ترقی کا اسلامی تصور
ڈاکٹر سعید الرحمن
Abstract
Islam is a progressive religion: progress in both spiritual and material aspects of life is part and parcel of the spirit of Islam. Islam favours material development and progress and discourages asceticism. Asceticism, in fact, is against the spirit of Islam. Koran quotes examples of the participation of prophets in material progress: Noah founded marine industry and Solomon played a positive role in the arts of architecture and ceramics.
دین اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ ایک کامل دین ہے، کمال کا لفظ اپنے اندر ترقی یافتہ ہونے کی معنویت رکھتا ہے اور اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ دین حق نے حیات انسانی کے تمام گوشوں کے لئے بنیادی خطوط ہدایت واضح کر دئیے ہیں ، اس لئے دین اسلام بجا طور پر واحد جامع رہنمائے حیات قرار پاتا ہے جس کے اصول و مقاصد کی روشنی میں ماضی میں عصری قواعد و ضوابط مرتب کئے جاتے رہے اور اب بھی وہ دنیا کے مروجہ قوانین کے مقابلہ میں زیادہ بہتر اور مفید قوانین کی صلاحیت سے مالامال ہے، یہی اس کے کمال اور ترقی یافتہ ہونے کا ثبوت ہے۔ دین اسلام کا یہ امتیاز محض اس کے عقیدت مندوں کے قلوب و اذہان میں نہیں بلکہ دیگر حلقوں میں بھی تسلیم شدہ ہے، چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ایک مرتبہ ایک یہودی عالم کہنے لگے کہ امیر المؤمنین! آپ کی کتاب (قرآن حکیم) میں ایک آیت ہے جس کو آپ حضرات پڑھتے ہیں ، اگر وہ ہم گروہ یہود پر نازل ہوتی تو ہم اس دن (یوم نزول) کو عید کا دن قرار دے دیتے، حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے دریافت کیا کونسی آیت؟ تو انہوں نے آیت پڑھی:
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا(۱)
یہ آیت مبارکہ دین اسلام کے مکمل کئے جانے، نعمت خداوندی کے تمام کئے جانے اور اسلام کے بطور دین پسند کئے جانے کا اعلان خداوندی ہے، جس سے گزشتہ امتوں میں سے کسی کو بھی سرفراز نہیں کیا گیا، حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے وضاحت فرمائی کہ ہمیں وہ دن اور مقام بخوبی معلوم ہے جہاں یہ آیت رسول اﷲ ﷺ پر نازل ہوئی تھی کہ آپ میدان عرفات میں جمعہ کے روز ۹/ذی الحجہ کو خطبہ دینے کے لئے کھڑے تھے (۲) گویا یہ دن یوم حج ہونے کے ناطے ایک بین الاقوامی یادگار بن چکا ہے۔
دین اسلام نے انسانی زندگی کے آغاز و انجام کو اس طرح مربوط کر دیا ہے کہ کسی بھی مرحلہ پر تضاد یا خلا کا احساس نہیں ہوتا اس نے ایک طرف انسانی حیات کے ماضی ومستقبل کو آپس میں جوڑا ہے تو دوسری طرف اس کے مادی پہلو کو اس کے روحانی پہلو سے منسلک کیا ہے، یوں اس کے نزدیک ’’قانون ربط‘‘ کی اساس پر انسانی زندگی استوار ہے جبکہ دنیا کے مروجہ مذاہب و نظریات میں انسانی زندگی بہت سے خانوں میں بٹی ہوئی نظر آتی ہے، اس طرح ان کے ہاں ترقی کا تصور محدود اور یک طرفہ ہے، چنانچہ کسی کے ہاں ماضی کا تصور ہی بھیانک ہے لہذا ترقی کے حوالہ سے ماضی کے تجربات سے استفادہ کی کوئی گنجائش نہیں ، کسی کے خیال میں مستقبل کا تصور تباہی و زوال کی علامت ہے اس لئے ماضی کو اپنی تمام ترفرسودگی سمیت سینے سے لگائے رکھنا ہی ترقی کی نشانی ہے، کسی کی فکر میں مادی زندگی بے کار اور بے اعتنائی کے قابل ہے یوں روحانی اسرارورموزہی ترقی کا نشان ہیں اور کسی کے نظریہ میں روحانیت ، توہماتی سوچ کا نتیجہ ہے گویا ان کی نظر میں مادیات سے ہٹ کر سوچنا ہی رجعت پسندی کا آئینہ دار ہے، ایسے میں جب ترقی کے اسلامی تصور پر غور کیا جائے تو وہ اپنے اندر جامعیت اور کمال کی شان رکھتا ہے کہ اس نے حیات انسانی کی ہر پہلو سے ترقی کو مد نظر رکھا ہے لہذا اگر اس کے کسی پہلو کو بھی نظر انداز کر دیا جائے تو یہ کمال دین کے منافی ہو گا، جیسا کہ امام بخاریؒ مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں کہتے ہیں (۳)
فاذاترک شیئا من الکمال فہو ناقص۔
ترجمہ:- جب کمال میں سے کوئی چیز رہ جائے تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔
ترقی کے جامع تصور کی نمائندگی، اﷲ تعالیٰ کے صفات میں سے صفت ’’ربوبیت‘‘ کرتی ہے، ربوبیت، کسی چیز کو اس کے نقطہ آغاز سے تکمیل تک پہنچانے کے عمل کو کہا جاتا ہے جو بذات خود ترقی کے مفہوم کے مترادف ہے لہذا ’’رب الناس‘‘ کا عام فہم معنی، افراد انسانیت کو شاہراہ ترقی پر گامزن کرنے والا اور ان میں آگے بڑھنے کی صلاحیتوں کو جلا دینے والا ہے، اور یہ ترقی ہمہ جہتی ہے مادی بھی اور روحانی بھی، دنیوی بھی اور اخروی بھی، لہذا انسانی زندگی کے کسی رخ سے ترقی کا انکار، اﷲ کی صفت ربوبیت کی جامعیت کا انکار ہو گا، اسلام کے حوالہ سے روحانی ترقی کی فکر تو تقریباً مسلم ہے لیکن مادی ترقی کی اہمیت کے بارے میں اشکال پایا جاتا ہے اس لئے مادی ترقی کے بارے میں قرآن حکیم کے نقطۂ نظر کا مطالعہ کیا جانا چاہیے۔
چنانچہ یہ حقیقت ہے اﷲ تعالیٰ نے انسانی ترقی کو بہترین لائحہ عمل کے طور پر تسخیر کائنات سے مربوط کیا ہے، اور قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر اس کی تذکیر و یاد دہانی کرائی گئی ہے، مثلاً ارشاد خداوندی ہے:۔
الم تروا ان اﷲ سخر لکم مافی السموات ومافی الارض واسبغ علیکم نعمہ ظاہرۃوباطنۃ (۴)
ترجمہ:-کیا تم نہیں دیکھتے کہ بلا شبہ اﷲ نے تمہارے لئے وہ تمام چیزیں مسخر کر دیں ،جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور تم پر اپنی ظاہری و باطنی نعمتیں مکمل کر دیں ۔
آیت مبارکہ میں آسمان و زمین میں موجود مادی اشیاء کو انسان کے لئے مسخر کرنے پر غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے کہ انسان ان اشیاء سے حسب منشا کام لینے اور ان کے ذریعہ ایجادات کی صلاحیت سے مالامال ہے جس سے انسانی معاشرے میں مادی ترقی کو فروغ حاصل ہوتا ہے، اگر ترقی کا مادی تصور، منفیت کا حامل ہوتا تو اس سے تسخیر کائنات کی افادیت ختم ہو کر رہ جاتی نیز تسخیر اشیاء کے ساتھ انسان پر مکمل کی جانے والی ظاہری وباطنی نعمتوں کا ذکر اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ مادی ترقی بھی اسی طرح کی نعمت خداوندی ہے جیسے روحانی ترقی، ان دونوں میں سے کسی ایک کا انکار کفران نعمت کے مترادف ہو گا جو بموجب نص قرآنی عذاب شدید (۵) یعنی دنیوی پستی وپسماندگی، غلامی و درماندگی اور اخروی سزا کا موجب ہے۔
اسلام نے مادی تصور ترقی کے منافی رویہ کو رہبانیت کے عنوان کے تحت اپنے لئے اجنبی قرار دیا ہے اور اس کی حوصلہ شکنی کی ہے،نہ صرف یہ بلکہ قرآن حکیم نے متعدد مقامات پر مادی انعامات کا مفصل ذکر کر کے ان کو افراد انسانیت اور ان کے مویشیوں کے لئے ’’متاع‘‘ قرار دیا ہے۔ مثلاً سورۃ النازعات اور سورہ عبس میں اس کی نشاندہی کی گئی ہے، مزید برآں قرآن حکیم میں انسانوں کے لئے مویشیوں اور جانوروں کی افادیت کو ایک مقام پر یوں بیان کیا گیا ہے:۔
والا نعام خلقہا لکم فیھادفء ومنافع ومنھا تأکلون o ولکم فیھا جمال حین تریحون وحین تسرحون o وتحمل اثقالکم الی بلدلم تکونوا بالغیہ الابشق الانفس ان ربکم لرء وف رحیم o والخیل والبغال والحمیر لترکبوھا وزینۃ ویخلق مالا تعلمون o (۶)
ترجمہ :-اﷲ تعالیٰ نے مویشی پیدا کئے جن میں تمہارے لئے سردی سے بچاؤ کا سامان ہے اور(بھی) بہت سے فائدے ہیں اور ان میں سے(ان کا گوشت) کھاتے بھی ہو اور تمہارے لئے ان میں خوبصورتی(کا پہلو بھی) ہے جب شام کو انہیں چرا کر لاتے ہو اور جب چرانے لے جاتے ہو اور وہ تمہارے بوجھ اٹھا کر ان شہروں تک لے جاتے ہیں جہاں تم جان کو مشقت میں ڈالے بغیر نہیں پہنچ سکتے تھے، بلاشبہ تمہارا رب بہت شفقت کرنے والا نہایت رحم والا ہے اور اس نے گھوڑے، خچر اور گدھے(جیسے جانور) پیدا کئے تاکہ تم ان پر سوار ہوسکو اور زینت (حاصل کرو) اور وہ ایسی چیزیں پیدا کریگا جو تم نہیں جانتے)- (گویا مستقبل کی مادی ترقیات کی وسعت کی طرف اشارہ ہے)
ایک اور مقام پر انسانی ضروریات وآسائشات کے حوالہ سے انعامات کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے:۔
واﷲ جعل لکم من بیوتکم سکنا وجعل لکم من جلود الانعام بیوتا تستخفونہایوم ظعنکم ویوم اقامتکم ومن اصوافہا واوبارھا واشعارہا اثاثاومتاعا الی حین o واﷲ جعل لکم مما خلق ظلالا وجعل لکم من الجبال اکنانا وجعل لکم سرابیل تقیکم الحروسرابیل تقیکم بأسکم، کذلک یتم نعمتہ علیکم لعلکم تسلمون o (۷)
ترجمہ :-اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لئے تمہارے گھروں کو آرام وسکون کی جگہ بنایا اور تمہارے لئے چوپایوں کی کھالوں سے خیمے بنا دئیے جو سفر و حضر میں تم پر ہلکے رہتے ہیں اور بھیڑوں کی اون سے، اونٹوں کی روؤں سے اور بکریوں کے بالوں سے کتنے ہی سامان اور استعمال کی اشیاء مقررہ مدت تک کے لئے بنا دیں اور اﷲ نے تمہارے لئے اپنی پیدا کردہ چیزوں میں سے سائبان اور اور تمہارے لئے پہاڑوں میں پناہ گاہیں بنا دیں اور تمہارے لئے ایسی قمیصیں بنائیں جو تمہیں گرمی سے بچاتی ہیں اور ایسی زرہیں جو تمہیں جنگ میں بچاتی ہیں ، اسی طرح وہ اپنی نعمت تم پر تمام کرتا ہے تاکہ فرمانبردار بنو)
ان آیات میں اﷲ تعالیٰ کی ایسی نعمتوں کا ذکر ہے جن کو انسان خام مواد سے تشکیل و ترتیب دیتا ہے اور ان سے استفادہ کے لئے انسان کو اپنی عقل، مادی محنت اور تکنیکی مہارت کو کام میں لانا پڑتا ہے، گویا نعمت خداوندی سے بہتر استفادہ کے لئے مادی جدوجہد ناگزیر قرار پاتی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ مادی ترقی نے ان نعمتوں کی معنویت اور گہرائی و گیرائی میں اضافہ کر دیا ہے، یوں ان نعمتوں کی یاددہانی کے پس منظر میں مادی ترقی کے لئے جدوجہد کی اہمیت بھی اجاگر ہوتی ہے، جبکہ مادی ترقی کے انکار کی صورت میں یہ آیات اپنی افادیت کھو بیٹھتی ہیں ۔
قرآن حکیم نے تکریم انسانیت کے اعزاز و فضیلت کے ساتھ جن امتیازی پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی ہے، وہ مادی ترقی سے ہی تعلق رکھتے ہیں یعنی سمندروخشکی پر آمدورفت کا سفری اور بار برداری کا نظام، پاکیزہ اشیاء، کی فراہمی اور تخلیقات خداوندی کی اکثریت پر برتری اور فوقیت (۸) چنانچہ انسان نے مادی ترقی کے ذریعہ حمل و نقل کے ذرائع میں جدت پیدا کر لی ہے ،وہ زمین کے خزانوں سے بہتر طور پر استفادہ کر رہا ہے، اور اس نے نہ صرف بحری و بری برتری قائم کر لی ہے بلکہ فضا و خلا سے بھی متنوع فوائد حاصل کر رہا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے افراد انسانیت کے لئے بحری تسخیر کے انعام کا ذکر کرتے ہوئے اس کے تین مقاصد متعین کئے ہیں چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:۔
اﷲ الذی سخرلکم البحر لتجری الفلک فیہ بأمرہ ولتبتغوا من فضلہ ولعلکم تشکرون o (۹)
ترجمہ:- اﷲ ہی کی ذات ہے جس نے تمہارے لئے سمندر کو مسخر کیا تاکہ اسمیں جہاز اس کے حکم سے چلیں اور تم اس کے فضل (رزق) کو تلاش کر سکو اور تاکہ تم شکر ادا کرو۔
ان میں شکر گزاری کے علاوہ دیگر دو مقاصد کا تعلق اس کی مادی ترقی سے ہے کہ انسان نے جہاز رانی کی صنعت ایجاد کی اور اسمیں بہتر سے بہترین کی تلاش میں رہا نیز اس جہاز رانی اور کشتی رانی سے اس نے فضل خداوندی کے نئے وسائل تلاش کئے۔ واضح رہے کہ قرآن حکیم نے بالعموم فضل کا ذکر مادی اسباب حیات کے حوالہ سے ہی کیا ہے ، مثلاً!
لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم (۱۰)
ترجمہ:-( تم پر سفر حج کے دوران اپنے رب کے عطا کردہ وسائل رزق کی تلاش میں کوئی حرج نہیں ) گویا خالص روحانی سفر تک میں اگر مناسب حد تک مادی ضروریات کی تکمیل کو بھی پیش نظر رکھ لیا جائے تو اس سے حج کے ذریعہ حاصل ہونے والی روحانی ترقی متاثر نہیں ہوتی، اسی طرح ایک اور آیت مبارکہ (۱۱) میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد زمین میں پھیلنے اور وسائل رزق تلاش کرنے کی طرف ’’ابتغاء فضل‘‘ کے عنوان سے متوجہ کیا گیا کہ جمعۃ المبارک کے دن کی روحانی اہمیت کے باوجود اس روز سوائے اذان جمعہ، خطبہ جمعہ اور نماز جمعہ کے مختصر وقفہ کے کسی قسم کے مادی و معاشی سرگرمی میں کوئی رکاوٹ نہیں ۔
بسااوقات مادی ترقی کے لئے جدوجہد کی یہ کہہ کر نفی کی جاتی ہے کہ ہر جاندار کا رزق اﷲ تعالیٰ کے ذمہ ہے، لہذا اس کے لئے کسی جدوجہد کی ضرورت نہیں بلکہ انسان کو صرف مخصوص اعمال و عبادت میں اپنے اوقات صرف کرنے چاہئیں مگر یہ موقف انتہائی سطحی درجہ کا ہے کیونکہ رزق بذمہ خدا ہونے کا واضح مفہوم یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس دنیا میں اسباب حیات پیدا کئے ہیں اور ان وسائل رزق میں سب کا حصہ مقرر کیا ہے، جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:۔
ھو الذی خلق لکم مافی الارض جمیعا(۱۲)
ترجمہ:- وہی ذات ہے جس نے تمہارے لئے وہ تمام چیزیں پیدا کیں جو زمین میں ہیں ۔
نیز فرمایا:۔
ولقد مکناکم فی الارض وجعلنا لکم فیہا معایش (۱۳)
ترجمہ:- اور یقیناً ہم نے تم کو زمین میں قرار دیا اور تمہارے لئے اسمیں سامانِ زندگی رکھ دئیے۔
جبکہ ان وسائل تک رسائی اور مزید اسباب حیات کی تلاش، ان سے زیادہ سے زیادہ اور بہتر استفادہ کی حکمت عملی ترتیب دینا تو انسان کے ذمہ ہے جیسے بہترین بیج و عمدہ کھاد کی تیاری، زرعی و صنعتی آلات کی فراہمی، جدید ٹیکنالوجی اپنانا وغیرہ، اسی بنا پر قرآن حکیم نے رزق خداوندی کی جستجو اور جدوجہد کا یہ کہہ کر حکم دیا ہے:۔
فابتغوا عنداﷲ الرزق (۱۴)
ترجمہ:- اﷲ تعالیٰ کے ہاں رزق تلاش کرو۔
نہ صرف یہ بلکہ ایک حدیث مبارک میں تو بعض گناہوں کا کفارہ طلب معیشت کی فکر اور اس کی جدوجہد میں مضمر قرار دیا ہے، (۱۵)گویا انسان کے لئے دینی نقطۂ نظر سے مادی ترقی سے صرف نظر کرنے کی کوئی سبیل نہیں کہ ایسی صورت میں وہ دنیا میں اپنے مقصد تخلیق سے انحراف اور اس کو پامال کرنے کا مرتکب قرار پائے گا، کیونکہ انسان اول کو جب اﷲ تعالیٰ نے خلافت ارضی کے منصب پر فائز کیا تو اس کی اہلیت کے لئے ’’علم الاسمائ‘‘ضروری قرار پایا جس میں مادی اشیاء کی خصوصیات، صنعت و ٹیکنالوجی کے قوانین اور آلات کار سے متعلقہ علوم شامل تھے (۱۶)کیونکہ اس علم کے بغیر دنیا میں غلبہ اور ترقی ممکن نہیں گویا مادی اشیاء پر تحقیق اور ان کے خام مواد سے ایجادات و اکتشافات کا عمل خلافت کا تقاضہ ہے اسی بنا پر قرآنی حکم ہے:۔
واعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل ترھبون بہ عدواﷲ وعدوکم (۱۷)
ترجمہ:- اور ان (دشمن) کے مقابلہ کے لئے جتنی طاقت حاصل ہوسکے اور بندھے ہوئے گھوڑوں کی تیاری کرو کہ اس سے تم اﷲ کے دشمن اور اپنے دشمن کو مرعوب کر سکو۔
گویا اہل ایمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقدور بھر قوت حاصل کریں تاکہ ایمانی معاشرہ کا رعب و دبدبہ خدا دشمن اور انسان دشمن معاشروں پر قائم ہوسکے یہ قوت جہاں عسکری شعبہ میں ضروری ہے جیسا کہ آیت مبارکہ کی عبارت کا تقاضہ ہے، وہیں اس سے اس بابت دلالت اور رہنمائی ملتی ہے کہ ہر دور کے عصری تقاضہ کے مطابق ومناسب طاقت کا حصول ضروری ہے خواہ صنعتی و زرعی ٹیکنالوجی ہویا تعلیمی، سماجی، معاشی و ایٹمی توانائی کی صلاحیت ہو کہ اس کے حصول سے معاشرہ کا اعتبار اور وقار قائم ہوتا ہے۔ کیونکہ فی زمانہ محض جنگی قوت کسی بھی ملک کے استحکام کی ضمانت نہیں جب تک کہ اس کی صنعتی و زرعی ٹیکنالوجیکل حیثیت مسلّم نہ ہو چنانچہ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ایٹمی قوت ہونے کے باوجود کثیر القومی کمپنیوں ، بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور عالمی بنکوں و حکومتوں کے دباؤ اور بلیک میلنگ کا شکار رہتا ہے کہ اس کی معاشی حالت دگرگوں اور تعلیمی صورتحال غیر تسلی بخش ہے، لہذا ضروری ہے کہ حصول قوت کے عصری تقاضوں سے آگاہی حاصل کی جائے اور اس کے مطابق حکمت عملی ترتیب دی جائے اور یہی منشا خداوندی ہے۔
اسی طرح رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے، فاقہ کرنا میرے صحابہ (ساتھیوں ) کے لئے گوسعادت تھا لیکن بعد کے زمانہ میں صاحب ایمان کا غنی ہونا یعنی اس کا دنیوی ترقی میں کردار ادا کرنا سعادت و خوش بختی ہو گا (۱۸)اور مزید آپ کا ارشاد ہے جو معاشرہ دنیوی مال و متاع سے اپنی ضرورت اور حق کے بقدر حاصل کرے گا، وہ اس کے لئے عمدہ سہارا ہو گا اور اس میں اسے برکت ملے گی (۱۹)واضح رہے کہ برکت کا لفظ ترقی کے متنوع جہات کے لئے استعمال ہوتا ہے، ذیل میں ہم چند ایک ایسی آیات کا مطالعہ کرتے ہیں جن میں اﷲ تعالیٰ کے صاحب برکت ہونے کا ذکر مادی حوالہ سے کیا گیا ہے:۔
تبارک الذی جعل فی السماء بروجاوجعل فیھا سراجاوقمرا منیرا٭ وھو الذی جعل الیل والنہار خلفۃ لمن ارادان یذکراوارادشکورا (۲۰)
ترجمہ:- بڑی برکت ہے اس ذات کی جس نے آسمان میں برج (منزلیں ) بنائے اور اسمیں چراغ (سورج) اور اجالا کرنے والا چاند رکھا اور وہی ہے جس نے شب و روز کو ایک دوسرے کے بعد آنے والا بنایا ان لوگوں کے لئے جو یاددہانی حاصل کرنا چاہیں یا شکر گزاری چاہتے ہوں ۔
گویا دنیوی نظام کائنات میں تنوع و ترقی سے استفادہ کی دو صورتیں ہیں ایک غور و فکر اور دوسرا اس سے روزمرہ کے مادی فوائد کا حصول، پہلی صورت میں انسان کو یہ تذکیر اور یاددہانی ہوتی ہے کہ یہ نظام کائنات، ایک حکیم و خبیر ذات کی تخلیق ہے اور یہ کام اہل علم و دانش کا ہے اور دوسری صورت میں انسان شکر گزاری کے جذبات اور قدردانی کے اعمال انجام دیتا ہے اور یہ کام عوام و خواص کا ہے۔
اسی طرح سورۃ الملک کے آغاز کی سات آیات میں اﷲ تعالیٰ نے اپنی ان صفات کی بنا پر اپنے آپ کو بابرکت کو قرار دیا ہے جن کا تعلق اس دنیا کے مادی نظام سے ہے جس میں موت و حیات کا نظام پیدا کرنا تاکہ یہ جا نچا جا سکے کہ کون بہتر کردار ادا کرتا ہے۔ سات آسمانو ں کی تخلیق، مخلوقات میں یکساں کاریگری اور حکمت و بصیرت کا اظہار اور کائنات میں ایک منظم و مرتب قانون کی کارفرمائی شامل ہے۔ گویا کائناتی نظام میں قدرت خداوندی کا اظہار اور اس کا انسانی معاشرہ کے لئے مفید ثابت ہونا، بابرکت ذات کے سبب ہی ہے۔
اسی طرح قرآن حکیم میں انسان کے درجہ بدرجہ تخلیقی ارتقاء کو اﷲ تعالیٰ کے صاحب برکت ہونے کی علامت کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ برکت کا دائرہ کار صرف روحانیت تک محدود نہیں جیسا کہ عمومی تصور پایا جاتا ہے بلکہ اس کا اولین مصداق مادی ارتقاء ہے، ارشاد خداوندی ہے:۔
ولقد خلقنا الانسان من سللۃ من طین o ثم جعلناہ نطفۃ فی قرار مکین o ثم خلقنا النطفۃ علقۃ فخلقناالعلقۃ مضغۃ فخلقنا المضغۃ عظاما فکسونا العظام لحما ثم انشاناہ خلقا آخر فتبارک اﷲ احسن الخالقین o (۲۱)
ترجمہ:-اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا پھر ہم نے اس کو محفوظ مقام (رحم مادر) میں نطفہ کے طور پر رکھا پھر ہم نے اس نطفہ کو جما ہوا خون بنایا پھر اس منجمد خون سے گوشت کا لوتھڑا بنایا، پھر اس لوتھڑے سے ہڈیاں پیدا کیں پھر ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اس کو ایک نئی صورت میں اٹھا کھڑا کیا سو بڑی برکت والا اﷲ ہے جو سب سے بہتر بنانے والا ہے(کہ اس نے نہایت خوبصورتی سے تمام اعضاء و قُویٰ کو بہترین سانچے میں ڈھالا اور اس کی ساخت عین حکمت کے موافق نہایت موزوں ومتناسب بنائی)۔
گویا اسلام کے تصور ترقی میں دنیوی ترقی اور اخروی ترقی کے دونوں پہلو شامل ہیں ، اسی لئے اسلام نے دنیا و آخرت دونوں کی ترقی کے لئے کوشاں معاشرہ کو بہتر قرار دیا ہے (۲۲)اور یہ واضح کر دیا ہے کہ دنیا کو مذموم قرار نہ دیا جائے کہ وہ صاحب ایمان کے لئے بہتر سواری کی مانند ہے کہ اس کے ذریعہ وہ کار خیر انجام دیتا ہے اور اس کی بدولت شر سے نجات حاصل کرتا ہے (۲۳)
مادی ترقی کے لئے جدوجہد سے انکار کا فکر کسی طور صحتمند فکر نہیں بلکہ اس کے برعکس قرآن حکیم مادی ترقی میں مشغولیت کو پیغمبر کے کاموں میں شمار کرتا ہے، چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام کو اس دور کے تقاضے کے مطابق آئندہ پیش آنے والی صورتحال سے نمٹنے کے لئے حکم دیا گیا:۔
واصنع الفلک باعیننا ووحینا (۲۴)
ترجمہ:-ہماری نگرانی اور ہدایت کی روشنی میں جہاز سازی کا کام کریں ۔
اور اس دور میں بھی ایسے افراد موجود تھے جو اس کام کو پیغمبری کے منصب کے منافی سمجھتے تھے، چنانچہ اس پروہ حضرت نوح علیہ السلام کا تمسخر اڑاتے تھے (۲۵) کہ پیغمبر سے بڑھئی بن گئے اور یا تمسخر کا سبب یہ تھا کہ خشکی پر کشتی کا کیا کام گویا انہیں اپنے گرد و پیش اور حالات کے مد و جزر سے واقفیت نہ تھی جس کی وجہ سے وہ پیغمبر کی دوراندیشی اور مستقبل بینی کا مذاق اڑا رہے تھے۔
اسی طرح قرآن حکیم نے حضرت داؤد علیہ السلام کے حوالہ سے اس امر کی نشاندہی کی وہ اپنے عہد کی مادی ترقی کے بھی نقیب تھے چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:۔
وعلمناہ صنعۃ لبوس لکم لتحصنکم من باسکم (۲۶)
ترجمہ:-ہم نے انہیں جنگی لباس کی ٹیکنالوجی کا علم دیا تاکہ وہ تمہاری، باہمی لڑائی میں حفاظت کر سکے)
اس کی وضاحت دوسرے مقام پر ان الفاظ کے ساتھ کی گئی ہے:۔
والنّالہ الحدید o ان اعمل سابغات وقدر فی السردواعملوا صالحا انی بماتعملون بصیر o (۲۷)
ترجمہ:-ہم نے ان کے لئے لوہا نرم کر دیا (اور ہدایت دی) کہ فراخ و کشادہ زرہیں تیار کریں اور اس کے حلقے کڑیاں درست انداز سے جوڑیں اور (تم سب)نیک کام کرو، میں تمہارے اعمال کو دیکھنے والا ہوں ۔
بعد ازیں حضرت سلیمان علیہ السلام نے بھی اپنے دور کی ترقی میں بڑا اہم کردار ادا کیا کہ ان کی نگرانی میں قلعے، محلات، مجسمے، تانبے کے بڑے بڑے لگن اور دیگیں تیار ہونے لگیں (۲۸) یعنی تعمیرات اور ظروف سازی کی صنعت کو انہوں نے ترقی سے ہمکنار کیا، نہ صرف یہ بلکہ وہ ہوائی سفر میں بھی عالم انسانیت کے پیش رو قرار پائے کہ طیارہ سازی کی صنعت و ٹیکنالوجی نے گو بہت بعد میں فروغ پایا لیکن اس کے عملی امکان کے بارے میں سائنسدانوں کو ایک واضح دلیل راہ مل گئی۔
ترقی کے اسلامی تصور میں اگر مادی ترقی اور دنیوی غلبہ کی گنجائش نہ ہوتی تو قرآن حکیم اہل ایمان سے خلافت ارضی، غلبہ دین اور پر امن معاشرے کے قیام کا وعدہ نہ کرتا اور محض اخروی ترقی کی نوید و بشارت پر اکتفاء کرتا، ارشاد ربانی ہے:۔
وعداﷲ الذین آمنوا وعملوا الصالحات لیستخلفنہم فی الارض کما استخلف الذین من قبلہم ولیمکنن لہم دینہم الذی ارتضی لہم ولیبد لنہم من بعد خوفہم امنا (۲۹)
ترجمہ:- اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور عمل صالح انجام دئیے وعدہ کیا ہے کہ وہ وہ ضرور ان کو زمین میں خلافت دے گا، جیسے اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلافت دی اور ان کے اس دین کو قرار دے گا جو اس نے ان کے لئے پسند کر لیا اور ان کی خوف کی حالت کے بعد انہیں امن کی حالت میں تبدیل کر دے گا۔
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں جن اعزازات و انعامات کا ذکر ہے وہ مادی و روحانی ترقی ہی کے مظاہر ہیں ، اور یہی جامع تصور ترقی، انبیاء کرام علیہم السلام کے پیش نظر رہا ہے اور ان کی آمد پسماندہ اقوام کے عروج و ترقی کا باعث بنی، بطور مثال بنی اسرائیل، فرعونی نظام کے ہاتھوں غلامی کی ذلت سے دوچار اور مادی پسماندگی اور روحانی پستی کا شکار تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان میں دنیا میں ترقی کرنے کی امنگ پیدا کی، چنانچہ وہ باغات چشموں ، خزانوں ، کھیتوں ، عمدہ رہائش گاہوں اور سامان آسائش کے وارث قرار پائے (۳۰)
لہذا مادی ترقی سے انحراف کی فکر کسی صورت میں اسلامی فکر نہیں کہلا سکتی، بعض حلقے اس فکر کو صوفیاء کی طرف نسبت دے کر ایک طرف اپنے لئے محنت سے جی چرانے کو سندجواز مہیا کرتے ہیں تو دوسری طرف صوفیاء کو مادی ترقی کے راستہ کی رکاوٹ قرار دینے کا موجب بنتے ہیں ، حالانکہ صوفیاء نے مفاد پرستی، خود غرضی، تعیش پسندی اور حرص وہوس کی تو مذمت کی ہے، مگر مادی ترقی کی بذات خود نفی نہیں کی، بلکہ با شعور صوفیاء نے تواس سلسلہ میں حوصلہ افزاء رویہ اختیار کیا ہے، چنانچہ زرعی دور کے ایک معروف صوفی بزرگ شیخ ابو المکارم علاء الدین سمنانی رحمۃ اﷲ علیہ، اپنے عہد میں زرعی ترقی کے لئے کاوشوں کی اہمیت کو نہ صرف اجاگر کرتے ہیں بلکہ اسمیں کوتاہی کو وہ لائق احتساب گردانتے ہیں وہ کہتے ہیں (۳۱)
’’حق تعالیٰ نے زمین اور کھیت کو حکمت سے پیدا فرمایا اور وہ چاہتا ہے کہ یہ زمین اور کھیت آباد رہیں اور ان سے مخلوق کو نفع پہنچے، اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ نفع و آمدنی کے لئے، فضول خرچی کے لئے نہیں ، دنیا کی آباد کاری میں کتنا ثواب ہے تو ہرگز آباد کاری کے کام نہ چھوڑتے، اسی طرح اگر یہ جانتے کہ آباد کاری کے کام کے چھوڑنے اور زمین کو بیکار پڑا رہنے دینے میں کتنا گناہ ہے تو ہرگز وہ یہ نہ کرتے (مثلاً) کوئی شخص ایسا قطعہ ارضی رکھتا ہے کہ اس سے سالانہ ایک ہزار من غلہ حاصل ہوسکتا ہے مگر اس کی کوتاہی اور بے توجہی سے نو سومن غلہ حاصل ہوا اور اس کی وجہ سے ایک سومن مخلوق تک نہ پہنچ سکاتو اس سے اس کے بقدر باز پرس ہو گی‘‘۔
اسی طرح عہد حاضر کی معروف روحانی شخصیت حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری قدس سرہ کو اس دور کی مادی ترقی کے حوالہ سے مسلمانوں کی پس ماندگی کا بڑا شدت سے احساس تھا، چنانچہ پاکستان کے اہل ثروت کو کارخانے قائم کرنے اور صنعتوں پر اپنا سرمایہ لگانے کی تلقین کرتے رہتے اور ہندوستانی مسلمانوں کو بالخصوص تنسیخ زمینداری کے بعد صنعتوں کو اختیار کرنے اور اپنی اولاد کو کوئی ہنر یا صنعت سکھانے کی بڑی تاکید فرماتے تھے، چنانچہ انہوں نے ایک موقع پر فرمایا (۳۲)
اسلامی نظام خالی باتوں سے قائم نہیں ہوسکتا، اگر دنیا کے بڑے ملکوں کے دوش بدوش کھڑا ہونا ہے تو ان لوگوں کے علوم و فنون سیکھنے ہوں گے، مگر مشکل یہ ہے کہ ہم ان کے علوم سیکھتے سیکھتے اپنے دین و مذہب کو خیرباد کہہ دیتے ہیں ، جب تک کوئی ملک اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہو، اس زمانہ میں دین و دنیا کا کوئی کام نہیں کر سکتا۔
حضرت مولانا رائے پوریؒ جو برصغیر کی مشہور خانقاہ عالیہ رحیمیہ رائے پور کے مسند نشین تھے، کو ایک موقعہ پر بتایا گیا کہ مسجد اقصی کی گنبد کی تعمیر کے لئے عرب ممالک میں چندہ کی تحریک ہو رہی ہے اور سعودی حکومت نے بھی اس میں خطیر رقم دینے کا اعلان کیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ گنبد کی مرمت سے کہیں ضروری یہ ہے کہ اس رقم سے سعودی حکومت ملک میں کوئی تعلیمی مرکز یا صنعتی ادارہ قائم کرتی (۳۳) جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حق پرست صوفیاء کے ہاں مادی ترقی ایک پسندیدہ بلکہ ایک ضروری اور لازمی تقاضہ رہی ہے ۔
مادی ترقی کا تصور، مسلمانوں کے ہاں ہمیشہ رو بہ عمل رہا ہے، چنانچہ بارہویں تیرہویں صدی عیسوی تک یہ حال تھا کہ اسلامی ممالک میں متوسط درجے کا مسلمان رہائش اور پوشش میں یورپ کے شہزادوں سے بھی بہتر رہتا تھا، جلد جلد کپڑے بدلنے کا رواج یورپ کے اعلیٰ طبقوں میں بھی نہ تھا، اور نہانا تو کبھی شاذ و نادر ہی ہوتا تھا، باغبانی کا فن مسلمان مغرب میں لے گئے اور یورپ میں بہت سے اعلیٰ درجے کے میوے مسلمانوں کے ذریعہ سے وہاں پہنچے۔ ہر دولت مند ایک اچھا باغ بنانا جزو تہذیب و تمدن سمجھتا تھا، مسلمانوں نے فن تعمیر میں جو کارہائے نمایاں کئے ان میں سے بعض اب بھی صفحہ روز گار پر موجود ہیں جو فن کاروں سے خراج تحسین حاصل کرتے اور ناظرین کے لئے فردوس نظر ہیں ۔ مسلمانوں نے پہلی قوموں کی صنعتوں کو حاصل کیا اور پھر جدتوں سے ان کو چار چاند لگائے۔ چمڑے کی اعلیٰ قسم کی دباغی مسلمانوں نے اہل مغرب کو سکھائی۔ چنانچہ اب تک چمڑے کی ایک اعلیٰ اور ملائم قسم (MORROCO LEATHER)یعنی مراکشی چمڑا کہلاتا ہے، کاغذ مسلمانوں کے ذریعہ یورپ میں پہنچا، الغرض یورپ کی مادی ترقی مسلمانوں کی رہین منت ہے (۳۴)
ترقی کے اسلامی تصور کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اسمیں صرف حال کی ترقی پیش نظر نہیں بلکہ مستقبل کی ترقی بھی ملحوظ نظر ہے اور وہ اس ترقی کو ترجیح دینا ہے جو زیادہ پائیدار اور ہمہ گیر ہو جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:۔
ولتنظر نفس ماقدمت لغد (۳۵)
( ہر شخص کو اس بابت غور و فکر کرنا چاہیے کہ وہ آنے والے کل یعنی مستقبل کے لئے کیا تیاری کر رہا ہے) اور آنے والا کل اس دنیا میں مستقبل اور دنیوی زندگی کے بعد کے مستقبل دونوں پر مشتمل ہے، لہذاانسان کو فوری حاصل ہونے والے معمولی اور ختم ہو جانے والے فائدے پر پائدار اور مستقل فائدے کے ترجیح دینی چاہیے خواہ وہ دیر سے ہی حاصل کیوں نہ ہو، اور اسمیں دنیا و آخرت کا کوئی امتیاز نہیں ہے بلکہ قرآن حکیم نے دونوں جہانوں کی بہتری اور خوبی کے طلب گاروں کا تذکرہ اور تقاضا کرنے والوں کو اپنی محنت وجد و جہد کے ثمر کا اہل قرار دیا ہے، ارشاد ہوتا ہے:۔
ومنہم من یقول ربنا آتنافی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار٭اولئک لہم نصیب مماکسبوا (۳۶)
ترجمہ:- اور لوگوں میں کچھ ایسے ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا، یہی لوگ ہیں جن کے لئے اپنی محنت کا حصہ ہے۔
اسلام کے نقطۂ نظر کے مطابق انسان کی ترقی کا آغاز اس کی دنیوی زندگی سے ہوتا ہے جس کا پہلا مرحلہ ایسے متوازن اقتصادی نظام کا قیام ہے جس میں اس کی مادی ضروریات و ترقیات کی تکمیل پیش نظر ہو، اسی کے نتیجہ میں انسان کو اپنی اخلاقی زندگی سنوار نے کا موقع ملتا ہے کیونکہ اقتصادی جبر انسانیت کے اجتماعی اخلاق کو پنپنے نہیں دیتا اور اخلاق کی تکمیل کے نتیجہ میں انسان موت کی راہ طے کرنے کے بعد ترقی کے اگلے مرحلے یعنی جنت میں پہنچ جاتا ہے اور یہاں پہنچ کر اس کی ترقی کا قدم رک نہیں جاتا، وہ اور آگے بڑھتا ہے اور زندگی کے اگلے مرحلے میں قدم رکھتا ہے یہاں اسے رؤیت رب العالمین کی سعادت کبری سے سرفراز ہونے کی صلاحیت حاصل ہوتی ہے (۳۷)مادی ترقی کے بعد کے روحانی ارتقاء کو قرآن کی لغت میں رفع درجات سے تعبیر کیا گیاہے، مثلاً ارشاد ہوتا ہے:۔
یرفع اﷲ الذین آمنوا منکم والذین اوتواالعلم درجات (۳۸)
ترجمہ:-جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور جن کو علم عطا کیا گیا، ان کو اﷲ تعالیٰ مدارج کی ترقی دیتا ہے۔
اسلام کی نظر میں وہی مادی ترقی پسندیدہ اور مطلوب ہے جو روحانی ترقی اور اخروی ارتقاء کا ذریعہ بنے اور ایسی مادی مصروفیات ناپسندیدہ ہیں جو اس ارتقاء کے عمل میں رکاوٹ بن جائیں چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا(۳۹)
’’دنیا کا گھر اس کے لئے بہتر ہے جو اس سے آخرت کا زاد راہ (اسباب ترقی) حاصل کرے، یہاں تک کہ اس کے ذریعہ رضائے الہی کے مقصد تک جا پہنچے، اور دنیا کا مسکن اس شخص کے لئے برا ہے جس کے لئے وہ آخرت کی راہ (اخروی ترقی)میں رکاوٹ بن جائے اور جواسے اپنے پروردگار کی رضا کے حصول میں کوتاہ رکھے اور جب کوئی شخص اپنی بد عملی (تنزلی)کا ذمہ دار دنیا (مادی ترقی) کو قرار دے کر اسے برا بھلا کہتا ہے تو دنیا جواب میں کہتی ہے کہ ناس ہو کہ اس نے ہی ہمیں اپنے رب کا نا فرمان بنایا‘‘ (گویا بذاتِ خود مادی ترقی، روحانی ترقی کے لئے نقصان دہ نہیں ہے)
الغرض اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ترقی کا اسلامی تصور مادی و روحانی ترقیات اور دنیوی و اخروی ارتقاء پر مشتمل ہے ا ور درج بالا حقائق ترقی کے اس جامع اسلامی تصور کے واضح شواہد ہیں اور عصر حاضر کے ان ادھورے تصورات کی نفی کرتے ہیں جن کے تحت مادی ترقی کی عمارت روحانی و اخلاقی تنزلی کی اساس پر تعمیر کی جاتی ہے یا روحانی ترقی کے لئے مادی ترقی کی نفی ناگزیر سمجھی جاتی ہے۔
وآخر دعوانا ان الحمد ﷲ رب العالمین الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولوکرہ المشرکون۔
٭٭٭
حوالہ جات
۱- القرآن الحکیم، سورۃ المائدہ:۳
۲- البخاری، محمد بن اسماعیل، ابو عبد اﷲ، الجامع الصحیح، کتاب الایمان، باب زیادۃ الایمان ونقصانہ ۔
۳- ایضاً
۴- القرآن الحکیم،سورۃ لقمان:۲۰
۵- القرآن الحکیم،سورۃابراہیم:۷
۶- القرآن الحکیم،سورۃالنحل:۵-۸
۷- القرآن الحکیم،سورۃ النحل:۸۰-۸۱
۸- القرآن الحکیم،سورۃبنی اسرائیل:۷۰
۹- القرآن الحکیم،سورۃالجاثیہ:۱۲
۱۰- القرآن الحکیم،سورۃالبقرۃ:۱۹۸
۱۱- القرآن الحکیم،سورۃالجمعہ:۱۰
۱۲- القرآن الحکیم،سورۃالبقرۃ:۲۹
۱۳- القرآن الحکیم،سورۃالاعراف:۱۰
۱۴- القرآن الحکیم،سورۃالعنکبوت:۱۷
۱۵- الغزالی، محمد بن محمد، ابوحامد: احیاء علوم الدین، قاہرہ: مؤسسۃ الحلبی وشرکاۂ للنشر والتوزیع
۱۹۶۷ءج۲ص۴۱
۱۶- البیضاوی، عبداﷲ بن عمر، ناصر الدین: انوار التنزیل واسرار التاویل، تفسیر سورۃ البقرہ: ۳۱
۱۷- القرآن الحکیم،سورۃالانفال:۶۰
۱۸- علی المتقی بن حسام الدین الھندی: کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال، بیروت،مؤسسۃ الرسالۃ، ۹۸۹ء
ج۳ ، ص ۲۳۹
۱۹- ایضاً
۲۰- القرآن الحکیم،سورۃالفرقان:۶۱-۶۲
۲۱- القرآن الحکیم،سورۃالمؤمنون:۱۲-۱۴
۲۲- علی المتقی: کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال ج۳-ص۲۳۸
۲۳- ایضاً:ج۳-ص۲۳۹
۲۴- القرآن الحکیم،سورۃھود:۳۷
۲۵- القرآن الحکیم،سورۃھود: ۳۸
۲۶- القرآن الحکیم،سورۃالانبیاء:۸۰
۲۷- القرآن الحکیم،سورۃسبا:۱۰-۱۱
۲۸- القرآن الحکیم،سورۃسبا:۱۳
۲۹- القرآن الحکیم،سورۃالنور:۵۵
۳۰- القرآن الحکیم، سورۃ الشعراء: ۵۷-۵۹ و سورۃ الدخان:۲۵-۲۸
۳۱- مناظر احسن گیلانی ،سیدمولانا : اسلامی معاشیات،حیدر آباد دکن: ناشر سید عبدالرزاق ۱۹۴۷ء ص۱۹
۳۲- ابوالحسن علی ندوی، سیدمولانا، سوانح حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوریؒ،کراچی ، مجلس نشریات اسلام، طبع دوم ص ۲۷۹
۳۳- ایضاً:ص۲۸۵
۳۴- خلیفہ عبدالحکیم، ڈاکٹر، مقالات حکیم، لاہور،ادارہ ثقافت اسلامیہ ، ۱۹۶۹ء جلد او ل ص۱۳۶-۱۳۷
۳۵- القرآن الحکیم، سورۃ الحشر:۱۸
۳۶- القرآن الحکیم، سورۃ البقرۃ: ۲۰۱-۲۰۲
۳۷- عبید اﷲ سندھی، مولانا، شعور وآگہی (مرتب سید مطلوب علی زیدی)لاہور : مکی دارالکتب ۱۹۹۴ء ص۱۵۱
۳۸- القرآن الحکیم، سورۃ المجادلۃ:۱۱
۳۹- علی المتقی بن علاء الدین الہندی: کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال: ج۳-ص۲۳۹
٭٭٭
ماخذ: بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی جرنل سے
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید