FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

بیس رکعت تراویح

               احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں

               مولانا محمد امین صفدر

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

            الحمد للّٰہ وکفٰی وسلام علٰی عبادہ الذین اصطفٰی اما بعد ! برادرانِ اسلام! رمضان المبارک ایک بہت بابرکت مہینہ ہے اس مبارک مہینہ میں خدا کا آخری پیغام قرآن پاک نازل ہونا شروع ہوا،اسی مہینے میں شب قدر ہے جو ہزار مہینہ سے افضل ہے، اس مہینہ میں ایک نفل کا ثواب ایک فرض کے برابر کر دیا جاتا ہے اور ایک فرض کا ثواب ٠ ٧ گنا کر دیا جاتا ہے (صحیح ابن حبان )۔اس مہینہ میں دن کا روزہ فرض اور رات کی تراویح سنت ہے چنانچہ سنن نسائی ج١ ص ٣٠٨  پر حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا ان اللّٰہ تبارک وتعالٰی فرض صیام رمضان علیکم وسنت لکم قیامہ فمن صامہ وقامہ ایمانا واحتسابا خرج من ذنوبہ کیوم ولد تہ امہ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے (بوحی جلی ) تم پر رمضان کے روزے فرض کیے ہیں اور میں (بوحی خفی ) تمہارے لیے تراویح کا سنت ہونا مقرر کرتا ہوں ، پس جو کوئی ایمان کی رُوسے اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور تراویح پڑھے وہ اپنے گناہوں سے نکل کر ایسا ہو جاوے گا جیساکہ وہ اُس روز تھا جس روز اُسے اُس کی ماں نے جنا تھا۔ اور ابو ہریرہ کی روایت میں ہے کہ اُ س کے اگلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں (صحیح مسلم ج١ ص٢٥٩)۔

             رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس مبارک مہینہ میں عام مہینوں سے زیادہ کوشش فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ   فر ماتی ہیں کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یجتہد فی رمضان ولا یجتھد فی غیرہ (مسلم)یعنی رسول پاکﷺ   رمضان المبارک میں غیر رمضان سے بہت زیادہ محنت فرماتے تھے اور  حضرت عائشہ  کی ایک دوسری روایت ہے کان اذا دخل شھررمضان شدمئزرہ ثم لم یأت فراشہ حتی ینسلخ  (بیہقی اعلاالسنن ج ٧ص٤٦ )یعنی جب رمضان آتا تو آپ اپنے بچھونے کی طرف نہیں آتے تھے یہاں تک کہ گزرجاتا اور حضرت عائشہ  کی ایک تیسری روایت میں ہے کہ رمضان کے عشرہ آخیرہ میں خصوصاً  احیٰی لیلہ وایقظ اھلہ (بخاری ) خود بھی تمام رات بیدار رہتے اور اپنے گھر والوں کو بھی بیدار رکھتے۔ان تینوں حدیثوں کی تشریح خود حضرت عائشہ  سے ان الفاظ میں آئی ہے اذا دخل رمضان تغیرلونہ وکثرت صلا تہ  یعنی جب رمضان کا مبارک مہینہ آتا تو رسول پاکﷺ   کا رنگ متغیر ہو جاتا تھا اور نماز زیادہ پڑھتے تھے۔ان روایات سے معلوم ہوا کہ رسول پاکﷺ   کی عادتِ مبارک یہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ نماز پڑھی جائے،زیادہ سے زیادہ شب بیداری ہو اور خوب محنت اور کوشش کر کے اس مبارک مہینہ کے فضائل و برکات سے استفادہ کیا جائے لیکن جہاں اس مبارک مہینہ کی آمد ہر سال مسلمانوں پر خیر و برکت اور لطف و رحمت کے ہزاروں دروازے کھول دیتی ہے وہاں اس خراب آباد پنجاب کے اند ر مذہبی رنگ میں ایک شر بھی ظہور کرتا ہے اور وہ فرقہ غیر مقلدین کا یہ پروپیگنڈا ہے کہ بیس رکعت تراویح کی کوئی اصل نہیں ہر سال ا ہل سنت و جماعت کے سروں پر اس مکروہ نشریہ کے طوفان اُٹھتے ہیں اور بہت سے ناواقف حنفی یہ سمجھتے ہوئے اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں کہ شاید اہل سنت کے پاس بیس رکعات کا کوئی ثبوت نہ ہو گا چنانچہ اوکا ڑہ میں بھی ایک غیر مقلد محدث نے ایک دو ورقہ شائع کیا جس میں محدث صاحب نے یہ دعویٰ کیا کہ صرف آٹھ رکعت تراویح سنت ہے بیس رکعت کا کوئی بھی ثبوت نہیں ہے اور حنفیوں کو انعامی چیلنج بھی دیا اور بزعمِ خود اس مسئلہ پر آخری فیصلہ فرما دیا۔اس قسم کے اشتعال انگیز نشریات سے ہم اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ جماعت امن و سکون کو گناہ عظیم سمجھتی ہے اور مسلمانوں میں اتفاق کی بجائے افترا ق پیدا کرنا سلف صالحین خصوصاً حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ سے بھولے بھالے مسلمانوں کو بد ظن کر کے اپنی تقلید کا پھندا اُ ن کے گلے میں ڈالنا اس جماعت کا دل پسند مشغلہ ہے۔

            برادران اسلام رسولﷺ   نے فرمایا تھا کہ میرے بعد تم بہت سا اختلاف دیکھو گے ایسے وقت میں تم پر لازم ہے کہ میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھام لو اور فرمایا کہ نجات کا راستہ یہی ہے جو میرا اور میرے صحابہ کا طرزِ عمل ہے۔ رسول پاکﷺ   کا طرز عمل میں عرض کر چکا ہوں کہ رمضان میں غیر رمضان سے بہت زیادہ نماز پڑھتے تھے، ساری ساری رات خود بیدار رہتے اور اپنے گھر والوں کو بیدار رکھتے لیکن جمہور علماء کے نزدیک آپ سے تراویح کا کوئی معین عدد ثابت نہیں ہے البتہ احناف میں سے قاضی خاں اور طحطاوی اور شوافع میں سے رافعی آنحضرتﷺ   سے بیس کا عدد ثابت مانتے ہیں۔محدث صاحب کا دعویٰ کہ حضورﷺ   سے صرف آٹھ ثابت ہیں یہ تمام اُمت کے خلاف ہے ایک نیا دعویٰ ہے بلکہ محدث صاحب کا یہ دعویٰ اپنے مذہب سے بھی بے خبری کا نتیجہ ہے کیونکہ غیر مقلد بھی اسی بات کے قائل ہیں کہ رسول پاکﷺ   سے تراویح میں کوئی عدد معین ثابت نہیں چنانچہ

            (١)  حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں   ومن ظن ان قیام رمضان فیہ عدد معین موقت عن النبی صلم لا یزید ولا ینقص فقداخطا۔ (مرقات علی المشکٰوۃ ج١ ص ١١٥، الانتقاد الرجیح ص٦٣ )یعنی جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ آنحضرتﷺ  سے تراویح کے باب میں کوئی عدد معین ثابت ہے جو کم و بیش نہیں ہو سکتا وہ غلطی پر ہے۔

            (٢)  غیر مقلدوں کے مشہور پیشوا قاضی شوکانی نے بھی تراویح کے عدد معین کے متعلق لکھا ہے لم یرد بہ السنۃ یعنی سنت نبوی سے ثابت نہیں ہوتا (نیل الاوطار ج٢ ص٢٩٨)

             (٣)  غیر مقلدوں کے مشہور مصنف میر نور الحسن خاں صاحب اپنی کتاب عرف الجاوی ص٨٧ پر لکھتے ہیں ”وبالجملہ عددے معین درمرفوع نیامدہ تکثیر نفل وتطوع سودمند است پس منع از بست و زیادہ چیزے نیست”یعنی مرفوع حدیث سے کوئی معین عدد ثابت نہیں ہے زیادہ نفل پڑھنا فائدہ مند ہے پس بیس رکعات سے منع نہ کرنا چاہیے۔

            (٤)  نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں   ولم یات تعین العدد فی الروایات الصحیحۃ المرفوعۃ ولکن یعلم من حدیث کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یجتھد فی رمضان مالا یجتھد فی غیرہ رواہ مسلم ان عدد ھاکان کثیراً (الانتقاد الرجیح ص ٦١ )  اور عدد کی تعین صحیح مرفوع روایتوں میں نہیں آئی لیکن صحیح مسلم کی ایک حدیث سے کہ آنحضرتﷺ   رمضان میں جتنی محنت اور کوشش کرتے تھے اتنی غیر رمضان میں نہیں کرتے تھے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی تراویح کا عدد زیادہ تھا (یعنی گیارہ یا تیرہ نہ تھیں )یہی نواب صاحب ہدایۃ السائل ص ١٣٨ پر لکھتے ہیں کہ بیس رکعت تراویح پڑھنے والا بھی سنت پر عامل ہے۔جامعہ محمدیہ اوکاڑہ کے بانی حافظ محمد لکھوی فرماتے ہیں  :

 بعضے آٹھ رکعاتاں پڑھدے بعضے ویہ (٢٠) رکعاتاں جتنیاں بہت رکعاتاں پڑھن اُتنیاں بہت براتاں

            اس کے علاوہ امام سبکی ،سیوطی  وغیرہ نے بھی فرمایا کہ رسول پاکﷺ   سے کوئی عدد معین ثابت نہیں ہے۔ان عبارات سے معلوم ہوا کہ محدث صاحب کا یہ دعویٰ کہ آٹھ رکعت سنت نبوی سے ثابت ہے اُن کے اپنے مذہب سے بھی بے خبری کی دلیل ہے۔

                محدث صاحب کے دعویٰ کا پوسٹ مارٹم

            محدث صاحب فرماتے ہیں کہ آٹھ رکعت تراویح کی حدیث جابر  سے مروی ہے وہ صحیح ہے اور بیس رکعت تراویح کی حدیث حضرت عبداللہ بن عباس  سے روایت ہے وہ ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی ابو شیبہ ہے وہ ضعیف ہے۔

حدیث حضرت جابر

             آنحضرتﷺ   نے رمضان میں ہمارے ساتھ آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھے (طبرانی۔قیام الیل۔ابن حبان  ) یہ کونسی نماز تھی تہجد یا تراویح یا لیلۃ القدر کی نماز، اس کا اس حدیث میں کوئی ذکر نہیں ہے آئیے ہم اس حدیث کی سند کا حال بھی آپ کو بتا د یں۔ اس کی روایت حضرت جابر سے عیسٰی بن جاریہ نے کی ہے اور امام طبرانی فرماتے ہیں   لا یروٰ ی عن جابر  الا بھذا الاسناد (طبرانی) یعنی حضرت جابر سے صرف یہی ایک سند ہے۔

            عیسٰی بن جاریہ کے متعلق امام الجرح والتعدیل ابن معین فرماتے ہیں عند ہ مناکیر، امام ابودا ود اورنسائی فرماتے ہیں کہ وہ منکر الحدیث ہے اور امام نسائی نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اُس کی روایات متروک ہیں۔ ساجی اور عقیلی نے بھی اُسے ضعیف کہا ہے۔ ابن عدی نے کہا ہے کہ اُس کی حدیثیں محفوظ نہیں ہیں۔قال ابن حجر فیہ لین ( میزان الا عتدال، تہذیب )۔عیسٰی بن جاریہ سے آگے روایت کرنے والا بھی ایک ہی راوی ہے،یعقوب القمی۔امام ابن معین فرماتے ہیں لااعلم احداً روی عنہ غیر یعقوب القمی (کتاب الجر ح والتعدیل لابی حاتم الرازی ج٣ ص٢٧٣)۔اس راوی کے متعلق امام دار قطنی فرماتے ہیں لیس بالقوی یعنی وہ قوی نہیں ہے۔ یعقوب قمی سے دو راوی روایت کرتے ہیں محمد بن حمید رازی ا ور جعفر بن حمید انصاری، محمد بن حمید رازی کو امام بخاری،امام سخاوی،امام نسائی،یعقوب بن شیبہ،ابوزعہ،جوزجانی،اسحاق کوسج،فضلک رازی،ابو علی نیاپوری،صالح بن محمد اسدی،ابن خراش،ابو نعیم وغیرہ محدثین نے ضعیف کہا ہے (دیکھو تہذیب التہذیب ج٩ص١٢٩ اور میزان الاعتدال ج٩ص٥٠)اور چوتھا راوی جعفر بن حمید مجہول الحال ہے۔ ناظرین آپ نے محدث اوکاڑہ کے تعصب کا کرشمہ دیکھ لیا کہ جس حدیث کی سند میں چاروں ضعیف تھے وہ صحیح بن گئی اور بیس رکعت تراویح کی حدیث کو اس لیے ضعیف کہہ کر ٹال دیا کہ اُس میں ایک راوی ابو شیبہ ضعیف ہے۔

حدیث ابن عباس

             عن ابن عباس  ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلی فی رمضان عشر ین رکعۃً سوی الوتر۔ حضرت عبداللہ بن عباس  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ   رمضان المبارک میں وتر کے علاوہ بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔(سنن کبرٰی بیھقی ج٢ ص٤٩٦ مصنف ابن ابی شیبہ۔طبرانی،مسند عبدبن حمید)

            اس حدیث کی سند ملاحظہ ہو :  اخرج ابو بکر بن ابی شیبہ فی مصنفہ حدثنا یزید بن ہارون قال اخبرنا ابراہیم بن عثمان عن الحکم مقسم عن ابن عباس الخ (التعلیق الحسن ج٢ ص٥٦)

            معزز ناظرین محدث عبدالجبار صاحب کو جابر  والی حدیث میں چار راویوں کا مجروح ہونا تو نظر نہ آیا چار راوی مجروح ہوتے ہوئے حدیث کو صحیح کہہ دیا اور اس بیس رکعت والی روایت میں ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ کو ضعیف کہہ کر جواب سے سبک دوش ہو گئے حالانکہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں ابو شیبہ آں قدر ضعف نہ دارد کہ روایت او مطروح ساختہ شود (فتاوٰی عزیزی)اور شاہ صاحب  کی بات بالکل حق ہے کیونکہ کسی راوی میں جرح دو باتوں پر کی جاتی ہے باعتبار عدالت کے یا حفظ و ضبط کے۔ ابو شیبہ کی عدالت کے متعلق حضرت یزید بن ہارون جو امام بخاری  کے اُستاذالاستاذ اور نہایت ثقہ اور حافظ الحدیث تھے، فرماتے ہیں ما قضٰی علی الناس فی زمانہ اعدل فی قضاء منہ (تہذیب ج١ ص١٤٥ )یعنی ہمارے زمانہ میں اُن سے زیادہ عدل و انصاف والا قاضی کوئی نہیں ہوا، اور ابو شیبہ کے متعلق حافظ ابن حجر فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ الحافظ  تو جب ابو شیبہ عادل بھی ہے حافظ بھی ہے تو یقینًا ثقہ ہوئے، اس لیے علامہ ابن عدی فرماتے ہیں لہ احادیث صالحۃ و ھو خیر من ابراہیم بن ابی حیۃ (تہذیب ج١ ص١٤٥)یعنی ابو شیبہ کی حدیثیں صالح ہیں اور وہ ابراہیم ابن ابی حیہ سے بہتر ہے اور ابراہیم بن ابی حیہ کو ا بن معین نے شیخ ثقۃ کبیر فرمایا ہے( اللسان ج١ص ٥٣ )۔خلاصہ یہ کہ جب ابو شیبہ عادل حافظ ہے اُس کی حدیثیں صالح ہیں بلکہ وہ ابراہیم بن ابی حیہ سے بہتر ہے تو اب حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی  کے فرمان کی صحت میں کیا شک رہ گیا۔ غرض محدث اوکاڑی کو تعصب نے ایسا محروم ا لبصیرت کیا کہ جس کی سند میں چار راوی مجروح تھے اُن کی جرح کو بھول گئے اور ابو شیبہ پر صرف جرح نظر آئی اور اُس کی تعدیل سے آنکھیں بند ہو گئیں اور پھر محدث صاحب اصول کا یہ قاعدہ بھی بھول گئے کہ جس حدیث پر امت نے عمل کر لیا ہو اور اس حدیث کو تلقی بالقبول حاصل ہو اُس کی سند میں اگر کلام کی گنجائش ہو بھی تب بھی وہ صحیح ہوتی ہے چنانچہ اس کی تفصیل خاتمے کے قریب آتی ہے۔

            غرض یہاں تک تو محدث صاحب کے اس دعویٰ پر مختصر عرض کیا ہے کہ رسول پاکﷺ   سے آٹھ رکعت بسند صحیح ثابت ہیں اور بیس ثابت نہیں اور محدث صاحب کی امانت و دیانت بھی آشکارا ہو گئی۔ اس کے بعد محدث صاحب نے کہا ہے کہ خلفائے ر اشدین کی سنت بھی بیس نہیں بلکہ آٹھ ہے۔حالانکہ نواب صاحب لکھتے ہیں کہ بیس رکعت سنتِ عمر بن خطاب ہے اور بیس پڑھنے والا بھی سنت پر عامل ہے۔(ہدایہ السائل ص١٣٨)

عہد فاروقی

            رسول پاکﷺ   نے صرف تین دن با جماعت تراویح پڑھائیں ،اُس کے بعد لوگ گھر میں یا مسجد میں بلا جماعت تراویح پڑھتے رہے۔حضرت فاروق اعظم  نے لوگوں کو پھر جماعت تراویح پر جمع فرمایا جن لوگوں کو فاروق اعظم  نے جمع فرمایا وہ کتنی رکعتیں ادا کرتے تھے اُس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیے  :

            پہلی روایت  :  عن السائب بن یزید   قال کنا نقوم فی زمن عمر بن الخطاب بعشر ین رکعۃ والوتر (رواہ البیہقی فی المعرفۃ ) ترجمہ : حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمر بن الخطاب  کے زمانہ میں بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے اس روایت کو امام نووی  نے صحیح کہا ہے (شرح المہذب ج٤ ص ٣٢ ) امام عراقی اور علامہ سیوطی نے بھی اس کو صحیح کہا ہے ( مصابیح ص٤٢)۔

محدث صاحب کا کمال   :  مولوی عبدالجبار صاحب کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا اس لیے عجیب ہتھکنڈہ استعمال کیا چونکہ اس کو بیہقی نے اپنے کتاب المعرفتہ میں ذکر کیا ہے محدث صاحب نے کتاب کا نام بگاڑ کر لکھا کہ کتاب العرفہ، امام بیہقی کی کوئی کتاب نہیں ” کتاب المعرفتہ ”سے  م  حذف کر کے ”کتاب العرفہ ”بنا لیا اور کتاب کاہی انکار کر دیا،نہ خدا کا خوف دل میں آیا نہ آخرت کا خیال اور نہ انسانوں سے شرم محدث صاحب قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں کاش اب بھی ایسی حرکتوں سے توبہ کر لیں۔اس روایت سے معلوم ہوا کہ عہد فاروقی میں تمام صحابہ کرام  بلا اختلاف بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے۔

            دوسری روایت  :   عن السائب بن یزید قال کانوا یقومون علی عہد عمر بن الخطاب  فی شہر رمضان بعشرین رکعۃ … وفی عہد عثمان۔(سنن بیہقی ج٢ص ٤٩٦ ) یعنی لوگ عہد فاروقی اور عہد عثمانی میں رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے۔اس کی سند کو علامہ سبکی نے اور  بیہقی نے صحیح کہا ہے۔

            تیسری روایت  : اخرج ابن ابی شیبہ والبیہقی عن عمر  انہ جمع الناس علی اُبیّ بن کعب وکان یصلی بھم عشرین رکعۃً حضرت عمر  سے روایت ہے کہ انہوں نے لوگوں کو ابی بن کعب پر جمع کیا اور  وہ اُن کو بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے۔سندہ صحیح۔

            چوتھی روایت  :  اخرج ابن ابی شیبہ حدثنا وکیع عن مالک بن انس عن یحیٰی بن سعید بن العاص الاہوی عن عمر بن الخطاب انہ امر رجلاً ان یصلی بھم عشرین رکعۃ۔ حضرت عمر  نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھائے۔ اس کی سند اعلی درجہ کی صحیح ہے امام وکیع، امام مالک اور امام یحٰی تینوں صحاح ستہ کے اجماعی ثقہ شیوخ ہیں۔

            پانچویں روایت  :  اخرج ابن ابی شیبہ حد ثنا حمید بن عبدالرحمن عن الحسن البصری عن عبدالعزیز بن رفیع قال کان اُبیّ بن کعب  یصلی بالناس بالمدینۃ عشرین رکعۃً قال ابن المدینی و یحیٰی القطان وابوزرعہ مرسلات حسن صحاح (تدریب ص٦٩)یعنی حضرت ابی بن کعب مدینہ میں لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے۔

            چھٹی روایت  :   عن یزید بن رومان قال کان الناس یقومون فی زمان عمر بن الخطاب فی رمضان ثبلاث و عشرین رکعۃ (موطا امام مالک ص٤٠ سنن بیہقی ج٢ص٤٩٦ )حضرت یزید بن رومان فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر کے زمانہ میں ٢٣ رکعت یعنی ٢٠ تراویح اور تین وتر پڑھا کرتے تھے۔

            ساتویں روایت  :  عن محمد بن کعب القرظی کان الناس یصلون فی زمان عمر بن الخطاب فی رمضان عشرین رکعۃ (رواہ فی قیام اللیل )۔ حضرت محمد بن کعب قرظی فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر کے زمانہ میں رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔اس کی سندیں بھی اعلیٰ درجہ کی صحیح ہیں۔

            آٹھویں روایت  :  عن ابی الحسن  ان علیا امر رجلاً یصلی بھم فی رمضان عشرین رکعۃً

(مصنف ابن ابی شیبہ ) حضرت علی  نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ لوگوں کوبیس رکعات تراویح پڑھائے۔اس کی سند حسن ہے۔

            نویں روایت  : عن ابی عبدالرحمن السلمی عن علی قال دعا القُرّاء فی رمضان فامرمنھم رجلاً یصلی بالناس عشرین رکعۃً قال وکان یوتربھم (سنن بیہقی ج٢ ص٤٩٦)۔ابو عبدالرحمن سلمی کا بیان ہے کہ حضرت علی نے رمضان المبارک کے مہینے میں قاریوں کو بلایا اور اُن میں سے ایک کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھایا کریں اور وتر خود حضر ت علی  پڑھایا کرتے تھے۔

            حضرت علی  کے اصحاب خاص ہمیشہ بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے شتیر بن شکل جو حضرت علی کے اصحاب خاص میں سے تھے (بیہقی ج٢ص ٤٩٦) وہ بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے (قیام اللیل ص٩١ ابن ابی شیبہ، آثار السنن ج٢ص٦٠)

            اسی طرح حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرہ،سعید بن ابی الحسن دونوں حضرت علی  کے خاص شاگرد تھے (تہذیب التہذیب ج٦ص١٤٨ و ج٤ ص ١٦ ) اور یہ دونوں لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے (قیام اللیل ص٩٢ )اِسی طرح حارث اعور اور علی بن ربیعہ دونوں حضرت علی  کے شاگرد تھے اور لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے( سنن بیہقی ج٢ص ٤٩٦ و آثار السنن مع التعلیق ج٢ص٩ ٥) اور ابو البختری حضرت علی کے خاص شاگردوں عبدالرحمن سلمی اور حارث کے خاص صحبت یافتہ تھے اور لوگوں کو بیس تراویح اور تین وتر پڑھایا کرتے تھے (آثار السنن ص٦٠ فی التعلیق ) غرض اس خلیفہ راشد اور  آپ کے سب ساتھی بیس رکعت پر عامل تھے۔

     محدث صاحب نے اس اثر کے متعلق لکھا ہے کہ ابو الحسن مجہول ہے اور وہ طبقہ سابعہ کاہے اس کو صحابہ سے لقا نہیں۔ ناظرین ابو الحسن دو ہیں جو ابو الحسن طبقہ سابعہ کا ہے وہ واقعی مجہول ہے لیکن یہ ابو الحسن طبقہ سابعہ کا نہیں ہے جب اس کے شاگرد عمرو بن قیس اور ابو سعدبقال طبقہ خامسہ و سادسہ سے ہیں تو اُستاد کیسے طبقہ سابعہ میں ہو گا۔محدث صاحب نے بلا سوچے سمجھے صرف اہل سنت کی ضد میں یہ لکھ مارا اور پھر جبکہ حضرت علی  کے تمام شاگرد بھی بیس کے قائل ہوں اور  دوسری روایت اس کی مؤید ہو تو یہ بات کس قدر پھیکی بن جاتی ہے۔

            دسویں روایت  :  حضرت عبداللہ بن مسعود  بھی لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھایا کرتے تھے (قیام اللیل ص٩٢)۔ حضرت سوید بن غفلت جو حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود  دونوں کے خاص صحبت یافتہ شاگرد ہیں وہ لوگوں کو پانچ ترویحے یعنی بیس رکعت تراویح پڑھایا کرتے تھے۔(سنن بیہقی )

حضرت عطا کی شہادت  :  حضرت عطا کبار تابعین میں سے ہیں آپ کو ٢٠٠ صحابہ کرام سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، آپ کی شہادت صحابہ اور تابعین دونوں زمانوں کی شہادت ہے آپ فرماتے ہیں  ادرکت الناس وہم یصلون ثلاثاً وعشرین رکعۃ رواہ ابن ابی شیبہ واسناد ہ حسن (آثار السنن ج٢ ص٥٥)حضرت عطا فرماتے ہیں کہ میں نے صحابہ و تابعین کو بیس رکعت تراویح ہی پڑھتے پایا۔ معلوم ہوا کہ تمام صحابہ و تابعین بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے اور کبھی کسی ایک شخص نے بھی ٢٠ تراویح کے خلاف آواز نہیں اُٹھائی۔

            علامہ ابن عبدالبر فرماتے ہیں  وھو قول جمھور العلماء و بہ قال الکوفیون والشافعی واکثرالفقھاء وھوالصحیح عن اُبیّ بن کعب من غیرخلاف من الصحابۃ (عینی شرح بخاری) ترجمہ یہ قول جمہور علما کاہے اہل کوفہ (حضرت علی،حضرت ابن مسعود، حضرت امام ابو حنیفہ  اور آپ کے ساتھی ) اور امام شافعی  کا بھی یہی قول ہے اور حضرت ابی بن کعب سے بھی یہی صحیح اور ثابت ہے اور اس میں صحابہ کرام میں سے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا۔اور فن حدیث کے مسلم الثبوت امام ابو عیسٰی ترمذی فرماتے ہیں   واکثر اہل العلم علی ماروی عن علی و عمر وغیر ہما من اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عشرین رکعۃً (ترمذی)اکثر اہل علم بیس رکعت تراویح کے قائل ہیں جو کہ حضرت علی  اور حضرت عمر اور نبی اکرمﷺ   کے دوسرے صحابہ سے مروی ہے۔

            امام شافعی  فرماتے ہیں ھکذا ادرکت ببلدنا مکۃ یصلون عشرین رکعۃً (ترمذی)۔میں نے مکہ معظمہ میں تابعین اور تبع تابعین کو بیس رکعت تراویح پڑھتے پایا۔

             میں نے نہایت اختصار کے ساتھ آپ کے سامنے صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کا عمل پیش کر دیا ہے کہ حضرت عمر فاروق اعظم  کے حکم سے آپ کے زمانہ میں بیس رکعت تراویح با جماعت باقاعدہ شروع ہوئیں اور کسی ایک متنفس نے بھی اس پر انکار نہ فرمایا بلکہ بغیر کسی اختلاف کے تمام صحابہ بیس رکعات پڑھتے رہے۔حضرت عثمان  کے زمانہ مبارک میں بھی اسی پر عمل رہا، حضرت امیر المؤمنین علی بن ابی طالب نے بھی بیس کا حکم دیا اوربیس ہی پڑھتے رہے۔ آپ کے تمام شاگرد بھی لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود  بھی لوگوں کو بیس رکعت پڑھاتے تھے۔ تابعین اور تبع تابعین بھی بیس پر عامل تھے اور عہد نبویﷺ   سے لے کر بارھویں صدی ہجری تک کسی ایک معتبر عالم کا نام بھی پیش نہیں جا سکتا کہ اُس نے بیس رکعت تراویح کے خلاف رسالے بازی اور اشتہار بازی کی ہویا کسی صحابی یا تابعی یا تبع تابعی نے بیس رکعت پڑھنے والوں کو انعامی چیلنج دیا ہو اور عہد فاروقی سے لے کر بارہ سوسال تک ایک مثال بھی پیش نہیں کی جا سکتی کہ فلاں صدی میں فلاں علاقہ میں لوگوں میں آٹھ رکعت تراویح کا رواج تھا۔ جب سے غیر مقلدوں کا یہ نیا فرقہ پیدا ہوا ہے اُسی وقت سے یہ شور و غوغا سننے میں آیا ہے،اسی فرقے نے ہمیشہ امن و سکون سے بسنے والے مسلمانوں میں سر پھٹول کرائی ہے۔ محدث صاحب نے حضرت عائشہ کی حدیث سے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے آٹھ رکعت تراویح پر استدلال کیا ہے حالانکہ کتنی صاف بات ہے کہ جب اس حدیث میں رمضان کے ساتھ غیر رمضان کا لفظ بھی ہے تو اس حدیث کو تراویح سے کیا تعلق،اگر یہ تراویح کے متعلق ہے تو اس کا ترجمہ یہ ہو گا کہ رسول پاکﷺ   رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت تراویح سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ محدث صاحب یہ حدیث تو تہجد کے متعلق ہے کہ رمضان اور غیر رمضان میں برابر ہوتی ہے اور اگر محدث صاحب یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے تو محدث صاحب ایک ہی حدیث صحیح پیش فرمائیں کہ تہجد اور تراویح ایک نماز ہے نیز میں حضرت عائشہ سے چار روایات ذکر کر چکا ہوں اور نواب صدیق حسن صاحب کا قول بھی ذکر کر چکا ہوں کہ رسول پاکﷺ   کی رمضان کی نماز غیر رمضان سے زیادہ ہوتی تھی۔ اُن روایات کا آپ کے پاس کیا جواب ہے نیز جناب کی پیش کردہ روایتِ عائشہ  اور روایتِ جابر  دونوں میں تین وتر کا ذکر ہے،غیر مقلد ان دونوں روایتوں کو چھوڑ  کر ایک وتر پڑھتے ہیں تو خود ان حدیثوں پر عمل کیوں نہیں کرتے ؟ نیز محدث صاحب یہ بھی بتائیں کہ حضرت عمر  و حضرت عثمان حضرت علی  کے زمانہ مبارک میں جب علی الاعلان بیس رکعت تراویح پڑھی جاتی تھیں اُس زمانہ میں حضرت جابر  اور حضرت عائشہ دونوں زندہ تھے اگر ان دونوں بزرگوں سے آٹھ رکعت تراویح کی حدیث مروی ہے تو ان دونوں نے وہ حدیثیں اُ ن صحابہ کے سامنے کیوں پیش نہ کیں اور کیوں آٹھ رکعت تراویح کی سنت کو مٹنے دیا۔ کیا ان دونوں میں سنت پر عمل کرنے اورسنت کو پھیلانے کا اتنا جذبہ بھی نہ تھا جتنا کہ محدث عبدالجبار صاحب میں ہے کہ ان کے سامنے ایک سنت مٹ رہی ہو ایک زبردست بدعت شروع ہو چکی ہو لیکن وہ دونوں لوگوں کی کوئی رہنمائی نہ کریں اور محدث صاحب یہ بھی ثابت کریں کہ یہ دونوں سب صحابہ کے خلاف آٹھ رکعت پڑھتے تھے اور یہ باتیں محدث صاحب انشاء اللہ قیامت تک بھی ثابت نہ کرسکیں گے۔محدث صاحب نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ حضرت عمر  کا حکم ١١ رکعت کا تھا لیکن محدث صاحب کی یہ بات عقل و نقل کے بالکل خلاف ہے کیونکہ جس اثر کو محدث صاحب نے ذکر کیا ہے اس کا مدار محمد بن یوسف پر ہے اُ س کی روایت میں سخت اضطراب ہے وہ کبھی ١١ کہتا ہے کبھی ١٣ کبھی ٢١ اور مضطرب روایت ضعیف ہوتی ہے تو لامحالہ یہ روایت ضعیف ہوئی تو استدلال کیا!۔اب ایک طرف یہ مضطرب اور ضعیف روایت دوسری طرف ہم نے صحیح روایات بیان کر دیں ہیں کہ حضرت عمر نے بیس کا حکم دیا تھا نیز محدث صاحب یہ بھی بتائیں کہ کیا عقل اس کو تسلیم کرتی ہے کہ حضرت عمر   گیارہ کا حکم دیں اور عہد فاروقی کے صحابہ و تابعین خلیفہ راشد کے حکم کی خلاف ورزی کریں اور بیس پڑھنی شروع کر دیں۔ محدث صاحب اگر حکم گیارہ کا تھا اور صحابہ و تابعین نے اس حکم کونہ مانا بیس پڑھنی شروع کر دیں اور آٹھ کی سنت بجائے ٢٠ تراویح کی بدعت شروع کر دی تو بتاؤ کہ حضرت عمر نے اس بدعت کو کیوں نہ مٹایا اور حضرت عمر کے بعد حضرت علی  نے اس بدعت کو کیوں نہ مٹایا۔ محدث صاحب کیوں لوگوں کو صحابہ تابعین اور  سلف صالحین سے بد ظن کرتے ہو۔

            حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں بیس رکعت کے سنت مؤکدہ ہونے پر اجماع منعقد ہو چکا ہے اور اجماع کی مخالفت ناجائز ہے اور یہ اجماع علامت ہے اُن احادیث (آٹھ رکعت والی اگر کوئی صحیح ہو) کے منسوخ ہونے کی (اشرف الجواب ج١ص ١٠٢)۔ حضرت حکیم الامت  کے اس بیان سے معلوم ہوا کہ اگر بفرض محال حدیث جابر  وغیرہ صحیح بھی ہو تو بھی صحابہ کرام کا بیس رکعت پر اجماع اس کے منسوخ ہونے کی علامت ہے۔امام نووی  مقدمہ شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں   من اقسام النسخ مایعرف بالا جماع کقتل شارب الخمر فی المرۃ الرابعۃ فانہ منسوخ عرف نسخہ باالاجماع والاجماع لا ینسخ ولکن یدل علی وجود الناسخ   اور  غیر مقلدوں کے جد امجد نواب صدیق حسن خاں اپنی کتاب ”افادۃ الشیوخ فی بیان الناسخ والمنسوخ” پر لکھتے ہیں   :”چہارم آنکہ باجماع صحابہ دریافت شود کہ ایں ناسخ وآں منسوخ … ومثل اوست حدیث غلول صدقہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دراں امر باخذ صدقہ و شطر مال او فرمودہ لیکن صحابہ اتفاق کردندبر ترک استعمال ایں حدیث وایں دال است برنسخَ وے۔ومذہب جمہور نیز ہمیں است کہ اجماع صحابہ از ادلہ بیان ناسخ است۔ ”نواب صاحب کی یہ عبارت اس بات پر صریح نص ہے کہ جو حدیث عہد صحابہ میں متروک العمل ہو چکی ہو وہ منسوخ ہے پس آٹھ رکعت کی روایات پر عمل کرنے والا اجماع صحابہ کا مخالف اور روایات منسوخہ پر عامل ہے جیسا کہ عیسائی اور یہودی مذہب منسوخ پر عامل ہیں پس حدیث عائشہ  مدعٰی سے ساکت ہے اور حدیث جابر   ضعیف بھی ہے اور منسوخ بھی،رہی حدیث ابن عباس جس میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بیس رکعت تراویح پڑھنے کا ذکر ہے اور مولوی عبدالجبار صاحب نے اُسے ابو شیبہ کی وجہ سے ضعیف کہہ دیا ہے اولاً تو میں نے ابو شیبہ کی تعدیل باعتبار حفظ و ضبط اور باعتبار عدالت عرض کر دی وہ مختلف فیہ حسن الحدیث ہے ثانیاً یہ کہ جس حدیث کو تلقی بالقبول کا شرف حاصل ہو وہ صحیح ہوتی ہے چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی   شرح نظم الدُرر میں فرماتے ہیں  :

  المقبول ما تلقاء العلماء بالقبول وان لم یکن لہ اسنادصحیح اور امام سخاوی  شرح الفیہ میں فرماتے ہیں اذا تلقت الامۃ الضعیف بالقبول یعمل بہ علی الصحیح حتی انہ ینزل منزلۃ المتواتر فی انہ ینسخ المقطوع بہ ولھذا قال الشافعی حدیث لا وصیۃ لوارث لا یثبتہ اہل الحدیث ولکن العامۃ تلقتہ بالقبول وعملوا بہ حتی جعلوہ ناسخا لآیۃ الوصیۃ للوارث۔ اور علامہ حافظ ابن حجر ”الا فصاح علی نکت ابن الصلاح ”میں فرماتے ہیں ” ومن جملۃ صفات القبولـ ان یتفق العلماء علی العمل بمدلول الحدیث فانہ یقبل حتی یجب العمل بہ وقد صرح بذالک جماعۃ من آئمۃ الاصول ”اس قاعدے کو غیر مقلدوں کے مشہور مناظر مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے بھی تسلیم کیا ہے (دیکھو اخبار اہل حدیث مؤرخہ١٩اپریل ١٩٠٧ ء)۔

            اب محدث صاحب کی خدمت میں گزارش ہے کہ عام علمائے اُمت کے قبول کر لینے سے جب ضعیف حدیث واجب العمل ہو جاتی ہے تو بیس رکعت والی حدیث جس پر خلفائے راشدین نے حکم دے کر عمل کروایا اور  تمام صحابہ کرام  نے عہد فاروقی سے لے کر اور تمام تابعین اور تبع تابعین نے تمام آئمہ مجتہدین نے اس پر عمل کیا ہو اور تمام اُمت کا بارہ سو سال تک بلا اختلاف اس پر عمل ہو پھر تو ابو شیبہ کی یہ حدیث اتنی قوی اور مستحکم ہو جاتی ہے کہ اس کے بعد اس کو ضعیف کہہ کر پیچھا چھڑانا بالکل ناممکن ہو جاتا ہے۔ مقصد یہ کہ بیس رکعت کی حدیث اجماع اُمت کے موافق ہونے کی وجہ سے واجب العمل ہے اور آٹھ رکعت والی مخالف اجماع ہونے کی وجہ سے متروک اور منسوخ ہے۔

اہل سنت و جماعت تمام احادیث پر عمل کرتے ہیں

            ان غالی غیر مقلدین کا عجیب طریقہ ہے کہ تمام ذخیرہ حدیث فی الباب سے ایک حدیث لے لیتے ہیں جو اپنے نفس کی خواہش کے مطابق ہو اور اُس کے خلاف خواہ کس قدر احادیث ہوں بس ایک وہی حدیث پیش کئے جاتے ہیں اور اپنے مخالفوں کو مخالفِ حدیث کہے جاتے ہیں۔حضرت قاری عبدالرحمن ان غُلاۃ کی نسبت فرمایا کرتے تھے کہ یہ بیشک عامل بالحدیث ہیں لیکن الف لام الحدیث میں عوض میں مضاف کے ہے اور وہ مضاف الیہ نفس ہے یعنی عامل بالحدیث النفس تو واقعی یہ لوگ حدیث نفس کے عامل ہیں حدیثِ رسولﷺ   پر عامل نہیں۔ یہ لوگ اپنے نفس کے مطابق احادیث تلاش کر لیا کرتے ہیں جیسے کسی کی حکایت مشہور ہے کہ اُس سے پوچھا گیا کہ تمہیں قرآن کا کونسا حکم سب سے زیادہ پسند ہے، کہا ربنا انزل علینا مائدہ من السماء اسی طرح انہوں نے بھی تراویح کی تمام احادیث سے صرف آٹھ والی حدیث پسند کی اور وتر کی تمام حدیثوں سے ایک وتر والی حدیث پسند کی۔ تمام رات تراویح پڑھنا جو صحیح حدیث سے ثابت ہے اس سنت کو تو کبھی ادا نہیں کیا لیکن سنت فجر کے بعد سونے کی سنت پر خوب زور ہے سبحان اللہ کیا معیار ہے۔ایک حدیث کو مان کر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ قول و فعلِ رسول یہی ہے باقی تمام ذخیرہ حدیث کو خاطر میں نہیں لاتے اور ان کے اس سبق کے رٹنے کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے سلف صالحین کے اعمال کو خلافِ حدیث ظاہر کر کے اُن کی تقلید سے منحرف کریں اور اپنی تقلید کا پھندا اُن کے گلے میں پیوست کر دیں قاتلھم اللّٰہ انی یوفکون۔ اس مسئلے میں بھی یہ حنفیہ کو مخالفِ حدیث کہتے ہیں اور اپنے آپ کو عامل بالحدیث حالانکہ نہ یہ آٹھ والی روایات کو مانتے ہیں نہ بیس والی کو کیونکہ حدیث عائشہ  تہجد کے متعلق ہے کہ رسول پاکﷺ   رمضان غیر رمضان میں گیارہ رکعت تہجد پڑھتے تھے لیکن غیر مقلد رمضان کے مبارک مہینہ میں تہجد بھی نہیں پڑھتے بلکہ جو غیر مقلد غیر رمضان میں تہجد پڑھتے ہیں وہ بھی رمضان میں چھوڑ بیٹھتے ہیں اور  دوسروں کو بھی منع کرتے ہیں۔اہل سنت رمضان اور غیر رمضان میں ٨ رکعت تہجد اور تین وتر پڑھتے ہیں غرضیکہ حنفی تو حدیثِ عائشہ  پر پورا عمل کرتے ہیں لیکن غیر مقلد نہ تہجد کے بارے میں اس پر عامل ہیں نہ وتر کے بارے میں کیونکہ غیر مقلد جتنی دلیلیں آٹھ تراویح پر لاتے ہیں ہر ایک میں تین وتر کا ذکر ہے اور  غیر مقلد ایک وتر پڑھتے ہیں۔ حدیثِ عائشہ  اور حدیثِ جابر میں بھی تین وتر کا ذکر ہے اور حضرت فاروق اعظم  کے حکم میں بھی تین رکعت وتر مذکور ہیں ، نہ تو غیر مقلدوں نے حضرت عائشہ کی اس حدیث پر عمل کیا اور نہ حضرت عائشہ  کی اُن روایتوں پر عمل کیا جن کو میں شروع میں نقل کر چکا ہوں کہ رسول پاکﷺ   رمضان المبارک میں غیر رمضان سے زیادہ کوشش اور محنت فرماتے تھے، زیادہ شب بیداری کرتے تھے اور زیادہ نماز پڑھتے تھے بلکہ غیر مقلد تو زیادتی سے منع کر کے کھلم کھلا ان حدیثوں کی مخالفت کرتے ہیں نہ تو ان تینوں بزرگوں یعنی حضر ت عائشہ ، حضرت جابر، حضرت عمر کی مذکورہ روایات پر غیر مقلد ین کا عمل ہے اور نہ ان تینوں کے اپنے عمل کو مانتے ہیں کیونکہ حضرت عائشہ، حضرت جابر،حضر ت عمر  تینوں کے سامنے بیس رکعت تراویح پڑھی جاتی تھیں ان تینوں میں سے کسی ایک نے بھی بیس رکعت تراویح سے منع نہ فرمایا بلکہ خود اُن کے ساتھ شامل ہو گئے اور کوئی غیر مقلد یہ ثابت نہیں کر سکتاکہ یہ تینوں آٹھ رکعت تراویح پڑھتے تھے۔جب ان تینوں میں سے کسی نے بیس رکعت کا انکار نہ کیا اور نہ منع فرمایا تو غیر مقلد کس دلیل سے بیس رکعت سے منع کرتے ہیں۔غرض نہ ان تینوں کی روایت کو مانتے ہیں اور نہ عمل کو ا س کے برخلاف اہل سنت و جماعت تمام احادیث کو مانتے اور عمل کرتے ہیں۔ حضرت جابر کی آٹھ رکعت والی روایت اگرچہ صحیح نہیں ہے اس لیے ذہبی نے میزان الاعتدال میں اُسے منکر روایات میں ذکر کیا ہے اور جس امرِ فاروقی کو غیر مقلد پیش کرتے ہیں وہ مضطرب ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے اسی لیے علامہ ابن عبد البر نے اس کو وہم قرار دیا ہے نیز یہ صحیح روایات اور عقلِ سلیم کے بھی خلاف ہے تاہم اگر بفرض محال آٹھ رکعت پر اگر کوئی لُولی لنگڑی روایت ہو پھر بھی وہ ہم کو مضر نہیں اور نہ غیر مقلد ین کو مفید ہے کیونکہ بیس میں آٹھ بھی شامل ہیں۔اور بیس پڑھنے والا بیس والی روایات پر بھی عمل کر رہا ہے اور آٹھ والی روایات پر بھی کیونکہ آ ٹھ رکعت پر حصر کی کوئی دلیل نہیں ہے اور کسی ایک ضعیف روایت میں بھی یہ نہیں کہ آٹھ سے زیادہ منع ہیں تو بیس رکعت پڑھنا آٹھ والی کے مخالف کیسے ہوا بلکہ دونوں پر عمل ہوا۔

            مثال اول  :  بعض روایات میں ہے کہ رسول پاکﷺ   ہر روز ستر مرتبہ استغفار پڑھتے تھے اور بعض میں سو مرتبہ کا ذکر ہے۔اب اگر کوئی شخص سومرتبہ استغفار پڑھے تو کون عاقل کہے گا کہ اس نے ستر والی روا یت کی مخالفت کی ہے بلکہ حقیقت میں اس نے دونوں حدیثوں پر عمل کیا ہے کیونکہ سو میں ستر بھی داخل ہیں۔

            مثال دوم  :  رسول پاکﷺ   کی تہجد کی رکعات مختلف آئی ہیں ٤  ٣ اور ٣٦ اور ٣٨،٣١٠ (رواہ عائشہ   مشکٰوۃ ج١ ص ١١٢) اب اگر کوئی شخص ٣٨ یا  ٣١٠  پڑھ لے تو کون نادان کہے گا کہ اس نے ٤،٦ والی سنت کی مخالفت کی ہے بلکہ صاف بات ہے کہ ٨میں ٤ اور ٦ بھی شامل ہیں۔

            مثال سوم  :  مسلمان شروع سے پانچ نمازیں روزانہ پڑھتے ہیں لیکن منکرین حدیث نے کچھ دنوں سے یہ شور مچایا ہے کہ قرآن کی آیت اقم الصلوۃ لدلوک الشمس الخ سے صرف تین نمازیں ثابت ہیں اس لیے پانچ نمازیں پڑھنا ا س آیت کے خلاف ہے حالانکہ یہ بالکل غلط بات ہے اگر ایک آیت سے بظاہر تین نمازیں سمجھ آتیں ہیں تو باقی آیات و احادیث سے پانچ ثابت ہیں اور پانچ میں یہ تین بھی داخل ہیں تو پھر پانچ پڑھنے والا اس آیت کا مخالف کیونکر ہوا وہ تو اس پر بھی عامل ہو ا اور دوسری آیات و روایات پر بھی عامل ہوا۔

            مثال چہارم  :  شیعہ کہتے ہیں کہ اہل سنت حضرت علی کی خلافت کے مخالف اور منکر ہیں کیونکہ یہ ایک کی بجائے چار کی خلافت مانتے ہیں اور جن روایات سے حضرت علی  کی فضیلت یا خلافت کے اشارے نکلتے ہیں اُن کو اہلِ سنت کے مقابلہ میں پیش کرتے ہیں حالانکہ اُنکا ایسا کرنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں کیونکہ جن چار کو ہم مانتے ہیں اُن میں حضرت علی بھی شامل ہیں تو جب اُ ن چاروں میں وہ ایک بھی شامل ہیں تو چار کا ماننا حضرت علی   کی مخالفت کیسے ہوئی۔           حضرت جابر  نے جو آٹھ رکعت روایت کی ہیں ابن عباس  کی بیس والی روایت میں وہ آٹھ بھی شامل ہیں پس بیس والی روایت پر عمل دونوں روایتوں پر عمل ہے اور بیس والی کا انکار دونوں کا انکار ہے کیونکہ دوسری اسی میں شامل ہے تو بیس رکعت پڑھنا آٹھ رکعت کے مخالف کیسے ہوا، بلکہ بیس پڑھنے والا آٹھ بھی پڑھتا ہے پس آٹھ رکعت کی دلیلوں کو سنیوں کے مقابلہ میں پیش کرنا ایساہی ہے جیسا شیعوں کا سنیوں کے مقابلہ میں فضائل علی  کی روایات پڑھنا جبکہ حضرت علی  کی خلافت چاروں میں شامل ہے چنانچہ بعض لوگوں نے ان تمام روایات کو جمع کیا ہے کہ آٹھ والی مرفوع روایات میں جماعت کا ذکر ہے اور بیس والی مرفوع روایت میں جماعت کا ذکر نہیں اس لیے ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر  نے پہلے صرف آٹھ رکعت با جماعت پڑھنے کا حکم دیا ہو اور  باقی بارہ رکعت لوگ بلا جماعت پڑھتے ہوں اور پھر بیس رکعت با جماعت پڑھنے کا حکم دے دیا ہو اور  اسی آخری حکم پر اجماع منعقد ہو گیا۔چنانچہ امام بیہقی،علامہ ابن حجر، ملا علی قاری  وغیرہم نے یہ ذکر فرمایا ہے کہ پہلے حضرت عمر نے گیارہ کا حکم دیا پھر بیس کا اور اسی پر اجماع منعقد ہو گیا،اب بیس پڑھنے والا حضرت عمر کے دونوں حکموں پر عمل کرتا ہے کیونکہ دوسرا حکم پہلے کے مخالف نہیں ہے بلکہ پہلا دوسرے میں شامل ہے اور غیر مقلد دونوں حکموں کے منکر ہیں کیونکہ جب دوسرا حکم دیا تو پہلا اُ سی میں شامل ہو گیا اور دونوں مل کر ایک ہی حکم رہ گیا تو آخری حکم پر عمل دونوں پر عمل اور آخری حکم کا انکار دونوں کا انکار ہے۔ اور صحابہ کرام ایک تراویح میں ایک قرآن پاک ختم کرتے تھے اس لیے قاریوں نے قرآن پاک میں تراویح کے لیے رکوع مقرر کر دئیے اور وہ بھی بیس کے حساب سے لگائے ہیں چنانچہ رکوع سارے قرآن میں ٥٤٠ ہیں اور لیلۃ القدر ستایئسویں رات کو قرآن ختم کرتے ہیں تاکہ لیلۃ القدر میں ختم کا ثواب ملے۔ اسی حساب سے پورے رکوع ہیں ٥٤٠٢٠٢٧

            بعض غیر مقلد جب چاروں طرف سے عاجز آ جاتے ہیں تو یہ کہا کرتے ہیں کہ بیس رکعت سنت خلفاء ہے اور آٹھ سنت نبوی ہیں۔حضورﷺ  نے آٹھ ہی پڑھی تھیں صحابہ نے ١٢ بڑھا لیں اس لیے ٨ پڑھنے والے سنت نبوی پر عامل ہیں اور بیس پڑھنے والے سنت خلفاء پر،تو عرض ہے کہ یہ مغالطہ ہے اولاً تو یہ غلط ہے کہ صحابہ سنت نبوی پر زیادتیاں کر لیتے تھے اگر یہ گمان رکھو تو ہو سکتا ہے کہ جن صحابہ نے ٨ کو بیس کر لیا ہو انہوں نے قرآن میں بھی زیادتی کی ہو۔ اگر وہ پیغمبر کے فعل میں اپنی مرضی سے زیادتی کر لیتے تھے تو پھر خدا جانے پیغمبر کے کلام میں انہوں نے کتنی زیادتیاں کی ہوں گی۔ ثانیاً بیس جس کو تم نے سنت فاروقی کہا ہے اس میں آٹھ جس کو سنت نبوی کہتے ہو وہ بھی شامل ہیں تو بیس پڑھنے والا سنت نبوی اور سنت فاروقی دونوں کا عامل ہوا، کیا غیر مقلد ین کے پاس کوئی ایک حدیث ہے جس میں حصر کے ساتھ مذکور ہو کہ صرف آٹھ تراویح سنت ہے، ایک بھی نہیں۔کیا کسی ایک حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیس رکعت پڑھنا بدعت ہے۔غیر مقلد بتائیں کہ ٢٠ رکعت تراویح کو بدعت و حرام جانتے ہیں یا مستحب،بعض غیر مقلد عاجز آ کر یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم کو تو بیس رکعت با جماعت پر اعتراض ہے تو اُن سے فوراً کہو کہ جناب آپ جماعت کا لفظ نہ لکھیں پہلے صرف اتنا لکھ دیں کہ ہم بیس رکعت تراویح کو سنت مانتے ہیں اس کو شائع کر دیں اور ساتھ یہ بھی شائع کریں کہ با جماعت پڑھنا مکروہ ہے یا حرام اور اُس کی بہترین دلیل جس سے بیس کا با جماعت پڑھنا منع ثابت ہو پیش کر دیں اور یہ بھی لکھ دیں کہ جو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین بیس رکعت پڑھتے تھے اُن پر کیا فتویٰ ہے اور حضرت عمر نے جنہوں نے بیس رکعت با جماعت پر لوگوں کو جمع فرمایا وہ غیر مقلدوں کی شریعت کے مطابق کتنے بڑے مجرم ہیں۔ بعض غیر مقلدین نے یہ مغالطہ دیا ہے کہ آٹھ رکعت پر غیر مقلدین اور مقلدین کا اتفاق ہے اس لیے آٹھ کولے لینا چاہیے اور بارہ میں دونوں فریقوں میں اختلاف ہے اُن کو تر ک کر دینا چاہیے۔سبحان اللہ غیر مقلد صاحب اگر کوئی عیسائی آپ کی خدمت میں یہ عرض کرے کہ جناب عیسٰی  کی رسالت و نبوت پر چونکہ عیسائیوں اور مسلمانوں کا اتفاق ہے اور حضرت محمد مصطفیﷺ   کی نبوت میں دونوں فرقوں کا اختلاف ہے اس لیے سب مسلمانوں کو چاہیے کہ حضورﷺ   کی نبوت سے معاذاللہ انکار کر کے صرف حضرت عیسٰی  کی نبوت کے قائل ہو جائیں تو آپ کیا جواب دیں گے۔ اس قسم کی بہکی بہکی باتیں کرنا مسلمانوں کی شان نہیں ہے لوگوں کو مغالطوں میں مبتلا نہ کرو۔ خلاصہ یہ ہے کہ  :

            (١)  آٹھ رکعت کی روایت سخت ضعیف ہے اور اجماع صحابہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے منسوخ ہے تو آٹھ رکعت تراویح پڑھنے والا صحیح اور محکم حدیثوں کو چھوڑ کر ضعیف اور منسوخ حدیثوں پر عمل کرنے کی وجہ سے سخت غلطی کا شکار ہے۔

            (٢)  بیس رکعت پڑھنے والے سب حدیثوں کو مانتے ہیں کیونکہ بیس میں آٹھ بھی شامل ہیں اور آٹھ پڑھنے والے صرف ضعیف اور منسوخ روایات کے آستانہ پر دھونی رمائے بیٹھے ہیں اور  محکم و صحیح احادیث سے منہ موڑے بیٹھے ہیں۔

            (٣)  بیس رکعت پڑھنے والے حضرت عمر فاروق   کے دونوں حکموں کو مانتے ہیں اور  آٹھ پڑھنے والے حضرت عمر کے آخری حکم کے منکر ہیں۔

            (٤)  بیس رکعت پڑھنے والے فرمان نبوی علیکم بسنتی و سنت الخلفاء الراشدین المہدیین تمسکوابھا وعضوا علیھا بالنواجذ  میری اور  میرے خلفائے راشدین کے طریقے کو مضبوطی سے پکڑو کے عامل ہیں کیونکہ بیس رکعت با جماعت خلفائے راشدین کے حکم سے شروع ہوئیں اور آٹھ رکعت پڑھنے والے نہ سنت نبوی کے عامل کیونکہ حدیث جابر  منسوخ ہے اور حدیث ابن عباس ،احادیثِ شدتِ اجتہادشَدِّمِئزَرْ وغیرہ پر عمل نہیں کرتے اور نہ سنت خلفاء کے عامل بلکہ دونوں سنتوں کے مخالف ہیں۔

            (٥)  بیس رکعت پڑھنے والے صراط مستقیم ماانا علیہ واصحابی۔ خیرالقرون قرنی الخ  تمسکو  ابن مسعود  پرگا مزن ہیں اور آٹھ پڑھنے والے سبیل مومنین سے منحرف ہو کر نصلہ جھنم و ساء ت مصیرا  کی وعید میں داخل ہیں۔

            (٦)  بیس رکعت پڑھنے والے سوادِ اعظم اور  اجماع اُمّت کے مطابق عمل کر کے خدا کی رحمتوں اور برکتوں کے مستحق بنتے ہیں اور آٹھ رکعت پڑھنے والے من شَذشُذ فی النا ر کی وعید کے سزا وار ہیں۔

            (٧)  بیس رکعت تراویح پڑھنے والے قیامت کے دن اپنے مقتداؤں یعنی پیغمبرِ اسلامﷺ ، خلفاء راشدین،صحابہ کرام، آئمہ مجتہد ین کے ساتھی ہوں گے اور بیس رکعت سے منع کرنے و الے اٰرأیت الذی ینھٰی عبداً اذا صلٰی کی جماعت میں شامل ہوں گے۔

            (٨)  رسول پاکﷺ  نے فرمایا ان اللّٰہ وضع الحق علی لسان عمر اللہ تعالی نے حق حضرت عمر کی زبان پر رکھا ہے اور دوسری طرف یہ فرمایا کہ شیطان حضرت عمر  کے سائے سے بھاگتا ہے اور شیطان کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ حضرت عمر  کے راستے پر چل سکے۔ اے بیس رکعت تراویح پڑھنے والو!تم کتنے خوش نصیب ہو کہ حضرت عمر  کے دونوں حکموں پر عامل ہو اور حق پرستوں کی جماعت میں داخل ہو اور اے آٹھ رکعات پڑھنے والوں ! تم حضرت عمر کے آخری فرمان سے جس پر ساری اُمّت کا اجماع ہو چکا ہے پِھر کرکس رستے پر جا رہے ہو تم کو یہ توفیق کیوں نہیں کہ حضرت عمر کے راستہ پر چلو۔

            آخر میں حضرت حکیم الامت  کی کتاب اشرف الجواب ج٢ص ١٠٣ سے ایک اقتباس نقل کر کے ختم کرتا ہوں  :

 ”بھئی سنو! محکمہ مال سے اطلاع آئے کہ مال گزاری داخل کرو اور تمہیں معلوم نہ ہو کہ کتنی ہے تم نے ایک نمبردار سے پوچھا کہ میرے ذمہ کتنی مال گزاری ہے اُس نے کہا آٹھ روپے پھر تم نے دوسرے نمبر دار سے پوچھا اُس نے کہا بیس روپے تو اب بتاؤ تمہیں کچہری کتنی رقم لے کر جانا چاہیے اس شخص نے جواب دیا کہ صاحب بیس روپے لے کر جانا چاہیے۔ اگر بیس روپے ادا کرنے پڑے تو کسی سے مانگنے نہ پڑیں گے اور اگر آٹھ ادا کرنے ہوئے تو باقی رقم بچ رہے گی۔اور اگر میں کم لے کر گیا اور وہاں زیادہ طلب کیے گئے تو کس سے مانگتا پھروں گا۔ مولانا نے فرمایا بس خوب سمجھ لو کہ اگر وہاں بیس رکعتیں طلب کی گئیں اور ہیں تمہارے پاس آٹھ تو کہاں سے لا کر  دو گے اور اگر بیس ہیں اور طلب کم کی گئیں تو بچ رہیں گی اور تمہارے کام آئیں گی۔ ”

            اللہ تعالی عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔

٭٭٭

ماخذ: جریدے ’انوارِ مدینہ‘ کے مختلف شمارے

تشکر: اردو محفل کے رکن اسد جنہوں نے  ماہنامہ انوار مدینہ کو جلدوں کے متن کی فائلیں فراہم کیں

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبی