FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

ترجمہ دعوت القرآن

 

 

 

                   شمس پیر زادہ

 

۴۔ سورۂ ذاریات تا ناس

 

 

 

 

 

 

 

(۵۱)سورۂ الذاریات

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱–قسم ہے ان ہواؤں کی جو گرد اڑاتی ہیں۔

۲–پھر (پانی سے لدے بادلوں کا)بوجھ اٹھاتی ہیں۔

۳–پھر روانی کے ساتھ چلتی ہیں۔

۴–پھر ایک امر (بارش)کی تقسیم کرتی ہیں۔

۵–یقیناً جس چیز کی وعید (تنبیہ)تم کو سنائی جا رہی ہے وہ سچ ہے۔

۶–اور جزا و سزا یقیناً واقع ہو کر رہے گی۔

۷–قسم ہے تہ بہ تہ بادلوں والے آسمان کی۔

۸–تم مختلف باتیں کرتے ہو۔

۹–حق سے وہی پھیرے جاتے ہیں جن کی عقل ماری گئی ہو۔

۱۰–ہلاک ہوں اٹکل سے باتیں کرنے والے۔

۱۲–پوچھتے ہیں جزا و سزا کا دن کب آئے گا؟

۱۳–جس دن یہ آ گ پر تپائے جائیں گے۔

۱۴–چکھو مزا اپنے فتنہ کا۔ یہ وہی چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے۔

۱۵–بلا شبہ اللہ سے ڈرنے والے باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔

۱۶–ان کے رب نے انہیں جو کچھ بخشا ہو گا اسے وہ لے رہے ہوں گے۔ وہ اس سے پہلے نیکو کار تھے۔

۱۷–وہ راتوں میں کم ہی سوتے تھے۔

۱۸–اور سحر کے اوقات میں استغفار کرتے تھے۔

۱۹–اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے۔

۲۰–اور زمین میں بڑی نشانیاں ہیں۔یقین کرنے والوں کے لیے۔

۲۱–اور خود تمہارے اندر بھی کیا تم دیکھتے نہیں؟

۲۲–اور آسمان میں تمہارا رزق بھی ہے۔ اور وہ چیز بھی جس کی وعید (تنبیہ)تم کو سنائی جا رہی ہے۔

۲۳–تو آسمان و زمین کے رب کی قسم یہ بات حق ہے۔ ایسی ہی یقینی جیسے تم بول رہے ہو۔

۲۴–کیا تمہیں ابراہیم کے معزز مہمانوں کی بات پہنچی ہے؟

۲۵–جب وہ اس کے پاس آئے تو انہوں نے کہا سلام۔اس نے کہا آپ لوگوں پر بھی سلام ہو__اجنبی لوگ ہیں۔

۲۶–پھر وہ چپکے سے گھر والوں کے پاس گیا اور ایک فربہ بچھڑا(کا بھُنا ہوا گوشت)لایا۔

۲۷–اور اس کو ان کے سامنے پیش کیا۔ اور کہا کھاتے نہیں!

۲۸– (اور یہ دیکھ کر کہ وہ کھاتے نہیں)اس نے اندیشہ محسوس کیا۔ انہوں نے کہا ڈرئیے نہیں۔ اور اسے ایک ذی علم فرزند کی خوشخبری دی۔

۲۹–یہ سن کر اس کی بیوی چیختی ہوئی آگے بڑھی۔ اس نے اپنا منہ پیٹ لیا اور کہا بڑھیا بانجھ۔

۳۰–انہوں نے کہا ایسا ہی فرمایا ہے تیرے رب نے۔ وہ حکمت والا اور علم والا ہے۔

۳۱–ابراہیم نے پوچھا اے فرستادو! تمہارے سامنے کیا مبہم ہے۔

۳۲–انہوں نے کہا ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔

۳۳–تاکہ ان کے اوپر پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسائیں۔

۳۴–جو آپ کے رب کے پاس حد سے گزر جانے والوں کے لیے نشان زد ہیں۔

۳۵–پھر ہم نے مومنوں کو وہاں سے نکال دیا۔

۳۶–اور وہاں ہم نے ایک گھر کے سوامسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا۔

۳۷–اور ہم نے وہاں ایک نشانی چھوڑ دی ان لوگوں کے لیے جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہوں۔

۳۸–اور موسیٰ کے واقعہ میں بھی نشانی ہے۔ جب ہم نے اسے فرعون کے پاس صریح قاہرانہ حجت کے ساتھ بھیجا۔

۳۹–تو اس نے اپنی طاقت کے گھمنڈ میں منہ موڑا اور کہا یہ جادوگر ہے یا دیوانہ۔

۴۰–بالآخر ہم نے اس کو اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور ان کو سمندر میں پھینک دیا اس حال میں کہ وہ اپنے کو ملامت کر رہا تھا۔

۴۱–اور عاد کے واقعہ میں بھی نشانی ہے جب کہ ہم نے ان پر خشک ہوا بھیج دی۔

۴۲–وہ جس چیز پر سے بھی گزری اسے بوسیدہ کر کے رکھ دیا۔

۴۳–اور ثمود کے واقعہ میں بھی نشانی ہے جب کہ ان سے کہا گیا کہ ایک وقت تک فائدہ اٹھا لو۔

۴۴–مگر انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی۔ تو ان کو کڑک نے آ لیا اور وہ دیکھتے ہی رہ گئے۔

۴۵–پھر نہ وہ اٹھ سکے اور نہ اپنا بچاؤ کرسکے۔

۴۶–اور نوح کی قوم کو بھی ہم نے ان سے پہلے پکڑا۔ وہ بھی نافرمان لوگ تھے۔

۴۷–اور آسمان کو ہم نے قدرت سے بنایا اور ہم بڑی وسعت رکھنے والے ہیں۔

۴۸–اور زمین کو ہم نے بچھایا تو کیا خوب بچھانے والے ہیں۔

۴۹–اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم یاد دہانی حاصل کرو۔

۵۰–تو اللہ کی طرف دو ڑو۔ میں اس کی طرف سے تمہارے لیے کھلا خبردار کرنے والا ہوں۔

۵۱–اور اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ ٹھہراؤ۔ میں اس کی طرف سے تمہارے لیے کھلا خبردار کرنے والا ہوں۔

۵۲–اسی طرح ان سے پہلے گزری ہوئی قوموں کے پاس جو رسول بھی آیا اس کو انہوں نے جادوگر یا دیوانہ ہی کہا۔

۵۳–کیا وہ ایک دوسرے کو اس کی وصیت کر گئے ہیں؟ در حقیقت یہ سرکش لوگ ہیں۔

۵۴–لہٰذا تم ان سے رخ پھیر لو۔تم پر کوئی الزام نہیں۔

۵۵–اور نصیحت کرتے رہو کیونکہ نصیحت ایمان لانے والوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔

۵۶–میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔

(۵۷–میں نہ ان سے رزق چاہتا ہوں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔

(۵۸–یقیناً اللہ ہی رزاق” قوت والا” زور آور ہے۔

۵۹–پس ان ظالموں کے لیے ویسا ہی پیمانہ ہے جیسا ان کے ہم مشروبوں کے لیے تھا۔ تو یہ جلدی نہ مچائیں۔

۶۰–ان کافروں کے لیے اس دن تباہی ہے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

(۵۲) سورۂ الطور

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– قسم ہے طور کی

۲– اور ایک ایسی کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے۔

۳– جھلّی کے کھلے اوراق میں۔

۴– اور آباد گھر کی۔

۵– اور بلند چھت کی۔

۶– اور لبریز سمندر کی۔

۷– کہ تمہارے رب کا عذاب واقع ہو کر رہے گا۔

۸– کوئی اسے دفع کرنے والا نہیں۔

۹– جس دن آسمان تھر تھرانے لگے گا۔

۱۰–اور پہاڑ چلنے لگیں گے۔

۱۱– تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔

۱۲– جو بحث میں پڑے کھیل رہے ہیں۔

۱۳– جس دن انہیں جہنم کی طرف دھکے دے دے کر لے جایا جائے گا۔

۱۴– یہ ہے وہ جہنم جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔

۱۵– کیا یہ جادو ہے یا تمہیں سوجھ نہیں رہا ہے؟۔

–داخل ہو جاؤ اس میں۔ اب صبر کرو یا نہ کرو تمہارے لیے یکساں ہے تمہیں وہی بدلہ میں دیا جا رہا ہے جو تم کرتے رہے۔

۱۷– بلا شبہ متقی باغوں اور نعمتوں میں ہوں گے۔

۱۸– لطف اٹھا رہے ہوں گے ان نعمتوں کا جو ان کے رب نے انہیں بخشی ہوں گی اور ان کے رب نے انہیں جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھا ہوگا۔

۱۹– کھاؤ اور پیو مزے سے اپنے اعمال کے بدلہ میں جو تم کرتے رہے۔

۲۰– وہ قطار در قطار تختوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے۔ اور حسین چشم حوروں سے ہم ان کا بیاہ کر دیں گے۔

۲۱– اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی ایمان کے ساتھ ان کے پیچھے چلی ہم ان کی اولاد کو بھی ان سے ملا دیں گے۔ اور ان کے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہ کریں گے۔ ہر شخص اپنی کمائی کے بدلہ رہن(گروی) ہے۔

۲۲– اور وہ جس قسم کے میووں اور گوشت کی خواہش کریں گے ہم ان کو برابر دیتے رہیں گے۔

۲۳– وہ آگے بڑھ کر ایک دوسرے سے ایسی شراب کے جام لے رہے ہوں گے جس میں نہ بے ہودگی ہو گی اور نہ گناہ کی کوئی بات۔

۲۴– ایسے خوبصورت لڑکے ان کی خدمت میں لگے ہوئے ہوں گے جو گویا چھپائے ہوئے موتی ہیں۔

۲۵– یہ لوگ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر دریافت حال کریں گے۔

۲۶– کہیں گے اس سے پہلے ہم اپنے گھر والوں میں (اللہ سے) ڈرتے رہتے تھے۔

۲۷– تو اللہ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں جھلسا دینے والے عذاب سے بچا لیا۔

۲۸– اس سے پہلے ہم اس کو پکارتے تھے۔ واقعی وہ بڑا ہی محسن اور رحیم ہے۔

۲۹– تو(اے پیغمبر!) تم فہمائش کرو اپنے رب کے فضل سے نہ تم کاہن ہو اور نہ دیوانے۔

۳۰– کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے جس کے لیے ہم گردشِ ایام کا انتظار کر رہے ہیں۔

۳۱–(ان سے)کہو تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔

۳۲– کیا ان کی عقلیں ان کو ایسی ہی باتیں سکھاتی ہیں یا ہیں ہی یہ سرکش لوگ؟

۳۳– کیا یہ کہتے ہیں کہ اس (قرآن )کو اس نے خود ہی گھڑ لیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایمان نہیں لانا چاہتے۔

۳۴– اگر یہ سچے ہیں تو اس جیسا کلام لائیں۔

۳۵– کیا یہ کسی کے پیدا کئے بغیر پیدا ہو گئے ہیں یا یہ خود ہی (اپنے) خالق ہیں؟

۳۶– کیا آسمانوں اور زمین کو انہوں نے پیدا کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ یقین نہیں رکھتے۔

۳۷– کیا تمہارے رب کے خزانے ان کے پاس ہیں یا ان پر ان کا تسلط ہے؟

۳۸– کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر وہ (آسمان کی باتیں) سن لیتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو سننے والا واضح حجت پیش کرے۔

۳۹– کیا اس کے لیے بیٹیاں ہیں اور تم لوگوں کے لیے بیٹے!

۴۰– کیا تم ان سے کوئی معاوضہ طلب کرتے ہو۔ کہ وہ اس تاوان کے بوجھ تلے دبے جار ہے ہیں؟

۴۱– کیا ان کے پاس غیب کا علم ہے کہ یہ لکھ رہے ہوں؟

۴۲– کیا یہ کوئی چال چلنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو کفر کرنے والے ہی اس چال میں گرفتار ہوں گے۔

۴۳– کیا اللہ کے سوا ان کے لیے کوئی اور معبود ہے؟ پاک ہے اللہ ان چیزوں سے جن کو یہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔

۴۴– یہ لوگ آسمان کا کوئی ٹکڑا بھی گرتے ہوئے دیکھ لیں گے تو کہیں گے تہ بہ تہ بادل ہے۔

۴۵– تو ان کو چھوڑ دو یہاں تک کہ یہ اپنے اس دن کو پہنچ جائیں جس میں ان کے ہوش اڑ جائیں گے۔

۴۶– جس دن نہ ان کی کوئی چال ان کے کام آئے گی اور نہ ان کو کوئی مدد مل سکے گی۔

۴۷–اور ظالموں کے لیے اس سے پہلے بھی عذاب ہے مگر ان میں سے اکثر جانتے نہیں ہیں۔

۴۸–(اے پیغمبر!) تم صبر کے ساتھ اپنے رب کے فیصلہ کا انتظار کرو۔ تم ہماری نگاہ میں ہو۔ اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرو جب تم اٹھتے ہو۔

۴۹– اور رات میں بھی اس کی تسبیح کرو۔ ار اس وقت بھی جب ستارے غروب ہوتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

(۵۳) سورۂ النجم

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱–قسم ہے تارے کی جب کہ وہ غروب ہو۔

۲–تمہارا ساتھی نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا ہے۔

۳–وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا۔

۴–یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر کی جاتی ہے۔

۵–اسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے۔

۶–جو بڑا توانا ہے۔ وہ سیدھا کھڑا ہو گیا۔

۷–اور وہ افق اعلیٰ پر تھا۔

۸– پھر قریب ا گیا اور معلق ہو گیا۔

۹– یہاں تک کہ دو کمانوں کے بقدر بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔

۱۰–تب اس نے وحی کی اس کے (اللہ کے) بندہ کی طرف جو کچھ وحی کی۔

۱۱–جو کچھ اس نے دیکھا دل نے اسے جھوٹ نہ کہا۔

۱۲–تو کیا تم اس چیز پر اس سے جھگڑتے ہو جس کا وہ مشاہدہ کرتا ہے۔

۱۳–اور اس نے ایک مرتبہ اور بھی اس کو نازل ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔

۱۴–سدرۃ المنتہی کے پاس۔

۱۵–جس کے پاس جنت المأویٰ ہے۔

۱۶–جبکہ سِدْرَہ پر چھا رہا تھا جو کچھ کہ چھا رہا تھا۔

۱۷–نگاہ نہ کج ہوئی اور نہ حد سے متجاوز ہوئی۔

۱۸–اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔

۱۹–کیا تم نے لات اور عزیٰ کو دیکھا؟

۲۰–اور ایک اور مَنات کو جو تیسرا ہے ؟

۲۱–کیا تمہارے لیے بیٹے ہیں اور اس کے لیے بیٹیاں ؟

۲۲–یہ تو بڑی بھونڈی تقسیم ہوئی؟

۲۳–یہ تو محض نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے کی رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔۔ یہ لوگ محض گمان اور خواہشاتِنفس کی پیروی کر رہے ہیں حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آ چکی ہے۔

۲۴–کیا انسان جس چیز کی بھی تمنا کرے وہ اسے ملے گی؟

۲۵–دنیا اور آخرت تو اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔

۲۶–آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں جن کی سفارش کچھ بھی کام نہیں آ سکتی مگر اس کے بعد کہ اللہ اجازت دے جس کو چاہے اور جس کے حق میں پسند کرے۔

۲۷–جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کو عورتوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔

۲۸–حالانکہ انہیں اس کا کوئی علم نہیں۔ وہ محض گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور گمان حق کی جگہ کچھ بھی مفید نہیں۔

۲۹–تو ان لوگوں کی طرف سے توجہ ہٹا دو جنہوں نے ہمارے ذکر کی طرف سے رُخ پھیرا ہے اور جن کا مقصود صرف دنیا کی زندگی ہے۔

۳۰– ان کے علم کی پہنچ یہیں تک ہے۔ تمہارا رب ہی خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ سے بھٹک گیا ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ کون راہِ راست پر ہے۔

۳۱–اور جو کچھ آسمان اور جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے ___ (اور ا س نے اس لیے پیدا کیا ہے) تاکہ جن لوگوں نے بُرے کام کئے ہیں ان کو ان کے عمل کا بدلہ دے اور جن لوگوں نے اچھے کام کئے ہیں ان کو اچھی جزا دے۔

۳۲–جو بڑے بڑے گناہوں اور کھلی بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں الاّ یہ کہ کچھ قصور ان سے سرزد ہو جائے۔ بلا شبہ تمہارے رب کا دامنِ مغفرت بہت وسیع ہے۔ وہ تمہیں خوب جانتا ہے جس اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا۔ اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں جنین (بچہ) تھے۔ تو اپنے کو پاکیزہ نہ ٹھہراؤ۔ وہی بہتر جانتا ہے کون متقی ہے۔

۳۳–کیا تم نے اس کو دیکھا جس نے منہ موڑا۔

۳۴–اور تھوڑا سا دیا اور رک گیا۔

۳۵–کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ اسے دیکھ رہا ہے۔

۳۶–کیا اسے ان باتوں کی خبر نہیں پہنچی جو صحیفوں میں ہے موسیٰ کے۔

۳۷–اور ابراہیم کے جس نے اپنا قول پورا کر دکھایا۔

۳۸– (صحیفوں کی) یہ بات کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔

۳۹–اور یہ کہ انسان کے لیے وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی۔

۴۰–اور یہ کہ اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی۔

۴۱–پھر اس کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔

۴۲–اور یہ کہ آخر کار پہنچنا تمہارے رب ہی کے پاس ہے۔

۴۳–اور یہ کہ وہی ہنساتا اور رلاتا ہے۔

۴۴–اور وہی مارتا اور زندہ کرتا ہے۔

۴۵–اور وہی ہے جس نے مرد اور عورت کا جوڑا پیدا کیا۔

۴۶–ایک بوند سے جب وہ ڈالی جاتی ہے۔

۴۷–اور یہ کہ دوسری مرتبہ پیدا کرنا بھی اسی کے ذمہ ہے۔

۴۸–اور یہ کہ اسی نے غنی کیا اور مال بخشا۔

۴۹–اور یہ کہ وہی شِعریٰ (تارے) کا رب ہے۔

۵۰–اور یہ کہ اسی نے اگلے عاد کو ہلاک کیا۔

۵۱–اور ثمود کو کسی کو باقی نہ چھوڑا۔

۵۲–اور ان سے پہلے قومِ نوح کو۔ وہ نہایت ظالم اور سرکش تھے۔

۵۳–اور الٹی ہوئی بستیوں کو بھی گرا دیا۔

۵۴–تو ان پر چھا دیا جو کچھ کہ چھا دیا۔

۵۵–تو اپنے رب کی کن کن نشانیوں میں تم شک کرو گے۔

۵۶–یہ خبردار کرنے والا ہے ان خبردار کرنے والوں میں سے جو پہلے آ چکے ہیں۔

۵۷–آنے والی گھڑی قریب آ لگی ہے۔

۵۸–اللہ کے سوا اس کو ظاہر کرنے والا کوئی نہیں۔

۵۹–کیا اس بات پر تم تعجب کرتے ہو۔

۶۰–ہنستے ہو اور روتے نہیں۔

۶۱ا–ور غفلت میں پڑے ہو۔

۶۲–تو (سنو) اللہ کو سجدہ کرو اور اس کی عبادت کرو۔

٭٭٭

 

 

(۵۴) سورۂ القمر

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا۔

۲– اور ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ کوئی نشانی دیکھ لیتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو جادو ہے جو چلا آ رہا ہے۔

۳– انہوں نے جھٹلایا اور اپنی خواہشات کی پیروی کی۔ اور ہر معاملہ کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔

۴–ان کے پاس ان تاریخی واقعات کی خبریں پہنچ چکی ہیں جن میں جھنجھوڑنے کا کافی سامان موجود ہے۔۴‏

۵– نہایت مؤثر حکمت لیکن تنبیہیں ان پر کار گر نہیں ہو رہی ہیں۔

۶–تو ان سے رخ پھیر لو۔ جس دن پکار نے والا انہیں ایک سخت ناگوار چیز کی طرف پکارے گا۔

۷– ان کی نگاہیں ذلت سے جھکی ہوئی ہوں گی۔ اور اس طرح قبروں سے نکلیں گے کہ گویا بکھری ہوئی ٹڈیاں ہیں۔

۸– پکارنے والے کی طرف سہمے ہوئے دوڑ رہے ہوں گے۔ اس وقت کافر کہیں گے یہ بڑا کٹھن دن ہے۔

۹– ان سے پہلے نوح کی قوم نے جھٹلایا تھا۔ انہوں نے ہمارے بندے کو جھٹلایا اور کہا یہ دیوانہ ہے اور وہ جھڑک دیا گیا۔

۱۰– تو اس نے اپنے رب کو پکارا کہ میں مغلوب ہوں۔ اب تو ان سے انتقام لے۔

۱۱– تب ہم نے آسمان کے دروازے موسلا دھار بارش سے کھول دیئے۔

۱۲– اور زمین پر چشمے بہا دئے تو پانی اس کام کے لیے مل گیا جو مقدر ہو چکا تھا۔

۱۳– اور ہم نے اسے ایسی کشتی میں سوار کر دیا جو تختوں اور میخوں والی تھی۔

۱۴– وہ ہماری نگرانی میں چل رہی تھی۔ یہ صلہ تھا اس شخص کے لیے جس کی ناقدری کی گئی تھی۔

۱۵ — ہم نے اس(کشتی ) کو ایک نشانی بنا کر چھوڑ دیا۔ تو ہے کوئی عبرت حاصل کرنے والا؟

۱۶– دیکھ لو کیسا تھا میرا عذاب اور کیسی تھیں میری تنبیہیں۔

۱۷– اور ہم نے قرآن کو نصیحت پذیری کے لیے آسان بنا دیا ہے تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟

۱۸– عاد نے جھٹلایا تو دیکھو کیسا رہا میرا عذاب اور کیسی رہیں میری تنبیہیں !

۱۹– ہم نے ایک مسلسل نحوست کے دن ان پر تند ہوا بھیج دی۔

۲۰– جو لوگوں کو اکھاڑ کر اس طرح پھینک رہی تھی کہ گویا وہ اکھڑی ہوئی کھجور کے تنے ہیں۔

۲۱–تو دیکھو کیسا رہا میرا عذاب اور کیسی رہیں میری تنبیہیں۔

۲۲– اور ہم نے قرآن کو نصیحت پذیری کے لیے آسان بنا دیا تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟

۲۳– ثمود نے بھی تنبیہوں کو جھٹلایا۔

۲۴– کہنے لگے کیا ہم ایک بشر کی پیروی کریں گے جو ہم ہی میں سے ہے ؟ اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم غلط راہ پر جا پڑے اور دیوانگی میں مبتلا ہوئے۔

۲۵– کیا ہمارے اندر سے اسی پر ذکر (نصیحت) نازل کیا گیا ؟ نہیں بلکہ یہ بڑا جھوٹا اور گھمنڈی ہے۔

۲۶– کل انہیں معلوم ہوا جاتا ہے کہ کون بڑا جھوٹا اور گھمنڈی ہے۔

۲۷– ہم اونٹنی کو ان کے لیے آزمائش بنا کر بھیج رہے ہیں۔ تو ان کو دیکھتے رہو اور صبر کرو۔

۲۸– اور ان کو بتا دو کہ پانی ان کے درمیان تقسیم ہو گا۔ ہر ایک کو اپنی باری کے دن پانی پر آنا ہے۔

۲۹– مگر انہوں نے اپنے ساتھی کو بلایا اور اس نے آگے بڑھ کر اس کی کونچیں کاٹ دیں۔

۳۰– تو دیکھو کیسا رہا میرا عذاب اور کیسی رہیں میری تنبیہیں۔

۳۱ — ہم نے ان پر ایک ہی ہولناک آواز بھیجی تو وہ باڑ والے کی باڑ کے چورے کی طرح ہو کر رہ گئے۔

۳۲– اور ہم نے قرآن کو نصیحت پذیری کے لیے آسان بنایا ہے تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟

۳۳– لوط کی قوم نے بھی تنبیہوں کو جھٹلایا۔

۳۴– ہم نے ان پر پتھر برسانے والی ہوا بھیج دی۔ صرف لوط کے متعلقین اس سے بچے۔ ہم نے ان کو سحر کے وقت نجات دی۔

۳۵– اپنے خاص فضل سے اس طرح ہم جزا دیتے ہیں ان کو جو شکر کرتے ہیں۔

۳۶– اس نے ان کو ہماری پکڑ سے خبردار کر دیا تھا مگر وہ تنبیہات میں شک کرتے رہے۔

۳۷– اور انہوں نے اس کو اپنے مہمانوں کی عزت بچانے سے باز رکھنا چاہا تو ہم نے ان کی آنکھیں اندھی کر دیں۔ کہ چکھو میرے عذاب اور میری تنبیہات کا مزہ۔

۳۸– صبح سویرے ان کو قائم رہنے والے عذاب نے آ لیا۔

۳۹– تو چکھو میرے عذاب اور میری تنبیہات کا مزا

۴۰– اور ہم نے قرآن کو نصیحت پذیری کے لیے آسان بنایا ہے۔ تو کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا۔

۴۱– اور آلِ فرعون کے پاس بھی تنبیہیں آتی تھیں۔

۴۲– مگر انہوں نے ہماری ساری نشانیوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کو پکڑا جو ایک غالب اور قدرت والے کی پکڑ تھی۔

۴۳– کیا تمہاری قوم کے کفار ان قوموں کے کفار سے بہتر ہیں۔ یا تمہارے لیے آسمانی صحیفوں میں برأت لکھی ہوئی ہے ؟

۴۴– یا وہ کہتے ہیں کہ ہم سب مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔

۴۵– عنقریب ان کا جتھا شکست کھائے گا اور یہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔

۴۶– بلکہ ان سے اصل وعدہ تو قیامت کا ہے۔ ۴۵ اور قیامت کی گھڑی بڑی سخت اور کڑوی ہو گی۔

۴۷– مجرم گمراہی اور عقل کی خرابی میں مبتلا ہیں۔

۴۸– جس دن یہ اپنے منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے۔ اب چکھو جہنم کی لپیٹ کا مزا۔

۴۹– ہم نے ہر چیز ایک تقدیر(منصوبہ) کے ساتھ پیدا کی ہے۔

۵۰– اور ہمارا حکم تو بس یک بارگی پلک جھپکنے کی طرح عمل میں آ جائے گا۔

۵۱– ہم تمہارے ہم مشربوں۔ (تمہارے طریقہ پر چلنے والوں ) کو ہلاک کر چکے ہیں تو ہے کوئی سبق لینے والا۔

۵۲– جو کچھ انہوں نے کیا ہے وہ سب ریکارڈ میں محفوظ ہے۔

۵۳– اور ہر چھوٹی بڑی بات ضبطِ تحریر میں لائی گئی ہے۔

۵۴)– بلا شبہ متقی باغوں اور نہروں میں ہوں گے۔

۵۵– سچے مقام میں ایک با اقتدار بادشاہ کے پاس۔

٭٭٭

 

 

(۵۵) سورۂ الرحمٰن

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱– رحمن نے۔۔۔۔

۲– قرآن کی تعلیم دی۔

۳– اس نے انسان کو پیدا کیا۔

۴– اور اس کو بولنا سکھایا۔

۵– سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں۔

۶– اور ستارے اور درخت سجدہ کرتے ہیں۔

۷– آسمان کو اس نے بلند کیا۔ اور میزان رکھ دی۔

۸– کہ تم میزان میں تجاوز نہ کرو۔

۹– اور ٹھیک تولو انصاف کے ساتھ اور وزن میں کمی نہ کرو۔

۱۰– زمین کو اس نے خلق کے لیے بچھایا۔

۱۱– اس میں میوے ہیں اور کھجور ہیں غلاف چڑھے ہوئے۔

۱۲– اور غلے ہیں بھس والے اور خوشبو دار پھل بھی۔

۱۳– تو ( اے گروہِ جن و گروہِ انس !) تم اپنے رب کے کن کن احسانات کا انکار کرو گے۔

۱۴– انسان کو اس نے ٹھیکری کی طرح کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا۔

۱۵– اور جِن کو آگ کے شعلے سے۔

۱۶– تو ( اے گروہِ انس و جن) تم اپنے رب کے کن کن کرشموں کا انکار کرو گے!

۱۷– وہ دونوں مشرقوں اور دونوں مغربو ں کا رب ہے۔

۱۸– تو تم اپنے رب کی کس کس قدرت کا انکار کرو گے!

۱۹– اس نے دو سمندروں کو چھوڑدیا کہ باہم مل جائیں۔

۲۰– ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہوتا ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔

۲۱– تو تم اپنے رب کے کن کن عجائبِ قدرت کا انکار کرو گے !

۲۲– ان سے موتی اور مرجان نکلتے ہیں۔

۲۳– تو تم اپنے رب کے کن کن کمالاتِ قدرت کا انکار کرو گے!

۲۴– اسی کے اختیار میں ہیں سمندر میں پہاڑوں کی طرح اونچے اٹھے ہوئے جہاز۔

۲۵– تو تم اپنے رب کے کن کن کرشموں کا انکار کرو گے!

۲۶– زمین پر جو بھی ہیں فنا ہونے والے ہیں

۲۷– اور تمہارے رب کی ذاتی ہی باقی رہنے والی ہے جو صاحبِ جلال و اکرام ہے۔

۲۸– تو تم اپنے رب کی کن خوبیوں کا انکار کرو گے!

۲۹– آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں سب اس سے مانگتے ہیں ہر روز وہ ایک نئی شان میں ہے۔

۳۰– تو تم اپنے رب کے کن کن کمالات کا انکار کرو گے!

۳۱– اے دو عظیم گروہو! ہم تمہارے لیے فارغ ہوئے جاتے ہیں۔

۳۲– تو تم اپنے رب کے کن کن کرشموں کا انکار کروگے!

۳۳– اے گروہِ جن و انس ! اگر تم آسمانو ں اور زمین کی سرحدوں سے نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ۔ نہیں نکل سکتے بغیر اختیار کے۔

۳۴– تو تم اپنے رب کی کن کن نشانیوں کا انکار کرو گے!

۳۵– تم پر آگ کے شعلے اور دھواں چھوڑدیا جائے گا۔ پھر تم اپنا بچاؤ نہ کرسکو گے۔

۳۶– تو تم اپنے رب کے کن کن کمالاتِ قدرت کا انکار کرو گے!

۳۷– (کیا حال ہو گا) جب آسمان پھٹ جائے گا اور چمڑے کی طرح سُرخ ہو جائے گا۔

۳۸– تو تم اپنے رب کے کن کن کرشموں کا انکار کرو گے!

۳۹– اس روز کسی انسان یا جِن سے اس کے گناہ کے بارے میں پوچھا نہیں جائے گا۔

۴۰– تو تم اپنے رب کے کن کن کمالاتِ قدرت کا انکار کرو گے!

۴۱– مجرم اپنے چہروں سے پہچان لئے جائیں گے اور انہیں پیشانی کے بال اور پاؤں پکڑ کر گھسیٹا جائے گا۔

۴۲– تو تم رب کے کن کن کمالاتِ قدرت کا انکار کرو گے!

۴۳– یہ وہی جہنم ہے جس کا مجرم انکار کرتے رہے۔

۴۴– وہ اس کے جوار میں کھولتے ہوئے پانی کے درمیان چکر لگاتے رہیں گے۔

۴۵– تو تم اپنے رب کے کن کن کمالاتِ قدرت کا انکار کرو گے!

۴۶– اور اس کے لیے جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا، دو باغ ہوں گے۔

۴۷– تو تم اپنے رب کی کن کن نوازشوں کا انکار کرو گے!

۴۸– دونوں کثیر ڈالیوں والے ہوں گے۔

۴۹– تو تم اپنے رب کی کن کن نوازشوں کا انکار کرو گے!

۵۰– دونوں میں دو چشمے جاری ہوں گے۔

۵۱– تو تم اپنے رب کی کن کن نوازشوں کا انکار کروگے!

۵۲– ان میں ہر میوے کی دو قسمیں ہوں گی۔

۵۳– تو تم اپنے رب کی کن کن نوازشوں کا انکار کرو گے!

۵۴– وہ اپنے ایسے بچھونوں پر تکیہ لگائے بیٹھیں گے جن کے استر موٹے ریشم کے ہوں گے۔ اور باغوں کے پھل جھکے پڑے ہوں گے۔

۵۵– تو تم اپنے رب کی کن کن نوازشوں کا انکار کرو گے!

۵۶– ان میں شرمیلی نگاہوں والی (حوریں) ہوں گی جن کو ان سے پہلے کسی انسان یا جِن نے چھوا نہ ہو گا۔

۵۷– تو تم اپنے رب کی کن کن نوازشوں کا انکار کروگے!

۵۸– گویا کہ وہ یاقوت اور مرجان ہیں۔

۵۹– تو تم اپنے رب کی کن کن نوازشوں کا انکار کرو گے!

۶۰– بھلائی کا بدلہ بھلائی کے سوا اور کیاہو گا!

۶۱– تو تم اپنے رب کی کن کن نوازشوں کا انکار کرو گے!

۶۲– ان کے علاوہ د و باغ اور بھی ہوں گے۔

۶۳– تو تم اپنے رب کے کن کن انعامات کا انکار کرو گے!

۶۴– دونوں گہرے سبز۔

۶۵– تو تم اپنے رب کے کن کن کرشموں کا انکار کرو گے!

۶۶– ان میں دو چشمے ہوں گے جوش مارتے ہوئے۔

۶۷– تو تم اپنے رب کے کن کن کمالات کا انکار کرو گے!

۶۸– ان میں میوے اور کھجور اور انار ہوں گے۔

۶۹– تو تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا انکار کرو گے!

۷۰– ان میں خوش اخلاق حسینائیں ہوں گی۔

۷۱– تو تم اپنے رب کی کن کن نوازشوں کا انکار کرو گے!

۷۲– حوریں خیموں میں ٹھہری ہوئی۔

۷۳– تو تم اپنے رب کے کن کن انعامات کا انکار کرو گے!

۷۴– ان کو ان جنتیوں سے پہلے نہ کسی انسان نے چھوا ہو گا اور نہ کسی جِن نے۔

۷۵– تو تم اپنے رب کے کن کن انعامات کا انکار کرو گے!

۷۶– نہایت نفیس اور سبز مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔

۷۷– تو تم اپنے رب کے کن کن انعامات کا انکار کرو گے!

۷۸– بڑی برکت والا ہے تمہارے رب کا نام جو جلال اور بزرگ والا ہے۔

٭٭٭

 

 

(۵۶)سورۂ الواقعۃ

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– جب واقع ہونے والی واقع ہوگی۔

۲– اس کے واقع ہونے میں کوئی جھوٹ نہیں۔

۳– پست کر دینے والی اور بلند کر دینے والی۔

۴– جب زمین شدید اضطراب کے ساتھ لرزنے لگے گی۔

۵– اور پہاڑ ریزہ ریزہ کر دئے جائیں گے۔

۶– اور وہ غبار بن کر اڑنے لگیں گے۔

۷– اور تم تین گروہوں میں تقسیم ہو جاؤ گے۔

۸– تو داہنے ہاتھ والے۔ کیا ہیں داہنے ہاتھ والے!

۹– اور بائیں ہاتھ والے۔ کیا ہیں بائیں ہاتھ والے!

۱۰– اورسبقت کرنے والے تو ہیں ہی سبقت کرنے والے۔

۹۱۱– وہ مُقرب ہیں۔

۱۲– نعمت کے باغوں میں۔

۱۳– بڑا گروہ اگلوں میں سے ہوگا۔

۱۴– اور تھوڑے سے پچھلوں میں سے۔

۱۵– مُرصّع (جڑے ہوئے) تختوں پر

۱۶– آمنے سامنے تکیہ لگائے ہوئے۔

۱۷– ان کے پاس گردش کریں گے ایسے لڑکے جو ہمیشہ اسی حالت میں رہیں گے۔

۱۸– پیالے اور جگ اور بہتی ہوئی شراب کے جام لیے ہوئے۔

۱۹– جس سے نہ سردرد ہو اور نہ عقل جاتی رہے۔

۲۰– اور میوے جو وہ پسند کریں۔

۲۱– اور پرندوں کے گوشت جو ان کو مرغوب ہوں۔

۲۲– اور ان کے لیے حسین چشم حوریں ہوں گی۔

۲۳– جیسے محفوظ موتی۔

۲۴– جزاء ان کے ان اعمال کی جو وہ کرتے رہے۔

۲۵– وہ وہاں نہ کوئی لغو بات سنیں گے اور نہ گناہ کی کوئی بات۔

۲۶– بس سلامتی ہی سلامتی کی باتیں ہوں گی۔

۲۴۲۷– اور داہنے ہاتھ والے تو کیا شان ہے داہنے ہاتھ والوں کی۔

۲۸– وہ بے خار بیریوں میں ہوں گے۔

۲۹– اور تہ بہ تہ کیلوں۔

۳۰– اور پھیلی ہوئی چھاؤں۔

۳۱– اور آبِ رواں۔

۳۲– اور بہ کثرت پھلوں میں۔

۳۳– جو نہ کبھی ختم ہوں گے اور نہ ان سے روکا جائے گا۔

۳۴– اور اونچے بستروں میں ہوں گے۔

۳۵– ان کی بیویوں کو ہم نے خاص اٹھان پر اٹھایا ہوگا۔

۳۶– اور ان کو باکرہ بنایا ہوگا۔

۳۷– پیاری اور ہم عمر۔

۳۸– داہنے ہاتھ والوں کے لیے۔

۳۹– وہ اگلوں میں سے بڑی تعداد میں ہوں گے۔

۴۰– اور بعد والوں میں سے بھی بڑی تعداد میں۔

۴۱– اور بائیں ہاتھ والے! کیا حال ہوگا بائیں ہاتھ والوں کا!

۴۲– وہ لُو کی لپٹ، کھولتے ہوئے پانی،

۴۳– اور کالے دھوئیں کے سایہ میں ہوں گے۔

۴۴– جو نہ ٹھنڈا ہوگا اور نہ مفید۔

۴۵– یہ لوگ اس سے پہلے خوش حال تھے۔

۴۶– اور بہت بڑے گناہ پر اصرار کرتے رہے۔

۴۷– اور کہتے تھے کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہو کر رہ جائیں گے تو پھر اٹھائے جائیں گے؟

۴۸– اور کیا ہمارے باپ دادا بھی؟

۴۹– کہو یقیناً اگلے اور پچھلے،

۵۰– سب ایک مقررہ دن کی میقات پر جمع کئے جائیں گے۔

۵۱– پھر اے گمراہو اور جھٹلانے والو!

۵۲– تم زقوم کے درخت کی غذا کھاؤ گے۔

۵۳– اسی سے پیٹ بھرو گے۔

۵۴– پھر اس پر کھولتا ہوا پانی پیو گے۔

۵۵– تونسے (پیاسے) اونٹ کی طرح۔

۵۶– یہ ہے ان کی ضیافت جزا کے دن۔

۵۷– ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے تو تم سچ کیوں نہیں مانتے؟

۵۸– کیا تم نے غور کیا جو منی تم ڈالتے ہو۔

۵۹– اس کو (انسان کی)شکل تم دیتے ہو یا ہم دیتے ہیں؟

۶۰– ہم نے تمہارے درمیان موت مقدر کی ہے۔ اور ہم عاجز نہیں ہیں۔

۶۱– اس بات سے کہ تمہاری شکلیں بدل دیں اور تمہیں ایسی مخلوق بنا دیں جن کو تم نہیں جانتے۔

۶۲– اپنی پہلی پیدائش کو تم جانتے ہو پھر کیوں یاددہانی حاصل نہیں کرتے۔

۶۳– کیا تم نے غور کیا اس چیز پر جو تم بوتے ہو؟

۶۴– اس سے کھیتی تم اگاتے ہو یا اگانے والے ہم ہیں؟

۶۵– ہم چاہیں تو اسے چورا چورا کر کے رکھ دیں اور تم باتیں بناتے ہی رہ جاؤ۔

۶۶– کہ ہم تو تاوان میں پڑ گئے۔

۶۷– بلکہ محروم ہو کر رہ گئے۔

۶۸– کیا تم نے اس پانی پر غور کیا جو تم پیتے ہو؟

۶۹– کیا تم نے اس کو بادل سے اتارا ہے یا اس کے اتارنے والے ہم ہیں؟

۷۰– اگر ہم چاہیں تو اس کو کڑوا بنا کر رکھ دیں پھر تم شکر کیوں نہیں کرتے!

۷۱– تم نے اس آگ پر بھی غور کیا جس کو تم سلگاتے ہو۔

۷۲– اس کا درخت تم نے پیدا کیا ہے یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں؟

۷۳– ہم نے اس کو یاد دہانی کا ذریعہ اور مسافروں کے لیے مفید چیز بنایا ہے۔

۷۴– تو ( اے نبی!) تم اپنے عظمت والے رب کے نام کی تسبیح کرو۔

۷۵– نہیں۔ میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے غروب ہونے کے مقامات کی۔

۷۶– اور یہ بہت بڑی قسم ہے اگر تم جانو۔

۷۷– بلا شبہ یہ ایک عزت والا قرآن ہے۔

۷۸– ایک محفوظ کتاب میں۔

۷۹– اس کو نہیں چھوتے مگر پاکیزہ۔

۸۰– یہ رب العالمین کا نازل کیا ہوا ہے۔

۸۱– پھر کیا تم اس سے سہل انگاری برتتے ہو۔

۸۲– اور اس (نعمت میں) اپنا حصہ یہ رکھتے ہو کہ اسے جھٹلاؤ؟

۸۳— تو کیوں نہیں ( کچھ کر پاتے) جب جان حلق تک پہنچتی ہے۔

۸۴– اور تم اس وقت دیکھ رہے ہوتے ہو۔

۸۵– اور ہم تمہاری نسبت اس کے زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تم دیکھ نہیں پاتے۔

۸۶– تو اگر تم محکوم نہیں ہو تو کیوں نہیں۔

۸۷– اس جان کو لوٹا لیتے اگر تم سچے ہو؟

۸۸– پھر اگر وہ ہوا مقربین (جن کو اللہ سے قریب ہونے کا درجہ حاصل ہوا )میں سے۔

۸۹– تو اس کے لیے راحت اور خوشبو اور نعمت بھری جنت ہے۔

۹۰– اور اگر وہ داہنے ہاتھ والوں میں سے ہوا۔

۹۱– تو سلامتی ہے تیرے لیے کہ تو اصحابِ یمین (داہنے ہاتھ والوں) میں سے ہے۔

۹۲– اور اگر وہ جھٹلانے والے گمراہ لوگوں میں سے ہوا۔

۹۳– تو اس کی تواضع گرم پانی سے ہوگی۔

۹۴– اوراس کا داخلہ جہنم میں ہوگا۔

۹۵– یہ سب بالیقین حق ہے۔

۹۶– تو ( اے نبی!) اپنے رب عظیم کے نام کی تسبیح کرو۔ ۷۶

٭٭٭

 

 

(۵۷) سورۂ الحدید

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱– اللہ کی تسبیح کرتی ہیں ساری چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ اور وہ غالب ہے۔ حکمت والا

۲– آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اسی کی ہے۔ وہی زندہ کرتا اور مرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

۳– وہی اول بھی ہے اور آخر بھی، ظاہر بھی ہے اور پوشیدہ بھی۔ اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔

۴– وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر وہ عرش پر بلند ہوا۔ وہ جانتا ہے جو چیز بھی زمین میں داخل ہوتی ہے۔ اور اس سے نکلتی ہے۔ اور جو کچھ آسمان میں سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے۔ وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو اور تم جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے۔

۵– آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور تمام امور اسی کی طرف لوٹتے ہیں۔

۶– وہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں اور وہ دلوں کے راز تک جانتا ہے۔

۷– ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور خرچ کرو اس مال میں سے جس پر اس نے تم کو اختیار بخشا ہے۔ جو لوگ تم میں سے ایمان لائیں گے اور خرچ کریں گے ان کے لیے بڑا اجر ہے۔

۸– تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ رسول تمہیں اپنے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے اور وہ تم سے عہد لے چکا ہے اگر تم مومن ہو۔

۹– وہی ہے جو اپنے بندہ پر واضح آیتیں نازل کر رہا ہے تاکہ تمہیں تاریکیو ں سے نکال کر روشنی میں لے آئے۔ یقیناً اللہ تم پر نہایت شفیق اور مہربان ہے۔

۱۰– تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے۔ یکساں نہیں، تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے خرچ کیا اور لڑے ان کا درجہ ان لوگوںسے بڑا ہے جو بعد میں خرچ کریں گے اور لڑیں گے۔ اگرچہ اللہ نے دونوں ہی سے اچھا وعدہ کیا ہے۔ اور تم جو کچھ کرتے ہو ا س سے اللہ با خبر ہے۔

۱۱– کون ہے جو اللہ کو قرض دے اچھا قرض؟ کہ وہ اس کے لیے اس کو کئی گنا کر دے۔ اور اس کے لیے بہترین اجر ہے۔

۱۲– جس دن تم مومن مردوں اور مومن عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے آگے اور ان کی داہنی طرف دوڑ رہا ہو گا۔ آج تمہارے لیے خوشخبری ہے جنتوں کی جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ان میں ہمیشہ رہو گے، یہی ہے بڑی کامیابی۔

۱۳– اس روز منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے ذرا توقف کرو کہ ہم تمہارے نور سے فائدہ اٹھا لیں۔ ان سے کہا جائے گا کہ پیچھے پلٹو اور وہاں نور تلاش کرو۔ پھر ان کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی۔ جس میں ایک دروازہ ہو گا۔ اس کے اندر کی جانب رحمت ہو گی اور اس کے باہر کی طرف عذاب ہو گا۔

۱۴– وہ ان کو پکار کر کہیں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ وہ جواب دیں گے ہاں مگر تم نے اپنے کو فتنہ میں ڈالا۔ ہمارے لیے بُرے ( انجام کا) انتظار کرتے رہے، شک میں مبتلا رہے۔ اور جھوٹی تمناؤں نے تمہیں دھوکہ میں رکھا۔ یہاں تک کہ اللہ کا حکم ا گیا اور اس فریب کار نے تمہیں اللہ کے معاملہ میں فریب ہی میں رکھا۔

۱۵– تو آج نہ تم (منافقوں) سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا۔ اور نہ ان لوگوں سے جنہوں نے کفر کیا۔ ۳۴ تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے۔ وہی تمہاری رفیق ہے۔ اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔

۱۶– کیا ایمان لانے والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے جھک جائیں۔ اور ہو ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جن کو اس سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔

۱۷– جان لو کہ اللہ زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد زندہ کرتا ہے۔ ہم نے نشانیاں تمہارے لیے واضح کر دی ہیں تاکہ تم عقل سے کام لو۔

۱۸– بلا شبہ صدقہ دینے والے مرد اور عورتیں اور وہ لوگ جنہوں نے اللہ کو اچھا قرض دیا ان کو کئی گنا کر کے دیا جائے گا۔ اور ان کے لیے بہترین اجر ہے۔

۱۹– اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں۔ ان کے لیے ان کا اجر بھی ہو گا اور نور بھی۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ جہنمی ہیں۔

۲۰– جان لو کہ دنیا کی زندگی کھیل اور لہو، زینت، ایک دوسرے پر فخر کرنا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی طلب ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے بارش جس کی نباتات کو دیکھ کر کافر خوش ہو جاتے ہیں پھر وہ لہلہانے لگتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ زرد ہو گئی ہے۔ پھر وہ چورا چورا ہو کر رہ جاتی ہے۔ اور آخرت میں سخت عذاب بھی ہے اور اللہ کی طرف سے مغفرت اور خوشنودی بھی۔ اور دنیا کی زندگی تو بس دھوکہ کا سامان ہے۔

۲۱– ایک دوسرے سے آگے بڑھو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین کی وسعت کے مانند ہے۔ وہ ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

۲۲– کوئی مصیبت بھی زمین پر نازل نہیں ہوتی اور نہ تمہارے نفس کو پہنچتی ہے مگر ہے کہ وہ ایک کتاب میں لکھی ہوئی ہے قبل اس کے کہ ہم اسے پیدا کریں۔ یہ اللہ کے لیے نہایت آسان ہے۔

۲۳– اس حقیقت سے تمہیں آگاہ کر دیا گیا ہے)تاکہ تم اس چیز پر غم نہ کرو جو تم سے جاتی رہے اور اس چیز پر اتراؤ نہیں جو تمہیں عطا فرمائے۔ اللہ اترانے والوں اور فخر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

۲۴– جو بخل کرتے ہیں اوردوسروں کو بخل کرنے کے لیے کہتے ہیں۔ اس (نصیحت سے) جو رخ پھیرے گا تو وہ یا د رکھے کہ– اللہ بے نیاز اور خوبیوں والا ہے۔

۲۵– ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا۔ اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ عدل پر قائم ہوں اور لوہا اتارا جس میں زبردست خوفناکی ہے اور لوگوں کے لیے دوسرے فائدہ بھی۔ یہ سب اس لیے کیا گیا ہے تاکہ اللہ جان لے کہ کون ان کو دیکھے بغیر اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے۔ بلا شبہ اللہ بڑی قوت والا اور غالب ہے۔

۲۶– ہم نے نوح اور ابراہیم کو رسول بنا کر بھیجا اور ان دونوں کی نسل میں نبوت اور کتاب رکھ دی۔ تو ان میں سے کچھ لوگوں نے ہدایت اختیار کی اور بہت سے فاسق ہو گئے۔

۲۷– پھر ہم نے ان کے نقشِ قدم پر اور رسول بھیجے اور پھر عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا اور اس کو انجیل عطا کی۔ اور جن لوگوں نے اس کی پیروی کی ان کے دلوں میں شفقت اور رحم ڈال دیا۔ اور رہبانیت کا نیا طریقہ انہوں نے خود نکالا۔ ہم نے اسے ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انہوں نے یہ بدعت نکالی پھر اس کی رعایت نہ کرسکے جیسا کہ رعایت کرنے کا حق تھا۔ تو ان میں سے جو لوگ ایمان لائے تھے ان کا اجر ہم نے انہیں عطا کیا۔ مگر ان میں زیادہ تر لوگ فاسق ہیں۔

۲۸– اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ وہ تمہیں اپنی رحمت میں سے د و حصے دے گا۔ اور تمہیں نور عطا کرے گا جس کے ساتھ تم چلو گے اور تمہاری مغفرت فرمائے گا۔ اللہ بڑا معاف کرنے والا اور نہایت رحیم ہے۔

۲۹– تاکہ نہیں۔ اہل کتاب جان لیں کہ وہ اللہ کے فضل پر کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے اور یہ کہ فضل اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

٭٭٭

 

 

(۵۸)سورۂ المجادلۃ

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو(اے نبی!) تم سے اپنے شوہر کے بارے میں جھگڑتی تھی اور اللہ کے سامنے شکوہ کر رہی تھی اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔ بلا شبہ اللہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔

۲– تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظِہار کر بیٹھتے ہیں۔(یعنی ان کو ماں کی پشت سے تشبیہہ دیتے ہیں) وہ ان کی مائیں نہیں ہیں۔ ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے۔ یہ لوگ ایک نہایت نا پسندیدہ اور جھوٹی بات کہتے ہیں۔ اور بلا شبہ اللہ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔

۳– جو لوگ اپنی بیویوں سے ظِہار کر بیٹھیں پھر اپنی کہی ہوئی بات(یعنی جس کو انہوں نے حرام قرار دیا اس )کی طرف لوٹیں انہیں ایک گردن(غلام یا لونڈی) کو آزاد کرنا ہوگا قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں۔ اس بات کی تم کو نصیحت کی جاتی ہے۔ اور تم جو کچھ کرتے ہو اس سے اللہ با خبر ہے۔

۴– اور جو شخص غلام نہ پائے وہ دو مہینے کے لگاتار روزے رکھے۔ قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ یہ اس لیے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔ اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

۵– جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں۔ وہ اسی طرح ذلیل ہوں گے جس طرح ان سے پہلے کے لوگ ذلیل ہوئے۔ ہم نے نہایت واضح آیتیں نازل کی ہیں اور کافروں کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔

۶– جس دن اللہ ان سب کو اٹھائے گا اور انہیں بتائے گا کہ انہوں نے کیا اعمال کئے تھے۔ اللہ نے سب کچھ شمار کر رکھا تھا اور یہ لوگ اس کو بھلا بیٹھے تھے۔ اللہ ہر چیز پر شاہد ہے۔

۷) کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اللہ جانتا ہے ہر چیز کو جو آسمانوں میں اور زمین میں ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ تین آدمیوں میں سرگوشی ہو اور ان کے درمیان چوتھا اللہ نہ ہو اور نہ پانچ آدمیوں میں سرگوشی ہو اور ان کے درمیان چھٹا اللہ نہ ہو۔سرگوشی کرنے والے اس سے کم ہوں یا زیادہ وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جہاں کہیں بھی وہ ہوں۔ پھر قیامت کے دن وہ ان کو بتا دے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے۔ بلا شبہ اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

۸– کیا تم نے ان لوگوں کو دیکھا نہیں جنہیں سرگوشیاں کرنے سے منع کیا گیا تھا پھر بھی وہ وہی کام کر رہے ہیں جن سے انہیں منع کیا گیا تھا۔ یہ لوگ گناہ” زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی باتیں خفیہ طور سے کرتے ہیں۔ اور جب(اے نبی!) تمہارے پاس آتے ہیں تو تمہیں اس کلمہ سے سلام کرتے ہیں۔ جس سے اللہ نے تم پر سلام نہیں بھیجا۔ اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہماری ان باتوں پر اللہ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا۔ ان کے لیے جہنم ہی کافی ہے۔ وہ اس میں پڑیں گے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔

۹– اے ایمان والوں جب تم سرگوشی کرو تو گناہ” زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی باتیں نہ کرو بلکہ نیکی اور تقویٰ کی باتیں کرو۔ اور اللہ سے ڈرو جس کے حضور تم سب اکٹھا کئے جاؤ گے۔

۱۰– یہ سرگوشیاں شیطان کی طرف سے ہیں تاکہ ایمان رکھنے والے رنجیدہ ہوں۔ حالانکہ اللہ کے اذن کے بغیر وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتیں اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔

۱۱–اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے کہ اپنی مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو کشادگی پیدا کرو اللہ تمہیں کشادگی بخشے گا۔ اور جب تم سے کہا جائے کہ اٹھ جاؤ تو اٹھ جایا کرو۔ اللہ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے درجے بلند فرمائے گا۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے۔

۱۲– اے ایمان والو! جب تمہیں رسول سے سرگوشی کرنا ہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے صدقہ دو۔ یہ تمہارے لیے بہتر اور زیادہ پاکیزہ ہے۔ لیکن اگر(صدقہ دینے کے لیے) کچھ نہ پاؤ تو اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

۱۳– کیا تم ڈر گئے اس بات سے کہ اپنی سرگوشیوں سے پہلے صدقات دو۔ تو جب تم نے ایسا نہیں کیا اور اللہ نے تم کو معاف کر دیا تو نماز اہتمام کے ساتھ ادا کرتے رہو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو۔ تم جو کچھ کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے۔

۱۴– کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے ایسی قوم کو دوست بنایا ہے جس پر اللہ کا غضب ہوا۔ یہ لوگ نہ تم میں سے ہیں۔ اور نہ ان میں سے۔ یہ جانتے بوجھتے جھوٹی بات پر قسم کھاتے ہیں۔

۱۵– اللہ نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔ بہت بُرا ہے جو کچھ یہ کر رہے ہیں۔

۱۶– انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا لیا ہے اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ ان کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔

۱۷) نہ اِن کے مال ان کو اللہ کے عذاب سے بچا سکیں گے اور نہ ان کی اولاد۔ یہ دوزخ والے ہیں ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔

۱۸– جس دن اللہ ان کو اٹھائے گا وہ اس کے سامنے بھی اسی طرح قسمیں کھائیں گے جس طرح تمہارے سامنے کھاتے ہیں۔ اور خیال کریں گے کہ وہ کسی بنیاد پر ہیں۔ سن لو کہ وہ بالکل جھوٹے ہیں۔

۱۹– شیطان ان پر مسلط ہو گیا ہے۔ اور اس نے اللہ کی یاد ان سے بھلا دی۔ یہ لوگ شیطان کی پارٹی کے ہیں۔ سن لو کہ شیطان کی پارٹی ہی تباہ ہونے والی ہے۔

۲۰– جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ ذلیل ہونے والوں میں ہوں گے۔

۲۱– اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب ہو کر رہیں گے۔ بلا شبہ اللہ قوت والا غلبہ والا ہے۔

۲۲– جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں ان کو تم کبھی ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہوئے نہ دیکھو گے جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی رکھتے ہیں۔ خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے، یا ان کے بھائی یا ان کے خاندان کے لوگ۔ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے روح کے ذریعہ ان کی مدد کی ہے۔ وہ انہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہوں گی۔ ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ یہ لوگ اللہ کی جماعت(پارٹی) کے ہیں۔ سن رکھو کہ اللہ کی جماعت(پارٹی) والے ہی کامیاب ہونے والے ہیں۔

٭٭٭

 

 

(۵۹) سورۂ الحشر

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– اللہ کی تسبیح کرتی ہیں وہ تمام چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ اور وہی غالب اور حکمت والا ہے۔

۲– وہی ہے جس نے ان لوگوں کو جو اہل کتاب میں سے کافر ہوئے ان کے گھروں سے پہلے حشر کے لیے نکال باہر کیا۔ تمہیں گمان نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے۔ اور وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے قلعے ان کو اللہ( کی پکڑ) سے بچا لیں گے۔ مگر اللہ کی پکڑ ان پر اس رخ سے ہوئی جدھر ان کو گمان بھی نہیں ہوا تھا۔ اور اس نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ وہ خود اپنے ہاتھوں اپنے گھروں کو اجاڑ رہے تھے اور مومنوں کے ہاتھوں بھی۔ تو عبرت حاصل کرو اے آنکھیں رکھنے والو!

۳– اگر اللہ نے ان کے لیے جلا وطنی نہ لکھ دی ہوتی تو وہ دنیا میں ان کو عذاب دیتا۔ اور آخرت میں ان کے لیے دوزخ کا عذاب ہے۔

۴– یہ اس لیے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور جو اللہ کے خلاف اٹھ کھڑا ہو تو اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔

۵– کھجوروں کے جو درخت تم نے کاٹے یا جن کو اپنی جڑوں پر کھڑا چھوڑ دیا تو یہ اللہ کے حکم سے ہوا۔ اور(اس نے یہ حکم اس لیے دیا) تاکہ وہ فاسقوں کو رسوا کرے۔

۶– اور اللہ نے جو مال ان کے قبضے سے نکال کر اپنے رسول کو دلوایا۔ تو اس پر تم نے نہ اپنے گھوڑے دوڑائے تھے اور نہ اونٹ بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جن پر چاہتا ہے تسلط عطا فرماتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

۷– جو کچھ اللہ بستیوں والوں کی طرف سے اپنے رسول کو دلوائے وہ اللہ اور رسول اور قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔ تاکہ یہ (مال) تمہارے مال داروں ہی کے درمیان گردش کرتا نہ رہے۔ اور رسول جو تمہیں دے اس کو لو اور جس سے روک دے اس سے رک جاؤ۔ اور اللہ سے ڈرو۔ بلا شبہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

۸– یہ(مال) ان محتاج مہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مال سے نکالے گئے ہیں۔ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں۔ یہی لوگ راست باز ہیں۔

۹– اور جو لوگ ان سے پہلے ہی( مدینہ کو) ٹھکانا بنائے ہوئے اور ایمان لائے ہوئے تھے وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی ان کو دیا جائے اس کی کوئی حاجت وہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور وہ ان کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود ضرورت مند ہوں۔ اور جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لئے گئے وہی فلاح پانے والا ہیں۔

۱۰– اور جو لوگ ان کے بعد آئے وہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں۔ اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ۔ اے ہمارے رب تو بڑا شفیق اور رحیم ہے۔

۱۱– تم نے ان منافقوں کو نہیں دیکھا جو اپنے ان بھائیوں سے جو اہل کتاب میں سے کافر ہوئے کہتے ہیں کہ اگر تمہیں نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکلیں گے اور تمہارے معاملہ میں ہم ہرگز کسی کی بات نہ مانیں گے اور اگر تم لوگوں سے جنگ کی گئی تو ہم ضرور تمہاری مدد کریں گے۔ مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ بالکل جھوٹے ہیں۔

۱۲– اگر وہ نکالے گئے تو یہ ان کے ساتھ نہیں نکلیں گے اور اگر ان سے جنگ کی گئی تو یہ ان کی مدد نہیں کریں گے اور اگر مدد کریں گے بھی تو پیٹھ پھیر جائیں گے۔ پھر ان کی مدد نہیں کی جائے گی۔

۱۳– تمہارا خوف ان کے دلوں میں اللہ سے زیادہ ہے۔ اس لیے کہ یہ لوگ سمجھ نہیں رکھتے۔

۱۴– یہ کبھی اکھٹے ہو کر تم سے نہیں لڑیں گے بلکہ قلعہ بند بستیوں میں یا دیواروں کے پیچھے سے لڑیں گے۔ ان کی لڑائی آپس میں بڑی سخت ہے تم ان کو متحد خیال کرتے ہو مگر ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ عقل سے کام نہیں لیتے۔

۱۵– ان کا حال وہی ہوگا جو ان لوگوں کا ہوا جو ان سے کچھ ہی پہلے اپنے کئے کا مزا چکھ چکے ہیں۔ اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

۱۶– ان کی مثال شیطان کی سی ہے جو انسان سے کہتا ہے کہ کفر کر اور جب وہ کفر کر بیٹھتا ہے تو کہتا ہے میں تجھ سے بری ہوں۔ مجھے اللہ رب العالمین سے ڈر لگتا ہے۔

۱۷– تو دونوں کا انجام یہ ہونا ہے کہ وہ جہنم میں جائیں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اور ظالموں کا یہی بدلہ ہے۔

۱۸– اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص کو چاہیے کہ دیکھ لے اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو۔ یقیناً اللہ اس سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔

۱۹– ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے ان کو اپنے نفس کے بھلاوے میں ڈال دیا۔ یہی لوگ فاسق ہیں۔

۲۰– دوزخ میں جانے والے اور جنت میں جانے والے یکساں نہیں ہو سکتے۔ جنت میں جانے والے ہی کامیاب ہونے والے ہیں۔

۲۱– اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارتے تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے پست ہو رہا ہے اور پھٹ رہا ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور کریں۔

۲۲– وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ غائب اور حاضر کا جاننے والا۔ وہ رحمن اور رحیم ہے۔

۲۳– وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ بادشاہ ہے۔ نہایت مقدس، سراسر سلامتی، امن دینے والا۔ حفاظت کرنے والا۔،غالب۔،زبردست۔ ۵۸، کبریائی والا۔ ۵۹ پاک ہے اللہ ان چیزوں سے جن کو لوگ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔

۲۴– وہ اللہ ہی ہے پیدا کرنے والا۔، موجد۔،صورت گری کرنے والا۔ اس کے لیے بہترین نام ہیں۔ آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں اس کی تسبیح کرتی ہیں۔ اور وہ غالب ہے حکمت والا۔

٭٭٭

 

 

 

(۶۰) سورۂ الممتحنہ

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم ان سے دوستی کے روابط بڑھاتے ہو۔ حالانکہ وہ اس حق کا انکار کر چکے ہیں جو تمہارے پاس آیا ہے۔ انہوں نے رسول کو اور تم کو اس بنا پر (اپنے وطن سے) نکال دیا کہ تم اللہ اپنے رب پر ایمان لائے ہو۔ اگر تم میری راہ میں جہاد اور میری رضا جوئی کے لیے نکلے ہو(تو ان کو دوست نہ بناؤ) تم چھپا کر ان سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے ہو حالانکہ جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو اور جو علانیہ کرتے ہو اسے میں جانتا ہوں۔ اور جو کوئی تم میں سے ایسا کرے گا وہ راہِ راست سے بھٹک گیا۔

۲– اگر وہ تم کو پالیں تو تمہارے ساتھ دشمنی کریں گے اور بری طرح تم پر دست درازی اور زبان درازی کریں گے اور چاہیں گے کہ تم کافر ہو جاؤ۔

۳– تمہاری رشتہ داریاں اور تمہاری اولاد قیامت کے دن تمہارے کچھ بھی کام نہیں آئے گی۔ وہ تمہارے درمیان فیصلہ فرمائے گا اور تم جو کچھ کرتے ہو اسے اللہ دیکھ رہا ہے۔

۴– تم لوگوں کے لیے ابراہیم اور اس کے ساتھیو ں میں بہتر ین نمونہ ہے۔ جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے جن کو تم اللہ کو چھوڑ کر ہو جتے ہو بالکل بری ہیں۔ ہم نے تم سے کفر(انکار) کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت اور بیزاری ظاہر ہو گئی جب تک کہ تم اللہ وحدہٗ پر ایمان نہ لاؤ۔ مگر ابراہیم کا اپنے باپ سے یہ کہنا(اسوہ نہیں ہے) کہ میں آپ کے لیے مغفرت کی دعا کروں گا۔ اور میں آپ کے لیے اللہ کی طرف سے کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ اے ہمارے رب ہم نے تیرے ہی اوپر بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف رجوع ہوئے اور تیرے ہی طرف لوٹنا ہے۔

۵– اے ہمارے رب! ہمیں کافروں کے لیے فتنہ نہ بنا۔ اور اے ہمارے رب ہمیں معاف فرما۔ بلا شبہ تو غالب اور حکیم ہے۔

۶– یقیناً ان لوگوں میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور روزِ آخر کا امیدوار ہو۔ اس سے جو روگردانی کرے تو اللہ بے نیاز ہے لائق ستائش۔

۷– عجب نہیں کہ اللہ تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان جن سے تمہاری دشمنی ہے دوستی پیدا کر دے۔ اللہ بڑی قدرت والا ہے اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

۸– اللہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

۹– اللہ تمہیں صرف ان لوگوں سے دوستی کرنے سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ کی ہے اور تمہیں تمہارے گھرو ں سے نکالا ہے اور تمہارے نکالنے میں مدد کی ہے۔ اور جو لوگ ان سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں۔

۱۰– اے ایمان والو ! جب مومن عورتیں ہجرت کر کے تمہارے پاس آئیں تو ان کی جانچ کر لو۔ اللہ ان کے ایمان کو بہتر جانتا ہے۔ پھر اگر تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ مومن ہیں تو انہیں کفار کی طرف واپس نہ کرو۔ نہ وہ ان (کفار) کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ ان کے لیے حلال۔ اور انہوں نے (کافر شوہروں نے) جو کچھ خرچ کیا تھا وہ انہیں ادا کر دو۔ اور ان عورتوں سے نکاح کرنے میں تم پر گناہ نہیں جب کہ تم ان کے مہر ان کو ادا کر دو۔ اور کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں روکے نہ رکھو۔ جو کچھ تم نے خرچ کیا تھا اس کا تم (کفار سے) مطالبہ کرو اور جو کچھ انہوں نے خرچ کیا تھا اس کا وہ (تم سے) مطالبہ کریں۔ یہ اللہ کا فیصلہ ہے جو تمہارے درمیان وہ کر رہا ہے اور اللہ علم والا حکمت والا ہے۔

۱۱– اور اگر تمہاری بیویوں کے مہر میں سے کچھ کافروں کی طرف رہ جائے اور پھر تمہاری باری آئے تو جن کی بیویاں چلی گئی ہیں ان کو اتنا ادا کر دو جتنا انہوں نے خرچ کیا ہے۔ ۳۰ اور اللہ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو۔

۱۳– اے نبی! جب تمہارے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے کے لیے آئیں اس بات پر کہ وہ کسی چیز کو اللہ کا شریک نہ ٹھہرائیں گی، چوری نہ کریں گی، زنا نہ کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی، اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان نہ گھڑیں گی اور کسی معروف بات میں تمہاری نافرمانی نہیں کریں گی تو ان سے بیعت لے لو۔ اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کرو۔ یقیناً اللہ مغفرت فرمانے والا رحم فرمانے والا ہے۔

۱۳– اے ایمان والو! ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جن پر اللہ کا غضب ہوا۔ وہ آخرت سے مایوس ہو چکے ہیں جس طرح کفار قبر والوں سے مایوس ہیں۔

٭٭٭

 

 

(۶۱)۔ سورۂ الصف

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱– اللہ کی تسبیح کرتی ہیں آسمانوں اور زمین کی تمام چیزیں۔ اور وہ غالب اور حکمت والا ہے۔

۲– اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں !

۳– اللہ کے نزدیک یہ بات سخت نا پسندیدہ کہ تم کہو وہ بات جو کرو نہیں۔

۴– اللہ تو ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔

۵– اور یاد کرو موسیٰ نے جب اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم کے لوگو! مجھے کیوں اذیت دیتے ہو حالانکہ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔ پھر جب وہ ٹیڑھے ہو گئے تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دیئے۔ اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

۶– اور جب عیسیٰ بن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل ! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔ اور تورات میں سے جو کچھ میرے سامنے موجود ہے اس کی تصدیق کرنے والا ہوں۔ اور خوشخبری دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا۔ اس کا نام احمد ہوگا۔ تو جب وہ ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آیا تو انہوں نے کہا یہ تو صریح جادو ہے۔

۷– اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھے حالانکہ اس کو اسلام کی طرف بلایا جا رہا ہو ؟ اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔

۸– یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں مگر اللہ اپنے نور کو مکمل کر کے رہے گا خواہ کافروں کو ناگوار ہو۔

۹– وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرکوں کو ناگوار ہو۔

۱۰– اے ایمان والو! کیا میں تمہیں وہ تجارت بتاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچائے۔

۱۱– ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر۔ اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔

۲۰(۱۲– وہ تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور عمدہ مکانوں میں۔ جو جاودانی باغوں میں ہوں گے۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔

۱۳– اور دوسری چیز بھی جو تم چاہتے ہو اللہ کی طرف سے نصرت اور عنقریب حاصل ہونے والی فتح۔ اور( اے نبی!– مومنوں کو اس کی بشارت دے دو۔

۱۴– اے ایمان والو! اللہ کے مددگار بنو جس طرح عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کون ہیں اللہ کی راہ میں میرے مددگار؟ حواریوں نے جواب دیا تھا ہم ہیں اللہ کے مددگار۔ تو بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور دوسرے گروہ نے کفر کیا۔ تو ہم نے ایمان لانے والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں مدد کی اور وہ غالب ہو گئے۔

٭٭٭

 

 

(۶۲) سورۂ الجُمعۃ

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱– اللہ کی تسبیح کرتی ہیں ساری چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ وہ بادشاہ، قدوس(پاک)، غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔

۲– اسی نے امیوں میں ایک رسول ان ہی میں سے اٹھایا جو ان کو اس کی آیتیں سناتا ہے، ان کا تزکیہ ( ان کو پاک) کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اس سے پہلے یہ لوگ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔

۳– اور( اس کی بعثت) ان ( امیوں ) میں سے ان دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے جو ابھی ان سے ملے نہیں ہیں۔ اور اللہ غالب ہے حکمت والا ہے۔

۴– یہ اللہ کا فضل ہے جس سے نوازتا ہے وہ جسے چاہتا ہے۔ اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔

۵– ان لوگوں کی مثال جن پر تورات کا بار ڈالا گیا تھا مگر انہوں نے اس کو نہیں اٹھایا اس گدھے کی سی ہے جو کتابوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہو۔ بہت بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا۔ اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔

۶– کہو اے وہ لوگو جو یہودی بن گئے ہو۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ دوسروں کو چھوڑ کر تم ہی اللہ کے چہیتے ہو تو موت کی تمنا کرو اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔

۷– لیکن یہ ہرگز اس کی تمنا نہ کریں گے ان کرتوتوں کی وجہ سے جو وہ کر چکے ہیں۔ اور اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے۔

۸– ( ان سے ) کہو جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تمہیں آ کر رہے گی۔ پھر تم اس کے سامنے حاضر کئے جاؤ گے جو غیب اور حاضر سب کا جاننے والا ہے۔ وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔

۹– اے ایمان والو! جمعہ کے دن جب نماز کے لیے پکارا جائے ( اذان دی جائے ) تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خریدو فروخت چھوڑ دو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔

۱۰– پھر جب نماز ختم ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔ اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرو تاکہ تم فلاح پاؤ

۱۱– یہ لوگ جب تجارت یا لہو چیز دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑتے ہیں اور( اے نبی!) تم کو کھڑا چھوڑ دیتے ہیں۔ کہو جو اللہ کے پاس ہے وہ لہو اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ بہترین رازق ہے۔

٭٭٭

 

 

(۶۳) سورہ المنافقون

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱– جب منافق تمہارے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ بے شک اللہ کے رسول ہیں۔ اور اللہ جانتا ہے کہ بلا شبہ تم اس کے رسول ہو مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق بالکل جھوٹے ہیں۔

۲– انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے۔ اور یہ اللہ کی راہ سے رک گئے ہیں۔ بہت برا ہے جو یہ کررہے ہیں۔

۳– یہ اس لیے ہوا کہ یہ ایمان لائے پھر انہوں نے کفر کیا تو ان کے دلوں پر مہر لگادی گئی اب یہ کچھ نہیں سمجھتے۔

۴– انہیں جب تم دیکھو توان کے جسم تمہیں اچھے لگیں اور جب وہ بات کریں تو تم ان کی باتیں سننے لگو مگر وہ گویا لکڑی کے کندے ہیں جنہیں ٹیک لگا دی گئی ہو۔ وہ ہر چونکا دینے والی آواز کو اپنے ہی اوپر خیال کرتے ہیں۔ یہ اصل دشمن ہیں۔ ان سے بچ کر رہو۔ اللہ ان کو غارت کرے۔ یہ کدھر بہکائے جا رہے ہیں۔

۵– اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اللہ کا رسول تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرے تو وہ اپنے سر ٹمٹکاتے ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ وہ تکبرکے ساتھ کتراکر نکل جاتے ہیں۔

۶– ان کے لیے یکساں ہے خواہ تم ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو۔ اللہ ان کو ہرگز معاف کرنے والا نہیں۔ اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

۷– یہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ تم رسول کے ساتھیوں پر خرچ نہ کرو تاکہ وہ منتشر ہو جائیں۔ حالانکہ آسمانوں اور زمین کے خزانوں کا مالک اللہ ہی ہے مگر منافق سمجھتے نہیں ہیں۔

۱۴(۸– کہتے ہیں کہ ہم مدینہ واپس پہنچ گئے تو جو عزت والا ہے وہ ذلت والے کو وہاں سے نکال باہر کرے گا۔ حالانکہ عزت اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کے لیے ہے لیکن یہ منافق نہیں جانتے۔

۹–اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ سے غافل نہ کر دے۔ جو لوگ ایسا کریں گے وہی گھاٹے میں رہنے والے ہیں۔

۱۰– اور جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت آجائے اور وہ کہے کہ اے میرے رب ! تونے مجھے تھوڑی مہلت اور کیوں نہ دی کہ میں صدقہ کرتا اور نیک بن جاتا۔

۱۱– اللہ ہرگز کسی نفس کو مہلت دینے والا نہیں جبکہ اس کا مقررہ وقت آ جائے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔

٭٭٭

 

 

 

(۶۴) سورہ التغابُن

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱–اللہ کی تسبیح کرتی ہیں وہ تمام چیزیں جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں۔ اسی کی بادشاہی ہے اور اس کے لیے حمد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

۲– وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا۔ پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن۔ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔

۳– اس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اور تمہاری صورت گری کی تو اچھی صورتیں بنائیں اور اسی کی طرف لوٹنا ہوگا۔

۴– وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور تم جو کچھ چھپاتے ہو اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو اسے وہ جانتا ہے اور اللہ سینے کی پوشیدہ باتوں کو بھی جانتا ہے۔

۵– کیا تمہیں ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچتی جنہوں نے اس سے پہلے کفر کیا تو انہوں نے اپنے عمل کا وبال چکھ لیا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

۶– یہ اس لیے کہ ان کے پاس ان کے رسول واضح نشانیوں کے ساتھ آتے رہے لیکن انہوں نے کہا کیا انسان ہماری رہنمائی کریں گے ؟ اس طرح انہوں نے کفر کیا اور منہ موڑ لیا ( لہٰذا– اللہ بھی ان سے بے پرواہ ہوگیا۔ اور اللہ بے نیاز اور لائقِ حمد ہے۔

۷– جن لوگوں نے کفر کیا وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہرگز اٹھائے نہیں جائیں گے۔ کہو کیوں نہیں ! میرے رب کی قسم، تم ضرور اٹھائے جاؤ گے پھر تمہیں بتایا جائے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو اور یہ کام اللہ کے لیے نہایت آسان ہے۔

۸– تو ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پر جو ہم نے نازل کیا ہے۔ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے۔

۹– جس دن اللہ تمہیں اکھٹا کرے گا( سب کو) اکٹھا کرنے کے دن۔ وہ خسارے کے ظاہر ہونے کا دن ہوگا۔ جو ایمان لائے ہوں گے اور نیک عمل کرتے رہے ہوں گے ان کے گناہوں کو وہ دور کرے گا اور انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔

۱۰– اور جن لوگوں نے کفر کیا ہوگا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہوگا وہ دوزخی ہوں گے ہمیشہ اس میں رہنے والے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔

۱۱– کوئی مصیبت نہیں آتی مگر اللہ کے اذن سے۔ جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے وہ اس کے دل کی رہنمائی کرتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔

۱۲– اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔ اگر تم منہ پھیرتے ہو تو ہمارے رسول پر صرف صاف صاف پہنچادینے کی ذمہ داری ہے۔

۱۳– اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی الٰہ(معبود)نہیں۔ اور اللہ ہی پر مومنوں کو بھروسہ کرنا چاہیے۔

۱۴– اے ایمان والو ! تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں۔ تو ان سے ہوشیار رہو۔ اور اگر تم معاف کرو، درگذر سے کام لو اور بخش دو تو اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

۱۵– تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں۔ اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے۔

۱۶– لہٰذا جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو۔ اور سنو اور اطاعت کرو۔ اور خرچ کرو اپنی بھلائی کے لیے۔ جو اپنے دل کی تنگی سے بچالئے گئے وہی کامیاب ہونے والے ہیں۔

۱۷– اگر تم اللہ کو اچھا قرض دو۔ تو وہ تمہارے لیے اسے کئی گنا کر دے گااور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑا قدر داں اور بردبار ہے۔

۱۸– غائب اور حاضر سب کا جاننے والااور غلبہ اور حکمت والا ہے۔

٭٭٭

 

 

(۶۵) سورہ الطلاق

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱– اے نبی! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے لیے طلاق دو۔ اور عدت کا شمار کرو۔ اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے۔ ان کو ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں الا یہ کہ وہ کھلی بدکاری کی مرتکب ہوں۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے گا وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا۔ تم نہیں جانتے شاید اللہ اس کے بعد کوئی اور صورت پیدا کر دے۔

۲– پھر جب وہ اپنی مدت کو پہنچ جائیں تو انہیں یا تو معروف طریقہ پر (اپنے نکاح میں) روک لو یا معروف طریقہ پر جدا کر دو۔ اور اپنے میں سے دو عادل آدمیوں کو گواہ بنا لو اور گواہی اللہ کے لیے قائم رکھو۔ یہ نصیحت ان کو کی جاتی ہے جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں۔ جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے لیے راہ نکال دے گا۔

۳– اور اس کو وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہوگا۔ جو اللہ پر بھروسہ کرے گا تو وہ اس کے لیے کافی ہوگا۔ اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ ( وقت)مقرر کر رکھا ہے۔

۴– اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں ان کے بارے میں اگر کوئی شک ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے۔ اور ان کی بھی جن کو حیض نہ آیا ہو۔ اور حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ ان کا وضعِ حمل ہو جائے۔ جو شخص اللہ سے ڈرے گا تو وہ اس کے معاملہ میں آسانی پیدا فرمائے گا۔

۵– یہ اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمہاری طرف نازل کیا ہے۔ جو اللہ سے ڈرے گا اس کی برائیوں کو وہ دور کر دے گا اور اس کے اجر کو بڑھا دے گا۔

۶– ان کو (عدت کے دوران) اسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو جیسی کچھ تمہاری حیثیت ہو۔ ان کو تنگ کرنے کے لیے نہ ستاؤ۔ اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر خرچ کرو یہاں تک کہ ان کا وضعِ حمل ہو جائے۔ پھر اگر وہ تمہارے لیے بچہ کو دودھ پلائیں تو ان کو ان کی اجرت دو۔ اور بھلے طریقہ پر آپس کے مشورے سے معاملہ طے کر لو۔ اگر تم کوئی تنگی محسوس کرو تو کوئی دوسری عورت اسے دودھ پلائے۔

۷– صاحبِ حیثیت اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرے اور جس کو رزق کم دیا گیا وہ اس میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے۔ اللہ نے جس کو جتنا دیا ہے اس سے زیادہ بوجھ وہ کسی پر نہیں ڈالتا۔ اللہ تنگی کے بعد آسانی پیدا فرمائے گا۔

۸– کتنی ہی بستیاں ہیں جنہوں نے اپنے رب کے حکم اور اس کے رسولوں سے سرکشی کی تو ہم نے ان کا سخت محاسبہ کیا گرفت کی– اور ان کو بری طرح عذاب دیا۔

۹– انہوں نے اپنے کئے کا وبال چکھ لیا اور ان کا انجام تباہی ہے۔

۱۰– اللہ نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔ تو اللہ سے ڈرو اے عقل والو! جو ایمان لائے ہو اللہ نے تمہاری طرف ذکر (یاددہانی) نازل کیا ہے۔

۱۱– ایک ایسا رسول جو اللہ کی واضح آیتیں تم کو پڑھ کر سناتا ہے تا کہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیا ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے۔ اور جو اللہ پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا۔ اس کو وہ ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ نے ان کو بہترین رزق بخشا ہے۔

۱۲– اللہ ہی نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قسم سے ان ہی کے مانند۔ ان کے درمیان اس کے احکام نازل ہوتے رہتے ہیں۔ تم پر یہ حقیقت (واضح کی)تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

٭٭٭

 

 

(۶۶) سورہ التحریم

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱– اے نبی ! تم اپنی بیویوں کی رضا مندی کی خاطر اس چیز کو کیوں حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے ؟ اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

۲– اللہ نے (ایسی)قسموں کا کھول دینا تم پر فرض کیا ہے۔ اللہ تمہارا مولیٰ ہے اور وہ علم والا حکمت والا ہے۔

۳– اور جب نبی نے اپنی بیوی سے راز میں ایک بات کہی پھر جب اس بیوی نے اسے ظاہر کر دیا اور اللہ نے نبی کو اس سے باخبر کر دیا تو نبی نے (اس بیوی کو)کسی حد تک خبردار کیا اور کسی حد تک درگذرکیا۔ جب نبی نے بیوی کو یہ بات بتلائی تو اس نے پوچھا آپ کو اس کی خبر کس نے دی؟ نبی نے کہا مجھے اس نے خبردی جو سب کچھ جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔

۴– اگر تم دونوں اللہ کے حضور توبہ کرو تو (تمہارے لیے بہتر ہے )تمہارے دل اس کی طرف مائل ہو چکے ہیں اور اگر تم دونوں مل کر اس کو ناراض کرو تو (یاد رکھو) اللہ اس کا مولیٰ ہے اور اس کے بعد جبرئیل اور صالح مومنین اور فرشتے اس کے مددگار ہیں۔

۵– اگر نبی تم سب بیویوں کو طلاق دیدے تو عجب نہیں کہ اس کا رب تمہارے بدلہ میں تم سے بہتر بیویاں اس کو عطا فرمائے۔ مسلمہ، مومنہ، اطاعت گذار، توبہ کرنے والی، عباد ت گذار، سیاحت کرنے والی، شوہر آشنا اور کنواری۔

۶– اے ایمان والو! اپنے کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ جس پر سخت مزاج اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اس کی وہ تعمیل کرتے ہیں۔

۷– اے کافرو! آج عذر پیش نہ کرو۔ تمہیں ایسا ہی بدلہ دیا جارہا ہے جیسا تم عمل کرتے رہے۔

۸– اے ایمان والو! اللہ کے حضور توبہ کرو خالص توبہ عجب نہیں کہ تمہارا رب تمہاری برائیاں تم سے دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کر دے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ جس دن اللہ نبی کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں رسوا نہیں کرے گا۔ ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا۔ وہ دعا کررہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب! ہمارا نور ہمارے لیے مکمل کر دے۔ اور ہمیں بخش دے۔ تو ہر چیز پر قادر ہے۔

۹–اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے پہنچنے کی۔

۱۰– اللہ کافروں کے لیے مثال بیان کرتا ہے نوح اور لوط کی بیویوں کی۔ دونوں ہمارے صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں مگر انہوں نے ان کے ساتھ بے وفائی کی تو وہ اللہ کے مقابلہ میں ان کے کچھ بھی کام نہ آ سکے۔ اور دونوں عورتوں سے کہہ دیاگیا کہ تم بھی آگ میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہو جاؤ۔

۱۱– اور ایمان والوں کے لیے اللہ فرعون کی بیوی کی مثال پیش کرتا ہے جب کہ اس نے دعا کی اے میرے رب ! میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا اور فرعون اور اس کے عمل سے مجھے نجات دے اور نجات دے مجھے ظالم قوم سے۔

۱۲– اور مریم بنت عمران کی مثال پیش کرتا ہے جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی۔ پھر ہم نے اس میں اپنی روح پھونکی۔ اس نے اپنے رب کے کلمات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت گذار لوگوں میں سے تھی۔

٭٭٭

 

 

(۶۷) سورہ المُلک

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱– بڑا بابرکت ہے۔ وہ جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

۲– جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ وہ غالب بھی ہے اور مغفرت فرمانے والا بھی۔

۳– جس نے سات آسمان تہ بہ تہ بنائے۔ تم رحمن کی تخلیق میں کوئی خلل نہ پاؤ گے۔

۴– پھر نگاہ دوڑاؤ کہیں تمہیں نقص نظر آتا ہے ؟ پھر بار بار نگاہ دوڑاؤ تمہاری نگاہ تھک کر ناکام واپس آئے گی۔

۵– ہم نے آسمان کو چراغوں سے سجایا ہے اور ان کو شیاطین پر مار کا ذریعہ بنایا ہے۔ اور ان کے لیے بھڑکتی آگ کا عذاب بھی تیار کر رکھا ہے۔

۶– جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے۔ ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔

۷– جب وہ اس میں پھینکے جائیں گے تو اس کے دھاڑنے کی آواز سنیں گے اور وہ جوش مارتی ہوگی۔

۸– شدتِ غضب سے پھٹی جاتی ہوگی۔ ہر بار جب کوئی گروہ اس میں ڈالا جائے گا اس کے محافظ ان سے پوچھیں گے کیا تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا؟

۹– وہ جواب دیں گے ہاں خبردار کرنے والا ہمارے پاس آیا تھا لیکن ہم نے اسے جھٹلا دیا اور کہا اللہ نے کچھ بھی نازل نہیں کیا ہے۔ تم لوگ بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو۔

۱۰– اور وہ کہیں گے اگر ہم سنتے یا سمجھتے توہم دوزخ والوں میں شامل نہ ہوتے۔

۱۱– اس طرح وہ اپنے گناہ کا اعتراف کریں گے تو لعنت ہے دوزخیوں پر۔

۱۲– جو لوگ بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔

۱۳– تم اپنی بات کو چھپاؤ یا ظاہر کرو وہ تو دلوں کے راز بھی جانتا ہے۔

۱۴– کیا وہ نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے ؟ وہ بڑا باریک بیں اور خبر رکھنے والا ہے۔

۱۵– وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو تابع بنایا۔ چلو اس کے کندھوں پر اور کھاؤ اللہ کے رزق میں سے۔ اسی کے حضور اٹھ کھڑے ہونا ہے۔

۱۶–کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے۔ بے خوف ہو گئے ہو کہ تمہیں زمین میں دھنسا دے اور وہ یکایک ہلنے لگے۔

۱۷– کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے بے خوف ہو گئے ہو کہ تم پر پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیج دے ؟ پھر تمہیں معلوم ہو جائے کہ میری تنبیہ کیسی ہوتی ہے۔

۱۸– ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ بھی جھٹلا چکے ہیں تو دیکھ لو کیسا رہا میرا عذاب

۱۹– کیا انہوں نے اپنے اوپر پرندوں کو پَر پھیلائے اور ان کو سمیٹتے ہوئے نہیں دیکھا؟ رحمن کے سوا کوئی نہیں جو ان کو تھام لیتا ہو۔ وہی ہر چیز کا نگراں ہے۔

۲۰– بتاؤ تمہارے پاس وہ کون سا لشکر ہے جو رحمن کے مقابلہ میں تمہاری مدد کر سکے گا؟ یہ کافر دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔

۲۱– بتاؤ وہ کون ہے جو تمہیں رزق دے اگر وہ اپنا رزق روک لے ؟ در حقیقت یہ لوگ سرکشی اور حق سے — بیزاری پر اڑ گئے ہیں۔

۲۲– کیا وہ شخص جو اوندھے منہ چل رہا ہو راہ پانے والا ہے یا وہ جو ایک سیدھی راہ پر سیدھا چل رہا ہے ؟

۲۳– کہو وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا اور تمہارے لیے کان،آنکھیں اور دل بنائے مگر– تم کو ہی شکر ادا کرتے ہو۔

۲۴– کہو وہی ہے جس نے تم کو زمین میں پھیلا یا ہے اور اسی کی طرف تم اکٹھے کئے جاؤ گے۔

۲۵– یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو بتاؤ یہ وعدہ کب پورا ہوگا ؟

۲۶– کہو اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے۔ میں تو بس کھلا خبردار کرنے والا ہوں۔

۲۷– جب وہ اس کو قریب دیکھ لیں گے تو ان لوگوں کے چہرے بگڑ جائیں گے جنہوں نے انکار کیا ہے۔ اور ان سے کہا جائے گا یہی ہے وہ چیز جو تم طلب کر رہے تھے۔

۲۸– کہو تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر اللہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو ہلاک کر دے یا ہم پر رحم کرے تو کافروں کو دردناک عذاب سے کون پناہ دے گا؟

۲۹– کہو وہ رحمن ہے جس پر ہم ایمان لائے ہیں اور اسی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے۔ تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ کھلی گمراہی میں کون ہے۔

۳۰– کہو تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر تمہارا پانی نیچے اتر جائے تو کون ہے جو تمہارے لیے بہتا ہوا پانی لے آئے ؟

٭٭٭

 

 

(۶۸)سورہ القلم

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱– نون قسم ہے قلم کی اور اس چیز کی جسے وہ لکھتے ہیں۔

۲– تم اپنے رب کے فضل سے دیوانے نہیں ہو۔

۳– اور تمہارے لیے یقیناً ایسا اجر ہے جوکبھی ختم نہ ہوگا۔

۴– اور بے شک تم عظیم اخلاق کے مرتبہ پر ہو۔

۵– تو عنقریب تم بھی دیکھ لو گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے۔

۶–کہ تم میں سے کون جنون میں مبتلا ہے۔

۷– تمہارا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور وہ ان لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جنہوں نے ہدایت پائی ہے۔

۸– لہٰذا تم ان جھٹلانے والوں کی بات نہ مانو۔

۹– یہ تو چاہتے ہیں کہ تم نرم پڑو تو یہ بھی پڑیں گے۔

۱۰– تم ایسے شخص کی بات نہ مانو جو بہت قسمیں کھانے والا اور ذلیل ہے۔

۱۱–طعنہ زنی کرنے والا، چغلخور۔

۱۲– خیر سے روکنے والا، زیادتی کرنے والا، گناہوں میں ملوث۔

۱۳– درشت خو اور پھر بدنام ہے۔

۱۴– اس کا گھمنڈ– اس بنا پر ہے کہ وہ مال اور اولاد والا ہے۔

۱۵– جب ہماری آیتیں اس کو سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں۔

۱۶– عنقریب ہم اس کی سونڈ پر داغ لگائیں گے۔

۱۷– ہم نے ان کو اسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے جس طرح باغ والوں کو آزمائش میں ڈالا تھا۔ جب انہوں نے قسم کھائی کہ صبح سویرے ضرور اس کے پھل توڑیں گے۔

۱۸– اور استثناء نہیں کر رہے تھے۔

۱۹– وہ ابھی سوتے ہی پڑے تھے کہ تمہاری رب کی طرف سے ایک گردش آئی۔

۲۰– اور وہ کٹی ہوئی کھیتی کی طرح ہو کر رہ گیا۔

۲۱– صبح انہوں نے ایک دوسرے کو پکارا۔

۲۲– کہ اگر پھل توڑنے ہیں تو سویرے اپنی کھیتی پر پہنچ جاؤ۔

۲۳– چنانچہ وہ نکل گئے اور چپکے چپکے کہتے جارہے تھے۔

۲۴–کہ آج کوئی مسکین اس میں تمہارے پاس داخل نہ ہونے پائے۔

۲۵– وہ صبح سویرے پختہ ارادے کے ساتھ نکلے کہ وہ ایسا کر سکیں گے۔

۲۶– مگر جب اس (باغ)کو دیکھا تو کہنے لگے ہم راستہ بھول گئے۔

۲۷– بلکہ ہم محروم ہو کر رہ گئے۔

۲۸– ان میں جو شخص بہتر تھا اس نے کہا میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم تسبیح کیوں نہیں کرتے ؟

۲۹–وہ پکار اٹھے پاک ہے ہمارا رب۔ ہم ہی قصور وار تھے۔

۳۰– پھر وہ ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے۔

۳۱– انہوں نے کہا افسوس ہم پر! ہم ہی سرکش ہو گئے تھے۔

۳۲– امید ہے کہ ہمارا رب اس کے بدلہ میں ہمیں اس سے بہتر باغ عطا فرمائے گا۔ ہم اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

۳۳– اس طرح ہوتا ہے عذاب۔ اور آخرت کا عذاب تو اس سے کہیں بڑا ہے۔ کاش یہ لوگ جانتے !

۳۴– یقیناً متقیوں کے لیے ان کے رب کے پاس نعمت بھری جنتیں ہیں۔

۳۵– کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں جیسا کریں گے ؟

۳۶– تم لوگوں کو کیا ہوا ہے کیسا فیصلہ کرتے ہو!

۳۷– کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم پڑھتے ہو۔

۳۸– کہ تمہارے لیے وہی کچھ ہے جو تم پسند کرو گے ؟

۳۹– یا تمہارے ساتھ ہمارے عہد و پیماں ہیں قیامت تک باقی رہنے والے کہ تمہارے لیے وہی کچھ ہے جس کا تم فیصلہ کرو گے ؟

۴۰– ان سے پوچھو تم میں سے کون اس کا ضامن ہے ؟

۴۱– یا ان کے کچھ شریک ہیں تو لائیں اپنے شریکوں کو اگروہ سچے ہیں۔

۴۲– جس دن سخت مصیبت آ پڑے گی۔ اور ان لوگوں کو سجدے کے لیے بلایا جائے گا تو یہ سجدہ نہ کرسکیں گے۔

۴۳– ان کی نگاہیں نیچی ہوں گی، ذلت ان پر طاری ہوگی۔ سجدے کے لیے ان کو اس وقت بلایا جاتا تھا۔ جب وہ صحیح سالم تھے۔ مگر اس وقت وہ انکار کرتے رہے۔۔

۴۴– تو (اے نبی!)چھوڑ دو مجھے اور ان کو جو اس کلام کو جھٹلاتے ہیں۔ ہم ان کو اس طرح بتدریج برے انجام کو– پہنچائیں گے کہ انہیں خبر بھی نہ ہوگی۔

۴۵– میں ان کو ڈھیل دے رہا ہوں۔ میری تدبیر نہایت مضبوط ہوتی ہے۔

۴۶– کیا تم ان سے کوئی معاوضہ طلب کررہے ہو کہ یہ اس کے تاوان سے دبے جا رہے ہوں ؟

۴۷– یا ان کے پاس غیب کا علم ہے جسے ہے لکھ رہے ہوں ؟

۴۸–اور مچھلی والے کی طرح نہ ہو جاؤ جب اس نے اپنے رب کو– پکارا اور وہ غم سے گھٹا ہوا تھا۔

۴۹– اگر اس کے رب کا فضل اس کو نہ پہنچتا تو وہ مذموم حالت میں چٹیل میدان ہی میں ڈال دیا جاتا

۵۰– پھر اس کے رب نے اسے برگزیدہ کیا اور اسے صالحین میں شامل کیا۔

۵۱– جب یہ کافر ذکر (یاددہانی)کو سنتے ہیں تو اس طرح تمہیں دیکھتے ہیں کہ گویا اپنی نگاہوں سے تمہیں پھسلا دیں گے۔ اور کہتے ہیں کہ یہ ضرور دیوانہ ہے۔

۵۲– حالانکہ یہ (قرآن) دنیا والوں کے لیے ایک نصیحت ہے۔

٭٭٭

 

 

(۶۹) سورہ الحاقّۃ

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱– سچ ہو کر رہنے والی!

۲– کیا ہے وہ سچ ہو کر رہنے والی؟

۳– اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ سچ ہو کر رہنے والی!

۴– ثمود اور عاد نے اس کھڑکھڑانے والی آفت کو جھٹلایا۔

۵– تو ثمود ایک زبردست چنگھاڑ سے ہلاک کر دیئے گئے۔

۶– اور عاد شدید بادِ صر صر سے ہلاک کر دئے گئے۔

۷– اللہ نے اس کو سات رات اور آٹھ دن ان کو کاٹ پھیکنے کے لیے مسلط رکھا۔ تم ان کو دیکھتے کہ اس طرح ڈھیر ہوگئے ہیں گویا کہ گری ہوئی کھجوروں کے تنے۔

۸–کیا ان میں سے کسی کو تم باقی بچا ہوا دیکھتے ہو؟

۹– اور فرعون اور اس سے پہلے کے لوگوں اور الٹی ہوئی بستیوں نے بڑے جرم کا ارتکاب کیا۔

۱۰– انہوں نے اپنے رب کے رسول کی نافرمانی کی۔ تو اس نے ان کو سخت گرفت میں لیا۔

۱۱– ہم نے تم کو جب کہ پانی کا طوفان حد سے گذر گیا کشتی میں سوار کر دیا۔

۱۲– تاکہ اس واقعہ کو تمہارے لیے سبق آموز بنا دیں۔ اور یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں۔

۱۳– پھر جب صور میں ایک پھونک ماری جائے گی۔

۱۴– اور زمین اور پہاڑوں کو اٹھاکر یک بارگی ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا۔

۱۵– اس دن واقع ہونے والی واقع ہو جائے گی۔

۱۶– اور آسمان پھٹ جائے گا اور اس دن وہ نہایت کمزور ہوگا۔

۱۷– فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے۔ اور تمہارے رب کے عرش کو اس روز آٹھ فرشتے اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔

۱۸– اس دن تم لوگ پیش کئے جاؤ گے۔ تمہاری کوئی بات بھی چھپی نہ رہے گی۔

۱۹– تو جس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ دیا جائے گا۔ وہ کہے گا لو پڑھو میرا نامہ اعمال۔

۲۰– میں سمجھتا تھا کہ مجھے ضرور اپنے حساب سے دو چار ہونا ہے۔

۲۱–پس وہ پسندیدہ عیش میں ہوگا۔

۲۲– بلند مقام جنت میں۔

۲۳– جس کے پھلوں کے گچھے جھکے ہوئے ہوں گے۔

۲۴– کھاؤ اور پیو مزے سے۔ اپنے اعمال کے بدلہ میں جو تم نے گذرے ہوئے دنوں میں کئے۔

۲۵– اور جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ وہ کہے گا کاش ! میرا نامۂ اعمال مجھے دیا ہی نہ جاتا۔

۲۶– اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔

۲۷– کاش میری وہی موت فیصلہ کن ہوتی۔

۲۸– میرا مال میرے کام نہ آیا۔

۲۹– میرا اقتدار زور(حاکمانہ قوت) ختم ہو گیا۔

۳۰– اس کو پکڑو اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو۔

۳۱– پھر اس کو جہنم میں جھونک دو۔

۳۲– پھر اس کو ایک زنجیر میں جو ستر ہاتھ لمبی ہے جکڑ دو۔

۳۳– یہ عظمت والے اللہ پر ایمان نہ لاتا تھا۔

۳۴– اور نہ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔

۳۵– تو آج اس کا یہاں کوئی دوست نہیں ہے۔

۳۶– اور نہ پیپ کے سوا اس کے لیے کوئی کھانا ہے۔

۳۷– جس کو گنہگار ہی کھائیں گے۔

۳۸– نہیں۔ میں قسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی جن کو تم دیکھتے ہو۔

۳۹– اور ان چیزوں کی بھی جن کو تم نہیں دیکھتے۔

۴۰– کہ یہ ایک با عزت رسول کا قول ہے۔

۴۱– کسی شاعر کا قول نہیں۔ تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو۔

۴۲– اور نہ یہ کسی کاہن کا قول ہے۔ تم لوگ کم ہی سمجھتے ہو۔

۴۳– یہ رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے۔

۴۴– اور اگر اس (پیغمبر)نے کوئی بات گھڑ کر ہماری طرف منسوب کی ہوتی۔

۴۵– تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے۔

۴۶– پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے۔

۴۷– پھر تم میں سے کوئی (ہمیں )اس کام سے روک نہ سکتا۔

۴۸– اور حقیقت یہ ہے کہ یہ متقیوں کے لیے ایک نصیحت ہے۔

۴۹– اور ہم جانتے ہیں کہ تم میں سے اس کو جھٹلانے والے بھی ہیں۔

۵۰– اور یہ کافروں کے لیے موجبِ حسرت ہوگا۔

۵۱– اور یہ بالکل یقینی حق ہے۔

۵۲– تو تم اپنے رب عظیم کے نام کی تسبیح کرو۔

٭٭٭

 

 

(۷۰) سورہ المعارج

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱– مانگنے والے نے مانگا وہ عذاب جو واقع ہونے والا ہے۔

۲– کافروں پر۔ کوئی اس کو دفع کرنے والا ہیں۔

۳– وہ (عذاب) اللہ کی طرف سے ہوگا جو بلندیوں والا ہے۔

۴– فرشتے اور روح (جبرئیل) اس کی طرف چڑھ کر جاتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔

۵– تو صبر کرو صبرِ جمیل۔

۶– یہ لوگ اسے دور سمجھتے ہیں۔

۷– اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں۔

۸– جس دن آسمان پگھلی ہوئی دھات کی طرح ہوجائے گا۔

۹– اور پہاڑ (دھنکی ہوئی) اون کی طرح۔

۱۰– اور کوئی دوست اپنے دوست کو نہ پوچھے گا۔

۱۱– حالانکہ وہ انہیں دکھائے جائیں گے۔ مجرم چا ہے گا کہ اس دن کے عذاب سے چھٹکارا پانے کے لیے فدیے میں دے اپنے بیٹوں کو،

۱۲– اپنی بیوی اور اپنے بھائی کو،

۱۳– اور اپنے خاندان کو جو اسے پناہ دیتا تھا۔

۱۴– او رروئے زمین کے سب لوگوں کو اور اپنے کو بچا لے۔

۱۵– ہرگز نہیں۔ وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہوگی۔

۱۶– جو کھال کو ادھیڑ لے گی۔

۱۷– وہ اپنی طرف بلائے گی ہر اس شخص کو جس نے (حق سے) پیٹھ پھیری تھی اور منہ موڑا تھا۔

۱۸– مال جمع کیا تھا اور سینت سینت کر رکھا تھا۔

۱۹– انسان بے صبرا پیدا کیا گیا ہے۔

۲۰– جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے۔

۲۱– اور جب اسے آسائش حاصل ہوتی ہے تو بخیل بنتا ہے۔

۲۲– مگر نمازی اس سے بچے ہوئے ہیں۔

۲۳– جو اپنی نماز کی پابندی کرتے ہیں۔

۲۴– جن کے مالوں میں ایک مقرر حق ہے۔

۲۵– سائل اور محروم کا۔

۲۶– جو روزِ جزا کو سچ مانتے ہیں۔

۲۷– جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔

۲۸– کیونکہ ان کے رب کا عذاب بے خوف ہونے کی چیز نہیں۔

۲۹– اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔

۳۰– بجز اپنی بیویوں اور اپنی مملوکہ عورتوں (لونڈیوں) کے کہ اس بارے میں ان پر کوئی ملامت نہیں۔

۳۱– البتہ جو لوگ اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں تو وہ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔

۳۲– جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھتے ہیں۔

۳۳– جو اپنی شہادتوں کو ادا کرتے ہیں۔

۳۴– اور جو اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں۔

۳۵– یہی لوگ جنتوں میں عزت کے ساتھ رہیں گے۔

۳۶–تو (اے نبی!) ان کافروں کو کیاہوگیا ہے کہ وہ تمہاری طرف دوڑے چلے آ رہے ہیں۔

۳۷– دائیں اور بائیں سے گروہ در گروہ۔

۳۸– کیا ان میں سے ہر شخص یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ نعمت بھری جنت میں داخل کر دیا جائے گا؟

۳۹– ہرگز نہیں۔ ہم نے ان کو پیدا کیا ہے اس چیز سے جسے وہ جانتے ہیں۔

۴۰– نہیں۔ میں قسم کھاتا ہوں مشرقوں اور مغربوں کے رب کی کہ ہم قادر ہیں۔

۴۱– اس بات پر کہ ہمان کی جگہ ان سے بہتر لوگ لے آئیں اور ہم عاجز رہنے والے نہیں ہیں۔

۴۲– لہٰذا انہیں چھوڑ دو کہ یہ باتیں بناتے اور کھیلتے رہیں یہاں تک کہ یہ اپنے اس دن سے دو چار ہوں جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔

۴۳– جس دن یہ اپنی قبروں سے اس سرعت کے ساتھ نکلیں گے کہ گویا ایک نشانہ کی طرف بھاگ رہے ہیں۔

۴۴– ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی۔ ذلت ان پر چھائی ہوگی۔ یہ ہے وہ دن جس کا ان سے وعدہ کیا جارہا تھا۔

٭٭٭

 

 

(۷۱) سورۂ نوح

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱– ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔ کہ اپنی قوم کو خبردار کر دو قبل اس کے کہ ان پر درد ناک عذاب آئے۔

۲– اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو! میں تمہارے لیے کھلا خبردار کرنے والا ہوں۔

۳– کہ اللہ کی عبادت کرو، اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

۴– وہ تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور تم کو ایک مقرر وقت تک مہلت دے گا۔ یقیناً جب اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آجائے گا تو اس کو ٹالا نہیں جا سکے گا۔ کاش کہ تم جان لیتے !

۵– نوح نے عرض کیا اے میرے رب میں نے اپنی قوم کو شب و روز پکارا۔

۶– مگر میری پکارنے ان کے فرار ہی میں اضافہ کیا۔

۷– اور میں نے جب بھی ان کو بلایا تاکہ تو ان کو بخش دے۔ انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیں، کپڑوں سے اپنے کو ڈھانک لیا۔ اپنی ضد پر اڑے رہے اور بڑا تکبر کیا۔

۸– پھر میں نے ان کو بہ آواز بلند دعوت دی۔

۱۲۹– پھر میں نے ان کو علانیہ بھی سمجھایا اور تنہائی میں بھی۔

۱۰– میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو۔ بلا شبہ وہ بڑا بخشنے والا ہے۔

۱۱– وہ تم پر خوب بارش برسائے گا۔

۱۲– تمہیں مال اور اولاد کی فراوانی بخشے گا۔ تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور نہریں جاری کرے گا۔

۱۳– تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ کی عظمت سے ڈرتے نہیں ہو۔

۱۴– حالانکہ اس نے تمہیں مختلف حالتوں سے گزار کر پیدا کیا ہے۔

۱۵– کیا تم دیکھتے نہیں کہ کس طرح اللہ نے سات آسمان تہ بہ تہ بنائے۔

۱۶– اور ان میں چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا۔

۱۷– اور اللہ ہی نے تم کو زمین سے خاص طریقہ پر اُگایا۔

۱۸– پھر وہ تمہیں اس میں لوٹائے گا۔ اور اس سے نکال کھڑا کرے گا۔

۱۹– اور اللہ ہی نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنایا۔

۲۰– تاکہ تم اس کے کھلے راستوں میں چلو۔

۲۱– نوح نے عرض کیا۔ اے میرے رب! انہوں نے میری نافرمانی کی اور ان لوگوں کی پیروی کی جن کے مال اور اولاد نے ان کو خسارہ ہی میں اضافہ کیا۔

۲۲– اور انہوں نے بہت بڑی چال چلی۔

۲۳– اور کہا ہرگز نہ چھوڑو اپنے معبودوں کو۔ اور نہ چھوڑو وَدّ کو اور نہ سُواع کو اور نہ یغوث اور یعوق اور نَسر کو۔

۲۴– انہوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کیا ہے اور تو ان ظالموں کی گمراہی میں ہی اضافہ فرما۔

۲۵– بالآخر وہ اپنے گناہ کی بنا پر غرق کئے گئے۔ پھر آگ میں داخل کر دئے گئے۔ تو اللہ کے مقابل میں انہوں نے کوئی مددگار نہ پایا۔

۲۶– اور نوح نے دعا مانگی۔ اے میرے رب! تو زمین پر ان کافروں میں سے کوئی بسنے والا نہ چھوڑ۔

۲۷– اگر تو نے ان کو چھوڑ دیا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان سے جو اولاد بھی پیدا ہوگی وہ بدکار اور کافر ہی ہوگی۔

۲۸– اے میرے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو اور ان کو جو میرے گھر میں مومن ہو کر داخل ہوں۔ اور سب مومن مردو ں اور مومن عورتوں کو اور ظالموں کی ہلاکت میں اضافہ فرما۔

٭٭٭

 

 

(۷۲) سورہ الجِنّ

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱– ( اے نبی!) کہو میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے ( قرآن کو) سنا تو کہا: ہم نے بہت عجیب قرآن سنا ہے۔

۲– جو ہدایت کی راہ دکھاتا ہے۔ ہم اس پر ایمان لے آئے۔ اور ہم ہرگز اپنے رب کا کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔

۳– اور یہ کہ ہمارے رب کی شان بہت بلند ہے۔ اس نے اپنے لیے نہ کوئی بیوی بنائی ہے اور نہ اولاد۔

۴– اور یہ کہ ہمارے نادان لوگ اللہ کے بارے میں خلافِ حق باتیں کہتے رہے ہیں۔

۵– اور یہ کہ ہم نے سمجھا تھا کہ انسان اور جن اللہ کے بارے میں کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے۔

۶– اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں کے کچھ لوگوں کی پناہ مانگتے رہے ہیں۔ اس طرح انہوں نے ان کی سرکشی میں اضافہ کیا۔

۷– اور یہ کہ انہو ں نے بھی اس طرح گمان کیا جس طرح تم نے کیا کہ اللہ کسی کو رسول بناکر نہیں بھیجے گا۔

۸– اور یہ کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو دیکھا کہ وہ سخت پرہ داروں اور شہابوں سے بھر دیا گیا ہے۔

۹– اور یہ کہ ہم اس کے بعض ٹھکانوں میں سننے کے لیے بیٹھ جایا کرتے تھے مگر اب جو سننے کی کوشش کرتا ہے وہ ایک شہاب کو اپنی گھات میں پاتا ہے۔

۱۰– اور یہ کہ ہم نہیں جانتے تھے کہ زمین والوں پر کوئی مصیبت نازل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے یا ان کا رب انہیں ہدایت سے نوازنا چاہتا ہے۔

۱۱– اور یہ کہ ہم میں صالح لوگ بھی ہیں اور غیر صالح بھی۔ہماری راہیں الگ الگ ہیں۔

۱۲– اور یہ کہ ہم سمجھتے تھے کہ زمین میں ہم اللہ کے قابو سے باہر نہیں جا سکتے اور نہ( آسمان میں ) بھاگ کر اس کے قابو سے نکل سکتے ہیں۔

۱۳– اور یہ کہ جب ہم نے ہدایت کی بات سنی تو اس پر ایمان لے آئے۔اور جب بھی اپنے رب پر ایمان لائے گا اسے نہ کسی حق تلفی کا اندیشہ ہوگا اورنہ کسی قسم کی زیادتی کا۔

۱۴– اور یہ کہ ہم میں مسلم بھی ہیں اور ظالم بھی تو جنہوں نے اسلام کو اختیار کیا انہو ں نے ہدایت کی راہ ڈھونڈ لی۔

۱۵– اور جو ظالم ہیں وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔

۱۶–اور ( مجھ پر وحی کی گئی ہے کہ) اگر یہ لوگ سیدھی راہ چلتے تو ہم انہیں خوب سیراب کرتے۔

۱۷– تاکہ ہم اس میں ان کو آزمائیں۔ اور جو اپنے رب کے ذکر سے رخ پھیرے گا۔ اس کو وہ سخت مشقت والے عذاب میں داخل کرے گا۔

۱۸– اور یہ کہ مسجد یں اللہ کے لیے ہیں تو اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔

۱۹– اور یہ کہ جب اللہ کا بندہ اس کو پکارنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو یہ لوگ اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔

۲۰– کہو میں اپنے رب ہی کو پکارتا ہوں اور کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھہراتا۔

۲۱– کہو میں تمہارے لیے نہ کسی ضرر کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ ہدایت کا۔

۲۲– کہو مجھے اللہ سے کوئی نہیں بچا سکے گا اور نہ میں اس کے سوا کوئی جائے پناہ پا سکو نگا۔

۲۳– میر کام تو صرف یہ ہے کہ اللہ کی بات اور اس کے پیغامات پہنچا دوں۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کریں گے ان کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

۲۴– یہاں تک کہ جب وہ اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جارہا ہے تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس کے مددگار کمزور ہیں اور کس کا جتھا تعداد میں کم ہے۔

۲۵– کہو میں نہیں جانتا کہ جس چیز کا وعدہ تم سے کیا جارہا ہے وہ قریب ہے یا میرا رب اس کو ایک عرصہ کے لیے مؤخر کرے گا۔

۲۶– غیب کا جاننے والا وہی ہے اور وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔

۲۷– سوائے اس کے جسے اس نے رسول کی حیثیت سے پسند فرما لیا ہو۔ تو اس کے آگے اور پیچھے وہ محافظ لگا دیتا ہے۔

۲۸– تاکہ وہ دیکھ لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دئے۔ اور وہ ا ن کے تمام احوال کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور ہر چیز کو اس نے گن رکھا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

(۷۳)سورہ المزمل

 

اللہ رحمن ورحیم کے نام سے

 

۱– اے چادر میں لپٹنے والے !

۲– رات کو( نماز میں ) قیام کرو بجز تھوڑے حصہ کے۔

۳– آدھی رات یا اس میں سے کچھ کم کر دو۔

۴– یا اس سے کچھ زیادہ کر لو۔ اور قرآن کو ترتیل کے ساتھ( یعنی صاف صاف اور ٹھہر ٹھہر کر) پڑھو۔

۵– ہم تم پر ایک بھاری بات ڈالنے والے ہیں۔

۶– واقعی رات کا اٹھنا نفس کو زیر کرنے کے لیے نہاتے موثر اور قول کو زیادہ درست رکھنے والا ہے۔

۷– دن میں تمہارے لیے طویل مصروفیتیں ہیں۔

۸– اپنے رب کے نام کا ذکر کرو۔ اور سب سے بے تعلق ہو کر اسی کے ہو رہو۔

۹– وہ مشرق و مغرب کے رب ہے۔ اس کے سوا کوئی خدا نہیں تو اسی کو اپنا کارساز بنا لو۔

۱۰– یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں اس پر صبر کرو اور ان کو خوبصورتی کے ساتھ چھوڑ دو۔

۱۱– اور ان جھٹلانے والے خوشحال لوگوں کا معاملہ مجھ پر چھوڑدو اور انہیں تھوڑی مہلت دے دو۔

۱۲– ہمارے پاس ان کے لیے بیڑیاں اور جہنم کی آگ ہے۔

۱۳– اور حلق میں پھسنے والا کھانا اور دردناک عذاب۔

۱۴– اس دن زمین اور پہاڑ لز اٹھیں گے۔ اور پہاڑ بکھری ہوئی ریت بن جائیں گے۔

۱۵– ہم نے تم لوگوں کی طرف ایک رسول تم پر گواہ بناکر بھیجا ہے۔ جس طرح ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا۔

۱۶– تو فرعون نے رسول کی نافرمانی کی بالآخر ہم نے اس کو سختی کے ساتھ پکڑ لیا۔

۱۷– اگر تم نے کفر کیا تو اس دن( کی سختی) سے کیسے بچو گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا۔

۱۸– آسمان اس( دن کی سختی) سے پھٹ پڑے گا۔ اس کا وعدہ(کہ قیامت برپا ہوگی) پورا ہو کر رہے گا۔

۱۹– یہ ایک یاددہانی ہے تو جو چاہے اپنے رب کی طرف جانے کی راہ اختیار کر لے۔

۲۰– ( اے نبی!) تمہارا رب جانتا ہے کہ تم دو تہائی رات کے قریب یا نصف شب یا ایک تہائی شب( نماز میں ) کھڑے ہوتے ہو۔ اور تمہارے ساتھیوں میں سے ایک گروہ بھی۔ اللہ ہی رات اور دن کے اوقات مقرر کرتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ تم اس کا ٹھیک ٹھیک شمار نہیں کر سکتے۔ لہٰذا اس نے تم پر عنایت کی تو جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو۔ اسے معلوم ہے کہ تم میں کچھ مریض ہوں گے اور ایسے بھی جو اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کریں گے اور ایسے بھی جو اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کریں گے اور ایسے بھی جو اللہ کی راہ میں جنگ کریں گے تو جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو۔ اور نماز قائم کرو زکوٰۃ دو اور اللہ کو اچھا قرض دو۔ جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے تم اللہ کے یہاں موجود پاؤ گے۔ وہ بہتر اور اجر میں بڑھ کر ہوگی۔ اللہ سے استغفار کرو۔ وہ بڑا بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

(۷۴) سورہ المدثر

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱– اور چادر اوڑھنے والے !

۲– اٹھو اور خبردار کرو۔

۳– اور اپنے رب کی بڑائی بیان کرو۔

۴– اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔

۵–اور(بتوں کی)گندگی سے دور رہو۔

۶– اور زیادہ حاصل کرنے کی غرض سے احسان نہ کرو۔

۷– اور اپنے رب کے لیے صبر کرو۔

۸– پھر جب صور پھونکا جائے گا۔

۹– تو وہ دن بڑا ہی سخت دن ہوگا۔

۱۰– کافروں پر آسان نہ ہوگا۔

۱۱– چھوڑدو مجھے اور اس شخص کو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا۔

۱۲– اور اس شخص کو کثیر مال بخشا۔

۱۳– اور حاضر رہنے والے بیٹے دئے۔

۱۴– اور اس کے لیے سامان مہیا کیا۔

۱۵– پھر وہ توقع رکھتا ہے کہ میں اسے اور زیادہ دوں گا۔

۱۶– ہرگز نہیں۔ وہ ہماری آیتوں سے بیر رکھتا ہے۔

۱۷– میں اس کو عنقریب ایک کٹھن چڑھائی چڑھاؤں گا۔

۱۸– اس نے سوچا اور ایک بات تجویز کی۔

۱۹– تو مارا جائے وہ کیسی بات اس نے تجویز کی!

۲۰– پھر مارا جائے وہ کیسی بات اس نے تجویز کی!

۲۱– پھر اس نے نظر ڈالی۔

۲۲– پھر تیوری چڑھائی اور منہ بنایا۔

۲۳– پھر پیٹھ پھیری اور تکبر کیا۔

۲۴– اور بولا یہ تو محض جادو ہے جو پہلے سے چلا آ رہا ہے۔

۲۵– یہ انسان کا کلام ہی ہے۔

۲۶– عنقریب میں اسے سَقرَ ( دوزخ) میں داخل کروں گا۔

۲۷– اور تم نے سمجھا کہ سَقرَ(دوزخ) کیا ہے ؟

۲۸– نہ باقی رکھے گی اور نہ چھوڑے گی۔

۲۹– کھال کو جھلس دینے والی۔

۳۰– اس پر اُنیس ( فرشتے ) مقرر ہیں۔

۳۱– اور ہم نے دوزخ کے نگراں فرشتے بنائے ہیں اور ان کی تعداد کو کافروں کے لیے فتنہ بنایا ہے۔ تاکہ اہلِ کتاب کو یقین آجائے اور اہلِ ایمان کا ایمان بڑھے۔ اور اہلِ کتاب اور مومن کسی شک میں نہ پڑیں اور جن کے دلوں میں روگ ہے وہ اور کفار کہیں کہ اس بات سے اللہ کی کیا مراد ہے۔ اس طرح اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔ اور تمہارے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور یہ قرآن انسانوں کے لیے سرتاسر نصیحت ہے۔

۳۲– ہرگز نہیں۔ قسم ہے۔ چاند کی۔

۳۳– او ررات کی جب کہ وہ پلٹتی ہے۔

۳۴– اور صبح کی جب کہ وہ روشن ہوجائے۔

۳۵– کہ یہ ( قرآن) بہت بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔

۳۶– انسانوں کو خبردار کرنے والا۔

۳۷– تم میں سے ہر اس شخص کو جو آگے بڑھنا یا پیچھے رہنا چاہیے۔

۳۸– ہر شخص اپنی کمائی کے بدلہ رہن ہے۔

۳۹– سوائے داہنے ہاتھ والوں کے۔

۴۰– وہ جنتوں میں ہوں گے۔ وہاں وہ پوچھ رہے ہوں گے۔

۴۱– مجرموں کے بارے میں۔

۴۲– تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟

۴۳– وہ کہیں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے۔

۴۴– اور نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔

۴۵– اور بحث کرنے والوں کے ساتھ ہم بھی بحث کرتے تھے۔

۴۶– اور روزِ جزا کو جھٹلاتے تھے۔

۴۷– یہاں تک کہ یقینی چیز ہمارے سامنے آ گئی۔

۴۸– تو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت ان کے لیے کچھ بھی مفید نہ ہوگی۔

۴۹– ان کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ نصیحت سے رخ پھیر رہے ہیں۔

۵۰– گویا یہ بد کے ہوئے گدھے ہیں۔

۵۱– جو شیر سے ڈر کر بھاگے ہوں۔

۵۲– بلکہ ان میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ اسے کھلا صحیفہ دیا جائے۔

۵۳– ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ آخرت کا خوف نہیں رکھتے۔

۵۴– ہرگز نہیں یہ تو ایک نصیحت ہے۔

۵۵– تو جس کا جی چا ہے اس سے نصیحت حاصل کرے۔

۵۶– اور یہ نصیحت حاصل نہیں کرسکتے۔ مگر یہ کہ اللہ چا ہے وہ اس کا مستحق ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔ اور وہی اس کا اہل ہے کہ بخش دے۔

٭٭٭

 

 

(۷۵) سورہ القیامۃ

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱– نہیں، میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی۔

۲– اور نہیں، میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی۔

۳– کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کر سکیں گے۔

۴– کیوں نہیں ؟ ہم تو اس کی پور پور تک ٹھیک بنا دینے پر قادر ہیں۔

۵– مگر انسان چاہتا ہے کہ اپنے آگے بد اعمالیاں کرتا رہے۔

۶– پوچھتا ہے کب آئے گا قیامت کا دن۔

۷– تو (سن لو) جب آنکھیں چندھیا جائیں گے۔

۸– اور چاند بے نور ہو جائے گا۔

۹– اور سورج اور چاند اکٹھے کر دئے جائیں گے۔

۱۰– اس روز انسان کہے گا کہاں بھاگ کر جاؤں ؟

۱۱– نہیں۔ کہیں پناہ نہیں۔

۱۲– اس روز تیرے رب ہی کی طرف ٹھکانا ہو گا۔

۱۳–اس روز انسان کو بتا دیا جائے گا کہ اس نے کیا آگے بھیجا اور کیا پیچھے چھوڑا۔

۱۴– دراصل انسان آپ اپنے اوپر حجت ہے۔

۱۵– اگرچہ کتنے ہی بہانے پیش کرے۔

۱۶– (اے نبی!) اس (قرآن) کو جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو۔

۱۷– اس کو جمع کرا دینا اور پڑھو ا دینا ہمارے ذمہ ہے۔

۱۸– لہٰذا جب ہم اسے پڑھ چکیں تو اس پڑھنے کی پیروی کرو۔

۱۹– پھر اس کی وضاحت کرنا ہمارے ذمہ ہے۔

۲۰– ہرگز نہیں بلکہ تم لوگ جلد حاصل ہونے والی دنیا سے محبت کرتے ہو۔

۲۱–اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو۔

۲۲– اس روز کتنے چہرے تر و تازہ ہوں گے۔

۲۳– اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔

۲۴– اور کتنے چہرے اس دن اداس ہوں گے۔

۲۵– وہ سمجھ رہے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ معاملہ ہونے والا ہے۔

۲۶– ہرگز نہیں۔ جب جان ہنسلی تک پہنچ جائے گی۔

۲۷– اور کہا جائے گا۔۔ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا؟

۲۸– اور وہ سمجھے گا کہ یہ جدائی کا وقت ہے۔

۲۹– اور پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی۔

۳۰– اس دن تیرے رب کی طرف جانا ہو گا۔

۳۱– مگر اس نے نہ سچائی کو قبول کیا اور نہ نماز پڑھی۔

۳۲– بلکہ جھٹلایا اور منہ موڑا۔

۳۳– پھر اکڑتا ہوا اپنے گھر والوں کی طرف چل دیا۔

۳۴– افسوس ہے تجھ پر افسوس ہے !

۳۵– پھر افسوس ہے تجھ پر افسوس ہے !

۳۶– کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا؟

۳۷– کیا وہ منی کی ایک بوند نہ تھا جو (رحم میں) ڈالی جاتی ہے۔

۳۸– پھر وہ علقہ ہوا۔ پھر (اللہ نے) اس کا جسم بنایا اور اسے درست کیا۔

۳۹– پھر اس سے جوڑا بنایا مرد اور عورت۔

۴۰– کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کر دے ؟

٭٭٭

 

 

(۷۶)سورہ الانسان

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱– کیا انسان پر زمانۂ مدید میں ایک وقت ایسا نہیں گزرا جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا؟

۲– ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفہ سے پیدا کیا تاکہ اسے آزمائیں چنانچہ ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔

۳– ہم نے اس کو راہ دکھا دی۔ چاہے وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا۔

۴– کافروں کے لیے ہم نے زنجیریں اور طوق اور دہکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔

۵– نیک لوگ ایسی شراب کے جام پئیں گے جس میں کافور کی آمیزش ہو گی۔

۶– یہ ایک چشمہ ہو گا جس سے اللہ کے بندے پئیں گے۔ اور اس کی شاخیں (جہاں چاہیں گے )نکال لیں گے۔

۱۰۷– یہ لوگ اپنی نذریں پوری کرتے ہیں۔ اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی مصیبت ہر طرف پھیلی ہوئی ہو گی۔

۸– اور اس کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔

۹– ہم تمہیں صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے کھلاتے ہیں۔ نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ

۱۰– ہم اپنے رب کی طرف سے ایک ایسے دن کا خوف رکھتے ہیں جو ترش رو اور نہایت سخت ہو گا۔

۱۱– تو اللہ نے ان کو اس دن کی مصیبت سے بچا لیا اور ان کو تازگی اور سرور بحشا۔

۱۲–اور ان کے صبر کے بدلہ میں انہیں جنت اور ریشمی لباس عطاء کیا۔

۱۳– وہاں وہ تختوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔ نہ انہیں دھوپ کی حدت محسوس ہو گی اور نہ سردی کی شدت۔

۱۴– اس کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہوں گے۔ اور اس کے خوشے جھک کر لٹک رہے ہوں گے۔

۱۵– ان کے آگے چاندی کے برتن۔ اور شیشے کے گلاس گردش میں ہوں گے۔

۱۶– شیشے بھی وہ جو چاندی کے ہوں گے اور ان کے پیمانے وہ خود مقرر کریں گے۔

۱۷– ان کو وہاں ایسی شراب کے جام پلائے جائیں گے جس میں زنجبیل (سونٹھ) کی آمیزش ہو گی۔

۱۸– یہ ایک چشمہ ہو گا جس کو سلسبیل کہا جاتا ہے۔

۱۹– ان کے پاس ایسے لڑکے گردش میں ہوں گے جو ہمیشہ اسی سِن کے رہیں گے۔ تم ان کو دیکھو تو خیال کرو یہ بکھرے ہوئے موتی ہیں۔

۲۰– وہاں جدھر بھی دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور عظیم بادشاہی دکھائی دے گی۔

۲۱– ان کے اوپر باریک ریشم کے سبز اور اطلس کے کپڑے ہوں گے۔ ان کو چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ اور ان کا رب ان کو نہایت پاکیزہ مشروب پلائے گا۔

۲۲– یہ ہے تمہاری جزا اور تمہاری سعی مقبول ہوئی۔

۲۳– (اے نبی!) ہم نے تم پر قرآن بتدریج نازل کیا ہے۔

۲۴– لہٰذا تم اپنے رب کے فیصلہ کا انتظار کرو۔ اور ان میں سے کسی گنہگار یا ناشکر ے کی بات نہ مانو۔

۲۵– اپنے رب کے نام کا ذکر کرو صبح و شام

۲۶– رات کو بھی اس کے حضور سجدہ کرو۔ اور رات کے طویل حصہ میں اس کی تسبیح کرو۔

۲۷– یہ لوگ جلد حاصل ہونے والی دنیا سے محبت رکھتے ہیں اور ایک بھاری دن کو اپنے پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔

۲۸– ہم نے ہی ان کو پیدا کیا ہے اور ان کے جوڑ بند مضبوط کئے ہیں۔ اور ہم جب چاہیں ان کی صورتیں بدل دیں۔

۲۹– یہ ایک نصیحت ہے تو جو چاہے اپنے رب کی طرف جانے کی راہ اختیار کر لے۔

۳۰– اور تم نہیں چاہ سکتے جب تک کہ اللہ نہ چاہے۔ یقیناً اللہ علم والا حکمت والا ہے۔

۳۱– جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے۔ اور ظالموں کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

(۷۷)سورۂ المرسلٰت

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱– قسم ہے ان ہواؤں کی جو لگاتار بھیجی جاتی ہیں۔

۲– پھر تندو تیز چلنے لگتی ہیں۔

۳– اور جو بادلوں کو پھیلاتی ہیں۔

۴– پھر( ان کو) الگ الگ کرتی ہیں۔

۵– پھر( دلوں میں ) یاد دہانی ( کی بات) ڈالتی ہیں۔

۶– حجت قائم کرنے یا خبردار کرنے کے لیے۔

۷– جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ ضرور واقع ہو گی۔

۸– پھر جب ستارے بے نور ہو جائیں گے۔

۹– اور آسمان پھٹ جائے گا۔

۱۰– اور پہاڑ ریزہ ریزہ کر دیئے جائیں گے۔

۱۱– اور جب رسولوں کے لیے وقت مقرر ہو گا۔

۱۲– اس میں کس دن کے لیے تاخیر ہو رہی ہے۔

۱۳– فیصلہ کے دن کے لیے۔

۱۴– اور تمہیں کیا معلوم کہ فیصلہ کا دن کیا ہے ؟

۱۵– تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔

۱۶– کیا ہم نے اگلے لوگوں کو ہلاک کرتے رہے۔

۱۷– پھر بعد والوں کو ان کے پیچھے ہلاک کرتے رہے۔

۱۸– مجرموں کے ساتھ ہم ایسا ہی معاملہ کرتے ہیں۔

۱۹– تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔

۲۰– کیا ہم نے تم کو حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا؟

۲۱– اور اسے ایک محفوظ جگہ میں رکھا۔

۲۲– ایک مقررہ مدت تک۔

۲۳– تو ہم نے ایک منصوبہ بنایا اور ہم کیا ہی خوب منصوبہ بنانے والے ہیں۔

۲۴– تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔

۲۵– کیا ہم نے زمین کو سمیٹ رکھنے والی نہیں بنایا؟

۲۶– زندوں اور مردوں کو۔

۲۷– اور اس میں اونچے پہاڑ رکھے۔ اور تم لوگوں کو میٹھا پانی پلایا۔

۲۸– تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔

۲۹– چلو اس چیز کی طرف جسے تم جھٹلاتے رہے۔

۳۰– چلو اس سایہ کی طرف جو تین شاخوں والا ہے۔

۳۱– جس میں نہ چھاؤں ہے اور نہ وہ شعلوں کی لپٹ سے بچائے گا۔

۳۲– وہ آگ محل کی طرح ( اونچی) چنگاریاں پھینکتی ہو گی۔

۳۳– گویا وہ زرد اونٹ ہیں۔

۳۴– تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔

۳۵– یہ وہ دن ہے کہ وہ بول نہ سکیں گے۔

۳۶– اور نہ انہیں اجازت دی جائے گی کہ عذر پیش کر سکیں۔

۳۷– تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔

۳۸– یہ فیصلہ کا دن ہے۔ ہم نے تم کو بھی جمع کر دیا ہے اور تم سے پہلے کے لوگوں کو بھی۔

۳۹– اگر تم کوئی چال چل سکتے ہو تو میرے مقابلہ میں چل دیکھو۔

۴۰– تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔

۴۱– متقی اللہ سے ڈرنے والے– سایوں اور چشموں میں ہوں گے۔

۴۲– اور اپنی پسند کے میووں میں۔

۴۳– کھاؤ اور پیو مزے سے اپنے اعمال کے بدلہ میں۔

۴۴– ہم نیکو کاروں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔

۴۵– تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔

۴۶– کھاؤ اور مزے کر لو تھوڑے دن۔ تم مجرم ہو۔

۴۷– تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔

۴۸– جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جھکو تو جھکتے نہیں ہیں۔

۴۹– تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔

۵۰– اب اس کے بعد وہ کس کلا م پر ایمان لائیں گے ؟

٭٭٭

 

 

(۷۸) سورۂ اَلنَّبَا

 

اﷲ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– یہ لوگ کس چیز کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں؟

۲– اُس بڑی خبر ۱ کے بارے میں۔

۳– جس کے متعلق یہ مختلف باتیں کر رہے ہیں

۴– ان کی باتیں غلط ہیں انھیں عنقریب معلوم ہو جائے گا۔

۵– پھر سن لو ان کے خیالات باطل ہیں وہ جلد ہی جان لیں گے

۶– کیا ہم نے زمین کو فرش نہیں بنایا؟ ۴۔

۷– اور پہاڑوں کو میخیں؟ ۵

۸– اور کیا تم کو جوڑوں کی شکل میں پیدا نہیں کیا؟

۹– اور کیا تمھاری نیند کو باعث سکون؟

۱۰– اور رات کو لباس۔

۱۱– اور دن کو وقت معاش نہیں بنایا؟

۱۲– کیا تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان نہیں بنائے۔

۱۳– اور ایک روشن چراغ پیدا نہیں کیا؟

۱۴– اور کیا ہم نے بادلوں سے موسلا دھار پانی نہیں برسایا؟

۱۵– تا کہ اُُگائیں اس کے ذریعہ غلہ اور نباتات۔

۱۶– اور گھنے باغ۔

۱۷– بیشک فیصلہ کا دن ایک مقرر وقت ہے۔

۱۸– جس دن صور پھونکا جائے گا تو تم آؤ گے فوج در فوج۔

۱۹– اور آسمان کھول دیا جائے گا تو اسمیں دروازے ہی دروازے ہو جائیں گے۔

۲۰– اور پہاڑ چلائے جائیں گے تو وہ سراب بن کر رہ جائیں گے۔

۲۱– بے شک ! جہنم گھات میں ہے۔

۲۲– سر کشوں کا ٹھکانہ۔

۲۳– جس میں وہ مدّتوں پڑے رہیں گے۔

۲۴– وہاں وہ نہ کسی قسم کی ٹھنڈک کا مزہ چکھیں گے اور نہ پینے کی چیز کا۔

۲۵– بجز گرم پانی اور پیپ کے۔

۲۶– ان کے کرتوتوں کا ٹھیک ٹھیک بدلہ۔

۲۷– وہ حساب کی امید نہ رکھتے تھے۔

۲۸– اور ہماری آیتوں کو یکسر جھٹلا دیا تھا۔

۲۹– درانحالیکہ ہم نے ہر چیز کو لکھ کر ضبط کر رکھا تھا۔

۳۰– تو چکھو ! اب ہم تمھارے عذاب ہی میں اضافہ کریں گے۔

۳۱– یقیناً متقیوں ۲۰ کے لئے کامیابی ہے۔

۳۲– باغ اور انگور،

۳۳– اور نو خیز ہمسن لڑکیاں،

۳۴– اور چھلکتے جام،

۳۵–وہاں وہ نہ کو لغو بات سنیں گے اور نہ جھوٹی بات۔

۳۶– یہ تمھارے رب کی طرف سے جزا ہوگی اور کافی انعام۔

۳۷– اس کی طرف سے جو آسمانوں اور زمین اور اس کے درمیان کی ساری چیزوں کا مالک ہے۔ رحٰمن۔

جس سے بات کرنے کا کسی کو یارا نہیں۔

۳۸– جس دن روح (الامین) اور فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے. کوئ بات نہ کر سکے گا سوائے اس کے جسے رحٰمن اجازت دے اور وہ بالکل درست بات کہے گا۔

۳۹– یہ دن بر حق ۲۷ ہے۔ تو جو چاہے اپنے رب کے پاس ٹھکانہ بنا لے۔

۴۰– ہم نے تمھیں ایک ایسے عذاب سے آگاہ کر دیا ہے جو قریب آ لگا ہے۔

جس دن آدمی دیکھ لے گا کہ اس نے آگے کیلئے کیا کیا ہے ۲۹ اور کافر کہے گا کاش میں مٹی ہوتا۔

٭٭٭

 

 

 

(۷۹) سورہ اَلنّازعات

 

اﷲ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– قسم ہے ان ( ہواؤں) کی جو (بادلوں کو ) شدت کے ساتھ گھسیٹتی ہیں۔

۲– اور ان کی جو نرم نرم چلتی ہیں۔

۳– اور ان کی جو سبک رفتار ہیں۔

۴۔ –پھر جو ( تعمیل حکم میں) بازی لے جاتی ہیں۔

۵۔ –اور ایک کام ( بارش ) کا انتظام کرتی ہیں۔

۶۔ –جس دن زلزلہ کا شدید جھٹکا لگے گا۔

۷۔ –اس کے پیچھے دوسرا جھٹکا آئے گا۔

۸۔ –کتنے دل اس دن دھڑک رہے ہوں گے۔

۹۔ –نگاہیں ان کی پست ہوں گی۔

۱۰۔ –کہتے ہیں کیا ہم پھر پہلی حالت میں لوٹائے جائیں گے ؟

۱۱۔ –کیا اس وقت جب کہ ہماری ہڈیاں بوسیدہ ہو چکی ہوں گی ؟

۱۲۔ –کہتے ہیں یہ لوٹنا بڑے خسارہ کا ہو گا۔

۱۳۔ –وہ تو بس ایک ڈانٹ ہو گی۔

۱۴۔ –کہ وہ یکایک میدان میں آ موجود ہوں گے۔

۱۵۔ –کیا تمھیں موسیٰ کے واقعہ کی خبر پہنچی ہے۔

۱۶۔ –جب کہ اس کے رب نے اسے طویٰ کی مقدس وادی میں پکارا۔

۱۷۔ –فرعون کے پاس جاؤ، وہ سرکش ہو گیا ہے۔

۱۸۔ –اور اس سے کہو کیا تو چاہتا ہے کہ پاکیزگی اختیار کرے۔

۱۹۔ –اور میں تجھے تیرے رب کی راہ دکھاؤں کہ تو اس سے ڈرنے لگے۔

۲۰۔ –پھر (موسیٰ نے ) اس کو بڑی نشانی دکھائی۔

۲۱۔ –مگر اس نے جھٹلایا اور نہ مانا۔

۲۲۔ –پھر پلٹا اور مخالفت میں سرگرم ہو گیا۔

۲۳۔ –اور لوگوں کو جمع کر کے اعلان کیا۔

۲۴۔ –اور کہا کہ میں ہوں تمہارا سب بے بڑا رب۔

۲۵۔ –بالآخر اﷲ نے اسے آخرت اور دنیا کے عذاب میں پکڑ لیا۔

۲۶۔ –بے شک اس میں بڑی عبرت ہے ہر اس شخض کے لئے جو ڈرے۔

۲۷۔ –کیا تم لوگوں کی تخلیق زیادہ دشوار ہے یا آسمان کی ؟ اس نے اس کو بنایا۔

۲۸۔ –اس کی چھت بلند کی اور اس کو درست اور ہموار کیا۔

۲۹۔ –اس کی رات ڈھانک دی اور اس کا دن نکالا۔

۳۰۔ –اس کے بعد زمین کو بچھایا۔

۳۱۔ –اس میں سے اس کا پانی اور چارہ نکالا۔

۳۲۔ –اور پہاڑ اس میں گاڑ دئے۔

۳۳۔ –تاکہ تمہاری اور تمہارے مویشیوں کی زندگی کا سامان ہو۔

۳۴۔ –پھر جب وہ عظیم ہنگامہ برپا ہو گا۔

۳۵۔ –جس دن انسان اپنے کئے کو یاد کرے گا۔

۳۶–اور دوزخ ہر دیکھنے والے کے لئے بے نقاب کر دی جائے گی۔

۳۷۔ –تو جس نے سرکشی کی ہو گی۔

۳۸۔ –اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی ہو گی۔

۳۹۔ –دوزخ ہی اس کا ٹھکانا ہو گی۔

۴۰۔ –البتہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا ہو گا اور اپنے نفس کو بری خواہشات سے روکا ہو گا۔

۴۱۔ –جنت اس کا ٹھکانا ہو گی۔

۴۲۔ — (اے نبی!) یہ لوگ تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ وہ گھڑی کب آ ٹھہرے گی۔

۴۳۔ –اس کا وقت بتانے سے تمہیں کیا واسطہ۔

۴۴۔ –اس کا علم تو تمہارے رب ہی کو ہے۔

۴۵۔ –تمہارا کام صرف ان لوگوں کو خبردار کرنا ہے جو اس سے ڈریں۔

۴۶۔ –جس روز وہ اُسے دیکھ لیں گے تو انہیں ایسا محسوس ہو گا کہ وہ (دنیا میں ) ایک شام یا ایک صبح سے زیادہ نہیں ٹھہرے تھے۔

٭٭٭

 

 

(۸۰) سورۂ عبس

 

اﷲ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا۔

۲– اس بات پر کہ اس کے پاس نابینا آیا۔

۳– (اے پیغمبر!) تمھیں کیا معلوم شاید وہ پاکیزگی حاصل کرتا۔

۴– یا نصیحت پر دھیان دیتا اور نصیحت اس کے حق میں مفید ہوتی۔

۵– جو شخص بے پرواہی برتتا ہے۔

۶– اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو۔

۷– حالانکہ اس کے اصلاح قبول نہ کرنے کی تم پر کوئی ذمہ داری نہیں۔

۸– اور جو تمہارے پاس دوڑتا ہوا آتا ہے۔

۹– اور وہ اﷲ سے ڈرتا بھی ہے۔

۱۰– اس سے تم بے پرواہی برتتے ہو۔

۱۱– ہرگز نہیں یہ تو ایک یاد دہانی ہے۔

۱۲– تو جو چاہے اسے قبول کرے۔

۱۳– یہ ایسے صحیفوں اوراق میں ہے جو نہایت قابل احترام ہیں۔

۱۴– بلند مرتبہ اور پاکیزہ ہیں۔

۱۵– ایسے کاتبوں کے ہاتھوں میں ہیں۔

۱۶– جو معزز اور وفا شعار ہیں۔

۱۷– غارت ہو انسان کیسا نا شکرا ہے۔

۱۸– اسے اﷲ نے کس چیز سے پیدا کیا ؟۔

۱۹– ایک بوند سے پیدا کیا اور اس کی منصوبہ بندی کی۔

۲۰– پھر اس کے لئے راہ آسان کر دی۔

۲۱– پھر اس کو موت دی اور قبر میں دفن کرایا۔

۲۲– پھر جب وہ چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا۔

۲۳– ہرگز نہیں۔ اس نے اس حکم کی تعمیل نہیں کی جو اﷲ نے اسے دیا تھا۔

۲۴– انسان ذرا اپنی غذا کو دیکھے۔

۲۵– کہ ہم نے خوب پانی برسایا۔

۲۶– پھر زمین کو اچھی طرح پھاڑا۔

۲۷– پھر اس میں اگائے غلے۔

۲۸– اور انگور اور ترکاریاں۔

۲۹– اور زیتون اور کھجور۔

۳۰– اور گھنے باغ۔

۳۱– اور میوے اور چارہ۔

۳۲– تمہاری اور تمہارے مویشیوں کی منفعت کے لئے۔

۳۳– پھر جب وہ کانوں کو بہرا کر دینے والی آواز گرجے گی۔

۳۴– اس دن آدمی بھاگے گا اپنے بھائی سے۔

۳۵– اپنی ماں اور اپنے باپ سے۔

۳۶– اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے۔

۳۷۔ اس روز ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہو گی۔

۳۸۔ کتنے ہی چہرے اس روز روشن ہوں گے۔

۳۹۔ خنداں و شاداں۔

۴۰۔ اور کتنے ہی چہرے اس روز غبار آلود ہوں گے۔

۴۱۔ ان پر سیاہی چھائی ہو گی۔

۴۲۔ یہ ہوں گے وہی کافر اور فاجر لوگ۔

٭٭٭

 

 

(۸۱)سورۂ التکویر

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱– جب سورج لپیٹ دیا جائے گا۔

۲– اور جب ستارے بے نور ہو جائیں گے۔

۳– اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے۔

۴– اور جب دس ماہ کی گابھن اونٹنیاں بے کار چھوڑ دی جائیں گی۔

۵– اور جب وحشی جانور اکٹھے کئے جائیں گے۔

۶– اور سمندر بھڑکا دئے جائیں گے۔

۷– اور جب لوگوں کو مختلف گروہوں میں بانٹ دیا جائے گا۔

۸– اور جب زندہ درگور کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا۔

۹– کہ وہ کس گناہ میں ماری گئی۔

۱۰– اور جب اعمال نامے کھول دئے جائیں گے۔

۱۱– اور جب آسمان کی کھال کھینچ لی جائے گی۔

۱۲– اور جب جہّنم بھڑکائی جائے گی۔

۱۳– اور جب جنت قریب لائی جائے گی۔

۱۴– اس وقت ہر شخص کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیا لے کر حاضر ہوا ہے۔

۱۵– پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں غروب ہونے والے۔

۱۶– چلنے والے، اور چھپ جانے والے ستاروں کی۔

۱۷– اور رات کی جب کہ وہ رخصت ہو۔

۱۸– اور صبح کی جب کہ وہ سانس لے۔

۱۹– کہ یقیناً یہ ایک معزز پیغامبر کا لایا ہوا کلام ہے۔

۲۰– جو قوت والا ہے اور مالک عرش کے ہاں بلند مرتبہ ہے۔

۲۱– وہاں اس کا حکم مانا جاتا ہے اور وہ امانت دار ہے۔

۲۲– اور تمہارا ساتھی دیوانہ نہیں ہے۔

۲۳– اس نے اس فرشتہ کو کھلے افق پر دیکھا ہے۔

۲۴– اور وہ غیب کی باتیں بتانے کے معاملہ میں بخیل نہیں ہے۔

۲۵– اور یہ کسی شیطان مردود کا قول نہیں ہے۔

۲۶– پھر تم لوگ کدھر چلے جا رہے ہو ؟

۲۷– یہ تو دنیا والوں کے لئے ایک یاد دہانی ہے۔

۲۸– تم میں سے ہر اس شخص کے لئے جو سیدھی راہ اختیار کرنا چاہے۔

۲۹– اور تم نہیں چاہ سکتے جب تک کہ اللہ ربُّ العالمین نہ چاہے۔

٭٭٭

 

 

(۸۲)۔سورہ الانفطار

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے۔

 

۱– جب آسمان پھٹ جائے گا۔

۲– اور جب تارے بکھر جائیں گے۔

۳– اور جب سمندر بہا دئے جائیں گے۔

۴– اور جب قبریں اکھیڑ دی جائیں گی۔

۵۔ –اس وقت ہر شخص کو معلوم ہو جائے گا کہ اس نے آگے کیا بھیجا ہے ؟

اور پیچھے کیا چھوڑا ہے ؟

۶۔ –اے انسان ! تجھے کس چیز نے اپنے ربِ کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال رکھا ہے ؟

۷۔ –جس نے تجھے بنایا، اور ٹھیک ٹھیک انسان بنایا اور تیری بناوٹ میں اعتدال رکھا۔

۸۔ –او ر جس صورت میں چاہا تجھے ترکیب دیا۔

۹۔ –نہیں مگر تم جزا و سزا کو جھٹلاتے ہو۔

۱۰۔ –حالانکہ تم پر نگراں مقرر ہیں۔

۱۱۔ –گرامی قدر کاتب۔

۱۲۔ –جو تمہارے ہر فعل کو جانتے ہیں۔

۱۳۔ –یقیناً نیکو کار عیش و نشاط میں ہوں گے۔

۱۴۔ –اور بدکار جہنّم میں۔

۱۵۔ –وہ اس میں جزا کے دن داخل ہوں گے۔

۱۶۔ –اور اس سے غائب نہ ہو سکیں گے۔

۱۷۔ –اور تمھیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیا ہے ؟

۱۸۔ –پھر (سن لو !) تمھیں کیا خبر کہ جزا کا دن کیا ہے ؟

۱۹۔ –وہ دن جب کوئی شخص کسی کے لئے کچھ نہ کر سکے گا اور معاملات صرف اللہ ہی کے اختیار میں ہوں گے۔

٭٭٭

 

 

(۸۳) سورۂ المطففین

 

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱– تباہی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے۔

۲–جو لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں۔

۳۔ –اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیں۔

۴۔ –کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ انہیں اٹھایا جائے گا۔

۵۔ –ایک بڑے دن۔

۶۔ –جس دن سب لوگ ربُّ العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے۔

۷۔ –(ان کا گمان صحیح ) نہیں۔ یقین جانو بدکاروں کا نامہ عمل سِجّین میں ہو گا۔

۸۔ –اور تمہیں کیا معلوم کہ سجین کیا ہے ؟

۹۔ –وہ ایک ریکارڈ آفس ہے۔

۱۰۔ –تباہی ہے اس دن انکار کرنے والوں کے لئے !

۱۱۔ –جو روز جزا کا انکار کرتے ہیں۔

۱۲۔ –اور اس کا انکار وہی لوگ کرتے ہیں جو حد سے گزرنے والے گنہگار ہوتے ہیں۔

۱۳۔ –ایسے شخص کو جب ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ کہتا ہے کہ یہ تو اگلے لوگوں کے فسانے ہیں۔

۱۴۔ –نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال بد کا زنگ چڑھ گیا ہے۔

۱۵۔ –ہرگز نہیں اس دن وہ اپنے رب سے دور رکھے جائیں گے۔

۱۶۔ –پھر وہ جہنم میں داخل ہوں گے۔

۱۷۔ –اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی چیز ہے جس کا تم انکار کرتے رہے ہو۔

۱۸۔ — (ان کا دعوی صحیح) نہیں یقیناً نیک کردار لوگوں کا نامہ اعمال علییّن میں ہو گا۔

۱۹۔ –اور تمہیں کیا معلوم کہ علییّن کیا ہے ؟

۲۰۔ –وہ ایک ریکارڈ آفس ہے۔

۲۱۔ –جہاں مقربین (بارگاہ الٰہی) کی حضوری ہوتی ہے۔

۲۲۔ –بے شک نیکوکار عیش میں ہوں گے۔

۲۳۔ –شاندار تختوں پر بیٹھے نظارہ کر رہے ہوں گے۔

۲۴۔ –ان کے چہروں پر تم دیکھو گے کہ خوشحالی کی بشاشت جھلک رہی ہے۔

۲۵۔ –ان کو ایسی شراب پلائی جائے گی جو خالص اور سر بہ مہر ہو گی۔

۲۶۔ –یہ مہر مشک کی ہو گی اور رغبت کرنے والوں کو چاہیے کہ بڑھ چڑھ کر اس کی رغبت کریں۔

۲۷۔ –اس شراب میں تسنیم کی آمیزش ہو گی۔

۲۸۔۔ –یہ ایک چشمہ ہو گا جس میں سے مقرب ( بندے ) پئیں گے۔

۲۹۔ –جو لوگ مجرم بنے ہوئے تھے وہ اہل ایمان پر ہنسا کرتے تھے۔

۳۰۔ –اور جب ان کے پاس سے گزرتے تو آنکھوں سے اشارہ کرتے۔

۳۱۔ –اور جب اپنے گھر والوں میں لوٹتے تو خوش خوش لوٹتے۔

۳۲۔ –اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے کہ یہ بہکے ہوئے لوگ ہیں۔

۳۳۔ –حالانکہ وہ ان پر نگراں بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے۔

۳۴۔ –تو آج اہل ایمان کُفّار پر ہنسیں گے۔

۳۵۔ –تختوں پر بیٹھے (ان کا حال) دیکھ رہے ہوں گے۔

۳۶۔ –مل گیا نا کافروں کو ان کے کئے کا بدلہ !

٭٭٭

 

 

۸۴۔ سورہ الانشقاق

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱– جب آسمان پھٹ جائے گا۔

۲– اور اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گا اور اس کو لازماً تعمیل کرنا چاہیے۔

۳– اور جب زمین پھیلا دی جائے گی۔

۴– اور جو کچھ اس کے اندر ہے اسے اگل کر خالی ہو جائے گی۔

۵– اور اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گی اور اس کو لازماً تعمیل کرنا چاہیے۔

۶– اے انسان، تو کشاں کشاں اپنے رب ہی کی طرف جا رہا ہے اور بالآخر اس سے ملنے والا ہے

۷– تو جس کا نامہ عمل اس کے دہنے ہاتھ میں دیا گیا۔

۸– اس سے آسان حساب لیا جائے گا۔

۹– اور وہ اپنے متعلقین کے پاس خوش خوش لوٹے گا۔

۱۰– اور جس کا نامہ عمل اس کی پیٹھ کے پیچھے دیا گیا

۱۱– وہ موت کو پکارے گا۔

۱۲– اور بھڑکتی آگ میں داخل ہوگا۔

۱۳– وہ اپنے گھر والوں میں مست تھا،

۱۴– اس نے سمجھ رکھا تھا کہ اس کو کبھی لوٹنا نہیں ہے

۱۵– کیوں نہیں ! اس کا رب تو اس کو خوب دیکھ رہا تھا،

۱۶– نہیں، میں قسم کھاتا ہوں شفق کی۔

۱۷– اور رات کی اور جو کچھ وہ اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے اس کی۔

۱۸– اور چاند کی جب کہ وہ مہِ کامل ہو جاتا ہے۔

۱۹– کہ تم کو لازماً ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلہ میں پہنچنا ہے

۲۰– پھر ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ایمان نہیں لاتے

۲۱– اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے۔

۲۲– بلکہ یہ کافر الٹا جھٹلا رہے ہیں۔

۲۳– اور یہ لوگ جو کچھ چھپا رہے ہیں اسے اللہ خوب جانتا ہے۔

۲۴– تو تم ان کو ایک درد ناک عذاب کی خوش خبری سنا دو۔

۲۵– البتہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ان کے لیے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا۔۔

٭٭٭

 

 

۸۵۔ سورہ البروج

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱– قسم ہے برجوں والے آسمان کی۔

۲– اور اس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔

۳– اور حاضر ہونے والے کی اور اس چیز کی جو حاضر کی جائے گی۔

۴– ہلاک ہوئے خندق والے

۵۔ جو خوب ایندھن والی آگ سے بھری تھی۔

۶– جب کہ وہ اس (آگ) کے پاس بیٹھے۔

۷– جو کچھ اہل ایمان کے ساتھ کر رہے تھے اس کا تماشا دیکھ رہے تھے

۸– اور ان کے ساتھ یہ تشدد محض اس وجہ سے کیا گیا کہ وہ اللہ پر ایمان لائے تھے، جو زبردست ہے اور لائق ستائش بھی۔

۹– جس کی بادشاہت ہے آسمانوں اور زمین میں۔ اور اللہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے

۱۰– جن لوگوں نے مؤمن عورتوں پر ظلم دھایا اور پھر توبہ نہیں کی ان کے لیے لازماً جہنم کی سزا ہے اور ان کے لیے جلنے کا عذاب ہے۔

۱۱– اور جو لوگ ایمان لائے  اور جنہوں نے نیک عمل کیے یقیناً ان کے لیے باغ ہیں جن کے تلے نہریں رواں ہوں گی۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔

۱۲– بے شک تمہارے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔

۱۳– وہی پہلی بار پیدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ پیدا کرے گا۔

۱۴– اور وہ بخشنے والا، محبت کرنے والا ہے۔

۱۵– عرش کا مالک، صاحب عظمت،

۱۶– اور جو چاہے کر ڈالنے والا۔

۱۷– کیا تمہیں لشکروں کی خبر پہنچی ہے ؟

۱۸– فرعون اور ثمود کے لشکروں کی ؟

۱۹– لیکن یہ کافر جھٹلانے ہی میں لگے ہوئے ہیں۔

۲۰– اور اللہ ان کو آگے پیچھے سے گھیرے ہوئے ہے۔

۲۱– (یہ کلام افتراء نہیں ) بلکہ یہ عظیم قرآن ہے

۲۲– جو لوح محفوظ  میں (ثبت) ہے۔

٭٭٭

 

 

 

۸۶۔ سورہ الطارق

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱– قسم ہے آسمان کی اور رات میں نمودار ہونے والے کی

۲– اور تمہیں کیا معلوم کہ رات میں نمودار ہونے والا کیا ہے  ؟

۳– دمکتا ستارہ۔

۴– کوئی شخص ایسا نہیں جس پر ایک نگہبان نہ ہو

۵– انسان ذرا غور کرے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے

۶– اچھلتے پانی سے،

۷– جو ریڑھ اور پسلیوں کے درمان سے نکلتا ہے۔

۸– یقیناً وہ (اللہ) اس کے لوٹانے  پر قادر ہے۔

۹– جس دن چھپی باتیں پرکھی جائیں گی۔

۱۰– اس وقت اس کے پاس نہ کوئی قوت ہوگی ور نہ کوئی اس کا مدد گر ہوگا۔

۱۱– قسم ہے آسمان کی جو بارش برساتا ہے۔

۱۲– اور زمین کی جو پھٹ جاتی ہے۔

۱۳– کہ یہ ایک طے شدہ بات ہے۔

۱۴– ہنسی مذاق نہیں

۱۵– یہ لوگ ایک تدبیر کر رہے ہیں

۱۶– اور میں بھی ایک تدبیر کر رہا ہوں

۱۷– تو ان کافروں کو مہلت دو۔ بس تھوڑی مہلت۔

٭٭٭

 

 

۸۷۔ سورہ الاعلیٰ

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– اپنے رب اعلیٰ کے نام کی تسبیح کرو

۲– جس نے پیدا کیا اور متناسب بنایا

۳– جس نے منصوبہ بنایا اور رہنمائی کی

۴– جس نے چارہ اگایا۔

۵– پھر اس کو سیاہ کوڑا کر کٹ بنایا

۶– (اے نبی !) ہم تمہیں پڑھائیں گے پھر تم نہیں بھولو گے

۷– مگر جو اللہ چاہے۔ وہ کھلی بات کو بھی جانتا ہے اور چھپی بات کو بھی

۸– اور ہم تمہارے لیے آسانی کی راہ ہموار کر دیں گے

۹– لہٰذا تم نصیحت کرو اگر نصیحت کرنا مفید ہو

۱۰– نصیحت قبول کرے گا وہ جو ڈرتا ہو گا

۱۱– اور اس سے گریز کرے گا وہ جو بڑا بد بخت ہو گا

۱۲– وہ بڑی آگ میں داخل ہو گا۔

۱۳– پھر نہ اس میں مرے گا اور نہ جئے گا

۱۴– کامیاب ہوا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی

۱۵– اور اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھی

۱۶– مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو

۱۷– حالانکہ آخرت بدرجہا بہتر اور پائدار ہے

۱۸– یہ (تعلیم) اگلے صحیفوں میں بھی دی گئی تھی

۱۹– ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں

٭٭٭

 

 

۸۸۔ سورہ الغاشیۃ

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– کیا تمہیں چھا جانے والی آفت کی خبر پہنچی ہے ؟

۲– کتنے چہرے اس روز رسوا ہوں گے

۳– مشقت کرنے والے تھکے ماندے ہوں گے

۴– دہکتی آگ میں داخل ہوں گے

۵– کھولتے چشمہ کا پانی انہیں پلایا جائے گا

۶– ان کے لیے جھاڑ کانٹے کے سوا کوئی کھانا نہیں ہو گا

۷– جو نہ موٹا کرے گا اور نہ بھوک ہی کو دفع کرے گا

۸– کتنے چہرے اس روز با رونق ہوں گے

۹– اپنی کوششوں پر شاداں

۱۰– بلند پایہ جنت میں۔

۱۱– جہاں کوئی لغو بات نہ سنیں گے۔

۱۲– اس میں چشمے بہہ رہے ہوں گے۔

۱۳– اس کے اندر اونچے تخت ہوں گے۔

۱۴– اور پیالے ہوں گے قرینہ سے رکھے ہوئے

۱۵– اور گاؤ تکیے قطار کی شکل میں لگے ہوئے۔

۱۶– اور قالین بچھے ہوئے۔

۱۷– کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے پیدا کیے گئے ہیں ؟

۱۸– اور آسمان کو کہ کیسا بلند کیا گیا ہے ؟

۱۹– اور پہاڑوں کو کہ کس طرح کھڑے کر دئے گئے ہیں ؟

۲۰– اور زمین کو کہ کس طرح بچھائی گئی ہے

۲۱– تو (اے پیغمبر!) تم نصیحت کرو کہ تمہارا کام بس نصیحت کرنا ہے۔

۲۲– ان پر جبر کرنا نہیں ہے۔

۲۳– مگر جو منہ موڑے گا اور کفر کرے گا۔

۲۴– تو اللہ اس کو بڑا عذاب دے گا۔

۲۵– بے شک ہماری ہی طرف ہے ان کی واپسی،

۲۶– پھر ہمارے ہی ذمہ ہے ان سے حساب لینا۔

٭٭٭

 

 

 

۸۹۔ سورہ الْفَجْرِ

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– قسم ہے فجر کی

۲– اور دس راتوں کی

۳– اور جفت اور طاق کی

۴– اور رات کی جب کہ وہ رخصت ہو رہی ہو

۵– کیا اس میں ایک عقلمند کے لیے کوئی قسم نہیں ہے ؟

۶– تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب جے کیا معاملہ کیا عاد کے ساتھ !

۷– بلند عمارتوں والے ارم کے ساتھ۔

۸– جن کے مانند کوئی (قوم) کسی ملک میں پیدا نہیں کی گئی تھی۔

۹– اور ثمود کے ساتھ جو وادی میں چٹانیں تراشا کرتے تھے۔

۱۰– اور میخوں والے فرعون کے ساتھ

۱۱– ان لوگوں نے ملکوں میں سر اٹھا رکھا تھا۔

۱۲– اور ان میں بہت فساد مچا رکھا تھا۔

۱۳– تو تمہارے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسایا۔

۱۴– واقعی تمہارا رب گھات میں رہتا ہے۔

۱۵– مگر انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس کا رب اس کی آزمائیش اس طرح کرتا ہے کہ اس کو عزت و نعمت بخشتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت بخشی۔

۱۶– اور جب اس کی آزمائش اس طور سے کرتا ہے کہ اس کا رزق اس پر تنگ کر دیتا ہے تو کہتا ہے میرے رب نے مجھے ذلیل کیا

۱۷– نہیں۔ بلکہ تم لوگ یتیموں کی قدر نہیں کرتے۔

۱۸– اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہو۔۔

۱۹– اور میراث کا مال سمیٹ کر ہڑپ کر جاتے ہو۔

۲۰– اور مال کی محبت میں مست رہتے ہو۔

۲۱– نہیں ! جب زمین کوٹ کوٹ کر ہموار کر دی جائے گی۔

۲۲– اور تمہارا رب آئے گا صف در صف فرشتوں کے جلو میں۔

۲۳– اور جہنم اس روز حاضر کر دی جائے گی۔ اس روز انسان ہوش میں آئے گا مگر اس وقت اس کے ہوش میں آنے کا کیا فائدہ ؟

۲۴– وہ کہے گا کہ کاش میں نے اپنی زندگی کے لیے پہلے سے کچھ کر رکھا ہوتا !

۲۵– اس دن اس کے عذاب جیسا کوئی عذاب دیتے والا نہ ہوگا۔

۲۶– اور نہ اس کے باندھنے جیسا کوئی باندھنے والا ہوگا۔

۲۷– اے نفس مطمئنہ !۔

۲۸– چل اپنے رب کی طرف، تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔

۲۹– شامل ہو جا میرے بندوں میں،

۳۰– اور داخل ہو جا میرے جنت میں۔

٭٭٭

 

 

(۹۰)۔سورہ البلد

 

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱—نہیں میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی۔

۲—اور تم اس کے رہنے والے ہو

۳—اور جننے والے کی۵ ور اس کی جس نے اے جنا۔

۴—فی الواقع ہم نے انسان کو بڑی مشقت میں پیدا کیا ہے۔

۵—کیا وہ خیال کرتا ہے کہ اس پر کسی کا بس نہیں چلے گا۔

۶—کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال اڑا دیا۔

۷—کیا وہ سمجھتا ہے کہ اس کو کسی نے دیکھا نہیں؟

۸—کیا ہم نے اس کو نہیں دیں دو آنکھیں

۹—اور زبان اور دو ہونٹ۔

۱۰—ور اسے دونوں راستے نہیں دکھائے؟

۱۱—مگر اس نے گھاٹی عبور نہیں کی۔

۱۲—اور تم نے کیا سمجھا کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟

۱۳—گردن چھڑانا،

۱۴—یا فاقے کے دن کھانا کھانا،

۱۵—قرابت دار یتیم کو ،

۱۶—یا خاک نشین مسکین کو،

۱۷۔ پھر وہ شامل ہوتا ان لوگوں میں جو ایمان لائے ،

۱۸—اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر اور ہمدردی کی تلقین کی۔

۱۸— یہی لوگ ہیں سعادت مند۔

۱۹— اور جنہوں نے ہماری آیت کا انکار کیا، وہ بد بخت لوگ ہیں۔

۲۰— ان پر آگ چھائی ہوئی ہو گی جس کو بند کر دیا جائے گا ۔

٭٭٭

 

 

(۹۱) سورہ الشمس

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱–قسم ہے سورج اور اس کی روشنی کی۔

۲–اور چاند کی جب کہ اس کے پیچھے آئے۔

۳–اور دن کی جب اسے بے نقاب کرے۔

۴–اور رات کی جب اس کو ڈھانک لے۔

۵–اور آسمان کی اور اس ہستی کی جس نے اسے بنایا۔

۶–اور زمین کی اور اس ہستی کی جس نے اسے بچھایا۔

۷–اور نفس کی اور اس ہستی کی جس نے اسے درست بنایا۔

۸– پھر اس کی بدی اور پرہیز گاری اس پر الہام کر دی۔

۹– یقیناً کامیاب ہوا وہ جس نے اس کا تزکیہ کیا۔

۱۰– اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو آلودہ کیا۔

۱۱–ثمود نے اپنی سرکشی کی وجہ سے جھٹلایا۔

۱۲–جب ان کا سب سے بڑا بد بخت اٹھ کھڑا ہوا

۱۳–تو اللہ کے رسول نے ان لوگوں سے کہا کہ خبر دار اللہ کی اونٹنی اور اس کے پانی پینے کی باری (سے تعرض نہ کرنا)

۱۴–مگر انہوں نے اس کو جھٹلایا اور اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں۔ بالآخر اللہ نے ان کے گناہ کی پاداش میں ان پر عذاب نازل کیا اور ان کو (زمین کے) برابر کر دیا۔

۱۵–اور اس کو ان کے انجام سے کوئی اندیشہ نہیں۔

٭٭٭

 

 

(۹۲)۔ سورہ اَلَّیل

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– قسم ہے رات کی جب کہ وہ چھا جائے۔

۲– اور دن کی جب کہ وہ روشن ہو۔

۳– اور اس ذات کی جس نے نر اور مادہ پیدا کیے

۴– یقیناً تمہاری کوششیں مختلف ہیں۔

۵– تو جس نے (مال )دیا اور پرہیز گاری اختیار کی۔

۶– اور بہترین بات کو سچ مانا۔

۷– اس کے لیے ہم آسانی کو پہنچنے والی راہ ہموار کر دیں گے

۸– اور جس نے بخل کیا اور بے نیازی برتی۔

۹– اور بہترین بات کو جھٹلایا۔

۱۰– اس کے لیے ہم سختی کو پہنچنے والی راہ ہموار کر دیں گے۔

۱۱– اور جب وہ گڑھے میں گرے گا تو اس کا مال اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔

۱۲– بلا شبہہ راہ دکھانا ہمارے ذمہ ہے۔

۱۳– اور آخرت اور دنیا دونوں ہمارے ہی اختیار میں ہیں۔

۱۴– تو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے خبر دار کر دیا ہے۔

۱۵– اس میں وہی پڑے گا جو بڑا بد بخت ہو گا۔

۱۶– جس نے جھٹلایا اور رو گردانی کی۔

۱۷– اور اس سے ایسے شخص کو بچا لیا جائے گا جو نہایت پرہیز گار ہے،

۱۸– جو اپنا مال پاکیزگی حاصل کرنے کی خاطر دیت ہے۔

۱۹– اور اس کے نزدیک کسی کے حق میں کوئی احسان بدلہ کے لیے نہیں ہے۔

۲۰– بلکہ وہ صرف اپنے رب برتر کی رضا جوئی کے لیے دیتا ہے۔

۲۱– اور وہ ضرور خود ہو گا۔

٭٭٭

 

 

(۹۳)۔ سورہ الضحٰی

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱– قَسم ہے روز روشن کی

۲– اور رات کی جب کہ وہ طاری ہو جائے

۳– (اے پیغمبر !) تمہارے رب نے نہ تمہیں چھوڑا اور نہ تم سے ناراض ہوا

۴– اور آخرت تمہارے لیے دنیا سے کہیں بہتر ہے

۵– اور عنقریب تمہارا رب تمہیں وہ کچھ عطا فرمائے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے

۶– کیا یہ واقعہ نہیں کہ اس نے تم کو یتیم پایا تو ٹھکانا دیا ؟

۷– اور راہ سے بے خبر پایا تو ہدایت دی ؟

۸– اور نادار پایا تو غنی کر دیا ؟

۹– لہٰذا تم یتیم کو مت دباؤ۔

۱۰– اور سائل کو نہ جھڑکو

۱۱– اور اپنے رب کی نعمت کا اظہار

٭٭٭

 

 

(۹۴)۔ سورہ اَلَم نشرح

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– (اے پیغمبر !) کیا ہم نے تمہارا سینہ کھول نہیں دیا ؟

۲– اور تم پر سے وہ بوجھ اتار نہیں دیا۔

۳– جو تمہاری کمر توڑے دے رہا تھا ؟

۴– اور تمہارا ذکر بلند نہیں کیا ؟

۵– تو (دیکھو مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے۔

۶– بے شک مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے۔

۷– پس جب تم فارغ ہو تو عبادت میں سرگرم ہو جاؤ

۸– اور اپنے رب ہی سے لَو لگاؤ

٭٭٭

 

 

(۹۵)۔ سورہ التین

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– قسم ہے انجیر اور زیتون کی۔

۲– اور طور سینین کی

۳– اور اس امن والے شہر کی

۴– بلا شبہ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا

۵– پھر اسے پست ترین حالت کی طرف پھیر دیا

۶– البتہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کے لیے ایسا اجر ہے جس کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہوگا۔

۷– تو (اے پیغمبر!) اس کے بعد کون ہے جو تمہیں جزا و سزا کے معاملہ میں جھٹلاتا ہے ؟

۸– کیا اللہ سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم نہیں ؟

٭٭٭

 

 

(۹۶)۔ سورہ اَلْعَلَق

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا،

۲– پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے خون سے۔

۳– پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے۔

۴– جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا۔

۵– انسان کو وہ علم دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔

۶– مگر انسان کا حال یہ ہے کہ وہ سرکشی کرتا ہے

۷– اس بنا پر کہ وہ اپنے کو بے نیاز خیال کرتا ہے۔

۸– (جب کہ) یہ بات یقینی ہے کہ تمہارے رب ہی کی طرف لوٹ کر جانا

۹– تم نے اس شخص کو دیکھا جو روکتا ہے۔

۱۰– ایک بندے کو جب کہ وہ نماز پڑھتا ہے ؟

۱۱– تم نے سوچا اگر (بندہ) ہدایت پر ہو۔

۱۲– یا پرہیز گاری کا حکم دیتا ہو۔

۱۳– تم نے سوچا اگر یہ (روکنے والا شخص) جھٹلاتا اور منہ موڑتا ہو!

۱۴– کیا اسے نہیں معلوم کہ اللہ دیکھ رہا ہے ؟

۱۵– خبردار! اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے

۱۶– جھوٹی اور خطا کار پیشانی !

۱۷– پس وہ بلا لے اپنی ٹولی کو۔

۱۸– ہم بھی بلاتے ہیں عذاب کے فرشتوں کو۔

۱۹– خبردار ! اس کی بات نہ مانو اور سجدہ کرو اور قرب حاصل کرو۔

٭٭٭

 

 

(۹۷)۔ سورہ القدر

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱–ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا۔

۲–اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے ؟

۳–شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

۴–اس میں فرشتے اور روح (الامین) اپنے رب کے اذن سے ہر حکم کو لے کر اترتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

(۹۸)۔ سورہ البینۃ

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– اہل کتاب اور مشرکین میں سے جنہوں نے کفر کیا وہ باز آنے والے نہ تھے جن تک کہ ان کے پاس واضح دلیل نہ آ جاتی۔

۲– (یعنی )اللہ کی طرف سے ایک رسول جو پاک صحیفے پڑھ کر سنائے۔

۳– جن میں درست احکام لکھے ہوئے ہوں۔

۴– جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی وہ واضح ہدایت آ جانے کے بعد ہی تفرقہ میں پڑ گئے۔

۵– حالانکہ ان کو یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں دین کو اس کے لیے خالص کر کے راست روی کے ساتھ اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں۔ یہی صحیح دین ہے۔

۶– اہل کتاب اور مشرکین میں سے جنہوں نے کفر کیا وہ جہنم کی آگ میں پڑیں گے اور ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ یہ لوگ بدترین مخلوق ہیں۔

۷– یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے وہ بہترین مخلوق ہیں۔

۸– ان کی جزا ان کے رب کے پاس جاودانی باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہو گی۔ وہ ان میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی اور وہ اس سے راضی ! یہ (جزا ) اس کے لیے ہے جو اپنے رب سے ڈرے۔

٭٭٭

 

 

 

(۹۹)۔ سورہ الزلزال

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا دی جائے گی

۲– اور زمین اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی

۳– اور انسان کہے گا کہ اسے کیا ہو گیا ہے !

۴– اس روز وہ اپنی خبریں سنائے گی۔

۵– کیونکہ تمہارے رب نے اس کو حکم دیا ہو گا۔

۶– اس روز لوگ مختلف گروہوں کی شکل میں نکلیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھا دیے جائیں

۷– تو جس نے ذرہ برابر بھلائی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا۔

۸– اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا۔

٭٭٭

 

 

(۱۰۰)۔ سورہ العٰدیات

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– قسم ہے دوڑنے والے گھوڑوں کی جو ہانپ اٹھتے ہیں

۲– جو ٹاپ مار کر چنگاریاں جھاڑتے ہیں

۳– جو صبح کے وقت دھاوا مارتے ہیں

۴– اور اس تگ و دو سے غبار اڑتے ہیں

۵– اور اس حالت میں غول میں جا گھستے ہیں

۶– حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا بڑا نا شکرا ہے

۷– اور وہ خود اس پر گواہ ہے

۸– اور وہ مال کی محبت میں بہت سخت ہے

۹– تو کیا وہ اس وقت کو نہیں جانتا جب قبروں میں جو کچھ ہے اسے باہر نکال لیا جائے گا

۱۰۔ اور سینوں میں جو کچھ پوشیدہ ہے اس کو نکال کر پرکھا جائے گا

۱۱۔ یقیناً ان کا رب اس روز ان سے اچھی طرح با خبر ہو گا

٭٭٭

 

 

 

(۱۰۱)۔ سورہ القارعۃ

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– وہ کھڑ کھڑانے والی آفت

۲– کیا ہے وہ کھڑکھڑانے والی آفت

۳– اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ کھڑ کھڑانے والی آفت کیا ہے ؟

۴– وہ دن جب لوگ بکھرے ہوئے پتنگوں کی طرح ہوں گے۔

۵– اور پہاڑ دھنکی ہوئی اُون کی طرح ہو جائیں گے۔

۶– پھر جس کی میزان بھاری ہو گی،

۷– وہ دل پسند عیش میں ہو گا۔

۸–، اور جس کی میزان ہلکی ہو گی،

۹– اس کا ٹھکانہ ’’ہاویہ‘‘ ہو گا۔

۱۰– اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ کیا ہے ؟

۱۱– دہکتی ہوئی آگ!

٭٭٭

 

 

(۱۰۲)۔ سورہ التکاثر

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– مال و دولت کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی طلب نے تمہیں غفلت میں ڈال رکھا۔

۲– یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے۔

۳– مگر نہیں عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔

۴– پھر سُن لو !یہ دھن صحیح نہیں، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔

۵– ہر گز نہیں ! اگر تم یقینی طور پر جان لیتے تو دنیا کے پیچھے نہ پڑتے )

۶– تم ضرور دوزخ کو دیکھ لو گے۔

۷– پھر تم اسے بالکل یقین کے ساتھ دیکھو گے۔

۸– پھر اس روز تم سے نعمتوں کے بارے میں ضرور باز پرس ہو گی۔

٭٭٭

 

 

 

(۱۰۳)۔ سورہ اَلْعَصْر

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– زمانہ کی قَسم،

۲– انسان گھاٹے میں ہے۔

۳– سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق کی ہدایت اور صبر کی تلقین کی۔

٭٭٭

 

 

 

(۱۰۴)۔ سورہ اَلْھُمَزَۃ

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– تباہی ہے ہر اس شخص کے لیے جو (اہل ایمان پر) انگلیاں اٹھاتا اور طعن و تشنیع کرتا ہے۔

۲– جس نے مال سمیٹا اور اسے گن گن کر رکھا

۳– وہ سمجھتا ہے کہ اس کے مال نے اس کو ہمیشگی کی زندگی بخشی ہے۔

۴– ہر گز نہیں، وہ حُطَمہ کچل دینے والی میں پھینک دیا جائے گا۔

۵– اور تمہیں کیا معلوم کہ حُطَمہ کیا ہے ؟

۶– اللہ کی بھڑ کائی ہوئی آگ

۷– جو دلوں پر جا چڑھے گی۔

۸– اس میں ان کو بند کر دیا جائے گا۔

۹– لمبے لمبے ستونوں میں۔۔

٭٭٭

 

 

 

۱۰۵۔ سورہ الفیل

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟

۲– کیا ن کی تدبیر کو بیکار نہیں کر دیا ؟

۳– اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ نہیں بھیجے ؟

۴– جو ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر پھینک رہے تھے۔

۵– پھر انہیں ایسا کر دیا جیسے کھایا ہوا بھُس۔

٭٭٭

 

 

 

(۱۰۶)۔ سورہ قریش

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– کس قدر اُلفت ہے قریش کو !

۲– ان کو جو اُلفت ہے سرما و گرما کے سفر سے،

۳– لہٰذا ان کو چاہیے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں۔

۴– جس نے ان کو بھوک سے بچا کر کھانا کھلایا اور خوف سے بچا کر امن بخشا۔

٭٭٭

 

 

(۱۰۷)۔ سورہ الماعون

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے۔

 

۱– تم نے اس شخص کو دیکھا جو جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے !

۲– وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔

۳– اور مسکین کو کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔

۴– تو ایسی نماز پڑھنے والوں کے لیے تباہی ہے۔

۵– جو اپنی نماز سے غافل ہیں،

۶– جو ریا کاری کرتے ہیں،

۷– اور مال کا حق ادا نہیں کرتے۔

٭٭٭

 

 

(۱۰۸)۔ سورہ الکوثر

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– ہم نے تمہیں  کوثر عطا کیا۔

۲– پس تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔

۳– بے شک تمہارا دشمن ہی خیر سے محروم ہے

٭٭٭

 

(۱۰۹)۔ سورہ الکافرون

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– کہہ دو اے کافرو!

۲– میں ان کی پرستش نہیں کرتا جن کی پرستش تم کرتے ہو۔

۳– اور نہ تم اس کی پرستش کرتے ہو جس کی پرستش میں کرتا ہوں،

۴– اور نہ میں ان کی پرستش کرنے والا ہوں جن کی پرستش تم نے کی،

۵– اور نہ تم اس کی پرستش کرنے والے ہو جس کی پرستش میں کرتا ہوں،

۶– تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین۔

٭٭٭

 

 

(۱۱۰)۔ سورہ اَلنَّصْر

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– جب اللہ کی مدد اور فتح آ گئی،

۲– اور تم نے دیکھ لیا کہ لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں۔

۳– تو تسبیح کرو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اور اس سے مغفرت مانگو۔ یقیناً وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے۔

٭٭٭


 

 

(۱۱۱)۔ سورہ اللھب

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– ٹوٹ گئے ابو لہب کے دونوں ہاتھ اور وہ تباہ ہو گیا۔

۲– اس کا مال اور اس کی کمائی اس کے کچھ کام نہ آئی،

۳– وہ عنقریب شعلہ زن آگ میں داخل ہو گا۔

۴– اور اس کی بیوی بھی جو ایندھن اٹھائے ہوئے ہو گی،

۵– اس کی گردن میں مضبوط رہی ہو گی۔

٭٭٭

 

 

 

(۱۱۲)۔ سورہ الاخلاص

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– کہو، وہ اللہ یکتا ہے۔

۲– اللہ وہ بالا تر ہستی ہے جو سب کا مرجع و ملجا ہے۔

۳– نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد۔

۴– اور نہ کوئی اس کے برابر کا ہے

٭٭٭

 

 

 

(۱۱۳) سورہ الفلق

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– کہو، میں پناہ مانگتا ہوں  صبح کے رب کی۔

۲– جو کچھ اس نے پیدا کیا ہے اس کے شر سے۔

۳– اور اندھیری رات کے شر سے جب کہ وہ چھا جائے۔

۴– اور گرہوں میں پھونکنے والوں کے شر سے،

۵– اور حاسد کے شر سے جب کہ وہ حسد کرے۔

٭٭٭

 

 

 

(۱۱۴)۔ سورہ الناس

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱– کہو، میں پناہ مانگتا ہوں انسانوں کے رب کی۔

۲– انسانوں کے بادشاہ کی۔

۳– انسانوں کے معبود کی۔

۴– وسوسہ ڈالنے والے خناس چھپنے والے کے شر سے،

۵– جو لوگوں کے سینوں دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔

۶– جو جنوں میں سے بھی ہوتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔

٭٭٭

ٹائپنگ: عبد الحمید، افضال احمد، مخدوم محی الدین، کلیم محی الدین، فیصل محمود، اعجاز عبید

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید