق نہیں پایا گیا۔

(2)ایک منفی لینر اور پروگرام پر لگائے گئے وقت کے درمیان باہمی رشتے کے فیصد کی تصدیق کی گئی۔

(3)مضامین کی جانچ کے لئے مختلف شرائط کا مطالعہ کیا گیاجس میں تفرق کے اثرات کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

سمعی بصری میں ایک اور پروگرام کے تحت اکتساب کے درمیان تقابلی مطالعہ کیا گیا، جس میں پوسٹ گریجویٹ سطح پر تدریسی طریقۂ کار کو لیا گیا تھا۔ یہ مطالعہ 1969ء میں Jamicson,، James,، Legthem,، اور Tozer, چاروں نے مل کر کیا۔ یہ تقابل طے شدہ نصاب کے تحت اکتساب اور راست لیکچرس کے درمیان کیا گیا۔ اس کے نتائج سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مابعد نصاب تدریسی ذرائع میں حسب ذیل اہم فرق پایا جاتا ہے جو بالترتیب اس طرح ہے۔ ٭پروگرام کے تحت اضافی سمعی بصری لیکچرس، ٭راست لیکچرس۔

  1. تدریسی آلات (Teaching Aids)

Anaemun, ( 1983) نے ایک ایسا نظریہ پیش کیا جو دو مختلف طریقہ ہائے تعلیم کے درمیان باہمی رشتے کے مطالعہ میں معاون ہے۔ یہ مطالعہ نائیجرین ٹیکنکل کالجس میں بنیادی الکڑانکس کے مکتسبین پر کیا گیا۔ اور ان میں فرق کو تلاش کیا گیا جو (UnPedagogical) غیر تدریساتی اورتدریساتی (Pedagogical)طریق تعلیم کے درمیان کیا گیا۔ یہ مطالعہ تین تدریسی منصوبوں کی بنیاد پر کیا گیا جس میں سے ایک تحریری تعلیمی پروگرام، دوسرا شخصی طور پر معلم کے ذریعے تدریس پر مشتمل تھا۔ محقق نے T-Testاور ANOVAتکنیکوں کو استعمال میں لاتے ہوئے اس مطالعے کا شماریاتی تجزیہ کیا۔ جس میں تین T-Test لیے گئے جس کے نتائج سے اس مفروضہ کے تحت اہم تفرق ظاہر ہوتا ہے۔ جو تجزیاتی ذرائع اور کنڑول گروپ کے درمیان بالترتیب اس طرح ہے ٭تعلیمی ریگو جیکلی Ragogicallyاور تدریساتی Pedagogically۔

Murphy, ( 1985ء)نے ایک تجزیاتی مطالعہ کیا جو مائکرو کمپیوٹر کے استفادہ کے اثرات پر نظر ڈالتا ہے۔ جو کہ تخلیقی عمل سے متعلق ہے اس کے علاوہ اس میں اور دو مقاصد پر زوردیا گیا ہے۔

(1)                    پہلا یہ کہ مائکرو کمپیوٹر کے استعمال اور ابتدائی جماعتوں کے طلبہ میں تخلیقی عمل کے فروغ کے درمیان رشتے کو تلاش کیا گیا۔

(2)                    اور دوسرا مقصد یہ کہ اس مطالعہ میں یہ جانچ کی گئی ہے کہ مائکرو کمپیوٹر مختلف مضامین پر کس طرح اثر انداز ہو رہا ہے۔ اس کے مطابق یہ تجزیہ کیا گیا ہے کہ ماقبل امتحانات زیادہ اعتدال اور کم تخلیقی عمل مکتسبین میں دیکھا گیا۔ اس مطالعہ میں نمونہ کے طور پر ششم جماعت کے دو سو چودہ طلبہ و طالبات کو شامل کیا گیا تھا۔ جس میں ایک شہری علاقہ سے اور چار دیہی علاقہ سے شامل کئے گئے تھے۔ ان کا تعلق ’’ کولورڈا۔ سٹی‘‘ سے ہے۔ اس مطالعہ کی رپورٹ کو دو مختلف تخلیقی پیمائش کے ذریعہ درجہ بندی کی گئی، جن میں سے ایک ہندسہ جاتی اور زبانی ہے۔ اس مطالعہ میں ہندسہ جاتی تخلیق میں کوئی فروغ و اضافہ دستیاب نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ زیادہ معتدل اور ادنیٰ مکتسبین کے درمیان کوئی اہم فرق کنڑول گروپ کے ساتھ واقع نہیں ہوا۔

Gallagher, ( 1986) نے اس سوال کا جواب دینے کے لئے ایک مطالعہ کیا کہ کہیں ایڈوانس تکنالوجی کی وجہ سے کوئی خلیج تو واقع نہیں ہو گئی خصوصاً  ان اسکولوں میں جہاں کمپیوٹر کی مشق اور تعلیم دی جاتی ہے۔ اس مطالعہ کے تجزیہ کے لئے 56 درجہ اوّل کے طلبہ کو منتخب کیا گیا تھا۔ اور انہیں دس نشستوں میں مشق کرائی گئی، جو سکندرا کی ساختیاتی اکتساب کے نمونہ کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔

جس کے نتائج اس طرح ہیں:

(1)                    Lezerickکا تدریسی نمونہ سکندرا کے اکتسابی نمونہ کے درمیان ربط پایا جاتا ہے۔

(2)                    اساتذہ کو چاہیے کہ مسائل کی نوعیت کی شناخت کریں۔

(3)                    کمپیوٹر کی مشق کرائیں اور کمپیوٹر کو استعمال کریں جس سے اپنے مقاصد کے حصول میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

(4)                    مائکرو کمپیوٹر کے استعمال پر طلبہ یومیہ کتنا وقت صرف کر رہے ہیں اور کتنی توجہ دے رہے ہیں اس کے لیے طلبہ کو متواتر متحرک رکھنا چاہیے۔

Birchett, ( 1986) نے بیانیہ تحریر اور وقوفی آورد کی مہارتوں کو حاصل کرنے سے متعلق نظری تفصیلات کے درمیان ربط کو ظاہر کیا ہے۔ اس مفروضہ کے تحت یہ بتایا گیا ہے کہ نظری تفصیلات کو حاصل کرنے کی قابلیت اور تقابلی تفصیلات کی قابلیت کے درمیان باہمی تعاون ہے۔ جس کی مدد سے مضمون کی وسیع توضیح مختلف انداز سے کی جا سکتی ہے۔

  1. کمپیوٹر اعانتی تعلیم (Computer Assisted Instruction)

Verduccl David, ( 1986) نے اس مطالعے میں تربیت کے تین طریقوں میں تخفیف اور مائکرو کمپیوٹر کے استعمال اور اس کی مہارتوں اور رویّوں میں اضافہ کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ روایتی طرز تعلیم، کمپیوٹر اعانتی تعلیم، اورتکنالوجی کا صنعتی مطالعہ یہ تجربہ 119گریجویٹ طلبہ پر کیا گیا۔ جنکا تعلق نیویارک یونیورسٹی کے 1986ء کے بیاچ سے ہے۔ ہر مضمون کو با قاعدہ طور پر ایک سے تین طریقۂ ہائے تربیت اور چھ مساوی مائکرو کمپوٹر تعلیم کی چھ ہفتوں کی کلاسوں میں تقسیم کیا گیا۔ جس کے نتائج سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مائکرو کمپیوٹر کے استعمال کنندوں کے رویّوں میں تربیت کے ذریعہ بہتری پیدا ہوئی۔ متذکرہ بالا تربیت کے تین طریقوں پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔

Hurst Jesse Henry (1986) نے جو مطالعہ کیا اس کا اہم مقصد یہ تھا کہ کمپیوٹر اعانتی تعلیم کے اثرات کی تحقیق کی جائے اور ان کے رویّوں کا مطالعہ کیا جائے اس مطالعہ کے حسبِ ذیل نتائج ہیں۔

(1)کمپیوٹر اعانتی تعلیم کے اہم اثرات مرتب ہوتے ہیں بالخصوص کالج کے طلبہ کہ تعلیمی مظاہرے میں اضافہ ہوا ہے۔ کالج Athletesپر کمپیوٹر اعانتی تعلیم کا زیادہ اثر نہیں ہوا۔ بالخصوص کمپیوٹر اعانتی تعلیم سے متعلق ان کے رویّوں میں تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔

Fox James Albert (1986)کے مطالعے کا اہم مقصد یہ تھا کہ درس کی بنیاد پر تعلیمی نظام اور کمپیوٹر کی بنیاد پر انفرادی تعلیمی نظام کا تقابلی مطالعہ کیا جائے۔ جس کے لئے نصابی مشمولات سے محصولہ مقاصد کی سطح کی پیمائش کی گئی بطورِ نتیجہ سالانہ امتحان اور استاد کے مفوضہ امتحانات میں طلبہ کے مظاہرہ کا مطالعہ کیا گیا۔ 188 عام سانئس کے طلبہ پر یہ مطالعہ کیا گیا جن کا تعلق نارتھن کلوریڈ یونیورسٹی سے ہے۔ طلبہ کو مطالعہ کے لئے دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اس مفروضہ کی جانچ سے کسی قسم کے اہم نتائج برآمد نہیں ہوئے۔

کمپیوٹر کی بنیاد پر انفرادی تعلیمی نظام اتنا مؤثر ثابت نہیں ہوا جتنا کہ درسی بنیاد پر ہوا تھا۔ تعلیمی نظام میں طلبہ کو عام سائنس کی تعلیم و تربیت دینے میں یونیورسٹی کی سطح پر یہ مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔

Hill Jack Denile(1986) نے ضلع ساوتھ کیرولینا (South Carolina) کے منتخبہ اسکولوں میں کمپیوٹر تکنالوجی کے استعمال اور اس کی عمل آوری پر ایک تقابلی مطالعہ کیا۔ اس مطالعہ کو دو حصوں میں منقسم کیا گیا تھا۔

(1) اسکول میں اساتذہ اور عملے میں کمپیوٹر تکنالوجی کا استعمال اور عمل آوری کی تحقیق کرنا اور اس کا موقف معلوم کرنا تھا۔

(2) عملہ اور اساتذہ، ساؤتھ کیرولینا (South Carolina) کے منتخبہ اسکولس کے لئے کس قسم کا سافٹ ویر اور ہارڈویر ضروری خیال کرتے ہیں۔ اور مذکورہ اسکولوں میں کمپیوٹر تکنالوجی کے استفادہ کے لیے کن چیزوں کی ضرورت ہے۔ تحقیقی نتائج سے کمپیوٹر تعلیم کے متعلق منفی خیالات کا اظہار سامنے آیا ہے۔ روایتی تعلیمی نظام سے جانچ پٹرتال والا تعلیمی نظام ختم ہو رہا ہے تاہم سوتھ کیرولینا تعلیمی بہتری قانون( 1984ء) کی رو سے اسکولوں نے پہل کرتے ہوئے ضلعی و ریاستی اسکولوں میں کمپیوٹر تکنالوجی کے استعمال کو اپنایا ہے۔

Chaman Dale Derrill(1986) نے انڈر گریجویٹ تعلیم پر آئندہ 20 سالوں میں مائکرو کمپیوٹر تکنالوجی کے ہونے والے اثرات کے بارے میں پیشین گوئی کی تھی۔ اس پیشین گوئی کی تکنیک کو ڈیفلی طریقہ کار کے طور پر جانا جاتا ہے۔

اس طریقہ کار میں امریکہ کی بڑی ہارڈویر کمپنیوں، سافٹ ویر کمپنیوں، کالجس، یونیورسٹیوں اور کمپیوٹر مشاورتی تنظیموں سے معلومات اکٹھے کئے۔ اور محقق نے اسناد کے لئے اپنے مقالے میں مذکورہ مختلف ذرائع سے مواد حاصل کیا اور اس کے مختلف نتائج أخذ کئے۔

(1)                    تعلیمی تکنالوجی اور مائکرو کمپیوٹر تکنالوجی کے معیار اور رفتار کی تخلیق اور تعین آئندہ 20 سالوں میں انڈگریجویٹ تعلیم میں ہونے والی تبدیلیوں کو پیش نظر رکھ کر کرنا چاہئے۔

(2)                    مائیکرو کمپیوٹر تکنالوجی در اصل روایتی انڈر گریجویٹ تدریس و اکتساب کی تعدیل ہے تاکہ اس کا خاتمہ ہو، اس کا تقاضہ یہ ہے کہ روایتی تعلیم وتدریس میں اساتذہ وطلبہ کے درمیان رشتہ میں انقلابی تبدیلی و ترمیم کی ضرورت ہے۔

(3)                    کمپیوٹر تکنالوجی کے ذریعہ تعلیمی کار کردگی اور اکتساب میں اضافہ ہو گا اور انڈر گریجویٹ ڈگری کی تکمیل کی مدت میں کمی ہو گی۔ Chyori-Jun-Tian( 1888) نے اپنی کھوج و تلاش کے ذریعہ یہ معلوم کیا ہے کہ مکتسبین پر ہونے والے اثرات اور پروگرام کے تحت کنڑول کی جانی والی باز رسانی اور طلبہ کی فیلڈ اورینٹیشن سطح کی تکمیل میں کمپیوٹر اعانتی تعلیم کی کیا ذمہ داری ہے۔

یہ مطالعہ جارجیا یونیورسٹی کے 92 طلبہ پر کیا گیا اور مضامین Group Embedded کی بنیاد پر منظم کیا گیا۔ تاکہ آزادنہ طور پر فلیڈپر انحصار کی سطح میں تعاون ہو سکے۔ مابعد طلبہ کی مماثلت کے لحاظ سے اور با قاعدہ طور پر دو میں سے ایک کو CIA Treatment Group پروگرام، بازرسانی کے تحت کیا گیا۔ یا Lerner Controlled Feedbackکے تحت کیا گیا۔

نتائج کے تجزیے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فلیڈ انڈیپیڈنس طلبہ میں اور Learner Controlled سے Feedback طلبہ کے درمیان کوئی زیادہ فرق نہیں ہوا۔ باز رسانی اور مضمون کی اورینٹیشن سطح کے درمیان کوئی خاص ربط محسوس نہیں کیا گیا۔ ہمہ احتسابی تجزیہ سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان ایک باہمی مثبت رشتہ موجود ہے لیکن اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ تاہم مختلف طریقۂ باز رسانی سے متعدد طریقوں سے حصول مقاصد میں مدد ملتی ہے۔

Galinski Maric (1986) نے تین ماہ کے مطالعے کے ذریعے مائکرو کمپیوٹر کا استعمال مسائل کا حل، نقل، تنقیدی غور و فکر اور حسابی مسائل اور ان کے حل کے باہم ربط کو معلوم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور یہ مطالعہ ہفتم و ہشتم جماعت کے نارتھ بورسٹن ابتدائی خانگی اسکول میں زیرِ تعلیم طلبہ پر کیا گیا ہے۔

اس مطالعے میں ماقبل و مابعد امتحانات میں دو سطحوں پر جانچ کی گئی ہے۔ اس جانچ میں تنقیدی غور و فکر، تجزیہ، تالیف و ترکیب، اور Scott کو استعمال کرنے کی قابلیتوں کی سطح اور پھیلاؤ شامل ہے۔ اس مطالعہ میں قائدانہ صلاحیتوں اور تفہیمی صلاحیتوں کے فروغ کا امتحان بھی شامل ہے جو کہ ماقبل و مابعد امتحانات، حسابی مسائل کے حل کے لئے جانچ اور طلبہ میں مسائل کو حل کرنے کی صلاحیتوں اور سطح کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

محقق نے اس میں مختلف ترکیب و تالیف کے امتحانات کو بھی شامل کیا اس کے لیے محقق نے کمپیوٹر آلات سے تجزیہ کیا۔ اس کے لیے 30طلبہ پر مشتمل دو گروپوں کو با قاعدہ طور پر دو میں سے ایک اسکول کو مطالعہ کے لئے منتخب کیا گیا۔

2.2     قومی منظر نامہ(National Scenario)

  1. ویڈیو اور الکٹرنک ٹی۔ وی پروگرام (Video and ETV Programmes)

P.C مو ہنی(1988)  نے E-TVکے ابتدائی اسکول کے بچوں کے پروگرام کا مطالعہ کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ E-TV دیکھنے والے بچوں میں دیگر طلبہ کے مقابلہ میں اعلیٰ تعلیمی مظاہرے پائے گئے ہیں۔ بالخصوص زبان سے متعلق مہارتوں میں اعلیٰ مقام حاصل کیا ہے۔ 1988ء میں میگھالیہ کی تعلیمی تکنالوجی شعبہ نے E-TVکے پروگرام سے متعلق ایک سروے کیا۔ جس میں 289 صدر مدرسین 538 اساتذہ 774 اولیائے طلبہ، اور 1240 طلبہ شامل ہیں۔ سروے سے یہ معلوم ہوا کہ یومیہ E-TV پروگراموں میں مزید وقت لگانے کی ضرورت ہے۔

Antonis Sani (1989)نے اسکول سے ترک تعلیم کرنے والے طلبہ پر ویڈیو اور چارٹس کے اثرات معلوم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس مطالعہ سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ویڈیو فلموں کے مشاہدے کے ذریعہ حصولِ تعلیم، چارٹس کے ذریعہ حاصل کی جانی والی تعلیم سے زیادہ مؤثر ہے۔

Dayavami. (1991) نے دو ویڈیو پرگرواموں کا مشترکہ مطالعہ کیا اس کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ طلبہ جنہوں نے ویڈیو طریقۂ کار سے اکتساب کیا ہے، روایتی درسی طریقہ کار سے اکتساب کرنے والے طلبہ کے مقابلے میں بہتر مظاہرہ کیا۔

Giri, 1990-91 نے اسکول ریڈیو نشریات پروگرام کے مسائل پر وسیع تحقیق کی جس سے یہ معلوم ہوا کہ ریڈیو نشریات پروگرام کا دیہی علاقوں کی بہ نسبت شہری علاقوں میں زیادہ استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ دیہی علاقے میں صرف 1/4 اسکولوں کے نظام الاوقات میں ریڈیو نشریات پروگرام کے لئے علاحدہ وقت دیا گیا ہے۔

Abro-U-Etal(1991) نے دلّی اسکول کے 750طلبہ پر ٹیلی ویژن دیکھنے سے متعلق ایک تحقیقی مطالعہ کیا جس میں 44 طلبہ کا تعلق ابتدائی و فوقانی مدارس سے تھا۔ جس میں نشاندہی کی گئی تھی کہ زیادہ تر طلبہ کو ان کی مائیں ٹیلی ویژن دیکھنے سے منع کرتی ہیں۔ طلبہ و طالبات کی تعداد کے تئیں ٹیلی ویژن دیکھنے سے متعلق کوئی اہم فرق نہیں ہے۔ یہ تعداد ہفتہ اور اتوار کو بہت بڑھ جاتی ہے۔

Jaiswal, K. ( 1992) نے سائنسی تعلیم کے لئے T.Vپروگرامس کس حد تک مؤثر ہو سکتے ہیں اپنے اس مطالعہ میں پیش کیا ہے، یہ مطالعہ B.Ed. ڈپلوما ان کمپیوٹر ایجوکیشن پر کیا گیا۔ لیکچر فارمیٹ مظاہرہ ’’ تفہیم و تقریر‘‘ میں بہت ہی مؤثر پایا گیا۔ اس پروگرام میں استعمال ہونے والی زبان اور معیار سے زیادہ تر طلبہ مطمئن ہیں۔ اس کے علاوہ پروگرام میں تکنیکی معیار زائد معلومات فراہم کرتے ہیں، اور آواز سے ناظرین کی مکمل ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے۔

Kapadia(1992) نے اپنے Ph.Dکامقالہ جس کا عنوان ’’ طلبہ کے اکتساب پر T.V کے اثرات کا موازنہ ’’ (Joshi V.S/ 1987) ‘‘ہے اس کے مطابق %70 ٹی۔ وی دیکھنے والے طلبہ نے یہ خیال ظاہر کیا کہ انہیں ٹی۔ وی پروگرمس خود اکتسابی کے دوران ممد و معاون ہوتے ہیں۔

  1. تعلیمی تکنالوجی (Educational Technology)

Rahim.1969 نے دیہی کلاس روم طریقۂ تعلیم اور پروگرام کے تحت تعلیم کا موازنہ کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ کونسا طریقۂ تعلیم زیادہ مؤثر ہے اس مقصد کے لئے ایک پروگرام اٹالک سٹی پر بنایا گیا۔ جس کے لئے گیارہویں جماعت کے طلبہ کو منتخب کیا گیا۔ نتائج کے مطابق تجزیاتی گروپ نے دونوں سطحوں پر یعنی طلبہ اور اولیائے طلبہ پر تحقیق کی دونوں نے پروگرام کے تحت تعلیم کی حمایت کی ہے۔

اس سے یہ نتیجہ أخذ کیا جا سکتا ہے کہ اسکولوں میں تکنالوجی پر مبنی پروگرام کے تحت تعلیم کو عام کرنا مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک اور مطالعہ کے مطابق جسے امان اللہ ( 1972ء) نے روایتی کمرہ جماعت کے طریقہ تعلیم اور پروگرام کے تحت تعلیم کا تقابلی تجزیہ کیا تھا۔ اس مطالعہ کا مقصد Ohms Law پر راست پروگرام بنانا تھا۔ پروگرام کے تحت تعلیم کی تکنیک روایتی کمرہ جماعت کی طریقۂ تعلیم سے مؤثر پائی گئی۔ Chauhan, نے 1973ء میں B.Ed.سطح کا نصاب جو تعلیمی نفسیات سے متعلق ہے فروغ دیا اس مطالعہ کے حسب ذیل نتائج ہیں۔

(1)                    اس پروگرام میں غلطیاں 8.72سے زائد نہیں ہوئیں۔

(2)                    پروگرام میں استعمال شدہ اور اس کے ردّ عمل کا جائزہ لیا گیا جو 1.11ہے۔

(3)                    ترقی کی رفتار کا تسلسل اس کی اکائی پر مناسب ہے۔

(4)                    پروگرام کے متعلق طلبہ و اساتذہ نے موافق خیالات کا اظہار کیا ہے۔

  1. سمعی وبصری پروگرام (Audio and Video Programs)

Dharunkar, V.L.( 1992) نے تعلیمی نشریات کی افادیت و ترجیحات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشائی ممالک میں تعلیمی نشریات کی مؤثریت و تعاون کے علاوہ دوسرے عناصر کو نمایاں کرنے کے لئے تقابلی مطالعات کی ضرورت ہے، جس میں لوک گیت اور الکٹرانک ذرائع ابلاغ کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ ریاست میگھالیہ میں 1989ء میں تعلیمی تکنالوجی اور تعلیمی نشریات کی باز رسانی کے متعلق تجویز پیش کی گئی کہ تعلیمی نشریات دوپہر کے بعد ہونی چاہیے تاکہ اساتذہ بھی پروگرام کو سن سکیں اور دیکھ سکیں جس سے انہیں درس و تدریس میں مدد مل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ پروگرام کی زبان اور سروس میں بہتری کی ضرورت ہے۔

  1. خُرد تدریس (Micro Teaching)

( 1990ء) Asija نے تحقیق کے ذریعے بتایا کہ روایتی تربیت کے مقابلے خُرد تدریس کی مہارتوں کے فروغ میں مدد ملتی ہے اور یہ ایک مبسوط طریقۂ تعلیم ہے۔ تاہم خُرد تدریس اور روایتی تربیت دونوں بھی اساتذہ کے رویّوں پر مثبت طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ Dave, نے 1987ء میں Eummative Virtueکے باہمی مؤثریت کا جائزہ لیا۔ خُرد تدریس اور اس کے نمونوں مثلاً اولیائے طلبہ کا اساتذہ کے رویّوں کو پسند کرنا اور تدریس کی عام اہلیت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خُرد تدریسی طلبہ جزو وقتی تعلیم حاصل کرنے والوں کے مقابلہ بہتر ہیں ان کا تعلیمی معیار بلند ہے اور اولیائے طلبہ کے منشاء کو پورا کرتا ہے۔

  1. تدریسی امداد (Teaching Aid)

A.P. Mohanty,، اور(1976) Mohanty,نے اپنے مشترکہ مطالعے میں ریڈیو پروگرامس کو کم اجاگر کیا ہے۔ ملازمت کے دوران تربیتی کورسوں کی نشریات سے متعلق مندرجہ ذیل تجاویز اور اعتراضات کئے گئے ہیں۔

(1)                    ریڈیو پروگرامس کی کامیابی و ناکامی کو پہچاننا۔

(2)                    تربیت میں حصّہ لینے والے اساتذہ میں ریڈیو پروگرام کو کس طرح مقبول بنایا جا سکتا ہے اور اس کو کس طرح مہمیز دی جا سکتی ہے۔

(3)                    پروگرام کو بہتر بنانے کے لئے ضروری تجاویز فراہم کرنا۔

اس مطالعہ کا ماحصل یہ ہے کہ اساتذہ کی اکثریت نے (یعنی 78 تا 89 فیصد اساتذہ) نے ستائش کرتے ہوئے کہا کہ ریڈیو پروگراموں کو ملازمتی تربیت کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

Golam, کے مطالعہ مقاصد کے مطابق:

وفاقی مدارس کے اساتذہ و صدر مدرسین میں سمعی، بصری اعانت کی اہمیت کے متعلق بیداری پیدا کرنا، تعلیمی تکنالوجی سے متعلق آلات کو صدر مدرسین اور اساتذہ کے لیے استعمال کرنا۔ اور سمعی، بصری معاونت کو اسکولوں میں رائج کرنا۔ تاہم مختلف سوالناموں اور انٹرویّوں اور معائنوں کے ذریعہ کئے گئے مشاہدات ذیل میں درج ہیں:

(1)                    شہری علاقوں میں موقوعہ مدرسوں میں آڈیو ویزول اعانت کی سہولتیں موجود ہیں۔

(2)                    اسکولوں میں جگہ کی کمی، تربیت یافتہ اشخاص کی کمی، کی وجہ سمعی وبصری معاون آلات کا استعمال نہیں ہو رہا ہے۔

(3)                    اساتذہ کوسمعی و بصری اعانت کو استعمال کرنے کے لئے کوئی ترغیبی اُجرت نہیں ہے۔

  1. کمپیوٹر اعانتی تعلیم (Computer Assisted instructions)

کمپیوٹر اعانتی تعلیم کی مؤثریت کی جانچ کے لئے Singh, R.D.( 1991) نے ایک مطالعہ کیا یہ مطالعہ ریاضی کی تدریس پر تھا وہ طلبہ جو کمپیوٹر کو استعمال کرتے ہیں روایتی طریقۂ تعلیم کے طلبہ کے مقابلہ زیادہ نشانات حاصل کئے ہیں۔

Jeyamani, (1991) نے کمپیوٹر اعانتی تعلیم کا ایک پیکیج تیار کیا اس پیکیج کا گیارہویں جماعت کے طبیعیات کے طلبہ پر تجربہ کیا گیا۔ اس تجزیے سے یہ ظاہر ہوا کہ مابعد امتحانات ان طلبہ کا مظاہر بہتر رہا۔ جنس اور ذریعہ تعلیم کے لحاظ سے نتائج میں فرق پایا گیا۔

رقیہ عظمیٰ ( 2002) نے اساتذہ کی معلوماتی تکنالوجی کے تئیں تعاون کے امکان اور رویے کا مطالعہ کیا۔ یہ مطالعہ بالخصوص اسکولی تعلیم کے حوالہ سے کیا گیا۔ علیگڑھ مسلم یوینورسٹی کے شعبہ تعلیم کے 100 اساتذہ کو مطالعہ کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس مطالعہ میں معلوماتی تکنالوجی کے فروغ کو لے کر جنس کی بنیاد پر رویّوں میں کوئی اہم فرق نہیں پایا گیا۔

Goel,، Das Anshuman، Shelatاور Prerana ( 2003) نے ایک مطالعہ کیا گیا جس کا عنوانICT in Education – A Challenging Experience. یہ مطالعہ B.Ed.کے طلبہ میں ICTکورس کو سمجھنے کے متعلق تھا جو کہ B.Ed.میں ایک لازمی کورس ہے۔ اس کے علاوہ مکتسبین میں ICT مہارتوں کے فروغ کا مطالعہ کرنا بھی شامل تھا۔ اس مطالعہ میں مختلف اہم شعبہ جات کی بنیاد پر ذریعہ تعلیم کے لحاظ سے اور جنس کی بنیاد پر تجزیہ کیا گیا۔ اس مطالعے کا ماحصل رجحان اور تغیر پذیر مقاصد کا بھی مطالعہ کرنا تھا۔

M.S University Of Barodaکے 180بی۔ ایڈ کے طلبہ (2002-2003) کو تمثیل کے طور پر منتخب کیا گیا۔ ادارہ جاتی تجربات کی بنیاد پر ICT تعلیم کو M.S. University of Barodaمیں لازمی قرار دیا گیا۔ جس کے نتائج نہایت ہی حوصلہ افزاء ہونے کے ساتھ ساتھ قابلِ قدر بھی رہے۔

حوالہ جات:

  1. Kensara, Ehsan Mohammed; Factors influencing the use of educational media technology by Saudi students teacher from the college of education at Umm Al-Qura University, Ph.d., University of Pittsburgh, 1987 Dissertation Abstracts International , Vol. 48 No.6.
  2. Bichett, Collen Lucive , The effects of Television on the descriptive writing of college students orders No. DA 8612480. The University of Michigan 1986, pp.261
  3. Albright Michale James, A conceptual Framework for the design and delivery of a University of level credit course by communications satellite Iowa State university, 1988, .313.
  4. E1 Menoufi Misarah Ahmed. Learner and Teacher controlled strategies for using video to teach oral skills, University of Kansas, 1988, 155.P.
  5. Endzel Taggart Epesd- Educational Technology a perspective from Periodical Literature Indian University, 1986, PP. 145.
  6. John. Percy / Micro teaching with video and its implications for education progress in Zimbabwe, Columbia University Teachers College, 1988, PP. 185.
  7. Carla La Verne Mysers-An analysis of instructional television students and their learning styles, preferences and satisfaction with the microwave delivery system at Frank Phillips College, Texas Tech University, 1988, PP.158.
  8. Ajaga, Mikaila Ishola- The content of films about Africa: A study of Nigerian social cultural documentaries . The University of Towa, 1985, PP.136.
  9. Attar Abdullah Ishaq- A survey of the teacher Training Junior College program upon the influence of elementary schools teacher use of instruction technology in Medina, Saudi Arabia University, 1986.
  10. 10. Kabli Talal Harsan-selected Factors influencing the use of instructional Media by Elementary school Male Teachers in Al Medina District in Saudi Arabia, Michigan Stall University , 1986, PP 210.
  11. 11. Kunst. Sylvia Knit-Television viewing habit of University of Pittsburgh, 1986, PP. 230.
  12. 12. Whitelock Wayne Radney- Educational Technological Resources and utilization in selected theological seminars and graduate school of theology Temple University 1988, PP. 183.
  13. 13. Anaemena B.I. -a comparison of Andragogy and pedagogy as instructional methodologies towards cognitive achievement in basic electronic in technical colleges of Anambra state of Nigeria, University of Missouri, Columbia 1988, PP. 219.
  14. 14. Murphy, Kathleen. Marie Lynch- A study of the impact of micro computer classroom utilization upon the creative thought process of sixth Grade learners, University of Denver, 1985, PP. 176.
  15. 15. Gallagher Bonnie carroll-Effective Aspects of Micro – Computers: A study of basic Addition Facts. The University of Michigan, 1986, PP.290.
  16. 16. Birchett colleen Lucille-The effects of Television on the Descriptive writing of college students, the University of Michigan, 1986. PP. 261.
  17. 17. Verdweci David C-The Comparative effects of 3 Training Methods on the improvement of micro-computer user attitudes. New York University, 1986. PP.160.
  18. 18. Hurst Jesse Henry – The effects of a computer Assisted instruction tutorial program on the academic performance and attitudes of college Athletics, Texas Southern University, 1986, PP.89.
  19. 19. Fox James Albert- A comparison of lecture-based instruction and computer based individualized instruction, University of Northern, Colorado, 1986, PP 187.
  20. 20. Hill Jack Daniel-An Investigation of the implementation and utilization of computer technology in selected schools districts the south Carolina university of Maryland , 1986, PP. 165.
  21. 21. Chayman Dale Terrill- The effects of Micro- Computer Technology an undergraduate instruction . A delphi Forecast, Harward University, 1986, PP. 290.
  22. 22. Chyou Jiin-Tian- The effects an achievement of learner and program controlled feedback and field orientation in computers assisted instructions, University of Georgia, 1988, PP. 119.
  23. 23. Galinski, M. An Investigation of the relationship of microcomputer problem-solving software and critical thinking abilities of Junior High Students Northeastern University 1988, PP 132.
  24. 24. Berglurd, G.W. ( 1969): "Effect of partial reinforcement in programmed instruction” University of Operable, random in programmed earning and educational technology , Journal of the association for programmed learning and educational technology, Vol. 6. Number 2, April 1969, P.103.
  25. 25. Hulteen, C and Crist, R.L (1969): "Use of Programmed Instructional Material”. In programmed learning and education Technology Journal of the association for programmed learning and education technology, vol. 6, No. 1 Jan 1969, P. 4.
  26. 26. Jameson, G.H. (1969): ” Learning by programmed and Guided discovery methods at different Age Levels” M, R.C. Unit Department of psychology, University of Liverpool. in Programmed Learning & Educational Technology, Journal of the association for programmed learning and educational technology , vol.6.NO.1.Jan 1969, P.26.
  27. 27. Jamieson, G.H. James P.E. Leythan G.W.H. and Tozer, A.H.D. (1969): ” comparison L/W teaching methods at the postgraduate level.” In programmed learning and educational technology. journal of the association for programmed learning and education technology vol.6.Number 2, April, 1969, P.243.
  28. 28. Nasle G. (1969): ” Individual Differences and programmed interruption in center for Mass Communication Research.” In programmed Learning and Educational Technology, Vol.6. Number-1 Jan 1969, P.46.
  29. 29. Pukas: A (1969): ” Comparison between traditional and programmed learning.” in programmed learning and educational technology, Journal of the Association for programmed Learning and Educational Technology, Volume 6, No. 1 . January 1969.
  30. 30. Golam, T.P. (1982) The use of Audio-Visual Aids in the secondary school of District Thana, Poona University, 1982.
  31. 31. Singh, R.D. (1911), effectiveness of assisted Instruction (CAI) in teaching Mathematics, in journal of educational technology, Volume 12, Number 1, October, 1982.
  32. 32. Ruquiya, Uzma (2001), Attitude of Prospective teachers towards contribution of information technology with special reference to school education, A.M.U., Aligarh.
  33. 33. Goel, D.R. and others (2003), ICT in Education in a challenging Experience, in University News, Vol. 43. No. 18, 2005.

٭٭٭

باب سوّم: مطالعہ کا خاکہ اور طریقۂ کار

3.1                  طریقۂ کار

3.2                  تعلیم میں بیانیہ تحقیق کے طریقۂ کار کی اہمیت

3.3                  نمونے

3.4                  مستعملہ طریقے

3.5                  رویّوں کی پیمائش کے طریقے

3.6                  معلومات کی جمع دہی

3.7                  شماریاتی طریقۂ کار

3.0     مطالعہ کا خاکہ اور طریقۂ کار

(Methodology and Design of Study)

تحقیقی مطالعہ کا یہ منصوبہ مطالعہ کے لئے متعینہ حدود اور کام کا مکمل جائزہ ہے۔ مطالعہ کے مقاصد کے حصول کے لئے یہ مرحلہ فیصلہ کن ہے اس مرحلے میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح معلومات کو اکٹھا کیا جاتا ہے اور وہ کون سے ذرائع ہیں جن کو استعمال کرتے ہوئے معلومات کو اکٹھا کیا جا سکتا ہے، آبادی کی کیا تعریف ہے اور اس کے مطالعہ کے لئے کس قسم کی مناسب معلومات کو اکٹھا کیا جا سکتا ہے، اوراس کا تجزیہ کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ بتاناضروری ہے کہ بغیر منصوبہ بندی کہ جب ہم کوئی کام کرتے ہیں تو مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ کام کی رفتار پر اثر پڑھتا ہے اور مسائل حل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ محقق منصوبہ بند طریقہ پر اپنے مقاصد کے حصول میں کامیابی کے لیے سعی پیہم کرے۔

3.1    طریقۂ کار(Methodology)

اس مطالعے میں بیانیہ اور شماریاتی دونوں طریقوں کو اپنایا گیا ہے۔ اس طرح کے مطالعات، معلومات کو مختصر کرنے اور تازہ ترین صورتِ حال کو معلوم کرنے کے لئے کیے گئے تھے۔ اور ممکنہ حد تک نتائج أخذ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ صرف حقائق معلوم کرنے کی حد تک مطالعہ کو محدود نہیں کیا گیا تھا۔ بلکہ اس کے بعد کے نتائج پر بھی اہم روشنی ڈالی گئی تھی۔ جس میں اہم معلومات کی تشکیل و تدوین اور اہم مسائل کے حل جیسے مقامی، ریاستی، قومی، اور بین الاقوامی شامل ہیں۔ بیانیہ مطالعات صرف معلومات کے جمع کرنے کی حد تک نہیں ہیں بلکہ ان کی درجہ بندی، پیمائش، تجزیہ، تقابل، ترجمانی، سب کو شامل کیا گیا ہے۔

اس میں تین قسم کی معلومات اکٹھا کی گئی ہیں۔

1                                    تغیر و تبدل سے متعلق کیا موجود ہے اس صورت حال کی کیا شرائط ہیں۔

2                                    مختلف معیارات کی شناخت کرتے ہوئے اسے ہم موجودہ صورت حال میں کیسے تقابل کر سکتے ہیں۔ ماہرین کے نزدیک اس کی کیا حیثیت ہے اور وہ کیا چاہتے ہیں۔

3                                    ماہرین کے خیالات یا تجربات کو بنیاد بناتے ہوئے کس طرح اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ممکنہ راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔

فطری لحاظ سے مطالعہ کی توضیحی کے لئے تحقیق کی گئی ہے۔ اس کے دو مقاصد ہیں۔

’’فی الفور اور طویل مدتی‘‘ اور اس کی سادہ قسم سے تحقیق کی گئی۔ سائنسی اصولوں پر منظم انداز میں اس کی تحقیق نہیں کی گئی۔ تاہم فراہم کردہ معلومات مقامی مسائل کے حل کے لئے مفید ثابت ہو سکتے ہیں اور بنیادی تحقیق میں ان کے ازالے میں کار آمد ثابت ہو سکتے ہیں۔

3.2    تعلیم میں بیانیہ تحقیق کی قدر و منزلت ((Value of Descriptive Research Method in Education)

یہ طریقۂ کار تعلیمی تحقیق کے لئے وسیع طور پر استعمال کیا جاتا ہے بلا شبہ اسے غیر معمولی مقبولیت حاصل ہے اس طریقۂ کار سے تعلیم میں وقوعہ مسائل کو سمجھانے میں مدد مل سکتی ہے کیونکہ اس طریقۂ کار میں ہم مختلف شرائط کے ذریعہ تجزیہ کرتے ہیں طلبہ، اساتذہ، اولیائے طلباء، اور ماہرین کے خیالات معلوم کرتے ہیں کس طریقے پر اس وقت عمل کیا جا رہا ہے اس کے کیا اثرات ہیں، اس کا ثبوت فراہم کرتے ہیں یا کس قسم کے رجحانات فروغ پا رہے ہیں معلوم کیا جاتا ہے اس طریقۂ کار میں واضح اور راست طور پر ایک محقق معلومات کو اکھٹا کر سکتا ہے۔ مسائل کے تعلق سے انفرادی خیالات معلوم کر سکتا ہے، سوال ناموں کے ذریعے بھی معلومات اکھٹا کر سکتا ہے۔ بروقت ان تمام بیانیہ تحقیقات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ تعلیمی مشقوں کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز حاصل کی جا سکتی ہیں، اس تعلق سے ہدایتیں اور دیگر معلومات حاصل کئے جا سکتے ہیں اسکول انتظامیہ، نگرانی، نظم و نسق، تعلیمی سرگرمیاں، تعلیمی طریقۂ کار، جانچ پڑتال اور بچوں کے مسائل کو حل کرنے میں توضیحی تحقیق کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ ان تعلیمی امور سے متعلق کئی سوالات ہوتے ہیں ان سوالوں کے جواب دینے اور ضروری معلومات بہم پہچانے اور موجودہ تعلیمی مسائل کو سمجھنے اور تجویزانہ انداز میں ان سے نمٹنے کے لیے توضیحی تحقیق بہت ہی ممد و معاون ہے۔ تعلیمی مسائل میں عوام راست طور پر شامل ہوتے ہیں اور مسائل کو الگ کر کے اُنہیں توجہ کے ساتھ حل کرنے میں ان کا بھی دخل ہوتا ہے۔ زمانہ کے ساتھ تبدیلی و ہم آہنگی کو معلوم کرنے کے لیے توضیحی مطالعہ ضروری ہے۔ یہ مختلف طور پر وقفہ وقفہ سے مختلف نمائندہ عوامی گرہ اس مطالعہ کے لئے ممد و معاون ہوتے ہیں۔ بیانیہ طریقۂ کار معلومات جمع کرنے کے لیے کار آمد ہے۔ آلات و اوزار جیسے نشان اندازی، جدول، سوالنامے، درجہ پیمائی کے لیے ضروری ہے، اس کے علاوہ مختلف نظریات معلومات اور مسئلہ سے متعلق باہمی ارتباط اور جزوی تعلق کو معلوم کرنے کے لیے بیانیہ مطالعہ ضروری ہے۔ توضیحی طریقے کے مطابق اس مطالعہ کو منظم کرنے کیے لئے درجہ ذیل اقدامات کئے گئے ہیں۔

3.3    نمونے (Sample)

مطالعہ کے مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے نمونے کو با قاعدہ طور پر شامل کیا گیا ہے۔ نمونے کے لیے سو طلبہ اور سو طالبات کو منتخب کیا گیا۔ جن کا تعلق شعبہ سماجی علوم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ہے۔

3.4    مستعملہ طریقے  (The Tool Used )

محقق نے درجہ ذیل طریقۂ کار کو اپنایا ہے۔

۱۔ ایک رویہ سے دوسرے رویہ کی پیمائش و فروغ  By Nasreen(2001) (Appendix1)

۲۔ سماجی و معاشی موقف کی پیمائش Kuppaswami (Apendix 2)

۳۔ سطح اُمنگ  Singh Tiwariji (appendex 3)

محقق نے ’’معلوماتی تکنالوجی‘‘ Attitude Skill By Nasreen کو استعمال کیا ہے جو 25 بیانات پر مشتمل ہے۔

Likart typesجو مختلف رویّوں اور تکنالوجی کے مختلف پہلوؤں کی نمائندگی کرتا ہے مثلاً اُس کی اہمیت اُس کے وسائل اُس کے استعمالات اور تعلیمی عمل میں اور روز مرہ زندگی میں اُس کی مؤثریت وغیرہ کو معلوم کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کی درجہ پیمائی 3 طریقوں پر کی گئی ہے۔

۱۔ شدت سے رضا مند

۲۔ غیر قطعی رضا مندی

۳۔ شدید غیر متفق

Likart types جو مختلف رویّوں کی نمائندگی کرتا ہے اور معلوماتی تکنالوجی کے مختلف پہلوؤں کی نمائندگی کرتا ہے مثلاً اُس کی اہمیت اور طلبہ کی روز مرہ زندگی میں استعمال شدہ مختلف Devices اور تعلیمی عمل میں اُس کی مؤثریت پیمائی کی گئی جس کے رویہ پیما کا عددی سر 0.85 ہے جس کا حساب Retest طریقۂ کار کے امتحان کے ذریعہ کیا گیا تھا۔

منفی رویّوں اور مثبت رویّوں کے طلبہ کے درمیان امتیاز معلوم کرنے کے لیے کمپیوٹر کی مددلی گئی جس سے اُن کے مستند ہونے کا ثبوت ملتا ہے ان وسائل سے حاصل شدہ نشانات کی حد 30-150رہی اور اس کی قد 90رہی ان میں سے ہر ایک کی درجہ پیمائی 1-5رہی اور یہ مثبت بیان کے لیے تھی اور منفی بیان کے نتائج اُلٹے رہے بطور خاص ایک طالب علم کے حاصل کردہ نشانات کو رویّوں کے نتائج کے طور پر فرض کیا گیا۔ معلوماتی تکنالوجی میں طلبہ کے جملہ حاصل کردہ نشانات یا تو حوصلہ افزاء رہے یا حوصلہ شکن جو جتنا زیادہ اسکور حاصل کیا وہ معلوماتی تکنالوجی کے تئیں اُتنا ہی حوصلہ افزا ء پایا گیا اور جو جتنا کم اسکورحاصل کیا وہ معلوماتی تکنالوجی کے تعین میں اتنا ہی حوصلہ شکن رہا۔

3.5    رویّوں کی پیمائش کے طریقے  (Methods of Attitude Measurement)

رویّوں کی پیمائش بالراست طریقہ پر کی گئی۔ اور یہ نتائج کی بنیاد پر تھی کسی شخص یا مقصد کے متعلق عقائد، احساسات، اور رجحانات کا زبانی بیان کے ذریعے نتیجہ أخذ کیا گیا، رویہ پیما جو کہ عام طور پر زیادہ وقت پر مشتمل ہوتا ہے اس لئے رویّوں کو مقاصد کی بالراست طریقہ پر پیمائش کی گئی۔ The method of equal appearing intervals and method of summated rating کو رویّوں اور خیالات کے تحقیق کے لیے مکمل طور پر استعمال کیا گیا۔ رویّوں کی مہارتوں کو مذکورہ تکنیک کے ذریعہ فروغ دیا گیا اس کی پورے احتیاط کے ساتھ متعدد مرتبہ تصحیح و ترمیم کی گئی اور منتخبہ عناصر کو بیان کیا گیا۔ تمام ممکنہ بیانات کو ایک نفسیاتی مقصد کے تحت رکھا گیا اور اسے عارضی مشمولات کا نام دیا گیا۔

3.5.1                                               تھیورسٹن طریقۂ کار (Thurstone method)

یہ طریقۂ کار The method of appearing intervalکے نام سے جانا جاتا ہے، یہ طریقۂ کار Thurstone اور Chave کا ایجاد کردہ ہے، اس طریقۂ کار میں کئی بیانات ایسے ہیں جو خیالات، جذبات، احساسات، اور پریشانیوں کی شدت کو نفسیاتی مقاصد کے تحت ظاہر کرتے ہیں۔ انہیں مختلف ذریعوں سے اکھٹا کیا گیا۔ ان بیانات کی تعداد 100-200 ہے اور ہر بیان اختصار کے ساتھ صاف طور پر کسی ایک نظریے کے تعلق سے ظاہر کیا جاتا ہے اس کا غیر مبہم ہونا ضروری ہے اور ان میں سے کوئی بھی صاف طور پر لچکدار نہیں ہونا چاہیے یا رویّوں کا تعاون نا مناسب نہ ہو وہ تمام کے تمام امتیازی طور پر نمایاں ہوں اور مختلف انداز کے مطابق جواب دیتے ہوں اور یہ جواب مقاصد کے تعلق سے حوصلہ افزا ء یاحوصلہ شکن ہونا چاہیے۔ ہر بیان کو ایک علاحدہ کارڈ پر طبع کیا گیا ہے اور یہ طبع شدہ بیانات ایک 11 نکاتی اسکیل پر درجہ بندی وہ فیصلہ کرنے کے لئے ماہرین کے حوالے کئے گئے ہیں۔ اور ہر جج کو اسکیل کے مقصد کی اطلاع دی گئی اور ان ہی 11 میں سے ہر بیان کو چھانٹنے یا درجہ بندی کے لیے پوچھا گیا اور پوری شدت اور تسلسل کے مطابق ہر بیان نفسیاتی مقاصد کے تئیں حوصلہ افزا ء حوصلہ شکن ہیں؟ زیرِ مطالعہ رکھا گیا ہے۔ ایسی صورت میں درجہ بندی کی تعداد 1-11تک رہ گئی۔

1 نمبر انتہا کی حوصلہ شکنی کی نشاندہی کے اظہار کے لئے رکھا گیا اور نشان 11 مکمل حوصلہ افزا ء رویے کی نشان دہی کے لیے رکھا گیا درمیانی درجہ بندی یعنی 6غیر جانبدار درجہ بندی کے اظہار کے لیے رکھا گیا اور 7تا 10 نمبر مختلف حوصلہ افزا ء نشان کی نمائندگی کے لیے رکھے گئے ہیں۔ چھانٹنے کے مرحلے کے بعد ہر بیان کو علاحدہ علاحدہ نشان کے ذریعہ منقسم کیا گیا۔ درمیانی یا مرکزی نکات کے کسی مخصوص بیان کے پیمائش کی قدرکے طور پر فرض کیا گیا۔

درمیان کے تقسیم کی تربیعی حدود یا حدود کی درمیانی %50 تقسیم کو تغیرات کی پیمائش کے لیے لیا گیا، جب کبھی حوصلہ نتائج کی پیمائش یا حوصلہ شکن بیان Q کا تقابل حاصل شدہ قدر سے کم پایا گیا یا اُن کے درمیان کم مطابقت پائی گئی یا بیان Q کسی قدر زیادہ معلوم ہوئی تو ایسی صورت میں ابہام پایا گیا اور اسے قطعی پیمائش میں شامل نہیں کیا گیا۔ قطعی پیمائش 30-35 بیانات کو منتخب کر کے شامل کیا گیا جو کہ نہایت مناسب اور کم مبہم تھے اور ان ہی پیمانے پر مسلسل پھیلایا گیا۔ اس طرح رویّوں کے شدت کی پیمائش کی گئی اس کے بعد انہیں با قاعدہ طور پر ترتیب دیا گیا۔ نصف طریقے کو علاحدہ کر کے کر قابلِ بھروسہ رویہ پیما بنایا گیا اور اس کی معقولیت کے حصول کے لیے کسی شخص کے باہمی ربط کے اوسط اسکور کو کچھ حد تک معیار کے طور پر اپنایا گیا اور شخص کے مظاہرہ کو بیرونی معیار پر شامل کیا گیا اور اس کے اصل رویے کو حاصل کردہ رویّوں سے تقابل کیا گیا۔

3.5.1                                                لے کرٹ کا طریقۂ کار (Likert’s Method)

یہ طریقہ ’’ مجموعی شرح بندی‘‘کا طریقہ بھی کہلاتا ہے۔ لے کرٹ(1932) نے اس طریقے کو پیش کیا ہے۔ اس طریقے میں ایسے کئی بیانات جمع کئے جاتے ہیں جن میں کسی شئے کے متعلق احساس یا خیال ظاہر کیا گیا ہو۔ اہم بات یہ ہے کہ ان بیانات میں اس شئے کے متعلق قطعی تائید یا عدم تائید لازماً ظاہر ہو۔ تائیدی یا عدم تائیدی بیانات کی تعداد تقریباً مساوی ہونی چاہیے۔ انہیں احتیاط کے ساتھ ترتیب دیا جائے۔ اس پیمانے کا ابتدائی مسودہ افراد کے ایک ایسے نمونے پر لاگو کیا جائے جن کا انتخاب اس آبادی سے ہو جس کے لئے یہ پیمانہ تیار کیا گیا ہو۔

بیان کی ہر شق کے تحت پانچ متبادلات یا جوابات درج ہونے چاہیں۔ (1)شدید تائید (Strongly Agree = SA)(2)تائید(Agree=A )(3)کوئی رائے نہیں (Undecide=U)(4)مخالف(Disagree=D)(5)شدید مخالف(Strongly Disagree=SD)۔ ہر بیان کے سامنے جواب دینے والا ان میں سے کسی ایک جواب پر نشان لگا کر اپنی رائے کا اظہار کرے۔ تائیدی بیانات، SA, A, U, D, اور SDکو 1,2,3,4,اور 5 نشانات دیے جائیں۔ اور دوسری طرف متعلقہ جوابات کے غیر تائیدی بیانات کے لئے 5,4,3,2اور 1کے نشانات دیے جائیں اس طرح ہربیان کے لئے اس کے حاصل کردہ نشانات کو جمع کر کے ایک فرد کا اسکور معلوم کیا جا سکتا ہے۔

آخر میں شقوں کے تجزیے کا طریقۂ کار استعمال کر کے ان شقوں کا انتخاب کیا جاتا ہے، ایڈورڈس(Edwards – 1957)نے کل اسکور کی بنیاد پر اعلیٰ اور پست کے دو انتہائی گروپوں کا مجموعہ تجویز کیا ہے۔ اور ٹی-جانچ (T-Test)کے ذریعہ ان دو گروپوں کے درمیان پائے جانے والے فرق کی اہمیت معلوم کرنے کا طریقہ بتایا ہے۔ ٹیT-کی قدر وہ پیمانہ ہے جس کے ذریعہ یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ ایک دیا ہوا بیان اعلیٰ اور پست گروپوں کے درمیان کس حد تک متفرق ہے۔ شقوں کے تجزیے کے بعد سے بڑی Tقدر والے (T-1.75)20تا 30 بیانات کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ تاکہ رویے پیمانہ کا حتمی مسودہ تیار کیا جائے۔ اس کام کے لیے شقوں کے تجزیے کے دوسرے طریقے بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔ جیسے تطبیقی طریقہ، جس میں ہر شق کے اسکور کا انطباق کُل اسکور سے کیا جاتا ہے۔ صرف انہیں شقوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جو مجموعی اسکور کے ساتھ امتیازی طور پر منطبق ہوں۔

لے کرٹ کے اس رویہ جاتی پیمانہ کی اعتباریت کو نصف تقسیم طریقہ سے شمار کیا جاتا ہے۔ حقیقی طرز عمل اور رویہ کے اسکور کی تطبیق کر کے اس کا جواز حاصل کیا جاتا ہے۔ اس تحقیق میں انفارمیشن تکنالوجی رویے پیمانہ کی تشکیل کے Thurstoneتھیورسٹن طریقہ پر لے کرٹ کے طریقہ کو ترجیح دی گئی ہے۔ کیونکہ مؤخر الذکر طریقہ سادہ کم وقت لینے والے اور شقوں کی تجزیہ کی بنیاد پر، اور شقوں کے انتخاب کے مواقع فراہم کرنے والے ہیں۔

تھیورسٹن Thurstone طریقہ میں پیمانہ بندی، اور بیانات کے انتخابات کے فیصلے بھی شامل ہوتے ہیں۔ اور اس میں جواز کے اچھے اشاریہ کی کمی ہوتی ہے۔ جبکہ لے کرٹ کے طریقہ میں اعلیٰ اعتباریت حاصل ہوتی ہے۔ اس میں نمبر دینا اور توضیح کرنا بھی آسان ہے۔ اس میں کافی حد تک لچک بھی پائی جاتی ہے۔ کیونکہ محقق کے لیے یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق زیادہ یا کم تعداد میں بیانات کو شامل کر سکتا ہے۔

3.6    معلومات کی جمع دہی (The Collection of Data)

محقق کی جانب سے سوالنامے کے ذریعہ معلومات جمع کرنے کے لئے اختیار کیا جانے والا طریقۂ کارحسب ذیل سطور میں بیان کیا جا سکتا ہے۔

محقق نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ سماجی علوم کی گریجویٹ کلاسس میں پڑھنے والے طلباء کو رویہ پیمانہ دیا۔ انہیں تحقیق کے اہم مقاصد سے واقف کروایا گیا۔ اور حقیقت بیانی سے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے تعاون کی خواہش کی گئی۔ تمام طلباء نے رویہ پیمانہ کو پُر کرنے میں دلچسپی دیکھائی چند دنوں کے بعد محقق نے طلباء سے یہ رویہ پیمانہ حاصل کیا۔ اس کے حصول میں محقق کو کافی مشقت اٹھانی پڑی۔

3.7    شماریاتی طریقۂ کار (Statistical Procedure)

تفصیلات کا تجزیہ کرنے کے لئے محقق نے T۔ ٹسٹ استعمال کیا۔ جس کی تفصیل ذیل میں دی جا رہی ہے۔

دونوں سطحوں کے درمیان فرق کی اہمیت کو معلوم کرنے کے لئے T۔ ٹسٹ استعمال کیا جاتا ہے۔ T۔ ٹسٹ کی حساب کاری میں تجرباتی متغیرات کے درمیان تناسب کا حساب شامل ہوتا ہے۔ اس میں تجرباتی متغیر سے مراددرمیانی فرق کی معیاری غلطی ہے۔

فارمولہ:

اس میں X-Y مساوی ہے۔ دو واسطوں (دو متغیرات) کے درمیان فرق

N1 N2 مساوی ہے۔ اسکورس کی تعداد

1, 2 مساوی ہے۔ اسکور کا معیاری انحراف

3                                    معیاری انحراف (Standard Deviation)

کسی تیر (Arrow) کے وسط سے اوپر والی اسکور کی قدر مثبت قدر ہوتی ہے۔ جبکہ نیچے والے اسکور کی منفی قدر ہوتی ہے۔ کیونکہ اوسط بازی (Average Dispersion)کی پیمائیش کے طور پر انحراف کی سمت کے بجائے انحراف کی مقدار زیادہ اہم ہوتی ہے۔ اس لئے علامتوں کو حذف کرنے کے لئے انحرافات کو مربع کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح معیاری انحراف کی پیمائش کو 1993میں کارل پیرسن Karl Pearsonنے اسکور کی تقسیم کے وسط سے Dispersionکے ایک پیمائش کے طور پر نکالی تھی۔

معیاری انحراف:

فارمولہ

جہاں

X                                     =                                  حسابی وسطیہ

E                                      =                                  جمع کی علامت

X1                          =                                  ith them                       I, X,۔۔ 1, 2 , 3,۔۔ ۔۔ N۔

N                                  =                                  شقوں کی کل تعداد

3                                    تضاعف کا باہمی ارتباط Coefficient Of Correlation

دو متغیرات کے درمیان تعلق معلوم کرنے کے لئے محقق نے Coefficient کے Correlation کا حساب کیا ہے۔

فارمولہ:

اس میں۔

۱X                             =                                  xمتغیر کی iویں قدر

X                                     =                                  xکا وسطیہ

۱y                              =                                  yمتغیر کی iویں قدر

y                                      =                                  yکا وسطیہ

n                                     =                                  yمشابہ کے xاور yجوڑ کی تعداد

’’r‘‘ خطوط کی قدر 1+-کے درمیان

’’r‘‘ کی مثبت قدر دو متغیرات کے درمیان دو مثبت تعلق کی نشاندہی کرتی ہے۔ جبکہ ’’r‘‘ کی منفی قدر دو متغیرات کے درمیان عدم تعلق کو واضح کرتی ہے۔

1+یا 1-کے قریب والی ’’ R‘‘ کی قدر دو متغیرات کے درمیان اعلیٰ تطبیق کو ظاہر کرتی ہے۔

٭٭٭

حوالہ جات

  1. Best, J.W. and Kahn, J.V.: Research in Education, Prentice Hall of India, 1986.
  2. Cochran, W.G.: Sampling Techniques, John Willey, New York.
  3. Garrett, H.E.: Statistics in Psychology and education, Vakils, Feffer and simsons, Bombay, 1967.
  4. Guilford, J.P.: Fundamental Statistics in Psychology and education, 4th edition, new york, Mcgraw Hill book co. 1965.
  5. Lindquist, E.F.: Statistical Analysis in Educational Research, Position, 1940.
  6. Singh, A.K.: Tests, Measurements and Research Methods in Behavioural Science, Tata McGraw Hill publishing company Limited, New Delhi, 1986.

٭٭٭

باب چہارم : معلومات کا شماریاتی تجزیہ

4.0     معلومات کا شماریاتی تجزیہ (Statistical Analysis Of Data)

شماریاتی طریقوں کا تعلق بھاری بھر کم معطیات (ڈاٹا) کو چند سہولت بخش تفصیلی مدات تک محدود کرنا اور اس سے نتائج أخذ کرنا ہے۔ ایک مخصوص جائزہ میں، جائزہ کا مقصد، اس کی پیمائش کی سطح اور معطیات کی وسعت کے لحاظ سے کسی شماریاتی طریقہ کا تعین کیا جاتا ہے۔ موجودہ جائزہ کے مقصد کو پیشِ نظر رکھ کر درجہ ذیل شماریاتی طریقوں کو استعمال کر کے ڈاٹا کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

(الف)                                                ٹی۔ جانچ (T.Test) کی مدد سے ڈاٹا کا تجزیہ

(ب)          باہمی ارتباط (Correlation) کی مدد سے ڈاٹا کا تجزیہ

مقصد نمبر: 1۔ انڈر گریجویٹ طلبہ و طالبات کہ سماجی و معاشی حیثیت کے لحاظ سے معلوماتی تکنالوجی کے تئیں ان کے رجحان کو معلوم کرنا۔

جدول: 4.1

Showing means, S.Ds and calculated t-value

HO Tabulated T. Value Calculated T. Value SD Mean DF Nos Variable
R 1.96 27.148 6.43 39.11 198 200 Male
37.30 Female

جدول: 4.2

Showing means, S.Ds and calculated t-value

HO Tabulated T.Value Calculated T.Value SD Mean DF Nos Variable
R 1.96 26.56 5.48 22.76 198 200 Male
22.74 Female

جدول نمبر4.1 بتاتا ہے کہ معلوماتی تکنالوجی کے تئیں طلبہ کے مزاج کے وسطانیہ(Mean) اور ان کے سماجی و معاشی اعظم ترین و کم ترین حیثیت کا فرق۔ 0.05 سطح اور 0.4 SD، اور 1.96 ٹی۔ قدر کے ساتھ کافی نمایاں ہے۔ اور یہ 198 درجۂ آزادی پر 1.96 محسوب شدہ۔ قدر سے زیادہ ہے۔ چنانچہ مذکورہ بالا مفروضہ کو ردّ کیا جاتا ہے۔

مقصد نمبر: 2 اُمنگوں کے تناظر میں انڈر گریجویٹ طلبہ و طالبات کا معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحان معلوم کرنا۔

مفروضہ نمبر۔ Null Hypothesis 2

انڈر گریجویٹ طالبات کے رجحان میں معلوماتی تکنالوجی کے تئیں کوئی واضح فرق نہیں ہوتا۔ جدول نمبر 4.2 بتاتا ہے کہ محسوب شدہ، ٹی۔ قدرTabulated T.value، 198 درجۂ آزادی پر محسوب ٹی قدر کے مقابلہ کم ہے۔ چنانچہ مذکورہ بالا مفروضہ ردّ کیا جاتا ہے۔

مقصدنمبر: 3 (Objective)

انڈر گریجویٹ طلبہ کی سماجی و معاشی حیثیت کے لحاظ سے معلوماتی تکنالوجی کے تئیں ان کے رجحان کو معلوم کرنا۔

مفروضہ نمبر: 3                                              (Null Hypothesis)

سماجی و معاشی حیثیت کے پس منظر میں، معلوماتی تکنالوجی کے تئیں انڈر گریجویٹ طلبہ کے رجحان میں کوئی فرق نہیں ہو گا۔

جدول: 4.3

Showing means, S.Ds and calculated t-value (for Male)

Ho Tabulated T.Value Calculated T.value S.D Mean DF Nos Variable
R 3.70 37.92 52 27 High Socio Economic Status
A 1.96 10.683 4.61 38.7 49.7 27 Low Socio Economic Status

جدول نمبر4.3 بتاتا ہے کہ مختلف سماجی و معاشی حیثیت رکھنے والے طلباء کے رجحان کے اسکور کا وسطانیہ، 0.5 سطح پر، 3.70 اور 4.61 SD کے ساتھ اور 0.683 قدر کے ساتھ زیادہ نمایاں نہیں ہے۔ اور یہ 52 درجہ پر ٹی۔ قدر 1.96 کے مقابلہ کم ہے۔ چنانچہ مذکورہ بالا مفروضہ قبول کیا جاتا ہے۔

مقصد نمبر: 4

انڈر گریجویٹ طالبات کی سماجی و معاشی حیثیت کے لحاظ سے معلوماتی تکنالوجی کے تئیں ان کے رجحان کو معلوم کرنا۔

مفروضہ نمبر: 4                                              (Null Hypothesis)

سماجی و معاشی حیثیت کے پس منظر میں، معلوماتی تکنالوجی کے تئیں انڈر گریجویٹ طالبات کے رجحان میں کوئی فرق نہیں ہو گا۔

جدول نمبر 4.4 بتاتا ہے کہ Tabulated T.Value، 52 درجہ پر محسوب کی قدر سے کم ہے چنانچہ مذکورہ بالا مفروضہ ردّ کیا جاتا ہے۔

مقصد نمبر: 5

اعلیٰ ترین سماجی و معاشی حیثیت اور اونچی امنگوں والے انڈر گریجویٹ طلبا کا معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحان معلوم کرنا۔

مفروضہ: 5

اعلیٰ ترین سماجی و معاشی حیثیت اور اونچی امنگوں والے انڈر گریجویٹ طلباء میں معلوماتی تکنالوجی کے تئیں کوئی فرق نہیں ہو گا۔

جدول: 4.4

Showing Means, S.Ds and calculated t-value (for female)

Ho Tabulated t-value Calculated t-value S.D Mean DF Nos Variables
2.27 4.01 35.89 52 27 High Socio – economic Status
R 1.96 2.24 9.86 40.48 27 High Socio – economic Status

جدول: 4.5

Showing Means, S.Ds and calculated t-value (for male)

Ho Tabulated t-value Calculated t-value S.D Mean DF Nos Variables
3.70 37.9 27 High Socio – economic Status
A 1.96 1.043 4.59 39.1 52 27 Low Socio – economic Status

جدول نمبر 4.5 بتاتا ہے کہ اعلیٰ سطحی سماجی و معاشی حیثیت اور اونچی امنگ رکھنے والے طلبہ کے رجحان میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ اور 0.05 سطح پر 3.70 اور 4.59 SD کے ساتھ اس کی ٹی۔ قدر 1.043 ہے جو Tabulated t-value کے مقابلہ کم ہے۔ چنانچہ مذکورہ بالا مفروضہ قبول کیا جاتا ہے۔

مقصد نمبر: 6

اعلیٰ ترین سماجی و معاشی حیثیت اور اونچی امنگوں والے انڈر گریجویٹ طالبات کا معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحان معلوم کرنا۔

مفروضہ: 6

اعلیٰ ترین سماجی و معاشی حیثیت اور اونچی امنگوں والے انڈر گریجویٹ طالبات میں معلوماتی تکنالوجی کے تئیں کوئی فرق نہیں ہو گا۔

جدول نمبر 4.6 بتاتا ہے کہ اعلیٰ سطحی سماجی و معاشی حیثیت اور اونچی امنگ رکھنے والے طالبات کے رجحان میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ اور 0.05 سطح پر 3.70 اور 4.01 SD کے ساتھ اس کی ٹی۔ قدر 1.96 ہے۔ اور یہ52 درجۂ آزادی پر Tabulated t-value کے مقابلہ کم ہے۔ چنانچہ مذکورہ بالا مفروضہ قبول کیا جاتا ہے۔

مقصد نمبر: 7

کم سماجی و معاشی حیثیت اورکم اُمنگ رکھنے والے انڈر گریجویٹ طلباء کا معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحان معلوم کرنا۔

مفروضہ: 7

کم سماجی و معاشی حیثیت اور کم اُمنگ رکھنے والے انڈر گریجویٹ طلباء کے رجحان میں معلوماتی تکنالوجی کے تئیں کم فرق ہو گا۔

جدول نمبر4.7 بتاتا ہے کہ کم سماجی و معاشی حیثیت اور چھوٹی اُمنگ رکھنے والے طلبہ میں اسکور میں کوئی واضح فرق نہیں ہے۔ جبکہ 0.05 سطح پر 4.61 اور 5.25 SD کے ساتھ ٹی۔ قدر 0.660. ہے۔ جو کہ Tabulated t.value 1.96سے کم ہے۔ چنانچہ مذکورہ بالا مفروضہ قبول کیا جاتا ہے۔

مقصد نمبر: 8

کم سماجی و معاشی حیثیت اور کم اُمنگ رکھنے والے انڈر گریجویٹ طالبات کا معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحان معلوم کرنا۔

مفروضہ: 8

کم سماجی و معاشی حیثیت اور کم اُمنگ رکھنے والے انڈر گریجویٹ طالبات کے رجحان میں معلوماتی تکنالوجی کے تئیں کم فرق ہو گا۔

جدول نمبر4.8 بتاتا ہے کہ کم سماجی و معاشی حیثیت اور چھوٹی اُمنگ رکھنے والے طلبہ میں اسکور میں کوئی واضح فرق نہیں ہے۔ جبکہ 0.05 سطح پر 4.61 اور 77.5 SD اور 5.89 کے ساتھ ٹی۔ قدر 1.18.ہے۔ اور یہ 52 درجۂ آزادی پر Tabulated t-value کے مقابلہ کم ہے۔ چنانچہ مذکورہ بالا مفروضہ قبول کیا جاتا ہے۔

جدول: 4.7

Showing means, S.Ds and calculated t-value (for Male)

Ho Tabulated t-value Calculated t.value S.D Mean DF Nos Variables
4.61 38.7 27 Low Socio – economic Status
A 1.96 .660 5.25 39.5 52 27 Low level of aspiration

جدول: 4.8

Showing means, S.Ds and calculated t-value (for Male)

Ho Tabulated t-value Calculated t.value S.D Mean DF Nos Variables
77.5 55.29 27 Low Socio – economic Status
A 1.96 1.18 5.89 37.62 52 27 Low level of aspiration

مقصد نمبر: 9

اعلیٰ سماجی و معاشی حیثیت اور کم اُمنگ رکھنے والے انڈر گریجویٹ طلبہ کا معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحان معلوم کرنا۔

مفروضہ: 9

اعلیٰ سماجی و معاشی حیثیت اور کم اُمنگ رکھنے والے انڈر گریجویٹ طلبہ کے رجحان میں کوئی واضح فرق نہیں ہو گا۔

جدول نمبر 4.9 بتاتا ہے کہ اعلیٰ سماجی و معاشی حیثیت رکھنے والے انڈر گریجویٹ طلبہ کے رجحان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جیسا کہ 0.05 سطح پر 3.70 اور 5.25 SD کے ساتھ ٹی۔ قدر 1.34ہے جو کہ 52 درجہ پر Tabulated ٹی۔ قدر 1.96 سے کم ہے۔ چنانچہ مذکورہ بالا مفروضہ قبول کیا جاتا ہے۔

مقصد نمبر: 10

اعلیٰ سماجی و معاشی حیثیت اور کم اُمنگ رکھنے والے انڈر گریجویٹ طالبات کا معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحان معلوم کرنا۔

مفروضہ: 10

اعلیٰ سماجی و معاشی حیثیت اور کم اُمنگ رکھنے والے انڈر گریجویٹ طالبات کے رجحان میں کوئی واضح فرق نہیں ہو گا۔

جدول: 4.9

Showing means, S.Ds and calculated t-value (for Male)

Ho Tabulated t-value Calculated t-value S.D Mean DF Nos Variables
3.70 37.92 27 High Socio- economic status
A 1.96 1.34 5.25 39.59 52 27 High Socio- economic status

جدول: 4.10

Showing means, S.Ds and calculated t-value

Ho Tabulated t-value Calculated t-value S.D. Mean DF Nos Variables
4.01 36.03 27 High Socio- economic status
A 1.96 1.16 5.89 37.62 52 27 Low level of aspiration

جدول نمبر4.10 بتاتا ہے کہ اعلیٰ سماجی و معاشی حیثیت اورکم اُمنگ رکھنے والے طلبہ میں اسکور میں کوئی واضح فرق نہیں ہے۔ جبکہ 0.05 سطح پر 4.01 اور 5.89   SD  کے ساتھ ٹی۔ قدر 1.16.ہے۔ اور یہ 52 درجۂ آزادی پر Tabulated t-value کے مقابلہ کم ہے۔ چنانچہ مذکورہ بالا مفروضہ قبول کیا جاتا ہے۔

(ب)

باہمی ارتباط کی مدد سے ڈاٹا کا تجربہ

جدول: 4.11

طلبہ کے سماجی و معاشی حیثیت اور معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحان کے درمیان کے باہمی ارتباط بتلانے والاجدول

Correlation Nos Variables S.No
-119 100 Attitude towards IT 1.
Socio – economic status 2.

جدول 4.11 انڈر گریجویٹ طلباء کہ معلوماتی تکنالوجی کے تئیں مزاج اور سماجی و معاشی حیثیت میں جو منفی باہمی ارتباط (-0.119) پایا جاتا ہے۔ اس کو واضح کرتا ہے۔

جدول: 4.12

طالبات کے سماجی و معاشی حیثیت اور معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحان کے درمیان کے باہمی ارتباط بتلانے والاجدول

Correlation Nos Variables S.No
-180 100 Attitude towards IT 1.
Socio-economic status 2.

جدول 4.11 انڈر گریجویٹ طالبات کہ معلوماتی تکنالوجی کے تئیں مزاج اور سماجی و معاشی حیثیت میں جو منفی باہمی ارتباط (-.180) پایا جاتا ہے۔ اس کو واضح کرتا ہے۔

جدول: 4.13

اعلیٰ سطحی امنگیں رکھنے والے طلبہ اور ان کے معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحان کے باہمی ارتباط کو بتانے والا جدول

Correlation N Variables S.No
-039 100 Attitude towardsIT 1.
Level of aspiration 2.

جدول 4.13 انڈر گریجویٹ طلبہ کی امنگوں کی سطح اور معلوماتی تکنالوجی کے تئیں ان کے رجحان منفی باہمی ارتباط پایا گیا۔

جدول: 4.13

اعلیٰ سطحی امنگیں رکھنے والے طالبات اور ان کے معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رجحان کے باہمی ارتباط کو بتانے والا جدول

Correlation N Variables S.No
-039 100 Attitude Towards IT 1.
Level of aspiration 2.

جدول 4.14 انڈر گریجویٹ طالبات کی امنگوں کی سطح اور معلوماتی تکنالوجی کے تئیں ان کے رجحان منفی باہمی ارتباط پایا گیا۔

٭٭٭

حوالہ جات

1.Best, J.W: Research in Education, prentice-Hall of India, New Delhi, 1986.

2.Garrett H.E.: Statistics in Psychology and Education, vakils, Feffer and Simons, Bombay, 1967.

  1. Guilford, J.P.: Fundamental Statistics in Psychology and education, 4th edition, New York: Mc Graw-Hill Book Co. 1965.
  2. Lindquist, E.F.: Statistical Analysis in Educational Research Boston. Houghton Mifflin Co. 1940.
  3. Singh, A.K: Tests Measurements and Research Methods in behavioural science, Tata Mc Graw Hill Publishing Company Limited, New Delhi, 1986.

٭٭٭

باب پنجم: تحقیقی نتائج، اور تجاویز

5.0                  مطالعہ کے تحقیقی نتائج

5.1                  ماحصل

5.2                  تجاویز

5.3 مزیدتحقیق کے لئے تجاویز

5.0     مطالعہ کے تحقیقی نتائج

(Findings of the Study)

مطالعہ کے تحقیقی نتائج محقق کی جانب سے کئے گئے تمام کام کا جز ء لاینفک ہے جو موضوعات و مقاصد کی ترسیل میں سہولت بخش ہے تحقیقی مطالعہ کے نتائج شماریاتی تجزیہ معلومات جمع کرنے اور موضوعات کی تشریح سے متعلق ہیں۔

محقق نے جمع شدہ معلومات کا شماریاتی مطالعہ کیا اور موضوعات کو سمجھانے کی کوشش کی اور تحقیق کردہ نتائج کو مبسوط انداز میں بیان کیا۔ جس سے خود بخود مطالعہ کا مقصد اُبھر کر سامنے آتا ہے اس طرح موضوعات کی روشنی میں مطالعہ مکمل کیا گیا اور محقق نے مفروضات کو متعین کر کے اس کا مطالعہ کیا اس مطالعہ کے تحقیقی نتائج درجِ ذیل ہیں۔

۱۔ سماجی و معاشی حیثیت کے لحاظ سے انڈر گریجویٹ طلبہ کا معلوماتی تکنالوجی کے متعلق رویہ میں اہم فرق پایا گیا۔

۲۔ سماجی و معاشی حیثیت کے لحاظ سے انڈر گریجویٹ طالبات کا معلوماتی تکنالوجی کے متعلق رویہ میں اہم فرق پایا گیا۔

۳۔ انڈر گریجویٹ طلبہ کا معلوماتی تکنالوجی کے تئیں سطحِ اُمنگ اور رویّوں میں اہم فرق پایا جاتا ہے۔

۴۔ انڈر گریجویٹ طالبات کا معلوماتی تکنالوجی کے تئیں سطحِ اُمنگ اور رویّوں میں اہم فرق پایا جاتا ہے۔

۵۔ انڈر گریجویٹ طلبہ میں اعلیٰ سطحی سماجی و معاشی حیثیت اور ادنیٰ سطحی سماجی و معاشی حیثیت کو لے کر معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رویّوں میں کوئی اہم فرق نہیں ہے۔

۶۔ انڈر گریجویٹ طالبات میں اعلیٰ سطحی سماجی و معاشی حیثیت اور ادنیٰ سطحی سماجی و معاشی حیثیت کو لے کر معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رویّوں میں کوئی اہم فرق نہیں ہے۔

۷۔ انڈر گریجویٹ طلبہ میں اعلیٰ سماجی و معاشی حیثیت اور اعلیٰ جذبۂ اُمنگ کو لے کر معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رویّوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔

۸۔ انڈر گریجویٹ طالبات میں اعلیٰ سماجی و معاشی حیثیت اور اعلیٰ جذبۂ اُمنگ کو لے کرمعلوماتی تکنالوجی کے تئیں رویّوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔

۹۔ انڈر گریجویٹ طلبہ میں ادنیٰ سماجی و معاشی حیثیت اور ادنیٰ سطحی جذبۂ اُمنگ کے حوالے سے معلوماتی تکنالوجی کے رویّوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔

۱۰۔ انڈر گریجویٹ طالبات میں ادنیٰ سماجی و معاشی حیثیت اور ادنیٰ سطحی جذبۂ اُمنگ کے حوالے سے معلوماتی تکنالوجی کے رویّوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔

۱۱۔ انڈر گریجویٹ طلبہ میں اعلیٰ سطحی سماجی و معاشی حیثیت اور ادنیٰ سطحٰ جذبۂ اُمنگ کے حوالے سے معلوماتی تکنالوجی کے تئیں طلبہ کے رویّوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔

۱۲۔ انڈر گریجویٹ طالبات میں اعلیٰ سطحی سماجی و معاشی حیثیت اور ادنیٰ سطحٰ جذبۂ اُمنگ کے حوالے سے معلوماتی تکنالوجی کے تئیں طلبہ کے رویّوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔

5.1    ماحصل (Conclusion)

مذکورہ بالا تحقیقی نتائج سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انڈر گریجویٹ طلبہ و طالبات میں معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رویّوں میں اہم فرق پایا جاتا ہے۔ یہ فرق سماجی و معاشی حیثیت اور سطح جذبۂ اُمنگ کی بنیاد پر ہے اور اس سے یہ نتائج ظاہر ہوتے ہیں کہ اعلیٰ سماجی و معاشی حیثیت اور ادنیٰ سماجی و معاشی حیثیت کے حوالے سے انڈر گریجویٹ طلبہ میں معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رویّوں میں کوئی اہم فرق نہیں ہے۔ اور یہ بھی تحقیق کی گئی کے ادنیٰ سماجی و معاشی حیثیت اور اعلیٰ و ادنیٰ سطح جذبۂ اُمنگ کے حوالے سے انڈر گریجویٹ کے طلبہ و طالبات میں معلوماتی تکنالوجی کے تئیں رویّوں میں اہم فرق نہیں ہے۔

5.2 تجاویز (Suggestions)

جس وقت سے تکنالوجی نے روایتی انداز پر برتری حاصل کر لی، اس وقت سے انسانی ترقی نے تعلیم اور معلومات کی ترسیل کو بڑھایا اس وقت سے معلومات اور مہارتوں کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہچانے میں تکنالوجی نے اہم رول ادا کیا۔ تدریسی آلات ریڈیو، ٹیلی ویژن، ٹیپ ریکارڈ، کمپیوٹر اور لسانی تجربہ گاہیں آج کل تدریسی عمل میں عموماً استعمال ہوتے ہیں۔ اور ان سب آلات کا استعمال انسانی علوم کی تمام سطحوں پر اطلاعاتی تکنالوجی کو ایک نئے نظریے کی حیثیت سے جانچا جاتا ہے۔

معلومات کی ذخیرہ اندوزی تبادلہ اور بہتری یہ طریقے تدریسی عمل میں مقام بن اچکے ہیں۔ معلوماتی تکنالوجی تدریس و اکتساب کے عمل میں معاون ہے اور تعلیم کو بامقصد بنانے میں اہم رول ادا کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ اکتساب ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے اکتساب اور قوتِ ماسکہ میں اضافہ ہوا ہے۔

متعلمین کے تدریس و اکتساب کے عمل میں مؤثریت اور مناسبت آئی ہے۔ جیسے طے شدہ تعلیمی پروگرام، تدریسی نمونے، مختلف تدریسی معلومات وغیرہ، تمام اکتسابی موضوعات کو درس وتدریس کے قابل بنا دیتی ہے۔ اس سے خانگی طلبہ کو تعلیم کے حصول کا راستہ فراہم کرتی ہے۔ جیسے ( ریڈیو، اور ٹیلی ویژن) استاد کے رویّوں کامیکانزم اچھے اساتذہ پیدا کرتا ہے۔ اس سے تعلیمی ڈھانچہ اور تدریسی خصوصیات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، تدریسی نمونوں کے فروغ کے ذریعہ مختلف تعلیمی مقاصد کی تکمیل کی جا سکتی ہے۔ اس کے ذریعہ سائنٹفک تعلیم اور نظریات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

گزشتہ پچاس سالوں سے تکنالوجی میں غیر معمولی ترقی ہوئی ہے۔ پہلے الکٹرانک کمپیوٹر کی ایجاد، فروری 1947ء میں ہوئی اور ٹراسپیرنٹ کی ایجاد 1946ء میں ہوئی۔ اسی دوران ’’ سِلیکان‘‘ (Silicon) کمپنی نے سیمی کنڈکٹر مٹریل کو سامنے لایا (Semi Conductor Material)۔ آج کل ہم سوپر کمپیوٹرس کے دور میں ہیں جس کے ذریعہ ہم انسانی دماغ کے کام لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور تیزی کے ساتھ معلومات جمع کرنے کا عمل اور بڑے پیمانے پر یادداشت میں ذخیرہ اندوزی کی گنجائش، وغیرہ نے اطلاعاتی تکنالوجی کی ایجادات سے تعلیم کو کافی فائدہ پہنچایا ہے۔

در حقیقت پچھلی نصف صدی کو ہم تاریخ میں معلومات کے دور سے موسوم کرتے ہیں

کمپیوٹر کے میدان میں فروغ و ترسیل وغیرہ نے معلومات کی فراہمی کو انگلیوں کے اشارہ پر کر دیا ہے۔ ایک مکمل انسائیکلوپیڈیا آج ڈسک پر دستیاب ہے۔ جن کے ذریعہ تیزی کے ساتھ معلومات کی بازیافت ممکن ہے۔ در حقیقت اس نے ضخیم کتابوں کی جگہ لے لی ہے۔ ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ معلوماتی تکنالوجی تعلیم کو نکھارنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ زندگی کے ہر شعبہ پر معلوماتی عمل کا اثر ہوا ہے۔ اور اس کے ذریعہ کئی مواقع فراہم ہوئے ہیں۔

ضرورت اور سماجی تقاضوں نے مختلف تکنالوجیوں کو اپنانے، اور جانچ پٹرتال کرنے میں تعاون کیا ہے۔ کسی معاشرہ کی جانب سے فروغ دی گئی تکنالوجی کو دوسرے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کامیابی سے استعمال کر سکتے ہیں۔ ملک کی ضرورتوں کو ترجیحی بنیادوں پر درجہ بندی کرنا چاہئے تب ہم کوئی مناسب تجویز پیش کر سکتے ہیں۔ تکنالوجی کے استعمال پر اس وقت غور کیا جا سکتا ہے جبکہ اس کا تعلق مناسب ڈھنگ سے مسائل کا حل تلاش کرنے اور پیداور اور کار کردگی میں اضافہ اور معیارِ زندگی کو بہتربنانے میں معاون ثابت ہو۔

بصورتِ دیگر معاشرہ اور تکنالوجی کے درمیان ثمر آور رشتہ قائم نہیں ہو سکتا۔ عصر حاضر میں ہم ایک ایسے معاشرہ میں رہتے ہیں جس کا انحصار معلومات کی بنیاد پر ہے۔ نہ کہ تکنالوجی صنعت پر۔ معلومات کا تیزی سے غلبہ، کمپیوٹر اور ترسیلی تکنالوجی کے فروغ کی طفیل ہے۔ تکنالوجی سے معاشرہ کو کافی منفعت اور غیر معمولی فروغ حاصل ہوا ہے۔

1۔                         ٹکنالوجیکل طریقے خواندگی کے خاتمہ میں مختلف مقاصد کے لئے استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ مثلاً بنیادی تعلیم صحت اور مستقبل کے ارتقائی پروگراموں اور کاوشوں کے لئے معلومات کی نشرواشاعت وغیرہ کے لئے یہ ٹکنالوجیکل طریقے تقویت فراہم کرتے ہیں۔ اور طلبہ ان کو ترسیل کے لئے بہت زیادہ استعمال کر سکتے ہیں۔ معلومات کو سماج تک پہچانے ٹی۔ وی، ٹیلیفون، کمپیوٹر، اور سمعی بصری کیاسٹس بھی استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ بالخصوص یہ سب الآت تعلیمی میدان میں مفید ہو سکتے ہیں۔

2۔                         معلوماتی تکنالوجی کے ارتقاء اور انکشافات کی وجہ سے تصورِّ تعلیم یکسر بدل چکا ہے۔ ریڈیو، ٹی۔ وی، کمپیوٹر، اور سمعی بصری کیاسٹس بھی تدریسی مقاصد کے لئے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ یہ تکنالوجی انڈر گریجویٹ سطح کے متعدد کورسس کی منصوبہ سازی، تیاری اور تنظیم میں بھی استعمال کی جا سکتی ہے

3۔                         طلباء کے لئے تدریس و اکتساب کو مزید مؤثر بنانے کے لئے طبع شدہ مواد، ریڈیو، ٹی۔ وی نشریات، سمعی بصری کیاسٹس، کمپیوٹرس، بصری ڈسک کو بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بطورِ نتیجہ تکنالوجی کا مناسب استعمال تعلیمی مقاصد کے لیے ہو اور طلباء کے لیے اسے اچھے ڈھنگ سے پیش کیا جائے۔ جس سے طلباء پر مثبت اثر مرتب ہو سکے۔

4۔                         تکنالوجی کے مؤثر استعمال کے لیے مناسب تربیت ضروری ہے۔ تکنالوجی کے مناسب استعمال کے لئے متعدد مہارتوں کا حصول بھی ضروری ہے۔ جس کی اساتذہ کو تربیت دینی ضروری ہے۔

5۔                         سماج اور ترسیلی تکنالوجی کا باہمی تعلق بھی ایک اہم موضوع ہے۔ ترسیلی تکنالوجی کا آغاز وارتقاء اور فروغ واستعمال سماج میں ہوتا ہے اور عوامی ضروریات اور سماج کے کردار کا انحصار اس بات پر منحصر ہے کہ وہ کس قسم کی تکنالوجی کو متعین کرتے ہیں۔ جو ترسیلی مقاصد کے فروغ کے لیے ضروری ہیں۔ حالیہ برسوں میں تکنالوجی کی شاندار ترقی نے بین قومی روابط میں حائل روکاوٹوں کو ختم کر دیا ہے۔ اور ان کے درمیان جدید اقسام کے روابط بڑھ رہے ہیں۔ اورتکنالوجی کا استعمال اب پہلے سے زیادہ آسان ہو چکا ہے۔ اور ترقی پذیر ممالک متعدد کورسس میں تکنالوجی کے اس ماحول سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔ تکنالوجی سے استفادہ کے لئے محتاط منصوبہ بندی اور مشق ضروری ہے۔

6۔                         آئندہ تعلیمی نظام میں ہر طالب علم کی مجموعی صلاحیت کو نکھارنے کی ضرورت ہے نہ کہ صرف ذہین طلبہ کی۔

7۔                         تعلیمی پروگرام کو مؤثر بنانے کا مطلب صرف طلبہ کو معلوماتی تکنالوجی سے واقف کرانا نہیں بلکہ ان کی تعلیمی سرگرمیوں کو بہتر اور فعال بنانا ہے۔ مذکورہ تمام ضروریات کے لئے اربابِ جامعہ کو مالیہ فراہم کرنا ہو گا۔ اور اساتذہ کو وقت صرف کرناہو گا۔

5.3    مزید تحقیقات کے لئے تجاویز (Suggestions for Further Researches)

ہمارا یہ مطالعہ اس میدان میں ایک گراں قدر کوشش ہے۔ ہمارے اس مطالعہ کے تحقیقی نتائج مزید تحقیق کے لئے راہیں ہموار کریں گی۔ یہ بھی سچ ہے کہ ایک مسئلہ کے حل سے دوسرا مسئلہ ابھرتا ہے۔ اور ہم یہ جانتے ہیں کہ سلسلہ وار عالمی تبدیلی کے نتائج میں کوئی بھی تحقیق مکمل یا آخری تحقیق نہیں ہوتی۔ اس لئے ہر میدان مسلسل تحقیقی مطالعہ کا متقاضی ہے۔ اس لئے آئندہ محققین اس میدان میں اور بھی زیادہ مناسب تحقیق کر سکتے ہیں مثلاً ۔

1۔                         معلوماتی تکنالوجی کی بنا پر طلبہ کی ذہانت اور سماجی و معاشی حیثیت کے لحاظ سے ان کی لکھائی پڑھائی کی مہارت پر مرتب ہونے والا اثر۔

2۔                         انٹرمیڈیٹ کے طلبہ و طالبات کی پیشہ ورانہ دلچسپی ایک تقابلی مطالعہ

3۔                         کلاس میں ’’دستی ہدایتی نظم کا طریقہ‘‘Manual Instruction Management Systemاور کمپیوٹر کا تقابلی تجزیہ۔

4۔                         پروگرام کے مطابق روایتی اور موضوعی اکتسابی مواد کا انٹر میڈیٹ تعلیم کے لئے بروقت تقابلی مطالعہ

5۔                         پروگرام کے مطابق اکتسابی مواد اور بالغ افراد کو زبان کی تدریس کے روایتی طریقوں کا تقابلی مطالعہ۔

6۔                         ہائی اسکول کے طلبہ کے لئے ماحولیاتی سائنس کی تدریس میں روایتی اور پروگرام کے مطابق منظور شدہ اکتسابی مواد کا تقابلی مطالعہ۔

7۔                         پروگرام کے متن کے مطابق دی گئی ماحولیاتی تعلیم کے فارغ التحصیل طلبہ کی جانچ کا تقابلی مطالعہ۔

8۔                         جونئر جماعتوں کو ماحولیاتی سائنس کے پروگرام کے مطابق متن کی تدریس و اکتساب کے صورتِ حال کا تجرباتی تقابلی مطالعہ۔

9۔                         صحت سے متعلقہ پروگرام کے مطابق اکتسابی مواد کے فروغ میں ذرائع ابلاغ کا استعمال

10۔             سماجی و معاشی حیثیت کے لحاظ سے یونیورسٹی طلباء و طالبات پرمعلوماتی تکنالوجی کا ان کے مطالعہ کی عادتوں پر اثرات کا تقابلی مطالعہ۔

11۔             سماجی و معاشی حیثیت کے لحاظ سے یونیورسٹی طلباء پر خالی اوقات کی سرگرمیوں پرمعلوماتی تکنالوجی کے اثرات۔

12۔             بالغ بے روزگاروں کے مستقبل میں انفرادی کامیابی کے لئے ضامن عناصر کی دریافت اور تکنالوجی کی مزید تربیت۔

13۔             Micro – Computerخرد کمپیوٹر پر جانچ کے معیارات کا معتبر نظام قائم کرنا۔

14۔             کمپیوٹر پروگرام تعلیم کے لئے جانچ کے کتابچہ کی تیاری وفروغ۔

15۔             ریاست اترپردیش میں منتخبہ فوقانیہ اسکولوں میں خرد کمپیوٹر کے مؤثر استعمال کی وجوہات کا مطالعہ۔

16۔             کمرۂ جماعت میں کمپیوٹر اور روایتی تعلیمی طریقوں کے انتظام کا تقابل۔

17۔             ذرائع ابلاغ کے ذریعہ پڑھنے اور تدریس سے استفادہ کے درمیان تعلق۔

٭٭

حوالہ جات

  1. Aerospace: Education Foundation of Technology and Innovation in Education.
  2. Bern, H.A and Wanted: Educational Engineers phi Delta Kappan, January 1967.
  3. Bhushan Anand and Mahinder A: Educational Technology. Theory and practice in teaching learning process, Meerut, vivek publication, 1992.
  4. Cave, john: Technology in School London, Routledge, 1986.
  5. Cleary Alanand others: Educational Technology implication for early and special education-London, 1976.
  6. Dececco. John. P.: Educational Technology reading in program instruction, New York, 1964.
  7. Mehta P.K. and Sharaa, A.: India copping with the challenges of Global Technology order November, 2000.
  8. Year 2000 Assessment, Education for All: India Ministry of Human Resource Development, Government of India.
  9. Journal of Educational Technology: Vol.11, No.4 July 1999, All India Association for Educational Technology.
  10. Journal of Educational Technology: Vol.12, No.4, July 2000. All India Association for Education Technology.
  11. Journal of Educational Technology: vol. II, No.2, January 1999, All India Association for Education Technology.

٭٭٭

تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبی

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل