FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 برف کی عورت

 

 

                   شاہین کاظمی

 

 

 

 انتساب

 

 

بحرین اسود کاظمی کے نام جس نہ ہونا خانقاہِ حرف میں مجاوری کا سبب ٹھہرا

 

 

 

 

 

 سیندھ

 

حجرے میں تیسری بار دو مہینوں کی حاضری پر باہر کھڑے مریدوں کی نظریں ایک بار اُٹھیں اور جھک گئیں۔۔ ہوا کی تیز سماعت دھیمی دھیمی سرگوشیاں لے اُڑی اور چپکے سے حویلی کی بلند دیواروں کے اُس پار لا پھینکا۔ زہرا بھیگی آنکھوں میں لرزتی حیرت چھپا کر یوں اِدھر اُدھر دیکھنے لگی جیسے چوری پکڑے جانے کا ڈر ہو۔ یہ نہیں کہ وہ اعلیٰ حضرت کے مشاغل سے بے خبر تھی لیکن پڑاؤ حلق سے نیچے نہیں اُتر رہا تھا۔ اندر کِن مِن شروع ہوئی تو وعدوں کی ڈال پر کھلے ننھے ننھے پھولوں پر کُہرا اُتر آیا۔ رشتے کے تن پر بھروسے کی نازک اور تنگ چولی مسکنے لگی۔

رَجو نے ملیح رُخساروں سے نچڑتا لہو اور لبوں کی لرزش بھانپ لی۔ جب لمبی مخروطی انگلیوں کی پوروں میں موت کی سی ٹھنڈک اُتری تو وہ بنا کہے پاس پڑا چنبیلی کے پھولوں والا تیل ہتھیلی پر اُنڈیل کر زہرا کے لمبے بال کھولنے لگی۔ اُس کی انگلیاں بہت ملائمت سے گھنے بالوں میں ڈوب اُبھر رہی تھیں۔۔ کَسی ہوئی سانولی رنگت والی بھری بھری کلائیوں میں پڑی سستی کانچ کی چوڑیوں نے ستار چھیڑ دیا۔

’’وہ اِس قابل ہے کہ لہو میں اُبال آئے ؟’‘

رَجو کا لہجہ ہموار تھا۔

 

’’ تو جانتی ہے مجھے دکھ طلبی کا نہیں مکرنے کا ہے’‘

زہرا کی آواز میں نا محسوس اداسی تھی۔

’’ شاہ بی بی آپ کی سانس کا ہر سُر پہچانتی ہوں قطرہ ماسہ جھول ہنیری گھُلا دیتا ہے۔۔ لیکن بات وہی جوتی لعل جڑی بھی ہو چاٹتی تو خاک ہی ہے نا’‘

رَجو منہ چڑھی بھی تھی اور مزاج شناس بھی یونہی تو مائی جی نے اسے زہرا کے ساتھ نہیں کیا تھا

’’ یہاں سامنے آ’‘

زہرا کی آواز میں کوئلے دہک رہے تھے بھیگی پلکوں تلے پیاس بھری کُرلاتی آنکھیں۔۔۔۔ رَجو ایک ٹُک اُسے دیکھے گئی۔

’’ ذرا پتہ لگا کون ہے یہ سیندھ لگانے والی؟’‘

’’بی بی کس کی مجال جو کوئی سیندھ لگائے حکم اور مرجی لہندے چڑھدے کے اَکھر ہیں۔۔ بھیتر پیار نہ ہو تو صرف بھوک۔۔۔۔۔۔۔’‘

رَجو کچھ اور بھی کہہ رہی تھی لیکن زہرا کہیں اور جا کھڑی ہوئی۔

’’ماں یہ بابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘

رات گئے بابا کے کمرے سے کالی چادر میں لپٹے سائے کو نکلتا دیکھ کر زہرا حیران تھی۔ ادھورے الفاظ کا پورا مطلب جان کر مائی جی کا اندر سیخ چڑھی بوٹی کی طرح سُوں سُوں کرنے لگا۔

’’ شاہوں کے چونچلے ہیں’‘

مائی جی ہنسیں آنکھوں میں اُترنے والے ساون کا رُخ آپوں آپ اندر کی طرف مڑ گیا۔

’’ اور وہ چونچلے چاہے کسی کا اندر چھلنی کر دیں’‘

’’ اندر کون دیکھتا ہے’‘ مائی جی کی آواز بہت دھیمی تھی۔

’’آپ نے بابا سے کبھی پوچھا نہیں’‘ زہرا حیران تھی

’’ پوچھا بہت بار پوچھا’‘

’’ پھر؟’‘

’’اللہ رسول کے نام پر کئے گئے گناہ کی لذت بڑی وکھری ہوتی ہے ایک بار سواد منہ کو لگ جائے تو بندہ حلال کھانے کے لائق نہیں رہ جاتا’‘

مائی جی کی آواز میں تلخی تھی۔

’’لیکن’‘

زہرا نے پھر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا ماں سے کبھی اتنی کھلی بات نہیں ہوئی تھی۔

’’یہ باتیں تیری سمجھ میں نہیں آئیں گی زہری نہ کھپ۔ قبروں کی مجاوری کرتے کرتے یہ خود بھی مردہ ہو گئے ہیں اور چلے ہیں دوسروں کو دوسروں کو جنت دلانے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نرا گند’‘

مائی جی پھٹ پڑیں۔۔

’’ پر یہ سب غلط ہے’‘

زہرا منمنائی۔

’’ زہری شاید ہماری خوشیوں کی چاٹی میں لگنے والی جاگ بد دعا ہوئی ہے لاکھ پہرے داری کرو بلیاں مکھن کھا ہی جاتی ہیں’‘

زہرا کچھ نہ سمجھی مگر اندر ایک گانٹھ ضرور لگ گئی پھر گانٹھیں بڑھنے لگیں پھنیئر ناگ کی طرح ڈستے سوال تنگ کرنے لگے۔۔

مراد شاہ دلدار شاہ کے بہترین دوستوں میں سے تھا۔ حویلی اور حویلی کے مکینوں سے اچھی طرح واقف بھی اکثر حویلی ہی میں نظر آتا۔ زہرا دسویں میں تھی جب اُس نے اپنا رشتہ بھجوایا۔ زہرا کے اندر لگی گانٹھوں میں سہم اُتر آیا وہ ایسی بے قراری سے حویلی میں پھرا کرتی مانو تلوؤں تلے کسی نے انگارے باندھ دیئے ہوں۔۔ فجر کی نماز کے بعد وہ رَجو کو لے کر مالٹوں کے باغ میں جا گھستی اور کھال کے ساتھ ساتھ کُہرے سے ڈھکے بنّے پر دیر تک ننگے پاؤں پھرا کرتی۔ رَجو اُسے دیکھ کر ہولا جاتی۔

’’بی بی پوہ کی سردی ہڈیوں میں اُتر جائے تو قبر تک ساتھ جاتی ہے’‘

وہ دھائی دیتی رہ جاتی لیکن زہرا ایک ہاتھ میں جوتے اور دوسرے ہاتھ میں شلوار کے پائنچے تھامے ایک بنّے سے دوسرے پر ٹاپتی رہتی اُس کی گلابی ایڑیاں گھاس کی ننھی ننھی پتیوں اور سیاہ مٹّی سے بھر جاتیں۔۔ اور رَجو بی بی پر آئے جن کا سوچ سوچ کر ہلکان ہوتی جاتی۔ وہ تھی بھی تو ایسی ہی۔ صبح کی پہلی کرن جیسی اُجلی، رَجو تو اُسے ہاتھ بھی سنبھل کر لگاتی۔ زہرا اُسے دیکھ کر دل کھول کر ہنسا کرتی اتنا کہ اُس کی اِسرار بھری سیاہ را توں جیسی آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگتے۔۔

’’ بی بی سنا ہے جس بندے کو ہاسا رلا دے وہ پورے دل سے ہنستا ہے،‘‘

رَجو اُسے دیکھے جاتی۔

’’ رَجو تُو تو عقل مند بھی ہے، ‘‘

وہ پھر سے ہنسنے لگتی

’’ بی بی حیاتی کی سیکھ کتابوں میں کہاں’‘

رَجو ایک دم سنجیدہ ہو گئی۔

’’گلے میں پھنسے خوف کے گولے اور بارہ سالہ بدن پر چڑھی لیرولیر کُرتی کے بھیتر رینگتے دس ناگ ساری حیاتی کا سبق اکو دن پڑھا دیتے ہیں’‘

زہرا کی ہنسی تھم گئی۔

’’ وجود درد نگل نگل کر آپھَر جاتا ہے’‘

’’ کون تھا وہ رَجو؟ کس نے قہر ڈھایا؟’‘

’’بی بی آسمان کے چپاڑ کھلے منہ سے اُترتے اندھیرے سارے کھُرے مٹا کر ہاتھوں میں سیکھ تھما دیتے ہیں’‘

رَجو کے درد سے آپھَرے وجود سے کراہیں اُٹھ رہی تھیں۔۔

’’اور پھر ہم جیسوں کا دیکھنا نہ دیکھنا برابر ہماری کُوک فریاد کون سُنے گا۔ اب تو عرصہ ہوا بات بھول بھال بھی گئی’‘

رَجو زبردستی ہنسی۔

زہرا چپ چاپ ہاتھ کی ریکھاؤں کو دیکھے گئی کہاں فرق رکھا اُس مصور نے جو ریکھائیں درد کی چوکھٹ پر آلتی پالتی مار کر ایسے بیٹھیں کہ وجود مٹنے لگا محض درد باقی رہ گیا۔ جبر عقیدہ بن جائے تو محبت کے پیمبروں کے حصے میں فقط صلیبیں ہی رہ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔ کوئی چارہ گری۔۔۔۔۔ کوئی شنوائی۔۔۔ سوہنے ربّا’‘

زہرا سسک اُٹھی۔

جب سے مراد شاہ کی نظر زہرا پر ٹکی تھی گرمیوں کی حبس بھری را توں میں موتیے اور جنگلی گھاس کی مہک لیے ہوا کے نرم جھونکے جیسی زہرا مرجھا گئی تھی۔

’’اِس موئے نامراد شاہ کو شرم بھی نہ آئی حویلی کا رُخ کرتے ہوئے ایک زنانی تو ہَنڈا چکا۔۔۔۔۔۔۔ ایسوں کو تو موت بھی نہیں آتی’‘

رَجو جھولی بھر بھر کوسنے دینے میں مشغول تھی کہ مائی جی نے چوٹی سے پکڑ کر گھسیٹ لیا

’’ کونسے پھول دھر رہی تھی زہرا کے سامنے’‘

مائی جی گرجیں۔۔

’’ تن کا ماس آپ کا ہُوا چھیل ڈالو پر وہ بی بی کے لائق نہیں’‘

رَجو مائی جی کے پاؤں پر گر پڑی۔

’’ بڑے شاہ جی سے بات کریں’‘

رَجو ابھی تک مائی جی کے پاؤں پکڑے ہوئے تھی۔

’’رَجو جتنی ہے اُتنی بات کر’‘

مائی جی غصے سے بولیں اور ہاتھ کے اشارے سے اُسے جانے کو کہا لیکن اندر سلگنے لگا تھا۔ بے آواز چیخیں سینے میں دھواں بھرنے لگیں۔۔ مراد شاہ مردوں کے کس قبیل سے ہے یہ وہ اچھی طرح جانتی تھیں، اُس کے نزدیک عورت نسل بڑھانے کی مشین کے علاوہ کچھ نہ تھی لیکن وہ یہ بھی اچھی طرح جانتی تھیں کہ زہرا کے باپ دلدار شاہ کے گلے میں پھنسی ہڈی نکالنا کتنا مشکل ہے۔۔

’’ ماں مراد شاہ کو منع کر دیں’‘

ایک دن زہرا نے جی کڑاکر ہی لیا۔

’’ ماں واری کاش یہ سب کچھ اتنا آسان ہوتا’‘

مائی جی سسک اُٹھیں ’’تیرا باپ نہیں مانے گا’‘

’’آپ بات تو کریں’‘ زہرا کی التجا مائی جی کا کلیجہ چیر گئی۔

’’عورت ذات کی مَت اَزل سے کھُری میں ہے شکر نہیں کرتی زہرا پیر زادہ مراد کے گھر جا رہی ہے ایک خلقت اُن کے در پر پڑی رہتی ہے’‘

مائی جی نے بات شروع ہی کی تھی کہ دلدار شاہ برس پڑا۔۔

’’کچھ خدا کا خوف کرو وہ تمہاری عمر کا ہے’‘

مائی جی کُرلا رہی تھیں۔۔

’’اب ایسا بھی اندھیر نہیں ہے تمہیں تو بس تماشا چاہیے ہوتا ہے’‘

’’نہ کر ایسا دلدار نہ کر زہرا مر جائے گی’‘

’’ مراد شاہ سے رشتہ جڑنے کا مطلب جانتی ہے کم عقل عورت’‘

دلدار شاہ گرجا۔

’’ہاں جانتی ہوں اور بہت اچھی طرح جانتی ہوں’‘ مائی جی کے لہجے میں زہر تھا

’’تیرے گلے میں پڑی اسمبلی کی سیٹ کی ٹلی تجھے چین نہیں لینے دے رہی’‘

دلدار شاہ ایک دم نرم پڑ گیا۔

’’ او بھلیئے لوکے میرا یقین کر زہرا وہاں خوش رہے گی’‘

مائی جی کا دل چاہا دلدار شاہ کی چھوٹی چھوٹی بوٹیاں کر کے چیل کووں کو کھلا دے۔۔

پھر زہرا کے سارے ترلے، دھائیاں، مائی جی کی دھمکیاں، آنسو سب دلدار شاہ کے گلے میں بندھا قومی اسمبلی کی سیٹ کا پٹّہ نگل گیا۔ مائی جی کے بین گونگے بہرے آسمان سے ٹکرا کر چھاتی میں پلٹتے رہے اور زہرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زہرا جیتے جی مٹّی ہو گئی

ساری عمر بلیوں کے سہم میں جینے والی مائی جی بیٹی کے نصیب میں لکھی اُس دہلیز سے خوفزدہ تھیں جس کے اُس پار بساند مارتے دودھ کی چاٹی رکھی تھی۔۔۔ بساند جو بلیوں کو دن رات طواف پر مجبور کیے رکھتی۔

چپ کی بُکل میں لپٹی زہرا کو مراد شاہ نامی مقبرے میں اُتار کر دلدار شاہ الیکشن کی تیاری میں لگ گیا اب تو دونوں علاقوں کے ووٹ اپنے تھے۔۔

’’ اب دیکھتا ہوں قیصر شاہ کیسے جیتتا ہے’‘

دلدار شاہ کی باچھیں کانوں تک چِری ہوئی تھیں طاقت کا نشہ ہوتا ہی ایسا ہے۔۔

 

گدی نشین گھرانوں کے مردوں کے مشاغل سے زہرا اچھی طرح واقف تھی اِس نے اپنی ماں کو ساری عمر بھو گتے دیکھا تھا اب وہی پیاس اُس کی ہتھیلی پر اُگ آئی تھی۔ اِن سنگی دیواروں کے اُس پار اگر کوئی انسان تھا تو مرد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عورت تو موٹی موٹی انگلیوں میں اَڑسا سگریٹ تھی چٹکی بجا کر سلگتے سرے کی راکھ جھاڑی دو چار کش لیے اور پھر سے سلگنے کو چھوڑ دیا۔

حویلی کی سنگی دیواروں کے بیچ زہرا کا دم گھُٹتا تھا مراد شاہ کو دیکھ کر اُسے اُبکائی روکنا مشکل ہو جاتا۔ دن بھر تو وہ حویلی کے کونوں کھدروں میں پناہیں تلاش کیے جاتی لیکن ڈھلتا سورج اُسے رشتے کی صلیب پر گاڑ کر خود اندھیروں میں اُتر جاتا۔ زہرا کا تن من درد نگلتے نگلتے نڈھال ہو جاتا۔ صبح کے ساتھ وہ روح کی سلوٹیں سمیٹے پھر کسی پناہ گاہ کی تلاش میں بھٹکنا شروع کر دیتی۔ ایک دن جب اُسے اچانک مکھن کے پیڑے پر گڑے بلی کے پنجے نظر آئے تو اُس کی کُر لاہٹیں حویلی کے باہر تک سُنی گئیں۔۔

’’ اب کیا پیری مریدی چھوڑ کر تمہارے گوڈے سے لگ کر بیٹھا رہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مریدنیاں آئیں تو نوازنا پڑتا ہے’‘

مراد شاہ کی آوازمیں نرمی تھی زہرا اُسے دیکھے گئی۔

’’لیکن تو فکر نہ کر مسافری رہے گی پڑاؤ کا حق صرف تمہارا ہے’‘

وہ سخی بھی تھا یہ زہرا کو آج معلوم ہوا۔ اندر پڑی گانٹھوں میں سُول اُگ آئے جنہوں نے چھید کرنے شروع کر دیئے۔

’’ یہ تیرے اور مراد شاہ کے بیچ کیا چل رہا ہے’‘ یہ زہرا کی ساس تھی۔

’’ تو جانتی ہے نا تجھے یہاں کیوں لایا گیا ہے’‘

” مجھے سانجھ منظور نہیں ”

” لو اور سُنو! بی بی ہوش کی دوا کر یہ تیرا باوا کا گھر نہیں جو یوں تنی بیٹھی ہے ”

تو بھیج دیں نا مجھے باوا کے گھر’‘ زہرا مکمل طور پر حواس کھو بیٹھی تھی۔

” دیکھ زہرا بات مت بڑھا میری مجبوری سمجھ کہا ہے مسافری رہے گی پڑاؤ کا حق صرف تمہارا ہے ”

مراد شاہ نے ہاتھ جوڑ دیئے تو زہرا خاموش ہو گئی۔

اُس دن سے مراد شاہ باہر حجرے میں رہنے لگا بڑی بی بی بہت تلملائی لیکن مراد شاہ نے یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ الیکشن سر پر ہیں وہ کوئی جھمیلا نہیں پال سکتا۔ مراد شاہ من میں بسا ہی کب تھا کہ اُتارا جاتا۔ بس حویلی اور حجرے کے درمیان ایک خاموش سمجھوتا سا طے پا گیا۔ لیکن جب بھی کوئی سرگوشی حویلی کی دیوار پھلانگ کر اِس طرف آتی تو زہرا کے بدن میں بے چینی بھر نے لگتی۔

’’شاہ بی بی یہ رشتہ اَک کے دودھ جیسا ہوتا ہے ایک بار لگ جائے تو لاکھ دھونے پر بھی جلن نہیں جاتی’‘

رجو اُسے دلاسے دئیے جاتی۔

” تُو اُس سیندھ لگانے والی کا پتہ لگا”

"جو حکم زہرا بی بی”

"کیا ہوا ؟”

رَجو اندر آئی تو زہرا اُس کی سانولی رنگت میں گھلتی زردیاں دیکھ کر گھبرا گئی۔

’’معاف کرنا شاہ بی بی’‘

رَجو گرنے کے سے انداز میں زمین پر بیٹھ گئی اُس کے چہرے پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔۔

’’ کبھی کبھی بندے کا خود پر سے اختیار ختم ہو جاتا ہے وقت بہت اُونترا ہے ایسے پھٹ لگاتا ہے کہ ساری گُجی پیڑیں جاگ اُٹھتی ہیں’‘

’’گئی تو سیندھ لگانے والی کا پتہ کرنے تھی پر اپنی عجت میں سیندھ لگ گئی شاہ بی بی۔ اُس وقت تو ناگ رَجو کو ڈس گیا تھا اور رَجو دیکھتی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر آج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج رَجو نے ناگ کو ڈس لیا’‘

’’کیا کہہ رہی ہے رجو’‘

زہرا چِلّا پڑی۔

’’بی بی میں نے قہر ڈھا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج میں جَر نہیں سکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوجی وار نہیں بی بی دوجی وار نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے معاف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’‘ رَجوکی آواز ٹوٹ رہی تھی

’’میں نے تیرا سر ننگا کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد شاہ کو موہرا پَلا دیا اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’‘

’’اور مجھے اس کا ساتھ تو دینا ہی تھا’‘

رجو نے ہنسنے کی کوشش کی۔

اور زہرا سُن ہوتے ہوئے ذہن کے ساتھ مرتی ہوئی رَجو اور باہر سے آتے قیامت خیز شور کے درمیان معلق رہ گئی۔

٭٭٭

 

 

 

 ایک بوسے کا گناہ

 

گھنے پیڑوں کے کھردرے بدن چھیل کر بہتی ہوا پتوں کی سسکاریاں سُن کر لمحہ بھر کو ٹھٹکتی غضب ناک ہوتی اور پھر سے اپنی نادیدہ انگلیوں سے پیڑوں کی بدن نوچنے لگتی۔ بادلوں سے اُترتی دھند منظر نگلنے لگی تھی۔

’’سنو میرا جی چاہا دھند کے حلق میں ہاتھ ڈال سارے منظر نکال لوں اور دوبارہ اپنی جگہ پر بو دوں’‘

سایہ آہستگی سے بولا۔

میرا پاؤں زور سے پتھر سے ٹکرایا انگوٹھے کا ناخن اُکھڑ گیا تھا بھل بھل لہو بہنے لگا۔ پتھریلی دیوار پر بیٹھا کوّا پوری طاقت سے چلایا۔

’’چل ہٹ’‘ سائے نے اُسے پتھر مارنا چاہا۔

’’شش۔ یہ سندیس لاتا ہے۔۔ ..۔ .. کالے کوّے۔۔ ..۔ .کیا سندیس لائے ؟’‘ دیوار پر بیٹھا سایہ ہنسنے لگا۔

’’تم جانتی ہو پیروں تلے سے بہشت کھینچ کر جہنم دہکا دی جائے تو آنے والی نسلوں کے چہروں پر کوڑھ اُگنا شروع ہو جاتا ہے۔۔ بدصورت اور سفاک کوڑھ جو لپلپاتی زبان سے بدن چاٹنا شروع کر دیتا ہے۔۔ جھڑتے ہوئے ماس سے اُٹھتا تعفن صدیوں فراموش نہیں کیا جا سکتا’‘

سائے نے سرگوشی کی۔

’’تم بہت بولتے ہو’‘

’’اور تم میری کبھی بھی نہیں سنتیں’‘

’’اب سنوں گی’‘

’’تم ایسی کیوں ہو گئی ہو؟۔ ..۔ بے حس، پتھر جیسی’‘ سایہ سسک اٹھا۔

’’پاگل روتے نہیں۔۔۔۔ لوگ۔ ..۔ . لوگ ہنستے ہیں۔۔ ..۔ .سب ہنستے ہیں۔۔ ..۔ دیکھو۔ .. میرا پیر دیکھو نا۔ ..دکھتا ہے۔۔ .. گندہ۔ ..۔ مٹّی سے سَنا ہوا۔ ..۔ .اسی لئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’‘

’’کیا اسی لئے ؟’‘

’’بہشت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہشت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ پیروں تلے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف جہنم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہنم ہے’‘

سائے نے بڑھ مجھے گلے لگا لیا آنسو گرتے رہے۔۔

’’زریں اِنکار مت کرنا میں مر جاؤں گا’‘ آواز بہت قریب سے آئی تھی۔

یہ مرتضیٰ تھا۔۔۔۔۔ ہمارے پیرو مرشد کا بیٹا جو مجھ ناس پٹّی پر مر مٹا تھا۔

’’زری آپ سے پہلے دم دے دے گی صاحبا۔۔۔۔۔ لیکن دھرتی کی دھول آسمان چڑھ کر بھی دھول ہی رہتی ہے’‘

’’نہیں زری پارس چھو جائے تو دھول بھی زرنگار ہو جاتی ہے’‘

دھند کی سرد پوریں بدن ٹٹول رہی تھیں۔۔ پیروں تلے چِرچِراتے ننھے ننھے پتھر ماس میں اُترے تو میں اچانک خوفزدہ ہو گئی۔

’’کوڑھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوڑھ ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بُو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بُو آ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب کو آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب کو بُو آتی ہے’‘ دروازے دھڑ دھڑ کھلنے بند ہونے لگے سایہ مجھ سے روٹھ کر پتھریلی دیوار پر جا بیٹھا اُس کی آنکھوں میں غصہ اور دکھ تھا۔

’’بخت میں کالک تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کالے کوّے جیسی۔۔۔۔۔۔ سندیس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تھا سندیس کوّے کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔۔۔ یہ سندیس تھا’‘

’’میری بات کا جواب دو’‘ سایہ بضد تھا۔

’’تم جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاؤ تم۔۔۔۔۔ نہیں بولوں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم سے نہیں بولوں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روشنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بتی بجھاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھیں دکھتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ جاؤ’‘ میں چیخی۔

مرتضیٰ کی سانسیں میرے گالوں سے ٹکرا رہی تھیں آنکھوں سے دونوں جہاں کی بیقراریاں چھلک پڑیں۔۔ میرے دل میں ہُوک سی اُٹھی اور میں ڈھ گئی۔

’’سنو’‘ میں نے کچھ کہنا چاہا لیکن لبوں پر لگا گرم ہونٹوں کا قفل نہ کھل سکا ۔میں کسمسا کر پیچھے ہٹ گئی۔

اُس کی گیلے ہونٹوں پر عجیب سی مسکان تھی میں خواہ مخواہ ہی بدن چُرانے لگی۔

’’اب کہو’‘ سایہ دیوار سے اُتر کر پھر سے میرے پہلو میں آن بیٹھا۔

’’کیا؟’‘

’’کیا یہ غلطی نہ تھی؟’‘

’’وہ اچھا ہے۔۔۔۔۔۔ بہت اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم سے بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سنا تم نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم سے اچھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ’‘

یکایک روشنی کا جھماکا سا ہوا، دھند اندھے چوپائیوں کی طرح بھاگنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مٹّی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت ساری مٹّی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گرتی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گرتی گئی

’مٹّی ہٹاؤ۔۔۔۔۔ مٹّی ہٹاؤ۔۔۔۔۔۔۔ پاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹانگیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاتھ۔۔۔۔۔۔۔۔ باہر نکالو۔۔۔۔۔۔۔ مجھے باہر نکالو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نکالو نا” اور سایہ سسکتا رہا۔

’’ زریں’‘ ماں نے مجھے جھنجوڑ ڈالا۔

’’ آں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہوا ماں’‘

میں بوکھلا گئی ماں کی آنکھوں میں حیرت تھی۔

’’ تُو کام کرتے کرتے کہاں کھو جا تی ہے’‘ دیکھو تو روٹی جل گئی۔

ماں نے جلی ہوئی روٹی توے سے اُتار کر مجھے تادیبی نظروں سے دیکھا۔

’’اللہ جانے دھیان کہاں ہوتا ہے اِس لڑکی کا’‘

’’ میرا دھیان’‘

بے اختیار میری اُنگلیاں میرے لبوں سے ٹکرائیں توے پر روٹی کے ٹکڑے کالے ہو رہے تھے۔۔ چھت پر بیٹھا کوا آنگن میں اُتر آیا۔

ایک سرد لہر میرے وجود میں اُٹھی اور مجھے ڈبو گئی۔ رات مصلّے پر میری آنکھ سے پھسلتے آنسو مجھے شرمسار کر گئے تھے۔۔ اُس کے حضور جاتے ہوئے قدموں میں لغزش تھی کہیں اندر گناہ کا احساس اُمڈ آیا تھا۔ ’’ صرف احساس کیوں ؟’‘

سایہ سفاک ہو چلا تھا۔

’’گناہ کو کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا’‘

میں خاموش رہی۔

’’یہ گناہ نہ تھا’‘

سائے نے لمحہ بھر مجھے دیکھا اُس کے لبوں پر مسکراہٹ اُبھری اور پھر وہ ہنستا چلا گیا دیوانہ وار۔ میرا جی چاہا اِس کا منہ نوچ لوں منحوس نہ ہو تو۔

’’ دیکھ زری’‘

مرشد زادے نے میرا ہاتھ پکڑ لیا میرے اندر ہلچل مچ گئی، کئی دنوں تک شرمندہ شرمندہ مصلے پر کھڑا ہونا یاد آیا گیا اس نے میری بے چینی بھانپ لی اور مسکراتے ہوئے میرا ہاتھ چھوڑ دیا

’’ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں’‘

میں اُس کی بات سن کر بے جان سی ہو گئی۔

’’ یہ نہیں ہو سکتا قرنوں کے بُعد مٹا نہیں کرتے مرتضیٰ’‘

میں تلخ ہونے لگی۔

’’ میرا اعتبار کر زری’‘

اُس کے لہجے میں کچھ تھا میں ایک بار پھر سے ڈھ گئی

نصیب کو پنکھ لگ جائیں تو دھنک چھوئی جا سکتی ہے اور میں نے دھنک چھو لی تھی۔ ہمارے نکاح میں صرف میرے رشتے کے ماموں اور مرتضیٰ کا ایک دوست شامل تھے ماں بے خبر تھی میں اُس سے آنکھ ملاتے ہوئے ڈر رہی تھی مبادا وہ دھنک لمحوں کی تفسیر نہ پڑ لے۔۔

پیڑوں کے بدن نوچتی ہوا سسکنے لگی بادلوں سے اُترتی دھند ذہنوں پر جم رہی تھی منظر سرمئی بے کیفی اُوڑھ کر پتھر ہو گئے۔۔ میری پوروں سے دھنک رنگ چھٹنے لگے جنت کی مشکبار مٹّی میں تھوہر اُگ آیا دھنک لمحے جانے کب کالی رات کو نیوتا دے بیٹھے غبار بڑھنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں بہت یاد آئی

مجھے دروازے کی دھاڑ یاد ہے۔۔۔۔۔۔ گھنی موچھوں تلے کف اُڑاتے لب اور برمے کی طرح روح میں اُترتی چنگھاڑ

’’حرامزادی تجھے میرا ہی بیٹا ملا تھا پھانسنے کو’‘

گال پر دھرے انگارے نے سر میں چھید کرنا شروع کر دیا

’’ سرکار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اُٹھ کھڑی ہوئی

چرر کی آواز کے ساتھ پھٹتی ہوئی آستین اور رِستا ہوا لہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ہم نے شا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گال پر ایک اور انگارہ سلگ اُٹھا میں دیوار میں جا لگی

میرے ہاتھ میری کوکھ پر تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’کیا میں اِسے بچا پاؤں گی’‘

’’تُو میرے بیٹے کی رکھیل بننے لائق نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تجھے بیوی بنائے گا؟’‘

بڑی سرکار نے میرے کانوں میں خوف اُنڈیلا

’’ ہمارے ٹکڑوں پر پلنے والی دو کوڑی کی لڑکی۔۔۔۔۔۔۔ مالکن بننے چلی ہے’‘

تلے دار کھسّے کی کھرداری نوک پوری طاقت سے میری کمر سے ٹکرائی۔۔۔۔۔۔۔ خوف درندہ ہے زندہ انسانوں کی سانسیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پی کر پلتا ہے میں نے اِس آسیب کو خود سے جدا کرنا چاہا لیکن ناکام رہی۔

چار تنومند سانڈوں کے بازوؤں میں جکڑا مرتضیٰ بُری طرح چِلا رہا تھا سانولی رنگت والے نے بڑی سرکار کے اشارے پر جانے کیا کیا مرتضیٰ ایک لاش کی طرح اُن کے بازوؤں میں جھول گیا میری سانسیں رُکنے لگیں۔۔

’’یہ وجہ تھی’‘

سائے کی سرگوشی اُبھری، وہ بدستور دیوار پر بیٹھا ہوا تھا۔

’’یہاں گناہ و ثواب الگ الگ تُلتا ہے، حیثیت کے مطابق۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تُو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تُو کیا ہے ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک کمی کی اولاد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیرا ثواب پر حق ہے ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لاکھ پڑ ھ لکھ لے۔۔۔۔۔۔۔۔ تیری اوقات نہیں بدلے گی’‘

سایہ پھر ہنسنے لگا۔

’’سر دکھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت۔۔۔۔۔۔۔ ہنسو مت۔۔۔۔۔۔۔ دکھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔’‘

’’ تم سمجھ کیوں نہیں رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سائے کی آواز میں بے بسی تھی ’’لیکن اب سمجھنے کا فائدہ بھی کیا’‘

’’میں بُری ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ بتاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بتاؤ نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بُری ہوں’‘

’’نہیں تم بُری نہیں۔۔۔۔۔۔۔ نہیں بُری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گدھ بھوکے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانی میں زہر گھلا ہوا ہے آئینے ڈرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا ہے یہاں سے چلی جاؤ۔۔۔۔۔ جاؤ یہاں سے’‘

سا یہ پھر سے رونے لگا۔

’’میں نے۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس ایک بوسہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بوسہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ ناراض ہے ؟’‘

’’آسمان محدود ہو جائے تو کب نظر آتا ہے’‘

سائے نے منہ پھیر لیا۔

’’کیا ہوا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روتے نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاگل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں روئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں نا’‘

وہ منہ موڑے کھڑا رہا۔

’’لوگ دیکھ رہی ہو؟’‘

اُس نے میدان میں چاروں طرف کھڑے لوگوں کی طرف اشارہ کیا۔

’’ یہ مداری ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ بے بسی کا تماشا لگاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بڑی بڑی سفید پگڑیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کوّے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اِس کوّے سے بدتر ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ روٹی چھنتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ زندگیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گدھ۔۔۔۔۔۔۔ زندہ انسانوں کو نوچنے والے گدھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ’‘

سایہ کچھ اور کہنا چاہتا تھا، لیکن سر میں جیسے دھماکہ سا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ آنکھوں میں گرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گاڑھا اور سرخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’خون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خون۔۔۔۔۔۔۔’‘

سایہ بری طرح چِلّانے لگا۔

’’میرا بیٹا بے گناہ ہے’‘

بڑی سرکار دھائی دے رہے تھے۔۔

’’مگر ہم نے تو شادی کی تھی’‘

سایہ جانے کس سے مخاطب تھا۔

’’نہیں میری بیٹی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’‘

ماں رو رہی تھی۔

’’ بات پوری کرو’‘

بڑی سفید پگڑی چِلّائی۔

’’تم نے اپنی بیٹی کی شادی کب کی تھی؟’‘

ماں خاموش تھی اور ماموں غائب۔

’’ ایک بات سمجھ نہیں آئی یہ لڑکی آپ کے بیٹے کا نام کیوں لے رہی ہے ؟’‘

سفید پگڑی الجھ ہوئی تھی۔

’’یہ میرے بیٹے کو بدنام کرنے کی کوشش ہے’‘

’’ وہ تو پچھلے چار ماہ سے گاؤں آیا ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ سب سے گواہی لے سکتے ہیں اس لڑکی کا دماغ خراب ہے آپ نے دیکھا نہیں۔۔۔۔۔۔ وہ مسلسل اپنے آپ سے باتیں کیے جا رہی ہے’‘

دھماکے تیز ہو رہے تھے، سیال ہر طرف سے رسنے لگا۔۔۔۔۔ درد۔۔۔۔۔ بے انتہا درد۔۔۔۔۔۔۔۔ منہ میں لہو کا ذائقہ گھل رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہونٹ۔۔۔۔۔۔۔ ہونٹ۔۔۔۔۔ دیکھو نا۔۔۔۔۔۔۔’‘ نچلا ہونٹ درمیان سے بُری طرح پھٹ چکا تھا۔

’’ مرتضیٰ’‘ سایہ چِلّایا

’’ دیکھو نا اَمرت رَس میں ڈوبی قاشیں’‘

ایک اور بڑا پتھر چہرے پر لگا رخسار کی ہڈی اندر دھنس گئی چہرہ پچک گیا تھا۔

اچانک سایہ لرزنے لگا تین ماہ اندھیری کوٹھڑی میں گزار کر روشنی آنکھوں میں چبھنے لگی تھی کلائیوں میں بندھی رسیوں کے نشان کاٹنے لگے۔۔ بڑی سرکار کے سارے وفادار کتے روز کوٹھڑی کا دروازہ کھولتے بند کرتے سایہ انھیں دیکھ کر کونے میں دبک جاتا لیکن آنے والا اُسے دبوچ لیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس کی چیخیں۔۔۔۔۔۔’‘

’’چپ ہو جاؤ۔۔۔۔۔ چپ ہو جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دروازہ۔۔۔ دروازہ بند کرو۔۔۔۔۔ بتی بجھا دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بجھا دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔’‘ وہ چیختا جاتا۔

’’۔۔۔۔۔۔۔۔ درد۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت درد ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔’‘

میں بھی چیخنے لگی، لیکن درد تھما نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑھتا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روز۔۔۔۔۔

’’کالک کیسے اُترے گی۔۔۔۔۔ کیسے ؟’‘

’’یہ لڑکی بدکار ہے ثبوت کی ضرورت تو نہیں ہے نا’‘

بڑی سرکار نے ابھرے ہوئے پیٹ کی طرف اشارہ کیا۔

’’ہمارا دین کہتا ہے بدکاری کا مرتکب سنگسار کر دیا جائے’‘

سفید پگڑی فیصلہ صادر کر چکی تھی۔

’’ آپ سب کی کیا رائے ہے ؟’‘

’’ایسے گناہگار کو معاف کرنے کا مطلب پروردگار کو ناراض کرنا ہے اِس نیک کام میں پہل میری طرف سے ہو گی’‘

سایہ دھاڑ رہا تھا گڑ گڑا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اپنی بے گناہی کے واسطے دے رہا تھا۔

’’ سندیس۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سندیس ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ کوّے۔۔۔۔۔۔۔۔ کالے کوّے۔۔۔۔۔۔۔۔’‘ لیکن کوّا دیوار خالی کر چکا تھا

’’وہ مر جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’‘

سایہ بلک اُٹھا ’’میرا بچہ مر جائے گا’‘

’’میرا بچہ مر جائے گا’‘

میں بھی اُس کے ساتھ چِلّانے لگی۔

لیکن ہاتھ نہیں رکے پتھر بڑھنے لگے اور سائے کے سوال بھی۔

آنکھوں میں لہو بھرنے لگا تھا منظر دھندلا گیا۔ سائے نے ایک نظر مجھے دیکھا بڑھ کر سفید پگڑی کے منہ پر تھوکا اور دیوار پر جا بیٹھا۔

سارے نیکو کار پتھر برسا کر اپنے اپنے گناہ دھونے میں مصروف تھے۔۔ اندھیرا بڑھنے لگا شاید شام ہو رہی تھی یا بادلوں سے اُترتی دھند نے منظر نگل لیا تھا۔ ایک اور بڑا پتھر اُس کے سر سے ٹکرایا سائے نے دیکھا اُس کا سر ایک طرف کو ڈھلک رہا تھا وہ آہستگی سے اُٹھا اور اُس کے ریزہ ریزہ وجود کے گرد بلند ہوتی پتھروں کی دیوار پر سر ٹکا دیا اندھیرا پھیل چکا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 کنسنٹریشن کیمپ

 

ً ’’درد مذہب ہے۔۔۔۔۔۔ ایسا مذہب جو منکرین کے باعث پنپتا اور پھلتا پھولتا ہے یہ بات عجیب اور خلافِ فطرت سہی لیکن حقیقت یہی ہے۔۔ تم سب خوش قسمت ہو جو اِس مذہب میں داخل کیے گئے کیونکہ آنے والا زمانہ منکرین پر نفرین بھیجے گا یہ یاد رکھنا درد آخری درجے پر پہنچ جائے تو طاقت بن جاتا ہے اِس طاقت کو اوڑھ لو تمہیں اِس کی ضرورت پڑنے والی ہے’‘

 

مائیکل آسائیو

سولہ جنوری انیس سو چوالیس

۔ ..۔ ..۔ ..۔

آج کا دن بھی عام سا دن تھا۔۔۔ سرد سرمئی اور اداس کر دینے والا۔ لیکن اُداسی کا لفظ شاید میں نے غلط کہا اِس جگہ اداسی کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہم سب اداسی کو بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔۔ احساسات کا تعلق تو روح سے ہوتا ہے اور جب روح مر جائے تو احساسات بھی مر جاتے ہیں۔۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں ہذیان بک رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھلا روح بھی کبھی مر سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر روح بھی مر جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بدن کو ہی اپنا مدفن بنا لیتی ہے۔۔ اندر اُگا یہ قبرستان انسان کو ہر احساس سے عاری کر دیتا ہے جیسے ہم میں سے اکثر ہو چکے ہیں۔۔ احساسات اُس وقت تک اہم ہوتے ہیں جب تک اُمید سے رشتہ قائم ہے کہ اُمید زندگی کی طرف لے جاتی ہے اس کی تمام تر خوبصورتیوں کی طرف اُن راحتوں کی طرف۔ جن کا تصور بھی میرے لیے محال ہے یا کم از کم اب محال ہے۔۔ میری نظریں اُس دروازے پر گڑی ہوئی ہیں بھاری بوٹوں کی ٹھوکر سے کھلنے والا یہ دروازہ ہم میں سے کتنوں کو زندگی سے کاٹ کر اُس راستے پر ڈال دیتا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی۔

میں جانتا ہوں چند لمحوں کا کھیل باقی ہے۔۔ اصل میں کھیل ہوتا ہی چند لمحوں کا ہے چند فیصلہ کُن لمحوں کا جو ہماری بقا یا فنا کا فیصلہ سناتے ہیں۔۔ میرے اِرد گرد ٹھنڈے ٹھار فرش پر جانے کس انتظار میں بیٹھے ہوئے یہ لوگ بھی تو لمحوں کے ہی اسیر ہیں۔۔ فرق ہے تو بس اتنا کہ انھوں نے خود کو لمحوں کے ہاتھوں میں سونپ دیا ہے۔۔ مجھے معلوم ہے بعض اوقات نہیں اکثر زندگی آپ کو انتخاب کا موقع نہیں دیتی۔ اور اِن کی چٹخی ہوئی ہڈیوں پر منڈھی ہوئی سوکھے چمڑے جیسی کھال اُس پر لگے بیسیوں سرخ اور سیاہ پڑتے دھبے آنکھوں سے ٹپکتی وحشت اِس بات کی گواہ ہے کہ زندگی نے اپنا انتخاب اِن پر ٹھونسا ہے۔۔

میری نظر پھر سے اُس بوسیدہ کاغذ پر پڑی۔

’’وہ کون ہے ؟’‘ سوالوں کی بوچھاڑ کے ساتھ مجھے زبر دستی سٹرالائزیشن کے عمل سے گزار کر باپ بننے کی خوشی سے ہمیشہ کے لیے محروم کر دیا گیا بلکہ شاید میرے اندر سے اُس حس کو ہی مکمل طور پر کھرچ دیا گیا۔ وہ مجھ سے نہ جانے کیا اگلوانا چاہتے تھے۔۔ بھاری بوٹوں کی آہنی نوکیں میری پسلیوں اور کمر سے ٹکرا رہی تھیں میں اپنی چیخیں نہ دبا سکا پہلی چیخ ابھرنے پر لمبے گرم کوٹوں پر ٹنگے چہروں پر ابھرنے والا تبسم جب ہنسی میں ڈھلا تو مجھے میری غلطی کا احساس ہو گیا لیکن دیر ہو چکی تھی۔ پاس کھڑے اور کوٹ بھی اِس کھیل میں شریک ہو گئے پھر روز یہ کھیل کھیلا جانے لگا۔ میں جانتا تھا جس دن میری چیخیں رکیں گی میری سانسیں بھی روک دی جائیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کب تک یہ کھیل جاری رکھ پاؤں گا؟

کب تک؟’‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کارول یلدوف

دو فروری انیس سو چوالیس

 

’’میں اس دھاری دار دنیا سے تنگ آ چکا ہوں یہاں ہم انسان نہیں دھاری دھار یونیفارم پر لگی کپڑے کی اُلٹی رنگین تکونیں ہیں کوئی سرخ تکون کوئی سبز اور کوئی پیلی بازو کمر کے طرف لے جا کر پتھریلے ستونوں سے موت کے انتظار میں بندھے وجود مجھے ڈراتے ہیں میں اُن کی طرف نہیں دیکھ سکتا لیکن مجھے گھنٹوں وہاں کھڑا رہ کر انھیں دیکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اس اذیت کدے میں نہیں رہ سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے یہاں سے جانا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کیسے ؟ میرے پاس تو کوئی دوسرا انتخاب ہے ہی نہیں۔۔۔۔۔۔ ہم میں سے کسی کے پاس بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید کوئی دوسرا انتخاب ہوتا بھی نہیں ہے۔۔۔۔ اگر کوئی اور انتخاب ہوتا تو میں نہایت آسانی سے سرخ فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کر سکتا تھا لیکن میری مرضی پوچھی کس نے ؟ بس ٹھونس دی گئی انتخاب کا موقع دئیے بغیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹو ہیل ود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیت میر اینا نوف

آٹھ مارچ انیس سو چوالیس

۔ ..۔ ..۔ .

میں جانتا ہوں ہم میں سے بہت سے ابھی تک اُمید کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔۔ وہ ہر روز کھڑکی سے طلوع ہوتے سورج کو دیکھتے ہیں تو مرتی ہوئی روح کی سانسیں بحال ہو جاتی ہیں۔۔ بُلند دیواروں کے اُس پار بھی زندگی اپنا حسن کھو رہی ہے۔۔ جنگ نے اس کے چہرے سے خوبصورتی نوچ کر خوف و ہراس اور انمٹ درد رقم کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طاقت کے نشے میں دھت یہ لوگ ہم جیسے انسانوں کو اس جنگ کا ایندھن بنائے ہوئے ہیں۔۔ جب کہ جنگ اور امن۔۔۔۔۔ دو الگ الگ دنیاؤں کی باتیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ جہازوں کی گھن گرج اور توپوں کی گڑ گڑاہٹ زندگی سے ساری لطافت نچوڑ کر اسے ایک ایسے پھوک میں بدل دیتی ہے جس کا مقدر فقط گلیوں میں رُلنا رہ جاتا ہے۔۔ یہ بات جانتے ہوئے بھی ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو اُمید کے در پر ما تھا ٹیکے ہوئے ہیں۔۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اُمید پالنا غلط ہے لیکن زندگی میں کچھ مقام ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں اُمید موت سے بدتر ہوتی ہے۔۔ میں جب اس قید خانے میں آیا تھا یا یوں کہیے کہ جب مجھے یہاں لایا گیا تو چند گھنٹوں کے بعد ہی مجھے احساس ہو گیا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔۔

اُس دن جب پہلا گروپ میرے سامنے اُس بڑے آہنی دروازے کی طرف لے جایا گیا تو میں کچھ نہیں سمجھ پایا میری آنکھوں میں تجسس حیرت اور کرب تھا۔ اُن میں سے بیشتر کو زندہ کہنا بھی زندگی کی توہین تھی ہڈیوں پر منڈھا چمڑا۔۔۔۔۔۔۔ اس پر بے تحاشا سرخ اور کالے پڑتے گھاؤ بھوک کی شدت سے پسلیوں میں گھسے ہوئے پیٹ۔۔۔۔۔ اندر کو دھنسے گال۔ ہاں اگر کچھ تھا تو وہ آنکھیں تھیں جو ان کی اندرونی کیفیات کی کہانی سنا رہی تھیں۔۔ تب ہی وہ لمبا سا بھاری بھرکم شخص میرے سامنے سے گزرا اُس کے جسم پر وہی مخصوص دھاری دار لباس تھا جس پر جا بجا سیاہ پڑتے خون کے دھبے نمایاں تھے۔۔ وہ اچانک لڑکھڑایا اور میرے سامنے ڈھیر ہو گیا۔

غیر ارادی طور پر میرا ہاتھ اس کی طرف بڑھا اِس سے پہلے کہ کوئی للکار ہمیں روکتی اُس کا ہاتھ میرے ہاتھ سے ٹکرایا مجھے اپنی ہتھیلی پر کچھ محسوس ہوا مٹھی اپنے آپ بھینچ گئی اور میں تیزی سے دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ سیاہ بھاری پوری طاقت سے اُس کی پسلیوں سے ٹکرا رہے تھے لمبا تڑنگا بدن درد کی شدت سے دوہرا ہونے لگا۔

’’ مارچ آن’‘ لمبے کوٹ پر ٹنگے کرخت چہرے کے منہ سے دھاڑ نما آواز بر آمد ہوئی

اُس کے کوٹ کے بازو پر مڑے ہوئے کراس کا سرخ نشان تھا۔

” یس سر’‘ وہ وہیں لیٹے لیٹے چلایا ’’آئی وانٹ بٹ کین نوٹ’‘ آواز میں درد کی شدت نمایاں تھی۔

’’ نو آرگیومنٹ’‘ کرخت چہرہ پھر سے کف اڑانے لگا تین بھاری بوٹوں کی آہنی نوکیں اُس کی پسلیوں میں چھید کر رہی تھیں اُس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن نہیں اُٹھ سکا۔

’’ہالٹ’‘ کی آواز کے ساتھ لُوگر کی تیز تڑ تڑاہٹ اُبھری اور سرد پتھریلا فرش گرم خون سے سرخ ہونے لگا۔ میرا ہاتھ آہستگی سے جیب میں رینگ گیا اِس کے ساتھ ہی ڈبل مارچ کا حکم جاری ہوا نحیف بدن پوری طاقت صرف کر کے دم توڑتے وجود پر قدم رکھتے ہوئے مارچ میں جت گئے۔۔

وہ ایک تہہ شدہ بوسیدہ کاغذ تھا کھڑکی سے در آنے والی مدھم روشنی میں مختلف لکھائیوں میں لکھے گئے الفاظ نمایاں ہونے لگے۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ دھان کے سنہری خوشوں کو چھو کر آتی ہوا جب اُس کے بالوں کو چھوتی ہے تو دنیا ایک دم حسین لگنے لگتی ہے۔۔ دریتا کی گہری نیلی آنکھیں میری ہر راہ پر مشعل کی طرح روشن اور میرا ہاتھ تھامے ہوئے ہیں۔۔ میں جانتا ہوں مجھے جلد یا بدیر اِس آہنی گیٹ کے اُس پار جانا ہو گا۔ لیکن میں خائف نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔ میں موت سے خائف نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موت ہر روز میرے ہمراہ ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا ہر روپ دل دہلا دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کیمپ میں اگر کچھ آسانی سے مل جاتا ہے تو وہ موت ہی تو ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے ہی قدم پر سفید دستانے والے ہاتھ میں دبی چھڑی فیصلہ آپ کے ہاتھ میں تھما دیتی ہے۔۔۔۔۔۔ کہ آپ زندگی کے قیدی ہیں یا موت کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پرانی مال گاڑی میں جانوروں کی طرح ٹھسے ہوئے لوگ جب یہاں لائے گئے تو دایاں بائیں دو راستے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روزِ محشر سے پہلے حشر بپا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اعمال نامہ دیکھے بغیر راستوں کا تعین کر کے مقدر پر مہر لگائی جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دائیں جانب والا راستہ موت کا اور بایاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بایاں بھی جاتا تو موت کو ہی تھا لیکن کچھ انتظار کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دائیں راستے پر معصوم فرشتوں جیسے بچے۔۔۔۔۔۔۔۔ جنہیں زبردستی ان کی ماؤں کی گود سے نوچ لیا گیا تھا اور بوڑھے۔۔۔۔۔۔ تھکے قدموں سے آگے بڑھتے ہوئے زندگی سے دور ہو رہے تھے۔۔۔۔۔۔ مجھے بائیں طرف والے راستے پر ڈالا گیا۔۔۔۔۔۔ شاید زندگی کو کچھ اور امتحان مقصود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر میں خائف نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا میں واقعی خائف نہیں ہوں ؟’‘

 

نینات کوزمانووچ

گیارہ مارچ انیس سو چوالیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’جنگ کب مسائل کا حل ہوتی ہے ؟ یہ بات ایک کم عقل بھی جانتا ہے۔۔ لیکن طاقت کا نشہ حواس چھین کر انسانوں کو درجوں میں بانٹ دیتا ہے اور انسان خود کو خدا سمجھنے لگتا ہے۔۔ وقت شاہد ہے انسان بے شک ترقی کی تمام تر منازل طے کر لے مگر اس کے اندر کا وحشی کبھی نہیں مرتا۔ وہ کسی بھی حال میں مکمل طور پر نابود نہیں ہو پاتا۔ موقع پاتے ہی غالب آ کر کھل کھیلنے لگتا ہے "Untermenschen” (سب ہیومن) اس کی سب سے بڑی مثال ہے اپنے جیسے جیتے جاگتے انسانوں کو انسان سمجھنے سے انکار کر دینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اِسے کیا کہا جائے ؟ اُس بائیس سالہ نوجوان کو پچھلے تین دن سے محض ایک ٹی شرٹ میں ننگے پاؤں برف پر کھڑا گیا گیا تھا آج اُس کا اکڑا ہوا بدن دیکھ کر مجھے سمجھ آ گئی "Untermenschen” کون ہیں’‘

 

ایکیم لیون

دس نومبر انیس سو چوالیس

۔ ..۔ ..

اِس بوسیدہ کاغذ پر کئی تصاویر بھی بنائی گئی تھیں درد کی داستان سناتی لہو رنگ لکیریں وہ جو کبھی انسان رہے ہوں گے آج اِن اونچی دیواروں کے اندر کسی ویران کونے میں سرد زمین کا حصہ بنا دیئے گئے میری نظریں اس کاغذ کی دوسری طرف لکھی چند سطروں پر گڑ گئیں

‘’ میں یہاں لائی گئی تو میری کوکھ میں پلتا میرا بچہ اِس بے رحم دنیا میں آنے کو بے تاب تھا دسمبر کی اُس سرد رات جب باقی دنیا ’’او ہولی نائیٹ’‘ گانے میں مصروف تھی وہ اِس دنیا میں چلی آئی۔

Fall on your knees O hear the angels voices.

O night divine O night when Christ was born

O night divine, O night, O night divine.

 

فرشتوں کی آوازیں مجھ تک نہیں پہنچ سکیں۔۔

 

نہ میری آواز میں اتنی سکت تھی کہ وہ عرش چھو سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دائیں طرف والا دروازہ عبور کرتے وقت میں اپنے پانچ سالہ بچے کی انگلی تھامے ہوئے تھی کہ اس کرخت آواز نے میرے قدم روک لئے۔۔

’’تم ایک بچہ اندر لے جا سکتی ہو’‘

میں بات نہیں سمجھ سکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ پھر چلایا ’’ صرف ایک’‘

’’ ایک ہی تو ہے’‘

’’ یہ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے ہاتھ میں پکڑی چھڑی میرے ابھرے ہوئے پیٹ پر رکھ کر زور سے دبائی۔۔۔۔۔ یا یہ۔۔۔۔۔۔۔’‘ اس کا اشارہ میرے بیٹے کی طرف تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ انتخاب کا حق تمہیں دیا’‘ وہ خباثت سے ہنسا اور میرے بیٹے کو زبردستی میرے پہلو سے نوچ لیا۔

Led by the light of Faith serenely beaming,

With glowing hearts by His cradle we stand.

So led by light of a star sweetly gleaming,

Here came the wise men from Orient land.

The King of Kings lay thus in lowly manger;

In all our trials born to be our friend.

میرے لیے آنے والا کوئی اور تھا اِس نے اس ننھے وجود کو مجھ سے الگ کیا صرف یہ جاننے کے لیے کہ ایک نوزائیدہ بچہ کھائے پیئے بغیر کتنے دن تک زندہ رہ سکتا ہے۔۔

Truly He taught us to love one another;

His law is love and His gospel is peace.

Chains shall He break for the slave is our brother;

And in His name all oppression shall cease.

Sweet hymns of joy in grateful chorus raise we,

Let all within us praise His holy name.

چار دن گزر گئے مجھے اُسے صرف گود میں لینے کی اجازت تھی اُس مقامی لیڈی ڈاکٹر ہائیدی شنائیدر نے اُس ننھے سے نڈھال وجود کو مجھے سونپتے ہوئے میرا ہاتھ کپڑے میں لپٹی کسی چیز پر رکھا۔

He knows our need, to our weakness is no stranger,

Behold your King! Before Him lowly bend!

میری نگاہوں میں سوال تھا۔

’’ میں سنبھال لوں گی بس اتنا ہی کر سکتی ہوں اِس کی تکلیف کم کر دو’‘ اُس کی نیلی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔

میں وہ انجکشن ہاتھ میں لئے سوچتی رہی لیکن اتنا وقت نہ تھا سو خاموشی سے اُسے اپنی بیٹی کے ننھے بازو میں اتار دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’‘

’’کیا میری بیٹی مجھے معاف کر پائے گی؟۔۔۔۔۔۔۔’‘

ایرینا الیگزینڈر

 

نو جنوری انیس سو پنتالیس

۔ ..۔ ..۔

اِس نیم تاریک کمرے کے ٹھنڈے فرش پر بیٹھے ہوئے یہ لوگ اِسی طرح بے حسی سے کسی غیر مرئی نقطے کو گھور رہے تھے۔۔ یہاں ہمیں غسل کے لئے لایا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اچانک ہی وہ دبلا پتلا نوجوان چلانے لگا اُس کے ننگے بدن پر سرخ دھاریاں نمودار ہوئیں وہ اپنے جسم کو بے تحاشا کھجا رہا تھا۔ شاید وہ اُن لوگوں میں سے تھا جو وقت کی چال کو وقت سے پہلے بھانپ لیتے ہیں۔۔ اُس کی آنکھیں مجھے باہر اُبلتی ہوئی محسوس ہوئیں اُن سے خون پھوٹ رہا تھا وہ بری طرح چلاتے ہوئے بند دروازے کی طرف لپکا لیکن دو قدم چل کر ہی ڈھیر ہو گیا اُس کا بدن تشنج کا شکار تھا۔ مجھے بھی اپنی سانسیں سینے میں اٹکتی ہوئی محسوس ہوئیں۔۔ سانس لینا دشوار ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری جلد جلنے لگی پھیپھڑوں میں جیسے آگ بھر گئی تھی۔ باقی سب بھی دیوانہ وار کھانس رہے تھے۔۔۔۔۔۔ قے کرتے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جلتی آنکھوں کو نوچتے ہوئے۔۔ اپنے ہی بدن سے خارج ہونے والی غلاظتوں میں لوٹتے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چٹخی ہوئی جلد سے پھوٹتے خون کو چاٹتے ہوئے، ایک ایک سانس کے لیے لڑتے اور ہارتے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موت ایک ایسا بھیانک تجربہ ہے جس سے سب کو گزرنا پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جو اپنی طبعی عمر پوری کر کے آسودگی کے ساتھ آنکھیں موند لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی جنہیں قبل از وقت اس تجربے سے زبردستی گزرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ بھی جو دوسروں کے لیے موت کاشت کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک نہ دن ایک انھیں بھی یہ فصل کاٹنی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے آخری بار اِس کاغذ کو دیکھنا چاہا لیکن میری نظریں دھندلا گئیں۔۔ مجھے بھی اِس درد صحیفے میں اپنے حصے کا باب رقم کرنا تھا لیکن میں نے نہیں کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں جانتا ہوں ہر مذہب کے صحیفے ہر زمانے میں تحریف کا شکار ہوتے رہے ہیں یہ بھی ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقت نوحے ضرور لکھے گا لیکن وہ بے اثر ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقت دیکھے گا کل کسی اور زمین پر بارود بویا جا رہا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سروں کی فصل کاشت ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کل عذاب رُتوں کی داستانیں کہنے والے کوئی اور ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کاغذ کو تین ٹکڑوں میں بانٹا اور سانسیں ٹوٹنے سے پہلے ہر ٹکڑا نگل لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اِس صحیفے کو اپنے ساتھ ہی دفنانا تھا کسی روشن صبح کی اُمید میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے کاش۔۔۔۔۔۔۔ آنے والے کل کوئی اور منظر دکھلائے۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میں جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں جانتا ہوں درد مذہب وہ مذہب ہے جو اپنی اساس نہیں بدلتا۔۔۔۔۔۔۔ کبھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’میرا ہاتھ اس بوسیدہ ادھڑی ہوئی دیوار سے ٹکرایا تو یکایک جیسے میری ریڑھ کی ہڈی میں ٹھنڈک اُتر آئی، وہ جگہ بہت عجیب سی تھی۔ آبادی میں ہونے کے باوجود آبادی سے الگ تھلگ۔۔۔۔۔۔۔ کچھ کہتی ہوئی، کچھ بتاتی ہوئی۔۔۔۔۔۔۔ ایک پر اسرار سے سکوت میں تہہ در تہہ لپٹی ہوئی۔۔۔۔۔۔۔ اُس کی ویرانی اور خاموشی اعصاب شکن تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ درو دیوار سے پھوٹتی مبہم سرگوشیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آہیں، چیخیں اور سسکیاں میرے کان جھنجھنانے لگے اچانک مجھے یوں لگا جیسے کسی نے میرا ہاتھ پکڑ کر اِس لمحے میں دھکیل دیا ہو منظر واضع ہونے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آگ کے الاؤ کے گرد تھرکتے، گاتے شراب کے نشے میں دھت لمبے کوٹوں میں ملبوس ہیولے۔۔۔۔۔۔۔۔ کچی سرد زمین میں کمر تک گڑا ہوا وہ لاغر بدن جو بھاری بوٹوں کی زد میں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قہقہے، گھٹی گھٹی چیخیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظر بدلتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قیدیوں کے جسم کے نازک ترین حصوں سے بندھی مخالف سمتوں میں تنی ہوئی ڈوریاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہی قہقہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا ترقی کر چکی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسپتال کی اِس پرانی عمارت سے ٹپکتی منحوس اداسی، سنگ مرمر کی بڑی سی میز نما سِل پر اَن دیکھے خون کے دھبے، لیبارٹیری ریٹس کی جگہ استعمال ہونے والے کٹے پھٹے انسانی وجود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منظر پھر بدلتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلا تخصیص ہر روہنگیا بدن میں اترتے تیز دھار چھرے گواہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نروان صرف بدھا کا نصیب تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتے ہیں اس سرزمین سے تہذیب نے جنم لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج اُسی تہذیب کے اعلی معیار کے دعوی دار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اِسی سر زمین پر خون کی آبیاری کرتے ہوئے سروں کی فصل کاشت کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ خائف نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔ خائف نہیں ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔ بے بسی کے حلق میں اُترتی انسانی غلاظتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان چاند چھو آیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کارپٹیڈ بمباری کی زد میں آئے ننھے ننھے وجود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مریخ پر کمند ڈالی جا رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عقیدتوں کے سیاہ چولے میں مردہ عقیدے تعفن چھوڑ رہے ہیں۔۔

بھاری بوٹوں کی دھمک سے لرزتے درو دیوار۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دل سینوں میں خون ہونے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ درد مذہب کی اَساس کیوں نہیں بدلتی؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیاہ ٹوٹے ہوئے پتھروں والا یہ ویران راستہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اِس پر اٹکھیلیاں کرتے ہاتھوں میں ہاتھ دیئے کیمروں کے سامنے کھڑے لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا انھیں اِس راستے پر وہ پیر نظر نہیں آتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھٹے پرانے بوسیدہ بوٹوں میں دھنسے ہوئے پیر۔۔۔۔۔۔۔ نیلے پڑتے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مڑی ہوئی انگلیوں والے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے پیچھے لہو کی موٹی لکیر چھوڑتے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لڑکھڑاتے، گھسٹتے ہوئے کچھ پوچھتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوال کرتے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔ کہاں کہاں دیکھا جائے۔۔۔۔۔۔ یہ راستے تو دنیا کے ہر خطے میں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر طرف نکلتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر طرف۔۔۔۔۔۔۔ جہاں پیر فریادی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دجلہ و فرات کی وادی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میڑوپولیٹن شہروں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سکائی ریپرز کے درمیان۔۔۔۔۔۔۔ تنگ و تاریک پنجروں تک جہاں ہڈیاں خم کھا جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قندہاری اناروں کے باغات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیوارِ گریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اجنتا ایلورا کے غار۔۔۔۔۔۔۔۔ سیف الملوک۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ پیر پوچھتے ہیں سوال کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ہم نے تو دنیا کو بہتر بنانے کے لیے اس درد مذہب کو چنا تھا انگاروں پر چلنا منظور کیا۔ ہڈیوں سے ماس الگ ہونے پر کراہیں چپ چاپ اندر اتاریں۔۔ گمنامی کی موت قبول کی لیکن کیا ہوا؟ درد مذہب کا صحیفہ ضخیم تر کیوں ہوتا جا رہا ہے ؟ محبت کے رسول کہاں گئے ؟ اس کنسنٹریشن کیمپ کی دیواریں پوری دنیا کے گرد کیوں پھیل گئیں ؟کوئی بتلائے کیا جواب دوں انھیں ؟’‘

شاہین کاظمی

بیس دسمبر دو ہزار پندرہ

SONGWRITERS

ADAM, ADOLPHE

٭٭٭

 

 

 

 کھیپ

 

رات ڈھلے جب اُس کے سیمیں بدن کی چاندنی چٹکی تو بکھری ہوئی اشیاء کھانے کے خالی ڈبوں، گندے کپڑوں اور جوتوں کے باوجود دو کمروں کا وہ اپارٹمنٹ مجھے فردوسِ بریں لگنے لگا۔ میں نے جلدی سے صوفے پر پڑی اشیاء سمیٹ کر اُس کے بیٹھنے کے لئے جگہ بنائی الماری سے گلاس اور قدیم شراب کی پرانی بوتل نکال کر میز پر رکھی اور بتی گُل کر دی۔ چاند سامنے والے گھنے درخت کی پھننگ پر اٹکا ہوا تھا دھڑکنیں اتھل پتھل ہونے لگیں میں اِس حاصلِ زندگی لمحے کی عطا سمیٹے زیرِ لب وقت کے تھمنے کی مناجات میں مشغول تھا کہ اچانک تیز روشنی کا جھماکا سا ہوا۔

’’رکیں ! شاید مجھے پوری بات سمجھانے کے لئے وقت کی چند پرتیں کھولنا ہوں گی’‘

کچھ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ میں سچ کہہ رہا ہوں کچھ فیصلے واقعی کہیں اور ہوتے ہیں لیکن محبت کا یہ فیصلہ میرا اپنا تھا اور اِس پتھریلی شاہراہ پر اِس تیز گام سفر میں تنہائی کا بھی۔ میں نے یہ جاننے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی کہ وہ کہاں تک میری ہمرکاب ہے میں تو بس سرپٹ بھاگے جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوش و حواس سے بیگانہ۔

شاید میرا شمار عارفین میں ہونے لگا تھا۔۔۔۔۔ میں سلوک کی اُس منزل پر تھا جہاں سارے حجاب اُٹھا دئیے جاتے ہیں تیرگی چھٹنے لگتی ہے۔۔ عشق جادے کا ہر ذرہ مشعل بردار نظر آتا ہے۔۔ میں اِس کی محبت میں کہیں بہت دور نکل آیا تھا۔ اتنا کہ خود اپنے آپ کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اپنی ذات کہیں رکھ کر بھول گیا۔ میں نے اُسے اوڑھ لیا اُس کی سانسیں پہن لیں دھڑکنیں دھڑکنوں میں پِرو لیں۔۔ اِس کی ہلکی نیلی آنکھوں سے چھلکتی حیرت مجھے سرشار کر دیتی

’’محبت میں ’’من تُو شدم’‘ کامقام خاص عطا ہے’‘

’’عطا؟’‘

’’ ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وصل کی رُت ہو اور کستوری نہ مہکے۔۔۔۔ چاند جوبن پر ہو اور سمندر کا سینہ بیتاب نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے۔۔ محبت میں اگر محبوب کی روح تک رسائی نہ ہو تو یوں سمجھو دمکتے سورج کو سیاہ بادلوں نے ڈھانپ لیا ہے’‘

’’ اتنا مشکل کیوں بولتے ہو’‘ ؟

’’عشق کا اصل جوہر حسن ہے جو روح پر وار کر کے گھائل کر دیتا ہے اور لہولہان روح محبت کی دہلیز پر آن گرتی ہے’‘

’’ مگر حسن فانی ہے’‘

’’ہاں ہے تو مگر میں نے فنا کی بات کب کی؟’‘

’’ تو پھر حسن کا پیمانہ کیا ہے ؟’‘

’’ روح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت فنا کی اسیر نہیں ہوتی’‘

’’ لیکن فطرت سے بغاوت ممکن ہے نہ فرار’‘

’’کیا تکمیلیت صرف فطرت کو سرنگوں کرنے میں ہے ؟’‘

’’ بھوک آداب بھلا دیتی ہے’‘

’’ میں راہب نہیں ہوں یہ تم بھی جانتی ہو’‘

میرا عشق زمانے سے ماوراء تھا۔ لگے بندھے مروجہ اصولوں سے ہٹ کر۔ اوّلین محبت ہوتی ہی ایسی بلا خیز ہے رگوں میں لہو کے ساتھ بہتی ہوئی۔ آتی جاتی سانسوں میں رچی ہوئی طلب سے بے نیاز۔

جب پہلی بار میں نے اُسے دیکھا تو کائنات جیسے ساکت ہونے لگی۔ میں شاید سانس لینا بھول گیا۔ وہ تھی ہی ایسی کسی جادوئی سمفنی کی نرم سُروں کی طرح سجل، کومل، کسی گھائل آہو کی آنکھ میں پھیلتی درد کی لہر کی طرح روح میں چھید کرتی ہوئی۔۔۔۔۔۔۔ نارسائی کی آگ میں جلتے کسی شاعر کی مکمل رباعی جیسی۔۔۔۔۔۔۔ دھندلی سرد رُتوں میں لمحے بھر کی سنہری دھوپ کی مانند۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سائیکل کے پیڈلز کے ساتھ تیزی سے حرکت کرتے اُس کے پاؤں۔۔ سرد پانیوں کی خنکی لئے اطراف میں بہتی ہوا بہت نرمی سے اُس کی زلفوں کے بل کھول رہی تھی میرا دل ہمکنے لگا۔

’’کاش وقت اپنی طنابیں کھینچ لے’‘

آج کا دن بھی ہمیشہ کی طرح ایک عام سا دن تھا۔ پیڑوں کے جھنڈ میں چھپی دھند راستوں پر بچھنے لگی تو خُنکی کا احساس بڑھ گیا۔ میں نے چونک کر اِدھر اُدھر دیکھا ایک حسرتِ خام میں پگھلتا وجود لئے میں نہ جانے کب سے وہیں راستے کی دھول پھانک رہا تھا بے سدھ اور ارد گرد سے بیگانہ۔ قدرے خفت بھرے انداز میں سر جھٹک کر میں اپنے اپارٹمنٹ کی طرف چل دیا۔

میں یہاں نیا آیا تھا میری فارماسیوٹیکل کمپنی اس قصبے کے مضافات میں بنجر زمین پر ایک نیا تحقیقی مرکز تعمیر کرنے کی خواہش مند تھی۔ کم عمر اور نا تجربہ کار ہونے کے باوجود میرا انتخاب کیا جانا ایک طرح سے میری اُن خفیہ صلاحیتوں کا اعتراف تھا جن سے میں خود بھی واقف نہ تھا۔ یہ ایک طویل المدتی منصوبہ تھا اور میں اپنے کام سے پوری طرح آگاہ۔ اِسی لیے بہت آسانی سے قصبے کے ماحول میں ڈھل گیا۔ یہ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا خاموش اور اُونگھتا ہوا۔ اِس کے در و دیوار سے ٹپکتی کہنگی مشینی انداز میں اپنے اپنے کاموں میں جتے لوگ عجیب سے ٹھس اور بے حس۔ کبھی کبھی مجھے ان پر رو بوٹس کا گمان ہونے لگتا۔ اکثر ان سب کی شکلیں بھی ایک ہی جیسی لگتیں۔۔ مجھے یہاں آئے کئی ہفتے گزر چکے تھے، لیکن اِن لوگوں سے میری واقفیت بس صبح شام کے سلام تک محدود تھی۔

دن بھر کی ریسرچ کے بعد میں اپنا پیپر ورک مکمل کر رہا تھا کہ اچانک وہی معطر جھونکا میرے نتھنوں سے ٹکرایا وہ کہیں آس پاس تھی باہر سے آتی بھیگی ہوا اِس کی مہک چُرا لائی تھی۔ میں نے کھڑکی پوری طرح کھول کر ایک گہری سانس لی سامنے والی بلند عمارت کی اوٹ سے طلوع ہوتا چاند، قریبی نہر کے سرد پانیوں کو چھو کر آتی خنک ہو ا۔ ہلکی سی ’’ ٹن’‘ کی آواز مجھے چونکا گئی میرے قدم مجھے جانے کب راستے پر گھسیٹ لائے تھے اپنی تمام تر دلربائی سمیت وہ میرے سامنے تھی میری نگاہیں اٹھیں اور پلٹنا بھول گئیں۔۔

میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں عشق کے مراتب سے کب آگاہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضورِ یار میں حاضری کے آداب سے کب واقفیت تھی مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کائناتی بربط سے پھوٹتی اِس عشق راگنی پر میرے قدم تو محض دھول اُڑا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اِس راہ سے پلٹنے کا یارا بھی کب تھا۔

’’ٹن، ٹن‘‘ گھنٹی پھر سے بجی تو میں نے بوکھلا کر راستہ چھوڑ دیا وہ دھیمے سے مسکراتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔

ایک دن اچانک مجھے احساس ہوا کہ اِس قصبے میں بہت کم لوگ رہتے ہیں۔۔ بڑے شہروں میں بھیا ٓبادی عمومی طور پر کم ہی تھی لیکن یہ قصبہ تومجھے کسی آسیبی جگہ کی طرح لگنے لگا۔ گنتی کے چند گنے چُنے گھر اور اِن کے آدم بیزار مکین۔ اِن کی سنجیدگی اور آدم بیزاری میری سمجھ سے باہر تھی۔ ’’ آدم بیزاری’‘ کا لفظ میں نے اپنے ایک استاد کی زبانی سُنا تھا مطلب نہ سمجھنے کے باوجود مجھے یہ لفظ بہت دلچسپ لگا۔۔ وہ عمرانیات کے پروفیسر تھے قدیم زبانوں اور اساطیر پرا تھارٹی سمجھے جاتے تھے۔۔

دل آنگن میں جڑ پکڑنے والی اِس بیل نے میرے وجود کو مکمل طور پر ڈھانپ لیا۔۔ میں تو اس جذبے سے نا آشنا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ایکا ایکی اِس نے مجھے چاروں شانے چِت کر ڈالا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمنائیں بھبھوت ملے مجھے ڈرانے لگیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر وصل کا کاسہ بھیک کو ترستا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر دن کا اُگتا سورج آشاؤں کے سنہری پیڑ پر چند نئی کونپلیں پھوٹتی دیکھتا اور سمے کے اندھے ساگر میں جا گرتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روح پریم مرلیا پر کسی جوگن کی طرح یوں تھرکتی کہ کائنات بھی وجد میں آتی محسوس ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیروں سے اُٹھتی دھول آسمان چھونے لگتی۔۔۔ وسوسے سوالوں کا روپ دھارے کسی بھکاری کی طرح در پر آن کھڑے ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا راستہ کبھی ہموار ہو گا؟ سوال جواب تلاشتے رہتے اور میں اُسے۔۔

جس دنیا سے میں تعلق رکھتا تھا وہاں ایسی سطحی سوچوں کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ ہم لوگ تو بس دو اور دو چار کرنے کے قائل تھے یہ عشق نہ جانے کیسے میرا بیری ہو گیا تھا۔ ورنہ ایسی محبت تو صرف اساطیر میں ہی زندہ تھی۔ اگر کس کو اس معاملے کی بھنک بھی پڑ جاتی تو یقیناً مجھے مصلوب کر دیا جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر عشق سولی سے کب ڈرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تن پامال ہوبھی جائے تو بھی نوکِ سناں پر معشوق کی ثنا ترک نہیں کرتا۔

میرا تحقیقی کام ساتھ ساتھ جاری تھا۔ اصل میں مجھے نئی فیکٹری کے ساتھ ساتھ نہر کے اُس پار بنجر زمینوں کو آباد کرنے اور وہاں ایک خاص قسم کی فصل کاشت کرنے کے بارے میں تحقیق کرنی تھی۔ اُس دن میں نے اُس پار جانے کا سوچا۔۔ نہر کے یخ بستہ پانیوں کو چھو کر آتی ہوا میں نئے موسموں کی باس تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نئی رُتوں کا سندیس تھا۔۔۔۔۔ سیب کے پیڑوں پر اُگے نئے شگوفوں کی مہک تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا وصل رُت آنے کو ہے ؟

میں نے مختلف جگہوں سے لئے گئے مٹی کے نمونے چھوٹی چھوٹی شیشیوں میں بند کر کے بیگ میں رکھے اور جانے کے لیے مڑا ہی تھا کہ وہی معطر جھونکا میرے مشامِ جاں مہکا گیا۔ وہ اِسی طرف چلی آ رہی تھی میری سانسوں میں ہیجان بپا ہونے لگا۔ ہمیشہ کی طرح ہوا کی نادیدہ انگلیاں اُس کے بالوں میں اٹکی ہوئی تھیں۔۔ اچانک میرے ہاتھ پر اس کی سرد انگلیوں کا لمس جاگ اُٹھا۔ صدیوں سے پیاسی زمین پر گرنے والی پہلی بوند کی طرح روح پہلا لمس پا کر بے خود ہونے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عشق جادے کا ہر ذرہ دھمال میں تھا اندر اُترتا سیرابی کا احساس نشہ دو آتشہ ہونے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آگ بھڑک اُٹھی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طور جل رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بے اختیار ماتھے کے بل زمین پر گر گیا میں نہیں جانتا میں ایسا کیوں کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ایسا ہو رہا تھا مجھے اپنے رخساروں پر نمی کا احساس ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری روح پگھل رہی تھی اُس کی نظریں مجھ پر گڑی ہوئی تھیں سرخ بھیگے لبوں پر عجیب سے مسکراہٹ لیے وہ بہت اشتیاق سے مجھے دیکھ رہی تھی اندر جلتی آگ یکدم بھڑک کر شعلہ بن گئی۔

ًِ؎ ’’ تم یہاں نئے آئے ہو؟’‘

اُس کی آواز میں سنگی فرش پر بکھرتے موتیوں کا سا ترنم تھا۔

’’نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس کچھ ہفتے ہوئے ہیں مجھے یہاں آئے ہوئے’‘

’’ تمہارا نام کیا ہے ؟’‘

پھر سے موتی بکھرنے کی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی۔

’’ سالار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا نام سالار ہے’‘

’’ میں احیاء ہوں’‘

’’تم یہیں رہتی ہو؟’‘

’’ نہیں میں یہاں مہمان ہوں’‘

اُس کا ہاتھ ابھی میرے ہاتھ میں تھا اور میں دم بخود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی معمول کی طرح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ سمجھنے کی کوشش میں لگا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاید میں بخاوت پر اُتر آیا تھا؟

’’لیکن بغاوت کیسی؟’‘ اچانک مجھے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی

’’کیا میں ارتقاء کے کسی نئے دور میں داخل ہو رہا تھا’‘

’’کیا زندگی دائرہ اوّل کی طرف گامزن تھی؟’‘

میں اپنے پروفیسر سے اِس بارے میں بات کرنا چاہتا تھا لیکن میں یہ بھی جانتا تھا کہ میرا اِس وقت اُس سے رابطہ میرے مسائل بڑھا سکتا ہے۔۔ میں نے قدیم کتابوں میں بہت کچھ پڑھا تھا ایک حساس ادارے میں کام کرنے کی وجہ سے میری رسائی ان کتابوں تک ممکن ہو سکی تھی۔ یہ سب کتابیں قدیم لائیبریری کے ایک مخصوص شعبے کا حصہ اور عام شہریوں کی دسترس سے دور تھیں۔۔ اُمیدو بیم کی کیفیت سے گزرتے ہوئے میں خود کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ سورج ڈھلنے کو تھا خنکی بڑھنے لگی۔

رات ڈھلے جب اُس کے سیمیں بدن کی چاندنی چٹکی تو بکھری ہوئی اشیاء کھانے کے خالی ڈبوں، گندے کپڑوں اور جوتوں کے باوجود دو کمروں کا وہ اپارٹمنٹ مجھے فردوسِ بریں لگنے لگامیں نے جلدی سے صوفے پر پڑی اشیاء سمیٹ کر اُس کے بیٹھنے کے لئے جگہ بنائی۔ الماری سے گلاس اور قدیم شراب کی پرانی بوتل نکال کر میز پر رکھی اور بتی گُل کر دی۔ چاند سامنے والے گھنے درخت کی پھننگ پر اٹکا ہوا تھا دھڑکنیں اتھل پتھل ہونے لگیں میں اِس حاصلِ زندگی لمحے کی عطا سمیٹے زیرِ لب وقت کے تھمنے کی مناجات میں مشغول تھا کہ اچانک تیز روشنی کا جھماکا سا ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ کسی نامعلوم وائرس کی وجہ سے نئی کلون کھیپ میں معدوم شدہ انسانی خصوصیات پائی گئی ہیں۔۔ اگلی کھیپ تیار کرنے سے پہلے ڈی این اے پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔ آؤٹر کور۔۔۔۔۔۔۔ آٹینشن۔۔۔۔۔۔۔ در اندازی کے آثار بھی ملے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپریشن کلین اَپ شروع کیا جا چکا ہے’‘

ریجنل ڈائریکٹر ہیڈ کوارٹر پیغام بھیجنے کے بعد تیزی سے پلٹا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ تپائی پر پڑے گلاسوں سے چھن کر آتی سنہری دھوپ زمین پر عجب زاویے بنا رہی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 برف کی عورت

 

’’انھیں لگتا ہے ان کے بودے جواز سے ظلم، ظلم نہیں رہے گا؟’‘

میرے ذہن میں ایک ہی سوال گردش کر رہا تھا گونگے بہرے درو دیوار کے پاس اِس کا کوئی جواب نہ تھا۔۔۔۔۔ میں نے اپنے کانپتے وجود کو سنبھال کر اٹھنے کی کوشش کی لیکن چکرا کر گر گئی۔ پچھلے دو دن میں اِس اندھیرے کمرے میں بند تھی۔ میرا قصور صرف اتنا تھا کہ میں نے صدیوں کی گرد اوڑھے مکروہ روایتوں کی اونچی فصیلوں سے ٹکرانے کی کوشش کی تھی۔ رات کی تاریکی گہری ہو رہی تھی، فرش پر بچھی گھاس کی گندی باس حواس چاٹنے لگی۔

’’یہ حکمِ خداوندی نہیں ہو سکتا جبر آسمان کا شیوہ نہیں ہے یہ زمین کی پیداوار ہے، دھرتی کی کوکھ میں پنپتے ظلم کو آسمانی کہہ کر اپنے آپ کو اِس گناہ سے آزاد کرانے کی غیر منطقی کوشش ہے’‘

’’بکواس بند کرو اپنی یہ حکمِ خداوندی ہی ہے’‘

عبرون کا بس نہیں چل رہا تھا کہ مجھے قتل کر ڈالے۔۔

’’کسی عورت کو کاٹ کر ادھورا کر دینا خداوند کا حکم کیسے ہو سکتا ہے’‘

اپنی چھ سالہ بیٹی کا چہرہ ذہن میں آتے ہی میرے اندر کہرام مچ جاتا۔ عبرون وانیا کو صدیوں سے عورت کا خون چوستی نسائی ختنوں جیسی بیہودہ رسم کی بھینٹ چڑھانا چاہتا تھا۔

اس کا بھاری بھر کم ہاتھ اٹھا اور میرے چہرے پر نشان چھوڑ گیا۔

بے اختیار میرے دونوں ہاتھ میرے گالوں پر ٹک گئے کالی دیواروں سے آہستہ آہستہ سارے درد سرک کر میرے پہلو میں آن بیٹھے۔۔

چہرے پر ادھوری بھوک اور تناؤ لئے عبرون نے نفرت سے مجھے دیکھا۔

’’ کیسی برف کی سِل جیسی عورت ہو تم’‘

اس کا ہاتھ میرے گال پر جم گیا اذیتوں کی صلیب پر لٹکا تن ذلتوں کے بوجھ سے نڈھال ہونے لگا روح سسک اٹھی۔

’’ یہ سِل تمہارے جیسے ہی کسی کم ظرف نے صدیوں پہلے عورت کے نصیب میں لکھی تھی’‘

میرا لہجہ زہر میں بجھا ہوا تھا۔

’’عورت کو اپنی پارسائی کی ڈھال سمجھنے والا بزدل’‘

’’ تم کم از کم میرا ساتھ تو دے سکتی ہو’‘ وہ بہت سلگا ہوا تھا۔

’’ اور کتنا ساتھ چاہیئے ؟ میں اذیتوں کے تمام تر چرکے سہنے کے باوجود تمہارے ساتھ ہوں تمہارے بستر پر’‘

ََ ’’ اور تم؟ تمہاری ادھوری بھوک کا نوحہ میرے تن پر لگے گھاؤ بڑھا دیتا ہے’‘

’’ صرف عورت ہی کیوں اپنی پارسائی ثابت کرنے کے لئے گیلے ایندھن کی طرح عمر بھر سلگتی رہے’‘

میں رونا نہیں چاہتی تھی لیکن کمبخت گرم سیال سارے بند توڑ کر بہہ نکلا۔

’’یہ دو طرفہ اذیتیں آخر تک ساتھ چلتی ہیں بد نامیوں کی طرح اس تاریک بّر اعظم میں ظلم کے اندھے دیوتا کی کشکول میں اور کتنا لہو ڈالا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روشنی کب ہو گی؟’‘

میرے اندر شور بڑھنے لگا۔

ِِ ’’تم اس دنیا کی پہلی عورت نہیں ہو’‘

ادھوری بھوک اسے تڑپا رہی تھی وہ بھی عام مردوں کی طرح تھا ہر حال میں اپنی عظمت کا خواہاں، اپنی لذتوں کے حصول میں ہانپتا ہوا، رال ٹپکاتا، دریدہ بدنوں پر اپنی فتح کے جھنڈے گاڑتا ہوا، برتری کے جھوٹے زعم میں مبتلا۔۔۔ مجھے اُبکائیاں آنے لگیں۔۔

’’جسم سے پرے بھی ایک چیز ہوتی ہے جسم پامال کیا جا سکتا ہے لیکن روح آزاد رہتی ہے تم اسے کبھی بھی نہیں چھو سکو گے کبھی بھی نہیں مکمل فتح تمہیں کبھی نصیب نہیں ہو گی’‘

میں بہت ہسٹیرک ہو رہی تھی ہماری ساری حسّیں نوچنے والے، کانچ کے ٹکڑے، گندے بلیڈ، ٹین کے تیز دھار ڈھکنے، پتھر، اور کند چاقو انھیں کے ہاتھوں میں تو تھے۔۔

عبرون اپنی ادھوری بھوک کے پہلو میں بے سدھ سو رہا تھا میری پلکیں پھر سے بھیگنے لگیں۔۔

بجھے چراغ کے دھوئیں میں چند ہیولے ابھرے پل بھر میں اندھیرا کمرہ اور اس میں بچھی بدبو دار گھاس غائب ہو گئے۔۔ دھند میں کہیں دور منڈھی ہو ئی پلکوں پر چمکتے آنسو صاف دکھائی دینے لگے زرد ہتھیلیوں والے آبنوسی ہاتھوں میں تھامے آنچل پر دستک ہوئی۔

’’کیا ہوا؟’‘ آنکھوں میں استفسار تھا۔

گرم اُبلتے آنسوؤں میں تیزی آ گئی دستک پھر ہوئی، اب کی بار اُس شوخ شال پر تھی جس میں دیدی کو لپیٹا گیا تھا۔

’’ دیدی’‘ سیاہ آنکھوں میں ہلکی سی چمک ابھری۔

’’رواجوں کی مٹی اوڑھ کر سو گئی تیری دیدی’‘ آنسو بھل بھل بہنے لگے۔۔

میں بہت چھوٹی تھی لیکن پھر بھی دیدی کی ننگی ٹانگوں پر بندھی کپڑے کی رسی اس کا بخار میں تپتا جسم اور لحظہ لحظہ ڈوبتی چیخیں جیسے میرے اندر کنڈلی مار کر بیٹھ گئی تھیں۔۔ ماں کا دکھ مجھے کاٹ رہا تھا، آج میری اپنی آنکھوں میں وہی خوف اور بے بسی تھی۔

’’مت کرو’‘ وہ بابا کے آگے گڑ گڑا رہی تھی۔

’’مجھے اسے نہیں کھونا’‘ ماں نے مجھے دامن میں سمیٹ لیا۔

’’میں سر جھکا کر نہیں جی سکتا تم جانتی ہو اسے کوئی بیا ہے گا نہیں’‘

بابا کے لہجے میں غصہ تھا۔

’’ تو پھر مر جاؤ’‘ ماں چِلّا اُٹھی۔

’’ ہدان آ رہی ہے اپنے ساتھ ایک ماہر کو لے کر مجھے یقین ہے اب کی بار کچھ نہیں ہو گا’‘

بابا مجھے لے کر باہر نکل گیا۔

ماں بُری طرح رو رہی تھی شاید اس کے بس میں صرف آنسو ہی تھے مجھے بات کی سمجھ نہیں آ رہی تھی لیکن بابا کے دئیے ہوئے نئے کپڑے پا کر میں بہت خوش تھی۔

’’بیٹیوں کا کاٹ کر جینا ہے تو مر جاؤ’‘ ماں کے تیور بہت خراب تھے۔۔

’’چِلاؤ مت’‘

بابا کی آواز ماں سے بھی اونچی تھی انھوں نے زبردستی مجھ ماں کے پہلو سے نوچ لیا۔

جب ہدان نے کانچ کا نیا گلاس توڑ کر دو ٹکڑے اس بے انتہا تن و توش والی عورت کی طرف بڑھائے تو ماں لکڑی لے کر اُس پر پل پڑی۔

’’ عجیب عورت ہو ایک گلاس کے لئے اتنا شور تمہارے بھلے کے لئے ہی توڑا ہے’‘

موٹے تن و توش میں سب کچھ تھا بس احساسات نہ تھے۔۔ وہ بھی تو عورت ہی تھی کٹی پھٹی اور ادھوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے اندر کی گھٹن بڑی مشّاقی سے ننھے ننھے جسموں میں اتارا کرتی۔

’’مردود خبردار جو میری بیٹی کو ہاتھ بھی لگایا تو’‘

ماں جانے کہاں سے بڑی سی چھری نکال لائی۔ لیکن پھر ماں اور میں ہم دونوں چِلّاتے رہ گئے۔۔ کانچ کے تیز دھار ٹکڑے میرے جسم کے انتہائی نازک حصے کو بیدردی سے کاٹتے ہوئے گذر گئے۔۔ سوئی کی ہر چبھن پر میرا درد اور غصہ بڑھتا گیا اور پوری زندگی پر پھیل گیا۔

’’یہاں کا مرد انتہائی شاطر ہے صدیوں سے عورت کو اپنے زیرِ نگین رکھنے کے لئے کبھی مذہب اور کبھی رسم و رواج کا سہارا لیتا آیا ہے’‘ میرے کانوں میں لیڈی کیتھرین کی آواز گونجی۔

گھاس کی بُو میرے حواس پر طاری ہونے لگی۔ اندھیرے میں سارے درد حلقہ بنائے میرے ارد گرد بیٹھے تھے مجھے کچوکے لگاتے ہوئے، نوچتے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ محض چودہ سال کی تھی۔ میری ماں کی اکلوتی بہن کی اکلوتی بیٹی ہرنی کی طرح چوکڑیاں بھرتی ہوئی بات بے بات اس کے سفید دانت کھل اٹھتے۔۔ اس کی سیاہ آنکھوں میں ہلکورے لیتے سندر سپنوں کے اچھوتے رنگ۔ وہ اپنی شادی سے بہت خوش تھی ہر لڑکی کی طرح۔۔۔۔۔ شوخ گلابی کپڑوں میں اس کا آبنوسی چہرہ دمک رہا تھا لیکن منڈھی ہوئی پلکوں سے پرے جھانکتا خوف میں صاف دیکھ سکتی تھی۔

’’ دیدی ڈر لگ رہا ہے’‘

اس کی انگلیوں کی پوریں بہت سرد تھیں۔۔

’’کچھ نہیں ہو گا’‘

میں جانتی تھی یہ جھوٹی تسلی ہے۔۔ شادی کی رات اور اس کے بعد کے عذاب کا تصور ہی کپکپا دینے والا تھا۔ ہماری خوشیاں بھی درد اور خوف کی سیج پر پلتی ہیں۔۔

پھر زیادہ کچھ نہیں ہوا اس کا لہو میں ڈوبا ہوا دریدہ بدن اس بات کا گواہ تھا کہ مرد کے سینے میں دل کی جگہ بھوک رکھی ہے۔۔ کبھی نہ سیر ہونے وا لی بھوک۔ اُس مسلی ہوئی معصوم کلی کو مٹی اوڑھتے دیکھ کر میرا دل درد سے بھر گیا۔

’’ ہماری زندگیوں سے راحت کے سارے پل مٹا کر درد کے عذاب رقم کرنے والو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں زمہریری فطرت کے طعنے دینے والو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر عورت صدیوں تک درد کے بھاری گٹھڑ اپنے کندھوں پر اٹھائے اپنا سفر جاری نہ رکھتی تو آج تمہاری بقا خطرے میں پڑ جاتی’‘

میری آ واز گوں گی بہری دیواروں سے ٹکرا کر پلٹ رہی تھی۔

’’یہ تم نے اتنی بڑی بڑی باتیں کہاں سے سیکھ لیں ؟’‘

عبرون مجھ پر برس پڑا ’’ آج کے بعد تم اس گوری ملنے نہیں جاؤ گی دماغ خراب ہو گیا ہے’‘

میں نے اپنی ماں کو اُس گوری سے ملتے دیکھا تھا دن کے اجالے کی سی رنگت، آنکھوں میں پورا سمندر بسائے ہمارے درد پر کڑھتی ہوئی۔ سوئٹزرلینڈ جیسی جنت ارضی چھوڑ کر ہمارے ساتھ موسموں کے قہر سہتی ہوئی۔ میں نے اُسی سے لکھنا پڑھنا سیکھا تھا۔ اُس کے پاس جتنی کتابیں تھیں میں نے سب کی سب چاٹ ڈالیں اور تو کچھ نہ ہوا بس میرے اندر اتری کڑواہٹ مزید گہری ہوتی گئی۔

’’ تمہاری دیدی کو قبر میں اتارتے ہوئے میں نے قسم کھائی تھی میں لڑوں گی اِس ظلم کے خلاف لڑوں گی’‘

ماں کے آبنوسی چہرے پر درد رقم تھا۔

’’لیکن میں ہار گئی میں تمہیں نہیں بچا سکی’‘

اِس نے میرا سر اپنی گود میں رکھ لیا نچلے دھڑ میں لگی آگ کی تپش کم ہونے لگی لیکن ماں کے آنسو کہیں اندر چھید کر رہے تھے۔۔

’’ تمہاری قسم میں پوری کروں گی’‘

دس سالہ بدن میں روح جانے کہاں سے طاقت کشید کر رہی تھی۔ میں صورتحال کو اچھی طرح تو نہیں سمجھ پا رہی تھی لیکن مجھے اپنا اور ماں کا درد کاٹ رہا تھا۔۔۔۔۔ ماں نے مجھے دیکھا میرا جسم بخار میں پھنک رہا تھا لیکن روح میں اُتری کڑواہٹ مجھے آسرا دیئے ہوئے تھی۔

’’ضرور کرنا لیڈی کیتھرین کے پاس جانا’‘

مجھے اُجڑتے گاؤں اور بستے قبرستانوں سے خوف آتا تھا اس لئے میں بارہا لیڈی کیتھرین سے ملی۔

’’ اندر آگ بھری ہو تو سمجھو تم زندہ ہو۔۔۔۔۔ سینہ جلنا بند ہو جائے تو زندگی مر جاتی ہے۔۔ بہاؤ آگ کو گیان اور پھر فیضان کی منزل تک لے آتا ہے اِس آگ کو الفاظ میں ڈھالو باقی میں دیکھ لوں گی’‘

لیڈی کیتھرین کو نبضوں پر ہاتھ رکھنا آتا تھا۔ میں نے اپنی آگ کو الفاظ کے پیراہن کیا دئیے سیاہ آندھیوں نے میرے بدن کی دیواروں کو چاٹنا شروع کر دیا۔ لیڈی کیتھرین نے وہ الفاظ پورے صومالیہ میں پھیلا دیئے۔۔ میری روح اور بدن پر چرکے بڑھنے لگے اور ساتھ ہی ساتھ میرا حوصلہ بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیئے میں صدیوں سے لہو بھرا جا رہا تھا لیکن آگ باغی تھی سو میں نے خود کو آگ لگا لی۔

’’ تین ملین لڑکیاں ہر سال اس آگ میں جھونک دی جاتی ہیں’‘

لیڈی کیتھرین کو صومالین نہیں آتی تھی لیکن اُسے پتہ ہوتا تھا اُسے کیا کہنا ہے اور یہی بات مجھے اُس کی طرف کھینچتی تھی۔ وہ کوئی نہیں تھی اپنے گھر سے ہزاروں میل دور اِس جھلسے ہوئے تاریک برّ اعظم میں ہماری زندگیوں سے اندھیرے چُننے کی کوشش میں مصروف۔

’’ کتنی ہیں جو خاموشی سے موت کا اندھیرا اوڑھ لیتی ہیں’‘

لیڈی کیتھرین کی آواز لرز رہی تھی۔

’’جو بچ جاتی ہیں ایک عمر کا جہنم اُن کا مقدر ہوتا ہے’‘

مقدر ریت پر لکھی ہوئی تحریروں کی مانند ہوتا ہے ایک بار تحریر کر دیا جائے تو تیز ہوا پل بھر میں ذروں کو بکھیر ڈالتی ہے۔۔ اِس اندیکھی تحریر کو بدلنا نا ممکن ہوتا ہے مگر میں نے اُسے بدلنے کی ٹھان لی تھی۔ خواہ وہ ایک ہی نصیب کیوں نہ ہو۔

لیڈی کیتھرین مہینے میں ایک بار آتی تھی۔ اب کی بار آئی تو صرف زِینا کے شوہر سے ملنے۔۔ زِینا کی کوکھ اُس کے پہلے بچے کی قبر بنا دی گئی محض سولہ سال کی عمر میں۔۔ اُس کے شوہر نے ظلم کی سوزن سے جسم میں اُترے دھاگے کاٹنے کی اجازت نہ دی۔ وہ تین دن تڑپتی رہی لیکن بند دروازے کے پیچھے سے اُبھرنے والی چیخیں سننے کے لئے کسی کے پاس وقت نہ تھا یا پھر ایسی چیخیں سنتے سنتے کان پک گئے تھے۔۔ وہ اپنے بچے کو لئے قبر میں اُتر گئی۔ رواج اور مرد ایک بار پھر جیت گیا زندگی ایک بار پھر ہار گئی۔ میرا دل چاہا زِ ینا کے شوہر کو زندہ جلا ڈالوں ماں نے بہت منتیں کی تھیں اس کی۔

’’وہ مر جائے گی دھاگے پھر جڑ سکتے ہیں زندگی نہیں’‘

لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔

’’وہ بہت کم عمر ہے میں نہیں چاہتا وہ کسی بے راہ روی کا شکار ہو جائے’‘

جب دھاگے خودبخود ٹوٹے تو اُس کی زندگی کی ڈور بھی ٹوٹتی چلی گئی

دروازے پر ہلکی سی آہٹ ہوئی تھی۔

’’آیان؟’‘ صومیمہ کی سر گوشی جیسی آواز ابھری۔

’’تم ٹھیک ہو؟ میں کچھ کھانے کو لائی ہوں’‘ وہ میری چھوٹی بہن تھی۔

’’وانیا کہاں ہے ؟’‘

میری آواز میں نقاہت تھی۔ میں بمشکل کھڑکی تک پہنچی صومیمہ کھانا اور پانی اندر رکھ چکی تھی۔

’’ فکر نہ کرو وہ ٹھیک ہے عبرون نجیر کے ساتھ موگا دیشو گیا ہوا ہے کل آئے گا’‘

’’ اچانک موگا دیشو؟ کیوں ؟’‘

’’میں صرف یہی کر سکتی تھی دیدی’‘ میمی آہستہ سے بولی۔

میری ساری حسّیں بیدار ہو گئیں لیڈی کیتھرین آج چناری میں ہو گی۔ یہ گاؤں ہمارے گاؤں سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔

’’پتھریلی زمین میں اُگے زہریلے پودوں کے ساتھ زور زبردستی نہیں کی جا سکتی جڑیں اندر رہ جاتی ہیں پھر سے پنپنے لگتی ہیں’‘  لیڈی کیتھرین کا وہی پھوار جیسا نرم لہجہ سماعتوں کو سہلا رہا تھا۔

’’صدیوں سے خون میں بہتے رواجوں کو یک دم اکھاڑ پھینکنا آسان نہیں ہوتا اس کے لئے حوصلہ اور صبر ضروری ہے’‘

’’پریشان مت ہونا وانیا اچھے ہاتھوں میں ہے’‘

لیڈی کیتھرین کا نرم سفید ہاتھ روشنی کے استعارے کی طرح میرے ہاتھ پر دھرا تھا۔ ماں کے بعد میں، میمی، فظیرہ، میر سعد، نادفان اور پھر وانیا لیڈی کیتھرین کے ساتھ کھڑے ہوتے چلے گئے چراغ جلنا شروع ہو چکے تھے۔۔ میرے اندر سلگتے انگارے الفاظ میں ڈھلتے رہے روشنی بڑھنے لگی۔ عبرون مجھے دھمکاتے دھمکاتے تھک گیا۔ پھر ایک وقت آیا جب میں اُس سے بہت آگے نکل آئی۔ برف کی عورت نے آتش فشاں بجھا ڈالا تھا۔

موگا دیشو میں شام ڈھل رہی تھی میں پلٹ کر دیکھا میمی اور وانیا آفس سے نکل رہی تھیں اُن کے آبنوسی چہروں پر طمانیت تھی۔ یہاں تک آنے کے لئے مجھے آگ کا دریا عبور کرنا پڑا تھا پہاڑوں سے ٹکرانا کب آسان ہوتا ہے۔۔

’’لیکن کسی نہ کسی کو تو تیشہ اٹھانا ہی ہوتا ہے’‘

٭٭٭

 

 

 برزخ

 

اِس نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو جیسے پورا وجود اَشکوں میں ڈھل گیا۔ وہ جانتی تھی مرادوں کے چاند گہنانے لگیں تو اندھیرے روح میں بس جاتے ہیں پھیلے ہوئے ہاتھوں پر تواتر سے آنسو گر رہے تھے۔۔ وہ اِرد گرد سے بے نیاز پتھرائی زبان اور خزاں رسیدہ پتے کی طرح کانپتا بدن لئے امام بارگاہ کی دیوار سے لگی کھڑی تھی۔ تشنگی سِوا ہونے لگی اب کی بار فرات پر ننگی تلواروں کے نہیں بے نام و ننگ رواجوں کے پہرے تھے۔۔ سورج کی نیزے کی اَنی جیسی تیز کرنیں بدن میں پیوست ہو رہی تھیں پور پور سے لہو رس رہا تھا اُس کے ہاتھ اُٹھے اور سینے پر پڑنے لگے لہو جلنے لگا، حلق میں ببول اُگ آئے۔۔

’’ بتول کا کیا ہو گا؟’‘ اماں کی آواز میں پریشانی تھی۔

’’ خاندان میں اِس کے جوڑ کا کوئی نہیں بچا جو بھی رشتہ پوچھتا ہے جانے کیوں پلٹ کر نہیں آتا’‘

’’ میر علی، میری بیٹی، میری سوہنی بیٹی’‘

اماں سسک اٹھی۔

’’کچھ کرو میر علی مجھ سے بیٹی کا دکھ برداشت نہ ہو گا’‘

امّاں کی سسکیاں چیخوں میں ڈھلنے لگیں۔۔

ماتمی حلقہ بڑا ہو گیا تھا جانے وہ کون تھیں آسیب کی طرح کہیں سے نمودار ہو کر حلقے میں آن کھڑی ہوتیں سر نہیوڑائے، منہ ہی منہ میں کچھ بُڑ بُڑ اتے ہوئے۔۔ اُن کے سوکھے ہونٹ اُن کی جانکنی میں ڈھلتی پیاس کے گواہ تھے۔۔ پاؤں کے چھالوں سے رِستا خون پکار پکار کر خاردار راستے کی منادی کر رہا تھا۔ سفید کفن جیسے لبادے دھول اور راکھ میں اَٹے ہوئے تھے ماتمی لے تیز ہو رہی تھی۔ تیز دھار تلواریں، لپکتی برچھیاں، آرزوؤں کے لاشے کٹ کٹ کر گر رہے تھے اُٹھتے ہاتھ تسلسل سے سینوں پر پڑنے لگے۔۔

’’میر علی میری بیٹی کی عمر نکلتی جا رہی ہے اس کے ساتھ کی دو دو بچوں کی مائیں بن گئیں ہیں’‘

اماں کی سسکیاں عرش کو چھو رہی تھیں۔۔

’’میری قبر بھی سلگے گی’‘

لیکن میر علی برادری اور زمین کے بیچ پِستا رہا۔

’’ سکینہ کیا کروں تم تو جانتی ہو برادری سے باہر رشتہ ممکن نہیں ہے’‘ میر علی کی آواز میں ایک بیچارگی سی تھی۔

’’آخر کیوں میر علی؟’‘ اماں سراپا سوال تھیں۔۔

’’یہ تم پوچھ رہی ہو، ؟تم تو جانتی ہو نا رسم و رواج کو’‘ میر علی کی آواز میں تُرشی تھی۔

’’کیا رواج اولاد سے زیادہ اہم ہوتے ہیں ؟’‘

اماں بہت بھولی تھی پتھر سے سر پھوڑ رہی تھیں۔۔

’’ زندوں کی اور کتنی قبریں بناؤ گے میر علی بتاؤ”‘‘ اماں پھٹ پڑیں۔۔

’’کب تک جھوٹی شان کا طوق گلے میں لٹکائے پھرو گے ؟’‘

نا انصافی کی دُہائی دیتے دیتے امّاں ایک دن خاموشی سے ڈھ گئیں ریت کی کسی بھر بھری دیوار کی طرح۔ میر علی نے جانے کس دل سے انھیں وہ دو گز کی زمین بھی سونپی ہو گی۔

پھر ایک دن میر علی زمین کی چاہ میں بیٹی کو زندہ گاڑ کر خود بھی اُسی زمین کی کوکھ میں اُتر گیا۔

’’اِس کا حق بخشوا دیں آخر کب تک یوں بٹھائے رکھیں گے ؟’‘

یہ ادا سائیں کی بیوی تھی۔

’’ امّاں باوا تو گئے ہم رہ گئے ہیں زمانے کے طعنے سہنے کے لئے’‘

’’بتول تو جانتی ہے نا بہشتن امّاں کو تیرے بیاہ کا کتنا ارمان تھا اب تیرے نصیب کہ وہ اپنا ارمان اپنے ساتھ قبر میں ہی لے گئیں’‘ بھابھی کی آواز جذبات سے عاری تھی

’’تیرا یوں بیٹھنا ہمیں گنہگار کر رہا ہے تیرے ادا سائیں کہہ رہے تھے کہ۔۔۔۔۔۔۔’‘

بھا بھی کی زبان لڑ کھڑا گئی۔

’’بھابھی جب خون پانی ہو جائے تو آخری خواہش پوچھنا بیکار ہوتا ہے پھر صرف فیصلہ سنایا جاتا ہے کیا مجھے نہ کہنے کا حق ہے ؟’‘

بتول بہت دکھی ہو رہی تھی۔ بھابھی خاموشی سے اُسے دیکھتی رہی۔

بے نیازی سے اِدھر اُدھر گزرتے لوگ اِس بات کے گواہ تھے کہ وہ ماتمی حلقہ نہ تو کسی کو دکھائی دے رہا ہے اور نہ ہی وہ نوحے کوئی اور سُن سکتا ہے۔۔ بتول دونوں ہاتھوں سے سینہ پیٹ رہی تھی اُس کے حلق سے گھٹی گھٹی چیخیں نکل رہی تھیں۔۔

اللہ رکھی سفید سلک کا جوڑا لے آئی تھی۔

’’بی بی تو نصیب والی ہے اللہ کے کلام کا ساتھ ملا’‘

اللہ رکھی نے جوڑا اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔

’’کہا سُنا معاف کرنا’‘ اُس نے بتول کے پاؤں چھوئے۔۔ بتول نے ایک نظر اُسے دیکھا

’’مجھے اللہ کے کلام کا نہیں اللہ کے کسی بندے کا ساتھ چاہئیے تھا’‘

بتول کا دل چاہا کہ وہ اتنی زور سے چیخے کہ پہاڑ دھُنی ہوئی روئی کی طرح ریزہ ریزہ ہو کر اُڑنے لگیں قبریں کھل جائیں اور مردے باہر نکل آئیں لیکن اِس نے خاموشی سے پاؤں پیچھے کر لئے۔۔

’’ ابھی کچھ دیر میں مولوی صاحب آتے ہوں گے، تم تیار ہو جاؤ’‘

بھابھی کے ہاتھ میں سبز مخملیں غلاف میں لپٹا ہوا قرآن تھا۔ نوحے چیخوں میں بدل رہے تھے۔۔ ہاتھوں اور پاؤں میں رسیوں کی بندشیں بہت سخت تھیں رگوں میں خون کا بہاؤ رکنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ یا کریم، یا رؤف۔

’’ بتول بی بی میرے ساتھ ساتھ بولو’‘

مولوی صاحب نے تلاوت کرنے کے بعد بتول سے کہا۔

’’میں بتول بنتِ میر علی اپنے ودیعت من اللہ حق سے بنامِ خدا بحقِ اپنے والدین اور بھائیوں کے دستبردار ہوتی ہوں روزِ محشر اِس بابت میرا کسی پر کوئی دعویٰ نہیں ہو گا اور قرآن کو اپنا حاکم مانتی ہوں’‘

بڑی بھابھی نے سبز مخملیں غلاف میں لپٹا ہوا قرآن اِس کی گود میں رکھا اور اللہ رکھی کو مٹھائی لانے کو کہا۔ شامِ غریباں نے مقتل گاہ کو ڈھانپ لیا پاؤں کے نیچے انگارے سلگ اُٹھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا نصیر، یا حفیظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بتول کا جلتا سینہ دھیرے دھیرے راکھ ہونے لگا۔ سرد ہوائیں راکھ پر جمے پھولوں کو اُڑاتیں رہیں اور بتول کے بالوں میں چاندی اُترتی رہی۔

’’بتول پھوپھو آپ نے سُنا سب کیا کہہ رہے ہیں’‘

رُباب سسک اُٹھی بتول نے ایک نظر اُسے دیکھا۔

’’جانتی ہوں بچے’‘ اِس نے بہت پیار سے رُباب کے سر پر ہاتھ رکھا۔

’’ وہ یہ سب کیسے کر سکتے ہیں’‘ رُباب کی آنکھوں میں حیرت اور دکھ تھا۔

’’میں بابا جانی سے خود بات کروں گی’‘ اُس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔۔

’’ نا میری بچی ایک لفظ بھی نہیں ذہنوں اور دلوں پر لگے قفل اتنی آسانی سے نہیں ٹوٹتے’‘

بتول نے اُسے تھام لیا۔

’’تیرا بو لنا بات بگاڑ دے گا’‘

’’پھوپھو میں بھی بھائی کی طرح اپنی من مانی کر سکتی تھی لیکن ہمیشہ بابا کی عزت کا پاس رہا اُس کا یہ صلہ؟’‘

وہ بے حد دکھی تھی۔

’’ اگر یہی کرنا تھا تو جاہل رہنے دیا ہوتا خواہ مخواہ اتنے سال کتابوں کا بوجھ لادے رکھا’‘

’’ آخر ہمارے کربلائی گھروں میں سانس لیتی یہ یزیدیت کب ختم ہو گی’‘

رُباب کا بس نہیں چل رہا تھا کہ دنیا کو آگ لگا دے۔۔

’’ہر ایک کی اپنی اپنی کربلا ہوتی ہے جو لہو مانگتی ہے وہ لہو چاہے تن سے پھوٹے یا من کے کسی اَن دیکھے گھاؤ سے کبھی کبھی زندگی ہارنا پڑتی ہے تب کہیں جا کر بابِ خلیل وا ہوتا ہے’‘

وہ رُباب کی پیشانی چومتے ہوئے بولی۔

’’ لیکن اب انھیں رکنا ہو گا اِس گھر میں کوئی اور بتول زندہ قبر میں نہیں اُترے گی یہ میرا تجھ سے وعدہ ہے’‘

رُباب نے اُس کی گود میں سر رکھ لیا وہ ویران آنکھیں لیے اُس کے بالوں میں اُنگلیاں پھیرنے لگی۔

دوپہر میں بڑی بھابھی آئی تھی۔ رُباب بڑے ادا سائیں کی پہلوٹھی کی اولاد تھی اِس سے چھوٹا ایک بیٹا تھا جو اپنی پسند کی شادی رچا کر بیٹھ گیا تھا۔ رُباب کو ادا سائیں نے بہت پڑھایا تھا۔ اِسی چکر میں اُس کی عمر نکل گئی۔ امداد علی شاہ کی بیٹی ولایت سے ڈاکٹری پڑھ کر آئی تو میر حسن کیسے پیچھے رہ جاتا وہ اپنے کلف لگے شملے کو ڈھلکتا ہوا کب دیکھ سکتا تھا۔ رُباب بتیس سال کی ہونے کو آئی تھی خاندان میں اِس کی عمر کے جود و ایک لڑکے تھے اُن کی یا تو شادی ہو چکی تھی یا نشانی کروا دی گئی تھی۔ دوسرا بھابھی کو اِن اَن پڑھوں میں بیٹی دینے کا شوق بھی نہ تھا اُسے جانے کیوں زُعم تھا کہ وہ میکے میں بیٹی لگا لے گی۔

’’ نہ بی بی ہم غیر سیدوں سے بیٹیاں لیتے ہیں دیتے نہیں’‘

ادا سائیں کی آواز کافی بلند تھی، گمان کی ننگی پیٹھوں پر سفر بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔۔ اَنگ اَنگ میں درد بھر جا تا ہے اور جب پاؤں تلے سے زمین کھینچ لی جائے تو حقیقتوں کے بھیانک سائے ڈرانے لگتے ہیں یہ بات بھابھی پر آج عیاں ہوئی تھی۔

’’بتول مجھے معاف کر دے میں نے تیرے ساتھ ظلم کیا تیرے اچھے رشتے آئے تھے لیکن زمین کا بٹوارہ نہ مجھے منظور تھا نہ میر حسن کو اِس لیئے ہم منع کر دیتے رہے’‘

’’ اور امّاں ؟ امّاں کو خبر تھی اِس بات کی’‘

بتول کی آواز چٹخ رہی تھی اندر اُگے ریگزار میں ریت اُڑنے لگی سائیں سائیں کرتی ہوائیں ضبط کی دیواروں سے سر پٹخ رہی تھیں دکھ کے زہریلے ناگ روح کو ڈسنے لگی۔

’’امّاں کو کیسے خبر ہوتی رشتے والوں کو باہر ہی باہر سے منع کر دیا جاتا تھا’‘

آگہی کے عذاب سے بتول آج آشنا ہوئی تھی کس قدر جان لیوا ہوتا ہے تن سے جان نچوڑ لیتا ہے۔۔ رَگ رَگ میں بے چینی بہنے لگی اُسے زندگی میں پہلی بار اِن سب سے نفرت محسوس ہوئی بے پناہ نفرت۔

’’صرف پچھتاوا احساسِ گناہ کو کم نہیں کر سکتا۔ دائرے میں گھومتی زندگی آپ کو کبھی نہ کبھی اُس مقام پر لے آتی ہے جہاں سود سمیت ادائیگی کرنی ہو تی ہے یہ توازن کے لیے بہت ضروری ہے’‘

بتول کہنا چاہتی تھی لیکن اُسے لفظوں کا زیاں منظور نہ تھا۔ وقت نے اُسے مَن مارنا سکھا دیا تھا سو اُس کی چپ نہ ٹوٹی۔ گو منصفی کی فصیلوں پر جلتے دیوں کی لَو بہت تیز تھی لیکن اُسے ایسا انصاف منظور نہیں تھا۔ اُسے رسم و رواج کے بندی لوگوں سے نہیں رواجوں سے ٹکرانا تھا۔ اُن فصیلوں کو توڑنا تھا جن کے اندر بنے قبرستان میں آسیب کی طرح منڈلاتی روحیں اِس برزخ سے رہائی کی منتظر تھیں۔۔

’’ مجھے کوئی گلہ نہیں ہے’‘

بتول کے لہجے میں وہی ازلی صبر رچا ہوا تھا۔

’’تم فکر مت کرو میں ادا سائیں سے بات کروں گی، کوئی اور بتول نہیں اب بس’‘

’’تیری بات وہ مانے گا’‘

بے یقینی کی گیلی زمین پر بھابھی کے پاؤں لڑکھڑا رہے تھے۔۔

’’نہ مانے لیکن اب کی بار بتول ہار نہیں مانے گی’‘

وقت نے بتول کے لہجے میں یہ کیسا یقین اُتار دیا تھا بھابھی اُسے دیکھتی رہ گئی۔ مٹھی سے ریت کی طرح پھسلتے لمحوں کو ہوا جانے کہاں اُڑا کر لے گئی تھی پچھتاوے کا زہر روح میں اُتر نے لگا۔ لیکن کچھ باقی نہ بچا تھا سوائے آنسوؤں کے جو تلافی کے لئے کافی نہ تھے۔۔

بتول نے میر حسن سے بات کی وہ اُلٹا اُسی پر برس پڑا۔

’’دیکھ بتول تو اِن معاملات میں نہ پڑ ہم ہیں نا سنبھال لیں گے۔۔ رُباب میری بیٹی ہے اور میں اِس کا بُرا بھلا خوب جانتا ہوں’‘

میر حسن کا لہجہ حتمی تھا ’’ نہ غیر سید نہ غیر برادری’‘

لہو کے چھینٹے چاروں طرف اُڑنے لگے زنجیروں میں لگی تیز دھار چھریوں سے بدن کٹنے لگا درد جانکنی میں ڈھل گیا نوحے اور چیخیں در و دیوار میں سرائیت کرنے لگے۔۔ دھواں دھواں وجودوں کا ماتمی حلقہ پورے کرّہ ارض پر پھیل گیا۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی تیز ہوا اپنے دوش پر جلتے خیموں کی راکھ لیے مقتل گاہ میں چکرانے لگی۔ رات جھکتی چلی آ رہی تھی۔

بھابھی کی آنکھیں اُس کے کٹتے کلیجے کی گواہ تھیں۔۔ لیکن بے بسی نے وہ دھول اُڑائی تھی کہ کچھ نظر آنا ہی بند ہو گیا تھا۔ پیر جلی بلی کی طرح اندر باہر ڈولتی بھابھی کو بتول سے آنکھیں چار کرنا مشکل تھا لیکن اُمید کی ڈوری بھی کہیں اُسی کے دامن سے بندھی ہو ئی تھی۔

’’ٹھیک ہے ادا سائیں تم جیتے میں ہاری’‘

بتول کی آنکھیں بنجر اور چہرہ سپاٹ تھا۔ وہ پچھلے کئی دنوں سے میر حسن کی منت سماجت کرنے میں لگی ہو ئی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا ایک ایک زخم اُس کے آگے کھول کر رکھ دیا۔ خود ننگی ہو گئی لیکن ادا سائیں کی نہ ہاں میں نہ بدلی۔

بتول نے علی مراد کو بُلا بھیجا تھا علی مراد پنھُل چچا کا بیٹا تھا جو رشتے میں امّاں کے بھائی تھے وہ بتول کی بہت عزت کرتا تھا۔

’’ادا سائیں گاڑی منگوا دو ہمیں منت کے دھاگے رکھنے امام بارگاہ تک جانا ہے’‘

’’کون کون جا رہا ہے ؟’‘ وہ مشکوک تھا۔

’’میں اور رُباب چاہو تو ساتھ آ سکتے ہو’‘ بتول کے لہجے میں ٹھہراؤ تھا۔

’’نہیں تم جاؤ میں جان محمد کو تمہارے ساتھ کر دیتا ہوں’‘

دعا کو اُٹھے ہوئے ہاتھوں کی اوک میں بھرے آنسو جھٹک کر بتول نے آنکھیں کھولیں تو وہ امام بارگاہ میں اکیلی تھی۔ رُباب اپنے کلاس فیلو نعمان لاشاری سے نکاح کے بعد، بتول کی دعائیں پلو میں سمیٹے وہاں سے رخصت ہو چکی تھی۔ بتول اُٹھی اور بیس سال بعد پہلی بار قر آن کو کھول کر لبوں سے لگایا اور بلند آواز سے تلاوت کرنے لگی۔

٭٭٭

 

 

 

 پومپیائی

 

’’ میں جانتی ہوں وہ زندہ ہے’‘ لڑکی ہذیانی انداز میں چیخ رہی تھی۔

آگسٹینا بھاگ کر اندر آئی اور اُسے دونوں بازوؤں میں جکڑ لیا آج پھر اُس پر دورہ پڑا تھا۔ وہ چیختے چیختے نڈھال ہوئی جا رہی تھی۔ زیریں اطالیہ سے کچھ دور سیسیلیئن چینل میں ایک چھوٹے سے جزیرے پر ماہی گیروں کا یہ قبیلہ صدیوں سے آباد تھا۔ یہ لڑکی انھیں چند ماہ قبل ساحل پر بہت اَبتر حالت میں ملی تھی اِس کا بچہ اِس کے پیٹ میں مر چکا تھا بدن میں تیزی سے پھیلتے ہوئے زہر کو روکنے کے لئے جزیرے کے حکیم کو بہت محنت کرنی پڑی۔ وہ ٹھیک تو ہو گئی لیکن اس کی ذہنی حالت اب بھی خاصی ابتر تھی بیٹھے بیٹھے چیخنے لگتی۔ اس کی نگاہوں میں ایک نہ ختم ہونے والی کھوج تھی جو اسے بے چین کئے رکھتی۔ الفانسو اپنے قدیم جڑی بوٹیوں کے نسخوں سے اس کا علاج جاری رکھے ہوئے تھا اس کی حالت میں بتدریج سدھار آ نے لگا۔ الفانسو کی بیٹی آگسٹینا اس کا بہت خیال رکھتی اِسی نے اُسے اسٹرینیو(اجنبی) کا نام دیا تھا

’’آگسٹینا مجھے جانا ہو گا مجھے اُسے ڈھونڈنا ہے’‘

آگسٹینا لکڑی کے مرتبان میں سوکھی مچھلیاں بھر رہی تھی کہ اسٹرینیو اندر آ گئی۔

’’کسے ڈھونڈنے جانا ہے’‘ آگسٹینا نے اس کی طرف دیکھا، آج اس کی آنکھوں میں وحشت کی جگہ تفکر اور ٹھہراؤ تھا۔

’’ آر مینڈو کو’‘ وہ بہت آہستگی سی بولی۔

’’کون آرمینڈو؟’‘

لمحہ بھر کو آنکھوں میں پھر وحشت جاگی لیکن جلد ہی اس نے خود پر قابو پا لیا۔

’’ میرا آرمینڈو’‘ عجیب سا جواب آیا تھا۔

’’تم اسے ڈھونڈنے کہاں جاؤ گی کون جانے وہ زندہ بھی ہے یا نہیں’‘

’’نہیں میں جانتی ہوں وہ زندہ ہے’‘ آج پہلی بار آگسٹینا کو اس جملے کی سمجھ آئی تھی۔

’’وہ پومپیائی ہی میں ہو گا’‘

’’لیکن تم کہاں سے شروع کرو گی پومپیائی تو ختم ہو چکا’‘ آگسٹینا کے لہجے میں دکھ تھا۔

’’میں اپنی کھوج وہیں سے شروع کروں گی جہاں اسے کھویا تھا’‘

’’ تمہاری حالت ٹھیک نہیں ہے اور پھر تم وہاں اکیلی کیسے رہو گی’‘ آگسٹینا فکر مند تھی۔

ََ ’’اکیلی کب ہوں گی آرمینڈو ہو گا نا وہاں۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے یقین ہے وہ وہاں میرا انتظار کر رہا ہو گا’‘

سب نے اسے روکنے کی بہت کوشش کی الفانسو نے بہت سمجھایا لیکن وہ اپنی بات پر اَڑی رہی۔

"ٹھیک ہے کچھ دنوں بعد ایک جہاز اس طرف جا رہا ہے تم چاہو تو ان کے ساتھ جا سکتی ہو”

آگسٹینا نے ہار مان لی۔ گو کہ وہ اس کے جانے سے خوش نہیں تھی اتنے عرصے میں اُس سے ایک اُنسیت سی ہو گئی تھی۔

لوینیا نے آئینے میں آخری بار اپنا تنقیدی جائزہ لیا ایک دلکش مسکراہٹ اس کے لبوں پر بکھر گئی۔ مشاطہ نے بہت خوبصورتی سے اسے سنوارا تھا۔ سنہری بالوں کی دو باریک چوٹیاں گوندھ کر باقی بالوں کو بہت ڈھیلے ڈھالے انداز میں ان میں جکڑ دیا گیا تھا۔ جنگلی بیروں سے نکالے ہوئے رنگ سے سجے ہونٹ اور آنکھوں میں بسا کاجل جیسے لَو دے دے رہا تھا۔ وہ آئینہ ایک طرف رکھ کر اپنا لمبا لبادہ سنبھالتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی اور پاس پڑا ہوا جنگلی پھولوں سے بنا تاج سر پر رکھ لیا۔

باہر کاسٹانیٹ(castanet) اور اوریگانیٹو(oreganetto)( قدیم اطالوی ساز) کی تھاپ پر رقص جاری تھا، بیچ بیچ میں کاپیلو نے ( ڈھول کی ایک قسم) کی تیز آواز ابھرتی تو ایڑیوں کا ردہم تبدیل ہو جاتا۔ نوجوان جوڑے چست لباس پہنے لکڑی کی بھدی میزوں کے درمیان تھرکتے پھر رہے تھے۔۔ لڑکوں کے ہاتھوں میں سیب اور انگور کی شراب سے بھرے گلاس تھے جنہیں وہ نہایت مشّاقی ایک سے دوسرے ہاتھ میں منتقل کرتے ہوئے ساتھی لڑکیوں کو بھی سنبھالے ہوئے تھے۔۔

ٓآرمینڈو سامنے پڑی ہوئی لکڑی کی بڑی سی قاب میں رکھی بھنی ہوئی ران سے گوشت کے پارچے الگ کر رہا تھا۔ دوسری قاب میں تیز مصالحے والی مچھلی اور اُبلی ہوئی سیپیاں رکھی تھیں۔۔ اچانک ہی موسیقی کی تیز آواز خیر مقدمی دھن میں بدل گئی۔ رقص میں شامل لڑکے لڑکیاں تیزی سے دائیں بائیں اطراف میں سمٹنے لگے۔۔ لوینیا اپنی خادماؤں کے جلو میں شادی کے پنڈال میں داخل ہو رہی تھی۔ اُس کے آگے آگے ہاتھوں میں پھولوں کی ٹوکریاں تھامے رنگ برنگ کپڑوں میں ملبوس بچیاں تھیں۔۔ دو خادماؤں نے لوینیا کا لمبا حریری لباس تھاما ہوا تھا۔

آر مینڈو نے تیزی سے ہاتھ صاف کئے اور پنڈال کے وسط میں آ گیا۔ چست لباس اور سرخ کمر بند میں اس کا دراز قد نمایاں ہو رہا تھا۔ اُس نے جھک کر لوینیا کا ہاتھ تھاما اور داہنے پاؤں پر گھوم کر اسے بانہوں میں بھر لیا اُس کی ایڑیاں بلند آواز سے فرش سے ٹکرائیں اطراف میں کھڑے لڑکے لڑکیوں نے جیسے ہوا میں تیرتے ہوئے رقص کے زاویے بنانے شروع کر دئیے۔۔ کاپیلو نے کی تیز تھاپ اور اویگانیٹو کی مخصوص آواز تھرکتے قدموں کو مہمیز کر رہی تھی رقص میں تیزی آتی گئی۔

وہ ایک خوبصورت اور چمکدار دن تھا۔ نیلے آسمان پر تیرتے ہوئے روئی کے گالوں جیسے سفید بادل بہت بھلے لگ رہے تھے۔۔ ہوا میں ہلکی ہلکی تمازت اور جنگلی پھولوں کی مہک رچی ہوئی تھی۔ خلیج نیپلز کے نقرئی پانیوں پر ڈولتی کشتیاں دور آسمان کی وسعتوں میں اُڑتے سفید پرندے اور فضا میں پھیلا ہوا جادوئی سکوت رگ و پے میں ایک عجیب سا سرور بھر رہا تھا۔

آرمینڈو نے لوینیا کو پہلی بار موسمِ بہار کے اوائل میں شراب کے ایک تہوار میں دیکھا تھا۔ شہر کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں انگوروں کو پاؤں سے کچلنے کے لئے مدعو تھے یہ عام تاثر تھا کہ انسانی جلد کا لمس شراب کا ذائقہ اور رنگت نکھارتا ہے۔۔ آرمینڈو نے اُ سے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ لوینیا کی بھوری آنکھوں میں جانے کیسا سحر تھا کہ آرمینڈو چاہتے ہوئے بھی اُس سے نظریں نہیں ہٹا پایا۔ لوینیا بھی بے اختیار اُس کی طرف کھنچی چلی آئی، گذرتے موسموں نے اِن کی محبت کو ایک انوکھی جاذبیت بخشی تھی۔

آرمینڈو نے باقاعدہ طور پر لوینیا کے باپ اَلبرٹو سے بات کی۔ اُس نے اس شرط پر رشتہ منظور کیا کہ آرمینڈو اپنی ذاتی کشتی خرید لے۔۔ لوینیا اُس کی بہت نازو نعم میں پلی اکلوتی اولاد تھی وہ چاہتا تھا کہ آرمینڈو کی اپنی الگ سے پہچان ہو۔ البرٹو کا شمار شہر کے رئیس لوگوں میں ہوتا تھا۔ خلیج نیپلز میں اس کے دو جہاز مچھلی پکڑنے میں مصروف رہتے تھے ہر کولینیم، پومپیائی اور قرب و جوار میں ایک بڑی منڈی اس کی مچھلیوں کی منتظر رہتی تھی۔ شہر کے وسط میں بنا ہوا پختہ اکھاڑا اور اس کے ساتھ ہوسٹل جوگلیڈیئیٹرز(gladiators) کی رہائش گاہ اور اُن کی تربیت کے لیے مشہور تھا اُسی کی ملکیت تھے۔۔ آمینڈو کا باپ ایک معمولی کاشت کار تھا۔ ویسویئس(vesuvius اٹلی کا مشہور زمانہ آتش فشاں پہاڑ) کے دامن میں نہایت زرخیز زمین پر اُس کا انگوروں کا ایک چھوٹا سا باغ تھا اور اُس کے ساتھ ہی شراب بنانے کا ایک کارخانہ۔ آرمینڈو کے باپ کے لیے البرٹو سے رشتہ داری جڑنا بہت اعزاز کی بات تھی اُس نے بخوشی آرمینڈو کو کشتی خریدنے کے لئے رقم فراہم کر دی۔

آج کی شاندار دعوت کا انتظام بھی البرٹو نے ہی کیا تھا وافر مقدار میں بھنا ہوا نمکین گوشت، تیز مصالحے والی روایتی مچھلی، تازہ پھل، شراب، اور اُبلی ہوئی سیپیوں کے ساتھ نان نما روٹی موجود تھی۔

جیسے ہی چاند ویسویئس کے بلند پہاڑ کی داہنی طرف سے نمودار ہوا آرمینڈو نے لوینیا کا ہاتھ پکڑا اور اُس کے باپ سے جانے کی اجازت چاہی۔ گھاٹ پر اُس کی نئی کشتی تیار تھی۔ دونوں کو شادی کی پہلی رات کچھ دوری پر واقع ایک چھوٹے سے جزیرے پر گذارنا تھی جو نجانے کب آتش فشانی عمل کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا تھا اور دیوتاؤں کی آماجگاہ تصور کیا جاتا تھا۔ دو نئے چاند نکلنے تک لوینیا کو وہاں رہنا تھا جبکہ آرمینڈو صرف دن کی روشنی میں ہی وہاں رہ سکتا تھا۔ یہ زمانوں سے چلی آ رہی ایک ایسی ریت تھی جو ہر نئے شادی شدہ جوڑے کو نبھانی پڑتی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ نئی نویلی دلہن یہ تنہائی ’’ جونو دیوی’‘ کو خوش کرنے کے لئے اختیار کرتی تھی

چندہفتوں کے بعد جب وہ واپس لوٹے تو بہت خوش تھے۔۔ دیوتاؤں نے ان کی قربانی کو قبول کر لیا تھا لوینیا ماں بننے والی تھی آرمینڈو اُس کا اتنا خیال رکھتا کہ بعض اوقات وہ چڑ جاتی۔

’’میں کیا کروں لوینیا مجھے اچھا لگتا ہے تمہارا خیال رکھنا’‘

آرمینڈو کے لہجے کی بے چارگی لوینیا کو مغرور سا کر دیتی۔

’’آرمینڈو تم کیا چا ہتے ہو لڑکا یا لڑکی’‘

لوینیا نے پیٹ پر بھیڑ کے دودھ سے نکلا مکھن ملتے ہوئے پو چھا۔

’’لڑکی بالکل تمہاری طرح بھوری آنکھوں والی’‘

آرمینڈو کی آواز میں محبت کا رس گھلا ہوا تھا۔

اتنے میں خادمہ شمع دان لئے اندر داخل ہوئی

’’کھڑکی سے پردے ہٹا دو اندھیرا سا ہو رہا ہے’‘

’’ اطاعت سینیو ریتا’‘

’’لیکن باہر بھی ایسا ہی ہے ویسویئس کچھ دنوں سے ناراض ہے دھواں اُگل رہا ہے۔۔ اِس سے اندھیرا سا رہنے لگا ہے’‘

خادمہ نے پردے ہٹاتے ہوئے شمع دان کو چھت میں لٹکے آ ہنی حلقے میں پھنسا دیا۔

دن کا دوسرا پہر تھا پومپیائی کی منڈی کی رونق عروج پر تھی۔ تاجر اپنا اپنا مال فروخت کرنے کے لئے گا ہکوں کو لبھانے میں لگے ہوئے تھے۔۔ صاف ستھری گلیاں زندگی کی آوازوں سے گونج رہی تھیں۔۔ خوبصورت فربہ اندام عورتیں کھلے گریبانوں کے ساتھ ہر آنے جانے والے کو تاڑتے ہوئے فحش اشارے بازی میں مصروف تھیں۔۔ بازار کے بیچوں بیچ کئی جگہوں پر لونڈے لپاڑے اور مالدار ٹھرکی بوڑھے شراب کے نشے میں دھت جواء کھیلتے ہوئے آزادی سے ایک دوسرے کو گندی گالیوں سے نواز رہے تھے

اچانک زمین نے ہلکے ہلکے لرزنا شروع کر دیا لوگوں میں گھڑی بھر کے لئے ہلچل سی مچی لیکن چند لمحوں سب پر سکون ہو گئے۔۔ ایسا اکثر ہوتا تھا۔ ویسویئس جب چاہتا تھا چنگھاڑنے لگتا تھا اس کی چنگھاڑ بادل کی گھن گرج سے زیادہ نہیں ہوتی تھی مگر آج اس نے چنگھاڑ کے ساتھ گہرا سیاہ دھواں بھی اگلنا شروع کر دیا جو لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جا رہا تھا۔ آرمینڈو گھاٹ پر ہر کولینیم سے آئے ہوئے تاجروں کے ساتھ مول تول میں مصروف تھا ویسویئس کے سر پر پھیلا ہوا دھویں کے بادل کا بڑھتا حجم دیکھ کر اس نے بات مختصر کی اور گھر کی طرف بھاگ پڑا جانے کیوں اِس کا دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ زمین ایک بار پھر شدت سے لرزی ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی زمین کو پکڑ کر ہلا رہا ہو عمارتیں دائیں بائیں ڈول رہی تھیں ایک ہولناک گڑ گڑاہٹ کے ساتھ ویسو یئس نے دھوئیں کے ساتھ آگ اُگلنی شروع کر دی۔

یہ وہ شہر تھا جو اپنے قحبہ خانوں، جوئے اور عمدہ شراب کے لئے مشہور تھا اس کی پُر شکوہ سنگی عمارتوں پر ہونے والی کاشی کاری اور تصویر کشی اپنی مثال آپ تھی۔ سنگی مجسمے بنانے میں انھیں ملکہ حاصل تھا۔ ظروف سازی میں نیپلز کے کاری گر پوری دنیا میں جانے جاتے تھے۔۔ خوبصورت اکھاڑے، لمبے لمبے ستونوں والی شاندار رہائش گاہیں پل بھر میں تیزی گرتی ہوئی نرم راکھ سے ڈھک گئیں۔۔ ویسویئس کے دہانے سے نکلنے والے دھوئیں اور زہریلی گیسوں نے سورج کو ڈھانپ لیا بوجھل ہوا اور پاؤڈر جیسی مہین راکھ کی وجہ سے سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔

آرمینڈو گھر میں داخل ہوا تو عجیب افراتفری کا عالم تھا لوینیا درد سے کراہتی ہوئی زمین پر لوٹ رہی تھی شاید بچے کی پیدائش کا وقت قریب تھا۔ پورا گھر خالی تھا وقت کی نزاکت کو بھانپ کر تمام خادمائیں کسی پناہ گاہ کی تلاش میں نکل چکی تھیں۔۔ آرمینڈو تڑپ کر آگے بڑھا اور لوینیا کو ہاتھوں میں اٹھانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا اس نے بستر سے ایک تکیہ اٹھا کر لوینیا کے سر کے نیچے رکھا اور بیرونی دروازے کی طرف لپکا وہ کسی کو مدد کے لئے بلانا چاہتا تھا۔ لوینیا کی بھوری آنکھوں میں چھپے ہوئے درد اور خوف نے اُسے دہلا کر رکھ دیا۔ اچانک زمین ایک بار پھر لرزی اس بار شدت اتنی زیادہ تھی کہ مضبوط سنگی عمارتیں چٹخ چٹخ کر زمیں بوس ہونے لگیں۔۔ ویسویئس نے دھوئیں کے ساتھ ٹنوں کے حساب سے آتشی چٹانیں اور پتھر ہوا میں اچھالنے شروع کر دیئے تھے۔۔ شہر میں کہرام مچا ہوا تھا گہرے اندھیرے میں گرتے پڑتے چیختے چِلاتے ہوئے لوگ اندھا دھند مختلف سمتوں میں بھاگے چلے جا رہے تھے۔۔ آرمینڈو بُری طرح گھبرایا ہوا تھا اس نے بار بار سب سے مدد کی درخواست کی لیکن اس قیامت نے سب کے حواس مختل کر دیئے تھے۔۔ وحشت سے پھٹی آنکھوں میں جنون اُترا ہوا تھا ہر کوئی اپنی جان بچانے کی فکر میں تھا۔ بڑھتی ہوئی حدت اور مہین راکھ نے پھیپھڑوں میں آگ سی بھر دی تھی۔ اچانک زور دار آواز کے ساتھ بڑے کمرے کی شمالی دیوار ڈھیر ہو گئی اس کے ساتھ چھت کا بیشتر حصہ بھی۔ آرمینڈو لوینیا کو دونوں بازوؤں سے پکڑ کر گھسٹتا ہوا باہر صحن میں لے آیا وہ بری طرح ہانپ رہا تھا۔ اِس نے انتہائی بے بسی سے درد اور کھانسی کی شدت سے دوہری ہوتی ہوئی لوینیا کو دیکھا۔۔۔۔۔۔۔ ہوا میں کچھ ایسی چیز شامل ہو گئی تھی جو سینے میں شدید جلن پیدا کر رہی تھی۔۔۔۔۔ ویسو یئس پوری طاقت سے گرج رہا تھا آرمینڈو نے کوئی چارہ نہ پا کر لوینیا کو پیٹھ پر لادا اور گھاٹ کی طرف بھاگ نکلا۔

اندھیرے اور لوگوں کے اژدھام میں راستہ بنانا آسان نہ تھا۔ گلی کے چکنے پتھروں پر بچھی راکھ کی موٹی تہہ نے قدم اٹھانا دشوار کر دیا تھا۔ پانی کی طرح بہتا پسینہ اور لمحہ بہ لمحہ بوجھل ہوتی ہوا۔ آرمینڈو کی اپنی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔۔ اچانک اُسے ایسا لگا جیسے جہنم کے دروازے کھول دئیے گئے ہوں پانچ سو ڈگری کی حدت لئے پیرو کلوسٹک فلو نے بجلی کی سی سرعت سے پومپیائی کے گلی کوچوں میں غرانا شروع کر دیا۔ آرمینڈو گھاٹ کے قریب پہنچ چکا تھا گیلے راکھ سے اٹے اور بری طرح لرزتے ہوئے تختوں پر قدم جمانا بہت مشکل ہو رہا تھا۔ اس سے قبل وہ کشتی تک پہنچ پاتا زمین کی تیز کپکپاہٹ نے اس کے پاؤں اُکھاڑ دیئے اور وہ لوینیا سمیت بپھرے ہوئے سمندر میں جا گرا۔

پومپیائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوینیا کے خوابوں کی جنت، وہ اپنی جنت میں واپس لوٹ آئی تھی لیکن وہاں کچھ نہ بچا تھا اُجڑے ہوئے درودیوار سے جھانکتی اداسی اور ویرانی۔۔۔۔۔ اعصاب پر طاری ہوتا ہوا پُر ہول سناٹا۔۔۔۔۔۔۔ منوں دبیز راکھ تلے سویا ہوا شہر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سنسان گلیوں میں سرسراتی ماتمی ہوا۔۔۔۔۔۔۔ وہ زندگی سے بھر پور لوگ جانے کہاں کھو گئے تھے۔۔

اپنے بے جان قدموں کو گھسیٹتے ہوئے لوینیا وہیں ایک ٹوٹی ہوئی دیوار کے سائے میں بیٹھ گئی۔ خاموشی اور ویرانی اِس کے اعصاب چاٹ رہی تھی تنہائی، بھوک اور سخت موسم نے اُسے نڈھال کر دیا۔ سورج کی روشنی اُسے کم از کم اپنے زندہ ہونے کا احساس تو دلاتی تھی لیکن شام ڈھلتے ہی اِس آسیب زدہ شہر کے بوسیدہ درو دیوار جاگ کر اُس پر ہنسنے لگتے۔۔ گلی کوچے مرتے ہوئے لوگوں کی دلدوز کراہوں سے بھر جاتے۔۔ بے رحم ویسویئس ایک خون آشام دیو کا روپ دھار لیتا اور دھرتی اپنا سینہ پیٹ پیٹ کر بین کرنے لگتی۔ لوینیا اس سارے شور سے گھبرا کر اپنا ہی بدن نوچنے لگتی۔ ہر صبح کا سورج اس کے بدن پر لگے نئے زخم دیکھتا اور تاسف سے بادلوں میں منہ چھپا لیتا۔ قیامت کی رات گذار کر صبح کی پہلی کرن اُسے یقین دلا جاتی کہ آرمینڈو اُسے ڈھونڈتا ہوا یہیں آئے گا۔

یخ بستہ شمالی ہوا نے دیکھا وہ پریوں کی سی نرم و نازک لڑکی جس کے ہونٹوں پر گلاب دہکتے تھے جس کے رخسار لو دیتے تھے اُسی ٹوٹی ہوئی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے ہمیشہ کے لئے بیٹھی رہ گئی۔ اس کی کھلی آنکھوں سے انتظار جھانک رہا تھا۔ اُجڑے ہوئے در و دیوار میں سسکتی ہوئی سرد ہوا تھم چکی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 تریاق

 

پربتوں سے رات اُتری تو راستوں پر اندھیرا بچھنے لگا خنکی بڑھ رہی تھی وہ قدرے پریشان ہو گیا

’’ شاید میں راستہ بھول گیا ہوں، ورنہ ابھی تک تو مجھے وہاں پہنچ جانا چاہئے تھا’‘ اُس نے بیلوں کو ہُشکارا لیکن دن بھر کے ناہموار راستے نے انھیں بھی تھکا دیا تھا، ہُشکارنے کے باوجود اُن کی چال میں سست روی رہی وہ چاہتا تھا رات کے پوری طرح جاگنے سے پہلے اپنی منزل پر پہنچ جائے اُس کی بیوی بُری طرح کراہ رہی تھی کمبل درست کرتے ہوئے وہ بیلوں کو پھر سے ہُشکارنے لگا کہ اچانک وہ سیاہ سنگی عمارت جیسے زمین سے اُگ آئی اُس کی آنکھوں میں حیرت بھر گئی لیکن اُس نے بیل گاڑی کا رُخ عمارت کی طرف موڑ دیا

‘’ سنو کیا یہ قدیمی معبد ہی؟’‘ عمارت کے باہر سفید کپڑوں میں ملبوس وہ بوڑھا شخص پتھریلا صحن صاف کر رہا تھا

‘’ کیا تم اونچا سنتے ہو؟،’‘ وہ بیل گاڑی سے اُترا ٓیا

’’تم مجھ سے مخاطب ہو؟’‘ بوڑھا ہلکے سے مسکرایا تو اُس کے دودھیا دانت نمایاں ہو گئے

’’ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اِسے قدیمی معبد ہی کہا جاتا ہے’‘

‘’میں اُس سے ملنا چاہتا ہوں’‘

’’ کیا میں پو چھ سکتا ہوں تم اُس سے کیوں ملنا چاہتے ہو؟’‘ بوڑھے کی آواز میں نرمی تھی

‘’ نہیں، میں اُسی سے بات کرنا چاہوں گا’‘

’’مجھے بتاؤ، شاید میں تمہاری کوئی مدد کر سکوں’‘

‘’ میں اپنی اذیتوں کا اشتہار نہیں لگانا چاہتا اِس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے میرا اُس سے ملنا نہایت ضروری ہے’‘

’’تمہیں کیوں لگتا ہے کہ وہ تم سے ملنا چاہے گا؟’‘

‘’ اِس لیے کہ میں اُسے اچھی طرح جانتا ہوں ”

’’تم اُسے اچھی طرح جانتے ہو؟’‘

‘’ ہاں میں اُسے اچھی طرح جانتا ہوں’‘

’’معذرت مگر میں تمہاری بات سے متفق نہیں ہوں اگر تم اُسے اچھی طرح جانتے ہوتے تو آسمان سے اُترنے والا پانی روک نہ دیا جاتا تم نے دیکھا اب آسمان سے بارش نہیں ہوتی’‘

‘’ جانتا ہوں بارش نہیں ہوتی لیکن اِس بات کا اِس ملاقات سے کیا تعلق؟ دیکھو مجھے الجھاؤ مت میں بہت لمبے سفر سے آیا ہوں میری بیوی شدید تکلیف میں ہے میں اُس سے ملے بغیر نہیں جاؤں گا’‘

’’کیا ہوا ہے تمہاری بیوی کو؟’‘

‘’وہ تخلیق کے مراحل سے گزر رہی ہے’‘

” تخلیق کا مرحلہ تکلیف دہ ہوتا ہی ہے اِس میں گھبرانے والی کوئی بات نہیں’‘

‘’ جو میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں وہ تم نہیں دیکھ سکتے اِس لیے بہتر ہو گا تم جو کام کر رہے ہو اُس پر دھیان دو’‘

’’تم جانتے ہو تم کتنے منہ پھٹ ہو؟’‘

’’ کیا میرے جاننے سے حقیقت بدل جائے گی؟’‘

خاموشی کا ایک طویل وقفہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

‘’ میں معذرت چاہتا ہوں کچھ سخت الفاظ بول گیا میں ایسا نہیں تھا لیکن جانے کیوں ایسا ہو گیا ہوں تم نہیں جانتے آبادیاں نابود ہو رہی ہیں چھتنار پیڑوں کے بڑھتے ہوئے سایوں نے دوسروں کے حصے کی دھوپ بھی چاٹنا شروع کر دی ہے خوابوں کا رنگ بدل رہا ہے قدم تھمنے لگے ہیں اور میرا خوف بڑھ رہا ہے’‘

’’تمہارا خوف بے بنیاد ہے مسافر کچھ نہیں ہونے والا جو گھڑی اٹل ہے سو ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بارشوں کا رکنا کیا اِس گھڑی کی منادی نہیں ہے ؟’‘

‘’ میں مسافر ہوں جو گھڑی مسافت کی لکھی گئی ہے اُس گھڑی پاؤں رکاب سے باہر نہیں ہو گا، لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’‘

’’لیکن کیا؟’‘

‘’ بستی میں اُترتے اندھیروں نے سب کو بے چین کر دیا ہے وہاں کے باسیوں کی ہیئت بدل رہی ہے’‘

’’ہیئت بدلنے سے تمہاری کیا مراد ہے ؟’‘

‘’ تم شاید نہیں سمجھ رہے میں کیا بات کر رہا ہوں پیروں سے سکوت اور جسم سے رعشہ کا لپٹ جانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اِس کی وجہ جاننا چاہتا ہوں مجھے یہ بھی خبر ہے کہ موعود گھڑی کی ایک ساعت مقرر ہے اِس نے اِسی ساعت میں ظہور پذیر ہونا ہے’‘

’’تم کہاں سے آئے ہو؟’‘

‘’ میں شمال کا رہنے والا ہوں ہما بدی زندگی کے چشمے کے وارث اور ستاروں کے ورثے کے امین کہلاتے تھے’‘

’’وہاں سے کوچ کرنے کی وجہ؟’‘

‘’ جب سے ہمیں سیاہ دھبوں کی وبا نے چاٹنا شروع کیا ہمارے قدم منجمد ہونا شروع گئے ہاتھوں میں رعشہ اُترا تو وقت ہمیں پچھاڑ کر آگے بڑھنا شروع ہو گیا چاروں طرف سے ہونے والی یلغار سے ہمارے چہرے مسخ ہوتے گئے’‘

’’ مسخ ؟ کیا ہوا؟ مسخ کیسے ہونا شروع ہو گئے ؟’‘

‘’ہمارے بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ صدیوں پہلے ہمارا ہر پیدا ہونے والا بچہ ایک خاص قسم کے نور کے ساتھ پیدا ہوتا تھا پورے وجود سے روشنی پھوٹتی نظر آتی تھی زیبائی کا یہ تحفہ ہمیں قدرت کی طرف سے ودیعت کیا گیا تھا لیکن ایک دن اچانک ہم میں سے چند ایک نے اِسے فروخت کر دیا حاصل ہونے والا فائدہ اتنا زیادہ تھا کہ دوسرے لوگ بھی خود کو روک نہ سکے پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ہماری گریس دوسروں کے پاس گویا رہن رکھی ہوئی تھی”

’’پھر کیا ہوا؟’‘

‘’ کیا مجھے ایک گلاس پانی مل سکتا ہے ؟ بول بول کر میرا حلق خشک ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔۔ میں پانی کے حیات بخش ذائقے کو ترس گیا ہوں ”

’’ تم اپنی بات مکمل کرو میں دیکھتا ہوں’‘

‘’ہاں تو میں بتا رہا تھا کہ ہم نے تجارت شروع کر دی۔۔۔۔۔۔۔ ہم جو سنہری چشمے کے وارث اور ستاروں کے امین تھے’‘

’’ یہ بات میں سن چکا ہوں کیا بہتر نہ ہو گا تم مختصر الفاظ میں اپنی کہانی بیان کرو’‘

‘’میرے پاس بتانے کو کچھ زیادہ نہیں ہے صدیوں تک ایسا ہی ہوتا آیا ہماری سنہری رنگت دھیرے دھیرے ماند پڑنے لگی ہمارے چہروں پر عجیب طرز کے سیاہ دھبے نمودار ہوئے اور بڑھتے گئے ہر کوئی اِن سے خوفزدہ تھا لیکن اِن کے ظاہر ہونے کے سبب سے ناواقف’‘

’’ کیا اِسے لاعلمی سے تعبیر کیا جائے گا؟’‘

‘’ ہاں تم شاید ٹھیک کہتے ہو’‘

‘’ہم اِس تحفے کی اصل قدرو قیمت سے آگاہ نہ تھے ہوتے بھی تو کیسے ہمارے لیے تو یہ بالکل عام سی بات تھی لیکن جب پتہ چلا بہت دیر ہو چکی تھی ہمارے ہاتھوں پاؤں میں رعشہ اُتر آیا نسیان کا مرض ہماری یادداشتوں کو کھا گیا طبیبوں کا کہنا تھا یہ مرض متعدی ہے اُڑ کر آن لگتا ہے’‘

‘’میں نے پہلی بار جب ایک مریض کو دیکھا تو بہت خوفزدہ ہو گیا تھا وہ شفا خانے میں ایک جگہ کھڑا تھا اُس کے قدم لگتا تھا جیسے زمین نے جکڑ لئے تھے بدن میں شدید قسم کا ہیجان اور بیقراری تھی وہ اپنے روزمرہ کے افعال بھی مناسب انداز میں سرانجام نہیں دے پاتا تھا تیمار داری کرنے والی خاتون اُس مریض کے پیچھے کھڑی تھی

’’یک، دو، تین۔۔۔۔۔۔۔ ایک بڑا سا قدم’‘

وہ اُسے قدم اُٹھانے پر مائل کر رہی تھی

‘’لیکن اُس کے ’’بڑا سا قدم’‘ کہنے کے باوجود مریض کے پاؤں بمشکل زمین سے اٹھتے اور پھر وہیں جم جاتے وہ بے دم سا ہو کر آگے کی طرف جھکتا جاتا یہاں تک کہ اپنا توازن کھو دیتا تیمار دار خاتون کی آواز میرے اعصاب پر ہتھوڑے برسا رہی تھی میں تیزی سے گھرکی طرف بھاگا، لیکن راستے میں ہر جگہ لوگ اِسی طرح قدم اٹھانے کی کوشش میں نڈھال نظر آئے آہستہ آہستہ پوری بستی منجمد ہونے لگی”

خاموشی کا ایک اور لمبا وقفہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’کیا ہوا خاموش کیوں ہو؟’‘

‘’ میں سوچ رہا ہوں ہم نے کتنی بڑی بھول کی۔۔۔۔۔ ہماری زیبائی سے ایسی ادویات تیار ہونے لگیں جو کسی بھی نئے پیدا ہونے والے بچے کو سنہری جلد کا تحفہ عطا کر سکتی تھیں شمالی نہ ہونے کے باوجود نسل در نسل بچے اُسی گریس کے ساتھ پیدا ہوتے گئے مکمل طور پر نہ سہی مگر اِن میں ہماری زیبائی کا پرتو جھلکتا تھا تم کیا کہتے ہو اِس بارے میں ؟’‘

’’دیکھو میں اپنی رائے دینے کا مجاز نہیں ہوں اِس لئے کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن ایک بات طے ہے عطا کو صرف قدر ہی دوام بخش سکتی ہے’‘

ایک طویل سرد سانس۔۔۔۔۔۔۔ اور خاموشی کا ایک اور وقفہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ میں تمہاری بقیہ کہانی سننا چاہوں گا بتاؤ پھر کیا ہوا؟’‘

‘’ پھر کیا ہونا تھا ہماری بدلتی ہیئت سے دوسرے خوفزدہ رہنے لگے تو کچھ شمالیوں نے اپنے بدن ایک خاص قسم کی مٹی سے رنگنے شروع کر دیئے یہ ہماری تباہی پر آخری مہر تھی یہ مٹی ہر ایک پر الگ الگ اثر کرتی تھی ہماری یک رنگی اور پہچان کھو گئی تو باہر سے در آنے والوں نے ہماری زیبائی کی فریبی رداء اوڑھ کر ہماری زندگیوں میں انتشار بونا شروع کر دیا اور ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا کیا بتاؤں تمہیں اب’‘

’’کیا تمہارے ہاں کو ئی ایسا طبیب نہ تھا جو اِس بیماری کا علاج کر پاتا؟’‘

‘’ طبیب بہت تھے اور اعلیٰ پائے کے بھی لیکن شاید ہم سے ہماری گریس ہی نہیں چھنی تھی شعورو وجدان بھی رخصت ہو گیا تھا ہم ہواؤں کے رُخ نہیں پہچان پائے اور آندھیوں نے اپنے دوش پر رکھی آگ سے ہمارے گھر پھونک دئیے’‘

’’جب آگہی کا نور ڈھانپ دیا جائے تو اندھیرا مدتوں ٹھہرا رہتا ہے لیکن اس چشمے کا کیا ہوا، ؟ میں نے تو سنا تھا اس کا پانی آبِ شفا کہلاتا تھا’‘

‘’ تم نے ٹھیک سُنا۔۔۔۔۔۔۔ اِس چشمے کا پانی واقعی آبِ شفا ہے لیکن وقت نے ہم سے عجیب سی چال چلی ہمارے عقل و شعور سلب ہوئے تو ہم نے اِس چشمے کو محض برکات تک محدود کر دیا اسے کاروبار اور طاقت کا ذریعہ بنا لیا’‘

‘’ہمارے گلے سڑے بدن تعفن پھیلا رہے تھے ہم بینائی رکھتے ہوئے بھی اندھے شنوائی کے باوجود بہرے اور ناطق ہوتے ہوئے بھی گونگے ہو گئے آنے والے بے مہر وقت کی چاپ ہمیں ڈرانے لگی لیکن واپسی کا کوئی راستہ نہ تھا ہم کسی ریوڑ کی طرح بے جہت بھاگ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ میری بیوی اُمید سے تھی اور میں چاہتا تھا کہ ہمارا بچہ اپنی اصلیت کے ساتھ پیدا ہو اُسی سنہری رنگت کے ساتھ جو فطرت کی عطا تھی’‘

’’تم جانتے ہو مسافر عطا روٹھ جائے تو کیا ہوتا ہے ؟’‘

‘’ ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عطا روٹھ جائے تو وقت کے ترازو میں رکھا ہر عمل خفیف اور ارزاں ہو جاتا ہے آوازیں بانجھ اور حروف تاثیر سے عاری۔ بارشیں روک دی جاتی ہیں اور زمین عفریت بن کر اپنے اوپر رہنے کا تاوان لاشوں کی صورت میں وصول کرتی ہے’‘

"تو تم نے اسی ڈر سے وہ بستی چھوڑ دی؟’‘

‘’میں بھاگا نہیں ہوں مجھے اپنے لوگوں کی چیخیں سونے نہیں دیتیں نوحے رلاتے ہیں کر لاہٹیں بے دم کر دیتی ہیں میں اُن کی مدد کرنا چاہتا ہوں’‘

’’تمہیں یہاں کا پتہ کس نے بتایا؟’‘

‘’بستی کے دوسرے کنارے پر رہنے والے عبادت گزار بوڑھے نے وہ بستی کا واحد شخص ہے جو اِس بیماری سے محفوظ ہے لوگ اسے جادوگر سمجھتے ہیں اِس لیے وہ بستی کے دوسرے کنارے پر جا بسا’‘

’’اب تم کیا چاہتے ہو؟’‘

’’میں اُس سے ملنا چاہتا ہوں مجھے تریاق کا پتہ جاننا ہے، لیکن اِس سے پہلے مجھے اپنی بیوی کے لئے کوئی دوا چاہیے وہ سخت تکلیف میں ہے’‘

’’او۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے بتایا کہ وہ تخلیق کے مراحل سے گزر رہی ہے’‘

‘’ہاں تکلیف، بھوک اور کئی دنوں کے سفر کی تکان نے اُسے نڈھال کر دیا ہے’‘

"تم پاک طینت اور پاک دل معلوم ہوتے ہو میں تمہارے باطن میں روشنی محسوس کر سکتا ہوں’‘

‘’کیا مجھے ایک گلاس پانی مل سکتا ہے اور نہیں تو وہ کم از کم اپنے ہونٹ ہی تر کر لے’‘

’’ہر طالب عطا کا سزاوار ہے، تم بھی محروم نہیں رکھے جاؤ گے لیکن ایک بات یاد رکھنا اگر اندر کی آنکھ بند ہو تو ظاہری آنکھ بھی اندھیرا اوڑھ لیتی ہے’‘

‘’ہاں سمجھ گیا بس ایک گلاس کافی ہو گا’‘

’’یہ لو’‘

شفاف سیال سے بھرا سنہری کانچ کا گلاس اس کی طرف بڑھا دیا جاتا ہے

’’اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے’‘

ًٍٍ’’یہ پانی ہی ہے نا؟ اس کی رنگت قدرے مختلف ہے’‘

اس نے بوڑھے کی بات پر دھیان دئیے بغیر گلاس سے چند بڑے گھونٹ بھرے

‘’سپاس گزار ہوں میں یہ بقیہ پانی اپنی بیوی کو دے کر آتا ہوں’‘

’’ بارِ دیگر اظہارِ تشکر قبول ہو چند گھونٹ پانی نے ہمارے مردہ تنوں میں جیسے نئی زندگی پھونک دی ہو لگتا تھا جیسے یہ آبِ شفا ہو’‘

بوڑھے کے چہرے پر زیرِ لب تبسم نمودار ہوا

” جز کو کُل پر فوقیت دینے سے آفاقی دکھوں کی میعاد بڑھ جاتی ہے’‘

‘’میں سمجھا نہیں ؟’‘

’’جلد سمجھ جاؤ گے’‘

‘’خیر یہ بتاؤ کیا اب میں اُس سے مل سکتا ہوں ؟’‘

’’ تمہاری طلب کو نوازا جا چکا ہے’‘

دودھیا دانت پھر سے دکھائی دینے لگے بوڑھے کا چہرہ ایک دم لَو دینے لگا تھا

یکایک مسافر نے دیکھا وہ خالی گلاس کے ساتھ کچے راستے پر تنہا کھڑا ہے بیل گاڑی میں پڑے پرانے کمبل سے سنہری لَو چھن رہی تھی اُس کی بیوی پرسکون ہو چکی تھی

دور اُس شمالی بستی کے ایک کچے مکان میں جھلنگا سی چارپائی پر لیٹے بوڑھے عبادت گزارکا سینہ جانے کیوں ایک بار پھر دکھ سے بھر گیا

’’ ایک، دو، تین، بڑا سا قدم’‘

قریبی مطب سے آتی آوازیں تیز ہونے لگیں۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

 سلمی اور کرونس

 

گھپ اندھیرا اور اتنا گہرا سکوت کہ سانسوں کی آواز بھی کسی شورِ قیامت سے کم نہ تھی چاروں طرف پھیلی ہوئی عجیب سیلی سیلی باس کھردرا اور سرد فرش، ساتھ چھوڑتے ہوئے اعصاب اور شَل ہوتا ہوا بدن۔ ذہن پر جیسے جالے سے تنے ہوئے تھے کچھ بھی تو محسوس نہیں ہو رہا تھا وہ نہ جانے کب سے یہاں پڑی تھی، پتھریلے فرش کی یخ بستگی دھیرے دھیرے ہڈیوں میں اترتی جا رہی تھی۔ اس نے حرکت کرنے کی کوشش کی تو درد کی ایک تیز لہر پورے بدن میں پھیل گئی۔ ذہن ابھی تک دھند کی لپیٹ میں تھا، اس نے ایک بار پھر اٹھنے کی کوشش کی، کسی کو مدد کے لئے پکارنا چاہا مگر آواز نے ساتھ نہ دیا ایک دم اُسے اپنے بازو پر کسی کی گرفت محسوس ہوئی ٹھنڈی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سرد اور استخوانی، دل اچھل کر حلق میں آن گھسا ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ سی ہونے لگی گہرے اندھیرے میں کچھ دیکھنا ممکن نہ تھا۔

’’تم مجھے ملنے کیوں نہیں آتی ہو؟’‘

بہت دھیمی سی آواز کانوں سے ٹکرائی

دھند چھٹی تو سفید لبادے میں لپٹا وجود نمایاں ہو گیا وہ بری طرح چونک اٹھی

’’امی آپ تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’‘

اسے اپنی دھڑکن رکتی ہوئی محسوس ہوئی

’’کیا میں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’‘ وہ ہنسیں

’’مر گئی تھی نا’‘

ان کا لہجہ بہت عجیب سا تھا انگلیاں جیسے اِس کے بازو میں گڑی جا رہی تھیں

’’میرا دل جلتا ہے تمہیں دیکھ اِس آگ میں دیکھ کر’‘

اِس نے دیکھا اُن کے ہاتھ کا گوشت پگھل رہا تھا پتلی پتلی ہڈیاں نمایاں ہونے لگیں وہ ہذیانی انداز میں چیخنے لگی

’’چھوڑیں مجھے’‘

گرفت اور مضبوط ہو گئی ہڈیاں مزید نمایاں ہو رہی تھیں

’’ نہیں چھوڑ سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسے چھوڑ دوں’‘

خود کلامی کا سا انداز تھا

عجیب سا تعفن اٹھنے لگا تھا اُس کا جی متلانے لگا اُبکائی روکنا مشکل ہو گیا اُس نے وہیں قبر پر قے کر دی

’’کوئی بھی ساتھ نہیں دیتا ایک وقت آتا ہے جب سب ساتھ چھوڑ دیتے ہیں بندہ خود سے بچھڑ جاتا ہے جیسے میں بچھڑ گئی’‘

وہ سسک اٹھی

’’نہیں چھوڑتا تو یہ تو تعفن ساتھ نہیں چھوڑتا یہ سڑاند یہ غلاظت یہ اِس جہنم میں جل کیوں نہیں جاتا’‘

’’کیوں ؟’‘

اُس کے اندر لایعنی سوال کی تکرار بڑھنے لگی

راشد کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ تھی اُس نے ایک نظر سلمیٰ پر ڈالی

’’میری بات تو تمہیں ماننا ہی ہو گی’‘

’’کیوں کیا میں تمہاری زر خرید ہوں ؟’‘

سلمیٰ کی آواز کافی بلند تھی

’’دیکھو یہ پرو جیکٹ میرے لیے بہت اہم ہے میں اِسے چھوڑ نہیں سکتا تمہیں جانا ہو گا’‘

راشد کا لہجہ انتہائی سخت تھا

’’چلو اٹھو نسیم صاحب آتے ہی ہوں گے’‘ راشد نے اُس کا غصہ نظر انداز کر دیا وہ بپھر گئی

’’نہیں جاتی کیا کر لو گے’‘

’’جانا تو تمہیں پڑے گا ڈئیر’‘ راشد کا لہجہ سرد تھا

ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’‘

’’کیا ورنہ؟’‘

’’ تمہیں ماں بننے کا بڑا ارمان ہے نا’‘

اس کی ہنسی بہت زہریلی تھی

ذات کا کعبہ مسمار ہو رہا تھا لیکن وقت کے گنبد میں پھڑ پھڑاتی ابابیلوں کی چونچیں خالی تھیں اصحاب الفیل آج بھی اسی طرح طاقت کے نشے میں چور تھے

’’یا ربّ کعبہ تکمیل کی خواہش میں یوں ریزہ ریزہ ہونا آخر کیوں ؟ کون سی ماورائے عقل خواہش ہے ؟ تو بتا پھر اتنا بھاری مول کیوں ؟’‘ تکرار بڑھنے لگی وہ بے دم سی ہو گئی اُسے اپنا آپ کتوں کا چبایا ہوا راتب لگ رہا تھا

راشد اِس کے بابا کا کزن تھا وجیہہ اور تعلیم یافتہ جب اِس نے بابا سے رشتے کی بات کی تو بابا نے بلا تردد ہاں کر دی ماں کی اچانک موت نے اُسے بہت گم سم اور تنہا کر دیا تھا انھیں لگا شاید شادی ہی اس کا بہترین حل ہے

راشد ایک کامیاب آدمی تھا اِسے راستے کے پتھر ہٹانے آتے تھے، پہلی بار جب اُس نے اِسے اپنے ایک دوست سے ملوایا اور اِسے اِن کی خدمت کرنے کا کہا تو وہ سُن سی رہ گئی

’’یہ سب کیا ہے راشد؟ میں ایسا ہر گز نہیں کروں گی’‘ وہ سخت غصے میں تھی

’’دھیرج ڈارلنگ دھیرج یہ سب بزنس کا حصہ ہے’‘

’’بھاڑ میں گئے تم اور تمہارا بزنس تم ایسے نکلو گے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی’‘

سلمیٰ کے لہجے میں حقارت تھی

راشد نے اِسے بازو سے پکڑ کر ایک جھٹکے سے اپنے سامنے کیا

’’ ایک بات یاد رکھنا مجھے نہ سننے کی عادت نہیں ہے’‘

’’چلو تیار ہو جاؤ’‘

’’ہر گز نہیں’‘

راشد کا ہاتھ اٹھا اور اِس کے چہرے پر نشان چھوڑ گیا وہ اس کے لئے تیار نہ تھی چکرا کر گریبیڈ کی سائڈ بری طرح اِس کی پیٹ میں آ لگی

وہ بمشکل بازو چھڑا کر بھاگی تو بھاگتی چلی گئی پھیپھڑوں میں آگ سی لگی ہوئی تھی حلق میں کانٹے اُگ آئے تھے کچھ عجیب سی جگہ تھی، ویران، اندھیری، سناٹا رگ و پے میں اُتر رہا تھا۔ اچانک اُسے اپنے بدن کے مختلف حصوں میں شدید چبھن کا احساس ہوا لمحوں میں چبھن درد میں ڈھل گئی وہ سیاہ رنگ کے کیڑے تھے جو اُس کے بدن پر چپکے ہوئے اُسے نوچ رہے تھے۔۔ اُن کے نہ دکھائی دینے والے تیز دانت گوشے میں دھنسے جا رہے تھے اِس نے پاگلوں کی طرح چِلاتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے انھیں جھٹکنا شروع کر دیا۔

اچانک اِسے لگا جیسے کسی نے اُسے پکارا ہو اُس نے پلٹ کر دیکھا تو ایک ننھا سا بچہ اُس کے سامنے کھڑا تھا

’’یا اللہ’‘

وہ اپنا درد بھول گئی

’’تم کون ہو اور یہاں کیسے ؟ جاؤ یہاں سے’‘

اُس نے اُسے پاؤں سے پرے کرنا چاہا

’’میں تو یہیں تھا’‘

وہ معصومیت سے بولا اور پنے ننھے ننھے ہاتھوں سے اُس کے بدن پر رینگتے کیڑے اٹھا کر کھانے شروع کر دیئے

’’ او میرے خدا، مت کھاؤ انھیں، جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم جاؤ’‘

اِس کی آواز پھٹ رہی تھی

بچے نے اپنا ہاتھ اُس کی طرف بڑھایا ننھی سی ہتھیلی پر کلبلاتے کیڑے اس کے گوشت میں اُتر رہے تھے اِس نے دیکھا بچے کا بدن پھول رہا تھا

’’یا اللہ کوئی ہے ؟ کوئی میری مدد کرو’‘

وہ بدن سے کیڑے جھٹکتے ہوئے بے بسی سے چِلآ اٹھی

اچانک وہ ننھا سا وجود چیتھڑوں میں تبدیل ہو گیا پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھتے ہوئے اِس نے اُلٹے قدموں پیچھے ہٹنا شروع کیا اِس کی چہرے پر وحشت کے آثار تھے سرخ سرخ خون کے لوتھڑے اور گوشت جا بجا بکھرا ہوا تھا وہ گرنے کے انداز میں زمین پر بیٹھ گئی، اُس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی اور پھر وہ چیختی چلی گئی۔

چند دنوں بعد وہ ہسپتال سے لوٹی تو اندر سے بالکل خالی تھی ایک ڈستی ہو ئی خاموشی تھی جو اِس کا بدن چاٹ رہی تھی وہ جانتی تھی وہ کس کرب سے گزری ہے۔۔ کڈنی ٹرے میں پڑا ہوا سیاہ خون کا لوتھڑا بے خیالی میں اِس کا ہاتھ ٹرے سے جا ٹکرایا پوروں میں موت کی ٹھنڈک سرائیت کرنے لگی آنکھ لوتھڑے میں خال و خد تلاش رہی تھی

’’یہ ادھورے پن کا درد رگوں میں مہین ریزے کیوں اُتار دیتا ہے ؟’‘

اُس کی آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگے

’’تخلیق کے نُچے ہوئے بدن پر خال و خد تلاشنا کتنا مشکل ہوتا ہے تم نے کبھی خوابوں کے لاشے دیکھے ہیں ؟ سینے میں اُ گی قبروں کی مجاوری بھلا کب آسان ہوتی ہے ؟’‘

اُس کی سوچوں کے سلسلے دراز ہونے لگے

’’مجھے معاف کر دو میں نے یہ کبھی نہیں چاہا تھا پلیز’‘

راشد نے ہاتھ جوڑ دیئے

’’کبھی نہیں میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی’‘

وہ چِلاّا ٹھی اسے اپنی دوسری دفعہ خالی رہ جانے والی کوکھ کا بہت دکھ تھا

’’جاؤ یہاں سے اور مجھے اکیلا چھوڑ دو’‘

اس نے منہ دیوار کی طرف کر لیا راشد خاموشی سے کمرے سے باہر نکل گیا

’’تمہارے جھوٹے الفاظ میرے درد کی تلافی کر سکتے ہیں’‘

گرم ابلتے ہوئے سیال نے اندر کاٹنا شروع کر دیا تھا

کچھ عرصہ آرام سے گذرا راشد نے اُس کا بہت خیال رکھا سلمیٰ کو لگا وہ بدل گیا ہے لیکن جلد ہی وہ اپنی پرانی روش پر لوٹ آیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی وہ نہ جانے کب اس دلدل میں دھنستی چلی گئی اِسے بھی اِس کھیل میں اب مزہ آنے لگا تھا کتوں کی طرح ہانپتے، رال ٹپکاتے مرد اُسے بہت بھاتے اپنی کھردری انگلیوں سے جب وہ اِس کا مرمریں بدن چھوتے تو رگ و پے میں دوڑتی سنسنی اِسے مد ہوش کر دیتی۔ اِسے کام نکلوانے کا گُر آ گیا تھا۔ مہین ساڑھی اور مختصر بلاؤز سے جھانکتا اُس کا کومل بدن لَو دیتے گال، بھرے بھرے شیریں لب اور قاتلانہ ادائیں، اگلا بن پیئے بہکنے لگتا دیوی سنگھاسن سے اُتر کر پجاری کے قدموں میں آن بیٹھی تھی

’’ تو یہ ہے تمہاری اوقات’‘

آئینے کی دوسری طرف کھڑی عورت اُس کا منہ چڑانے لگتی

کیوں آ جاتی ہو روز میرے زخم کھرچنے کے لئے کب پیچھا چھوڑو گی میرا؟ آخر مر کیوں نہیں جاتی تم’‘

اس نے پرفیوم کی شیشی اٹھا کر آئینے پر دے ماری

’’ مر کیوں نہیں جاتی میں’‘ وہ سسک اٹھی

’’روز جرعہ جرعہ متعفن بدنوں کے پیمانوں میں بٹتی ہوئی مر کیوں نہیں جاتی میں’‘ تکرار ڈسنے لگی

پانچ ہزار گز پر بنے ہوئے بنگلے میں کونسی راحت موجود نہ تھی راشد بہت خوش تھا، کاروباری حلقوں میں اس کی اپنی ایک ساکھ تھی اُس کا کاروبار کئی بر اعظموں پر پھیل گیا تھا اِس کے بارے میں مشہور تھا کہ مٹّی بھی اس کے لمس سے سونا ہو جاتی ہے تب سلمیٰ نے پہلی بار اُس آفت کو راشد کے آفس میں دیکھا اُن دونوں کے درمیان کیا تھا وہ پل بھر میں سمجھ گئی وہ بے انتہا خوبصورت تھی، اتنی کہ دیکھنے والوں کی سانسیں رکنے لگتیں

’’کون ہے یہ؟’‘

سلمیٰ کی آواز میں شک گھلا ہوا تھا

’’ تم پوچھ کر کیا کرو گی’‘

راشد ہنسا

’’میں بیوی ہوں تمہاری’‘

’’بڑی جلدی خیال آ گیا’‘

’’طعنے مت دو یہ راہ تمہاری ہی دکھائی ہوئی ہے’‘

’’بکواس بند کرو میں نے تمہیں دھندا کرنے کو نہیں کہا تھا’‘

راشد پھٹ پڑا

’’تمہارے کہنے پر تمہارے کتوں کے پہلو گرم کروں تو جائز اور میں خود کسی کے ساتھ وقت گذاروں تو وہ دھندا’‘

سلمیٰ نے ہاتھ میں پکڑا جوس راشد کے منہ پر اچھال دیا

’’اصل میں تمہارا مسئلہ پتہ کیا ہے’‘

سلمیٰ کی آواز بہت سرد تھی

’’تم ایک خود پرست انسان ہو اور تمہیں لگتا ہے ساری دنیا کو تمہارے اشاروں پر چلنا چاہیے’‘

’’ اسی لیے مجھے تم سے نفرت ہے بے انتہا نفرت’‘

’’تم سے زیادہ قابل رحم مخلوق اس سیارے پر اور کوئی نہیں’‘

’’عورت کے ایک اشارے پر اپنا سارا طنطنہ اور وقار پل بھر میں ہار کر اُس کے قدموں میں لوٹتے پھرو گے اور بات کرتے ہو مردانگی کی’‘ سلمیٰ کے منہ سے بے اختیار گندی گالی نکل گئی،

پھر ایک دن اُس نے راشد کی دوسری شادی کی خبر سنی اِسے اِس خبر کا انتظار تھا وہ جانتی تھی جلد یا بدیر ایسا ہونے والا ہے

’’ قدسی صاحب آپ تو ہمیں بھول ہی گئے’‘ وہ بہت لگاوٹ سے بولی

’’زہے نصیب آپ یہاں آفس میں ؟ آپ نے زحمت کیوں کی ہمیں کہہ دیا ہوتا’‘

’’آپ آئیں یا ہم بات تو ایک ہی ہے نا اور پھر ہمیں بہت ذاتی نوعیت کا کام تھا’‘

وہ جانتی تھی گرسنہ نگاہوں کی تشنگی کیسے بجھائی جاتی ہے

’’یہ جگہ آپ کے شایانِ شان نہیں ہے آئیے’‘

قدسی صاحب چہرہ صاف کرتے ہوئے بولے

’’ اور ہمارا کام’‘

’’آپ کا پہلے کوئی کام رہا ہے ؟’‘

قدسی صاحب ہانپ رہے تھے

’’تین گھنٹوں میں کاغذات آپ کو مل جائیں گے’‘

’’صاحب آئیں تو گیٹ مت کھولنا’‘

رات گئے واپسی پر اس نے واچ مین کو ہدایت دی

’’نفیس سب ٹھیک ہے نا’‘

اس نے دروازہ کھول کر آہستگی سے اندر جھانکا

’’ جی بیگم صاحبہ بے بی سو گئی ہیں’‘

آج بہت ضد کی’‘ آیا روہانسی ہو رہی تھی

’’ہاں آج مجھے کچھ زیادہ دیر ہو گئی اچھا تم بھی آرام کرو میں دیکھ لوں گی’‘

گاڑی ایک جھٹکے سے رک گئی عجیب سی جگہ تھی چاروں طرف گھنا جنگل اور تیزی سے بڑھتی ہوئی دھند اور اندھیرا۔ اس نے بونٹ کھول کر دیکھا، لیکن اسے پتہ تھا وہ کچھ نہ کر سکے گی اس نے گاڑی بند کی اور سڑک کے ساتھ ساتھ چلنے لگی فضا میں یک دم خنکی بڑھ گئی تھی اس کا بدن کپکپانے لگا

’’ ماما’‘

وہ چونک اٹھی وہی پھولا ہوا گلابی فراک پہنے نتاشا اُس بڑے درخت کی اوٹ میں کھڑی تھی وہ چکرا کر رہ گئی

’’ تم یہاں کیسے آئیں ؟’‘

اس نے نتاشا کو کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالا

’’ماما آپ درد کر رہی ہیں’‘

نتاشا کی آنکھوں میں نمی تھی

’’ او سوری’‘

اس نے اپنے ہاتھ ہٹا لئے وہ ابھی تک سمجھنے سے قاصر تھی نتاشا یہاں آئی کیسے

’’مجھے پتہ تھا میری ماما یہاں آئیں گی دیکھو’‘

وہ جانے کس سے مخاطب تھی سلمیٰ کو بچوں کا شور سنائی دیا

’’تمہاری ماما اچھی نہیں ہیں’‘

باریک سی آواز سلمیٰ کے کانوں سے ٹکرائی وہ ایک چھوٹی سی بچی تھی جو درخت کی پھننگ پر لٹکی ہوئی تھی

’’اور تمہیں پتہ ہے تم جھوٹی ہو’‘

نتاشا اُس کی طرف مڑی

’’دیکھا یہ کتنی سڑو ہے’‘

نتاشا ہنسی تو اس کے ساتھ سارے بچے ہنسنے لگے وہ بچی درخت سے کود کر ایک دم اُس کے سامنے آ گئی

’’تم کیوں آئی ہو جاؤ یہاں سے’‘

’’یہاں کسی بچے کی ممی نہیں آتی جاؤ’‘

"نتاشا تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا’‘

وہ ان عجیب غریب بچوں کو دیکھ کر بولی

’’تم نے مجھے یہاں بھیجا ہے’‘

نتاشا کے نقوش ایک دم بگڑے اور وہ اچھل کر اس کے کندھوں پر سوار ہو گئی اور اس کا چہرہ نوچنا شروع کر دیا باقی بچے بھی اس پر جھپٹ پڑے ان کے ننھے ننھے ہاتھوں کے نوکیلے ناخن اسے چھیل رہے تھے سلمیٰ بُری طرح چِلّا رہی تھی یکا یک نتاشا کا پھولا ہوا گلابی فراک لہو رنگ ہونے لگا اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتی اچانک کسی سائے نے اس کا ہاتھ تھام لیا

’’آؤ میرے ساتھ یہ سب ایسے ہی ہیں’‘

گھنے درختوں کے درمیان بھاگتے بھاگتے اسے لگا دھند اور یخ بستگی بھی اس کے ساتھ بھاگ رہی ہے

اندھیرا پھر گہرا ہونے لگا تھا اس کے قدم ایک دم رک گئے زمین جیسے ختم ہو گئی تھی سائے چہرے پر پڑی چادر ہٹا دی چہرے کی ادھڑی ہوئی کھال سے ٹپکتا ہوا بدبو دار مواد۔۔۔۔۔۔۔ سوجے ہوئے ہونٹوں کے درمیان لپلپاتی زبان اندر کو دھنسی ہوئی سرخ آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلمیٰ دہشت سے چیخ اٹھی، سائے نے ایک دم اسے دبوچا اور اپنے سامنے کر لیا، اس کی سرخ آنکھوں سے نکلتی تیز روشنی دل دہلا رہی تھی

"بہت سمجھایا تھا تمہیں ”

سائے کی آواز میں گہرا دکھ، تاسف، غصہ اور بے بسی تھی سلمیٰ چونک گئی

’’یہ آواز’‘

’’لیکن تم اپنی من مانی کی ایسا تو ہونا ہی تھا’‘

اچانک سائے نے اسے چھاپ لیا اور ہر سِر مُو سے اس کے اندر سمانے لگا سلمیٰ کے بدن میں جیسے زلزلہ آ گیا تکلیف کی شدت سے پھٹی ہوئی آنکھیں رکتی ہوئی سانس اور بدن پر بڑھتا ہوا بے تحاشا دباؤ بری طرح چِلاتے ہوئے اس نے سائے کو پیچھے ہٹانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی سایہ اس کے اندر اترتا جا رہا تھا تاریک ہوتے ہوئے ذہن کے ساتھ سلمی ٰ کو یاد آیا وہ اس کی اپنی آواز تھی

’’ ڈاکٹر میں اُسے دیکھنا چاہتا ہوں’‘

راشد کی آواز جذبات سے عاری تھی

’’ آئیے میرے ساتھ’‘

ڈاکٹر اُسے لے کر وارڈ کی طرف بڑھنے لگا سلمیٰ پچھلے چار سال سے اس اسپتال میں بے حس و حرکت پڑی ہوئی تھی نتاشا کے سکول سے واپسی پر گاڑی کے حادثے نے جہاں نتاشا کی زندگی کا چراغ گُل کیا وہیں اسے بھی کوما میں دھکیل دیا تھا اس کی ابتر حالت کے پیشِ نظر ایک لمبی گفتگو کے بعد راشد نے ڈاکٹرز کو وینٹیلٹرز اُتارنے کی اجازت دے دی، اُس نے آخری بار سلمیٰ کے ہونٹ چھوئے اور جانے کے لئے پلٹا

’’لُوزر’‘

سلمیٰ کی بے ساختہ ہنسی کی بازگشت اُس کی کانوں سے ٹکرائی، کرونس اپنے ہی بچے کھانے کے جرم میں آج بالکل تنہا رہ گیا تھا

٭٭٭

 

 

 

 میاں جی

 

بچپن کی ملائمت اور نرمی چہرے پر اُگنے والے روئیں نے کم کر دی تھی۔ اُس کی جگہ ایک عجیب سی جاذبیت نے لے لی تھی گو میاں جی اُسے منع کیا تھا کہ ابھی اُسترا نہ مارے لیکن اُسے چہرے پر اُگا ہوا بے ترتیب جھاڑ جھنکار اچھا نہیں لگتا تھا اپنے ایک دوست کی مدد سے اِس روئیں سے چھٹکارا پانے کی کوشش میں چہرے کو تین چار جگہوں سے زخمی بھی کر بیٹھا تھا اِس کی حالت دیکھ کر میاں جی نے بے بھاؤ کی سنائیں وہ سر جھکائے خاموشی سے ڈانٹ سنتا رہا

’’چلو جاؤ اور جو کہا جائے اُسے سُنا بھی کرو’‘

میاں جی سخت ناراض تھے

’’جی میاں جی’‘

اُس نے سعادت مندی سے جواب دیا

میاں جی اِس چھوٹے سے گاؤں کی اکلوتی مسجد کے پیش امام گاؤں کے لوگوں کے روحانی پیشوا، قاضی استاد، طبیب اور غمگسار، سبھی کچھ تھے سب بے جھجھک انھیں اپنے مسائل اور دکھڑے سنایا کرتے تھے ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ گاؤں والوں کی طرف سے مقر رہ کردہ معمولی سی وظیفے کی رقم کے ساتھ ساتھ وہ تحائف بھی تھے جو سال بھر انھیں گندم اور دوسری اجناس کی صورت میں ملا کرتے تھے۔۔ دودھ، دہی، اور لسّی کی علاوہ تازہ پکا ہوا کھانا بھی اس وظیفے میں شامل تھا۔ اب دو بندوں کے اخراجات ہوتے ہی کتنے ہیں میاں اکثر اجناس یا تو اطراف کے گاؤں میں ضرورت مندوں میں بانٹ دیا کرتے یا کبھی کبھار اپنی کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے فروخت کر دیا کرتے تھے گاؤں میں بچوں بچیوں کا قرآنِ پاک پڑھانا، غمی خوشی کے وقت دعائیں دینا اور جھگڑے نبٹانا میاں جی کے فرائض میں شامل تھا جسے وہ بڑی خوش اسلوبی سے سر انجام دے رہے تھے

دو سال کے بن ماں کے بچے کو کندھے سے لگائے میاں جی آج سے تیرہ سال قبل اِس گاؤں میں آئے تھے اور ایک کمرے پر مشتمل اِس کچی مسجد میں پہلی پار اذان دے کر خود ہی نماز پڑھی تھی۔ اِس کے بعد گاؤں والوں انھیں کبھی کہیں جانے نہ دیا وہ کون تھے کہاں سے آئے تھے نہ کبھی کسی نے جاننے کی کوشش کی اور نہ ہی میاں جی نے بتانے کی جیسے ایک خاموش معاہدہ سا ہو اِس عرصے میں نہ تو میاں جی سے کوئی ملنے آیا اور نہ وہ کہیں گئے اُن کی بڑے سے بڑی تفریح کسی قریبی گاؤں کی چوپال میں شمولیت ہوا کرتی تھی اُن کی معاملہ فہمی، تدبر اور متحمل مزاجی وجہ سے آس پاس کے گاؤں میں اُن کی بہت عزت تھی

سعید پندرہ برس کا ہو چکا تھا اُس کی خوبصورت اٹھان، پُر کشش خد و خال اِسے گاؤں کے باقی لڑکوں میں نمایاں کرتے تھے۔۔ گاؤں میں بچیوں اور بچوں کے ساتھ مسجد کے کچے صحن میں ہل ہل کر سیپارہ پڑھتے ہوئے وقت کتنی تیزی سے گزارا اُسے اندازہ ہی نہ ہوا۔ چلچلاتی دوپہروں میں باغوں کے گھنے سائے میں چُرائے ہوئے پھل کھانا، غلیل سے گرمی گھبرا کر درختوں کی اُوٹ میں چھپے پرندوں کو تاک تاک کر نشانہ بنانا، نہر کے پانی میں شرطیں باندھ کر غوطے لگانا جیسے خواب سا ہو گیا تھا۔

میاں جی نے اُسے قریبی قصبے کے کالج میں داخلہ کیا دلوایا وہ اپنے گاؤں سے جیسے لاتعلق سا ہو کر رہ گیا شام ڈھلے جب وہ سائیکل پر چار میل کا سفر کر کے گھر آتا تو جوڑ جوڑ دکھ رہا ہوتا تھا، نمازیں بھی نہایت بدلی سے پڑھتا اور سرِ شام ہی لمبی تان کر سو جاتا۔

اُس دن رانو میاں جی کے لئے کھیر لائی تھی وہ بھی اِسی کی ہم عمر تھی۔ سرخ لان کے سوٹ میں اِس کا رنگ کھلا پڑ رہا تھا بڑی بڑی آنکھوں میں بسا کاجل، ڈوبتے سورج کی زرد شعاعوں نے اُس کے گالوں کو جیسے دہکا دیا تھا۔ کھیر کا پیالہ اُس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے غیر ارادی طور پر اِس کی انگلیاں رانو کے ہاتھ سے مَس ہو گئیں اِسے لگا جیسے اِس نے بجلی کی ننگی تاروں کو چھُو لیا ہو سانسیں سینے میں اٹکنے سی لگیں جسم میں دوڑتی سنسنی اسے کوٹھڑی تک آنا مشکل ہو گیا وہ تو شکر ہوا میاں جی مغرب کی نماز کے لئے وضو کر رہے تھے اِس نے جلدی سے کھیر کا پیالہ اندر رکھا اور اذان کے لئے مسجد کی طرف چل پڑا۔

اِس کے لئے یہ تجربہ بہت انوکھا اور پریشان کُن تھا اِسی رانو سے ہزار بار جھگڑا ہوا تھا وہ قرآن پڑھنے میں سب سے تیز تھی میاں جی کا بتایا ہوا ایک بار کا سبق اُسے کبھی نہیں بھولا تھا جبکہ اِس نے اور باقی بچوں نے بارہا میاں جی سے چھڑیاں کھائی تھیں اسی لئے سب رانو سے چڑتے اُسے رٹو طوطا اور میاں جی کی چمچی کہا کرتے تھے سعید نے اُسے کبھی بھی کسی کی بات پر غصہ کرتے نہیں دیکھا تھا ایسے ظاہر کرتی جیسے اِس نے کوئی بات سُنی ہی نہ ہو اور یہ بات بچوں کو چِڑانے کے لئے کافی تھی

سعید کی رانو سے کبھی نہیں بنی وہ اِسے بہت بری لگتی تھی میاں جی اُس کا سبق سن کر اُسے باقی بچوں کا سبق سننے کو کہا کرتے تھے اِس وقت وہ سب سے دل کھول کر اپنا سارا غصہ نکالا کرتی، معمولی معمولی غلطی پر میاں جی سے شکایت لگا دیتی سعید نے اُس کی وجہ سے اکثر میاں جی سے مار کھائی تھی۔

آج جو کچھ ہوا تھا سعید اُسے سمجھنے سے قاصر تھا کہیں اندر کھلبلی سی مچ گئی تھی، وہ اپنی اِس کیفیت کو سمجھ نہیں پا رہا تھا

’’ کیا بات ہے سعید سب ٹھیک تو ہے نا؟’‘

میاں جی نے اِس کی خاموشی بھانپ لی، وہ ایک دم چونک گیا

’’جی میاں جی’‘

وہ آہستگی سے بولا

’’اتنے چپ کیوں ہو’‘ وہ مطمئن نہ ہو سکا

’’سر میں درد ہے’‘

اُسے اور کوئی بہانہ نہ سوجھ سکا

’’دھوپ کی وجہ سے ہو گا کچی لسی بناتا ہوں پی لینا آرام آ جائے گا’‘

میاں جی کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود تھا

’’یہ لو’‘ وہ بڑا سا گلاس اُسے تھماتے ہوئے بولے ”

پی لو ان شاء اللہ آرام آ جائے گا

’’میاں جی’‘

وہ شرمندہ سا ہو گیا ’’میں خود بنا لیتا’‘

’’کیوں میرے ہاتھ کی پسند نہیں ہے کیا’‘

وہ ہلکا سا مسکرائے اور کچھ پڑھ کر اُس پر پھونک دیا۔

’’چلو اب پی لو’‘

انھوں نے بہت شفقت سے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا

آتے جاتے اکثر رانو سے ملاقات ہو جاتی، وقت کے ماہر ہاتھوں نے رانو کے ہونٹوں پر گلاب دہکا دیئے تھے، گال لَو دینے لگے تھے اٹھتی جھکتی لانبی پلکیں دل میں ترازو ہوئی جاتی تھیں، سعید اُسے دیکھتے ہی جیسے بن پیئے بہکنے لگتا

وہ انٹر کر چکا تھا اور میاں جی سے مار مار کھا کر پندرہ سیپارے بھی حفظ کر لئے تھے، قصبے کا واحد کالج صرف انٹر تک ہونے کی وجہ سے میاں جی اُسے شہر بھیجنے کا سوچ رہے تھے

’’پر میاں جی میں وہاں رہوں گا کس کے پاس؟’‘

اُسے میاں جی کا یہ آئیڈیا بالکل پسند نہیں آیا تھا

’’دوسرا میں آپ کو اکیلا چھوڑ کر جانا نہیں چاہتا’‘

اُس نے میاں جی کو صاف جواب سنا دیا

’’جانا تو پڑے گا میرے بچے کہ کوئی اور حل ہے نہیں’‘

میاں جی اُس کی ناراضی کو نظرانداز کرتے ہوئے بولے ’’ میں نہیں چاہتا کہ تم میری طرح یہاں مسجد میں ہی زندگی گزار دو، خدا کی دنیا بہت وسیع اور خوبصورت ہے، تمہیں بہت پڑھنا ہے، میں نے ملک صاحب کو خط لکھا ہے وہ تمہارے رہنے سہنے کا انتظام کر وا دیں گے’‘

’’کون ملک صاحب؟’‘

سعید نے پہلی بار اُن کے منہ سے کوئی نام سنا تھا

’’ہیں ایک اچھے وقتوں کے مہربان’‘

لیکن وقت نے میاں جی مہلت نہ دی رات سوئے تو اتنی گہری نیند کہ ٹوٹ ہی نہ سکی صدمے نے ہلا کر رکھ دیا ابھی تو اس نے چلنا ہی سیکھا تھا کہ میاں جی نے ہاتھ چھڑا لیا اُس کی کیفیت اس ننھے بچے کی سی تھی جو بھرے میلے میں اپنی ماں سے ہاتھ چھڑا بیٹھے چاروں طرف اجنبی چہرے، انجان لوگ وہ چیخ چیخ کر رونا چاہتا تھا لیکن آنکھیں جیسے بنجر ہو گئیں گاؤں کے لوگوں نے بہت محبت سے اس کے زخم پر پھاہے رکھنے کی کوشش کی، دھیرے دھیرے اُسے بھی قرار آتا گیا، میاں جی کے چالیسویں کے بعد اُسے میاں جی گدی سونپ دی گئی اور اٹھارہ سال کی عمر میں وہ سعید سے میاں جی بن گیا

دروازے پر دستک ہوئی تو وہ چونک گیا، سامنے رانو کھڑی تھی، ’’ میاں جی یہ امّاں نے بھیجا ہے’‘ اس کے لہجے میں وہی عزت و احترام تھا جو کبھی میاں جی کے لئے ہوا کرتا تھا وہ کپڑے سے ڈھکا ڈونگا اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی

’’تم مجھے میاں جی کیوں کہتی ہو’‘

سعید کے لہجے میں الجھن تھی

’’ تو اور کیا کہوں، آپ میاں جی ہی تو ہیں’‘

رانو کی آواز میں شوخی تھی

سعید نے ایک نظر اُسے دیکھا، گہرے نیلے سوٹ میں اس کی رنگت کھلی پڑ رہی تھی، بھرے بھرے ہونٹوں پر تھرکتی مسکان اور آنکھ کا کاجل سعید کا ایمان لوٹنے کو کافی تھے

’’اچھا اب تم جاؤ’‘

سعید نے ڈونگا پکڑ لیا اسے اپنے سینے میں مچلتے دل سے خوف آنے لگا تھا، کمبخت قابو سے باہر ہوا جا رہا تھا

وقت جیسے تھم سا گیا تھا دن تو ہنگاموں کی نذر ہو جاتا لیکن رات تمام تر وحشتیں لیے پہلو میں آن بیٹھتی۔ بلب کی مدھم سی زرد روشنی میں دیواروں پر ناچتے سائے زندہ ہو جاتے اور اپنی نوکیلی انگلیوں اور تیز دھار ناخنوں سے اسے نوچنے لگتے، وہ ہر رات تنہائی کے ان خوفناک بھتنوں سے لڑتے لڑتے گزار دیتا، دن سارے ان چاہے ہنگام ساتھ لے کر آتا، وہ اکتانے لگا

ایسے میں رانو کا خیال جیسے واحد سہارا تھا وہ اپنی تمام تر خوبصورتیوں سمیت جب تصور میں وارد ہوتی تو وہ کچی کوٹھڑی کسی شیش محل میں تبدیل ہو جاتی مدقوق روشنی والا مریل بلب چودھویں کے چاند کی سحر آگیں روشنی لٹانے لگتا، کچی بد رنگ دیواروں پر ہزاروں رنگ جھلملانے لگتے سعید رانو کا ہاتھ تھامے خواب وادیوں میں اتر جاتا جہاں جھرنوں کا مترنم پانی اُلفت کے سرمدی سُر چھیڑ دیتا، فضاؤں میں نغمگی سی گھل جاتی، ہوا رقص کرنے لگتی، کلیوں کے نازک لبوں پر مسکان بکھر جاتی اور مخملیں سبزے پر تھرکتی چاندنی بیخود ہو اپنے بلوریں جام بھر بھر محبت کرنے والی روحوں کو چاہت کی مے بانٹنے لگتی، تشنگی مٹنے لگتی اور روح بیخود میں درِ عشق پر دھمال ڈالنے لگتی

اس کے پور پور میں اکتاہٹ اتر آئی تھی، انتہائی بے دلی سے نمازیں بھی ادا کرتا معمولی غلطی پر قرآن پڑھنے کے لیے آنے والے بچوں کو روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیتا اور بعد میں انھیں بہلاتے ہوئے خود بھی سسک پڑتا

وہ اس ماحول سے بھاگنا چاہتا تھا لیکن کہاں ؟ یہ سوال اس کے قدم جکڑ لیتا اس کی تعلیم کا سلسلہ موقوف ہو چکا تھا دن رات مسجد حجرے میں پڑا رہتا، اسے لگتا شاید وہ بھی انھی کچی دیواروں کا حصہ ہے بھدا، بد رنگ اور کھردرا، اپنی بیزاری کہ وجہ سمجھنے سے وہ خود بھی قاصر تھا اسے مسجد اور اس کے خاموش ماحول سے وحشت ہونے لگی عجیب مفلوج کر دینے والی یاسیت تھی اک بے نام اداسی اسے لگا وہ پاگل ہو جائے گا وہ اپنے ہی بال نوچنے لگتا

اس دن جب بڑے چودھری جی نے شادی کی تجویز اس کے سامنے رکھی تو وہ چونک اٹھا،

’’ہاں میاں جی، بڑے میاں جی ہوتے تو سب خود دیکھ لیتے لیکن اب ہمیں ہی کچھ کرنا ہو گا اگر آپ رضامند ہوں تو بات چلاؤں ؟ظ

’’” چودھری جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سعید گڑبڑا گیا

’’اگر کوئی لڑکی نظر میں ہو تو بتا دیں ورنہ میں اپنے طور پر کچھ کرتا ہوں’‘

چودھری جی سنجیدگی سے بولے

’’بھاگ بھری کی بیٹی رانو کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ بہت سگھڑ لڑکی ہے’‘

سعید کو لگا دل ابھی پسلیاں توڑ کر باہر نکل آئے گا، اسے سینے میں سانسیں اٹکتی ہوئی محسوس ہوئیں

’’ آپ نے جواب نہیں دیا؟’‘

چودھری جی نے پھر پوچھا

’’چودھری جی میں کیا بولوں، آپ بڑے ہیں جیسا مناسب لگے کریں’‘

سعید نے سارا معاملہ اُن پر ڈال دیا

"ٹھیک ہے میاں جی میں بات کرتا ہوں ربّ سوہنا بہتر کرے گا

وہ مصافحہ کر کے باہر نکل گئے

سعید کے اندر ہلچل مچ گئی تھی، وہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے رانو کی مرضی جاننا چاہتا تھا، شام کو جب وہ کھانا لے کر آئی تو سعید نے اسے روک لیا

’’رانو ایک بات پوچھوں’‘

اُس نے بہت جھجھکتے ہوئے کہا

’’جی میاں جی ضرور’‘

’’ مجھ سے شادی کرو گی؟’‘

سعید کی آواز کپکپا رہی تھی رانو ایک دم چپ ہو گئی

’’کیا ہوا تم نے جواب نہیں دیا؟’‘

’’میاں جی مجھے ہر گھر کا پکا ہوا کھانا اچھا نہیں لگتا’‘

رانو کی آواز بہت دھیمی تھی

٭٭٭

 

 

 

 

 رشتہ

 

اس قبر جیسی تنگ و تاریک سی جگہ سے جیسے کسی نے اُسے اچانک باہر لا پٹخا، عجیب دل دہلا دینے والی آواز تھی جیسے صورِ اسرافیل پھونکا جا رہا ہو اس کا پورا بدن تشنج کا شکار تھا تیز کٹار کی طرح سینے میں ابھرتی ڈوبتی سانسیں، لگتا تھا جیسے گلے میں کوئی چیز اٹکی ہوئی ہے اس نے پوری توانائی صرف کر کے گلا صاف کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہو سکی پھیپھڑوں میں اترتی سرد ہوا آگ سی دہکا رہی تھی اسے پنڈلیوں پر سخت جلن محسوس ہوئی چند گہری خراشیں تھیں جن سے متواتر لہو بہہ رہا تھا۔ اس نے مچی مچی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کی لیکن بوجھل اور متورم پپوٹے اوپر نہ اٹھ سکے عین سر پر چمکتے سورج کی تیز روشنی، اسے اپنی جلد چٹختی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس پر سرد ہوا، جیسے ہڈیوں میں اترتی جا رہی تھی دور تک پھیلے ہوئے اس ویرانے میں کسی ذی روح کا نام و نشان تک نہ تھا ہر طرف پھیلا ہوا موت کا سا سکوت، سورج کی تیز کرنیں  آنکھوں میں اترنے لگیں۔۔

اچانک اس کی نظر اس بے حس و حرکت وجود پر پڑی جو اس کے قریب ہی برف پر پڑا تھا شاید وہ کوئی خا تون تھی اور یقیناً تکلیف میں تھی اس کی کراہوں کی آواز وہ بآسانی سُن سکتا تھا جانے وہ کون تھی اور اس ویرانے میں کیا کر رہی تھی۔

سردی عروج پر تھی پچھلے کئی دنوں سے برفباری کا سلسلہ جاری تھا ہر طرف برف کی سفید چادر سی بچھ گئی تھی رابعہ کی طبیعت صبح سے قدرے ناساز تھی سارا جسم جیسے پھوڑا بنا ہوا تھا اس پریہ اداس کر دینے والا موسم وہ اس وقت گھر میں بالکل اکیلی تھی دو گھنٹے پہلے مظفر کا فون آیا تھا کہ وہ دو دن تک آ پائے گا وہ ایک دم پریشان سی ہو گئی تنہائی سے اُسے شدید وحشت ہوتی تھی لیکن مظفر کی جاب ایسی تھی کہ اسے ہفتہ ہفتہ بھر گھر سے باہر رہنا پڑتا تھا ایسے میں رابعہ کے لئے وقت کاٹنا مشکل ہو جاتا اور پھر ایسی حالت میں تو انسان ویسے ہی بہت زود حس ہو جا تا ہے

اس نے چادر کو اپنے گرد اچھی طرح لپیٹا اور آتش دان میں مزید لکڑیاں جھونکنے لگی کہ اچانک اٹھنے والے درد نے اسے دہرا کر دیا اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیسا درد ہے ابھی چند دن پہلے ہی تو ڈاکٹر کے پاس گئی تھی اور اس نے مزید چھ ہفتے کا ٹائم دیا تھا، وہ ایک دم پریشان ہو گئی

’’یا اللہ میں کیا کروں’‘

درد تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا اس نے اپنی پڑوسن سے مدد لینے کا سوچا لیکن پھر کچھ سوچ کر رک گئی اور خود ہی ڈاکٹر کے پاس جانے کا ارادہ کیا کوٹ پہنا اور چائے کا آخری گھونٹ بھر کر کپ میز پر رکھا اور چابیاں اٹھا کر باہر آ گئی، موسم کے تیور کچھ بہتر لگ رہے تھے گھنے بادلوں کو چیرتی ہوئی سورج کی کرنیں برف سے آنکھ مچولی کھیل رہی تھیں اس نے لمحے بھر کو سوچا اور گاڑی سٹارٹ کر دی۔

رابعہ آج سے چند سال پہلے بیاہ کر جرمنی آئی تھی آنکھوں میں ڈھیروں خواب سجائے مظفر گو اچھا انسان تھا، اس کا بہت خیال رکھتا تھا لیکن جاب کی وجہ سے اسے مناسب وقت نہ دے پاتا جب بھی وہ شہر سے باہر ہوتا دن میں دس دس بار رابعہ سے فون پر بات کرتا رابعہ اس کی مجبوری سمجھنے کے باوجود چڑ چڑے پن کا شکار ہو جاتی اور اکثر اس سے بات کرتے ہوئے رو پڑتی، کچھ دوری پر ایک اور پاکستانی فیملی تھی کبھی کبھار ان سے بات ہو جاتی لیکن آنا جانا بہت کم تھا

اسے بہت شدت سے بچے کی خواہش تھی، شادی کے پورے پانچ سال بعد اس کی امید بھر آئی، وہ بے انتہا خوش تھی اس نے ابھی سے چھوٹے چھوٹے کپڑے اور سویٹر بنانے شروع کر دئیے تھے اب تنہائی اسے بری طرح کھلتی نہ تھی اسے ایک مصروفیت مل گئی تھی ساری ساری رات اپنے ہونے والے بچے سے باتیں کرتی اسے لگتا کوئی اس کے ساتھ ہے کبھی کبھی تو اسے محسوس ہوتا کہ وہ نہ صرف اس کی باتیں سن رہا ہے بلکہ سمجھ بھی رہا ہے وہ جب بھی پریشان ہوتی اسے لگتا بچے نے اس کی پریشانی بھانپ لی ہے اس کی غیر معمولی حرکات اور بے چینی رابعہ فوراً محسوس کر لیتی

جوں جوں وقت گزر رہا تھا اس تعلق میں پختگی آ رہی تھی وہ بڑی شدت سے محسوس کرتی تھی کہ بچے پراس کے مزاج کا گہرا اثر ہوتا ہے خاص طور پر پریشانی کی حالت میں اسے لگتا وہ بھی پریشان ہے اس نے اس بات کا ذکر اپنی ڈاکٹر سے بھی کیا

’’ہاں ایسا بالکل ممکن ہے ماں پر بچے کے مزاج کا گہرا اثر ہوتا ہے اسی لئے تو ماؤں کو خوش رہنے کی ہدایت کی جاتی ہے’‘

صفائی کے باوجود سڑکیں برف سے اٹی ہوئی تھیں اس پہاڑی علاقے میں اتنی برف میں گاڑی چلانا بہت مشکل تھا وہ بہت احتیاط سے گاڑی چلا رہی تھی، اس تنگ پہاڑی سڑک پر یو کی شکل کا موڑ کاٹتے ہوئے اسے لگا گاڑی قابو سے باہر ہو رہی ہے اس کا پاؤں بے اختیار بریک پر پڑا لیکن گاڑی بری طرح پھسلتی چلی گئی اس نے اپنے حواس برقرار رکھتے ہوئے سٹیئرنگ سنبھالنے کی کوشش کی لیکن گاڑی کسی بدمست سانڈ کی سڑک پر دوڑتے ہوئے داہنی طرف والے جنگل میں جا گھسی اور زور دار دھماکے سے درخت سے جا ٹکرائی

درد کا ایک چنگھاڑتا ہوا عفریت جیسے اپنے تیز دھار ناخنوں سے اسے چھیلنے لگا رابعہ کو کچھ نظر نہیں آ رہا تھا ٹوٹے ہوئے شیشوں کے تیز دھار ٹکڑوں نے اس کے چہرے کو بری طرح زخمی کر دیا تھا وہ گرم ابلتے ہوئے لہو کی دھاریں اپنے محسوس کر سکتی تھی اس نے اپنی ٹانگوں کو حرکت دینے کی کوشش کی اور پاؤں سے ہینڈل دبا کر سیٹ کو پیچھے دھکیل کر کھلے دروازے سے باہر لڑھک گئی۔ خنجر کی طرح تیز دھار برف نے اس کی پنڈلیوں کو بری طرح کاٹ کر رکھ دیا، شدید درد تن بدن کو چیر رہا تھا، اس کے حلق سے ایک طویل چیخ بر آمد ہوئی اس سے پہلے کہ وہ اس ننھے سے وجود کو سنبھال پاتی اس کا ذہن تاریکیوں میں ڈوب گیا

اس پر جانکنی کی سی کیفیت طاری تھی پھیپھڑے ہوا کی کمی سے پھٹتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے پوری طاقت سے آکسیجن کو اندر اتارنے کی کوشش میں اس کی گردن کی رگیں نمایاں ہو گئیں تھیں اس نے بہت بے بسی سے چاروں طرف دیکھنے کی کوشش کی لیکن متورم آنکھیں نہ کھل سکیں بدن میں اینٹھن اور تشنج بڑھنے لگا تھا۔ اس نے ایک بار پھر کسی کو پکارنے کی کوشش لیکن حلق سے انتہائی باریک سی چیخ نما آواز ہی نکل پائی۔

سرد ہوا پنڈلیوں کی گہری خراشوں پر نشتر کا کام کر رہی تھی یکایک اس کے بدن پر شدید کپکپی طاری ہو گئی پھیپھڑوں میں آگ سی بھر گئی اسے لگا جیسے کو ئی لوہے کا خاردار ٹکڑا اس کے حلق میں اتار پر پوری طاقت سے گھما رہا ہو اور اس کے ساتھ اس کے تمام تر اندرونی اعضاء لپٹ کر باہر آر ہے ہوں اس کے جسم پر بری طرح لرزہ طاری تھا ہر سرِ مُو سے پسینہ پھوٹ نکلا اس نے آخری کوشش کے طور پر پھر کسی کو مدد کے لئے پکارنے کی کوشش کی لیکن حلق میں پھنسے لعاب نے پھر سے آواز کا گلا گھونٹ دیا۔

وہ خا تون ابھی تک اسی طرح پڑی ہوئی تھی۔  اس کی کراہوں کی آواز اسے بہت مانوس سی لگی اسے لگا وہ اسے جانتا ہے اس کے ساتھ اس کا کوئی بہت گہرا رشتہ ہے لیکن کیا؟ اسے یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی، خاتون کی کراہیں اسے بے چین کئے دے رہی تھیں۔۔

وہ مر رہا تھا اس کا بدن دھیرے دھیرے نیلا پڑ نے لگا آخری سانسیں لیتے ہوئے اس نے پھر آنکھیں کھولنے کی ناکام کوشش کی اچانک اسے ہلکی سے گرمائش کا احساس ہوا شاید کسی نے اس پر کوئی کپڑا ڈالا تھا اسے اپنا بدن فضا میں معلق ہوتا ہوا محسوس ہوا چند آوازیں سماعت سے ٹکرائیں جنہیں ڈوبتا ہوا دماغ کوئی بھی مفہوم دینے سے قاصر تھا اس کے بدن نے آخری بار جھر جھری لی اور ساکت ہو گیا۔

ایمبولینس کی تیز آواز بھاگتے دوڑتے قدم، تیز روشنیاں اور حرکت کرتے در و دیوار یا شاید اسے ایسا لگ رہا تھا وہ عجیب سوتی جا گتی کیفیت میں تھی ذہن ابھی بھی پوری طرح بیدار نہیں تھا ایک خواب کی سی کیفیت تھی لیکن آری کی طرح کاٹتا درد حواس جھنجھوڑنے لگا منظر دھیرے دھیرے واضع ہونے لگا۔ آوازوں کا مفہوم سمجھ آ رہا تھا اسے اپنی پنڈلیوں اور کمر میں شدید جلن کا احساس ہوا۔ چہرے پر خون جم کر سخت ہو گیا تھا زبان خشک ہو کرتا لو سے چپک سی گئی تھی نیم غشی میں اس نے بارہا مدد کے لئے پکارنا چاہا لیکن حلق سے آواز نہ نکل سکی۔ اچانک اسے اپنے اندر گہری خاموشی اور خالی پن کا احساس ہوا اس کا دل اچھا کر جیسے حلق میں آ گیا اور آنکھیں پوری طرح کھل گئیں بہت بے چینی سے اس نے اِدھر اُدھر دیکھنے کی کوشش کی وہ شاہد کسی اسپتال میں تھی

’’یا اللہ’‘

’’مائی بے بیِ’‘

’’میرا بچہ کہاں ہے ؟ کیا ہوا ہے اسے ؟’‘

وہ ہذیانی انداز میں چیخنے لگی

’’آئی ایم سوری’‘

نرس نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے اس کے پہلو کی طرف اشارہ کیا

وہ سٹریچر پر تھی اور اس کے پہلو میں سفید چادر میں لپٹا ہوا اس کا بچہ دم توڑ چکا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 نرتکی

 

 

مدھو نے گہری سانس لے کر بدن ڈھیلا چھوڑ دیا اس کے چہرے پر تھکن تھی پیشانی پر آئے پسینے کے قطرے پونچھتے ہوئے وہ گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گئی

’’ کیا ہوا آج اتنی جلدی تھک گئیں ؟’‘

سنگتراش کا دھیان ٹوٹا تو وہ اپنی ناگواری نہ چھپا سکا

’’جلدی؟’‘

’’بدھو مہاراج دن کا تیسرا پہر ڈھلنے کو ہے اور آپ کو اب بھی جلدی لگتی ہے’‘

اس کے بدن میں بلا کی اینٹھن تھی صبح سے ایک ہی زاویے پر کھڑے انگ انگ میں تھکن اُتر آئی تھی

’’تم جانتی ہو نا یہ مورتی میرے لیے کتنی ضروری ہے میں اسے وقت پر ختم کرنا چاہتا ہوں اور تم ہو کہ’‘

سنگتراش کے لہجے میں ترشی تھی

’’ دیکھو راجہ مدھو کو کسی کا حکم ماننا پسند نہیں ہے تمہیں اپنی مورتی سے پیار ہے مجھے اپنے آپ سے’‘

اس نے پاس پڑی چادر اٹھا کر لپیٹ کی اس کے گال دہک رہے تھے اور بدن میں ہلکی کپکپاہٹ تھی پچھلے کئی دنوں سے اس کی طبیعت بوجھل تھی سورج ڈھلے ہی بدن پھنکنے لگتا ریشہ ریشہ الگ ہوتا ہوا محسوس ہوتا لیکن پیٹ کی آگ بدن کی آگ سے کہیں زیادہ تیز ہوتی ہے۔۔ سو وہ بھی سب بھلا کر گھنٹوں رقص کا ایک ہی زاویہ بنائے ساکت کھڑی رہتی۔ پاؤں شل ہو جاتے آنکھوں کے آگے ناچتے سیاہ دائرے پھیل کر سارے رنگ نگل لیتے اسے لگتا جیسے وہ کسی جا دوئی اثر میں ہو سنگتراش کا تیشہ پتھر پر نہیں اسے اپنے آپ پر چلتا ہوا محسوس ہوتا۔

لیکن بھوک ناگ کو کون قابو کر سکا ہے وہ پھنکارتا ہے تو بڑے بڑے ڈھ جاتے ہیں۔۔ وہ تو پھر ایک کمزور عورت تھی اس پر بوڑھے باپ اور بہن کا بوجھ اس کے پاؤں کو متحرک رکھنے کو کافی۔

اس چھوٹے سے گاؤں میں مدھو کا خاندان پشتوں سے آباد تھا سبھی چھوٹے موٹے کام کر کے جیون کی گاڑی کو دھکا لگائے ہوئے تھے۔۔ مدھو اس خاندان میں کیا آئی خاندان کے نصیب کی ٹمٹماتی لَو بھی بھڑک کر بجھ گئی۔۔ ماں اس کی پیدائش پر چل بسی لیکن جاتے جاتے عمر بھر کی نحوست مدھو کے حصے میں لکھ گئی

بابا کچھ دنوں تک تو سوگ میں رہا، پھرا یک دن غائب ہو گیا۔ واپسی پر سرخ جوڑے میں لپٹی شاماں اس کے ساتھ تھی۔ وہ تن من دونوں سے کالی تھی۔ ذرا ذرا سی غلطی پر وہ چار چوٹ کی مار دیتی کہ مدھو دنوں آنسو پیتی رہ جاتی۔ شاماں نے معذور بیٹی کو جنم دیا تو مدھو کی نفرت اور نحوست ایک ساتھ کئی درجے پھلانگ گئی۔ اسے اندر کمرے میں آنے کی اجازت نہیں تھی جاڑوں کی لمبی راتیں ہوں یا گرمیوں کی چلچلاتی دوپہریں وہ صحن کے کونے میں بنی چھوٹی سی کوٹھڑی میں گزار دیتی۔ شاماں کو یاد آتا تو کھانا پٹخ دیتی ورنہ مدھو بھوکی ہی سو جاتی۔

اس کا سارا پچپن تنہا گزرا۔ لوگ اس کے سائے سے بھی بدکتے تھے گلی میں اسے آتا دیکھ کر دروازے دھڑ دھڑ بند ہونے لگتے۔۔ شاماں کے سنائے ہوئے نحوست کے قصوں نے مدھو کے لئے گھر باہر جہنم دہکا دیا۔

شاماں اسے دیکھتی تو اس کے سینے پر جیسے سانپ لوٹنے لگتے۔۔ جانے کیا کھا کر مدھو کی ماں نے اسے جنا تھا جو بھی دیکھتا دیکھتا ہی رہ جاتا۔ گلال ملے میدے کی سی رنگت سرخ رسیلے ہونٹ سیاہ لانبے بال جنہیں ہفتوں تیل صابن نصیب نہ ہوتا لیکن ان کی چمک پھر بھی چندھیائے رکھتی۔ شاماں کی نفرت مدھو کے ساتھ جوان ہوتی گئی۔ مدھو بھی اپنے نام کی ایک تھی۔ اس نے درد اندر اتارنا سیکھ لیا تھا لیکن اندرا اُترا ہوا درد زہر بن جاتا ہے سو یہی مدھو کے ساتھ ہوا اس کی زبان کا ڈسا پانی نہیں مانگتا تھا۔ ایسی ایسی گالیاں اور کوسنے دیتی کہ شاماں جیسی عورت بھی زچ ہو جاتی۔

وہ اٹھارہ سال کی ہو چکی تھی۔ اور گاؤں کی نوٹنکی میں اس کی دلچسپی بڑھتی جا رہی تھی۔ شاماں کے لاکھ کوسنے پر بھی اس نے نوٹنکی میں ناچ بند نہ کیا کیا غضب کا ناچتی تھی۔ نوٹنکی کے کرتا دھرتا بنسی مہاراج اسے بیٹی کی طرح چاہتے تھے۔۔ انھوں نے مدھو کے کہنے پر باقاعدہ اسے ناچ کی تعلیم بھی دینا شروع کر دی۔

’’گرو جی میرے پاس گرو دکھشنا میں دینے کو کچھ بھی نہیں’‘

اس کی آواز بھرّا گئی

’’ ایک چیز تم گرو دکھشنا میں دے سکتی ہو بٹیا’‘

مہاراج اپنے نرم لہجے میں بولے

’’کہیے مہاراج’‘

وہ سراپا عقیدت تھی

’’تم پورے من سے نرت سیکھو اور پھر اس کلا میں اپنا نام کماؤ یہی میری گرو دکھشنا ہو گی’‘

انھوں نے محبت سے مدھو کے سر پر ہاتھ رکھا تو اس کی آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگے۔۔ اس نے اپنا تن من سب رقص میں جھونک دیا۔ اس کا چاندنی جیسا دودھیا بدن جب دھیرے دھیرے اپنے راز کھولتے ہوئے نرت کے بھاؤ بتاتا تو بڑے بڑوں کا ایمان ڈولنے لگتا۔ گرو جی اس سے بہت خوش تھے۔۔

اس دن برابر والے گاؤں میں شادی تھی۔ نوٹنکی ٹولی بھی وہاں مدعو تھی گرو مہاراج نے خاص طور پر مدھو کو آنے کا کہا تھا۔ تیز روشنیوں میں سرخ بدن گھاگھرے اور چھوٹی سی کسی ہوئی چولی میں جب مدھو کے سیماب بدن کے زاوئیے کھلنے شروع ہوئے تو دل گھنگھرو بن گئے۔۔ پیسوں کی برسات شروع ہوئی تو چھوٹی سی چولی تنگ پڑنے لگی۔

اسی دن شاماں نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں مگر جاتے سمے معذور بیٹی، بوڑھا بیمار شوہر اور گھنگھرو مدھو کو بخش گئی۔ مدھو بھی جانے کیسا نصیب لکھوا کر لائی تھی ساری عمر دوسروں کے رحم و کرم پر گزار دی۔ جو دوسروں نے چاہا وہی ہوا وہ چاہے بابا ہوں، شاماں ہو یا یہ رینوکا۔۔۔۔۔ نہ چاہتے ہوئے بھی سب کی دیکھ بھال کرنا پڑی

’’ کیا میرا جیون کی سندرتا پر کوئی حق نہیں ہے ؟’‘

’’ماں کی مرتیو میرا دوش کیسے ہوئی؟ رینوکا روگ لکھوا کر لائی تو کیا میں نے بھگوان سے سفارش کی تھی؟’‘

’’ اور اب شاماں گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے تو اچھا تھا بھگوان مجھے ہی اٹھا لیتا’‘

اسے شاماں کے مرنے کا دکھ تھا۔ کم از کم گھر میں زندگی کا احساس تو رہتا تھا، اب تو قبرستان کی سی خاموشی تھی۔ مدھو کا دم گھنٹے لگتا۔ رینوکا سارا دن جھلنگا سی چارپائی پڑی رہتی مدھو کھانا رکھ دیتی تو کھا لیتی ورنہ بڑے بڑے دیدے گھماتے ہوئے نامراد خلاؤں میں جانے کیا گھورا کرتی۔ بابا نے بھی شاماں کے بعد چپ سادھ لی تھی۔ کبھی مدھو سے آنکھ ملا کر بات نہ کی شاید اندر سے شرمسار تھا۔ شاماں کی ہر زیادتی پر اس نے کبھی جواب طلبی نہ کی تھی اور اب تقدیر نے اسے مدھو ہی کے رحم و کرم پر لا ڈالا تھا۔ لیکن مدھو سب بھلا کر ان کی دیکھ ریکھ میں لگ گئی۔ اوپر سے سماج کی نفرت کا بھاری طوق اسے زندگی بوجھ لگنے لگتی۔ روز سوت کات کر چادر بنانا کب آسان ہوتا ہے۔۔ گو نوٹنکی میں اس کا کام بہت سراہا جاتا تھا۔ اس سے پیسوں کی چنتا کچھ کم ہو گئی تھی لیکن کبھی کبھی وہ اس سب سے اس قدر اُوبھ جاتی کہ مرنے کو جی چاہتا۔

بلراج سے اس کی ملاقات گرو مہاراج نے کروائی تھی اسے راج بھون کے لیے مورتی تراشنا تھی اور وہ کسی سندر ملیح چہرے کی تلاش میں تھا۔ جب گرو مہاراج نے اسے مدھو سے ملوایا تو اسے لگا اس کی تلاش مکمل ہو گئی ہے۔۔ بلراج نے اسے خاصی بڑی رقم یکمشت ادا کر دی تھی۔ لیکن ایک مسئلہ تھا اسے مورتی مکمل ہونے تک بلراج کے ساتھ سٹوڈیو میں ہی رہنا تھا۔

’’گروجی، بابا اور رینوکا کا کیا ہو گا؟’‘

مدھو قدرے فکر مند تھی

’’ تم فکر مت کر پتری میں کوئی انتظام کروا دوں گا۔ تم جاؤ ایسے موقعے بار بار نہیں آتے راج بھون کی مورتی کے لیے تمہارا چناؤ بڑی بات ہے بٹیا بہت بڑی بات مانو تمہارے دن پھر گئے’‘

گرو مہاراج بہت خوش تھے۔۔ اس نے ان روپیوں میں سے کچھ روپے بابا کے ہاتھ میں تھمائے اور جانے کی اجازت چاہی

’’بابا سندری موسی روز آ کر کھانا اور دوسرے کام کر دیا کرے گی رات کو بھیم چاچا ادھر ہی سوئیں گے تم پریشان مت ہونا میں کچھ دنوں میں لوٹ آؤں گی’‘

بابا نے ایک نظر اسے دیکھا اور کانپتا ہاتھ اس کے سر پر رکھ دیا مدھو کو لگا جیسے جلتی دوپہر میں اچانک کہیں سے نمودار ہونے والا بادل برسنے لگا ہو۔

لمبے گیسو، غلافی آنکھوں اور گھٹے ہوئے تنومند جسم والا بلراج ساحر تھا۔ اس کے ہاتھوں کے لمس سے پتھروں میں جیسے زندگی اگنے لگتی تیشے کی ہر حرکت پتھر میں ڈھلی زندگی کے نشیب و فراز سے نقاب سر کاتی جاتی۔ بلراج خاصا منہ پھٹ اور بے باک تھا، مدھو پہروں اس کے سامنے بے لباس کھڑی رہتی۔ شروع شروع میں اسے یہ سب بہت مشکل لگتا۔ بلراج کے بار بار کہنے کے باوجود اس کے بدن میں ایک ان دیکھا سا تناؤ رہتا۔ بلراج کی نگاہیں اسے چبھنے لگتیں اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بدن چرانے لگتی۔

’’ دیکھو مدھو ایسے کام نہیں چلے گا، تمہارے بدن کا تناؤ مجھے کچھ کرنے نہیں دیتا’‘

بلراج سخت غصے میں تھا

’’سوچو تم یہاں اکیلی ہو بالکل اکیلی’‘

اس کے کھردرے ہاتھ مدھو کے برہنہ شانوں پر ٹکے تھے۔۔ مدھو کا بدن آنچ دینے لگا، بلراج نے بھی اس کی کپکپاہٹ محسوس کر لی۔ اس کے لبوں پر ایک عجیب سے مسکراہٹ ابھری اس نے ایک جھٹکے سے مدھو کو باہوں میں بھر لیا۔

مدھو نے وحشت زدہ انداز میں اسے دیکھا لیکن لہو میں جاگتی آنچ نے اسے بے سدھ کر دیا تھا بہت دھیرے سے اس نے آنکھیں موند لیں۔۔ جسم کے مختلف حصوں کو چھوتی ہوئی گرم سانسیں کسی نئے جہاں کا در وا کر رہی تھیں۔۔ مدھو کے لئے یہ سب کچھ بہت انوکھا تھا، نیا اور خوبصورت، چکا چوند کر دینے والا۔ محبتوں کو ترسی ہوئی ہوس کے کھردرے ہاتھوں کا محبت کا الوہی لمس جان کر تن من ہار بیٹھی تھی اور وہ بھی اپنے سے بیس سال بڑے مرد کے سامنے۔۔ خود سپردگی کی منزلیں طے کرتے کرتے اچانک مدھو کو احساس ہوا چاہنے اور چاہنے جانے کا احساس کتنا خوبصورت ہے۔۔

’’ بلراج تم مجھے چھوڑ تو نہیں دو گے ؟’‘

وسوسے مدھو کو ڈسنے لگے

’’ زندگی کون تیاگتا ہے مدھو’‘

بلراج کی سرگوشی مدھو کو سرشار کر جاتی۔ مورتی مکمل ہونے والی تھی مدھو کا دل انجانے خدشوں سے لرز لرز جاتا دن بدن پھولتے پیٹ کو چھپانا اب نا ممکن تھا۔ بلراج کو علم ہوا اس نے چند نوٹ اس ہتھیلی پر رکھتے ہوئے بہت سرد مہری سے اسے پاپ سے مکت ہو جانے کا مشورہ دے ڈالا مدھو سکتے کی سی کیفیت میں کھڑی اسے دیکھتی رہی۔

’’یہ تم کہہ رہے ہو بلراج ؟’‘

اس کی آنکھوں میں اچنبھا تھا

’’تمہارے بھلے کی بات کی ہے کشٹ بھوگنا چاہتی ہو تو اور بات ہے’‘

’’کیا مطلب تم پتا ہو اس کے’‘

’’ پتا’‘

بلراج کا قہقہہ بہت طویل تھا

’’ ارے کا ہے ہلکان ہوتی ہے اس بالی عمریا میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عیش کے دن ہیں بس عیش سے غرض رکھ’‘

وہ داہنی آنکھ دبا کر بولا

’’ یہاں تو یہ سب چلتا رہتا ہے، اب میں ہر ایک کو تو گلے میں لٹکانے سے رہا’‘

اس کے لہجے کی انی مدھو کو دل میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی

بلراج کے لئے تو یہ بہت عام سی بات تھی۔ راجہ صاحب کا خاص اور منہ چڑھا تھا گو راج رجواڑوں کے زمانے بیت گئے تھے۔۔ راجہ صاحب بھی بس نام ہی کے راجہ رہ گئے تھے۔۔ نہ وہ پہلے والا کرّ و فر تھا نہ ہی وہ لوگ جو راجاؤں کا مان سمان ہوا کرتے  تھے۔۔ راجہ صاحب اپنی پشتینی حویلی کو راج بھون کا نام دے کر ہی بہت خوش تھے۔۔

لیکن مرا ہوا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔۔ حویلی میں وہی نوکروں کی فوج، وہی تام جھام، وہی اللے تللے آج بھی اسی طرح برقرار تھے۔۔ ہر سال شیوراتری پر راج بھون کے دیوانِ خاص میں نئی مورتی ایستادہ کی جاتی تھی۔ یہ پرکھوں سے چلی آ رہی ایک رسم تھی جسے اب تک نبھایا جا رہا تھا۔ بلراج ہر بار شہکار تخلیق کرتا تھا اسی لئے راجہ صاحب اسے بہت مانتے تھے۔۔

مدھو ایک ٹک اسے دیکھے گئی۔ گو وہ بچپن سے ٹھکرائے جانے کا درد سہتی آئی تھی۔ لیکن آج جانے کیوں دل کی رگیں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔۔ غصہ بے بسی میں ڈھلنے لگا اور بے بسی آنسوؤں میں ڈھل گئی۔ آج پہلی بار وہ نصیب پر شاکی تھی۔ آج اس کا گلہ اپنے آپ سے تھا

” اور سنو جلدی اٹھ جانا مورتی میں جو تھوڑا بہت کام باقی ہے وہ ختم کرنا ہے راجہ صاحب نے دو دن بعد کا مہورت نکلوایا ہے استھاپنا کے لیے ” بہت آرام سے کہہ کر وہ باہر نکل گیا۔

مدھو کے اندر جیسے چھناکے سے کوئی چیز ٹوٹ گئی۔ اس نے نفرت سے اپنے پھولے ہوئے پیٹ کو دیکھا اور زمین پر تھوک دیا، اس کی وہی ازلی بے حسی عود آئی تھی، اسی رات نہایت خاموشی سے وہ گاؤں واپس آ گئی، سندری موسی وہیں موجود تھی جہاندیدہ عورت تھی بنا کہے اس کی حالت سمجھ گئی۔

’’ چل میرے ساتھ’‘ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر قدرے سختی سے بولی ’’ میں شالنی سے بات کرتی ہوں کوئی کاڑھا ہی بنا کر دے دے تجھے کس کس سے چھپائے گی اس پاپ کو’‘

’’ ابھی آتی ہوں اسے اندر رکھ لوں’‘

اس نے زمین پر پڑی کپڑوں کی پوٹلی کی طرف اشارہ کیا۔ گرہ کھول کر اس نے چادر میں لپٹی کوئی چیز نکالی یہ اس کے اپنے سنگی مجسمے کا ٹوٹا ہوا پاؤں تھا جس کی چھنگلی غائب تھی۔ پاؤں میں بندھے گھنگھرو سنگتراش کے ماہرِ فن ہونے کی بیّن دلیل تھے۔۔ ایک گہری سانس لے کر اس نے ٹوٹا ہوا پاؤں جستی صندوق میں رکھا اور چپ چاپ موسی کے ساتھ ہو لی سنگتراش کا تیشہ خود اسی کو گھائل کر گیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

خواب گر کی موت

 

گھڑی کی سوئی پھر بارہ پر آ چکی تھی، ایک اور دائرہ مکمل ہوا

’’یہ دائرے مکمل ہوتے بھی نامکمل کیوں ہوتے ہیں ؟’‘

ایک عجیب سا سوال ذہن میں کلبلایا

’’کہیں کوئی لکیر ادھوری رہ جاتی ہے، کچھ نہ کچھ ہمیشہ ان کہا رہ جاتا ہے’‘

’’لیکن نہیں۔۔ ..۔ ..۔ ..آج سب کچھ مکمل ہونا چاہئیے، شاید مکمل ہی ہے، گھڑی کی بھاری بھر کم ٹک ٹک، بارش کی آواز، رات کا فسوں وہ اور میں’‘

کلاک ٹاور سے نظر آ نے والا شہر کا منظر دھند نگل چکی ہے، اسے سامنے پا کر میں کچھ گھبرا رہا ہوں سمجھ میں نہیں آ رہا کیا کروں بام پر دھرا انتظار کا دیپ ہو آنکھوں میں جھلملاتے آنسو ہوں یا اس کے بھیگے لبوں پر تھرکتی مسکراہٹ جانے مجھے کیوں کہانیاں سنانے لگتے ہیں ایسی کہانیاں جو اگر لکھی جائیں تو ادب کی دنیا میں تہلکہ مچ جائے۔۔ جی ہاں آپ ٹھیک سمجھے میں ایک کہانی کار ہوں صدیوں کی بھوبھل کو انگلیوں کی پوروں سے کریدتے ہوئے اکثر چھالے اُبھر آتے ہیں۔۔ ملگجے پانی سے بھرے بد ہئیت چھالے آنکھ سے ٹپکے آنسو کی طرح ’’جب آنکھ سے خواب گر جائیں تو آنکھیں مرنے کیوں لگتی ہیں ؟’‘

یہ بات مجھے پتہ ہونا چاہیے تھی کہ میں ایک کہانی کار ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں۔۔ ..۔ ..شاید۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ .

’’لیکن کیا کہانی بُننے کے لئے ہر بات کا پتہ ہونا ضروری ہے ؟’‘

چٹکی کی آواز آئی اور فضا میں خواب کا سنہری زر اُڑنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دن کہانی سنتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا ماں کی آواز کتنی نرم ہے

’’ماں خواب گر نہ ہو تو؟’‘

مجھے سوال کرنا اچھا لگتا تھا

’’تم بھی ناں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہانی کے بیچ میں نہیں بولا کرتے خواب گر نہ ہو تو خواب کہاں سے آئیں گے’‘ ماں کے لہجے میں بناوٹی غصہ تھا

’’ لیکن کیوں ؟ کہانی کے بیچ میں کیوں نہیں بولتے ؟”

میں چپ نہ رہ سکا

’’ اگر کہانی سمجھ نہ آئے تو؟’‘

’’ تو بھی چپ چاپ سنتے ہیں’‘

ماں نے گھورا تو میرا ذہن بھٹکا اور آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں نظریں تصور میں اس کا سراپا ٹٹول رہی تھیں۔۔ وہ خواب گر کیسا ہو گا؟ خواب نہ ہوں تو کیا ہو گا، ؟ ماں ڈراتی کیوں ہے ؟

’’تماشا کیا تو خواب زر ریت بن کر آنکھوں میں گھل جائے اور آنکھیں چہرے پر ٹکنے سے انکار کر دیں گی’‘

’’کون سا تماشا ماں’‘

میرے سوال ختم نہ ہوتے اور ماں زچ ہو جاتی

آج بھی اندر بیٹھا بچہ سہم جا تا ہے

’’کون تماشا نہیں کرتا؟ کیا سب کی آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟’‘

لیکن کہانی چیخنے لگی

میں یہ بتانا بھول گیا کہ میری کہانیاں مجھ پر چیختی ہیں چِلّاتی ہیں۔۔ باقاعدہ بحث پر اتر آتی ہیں۔۔ سوال کرتی ہیں۔۔ اپنے ہونے کا جواز مانگتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے میں ا نہیں نہیں یہ مجھے لکھتی ہیں انھیں سب پتہ ہوتا ہے میں ان سے بحث میں ہمیشہ ہار جاتا ہوں۔۔

’’خواب زر کبھی ریت نہیں بنتا یہ کسی نے جھوٹ کہا ہے’‘

کہانی چِلّا رہی تھی

’’تم خود جھوٹی ہو، میری ماں بھلا ایسا کیوں کہے گی’‘

’’ساری مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں اولاد کو من گھڑت خوف کا اسیر بنانے والی’‘

"تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں کوئی ماں ایسا نہیں کرتی’‘

میری آواز اونچی ضرور ہوتی لیکن لہجہ خوف سے مرجھایا ہوا ہوتا مجھے کیوں لگتا تھا کہانی سچ کہہ رہی ہے ؟

’’کہا تمہاری ماں نے تمہیں کبھی نہیں ڈرایا؟’‘

کہانی کے چہرے پر سوال اُگنے لگتے، میں چپ ہو گیا

میں جب بھی شرارت کرتا ماں کہتی

’’ ایسا مت کرو خواب کا سنہری زر ریت بن کر آنکھیں نوچ لے گا’‘

’’ماں کیا تم بچپن میں بہت شرارتی تھیں ؟”

میری بھوری آنکھیں ماں پر جمی ہوئی تھیں وہ ماں کا ہاتھ ہاتھوں میں لئے بیٹھا تھا میں اُس کی سرگوشی سن کر چونک اٹھا وہ ماں سے کہہ رہا

’’میں تمہارے خواب مرنے نہیں دوں گا’‘

ماں نے میری بات کا جواب نہیں دیا لیکن اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ سکے نکالے اور میری ہتھیلی پر رکھ دئیے

’’جاؤ باہر سے کچھ کھالو’‘

اس کی آواز بہت بھاری تھی میں نے سکے مٹھی میں بند کر لئے اور کمرے سے باہر نکل آیا۔

بابا کو دنیا سے گئے کچھ دن ہوئے تھے تب میں نے اسے پہلی بار اپنے گھر میں دیکھا تھا اونچا لمبا گھنی مونچھوں والا، اس کے کندھے پر عجیب سا تھیلا لٹک رہا تھا۔ میں ڈر کر ماں کے پیچھے ہو گیا اور آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے مجھے اس کی چٹکی کا انتظار تھا

کیا وہ خواب گر ہے ؟ میں اندر سے بہت سہما ہوا تھا

ماں نے میری پیشانی چومی اور بتی بجھا کر کروٹ بدل لی وہ ایسا ہی کرتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اندھیرے میں ہاتھ بڑھا کر اسے چھونا چاہا لیکن بستر خالی تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جانے کب چٹکی بجی تھی میری آنکھیں میرے چہرے سے گر گئیں میں چیخ رہا تھا، مچل رہا تھا لیکن ماں کبھی واپس نہ آئی۔

ہاں تو میں آپ کو بتا رہا تھا کہ میری کہانیاں مجھ پر چیختی ہیں چلّاتی ہیں۔۔۔۔۔۔ اپنے ہونے کا جواز مانگتی ہیں۔۔۔۔ اپنی آرائش کے لئے دیدہ زیب پیراہن کی طلب گار نظر آتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں پوری کوشش کرتا ہوں ہر کہانی کو ایک نئی چھب دوں۔۔۔۔ ایک نیا رنگ، نیا نکھار، نیا جوبن انھیں عطا کروں۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اکثر کہانیاں ضدی اور ہٹیلی ہوتی ہیں۔۔۔۔ اپنے رنگ بکھیر کر اپنی ساخت تباہ کر لیتی ہیں۔۔۔۔ کوئی کہانی کار اپنی کہانی کو الجھانا نہیں چاہتا لیکن کچھ کچھ ایسا ہوتا ہی ہے ہر چیز مٹی میں مل جاتی ہے۔۔۔۔ پھر کہانیاں بدن نوچنے لگتی ہیں ہنستی ہیں، قہقہے لگاتی ہیں، ایک دوسرے کو کاٹنے لگتی ہیں۔۔ اس وقت میرا دل چاہتا ہے میں انھیں اکٹھا کر کے آگ لگا دوں

اب اگر رنگ پھیل کر بگڑ جاتے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور؟ میں مصور تو نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ میں مصور بن ہی نہیں سکتا مجھ پر تو لفظوں کا عذاب اترا ہے اُن تمام ان کہے لفظوں کا جو مرتے ہوئے خواب مجھے دان کر گئے تھے۔۔۔۔۔۔ میں نے بہت سوچا۔۔۔ بہت بار سوچا۔۔۔۔۔ کہ میں صرف سوچ ہی تو سکتا تھا یہاں اگر آزادی تھی تو سوچنے کی جتنا مرضی سوچو لیکن سوچ کو آواز نہیں دینی

’’ لیکن کیوں ؟’‘

جب سے زرِ خواب ریت ہوا تھا میں بے باک ہو گیا تھا

اور پھر اس کیوں کی پاداش میں مجھے تین راتیں اس اور فن ہاؤس کے گودام میں تنہا گزارنی پڑیں تو کیوں کا جواب مل گیا۔ میری سوچ سے دوستی ہونے لگی اس سوچ کے بھی عجیب رنگ ہوتے ہیں شوخ، چنچل، اداس کر دینے والے، لبھانے والے، الجھا دینے والے۔۔۔۔۔۔ یہی رنگ کہانی کے پیراہن میں بھی نظر آتے ہیں اچھا کہانی کار وہی ہے جو پکے رنگ چنے۔۔۔۔۔۔۔۔ کھلتے ہوئے رنگ۔۔۔۔۔ زندگی سے لبریز۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر کہانی کا جدا متن ایک الگ رنگ مانگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک مخصوص رنگ کا طلب گار ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی کوئی کہانی بے رنگ بھی رہ جاتی ہے جیسے میری کہانی رہ گئی اس کے لیے شاید کوئی رنگ بنا ہی نہیں تھا۔

اس صبح ایوا کے ہاتھ میں کاغذوں کا پلندہ اور کچھ قلم دبے ہوئے دیکھے تو میں ذہن میں ابھرنے والی ’’ کیوں’‘ کو بمشکل دبا سکا

’’جب اندر شور بڑھنے لگے تو لفظ مدد گار ہوتے ہیں’‘

اس کی آواز میں خلافِ معمول نرمی تھی وہ یہاں کی وارڈن تھی اور فن ہاؤس سے اس ہوسٹل میں آنے کے بعد وہ مجھ سے پہلی بار مخاطب ہوئی تھی

’’ لکھو گے ؟’‘

اس نے کاغذ اور قلم مجھے تھما دئیے میرے اندر ایک اور کیوں دم توڑنے لگی

’’اندر کا شور کون سنتا ہے ؟’‘ میں ہنس دیا

میرے اندر شاید شور نہیں تھا لیکن کچھ تھا ضرور جو میں خود بھی سمجھ نہیں پاتا تھا۔۔۔ ڈر اور حوصلے کے امتزاج کی طرح، ساون کی دھوپ اور بارش کی طرح جلتی بجھتی۔۔۔۔۔۔۔ ایک جھلک دکھا کر کہیں گم ہو تی ہوئی کیفیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں بہت دیر تک کاغذ قلم تھامے بیٹھا رہا کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ تب وہ اچانک کہیں سے نمودار ہوئی رات کا گہرا اندھیرا جیسے چھٹنے لگا تھا۔ اس رات وہ مجھ پر پہلی بار کھلی میں اس کا بدن دیکھ کر حیران رہ گیا۔ شاید زر خواب کا کوئی ذرہ ریت ہونے سے بچ گیا تھا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے کسی اور دنیا میں لے گئی۔ عجیب خمار آلود سی دنیا تھی اس کے بدن کا ہر زاویہ میرے اندر آگ دہکا رہا تھا مجھے جانے کب نیند آ گئی۔

’’ہمم’‘

ایوا کا ہنکارا کافی طویل تھامیں اپنی پہلی کہانی مکمل کر چکا تھا اس نے سارے کاغذ سمیٹے اور اندر چل دی

ایک دن مجھے وہ پھر نظر آئی۔ مجھے یقین ہونے لگا معجزے ہوتے ہیں۔۔ وہ کسی ملکہ کی طرح ایوا کی دائیں طرف والی کرسی پر براجمان تھی۔ نرم و نازک۔۔۔۔۔ اس کے سنہری بال اس کے گالوں کو چھو رہے تھے جنہیں وہ بار بار اپنی مخروطی انگلیوں سے سمیٹتی۔۔۔۔۔ میرا دل ہمکنے لگا جی چاہا اسے بانہوں میں بھر کر پھر اسی خواب وادی میں اتر جاؤں۔۔ یہ پہلی بار ہوا تھا کیا تھا؟ میں نہیں سمجھ پایا لیکن اس رات سارے لفظ روٹھ گئے میں مناتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہانی روٹھنے لگی تھی۔

وہ مجھے روز نظر آتی اور میں کسی مجذوب کی طرح آنکھیں بند کئے اندر مچتے شور کا گلہ گھونٹنے لگتا۔ اس پر سے آنکھیں ہٹا لینا مجھے بہت مشکل لگتا تھا نظروں کی تپش سے گھبرا کر وہ کئی بار پہلو بدلتی لیکن میری محویت میں کوئی فرق نہیں آتا تھا۔

’’تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’‘ کہانی ایک بار پھر چیخنے لگی

’’ شش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اونچا مت بولو’‘

میں نے منہ پرا نگلی رکھ کر اسے چپ کرانے کی کوشش کی

’’تم پاگل ہو گئے ہو ایوا کے کمرے کی داہنی دیوار پر ایسا کیا ہے جسے تم گھورتے رہتے ہو؟’‘

میں نے حیرت سے اسے دیکھا اور تاسف سے سر جھٹکنے لگا۔ کہانیاں بھی کتنی سر پھری ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی کی سمجھ میں نہ آنے والی۔۔۔۔۔ استعاروں اور علامتوں کے گہرے سرمئی رنگوں میں لپٹی ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بھی ایک ایسی ہی کہانی تھی جو اپنے خالق پر برس پڑی تھی۔۔۔۔۔۔۔ سنا ہے جب برا وقت آئے تو تخلیق باغی ہو کر اپنے خالق کی نفی کرنے لگتی ہے اسے کوستی ہے۔۔۔۔ اس پر طرح طرح کے بہتان لگا تی ہے۔۔۔۔ لیکن کیا یہ سب کرنے سے خالق فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے یا خلق کرنا بند کر دیتا ہے ؟

’’تمہیں دکھائی نہیں دے دیتی؟’‘ مجھے اس پر غصہ تھا

’’کون دکھائی نہیں دیتی؟’‘

’’وہی! ایوا کے ساتھ داہنی طرف والی کرسی پر بیٹھی ہوئی لڑکی’‘

’’لڑکی؟’‘

’’ہاں لڑکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’‘

میں جھلا گیا کہانی نے حیرت سے مجھے دیکھا اور سر جھکا لیا۔

میری کہانی مکمل ہو چکی تھی ایوا نہایت خاموشی سے آتی میرے سیاہ کئے ہوئے ورق اٹھا کر لے جاتی جانے وہ ان کا کیا کرتی تھی ؟میں نے اس سے کبھی نہیں پوچھا نہ اس نے کبھی خود بتایا وہ ادھیڑ عمر کی ایک بھاری بھرکم خا تون تھی۔۔۔۔۔ سخت گیر اور اصول پرست کچھ عرصے سے مجھ پر بہت مہربان تھی۔۔۔۔۔۔۔ کبھی کبھی ناموزوں موسموں میں ایک مہربان لمحہ زندگی کے معنی بدل دیتا ہے۔۔۔۔۔۔ ہے نا؟

پھر میں نے اسے اندر آتے دیکھا میرے پورے بدن میں سرسراہٹ پھیل گئی وہ وہی تھابالکل وہی خواب گر جومیری ماں کو لے بھاگا تھا آج اتنے عرصے بعد بھی وہ ویسے کا ویسا تھا اونچا لمبا، خوبرو۔۔۔۔۔ مجھے اس سے سخت نفرت محسوس ہوئی۔۔۔۔۔ آنکھوں میں جلن بڑھنے لگی تھی وہ اس کے ساتھ باہر جانے کو اٹھی تو میرے اندر مدتوں پہلے سویا ہوا خوف انگڑائی لے کر بیدار ہو گیا۔

لیکن شاید میں نے یہاں بیدار کا لفظ غلط استعمال کیا ہے میرا خوف تو کبھی گیا ہی نہیں تھا کھو دینے کا ڈر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اکیلے رہ جانے کا ڈر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’یہ مائیں اپنے بچوں کو بلاوجہ کیوں ڈراتی ہیں ؟’‘

میرا ہاتھ بے اختیار بائیں طرف پھیل گیا ماں کا بستر آج بھی خالی تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اسے لے کر اوپر جا رہا تھا

’’کیا میرے ساتھ والا بستر ہمیشہ خالی رہے گا؟’‘

میرے قدموں میں تیزی آنے لگی اس سے پہلے کہ وہ اوپر جاتی میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔۔۔۔۔۔۔ وہ رک گئی اس کی آنکھوں میں استعجاب تھا۔

’’تم نہیں جانتی میں نے تمہارا کتنا انتظار کیا’‘

میری آواز میں ہلکی سی لرزش تھی

’’لیکن میں تو ہمیشہ سے تمہارے ساتھ ہوں’‘

اس نے اپنا نرم ہاتھ میرے شانے پر رکھا میں نے اس کی آواز پہلی بار سنی تھی فرش پر بکھرتے موتیوں کی مدھرتا تھی اس کی آواز میں

’’ اور وہ کون ہے ؟’‘

میں نے خواب گر کی طرف اشارہ کیا جو اس کے اوپر آنے کا منتظر تھا

’’وہ کون؟’‘ مگر اوپر کوئی نہیں تھا

اس نے میرا ہاتھ تھام لیا اور سیڑھیاں چڑھنے لگی اس کی انگلیوں کی پوریں سرد تھیں ٹھنڈک میرے بدن میں سرائیت کرنے لگی۔۔۔ ہم کلاک ٹاور کی سب سے اوپر والی منزل پر پہنچ چکے تھے سارا شہر دھند میں ڈوبا ہوا تھا وہ میرے ساتھ بیٹھ گئی اس کے سُرخ لب یاقوت کی طرح

لگ رہے تھے میں انھیں چھونا چاہا تو وہ کسمسا کر پیچھے ہٹ گئی اس کا لمبا لبادہ دھیرے دھیرے اڑ رہا تھا وہ ایک دم ستون کا سہارا لے کر اٹھ کھڑی ہوئی

’’آؤ میرے ساتھ’‘

اس نے میرا ہاتھ تھام لیا اس کے پاؤں رقص کے انداز میں اٹھ رہے تھے اچانک ہی اس نے ٹاور کی چھوٹی سی کھڑکی کی پتلی سی گگر پر پاؤں جما کر کلاک کی بڑی سوئی کو پکڑ لیا کلاک رک گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے پاؤں گگر سے پھسلنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں سمجھ نہیں پایا تھا میں یہاں کیسے آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دھند بڑھنے لگی

آخری کہانی سوگوار تھی اس کے سرمئی چہرے پر اداسی کی گہری لکیریں صاف نظر آ رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔ وہ کہانی کار کو سمجھانے میں ناکام رہی تھی کہ خواب بنا جا سکتا ہے تعبیر نہیں

’’خواب گر کی موت’‘ داہنی طرف والی کرسی پر بیٹھی ایوا نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر کتاب میز پر رکھ دی اس کی نظر یں ٹاور کے کلاک پر جمی ہوئی تھیں ٹوٹی ہوئی بڑی سوئی گیارہ پر ٹھہر گئی تھی دائرہ مکمل نہیں ہو پایا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 پانچواں موسم

 

بارش اب بھی زوروں پر تھی، اندھیرے میں بجلی کے کوندے زمین کی طرف لپکتے دکھائی دینے لگے اس نے گہرا سانس لے کر روشنی گل کی اور سونے کے لئے کمرے میں چلی آئی ہاتھ میں پکڑی کتاب بستر پر رکھ کر پردے برابر کئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج نیند جانے کہاں رہ گئی تھی۔۔۔۔۔ اِس نے بے خیالی میں ورق پلٹا

’’پانچواں موسم’‘

’’زندگی میں پانچواں موسم اُترے تو اُس کا حسن معدوم ہونے لگتا ہے

راستہ کوئی بھی ہو غبار اُٹھتا ہی ہے

انگور کی بیلوں پر سانپ چڑھ جائیں تو شراب زہریلی ہو جا تی ہے

شبِ فتنہ کب کٹے گی؟ میرے آنگن میں کھلے گلِ لالہ پر بارود کی راکھ پڑی ہے تم چراغ بجھتے تک لڑتے رہناِِ

اس نے کتاب بند کر دی، ذہن کہیں اور بھٹک گیا تھا

’’تمہیں لڑنا ہو گا، میرے لئے، اِس مٹی کے لئے’‘

اِس کچے سے کمرے کے ایک کونے میں جھلنگا سی چارپائی پر پڑے وجود میں اگر کچھ زندہ تھا تو اُس کی نیلگوں سمندروں جیسی آنکھیں۔۔۔۔۔۔ یہ ماجد کی ماں تھی

’’مجھ سے وعدہ کرو تم لڑو گے، جب تک ساری بلائیں ختم نہیں ہو جاتیں تم لڑو گے’‘

بوڑھے سرد ہاتھ ماجد اور نوما کے ہاتھوں پر جمے ہوئے تھے۔۔ آنکھوں میں ابھرتی، ڈوبتی حسرت اور اُمید۔۔۔۔۔ ماجد کا سر بے اختیار ہاں میں ہل گیا

’’ہم لڑیں گے ماں آخری دم تک لڑیں گے’‘

ماجد کی آواز سن کر بوڑھے نیلگوں سمندروں میں جوار بھاٹا اٹھنے لگا۔ ماجد جانتا تھا اِن نئے بدیسی بھیڑیوں سے لڑنا آسان نہ ہو گا۔ جبکہ دھرتی کے سینے پر روبل کی تال پر رقص کرتے سؤروں کے لگائے زخم ابھی تازہ تھے۔۔ سؤروں کو دھرتی سے باہر ہانک تو دیا گیا تھا لیکن امن واپس نہ آ سکا۔

نیا چاند ابھرا تو نئے بھیڑئیے گپھاؤں سے باہر نکل آئے۔۔ اِن کے لے پالکوں نے جب ڈوریاں توڑ کر اپنے آزادانہ رقص کا آغاز کیا تو نائیکہ کی تیوری چڑھ گئی۔ اُس کی نظروں کا زاویہ بدلا تو وہی لے پالک جو بہت چنیدہ تھے نظروں سے گر گئے۔۔ لیکن انھیں بھی پروا کب تھی انھوں نے نئی تال چنی اور دھمال شروع ہو گیا۔ بندوقوں کے سائے میں ابھرتے نغموں میں سوز اُمڈ آیا لہو لہان دھرتی دم بخود تھی ہر طرف بہنے والا خون اپنا تھا۔

جنت کی اور جاتی پگڈنڈیوں پر جب موت اُگنے لگی تو ایک دن وہ اپنے بچے کی انگلی تھامے وہ وہاں سے نکل پڑی۔

’’چلو میرے ساتھ’‘ اس نے ماجد کا ہاتھ تھام لیا

’’نہیں جا سکتا’‘

’’کیوں ؟’‘

’’ماں سے کیا وعدہ نبھانا ہے’‘

’’کس سے لڑو گے ؟ جب دونوں اطراف اپنا ہی سینہ ہو بندوق کس پر چلے گی’‘ اِس کے لہجے میں دکھ تھا

لیکن وہ غلط تھی بندوق کی نال شرارے اُگل رہی تھی سؤروں کی جگہ بھیڑئیے شہر میں دندنانے لگے اُس نے ایک مڑ کر دیکھا شہر ملبے کا ڈھیر تھا۔ اپنے آنسو چھپاتے ہوئے وہ قافلے کے ساتھ ہو لی۔ یہ اعلیٰ سالاروں کا قافلہ تھا جو سمندر پار جا کر رکا۔۔۔ ماجد کے بغیر زندگی مشکل ضرور تھی نا ممکن نہیں جلد ہی زندگی میں رچاؤ آنے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محبت کے شیریں ہونٹوں سے

پھوٹنے والے نغموں کی مدھر لے

آتش شوق بھڑکا دیتی ہے

جیسے خشک گھاس میں گرنے والی ننھی سی چنگاری

زخمی کونج کی پکار

روح میں اُتر رہی ہے

دن رات کے سینے میں جذب ہو رہا ہے

مجھے دیدار کی مے دو

کہ پیاس بڑھ رہی ہے

محبت اگر دلوں میں حلاوت نہ جگائے

تو اِس کے اجزاء میں پاکیزگی ترتیب

اُلٹ گئی ہے

چاند کی ساحر کرنیں

پھول پر منعکس ہیں

زیست انگڑائی لے کر بیدار ہو رہی ہے

سُچے سُر کے لئے من کا اُجلا ہونا ضروری ہے

من میں کدورتوں کا میل سُر گدلا کر دیتا ہے

اور وہ محض کانوں میں اٹک کے رہ جاتا ہے

اگر سُر من میں اُجالا نہ پھونکے

تو اِس کے اجراء میں پاکیزگی کی ترتیب اُلٹ گئی ہے

نوجوان شاعر کے ہاتھ سے قلم چھوٹ گیا دھماکے سے در و دیوار لرز اٹھے تھے وہ تیزی سے اٹھا اور پتھریلی دیواروں والے سرد تہہ خانے کے کونے میں دھری اکلوتی موم بتی گُل کر دی۔ اچانک اُسے اپنے ہاتھوں پر ننھے ننھے سرد ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا یہ نوما تھی۔ اُس کی بھوری آنکھوں میں خوف تھا جنگی جہاز سے گرنے والی موت نے زندگی سے موت کو جاتی سرحد پر بھیڑ جمع کر دی۔۔۔۔۔۔۔ بدن ٹکڑوں میں بٹنے لگے نوما کو سینے سے لگائے وہ ٹھنڈی دیوار سے ٹیک لگائے ساکت بیٹھا تھا چھوٹے سے روشن دان کے ٹوٹے ہوئے شیشے سے شمالی ہوا برف کے ذرات اندر اچھال رہی تھی اُس نے ٹٹول کر پرانا کمبل اپنے اوپر کھینچ لیا۔

اچانک خاموشی چھا گئی شاید جہاز واپس جا چکے تھے نوما بھی سو گئی تھی اُس کے سانسوں کی ہلکی سی آواز تہہ خانے کے بھیانک ماحول میں بھلی لگ رہی تھی لطف اللہ نے اُسے بستر پر لٹا دیا اُس کے گالوں پر آنسؤوں کے نشان تھے۔۔ اس نے اپنی ادھوری نظم پھر سے لکھنے کی کوشش کی لیکن ذہن منتشر تھا ساتھ نہ دے سکاکاغذوں کے پلندے میں بہت سی آدھی ادھوری نظمیں اور گیت مکمل ہونے کے منتظر تھے، بالکل اُس کی ادھوری زندگی کی طرح۔

’’مجھے لکھنا ہے اِس سے قبل کہ وقت کے کھنڈر میں زندگی کی چاپ معدوم ہو جائے مجھے لکھنا ہے’‘ وہ بہت تیزی سے صفحے الٹ پلٹ رہا تھا۔

’’ آنے والوں کو کیسے پتہ چلا گا کہ ہم کس کرب سے گزرے ہیں میں جانتا ہوں اچھا وقت دور نہیں’‘

اس نے نوما کو دیکھا جو ابھی تک سو رہی تھی۔

’’ سوتی رہو میری گڑیا دنیا دکھوں سے بھر گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موت زندگی پر پنجے گاڑے ہوئے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ تمہارے دیکھنے کے لائق نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوتی رہو میری گڑیا’‘

اُس کی خود کلامی جاری تھی

’’لیکن میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ دشمن دروازے پر بیٹھا ہو تو کیسا لگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جب رگوں سے زندگی نچڑ رہی ہو تو سانس سینے میں اٹک جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ میری باتیں ابھی تمہاری سمجھ میں نہیں آئیں گی۔۔۔۔۔۔۔ تم زندگی کو اپنے انداز سے دیکھو گی لیکن نوشتۂ دیوار بھی پڑھنا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زندگی میں اندھیرے در آئیں تو اُمید مرنے لگتی ہے کسی کو جگنوؤں کی کھوج میں نکلنا ہو گا’‘

سائیں سائیں کرتی ہوا مردہ تنوں کی باس لئے گلی کوچوں میں کر لا رہی تھی۔ وہ بس خالی خالی نظروں سے کاغذوں کو گھورتا رہ گیا۔

اُس کی آنکھ کھلی تو روشن دان سے ہلکی ہلکی روشنی اندر آ رہی تھی اُس نے کھونٹی پر لٹکی میلی سی جیکٹ چڑھائی اور ملبہ ہٹاتے ہوئے باہر رینگ آیا۔

رات ہونے والی بمباری نے بہت تباہی مچائی تھی ہر طرف گہرا سکوت تھا، کھانے کی تلاش میں جیسے ہی وہ نکڑ مڑا گلی کے کونے پر بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ فوجیوں کا دستہ دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ وہ تیزی سے پلٹا لیکن فوجی اُسے دیکھ چکے تھے۔۔ تڑ تڑ کی تیز آواز کے ساتھ اُسے اپنے شانے اور کمر میں آگ اُترتی ہوئی محسوس ہوئی وہ وہیں ملبے پر ڈھیر ہو گیا آخری خیال جو اُس کے ذہن میں آیا وہ نوما کا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہر شام اپنے گھونسلوں میں لوٹتی چڑیاں بہت شور کرتیں وہ اِس شور کا عادی تھا۔ لیکن کبھی کبھی جانے کیا ہو جاتا شور اعصاب پر کوڑے برسانے لگتا اور انتہائی بے چین ہو کر چڑیوں پر برس پڑتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج بھی اسی کیفیت کا شکار تھا۔۔۔۔۔۔۔ بیئر کا آخری گھونٹ گلے میں اتار کر اِس نے بوتل کو

پوری طاقت سے درخت کے تنے کی طرف اچھالا اور گالیاں بکنے لگا پارک کے داہنی طرف پرانے بینچ پر لیٹا ہوا بوڑھا ایک دم چونک کر اٹھا کچھ ناقابل فہم انداز میں بڑبڑایا اور پھر سے لیٹ گیا اندھیرا پھیلتے ہی چڑیوں کا شور تھما تو بوڑھا بھی پرسکون ہو گیا۔ چاند نے ہولے سے زمین پر جھانکا تو چاندنی کھلکھلا کر گھاس پر رقص کرنے لگی بوڑھے نے اپنے تھیلے سے پرانا سا وائلن نکالا اور بجانے لگا اِس کی ٹھٹھری ہوئی موٹی بھدی انگلیوں میں دبی وائلن کی سٹک بہت خوبصورتی سے تاروں پر رواں تھی۔

منڈیروں پر اُونگھتے چراغ بجھ جائیں تو

موت کے مہیب سائے در و دیوار پر منڈلانے لگتے ہیں

مسافر راستہ کھوٹا کر لیتے ہیں

اُن میں لہو ڈالتے رہو

کہ روشنی

زندگی کی علامت ہے

بوڑھے کی آواز میں عجیب سا سوز تھا۔ اس کے سال خوردہ چہرے کا ملال بتا رہا تھا کہ زندگی نے اُس کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ یہ ملال وائلن سے پھوٹتے نغموں سے بھی عیاں تھا۔ گیت کی دھن بہت عام فہم نہ تھی۔ لیکن پارک سے گزرنے والے اُسے جانے کب سے سن رہے تھے۔۔ بوڑھے کے سامنے پڑے گلاس میں سکے گرتے رہے۔۔ اجنبی دھن پر بجتے نغمے کے سُر فضا میں بکھرتے رہے۔۔ بوڑھے نے سکّوں والاگلاس خالی کیا اور دوبارہ وہیں رکھ دیا وائلن درد اگلتا رہا تھا۔ گھنے پیڑوں کی اوٹ سے افسردہ چاند جھانکتا رہا اور رات دھیرے دھیرے بھیگتی گئی

’’مٹّی کا نوحہ کون لکھے گا؟

جب بیٹے ماں کی چادر نوچ لیں تو کیا قیامت نہیں آئے گی؟

سفید پھولوں کے باغ میں سؤر چرنے لگے ہیں

چولہے پر دھرا کھانا پختہ ہونے کے انتظار میں ہے

لیکن آگ چولہوں میں نہیں شہروں میں بھڑک رہی ہے

مسافر تمہارا سفر کب تمام ہو گا؟

نہ ہی سفر تمام ہوتا ہے اور نہ ہی وحشت کبھی سیراب ہوتی ہے۔۔ اچانک اٹھنے والی آندھی سب کچھ لپیٹ میں لے کر سارے منظر دھندلا دیتی ہے۔۔ اُس دن بھی لمبے انتظار کے بعد بھی لطف اللہ نہ پلٹا تو نوما اپنی پناہ گاہ سے باہر نکل آئی۔ ہر طرف سؤر دندناتے پھر رہے تھے اور پھر بدن در بدن بٹتے ہوئے محض دس سال کی عمر میں ہی وہ بہت کچھ سمجھنے لگی تھی۔ وجود کی ناؤ کا نا ہموار بہاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہچکولے انگ انگ توڑ دیتے ہیں۔۔ آنے والا ہر نیا مسافر ناؤ میں اپنے انداز میں سوار ہوتا ہے۔۔۔۔ جب تک لنگر آنکڑے میں پھنسا ہو ناؤ حرکت نہیں کر سکتی وہ بھی جال میں پھنسی مچھلی کی طرح تڑپ سکتی تھی لیکن آزادی اُس کا مقدر نہیں تھی۔ لیکن پھر ایک دن اچانک لنگر اُٹھا دیا گیا یا شاید گھاٹ بدل دیا گیا تھا۔ اب ایک مسافر تھا اور وہ۔۔۔۔۔ رات دن اُسے ڈھوتے ڈھوتے اُس کی ہمت ٹوٹنے لگی۔

کچے پھل سخت اور کڑوے ہوتے ہیں۔۔ لیکن اِس کے باوجود کچھ لوگ اِن میں دانت گاڑ دیتے ہیں۔۔ چاہے بعد میں تھوکنا ہی پڑے۔۔ لیکن نہیں وہ شاید کم عمری میں ہی گدرا گئی تھی اس لئے تھوکنے کی نوبت کم ہی آتی۔ البتہ اِس نے تھوکنا سیکھ لیا۔ بھاری بوٹوں کی ٹھوکریں کھانے کے بعد بھی اِس کی تھوکنے کی عادت نہ گئی۔

پھر ایک دن اچانک وہ اکلوتا مسافر ایک ایسے گھاٹ پر اُتر گیا جہاں سے آگے کا سفر ممکن نہ تھا۔ نوما نے اُس کے سرد بے جان چہرے کو دیکھا تو اُبکائی روکنا مشکل ہو گیا۔

’’دیکھو چھوٹی لڑکی انجانی منزلوں کا سفر آسان نہیں ہوتا پاؤں میں تھکن اُتر آتی ہے لیکن چلنا تو پڑتا ہے ورنہ چاند پورا ہونے پر بھیڑئیے اپنی اپنی گپھاؤں سے نکل آتے ہیں انھیں تازہ نرم گوشت میں دانت گاڑنا پسند ہے۔۔ اُن کی غرّاہٹیں سانسیں توڑ دیتی ہیں لیکن تم ڈرنا مت’‘

کہیں بہت قریب کوئی جانی پہچانی سرگوشی اُبھری

گو کہ وہ بہت چھوٹی تھی لیکن ذہن کے کسی گوشے میں الفاظ جیسے پیوست ہو گئے تھے۔۔ اِس کی آنکھوں میں نمی اُبھرنے لگی اُسے انجانی منزلوں کی طرف جانا تھا، ہوا میں خون اور بارود کی بُو رچی ہوئی تھی۔

’’ لیکن مجھے ڈرنا نہیں’‘

وہ دھرتی کو اِس سؤروں سے پاک کرنے کے لیے مجاہدین سے جا ملی

’’ میں اکیلا فیصلہ نہیں کر سکتا اِس وقت اپنے سائے پر بھی بھروسہ کرنا مشکل ہے تم انتظار کرو’‘

’’ کب تک؟’‘

اُس کی آواز میں بیقراری تھی

’’ ربانی کے آنے تک’‘

امین وردک آگے بڑھ گیا

کئی چاند اُبھرے اور ڈوبے سؤر کھیت کھلیان تاراج کر رہے تھے موت کا رقص جاری رہا اندھیرے بڑھنے لگے لوگ کم ہوتے جا رہے تھے۔۔

ربانی نے اُسے مجاہدین میں شامل ہونے کا عندیہ دے دیا تھا۔ کیونکہ کہ وہ بدیسی سؤروں کی زبان بہت روانی سے بولتی تھی۔ لیکن اُس کی کوکھ میں پلتا بچہ جسے وہ سفید سؤر کا بچہ کہتی تھی اُس کی راہ روکنے لگا۔

گپھاؤں کے در بند کرنے ہوں گے

ورنہ اندر پلتی بلائیں آبادیاں نابود کر دیں گی

چاندنی کا سحر دماغ اُلٹ دیتا ہے

جنت کی طرف جاتی پگڈنڈیوں پر

موت اُگنے لگے تو

پہچان کم ہو جاتی ہے

وقت کے ہاتھ لکھنے میں مصروف ہیں

الفاظ شرمندگی میں ڈھلتے جاتے ہیں۔۔

شہر میں چاند اُبھر آیا تھا۔ بہت عجیب سا چاند۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سحرزدہ کر دینے والا لوگ بے سدھ ہونے لگے۔۔ ماجد ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا اُس کے جسم میں تشنج اور اینٹھن تھی۔۔ یکایک اُس کی انگلیوں کے سروں پر نوکیلے ناخن نمودار ہوئے۔۔ چند لمحوں بعد اس نے اپنی لمبی تھوتھنی اوپر اٹھائی اور ہوووووو کی لمبی آواز کے ساتھ آبادی کی طرف بھاگ کھڑا ہوا اُس کے تیز نوکیلے دانت چمک رہے تھے اُس کے ساتھ اُس جیسے اور بھی کئی تھے، گپھاؤں کے در بند نہیں کئے جا سکے تھے پھر ہر روز اُن میں اضافہ ہونے لگا خونخواریاں بڑھنے لگیں۔۔

صدیوں سے سیف الملوک میں رقص کرتی پریوں کے گھنگھرو توڑ دئیے گئے آدمی کی جون بدلنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ چاند پورا ہوتے ہی گپھاؤں سے نکلنے والے اپنے نوکیلے دانت اور پنجے نکال کر بھیڑئیے بن جاتے اور اپنے ہی ہم جنسوں کو بھنبھوڑنے لگتے قندھاری اناروں سے ٹپکتا لہو سیف الملوک میں بھرنے لگا اب کی بار بھیڑیوں کے جسم سے اٹھتی باس پرائی نہ تھی۔

اُس ڈھلتی شام پارک میں وائلن پر بجتی دھن نے اُس کے قدم روک لیے دل اتنی زور سے دھڑکا کہ قیامت اُٹھا دی۔ وہ یہاں اِس شہر میں اپنے کسی پرانے ساتھی سے ملنے آئی تھی۔ اُس کا وطن اور یہاں بستے ساتھیوں سے رابطہ کبھی نہیں ٹوٹا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو ساری عمر سفید سؤرکا بچہ کہتی اور سمجھتی رہی۔ لیکن اُس روزاُس دوست کے کہنے پراُسے بلا جھجھک آگ میں جھونک دیا۔ آج اُس کی موت کی اطلاع جانے کیوں اُسے بے چین کر گئی۔ تیسری نسل کا لہو بھی دھرتی کے چاک رفو نہیں کر پایا تھا۔۔۔۔۔۔۔ بوڑھا گا رہا تھا۔

’’جب عہد فراموش کر دئیے جائیں

محبت مر جائے

یقین باسی ہو جائے

قدم اجنبی سمتوں میں اُٹھنے لگیں

مٹّی سے دغا عام ہو جائے

تو جان لو

کہ زندگی کے اجزاء میں

پاکیزگی کی ترتیب اُلٹ گئی ہے

’’لطف اللہ؟’‘ وہ دو زانو بوڑھے کے پاس بیٹھ گئی اُس کی آنکھوں میں آنسو لرز رہے تھے بوڑھے کی موٹی ٹھٹھری ہوئی انگلیوں میں دبی سٹک ہوا میں معلق رہ گئی

’’ کون ؟’‘ اُس کی آواز میں لرزش تھی

’’ میں نوما’‘ سٹک گر چکی تھی بوڑھے کا پورا وجود زلزلے کی زد میں تھا

’’نہیں میں اسماعیل خان۔۔۔۔۔۔۔۔ لطف اللہ تین گولیاں کھا کر کچھ دن زندہ رہ سکا’‘

’’ لیکن تم نے یہ گیت کہاں سے سیکھا؟ یہ تو لطف اللہ کا لکھا ہوا ہے’‘

’’یہ تمہاری امانت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لطف اللہ نے مرتے وقت تمہیں دینے کو کہا تھا’‘

بوڑھے نے ایک پرانی ڈائری نوما کی طرف بڑھائی

جانے کب سے لئے پھر رہا ہوں لگتا نہیں تھا کہ میں امانت حق دار کو پہنچا سکوں گا’‘

اِس نے ڈائری تھام لی، ٹھنڈا ور اندھیرا تہہ خانہ اچانک روشن ہو گیا

’’آکا جان’‘ ننھی نوما کے ہاتھ سرد اور آنکھیں خوف سے بھری ہوئی تھیں۔۔ نوسال عمر ہی کتنی ہوتی ہے۔۔۔۔۔ ماں باپ اور بہن بھائیوں کی کٹی پھٹی لاشیں اُسے آسیب بن کر چمٹ گئی تھیں

’’کچھ نہیں ہو گا میں ہوں نا’‘ لطف اللہ نے اُسے سینے میں چھپا لیا بابا کی مہک نتھنوں سے ٹکرائی تو آنکھوں میں نمی اترنے لگی

’’تم کیا لکھتے ہو؟’‘ نوما کی گہری آنکھیں اُس پر مرکوز تھیں

’’اپنی مٹی کا دکھ اپنے لوگوں کا نوحہ’‘ وہ کچھ نہ سمجھی

’’بڑی ہو کر اِسے ضرور پڑھنا تمہیں معلوم ہونا چاہیے ہمارے خواب کیسے بکھرے’‘

نوما نے ڈائری کو کھولا ’’پانچواں موسم’‘ لطف اللہ کے خوبصورت حروف کی سیاہی اُس کی پہچان کی طرح ماند پڑ رہی تھی

’’ آؤ میرے ساتھ ’’نوما نے بوڑھے کی طرف ہاتھ بڑھایا

’’کہاں ؟’‘ بوڑھے کی آنکھوں میں استعجاب تھا

’’اپنے گھر اپنی بیٹی کے گھر ’’اُس کی آنکھیں چھلک پڑھیں

بوڑھے نے بیسا کھی ایک طرف رکھی اور نوما کا سہارا لے کر اُٹھ کھڑا ہوا

٭٭٭

 

 

 

 داما اور فابیا

 

یقیناً باہر چاند نکلا ہو گا لیکن موٹی پتھریلی دیواروں کے اُس طرف مکمل اندھیرا تھا، کبھی کبھار ہوا کا کوئی بھولا بھٹکا جھونکا اُس روشندان نما سوراخ سے ٹکراتا تو کوٹھڑی میں موسم بہار کے اوّلین پھولوں کی ہلکی سی باس پھیل جاتی سنگی دیواروں پر آہنی حلقے میں اڑسے ہوئے چراغ کی بھڑکتی لو سیاہ دیواروں پر لرز رہی تھی تنگ کوٹھڑی میں چربی کی سڑاند اور گاڑھے سیاہ دھوئیں نے حبس میں مزید اضافہ کر دیا تھا کھجور کی چھال بھرے گدے کے اوپر منڈھا بوسیدہ اور بدبو دار چمڑا آگ بنا ہوا تھا۔۔۔ وہ اُٹھ بیٹھا اور کونے میں دھرے مٹکے نما برتن سے پانی نکال کر پیا اُس کے تنومند جسم پر پسینہ دھاروں کی شکل میں بہہ رہا تھا رات کا دوسرا پہر ڈھلنے کو تھا لیکن نیند داما کی آنکھوں سے کوسوں دور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوٹھڑی کی تنگ حبس زدہ فضا میں چکراتی ہوئی دھیمی سی خوشگوار مہک اُس کے وجود کا احساس دلا رہی تھی وہ ابھی چند لمحے پہلے یہاں موجود تھی۔ لمبے حریری لبادے سے جھلکتا سنہری بدن نیلگوں آنکھوں سے پھوٹتی روح کو ٹھٹھرا دینے والی ٹھنڈک، گندم کے سنہری خوشوں ایسی رنگت لئے خوبصورتی سے گندھے بال

داما نے اُسے کئی بار اکھاڑے میں دیکھا تھا۔ وہ آگسٹس کے بایاں طرف بیٹھی جنگجوؤں کا حوصلہ بڑھا رہی ہوتی۔ کبھی کبھار وہ اپنا کوئی زیور بھی اتار کر اکھاڑے کی طرف اچھال دیتی۔ جب یونانی دیوتاؤں جیسا فلوروس اکھاڑے میں اُترتا تو اُس کا جوش و خروش دیدنی ہوتا

ساڑھے چھ فٹ سے نکلتا قد انتہائی مضبوط بدن اور تانبے جیسی سرخ رنگت والا فلوروس ساحر تھا۔ وہ مخصوص چست لباس پہنے جب مقابلے کے لیے آتا تو اکھاڑا لرزنا شروع کر دیتا وہ آج تک کوئی مقابلہ نہیں ہارا تھا۔ اِس کی اِسی بہادری کو دیکھتے ہوئے اینٹونیوس نے اُسے آزادی کا پروانہ تھما دیا تھا لیکن اُس نے اینٹونیوس کو چھوڑنا پسند نہ کیا۔

تپتے ہوئے ریتیلے صحرا اور کھجوروں کے چھدرے سایوں میں پیدا ہونے والا داما تیونس کے بربری قبائل سے تعلق رکھتا تھا وقت نے اُسے نہایت کم عمری میں ہی شاخِ وطن سے نوچ کر اجنبی سر زمینوں کی غلامی میں دے دیا تھا۔ آج وہ کوشش کے باوجود اپنے پیاروں کے چہروں کے نقوش بھی تصور میں لانے سے قاصر تھا۔ وقت کی گرد ہر یادداشت چاٹ گئی تھی۔

ایلبا کی گرینائیٹ کی کانوں میں دن رات پتھروں سے سر پھوڑتے پھوڑتے اُس کے ہاتھ جانے کب رواں ہو گئے جب اُس نے پہلی بار اپنے مالک کو دو ننھی ننھی مورتیاں دان کیں تو مالک کی آنکھوں کی حیرت دیدنی تھی چند دنوں بعد وہ گرینائٹ کی بڑی بڑی چٹانوں کے ساتھ سیسلیئن چینل سے روم کے لیے روانہ ہو رہا تھا

’’ داما میں نے فیلمن( قدیم رومی کاہن کا ٹائٹل) سے خاص طور پر تمہاری سفارش کی ہے’‘ پاؤلو نے جہاز پر سوار ہوتے وقت اُس کا ہاتھ دبایا

’’ مجھے اُمید ہے تم خود کو اِس کا اہل ثابت کرو گے’‘

کھلی ہوئی رنگت والا داما آنکھوں میں ہلکی فسردگی لیے اُسے دیکھتا رہا ’’ غلامی کی زندگی ہوا کے دوش پر رکھے سوکھے پتوں کی طرح ہوتی ہے بے وقعت اور حقیر ہوا جب چاہے جہاں چاہے اڑا کر لے جائے’‘ داما اکثر یہ سوچ کر فسردہ ہو جاتا

روم میں پینتھیون کی تعمیر جاری تھی ایلبا سے لائے گرینائیٹ کو ستونوں کی شکل دینے کے لیے داما کو سخت گیر پطرس کی زیر نگرانی کڑے موسموں کی پروا کئے بغیر دن رات کام کرنا پڑا۔۔۔۔۔۔۔ کمال سانچے میں ڈھلنے کے لئے لہو مانگتا ہے۔۔

تب داما نے اُسے پہلی بار دیکھا۔ سرما کی سنہری دھوپ جیسی رنگت اور سحر آگین نیلگوں آنکھیں اُسے لگا وہ کوئی دیوی ہے جو راستہ بھول کر اِس طرف آ نکلی ہے۔۔۔۔۔۔ وہ وستا مندر کی بڑی پجارن کی کنیز خاص اور آگسٹس کی منظورِ نظر تھی۔ داما نے نظریں جھکا لیں وہ اپنے مقام سے اچھی طرح واقف تھا۔ اُس دن پتھر پر پڑتا تیشہ جانے کیوں دل کی رگیں کاٹتا ہوا محسوس ہوا۔ وہ ابھی دو ہی ستون تراش پایا تھا کہ اُسے اینٹونیوس کے حضور حاضری کا حکم دیا گیا اور تیشہ چلانے والے ہاتھوں میں تلوار تھما دی گئی۔ اس کرم نوازی کی وجہ فابیا تھی جسے گرینائٹ پر پڑنے والی تیشے کی ضرب نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔

ایلبا کی خاموشی میں پروان چڑھنے والے داما کے لیے یہ سب کچھ بہت نیا اور عجیب تھا۔ جیتے جاگتے جسموں میں اُترتی تلوار داما کو اپنے دل میں اُترتی ہوئی محسوس ہوتی۔ لیکن بہت جلد اُسے سمجھ آنے لگی کہ تلوار کے اس کھیل میں کسی نہ کسی بدن کو تو کٹنا ہی ہے۔۔ اِس کے ہاتھ دھیرے دھیرے رواں ہونے لگے۔۔

پھر وقت اور جبلت نے اُس کے ہاتھوں میں بجلی بھر دی۔ موٹی پتھریلی دیواروں کے اُس پار لوہے کے جالی دار دروازوں کے پیچھے اُس جیسے کئی نوجوان جانوروں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔۔ انھیں ہر صبح ہانک کر اکھاڑے میں لایا جاتا کسی کو معلوم نہ ہوتا کہ شام ڈھلے ان میں سے کون اس کال کوٹھڑی میں واپس آئے گا۔ ان میں سے کتنے محض لوگوں کی لمحاتی تفریح کی خاطر اپنی جان سے جاتے۔۔ یہ روز کا معمول تھا۔ بیسیوں نوجوان روزانہ خاک و خون میں لتھڑے نظر آتے۔۔ داما بنیادی طور پر صلح جو انسان تھا لیکن اکھاڑے میں اترتے سمے وہ ایک بالکل مختلف شخص ہوتا۔ اس کی تلوار بجلی کی سی سرعت سے ایسے حرکت کرتی کہ مقابل سنبھل نہ پاتا۔ بہتا خون اور تڑپتے لاشے جہاں تماشائیوں کا جوش و خروش بڑھاتے وہیں داما کے بدن میں برق کوندنے لگتی۔ وہ جانتا تھا آزادی تک پہنچنے کے لئے اسے بہت سے بدن کاٹنے پڑیں گے زمین کی کوکھ میں اترنے والا خون کا ہر قطرہ اس کی آزادی کا پروانہ تھا۔۔ اُس کے ہاتھوں پاؤں کا ردھم بہت متاثر کن تھا لمبا چھریرا بدن اور مقناطیسی کشش والی سیاہ آنکھیں بازوؤں کی تڑپتی مچھلیاں سے دیکھ اکھاڑے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہلچل مچ جاتی۔

دن بھر وحشیوں کی طرح انسانی جسموں سے زندگی نچوڑنے والا داما رات کو سیاہ پتھریلی دیواروں کے بیچ گھری حبس زدہ کوٹھڑی میں اکثر سسک اٹھتا۔ آسمان کی وسعتوں میں چمکتا تنہا چاند اور بدن کے نیچے سرکتی ٹھنڈی ریت کا لمس یادوں کے دریچے سے ہولے سے سرک کر داما کے سلگتے پہلو میں آن بیٹھتا۔۔۔۔۔۔۔ منظر پر تنی گہری دھند کے پیچھے سائے متحرک ہونے لگتے مشفق و مہربان۔۔۔۔۔ داما چاہ کر بھی انھیں مشکّل نہ کر پاتا۔ آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگتے تھکن سے چور بدن میں جاگتی نیند سارے منظر دبوچ کر خواب وادی میں اتر جاتی اور بھیگی پلکوں کے اُس پار قوس و قزح کے رنگ جھلملانے لگتے۔۔

اینٹونیوس کے حکم پر دو گھنٹے روم کے بہترین باتھ میں گزار نے کے بعد داما اور چند دوسرے جنگجوؤں کو وستا مندر کی سیڑھیوں پر سجا دیا گیا تھا۔ آج وینس کا تہوار تھا وینس کے مجسمے کو غسل دے کر محبت اور خلوتوں میں مزید راحت کی دعا مانگی جاتی۔ اس دن مالدار خواتین اپنے حسن کو جاوداں کرنے کے لیے روم کے چنیدہ گلیڈییئٹرز کے ساتھ رنگ رلیاں منا کر وینس کی خوشنودی حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کرتیں۔۔ اینٹونیوس کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگ بھی اپنے اپنے غلاموں کے ساتھ وہاں موجود تھے۔۔

سال بھرمیں کئی ایسے مواقع آتے جب انھیں سارا سارا دن سیڑھیوں پر پتھر کے بے جان مجسموں کی طرح ایستادہ رہنا پڑتا۔ بھوکی نگاہوں اور جسم کے ہر حصے پر رینگتی، تھرتھراتی انگلیوں کے لجلجے لمس سے داما کو سخت نفرت تھی۔ جسے اس نے کبھی بھی چھپانے کی ضرورت محسوس نہ کی تھی۔ وہ روم کی عیاش بوڑھیوں میں ’’نارسیسس’‘ کے نام سے مشہور تھا اس کے ساتھ چند گھڑیوں کی قیمت چکانا ہر ایک کے بس کی بات نہ تھی۔ اسی لئے صرف امراء کی خواتین ہی بولی میں حصہ لیا کرتی تھیں۔۔اس بار سورج ڈھلنے پر بولی شروع ہونے سے پہلے ہی فابیا داما کی طرف بڑھی اور ہاتھ میں پکڑی چھڑی سے داما کے چوڑے سینے کو چھوا اور پھر جھک کر اینٹو نیوس سے کچھ کہا جس نے خاموشی سے ہاتھ میں پکڑا ایک سرخ فیتہ اسے پکڑا دیا اور دوسرا داما کے ہاتھ پر باندھ کر اسے سیڑھیوں سے ہٹا دیا یہ داما کی زندگی کی ایک یادگار رات تھی۔

’’کلوزیم میں لائے جانے کا مقصد میں ابھی تک نہیں سمجھ پایا’‘

گہرے کیف کی انتہائی منزلوں کو چھوتے ہوئے اس نے اچانک فابیا سے پوچھا

’’ تم خوش نہیں ہو؟’‘ فابیا کی آواز میں خمار تھا

’’ہم جیسوں کی خوشی کوئی معنی نہیں رکھتی’‘ داما کی آواز میں جانے کیا تھا کہ فابیا تڑپ اٹھی

’’مجھے سے پوچھو تم کیا ہو’‘ اس کی نیلگوں آنکھیں داما پر جمی ہوئی تھیں

’’ فلیمن سے رہائی کی ایک واحد یہی صورت تھی’‘ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی، بحیرہ روم سے آنے والی نم ہوا اس کے بالوں کو چھو رہی تھی

’’کیسی رہائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں فلیمن تھا یہاں اینٹونیوس’‘

’’ اینٹونیوس کچھ نہیں کر سکتا۔ روم کے قانون کے مطابق چند مقابلوں کے بعد تم آزاد ہو’‘

اس نے نفیس لکڑی کا بنا خوبصورت جام داما کی طرف بڑھایا۔ انگلیوں کے لجلجے لمس سے نفرت کرنے والے داما کو آج مخروطی انگلیوں کی نرم پوروں نے بے سدھ کر دیا تھا۔ پھر ایسی کئی راتیں آئیں فابیا کے ساحر بدن کے راز دھیرے دھیرے کھلتے رہے اور داما بے قابو ہوتے دل کو سنبھالے بوند بوند امرت رس اندر اتارتا رہا۔

فابیا نہایت کم سنی میں وستا مندر میں لائی گئی تھی بڑی پجارن اسے بیٹی کہا کرتی تھی اس کے گزر جانے کے بعد ایکریس نے بڑی پجارن کی گدی سنبھالی تو فابیا ایک طرف ہو گئی۔ بڑی پجارن اس کے لیے ایک ڈھال تھی وہ ہٹی تو آگسٹس کو کھل کھیلنے کا موقع ملا اور نہ چاہتے ہوئے بھی فابیا کو اس کی بات ماننی پڑی۔ پھر ایک دن اسے داما دکھائی دیا گرینائیٹ پر ہتھوڑا چلاتے ہوئے اسے لگا اس کی تلاش مکمل ہو گئی ہے۔۔ وہ جانتی تھی یہ سب کچھ اتنا آسان نہ ہو گا لیکن ہار ماننا اس کی فطرت میں نہ تھا سو وہ آگسٹس سے بھی ٹکر لے بیٹھی۔

داما زمین کو اتنا خون پلا چکا تھا کہ اُسے اُس کے بدن کے گرد لپٹیں غلامی کی زنجیریں ڈھیلی کرنا پڑیں۔۔ اُس دن صبح صبح اُسے انٹیونیوس کے حضور پیش کیا گیا انٹیونیوس چاہتا تھا کہ وہ فلوروس کے مقابلے میں اکھاڑے میں اترے۔۔

فلوروس کے بازوؤں میں بجلیاں کڑ کتی تھیں۔۔ وہ اکھاڑے میں اترتا تو لوگ دم سادھ لیتے پلک جھپکتے میں اس کا حریف مٹی چاٹ رہا ہوتا۔ انٹیونیوس کو داما نہیں سمجھ پایا کلوزیم میں اس سے بہتر اور گلیڈیئٹیرز موجود تھے وہ تو ابھی اپنی پہچان بنا رہا تھا پھر وہی کیوں ؟

’’ میں چاہتا ہوں تم فلوروس کا سامنا کرو’‘

’’ بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟’‘ داما نے بھی مقدر آزمانے کا فیصلہ کیا

’’ موت یا آزادی’‘ انیٹونیوس کا لہجہ حتمی تھا۔ داما نے ایک گہری سانس لے کر اسے دیکھا اور حامی بھر لی

’’ لیکن ایک بات اور’‘ اینٹونیوس نے جاتے جاتے اسے روک لیا

’’ یہ مقابلہ تین دن بعد ہے تم ان تین دنوں میں کسی سے نہیں ملو گے’‘ وہ داما کے عین سامنے کھڑا تھا۔

داما کی آنکھوں میں الجھن تھی لیکن وہ خاموشی سے باہر نکل گیا اینٹونیوس کی بہت ساری باتیں اسے سمجھ نہیں آتی تھی۔

، سنگی دیواروں پر آہنی حلقے میں اڑسے ہوئے چراغ کی بھڑکتی لو سیاہ دیواروں پر لرز رہی تھی تنگ کوٹھڑی میں چربی کی سڑاند اور گاڑھے سیاہ دھوئیں نے حبس میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔ کھجور کی چھال بھرے گدے کے اوپر منڈھا بوسیدہ اور بدبو دار چمڑا آگ بنا ہوا تھا۔ نیند داما کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی اچانک اس گہرے سیاہ اندھیرے میں اس کا وجود جیسے روشنی کے کسی استعارے کی طرح نمودار ہوا اور تنگ و تاریک کوٹھڑی فردوس دکھائی دینے لگی۔ اُس کے خوبصورت چہرے پر حزن و ملال کے سائے تھے۔۔ بہت آہستگی سے داما کا ہاتھ پکڑ کر اس نے اپنی قدرے ابھری ہوئی کوکھ پر رکھا تو داما کے اندر جوار بھاٹا سا اٹھنے لگا

’’یہ تمہارا ہے’‘ اس کی آواز میں موسائی کے لیئر سے نکلنے والے سروں کا ترنم تھا داما تڑپ اُٹھا۔ محبت بے بس کر دیتی ہے۔۔ وہ بھی اُس سرد دن گرینائیٹ پر ہتھوڑا چلاتے ہوئے فابیا کے سحر کا شکار ہو گیا تھا۔ لیکن اُس کی حیثیت نے اسے زبان بندی پر مجبور کئے رکھا اور آج۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایک ٹُک اُسے دیکھے گیا

’’ جیتنے کی صورت میں فلوروس کو زندہ چھوڑ دینا’‘ فابیا کی سرگوشی اس کی سماعت سے ٹکرائی اور دوسرے ہی لمحے وہ بنا کچھ کہے پلٹ گئی

آج کا دن بہت سے عام دنوں سے کی طرح انتہائی عام تھا۔ وہی آگ اُگلتا سورج۔۔۔ وہی ایرینا میں بیٹھے پر جوش تماشائی اور بے ہنگم شور اگر کچھ بدلا تھا تو داما کا اندر۔۔۔۔۔ عجب امید و بیم کی کیفیت تھی ایسے مقابلوں میں ایک فریق کی موت یقینی ہوتی ہے کہ یہ کھیل کھیلا ہی اسی بنیاد پر جاتا ہے۔۔

وہ اکھاڑے میں اُترا تو فلوروس پہلے سے وہاں موجود تھا۔ مقابلہ شروع ہوا تو ایک سرے سے دوسرے سرے تک تماشائیوں کا جوش و خروش قابلِ دید تھا۔ ایرینا لرز رہا تھا تیز دھار تلواریں ان کے بدن میں گھس کر اپنا خراج وصول کرتی رہیں اور دھرتی لہو پیتی رہی۔

فابیا آج بھی آگسٹس کے پہلو میں موجود تھی لیکن انتہائی خاموش۔ فلوروس داما کا وار نہ سہہ سکا ڈھال اس کے ہاتھ سے چھوٹی اور وہ خود لڑکھڑا کر کئی قدم پیچھے ہٹ گیا۔ فابیا اٹھ کر ریلنگ تک چلی آئی اس کے چہرے سے بے چینی عیاں تھی۔ تیسرا جان لیوا وار فلوروس کو خاک چاٹنے پر مجبور کر چکا تھا۔ تمام تر تجربے کے باوجود وہ داما کی جوانی سے مار کھا گیا تھا

’’ایک بات تم بھول گئیں آگسٹس اپنی چیزیں چھوڑنے کا عادی نہیں’‘ فابیا نے مڑ کر دیکھا آگسٹس چہرے پر عجیب سی مسکان لیے اُس کے پیچھے کھڑا تھا۔ داما نے تلوار اٹھائی اور زمین پر پڑے فلوروس کی طرف بڑھا

’’ مانتی ہوں تمہیں میرے بدن پر قدرت حاصل رہی لیکن کیا یہ بے بسی کی انتہا نہیں کہ تم میری روح کو چھو بھی نہ سکے’‘ فابیا کی مسکراہٹ آگسٹس کو سلگا گئی

’’ تم محبت کے مفہوم ہی سے نا آشنا ہو مائی ڈارلنگ آگسٹس۔۔۔۔۔۔۔ محبت تو وہ نغمہ ہے جو بدن کی نہیں روح کی سلطنت میں سنائی دیتا ہے یہ وہ جھرنا ہے جو روح سے روح تک بہتا چلا جاتا ہے’‘

داما کی تلوار فلوروس کے سینے کی بجائے اس کے قریب ہی زمین میں گڑ گئی۔ دم سادھے تماشائی جیسے اچانک نیند سے بیدار ہوئے اکھاڑا اُن کے بے ہنگم شور سے ایک بار پھر لرزنے لگا۔ فابیا نے ایک گہری سانس لی اور ماتھے پر چمکتے پسینے کے شفاف قطرے رو مال سے پونچھنے لگی۔

اگسٹس نے ہاتھ میں پکڑا رو مال گرایا تو ایرینا میں لمحہ بھر کو موت کا سکوت پھیلا بس لمحہ بھر کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچانک داہنی طرف والے گیٹ کھلے اور کئی دنوں کے بھوکے شیر میدان میں غرّانے لگے۔۔ آگسٹس اپنی جگہ پر واپس جا چکا تھا داما نے ایک نظر فابیا کو دیکھا اور شیروں پر پل پڑا فلوروس بھی اس کا ساتھ دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن ایک کے بعد ایک تینوں جانب کے گیٹ اٹھا دئیے گئے۔۔

’’ ایک بات تم بھول گئے آگسٹس۔۔۔۔۔ میں افرودیت نہیں کہ مجبور کر دی جاؤں گی مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف مجھے اپنی زندگی پر اختیار حاصل ہے اور کسی کو نہیں’‘ اس سے پہلے کہ آگسٹس کچھ سمجھتا وہ اکھاڑے میں چھلانگ لگا چکی تھی۔

’’ بابا’‘ وہ دم توڑتے فلوروس کو دیکھ کر سسک اٹھی داما تیزی سے اس کی طرف لپکا اس کی آنکھوں میں ایک ہی سوال تھا

’’کیوں ؟’‘

فابیا کی نگاہیں اس سے ملیں ’’ادھوری زندگی کا کیا کرتی’‘

’’ اور ہمارا بچہ؟’‘ فابیا کے ہاتھ اپنی کوکھ پر جم گئے۔۔ اس کے چہرے پر خوف اور دکھ تھا۔ شیروں نے فلوروس کے نیم مردہ جسم کو بھنبھوڑنا شروع کر دیا۔ داما نے فابیا کا ہاتھ پکڑا اور دیوار کی طرف دوڑ لگا دی وہ فابیا کو اپنے بدن کے پیچھے چھپائے ہوا تھا اس کے ہاتھ بجلی کی تیزی سے حرکت کر رہے تھے لیکن فابیا جانتی تھی وہ زیادہ دیر تک شیروں کو نہیں روک پائے گا۔

کہتے ہیں آج بھی جب چاند پورا ہو بے چین سمندر کی لہریں ساحل پر سر پٹخ رہی ہوں تو سائپرس کی گلیوں میں گھوڑے کی ٹاپوں کے ساتھ ساتھ کسی لڑکی کی آواز سنائی دیتی ہے وہ کسی داما کو پکارتے ہوئے اپنے بچے کو بچانے کی دھائی دیتی ہے اور پھر ایک طویل چیخ جو کنواریوں کے دل دہلا جاتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 قیدی

 

رات گھاتک ہے اندھیری اور ویران راہوں پر چلتے راہرو اِس کے تیروں سے نہیں بچ سکتے لیکن نہیں۔۔۔ سوال اندھیری اور ویران راہوں کا نہیں اِس کے انتخاب کا ہے اب اِسے نصیب کہا جائے یا کچھ اور لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِس کے طلسماتی تیر ہر ایک کو کھوج نکالتے ہیں وہ اپنے کاندھے پر دھرے ترکش سے کوئی ایک تیر نکال کر کمان پر چڑھاتی ہے اور شکار سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خود کو نشانے پر لا کھڑا کرتا ہے اُس رات بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔

وہ میرے سامنے تھی۔ آتشدان میں بھڑکتی آگ اُس کے رخساروں پر دہک رہی تھی اُس نے گرم چادر کو اچھی طرح اپنے گرد لپیٹا اور ہاتھ میں پکڑے مگ سے ایک بڑا گھونٹ لیا رخساروں میں پڑنے والا گڑھا نمایاں ہو گیا۔ آتشدان کے قریب رَگ پر بیٹھا چھوٹا سا پوڈل اچھل کر اُس کی گود میں جا چڑھا اور اپنی پتلی سرخ زبان سے اُس کے رخسار چاٹنے لگا اُس نے کپ میز پر رکھا اور پوڈل سے کھیلنے لگی۔

’’یہ بھی تمہارا دیوانہ ہے’‘

میری نظریں اُس پر گڑی ہوئی تھیں

’’اور تم اِس کے رقیب’‘

وہ کھل کھلا کر ہنس پڑی گالوں کے گڑھے مزید نمایاں ہو گئے۔۔ بے اختیار میرا دل چاہا اُن پر اپنے ہونٹ رکھ دوں

باہر ہوتی برف باری اور اور کمرے میں رچی پُرسکون تمازت کچھ عجب سا سماں باندھ رہی تھی

’’ کافی دیر ہو گئی ہے مجھے چلنا چاہئے ماں انتظار کر رہی ہو گی’‘

وہ اُٹھ کھڑی ہوئی

’’سالاجہ آ ؤ’‘

اُس نے اپنی چھوٹی بہن کو آواز دی

’’نیلا تم جاؤ میں آج رات یہیں رکوں گی’‘

’’کیا مطلب؟’‘ اُس کی آواز میں ہلکا سا غصہ تھا

’’نیلا میں اِس روک رہی ہوں آنٹی سے بات کر لی ہے’‘

یہ میرو تھی میری بہن جس کی کچھ دنوں میں شادی ہونے والی تھی

نیلا سے میرا روح کا رشتہ تھا، مجھے لگتا تھا خالقِ کائنات نے جب کائنات تخلیق کی اور روحیں کُن کی آواز پر جاگی تھیں اُسی وقت مجھے نیلا سے عشق ہو گیا تھا۔ ورنہ زمینی عشق کب ایسا ہوتا ہے۔۔ اتنا مکمل اور گہرا کہ کسی ایک ہی میں کائنات نظر آنے لگے۔۔۔۔ اوّل تا آخر وہی مقصودِ نظر

ٹھہرے یہ یقیناً زمین سے ماوراء کوئی اور ہی احساس تھا۔ جس نے ہماری روحوں کو جکڑ رکھا تھا کوئی الگ ہی فریکوئینسی تھی جس کی تال پر ہماری روحیں رقصاں تھیں۔۔

وہ پہلی بارمجھے پھولوں کے تہوار پر ملی تھی۔ اِس کی گہری نیلی آنکھوں میں بلا کی کشش تھی میں بے اختیار کھینچتا چلا گیا سب نوجوان لڑکے لڑکیاں حلقہ بنائے محو رقص تھے۔۔ تیسرے چکر میں وہ میرے سامنے تھی میں نے ہولے سے اُس کا ہاتھ تھاما اور اپنے ساتھ لپٹا لیا ہمارے قدم موسیقی کی تال پر اُٹھنے لگے ایک عجیب سی کیفیت تھی میں اس کا ہاتھ تھامے دائرے میں رقص کر رہا تھا یکایک موسیقی کی لے بدلی تو روشنیاں لمحے بھر کو بجھ گئیں دور کہیں سے پھوٹنے والی مدھم نیلی روشنی نے ہمیں اپنے حصار میں لے لیا۔

ایک نشہ تھا جو روح سے روح تک بہتا ہوا مد ہوش کئے دے رہا تھا۔ ہم شاید کسی اور کائنات میں تھے کسی اور جہاں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں ہمارے علاوہ کوئی نہیں تھا اِرد گرد پھیلی ہوئی بیکراں خاموشی ہمیں سن رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ساری ان کہی باتیں۔۔۔۔ وہ سارے اَن سنے گیت۔۔۔ کسی اَن دیکھے ساز پر بجتے ہوئے نرم کومل سُر روحوں میں اُتر رہے تھے کہ اچانک تالیوں کی گونج نے سارا طلسم توڑ دیا رقص تھم چکا تھا۔ سب لوگ دم سادھے ہوئے ہمیں دیکھ رہے تھے۔۔ وہ ایک دم گھبرا کر مجھ سے الگ ہو گئی لیکن محبت کا وہ سیال احساس قطرہ قطرہ دونوں طرف گرتا رہا۔

محبت کیا ہے ؟روحوں میں اُترتا ہوا ایک الہامی احساس جو تن من بھگو دیتا ہے محبت آپ کو منتخب کر لے تو دنیا بہت خوبصورت نظر آنے لگتی ہے۔۔ ہمارے ماتھے پر بھی جب سے محبت نے اپنی مُہر ثبت کی تھی سب کچھ بدل گیا تھا۔ پھول، برکھا، چاندنی، خوشبو، ہوا اور تتلیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نیلا کو دیکھتا تو میرے اندر ایک طمانیت بھرا احساس جاگنے لگتا اِس کی نیلگوں سمندروں جیسی آنکھیں، سُرخ یاقوتی لب۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سرتا پا میری تھی ہر گزرتا لمحہ ہماری محبت کا امین تھا ہم بنے ہی ایک دوسرے کے لئے تھے۔۔

سُنا کرتے تھے کہ روحیں ابتدا میں ایک تھیں مؤنث اور مذکر حصے پر مشتمل ایک وجود( اگر اُن کا کوئی وجود تھا تو) پھر دیوتا نے کاٹ کر انھیں الگ کیا اور زمین پر بھیج دیا اُس وقت سے دونوں حصے مکمل ہونے کے لئے ایک دوسرے کو کھوج رہے ہیں شاید یہی وہ بنیادی کشش ہے جو اِن دونوں کا مستقل ایک دوسرے کی طرف کھینچتی رہتی ہے

کیا اِسے محبت کا نام دیا جا سکتا ہے ؟۔۔۔۔۔

آف کورس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ محبت نہیں تو اور کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے دیوانہ مت سمجھئے۔۔۔۔۔۔۔ میں تو بس۔۔۔۔۔

محبت کرو اور خود جان لو۔۔۔۔۔ محبت کے اَسرار صرف محبت کرنے والوں پر کھلتے ہیں

اوہ۔۔۔۔۔۔ میں نہ جانے کہاں آ نکلا۔۔۔۔۔۔۔۔ اصل میں محبت کا سرور ہی ایسا ہے کہ کوئی بھی موضوع ہو

انسان اِس میں لاشعوری طور پر محبت کو لے ہی آتا ہے۔۔۔۔۔ چلیں اصل موضوع کی طرف آتے ہیں تو بات ہو رہی تھی رات کے گھاتک ہونے کی۔

وہ ایک سرد رات تھی پورا ماحول برف کی سفید چادر اوڑھے اُداسی میں ڈوبا ہوا تھا نیلا نے جب چلنے کی بات کی تورات کا ایک تہائی حصہ گزر چکا تھا میں نے اُسے روکنے کی کوشش کی لیکن وہ جانے پر بضد تھی اُس نے اپنی گاڑی کی چابی اٹھائی اور اٹھ کھڑی ہوئی

’’ نیلو تم آئمین کے ساتھ چلی جاؤ نا مجھے صبح گاڑی چاہیے ہو گی’‘ یہ سالاجہ تھی

’’کیوں تم نے کہاں جانا ہے ؟’‘

’’مجھے یونیورسٹی سے کچھ پیپرز لینے ہیں بس سے بہت دیر ہو جائے گی’‘

اُس نے خاموشی سے چابی سالاجہ کی طرف بڑھا دی اور مجھے دیکھنے لگی

’’چلو’‘ میں نے تقریباً رکوع میں جاتے ہوئے اُس سے کہا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ عجیب سی جگہ تھی دھند میں لپٹی ہوئی، کوئی منظر بھی صاف نہیں تھا ٹکڑوں میں بٹا ہوا نامکمل اور بے رنگ، تیز چنگھاڑ تا ہوا شور اور

برمے کی طرح آنکھوں کو چیر کر دماغ میں اُترتی ہوئی بے ہنگم روشنی ناقابلِ بیان درد کا احساس۔۔۔ میں کسی گہرے خلا میں گرنے لگا

اچانک مجھے لگا میرے پاؤں نے زمین چھو لی ہے بس لمحہ بھرکو میں سنبھل نہیں پا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی ہیولے کی طرح اِدھر سے اُدھر ڈولتے ہوئے

مجھے لگا میری روح میرا جسم چھوڑ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنا جسم محسوس نہیں ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا میں مر رہا تھا؟۔۔۔۔۔ ہر طرف سے اُترتی تاریکی روشنی پینے لگی۔۔۔۔۔۔۔ منظر مزید دھندلا گیا آوازیں تھم رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گہرا سکوت پھیل گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں یقیناً مر چکا تھا

میں شاید بہت دیر تک وہاں پڑا رہا تھا۔۔۔۔۔ گہری تاریکی اور جان لیوا سکوت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقت کا کوئی اندازہ نہیں تھا مجھے اپنا جسم اب بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا لیکن اتنا احساس تھا کہ میں زندہ ہوں۔۔۔۔ بمشکل ٹٹول کر میں نے اٹھنے کی کوشش کی وہ عجیب سی جگہ شاید کوئی سرنگ تھی بہت طویل اور تاریک۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دور کہیں ایک سرے پر ہلکی روشنی کا گمان ہو رہا تھا میں نے اُس طرف چلنے کی کوشش کی لیکن میرے پاؤں اٹھنے سے انکاری ہو گئے تھے میرا اپنا جسم میرے قابو میں نہیں تھا میرے قدموں میں بری طرح لڑکھڑاہٹ تھی در و دیوار سے اُترتا ہوا درد میری رگ رگ میں آگ بھرنے لگا دیواریں دھڑ دھڑ گر رہی تھیں ایک چنگھاڑ کے ساتھ تیز روشنی نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا سر میں دھماکے ہونے لگے میں بری طرح چیخ رہا تھا

گہرے اندھیرے میں اچانک کہیں سے سفید دھبے سے نمودار ہوئے۔۔۔۔۔۔ روشن اور متحرک۔۔۔۔۔۔۔ تیزی سے جگہ اور قامت بدلتے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔۔۔۔ وہ دھبے نہیں تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ اور تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا تھا؟۔۔۔۔۔۔۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا۔۔۔۔۔۔ میرے ساتھ کیا ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ میں کہاں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ تاریکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے بہت سارے سوال مجھے الجھائے رکھتے۔۔۔۔۔۔ اچانک جیسے جھماکا سا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو میری طرح کے انسان تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اِن کے سفید لباس، مشفق و مہربان چہرے اور دھیمے لہجے، اتنے دھیمے کہ مجھے سننا مشکل ہو جا تا۔۔۔۔۔۔۔

میں جب بھی قدم اٹھانے کی کوشش کرتا وہ میرے گرد حصار بنا لیتے میرے کانوں میں وہی شہد بھرا لہجہ اترنے لگتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں ان سے بہت کچھ پوچھنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔

وہ کون تھے ؟ یہاں کیا کر رہے تھے ؟ میں کہاں تھا؟۔۔۔۔۔

میں نے بارہا یہ سب پوچھنے کی کوشش بھی کی۔۔۔۔۔ وہ شاید کوئی جواب بھی دیتے تھے لیکن جانے کونسی زبان تھی جو میں سمجھ نہیں پاتا تھا۔۔۔۔ ایسا کیوں تھا؟۔۔۔۔ مجھے کوئی کیوں نہیں بتاتا۔۔۔۔۔۔ میرے ذہن میں جھکڑ چلنے لگتے۔۔

مجھے اس سرنگ سے باہر نکلنا تھا۔۔۔۔۔ دوسرے سرے پر ہلکی ہلکی روشنی کا گمان مجھے بے قرار کئے رکھتا۔۔۔۔۔ میں تو نیلا کو چھوڑنے جا رہا تھا۔۔۔۔۔ وہ انتظار میں ہو گی۔۔۔۔ میرو کی شادی ہے۔۔۔۔ میرو کی شادی۔۔۔۔ مجھے گھر جانا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری مدد کرو پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔ گھر جانا ہے مجھے۔۔۔۔۔۔ مجھے یہاں نہیں رہنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے نکالو یہاں سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں چِلّا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے نیلا کے پاس جانا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے وہاں جا نا ہے۔۔۔۔۔۔

تم لوگ جواب کیوں نہیں دیتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بولو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جواب دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے یہاں نہیں رہنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فون۔۔۔۔۔۔۔ ہاں میرا فون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تیزی سے ساری جیبیں ٹٹولنی شروع کیں۔۔۔۔۔۔۔۔

کہاں گیا میرا فون۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہاں جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اندھیرے میں اِدھر اُدھر ہاتھ مار رہا تھا۔۔۔۔۔

لیب ٹاپ۔۔۔۔۔ میرا لیب ٹاپ بھی موجود نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔ میرے خدا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا دم گھٹ جائے گا۔۔۔۔۔

میرے اندر بے چینی بھرنے لگی۔۔۔۔۔ سر میں پھر سے دھماکے ہو رہے تھے۔۔۔۔۔۔ میں نے اُٹھنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔

لیکن میری ٹانگوں نے میرا وزن سہارنے سے انکار کر دیا۔۔۔۔۔۔۔ سرنگ کا روشنی والا سِرا دور ہٹتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا شاید چھت گر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہی روشنی اور تیز چنگھاڑ۔۔۔۔۔ میں نے اپنا سر گھٹنوں میں چھپا لیا۔۔۔۔۔ سیاہ مہیب انجن والی ریل گاڑی دندناتی ہوئی مجھے روند کر گزرنے لگی۔۔۔ میں نے اپنے بدن پر چپچپا سیال محسوس کیا۔۔۔۔۔۔۔ اندھیرا سب نگلنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں چیخ رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میجر پینیٹریٹنگ ٹراؤما، سیوئیر ٹی بی آئی، کئی آپریشنز اور ایک لمبے صبر آزما علاج کے بعد وہ ہمارے پاس اِس ری ہیب سینٹر میں آیا تو اِس کی حالت اب بھی بہت ابتر تھی ایک برفانی رات کو وہ اپنی منگیتر کو اُس کے گھر چھوڑنے جا رہا تھا راستے میں پڑنے والے ریلوے کراسنگ پر محض’ سٹاپ، کی شیلڈ تھی اور دور سے آتی ریل گاڑی بھی دکھائی دے رہی تھی اِس نے تیزی سے پٹڑی عبور کرنے کی کوشش کی

لیکن شاید گھاتک رات کے تیر اُس کے نام کی فال نکال چکے تھے شدید برفباری کی وجہ سے کار پھنس گئی۔۔۔۔۔ بس چند لمحوں کا کھیل تھا۔۔۔۔۔ پوری رفتار سے آتی ہوئی گاڑی کار کو دور تک ساتھ گھسیٹتے گئی گھسٹتے گھسٹتے کار قدرے ترچھی ہوئی اور ریلوے لائن کے ساتھ لگے بجلی کے بڑے بڑے کھمبوں میں جا گھسی اور پچک کر رہ گئی۔۔۔۔۔

یہ ایک مہلک حادثہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اِس میں آئیمن کی منگیتر حیرت انگیز طور پر محفوظ رہی لیکن سویئر ٹی بی آئی( ٹرامیٹک برین انجری) نے آئیمن کو محض ایک زندہ لاش میں تبدیل کر دیا تھا۔۔۔۔۔ دماغ کے ایک حصے پر گہری چوٹ کی وجہ سے وہ اپنے جسم کی مڈل لائن کھو بیٹھا تھا اُس کے لئے سیدھا چلنا تقریباً نا ممکن تھا اُسے کوآرڈینیشن اور شارٹ ٹرم میموری کے علاوہ بیشمار مسائل تھے وہ جیسے ایک لمحے میں قید ہو کر رہ گیا تھا۔

اُسے سپیچ تھراپی کے ساتھ ساتھ کریئیشن، وژن اور آکو پیشنل تھراپیز دی جا رہی تھیں نتائج حوصلہ افزا تھے جسم اور دماغ کا ٹوٹا ہوا تعلق بحال ہوتا نظر آ رہا تھا بالکل بجلی کی اُکھڑی ہوئی تاروں کی طرح جو لمحہ بھر کو ملتی ہیں تو بلب روشن ہو جاتا ہے، اس کی صحت کی رفتار بہت آہستہ تھی لیکن اطمینان یہ تھا کہ وہ رکی نہیں

آوازوں پر اس کا ردِ عمل کچھ بولنے کی کوشش گو کہ وہ ناقابلِ فہم بڑبڑاہٹ تک ہی محدود تھی یہ اِس بات کا ثبوت تھا کہ بہتری کی اُمید رکھی جا سکتی ہے تین ماہ بعد پہلی بار اِس نے اپنے بھائی اور ماں کو پہچانا۔۔۔۔۔۔۔ اُس کے خاندان کے لئے یہ خوشی کا لمحہ تو تھا ہی ہم سب بھی اِس کی اِس پروگریس سے بہت خوش تھے وہ دن بدن بہتر ہونے لگا، اُس کی ماں ڈاکٹرز کے کہنے پر کچھ تصاویر لائی تھی جن میں سے وہ بیشتر لوگوں کو پہچان رہا تھا یہ بہت خوش آئند بات تھی۔

’’ڈاکٹر رات اُسے ریزرو میڈیکیشن دینی پڑی وہ کسی بھی طرح کنٹرول نہیں ہو رہا تھا’‘

نرس کی اطلاع کافی تشویش ناک تھی

’’ ایسی کیا وجہ بنی؟’‘ ا

’’ رات اچانک اُسے اپنے فون اور لیب ٹاپ کا خیال آ گیا وہ تصویریں دیکھنا چاہتا تھا بہت ڈسٹرب رہا اگریسسو اور لاؤڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔’‘

’’مساج تھراپی کے ساتھ ساتھ اُسے اینگزائیٹی کے لئے سپیشل چائے بھی دی گئی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔۔۔۔۔ تین بجے کے قریب اُسے ریزرو میڈیکیشنز دینی پڑیں’‘

نرس نے تفصیل بتائی

’’ہاؤ از ہی ناؤ؟’‘ ڈاکٹر نے ایک نظر فائل پر ڈالتے ہوئے پوچھا

’’ ابھی تو سو رہا ہے۔۔۔۔ ڈاکٹر پلیز ایک بات اور’‘

’’ یس پلیز۔۔۔۔۔’‘

’’کیا اُسے لیب ٹاپ دیا جا سکتا ہے ؟ میرا مطلب ہے اُس کے گھر والوں سے کہہ کر اُس کا اپنا لیب ٹاپ منگوایا جا سکتا ہے ؟’‘

’’یس وائی ناٹ مجھے نہیں لگتا اِس میں کو ئی حرج ہو گا’‘

ڈاکٹر نے فائل نرس کے ہاتھ میں تھما دی

اگلے ویک اینڈ پر اُس کی ماں نے اُسے ایک دن کے لیے گھر لے جانے کی اجازت چاہی۔۔۔۔۔۔۔

’’ٹھیک ہے آپ اُسے لے جا سکتی ہیں یہ رہیں ٹیک ہوم میڈیکیشنز’‘

انچارج نرس نے دوائیں انھیں پکڑا دیں

’’ اِس کارڈ پر چند ایمرجنسی نمبرز ہیں کسی بھی مشکل میں یہاں کال کر سکتی ہیں تجربہ کار لوگ فور اً مدد کو پہنچ جائیں گے’‘

اور ساتھ ہی اِس نے وارڈ بوائے کو وہیل چیئر لانے کو کہا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’آئیمن ایک دلچسپ کیس ہے’‘ ڈاکٹر آئزن برگ کا لیکچر جاری تھا

’’اب دیکھیں’‘

انھوں نے ساتھ کھڑے سٹوڈنٹس کو مخاطب کیا

’’ اُسے دیکھیں’‘

اُن کا اشارہ آئیمن کی طرف تھا جس کی انگلیاں کی بورڈ پر نہایت مشّاقی سے چل رہی تھیں

’’کیا کہنا چاہیں گے آپ اِس بارے میں ؟ یس مسٹر رومن’‘

’’ سر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔۔۔’‘ رومن ایک دم گڑ بڑا گیا

’’کیا آپ کو انٹرسٹنگ نہیں لگتا جو بندہ چل نہیں سکتا ڈھنگ سے بات نہیں کر سکتا اُس کے ہاتھ اِس طرح کی بورڈ پر پھسل رہے ہیں ؟

’’یہ الگ بات کہ وہ کچھ لکھ پا رہا ہے یا نہیں میرا مطلب ہے کچھ مینینگ فُل’‘

’’ یس ڈاکٹر’‘

’’میں نے اِسے کل چِس کھیلتے دیکھا۔۔۔ آ ئی واز سو سرپرائزڈ۔۔۔۔۔ وہ لاؤڈ تھا۔۔۔۔۔ ڈس اورینٹیٹڈ لیکن گیم کے تمام اُصول فالو کر رہا تھا’‘ یہ ہینک تھا

’’ہیئر یو آر ہینک’‘

’’تربیت اور کبھی کبھی پسند جبلت بن جاتی ہے پسند سے میری مراد مشاغل ہو سکتے ہیں انسان، کتابیں، میوزک، جگہیں اور بہت کچھ انسانی دماغ بہت کامپلیکیٹیڈ ہے یہ شخص اپنی زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ کھو چکا ہے ایکسیڈینٹ سے پہلے کی زندگی کا ایک مخصوص ٹریک اِس کی میموری میں زندہ رہ سکا ہے سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اِس ٹریک سے جڑی چند خاص باتیں اُسے یاد ہیں پورا ٹریک نہیں۔۔۔۔۔۔ دِس از ویری نارمل۔۔۔۔۔۔۔ عام زندگی میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے جو باتیں ہمارے لئے اہم ہوتیں ہیں دماغ انھیں سیو کر لیتا ہے اور غیر اہم باتیں سب کونشس میں دھکیل دیتا ہے’‘

’’ کوئی بھی یاد کبھی مرتی نہیں بس کہیں دب جاتی ہے یوں اِسے کھوج نکالنا ہمارے لیے مشکل ہوتا ہے اِس وقت اِس پیشنٹ کا سب کونشس بہت ایکٹیو ہے وہ چیزوں کو کھنگال کر کام کی چیزیں کونشس پر اچھال رہا ہے، لیکن کونشس اتنا مضبوط نہیں کہ انھیں سنبھال سکے۔۔۔۔۔۔۔۔’‘

’’اب یہاں شارٹ ٹرم میموری اِن ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ دماغ کی یہ آن اینڈ آف کنڈیشن پیشنٹ کو ڈسٹرب کرتی ہے۔۔۔۔۔۔ مسئلہ یا الجھن یہیں سے شروع ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سمجھ نہیں پاتا اور الجھ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ اِس کے لاؤڈ اور ایگریسیو ہونے کی یہی وجہ ہے’‘

ڈاکٹر آئزن برگ بولتے جا رہے تھے

پھر ایک دن میں نے خود کو سرنگ کے دھانے پر کھڑا پایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نرمی سے چلنے والی ہوا مجھے چھو کر گزر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ عجیب سا احساس تھا۔۔۔۔۔۔۔ شاید یہ زندگی کی خوشبو تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن چاروں طرف اتنی گہری دھند تھی کہ دیکھنا محال تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اُس پار دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔ کہ اچانک دھند کے گہرے پردے کو چیرتا ہوا ایک چہرہ میرے سامنے تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماما۔۔۔۔۔ میرا دل دھڑک اُٹھا۔۔۔۔۔ وہی مہربان آنکھیں اور مسکراتے لب۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُن کے ساتھ اور بھی لوگ تھے۔۔۔۔۔۔ میرے اپنے۔۔۔۔۔۔ میری آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماما۔۔۔۔۔۔۔ میرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شادی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے خود پر غصہ آ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ میرے جسم کی طرح الفاظ بھی باغی ہو گئے تھے۔۔۔۔۔۔ میں ماں سے بہت کچھ کہنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن الفاظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے خود کو ایک بار پھر سرنگ کے دھانے پر کھڑا پایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی گہرا اندھیرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دندناتی ہوئی ریل گاڑی اور ریزہ ریزہ ہوتا میرا وجود۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی کے چیخنے کی آواز آئی۔۔۔۔۔۔۔ کون تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن آواز تو میری تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاں میں چیخ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کیوں ؟۔۔۔۔۔۔۔

میرے اللہ میرے ساتھ کیا ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میں خود کو روک نہیں پا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر میں نے اُسے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ نیلا تھی۔۔۔۔۔ چھوٹے سے بچے کی انگلی پکڑے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بے چین ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔

’’تم کہاں کھو گئی تھی؟ میں نے تمہیں بہت ڈھونڈا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں پریشان تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بچہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون ہے یہ بچہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔’‘

’’ یہ میرا بیٹا ہے’‘

نیلا کی آواز آئی

’’تمہارا بیٹا؟۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا بیٹا؟۔۔۔۔۔۔۔ کب ہوا ہمارا بچہ؟۔۔۔۔۔۔۔

لیکن شادی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم کہاں تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے کیوں نہیں پتہ چلا۔۔۔۔۔۔۔ ؟

یہ بچہ۔۔۔۔۔۔۔ نیلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بری طرح الجھنے لگا

ماما نیلا پر چِلّا رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اُسے با ہر دھکیل رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں ؟

مجھے بہت برا لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماما۔۔۔۔۔ میں ماما کو روکنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’تم یہاں کیوں آئی ہو۔۔۔۔۔ ؟

تماشا دیکھنے میرے بیٹے کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاؤ۔۔۔۔۔۔۔ جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔۔۔۔’‘

بہت شور تھا۔۔۔ میرے چاروں طرف شور تھا۔۔۔۔۔۔۔

’’ خود تو شادی رچا لی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میرا بیٹا۔۔۔۔۔ ماما رو رہی تھیں

’’ تو کیا اِس پاگل کی راہ دیکھتی رہتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیلا کی انگلی اُٹھی۔۔۔۔۔

میں تھا اُس انگلی کے سرے پر۔۔۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔۔ پاگل۔۔۔۔۔۔۔

نیلا۔۔۔۔۔۔۔ شادی۔۔۔۔۔۔۔ ماما۔۔۔

اور دیواریں دھڑ دھڑ گرنے لگیں۔۔۔۔۔۔

مجھے ناک سے کچھ ٹپکتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔۔۔۔ چپچپا اور سیال۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سر میں اُٹھنے والا درد ناقابلِ برداشت ہونے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی منحوس تاریکی مجھے پھر سے نگلنے کو تھی۔۔۔۔۔

میں نے آنکھیں بند کیں اور خود کو خاموشی سے تاریکی کے حوالے کر دیا

٭٭٭

 

 

 

 پتی ورتا

 

میری ماں عجیب سی تھی آدھی سے زیادہ زندگی رسوئی میں گزار کر پتی ورتا ہونے کا ثبوت دیتے دیتے ایک اِس نے خاموشی سی آنکھیں موند لیں روز کھانا پروس کر وہ اپنے پتی کی چہرے پر اُگنے والے تاثرات میں محبت کا کوئی بھولا بھٹکا پرکاش کھوجنے کی کوشش کرتی لیکن وہاں جامد سناٹے کے سِوا کچھ نہ پا کر خاموشی سے برتن سمیٹ کر کھُرے میں گھِسنے بیٹھ جاتی اور باپو اپنا پوّا بغل میں دبائے اندھیرے میں جاگتی گلیوں کا رخ کرتا۔ میں گو بہت چھوٹی تھی لیکن باپو کے تیور اور ماں کے آنسو دونوں نظر آتے میں نے اتنی چھوٹی عمر میں ہی تہیہ کر لیا تھا کہ مجھے ماں جیسی نہیں بننا لیکن پھر ایک دن ماں اپنے ہاتھ کا سارا ذائقہ مجھے سونپ کر خود چتا پر جا سوئی اور نہ چاہنے کے باوجود جس دن میں نے پہلی بار موہن کو کھانا پروسا تو مجھے لگا وہ کھانے کے ساتھ انگلیاں بھی کاٹ کھائے گا کھا نا کھا کر اُس نے ایک اُچٹتی نظر مجھ پر ڈالی

’’ تیرے ہاتھوں میں غضب کا سودا ہے’‘

اُس کا ہاتھ میری کمر پر رینگ آیا

’’کیا اِس کا بھی مجھ سے صرف بھوک کا رشتہ ہی’‘

مجھے بے اختیار ماں یاد آ گئی ستائش اور چاہے جانے کی تمنا میں گھلتی ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رسوئی میں ہلکان ہوتی ہوئی

مجھے موہن سے نفرت نہیں تو محبت بھی نہیں تھی عجیب ٹھس سا آدمی تھا کھانے اور پیسے کے علاوہ اُس کا کوئی اور شوق نہ تھا نوٹوں کو دیکھتے ہوئے اُس کی آنکھوں میں اُتر آنے والی چمک سے مجھے شدید چڑ تھی لیکن اس کے باوجود میں اُس کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی تھیں نے نہ چاہتے ہوئے بھی رسوئی سے رشتہ جوڑ لیا سسرال بھر میرے کھانوں کی تعریف کرتا۔ فرمائش کر کے کھانے بنوائے جاتے اور جی بھر کر سراہا جاتا لیکن مجال ہے موہن کے منہ سے تعریف کے نام پر کبھی کوئی ایک شبد بھی پھوٹا ہو، میں تو شاید اُس کی دوکان میں پڑے کپڑے کے تھان سے زیادہ اہمیت نہ رکھتی تھی لیکن نہیں کپڑے کے تھان بھی اُس کی نظر میں اہم تھے میں تو بس نرک جھونکنے کا سامان تھی چاہے تن کا ہو یا من کا۔

دھرتی سوکھے کی زد میں ہو تو مٹی چٹخنے لگتی ہے سب کھنڈر ہونے لگتا ہے۔۔ میں بھی ایک بانجھ دھرتی تھی جسے سوکھا مار گیا تھا۔۔۔ دراڑوں میں جانے کونسےا ٓسیب اُتر آئے تھے کہ میری آتما بلبلا کر بین کرنے لگتی۔ ایسے میں میرا جی چاہتا موہن کا خون پی جاؤں کبھی ماں کو کوسنے پر اُتر آتی جس نے بنا دیکھے بھالے اپنے سے پندرہ سال بڑے موہن کے پلے باندھ دیا تھا وہ اِس کے بڑے سے گھر اور پیسے کی ریل پیل پر ریجھ گئی تھی۔

ماں مجھے اکثر کہا کرتی کہ میں ناشکری ہوں گلہ میری زبان کی نوک پر دھرا رہتا ہے

’’کیا میں واقعی نا شکری ہوں ؟’‘

’’جو ملا نہیں اس پر شکر کیسا؟’‘

لیکن ماں کو میری یہ منطق سمجھ نہیں آتی تھی۔ وہ ہر حال میں مجھے اپنے جیسا دیکھنا چاہتی تھی گھٹ گھٹ کر جیتے ہوئے لیکن مجھے برزخ کی یہ زندگی منظور نہ تھی

اُس دن دیور جی کو بنی سنوری دیورانی کے پیچھے بھاگتے دیکھ کر میں دروازے کی اوٹ میں ہو گئی اوپر جاتی سیڑھیوں پر دونوں ہاتھ ٹکائے دیور جی اس کے چہرے پر جھکے ہوئے تھے دیورانی کے چہرے پر محبت اور ممتا کا انوکھا تال میل دیکھ کر وہ مجھے کسی اور ہی دنیا کی مخلوق لگی کہیں اندر نارسائی کا گہرا کرب سانپ کی طرح پھنکارنے لگا سونی کوکھ جلنے لگی تھی۔ اس دن پہلی بار مجھے موہن سے نفرت محسوس ہوئی۔ لیکن وہ تو شروع سے ہی ایسا تھا بے حس اور خود غرض۔۔۔۔۔ اسے غرض تھی تو بھی محض اپنی بھوک سے میں بھی۔

’’رادھیکا کھانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رادھیکا رات بھیگ گئی ہے اب آ بھی جاؤ’‘

سن سن کر اوبھ گئی تھی میں اسے کیوں نظر نہیں آتی تھی؟ کبھی کبھی میرا من کرتا اسے کسی دن جھنجھوڑ کر پوچھوں

’’آخر میں تمہیں کیوں نظر نہیں آتی’‘

لیکن میں جانتی تھی پتھر سے ٹکرائیں تو اپنا ہی ما تھا پھوٹتا ہے سو یہی ہوا

’’ ڈرامے کم دیکھا کرو’‘

اُس کی آواز میں تلخی تھی

’’ کاروبار بھی تو دیکھنا ہوتا ہے اور پھر ہماری کون سا نئی نئی شادی ہے یہ چونچلے نئے نویلوں پر اچھے لگتے ہیں’‘

’’ نئے نویلے ہونے پر تم نے کونسا پہاڑ سَر کر لیا تھا’‘

میں کڑواہٹ نہ چھپا سکی

’’تم جانتی ہو مجھے زبان چلاتی عورتیں نہیں پسند’‘

وہ جھنجھلا گیا

میں بہت کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن یہ بھی خبر تھی وہ کبھی میری بات نہیں سمجھے گا

’’کیا میں کچھ زیادہ کا مطالبہ کر رہی تھی؟’‘

اندر سوکھا بڑھا تو مٹی بھُرنے لگی تیز ہواؤں کا شور ڈرانے لگا تھا۔۔۔۔۔ اس گرداب میں میرے پاؤں اکھڑ نے لگے اپنی بے مائے گی اور بانجھ پن کا احساس بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساتھ ہی رسوئی میں گزرتا وقت اور موہن کی نفرت بھی وہ اب بھی ویسا ہی تھا۔۔۔۔۔ کٹھور، بے حس اور وہی اس کا تیزی سے بے ہنگم بڑھتا ہوا جسم

میں نے دیسی گھی میں تر بتر حلوے کی پلیٹ اُس کی طرف بڑھائی تو وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا

’’تم بنا لاتی ہو اور میں نہ نہیں کر سکتا جب کہ ڈاکٹروں نے سختی سے چکنا منع کیا ہے وہ کیا کہتے ہیں خون میں گھی زیادہ ہو گیا ہے نا’‘

اس نے ہلکا سا منہ بنایا اور پلیٹ پکڑ لی

’’ڈاکٹروں کا کیا ہے اپنی دوکان بھی تو چلانی ہے انھیں’‘ میں اُس کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی اور سوچ رہی تھی صبح دودھ والے سے مزید پانچ کلو شدھ گھی منگوا ہی لوں۔۔

٭٭٭

 

 

 

 آخری پنکھ

 

’’جھیل جھرنوں میں کائی اُتر آئے تو سمجھو آکاش دھرتی کا سمبندھ کمزور پڑ رہا ہے۔ اندر کی دو رنگی پربھو کو نہیں بھاتی اُس کے دوار کی اِچھا ہے تو سب لوبھ، موہ، مایا من سے نکال دو’‘

مجذوب بے چین تھا اور چمٹے کی تال پر تھِرکتے اُس کے پاؤں گرد آلود

’’ تیری خلقت دکھی ہے پربھو، دَیا کر اِس پر، اَنت کر اِن کے دکھوں کا’‘

’’کا ہے روز بھاشن جھاڑتا ہے’‘

راہ گیر کا لہجہ کڑوا تھا ’’کیسا پربھو؟ کہاں کا پربھو؟میں باپ ہوں بچوں کا بھوک سے بلکنا اب نہیں دیکھا جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سنسار کا دکھ اُسے کیوں نہیں دکھا ئی دیتا؟’‘

اُس کے ہاتھ میں تیز دھار استرا اور آنکھوں میں ویرانی تھی

’’ پیڑا کا اَنت کیسے ہو منش عہد سے مکر جائے تو سنسار میں اندھیرا بہت گہرا ہو جاتا ہے، ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کچھ نہیں تو اپنے ساتھ تو سچے رہ سکتے ہو؟’‘

مجذوب دکھی تھا

’’پچھمی ہوا ہریالی چاٹ رہی ہے سوکھا دلوں میں اُترے یا ساگر میں تباہی مقدر ہوتی ہے ہوش کرو دیوانو، ہوش کرو’‘

’’شبدوں کا بھید بھاؤ آسان ہے مگر جیون نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روز جلتی چتا پر بیٹھنا پڑتا ہے کسبی کسب نہ کرے تو ان چار پاپی پیٹوں کی آگ کیسے بجھے ؟’‘

لہجہ رندھ گیا کچی جھونپڑی کے در پر پڑا میلا کچیلا پردہ پھر سے گرا دیا گیا رات بھر اوروں کے تن کی آگ سرد کرتی کلاوتی کا اپنا من جوالا مکھی بنا ہوا تھا

’’ راہ کھوٹی ہو جائے تو منش کا من رو گی ہو جاتا ہے من کے روگ کا ایک ہی علاج ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس کی پہچان’‘

’’من کی شانتی چاہتے ہو تو میرے ساتھ آؤ’‘ یہ کوئی بابو صاحب تھے

’’ہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی تو منش کی بھول ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بانٹ اُسی کی کی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راہوں میں۔۔۔۔۔۔ دلوں میں، اونچ نیچ، دھرم کرم دھن نردھن یہ پربھو کیا جانے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو بس چند اونچے سروں کا کھیل ہے جو سب کی سمجھ میں نہیں آتا’‘

’’جب سمجھ میں نہیں آتا تو دوش کس کا ہوا؟’‘

’’ وہ یا تو سب کو بدھی دیتا یا سُر ہر منش کے حساب کے رکھتا۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا کیا دوش ؟ اُس نے ہمیں اپنے پیروں سے بنایاسدا ہر ایک کی ٹھوکر پر ہی رہے’‘ لمبے جھاڑو سے گلی صاف کر چمار چِلّا اُٹھا

دنیا میں ہر طرف دکھ ہی دکھ تھا ننھے ننھے بدن دھرتی میں اتارنا آسان نہیں ہوتا آنکھیں برسنا بھول جاتی ہیں پانی کا رُخ اندر کی طرف مڑ جائے تو اندر آگ بھڑک اُٹھتی ہے مٹی کی ننھی سے ڈھیری پر ہاتھ ٹکائے اُس عورت خود بھی مٹی کا ڈھیر معلوم ہوتی تھی

’’کیول اُسی کا نام ستیہ ہے باقی سب جھوٹ’‘

’’یہ سب جھوٹ کے پجاری ہیں’‘

’’ساچا گیان بس یہیں ملے گا’‘

ہر ساہوکار اپنی اپنی دکان کی بولی لگا رہا تھا، خلقت کے دکھ خالق جانے۔۔۔۔۔۔

گیانی سمے کے بہاؤ سے نا شناسا اپنی اپنی گپھاؤں میں گیان بانٹتے رہے دھرتی کے ساتھ ساتھ جیون بھی ٹکڑوں میں بٹتا رہا ایک دن اچانک راکھشسوں نے ایک گاؤں پر دھاوا بول دیا بے بس پرجا راجہ کے محل کی اُور لپکی لیکن راجہ کے ہونٹوں سے لگی بانسری نہ چھُٹی

کئی مجذو بوں نے اپنے اپنے کمنڈل اُٹھائے اور گاؤں سے باہر نکل آئے اُن کے پیچھے پیچھے ساری پرجا بھی ہر طرف راکھشسوں کا رقص جاری تھا بوکھلائی ہوئی پرجا جان بچانے کے لیے دیوانہ وار اِدھر اُدھر بھاگی پھری جھیلوں پر پھر سے کائی اُترنے لگی آکاش دھرتی سے روٹھ گیا

گاؤں برباد ہونے لگا چاروں طرف جلے جھونپڑوں کی راکھ اور پرجا کے ٹکڑوں میں بٹے جسموں کی سڑاند کے علاوہ کچھ نہ تھا سارے گیانی دم بخود پرجا شانتی کی کھوج میں جنگلوں اور سمندروں کو عبور کرتے سانسیں ہار نے لگی سارا سنسار ان کے دکھ پر رو رہا تھا

بوڑھے سمندر کی سر پٹختی شوریدہ لہروں نے

سفید پروں والے پرندوں کے غول اُترتے دیکھ کر

کھلے بادبانوں کو سندیس روانہ کیا

لیکن مچھلی کے دریدہ بدن سے

ٹپکتا لہو منظر دھندلا گیا

سنہری دھوپ جھنجھلا کر

پہاڑوں پر الزام دھرنے لگی

بے رحم شمالی ہوا نے

گابن سیپیوں کی کوکھ میں ہاتھ ڈال کر

انھیں ہمیشہ کے لئے بانجھ کر دیا

کھیتوں میں کام کرتی لڑکیوں کے لبوں پر

برہا کے گیت دم توڑ گئے

بانسری کُرلانے لگی

لیکن دیوتا

سمندر کے سینے پر بے خبر سوتا رہا

کہتے ہیں سنسار نے تین بار جنم لیا اور نابود ہوا۔۔۔۔۔۔۔ تیسری بار سورّن پنچھی یگوں پہلے کسی ایسے ہی کَل یُگ میں سنسار کو اپنے تین سنہری پنکھ دان کر کے خود اگنی میں بھسم ہو گیا تھا

’’کیا دنیا پھر سے نابود ہو جائے گی؟’‘ گیانیوں کے ذہنوں میں ایک ہی سوال تھا

’’ سورّن پنچھی اور کتنی بار دنیا کی تباہی دیکھے گا؟’‘

ایک گیانی کے ہاتھ میں پنچھی کا دان کردہ تانبے کی رنگت کا جادوئی پنکھ تھا

’’کیا اسے آگ دکھائی جائے ؟

اس نے چاروں طرف دیکھا

’’ہاں اُس کا واپس آنا بہت ضروری ہے، دنیا برباد ہو رہی ہے’‘

’’ اگر اب حیات نابود ہو گئی تو شاہد پھر کبھی نہ پنپ سکے’‘

’’اِسے بچانا ہمارا فرض ہے’‘

’’روٹھی ہوئی تِشتریہ(Tishtrya) کو منانا ہو گا ورنہ حیات بخش بوندیں کبھی بھی دھرتی کو گابھن نہیں کر سکیں گی’‘

’’کیا ہم خاموشی سے دھرتی کو بنجر ہوتا دیکھتے رہیں ؟’‘

’’دھرتی کا بنجر ہو جانا حیات کے خاتمے کا اعلان ہو گا’‘

سب گیانی ایک ساتھ بول رہے تھے

’’ ٹھیک ہے کل جب سورج کی شعاعیں بڑے مندر کے آتشدان پر ہوں گی تو پنکھ کو آگ دکھا دی جائے گی’‘ بڑے پجاری نے فیصلہ سنا دیا

سورج کی تیز شعاعیں آتش دان پر مرکوز تھیں گیانی نے بڑے سے تغارچے میں دھری آگ کے گرد چکر لگا یا اور ہاتھ میں پکڑا سنہری پنکھ آگ پر رکھ دیا لوگ دم سادھے زمین پر ما تھا ٹیکے ہوئے تھے جانے کتنا سمے گزر گیا پجاری کے اشلوک تیز ہونے لگے، گیانی نے ایک نظر پجاری کو دیکھا اُس کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے

’’ ایسا نہیں ہو سکتا، اُسے آنا ہی ہو گا’‘

’’ اس مصیبت میں وہ نہیں تو کون آئے گا؟’‘

آکاش سے اترے شبدوں کو نئے ارتھ دئیے گئے اپنے اپنے مفاد اور خواہش کے استھان پر اِن کی بلی چڑھائی جاتی رہی

گیانی نے ایک نظر سجدے میں پڑے لوگوں کو دیکھا آگ کے گرد دوسرا چکر لگایا اور اپنے لمبے چوغے کی جیب سے دوسرا پنکھ نکال کر آگ پر رکھ دیا

منش پر اپنے ہی بنائے ہوئے نیئم بھاری پڑنے لگے

بارود کی بو اعصاب چاٹنے لگی ملبے کے ڈھیر کے پاس کھڑے بوڑھے بدن پر لرزہ طاری تھا ننھی سی لاش سمندر بھی سنبھال نہ سکا کیا اس کا وزن اتنا زیادہ تھا؟

’’چھوٹے چھوٹے تابوت اتنے بھاری کیوں ہو جاتے ہیں ؟’‘

سجدہ لمبا ہوتا گیا

’’ایک پیڑی مٹ رہی ہے اُسے آنا ہو گا’‘

’’ ایک پیڑی نہیں انسانیت مٹ رہی ہے’‘

’’لیکن وہ کیوں آئے گا؟’‘

’’دشائیں کھو جائیں تو سب برباد ہو جاتا ہے، اور کتنا بھاگنا ہو گا؟’‘

’’گناہ کب معاف ہوں گے ؟’‘

’’گناہ اُس وقت تک معاف نہیں ہوتے جب تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’‘

’’ہاں کہو’‘ پجاری نے گیانی کی طرف دیکھا

سورج شام کے کنارے چھو رہا تھا فضا میں پر جلنے کی ہلکی سی سڑاند پھیلی ہوئی تھی گیانی نے سجدے میں پڑے لوگوں کو دیکھا خاک آلود پیشانیاں زمین سے جڑی ہوئی تھیں آنکھوں سے بہتے پانی نے مٹی کو بھگو دیا تھا

گیانی نے اپنے لمبے چوغے کی جیب میں ہاتھ ڈال کر آخری پنکھ نکال کر دیکھا ڈھلتے سورج کی پیلی روشنی میں یوں لگا جیسے پنکھ میں آگ بھڑک اُٹھی ہو ایکا ایکی گیان مکمل ہو گیا

’’گناہ اُس وقت تک معاف نہیں ہوتے جب تک اپنی سمت درست نہ کر لی جائے’‘

گیانی کی آواز میں جانے کیا تھا پجاری کی آنکھوں میں حیرت تیرنے لگی گیانی نے پنکھ پھینکا اور دوسروں کے ساتھ خود بھی کچی زمین پر سجدہ ریز ہو گیا

٭٭٭

 

 

 

 بھوک اور خدا

 

گہرے رنج کی بُکل میں سرسراتے وسوسے ڈسنے لگے تھے بقا داؤ پر لگی ہو تو سانسوں میں زہر گھل جاتا ہے اور فیصلہ دشوار تر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوا اس کے دل کی طرح بوجھل تھی شام اندھیرا اوڑھے پربتوں سے سرک کر راستوں پر بچھی تو لوگ تھکے تھکے قدموں سے گھروں کو لوٹنے لگے زولو اُن کے دلوں میں پنپتے گہرے رنج میں لپٹے وسوسوں سے بخوبی آگاہ تھا جانتا تھا دلاسا بھوک مٹاتا ہے نہ خوف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیٹ خالی ہو تو الفاظ وقعت کھو دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا کئی مہینوں سے ہو رہا تھا خوراک کے تیزی سے ختم ہوتے ذخائر اور پیروں تلے دھول اُڑا تل جھلسی ہوئی دھرتی

آج ایک عرصے بعد دیوتاؤں کے مُکُٹ چڑھائے وہ سب محوِ رقص تھے ڈھول کی تھاپ پر تھرکتے قدم اور لبوں سے پھوٹتے خوشحالی کے نغمے

’’اے بوندوں پر حکمرانی کرنے والے

دھرتی کے لب پیاسے ہیں

شمالی ہوا نے کھیتوں سے ہریالی چوس لی ہے

چاند طلوع ہوتا ہے تو دھند اُسے نگل لیتی ہے

اے آسمانی دریچوں میں رکھے چراغوں کے مالک

مویشیوں کے تھنوں میں خشک ہوتا دودھ

اور دھرتی کی اجڑی کوکھ

دل گہنا رہے ہیں

اے روحوں کا گریہ سننے والے

امکان سے یقین کی سحر کب پھوٹے گی دل گہنا رہے ہیں

طربیہ گیت دعا اور پھر التجا میں ڈھل گئے لیکن دھرتی کی کوکھ بانجھ ہی رہی جھیلیں کیچڑ بنیں تو ہجرت کا نقارہ بج اُٹھا۔ جنم بھومی کو الوداع کہنا کب آسان ہوتا ہے لیکن لمبی کلغی والے پرندے سفید پروں کو پھیلا کر آسمانی وسعتوں کی طرف لپکے اور نظروں سے اوجھل ہوئے تو دل جیسے اچھل کر حلق میں آ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نقارے کی ہر چوٹ دل پر پڑتی محسوس ہوئی جھیلوں پر ویرانی کا راج تھا بھوک کا رقص شروع ہوا تو بوڑھے زولو کے چہرے کی جھریوں کی طرح زمین کی کوکھ میں اترتے تابوتوں میں اضافہ ہونے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت سی آنکھیں اُس پر مرکوز تھیں لیکن اُس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا

’’ آسماں رنگ بدل گیا ہے’‘

’’ اب کیا ہو گا؟’‘

’’ مناجات کی تاثیر کیا ہوئی؟’‘

’’ ہم لہو کی قربانی دیں گے’‘

سب اپنی اپنی بولیاں بول رہے تھے لیکن اس نے ہاتھ اٹھا کر سب کو خاموش کروا دیا

’’ سمے کا اَسپ منہ دوسری طرف کیے بھاگ رہا ہے بوند اور دھرتی کے وصل میں زمانے حائل ہیں بھوک دروازوں پر دستک دی رہی ہے مناجات کی تاثیر مر چکی تم میں سے جو بھی اپنی بقا کے لئے قبیلہ چھوڑ کر جانا چاہے وہ آزاد ہے’‘

مجمع پر سکوت طاری تھا ْ۔ زولو کا خاندان کئی صدیوں سے روحانی پیشوا کے طور پر قبیلے کی چھاؤں بنا ہوا تھا۔ لوگ جانتے تھے اِس کا دیوتاؤں سے خاص رابطہ ہے

’’کیا دیوتا ناراض ہیں ؟’‘

’’ ہاں گمراہی انھیں غضب ناک کرتی ہے’‘

’’ انھیں منانے کا کوئی اُپائے ؟’‘

اور پھر پورا قبیلہ خوراک کے باقی ماندہ ذخائر چٹانی مندر کے بڑے غار تک لے آیا راشن مقرر ہوا قربانی اور مناجات کے خصوصی دور ہوئے دیوتاؤں کی مُکُٹ پہن کر مقدس رقص کا آغاز ہوا سیاہ بکرے کے خون سے دیوتا کو غسل دے کر روٹھے ہوئے بادلوں کو پکارا گیا

’’ہم اپنے خون میں رچے گناہ کے احساس کو

اِس مقدس آگ میں بھسم کرتے ہیں

اے روحوں کو پاک کرنے والے

اپنی آسمانی سلطنت کے در کھول

کہ مناجات کو سندِ قبولیت عطا ہو

اے ازل سے زندہ رہنے والے

ہمارے کشکول میں سانسوں کی بھیک ڈال

ہمارے بازوؤں میں اتنی طاقت ہے کہ زمین کا سینہ چیر سکیں

ہوا ہمارے لئے مسخر کر اور بادلوں سے پانی اتار

سینے شق ہونے لگے آنکھیں تھک گئیں وسوسے گہرے رنج کی بُکل میں سرسراتے رہے روحیں گریہ کناں تھیں لیکن آسمانی در کھلنے تھے نہ کھلے

زولو کی جہاں دیدہ نگاہیں ہواؤں کا رخ پہچان چکی تھیں اُس نے آخری بارا پنا سیاہ دھاری دھار چوغہ زیب تن کیا اور عصا تھامے چٹانی مندر کے سامنے کی طرف نکلے ہوئے حصے پر نمودار ہوا لوگ زمین پر گر کر اِس کی ثنا کرنے لگے اس کے بوڑھے چہرے کی جھریوں میں لپٹی اداسی اور ملال صاف پڑھا جا سکتا تھا

’’ ہم ڈوگان اِس دھرتی کے سپوت او اپنے پرکھوں کی ہڈیوں کی پاسداری پر متعین۔ دیوتاؤں کے مُکُٹ ہمارے لیے خاص عطا تھی ہم نے انھیں صدیوں سے سینے لگائے رکھا لیکن اب شاید دھرتی کبھی گابھن نہ ہو گی میں اپنے تمام تر اختیارات استعمال کرتے ہوئے آج اِس مقدس ڈوری کی گرہ کھول کر تم سب کو آزاد کرتا ہوں اِس سے پہلے کہ بھوک بدن کو چاٹ لے یہاں سے شاداب زمینوں کی طرف نکل جاؤ’‘

یہ کہہ کر اُس نے مہا دیوتا کے گلے میں پڑی یُگ مالا توڑ دی اور تھکے تھکے قدموں سے وہیں چھجے پر بیٹھ گیا۔

وقت کب تھما ہے جواب تھم جاتا گاؤں دھیرے دھیرے خالی ہونے لگا بس چند خاندان بچے تھے جنہوں نے زولو کو چھوڑنا گوارا نہ کیا آج آخری رقص تھا زولو جانتا تھا آج کی خوراک ذخیرے کی آخری خوراک تھی

’’ کل کیا ہو گا؟’‘ سب کے سُتے ہوئے چہروں پر لکھا سوال زولو کے اعصاب توڑ رہا تھا۔۔ جانے کس پاداش میں بادل اس دھرتی سے ایسے روٹھے کہ دھرتی بنجر ہو گئی آج گاؤں کے اُجڑے ہوئے گھروں میں صرف بھوک اور مایوسی کا بسیرا تھا

’’ وہ اِس کا تیس ہزار ڈالر دینے کو تیار ہیں’‘ تمبارا کے چہرے پر افسردہ سی مسکان ابھری

شام کے سائے گہرے ہو چکے تھے فیصلہ مشکل ضرور تھا لیکن کرنا تو تھا زولو نے اپنے بوڑھے بدن کی تمام تر طاقت صرف کر کے تمبارا کی طرف دیکھا جو آنکھوں میں ایک انجانی اُمید کی جوت جگائے اُسے ہی دیکھ رہا تھا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔ تمبارا نے قیمتی لکڑی سے تراشی گئی قبیلے کے مہا دیوتا کی صدیوں پرانی مورتی کپڑے میں لپیٹی اور قریبی قصبے کی طرف چل دیا جہاں بیرونی دنیا آنے والے سے چند خریدار اُس کے منتظر تھے

٭٭٭

تشکر: مصنفہ جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید