FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

ترجمہ و تفسیر قرآن

 

حصہ ۱۱: صٰفٰت تا  دخان

 

                ترجمہ: حافظ نذر احمد

 

 

 

اس ترجمہ قرآن میں تحت اللفظ ترجمہ حافظ نذر احمد صاحب کے ’’ترجمہ قرآن‘‘ سے لیا گیا ہے ، اور ہر سورۃ کا تعارف مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا آسان ترجمہ قرآن(توضیح القرآن)سے پیش کیا گیا ہے ، قرآن کریم کی جو آیتیں بغیر تشریحات کے سمجھ میں آ جاتی ہیں وہاں تشریح کے بجائے صرف ترجمہ پر اکتفا کیا گیا ہے ، اور جن آیتوں کو سمجھنے کے لئے تشریحات ضروری ہیں وہاں پر توضیح القرآن، معارف القرآن اور تفسیر عثمانی سے مختصر تشریح کی گئی ہے۔

 

 

 

 

 

۳۷۔ سورۃ  الصّٰٓفّٰت

 

                تعارف

 

مکی سورتوں میں زیادہ تر اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کے اثبات پر زور دیا گیا ہے ، اس سورت کا مرکزی موضوع بھی یہی ہے ، البتہ اس سورت میں خاص طور پر مشرکین عرب کے اس غلط عقیدہ کی تردید کی گئی ہے جس کی رو سے وہ کہا کرتے تھے کہ فرشتے اللہ تعالی کی بیٹیاں ہیں یہی وجہ ہے کہ سورت کا آغاز فرشتوں کے اوصاف سے کیا گیا ہے ، کفار کو کفر کے ہولناک انجام سے ڈرایا گیا ہے ، اور انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ ان کی تمام تر مخالفت کے باوجود اس دنیا میں بھی اسلام ہی غالب آ کر رہے گا، اسی مناسبت سے حضرت نوح، حضرت لوط، حضرت موسیٰ، حضرت الیاس اور حضرت یونس علیہم السلام کے واقعات مختصر اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے ، خاص طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا جو حکم دیا گیا تھا اور انہوں نے قربانی کے جس عظیم جذبے  سے اس کی تعمیل فرمائی، اس کا واقعہ بڑے مؤثر اور مفصل انداز میں اسی سورت کے اندر بیان ہوا ہے ، سورت کا نام اس کی   پہلی آیت سے ماخوذ ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مکیۃ

آیات۱۸۲        رکوعات:۵

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

قسم ہے پرا جما کر صف باندھنے والے (فرشتوں) کی۔ (۱) پھر جھڑک کر ڈانٹنے والوں کی۔ (۲) پھر قرآن تلاوت کرنے والوں کی۔ (۳)

تشریح: اللہ تعالی کو اپنی کسی بات کی تصدیق کے لئے قسم کھانے کی ضرورت نہیں ہے ، لیکن قرآن کریم میں اللہ تعالی نے مختلف چیزوں کی جو قسمیں کھائی ہیں وہ اول تو عربی زبان کی فصاحت و بلاغت کا ایک اسلوب ہے جس سے کلام میں زور اور تاثیر پیدا ہوتی ہے ، دوسرے جن چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے ، ان پر اگر غور کیا جائے تو وہ اس دعوے کی دلیل ہوتی ہے جوان قسموں کے بعد مذکور ہوتا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

وَالصَّآفَّاتِ صَفًّا:یعنی جو صف باندھ کر قطار در قطار کھڑے ہوتے ہیں، خواہ فرشتے ہوں جو حکم الٰہی سننے کو اپنے اپنے مقام پر درجہ بدرجہ کھڑے ہوتے ہیں یا عبادت گزار انسان جو نماز اور جہاد وغیرہ میں صف بندی کرتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

فَالزَّاجِرَاتِ زَجْرًا:یعنی جو فرشتے شیطانوں کو ڈانٹ کر بھگاتے ہیں تاکہ استراق سمع کے ارادہ میں کامیاب نہ ہوں یا بندوں کو نیکی کی بات سمجھا کر معاصی سے روکتے ہیں یا وہ نیک آدمی جو خود اپنے نفس کو بدی سے روکتے اور دوسروں کو بھی شرارت پر ڈانٹتے جھڑکتے رہتے ہیں۔ خصوصاً میدان جہاد میں کفار کے مقابلہ پر ان کی ڈانٹ ڈپٹ بہت سخت ہوتی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

فَالتَّالِيَاتِ ذِكْرًا:یعنی وہ فرشتے یا آدمی جو اللہ کے احکام سننے کے بعد پڑھتے اور یاد کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے بتانے کو۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک تمہارا معبود ایک ہی ہے۔(۴)

پروردگار ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور جو ان کے درمیان ہے ، اور پروردگار ہے مشرقوں (مقامات طلوع) کا۔ (۵)

تشریح: بیشک آسمان پر فرشتے اور زمین پر خدا کے نیک بندے ہر زمانہ میں قولاً و فعلاً شہادت دیتے رہے ہیں کہ سب کا مالک و معبود ایک ہے اور ہم اسی کی رعیت ہیں۔

رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ :شمال سے جنوب تک ایک طرف مشرقین ہیں۔ سورج کی ہر روز کی جدا اور ہر ستارے کی جدا۔ یعنی وہ نقطے جن سے ان کا طلوع ہوتا ہے اور دوسری طرف اتنی ہی مغربیں ہیں۔ شاید مغارب کا ذکر یہاں سے اس لیے نہیں کیا کہ مشارق سے بطور مقابلہ کے خود ہی سمجھ میں آ جائیں گی۔ اور ایک حیثیت سے طلوع شمس و کواکب کو حق تعالیٰ کی شان حکومت و عظمت کے ثابت کرنے میں بہ نسبت غروب کے زیادہ دخل ہے۔ واللہ اعلم۔ (تفسیرعثمانی)

 

بیشک ہم نے مزین کیا آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے۔ (۶)

اور ہرسرکش شیطان سے محفوظ کیا۔ (۷)

تشریح: یعنی اندھیری رات میں یہ آسمان بیشمار ستاروں کی جگمگاہٹ سے دیکھنے والوں کو کیسا خوبصورت، مزین اور پر رونق معلوم ہوتا ہے۔

تاروں سے آسمان کی زینت و آرائش ہے۔ اور بعض تاروں کے ذریعہ سے جو ٹوٹتے ہیں شیطانوں کو روکنے اور دفع کرنے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ یہ ٹوٹنے والے ستارے کیا ہیں۔ آیا کواکب نوریہ کے علاوہ کوئی مستقل نوع کواکب کی ہے یا کواکب نوریہ کی شعاعوں ہی سے ہوا متکیّف ہو کر ایک طرح کی آتش سوزاں پیدا ہو جاتی ہے یا خود کواکب کے اجزاء ٹوٹ کر گرتے ہیں؟ اس میں علماء و حکماء کے مختلف اقوال ہیں بہرحال ان کی حقیقت کچھ ہی کیوں نہ ہو رجم شیطان کا کام بھی ان سے لیا جاتا ہے۔ اس کی کچھ تفصیل سورہ ”حجر” کے فوائد میں گزر چکی ملاحظہ کر لی جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ملائے اعلی (اوپر کی مجلس) کی طرف کان نہیں لگا سکتے ، ہر طرف سے بھگانے کو (انگارے ) مارے جاتے ہیں۔ (۸)

اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے۔ (۹)

سوائے اس کے جو اچک کر لے بھاگا تو اس کے پیچھے ایک دہکتا ہوا انگارا لگا۔ (۱۰)

تشریح:لَا يَسَّمَّعُوْنَ إِلَى الْمَلَإِ الْأَعْلٰی: اوپر کی مجلس سے مراد فرشتوں کی مجلس ہے۔ یعنی شیاطین کو یہ قدرت نہیں دی گئی کہ فرشتوں کی مجلس میں پہنچ کر کوئی بات وحی الٰہی کی سن آئیں۔ جب ایسا ارادہ کر کے اوپر آسمانوں کے قریب پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں تو جس طرف سے جاتے ہیں ادھر ہی سے فرشتے دھکے دے کر اور مار مار کر بھگا دیتے ہیں۔

دُحُوْرًا ۖ وَّلَہُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ :دنیا میں ہمیشہ یوں ہی مار پڑتی رہے گی اور آخرت کا دائمی عذاب الگ رہا۔

إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَۃَ :اسی بھاگ دوڑ میں جلدی سے کوئی ایک آدھ بات اچک لایا۔ اس پر بھی فرشتے شہاب ثاقب سے اس کا تعاقب کرتے ہیں۔ اس کی تفصیل سورہ ”حجر” کے شروع میں گزر چکی۔

 

پس ان سے پوچھیں کیا ان کا پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے ، یا جو (مخلوق) ہم نے پیدا کی؟بیشک ہم نے انہیں چپکتی ہوئی مٹی (گارے ) سے پیدا کیا۔ (۱۱)

تشریح: یعنی منکرین بعث سے دریافت کیجئے کہ آسمان، زمین، ستارے ، فرشتے ، شیاطین وغیرہ مخلوقات کا پیدا کرنا، ان کے خیال میں زیادہ مشکل کام ہے یا خود ان کا پیدا کرنا، اور وہ بھی ایک مرتبہ پیدا کر چکنے کے بعد، ظاہر ہے جو خدا ایسی عظیم الشان مخلوقات کا بنانے والا ہے اسے ان کا دوبارہ بنا دینا کیا مشکل ہو گا۔

ایک طرح کے چپکتے گارے سے جس کا پتلا ہم نے تیار کیا۔ آج اس کے یہ دعوے ہیں کہ آسمان و زمین کا بنانے والا اس کے دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں۔ جس طرح پہلے تجھ کو مٹی سے بنایا دوبارہ بھی مٹی سے نکال کر کھڑا کر دیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بلکہ آپ نے (ان کی حالت پر) تعجب کیا، اور وہ مذاق اڑاتے ہیں۔ (۱۲)

اور جب نصیحت کی جائے تو وہ نصیحت قبول نہیں کرتے۔ (۱۳)

تشریح: یعنی تجھ کو ان پر تعجب آتا ہے کہ ایسی صاف باتیں کیوں نہیں سمجھتے اور وہ ٹھٹھا کرتے ہیں کہ یہ (نبی) کس قسم کی بے سروپا باتیں کر رہا ہے۔ (العیاذ باللہ)۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو وہ ہنسی میں اڑا دیتے ہیں۔ (۱۴) اور انہوں نے کہا یہ تو صرف کھلا جادو ہے۔ (۱۵)

تشریح:نصیحت سن کر غور و فکر نہیں کرتے اور جو معجزات و نشانات دیکھتے ہیں انہیں جادو کہہ کر ہنسی میں اڑا دیتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا جب ہم مر گئے اور مٹی اور ہڈیاں ہو گئے ؟کیا ہم پھر اٹھائے جائیں گے ؟ (۱۶) کیا ہمارے پہلے باپ دادا ( بھی) ؟ (۱۷)

تشریح: وہ ہی مرغے کی ایک ٹانگ گائے جاتے ہیں کہ صاحب جب ہمارا بدن خاک میں مل کر مٹی ہو گیا صرف ہڈیاں باقی رہ گئیں اور اس سے بھی بڑھ کر ہمارے باپ دادا جن کو مرے ہوئے قرن گزر گئے۔ شاید ہڈیاں بھی باقی نہ رہی ہوں، ہم کس طرح مان لیں کہ یہ سب پھر ازسر نو زندہ کر کر کے کھڑے کر دیے جائیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں ہاں! اور تم ذلیل و خوار ہو گے۔ (۱۸) پس اس کے سوا نہیں کہ وہ ایک للکار ہو گی، پس ناگہاں وہ دیکھنے لگیں گے۔ (۱۹)

تشریح: یعنی ایک ڈانٹ میں سب اٹھ کھڑے ہوں گے اور حیرت و دہشت سے ادھر ادھر دیکھنے لگیں گے (یہ ڈانٹ یا جھڑکی نفخ صور کی ہو گی)۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ کہیں گے ، ہائے ہماری خرابی ! یہ بدلے کا دن ہے۔ (۲۰)

یہ فیصلہ کا دن ہے ، وہ جس کو تم جھٹلاتے تھے۔ (۲۱)

تشریح: یعنی یہ تو سچ مچ جزاء کا دن آ پہنچا جس کی انبیاء خبر دیتے اور ہم ہنسی اڑایا کرتے تھے۔ (تفسیرعثمانی)

 

تم ظالموں کو اور ان کے ساتھیوں کو جمع کرو جس کی وہ پرستش کرتے تھے۔ (۲۲)

اللہ کے سوا، پس تم ان کو جہنم کا راستہ دکھاؤ۔ (۲۳)

تشریح: یہ حکم ہو گا فرشتوں کو کہ ان سب کو اکٹھا کر کے دوزخ کا راستہ بتاؤ (تنبیہ) ”ازواج” (جوڑوں) سے مراد ہیں ایک قسم کے گنہگار، یا ان کی کافر بیویاں۔ اور ”وماکانوا یعبدون من دون اللہ” سے اصنام و شیاطین وغیرہ مراد ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ان کو ٹھہراؤ، بیشک ان سے پُرسش ہو گی۔ (۲۴)

تمہیں کیا ہوا؟تم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے۔ (۲۵)

بلکہ وہ آج سرجھکائے فرمانبردار (اپنے آپ کو پکڑواتے ) ہیں۔ (۲۶)

تشریح: حکم کے بعد کچھ دیر ٹھہرائیں گے تاکہ ان سے ایک سوال کیا جائے جو آگے ”مالکم لا تناصرون”میں مذکور ہے۔ دنیا میں تو ”نحن جمیع منتصر” کہا کرتے تھے (کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں) آج کیا ہوا کہ کوئی اپنے ساتھی کی مدد نہیں کرتا۔ بلکہ ہر ایک بدون کان ہلائے ذلیل ہو کر پکڑا ہوا چلا آ رہا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ان میں سے ایک دوسرے کی طرف باہم سوال کرتے ہوئے رخ کرے گا۔ (۲۷)

وہ کہیں گہ بیشک تم ہم پر دائیں طرف سے (بڑے زور سے ) آتے تھے۔ (۲۸)

تشریح: ”یمین” (داہنے ہاتھ) میں عموماً زور و قوت زائد ہوتی ہے یعنی تم ہی تھے جو ہم پر چڑھے آتے تھے بہکانے کو زور دکھلا کر اور مرعوب کر کے۔ یا یمین سے مراد خیر و برکت کی جانب لی جائے یعنی تم ہی تھے کہ ہم پر چڑھائی کرتے تھے ، بھلائی اور نیکی سے روکنے کے لیے۔ یہ گفتگو اتباع اور متبوعین (زبردستوں اور زیردستوں) کے درمیان ہو گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ کہیں گے (نہیں) بلکہ تم ایمان لانے والے نہ تھے۔ (۲۹)

اور ہمارا تم پر کوئی زور نہ تھا، بلکہ تم ایک سرکش قوم تھے۔ (۳۰)

پس ہم پر ہمارے رب کی بات ثابت ہو گئی، بیشک ہم البتہ (مزہ) چکھنے والے ہیں۔ (۳۱)

پس ہم نے تمہیں بہکایا، بیشک ہم خود گمراہ تھے۔ (۳۲)

تشریح: یعنی خود تو ایمان نہ لائے ہم پر الزام رکھتے ہو۔ ہمارا تم پر کیا زور تھا جو دل میں ایمان نہ گھسنے دیتے تم لوگ خود ہی عقل و انصاف کی حد سے نکل گئے کہ بے لوث ناصحین کا کہنا نہ مانا اور ہمارے بہکائے میں آ گئے ، اگر عقل و فہم اور عاقبت اندیشی سے کام لیتے تو ہماری باتوں پر کبھی کان نہ دھرتے۔ رہے ہم سو ظاہر ہے خود گمراہ تھے ، ایک گمراہ سے بجز گمراہی کی طرف بلانے کے اور کیا توقع ہو سکتی ہے۔ ہم نے وہ ہی کیا جو ہمارے حال کے مناسب تھا لیکن تم کو کیا مصیبت نے گھیرا تھا کہ ہمارے چکموں میں آ گئے۔ بہرحال جو ہونا تھا ہو چکا۔ خدا کی حجت ہم پر قائم ہوئی اور اس کی وہ ہی بات ”لأملأن جہنم منک وممن تبعک الخ”ثابت ہو کر رہی۔ آج ہم سب کو اپنی اپنی غلط کاریوں اور بدمعاشیوں کا مزہ چکھنا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک وہ اس دن عذاب میں (بھی) شریک رہیں گے۔ (۳۳)

بیشک ہم اسی طرح کرتے ہیں مجرموں کے ساتھ۔ (۳۴)

تشریح: یعنی سب مجرم اور درجہ بدرجہ عذاب میں شریک ہوں گے۔ جیسے جرم میں شریک تھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک جب ان سے کہا جاتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں (تو) وہ تکبر کرتے تھے۔ (۳۵)

تشریح: یعنی ان کا کبر  و غرور مانع ہے کہ نبی کے ارشاد سے یہ کلمہ (لا الہ الا اللہ) زبان پر لائیں جس سے ان کے جھوٹے معبودوں کی نفی ہوتی ہے خواہ دل میں اسے سچ ہی سمجھتے ہوں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ کہتے ہیں کیا ہم اپن معبودوں کو چھوڑ دیں؟ ایک شاعر، دیوانے کی خاطر۔ (۳۶)

بلکہ وہ حق کے ساتھ آئے ہیں اور تصدیق کرتے ہیں رسولوں کی۔ (۳۷)

تشریح: یعنی شاعروں کا جھوٹ تو مشہور ہے۔ پھر اس راستباز ہستی کو شاعر کیسے کہتے ہو جو دنیا میں خالص سچائی لے کر آیا ہے اور سارے جہان کے سچوں کی تصدیق کرتا ہے۔ کیا مجنون اور دیوانے ایسے صحیح اور پختہ اصول پیش کیا کرتے ہیں؟

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک تم درد ناک عذاب ضرور چکھنے والے ہو۔ (۳۸)

اور تمہیں بدلہ نہ دیا جائے گا مگر (اس کے مطابق) جو تم کرتے تھے۔ (۳۹)

تشریح: یعنی انکارِ توحید اور ان گستاخیوں کا مزہ چکھو گے جو بارگاہِ رسالت میں کر رہے ہو۔ جو کچھ کرتے تھے ایک دن سب سامنے آ جائے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

(ہاں) مگر اللہ کے خاص کئے ہوئے (چنے ہوئے ) بندے۔ (۴۰)

ان کے لئے رزق معلوم (مقرر) ہے۔(۴۱)(یعنی) میوے ، اور اعزاز والے ہوں گے۔ (۴۲)

نعمت کے باغات میں۔ (۴۳)

تختوں پر آمنے سامنے۔ (۴۴)

دورہ ہو گا ان کے آگے بہتے ہوئے (صاف) مشروب کے جام کا۔ (۴۵)

سفید رنگ کا، پینے والوں کے لئے لذت (دینے والا)۔ (۴۶)

نہ اس میں درد سر ہو گا اور نہ وہ اس سے بہکی بہکی باتیں کریں گے۔ (۴۷)

تشریح: یعنی مزہ اور نشاط پورا ہو گا۔ اور دنیا کی شراب میں جو خرابیاں ہوتی ہیں ان کا نام و نشان نہ ہو گا نہ سرگرانی ہو گی نہ نشہ چڑھے گا، نہ قے آئے گی، نہ پھیپھڑے وغیرہ خراب ہوں گے ، نہ اس کی نہریں خشک ہو کر ختم ہو سکیں گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ان کے پاس ہوں گی نیچی نگاہ والیاں، بڑی بڑی آنکھوں والیاں۔ (۴۸)

گویا وہ انڈے ہیں پوشیدہ رکھے ہوئے۔ (۴۹)

تشریح: یعنی شرم و ناز سے نگاہ نیچی رکھنے والی حوریں جو اپنے ازواج کے سوا کسی دوسرے کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھیں۔

صاف و شفاف رنگ ہو گا جیسے انڈا جس کو پرند ہ اپنے پروں میں نیچے چھپائے رکھے کہ نہ داغ لگے نہ گردو غبار پہنچے۔ یا انڈے کے اندر کی سفید تہ جو سخت چھلکے کے نیچے پوشیدہ رہتی ہے۔ اور بعض نے کہا کہ شتر مرغ کے انڈے مراد ہیں جو بہت خو ش رنگ ہوتے ہیں۔ بہرحال تشبیہ صفائی یا خو ش رنگ ہونے میں ہے سفیدی میں نہیں۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا۔ ”کأنہن الیاقوت والمرجان” (رحمن، رکوع٢)۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر ان میں سے ایک دوسرے کی طرف باہم سوال کرتے ہوئے رخ کرے گا۔ (۵۰)

ان میں سے ایک کہنے والا کہے گا بیشک (دنیا میں ) میرا ایک ہم نشین تھا۔ (۵۱)

وہ کہا کرتا تھا :کیا تو (قیامت کو) سچ ماننے والوں میں سے ہے ؟ (۵۲)

کیا جب ہم مر گئے اور ہم ہو گئے مٹی اور ہڈیاں، کیا ہمیں بدلہ دیا جائے گا؟ (۵۳)

تشریح:  یعنی یاران جلسہ جمع ہوں گے اور شراب طہور کا جام چل رہا ہو گا۔ اس عیش و تنعم کے وقت اپنے بعض گذشتہ حالات کا مذاکرہ کریں گے۔ ایک جتنی کہے گا کہ میاں دنیا میں میرا ایک ملنے والا تھا۔ جو مجھے آخرت پر یقین رکھنے کی وجہ سے ملامت کیا کرتا اور احمق بنایا کرتا تھا۔ اس کے نزدیک یہ بالکل مہمل بات تھی کہ ایک شخص مٹی میں مل جائے اور گوشت پوست کچھ باقی نہ رہے محض بوسیدہ ہڈیاں رہ جائیں، پھر اسے اعمال کا بدلہ دینے کے لیے ازسر نو زندہ کر دیں؟ بھلا ایسی بے تکی بات پر کون یقین کر سکتا ہے ؟

(تفسیرعثمانی)

 

وہ کہے گا کیا تم جھانکنے والے ہو (دوزخی کو جھانک کر دیکھ سکتے ہو؟) (۵۴)

تو وہ جھانکے گا تو اسے دیکھے گا دوزخ کے درمیان میں۔ (۵۵)

تشریح: یعنی وہ ساتھی یقیناً دوزخ میں پڑا ہو گا۔ آؤ ذرا جھانک کر دیکھیں کس حال میں ہے۔ (یہ اس جنتی کا مقولہ ہوا۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یہ مقولہ اللہ کا ہے۔ یعنی حق تعالیٰ فرمائیں گے کہ تم جھانک کر اس کو دیکھنا چاہتے ہو)۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ کہے گا اللہ کی قسم !قریب تھا کہ تو مجھے ہلاک کر ڈالے۔ (۵۶)

اور اگر میرے رب کا فضل نہ ہوتا تو میں ضرور (عذاب کے لئے ) حاضر کئے جانے والوں میں ہوتا۔ (۵۷)

تشریح: یعنی اس جنتی کو اپنے ساتھی کا حال دکھلا دیا جائے گا کہ ٹھیک دوزخ کی آگ میں پڑا ہوا ہے۔ یہ حال دیکھ کر اسے عبرت ہو گی اور اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان یاد آئے گا۔ کہے گا، کم بخت! تو نے تو مجھے بھی اپنے ساتھ برباد کرنا چاہا تھا۔ محض اللہ کے احسان نے دستگیری فرمائی جو اس مصیبت سے بچا لیا اور میرا قدم راہ ایمان و عرفان سے ڈگمگانے نہ دیا ورنہ آج میں بھی تیری طرح پکڑا ہوا آتا۔ اور اس دردناک عذاب میں گرفتار ہوتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس پہلی موت کے سوائے ہم مرنے والوں میں سے نہیں (آئندہ ہم پر کوئی موت نہ آئے گی) اور نہ ہم عذاب دئے جانے والوں میں سے ہوں گے۔ (۵۸، ۵۹)

بیشک یہی ہے بڑی کامیابی۔ (۶۰)

پس اس جیسی نعمت کے لئے چاہئیے ضرور عمل کریں عمل کرنے والے۔ (۶۱)

تشریح: اس وقت فرط مسرط سے کہے گا کہ کیا یہ واقعہ نہیں کہ اس پہلی موت کے سوا جو دنیا میں آ چکی اب ہم کو کبھی مرنا نہیں اور نہ کبھی اس عیش و بہار سے نکل کر تکلیف و عذاب کی طرف جانا ہے۔ خدا تعالیٰ کے فضل و رحمت سے اسی تنعم و  رفاہیت میں ہمیشہ رہیں گے۔ بیشک بڑی بھاری کامیابی اسی کو کہتے ہیں اور یہ ہی وہ اعلیٰ مقصد ہے جس کی تحصیل کے لیے چاہیے کہ ہر طرح کی محنتیں اور قربانیاں گوارا کی جائیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا یہ بہتر ضیافت ہے ، یا تھوہر کا درخت؟ (۶۲)

بیشک ہم نے اس کو ایک آزمائش بنایا ہے ظالموں کے لئے۔ (۶۳)

بیشک وہ ایک درخت ہے جہنم کی جڑ (گہرائی) میں نکلتا ہے۔ (۶۴)

اس کا خوشہ گویا کہ وہ شیطانوں کا سر (سانپوں کا پھن) ہے۔ (۶۵)

بیشک وہ اس سے کھائیں گے ، سو اس سے پیٹ بھریں گے۔ (۶۶)

تشریح: اوپر بہشتیوں کی مہمانی کا ذکر تھا۔ یہاں سے دوزخیوں کی مہمانی کا حال سناتے ہیں۔ ”زقوم” کسی درخت کا نام ہے جو سخت کڑوا، بد ذائقہ ہوتا ہے۔ جیسے ہمارے یہاں تھوہر، یا سیہنڈ، دوزخ کے اندر حق تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ایک درخت اگایا ہے اس کو یہاں ”شجرۃ الزقوم” سے موسوم کیا۔ وہ ایک بلا ہے ظالموں کے واسطے آخرت میں۔ کیونکہ جب دوزخی بھوک سے بیقرار ہوں گے تو یہ ہی کھانے کو دیا جائے گا اور اس کا حلق سے اتارنا یا اترنے کے بعد ایک خاص اثر پیدا کرنا سخت تکلیف دہ اور مستقل عذاب ہو گا اور دنیا میں بھی ایک طرح کی بلا اور آزمائش ہے کہ قرآن میں اس کا ذکر سن کر گمراہ ہوتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ سبز درخت دوزخ کی آگ میں کیونکر اُگا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر بیشک اس (کھانے ) پر ان کے لئے کھولتا ہوا پانی (پیپ) ملا ملا کر (دیا جائے گا)۔ (۶۷)

پھر ان کی بازگشت جہنم ہی کی طرف ہو گی۔ (۶۸)

تشریح:”زقوم” کھا کر پیاس لگے گی تو سخت جلتا پانی پلایا جائے گا جس سے آنتیں کٹ کر باہر آپڑیں گی۔ فَقَطَّعَ أَمْعَاءَہُمْ (محمد، رکوع٢) اعاذنا اللہ منہا۔ بہت بھوکے ہوں گے تو آگ سے ہٹا کر یہ کھانا پانی کھلا پلا کر پھر آگ میں ڈال دیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک انہوں نے اپنے باپ دادا کو گمراہ پایا تھا۔ (۶۹)

سو ان کے نقش قدم پر دوڑے جاتے تھے۔ (۷۰)

تشریح: یعنی پچھلے کافر اگلوں کی اندھی تقلید میں گمراہ ہوئے۔ جس راہ پر انہیں چلتے دیکھا اسی پر دوڑ پڑے۔ کنواں کھائی کچھ نہ دیکھا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق ان سے پہلے گمراہ ہوئے تھے (ان کے ) اگلوں میں سے اکثر۔ (۷۱)

اور تحقیق ہم نے ان میں ڈرانے والے (رسول) بھیجے تھے۔ (۷۲)

سو دیکھیں کیسا ہوا ان کا انجام جنہیں ڈرایا گیا تھا؟ (۷۳)

(ہاں) مگر اللہ کے خاص کئے ہوئے بندے (بندگانِ خاص کا انجام کتنا اچھا ہوا)۔ (۷۴)

تشریح: یعنی ہر زمانہ میں انجام سے آگاہ کرنے والے آخرت کا ڈر سنانے والے آتے رہے۔ آخر جنہوں نے نہ سنا اور نہ مانا دیکھ لو! ان کا انجام کیسا ہوا۔ بس اللہ کے وہ ہی چنے ہوئے بندے محفوظ رہے جن کو خدا کا ڈر اور عاقبت کی فکر تھی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”ڈر سب ہی کو سناتے ہیں ان میں نیک بچتے ہیں اور بدکھیتے ہیں۔ ” آگے بعض منذرین (بالکسر) اور منذرین (بالفتح) کے قصے سنائے جاتے ہیں۔ مکذبین کی عبرت اور مومنین کی تسلی کے لیے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق نوح نے ہمیں پکارا سو ہم خوب دعا قبول کرنے والے ہیں۔ (۷۵)

اور ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو بڑی مصیبت سے نجات دی۔ (۷۶)

اور ہم نے کیا اس کی اولاد کو باقی رہنے والی۔ (۷۷)

اور ہم نے اس کا (ذکر خیر) بعد میں آنے والوں میں چھوڑا۔ (۷۸)

نوح پر سلام ہو سارے جہانوں میں۔ (۷۹)

بیشک ہم اسی طرح نیکو کاروں کو جزا دیتے ہیں۔ (۸۰)

بیشک وہ ہمارے مؤمن بندوں میں سے تھے۔ (۸۱)

پھر ہم نے دوسروں کو غرق کر دیا۔ (۸۲)

تشریح: تقریباً ہزار سال تک حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کو سمجھاتے اور نصیحت کرتے رہے۔ مگر ان کی شرارت اور ایذاء رسانی برابر بڑھتی رہی۔ آخر حضرت نوح نے مجبور ہو کر اپنے بھیجنے والے کی طرف متوجہ ہو کر عرض کیا۔ ”قدرعا ربہ انی مغلوب فانتصر” (القمر، رکوع١) ” اے پروردگار! میں مغلوب ہوں آپ میری مدد کو پہنچئے۔ دیکھ لو کہ اللہ نے ان کی پکار کیسی سنی اور مدد کو کس طرح پہنچا۔ نوح علیہ السلام کو مع ان کے گھرانے کے رات دن کی ایذاء سے بچایا۔ پھر ہولناک طوفان کے وقت ان کی حفاظت کی۔ اور تنہا اس کی اولاد سے زمین کو آباد کر دیا۔ اور رہتی دنیا تک اس کا ذکر خیر لوگوں میں باقی چھوڑا۔ چنانچہ آج تک خلقت ان پر سلام بھیجتی ہے اور سارے جہان میں ”نوح علیہ السلام” کہہ کر یاد کیے جاتے ہیں۔ یہ تو نیک بندوں کا انجام ہوا۔ دوسری طرف ان کے دشمنوں کا حال دیکھو کہ سب کے سب زبردست طوفان کی نذر کر دیے گئے۔ آج ان کا نام و نشان تک باقی نہیں۔ اپنی حماقتوں اور شرارتوں کی بدولت دنیا کا بیڑا غرق کرا کر رہے۔ (تنبیہ) اکثر علماء کا قول یہ ہی ہے کہ آج تمام دنیا کے آدمی حضرت نوح علیہ السلام کے تین بیٹوں (سام، حام، یافث) کی اولاد سے ہیں۔ جامع ترمذی کی بعض احادیث میں بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔ والتفصیل بطلب من مظانہ۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور بیشک ابراہیم اسی کے طریقے پر چلنے والوں میں سے تھے۔ (۸۳)

جب وہ اپنے رب کے پاس آئے صاف دل کے ساتھ، (عیب سے پاک دل کے ساتھ)۔ (۸۴)

تشریح: انبیاء علیہم السلام اصول دین میں سب ایک راہ پر ہیں، اور ہر پچھلا پہلے کی تصدیق و تائید کرتا ہے۔ اسی لیے براہیم کو نوح (علیہم السلام) کے گروہ سے فرمایا۔ ”وان ہذہ أمۃً واحدۃً واناربکم فاتقون” (مومنون، رکوع٤)۔

(تفسیرعثمانی)

 

إِذْ جَآءَ رَبَّہٗ :یعنی ہر قسم کے اعتقادی و اخلاقی روگ سے دل کو پاک کر کے اور دنیاوی خرخشوں سے آزاد ہو کر انکسار و تواضع کے ساتھ اپنے رب کی طرف جھک پڑا۔ اور اپنی قوم کو بھی بت پرستی سے باز رہنے کی نصیحت کی۔

(تفسیرعثمانی)

 

(یاد کرو) جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا :تم کس (واہیات) چیز کی پرستش کرتے ہو؟ (۸۵)

کیا تم اللہ کے سوا جھوٹ موٹ کے معبود چاہتے ہو؟ (۸۶)

سو تمام جہانوں کے پروردگار کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے ؟ (۸۷)

تشریح: یعنی یہ آخر پتھر کی مورتیاں چیز کیا ہیں جنہیں تم اس قدر چاہتے ہو کہ اللہ کو چھوڑ کر ان کے پیچھے ہو لیے۔ کیا سچ مچ ان کے ہاتھ میں جہان کی حکومت ہے ؟ یا کسی چھوٹے بڑے نقصان کے مالک ہیں؟ آخر سچے مالک کو چھوڑ کر ان جھوٹے حاکموں کی اتنی خوشامد اور حمایت کیوں ہے ؟

یعنی کیا اس کے وجود میں شبہ ہے ؟ یا اس کی شان و رتبہ کو نہیں سمجھتے جو (معاذ اللہ) پتھروں کو اس کا شریک ٹھہرا رہے ہو۔ یا اس کے غضب و انتقام کی خبر نہیں؟ جو ایسی گستاخی پر جری ہو گئے ہو۔ آخر بتلاؤ تو سہی تم نے پروردگار عالم کو کیا خیال کر رکھا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر اس نے ستاروں کو ایک نظر دیکھا۔ (۸۸)

تو اس نے کہا بیشک میں بیمار ہو جاؤں گا۔ (۸۹)

پس وہ پیٹھ پھیر کر اس سے پھر گئے۔ (۹۰)

پھر وہ ان کے معبودوں میں چھپ کر گھس گیا، پھر وہ (بطورتمسخر) کہنے لگا کیا تم کھاتے نہیں۔ (۹۱)

تمہیں کیا ہوا، تم بولتے نہیں؟ (۹۲) پھر پوری قوت سے مارتا ہوا ان پر جا پڑا۔ (۹۳)

پھر وہ (بت پرست) متوجہ ہوئے اس کی طرف دوڑتے ہوئے (آئے ) (۹۴)

تشریح: فَنَظَرَ نَظْرَۃً فِی النُّجُوْمِ :ان کی قوم میں نجوم کا زور تھا۔ حضرت ابراہیم نے ان کے دکھانے کو تاروں کی طرف نظر ڈال کر کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں (اور ایسا دنیا میں کون ہے جس کی طبیعت ہر طرح ٹھیک رہے کچھ نہ کچھ عوارض اندرونی یا بیرونی لگے ہی رہتے ہیں۔ یہ ہی تکلیف اور بدمزگی کی کیا کم تھی کہ ہر وقت قوم کی ردی حالت دیکھ کر کڑھتے تھے ، یا یہ مطلب تھا کہ میں بیمار ہونے والا ہوں (بیماری نام ہے مزاج کے اعتدال سے ہٹ جانے کا۔ تو موت سے پہلے ہر شخص کو یہ صورت پیش آنے والی ہے ) بہرحال حضرت ابراہیم کی مراد صحیح تھی۔ لیکن ستاروں کی طرف دیکھ کر ”انی سقیم”کہنے سے لوگ یہ مطلب سمجھے کہ بذریعہ نجوم کے انہوں نے معلوم کر لیا ہے کہ عنقریب بیمار پڑنے والے ہیں۔ وہ لوگ اپنے ایک تہوار میں شرکت کرنے کے لیے شہر سے باہر جا رہے تھے۔ یہ کلام سن کر حضرت ابراہیم کو ساتھ جانے سے معذور سمجھا اور تنہا چھوڑ کر چلے گئے۔ ابراہیم علیہ السلام کی غرض یہ ہی تھی کہ کوئی موقع فرصت اور تنہائی کا ملے تو ان جھوٹے خداؤں کی خبر لوں۔ چنانچہ بت خانہ میں جا گھسے اور بتوں کو خطاب کر کے کہا ”یہ کھانے اور چڑھاوے جو تمہارے سامنے رکھے ہوئے ہیں کیوں نہیں کھاتے۔ ” باوجودیکہ تمہاری صورت کھانے والوں کی سی ہے (تنبیہ) تقریر بالا سے ظاہر ہو گیا کہ حضرت ابراہیم کا ”انی سقیم” کہنا مطلب واقعی کے اعتبار سے جھوٹ نہ تھا، ہاں مخاطبین نے جو مطلب سمجھا اس کے اعتبار سے خلاف واقعہ تھا۔ اسی لیے بعض احادیث صحیحہ میں اس پر لفظ کذب کا اطلاق کیا گیا ہے۔ حالانکہ فی الحقیقت یہ کذب نہیں۔ بلکہ ”توریہ” ہے اور اس طرح کا ”توریہ” مصلحت شرعی کے وقت مباح ہے۔ جیسے حدیث ہجرت میں ”ممن الرجل”کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”من المآء” اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا ”رجل یہدینی السبیل” ہاں چونکہ یہ توریہ بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے رتبہ بلند کے لحاظ سے خلاف اولیٰ تھا۔ اس لیے بقاعدہ حسنات الابرابر سئیات المقربین” حدیث میں اس کو ”ذنب” قرار دیا گیا۔ واللہ اعلم۔

مَا لَكُمْ لَا تَنْطِقُوْنَ :جب بتوں کی طرف سے کھانے کے متعلق کچھ جواب نہ ملا تو کہنے لگا کہ تم بولتے کیوں نہیں۔ یعنی اعضاء اور صورت تو تمہاری انسانوں کی سی بنا دی لیکن انسانوں کی روح تم میں نہ ڈال سکے۔ پھر تعجب ہے کہ کھانے پینے اور بولنے والے انسان، بے حس و حرکت انسان کے سامنے سربسجود ہوں اور اپنی مہمات میں ان سے مدد مطلب کریں؟

فَرَاغَ عَلَيْہِمْ ضَرْبًا بِالْيَمِيْنِ:زور سے مار مار کر توڑ ڈالا۔ پہلے غالباً سورہ انبیاء میں یہ قصہ مفصل گزر چکا ہے۔

فَأَقْبَلُوْا إِلَيْہِ يَزِفُّوْنَ:لوگ جب اپنے میلے ٹھیلے سے واپس آئے ، دیکھا بت ٹوٹے پڑے ہیں۔ قرائن سے سمجھا کہ ابراہیم کے سوا یہ کسی کا کام نہیں۔ چنانچہ سب ان کی طرف جھپٹ پڑے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس نے فرمایا کیا تم (انکی) پرستش کرتے ہو جو تم خود تراشتے ہو۔ (۹۵)

حالانکہ اللہ نے تمہیں پیدا کیا اور جو تم کرتے (بناتے ) ہو۔ (۹۶)

تشریح: یعنی جس کسی نے بھی توڑا۔ مگر تم یہ احمقانہ حرکت کرتے کیوں ہو؟ کیا پتھر کی بیجان مورت جو خود تم نے اپنے ہاتھوں سے تراش کر تیار کی پرستش کے لائق ہو گی؟ اور جو اللہ تمہارا اور تمہارے ہر ایک عمل و معمول کا نیز ان پتھروں کا پیدا کرنے والا ہے ، اس سے کوئی سروکار نہ تھا؟ پیدا تو ہر چیز کو وہ کرے اور بندگی دوسروں کی ہونے لگے ، پھر دوسرے بھی کیسے جو مخلوق در مخلوق ہیں۔ آخر یہ کیا اندھیرا ہے ؟

(تفسیرعثمانی)

 

انہوں نے (ایک دوسرے کو) کہا: اس کے لئے ایک عمارت (آتش خانہ) بناؤ، پھر اسے آگ میں ڈال دو۔ (۹۷)

پھر انہوں نے اس پر داؤ کرنا چاہا تو ہم نے انہیں زیر تر کر دیا۔ (۹۸)

تشریح: جب ابراہیم علیہ السلام کی معقول باتوں کا کچھ جواب نہ بن پڑا تو یہ تجویز کی کہ ایک بڑا آتش خانہ بنا کر ابراہیم کو اس میں ڈال دو۔ اس تدبیر سے لوگوں کے دلوں میں بتوں کی عقیدت راسخ ہو جائے گی اور ہیبت بیٹھ جائے گی کہ ان کے مخالف کا انجام ایساہوتا ہے آئندہ کوئی ایسی جرأت نہ کرے گا مگر اللہ نے ان ہی کو نیچا دکھلایا۔ ابراہیم پر آگ گلزار کر دی گئی۔ جس سے علیٰ رؤس الاشہاد ثابت ہو گیا کہ تم اور تمہارے جھوٹے معبود سب مل کر خدائے واحد کے ایک مخلص بندے کا بال بیکا نہیں کر سکتے۔ آگ کی مجال نہیں کہ رب ابراہیم کی اجازت کے بدون ایک ناخن بھی جلا سکے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ابراہیم نے کہا میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں وہ مجھے بھی راہ دکھائے گا۔ (۹۹)

اے میرے رب! مجھے صالح (روحوں) میں سے (نیک اولاد) عطا فرما۔ (۱۰۰)

پس ہم نے اسے ایک بردبار لڑکے کی بشارت دی۔ (۱۰۱)

تشریح: جب قوم کی طرف سے مایوسی ہوئی اور باپ نے بھی سختی شروع کی تو حضرت ابراہیم نے ہجرت کا ارادہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو ”شام” کا راستہ دکھلایا۔

یہاں سے معلوم ہوا کہ حضرت ابراہیم نے اولاد کی دعا مانگی اور خدا نے قبول کی اور وہ ہی لڑکا قربانی کے لیے پیش کیا گیا۔ موجودہ تورات سے ثابت ہے کہ جو لڑکا حضرت ابراہیم کی دعا سے پیدا ہوا وہ حضرت اسماعیل ہیں۔ اور اسی لیے ان کا نام ”اسمٰعیل” رکھا گیا۔ کیونکہ ”اسمٰعیل” دو لفظوں سے مرکب ہے۔ ”سمع” اور ”ایل”، ”سمع” کے معنی سننے کے اور ”ایل” کے معنی خدا کے ہیں۔ یعنی خدا نے حضرت ابراہیم کی دعا سن لی۔ ”تورات” میں ہے کہ خدا نے حضرت ابراہیم سے کہا کہ اسماعیل کے بارے میں میں نے تیری سن لی اس بناء پر آیت حاضرہ میں جس کا ذکر ہے وہ حضرت اسماعیل ہیں۔ حضرت اسحاق نہیں۔ اور ویسے بھی ذبح وغیرہ کا قصہ ختم کرنے کے بعد حضرت اسحاق کی بشارت کا جداگانہ ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ آگے آتا ہے۔ ”وبشرناہ باسحق نبیا الخ” معلوم ہوا کہ ”فبشرناہ بلغلامٍ حلیمٍ۔ ” میں ان کے علاوہ کسی دوسرے لڑکے کی بشارت مذکور ہے۔ نیز اسحاق کی بشارت دیتے ہوئے ان کے نبی بنائے جانے کی بھی خوشخبری دی گئی اور سورہ ہود میں ان کے ساتھ ساتھ یعقوب کا مژدہ بھی سنایا گیا۔ جو حضرت اسحاق کے بیٹے ہوں گے۔ ”ومن ورآءِ اسحق یعقوب” (ہود، رکوع٧) پھر کیسے گمان کیا جا سکتا ہے کہ حضرت اسحاق ذبح ہوں۔ گویا نبی بنائے جانے اور اولاد عطا کیے جانے سے پیشتر ہی ذبح کر دیئے جائیں۔ لامحالہ ماننا پڑے گا کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل ہیں جن کے متعلق بشارت ولادت کے وقت نہ نبوت عطا فرمانے کا وعدہ ہوا نہ اولاد دیے جانے کا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ قربانی کی یادگار اور اس کی متعلقہ رسوم بنی اسماعیل میں برابر بطور وراثت منتقل ہوتی چلی آئیں۔ اور آج بھی اسماعیل کی روحانی اولاد ہی (جنہیں مسلمان کہتے ہیں) ان مقدس یادگاروں کی حامل ہے۔ موجودہ تورات میں تصریح ہے کہ قربانی کا مقام ”مورا” یا ”مریا” تھا۔ یہود و نصاریٰ نے اس مقام کا پتہ بتلانے میں بہت ہی دور ازکار احتمالات سے کام لیا ہے حالانکہ نہایت ہی اقرب اور بے تکلف بات یہ ہے کہ یہ مقام ”مروہ” ہو جو کعبہ کے سامنے بالکل نزدیک واقعہ ہے اور جہاں سعی بین الصفا والمروۃ ختم کر کے معتمرین حلال ہوتے ہیں اور ممکن ہے ”بلغ معہ السعی’ میں اسی سعی کی طرف ایماء ہو۔ موطا امام مالک کی ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”مروہ” کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ قربان گاہ یہ ہے۔ غالبا وہ اسی ابراہیم و اسماعیل کی قربان گاہ کی طرف اشارہ ہو گا۔ ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگ عموماً مکہ سے تین میل ”منیٰ” میں قربانی کرتے تھے جیسے آج تک کی جاتی ہے معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم کی اصل قربان گاہ ”مروہ” تھی۔ پھر حجاج اور ذبائح کہ کثرت دیکھ کر منیٰ تک وسعت دے دی گئی۔ قرآن کریم میں بھی ”ہدیا بالغ الکعبۃ” اور ”ثم محلہآ الی البیت العتیق” فرمایا ہے جس سے کعبہ کا قرب ظاہر ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔ بہرحال قرائن و آثار یہ ہی بتلاتے ہیں کہ ”ذبیح اللہ” وہ ہی اسماعیل تھے جو مکہ میں آخر رہے اور وہیں اس کی نسل پھیلی۔ تورات میں یہ بھی تصریح ہے کہ حضرت ابراہیم کو اپنے اکلوتے اور محبوب بیٹے کے ذبح کا حکم دیا گیا تھا اور یہ مسلم ہے کہ حضرت اسماعیل حضرت اسحاق سے عمر میں بڑے ہیں۔ پھر حضرت اسحاق علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام کی موجودگی میں اکلوتے کیسے ہو سکتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہاں حضرت ابراہیم کی دعاء کے جواب میں جس لڑکے کی بشارت ملی اسے ”غلام حلیم” کہا گیا ہے۔ لیکن حضرت اسحاق علیہ السلام کی بشارت جب فرشتوں نے ابتداء خدا کی طرف سے دی تو ”غلام علیم” سے تعبیر کیا۔ حق تعالیٰ کی طرف سے ”حلیم” کا لفظ ان پر یا کسی اور نبی پر قرآن میں کہیں اطلاق نہیں کیا گیا۔ صرف اس لڑکے کو جس کی بشارت یہاں دی گئی اور اس کے باپ ابراہیم کو یہ لقب عطا ہوا ہے۔ ”ان ابراہیم لحلیم اواہ منیب” (ہود، رکوع٧) اور ”ان ابراہیم لاواہ حلیم” (توبہ، رکوع١٤) جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ہی دونوں باپ بیٹے اس لقب خاص سے ملقب کرنے کے مستحق ہوئے۔ ”حلیم” اور ”صابر” کا مفہوم قریب قریب ہے۔ اسی ”غلام حلیم” کی زبان سے یہاں نقل کیا۔ ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین” دوسری جگہ صاف فرما دیا ”واسمعیل وادریس وذا الکفل کل من الصابرین” (انبیاء، رکوع٦) شاید اسی لیے سورہ ”مریم” میں حضرت اسماعیل کو ”صادق الوعد” فرمایا کہ ”ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین” کے وعدہ کو کس طرح سچا کر دکھایا۔ بہرحال ”حلیم”، ”صابر”، ”صادق الوعد” کے القاب کا مصداق ایک ہی معلوم ہوتا ہے۔ یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام۔ ”وکان عند ربہ مرضیا” سورہ ”بقرہ” میں تعمیر کعبہ کے وقت حضرت ابراہیم و اسماعیل کی زبان سے جو دعا نقل فرمائی ہے اس میں یہ الفاظ بھی ہیں۔ ”ربنا واجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنا امۃً مسلمۃً لک” بعینہ اسی مسلم کے تثنیہ کو یہاں قربانی کے ذکر میں ”فلما اسلما الخ” کے لفظ سے ادا کر دیا۔ اور ان ہی دونوں کی ذریت کو خصوصی طور پر ”مسلم” کے لقب سے نامزد کیا۔ بیشک اس سے بڑھ کر اسلام و تفویض اور صبر تحمل کیا ہو گا جو دونوں باپ بیٹے نے ذبح کرنے اور ذبح ہونے کے متعلق دکھلایا۔ یہ اسی ”اسلما” کا صلہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی ذریت کو ”امت مسلمہ” بنا دیا فللہ الحمد علی ذلک۔ (تفسیرعثمانی)

 

پھر جب وہ اس کے ساتھ دوڑنے (کی عمر کو) پہنچا تو ابراہیم نے کہا اے میرے بیٹے ! بیشک میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے ؟ اس نے کہا اے میرے ابا جان ! آپ کو جو حکم کیا جاتا ہے وہ کریں، آپ مجھے جلد ہی پائیں گے انشاء اللہ (اگر اللہ نے چاہا) صبر کرنے والوں میں سے۔ (۱۰۲)

تشریح: یعنی جب اسماعیل بڑا ہو کر اس قابل ہو گیا کہ اپنے باپ کے ساتھ دوڑ سکے اور اس کے کام آسکے اس وقت ابراہیم نے اپنا خواب بیٹے کو سنایا تاکہ اس کا خیال معلوم کریں کہ خوشی سے آمادہ ہوتا ہے یا زبردستی کرنی پڑے گی۔ کہتے ہیں کہ تین رات مسلسل یہ ہی خواب دیکھتے رہے۔ تیسرے روز بیٹے کو اطلاع کی، بیٹے نے بلا توقف قبول کیا کہنے لگا کہ ابا جان! (دیر کیا ہے ) مالک کا جو حکم ہو کر ڈالیے (ایسے کام میں مشورہ کی ضرورت نہیں۔ امر الٰہی کے امتثال میں شفقت پدری مانع نہ ہونی چاہیے ) رہا میں! سو آپ انشاء اللہ دیکھ لیں گے کہ کس صبرو تحمل سے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتا ہوں، ہزاروں ہزار رحمتیں ہوں ایسے بیٹے اور باپ پر۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس جب دونوں نے حکم (الہٰی) مان لیا، باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹایا۔ (۱۰۳)

تشریح: تاکہ بیٹے کا چہرہ سامنے  نہ ہو، مبادا محبت پدری جوش مارنے لگے ، کہتے ہیں یہ بات بیٹے نے سکھلائی۔ آگے اللہ نے نہیں فرمایا کہ کیا ماجرا گزرا۔ یعنی کہنے میں نہیں آتا جو حال گزرا اس کے دل پر اور فرشتوں پر۔

(تفسیرعثمانی)

 

ا ور ہم نے اس کو پکارا کہ اے ابراہیم! تو نے خواب کو سچ کر دکھایا، بیشک ہم نیکو کاروں کو اسی طرح جزا دیا کرتے ہیں۔ (۱۰۵)

تشریح: یعنی بس بس! رہنے دے۔ تو نے خواب سچا کر دکھایا۔ مقصود بیٹے کا ذبح کرانا نہیں۔ محض تیرا امتحان منظور تھا۔ سو اس میں پوری طرح کامیاب ہوا۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک یہ البتہ کھلی آزمائش (بڑا امتحان تھا)۔ (۱۰۶)

تشریح: یعنی ایسے مشکل حکم کر کے آزماتے ہیں، پھر ان کو ثابت قدم رکھتے ہیں۔ تب درجے بلند دیتے ہیں۔ تورات میں ہے کہ جب ابراہیم نے بیٹے کو قربان کرنا چاہا اور فرشتہ نے ندا دی کہ ہاتھ روک لو، تو فرشتے نے یہ الفاظ کہے۔ ”خدا کہتا ہے کہ چونکہ تو نے ایسا کام کیا اور اپنے اکلوتے بیٹے کو بچا نہیں رکھا۔ میں تجھ کو برکت دوں گا۔ اور تیری نسل کو آسمان کے ستاروں اور ساحل بحر کی ریت کی طرح پھیلا دوں گا۔ ” (تورات تکوین اصحاح٢٢، آیت ١٥)۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ (قربانی کو) اس کے عوض دیا۔ (۱۰۷)

اور ہم نے اس کا ذکر خیر بعد میں آنے والوں میں باقی رکھا۔ (۱۰۸)

تشریح: وَفَدَيْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ :یعنی بڑے درجہ کا جو بہشت سے آیا۔ یا بڑا قیمتی، فربہ، تیار۔ پھر یہ ہی رسم قربانی کی اسماعیل علیہ السلام کی عظیم الشان یادگار کے طور پر ہمیشہ کے لیے قائم کر دی۔

وَتَرَكْنَا عَلَيْہِ فِی الْاٰخِرِيْنَ :آج تک دنیا ابراہیم کو بھلائی اور بڑائی سے یاد کرتی ہے۔ علٰی نبینا وعلیہ الف الف سلام وتحیۃ۔ (تفسیرعثمانی)

 

سلام ہو ابراہیم پر۔ (۱۰۹) اسی طرح ہم نیکو کاروں کو جزا دیا کرتے ہیں۔ (۱۱۰)

بیشک وہ ہمارے مؤمن بندوں میں سے تھے۔ (۱۱۱)

اور ہم نے اسے بشارت دی اسحاق کی (کہ وہ) ایک نبی (اور ) نیک بختوں میں سے ہو گا۔ (۱۱۲)

اور ہم نے اس پر برکت نازل کی اور اسحاق پر، اور ان دونوں کی اولاد میں نیکو کار (بھی ہیں) اور اپنی جان پر صریح ظلم کرنے والے (بھی)۔ (۱۱۳)

تشریح:  وَمِنْ ذُرِّيَّتِہِمَا :حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یہ دونوں کہا دونوں بیٹوں کو۔ دونوں سے بہت اولاد پھیلی۔ اسحاق کی اولاد میں انبیاء بنی اسرائیل ہوئے۔ اور اسماعیل کی اولاد میں عرب ہیں جن میں ہمارے پیغمبر مبعوث ہوئے۔

مُحْسِنٌ وَّظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ مُبِيْنٌ :یعنی اولاد میں سب یکساں نہیں، اچھے بھی جو بڑوں کا نام روشن رکھیں اور برے بھی جو اپنی بدکاریوں کی وجہ سے ننگ خاندان کہلانے کے مستحق ہیں۔ (تنبیہ) عموماً مفسرین نے ”ومن ذریتہما” کی ضمیر ”ابراہیم واسحاق” کی طرف راجع کی ہے۔ مگر حضرت شاہ صاحب نے اسماعیل و اسحاق کی طرف راجع کر کے مضمون میں زیادہ وسعت پید ا کر دی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق ہم نے موسیٰ پر اور ہارون پر احسان کیا۔ (۱۱۴)

اور ہم نے ان دونوں کواور ان کی قوم کو بڑے غم (فرعون کے مظالم) سے نجات دی۔ (۱۱۵) اور ہم نے ان کی مدد کی تو وہی غالب رہے۔ (۱۱۶)

اور ہم نے ان دونوں کو واضح کتاب دی۔ (۱۱۷)

وَنَجَّيْنَاہُمَا وَقَوْمَہُمَا مِنَ الْکَرْبِ الْعَظِيْمِ :یعنی فرعون اور اس کی قوم کے ظلم و ستم سے نجات دی۔ اور ”بحرقلزم” سے نہایت آسانی کے ساتھ پار کر دیا۔

وَنَصَرْنَاہُمْ فَکَانُوْا ہُمُ الْغَالِبِيْنَ :یعنی فرعونیوں کا بیڑا غرق کر کے بنی اسرائیل کو غالب و منصور کیا۔ اور ہالکین کے اموال و املاک کا وارث بنایا۔

وَاٰتَيْنَاہُمَا الْكِتَابَ الْمُسْتَبِيْنَ :یعنی تورات شریف جس میں احکام الٰہی بہت تفصیل و ایضاح سے بیان ہوئے ہیں۔ (تفسیرعثمانی)

 

اور ان دونوں کو سیدھے راستے کی ہدایت دی۔ (۱۱۸)

تشریح: یعنی افعال و اقوال میں استقامت بخشی۔ اور ہر معاملہ میں سیدھی راہ پر چلایا جو عصمت انبیاء کے لوازم میں سے ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے ان دونوں کا ذکر خیر بعد میں آنے والوں میں باقی رکھا۔ (۱۱۹)

سلام ہو موسیٰ اور ہارون پر۔ (۱۲۰)

بیشک ہم اسی طرح نیکو کاروں کو جزا دیتے ہیں۔ (۱۲۱)

بیشک وہ ہمارے مؤمن بندوں میں سے تھے۔ (۱۲۲)

تشریح: ان آیتوں (۱۱۴ تا ۱۲۲) میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کا واقعہ بیان کیا گیا ہے ، یہ واقعہ متعدد مقامات پر تفصیل کے ساتھ گزر چکا ہے ، یہاں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، اور اسے ذکر کرنے سے اصل مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالی اپنے مخلص اور اطاعت شعار بندوں کی کس طرح مدد فرماتے ہیں، اور انہیں کیسے کیسے انعامات سے نوازتے ہیں ،چنانچہ یہاں حضرت موسیٰ و ہارون پر اپنے انعامات کا تذکرہ فرمایا ہے۔

(معارف القرآن)

 

اور بیشک الیاس رسولوں میں سے تھے۔ (۱۲۳)

(یاد کرو) جب اس نے اپنی قوم سے کہا:کیا تم (اللہ سے ) نہیں ڈرتے ؟ (۱۲۴)

کیا تم بعل (بت) کو پکارتے ہو، اور تم سب سے بہتر پیدا کرنے والے کو چھوڑتے ہو۔ (۱۲۵)

تشریح: حضرت الیاس علیہ السلام بعض کے نزدیک حضرت ہارون کی نسل سے ہیں۔ اللہ نے ان کو ملک شام کے ایک شہر ”بعلبک” کی طرف بھیجا۔ وہ لوگ ”بعل” نامی ایک بت کو پوجتے تھے۔ حضرت الیاس نے ان کو خدا کے غضب اور بت پرستی کے انجام بد سے ڈرایا۔

(تفسیرعثمانی)

 

(یعنی) اللہ کو (جو) تمہارا بھی رب ہے اور تمہارے پہلے باپ دادا کا (بھی) رب ہے۔ (۱۲۶)

تشریح: یعنی یوں تو دنیا میں آدمی بھی تحلیل و ترکیب کر کے بظاہر بہت سی چیزیں بنا لیتے ہیں۔ مگر بہتر بنانے والا وہ ہے جو تمام اصول و فروع، جواہر و اعراض اور صفات و موصوفات کا حقیقی خالق ہے۔ جس نے تم کو اور تمہارے باپ دادوں کو پیدا کیا۔ پھر یہ کیسے جائز ہو گا کہ اس احسن الخالقین کو چھوڑ کر ”بعل” بت کی پرستش کی جائے اور اس سے مدد مانگی جائے۔ جو ایک ظاہری طور پر بھی پیدا نہیں کر سکتا، بلکہ اس کا وجود خود اپنے پرستاروں کا رہین منت ہے۔ انہوں نے جیسا چاہا بنا کر کھڑا کر دیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس انہوں نے جھٹلایا تو بیشک وہ ضرور حاضر کئے جائیں گے (پکڑے جائیں گے )۔ (۱۲۷)

اللہ کے مخلص (خاص بندوں) کے سوا۔ (۱۲۸)

تشریح: یعنی سب نے جھٹلایا۔ مگر اللہ کے چنے ہوئے بندوں نے تکذیب نہیں کی۔ لہٰذا و ہی سزا سے بچے رہیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے اس کا ذکر باقی رکھا بعد میں آنے والوں میں۔ (۱۲۹)

سلام ہو الیاس پر۔ (۱۳۰)

بیشک ہم اسی طرح نیکو کاروں کو جزا دیا کرتے ہیں۔ (۱۳۱)

بیشک وہ ہمارے مؤمن بندوں میں سے تھے۔ (۱۳۲)

تشریح: حضرت الیاس علیہ السلام کے بارے میں قرآن کریم نے زیادہ تفصیلات بیان نہیں فرمائیں، تاریخی اور اسرائیلی روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد جب بنی اسرائیل میں کفر و شرک کی وبائیں پھوٹیں تو اس وقت آپ کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا، بائبل کی کتاب سلاطین میں ہے کہ بادشاہ اخی اب کی بیوی ازابیل نے بعل نام کے ایک بت کی پرستش شروع کی تھی، حضرت الیاس علیہ السلام نے انہیں بت پرستی سے روکا، اور معجزے بھی دکھلائے ، لیکن نافرمان قوم نے ہدایت کی بات ماننے کے بجائے   حضرت الیاس علیہ السلام کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا، اللہ تعالی نے ان کے منصوبے کو ناکام بنا کر خود انہی پر بلائیں مسلط فرمائیں اور حضرت الیاس علیہ السلام کو اپنے پاس بلا لیا، اسرائیلی روایتوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہیں آسمان پر زندہ اٹھا لیا گیا تھا، لیکن کسی مستند روایت سے اس بات کی تائید  نہیں ہوتی، مزید تفصیل کے لئے اس آیت کی تشریح میں تفسیر معارف القرآن ملاحظہ فرمائیے۔

(توضیح القرآن)

 

اور بیشک لوط رسولوں میں سے تھے۔ (۱۳۳)

(یاد کرو) جب ہم نے دی اسے نجات اور اس کے سب گھر والوں کو۔ (۱۳۴)

پیچھے رہ جانے والوں میں سے ایک بڑھیا کے سوا۔ (۱۳۵)

پھر ہم نے اور سب کو ہلاک کیا۔ (۱۳۶)

اور بیشک تم تو صبح ہوتے اور رات میں ان پر (ان کی بستیوں سے ) گزرتے ہو، تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ (۱۳۷۔ ۱۳۸)

تشریح: ان آیات میں حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر فرمایا گیا ہے ، یہ واقعہ پیچھے کئی مقامات پر گزر چکا ہے ، اس لئے یہاں تفصیل کی ضرورت نہیں، یہاں اہل مکہ کو خاص طور پر تنبیہ کی گئی کہ تم شام کے تجارتی سفر میں سدوم کے اس علاقہ سے دن رات گزرتے ہو، جہاں یہ عبرت ناک واقعہ پیش آیا، لیکن اس سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتے ، صبح اور رات کا ذکر خاص طور سے اس لئے فرمایا گیا کہ اہل عرب عموماً انہی اوقات میں یہاں سے گزرا کرتے تھے ، اور قاضی ابوالسعود فرماتے ہیں کہ غالباً سدوم کا یہ علاقہ راستے کی ایسی منزل پر واقع تھا کہ یہاں سے کوچ کرنے والے صبح کے وقت روانہ ہوتے تھے ، اور آنے والے شام کے وقت آتے تھے (تفسیرابوالسعود)۔

(معارف القرآن)

 

اور بیشک یونس البتہ رسولوں میں سے تھے۔ (۱۳۹)

جب وہ بھاگ کر بھری ہوئی کشتی (کے پاس) گئے۔ (۱۳۹)

تو قرعہ ڈالا سو وہ ہوئے دھکیلے گئے (ملزم ٹھہرے )۔ (۱۴۱)

پھر انہیں مچھلی نے نگل لیا اور وہ (اپنے آپ کو) ملامت کر رہے تھے۔ (۱۴۲)

پھر اگر و ہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے۔ (۱۴۳)

تو اس کے پیٹ میں قیامت کے دن تک رہتے۔ (۱۴۴)

پھر ہم نے انہیں چٹیل میدان میں پھینک دیا اور وہ بیمار تھے۔ (۱۴۴)

اور ہم نے اگایا ان پر ایک بیلدار (کدو کا) پودا۔ (۱۴۶)

اور ہم نے انہیں ایک لاکھ یا اس سے زیادہ لوگوں کی طرف بھیجا۔ (۱۴۷)

سو وہ لوگ ایمان لائے ، اور ہم نے انہیں ایک مدت تک کے لئے بہرہ مند کیا۔ (۱۴۸)

تشریح:حضرت یونس علیہ السلام کا واقعہ اختصار کے ساتھ سورۂ یونس (۱۰۔ ۹۸) میں بھی گزر چکا ہے ، اور سورۂ انبیاء (۲۱۔ ۸۷) میں بھی۔ وہ عراق کے شہر نینوا میں بھیجے گئے تھے ، اور انہوں نے ایک عرصے تک اپنی قوم کو ایمان لانے کی دعوت دی، اور جب وہ نہ مانی تو انہیں متنبہ کر دیا کہ اب تم پر تین دن کے اندر اندر عذاب آ کر رہے گا، قوم کے لوگوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ حضرت یونس علیہ السلام چونکہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے ، اس لئے اگر وہ بستی سے چلے جاتے ہیں تو یہ اس بات کی علامت ہو گی کہ وہ ٹھیک کہہ رہے تھے ، اس کے بعد حضرت یونس علیہ السلام اللہ تعالی کے حکم سے ہ بستی چھوڑ کر باہر چلے گئے ، ادھر بستی کے لوگوں نے جب دیکھا کہ آپ بستی میں نہیں ہیں اور کچھ عذاب کے آثار بھی محسوس کئے تو انہوں نے اللہ تعالی سے عاجزی کے ساتھ توبہ کی جس کے نتیجے میں ان سے عذاب ٹل گیا، حضرت یونس علیہ السلام کو ان کی توبہ کا حال معلوم نہیں تھا، اور جب انہوں نے یہ دیکھا کہ تین دن گزرگئے اور عداب نہیں آیا تو انہیں ڈرہوا کہ اگر میں بستی میں واپس جاؤں گا تو بستی والے مجھے جھوٹا بنائیں گے ، اور اندیشہ یہ بھی تھا کہ جھوٹا سمجھ کر قتل نہ کر دیں، اس لئے اس خوف کی وجہ سے اللہ تعالی کا حکم آنے سے پہلے ہی وہ اپنی بستی میں جانے کے بجائے سمندر کی طرف نکل کھڑے ہوئے اور ایک کشتی میں سوار ہو گئے جو آدمیوں سے بھری ہوئی تھی، اللہ تعالی کے ایک جلیل القدر پیغمبر ہونے کی وجہ سے اللہ تعالی کو آپ کی یہ بات پسند نہیں آئی کہ آپ اللہ تعالی کا حکم آنے سے پہلے بستی کو چھوڑکر کیوں چلے گئے ، بڑے لوگوں کی معمولی چوک پر بھی گرفت ہوتی ہے ، اس لئے اللہ تعالی کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ کشتی وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے ڈدبنے کے قریب آ گئی، اور قرعہ اندازی کی گئی کہ ایک شخص کوکشتی سے باہر پانی میں اتارا جائے ، کئی مرتبہ قرعہ ڈالا گیا اور ہر بار قرعے میں انہی کا نام نکلا، چنانچہ انہیں پانی میں پھینک دیا گیا، جہاں اللہ تعالی کے حکم سے ایک بڑی مچھلی آپ کی منتظر تھی، اس نے آ پ کو نگل لیا اور آپ کچھ عرصے مچھلی کے پیٹ میں رہے ، جیسا کہ سورۂ انبیاء میں گزرا ہے ، وہاں آپ یہ تسبیح پڑھتے رہے کہ: لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَکَ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ ۔

تسبیح پڑھنے کی برکت سے اللہ تعالی نے مچھلی کوحکم دیا کہ وہ انہیں ایک کھلے میدان کے کنارے لا کر ڈال دے ، چنانچہ ایسا ہی ہوا، اس وقت حضرت یونس علیہ السلام بہت کمزور ہوچکے تھے ، اور بعض روایات میں ہے کہ ان کے جسم پر بال نہیں رہے تھے ، اللہ تعالی نے ان کے اوپر ایک درخت اگایا، بعض روایات میں ہے کہ وہ کدو کا درخت تھا اس سے انہیں سایہ بھی حاصل ہوا، اور شاید اس کے پھل کواللہ تعالی نے ان کے لئے علاج بھی بنا دیا، نیز وہاں ایک بکری بھیج دی گئی، جس کا آپ دودھ پیتے رہے ، یہاں تک کہ تندرست ہو گئے۔

(توضیح القرآن)

 

پس ان سے پوچھیں کیا تیرے رب کے لئے بیٹیاں ہیں اور ان کے لئے بیٹے ہیں۔ (۱۴۹)

کیا ہم نے فرشتوں کو عورت (ذات) پیدا کیا ہے ؟ اور وہ دیکھ رہے ہیں۔ (۱۵۰)

یاد رکھو بیشک وہ بہتان طرازی سے کہتے ہیں۔ (۱۵۱)

(کہ) اللہ صاحب اولاد ہے ، اور وہ بیشک بالتحقیق جھوٹے ہیں۔ (۱۵۲)

تشریح: یعنی انبیاء کا حال تو سن لیا کہ حضرت نوح، ابراہیم، اسماعیل، موسیٰ، ہارون، الیاس، لوط، یونس علیہم السلام سب کی مشکلات اللہ کی امداد و اعانت سے حل ہوئیں۔ کوئی بڑے سے بڑا مقرب اس کی دستگیری سے بے نیاز نہیں۔ اب آگے تھوڑا سا فرشتوں اور جنوں کا حال سن لو۔ جن کی نسبت خدا جانے کیا کیا واہی تباہی عقیدے تراش کر رکھے ہیں۔ چنانچہ عرب کے بعض قبائل کہتے تھے کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں۔ جب پوچھا جاتا کہ ان کی مائیں کون ہیں تو بڑے بڑے جنوں کی لڑکیوں کو بتلاتے۔ اس طرح (العیاذ باللہ) خدا کا ناطہ جنوں اور فرشتوں دونوں سے جوڑ رکھا تھا۔ آگے دونوں کا حال ذکر کیا جاتا ہے مگر اس سے پہلے بطور تمہید کفار عرب کے اس لچر پوچ عقیدہ کا رد کیا گیا ہے۔ چنانچہ ابتدائے سورہ سے اپنی عظمت و وحدانیت کے دلائل اور قصص کے ضمن میں اپنی قدرت قاہرہ کے آثار بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اب ذرا ان احمقوں سے پوچھئے کیا اتنی بڑی عظمت و قدرت والا خدا (معاذ اللہ) اپنے لیے اولاد بھی تجویز کرتا تو بیٹیاں لیتا اور تم کو بیٹے دیتا۔ ایک تو یہ گستاخی کہ خداوند قدوس کے لیے اولاد تجویز کی، اور پھر اولاد بھی کمزور۔ اس پر مستزاد یہ کہ فرشتوں کو مونث (عورت) تجویز کیا۔ کیا جس وقت ہم نے فرشتوں کو پیدا کیا تھا، یہ کھڑے دیکھ رہے تھے کہ انہیں عورت بنایا گیا ہے۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ اس جہالت کا کیا ٹھکانا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا اس نے بیٹیوں کو بیٹوں پر پسند کیا ہے ؟ (۱۵۳)

تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ تم کیسا فیصلہ کرتے ہو۔ (۱۵۴)

تو کیا تم غور نہیں کرتے ؟ (۱۵۵)

تشریح: یعنی کچھ تو سوچو۔ عیب کرنے کو بھی ہنر چاہیے۔ ایک غلط عقیدہ بنانا تھا تو ایسا بالکل ہی بے تکا تو نہ ہونا چاہیے تھا۔ یہ کون سا انصاف ہے کہ اپنے لیے تو بیٹے پسند کرو اور خدا سے بیٹیاں پسند کراؤ۔

( تفسیرعثمانی)

 

کیا تمہارے پاس کوئی کھلی سند ہے ؟ (۱۵۶)

تو اپنی وہ کتاب لے آؤ اگر تم سچے ہو۔ (۱۵۷)

تشریح: یعنی آخر یہ مہمل اور بے تکی بات نکالی کہاں سے۔ عقل و فہم اور اصول سے تو اس کو لگاؤ نہیں۔ پھر کیا کوئی نقلی سند اس عقیدہ کی رکھتے ہو۔ ایسا ہے تو دکھلاؤ۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور انہوں نے اس کے اور جنات کے درمیان ایک رشتہ ٹھہرایا، اور تحقیق جان لیا جنات نے کہ بیشک وہ (عذاب میں) حاضر (گرفتار) کئے جائیں گے۔ (۱۵۸)

اللہ اس سے پاک ہے جو وہ بیان کرتے ہیں۔ (۱۵۹)

تشریح: یعنی احمقوں نے جنوں کے ساتھ معاذ اللہ دامادی کا رشتہ قائم کر دیا۔ سبحان اللہ کیا باتیں کرتے ہیں۔ موقع ملے تو ذرا ان جنوں سے پوچھ آؤ کہ وہ خود اپنی نسبت کیاسمجھتے ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ دوسرے مجرموں کی طرح وہ بھی اللہ کے روبرو پکڑے ہوئے آئیں گے۔

(ماخوذ تفسیرعثمانی)

 

سوائے اللہ کے چنے ہوئے بندے۔ (۱۶۰)

تو بیشک تم اور وہ جن کی تم پرستش کرتے ہو۔ (۱۶۱) وہ اس کے (اللہ کے ) خلاف (کسی کو) نہیں بہکا سکتے ، (۱۶۲)

اس کے سوا جو جہنم میں جانے والا ہے۔ (۱۶۳)

تشریح: یعنی جنوں میں سے ہوں یا آدمیوں میں سے اللہ کے چنے ہوئے بندے ہی اس پکڑ دھکڑ سے آزاد ہیں۔ معلوم ہوا وہاں کسی کا رشتہ ناتا نہیں۔ صرف بندگی اور اخلاص کی پوچھ ہے۔

بہت لوگ سمجھتے ہیں کہ جنوں کے ہاتھ میں بدی کی اور فرشتوں کے ہاتھ میں نیکی کی باگ ہے۔ یہ جس کو چاہیں بھلائی پہنچائیں اور خدا کا مقرب بنا دیں اور وہ جسے چاہیں برائی اور تکلیف میں ڈال دیں یا گمراہ کر دیں شاید ان ہی مفروضہ اختیارات کی بناء پر انہیں اولاد یا سسرال بنایا ہو گا۔ اس کا جواب دیا کہ تمہارے اور ان کے ہاتھ میں کوئی مستقل اختیار نہیں۔ تم اور جن شیاطین کو تم پوجتے ہو سب مل کر ایک قدرت نہیں رکھتے کہ بدون مشیت ایزدی ایک متنفس کو بھی زبردستی گمراہ کر سکو۔ گمراہ وہ ہی ہو گا جسے اللہ نے اس کی سوئے استعداد کی بناء پر دوزخی لکھ دیا اور اپنی بدکاری کی وجہ سے از خود دوزخ میں پہنچ گیا۔

( تفسیرعثمانی)

 

اور (فرشتوں نے کہا) ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کا ایک معین درجہ نہ ہو۔ (۱۶۴)

اور بیشک ہم ہی صف بستہ رہنے والے ہیں۔ (۱۶۵)

اور بیشک ہم ہی تسبیح کرنے والے ہیں۔ (۱۶۸)

تشریح:   یہ کلام اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف سے گویا ان کی زبان سے فرمایا۔ جیسے بہت جگہ آدمیوں کی زبان سے دعائیں فرمائی ہیں۔ یعنی ہر فرشتہ کی ایک حد مقرر ہے۔ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ یہ اس پر فرمایا کہ کافر کہتے ہیں فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں جنوں کی عورتوں سے پیدا ہوئیں۔ سو جنوں کو اپنا حال خوب معلوم ہے اور فرشتے یوں کہتے ہیں ان کو بھی حکم الٰہی سے ذرا تجاوز کرنے کی گنجائش نہیں۔

اپنی اپنی حد پر ہر کوئی اللہ کی بندگی اور اس کا حکم سننے کے لیے کھڑا رہتا ہے۔ مجال نہیں آگے پیچھے سرک جائے۔

( تفسیرعثمانی)

 

اور بیشک وہ کہا کرتے تھے۔ (۱۶۷)

اگر ہمارے پاس ہوتی پہلے لوگوں کی کوئی (کتابِ) نصیحت، تو ہم ضرور اللہ کے منتخب بندوں میں ہوتے۔ (۱۶۹)

پھر انہوں نے اس کا انکار کیا تو ہ عنقریب (اس کا انجام) جان لیں گے۔ (۱۷۰)

تشریح: عرب لوگ انبیاء کے نام سنتے تھے ان کے علم سے خبردار نہ تھے تو یہ کہتے یعنی اگر ہم کو پہلے لوگوں کے علوم حاصل ہوتے یا ہمارے ہاں کوئی کتاب اور نصیحت کی بات اترتی تو ہم خوب عمل کر کے دکھلاتے اور معرفت و عبادت میں ترقی کر کے اللہ کے مخصوص و منتخب بندوں میں شامل ہو جاتے۔ اب جو ان کے اندر نبی  آئے ، تو پھر گئے وہ قول و قرار کچھ یاد نہ رکھا۔ سو اس انکار و انحراف کا جو انجام ہونے والا ہے عنقریب دیکھ لیں گے۔

( تفسیرعثمانی)

 

اور ہمارا وعدہ اپنے بندوں (یعنی) رسولوں کے لئے پہلے (ہی) صادر ہو چکا ہے۔ (۱۷۱)

بیشک وہی فتح مند ہوں گے۔ (۱۷۲)

اور بیشک البتہ ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا۔ (۱۷۳)

تشریح: یعنی یہ بات علم الٰہی میں ٹھہر چکی ہے کہ منکرین کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ اپنے پیغمبروں کو مدد پہنچاتا ہے اور آخرکار خدائی لشکر ہی غالب ہو کر رہتا ہے خواہ درمیان میں حالات کتنے ہی پلٹے کھائیں۔ مگر آخری فتح اور کامیابی مخلص بندوں ہی کے لیے ہے۔ باعتبار حجت و برہان کے بھی اور باعتبار ظاہری تسلط و غلبہ کے بھی۔ ہاں شرط یہ ہے کہ ”جند” فی الواقع ”جند اللہ” ہو۔

( تفسیرعثمانی)

 

پس ایک وقت تک (تھوڑا عرصہ) ان سے اعراض کریں۔ (۱۷۴)

اور انہیں دیکھتے رہیں پس عنقریب وہ (اپنا انجام) دیکھ لیں گے۔ (۱۷۸)

تو کیا وہ ہمارے عذاب کے لئے جلدی کر رہے ہیں۔ (۱۷۶)

تو جب وہ ان کے میدان میں نازل ہو گا تو ان کی صبح بری ہو گی، جنہیں ڈرایا جا چکا۔ (۱۷۷)

تشریح: شاید ”فسوف یبصرون” سن کر کہا ہو گا کہ پھر دیر کیا ہے ہم کو ہمارا انجام جلدی دکھلا دو۔ اس کا جواب دیا کہ اپنے اوپر جو آفت لائے جانے کی جلدی مچا رہے ہو، جب وہ آئے گی تو بہت برا وقت ہو گا۔ عذاب الٰہی اس طرح آئے گا جیسے کوئی دشمن گھات میں لگا ہوا ہو اور صبح کے وقت یکایک میدان میں اتر کر چھاپہ مارا جائے۔ عذاب آنے کے وقت یہ ہی حشر ان لوگوں کا ہو گا جنہیں پہلے سے ڈر سنا کر ہشیار کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ فتح مکہ وغیرہ میں ایسا ہی ہوا۔

( تفسیرعثمانی)

 

اور ایک مدت تک (تھوڑا عرصہ) ان سے اعراض کریں۔ (۱۷۸)

اور دیکھتے رہیں پس عنقریب وہ (اپنا انجام) دیکھ لیں گے۔ (۱۷۹)

تشریح:  شاید پہلا وعدہ دنیا کے عذاب کا تھا اور یہ آخرت کے عذاب کا ہو، یعنی آپ دیکھتے جائیے اب آگے چل کر آخرت میں یہ کافر کیا کچھ دیکھتے ہیں۔

( تفسیرعثمانی)

 

پاک ہے تمہارا رب، عزت والا رب اس سے جو وہ بیان کرتے ہیں۔ (۱۸۰)

اور سلام ہو رسولوں پر۔ (۱۸۱)

اور تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ (۱۸۲)

تشریح: خاتمہ سورت پر تمام اصولی مضامین کا خلاصہ کر دیا۔ یعنی اللہ کی ذات تمام عیوب و نقائص سے پاک اور تمام محاسن و کمالات کی جامع ہے۔ سب خوبیاں اسی کی ذات میں مجتمع ہیں۔ اور انبیاء و رسل پر اس کی طرف سے سلام آتا ہے۔ جو ان کی عظمت و عصمت اور سالم و منصور ہونے کی دلیل ہے۔ (تنبیہ) احادیث سے بعد نماز اور ختم مجلس پر ان آیات کے پڑھنے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے سورہ ہذا کے فوائد کو ان ہی آیات متبرکہ پر ختم کرتا ہوں۔ اے اللہ میرا خاتمہ بھی اسی عقیدہ محکم پر کیجیو۔ ”سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا يَصِفُونَ۔ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ۔ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔ تمت فوائد الصافات۔

( تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

٭٭٭٭٭

۳۸۔ سورۃ  صٓ

 

                تعارف

 

اس سورت کے نزول کا ایک خاص واقعہ ہے جو معتبر روایتوں میں بیان کیا گیا ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لائے تھے ، لیکن اپنی رشتہ داری کے حق کو نبھانے کے لئے آپ کی مدد بہت کرتے تھے ، ایک مرتبہ قریش کے دوسرے سردار ابوطالب کے پاس وفد کی شکل میں آئے اور کہا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہمارے بتوں کو برا کہنا چھوڑ دیں تو ہم انہیں ان کے اپنے دین پر عمل کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں، حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بتوں کو اس کے سوا کچھ نہیں کہتے تھے کہ ان میں کوئی نفع یا نقصان پہنچانے کی کوئی طاقت نہیں، اور ان کو خدا ماننا گمراہی ہے ، چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مجلس میں بلا کر آپ ک سامنے یہ تجویز رکھی گئی تو آپ نے ابو طالب سے فرمایا کہ چچا جان کیا میں انہیں اس چیز کی دعوت نہ دوں جس میں ان کی بہتری ہے ، ابوطالب نے پوچھا وہ کیا چیز ہے ، آپ نے فرمایا میں ان سے ایک ایسا کلمہ کہلانا چاہتا ہوں جس کے ذریعے سارا عرب ان کے آگے سرنگوں ہو جائے ، اور یہ پورے عجم کے مالک ہو جائیں، اس کے بعد آپ نے کلمۂ توحید پڑھا، یہ سن کر تمام لوگ کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے ، اور کہنے لگے کہ کیا ہم سارے معبودوں کو چھوڑ کر ایک کو اختیار کر لیں، یہ تو بڑی عجیب بات ہے ، اس موقع پر سورۂ صٓ کی آیا ت نازل ہوئیں، اس کے علاوہ اس سورت میں مختلف پیغمبروں کا بھی تذکرہ ہے جن میں حضرت داؤو اور حضرت سلیمان علیہماالسلام کے واقعات بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

مکیۃ

آیات۸۸         رکوعات:۵

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

صاد، نصیحت دینے والے قرآن کی قسم! (آپ کی دعوت بر حق ہے )۔ (۱)

بلکہ جن لوگوں نے کفر کیا اور وہ گھمنڈ اور مخالفت میں ہیں۔ (۲)

تشریح: یعنی یہ عظیم الشان، عالی مرتبہ قرآن (جو عمدہ نصیحتوں سے پر، اور نہایت موثر طرز میں لوگوں کو ہدایت و معرفت کی باتیں سمجھانے والا ہے ) با آواز بلند شہادت دے رہا ہے کہ جو لوگ قرآنی صداقت اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے منکر ہیں اس کا سبب یہ نہیں کہ قرآن کی تعلیم و تفہیم میں کچھ قصور ہے یا حضورِ صلی اللہ علیہ وسلم پر نور اس کی تبلیغ و تبیین میں معاذ اللہ مقصر ہیں۔ بلکہ انکار و انحراف کا اصلی سبب یہ ہے کہ یہ لوگ جھوٹی شیخی، جاہلانہ غرور و نخوت اور معاندانہ مخالفت کے جذبات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ذرا اس دلدل سے نکلیں تو حق و صداقت کی صاف سڑک نظر آئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کتنی ہی امتیں ان سے قبل ہم نے ہلاک کر دیں تو وہ فریاد کرنے لگے اور (اب) چھٹکارے کا وقت نہ تھا۔ (۳)

تشریح: یعنی ان کو معلوم رہنا چاہیے کہ اسی غرور و تکبر کی بدولت انبیاء اللہ سے مقابلہ ٹھان کر بہت سی جماعتیں پہلے تباہ و برباد ہو چکی ہیں، وہ لوگ بھی مدتوں خدا کے پیغمبروں سے لڑتے رہے۔ پھر جب برا وقت آ کر پڑا اور عذاب الٰہی نے چاروں طرف سے گھیر لیا تو گھبرا کر شور مچانے اور خدا کو پکارنے لگے۔ مگر اس وقت فریاد کرنے سے کیا بنتا۔ رہائی اور خلاصی کا موقع گزر چکا تھا، اور وقت نہیں رہا تھا کہ ان کے شور و بکاء کی طرف توجہ کی جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور انہوں نے تعجب کیا کہ ان کے پاس ان میں سے ایک ڈرانے والا آیا، اور کافروں نے کہا یہ جادوگر، جھوٹا ہے۔ (۴)

تشریح: یعنی آسمان سے کوئی فرشتہ آتا تو خیر ایک بات تھی۔ ہم ہی میں سے ایک آدمی کھڑا ہو کر ہم کو ڈرانے دھمکانے لگے اور کہے میں آسمان والے خدا کی طرف سے بھیجا ہوا آیا ہوں۔ یہ عجیب بات ہے اب بجز اس کے کیا کہا جائے کہ ایک جادوگر نے جھوٹا ڈھونگ بنا کر کھڑا کر دیا ہے۔ جادو کے زور سے کچھ کرشمے دکھا کر انہیں معجزہ کہنے لگے اور چند قصے کہانیاں جمع کر کے جھوٹا دعویٰ کر دیا کہ یہ اللہ کے اتارے ہوئے علوم ہیں۔ اور میں اس کا پیغمبر ہوں۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا اس نے سارے معبودوں کو بنا دیا ہے ایک معبود، بیشک یہ تو ایک بڑی عجیب بات ہے۔ (۵)

اور ان کے کئی سردار یہ کہتے ہوئے چل پڑے کہ چلو اور معبودوں پر جمے رہو، بیشک یہ کوئی اس کے مطلب کی بات ہے۔ (۶)

تشریح: یعنی اور لیجئے ! اتنے بیشمار دیوتاؤں کا دربار ختم کر کے صرف ایک خدا رہنے دیا۔ اس سے بڑھ کر تعجب کی بات کیا ہو گی کہ اتنے بڑے جہان کا انتظام اکیلے ایک خدا کے سپرد کر دیا جائے۔ اور مختلف شعبوں اور محکموں کے جن خداؤں کی بندگی قرنوں سے ہوتی چلی آتی تھی وہ سب یک قلم موقوف کر دی جائے۔ گویا ہمارے باپ دادے نرے جاہل اور بیوقوف ہی تھے جو اتنے دیوتاؤں کے سامنے سر عبودیت خم کرتے رہے۔ روایات میں ہے کہ ابو طالب کی بیماری میں ابوجہل وغیرہ چند سردارانِ قریش نے ابوطالب سے آ کر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شکایت کی کہ یہ ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اور ہمیں طرح طرح سے احمق بناتے ہیں۔ آپ ان کو سمجھائیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے چچا! میں ان سے صرف ایک کلمہ چاہتا ہوں جس کے بعد تمام عرب ان کا مطیع ہو جائے اور عجم ان کی خدمت میں جزیہ پیش کرنے لگے۔ وہ خوش ہو کر بولے کہ بتلائیے وہ کلمہ کیا ہے ، آپ ایک کلمہ کہتے ہیں ہم آپ کے دس کلمے ماننے کے لیے تیار ہیں۔ فرمایا زیادہ نہیں بس ایک اور صرف ایک ہی کلمہ ہے ‘لا الہ الا اللہ” یہ سنتے ہی طیش میں آ کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کیا اتنے خداؤں کو ہٹا کر اکیلا ایک خدا۔ چلو جی! یہ اپنے منصوبے سے کبھی باز نہ آئیں گے۔ یہ تو انہی ہمارے معبودوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔ تم بھی مضبوطی سے اپنے معبودوں کی عبادت و حمایت پر جمے رہو۔

(تفسیر عثمانی)

 

إِنَّ ہٰذَا لَشَيْءٌ يُّرَادُ: یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان باتوں کے ذریعے (معاذاللہ) اپنا اقتدار قائم کرنا چاہتے ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

ہم نے پچھلے مذہب میں ایسی بات نہیں سنی یہ تو محض من گھڑت ہے۔ (۷)

تشریح: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ”پچھلا دین کہتے تھے اپنے باپ داداؤں کو۔ یعنی آگے تو سنے ہیں کہ اگلے لوگ ایسی باتیں کہتے تھے۔ پر ہمارے بزرگ تو یوں نہیں کہہ گئے۔ ” اور ممکن ہے پچھلے دین سے عیسائی مذہب مراد ہو۔ جیسا کہ اکثر سلف کا قول ہے۔ یعنی نصاریٰ جو اہل کتاب ہیں ان کو بھی ہم نے نہیں سناکہ سب خداؤں کو ہٹا کر ایک خدا رہنے دیا ہو۔ آخر وہ بھی تین خدا تو مانتے ہیں اور آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو رسول نہیں مانتے۔ اگر پہلی کتابوں میں کچھ اصل ہوتی تو وہ ضرور قبول کرتے۔ معلوم ہوا کہ محض گھڑی ہوئی بات ہے۔ العیاذ باللہ۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا ہم میں سے اسی پر کلام اللہ کا نازل کیا گیا ہے ؟ (ہاں) بلکہ وہ شک میں ہیں میری نصیحت سے ، بلکہ (ابھی) انہوں نے میرا عذاب نہیں چکھا۔ (۸)

تشریح: أَأُنْزِلَ عَلَيْہِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنَا: یعنی اچھا قرآن کو اللہ کا کلام ہی مان لو اور یہ بھی نہ سہی کہ آسمان سے کوئی فرشتہ نبی بنا کر بھیجا جاتا مگر یہ کیا غضب ہے کہ ہم سب میں سے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہی کا انتخاب ہوا۔ کیا سارے ملک میں ایک یہ ہی اس منصب کے لیے رہ گئے تھے ؟ اور کوئی بڑا رئیس مالدار خدا کو نہ ملتا تھا جس پر اپنا کلام نازل کرتا۔

بَلْ ہُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْ ذِكْرِیْ ۖ بَلْ لَّمَّا يَذُوْقُوْا عَذَابِ :یہ حق تعالیٰ کی طرف سے ان کی نامعقول یاوہ گوئی کا جواب ہوا۔ یعنی ان کی یہ خرافات کچھ نہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ ابھی ہماری نصیحت کے متعلق ان کو دھوکا لگا ہوا ہے۔ وہ یقین نہیں رکھتے کہ جس خوفناک مستقبل سے آگاہ کیا جا رہا ہے وہ ضرور پیش آ کر رہے گا۔ کیونکہ ابھی تک انہوں نے خدائی مار کا مزہ نہیں چکھا۔ جس وقت خدائی مار پڑے گی۔ تمام شکوک و شبہات دور ہو جائیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا تمہارے رب کی رحمت کے خزانے ان کے پاس ہیں؟ جو غالب، بہت عطا کرنے والا ہے۔ (۹)

کیا ان کے لئے ہے بادشاہت آسمانوں کی اور زمین کی اور جو ان کے درمیان ہے ، تو وہ (آسمانوں پر) چڑھ جائیں رسیاں تان کر۔ (۱۰)

تشریح: یعنی رحمت کے خزانے اور آسمان و زمین کی حکومت سب اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ زبردست ہے اور بڑی بخشش والا ہے ، جس پر جو انعام چاہے کرے ، کون روک سکتا ہے یا نکتہ چینی کر سکتا ہے۔ اگر وہ اپنی حکمت و دانائی سے کسی بشر کو منصب نبوت و رسالت پر سرفراز فرماتا ہے تو تم دخل دینے والے کون ہو کہ صاحب اس پر یہ مہربانی فرمائی ہم پر نہ فرمائی۔ کیا رحمت کے خزانوں اور زمین و آسمان کی حکومت کے تم مالک و مختار ہو جو اس قسم کے لغو اعتراضات کرتے ہو۔ اگر ہو تو اپنے تمام اسباب ووسائل کو کام میں لے آؤ۔ اور رسیاں تان کر آسمان پر چڑھ جاؤ۔ تاکہ وہاں سے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر وحی کا آنا بند کر سکو اور علویات پر قابض ہو کر اپنی مرضی و منشاء کے موافق آسمان و زمین کے انتظام و تدبیر کا انجام دے سکو۔ اگر اتنا نہیں کر سکتے تو آسمان و زمین کی حکومت اور خزائن رحمت کی مالکیت کا دعویٰ عبث ہے۔ پھر خدائی انتظامات میں دخل دینا بجز بے حیائی یا جنون کے اور کیا ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

شکست خوردہ گروہوں میں سے یہاں بھی ایک لشکر ہے۔ (۱۱)

تشریح: یعنی کچھ بھی نہیں۔ زمین و آسمان کی حکومت اور خزانوں کے مالک تو یہ بیچارے کیا ہوتے۔ چند ہزیمت خوردہ آدمیوں کی ایک بھیڑ ہے جو اگلی تباہ شدہ قوموں کی طرح تباہ و برباد ہوتی نظر آتی ہے۔ چنانچہ یہ منظر ”بدر” سے لے کر ”فتح مکہ” تک لوگوں نے دیکھ لیا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یعنی اگلی قومیں برباد ہوئیں۔ اگر چڑھ جائیں تو ان میں ایک یہ بھی برباد ہوں۔ ” گویا اس آیت کا ربط ماقبل سے بتلا دیا۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

ان سے پہلے جھٹلایا قوم نوح نے اور عاد اور میخوں والے فرعون۔ (۱۲)

تشریح: وَّفِرْعَوْنُ ذُوالْأَوْتَادِ :یعنی بہت زور و قوت اور لاؤ لشکر والا جس نے دنیا میں اپنی سلطنت کے کھونٹے گاڑ دیئے اور بعض کہتے ہیں کہ وہ آدمی کو چومیخا کر کے مارتا تھا اس سے اس کا نام ذوالاوتاد (میخوں والا) پڑ گیا۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ثمود اور قوم لوط اور ایکہ والوں نے ، یہی وہ گروہ ہیں۔ (۱۳)

ان سب نے رسولوں کو جھٹلایا، پس (ان پر) عذاب آ پڑا۔ (۱۴)

تشریح: وَّأَصْحَابُ الْأَيْکَۃِ: یعنی حضرت شعیب علیہ السلام جس کی طرف مبعوث ہوئے۔

إِنْ كُلٌّ إِلَّا کَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ :یعنی یہ بڑی بڑی طاقتور فوجیں ہمارے اور رسولوں کو جھٹلا کر سزا سے نہ بچ سکیں۔ تمہاری تو حقیقت کیا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور انتظار نہیں کرتے یہ لوگ، مگر ایک چنگھاڑ کا، جس میں کوئی ڈھیل (گنجائش) نہ ہو گی۔ (۱۵)

تشریح: یعنی صور کی آواز کے منتظر ہیں۔ پوری سزا اس وقت ملے گی۔ اور ممکن ہے ”صحیحہ” سے یہیں کی ایک ڈانٹ مراد ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور انہوں نے (مذاق طور پر) کہا اے ہمارے رب ہمیں جلدی دے ہمارا حصہ روزِ حساب سے پہلے۔ (۱۶)

تشریح: یعنی جب وعدہ قیامت سنتے مسخرا پن سے کہتے کہ ہم کو تو اس وقت کا حصہ ابھی دے دیجئے ابھی ہم اپنا اعمالنامہ دیکھ لیں اور ہاتھ کے ہاتھ سزا جزاء سے فارغ ہو جائیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

جو وہ کہتے ہیں اس پر آپ صبر کریں، اور یاد کریں ہمارے بندے داؤد قوت والے کو، بیشک وہ خوب رجوع کرنے والا تھا۔ (۱۷)

تشریح: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”اس جگہ ان کو (داؤد کا قصہ) یاد دلوایا کہ انہوں نے بھی ”طالوت” کے (عہد) حکومت میں بہت صبر کیا۔ آخر حکومت ان کو ملی اور (جالوت وغیرہ) مخالفوں کو جہاد سے زیر کیا۔ یہ ہی نقشہ ہوا ہمارے پیغمبر کا۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک ہم نے پہاڑ اس کے لئے مسخر کر دئیے تھے ، وہ صبح و شام تسبیح کرتے تھے۔ (۱۸)

اور اکھٹے کئے ہوئے پرندے (بھی اس کے مسخر تھے ) سب اسی کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ (۱۹)

تشریح: یعنی صبح و شام جب حضرت داؤد تسبیح پڑھتے ، پہاڑ بھی ان کے ساتھ تسبیح کرتے تھے۔ اس کے متعلق کچھ مضمون سورہ ”سبا” میں گزر چکا ہے وہاں دیکھ لیا جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے اس کی بادشاہت مضبوط کی اور اس کو حکمت دی اور فیصلہ کن خطاب۔ (۲۰)

تشریح: یعنی دنیا میں اس کی سلطنت کی دھاک بٹھلا دی تھی اور اپنی اعانت و نصرت سے مختلف قسم کی کثیر التعداد فوجیں دے کر خوب اقتدار جما دیا تھا۔ بڑے مدبر و دانا تھے۔ ہر بات کا فیصلہ بڑی خوبی سے کرتے اور بولتے تو نہایت فیصلہ کن تقریر ہوتی تھی۔ بہرحال حق تعالیٰ نے ان کو نبوت، حسن تدبیر، قوت فیصلہ اور طرح طرح کے علمی و عملی کمالات عطا فرمائے تھے۔ لیکن امتحان و ابتلاء سے وہ بھی نہیں بچے۔ جس کا قصہ آگے بیان کرتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور کیا آپ کے پاس جھگڑنے والوں (اہل مقدمہ) کی خبر پہنچی ؟جب وہ دیوار پھاند کر مسجد میں آ گئے۔ (۲۱)

ان لوگوں نے کہا ڈرو نہیں ہم دو جھگڑنے والے (اہل مقدمہ) ہیں ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے تو آپ ہمارے درمیان فیصلہ کر دیں حق کے ساتھ، اور بے انصافی نہ کریں، اور سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کریں۔ (۲۲)

تشریح:  حضرت داؤد نے تین دن کی باری رکھی تھی۔ ایک دن دربار اور فصل خصومات کا، ایک دن اپنے اہل و عیال کے پاس رہنے کا، ایک دن خالص اللہ کی عبادت کا۔ اس دن خلوت میں رہتے تھے دربان کسی کو آنے نہ دیتے۔ ایک دن عبادت میں مشغول تھے کہ ناگاہ کئی شخص دیوار پھاند کر ان کے پاس آ کھڑے ہوئے داؤد علیہ السلام باوجود اپنی قوت و شوکت کے یہ ناگہانی ماجرا دیکھ کر گھبرا اٹھے کہ یہ آدمی ہیں یا کوئی اور مخلوق ہے۔ آدمی ہیں تو نا وقت آنے کی ہمت کیسے ہوئی؟ دربانوں نے کیوں نہیں روکا؟ اگر دروازے سے نہیں آئے تو اتنی اونچی دیواروں کو پھاندنے کی کیا سبیل کی ہو گی خدا جانے ایسے غیر معمولی طور پر کس نیت اور کس غرض سے آئے ہیں۔ غرض اچانک یہ عجیب و مہیب واقعہ دیکھ کر خیال دوسری طرف بٹ گیا اور عبادت میں جیسی یکسوئی کے ساتھ مشغول تھے ، قائم نہ رہ سکی۔

آنے والوں نے کہا کہ آپ گھبرائیے نہیں اور ہم سے خوف نہ کھائیے۔ ہم دو فریق اپنے ایک جھگڑے کا فیصلہ کرانے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔ آپ ہم میں منصفانہ فیصلہ کر دیجئے۔ کوئی بے راہی اور ٹالنے کی بات نہ ہو۔ ہم عدل و انصاف کی سیدھی راہ معلوم کرنے کے لیے آئے ہیں (شاید گفتگو کا یہ عنوان دیکھ کر حضرت داؤد زیادہ متعجب ہوئے ہوں)۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک میرے اس بھائی کے پاس نناوے دنبیاں ہیں ا ور میرے پاس (صرف) ایک دنبی ہے ، پس اس نے کہا وہ (بھی) میرے حوالے کر دے ، اور اس نے مجھے گفتگو میں دبایا ہے۔ (۲۳)

تشریح: یعنی جھگڑا یہ ہے کہ میرے اس بھائی کے پاس ننانوے دُنبیاں ہیں اور میرے ہاں صرف ایک دنبی ہے۔ یہ چاہتا ہے کہ وہ ایک بھی کسی طرح مجھ سے چھین کر اپنی سو پوری کر لے۔ اور مشکل یہ آن پڑی ہے کہ جیسے مال میں یہ مجھ سے زیادہ ہے بات کرنے میں بھی مجھ سے تیز ہے۔ جب بولتا ہے تو مجھ کو دبا لیتا ہے اور لوگ بھی اسی کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں۔ غرض میرا حق چھیننے کے لیے زبردستی کی باتیں کرتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

داؤد نے کہا واقعی اس نے تیری دنبی مانگ کر ظلم کیا ہے (کہ) اپنی دنبیوں کے ساتھ ملا لے ، اور بیشک اکثر شرکاء ایک دوسرے پر زیادتی کیا کرتے ہیں، سوائے ان کو  جو ایمان لائے ، اور انہوں نے نیک عمل کئے اور (ایسے لوگ) بہت کم ہیں، اور داؤد نے خیال کیا کہ ہم نے کچھ اسے آزمایا ہے تو اس نے اپنے رب سے مغفرت طلب کی، اور جھک کر (سجدے میں) گر گیا، اور اس نے رجوع کیا۔ (۲۴)

تشریح: حضرت داؤد نے با قاعدہ شریعت ثبوت وغیرہ طلب کیا ہو گا۔ آخر میں یہ فرمایا کے بیشک (اگر یہ تیرا بھائی ایسا کرتا ہے تو) اس کی زیادتی اور نا انصافی ہے۔ چاہتا ہے کہ اس طرح اپنے غریب بھائی کا مال ہڑپ کر جائے (مطلب یہ کہ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے ) شرکاء کی عادت ہے ایک دوسرے پر ظلم کرنے کی، قوی حصہ دار چاہتا ہے کہ ضعیف کو کھا جائے۔ صرف اللہ کے ایماندار اور نیک بندے اس سے مستثنیٰ ہیں۔ مگر وہ دنیا میں بہت ہی تھوڑے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس ہم نے بخش دی اس کی یہ ( لغزش) اور بیشک اس کے لئے ہمارے پاس قرب اور اچھا ٹھکانا ہے۔ (۲۵)

تشریح: یعنی اس قصہ کے بعد داؤد کو تنبہ ہوا کہ میرے حق میں یہ ایک فتنہ اور امتحان تھا۔ اس خیال کے آتے ہی اپنی خطا معاف کرانے کے لیے نہایت عاجزی کے ساتھ خدا کے سامنے جھک پڑے۔ آخر خدا نے ان کی وہ خطا معاف کر دی۔ داؤد علیہ السلام کی وہ خطا کیا تھی؟ جس کی طرف ان آیات میں اشارہ ہے اس کے متعلق مفسرین نے بہت سے لمبے چوڑے قصے بیان کیے ہیں۔ مگر حافظ عماد الدین ابن کثیر ان کی نسبت لکھتے ہیں۔ ”قد ذکر المفسرون ھہنا قصۃً اکثرھا ماخوذ من الاسرائیلیات ولم یثبت فیہا عن المعصوم حدیث یجب اتباعہ۔ ” اور حافظ ابو محمد ابن حزم نے کتاب الفصل میں بہت شدت سے ان قصوں کی تردید کی ہے باقی ابو حیان وغیرہ نے ان قصوں سے علیحدہ ہو کر آیات کا جو محمل بیان کیا ہے وہ بھی تکلف سے خالی نہیں۔ ہمارے نزدیک اصل بات وہ ہے جو ابن عباس سے منقول ہے۔ یعنی داؤد علیہ السلام کو یہ ابتلاء ایک طرح کے اعجاب کی بناء پر پیش آیا۔ صورت یہ ہوئی کہ داؤد علیہ السلام نے بارگاہ ایزدی میں عرض کیا کہ اے پروردگار! رات اور دن میں کوئی ساعت ایسی نہیں جس میں داؤد کے گھرانے کا کوئی نہ کوئی فرد تیری عبادت (یعنی نماز یا تسبیح و تکبیر) میں مشغول نہ رہتا ہو۔ (یہ اس لیے کہا کہ انہوں نے روز و شب کے چوبیس گھنٹے اپنے گھر والوں پر نوبت بہ نوبت تقسیم کر رکھے تھے تاکہ ان کی عبادت خانہ کسی وقت عبادت سے خالی نہ رہنے پائے ) اور بھی کچھ اس قسم کی چیزیں عرض کیں (شاید اپنے حسن انتظام وغیرہ کے متعلق ہوں گی) اللہ تعالیٰ کو یہ بات ناپسند ہوئی، ارشاد ہوا کہ داؤد یہ سب کچھ ہماری توفیق سے ہے۔ اگر میری مدد نہ ہو تو تو اس چیز پر قدرت نہیں پا سکتا۔ (ہزار کوشش کرے ، نہیں نباہ سکے گا) قسم ہے اپنے جلال کی میں تجھ کو ایک روز تیرے نفس کے سپرد کر دوں گا۔ (یعنی اپنی مدد ہٹا لوں گا۔ دیکھیں اس وقت تو کہاں تک اپنی عبادت میں مشغول رہ سکتا اور اپنا نظام قائم رکھ سکتا ہے ) داؤد علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے پروردگار! مجھے اس دن کی خبر کر دیجئے۔ بس اسی دن فتنہ میں مبتلا ہو گئے (اخرج ہذالاثر الحاکم فی المستدرک وقال صحیح الاسنادو اقربہ الذہبی فی التلخیص) یہ روایت بتلائی ہے کہ فتنہ کی نوعیت صرف اسی قدر ہونی چاہیے کہ جس وقت داؤد عبادت میں مشتغل ہوں باوجود پوری کوشش کے مشتغل نہ رہ سکیں اور اپنا انتظام قائم نہ رکھ سکیں۔ چنانچہ آپ پڑھ چکے کہ کس بے قاعدہ اور غیر معمولی طریقہ سے چند اشخاص نے اچانک عبادت خانہ میں داخل ہو کر حضرت داؤد کو گھبرا دیا اور ان کے شغل خاص سے ہٹا کر اپنے جھگڑے کی طرف متوجہ کر لیا۔ بڑے بڑے پہرے اور انتظامات ان کو داؤد کے پاس پہنچنے سے نہ روک سکے۔ تب داؤد کو خیال ہوا کہ اللہ نے میرے اس دعوے کی وجہ سے اس فتنہ میں مبتلا کیا۔ لفظ ”فتنہ” کا اطلاق اس جگہ تقریباً ایسا سمجھو جیسے ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما بچپن میں قمیص پہن کر لڑکھڑاتے ہوئے آرہے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر سے دیکھا اور خطبہ قطع کر کے ان کو اوپر اٹھا لیا اور فرمایا صدق اللہ ”انما اموالکم واولادکم فتنۃ” بعض آثار میں ہے کہ بندہ اگر کوئی نیکی کرے کہتا ہے کہ ”اے پروردگار! میں نے یہ کام کیا، میں نے صدقہ کیا، میں نے نماز پڑھی، میں نے کھانا کھلایا۔ ” تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”اور میں نے تیری مدد کی اور میں نے تجھ کو توفیق دی۔ ”اور جب بندہ کہتا ہے کہ اے پروردگار تو نے مدد کی، تو نے مجھ کو توفیق بخشی اور تو نے مجھ پر احسان فرمایا۔ ” تو اللہ کہتا ہے ”اور تو نے عمل کیا تو نے ارادہ کیا تو نے یہ نیکی کمائی۔ ” (مدارج السالکین، ج١ ص٩٩) اسی سے سمجھ لو کہ حضرت داؤد علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کا اپنے حسن انتظام کو جتلاتے ہوئے یہ فرمانا کہ اے پروردگار! رات دن میں کوئی گھڑی ایسی نہیں جس میں میں یا میرے متعلقین تیری عبادت میں مشتغل نہ رہتے ہوں کیسے پسند آسکتا تھا۔ بڑوں کی چھوٹی چھوٹی بات پر گرفت ہوتی ہے۔ اسی لیے ایک آزمائش میں مبتلا کر دیے گئے تاکہ متنبہ ہو کر اپنی غلطی کا تدارک کریں۔ چنانچہ تدارک کیا اور خوب کیا۔ میرے نزدیک آیت کی بے تکلف تقریر یہ ہی ہے۔ باقی حضرت شاہ صاحب نے اسی مشہور قصہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے وہ موضح القرآن میں دیکھ لیا جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے داؤد! بے شک ہم نے تجھے بنایا زمین (ملک) میں نائب، سوتو لوگوں کے درمیان حق (انصاف) کے ساتھ فیصلہ کر اور (اپنی) خواہش کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے بھٹکا دے اللہ کے راستے سے ، بیشک جو لوگ اللہ کے راستے سے بھٹکتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے ، اس پر کہ انہوں نے روزِ حساب کو بھلا دیا۔ (۲۶)

تشریح: یعنی خدا نے تم کو زمین میں اپنا نائب بنا لیا۔ لہٰذا اسی کے حکم پر چلو اور معاملات کے فیصلے عدل و انصاف کے ساتھ شریعت الٰہی کے موافق کرتے رہو۔ کبھی کسی معاملہ میں خواہش نفس کا ادنیٰ شائبہ بھی نہ آنے پائے۔ کیونکہ یہ چیز آدمی کو اللہ کی راہ سے بھٹکا دینے والی ہے۔ اور جب انسان اللہ کی راہ سے بہکا تو پھر ٹھکانا کہاں۔

عموماً خواہشاتِ نفسانی کی پیروی اسی لیے ہوتی ہے کہ آدمی کو حساب کا دن یاد نہیں رہتا۔ اگر یہ بات مستحضر رہے کہ ایک روز اللہ کے سامنے جانا اور ذرہ ذرہ عمل کا حساب دینا ہے تو آدمی کبھی اللہ کی مرضی پر اپنی خواہش کو مقدم نہ رکھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے آسمان اور زمین ا ور جو ان کے درمیان ہے باطل (بیکار خالی از حکمت) نہیں پیدا کیا، یہ گمان ہے ان لوگوں کا جنہوں نے کفر کیا، پس خرابی ہے کافروں کے لئے آگ سے۔ (۲۷)

تشریح: یعنی جس کا آگے کچھ نتیجہ نہ نکلے۔ بلکہ اس دنیا کا نتیجہ ہے آخرت، لہٰذا یہاں رہ کر وہاں کے لیے کچھ کام کرنا چاہیے ، اور وہ کام یہ ہی ہے کہ انسان اپنی خواہشات کی پیروی چھوڑ کر حق و عدل کے اصول پر کاربند ہو۔ اور خالق و مخلوق دونوں سے اپنا معاملہ ٹھیک رکھے۔ یہ نہ سمجھے کہ بس دنیا کی زندگی ہے۔ کھا پی کر ختم کر دیں گے۔ آگے حساب کتاب کچھ نہیں۔ یہ خیالات تو ان کے ہیں جنہیں موت کے بعد دوسری زندگی سے انکار ہے۔ سو ایسے منکروں کے لیے آگ تیار ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا ہم کر دیں گے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے ان لوگوں کی طرح جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، کیا ہم پرہیزگاروں کو کر دیں گے بد کرداروں کی طرح۔ (۲۸)

تشریح: یعنی ہمارے عدل و حکمت کا اقتضاء یہ نہیں کہ نیک ایماندار بندوں کو شریروں اور مفسدوں کے برابر کر دیں یا ڈرنے والوں کے ساتھ بھی وہ ہی معاملہ کرنے لگیں جو ڈھیٹ اور نڈر لوگوں کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اسی لیے ضرور ہوا کہ کوئی وقت حساب و کتاب اور جزاء سزا کا رکھا جائے۔ لیکن دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے نیک اور ایماندار آدمی قسم قسم کی مصائب و آفات میں مبتلا رہتے ہیں اور کتنے ہی بدمعاش بے حیا مزے چین اڑاتے ہیں۔ لامحالہ ماننا پڑے گا کہ موت کے بعد دوسری زندگی کی جو خبر مخبر صادق نے دی ہے عین مقتضائے حکمت ہے۔ وہاں ہی ہر نیک و بد کو اس کے برے بھلے کام کا بدلہ ملے گا۔ پھر ”یوم الحساب” کی خبر کا انکار کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

ہم نے آپ کی طرف ایک مبارک کتاب نازل کی تاکہ وہ اس کی آیات پر غور کریں، اور تاکہ عقل والے نصیحت پکڑیں۔ (۲۹)

تشریح: یعنی جب نیک اور بد کا انجام ایک نہیں ہو سکتا تو ضرور تھا کہ کوئی کتاب ہدایت مآب حق تعالیٰ کی طرف سے آئے جو لوگوں کو خوب معقول طریقہ سے ان کے انجام پر آگاہ کر دے۔ چنانچہ اس وقت یہ کتاب آئی جس کو قرآن مبین کہتے ہیں۔ جس کے الفاظ، حروف، نقوش اور معانی و مضامین ہر چیز میں برکت ہے۔ اور جو اسی غرض سے اتاری گئی ہے کہ لوگ اس کی آیات میں غور کریں اور عقل رکھنے والے اس کی نصیحتوں سے منتفع ہوں چنانچہ اس آیت سے پہلے ہی آیت میں دیکھ لو، کس قدر صاف، فطری اور معقول طریقہ سے مسئلہ معاد کو حل کیا ہے کہ تھوڑی عقل والا بھی غور کرے تو صحیح نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے داؤد کو سلیمان عطا کیا، بہت اچھا بندہ، بیشک وہ (اللہ کی طرف) رجوع کرنے والا تھا۔ (۳۰) (وہ وقت یاد کرو) جب شام کے وقت اس کے سامنے پیش کئے گئے اصیل عمدہ گھوڑے۔ (۳۱)

تو اس نے کہا بیشک میں نے اپنے رب کی یاد سے (غافل ہو کر) مال کی محبت کو دوست رکھا، یہاں تک کہ (سورج) چھپ گیا پردہ (مغرب) میں۔ (۳۲)

ان گھوڑوں کو میرے سامنے پھیر لاؤ، پھر وہ ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر (تلوار سے ) ہاتھ صاف کرنے لگا۔ (۳۳)

تشریح: یعنی نہایت اصیل، شائستہ اور تیز و سبک رفتار گھوڑے جو جہاد کے لیے پرورش کیے گئے تھے ان کے سامنے پیش ہوئے ان کا معائنہ کرتے ہوئے دیر لگ گئی۔ حتی کہ آفتاب غروب ہو گیا۔ شاید اس شغل میں عصر کے وقت کا وظیفہ بھی نہ پڑھ سکے ہوں۔ اس پر کہنے لگے کوئی مضائقہ نہیں۔ اگر ایک طرف ذکر اللہ (یاد خدا) سے بظاہر علیحدگی رہی تو دوسری جانب جہاد کے گھوڑوں کی محبت اور دیکھ بھال بھی اسی کی یاد سے وابستہ ہے۔ جب جہاد کا مقصد اعلائے کلمۃ اللہ ہے تو اس کے معدات و مبادی کا تفقد کیسے ذکر اللہ کے تحت میں داخل نہ ہو گا۔ آخر اللہ تعالیٰ جہاد اور آخرت اور آلات جہاد کے مہیا کرنے کی ترغیب نہ دیتا تو اس مال نیک سے ہم اس قدر محبت کیوں کرتے۔ اسی جذبہ جہاد کے جوش و افراط میں حکم دیا کہ ان گھوڑوں کو پھر واپس لاؤ۔ چنانچہ واپس لائے گئے اور حضرت سلیمان غایت محبت و اکرام سے ان کی گردنیں اور پنڈلیاں پونچھنے اور صاف کرنے لگے۔ آیت کی یہ تقریر بعض مفسرین کی ہے۔ اور لفظ ”حب الخیر” سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ گویا خیر کا لفظ اسی مضمون کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ حدیث میں فرمایا۔ الخیل معقود فی نواصیہا الخیر الیٰ یوم القیامۃ” لیکن دوسرے علماء نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ حضرت سلیمان کو گھوڑوں کے معائنہ میں مشغول ہو کر اس وقت کی نماز یا وظیفہ سے ذہول ہو گیا (اور ذہول و نسیان انبیاء کے حق میں محال نہیں (فرمایا کہ دیکھو!) مال کی محبت نے مجھ کو اللہ کی یاد سے غافل کر دیا حتی کہ غروب آفتاب تک میں اپنا وظیفہ ادا نہ کر سکا۔ یا مانا کہ اس مال کی محبت میں بھی ایک پہلو عبادت کا اور خدا کی یاد کا تھا۔ مگر خواص و مقربین کو یہ فکر بھی رہتی ہے کہ جس عبادت کا جو وقت مقرر ہے اس میں تخلف نہ ہو۔ اور ہوتا ہے تو صدمہ اور قلق سے بے چین ہو جاتے ہیں (گو عذر سے ہو)

گر زباغِ دل خلالے کم بود: بردلِ سالک ہزاراں غم بود۔ ”غزوہ خندق” میں دیکھ لو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی نمازیں قضا ہو گئیں۔ باوجودیکہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عین جہاد میں مشغول تھے اور کسی قسم کا ذنب آپ پر نہ تھا، لیکن جن کفار کے سبب سے ایسا پیش آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے حق میں ”ملا اللہ بیوتہم وقبورہم نارا”وغیرہ سے بددعا فرما رہے تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام بھی ایک وقت عبادت کے فوت ہو جانے سے بیتاب ہو گئے۔ حکم دیا کہ ان گھوڑوں کو واپس لاؤ (جو یاد الٰہی کے فوت ہونے کا سبب بنے ہیں) جب لائے گے تو شدتِ غیرت اور غلبہ حب الٰہی میں تلوار لے کر ان کی گردنیں اور پنڈلیاں کاٹنا شروع کر دیں۔ تاکہ سبب غفلت کو اپنے سے اس طرح علیحدہ کریں کہ وہ فی الجملہ کفارہ اس غفلت کا ہو جائے۔ شاید ان کی شریعت میں قربانی گھوڑے کی جائز ہو گی اور ان کے پاس گھوڑے وغیرہ اس کثرت سے ہوں گے ان چند گھوڑوں کے قربان کرنے سے مقصد جہاد میں کوئی خلل نہ پڑتا ہو گا۔ اور لفظ ”فطفق مسحًا” سے بھی یہ لازم نہیں آتا کہ سب گھوڑوں کو قتل ہی کر گزرے ہوں۔ محض اتنا ہے کہ یہ کام شروع کر دیا۔ واللہ اعلم۔ اس تقریر کلی تائید ایک حدیث مرفوع سے ہوتی ہے جو طبرانی نے باسناد حسن ابی بن کعب سے روایت کی ہے (راجع روح المعانی وغیرہ)۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور البتہ ہم نے سلیمان کی آزمائش کی اور ہم نے اس کے تخت پر ایک دھڑ ڈالا، پھر اس نے (اللہ کی طرف) رجوع کیا۔ (۳۴)

تشریح: حدیث صحیح میں ہے کہ حضرت سلیمان نے ایک روز قسم کھائی کہ آج رات میں اپنی تمام عورتوں کے پاس جاؤں گا (جو تعداد میں ستر یا نوے یا سو کے قریب تھیں) اور ہر ایک عورت ایک بچہ جنے گی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا۔ فرشتہ نے القاء کیا کہ ”انشاء اللہ” کہہ لیجئے۔ مگر (باوجود دل میں موجود ہونے کے ) زبان سے نہ کہا خدا کا کرنا کہ اس مباشرت کے نتیجے میں ایک عورت بھی بچہ نہ جنا۔ صرف ایک عورت سے ادھورا بچہ ہوا۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ دایہ نے وہ ہی ادھورا بچہ ان کے تخت پر لا کر ڈال دیا۔ کہ لو! یہ تمہاری قسم کا نتیجہ ہے (اسی کو یہاں ”جسد” (دھڑ) سے تعبیر کیا ہے ) یہ دیکھ کر حضرت سلیمان ندامت کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع ہوئے۔ اور ”انشاء اللہ” نہ کہنے پر استغفار کیا۔ نزدیکاں رابیش بود حیرانی۔ حدیث میں ہے کہ اگر ”انشاء اللہ” کہہ لیتے تو بیشک اللہ ویسا ہی کر دیتا جو ان کی تمنا تھی۔ (تنبیہ) اکثر مفسرین نے آیت کی تفسیر دوسری طرح کی ہے اور اس موقع پر بہت سے بے سروپا قصے سلیمان علیہ السلام کی انگشتری اور جنوں کے نقل کیے ہیں جسے دلچسپی ہو۔ کتب تفاسیر میں دیکھ لے۔ ابن کثیر لکھتے ہیں۔ ”ولقد رویت ہذہ القصتہ مطولۃ عن جماعۃ من السلف رضی اللہ عنہم وکلہا متلقاہ من قصص اہل الکتاب۔ واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس نے کہا اے میرے رب ! مجھے بخش دے اور مجھے ایسی سلطنت عطا فرما دے جو میرے بعد کسی کو سزاوار (میسر) نہ ہو، بیشک تو ہی عطا کرنے والا ہے۔ (۳۵)

تشریح: یعنی ایسی عظیم الشان سلطنت عنایت فرما جو میرے سوا کسی کو نہ ملے ، نہ کوئی دوسرا اس کا اہل ثابت ہو یا یہ مطلب ہے کہ کسی کو حوصلہ نہ ہو کہ مجھ سے چھین سکے۔ (تنبیہ) احادیث میں ہے کہ ہر نبی کی ایک دعاء جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اجابت کا وعدہ فرما لیا ہے یعنی وہ دعا ضرور ہی قبول کریں گے۔ شاید حضرت سلیمان کی یہ وہ ہی دعا ہو۔ آخر نبی زادے اور بادشاہ زادے تھے۔ دعا میں بھی یہ رنگ رہا کہ بادشاہت ملے اور اعجازی رنگ کی ملے۔ وہ زمانہ ملوک اور جبارین کا تھا، اس حیثیت سے بھی یہ دعا مذاق زمانہ کے موافق تھی اور ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا مقصد ملک حاصل کرنے سے اپنی شوکت و حشمت کا مظاہرہ کرنا نہیں۔ بلکہ اس دین کا ظاہر و غالب کرنا اور قانون سماوی کا پھیلانا ہوتا ہے جس کے وہ حامل بنا کر بھیجے جاتے ہیں۔ لہٰذا اس کو دنیا داروں کی دعا پر قیاس نہ کیا جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر ہم نے مسخر کر دیا اس کے لئے ہوا کو، جہاں وہ پہنچنا چاہتا، وہ اس کے حکم سے نرم نرم چلتی۔ (۳۶)

اور تمام جنات (تابع کر دئیے ) عمارت بنانے والے اور غوطہ مارنے والے۔ (۳۷) اور زنجیروں میں جکڑے ہوئے۔ (۳۸)

تشریح: یعنی جن ان کے حکم سے بڑی بڑی عمارتیں بنانے اور موتی وغیرہ نکالنے کے لیے دریاؤں میں غوطے لگاتے تھے۔ ہوا اور جنات کے تابع کرنے کے متعلق پہلے سورہ”سبا” وغیرہ میں کچھ تفصیل گزر چکی ہے۔

وَاٰخَرِيْنَ مُقَرَّنِيْنَ :بہت سے جنات اور تھے جن کو سرکشی اور شرارت و تمرد کی وجہ سے قید کر کے ڈال دیا تھا۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ ہمارا عطیہ ہے ، اب تو احسان کر، یا رکھ چھوڑ حساب کے بغیر (تم سے کچھ حساب نہ ہو گا)۔ (۳۹) اور بیشک اس کے لئے ہمارے پاس البتہ قرب اور اچھا ٹھکانا ہے۔ (۴۰)

تشریح: یعنی کسی کو بخشش دو یا نہ دو تم مختار ہو۔ اس قدر بے حساب دیا اور حساب و کتاب کا مواخذہ بھی نہیں رکھا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یہ اور مہربانی کی کہ اتنی دنیا دی اور مختار کر دیا۔ حساب معاف کر کے لیکن وہ کھاتے تھے اپنے ہاتھ کی محنت سے ٹوکرے بنا کر۔ ”

بادشاہت کے باوجود جو روحانی تقرب اور مرتبہ ہمارے ہاں حاصل ہے اور فردوس بریں میں جو اعلیٰ سے اعلیٰ ٹھکانا تیار ہے وہ بجائے خود رہا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور آپ یاد کریں ہمارے بندے ایوب کو، جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے ایذا اور دکھ پہنچایا ہے۔ (۴۱)

تشریح: قرآن کریم کے تتبع سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن امور میں کوئی پہلو شر یا ایذاء کا یا کسی مقصد صحیح کے فوت ہونے کا ہو ان کو شیطان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ جیسے موسٰی علیہ السلام کے قصہ میں آیا۔ ”وما انسانیہ الا الشیطان ان اذکرہ” (کہف، رکوع٩) کیونکہ اکثر اس قسم کی چیزوں کا سبب قریب یا بعید کسی درجہ میں شیطان ہوتا ہے۔ اسی قاعدہ سے حضرت ایوب نے اپنی بیماری یا تکلیف یا آزار کی نسبت شیطان کی طرف کی گویا تواضعاً وتأدباً یہ ظاہر کیا کہ ضرور مجھ سے کچھ تساہل یا کوئی غلطی اپنے درجہ کے موافق صادر ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں یہ آزار پیچھے لگا۔ یا حالت مرض و شدت میں شیطان القائے وساوس کی کوشش کرتا ہو گا اور یہ اس کی مدافعت میں تعب و تکلیف اٹھاتے ہوں گے۔ اس کو نصب و عذاب سے تعبیر فرمایا۔ واللہ اعلم۔ (تنبیہ) حضرت ایوب کا قصہ ”سورہ انبیاء” میں گزر چکا۔ وہاں ملاحظہ کر لیا جائے مگر واضح رہے کہ قصہ گویوں نے حضرت ایوب کی بیماری کے متعلق جو افسانے بیان کیے ہیں اس میں مبالغہ بہت ہے۔ ایسا مرض جو عام طور پر لوگوں کے حق میں تنفر اور استقدار کا موجب ہو انبیاء علیہم السلام کی وجاہت کے منافی ہے ، کما قال تعالیٰ ”لاتکونوا کالذین اذوا موسیٰ فبراہ اللہ مما قالوا وکان عنداللہ وجیہًا” (احزاب، رکوع٩) لہٰذا اسی قدر بیان قبول کرناچاہیے جو منصب نبوت کے منافی نہ ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

(ہم نے فرمایا) زمین پر مار اپنا پاؤں، یہ (لو) غسل کے لئے ٹھنڈا اور پینے کے لئے ( شیریں پانی)۔ (۴۲)

اور ہم نے اسے اس کے اہل خانہ اور ان کے ساتھ ان جیسے (اور بھی) عطا کئے ، (یہ) ہماری طرف سے ایک رحمت تھی اور عقل والوں کے لئے نصیحت۔ (۴۳)

تشریح:جب اللہ نے چاہا کہ ان کوتندرست کرے ، حکم دیا کہ زمین پہ پاؤں ماریں۔ پاؤں مارنا تھا کہ قدرت نے وہاں سے ٹھنڈے پانی کا چشمہ نکال دیا۔ اسی سے نہایا کرتے اور پانی پیتے۔ و ہی ان کی شفاء کا سبب ہوا۔ اور ان کے گھرانے کے لوگ جو چھت کے نیچے دب کر مر گئے تھے اللہ نے اپنی مہربانی سے ان سے دگنے عطا کیے تا عقلمند لوگ ان واقعات کو دیکھ کر سمجھیں کہ جو بندہ مصائب میں مبتلا ہو کر صبر کرتا اور خدائے واحد کی طرف رجوع ہوتا ہے حق تعالیٰ اس کی کس طرح کفالت و اعانت فرماتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

 

اور اپنے ہاتھ میں جھاڑو لے اور وہ اس سے (اپنی بیوی کو) مار، اور قسم نہ توڑ، بیشک ہم نے اسے صابر پایا (اور ) اچھا بندہ، بیشک اللہ کی طرف رجوع کرنے والا تھا۔ (۴۴)

تشریح: حضرت ایوب نے حالت مرض میں کسی بات پر خفا ہو کر قسم کھائی کہ تندرست ہو گئے تو اپنی عورت کو سو لکڑیاں ماریں گے۔ وہ بی بی اس حالت کی رفیق تھی اور چنداں قصور وار بھی نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے قسم سچی کرنے کا ایک حیلہ ان کو بتلا دیا جو ان ہی کے لیے مخصوص تھا۔ آج اگر کوئی اس طرح کی قسم کھا بیٹھے تو اس کے پورا کرنے کے لیے اتنی بات کافی نہ ہو گی (تنبیہ) جس حیلہ سے کسی حکم شرعی یا مقصد دینی کا ابطال ہوتا ہو وہ جائز نہیں۔ جیسے اسقاط زکات وغیرہ کے حیلے لوگوں نے نکالے ہیں۔ ہاں جو حیلہ حکم شرعی کو باطل نہ کرے بلکہ کسی معروف کا ذریعہ بنتا ہو اس کی اجازت ہے۔ والتفصیل یطلب من مظانہ۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور آپ ہمارے بندے ابراہیم کو یاد کریں اور اسحاق اور یعقوب کو جو ہاتھوں والے (علم و عمل کی قوتوں والے ) تھے۔ (۴۵ )

تشریح: أُوْلِي الْأَيْدِیْ وَالْأَبْصَارِ :یعنی عمل اور معرفت والے جو ہاتھ پاؤں سے بندگی کرتے اور آنکھوں سے خدا کی قدرتیں دیکھ کر یقین و بصیرت زیادہ کرتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

ہم نے انہیں ایک خاص صفت سے خاص کیا (اور وہ) یاد ہے آخرت کے گھر کی۔ (۴۶)

اور بیشک وہ ہمارے نزدیک سب سے اچھے چنے ہوئے لوگوں میں سے تھے۔ (۴۷)

تشریح: انبیاء کا امتیاز یہ ہے کہ ان کے برابر خدا کو اور آخرت کو یاد رکھنے والا کوئی نہیں۔ اسی خصوصیت کی وجہ سے اللہ کے ہاں ان کو سب سے ممتاز مرتبہ حاصل ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور آپ یاد کریں اسماعیل اور الیسع اور ذوالکفل کو، اور یہ تمام ہی سب سے اچھے لوگوں میں سے تھے۔ (۴۸)

تشریح: حضرت اسماعیل اور ذوالکفل کا ذکر پہلے گزر چکا اور ”الیسع” کہتے ہیں کہ حضرت الیاس کے خلیفہ تھے ان کو بھی اللہ نے نبوت عطا فرمائی۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ ایک نصیحت ہے ، اور البتہ پرہیزگاروں کے لئے اچھا ٹھکانا ہے۔ (۴۹)

تشریح: یعنی یہ مذکور تو انبیاء کا تھا۔ آگے عام متقین کا انجام سن لو۔

 

ہمیشہ رہنے کے باغات، جن کے دروازے ان کے لئے کھلے ہوں گے۔ (۵۰)

اور ان میں منگوائیں گے میوے بہت سے اور مشروبات۔ (۵۱)

تشریح: یعنی قسم قسم کے میوے ، پھل اور پینے کی چیزیں حسب خواہش غلمان حاضر کریں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ان کے پاس نیچی نگاہ رکھنے والی (با حیا) ہم عمر (عورتیں) ہوں گی۔ (۵۲) یہ ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے روز حساب کے لئے۔ (۵۳)

تشریح: یعنی سب عورتیں نوجوان ایک عمر ہوں گی یا شکل و شمائل میں خو بو میں اپنے ازواج کی ہم عمر معلوم ہوں گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک یہ ہمارا رزق ہے اس کو (کبھی) ختم ہونا نہیں۔ (۵۴)

تشریح: یعنی غیر منقطع اور لازوال نعمتیں ہیں جن کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہو گا۔ ”رزقنا اللہ منہا یفضلہ وکرمہ فانہ اکرم الاکرمین وارحم الراحمین”

(تفسیرعثمانی)

 

اور بیشک سرکشوں کے لئے البتہ بُرا ٹھکانا ہے (یعنی ) جہنم، جس میں وہ داخل ہوں گے ، سو برا ہے فرش (ان کی آرامگاہ) (۵۶)

یہ کھولتا ہوا پانی اور پیپ ہے ، پس اس کو چکھو۔ (۵۷)

تشریح: یعنی پرہیزگاروں کا انجام سن چکے۔ آگے شریروں کا انجام سن لو۔ ”غساق” سے بعض نے کہا دوزخیوں کے زخموں کی پیپ اور ان کی آلائش مراد ہیں۔ جس میں سانپوں بچھوؤں کا زہر ملا ہو گا۔ اور بعض کے نزدیک ”غساق” حد سے زیادہ ٹھنڈے پانی کو کہتے ہیں جس کے پینے سے سخت اذیت ہو۔ گویا ”حمیم” کی پوری ضد۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اس کے علاوہ اس کی شکل کی کئی قسمیں ہوں گی۔ (۵۸)

یہ ایک جماعت ہے تمہارے ساتھ (جہنم میں) داخل ہو رہے ہیں، انہیں کوئی فراخی نہ ہو، بیشک وہ جہنم میں داخل ہونے والے ہیں۔ (۵۹)

وہ کہیں گے بلکہ تمہیں کوئی فراخی نہ ہو، بیشک تم ہی ہمارے لئے یہ (مصیبت) آگے لائے ہو، سو برا ہے ٹھکانا۔ (۶۰)

تشریح: یہ گفتگو دوزخیوں کی آپس میں ہو گی، جس وقت فرشتے ان کو یکے بعد دیگرے لا لا کر دوزخ کے کنارے پر جمع کریں گے۔ پہلا گروہ سرداروں کا ہو گا بعدہٗ ان کے مقلدین و اتباع کی جماعت آئے گی۔ اس کو دور سے آتے ہوئے دیکھ کر پہلے لوگ کہیں گے کہ لو! یہ ایک اور فوج دھنستی اور کھپتی ہوئی تمہارے ساتھ دوزخ میں گرنے کے لیے چلی آ رہی ہے۔ خدا کی مار ان پر۔ یہ بھی یہیں آ کر مرنے کو تھے۔ خدا کرے ان کو کہیں کشادہ جگہ نہ ملے۔ اس پر وہ جواب دیں گے کہ کم بختو! تمہی پر خدا کی مار ہو خدا تم کو ہی کہیں آرام کی جگہ نہ دے ، تم ہی تھے جن کے اغواء و اضلال کی بدولت آج ہم کو یہ مصیبت پیش آئی۔ اب بتاؤ کہاں جائیں۔ جو کچھ ہے یہی جگہ ٹھہرنے کی ہے جس طرح ہو یہاں ہی سب مرو کھپو۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ کہیں گے ، اے ہمارے رب! جو ہمارے لئے یہ (مصیبت) آگے لایا ہے تو جہنم میں (اس کے لئے ) عذاب دوچند کر دے۔ (۶۱)

تشریح: یعنی آپس میں لعن طعن کر کے پھر حق تعالیٰ سے عرض کریں گے کہ اے پروردگار! جو اپنی شقاوت سے یہ بلا اور مصیبت ہمارے سر پر لایا۔ اس کو دوزخ میں دوگنا عذاب دیجئے۔ شاید سمجھیں گے کہ ان کا دگنا عذاب دیکھ کر ذرا دل ٹھنڈا ہو جائے گا۔ حالانکہ وہاں تسلی کا سامان کہاں؟ ایک دوسرے کو کہا سنا اور پھٹکارنا یہ بھی ایک مستقل عذاب ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ کہیں گے ہمیں کیا ہوا؟ ہم (دوزخ میں ) ان لوگوں کو نہیں دیکھتے جنہیں، ہم برے لوگوں میں شمار کرتے تھے۔ (۶۲)

کیا ہم نے انہیں ٹھٹھے میں پکڑا تھا؟یا کج ہو گئی ہیں ان سے ( ہماری) آنکھیں؟ بیشک اہل دوزخ کا باہم یہ جھگڑنا بالکل سچ ہے۔ (۶۴)

تشریح: وہاں دیکھیں گے کہ سب جان پہچان والے لوگ ادنیٰ و اعلیٰ دوزخ میں جانے کے واسطے جمع ہوئے ہیں۔ مگر جن مسلمانوں کو پہچانتے تھے اور سب سے زیادہ برا جان کر مذاق اڑایا کرتے تھے وہ اس جگہ نظر نہیں آتے ، تو حیران ہو کر کہیں گے کہ کیا ہم نے غلطی سے ان کے ساتھ ٹھٹھا کیا تھا وہ اس قابل نہ تھے کہ آج دوزخ کے نزدیک رہیں، یا اسی جگہ کہیں ہیں پر ہماری آنکھیں چوک گئیں۔ ہمارے دیکھنے میں آتے۔

بظاہر یہ بات خلاف قیاس ہے کہ اس افراتفری میں ایک دوسرے سے جھگڑیں۔ عذاب کا ہولناک منظر کیسے دوسری طرف متوجہ رہنے دے گا۔ لیکن یاد رکھو! ایسا ہو کر رہے گا۔ یہ بالکل یقینی چیز ہے جس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ اور حقیقت میں یہ ان کے عذاب کی تکمیل ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں اس کے سوا نہیں کہ میں ڈرانے والا ہوں اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا، زبردست ہے۔ (۶۵)

پروردگار ہے آسمانوں کا اور زمین کا، اور جو ان دونوں کے درمیان ہے ، غالب، بڑا بخشنے والا ہے۔ (۶۶)

تشریح: میرا کام تو اتنا ہی ہے کہ تم کو اس آنے والی خوفناک گھڑے سے ہشیار کر دوں اور جو بھیانک مستقبل آنے والا ہے اس سے بے خبر نہ رہنے دوں۔ باقی سابقہ جس حاکم سے پڑنے والا ہے وہ تو وہ ہی اکیلا خدا ہے جس کے سامنے کوئی چھوٹا بڑا دم نہیں مار سکتا۔ ہر چیز اس کے آگے دبی ہوئی ہے۔ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کوئی چیز نہیں جو اس کے زیر تصرف نہ ہو۔ جب تک چاہے ان کو قائم رکھے جب چاہے توڑ پھوڑ کر برابر کر دے۔ اس عزیز و غالب کا ہاتھ کون پکڑ سکتا ہے۔ اس کے زبردست قبضہ سے کون نکل کر بھاگ سکتا ہے اور ساتھ ہی اس کی لامحدود و رحمت و بخشش کو کس کی مجال ہے ، محدود کر دے۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں یہ ایک بڑی خبر ہے۔ (۶۷) تم اس سے بے پرواہ ہو۔ (۶۸)

تشریح: یعنی قیامت اور اس کے احوال کوئی معمولی چیز نہیں۔ بڑی بھاری اور یقینی خبر ہے جو میں تم کو دے رہا ہوں ”عم یتساءلون عن النباء العظیم الذی ھم فیہ مختلفون” (نبا، رکوع١) مگر افسوس ہے کہ تم اس کی طرف سے بالکل بے فکر ہو۔ جو کچھ تمہاری خیر خواہی کو کہا جاتا ہے دھیان نہیں لاتے۔ بلکہ الٹا مذاق اڑاتے ہو کہ کب آئے گی۔ کیونکر آئے گی اور اتنی دیر کیوں ہو رہی ہے اسے جلد کیوں نہیں بلا لیتے۔ وغیرہ ذالک۔

(تفسیرعثمانی)

 

مجھے کچھ خبر نہ تھی عالم بالا کی۔ (بلند قدر فرشتوں کی) جب وہ باہم جھگڑتے تھے۔ (۶۹)

میری طرف اس کے سوا وحی نہیں کی جاتی کہ میں صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔ (۷۰)

تشریح: ملاء اعلیٰ (اوپر کی مجلس) ملائکہ مقربین وغیرہم کی مجلس ہے جن کے توسط سے تدابیر الٰہیہ اور تصریفات کونیہ ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ یعنی ملاء اعلیٰ میں نظام عالم کے فناء و بقاء کے متعلق جو تدبیریں یا بحثیں اور قیل و قال ہوتی ہے۔ مجھے اس کی کیا خبر تھی جو تم سے بیان کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے جن اجزاء پر مطلع فرما دیا وہ بیان کر دیے۔ جو کچھ کہتا ہوں اسی کی وحی و اعلام سے کہتا ہوں۔ مجھ کو یہ ہی حکم ملا ہے کہ سب کو اس آنے والے خوفناک مستقبل سے خوب کھول کھول کر آگاہ کروں۔ رہا یہ کہ وہ وقت کب آئے گا اور قیامت کب قائم ہو گی؟نہ اندازے کے لیے اس کی ضرورت ہے نہ اس کی اطلاع کسی کو دی گئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ چند انبیاء علیہم السلام کے ایک اجتماع میں قیامت کا ذکر چلا کہ کب آئے گی سب نے حضرت ابراہیم پر حوالہ کیا انہوں نے فرمایا کہ مجھے علم نہیں۔ پھر سب نے حضرت موسٰی پر حوالہ کیا ان کی طرف سے بھی وہ ہی جواب ملا۔ آخر سب نے حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف رجوع کیا فرمایا ”وجہ الساعۃ” (عین قیامت کے وقوع کی گھڑی) تو مجھے بھی معلوم نہیں البتہ حق تعالیٰ نے مجھ سے یہ وعدہ کیا ہے الخ اور ایک حدیث میں ہے کہ حضرت موسیٰ نے حضرت جبرائیل سے قیامت کے آنے کا وقت دریافت کیا۔ فرمایا۔ ”ما المسؤول عنہا باعلم من السائل” یعنی میں تم سے زیادہ نہیں جانتا۔ معلوم ہوا کہ ملاء الاعلیٰ میں قیامت کے متعلق اس قسم کی کچھ بحث و تکرار رہتی ہے۔ اور اس کے علاوہ اور بہت مسائل ہیں جن میں ایک طرح کی تکرار اور قیل و قال ہوتی ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں اللہ تعالیٰ کا آپ سے کئی مرتبہ سوال کرنا۔ ”فیم یختصم الملاء الاعلی” اور آپ کا جواب دینا مذکور ہے۔ مگر وہاں کے مباحثات کا علم بجز وحی الٰہی کے اور کس طرح ہو سکتا ہے۔ یہ ہی ذریعہ ہے جس سے اہل نار کے تخاصم پر آپ کو اطلاع ہوئی۔ اسی سے ملاء الاعلیٰ کے اختصام کی خبر لگی اور جو تخاصم ابلیس کا آدم کے معاملہ میں ہوا جس کا ذکر آگے آتا ہے وہ بھی اسی ذریعہ سے معلوم ہوا۔

(تفسیرعثمانی)

 

(یاد کرو) جب تمہارے رب نے کہا فرشتوں کو کہ میں مٹی سے بشر پیدا کرنے والا ہوں۔ (۷۱)

پھر جب میں اسے درست کر دوں اور اس میں اپنی روح سے پھونک دوں، تو تم گر پڑواس کے آگے سجدہ کرتے ہوئے۔ (۷۲)

پس سب فرشتوں نے اکھٹے سجدہ کیا۔ (۷۳) سوائے ابلیس کے کہ اس نے تکبر کیا اور وہ ہو گیا کافروں میں سے۔ (۷۴)

تشریح: یہ قصہ سورہ ”بقرہ”، ”اعراف” وغیرہ کئی سورتوں میں گزر چکا، اعراف کے فوائد میں ہم نے مفصل بحث کی ہے اسے ایک مرتبہ دیکھ لیا جائے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یہ (ابلیس اصل سے ) جن تھا جو اکثر خدا کے حکم سے منکر ہیں۔ لیکن اب (اپنی کثرت عبادت وغیرہ کے سبب سے ) رہنے لگا تھا فرشتوں میں۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

(اللہ نے ) فرمایا اے ابلیس ! اس کو سجدہ کرنے سے تجھے کس نے منع کیا (روکا) جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا ؟کیا تو نے تکبر کیا (اپنے کوبڑا سمجھا) یا تو بلند درجہ والوں میں سے ہے ؟ (۷۵)

اس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے پیدا کیا مٹی سے۔ (۷۶)

تشریح: سورہ اعراف میں اس کا بیان گزر چکا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ آگ ہے گرم پر جوش اور مٹی سرد ہے خاموش۔ ابلیس نے آگ کو اچھا سمجھا اللہ نے اس مٹی کو پسند رکھا۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

(اللہ تعالی نے ) فرمایا پس یہاں سے نکل جا کیونکہ تو راندۂ درگاہ ہے۔ (۷۷) اور بیشک تجھ پر میری لعنت رہے گی روزِ قیامت تک۔ (۷۸)

تشریح: یعنی اس وقت تک تیرے اعمال کی بدولت پھٹکار بڑھتی جائے گی۔ بعدہٗ کیا ہو گا؟ اس کا تو پوچھنا ہی کیا ہے۔ آگے آتا ہے ”لا ملان جہنم منک وممن تبعک منہم اجمعین”وہاں جو لعنت ہو گی یہاں کی لعنتیں اس کے سامنے گرد ہو جائیں گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس نے کہا اے میرے رب! مجھے اس دن تک مہلت دے جس دن (مردے ) اٹھائے جائیں گے۔ (۷۹)

(اللہ نے ) فرمایا پس تو وقت معین کے دن (روزِ قیامت) تک مہلت دئیے جانے والوں میں سے ہے۔ (۸۱)

اس نے کہا مجھے تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو ضرور گمراہ کروں گا۔ (۸۲) ان میں سے تیرے مخلص (خاص) بندوں کے سوا۔ (۸۳)

میں ضرور جہنم بھر دوں گا تجھ سے اور ان سب سے جو تیرے پیچھے چلیں۔ (۸۵)

آ پ فرما دیں میں تم سے اس (تبلیغ قرآن) پر کوئی اجر نہیں مانگتا، اور میں نہیں ہوں بناوٹ کرنے والوں میں سے۔ (۸۶)

یہ (قرآن) نہیں ہے مگر تمام جہانوں کے لئے نصیحت۔ (۸۷)

اور اس کا حال تم ایک وقت کے بعد (جلد ہی) ضرور جان لو گے۔ (۸۸)

تشریح: یعنی نصیحت سے غرض یہ ہے کہ اپنے دشمن اور دوست میں تمیز کرو۔ شیطان لعین جو ازلی دشمن ہے اس کی راہ مت چلو۔ نبیوں کا کہنا مانو تو جو تمہاری بہی خواہی کے لیے آئے ہیں۔ میں تم سے اس نصیحت کا کوئی صلہ یا معاوضہ نہیں مانگتا، نہ خواہ مخواہ اپنی طرف سے بنا کر کوئی بات کہتا ہوں۔ اللہ نے ایک فہمائش کی وہ تمہارے تک پہنچا دی۔ تھوڑی مدت کے بعد تم خود معلوم کر لو گے کہ جو خبریں دی گئیں کہاں تک درست ہیں اور جو نصیحت کی گئی کیسی سچی اور مفید تھی۔ تم سورۃ ص بعون اللہ وحسن توفیقہ وللہ الحمد والمنۃ۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

 

۳۹۔ سورۃ الزّمر

 

                تعارف

 

یہ سورت مکی زندگی کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی، اور اس میں مشرکین کے مختلف باطل عقیدوں کی تردید فرمائی گئی ہے ، یہ مشرکین مانتے تھے کہ کائنات کا خالق اللہ تعالی ہے ، لیکن انہوں نے مختلف دیوتا گھڑ کر یہ مانا ہوا تھا کہ ان کی عبادت کرنے سے وہ خوش ہوں گے ، اور اللہ تعالی کے پاس ہماری سفارش کریں گے ، اور بعض نے فرشتوں کو اللہ تعالی کی بیٹیاں قرار دیا ہوا تھا، اس سورت میں ان مختلف عقائد کی تردید کر کے انہیں توحید کی دعوت دی گئی ہے ، یہ وہ دور ہے جب مسلمانوں کو مشرکین کے ہاتھوں بدترین اذیتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، اس لئے اس سورت میں مسلمانوں کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ کسی ایسے خطے کی طرف ہجرت کر جائیں جہاں وہ اطمینان سے اللہ تعالی کی عبادت کرسکیں، نیز کافروں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے اپنی معاندانہ روش نہ چھوڑی تو انہیں بدترین سزا کا سامنا کرنا پڑے گا، سورت کے آخر میں نقشہ کھینچا گیا ہے کہ آخرت میں کافر کس طرح گروہوں کی شکل میں دوزخ تک لے جائے جائیں گے ، اور مسلمانوں کوکس طرح گروہوں کی شکل میں جنت کی طرف لے جایا جائے گا، گروہوں کے لئے عربی لفظ زمر استعمال کیا گیا ہے اور وہی اس سورت کا نام ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مکیۃ

آیات۷۵         رکوعات:۸

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

اس کتاب کا نازل کیا جانا اللہ غالب حکمت والے کی طرف سے ہے۔ (۱)

تشریح: چونکہ زبردست ہے اس لیے اس کتاب کے احکام پھیل کر اور نافذ ہو کر رہیں گے۔ کوئی مقابل و مزاحم اس کے شیوع و نفاذ کو روک نہیں سکتا۔ اور حکیم ہے اس لیے دنیا کی کوئی کتاب اس کی خوبیوں اور حکمتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ نازل کی ہے ، پس اللہ کی عبادت کرو، عبادت اسی کے لئے خالص کر کے۔ (۲)

تشریح: یعنی حسب معمول اللہ کی بندگی کرتے رہیے جو شوائب شرک و ریاء وغیرہ سے پاک ہو اسی کی طرف قولاً و فعلاً لوگوں کو دعوت دیجئے اور اعلان کر دیجئے کہ اللہ اسی بندگی کو قبول کرتا ہے جو خالص اسی کے لیے ہو، عمل خالی از اخلاص کی اللہ کے ہاں کچھ پوچھ نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

یاد رکھو ! عبادت خالص اللہ کے لئے ہے ، اور جو لوگ اس کے سوا دوست بناتے ہیں (وہ کہتے ہیں) ہم صرف اس لئے ان کی عبادت کرتے ہیں کہ وہ قرب کے درجے میں ہمیں اللہ کا مقرب بنا دیں، بیشک اللہ ان کے درمیان اس (امر) میں فیصلہ فرما دے گا جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں، بیشک اللہ کسی جھوٹے ، ناشکرے کو ہدایت نہیں دیتا۔ (۳)

تشریح: عموماً مشرک لوگ یہی کہا کرتے ہیں کہ ان جھوٹے خداؤں اور دیوتاؤں کی پرستش کر کے ہم بڑے خدا سے نزدیک ہو جائیں گے اور وہ ہم پر مہربانی کرے گا جس سے ہمارے کام بن جائیں گے۔ اس کا جواب دیا کہ ان لچر پوچ حیلوں سے توحید خالص میں جو جھگڑے ڈال رہے ہو، اور اہل حق سے اختلاف کر رہے ہو اس کا عملی فیصلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آگے چل کر ہو جائے گا۔

جس نے دل میں یہ ہی ٹھان لی کہ کبھی سچی بات کو نہ مانوں گا۔ جھوٹ اور ناحق ہی پر ہمیشہ اڑا رہوں گا۔ منعم حقیقی کو چھوڑ کر جھوٹے محسنوں ہی کی بندگی کروں گا۔ اللہ کی عادت ہے کہ ایسے بد باطن کو فوزو کامیابی کی راہ نہیں دیتا۔

(تفسیرعثمانی)

اگر اللہ چاہتا کہ بنا لے (کسی کو اپنی) اولاد تو وہ اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا چن لیتا، وہ پاک ہے ، وہی ہے اللہ یکتا، زبردست۔ (۴)

تشریح: یہاں سے ان کا رد ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرتے ہیں جیسا کہ نصاریٰ حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں اور ساتھ ہی تین خداؤں میں کا ایک خدا مانتے ہیں۔ یا عرب کے بعض قبائل فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر بفرض محال اللہ یہ ارادہ کرتا کہ اس کی کوئی اولاد ہو تو ظاہر ہے وہ اپنی مخلوق ہی میں سے کسی کو اس کام کے لیے چنتا۔ کیونکہ دلائل سے ثابت ہو چکا کہ ایک خدا کے سوا جو کوئی چیز ہے سب اسی کی مخلوق ہے۔ اب ظاہر ہے کہ مخلوق اور خالق میں کسی درجہ میں بھی نوعی یا جنسی اشتراک نہیں۔ پھر ایک دوسرے کا باپ یا بیٹا کیسے بن سکتا ہے۔ اور جب مخلوق و خالق میں یہ رشتہ محال ہے تو اللہ کی طرف سے ایسا ارادہ کرنا بھی محال ہو گا۔

(ماخوذتفسیرعثمانی)

 

اس نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو درست تدبیر کے ساتھ، وہ رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے (گھٹاتا ہے اور بڑھاتا ہے ) اور اس نے مسخر کیا سورج اور چاند کو ہر ایک مدت مقررہ تک چلتا ہے ، یاد رکھو وہ غالب بخشنے والا ہے۔ (۵)

تشریح: مغرب کے وقت مشرق کی طرف دیکھو، معلوم ہو گا کہ افق سے ایک چادر تاریکی کی اٹھتی ہوئی چلی آ رہی ہے اور اپنے آگے سے دن کی روشنی کو مغرب کی طرف صف کی طرح لپیٹی جاتی ہے۔ اسی طرح صبح صادق کے وقت نظر آتا ہے کہ دن کا اجالا رات کی ظلمت کو مشرق سے دھکیلتا ہوا آ رہا ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ”ایک پر دوسرا چلا آتا ہے۔ توڑا نہیں پڑتا۔ ”

اس زبردست قدرت سے یہ انتظام قائم کیا اور تھام رکھا ہے ، لوگوں کی گستاخیاں اور شرارتیں تو ایسی ہیں کہ سب نظام درہم برہم کر دیا جائے ،لیکن وہ بڑا بخشنے والا اور درگزر کرنے والا ہے اپنی شان عفو و مغفرت سے ایک دم ایسا نہیں کرتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس نے تمہیں تن واحد (آدم) سے پیدا کیا، پھر اس نے اس سے اس کا جوڑا بنایا، اور تمہارے لئے چوپایوں میں سے آٹھ جوڑے بھیجے ، وہ تمہیں پیدا کرتا ہے تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں، تین تاریکیوں کے اندر ایک کیفیت کے بعد دوسری کیفیت میں، یہ ہے تمہارا اللہ، تمہارا پروردگار، اسی کے لئے ہے بادشاہت، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، تم کہاں پھرے جاتے ہو؟ (۶)

تشریح: خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا :یعنی آدم علیہ السلام اور ان کا جوڑا حضرت حواء۔

وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ الْأَنْعَامِ ثَمَانِيَۃَ أَزْوَاجٍ :یعنی تمہارے نفع اٹھانے کے لیے چوپایوں میں آٹھ نر و مادہ پیدا کیے۔ اونٹ، گائے ، بھیڑ، بکری جن کا ذکر سورہ ”انعام” میں گزر چکا۔

يَخْلُقُكُمْ فِیْ بُطُوْنِ أُمَّہَاتِكُمْ خَلْقًا مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ: یعنی بتدریج پیدا کیا۔ مثلاً نطفہ سے علقہ بنایا، علقہ سے مضغہ بنایا، پھر ہڈیاں بنائیں، اور ان پر گوشت منڈھا، پھر روح پھونکی۔

فِیْ ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ  :ایک پیٹ اور دوسرا رحم، تیسری جھلی جس کے اندر بچہ ہوتا ہے۔ وہ جھلی بچہ کے ساتھ نکلتی ہے۔

ذٰلِكُمُ اللّٰہُ رَبُّكُمْ لَہُ الْمُلْکُ ۖ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ ۖ فَأَنّٰى تُصْرَفُوْنَ: یعنی جب خالق، رب، مالک اور ملک و ہی ہے تو معبود اس کے سوا کون ہو سکتا ہے۔ خدائے واحد کے لیے ان صفات کا اقرار کرنے کے بعد دوسرے کی بندگی کیسی۔ مطلب کے اتنا قریب پہنچ کر کدھر پھرے جاتے ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اگر تم ناشکری کرو گے تو بیشک اللہ تم سے بے نیاز ہے ، اور وہ پسند نہیں کرتا اپنے بندوں کے لئے ناشکری، اور اگر تم شکر کرو گے ، تو وہ تمہارے لئے اسے پسند کرتا ہے ، اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا، پھر تمہیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے ، پھر وہ تمہیں جتلا دے گا جو تم کرتے تھے۔ (۷)

تشریح: إِنْ تَكْفُرُوْا فَإِنَّ اللہَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ :یعنی کافر بن کر اس کے انعامات و حقوق کا انکار کرو گے تو تمہارا ہی نقصان ہے ، اس کا کچھ نہیں بگڑتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ کفر سے راضی نہیں۔ اپنے بندوں کے کافر و منکر بننے سے ناخوش ہوتا ہے اور اس چیز کو ان کے لیے ناپسند کرتا ہے۔

وَإِنْ تَشْكُرُوْا يَرْضَہُ لَكُمْ :بندے اس کا حق مان کر مطیع و شکر گزار بنیں۔ یہ بات اس کو پسند ہے جس کا نفع ان ہی کو پہنچتا ہے۔

وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ أُخْرٰى :یعنی ناشکری کوئی کرے اور پکڑا کوئی جائے ، ایسا اندھیر اس کے یہاں نہیں جو کرے گا سو بھرے گا۔

فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ :یعنی وہاں جا کر سب کے اچھے برے عمل سامنے رکھ دیئے جائیں گے۔ کوئی چھوٹا بڑا کام نہ ہو گا۔ کیونکہ خدا کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں۔ دلوں کی تہہ میں جو بات چھپی ہوئی ہو اسے بھی جانتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب انسان کو کوئی سختی پہنچے تو وہ اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اسے پکارتا ہے ، پھر وہ جب اسے اپنی طرف سے نعمت دے تو وہ بھول جاتا ہے ، جس کے لئے وہ اس سے قبل (اللہ کو) پکارتا تھا، اور وہ اللہ کے لئے شریک بنا لیتا ہے تاکہ اس کے راستے سے گمراہ کرے ، آپ فرما دیں فائدہ اٹھا لے اپنے کفر سے تھوڑا، بیشک تو دوزخ والوں میں سے ہے۔ (۸)

تشریح:یعنی انسان کی حالت عجیب ہے۔ مصیبت پڑنے پر تو ہمیں یاد کرتا ہے کیونکہ دیکھتا ہے کوئی مصیبت کو ہٹانے والا نہیں۔ پھر جہاں اللہ کی مہربانی سے ذرا آرام و اطمینان نصیب ہو امعاً وہ پہلی حالت بھول جاتا ہے جس کے لیے ابھی ابھی ہم کو پکار رہا تھا۔ عیش و تنعم کے نشہ میں ایسا مست و غافل ہو جاتا ہے گویا کبھی ہم سے واسطہ ہی نہ تھا۔ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو دوسرے جھوٹے اور من گھڑت خداؤں کی طرف منسوب کرنے لگتا ہے اور ان کے ساتھ وہ معاملہ کرتا ہے جو خدائے واحد کے ساتھ کرنا چاہتے تھے۔ اس طرح خود بھی گمراہ ہوتا ہے اور اپنے قول و فعل سے دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے۔

قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِکَ قَلِيْلًا :اچھا کافر رہ کہ چند روز یہاں اور عیش اڑا لے۔ اور خدا نے جب تک مہلت دے رکھی ہے دنیا کی نعمتوں سے تمتع کرتا رہ۔ اس کے بعد تجھے دوزخ میں رہنا ہے جہاں سے کبھی چھٹکارا نصیب نہ ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

(کیا یہ ناشکرا بہتر ہے ) یا وہ، جو رات کی گھڑیوں میں عبادت کرنے والا ہے سجدہ ریز ہو کر، اور کھڑے ہو کر، (اور ) وہ آخرت سے ڈرتا ہے ، اور اپنے رب کی رحمت سے امید رکھتا ہے ، آپ فرما دیں کیا برابر ہیں وہ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو علم نہیں رکھتے ؟اس کے سوا نہیں عقل (سلیم) والے ہی نصیحت قبول کرتے ہیں۔ (۹)

تشریح:یعنی جو بندہ رات کی نیند اور آرام چھوڑ کر اللہ کی عبادت میں لگا کبھی اس کے سامنے دست بستہ کھڑا رہا، سجدہ میں گرا۔ ایک طرف آخرت کا خوف اس کے دل کو بیقرار کیے ہوئے ہیں اور دوسری طرف اللہ کی رحمت نے ڈھارس بندھا رکھی ہے۔ کیا یہ سعید بندہ اور وہ بدبخت انسان جس کا ذکر اوپر ہوا کہ مصیبت کے وقت خدا کو پکارتا ہے اور جہاں مصیبت کی گھڑی ٹلی خدا کو چھوڑ بیٹھا، دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ ایسا ہو تو یوں کہو کہ ایک عالم اور جاہل یا سمجھدار اور بیوقوف میں کچھ فرق نہ رہا مگر اس بات کو بھی وہ سوچتے سمجھتے ہیں جن کو اللہ نے عقل دی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں، میرے بندو! جو ایمان لائے ہو، تم اپنے رب سے ڈرو، جن لوگوں نے اس دنیا میں اچھے کام کئے ان کے لئے بھلائی ہے ، اور اللہ کی زمین وسیع ہے ، اس کے سوا نہیں کہ صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب پورا پورا دیا جائے گا۔ (۱۰)

تشریح: یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اگر اپنے وطن میں دین پر عمل کرنا ممکن نہ ہو، یا سخت مشکل ہو جائے تو وہاں سے ہجرت کر کے ایسی جگہ چلے جاؤ جہاں دین پر عمل کرنا نسبۃً آسان ہو، اور اگر وطن چھوڑنے سے تکلیف ہوتو اس پر صبر کرو، کیونکہ صبر کا ثواب بے حساب ہے۔

(توضیح القرآن)

 

آپ فرما دیں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں خالص کر کے اسی کے لئے عبادت۔ (۱۱) اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ مسلمانوں (فرمانبرداروں) میں پہلا میں ہوں۔ (۱۲)

تشریح: اس میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جو شخص دوسروں کو کسی نیکی کی دعوت دے ، اسے چاہئے کہ پہلے خود اس پر عمل کر کے دکھائے۔

(توضیح القرآن)

 

چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) عالم شہادت میں اس امت کے لحاظ سے اور عالم غیب میں تمام اولین و آخرین کے اعتبار سے اللہ کے سب سے پہلے حکم بردار بندے ہیں۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں بیشک میں ڈرتا ہوں اگر میں نافرمانی کروں اپنے پروردگار کی، ایک بڑے دن کے عذاب سے۔ (۱۳) آپ فرما دیں میں اسی کے لئے اپنی عبادت خالص کر کے اللہ (ہی) کی عبادت کرتا ہوں۔ (۱۴)

پس تم جس کی چاہو پرستش کرو اللہ کے سوا، آپ فرما دیں بیشک گھاٹا پانے والے وہ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو گھاٹے میں ڈالا روزِ قیامت، خوب یاد رکھو! یہی ہے صریح گھاٹا۔ (۱۵)

تشریح: یعنی میں تو خدا کے حکم کے موافق نہایت اخلاص سے اسی اکیلے کی بندگی کرتا ہوں۔ تم کو اختیار ہے جس کی چاہو پوجا کرتے پھرو۔ ہاں اتنا سوچ لینا کہ انجام کیا ہو گا۔ آگے اسے کھولتے ہیں۔ مشرکین نہ اپنی جان کو عذاب الٰہی سے بچا سکے نہ اپنے گھر والوں کو۔ سب کو جہنم کے شعلوں کی نذر کر دیا۔ اس سے زیادہ خسارہ کیا ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

ان کے لئے ان کے اوپر سے آگ کے سائبان ہو ں گے اور ان کے نیچے سے بھی (آگ کی) چادریں، یہ ہے جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے ، اے میرے بندو! مجھ ہی سے ڈرو۔ (۱۶)

تشریح: یعنی ہر طرف سے آگ محیط ہو گی۔ جیسے گھٹا چھا جاتی ہے۔ سمجھ لو۔ یہ چیز ڈرنے کے قابل ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو اللہ کے غضب سے ہمیشہ ڈرتے رہنا چاہیے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جو لوگ شیطان سے بچتے رہے کہ اس کی پرستش کریں، اور انہوں نے اللہ کی طرف رجوع کیا، ان کے لئے خوشخبری ہے ، سو آپ میرے بندوں کو خوشخبری دیں۔ (۱۷)

تشریح: یعنی جنہوں نے شیطانوں کا کہا نہ مانا اور سب شرکاء سے منہ موڑ کر اللہ کی طرف رجوع ہوئے۔ ان کے لیے ہے بڑی بھاری خوشخبری۔

(تفسیرعثمانی)

 

جو (پوری توجہ سے ) بات سنتے ہیں، پھر اس کی اچھی اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی، اور یہی لوگ ہیں عقل والے۔ (۱۸)

تشریح: یعنی سب طرح کی باتیں سنتے ہیں۔ پر ان میں جو بات اچھی ہو اس پر چلتے ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ خدا کی بات سنتے ہیں اور اس میں جو ہدایات اعلیٰ سے اعلیٰ ہوں ان پر عمل کرتے ہیں۔ مثلاً ایک چیز رخصت و اباحت کی سنی، دوسری عزیمت کی، تو عزیمت کی طرف جھپٹتے ہیں۔ رخصتوں کا تتبع نہیں کرتے۔ یا یوں ترجمہ کرو کہ اللہ کا کلام سن کر اس کی بہترین باتوں کا اتباع کرتے ہیں۔ کیونکہ اس کی ساری باتیں بہتر ہی ہیں۔ کذا قال المفسرون۔ حضرت شاہ صاحب نے ایک اور طرح اس کا مطلب بیان کیا ہے۔ ”چلتے ہیں اس کے نیک پر، یعنی حکم پر چلنا کہ اس کو کرتے ہیں۔ اور منع پر چلنا کہ اس کو نہیں کرتے۔ اس کا کرنا نیک ہے اس کا نہ کرنا نیک ہے۔ ”

کامیابی کا راستہ ان ہی کو ملا ہے کیونکہ انہوں نے عقل سے کام لے کر توحید خالص اور انابت الی اللہ کا راستہ اختیار کیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو کیا جس پر عذاب کی وعید ثابت ہو گئی، پس کیا تم اسے بچا لو گے ، جو آگ میں (گر گیا) ؟ (۱۹)

تشریح: یعنی جن پر ان کی ضد و عناد اور بداعمالیوں کی بدولت عذاب کا حکم ثابت ہو چکا، کیا وہ کامیابی کا راستہ پا سکتے ہیں۔ بھلا ایسے بدبختوں کو جو شقاوت ازلی کے سبب آگ میں گر چکے ہوں۔ کون آدمی راہ پر لا سکتا ہے اور کون آگ سے نکال سکتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

لیکن جو لوگ ڈرے اپنے رب سے ان کے لئے بالا خانے ہیں، ان کے اوپر بنے بنائے بالا خانے ہیں، ان کے نیچے نہریں جاری ہیں، اللہ کا وعدہ ہے ، اللہ وعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔ (۲۰)

تشریح: یہ جنت کے درجات کی طرف اشارہ ہوا۔ اور یہ کہ وہ سب تیار ہیں۔ نہ یہ کہ قیامت کے روز تیار کیے جائیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا تو نے نہیں دیکھا؟ کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا پھر اسے چشمے (بنا کر) زمین میں چلایا، پھر اس سے مختلف رنگوں کی کھیتی نکالتا ہے ، پھر وہ خشک ہو جاتی ہے ، پھر تو اسے زرد دیکھتا ہے ، پھر وہ اسے چورا چورا کر دیتا ہے ، بیشک اس میں البتہ نصیحت ہے عقل والوں کے لئے۔ (۲۱)

تشریح:یعنی بارش کا پانی پہاڑوں اور زمینوں کے مسام میں جذب ہو کر چشموں کی صورت میں پھوٹ نکلتا ہے ، باقی اگر چشموں کے حدوث کا کوئی اور سبب بھی ہو، اس کی نفی آیت سے نہیں ہوتی۔  عقلمند آدمی کھیتی کا حال دیکھ کر نصیحت حاصل کرتا ہے کہ جس طرح اس کی رونق اور سرسبزی چند روزہ تھی، پھر چورا چورا کیا گیا۔ یہ ہی حال دنیا کی چہل پہل کا ہو گا۔ چاہیے کہ آدمی اس کی عارضی بہار پر مفتوں ہو کر انجام سے غافل نہ ہو جائے ، جیسے کھیتی مختلف اجزاء سے مرکب ہے۔ مثلاً اس میں دانہ ہے جو آدمیوں کی غذا بنتا ہے اور بھوسہ بھی ہے جو جانوروں کا چارہ بنتا ہے۔ اور ہر ایک جزء سے متنفع ہونا بدون اس کے ممکن نہیں کہ دوسرے اجزاء سے اس کو الگ کریں اور اپنے اپنے ٹھکانا پر پہنچائیں۔ اسی طرح دنیا کو سمجھ لو کہ اس میں نیکی، بدی، راحت، تکلیف وغیرہ سب ملی جلی ہیں۔ ایک وقت آئے گا کہ یہ کھیتی کٹے اور خوب چورا چورا کی جائے۔ پھر اس میں سے ہر ایک جزء کو اس کے مناسب ٹھکانے پر پہنچا دیا جائے ، نیکی اور راحت اپنے مرکز و مستقر پر پہنچ جائے اور بدی یا تکلیف اپنے خزانہ میں جا ملے۔ غرض کھیتی کے مختلف احوال دیکھ کر عقلمند لوگ بہت مفید سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ نیز مضمون آیت میں ادھر بھی اشارہ ہو گیا کہ جس خدا نے آسمانی بارش سے زمین میں چشمے جاری کر دیے وہ ہی جنت کے محلات میں نہایت قرینہ کے ساتھ نہروں کا سلسلہ جاری کر دے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس کیا جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لئے کھول دیا تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہے (کیا وہ اور سنگدل برابر ہیں) ، سو خرابی ہے ان کے لئے جن کے دل اللہ کی یاد سے سخت ہیں، یہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔ (۲۲)

تشریح: یعنی دونوں برابر کہاں ہو سکتے ہیں ایک وہ جس کا سینہ اللہ نے قبول اسلام کے لیے کھول دیا۔ نہ اسے اسلام کے حق ہونے میں کچھ شک و شبہ ہے نہ احکام اسلام کی تسلیم سے انقباض۔ حق تعالیٰ نے اس کو توفیق و بصیرت کی ایک عجیب روشنی عطا فرمائی۔ جس کے اجالے میں نہایت سکون و اطمینان کے ساتھ اللہ کے راستہ پر اڑا چلا جا رہا ہے۔ دوسرا وہ بدبخت جس کا دل پتھر کی طرح سخت ہو، نہ کوئی نصیحت اس پر اثر کرے نہ خیر کا کوئی قطرہ اس کے اندر گھسے ، کبھی خدا کی یاد کی توفیق نہ ہو۔ یوں ہی اوہام واہوا، اور رسوم و تقلید آباء کی اندھیریوں میں بھٹکتا پھرے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ نے بہترین کلام نازل کیا (یعنی) ایک کتاب جس کی آیتیں ملتی جلتی، بار بار دہرائی گئی ہیں، اس سے بال (رونگٹے ) کھڑے ہو جاتے ہیں ان لوگوں کی جلدوں پر جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر ان کی جلدیں اور ان کے دل نرم ہو جاتے ہیں اللہ کی یاد کی طرف (راغب ہوتے ہیں) ، یہ ہے اللہ کی ہدایت، اس سے اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ، اور جسے اللہ گمراہ کرے اس کے لئے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ (۲۳)

تشریح: یعنی دنیا میں کوئی بات اس کتاب کی باتوں سے بہتر نہیں۔ صحیح، صادق، مضبوط، نافع، معقول اور فصیح و بلیغ ہونے میں کوئی آیت کم نہیں۔ ایک دوسری سے ملتی جلتی ہے ، مضامین میں کوئی اختلاف و تعارض نہیں۔ بلکہ بہت سی آیات کے مضامین ایسے متشابہ واقع ہوئے ہیں کہ ایک آیت کو دوسری کی طرف لوٹانے سے صحیح تفسیر معلوم ہو جاتی ہے۔ القراٰن یفسر بعضہ بعضًا اور ”مثانی” یعنی دہرائی ہوئی کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے احکام اور مواعظ و قصص کو مختلف پیرایوں میں دہرایا گیا ہے تاکہ اچھی طرح دلنشین ہو جائیں۔ نیز تلاوت میں بار بار آیتیں دہرائی جاتی ہیں۔ اور بعض علماء نے ”متشابہ” و ”مثانی” کا مطلب یہ لیا ہے کہ بعض آیات میں ایک ہی طرح کے مضمون کا سلسلہ دور تک چلا جاتا ہے وہ متشابہ ہوئیں اور بعض جگہ ایک نوعیت کے مضمون کے ساتھ دوسرے جملہ میں اس کے مقابل کی نوعیت کا مضمون بیان کیا جاتا ہے۔ مثلاً ”ان الابرار لفی نعیم وان الفجار لفی جحیم” یا ”نبیء عبادی انی انا الغفور الرحیم وان عذابی ہو العذاب الالیم” یا ”ویحذرکم اللہ نفسہ واللہ رءُوف بالعباد” ایسی آیات کو مثانی کہیں گے کہ ان میں دو مختلف قسم کے مضمون بیان ہوئے۔

تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ :یعنی کتاب اللہ سن کر اللہ کے خوف اور اس کے کلام کی عظمت سے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کھالیں نرم پڑ جاتی ہیں۔ مطلب یہ کہ خوف و رعیت کی کیفیت طاری ہو کر ان کا قلب و قالب اور ظاہر و باطن اللہ کی یاد کے سامنے جھک جاتا ہے اور اللہ کی یاد ان کے بدن اور روح دونوں پر ایک خاص اثر پیدا کرتی ہے یہ حال اقویائے کاملین کا ہوا۔ اگر کبھی ضعفاء و ناقصین پر دوسری قسم کی کیفیات و احوال طاری ہو جائیں مثلاً غشی یا صعقہ وغیرہ تو اس کی نفی آیت سے نہیں ہوتی۔ اور نہ ان کی تفصیل ان پر لازم آتی ہے۔ بلکہ اس طرح از خود رفتہ اور بے قابو ہو جانا عموماً وارد کی قوت اور مورد کے ضعف کی دلیل ہے۔ جامع ترمذی میں ایک حدیث بیان کرتے وقت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر اس قسم کے بعض احوال کا طاری ہونا مصرح ہے۔ واللہ اعلم۔

ذٰلِکَ ہُدَى اللہِ يَہْدِیْ بِہٖ مَنْ يَّشَآءُ :یعنی جس کے لیے حکمت الٰہی مقتضی ہو اس طرح کامیابی کے راستے کھول دیے جاتے ہیں اور اس شان سے منزلِ مقصود کی طرف لے چلتے ہیں۔ اور جس کو سوء استعداد کی وجہ سے خدا تعالیٰ ہدایت کی توفیق نہ دے۔ آگے کون ہے جو اس کی دستگیری کر سکے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس کیا جو شخص قیامت کے دن اپنے چہرے کو بُرے عذاب سے بچاتا ہے (اہل جنت کے برابر ہو سکتا ہے ) اور ظالموں کو کہا جائے گا تم (اس کا مزہ) چکھو جو تم کرتے تھے۔ (۲۴)

تشریح: آدمی کا قاعدہ ہے کہ جب سامنے سے کوئی حملہ ہو تو ہاتھوں پر روکتا ہے۔ لیکن محشر میں ظالموں کے ہاتھ بندھے ہوں گے ، اس لیے عذاب کی تھپیڑیں سیدھی منہ پر پڑیں گی۔ تو ایسا شخص جو بدترین عذاب کو اپنے منہ پر روکے اور اس سے کہا جائے کہ اب اس کام کا مزہ چکھ جو دنیا میں کیے تھے۔ کیا اس مومن کی طرح ہو سکتا ہے جسے آخرت میں کوئی تکلیف اور گزند پہنچنے کا اندیشہ نہیں، اللہ کے فضل سے مطمئن اور بے فکر ہے۔ ہرگز نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

جو لوگ ان سے پہلے تھے انہوں نے جھٹلایا تو ان پر عذاب آ گیا جہاں سے انہیں خیال (بھی) نہ تھا۔ (۲۵)

پس اللہ نے انہیں دنیا کی زندگی میں رسوائی (کا مزہ) چکھایا، اور البتہ آخرت کا عذاب بہت ہی بڑا ہے ، کاش وہ جانتے ہوتے۔ (۲۶)

تشریح: یعنی بہت قومیں تکذیب انبیاء کی بدولت دنیا میں ہلاک اور رسوا کی جا چکی ہیں۔ اور آخرت کا اشد عذاب جوں کا توں رہا۔ تو کیا موجودہ مکذبین مطمئن ہیں کہ ان کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کیا جائے گا۔ ہاں سمجھ ہوتی تو کچھ فکر کرتے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لئے بیان کی ہر قسم کی مثال تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔ (۲۷)

قرآن عربی (زبان میں) ہے کسی (بھی) کجی کے بغیر، تاکہ وہ پرہیزگاری اختیار کریں۔ (۲۸)

تشریح: یعنی ان کا نہ سمجھنا اپنی غفلت اور حماقت سے ہے۔ قرآن کے سمجھانے میں کوئی کمی نہیں، قرآن تو بات بات کو مثالوں اور دلیلوں سے سمجھاتا ہے ، تاکہ لوگ ان میں دھیان کر کے اپنی عاقبت درست کریں۔ قرآن ایک صاف عربی زبان کی کتاب ہے جو اس کے مخاطبین اولین کی مادری زبان تھی۔ اس میں کوئی ٹیڑھی ترچھی بات نہیں۔ سیدھی اور صاف باتیں ہیں جن کو عقل سلیم قبول کرتی ہے۔ کسی طرح کا اختلال اور کجی اس کے مضامین یا عبارت میں نہیں۔ جن باتوں کو منوانا چاہتا ہے ، نہ ان کا ماننا مشکل، اور جن چیزوں پر عمل کرانا چاہتا ہے نہ ان پر عمل کرنا محال، غرض یہ ہے کہ لوگ بسہولت اس سے مستفید ہوں۔ اعتقادی و عملی غلطیوں سے بچ کر چلیں۔ اور صاف صاف نصیحتیں سن کر اللہ سے ڈرتے رہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ نے ایک مثال بیان کی ہے ، ایک آدمی (غلام) ہے ، اس میں کئی (آقا) شریک ہیں جو آپس میں ضدی (جھگڑالو) ہیں، اور ایک آدمی ایک آدمی کا (غلام) ہے ، کیا یہ دونوں کی حالت برابر ہے ؟تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں بلکہ ان میں سے اکثر علم نہیں رکھتے۔ (۲۹)

تشریح: یعنی کئی حصہ دار ایک غلام یا نوکر میں شریک ہیں۔ اور ہر حصہ دار اتفاق سے کج خلق، بے مروت اور سخت ضدی واقع ہوا ہے ، چاہتا ہے کہ غلام تنہا اس کے کام میں لگا رہے دوسرے شرکاء سے سروکار نہ رکھے۔ اس کھینچ تان میں ظاہر ہے غلام سخت پریشان اور پراگندہ دل ہو گا۔ برخلاف اس کے جو غلام پورا ایک کا ہو، اسے ایک طرح کی یکسوئی اور طمانیت حاصل ہو گی اور کئی آقاؤں کو خوش رکھنے کی کشمکش میں گرفتار نہ ہو گا۔ اب ظاہر ہے کہ یہ دونوں غلام برابر نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح  مشرک اور موحد کو سمجھ لو مشرک کا دل کئی طرف بٹا ہوا ہے اور کتنے ہی جھوٹے معبودوں کو خوش رکھنے کی فکر میں رہتا ہے۔ اس کے برخلاف موحد کی کل توجہات و خیالات اور دوا و دوش کا ایک مرکز ہے۔ وہ پوری دلجمعی کے ساتھ اس کے خوش رکھنے کی فکر میں ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کی خوشنودی کے بعد کسی کی خوشنودی کی ضرورت نہیں۔ اکثر مفسرین نے اس مثال کی تقریر اسی طرح کی ہے۔ مگر حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ”ایک غلام جو کئی کا ہو، کوئی اس کو اپنا نہ سمجھے ، تو اس کی پور خبر نہ لے ، اور ایک غلام سارا ایک کا ہو، وہ اس کو اپنا سمجھے اور پوری خبر لے۔ یہ مثال ہے ان کی جو ایک رب کے بندے ہیں، اور جو کئی رب کے بندے ہیں۔ ”

سب خوبی اللہ کے لیے ہے کہ کیسے اعلیٰ مطالب و حقائق کو کیسی صاف اور دلنشین امثال و شواہد سے سمجھا دیتے ہیں۔ مگر اس پر بھی بہت بدنصیب ایسے ہیں جو ان واضح مثالوں کے سمجھنے کی توفیق نہیں پاتے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک تم مرنے (انتقال کرنے ) والے ہو، اور وہ (بھی) مرنے والے ہیں۔ (۳۰) پھر بیشک تم قیامت کے دن اپنے رب کے پاس جھگڑو گے۔ (۳۱)

تشریح: یعنی جیسے مشرک اور موحد میں جو اختلاف ہے اس کا اثر قیامت کے دن اعلیٰ رؤس الاشہاد ظاہر ہو گا جس وقت پیغمبر اور امتی سب اکٹھے کیے جائیں گے اور کفار، انبیاء اور مومنین کے مقابلہ میں جھگڑے اور حجتیں نکالیں گے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”کافر منکر ہوں گے کہ ہم کو کسی نے حکم نہیں پہنچایا، پھر فرشتوں کی گواہی اور زمین و آسمان کے ہاتھ کی گواہی سے ثابت ہو گا۔ ” کہ اس ادعاء میں جھوٹے ہیں۔ اسی طرح دوسرے تمام جھگڑوں کا فیصلہ بھی اس دن پروردگار کے سامنے ہو گا۔ بہتر یہی ہے کہ لفظ ”اختصام” کو عام رکھا جائے تاکہ احادیث و آثار کے خلاف نہ ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس اس سے بڑا ظالم کون؟ جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا، اور سچائی کو جھٹلایا جب وہ اس کے پاس آئی، کیا کافروں کا ٹھکانا جہنم میں نہیں؟ (۳۲)

تشریح: اللہ پر جھوٹ بولا، یعنی اس کے شریک ٹھہرائے یا اولاد تجویز کی، یا وہ صفات اس کی طرف منسوب کیں جو واقع میں اس کے لائق نہ تھیں اور جھٹلایا سچی بات کو جب پہنچی اس کے پاس یعنی انبیاء علیہم السلام جو سچی باتیں خدا کی طرف سے لائے ان کو سنتے ہی جھٹلانے لگا۔ سوچنے سمجھنے کی تکلیف بھی گوارا نہ کی۔ بلاشبہ جو شخص سچائی کا اتنا دشمن ہو اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے۔ اور ایسے ظالموں کا ٹھکانا دوزخ کے سوا اور کہاں ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جو شخص سچائی کے ساتھ آیا اور اس نے اس کو سچا مانا یہی لوگ متقی (پرہیزگار) ہیں۔ (۳۳)

تشریح: یعنی خدا سے ڈرنے والوں کی شان یہ ہوتی ہے کہ سچی بات لائیں، ہمیشہ سچ کہیں، اور سچ کی تصدیق کریں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”جو سچی بات لے کر آیا وہ نبی، اور جس نے سچ مانا وہ مومن ہے۔ ” (گویا دونوں جملوں کا مصداق علیحدہ ہے )۔

(تفسیرعثمانی)

 

ان کے لئے ہے ان کے رب کے ہاں جو (بھی) وہ چاہیں گے ، یہ جزا ہے نیکو کاروں کی۔ (۳۴)

تاکہ اللہ ان سے ان کے اعمال کی برائی دور کر دے اور انہیں ان کے ثواب کی جزا دے ان کے بہترین اعمال کی جو وہ کرتے تھے۔ (۳۵)

تشریح: یعنی اللہ تعالیٰ متقین و محسنین کو ان کے بہتر کاموں کا بدلہ دے گا اور غلطی سے جو برا کام ہو گیا وہ معاف کرے گا (تنبیہ) شاید ”اسواَ”اور ”احسن” (صیغہ تفضیل) اس لیے اختیار فرمایا کہ بڑے درجہ والوں کی ادنیٰ بھلائی اوروں کی بھلائیوں سے اور ادنیٰ برائی اوروں کی برائیوں سے بھاری سمجھی جاتی ہے۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا اللہ اپنے (بندے کو) کافی نہیں؟وہ آپ کو ڈراتے ہیں ان (جھوٹے معبودوں) سے جو اس کے سوا ہیں، اور جن کو اللہ گمراہ کر دے تو اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ (۳۶)

اور جس کو اللہ ہدایت دے تو اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں، کیا اللہ غالب، بدلہ لینے والا نہیں؟ (۳۷)

تشریح: چند آیات پہلے ”ضرب اللہ مثلًا رجلًا فیہ شرکاء۔ ”الخ میں شرک کا رد اور مشرکین کا جہل بیان کیا گیا تھا۔ اس پر مشرکین پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے بتوں سے ڈراتے تھے کہ دیکھو تم ہمارے دیوتاؤں کی توہین کر کے ان کو غصہ نہ دلاؤ۔ کہیں تم کو (معاذ اللہ) بالکل خبطی اور پاگل نہ بنا دیں۔ اس کا جواب دیا کہ جو شخص ایک زبردست خدا کا بندہ بن چکا، اسے ان عاجز اور بے بس خداؤں سے کیا ڈر ہو سکتا ہے ؟ کیا اس عزیز منتقم کی امداد و حمایت اس کو کافی نہیں جو کسی دوسرے سے ڈرے یا لو لگائے۔ یہ بھی ان مشرکین کا خبط و ضلال اور مستقل گمراہی ہے کہ خدائے واحد کے پرستار کو اس طرح کی گیدڑ بھبکیوں سے خوف زدہ کرنا چاہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ٹھیک راستہ پر لگا دینا یا نہ لگانا سب اللہ کے قبضہ میں ہے۔ جس کسی شخص کو اس کی بدتمیزی اور کجروی کی بناء پر اللہ تعالیٰ کامیابی کا راستہ نہ دے ، وہ اسی طرح خبطی اور پاگل ہو جاتا ہے۔ اور موٹی موٹی باتوں کے سمجھنے کی قوت بھی اس میں نہیں رہتی۔ کیا ان احمقوں کو اتنا نہیں سوجھتا کہ جو بندہ خداوند قدوس کی پناہ میں آ گیا، کون سی طاقت ہے جو اس کا بال بیکا کر سکے۔ جو طاقت مقابل ہو گی پاش پاش کر دی جائے گی۔ غیرت خداوندی مخلص وفاداروں کا بدلہ لیے بدون نہ چھوڑے گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر آپ ان سے پوچھیں آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے ؟تو وہ ضرور کہیں گہ اللہ نے ، آپ فرما دیں پس کیا تم نے دیکھا (دیکھو تو) تم جن کی پرستش کرتے ہو اللہ کے سوا اگر اللہ میرے لئے کوئی ضرر چاہے تو کیا وہ سب اس کا ضرر دور کرسکتے ہیں ؟یا وہ میرے لئے کوئی مہربانی چاہے کیا وہ سب اس مہربانی کو روک سکتے ہیں؟آپ فرما دیں میرے لئے اللہ کافی ہے ، بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ (۳۸)

تشریح: یعنی ایک طرف تو خداوند قدوس جو خود تمہارے اقرار کے موافق تمام زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اور دوسری طرف پتھر کی بیجان مورتیں یا عاجز مخلوق جو سب مل کر بھی خدا کی بھیجی ہوئی ادنیٰ سے ادنیٰ تکلیف و راحت کو اس جگہ سے نہ ہٹا سکے۔ تم ہی بتاؤ، دونوں میں سے کس پر بھروسہ کیا جائے اور کس کو اپنی مدد کے لیے کافی سمجھا جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں، اے میری قوم! تم اپنی جگہ کام کئے جاؤ بیشک میں (اپنا) کام کرتا ہوں، پس عنقریب تم جان لو گے۔ (۳۹)

کون ہے ؟جس پر آتا ہے عذاب کہ اسے رسوا کر دے اور (کون ہے ) جس پر دائمی عذاب اترتا ہے ؟ (۴۰)

تشریح: یعنی عنقریب پتہ لگ جائے جائے گا کہ خدائے واحد کا بندہ غالب آتا ہے یا صدہا دروازوں کے بھکاری کامیاب ہوتے ہیں۔ واقعات جلد بتا دیں گے کہ جو بندہ اللہ کی حمایت اور پناہ میں آیا اس کا مقابلہ کرنے والے آخرکار سب ذلیل و خوار ہوئے (تنبیہ) ”عذاب یخزیہ” سے دنیا کا اور ”عذاب مقیم” سے آخرت کا عذاب مراد ہے۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک ہم نے آپ پر لوگوں (کی ہدایت) کے لئے کتاب نازل کی حق کے ساتھ، پس جس نے ہدایت پائی تو اپنی ذات کے لئے ، اور جو گمراہ ہوا تو اس کے سوا نہیں کہ وہ اپنے لئے گمراہ ہوتا ہے ، اور آپ نہیں ان پر نگہبان (ذمہ دار)۔ (۴۱)

تشریح: یعنی تیری زبان پر اس کتاب کے ذریعہ سے سچی بات نصیحت کی کہہ دی گئی اور دین کا راستہ ٹھیک ٹھیک بتلا دیا گیا۔ آگے ہر ایک آدمی اپنا نفع نقصان سوچ لے۔ نصیحت پر چلے گا تو اس کا بھلا ہے ورنہ اپنا ہی انجام خراب کرے گا۔ تجھ پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں کہ زبردستی ان کو راہ پر لے آئے ، صرف پیغام حق پہنچا دینا آپ کا فرض تھا وہ آپ نے ادا کر دیا۔ آگے معاملہ خدا کے سپرد کیجیے جس کے ہاتھ میں مارنا جلانا اور سلانا جگانا سب کچھ ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ روح کو اس کی موت کے وقت قبض کرتا ہے ، اور جو نہ مرے اپنی نیند میں، تو جس کی موت کا فیصلہ کیا تو اس کو (نیند کی صورت میں ہی) روک لیتا ہے ، اور دوسروں کو (زندہ رہنے کے لئے ) چھوڑ دیتا ہے ، ایک مقررہ وقت تک، بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔ (۴۲)

تشریح: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یعنی نیند میں ہر روز جان کھینچتا ہے پھر (واپس) بھیجتا ہے۔ یہ ہی نشان ہے آخرت کا۔ معلوم ہوا نیند میں بھی جان کھینچتی ہے۔ جیسے موت میں اگر نیند میں کھینچ کر رہ گئی وہی موت ہے۔ مگر یہ جان وہ ہے جس کو (ظاہری) ہوش کہتے ہیں۔ اور ایک جان جس سے سانس چلتی ہے اور نبضیں اچھلتی ہیں۔ اور کھانا ہضم ہوتا ہے وہ دوسری ہے وہ موت سے پہلے نہیں کھینچتی” (موضح القرآن) حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بغوی نے نقل کیا ہے کہ ”نیند میں روح نکل جاتی ہے مگر اس کا مخصوص تعلق بدن سے بذریعہ شعاع کے رہتا ہے جس سے حیات باطل ہونے نہیں پاتی” (جیسے آفتاب لاکھوں میل سے بذریعہ شعاعوں کے زمین کو گرم رکھتا ہے ) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیند میں بھی وہ ہی چیز نکلتی ہے جو موت کے وقت نکلتی ہے۔ لیکن تعلق کا انقطاع ویسا نہیں ہوتا جو موت میں ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا انہوں نے اللہ کے سوا بنا لئے ہیں شفاعت (سفارش) کرنے والے ؟آپ فرما دیں (اس صورت میں بھی) کہ وہ کچھ بھی اختیار نہ رکھتے ہوں اور نہ سمجھ رکھتے ہوں۔ (۴۳)

تشریح: یعنی بتوں کی نسبت مشرکین دعوے رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں ان کے سفارشی ہیں۔ ان ہی کی سفارش سے کام بنتے ہیں۔ اسی لیے ان کی عبادت کی جاتی ہے ، سو اول تو شفیع ہونے سے معبود ہونا لازم نہیں آتا۔ دوسرے شفیع بھی وہ بن سکتا ہے جسے اللہ کی طرف سے شفاعت کی اجازت ہو اور صرف اس کے حق میں شفاعت کر سکتا ہے جس کو خدا پسند کرے۔ خلاصہ یہ کہ شفیع کا ماذون ہونا اور مشفوع کا مرتضیٰ ہونا ضروری ہے۔ یہاں دونوں باتیں نہیں۔ نہ اصنام (بتوں) کا ماذون ہونا ثابت ہے نہ کفار کا مرتضیٰ ہونا۔ لہٰذا ان کا دعویٰ غلط ہوا۔ بتوں کو نہ اختیار ہے نہ سمجھ، پھر ان کو شفیع ماننا عجیب ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں اللہ ہی کے (اختیار میں) ہے تمام شفاعت، اسی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت، پھر اس کی طرف تم لوٹو گے۔ (۴۴)

تشریح: یعنی فی الحال بھی زمین و آسمان میں اس کی سلطنت ہے اور آئندہ بھی اس کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے ، تو اس کی اجازت و خوشنودی کے بغیر کس کی مجال ہے جو زبان ہلا سکے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ یعنی ”اللہ کے روبرو سفارش ہے پر اللہ کے حکم سے ، نہ تمہارے کہے سے جب موت آئے کسی کے کہے سے عزرائیل نہیں چھوڑتا۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

ا ور جب ذکر کیا جاتا ہے اللہ واحد کا تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل متنفر ہو جاتے ہیں، اور جب ان کا ذکر کیا جاتا ہے جو اس کے سوا ہیں (یعنی اوروں کا) تو فوراً خوش ہو جاتے ہیں۔ (۴۵)

تشریح: مشرک کا خاصہ ہے کہ گو بعض وقت زبان سے اللہ کی عظمت   و محبت کا اعتراف کرتا ہے ، لیکن اس کا دل اکیلے خدا کے ذکر اور حمدو ثناء سے خوش نہیں ہوتا۔ ہاں دوسرے دیوتاؤں یا جھوٹے معبودوں کی تعریف کی جائے تو مارے خوشی کے اچھلنے لگتا ہے ، جس کے آثار اس کے چہرے پر نمایاں ہوتے ہیں۔ افسوس یہ ہی حال آج بہت سے نام نہاد مسلمانوں کا دیکھا جاتا ہے کہ خدائے واحد کی قدرت و عظمت اور اس کے علم کی لامحدود وسعت کا بیان ہو تو چہروں پر انقباض کے آثار ظاہر ہوتے ہیں، مگر کسی پیر فقیر کا ذکر آ جائے اور جھوٹی سچی کرامات اناپ شناپ بیان کر دی جائیں تو چہرے کھل پڑتے اور دلوں میں جذبات مسرت و انبساط جوش مارنے لگتے ہیں۔ بلکہ بسا اوقات توحید خالص کا بیان کرنے والا ان کے نزدیک منکر اولیاء سمجھا جاتا ہے۔ ”فالی اللہ المشتکی وہو المستعان۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں اے اللہ ! پیدا کرنے والے آسمانوں اور زمین کے ، جاننے والے پوشیدہ اور ظاہر کے ، تو اپنے بندوں کے درمیان (اس امر میں ) فیصلہ کرے گا، جس میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ (۴۶)

تشریح: یعنی جب ایسی موٹی باتوں میں بھی جھگڑے ہونے لگے اور اللہ کا اتنا وقار بھی دلوں میں باقی نہ رکھا تو اب تیرے ہی سے فریاد ہے۔ تو ہی ان جھگڑوں کا عملی فیصلہ فرمائے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر جن لوگوں نے (کفر و شرک کر کے ) ظلم کیا جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب اور اس کے ساتھ اتنا ہی (اور بھی) ان کے پاس ہو تو وہ بدلے میں دے دیں، روزِ قیامت بُرے عذاب سے (چھڑانے کے لئے ) ، اور اللہ کی طرف سے ان پر ظاہر ہو جائے گا جس کا وہ گمان (بھی) نہ کرتے تھے۔ (۴۷)

اور ان پر بُرے کام ظاہر ہو جائیں جو وہ کرتے تھے ، اور وہ (عذاب) ان کو گھیر لے گا، جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ (۴۸)

تشریح: یعنی جب قیامت کے دن ان اختلافات کا فیصلہ سنایا جائے گا اس وقت جو ظالم شرک کر کے خدا تعالیٰ کی شان گھٹاتے تھے ان کا سخت برا حال ہو گا۔ اگر اس روز فرض کیجیے کل روئے زمین کے خزانے ،بلکہ اس سے بھی زائد ان کے پاس موجود ہوں تو چاہیں گے کہ سب دے دلا کر کسی طرح اپنا پیچھا چھڑا لیں، جو بد معاشیاں دنیا میں کی تھیں سب ایک ایک کر کے ان کے سامنے ہوں گی۔ اور ایسے قسم قسم کے ہولناک عذابوں کا مزہ چکھیں گے جو کبھی ان کے خیال و گمان میں بھی نہ گزرے تھے۔ غرض توحید خالص اور دین حق سے جو ٹھٹھا کرتے تھے اس کا وبال پڑ کر رہے گا اور جس عذاب کا مذاق اڑایا کرتے تھے وہ ان پر الٹ پڑے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہمیں پکارتا ہے ، پھر جب اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ کہتا ہے یہ تو مجھے دیا گیا ہے ، میرے علم ( کی بنا) پر، (نہیں) بلکہ یہ ایک آزمائش ہے ، لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں۔ (۴۹)

تشریح: فَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ: یعنی جس کے ذکر سے چڑتا تھا مصیبت کے وقت اسی کو پکارتا ہے اور جن کے ذکر سے خوش ہوتا تھا انہیں بھول جاتا ہے۔

قَالَ إِنَّمَآ أُوْتِيْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ:یعنی قیاس یہی چاہتا تھا کہ یہ نعمت مجھ کو ملے۔ کیونکہ مجھ میں اس کی لیاقت تھی اور اس کی کمائی کے ذرائع کا علم رکھتا تھا اور خدا کو میری استعداد و اہلیت معلوم تھی، پھر مجھے کیوں نہ ملتی۔ غرض اپنی لیاقت اور عقل پر نظر کی، اللہ کے فضل و قدرت پر خیال نہ کیا۔

بَلْ ہِيَ فِتْنَۃٌ :یعنی ایسا نہیں بلکہ یہ نعمت خدا کی طرف سے ایک امتحان ہے کہ بندہ اسے لے کر کہاں تک منعم حقیقی کو پہچانتا اور اس کا شکر ادا کرتا ہے۔ اگر ناشکری کی گئی تو یہ ہی نعمت نقمت بن کر وبال جان ہو جائے گی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یہ جانچ ہے کہ عقل اس کی دوڑنے لگتی ہے تاکہ اپنی عقل پر بہکے۔ وہ ہی عقل رہتی ہے اور آفت آپہنچتی ہے۔ ” پھر کسی کے ٹالے نہیں ٹلتی۔

(تفسیرعثمانی)

 

یقیناً یہ ان لوگوں نے (بھی) کہا تھا جو ان سے پہلے تھے تو جو وہ کرتے تھے اس نے ان سے (عذاب کو) دور نہ کیا۔ (۵۰)

پس انہیں پہنچیں (ان پر آ پڑیں) بُرائیاں جو انہوں نے کمائی تھیں، اور ان میں سے جن لوگوں نے ظلم کیا جلد انہیں پہنچیں گی (ان پر آ پڑیں گی) بُرائیاں جو انہوں نے کمائی ہیں، اور وہ نہیں ہیں (اللہ کو) عاجز کرنے والے۔ (۵۱)

تشریح: چنانچہ قارون نے یہ ہی کہا تھا۔ اس کا جو حشر ہوا وہ پہلے گزر چکا۔ جیسے پہلے مجرموں پر ان کی شرارتوں کا وبال پڑا، موجود الوقت مشرکین پر بھی پڑنے والا ہے۔ جس وقت اللہ تعالیٰ ان کو سزا دینا چاہے گا یہ روپوش ہو کر یا اور کسی تدبیر سے اس کو تھکا نہیں سکتے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ جس کے لئے چاہتا ہے رزق فراخ کر دیتا ہے (اور جس کے لئے چاہتا ہے ) تنگ کردیتا ہے ، بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو ایمان لائے۔ (۵۲)

تشریح: یعنی دنیا میں محض روزی کا کشادہ یا تنگ ہونا کسی شخص کے مقبول یا مردود ہونے کی دلیل نہیں ہو سکتی۔ نہ روزی کا ملنا کچھ عقل و ذہانت اور علم و لیاقت پر منحصر ہے۔ دیکھ لو کتنے بیوقوف یا بدمعاش چین اڑا رہے ہیں، اور کتنے عقلمند اور نیک آدمی فاقے کھینچتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یعنی عقل دوڑانے اور تدبیر کرنے میں کوئی کمی نہیں کرتا پھر ایک کو روزی کشادہ ہے ایک کو تنگ۔ جان لو کہ (صرف) عقل کا کام نہیں” (کہ اپنے اوپر روزی کشادہ کر لے ) بلکہ یہ تقسیم رزاق حقیقی کی حکمت و مصلحت کے تابع اور اسی کے ہاتھ میں ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں اے میرے بندو! جنہوں نے زیادتی کی ہے اپنی جانوں پر، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، بے شک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ، بے شک وہی بخشنے والا، مہربان ہے۔ (۵۳)

تشریح: یعنی اگر کسی شخص نے ساری زندگی کفر، شرک یا گناہوں میں گزاری ہے تو وہ یہ نہ سمجھے کہ اب اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی، بلکہ اللہ تعالی کی رحمت ایسی ہے کہ مرنے سے پہلے پہلے جس وقت بھی انسان اپنی اصلاح کا پختہ ارادہ کر کے اللہ تعالی سے اپنی پچھلی زندگی کی معافی مانگے اور توبہ کر لے تو اللہ تعالی اس کے تمام گناہوں کو معاف فرما دے گا۔

( توضیح القرآن)

 

اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو، اور اس کے فرمانبردار ہو جاؤ، اس سے قبل کہ تم پر عذاب آ جائے ، پھر تم مدد نہ کئے جاؤ گے۔ (۵۴)

تشریح: مغفرت کی امید دلا کر یہاں سے توبہ کی طرف متوجہ فرمایا۔ یعنی گذشتہ غلطیوں پر نادم ہو کر اور اللہ کے بے پایاں جود و کرم سے شرما کر کفر و عصیان کی راہ چھوڑو، اور اس رب کریم کی طرف رجوع ہو کر اپنے کو بالکلیہ اسی کے سپرد کر دو۔ اس کے احکام کے سامنے نہایت عجز و اخلاص کے ساتھ گردن ڈال دو۔ اور خوب سمجھ لو کہ حقیقت میں نجات محض اس کے فضل سے ممکن ہے۔ ہمارا رجوع و انابت بھی بدون اس کے فضل و کرم کے میسر نہیں ہو سکتا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غالب کیا۔ جو کفار دشمنی میں لگے رہے تھے سمجھے کہ لاریب اس طرف اللہ ہے۔ یہ سمجھ کر اپنی غلطیوں پر پچھتائے۔ لیکن شرمندگی سے مسلمان نہ ہوئے کہ اب ہماری مسلمانی کیا قبول ہو گی۔ دشمنی کی، لڑائیاں لڑے اور کتنے خدا پرستوں کے خون کیے۔ تب اللہ نے یہ فرمایا کہ ایسا گناہ کوئی نہیں جس کی توبہ اللہ قبول نہ کرے ، نا امید مت ہو، توبہ کرو اور رجوع ہو، بخشے جاؤ گے مگر جب سر پر عذاب آیا یا موت نظر آنے لگی اس وقت کی توبہ قبول نہیں۔ ” نہ اس وقت کوئی مدد کو پہنچ سکتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور پیروی کرو سب سے بہتر (کتاب کی) جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے ، تمہارے رب کی طرف سے ، اس سے قبل کہ تم پر اچانک عذاب آ جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔ (۵۵)

تشریح: بہتر بات سے مراد قرآن کریم ہے۔ یعنی قرآنی ہدایت پر چل کر عذاب آنے سے پہلے اپنے مستقبل کی روک تھام کر لو۔ ورنہ معاً عذاب الٰہی اس طرح ایک دم آ دبائے گا کہ خبر بھی نہ ہو گی کہاں سے آ گیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

کہ کوئی شخص کہے ، ہائے افسوس جو میں نے اللہ کے حق میں کوتاہی کی، اور یہ کہ میں ہنسی اڑانے والوں میں سے رہا۔ (۵۶)

تشریح: یعنی ہوا و ہوس، رسم و تقلید اور دنیا کے مزوں میں پڑ کر خدا کو کچھ سمجھا ہی نہیں۔ اس کے دین کی اور پیغمبروں کی اور جس ہولناک انجام سے پیغمبر ڈرایا کرتے تھے ، سب کی ہنسی اڑاتا رہا۔ ان چیزوں کی کوئی حقیقت ہی نہ سمجھی۔ افسوس خدا کے پہچاننے اور اس کا حق ماننے میں، میں نے کس قدر کوتاہی کی جس کے نتیجہ میں آج یہ برا وقت دیکھنا پڑا۔

(تفسیرعثمانی)

 

یا یہ کہے کہ اگر اللہ مجھے ہدایت دیتا تو میں ضرور پرہیزگاروں میں سے ہوتا۔ (۵۷)

تشریح: جب حسرت و افسوس سے کام نہ چلے گا تو اپنا دل بہلانے کے لیے یہ عذر پیش کرے گا کہ کیا کہوں خدا نے مجھ کو ہدایت نہ کی۔ وہ ہدایت کرنا چاہتا تو میں بھی آج متقین کے درجہ میں پہنچ جاتا (اس کا جواب آگے آتا ہے۔ ”بلی قد جاء تک ایاتی” الخ) اور ممکن ہے یہ کلام بطریق اعتذار و احتجاج نہ ہو بلکہ محض اظہار یاس کے طور پر ہو۔ یعنی میں اپنی سوء استعداد اور بدتمیزی کی وجہ سے اس لائق نہ تھا کہ اللہ مجھ کو راہ دکھا کر منزلِ مقصود تک پہنچا دیتا۔ اگر مجھ میں اہلیت و استعداد ہوتی اور اللہ میری دستگیری فرماتا تو میں بھی آج متقین کے زمرہ میں شامل ہوتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

یا وہ جب عذاب دیکھے تو کہے کاش! اگر میرے لئے دوبارہ (دنیا میں جانا ہو) تو میں نیکو کاروں میں سے ہو جاؤں۔ (۵۸)

تشریح: جب حسرت و اعتذار دونوں بیکار ثابت ہوں گے اور دوزخ کا عذاب آنکھوں کے سامنے آ جائے گا اس وقت شدت اضطراب سے کہے گا کہ کس طرح مجھ کو ایک مرتبہ پھر دنیا میں جانے کا موقع دیا جائے تو دیکھو میں کیسا نیک بن کر آتا ہوں۔

(تفسیرعثمانی)

 

(اللہ فرمائے گا) ہاں! تحقیق تیرے پاس میری آیات آئیں، تو نے انہیں جھٹلایا، اور تو نے تکبر کیا، اور تو کافروں میں سے تھا۔ (۵۹)

تشریح: یعنی غلط کہتا ہے کہ کیا اللہ نے راہ نہیں دکھلائی تھی اور اپنے پیغمبروں کو نشانات اور احکام دے کر نہیں بھیجا تھا، مگر تو نے تو ان کی کوئی بات ہی نہیں سنی۔ جو کچھ کہا گیا غرور اور تکبر سے اسے جھٹلاتا رہا، تیری شیخی قبول حق سے مانع رہی۔ اور بات یہ ہے کہ اللہ کو ازل سے معلوم تھا کہ تو اس کی آیات کا انکار کرے گا۔ اور تکبر و سرکشی سے پیش آئے گا، تیرے مزاج و طبیعت کی افتاد ہی ایسے ہے۔ اگر ہزار مرتبہ دنیا کی طرف لوٹایا جائے تب بھی اپنی حرکات سے باز نہیں آسکتا۔ ”ولو ردوا العادوا لمانہوا عنہ وانہم لکاذبون” (انعام، رکوع٣) ایسے لوگوں کی نسبت خدا کی عادت نہیں کہ ان کو عروس کامیابی سے ہمکنار کرے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور قیامت کے دن تم دیکھو گے جن لوگوں نے اللہ پر جھوٹ بولا، ان کے چہرے سیاہ ہوں گے ، کیا تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم میں نہیں۔ (۶۰)

تشریح: اللہ کی طرف سے جو سچی بات آئے اس کو جھٹلانا یہی اللہ پر جھوٹ بولنا ہے۔ کیونکہ جھٹلانے والا دعویٰ کرتا ہے کہ اللہ نے فلاں بات نہیں کہی، حالانکہ واقع میں کہی ہے۔ اس جھوٹ کی سیاہی قیامت کے دن ان کے چہروں پر ظاہر ہو گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جن لوگوں نے پرہیزگاری کی اللہ انہیں ان کو کامیابی کے ساتھ نجات دے گا، نہ انہیں کوئی برائی چھوئے گی، نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (۶۱)

تشریح: یعنی اللہ تعالیٰ متقین کو ان کے ازلی فوزو سعادت کی بدولت کامیابی کے اس بلند مقام پر پہنچائے گا۔ جہاں ہر قسم کی برائیوں سے محفوظ اور ہر طرح کے فکر و غم سے آزاد ہوں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ ہر شے کا پیدا کرنے والا ہے ، اور وہ ہر شے پر نگہبان ہے۔ (۶۲)

اسی کے پاس ہے آسمانوں اور زمین کی کنجیاں، اور جو لوگ اس کی آیات سے منکر ہوئے وہی گھاٹا پانے والے ہیں۔ (۶۳)

تشریح: یعنی ہر چیز کو اس نے پیدا کیا اور پیدا کرنے کے بعد اس کی بقاء و حفاظت کا ذمہ دار بھی و ہی ہوا، اور زمین و آسمان کی تمام چیزوں میں تصرف و اقتدار بھی اسی کو حاصل ہے ،کیونکہ سب خزانوں کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ پھر ایسے خدا کو چھوڑ کر آدمی کہاں جائے۔ چاہیے کہ اسی کے غضب سے ڈرے اور اسی کی رحمت کا امید وار رہے۔ کفر و ایمان اور جنت و دوزخ سب اسی کے زیر تصرف ہیں۔ اس کی باتوں سے منکر ہو کر آدمی کا کہیں ٹھکانا نہیں۔ کیا اس سے منحرف ہو کر آدمی کسی فلاح کی امید رکھ سکتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں، اے جاہلو!تو کیا تم مجھے کہتے ہو کہ میں اللہ کے سوا (کسی اور ) کی پرستش کروں۔ (۶۴)

تشریح: یعنی انتہائی نادانی اور حماقت و جہالت یہ ہے کہ آدمی خدا کو چھوڑ کر دوسروں کی پرستش کرے اور پیغمبر خدا سے (معاذ اللہ) یہ طمع رکھے کہ وہ اس کے راستہ پر جائیں گے۔ بعض روایات میں ہے کہ مشرکین نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دیوتاؤں کی پرستش کی طرف بلایا تھا۔ اس کے جواب میں یہ آیات نازل ہوئیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور یقیناً آپ کی طرف اور آپ کے پہلوں کی طرف وحی بھیجی گئی ہے ، اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے عمل بالکل اکارت جائیں گے اور تم خسارہ پانے والوں (زیاں کاروں) میں سے ہو گے۔ (۶۵)

بلکہ اللہ ہی کی عبادت کرو، اور شکر گزاروں میں سے ہو۔ (۶۶)

تشریح: یعنی عقلی حیثیت سے دیکھا جائے کہ تمام چیزوں کا پیدا کرنا باقی رکھنا اور ان میں ہر قسم کے تصرفات کرتے رہنا صرف اللہ کا کام ہے تو عبادت کا مستحق بجز اس کے کوئی نہیں ہو سکتا۔ اور نفلی حیثیت سے لحاظ کرو تو تمام انبیاء اللہ اور ادیان سماویہ توحید کی صحت اور شرک کے بطلان پر متفق ہیں ،بلکہ ہر نبی کو بذریعہ وحی بتلا دیا گیا ہے کہ (آخرت میں) مشرک کے تمام اعمال اکارت ہیں اور شرک کا انجام خالص حرمان و خسران کے سوا کچھ نہیں۔ لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ وہ ہر طرف سے ہٹ کر ایک خدائے قدوس کو پوجے اور اس کا شکر گزار و وفادار بندہ بنے۔ اس کے عظمت و جلال کو سمجھے۔ عاجز و حقیر مخلوق کو اس کا شریک نہ ٹھہرائے۔ اس کو اسی طرح بزرگ و برتر مانے ، جیسا کہ وہ واقع میں ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور انہوں نے اللہ کو نہ پہچانا جیسا کہ اس کے پہچاننے کا حق تھا، اور تمام زمین روزِ قیامت اس کی مٹھی میں ہو گی، اور تمام آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوں گے ، اور وہ اس سے پاک اور برتر ہے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ (۶۷)

تشریح: یعنی مشرکین نے اس کے عظمت و جلال اور بزرگی و برتری کو وہاں تک نہ سمجھا اور ملحوظ نہ رکھا جہاں تک ایک بندہ کو سمجھنا اور ملحوظ رکھنا چاہیے تھا۔ اس کی شان رفع اور مرتبہ بلند کا اجمالی تصور رکھنے والا، کیا عاجز و محتاج مخلوق حتی کہ پتھر کی بے جان مورتیوں کو اس کا شریک تجویز کر سکتا ہے۔ حاشا وکلا۔ آگے اس کی بعض شؤونِ عظمت و جلال کا بیان ہے۔

جس کی عظمت شان کا یہ حال ہے کہ قیامت کے دن کل زمین اس کی ایک مٹھی میں اور سارے آسمان کاغذ کی طرح لپٹے ہوئے ایک ہاتھ میں ہوں گے ، اس کی عبادت میں بے جان یا عاجز و محتاج مخلوق کو شریک کرنا کہاں تک روا ہو گا۔ وہ شرکاء تو خود اس کی مٹھی میں پڑے ہیں۔ جس طرح چاہے ان پر تصرف کرے۔ ذرا کان یا زبان نہیں ہلا سکتے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور صور میں پھونک ماری جائے گی تو (ہر کوئی) جو آسمانوں اور زمین میں ہے بیہوش ہو جائے گا، سوائے اس کے جسے اللہ چاہے ، پھر اس میں پھونک ماری جائے گی، دوبارہ تو وہ فوراً کھڑے ہو جائیں گے (اِدھر اُدھر) دیکھنے لگیں گے۔ (۶۸)

تشریح: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”ایک بار نفخ صور ہے عالم کے فناء کا، دوسرا ہے زندہ ہونے کا، یہ تیسرا بعد حشر کے ہے بیہوشی کا، چوتھا خبردار ہونے کا، اس کے بعد اللہ کے سامنے سب کی پیشی ہو گی۔ ” اور بتغییر یسیر۔ لیکن علمائے محققین کے نزدیک کل دو مرتبہ نفخ صور ہو گا۔ پہلی مرتبہ میں سب کے ہوش اڑ جائیں گے۔ پھر زندہ تو مردہ ہو جائیں گے اور جو مر چکے تھے ان کی ارواح پر بیہوشی کی کیفیت طاری ہو جائے گی۔ بعدہٗ دوسرا نفخہ ہو گا جس سے مردوں کی ارواح ابدان کی طرف واپس آ جائیں گی اور بیہوشی کو افاقہ ہو گا۔ اس وقت محشر کے عجیب و غریب منظر کو حیرت زدہ ہو کر تکتے رہیں گے۔ پھر خداوند قدوس کی پیشی میں تیزی کے ساتھ حاضر کیے جائیں گے۔

(تنبیہ) الامن شاء اللہ سے بعض نے جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور ملک الموت مراد لیے ہیں۔ بعض نے ان کے ساتھ حملۃ العرش کو بھی شامل کیا ہے۔ بعض کے نزدیک انبیاء و شہداء مراد ہیں۔ واللہ اعلم۔ بہرحال یہ استثناء اس نفخہ کے وقت ہو گا۔ اس کے بعد ممکن ہے ان پر بھی فنا طاری کر دی جائے۔ ”لمن الملک الیوم للہ الواحد القہار۔ ” (المومن، رکوع٢) –

(تفسیرعثمانی)

 

اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی اور (اعمال کی) کتاب (کھول کر) رکھ دی جائے گی، اور نبی اور گواہ لائے جائیں گے ، اور ان کے درمیان حق کے ساتھ (ٹھیک ٹھیک) فیصلہ کیا جائے گا، اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا۔ (۶۹)

تشریح: یعنی اس کے بعد حق تعالیٰ حساب کے لیے اپنی شان کے مناسب نزول اجلال فرمائیں گے (کما ورد فی بعض روایات الدر المنثور) اس وقت حق تعالیٰ کی تجلی اور نور بے کیف سے محشر کی زمین چمک اٹھے گی حساب کا دفتر کھلے گا۔ سب کے اعمالنامے سامنے رکھ دیے جائیں گے۔ انبیاء علیہم السلام اور دوسرے گواہ دربار میں حاضر ہوں گے اور ہر شخص کے اعمال کا نہایت انصاف سے ٹھیک ٹھیک فیصلہ سنایا جائے گا۔ کسی پر کسی طرح کی زیادتی نہ ہو گی (تنبیہ) ”شہداء” سے مراد علاوہ انبیاء علیہم السلام کے فرشتے ، امت محمدیہ کے لوگ اور انسان کے ہاتھ پاؤں وغیرہ سب ہو سکتے ہیں۔ اور حضرت شاہ صاحب نے ہر امت کے نیک آدمی مراد لیے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور وہ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔ (۷۰)

تشریح: یعنی نیکی کے بدلہ میں کمی اور بدی کے بدلہ میں زیادتی نہ ہو گی جس کا جتنا اچھا یا برا عمل ہے سب خدا کے علم میں ہے اسی کے موافق بدلہ ملے گا۔ جس کی کچھ تفصیل آگے آتی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور کافر ہانکے جائیں گے گروہ در گروہ جہنم کی طرف، یہاں تک کہ جب وہ وہاں آئیں گے تو اس کے دروازے کھول دئیے جائیں گے ، اور ان سے کہیں گے اس کے محافظ (داروغہ) کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے ؟ جو تم پر تمہارے رب کے احکام پڑھتے تھے ، اور تمہیں ڈراتے تھے اس دن کی ملاقات سے ، وہ کہیں گے ہاں لیکن کافروں پر عذاب کا حکم پورا ہو گیا۔ (۷۱)

تشریح: یعنی تمام کافروں کو دھکے دے کر نہایت ذلت و خواری کے ساتھ دوزخ کی طرف ہانکا جائے گا اور چونکہ کفر کی اقسام و مراتب بہت ہیں ہر قسم اور ہر درجہ کا گروہ الگ الگ کر دیا جائے گا۔ جس طرح دنیا میں جیل خانہ کا پھاٹک کھلا نہیں رہتا جب کسی قیدی کو داخل کرنا ہوتا ہے کھول کر داخل کرتے اور پھر بند کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی وہاں جس وقت دوزخی دوزخ کے قریب پہنچیں گے دروازے کھول کر اس میں دھکیل دیا جائے گا۔ اس کے بعد دروازے بند کر دیے جائیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کہا جائے گا تم جہنم کے دروازوں میں داخل ہو، اس میں ہمیشہ رہنے کو، سو برا ہے تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا۔ (۷۲)

تشریح: یعنی تم نے شیخی اور غرور میں آ کر اللہ کی بات نہ مانی۔ اب ہمیشہ دوزخ میں پڑے اس کا مزہ چکھتے رہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہاں تک کہ جب وہ وہاں آئیں گے اور کھول دئیے جائیں گے اس کے دروازے اور ان سے اس کے محافظ (داروغہ) کہیں گے تم پر سلام ہو، تم اچھے رہے ، سو اس میں ہمیشہ رہنے کو داخل ہو۔ (۷۳)

تشریح: یعنی ایمان و تقویٰ کے مدارج چونکہ متفاوت ہیں ہر درجہ کے مومنین متقین کی جماعت الگ ہو گی اور ان سب جماعتوں کو نہایت شوق دلا کر جلدی جلدی جنت کی طرف روانہ کیا جائے گا۔ جس طرح مہمانوں کے لیے ان کی آمد سے پہلے مہمان خانہ کا دروازہ کھلا رکھا جاتا ہے ، جنتی وہاں پہنچ کر جنت کے دروازے کھلے پائیں گے۔ کماقال فی موضع آخر ”مفتحۃً لہم الابواب” (ص، رکوع٤) اور خدا کے فرشتے نہایت اعزاز و اکرام کے ساتھ کلماتِ سلام و ثناء وغیرہ سے ان کا استقبال کریں گے اور جنت میں رہنے کی بشارت سنائیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ کہیں گے ، تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے اپنا وعدہ سچا کیا اور ہمیں (اس) زمین کا وارث بنایا کہ ہم مقام کر لیں جنت میں جہاں ہم چاہیں، سو کیا ہی اچھا ہے عمل کرنے والوں کا اجر۔ (۷۴)

تشریح: یعنی خدا کا شکر جو وعدے انبیاء کی زبانی دنیا میں کیے گئے تھے آج اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”ان کو حکم ہے جہاں چاہیں جائیں لیکن ہر کوئی وہی جگہ چاہے گا جو اس کے واسطے پہلے سے رکھی ہے۔ ” اور بعض کے نزدیک مراد یہ ہے کہ جنت میں سیر و ملاقات کے لیے کہیں آنے جانے کی روک ٹوک نہ ہو گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور آپ فرشتوں کو دیکھیں گے حلقہ باندھے عرش کے گرد، اپنے رب کی تعریف کے ساتھ پاکیزگی بیان کرتے ہوئے ، اور ان کے درمیان حق کے ساتھ (ٹھیک ٹھیک) فیصلہ کر دیا جائے گا، اور کہا جائے گا تمام تعریفیں سارے جہانوں کے پروردگار اللہ کے لئے ہیں۔ (۷۵)

تشریح: یعنی حق تعالیٰ جب حساب کتاب کے لیے نزول اجلال فرمائیں گے۔ اس وقت فرشتے عرش کے گردا گرد حلقہ باندھے اپنے رب کی تسبیح و تحمید کرتے ہوں گے اور تمام بندوں میں ٹھیک ٹھیک انصاف کا فیصلہ کر دیا جائے گا۔ جس پر ہر طرف سے جوش و خروش کے ساتھ ”الحمدللہ رب العالمین” کا نعرہ بلند ہو گا۔ یعنی ساری خوبیاں اس خدا کو زیبا ہیں جو تمام عالم کا پروردگار ہے (جس نے سارے جہان کا ایسا عمدہ فیصلہ کیا) اسی نعرہ تحسین پر دربار برخاست ہو جائے گا۔ عموماً مفسرین نے آیت کا یہ ہی مطلب بیان کیا ہے لیکن حضرت شاہ صاحب نے آیت کو حالت راہنہ پر حمل کیا اور قضی بینہم کی ضمیر ملائکہ کی طرف راجع کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”فرشتوں میں فیصلہ یہ کہ ہر ایک فرشتہ (ملاء الاعلیٰ میں) اپنے قاعدہ سے ایک تدبیر بولتا ہے۔ (کمایشیر الیہ اختصام الملاء الاعلی و تفصیلہ فی حجۃ اللہ البالغہ) پھر اللہ تعالیٰ ایک کی بات جاری کرتا ہے۔ و ہی ہوتی ہے حکمت کے موافق۔ یہ ماجرا اب بھی ہے اور قیامت میں بھی۔ ” واللہ تعالٰی اعلم بالصواب۔ تم سورۃ الزمر بعون اللہ وتوفیقہ وللہ الحمد۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

۴۰۔ سورۃ المؤمن

 

                تعارف

 

یہاں سے سورۂ احقاف تک ہر سورت حٰمٓ کے حروف مقطعات سے شروع ہو رہی ہے ، جیسا کہ سورہ بقرہ کے شروع میں عرض کیا گیا تھا ان حروف کا ٹھیک ٹھیک مطلب اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا، چونکہ یہ سات سورتیں حٰمٓ سے شروع ہو رہی ہیں اس لئے ان کو حوامیم کہا جاتا ہے ، اور ان کے اسلوب میں عربی بلاغت کے لحاظ سے جو ادبی حسن ہے اس کی وجہ سے انہیں عروس القرآن یعنی قرآن کی دلہن کا لقب بھی دیا گیا ہے ، یہ تمام سورتیں مکی ہیں، اور ان میں اسلام کے بنیادی عقائد توحید، رسالت، اور آخرت کے مضامین پر زور دیا گیا ہے ، کفار کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے ، اور کفر کے بُرے انجام سے خبر دار کیا گیا ہے ، اور بعض انبیائے کرام کے واقعات   کا حوالہ دیا گیا ہے ، اس پہلی سورت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے آیت ۲۸ سے ۳۵ تک فرعون کی قوم کے ایک ایسے مرد مومن کی تقریر نقل فرمائی گئی ہے جنہوں نے اپنا ایمان تک چھپایا ہوا تھا، لیکن جب حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اور ان کے رفقاء پر فرعون کے مظالم بڑھنے کا اندیشہ ہوا، اور فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو انہوں نے اپنے ایمان کا کھلم کھلا اعلان کرتے ہوئے فرعون کے دربار میں یہ موثر تقریر فرمائی، اسی مرد مؤمن کے حوالے سے اس سورت کا نام بھی مؤمن ہے اور اسے سورہ غافر بھی کہتے ہیں غافر کے معنی ہیں معاف کرنے والا، اس سورت  کی ابتدائی آیت میں یہ لفظ اللہ تعالی کی صفات بیان کرتے ہوئے استعمال ہوا ہے ، اس وجہ سے سورت کی پہچان کے لئے اس کا ایک نام غافر بھی رکھا گیا۔

(توضیح القرآن)

 

مکیۃ

آیات۸۵         رکوعات:۹

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

حا میم۔ (۱) اس قرآن کا اتارا جانا اللہ غالب، ہر چیز کے جاننے والے (کی طرف) سے ہے۔ (۲)

نہیں جھگڑتے اللہ کی آیات میں مگر وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا، سو تمہیں ان کا شہروں میں (آرا م چین سے ) چلنا پھرنا دھوکے میں نہ ڈال دے۔ (۴)

تشریح: یعنی اللہ کی باتیں اور اس کی عظمت و قدرت کے نشان ایسے نہیں جن میں کوئی جھگڑا کیا جائے۔ مگر جن لوگوں نے یہ ہی ٹھان لی ہے کہ روشن سے روشن دلائل و براہین اور کھلی کھلی باتوں کا بھی انکار کیا جائے و ہی سچی باتوں میں ناحق جھگڑے ڈالتے ہیں۔ ایسے منکر کا انجام تباہی اور ہلاکت ہے۔ گو فی الحال وہ شہروں میں چلتے پھرتے اور کھاتے پیتے نظر آتے ہیں، اس سے دھوکا نہ کھانا چاہیے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امہال اور استدراج ہے کہ چند روز چل پھر کر دنیا کے مزے اڑا لیں، یا تجارتیں اور سازشیں کر لیں۔ پھر ایک روز غفلت کے نشہ میں پوری طرح مخمور ہو کر پکڑے جائیں گے۔ اگلی قوموں کا حال بھی یہی ہوا۔

(تفسیرعثمانی)

 

ان سے قبل نوح کی قوم اور ان کے بعد (دوسرے ) گروہوں نے جھٹلایا، اور ہر امت نے اپنے رسولوں کے متعلق ارادہ کیا، کہ وہ اسے پکڑ لیں، اور ناحق جھگڑا کریں تاکہ اس سے حق کو ناچیز کر دیں، تو میں نے انہیں پکڑ لیا، سو (دیکھو) کیسا ہوا میرا عذاب۔ (۵)

تشریح: یعنی ہر ایک امت کے شریروں نے اپنے پیغمبر کو پکڑ کر قتل کر نے یا ستانے کا ارادہ کیا اور چاہا کہ جھوٹے ڈھکوسلے کھڑے کر کے سچے دین کو شکست دیں، اور حق کی آواز کو ابھرنے نہ دیں، لیکن ہم نے ان کا داؤ چلنے نہ دیا، اور اس کے بجائے کہ وہ پیغمبروں کو پکڑتے ہم نے ان کو پکڑ کر سخت سزائیں دیں، پھر دیکھ لو ہماری سزا کیسی ہوئی کہ ان کی بیخ و بنیاد باقی نہ چھوڑی۔ آج بھی ان تباہ شدہ قوموں کے کچھ آثار کہیں کہیں موجود ہیں، ان ہی کو دیکھ کر انسان ان کی تباہی کا تصور کر سکتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اسی طرح تمہارے رب کی بات کافروں پر ثابت ہو گئی کہ وہ دوزخ والے ہیں۔ (۶)

تشریح: یعنی جس طرح اگلی قوموں پر عذاب آنے کی بات پوری اتر چکی، موجود الوقت منکروں پر بھی اتری ہوئی سمجھو۔ اور جس طرح پیغمبروں کے اعلان کے موافق کافروں پر دنیاوی عذاب آ کر رہا، تیرے رب کی یہ بات بھی ثابت شدہ حقیقت ہے کہ آخرت میں ان لوگوں کا ٹھکانا دوزخ ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

جو فرشتے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے اردگرد ہیں، وہ تعریف کے ساتھ پاکیزگی بیان کرتے ہیں اپنے رب کی، اور وہ اس پر ایمان لاتے ہیں، اور جو ایمان لائے ان کے لئے مغفرت مانگتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہر شے کو سمولیا ہے (تیری) رحمت اور علم نے ، سو تو ان لوگوں کو بخش دے جنہوں نے توبہ کی، اور تیرے راستے کی پیروی کی، اور انہیں جہنم کے عذاب سے بچا لے۔ (۷)

تشریح:پہلی آیات میں مجرمین و منکرین کا حال زبوں بیان ہوا تھا۔ یہاں ان کے مقابل مومنین و تائبین کا فضل و شرف بیان کرتے ہیں۔ یعنی عرش عظیم کو اٹھانے والے اور اس کے گرد طواف کرنے والے بیشمار فرشتے جن کی غذا صرف حق تعالیٰ کی تسبیح و تحمید ہے اور جو مقربین بارگاہ ہونے کی وجہ سے اعلیٰ درجہ کا ایمان و یقین رکھے ہیں، وہ اپنے پروردگار کے آگے مومنین کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ سبحان اللہ! اس عزت افزائی اور شرف و احترام کا کیا ٹھکانا ہے کہ فرش خاک پر رہنے والے مومنین سے جو خطائیں اور لغزشیں ہو گئیں ملائکہ بارگاہِ عالی میں اس کے لیے غائبانہ معافی چاہیں۔ اور جب ان کی شان میں ”ویفعلون مایومرون” آیا ہے تو وہ حق تعالیٰ کی طرف سے اس کام پر مامور ہوں گے۔

وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا :یہ فرشتوں کے استغفار کی صورت بتلائی۔ یعنی بارگاہِ احدیت میں یوں عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار آپ کا علم اور رحمت ہر چیز کو محیط ہے پس جو کوئی آپ کے علم محیط میں برائیوں کو چھوڑ کر سچے دل سے آپ کی طرف رجوع ہو اور آپ کے راستہ پر چلنے کی کوشش کرتا ہو، اگر اس سے بمقتضائے بشریت کچھ کمزوریاں اور خطائیں سرزد ہو جائیں، آپ اپنے فضل و رحمت سے اس کو معاف فرما دیں۔ نہ دنیا میں ان پر داروگیر ہو اور نہ دوزخ کا منہ دیکھنا پڑے۔ باقی جو مسلمان توبہ و انابت کی راہ اختیار نہ کرے اس کا یہاں ذکر نہیں۔ آیت ہذا اس کی طرف سے ساکت ہے۔ بظاہر حاملین عرش ان کے حق میں دعا نہیں کرتے۔ اللہ کا ان کے ساتھ کیا معاملہ ہو گا؟ یہ دوسری نصوص سے طے کرنا چاہیے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے ہمارے رب! اور انہیں ہمیشگی کے باغات میں داخل فرما، وہ جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے ، اور (ان کو بھی) جو صالح ہیں ان کے باپ دادا میں سے ، اور ان کی بیویوں، اور ان کی اولاد میں سے ، بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔ (۸)

تشریح: یعنی اگرچہ بہشت ہر کسی کو اپنے عمل سے ملتی ہے (جیسا کہ یہاں بھی ومن صلح کی قید سے ظاہر ہے ) بدون اپنے ایمان و صلاح کے بیوی، بیٹا اور ماں باپ کام نہیں آتے ، لیکن تیری حکمتیں ایسی بھی ہیں کہ ایک کے سبب سے کتنوں کو ان کے عمل سے زیادہ اعلیٰ درجہ پر پہنچا دے۔ کما قال تعالٰی۔ ”والذین اٰمنوا واتبعتہم ذریتہم بایمان الحقنا بہم ذریتہم وما التنا ہم من عملہم من شیئٍ” (طور، رکوع١) اور گہری نظر سے دیکھا جائے تو حقیقت میں وہ بھی ان ہی کے کسی عمل قلبی کا بدلہ ہو۔ مثلاً وہ آرزو رکھتے ہوں کہ ہم بھی اسی مرد صالح کی چال چلیں۔ یہ نیت اور نیکی کی حرص اللہ کے ہاں مقبول ہو جائے یا اس مرد صالح کے اکرام و مدارات ہی کی ایک صورت یہ ہو کہ اس کے ماں باپ اور بیوی بچے بھی اس کے درجہ میں رکھے جائیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور انہیں بُرائیوں سے بچا لے ، اور جو اس دن بُرائیوں سے بچا، تو تحقیق تو نے اس پر رحم کیا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ (۹)

تشریح: یعنی محشر میں ان کو کوئی برائی (مثلاً گھبراہٹ اور پریشانی وغیرہ) لاحق نہ ہو۔ اور یہ عظیم الشان کامیابی صرف تیری خاص مہربانی ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ بعض مفسرین نے سیأت سے اعمال سیئہ مراد لیے ہیں یعنی آگے کو انہیں برے کاموں سے محفوظ فرما دے اور ان کی خواہش ایسی کر دے کہ برائی کی طرف نہ جائیں۔ ظاہر ہے جو آج یہاں برائی سے بچ گیا اس پر تیرا فضل ہو گیا۔ وہ ہی آخرت میں اعلیٰ کامیابی حاصل کرے گا۔ اس تفسیر پر یومئذٍ کا ترجمہ بجائے ”اُس دن” کے ”اِس دن” ہونا چاہیے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یعنی تیری مہر ہی ہو کہ برائیوں سے بچے۔ اپنے عمل سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ تھوڑی بہت برائی سے کون خالی ہے۔ ” یہ الفاظ دونوں تفسیروں پر چسپاں ہو سکتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک جن لوگوں نے کفر کیا، وہ پکارے جائیں گے (انہیں پکار کر کہا جائے گا) اللہ کا بیزار ہونا تمہارے اپنے تئیں بیزار ہونے سے بڑا ہے ، جب تم ایمان کی طرف بلائے جاتے تھے تو تم کفر کرتے تھے۔ (۱۰)

تشریح: یہ قیامت کے دن کہیں گے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یعنی آج تم اپنے (نفس سے بیزار ہو اور ) اپنے جی کو پھٹکارتے ہو۔ دنیا میں جب کفر کرتے تھے (اس وقت) اللہ اس سے زیادہ تم کو پھٹکارتا تھا (اور تمہاری حرکات سے بیزار تھا) اسی کا بدلہ آج پاؤ گے ” اور بعض مفسرین نے ”مقتین” کا زمانہ ایک مراد لے کر یوں معنی کیے ہیں کہ تم کو دنیا میں بار بار ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا اور تم بار بار کفر کرتے تھے۔ آج اس کی سزا بھگتنے کے وقت جس قدر تم اپنے جانوں سے بیزار ہو رہے ہو اللہ اس سے زیادہ تم سے بیزار ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ کہیں گے اے ہمارے رب! تو نے ہمیں مردہ رکھا دو بار، اور ہمیں زندگی بخشی دو بار، پس ہم نے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا، تو کیا (اب یہاں سے ) نکلنے کی کوئی سبیل ہے ؟ (۱۱)

تشریح: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”پہلے مٹی تھے یا نطفہ، تو مردے ہی تھے۔ پھر جان پڑی تو زندہ ہوئے ، پھر مرے۔ پھر زندہ کر کے اٹھائے گئے۔ یہ ہیں دو موتیں اور دو حیاتیں۔ قال تعالیٰ۔ ”کیف تکفرون باللہ وکنتم امواتاً فاحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم الیہ ترجعون” (بقرہ، رکوع٣) وقیل غیر ذلک والاظہر ہوہذا۔

فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا :یعنی انکار کیا کرتے تھے کہ مرنے کے بعد پھر جینا نہیں۔ نہ حساب کتاب ہے نہ کوئی اور قصہ۔ اسی لیے گناہوں اور شرارتوں پر جری ہوتے تھے۔ اب دیکھ لیا کہ جس طرح پہلی موت کے بعد آپ نے ہم کو زندہ کیا اور عدم سے نکال کر وجود عطا فرمایا، دوسری موت کے بعد بھی پیغمبروں کے ارشادات کے موافق دوبارہ زندگی بخشی۔ آج بعث بعد الموت کے وہ سب مناظر جن کا ہم انکار کیا کرتے تھے سامنے ہیں اور بجز اس کے چارہ نہیں کہ ہم اپنی غلطیوں اور خطاؤں کا اعتراف کریں۔

فَہَلْ إِلٰی خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِيْلٍ :یعنی افسوس اب تو بظاہر یہاں سے چھوٹ کر نکل بھاگنے کی کوئی راہ نظر نہیں آتی۔ ہاں آپ قادر ہیں کہ جہاں دو مرتبہ موت و حیات دے چکے ہیں، تیسری مرتبہ ہم کو پھر دنیا کی طرف واپس بھیج دیں۔ تاکہ اس مرتبہ وہاں سے ہم خوب نیکیاں سمیٹ کر لائیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ تم پر اس لئے (ہے ) کہ جب اللہ واحد کو پکارا جاتا تو تم کفر کرتے اور اگر (کسی کو) اس کا شریک کیا جاتا تو تم مان لیتے ، پس حکم اللہ کے لئے ہے ، جو بلند بڑا ہے۔ (۱۲)

تشریح: یعنی بیشک اب دنیا کی طرف واپس کیے جانے کی کوئی صورت نہیں۔ اب تو تم کو اپنے اعمال سابقہ کا خمیازہ بھگتنا ہے۔ تمہارے متعلق ہلاکت ابدی کا یہ فیصلہ اس لیے ہوا ہے کہ تم نے اکیلے سچے خدا کی پکار پر کبھی کان نہ دھرا۔ ہمیشہ اس کا یا اس کی وحدانیت کا انکار ہی کرتے رہے۔ ہاں کسی جھوٹے خدا کی طرف بلائے گئے تو فوراً آمنا و صدقنا کہہ کر اس کے پیچھے ہو لیے۔ اس سے تمہاری خو اور طبیعت کی افتاد کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ اگر ہزار مرتبہ بھی واپس کیا جائے ، پھر وہ ہی کفر و شرک کما کر لاؤ گے بس آج تمہارے جرم کی ٹھیک سزا یہ ہی حبس دوام ہے جو اس بڑے زبردست خدا کی عدالت عالیہ سے جاری کی گئی۔ جس کا کہیں آگے مرافعہ (اپیل) نہیں۔ اس سے چھوٹنے کی تمنا عبث ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ جو تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور تمہارے لئے آسمان سے رزق اتارتا ہے ، اور اس کے سوا کوئی نصیحت قبول نہیں کرتا جو (اللہ کی طرف) رجوع کرتا ہے۔ (۱۳)

تشریح: یعنی اس کی عظمت و وحدانیت کی نشانیاں ہر چیز میں ظاہر ہیں ایک اپنی روزی ہی کے مسئلہ کو آدمی سمجھ لے جس کا سامان آسمان سے ہوتا رہتا ہے تو سب کچھ سمجھ میں آ جائے۔ لیکن جب ادھر رجوع ہی نہ ہو اور غور و فکر سے کام ہی نہ لے تو کیا خاک سمجھ حاصل ہو سکتی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس اللہ کو پکارو، اسی کے لئے عبادت خالص کرتے ہوئے ، خواہ کافر بُرا مانیں۔ (۱۴)

تشریح: یعنی بندوں کو چاہیے سمجھ سے کام لیں۔ اور ایک خدا کی طرف رجوع ہو کر اسی کو پکاریں، اس کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کریں، بیشک محض بندوں کے اس موحدانہ طرز عمل سے کافر و مشرک ناک بھوں چڑھائیں گے کہ سارے دیوتا اڑا کر صرف ایک ہی خدا رہنے دیا گیا۔ مگر پکا موحد وہ ہی ہے جو مشرکین کے مجمع میں توحید کا نعرہ بلند کرے۔ اور ان کے برا ماننے کی اصلا پروا نہ کرے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بلند درجوں والا، عرش کا مالک، وہ اپنے حکم سے روح (وحی) ڈالتا ہے (بھیجتا ہے ) جس پر اپنے بندو ں میں سے چاہتا ہے ، تاکہ وہ قیامت کے دن سے ڈرائے۔ (۱۵)

تشریح: لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ: یعنی جس دن تمام اولین و آخرین مل کر اللہ تعالیٰ کی پیشی میں حاضر ہوں گے اور ہر ایک شخص اپنے اچھے یا برے عمل سے ملاقات کرے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

جس دن وہ ظاہر ہوں گے نہ پوشیدہ ہو گی اللہ پر ان کی کوئی شے ، (ندا ہو گی) آج کس کے لئے بادشاہت ہے ؟ (اعلان ہو گا) اللہ کے لئے جو واحد، زبردست ہے۔ (۱۶)

تشریح: یعنی قبروں سے نکل کر ایک کھلے کف دست میدان میں حاضر ہوں گے۔ جہاں کوئی آڑ پہاڑ حائل نہ ہو گا۔ خوب سمجھ لو اس حاکم اعلیٰ کے دربار میں حاضر ہونا ہے جس پر تمہاری کوئی حالت پوشیدہ نہیں۔ سب ظاہر و باطن احوال کھول کر رکھ دیئے جائیں گے۔ اس دن تمام وسائط و حجب اٹھ جائیں گے۔ ظاہری اور مجازی رنگ میں بھی کسی کی بادشاہت نہ رہے گی۔ اسی اکیلے شہنشاہِ مطلق کا راج ہو گا جس کے آگے ہر ایک طاقت دبی ہوئی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

آج ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا، آج کوئی ظلم نہ ہو گا، بیشک اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔ (۱۷)

اور انہیں قریب آنے والے روزِ  (قیامت ) سے ڈرائیں، جب دل غم سے بھرے گلوں کے نزدیک (کلیجے منہ کو) آرہے ہوں گے ، ظالموں کے لئے نہیں کوئی دوست، نہ کوئی سفارش کرنے والا جس کی بات مانی جائے۔ (۱۸)

تشریح: إِذِ الْقُلُوْبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ :یعنی خوف اور گھبراہٹ سے دل دھڑک کر گلوں تک پہنچ رہے ہوں گے اور لوگ دونوں ہاتھوں سے ان کو پکڑ کر دبائیں گے کہ کہیں سانس کے ساتھ باہر نہ نکل پڑیں۔

وَّلَا شَفِیْعٍ يَّطَاعُ :یعنی ایسا کوئی سفارشی نہیں ہو گا جس کی بات ضرور ہی مانی جائے۔ سفارش و ہی کر سکے گا جس کو اجازت ہو۔ اور اسی کے حق میں کرے گا جس کے لیے پسند ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ جانتا ہے آنکھوں کی خیانت اور جو وہ سینوں میں چھپاتے ہیں۔ (۱۹)

تشریح: خیانتِ نظر سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص لوگوں سے چرا کر ایسی چیز پر نظر ڈالے جو اس کے لئے حرام اور نا جائز ہو، جیسے کسی غیر محرم پر شہوت سے نظر کر لے ، اور جب کسی کو دیکھے تو نظر ہٹا لے ، یا اس طرح نظر ڈالے کہ جس کو دیکھنے والے محسوس نہ کریں، اللہ تعالی کے نزدیک یہ سب چیزیں ظاہر ہیں۔

(معارف القرآن)

 

اور اللہ حق کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے ، اور جو لوگ اس کے سوا پکارتے ہیں، وہ کچھ بھی فیصلے نہیں کرتے ، بیشک اللہ ہی سننے والا، دیکھنے والا ہے۔ (۲۰)

تشریح: یعنی فیصلہ کرنا اس کا کام ہو سکتا ہے جو سننے اور جاننے والا ہو۔ بھلا یہ پتھر کی بے جان مورتیں جنہیں تم خدا کہہ کر پکارتے ہو کیا خاک فیصلہ کریں گی۔ پھر جو فیصلہ بھی نہ کر سکے وہ خدا کس طرح ہوا۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہیں ؟تو وہ دیکھتے کیسا انجام ہوا، ان لوگوں کا جو ان سے پہلے تھے ، وہ قوت میں ان سے زیادہ سخت تھے ، اور زمین میں آثار (نشانیوں کے اعتبار سے بھی) تو اللہ نے انہیں گناہوں کے سبب آپکڑا، اور ان کے لئے نہیں ہے کوئی اللہ سے بچانے والا۔ (۲۱)

تشریح: قُوْۃً وَّاٰثَارًا فِی الْأَرْضِ: یعنی بڑے مضبوط قلعے ، عالی شان عمارتیں اور مختلف قسم کی یاد گاریں۔

وَمَا کَانَ لَہُمْ مِّنَ اللہِ مِنْ وَّاقٍ :جب دنیا کے عذاب سے کوئی نہ بچا سکا، آخرت میں کون بچائے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس لئے کہ ان کے پاس رسول کھلی نشانیاں لے کر آتے تھے ، تو انہوں نے کفر کیا، پس انہیں اللہ نے آ پکڑا، بیشک وہ قوی سخت عذاب دینے والا ہے۔ (۲۲)

تشریح: یعنی تم بھی ان کی طرح رسول کی تکذیب کر کے فلاح نہیں پا سکتے۔ آخر رسوا اور ہلاک ہو گئے اور خداوند قدوس اپنے زور و قوت سے پیغمبر کو غالب و منصور فرمائے گا۔ اسی مناسبت سے آگے موسٰی اور فرعون کا قصہ بیان کرتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور بیشک ہم نے موسیٰ کو بھیجا اپنی نشانیوں کے ساتھ اور روشن سند کے ساتھ۔ (۲۳)

تشریح: ”نشانیوں” سے معجزات اور ”کھلی سند” سے شاید ان میں کے مخصوص و ممتاز معجزات مراد ہوں یا ”کھلی سند” معجزات کے سوا دوسری قسم کے دلائل و براہین کو فرمایا۔ یا ”آیات” سے تعلیمات و احکام اور ”سلطان مبین” سے معجزات مراد لیے جائیں۔ یا ”سلطان مبین” اس قوت قدسیہ اور مخصوص تائید ربانی کا نام ہو جس کے آثار پیغمبروں میں ہر دیکھنے والے کو نمایاں طور پر نظر آیا کرتے ہیں۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

فرعون اور ہامان اور قارون کی طرف تو انہوں نے کہا (موسیٰ تو) جادوگر، بڑا جھوٹا ہے۔ (۲۴)

تشریح: ہامان وزیر تھا فرعون کا اور قارون بنی اسرائیل میں سب سے بڑا مالدار اور تاجر تھا جو موسٰی علیہ السلام کے خلاف فرعون کی مرضی پر چلتا تھا۔ پہلے اس کا قصہ گزر چکا۔

فَقَالُوْا سَاحِرٌ کَذَّابٌ :یعنی جادوگر ہے معجزات دکھانے میں اور جھوٹا ہے دعویٰ رسالت میں۔ یہ بعض نے کہا ہو گا اور دوسروں نے اس کی تصدیق کی ہو گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر جب وہ ان کے پاس ہماری طرف سے حق کے ساتھ آئے ، تو انہوں نے کہا ان کے بیٹوں کو قتل کر ڈالو جو اس کے ساتھ ایمان لائے ، اور ان کی بیٹیوں کو زندہ رہنے دو، اور کافروں کا داؤ گمراہی کے سوا (کچھ) نہیں۔ (۲۵)

تشریح: یعنی جب وہ سچے دین کا پیغام عام لوگوں کے پاس لے کر گئے اور بہت سے لوگ ان پر ایمان لانے لگے تو فرعون کے لوگوں نے یہ تجویز دی کہ جو مرد ایمان لائیں، ان کے بیٹوں کو قتل کر دو اور عورتوں کو زندہ رکھو تاکہ انہیں غلام بنا کر ان سے خدمت لی جائے ، یہ حکم ایک تو موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے دیا گیا تھا جس کی تفصیل سورۂ طٰہٰ اور سورۂ قصص میں گزر چکی ہے ، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ کسی نجومی نے پیشین گوئی کی تھی کہ بنی اسرائیل کا کوئی شخص فرعون کا تختہ الٹے گا، اور دوسری بار یہ حکم اس وقت دیا گیا جب لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے لگے ، اور بیٹوں کو قتل کرنے کا منشاء ایک تو یہ تھا   کہ ایمان لانے والوں کی نسل نہ پھیلے ، اور دوسرے عام طور سے انسان کو اپنے بیٹوں کے قتل ہونے کا زیادہ صدمہ ہوتا ہے ، اس لئے لوگ ایمان لاتے ہوئے ڈریں گے ، لیکن اللہ تعالی نے آگے ارشاد فرمایا ہے کہ کافروں کی اس طرح کی تدبیریں آخر کار ناکام ہوتی ہیں، اور اللہ تعالی نے جو فیصلہ کیا ہوتا ہے وہی غالب رہتا ہے ، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آخر کار فرعون غرق ہوا اور بنی اسرائیل کو فتح حاصل ہوئی۔

(توضیح القرآن)

 

اور فرعون نے کہا مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ کو قتل کر دوں اور اسے اپنے رب کو پکارنے دو بیشک میں ڈرتا ہوں کہ وہ بدل دے گا تمہارا دین یا زمین میں فساد پھیلائے گا۔ (۲۶)

تشریح: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”فرعون نے کہا مجھ کو چھوڑو۔ شاید اس کے ارکانِ سلطنت مار ڈالنے کا مشورہ نہ دیتے ہوں گے۔ کیونکہ معجزہ دیکھ کر ڈر گئے تھے ، کہیں اس کا رب بدلہ نہ لے۔ ” فرعون خود بھی دل میں ڈرا ہوا اور سہما ہوا تھا۔ لیکن لوگوں پر اپنی قوت و شجاعت کا اظہار کرنے کے لیے انتہاء درجہ کی شقاوت اور بے حیائی سے ایسا کہہ رہا تھا۔ تاکہ لوگ سمجھیں کہ اس کو قتل سے کوئی چیز مانع نہیں۔ اور اس کے ارادہ کو کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔

إِنِّيْٓ أَخَافُ أَنْ يُّبَدِّلَ دِيْنَكُمْ :اسے زندہ چھوڑ دیا گیا تو دینی اور دنیاوی دونوں طرح کے نقصان کا اندیشہ ہے۔ ممکن ہے یہ اپنے وعظ و تلقین سے تمہارے مذہبی طور و طریق کو جو پہلے سے چلا آتا ہے بگاڑ ڈالے ، یا سازش وغیرہ کا جال پھیلا کر ملک میں بدامنی پھیلا دے جس کا انجام یہ ہو کہ تمہاری (یعنی قبطیوں کی) حکومت کا خاتمہ ہو کر ملک بنی اسرائیل کے ہاتھ میں چلا جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور موسیٰ نے کہا، بیشک میں نے پناہ لے لی ہے اپنے اور تمہارے رب کی، ہر مغرور سے جو روزِ حساب پر ایمان نہیں رکھتا۔ (۲۷)

تشریح: حضرت موسٰی علیہ السلام کو جب ان کے مشوروں کی خبر پہنچی تو اپنی قوم سے فرمایا کہ مجھے ان دھمکیوں کی مطلق پروا نہیں۔ فرعون اکیلا تو کیا، ساری دنیا کے متکبرین و جبارین جمع ہو جائیں تب بھی میرا اور تمہارا پروردگار ان کے شر سے بچانے کے لیے کافی ہے۔ میں اپنے کو تنہا اسی کی پناہ میں دے چکا ہوں۔ و ہی میرا حامی و مددگار ہے ، کما قال تعالیٰ ”لا تخافا اننی معکما اسمع واری” (طہٰ، رکوع٢)۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور کہا فرعون کے لوگوں میں سے ایک مؤمن مرد نے (جو) اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، کیا تم ایک آدمی کو (محض اس بات پر) قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اور تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے کھلی نشانیوں کے ساتھ آیا ہے اور اگر (بالفرض محال) وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ ( کا وبال) اسی پر ہو گا، اور اگر وہ سچا ہے تو وہ جو تم سے وعدہ کر رہا ہے اس کا کچھ (عذاب) تم پر (ضرور) پہنچے گا، بیشک اللہ (اسے ) ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گزرنے والا جھوٹا ہو۔ (۲۸)

تشریح: یعنی ایک مرد مومن جس نے فرعون اور اس کی قوم سے اپنا ایمان ابھی تک مخفی رکھا تھا‘‘ ذرونی اقتل موسٰی’’ کے جواب میں بول اٹھا :کیا تم ایک شخص کا ناحق خون کرنا چاہتے ہو، اس بات پر کہ وہ صرف ایک اللہ کو اپنا رب کیوں کہتا ہے۔ حالانکہ وہ اپنے دعوے کی صداقت کے کھلے کھلے نشان تم کو دکھلا چکا۔ اور اس کے قتل کی تم کو کچھ ضرورت بھی نہیں۔ بلکہ ممکن ہے تمہارے لیے مضر ہو۔ فرض کرو! وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ثابت ہوا تو اتنے بڑے جھوٹ پر ضرور اللہ اس کو ہلاک یا رسوا کر کے چھوڑے گا۔ خدا کی عادت نہیں کہ وہ ایسے کاذب کو برابر پھولنے پھلنے دے۔ دنیا کو التباس سے بچانے کے لیے یقیناً ایک روز اس کی قلعی کھول دی جائے گی۔ ایسے حالات بروئے کار آئیں گے کہ دنیا اعلانیہ اس کی رسوائی و ناکامی اور کذب و دروغ کا تماشا دیکھ لے گی۔ اور تم کو خواہی نخواہی اس کے خون میں ہاتھ رنگنے کی ضرورت نہ رہے گی اور اگر واقع وہ سچائی پر ہے تو دنیا و آخرت کے جس عذاب سے وہ اپنے مکذبین کو ڈراتا ہے یقیناً ًاس کا کچھ نہ کچھ حصہ تم کو ضرور پہنچ کر رہے گا۔ لہٰذا پہلی شق پر اس کے قتل میں جلدی کرنے کی ضرورت نہیں اور دوسری شق پر اس کا قتل کرنا سراسر موجب نقصان و خسران ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یعنی اگر جھوٹا ہے تو جس پر جھوٹ بولتا ہے وہ ہی سزا دے رہے گا۔ اور شاید سچا ہو تو اپنی فکر کرو۔ ”

(تنبیہ) یہ تقریر اس صورت میں ہے جب کسی مفتری کا کذب صریحاً ظاہر نہ ہوا ہو۔ اور اگر مدعی نبوت کا کذب و افتراء دلائل و براہین سے روشن ہو جائے تو بلاشبہ واجب القتل ہے۔ اس زمانہ میں جبکہ پیغمبر عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا دلائل قطعیہ سے ثابت ہو چکا، اگر کوئی شخص مدعی نبوت بن کر کھڑا ہو گا تو چونکہ اس کا یہ دعویٰ ایک قطعی الثبوت عقیدہ کی تکذیب کرتا ہے۔ لہٰذا اس کے متعلق کسی قسم کے تأمل و تردد اور امہال و انتظار کی گنجائش نہ ہو گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے میری قوم! آج بادشاہت تمہاری ہے ، تم غالب ہو زمین میں، اگر اللہ کا عذاب ہم پر آ جائے تو اس سے بچانے کے لئے کون ہماری مدد کرے گا؟فرعون نے کہا، میں تمہیں رائے نہیں دیتا مگر جو میں دیکھتا ہوں اور میں تمہیں راہ نہیں دکھاتا مگر بھلائی کی راہ۔ (۲۹)

تشریح: یعنی اپنے سامانوں اور لشکروں پر مغرور مت بنو۔ آج تمہاری یہ شان و شکوہ ہے لیکن کل اگر خدا کے عذاب نے آ گھیرا تو کوئی بچانے والا نہ ملے گا۔ یہ سب سازو سامان یوں ہی رکھے رہ جائیں گے۔

قَالَ فِرْعَوْنُ مَآ أُرِيْكُمْ :یعنی تمہاری تقریر سے میرے خیالات تبدیل نہیں ہوئے۔ جو کچھ میرے نزدیک مصلحت ہے وہی تم کو سجھا رہا ہوں۔ میرے خیال میں بہتری کا راستہ یہی ہے کہ اس شخص کا قصہ پہلے ہی قدم پر ختم کر دیا جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اس شخص نے کہا جو ایمان لے آیا تھا، اے میری قوم! میں تم پر سابقہ گروہوں کے دن کے مانند (عذاب نازل ہونے سے ) ڈرتا ہوں۔ (۳۰)

جیسے حال ہوا قوم نوح اور عاد اور ثمود کا اور جو ان کے بعد (ہوئے ) اور اللہ نہیں چاہتا اپنے بندوں کے لئے کوئی ظلم۔ (۳۱)

تشریح: یعنی اگر تم اسی طرح تکذیب و عداوت پر جمے رہے تو سخت اندیشہ ہے کہ تم کو بھی کہیں و ہی دن دیکھنا نہ پڑے جو پہلی قومیں اپنے انبیاء کا مقابلہ کر کے دیکھ چکی ہیں۔ یاد رکھو اللہ کے ہاں بے انصافی نہیں۔ اگر ایسے سخت جرائم پر تم کو یا دوسری قوموں کو اس نے تباہ کیا تو وہ عین عدل و انصاف کے تقاضے سے ہو گا۔ کون سی حکومت ہے جو اپنے سفراء کو قتل اور رسوا ہوتے دیکھتی رہے۔ اور قاتلین و معاندین سے انتقام نہ لے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اے میری قوم! میں تم پر چیخ  پکار کے دن سے ڈرتا ہوں۔ (۳۲)

جس دن تم بھاگو گے پیٹھ پھیر کر، تمہارے لئے اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا، اور جس کو اللہ گمراہ کر دے گا اس کے لئے کوئی نہیں ہدایت دینے والا۔ (۳۳)

تشریح: عموماً مفسرین ”یوم التناد” (ہانک پکار کے دن) سے قیامت کا دن مراد لیے ہیں، جبکہ محشر میں جمع ہونے اور حساب دینے کے لیے سب کی پکار ہو گی۔ اور اہل جنت اہل نار اور اہل اعراف ایک دوسرے کو پکاریں گے اور آخر میں ندا آئے گی۔ ”یا اہل الجنۃ خلود لاموت ویا اہل النار خلودلا موت۔ ” کما وردفی الحدیث۔ لیکن حضرت شاہ صاحب نے ”یوم التناد” سے وہ دن مراد لیا ہے جس میں فرعونیوں پر عذاب آیا۔ چنانچہ لکھتے ہیں۔ ”ہانک پکار کا دن ان پر آیا۔ جس دن بحر قلزم میں غرق ہوئے۔ اس وقت ڈوبتے ہوئے ایک دوسرے کو پکارنے لگا۔ (شاید) یہ اس مرد مومن کو کشف سے معلوم ہوا ہو گا یا قیاس سے کہ ہر قوم پر عذاب اسی طرح آتا ہے۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق تمہارے پاس اس سے قبل یوسف واضح دلائل کے ساتھ آئے ، سو تم ہمیشہ شک میں رہے ، (ا سکے بارہ میں) جس کے ساتھ وہ تمہارے پاس آئے ، یہاں تک کہ جب وہ فوت ہو گئے تو تم نے کہا اس کے بعد اللہ ہرگز کوئی رسول نہ بھیجے گا، اسی طرح اللہ (اسے ) گمراہ کرتا ہے جو حد سے گزرنے والا شک میں رہنے والا ہو۔ (۳۴)

تشریح: یعنی چلو قصہ ختم ہوا۔ نہ یہ رسول تھا نہ اب اس کے بعد کوئی رسول آنے والا ہے۔ گویا سرے سے سلسلہ رسالت ہی کا انکار ہوا۔ لیکن حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”حضرت یوسف کی زندگی میں (مصر والے ان کی نبوت کے ) قائل نہ ہوئے۔ ان کی موت کے بعد جب مصر کی سلطنت کا بندوبست بگڑا تو کہنے لگے یوسف کا قدم اس شہر پر کیا مبارک تھا۔ ایسا نبی (آئندہ) کوئی نہ آئے۔ یا وہ انکار یا یہ اقرار۔ یہ ہی اسراف اور زیادہ گوئی ہے۔ ” مرد مومن کی غرض یہ تھی کہ نعمت کی قدر زوال کے بعد ہوتی ہے۔ فی الحال تم کو موسٰی کی قدر نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

جو لوگ اللہ کی آیتوں (کے بارے ) میں جھگڑتے ہیں کسی دلیل کے بغیر جو ان کے پاس آئی ہو، (ان کی یہ کج بحثی) سخت ناپسند ہے ، اللہ کے نزدیک اور ان کے نزدیک جو ایمان لائے ، اسی طرح اللہ ہر مغرور، سرکش کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ (۳۵)

تشریح: یعنی بدون حجت عقلیہ و نقلیہ کے اللہ کی باتوں میں جھگڑے ڈالتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر زیادتی اور بیباکی کیا ہو گی۔ اسی لیے اللہ اور اس کے ایماندار بندے ان لوگوں سے سخت بیزار ہیں جو سبب ہے ان کے انتہائی ملعون ہونے کا۔

جو لوگ حق کے سامنے غرور سے گردن نہ جھکائیں اور پیغمبروں کے ارشادات سن کر سر نیچا نہ کریں آخرکار ان کے دلوں پر اللہ تعالیٰ اسی طرح مہر کر دیتا ہے کہ پھر قبول حق اور نفوذ خیر کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور فرعون نے کہا اے ہامان! میرے لئے ایک بلند عمارت بنا، شاید کہ میں راستوں تک پہنچ جاؤں۔ (۳۶)

آسمانوں کے راستے ، پس میں موسیٰ کے معبود کو جھانک لوں، اور بیشک میں اسے البتہ جھوٹا گمان کرتا ہوں، اور اسی طرح فرعون کو اس کے بُرے عمل آراستہ دکھائے گئے ، اور وہ روک دیا گیا سیدھے راستے سے ، اور فرعون کی تدبیر صرف تباہی ہی تھی۔ (۳۷)

تشریح: یہ اس ملعون کی انتہائی بے شرمی اور بے باکی تھی۔ حضرت موسٰی علیہ السلام سے شاید اللہ تعالیٰ کی صفت علو وغیرہ کو سن کر یہ قرار دیا ہو گا کہ موسٰی کا خدا آسمان پر رہتا ہے۔ اسی پر یہ استہزاء و تمسخر شروع کر دیا۔ سچ ہے چیونٹی کی موت آتی ہے تو پر لگ جاتے ہیں۔ سورہ ”قصص” میں اس مقام کی تقریر گزر چکی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جو شخص ایمان لے آیا تھا، اس نے کہا اے میری قوم! تم میری پیروی کرو، میں تمہیں بھلائی کار استہ دکھا دوں گا۔ (۳۸)

تشریح: چونکہ فرعون نے کہا تھا’’ وما اھدیکم الا سبیل الرشاد‘‘ اس کے جواب میں مرد مومن نے کہا کہ سبیل الرشاد (بھلائی اور بہتری کا راستہ) وہ نہیں جو فرعون تجویز کرتا ہے بلکہ تم میرے پیچھے چلے آؤ تاکہ بہتری کے راستہ پر چلنا نصیب ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے میری قوم! اس کے سوا نہیں کہ یہ دنیا کی زندگی تھوڑا سا فائدہ ہے ، اور آخرت بیشک ہمیشہ رہنے کا گھر ہے۔ (۳۹)

تشریح: یعنی فانی و زائل زندگی اور چند روزہ عیش و بہار میں پڑ کر آخرت کو نہ بھولو۔ دنیا کی زندگی بہرحال بھلی بری طرح ختم ہونے والی ہے۔ اس کے بعد وہ زندگی شروع ہو گی جس کا کبھی خاتمہ نہیں۔ عاقل کا کام یہ ہے کہ یہاں رہتے ہوئے اس کی درستی کی فکر کرے ورنہ ہمیشہ کی تکلیف میں مبتلا رہنا پڑے گا۔ اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے :مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے –

(تفسیرعثمانی)

 

جس شخص نے بُرا عمل کیا اسے اس جیسا بدلہ دیا جائے گا، اور جس نے اچھا عمل کیا، خواہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ مؤمن ہو، تو یہی لوگ داخل ہوں گے جنت میں، اس میں انہیں بے حساب رزق دیا جائے گا۔ (۴۰)

تشریح: یہ اخروی زندگی کی تھوڑی سی تفصیل بتلا دی کہ وہ کس طرح درست ہو سکتی ہے۔ معلوم ہوا کہ وہاں ایمان اور عمل صالح درکار ہیں۔ مال و متاع کو کوئی نہیں پوچھتا اور یہ بھی ظاہر ہوا کہ اللہ کی رحمت غضب پر غالب ہے۔ عقلمند کو چاہیے کہ موقع ہاتھ سے نہ جانے دے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے میری قوم! مجھے کیا ہوا ہے کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوں، اور تم مجھے جہنم کی طرف بلاتے ہو۔ (۴۱)

تشریح: یعنی میرا اور تمہارا معاملہ بھی عجیب ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم کو ایمان کے راستہ پر لگا کر خدا کے عذاب سے نجات دلاؤں۔ اور تمہاری کوشش یہ ہے کہ اپنے ساتھ مجھے بھی دوزخ کی آگ میں دھکیل دو۔ ایک طرف سے ایسی دشمنی اور دوسری جانب سے یہ خیر خواہی۔

(تفسیرعثمانی)

 

تم مجھے بلاتے ہو کہ میں اللہ کا انکار کروں اور اس کے ساتھ اسے شریک ٹھہراؤں جس کا مجھے کوئی علم نہیں اور میں تمہیں (اللہ) غالب، بخشنے والے کی طرف بلاتا ہوں۔ (۴۲)

تشریح: یعنی تمہاری کوشش کا حاصل تو یہ ہے کہ میں (معاذ اللہ) خدائے واحد کا انکار کر دوں۔ اس کے پیغمبروں کو اور ان کی باتوں کو نہ مانوں اور نادان جاہلوں کی طرح ان چیزوں کو خدا ماننے لگوں جن کی الوہیت کسی دلیل اور علمی اصول سے ثابت نہیں۔ نہ مجھے خبر ہے کہ کیونکر ان چیزوں کو خدا بنا لیا گیا۔ بلکہ میں جانتا ہوں کہ اس کے خلاف پر دلائل قطعیہ قائم ہیں۔

میرا منشاء یہ ہے کہ کسی طرح تمہارا سر اس خدائے واحد کی چوکھٹ پر جھکا دوں جو نہایت زبردست بھی ہے اور بہت زیادہ خطاؤں کا معاف کرنے والا بھی (مجرم کو پکڑے تو کوئی چھڑا نہ سکے اور معاف کرے تو کوئی روک نہ سکے ) و ہی اس کا مستحق ہے کہ آدمی اس کے آگے ڈر کر اور امید باندھ کر سر عبودیت جھکائے۔ یاد رکھو میں اسی خدا کی پناہ میں آ چکا ہوں جس کی طرف تمہیں بلا رہا ہوں۔

(تفسیرعثمانی)

 

تم مجھے جس کی طرف بلاتے ہو اس کا دنیا میں اور آخرت میں (کچھ بھی) نہیں اور یہ کہ ہمیں پھر جانا ہے اللہ کی طرف، اور یہ کہ حد سے بڑھنے والے ہی جہنمی ہیں۔ (۴۳)

تشریح: یعنی ماسوا خدا کے کوئی چیز ایسی نہیں جو دنیا یا آخرت میں ادنیٰ ترین نفع و ضرر کی مالک ہو۔ پھر اس کی بندگی اور غلامی کا بلاوا دینا جہل و حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔ ”ومن اضل ممن یدعوا من دون اللہ من لایستجیب لہ الی یوم القیمۃ وہم عن دعائہم غافلون واذا حشر الناس کانوا لہم اعدآء وکانوا بعبادتہم کافرین۔ ” (حقاف، رکوع١) آخر ایسی عاجز اور بے بس چیزوں کی طرف آدمی کیا سمجھ کر دعوت دے اور تماشا یہ ہے کہ ان میں بہت چیزیں وہ ہیں جو خود بھی اپنی طرف دعوت نہیں دیتیں۔ بلکہ دعوت دینے کی قدرت بھی نہیں رکھتیں۔

انجام کار پھر کر اسی خدائے واحد کی طرف جانا ہے۔ وہاں پہنچ کر سب کو اپنی زیادتیوں کا نتیجہ معلوم ہو جائے گا۔ بتلاؤ! اس سے بڑھ کر زیادتی کیا ہو گی کہ عاجز مخلوق کو خالق کا درجہ دے دیا جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

سو تم جلدی یاد کرو گے جو میں تمہیں کہتا ہوں اور میں اپنا کام (معاملہ) اللہ کو سونپتا ہوں، بیشک اللہ بندوں کو دیکھنے والا ہے۔ (۴۴)

تشریح: یعنی آگے چل کر جب اپنی زیادتیوں کا مزہ چکھو گے ، اس وقت میری نصیحت کو یاد کرو گے کہ ہاں ایک مرد خدا جو ہم کو سمجھایا کرتا تھا وہ ٹھیک کہتا تھا۔ لیکن اس وقت یاد کر کے پشیمان ہونے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔

میں خدا کی حجت تمام کر چکا اور نصیحت کی بات سمجھا چکا۔ تم نہیں مانتے تو میرا تم سے کچھ مطلب نہیں۔ اب میں اپنے کو بالکلیہ خدا کے سپرد کرتا ہوں۔ اسی پر میرا بھروسہ ہے۔ تم اگر مجھے ستانا چاہو گے تو وہ ہی خدا میرا حامی و ناصر ہے۔ سب بندے اس کی نگاہ میں ہیں۔ وہ میرا اور تمہارا دونوں کا معاملہ دیکھ رہا ہے۔ کسی کی کوئی حرکت اس پر پوشیدہ نہیں، ایک مومن قانت کا کام یہ ہے کہ اپنی امکانی سعی کر چکنے کے بعد نتیجہ کو خدا کے سپرد کرے۔

(تفسیرعثمانی)

 

سو اللہ نے اسے بچالیا (اُن) بُرے داؤ سے جو وہ کرتے تھے ، اور فرعون والوں کو بُرے عذاب نے گھیر لیا۔ (۴۵)

تشریح: یعنی حق و باطل کی اس کشمکش کا آخری نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی (اور ان کے ہمراہیوں کو جن میں یہ مومن آل فرعون بھی تھا) فرعونیوں کے منصوبوں سے محفوظ رکھا کوئی داؤ ان کا چلنے نہ دیا۔ بلکہ ان کے داؤ پیچ خود ان ہی پہ الٹ پڑے۔ جس نے حق پرستوں کا تعاقب کیا مارا گیا اور قوم کی قوم کا بیڑا بحر قلزم میں غرق ہوا۔

(تفسیرعثمانی)

 

(جہنم کی) آگ جس پر وہ صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی (حکم ہو گا) داخل کرو فرعون والوں کو شدید ترین عذاب میں۔ (۴۶)

تشریح: یعنی دوزخ کا ٹھکانا جس میں وہ قیامت کے دن داخل کیے جائیں گے۔ ہر صبح و شام ان کو دکھلا دیا جاتا ہے تاکہ نمونہ کے طور پر اس آنے والے عذاب کا کچھ مزہ چکھتے رہیں۔ یہ عالم برزخ کا حال ہوا اور احادیث سے ثابت ہے کہ اسی طرح ہر کافر کے سامنے دوزخ کا اور ہر مومن کے سامنے جنت کا ٹھکانا روزانہ صبح و شام پیش کیا جاتا ہے۔ (تنبیہ) آیت ہذا سے صرف فرعونیوں کا عالم برزخ میں معذب ہونا ثابت ہوا تھا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم کرایا گیا کہ جملہ کفار بلکہ عصاۃِ مومنین بھی برزخ میں معذب ہوتے ہیں (اعاذنا اللہ منہ) کما وردفی الاحادیث الصحیحہ۔ اور بعض آثار سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح جنتیوں میں سے شہداء کی روحیں ”طیور خضر” کے ”حواصل” میں داخل ہو کر جنت کی سیر کرتی ہیں، اسی طرح دوزخیوں میں سے فرعونیوں کی ارواح کو ”طیور سود” کے ”حواصل” میں داخل کر کے ہر صبح شام دوزخ کی طرف بھیجا جاتا ہے (البتہ ارواح کا مع ان کے اجساد کے جنت یا دوزخ میں اقامت پذیر ہونا یہ آخرت میں ہو گا) اگر یہ صحیح ہے تو فرعونیوں کے متعلق ”النار یعرضون علیہا غدوا وعشیا” اور عام دوزخیوں کے متعلق حدیث ”عرض علیہ مقعدہ بالغداۃ والعشیی” کے الفاظ کا تفاوت شاید اسی بناء پر ہو گا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ جہنم میں باہم جھگڑیں گے تو کہیں گے کمزور ان لوگوں کو جو بڑے بنتے تھے ، بیشک ہم (دنیا میں) تمہارے تابع تھے تو کیا (اب) تم ہم سے دور کر دو گے آگ کا کچھ حصہ؟ (۴۷)

تشریح: یعنی دنیا میں ہم سے اپنی اطاعت اور اتباع کراتے رہے جس کی بدولت آج ہم پکڑے گئے۔ اب یہاں ہمارے کچھ تو کام آؤ۔ آخر بڑوں کو چھوٹوں کی تھوڑی بہت خبر لینی چاہیے۔ دیکھتے نہیں ہم آج کس قدر مصیبت میں ہیں کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ اس مصیبت کا کوئی جزو ہم سے ہلکا کر دو۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ لوگ جو بڑے بنتے تھے کہیں گے ، بیشک ہم سب اس میں ہیں، بیشک اللہ بندوں کے درمیان فیصلہ کر چکا ہے۔ (۴۸)

تشریح: یعنی جو دنیا میں بڑے بنتے تھے جواب دیں گے کہ آج ہم اور تم سب اسی مصیبت میں مبتلا ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے ہر ایک کے جرم کے موافق سزا کا فیصلہ سنا دیا ہے جو بالکل قطعی اور اٹل ہے۔ اب موقع نہیں رہا کہ کوئی کسی کے کام آئے۔ ہم اپنی ہی مصیبت کو ہلکا نہیں کر سکتے ، پھر تمہارے کیا کام آسکے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ لوگ جو آگ میں ہوں گے وہ کہیں گے جہنم کے (نگہبان فرشتوں) داروغوں سے اپنے رب سے دعا کرو، ایک دن کا عذاب ہم سے ہلکا کر دے۔ (۴۹)

تشریح: یعنی اپنے سرداروں کی طرف سے مایوس ہو کر ان فرشتوں سے درخواست کریں گے جو دوزخ کے انتظام پر مسلط ہیں کہ تم ہی اپنے رب سے کہہ کر کوئی دن تعطیل کر کرا دو، جس میں ہم پر سے عذاب کچھ ہلکا ہو جایا کرے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ کہیں گے ، کیا تمہارے پاس تمہارے رسول کھلی نشانیوں کے ساتھ نہیں آتے تھے ؟وہ کہیں گے ، ہاں (کیوں نہیں) ، وہ کہیں گے تو تم پکارو، اور نہ ہو گی کافروں کی پکار مگر بے سود۔ (۵۰)

تشریح: یعنی اس وقت ان کی بات نہ مانی اور انجام کی فکر نہ کی جو کچھ کام چلتا۔ اب موقع ہاتھ سے نکل چکا۔ کوئی سعی سفارش یا خوشامد درآمد کام نہیں دے سکتی۔ پڑے چیختے چلاتے رہو۔ نہ ہم ایسے معاملات میں سفارش کر سکتے ہیں، نہ تمہاری چیخ و پکار سے کوئی فائدہ ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”دوزخ کے فرشتے کہیں گے سفارش کرنا ہمارا کام نہیں۔ ہم تو عذاب دینے پر مقرر ہیں۔ سفارش کا کام رسولوں کا، رسولوں سے تم برخلاف ہی تھے۔ ”

(تنبیہ) آیت ہذا سے معلوم ہوا کہ آخرت میں کافروں کی دعا کا کوئی اثر نہ ہو گا۔ باقی دنیا میں کافر کے مانگنے پر اللہ تعالیٰ کوئی چیز دے دیں وہ دوسری بات ہے جیسے ابلیس کو قیامت تک کی مہلت دے دی۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک ہم ضرور مدد کرتے ہیں اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے دنیا کی زندگی میں اور (اس دن بھی) جس دن گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے۔ (۵۱)

تشریح: یعنی دنیا میں ان کا بول بالا کرتا ہے۔ جس مقصد کے لیے وہ کھڑے ہوتے ہیں اللہ کی مدد سے اس میں کامیابی ہوتی ہے۔ حق پرستوں کی قربانیاں کبھی ضائع نہیں جاتیں۔ درمیان میں کتنے ہی اتار چڑھاؤ ہوں اور کیسے ہی امتحانات پیش آئیں، مگر آخرکار مشن کامیاب ہو کر رہتا ہے۔ علمی حیثیت سے حجت و برہان میں تو وہ ہمیشہ ہی منصور رہتے یہیں۔ لیکن مادی فتح اور ظاہری عزت و رفعت بھی آخرکار ان ہی کو حاصل ہوتی ہے۔ سچائی کے دشمن کبھی معزز نہیں رہ سکتے۔ ان کا علو اور عروج محض ہنڈیا کا جھاگ اور سوڈے کا ابال ہوتا ہے۔ انجام کار مومنین قانتین کے مقابلہ میں ان کو پست اور ذلیل ہونا پڑتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ ان سے اپنے اولیاء کا انتقام لیے بدون نہیں چھوڑتا۔ لیکن واضح رہے کہ آیت میں جن مومنین کے لیے وعدہ کیا گیا ہے شرط یہ ہے کہ حقیقی مومن اور رسولوں کے متبع ہوں۔ کما قال تعالیٰ ”وانتم الاعلون ان کنتم مومنین۔ ” (آل عمران، رکوع١٤) مومنین کی خصلتیں قرآن میں جابجا مذکور ہیں چاہیے کہ مسلمان اس کسوٹی پر اپنے کو کس کر دیکھ لیں۔

میدان حشر میں جبکہ اولین و آخرین جمع ہوں گے حق تعالیٰ اپنے فضل سے علیٰ الاشہاد ان کی سربلندی اور عزت و رفعت کو ظاہر فرمائے گا۔ دنیا میں تو کچھ شبہ بھی نہ رہ سکتا ہے اور التباس ہو جاتا ہے وہاں ذرا بھی ابہام و التباس باقی نہ رہے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

جس دن ظالموں کو نفع نہ دے گی ان کی عذر خواہی اور ان کے لئے لعنت (اللہ کی رحمت سے دوری) ہے اور ان کے لئے بُرا گھر ہے۔ (۵۲)

تشریح: یعنی ان کی کوئی مدد اور دستگیری نہ ہو گی۔ یہ مقبولین کے بالمقابل مطرودین کا انجام بیان فرما دیا۔ (تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق ہم نے موسیٰ کو ہدایت (توریت) دی، اور ہم نے بنی اسرائیل کو توریت کا وارث بنایا۔ (۵۳)

(جو) عقلمندوں کے لئے ہدایت اور نصیحت ہے۔ (۵۴)

تشریح: یعنی دنیا ہی میں دیکھ لو کہ فرعون اور اس کی قوم کو باوجود اس قدر طاقت و جبروت کے حق کی دشمنی نے کس طرح ہلاک و برباد کر کے چھوڑا۔ اور موسٰی علیہ السلا کی برکت و راہنمائی سے بنی اسرائیل کی مظلوم اور کمزور قوم کو کس طرح ابھارا اور اس عظیم الشان کتاب (تورات) کا وارث بنایا۔ جو دنیا کے عقلمندوں کے لیے شمع ہدایت کا کام دیتی تھی۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس صبر کریں بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے ، اور اپنے (نا کردہ) گناہوں کے لئے مغفرت طلب کریں، اور اپنے رب کی تعریف کے ساتھ پاکیزگی بیان کریں شام اور صبح۔ (۵۵)

تشریح: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے گناہوں سے پاک بنایا ہے ، اس کے باوجود آپ کثرت سے استغفار فرمایا کرتے تھے ، اور قرآن کریم میں بھی آپ کو اس کی تاکید فرمائی گئی ہے ، تاکہ آپ کی امت یہ سبق لے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معصوم ہونے کے باوجود اتنی کثرت سے اپنے ایسے کاموں کی معافی مانگتے ہیں جو درحقیقت گناہ نہیں ہیں، لیکن آپ اُن کو اپنے مقام بلند کی وجہ سے قصور یا گناہ سمجھتے ہیں تو جولوگ معصوم نہیں ہیں، ان کوتو اور زیادہ استغفار کرنا چاہئیے۔

(توضیح القرآن)

 

بیشک جو لوگ اللہ کی آیات میں جھگڑتے ہیں بغیر کسی سند کے جو ان کے پاس آئی ہو، ان کے دلوں میں تکبر (بڑائی کی ہوس) کے سوا کچھ نہیں، جس تک وہ کبھی پہنچنے والے نہیں، پس آپ اللہ کی پناہ چاہیں، بیشک وہی سننے والا، دیکھنے والا ہے۔ (۵۶)

تشریح: یعنی جو لوگ اللہ کی دلائل توحید اور کتب سماویہ اور اس کے پیغمبروں کے معجزات و ہدایات میں خواہ مخواہ جھگڑتے اور بے سند باتیں نکال کر حق کی آواز کو دبانا چاہتے ہیں ان کے ہاتھ میں کچھ حجت و دلیل نہیں۔ نہ فی الواقع ان کھلی ہوئی چیزوں میں شک و شبہ کا موقع ہے۔ صرف شیخی اور غرور مانع ہے کہ حق کے سامنے گردن جھکائیں اور پیغمبر کا اتباع کریں۔ وہ اپنے کو بہت اونچا کھینچتے ہیں۔ چاہتے یہ ہیں کہ پیغمبر سے اوپر ہو کر رہیں۔ یا کم از کم اس کے سامنے جھکنا نہ پڑے ،لیکن یاد رکھیں کہ وہ اس مقصد کو کبھی نہیں پہنچ سکتے۔ پیغمبر کے سامنے سر اطاعت جھکانا پڑے گا۔ ورنہ سخت ذلیل و رسوا ہوں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

یقیناً آسمانوں کا اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے بڑا ہے ، لیکن اکثر لوگ سمجھتے نہیں۔ (۵۷)

تشریح: یعنی بظاہر مادی حیثیت سے آسمان و زمین کی عظمت و جسامت کے سامنے انسان کی کیا حقیقت ہے ، لیکن مشرکین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا وہی خداوند قدوس ہے۔ پھر جس نے اتنی بڑی مخلوقات کو پیدا کیا اسے آدمیوں کا پہلی بار یا دوسری بار پیدا کر دینا کیا مشکل ہو گا۔ تعجب ہے کہ ایسی موٹی بات کو بہت لوگ نہیں سمجھتے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور برابر نہیں نابینا اور بینا، اور (نہ) وہ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے ، اور  نہ وہ جو بدکار ہیں، بہت کم تم غور و فکر کرتے ہو۔ (۵۸)

تشریح: یعنی ایک اندھا جسے حق کا سیدھا راستہ نہیں سوجھتا، اور ایک آنکھوں والا جو نہایت بصیرت کے ساتھ صراطِ مستقیم کو دیکھتا اور سمجھتا ہے ، کیا دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ یا ایک نیکوکار مومن اور کافر بدکار کا انجام یکساں ہو سکتا ہے ؟ اگر ایسا نہیں تو ضرور ایک دن چاہیے جب ان کا باہمی فرق کھلے۔ اور دونوں کے علم کے ثمرات اپنی اکمل ترین صورت میں ظاہر ہوں۔ مگر افسوس کہ تم اتنا بھی نہیں سوچتے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک قیامت ضرور آنے والی ہے ، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔ (۵۹)

اور تمہارے رب نے کہا تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا، بیشک جو لوگ میری عبادت سے تکبر (سرتابی) کرتے ہیں، عنقریب خوار ہو کر وہ جہنم میں داخل ہوں گے۔ (۶۰)

تشریح: یعنی میری ہی بندگی کرو کہ اس کی جزاء دوں گا مجھ ہی سے مانگو کہ تمہارا مانگنا خالی نہ جائے گا۔ بندگی کی شرط ہے اپنے رب سے مانگنا۔ نہ مانگنا غرور ہے۔ اور اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ بندوں کی پکار کو پہنچتا ہے۔ یہ بات تو بیشک برحق ہے ، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر بندے کی ہر دعا قبول کیا کرے۔ یعنی جو مانگے وہ ہی چیز دے دے۔ نہیں اس کی اجابت کے بہت سے رنگ ہیں جو احادیث میں بیان کر دیے گئے ہیں۔ کوئی چیز دینا اس کی مشیت پر موقوف اور حکمت کے تابع ہے۔ کمال قال فی موضع آخر ”فیکشف ماتدعون الیہ ان شآء” (انعام، رکوع٤) بہرحال بندہ کا کام ہے مانگنا، اور یہ مانگنا خود ایک عبادت بلکہ مغز عبادت ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ ہے جس نے بنائی تمہارے لئے رات تاکہ تم اس میں آرام پکڑو، اور دن دکھانے کو (روشن بنایا) بیشک اللہ فضل والا ہے لوگوں پر، لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ (۶۱)

تشریح: ٹھنڈ اور تاریکی میں عموماً لوگ سوتے اور آرام کرتے ہیں۔ جب دن ہوتا ہے تو تازہ دم ہو کر اس کے اجالے میں اپنے کاروبار میں مشغول ہو جاتے ہیں، اس وقت دیکھنے بھالنے اور چلنے پھرنے کے لیے مصنوعی روشنیوں کی چنداں ضرورت نہیں پڑتی۔

منعم حقیقی کی حق شناسی یہ تھی کہ قول و فعل اور جان و دل سے اس کا شکر ادا کرتے۔ بہت سے لوگ شکر کے بجائے شرک کرتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ ہے اللہ تمہارا پروردگار ہر شے کا پیدا کرنے والا، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، تو تم کہاں الٹے پھرے جاتے ہو؟ (۶۲)

تشریح: رات دن کی سب نعمتیں اس کی طرف سے مانتے ہو، تو بندگی بھی صرف اسی کی ہونی چاہیے۔ اس مقام پر پہنچ کر تم کہاں بھٹک جاتے ہو کہ مالک حقیقی تو کوئی ہو اور بندگی کسی کی کی جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اسی طرح وہ لوگ الٹے پھرے جاتے ہیں جو اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔ (۶۳)

اللہ ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو قرار گاہ بنایا، اور آسمان کو چھت (بنایا) اور تمہیں صورت دی تو بہت اچھی صورت دی اور تمہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، یہ ہے اللہ تمہارا پروردگار، سو برکت والا ہے اللہ سارے جہان کا پروردگار۔ (۶۴)

تشریح: سب جانوروں سے انسان کی صورت بہتر اور سب کی روزی سے اس کی روزی ستھری ہے۔ (تفسیرعثمانی)

 

وہی زندہ رہنے والا ہے ، نہیں کوئی معبود اس کے سوا، پس تم اس کے لئے عبادت خالص کر کے اسی کو پکارو، تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، سارے جہان کا پروردگار۔ (۶۵)

تشریح: جس پر کسی حیثیت سے کبھی فنا اور موت طاری نہیں ہوئی نہ ہو سکتی ہے۔ اور ظاہر ہے جب اس کی حیات ذاتی ہوئی، تو تمام لوازم حیات بھی ذاتی ہوں گے۔

کمالات اور خوبیاں سب وجود حیات کے تابع ہیں۔ جو حی علی الاطلاق ہے وہی عبادت کا مستحق اور تمام کمالات اور خوبیوں کا مالک ہو گا۔ اسی لیے ہوالحی کے بعد ”الحمد للہ رب العالمین” فرمایا جیسا کہ پہلی آیت میں نعمتوں کا ذکر کر کے ”فتبارک اللہ رب العالمین” فرمایا تھا۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ ”لا الہ الا الہ” کے بعد الحمدللہ رب العالمین کہنا چاہیے۔ اس کا ماخذ یہی آیت ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں بیشک مجھے منع کر دیا گیا ہے کہ میں ان کی پرستش کروں جن کی تم اللہ کے سوا پوجا کرتے ہو، جب میرے پاس آ گئیں میرے رب (کی طرف) سے کھلی نشانیاں، اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمام جہانوں کے پروردگار کے لئے اپنی گردن جھکا دوں۔ (۶۶)

تشریح: یعنی کھلے کھلے نشانات دیکھنے کے بعد کیا حق ہے کہ کوئی آدمی خدائے واحد کے سامنے سر عبودیت نہ جھکائے اور خالص اسی کا تابع فرمان نہ ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے ، پھر لوتھڑے سے ، پھر وہ تمہیں نکالتا ہے (ماں کے پیٹ سے ) بچہ سا، پھر ( تمہیں باقی رکھتا ہے ) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو، پھر (زندہ رکھتا ہے ) تاکہ تم بوڑھے ہو جاؤ، اور تم میں سے (کوئی ہے ) جو فوت ہو جاتا ہے اس سے قبل، اور تاکہ تم سب (اپنے اپنے ) وقت مقررہ کو پہنچو (مقصد یہ ہے ) تاکہ تم سمجھو۔ (۶۷)

تشریح: یعنی بچہ سے جوان اور جوان سے بوڑھا ہوتا ہے۔ اور بعض آدمی جوانی یا بڑھاپے سے پہلے ہی گزر جاتے ہیں۔ بہرحال سب کو ایک معین میعاد اور لکھے ہوئے وعدے تک پہنچنا ہے۔ موت اور حشر سے کوئی مستثنیٰ نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہی ہے جو جِلاتا ہے اور مارتا ہے ، پھر جب وہ کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے سوا نہیں کہ وہ اس کو کہتا ہے ہو جا سو وہ ہو جاتا ہے۔ (۶۸)

تشریح: یعنی اس کی قدرت کاملہ اور شان کن فیکون کے سامنے یہ کیا مشکل ہے کہ موت کے بعد تمہیں دوبارہ زندہ کر دے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اللہ کی آیات میں جھگڑتے ہیں؟وہ کہاں پھرے جاتے (بھٹکتے ) ہیں؟ (۶۹)

جن لوگوں نے کتاب کو جھٹلایا اور اسے جس کے ساتھ ہم نے اپنے رسولوں کو بھیجا، پس وہ جلد جان لیں گے۔ (۷۰)

جب ان کی گردنوں میں طوق اور زنجیریں ہوں گی، وہ گھسیٹے جائیں گے۔ (۷۱)

کھولتے ہوئے پانی میں، پھر وہ آگ میں جھونک دئیے جائیں گے۔ (۷۲)

پھر کہا جائے گا ا ن کو کہاں ہیں وہ جن کو تم شریک کرتے تھے (۷۳) اللہ کے سوا؟وہ کہیں گے وہ تم ہم سے گم ہو گئے (کہیں نظر نہیں آتے ) بلکہ ہم تو اس سے قبل کسی چیز کو پکارتے ہی نہ تھے ، اسی طرح اللہ کافروں کو گمراہ کرتا ہے۔ (۷۴)

یہ اس کا بدلہ ہے جو تم زمین میں ناحق خوش ہوتے (پھرتے ) تھے ، اور بدلہ ہے اس کا جس پر تم اتراتے تھے۔ (۷۵)

تم جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ، ہمیشہ اس میں رہنے کو، سوبڑا بننے والوں کا بُرا ہے ٹھکانا۔ (۷۶)

پس آپ صبر کریں، بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے ، پس اگر ہم آپ کو اس (عذاب) کا کچھ حصہ دکھا دیں جو ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں یا (اس سے قبل) ہم آپ کو وفات دے دیں (بہر صورت) وہ ہماری ہی طرف لوٹائے جائیں گے۔ (۷۷)

تشریح: یعنی اللہ نے ان کو عذاب دینے کا جو وعدہ فرمایا ہے ، وہ یقیناً پورا ہو کر رہے گا۔ ممکن ہے کوئی وعدہ آپ کی موجودگی میں پورا ہو (جیسا کہ ”بدر” اور ”فتح مکہ” وغیرہ میں ہوا) یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد۔ بہرحال یہ ہم سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتے۔ سب کا انجام ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اس زندگی کے بعد عذاب کی تکمیل اُس زندگی میں ہو گی۔ چھٹکارا کسی صورت سے نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے ، ان میں سے (کچھ ہیں) جن کا حال ہم نے آپ سے بیان کیا، اور ان میں سے (کچھ ہیں) جن کا حال ہم نے آپ سے بیان نہیں کیا، اور کسی رسول کے لئے (مقدور) نہ تھا کہ وہ کوئی نشانی اللہ کے حکم کے بغیر لے آئے ، سو جب اللہ کا حکم آ گیا، انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا گیا، اور اہل باطل اس وقت گھاٹے میں رہ گئے۔ (۷۸)

تشریح: کفارِ مکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے بار بار نت نئے معجزے دکھانے کی فرمائش کرتے رہتے تھے ، اور اصرار کرتے تھے کہ وہی معجزہ دکھائیں جو ہم کہیں، اور مقصد سوائے وقت گزاری کے کچھ نہیں تھا، کیونکہ آپ کے کئی معجزات دیکھنے کے باوجود وہ ایمان لانے پر تیار نہیں تھے ، اس لئے یہاں ان کو دینے کے لئے یہ جواب سکھایا جا رہا ہے کہ معجزہ دکھانا کسی پیغمبر کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا، وہ صرف اللہ تعالی کے حکم ہی سے دکھایا جا سکتا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اللہ (ہی) ہے جس نے تمہارے لئے چوپائے بنائے تاکہ تم سوار ہو، ان میں سے (بعض پر) اور ان میں سے (بعض) تم کھاتے ہو۔ (۷۹)

اور تمہارے لئے ان میں بہت سے فائدے ہیں، اور تاکہ تم ان پر (سوار ہو کر) اپنے دلوں کی مراد (منزل مقصود) کو پہنچو، اور ان پر اور کشتیوں پر تم لدے پھرتے ہو۔ (۸۰)

اور وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے ، تم اللہ کی کن کن نشانیوں کا انکار کرو گے۔ (۸۱)

پس کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہیں؟تو وہ دیکھتے کہ کیسا ہوا انجام ان لوگوں کا جو ان سے قبل تھے ، وہ تعداد اور قوت میں ان سے بہت زیادہ تھے ، اور وہ زمین میں (ان سے بڑھ چڑھ کر) آثار (چھوڑ گئے ) سو جو وہ کرتے تھے ان کے (کچھ) کام نہ آیا۔ (۸۲)

تشریح: یعنی پہلے بہت قومیں گزر چکیں جو جتھے میں اور زور و قوت میں ان سے بہت زیادہ تھیں انہوں نے ان سے کہیں بڑھ کر زمین پر اپنی یادگاریں اور نشانیاں چھوڑیں، لیکن جب خدا کا عذاب آیا تو وہ زور و طاقت اور سازو سامان کچھ بھی کام نہ آسکا۔ یوں ہی تباہ و برباد ہو کر رہ گئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر جب ان کے پاس ان کے رسول کھلی نشانیوں کے ساتھ آئے تو وہ اس علم پر اترانے لگے جو ان کے پاس تھا اور انہیں اس (عذاب) نے گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ (۸۳)

تشریح: یعنی وجوہ معاش اور مادی ترقیات کا جو علم ان کے پاس تھا اور جن غلط عقیدوں پر دل جمائے ہوئے تھے اسی پر اتراتے رہے۔ اور انبیاء علیہم السلام کے علوم و ہدایت کو حقیر سمجھ کر مذاق اڑاتے رہے۔ آخر ایک وقت آیا جب ان کو اپنی ہنسی مذاق کی حقیقت کھلی، اور ان کا استہزاء و تمسخر خود ان ہی پر الٹ پڑا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھا تو وہ کہنے لگے ہم اللہ واحد پر ایمان لائے ، اور ہم اس کے منکر ہوئے جس کو ہم اس کے ساتھ شریک کرتے تھے۔ (۸۴)

تشریح: یعنی جس وقت آفت آنکھوں کے سامنے آ گئی اور عذاب الٰہی کا معائنہ ہونے لگا، تب ہوش آیا اور ایمان و توبہ کی سوجھی۔ اب پتہ چلا کہ اکیلے خدائے بزرگ ہی سے کام چلتا ہے۔ جن ہستیوں کو خدائی کا درجہ دے رکھا تھا سب عاجز اور بیکار ہیں۔ ہماری سخت حماقت اور گستاخی تھی کہ ان چیزوں کو تخت خدائی پر بٹھا دیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو (اب ایسا) نہ ہوا کہ ان کا ایمان ان کو نفع دیتا جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا، اللہ کا دستور ہے جو اس کے بندوں میں گزر چکا (ہوتا چلا آیا ہے ) اور اس وقت کافر گھاٹے میں رہ گئے۔ (۸۵)

تشریح: یعنی اب پچھتانے اور تقصیر کا اعتراف کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ ایمان و توبہ کا وقت گزر چکا۔ عذاب دیکھ لینے پر تو ہر کسی کو بے اختیار یقین آ جاتا ہے۔ مگر یہ یقین موجب نجات نہیں۔ نہ اس یقین کی بدولت آیا ہوا عذاب ٹل سکتا ہے۔ قال تعالٰی ”ولیست التوبۃ للذین یعملون السیاٰت حتی اذا حضر احدہم الموت قال انی تبت الان ولا الذین یموتون وہم کفار” (نسا، رکوع٣) وقال فی قصۃ فرعون ”آلئن وقد عصیت قبل وکنت من المفسدین۔ ” وفی الحدیث ”ان اللہ تعالیٰ یقبل توبۃ العبد مالم یغرغر۔ ”

ہمیشہ سے یوں ہی ہوتا رہا ہے کہ لوگ اول انکار و استہزاء سے پیش آتے ہیں پھر جب عذاب میں پکڑے جاتے ہیں اس وقت شور مچاتے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ اللہ کی عادت یہ ہے کہ اس بے وقت کی توبہ کو قبول نہیں فرماتا۔ آخر منکرین اپنے جرائم کی پاداش میں خراب و برباد ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اللہم احفظنا من الخسران۔ واحفظنا من غضبک وسخطک فی الدنیا والاخرۃ۔

(تم سورۃ المؤمن وللہ الحمد والمنہ)۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

 

۴۱۔ سورۃ حٰمٓ السَّجْدَۃِ

 

                تعارف

 

یہ سورت اس مجموعے کا ایک حصہ ہے جسے حوامیم کہا جاتا ہے ، اور جس کا تعارف پیچھے سورۂ مؤمن کے شروع میں گزر چکا ہے ، اس سورت کے مضامین بھی دوسری مکی سورتوں کی طرح اسلام کے بنیادی عقائد کے اثبات اور مشرکین کی تردید پر مشتمل ہیں، اس سورت کی آیت نمبر:۳۸ آیتِ سجدہ ہے ، یعنی اس کے پڑھنے اور سننے سے سجدہ واجب ہوتا ہے ، اس لئے اس کو حم السجدہ کہا جاتا ہے ، اس کا دوسرا نام فصلت بھی ہے ، کیونکہ اس کی پہلی آیت میں یہ لفظ آیا ہے ، نیز اسے سورۃ المصابیح اور سورۃ الاقوات بھی کہا جاتا ہے۔ ( روح المعانی)۔

(توضیح القرآن)

 

مَکِّیَّۃ

آیات۵۴         رکوعات:۶

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

حم۔ (۱) (یہ کلام) نازل کیا ہوا ہے ، نہایت رحم کرنے والے مہربان (اللہ کی طرف) سے۔ (۲)

تشریح: یعنی اللہ تعالیٰ کی بہت ہی بڑی مہربانی اور رحمت بندوں پر ہے جو ان کی ہدایت کے لیے ایسی عظیم الشان اور بیمثال کتاب نازل فرمائی۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ ایک کتاب ہے اس کی آیتیں واضح کر دی گئی ہیں، قرآن عربی زبان میں ہے ان لوگوں کے لئے جو جانتے ہیں۔ (۳)

تشریح:لفظی طور پر آیات کا جدا جدا ہونا تو ظاہر ہے ، مگر معنوی حیثیت سے بھی سینکڑوں قسم کے علوم اور مضامین کی تفصیل الگ الگ آیات میں کی گئی ہے۔ قرآن کریم اعلیٰ درجہ کی صاف و شستہ عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے جو اس کے مخاطبین اولین کی مادری زبان تھی۔ تاکہ ان لوگوں کو سمجھنے میں دقت نہ ہو۔ خود سمجھ کر دوسروں کو پوری طرح سمجھا سکیں۔ مگر اس کے باوجود بھی ظاہر ہے و ہی لوگ اس سے منتفع ہو سکتے ہیں جو سمجھ رکھتے ہوں، ناسمجھ جاہل کو اس نعمت عظمیٰ کی کیا قدر ہو سکتی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

خوشخبری دینے والا، اور ڈر سنانے والا، سو ان میں سے اکثر نے منہ پھیر لیا، پس وہ سنتے نہیں۔ (۴)

تشریح: یعنی قرآن اپنے ماننے والوں کو نجات و فلاح کی خوشخبری سناتا اور منکروں کو برے انجام سے ڈراتا ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود بھی تعجب ہے ان میں کے بہت لوگ اس کتاب کی بیش قیمت نصائح کی طرف دھیان نہیں کرتے۔ اور جب ادھر دھیان ہی نہیں تو سننا کیوں چاہیں گے۔ فرض کیجیے کانوں سے سن بھی لیا لیکن گوش دل سے نہ سنا اور قبول کرنے کی توفیق نہ ہوئی تو سنا ان سنا برابر ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور انہوں نے کہا اس (بات) سے جس کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو ہمارے دل پردوں میں ہیں، اور ہمارے کانوں میں گرانی ہے ، اور ہمارے درمیان اور تمہارے درمیان ایک پردہ ہے ، سو تم اپنا کام کرو، بیشک ہم تو اپنا کام کرتے ہیں۔ (۵)

تشریح: یعنی صرف اسی قدر نہیں کہ نصیحت کی طرف دھیان نہیں کرتے یا کان نہیں دھرتے ، بلکہ ایسی باتیں کرتے ہیں جن کو سن کر ناصح بالکلیہ مایوس ہو جائے۔ اور آئندہ نصیحت سنانے کا ارادہ بھی ترک کر دے۔ مثلاً کہتے ہیں ہمارے دلوں پر تو تمہاری باتوں کی طرف سے غلاف چڑھے ہوئے ہیں اس لیے کوئی بات وہاں تک پہنچتی نہیں۔ اور جب تم بات کرتے ہو ہمارے کان اونچا سننے لگتے ہیں۔ ثقل سماع کی وجہ سے کچھ سنائی نہیں دیتا، اور ہمارے تمہارے درمیان ایسا پردہ ہے جو ایک کو دوسرے سے ملنے نہیں دیتا، دشمنی، اور عداوت کی جو دیواریں کھڑی ہیں وہ درمیان سے اٹھ جائیں اور جو خلیج حائل ہے وہ پر ہو، تب ہم میں سے ایک دوسرے تک پہنچ سکے۔ لیکن ایسا ہونا ناممکن ہے۔ پھر تم کیوں اپنا مغز تھکاتے ہو۔ ہم کو ہمارے حال پر چھوڑو، تم اپنا کام کیے جاؤ، ہم اپنا کام کریں گے۔ اس کی توقع مت رکھو کہ ہم کبھی تمہاری نصیحتوں سے متاثر ہونے والے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں، اس کے سوا نہیں کہ میں تم جیسا ایک بشر ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہے ، یہ کہ تمہارا معبود، معبود یکتا ہے ، پس سیدھے رہو اس کی طرف (اس کے حضور) اور اس سے مغفرت مانگو، اور خرابی ہے مشرکوں کے لئے۔ (۶)

تشریح: یعنی نہ میں خدا ہوں کہ زبردستی تمہارے دلوں کو پھیر سکوں، نہ فرشتہ ہوں جس کے بھیجے جانے کی تم فرمائش کیا کرتے ہو، نہ کوئی اور مخلوق ہوں، بلکہ تمہاری جنس و نوع کا ایک آدمی ہوں، جس کی بات کا سمجھنا تم کو ہم جنسی کی بناء پر آسان ہونا چاہیے ، اور وہ آدمی ہوں، جسے حق تعالیٰ نے اپنی آخری اور کامل ترین وحی کے لیے چن لیا ہے بناء ً علیہ خواہ تم کتنا ہی اعراض کرو اور کتنی ہی یاس انگیز باتیں کرو میں خدائی پیغام تم کو ضرور پہنچاؤں گا، مجھے بذریعہ وحی بتلایا گیا ہے کہ تم سب کا معبود اور حاکم علی الاطلاق ایک ہے جس کے سوا کسی کی بندگی نہیں۔ لہٰذا سب کو لازم ہے کہ تمام شؤون و احوال میں سیدھے اسی خدائے واحد کی طرف رخ کر کے چلیں اس کے راستہ سے ذرا ادھر ادھر نہ قدم نہ ہٹائیں اور پہلے اگر ٹیڑھے ترچھے چلے ہیں تو اپنے پروردگار سے اس کی معافی چاہیں۔ اور اگلی پچھلی خطائیں بخشوائیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ جو زکوٰۃ نہیں دیتے ، اور وہ آخرت کے منکر ہیں۔ (۷)

تشریح: جن لوگوں کا معاملہ اللہ کے ساتھ یہ ہے کہ عاجز مخلوق کو اس کی بندگی میں شریک کرتے ہیں، اور بندوں کے ساتھ یہ ہے کہ صدقہ اور زکاۃ کا پیسہ کسی محتاج مسکین پر خرچ کرنے کے روا دار نہیں، ساتھ ہی انجام کی طرف سے بالکل غافل اور بے فکر ہیں، کیونکہ انہیں تسلیم ہی نہیں کہ مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی اور اچھے برے کا حساب کتاب بھی ہو گا۔ ایسوں کا مستقبل بجز ہلاکت اور خرابی و بربادی کے اور کیا ہونا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے ، ان کے لئے اجر ہے ختم نہ ہونے والا۔ (۸)

تشریح: یعنی کبھی منقطع نہ ہو گا ابد الآباد تک جاری رہے گا۔ جنت میں پہنچ کر نہ ان کو فنا نہ ان کے ثواب کو۔ (تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں کیا تم اس کا انکار کرتے ہو؟جس نے زمین کو دو دنوں میں پیدا کیا، اور تم اس کو شریک ٹھہراتے ہو، یہی ہے سارے جہانوں کا رب۔ (۹)

تشریح: یعنی کس قدر تعجب کا مقام ہے کہ رب العالمین کی وحدانیت اور صفات کمالیہ کا انکار کرتے اور دوسری چیزوں کو اس کے برابر سمجھتے ہو جو ایک ذرہ کا اختیار نہیں رکھتیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اس نے اس میں اس کے اوپر پہاڑ بنائے ، اور اس میں برکت رکھی، اور اس میں چار دنوں میں ان کی خوراکیں مقرر کیں، یکساں تمام سوال کرنے والوں کے لئے۔ (۱۰)

تشریح: اور برکت رکھی اس کے اندر، یعنی قسم قسم کی کانیں، درخت، میوے ، پھل، غلے اور حیوانات زمین سے نکلتے ہیں اور ”ٹھہرائیں اس میں خوراکیں اس کی” یعنی زمین پر بسنے والوں کی خوراکیں ایک خاص اندازہ اور حکمت سے زمین کے اندر رکھ دیں۔ چنانچہ ہر اقلیم اور ہر ملک میں وہاں کے باشندوں کی طبائع اور ضروریات کے موافق خوراکیں مہیا کر دی گئی ہیں۔

یہ سب کام چار دن میں ہوا، دو روز میں زمین پیدا کی گئی اور دو روز میں اس کے متعلقات کا بندوبست ہوا -جو پوچھے یا پوچھنے کا ارادہ رکھتا ہے اسے بتلا دو کہ یہ سب مل کر چار دن ہوئے بدون کسر اور کمی بیشی کے – حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں یعنی پوچھنے والوں کا جواب پورا ہوا

تنبیہ: یہاں دنوں سے مراد ظاہر ہے معروف و متبادر دن نہیں ہو سکتے کیونکہ زمین اور سورج وغیرہ کی پیدائش سے قبل ان کا وجود متصور ہی نہیں – لامحالہ ان دنوں کی مقدار مراد ہو گی یا وہ دن مراد ہو جس کی نسبت فرمایا ہے وَ اِنَّ یَومًا عِند ربک کالف سنۃمما تعدون۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر اس نے آسمان کی طرف توجہ فرمائی، اور وہ ایک دھواں تھا، تو اس نے اس سے اور زمین سے کہا تم دونوں آؤ خوشی سے یا ناخوشی سے ، ان دونوں نے کہا ہم خوشی سے حاضر ہیں۔ (۱۱)

تشریح: یعنی پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت سارا ایک دھوئیں کی طرح تھا، اس کو بانٹ کر سات آسمان کیے ، جیسا کہ آگے آتا ہے ( ممکن ہے ”دخان” سے آسمانوں کے مادہ کی طرف اشارہ ہو۔ ) ارادہ کیا کہ ان دونوں (آسمان و زمین) کے ملاپ سے دنیا بسائے۔ خواہ اپنی طبیعت سے ملیں یا زور سے ملیں۔ (بہرحال دونوں کو ملا کر ایک نظام بنایا تھا) وہ دونوں آملے اپنی طبیعت سے آسمان سے سورج کی شعاع آئی، گرمی پڑی، ہوائیں اٹھیں، ان سے گرد اور بھاپ اوپر چڑھی پھر پانی ہو کر مینہ برسا جس کی بدولت زمین سے طرح طرح کی چیزیں پیدا ہوئیں۔ اور پہلے جو فرمایا تھا کہ ”زمین میں اس کی خوارکیں رکھیں۔ ” یعنی اس میں قابلیت ان چیزوں کے نکلنے کی رکھ دی تھی۔ واللہ اعلم۔

(تفسیر عثمانی)

 

پھر اس نے دو دنوں  میں سات آسمان بنائے ، اور ہر آسمان کو اس کے کام کی وحی کر دی، اور ہم نے آسمانِ دنیا کو ستاروں سے زینت دی، اور حفاظت کے لئے (بھی) یہ غالب علم والے (اللہ کا ) فیصلہ ہے۔ (۱۲)

تشریح: یعنی چار دن وہ تھے اور دو دن میں آسمان بنائے کل چھ دن ہو گئے ، جیسا کہ دوسری جگہ ”ستۃ ایام” کی تصریح ہے۔

دیکھنے میں معلوم ہوتا ہے کہ گویا سب ستارے اسی آسمان میں جڑے ہوئے ہیں۔ رات کو ان قدرتی چراغوں سے آسمان کیسا پر رونق معلوم ہوتا ہے۔ پھر محفوظ کتنا کر دیا ہے کہ کسی کی وہاں تک دسترس نہیں۔ فرشتوں کے زبردست پہرے لگے ہوئے ہیں۔ کوئی طاقت اس نظام محکم میں رخنہ اندازی نہیں کر سکتی کیونکہ وہ سب سے بڑی زبردست اور باخبر ہستی کا قائم کیا ہوا ہے۔

(ملخص تفسیرعثمانی)

 

پھر اگر وہ منہ موڑ لیں تو آپ فرما دیں میں تمہیں ڈراتا ہوں، ایک چنگھاڑ سے جیسی چنگھاڑ سے عاد و ثمود (پر عذاب آیا تھا)۔ (۱۳)

تشریح: یعنی کفار مکہ اگر ایسی عظیم الشان آیات سننے کے بعد بھی نصیحت قبول کرنے اور توحید و اسلام کی راہ اختیار کرنے سے اعراض کرتے رہیں تو فرما دیجئے کہ میں تم کو آگاہ کرتا ہوں کہ تمہارا انجام بھی ”عاد” و” ثمود” وغیرہ اقوام معذبین کی طرح ہو سکتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

جب ان کے پاس رسول آئے ، ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر ہمارا رب چاہتا تو ضرور فرشتے اتارتا، پس تم جس پیغام کے ساتھ بھیجے گئے ہو ہم اس کے منکر ہیں۔ (۱۴)

تشریح: یعنی ہر طرف سے۔ شاید بہت رسول آئے ہوں گے ، مگر مشہور یہی دو رسول ہیں۔ حضرت ہود اور حضرت صالح علی نبینا  و علیہما الصلوٰۃ والسلام۔ اور یا ”من بین ایدیہم و من خلفہم۔ ” سے مراد یہ ہو کہ ان کو ماضی اور مستقبل کی باتیں سمجھاتے ہوئے آئے۔ کوئی جہت اور کوئی پہلو نصیحت و فہمائش کا نہیں چھوڑا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر جو عاد تھے ، وہ ملک میں غرور کرنے لگے ، ناحق، اور وہ کہنے لگے ہم سے زیادہ قوت میں کون ہے ؟کیا وہ نہیں دیکھتے کہ اللہ ہے جس نے انہیں پیدا کیا ہے ، وہ قوت میں ان سے بہت زیادہ ہے ، اور وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے۔ (۱۵)

تشریح: شاید رسولوں نے جو عذاب کی دھمکی دی ہو گی اس کے جواب میں یہ کیا ہو کہ ہم سے زیادہ زور آور کون ہے جس سے ہم خوف کھائیں۔ کیا ہم جیسے طاقتور انسانوں پر تم اپنا رعب جما سکتے ہو؟ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”ان کے جسم بہت بڑے بڑے ہوتے تھے۔ بدن کی قوت پر غرور آیا۔ غرور کا دم بھرنا اللہ کے ہاں وبال لاتا ہے۔”

(تفسیرعثمانی)

 

پس ہم نے بھیجی ان پر نحوست کے دنوں میں تند و تیز ہوا، تاکہ ہم انہیں رسوا ئی کا عذاب چکھائیں دنیا کی زندگی میں، اور البتہ آخرت کا عذاب زیادہ رسوا کرنے والا ہے ، اور نہ وہ مدد کئے جائیں گے۔ (۱۶)

تشریح: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”ان کا غرور توڑنے کو ایک کمزور مخلوق سے ان کو تباہ کرا دیا۔ سات رات اور آٹھ دن مسلسل ہوا کا طوفان چلتا رہا۔ درخت آدمی، مکان، مواشی کوئی چیز نہ چھوڑی۔

آخرت کی رسوائی تو بہت ہی بڑی ہے جو کسی کے ٹالے نہیں ٹلے گی، نہ وہاں کوئی مدد کر سکے گا۔ ہر ایک کو اپنی فکر پڑی ہو گی۔ محبت و ہمدردی کے بڑے بڑے مدعی آنکھیں چرائیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور رہے ثمود، سو ہم نے انہیں راستہ دکھایا تو انہوں نے ہدایت (کے مقابلے ) پر اندھا رہنا پسند کیا، تو انہیں چنگھاڑ نے آ پکڑا، (یعنی) ذلت کے عذاب نے ، اس کے سزا میں جو وہ کرتے تھے۔ (۱۷)

اور ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو ایمان لائے ، اور وہ پرہیزگاری کرتے تھے۔ (۱۸)

تشریح: یعنی نجات کا راستہ جو ہمارے پیغمبر نے بتلایا تھا اس سے آنکھیں بند کر لیں اور اندھا رہنے کو پسند کیا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ان کی پسند کی ہوئی حالت میں انہیں پڑا چھوڑ دیا۔

زلزلہ آیا جس کے ساتھ سخت ہولناک آواز تھی، اس آواز سے جگر پھٹ گئے۔ جو لوگ ایمان لائے اور بدی کے راستہ سے بچ کر چلتے تھے ان کو اللہ نے صاف بچا لیا۔ نزول عذاب کے وقت ان پر ذرا آنچ بھی نہیں آئی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جس دن اللہ کے دشمن جہنم کی طرف جمع کئے (ہانکے ) جائیں گے ، تو وہ گروہ گروہ (تقسیم) کر دئیے جائیں گے۔ (۱۹)

تشریح: یعنی ہر ایک قسم کے مجرموں کی الگ الگ جماعت ہو گی اور یہ سب جماعتیں ایک دوسرے کے انتظار میں جہنم کے قریب روکی جائیں گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آئیں گے تو ان پر ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے گوشت پوست گواہی دیں گے اس پر جو وہ کرتے تھے۔ (۲۰)

تشریح: دنیا میں کانوں سے آیات تنزیلیہ سنیں اور آنکھوں سے آیات تکوینیہ دیکھیں، مگر کسی کو نہ مانا۔ ہر بن مو سے خدا کی نافرمانی کرتے رہے یہ خبر نہ تھی کہ گناہوں کا یہ سارا ریکارڈ خود انہی کی ذات میں محفوظ ہے جو وقت پر کھول دیا جائے گا۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ محشر میں کفار اپنے جرائم کا زبان سے انکار کریں گے۔ اس وقت حکم ہو گا کہ ان کے اعضاء کی شہادت پیش کی جائے جن کے ذریعہ سے گناہ کیے تھے چنانچہ ہر ایک عضو شہادت دیے گا اور اس طرح زبان کی تکذیب ہو جائے گی۔ تب مبہوت و حیران ہو کر اپنے اعضاء کو کہے گا (کم بختو!) دور ہو جاؤ! تمہاری ہی طرف سے تو میں جھگڑتا اور مدافعت کر رہا تھا (تم خود ہی اپنے جرموں کا اعتراف کرنے لگے )۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ اپنے گوشت پوست سے کہیں گے ، تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی، وہ جواب دیں گے ہمیں اس اللہ نے گویائی دی، جس نے ہر شے کو گویا فرمایا ہے اور اسی نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا، اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔ (۲۱)

تشریح: یعنی جب میں زبان سے انکار کر رہا تھا تو تم پر ایسی کیا مصیبت پڑی تھی کہ خواہ مخواہ بتلانا شروع کر دیا اور آخر یہ بولنا تم کو سکھلایا کس نے۔

جس کی قدرت نے ہر ناطق چیز کو بولنے کی قوت دی آج اسی نے ہم کو بھی گویا کر دیا۔ نہ بولتے اور بتلاتے تو کیا کرتے۔ جب وہ قادر مطلق بلوانا چاہے تو کس چیز کی مجال ہے کہ نہ بولے۔ جس نے زبان میں قوت گویائی رکھی، کیا ہاتھ پاؤں میں نہیں رکھ سکتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جو تم چھپاتے تھے کہ تمہارے خلاف گواہی دیں گے تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں، اور تمہارے گوشت پوست، بلکہ تم نے گمان کر لیا تھا کہ اللہ اس سے (اس کے متعلق) بہت کچھ نہیں جانتا جوتم کرتے ہو۔ (۲۲)

تشریح: یعنی غیر سے چھپ کر گناہ کرتے تھے۔ یہ خبر نہ تھی کہ ہاتھ پاؤں بتلا دیں گے ، ان سے بھی پردہ کریں۔ اور کرنا بھی چاہتے تو اس کی قدرت کہاں تھی۔

اصل میں تمہارے طرز عمل سے یوں ظاہر ہوتا ہے کہ گویا تم کو خدا تعالیٰ کے علم محیط کا یقین ہی نہ تھا سمجھتے تھے کہ جو چاہو کرتے رہو کون دیکھ بھال کرتا ہو گا۔ اگر پوری طرح یقین ہوتا کہ خدا ہماری تمہاری حرکات سے باخبر ہے اور اس کے ہاں ہماری پوری مسل محفوظ ہے تو ہرگز ایسی شرارتیں نہ کرتے۔

(تفسیرعثمانی)

 

تمہارے اس گمان (خیال باطل) نے جو تم نے اپنے رب کے متعلق کیا تھا تمہیں ہلاک کیا، سو تم ہو گئے خسارہ پانے والوں میں سے۔ (۲۳)

پھر اگر وہ صبر کریں تو (بھی) جہنم ان کے لئے ٹھکانا ہے ، اور اگر وہ (اب) معافی چاہیں، تو وہ معافی قبول کئے جانے والوں میں سے نہ ہوں گے۔ (۲۴)

تشریح: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یعنی دنیا میں بعض بلا صبر سے آسان ہوتی ہے ، وہاں صبر کریں یا نہ کریں، دوزخ گھر ہو چکا (جہاں سے کبھی نکلنا نہیں) اور بعض منت خوشامد کرنے سے ٹلتی ہے وہاں بہتیرا چاہیں کہ منت کریں، کوئی قبول نہیں کرتا۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے ان کے کچھ ہم نشین مقرر کئے ، تو انہوں نے ان کے لئے آراستہ کر دکھایا جوان کے آگے اور جو ان کے پیچھے تھا اور ان پر قول (عذاب کی وعید) پوری ہو گئی، ان امتوں میں جو گزر چکی ہیں ان سے قبل جنات اور انسانوں کی، بیشک وہ خسارہ پانے والے تھے۔ (۲۵)

تشریح: یعنی ان پر شیطان تعینات تھے کہ ان کو برے کام جو پہلے کیے یا آگے کرتے ، بھلے کر کے دکھلائیں اور تباہ کن ماضی و مستقبل کو خوبصورت بنا کر ان کے سامنے پیش کریں۔ اور یہ شیطانوں کا تعینات کیا جانا بھی ان کے اعراض عن الذکر کا نتیجہ تھا: کما قال تعالیٰ ”ومن یعش عن ذکر الرحمن نقیض لہ شیطاناً فہولہ قرین۔ ” (زخرف، رکوع٤)۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ان لوگوں نے کہا جنہوں نے کفر کیا (کافروں نے ) کہ تم یہ قرآن سنو ہی مت، اور اگر (سنانے لگیں) تو اس میں غل مچاؤ، شاید کہ تم غالب آ جاؤ۔ (۲۶)

تشریح: قرآن کریم کی آواز بجلی کی طرح سننے والوں کے دلوں میں اثر کرتی تھی۔ جو سنتا فریفتہ ہو جاتا، اس سے روکنے کی تدبیر کفار نے یہ نکالی کہ جب قرآن پڑھا جائے ، ادھر کان مت دھرو، اور اس قدر شور و غل مچاؤ کہ دوسرے بھی نہ سن سکیں۔ اس طرح ہماری بک بک سے قرآن کی آواز دب جائے گی۔ آج بھی جاہلوں کو ایسی ہی تدبیریں سوجھا کرتی ہیں کہ کام کی بات کو شور مچا کر سننے نہ دیا جائے۔ لیکن صداقت کی کڑک مچھروں اور مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے کہاں مغلوب ہو سکتی ہے ، ان سب تدبیروں کے باوجود حق کی آواز قلوب کی گہرائیوں تک پہنچ کر رہتی ہے۔

(تفسیر عثمانی)

 

پس ہم کافروں کو ضرور سخت عذاب چکھائیں گے ، اور البتہ ہم ان کے بدترین اعمال کا انہیں ضرور بدلہ دیں گے۔ (۲۷)

تشریح: اس سے زیادہ برا کام کون سا ہو گا کہ خود نصیحت کی بات نہ سنے اور دوسروں کو بھی سننے نہ دے۔ (تفسیر عثمانی)

 

یہ ہے اللہ کے دشمنوں کا بدلہ جہنم، اور ان کے لئے ہے اس میں ہمیشگی کا گھر، اس کا بدلہ جو وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے۔ (۲۸)

تشریح: یعنی دل میں سمجھتے تھے ، لیکن ضد اور تعصب و عناد سے انکار ہی کرتے رہتے تھے۔ (تفسیر عثمانی)

 

اور کافر کہیں گے اے ہمارے رب! ہمیں وہ دونوں دکھا دے جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا جنات میں سے اور انسانوں میں سے کہ ہم ان دونوں کو اپنے پاؤں تلے ڈالیں، تاکہ وہ انتہائی ذلیلوں میں سے ہوں۔ (۲۹)

 

تشریح: یعنی خیر ہم تو آفت میں پھنسے ہیں، لیکن آدمیوں اور جنوں میں سے جن شیطانوں نے ہم کو بہکا بہکا کر اس آفت میں گرفتار کرایا ہے ، ذرا انہیں ہمارے سامنے کر دیجئے کہ ان کو ہم اپنے پاؤں تلے روند ڈالیں۔ اور نہایت ذلت و خواری کے ساتھ جہنم کے سب سے نیچے کے طبقہ میں دھکیل دیں، تاکہ انتقام لے کر ہمارا دل کچھ تو  ٹھنڈا ہو۔

(تفسیر عثمانی)

 

بے شک جن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے ، پھر اس پر ثابت قدم رہے ، ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ تم خوف کھاؤ اور نہ غمگین ہو اور تم اس جنت پر خوش ہو جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا۔ (۳۰)

تشریح: یعنی دل سے اقرار کیا اور اس پر قائم رہے اس کی ربوبیت و الوہیت میں کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا۔ نہ اس یقین و اقرار سے مرتے دم تک ہٹے ، نہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلا۔ جو کچھ زبان سے کہا تھا اس کے مقتضاء پر اعتقاداً اور عملاً جمے رہے۔ اللہ کی ربوبیت کاملہ کا حق پہنچانا۔ جو عمل کیا خالص اس کی خوشنودی اور شکر گزاری کے لیے کیا، اپنے رب کے عائد کیے ہوئے حقوق و فرائض کو سمجھا اور ادا کیا۔ غرض ماسوا سے منہ موڑ کر سیدھے اسی کی طرف متوجہ ہوئے اور اسی کے راستہ پر چلے۔ ایسے مستقیم الحال بندوں پر موت کے قریب اور قبر میں پہنچ کر اور اس کے بعد قبروں سے اٹھنے کے وقت اللہ کے فرشتے اترتے ہیں جو تسکین و تسلی دیتے جنت کی بشارتیں سناتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اب تم کو ڈرنے اور گھبرانے کا کوئی موقع نہیں رہا۔ دنیائے فانی کے سب فکر و غم ختم ہوئے اور کسی آنے والی آفت کا اندیشہ بھی نہیں رہا۔ اب ابدی طور پر ہر قسم کی جسمانی و روحانی خوشی اور عیش تمہارے لیے ہے اور جنت کے جو وعدے انبیاء علیہم السلام کی زبانی کیے گئے تھے ، وہ اب تم سے ایفا کیے جانے والے ہیں۔ یہ وہ دولت ہے جس کے ملنے کا یقین حاصل ہونے پر کوئی فکر اور غم آدمی کے پاس نہیں پھٹک سکتا۔ (تنبیہ) بہت ممکن ہے کہ متقین و ابرار پر اس دنیاوی زندگی میں بھی ایک قسم کا نزول فرشتوں کا ہوتا ہو جو اللہ کے حکم سے ان کے دینی و دنیاوی امور میں بہتری کی باتیں الہام کرتے ہوں۔ جو ان کے شرح صدر اور تسکین و اطمینان کا موجب ہو جاتا ہو۔ جیسے ان کے بالمقابل ایک دو آیت پہلے گزر چکا ہے کہ کفار پر شیطان مسلط ہیں جو تزئین قبائح سے ان کے اغواء کا سامان کرتے ہیں۔ چنانچہ دوسری جگہ شیاطین کے حق میں بھی لفظ ”تنزل” استعمال ہوا ہے۔ قال تعالٰی ”تنزل علی کل افاکٍ اثیمٍ یلقون السمع واکثر ہم کاذبون۔ ” (شعراء، رکوع١١) بہرحال بعض مفسرین کے نزدیک یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں اور اس تقدیر پر اگلی آیت ”نحن اولیاؤکم فی الحیوۃ الدنیا۔ ”زیادہ چسپاں ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔

(تفسیر عثمانی)

 

ہم تمہارے رفیق تھے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں (بھی) اور تمہارے لئے اس میں (موجود ہے ) جو تمہارے دل چاہیں، اور تمہارے لئے اس میں (موجود ہے ) جوتم مانگو گے۔ (۳۱)

تشریح: بعض نے اس کو اللہ کا کلام بتایا ہے۔ یعنی فرشتوں کا کلام اس سے پہلے ختم ہو چکا۔ اور اکثر کے نزدیک یہ بھی فرشتوں کا مقولہ ہے۔ گویا فرشتے یہ قول ان کے دلوں میں الہام کرتے ہیں اور ان کی ہمت بندھاتے ہیں۔ ممکن ہے اس زندگی میں بعض بندوں سے مشافہۃً بھی اتنے الفاظ کہتے ہوں اور ممکن ہے موت کے قریب یا اس کے بعد کہا جاتا ہو۔ اس وقت ”نحن اولیاؤکم فی الحیوۃ الدنیا و فی الاخرۃ۔ ” کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم دنیا میں بھی تمہارے رفیق رہے ہیں کہ اللہ کے حکم سے باطنی طور پر تمہاری اعانت کرتے تھے ، اور آخرت میں بھی رفیق رہیں گے کہ وہاں تمہاری شفاعت یا اعزازو کرام کا انتظام کریں۔ جس چیز کی خواہش و رغبت دل میں ہو گی یا جو زبان سے طلب کرو گے سب کچھ ملے گا۔ اللہ کے خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں۔

(تفسیر عثمانی)

 

(یہ) ضیافت ہے بخشنے والے مہربان (اللہ) کی طرف سے۔ (۳۲)

تشریح: یعنی سمجھ لو! وہ غفور رحیم اپنے مہمان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرے گا۔ اور یہ کتنی بڑی عزت و توقیر ہے کہ ایک بندہ ضعیف رب العزت کا مہمان ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اس سے بہترین کس کی بات؟ جو بلائے اللہ کی طرف، اور اچھے عمل کرے اور کہے بیشک میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ (۳۳)

تشریح: پہلے ”ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا۔ ” میں ان مخصوص مقبول بندوں کا ذکر تھا جنہوں نے صرف ایک اللہ کی ربوبیت پر اعتقاد جما کر اپنی استقامت کا ثبوت دیا۔ یہاں ان کے ایک اور اعلیٰ مقام کا ذکر کرتے ہیں۔ یعنی بہترین شخص وہ ہے جو خود اللہ کا ہو رہے ، اسی کی حکم برداری کا اعلان کرے ، اسی کی پسندیدہ روش پر چلے۔ اور دنیا کو اسی کی طرف آنے کی دعوت دے۔ اس کا قول و فعل بندوں کو خدا کی طرف کھینچنے میں موثر ہو، جس نیکی کی طرف لوگوں کو بلائے بذات خود اس پر عامل ہو۔ خدا کی نسبت اپنی بندگی اور فرمانبرداری کا اعلان کرنے سے کسی موقع پر اور کسی وقت نہ جھجکے۔ اس کا طغرائے قومیت صرف مذہب اسلام ہو، اور ہر قسم کی تنگ نظری اور فرقہ ورانہ نسبتوں سے یکسو ہو کر اپنے مسلم خالص ہونے کی منادی کرے ، اور اسی اعلیٰ مقام کی طرف لوگوں کو بلائے جس کی دعوت دینے کے لیے سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تھے ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنی عمریں صرف کی تھیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور برابر نہیں ہوتی نیکی اور بُرائی، آپ (بُرائی کو) اس (انداز سے ) دور کریں جو بہترین ہو تو یکایک وہ شخص کہ آپ کے درمیان اور اس کے درمیان عداوت تھی (ایسے ہو جائے گا) گویا وہ جگری دوست ہے۔ (۳۴)

تشریح: ان آیات میں ایک سچے داعی الی اللہ کو جس حسن اخلاق کی ضرورت ہے ، اس کی تعلیم دیتے ہیں۔ یعنی خوب سمجھ لو، نیکی بدی کے اور بدی نیکی کے برابر نہیں ہو سکتی۔ دونوں کی تاثیر جداگانہ ہے۔ بلکہ ایک نیکی دوسری نیکی سے اور ایک بدی دوسری بدی سے اثر میں بڑھ کر ہوتی ہے۔ لہٰذا ایک مومن قانت اور خصوصاً داعی الی اللہ کا مسلک یہ ہونا چاہیے کہ برائی کا جواب برائی سے نہ دے ،بلکہ جہاں تک گنجائش ہو برائی کے مقابلہ میں بھلائی سے پیش آئے۔ اگر کوئی اسے سخت بات کہے یا برا معاملہ کرے تو اس کے مقابل وہ طرز اختیار کرنا چاہیے جو اس سے بہتر ہو۔ مثلاً غصہ کے جواب میں بردباری، گالی کے جواب میں تہذیب و شائستگی اور سختی کے جواب میں نرمی اور مہربانی سے پیش آئے۔ اس طرز عمل کے نتیجہ میں تم دیکھ لو گے کہ سخت سے سخت دشمن بھی ڈھیلا پڑ جائے گا۔ اور گو دل سے دوست نہ بنے تاہم ایک وقت آئے گا جب وہ ظاہر میں ایک گہرے اور گرمجوش دوست کی طرح تم سے برتاؤ کرنے لگے گا۔ بلکہ ممکن ہے کہ کچھ دنوں بعد سچے دل سے دوست بن جائے اور دشمنی و عداوت کے خیالات یکسر قلب سے نکل جائیں۔ کما قال ”عسی اللہ ان یجعل بینکم وبین الذین عا دیتہم منہم مودۃ” (سورہ ممتحنہ، رکوع٢) ہاں کسی شخص کی طبیعت کی افتاد ہی سانپ بچھو کی طرح ہو کہ کوئی نرم خوئی اور خوش اخلاقی اس پر اثر نہ کرے وہ دوسری بات ہے مگر ایسے افراد بہت کم ہوتے ہیں۔ بہرحال دعوت الی اللہ کے منصب پر فائز ہونے والوں کو بہت زیادہ صبر و استقلال اور حسن خلق کی ضرورت ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور یہ (بات) نہیں ملتی مگر انہیں جنہوں نے صبر کیا، اور یہ نہیں ملتی مگر بڑے نصیب والے کو۔ (۳۵)

تشریح: یعنی بہت بڑا حوصلہ چاہیے کہ بری بات سہار کر بھلائی سے جواب دیں۔ یہ اخلاق اور اعلیٰ خصلت اللہ کے ہاں سے بڑے قسمت والے خوش نصیب اقبال مندوں کو ملتی ہے۔ (ربط) یہاں تک اس حریف اور دشمن کے ساتھ معاملہ کرنا سکھلایا تھا جو حسن معاملہ اور خوش اخلاقی سے متاثر ہو سکتا ہے۔ لیکن ایک دشمن وہ ہے جو کسی حال اور کسی نہج سے دشمنی نہیں چھوڑ سکتا۔ تم کتنی ہی خوشامد یا نرمی برتو، اس کا نصب العین یہ ہے کہ تم کو ہر طرح نقصان پہنچائے۔ ایسے پکے شیطان سے محفوظ رہنے کی تدبیر آگے تلقین فرمائی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر تمہیں شیطان کی طرف سے آئے کوئی وسوسہ تو اللہ کی پناہ چاہیں، بیشک وہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (۳۶)

تشریح: یعنی ایسے شیطان کے مقابلہ میں نرمی اور عفو و درگزر سے کام نہیں چلتا۔ بس اس سے بچنے کی ایک ہی تدبیر ہے کہ خداوند قدوس کی پناہ میں آ جاؤ۔ یہ وہ مضبوط قلعہ ہے جہاں شیطان کی رسائی نہیں۔ اگر تم واقعی اخلاص و تضرع سے اللہ کو پکارو گے وہ ضرور تم کو پناہ دے گا۔ کیونکہ وہ ہر ایک کی پکار سنتا ہے اور خوب جانتا ہے کہ کس نے کتنے اخلاص و تضرع سے اس کو پکارا ہے۔ حضرت شاہ صاحب اس آیت کا پہلی آیت سے ربط ظاہر کرنے کی غرض سے لکھتے ہیں۔ ”یعنی کبھی بے اختیار غصہ چڑھ آئے تو یہ شیطان کا دخل ہے۔ ” وہ نہیں چاہتا کہ تم حسن اخلاق پر کار بند ہو کر دعوت الی اللہ کے مقصد میں کامیابی حاصل کرو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اس کی نشانیوں میں سے ہیں رات اور دن، اور سورج اور چاند، تم نہ سورج کو سجدہ کرو، نہ چاند کو، اور تم اللہ کو سجدہ کرو، وہ جس نے ان (سب) کو پیدا کیا، اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو۔ (۳۷)

تشریح: دعوت الی اللہ کے ساتھ چند دلائل سماویہ و ارضیہ بیان فرماتے ہیں جن سے داعی الی اللہ کو اللہ تعالیٰ کی عظمت و وحدانیت اور بعث بعد الموت وغیرہ اہم مسائل کے سمجھانے میں مدد ملے۔ اس ضمن میں ادھر بھی اشارہ ہو گیا کہ ایک طرف خدا کے مخصوص بندے اپنے قول و عمل سے خدا کی طرف بلا رہے ہیں اور دوسری طرف چاند، سورج اور آسمان و زمین کا عظیم الشان نظم و نسق سوچنے والوں کو اسی خدائے واحد کی طرف آنے کی دعوت دے رہا ہے وفی کل شیءٍ لہ ایۃ تدل علی انہ واحد۔ انسان کو چاہیے کہ ان تکوینی نشانیوں میں الجھ کر نہ رہ جائے ، جیسے بہت سی قومیں رہ گئی ہیں، بلکہ لازم ہے کہ اس لامحدود قدرت والے مالک کے سامنے سرجھکائے ، جس کی یہ نشانیاں ہیں۔ اور جس کے حکم سے ان کی ساری نمود ہے اور ممکن ہے اس پر بھی تنبیہ ہو کہ جس طرح رات اور دن اور ان دونوں کی نشانیاں چاند اور سورج ایک دوسرے کے مقابل ہیں اور اللہ تعالیٰ ان میں رد و بدل کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح اس کو قدرت ہے کہ دعوت الی اللہ کی روشنی اور داعی کی علو ہمت اور خوش اخلاقی کی بدولت مخاطبین کی کایا پلٹ کر دے اور تاریک فضا کو ایک روشن ماحول سے بدل دے۔

سورج اور چاند وغیرہ کو پوجنے والے بھی زبان سے یہ ہی کہتے تھے کہ ہماری غرض ان چیزوں کی پرستش سے اللہ کی پرستش ہے۔ مگر اللہ نے بتلا دیا کہ یہ چیزیں پرستش کے لائق نہیں۔ عبادت کا مستحق صرف ایک خدا ہے۔ کسی غیر اللہ کی عبادت کرنا خدائے واحد سے بغاوت کرنے کے مترادف ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس اگر وہ تکبر کریں (تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ) سو وہ (فرشتے ) جو آپ کے رب کے نزدیک ہیں وہ رات دن اس کی تسبیح کرتے ہیں، اور وہ اکتاتے نہیں۔ (۳۸)

تشریح: یعنی اگر غرور تکبر حق کے قبول کرنے سے مانع ہے اور باوجود وضوح دلائل توحید کے خدائے واحد کی عبادت کی طرف آنا نہیں چاہتے تھے تو نہ آئیں، اپنا ہی نقصان کریں گے۔ اللہ کو ان کی کیا پرواہ ہو سکتی کہ بیشمار ملائکہ مقربین شب و روز اس کی عبادت اور تسبیح و تقدیس میں مشغول رہتے ہیں، نہ کبھی تھکتے ہیں، نہ اکتاتے ہیں، اس کے سامنے یہ بیچارے کیا چیز ہیں اور ان کا غرور کیا چیز ہے۔ خواہ مخواہ کی جھوٹی شیخی کر کے اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تو زمین کو سنسان دیکھتا ہے ، پھر جب ہم نے اس پر پانی اتارا وہ لہلہانے لگتی ہے اور پھولتی ہے ، بیشک وہ جس نے اس کو زندہ کیا، البتہ وہ مردوں کو زندہ کرنے والا ہے ، بیشک وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۳۹)

تشریح: یعنی زمین کو دیکھو بیچاری چپ چاپ، ذلیل و خوار بوجھ میں دبی ہوئی پڑی رہتی ہے۔ خشکی کے وقت ہر طرف خاک اڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ لیکن جہاں بارش کا ایک چھینٹا پڑا۔ پھر اس کی تر و تازہ رونق اور ابھار قابل دید ہو جاتا ہے۔ آخر یہ انقلاب کس کے دست قدرت کے تصرف کا نتیجہ ہے۔ جس خدا نے اس طرح مردہ زمین کو زندہ کر دیا، کیا وہ مرے ہوئے انسانوں کے بدن میں دوبارہ جان نہیں ڈال سکتا؟ اور کیا وہ قادر مطلق مرے ہوئے دلوں کو دعوت الی اللہ کی تاثیر سے ازسر نو حیات تازہ عطا نہیں کر سکتا؟ بیشک وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ اس کی قدرت کے سامنے کوئی مانع و مزاحم نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک جو لوگ ہماری آیات میں کج روی کرتے ہیں وہ ہم پر (ہم سے ) پوشیدہ نہیں، تو کیا جو شخص آگ میں ڈالا جائے بہتر ہے یا جو روزِ قیامت امان کے ساتھ آئے ؟تم جو چاہو کرو، بیشک تم جو کچھ کرتے ہو وہ دیکھنے والا ہے۔ (۴۰)

تشریح: یعنی اللہ کی طرف دعوت دینے والوں کی زبان سے آیاتِ تنزیلیہ سن کر اور قرطاس دہر پر خدا کی آیاتِ کونیہ کو دیکھ کر بھی جو لوگ کجروی سے باز نہیں آتے اور سیدھی سیدھی باتوں کو واہی تباہی شبہات پیدا کر کے ٹیڑھی بناتے ہیں، یا خواہ مخواہ توڑ مروڑ کر ان کا مطلب غلط لیتے ہیں، یا یوں ہی جھوٹ موٹ کے عذر اور بہانے تراش کر ان آیات کے ماننے میں ہیر پھیر کرتے ہیں، ایسی ٹیڑھی چال چلنے والوں کو اللہ خوب جانتا ہے۔ ممکن ہے وہ لوگ اپنی مکاریوں اور چالاکیوں پر مغرور ہوں، مگر خدا سے ان کی کوئی چال پوشیدہ نہیں۔ جس وقت سامنے جائیں گے دیکھ لیں گے فی الحال اس نے ڈھیل دے رکھی ہے۔ مجرم کو ایک دم نہیں پکڑتا۔ اسی لیے آگے فرما دیا۔ ”اعملوا ماشئتم انہ بما تعملون بصیرً۔ ” یعنی اچھا جو تمہاری سمجھ میں آئے کیے جاؤ۔ مگر یاد رہے کہ تمہاری سب حرکات اس کی نظر میں ہیں ایک دن ان کا اکٹھا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اب خود سوچ لو کہ ایک شخص جو اپنی شرارتوں کی بدولت جلتی آگ میں گرے ، اور ایک جو اپنی شرافت و سلامت روی کی بدولت ہمیشہ امن چین سے رہے۔ دونوں میں کون بہتر ہے ؟

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک جن لوگوں نے قرآن کا انکار کیا جب وہ ان کے پاس آیا (وہ اپنا انجام دیکھ لیں گے ) بیشک یہ گرامی قدر ہے۔ (۴۱)

تشریح: یعنی وہ خواہ مخواہ اپنی کجروی سے نصیحت کی بات میں شبہات پیدا کرتے ہیں۔ حالانکہ اس میں جھوٹ کی گنجائش کسی طرف سے نہیں۔ وہ نصیحت کیا ہے ؟ ایک صاف واضح اور مضبوط و محکم کتاب جس کا انکار ایک احمق یا شریر آدمی کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس کے پاس نہیں آتا باطل اس کے سامنے سے اور نہ اس کے پیچھے سے (قرآن ) نازل کیا گیا حکمت والے ، سزاوارِ حمد (اللہ کی طرف) سے۔ (۴۲)

تشریح: یعنی اس کی اتاری ہوئی کتاب میں جھوٹ آئے تو کدھر سے آئے۔ اور جس کتاب کی حفاظت کا وہ ذمہ دار ہو، باطل کی کیا مجال ہے کہ اس کے پاس پھٹک سکے۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ کو اس کے سوا نہیں کہا جاتا جو آپ سے پہلے رسولوں کو کہا جا چکا ہے ، بیشک آپ کا رب بڑی مغفرت والا، اور دردناک سزا دینے والا ہے۔ (۴۳)

تشریح: یعنی منکرین کا جو معاملہ آپ کے ساتھ ہے ، یہ ہی ہر زمانہ کے منکرین کا پیغمبروں کے ساتھ رہا ہے ، پیغمبروں نے ہمیشہ خیر خواہی کی ہے ، انہوں نے اس کے جواب میں ہر طرح کی تکلیفیں پہنچائیں۔ پھر جس طرح پیغمبروں نے سختیوں پر صبر کیا، آپ بھی صبر کرتے رہیے نتیجہ یہ ہو گا کہ کچھ لوگ توبہ کر کے راہ راست پر آ جائیں گے جن کے لیے خدا کے ہاں معافی ہے اور کچھ اپنی کجروی اور ضد پر قائم رہیں گے جو آخرکار دردناک سزا کے مستوجب ہوں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر ہم قرآن کو عجمی زبان کا بناتے تو وہ کہتے اس کی آیتیں کیوں نہ صاف صاف بیان کی گئیں؟کیا کتاب عجمی اور رسول عربی، آپ فرما دیں جو ایمان لائے یہ ان لوگوں کے لئے ہدایت اور شفا ہے ، اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں گرانی ہے ، اور یہ ان کے لئے اندھا پن ہے ، (گویا) یہ لوگ پکارے جاتے ہیں کسی دور جگہ سے۔ (۴۴)

تشریح: یعنی ایک بات کو نہ ماننا ہو تو آدمی ہزار حیلے بہانے نکال سکتا ہے۔ کفار مکہ نے اور کچھ نہیں تو یہی کہنا شروع کر دیا کہ صاحب! عربی پیغمبر کا معجزہ تو ہم اس وقت سمجھتے جب قرآن عربی کے سوا کسی اور زبان میں آتا۔ لیکن فرض کیجیے اگر ایسا ہوتا تو جھٹلانے کے لیے یوں کہنے لگتے کہ بھلا صاحب! کہیں ایسی بے جوڑ بات بھی دیکھی ہے ، کہ رسول عربی، اور اس کی قوم بھی جو اولین مخاطب ہے عرب، مگر کتاب بھیجی جائے ایسی زبان میں جس کا ایک حرف بھی عرب لوگ نہ سمجھ سکیں۔ لغو اور بیہودہ شبہات تو کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ ہاں اس قدر تجربہ ہر ایک آدمی کر سکتا ہے کہ یہ کتاب مقدس اپنے اوپر ایمان لانے اور عمل کرنے والوں کی کیسی عجیب ہدایت و بصیرت اور سوجھ بوجھ عطا کرتی اور ان کے قرنوں اور صدیوں کے روگ مٹا کر کس طرح بھلا چنگا کر دیتی ہے۔

جس طرح خفاش (شپرک) کی آنکھیں سورج کی روشنی میں چندھیا جاتی ہیں، ان منکروں کو بھی قرآن کی روشنی میں کچھ نظر نہیں آتا۔ اس میں قرآن کا کیا قصور ہے۔ منکروں کو چاہیے کہ اپنی نگاہ کا ضعف و قصور محسوس کر کے علاج کی طرف متوجہ ہوں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تو اس میں اختلاف کیا گیا، اور اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ٹھہر چکی ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ ہوچکا ہوتا، اور بیشک وہ ضرور اس سے تردد میں ڈالنے والے شک میں ہیں۔ (۴۵)

تشریح: یعنی جیسے آج قرآن کے ماننے اور نہ ماننے والوں میں اختلاف پڑ رہا ہے۔ پہلے تورات کے متعلق بھی ایسا ہی اختلاف پڑ چکا ہے ، پھر دیکھ لو وہاں کیا انجام ہوا تھا۔ بات و ہی نکل چکی کہ فیصلہ آخرت میں ہے۔ مہمل شکوک و شبہات ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتے۔ ہر وقت دل میں کھٹکتے رہتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

جس نے اچھے عمل کئے تو اپنی ذات کے لئے (کئے ) اور جس نے بُرائی کی اس کا وبال اسی پر ہو گا، اور آپ کا رب اپنے بندوں پر مطلق ظلم کرنے والا نہیں۔ (۴۶)

تشریح: یعنی خدا کے ہاں ظلم نہیں۔ ہر آدمی اپنے عمل کو دیکھ لے۔ جیسا کرے گا و ہی سامنے آئے گا۔ نہ کسی کی نیکی اس کے ہاں ضائع ہو گی، نہ ایک کی بدی دوسرے پر ڈالی جائے گی (ربط) چونکہ نیکی بدی کا پورا پورا بدلہ قیامت کے دن ملے گا۔ اور کفار اکثر سوال کرتے تھے کہ قیامت کب آئے گی، اس لیے اس کے متعلق ارشاد ہوتا ہے۔ ”الیہ یردعلم الساعۃ” الخ۔

(تفسیرعثمانی)

 

قیامت کا علم اسی کے حوالے کیا جاتا ہے ، اور کوئی پھل اپنے گابھوں سے نہیں نکلتا، اور کوئی عورت (مادہ) حاملہ نہیں ہوتی، اور وہ بچہ نہیں جنتی مگر (یہ سب) اس کے علم میں ہوتا ہے ، اور جس دن وہ انہیں پکارے گا کہاں ہیں میرے شریک ؟وہ کہیں گے ، ہم نے تجھے اطلاع دے دی کہ ہم میں سے کوئی (اس کا) شاہد (گواہ) نہیں۔ (۴۷)

تشریح:  علم الٰہی ہر چیز کو محیط ہے۔ کوئی کھجور اپنے گابھے سے اور کوئی دانہ اپنے خوشہ اور کوئی میوہ یا پھل اپنے غلاف سے باہر نہیں آتا جس کی خبر خدا کو نہ ہو۔ نیز کسی عورت یا کسی مادہ (جانور) کے پیٹ میں جو بچہ موجود ہے اور جو چیز وہ جن رہی ہے سب کچھ اللہ کے علم میں ہے۔ اسی طرح سمجھ لو کہ موجودہ دنیا کے نتیجہ کے طور پر جو آخرت کا ظہور اور قیامت کا وقوع ہونے والا ہے اس کا وقت بھی خدا ہی کو معلوم ہے کہ کب آئے گا۔ کوئی انسان یا فرشتہ اس کی خبر نہیں رکھتا۔ اور نہ اس کو خبر رکھنے کی ضرورت۔ ضرورت اس کی ہے کہ آدمی قیامت کی خبر پر اللہ کے فرمانے کے موافق یقین رکھے اور اس دن کی فکر کرے جب کوئی شریک کام نہ آئے گا۔

قَالُوْا اٰذَنَّاکَ مَا مِنَّا :یعنی ہم تو آپ سے صاف عرض کر چکے ہیں کہ ہم میں کوئی اقبالی مجرم نہیں جو اس جرم (شرک) کا اعتراف کرنے کو تیار ہو (گویا اس وقت نہایت دیدہ دلیری سے جھوٹ بول کر واقعہ کا انکار کرنے لگیں گے ) اور بعض نے شہید کو بمعنی شاہد لے کر یہ مطلب لیا ہے کہ اس وقت ہم میں سے کوئی ان شرکاء کو یہاں نہیں دیکھتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ جسے اس سے قبل (اللہ کے سوا) پکارتے تھے ، ان سے کھویا گیا، اور انہوں نے سمجھ لیا کہ (اب) ان کے لئے کوئی خلاصی نہیں۔ (۴۸)

تشریح: یعنی دنیا میں جنہیں خدا کا شریک بنا کر پکارتے تھے آج ان کا کہیں پتہ نہیں۔ وہ اپنے پرستاروں کی مدد کو نہیں آتے۔ اور پرستاروں کے دلوں سے بھی وہ پکارنے کے خیالات اب غائب ہو گئے انہوں نے بھی سمجھ لیا کہ خدائی سزا سے بچنے کی اب کوئی سبیل نہیں۔ اور گلو خلاصی کا کوئی ذریعہ نہیں۔ آخر آس توڑ کر بیٹھ رہے۔ اور جن کی حمایت میں پیغمبروں سے لڑتے تھے آج ان سے قطعاً بے تعلقی اور بیزاری کا اظہار کرنے لگے۔

(تفسیرعثمانی)

 

انسان بھلائی مانگنے سے نہیں تھکتا، اور اگر اسے کوئی بُرائی لگ جائے تو ناامید ہو کر مایوس ہو جاتا ہے۔ (۴۹)

اور البتہ اگر اسے کوئی تکلیف پہنچنے کے بعد ہم اپنی طرف سے اپنی رحمت کا مزہ چکھائیں تو وہ ضرور کہے گا یہ میرے لئے ہے ، اور میں خیال نہیں رکھتا کہ قیامت قائم ہونے والی ہے ، اور اگر مجھے اپنے رب کی طرف لوٹایا گیا تو بیشک اس کے پاس میرے لئے البتہ بھلائی ہے ، پس ہم کافروں کو ان کے اعمال سے ضرور آگاہ کریں گے ، اور البتہ ہم انہیں ضرور چکھائیں گے ایک سخت عذاب۔ (۵۰)

تشریح: یعنی انسان کی طبیعت عجیب طرح کی ہے۔ جب دنیا کی ذرا سی بھلائی پہنچے اور کچھ عیش و آرام و تندرستی نصیب ہو، تو مارے حرص کے چاہتا ہے کہ اور زیادہ مزے اڑائے۔ کسی حد پر پہنچ کر اس کی حرص کا پیٹ نہیں بھرتا، اگر بس چلے تو ساری دنیا کی دولت لے کر اپنے گھر میں ڈال لے۔ لیکن جہاں ذرا کوئی افتاد پڑنا شروع ہوئی اور اسباب ظاہری کا سلسلہ اپنے خلاف دیکھا تو پھر مایوس اور نا امید ہوتے بھی دیر نہیں لگتی۔ اس وقت اس کا دل فوراً آس توڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ کیونکہ اس کی نظر صرف پیش آمدہ اسباب پر محدود ہوتی ہے۔ اس قادر مطلق مسبب الاسباب پر اعتماد نہیں رکھتا جو چاہے تو ایک آن میں سلسلہ اسباب کو الٹ پلٹ کر کے رکھ دے۔ اس مایوسی کے بعد اگر فرض کیجیے اللہ نے تکلیف و مصیبت دور کر کے اپنی مہربانی سے پھر عیش و راحت کا سامان کر دیا تو کہنے لگتا ہے ”ہذا الی” یعنی میں نے فلاں تدبیر کی تھی، میری تدبیر اور لیاقت و فضیلت سے یوں ہی ہونا چاہیے تھا، اب نہ خدا کی مہربانی یاد رہی نہ اپنی وہ مایوسی کی کیفیت جو چند منٹ پہلے قلب پر طاری تھی۔ اب عیش و آرام کے نشہ میں ایسا مخمور ہو جاتا ہے کہ آئندہ بھی کسی مصیبت اور تکلیف کے پیش آنے کا خطرہ نہیں رہتا۔ سمجھتا ہے کہ ہمیشہ اسی حالت میں رہوں گا۔ اور اگر کبھی تاثرات کے دوران میں قیامت کا نام سن لیتا ہے تو کہتا ہے کہ میں تو خیال نہیں کرتا کہ یہ چیز کبھی ہونے والی ہے۔ اور فرض کرو ایسی نوبت آ ہی گئی اور مجھ کو لوٹ کر اپنے رب کی طرف جانا ہی پڑا تب بھی مجھے یقین ہے وہاں میرا انجام بہتر ہو گا۔ اگر میں خدا کے نزدیک برا اور نالائق ہوتا تو دنیا میں مجھ کو یہ عیش و بہار کے مزے کیونکر ملتے۔ لہٰذا وہاں بھی توقع ہے کہ یہ ہی معاملہ میرے ساتھ ہو گا۔

فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا :خوش ہو لو کہ اس کفرو غرور کے باوجود وہاں بھی مزے لوٹو گے۔ وہاں پہنچ کر پتہ لگ جائے گا کہ منکروں کو کیسی سخت سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ اور کس طرح عمر بھر کے کرتوت سامنے آتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب ہم انسان پر انعام کرتے ہیں تو وہ منہ موڑ لیتا ہے ، اور اپنا پہلو بدل لیتا ہے ، اور جب اُسے (ذرا) بُرائی لگے تو لمبی چوڑی دعاؤں والا (بن جاتا ہے )۔ (۵۱)

تشریح: یعنی اللہ کی نعمتوں سے متمتع ہونے کے وقت تو منعم کی حق شناسی اور شکر گزاری سے اعراض کرتا اور بالکل بے پروا ہو کر ادھر سے کروٹ بدل لیتا ہے۔ پھر جب کوئی تکلیف اور مصیبت پیش آتی ہے تو اسی خدا کے سامنے ہاتھ پھیلا کر لمبی چوڑی دعائیں مانگنے لگتا ہے۔ شرم نہیں آتی کہ اب اسے کس منہ سے پکارے۔ اور تماشا یہ ہے کہ بعض اوقات اسباب پر نظر کر کے دل اندر سے مایوس ہوتا ہے۔ اس حالت میں بھی بدحواس اور پریشان ہو کر دعا کے ہاتھ بے اختیار خدا کی طرف اٹھ جاتے ہیں۔ قلب میں نا امیدی بھی ہے اور زبان پر یا اللہ بھی، حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یہ سب بیان ہے انسان کے نقصان (و قصور) کا نہ سختی میں صبر ہے نہ نرمی میں شکر۔ ‘

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں کیا تم نے دیکھا (یہ بتلاؤ) اگر (یہ قرآن) اللہ کے پاس سے ہو، پھر تم نے اس سے کفر کیا تو اس سے بڑا گمراہ کون جو دور دراز کی ضد میں ہو؟ (۵۲)

تشریح: اوپر انسان کی طبیعت کا عجیب و غریب نقشہ کھینچ کر اس کی کمزوریوں اور بیماریوں پر نہایت موثر انداز میں توجہ دلائی تھی۔ اب تنبیہ کرتے ہیں کہ یہ کتاب جو تمہاری کمزوریوں پر آگاہ کرنے والی اور انجام کی طرف توجہ دلانے والی ہے ، اگر خدا کے پاس سے آئی ہو (جیسا کہ واقع میں ہے ) پھر تم نے اس کو نہ مانا، اور ایسی اعلیٰ اور بیش قیمت نصائح سے منکر رہ کر اپنی عاقبت کی فکر نہ کی، بلکہ حق کی مخالفت میں دور ہوتے چلے گئے تو کیا اس سے بڑھ کر گمراہی اور نقصان و خسارہ کچھ اور ہو سکتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

ہم جلد اپنی آیات انہیں اطراف عالم میں اور (خود ) ان کی ذات میں دیکھا دیں گے ، یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہ (قرآن) حق ہے ، کیا آپ کے رب کے لئے کافی نہیں کہ وہ ہر شے کا شاہد ہے۔ (۵۳)

تشریح: یعنی قرآن کی حقانیت کے دوسرے دلائل و براہین تو بجائے خود رہے۔ اب ہم ان منکروں کو خود ان کی جانوں میں اور ان کے چاروں طرف سارے عرب بلکہ ساری دنیا میں اپنی قدرت کے وہ نمونے دکھلائیں گے جن سے قرآن اور حال قرآن کی صداقت بالکل روز روشن کی طرح آنکھوں سے نظر آنے لگے۔ وہ نمونے کیا ہیں؟ وہ ہی اسلام کی عظیم الشان اور محیر العقول فتوحات جو سلسلہ اسباب ظاہری کے بالکل برخلاف قرآنی پیشین گوئیوں کے عین مطابق وقوع پذیر ہوئیں۔ چنانچہ معرکہ ”بدر” میں کفار مکہ نے خود اپنی جانوں کے اندر اور ”فتح مکہ” میں مرکز عرب کے اندر اور خلفائے راشدین کے عہد میں تمام جہان کے اندر یہ نمونے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ”آیات” سے عام نشانہائے قدرت مراد ہوں جو غور کرنے والوں کو اپنے وجود میں اور اپنے وجود سے باہر تمام دنیا کی چیزوں میں نظر آتے ہیں جن سے حق تعالیٰ کی وحدانیت و عظمت کا ثبوت ملتا ہے اور قرآن کے بیانات کی تصدیق ہوتی ہے۔ جبکہ وہ ان سنن الٰہیہ اور نوامیس فطریہ کے موافق ثابت ہوتے ہیں جو اس عالم تکوین میں کارفرما ہیں۔ اس قسم کے تمام حقائق کونیہ اور آیات آفاقیہ و انفسیہ کا انکشاف چونکہ لوگوں کو دفعتاً نہیں ہوتا، بلکہ وقتاً فوقتاً بتدریج ان کے چہرہ سے پردہ اٹھتا رہتا ہے۔ اس لیے ”سَنَرِیْہِمْ اَیَاتِنَا” سے تعبیر فرمایا۔ قرآن کی حقانیت کو فرض کرو کوئی نہ مانے ، تو اکیلے خدا کی گواہی کیا تھوڑی ہے جو ہر چیز پر گواہ ہے اور ہر چیز میں غور کرنے سے اس کی گواہی کا ثبوت ملتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

خوب یاد رکھو! بیشک وہ اپنے رب کی ملاقات (روبرو حاضری) سے شک میں ہیں، یاد رکھو وہ ہر شے کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ (۵۴)

تشریح: یعنی یہ اس دھوکے میں ہیں کہ کبھی خدا سے ملنا اور اس کے سامنے جانا نہیں۔ حالانکہ خدا تعالیٰ ہر وقت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے کسی وقت بھی اس کے قبضہ اور احاطہ سے نکل کر نہیں جا سکتے۔ اگر مرنے کے بعد ان کے بدن کے ذرات مٹی میں مل جائیں یا پانی میں بہہ جائیں یا ہوا میں منتشر ہو جائیں تب بھی ایک ایک ذرہ پر اللہ کا علم اور قدرت محیط ہے۔ ان کو جمع کر کے از سر نو زندہ کر دینا کچھ مشکل نہیں۔ تمت سورۃ حم السجدۃ فلہ الحمد والمنۃ۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

 

۴۲۔ سُوْرَۃُ الشُّوْرٰی

 

                تعارف

 

یہ حوامیم کے مجموعے کی تیسری سورت ہے ، دوسری مکی سورتوں کی طرح اس میں بھی توحید، رسالت اور آخرت کے بنیادی عقائد پر زور دیا گیا ہے ، اور ایمان کی قابل تعریف صفات بیان فرمائی گئی ہیں، اسی ذیل میں آیت نمبر:۳۸ میں مسلمانوں کی یہ خصوصیت بیان فرمائی گئی ہے کہ ان کے اہم معاملات آپس کے مشورے سے طے ہوتے ہیں، مشورے کے لئے عربی کا لفظ شوری استعمال کیا گیا ہے ، اسی بنا پر سورت کا نام سورۂ شوری ہے ، سورت کے آخر میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی کسی بھی انسان سے روبرو ہو کر ہم کلام نہیں ہوتا، بلکہ وحی کے ذریعے کلام فرماتا ہے ، اور پھر اس وحی کی مختلف صورتیں بیان فرمائی گئی ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

مَکِّیَّۃٌ

آیات۵۳         رکوعات:۵

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

حا۔ میم۔ (۱) عین۔ سین۔ قاف۔ (۲) اسی طرح آپ کی طرف اور آپ کے پہلوں کی طرف اللہ وحی فرماتا ہے ، غالب حکمت والا۔ (۳)

تشریح: یعنی جس طرح یہ سورت (جو نہایت اعلیٰ و اکمل مضامین پر مشتمل ہے ) آپ کی طرف وحی کی جا رہی ہے ، ایسے ہی اللہ تعالیٰ کی عادت آپ کی طرف اور دوسرے انبیاء کی طرف وحی بھیجنے کی رہی ہے۔ جس سے اس کی شان حکمت و حکومت کا اظہار ہوتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اسی کے لئے ہے جو آسمانوں میں اور زمین میں ہے ، اور بلند عظمت والا ہے۔ (۴)

اور فرشتے اپنے رب کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں، اور ان کے لئے مغفرت طلب کرتے ہیں جو زمین میں ہیں، یاد رکھو! بیشک اللہ ہی بخشنے والا، مہربان ہے۔ (۵)

تشریح: یعنی آسمان پھٹ پڑیں اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کے زور سے ، یا بیشمار فرشتوں کے بوجھ سے ، یا ان کے ذکر کی کثرت سے خاص تاثیر ہو اور پھٹ پڑے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آسمانوں میں چار انگشت جگہ نہیں جہاں کوئی فرشتہ سربسجود نہ ہو۔ اور بعض نے آیت کا مطلب یہ لیا ہے کہ جب مشرکین خدا تعالیٰ کے لیے شریک اور بیٹے بیٹیاں ٹھہراتے ہیں تو خداوند قدوس کی جناب میں یہ ایسی سخت گستاخی ہے جس سے کچھ بعید نہیں کہ آسمان کی اوپر والی سطح تک پھٹ کر ٹکڑے ہو جائے۔ کما قال تعالیٰ فی سورہ مریم ”تَکَادُ السَّمَوَاتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنْشَقُ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ ہَدًّا اَنْ دَعَوْالِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا” ( سورہ مریم آیت ٩٠’٩١) مگر اللہ کی شان مغفرت و رحمت اور ملائکہ کی تسبیح و استغفار کی برکت سے یہ نظام تھما ہوا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جو لوگ ٹھہراتے ہیں اللہ کے سوا (دوسروں کو) رفیق، اللہ انہیں دیکھ رہا ہے ، آپ ان پر ذمہ دار نہیں۔ (۶)

تشریح: یعنی دنیا میں مشرکین کو مہلت تو دیتا ہے لیکن یہ نہ سمجھو کہ وہ ہمیشہ کے لیے بچ گئے۔ ان کے سب اعمال و احوال اللہ کے ہاں محفوظ ہیں جو وقت پر کھول دیے جائیں گے۔ آپ اس فکر میں نہ پڑیں کہ یہ مانتے کیوں نہیں۔ اور نہ ماننے کی صورت میں فوراً تباہ کیوں نہیں کر دیے جاتے۔ آپ ان باتوں کے ذمہ دار نہیں صرف پیغامِ حق پہنچا دینے کے ذمہ دار ہیں۔ آگے ہمارا کام ہے وقت آنے پر ہم ان کا سب حساب چکا دیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور آپ ڈرائیں جمع ہونے کے دن سے ، کوئی شک نہیں اس میں ایک فریق جنت میں ہو گا اور ایک فریق دوزخ میں۔ (۷)

تشریح: ”ام القریٰ” (بڑا گاؤں) فرمایا مکہ معظمہ کو کہ سارے عرب کا مجمع وہاں ہوتا ہے ، اور ساری دنیا میں اللہ کا گھر وہیں ہے۔ اور وہی گھر روئے زمین پر سب سے پہلی عبادت گاہ قرار پائی۔ بلکہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے آفرینش میں اللہ تعالیٰ نے زمین کو اسی جگہ سے پھیلانا شروع کیا جہاں خانہ کعبہ واقع ہے۔ اور مکہ کے آس پاس سے اول ملک عرب اس کے بعد ساری دنیا مراد ہے۔

آگاہ کر دیں کہ ایک دن آنے والا ہے جب تمام اگلے پچھلے خدا کی پیشی میں حساب کے لیے جمع ہوں گے۔ یہ ایک یقینی اور طے شدہ بات ہے۔ جس میں کوئی دھوکا، فریب اور شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ چاہیے کہ اس دن کے لیے آدمی تیار ہو جائے اس وقت کل آدمی دو فرقوں میں تقسیم ہوں گے ایک فرقہ جنتی اور ایک دوزخی۔ سوچ لو کہ تم کو کس فرقہ میں شامل ہونا چاہیے اور اس میں شامل ہونے کے لیے کیا سامان کرنا چاہیے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر اللہ چاہتا تو ضرور انہیں ایک امت بنا دیتا اور لیکن وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے ، اور ظالموں کے لئے نہ کوئی کارساز ہے ، اور نہ مددگار۔ (۸)

تشریح: یعنی بیشک اس کو قدرت تھی اگر چاہتا تو سب کو ایک طرح کا بنا دیتا اور ایک ہی راستہ پر ڈال دیتا۔ لیکن اس کی حکمت اسی کو مقتضی ہوئی کہ اپنی رحمت و غضب دونوں قسم کی صفات کا اظہار فرمائے۔ اس لیے بندوں کے احوال میں اختلاف و تفاوت رکھا کسی کو اس کی فرمانبرداری کی وجہ سے اپنی رحمت کا مورد بنایا اور کسی کو اس کے ظلم و عصیان کی بناء پر رحمت سے دور پھینک دیا۔ جو لوگ رحمت سے دور ہو کر غضب کے مستحق ہوئے اور حکمت الٰہیہ ان پر سزا جاری کرنے کو مقتضی ہوئی ان کا ٹھکانا کہیں نہیں۔ نہ کوئی رفیق اور مددگار ان کو مل سکتا ہے جو اللہ کی سزا سے بچا دے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا انہوں نے اللہ کے سوا کارساز ٹھہرا لئے ہیں؟ پس اللہ ہی کارساز ہے ، وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہی ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۹)

تشریح: یعنی رفیق و مددگار بنانا ہے تو اللہ کو بناؤ جو سارے کام بنا سکتا ہے حتی کہ مردوں کو زندہ کر سکتا ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے یہ بیچارے عاجز و مجبور رفیق تمہارا کیا ہاتھ بٹائیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جس بات میں تم اختلاف کرتے ہو تو اس کا فیصلہ اللہ کے پاس ہے ، وہی ہے اللہ میرا رب اس پر میں نے بھروسہ کیا، اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔ (۱۰)

تشریح: یعنی سب جھگڑوں کے فیصلے اسی کے سپرد ہونے چاہئیں۔ عقائد ہوں یا احکام، عبادات ہوں یا معاملات جس چیز میں بھی اختلاف پڑ جائے اس کا بہترین فیصلہ اللہ کے حوالہ ہے وہ دلائل کونیہ کے ذریعہ سے یا اپنی کتاب میں یا اپنے رسولوں کی زبان پر صراحتًا یا اشارتًا جس مسئلہ کا جو فیصلہ فرما دے بندہ کو حق نہیں کہ اس میں چون و چرا کرے۔ توحید جو اصل اصول ہے۔ اللہ تعالیٰ جب قولاً و فعلاً برابر اس کا حکم دیتا رہا ہے پھر کیونکر جائز ہو گا کہ بندہ ایسے قطعی اور محکم فیصلہ میں جھگڑے ڈالے اور بیہودہ شبہات نکال کر اس کے فیصلہ سے سرتابی کرے۔ میں اسی پر ہمیشہ سے بھروسہ رکھتا ہوں اور ہر معاملہ میں اسی کی طرف رجوع ہوتا رہتا ہوں۔

(تفسیرعثمانی)

 

آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا، اس نے تمہاری جنس سے تمہارے لئے بنائے جوڑے اور چوپایوں کے جوڑے ، وہ تمہیں اس دنیا میں پھیلاتا ہے ، اس کے مثل کوئی شے نہیں اور وہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔ (۱۱)

تشریح: یعنی چوپایوں میں سے ان کے جوڑے نر اور مادہ بنا دیے کہ وہ بھی تمہارے کام آئے ہیں۔ آدمیوں کے الگ اور جانوروں کے الگ جوڑے بنا کر ان کی کتنی نسلیں پھیلا دیں جو تمام روئے زمین پر اپنی روزی اور معیشت کی فکر میں جدوجہد کرتی ہیں۔

لَيْسَ کَمِثْلِہٖ شَيْءٌ :یعنی نہ ذات میں اس کا کوئی مماثل ہے نہ صفات میں، نہ اس کے احکام اور فیصلوں کی طرح کسی کا حکم اور فیصلہ ہے نہ اس کے دین کی طرح کوئی دین ہے ، نہ اس کا کوئی جوڑا ہے نہ ہمسر نہ ہم جنس۔ بیشک ہر چیز کو دیکھتا سنتا ہے ، مگر اس کا دیکھنا بھی مخلوق کی طرح نہیں۔ کمالات اس کی ذات میں سب ہیں، پر کوئی کمال ایسا نہیں جس کی کیفیت بیان کی جا سکے۔ کیونکہ اس کی نظیر کہیں موجود نہیں۔ وہ مخلوق کی مشابہت و مماثلت سے بالکلیہ پاک اور مقدس و منزہ ہے۔ پھر اس کی صفات کی کیفیت کس طرح سمجھ میں آئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اسی کے پاس ہیں آسمانوں اور زمین کی کنجیاں، وہ رزق فراخ کرتا ہے جس کے لئے وہ چاہتا ہے (اور جس پر چاہے ) تنگ کر دیتا ہے ، بیشک وہ ہر شے کو جاننے والا ہے۔ (۱۲)

تشریح: تمام خزانوں کی کنجیاں اس کے ہاتھ میں ہیں۔ اسی کو قبضہ اور اختیار حاصل ہے کہ جس خزانہ میں ہے جس کو جتنا چاہے مرحمت فرمائے۔ تمام جانداروں کو وہ ہی روزی دیتا ہے ، لیکن کم و بیش کی تعیین اپنی حکمت کے موافق کرتا ہے۔ اسی کو معلوم ہے کہ کون چیز کتنی عطا کی مستحق ہے اور اس کے حق میں کس قدر دینا مصلحت ہو گا۔ جو حال روزی کا ہے وہ ہی دوسری عطایا میں سمجھو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے حکم دیا تھا، نوح کو اور جن کو ہم نے آپ کی طرف وحی کی، اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰٰ کو دیا تھا، کہ تم دین قائم کرو، اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو، آپ جس کی طرف انہیں بلاتے ہیں وہ مشرکوں پر گراں گزرتی ہے ، اللہ اپنی طرف (اپنے قرب کے لئے ) جس کو چاہتا ہے چن لیتا ہے ، اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اسے اپنی طرف سے ہدایت دیتا ہے۔ (۱۳)

تشریح: آدم علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے رسول حضرت نوح علیہ السلام ہیں۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ فی الحقیقت تشریع احکام کا سلسلہ ان ہی سے شروع ہوا۔ اور آخری نبی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن پر سلسلہ رسالت و نبوت منتہی ہوا۔ درمیان میں جو انبیاء و رسل آئے ان میں حضرت ابراہیم، حضرت موسٰی اور حضرت عیسٰی علیہم السلام، یہ تین زیادہ مشہور ہوئے جن کے نام لیوا ہر زمانہ میں بکثرت موجود رہے۔ ان پانچوں کو اولوالعزم پیغمبر کہتے ہیں۔ بہرحال اس جگہ حق تعالیٰ نے صاف طور پر بتلا دیا کہ اصل دین ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے۔ کیونکہ عقائد، اخلاق اور اصولِ دیانات میں تمام متفق رہے ہیں۔ البتہ بعض فروع میں حسب مصلحت زمانہ کچھ تفاوت ہوا اور دین کے قائم کرنے کے طور و طریق ہر وقت میں اللہ نے جدا ٹھہرا دیے ہیں۔ جس کو دوسری جگہ فرما دیا۔ ”لکل جعلنا منکم شرعۃً ومنہا جًا۔ ”

سب انبیاء اور ان کی امتوں کو حکم ہوا کہ دین الٰہی کو اپنے قول و عمل سے قائم رکھیں اور اصل دین میں کسی طرح کے تفریق و اختلاف کو روا نہ رکھیں۔

آپ جس دین توحید کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں، مشرکین پر وہ بھاری ہے گویا آپ کوئی نئی اور انوکھی چیز پیش کر رہے ہیں جو کسی نے پہلے پیش نہیں کی تھی، بھلا توحید جیسی صاف، معقول اور متفق علیہ چیز بھی جب بھاری معلوم ہونے لگی اور اس میں بھی لوگ اختلاف ڈالے بدون نہ رہے ، تو جہالت اور بدبختی کی حد ہو گئی۔ سچ تو یہ ہے کہ ہدایت وغیرہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جسے وہ چاہے بندوں میں سے چن کر اپنی طرف کھینچ لے اور اپنی رحمت و موہبت سے مقام قرب و اصطفاء پر فائز فرما دے۔ اور جو لوگ اپنی حسن استعداد سے اس کی طرف رجوع ہوتے اور محنتیں کرتے ہیں ان کی محنت کو ٹھکانے لگانا اور دستگیری کر کے کامیاب فرمانا بھی اسی کا کام ہے۔ قال اللہ تعالیٰ ”وربک یخلق مایشاء ویختار وما کان لہم الخیرۃ۔ ” (القصص، رکوع٧) وقال ”اللہ یصطفی من الملائکۃ رسلًا ومن الناس۔ ” (حج، رکوع١٠) وقال۔ ”والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا۔ ” (عنکبوت، رکوع٧) بہرحال حکمت الٰہی جس کی ہدایت کو مقتضی ہو وہی ہدایت پا سکتا اور فائز المرام ہو سکتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور انہوں نے تفرقہ نہ ڈالا مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس علم (وحی) آ گیا، آپس کی ضد کی وجہ سے ، اور اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک مدت مقررہ تک مہلت دینے کا فیصلہ نہ گزر چکا ہوتا تو ان کے درمیان فیصلہ کر دیا جاتا، اور بیشک جو لوگ ان کے بعد کتاب کے وارث بنائے گئے البتہ وہ اس سے تردد میں ڈالنے والے۔ (۱۴)

تشریح: یعنی توحید اور اصول دین میں جنہوں نے اختلاف ڈالا اور کتب سماویہ میں تحریف کی، وہ کچھ غلط فہمی یا اشتباہ کی وجہ سے نہ تھی۔ ایسی صاف و صریح اور مجمع علیہ تعلیمات میں اشتباہ و التباس کیا ہو سکتا تھا۔ محض نفسانیت، ضد، عداوت اور طلب مال و جاہ وغیرہ اسباب ہیں جو فی الحقیقت اس تفریق و اختلاف مذموم کا باعث ہوئے ہیں۔ بعدہٗ جب اختلاف قائم ہو گئے اور مختلف مذاہب نے الگ الگ مورچے بنا لیے تو پیچھے آنے والی نسلیں عجیب خبط اور دھوکا میں پڑ گئیں اور ایسے شکوک و شبہات پیدا کر لیے گئے جو کسی حال ان کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتے۔ مگر یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے بندوں کو ڈھیل دی۔ اگر وہ چاہتا تو سارے اختلافات کو ایک دم میں ختم کر دیتا۔ لیکن ایسا کرنا تکوین کی غرض اصلی کے منافی تھا۔ اس کی حکمت بالغہ اسی کو مقتضی تھی کہ ان اختلافات کا عملی اور دو ٹوک فیصلہ ایک وقت معین پر زندگی کے دوسرے دور میں کیا جائے۔ اگر یہ بات پہلے سے نہ نکل چکی ہوتی تو سب جھگڑے قصے فوراً ہاتھوں ہاتھ ختم کر دیے جاتے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس آپ اسی کے لئے بلائیں اور اس پر قائم رہیں جیسا کہ میں نے آپ کو حکم دیا ہے اور آپ ان کی خواہشات پر نہ چلیں اور کہیں میں ایمان لے آیا ہر کتاب ہر جو اللہ نے نازل کی اور  مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں، اللہ ہمارا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے ، ہمارے لئے ہمارے اعمال اور تمہارے لئے تمہارے اعمال، ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں، اللہ ہمیں جمع کرے گا، اور اسی کی طرف بازگشت ہے۔ (۱۵)

تشریح: یعنی جب دین حق کے متعلق تفریق و اختلاف کے طوفان چاروں طرف سے اٹھ رہے ہیں تو آپ کا فرض یہ ہے کہ غیر متزلزل عزم کے ساتھ اسی دین و آئین کی طرف لوگوں کو بلاتے رہیں جس کی دعوت آدم و نوح اور ان کے بعد تمام انبیاء دیتے چلے آئے ہیں۔ آپ اپنے پروردگار کے حکم سے ذرا ادھر ادھر نہ ہوں۔ قولاً و فعلاً اور عملاً و حالاً برابر اسی راستہ پر گامزن رہیں جس پر اب تک رہے ہیں۔ مکذبین اور معاندین کی خواہشات کی ذرا پروا نہ کریں اور صاف اعلان کر دیں کہ میں اللہ کی نازل کی ہوئی ہر کتاب پر خواہ وہ تورات ہو یا انجیل یا قرآن یا کوئی صحیفہ جو کسی زمانہ میں کسی پیغمبر پر نازل ہوا ہو سچے دل سے یقین رکھتا ہوں۔ میرا کام پہلی صداقتوں کو جھٹلانا نہیں بلکہ سب کو تسلیم کرنا اور باقی رکھنا ہے اور مجھ کو حکم ہے کہ تمہارے درمیان انصاف کروں۔ جو اختلاف تم نے ڈالے ہیں ان کا منصفانہ فیصلہ دوں اور تبلیغ احکام و شرائع یا فصل خصومات میں عدل و مساوات کا اصول قائم رکھوں۔ ہر وہ سچائی جو کسی جگہ یا کسی مذہب میں ملے اس بے تکلف تسلیم کروں۔ جس طرح تم کو خدا کی بندگی اور فرمانبرداری کی طرف بلاؤں۔ تم سے پہلے میں خود احکام الٰہی کی پوری تعمیل کر کے اس کا کامل فرمانبردار بندہ ہونا ثابت کروں۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تمہارا اور ہمارا رب ایک ہی ہے۔ اس لیے ہم سب کو اسی کی خوشنودی کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو ہمارا تم سے کچھ تعلق نہیں۔ ہم دعوت و تبلیغ کا فرض ادا کر کے سبکدوش ہو چکے ہم میں سے کوئی دوسرے کے عمل کا ذمہ دار نہیں۔ ہر ایک کا عمل اس کے ساتھ ہے وہ ہی اس کے آگے آئے گا۔ چاہیے کہ اس کے نتائج برداشت کرنے کے لیے تیار رہے۔ آگے ہم کو تم سے جھگڑنے اور بحث و تکرار کی ضرورت نہیں۔ سب کو خدا کی عدالت میں حاضر ہونا ہے۔ وہاں جا کر ہر ایک کو پورا پتہ لگ جائے گا کہ وہ دنیا میں کیا کچھ کما کر لایا ہے۔ (تنبیہ) یہ آیات مکی ہیں۔ قتال کی آیتیں مدینہ میں نازل ہوئی۔

(تفسیرعثمانی)

 

ا ور جو لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں اس کے بعد کہ اس کو قبول کر لیا گیا، ان کی حجت (جھگڑا) ان کے رب کے ہاں باطل ہے (بے ثبات) اور ان پر غضب ہے ، اور ان کے لئے سخت عذاب ہے۔ (۱۶)

تشریح: یعنی اللہ کے دین، اس کی کتاب، اور اس کی باتوں کی سچائی جب اعلانیہ ظاہر ہو چکی، حتی کہ بہت سے سمجھدار لوگ اس کو قبول کر چکے اور بہتیرے قبول نہ کرنے کے باوجود ان کی سچائی کا اقرار کرنے لگے۔ اس قدر ظہور و ضوع حق کے بعد جو لوگ خواہ مخواہ جھگڑے ڈالتے یا ماننے والوں سے الجھتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے غضب اور سخت عذاب کے مستوجب ہیں اور ان کے سب جھگڑے جھوٹے اور سب بحثیں باطل ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ ہے جس نے کتاب حق کے ساتھ نازل کی، اور میزان (بھی) اور تجھے کیا خبر شاید قیامت قریب ہو۔ (۱۷)

تشریح: اللہ نے مادی ترازو بھی اتاری جس میں اجسام تلتے ہیں اور علمی ترازو بھی جسے عقل سلیم کہتے ہیں اور اخلاقی ترازو بھی جسے صفت عدل و انصاف کہا جاتا ہے اور سب سے بڑی ترازو دین حق ہے جو خالق و مخلوق کے حقوق کا ٹھیک ٹھیک تصفیہ کرتا ہے اور جس میں بات پوری تلتی ہے نہ کم نہ زیادہ۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس کی وہ لوگ جلدی مچاتے ہیں جو اس پر ایمان نہیں رکھتے ، اور جو لوگ ایمان لائے وہ اس سے ڈرتے ہیں، اور وہ جانتے ہیں کہ یہ حق ہے ، یاد رکھو! بیشک جو لوگ قیامت کے بارے میں جھگڑتے ہیں وہ دور (بڑی) گمراہی میں ہیں۔ (۱۸)

تشریح: یعنی اپنے اعمال و احوال کو کتاب اللہ کی کسوٹی پر کس کر اور دین حق کے ترازو میں تول کر دیکھ لو، کہاں تک کھرے اور پورے اترتے ہیں۔ کیا معلوم ہے کہ قیامت کی گھڑی بالکل قریب ہی آ لگی ہو، آخر دیر کیا ہے ؟ جلدی کیوں نہیں آ جاتی؟ لیکن جن کو اللہ تعالیٰ نے ایمان و یقین سے بہرہ ور کیا ہے ، وہ اس ہولناک گھڑی کے تصور سے لرزتے اور کانپتے ہیں اور خوب سمجھتے ہیں کہ یہ چیز ہونے والی ہے کسی کے ٹلائے ٹل نہیں سکتی۔ اسی لیے اس کی تیاری میں لگے رہتے ہیں۔ اسی سے سمجھ لو کہ ان جھگڑنے والے منکرین کا حشر کیا ہونا ہے۔ جب ایک شخص کو قیامت کے آنے کا یقین ہی نہیں وہ تیاری کیا خاک کرے گا۔ ہاں جتنا اس حقیقت کا مذاق اڑائے گا گمراہی میں اور زیادہ دور ہوتا چلا جائے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے ، وہ جسے چاہتا ہے رزق دیتا ہے اور وہ قوی غالب ہے۔ (۱۹)

تشریح: یعنی باوجود تکذیب و انکار کے روزی کسی کی بند نہیں کرتا۔ بلکہ بندوں کے باریک سے باریک احوال کی رعایت کرتا اور نہایت نرمی اور تدبیر لطیف سے ان کی تربیت فرماتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

جو شخص چاہتا ہے کھیتی آخرت کی، ہم اس کی کھیتی میں اضافہ کر دیتے ہیں، اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اسے اس میں سے کچھ دیتے ہیں اور اس کے لئے نہیں آخرت میں کوئی حصہ۔ (۲۰)

تشریح: ایک نیکی کا دس گناہ ثواب دیں، بلکہ سات سو گنا اور اس سے بھی زیادہ۔ اور دنیا میں ایمان و عمل صالح کی برکت سے جو فراخی و برکت ملے وہ الگ رہی۔ اور دنیا کے واسطے جو محنت کرے موافق قسمت کے ملے ، پھر اس محنت کا فائدہ آخرت میں کچھ نہیں۔ کما قال تعالٰی ”عجلنا لہ فیہا ما نشآءُ لمن نرید ثم جعلنا لہ جہنم۔ ” (بنی اسرائیل، رکوع٢)۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا ان کے کچھ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرر کیا ہے ، جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی، اور اگر ایک قول فیصل نہ ہوتا تو ان کے درمیان (یہیں) فیصلہ ہو جاتا، اور بیشک ظالموں کے لئے عذاب ہے دردناک۔ (۲۱)

تشریح: یعنی اللہ تعالیٰ نے نبیوں کی زبانی آخرت کا اور دین حق کا راستہ بتلا دیا۔ کیا اس کے سوا کوئی اور ہستی ایسی ہے جسے کوئی دوسرا راستہ مقرر کرنے کا حق اور اختیار حاصل ہو کہ وہ اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام ٹھہرا دے۔ پھر آخر ان مشرکین نے اللہ کی وہ راہ چھوڑ کر جو انبیاء علیہم السلام نے بتلائی تھی دوسری راہیں کہاں سے نکال لیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

تم ظالموں کو دیکھو گے وہ اپنے اعمال (کے وبال) سے ڈرتے ہوں گے ، اور وہ ان پر واقع ہونے والا ہے ، اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے ، وہ جنتوں کے باغات میں ہوں گے ، وہ جو چاہیں گے ان کے رب کے ہاں (ملے گا) یہی ہے بڑا فضل۔ (۲۲)

تشریح :تم ظالموں کو دیکھو گے وہ اپنے اعمال (کے وبال) سے ڈرتے ہوں گے ، اور وہ ان پر واقع ہونے والا ہے :یعنی اپنی کرتوت کے نتائج سے خواہ آج نہ ڈریں مگر اس دن ڈرتے ہوں گے اور یہ ڈر ان پر ضرور پڑ کر رہے گا۔ کوئی سبیل رہائی اور فرار کی نہ ہو گی۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے ، وہ جنتوں کے باغات میں ہوں گے :یعنی جنت میں ہر قسم کی جسمانی اور روحانی راحتیں اور اپنے رب کا قرب، یہ ہی بڑا فضل ہے۔ دنیا کے عیش اس کے سامنے کیا حقیقت رکھتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہی ہے وہ جس کی اللہ اپنے بندوں کو بشارت دیتا ہے جو ایمان لائے ا ور انہوں نے اچھے عمل کئے ، آپ فرما دیں میں تم سے قرابت کی محبت کے سوا اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا، اور جو شخص کوئی نیکی کمائے گا (کرے گا) ہم بڑھا دیں گے اس کے لئے اس میں خوبی، بیشک اللہ بخشنے والا قدر دان ہے۔ (۲۳)

تشریح: إِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰى: قرآن جیسی دولت تم کو دے رہا ہوں اور ابدی نجات و فلاح کا راستہ بتلاتا اور جنت کی خوشخبری سناتا ہوں۔ یہ سب محض بوجہ اللہ ہے۔ اس خیر خواہی اور احسان کا تم سے کچھ بدلہ نہیں مانگتا۔ صرف ایک بات چاہتا ہوں کہ تم سے جو میرے نسبی و خاندانی تعلقات ہیں کم از کم ان کو نظر انداز نہ کرو۔ آخر تمہارا معاملہ اقارب اور رشتہ داروں کے ساتھ کیا ہوتا ہے ، بسا اوقات ان کی بے موقع بھی حمایت کرتے ہو۔ میرا کہنا یہ ہے کہ تم اگر میری بات نہیں مانتے نہ مانو، میرا دین قبول نہیں کرتے ، یا میری تائید و حمایت میں کھڑے نہیں ہوتے ، نہ سہی۔ لیکن کم از کم قرابت و رحم کا خیال کر کے ظلم و اذیت رسانی سے باز رہو، اور مجھ کو اتنی آزادی دو کہ میں اپنے پروردگار کا پیغام دنیا کو پہنچاتا رہوں۔

(ملخص تفسیرعثمانی)

 

وَمَنْ يَّقْتَرِفْ حَسَنَۃً نَّزِدْ لَہٗ فِیْہَا حُسْنًا :یعنی انسان بھلائی اور نیکی کا راستہ اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی بھلائی کو بڑھاتا ہے ، آخرت میں تو اجرو ثواب کے اعتبار سے اور دنیا میں نیک کوئی عطا فرما کر اور ایسے آدمی کی لغزشوں کو بھی معاف فرماتا ہے۔ شاید یہاں اس مضمون کا ذکر اس لیے فرمایا کہ کم از کم قرابت کی محبت مطلوب ہے جس کا حاصل ایذاء اور ظلم سے روکنا تھا۔ لیکن جو اس سے زائد نیکی دکھلائے وہ خوب سمجھ لے کہ خدا کے ہاں کسی کی نیکی ضائع نہیں جاتی، بلکہ بڑھتی رہتی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اللہ   پر باندھا ہے جھوٹ، سو اگر اللہ چاہتا تو تمہارے دل پر مہر لگا دیتا، اور اللہ باطل کو مٹاتا ہے ، اور حق کو ثابت کرتا ہے اپنے کلمات سے ، بیشک وہ دلوں کی باتوں کو جاننے والا ہے۔ (۲۴)

تشریح: یعنی اگر (معاذاللہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے گھڑ کر یہ قرآن بنا رہے ہوتے تو اللہ تعالی آپ کے دل پر مہر لگا دیتا، جس کی وجہ سے آپ کو ایسا کلام پیش کرنے پر قدرت ہی نہ ہوتی، کیونکہ اللہ تعالی کی سنت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص نبوت کا جھوٹا دعوی کرے تو اس کی بات کو چلنے نہیں دیتے ، اور باطل کو مٹا دیتے ہیں، اس کے برعکس سچے نبی کے دعوے کو اپنے کلمات کے ذریعے ثابت فرماتا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور  وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے ، اور برائیوں کو معاف کر دیتا ہے ، اور وہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔ (۲۵)

اور وہ (ان کی دعائیں) قبول کرتا ہے جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے ، اور ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ دیتا ہے ، ا ور کافروں کے لئے بڑا عذاب ہے۔ (۲۶)

تشریح: یعنی نبی خدا کا پیغام پہنچاتا ہے ، تم جھوٹ سمجھو یا سچ، اس کے بعد بندوں کا سارا معاملہ خدا سے ہر ایک بندہ سے دنیا اور آخرت میں اس کے حال و استعداد کے موافق معاملہ ہوتا ہے۔ توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور باوجود سب کچھ جاننے کے کتنی برائیوں سے درگزر کرتا ہے جو ایماندار اور نیک بندے اس کی بات سنتے ہیں وہ ان کی دعائیں سنتا اور ان کی طاعات کو شرفِ قبولیت بخشتا ہے اور جس قدر اجر و ثواب کے وہ عام ضابطہ سے مستحق ہوں اپنے فضل سے اس سے کہیں زائد مرحمت فرماتا ہے۔ رہ گئے منکر اور پکے کافر جن کو مرتے دم تک رجوع و توبہ کی توفیق میسر نہیں ہوتی ان کا انجام اگلے جملہ میں مذکور ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر اللہ اپنے بندوں کے لئے رزق کشادہ کر دیتا ہے ، تو وہ زمین میں سرکشی کرتے ، لیکن وہ اندازے سے جس قدر چاہتا ہے اتارتا ہے ، بیشک وہ اپنے بندوں (کی ضرورتوں) سے باخبر ہے ، دیکھنے والا ہے۔ (۲۷)

تشریح: خدا کے خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں۔ اگر چاہے تو اپنے تمام بندوں کو غنی اور تونگر بنا دے لیکن اس کی حکمت مقتضی نہیں کہ سب کو بے اندازہ روزی دے کر خوش عیش رکھا جائے۔ ایسا کیا جاتا تو عموماً لوگ طغیان و تمرد اختیار کر کے دنیا میں اودھم مچا دیتے۔ نہ خدا کے سامنے جھکتے نہ اس کی مخلوق کو خاطر میں لاتے ، جو سامان دیا جاتا کوئی اس پر قناعت نہ کرتا حرص اور زیادہ بڑھ جاتی جیسا کہ ہم بحالت موجودہ بھی عموماً مرفہ الحال لوگوں میں مشاہدہ کرتے ہیں، جتنا آ جائے اس سے زیادہ کے طالب رہتے ہیں، کوشش اور تمنا یہ ہوتی ہے کہ سب کے گھر خالی کر کے اپنا گھر بھر لیں۔ ظاہر ہے کہ ان جذبات کے ماتحت عام غنا اور خوشحالی کی صورت میں کیسا عام اور زبردست تصادم ہوتا اور کسی کو کسی سے دینے کی کوئی وجہ نہ رہتی۔ ہاں دنیا کے عام مذاق و رجحان کے خلاف فرض کیجئے کسی وقت غیر معمولی طور پر کسی مصلح اعظم اور مامور من اللہ کی نگرانی میں عام خوشحالی اور فارغ البالی کے باوجود باہمی آویزش اور طغیان و سرکشی کی نوبت نہ آئے اور زمانہ کے انقلاب عظیم سے دنیا کی طبائع ہی میں انقلاب پیدا کر دیا جائے وہ اس عادی اور اکثری قاعدہ سے مستثنیٰ ہو گا۔ بہرحال دنیا کو بحالت موجودہ جس نظام پر چلاتا ہے اس کا مقتضی یہ ہی ہے کہ غناء عام نہ کیا جائے بلکہ ہر ایک کو اس کی استعداد اور احوال کی رعایت سے جتنا مناسب ہو جانچ تول کر دیا جائے۔ اور یہ خدا ہی کو خبر ہے کہ کس کے حق میں کیا صورت اصلح ہے۔ کیونکہ سب کے اگلے اور پچھے حالات اسی کے سامنے ہیں۔

(تفسیر عثمانی)

 

اس کے بعد جب وہ نا امید ہو گئے تو وہی ہے جو بارش نازل فرماتا ہے ، اور اپنی رحمت پھیلاتا ہے ، اور وہی ہے کارساز، ستودہ صفات۔ (۲۸)

تشریح: یعنی بہت مرتبہ ظاہری اسباب و حالات پر نظر کر کے جب لوگ بارش سے مایوس ہو جاتے ہیں اس وقت حق تعالیٰ باران رحمت نازل فرماتا اور اپنی مہربانی کے آثار و برکات چاروں طرف پھیلا دیتا ہے۔ تاکہ بندوں پر ثابت ہو جائے کہ رزق کی طرح اسباب رزق بھی اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں جیسے وہ روزی ایک خاص اندازہ سے عطا کرتا ہے ، بارش بھی خاص اوقات اور خاص مقدار میں مرحمت فرماتا ہے۔ بات یہ ہے کہ سب کام اسی کے اختیار میں ہیں اور جو کچھ وہ کرے عین حکمت و صواب ہے کیونکہ تمام خوبیاں اور کمالات اس کی ذات میں جمع ہیں۔ اور ہر قسم کی کارسازی اور اعانت و امداد وہیں سے ہو سکتی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اس کی نشانیوں میں سے ہے پیدا کرنا آسمانوں کا اور زمین کا، اور جو اس نے ان کے درمیان چوپائے پھیلائے ، اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ (۲۹)

تشریح: یعنی جس طرح رزق پہنچانا اور اس کے اسباب (بارش وغیرہ کا) مہیا کرنا اس کے قبضہ میں ہیں۔ ان اسباب کے اسبابِ سماویہ و ارضیہ اور ان کے آثار و نتائج بھی اسی کی مخلوق ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچی تو وہ اس کے سبب (پہنچی) جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا (کیا) اور بہت سے (گناہ) معاف (ہی) کر دیتا ہے۔ (۳۰)

تشریح: یعنی جیسی نعمتیں ایک خاص اندازہ اور خاص اوقات و احوال کی رعایت سے دی جاتی ہیں، مصائب کا نزول بھی خاص اسباب و ضوابط کے ماتحت ہوتا ہے۔ مثلاً بندوں کو جو کوئی سختی اور مصیبت پیش آئے اس کا سبب قریب یا بعید بندوں ہی کے بعض اعمال و افعال ہوتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے ایک آدمی غذا وغیرہ میں احتیاط نہ کرنے سے خود بیمار پڑ جاتا ہے بلکہ بعض اوقات ہلاک ہو جاتا ہے یا بعض اوقات والدہ کی بد پرہیزی بچہ کو مبتلائے مصیبت کر دیتی ہے ، یا کبھی کبھی ایک محلے والے یا شہر والے کی بے تدبیری اور حماقت سے پورے محلہ اور شہر کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ ہی حال روحانی اور باطنی بد پرہیزی اور بے تدبیری کا سمجھ لو۔ گویا دنیا کی ہر مصیبت بندوں کے بعض اعمال ماضیہ کا نتیجہ ہے۔ اور مستقبل میں ان کے لیے تنبیہ اور امتحان کا موقع بہم پہنچاتی ہے اور یہ اس پر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بندوں کے بہت گناہوں سے درگزر کرتی ہے۔ اگر ہر ایک جرم پر گرفت ہوتی تو زمین پر کوئی متنفس بھی باقی نہ رہتا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یہ خطاب عاقل بالغ لوگوں کو ہے گنہگار ہوں یا نیک۔ مگر نبی اس میں داخل نہیں (اور چھوٹے بچے بھی شامل نہیں) ان کے واسطے اور کچھ ہو گا۔ اور سختی دنیا کی بھی آئے گی۔ اور قبر کی اور آخرت کی۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

اور تم زمین میں (اللہ تعالی کو) عاجز کرنے والے نہیں ہو، اور اللہ کے سوا تمہارے لئے نہ کوئی کارساز ہے اور نہ کوئی مددگار۔ (۳۱)

تشریح: یعنی محض اپنی مہربانی سے معاف کرتا ہے ورنہ جس جرم پر سزا دینا چاہے ، مجرم بھاگ کر کہیں روپوش نہیں ہو سکتا۔ اور نہ اس کے سوا کوئی دوسرا حمایت و امداد کے لیے کھڑا ہو سکتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اس کی نشانیوں میں سے سمندر میں پہاڑوں جیسے جہاز ہیں۔ (۳۲)

تشریح: یعنی جیسے زمین کی سطح پر پہاڑ ابھرے ہوئے ہیں سمندر کی سطح پر بڑے بڑے جہاز ابھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اگر وہ چاہے تو ہوا کو ٹھہرا دے تو اس کی سطح پر وہ کھڑے رہ جائیں، بیشک اس میں نشانیاں ہیں ہر صبر کرنے والے شکر کرنے والے کے لئے۔ (۳۳)

تشریح: یعنی ہوا بھی اللہ کے قبضہ میں ہے۔ اگر ہوا کو ٹھہرا رکھے ، چلنے نہ دے تو تمام بادبانی جہاز دریا کی پیٹھ پر جہاں کے تہاں کھڑے رہ جائیں۔ غرض پانی اور ہوا سب اسی کے زیر فرمان ہیں۔

دریائی سفر میں موافق اور ناموافق دونوں قسم کے حالات سے سابقہ پڑتا ہے۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ انسان موافق حالات پر شکر اور ناموافق حالات پر صبر کرتا ہوا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور نعمت کو پہچانے۔

(تفسیرعثمانی)

 

یا وہ انہیں ان کے اعمال کے سبب ہلاک کر دے یا بہتوں کو معاف کر دے۔ (۳۴)

تشریح: یعنی چاہے تو مسافروں کے بعض اعمال کی پاداش میں جہازوں کو تباہ کر ڈالے اور اس تباہی کے وقت بھی بعض کو معاف فرما دے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جان لیں وہ لوگ جو ہماری آیات میں جھگڑتے ہیں، کہ ان کے لئے کوئی خلاصی (جائے فرار) نہیں۔ (۳۵)

تشریح: یعنی تباہ اس لیے کیے جائیں کہ ان کے بعض اعمال کا بدلہ ہو اور بڑے بڑے جھگڑالو بھی دیکھ لیں کہ ہاں! خدائی گرفت سے نکل کر بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”جو لوگ ہر چیز اپنی تدبیر سے سمجھتے ہیں اس وقت عاجز رہ جائیں گے۔ ” کوئی تدبیر بن نہ پڑے گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس تمہیں جو کچھ کوئی شے دی گئی ہے تو وہ دنیوی زندگی کا (نا پائیدار) فائدہ ہے ، اور جو اللہ کے پاس ہے وہ بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے ، ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے اور اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ (۳۶)

تشریح: یعنی یہ تمام باتیں سننے کے بعد انسان کو چاہیے کہ اللہ کو راضی رکھنے کی فکر کرے اس چند روزہ زندگانی اور عیش فانی پر مغرور نہ ہو۔ اور خوب سمجھ لے ایمانداروں کو جو عیش و آرام اللہ کے ہاں ملے گا وہ اس دنیا کے عیش و آرام سے بہتر ہے اور پائدار بھی۔ نہ اس میں کسی طرح کی کدورت ہو گی نہ فناء و زوال کا کھٹکا ہو گا۔ یعنی یہ تمام باتیں سننے کے بعد انسان کو چاہیے کہ اللہ کو راضی رکھنے کی فکر کرے اس چند روزہ زندگانی اور عیش فانی پر مغرور نہ ہو۔ اور خوب سمجھ لے ایمانداروں کو جو عیش و آرام اللہ کے ہاں ملے گا وہ اس دنیا کے عیش و آرام سے بہتر ہے اور پائدار بھی۔ نہ اس میں کسی طرح کی کدورت ہو گی نہ فناء و زوال کا کھٹکا ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جو لوگ بچتے ہیں بڑے گناہوں سے اور بے حیائیوں سے اور جب وہ غصے میں ہوتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں۔ (۳۷)

تشریح: اس کا بیان سورہ ”نسا” کی آیت ”ان تجتنبوا کبائر ماتنہون عنہ نکفر عنکم سیاتکم” کے فوائد میں گزر چکا، وہاں ملاحظہ کر لیا جائے۔ شاید یہاں ”کبائر الاثم” سے وہ بڑے گناہ مراد ہوں جو قوت نظریہ کی غلط کاری سے پیدا ہوئے ہیں۔ مثلاً عقائد بدعیہ اور ”فواحش” وہ گناہ جن میں قوتِ شہوانیہ کی بے اعتدالی کو دخل ہو۔ آگے ”واذاما غضبوا ہم یغفرون” میں تو ظاہر ہے کہ قوتِ غضبیہ کی روک تھام کی گئی ہے۔ واللہ اعلم۔ (تفسیرعثمانی)

 

اور جن لوگوں نے قبول کیا اپنے رب کا فرمان اور انہوں نے نماز قائم کی، اور ان کا کام باہم مشورہ (پر مبنی ہوتا ہے) اور جو ہم نے انہیں دیا اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔ (۳۸)

تشریح: مشورہ سے کام کرنا اللہ کو پسند ہے دین کا ہو یا دنیا کا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مہمات امور میں برابر اصحاب رضی اللہ عنہم سے مشورہ فرماتے تھے اور صحابہ آپس میں مشورہ کرتے تھے ، حروب وغیرہ کے متعلق بھی اور بعض مسائل و احکام کی نسبت بھی۔ بلکہ خلافت راشدہ کی بنیاد ہی شوریٰ پر قائم تھی۔ یہ ظاہر ہے کہ مشورہ کی ضرورت ان کاموں میں ہے جو مہتم بالشان ہوں اور جو قرآن و سنت میں منصوص نہ ہوں۔ جو چیز منصوص ہو اس میں رائے و مشورہ کے کوئی معنی نہیں۔ اور ہر چھوٹے بڑے کام میں اگر مشورہ ہوا کرے تو کوئی کام نہ ہو سکے ، احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مشورہ ایسے شخص سے لیا جائے جو عاقل و عابد ہو۔ ورنہ اس کی بیوقوفی یا بددیانتی سے کام خراب ہو جانے کا اندیشہ رہے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جو لوگ (ایسے ہیں کہ) جب ان پر ظلم و تعدی پہنچے تو وہ بدلہ لیتے ہیں۔ (۳۹)

تشریح: یعنی جہاں معاف کرنا مناسب ہو معاف کرے مثلاً ایک شخص کی حرکت پر غصہ آیا اور اس نے ندامت کے ساتھ اپنے عجز و قصور کا اعتراف کر لیا۔ انہوں نے معاف کر دیا۔ یہ محمود ہے اور جہاں بدلہ لینا مصلحت ہو مثلاً کوئی شخص خواہ مخواہ چڑھتا ہی چلا آئے اور ظلم و زور سے دبانے کی کوشش کرے ، یا جواب نہ دینے سے اس کا حوصلہ بڑھتا ہے یا ہماری شخصی حیثیت سے قطع نظر کر کے دین کی اہانت یا جماعت مسلمین کی تذلیل ہوتی ہے ، ایسی حالت میں بدلہ لیتے ہیں، وہ بھی بقدر اس کی زیادتی کے جرم سے زائد سزا نہیں دیتے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور بُرائی کا بدلہ اسی جیسی بُرائی ہے ، سو جس نے معاف کر دیا اور اصلاح (درستی) کر دی تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے ، بیشک وہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔ (۴۰)

تشریح: بدلہ کے طور پر جو برائی کی جائے وہ حقیقتاً نہیں محض سورتًا برائی ہوتی ہے۔ ”سیئۃٍ” کا اطلاق اس پر مشاکلۃً کیا گیا۔

ظلم اور زیادتی تو اللہ کے ہاں کسی حالت میں پسند نہیں۔ بہترین خصلت یہ ہے کہ آدمی جتنا بدلہ لے سکتا ہے اس سے بھی درگزر کرے۔ بشرطیکہ درگزر کرنے میں بات سنورتی ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور البتہ جس نے بدلہ لیا اپنے اوپر ظلم کے بعد، سو یہ لوگ ہیں جن پر کوئی راہِ (الزام) نہیں۔ (۴۱)

تشریح: یعنی مظلوم ظالم سے بدلہ لینا چاہے تو اس میں الزام اور گناہ کچھ نہیں۔ ہاں معاف کر دینا افضل و احسن ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس کے سوا نہیں کہ الزام اُن پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں، اور زمین میں ناحق فساد مچاتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (۴۲)

تشریح: یعنی ابتداء ظلم کرتے ہیں یا انتقام لینے میں حد استحقاق سے بڑھ جاتے ہیں۔ (تفسیرعثمانی)

 

اور البتہ جس نے صبر کیا اور معاف کر دیا تو بیشک یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ (۴۳)

تشریح: یعنی غصہ کو پی جانا اور ایذائیں برداشت کر کے ظالم کو معاف کر دینا بڑی ہمت اور حوصلہ کا کام ہے۔ حدیث میں ہے کہ جس بندہ پر ظلم ہو اور وہ محض اللہ کے واسطے اس سے درگز کرے تو ضرور ہے کہ اللہ اس کی عزت بڑھائے گا اور مدد کرے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جس کو اللہ گمراہ کر دے تو اس کے لئے نہیں اس کے بعد کوئی کارساز، اور تم ظالموں کو دیکھو گے کہ جب وہ عذاب دیکھیں گے (تو) وہ کہیں گے کیا لوٹنے کی کوئی راہ ہے ؟ (۴۴)

تشریح: یعنی اللہ کی توفیق و دستگیری ہی سے آدمی کو عدل و انصاف اور صبر و غفر کی اعلیٰ خصلتیں حاصل ہو سکتی ہیں، وہ ان بہترین اخلاق کی طرف راہ نہ دے تو کون ہے جو ہاتھ پکڑا کر اخلاقی پستی اور رسوائی کے گڑھے سے ہم کو نکال سکے۔

وَتَرَى الظَّالِمِيْنَ :اور تم ظالموں کو دیکھو گے کہ جب وہ عذاب دیکھیں گے تو وہ کہیں گے کیا لوٹنے کی کوئی راہ ہے ؟یعنی کوئی ایسی سبیل بھی ہے کہ ہم دنیا کی طرف پھر واپس کر دیے جائیں اور اس مرتبہ وہاں سے خوب نیک بن کر حاضر ہوں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تو دیکھے گا جب وہ عاجزی کرتے ہوئے ذلت سے دوزخ پر پیش کئے جائیں گے تو وہ دیکھتے ہوں گے نیم کشادہ گوشۂ چشم سے ، اور مؤمن کہیں گے خسارہ پانے والے وہ ہیں جنہوں نے خسارے میں ڈالا اپنے آپ کو اور اپنے متعلقین کو روزِ قیامت، خوب یاد رکھو! ظالم بیشک ہمیشہ رہنے والے عذاب میں ہوں گے۔ (۴۵)

تشریح: یعنی ایک سہمے ہوئے مجرم کی طرح خوف اور ذلت و ندامت کے مارے نیچی نظر سے دیکھتے ہوں گے۔ کسی سے پوری طرح آنکھ نہیں ملا سکیں گے۔

اور یہ بدبخت اپنے ساتھ اپنے متعلقین اور گھر والوں کو بھی لے ڈوبے۔ سبھی کو تباہ و برباد کر کے چھوڑا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ان کے لئے نہیں ہیں کوئی کارساز جو انہیں اللہ کے سوا مدد دیں، اور جس کو اللہ گمراہ کر دے اس کے لئے (ہدایت کا) کوئی راستہ نہیں۔ (۴۶)

تم اپنے رب کا فرمان اس سے قبل قبول کر لو کہ وہ دن آئے جس کو اللہ (کی جانب) سے کوئی پھیرنے والا نہیں، تمہارے لئے نہیں اس دن کوئی پناہ، اور تمہارے لئے کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں۔ (۴۷)

پھر اگر وہ منہ پھیر لیں تو ہم نے آپ کو ان پر نہیں بھیجا نگہبان، آپ کے ذمے (پیغام) پہنچانے کے سوا نہیں، اور بیشک جب ہم انسان کو اپنی طرف سے رحمت (کا مزہ) چکھاتے ہیں تو وہ اس سے خوش ہو جاتا ہے ، اور اگر انہیں اس کے بدلے کوئی بُرائی پہنچے جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا، تو بیشک انسان بڑا ناشکرا ہے۔ (۴۸)

تشریح: یعنی آپ ذمہ دار نہیں کہ زبردستی منوا کر چھوڑیں۔ آپ کا فرض پیغام الٰہی پہنچا دینا ہے۔ وہ آپ ادا کر رہے ہیں۔ یہ نہیں مانتے تو جائیں جہنم میں۔

ان کے اعراض سے آپ غمگین نہ ہوں۔ انسان کی طبیعت ہی ایسی واقع ہوئی ہے (الا من شاء اللہ) کہ اللہ انعام و احسان فرمائے تو اکڑنے اور اترانے لگتا ہے۔ پھر جہاں اپنی کرتوت کی بدولت کوئی افتاد پڑ گئی، بس سب نعمتیں بھول جاتا ہے اور ایسا ناشکرا بن جاتا ہے کہ گویا کبھی اس پر اچھا وقت آیا ہی نہ تھا۔ خلاصہ یہ کہ فراخی اور عیش کی حالت ہو یا تنگی اور تکلیف کی۔ اپنی حد پر قائم نہیں رہتا البتہ مومنین قانتین کا شیوہ یہ ہے کہ سختی پر صبر اور فراخی کی حالت میں منعم حقیقی کا شکر ادا کرتے ہیں اور کسی حال اس کے انعامات و احسانات کو فراموش نہیں کرتے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت، جو وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ، وہ عطا کرتا ہے جس کو وہ چاہے بیٹیاں، اور عطا کرتا ہے جس کو وہ چاہتا ہے بیٹے۔ (۴۹)

یا انہیں جمع کر دیتا (جوڑے دیتا ہے ) بیٹے اور بیٹیاں، اور جس کو وہ چاہتا ہے بانجھ (بے اولاد) کر دیتا ہے ، بیشک وہ جاننے والا، قدرت رکھنے والا ہے۔ (۵۰)

تشریح: یعنی سختی ہو یا نرمی سب احوال خدا کے بھیجے ہوئے ہیں۔ آسمان و زمین میں سب جگہ اسی کی سلطنت اور اسی کا حکم چلتا ہے جو چیز چاہے پیدا کرے اور جو چیز جس کو چاہے دے ، جس کو چاہے نہ دے۔ دنیا کے رنگا رنگ حالات کو دیکھ لو۔ کسی کو سرے سے اولاد نہیں ملتی، کسی کو ملتی ہے تو صرف بیٹیاں، کسی کو صرف بیٹے ، کسی کو دونوں، جڑواں یا الگ الگ۔ اس میں کسی کا کچھ دعویٰ نہیں۔ وہ مالک حقیقی ہی جانتا ہے کہ کس شخص کو کس حالت میں رکھنا مناسب ہے اور و ہی اپنے علم و حکمت کے موافق تدبیر کرتا ہے کسی کی مجال نہیں کہ اس کے ارادہ کو روک دے یا اس کی تخلیق و تقسیم پر حرف گیری کر سکے ، عاقل کا کام یہ ہے کہ ہر قسم کے نرم و گرم حالات میں اسی کی طرف رجوع کرے اور ہمیشہ اپنی ناچیز حقیقت کو پیش نظر رکھ کر تکبر یا کفران نعمت سے باز رہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور کسی بشر کو (مجال) نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی (اشارے ) سے یا پردے کے پیچھے سے ، یا وہ کوئی فرشتہ بھیجے ، پس وہ اس کے حکم سے جو (اللہ) چاہے وہ وحی کرے (پیغام پہنچائے ) بیشک وہ بلند تر حکمت والا ہے۔ (۵۱)

تشریح: اس دنیا میں کسی انسان سے اللہ تعالی روبرو ہو کر ہم   کلام نہیں ہوتا، البتہ تین طریقوں سے کوئی طریقہ اختیار فرماتا ہے ، ایک کو وحی سے تعبیر فرمایا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو بات فرمانا چاہتا ہے ، وہ کسی کے دل میں ڈال دیتا ہے ، دوسرے کو پردے کے پیچھے سے تعبیر فرمایا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی صورت نظر آئے بغیر کوئی بات کانوں کے ذریعے ہی سنادی جاتی ہے ، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوا تھا، اور تیسرا طریقہ یہ ہے کہ اپنا کلام کسی فرشتے کے ذریعے کسی پیغمبر کے پاس بھیجا جاتا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے قرآن کو وحی کیا، آپ نہ جانتے تھے کتاب کیا ہے ؟اور نہ ایمان (کی تفصیل) لیکن ہم نے اسے نور بنا دیا، اس سے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں، اور بیشک آپ ضرور رہنمائی کرتے ہیں سیدھے راستے کی طرف۔ (۵۲)

تشریح: روح سے مراد قرآن کریم اور اس کے احکام ہیں، کیونکہ وہ انسان کے لئے روحانی زندگی کا باعث ہیں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ روح سے مراد حضرت جبرئیل علیہ السلام ہوں جنہیں روح القدس بھی کہا جاتا ہے اور قرآن کریم کے نزول کے لئے اللہ تعالی نے انہی کو واسطہ بنایا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

(یعنی) اللہ کا راستہ، اسی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ، یاد رکھیں تمام کاموں کی بازگشت اللہ کی طرف ہے۔ (۵۳)

تشریح: یعنی سیدھی راہ وہ جس پر چل کر آدمی خدائے واحد تک پہنچتا ہے۔ جو اس راہ سے بھٹکا خدا سے الگ ہوا۔ جب سب کاموں کا انجام اسی کی طرف ہے تو چاہیے کہ آدمی شروع سے اس انجام کو سوچ لے اور اپنے اختیار سے ایسے راستہ پر چلے جو سیدھا اس کی بارگاہ تک پہنچنے والا ہو۔ اللہم اہدنا الصراط المستقیم وثبتنا علیہ۔ تم سورۃ الشوریٰ۔

(تفسیر عثمانی)

٭٭

 

 

 

 

۴۳۔ سُوْرَۃُ الزُّخْرُفِ

                تعارف

 

اس سورت کا مرکزی موضوع مشرکینِ مکہ کی تردید ہے جس میں ان کے اس عقیدے کا خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے جس کی رو سے وہ فرشتوں کو اللہ تعالی کی بیٹیاں کہتے تھے ، نیز وہ اپنے دین کو صحیح قرار دینے کے لئے یہ دلیل دیتے تھے کہ ہم نے اپنے باپ داداؤں کو اسی طریقے پر پایا ہے ، اس کے جواب میں اول تو یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ قطعی عقائد کے معاملے میں باپ داداؤں کی تقلید بالکل غلط طرزِ عمل ہے ، اور پھر   حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حوالہ دے کر فرمایا گیا ہے کہ اگر باپ داداؤں ہی کے پیچھے چلنا ہے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کیوں نہیں کرتے ، جنہوں نے شرک سے کھلم کھلا بیزاری کا اعلان فرمایا تھا، مشرکین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اعتراضات کیا کرتے تھے اس سورت میں ان کا جواب بھی دیا گیا ہے ، ان کا ایک اعتراض یہ تھا کہ اگر اللہ تعالی کو کوئی پیغمبر بھیجنا ہی تھا تو کسی دولت مند سردار کو اس مقصد کے لئے کیوں نامزد نہیں کیا گیا، اللہ تعالی نے اس سورت میں یہ واضح فرمایا ہے کہ دنیوی مال و دولت کاانسان کے تقدس اور اللہ تعالی کے تقرب سے کوئی تعلق نہیں ہے ، اللہ تعالی کافروں کو بھی سونا چاندی اور دنیا بھر کی دولت دے سکتا ہے ، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ اللہ تعالی کے مقرب ہیں، کیونکہ آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں اس مال و دولت کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، اس سورت نے یہ بھی واضح فرمایا ہے کہ دنیا میں اللہ تعالی معاشی وسائل کی تقسیم اپنی حکمت کے مطابق ایک خاص انداز سے فرماتے ہیں، جس کے لئے ایک مستحکم نظام بنایا گیا ہے ، اسی ذیل میں اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا واقعہ بھی اختصار کے ساتھ بیان فرمایا ہے ، کیونکہ فرعون کو بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر یہی اعتراض تھا کہ وہ دنیوی مال و دولت کے اعتبار سے کوئی بڑی حیثیت نہیں رکھتے ، اور فرعون کے پاس سب کچھ ہے ، لیکن انجام یہ ہوا کہ فرعون اپنے کفر کی وجہ سے غرق ہوا، اور حضرت موسیٰ علیہ السلام غالب آ کر رہے ، نیز اس سورت میں حضرت عیسیٰٰ علیہ السلام کا بھی مختصر ذکر فرما کر ان کی صحیح حیثیت واضح فرمائی گئی ہے۔

‘‘زخرف’’ عربی زبان میں سونے کو کہتے ہیں اور اس سورت کی آیت نمبر :۳۵ میں اس کا ذکر اس سیاق میں کیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالی چاہے تو سارے کافروں کو سونے ہی سونے سے نہال کر دے ، اسی وجہ سے اس سورت کا نام زخرف ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مَکِّیَّۃٌ

آیات۸۹         رکوعات:۷

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

حا، میم۔ (۱) قسم ہے واضح کتاب کی۔ (۲) بیشک ہم نے اسے بنایا عربی زبان میں قرآن، تاکہ تم سمجھو۔ (۳) اور بیشک وہ (قرآن) ہمارے پاس لوح محفوظ میں ہے ، بلند مرتبہ، با حکمت۔ (۴)

تشریح: یعنی وجوہ اعجاز اور اسرار عظیمہ پر مشتمل ہونے کی وجہ سے نہایت بلند اور تبدیل و تحریف سے محفوظ رہنے کی وجہ سے نہایت مستحکم ہے۔ اس کے دلائل و براہین نہایت مضبوط اور اس کے احکام غیر منسوخ ہیں۔ کوئی حکمت سے خالی نہیں اور تمام مضامین اصلاح معاش و معاد کی اعلیٰ ترین ہدایات پر مشتمل اور حکیمانہ خوبیوں سے مملو ہیں۔ اور قرآن کے ان تمام محاسن پر جو خود قرآن ہی شاہد ہے۔ آفتاب کی آمد دلیل آفتاب۔ (تنبیہ) قرآن اور تمام کتب سماویہ نزول سے پہلے لوح محفوظ میں لکھی گئی ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا ہم یہ نصیحت تم سے اعراض کر کے اس لئے ہٹا لیں کہ تم حد سے گزرنے والے لوگ ہو۔ (۵)

تشریح: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”اس سبب سے کہ تم نہیں مانتے کیا ہم حکم کا بھیجنا موقوف کریں گے۔ ” یعنی ایسی توقع مت رکھو اللہ کی حکمت و رحمت اسی کو مقتضی ہے کہ باوجود تمہاری زیادتیوں اور شرارتوں کے کتاب الٰہی کا نزول اور دعوت و نصیحت کا سلسلہ بند نہ کیا جائے۔ کیونکہ بہت سی سعید روحیں اس سے مستفید ہوتی ہیں۔ اور منکرین پر کامل طور سے اتمام حجت ہوتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے پہلے لوگوں میں بہت سے نبی بھیجے۔ (۶)

اور ان کے پاس نہیں آیا کوئی نبی مگر وہ اس سے ٹھٹھا کرتے تھے۔ (۷)

تشریح:  یعنی پہلے رسولوں کے ساتھ بھی استہزاء کیا گیا اور ان کی تعلیمات کو جھٹلایا گیا۔ مگر اس کی وجہ سے پیغامبری کا سلسلہ مسدود نہیں ہوا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس ہم نے اُن (اہل مکہ) سے زیادہ سخت پکڑنے والے لوگوں کو ہلاک کیا ہے اور گزر چکی ہے پہلے لوگوں کی حالت۔ (۸)

تشریح: یعنی عبرت کے لیے ان مکذبین کی تباہی کی مثالیں پیش آ چکیں اور پہلے مذکور ہو چکیں جو زور و قوت میں تم سے کہیں زیادہ تھے۔ جب وہ اللہ کی پکڑ سے نہ بچ سکے تو تم کا ہے پر مغرور ہوتے ہو۔ آگے اللہ تعالیٰ کی عظمت و قدرت اور کمال تصرف کا ذکر کرتے ہیں جو ایک حد تک ان کے نزدیک بھی مسلم تھا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر تم ان سے پوچھو کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا؟ تو وہ ضرور کہیں گے انہیں پیدا کیا ہے غالب، علم والے (اللہ) نے۔ (۹)

وہ جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنایا، اور تمہارے لئے اس میں بنائے راستے ، تاکہ تم راہ پاؤ۔ (۱۰)

تشریح: یعنی جہاں تک انسان بستے ہیں آپس میں مل سکیں، ایک دوسرے تک راہ پائیں اور چل پھر کر دنیاوی و اُخروی مقاصد میں کامیابی کا راستہ معلوم کر لیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ جس نے ایک اندازے کے ساتھ آسمانوں سے پانی اتارا پھر ہم نے اس سے زندہ کیا مردہ شہر کو، اسی طرح تم (قبروں سے ) نکالے جاؤ گے۔ (۱۱)

تشریح: یعنی ایک خاص مقدار میں جو اس کی حکمت کے مناسب اور اس کے علم میں مقدور تھی۔ جس طرح مردہ زمین کو بذریعہ بارش زندہ اور آباد کر دیتا ہے۔ ایسے ہی تمہارے مردہ جسموں میں جان ڈال کر قبروں سے نکال کھڑا کرے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ جس نے ان سب کے جوڑے بنائے اور تمہارے لئے بنائیں کشتیاں اور چوپائے ، جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ (۱۲)

تشریح: یعنی دنیا میں جتنی چیزوں کے جوڑے ہیں اور مخلوق کی جتنی قسمیں اور متماثل یا متقابل انواع ہیں سب کو خدا ہی نے پیدا کیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

تاکہ تم ان کی پیٹھوں پر ٹھیک طور سے بیٹھو، پھر تم یاد کرو اپنے رب کی نعمت کو، جب تم اس پر ٹھیک بیٹھ جاؤ، اور تم کہو پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے لئے مسخر (تابع فرمان) کیا اور ہم اس کو قابو میں لانے والے نہ تھے۔ (۱۳)

اور ہم اپنے رب کی طرف ضرور لوٹ کر جانے والے ہیں۔ (۱۴)

تشریح: یعنی خشکی میں بعض چوپایوں کی پیٹھ پر اور دریا میں کشتی پر سوار ہوتے۔ چوپایوں یا کشتی پر سوار ہوتے وقت اللہ کا احسان دل سے یاد کرو کہ ہم کو اس نے اس قدر قوی اور ہنرمند بنا دیا کہ اپنی عقل و تدبیر وغیرہ سے ان چیزوں کو قابو میں لے آئے۔ یہ محض خدا کا فضل ہے ورنہ ہم میں اتنی طاقت اور قدرت کہاں تھی کہ ایسی ایسی چیزوں کو مسخر کر لیتے۔ نیز دلی یاد کے ساتھ زبان سے سواری کے وقت یہ الفاظ کہنے چاہئیں۔ ”سبحن الذی سخرلنا ہذا وما کنا لہ مقرنین وانا الی ربنا لمتقلبون۔ ” اور بھی اذکار و ادعیہ احادیث میں آئی ہیں جو کتب حدیث و تفسیر میں مذکور ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور انہوں نے اس کے بندوں میں سے اس کے لئے بنا لیا ہے جزو (لخت جگر) بیشک انسان صریح ناشکرا ہے۔ (۱۵)

تشریح: (آیت نمبر :۱۵ سے آیت نمبر: ۱۸ تک کی تشریح: آیت نمبر:۱۸ پر ملاحظہ فرمائیں)

 

کیا اس نے اپنی مخلوق میں سے (اپنے لئے ) بیٹیاں بنا لیں؟اور تمہیں مخصوص کیا (نوازا) بیٹوں کے ساتھ؟ (۱۶)

اور جب ان میں سے کسی ایک کو خوشخبری دی جائے جس کی مثال اس نے اللہ کے لئے (بیٹی کی) دی تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے ، اور وہ پُر از غم ہو جاتا ہے۔ (۱۷)

کیا وہ جو زیور میں پرورش پائے اور وہ بحث مباحثہ میں غیر واضح ہو (اسے اللہ کی بیٹی کہتے ہیں)۔ (۱۸)

تشریح: مشرکینِ عرب یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ فرشتے اللہ تعالی کی بیٹیاں ہیں، ، یہاں سے ان کے اس عقیدے کی تردید کی جا رہی ہے اور اس کے خلاف چار دلیلیں پیش کی گئی ہیں، ایک یہ کہ اللہ تعالی کے لئے کوئی اولاد ہونا ناممکن ہے ، اس لئے کہ اولاد ماں باپ کا جزء ہوتی ہے ، کیونکہ وہ ان کے نطفے سے پیدا ہوتی ہے ، اور اللہ تعالی کا کوئی جزء نہیں ہو سکتا وہ ہر قسم کے اجزا سے پاک ہے ، لہذا اس کی کوئی اولاد نہیں ہو سکتی، دوسرے یہ کہ ان مشرکین کا اپنا حال یہ ہے کہ وہ اپنے لئے بیٹیوں کی ولادت کو عار سمجھتے ہیں اور اگرکسی کے یہاں کوئی لڑکی پیدا ہو جاتی ہے تو وہ اس پر بہت مغموم ہوتا ہے ، اب یہ عجیب بات ہے کہ بیٹی کو خود اپنے لئے تو عیب سمجھتے ہیں اور اللہ تعالی کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس کی بیٹیاں ہیں، تیسرے اس عقیدے کی رو سے فرشتے مؤنث قرار پاتے ہیں، حالانکہ وہ مؤنث نہیں ہیں، چوتھے اگرچہ عورت ہونا حقیقت میں کوئی عیب یا عار کی بات نہیں ہے ، لیکن عام طور سے عورتوں کی صلاحیتیں مردوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہیں، کیونکہ ان کی زیادہ توجہ زیورات اور زیب و زینت کی طرف رہتی ہے ، اور اپنی بات کو خوب واضح کر کے کہنے کی صلاحیت بھی اکثر ان میں کم ہوتی ہے ، لہذا اگر بالفرض اللہ تعالی کو کوئی اولاد رکھنی منظور ہوتی تو وہ مؤنث ہی کا کیوں انتخاب فرماتا۔

(توضیح القرآن)

 

اور انہوں نے ٹھہرایا فرشتوں کو عورتیں، جو رحمن (اللہ) کے بندے ہیں، کیا تم ان کی پیدائش (کے وقت) موجود تھے ؟ ان کا یہ دعوی ابھی لکھ لیا جائے گا، اور ( قیامت کے دن ) ان سے پوچھا جائے گا۔ (۱۹)

تشریح : یعنی کوئی دلیل عقلی و نقلی تو ان کے پاس اس دعوے پر نہیں۔ پھر کیا اللہ نے جب فرشتوں کو بنایا تو یہ کھڑے دیکھ رہے تھے کہ مرد نہیں عورت بنایا ہے۔ بہت اچھا! ان کی یہ گواہی دفتر اعمال میں لکھ لی جاتی ہے خدائی عدالت میں جس وقت پیش ہوں گے تب اس کے متعلق ان سے پوچھا جائے گا کہ تم نے ایسا کیوں کہا تھا۔ اور کہاں سے کہا تھا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ کہتے ہیں اگر اللہ چاہتا ہم ان کی عبادت نہ کرتے ، انہیں ان کا کچھ علم نہیں، وہ تو صرف اٹکل دوڑاتے ہیں۔ (۲۰)

کیا ہم نے اس سے قبل انہیں کوئی کتاب دی ہے جس کو وہ تھامے ہوئے ہیں (اس سے استدلال کرتے ہیں)۔ (۲۱)

تشریح: اللہ تعالی کے بارے میں کوئی عقیدہ یا تو اس وقت رکھا جا سکتا ہے جب وہ ہر عقل والے انسان کے لئے بالکل بدیہی طور پر واضح ہو، یا پھر خود اللہ تعالی نے کسی آسمانی کتاب کے ذریعے اس کی وضاحت فرمائی ہو، مشرکین کے عقیدوں کی کوئی کتاب بھی ایسی نہیں ہے جس میں ایسے عقائد بیان کئے گئے ہوں۔

(توضیح القرآن)

 

بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایا، اور بیشک ہم ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ (۲۲)

اور اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے کسی بستی میں کوئی ڈر سنانے والا نہیں بھیجا مگر اس کے خوشحال لوگوں نے کہا، بیشک ہم نے پایا ہے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر اور بیشک ہم ان کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہیں۔ (۲۳)

نبی نے کہا:کیا (اس صورت میں بھی) اگرچہ میں بہتر راہ بتلانے والا (دین حق لایا) ہوں، اس سے جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا؟وہ بولے بیشک ہم اس کا انکار کرنے والے ہیں جس کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو۔ (۲۴)

تشریح: قَالَ أَوَلَوْ جِئْتُكُمْ بِأَہْدٰى مِمَّا وَجَدْتُّمْ عَلَيْہِ اٰبَآءَكُمْ :یعنی پیغمبر نے فرمایا کہ تمہارے باپ دادوں کی راہ سے اچھی راہ تم کو بتلا دوں تو کیا پھر بھی تم اسی پرانی لکیر کے فقیر بنے رہو گے۔

قَالُوْٓا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِہٖ کَافِرُوْنَ: یعنی کچھ بھی ہو، ہم تمہاری بات نہیں مان سکتے۔ اور پرانا آبائی طریقہ ترک نہیں کر سکتے۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو ہم نے ان سے بدلہ لیاسو دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا؟ (۲۵)

اور (یاد کرو) جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم کو کہا بے شک میں اس سے بیزار ہوں جس کی تم پرستش کرتے ہو۔ (۲۶)

تشریح: یعنی صرف ایک خدا سے میرا تعلق ہے جس نے مجھے پیدا کیا اور و ہی مجھے منزل مقصود کے راستہ پر آخر تک لے چلے گا۔ (تنبیہ) یہاں یہ قصہ اس پر بیان کیا کہ دیکھو تمہارے مسلم پیشوا نے باپ کی راہ غلط دیکھ کر چھوڑ دی تھی۔ تم بھی و ہی کرو۔ اور اگر آباء و اجداد کی تقلید ہی پر مرتے ہو تو اس باپ کی راہ پر چلو جس نے دنیا میں حق و صداقت کا جھنڈا گاڑ دیا تھا، اور اپنی اولاد کو وصیت کر گیا تھا کہ میرے بعد ایک خدا کے سوا کسی کو نہ پوجنا۔ کما قال تعالٰی ”ووصی بہا ابراہیم بنیہ ویعقوب” (بقرہ، رکوع١٦)۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اس (ابراہیم) نے اس کو کیا اپنی نسل میں باقی رہنے والی بات، تاکہ وہ رجوع کرتے رہیں۔ (۲۸)

بلکہ میں نے انہیں اور ان کے باپ دادا کو سامانِ زیست دیا، یہاں تک کہ ان کے پاس قرآن آ گیا، اور صاف صاف بیان کرنے والا رسول۔ (۲۹)

تشریح: یعنی افسوس ابراہیم کی ارث حاصل نہ کی اور اس کی وصیت پر نہ چلے بلکہ اللہ نے جو دنیا کا سامان دیا تھا اس کے مزوں میں پڑ کر خداوند قدوس کی طرف سے بالکل غافل ہو گئے۔ یہاں تک کہ ان کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے حق تعالیٰ نے اپنا وہ پیغمبر بھیجا جس کی پیغمبری بالکل روشن اور واضح ہے۔ اس نے سچا دین پہنچایا، قرآن پڑھ کر سنایا اور اللہ کے احکام پر نہایت صفائی کے ساتھ مطلع کیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب ان کے پاس حق آ گیا تو وہ کہنے لگے یہ جادو ہے ، اور بیشک ہم اس کے انکار کرنے والے ہیں۔ (۳۰)

اور وہ بولے یہ قرآن (مکہ و طائف کی) دو بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ نازل کیا گیا؟ (۳۱)

تشریح: یعنی اگر قرآن کو اترنا ہی تھا تو مکہ یا طائف کے کسی بڑے سردار پر اترا ہوتا۔ یہ کیسے باور کر لیا جائے کہ بڑے بڑے دولت مند سرداروں کو چھوڑ کر خدا نے منصب رسالت کے لیے ایک ایسے شخص کو چن لیا ہو جو ریاست و دولت کے اعتبار سے کوئی امتیاز نہیں رکھتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا وہ تمہارے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں، اور ہم نے ان کے درمیان ان کی روزی دنیا کی زندگی میں تقسیم کی ہے ، اور ہم نے ان میں سے ایک کے درجے دوسرے پر بلند کئے ہیں، تاکہ ان میں سے ایک دوسرے کو خدمتگار بنائے ، اور تمہارے رب کی رحمت اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔ (۳۲)

تشریح: یہاں پھر رحمت سے مراد نبوت ہے ، اور مطلب یہ ہے کہ نبوت تو بہت اعلی درجے کی چیز ہے اس کی تقسیم کا کام ان لوگوں کے حوالے کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، دنیا کا مال و دولت اور روزی کے ذرائع جو نبوت سے بہت کم درجے کی چیز ہے ان کی تقسیم بھی ہم نے ان لوگوں کے حوالے نہیں کی، کیونکہ یہ اس کے بھی اہل نہیں تھے ، ، بلکہ خود ایسا نظام بنایا ہے جس کے ذریعے ہر شخص کو اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے دوسرے کا محتاج بنا دیا ہے ، اس باہمی احتیاج کی بنیاد پر لوگوں کی آمدنی میں بھی فرق ہے ، اور اسی فرق کی بنیاد پر ایک شخص دوسرے کی حاجتیں پوری کرتا ہے ، تاکہ وہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں، کا یہی مطلب ہے ، اس مسئلے کی مکمل تفصیل کے لئے اس آیت کے تحت تفسیر معارف القرآن کا مطالعہ فرمایا جائے۔

(توضیح القرآن)

 

اور اگر (احتمال) نہ ہوتا کہ تمام لوگ ایک طریقہ پر ہو جائیں گے تو ہم بناتے ان کے لئے جو کفر کرتے ہیں اللہ کا، ان کے گھروں کے لئے چاندی کی چھت، اور سیڑھیاں، جن پر وہ چڑھتے۔ (۳۳)

ا ور ان کے گھروں کے دروازے اور تخت جن پر وہ تکیہ لگاتے۔ (۳۴)

اور (وہ بھی) سونے کے ، اور یہ سب (کچھ) نہیں، مگر دنیا کی زندگی کی پونجی، اور تمہارے رب کے نزدیک آخرت پرہیزگاروں کے لئے ہے۔ (۳۵)

تشریح: بتلانا یہ مقصود ہے کہ دنیا کا مال و دولت اللہ تعالی کے نزدیک اتنی بے حقیقت چیز ہے کہ اللہ تعالی کافروں سے ناراض ہونے کے باوجود ان کے آگے سونے چاندی کے ڈھیر لگا سکتا ہے ، اور اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ مال و دولت کی حقیقت نہ سمجھنے کی وجہ سے کافروں کی دولت دیکھ کر کافر ہو جائیں گے تو اللہ تعالی کافروں کے گھر اور ان کے گھر کاسارا ساز وسامان سونے چاندی کا بنا دیتا، کیونکہ وہ فنا ہونے والی چیزیں ہیں، اور اصل دولت اللہ تعالی کی خوشنودی اور آخرت کی ابدی زندگی   کی خوش حالی ہے ، جو پرہیزگاروں ہی کو نصیب ہوتی ہے ، لہذا کسی دولت مند شخص پر نازل کرنے کا مطالبہ سراسر لغو مطالبہ ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور جو کوئی اللہ کی یاد سے شب کوری (غفلت) کرے ، ہم مسلط کر دیتے ہیں اس کے لئے ایک شیطان تو وہ اس کا ساتھی ہو جاتا ہے۔ (۳۶)

تشریح:  اس سے معلوم ہوا کہ بے فکری کے ساتھ گناہ کئے جانے اور اس پر شرمندہ نہ ہونے کا ایک عذاب یہ ہوتا ہے کہ ایسے شخص پر شیطان مسلط ہو جاتا ہے جو اسے نیکی کی طرف آنے نہیں دیتا، اور گناہ کی زندگی پر ہی مگن رکھتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔

(توضیح القرآن)

 

اور بیشک وہ انہیں راستے سے روکتے ہیں، اور وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں۔ (۳۷)

تشریح: یعنی شیطان ان کو نیکی کی راہ سے روکتے رہتے ہیں، مگر ان کی عقلیں ایسی مسخ ہو جاتی ہیں کہ اسی کو ٹھیک راستہ سمجھتے ہیں۔ بدی اور نیکی کی تمیز بھی باقی نہیں رہتی۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہاں تک کہ جب وہ ہمارے پاس آئیں گے تو وہ (اپنے شیطان ساتھی سے ) کہے گا اے کاش ! میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب کی دوری ہوتی تو بُرا ساتھی ہے۔ (۳۰)

تشریح: یعنی خدا کے ہاں پہنچ کر کھلے گا کہ کیسے برے ساتھی تھے۔ اس وقت حسرت اور غصہ سے کہے گا کہ کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق اور مغرب کا فاصلہ ہوتا، اور ایک لمحہ تیرے صحبت میں نہ گزرتا کم بخت! اب تو مجھ سے دور ہو۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یعنی دنیا میں شیطان کے مشورہ پر چلتا ہے اور وہاں اس کی صحبت سے پچھتائے گا۔ اس طرح کا ساتھی شیطان کسی کو جن بن کر ملتا ہے کسی کو آدمی۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب تم نے ظلم کیا تو آج تمہیں یہ ہرگز نفع نہ دے گا کہ تم عذاب میں مشترک ہو۔ (۳۹)

تشریح: دنیا میں یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک ہی قسم کی تکلیف بہت سے آدمیوں کو ایک ساتھ ہو رہی ہو تو اس سے ہر ایک کے دل میں تکلیف کا احساس کچھ کام ہو جاتا ہے کہ اس تکلیف میں میں تنہا نہیں ہوں، بلکہ دوسرے بھی میرے ساتھ شریک ہیں، لیکن دوزخ میں ایسا نہیں ہو گا، کیونکہ ہر ایک کی تکلیف اتنی زیادہ ہو گی کہ دوسروں کے اسی تکلیف میں مبتلا ہونے کے احساس سے بھی اس میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔

(توضیح القرآن)

 

تو کیا آپ بہروں کو سنائیں گے یا اندھوں کو راہ دکھائیں گے ؟اور اس کو جو صریح گمراہی میں ہو۔ (۴۰)

پھر اگر ہم آپ کو (دنیا سے ) لے جائیں تو بیشک ہم (پھر بھی) ان سے انتقام لینے والے ہیں۔ (۴۱)

یا اگر ہم آپ کو دکھا دیں وہ جو ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے (جب بھی) ہم ان پر قادر ہیں۔ (۴۲)

پس آپ وہ مضبوطی سے تھام لیں جو آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے ، بیشک آپ سیدھے راستہ پر ہیں۔ (۴۳)

تشریح: یعنی اندھوں کو راہِ حق دکھلا دینا بہروں کو حق کی آواز سنا دینا اور جو صریح غلطی اور گمراہی میں پڑے بھٹک رہے ہوں ان کو تاریکی سے نکال کر سچائی کی صاف سڑک پر چلا دینا آپ کے اختیار میں نہیں، ہاں خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے وہ جو چاہے آپ کی آواز میں تاثیر پیدا کر دے۔ بہرحال آپ اس غم میں نہ رہیے کہ یہ سب لوگ حق کو کیوں قبول نہیں کرتے ، اور کیوں اپنا انجام خراب کر رہے ہیں۔ ان کا معاملہ خدا کے سپرد کیجئے ، وہی ان کے اعمال کی سزا دے گا۔ اگر آپ کی وفات کے بعد دی تب، اور آپ کو دکھلا کر دی تب، بہرصورت نہ ہمارے قابو سے نکل کر جا سکتے ہیں اور نہ ہم ان کو سزا دیے بدون چھوڑیں گے۔ آپ کا کام یہ ہے کہ جو وحی آئے اور جو حکم ملے اس پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہیں اور برابر اپنا فرض ادا کیے جائیں۔ کیونکہ دنیا کہیں اور کسی راستہ پر جائے ، آپ اللہ کے فضل سے سیدھی راہ پر ہیں، جس سے ایک قدم ادھر ادھر ہٹنے کی ضرورت نہیں، نہ کسی ہوا پرست کی خواہش و آرزو کی طرف التفات کرنے کی حاجت ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور بیشک یہ (قرآن) ایک نصیحت نامہ ہے آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے ، اور عنقریب تم سے پوچھا جائے گا۔ (۴۴)

تشریح: یعنی قرآن کریم آپ اور آپ  کی قوم کے لیے خاص فضل و شرف کا سبب ہے۔ اس سے بڑی عزت اور خوش نصیبی کیا ہو گی کہ اللہ کا کلام اور ساری دنیا کی نجات و فلاح کا ابدی دستور العمل ان کی زبان میں اترا، اور وہ اس کے اولین مخاطب قرار پائے۔ اگر عقل ہو تو یہ لوگ اس نعمت عظمیٰ کی قدر کریں۔ اور قرآن جو ان سب کے لیے بیش بہا نصیحت نامہ ہے اس کی ہدایات پر چل کر سب سے پہلے دنیاوی و اخروی سعادتوں کے مستحق ہوں۔ آگے چل کر پوچھ ہو گی کہ اس نعمت عظمیٰ کی کیا قدر کی تھی؟ اور اس فضل و شرف کا کیا شکر ادا کیا تھا؟ (تفسیرعثمانی)

 

آپ ہمارے ان رسولوں سے پوچھ لیں جو ہم نے آپ سے پہلے بھیجے ، کیا ہم نے اللہ کے سوا کوئی معبود مقرر کئے تھے کہ ان کی عبادت کی جائے۔ (۴۵)

تشریح: یعنی آپ کا راستہ وہی ہے جو پہلے انبیاء علیہم السلام کا تھا۔ شرک کی تعلیم کسی نبی نے نہیں دی، نہ اللہ تعالیٰ نے کسی دین میں اس بات کو جائز رکھا کہ اس کے سوا دوسرے کی پرستش کی جائے ، اور یہ ارشاد کہ ”پوچھ دیکھو” یعنی جس وقت ان سے ملاقات ہو (جیسے شبِ معراج میں ہوئی) یا ان کے احوال کتابوں سے تحقیق کرو۔ بہرحال جو ذرائع تحقیق و تفتیش کے ہوں ان کو استعمال میں لانے سے صاف ثابت ہو جائے گا کہ کسی دین سماوی میں کبھی شرک کی اجازت نہیں ہوئی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف، تو اس نے کہا بیشک میں تمام جہانوں کے پروردگار کا رسول ہوں۔ (۴۶)

پھر جب وہ ہماری نشانیوں کے ساتھ آئے تو ناگہاں وہ ان نشانیوں پر ہنسنے لگے۔ (۴۷)

اور ہم انہیں کوئی نشانی نہیں دکھاتے تھے ، مگر وہ پہلی نشانی سے بڑی ہوتی، اور ہم نے انہیں عذاب میں گرفتار کیا تاکہ وہ باز آ جائیں۔ (۴۸)

تشریح: یعنی آخر وہ نشان بھیجے جو ایک طرح کے عذاب کا رنگ اپنے اندر رکھتے تھے۔ جیسا کہ سورہ ”اعراف” میں گزرا۔ ”فارسلنا علیہم الطوفان والجراد والقمل والضفادع والدم اٰیات مفصلاتٍ” (اعراف، رکوع١٦) غرض یہ تھی کہ ڈر کر اپنی حرکتوں سے باز آ جائیں۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

اور انہوں نے کہا اے جادو گر! ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کراس عہد کے سبب جو تیرے پاس ہے ، بیشک ہم ہدایت پانے والے ہیں (ہدایت پالیں گے )۔ (۴۹)

تشریح: ”ساحر” ان کے محاور ات میں عالم کو کہتے تھے۔ کیونکہ بڑا علم ان کے نزدیک یہی سحر تھا۔ شاید اس خوشامد اور لجاجت کے وقت حضرت موسٰی کو بظاہر تعظیمی لقب سے پکارا ہو اور خبث باطن سے اشارہ اس طرف بھی کیا ہو کہ ہم تجھ کو نبی اب بھی نہیں سمجھتے۔ صرف ایک ماہر جادوگر سمجھتے ہیں۔

تیرے رب نے جو طریقہ دعا کا بتلایا ہے اور جو کچھ تجھ سے عہد کر رکھا ہے اس کے موافق ہمارے حق میں دعاء کرو کہ یہ عذاب ہم سے دفع ہو۔ اگر تیری دعاء سے ایسا ہو گیا تو ہم ضرور راہ پر آ جائیں گے۔ اور تیری بات مان لیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر جب ہم نے ان سے عذاب ہٹا دیا تو ناگہاں وہ عہد توڑ گئے۔ (۵۰)

تشریح: یعنی جہاں تکلیف رفع ہوئی اور مصیبت کی گھڑی ختم ہوئی ایک دم اپنے قول و قرار سے پھر گئے ، گویا کچھ وعدہ کیا ہی نہ تھا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور فرعون نے اپنی قوم میں پکارا (منادی کی) اس نے کہا اے میری قوم! کیا مصر کی بادشاہت میری نہیں؟اور یہ نہریں جاری ہیں میرے (محلات کے ) نیچے سے ، تو کیا تم نہیں دیکھتے۔ (۵۱)

تشریح: اس کے گرد و پیش کے ملکوں میں مصر کا حاکم بہت بڑا سمجھا جاتا تھا اور نہریں اسی نے بنائی تھیں۔ دریائے نیل کا پانی کاٹ کر اپنے باغ میں لایا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ ان سامانوں کی موجودگی میں کیا ہماری حیثیت ایسی ہے کہ موسٰی جیسے معمولی حیثیت والے آدمی کے سامنے گردن جھکا دیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

بلکہ میں اس سے بہتر ہوں جو کم قدر ہے ، اور وہ معلوم نہیں ہوتا صاف گفتگو کرتا۔ (۵۲)

تشریح: یعنی موسٰی کے پاس نہ روپیہ نہ پیسہ، نہ حکومت نہ عزت، نہ کوئی ظاہری کمال، حتی کہ بات کرتے ہوئے بھی زبان پوری طرح صاف نہیں چلتی۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو اس پر سونے کے کنگن کیوں نہ ڈالے گئے ، یا اس کے ساتھ فرشتے (کیوں نہ) آئے پرا باندھ کر۔ (۵۳)

تشریح: کہتے ہیں کہ وہ خود جواہرات کے کنگن پہنتا تھا اور جس امیر وزیر پر مہربان ہوتا سونے کے کنگن پہناتا تھا اور اس کے سامنے فوج پر باندھ کر کھڑی ہوتی تھی۔ مطلب یہ تھا کہ ہم کسی کو عزت دیتے ہیں تو ایسا کرتے ہیں۔ کیا خدا کسی کو اپنا نائب بنا کر بھیجے تو اس کے ہاتھ میں سونے کے کنگن اور جلو میں فرشتوں کی فوج بھی نہ ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس اس نے اپنی قوم کو بے عقل کر دیا، تو انہوں نے اس کی اطاعت کی، بیشک وہ نافرمان لوگ تھے۔ (۵۴)

تشریح: یعنی اپنی ابلہ فریب باتوں سے قوم کو اُلو بنا لیا۔ وہ سب احمق اسی کی بات ماننے لگے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کی طبائع میں خدا کی نافرمانی پہلے سے رچی ہوئی تھی، اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ ہو گیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان سب کو ہم نے غرق کر دیا۔ (۵۵) تو ہم نے انہیں گئے گزرے کر دیا، اور بعد میں آنے والوں کے لئے ایک داستان۔ (۵۶)

تشریح: یعنی وہ کام کیے جن پر عادۃً خدا کا غضب نازل ہوتا ہے۔ فَجَعَلْنَاہُمْ سَلَفًا :پیچھے آنے والی نسلوں کے لیے ان کا قصہ ایک عبرتناک نظیر کے طور پر بیان ہوتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب عیسیٰٰ بن مریم کی مثال بیان کی گئی تو یکایک تمہاری قوم اس سے خوشی کے مارے چلانے لگی۔ (۵۷)

وہ بولے کیا ہمارے معبود بہتر ہیں؟یا وہ (عیسیٰٰ بن مریم) وہ اس کو تمہارے لئے صرف جھگڑنے کو بیان کرتے ہیں، بلکہ وہ تو ہیں ہی جھگڑالو۔ (۵۸)

تشریح: حضرت مسیح علیہ السلام کا جب ذکر آتا تو عرب کے مشرکین خوب شور مچاتے اور قسم قسم کی آوازیں اٹھاتے تھے۔ روایات میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی یہ آیت پڑھی ”انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جہنم” (انبیاء، رکوع٧) کہنے لگے نصاریٰ حضرت مسیح کی عبادت کرتے ہیں۔ اب بتاؤ! تمہارے خیال میں ہمارے معبود اچھے ہیں یا مسیح علیہ السلام ظاہر ہے تم مسیح کو اچھا کہو گے۔ جب وہ ہی (معاذ اللہ) آیت کے عموم میں داخل ہوئے تو ہمارے معبود بھی سہی۔ بعض روایات میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا ”لیس احد یعبد من دون اللہ فیہ خیر۔ ” کہنے لگے کیا مسیح میں کوئی خیر اور بھلائی نہیں؟ ظاہر ہے کہ آیت کا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ان الفاظ کا مطلب ان چیزوں سے متعلق تھا جن کی پرستش لوگ کرتے ہیں۔ اور وہ ان کو اس سے نہیں روکتے۔ اور اپنی بیزاری کا اظہار نہیں کرتے۔ مگر ان معترضین کا منشاء تو محض جھگڑے نکالنا اور کٹ حجتی کر کے حق کو رلانا تھا۔ اس لیے جان بوجھ کر ایسے معنی پیدا کرتے تھے جو مراد متکلم کے مخالف ہوں۔ کبھی کہتے تھے کہ بس معلوم ہو گیا آپ بھی اسی طرح ہم سے اپنی پرستش کرانا چاہتے ہیں جیسے نصاریٰ حضرت مسیح کی کرتے ہیں۔ شاید کبھی یہ بھی کہتے ہوں گے کہ خود قرآن نے مسیح کی مثل یہ بیان کی ہے۔ ”ان مثل عیسیٰٰ عند اللہ کمثل ادم خلقہ من ترابٍ ثم قال لہ کن فیکون۔ ” (آل عمران، رکوع٦) اب دیکھ لو ہمارے معبود اچھے ہیں یا مسیح؟ انہیں کیوں بھلائی سے یاد کرتے ہو؟ اور ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہو؟ اور خدا جانے کیا کیا کچھ کہتے ہوں گے۔ ان سب باتوں کا جواب آگے دیا گیا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

عیسیٰٰ صرف ایک بندے ہیں، ہم نے انعام کیا ان پر اور ہم نے انہیں بنی اسرائیل کے لئے ایک مثال بنایا۔ (۵۹)

تشریح:یعنی کچھ اسی ایک مسئلہ میں نہیں ان کی طبیعت ہی جھگڑالو واقع ہوئی ہے۔ سیدھی اور صاف بات کبھی ان کے دماغوں میں نہیں اترتی۔ یوں ہی مہمل بحثیں اور دور از کار جھگڑے نکالتے رہتے ہیں۔ بھلا کہاں وہ شیطان جو لوگوں سے اپنی عبادت کراتے اور اس پر خوش ہوتے ہیں یا وہ پتھر کی بے جان مورتیں جو کسی کو کفر و شرک سے روکنے پر اصلاً قدرت نہیں رکھتیں اور کہاں وہ خدا کا مقبول بندہ جس پر اللہ نے خاص فضل فرمایا اور بنی اسرائیل کی ہدایت کے واسطے کھڑا کیا۔ جس کو اپنے بندہ ہونے کا اقرار تھا اور جو اپنی امت کو اسی چیز کی طرف بلاتا تھا کہ ”ان اللہ ہو ربی وربکم واعبدوہ ہذا صراط مستقیم” کیا اس مقبول بندہ کو العیاذ باللہ ”حصب جہنم” یا ”لیس فیہ خیر” کہا جا سکتا ہے ؟ یا یہ پتھر کی مورتیاں اس کی ہمسری کر سکتی ہیں۔ یاد رکھو! قرآن کریم کسی بندہ کو بھی خدائی کا درجہ نہیں دیتا۔ اس کا تو سارا جہاد ہی اس مضمون کے خلاف ہے۔ ہاں یہ بھی نہیں کر سکتا کہ محض احمقوں کے خدا بنا لینے سے ایک مقرب و مقبول بندہ کو پتھروں اور شریروں کے برابر کر دے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر ہم چاہتے تو تم میں سے فرشتے پیدا کرتے زمین میں، وہ تمہارے جانشین ہوتے۔ (۶۰)

تشریح: یعنی عیسٰی علیہ السلام میں آثار فرشتوں کے سے تھے (جیسا کہ سورہ مائدہ، آل عمران، اور کہف کے فوائد میں اشارہ کیا جا چکا ہے ) اتنی بات سے کوئی شخص معبود نہیں بن جاتا۔ اگر ہم چاہیں تو تمہاری نسل سے ایسے لوگ پیدا کریں یا تمہاری جگہ آسمان سے فرشتوں ہی کو لا کر زمین پر آباد کر دیں۔ ہم کو سب قدرت حاصل ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور بیشک وہ قیامت کی ایک نشانی ہے ، تو تم ہرگز اس میں شک نہ کرو، اور میری پیروی کرو، یہ سیدھا راستہ ہے۔ (۶۱)

تشریح : یعنی حضرت مسیح کا اول مرتبہ آنا تو خاص بنی اسرائیل کے لیے ایک نشان تھا کہ بدون باپ کے پیدا ہوئے اور عجیب و غریب معجزات دکھلائے اور دوبارہ آنا قیامت کا نشان ہو گا۔ ان کے نزول سے لوگ معلوم کر لیں گے کہ قیامت بالکل نزدیک آ لگی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور شیطان تمہیں روک نہ دے ، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ (۶۲)

تشریح: یعنی قیامت کے آنے میں شک نہ کرو۔ اور جو سیدھی راہ ایمان و توحید کی بتلا رہا ہوں اس پر چلے آؤ۔ مبادا تمہارا ازلی دشمن شیطان تم کو اس راستہ سے روک دے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب عیسیٰٰ آئے کھلی نشانیوں کے ساتھ، تو انہوں نے کہا تحقیق میں تمہارے پاس حکمت کے ساتھ آیا ہوں اور اس لئے کہ میں تمہارے لئے بعض باتیں بیان کر دوں جن میں تم اختلاف کرتے ہو، سو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (۶۳)

بیشک اللہ ہی ہے میرا رب اور تمہارا رب، سو تم اس کی عبادت کرو یہ راستہ ہے سیدھا۔ (۶۴)

تشریح: یہ تعلیم تھی حضرت مسیح علیہ السلام کی۔ دیکھ لو کیسی صفائی سے خدائے واحد کی ربوبیت اور معبودیت کو بیان فرمایا ہے اور اسی توحید اور اتقاء و اطاعت رسول کو صراط مستقیم قرار دیا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر گروہوں نے آپس میں اختلاف ڈال لیا، سو ان لوگوں کے لئے خرابی ہے جنہوں نے ظلم کیکا، عذاب سے دکھ دینے والے دن کے۔ (۶۵)

تشریح: یعنی اختلاف پڑ گیا۔ یہود ان کے منکر ہوئے اور نصاریٰ قاتل ہوئے۔ پھر نصاریٰ آگے چل کر کئی فرقے بن گئے ، کوئی حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا بتلاتا ہے ، کوئی ان کو تین خداؤں میں ایک کہتا ہے ، کوئی کچھ اور کہتا ہے۔ حضرت مسیح کی اصل تعلیم پر ایک بھی نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا وہ صرف قیامت کا انتظار کرتے ہیں کہ وہ ان پر اچانک آ جائے اور وہ شعور (خبر بھی) نہ رکھتے ہوں۔ (۶۶)

تشریح: ایسے ایسے کھلے بیانات اور واضح ہدایات کے باوجود بھی جو لوگ نہیں مانتے آخر وہ کاہے کے منتظر ہیں۔ ان کے احوال کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بس قیامت ایک دم ان کے سر پر آ کھڑی ہو تب مانیں گے۔ حالانکہ اس وقت کا ماننا کچھ کام نہ دے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پرہیز گاروں کے سوا اس دن تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ (۶۷)

تشریح: اس دن دوست سے دوست بھاگے گا کہ اس کے سبب سے کہیں میں نہ پکڑا جاؤں۔ دنیا کی سب دوستیاں اور محبتیں منقطع ہو جائیں گی۔ آدمی پچھتائے گا کہ فلاں شریر آدمی سے دوستی کیوں کی تھی جو اس کے اکسانے سے آج گرفتار مصیبت ہونا پڑا۔ اس وقت بڑا گرمجوشی محب محبوب کی صورت دیکھنے سے بیزار ہو گا۔ البتہ جن کی محبت اور دوستی اللہ کے واسطے تھی اور اللہ کے خوف پر مبنی تھی وہ کام آئے گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے میرے بندو! تم پر کوئی خوف نہیں آج کے دن اور نہ تم غمگین ہو گے۔ (۶۸)

جو لوگ ہماری آیات پر ایمان لائے اور وہ مسلم (فرمانبردار) تھے۔ (۶۹) داخل ہو جاؤ تم اور تمہاری بیویاں جنت میں، تم خوش بخت کئے جاؤ گے۔ (۷۰)

تشریح: یعنی دل سے یقین کیا اور جوارح سے اس کے حکم بردار رہے۔ یہاں سے ایمان اور اسلام کا فرق ظاہر ہوتا ہے۔ جیسا کہ حدیث جبرئیل میں اس کا مفصل بیان ہو ا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

ان پر سونے کی رکابیاں اور آبخورے لئے پھریں گے ، اور اس میں (موجود ہو گا) جو (ان کے ) جی چاہیں گے اور آنکھوں کی لذت (ہو گی) اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔ (۷۱)

تشریح: سب سے اعلیٰ چیز جس سے آنکھیں آرام پائیں گی وہ دیدار ہے حق سبحانہ’ و تعالیٰ کا (رزقنا اللہ بفضلہ ومنہ)۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور یہ وہ جنت ہے جس کے تم وارث بنائے گئے ان (اعمال) کے بدلے جو تم کرتے تھے۔ (۷۲) تمہارے لئے اس میں بہت میوے ہیں، ان میں سے تم کھاتے ہو۔ (۷۳)

تشریح: یعنی تمہارے باپ آدم کی میراث واپس مل گئی، تمہارے اعمال کے سبب سے اور اللہ کے فضل سے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بے شک مجرم جہنم کے عذاب میں ہمیشہ رہیں گے۔ (۷۴)

ان سے ہلکا نہ کیا جائے گا اور وہ اس میں ناامید پڑے رہیں گے۔ (۷۵) اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا، بلکہ وہی ظالم تھے۔ (۷۶)

تشریح: یعنی عذاب نہ کسی وقت ملتوی ہو گا نہ ہلکا کیا جائے گا۔ دوزخی نا امید ہو جائیں گے کہ اب یہاں سے نکلنے کی کوئی سبیل نہیں۔

ہم نے دنیا میں بھلائی برائی کے سب پہلو سمجھا دیے تھے اور پیغمبروں کو بھیج کر حجت تمام کر دی تھی۔ کوئی معقول عذر ان کے لیے باقی نہیں چھوڑا تھا۔ اس پر بھی نہ مانے اور اپنی زیادتیوں سے باز نہ آئے۔ ایسوں کو سزا دی جائے تو ظلم کون کہہ سکتا ہے۔

(تفسیر عثمانی)

 

اور وہ پکاریں گے اے مالک! (داروغۂ جہنم) اچھا ہو کہ تیرا رب ہماری موت کا فیصلہ کر دے ، وہ کہے گا بیشک تم (اسی حال میں) ہمیشہ رہنے والے ہو۔ (۷۷)

تشریح: ”مالک” نام ہے فرشتہ کا جو دوزخ کا داروغہ ہے۔ دوزخی اس کو پکاریں گے کہ ہم نہ مرتے ہیں نہ چھوٹتے ہیں۔ اپنے رب سے کہہ کر ایک دفعہ عذاب دے کر ہمارا کام ہی تمام کر دے۔ گویا نجات سے مایوس ہو کر موت کی تمنا کریں گے۔

قَالَ إِنَّكُمْ مَّاكِثُوْنَ :یعنی چلانے سے کچھ فائدہ نہیں۔ تم کو اسی حالت میں ہمیشہ رہنا ہے۔ کہتے ہیں دوزخی ہزار برس چلائیں گے تب وہ یہ جواب دے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

تحقیق ہم تمہارے پاس حق کے ساتھ آئے ، لیکن تم میں سے اکثر حق کو ناپسند کرنے والے تھے۔ (۷۸) کیا انہوں نے کوئی بات ٹھہرا لی ہے تو بیشک ہم (بھی) ٹھہرانے والے ہیں۔ (۷۹)

تشریح: یعنی وہ سزا اس جرم پر ملی کہ تم میں سے اکثر سچائی سے چڑتے تھے (اور بہت سے اندھوں کی طرح ان کے پیچھے ہو لیے )۔

أَمْ أَبْرَمُوْٓا أَمْرًا:  کفارِ عرب پیغمبر کے مقابلہ میں طرح طرح کے منصوبے گانٹھتے اور تدبیریں کرتے تھے۔ مگر اللہ کی خفیہ تدبیر ان کے سب منصوبوں پر پانی پھیر دیتی تھی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ”کافروں نے مل کر مشورہ کیا کہ تمہارے تغافل سے اس نبی کی بات بڑھی۔ آئندہ جو اس دین میں آئے اسی کے رشتہ دار اس کو مار مار کر الٹا پھیریں اور جو اجنبی شخص شہر میں آئے اس کو پہلے سنا دو کہ اس شخص کے پاس نہ بیٹھے۔ ” یہ بات انہوں نے ٹھہرائی اور اللہ نے ٹھہرایا ان کو ذلیل و رسوا کرنا اور اپنے دین اور پیغمبر کو عروج دینا۔ آخر اللہ کا ارادہ غالب رہا۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا وہ گمان کرتے ہیں؟ کہ ہم نہیں سنتے ان کی پوشیدہ باتوں اور ان کی سرگوشیوں کو، ہاں (کیوں نہیں) ہمارے فرشتے ان کے پاس لکھتے ہیں۔ (۸۰)

تشریح : یعنی ان کے دلوں کے بھید ہم جانتے اور ان کے خفیہ مشورے ہم سنتے ہیں اور حکومت کے انتظامی ضابطہ کے موافق ہمارے فرشتے (کراماً کاتبین) ان کے سب اعمال و افعال لکھتے جاتے ہیں۔ یہ ساری مثل قیامت میں پیش ہو گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں اگر اللہ کا کوئی بیٹا ہوتا تو میں (اس کا) پہلا عبادت کرنے والا ہوتا۔ (۸۱)

تشریح: یعنی اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا کہ اللہ کے لیے بیٹے اور بیٹیاں تجویز کی جائیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ اگر بفرض محال خدا کے اولاد ہو تو پہلا شخص میں ہوں جو اس کی اولاد کی پرستش کرے۔ کیونکہ میں دنیا میں سب سے زیادہ خدا کی عبادت کرنے والا ہوں۔ اور جس کو جس قدر علاقہ خدا کے ساتھ ہو گا اسی نسبت سے اس کی اولاد کے ساتھ ہونا چاہیے۔ پھر جب میں باوجود اول العابدین ہونے کے کسی ہستی کو اس کی اولاد نہیں مانتا تو تم کون سے اللہ کا حق ماننے والے ہو جو اس کی فرضی اولاد تک کے حقوق پہچانو گے۔ (تنبیہ) بعض مفسرین نے آیت کا یہ مطلب لیا ہے کہ اگر تمہارے اعتقاد میں اللہ کی کوئی اولاد ہے تو یاد رکھو! کہ تمہارے مقابلہ میں اس اکیلے خدا کی عبادت کرنے والا ہوں جو اولاد و احفاد سے منزہ و مقدس ہے۔ بعض نے ”عابد” کے معنی لغتہ جامد (منکر) کے بتلائے ہیں یعنی اس فاسد عقیدہ کا سب سے پہلا انکار کرنے اور رد کرنے والا میں ہوں۔ بعض کے نزدیک ”ان” نافیہ ہے۔ یعنی رحمان کے کوئی اولاد نہیں۔ مگر یہ کچھ زیادہ قوی نہیں اور بھی احتمالات ہیں جن کے استیعاب کا یہاں موقع نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

آسمانوں اور زمین کا رب، عرش کا رب اس سے پاک ہے جو وہ بیان کرتے ہیں۔ (۸۲)

تشریح: یعنی جن باتوں کی نسبت یہ لوگ اس کی طرف کرتے ہیں۔ مثلاً اولاد وغیرہ، اس سے خدا تعالیٰ کی ذات برتر اور منزہ ہے۔ اس کی ذات میں یہ امکان ہی نہیں کہ معاذ اللہ کسی کا باپ یا بیٹا بنے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس ان کو چھوڑ دیں کہ وہ بیہودہ باتیں کریں اور کھیلیں یہاں تک کہ وہ اس دن کو پالیں جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ (۸۳)

تشریح: یعنی غفلت و حماقت کے نشہ میں جو کچھ بکتے ہیں بکنے دیجئے۔ یہ لوگ چند روز اور دنیا کے کھیل تماشے میں گزار لیں، آخر وہ موعود دن آنا ہے جس میں ایک ایک کر کے ان کی گستاخیوں اور شرارتوں کا مزہ چکھایا جائے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہی جو آسمانوں کا معبود ہے اور زمین کا معبود ہے ، اور وہی حکمت والا، علم والا ہے۔ (۸۴)

تشریح: نہ آسمان میں فرشتے اور شمس و قمر معبود بن سکتے ہیں نہ زمین میں اصنام و اوثان وغیرہ۔ سب زمین و آسمان والوں کا معبود اکیلا وہ ہی خدا ہے جو فرش سے عرش تک کا مالک اور تمام عالم کون میں اپنے علم و اختیار سے متصرف ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور بڑی برکت والا ا ورجس کے لئے بادشاہت آسمانوں کی اور زمین کی، اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ، اور اس کے پاس ہے قیامت کا علم اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔ (۸۵)

تشریح: یعنی قیامت کب آئے گی؟ اس کا علم صرف اسی مالک کو ہے۔ وہاں پہنچ کر سب کی نیکی بدی کا حساب ہو جائے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ جن کو اللہ کے سوا پکارتے ہیں، وہ شفاعت کاج اختیار نہیں رکھتے ، سوائے اس کے جس نے گواہی دی حق کی، اور وہ جانتے ہیں۔ (۸۶)

تشریح: یعنی اتنی سفارش کر سکتے ہیں کہ جس نے ان کے علم کے موافق کلمہ اسلام کہا اس کی گواہی دیں۔ بغیر کلمہ اسلام کسی کے حق میں ایک حرف سفارش کا نہیں کہہ سکے۔ اور اتنی سفارش بھی صالحین کریں گے جو سچائی کو جانتے اور اس کو زبان و دل سے مانتے ہیں۔ دوسروں کو اجازت نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر آپ ان سے پوچھیں انہیں کس نے پیدا کیا تووہ ضرور کہیں گے ، اللہ نے تو وہ کدھر الٹے پھرے جاتے ہیں؟

تشریح: یعنی جب بنانے والا ایک اللہ ہے تو بندگی کا مستحق کوئی دوسرا کیوں کر ہو گیا۔ عبادت نام ہے انتہائی تذلل کا۔ وہ اسی کا حق ہونا چاہیے جو انتہائی عظمت رکھتا ہے۔ عجیب بات ہے مقدمات کو تسلیم کرتے ہیں اور نتیجہ سے انکار۔

(تفسیرعثمانی)

 

قسم ہے (رسول کے یہ) کہنے کی اے میرے رب! یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ (۸۸) تو آپ ان سے منہ پھیر لیں، اور سلام کہیں پس جلد وہ (انجام) جان لیں گے۔ (۸۹)

تشریح: یعنی نبی کا یہ کہنا بھی اللہ کو معلوم ہے اور اس کی اس مخلصانہ التجاء اور درد بھری آواز کی اللہ قسم کھاتا ہے کہ وہ اس کی ضرور مدد کرے گا۔ اور اپنی رحمت سے اس کو غالب و منصور کرے گا۔

فَاصْفَحْ عَنْہُمْ وَقُلْ سَلَامٌ  فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ:غم نہ کھا، اور زیادہ ان کے پیچھے نہ پڑ۔ فرض تبلیغ ادا کر کے ادھر سے منہ پھیر لے اور کہہ دے کہ اچھا نہیں مانتے تو ہمارا سلام لو۔ آخرکار ان کو پتہ لگ جائے گا کہ کس غلطی میں پڑے ہوئے تھے۔ چنانچہ کچھ تو دنیا ہی میں لگ گیا۔ اور پوری تکمیل آخرت میں ہونے والی ہے۔ تم سورۃ الزخرف بعون اللہ وتوفیقہ فللہ الحمد والمنتہ۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

٭٭٭٭٭

 

۴۴۔ سُوْرَۃُ الدُّخَّانِ

 

                تعارف

 

مستند روایات کے مطابق یہ سورت اس وقت نازل ہوئی تھی جب اللہ تعالی نے مکہ مکرمہ کے کافروں کو متنبہ کرنے کے لئے ایک شدید قحط میں مبتلا فرمایا، اس موقع پر لوگ چمڑے تک کھانے پر مجبور ہوئے ، اور ابو سفیان کے ذریعے کافروں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ قحط دور کرنے کے لئے اللہ تعالی سے دعا کریں، اور ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اگر قحط دور ہو گیا تو ہم ایمان لے آئیں گے ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اور اللہ تعالی نے قحط سے نجات عطا فرما دی، لیکن جب قحط دور ہو گیا تو یہ کافر لوگ اپنے وعدے سے پھر گئے اور ایمان نہیں لائے ، اس واقعے کا تذکرہ اس سورت کی آیت نمبر ۱۰ تا ۱۵ میں آیا ہے ، اور اسی سلسلے میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ایک آسمان پر دھواں ہی دھواں نظر آئے گا (اس کا مطلب ان شاء اللہ اس آیت کی تفسیر میں آئے گا) دھوئیں کو عربی زبان میں دخان کہتے ہیں اور اسی وجہ سے اس سورت کا نام سورۂ دخان ہے ، سورت کے باقی مضامین توحید رسالت اور آخرت کے اثبات پر مشتمل ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

مَکِّیَّۃٌ

آیات۵۹         رکوعات:۳

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے

 

حا۔ میم۔ (۱) قسم ہے واضح کتاب کی۔ (۲) بیشک ہم نے اسے ایک مبارک رات (لیلۃ القدر) میں نازل کیا، بیشک ہم ہی ڈرانے والے ہیں۔ (۳)

تشریح: ”برکت کی رات” شب قدر ہے کما قال تعالیٰ۔ ”انا انزلناہ فی لیلۃ القدر” (قدر، رکوع١) اور جو رمضان میں واقع ہے لقولہ تعالٰی۔ ”شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن” (بقرہ، رکوع ٢٣) اس رات میں قرآن کریم لوح محفوظ سے سمائے دنیا پر اتار گیا۔ پھر بتدریج تئیس سال میں پیغمبر پر اترا۔ نیز اسی شب میں پیغمبر پر اس کے نزول کی ابتداء ہوئی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس (رات) میں ہمارے پاس سے حکم ہو کر ہر حکمت والا امر فیصل کیا جاتا ہے۔ (۴) بیشک ہم ہی (رسول) بھیجنے والے ہیں۔ (۵)

تشریح: یعنی سال بھر کے متعلق قضاء و قدر کے حکیمانہ اور اٹل فیصلے اسی عظیم الشان رات میں ”لوح محفوظ” سے نقل کر کے ان فرشتوں کے حوالہ کیے جاتے ہیں جو شعبہ ہائے تکوینیات میں کام کرنے والے ہیں۔

(ملخص تفسیرعثمانی)

 

رحمت آپ کے رب کی طرف سے ، بیشک وہی سننے والا جاننے والا ہے۔ (۶)

تشریح: یعنی تمام عالم کے حالات سے باخبر ہے اور ان کی پکار سنتا ہے۔ اسی لیے عین ضرورت کے وقت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن دے کر اور عالم کے لیے رحمت کبریٰ بنا کر بھیج دیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

رب ہے آسمانوں کا اور زمین کا ا ور جو ان کے درمیان ہے ، اگر تم یقین کرنے والے ہو۔ (۷)

تشریح: یعنی اگر تم میں کسی چیز پر یقین رکھنے کی صلاحیت ہے تو سب سے پہلی چیز یقین رکھنے کے قابل اللہ کی ربوبیت عامہ ہے جس کے آثار ذرہ ذرہ میں روزِ روشن سے زیادہ ہوا ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی جان ڈالتا ہے ، وہی جان نکالتا ہے ، اور (وہی) رب ہے تمہارا، اور تمہارے پہلے باپ دادا کا۔ (۸)

تشریح: یعنی جس کے قبضہ میں مارنا جلانا اور وجود و عدم کی باگ ہو۔ اور سب اولین و آخرین جس کے زیر تربیت ہوں۔ کیا اس کے سوادوسرے کی بندگی جائز ہو سکتی ہے ؟ یہ ایک ایسی صاف حقیقت ہے جس میں شک و شبہ کی قطعاً گنجائش نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

بلکہ وہ شک میں پڑے کھیلتے ہیں۔ (۹)

تشریح: یعنی ان واضح نشانات اور دلائل کا اقتضاء تو یہ تھا کہ یہ لوگ مان لیتے ، مگر پھر بھی نہیں مانتے ، بلکہ وہ توحید وغیرہ عقائد حقہ کی طرف سے شک میں پڑے ہیں اور دنیا کے کھیل کود میں مصروف ہیں۔ آخرت کی فکر نہیں جو حق کو طلب کریں اور اس میں غور و فکر سے کام لیں۔ یہ اس دھوکے میں ہیں کہ ہمیشہ یوں ہی رہنا ہے۔ خدا کے سامنے کبھی پیشی نہیں ہو گی۔ اس لیے نصیحت کی باتوں کو ہنسی کھیل میں اڑا دیتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو آپ اس دن کا انتظار کریں کہ آسمان ظاہر دھواں لائے۔ (۱۰)

وہ ڈھانپ لے (چھا جائے ) لوگوں پر، یہ ہے دردناک عذاب۔ (۱۱)

تشریح: ”دھوئیں” سے یہاں کیا مراد ہے ؟ اس میں سلف کے دو قول ہیں۔ حضرت ابن عباس وغیرہ کہتے ہیں کہ قیامت کے قریب ایک دھواں اٹھے گا جو تمام لوگوں کو گھیر لے گا۔ نیک آدمی کو اس کا اثر خفیف پہنچے گا، جس سے زکام سا ہو جائے گا۔ اور کافر و منافق کے دماغ میں گھس کر بے ہوش کر دے گا۔ وہ یہاں مراد ہے۔ شاید یہ دھواں وہ ہی سماوات کا مادہ ہو جس کا ذکر ”ثم استویٰ الٰی السماء وہی دخان” میں ہوا ہے گویا آسمان تجلی تحلیل ہو کر اپنی پہلی حالت کی طرف عود کرنے لگیں گے اور یہ اس کی ابتدا ہو گی۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ اور حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ اس آیت سے مراد وہ دھواں نہیں جو علاماتِ قیامت میں سے ہے بلکہ قریش کے تمرد و طغیان سے تنگ آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی تھی کہ ان پر بھی سات سال کا قحط مسلط کر دے جیسے یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں مصریوں پر مسلط ہوا تھا۔ چنانچہ قحط پڑا جس میں مکہ والوں کو مردار اور چمڑے ہڈیاں کھانے کی نوبت آ گئی غالباً اسی دوران میں ”یمامہ” کے رئیس ثمامہ ابن آثال رضی اللہ عنہ مشرف با سلام ہوئے اور وہاں سے غلہ کی جو بھرتی مکہ کو جاتی تھی بند کر دی۔ غرض اہل مکہ بھوکوں مرنے لگے اور قاعدہ ہے کہ شدت کی بھوک اور مسلسل خشک سالی کے زمانہ میں جو یعنی زمین و آسمان کے درمیان دھواں سا آنکھوں کے سامنے نظر آیا کرتا ہے اور ویسے بھی مدت دراز تک بارش بند رہنے سے گرد و غبار وغیرہ چڑھ کر آسمان پر دھواں سا معلوم ہونے لگتا ہے۔ اس کو یہاں دخان سے تعبیر فرمایا۔ اس تقدیر پر ”یغشی الناس ”میں لوگوں سے مکہ والے ہوں گے۔ گویا یہ ایک پیشین گوئی تھی (کما یدل علیہ قول ”فارتقب”) جو پوری ہوئی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے ہمارے رب! ہم سے عذاب دور کر دے بیشک ہم ایمان لے آئیں گے۔ (۱۲)

تشریح: یعنی اس عذاب میں مبتلا ہو کر یوں کہیں گے کہ اب تو اس آفت سے نجات دیجئے آگے کو ہماری توبہ! ہم کو اب یقین آ گیا۔ پھر شرارت نہ کریں گے۔ پکے مسلمان بن کر رہیں گے۔ آگے اس کا جواب دیا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے ہمارے رب!ہم عذاب دور کر دے بیشک ہم ایمان لے آئیں گے۔ (۱۲) ان کو کہاں نصیحت ہو گی؟ان کے پاس تو کھول کھول کر بیان کرنے والا رسول آ چکا ہے۔ (۱۳)

پھر وہ اس سے پھر گئے اور کہنے لگے (یہ توکسی کا) سکھایا ہوا دیوانہ ہے۔ (۱۴)

تشریح: یعنی اب موقع سمجھنے اور نصیحت سے فائدہ اٹھانے کا کہاں رہا۔ اس وقت تو مانا نہیں جب ہمارا پیغمبر کھلے کھلے نشان اور کھلی کھلی ہدایات لے کر آیا تھا۔ اس وقت کہتے تھے کہ یہ باؤلا ہے۔ کبھی کہتے کہ کسی دوسرے سے سیکھ کر اس نے یہ کتاب تیار کر لی ہے (حضرت ابن عباس کی تفسیر پر یہ مطلب ہوا) اور حضرت ابن مسعود کی تفسیر کے موافق یہ معنی ہوں گے کہ اہل مکہ نے قحط وغیرہ سے تنگ آ کر درخواست کی کہ یہ آفت ہم سے دور کیجیے۔ بعض روایات میں ہے کہ ابو سفیان وغیرہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں فریاد کی کہ آپ تو کہتے ہیں کہ میں رحمت ہوں اور یہ آپ کی قوم قحط و خشک سالی سے تباہ ہو رہی ہے۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحم اور قرابت کا واسطہ دیتے ہیں کہ اس مصیبت کے دور ہونے کی دعا کیجیے۔ اگر ایسا ہو گیا تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ چنانچہ آپ کی دعا سے بارش ہوئی اور ثمامہ نے جو غلہ روک دیا تھا وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلوا دیا پھر بھی وہ ایمان نہ لائے۔ اسی کو فرماتے ہیں ”انی لہم الذکریٰ” یعنی یہ لوگ ان باتوں سے ماننے والے کہاں ہیں، اس قسم کی چیزوں میں تو ہزار تاویلیں گھڑ لیں جو چیز بالکل کھلی ہوئی آفتاب اور زیادہ روشن تھی یعنی آپ کی پیغمبری۔ اسی کو نہ مانا۔ کوئی مجنون بتلانے لگا، کسی نے کہا کہ صاحب! فلاں رومی غلام سے کچھ مضامین سیکھ آئے ہیں ان کو اپنی عبادت میں ادا کر دیتے ہیں۔ ایسے متعصب معاندین سے سمجھنے کی کیا توقع ہو سکتی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک ہم چندے عذاب کھولنے والے ہیں (مگر) تم بیشک پھر اصلی حالت پر لوٹ آنے والے ہو۔ (۱۵)

تشریح: یعنی اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے عذاب ہٹا لیں، پھر وہ ہی حرکتیں کریں گے جو پہلے کرتے تھے۔ اور حضرت ابن مسعود کی تفسیر پر یہ مطلب ہو گا کہ لو! اچھا ہم تھوڑی مدت کے لیے یہ عذاب ہٹا لیتے ہیں۔ پھر دیکھ لینا، و ہی کریں گے جو پہلے کرتے تھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

جس دن ہم سخت پکڑ پکڑیں گے ، بیشک ہم انتقام لینے والے ہیں۔ (۱۶)

تشریح: حضرت ابن عباس کے نزدیک بڑی پکڑ قیامت ہو گی۔ غرض یہ ہے کہ آخرت کا عذاب نہیں ٹلتا۔ اور حضرت ابن مسعود کے نزدیک ”بڑی پکڑ” سے معرکہ ”بدر” کا واقعہ مراد ہے۔ ”بدر” میں ان لوگوں سے بدلہ لے لیا گیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم ان سے قبل قوم فرعون کو آزما چکے ہیں اور ان کے پاس ایک عالی قدر رسول آیا۔ (۱۷)

تشریح: یعنی حضرت موسٰی کے ذریعہ سے ان کا امتحان کیا گیا کہ اللہ کے پیغام کو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔ (تفسیرعثمانی)

 

کہ اللہ کے بندوں کو میرے سپرد کر دو، بیشک میں تمہارے لئے ایک رسول امین ہوں۔ (۱۸)

تشریح: یعنی خدا کے بندوں کو اپنا بندہ مت بناؤ۔ بنی اسرائیل کو غلامی سے آزادی دو اور میرے حوالہ کرو۔ میں جہاں چاہوں لے جاؤں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور یہ کہ تم اللہ کے مقابل سرکشی نہ کرو، بے شک میں تمہارے پاس واضح دلیل کے ساتھ آیا ہوں۔ (۱۹)

تشریح: ”کھلی سند” وہ معجزات تھے جو حضرت موسٰی نے دکھائے۔ ”عصا” اور ”ید بیضا” وغیرہ۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور بیشک میں پناہ لیتا ہوں اپنے رب کی اور تمہارے رب کی (اس سے ) کہ تم مجھے سنگسار کر دو۔ (۲۰)

تشریح: یہ ان کی دھمکیوں کا جواب دیا۔ یعنی میں تمہارے ظلم و ایذاء سے خدا کی پناہ حاصل کر چکا ہوں وہ میری حمایت پر ہے اور اسی کی حفاظت پر مجھے بھروسہ ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو تم مجھ سے ایک کنارے ہو جاؤ۔ (۲۱)

تشریح: یعنی اگر میری بات نہیں مانتے تو کم از کم مجھے ایذاء دے کر اپنے جرم کو سنگین مت کرو۔ ”مرا بخیر تو امید نیست بدمرساں” اور حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یعنی اپنی قوم کولے جاؤں تم راہ نہ روکو۔ ” (تفسیرعثمانی)

 

تو اس نے اپنے رب سے دعا کی کہ یہ مجرم لوگ ہیں۔ (۲۲)

(ارشاد الہی ہوا) تو تم میرے بندوں کو لے جاؤ راتوں رات، بے شک تمہارا تعاقب ہو گا۔ (۲۳)

تشریح: یعنی آخر مجبور ہو کر اللہ سے فریاد کی کہ یہ لوگ اپنے جرائم سے باز آنے والے نہیں اب آپ میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کر دیجیے وہاں کیا دیر تھی۔ حضرت موسٰی کو حکم ہوا کہ فرعونیوں کو اطلاع کیے بدون بنی اسرائیل کو لے کر راتوں رات مصر سے چلے جاؤ۔ کیونکہ دن ہونے پر جب انہیں اطلاع ہو گی اس وقت تمہارا پیچھا کریں گے۔ لیکن یاد رہے راستہ میں سمندر پڑے گا۔ اس پر عصا مارنے سے پانی ادھر ادھر ہٹ جائے گا اور درمیان میں خشکی و صاف راستہ نکل آئے گا۔ اسی راستہ سے اپنی قوم کو لے کر گزر جاؤ۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور دریا کو چھوڑ جاؤ (پار کر جاؤ) ٹھہرا (تھما) ہوا، بیشک وہ ایک لشکر ہیں ڈوبنے والے۔ (۲۴)

تشریح: یعنی اس کی فکر مت کرو کہ دریا میں خدا کی قدرت سے جو راستہ بن گیا وہ باقی نہ رہے۔ اس کو اسی حالت میں چھوڑ دے۔ یہ راستہ دیکھ کر تو فرعون کے لشکر اس میں گھسنے کی ہمت کریں گے۔ چنانچہ وہ سب خشک راستہ دیکھ کر اندر گھسے ، اس کے بعد خدا کے حکم سے سمندر کا پانی چاروں طرف سے آ کر مل گیا۔ سارا لشکر اس طرح غرقاب ہوا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہو چھوڑ گئے کتنے ہی باغات اور چشمے۔ (۲۵) اور کھیتیاں اور نفیس مکان۔ (۲۶) اور نعمتیں جن میں وہ مزے اڑاتے تھے۔ (۲۷)

اسی طرح (ہوا) ہم نے دوسری قوم کو ان کا وارث بنایا۔ (۲۸)

تشریح: یعنی بنی اسرائیل کے ہاتھوں میں دے دیا۔ جیسا کہ سورہ شعراء میں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ فرعون کے غرق ہوئے بعد مصر میں بنی اسرائیل کا دخل ہوا۔ اور اگر یہ ثابت نہ ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ جس قسم کے سامان فرعونیوں نے چھوڑے تھے اسی طرح کے ہم نے بنی اسرائیل کو دیے۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

سو ان پر آسمان اور زمین نہ روئے اور نہ ہوئے ڈھیل دئیے گئے (انہیں ڈھیل نہ دی گئی)۔ (۲۹)

تشریح: روایات میں ہے کہ مومن کے مرنے پر آسمان کا وہ دروازہ روتا ہے جس سے اس کی روزی اترتی تھی یا جس سے اس کا عمل صالح اوپر چڑھتا تھا۔ اور زمین روتی ہے جہاں وہ نماز پڑھتا تھا یعنی افسوس وہ سعادت ہم سے چھین گئی۔ کافر کے پاس عمل صالح کا بیج ہی نہیں، پھر اس پر آسمان یا زمین کیوں روئے۔ بلکہ شاید خوش ہوتے ہوں گے کہ چلو پاپ کٹا۔ ”خس کم جہاں پاک”

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق ہم نے بنی اسرائیل کو ذلت والے عذاب سے نجات دی۔ (۳۰) (یعنی) فرعون سے بیشک وہ حد سے بڑھ جانے والوں میں سرکش تھا۔ (۳۱)

اور البتہ ہم نے انہیں تمام جہان والوں پر دانستہ پسند کیا۔ (۳۲)

تشریح: یعنی اگرچہ بنی اسرائیل کی کمزوریاں بھی ہم کو معلوم تھیں۔ تاہم ان کو ہم نے اس زمانہ کے تمام لوگوں سے فضیلت دی۔ اور بعض فضائل جزئیہ تو وہ ہیں جو آج تک کسی قوم کو میسر نہیں ہوئے مثلاً اتنے بیشمار انبیاء کا ان میں اٹھایا جانا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے انہیں کھلی نشانیاں دیں، جن میں کھلی آزمائش تھی۔ (۳۳)

تشریح: یعنی حضرت موسٰی کے ذریعہ سے مثلاً ”من و سلویٰ” کا اتارنا، بادل کا سایہ کرنا وغیرہ ذلک۔ (تفسیرعثمانی)

 

بیشک یہ لوگ کہتے ہیں۔ (۳۴) یہ تو صرف ہمارا ایک ہی بار مرنا ہے اور ہم دوبارہ اٹھائے جانے والے نہیں۔ (۳۵)

تشریح: درمیان میں حضرت موسٰی کی قوم کا ذکر استطرادًا آ گیا تھا۔ یہاں سے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کا تذکرہ ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہتے ہیں کہ ہماری آخری حالت بس یہی ہے کہ موت آ جائے۔ موت کے بعد سب قصہ ختم۔ موجودہ زندگی کے سوا دوسری زندگی کوئی نہیں۔ کہاں کا حشر، اور کیسا حساب کتاب۔

(تفسیرعثمانی)

 

اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادا کو لے آؤ۔ (۳۶)

تشریح: یعنی پیغمبر اور مومنین سے کہتے ہیں کہ اگر تم اپنے عقیدہ میں سچے ہو کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جائیں گے تو اچھا ہمارے مرے ہوئے باپ دادوں کو ذرا زندہ کر کے دکھا دو۔ تب ہم جانیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا وہ بہتر تھے یا تبع کی قوم؟اور جو لوگ ان سے قبل تھے ؟ ہم نے انہیں ہلاک کیا، بے شک وہ مجرم لوگ تھے۔ (۳۷)

تشریح:تبع دراصل یمن کے بادشاہوں کا لقب تھا، قرآن کریم نے یہ متعین نہیں فرمایا کہ یہاں کونسا تبع مراد ہے ، حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں فرمایا ہے کہ یہاں مراد وہ تبع ہے جس کا نام اسعد ابو کریب تھا، یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے سات سوسال پہلے گزرا ہے ، یہ خود دین موسوی پر تھا، جو اس وقت دین برحق تھا، ایمان لے آیا تھا، لیکن اس کی قوم نے بعد میں بت پرستی اختیار کر لی، جس کے نتیجے میں ان پر عذاب آیا۔

(توضیح القرآن)

 

اور آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کھیلتے ہوئے (عبث کھیل کود) نہیں پیدا کیا۔ (۳۸)

ہم نے انہیں نہیں پیدا کیا، مگر ٹھیک طور پر، لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔ (۳۹)

تشریح: یعنی اتنا بڑا کارخانہ کوئی کھیل تماشا نہیں۔ بلکہ بڑی حکمت سے بنایا گیا ہے۔ جس کا نتیجہ ایک دن نکل کر رہے گا۔ و ہی نتیجہ آخرت ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک فیصلہ کا دن (روزِ قیامت) ان سب کا وقت مقررہ (میعاد) ہے۔ (۴۰)

جس دن کام نہ آئے گا کوئی ساتھی کچھ بھی کسی ساتھی کے اور نہ وہ مدد کئے جائیں گے۔ (۴۱)

مگر جس پر اللہ نے رحم کیا، بیشک وہی غالب، رحم کرنے والا ہے۔ (۴۲)

تشریح: یعنی بس جس پر اللہ کی رحمت ہو جائے و ہی بچے گا۔ کما وردفی الحدیث۔ لا”الا ان یتغمدنی اللہ برحمتہ”۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک تھوہر کا درخت۔ (۴۳) گنہگاروں کا کھانا ہے۔ (۴۴) (وہ) پیٹوں   میں پگھلے ہوئے تانبے کی طرح کھولتا رہے گا۔ (۴۵) جیسے کھولتا ہوا گرم پانی۔ (۴۶)

تشریح:  کسی ادنیٰ مشابہت کی وجہ سے اس کو زقوم (سیہنڈ) کہا گیا ہے ورنہ دوزخ کے سیہنڈ کی کیفیت اللہ ہی کو معلوم ہے جیسے بعض نعمائے جنت اور نعمائے دنیاوی میں اشتراک اسمی ہے۔ اسی طرح جہنم کے متعلق سمجھ لو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اسے پکڑ لو پھر اسے جہنم کے بیچوں بیچ تک کھینچو۔ (۴۷)

تشریح: یہ حکم فرشتوں کو ہو گا جو تعذیب مجرمین پر مامور ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر اس کے سر کے اوپر ڈالو کھولتے ہوئے پانی کے عذاب سے۔ (۴۸)

تشریح: وہ پانی دماغ سے اتر کے آنتوں کو کاٹتا ہوا باہر نکل آئے گا۔ (اعاذنا اللہ منہ)۔

(تفسیرعثمانی)

 

چکھ بیشک تو (اپنے زعم میں) زور آور، عزت والا ہے۔ (۴۹)

تشریح: یعنی تو وہ ہی ہے جو دنیا میں بڑا معزز و مکرم سمجھا جاتا اور اپنے کو سردار ثابت کیا کرتا تھا۔ اب وہ عزت اور سرداری کہاں گئی۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک یہ ہے جس میں تم شک کرتے تھے۔ (۵۰)

تشریح: یعنی تم کو کہاں یقین تھا کہ یہ دن بھی دیکھنا پڑے گا۔ اسی دھوکہ میں تھے کہ بس زندگی یونہی کھیلتے کودتے گزر جائے گی۔ آخر مٹی میں مل کر مٹی ہو جائیں گے ، آگے کچھ بھی نہیں۔ اب دیکھ لیا کہ وہ باتیں سچی تھیں جو پیغمبروں نے بیان کی تھیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

بے شک متقی امن کے مقام میں ہوں گے۔ (۵۱) باغات اور چشموں میں۔ (۵۲)

تشریح: یعنی جو یہاں اللہ سے ڈرتے ہیں وہاں امن چین سے ہوں گے۔ کسی طرح کا خوف اور غم پاس نہ آئے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پہنے ہوئے باریک دبیز ریشم کے کپڑے ایک دوسرے کے آمنے سامنے۔ (۵۳)

تشریح: یعنی ان کی پوشاک باریک اور دبیز ریشم کی ہو گی۔ اور ایک جنتی دوسرے سے اعراض نہ کرے گا بے تکلف دوستوں کی طرح آمنے سامنے بیٹھیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اسی طرح ہم خوبرو، بڑی بڑی آنکھوں والیوں سے ان کے جوڑے بنا دیں گے۔ (۵۴)

وہ مانگیں گے اس میں اطمینان سے ہر قسم کا میوہ۔ (۵۵)

تشریح: یعنی جس میوے کو جی چاہے گا فوراً حاضر کرا دیا جائے گا۔ کوئی فکر نہ ہو گی۔ پوری دلجمعی سے کھائیں پئیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ پہلی موت کے سوا وہاں (پھر) موت کا ذائقہ نہ چکھیں گے ، اور اللہ نے انہیں جہنم کے عذاب سے بچالیا (۵۶)

تشریح: یعنی جو موت پہلے آ چکی وہ آ چکی، اب آگے کبھی موت نہیں دائماً اسی عیش و نشاط میں رہنا ہے نہ ان کو فنا، نہ ان کے سامانوں کو۔

(تفسیرعثمانی)

 

تمہارے رب کے فضل سے یہی ہے بڑی کامیابی۔ (۵۷)

تشریح: اس سے بڑی کامیابی کیا ہو سکتی ہے کہ عذاب الٰہی سے محفوظ و مامون رہے اور ابدالآباد کے لیے موردِ الطاف و افضال بنے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس کے سوا نہیں کہ ہم نے اس (قرآن) کو آسان کر دیا ہے آپ کی زبان میں تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔ (۵۸) پس آپ انتظار کریں بے شک وہ بھی منتظر ہیں۔ (۵۹)

تشریح: یعنی اپنی مادری زبان میں آسانی  سے سمجھ لیں اور یاد رکھیں۔ اگر نہ سمجھیں تو آپ چندے انتظار کیجیے۔ ان کا بد انجام سامنے آ جائے گا۔ یہ تو منتظر ہیں کہ آپ پر کوئی افتاد پڑے۔ لیکن آپ دیکھتے جائیے کہ ان کا کیا حال بنتا ہے۔ تم سورۃ الدخان بفضل اللہ رحمتہ فللہ الحمد والمنۃ۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭٭

ماخذ:

http://anwar-e-islam.org

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید