FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

 

حصہ دوم

 

 

               افروز سیدہ

 

 

 

نا مراد

 

خموش ہو کے جو گویا ہو وہ تکلم ہوں

سکوں کے بھیس میں اک اضطراب ہوں

اداس نغمہ ہوں روٹھا ہوا ترنم ہوں

شکستہ ساز ہوں ٹوٹا ہوا رباب ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوید کو جاوید پر غصہ آتا تھا کہ وہ ماں کو سمجھاتا کیوں نہیں اس سے تو سوتیلا باپ اچھا تھا ماں کی قربت تھی نئے باپ کے بچوں سے بچی کھچی محبت بھی مل جاتی تھی اگر میرا ہی باپ سیدھا ہوتا تو میری زندگی کا یہ حشر نہ ہوتا نوید کے اندر کا آتش فشاں پھٹ پڑ ا۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسپتال کے زچگی وارڈ میں ایک حسینو جمیل کمسن دوشیزہ ایک خوبصورت و صحت مند بچے کو پہلو میں لئے یوں بے سدھ لیٹی ہوئی تھی جیسے طویل و بے معنی سفر سے تھک کر آئی ہو۔  اس کے چہرے پر کسی خوشی و امید کا سا یہ تک نہیں تھا۔  کچھ دیر پہلے وہ  درد زہ کی کربناک منزل سے گزری تھی اس راستے پر کوئی اس کے ٹھنڈے ہاتھوں کو تھام کر تسلی دینے والا نہیں تھا درد نے اسے ایسے گھیر لیا تھا کہ حواس ساتھ چھوڑ نے لگے تھے۔  بچے کے مسلسل رونے پر نرس جلدی سے آئی اور  اسے تھپتھپا کر پو چھا کہ وہ بچے کو دودھ کیوں نہیں پلا رہی ہے لڑکی نے دوسری طرف کروٹ لے لی جیسے بچے سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو۔  نرس نے اسے پھر مخاطب کیا ’’اے تمہیں کیا تکلیف ہے بابا کو کیوں رلا رہی ہو ؟کیا تمہارے ساتھ کوئی نہیں ہے اس کا پپا کدھر ہے ‘‘نرس نے بچے کو ہاتھوں پر جھلا تے ہوئے پوچھا ’’انوشہ‘‘اُسے کیا جواب دیتی کہ اس کا پپا کون ہے اور  کوئی بھی اس کے ساتھ کیوں نہیں ہے ؟انوشہ اپنے بچے کے رونے پر تڑپ اٹھی تھی۔  وہ یہی سوچ کر رو رہی تھی کہ جس طرح بچے کی محبت میں وہ تڑ پ رہی ہے ایسی تڑ پ اس کی ماں کے دل میں اس کے لئے کیوں نہیں تھی ماں کو اس کی ذرا بھی پروا نہیں تھی وہ تو اس سے جلتی تھی ‘‘ماں جو اس کائنات کی بنیاد ہے مقدس ہستی ہے دنیا کی ہر چیزسے بلند ترین ہے۔  اور  اس کا دل موم کا ایک ٹکڑ ا ہے جو مامتا کی آنچ پر پگھلتا رہتا ہے پھر اس کی ماں ایسی کیوں ہے جس نے اس کے باپ سے علیحدگی اختیار کر لی اور  سوتیلے باپ کو اس کے سرپر مسلط کر دیا۔  ویسے ماں ہے تو ایک حسین ترین عورت لیکن اس کا دل حسین نہیں ہے شاید حسین عورتیں اپنی ناز برداری کروانا چاہتی ہیں اس کا باپ سرکاری ملازم اس کے بس میں نہیں تھا۔  سوتیلا باپ تو بے حد امیر آدمی تھا گھر پر دو تین کاریں اور نوکر چاکر سبھی کچھ تھا وہ انوشہ کو اچھے اسکول میں پڑھا رہا تھا۔  اس کی ہر ضرورت پوری کرتا تھا۔  لیکن ماں کو یہ سب اچھا نہیں لگتا تھا۔  اور  جس دن انٹر کا نتیجہ نکلا اس دن تو اس نے اپنے دل کی بھڑ اس نکال لی۔  انوشہ نے فرسٹ ڈیویثرن میں انٹرپاس کیا تھا سوتیلے باپ نے ایک خو بصورت لاکٹ تحفہ دیا ماں سے دیکھا نہ گیا اس نے وہ چین انوشہ کے ہاتھ سے چھین لی اور اسے اپنے کمرے میں چلے جا نے کہا۔  جب باپ نے اسے سمجھا نے کی کوشش کی تو وہ اس پر برس پڑی۔

’’میں دیکھ رہی ہوں دن بہ دن تمہاری مہربانیاں اس لڑکی پر بڑھتی جا رہی ہیں آخر بات کیا ہے ؟‘‘

’’کیا تم باپ بیٹی کے رشتہ پر شک کر ہی ہو کیا یہ میری بیٹی نہیں ہے ؟‘‘’’ہاں رہنے دو میں خوب سمجھتی ہوں سگے باپ نے پلٹ کر نہیں پوچھا اور  تمہارے دل سے اس کے لئے محبت کے سوتے پھوٹ رہے ہیں۔۔۔۔۔ ‘‘انوشہ حیرت زدہ سی کھڑی سب کچھ سنتی رہی پھر اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر لیا۔  پوری رات اس نے آنکھوں میں کا ٹ دی اور ایک فیصلے کے تحت کچھ کپڑے ،کتابیں اور  اپنا جیب خرچ بچا کر جمع کی ہوئی رقم سوٹ کیس میں رکھ لی سورج کی پہلی کرن نمودار ہو نے سے پہلے گھرسے نکل گئی۔  سیدھے ریلوے اسٹیشن گئی ٹکٹ لیا اور  ٹرین میں سوار ہو گئی دوپہر ڈھل رہی تھی اس نے ٹرین سے اتر کر آٹو لیا اور  اپنی دوست کے گھر کا پتہ بتا یا کچھ ہی دور گئی تھی کہ اسے ایک درگاہ نظر آئی جا نے کس خیال کے تحت اس نے آٹو کو وہیں پر رکوایا اور اتر پڑی  درگاہ میں کچھ لوگ سورہے تھے کچھ عبادت میں مصروف تھے وہ بھی ایک کونے میں بیٹھ گئی۔  اس کا ذہن عجیب و غریب خیالات میں الجھا ہوا تھا انجانا خوف دل پر چھا رہا تھا وہ کہاں جائے کیا کرے اس کا دماغ کام نہیں کر رہا تھا زندگی کے ان معصوم سترہ سالوں میں اس نے کبھی سکھ کا سانس نہیں لیا تھا جب سے ہوش سنبھالا تھا اپنی ماں کو باپ کے ساتھ جھگڑ تے دیکھا تھا اور  اب وہ سوتیلے باپ کے دل پر حکومت اور  اپنی بیٹی سے نفرت کر رہی تھی انہی سوچوں میں دن گزر گیا رات نے اپنے سیاہ پر پھیلانے شروع کر دئے غصہ میں اس نے گھر تو چھوڑ دیا اب دل کو ایک نہ معلوم سا دھڑ کا لگا ہوا تھا وہ ماں کے ہو تے ہوئے اس کی شفقت سے محروم تھی اپنے آپ کو تنہا محسوس کر رہی تھی وہ گھٹنوں میں منہ چھپائے رو رہی تھی۔  اس کے بازو بیٹھی ہوئی ایک ادھیڑ عمر عورت اسے بہت دیر سے دیکھ رہی تھی جیسے اس کی نگرانی کر رہی ہو اس نے انوشہ کو روتے دیکھا تو قریب کھسک آئی اور بڑی ملائمت سے محبت بھرے لہجہ میں پوچھا ’’کیا بات ہے بیتی بہت پریشان معلوم ہو رہی ہو کیا اکیلی آئی ہو ؟‘‘’’ہاں میں گھر چھوڑ کر اکیلی آئی ہوں ماں نے بہت غصہ کیا تھا‘‘ ’’ارے!غصہ کیا تو کیا ہوا چھوٹوں کی غلطی پر بڑے تو غصہ کرتے ہی ہیں ماں ہے کوئی دشمن تو نہیں نا چلو میں تمہیں گھر پہونچا دوں ‘‘’’نہیں میں گھر نہیں جاؤں گی ماں دشمن ہے میں صبح سویرے نکل گئی تھی اب گھر جاؤں گی تو ماں جان کولے لے گی میں نہیں جاؤں گی ‘‘’’صبح کی نکلی ہوئی ہو تو کچھ کھایا پیا بھی ہے یا نہیں ؟‘‘’’نہیں میں یہیں پر سوجاؤں گی‘‘ ’’یہاں سونا تمہارے لئے مناسب نہیں ہے میرا گھر قریب ہی ہے میرے ساتھ چلو وہیں کچھ کھا پی کر سوجاناصبح گھر جا نے کے بارے میں سوچناچلو رات ہو گئی ہے ’’ اس عورت کی ہمدردی نے انوشہ کی ہمت بندھائی اور  وہ اس کے ساتھ چلی گئی ابھی رات کے آٹھ ہی بجے تھے وہ بھوک اور  نیندسے بے حال تھی اس نے پیٹ بھرکر کھانا کھایا اور  لیٹتے ہی سو گئی دوسرے دن اس نے دیکھا کہ گھر میں اس عورت کا جو ان بیٹا بھی ہے جو اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا،  جیسے بن مانگے کوئی لذیذ پھل اس کے دامن میں آ گرا ہو۔ ماں نے بتایا کہ وہ مقامی کالج میں بی کام کر رہا تھا۔  انوشہ نے بھی آگے تعلیم جاری رکھنے کا ارادہ کیا اس عورت نے جب اسے گھر واپس جا نے کہا تو اس نے انکار  کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہیں رہ کر اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہے۔  وہ یہاں رہتے ہوئے ان دونوں سے مانوس و مطمئن سی ہو گئی تھی لیکن ماحول کی یکسانیت سے وہ اکتا گئی تھی ماں کے کہنے پر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی جاوید کے ساتھ شہر گھومنے چلی گئی شام تک وہ مختلف مقامات کی سیر کرتے رہے ایک اچھے ہوٹل میں ڈنر لیا اسی دوران جا وید نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیکر کہا کہ وہ اس کی محبت میں گرفتار ہو چکا ہے اور  اب اس کا جو بھی قدم اٹھے گا اس کی خوشی اور  بھلائی کے لئے اٹھے گا۔  انوشہ کو یہ سب کچھ عجیب لگ رہا تھا لیکن ایک انجانی خوشی کے احساس سے مسر ور تھی۔  دونوں نے ایک اسٹوڈیومیں فوٹو لی اور واپس آئے۔  وہ تھک گئی تھی جلد ہی سو گئی۔  رات کے پچھلے پہر اس کی آنکھ کھل گئی اس نے محسوس کیا کہ کوئی اس سے چمٹا ہوا ہے وہ آنکھیں پھاڑے ادھر دیکھنے کی کوشش کر رہی ہاتھ نے اس کا منہ دبا دیا۔۔۔   آج اس نے اپنا گوہر آبدار جا وید کے ہاتھوں لُٹا دیا وہ اسے تسلیاں دیتا رہا ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھاتا رہا صبح وہ لٹی لٹی بکھری ہوئی نڈھال بیٹھی ہوئی تھی جا وید کی ماں کے پوچھنے پر اس نے بتا یا کہ وہ تھک گئی تھی نیند برابر نہیں آئی جا وید کے جا نے کی بعد وہ اپنی دوست کے گھر جانے نکل گئی راستہ بھر وہ روتی اور  سوچتی رہی کہ پہلے ہی ممتاز کے گھر چلی جاتی تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا وہ اس سے لپٹ کر زار و قطار روتی رہی پھر اپنے لٹنے کی داستان سنائی۔  ممتاز نے انوشہ کو تسلی دی۔  ’’انو جو ہو گیا سو ہو گیا تمہیں اپنا گھر نہیں چھو ڑ نا چاہئے تھا ماں آخر ماں ہوتی ہے تم حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتیں تو بہتر تھا‘‘ ’’حالات سے سمجھوتہ کر نا ممکن نہیں تھا ماں مجھے ایک منٹ کے لئے بھی اپنی نظروں کے سامنے نہیں دیکھ سکتی تھی اگر والد کا پتہ معلوم ہوتا تو انکے ہاں چلی جاتی پتہ نہیں وہ کہاں ہیں تم فی الحال آرام کرو پھر کہیں ملازمت کے لئے کوشش کریں گے تم بے حد حسین ہو کمپیوٹر میں ماہر ہو ملازمت ملنے میں دیر نہیں لگے گی میں اپنی امی سے بات کروں گی تمہیں اپنے ساتھ رکھنے راضی کروں گی‘‘ انوشہ کو ایک کمپیوٹر انسٹیوٹ میں لڑکیوں کو سکھا نے کے لئے ایک ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ پر رکھ لیا گیا لیکن اس کی قسمت کی گردش ختم ہو نے کی بجائے یہاں سے شروع ہوئی اسے پتہ چلا کہ اس کا پیٹ پھولتا جا رہا ہے ہر وقت متلی اور  چکر سی رہتی ہے۔  ممتاز نے اپنی ماں کو بتا یا تو انھوں نے انو کو فوراً چلتا کرنے کہا لیکن ممتاز نے منت سماجت کی کہ وہ اس حالت میں کہاں جائے گی اور  کیا کرے گی وہ اس وقت قابل رحم ہے اس نے ماں کو درگاہ میں ملنے والی عورت اور اس رات کا واقعہ بتا دیا تو ماں کچھ سوچتی ہوئی خاموش ہو گئی وقت جیسے تیسے گزر گیا آج وہ اسپتال میں اکیلی پڑی ہوئی بیتے دنوں کو یاد کر رہی تھی نرس بچے کو اس کے پہلو میں کب سلا کر چلی گئی اسے پتہ نہ چلا۔  ممتاز کے گھر میں باہر کا کمرہ اسے کر ائے پر دید یا گیا تھا وہ وہیں رہنے لگی تین ماہ کی رخصت کے دن پو رے ہو چکے تھے اس نے پھر سے کمپیوٹرسنٹر جا نا شروع کر دیا اس کی غیر حاضری میں دوچار نئے اڈمیشن ہوئے تھے جن میں ایک مسنر داور تھی وہ انوشہ کی شخصیت اور  حسن بے مثال سے اتنی متاثر ہوئی کہ اس سے دوستی کر لی اور اُسے بتا یا کہ اس کے چا چا کی گفٹ انیڈ ناولٹیز کی بڑی دو کان ہے وہاں اُسے معقول تنخواہ پر سیلزگرل کا کام مل سکتا ہے دوسرے دن وہ مسنر داور  کے ساتھ اس کے چاچا کی دوکان پر گئی انھوں نے انوشہ کے حسن بلا خیزکو دیکھا تو دیکھتے رہ گئے انھیں ایسی ہی کسی سیلزگرل کی تلاش تھی اسے تین ہزار مشاہرہ پر رکھ لیا گیا انوشہ تین گنا تنخواہ کی بات سن کر پھولے نہیں سما رہی تھی پھر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ اس دوکان پر گا ہکوں کاتانتا بندھ گیا تھا۔  دوسرے ہی مہینے انوشہ کی تنخواہ میں اضافہ کر دیا گیا وہ خوش تھی اس نے بچے کی دیکھ بھال کے لئے آیا کا بھی انتظام کر لیا وہ بڑی حد تک مطمئن تھی لیکن ایک جوان عورت کو جینے کے لئے اور  بھی کچھ چاہئے روٹی ، کپڑا اور مکان کے علاوہ محبت کرنے والا کوئی اپنا!!جس کی رفاقت میں ذہنی وجسمانی آسودگی مل سکے۔ اس کی پرسوزاداس آنکھیں ہمیشہ دور خلاؤں میں گھورتی رہتیں امید کی کرن نظر نہیں آتی ہزاروں کے ہجوم میں اپنے آپ کو تنہا پا کر دل پر ایک انجا نا خوف چھا یا رہتا راستہ خاردار اور  منزل دور زندگی کا سفر کیسے طئے ہو ؟!۔

نئے گاہکوں میں ایک فوجی کیپٹن بھی تھا جو کچھ نہ کچھ خریدنے کے لئے ہر  روز دوکان پر آنے لگا تھا اور جب تک وہ دوکان میں رہتا تب تک انوشہ اس کی نظروں کے حصار میں ہوتی وہ اپنے حسن جہاں سوز کی کر شمہ سازیوں سے بے خبر اپنے کام میں مصروف رہتی۔  لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ اس نے کیپٹن کو نظر انداز کیا ہو خوبرو خوش کلام اور  با وقار کیپٹن رضوان پہلے ہی دن آنکھوں کے راستے اس کے دل میں اتر چکا تھا اور  ایک دن رضوان نے شادی کا ارادہ ظاہر کر دیا یہ جانتے ہوئے کہ انوشہ ایک بچے کی ماں ہے اس نے ایک بات کی وضاحت کر دی کہ وہ انوشہ کے بچے کو اپنا نام نہیں دے گا انوشہ کو یہ بات ناگوار گزری لیکن اس نے سوچاکہ زندگی گزارنے کے لئے ایک مضبوط سہا رے کی ضرورت ہے رضوان جیسا تعلیم یافتہ اور  ذی حیثیت پاسباں ہر عورت کے نصیب میں تو نہیں ہوتا خوش بختی اس کے درپردستک دے رہی تھی خوبصورت خواب آنکھوں میں جھوم رہے تھے دلکش تمنائیں دل میں انگڑائیاں لے رہی تھیں انوشہ نے اپنی سوراخ زدہ کشتی رضوان کے سہارے سمندر میں ڈال دی دونوں نے کو رٹ میریج کر لی بہت سارا وقت جیسے پر لگا کر اڑ گیا انوشہ رضوان کے دو بچوں کی ماں بن گئی  نو ید بھی بڑا ہو گیا اور  اچھی طرح سمجھنے لگا تھا کہ رضوان اس سے محبت کیوں نہیں کرتا کیونکہ وہ اس کا باپ نہیں تھا اس کا باپ تو وہ ہے جو ماں کے ساتھ فو ٹو میں ہے۔  وہ اپنے چھوٹے بہن بھائی سے جلنے لگا تھا کیونکہ انوشہ رضوان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اس کے بچوں کا بہت خیال رکھتی تھی نوید اپنے دل کی بھڑ اس نکالنے کیلئے ان بچوں کو مارتا پیٹتا اور  نت نئی شرارتیں کر کے ماں کو جلاتا رہتا۔  اسکول میں بچوں کی چیزیں چرانا انکے ٹفن کھا لینا یا پھینک دینا اور  مار پٹائی کرنا اس کا معمول بن گیا تھا ماں کو بلوا کر اس کی شکایت کی جاتی تو انوشہ پیارسے اسے سمجھاتی لیکن وہ ماں کی بات کو خاطر میں نہ لاتا اسکول میں اس پر سختی کی جانے لگی تو وہ کئی کئی دن غیر حاضر رہنے لگا محلے کے آوارہ لڑکوں کے ساتھ دوستی ہو گئی اور وہ انکے ساتھ دوکانوں اور  مکانوں میں چوری کرنے لگا۔  رضوان کے پاس اس کی شکایتیں آنے لگیں اب نوید کو سمجھانایا رضوان کی سزاسے بچانا انوشہ کے اختیار میں نہ رہا۔  وہ نہیں جانتی تھی کہ اس محروم محبت کا دماغ ایک آتش فشاں بن چکا تھا۔  اس نے رضوان کو ڈرتے ڈرتے مشورہ دیا کہ وہ نوید کوکسی بورڈنگ میں شریک کرا دے گھر کے سکون اور عزت کی خاطر اس نے انوشہ کا مشورہ قبول کر لیا لیکن نوید اس کے لئے ہر گز تیار نہ ہوا۔  کئی دن تک سوچنے کے بعد انوشہ نے ایک فیصلہ کیا وہ نوید کوساتھ لے کر اس کے باپ جا وید کے گھر گئی اتفاق سے وہ گھر پر اکیلا مل گیا سالوں بعد دونوں کاسا منا ہوا تھا رسمی سی گفتگو کے بعد انوشہ نے نوید کا ہاتھ جاوید کے ہاتھ میں دے دیا لیکن جاوید نے اسے اپنا بیٹا ماننے سے انکار کر دیا اور  بتایا کہ اب وہ ایک شادی شدہ مرد ہے اور  اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سکون کی زندگی گزار رہا ہے انوشہ کے پیروں سے زمین کھسک گئی اس کی لا کھ کوشش اور  یقین دلانے کے باوجود وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔  نوید جو دونوں کی گفتگو بغور سن رہا تھا اچانک جاوید کے پیروں سے لپٹ کر رونے لگا ’’ابو مجھے اپنے پاس رکھ لو ماں اور  نئے ابو مجھے ہمیشہ مارتے اور  جھڑ کتے رہتے ہیں میں اب کبھی یہاں سے نہیں جاؤں گا مجھے اپنے پاس رہنے دوابو آپ میرے ابو ہو میں آپ کا بیٹا ہوں ‘ وہ بلک بلک کر رو رہا تھا لیکن جا وید جیسے پتھر کا بن گیا تھا اس نے جھٹکے سے نوید کو الگ کر دیا اور  انوشہ کو فوراً چلے جا نے کہا۔  ماں بیٹے دل بر داشتہ روتے ہوئے واپس ہو گئے۔  انوشہ نے رضوان سے کہا کہ وہ کسی طرح نوید کو بورڈ نگ میں شریک کر ادے۔  وہ جاوید سے مل کر آنے کے بعد اور  بھی چڑ چڑا ہو گیا تھا پھر بھی ماں کے سمجھانے اور  رضوان کے سختی کرنے پروہ بورڈنگ کے لئے آمادہ ہو گیا۔  نئی جگہ نیا ماحول اور  نئے دوستوں میں وہ کھوسا گیا لیکن محبت کرنے والی ٹیچر س،  پھلوں ’ پھولوں اور  کھلونوں سے  لدے ہوئے آنے والے دوسرے لڑکوں کے والدین کو دیکھ کر وہ بکھر جاتا اس کے اندر کا مخفی آتش فشاں پھوٹ پڑتا۔  تو ڑ پھوڑ مار پٹائی اور  جھگڑے شروع ہو جاتے سزاکے طور پر اسے بھی مار پڑتی اور  جرمانے عائد ہو تے ماں چوری چھپے جرمانے بھرتی رہی وقت گزرتا رہا۔  اور  ایک دن معلوم ہوا کہ نوید بور ڈنگ سے بڑی رقم کی چوری کر کے بھاگ گیا رضوان کے ہاں نوٹس بھیجی گئی۔  نوید سیدھے جا وید کے گھر گیا رقم اس کے حوالے کر دی اور اسے اپنے پاس رکھ لینے کی التجا کرتا رہا۔  جاوید نے کچھ دیر سوچنے کے بعد اسے رہنے کی اجازت دے دی۔  نوید نے سکون کا سانس لیا ہی تھا کہ سوتیلی ماں نے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا وہ نوید کے وجود کو اپنے گھر میں برداشت نہیں کر رہی تھی۔  نوید سے نوکروں جیسا سلو ک کر نا اس پر جھوٹے الزام لگا نا اور  سزاکے طور پر کھا نا پانی بند کر دینا روز کا معمول تھا۔  نوید کو جا وید پر غصہ آتا کہ وہ ماں کوسمجھاتا کیوں نہیں اس سے تو سو تیلا باپ اچھا تھا ماں کی قربت تھی نئے باپ کے بچوں سے بچی کھچی محبت بھی مل جاتی تھی اگر میرا ہی باپ سیدھا ہوتا تو میری زندگی کا یہ حشر نہ ہوتا۔  نوید کے اندر کا آتش فشاں پھٹ پڑ ااس نے موقع پا کر باپ کی سو پ فیکٹری میں آگ لگا دی جو شہر کی جانی مانی فیکٹری تھی لاکھوں کا نقصان ہوا نوید بہت خوش تھا۔  ماں نے ساراغصہ نوید پر نکالا کہ اس منحوس کی وجہ سے نحوست اور  پریشانیوں نے ہمارے گھر کا راستہ دیکھ لیا ہے اس کو فوراً یہاں سے دفع کیا جائے۔  نوید کا دل بھی اچاٹ ہو چکا تھا باپ سے کچھ پیسے مانگے اس نے دینے سے انکار کر دیا نوید خالی ہاتھ نکل پڑ ا۔  پرانے دوستوں سے مل کر پرانی روش اختیار کر لی۔  دن بھر ہو ٹل میں کام کرتا اور  رات چوری کرنے میں گزارتا اب وہ چھوٹی موٹی چوریوں کو بچوں کا کھیل سمجھنے لگا تھا کیونکہ وہ اب بچہ نہیں رہا تھا وہ اسکوٹروں اور  کاروں کو صاف اڑا لے جاتا پولس کو اس کی طرف سے معقول آمدنی تھی۔  ایک ہائی وے پر رات کے اندھیرے میں نوید اور ا سکے ساتھیوں نے ایک کا رکو روکا جس میں ایک عورت اور ایک مرد سفر کر رہے تھے مرد خاصہ تگڑا اور  طاقتور تھا مشکل سے قابو میں آیا جسے ان لوگوں نے ایک درخت سے باندھ دیا اور  نقد رقم چھین لی عورت کو بھی دو سرے درخت سے باندھ دیا اور  ان کی کار لے کر نکل گئے۔  دوسرے دن کے اخبار میں اس ڈکیتی کے بارے میں نوید نے پڑھا کہ جن لوگوں کو رات انھوں نے لو ٹا تھا وہ کیپٹن رضوان اور  اس کی بیوی انوشہ تھی جو درخت سے بندھی ہوئی دم توڑ چکی تھی جسے دل کا دورہ پڑا اور  اس کی موت کا باعث دِل کا دورہ تھا۔  ’’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے!!‘‘

٭٭٭

 

 

 

 شام غم کی قسم

 

یہ بے کسی کے اندھیرے ذرا تو ڈھلنے دے

بجھا نہ دے مرے دل کا چراغ جلنے دے

نہ سن سکے تو یہیں ختم ذکر غم کر دوں

جو سن سکے تو میری داستاں چلنے دے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم کیا جانو ان دو سالوں میں ، میں کیا سے کیا ہو گئی ہوں موم کی طرح پگھل رہی ہوں ٹوٹ پھو ٹ کر بکھر رہی ہوں صدیوں کی تنہائی کا کرب جھیلتے ہوئے میرا ہر جذبہ ہر احساس مجروح ہو چکا ہے روحانی اضطراب پر قابو پانے کے لئے میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور  لب سی لئے تھے لیکن آج یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے میرے زخم کا ہر ٹانکا ٹوٹ گیا ہے۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔  OOO۔۔۔۔۔۔

شام کا دھند لکا گہرا ہوتا جا رہا تھا پرندے اپنے اپنے بسیروں کی طرف محو پرواز تھے راحیلہ اپنے کمرے میں اکیلی بیٹھی ہوئی دور خلاؤں میں گھور رہی تھی۔  اس کے ہاتھ میں ظفر کا خط تھا اس نے لکھا تھا کہ وہ اگلے ماہ عید پر آ رہا ہے پچھلے دو سال سے وہ یہی بات لکھتا رہا ہے۔  سمندر پار جا نے والے کیا جانیں کہ ایک بر ہن ان کی یادوں کے الاؤ میں کس طرح ایک کچی لکڑی کی مانند جلتی رہتی ہے وہ آسمان کی طرف ٹکٹکی باندھے گھور رہی تھی۔  کالی گھٹائیں امنڈ امنڈ کر آ رہی تھیں جسیے ابھی برس پڑیں گی۔  آج پھر کسی نے طلعت محمود کی مشہور زمانہ غزل کی دھن با نسری پر چھیڑ دی تھی ’’شام غم کی قسم آج غمگیں ہیں ہم آ بھی جا آ بھی جا آج میرے صنم۔ ‘‘بھیگا بھیگا موسم ، ظفر کی یاد اور  درد میں ڈوبی ہوئی بانسری کی دھن!وہ نڈھال ہوئی جا رہی تھی۔  شادی کے صرف ایک ماہ بعد وہ سعودی چلا گیا اور  وعدہ کیا تھا کہ ایک سال بعد لوٹ آئے گا لیکن تین سال گزر جانے پر بھی وہ نہیں آیا تھا۔

راحیلہ کی ماں اس کی شادی کے لئے کس قدر پریشان تھی۔  پاس پڑ وس کی عورتیں ، رشتے دار اور  سہیلیاں اپنے اپنے بیٹوں یا بھا ئیوں کے لئے راحیلہ کو بے حد پسند کرتی تھیں۔  کھلتا ہوا چمپئی رنگ ، ستواں ناک ، بڑی بڑی غلافی آنکھیں ، موتیوں جسیے دانت اور  سروجسیاقد۔  مرمریں جسم کا ہر زاویہ دلکش تھا۔  راحیلہ ایک ہی نظر میں ہر کسی کو بھا جاتی لیکن انکے ہاں گھوڑے جوڑے کے نام پر دینے کیلئے نو ٹوں کے انبار نہیں تھے اور  نہ ہی نئے ماحول اور خیالات کے مطابق جہیز تھا اس لئے راحیلہ کی ماں اس بات کوپسند نہیں کرتی تھی کہ شادی کے چند دن بعد ہی دولہاسات سمندر پار کولہو کے بیل کی طرح پسنے چلا جائے اور  نئی نویلی دلہن سونی سیج سجائے بے دردسناٹوں کی آغوش میں پڑی سسکتی رہے پھر آپ ہی سوچتی کہ چلو باہر جانے سے روٹی کا تو سہاراملا ورنہ یہاں ملازمت کب ملتی اور  مل بھی جاتی تو کسی معمولی عہدہ پر کام کرنا پڑتا اور  آمدنی بندھی ٹکی ہوتی۔

عید کا دن ا گیا ہر سال کی طرح ظفر کو نہ آنا تھا نہ آیا چاروں طرف خوشیاں بکھری پڑی تھیں لیکن راحیلہ کے دل پر ادا سیوں کا راج تھا۔  وہ کسی کام سے بڑے بھیا کے کمرے میں گئی تو دیکھا کہ بھائی اپنے مہندی رچے ہاتھوں سے بھیا کو شیر خر ما پلا رہی ہیں پھر وہ سرمہ دانی دینے کیلئے چھوٹے بھیا کے کمرے میں گئی تو دیکھا وہ بھابی کے بالوں میں پھولوں کا خوبصورت گجرا لگا رہے تھے راحیلہ پر نظر پڑی تواس کے ہاتھ میں دو گجرے تھما دئیے۔  راحیلہ کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں وہ تیزی کے ساتھ پلٹی اور  اپنے کمرے میں آ کر بیٹھ گئی اس کے بیڈ پر ظفر کا خط اور  عید کارڈ پڑے اس کا منہ چڑا رہے تھے۔  اس نے الماری سے لیٹر پیڈ نکالا اور  بیٹھ گئی اس کا قلم تیزی سے چل رہا تھا۔

’’تم کیا جا نو ان دو سالوں میں ، میں کیا سے کیا ہو گئی ہوں موم کی طرح پگھل رہی ہوں ٹوٹ پھوٹ کر بکھر رہی ہوں صدیوں کی تنہائی کا کرب جھیلتے ہوئے میرا ہر جذبہ ہر احساس مجروح ہو چکا ہے روحانی اضطراب پر قابو پانے کے لئے میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور  لب سی لئے تھے لیکن آج یوں محسوس رہا ہے جسیے میرے زخم کا ہر ٹانکا ٹوٹ گیا ہے شادی ایک معاہدہ ہے جس کے بعد ہر جوان لڑکی محبت اور  خوشیوں سے بھری زندگی کا تصور لئے اپنے دیوتا کے من مندر میں قدم رکھتی ہے۔  تم سے شادی کے بعد میں نے بھی نیلے آسمانوں کی تمام تروسعتوں کو اپنی بانہوں سمیٹ لینا چاہا تھا۔  تمہاری دی ہوئی لمحاتی رفاقت کو میں نے دائمی سہارا سمجھ لیا اور  زمین پر جنت بسانے کی آرزو لئے بیٹھی تھی۔  میرے خوابوں خیالوں کی تمام رنگینیاں تمہارے وجود میں مجسم ہو گئی تھیں۔  لیکن آج میری روح کے اندر ویرانی کا راج ہے آج دنیا میری نظر میں ایک تاریک قفس بن گئی ہے ہر شئے اجنبی سی لگ رہی ہے اور  میں ان اجنبی چہروں کے درمیان معلق اور  مصلوب ہو کر رہ گئی ہوں میں کیا کروں۔۔۔۔۔۔

راحیلہ کو بانسری کی آواز نے چونکا دیا کم بخت نے عید کا دن بھی نہیں چھوڑ ابانسری رو رہی تھی ’’شام غم کی قسم آج تنہا ہیں ہم‘‘ وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی بالکنی میں آ گئی پہلی بار بانسری بجا نے والے کو دیکھ رہی تھی وہ آنکھیں بند کئے اپنی ہی دھن میں مست تھا۔  جسیے کوئی پجارن اپنے دیوتا کی پو جا میں مگن ہو۔  اسے کیا دکھ تھا اس کے من مندر کی دیوی کون ہو گی کہاں ہو گی وہ بانسری پر صرف یہی دھن کیوں بجاتا ہے آج وہ بھی اسی دھن کو جی بھر کر سننا چاہتی تھی۔  اس کے اندر کہیں ٹوٹ پھوٹ سی ہونے لگی اچانک اس کے دل نے سر گو شی کی یہ تو نے بڑی بوڑھیوں جیسا حلیہ کیوں بنا رکھا ہے تجھے جس نے بھلا دیا تو بھی اسے بھلا دے زندگی ایک بار ملتی ہے اور  زندگی میں جوانی ایک ہی بار آتی ہے۔  ہر کسی کو اپنی زندگی اور  جوانی پر اختیار ہے کہ وہ ان پھولوں کی ہر پتی سے مسرتو شادمانی کا امرت رس نچوڑ لے سوچ کیا رہی ہے ؟

ضمیر کے کسی کونے سے آواز آئی ’’نہیں نہیں! میں تجھے آزاد ہونے کی اجازت نہیں دے سکتا مجھے تیری نگہبانی کے لئے پیدا کیا گیا ہے ‘‘۔

دل کہتا ’’کب تک تنہائی کے اس لق و دق صحرا میں بھٹکتا رہوں کب تک فراق کی ان خاردار جھاڑ یوں سے الجھتا رہوں ؟ ضمیر نے کہا’’اس راستے پر چلنے کے لئے کیوں مچل رہا ہے جس پر چل کر راہی منزلوں سے بھٹک کر دور کہیں اندھیروں میں کھو جا تے ہیں اپنے جسم کے قفس میں قید تو ایک مشرقی۔۔۔۔۔۔   ایک مشرقی روح ہے تو کسی کی امانت ہے عزت اور  شرافت کے دار پر چڑھ جا آپ اپنا گلہ گھونٹ لے کہ یہی ایک شریف لڑکی کا شیوہ ہے ‘‘عقل اور  دل کی جنگ کے درمیان راحیلہ کی روح کے سناٹے  چیخ پڑے وہ دوڑتی ہوئی اپنے کمرے میں گئی دروازے اور  کھڑ کیاں بند کئے اور  اپنی شادی کا البم لیکر بیٹھ گئی وہ تصویریں دیکھتی رہی اس کی آنکھوں سے جھرنے بہہ رہے تھے وہ روتے روتے ہنس پڑی اور  ہنستے ہنستے رونے لگی پھر اچانک چلا اٹھی ظفر تم کہاں ہو ؟ کہاں ہو ظفر ؟ ظفر!وہ دروازہ کھول کر باہر نکلی اور  چلاتی ہوئی پورے گھر میں اسے تلاش کر رہی تھی گھر کے لوگ حیران پریشان اس کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔  کسی نے پو چھا کہاں دیکھا ہے تم نے ظفر کو ؟‘‘وہ ابھی ابھی میرے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے کیا آپ لوگوں نے نہیں دیکھا ؟ کہاں چلے گئے وہ ؟

راحیلہ کی سوجی ہوئی آنکھوں سے وحشت سی برس رہی تھی ظفر کی بہن نے اسے پکڑ کر جھنجھوڑا اور  کہا ظفر آیا ہی کب تھا ؟ کیا دیوانی ہو گئی ہو ؟ دیوانی ؟ ’’ہاں میں دیو انی ہو گئی ہوں پاگل ہو گئی ہوں مجھے مارو جلا دو سنگسار کر دو!ظفر کہاں ہو میرے سامنے آؤ اتنے تو سنگ دل نہ بنو تم نے مجھے محبت کے جذبہ سے آشنا کیا اور  میں نے تمہیں اپنا مسجو دبنا لیا تمہاری محبت کے سائے میں جینا چاہتی تھی گھونٹ گھونٹ کر زندگی کا امرت رس پینا چاہتی تھی۔  تم نے مجھے تشنہ لب چھو ڑ دیا میرے وجود میں چنگا ریا بھر دیں جدائی کے ریگستان میں تنہا چھوڑ دیا اب میں کہاں جاؤں ؟ تمہیں کہاں ڈھونڈوں ؟آ بھی جاؤ ظفر آ جاؤ نا!‘‘وہ ہذیانی انداز میں چلا رہی تھی اور  بانسری کی دھن اس کی آواز میں مد غم ہو رہی تھی۔  شام غم کی قسم آج تنہا ہیں ہم آ بھی جا آ بھی  جا آج میرے صنم!!

٭٭٭

 

 

قا تل مسیحا

 

’’ہوں گنہ گار بخدا! مجھکو سزا دی جائے ‘‘

ہاتھ اٹھا کر مرے قاتل کو دعا دی جائے

برق کی زد میں رہے جس کی بدولت گلشن

کیوں نہ وہ شاخِ نشیمن ہی جلادی جائے

۔۔۔۔۔۔

وہ ہارے ہوئے جواری کی طرح سرجھکائے شیشے کی کرچیوں پر چلتی ہوئی کار تک آئی ٹیک لگا کر گہری گہری سانسیں لیتی رہی گھر کیسے پہنچی اسے یاد نہیں وہ اپنے مالک کے آگے سجدہ ریز ہو کر زار و قطار رونے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنے کمرے کی کھڑ کی کھولے جانے وہ کب سے چا ند پر نظریں جمائے کھڑی تھی جیسے چاند میں کسی کو تلاش کر رہی ہو زندگی کی ناؤ کو بیچ منجدھار چھوڑ کر مانجھی کہیں گم ہو گیا تھا سفید سوٹ زیب تن کئے وہ چاندنی کا ایک حصہ لگ رہی تھی شوہر کا مضبوط سائبان سر سے ہٹنے کے بعد انجم کو تنہائی کا شد ید احساس ہوا وہ اکلوتی تھی والدین کے بعد وہی تو اس کا سب کچھ تھا چاندنی راتیں اسے بھی پسند تھیں وہ اکثر لا نگ ڈرائیو پر نکل جاتے ڈھیرسارا وقت کیسے گزر گیا پتہ ہی نہ چلا آج زندگی اماوس کی ایسی اندھیری رات لگ رہی تھی جس کی سحر جیسے کبھی نہ ہو گی۔  تنہائی کے گھنے جنگل میں پا پیا دہ چلتے ہوئے ایک سال ایک صدی بن کر گزرا تھا۔  آرام و آسائش کی کوئی چیز ایسی نہ تھی جو اسے میسرنہ ہو شو ہر نے بیرونی ممالک میں بر سوں محنت کی اور  اس کے قدموں تلے دولت بچھا دی تھی یہی دولت وبال جان بن گئی تھی آج ہی تو اس کے ماموں دنیا کے سرد و گرم سے واقف کروا رہے تھے وہ جو ماں کی زندگی میں بھولے بھٹکے آیا کرتے تھے اچانک انکے دل میں محبتو ہمدردی کا طوفان کیسے امڈ پڑ ا؟ کہہ رہے تھے ’’بیٹا جوان عورت کا تنہا زندگی گزارنا معیوب سمجھا جاتا ہے میں تمہارے غم میں شریک ہوں اس لئے بار بار سمجھا رہا ہوں کہ تم میرے بیٹے سے عقد ثانی کر لو گھر کی بات گھر ہی میں رہے گی تمہاری تنہائی اور  ہماری پریشانی دور ہو جائے گی آخر ہم تمہارے اپنے ہیں۔  ‘‘

کچھ دن پہلے چچا نے بھی ایسی ہی بات کہی تھی والد صاحب کے بزنس پارٹنر تھے انھوں نے بڑا دھوکہ دیا اسی غم میں والد بیمار ہوئے اور  چل بسے انجم اچھی طرح سمجھ رہی تھی کہ ان ہمدردیوں کے پیچھے کو نسا جذبہ کار فرما ہے۔  اپنی تنہا ئیوں سے پیچھا چھڑانے کے لئے وہ اکثر کار لیکر نکل جاتی سٹرکوں پر بے مقصد گھومتی اور  تھک جاتی تو کسی بس اسٹانڈ پر بیٹھ کر آنے جانے والوں کا تماشہ دیکھتی رہتی بچے بوڑھے اور  جوان سب اپنی اپنی دھن میں رواں دواں تھے جیسے آج ہی انھیں اپنی منزل کو پانا ہے کل کس نے دیکھا ہے کل جانے کیا ہو نے والا ہے۔  انہی مسافروں میں ایک دن شبا نہ مل گئی مختصر سی ملاقات دوستی میں بدل گئی تھی وہ اکثر گھر آنے جانے لگی اس کے آنے سے انجم کا کچھ وقت اچھا گزر جاتا شبانہ نے بھی اُسی انداز میں سمجھا نا شروع کیا جس انداز میں ماموں اور  چچا نے سمجھا یا تھا ’’بھئی انجم ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے پنتیس سال میں تو زندگی شروع ہوتی ہے تمہیں چاہئے کہ اپنی جوانی اور  دولت کا نگہبان کسی شریف اور  تعلیم یافتہ بندے کو بنا ہی لو ‘‘۔ ’’نہیں شبانہ!اس دنیا میں کسی شریف اور  نیک بندے کا مل جانا شاید ممکن نہیں آج کا انسان خودغرض اور  لالچی ہو گیا ہے ایسا کوئی سچاہمد رد اور  پاسباں نہیں ہے جس کے سینے پر سر رکھکر اپنے دکھ بھول سکیں ‘‘انجم نے سردآہ بھر کر جواب دیا ’’ایک بار اشتہار دینے میں کیا قباحت ہے ہو سکتا ہے تمہارا خیال غلط ثابت ہو جائے ‘‘۔

شبانہ نے زبر دستی اشتہار دے دیا۔  ایک ہفتہ کے اندر سوسے زیادہ اسم نو سیاں فوٹوز کے ساتھ پہنچ گئیں انجم حیران تھی کہ اتنے سارے مرد ایک متمول بیوہ سے نکاح کے آرزومند تھے پتہ نہیں یہ سب اپنی اپنی بیویوں سے کیوں علیٰحدہ ہو گئے ان کی بیویاں کیسے جی رہی ہوں گی باپ کی شفقت سے محروم سسکتے بچے بھی ہوں گے۔  آئی ہوئی اسم نو لیسیوں میں سے دو چار کا انتخاب کر کے شبانہ نے انھیں گھر پر بلوایا۔۔۔  اس کے والد نے انٹر ویو لیا اور  ایک کو منتخب کیا اور  انجم سے ملوا دیا سادگی کے ساتھ نکاح کی رسم انجام پا گئی۔  اس نئی ڈگر پر چلتے ہوئے انجم کبھی سوچتی کہ زندگی کا یہ روپ بر انہیں اسے تحفظ تو ملا اور  کبھی سوچتی کہ اس کا فیصلہ غلط تو نہیں تھا ؟ اس کے کہنے پر شا کرنے کپڑے کا شوروم کھول لیا تھا جوسال بھر کی محنت کے بعد چل نکلا وہ اکثر بزنس ٹرپ پر ہفتہ دس دن کے لئے چلا جاتا تھا۔  انجم نے کبھی ساتھ چلنے کی بات کہی تو وہ ٹال گیا۔  کچھ دنوں سے وہ محسوس کر رہی تھی کہ شا کرکی محبت اور  والہانہ پن پہلے جیسا نہیں ہے اکثر راتوں میں دیرسے آنے لگا تھا وہ سوچ رہی تھی افراط زرانسان کو راہ راست سے ہٹا دیتا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ غلط دو ستوں میں وقت گزار رہا ہوں۔  کوئی ایسا نہیں تھا جس سے بات کر کے وہ اپنی الجھن سلجھا سکتی شبانہ نے اچانک آنا جا نا بند کر دیا تھا انجم مضطرب تھی شام5بجے شبانہ سے ملنے کے لئے اپنی کا رلے کر نکل پڑی اس کے مکان کے قریب پہنچ کر حیران رہ گئی کیونکہ وہاں شا کر کی کار مو جود تھی یہ یہاں کیا کر رہے ہیں انھیں تو بزنس ٹور پر جانا تھا شبانہ سے کو نسا کام آن پڑ ا!؟ مجھے کبھی بتا یا نہیں کہ اس سے ملتے ہیں!! انجم کے بدن میں چنگاریاں سی بھر گئیں جن کی تپش اس کے دماغ کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی وہ معاملے کی گہرائی تک پہنچنے کیلئے آگے بڑھی مکان کی کھلی کھڑ کی کے پاس پہنچ کر رک گئی شا کر کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی ’’شبانہ میں نے کہانا کہ اس سے جلد ہی پیچھا چھڑا لوں گا ہم نے اپنے منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچا نا ہے تمہیں نے تو مجھے یہ راستہ سمجھا یا تھا ذرا صبر کر لو جلدی کرنے میں ہمارا کام بگڑ سکتا ہے اب وہ مجھ پر مکمل بھروسہ کرنے لگی ہے بزنس بھی اچھا چل رہا ہے میں نے تمہارے اور  بچوں کے نام پر معقول رقم جمع کروا دی ہے اور ‘‘۔۔۔  ’’تم نے تو کہا تھا کوئی ایسی چال چلو گے کہ ہم بہت جلد اس کی جائیداد اور  بینک بیلنس کے ما لک بن جائیں گے ؟ اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا!‘‘انجم اس سے آگے نہ سن سکی اس کے اعتماد کو شدید جھٹکا لگا جو بجلی کے جھٹکے سے زیادہ اذیت ناک تھا وہ ہارے ہوئے جواری کی طرح سرجھکائے شیشے کی کرچیوں پر چلتی ہوئی کار تک آئی۔ ٹیک لگا کر گہری گہری سانسیں لیتی رہی گھر کیسے پہنچی اسے یاد نہیں وہ اپنے مالک کے آگے سجدہ ریز ہو کر زار و قطار رو رہی تھی بہت دیر بعد اس نے آنسو صاف کئے اور  ایک فیصلہ کر کے اٹھی وہ بے بسی اور  مجبوری کو گلے لگا کر جینا نہیں چاہتی تھی اسے عورت کی بزدلی اور  بے چارگی سے نفرت سی ہونے لگی وکیل سے صلاح مشورہ کے بعد اس نے دوکان اور  مکان کو مقفل کر دیا۔

دوسرے دن شا کر اور  شبا نہ پر دھوکہ و غبن کا مقدمہ دائر کر دیا۔  پیشیاں چلیں آخری پیشی پر عدالت کا کمرہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور  شا کر بیان دے رہا تھا ’’می لارڈ!اوپر والے کی عدالت سے مجھے کیا سزا ہو گی نہیں جانتا میں آپ کی عدالت میں آپ کا فیصلہ کیا ہو گا دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں اپنی زندگی کے حالات مختصر اً بتانے کی اجازت چاہتا ہوں!می لارڈ!میرے والدسرکاری دفتر میں کلرک تھے ہماری مالی حالت مستحکم نہیں تھی ماں کی زبردستی سے میری شادی جلدی کر دی گئی میں دو سال میں دو بچوں کا باپ بن گیا اخراجات بڑھ گئے والد صاحب اور  میں دونوں مل کر زندگی کا بھرم نبھا رہے تھے۔  می لارڈ!ایک تعلیم یافتہ نو جوان کو ملازمت نہ ملتی ہو، بیرون ملک جانے کے لئے پیسہ نہ ہو، گزر بسر مشکل ہو گئی ہو تو وہ کیا کرے ؟ میں اس دنیا سے اپنی تقدیرسے اپنے آپ سے بیزار تھا اپنے خدا سے خفا تھا اسی دو ران میری بیوی شبانہ کی دوستی ایک دولت مند بیوہ انجم سے ہو گئی اور ہم نے ایک منصوبہ بنایا اور  اسے عملی جامہ پہنا دیا۔  می لارڈ!معاشی نا ہمواری نے ہمارے وطن کے نو جوانوں کو ارزاں کر دیا ہے چوری ، ڈاکہ ، اغوا، اور  قتل جسیے گھنا ؤ نے جرائم کے ذریعہ دولت سمیٹنے میں کوئی قباحت نہیں رہی مرد تو مرد عورتیں بھی اس میدان میں اتر چکی ہیں تقدیر کے لُوٹے ہوئے اور  دلوں کے ٹوٹے ہوئے میری طرح کے لوگ قانون سے کھیلنے لگے ہیں۔  میں نے ایک چھوٹا سا دھوکہ یہی دیا ناکہ اپنی پہلی شادی اور بیوی بچوں کی موجودگی کا اظہار نہیں کیا۔  میں نے ایک بیوہ کو سہارا دینا اور اپنے بھی خاندان کو سنبھالنا چاہا۔  بزنس میں بہت محنت کی اور  دونوں بیویوں کو فائدہ پہنچا یا اب دونوں میں سے جو بھی میرے ساتھ رہنا چاہے رہ سکتی ہے دونوں مل کر رہنا چاہیں تو مجھے بخوشی منظور ہے اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے مجھے اور  کچھ کہنا نہیں ہے ‘‘شا کر خاموش ہوا تو عدالت میں دبا دبا ساشور گو نج اٹھا۔  شبانہ انجم کی طرف چور نظروں سے دیکھ رہی تھی انجم نے اذّیت کا ایک خنجر ساسینے میں اترتا محسوس کیا۔  اُف! خداوند! کون کہتا ہے کہ شیطان سے ڈر لگتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!

٭٭٭

 

 

 

پشیمان آرزو

 

میری درماندہ جوانی کی تمناؤں کے

مضمحل خواب کی تعبیر بتا دے مجھ کو

تیرے دامن میں گلستاں بھی ہیں ویرانے بھی

میرا حاصل! مری تقدیر بتا دے مجھ کو

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’تم جوان ہو زمانہ برا ہے عورت کے دو ہی سائبان ہوتے ہیں ایک تو باپ کا اور  دوسرا شوہر کا، جب یہ دونوں سہارے نہ رہے تو بہتر ہو گا کسی شریف بندے کو زندگی کا ساتھی بنا لو ورنہ یہ زمانہ جینے نہیں دے گا‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اپنے بیوٹی پارلرسے فرح تھکی ہوئی آئی تھی وہ آج کچھ مضطرب اور  مضمحل تھی گزشتہ سال اسی مہینے آج ہی کی تاریخ اس کی شادی ہوئی تھی۔  خواب اور  حقیقت کی سنگلاخ چٹان پر بیٹھی اس رات کے فیصلے کے بارے میں سوچ رہی تھی وہ رات اس کی سہاگ رات تھی جوہر لڑکی کی زندگی میں ایک بار آتی ہے اور  بڑی سج دھج اور  آن بان کے ساتھ آتی ہے جس کا ذکر زندگی کی کتاب میں سنہری حرفوں میں لکھا جاتا ہے۔  شب عروسی کے عطر بیز  خوشگوار لمحے دلہا اور  دلہن کی زندگی کا اثاثہ ہوتے ہیں جسے بنیادبنا کروہ اپنے خوابوں کا محل تعمیر کرتے ہیں اور  اس محل میں ایک ساتھ جینے اور  مرنے کی قسمیں کھائی جاتی ہیں لیکن فرح کی شب عروسی دل اور  دماغ کے لئے میدان کا ر زار بن گئی تھی۔

شادی اس کی مرضی کے خلاف ہوئی تھی۔  اس کی اولین خواہش تھی کہ ہمسفر اعلی تعلیم یافتہ اور  ڈیشنگ پر سنالٹی کا مالک ہو اسے کا لے رنگ کے مرد دبلے پتلے اچھے نہیں لگتے تھے اس کے والدین اور  بھائی نے یہ کہہ کر چپ کرا دیا تھا کہ رنگ کم ہے تو کیا ہوا آخر کو وہ انجینئر ہے دولت اس کے گھر کی باندی ہو گی جہاں بھی پاؤں مارے گا سوکھی زمین سے چشمہ ابل پڑے گا اس نے روہانسی آواز میں جواب دیا تھا ’’کیا صرف انجنئیر ہی اپنے خاندان کو اچھی زندگی دے سکتا ہے کیا باقی سب مرد اپنے بیوی بچوں کو ننگا بھو کا رکھتے ہیں ؟ اس کی دو سری خواہش تھی کہ دلہاکسی بند کا رمیں پھو لوں سے ڈھکا چھپا نہ آئے بلکہ سفید براق گھوڑے پر سوار کمر میں تلوار لگائے ہلکے پھلکے پھول پہنے ہو کہ دیکھنے والے اسے دیکھ کر مرعوب ہو جائیں اس نے جب سے ہوش سنبھالا تھا تب ہی سے اپنے خوابوں کے شہزادہ کا یہی تصور اپنی پلکوں پہ سجار کھا تھا۔  بھائی بہنوں نے کہا کہ پرانے زمانے میں دلہا گھوڑے پر آیا کرتے تھے آج نئی کاروں کی سج دھج ہی اور  ہوتی ہے۔  جب دلہا نے آہستہ سے اس کا گھونگھٹ الٹا تو اسی لمحہ اس نے بھی ادھ کھلی آنکھوں سے دلہا کو دیکھا کس قدر کرب انگیز تھا وہ لمحہ جوا سکے سینے میں بر چھی بن کر اتر گیا اور  ساری زندگی پر محیط ہو گیا اس نے سنا تھا کہ دلہا کا رنگ کم ہے لیکن یہاں تو صرف دوسفید آنکھیں اور  دانت نظر آ رہے تھے اس چہرے کے ساتھ زندگی کیسے بسر ہو گی زندگی تو بسر کرنے کے لئے ہوتی ہے گزارنے کے لئے نہیں!ا سکے خوابوں کا محل ٹوٹ کر بکھر گیا تھا اس نے آہستہ سے آنکھیں بند کر لیں اور  کہا ’’آپ پسند نہیں آئے ‘‘دلہن کا یہ پہلا جملہ پہلی رات! دلہا حیرت زدہ رہ گیا اپنی انا کو مجروح ہوتے برداشت نہ کر سکا اور  اینٹ کا جواب پتھر سے دیا ’’مجھے بھی تم بالکل پسند نہیں آئیں میں تم سے شادی کے لئے راضی ہی نہیں تھا تمہارے والدین کی لچھے دار باتوں اور  دولت کی چمک دمک نے میرے والدین کی عقل کو ماؤف کر دیا میرے انکار پر ماں نے دودھ نہ بخشنے کی دھمکی دے دی اس طرح میں پا بہ زنجیر کر دیا گیا لیکن اس زنجیر کو تو ڑ نا میرے لئے مشکل نہیں ہے ‘‘کہتا ہوا وہ کمرے سے باہر نکل گیا جشن طرب و مسرت ما یوسی کے کربو اذیت میں بدل گیا سہاگ کی ادھ کھلی کلیاں مرجھانے لگیں۔  کچھ دیر بعد دو تین خواتین دندناتی ہوئی آئیں اور  برس پڑیں ’’واہ کیا تربیت کی ہے والدین نے کہ سسرال میں آئے ہوئے دو گھنٹے نہیں گزرے اپنے مجازی خدا کو ایسی واہیات باتیں سنادیں ‘‘؟!چار حروف کیا پڑھ لکھ گئی کہ اپنے آپ کو افلاطون سمجھ لیا ایسی کیا حور پری ہو کہ ہمارے بچے کے عیب نکال لئے تم جیسی آوارہ اور  بد چلن لڑکیاں ہی اپنے ماں باپ کا نام ڈبوتی ہیں کوئی اور  پسند تھا تو یہاں بیاہ کر کیوں آ گئی ؟ بھاگ جاتی اسی کے ساتھ! دفع ہو جا یہاں سے ‘‘۔۔۔

ہزاروں دنوں کی طرح اس دن بھی سورج طلوع ہوا تھا لیکن کتنا اداس تھا وہ دن ، جیسے رات کوئی بھیانک طوفان آیا تھا اور  اپنے ساتھ سب کچھ بہا لے گیا۔  رات وہ سجی سنوری دلہن تھی صبح اس کے چہرہ پر ایک بیوہ کی سی اداسی تھی آنکھیں ویران ہونٹ خشک اور  اجڑی ہوئی مانگ۔  وہ اپنے فیصلے پر نا دم نہیں تھی۔  آخر لڑکیوں کو بھی تو اپنا جیون ساتھی پسند کرنے کا حق ہے ، آج لڑکے والے سوسولڑکیاں دیکھ کر ایک کا بھی انتخاب نہیں کرتے کیا ان کے بیٹوں میں سرخاب کے پر لگے ہوتے ہیں ؟ لڑکی پسند کرنے ، ہمہ اقسام کا سامان مانگنے سونا چاندی بنگلہ گاڑی مانگنے کا حق انھیں کس نے دیا ؟ کیا ہمارے اپنے جذبات نہیں ہیں کیا ہمارے سینوں میں حساس دل نہیں ہے ؟ کیا ہم اعلی تعلیم یافتہ نہیں ہیں ؟

اسی طرح وہ اپنے بھائی بہنوں سے الجھ پڑتی دل برداشتہ والدین سمجھا تے کہ کوئی ماں باپ اپنی اولاد کا برا نہیں چاہتے پال پوس کراسے گڑھے میں نہیں دھکیلتے لڑکیوں کا کام ہے کہ اپنے مقدر پر شا کر رہیں اور  زندگی کے ساتھ سمجھوتہ کریں لیکن تم نے پہلا قدم ہی غلط اٹھایا اور  ساری بسا ط ہی الٹ دی اس زمانے میں لڑکی کی شادی ہو نا ہی ایک مسئلہ ہے کسی مطلقہ کی دوسری شادی اور  بھی بڑ امسئلہ ہے!تم نے ہمیں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رکھا اب کیا کریں ؟

’’آپ لوگ کب تک زمانے سے ڈرتے ڈراتے رہیں گے کیا زمانہ صرف ہمارے پیچھے پڑ ا ہے اوروں کو دیکھیں اپنی زندگی میں کسقد رمست و بے خود ہیں ‘‘ماں نے سمجھا یا ’’کوئی بھی مست و بے خود نہیں ہوتا ہر ایک کا اپنا دکھ الگ الگ ہوتا ہے اعلی ظرف اور سمجھدار لڑکیاں اپنے دکھوں کو ہنس کر جھیلتی ہیں ‘‘

ماں نے جیسے تیسے دوسری بیٹی کی شادی کر دی ورنہ فرح کی طلاق کی خبر عام ہونے پر سارہ کی شادی ہونا مشکل ہوتی۔

فرح کو طلاق لئے ہوئے دس سال گزر چکے تھے وہ اپنی عمر کے تیسرے دہے میں تھی والدین نے بہت کوشش کی اس کی دوبارہ شادی کر دیں لیکن کوئی ڈھنگ کا لڑکا نہیں ملا کبھی کسی اچھے خاندان کے اچھے لڑکے کا رشتہ آتا تو ان کا مطالبہ صرف کنواری لڑکی کا ہوتا یا پھر اعلی عہدہ پر فائز ملازم یا کم از کم ٹیچر کا خواہش مند ہوتا یا پھر کسی کو سعودی یا امریکہ کا ویزا چاہئے تھا فکر و تردد اور  اپنے پرائے کے طعنوں نے والدین کی صحت کو دیمک بن کر چاٹ لیا بھا ئیوں نے تنگ آ کر اپنا اپنا گھر بسا لیا فرح بھاوجوں کی نظر میں ذلیل و خوار ہو گئی اسی غم کو سینے سے لگائے والدین چل بسے۔  بھا ئیوں نے آنکھیں پھیر لیں رشتے داروں نے بھی دوری اختیار کر لی شوہر والی عورتیں اپنے شوہروں پر نظر رکھنے لگیں۔ پڑ وس والی آنٹی نے ہمدردی جتا تے ہوئے کہتیں ’’تم جوان ہو زمانہ برا ہے عورت کے دو ہی سائبان ہو تے ہیں ایک تو باپ کا دوسرا شوہر کا جب یہ دونوں سہارے نہ رہے تو بہتر ہو گا کہ کسی شریف بندے کو زندگی کا ساتھی بنا لو ورنہ یہ زمانہ جینے نہیں دے گا ‘‘پھر وہی زمانے کی بات! زمانے سے ٹکر لینے کے لئے وہ والدین سے ملی ہوئی کچھ رقم بینک سے نکال کر اُس گھر اور  شہر کو خیر باد کہہ دیا جہاں اس کی آرزوئیں حسرتوں میں بدل گئی تھیں جہاں خوابوں کے ادھ کھلے گلابوں کو نوچ کر پھینک دیا گیا تھا اپنوں سے بہت دور ایک نئی بستی بسا نے وہ نا معلوم منزل کی طرف چل پڑی وہ نہیں جانتی تھی کہ اس عمر میں آفتیں ارد گرد منڈلاتی رہتی ہیں اور  قدم قدم چہرے دھوکہ دے جا تے ہیں۔  اس نے ’’فرح بیوٹی پارلر ‘‘کے نام سے شاندار بیوٹی پارلر کھول لیا جہاں اعلیٰ اور  جدید قسم کے ملبوسات کا دیدہ زیب کلکشن بھی رکھا۔ بہت کم عرصہ میں اس کا بیوٹی پارلر خاصو عام کی توجہ کا مرکز بن گیا۔  آزادی خود مختاری اور  پیسے کی ریل پیل نے اسے مست بے و خود بنا دیا آج اچانک کہیں سے اس کی بہن سارہ آ گئی ’’آپا تم نے یہ کیا کیا؟ زندگی کو کھلونا بنا دیا کیوں ؟ تم نے یہ راستہ کیوں اختیار کیا؟ بیوٹی پارلر اور  بو تیک کی حد تک ٹھیک تھا لیکن تم نے اشتہاری فلموں میں بھی کام کر نا شروع کر دیا خاندان کی عزت کا تو پاس لحاظ کیا ہوتا‘‘

’’خاندان ؟ خاندان نے مجھے کیا دیا ہے ؟ اب میں زندگی کو کھلو نا بنا کر کھیلنا چاہتی ہوں ہر دور ہر زمانے میں عورتوں کی زندگی کو کھلونا ہی تو بنا یا گیا ہے زندگی کے بازار میں اسے خریدا اور  بیچا گیا ہے اور  جب دل چاہا توڑ دیا گیا! مرد جب تک اور  جس طرح چاہتے ہیں عورت سے فائدہ اٹھا تے ہیں اور  پھر کسی انجانے مو ڑ پر بھٹکنے کے لئے چھوڑ جاتے ہیں ہم سے ہمارے حقوق کے ہتھیار چھین کر ہمیں نہتا کر دیتے ہیں اخلاقی ضابطوں ،  شرعی بندشوں اور  معاشرتی بندھنوں نے ہمیشہ عورت ہی کو جکڑے رکھا پھر کیوں نہ ہم اپنی زندگی سے کھل کر کھیلیں گھٹ گھٹ کر کیوں مریں ؟ بولو ؟جواب دو؟’’آپا ہوش کے ناخن لو تم بڑی ہو میں تم سے کوئی بحث کر نا نہیں چاہتی صرف اتنا کہنا ہے کہ اب بھی تم اپنا گھر بسا سکتی ہو کسی بھلے آدمی کا ہاتھ تھام کر سکون کے ساتھ زندگی گزارو تم معاشرہ سے ٹکر نہیں لے سکتیں تم ایک دن جیت کر بھی ہار جاؤ گی‘‘

’’کیا میں نے گھر بسا نا نہیں چاہا تھا ؟ مجھے تھامنے کے لئے کتنے ہاتھ میری طرف بڑھے کتنے تھے بتاؤ؟ میں نے زہر کا پیالہ منہ سے لگا لیا ہے جو عورت گھر کی چار دیواری پھاند کر زمانے سے لڑنے کے لئے باہر نکل جاتی ہے اسے اس بات کی پرواہ نہیں رہتی کہ راستے میں راہبر ملے گا یا رہزن! نفع و نقصان کا فر ق بھول جاتی اور  زندگی سودے بازی میں گزر جاتی ہے! مجھے میرے حال پر چھوڑ دو میں ڈالی سے گرا ہوا پھول ہوں جواب کبھی ڈال سے نہیں جڑ سکتا‘‘سارہ اس سے لپٹ کر رونے لگی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

صدیوں نے سزا پائی

 

ہر طرف بکھری ہوئی ہیں خواہشوں کی کرچیاں

شام کی دہلیز پر اب رات کا منتظر ہوں میں

ہر طرف ٹوٹے پڑے ہیں خواہشوں کے آئینے

پھر بھی طالبؔ وقت کے احساس کا نشتر ہوں میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس پر غنود گی سی طاری ہونے لگی تھی آواز ڈوب رہی تھی وہ لیٹ گئی تب ہی ڈاکو نے کچی دیوار میں نقب لگا دی ایک نا دان نے اپنا قیمتی موتی انجانے میں گنوا دیا وہ انمول تحفہ جو ہر لڑکی شب عروسی اپنے دولہا کو پیش کرتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکٹو بر کا مہینہ ختم ہو رہا تھا۔  سردی آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی مو سم خوشگوار ہو گیا تھا اور  صبیحہ کے چہرے پر نیا نکھار آ رہا تھا تیرہواں سال ابھی شروع ہوا تھا۔  اس کے جسم پر گل بوٹے  اگ آئے آنکھوں میں ستارے جھلمل کر رہے تھے گال سیب جیسے ہو رہے تھے ہو نٹوں سے انگور کا رس ٹپکنے کو تھا نئے ارمان جاگ رہے تھے۔ آرزوئیں انگڑائیاں لے رہی تھیں۔  بات بات پر مسکراہٹوں کے پھول گراتی صبیحہ عمر کی اس سر حد میں داخل ہو رہی تھی جہاں پہنچ کر عام طور پر لڑکیاں صحیح راستے کا تعین نہیں کر پاتیں نہیں جانتیں کہ اس راہ پر پھول ہیں یا کانٹے کھائی یا چڑھائی! اس بات کا بھی اندازہ نہیں لگا سکتیں کہ راہبر کون ہے اور  کون رہزن ہے۔  صبیحہ میڑ ک کی طالبہ تھی پڑھائی میں اس کا دل نہیں لگتا تھا لنچ ٹائم میں اپنی دوست اسریٰ سے  گپ بازی میں مصروف تھی ’’اسریٰ جانتی ہو آج کیا ہوا ؟

’’کیا ہوا بھئی بڑی خوش نظر آ رہی ہو!

ہمارے ڈرائیور شابی نے دو لڑکوں کی پٹائی کر دی دو تین دن سے وہ لڑکے اپنی کار میں ہمارا پیچھا کرتے ہوئے اسکول تک آ رہے تھے آج شابی نے ان کی کار کو روک لیا اور      انھیں با ہر کھینچ کر بہت مارا وہ بالکل فلمی ہیرو جیسا لگ رہا تھا بہت مزا آیا ‘‘تم اپنے ڈرائیور کی اتنی تعریف کر رہی ہو ؟ میں نہیں مانتی کہ اسے تم سے اسقدر ہمدردی ہو گی کہ وہ اپنی جان کا خطرہ مول لے!اپنے ہی جیسے کسی ڈرائیور کو پٹی پڑھا دی ہو گی کہ وہ تمہاری کار کا پیچھا کرے اور  اس کی مار پٹائی بھی بر داشت کر لے جا نے اسے کتنی رقم دی ہو گی اور  خود تمہاری نظر میں ہیرو بن گیا ایسا بھی تو فلموں میں ہی ہوتا ہے نا ؟

’’ہاں ہوتا توہے لیکن۔۔۔۔۔۔

’’صبیحہ تم یہ فلموں اور  ٹی وی سیر ئیلس کا چکر چھوڑو اور امتحان کی تیاری شروع کر دو‘‘

’’تم تو بالکل دادی جان کی طرح نصیحتیں کرنے لگتی ہو کبھی تم بھی فلم اور  ٹی وی کا مزہ لے کر دیکھو نا ‘‘صبیحہ نے شوخی سے کہا ’’میری سمجھ میں نہیں آیا کہ تمہارے ممی پا پا نے تمہیں فلم اور ٹی وی دیکھنے کی اجازت کیسے دے رکھی ہے ؟‘‘

’’ان کی بات چھوڑو انھیں ہماری طرف دیکھنے کی فرصت ہی کہاں ہے پا پا اپنے کاروبار میں حیران ،ممی اپنی سہلیوں ، پارٹیوں یا پھر رشتے داروں میں مصروف اور  عامر بھائی کو اپنے دوستوں سے فرصت نہیں میں ٹی وی اور  انٹر نیٹ سے اپنی دل بہلائی کر لیتی ہوں تو کیا برا کرتی ہوں ؟ ‘‘صبیحہ رو ہانسی ہو رہی تھی۔

’’اب تم اس مصروفیت کو ختم کرو امتحان سر پر ہے یہ ہمارا میٹرک کا سال ہے نا ہمیں پاس ہونا ہی ہے اور  آگے پڑھنا ہے ‘‘

’’مجھے کہاں پڑھنا ہے ہمارے خاندان میں لڑکیوں کو میٹر ک کے آگے نہیں پڑھایا جاتا امتحان میں پاس ہوں یا فیل بس شادی کر دی جاتی ہے میری تعلیم سے کسے خوش ہونا ہے ابو نے تو کبھی ہماری رپورٹ دیکھی نہ تعلیمی حالت پر غور کیا ، اور  امی میری تعلیم کی طرف کیا توجہ دیتیں وہ تو ہمارے کھانے پینے کا تک خیال نہیں رکھتیں بس نوکروں نے جو پکا دیا جب دے دیا کھا لئے بس!صبیحہ کے لہجہ میں اداسی گھل رہی تھی ’’تم تو جانتی ہو نا کہ آج مسلمان ہر میدان میں کیوں پیچھے ہیں محض تعلیم کی کمی نے ترقی اور  خوش حالی کے دروازے ہم پر بند کر دئے ہیں ، تمہاری باتوں میں آج لنچ نہیں لے سکے چلو کلاس کی طرف چلتے ہیں ٹائم ہو گیا ہے۔ ‘‘

ظفر بیگ کا تعلق اوسط گھرانے سے تھا برسوں اگر بتی کے کارخانہ میں بطور لیبر کام کیا تھا دس سال پہلے اپنا الگ کاروبار شروع کیا بہت کم عرصہ میں وہ ایک بنگلے اور  کار کے مالک بن چکے تھے۔  اپنے لڑکے عامر اور  لڑکی صبیحہ سے بہت پیار کرتے تھے بچوں کی ہر فرمائش پوری کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔  پیسے کی پر واہ نہ تھی۔  سونے چا ندی کی چمک نے ان کی بیگم صفیہ کی آنکھوں کو چکا چوند ھ کر دیا وہ پچھلا وقت بھول گئی جب صبح سے شام تک گھر کے سارے کام نپٹا کر تھک جاتی تھی۔  آج دو نوکرانیاں گھر کا کام سنبھال رہی تھیں اور  صفیہ اپنی تفریحات میں مشغول رہتی اسے یہ احساس ہی نہیں تھا کہ آج الکٹرانک میڈیا کس طرح بچوں سے ان کا بچپن اور  معصومیت چھین رہا ہے ماں کو پتہ ہی نہ چلا کہ کار کے پیچھے آنے والے دو لڑکوں کو مار کر ان کا ڈرائیور بیٹی کی نظروں میں ہیرو بن چکا ہے اس کے وجود پر چھا گیا ہے۔  ایک دن اسکول جلدی چھوٹ جانے پر شہاب الدین نے صبیحہ سے پو چھا ’’صبیحہ بی بی آپ نے میرے گھر کے بارے میں پو چھا تھا کیا آج آپ کو اپنا گھر بتا دوں ؟ صبیحہ نے خوش ہو کر کہا ’’ہاں ہاں چلو بتادو‘‘کسی سلم ایریا میں اس نے ایک کمرہ کرائے پر لیا ہوا تھا جس سے ملحق چھوٹا ساکچن وغیرہ تھے قفل کھول کر صبیحہ کو بٹھایا اور  اس کے لئے چائے  بسکٹ لے آیا۔ صبیحہ نے مزے لیکر بسکٹ کھاتے ہوئے پوچھا ’’شابی تم ہمیشہ اداس رہتے ہو کیا پرابلم ہے ؟نہ کبھی کوئی بات کرتے ہو نہ ہنستے بولتے ہو ؟

آپ کو کیا بتاؤں بی بی جی آپ بہت چھوٹی ہیں میری اداسی کی وجہ جان کر کیا کریں گی ؟

میں اتنی بھی چھو ٹی نہیں ہوں کہ کسی کے دکھ درد کو سمجھ نہ سکوں بتاؤ نا کیا بات ہے ؟ صبیحہ نے ضد کی۔

’’کیا آپ کو معلوم ہے میں ایک گاؤں کا رہنے والا ہوں موہن سنگھ کی لاری پر ڈرائیور تھا میں اور  میری ماں ایک چھوٹی سے مکان میں رہتے تھے۔  ہمارے پڑ وس میں ایک خوبصورت لڑکی تھی ہم دونوں ایک دوسرے سے پیار کرتے تھے لیکن وہ ایک شہری بابو سے بیاہ دی گئی کچھ دن بعد ماں بھی مجھے ہمیشہ کے لئے چھوڑ گئی میرا کہیں دل نہیں لگتا تھا گاؤں سے کیا زندگی سے بیزار ہو چکا تھا۔  میرا ایک جگری دوست زبردستی مجھے شہر لایا اور  مالک سے بات کر کے مجھے آپ کے ہاں کام پر لگا دیا‘‘

’’اب تو تم خوش ہو نا ؟ یہاں کسی لڑکی سے شادی کر لو سب ٹھیک ہو جائے گا ‘‘بات کرتے ہوئے صبیحہ کی زبان لڑکھڑا رہی تھی جیسے وہ نیند میں ہو۔  ’’مجھ غریب سے شادی کون کرے گا؟ شہاب الدین کے چہرہ پر مظلومیت سی چھا گئی اس کی نظریں صبیحہ کے چہرہ پر مرکوز تھیں

’’میں تمہارے لئے کوشش کروں گی امی سے کہوں گی کہ۔۔۔۔۔۔  باتیں کرتے ہوئے صبیحہ نے سارے بسکٹ کھا لئے اور  چائے پیتے ہوئے اس پر غنو دگی سی طاری ہو نے لگی تھی آواز ڈوب رہی تھی وہ لیٹ گئی تب ہی ڈا کو نے کچی دیوار میں نقب لگا دی۔  ایک نا دان نے اپنا قیمتی موتی انجانے میں گنوا دیا وہ انمول تحفہ جو ہر لڑکی شب عروسی میں اپنے دولہا کو پیش کرتی ہے صبیحہ کی دوشیزگی کی کتاب کا پہلا ورق میلا ہو گیا نیم بے ہو شی کے عالم میں وہ ایک نئی دنیا کی سیر کر رہی تھی۔  بے لگام جوانی سودوزیاں سے بے خبر کر انجام سے لا پرواہ ایک انجانی شاہراہ پر دوڑتی چلی جا رہی تھی وہ اکثر و بیشتر آخری ایک دوپیریڈس چھو ڑ کر شہاب کے ساتھ چلی جاتی اور  پھر اپنے ٹائم پر گھر پہنچ جاتی چہرہ کا رنگ نکھر گیا تھا جسم بھر ابھرا لگ رہا تھا پاؤں تھے کہ زمین پر نہیں پڑ تے تھے چڑھتی عمر کے لحاظ سے کسی نے اس بات کو اہمیت نہیں دی وقت دبے پاؤں گزر گیا امتحان شروع ہوئے لیکن صبیحہ اور ہی پڑھائی میں مصروف تھی لہذا فیل ہو گئی خاندانی دستور کے مطابق والدین کو اس کی شادی کی فکر ہوئی دولت مند گھر انہ تھا رشتوں کی لا ئن لگ گئی۔  خاندان کے اور باہر کے لڑکوں کے رشتے آنے لگے جو بھی لوگ اسے دیکھنے آتے اپنی پسند کا اظہار کر دیتے لیکن دوبارہ ادھر سے کوئی پہل نہ ہوتی اور  بات وہیں پر ختم ہو جاتی۔  چھ ماہ گزر گئے کئی رشتے آئے لوگوں نے صبیحہ کو پسند بھی کیا لیکن کہیں بات نہ بن سکی۔  ظفر بیگ اور  صفیہ بیگم حیران تھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ لڑکے والے ایک بار آ کر دوبارہ کیوں نہیں آتے عامر بھی فکر مند ہو گیا اس نے رشتے کے لئے اخبار میں اشتہار دے دیا۔  کئی رشتے آئے باپ بیٹے نے مل کر چند ایک کا انتخاب کیا ایک لڑکے والوں کو اپنے گھر آنے کی دعوت دے دی تین چار معتبر خواتین کا رسے اتر کر اندر چلی گئیں ظفر بیگ اور  عامر کو معلوم ہوا کہ نو شہ کے چھوٹے بھائی بھی آئے ہیں تو دونوں نے انھیں ڈرائنیگ روم میں بٹھا لیا دوران گفتگو معلوم ہوا کہ نو شہ کے والد مرحوم انکے بچپن کے دوست تھے عامر اور  راشد بھی دوستانہ انداز میں باتیں کرتے رہے خواتین نے لڑکی کو پسند کیا اور  دوبارہ آنے کا کہہ کر رخصت ہوئیں کئی دن گزر گئے لیکن ان کی طرف سے کوئی پیغام نہ ملا ادھر سب تشویش میں مبتلا ہو گئے عامر نے کہا کہ وہ خود راشد سے بات کرے گا کہ حقیقت کیا ہے راشد نے بتا یا کہ لڑکی دیکھنے کے دوسرے ہی دن کسی لڑکی نے فون کر کے بتایا کہ وہ اس لڑکی کی سہیلی ہے جسے ہم نے پسند کر لیا تھا اس نے بتایا کہ وہ لڑکی کسی اور  کو پسند کرتی ہے لہذا ہم اسے اپنی بہو بنا نے کا ارادہ ترک کر دیں۔  عامر حیران سا راشد کی طرف دیکھ رہا تھا اس کا چہرہ غصہ اور  پشیمانی سے سرخ ہو رہا تھا وہ معذرت کرتا ہوا واپس ہو گیا گھر آ کراس نے پچھلے دو چار لڑکے والوں کے فون نمبر لئے اور  فون پر پو چھا کہ آپ رشتہ تو نہیں کر رہے ہیں لیکن اتنا بتا دیں کہ لڑکی کو پسند کرنے کے باوجود انجان کیوں ہو گئے کسی نے وہی بات بتائی جو راشد نے بتائی تھی کسی نے بتایا کہ ایک لڑکے نے فون کر کے بتایا کہ وہ اس لڑکی سے محبت کرتا ہے اور  لڑکی بھی اسے چاہتی ہے لہذا کوئی ان کے بیچ آنے کی کوشش نہ کرے سب کی باتیں سن کر عامر پیچو تاب کھاتا رہا اس کے تن بدن میں آگ سی لگی ہوئی تھی دل دماغ کو قابو میں رکھتے ہوئے صورت حال سے نپٹنے پر غور کر رہا تھا۔

اس دن صبیحہ اپنی سہیلی اسریٰ کی سالگرہ میں شرکت کے لئے ضد کر رہی تھی۔  کئی دن پہلے اس کے باہر آنے جانے پر پا بندی لگا دی گئی تھی۔  ماں نے بمشکل اجازت دی اور  ایک گھنٹہ میں واپس آنے کی تاکید کر دی۔  ڈیڑھ گھنٹہ گزر جانے پر ماں نے عامر کو سہیلی کے گھر بھیجا۔  شہاب الدین کے گھر کی طرف سے وہ گزر رہا تھا کہ اپنی کا رکو وہاں دیکھ کر ٹھٹک گیا وہ سوچ رہا تھا کہ شہاب خود گاڑی لیکراسریٰ کے ہاں نہیں گیا اس لئے صبیحہ کے آنے میں دیر ہو گئی ابھی وہ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا وہ شہاب کو فورا وہاں بھیجنا چاہتا تھا اسی وقت صبیحہ شہاب کے گھر سے نکل کر اپنی کا رکی طرف جاتی نظر آئی وہ کار میں بیٹھ گئی اور  سیاہ آئینے چڑھا لئے عامر حیران کھڑا دور سے دیکھ رہا تھا غصہ کے مارے اس کے جسم پر لرزہ طاری تھا ایک جھٹکے سے اپنی بائیک اسٹارٹ کی اور  ہوا کے دوش پر سوار گھر پہونچا وہ پور ٹیکو میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا تھا اس کے ہاتھ میں لوہے کی ہتھوڑی تھی وہ بے حد مفطر ب تھا جیسے ہی کار پور ٹیکو میں رکی صبیحہ ہنستی کھلکھلاتی گاڑی سے اتر کر آ رہی تھی کہ عامر نے پو چھا ’’کہاں سے آ رہی ہو ؟ ’’جی میں اسری کے گھر سے آ رہی ہوں ‘‘’’جھوٹ بکتی ہے ؟ میری آنکھوں میں دھول جھونکتی ہے ؟‘‘عامر کھڑا ہوا حلق پھاڑے چلاّ رہا تھا صبیحہ اس کے تیور دیکھ کر اندر بھاگ گئی شہاب بھی تیزی کے ساتھ پلٹ کر گیٹ کی جانب بڑھ رہا تھا عامر لپک کرا سکے پیچھے بھا گا اور  ہتھوڑی کا بھر پور دار اس کے سرپر کر دیا شہاب درد کی شدت سے تیور اکر گر پڑ اا سکے گرتے ہی عامر نے مسلسل کئی وار کئے چیخ و پکار کی آواز سن کر گھر کے لوگ باہر آ گئے تھے ظفر بیگ بھی مو جود تھے لیکن عامر کو روکنے کی ہمت کسی نے نہیں کی سب کھڑے دیکھ رہے تھے شہاب کے سرسے خون بہہ رہا تھا اور  جسم ساکت تھا۔  عامر ہتھوڑی پھینک کر اندر چلا گیا گھبراہٹ میں صبیحہ نے پولس کو فون کر دیا تھا کچھ ہی دیر میں پولس آ گئی صورت حال کا جائزہ لے کر سب کا بیان قلم بند کیا۔  عامر پر قتل کا مقدمہ چلا اور  چودہ سال کی قید با مشقت ہو گئی ظفر بیگ کا پیسہ اور  تمام کوششیں رائے گاں ہو گئیں وہ عدالت کا فیصلہ سن کر تھکے ہارے لرزیدہ قدموں سے گھر آئے اور  بمشکل بتا یا کہ عامر کو چودہ سال کی قید با مشقت ہو گئی۔

تب ہی صبیحہ نے ایک چیخ ماری اور  ماں سے لپٹ گئی ’’ماں مجھے مار ڈالو مجھے ختم کر دو میرے اس نا پاک و جود کو مٹا دو سارا قصور میرا ہے میں بھٹک گئی تھی ماں اور  تم نے بھی تو میرے بہکتے قدموں کو نہیں دیکھا!ماں باپ بیٹی کی عزت و نا موس کے امین ہوتے ہیں نا ؟ پر ائے دھن کی دلو جان سے حفاظت کرتے ہیں نا؟تم نے مجھے وہ نصیحتیں نہیں کیں جو صد یوں سے ہر ماں اپنی بیٹی کو کرتی رہی ہے دنیا کے نشیب و فراز اور  سرد و گرم سے واقف کراتی رہتی ہے اپنی نئے زمانے کے تقاضوں سے روشناس کراتی ہے میرا نازک سابلوریں گلدان چُور چُور ہو گیا ماں اور  تمہیں پتہ بھی نہ چلا؟ میری سلگتی جوانی نے سب کچھ جلاد،  یا سب کچھ ماں سب کچھ‘‘

صبیحہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔

کر سی پر بیٹھے ہوئے ظفر بیگ کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی روح جسم کے پنجرہ سے نکل کر پرواز کر چکی تھی۔  ہمدردی کے بہانے دونوں ماموؤں نے بزنس سنبھال لیا تھا اور  چند ہی دنوں میں ہر چیز پر قبضہ کر لیا۔  ماں بیٹی کو در در کی خاک چھاننے کے لئے گھر سے بے گھر کر دیا اور  زندگی کا نٹوں بھری ایک طویل رہ گز ربن گئی۔

٭٭٭

 

 

 

طوفان کے بعد

 

ڈھل چکا دن اور  تیری قبر پر

دیرسے بیٹھا ہوا ہوں سرنگوں

روح پر طاری ہے ایک پیہم سکوت

اب تو سازِغم نہ سازِجنوں

مستقل محسوس ہوتا ہے مجھے

جیسے تیرے ساتھ میں بھی دفن ہوں

۔۔۔۔۔۔

شام کی خنک اور  اداس ہواسسکیاں لے رہی تھی سب لوگ جا چکے تھے۔

شکیل قبر کے پاس بیٹھا بڑ بڑ ا رہا تھا ’’ماں ہمارے درمیان یہ مٹی کا ڈھیر کیوں آ گیا میں تمہیں دیکھ سکتا ہوں نہ چھوسکتا ہوں تم نے مجھ سے کہا تھا کہ میں تمہیں چھوڑ کر نہ جاؤں اور  تم مجھے اکیلا چھوڑ کر چلی گئیں۔ مجھے اپنوں کا پتہ ٹھکانہ بھی نہیں بتایا میں کیا کروں ،  ماں کہا جاؤں۔

وہ مٹی کو دونوں ہاتھوں سے الٹ پلٹ کرتا رہا ،  روتا رہا ،  مغموم شام تیزی کے ساتھ اپنے سیاہ پر پھیلا رہی تھی تب ہی موذن کی پرسوز آواز فضاء میں ابھری۔ اور  ایک سو گوار سا موسیقی ریز ارتعاش برپا کر گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امجد سلطان نے آج پھر شکیل کو مارا تھا یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا جو امجد نے اسے بے دردی سے مارا تھا۔  وہ اکثر بات بے بات شکیل کو ڈا نٹتا جھڑ کتا پیٹتا رہتا تھا۔  کچھ دیر پہلے وہ بازو والے مکان کے سامنے کھڑی ایک خو بصورت کار کو دیکھ رہا تھا اسے کاروں سے جیسے عشق تھا بلیو کلر کی اس کار کو وہ گھوم گھوم کر دیکھ رہا تھا جس کی نرم نرم سیٹیں اور آئینہ کے سامنے جھو لتی ہوئی گڑ یا اسے دیوانہ بنا رہی تھی۔  امجد کہیں سے آ گیا اسے کھینچتا ہوا گھر میں لا یا اور پٹائی کر دی۔  غصہ میں جھلاتا شاید وہ باہر چلا گیا تھا اس لئے اس کی ماں اسے سمجھانے بیٹھ گئی تھی ’’شکیل بیٹے! تم سے کتنی بار کہا کہ تم ابو کی بات کا برا نہ ماننا وہ جو کچھ کہتے ہیں اس میں تمھاری بھلائی ہوتی ہے۔ ‘‘

’’امی جان میں نے بھی آپ سے کتنی بار کہا ہے انھیں میرا ابو نہ کہیں میں انھیں ابو نہیں مان سکتا اب میں چھوٹا بچہ نہیں ہوں پانچویں کلاس میں پڑھتا ہوں میں اپنے ابو کو بھولا نہیں ہوں شاید آپ کو یا د نہ ہو لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں دوسری کلاس میں فرسٹ آیا تھا تو ابو جانی کتنے خوش ہوئے تھے۔  ڈھیر ساری مٹھائی اور کھلو نے لائے تھے اور ہم دونوں کو باہر گھمانے لے گئے تھے اس دن ہم نے سر کس دیکھی اور خوب آئسکر یم بھی کھائی تھی میں کبھی بیمار ہو تاتو ابو کس قدر پریشان ہو جاتے۔  بار بار ڈاکٹر کے پاس لے جا تے اپنے ہاتھ سے دوا پلاتے وہ میرے ابو تھے۔۔۔  کہاں ہیں وہ ؟ مجھے یاد ہے کہ آپ ابو جانی سے بہت جھگڑا کیا کرتی تھیں ان کے کسی کام کا خیال نہیں رکھتی تھیں۔  نہ ان کی کوئی بات مانتی تھیں۔  میرے ابو جانی کہاں ہیں ؟ دادی امی اور چاچا کہاں ہیں ؟ ان کی گڑ یا جیسی لڑکی للی اور  فراز کہاں ہیں۔  امی مجھے ان کے پاس لے چلیں ورنہ میں یہاں سے چلا جاؤں گا‘‘۔  شکیل رونے لگا۔  اس نے گھر چھوڑ نے کی بات کہی تو اس کی ماں چلاّ اٹھی۔

’’نہیں شکیل!تم مجھے چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤ گے تم چلے گئے تو میں مر جاؤں گی میں تمھارے ابو جانی سے جھگڑ اکر کے تمھیں اپنے ساتھ لائی ہوں یہ سچ ہے کہ ہم دونوں میں بہت جھگڑا ہوا کرتا تھا کیوں کہ وہ بہت پڑھے لکھے ہیں انجینیر ہیں ان کے اپنے کچھ اصول تھے جن کی وہ سختی سے پا بندی کیا کرتے میں ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھی میرے والدین نے مجھے تعلیم بھی زیادہ نہیں دلائی تھی لیکن تمہاری دادی امی اور  ابو جانی کو بتایا گیا تھا کہ میں بہت پڑھی لکھی ہوں سچ تو یہ ہے کہ اردو انگریزی تو دور کی بات ہے مجھے تو قرآن شریف تک ٹھیک سے پڑھنا نہیں آتا۔  تمہارے ابو نے مجھے پڑھانے کی بہت کوشش کی لیکن میں بد نصیب کوڑھ مغز کچھ بھی نہ سیکھ سکی میری سو تیلی ماں نے پکا ناسینابھی نہیں سکھایا سب مجھ سے بیزار تھے جیسے ہی تمھارے امتحان ختم ہوئے تمہارے ابو نے مجھے تمھارے نانا کے گھر لا کر چھوڑ دیا اور  میں نے ان سے جھگڑ اکر کے تمہیں اپنے ساتھ رکھ لیا پھر میری ماں کے کہنے پر بابا جان نے اس شخص کو تمہارا ابو بنا دیا۔  آج میں زندگی کی ایک ایسی ایک کتاب ہوں جس  کے ہر ورق پر سیاہی پوت دی گئی ہو یہ زندگی میرے لئے ایک روگ بن گئی ہے میں وہ بدنصیب عورت ہوں جو نہ سسرال میں کسی کا پیار پا سکی نہ شو ہر کا دل جیت سکی نہ ہی تمھیں وہ پیار دے سکی جو ایک ماں دیتی ہے لیکن تم مجھے چھو ڑ کر نہیں جا سکتے میں بہت اکیلی ہو جاؤں گی میں انھیں سمجھاؤں گی کہ وہ تم سے بھی پیار کریں ٹھیک ہے ؟ ‘‘شکیل نے اپنے آنسو پونچھ لئے اور  اثبات میں سرہلادیا۔

شکیل کی وجہ سے ان دونوں میں اکثر جھگڑے ہو نے لگے تھے۔  کسی دن امجد دیکھ لیتا کہ شکیل پڑھنے لکھنے میں منہمک ہے تو اس دن اس کی خیر نہ ہوتی وہ گلا پھاڑ کر چلا تا’’کس کے پلّے کو اپنے ساتھ لائی ہو جو بیٹھا بیٹھا مفت کی روٹیاں توڑ تا رہتا ہے تم سے کہا تھا کہ گھر کا ہر کام اس سے لیا کرو یہاں مفت کا کھانا نہیں ملے گا۔  ‘‘

اس دن سے شکیل نے امجد کی موجودگی میں کبھی کتاب نہیں کھولی۔  ایک دن کسی بات پر اس نے شکیل کی ماں کو بہت مارا اور  اس کا سر دیوارسے ٹکرا دیا وہ چیخ مارکر ایسے گری کہ پھر نہ اٹھ سکی۔  شکیل سکتے کے عالم میں کھڑ اسب دیکھ رہا تھا ماں کے گرتے ہی وہ جھپٹ کر آیا اور ا س سے لپٹ کر ’’امی جان!امی جان!‘‘چلّا نے لگا تب ہی امجد نے اسے بے تحاشہ  پیٹنا شروع کیا تو وہ دھاڑیں مار کر رونے لگا محلے کے لوگ جمع ہو گئے کسی نے شکیل کو سنبھالا کسی نے امجد کو قابو کیا۔  شام ہو تے ہو تے کچھ اور لوگ جمع ہو گئے سب نے مل کر شکیل کی ماں کو سپرد خاک کر دیا۔

شام کی خنک اور اداس ہوائیں سسکیاں لے رہی تھی سب لوگ جا چکے ہے شکیل قبر کے پاس بیٹھا بڑ بڑ ا رہا تھا

’’ماں ہمارے در میان یہ مٹی کا ڈھیر کیوں آ گیا کہ میں تمھیں دیکھ سکتا ہوں نہ چھو سکتا ہوں تم نے مجھ سے کہا تھامیں تمھیں چھو ڑ کر نہ جاؤں اور  تم مجھے اکیلا چھوڑ کر چلی گئیں۔  وہ شخص تو مجھے روز مارے گا پھر مجھے کون سمجھائے گا۔  کھانا کون کھلائے گا ؟ مجھے اپنوں کا پتہ ٹھکانہ بھی نہیں  بتا یا!میں کیا کروں ماں کہاں جاؤں۔۔۔  ‘‘

وہ مٹی کو دونوں ہاتھوں سے الٹ پلٹ کرتا رہا روتا رہا۔  مغموم شام تیزی کے ساتھ اپنے سیاہ پر پھیلا رہی تھی تب ہی موذن کی پر سوزآواز فضا میں ابھری شکیل سست قدموں کے ساتھ گھر کی طرف چل پڑ ا۔  گھر تو اپنوں کی موجودگی سے گھر ہوتا ہے وہاں تو میرا اپنا کوئی نہیں ہے پھر بھی اسی ٹھکا نے پر مجبوراً جا نا ہے۔  اب کیا ہو گا؟گھر پہنچا تو پڑ وس کی فریدہ آنٹی نے اسے سینے سے لگا کر تسلی دی تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو نے لگا۔  امجد کے کہنے پر فر یدہ نے اسے پکو ان سکھایا۔  گھر کے کام سے فارغ ہو کر وہ اکثر قبر ستان چلا جاتا ماں کی قبر کے پاس بیٹھا باتیں کرتا ’’ماں تم مجھے کس کے سہارے چھوڑ گئیں میں سب کام اکیلا کرتا ہوں رات کو ہاتھ پاؤں بہت درد کرتے ہیں ماں۔  تین دن پہلے اس شخص نے تمھارے البم سے تمام تصویریں نکال کر جلا دیں ایک تصویر میں نے چھپا لی ہے اس میں میرے ابو جانی ’ دادی امی ، چاچا، چاچی، فر از میں اور  للی ہیں میں نے اسے اپنے سوٹ کیس کے چور خانے میں چھپا دیا ہے سنو ماں!میں نے پانچویں کلاس پاس کر لی ہے لیکن کوئی خوش ہو نے والا نہیں ہے سینے سے لگا کر شاباشی دینے والا کوئی نہیں ماں!ہاں ایک بات بتانی تو بھول ہی گیا کہ اب وہ شخص مجھے نہیں مارتا وہ تو ایک عورت کے ساتھ باتیں کرتا اور  ہنستارہتا ہے وہ اب اسی گھر میں رہتی ہے وہ کہتا ہے میں اسے امی پکاروں اب تمھیں بتاؤ میں اسے امی کیسے پکار سکتا ہوں وہ مجھ سے سیدھے منہ بات نہیں کرتی ہر وقت کام کرواتی ہے اپنے کپڑے بھی مجھ سے دھلواتی ہے کل عید تھی نا بہت کام تھا اس لئے تم سے ملنے نہ اس کا۔  کسی نے مجھے نئے کپڑے نہیں بنائے نہ وہ شخص مجھے اپنے ساتھ نماز کے لئے لے گیا ’’اس نے روتے ہوئے قبر پر سر ٹیک دیا جیسے وہ ماں کی نرم گرم گو دہو۔

ایک دن وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا۔  اس دن اس کے ہاتھ سے دودھ کا گرم بگونا چھوٹ گیا تھا۔  سارا دودھ فرش پر پھیل گیا وہ یوں سہماکھڑ ا رہا جیسے دو دھ کا بگونا نہیں بلکہ کوئی قیمتی گلدان گر کر چور چور ہو گیا ہو پہلے امجد نے دو طمانچے ر سیدکئے پھر نئی عورت نے بید کی چھڑی سے اس کے جسم پر نقش و نگار بنا دئیے۔  آدھی رات کے قریب وہ اپنے سوٹ کیس کو سینے سے لگائے نکل کھڑا ہوا۔  ماں کے دئے ہوئے کچھ پیسے سنبھال کر رکھے تھے اس نے حیدرآباد کا ٹکٹ لیا اور  ٹرین میں بیٹھ گیا۔ وقت دبے پاؤں گزر گیا۔

حیدر آباد آئے ہوئے شکیل کو دس سال ہو گئے لیکن اسے اپنوں کی شکل نظر نہیں آئی تھی وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ لوگ کس مقام پر رہتے ہیں۔  زندگی جیسے ایک طویل سنسان رہ گزر بن گئی تھی نہ کوئی ساتھی نہ سنگھی نہ کوئی راہبر نہ منزل کا نشاں۔  حیدر آباد آنے کے چند دن بعد ہی اسے ایک کپڑے کی مل میں کام مل گیا تھا اس کے بھولے چہرے اور  صاف گوئی نے مل مالک فخر الدین کا دل موہ لیا تھا۔  شکیل نے انھیں بتایا کہ اس کے والد ماں کو چھوڑ کر کہیں چلے گئے اور  سوتیلے باپ نے ماں کی جان لے لی اس لئے وہ گھر چھوڑ کر بھاگ نکلا۔

فخرالدین نیک دل اور  خداترس انسان تھے انھوں نے شکیل کی ہر طرح سے مدد کی اس نے کام کرتے ہوئے پڑھائی شروع کر دی تھی بی کام پاس کرنے کے بعد ایم بی اے کر رہا تھا۔  ایمانداری محنت اور  سینیریٹی کے لحاظ سے وہ آج مل کا منیجر اور  فخرالدین کادست راست تھا۔  انھوں نے پہلی بار اپنے کسی قریبی رشتے دار کی سالگرہ پر اسے بطور خاص مدعو کیا تھا۔ تقریب میں شرکت کے لئے اس نے ایک قیمتی سوٹ سلوایا اور  ایک بیش قیمت تحفہ بھی لے لیا تھا۔  فخرالدین کے ساتھ ان کی اسٹیم گاڑی سے اترتا ہوا وہ ان کے بیٹے جیسا لگ رہا تھا کئی نگاہیں اس پر مرکوز تھیں سرو جیسا قد گورا رنگ سوز میں ڈوبی ہوئی مخمور آنکھیں اور  چہرہ تعلیم کے نو رسے دمکتا ہوا۔  جیسے عرش سے اترا ہوا کوئی فرشتہ۔  وہ یوسف ثانی نہیں تھا۔ لیکن اسے دیکھ کر حسین دوشیزاؤں کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو رہی تھیں وہ آپس میں کھسرپھسر کر رہی تھیں شکیل کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ وہ سب اسی کے بارے میں بات کر رہی تھیں اس نے نظریں جھکا لیں جیسے اطراف کے ماحول سے بے خبر ہو۔  آج پہلی باراسے اپنی شخصیت کی اہمیت کا احساس ہوا وہ دل ہی دل میں خوش تھا ہو نٹوں سے پھوٹتی ہوئی خفیف سی مسکراہٹ کو دبا رہا تھا جو لوگ شکیل کو نہیں جانتے تھے انھیں فخرالدین  بتا رہے تھے کہ یہ ان کا منہ بو لا بیٹا ہے اور ان کی مل کا کرتا دھرتا وہی ہے ممنونیت بھری مسکراہٹ شکیل کے ہو نٹوں پر رقصاں تھی اچانک اسے محسوس ہوا کہ ایک گوری چٹی تیکھے نقوش اور بھرے بھرے جسم والی لڑکی ٹکٹکی باندھے والہانہ انداز میں اسے دیکھ رہی ہے۔  جیسے یادداشت کے سمندر میں کوئی کھویا ہوا موتی تلاش کر رہی ہو۔  جیسے کچھ کہنا چاہتی ہو۔  وہ آگے بڑھ کر کچھ پو چھ بھی تو نہیں سکتا تھا اسے کیا حق تھا کہ وہ کسی اجنبی لڑکی سے کوئی بات کرتا وہ تو فخرالدین کا ملازم تھا۔  کچھ دیر بعد وہ وہاں نظر نہیں آئی جہاں سوچ میں ڈوبی ہوئی بیٹھی تھی۔  شکیل کی نظریں اسے تلاش کر رہی تھیں وہ دور ایک کو نے میں کھڑی اسی کی طرف دیکھتی ہوئی نظر آ گئی سحر زدہ سا اسے دیکھتا رہا جیسے وہ کہہ رہی ہو۔

تم اتنی دور سے چل کر میرے قریب آئے

اب آؤ پاس ہی بیٹھو تھکن مجھے دے دو

یہ کیسی بے چینی ہے جس میں سکون کی چاشنی بھی گھلی ہوئی ہے جیسے دل آگہی دے رہا ہو کہ یہی ہے تیری منزل تجھے آج تک اسی کی تلاش تھی آگے بڑھ اس کا ہاتھ تھام لے اور  اپنی منزل کے آگے دو زانو ہو جا۔  یہ میں کیا سوچنے لگا؟ وہ امیر باپ کی نور نظر محلوں کی شہزادی!اور  میں ایک یتیم یسیرادنیٰ ’ غلام،اس کا دمکتا ہوا چہر جیسے بجھ سا گیا۔  وہ جلد از جلد گھر لوٹ جا نا چاہتا تھا لیکن سالگرہ کا ہنگامہ عروج پر تھا۔  تالیوں کے شور میں اسی جان محفل کو پھول پہنائے گئے اور کیک کاٹا گیا فخر الدین نے آگے بڑھ کر سب سے پہلے مبارک باد دی اور بتایا کہ جلیل احمد کی لڑکی لبنیٰ آج اپنی زندگی کی سولہویں بہار کا استقبال کر رہی ہے۔  پر تکلف کھانا ہوا کچھ دیر بعد تقریب اختتام کو پہنچی۔

رات بھر شکیل کرو ٹیں بدلتا رہا سوچتا رہا اس کا دل کیوں اس لڑکی کی طرف کھینچا جا رہا ہے جسے جانتا پہچانتا ہی نہیں وہ جیسے نس نس میں سمائی جا رہی تھی پہلی نظر میں وہ اپنی سی لگی تھی اسے دیکھ کر روح ٹھٹک گئی تھی جیسے کسی بھٹکے ہوئے پرندے کو اچانک اپنا نشمین نظر آ جائے۔  کون ہے یہ ؟ پہلی بار اسے اپنے دل میں ایک درد سا محسوس ہو رہا تھا ایسا درد جس میں ایک بے نام سی لذت بھی شامل تھی میٹھی میٹھی کسک تھی۔  پتہ نہیں زندگی میں ایسا کیوں ہوتا ہے ہم جسے چاہتے ہیں اسے حاصل نہیں کر سکتے اور  جو حاصل نہیں ہو سکتا دل اسی کے لئے تڑ پتا ہے مچلتا ہے۔  نیند کا پتہ نہیں تھا۔  رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی وہ بستر سے اٹھا اور  مصلی بچھا کر سجدہ ریز ہو گیا۔  کہتے ہیں محبت انسان کو خدا سے قریب کر دیتی ہے۔  جانے وہ کب تک اپنے پروردگار کے آگے گڑ گڑ اتا رہا۔  صبح وہ دیر سے اٹھا مل پر جانے میں بھی دیر ہو گئی۔  فخر الدین پہلے سے موجود تھے اسے آتا دیکھ کر مسکر ائے اور کہا۔  میرا اندازہ تھا تم دیر سے آؤ گے ویسے آج گھر پر آرام کر لیتے تو بہتر تھا ’ رات شاید ٹھیک سے سوئے نہیں ؟ شکیل کے ہو نٹوں پر مسکراہٹ تھی اس نے سرجھکا لیا وہ کیسے بتاتا کہ رات اس پر کتنی بھاری گزری اور  کیوں بھاری گزری ہے۔  اسی وقت فون کی گھنٹی بج اٹھی غیر ارادی طور پر اس نے جھپٹ کر فون اٹھا لیا دو سری طرف سے مردانہ آواز آئی۔

’’ہیلو!کیا آپ فخر ماما سے بات کرائیں گے ؟ میں جلیل بات کر رہا ہوں ‘‘ر یسیور فخرالدین کی طرف بڑھاتے ہوئے شکیل نے کہا ’’جلیل صاحب کا فون ہے ‘‘۔ ’’ہاں بھئی کہو کیا بات ہے کیا آج سائٹ پر نہیں گے ‘‘؟نہیں ماما کل کی تھکان نہیں اتری ابھی گھر ہی پر ہوں آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟ ’’بس ٹھیک ہوں۔  کہو کیا کوئی خاص بات ہے ؟‘‘

’’ماما کہنا یہ تھا کہ ہم لوگ آپ کے منہ بولے بیٹے کے بارے میں کچھ جاننا چاہتے ہیں وہ کون؟ ہے کہاں سے آیا ہے ؟اس کے والدین کہاں ہیں ؟ کیوں کیا بات ہے ؟کیا ہوا ؟

’’ماما دراصل ہم نے اسے لبنیٰ کے لئے پسند کیا ہے اور  اس کے بارے میں تفصیل جاننا چاہتے ہیں ‘‘۔

’’بھئی بات یہ ہے کہ پچھلے دس سالوں میں شکیل کی روئداد میں نے بھی نہیں پوچھی اس نے صرف اتنا بتایا تھا کہ وہ بنگلورسے آیا ہے اس کی ماں کے انتقال کے بعد سوتیلے باپ اور  سو تیلی ماں نے بے حدوحساب ظلم ڈھائے اور  وہ گھر چھوڑ کر نکل گیا مزید تفصیل میں پوچھ کر بتاؤں گا۔  ؟

شکیل کا دل بے تحاشہ اچھلنے لگا آخر جلیل احمد میرے بارے میں کیوں پوچھ رہے تھے انھوں نے کل والی چوری تو نہیں پکڑ لی۔  کیا میری ملازمت میری منزل مجھ سے چھی نلی جائے گی ؟ شکیل کھڑ اکھڑ اپسینے میں نہا رہا تھا۔  فخر الدین فون رکھ کر اس کی طرف پلٹے تو اس کی غیر ہوتی ہوئی حا لت کو دیکھ کر پریشان ہو گئے۔  اسے اپنے کیبن میں لے گئے پانی پلایا اور  سکون سے بیٹھنے کہا ان کے ہو نٹوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی شکیل کی ڈھارس بندھی وہ سر جھکائے بیٹھا رہا۔  فخرالدین گویا ہوئے۔

’’شکیل تمھیں یہ جان کر مسرت ہو گی کہ جلیل احمد اور  ان کی بیگم نے تمھیں ان کی بیٹی کے لئے پسند کیا ہے وہ تمھارے بارے میں تفصیلات جاننا چاہتے ہیں شکیل حیرت سے منہ کھولے فخر الدین کے ایک ایک لفظ کو غور سے سن رہا تھا اسے اپنی سماعت پر یقین نہیں ار ہا تھا حیرانی اور  شادمانی کے ملے جلے جذبات اس کے چہرے سے عیاں تھے اس نے بتا یا کہ وہ اپنے بارے میں صرف اتنا جانتا ہے کہ اس کے والد انجینیر ہیں وہ ماں سے خوش نہیں تھے اس لئے انھیں طلاق دے دی اور انکے والد کے گھر بھیج دیا والد نے کسی شخص سے ان کا نکاح کر وا دیا جس کے ظلم سہتے ہوئے ماں مر گئی سوتیلے باپ نے دو سری شادی کر لی ان دونوں نے اس کے سر پر ظلم کے پہاڑ توڑے بالآخر وہ گھر سے بھاگ نکلا۔  ’’تمہارے والد کا کیا نام ہے ؟

’’ان کا نام جمیل احمد ہے وہ انجینئر ہیں جا نے وہ کہاں ہیں میں پچھلے دس سال سے ان سب کو کھوج رہا ہوں میری بہت پیاری سی دادی تھیں جو مجھ پر ہزار خوشیاں نچھاور کرتی تھیں وہ میرے دل سے کبھی دور نہیں ہوئیں میرے چاچا چاچی اور ان کے دو بچے بھی تھے ایک لڑکا اور  ایک گڑ یا جیسی لڑکی تھی۔  میں آپ کو ان کی تصویر بتا سکتا ہوں جو آج بھی میرے سوٹ کیس کے چور خانے میں محفوظ ہے شاید آپ نے انھیں کہیں دیکھا ہو میں اپنے کمرے تک جا کر ابھی آتا ہوں۔۔۔۔

وہ تیز تیز قدم اٹھاتا اپنے کمرے کی طرف گیا اور  دوڑتا ہوا واپس آیا اور  فخرالدین کے ہاتھ میں تصویر دے دی جسے وہ غور سے دیکھ رہے تھے اور ان کی آنکھ سے آنسو رواں تھے۔ ؟ شکیل حیرت سے انھیں دیکھ رہا تھا فخر الدین نے بتا یا کہ شکیل کی دادی ان کی اکلوتی بہن ہیں جنھوں نے اپنے پو تے کی یاد میں رو رو کر اپنی بینائی کھو دی ہے خاندان کے لوگوں نے آپریشن کیلئے مجبور کیا تو ہمیشہ ایک ہی جو اب دیا کہ جب شکیل آ جائے تو بتا دینا میں اسی دن آپریشن کر والوں گی اور سب سے پہلے اسی کا چہرہ دیکھوں گی۔  میں نہیں جانتا تھا کہ تم ہی وہ شکیل ہو

وہ ایک جھٹکے سے اٹھے اور  شکیل کو سینے سے لگا کر رونے لگے پھر اپنی آواز پر قا بو پاتے ہوئے کہا۔

’’جب تمہاری ماں نے کو رٹ کے ذریعہ تمھیں حاصل کیا اور  اپنے ساتھ لیکر چلی گئی تو انھوں نے دنیا سے کنارا کر لیا چلو میں تمہیں ان سب سے ملاؤں جو تمہاری یاد کو سینے سے لگائے تمھارے انتظار میں جی رہے ہیں تم میری بہن کی آنکھوں کے نور دل کے سرور ہو میں کہہ نہیں سکتا کہ وہ تمھاری آمد کی خو شی کو کیسے سہار سکیں گی فراز اور  لبنی بھی تمہیں نہیں بھولے تم لبنیٰ کو للی پکارا کرتے تھے اس لئے سالگرہ کے دن  تم لبنیٰ کا نام سن کر چونک گئے تھے کہتے ہیں کہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے میں نے محسوس کیا تھا کہ تم اور لبنیٰ ایک دو سرے کو غور سے دیکھ رہے تھے۔  چلو شکیل ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر ہمیں جلیل کے گھر  چلنا چاہئے۔ ‘‘شکیل حیرت زدہ بیٹھا سب کچھ سنر ہا تھا۔  ’’کیا سوچ رہے ہو آج اوپر والے کو تم پر رحم آ گیا ہے وہ تمام خوشیاں تمھیں لو ٹا رہا ہے اس نے کہا ہے لا تقنطوا من رحمۃ اﷲ چلو چلتے ہیں ‘‘۔ ’’ہاں انکل!کیا میرے ابو جانی بھی وہاں ہوں گے ؟‘‘نہیں وہ اپنی دو سری بیوی کے ساتھ امر یکہ میں ہیں وہ ایک تعلم یافتہ اور  نیک عورت ہے انھیں گئے ہوئے سات سال ہو گئے ہیں وہ عنقریب آنے والے ہیں :

شکیل فخر الدین کے ساتھ ایسے چل رہا تھا جیسے اس پر مسمریزم کر دیا گیا ہو جب وہ دونوں جلیل منزل پہنچے تو فخر الدین کے گلے سے مارے خوشی کے آواز نہیں نکل رہی تھی وفور جذبات سے ان کا گلہ رندھ گیا تھا ہو نٹوں پر مسکراہٹ  آنکھوں میں نمی لئے وہ پھنسی پھنسی آواز میں بہن کو پکار رہے تھے۔  ’’آپا بیگم!دیکھئے میں آپ کی آنکھوں کی روشنی لے آیا ہوں جلدی آؤ۔ سب لوگ جلدی آؤ۔ ‘‘

گھر کے سب افراد دوڑے ہوئے آئے فخر الدین نے شکیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ‘‘جلیل دیکھو یہ شکیل ہے جمیل کا بیٹا شکیل دیکھو دیکھو۔  لبنیٰ دادی کا ہاتھ تھا مے چلی آ رہی تھی اور  شکیل دادی امی کہتا ہوا ان کے قدموں سے لپٹ گیا نو کر چاکر بھی جمع ہو گئے بھیگی پلکوں سے اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔  فراز اور  لبنی اپنے بڑوں کو سنبھال رہے تھے۔

خوشیوں اور طمانیت کی اس معراج پر زندگی جیسے تھم گئی تھی وقت ٹھہر سا گیا تھا۔

٭٭٭

 

کشمکش

 

عرصہ سے ان کے نقش قدم کی تلاش ہے

سجدے میں سر جھکائے زمانے گزر گئے

آتے تو رہتے ہیں وہ خیالوں میں رات دن

لیکن خود ان کو آئے زمانے گزر گئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ملازمت کیلئے انڈیا سے امریکہ آیا تھا۔  ہم نے خوشیوں سے بھرے بہت سارے دن  ایک ساتھ گزارے تھے لیکن میرے محبوب نے مجھ سے کوئی خوبصورت وعدہ نہیں کیا میری محبت کا محل صرف میں نے تعمیر کیا تھا۔ یہ نہیں جانتی تھی کہ میرا محبوب اسے آباد کرے گا یا نہیں ؟

۔۔۔  ٭۔۔۔  ٭۔۔۔

اتوار کا دن تھا موسم سر ما کی خوشگوار صبح تھی۔  انجم نے مہر کو بتا یا کہ مس مارگر یٹ امر یکہ سے انڈیا پہنچ گئی ہے اور انھیں جلد از جلد اس کے پاس پہنچنا ہے۔  ’’یہ مارگر یٹ کون ہے جس کی تم دیو انی ہو ؟ انجم میری سمجھ میں نہیں آیا کہ تم سعودی کی اچھی خاصی ملازمت چھو ڑ کر کیوں چلی آئیں اور  یہ (Boutique) کیوں کھول لیا جس کا تمہیں تجربہ ہی نہیں ہے ‘‘مہر نے کہا

’’میری تو دیرینہ آرزو تھی کہ اعلی پیما نے پر سیونگ سنٹر کھولوں اور  اس کے ساتھ ہی اپنا ایک بتیک بھی ہو یہ خواہش اس وقت پوری ہو گئی جب مس مارگریٹ سعودی آئیں اور  ایک چھوٹے سے حادثہ میں زخمی ہونے کے بعد ہمارے دوا خانہ میں شریک رہیں وہ میری خد مت سے بہت خوش ہوئیں مجھے بڑے انعام اکرام سے نوازا میرے گھریلو حالات کے بارے میں جان کر دکھی ہوئیں کہ میں اپنے معذور شوہر اور  بچوں کو چھوڑ کر یہاں ملازمت کر رہی ہوں اس نے بتایا کہ اسے انڈیا اور  انڈیا کے لوگ اچھے معلوم ہو تے ہیں وہ بہت جلد اپنا کاروبار  انڈیا میں شروع کرنا چاہتی ہے جب میں چھٹی پر انڈیا آئی اسوقت وہ بھی امر یکہ سے آ گئی اور  ایک معقول سر مایہ سے سنٹر اور  بتیک کھول دیا اور  میرے حوالے کر دیا رہی تجر بہ کی بات توہر کام کا  تجربہ ، وقت اور محنت سے خود بخود حاصل ہو جاتا ہے ‘‘انجم نے مہر کو بتا یا ’’تم نے بڑی ہمت کا کام کیا ہے ویسے کتنی آمدنی ہو جاتی ہے کیا مارگریٹ تمہیں تنخواہ دیتی ہے ؟

’’معقول آمدنی ہو جاتی ہے ہم دونوں پا رٹنر ہیں اور  آمدنی میں برابر کے حصہ دار ہیں ایک بات بتاؤں یہ مارگر یٹ جو ہے امریکہ کی امیر ترین عورت ہے اس کی دولت کا کوئی حساب نہیں ہے یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ اسے انڈیا کیوں پسند ہے اس نے یہاں کاروبار کیوں شروع کیا شاید میں نے تمہیں نہیں بتایا کہ اس نے یہاں ایک اولڈ ہوم بھی قائم کیا ہے اور بتیک سنٹر سے ملنے والا منافع اولڈ ہوم پر خرچ کر دیتی ہے ‘‘

’’اس نے یہ بہت اچھا کام کیا ہے ہمارے ہاں اس کی سخت ضرورت تھی یہاں جو او لڈ ہوم ہیں وہاں ( شریک ہونے والوں کو ) بھاری اخراجات برداشت کرنے پڑ تے ہیں ‘‘

’’یہاں اخراجات برائے نام دینا پڑ تے ہیں اور ہر فرد کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ان بوڑھے لوگوں کی حالت دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے پتہ نہیں لوگوں کا خون اس قدر سفید کیوں ہو گیا ہے ماں باپ اپنے چار ،  چھ بچوں کو خون جگر پلا تے اور  پال پوس کر بڑا کرتے ہیں اپنے پیروں پر کھڑا کرتے ہیں دن رات ان کی کامیابی اور ترقی کی دعائیں کرتے نہیں تھکتے پھر یہی بچے ایک مقام پر پہنچ کر والدین سے دور ہو جاتے ہیں اپنی اپنی زندگی کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر انھیں بھول جاتے ہیں ‘‘انجم نے کہا

’’ہاں انجم عمر رسیدہ لوگوں کی زندگی کا یہی المیہ ہے کہ وہ جوانی میں اپنا پیار اولاد پر لٹا تے ہیں اور  بوڑھے ہونے کے بعد اسی اولا دکی محبت اور خلوص کی ایک نظر کے لئے تڑ پتے ہیں ان کی آنکھیں کسی چاہنے والے کے انتظار میں فرش راہ بن جاتی ہیں ‘‘باتوں میں راستہ کب طئے ہو گیا پتہ ہی نہ چلا دونوں اولڈ ہوم پہنچ گئیں۔  مہر اولڈ ہوم کی وسیع و عریض خوبصورت عمارت کو دلچسپی اور  حیرانی سے دیکھ رہی تھی۔  گیٹ میں داخل ہو تے ہی محسوس ہوا جیسے کسی محل میں آ گئے ہیں کمپا ؤنڈ ہرے بھرے بیل بو ٹوں سے سجا ہوا تھا عمارت کے تمام کمرے کشا دہ ، صاف شفاف چمکدار اور ہوا دار تھے۔  کمروں کی تعداد بیس بائیس رہی ہو گی جس میں ایک آفس روم اور  ایک ڈسپنسری کے لئے مخصوص تھے۔  فرسٹ فلور پر مارگریٹ کا کمرہ تھا جہاں ضرورت کا ہر  سامان مو جود تھا انٹر کام کے ذریعہ ہر کمرے سے اور باہر آنے والوں سے رابطہ کیا جاتا تھا۔  انجم اور مہر کو زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا ۔  مارگریٹ کو مہر نے دیکھا تو دیکھتی رہ گئی گلاب جیسا سرخ وسفید چہرہ ، ذہانت کے نور سے چمکتی مسکراتی آنکھیں ، ہلکے گلا بی رنگ کا لباس زیب تن کئے چاق و چوبند مارگریٹ اسے بہت اچھی لگی ایک صحت مند اور  پر خلو ص مسکراہٹ کے ساتھ اس نے دونوں کو خوش آمد ید کہا انجم نے دیکھا کہ اس کے مسکراتے چہرہ پر اداسی کی لکیر تھی مارگریٹ کے ’’ہیلو‘‘ کہنے پر وہ چونک سی گئی اور جلدی سے مہر کا تعارف کرواتے ہوئے کہا۔

’’یہ میری بچپن کی دوست ہے ایک سیونگ سنٹر اور  ایک اسکول بھی چلاتی ہے آپ سے ملنے کی خواہشمند تھی اس لئے میں ساتھ لے آئی ‘‘کچھ ہی دیر میں پر تکلف چائے آ گئی چائے کے بعد تینوں اولڈ ہوم کے مکینوں سے ملاقات کے لئے نکل گئے مارگریٹ کا معمول تھا کہ وہ جس دن آتی اسی دن نئے شریک ہونے والوں کا رجسٹر دیکھتی ان سب سے ملتی۔  سب اس کا احترام کرتے اس سے مل کر بے حد خوش ہوتے اور  دعائیں دیتے۔  ان لوگوں میں تعلیم یافتہ اور  ان پڑھ بھی تھے جو اعلی اور اوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے ان میں مردو خواتین کی تعداد تقریباً برابر تھی کچھ تو بے حد ضعیف اور  کمزور تھے اور کچھ بیمار اور معذور تھے یہ سب اپنوں کے ستائے ہوئے وقت کے پچھاڑے اور  سماج کے ٹھکرائے ہوئے قسمت کے مارے لوگ تھے کسی مرد کی بیوی نے بے وفائی کی تھی تو کسی عورت کے شوہر نے اولاد نہ پیدا کرنے کے جرم میں دوسری شادی کر کے اسے بے سہارا کر دیا کوئی میاں بیوی اپنی اولاد کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوئے اپنے ہی گھر میں اجنبی بن گئے تھے اور  کسی کی اولاد نے انھیں گھر سے بے گھر کر دیا تھا سب سے مختصراً انٹر ویو لیتے ہوئے دو تین گھنٹے گزر گئے اس دوران انجم غور کرتی رہی کہ مارگریٹ بات کرتے ہوئے کبھی کبھی کھوسی جاتی اداس ہو جاتی اور  ادھر ادھر دیکھنے لگتی ہے جیسے کسی کو کھوج رہی ہو کھوئی کھوئی سی مارگریٹ کی شخصیت پر اسرارسی لگتی اس نے سوچا کہ وہ مارگریٹ سے ضرور بات کرے گی اس کے دل کا درد جاننے کی کوشش کرے گی۔

دوسرے دن انجم نے بو تیک جلدی کھول دیا مارگریٹ نے امر یکہ سے جو کپڑے لائے تھے انھیں شو کیس میں سیٹ کرنا تھا۔  وہ ابھی کام سے فارغ ہوئی ہی تھی کہ مارگریٹ حسب وعدہ آ گئی۔  وہی اداسی کی لکیر لیا ہوا مسکر اتا چہرہ کھوئی سی آنکھیں۔  انجم نے دوکان کے حسا بات پیش کئے اسی دوران ایک خو بصورت دبلی پتلی سی لڑکی دوکان میں داخل ہوئی وہ ایک آسمانی رنگ کے مردانہ ٹی شرٹ کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی جس کے ایک سائڈ میں خوبصورت گلا ب پینٹ کیا ہوا تھا انجم نے ایک تجربہ کار دوکاندار کی طرح اس ٹی شرٹ کی خوبیاں بتائیں پھر بھی اس کی قیمت معلوم ہو نے پر لڑکی خاموش ہو گئی تب مارگر یٹ نے کہا ’’بے بی میں سمجھ گئی تم نے اپنے بھائی یا بوائے فرینڈ کے لئے اس ٹی شرٹ کوپسند کیا ہے تمہاری پسند بہت اعلی ہے تم نے جس کے لئے یہ پسند کیا  ہے کیا اسے بھی یہ رنگ پسند ہے ؟

لڑکی نے شرما تے ہوئے اثبات میں سر کو جنبش دی مارگر یٹ نے کہا ’’میں سمجھ گئی تم اپنے فرینڈ کو تحفہ دینا چاہتی ہو تمہارا فرینڈ بہت نیک ،با وفا اور  روحانیت پسند ہے وہ ملنساراور با اخلاق ہو نے کے علا وہ با مقصد زندگی گزار نے والا اور  حقیقت پسند لڑکا ہے آسمانی رنگ پسند کرنے والے بڑی خوبیوں کے ما لک ہو تے ہیں چاہنے اور چاہے جانے کے خواہش مند بھی ہوتے ہیں۔  ’’آنٹی آپ نے بالکل ٹھیک کہا میں حیران ہوں آپ نے یہ سب کیسے کہہ دیا‘‘

’’میں تمہارے بارے میں بتاؤں تم نے یہ جو گلا بی کپڑے پہنے ہوئے ہیں تم پر بہت جچ بھی رہے ہیں ظاہر ہے یہ رنگ تمہارا پسندیدہ ہے اس کو پسند کرنے والے اعلی کردار ملنسار خدمت گزار اور  حساس طبعیت کے مالک ہوتے ہیں تم دونوں اپنی زندگی میں کامیاب اور  خوش رہو گے میں یہ ٹی شرٹ تمہیں تحفہ دیتی ہوں لے لو ‘‘لڑکی نے خوشی کے مارے مارگر یٹ کے ہاتھ کو چوم لیا اور  شکریہ ادا کرتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے شرٹ کو تھام لیا۔  انجم حیرت و اشتیاق سے مار گریٹ کی باتیں سن رہی تھی اس کی تجربہ کار نظر اور  معلومات پر دل ہی دل میں داد دے رہی تھی اور  یہ سوچ کر خوش ہو رہی تھی کہ اس لڑکی کی طرف سے اسے بے شمار گا ہک مل سکتے ہیں۔  مارگر یٹ کا خوشگوار موڈ دیکھتے ہوئے انجم نے محتا ط انداز میں بات شروع کی اس وقت کو وہ گنوانا نہیں چاہتی تھی۔  ’’مس مارگر یٹ میں آپ کے تجربہ اور  معلومات پر حیران ہوں آپ کی ذاتی زندگی کے بارے میں کچھ پو چھنا چاہتی ہوں برا تو نہیں مانیں گی ؟

’’کیا بات ہے آج تم میرا انٹر ویو کیوں لینا چاہتی ہو ؟‘‘مارگر یٹ نے خوش دلی سے مسکراکر الٹا انجم سے سوال کر دیا۔

’’میں نے محسوس کیا ہے کہ آپ کچھ بے چین اور  اداس رہتی ہیں آپ کو کیا تکلیف ہے کیا میں آپ کی کچھ مدد کر سکتی ہوں ؟‘‘

’’انجم غم اور  خوشی تا دم حیات انسان کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں یہ تو کوئی خاص بات نہیں ہے نا ؟ اور  کیا پو چھنا چاہتی ہو ؟’’آپ نے شادی کیوں نہیں کی ؟

’’میرے ڈِپار ٹمنٹ میں میری پوسٹ والوں کو شادی کی اجازت نہیں تھی بس اس لئے نہیں کی‘‘

’’آپ کی زندگی کا کوئی ساتھی نہیں ہے آپ کو تنہائی کا احساس ہوتا ہو گا نا ؟‘‘

’’ہاں یہ احساس تواب ہونے لگا ہے کیونکہ دوست احباب رشتے داروں نے مجھے بہت لوٹا دوستی اور  خلوص کی آڑ میں مجھے دھوکہ دیتے رہے اسی لئے تومیں نے اس نئے مقام پر اپنے آپ کو مصروف کر لیا ہے دکھی لوگوں کو دیکھ کر مجھے اپنا دکھ کم محسوس ہوتا ہے اور  انھیں خوشی دے کر مجھے خوشی ہوتی ہے ‘‘

’’آپ کا کوئی خاص دوست نہیں ہے ؟ کوئی ہمدرد؟‘‘

مارگریٹ نے ایک سردآہ بھری اور  خاموش ہو گئی۔

’’مس مارگریٹ معافی چاہتی ہوں آپ کو میری بات سے تکلیف پہنچی ہے ‘‘

’’نہیں یہ بات نہیں ہے میں اس کے بارے میں سوچ رہی تھی جو میرا نہ تھا لیکن میں اس کی ہو چکی تھی وہ انڈیا سے ملازمت کے لئے امریکہ آیا تھا ہم نے خوشیوں سے بھرے بہت سارے دن ایک ساتھ گز ارے تھے لیکن میرے محبوب نے مجھ سے کوئی خوبصورت وعدہ نہیں کیا میری محبت کا محل صرف میں نے تعمیر کیا تھا یہ نہیں جانتی تھی کہ میرا محبوب اسے آباد کرے گا یا نہیں ؟

’’وہ جب اچانک مجھ سے دور ہو گیا تو مجھے محسوس ہواجیسے میری کوئی قیمتی شئے کھو گئی ہے۔ اکیلے پن کے احساس نے مجھے گھیر لیا۔۔۔  ‘‘مارگریٹ چند لمحوں کے تو قف کے بعد پھر گو یا ہوئی ’’مجھے سمجھ میں آ گیا تھا کہ لوگ خوشی میں کیسے دیوانے ہو جاتے ہیں اور حسرتوں کے ہجوم اور  نا امیدی کے اندھیروں میں کیسے پاگل ہو جاتے ہیں میں نے اپنے آپ کو سنبھال  لیا انڈیا میں اس کے بیوی بچے موجود تھے وہ ان کا وفا دار تھا اپنی بے لوث محبت اور  کروڑوں کی دولت سے بھی میں اسے جیت نہ سکی وہ چاہتا تو مجھے دھوکہ دے سکتا تھا لیکن وہ لالچی نہیں تھا بڑا معصوم تھا ، اس کا دل آئینے کے طرح شفاف تھا میں اسی کی تلاش میں یہاں آئی ہوں اپنے دل کا خالی کشکول لئے اس کی گلیوں میں گھوم رہی ہوں وہ ڈائری کھو گئی ہے جس میں اس کا پتہ اور  فون نمبر تھا میری معصوم محبت کوئی عام سی محبت نہیں تھی کہ اس پر اثر ہی نہ ہوتا میرے جذبے سچے تھے مجھے امید ہے وہ مجھے پھر ایک بار ملے گا جب ملے گا تو یہ اولڈ ہوم اور  تمام بزنس میں جان کے حوالے کر دوں گی ‘‘مارگر یٹ کی آواز بھرا گئی۔

’’کیا اُن کا نام جان تھا ؟‘‘

’’نہیں۔  اس کا نام جاوید تھا۔  میں نے اسے یہ نام پیار سے دیا تھا‘‘

’’جاوید۔۔۔  جاوید۔۔۔  ‘‘انجم جیسے کچھ سوچ میں پڑ گئی پھر پو چھا؟

’’میڈم کیا آپ کے پاس ان کی کوئی تصویر ہے اگر ہے تو مجھے بتائیں شاید وہ کبھی میری نظر میں آ جائیں ‘‘

’’ہاں اس کی تصویر ہمیشہ میرے بیگ میں موجود رہتی ہے۔  لو دیکھو!

انجم نے جاوید کی تصویر دیکھی تو ساکت ہو گئی گویا اس کے وجود پر منوں وزنی چٹان گر پڑی ہو۔  اور  اس چٹان کے بوجھ تلے پاش پاش ہوتی ہوئی ،  اس کی ٹوٹتی بکھرتی سانسوں کے ساتھ زخمی دماغ محض ایک ہی نقطے پر مرکوز ہو چکا ہو۔

’’جا۔۔۔  و۔۔۔  وید!!جا۔۔۔  وید‘‘اس کا خاوند۔۔۔  جاوید اور  وہ ایک اذیت ناک کشمکش ہیں ڈوب سی گئی۔

یہ تو خوداس کا شوہر ہے وہ اذیت ناک کشمکش میں مبتلا ہو گئی۔

 

٭٭٭

 

 

زندگی کے رنگ

 

اہل ہوس کیا ساتھ نبھاتے سخت کٹھن تھی منزل منزل

عشق تو آخر عشق ہی ٹھہرا راہیں ڈھونڈیں مشکل مشکل

تم سے چھٹ کر سب کچھ پایا لیکن دل کا چین نہ پایا

دیکھ پھرے ہم جادہ جادہ ڈھونڈ پھرے ہم منزل منزل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم نے طلاق نامہ بھیج دیا۔ میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ طلاق نامہ ہاتھ میں لئے یوں بیٹھی رہ گئی جیسے کسی معصوم کے ہاتھ سے اس کامن پسند کھلونا ٹوٹ گیا ہو۔ دولت مند اور  ملازم عورت کا بھوت تم پر سوارہو چکا تھا تمہاری آنکھوں پر خود غرضی کے پردے پڑ گئے تھے جبکہ اولاد کے لئے ماں باپ اپنا آپ تج دیتے ہیں۔ شطرنج کی بازی تم نے جیت لی۔ حالانکہ دو طاقتور مہرے میرے بھی ہاتھ میں تھے۔ مہر معاف کر کے اور  بچوں کی ذمہ داری اپنے سرلے کر میں نے غلط چال چلی۔ ایک غیر ذمہ دار اور  سرکش مرد کو بخش دیا۔ یہ میری زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی۔ جو میری اور  بچوں کی زندگی پر محیط ہو گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اداس اور  یخ بستہ راتیں کاٹے نہیں کٹتیں۔ رات کی بڑھتی سیاہی کے ساتھ جانے کیوں ہر درد سوا ہونے لگتا ہے۔ رات اس ماں کے لئے تڑ پ بن جاتی جس کے بیٹے  سات سمندر پار غم روزگار کو سینہ میں دبائے پردیس کی خاک چھان رہے ہوتے ہیں۔ رات ایک بیوہ کے لئے ناگن تو کبھی سہاگن کے لئے کانٹوں کی سیج اور  کسی مطلقہ کے لئے پچھتاوے کا الاؤ بن جاتی ہے۔ رات کسی بیمار کے لئے آہ اور  یتیم یسیر کے لئے اک دعا ء بن جاتی ہے۔ خوشی کے لمحوں کا تعاقب کرتے ہوئے زندگی کبھی کبھی ساکن ہو جاتی ہے اور  یہ خوشیوں کی دولت بانٹنے سے بڑھتی ہے لیکن غم کی دولت سمیٹ کر چھپا کر رکھنے والی ہوتی ہے۔ اپنے غموں اور  اداسیوں کو پردوں میں چھپانے کا ہنر مجھے آ گیا تھا۔ آنسوؤں کے سمندر خشک ہو چکے تھے میں پتھر بن چکی تھی۔ اب مجھے ٹوٹنے پھوٹنے کا ڈر نہیں تھا۔ مرد پیٹ بھر روٹی اور  تن بھر کپڑے کے لئے عورت کو بار بار توڑتا پھوڑتا اور  پامال کرتا ہے۔ اک معاشی اور  سماجی تحفظ کے عوض با ر بار سولی پر ٹنگاتا ہے مجھے ایسی روٹی اور  کپڑے کی ضرورت نہیں تھی۔ بار بار سولی پر جھولنا مجھے منظور نہ تھا ماں سمجھایا کرتیں ’’مرد ذات ایسی ہی ہوتی ہے دو بچے ہو چکے ہیں جلد ہی اپنے آپ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا لیکن صبر کا دامن میرے ہاتھ سے اس وقت چھوٹ گیا جب تمہارے پاس ٹیوشن کے لئے آنے والی فیشن ایبل اور  آزاد ماحول کی لڑکیوں سے تمہارے معاشقے عروج پر آ گئے اور  پھر جہاں تم ٹیچر تھے اسی اسکول کی ایک ٹیچر سے تم نے زندگی بھر کا ناطہ جوڑ نے کی ٹھان لی شاید امیر باپ کی لڑکی تھی۔ مجھے بھی اپنے خاندان، تعلیم اور  حسن و جمال پر ناز تھا اپنے ہی زعم میں اکڑتی مائیکے جانے کی ٹھان لی۔ تم نے میرا راستہ روک لیا اور  شرط رکھی کہ خلع نامہ پر دستخط کرنے کی صورت میں بچوں کو اپنے ساتھ لے جا سکتی ہوں بصورت دیگر مہر کے ساتھ طلاق لوں اور  بچوں کو چھوڑ دوں۔ بچوں کو سوتیلی ماں کے حوالے کیسے کر دیتی۔ میں نے خلع نامے پر دستخط کر دئیے اور  چلی آئی۔ پھر خط و کتابت چلی۔ میں نے اپنی شرط منوانا چاہی کہ ہم تینوں سے اگر محبت ہے تو تمہیں ہمارے مقام پر آ کر رہنا ہو گا۔ میری عمر کا جذباتی پن اور  تمہاری شرارت نے مجھے مجبور کر دیا تھا میں اپنی ضد پر قائم رہی۔ تمہیں اپنا ارادہ اور مقام چھوڑ نا منظور نہ تھا۔ تم نے وکیل کے ذریعہ نوٹس بھیجی کہ میں کسی شرط کے بغیر تمہارے پاس چلی آؤں ورنہ اگلی ڈاک سے طلا ق نامہ بھیج دیا جائے گا اور  لکھا تھا کہ میں اپنا تمام سامان ، زیور کپڑے اپنے ساتھ لے گئی ہوں جبکہ اپنا ایک ایک تنکا تمہارے پاس چھوڑا ئی تھی۔ میں نے ناراضگی میں نوٹس کا جواب نہیں دیا۔ تم نے مجھے اپنے زعم کے خول سے باہر آنے کا موقع نہیں دیا۔ اپنی ضد پر تھی ناراض تھی تو سمجھایا تک نہیں۔ تمہارے بچوں کی ماں تھی اچھے برے دن ہم نے ساتھ گزارے تھے۔

دو ہفتوں بعد تم نے طلاق نامہ بھیج دیا۔ میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ طلاق نامہ ہاتھ میں لئے یوں بیٹھی رہ گئی جیسے کسی معصوم کے ہاتھ سے اس کامن پسند کھلونا گر کر ٹوٹ گیا ہو۔ دولت مند اور  ملازم عورت کا بھوت تم پر سوارہو چکا تھا تمہاری آنکھوں پر خود غرضی کے پردے پڑ گئے تھے جبکہ اولاد کے لئے ماں باپ اپنا آپ تج دیتے ہیں۔ شطرنج کی بازی تم نے جیت لی۔ حالانکہ دو طاقتور مہرے میرے بھی ہاتھ میں تھے۔ مہر معاف کر کے اور  بچوں کی ذمہ داری اپنے سرلے کر میں نے غلط چال چلی۔ ایک غیر ذمہ دار اور  سرکش مرد کو بخش دیا۔ یہ میری زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی۔ جو میری اور  بچوں کی زندگی پر محیط ہو گئی۔

طلاق نامے کو پڑھ کر میری نبضیں چھوٹ گئیں سانسیں ساکت ہو گئیں میرا خون خشک ہو گیا اور  میں انیمیا Anemea کی مریض ہو گئی۔ تم لوگ عورت کو ایک حقیر چیز سمجھتے ہو اس کی ایک رات کی قیمت لگا تے ہو اور  وہ بھی ادا کرنا گوارہ نہیں ہوتا۔ ہر لڑکی کے ماں باپ زندگی بھر کی محنت اور  کمائی کا بڑا حصہ بیٹی کی شادی پر خرچ کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی سسرال میں خوش رہ سکے لیکن اکثر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ ماں باپ بھی اپنی نادانی اور  نا تجربہ کاری کے باعث بے جوڑ شادی کر دیتے ہیں اور  یہ کہہ کر دامن بچا لیتے ہیں کہ تمہاری قسمت میں یہی کچھ تھا ہم کیا کریں۔ میرے سامنے میرے بچوں کامستقبل تھا اور  منہ زور جوانی تھی۔ کوئی معاشی تحفظ بھی نہیں تھا تم تصور نہیں کر سکتے کہ زندگی شیشے کی کرچیوں پر ننگے پاؤں چلنے سے زیادہ اذیت ناک تھی ایک عذاب کا دریا تھا جسے پار کرنا تھا بن پتوار کی ناؤ کو طوفان کے حوالے کر کے ملاح کنارے جا کھڑا ہوا تھا۔ زندگی اماوس کی اندھیری رات بن گئی۔ دور تک اجالے کی کرن نہیں تھی۔ زہر میں بجھے نشتر چبھوتی تنہائی تھی۔ ایک دن خبر ملی کہ تم اسی ٹیچر کا ہاتھ تھام کر نئے راستے پر قدم رکھ چکے ہو اور  اس عورت نے یہ شرط رکھی تھی کہ پہلی بیوی اور  بچوں کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ نا ہو گا ایک عورت نے دوسری عورت کا بسا بسا یا گھر اجاڑ دیا اور  تم کو اپنے پھول سے معصوم بچوں پر رحم آیا نہ پیار!ایک عورت اور  اس کی دولت کو گلے لگانے کی خاطر تم نے اپنے بیوی بچوں کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال دیا۔ ہاں یہ دنیا مردوں کی ہے یہاں مردوں کی حکومت ،مردوں کا قانون چلتا ہے وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں طلاق نامہ جس دن آیا اس دن تم سے شدید نفرت کا احساس جاگا تھا کہ ایسے بے وفا اور  بزدل وسنگدل مرد پر زندگی کے پانچ سال ضائع کر دئیے۔ تم نے یہ نہیں سوچاکہ عورت کے سر پر شوہر کاسائبان اور  بچوں کے سر پر باپ کا دستِ شفقت نہ ہو تو وہ لا وارث اشیا ء کے زمرہ میں آ جاتے ہیں۔ تمہیں تو یہ بھی گوارا نہ تھا کہ میرے کپڑوں پر بھی کسی مرد کی نظر پڑ جائے پھر تم نے یہ کیسے گوارا کر لیا کہ مجھ کو بچوں سمیت ہمیشہ کے لئے چھوڑ دو کس کے سہارے ، زندگی کیسے گزرے گی ، نہیں سوچا۔۔۔

والدین دوسری شادی کا کہتے تو میں بھڑ ک اٹھتی کہ ایک باپ ہی اپنے بچوں کو تحفظ نہ دے سکا تو دوسرے مرد سے کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ غیر کی اولاد کو اپنائے گا۔ والدین اور  بہن بھائیوں کے سلوک کو دیکھتے ہوئے میں نے ایک نئے عزم کے ساتھ کمر کسلی۔ زمانے کے ساتھ نبرد آزما ہونے کا حوصلہ پیدا کیا۔ ناکامی اور  محرومی کے غموں کو چھپا کر خوش رہنا سیکھ لیا اور  زندگی کے ساتھ چل پڑ ی۔ ان دنوں لوگ سعودی عرب کی طرف دوڑ لگا رہے تھے لیکن مامتا کے جذبوں سے مغلوب میں ایک ماں ہی رہی۔ سعودی جا کر دولت کمانے ، آسمان کی وسعتوں کو چھونے اور  کچھ کر دکھانے کے جذبوں پر مامتا کا جذبہ ہمیشہ غالب رہا۔ قوت پرواز مفلوج ہوتی رہی۔ آرزوؤں کی کہکشاں بکھرتی رہی۔ ہم تینوں سفاک اور  بے رحم دنیا کے بارودی اور  خون آلود گرد و غبار میں کھو گئے۔ تب احساس ہوا کہ یہ دنیا والے تم سے زیادہ سفاک و بے رحم ہیں۔ ہر کسی کے ہاتھ میں چھری ہے اور  ہر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے در پئے ہے۔ ہمیں کوئی سائبان نہیں ملا کہ جس کے سائے میں ہم سکون کی سانس لے سکتے۔ روتے ہنستے ، گرتے سنبھلتے ایک دوسرے کو سہارا دیتے زندگی کی اونچی نیچی پگڈنڈیوں پر چلے جا رہے تھے کہ آج پینتیس سال بعد اچانک تم آ گئے۔ تمہارے آنے کی امید ہی نہیں تھی۔ پتہ نہیں دعاؤں کی قبولیت کا وہ کونسا لمحہ تھا جو ان بچوں کو نہال کر گیا۔

تم اپنے بچوں اور  پوتے پوتیوں کے بیچ بیٹھے مسکرا رہے تھے۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے دور کہیں سنگلاخ چٹانوں کے بیچ سے کوئی چشمہ بہہ نکلا ہو۔ جیسے کھلے میدان کی چاندنی رات میں کہیں دور چاندی کی گھنٹیاں سی بج رہی ہوں۔ بچے حیران نظروں سے تمہیں دیکھ رہے تھے۔ ایک شخص جو ان کے لئے اجنبی ہوتے ہوئے اپنا سا لگ رہا تھا۔ دو تین بار تم نے مجھ پر بھی نظر ڈالی۔ تمہاری آنکھوں میں جیسے سوال تھا کہو کیسی گزری ؟میں کیا بتاتی کہ سوکھے پتے کی مانند اڑتی پھر رہی تھی۔ میرا حال کٹی پتنگ جیسا تھا جو آسمان کی بے کراں وسعتوں میں بھٹک رہی تھی۔ ایک معزز اور  اعلیٰ افسرکی بیوی ہونے کا اعزاز میرے نصیب میں نہیں تھا مجھے کہیں سے بھی کوئی صدا نہیں دی۔ شاید میں لوٹ آتی۔ آج تمہیں اپنے سامنے دیکھ کر اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں آ رہا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی معصوم کا کھویا ہوا قیمتی کھلونا اچانک سر راہ مل گیا ہو جسے اٹھا کر جھاڑ پونچھ کر اپنے سامنے رکھ لیا ہو۔ دل چاہتا تھا کہ وقت کی رفتار تھم جائے گردش لیل و نہار ٹھہر جائے وقت پر کس کا بس چلا ہے۔ اس کا تو کام گزرنا ہے وہ گزر جاتا ہے اور  جاتے جاتے اچھی بری یادیں چھوڑ جاتا ہے۔ دو تین گھنٹے بیٹھ کر تم اٹھ گئے۔ بچوں اور  بہوؤں نے تمہیں روکا لیکن تم دو تین ماہ بعد آنے کا وعدہ کر کے چلے گئے۔ ہم سب دیکھتے رہ گئے۔ آج پہلی بار مجھے تھکن کا احساس ہواجیسے کوئی پرندہ تیز آندھیوں میں اڑتا ہوا زخمی ہو گیا ہو اور  کسی پناہ گاہ کی تلاش میں ہو۔

٭٭٭

 

 

 

سمٹ گئے فاصلے

 

زندگی ہم سے ترے ناز اٹھائے نہ گئے

سانس لینے کی فقط رسم ادا کرتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ مرد ذات عورت کو کہیں چین لینے دیتی ہے پرائی عورت پر ہر مرد بری نظر ڈالتا ہے مجھ پر صاحب جی کی نظر پھسل گئی بی بی جی نے بھی تاڑ لیا اور  مجھے کچھ روپیہ دے دلا کر چلتا کر دیا کپڑے دئے کپڑوں کے لئے اچھا سا سوٹ کیس بھی دیا میری عقل میں یہ بات نہیں سماتی کہ قسمت بار بار ہم غریبوں کے ساتھ کیوں مذاق کرتی ہے میں نے وہ گھر چھوڑ دیا اور ایک درگاہ میں پناہ لے لی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسٹیشن پر آج بڑی گہماگہمی تھی چار نمبر پلیٹ فارم پر ایک بازو جہاں چاندنی اپنی موسمبیوں کا ٹوکرا لئے بیٹھا کرتی ہے غیر معمولی بھیڑ تھی دو عورتوں ایک مرد کے جھگڑ نے کی آوازیں آ رہی تھیں میری ٹرین کے آنے میں آدھ گھنٹہ باقی تھا اس لئے میں تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں پہنچ گئی جہاں جھگڑا چل رہا تھا۔  چاندنی اٹھا ئیس تیس برس کی گوری چٹی عورت تھی جس کے گول سے چہرے پر گھنگھر یالے سیاہ بالوں کی لٹیس جھولتی رہتی تھیں پھٹے پرانے کپڑوں کے سوراخوں سے اس کا چاندی جیسا بدن لشکارے مارتا دکھائی دیتا تھا کہ ایک بار کسی کی نظر اس سے ٹکرا جاتی تودوسری نظر ڈالے بغیر قدم آگے نہ بڑھنے پاتے۔  مجھے اپنی ڈیوٹی پرہر روز صبح ٹرین سے جانا ہوتا ہے اور چاندنی ہردوسرے تیسرے دن مجھے موسمبی خرید نے پر مجبور کرتی تھی۔ ایک دن جب ٹرین لیٹ تھی اس نے موسمبی دینے کے بجائے مجھے اپنی باتوں میں الجھا دیا۔  اس نے بتایا کہ ماں نے بچپن میں ہی اس کی شادی کر دی تھی جبکہ پڑھ لکھ کروہ ٹیچر بننا چاہتی تھی۔  میں نے پوچھا ’’تو نے شادی سے انکار کیوں نہیں کیا ؟‘‘

’’کیا بتاؤں بی بی جی! ابا تو اوپر جا چکے تھے محلے کے لڑکے مجھے چھیڑا کرتے کوئی بھائی نہیں تھا جوان کی دھلائی کرتا ماں کب تک مجھے ان کی نظر کے تیروں سے بچائی ان ہی دنوں محلے کی ایک خالہ نے اپنے نواسے کے لئے مجھے مانگا ماں نے ہاں کر دی ‘‘ ’’پھر کیا ہوا ؟‘‘

’’ہونا کیا تھا شادی ہو گئی اپنے ہی جیسے غریب لوگوں میں چلی گئی بلکہ ہمارے گھرسے بدتر ان کا گھر تھا بارش میں ساری چھت ٹپکتی تھی اور نیند حرام ہو جاتی تھی وہ موز کی بنڈی لے جاتا اور  رات دیر گئے شراب پی کر آتا اور بس مار کٹائی میں رات گزرتی ماں کے گزر جانے کے بعد ان لوگوں کا ظلم وستم اور بڑھ گیا سسرنے مجھ پر بری نظر رکھی تھی گھرسے مجھے وحشت ہونے لگی اور  میں بیمار ہو گئی کسی نے دوا دارو بھی نہیں کی بیزار ہو کر میں گھرسے بھاگ گئی اور  آپ جیسی ایک بی بی کے گھر میں جھاڑو پوچا کرنے لگی اچھا کھانا کپڑا اچھا گھر تھا بے فکری نے   مجھے نیا جنم دیا میری ہڈ یوں پر گوشت چڑھ گیا رنگ بھی نکھر آیا کبھی باہر نکلتی توراستہ چلنے والے مجھے یوں دیکھتے جیسے میں کوئی گلا ب جامن ہوں ‘‘

’’کیا اب اس گھر میں کام نہیں کرتی ؟‘‘

’’کہاں جی! یہ مرد ذات عورت کو کہیں چین لینے دیتی ہے پرائی عورت پر ہر مرد بری نظر ڈالتا ہے مجھ پر صاحب جی کی نظر پھسل گئی بی بی جی نے بھی تاڑ لیا اور  مجھے کچھ روپیہ دے دلا کر چلتا کر دیا کپڑے دئے کپڑوں کے لئے اچھا سا سوٹ کیس بھی دیا میری عقل میں یہ بات نہیں سماتی کہ قسمت بار بار ہم غریبوں کے ساتھ کیوں مذاق کرتی ہے میں نے وہ گھر چھوڑ دیا اور ایک درگاہ میں پناہ لے لی۔  میں چادر اوڑھے ایک کونے میں سکڑی سمٹی بیٹھی رہتی دو وقت کی روٹی کھا لیتی تھی دو دن گزرے تھے کہ ایک اللہ کا بندہ نعیم ایسا ملا کہ میں اپنے دکھ بھولنے لگی وہ میرے کھانے کپڑے کا خیال رکھنے لگا تھا! کیا بتاؤں بی بی جی رات اور دن سہانے لگنے لگے چاروں طرف اجالے سے بکھر رہے تھے اس نے مجھے بتایا کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے اپنی بیوی اور تین بیٹیوں کا ذکر کیا اور کہا کہ اسے ایک بیٹے کی خواہش ہے اس نے مجھ سے نکاح کر لیا ایک گھر کرائے پر لیا اور اس میں ضرورت کی ہر چیز رکھ دی میں بن مانگی خوشیوں کے ہجوم میں کھو گئی اور نہیں سوچا کہ بخشش میں ملنے والی محبت زندگی کو نہیں سنوارسکتی کسی اور کی تقدیر کے سورج سے میری دنیا کا اندھیرا دور نہیں ہو سکتا میں سکون کا سانس بھی لینے نہ پائی تھی کہ قسمت نے پھر میرے منہ پر طمانچہ مارا نعیم کی بیوی کواس بات کا علم ہوا تو اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ میرے گھر آ دھمکی سب نے مجھے مارا پیٹا اور فوراً گھر سے اور نعیم کی زندگی سے دور چلے جانے کہا اور نہ مجھے جان سے مار دینے کی دھمکی دی دوسرے دن میں نے اپنے کپڑے اور ضروری سامان  سمیٹا اور اس گھرکو چھوڑ دیا۔  میرے پاس جو تھوڑی بہت رقم تھی اس سے یہ کام شروع کر دیا ‘‘ چاندنی کی دکھ بھری کہانی سن کر میرا دل بھر آیا تقدیر کے کھیل نرالے ہوتے ہیں قدرت نے تو عورت کو وہ تقدس عطا کیا کہ اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی لیکن ابلیس کے چیلے اس کے تقدس کو پامال کرنے کے در پئے رہتے ہیں پتہ نہیں آج چاندنی کا جھگڑا کس بات اور کس کے ساتھ ہو رہا تھا۔  ‘‘

’’میری ٹرین آدھ گھنٹہ لیٹ تھی میں تیز تیز قدم اٹھاتی چاندنی کی طرف گئی تو دیکھا ایک مرد اور ایک عورت کسی بات پر چاندنی کے ساتھ جھگڑا کر رہے تھے چاندنی ایک بچے کو اپنے سینے سے چمٹائے کھڑی تھی بڑی بڑی چمکدار آنکھوں سے چنگاریاں برس رہی تھیں بچہ اس مرد کی زیراکس کا پی تھا جو اس سے جھگڑا کر رہا تھا چاندنی کہہ رہی تھی ’’دو سال تک تم نے میری کوئی خیر خبر نہیں لی اب بچے کی یاد آئی ہے ؟ در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہوں اپنا خون پلا کر بچے کو پال رہی ہوں کہہ دیا نا یہ بچہ تمہارا نہیں ہے میں کسی کو اپنا بچہ نہیں دوں گی یہ میرا بچہ ہے چلے جاؤ یہاں سے ‘‘

’’دیکھ چاندنی میں آخری بار کہہ رہا ہوں سیدھے طریقہ سے میرے ساتھ چل ہم سب مل کر رہیں گے تو نہیں چلے گی تومیں اپنے بچے کوکسی نہ کسی طرح لے لوں گا پھر تو پچھتائے گی ‘‘مرد نے اسے دھمکی دی لیکن عورت نے سمجھا تے ہوئے کہا ’’میں تجھے لینے کے لئے آئی ہوں پہلے تیرے ساتھ جو بھی جھگڑا ہوا تھا اسے بھول جا وہ غصہ میری نادانی تھی اب میں کچھ نہیں کہوں گی میری تین بیٹیاں اپنے بھائی کو پا کر خوش ہو جائیں گی ہم سب مل کر رہیں گے سب مل کر محنت کریں گے اور اپنے بچوں کی پرورش کریں گے ‘‘ان سب کے درمیان ہونے والے جھگڑے کی بات میری سمجھ میں آ گئی تھی میں چاندنی کے سامنے جا کھڑی ہوئی مجھے دیکھ کر وہ رونے لگی’’بی بی جی میرے بچے کو اور مجھ کو بچا لو یہ ظالم لوگ ماں بیٹے کو جدا کرنے آئے ہیں مجھے پھر دھوکہ دینے آئے ہیں مجھے بچا لو مجھے بچا لو ‘‘میں نے چاندنی کا ہاتھ پکڑا اور وہاں سے کچھ دور لے جا کرسمجھا یا ’’چاندنی تیرا شوہر سوتن کے ساتھ  آ کر تجھے اطمینان دلانا چاہتا ہے کہ اب تجھے کوئی تکلیف نہیں ہو گی پچھلی باتوں کو بھول کران کے ساتھ چلی جا عزت اور  سکون کی زندگی گزار قسمت تجھے موقع دے رہی ہے اسے کیوں گنواتی ہے چلی جا اسی میں تیری بھلائی ہے ‘‘

چاندنی کچھ دیر پلکیں جھپکاتی میرے چہرہ کو دیکھتی رہی پھر جھک کر میرے پاؤں چھوئے مسکرائی اور پلٹ گئی۔

٭٭٭

 

 

اندھیرے اجالے

 

جو چمن کو آئے بہار دے جو گلوں کے رخ کو نکھار دے

جو قدم خزاؤں کے روک دے اسی باغباں کی تلاش ہے

مرا ضبطِ غم ، مری الجھنیں ، مری آرزو ، مری چاہتیں

میں کسے سناؤں یہ داستاں مجھے راز داں کی تلاش ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا غریب کے بچوں کو پڑھنے کا حق نہیں ہوتا کیا اسے اپنے باپ دادا کی طرح ان پڑھ رہنا چاہئیے۔  محرومیوں اور مجبوریوں کو سینے سے لگائے زندگی گزار دینا چاہئیے ؟وہ سوچتا رہا اس کی پلکیں بھیگتی رہیں اگر وہ اعلی تعلیم حاصل نہ کر سکا اعلی افسرنہ بن سکاتو ہارون کی بہن پروین کا ہاتھ کیونکر مانگ سکتا ہے وہ تو ملے بغیر ایک دن بھی نہیں رہ سکتے کاش انسان کی تقدیر اس کی مٹھی میں ہوتی۔  اسے اچھے کالج میں داخلہ لینا ہی ہو گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک شخص بہت تیز رفتاری سے بھا گتا ہوا آیا اور  لیدر کا چھوٹا ساپرس اس کے ہاتھ میں تھما کر کہا ’بھا گو،۔  عارف نے پوچھا: یہ کیا ہے ؟

’سوال مت کرو، بھاگ جا ؤ۔  کل اسی جگہ آ جانا تمہارا بہت فائدہ ہو گا ‘‘ کہتا ہوا وہ ایک گلی میں مڑ کر غائب ہو گیا عارف نے ادھر ادھر نظر دوڑا ئی تو دیکھا پولس کے دو جوان بھا گتے ہوئے آ رہے تھے انھیں دیکھ کر عارف سرپٹ بھا گا۔  بھاگتا ہوا جانے کتنی دور نکل گیا پسینے میں شرابور ہو چکا تھا سانسیں بے ترتیب ہو رہی تھیں اسی وقت اس کے دوست ہارون نے اسے روک لیا کہا ’’عارف! رکو! رکو! کہاں بھاگے جا رہے ہو کیا تیز بھاگنے کی مشق کر رہے ہو ؟

’’ذرا۔۔۔  ذرا۔۔۔  ٹھیرو بتاتا ہوں ‘‘اس نے چاروں طرف نظر دوڑا ئی ایسا کوئی شخص نظر نہیں آیا جو اس کا پیچھا کر رہا ہو اس نے سانسوں پر قابو پاتے ہوئے کہا :

’’دیکھو کسی بھاگتے ہوئے آدمی نے میرے ہاتھ میں یہ پرس تھما یا اور  غائب ہو گیا شاید پولس اس کے پیچھے تھی میں کچھ سوچے سمجھے بغیر بھاگنے لگا! یہ میں کہاں نکل آیا ؟

’’تم میرے گھر کے سامنے ہو چلو اندر بیٹھ کر بات کرتے ہیں ‘‘

عارف نے پسینہ صاف کرتے ہوئے کہا: ’’دیکھوتواس پرس میں کیا ہے یہ بھا گنے والے کا ہے یاکسی کا اڑا لیا ہے ؟

’’ارے اس میں تو کافی رقم ہے تمام سوسوکے نوٹ ہیں ‘‘ہارون نے کہا ’’میں ایسا کرتا ہوں کل اُسی مقام پرجا کر ٹھیر جاتا ہوں۔

ہو سکتا ہے وہ آ جائے اس نے کہا تھا کہ میرا بہت فائدہ ہو گا‘‘دوسرے دن عارف اسی وقت اور اسی مقام پر گھنٹہ آدھ گھنٹہ ٹھیر کرواپس چلا گیا۔  دو تین دن تک وہ جاتا اور ٹھیرتا رہا۔  پھر اس نے ہارون سے کہا ’’یار کیا کریں وہ تو نہیں آیا ہو سکتا ہے وہ پکڑا  گیا ہو حوالات میں بند ہو!

’’ارے بھئی کرنا کیا ہے رقم تم نے چرائی تو نہیں ہے اسے اوپر والے کی دین سمجھ کرکام میں لالو‘‘

’’ہاں میرے بھی دل میں یہ خیال آیا تھا تم تو جانتے ہو میرے ابو اسکول کی فیس بھی برابر نہیں دیتے تین مہینے سے میں نے فیس نہیں دی ہے اپنی کلاس کا اچھا اسٹوڈنٹ ہوں نا اس لئے سربہت نرمی سے پیش آتے ہیں سال ختم ہونے چار مہینے باقی ہیں امتحان کی فیس بھی دینا ہے آخر مجھے میٹرک پاس کرنا ہے ماں کی دوا بھی ختم ہو گئی ہے ‘‘

’’تمہارے ابوفیس کیوں نہیں دیتے ؟

’’تم جانتے ہو وہ ایک کرانہ دوکان پر کام کرتے ہیں روزانہ -50 60روپئے ملتے ہیں آدھی رقم وہ خود اپنے لئے خرچ کرتے ہیں باقی پیسوں میں گھر چلنا ہی مشکل ہے فیس کہاں سے دیں گے!؟

’’تم ایسا کرو ان پیسوں سے اپنا کام چلا لو جب تم کمانے کے قابل ہو جاؤ توکسی غریب کو اتنی ہی رقم دے دینا حساب برابر ہو جائے گا  چلو اب زیادہ نہ سوچواسے اوپر والے کی مددسمجھو ‘‘

عارف نے میرٹ میں امتحان پاس کیا گولڈ مڈل حاصل کیا وہ بہت خوش تھا لیکن آگے کی پڑھائی اور فیس کی فکر نے اسے اداس کر دیا تھا۔  رات بستر پر لیٹا ہوا سوچوں میں گم تھا اسے بچپن ہی سے اچھے اسکول میں پڑھنے کی خواہش تھی وہ تو پوری نہ ہو سکی تھی اب وہ  اچھے کالج میں داخلہ لینا چاہتا تھا جو ممکن نظر نہیں آ رہا تھا اس نے مختلف کالجوں کے چکر لگائے اور مایوس ہو گیا یہ اجلے نکھرے سے لوگ جو قوم کی خدمت کا بیڑا اٹھائے لمبی چوڑی تقریریں کرتے ہیں اندر سے کتنے مکروہ اور لالچی ہوتے ہیں انھوں نے ایک ہونہار طالب علم کی بھی پرواہ نہیں کی! اس نے محلے کے کارپوریڑ سے مل کر اپنی مجبور یاں بتائیں اس نے بھی 25ہزارکا مطالبہ کیا عارف کے دل میں آیا کہ وہ بھی کسی کا پرس اڑا لے کسی بینک میں ڈاکہ ڈال دے یا پھر کسی بڑے گھر میں گھس کر چوری کرے رات کا سناٹا کتنا عجیب ہوتا ہے کوئی آہٹ کوئی آواز نہیں پھر بھی لگتا ہے بے نام بے ہنگم سی آوازیں دماغ پر ہتھوڑے برسا رہی ہیں اس کا ذہن برے برے خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا والدسے کوئی امید نہیں تھی وہ تو معمول کے مطابق 11بجے شراب کے نشہ میں چور گھر آتا ماں سے جھگڑا کرتا اکثر مار پیٹ بھی ہوتی پھر وہ سوجاتا اسے اپنے اکلوتے بیٹے اور  بیوی کی پرواہ نہیں تھی کاش ہارون کے والد کی طرح اس کے والد بھی کوئی آفیسر ہوتے اچھا گھر اچھا اسکول اسے بھی میسر ہوتا کیا غریب کے بچوں کو پڑھنے کا حق نہیں ہوتا کیا اسے اپنے باپ دادا کی طرح ان پڑھ رہنا چاہئیے ؟ محرومیوں اور مجبوریوں کو سینے سے لگائے زندگی گزار دینا چاہئیے ؟وہ سوچتا رہا اس کی پلکیں بھیگتی رہیں اگر وہ اعلی تعلیم حاصل نہ کر سکا اعلی افسرنہ بن سکاتو ہارون کی بہن پروین کا ہاتھ کیونکر مانگ سکتا ہے وہ تو ملے بغیر ایک دن بھی نہیں رہ سکتے کاش انسان کی تقدیر اس کی مٹھی میں ہوتی۔  اسے اچھے کالج میں داخلہ لینا ہی ہو گا۔

اس نے اپنا مسئلہ ہارون کے سامنے رکھ دیا اس کے والد ایک اعلی پولس آفیسر اور نیک انسان تھے۔  ہارون نے اسے اپنے پاپا سے ملایا انھوں نے اچھے کالج میں داخلہ دلانے کا وعدہ کیا۔  عارف نے کہا

’’انکل آپ کا یہ احسان میں عمر بھر نہیں اتار سکوں گا ‘‘

’’نہیں بیٹا اس میں احسان کی کیا بات ہے انسان کوانسان کی مدد کرنا چاہئے کسی کی ڈوبتی کشتی کو بچانا اور پار لگانا انسانی فریضہ ہے تم جیسے ہونہار بچوں کی قوم کو ضرورت ہے اگر ایک متمول بندہ کم از کم ایک بچے کو اعلی تعلیم دلا سکے تو ہزاروں بچے اپنے خاندان کے کفیل بن سکتے ہیں اور  مجھے یقین ہے تم بھی کسی کی مدد کرو گے بس میرا احسان اتر جائے گا ‘‘’’انکل میں سمجھا نہیں ؟ عارف نے کہا

’’میں بتاتا ہوں تمہیں کیا کرنا ہے ، جب کبھی تم قابل بن جاؤ اور تقدیر تمہیں موقع دے تو تم بھی کسی مظلوم یامستحق کی ڈوبتی کشتی کواسی طرح پار لگا دینا سمجھ گئے ‘‘ہارون کے والد نے عارف کے سرپر ہاتھ رکھ کر کہا

’’جی!انکل آپ نے بہت اچھی بات بتائی ہے میں یہ بات یاد رکھوں گا ‘‘

شہر کے ایک مشہور کالج میں عارف کو داخلہ مل گیا۔  لیکن چند ہی ماہ بعد ہارون کے والد کا تبادلہ ہو گیا کچھ عرصہ تک فون یا خطوط کا سلسلہ رہا پھر بند ہو گیا۔ عارف کی زندگی میں خلاء ساپیدا ہو گیا کہتے ہیں وقت ہر زخم کا مرہم ہوتا ہے ماہ وسال پر لگا کر اُڑ گئے کڑی محنت اور  آزمائشوں کے دور سے گزر کر عارف نے M.Sc. M.Ed.کر لیا۔ اس کا باپ شراب پی پی کر بیمار ہو گیا اس کے سینے اور پیٹ میں درد رہنے لگا تھا کپڑے سیتے سیتے ماں کی کمر کمان بن چکی تھی  ان ہی دنوں عارف کو اسی کے کالج میں معقول تنخواہ پر ملازمت مل گئی ماں باپ کی اور  خوداس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا اس دن اس نے باپ سے وعدہ لیا کہ وہ آج سے شراب نہیں پئے گا اور  ماں سے وعدہ لیا کہ وہ اب کپڑے نہیں سئے گی۔  اس دن اسے ہارون اور پروین کی یاد بہت ستا رہی تھی وہ دونوں بھی ڈگری کر چکے ہوں گے کاش ہم سب ایک دوسرے کی خوشی میں شامل ہوتے جانے وہ سب کہاں ہوں گے کب ملیں گے ؟ رات پھر وہ ٹھیک سے سوبھی نہ سکا۔  صبح جلدی اٹھ گیا کیونکہ اس کے والدین کو دوا خانہ لے جانا تھا ڈاکٹر سے اپوائنٹ منٹ لینے کے لئے وہ چلا گیا۔  دوا خانہ میں اچانک اس کی ملاقات ہارون سے ہو گئی وہ نہیں جانتا تھا جنھیں یاد کرتا ہوا رات بے چین تھا صبح ان سے ملاقات ہو جائے گی وہ مارے خوشی کے ہارون سے لپٹ گیا ہارون بھی اسی گرم جوشی سے ملا لیکن اس کی پلکیں بھیگی ہوئی تھیں چہرہ سے بیمارسالگ رہا تھا دونوں ہاسپٹل کے احاطہ میں ایک طرف بیٹھ گئے ہارون نے بتایا کہ پروین کو B. T ہو گیا ہے ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اگلے دو تین ماہ اس کے لئے خطرناک ہیں وہ رو پڑا ’’عارف میری بہن کیا ہمیشہ کے لئے بچھڑ جائے گی میں یہ کیسے برداشت کر سکوں گا بتاؤ عارف میں کیا کروں ؟ عارف کو یہ سن کر سکتہ سا ہو گیا چند لمحوں بعد اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے کہا :

’’ہارون   B۔ T  کا مرض تو ختم ہو چکا ہے کبھی کسی کو ہو جاتا ہے تو اس کا علاج بھی ہے اتنے پریشان نہ ہو میرے بھائی سب ٹھیک ہو جائے گا چلو مجھے اس کے پاس لے چلو‘‘ پروین نے عارف کو دیکھا تو دیکھتی رہ گئی جیسے کہہ رہی ہو کیا چاہنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں دیکھو تمہاری جدائی میں میری کیا حالت ہو گئی ہے!!؟

عارف کی بھی آنکھیں جیسے کہہ رہی تھیں میں بھی زمانے سے خفا تھا اپنے آپ سے خفا تھا لیکن اب تم مل گئی ہو چلو ماضی کی صعوبتوں کو بھول جائیں عارف اس کے قریب بیٹھا تسلی آمیز باتیں کرتا رہا بہت دیر بعد وہ اور ہارون جانے کے لئے اٹھے تو والدہ نے کہا کہ وہ ہر روز آیا کرے آج پروین بہت خوش ہے خدا اُسے ایساہی خوش رکھے۔  عارف تو چاہتا ہی تھا کہ وہ ہر روز پروین کے سامنے بیٹھا اس سے باتیں کرتا رہے اس نے وعدہ کیا کہ وہ ہر روز آیا کرے گا۔  واپسی پر ہارون نے کہا کہ ’’پروین کی صحت قدرے سنبھل جائے تو اس کی شادی کر دی جائے گی ہم سب اسے دلہن بنی دیکھنا چاہتے ہیں سوال یہ ہے کہ اس حالت میں اس سے شادی کون کرے گا ؟

اچانک عارف کو ہارون کے پاپا کی وہ بات یاد آ گئی جسے یاد رکھنے کا اس نے وعدہ کیا تھا کہ ’’تم قابل بن جاؤ اور تقدیر تمہیں موقع دے تو تم بھی کسی مظلوم یامستحق کی ڈوبتی کشتی کو پار لگا دینا ‘‘عارف کو خاموش پا کر ہارون نے حیرت سے پوچھا ’’کیا بات ہے عارف تم اس طرح کیوں خاموش ہو گئے ؟

’’میں سوچ رہا تھا کہ کیا میں انکل اور آنٹی کی خواہش کو پورا کرنے کی جرات کر سکتا ہوں ؟ گو کہ آج میں تعلیم یافتہ کہلا سکتا ہوں با وقار عہدہ پر فائز ہوں لیکن طبقاتی فرق تو جوں کاتوں رہے گا پھر بھی میں۔

’’کیا کہہ رہے ہو عارف!تمہارے سامنے اس بات کا اظہار اس لئے نہیں کیا کہ تم اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر دو؟! اور یہ طبقاتی فرق کے کیا معنی ہیں ؟ عارف نے کہا ’’اس میں قربانی کی تو کوئی بات نہیں ہے وہ انسان ہی کیا جودوسرے کے کام نہ اس کے ؟ اگر میں تم سب کو تھوڑی سی خوشی دے سکوں تو یہ میری خوش قسمتی ہو گی شاید تم مجھے اس قابل نہیں سمجھتے ہے نا؟ ’’ہارون نے اسے گلے لگا لیا۔

اگلے تین مہینوں میں پروین کی صحت کافی حد تک سنبھل گئی تھی آنکھوں میں چمک آ گئی اور گالوں پر گلاب سے کھل گئے تھے۔  سیٹی ٹوریم سے وہ گھر آ گئی آسمان سے جیسے رنگ و نور کی بارش ہو رہی تھی اور پروین جیسے ستاروں کے جھرمٹ میں پھولوں پر چلتی ہوئی پالکی میں بیٹھ رہی تھی عارف اور پروین ہنی مون منا نے کے لئے سوئٹزرلینڈ روانہ ہو گئے۔

*****

 

 

 

کاغذ کی کشتی

 

’’یہ دو لت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو

بھلے چھین لو مجھ سے میری جو انی

مگر مجھکو لو ٹا دو وہ بچپن کا سا ون

وہ کاغذ کی کشتی وہ با رش کا  پانی‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کا  ایک بجر ہا تھا سارہ اپنے نرم گرم بستر پر لیٹی کرو ٹیں بدل رہی تھی سلیم سے دوری اور  تنہائی کے ناگ ابھی سے پھن اٹھائے نظر آ رہے تھے دل میں انجانو سو سے جاگر ہے تھے مرد ہر جائی ہو تے ہیں خود غرض اور  سنگدل ہو تے ہیں اس کے اندر شکوک کے الا ؤ سلگنے لگے۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسے تیسرے دن تھوڑا سا سکون ملا طبعیت ٹھہرسی گئی وہ تین دن سے اذیت کے الا ؤ میں سلگ رہی تھی یہ سوچ سوچ کر مر رہی تھی کہ وہ مر کیوں نہ گئی دل بند کیوں نہ ہو گیا دم گھٹ جا نا چاہئے تھا تین دن سے جہنم کا ایندھن بنی ہوئی تھی وہ اتنی قا بل نفرت نہیں تھی وہ تو اپنے بڑے اور  چھوٹوں کی آنکھوں کا نور دل کا سرورتھی پھر اس کی  تقدیر کیوں اتنی بد شکل اور  بد نما بن کراس کے سامنے آئی تھی۔  اس کے روم روم میں کا نٹے سے چبھ رہے تھے وہ تو ایک ہی رات میں محبتوں کا ایک سمندر پار کر آئی تھی پھر اس کی کشتی کنارے پر کیوں ڈوب گئی جن کی تقدیر میں ڈوبنا ہوتا ہے شا ید وہ کنارے پر بھی ڈوب جاتے ہیں۔  کیا ہر انسان کی زندگی میں کوئی موڑا یسا بھی آتا ہے جہاں زندگی ہمیشہ کیلئے ٹھہرسی جاتی ہے یا ہمیشہ کے لئے رواں دواں ہو جاتی ہے لیکن اس کی زند گی کا یہ کیسا مو ڑ تھا جہاں آ کراسے کوئی را ستہ سجھائی نہ دے رہا تھا چاروں طرف اندھیرا تھا۔  دو ہی مہینے پہلے وہ دلہن بنی تھی۔  ماہ رمضان قریب الختم تھا سارہ کی ہو نے والی ساس نے فون پر بتا یا تھا کہ وہ جمعہ کے دن عیدی لے کر آ رہی ہیں گھر کا رنگ و روغن تیزی کے ساتھ مکمل ہوا تھا سارہؔ اور  زار ؔا گھر کی صفائی اور  سجاوٹ میں مصروف تھیں عید کے فوری بعد سارا کی شادی تھی ساس سسر اور  نندیں عیدی لیکر آئیں ڈھیرسارے مغزیات ، سوئیاں ، بے حساب مٹھائی کے ڈبے اور  نہایت قیمتی اور  خوش رنگ شلوار سوٹ وغیرہ۔  سا رہ اور  اس کی ماں بہن پھولی نہیں سما رہی تھیں۔  پر تکلف کھا نا ہوا ، ہنستے ہنسا تے تقریب اختتام کو پہنچی۔  مہمان رخصت ہو رہے تھے۔  تب ہی سارہ اور  اس کی سہیلی ناہید نے اسے گھیر لیا ’’بڑی خوش نصیب ہو کہ بنا کوشش و تلاش اچھا لڑکا مل گیا دیکھنے میں تو حضرت بڑے ہی اسمارٹ اور ہینڈسم ہیں لیکن۔۔۔  سارہ ایک بات بتاؤں اسمارٹ لڑکوں پر تو مجھے بھروسہ ہی نہیں آتا جانے کتنی تتلیاں ان کے اطراف گھومتی ہونگی اور ‘‘۔۔۔  ’’ناہید تم آخر اتنی شکی مزاج کیوں ہو شادی کی بنیا دتو محبت اور  اعتماد پر رکھی جاتی ہے ابتدا شک سے ہو گی تو زندگی دشوار ہو جائے گی۔ ‘‘

’’نا بابا!میں تو آنکھیں بند کر کے کسی اجنبی پر بھروسہ کرنے کی قائل نہیں ہوں ویسے سلیم درانی سے ر شتہ کیسے ہوا ان کا فیملی بیک گراؤنڈ کیا ہے ؟ ان کے بارے میں اچھی طرح چھان بین کر لی گئی ہے یا نہیں ؟ دیار غیر میں بسنے والوں کا بھرو سہ کیا ؟ مر دتو ہر جائی ہو تے ہیں دل کسی کو دیتے ہیں تو شادی کسی اور  سے کرتے ہیں ‘‘’’نا ہید کچھ میری بھی سنو گی یا اپنی کہے جاؤ گی ؟ سنو!سلیم درانی میری امی کی بچپن کی سہیلی کے بیٹے ہیں شا ید اسی لئے امی نے چھان بین کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی خاندانی لوگ ہیں بے حساب زمین جائیداد کے مالک ہیں وہ ایک مشہورو معروف کمپنی میں کمپیوٹر انجینئر ہیں اور ان کی تنخواہ بھی معقول ہے ‘‘۔

’’یہ سب تو ٹھیک ہے کیا تم ان کے نیچر سے واقف ہو؟کس ٹائپ کے آدمی ہیں ان کی عادات و اطوار کیا ہیں ان کی پسند نا پسند کیا ہے اور  ان کے دوست کس قماش کے ہیں ؟ ایک اجنبی کے ساتھ زندگی کا سفر کیسے طئے ہو گا ؟‘‘

’’وہ یوں ہو گا کہ میں ان کے قدم سے قدم ملا کر چلوں گی وہ رات کو اگر دن کہیں تو میں بھی دن ہی کہوں گی میری آنکھوں نے کبھی کسی کو اپنے خوابوں میں نہیں بسا یا میں نے اپنے جذبات کو بے آبرو نہیں کیا اور  مجھے اپنے بڑوں پر بھروسہ ہے ‘‘۔

’’کیا تم نے انھیں دیکھا ہے ؟ یا صرف تصویر پر اکتفا کر لیا ؟‘‘

’’بات یہ ہے ناہید، ہمارے سامنے والا مکان اُن لوگوں نے خریدا اور  جس دن شفٹ ہوئے اسی دن امی اور  آنٹی نے ایک دوسرے کو دیکھتے ہی پہچان لیا امی نے بڑے اہتمام کے ساتھ ان کی دعوت کی جب آنٹی نے مجھے دیکھا تو بہت خوش ہوئیں اور  اپنے بیٹے کے لئے مجھے ما نگ لیا۔  ہمیں ایک دوسرے کو دیکھنے کا موقع ہی کہاں ملا ؟‘‘

’’کیا سلیم صاحب نے بھی اپنی ماں کی پسند کے آگے سر تسلیم خم کر لیا ہے ؟‘‘

’’ہاں! اس تعلق سے امی نے کہا بھی تھا کہ ان کا بیٹا بھی مجھے دیکھ لے تو بہتر ہو گا لیکن انھوں نے صاف کہہ دیا کہ اس کی کیا مجال جو میری پسند کے خلاف جائے ،امی مسکرا کر خاموش ہو گئیں شا ید دل ہی دل میں اپنے ہو نے والے داماد کی شر افت اور  فرمانبرداری پر خوش تھیں۔  ‘‘

’’بھئی تم جانو اور  آنٹی جانیں یہ تمہاری خوش نصیبی ہے کہ درد سری کے بغیر اچھا لڑکا مل گیا اور  تحقیقات کی بھاگ دوڑ سے بھی بچ گئے ورنہ اس زمانے میں کوئی لڑکی کسی لڑکے کی ماں بہنوں کو پسند آنا ایک مسئلہ ہے ہر کسی کو خوب سے خوب تر کی تلاش ہے لڑکی پسند آنے کے بعد لڑکے کی دریافت بھی بڑا مرحلہ ہے کہیں بھول چوک ہو جائے تو زندگی کے لالے پڑ جا تے ہیں۔  اچھا اب میں چلتی ہوں کافی دیر ہو گئی ہے ، خدا حافظ۔  ‘‘ناہید کو رخصت کرنے کے بعد سارہ بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ سسرال سے آئی چیزیں دیکھنے بیٹھ گئی سب کچھ ٹھیک تھا اسے سرخ مخملیں ڈبے میں رکھی ہوئی چین بہت پسند آئی جس میں ہیرے کا پنیڈنٹ اپنی شعاعیں بکھیر رہا تھا۔  شادی کی تیار یاں مکمل ہو چکی تھیں عید کے چار دن بعد خوشیوں اور  آنسوؤں کے بیچ سارہ کو رخصت کیا گیا۔

نئی زندگی کی پہلی صبح جواس کے اپنے گھر میں ہوئی تھی اسے بے حد روشن ، مقدس اور  معطر سی لگی۔  نندوں نے پر تکلف ناشتہ دیا اور  چھیڑ چھا ڑ کرتی رہیں۔  ساس واری نیاری جا رہی تھیں اور  سلیم بھی خوش تھا۔  بہنوں نے پو چھا ’’بھیا سچ بتائیں ہمارا انتخاب کیسا رہا ؟‘‘

’’بھئی تمہارے انتخاب کے تو قائل ہو گئے لیکن یہ بتا ؤ کیا ہم کسی سے کم ہیں ؟ ‘‘سلیم نے کنکھیوں سے سارہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا سب نے زوردار قہقہہ لگا یا سارہ نے مسکر اکر گردن جھکا لی جیسے وہ اپنی قسمت پر بھی نا زاں ہو۔  کئی دن تک دعوتوں کا سلسلہ چلتا رہا پند رہ دن پلک جھپکتے گزر گئے سلیم کی چھٹی ختم ہونے میں ایک دن باقی رہ گیا۔  وہ شام ہی سے اپنے دوستوں سے ملنے چلا گیا تھا۔  رات کا ایک بج رہا تھا سا رہ اپنے نرم گرم بسترپر لیٹی کرو ٹیں بدل رہی تھی۔  سلیم سے دوری اور  تنہائی کے ناگ ابھی سے پھن اٹھائے نظر آ رہے تھے دل میں انجانو سوسے جاگ رہے تھے گو کہ سلیم نے بڑے پیار سے وعدہ کیا تھا کہ اسے بہت جلد اپنے پاس بلوا لے گا وہاں پہنچتے ہی ویزا کی کوشش شروع کر دے گا۔  اسے ناہید کی باتیں یاد رہی تھیں   مرد ہر جائی ہوتے ہیں خود غرض اور  سنگدل ہوتے ہیں۔  اس کے اندر شکوک کے الا ؤ سلگنے لگے اگر سلیم نے ویزا نہیں بھیجا تو کیا ہو گا ؟ ناہید مذاق اڑائے گی! یہاں حالات کیسے ہوں گے دنیا کے سمندر میں زندگی کی ناؤ کیا تنہا کنارے لگا سکے گی ؟ آرام و آسائش دولتو ثروت سب مل کر بھی آسو دگی نہیں دے سکتے ایک تشنگی ہمیشہ باقی رہے گی۔  وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اس کی پلکیں بھیک رہی تھیں آنکھوں میں جلن سی ہو رہی تھی تب ہی ہلکا سا کھٹکا ہوا ور  سلیم اندر آ گیا سارہ خالی خالی آنکھوں سے سلیم کو دیکھ رہی تھی وہ اس کے قریب بیٹھا چہرہ کو تک رہا تھا جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو سارہ کے ہو نٹوں پر پھیکا سا تبسم تھا جیسے دور کہیں پہاڑوں پراداسی کی برف گر رہی ہو دوسرے دن سلیم چلا گیا حسبو عدہ دو دن بعد فون کیا خیرو عافیت پو چھی۔ سا رہ کے دل میں جو وسوسے تھے صابن کے جھاگ کی طرح غائب ہو گئے اس یقین نے سرشار کر دیا کہ سلیم ہرجائی نہیں ہے اس کے اندیشے غلط تھے وہ ہر ہفتہ فون کرتا تسلی دلاسے دیتا رہا دو مہینے گزر گئے اسی دوران سلیم کی ماں دل کا شد ید دورہ پڑ نے سے انتقال کر گئیں بہت دن بعد سلیم کا فون آیا وہ اداس تھا اس نے زیادہ بات نہیں کی۔ اتنا بتایا کہ وہ ایک اہم خط بھیج رہا ہے صبح پو سٹ مین کا انتظار کرے۔  سارہ تاروں بھری مسکراتی چھت کے نیچے لیٹی چاند کو تک رہی تھی چاند کے دیس میں خوابوں کا محل سجا رہی تھی ساری رات آنکھوں میں کٹ گئی سپیدۂ سحر نمو دار ہو ادر پہ نظر دل میں بے قراری لئے وہ ہمہ تن منتظر تھی دن کے گیا رہ بجے کال بیل کی چنگھاڑ نے اسے چونکا دیا بیل بجا نے ولا پو سٹ مین تھا اس کی دستخط لینے کے بعد پو سٹ میں نے ایک رجسٹرڈ لفافہ سارہ کے ہاتھ میں تھما دیا اس نے کپکپا تے ہاتھوں سے لفافہ چاک کیا۔  اسے اپنے پیروں تلے زلزلہ سا محسوس ہوا سانسیں بے ترتیب ہو رہی تھیں جیسے گھنے جنگل سے تنہا گزر رہی ہو۔  سلیم کی طرف سے بھیجا گیا طلاق نامہ اس کا منہ چڑھا رہا تھا۔  ساتھ ہی ایک خط اور  ایک ڈرافٹ بھی تھا وہ جہاں کھڑی تھی وہیں بیٹھ گئی اور  خط پڑھنے لگی :

ڈیر سارہ!

یہ لکھتے ہوئے میں دکھ محسوس کر رہا ہوں کہ ویزے کے بجائے تمہیں طلاق نامہ بھیج رہا ہوں۔  میں ایک شادی شدہ مرد اور  دو بچوں کا باپ ہوں۔  جب میری والدہ نے تمہیں میرے لئے پسند کیا تو میں انکار  نہ کر سکا کیوں کہ گز شتہ چار سال سے میں انھیں ٹا لتا رہا تھا وہ دل کی مریضہ تھیں اس دفعہ میرے انکار پر کچھ بھی ہو سکتا تھا اس لئے میری ہمت نہیں ہوئی یہ میری بدقسمتی ہے کہ میری طرف سے ملنی والی خوشی کو بھی ان کا دل سہارنہ سکا اور  وہ چل بسیں میں نے اپنی بیوی کو تمام باتوں سے آگاہ کیا اور  تمہیں ساتھ رکھنے کہا تواس نے صاف انکار کر دیا اگر وہ کوئی سخت قدم اٹھاتی تو بچوں کے لئے مشکل کھڑی ہو جاتی اس لئے مجھے مجبور اًیہ قدم اٹھا نا پڑا ۔  میں نے پانچ لاکھ کا ڈرافٹ بھیجا ہے تم اپنی زندگی کا ہمسفر تلاش کر لینا کبھی زندگی کے کسی مو ڑ پر میری مدد کی ضرورت ہو تو تکلف نہ کر نا امید ہے تم مجھے معاف کر دو گی۔  خدا حافظ

سارہ کے دل میں ایک تلاطم بر پا تھا۔  یہ مرد جو افضل ترین مخلوق ہے عورت پر فوقیت رکھتا ہے شادی کے بعد ایک عورت اسے اپنا مجازی خدا مان لیتی ہے اپنی عبادت ریاضت اور  اپنی جنت مان لیتی ہے زندگی کی کشتی کانا خدا بنا کرپتواراس کے مضبوط ہاتھوں میں تھما کر بے خود و بے خوف ہو جاتی ہے تب نا خدا خود کشتی کو ڈبو دے تو پھر صد یوں بھٹکنے پر بھی ساحل نہیں ملتا۔

٭٭٭

ہر شب کی سحر ہو جاتی ہے

 

ہزار حملے کرے وقت ہم پہ بڑھ چڑھ کے

ہمیں بھی آتا ہے دکھ کی پناہ میں رہنا

اس لئے تو کوئی منزل مراد نہیں

مقدروں میں لکھا ہو گا راہ میں رہنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب میری سمجھ میں آ رہا ہے کہ تعلیم کتنی مقدس چیز ہے یہ عورت کو ایک نیا جنم ایک نئی دنیا دے سکتی ہے اس زندگی کوسنوارسکتی ہے آج میں زندگی کے سنگین موڑ پر’ کھڑی تمہاری ہدایتوں اور دعاؤں کو یاد کر رہی ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے ارمانوں اور  آرزوؤں کا شیش محل آج زمین بوس ہو گیا تھا جس کی کرچیوں پر بیٹھی زارا سوچ رہی تھی کیا اب انہی کرچیوں پر چلتے ہوئے زندگی کا سفر پورا کرنا پڑے گا  کیا ماموں نے اپنے آوارہ بیٹے سے چاقو کی نوک پر نکاح کر کے میری تقدیر کا فیصلہ کر دیا ہے ؟ ’’نہیں ماں ایسا نہیں ہو سکتا!‘‘زارا اپنی ماں کی تصویرسے مخاطب تھی ’’ماں تم مجھے اس کا رزار حیات میں اکیلا چھوڑ گئیں اور خود ابدی نیند کی آغوش میں پناہ لے لی۔  کہتے ہیں کہ مرنے والے تمام جھگڑوں اور  فکروں سے نجات پا لیتے ہیں! قیامت تک کے لئے سکھ کی نیند سوجاتے ہیں لیکن میں نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ مرنے کے بعد سزا ء اور  جزا کا حساب کتاب شروع ہو جاتا ہے نئے عذابوں کا سلسلہ قیامت تک چلتا رہتا ہے پتہ نہیں ماں تم کس حال میں ہو یہاں دنیا میں کونسا قہر تھا جو تمہارے شوہر اور  سسرالی لوگوں نے نہیں توڑا ! لیکن کب تک حالات کا مقابلہ کرتیں ؟ عورت ازل ہی سے کمزور ہے نا تم بھی کمزور تھیں بیماریوں کا شکار ہو گئیں لیکن مجھے ہمت سے جینے کا سبق پڑھاتی رہیں اور اعلی تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کیا کرتیں تم نے کہا تھا کہ عورت کا سکھ روٹی کپڑا اور مکان میں ہے عورت کو صابر و شاکر ہونا چاہئے میں پوچھتی ہوں ماں کیا ایک آوارہ ،جاہل بے روزگار شوہر کے ساتھ زندگی گزارنا بھی عورت کے فرائض میں داخل ہے ؟

اب میری سمجھ میں آ رہا ہے کہ تعلیم کتنی مقدس چیز ہے یہ عورت کو ایک نیا جنم ایک نئی دنیا دے سکتی ہے اس زندگی کوسنوارسکتی ہے آج میں زندگی کے سنگین موڑ پر کھڑی تمہاری ہدایتوں اور دعاؤں کو یاد کر رہی ہوں تم ایک دور اندیش ماں تھیں نانا کی طرف سے ملی ہوئی دس لاکھ کی رقم تم نے میرے بینک اکاؤنٹ میں ڈال دی دونوں بھائی بیرون ملک دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ رہے تھے تمہاری خواہش کے مطابق میں انجنیرنگ کے آخری سال کو پورا کرنے میں جٹی ہوئی تھی کہ تم بنا کچھ کہے سنے ہمارے بیچ سے اٹھ گئیں میری ڈگری بھی نہیں دیکھی، تم نے بیٹوں کا بھی انتظار نہیں کیا، شاید تم جانتی تھیں کہ وہ تمہاری قبر کو مٹی دینے نہیں آئیں گے تمہارے وجود کی چھتر چھایا کیا ہٹی حالات کی دھوپ مجھے جھلسانے لگی تم کیا گئیں ماں مجھ پر قیامت ٹوٹ پڑی پھوپی اپنے نیم پاگل بیٹے سے میرا بیاہ رچانا چاہتی تھیں تاکہ ان کا گھر سنبھالنے کے لئے ایک ملازمہ اور بیٹے کو کھیلنے کے لئے ایک کھلونا مل جائے وہ  ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑ گئیں جو اب دینے کے لئے میں نے دو چار دن کا وقت مانگا اور چاچی کے ہاں چلی آئی وہاں ایک نئی مصیبت میرے انتظار میں تھی چاچاسعودی سے آئے ہوئے تھے ان کے ساتھ ان کی کمپنی کا باس بھی تھا جو یہاں شادی کی غرض سے آیا تھا چاچی اس سے میرا نکاح کروانا اور منہ مانگی رقم وصول کرنا چاہتی تھیں میں کسی طرح وہاں سے بھاگ نکلی اور ماموں کے پاس آ گئی انھیں پھوپی اور چاچی کے ارادوں سے آگاہ کیا ماموں نے مجھے ہمت و دلاسہ تو دیا لیکن دوسرے ہی دن میری گردن پر چھری رکھ کر اپنے آوارہ بے روزگار بیٹے سے میرا نکاح کروا دیا۔ میرے ارمانوں کا شیش محل زمین بوس ہو گیا ماں یہ کسی شادی تھی نہ بارات آئی نہ ڈولی سجی نہ سکھیوں نے ڈھولک پر بابل گیت گائے ماموں نے میری زندگی کشکول میں ایک کھوٹا سکہ ڈال کر کیا میری تقدیر کے فیصلہ کر دیا؟ ماں وہ لمحے میری زندگی کے اذیت ناک لمحے تھے جب مجھے قید کر کے اس کمرے میں ایک درندے کو چھوڑ دیا گیا تھا شراب کے نشہ میں وہ میرے اردگرد چکر لگاتا رہا پھر دھپ سے میرے قریب بیٹھ کر دست درازی کرنے لگا میں اپنے دکھ سے نڈھال تھی شراب کی بدبو اور ایک وحشی کی قربت نے میرا دماغ ماؤف کر دیا میں نے ایک زور کا طمانچہ اس کے منہ پردے مارا پھر اس نے مجھ پر لاتوں گھونسوں کی بارش کر دی اور کل سے اب تک مجھے کسی نے کھا نا بھی نہیں دیا نہ کسی نے پوچھا کہ میں کس حال میں ہوں یہ زندگی اماوس کی اندھیری رات لگ رہی ہے لیکن امید کا ایک دیا جھلملا رہا ہے۔ ‘‘رات کے بارہ بج چکے تھے زارا کمرے میں اکیلی بیٹھی ماں کی تصویر کے آگے آنسوبہا رہی تھی تب ہی عابد کی کار گیٹ میں داخل ہوئی اس نے ڈور کھول کرکسی کوسہارا دیتے ہوئے کا رسے اتارا وہ کوئی لڑکی تھی عابداسے تھامے ہوئے اپنے کمرے میں چلا گیا دیکھنے سے معلوم ہو رہا تھا کہ لڑکی نشہ میں چورہے زارا بجلی کی سی سرعت اپنے کمرے سے باہر آئی اور عابد کے کمرے کا دروازہ بند کر کے مقفل کر دیا۔ کھڑ کی کے پاس جا کراسے مخاطب کیا ’’لڑکیوں کو پلا کر لانا اور  ان کی زندگی برباد کرنا بھی تمہارا محبوب مشغلہ ہے تمہارے چال چلن کی ایک اور خوبی سامنے آئی ہے بہت خوب! ‘‘ ’’کیا بک رہی ہو؟ یہ اپنی مرضی سے ہماری بانہوں میں چلی آتی ہیں لیکن میرے معاملات میں دخل دینے کی اجازت تمہیں کس نے دی ؟ دروازہ کیوں بند کیا ہے کھول دو! کیا کل کی مار بھول گئی ؟ ’’تم جیسے مردوں سے مقابلہ کرنے کی مجھ میں ہمت آ گئی ہے تمہیں یہاں سے آزادی تب ہی ملے گی جب تم مجھے آزاد کر دو گے ‘‘’’کیا مطلب ہے تمہارا ؟ ’’مطلب صاف ہے تم اس کمرہ سے تب ہی باہر آ سکتے ہو جب تم مجھے اپنے نکاح سے باہر کر دو گے یہ کاغذ لو اور اس پر لکھو کہ تم نے مجھے طلاق دی اگر معلوم ہو تو اپنے باپ کا نام بھی لکھنا اور میرے نام کے ساتھ میرے باپ کا نام بھی ہونا چاہے ’’‘‘تمہاری یہ جرات ؟ اگر میں طلاق نہ دوں تو ؟ ’’تومیں ابھی سارے محلے کو جگا دوں گی تمہارے اور  تمہارے باپ کے کرتوت بتاؤں گی میں پولس کی مدد بھی لے سکتی ہوں اور بہت کچھ کر سکتی ہوں وقت ضائع نہ کرو تمہاری محبوبہ اگر ہوش میں آ گئی تو اور بھی تماشہ ہو گا فوراً طلاق نامہ لکھ دو ورنہ ابھی شور مچاؤں گی ‘‘

عابد کو کھلے الفاظ میں طلاق نامہ لکھنا پڑا زارا نے اس طلاق نامہ کو کھڑ کی سے باہر پھینکنے کہا عابد نے دانت پیستے ہوئے زارا کے حکم کی تعمیل کی زارا نے اسے غور سے پڑھا اور دروازہ کھولنے کے بجائے کنجیاں عابد کے منہ پر پھینک  کر چلی گئی۔

٭٭٭

 

 

جہاں اور  بھی ہیں

 

زندگی لطف بھی ہے زندگی آزار بھی ہے

سازو آہنگ بھی زنجیر کی جھنکار بھی ہے

زندگی دید بھی ہے حسرت دیدار بھی ہے

زہر بھی ہے آبِ حیات ، لب و رخسار بھی ہے

زندگی دار بھی ہے زندگی دل دار بھی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں سوچ رہا تھا یہ عشق و محبت کی حکایتیں حسن و شباب کی لطافتیں ، بے وفا دلبروں کی چاہتیں ، یا ردوستوں کی پر کیف صحبتیں اور  ماں باپ کی ازلی شفقتیں سب کتابی باتیں ہیں وہ کتا بی صداقتیں کس کام کی ہیں جن کا عملی دنیا میں کوئی عمل دخل نہ ہو طوفان تھم چکا تھا اس سجدہ گاہ کے نشان مٹ چکے تھے جس کے لئے میری جبینِ نیاز میں سجدے تڑ پ رہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُن دنوں موسم کی میس بھیگ رہی تھیں ہرے بھرے کھیتوں کی بالیاں جوان ہو رہی تھی۔  ہر طرف سبزہ ہی سبزہ تھا۔  ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں دل میں عجیب سی گد گدی پیدا کر رہی تھیں۔  اسکول کا راستہ کاٹے  نہیں کٹتا تھا کیونکہ اب شاداں ہمارے ساتھ نہیں ہوتی تھی۔  پتہ نہیں وہ کیوں مجھے اچھی لگتی تھی مجھ سے ایک دو جماعت آگے تھی۔  شاید عمر میں بھی بڑی تھی دسویں جماعت فیل ہونے کے بعد اس کے والد نے اسکول بھیجنا بند کر دیا تھا۔  ہمارے امتحان قریب تھے اور  پڑھائی میں میرا دل نہیں لگتا تھا۔  کتابوں سے مجھے نفرت سی ہو گئی تھی اکثر اسکول سے غائب رہتا بس کھا نا اور  کھیلنا دو ہی مشغلے تھے۔  گھنٹوں کھیتوں میں گھوم گھام کر گھر چلا جاتا کبھی میدان میں کھیلتے ہوئے بچوں میں شامل ہو جاتا۔  اس دن شام کا دھند لکا پھیلنے لگا تھا گاؤں کے کچے گھروں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔  شاداں کے گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے روز کی طرح میری نظر آج بھی اسی طرف تھی دروازہ بند تھا چھوٹی سی کھڑ کی میں ایک چہرہ نظر آیا تب ہی دروازہ کھلا شام کے سرمئی اندھیرے میں شاداں کا اجلا چہرہ نظر آ گیا اس نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے پاس بلا یا۔  جب میں بھا گتا ہوا اس کے قریب  پہنچا اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر اندر کھینچ لیا دروازہ بند کر کے مجھے تخت پر بٹھا دیا جہاں ایک مدھم ساچراغ روشن تھا۔  میں نے پو چھا :

’’کیا بات ہے شادو ؟‘‘’’ناصر میں نے سنا ہے تم اسکول برابر نہیں جا رہے ہو نہ پڑھائی میں دلچسپی لیتے ہو کیا بات ہے ؟‘‘

’’ہاں شادو جب سے تم نے اسکول آنا بند کیا ہے تب سے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا اسکول میں دل نہیں لگتا‘‘

’’اچھا سنو تم روزانہ میرے گھر آ جا یا کرنا میں تمہیں پڑھا دیا کرونگی ٹھیک ہے ؟ آؤ گے نا؟‘‘

’’شادو تم نے یہ بہت اچھی بات کہہ دی اب میں ہر روز آیا کروں گا ‘‘میں خوشی خوشی گھر کی طرف بھا گا۔

میرے ماں باپ پانچ سال پہلے میرے چھوٹے بہن بھائی کو لیکر سعودی عرب چلے گئے تھے میں اپنی دادی اور  پھو پی کے ساتھ رہتا تھا ماں باپ کے پیار کے لئے تر ستا تڑ پتا جی رہا تھا۔  جس دن کسی سے پیار کے دو بول سن لیتا خوشی سے دیوانہ ہو جاتا میرا وہ دن بہت اچھا گزرتا۔  مجھے یاد ہے ماں مجھ سے گھر کا سارا کام کرواتی چھوٹے بہن بھائی کی خدمت کرواتی اور  مجھے ہمیشہ ڈانٹ ڈپٹ کرتی رہتی۔  کبھی کوئی غلطی ہو جاتی یا کسی کام میں دیر ہو جاتی تو وہ مجھے بری طرح مارتی اور  کوستی کاٹتی تھی سب بچوں کی مائیں ایسی تو نہیں ہوتیں پھر میری ماں ایسی کیوں تھی یہ سوال مجھے ہمیشہ کچوکے لگاتا اور میرا دل ہمیشہ اداس رہتا تھا۔

اب میں اسکول پابندی کے ساتھ جانے لگا تھا شاداں مجھ سے بہت خوش تھی اداسیوں کا بوجھ میرے دل سے ہٹ رہا تھا۔  ایک دن اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر چوم لیا میں پلکیں جھکاتا ہوا اسے دیکھ رہا تھا اس نے کہا ’’ایسے کیا دیکھ رہے ہو ؟

میں نے نظریں جھکا لیں میرا دل بری طرح دھڑ ک رہا تھا۔  ’’اب تم جا ؤ ناصر کلآؤ گے نا؟ ‘‘شاداں کی آواز کپکپا رہی تھی اور  میرے اندر کہیں گرم گرم لوہا پگھل رہا تھا میں باہر نکل گیا میری سا نسیں بے ترتیب ہو رہی تھیں گھر جا کر ٹھنڈے پانی سے منہ ہاتھ دھویا اور  کتابیں لے کر بیٹھ گیا کیونکہ دوسرے دن پھر شاداں کے پاس جانا تھا پرانا سبق سنانا تھا نیا سبق لینا تھا۔  اس رات مجھے نیند نہیں آ رہی تھی ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے کسی نے مجھے خزانے کا راز بتا دیا ہے دادی ماں نے کہانیوں میں خزانوں کا حال سنا یا تھا کہ کس طرح شہزادے جن اور  دیوؤں سے لڑ کر خزانہ حاصل کر لیتے ہیں آج میں بھی اپنے آپ کو ایک شہزادہ محسوس کر رہا تھا دوسرے دن مجھے شاداں کے گھر جانے کی جلدی تھی بے جھجک و بے دھڑ ک چلا جا رہا تھا جیسے خزانہ میرے انتظار میں ہو۔  آج اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیکر کہا ’’ناصر تم مجھے بہت اچھے لگتے ہو کیا میں بھی تمہیں اچھی لگتی ہوں ؟ ’’تم جلدی سے بڑے ہو جاؤ خوب پڑھ لکھ کر اچھی سی نوکری کرنا پھر مجھے یہاں سے لے جانا میں تمہاری دلہن بن کر آؤں گی میری سوتیلی ماں ہے نا وہ مجھے بہت مارتی اور  خوب کام کراتی ہے اسی نے بابا سے کہہ کر میرا اسکول جانا بند کرا دیا ہے بولو تم مجھے اپنے ساتھ لے جاؤ گے نا ؟‘‘میں نے ایک انجانی سی خوشی کے تحت حامی بھر لی۔  میرے امتحان ختم ہو گئے میں اچھے نشانات سے پاس ہو گیا۔  اب شادو کے پاس کس طرح جاؤں ؟ وہ مجھے دسویں جماعت کی کتا بیں نہیں پڑھا سکتی تھی اور  مجھے اس کے ہاں گئے بنا قرار نہ تھا کاش میں امتحان میں پاس ہی نہ ہوا ہوتا۔  یہ کیسا خوش گوار سا آزار لگ گیا تھا۔  شادو کے خیال سے میرے بدن میں گد گد سی ہونے لگتی بازوؤں میں عجیب سی قوت کا احساس ہوتا اور  رگوں میں گرم گرم خون اچھلتا محسوس ہوتا سینے میں جذبات کا سیلا ب سا امڈ نے لگتا شاید ایسے ہی سیلا ب زندگی کے دھاروں کا رخ بدل دیتے ہیں۔  مجھے پڑھائی پھر سے بری لگ رہی تھی میں سستو خاموش بیٹھا رہتا میری اداسی کا سبب کوئی نہیں جانتا تھا میں کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔  سوائے دادی کے میرا کوئی غم خوار نہ تھا میں ان سے کہتا بھی کیا۔ ماں باپ نے تو مجھے بھلا ہی دیا تھا۔  ان دنوں ہمارے گاؤں کے تھا نے دار کے ہاں ٹی وی آ گیا اب میرا وقت اچھا گزرنے لگا شادو بھی اکثر وہاں آ جاتی تھی موقع پا کر تھا نے دار کی موٹی بیوی مجھے اپنے پاؤں دبانے کہتی میں ٹی وی دیکھنے کے شوق میں اس کی ہر بات مان لیتا تھا۔  وہ بھی مجھے شادو کی طرح لپٹا نے اور  پیار کرنے لگی لیکن وہ مجھے اچھی نہیں لگتی تھی۔  میں ٹی وی کی خاطر چپ رہتا۔  کاش میرے والدین بھی باہر سے ٹی وی اور  ڈھیر سا رے کپڑے و کھلونے مجھے لا کر دیتے جیسے تھا نے دار کے لڑکے نے لائے تھے میرے دل سے درد کی لہریں اٹھتیں اور  میں گھنٹوں گم صم بیٹھا رہتا۔  اچانک گھر والوں نے فیصلہ کیا کہ ہائی اسکول کرانے کے لئے مجھے ماموں کے ہاں شہر بھیج دیا جائے۔  شہر کی میں نے بہت تعریف سنی تھی وہاں جانے کے خیال سے خوشی تو ہوئی لیکن شادو کی جدائی کے خیال سے وحشت سی ہو رہی تھی میں نے اسے بتا یا کہ شاید مجھے بہت جلد شہر بھیج دیا جائے گا وہ بھی اداس ہو گئی اور مجھ سے وعدہ لیا کہ میں وہاں جا کر دل لگا کر پڑھائی کروں اچھی نوکری کروں اور اسے اپنے ساتھ لے جاؤں میں نے بھی وعدہ لیا کہ وہ مجھے خط لکھا کرے گی۔  اس کی آنکھوں سے موتی کی لڑیاں ٹوٹ رہی تھیں وہ مجھ سے لپٹ گئی شاید بچھڑ تے وقت اسی طرح ملا کرتے ہیں پھر میرے چہرہ کو اپنے ہاتھوں کے کٹوروں میں لے کر سرخ سرخ آنکھوں سے گھورنے لگی جیسے اس چہرے کو اپنی آنکھوں میں چھپا لینا چاہتی ہو میں نے اس کے آنسو پو نچھ دئے اس نے سسکتے ہوئے کہا ’’میں تمہارا انتظار کروں گی ناصر تم اپنی شادو کو بھول نہ جانا ‘‘۔  میرے دل میں پھر درد کی لہر اٹھی میری ماں تو مجھے چھوڑ کر جاتے ہوئے نہ روئی تھی نہ ہی سینے سے لگا یا تھا جاتے جاتے بھی مجھ پر غصہ کیا تھا۔  وہ میری حقیقی ماں تھی پھر۔۔۔  میں شہر آ  گیا۔  مجھے لینے کے لئے ماموں اسٹیشن آئے تھے میں ان کی کار میں بیٹھا شہر کی سیر کر رہا تھا شہر جہاں شور ہی شور تھا مختلف آوازیں تھیں آسمان کو چھوتی ہوئی اونچی اونچی عمارتیں ، بڑے بڑے دوا خانے ، عدالتیں ، ہو ٹلیں ،سینماتھیٹر ز بے حساب اسکول اور کالج ، دارالمطا لعے ، تفریح گا ہیں ، گزرے زمانے کے کھنڈ رات گز شتہ تہذیب کی مٹی مٹی سی نشانیاں ، کشادہ سٹرکیں رنگین کاروں کے رواں دواں قافلے اور  آدمیوں کی بھیڑا س جم غفیر میں ہر قسم کا آدمی ہو گا آفیسر، ڈاکٹر ، ٹیچر ، نوکر چور لٹیرے ، ڈاکو ، خونی ، ظالم اور  مظلوم۔  میں سوچتا رہا یہ سب کے سب کہاں سے آ رہے ہیں اور  کہاں جا رہے ہیں۔  میرے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت جیسے ختم ہو گئی تھی۔  گاڑی جب گھر کے گیٹ پر رکی تب میں خیالات کے دائروں سے باہر نکلا تو یہاں بھی حیران ہوا۔  گھر کیا تھا عجائب گھر تھا جس کا ذکر اکثر کتابوں میں پڑھا تھا کہ وہاں بہت ہی نادر و نایاب چیزیں ہوتی ہیں شاید وہ ایسا ہی ہوتا ہو گا گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہی پھول پودوں سے آراستہ چمن زار تھا چھوٹے جھا ڑوں کو کاٹ کر ہاتھی گھوڑے اور  اونٹ بنائے گئے تھے جو تھوڑی تھوڑی دور پر ایسے کھڑے تھے جیسے آنے والوں کا استقبال کر رہے ہوں۔  رنگا رنگ پھولوں کے تختے ، ایک طرف پنجرے میں رنگ برنگی چڑ یاں دوسری طرف موٹی زنجیروں سے بندھے ہوئے جھولے تھے اندر پہنچا تو خو بصورت قالین ، قیمتی فرنیچر ، دیواروں پر عجیب سی تصویریں ، بڑے بڑے گلدان اور  ایک کونے میں کانچ کا بڑا سا ڈبہ پانی سے بھرا ہوا تھا جس میں چھو ٹی بڑی رنگین مچھلیاں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ دوڑ رہی تھی۔  میں حیران کھڑا ہر چیز کو غور سے  دیکھتا رہا۔  گاؤں کے کچے پکے مکانوں اور کھیت کھلیانوں سے نکل کر میں ایک نئی دنیا میں آ گیا تھا۔  مجھے جو کمرہ دیا گیا تھا اس کی سج دھج اور ہی تھی۔  کھڑ کی سے باہر دیکھا تو اونچی اونچی روشن عمارتوں کے سلسلے حد نظر تک پھیلے ہوئے نظر آئے جن کے اندر حرکت کرتے ہوئے سائے عجیب لگتے تھے۔  سامنے والے دو منزلہ مکان میں بھی کئی دروازے اور  کھڑ کیاں تھیں۔  ایک کھڑ کی میں سانولی سلونی موٹی سی لڑکی میری طرف دیکھ کرمسکراتی نظر آئی مجھے تھانے دار کی بیوی یاد آ گئی۔  پتہ نہیں وہ لڑکی کیوں مسکرا رہی تھی میں جھینپ سا گیا اور  آتی جاتی ہوئی کاروں کو دیکھنے لگا میں سوچ رہا تھا کیا شہر کی لڑکیاں ایسی بے باک ہوتی ہیں جوکسی اجنبی کو دیکھ کر بے سبب ہی مسکراتی ہیں۔  اب یہ ہونے لگا کہ میرے اسکول جانے اور  آنے کی اوقات میں وہ کھڑ کی میں کھڑی مسکراتی ہاتھ ہلاتی نظر آتی اور  میں بالکل انجان ہو جاتا۔  گھر میں ممانی کی بیوہ بہن مجھ پر مہر بان تھی میری ٹیچر بنی ہوئی تھی اس نے مسکر اتی ہاتھ ہلاتی سانولی کو دیکھ لیا شام گھر لوٹنے پر بڑی بر ہم ہوئی ماموں سے شکایت کی دھمکی بھی دے دی میں سہم گیا اور  اپنی صفائی پیش کر دی ایک دن باتوں باتوں میں ممانی نے بتایا کہ شہر میں لڑکیوں کی شادی بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے وہ نسرین کی دوبارہ شادی کرنا چاہتی ہیں لیکن منا سب لڑکا نہیں مل رہا ہے اگر ملتا بھی ہے تو اس کے لوگوں کو لڑکی پسند نہیں آتی یہی حال سا منے والی لڑکی کا بھی ہے موٹی ہونے اور  رنگ کم ہونے کی وجہ سے کسی نے بھی پسند نہیں کیا اس کا بھائی لیڈر ہے اسے بہن کی فکر نہیں ہے خوداس نے کسی گاؤں کی لڑکی سے دوسری شادی کی ہے اسے گاؤں میں ہی رکھا ہے کبھی کبھی وہ یہاں بھی آتی ہے مجھے اس ماحول میں گھٹن سی ہونے لگی میں نے ایک گلاس ٹھنڈا پانی پیا اور  باہر نکال گیا۔

محلے کے دوچار لڑکے میرے دوست بن گئے تھے کچھ ایسے بھی تھے جو مجھے گاؤں والا سمجھ کرستا یا کرتے میرا مذاق اڑا تے لیکن رفتہ رفتہ سب گھل مل گئے تھے۔  رشید ، منیر اور  جبار میرے اچھے دوست تھے تینوں بڑے باپ کے بیٹے تھے شام ڈھلے جب ہم ایک جا ہوتے بڑی ہڑ بو نگ رہتی۔  وہ تینوں مجھے گھیٹ لے جاتے ان کا رخ کسی ویڈ یو گیمس سنٹر یا کسی پارک کی طرف ہوتا چاٹ گھر سے کچھ کھانے کی چیزیں اور  سگریٹ اپنے ساتھ ضرور لے جاتے مجھے کھانے پینے میں کوئی عار نہیں تھی لیکن سگریٹ اچھا نہیں لگتا تھا ‘‘منیر کہتا ’’دیکھو تو کتنا مزا آتا ہے میں امتحان کے قریب بہت سگریٹ پیتا ہوں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے امتحان کی ہیبت اور  پاس یا فیل ہو نے کی فکر دھواں بن کر ہواؤں میں کہیں تحلیل ہو رہی ہے ‘‘میں جواب دیتا ’’امتحان کی فکر ہی تو ہمیں پاس کراتی ہے یہ ہما را میٹر ک کا سال ہے اسکول کی ان گلیوں سے نکل کر کالج کی شاہراہ پر دوڑ نا ہے فیل ہو نے کی صورت میں ان ہی گلیوں میں سٹر نا گلنا پڑے گا ‘‘جبار جھوم کر کہتا ’’چھوڑو بھی یار شاید تمہیں نہیں معلوم کہ میں فیل بھی ہو جاؤں تو میرے پاپا مجھے پاس کروا لیں گے ‘‘منیر اور  رشید کہتے ’’ہمارے پاپا کی طرف سے ہمیں بھی کوئی فکر نہیں ہے ‘‘

میں حیران حیران سا ان کی طرف دیکھتا رہ جاتا اور  وہ فلک شگاف قہقہہ مار کر کہتے ’’چل تجھے بھی ہم پاس کرا دیں گے فکر نہ کر یار لے جلدی سے ایک سگریٹ پی لے ‘‘۔  میں میٹرک پاس ہو گیا ماموں نے مجھے کالج میں داخل کرا دیا۔  اس دوران شاداں کا ایک بھی خط نہیں آیا اس نے میرے خطوں کے جواب تک نہیں دئے میں گاؤں جا کر اسے اور دادی کو خوش خبری دینا چاہتا تھا شاداں میرے لئے ایک تسکین کیف انگیز ہی نہیں ایک مہمیز بھی تھی میری پہلی استاد تھی جس نے مجھے نئے نئے سبق پڑھائے تھے۔  میں ارادے کے باوجود گاؤں نہ جا سکا۔  چھٹیاں ختم ہو گئیں کالج شروع ہو گئے۔  میں کالج کی کتا بیں خریدنے کے لئے جب دوکانوں پر جاتا مجھے وہ چہرے نظر آتے جن پر علم کا نور پھیلا ہوا ہوتا اور  سوچنے لگتا علم کتنی عظیم چیز ہے جو آدمی کوانسان بناتی ہے۔  کالج کی رنگین فضاؤں میں بکھرے نقرئی قہقہے میٹھی میٹھی سرگوشیاں ، شوخ و چنچل چہلیں میرے اندر نئے احسا سات جگا رہی تھیں میری رگوں میں دھیمی دھیمی آگ سلگنے لگی دل سنبھالے نہیں سنبھل رہا تھا جوانی کی شروعات بھی ایک دلفریب موسم ہوتی ہے اس موسم کے پھولوں کی مہک یار دوستوں کی صحبت اور  آزادی۔  میرے تصور کے صنم خانوں میں ایک نئی دنیا آباد ہو رہی تھی شہر کی تہذیب کا مطلب سمجھ میں آ رہا تھا کالج کی سیاست کے راز آشکار ہو رہے تھے آیا اور  چوکیدار سے لے کراسٹوڈنٹ اور  لکچرار تک سیاست داں تھے جواں عمری کی ابھرتی مچلتی صلاحیتوں نے ہمیں بھی سیاست سکھا دی تھی ان ہی صلاحیتوں کے سیلاب میں بہتے ہوئے ہم بہت دور نکل گئے ستاروں سے آگے جہاں بسا نے کے خواب دیکھنے لگے۔  میری کلاس میٹ ثناء درانی مجھ پر بہت مہربان تھی ایک دن اچانک ثنا ء نے کہا ’’ناصر ہمیں انٹر کے بعد ایم بی بی ایس میں داخلہ لینا ہے میرے پاپا نے ہمارے داخلہ کے انتظامات کر لئے ہیں اس کے بعد وہ ہمیں امریکہ بھیجنا چاہتے ہیں اب تم اپنے ماضی کو بھول جاؤ اور  مستقبل کی فکر کرو‘‘ شاید ہر انسان کے دل میں کوئی نہ کوئی محرومی ایک خلش بن کر اس کے دل میں جاگزیں رہتی ہے میں والدین کی شفقت اور  شاداں کی محبت سے مایوس ،دل کی ہر خلش کو سگریٹ کے دھوئیں میں اڑا  رہا تھا۔  مد ہوشی کا عالم تھا جاگتی آنکھوں کے خواب تھے ثنا ء میرے ساتھ تھی اور  میں امریکہ کی آزاد ہواؤں میں اڑ رہا تھا۔  وفا اور  جفا کے اصولوں کو مٹاتا ہوا ایک احساس میرے اندر جاگ رہا تھا!نہیں نہیں میں شاداں سے بے وفائی نہیں کر سکتا وہ بہت معصوم اور  بھولی ہے وہ میری منتظر ہے۔  مجھے امتحان کی فکر بے چین کئے دے رہی تھی ہاتھ میں کتا ب لئے میں ٹہل رہا تھا۔  لیڈر کے مکان میں شاید کوئی تقریب تھی مہمانوں سے گھر بھرا ہوا تھا اچانک میری نظر ایک کار پر پڑی جس سے ایک عورت زرق برق کپڑوں میں ملبوس زیورات سے لدی اتر رہی تھی یہ۔۔۔  یہ کون ہے ؟ کون ہے یہ ؟کیا یہ شاداں ہے ؟ میں ذرا آگے بڑھ کر دیکھنے لگا ممانی اور  نسرین میرے پیچھے کھڑی ہنس رہی تھیں ممانی نے کہا ’’یہی لیڈر کی بیوی ہے نا دوسری بیوی شہر کی میم سے دل بھر گیا تو گاؤں کی تتلی پکڑ لا یا ہے ‘‘مجھے محسوس ہو رہا تھا جیسے ہر طرف طوفانی جھکڑ چل رہے ہوں چاروں طرف خس و خاشاک بکھر رہا ہے جس میں شاداں کا وجود ایک حقیر تنکے کی ما نند اڑ رہا ہے اور  وہ تنکا دھند لے غبار میں غائب ہو گیا۔  میں سوچ رہا تھا یہ عشق و محبت کی حکایتیں ، حسن و شباب کی لطافتیں ، بے وفا دلبروں کی چاہتیں ، یار دوستوں کی صحبتیں اور  ماں باپ کی شفقتیں سب کتا بی باتیں ہیں کیوں نہ میں ان کتابوں کا ایک مینار کھڑا کروں اور  اس میں آگ لگا دوں کیونکہ کتابیں تو صداقتوں کا سمندر ہوتی ہیں لیکن وہ کتابی صداقتیں کس کام کی ہیں جن کا عملی دنیا میں کوئی عمل دخل نہ ہو!۔  طوفان تھم چکا تھا اس سجدہ گاہ کے نشان مٹ چکے تھے جس کے لئے میری جبینِ نیاز میں سجدے تڑ پ رہے تھے  اس حا لت میں جانے یوں ہی کب تک کھڑا  رہا جیسے ایک موسم بدل گیا تھا اور  مطلع صاف ہو گیا تھا۔  ستاروں کے بیچ ثناء کا مسکراتا چہرہ مجھے جہانِ نو کی طرف آنے کی دعوت دے رہا تھا۔

زندگی لطف بھی ہے زندگی آزار بھی ہے

سازوآہنگ بھی زنجیر کی جھنکار بھی ہے

زندگی دید بھی ہے حسرت دیدار بھی ہے

زہر بھی ہے آب حیات لب ورخساربھی ہے

زندگی دار بھی ہے زندگی دلدار بھی ہے

٭٭٭

 

 

سَراب

 

وہ جو آرزوؤں کے خواب تھے ، وہ سراب تھے وہ خیال تھے

سردشت ایک بھی گل نہ تھا،جسے آنسوؤں سے سنوارتے

تھا جو ایک لمحہ وصال کا ،وہ ریاض تھا کئی سال کا

وہی ایک پل میں گزر گیا، جسے عمر گزری پکارتے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’رُبا!یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ تم نے قرآن مجید حفظ کیا ہے۔ کیا تمہیں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ دین کی پابندی نہ کی جائے تو بڑا گناہ ہوتا ہے۔ دولت کے پیچھے اپنی عاقبت خراب کر رہی ہو۔۔۔  رُبا!انسانی خواہشات کا کوئی انت نہیں ہے۔ خواہشات ایک ایسے درخت کی مانند ہیں جس کی ہزاروں شاخیں ہوتی ہیں اور  اس پر لگنے والے پھل کا نام ہوس ہے۔ جس سے کبھی پیٹ نہیں بھر سکتا۔ ‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس دن دوپہر سے ہلکی بارش کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ شام ہوتے ہوتے گہرے سیاہ بادلوں نے آسمان کو ڈھک لیا۔ بارشوں کا بھیگا بھیگا موسم بہت بھلا معلوم ہوتا ہے۔ میں بادلوں کی آنکھ مچولی سے محظوظ ہو رہی تھی کہ کال بیل کی آواز نے بری طرح چونکا دیا۔ اس وقت کون آ سکتا ہے ؟ سوچتی ہوئی اٹھی۔ دروازہ کھولا تو گیٹ پر دو خواتین کھڑی نظر آئیں وہ برساتی پہنے ہاتھوں میں چھتریاں لی ہوئی تھیں۔ چہرے صاف نظر نہیں آ رہے تھے۔ ایک دبلی پتلی ، گوری چٹی اور  دوسری سانولی رنگ کی تھی۔ میں نے پوچھا کیا بات ہے ؟آپ لوگ۔۔۔۔ ‘‘

’’جی ہم انجمن بیوگان و یتیم یسیر ،کی ارکان ہیں اور  چندہ کے لئے آئی ہیں ‘‘۔ مجھے اس وقت ان کا آنا اچھا نہ لگا میں نے کہا ’’آپ لوگوں نے اس وقت کیوں تکلیف کی بہتر ہوتا کہ دن میں آ جاتیں خیر ٹھہریں میں ابھی آتی ہوں ‘‘نہ چاہتے ہوئے بھی جانے کیوں انہیں کچھ نہ کچھ دے دینا مناسب سمجھا۔ الماری سے کچھ رقم لے کر آگے بڑھی۔ سانولی لڑکی نے میرے قریب آ کر ہاتھ بڑھایا اور  شکریہ کہتے ہوئے رقم لے لی۔ دوسری جو گیٹ کے پاس ہی ٹھہری رہی چھتری کو چہرے سے اتنا قریب تھام رکھا تھا جیسے چہرہ چھپانا چاہتی ہو اور  وہ چہرہ مجھے جانا پہچانا سالگا تھا۔ میں نے دماغ پر زور دیا کچھ یاد نہیں آ رہا تھا۔ وہ دونوں آگے بڑھ گئیں۔ میں اپنی سوچ میں کھڑی ہوئی تھی اچانک مجھے یاد آیا کہ اس چہرے کو تو میں اچھی طرح جانتی ہوں وہ مجھ سے بہت قریب رہ چکی ہے اسے تلاش بھی کیا تھا میرے گمان میں یہ بات نہیں تھی کہ وہ یوں اچانک میرے سامنے آ جائے گی اور  ملے بغیر چلی جائے گی۔ میں گیٹ کی طرف لپکی وہ میرے گھر سے دو مکان آگے ایک گیٹ کے سامنے کھڑی ہوئی تھیں مجھے دیکھ کر وہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔ میں نے آواز دی ’’سنئے!سنئے!ذرا ادھر آنا۔۔ رک جائیے ‘‘

سانولی لڑکی نے بھی اسے آواز دی وہ جھجکتی ہوئی رک گئی اور  میری طرف پشت کئے کھڑی رہی تب تک میں ان کے قریب پہنچ چکی تھی۔

’’میرا خیال غلط نہیں ہے تو آپ رُباب ہیں نا؟ ا‘‘س نے اثبات میں سر کو جنبش دی۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا وہ نظریں نیچی کئے کھڑی رہی۔ اس کی ساتھی ہم دونوں کو تعجب سے دیکھ رہی تھی۔ ’’تم کہاں تھیں رُباب؟میں نے تمہیں کتنا تلاش کیا۔ کہیں پتہ نہ چل سکا اور  آج تمہیں اس حالت میں دیکھ کر میں نہ صرف حیران ہوں بلکہ پریشان ہوں یہ کیا حالت ہو گئی ہے تمہاری؟ آؤ کچھ دیر بیٹھو نا میں تمہارے بارے میں جاننے کے لئے بے چین ہوں ‘‘

’’باجی!میں ایک دو دن بعد آ جاؤں گی فی الوقت بہت مصروف ہوں ویسے میری داستانِبربادی سن کر آپ کیا کریں گی ؟‘‘

’’نہیں رُبا!میں سننا چاہتی ہوں تمہیں وعدہ کرنا ہو گا کہ تم کل ضرور آؤ گی۔ جب تک تم نہ آؤ گی میں اذیت میں مبتلا رہوں گی!تم آؤ گی نا ؟ مجھے تمہارا فون نمبر ہو تو دے دو پلیز ‘‘رُباب نے فون نمبر دیا اور  کل آنے کا وعدہ کر کے چلی گئی۔ میں ڈرائنگ روم میں بیٹھی ماضی کی کتاب کے اوراق الٹ رہی تھی۔

چند سال پہلے جب میں بی۔ اے فائنل کر رہی تھی رُباب اپنے خاندان کے ساتھ ہمارے پڑ وس میں رہا کرتی تھی یہ دو بہنیں تھیں ایک چھوٹا بھائی تھا۔ اس کے والد کا جنرل اسٹور خوب چلتا تھا بچے اچھے اسکول میں پڑھ رہے تھے۔ رُباب قرآن مجید حفظ کر رہی تھی۔ وہ بے حد شوخ و شریر تھی۔ ہرکس وناکس سے بہت جلد گھل مل جاتی تھی۔ پرکشش چہرہ اور  باغ و بہار شخصیت کا ہر کوئی گرویدہ تھا۔ اس کے والد کے اچانک انتقال کے بعد وہ لوگ پریشان ہو گئے ان ہی دنوں T.V والوں کی طرف سے کچھ لوگ اسکول آئے تھے کسی سیرئیل کے لئے لڑکے اور  لڑکیوں کی ضرورت تھی کچھ بچوں کا سلکشن ہوا جن میں رُباب بھی شامل تھی۔ گھر آ کر خوشی خوشی ماں کو سب بتایا اور کہا اب ان کی پریشانیاں جلد ہی ختم ہو جائیں گی کیونکہ اسے T.Vسے معقول معاوضہ ملا کرے گا۔ جب ماں بیٹی نے مجھے یہ بات بتائی تو میں نے منع کیا اور  انہیں سمجھایا کہ یہ سب کیوں ٹھیک نہیں ہے لیکن۔۔۔۔ وہ انجان بن گئے۔ شوٹنگ کے پہلے دن رُباب نے مجھے ساتھ چلنے کے لئے کہا چونکہ یہ سب مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا اس لئے میں نے ٹالنا چاہا لیکن وہ بضد تھی اس کے ماں کے مجبور کرنے پر میں نے ایک بار جانا منظور کر لیا۔

وہ اکٹوبر کی ایک سہانی صبح تھی موسم خوشگوار تھا۔ شوٹنگ کے لئے کسی دور دراز مقام پر جانا تھا ڈائرکٹر کے گھر پر اسٹوڈیو کی ویان ٹھہری ہوئی تھی سب بچے اپنے اپنے گھروں سے آ کر جمع ہو رہے تھے کچھ بچوں کے ساتھ ان کے بڑے بھی تھے نو بجے ویان روانہ ہوئی سبھی خوش گپیوں میں مصروف تھے رُباب کی شوخی و شرارت عود کر آ گئی تھی کچھ دور اطراف کے پہاڑوں پر روئی کے گالوں جیسے بادل اتر رہے تھے ویان ہرے بھرے میدانوں سے گزر رہی تھی۔ میں کھڑ کی سے لگی ہوئی سیٹ پر بیٹھی باہر کے منظر سے لطف اندوز ہو رہی تھی میری آنکھوں میں جیسے سورہ رحمن کی آیتیں اتر رہی تھی۔

فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنْo

تقریباً ایک گھنٹہ بعد ہم اسٹوڈیو پہنچے۔ شام تک پروڈکشن کا عملہ اور  آرٹسٹ بچے مصروف رہے۔ یہ سلسلہ چل نکلا۔ اس دوران میں بھی دو چار مرتبہ رُباب کے ساتھ چلی گئی وہاں آرٹسٹ لڑکیوں کو دیکھا جو نت نئے ڈیزائین کے کپڑوں میں ملبوس تھیں جینز پینٹ اور  بغیر آستین کے ٹاپس بلکہ مختصر سے ٹاپس پہنی ہوئی آدم کے بیٹوں کو دعوتِ نظارہ دے رہی تھیں رُباب نے بھی اپنا آپ بدل لیا تھا لمبے گھنے بال کٹوا لئے شلوار سوٹ ڈوپٹہ چھوڑ کر جینز اور  نہایت مختصر ٹا پس پہننے لگی تھی۔ شوخ و شریر تو تھی اب نڈر اور  بے باک ہو گئی تھی میٹرک کے بعد آگے پڑھنے اور  کام بند کرنے سے صاف انکار کر دیا۔

اس نے مجھے ایک دن بتا یا کہ ڈائرکٹر کے ایک دوست کمال احمد جو اکثر شوٹنگ دیکھنے آیا کرتے ہیں اس پر بہت مہربان ہیں وہ چار کپڑوں کے شورومس اور  باغات کے مالک ہیں اور  یہ کہ وہ اس سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے پوچھا اتنے دولت مند ہوتے ہوئے کیا انہوں نے اب تک شادی نہیں کی ؟

’’باجی!وہ تین لڑکیوں کے باپ ہیں اور  اب ایک لڑکے کی آرزو میں دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں بیٹے کی تمنا نے انہیں دیوانہ بنا رکھا ہے باجی!وہ مجھ سے پیار کرتے ہیں مجھے بھی بہت اچھے لگتے ہیں ہائے اتنی بڑی سی کار میں بیٹھے ہوئے کتنے شاندار لگتے ہیں ‘‘

’’رُبا!یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ تم نے قرآن مجید حفظ کیا ہے۔ کیا تمہیں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ دین کی پابندی نہ کی جائے تو بڑا گناہ ہوتا ہے۔ دولت کے پیچھے اپنی عاقبت خراب کر رہی ہو۔۔۔۔۔۔  رُبا!انسانی خواہشات کا کوئی انت نہیں ہے۔ خواہشات ایک ایسے درخت کی مانند ہیں جس کی ہزاروں شاخیں ہوتی ہیں اور  اس پر لگنے والے پھل کا نام ہوس ہے۔ جس سے کبھی پیٹ نہیں بھر سکتا۔ آگے تمہاری مرضی۔۔۔ ‘‘

’’باجی!آپ نے تو اتنی ساری کتابیں پڑھی ہیں کیا یہ نہیں جانتیں کہ آج کی سب سے بڑی طاقت پیسہ ہے یہ دنیا پیسے کو سلام کرتی ہے جس کے پاس پیسہ نہ ہو لوگ اس کے سلام کا جواب دینا بھی پسند نہیں کرتے۔ آپ جانتی ہیں کہ میں ہمیشہ ایک پُر آسائش زندگی کے خواب دیکھتی رہی ہوں بنگلہ ، موٹر ، نوکر چاکر۔۔۔۔ میری کمزوریاں مجھے بہت دور لے جا چکی ہیں اب میرا لوٹنا مشکل ہے ‘‘

’’تم کرنا کیا چاہتی ہو ؟‘‘

’’میں کمال احمد سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے انہیں بیٹے کی خوشی دے دی تو وہ مجھے بنگلہ اور  بڑی سی نئی کار اور  بہت کچھ مجھے دیں گے کار تو شادی پر دینے کا وعدہ ہے ‘‘

’’رُبا!تمہیں جاننا چاہئیے کہ فرش سے ایک ہیں جست میں عرش پر پہنچنے کی کوشش منہ کے بل گرا دیتی ہے اور  خوابوں کے شیش محل کرچیوں میں بدل جاتے ہیں میں تمہیں یہ مشورہ ہرگز نہیں دوں گی کہ تم۔۔۔۔ میری بات پوری ہونے سے پہلے وہ منہ پھلائے چلی گئی اور  ہمارے ہاں آنا جانا چھوڑ دیا۔ میرا فائنل ائیر تھا میں اپنی پڑھائی میں مصروف تھی دو چار ماہ بعد مجھے معلوم ہوا کہ رُباب اپنے خاندان کے ساتھ کسی اور  جگہ چلی گئی ہے۔ چار پانچ سال بعد پچھلے واقعات کسی فلم کی ریل کی طرح میرے دماغ میں گھوم رہے تھے۔ رُبا کو دیکھ کر میں پہچان نہ سکی تھی دوسرے دن وہ حسب وعدہ آ گئی۔ کچھ دیر خاموش بیٹھی ہوئی میرے ڈیکوریٹڈ ڈرائنگ روم کا جائزہ لیتی رہی پھر T.V پر رکھے ہوئے فوٹو فریم پر نظریں مرکوز کر دیں جس میں میرے دونوں بچوں کی تصویر لگی تھی اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے میں نے پُر تکلف چائے کی ٹرے رکھتے ہوئے پوچھا

’’کیا بات ہے رُبا ب!تم رو کیوں رہی ہو؟‘‘

’’کچھ نہیں باجی!بس!یونہی کچھ یاد آ گیا تھا ‘‘اس نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔

’’اب تم مجھے بتاؤ تم کہاں تھیں ؟ کیا کرتی رہیں ؟ تمہاری یہ حالت کیوں ہو گئی ؟‘‘

’’آپ کو یاد ہو گا کہ کمال احمد مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے اور۔۔۔۔ ‘‘

’’ہاں مجھے یا دہے میں نے مخالفت کی تھی اس کے بعد تم نے ہمارے ہاں آنا چھوڑ دیا تھا‘‘

’’کمال احمد نے حسب وعدہ میرے نام پر میری پسندیدہ کار لے لی اور  مجھے دلہن بنا کر لے گئے قدرت مجھ پر مہربان تھی وقت میرا تھا مجھے وہ سب کچھ مل گیا تھا جس کی مجھے خواہش تھی۔ شادی کے دوسرے ہی مہینے کمال کو خوش خبری سنائی کہ ہمارے ہاں مہمان آنے والا ہے انہوں نے کہا مہمان کیوں میرا شہزادہ میرا ولی عہد کہو۔ اب میں ایک سجے سجائے بنگلے کے خواب دیکھنے لگی لیکن مجھے خود پتہ نہیں تھا کہ لڑکا ہو گا یا لڑکی!کمال نے میری ناز برداری شروع کر دی تھی دو نوکر ہمہ وقت میری خدمت میں اور  گھومنے کے لئے کار لئے ڈرائیور موجود رہتا تھا۔ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا میں نے فوراًScanning کروائی تو معلوم ہوا کہ ایک نہیں دو بیٹے ہیں میری خوشیوں کی انتہا نہ رہی میں بنا پروں ہوا میں اڑ رہی تھی میں اپنے آپ کو فاتح عالم سمجھ رہی تھی ہر بات چٹکی بجاتے کمال سے منوا لیتی تھی انہوں نے ڈاکٹر سے بات کی اور  بنگلہ میرے نام لکھ دیا امی اور بہن بھائی بھی پھولے نہیں سما رہے تھے کمال انہیں ہر ماہ دس ہزار بھیج دیا کرتے تھے دنیا میرے لئے جنت سے کم نہیں تھی وہ دن بھی آ گیا کہ کمال ایک ساتھ دو بیٹوں کے باپ بن گئے انکے خوابوں کی تعبیر ان کے سامنے تھی وہ چہار دانگ عالم میں اعلان کرنا چاہتے تھے کہ انہیں دو آنکھیں مل گئیں ہیں لیکن مصلحتاً وہ ایسا نہ کر سکے ان سے رہا نہ گیا تو چھلے کے جشن پر اپنی بڑی بیٹی شاہانہ کو راز دار بنا کر لے آئے وہ اپنے پھول جیسے دو بھائیوں کو دیکھ کر کھل اٹھی مجھ سے مل کر بھی خوش ہوئی دوسرے دن وہ اپنی چھوٹی بہن رخسانہ کے ساتھ آئی اس کے ہاتھ میں ٹفن کیرئیر تھا رنگت اڑی ہوئی تھی وہ دونوں رو رہی تھیں میرے پوچھنے پر بتا یا کہ ’’صبح ممی اور  پپا میں بہت جھگڑا ہوا ممی کہہ رہی تھیں کہ وہ آپ کو اور  دونوں بچوں کو زندہ نہیں چھوڑیں گی تب ہی پپا کے سینہ میں درد ہوا ماموں جان اور  دوسرے لوگ مل کر انہیں ہاسپٹل لے گئے ہیں ہاسپٹل گھر کے قریب ہی ہے ہم دونوں ٹفن لے جانے کے بہانے نکل کر آپ کے پاس آ گئیں ہیں اب کیا ہو گا آنٹی ؟‘‘

یہ سن کر میرے اوسان خطا ہو گئے یہ سب کچھ ایک دن معلوم ہونا تھا لیکن اتنی جلدی اور  اس قدر گمبھیر حالات ہو جائیں گے میں نے سوچابھی نہیں تھا میرے ہاتھ پاؤں میں لرزہ سا ہو رہا تھا میں نے اپنے آپ کوسنبھالتے ہوئے کہا ’’تم لوگ پریشان نہ ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا تم یہیں ٹھہرو میں بینک سے پیسے لے کر ابھی آتی ہوں ‘‘ڈرائیور اور  دونوں نوکر غریبوں کو کھانے کے پیکٹ بانٹنے کے لئے گئے ہوئے تھے میں نے گھر کو لاک کیا اور  روڈکراس کر کے بینک میں گھس گئی۔ ATM سے رقم نکال کر واپس آنے تک بمشکل پندرہ منٹ کا وقت ہوا ہو گا میں جیسے ہی دروازہ کھول کر اندر گئی دو پہلوان ٹائپ آدمی میرے دونوں جانب آ کر کھڑے ہو گئے ایک کے ہاتھ میں پستول تھا دوسرے کے پاس چمکتا ہوا تیز دھاری دار چاقو تھا انہوں نے کہا چلّانے کی کوشش کی تو جان سے ہاتھ دھو نا پڑے گا اور کہا کہ بچوں کو لے کر ان کے ساتھ چلنا ہو گا مجھے اپنا خون رگوں میں منجمد ہوتا محسوس ہوا میں نے کمرے میں اِدھر اُدھر نظر گھمائی تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ شاہانہ رخسانہ اور  دونوں بچے غائب تھے سانپ کی پھنکار میں ایک نے کہا ’’کہاں ہیں بچے ؟ہم سے چالاکی کرتی ہے ؟بتا بچوں کو کہاں چھپا کر آئی ہے ؟‘‘

میں پاگلوں کی طرح انہیں گھر کے کونے کونے میں ڈھونڈنے لگی میری چیخیں نکل رہی تھیں میں نے روتے ہوئے کہا کہ انہیں گھر میں بند کر کے بینک سے پیسے لانے گئی تھی انہوں نے میری بات کا یقین نہیں کیا میرے منہ میں کپڑا ٹھونس کر ہاتھ پیر باندھ دئیے کہا کہ جب تک بچے نہیں مل جاتے تب تک وہ مجھے اپنی قید میں رکھیں گے خوف اور  صدمے کے مارے میں بے ہوش ہو گئی نہیں معلوم کب تک بے ہوش رہی جب ہوش آیا تو دیکھا میں کسی کے بیڈ پر تھی میرے قریب کرسی پر ایک بوڑھی عورت بھونڈے میک اپ اور  زرق برق کپڑوں میں بیٹھی ہوئی تھی میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میں بمبئی میں ہوں اور  اس نے مجھے پچاس ہزار میں خرید ا ہے میں نے روتے ہوئے اپنے بچوں کے بارے میں پوچھا تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا اور  یہ سن کر حیران ہوئی کہ میں دو بچوں کی ماں ہوں باجی ان دنوں مجھے معلوم ہوا کہ جیتے جی موت کا سامنا کیسے کیا جاتا ہے ؟ میں تصویر حیرت بنی رُباب کی باتیں سنتی رہی وہ ذرا خاموش ہوئی تو میں نے اٹھ کر رُباب کو پانی دیا اور  چائے بنا لائی ہم دونوں خاموشی کے ساتھ چائے پیتی رہیں پھر وہ کہنے لگی مجھے جلد ہی اس گندی دنیاسے باہر نکلنے کا موقع مل گیا تین سال سے اپنے بچوں اور  کمال کی تلاش میں گلی گلی کوچہ کوچہ بھٹک رہی ہوں سڑکوں کی دھول پھانک رہی ہوں مجھے شاہانہ رخسانہ بھی نہیں ملیں اپنے گھر کو دور سے دیکھتی ہوں جہاں کچھ اجنبی لوگ نظر آتے وہاں جا کر کچھ بھی پوچھتے ہوئے خوف آتا ہے کہیں وہ سب۔۔۔۔۔

’’کیا تم اپنی والدہ اور  بہن بھائی سے نہیں ملیں ؟‘‘

’’پہلے اسی گھر پر گئی تھی وہ لوگ گھر خالی کر کے کہاں چلے گئے کسی کو نہیں معلوم!آج میں بالکل اکیلی ہو گئی ہوں باجی بالکل اکیلی میرا سب کچھ لٹ گیا ہے ‘‘وہ پھو ٹ پھوٹ کر رو رہی تھی میں نے اسے سینے سے لگا لیا اور  پوچھا

’’رُباب!اگر تمہارے بچے مل جائیں تو کیا کرو گی ؟‘‘

’’میں پھر سے جی اٹھوں گی باجی مجھے نئی زندگی مل جائے گی کیا تم جانتی ہو وہ کہاں ہیں کیسے ہیں مجھے جلد بتائیے نا وہ کہاں ہیں ؟‘‘

’’رُباب!واقعی یہ دنیا ایک اسٹیج ہے یہاں ہر روز نئے ڈرامے دیکھنے کو ملتے ہیں ہم سب بھی کسی نہ کسی ڈرامہ کے کردار ہیں اوپر والا بڑے عجیب کھیل کھلاتا ہے ‘‘میں سوچ رہی تھی کہ بات کہاں سے شروع کروں۔

’’بچوں کے بارے میں آپ کیا جانتی ہیں بتائیں نا!انہیں پانے کے لئے میں اپنی جان پر کھیل جاؤں گی‘‘

’’یہ بتاؤ اگر کسی عورت نے ان بچوں کو اپنی اولاد کی طرح پالا ہے اور  وہ تمہیں نہ دینا چاہے تو تم۔۔۔۔ ‘‘

’’باجی!میں اس عورت کی زندگی بھر غلامی کروں گی اس کے قدموں میں گر کر ان کی بھیک مانگوں گی وہ جو کہے گی کروں گی!معلوم ہوتا ہے کہ آپ ان کے بارے میں اچھی طرح جانتی ہیں کیسے باجی ؟ کیا جانتی ہیں کچھ تو بتائیں ‘‘

’’رُباب سنو! اس دن شاہانہ اور  رخسانہ دونوں بچوں کو لے کر بھاگی جا رہی تھیں میں اپنی کار سے اتر کر گیٹ کی طرف بڑھ رہی تھی کہ ان پر نظر پڑی وہ بری طرح ہانپ رہی تھیں اور  بچے بے تحاشہ رو رہے تھے میں نے ڈرائیور کی مدد سے انہیں روک لیا اور  اندر لے آئی میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ بچے ان کے بھائی ہیں ان کے ماموں اپنے دوست کے ساتھ انہیں مارنے کے لئے آئے تھے ان کے بار بار بیل بجانے پر شاہانہ نے کی ہولKey Hole سے دیکھا اور  دونوں بہنیں دونوں بچوں کو لے کر کھڑ کی کے راستے بھاگ نکلی ہیں دونوں نے اپنے یہی نام بتائے تھے وہ روتے ہوئے التجا کر رہی تھیں کہ میں ان بچوں کو چھپا لوں ان کی باتیں میری سمجھ سے باہر تھیں اور  وہ سمجھانے سے قاصر تھیں اس وقت میرے ذہن میں صرف ایک بات آئی کہ بچے خطرے میں ہیں اور  انہیں بچانا میرا فرض ہے میں انہیں لے کر تیزی کے ساتھ اپنے بیڈ روم میں لے گئی انہیں لٹا کر باہر آئی تو دونوں لڑکیاں غائب تھیں شام کو میرے شوہر علیم آئے تو میں نے ساری رو داد سنائی وہ مجھ پر بہت بگڑے کہ میں نے انہیں گھر میں رکھ کر مجرمانہ حرکت کی ہے۔

ہم بچوں کے ساتھ سیدھے پولیس اسٹیشن گئے واقعہ صاف صاف بیان کر دیا اور  خواہش ظاہر کی کہ جب تک ان کا کوئی رشتہ دار نہیں آتا تب تک ہم انہیں اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں گھنٹوں کی بھاگ دوڑ کے بعد کاغذی کاروائی کے بعد ہم انہیں اپنے گھر لے آئے اب وہ اسکول بھی جانے لگے ہیں۔

میری بات ختم ہونے سے پہلے رُباب نے میرے پیروں پر اپنا سر رکھ دیا۔

٭٭٭

 

 

پھولوں کی چبھن

 

اپنے آپ سے ایک سوال کرتے ہوئے وہ تھک گئی تھی کہ کس جرم کی پاداش میں اسے بے حسی کی چھری سے ذبح کیا جا رہا ہے! کون دے گا اس سوال کا جواب کہ والدین بچوں کی شادی میں انتہائی تاخیر کیوں کر دیتے ہیں کیوں ان کے جذبات کو مجروح کرتے ہیں۔  اکثر لڑکے والوں کا وتیرہ بن گیا ہے کہ قبول صورت لڑکیوں کو دیکھ کر ناپسندیدگی کا اظہار کر دیتے ہیں جبکہ خود ان کے اپنے گھر میں بیٹیاں اسی انتظار میں بیٹھی ہوتی ہیں کہ کوئی انہیں پسند کر لے قبول کر لے۔   دل و دماغ میں عجیب جنگ چھڑی ہوئی تھی۔  دل کہتا کہیں بھاگ چل کسی اجنبی کا ہاتھ پکڑ کر کہہ دے کہ مجھے اپنا لو۔  میری مانگ میں ستارے بھر دو، مجھے دلہن بنا دو، میرے ساتھ کی سکھی سہیلیاں اپنا اپنا گھر بسا چکی ہیں۔  دنیا بھر کی سیرو تفریح میں مشغول ہیں زندگی کی خوشیاں ان کے قدم چوم رہی ہیں۔  مجھے بھی زندگی کی خوشیوں سے ہمکنار کر دو۔  دماغ کہتا تو دیوانہ ہے! صبر کر! شاید تیرے دن بھی پلٹ جائیں۔  تو نے اگر اس عمر میں کوئی غلط قدم اٹھایا تو خاندان کی ناک کٹ جائے گی۔  جھکتی کمر کے ساتھ باپ کی گردن بھی جھک جائے گی ماں کچھ کھا کر سوجائے گی۔  بھائی پھانسی لے لے گا اور  بہنوں کے لئے کبھی کوئی رشتہ نہیں آئے گا۔  تو ایک بدنما داغ بن کر ان کے ماتھے سے چپک جائے گی وہ داغ دنیا کی کوئی طاقت مٹا نہ سکے گی۔

رات کی تاریک تنہائیوں میں ایک شعلہ سا میرے پہلو میں دہک اٹھتا عمر کی پچیس بہاریں گزر چکی ہیں میں کیا کروں کہ کسی نے مجھے پسند ہی نہیں کیا کیونکہ میرا رنگ گورا نہیں ہے۔  صراحی دار گردن نہیں ہے۔  سروجیسا قد اور  ہرنی جیسی آنکھیں نہیں ہیں۔  نہ اتنی دولت ہے کہ مٹی کی طرح لڑکے والوں کی آنکھوں میں جھونک دیں کہ انہیں میرے اندر کوئی خامی نظر ہی نہ اس کے۔  دو تین لڑکے والوں نے میرے ملاحت آمیز چہرے کو پسند کیا تھا لیکن اباجی نے شیخ اور  سید کا جھگڑا کھڑا کر دیا کہا کہ ’’بھئی ہم تو نجیب الطرفین ہیں۔  لڑکا بھی ہمیں ہماری طرح کا چاہئے۔  ‘‘میں کس طرح انہیں سمجھاتی کہ شیخ ، سید یا پٹھان کے جھگڑے میں نہ پڑیں کسی کمانے والے شریف آدمی کے ہاتھ میں ہاتھ تھما دیں۔  ایک کا بوجھ تو کم ہو جائے گا۔  باقی تین بھی شادی کی عمر کو پہنچ چکی ہیں۔  بھائی تو ابھی کسی کا سہارا بننے کے قابل نہیں بنا ہے۔  لیکن میں کچھ بھی تو نہ کہہ پائی۔  شہنائیوں کی گونج مجھے کسی مغمومو مظلوم کی بین جیسی لگنے لگی تھی۔  کسی بارات کو دیکھ کر ہول سی ہونے لگتی۔  میں گھبرا کر جلدی سے وضو کرتی اور  مصلیٰ بچھا کر نماز کے لئے کھڑی ہو جاتی۔  جانے کتنی رکعتیں پڑھ لیتی کہ پاؤں شل ہو جاتے۔  میں کمرے سے باہر نکل آتی آنگن میں موتیا کے پھولوں سے معطر فضا اور  بھی اداس کر دیتی۔  پھول جو سہاگن کی سیج پر بچھائے جاتے ہیں اور  کسی کی تربت پر بھی چڑھائے جاتے ہیں۔  پھول زندگی کے خوبصورت لمحے کی یادگار بن جاتے ہیں اور  کبھی عمر بھر کے لئے چبھن بھی بن جاتے ہیں۔  چاند کی چاندنی مسکرا رہی تھی جیسے میرا مذاق اڑا رہی ہو اس کی ٹھنڈی ٹھنڈی کرنیں میری رگوں میں عجیب سی دکھن بھر رہی تھی۔  جذبات کی لہریں کسی ساحل سے ٹکرا کر خاموش ہو جانے کے لئے بے چین تھیں لیکن اس گھپ اندھیرے میں ساحل کا دور تک پتہ نہیں تھا۔

ایک دن اچانک میری زندگی کی فیصلہ کن گھڑی آ پہنچی۔  اباجی کے ایک دوست آئے تھے ان کی بڑی خاطر مدارات کی گئی ہم بہنیں خوش تھیں کہ شاید اپنے بیٹے کے لئے رشتہ مانگنے آئے ہیں۔  وہ گھنٹوں بیٹھے رہے اور  ان کے جانے کے بعد ابا اور  امی بڑی دیر تک کھسر پھسر کرتے رہے۔  پھر امی نے مجھے اپنے پاس بٹھا کر وہ سب کچھ کہا جو شاید کہنا نہیں چاہئے تھا۔  انہوں نے بتایا کہ ابا کے جو دوست آئے تھے ان کی بیوی کا ایک ماہ قبل انتقال ہو گیا ہے انکے چار بچے ماں کے پیار سے محروم ہو چکے ہیں اور  وہ ایک بیوی کی تلاش میں ہمارے گھر آئے تھے میرا ہاتھ مانگ رہے تھے بابا نے ہاں کر دی ہے۔  مجھے بچوں سے بھرا بسا بسایا گھر مل جائے گا اور  ابا کی پریشانی بھی دور ہو جائے گی میرے اندر چھن کے ساتھ کچھ ٹوٹ گیا ایک چبھن سی رگ رگ میں محسوس ہونے لگی اور  ابا کے اطمینان کے لئے یہ کافی تھا کہ وہ دوست نجیب الطرفین تھے اپنی پلکوں پر تھرکتے موتیوں کو سنبھا لتی سب کچھ سنتی رہی میرے ضبط اور  حوصلے کو آخری حد تک آزمایا جا رہا تھا آرزوؤں کے گلدان ریزہ ریزہ ہو رہے تھے جسم کا رواں رواں احتجاج پر آمادہ تھا لیکن میرے پاس ہاں کے سوا کچھ نہیں تھا۔  میری نگاہوں کی زبان پڑھنے والا کوئی نہ تھا۔  حسین خوابوں کے اجالے ایک دھندلی شام میں بدل گئے اور  اس ڈھلتی ہوئی اداس، شام کو میں نے گلے لگا لیا۔  چند مہمانوں کی موجودگی میں میرا نکاح ہو گیا۔  بارات آئی نہ ڈولی سجی نہ ہی ڈھولک پر بابل کے گیت گائے میں جھر جھر، جھر نے بہاتی شیشے کی کرچیوں پر چلتی پیا گھر سدھار گئی۔  اجنبی چہرے ، نامانوس ساماحول ، گھٹی گھٹی فضاء۔  مجھے ایک دالان میں بٹھایا گیا۔  تب ہی کسی نے کہا اب یہ گھونگھٹ اٹھا دو اور  ان بچوں کو دیکھو جن کی دیکھ بھال تمہیں کرنی۔  ہائے! کیا دلہنوں کا سواگت اسی طرح کیا جاتا ہے ؟ امنگوں اور  آرزوؤں کا ایسے ہی مذاق اڑا یا جاتا ہے ؟ زندگی کے سفر پر پہلے ہی قدم نے راستے کی دشواریوں کی خبر دے دی۔  کسی نے میرا گھونگھٹ الٹ دیا اور  کہا کہ دیکھو یہ ہیں تمہاری نئی امی! اور  یہ ہیں نذیر ، ظہیر ، دردانہ اور  پنکی۔  میں نے سرجھکا لیا۔  کچھ دیر بعد مجھے ایک کمرے میں پہنچا دیا گیا جہاں ایک پرانی مسہری پر میلی سی چادر بچھی ہوئی تھی۔  چند ہی منٹ بعد بچوں کے والد محترم تشریف لائے اور  یوں گویا ہوئے ’’سنئے ہم آپ کے بے حد شکر گزار ہیں کہ آپ نے ہماری پریشانی کے وقت ہمارا ہاتھ تھامنا منظور کیا۔  ہم آپ کے احسان مند ہیں۔  آپ تھک گئی ہوں گی کپڑے بدل کر آرام کریں دراصل آج میری چھوٹی لڑکی پنکی کو بخار ہے جب سے اس کی ماں کا انتقال ہوا ہے وہ میرے ہی قریب سوتی ہے آپ اجازت دیں تو میں اس کے کمرے میں سوجاؤں اور  اعتراض نہ ہو تو اسے یہاں لے آؤں ؟ میرے احساسات پر ٹھنڈی ٹھنڈی برف گر رہی تھی! کیا ایسی ہی ہوتی ہے سہاگ رات؟ جس کا ذکر کتاب زندگی کے اوراق پر سنہری حرفوں میں لکھا جاتا ہے ؟ گلے میں پڑے پھولوں کے ہار مجھے سانپ بن کر ڈسنے لگے یہ شادی ہے یا آزمائش؟ اگر آزمائش ہے تو مجھے ثابت قدم رہنا ہو گا کیونکہ ماں باپ نے کسی کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا ہے تو ہر حال میں اسے تھامے رہنا ہو گا، کیونکہ عورت کو ایثار و محبت کا مجسمہ کہا گیا ہے وہ حیا اور  وفا کی دیوی کہلاتی ہے جو ٹوٹ ٹوٹ کر بنتی اور بن بن کر ٹوٹتی رہتی ہے۔

دن مہینوں اور  مہینے سالوں میں ڈھلتے رہے میں دو بچوں کی ماں بن گئی پھر زندگی ایک سنگین موڑ ، پر آ کر ٹھہر گئی۔  اس دن وہ باہر سے آئے دھوپ لگ گئی تھی۔  سردرد اور  چکر سے بے حال! بستر پر ایسے لیٹے کہ پھر نہ اٹھے! وہ دھندلی شام جسے میں نے گلے لگالیا تھا اب اندھیری رات میں بدل چکی تھی۔  ایسی رات جس کا سویرا نہیں تھا میں بت بنی ان پھولوں کو تک رہی تھی جو ان کی میت پر سجائے جا رہے تھے۔

٭٭٭

 

 

بلا عنوان

 

حالات کا ماتم لا حاصل حالات تو گم ہو جاتے ہیں

کچھ حال کی اجڑی بستی میں کچھ ماضی کے ویرانوں میں

افسانہ، کہانی، ناول یہ سب کیا ہیں ؟ یہ وہی ننگی  حقیقتیں ہیں ، جنہیں خوبصورت الفاظ کے پیرہن میں لپٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔  کہانیاں اس کی ذات سے جنم لیتی ہیں جس کے لیے شاہانِ وقت نے کہیں تاج و تخت چھوڑ دیئے تو کہیں تاج محل بنا دیا۔  وہ بڑے بڑے سورماؤں کو جنم دیتی ہے ، اپنی چھاتی سے خون کے دھارے ان کی رگوں میں پہنچا کر پروان چڑھاتی ہے یہ وہی ہے جس کے وجود سے تصویر کائنات میں رنگ ہے۔  پھر بھی اسے لوٹا کھسوٹا جاتا ہے ، آبرو کی دھجیاں اڑا ئی جاتی ہیں ، خون آلود گرد و غبار میں راستوں کی دھول پھانکتی ہے۔  بچوں کو بھی چٹاتی ہے اور  دھول چاٹے ہوئے یہ بچے جب چٹان بن جاتے ہیں تو نئی  کہانیاں جنم لیتی ہیں ، بم پھٹتے ہیں ، لوٹ مار اور  غارت گری کا بازار گرم ہوتا ہے ، نوجوانوں کے سینے سے گولیاں آر پار ہوتی ہیں ، ماؤں کی گوریں اجڑتی ہیں ، ان کے آنگن کی پھلواری میں لگی کلیوں کو مسلا اور  کسی کی جوانی رہن رکھ دی جاتی ہے تو کسیی جوانی کے چاند کو گہن لگ جاتا ہے پھولوں کو روندا جاتا ہے۔  وقت کا چکر چلتا رہتا ہے اور  لکھنے والے کہانیوں کے تانے بانے بنتے رہتے ہیں۔  رضا بھی ایسی ہی ایک کہانی کا کردار تھا۔  وہ اپنے والدین سے شاکی تھا کہ وہ ہر وقت لڑتے کیوں رہتے ہیں۔  ویسے دونوں ہی تعلیم یافتہ تھے ، ملازمت کرتے تھے ، شاید کام کی زیادہ اور  تھکان کے باعث ماں کا موڈ بکھرا بکھرا سارہنے لگا تھا وہ ہمیشہ اس بات پر جھگڑا کیا کرتی تھی کہ ’’ملازم تم ہو تو میں بھی تمہارے برابر محنت کر کے پیسہ کماتی ہوں ، پھر اس گھر پر تمہاری حکومت کیوں ؟ گھر کا ہر کام اور  بچوں کی ذمہ داری میرے ہی سر کیوں ؟ تم بھی کاموں میں میرا ہاتھ کیوں نہیں بٹاتے ؟ باپ کہتا ’’میں نے تمہیں ملازمت کرنے سے منع کیا تھا، عورت کا ملازمت کرنا ہماری خاندانی روایات کے خلاف ہے چونکہ تمہارے اپنے اخراجات زیادہ ہیں جن کے پورا کرنے کے لیے میری تنخواہ کافی نہیں ہوتی نا! پھر بھی تمہارا ہاتھ بٹاتا ہوں ، لیکن برابر کا حصہ نہیں لے سکتا‘‘۔  یہ سرد جنگ ایک دن بڑے جھگڑے میں تبدیل ہو گئی۔  رضا کے پاپا نے ماں کو اس کے کزن کی اسکوٹر پر گھر آتے دیکھ لیا تھا اس سے ملنا یا بات کرنا بھی اس کے پاپا کو پسند نہیں تھا۔  اعتماد کا جو ایک قطرہ تھا بے اعتمادی کے سمندر میں گم ہو گیا۔  وہ ٹی وی کھولے چپ چاپ بیٹھا اپنے خیالوں میں گم تھا۔  رضا نے ریموٹ اٹھا کر چینل بدل دیا تب ہی اس کے گال پر تھپڑ لگا کر پاپا نے ریموٹ چھین لیا اور  ٹی وی پر دے مارا ماں دوڑی ہوئی آئی اور  رضا کو اپنے کمرے میں ے کر چلی گئی، وہ پیچھے لپکا اور  اسے بھی ایک طمانچہ جڑ دیا کہا ’خود غلط کام کرتی ہو اور  بچوں کو میرے خلاف بھڑ کاتی ہو؟ بحث تکرار بڑھ گئی اور  پاپا گھر چھوڑ کر چلے گئے۔  کئی دن کئی راتیں سونی سی گزر گئیں ، کئی ہفتے کئی مہینے گزر گئے ، جانے والا نہیں آیا۔  گھر پر بے سکونی کی فضاء طاری تھی۔  جذبات کی رو میں بہہ کر کئے جانے والے فیصلے حال اور  مستقبل کو تہ و بالا کر دیتے ہیں ، راہیں تاریک اور  منزل کے نشان معدوم ہو جاتے ہیں ان کی زندگی  زلزلوں کی زد پر تھی توازن بگڑ گیا تھا۔  ماں کی مصروفیت بڑھ گئی تھی وہ گھر دیر سے آنے لگی۔  رضا کا زیادہ وقت گھر سے باہر گذر رہا تھا۔  دوستوں نے گھر آ کر ماں سے شکایت کی کہ رضا اکثر جھگڑے اور  مار پیٹ کرنے لگا ہے۔  ماں نے پیار سے سمجھایا کہ بات بات پر الجھنا ، ضد کرنا، مار پیٹ کرنا اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں ہیں۔  تشدد سے مسائل حل نہیں ہو سکتے اسے پڑھائی میں سنجیدہ ہو جانا چاہئے کیوں کہ اسے ہی ماں اور  بہن کا سہارا بننا ہے۔  محلے والوں کو آہستہ آہستہ معلوم ہو گیا تھا کہ رضا کا باپ گھر چھوڑ کر چلایا گیا ہے۔  جتنے منہ اتنی باتیں ہونے لگیں بچے  رضا کو چھیڑ نے اور  ستانے لگے تھے۔  ایک دن رضا کے پرنسپال نے ماں کو بلوا کر بتایا کہ ’’وہ اسکول برابر نہیں آ رہا ہے۔  کیا آپ  بچے پر نظر رکھتیں ؟ کیا آپ اس کی جیبوں سے سگریٹ کے ٹکڑے اور  کنڈوم ملے ہیں۔  نہیں جانتیں اس عمر میں بچوں پر کڑی نگرانی رکھنی پڑتی ہے ؟ ماں کو یہ سب معلوم ہوا، تب تک دیر ہو چکی تھی۔  رضا بہت دور چکا تھا۔  جہاں سے واپس لانا مشکل تھا۔  وہ ایک ایسے گروہ کے ہاتھ لگ چکا تھا جس کا کام چوری ، ڈاکہ ، قتل ، ڈرگز کا کاروبار پھیلانا، بینک ڈکیتی، بچوں کا اغوا اور  جنسی کاروبار کے لیے خوبصورت لڑکیوں اور  عورتوں کو پھانسنا تھا۔  جو پہلے ان کے باس کے استعمال میں آتیں۔  پھر ان سب کے حوالے کی جاتی تھیں۔  رضا اس دلدل میں دھنستا چلا گیا۔  باس کا محل نما مکان اسے محفوظ قلعہ کی مانند لگتا تھا۔  جہاں عیش و نشاط کے تمام سامان مہیا تھے۔  مہینے میں صرف ایک بار دن بھر کی چھٹی ملتی تھی۔  شام ہوتے ہوتے اپنے مقام پر سب کا حاضر رہنا لازمی تھا۔  رضا کبھی چھٹی لینا نہیں چاہتا تھا۔  ہر مہینہ ایک معقول رقم ماں کے اکاؤنٹ میں جمع کر دیا کرتا تھا۔  ایک دن سیاہ بادل امڈ امڈ کرا رہے تھے۔  بجلیاں کڑک رہی تھیں اسے سیاہ بادلوں اور  بجلیوں سے ڈر لگتا تھا۔  جب بھی ایسا موسم ہوتا وہ ماں کی گود میں منہ چھپائے پڑا رہتا۔  اسے ماں کی یاد آ رہی تھی۔  زندگی نے کہاں لا پٹکا تھا جہاں سب کچھ تھا لیکن اپنا کہہ سکیں جسے ایسا کوئی نہیں تھا۔  اس کی پلکیں بھیگ گئیں۔  تب ہی اس کے ساتھ دو تین خوبصورت لڑکیوں اور  عورتوں کو پکڑ لائے وہاں کے قانون کے مطابق باس کے عشرت کدہ میں پہنچا دی گئیں جو دوسرے ان سب کے حوالہ کر دی گئیں۔  رضا نے دیکھا ان میں ایک اس کی ماں اور  دوسری اس کی بہن تھی۔  بادلوں کی تیز چنگھاڑ میں تین چیخوں کی آواز گم ہو گئی۔

٭٭٭

فائل مصنفہ کے صاحب زادے مصطفیٰ قاسمی، شارپ کمپیوٹرس، حیدر آباد سے وصول ہوئی، ان کی اجازت سے

پرو ف ریڈنگ، ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید