

ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
فہرست مضامین
بڑوں نے لکھا بچوں کے لئے ۔۔۔۱۱
بچوں کے کرشن چندر
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
سبز پری
میرے بچے کی پانچویں سالگرہ تھی۔
ماں نے اسے نئے کپڑے پہنائے۔ دوستوں نے تحفے پیش کیے۔ دوسرے گھروں سے اور بھی بچے آئے تھے۔ میرا بچہ دن بھر ان سے کھیلتا رہا۔ آم کھا کر اپنے کپڑے میلا کرتا رہا۔ جامن اور چیکو کے درختوں پر چڑھنے کی کوشش کرتا رہا اور جب اس کے سارے دوست چلے گئے اور وہ بالکل تھک گیا تو سونے کے لئے میری گود میں آ بیٹھا۔
بچے نے پوچھا ’’آج ماں نے دن بھر پیار کیا۔ ایک بار بھی نہیں ڈانٹا، کیا بات ہے؟‘‘
میں نے کہا ’’آج تمہاری سالگرہ ہے۔‘‘
وہ بولا ’’تو پھر یہ سالگرہ ہر روز کیوں نہیں آتی؟‘‘
میں نے کہا ہر روز کیسے ہو گی۔ آج نیا سال ہے۔ تمہاری زندگی کا پانچواں سال ہے۔‘‘
بچہ چپ ہو گیا۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد بولا۔ ’’آج نیا سال آیا ہے تو۔ تو پھر میرا پچھلا سال کدھر گیا؟ سال کی خوشی میں پچھلے سال کی یاد کیسے آئی ہے۔ نئے دوست کے ملنے پر کون پرانے دوست کو یاد کرتا ہے۔ یہ تو دنیا کا دستور ہے۔
سوال اتنا عجیب تھا کہ میں بالکل چکرا گیا۔ میں نے اپنی اور اپنے دستوں کی اتنی سالگرہیں منائیں لیکن کسی کو یہ خیال نہ آیا کہ پچھلے سال کہاں جاتا ہے؟؟۔
لیکن بچوں کا دستور دوسرا ہوتا ہے۔
اس لیے بچے نے پھر مجھ سے پوچھا ’’بتاؤ نا پچھلا سال کہاں گیا؟‘‘
میں کیا بتاتا اسے۔ پانچ سال کے ننھے کو وقت کی گردش سمجھاتا۔ اس لیے میں نے خود ہی اس سے پوچھ لیا، کیونکہ جب میں اپنے بچے کے کسی سوال کو خود نہ بتا سکوں تو خود اس سے ہی پوچھ لیا کرتا ہوں۔ ’’تم خود بتاؤ ننھے۔ پچھلا سال کہاں گیا۔‘‘
ننھے کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ وہ بہت دیر تک مسکراتا رہا۔ آپ ہی آپ۔ میں نے دیکھا، اس کی پلکوں پہ نیند جھکی ہوئی ہے اور وہ کہیں بہت دور دیکھ رہا ہے۔
تھوڑی دیر کے بعد وہ مجھے سمجھاتے ہوئے بولا ’’دیکھو وہ جامن کا پیڑ ہے نا جو ناریل کے درخت کے پاس ہے۔‘‘
’’ہاں‘‘، ’’وہ کنویں والا ناریل نہیں۔ آم کے پیڑ کے پاس جو ناریل کا درخت ہے۔‘‘
’’ہاں‘‘، بس اس جامن کے درخت کے اوپر چڑھتے جاؤ۔‘‘
’’ہاں‘‘، اوپر ہی اوپر اور اوپر۔‘‘
’’ہاں۔‘‘، ’’اور اوپر جہاں آسمان کی چھت ہے نا، وہاں تک جامن کا پیڑ جاتا ہے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘، ’’ہاں، اس کے اوپر پچھلا سال رہتا ہے۔‘‘
’’ارے واہ۔ یہ نئی بات سنائی تم نے۔ تم کیا جامن کے پیڑ پر چڑھے تھے؟‘‘
بچے نے بڑی اداسی سے کہا ’’نہیں، پیڑ بہت اونچا ہے۔ میں چڑھ نہیں سکا۔ مگر جانتا ہوں، وہ وہیں ہو گا۔ اونچا اونچا اور اونچا۔ سب سے اونچی جگہ پر۔‘‘
پھر بچے کی پلکیں جھک گئی اور میری گود میں سو گیا۔ اور میں اپنے سوئے ہوئے بچے کو اپنی گود میں لیے لیے سو گیا۔
تھوڑی دیر کے بعد مجھے کسی نے کندھے سے ہلا کر جگایا۔ میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ ایک آدمی خوشنما لباس پہنے سر پر ہیروں کا تاج رکھے میری طرف مسکرا رہا تھا۔
میں نے پوچھا ’’تم کون ہو؟‘‘
وہ بولا ’’یاد کرو، اتنی جلدی بھول گئے؟‘‘
میں نے کہا ’’میں نے تم کو کبھی نہیں دیکھا بھائی۔‘‘
وہ بولا ’’میں تمہارا چوتھا سال ہوں۔‘‘
میں جلدی سے گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس کے ہاتھ پکڑتے ہی مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میرے چاروں طرف گہرا جنگل ہے چیل اور دیودار کے درخت ہوا کے جھونکوں سے سائیں سائیں کر رہے ہیں اور میں ایک سبز پیلے رنگ والی تیتری کا پیچھا کرتے ہوئے اپنے چھوٹے ہاتھ پاؤں ہلاتا تیزی سے ایک طرف بھاگ رہا ہوں۔ موڑ پر سے گزر کر اس کی طرف بھاگا۔ اب تیتری میرے بالکل قریب تھی۔ میں نے ہاتھ پھیلا کر جھٹکا مارا۔ مگر تیتری آگے اترتی چلی گئی اور ایک جھاڑی کے نیلے نیلے پھولوں پر ڈولنے لگی۔ پھر وہ اس کے پتوں میں چھپ گئی اس کے پروں کا سبز رنگ پتوں سے مل گیا۔ مگر اس کی پیلی دھاریاں مجھ سے کیسے چھپتیں؟ میں نے آہستہ سے ہولے ہولے گھٹنوں کے بل چل کے عین اس وقت جب تیتری ایک نیلے پھول کو سونگھ رہی تھی، اپنا رو مال اس پر رکھ دیا اور پھر اسے قید کر کے اپنی مٹھی کے خول میں رکھ لیا۔
تیتری کے پر ڈر کے مارے کانپنے لگے اور میں نے دیکھا کہ جنگل کے سارے درخت ایک دوسرے کے قریب ہوتے جا رہے ہیں تنے سے تنے ملتے جا رہے ہیں اور تنوں کے پیچھے خوفناک آنکھیں سبز اور سیاہ اور سرخ رنگ کی آنکھیں چمک رہی ہیں اور میں ڈر کے مارے کانپ گیا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا اور اپنے چاروں طرف سیاہ جنگل کو پایا۔ اب مجھے معلوم ہوا کہ تیتری کے پیچھے بھاگتے ہوئے چلا تو میں اپنے باغ سے تھا لیکن بھاگتے بھاگتے جنگل میں آ گیا۔ میں چلا کر کہا ’’ماں! ماں۔‘‘
جنگل کے درختوں نے ہنس کر کہا ’’ہا ہا ہا۔‘‘
’’ماں ماں ماں۔‘‘ میں اور بھی زور سے چلایا۔
’’ہا ہا ہا۔ جنگل کے درخت اور بھی زور سے ہنسے۔‘‘
’’جاؤ تم کتنے بھی زور سے ہنسو۔‘‘ میں نے غصہ میں درختوں سے کہا ’’ہم خود اپنا راستہ ڈھونڈ لیں گے۔‘‘
لیکن درخت بالکل ایک دوسرے کے قریب آ گئے۔ تنے سے تنے لگ گئے۔ جھکی ہوئی ڈالیاں چھڑیاں بن گئیں اور راستہ تنگ سے اور تنگ اور چھوٹے سے اور چھوٹا ہوتا گیا۔ آخرکار ایک جگہ بنفشہ کے پھولوں کی ایک بہت بڑی باڑ نظر آئی۔ یہاں آ کر راستہ بالکل بند ہو گیا۔
میں نے ادھر ادھر دیکھا۔ زمین سے آسمان تک بنفشہ کے پھولوں کی دیوار تھی۔
’’ماں ماں۔‘‘ پھول زور سے کھل کھلا کے ہنسنے لگے۔
اتنے میں ایک بڑی خوبصورت پری آئی۔ اس کا لباس ایسا تھا جیسے بنفشہ کے پھولوں سے تیار کیا گیا ہو۔ اس کے دائیں ہاتھ میں نیلے پھولوں کی ایک چھڑی تھی جس کے سرے پر بنفشہ کا ایک پھول تھا جو بالکل لال رنگ کے یاقوت کی طرح چمکتا تھا۔ اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا اور بولی۔ ’’بچے تم کیوں رو رہے ہو؟‘‘
میں نے کہا ’’میں ماں کے پاس جانا چاہتا ہوں۔‘‘
پری بولی ’’تمہاری ماں کہاں ہے؟‘‘
’’وہ جنگل کے اس پار ہے۔‘‘
وہ بولی ’’تو چلے چلو تمہیں کون روکتا ہے؟‘‘
میں نے کہا ’’ادھر دیوار ہے۔ ادھر درخت۔ راستہ نہیں دیتے۔ جاؤں کیسے؟‘‘
اس نے میرے ہاتھ میں تیتری دیکھ لیا۔ بولی ’’یہ کیا ہے؟‘‘
میں نے کہا ’’اوہو، اسے مت چھوؤ۔ یہ میری تیتری ہے۔‘‘
’’تم اسے لے کر کیا کرو گے؟‘‘
میں نے کہا ’’میں اس کے پر اتار کر اپنا تصویروں والی کتاب میں رکھوں گا۔‘‘
وہ بولی ’’پر اتارو گے تو یہ مر جائے گی۔‘‘
’’مر جائے۔‘‘
وہ بولی ’’تو پھر اس کی ماں روئے گی۔‘‘
میں نے کہا ’’اس کی ماں روئے گی۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ میں نے پوچھا ’’اس کی ماں کون ہے؟‘‘
پری تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد بولی ’’میں اس کی ماں ہوں۔‘‘
میں دیر تک چپ رہا۔ تیتری کے پر بڑے خوبصورت تھے۔ میں نے اسے بڑی مشکل سے پکڑا تھا۔ لیکن پری کی نیلی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ایسے آنسو جیسے کبھی کبھی میری ماں کی آنکھوں میں ہوتے تھے۔ میں نے چپکے سے تیتر پری کی گود میں ڈال دی اپنا سر جھکا دیا۔
پری مسکرانے لگی اور پھر میں نے دیکھا۔ وہ تیتری ایک چھوٹی سی پری بن گئی جس کا لباس سبز رنگ کا تھا۔ گال پیلے پیلے تھے۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگی ’’تم مجھے بڑے اچھے لگتے ہو۔ میں تو تم سے کھیلنا چاہتی تھی لیکن تم تو مجھے جان سے مار رہے تھے۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’اب تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔ تم میرے باغ میں آ کے مجھ سے کھیلا کرنا۔ مجھے معلوم نہیں تھا تم پری ہو۔‘‘
پری کی ماں نے کہا ’’بیٹا سب تیتریاں پریاں ہی ہوتی ہیں جو بچوں سے کھیلنے کے لئے گاؤں اور باغوں میں جاتی ہیں۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ ’’ہاں آؤ، اب تمہیں گھر کا راستہ بتاؤں۔ نہیں تو تمہاری ماں روتے روتے مر جائے گی۔‘‘
پھر پری نے پھولوں کی چھڑی سے اشارہ کیا اور درخت راستہ دینے لگے اور تنے سے تنے الگ ہوتے گئے اور ڈالیوں کی چھڑیاں اونچا ہوتی گئیں اور آسمان نظر آ گیا۔ اور پھر جنگل کا کنارہ بھی آ گیا اور میں نے دیکھا کہ میری ماں اور میرا باپ دو ملازم ساتھ لیے مجھے ڈھونڈ رہے ہیں اور ماں بار بار پلو سے اپنے آنسو پونچھتی جاتی ہے۔
میں نے چلا کر کہا ’’ماں میں یہاں ہوں۔ یہ دیکھو میرے ساتھ ایک پری بھی ہے۔‘‘
میں نے مڑ کر دیکھا۔ دونوں پریاں غائب تھیں۔ وہاں دور جنگل کی طرف ایک بنفشی رنگ کی تیتری کے ساتھ ایک سبز اور نیلے رنگ کی تیتری بھاگی جا رہی تھی۔
یکایک خوشنما لباس اور ہیروں کا تاج پہنے ہوئے آدمی نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور میری نظروں سے دور جنگل میں غائب ہو گیا۔ اس آدمی کے چہرے پر ایک جگمگ جگمگ کرتی مسکراہٹ آئی اور اس نے مجھ سے پوچھا۔ ’’یاد رہے۔‘‘
میں نے مسکرا کر کہا۔ ’’ہاں یاد ہے تم میرا چوتھا سال ہو۔ مگر تم کہاں چلے گئے تھے!‘‘
وہ مجھ سے اور دور ہو گیا۔ بولا ’’سات سمندر پار ایک جزیرہ ہے اسے یادوں کا جزیرہ کہتے ہیں۔ میں وہاں رہتا ہوں۔ طوفانی لہروں پر بچے کبھی کبھی کاغذ کے ناؤ کھیتے ہوئے آ جاتے ہیں تو بڑی چہل پہل ہوتی ہے۔ ورنہ وہاں ہر وقت نیند چھائی رہتی ہے۔‘‘
میں نے کہا ’’مگر میرا بچہ تو کہتا ہے کہ تم جامن کے پیڑ کے اوپر رہتے ہو۔‘‘
وہ بولا ’’کبھی جامن کے پیڑ کے اوپر اور کبھی املی کے درخت کے نیچے۔ کبھی کھیت کے کنارے، کبھی کسی گلی کے نکڑ پر۔ جہاں جہاں بچے ہمیں بلاتے ہیں پہنچ جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ بچے ہیں، بڑے نہیں ہیں۔ بڑوں کے لئے تو پرانا سال مر جاتا ہے اور نیاسال جنم لیتا ہے۔ لیکن بچے ہمیں ہمیشہ زندہ رکھتے ہیں۔ آدمی مر جاتے ہیں لیکن سال ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔‘‘
وہ اتنی بات کہتے کہتے مجھ سے دور ہو گیا۔ برآمدے کی سیڑھیاں اتر کے باغ میں چلا گیا اور اپنے چاروں طرف دھیمی دھیمی مدھم مدھم جگنوؤں کی روشنی پھیلاتا گیا۔
میں نے چلا کے اس سے کہا ’’سنو، ایک بات بتاؤ۔ وہ سبز اور پیلے رنگوں والی پری اب کہاں ہے؟‘‘
وہ ہنسا اور جامن کے درخت کے اوپر چڑھتا گیا۔ ہنستا گیا اور چڑھتا گیا۔ اونچا اور اونچا۔ جامن کا پیڑ آسمان سے جا لگا اور آسمان کی چھت میں غائب ہو گیا۔
یکایک میری آنکھ کھل گئی۔ میں دیکھا، میں آرام کرسی پر ہوں اور میرا بچہ خواب میں کسی کو دیکھ کر مسکرا رہا ہے۔
٭٭٭
پینزی کے پھول
ایک دن میں اور تاراں گھاٹی پر کھیلتے کھیلتے نیچے پھول والے چشمے پر پہنچ گئے، یہ اس لئے پھول والا چشمہ کہلاتا تھا کہ یہاں اس چشمے کے کنارے اور اوپر ٹیلے پر سردی کے سوا ہر موسم میں پھول ہوتے تھے۔ اور جس ٹیلے کے نیچے یہ چشمہ نکلتا تھا اس پر اودے انگور کی بیلوں کے جھاڑ تھے۔ جو کاؤ کے ایک جھنڈ پر چڑھے ہوئے تھے۔ کاؤ کے جھنڈ کے درمیان شہد کی مکھیوں کا ایک چھتہ تھا، اور انگور کی بیلوں کے بڑے بڑے سبز پتوں کے جھومروں کے اندر سے شہد کی مکھیوں کے بھنبھنانے کی گونج ایسے سنائی دیتی تھی۔ جیسے ان بیلوں کے اندر بھی کوئی دوسرا پھول والا چشمہ گنگنا رہا ہو۔ یہاں عجب سناٹا اور خاموشی تھی، چھوٹے چھوٹے نیلے پتھروں کے ارد گرد بھورے پروں والی آبی تتلیاں سطح آب پر تیرتی پھرتی تھیں۔ کئی مینڈک کنارے پر دھوپ سینک رہے تھے۔ اور ہمیں دیکھتے ہی پھدک کر پانی میں چلے گئے۔ چشمہ میں انگور کے کئی سبز پتے تیر رہے تھے۔ اور ان پر پانی کے قطرے یوں چمک رہے تھے۔ جیسے کسی کی کھلی ہتھیلی پر جواہرات چمک رہے ہوں۔
تاراں نے چشمے کے کنارے پھولوں میں سے چند پھول چن لئے اور انہیں توڑ کر ان کا گچھا بناکر اپنے بالوں میں اڑس لیا۔
پھر تاراں نے مجھے بتایا۔
’’یہ تتلی تار پھول ہیں۔‘‘
’’نہیں یہ پنیزی(Pansy) ہیں۔ میرے پتا جی نے مجھے بتایا تھا۔‘‘
’’نہیں یہ تتلی تار ہیں۔‘‘
گہرے اودے رنگ کے مخملیں پتوں والے پھول تھے جن کے مرکز میں اکیلا پیلا دھبہ تھا۔ اور دور سے دیکھنے سے واقعی یہ معلوم ہوتا تھا گویا ہرے پتوں پر اودی اودی خوش رنگ تتلیاں بیٹھی ہیں۔
میں نے کہا‘‘ ان پھولوں کی ایک کہانی ہے۔‘‘
’’کیا کہانی ہے ؟’’
’’نہیں سناتے۔‘‘ میں نے اٹھلا کر کہا۔
’’نہیں سناؤ گے۔‘‘ تاراں نے میری پیٹھ پر ایک مکّا مار کر کہا۔
’’نہیں۔‘‘
’’اب بھی نہیں ؟’’تاراں نے میری پیٹھ پر دوسرا مکا جڑ دیا۔ اپنے جسم کی پوری طاقت سے۔‘‘
’’ہرگز نہیں !’’میں نے مکے کھاتے ہوئے بھی ہنس کر کہا۔
تاراں روہانسی ہو کر بولی۔ ‘‘پھر کیسے سناؤ گے۔‘‘
’’ہماری ایک شرط ہے۔‘‘
’’کیا؟’’
’’تم ہمیں بنفشے کے پھولوں کا ایک ہار بنا کر دو۔ ہم تمہیں پینزی کے پھولوں کی کہانی سنائیں گے۔‘‘
’’اچھا’’ کہہ کر تاراں بڑی بے دلی سے اٹھی کیوں کہ بنفشے کے چھوٹے چھوٹے پھولوں کا ہار بنانے میں بڑی محنت کرنی پڑتی ہے اور بڑا وقت صرف ہوتا ہے۔
تاراں نے ٹیلے پر اگی ہوئی گھاس کے خاکستری تریوں والے اونچے اونچے خوشے توڑ لئے۔ باریک سیدھے لانبے تاگیے کی طرح صاف ستھرے خوشے اور پھر بنفشے کے پھول توڑ کر انہیں ان خوشوں میں پرونے لگی۔ جب دونوں پرو دئیے جائیں گے۔ تو تاراں انہیں ڈنٹھل پر گانٹھ لگا کر جوڑ دے گی بس ہار تیار ہو جائے گا۔
’’اچھا اب کہانی سناؤ۔‘‘ تاراں بنفشے کے پھول پروتے پروتے بولی۔
میں نے کہا: ‘‘ایک لڑکا تھا۔‘‘
تاراں بولی۔‘‘ تیرے جیسا۔‘‘
’’ہاں میرے ایسا’’
’’پھر؟’’
اور ایک لڑکی تھی۔
’’میری ایسی؟’’
’’نہیں تجھ سے اچھی۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’ہشت!’’تاراں نے غصے سے پھول پھینک دئیے۔
’’اچھا! اچھا بالکل تیرے ایسی لڑکی تھی وہ۔ مگر وہ دونوں بھائی بہن تھے۔ اور انہیں تتلیاں پکڑنے کا بہت شوق تھا وہ پھولوں پر اڑنے والی چوڑے چوڑے پروں والی تتلیاں پکڑتے اور پانی پر تیرنے والی، چھوٹے چھوٹے شفاف پروں والی تتلیاں پکڑتے اور انہیں پکڑ کر ان کے نازک جسم میں ایک تیز پن چبھو کر انہیں مار دیتے اور اسے بلاٹنگ پیپر پر خشک کر کے اپنی البم میں سجا لیتے۔‘‘
’’بلاٹنگ پیپر کیا ہوتا ہے ؟’’تاراں نے پوچھا۔
’’ایک طرح کا کاغذ ہوتا ہے، موٹا اور کھردرا۔ وہ سیاہی کو چوس لیتا ہے، اور پانی کو جذب کر لیتا ہے۔ میرے گھر میں بہت سے بلاٹنگ پیپر ہیں، تمہیں دکھاؤں گا۔‘‘
’’ایک مجھے دینا۔‘‘
’’اچھا دے دوں گا۔‘‘
’’اچھا تو آگے چلو، پھر کیا ہوا!’’
’’پھر یہ ہوا کہ ان دونوں بھائی بہنوں کے ماں باپ انہیں تتلیاں مارنے سے بہت منع کرتے تھے، مگر وہ دونوں ہماری طرح شیطان بچے تھے، باز نہ آتے تھے۔‘‘
’’میں تو شیطان نہیں ہوں، تو ہو گا۔‘‘
’’تو ہو گی۔‘‘
’’ہار توڑ ڈالوں گی۔ اگر تو نے مجھے پھر شیطان کہا۔‘‘ تاراں نے دھمکی دی اور میں ڈر گیا۔ جلدی جلدی سے آگے کہانی سنانے لگا۔
’’ایک دن کیا ہوا کہ ان بچوں کے باغ میں دو خوبصورت تتلیاں آئیں۔ ایک کا رنگ بسنتی لال اور اودا تھا۔ دوسری تتلی سبز گلابی پروں والی تھی۔ ایسی خوبصورت تتلیاں ان کے باغ میں اس سے پہلے کبھی نہ آئی تھیں۔ دونوں بھائی بہن انہیں پکڑنے کے لئے دوڑے تتلیاں پھولوں سے اڑتی اڑتی باغ سے باہر نکل گئیں۔ دونوں بھائی بہنوں نے ان کا پیچھا کیا۔ باغ سے ڈھلان، ڈھلان سے ندی، ندی پارکر کے ایک پہاڑ آتا تھا دونوں بھائی بہن تتلیوں کا تعاقب کرتے ہوئے پہاڑ پر چڑھ گئے۔ پہاڑ پر ایک جنگل تھا۔‘‘
’’بہت گھنا؟‘‘
’’بے حد گھنا؟‘‘
’’اور ڈراؤنا۔‘‘
’’اور ڈراؤنا؟‘‘
’’وہاں ایک شیر رہتا تھا۔‘‘ تاراں نے پوچھا۔
’’کہانی تو سناتی ہے یا میں ؟‘‘
’’اچھا اچھا آگے سناؤ۔‘‘
’’اس جنگل میں جا کر ایک تتلی ایک طرف کو بھاگی اور دوسری تتلی دوسری طرف۔ دونوں بھائی بہن جدا ہو گئے۔ بھائی نے بسنتی، لال اودی تتلی کا پیچھا کیا۔ بہن نیلی، سبز اور گلابی تتلی کے پیچھے بھاگی، جنگل گھنا ہوتا گیا، گہرا ہوتا گیا۔ کالا ہوتا گیا۔ دن میں رات نظر آنے لگی۔ آخر بھائی نے خوشی کی ایک چیخ مار کر بسنتی، لال اور ہری تتلی کو پکڑ لیا اور چلا کر کہا، میں نے پکڑ لی، بہن میں نے تتلی پکڑ لی لیکن مڑ کر جو دیکھا تو بہن غائب تھی!‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘تاراں کا سانس رکنے لگا۔ اس کی آنکھیں حیرت سے کھلتی چلی گئیں۔ پھر ننھا بھائی ننھی بہن کو جنگل میں ڈھونڈنے کے لئے نکلا۔ پیروں سے ٹکراتا، شاخوں سے الجھتا، کانٹے دار جھاڑیوں سے گزرتا اس پھڑپھڑاتی ہوئی تتلی کو ہاتھ میں لئے اپنی بہن کو آواز دیتا ہوا اسے ڈھونڈنے لگا۔ اسی طرح کئی گھنٹے گزر گئے۔ مگر اس کی بہن اسے نہ ملی۔‘‘
’’پھر بہن کہاں گئی؟‘‘
’’بہن دوسری تتلی کے پیچھے تھی نا۔ وہ نیلی سبز گلابی رنگ والی تتلی کے پیچھے پیچھے بھاگتی جا رہی تھی۔ تتلی آگے آگے اڑتی جا رہی تھی۔ جنگل گھنا ہوتا گیا۔ تتلی جنگل کے اندر ہی اندر اڑتی گئی۔ بہن پیچھے بھاگتی گئی۔ تتلی کو دیکھتے دیکھتے اسے یہ خیال ہی نہ رہا کہ وہ کدھر جا رہی ہے۔ آگے ایک چھوٹی سی ڈھلوان تھی، تتلی اس پر سے اڑ گئی۔ بہن نے بھی چھلانگ لگائی۔ نیچے جنگل میں گہرے پانی کا ایک چشمہ تھا، بہن اس میں ڈوب گئی۔‘‘
’’ہائے !‘‘ تاراں کے مونہہ سے بے اختیار نکلا اور اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ اس نے اپنے آنسو پیتے ہوئے کہا۔
’’جب دوپہر ڈھل گئی اور شام ہونے کو آئی اور بھائی کو اس کی بہن نہ ملی تو وہ تھک کر ایک گرے ہوئے پیڑ کے تنے پر بیٹھ گیا، اور رونے لگا۔ اتنے میں اس کے کانوں میں آواز آئی۔
’’اگر تجھے تیری بہن ڈھونڈ دوں تو مجھے کیا دے گا۔‘‘ بچے نے حیرت سے چاروں طرف دیکھا، مگر اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ آواز کدھر سے آئی تھی۔ اتنے میں اس کے کانوں میں پھر وہی آواز آئی۔
’’بھیا کو بہن سے ملا دوں تو مجھے کیا دو گے۔‘‘
’’یہ اس کے ہاتھوں میں پھڑپھڑانے والی تتلی تھی۔ لال بسنتی اور ہری تتلی جو در اصل ایک پری تھی۔ ‘‘
’’ہاں جبھی وہ بولتی تھی۔‘‘ تاراں کے چہرے پر امید اور خوشی کی ایک ہلکی سی لہر دوڑنے لگی۔
بھائی بولا۔’’اگر تو میری بہن مجھ سے ملا دے تو میں تجھے آزاد کر دوں گا۔‘‘
’’پہلے مجھے آزاد کر۔‘‘
’’لے !’’بھائی نے تتلی ہوا میں چھوڑ دی۔ تتلی نے اپنے رنگین پرپھڑپھڑائے اور ہوا میں اڑتے ہوئے بولی۔
’’اب میرے پیچھے پیچھے آ جا۔‘‘
’’تتلی اسے چٹانوں، پہاڑیوں، ٹیلوں، تنگ اور کٹھن راستوں پر سے لے جاتی ہوئی اس گھاٹی پر لے گئی، جس کے نیچے وہی گہرا چشمہ بہہ رہا تھا۔ جہاں اس کی بہن ڈوبی تھی۔ اور جس کنارے پر وہ ڈوبی تھی وہاں اسکے قریب کی گھاس پر گرے اودے مخملیں پتیوں والا تتلی نما ایک پھول کھلا ہوا تھا۔ جس کا ایک گچھا اس وقت تمہارے بالوں میں ہے۔
’’یہاں ہے تمہاری بہن!‘‘ تتلی نے کہا۔
’’کہاں ؟‘‘
’’وہ اس چشمے میں ڈوب کر مر گئی ہے۔‘‘ تتلی نے افسوسناک لہجے میں کہا۔
’’بھائی اپنی بہن کے لئے رونے لگا اور بسنتی، لال ہری تتلی کو جھوٹا اور دھوکے باز کہنے لگا، تو تتلی نے مسکرا کر کہا۔۔ ۔’’میں تیری بہن کو پھر سے زندہ کر سکتی ہوں، اگر تو ایک وعدہ کرے۔‘‘
’’وعدہ کر کہ آئندہ کبھی معصوم تتلیوں کو مارا نہیں کرے گا۔‘‘
’’میں وعدہ کرتا ہوں !‘‘بھائی نے صدق دلی سے کہا۔
’’تب…‘‘ تتلی اس سے بولی۔ ’’اچھا اب ایسا کراس ڈھلوان سے نیچے چشمے کے کنارے چلا جا اور جہاں اودے رنگ کا پھول کھلا ہے، اور اس پھول کو توڑ لے۔‘‘
’’پھول کو توڑنے سے کیا ہو گا؟‘‘
’’جیسا میں کہتی ہوں ویسا کر!‘‘
تب بھائی اس کٹھن ڈھلوان سے پھسلتا پھسلتا بڑی مشکل سے اس چشمے کے کنارے پہنچا جہاں وہ اودے رنگ کا پھول کھلا ہوا تھا، جوں ہی اس نے ہاتھ بڑھا کر اس پھول کو توڑا، پھول اس کے ہاتھ سے غائب ہو گیا۔ اور جہاں سے اس نے پھول توڑا تھا، وہاں پر اس کی بہن پانی میں بھیگی ہوئی کھڑی تھی۔‘‘
’’ارے !!!‘‘ تاراں خوشی سے چلائی۔
’’تب بھائی بہن دونوں ایک دوسرے سے گلے ملے اور خوشی سے رونے لگے۔ اس وقت گہری شام ہو چکی تھی اور جنگل سے واپس جانے کا راستہ نہ ملتا تھا۔ مگر ان دونوں تتلیوں نے پھر ان بچوں پر مہربانی کی۔ انہوں نے ان دونوں بچوں کو اپنے پروں پر بٹھا لیا کیونکہ وہ پریاں تھیں اور اب ان کے پر بہت بڑے بڑے اور روشن ہو گئے تھے۔ اور رات کے اندھیرے میں ایسے چمکتے تھے جیسے جگنو چمکتے ہیں۔ وہ دونوں پریاں ان دونوں بچوں کو اپنے پروں پر بٹھا کر انہیں جنگل کے اوپر اڑا کر لے گئیں، اور آنکھ جھپکتے ہی انہیں ان کے ماں باپ کے باغ میں پہنچا دیا۔ جہاں وہ دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے۔‘‘
’’بہت اچھی کہانی ہے۔‘‘ تاراں نے خوش ہو کر بنفشے کے پھولوں کا ہار میرے گلے میں ڈال دیا۔
میں نے کہا ’’تب سے باغوں اور چشموں کے کنارے یہ پینزی کے پھول کھلتے ہیں، تاکہ بچے ان سے اپنا دل بہلائیں اور معصوم تتلیوں کی جان نہ لیں۔‘‘
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں