FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

 

 

حصہ اول

 

 

               افروز سیدہ

 

 

 

انتظار۔۔  تیرا آج بھی ہے

 

میری روح کی ہر اک خواہش

میرے ٹوٹے جسم کی نس نس

ہاتھوں میں کشکول اٹھائے

تجھ سے تجھی کو مانگ رہی ہے

گر حالات کی گردش تم کو

اک لمحے کی مہلت دے دے

میری بکھری ذات کو صنم

اپنی قربت میں لے لینا

اپنی چاہت اپنی الفت

بے شک اپنے پاس ہی رکھنا

سانسوں کی یہ کچی ڈوری

ہو سکتا ہے ٹوٹ ہی جائے

روح سے میرے جسم کا رشتہ

ہو سکتا ہے ٹوٹ ہی جائے

جب مرجاؤں جانِ جاناں

میری قبر پر پھول چڑھانے

تم چلے آنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تم چلے آنا۔۔۔۔۔۔

 

واجد! میں عمر کی اس سرحد میں قدم رکھ رہی ہوں جہاں پہنچ کر تنہائی کا شدید احساس ہوتا ہے۔ یہ موڑ عورت کی زندگی کا سنگین موڑ ہوتا ہے۔ ایک ایسے ساتھی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو ان تاریک راہوں پر اس کا ہاتھ تھام کر چل سکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنے بستر پر لیٹی وہ کروٹیں بدل رہی تھی۔  قریب ہی اس کی بیمار ماں بے سدھ سوئیہوئی تھی۔  پھر بھی روزی اپنے آپ کو تنہا محسوس کر رہی تھی۔  ٹیپ ریکارڈر پر درد میں ڈوبی ہوئی میوزک کمرے کی فضاء کو اور  بھی اداس کر رہی تھی۔  ماں کی خاطر اس نے وقت سے پہلے ریٹائر منٹ لے لیا تھا۔ وہ ایک اعلیٰ عہدہ پر فائز تھی بڑی مصروف  زندگی تھی۔  اس نے وا جد کو فون پر بتا دیا تھا کہ وہ لندن سے واپسا گئی ہے اور  اس کے لئے بیش بہا تحفے بھی لائی ہے۔  اسے صبح کا شدت سے انتظار تھا ایک ہفتہ بعد وا جد سے ملنے کی خوشی تھی لیکن دل جا نے کیوں ایک انجانے خوف کی گرفت میں تھا۔  روزی سونے کی کوشش کر رہی تھی۔  آنکھیں بند کئے ان لمحوں کو تلاش کر رہی تھی جو اس کی زندگی میں آئے ہی نہیں تھے۔  وہ شا دی کر کے اپنا گھر بسانا چاہتی تھی۔  ملازمت کے دوران ایسا کوئی ساتھی نہ ملا جو اس کے معیار پر پو را اترتا۔   یوں تو اسے بے شمار لوگ ملے لیکن ہر ایک کی نظر اس کے حسن و شباب پر دولت اور  شہرت پر تھی۔ زندگی بڑے ہی اضطراب میں گزر رہی تھی۔ پتہ ہی نہ چلا ماہو سال کب گزر گئے اور  ڈھلتی عمر کیدہلیز پر جو انی پڑی سسکنے لگی۔ ملازمت چھوڑنے کے بعد اس نے ایک گونہ سکون محسوس کیا جیسے صحرا کی خاک چھانتی ہوئی طویل مسافت طے کر کے آئی ہو۔  اسے تھکن کا احساس ہو رہا تھا کہ اچانک ایک دن پٹرول پمپ پر واجد سے ملاقات ہو گئی۔  وہ اس کی باغو بہار طبیعت اور  سحر انگیز شخصیت میں کھو گئی۔ وہ چند ماہ پیشتر ہندوستان سے امر یکہ آیا تھا۔  اسے پٹرول پمپ پر ملازمت مل گئی تھی۔  روزی نے محسوس کیا جیسے کڑی دھوپ میں چلتے ہوئے کسی گھنے درخت کی چھاؤں میں ا گئی ہو۔  زندگی نے ایک نئی کرو ٹلی روزی کی را ہوں میں گلاب بکھر گئے تھے  وہ کل وا جد سے صاف بات کر نا چاہتی تھی کہ وہ اس سے شا دی کرے گا یا نہیں ؟

دو سرے دن وا جد حسب وعدہ آ  گیا صحت اور  زندگی سے بھرپور مسکراتا چہرہ خوش اخلاق اور  خوش گفتار وا جد کو دیکھ کر وہ کھل اٹھی اور  پھر گفتگو کا سلسلہ چل نکلا رو زی کے اچانک سوال پر اس نے جو اب دیا :

’’روزی میں نے تمہیں پہلے بھی سمجھایا تھا کہ میں ایک اچھے دو ست کی حیثیت سے تمہارا ساتھ دے سکتا ہوں لیکن تم سے شادی نہیں کر سکتا مانتا ہوں کہ تم اپنا مذہب چھوڑنے کیلئے تیار ہو لیکن میری اپنی مجبوریاں ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ میری طرف سے تمہیں کوئی تکلیف پہنچے۔ ‘‘

’’واجد میں اپنا مذہب ہی نہیں چھوڑ رہی ہوں بلکہ کروڑوں کی جائیداد، بینک بیلنس اور  اپنی باقی زندگی تمہارے نام کر دینا چاہتی ہوں تمہیں بتا چکی ہوں کہ سوائے بیمار ماں کے میرا کوئی نہیں ہے۔  رشتے داروں اور  دوستوں نے مجھے خوب لوٹا۔  میں سچے پیار اور  محبت کے لئے ترستی تڑپتی رہی ہوں تم سے ملنے کے بعد میں نے اسلامک لٹریچر پڑھا سمجھا اور  دل سے مسلمان ہو نا چاہتی ہوں۔ تم جیسے مرد کا ساتھ چاہتی ہوں کیا میرے لئے تمہارے دل میں کوئی جگہ نہیں ہے ؟ کیا تم اپنی بیوی کو طلاق دے کر مجھ سے شادی نہیں کر سکتے ؟ اگر امر یکہ میں دو شاد یوں کی ممانعت نہ ہوتی تو میں تمہیں ایسا قدم اٹھا نے کیلئے مجبور نہ کرتی۔  تمہاری بیوی اور  بچوں کے لئے اتنا کچھ دینے کے لئے تیار ہوں جتنا کہ تم بر سوں امر یکہ میں محنت کر کے نہیں کما سکتے۔ ‘‘

’’روزی میں تمہارے جذباتو احساسات کی قدر کرتا ہوں تم دل سے مسلمان ہو نا چاہتی ہو میرے لئے خو شی کی بات ہے لیکن خزانہ کے لئے خاندان کی قربانی میں نہیں دے سکتا۔ جن کی خاطر رو پیہ کما نے امریکہ آیا ہوں وہی میرے نہ رہیں گے تو میں دولت کا کیا کروں گا ؟ ہم ہندو ستانی آج بھی رشتوں کا پاسو لحاظ رکھتے ہیں ‘‘۔  ’’میں تم سے روحانی محبت کرتی ہوں جو ایک نور ہے ایسا چراغ ہے جسے کوئی آندھی بجھا نہیں سکتی۔  شاید تم میری زندگی میں آنے والے تھے اس لئے میں آج تک تنہا رہی ویسے میری ملازمت میں شادی کی ممانعت تھی۔  واجدمیں عمر کی اس سرحد میں داخل ہو رہی ہوں جہاں پہنچ کر تنہائی کا احساس شدیدہوجاتا ہے۔  یہ موڑ ایک عورت کی زند گی کا سنگین مو ڑ ہوتا ہے۔  ایک ایسے ساتھی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جوان تار یک را ہوں پر ہاتھ تھام کر چل سکے کیا تم میرا ساتھ نہیں دو گے ؟ تمہارے در پر سجدہ ریز ہو نے والی محبت اور  دولت کو کیوں ٹھکرا رہے ہو؟ کیوں ؟ روزی کا گلا رندھ گیا۔

’’روزی ڈیر!تم زند گی کے خار دار را ستوں پر چل کر آئی ہو تم ایک با ہمت عظیم خاتون ہو میں تمہاری عزت کرتا ہوں لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ‘‘

’’یہ لیکن ویکن چھوڑو! سنو واجد! اب میں تمہیں وہ بات بتا دینا ضروری سمجھتی ہوں جو بتا نا نہیں چاہتی تھی۔  کیا تم سننا چاہو گے کہ آج میں کیسی کشمکش میں مبتلا ہوں ؟

’’ہاں!روزی بتا ؤ تمہیں کیا پریشانی ہے ؟ کیسی الجھن ہے ؟‘‘

’’تم جانتے ہو میری ماں بیمار ہے لیکن یہ نہیں جانتے کہ بیماری کیا ہے ؟‘‘

’’وہ الزا ئمر کی مریض ہے تمہیں یہ جان کر تعجب ہو گا کہ دنیا میں ابھی تک اس کا علاج دریافت نہیں ہو سکا‘‘۔  ’’میں سمجھا نہیں یہ کیسا مرض ہے کیا تم وضاحت کرو گی؟‘‘

’’سا ٹھ (60 ) سال سے زائد عمر والے مر داور  عورتیں اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔  انسان کا حافظہ آہستہ آہستہ کمزور ہو نے لگتا ہے وہ ہر بات بھولتا جاتا ہے جب مرض بڑھ جاتا ہے تو وہ اپنے قریبی رشتے داروں کو تک پہچاننے سے قاصر ہوتا ہے۔  یہاں تک کہ ایک دن اپنے آپ کو بھی بھول جاتا ہے۔ میری ماں الزائمر کیمریضہ ہے ڈاکٹروں نے بتا یا ہے کہ یہ موروثی بھی ہو سکتی ہے شا ید اسی لئے میں بھی اس مرض میں مبتلا ہو رہی ہوں۔ اکثر اپنے اہم اور  ضروری کام بھول جاتی ہوں۔  ابڈ اکٹروں نے فیصلہ کیا ہے کہ زہر کا انجکشن دیکر ماں کی زند گی کا خاتمہ کر دیں کیونکہ میں خود زیادہ عرصہ تک ان کی دیکھ بھال نہیں کر سکوں گی دوا خانوں میں ایسے مریضوں کے مر نے کا انتظار نہیں کیا جا تا۔  شا ید ایک دن میرا بھی یہی حشر ہو گا۔  تم جانتے ہو میں بے اندازہ دولت کی ما لک ہوں میری موت کے بعد یہ سب کچھ گورنمنٹ کا ہو جائے گا میں اُس حالت کو پہنچنے سے پہلے چاہتی ہوں کہ اپنا سب کچھ تمہارے حوالے کر دوں اب فیصلہ تم پر چھوڑتی ہوں۔ ‘‘

’’روزی یہ سب کچھ جان کر مجھے حیرانی ہو ئی۔  میری دلی ہمدردی تمہارے لئے بڑھ گئی ہے۔  اگر میں نے تم سے شا دی کر بھی لی تو تمہاری گورنمنٹ میرا کیا حشر کرے گی ،  کیا اس شادی کا سیدھا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ میں نے دولت کی خاطر یہ قدم اٹھا یا ؟ تمہاری مجبوری کا نا جائز فائدہ اٹھا یا تب میری الجھن کتنی بڑھ جائے گی ؟‘‘

روزی خالی خالی آنکھوں سے وا جد کو دیکھ رہی تھی اس کے چہرہ پر التجا تھی۔ بے بسی تھی وہ سوچتے ہوئے گو یا ہو ئی’’سنو! ہم ایک کام کر سکتے ہیں تم اپنے بیوی بچوں کو یہاں بلوا لو۔  بچوں کی تعلیم تو اچھی ہو جائے گی پھر ملازمت بھی مل جائے گی اس طرح تم میرے قریب تو رہ سکتے ہو میں سب کا تمام خرچ اٹھا نے کے لئے تیار ہوں۔ ‘‘

ایک دن واجد کی بیوی اور  بچے امر یکہ پہنچ گئے دو تین مہینے سیر تفریح میں گزر گئے۔  وا جد اور  اس کی فیملی بہت خوش تھی۔ روزی مطمئن سی ہو گئی تھی وا جد سے اس کی قربت اور  بے تکلفی نے اس کی بیوی کو کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا اس نے اپنی طرف سے خلع نا مہ وا جد کو دے دیا اور  وہ سب ہندوستان واپس چلے گئے۔  چند ماہ بعد ہی ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ ہوا۔ پھر وہاں مسلمانوں کی کایا ہی پلٹ گئی بے حساب لوگ اپنے اپنے وطن لو ٹ گئے جن میں واجد بھی تھا۔  آج روزی گورنمنٹ کی طرف سے دوا خانہ میں شریک ہے الزائمر کے مرض نے اسے پوری طرح  اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔  اسے وا جد کے سوا کچھ بھی یاد نہیں ہے کبھی یاد داشت عود کر آتی ہے تو اپنے تیمار داروں سے پوچھتی ہے واجد کہاں گیا ہے ؟کتنی دیر میں آئے گا؟ اسے جلدی آنے کو کہو۔ میں اس کا انتظار کر رہی ہوں۔ واجد! واجد! جلدی آؤ نا! ‘‘۔  کچھ دیر بعد اس پر غنودگی چھا جاتی ہے۔ شا ید انجکشن کے اثر سے نیند کی آغوش میں چلی جاتی ہے۔  لیکن اس کیاد ھ کھلی آنکھیں کہتی ہیں کہ انھیں کسی کا انتظار ہے۔

٭٭٭

 

 

تار یک را ہوں کے مسا فر

 

ز ما نہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہو گا

سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا

گزر گیا وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے

بنے گا سا را جہاں مئے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہو گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’واہ رضیہ بیگم! تم نے اور  تمہاری لاڈلی نے خاندان کا نام خوب روشن کیا ہے تم لوگوں نے ہمیں سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہیں رکھا۔ کیا اس چڑ یا کے پر تمہیں نظر نہیں آئے ؟اڑ نے سے پہلے اس کے پر کیوں نہ کاٹ دئیے ؟کیا باہر سے آنے والی رقم کافی نہیں تھی جو بیٹی کو کمانے کیلئے بھیج دیا ؟ دین کی اور  دنیا کی عدالت میں تمہیں جواب دینا پڑے گا۔ بتاؤ تم نے یہ قدم کیوں اٹھایا جو سیدھے جہنم کی طرف لے جانے والا ہے جواب دو!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس دن ثمینہ کے پیروں میں جیسے پہئے لگ گئے تھے۔  وہ بنا پروں کے اڑتی پھر رہی تھی اس نے میڑ ک کا امتحان فرسٹ ڈیویثرن میں پاس کیا تھا اسی خو شی میں جشن منا یا جا رہا تھا۔  آسمانی رنگ کا نیا سوٹ سونے کی خوبصورت چین اور  بالیاں پہنی ہوئی ثمینہ کا سونے جیسا رنگ دمک اٹھا تھا۔

ثمینہ کا تعلق ایک قد امت پسند اوسط گھرانے سے تھا بچے بڑے سبھی دین کے پا بند تھے۔  گھر میں T.Vتھا لیکن بڑے بزرگ صرف خبریں سن لیا کر تے تھے۔  بچوں کو T.Vکھولنے کی اجازت نہیں تھی۔  لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلا نے سے گریز کیا جاتا تھا چونکہ ثمینہ بچپن ہی سے  شو خ و شریر اور  بے حد ذہین تھی اس کے والد کا خیال تھا کہ وہ جہاں تک پڑھنا چاہے پڑھائیں گے بدلتے حٍا لات اور  بڑھتی ضروریات کے تحت انھوں نے دیار غیر جا کر رو پیہ کما نے کا ارادہ کیا چند مہینوں کی کوشش کے بعد سعودی عرب کی ایک کمپنی میں ملازمت مل گئی ثمینہ کے پاس ہو نے کی خو شی میں تقریب کے اہتمام کے لئے انھوں نے معقول رقم اور  کچھ تحفے بھیجے تھے۔

پیسے کی ریل پیل نے اپنا رنگ دکھا یا نئے زمانے کی نئی چیزیں گھر کو زینت بخش رہی تھیں۔  خاندان کے لوگ اس تبدیلی کو دیکھ کر انگشت بدند اں تھے۔  دو سرے دن ثمینہ کی سہیلیفا خرہ کی کا میا بی پر اس کے گھر دعوت تھی۔  جس میں شر کت کے لئے ثمینہ کو مشکل سے اجازت ملی۔  ماں نے جلدی لو ٹ آنے کی تاکید کی۔  اپنے چھوٹے  بھائی کو ساتھ لئے جب اس نے فاخرہ کے گھر میں قدم رکھا تو دیکھا ہر طرف رنگ و نور بکھرا ہوا ہے۔  مہکتی چہکتی خوشبو میں نہائی لڑکیوں اور  قہقہے لگا تے خوش لباس لڑکوں کو دیکھ کر وہ الٹے پاؤں واپس جا نا چاہتی تھی کہ فا خرہ نے اسے دیکھ لیا اور  ہاتھ پکڑ کر ہال میں لے آئی۔  گھر وا لوں سے تعارف کے بعد شر مائی لجائی سی ایک بازو کرسی پر بیٹھ گئی اس کی ہم جماعت کچھ لڑکیاں اس کے قریب آ کر بیٹھ گئیں اور  کچھ فا خرہ کی کزنس تھیں جو بات بات پر ہنس رہی تھیں۔ کچھ تو فلموں پر تبصرہ کر رہی تھیں کچھT.Vسیرئیلس پر بحث کر رہی تھیں کوئی کسی کے کپڑوں کی تعریف میں رطب اللسان تھی  ان سب کے در میان ثمینہ اپنے آپ کو ہونق سمجھ رہی تھی۔ جو نہ فلموں کے بارے میں جانتی تھی نہ  T.Vسیرئیلس کے با رے میں معلومات رکھتی تھی۔  اس کے سا منے ایک میز پر رکھے -T.V پر کوئی پروگرام چل رہا تھا۔  ثمینہ حیران سی۔  T.Vپر بدلتے مناظر سے لطف اندوز ہو رہی تھی اور  سوچ رہی تھی ہمارے گھر وا لے عجیب ہیں جو اتنی اچھی تفریح سے ہمیں محروم رکھا۔  بھا گتے کھیلتے بچے کبھی چینل بدل دیتے تو کچھ اور  دلچسپ مناظر نظر آتے تھے۔  وہ T.V- دیکھنے میں محو تھی تب ہی فا خرہ ایک خو برو نو جو ان کا ہاتھ پکڑے اس کی طرف آتی نظر آئی وہ سیاہ سوٹ میں ملبوس خاصہ اسمارٹ لگ رہا تھا۔  ثمینہ کے قریب آ کرفا خرہ نے نو جو ان کا تعارف کراتے ہوئے کہا ’’ثمینہ ان سے ملو یہ میرے پیارے بھیا سہیل ہیں ‘‘’’اور  ڈگمگاتی کشتیوں کے سا حل ہیں ‘‘۔  سہیل نے جیسے جملہ پو را کیا۔  اور  مسکرا تے ہوئے قدرے جھک کر ثمینہ کی طرف ہاتھ بڑھا یا۔  ثمینہ نے اس کے چہرے کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے غیر ارادی طور پر اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔  سہیل نے ہاتھ تھام لیا فا خرہ کھلکھلا کر ہنس پڑی ثمینہ نے گھبرا کر ہاتھ کھینچ لیا اور  خجالت میں ڈوبی مسکراہٹ کے ساتھ گر دن جھکا لی۔  اس کے تن بدن میں جیسے بجلی کے قمقمے روشن ہو گئے اس کے ہاتھ پر چیونٹیاں سی رینگ رہی تھیں۔  اچانک ایک اجنبی کے ہاتھ کا لمس پا کر اس کا دل دھڑ کنے لگا-سا نسیں بے ترتیب ہو رہی تھیں -ا سکا چہرہ بھیگ سا گیا۔  پر تکلف کھا نے کے بعد فاخرہ نے ثمینہ کو اس کے گھر چھوڑ دیا۔ کار میں بیٹھی ہوئی ثمینہ محسوس کر رہی تھی جیسے وہ ہواؤں میں اڑی جا رہی تھی وہ تخیلات کی دنیا میں کھو گئی۔  تخیلات!جو اسے بچپن سے بے قرار کئے ہوئے تھے جو آسمان کی آخری حدوں کو چھو لینا چاہتے تھے۔  رات بستر پر لیٹی تو اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔ رہ  رہ کر T.V-کے منظر آنکھوں میں گھوم رہے تھے اور  ہاتھ پر چیونٹیاں سی رینگتی محسوس ہو رہی تھیں۔  آدھی رات گزر چکی تھی گھر کے افراد گہری نیند میں تھے۔  ثمینہ ڈرتے ڈرتے اٹھی اور  T.Vکا بٹن آن کر دیا۔  چینل بدل بدل کر دیکھتی رہی۔ جا نے کب تک اور  کیا کچھ دیکھتی رہی پھر یہ اس کا معمول بن گیا۔  وہ چاہتی تھی کہ چھٹیاں جلدی سے گزر جائیں اور  کالج میں اس کا داخلہ ہو جائے۔   وا لد نے آگے پڑھنے کی اجازت دے دی تھی دونوں بھائیوں کو نینی تال کے اسکول میں شر یک کرا دیا گیا تھا۔

کالج میں داخلے کا دن ثمینہ کی زند گی کا خوشگوار ترین دن تھا کالج کا نکھرا نکھرا رنگین ماحول اسے اچھا لگا۔  نت نئے فیشن کے کپڑے زیب تن کئے ہنستی مسکراتی بے فکر سی لڑکیوں کو دیکھ کر اس کا دل کیف و سر ور میں ڈوب گیا۔ شعور نے کئی چھلا نگیں لگائیں تخیلات نے اڑ ان بھری اور  زند گی میلوں آگے نکل گئی۔  خوف اور  جھجک اس کے دل سے غائب ہو چکے تھے۔  نئے زمانے کی لڑکیوں کے ساتھ وہ گھل مل گئی۔  ماں سے اجازت لے کر کبھی چوری چھپے انکے ساتھ پکچرز جانے لگی کالج سے جلدی نکل کر یہ لڑکیاں چوکیدار کے ہاتھ پر پچیس پچاس روپئے رکھ دیتیں اور  انٹر نیٹ سنٹر کی طرف چلی جاتیں جہاں گھنٹوں گزار کر گھر جاتیں اور  دیر سے آنے کی کوئی نہ کوئی وجہ بتا دیتیں۔  جب کبھی کچھ لڑکیاں اپنے اپنے بو ائے فر ینڈس کے ساتھ انٹرنیٹ سنٹر کے کیبن میں گھس جاتیں تب باقی لڑکیاں اپنے گھر کی راہ لیتیں۔  ثمینہ سوچتی رہ جاتی آخر یہ بوائے فرینڈس کیسے اور  کہاں سے مل جا تے ہیں۔  ایک دن ثمینہ بس سے اتر کر اپنے گھر جا رہی تھی کہ را ستے میں سہیل مل گیا۔ وہ نظریں جھکائے آگے بڑھ جا نا چاہتی تھی لیکن سہیل راستہ روکے کھڑا تھا۔

’’ایسی بھی کیا جلدی ہے یوں چلی جا رہی ہو جیسے جان پہچان ہی نہیں ہے۔ ‘‘

’’جی میں جانتی ہوں آپ سہیل صاحب ہیں لیکن را ستے میں کسی لڑکی کو اس طرح روک لینا کہاں کی شرافت ہے ؟‘‘

’’آپ کالج میں پڑھتی ہیں اور  اس قدر فرسودہ خیالات رکھتی ہیں ذرا دیکھئے تو دنیا کدھر جا رہی ہے ؟‘‘

’’کیا کالج میں پڑھنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ نئے خیالات رکھیں ؟‘‘

’’محترمہ وقت کے ساتھ چلنا ہی وقت کا تقاضہ ہے۔ ‘‘سہیل نے مسکراتے ہوئے کہا ’’یہ پرانا لبادہ اتار دو اور  زمانے کے ساتھ چلو۔ ‘‘اس کی مسکراہٹ میں اسرار کی ایک گرہ سی تھی جسے ثمینہ کوئی نام نہ دے سکی اس کے لا شعور سے ایک سر سراتا خیال اس کی سا نسوں کو زیرو زبر کر ر ہا تھا اس نے قا بو پا تے ہوئے کہا۔

’’میں آپ کے خیال سے متفق نہیں ہوں ویسے اس سلسلے میں فا خرہ سے ضرور بات کروں گی خدا حافظ۔ ‘‘کہتے ہوئے ثمینہ آگے بڑھ گئی۔

دو سرے دن اس نے فا خرہ سے اس ملاقات کا ذکر کیا تو فا خرہ نے بتا یا کہ اس کے چا چا T.V-کے لئے اشتہاری فلمیں بناتے ہیں اور  سہیل نے ثمینہ کے بارے میں چا چا کو بتایا تھا شاید وہ اسی سلسلے میں کچھ کہنا چاہتا تھا۔  ثمینہ کچھ سوچتی ہوئی خاموش ہو گئی۔ پندرہ اگست کے دن کالج میں فنکشن تھا طالبات کے والدین نے بھی شر کت کی تھی ایک خوبصورت ڈرامہ اسٹیج کیا گیا تھا جس کی ہیروئن ثمینہ تھی۔  فا خرہ کے چاچا اور  سہیل بھی فنکشن میں موجود تھے چاچا نے ثمینہ کو اور  اس کے کام کو بہت پسند کیا اور  ایک دن فاخرہ کے ساتھ اس کے گھر پہنچ گئے ماں سے ملاقات کی اور  ثمینہ کو اپنی نئی اشتہاری فلم میں لینے کی اجازت چاہی۔  انھوں نے سختی سے منع کر دیا چاچا وا پس چلے گئے لیکن ثمینہ کے تخیلات نے اڑان بھری اس نے پہلے تو پیار سے ماں کو راضی کرنے کی کوشش کی جب وہ نہیں مانیں تو ضد پر اتر آئی۔ ماں نے کہہ دیا کہ والد سے اجازت لینے کے بعد ہی کچھ کہے گی۔  ثمینہ نے سختی سے منع کیا اور  بھوک ہڑتال کر دی آخر ماں کو اجازت دینی پڑ ی۔ لا ڈلی بیٹی تھی کچھ کر بیٹھتی تو سا را الزام ان ہی پر آتا۔  ثمینہ کالج کے بعد فاخرہ کے ساتھ چلی جاتی اور  وہاں سے کبھی سہیل کے ساتھ کبھی فا خرہ کے ساتھ شو ٹنگ پر چلی جاتی صابن کے اشتہار کی فلم تھی اور  اسے نیم عریاں لباس پہننا تھا پہلے تو وہ بہت شرمائی لجائی انکار کیا لیکن اس کی آنکھوں میں بسے سنہرے سپنوں نے زیادہ سوچنے کی مہلت نہیں دی۔ اور  فلم مکمل ہو گئی۔  وہ اپنے آپ کو فاتح زمانہ سمجھنے لگی کیونکہ اس کی فلم بے حد مشہورو مقبول ہوئی اسے نئی آفرز ملنے لگیں وہ جیسے تخت طاؤس پر بیٹھی بے خود سی ہو گئی۔ ماں سے کیا ہوا وعدہ بھول گئی کہ صرف ایک بار پہلی اور  آخری بار فلم میں کام کرے گی۔  وہ اب سہیل کے علا وہ اور  لوگوں کے ساتھ بھی دیکھی جا رہی تھی خاندان کے کچھ لوگوں نے جب اس کے نئے رنگ روپ کو دیکھا تو آگ بگولہ ہو گئے اس کے گھر آ کرماں سے کہا’’وا ہ رضیہ بیگم! تم نے اور  تمہاری لا ڈلی بیٹی نے خاندان کا نام خوب روشن کیا ہے تم لوگوں نے ہمیں سر اٹھا کر چلنے کے قا بل نہیں رکھا۔  کیا اُس چڑ یا کے پر تمہیں نظر نہیں آئے ؟ اڑ نے سے پہلے اس کے پر کیوں نہ کاٹ دئے ؟ کیا باہر سے آنے والی رقم کافی نہیں تھی جو بیٹی کو کمانے کے لئے بھیج دیا ؟ دین کی اور  دنیا کی عدالت میں تمہیں جو اب دینا پڑے گا۔  بتاؤ تم نے یہ قدم کیوں اٹھا یا جو سیدھے جہنم کی طرف لے جانے والا ہے جواب دو!! ‘‘

رضیہ بیگم کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ان کا سر چکرا رہا تھا اعصاب شل ہوئے جا رہے تھے انھوں نے کر سی کا سہارا لیا اور  بیٹھ گئیں۔ جا نے وہ کب تک یوں ہی بیٹھی رہیں شام اتر آئی تھی کمرے میں اندھیرا پھیل گیا تھا اور  یہ اندھیرا ان کی خوشیوں کے اجالے پر چھا گیا  رات دیر گئے ثمینہ گھر آئی تو اسے دیکھتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں ثمینہ کے پو چھنے پر کہا ’’کیا اسی دن کے لئے تمہیں خدا سے مانگا تھا کہ تم آؤ اور  خاندان کی عزت کو خاک میں ملا دو تم نے میرا کہا نہیں ما نا آج دنیا ہم پر تھوک رہی ہے میں تمہارے ابو کو کیا جواب دوں گی انھیں مجھ پر پورا بھروسہ تھا اور  تم نے مجھے کہیں کا نہ رکھا میں کیا کروں ؟ ‘‘’’بتا ؤ میں کیا کروں ؟‘‘

ثمینہ نے ڈھٹائی سے کہا ’’امی دنیا والوں کا کیا ہے ان کا تو کام ہی  یہی ہے کہ کسی نہ کسی کو کچھ نہ کچھ کہتے رہیں درا صل یہ لوگ کسی کی عزت ،شہرت اور  دولت کو دیکھ نہیں سکتے۔ جل جل کر پھپھولے پھوڑ تے رہتے ہیں ان کی پر وا کریں گے تو جینا دشوار ہو جائے گا آپ خوامخواہ ہلکان ہو رہی ہیں میں نے ایسا کیا کر دیا ؟‘‘

اسی وقت فون کی گھنٹی بجنے لگی ثمینہ نے فون اٹھا یا وا لد کا فون تھا انھوں نے بتا یا کہ وہ کل انڈیا آ رہے ہیں ثمینہ نے ماں کو بتایا تو ان پر لرزہ طاری ہو گیا۔

ثمینہ کے والد ڈیڑھ ماہ کی چھٹی پر آ رہے تھے ان کی شا پنگ مکمل ہو گئی تھی وہ پیکنگ میں مصروف تھے اور  خوشی خوشی اپنے دوست کو خر یدی ہوئی تمام چیزیں دکھا رہے تھے T.Vچل رہا تھا ان کے دو ست نے کہا :

’’آج کل انڈیا چینل پر ایک adفلم میں نئی سا حرہ بجلیاں گرا رہی ہے ، غضب کی لڑکی ہے کیا تم نے دیکھی ہے ؟‘‘ثمینہ کے والد نے نفی میں سر ہلا یا۔  دو ست نے کہا ’’بڑی انمول چیز ہے ذرا غور سے دیکھنا۔ تمہاری بوڑھی ر گوں  میں تازہ خون گردش کرنے لگے گا۔ فلم ابھی آتی ہی ہو گی۔  ثمینہ کے والد نے فلم دیکھی تو پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتے رہ گئے۔ انھوں نے سرسراتی آواز میں کہا۔ ’’ثمینہ! میری ثمینہ۔  ان کی آنکھیں پتھرا گئیں اور  لب سا کت ہو گئے۔

٭٭٭

 

 

گمشدہ منزل

 

تیری یادوں کے چراغوں کا اجالا ہے یہاں

ورنہ دنیا میں اندھیروں کے سوا کچھ بھی نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

یہ ضروری تو نہیں کہ انسان کسی چیز کی خواہش کرے اور  وہ چیز اسے حاصل ہو جائے زندگی میں آرزوؤں اور  تمناؤں کا خون ہوتا رہا ہے! لوگ پھر بھی زندہ رہتے ہیں ایسی خواہش کے دکھ کو دل میں کیوں بسائیں جس کا  پورا ہونا ممکن نہ ہو؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اس کا دل شام ہی سے جانے کیوں بیٹھا جا رہا تھا دھڑکنیں کبھی تیز ہو جاتیں کبھی مدھم پڑ جاتیں اختلاج کی سی کیفیت تھی اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے کیوں ہو رہا ہے اب تو اسے کوئی فکر پریشانی بھی نہیں تھی وہ دن کب کے گزر گئے تھے جب وہ حیران پریشان رہا کرتی تھی دو بیٹوں اور  ایک بیٹی کی پیدائش کے بعد اس کا شوہر فالج کا شکار ہو کر اپاہج ہو گیا تھا ملازمت جاتی رہی۔  بچے چھوٹے تھے اور  کوئی ذریعہ آمدنی نہیں تھا چند دن تک رشتے داروں نے مدد کی لیکن کسی کی وقتی مدد زندگی بھر کا سہارا تو نہیں بن سکتی۔۔۔  رفیعہ کے لئے زندگی ایک چیلنج ایک امتحان بن گئی تقدیر کی ستم ظریفی سے کوئی گلہ نہیں تھا وہ ایک با ہمت دل اور  پر اعتماد دماغ کی حامل عورت تھی۔  گرائجویشن کے بعد ٹائپ اور شارٹ ہینڈ کا اعلی امتحان پاس کیا تھا اسے ایک  بسکٹ فیکٹری میں معقول تنخواہ پر اکاؤنٹنٹ کم سوپروائزر کی نوکری مل گئی جلد ہی اس نے ایک جنرل اسٹورکھول کر شوہر کو بیٹھا دیا۔

ہمہ اقسام کے  بسکٹ اپنی فیکٹری سے خرید  کر اس نے دوکان پر رکھے ایک لڑکے کو بھی ملازم رکھ لیا۔  فیکٹری سے نکل کروہ کمپیوٹر سیکھنے جانے لگی۔  اسکول سے آنے کے بعد بچے گھر اور  دوکان سنبھالنے لگے زندگی سکون سے گزرتی رہی۔  چند سال کی محنت کے بعد رفیعہ نے ایک کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ کھول لیا جہاں لڑکیوں اور خواتین کو کمپیوٹر کے علاوہ مختلف ٹکنیکل کو رسس کرانے کا انتظام تھا۔  مہینے میں ایک دن گھر پر دینی اجتماع ہوتا تھا جہاں امیر غریب سبھی خواتین جمع ہوتی تھیں اور  چندہ کے طور پر بساط بھر رقم جمع کرتی تھیں جمع شدہ رقم سے سال میں ایک بار کسی مستحق ضرورت مند کی مدد بھی کی جاتی تھی۔  محلے میں رفیعہ کا ایک مقام بن گیا تھا وہ وقت بھی آ گیا کہ بچوں کی تعلیم مکمل ہو گئی بڑے لڑکے کی شادی کر دی وہ بیرون ملک اپنی بیوی کے ساتھ چلا گیا چھوٹے لڑکے کو اچھی کمپنی میں ملازمت مل گئی پھر رفیعہ نے بڑے اہتمام کے ساتھ بیٹی کے ہاتھ پیلے کئے اور  سسرال روانہ کیا جس کے چند دن بعد ہی رفیعہ کے شوہر نے رخت سفر باندھا اور  اسے اکیلا چھوڑ سوئے عدم روانہ ہو گیا زندگی کے ان تمام تیزرفتارسالوں میں رفیعہ اسقدرمصروف رہی کہ کبھی اپنے آپ پرتو جہ نہیں دی اسے تو بچوں کی تعلیم ، بیمار شوہر کی خدمت اور  غریبوں کی مدد کے سواکچھ یاد نہیں تھا اس نے اپنے لطیف احساسات اور جذبات کو تھپک تھپک کرسلادیا اور حالات سے سمجھوتہ کر لیا تھا وہ کبھی بیمار ہوئی نہ کسی نے اس کی طرف توجہ کی تھی آج جیسے اعصابی تھکن نے اسے نڈھال کر دیا تھا تنہابسترپر لیٹی ہوئی گزرے دنوں کا محاسبہ کر رہی تھی کہ دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگیں ہاتھ پاؤں میں لرزہ سامحسوس کر رہی تھی اس کا لڑکا رات دیر گئے گھر آتا اور  اپنے کمرے میں چلا جاتا تنہا رہنے والی ماں سے بات کرنا گھر جلدی آنا وہ ضروری نہیں سمجھتا تھا جیسے وہ ماں نہیں کونے میں پڑی ہوئی کوئی مشین تھی۔  بڑ ا لڑکا کبھی عید بقرعید پر بات کر لیا کرتا تھا اور  بیٹی تو سسرال کی ہو بیٹھی تھی۔

آج اس کا دل چاہ رہا تھا کوئی اس کے قریب بیٹھے اس کا حال پوچھے تسلی اور  محبت کے د وبول سننے کی خواہش نے اسے بے چین کر دیا جن بچوں کے لئے وہ اپنی تمام خوشیوں اور  خواہشات کو تیاگ کر زندگی بھر شیشے کی کرچیوں پر چلتی رہی تھی ان کی نظر میں آج وہ کیا تھی؟!ا سکا دل بیٹھا جا رہا تھا چہرہ پر کرب کی چادرسی تنی ہوئی تھی جیسے ماضی کے جزیروں سے کوئی اسے آواز دے رہا ہو دماغ کے کینوس پر ایک دھندلی سی تصویر ابھر آئی یہ!؟ یہ ؟!یہ چہرہ!یہ مجھے کیوں یاد آ رہا ہے ؟ نہیں یہ سوال ہی غلط ہے!اس چہرہ کو میں بھولا ہی کب تھا ؟

یہ ہمہ وقت میری نظروں کے سامنے میرے ساتھ ساتھ رہا ہے ہاں میں ایک شادی شدہ مشرقی عورت تین بچوں کی ماں ہوتے ہوئے اس گناہ کی مرتکب ہوئی ہوں کچھ کام انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتے کچھ یادیں ذہن سے کبھی فراموش نہیں ہوتیں نا سوربن کر رستی رہتی ہیں۔  یادوں کی بازگشت اسے پریشان کرتی رہی ہے کیا میں نے کچھ کھو دیا ہے ؟

نہیں!میں نے جو چاہا پایا ہی کب تھا جو کھونے کا سوال پیدا ہوتا اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ دوڑ کر جائے اور شکیب احمد کے قدموں پر اپنا سر رکھ دے جو آج تک اپنے وعدہ پر قائم تھا کہ وہ کبھی۔۔۔۔۔۔  ہاں اس رات کی مہک کو وہ کیسے بھول سکتی ہے جو اس کی ساری زندگی پر محیط ہو گئی تھی اس رات اس کی جگری دوست رخسانہ کی شادی تھی مہمان آہستہ آہستہ رخصت ہو رہے تھے اابجے جلوہ کی رسم ادا ہو رہی تھی قریبی رشتے دار جمع تھے لڑکیاں دلہن کو اور  ایک دوسرے کو ستا رہی تھیں کچھ دور کھڑے لڑکے ان کے دبے دبے قہقہوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے ان ہی لڑکوں کے بیچ وہ دشمن جان و دل شکیب بھی تھے اس کی طرف ٹکٹکی باندھے یوں دیکھ رہے تھے جیسے وہاں ان دونوں کے سواکوئی نہ ہو دونوں ایک دوسرے کو گم صم کھڑے گھورے جا رہے تھے آنکھیں وفور شوق سے دمک رہی تھیں نظریں جیسے کہہ رہی تھیں تم ہی تو ہو جس کی مجھے تلاش تھی دونوں کے ہونٹوں پر طمانیت بھری مسکراہٹ تھی۔  دوسرے دن شکیب نے اپنی ماں کو رفیعہ کے گھر بھیج دیا۔  رفیعہ کی ماں نے خاطر مدارات کے بعد معذرت کرتے ہوئے بتا یا کہ اس کیخالہ زاد بہن نے اپنے بیٹے کے لئے بچپن ہی میں رفیعہ کو مانگ لیا تھا اور ا سکی شادی کی تیاری ہو رہی ہے شکیب کی ماں اداس دل لئے لوٹ گئیں۔  شکیب نے رخسانہ کے پیر پکڑ لئے اور کہا کہ وہ صرف ایک بارکسی طرح رفیعہ سے ملا دے۔  رخسانہ کے منت سماجت کرنے اور اپنی دوستی کا ، خدا کا واسطہ دینے پر وہ دھڑ کتے دل کو سنبھالتی شکیب سے ملنے گئی دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے مافیہاسے بے خبر بیٹھے رہے زبانیں گنگ تھیں اور  نظریں جیسے زبان بن گئی تھیں چاہتے تھے کہ وقت کی رفتار تھم جائے اچانک شکیب نے رفیعہ کے ٹھنڈے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیکر کہا :

’’رفیعہ کیا تم اپنی شادی سے انکار نہیں کر سکتیں ؟ رفیعہ نے بھیگی بھیگی پلکیں اٹھا کر شکیب کی طرف دیکھا

’’شکیب یہ ضروری نہیں کہ انسان کسی چیز کی خواہش کرے اور  وہ اسے حاصل ہو جائے زندگی میں آرزوؤں اور  تمناؤں کا خون ہوتا رہا ہے!لوگ پھر بھی زندہ رہتے ہیں!بیٹیاں صدیوں سے ماں باپ کے حکم کی پابند رہی ہیں ماں باپ کا مان رکھتی ہیں!شکیب!ماں باپ کی خوشیوں کی لاش پر میں اپنی چاہتوں کا محل تعمیر کرنا نہیں چاہتی!‘‘

’’رفیعہ میرا کیا ہو گا ؟ تم سے ہمیشہ کی دوری میں برداشت نہ کر سکوں گا‘‘

’’یوں سمجھیں کہ تقدیر نے ہمیں ایک دوسرے کے لئے نہیں بنایا آپ ہاؤ زسرجن شپ کر لیں میں آپ کو اچھے مسیحاکے روپ میں دیکھنے ایک دن ضرور آؤں گی آپ مجھے بھولنے کی کوشش کریں ‘‘رفیعہ کی آنکھیں کب سے جھرنے بہا رہی تھیں اسے پتہ ہی نہ چلا تکیہ بھیگ گیا تھا۔  اس کا دل شکیب سے ملنے کے لئے مچل اٹھا تھا!کون ہے وہ ؟احساس کا یہ نازک رشتہ اسقدر مضبوط کیوں ہے جو آج تک ٹوٹ نہ پایا۔  رخسانہ نے بتا یا تھا کہ شکیب نے ابھی تک شادی نہیں کی ہے وہ آج بھی اپنے وعدہ پر قائم ہے کیوں ؟

رات کا پچھلا پہر تھا اسے ابھی تک نیند نہیں آئی تھی۔  اس نے چھوٹے لڑکے کی شادی طئے کر دی تھی جو عنقریب ہونے والی تھی تیاری تقریباً  ہو چکی تھی جو کام رہ گئے تھے وہ بڑے بیٹے اور  بہو کے حوالے کر دئے تھے وہ باہر سے آنے ہی والے تھے اس خیال نے اسے ہمیشہ پریشان رکھا کہ جسطرح بڑے بیٹے نے اپنی دنیا بہت دور بسالی ہے اسی طرح چھوٹا بھی اس سے دور ہو جائے گا حالانکہ وہ بچوں کو اپنی خوشی سے اپنی زندگی جینے کی آزادی دینا بھی چاہتی تھی لیکن آنے والے دنوں کی تنہائیوں کے تصور سے وہ لرز بھی جاتی تھی۔  اسے صبح کا بے چینی سے انتظار تھا رات کے سوگوارلمحے آہستہ آہستہ سرکتے جا رہے تھے وہ مضطرب سی کروٹیں بدلتی رہی۔  صبح ہو گئی اس کے دل کی حالت قدرے سنبھل گئی تھی معمول کے کام نپٹائے پھر آئینے میں اپنے سراپاکو غور سے دیکھا کتنی بدل گئی تھی وہ اپنے آپ پر نظر ڈالنے کی فرصت ہی کب ملی تھی آج دیکھا تو جسم بھاری بھر کم لگ رہا تھا سرمیں چاندی کے بے شمار بال جگمگ کر رہے تھے ہاتھ پاؤں بھدے اور میلے ہو گئے تھے نیم گرم پانی سے نہانے کے بعد وہ نکھرسی گئی تھی پسند یدہ آسمانی ساڑی نکالی یہ رنگ شکیب کو بھی پسند تھا۔

ہلکا سامیک اپ کر کے بالوں کا جوڑا بنا لیا پھر اپنے سراپے کا جائزہ لیا تو کانی فرق محسوس کیا اسے دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس نے کرب و بے چینی میں جاگ کر رات گزاری ہے۔  لیکن یہ کیا ؟!اسے چکرسی محسوس ہونے لگی وہ سنبھلتے سنبھلتے گر گئی۔۔۔  دوسرے دن اسے ہوش آیا اس کے بیڈ کے قریب دونوں بیٹے بیٹی اور  بہو کھڑے ہوئے تھے وہ پھٹی پھٹی اجنبی نگاہوں سے انھیں دیکھ رہی تھی جیسے انھیں پہچاننے کی کوشش کر رہی ہو۔  ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ اسے ڈاکٹر شکیب احمد کے ہاں لے جائیں وہ سنٹیرنیورولاجسٹ ہیں۔

ڈاکٹر شکیب کا نام سن کر رفیعہ نے دونوں آنکھیں کھول دیں اس کی آنکھیں سرخ انگارہ سی تھیں جنھیں پھر موند لیا۔  اس نے بڑے بیٹے کی آواز سنی کہہ رہا تھا ’’جانے انھیں کیا ہوا اچھی بھلی تھیں اگر یہی حال رہا تو مشکل ہو گی میں تمہاری شادی کے سلسلے میں آیا تھا وہاں بچوں کے اسکول کھلنے والے ہیں مجھے جلدی واپس جانا ہے ‘‘چھوٹے نے کہا’’ہاں بھائی جان میری ملازمت بھی پرمنینٹ ہونے والی ہے میرا رخصت لینا مناسب نہیں ہے شادی کیلئے مشکل سے منظور ہوئی ہے اگر ماں کو دوا خانہ میں شریک کرنے کی نوبت آئی تو شازیہ انکے ساتھ رہیگی کیا خیال ہے ؟

شازیہ نے فوراً جواب دیا ’’کیا آپ لوگ میرے گھر کے حالات سے واقف نہیں ہیں میں بھلاکیسے رہ سکتی ہوں میرے بچے بھی تو اسکول جاتے ہیں بہتر ہو گا کہ ہم کسی قریبی رشتے دار کی تلاش کریں جس پر کوئی ذمہ داری نہ ہودوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ معقول تنخواہ پرکسی ملازمہ کو رکھ لیا جائے ‘‘سب خاموش تھے رفیعہ سب کی باتیں غور سے سن رہی تھی ان کے الفاظ بجلی بن کر اس کے دل پر گرے تھے دل کی دھڑکنیں جیسے اک لحظہ کے لئے رک گئی تھیں وہ ساکت و جامد ہو گئی جیسے اس کی روح نکل رہی ہو اس کی ریاضت و عبادت سب اکارت گئیں کسی نے اس کے دامن کو رواداری کے چند پھولوں کا بھی مستحق نہیں سمجھا وہ دامن جسے پھیلا کروہ ہمیشہ ان سب کی خوشیوں اور کامیابیوں کی دعائیں مانگا کرتی تھی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو گئے جنھیں چھپانے کے لئے اس نے ایک چیخ مارکر دوسری طرف کروٹ بدل لی سب نے یہی سمجھا کہ اب اس کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے اسے ڈاکٹر شکیب احمد کے پاس لے جایا گیا۔  وہ موجود نہیں تھے۔

رفیعہ کو اسٹریچرسے اتار کر ایک بیڈ پر لٹا دیا گیا دونوں بھائی قریبی ہوٹل میں جا بیٹھے شازیہ اکیلی بیٹھی ہوئی تھی اسے نیند لگ گئی۔  کچھ ہی دیر بعد شکیب آ گئے آتے ہی رفیعہ کی کیس شیٹ دیکھنے لگے رفیعہ دوسری طرف منہ کئے لیٹی تھی کیس شیٹ میں نام پڑھ کراسے پکارا تو وہ ایک جھٹکے سے پلٹی دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو دیکھتے رہ گئے!شکیب ؟ وہی چہرہ وہی بولتی آنکھیں وہی

’’رفیعہ!رفیعہ!یہ تم۔۔۔  کیا ہوا تمہیں ؟تمہاری یہ حالت کب سے ہے ؟

رفیعہ نے شکیب کا ہاتھ پکڑ لیا اور آنکھیں بند کر لیں ’’میں خواب تو نہیں دیکھ رہی ہوں تم میرے سامنے ہو مجھ سے مخاطب ہو کیا یہ حقیقت ہے ؟

’’ہاں رفیعہ یہ حقیقت ہے آنکھیں کھولو نا ‘‘میری طرف دیکھو‘‘

’’شکیب!میں نے تم سے کہا تھا نا تمہیں مسیحاکے روپ میں دیکھنے کے لئے ایک دن ضرور آؤں گی تم سے ملنے کی شدیدخواہش نے کئی دن سے بے چین کر رکھا تھا میں آنے کی تیاری کر رہی تھی کہ طبعیت بگڑ گئی شاید بیمار بن کر اپنے مسیحاکے پاس آنا تھا‘‘

رفیعہ نے آنکھیں بند کر لیں تب ہی بچے آ گئے شازیہ بھی جاگ گئی بیٹوں کے پوچھنے پر ڈاکٹر شکیب نے بتا یا کہ ’’نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے زیادہ خوشی یا رنج وفکرسے دماغ متاثر ہوتا ہے بہت سے امراض جن میں لوگ مبتلا ہیں دماغی دباؤ کا نتیجہ ہیں پشیمانی ، مایوسی ، بے اعتمادی و بے اعتنائی اپنوں کی بے مروتی اور چاہنے اور  چاہنے جانے کی خواہش اگر پوری نہ ہوئی ہو تو یہ سب انسانی دل و دماغ اور  جسم کو مجروح کر دیتے کمزور بنا دیتے ہیں میں نے ان کی کیس شیٹ دیکھی ہے دوائیں بھی لکھ دی ہیں علاج میں وقت لگے گا فی وقت انھیں دوا خانہ میں رکھنا ہو گا‘‘

’’ٹھیک ہے ڈاکٹر ہم آپ کی تعریف سن کر آئے ہیں آپ علاج شروع کر دیں اور ان کی دیکھ بھال کے لئے ایک نرس مقرر کر دیں ‘‘بڑے لڑکے نے کچھ رقم ڈاکٹر کے حوالے کی اور سب چلے گئے۔  ’’بتاؤ روفی تمہیں کیا دُکھ ہے میں تمہارے تمام دکھ سمیٹ لوں گا۔  تمہاری شادی کے بعد میں امریکہ چلا گیا تھا وہاں کی رنگین فضاؤں میں بھی تمہیں بھلانے کی کوشش میں ناکام رہا اور  وطن واپس چلا آیا۔ آنے کے بعد معلوم ہوا کہ تمہارے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے کیا بچے تمہارا خیال نہیں رکھتے ؟‘‘

’’اب انھیں میری ضرورت نہیں ہے آج اس حقیقت کا انکشاف ہوا ہے کہ میری اس حالت کا انھیں کوئی دکھ کوئی احساس نہیں ہے اور  جہاں احساس نہیں ہوتا وہاں کوئی رشتہ باقی نہیں رہ جاتا آج میں اپنے آپ کو تنہامحسوس کر رہی ہوں ‘‘

’’روفی میں تمہارے ساتھ ہوں تم سے ملنے کی آرزو میں جیتا رہا ہوں تمہاری پکار ہی مجھے ہزاروں میل دورسے کھینچ لائی ہے کیا تم اب بھی۔۔۔‘‘

’’شکیب میں پہلے والی رفیعہ نہیں ہوں کیا تم میرے چہرہ پر عمر کے سائے نہیں دیکھ رہے ہو؟ میں ایک ٹمٹماتا چراغ ہوں ‘‘

’’رفیعہ تم آج بھی میرے لئے وہی ہو جس کی چاہت میرے دل میں تازہ ہے آؤ ہم دونوں مل کر گزرے لمحوں کو آواز دیں اپنے ماضی میں لوٹ کر حقیقی مسرتوں کو حاصل کر لیں میں تمہیں کہیں نہ جانے دوں گا اب تم میری ہو صرف میری!

’’شکیب!شکیب۔۔۔  میرے مسیحا!رفیعہ زار و قطار رو رہی تھی

’’اب کسی بات کا غم نہ کرو ہم ایک دوسرے کے قدم سے قدم ملا کر زندگی کا باقی سفرپورا کریں گے میں بہت جلد تمہیں سوئٹنرر لینڈ لے جاؤں گا وہاں تمہاری صحت بہت اچھی ہو جائے گی تم نے آج تک سب کی خدمت کی ہے اب میں تمہاری خدمت کروں گا ‘‘رفیعہ شکیب کے چہرہ کو تکے جا رہی تھی اعتماد اور  طمانیت کا نور چہرہ پر جھلک رہا تھا دوسرے دن ڈاکٹر شکیب نے ہیرے کی خوبصورت سی انگوٹھی رفیعہ کی انگلی میں پہنا دی۔

٭٭٭

 

 

کرب مسلسل

 

زندگی جبر مسلسل کی طرح کا ٹی ہے

جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یا د نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں تم سے کہہ چکا ہوں بار بار مجھے ماں کے سلسلے میں نصیحتیں نہ کیا کرو ورنہ میری نفرت بڑھتی جائے گی میں صرف اتنا ہی جانتا ہوں اس نے ایک مرد سے علیٰحدہ ہو کر خود مرد بن کر جینے کی کوشش کی ہے اور  تم جانتے ہو اکیلی عورت پر کتنے مردوں کی نظر رہتی ہے۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس دن بھی عامر اپنی سوچوں میں غرق اداس بیٹھا ہوا تھا کہ اختر آ گیا اس نے محسوس کیا کہ عامر آج کسی گہری سوچ میں ہے۔

’’کیا بات ہے عامر طبیعت تو ٹھیک ہے ؟

’’طبیعت کو کیا ہو نا ہے یار میری قسمت  ہی خراب ہے ‘‘

’’یار تم سے کتنی بار کہہ چکا ہوں کہ ماں کی طرف سے دل کو میلا نہ رکھا کرو ماں اولاد کے لئے بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدر کرو اسے سنبھال کر رکھو یہ کھو جائے تو اس جہاں میں اس جیسی ہستی کہیں نہیں ملے گی تم اب بچے نہیں ہو کالج کی دنیا میں قدم رکھ چکے ہو دیکھو ماں زندگی کی کڑ یل دھوپ میں گھنا سایہ ہوتی ہے وہ اولاد کے ہر درد کا مسیحا  ہوتی ہے اپنے ہاتھوں اسے کھو کر کچھ بھی نہ پا سکو گے ‘‘۔

’’میں کیا کروں اختر میرا دل جلتا رہتا ہے یہ سوچ سوچ کر کڑھتا رہتا ہوں کہ اگر ماں نے میرے باپ سے علیٰحدگی اختیار نہ کی ہوتی تو میں باپ کی چھتر چھا یا تلے کتنی آسودہ زندگی گزار رہا ہوتا ماں تو گھر کی چاردیواری میں جینے کا سلیقہ طریقہ سکھاتی ہے لیکن باپ انگلی پکڑ کر ایک وسیع دنیا کی سیر کراتا ہے اس دنیا کے نشیب فراز سے واقف کراتا ہے اپنے بچے کومردانگی کے معنی بتاتا ہے اور۔۔۔۔۔۔  ‘‘

’’اب بس بھی کرو جن بچوں کے باپ نہیں ہو تے کیا وہ مرد نہیں ہوتے ؟ کیا بن باپ  کے بچوں نے اپنا نام روشن نہیں کیا ؟ بڑے بڑے کارنامے انجام نہیں دئے ؟‘‘

’’اختر مجھے تمہاری بات سے اختلاف نہیں ہے لیکن تم نہیں جانتے کہ ماں نے میرے مقدر کے ساتھ کوئی سازش کر لی ہے دیکھو نا ہر وقت ان کاموں سے رو کتی ٹو کتی رہتی ہیں جن میں میری خوشی ہوتی ہے کہتی ہیں رات دیر تک گھر سے باہر نہ رہا کرو ’ جلدی سویا کرو ، صبح جلدی اٹھ جا ؤ دوستوں میں وقت نہ گزارو ہر لڑکی کو اپنی بہن سمجھا کرو ہر ہفتہ پکچر نہ دیکھا کرو میرا جینا دشوار کر دیا ہے کل پہلی بار سگریٹ کو منہ لگا یا تھا جانے انھیں کیسے پتہ چل گیا کہنے لگیں بیٹا مرد کو اللہ تعالیٰ نے ایک طاقتور مخلوق بنا کر پیدا کیا ہے وہ کمزور چیزوں کا سہارا نہیں لیا کرتے چائے ، پان،  سگریٹ اور  نشہ آور چیزیں انسان کو کمزور بنا دیتی ہیں اور  کمزور مرد ایک خاندان کو صحیح طور پر نہیں سنبھال سکتا جبکہ ایک قوم کو سنبھالنے کی ذمہ داری اس کے مضبوط کندھوں پر ہوتی ہے وغیرہ ‘‘عامر نے جزبز ہوتے ہوئے کہا ’’آنٹی نے جو کچھ کہا بالکل ٹھیک کہا ہے چلو اب گھر چلیں دیر ہو گئی ہے ‘‘

’’کیا ٹھیک کہا خود انھوں نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی ہمیں اپنی ذمہ داریاں بتا نے  چلی ہیں ‘‘۔

عامر تھکا ہا را گھر آیا کتا بیں پٹکنے کے انداز میں رکھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا کپڑے بدل کر آیا تو ماں نے کہا

’’بہت دیر کر دی بیٹا میں نے تمہارے انتظار میں ابھی تک کھا نا نہیں کھا یا چلو منہ ہاتھ دھو کر آ جاؤ میں کھا نا لگاتی ہوں ‘‘۔

ماں کے میٹھے سے نرم لہجے نے عامر کے غصہ کی آگ کو ٹھنڈا ضرور کیا لیکن وہ روٹھا روٹھا سا تھا۔  وہ سوچ رہا تھا’’یہ ماں بھی عجیب شئے ہے غصہ کی آگ میں تپا ہوا فولادی مرد بھی اس کی محبت کی آنچ سے موم کی طرح پگھلنے لگتا ہے پھر میری ماں تو برسوں سے میرے لئے محنت مشقت کر رہی ہے تن تنہا زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے اور  پیشانی پر بل تک نہیں اسے اداس یا کسی الجھن میں گرفتار کبھی نہیں دیکھا آہنی مر د کے بارے میں سنا تھا لیکن یہ تو آہنی عورت ہے ‘‘اسے ماں سے جلن ہو نے لگی لوگ کتنے بیوقوف ہیں اس عورت کی تعریف کرتے ہیں جس نے اپنی ازدواجی زندگی کو شطرنج کی بساط سمجھا تھا جب تک جی چاہا کھیلا اور  دل بھر گیاتوبساط ہی الٹ دی جیسے کوئی کھلنڈرا بچہ پرانے کھلونوں کو پھینک دیتا ہے۔  ماں ایک بد سلیقہ عورت ہے جس نے زندگی کو سلیقہ سے نہیں جیا ایک بے درد عورت ہے جس نے ایک بچے کو اس کے باپ سے جدا کر دیا۔  عامر کے ذہن میں ٹو ٹ پھوٹ ہوتی رہتی جلتا کڑھتا رہتا۔ وقت یونہی آگے بڑھتا رہا۔  آخر وہ وقت آ گیا جب ماں کی محبتوں اور نصیحتوں کی چھاؤں میں عامر نے *CAکا امتحان اعلی نشانات سے پاس کر لیا ماں نے محلے بھر میں مٹھائی با نٹی اور  دلہن کی تلاش شروع کر دی۔  عامر شہر کی مشہور کمپنی میں با وقار عہدہ پر فائز ہو گیا۔

نئی زند گی کی شروعات پر سب سے پہلے اختر نے اسے مبارک باد دیتے ہوئے کہا

’’کیا تم اب بھی ماں سے بد ظن ہو خدا کا شکر کرو جس نے تمہیں ایسی ماں دی کہ اپنا آپ تج کر تمہیں اس مقام پر پہنچا یا ‘‘اختر نے مسکراتے ہوئے کہا

’’میں نہیں سمجھتا کہ انھوں نے مجھ پر کوئی احسان کیا ہے یہ تو ہر ماں با پ کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اولا دکی ہر طرح کی ذمہ داری اٹھاتے ہوئے انھیں ایک اچھا مستقبل دیں ورنہ۔۔۔۔۔۔  ‘‘

’’ایسا نہ کہو عامر آخر تم سمجھتے کیوں نہیں ماں جو نو مہینے تک اپنا خون پلا کر بچے کا بوجھ اٹھاتی ہے اس کا بدلہ نو جنم لے کر بھی نہیں چکا سکتے ماں کے دودھ کے ایک ایک قطرہ کا ہم پر احسان ہوتا ہے کیا دو سال تک پیئے ہوئے دودھ کا حساب لگا سکتے ہو ؟‘‘

’’میں نے کہا نا۔۔۔۔۔۔  وہ اولاد کے لئے سب کچھ کرنے پر مجبور ہیں قدرت نے انھیں پا بند کیا ہے ‘‘

’’اسی قدرت نے کیا اولا دکو پابند نہیں کیا ہے ؟‘‘

’’اختر میں تم سے کہہ چکا ہوں۔  بار بار مجھے ماں کے سلسلے میں نصیحتیں نہ کیا کرو ورنہ میری نفرت بڑھتی جائے گی میں صرف اتنا ہی جانتا ہوں اس نے ایک مرد سے علیٰحدہ ہو کر خود مرد بن کر جینے کی کوشش کی ہے اور  تم جانتے ہو اکیلی عورت پر کتنے مردوں کی نظر رہتی ہے کچھ

جیا لوں نے ماں کے لئے شادی کے پیغام بھی بھیجے تھے اور  آج بھی بھیجتے ہوں گے تم بتاؤ کیا

او لا دکو یہ منظور ہو گا کہ اس کی ماں کسی نئے آدمی کو اس کا باپ بنا دے ؟‘‘ ’’اگر وہ شادی کر لتیں تو میں اس آدمی کو جان ہی سے مار دیتا‘‘

’’اچھا ٹھیک ہے غصہ تھو ک دو چلو باہر کہیں گھوم آتے ہیں ‘‘دوسرے  دن اتوار تھا ماں نے شادی کی بات چھیڑ دی عامر نے کہا ’’آپ اس معاملے میں فکر نہ کریں نہ جلدی کریں شادی مجھے کرنی ہے میں اب عاقل اور  بالغ ہوں خود لڑکی پسند کروں گا اس سے ملوں گا اور  مطمئن ہو نے کے بعد ہی شادی کروں گا ‘‘اس نے اپنی ہی کمپنی کی ایک لٹرکی کو پسند کیا اور  ماں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اسی لڑکی سے شادی کر دی وہ کسی ملازم پیشہ لڑکی سے بیٹے کا بیاہ کرنا نہیں چاہتی تھی۔  ماں کی خواہش کو نظر انداز کر کے عامر خوش تھا بمشکل دو چار مہینے گزرے ہو ں گے کہ اس کی بیگم نے اپنا محل الگ بسا نے کا  ارادہ ظاہر کیا جسے عملی جامہ پہنا نے میں عامر نے دیر نہیں کی اس نے یہ سوچنا تک گوارا نہیں کیا کہ اب اس کی ماں کو ایک سہارے کی ضرورت ہے وہ آہنی عورت تھی بیٹے بہو کو رخصت کرتے ہوئے انھیں محسوس نہ ہو نے دیا کہ اس کے دل میں کیسی ٹو ٹ پھوٹ ہو رہی ہے اسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیتی ہوئی بازی آج ہار گئی ہے اس نے ایک زخمی سی مسکرہٹ کے ساتھ کہا۔

’’عامر تمہارے سامنے زندگی کا ایک و سیع صحرا ہے جو تمہیں میرے سہارے کے بغیر  عبور کرنا ہے اس کے سر د و گرم سے نبرد آزما ہو نا ہے مجھے امید ہے تم سلیقہ کے ساتھ زندگیگزارو گے میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔ جا ؤ تمہیں اللہ کی نگہبانی  میں  دیتی ہوں ‘‘

عامر سوچر ہا تھا کہ وہ ماں کو دو بارہ دشکست دے ر ہا ہے اب وہ اسے رو کنے کی کوشش کرے گی گڑ گڑ ائے گی لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آج بھی اس کے ماتھے پر کوئی شکن تھی نہ لہجہلرزیدہ تھا وہ پو چھے بنا نہ رہ سکا۔ ’’ماں میرے جانے سے تمہیں کوئی دکھ تو نہیں نا ؟‘‘

’’نہیں بیٹا میں خود غرض ماں نہیں ہوں کہ اپنے سکھ کی خاطر او لا دکی خوشیوں کو پا مال کر دوں۔  میں ایک ملازم پیشہ عورت ہوں آج تک اپنے آپ کو بہلائے رکھا تھا عمر کا ایک بڑا حصہ گزر چکا ہے باقی بھی گزر ہی جائے گا، تم خوش رہو بس جا ؤ اللہ تمہارا نگہبان ہے ‘‘عامر کو اس آہنی عورت سے جلن سی ہو رہی تھی اسنے محسوس کیا جیسے ماں نے اس کے منہ پر  طما نچہ مار دیا ہو۔

وقت تیزی کے ساتھ آگے بڑھ گیا سات سال گزر گئے ،عامر دو بچوں کا باپ بن گیا تھا ہر سال گر ما کی چھٹیوں میں وہ چند دن ماں کے پاس گزارتا پھر سب کسی تفریحی مقام پر چلے جاتے انھیں اپنے کام سے فرصت ہی نہیں ملتی تھی بچے بھی انکے پیار سے محروم تھے دادی کے پاس آتے تو واپس جانا نہیں چاہتے۔ انھیں و ہاں وہ پیار ملتا جس کے وہ طلب گار تھے حقدار تھے وہاں سے آنے کے بعد بڑا لڑکا کئی دن تک چڑچڑ ا اور  روٹھا ہوا رہتا تھا۔  وہ اکثر باپ سے پو چھتا کہ ’’ہم دادی کے پاس کیوں نہیں رہتے وہ اکیلی رہتی ہیں ‘‘۔  باپ سے خاطر خواہ جو اب نہ پا کر کہتا ’’جب میں بڑا ہو جاؤں گا تو میں بھی آپ کے ساتھ نہیں ر ہوں گا‘‘۔  عامر اور  اس کی بیوی ایک دوسرے کی صورت دیکھتے اور  خا موش ہو جاتے۔  دراصل اب انھیں ایک اپنے آدمی کی سخت ضرورت محسوس ہو رہی تھی جو انکے گھر اور  بچوں کی دیکھ بھال کر سکے بچے نو کروں کے سہا رے پل رہے تھے اور  بگڑ رہے تھے لیکن عامر ماں کے آگے جھکنا نہیں چاہتا تھا ایک چھٹی کے دن وہ بچوں کے کمرے میں گیا تو دیکھا انکے کمرے میں جا بجا ٹی وی گائیڈ سے لی ہوئی تصویریں بکھری پڑی تھیں کچھ دیواروں اور کچھ ان کی الماری پر چسپاں تھیں کپڑے اور  کتابیں ادھر ادھر پڑی تھیں اور  دونوں بھائی بہن ٹی وی کے سا منے بیٹھے قہقہے لگا رہے تھے۔  عامر سرسے پاؤں تک لرز گیا اس کی ماں نے کبھی ٹی وی گھر میں رکھا ہی نہیں تھا ٹی وی گائیڈ یا اور  کوئی میگزین گھر میں آنے کا سو ال ہی نہ تھا اس نے اپنے بچپن میں ایسی گندی تصویریں نہیں دیکھی تھیں گھر میں کتنا سکون تھا کتنے سلیقے کی زندگی تھی ماں کا پیار درو دیوار سے ٹپکتا تھا اور  ایک یہ زندگی ہے کہ۔۔۔  وہ نادرہ پر چلا نے لگا۔

’’تم کتنی پھو ہڑ اور  غیر ذمہ دار عورت ہو تمہیں بچوں کا خیال ہے نہ میرا لحاظ ہے کبھی تم  نے بچوں کا کمرہ دیکھا ہے کہ وہ کیسا ہے اور  بچے کیا کر تے رہتے ہیں ؟ تم پڑھی لکھی ہو لیکن جاہلوں سے بد تر ہو ملازمت کر رہی ہو تو کیا مجھ احسان کر رہی ہو ؟

’’عامر زیادہ اونچی آواز میں نہ بو لو، ملازمت کروانے کی خواہش تمہاری تھی میری نہیں!جب تم بھی ملا زم ہو اور  میں بھی ،تو پھر بچوں کی ذمہ داری صرف مجھ پرہی کیوں  ڈالتے ہو ان پر نظر رکھنا تمہارا بھی تو کام ہے ‘‘۔ ’’میں تمہاری بکو اس سننا نہیں چاہتا آج تک جو ہوا سو ہوا اب ہم ماں کے پاس جا کر رہیں گے زندگی کا قرینہ ان سے سیکھو تمہاری ماں نے تو تمہیں کچھ نہیں سکھا یا نا ؟‘‘

’’شاید تم خود اپنی ماں سے الگ ہو نا چاہتے تھے میں نے تو صرف ارادہ ظاہر کیا تھا اور  تم فوراً دور ہو گئے اب تم وہاں رہنا چاہتے ہو تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے ؟‘‘

جب عامر ماں کے پاس گیا تو دیکھا وہ سخت بیمار تھی انتہائی کمز ور ہو گئی تھی عامر کو اپنے سامنے پا کر اس کی آنکھوں میں جگنو سے چمکنے لگے جلدی سے اٹھنے کی کوشش کی لیکن وہیں ڈھیر

ہو گئی عامر نے سہا را دے کر اٹھا یا اور  تکئے لگا کر بٹھا دیا۔ ’’ماں تم نے یہ کیا حالت بنا لی ہے تمہیں کیا ہو ا،کب سے بیمار ہو مجھے اطلاع دینے کی ضرورت نہیں سمجھی۔۔۔  ‘‘’’آخر کیا وجہ ہے ؟ مجھے آواز تو دی ہوتی میں بھا گا چلا آتا کیا تم ناراض ہو ماں ؟‘‘’’نہیں بیٹا مائیں بچوں سے کیسے ناراض ہو سکتی ہیں وہ تو بچوں کی خو شی میں خوش ہوتی ہیں۔ اسلام وعلیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔۔۔  میرا رواں رواں تمہیں ہر پل دعائیں دیتا ہے ‘‘’’تمہاری یہ حالت کیوں کر ہوئی۔ کیا ہوا ہے بتا ؤ نا ؟‘‘

’’کچھ نہیں بس ذرا بخار آ رہا تھا۔  چیک اپ کروایا تو معلوم ہوا ملیریا ہو گیا ہے ‘‘۔  عامر اپنے آپ شرمندہ اور ملول سا  تھا لیکن اسے غصہ بھی تھا کہ اس حالت میں بھی ماں نے اس کا سہارالینا گوارا نہ کیا تھا۔  وہ رات میں ماں کے سرہانے بیٹھا کسی کتاب کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ اسے کتاب میں ایک لفافہ ملا جس پر اسی کا نام لکھا ہوا تھا شاید وہ پو سٹ کروانا بھول گئی تھی۔  عامر نے لفافہ چاک کیا لکھا تھا

جانِ مادر عامر جان!!تم سلامت رہو ہزار برس ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار (آمین ثم آمین)

جان! میں سمجھتی ہوں تم آج تک مجھ سے اس لئے خفا رہے ہو کہ میں نے تمہارے والد سے علیٰحدگی اختیار کر لی تھی میں تمہاری الجھن دور کر کے آج اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لینا چاہتی ہوں شاید تم یقین نہیں کرو گے کہ تمہاری  تائی نے ہم پر بہت ظلم ڈھائے تھے وہ تمہارے والد کی خالہ زاد بہن بھی تھی اکلوتی تھی۔  وہ لوگ بہت دولتمند تھے تمہاری دادیاور انکے بچے یعنی تمہارے تایا والد اور  پھو پی سب انکے احسان تلے دبے ہوئے تھے تائی معمولی شکلو صورت کی تھی اس لئے کہیں شادی ہو نہیں پا رہی تھی تمہارے تا یا نے زبر دستی ان سے شادی کر لی وہ انھیں پسند نہیں تھی اس نے آتے ہی گھر والوں پر اپنی حکومت چلانا شروع کر دی کسی کی مجال نہیں تھی کہ اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرتا اس کے برخلاف میری خوبصورتی ہی میری بد نصیبی کا باعث بن گئی۔  وہ مجھ سے حسد ہی نہیں نفرت بھی کرتی تھیں۔ میں ان کی نظر میں ہمیشہ کھٹکتی رہی اس لئے مجھے نیچا دکھا نے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتی تھیں مجھے اذیت پہنچا کر انھیں ذہنی سکون ملتا تھا۔ انھوں نے ایک دن اپنے زیورات کی چوری کا مجھ پر الزام لگا دیا جنھیں میری الماری میں چھپا کر تلاشی لی اور  سب کے سامنے بر آمد کر کے بتا یا اس واقعہ کے بعد میرا اس گھر میں ر ہنا ممکن نہ تھا میں ما ئیکے چلی آئی عرصہ دراز گزر گیا تمہارے والد یا اور  کسی نے بھی ہماری خبر نہ لی۔  تمہاری دادی کے انتقال کے فوری بعد تائی نے اپنی ایک سہیلی سے والد کی شادی کروا دی اور  میں نے خلع لے لیا۔  اس کے بعد جینے کی خواہش نہیں تھی لیکن تمہاری خاطر زندگی سے نا طہ قائم رکھنا  پڑا۔ ایک اہم بات تمہیں بتا دوں کہ تمہاری ایک بہن شاذیہ ہے جو تم سے سال بھر کی بڑی ہے ان لوگوں نے اسے زبر دستی اپنے پاس رکھ لیا ہے۔  شاید اس کی شادی ہو گئی ہو۔  اب تم سمجھدار ہو گئے ہو میرے بعد تم اس کا خیال رکھنا، پتہ نہیں میرے اور  تمہارے لئے اس کے دل میں کوئی جگہ ہے یا نہیں۔ میں سمجھتی ہوں اب تمہارا دل  صاف ہو گیا ہو گا اور  تم اپنی ماں کو معاف کر دو گے ‘‘۔  بیٹے۔ تمہارے اور  تمہاری پیاری دلھن اور  پیارے پیارے بچوں کیلئے میری دعائیں اور  نیک توقعات ہمیشہ ہمیشہ میرے مرنے کے بعد بھی برقرار رہیں گی۔

انشاء اللہ فی امان اللہ۔

تمہاری گنہگار ماں

٭٭٭

 

 

رانگ نمبر

 

یہ بولتے ہوئے لمحے یہ ڈولتی ہوئی شام

ترے جمال کے صدقے ترے وصال کے نام

بھٹک رہے ہیں خواب پریشاں کی طرح کب سے

یہ جی میں ہے کہ تری آنکھوں میں کریں بسر ہم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ؟

’’محترمہ!میں تو اس جہاں کی تلاش میں ہوں جہاں خوبصورتی کی کوکھ سے بد صورتی نہ پیدا ہوتی ہو جہاں مذہب کے نام پر جھگڑے نہ ہوتے ہوں۔ جہاں بڑی بڑی ڈگریاں ہاتھوں میں لئے نوجوان نوکری کی تلاش میں نہ گھومتے ہوں۔ جہاں بدبو دار جھونپڑ یوں میں رنگین خواب نہ دیکھے جاتے ہوں اور  جہاں لڑکوں اور  لڑکیوں کے رشتے رنگ وروپ  یا دولت کی بنیاد پر طئے نہ ہوتے ہوں۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ابھی چند منٹ پہلے آپ نے فون کیا تو میں نے بتا یا تھا کہ ملیحہ نام کی کوئی لڑکی یہاں نہیں رہتی آپ نے دوبارہ میرا فون کیوں ملایا؟‘‘بلال نے حیرت سے پوچھا ’’جی معافی چاہتی ہوں پتہ نہیں دوبارہ آپ ہی کا نمبر کیونکر مل گیا‘‘یقین کریں مجھے آپ کا نمبر معلوم ہی نہیں ہے دراصل میرے گھر والے شادی کی تقریب میں گئے ہوئے ہیں اور  میں اکیلی بور ہو رہی تھی سوچا کہ اپنی دوست ملیحہ سے کچھ دیر بات کر لوں میں نے اسی کا نمبر ڈائل کیا تھا سمجھ میں نہیں آیا کہ دوسری بار بھی آپ کا نمبر کیوں کر مل گیا‘‘دوسری طرف سے مٹھاس میں ڈوبی ہوئی آواز آئی ’’اب تو آپ سمجھ گئیں نا کہ یہ ملیحہ کا فون نہیں ہے بہتر ہو گا آپ فون رکھ دیں اگر میرے بجائے کسی چور لٹیرے کے فون سے ربط ہو جاتا اور  آپ اسی طرح بتا دیتیں کہ آپ گھر پر اکیلی ہیں تو جانتی ہیں کیا ہوتا ؟‘‘بلال نے نرمی سے کہا ’’ویسے  آپ اکیلی ہیں تو اس میں بور ہو نے کی کیا بات ہے آپ عبادت میں یاکسی کتاب کے مطالعہ میں وقت گزار سکتی تھیں ‘‘۔  ’’جی! آپ کا مشورہ سرآنکھوں پر!میں فون تو رکھ دوں گی لیکن آپ سے requestکروں گی کہ پلیز آپ اپنا نمبر دے دیں!‘‘’’کیوں کیوں ؟ آپ میرا نمبر کیوں لینا چاہتی ہیں ؟‘‘’’میں سچ بتا دوں گی آپ کوئی غلط مطلب نہ لیں دراصل میں اچھی آواز کی گرویدہ ہوں آپ کی آواز بے حد پر کشش اور  سوزمیں ڈوبی ہوئی ہے کیا آپ رنجیدہ ہیں ؟‘‘

’’ذرہ نوازی شکر یہ!محترمہ زندگی رنجو غم ہی سے تو عبادت ہے اگر غم نہ ہو تو خو شی کی قدر کیسے ہو گی ؟ آپ کو اپنا نمبر دے تو دوں لیکن خدارا ملنے کی خواہش نہ کر بیٹھئے گا‘‘’’آپ کی بات سن کر مجھے حیرانی ہوئی کیونکہ اس زمانے میں کوئی آدمی اتنا شریف شاید نہیں ہو گا کہ ایک عورت ملنا چاہے تو مرد انکار کر دے!ویسے آپ کی مصروفیت کیا ہے ؟ ‘‘’’میں سائیکالوجی میں ایم فل کر رہا ہوں ’ آپ کو ملنے سے منع کر رہا ہوں تو آپ نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ میں شریف آدمی ہوں ؟‘‘

’’تو پھر یہ ہو سکتا ہے کہ آپ شا دی شدہ ہوں گے بیوی سے ڈرتے ہوں گے ہے ، نا یہی بات؟‘‘

’’آپ باتیں بڑی دلچسپ کر لیتی ہیں کیا آپ پڑھتی ہیں ؟‘‘’’میں نے اسی سال بی اے کیا ہے۔  آپ نے میری باتوں کی تعریف کی شکریہ!میرے سوال کا جواب نہیں دیا؟‘‘’’آپ نے دوسوال کئے ہیں میں ملنا کیوں نہیں چاہتا دوسرے میں شادی شدہ ہوں یا نہیں ‘‘؟

’’میرے دوسرے سوال کا جواب شاید مل گیا ہے کہ آپ شادی شدہ نہیں ہیں کیونکہ ابھی آپ کی تعلیم جاری ہے ’سائیکالوجی میرا بھی پسندیدہ سبجیکٹ رہا ہے یہ بتائیں کہ آپ ملنا کیوں نہیں چاہتے ؟‘‘’’ا سکی کوئی خاص وجہ نہیں ہے امتحان قریب ہیں تیاری کرنی ہے ‘‘

’ ’ہم کبھی کبھی فون پر بات تو کر سکتے ہیں نا ؟پلیز آپ اپنا نمبر بتا دیں ورنہ بھول کر فون رکھ دیا تو زندگی میں کبھی بات نہ ہو سکے گی‘‘اس وقت کسی اجنبی مرد سے اس طرح بات کر نا کوئی اچھی بات نہیں ہے نا ؟’’آپ نے بڑی خشک طبعیت پائی ہے اتنا بھی نہیں پوچھا کہ میرا نام کیا ہے پھر کب بات کروں گی ویسے کیا آپ کا نام پو چھ سکتی ہوں ؟‘‘

’’میرا نام بلال ہے  بلال احمد ’آپ کا نام میں نے پو چھنا ہی نہیں چاہا کسی غلط نمبر ملا نے والے کا نام نمبر وغیرہ پو چھنا ضروری تو نہیں جبکہ دوسری طرف کوئی لڑکی ہو تو یہ اور  بھی معیوب بات ہو گی‘‘’’آپ بڑے منطقی ہیں آپ کو تو وکیل بننا چاہئے تھا اتنی دیر تک بات کرنے کے بعد کیا  ہم ایک دو سرے کے دوست نہیں بن گئے ؟ آپ خو اہ مخواہ اپنی شرافت کا سکہ بٹھا نے لگے!’’محترمہ آپ نے غلط سمجھا میں کوئی سکہ و کہ نہیں بٹھا رہا ہوں دراصل میں عورتوں سے دوستی کرنے کا قائل نہیں ہوں اور  آپ وجہ پوچھیں گی تو میں نہیں بتاؤں گا اب میں یہ سلسلہ گفتگو بند کر نا چاہتا ہوں کام بہت ہے اور  وقت کم ہے تعجب ہے میں نے آپ سے اتنی باتیں کیسے کر لیں ؟ آپ کا تو ٹائم پاس ہو گیا نا؟‘‘

’’جی ہاں وقت تو گزر گیا میرے گھر کے لوگ آتے ہی ہوں گے میں پھر بات کروں گی میرا نام فردوس ہے بھول نہ جائے گا‘‘ بلال احمد تین بہن بھا ئیوں میں سب سے چھو ٹا تھا بھائی اور  بہن اس سے نفرت کرتے تھے کیونکہ اس کے پیدا ہو نے کے چند دن بعد ہی ماں کا انتقال ہو گیا تھا خاندان کے لوگ کہتے تھے اس نے ماں کو کھا لیا۔  والد نے اسے ایک آیا کے حوالے کر دیا جب وہ دس سال کا تھا تب والد نے اس کے بھائی اور  بہن کی شادیکر دی اور  خود ایک نئی ماں لے آئے۔  اسی دوران اس کی آیا جواسے بے حد پیار کرتی تھی چل بسی نئی ماں کے کہنے پر والد نے اسے بورڈنگ میں شریک کرا دیا اسے یہاں بھی نفرت ہی ملی سب اس کے کا لے رنگ کا مذاق اڑاتے لیکن دل ہی دل میں اس سے مرعوب تھے کیونکہ وہ بلا کا ذہین تھا ہر امتحان میں فرسٹ ڈیویژن سے پاس ہوتا یا  میرٹ میں پاس ہوتا گزرے برسوں نے اسے عمر سے کہیں زیادہ سنجیدہ بنا دیا تھا کرشن چندر کے علا وہ شیلے ’ کیٹں ’ با ئرن اور  شکسپیر کو بھی اس نے پڑھ لیا تھا۔  اس سے کچھ دیر گفتگو کرنے والے معلومات کا ایک ذخیرہ سمیٹ لے جا تے۔  گر ائجو یشن کرنے تک وہ ایک اعلی مصور بن گیا وہ اچھا گلوکار بھی تھا والد نے اس کی شادی کرنی چاہی لیکن جہاں بھی اس کا پیام جاتا انکار  کاجو اب ملتا کیونکہ رنگ کے علا وہ اس کا ناک نقشہ بھی کسی نے پسند نہیں کیا تھا آج کی لڑکیوں کو T.Vسیر ئیلس کے ہیرو زجیسے شوہر چاہئے اور  داڑھی والے تو بالکل نہیں چاہئے خواہ وہ پیکرِ نیکی و شرافت کیوں نہ ہوں ان لڑکیوں کی زندگی کی کسو ٹی پر پو رے اتر تے ہی نہیں دو سال کی تگو دو کے بعد والد نے ہاتھ اٹھا لیا اب وہ ایک فلیٹ کر ائے پر لیکر تنہا زندگی گزار رہا تھا چاہنے اور  چاہے جانے کی حسرت دل میں چھپائے وہ آدم بیزار ہو گیا تھا اسے پیار تھا تو اپنی مصوری سے اور  کتابیں اس کی رفیق خاص تھیں تنہائی کے عذاب کو خوش اسلو بی کے ساتھ جھیل رہا تھا دل زیادہ اداس ہوتا تو سوزو گداز میں ڈوبے ہوئے کچھ اشعار دل سے نکل آتے کبھی کبھی شدید خواہش بے چین کر دیتی کہ کاش اس کا اپنا بھی خاندان ہوتا حساس دل رکھنے والی معمولی شکلو صورت کی سہی ’ ایک بیوی دکھ درد کی ساتھی ہوتی اور  بچوں کے معصوم شرارتی قہقہے اس کے گھر کی رونقوں میں رنگ بھر تے وہ بچوں کی اعلی پیما نے پر پر ورش کر نا چاہتا تھا انھیں ہر فن مولا بنانا چاہتا تھا بس وہ کا لے نہ ہوں یہ اس کی دعاء تھی وہ اٹھ کر آئینے کے سا منے جا کھڑا ہوتا اور  پھر اپنی پینٹنگس کی دنیا میں کھو جاتا۔  آج زندگی میں پہلی بار کسی لڑکی نے اسقدر خلو ص اور  پیار سے بات کی تھی جیسے صدیوں کی شناسائی ہو جیسے اسی لبو لہجہ کا انتظار رہا ہو اس کے جذبات میں ہلچل سی مچی ہوئی تھی جیسے پر سکوت سمندر میں کوئی مسلسل کنکر یاں پھینک رہا ہو وہ پلکیں موندے بیٹھا تھا کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی اس نے لپک کر فون اٹھا لیا۔

’’اسلام علیکم Bilal Here ‘‘’’و علیکم اسلام مجھے یقین تھا کہ فون آپ ہی اٹھائیں گے ‘‘آپ نے بہت دنوں بعد فون کیا کہئے کیا حال ہے ؟’’او!یعنی کہ آپ میرے فون کے انتظار میں دن گن رہے تھے ؟‘‘’’جی نہیں یہ بات نہیں ہے ‘‘’ ’ بلال سٹپٹا گیا بات یہ ہے کہ میرے دوست احباب اور  رشتے دار نہیں کے برابر ہیں کوئی فون کر لیتا ہے تو اچھا لگتا ہے آپ تو اچھی باتیں کرتی ہیں ‘‘’ ’ بلال نے بات بنائی آپ کے گھر میں اور  بھی تو لوگ ہوں گے ؟ ’’میں اکیلا رہتا ہوں اور  کوئی نہیں ہے ‘‘’’آپ کے والدین بھائی بہن کیا کوئی نہیں ہے ؟‘‘

’’وقت کی گردش کے ہاتھوں لٹے ہوئے انسان کا ساتھی صرف گزرے لمحوں کا عذاب ہوتا ہے بس‘‘’’آپ بیرون ملک کیوں نہیں چلے جا تے ؟‘‘

’’محترمہ!میں تو اس جہان کی تلاش میں ہوں جہاں خوبصورتی کی کوکھ سے بد صورتی نہ پیدا ہوتی ہو جہاں مذہب کے نام پر جھگڑے نہ ہوتے ہوں ’ جہاں بڑی بڑ ی ڈگریاں ہاتھ میں لئے نوجوان نوکری کی تلاش میں نہ گھومتے ہوں جہاں بدبو دار جھونپڑوں میں رنگین خواب نہ دیکھے جا تے ہوں اور  جہاں لڑکوں اور  لڑکیوں کے رشتے رنگ و روپ یا دولت کی بنیاد پر طئے نہ ہوتے ہوں ‘‘’’آپ تو P.H.Dکرنے سے پہلے فلا سفر بن گئے ہیں معافی چاہتی ہوں میں نے آپ کو تکلیف دی ’ اچھا یہ بتائیں پڑھنے کے علا وہ آپ کی اور  کیا مصروفیت ہے ؟‘‘

’’مصوری اور  مطالعہ میرے محبوب ترین مشغلے ہیں ‘‘’’خوب!یہ تو بڑی اچھی بات ہے ‘‘کیا اچھی بات ہے ؟

’’یہی کہ آپ مصور ہیں مجھے مصوری بہت پسندہے خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو‘‘۔

’’دنیا میں ہزاروں لوگوں کی یہHobbiesہوں گی اور  یہ مل بیٹھنے کی بات آپ نے کیا کہہ دی ؟‘‘’’بلال صاحب دوانسانوں کے خیالات میں ہم آہنگی ہو تو دوستی خوب نبھتی ہے اب تو آپ سے ملنے کی خواہش کچھ سوا ہو گئی ہے کہئے آپ سے کب ملاقات ہو سکتی ہے ؟‘‘’’فردوس صاحبہ دو اجنبی اور  مخالف جنس کا ملنا جلنا ٹھیک نہیں ہے یہی بہت ہے کہ ہم فون پر بات کر لیتے ہیں ‘‘

’’یہ بڑی عجیب بات ہے کہ آپ اس قدر تعلیم یافتہ اور نئے زمانے کی پیداوار ہوتے ہوئے خیالات اتنے پرانے رکھتے ہیں میری سمجھ میں نہیں آیا کہ ایسا کیوں ہے ؟‘‘

’’کیا روشن خیال وہی لوگ ہو تے ہیں جو آزادی کی مالا گلے میں ڈالے گلی گلیگھومتے ہیں کیا آزادی کا یہ مطلب ہے کہ مرد وزن بلا جھجک جب چاہیں جہاں چاہیں ملا کریں بی بی کیا آپ اخبار نہیں پڑھتیں ؟ اگر پڑھتی ہیں تو آپ کو بے شمار مثالیں ملی ہوں گی کہ یہ آزادی ہمیں کہاں لے جا رہی ہے اور  کیسے کیسے واقعات ہمارے سامنے آ رہے ہیں کیا کیا تماشے ہو رہے ہیں ‘‘

’’افوہ!آپ تو ہمارے مولویوں کی زبان بولنے لگے جوسال دو سال میں کسی نہ کسی مغربی ملک کا دورہ کرتے ہیں چھوٹی بڑی مسجدوں یا کھلے میدانوں میں وعظ بیان کرتے ہیں یہ لوگ صرف مسلمانوں کوہی اسلام کی باتیں بتاتے ہیں مغربی ممالک کو ہمارے لئے بڑا خطرہ بتا تے ہیں دین کے ان رہنماؤں نے کبھی عیسا ئیوں ’ یہودیوں اور  دیگر مذاہب کے لوگوں کو اسلام کی طرف لا نے کی کوشش نہیں کی لمبی چوڑی تقریریں کر کے ہزاروں لاکھوں  ڈالر یا پونڈ چندہ جمع کرتے ہیں اور  خدا جا نے اسے کس مصرف میں لاتے ہیں کسی نے بوسنیا،  کوسوؤ، چیچنیا اور  افریقہ وغیرہ جا نے کی کوشش نہیں کی وہاں مسلم قوم کی کیا حالت ہے کسی نے جاننے کی ضرورت نہیں سمجھی کیوں ؟دور کیوں جائیں خود اپنے ہی ملک میں مسلمان کیا صحیح راستے پر ہیں ؟کیا دین کے رہنماؤں کا یہی کام ہے ؟ علمائے دین ہی دین کے پا سباں نہیں ہیں تو ہم دنیا دار لوگ دین دار کیسے بن سکتے ہیں ؟کوئی صحیح رہنما نہیں ہے تو ہم کیوں کر صحیح راستے سے منزل مقصود پر پہنچ سکتے ہیں ؟‘‘

’’واہ بھئی آپ نے اتنی لمبی چوڑی تقریر کر ڈالی!آپ کو تو لیڈر بننا چاہئے تھا یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ دینی رجحان تو رکھتی ہیں لیکن ‘‘۔۔۔  ’’اب یہ بتائیں آپ کب مل رہے ہیں مجھے آپ سے ملنا ہے بس!آپ کے روبرو بیٹھ کر ڈھیرساری باتیں کرنی ہیں ‘‘’ ’ دیکھئے ملنے کے معاملے میں ضد نہ کریں ورنہ آپ کومایوسی ہو گی‘‘’ ’ کیسی ما یوسی میں سمجھی نہیں ؟‘‘

’’میں پھر کبھی سمجھا دوں گا اب ہمیں فون رکھنا چاہئے آج کا فی طویل گفتگو رہی‘‘

’’آپ جب تک ملیں گے نہیں میں آپ کو یونہی بور کرتی رہوں گی‘‘

’’آپ جسے بور کرنا کہہ رہی ہیں یہ بو ریت میرے لئے عین راحت ومسرت ہے اچھا خدا حافظ اپنا خیال رکھئے مجھے آپ کے فون کا انتظار رہیگا‘‘

بلال احمد کا دل عجیب انداز میں دھڑ ک رہا تھا دل کی ویران اور  بنجر زمین پر کونپلیں پھوٹ رہی تھیں کیا ان کونپلوں پر پھول بھی کھلیں گے ؟ یہ پھول کس کے نام کے ہوں گے ؟ کیا فردوس بہار بن کر اس کے ویرانے میں قدم رکھ سکتی ہے ؟ اگر ایسا یہ نہ ہو سکا تو کیا ہو گا وہ سوچ رہا تھا اسے فردوس کے فون کا انتظار کیوں رہتا ہے یہ کو نسا جذبہ تھا جو اسے بے چین و بیقرار کئے ہوئے تھا دل میں ایک انجانی کسک کرو ٹیں لے رہی تھی۔  بہت سارے دن یونہی گزر گئے۔  ایک دن فردوس نے ضد کی کہ وہ بلال سے فوراً ملنا چاہتی ہے کوئی ضروری بات کہنی تھی بلال نے فون پر بتا نے کو کہا لیکن وہ انکار کرتی رہی آخر بلال نے سوچا کہ چلو اس دشمن جاں سے مل ہی لیں گے جس نے دن کا چین راتوں کی نیند حرام کر رکھی ہے اگر کچھ بات بنتی ہے تو بنائیں گے ورنہ یہی پہلی ملاقات آخری بھی ہو سکتی ہے۔  دونوں نے مقام اور وقت کا تعین کیا ہوٹل ’’شان باغ‘‘ ٹھیک پانچ بجے فردوس نے اپنی پہچان کے لئے بتا یا کہ اس کے ہاتھ میں سا حرکی ’’تلخیاں ‘‘۔  ہو گی بلال نے ہو ٹل پہنچ کر دیکھا فر دوس ہال کے آخری سرے پر بیٹھی تھی اسے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا پر کشش نا ک نقشہ پتلے گلابی ہونٹ جن پر خفیف سی مسکراہٹ تھی جو اس کی دلی کیفیت کی غمازی کر رہی تھی۔  بلال احساس کمتری میں مبتلا ہو گیا وہ تذبذب میں تھا کہ اتنی پیاری سی لڑکی سے ملے یا نہ ملے اگر ملتا ہے تو دوستی کا یہ شیشے جیسا نازک رشتہ ٹوٹ سکتا ہے اس کے کا لے ر نگ کے باعث وہ نفرت کر بیٹھی تو کیا ہو گا ؟ نہیں ملنا ہے تو اس کی ناراضگی کیا رنگ دکھائے گی ؟ وہ ان ہی خیالوں میں الجھ رہا تھا کہ اچانک ایک اوباش قسم کا لڑکا فردوس کے ٹیبل کی طرف بڑھا اور کچھ کہتے ہوئے نہایت بد تمیزی سے اس کے ہاتھ سے کتا ب لیکر دیکھنے لگا فردوس کھڑی ہو گئی اور  ڈانٹتے ہوئے اس کے ہاتھ سے کتاب چھین لی بلال تیزی کے ساتھ وہاں پہنچا اور  اس لڑکے کا گریبان پکڑ لیا دونوں میں ہا تھا پائی شروع ہو گئی کچھ اور  لڑکے بھی بلال پر ٹوٹ پڑے گٹھے ہوئے جسم اور قد آور کا لے سے بلال کو بے جگری سے لڑتے ہوئے فردوس حیرانی سے دیکھ رہی تھی اسی دو ران میز الٹ گئی جو فر دوس کے پاؤں پر گر پڑی اس نے ایک چیخ ماری اور  گر گئی مجمع پیچھے ہٹنے لگا بلال نے میزکوسیدھا کیا فردوس کے پاؤں سے خون بہہ رہا  تھا وہ بے ہوش ہو چکی تھی بلال نے اسے اپنی بانہوں پر اٹھا لیا اور تیزی سے باہر کی جا نب جا نے لگا کسی نے اپنی کار میں بیٹھنے کو کہا فر دوس کو قریبی دوا خانہ پہنچا دیا گیا اس کے بیگ میں تلاش کرنے پر چھو ٹی سی ڈائری مل گئی پہلے صفحہ پر اس کا نام اور  نمبر مل گئے گھر پر فون کیا اس کے گھر والے آدھے گھنٹے کے اندر پہنچ گئے بلال نے سر سری واقعہ بتا دیا فر دوس کا انگوٹھا ٹوٹ کر الگ ہو گیا تھا جو صرف جلد کے ساتھ جھول ر ہا تھا اس کا آپریشن فوراً کیا گیا اسے کئی دن دوا خانہ میں رہنا پڑا بلال ہر روز اس کے گھر فون کر کے کیفیت لیتا رہا گھر والے اس کی ہمدردی اور  فکر مندی سے بے حد متاثر تھے فر دوس کو بتا یا کہ کسی مشتاق نامی لڑکے نے اسے دوا خانہ پہنچا یا اور  ہر روز اس کی کیفیت لیتا ہے۔  بلال نے اپنا نام مشتاق بتا یا تھا فر دوس کو یاد آیا کہ آوارہ لڑکا جب اس سے الجھ رہا تھا تب ہی ایک کا لا کلوٹا اونچے قد کا لڑکا قیمتی کپڑوں میں ملبوس اچانک کہیں سے آ گیا اور  تین چار غنڈوں کی پٹائی کرنے لگا جیسے کسی ہندی فلم کا منظر تھا اور  وہ محظوظ ہو رہی تھی کہ میز اس کے پاؤں پر گر پڑی تھی شاید یہ اسی لڑکے کا ذکر ہے فردوس ڈسچا رج ہو کر گھر آئی اور  بلال کا نمبر ملا یا ہمیشہ کی طرح بلال نے فون اٹھایا ’’اسلام علیکم بلال ہئیر!‘‘بلال نے دھڑ کتے دل سے کہا ’’آپ جیسے جھوٹے اور  دھوکے باز شخص کو میں نے دوست جا نا یہ میری نا دانی تھی میں نے یہ کہنے کے لئے فون ملا یا کہ آپ آئندہ کبھی کسی سے دوستی نہ کریں ورنہ اس کی بھی ٹانگ ٹوٹ جائے گی‘‘ بلال نے فر دوس کی ناراضگی سے بچنے کیلئے جھوٹ کا سہارا لیا ’’فردوس صاحبہ آپ نے تصویر کا ایک ہی رخ دیکھا اور  بدگمان ہو گئیں نہ آنے کی وجہ تو پوچھی ہوتی! میں متعینہ مقام پر پہنچنے کے لئے گھرسے چلا تو راستے میں ایک اسکوٹر نے ٹکر دے دی اور میں کئی دن تک گھر ہی پر پڑا آپ کے فون کا انتظار کرتا رہا آسمانی سلطانی کوئی آفت انسان کو کسی وقت بھی گھیر سکتی ہے آپ نے مجھے اپنا نمبر تو نہیں دیا تھا کہ میں اطلاع کرتا کل سے میری طبعیت سنبھلی ہے آپ بتائیں کیسی ہیں بہت دن بعد فون کیا کس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے ؟ ‘‘بلال نے انجان بنتے ہوئے پوچھا فردوس نے مختصر اسا را واقعہ بتا نے کے بعد کہا’’میں سوچ میں ہوں کہ وہ فرشتہ صفت کون تھا اور  تعجب تو یہ ہے کہ وہ ہر روز میری کیفیت لیتا رہا ‘‘فرد وس صاحبہ یہ میرے نصیب کی بات ہے کہ انجانے میں آپ کو میری طرف سے انتہائی تکلیف اٹھانی پڑی میں شرمندہ ہوں کہ آپ کے کسی کام نہ اس کا ملاقات کی آرزو دل ہی میں رہ گئی ویسے آپ کم از کم اب تو بتا دیں وہ کونسی ضروری بات تھی جو آپ مجھے سنانا چاہتی تھیں ؟وہ سنانا شاید اب ضروری نہیں ہے دراصل والدین میری شا دی کی بات چلا رہے تھے مجھے کسی اجنبی کے گلے کا ہار بننا گوارا نہ تھا سومیں آپ کا عندیہ لینا چاہتی تھی اور  اب وہ بات باقی نہیں رہی کیونکہ میں لنگڑی ہو چکی ہوں اس پوزیشن میں لڑکے والے خود انکار  کر دیں گے ’’یہ تو بہت اچھا ہو ا۔  کہ۔۔۔۔۔۔  ‘‘بلال کے منہ سے بے اختیار نکل گیا ’’جی کیا اچھا ہو ا؟‘‘

یہی کہ آپ کسی اجنبی کے گلے کا ہار بننے سے بچ گئیں ؟فر دوس خاموش تھی ’’میں نے آپ سے کچھ پوچھا ہے ؟!آپ نے چپ سادھ لی ؟ ‘‘’’بلال صاحب۔  میں آپ کے دکھوں کو سمیٹنا چاہتی تھی آپ کی تمام تر محرومیوں اور  نا تمام آرزوؤں کو سینے سے لگا لینا چاہتی تھی آپ کو اداسیوں کے دیا رسے نکال کر تنہا ئیوں کے حصار کو تو ڑ دینا چاہتی تھی اور  آپ کے قدم سے قدم ملا کر زندگی کا سفر پورا کر نا چاہتی اور  آپ کے ساتھ قدم ملا کر زندگی کا سفر پورا کر نا چاہتی تھی لیکن اب۔  اب تو خود میں ایک شئے نا کا رہ بن گئی ہوں ‘‘فر دوس کا گلا رندھ گیا۔

’’فردوس آپ نے یہ کیا کہہ دیا میں خود آپ کے قابل نہیں ہوں آپ نے ابھی ابھی جو کچھ کہا ہے یہ میرے لئے بہت کا فی ہے میں اپنی باقی زندگی اس احساس کے ساتھ گزار سکتا ہوں کہ میرے لئے کسی کے دل میں تھوڑی سی جگہ ہے کوئی مجھے اپنا سمجھتا ہے میں ہرگز آپ جیسی لڑکی کے لائق نہیں ہوں آپ کے والدین جہاں آپ کی شادی کرنا چاہیں بخوشی کر لیں اسی میں آپ کی بھلائی ہے ‘‘۔

’’ہاں میں سمجھ رہی ہوں اس انکساری اور مشورہ کی آڑ میں آپ خود کو بچا نا چاہتے ہیں ایک لنگڑی سے شادی کر نا حماقت ہی تو ہو گی‘‘۔ ’’خداراایسا نہ کہیں فردوس اب آپ کے آگے حقیقت کا انکشاف کر نا ضروری ہو گیا ہے سچ تو یہ ہے کہ میرا رنگ بہت کا لا ہے میرا رشتہ میرے رنگ و روپ کی وجہ سے آج تک کہیں طئے نہ پا سکا اس لئے آپ میرا خیال چھوڑ دیں ‘‘۔  بلال کی آواز بھّرا گئی’’ بلال صاحب مزید کچھ کہوں تو آپ یہی سوچیں گے کہ ایک بلا خوامخواہ گلے پڑ نا چاہتی ہے حقیقت یہ ہے کہ انسان کی قدرو قیمت اس کے رنگ و روپ سے نہیں ہوتی یہ تو ظاہری اور  عارضی ہو تے ہیں کسی بھی خو بصورت انسان کی قدر نہیں ہوتی جب تک کہ اس کا کردار خو بصورت نہ ہو با کردار انسان کسی بھی دل میں اعلیٰ و ارفع مقام بنا سکتا ہے اب میں کبھی آپ کو ڈسٹرب نہیں کروں گی‘‘فردوس نے فون رکھ دیا۔  بلال ریسیور کو ہاتھ میں لئے گھور رہا تھا کہ جو کچھ اس نے سنا اسی فون پر سنا تھا یا کوئی خواب تھا۔  ایک تشنۂ آرزو کا خواب!! اس بات چیت کے دو دن بعد فردوس کے والدین بلال کے گھر آئے وہ اپنی معذور بیٹی کے لئے خوشیوں کی بھیک ما نگ رہے تھے بلال حیران تھا بار بار یہی کہتا رہا کہ وہ قطعی ان کی بیٹی کے لائق نہیں ہے لیکن ان بزرگوں کی تڑپ اور  اصرار پراسے ہاں کرنی پڑی لیکن شرط یہ رکھی کہ پہلے فر دوس کی رضا مندی لے لی جائے انھوں نے بتایا کہ وہ کسی بھی اعلی تعلیم یافتہ لڑکے سے شادی کرنے تیا رہے۔  ایک ہفتہ بعد فر دوس نے اپنی شادی کے رقعے دیکھے جن میں دولہا کا نام تھا۔

بلال احمد ایم اے ایم فل (سائیکالوجی)

*****

 

 

شہ اور  مات

 

ناخدا بے خود فضا خاموش ساکت موجِ آب!

اور  ہم ساحل سے تھوڑی دور پہ ڈوبا کئے

مختصر یہ ہے ہماری داستان زندگی

اک سکون دل کی خاطر عمر بھر تڑ پا کئے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آگے چلنے کے لئے اس کے پاس کوئی مہرہ نہیں بچا تھا وہ روئی نہیں اپنی ہمت اور  ذہانت سے کام لیتے ہوئے غور کیا کہ آج گر اس نے یہ شادی کسی طرح رکو ابھی دی توکل کیا ہو گا کل کسی اور  طریقہ سے وہ شادی کرے گا ہو سکتا ہے تب وہ اس کے قریب بھی نہ رہے دوسری کا ہو کر کہیں کھو جائے کیا تقسیم شدہ مرد مخلص اور  انصاف پسند ہو سکتا ہے جبکہ وہ۔۔۔۔۔۔ !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرما کی انتہائی سرد رات تھی کمرہ ایر کنڈیشنڈ بنا ہوا تھا لیکن اس کی نس نس میں جیسے چنگاریاں سی بھر گئی تھیں۔  اسے اپنا وجود ایک بڑے خلا ء کے درمیان جھو لتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔  چاروں طرف سنا ٹا اور  ایک لا زوال ویر انی سی چھائی ہوئی تھی۔  آج تقدیر نے اپنا وہ فیصلہ سنادیا تھا جس کا اسے ڈر لگا ہوا تھا۔  اسے وہ تمام دلنشیں صحبتیں مسرت کے نشے میں ڈوبی ہوئی شا میں اور محبت کی خوشبو سے مہکتی راتیں یاد آ رہی تھیں جب شاہ زیب اور وہ ایک دوسرے میں کھوئے ہوئے تھے آنکھوں میں ہر دم قوس قزح کے رنگ لہراتے رہتے۔  چار سال پہلے وہشاہ زیب کی دلہن بن کر اس گھر میں آئی تھی اس کی ماں کو گزرے ہوئے چند مہینے ہوئے تھے والد جلد از جلد اس کا گھر بسا کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جانا چاہتے تھے۔  اس نے BA پاس کر لیا تھا چھو ٹی بہن اور بھائی کی تعلیم جاری تھی۔  شاہ زیب اپنی ماں کا اکلوتا لاڈ لا بیٹا تھا*BA کرنے کے بعد اپنا بزنس شروع کر چکا تھا۔  اب ماں کو بہو لا نے کی جلدی تھی وہ اپنی بھا نجی صفیہ کو بہو بنا نا چاہتی تھیں لیکن یونیورسٹی کے پہلے ہی سال وہ نازیہ کی نظروں کے تیر سے گھائل ہو چکا تھا۔  اور ماں سے کہہ دیا تھا کہ وہ شادی کرے گا تو صرف ناز یہ سے ورنہ کسی سے نہیں کرے گا ماں کو حامی بھرنی پڑی۔ اس طرح نازیہ اُس کی دلہن بن کر آ گئی سسرال میں قدم رکھتے ہی اس نے گھر کی ذمہ داری یوں سنبھاللی جیسے وہ ہمیشہ سے اسی گھر میں رہتی آئی ہو۔

شاہ زیب دن بھر کی محنت کے بعد تھکا ہارا جب گھر آتا نازیہ کی سیاہ زلفوں میں اپنا منہ چھپا کر سکون محسوس کرتا دنیا جہاں کو بھول جا تا۔  اپنے کمرے میں آنے سے پہلے ماں کے پاس دس پندرہ منٹ بیٹھنا اس کا معمول تھا اور ماں کے لاڈ لے کی ناز برداری کرنا نازیہ کا معمول تھا۔  ہفتہ کی رات وہ خاص اہتمام کرتی اپنے آپ کو اس کی را ہوں میں بچھا دیتی اس کی من پسند ڈشس بنانے کے بعد گلاب کے پانی سے بہت دیر تک غسل کرتی اس کی پسند کے کپڑے پہنتی پرفیوم چھڑ کتی۔  شاہ زیب کو بھی ہفتہ کے دن کا بے چینی سے انتظار رہتا وہ صبح سے ہی کاموں کو جلد از جلد نپٹانے کی کوشش کرتا اور وقتِ معمول سے پہلے ہی گھر پہنچ جاتا، نکھری ستھری کلی کی طرح کھلی کھلی سی عورت آنکھوں کی راہ مرد کے دل میں اتر جاتی ہے ،  یوں نازیہ شر اب دو آتشہ بن کر شاہ زیب کے اعصاب پر چھا گئی تھی۔  تین سال بعد اس کا سحر آج بھی پہلی رات جیساپر اسرار تھا دلفریب تھا۔  وہ آج بھی اس کے لیے گلا ب کی ادھ کھلی کلی تھی جس کی مسحو رکن مہک سے اس کی زندگی کے شب و روز معطر تھے۔  ہر وقت سرشاری اور مستی کا عالم تھا۔  وہ چاندنی تھی جو اس کے وجود کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔  تین سال کیسے گزر گئے پتہ ہی نہ چل سکا۔

ایک دن نازیہ نے دیکھا شاہ زیب پڑ وس والے بچوں کو گھر لے آیا ہے۔  سر خ وسفیدگول مٹول سے بچے نازیہ کو بہت پیارے لگے۔  شاہ زیب ان کے ساتھ کھیل ر ہا تھا۔  شاہ زیب کی ماں بھی انھیں دیکھ کر پھولی نہیں سما رہی تھیں اچانک نازیہ کو اپنے دل میں کا نٹا سا چبھتا ہو امحسوس ہو ااس کے چہرے پر تاریک سا یہ سا آ کر گزر گیا۔  اسے اپنی محرومیوں کا احساس ہو اوہ اپنے آپ کو مجرم سمجھنے لگی اس کی ماں نہیں تھی جسے وہ اپنی الجھن بتا سکتی بہن بھائی اس سے چھوٹے تھے۔  والد سے دبے الفاظ میں اپنی الجھن بتائی دعا کرنے کو کہا اپنے طور پر علاج بھی کر وایا دعا اور دوا کے سہارے آسو یاس کے در میان ایک سال اور  گزر گیا۔  اس دو ران ماں بیٹے میں اکثر بات چیت ہوتی رہتی۔  شاہ زیب اس سے کھنچاکھنچاسارہنے لگا تھا نازیہ مقدور بھر کوشش کرتی کہ وہ اسے زیادہ سے زیادہ خوش رکھ سکے اسے اپنی محبت کے ساغر  نت نئے انداز سے پلا تے نہ تھکتی اس کے اشاروں پر نا چتی رہتی وہ اکثر آدھی رات کو اسے جگاتا کبھی پانی مانگتا کبھی چائے کی فرمائش کرتا کبھی نیند اچٹ جانے پر دو دو گھنٹے اس کے ساتھ چیس Chessکھیلتا رہتا اور  مات دے کر خوش ہوتا۔  نازیہ خوشی خوشی اس کی ہر فرمائش پوری کرتی اور  پیشانی پر بل تک نہیں آتا۔  صبح اسے بنا سنوار کر رخصت کرتی اور  کچھ دیر کے لیے سوجاتی گیارہ بارہ بجے اٹھ کر اپنی روٹی کی فکر کرتی۔  سال بھر پہلے ساس نے اس کا ہانڈی چولہا الگ کر دیا تھا۔  اب ہر آئے گئے سے اس نے بلند آواز میں کہنا شروع کر دیا تھا۔

’’میری بہومنحوس ہے جانے کون سی بری گھڑی تھی جب میں اسے بہو بنا لائی۔  دن چڑھے تک سوتی ہے نہ کبھی نماز نہ قرآن ایسوں کو ہی اللہ نامراد رکھتا ہے۔  ان کی جھولی ہمیشہ خالی رہتی ہے۔  ‘‘

وہ کیسے کہتی کہ ان ہی کے لاڈ لے کو خوش رکھنے کے لئے وہ اپنا آپ بھلا بیٹھی ہے اس کی خوشی کیلئے راتوں کو جاگتی ہے۔  ہر دوسرے تیسرے دن ایک ہی بات سنتے سنتے وہ حوصلہ ہارنے لگی تھی۔  دعا اور  دوا سے تھک کرکسی معجزہ کی امید میں جی رہی تھی۔  امید جو موہوم تھی اور  شوہر مرد تھا دونوں ہی اعتبار کے قابل نہیں تھے وہ بے بس تھی اسے محسوس ہوتا جیسے وہ ایک دیا ہو جو تیزو تند آندھیوں کے رخ پر رکھ دیا گیا ہو۔  وہ اندرسے ٹوٹ رہی تھی۔  ان ہی دنوں اس کے بھائی نے آ کر بتایا کہ اس کے والد پر فالج کا حملہ ہوا ہے طبیعت بہت خراب ہے وہ چھوٹی بہن کی شادی جلد از جلد کرنے کے لئے بضد ہیں اور  بتایا کہ کچھ دنوں سے ایک سلسلۂ پیامچل رہا تھا حالات کے پیش نظر لڑکے والے بھی تیار ہیں بس نازیہ کا انتظار ہے۔  وہ بے حدفکر مند ہو گئی شاہ زیب کا شدت سے انتظار کر رہی تھی وہ آیا تو اس نے بتا یا۔

’’شاہ جی!بابا کی طبیعت خراب ہے فالج کا حملہ ہوا ہے اور  وہ ناظمہ کی شادی جلد از جلد کر دینا چاہتے ہیں اگر آپ کو فرصت ہو تو دونوں اکٹھے چلتے ہیں۔  ‘‘نازیہ نے التجا آمیز لہجے میں کہا دکھ اور  پریشانی اس کے چہرے سے عیاں تھی شاہ زیب نے رکھائی سے کہا۔

’’ٹھیک ہے تم خود ہو آؤ ، اگر ضرورت ہو تو مجھے فون کر دینا۔  ویسے میں صبح آفس جاتے ہوئے آ جاؤں گا۔  ‘‘

یہ پہلا موقع تھا جب نازیہ رات شاہ زیب کے قریب نہ تھی وہ علی الصبح جاگ گیا ماں نے ناشتہ کرایا اور  گویا ہوئی

’’شاہ زیب برسوں بعد آج صبح جلدی جاگے ہو ، تم نے راتوں کو جاگ جاگ کر کیا حالت بنا لی ہے ؟‘‘

’’کیا ہوا ماں میں تو بھلا چنگا ہوں ‘‘

’’تیری اس سونی زندگی نے مجھے رو گی بنا دیا ہے بیٹا!تم کیا جانو اولاد کے دکھ سے ماں کتنی دکھی ہو جاتی ہے ‘‘

’’تم نے یہ کیسے سمجھ لیا ماں کہ میں دکھی ہوں میں تو بہت خوش رہتا ہوں ‘‘

’’ہائے کیا خوش رہتے ہو بچے کے بغیر بھی کوئی زندگی ہے ؟ ادھوری عورت کے ساتھ زندگی گزار رہے ہو بچے زندگی میں بہار بن کر آتے ہیں ان کے معصوم قہقہے رگوں میں نیا خون پیدا کرتے ہیں ان کے وجود سے زند گی کا حسن نکھر آتا ہے ‘‘

آج ماں نے شاہ زیب سے کھل کر بات کی اور  کچھ اس اندازسے رو دھو کر پریشان کر دیا کہ وہ سوچ میں پڑ گیا کچھ دیر بعد کہا

’’امی اس دنیا میں ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو اولاد کی خوشی پانے سے محروم ہیں کیا وہ زندہ نہیں ہیں ؟

’’تم سمجھتے کیوں نہیں دوسروں میں اور  تم میں بہت فرق ہے تم میری اکلوتی اولاد ہو تمھارا نام لیوا بھی تو کوئی ہونا چاہیے۔  صفیہ آج تک تمہارے نام پر بیٹھی ہے تمھاری خالہ میرے ایک اشارے کی منتظر ہے کیا تم مجھے پوتا پوتی کی خوشی دیکھنے نہیں دو گے انھیں گود کھلا نے کی آرزو میں برسوں گزار دیے ہیں اور  کب تک صبر کروں ؟ کیا تمھیں بچوں کی آرزو نہیں ہے کیا تمھیں اپنے بڑھا پے کا سہارا نہیں چاہیئے ؟‘‘

’’امی مجھے سونچنے کے لئے وقت دیجئے۔  ‘‘شاہ زیب نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔

’’اس میں وقت لے کرسوچنے کی کیا بات ہے ایک بانجھ عورت کے ساتھ زندگی کا سفر کیسے پورا کرو گے ؟ قدرت نے عورت کو تخلیق کی صلاحیت دی ہے اور  تخلیق کے مراحل سے گزرنے کے بعد ہی عورت مکمل ہوتی ہے زندگی میں نیا حسن و نکھار پیدا ہوتا ہے۔  ‘‘

’’ٹھیک ہے میری امی آپ کو جلد ہی جواب دوں گا‘‘

’’مجھے شام تک جواب چاہئے ورنہ میں اپنی بہن کے پاس چلی جاؤں گی پھر تم اپنی رانی کے ساتھ رنگ رلیاں منا تے رہنا۔  ‘‘شاہ زیب دن بھر آفس میں سوچتا رہا آخر اس نے فیصلہ کر لیا کہ ماں سچ ہی کہتی ہیں بچوں کے بغیر زندگی کتنی پھیکی پھیکی سی ہے اس کے وہ دوست جن کی شادیاں اس کی شادی سے کچھ پہلے یا کچھ بعد ہوئی تھیں سب دو دو تین تین بچوں کے باپ تھے۔  وہ تو نازیہ کے حسنو جوانی کے نشہ میں اس قدر مد ہوش تھا۔  کہ اسے بچوں کی کمی کا احساس ہی نہ ہو سکا تھا۔  ان ہی سوچوں نے اسے اداس کر دیا۔  وہ نازیہ کے والد کو دیکھنے نہ جا سکا۔  وہ نازیہ جس نے زندگی کے چارسال اس کی خدمت اور  خوشیوں کی نذر کر دئے تھے اپنی ایک کمزوری ایک محرومی کے باعث وہ شرمندہ سی رہتی شاہ زیب جہاں پاؤں رکھتا وہاں وہ اپنا سر رکھ دیتی تھی۔  آج اس کا کیا صلہ ملا ؟ وہ اس کے بیمار باپ کو دیکھنے کے لئے چند قدم چل کر نہ اس کا۔  دن بھر وہ انتظار کرتی رہی لیکن وہ تو ماں کے سامنے بیٹھا اپنے مستقبل کا پروگرام بنا رہا تھا تصورات کی دنیا میں بچوں سے کھیل رہا تھا۔

نازیہ نے بہن کی شادی تک والد کے گھر رہنے کی اجازت مانگی تو اس نے بخوشی اجازت دے دی اپنی سونی راتوں کا ذکر تک نہیں کیا نہ ہی اسے جلدی واپس آنے کہا تھا۔  نازیہ کچھ سوچ کر فکر مند ہو گئی تھی لیکن باپ کی تیمار داری اور  بہن کی شادی کی تیاری میں اس قدر مصروف ہو گئی تھی کہ اسے زیادہ کچھ سوچنے کا وقت ہی نہ مل سکا۔  وہ اپنے والد کے گھر رہنے کے دوران ہی اس بات کو محسوس کر چکی تھی کہ شاہ زیب راتوں کو دیر سے گھر آنے لگا تھا دوستوں کے ساتھ کہیں خوش گپیوں میں مگن رہتا کبھی کسی کے ساتھ پکچر چلا جاتا چار سالوں میں اس نے پیچھے پلٹ کر دیکھا ہی نہیں تھا کہ زمانے کتنا بدل گیا ہے وقت بہت آگے نکل چکا ہے۔  وقت نے رک جانے والوں کا کب انتظار کیا ہے نئی دنیا اسے بھلی لگی تھی۔

نازیہ گھر آتے ہی صفائی میں مصروف ہو گئی پکوان کیا ، شاہ زیب کے کپڑے پریس گئے جوتوں کو پا لش کر کے چمکا یا اور  پھر خودسج سنورکر سراپا انتظار بن گئی وہ حسب معمول رات بارہ بجے کے بعد ہی گھر آیا کھا نا دوستوں کے ساتھ کھا چکا تھا کمرے میں قدم رکھا تو نازیہ کو دیکھ کر ٹھٹک گیا نازیہ تھی یا قیامت تھی وہ بھول گیا کہ اپنے مستقبل کے پروگرام کو قطعیت دے چکا تھا اپنے آپ کو چاندنی کے حصار میں قید کر لیا۔  نازیہ نے بھی پیار محبت کی ایسی بارش کی کہشاہ زیب کا رواں رواں بھیک گیا لیکن اس نے صاف صاف محسوس کیا کہ تین ہفتوں بعد ملنے پر بھی اس کے اندر وہ گرم جوشی اور  بے خودی نہ تھی جواس کی طبیعت کا خاصہ تھی حالانکہ آج نازیہ نے جنوں سا مانی کے سارے محاذ کھول دیئے تھے۔

شاہ زیب صبح جاگا تو سوچوں کے سمندر میں غرق تھا۔  سوچ رہا تھا کہ نازیہ کو اپنے پروگرام  کے بارے میں کس طرح بتائے اور نازیہ اسی کی طرف سے کچھ سننے کی منتظر تھی وہ چور نظروں سے دیکھتی ہوئی اپنے کام میں مصروف تھی۔  ناشتے کے بعد شاہ زیب کو چائے کی چسکیاں لیتا ہوا اطمینان سے بیٹھا دیکھا تو وہ چونک گئی وہ کسی بم کے پھٹنے کا انتظار کر رہی تھی۔  کہ شاہ زیب نے اسے بیٹھنے کے لئے کہا اور  مخاطب ہوا۔

’’نازیہ میں نے دوسری شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے میں سمجھتا ہوں تمھیں کوئی اعتراض نہ ہو گا ؟‘‘

نازیہ کو آج معلوم ہوا کہ مرد کی رات اور  صبح میں کتنا فرق ہوتا ہے۔

’’یہ میں کیا سن رہی ہوں شاہ جی ؟ تم مجھ سے مذاق تو نہیں کر رہے ہو نا ؟‘‘اس نے بمشکل مسکراتے ہوئے کہا۔

’’نہیں میں مذاق نہیں کر رہا ہوں میں نے تمھیں کبھی کوئی تکلیف نہیں دی تھی لیکن یہ قدم اٹھا نا میرے لئے ضروری ہو گیا تھا گو کہ تم نے بھی میری ہر خواہش کا خیال رکھا لیکن میری وہ خواہش پوری کرنا تمھارے بس میں نہیں جس کا میں نے کبھی اظہار نہیں کیا وہ کیا ہے تم بھی اچھی طرح جانتی ہو۔  اس لئے تمھیں تکلیف نہیں ہونی چاہئے۔  ‘‘شاہ زیب کے لہجے میں اجنبیت تھی۔

’’شاہ جی!کیا میری چاہتوں اور  خدمتوں میں کوئی کمی رہ گئی تھی جس کا یہ صلہ دیا ہے میں چند دن کے لئے تمھاری نظروں سے کیا دور ہوئی تم نے مجھے دل سے ہی دور کر دیا اور  دوسری شادی کا پروگرام بنا بیٹھے ؟ میں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میرے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ ہو گا ‘‘۔

’’نازیہ میں نے تمھیں دل سے دور نہیں کیا نہ زندگی سے دور کرنا چاہتا ہوں میں تمھیں ہمیشہ اپنے ساتھ رکھوں گا لیکن صرف چاہتوں کے سہارے تو زندگی نہیں گزر سکتی ایک بچہ نہ ہونے کی خلش ہمارے بیچ خلیج بن گئی ہے اور  میں اس خلیج کو پا ٹنا چاہتا ہوں کیا تمھیں میری اولاد کو پا کر خوشی نہیں ہو گی اگر وہ دوسری کے بطن سے پیدا ہو تو کیا ہوا میرا بچہ کیا تمھارا نہیں ہو گا مجھے امید ہے تم اس خلیج کو پاٹنے میں میرا ساتھ دو گی‘‘

واہ تمھاری سادگی کی داد دینی پڑے گی میرے گلے پر چھری پھیر نے کے لئے میری ہی رضا مانگتے ہو۔  میری قبر میرے ہاتھوں کھدواؤ گے۔  اور  اس پر چراغاں کرو گے ؟

’’نازیہ تم اچھی طرح جانتی ہو میں تمھاری خاطر اپنی ماں کو آج تک ٹا لتا آیا ہوں تمھاری چاہت میں کھو کر ماں کے دل کو دکھاتا رہا ہوں ایسا نہ ہو کہ ہمیں ان کی بدعا لگ جائے اور  ہم کہیں کے نہ رہیں۔  انھوں نے اور  میں نے آج تک صبر کیا دل بڑا کیا اب فراخ دلی سے کام لیتے ہوئے تمھیں میرا ساتھ دینا ہو گا یہ بھی تمھاری محبت کا ایک ثبوت ہو گا ایک دو بچے ہونے کے بعد تمھیں خود احساس ہو جائے گا کہ تمھارا احتجاج نا واجبی تھا میں نے امی کو زبان دے دی ہے انھوں نے تیاری بھی کر لی ہے۔ ‘‘

نازیہ گم صم تھی شاہ زیب نے کہا ’’دیکھو نازیہ انسان کو وقت کے ساتھ چلنا چاہئے۔  پرانی باتیں بھول جاؤ اب تمھارے احتجاج سے ہمارا فیصلہ نہیں بدلے گا سوچ لو۔  تم پڑھی لکھی ہو زمانے کے نشیب و فراز دیکھ رہی ہو وسیع القلبی سے کام لینے میں ہی تمھاری بھلائی ہے یہی کیا کم ہے کہ میں تمھیں اپنی زندگی سے الگ نہیں کر رہا ہوں تم کل بارات کے ساتھ چلو گی اور  نئی دلہن کو اپنے گھر لاؤ گی ‘‘۔

نازیہ کو مات ہو چکی تھی آگے چلنے کے لئے اس کے پاس کوئی مہرہ نہیں بچا تھا۔  وہ روئی نہیں بلکہ اپنی ہمت اور  ذہانت سے کام لیتے ہوئے غور کیا کہ آج اگر اس نے یہ شادی کسی طرحرکوا بھی دی توکل کیا ہو گا کل کسی اور  طریقہ سے وہ شادی کرے گا ہو سکتا ہے تب وہ اس کے قریب بھی نہ رہے دوسری کا ہو  کر کہیں کھو جائے ایسی صورت میں وہ اسے مکمل طور پر کھودے گی کیا تقسیم شدہ مرد مخلص اور  انصاف پسند ہو سکتا ہے۔  جبکہ وہ نظروں سے دور اور  گھر سے بھی دور ہو قدرت کے فیصلے کے ساتھ انسان کو سمجھوتہ کرناپڑتا ہے اس نے بھی سمجھوتہ کر لیا اور  کل کے آنے والے آندھی طوفان کیلئے اپنے آپ کو تیار کرنے کی کوشش کرنے لگی۔

دو سرے دن خاندان کے کچھ لوگ جمع ہو گئے تھے شاہ زیب اور  اس کی ماں خوش تھے 10بجے رات سب لوگ دلہن کولے کر گھر آ گئے۔  نازیہ نے اپنے ہاتھوں سے دلہن کی مسہری کو سجایا تھا گلاب کی پتیوں سے مسہری کی چادر پر شاہ زیب کا نام لکھا اس کی من پسند پر فیوم سے کمرے کو معطر کیا تاکہ نئی عورت کی آغوش میں سما کر بھی وہ اسے یاد کرتا رہے کچھ رسموں ریتوں کے بعد دلہن کو کمرے میں پہنچا دیا گیا نازیہ بھی سینے پر پتھر کی سِل رکھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔  اعتبار ہی نہیں آ ر ہا تھا کہ اس کا چاہنے والا شوہر اسی کے گھر میں دو سری عورت کے ساتھ رات گزارے گا۔

وہ سرماکی انتہائی سردرات تھی لیکن اس کی نس نس میں چنگاریاں سی بھر گئی تھیں چاروں طرف سنا ٹا تھا اور  ایک لا زوال ویر انی سی چھائی ہوئی تھی۔  اسے ہر پل یہی آس تھی کہشاہ زیب خود با نہیں پھیلائے اسے پکارتا ہوا اس کے پاس آ جائے گا نیند تو آنکھوں سے کو سوں دور تھی ہلکی سی آواز پر بھی وہ چونک جاتی تھی۔  زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ دروازے پر زور کا کھٹکا ہوا نازیہ کا دل سینے کا خول توڑ کر باہر نکلنے کو تھا کھٹکے کے ساتھ ہی شاہ زیب نے اسے آواز دی تھی اس کا نام لے کر پکارا تھا۔  نازیہ فرط مسرت سے چلا اٹھی۔

’’آ گئے شاہ زیب! مجھے یقین تھا تم آؤ گے۔  تم آؤ گے۔ تم میرے بغیر نہ رہ سکو گے آج کی شب میرے لئے انمول ہو گئی ہے میں اپنی جان دے کراس خوشی کی قیمت ادا کروں گی آ رہی ہوں شاہ جی تم میری طرف دو قدم آؤ گے تو میں تمھاری طرف سوقدم آؤں گی ‘‘اس کے جسم پر چیونٹیاں سی رینگ رہی تھیں اُسے تھوڑ اسابے چین کرنا چاہتی تھی اس لئے دوسرے کھٹکے پر دروازہ کھولا دیکھا تو شاہ زیب کے پیچھے اس کی ماں اور  خالہ کھڑی شعلہ بار آنکھوں سے تک رہی تھیں تینوں اندر آ گئے شاہ زیب نے کہا۔

’’نازیہ اس طلاق نامہ پر دستخط کر دو آج میں نے تمھیں طلاق دے دی ہے ‘‘نازیہ لرز گئی اپنے حواس مجتمع کر کے کہا ’’کیوں شاہ جی میں نے تمھاری رضا کے آگے اپنا سرتسلیم خم کر دیا تھا نا! تمھاری خواہش اور  فرمائش کوسر آنکھوں پر رکھ لیا تھا پھر یہ طلاق کیسی ؟ ساس نے دو قدم آگے بڑھ کر کہا

’’زیادہ باتیں نہ بناؤ خاموشی کے ساتھ دستخط کر دو کیوں کہ اس کی دلہن نے منہ دکھائی کا تحفہ تمھارا طلاق نامہ مانگا ہے اور  شاہ کی بھی یہی خواہش ہے ورنہ وہ اسے قریب نہ آنے دے گی‘‘ شاہ اس کے سامنے ڈٹا کھڑا تھا نازیہ نے ساس کے ہاتھ سے قلم لے لیا۔  مات تواسے ہوہی چکی تھی دستخط کر کے اس نے زندگی کی بساط ہی الٹ دی۔  اس کے صبر کے بند ٹوٹ گئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

*****

 

 

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

 

غریبی توڑ دیتی ہے جو رشتہ خاص ہوتا ہے

پرائے بھی اپنے ہوتے ہیں جب پیسہ پاس ہوتا ہے

۔۔۔۔۔۔

’’ابو!آپ جانتے ہیں میں نادرہ سے محبت کرتا ہوں ، میں نازیہ سے شادی کیسے کر سکتا ہوں ‘‘۔  ’’عادل بے و قو فی کی باتیں مت کرو آج  نازیہ پچاس سا ٹھ لا کھ کی ما لک ہے نادرہ کو سمجھا منا کر نازیہ سے شادی کر لو چند دن بعد ہم اسے پا گل ثابت کر کے پا گل خانہ بھیج دیں گے عیش و آرام کی زندگی گزارنے کے لئے محبت سے زیادہ دولت کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔  ‘‘

۔۔۔۔۔۔

ٹرین اپنی پوری رفتار کے ساتھ رواں دواں تھی۔  میں سونے کی کوشش کر رہی تھی لیکن نیند میری آنکھوں سے کو سوں دور تھی۔  ایم ایس سی فائنل کے امتحان قریب تھے میں تیاری میں تھی اور  اعلی نشانات سے پاس ہو نا چاہتی تھی میں چند دن قبل جب ماں سے ملنے گئی تھی تب بتا دیا تھا کہ ایک ماہ بعد وہ ان کے پاس آ جائے گی یا ملازمت ملنے کی صورت شہر ہی میں رہے گی اور  ماں کو اس کے ساتھ رہنا ہو گا پھر انھوں نے اچانک ٹیلی گرام دے کر کیوں بلوایا ہے وہ بیمار بھی نہیں تھی پھر۔۔۔   بار بار ٹیلی گرام دے کر کیوں بلوایا ؟۔۔۔  میں بار بار ٹیلی گرام پڑھتی رہی اس میں سوائے ایک لائن کے اور  کچھ نہیں تھا کہ ’’فوراً گاؤں پہنچو‘‘ صبح پانچ بجے جیسے ہی ٹرین نے گاؤں کے پلیٹ فا رم کو چھو امیں بھا گتی ہوئی اسٹیشن سے با ہر نکلی اور  ایک ٹا نگے والے سے کہا کہ مجھے جلد از جلد حویلی پہنچا دے ماں نے مجھے دیکھا فوراً اپنے کمرے میں آئی انھوں نے سرگوشی میں کہا ’’تم جلدی سے منہ ہاتھ دھو لو ناشتے کے بعد ضروری بات کرنی ہے ‘‘ماں کا

راز دارانہ لہجہ مجھے حیران کر گیا میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ ’’ماں کچھ تو بتا ؤ بات کیا ہے مجھے اس طرح کیوں بلوا یا ہے ؟‘‘

’’تم ذرا فارغ ہو لو اطمینان سے بات کروں گی‘‘

آدھ گھنٹہ بعد ماں کہہ رہی تھی ’’ناز یہ میں نے تمہیں بتا یا تھا کہ تمہارے والد تمہاری دادی کی بیماری  کی وجہ سے دوسرے گاؤں میں رہتے ہیں۔  اور  مجھے ان کے ماموں کی خد مت کے لئے اس حویلی میں رہنے کہا ہے۔  تم بچپن سے یہی بات مجھ سے سنتی آ رہی ہو پند رہ سال گزر گئے۔  اس دوران تم نے بار بار  ضد کی کہ تمہیں ابو سے ملواؤں لیکن میں کچھ کہہ کر ٹال جاتی اور  تمہیں پڑھائی کے لئے شہر بھیج دیا تم اپنی اپنی پڑھائی میں سب کچھ بھول گئیں تمہیں کبھی کسی خط میں لکھ دیتی کہ تمہارے ابو آئے تھے تمہیں یاد کر رہے تھے وغیرہ۔  لیکن نازیہ وہ سب جھو ٹ تھا ایک ڈرا مہ تھا جو میں گز شتہ پند رہ سال سے اپنی زندگی کے اسٹیج پر کھیل رہی تھی اب اس کے ختم ہو نے کا وقت آ گیا ہے۔  آج تمہیں سب کچھ بتا نا ضروری ہے تا کہ مستقبل میں تمہیں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے تم اب دنیا کے سیاہو سفید سے واقف ہو اب ہمیں سوچ سمجھ کرکام کرنا ہے۔  ‘‘

’’ماں ہمیں کیا کرنا ہے ؟جلدی سے پوری بات بتاؤ نا‘‘

’’ا پنی بے چینی پر قابو رکھو اور  سنو۔  کئی سال پہلے تمہارے باپ نے مجھ پر ظلم کے پہاڑ توڑے تھے وہ ایک غیر مذہب عورت کے چکر میں اپنے خاندان سے منہ موڑ کر کہیں لا پتہہو گئے تمہارے چا چا اور  چاچی نے مجھ پر گندے اور  غلط الزامات لگا کر دادی کو بد ظن کر دیا۔  اسی بہانے انھوں نے مجھے گھر سے نکال دیا۔  تمہیں سینے سے لگائے میں در در کی خاک چھانتی رہی۔  اپنی زندگی میرے لئے اندھیری رات بن گئی اور  راستوں پر شیشے کی کرچیاں بکھری ہوئی تھیں اور مجھے چلنا تھا تمہارے لئے جینا تھا اگر تمہارا ساتھ نہ ہوتا تو میں اسی وقت اپنے آپ کو ختم کر لیتی۔  میں نے گاؤں چھوڑ دیا اور  یہاں ایک چھوٹے  سے اسکول میں ملازمت کرنے لگی گز ارہ مشکل سے ہوتا تھا اس لئے تمہیں یتیم خانہ میں شریک کرا دیا ایک دن میں تم سے مل کرواپس ہو رہی تھی راستے میں ندی کنارے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا جو پہیوں والی کرسی پر بیٹھا سمندرکی بیکراں فضاؤں میں کہیں کھو یا ہوا تھا۔  میں ایک طرف بیٹھی ہوئی انھیں غور سے دیکھ رہی تھی اُن کے پیروں پر قیمتی شال پڑی ہوئی تھی شاید وہ پیروں سے معذور تھے۔  ریت پر بھا گتے دوڑ تے بچوں کو دیکھ کر تمہاری جدائی مجھ پر شاق گزر رہی تھی میری آنکھوں سے گرم گرم پانی بہہ نکلا تب ہی اس بھلے مانس نے اپنے ڈرائیور کے ذریعہ مجھے بلوایا میں آنسو پونچھتی  ان کے قریب  گئی انھوں نے شفقت بھرے لہجہ میں کہا۔

’’بیٹی کیا بات ہے کچھ پریشان معلوم ہو رہی ہو مجھے بتا ؤ شاید میں تمہاری مدد کر سکوں ‘‘  میں  اپنے آنسوؤں پر قا بو پا نے کی کوشش کر رہی تھی انھوں نے پھر کہا  ’’تمہیں کسی طرح کی مدد کی ضرورت ہو تو بتا ؤ یہ میرا کارڈ ہے تم کسی بھی وقت میرے گھر پر آ سکتی ہو ‘‘۔۔۔  ان کے شفقت بھرے انداز نے میری ہمت بندھائی میں دوسرے دن انکے دیئے ہوئے پتہ  پر پہنچ گئی اپنے بارے میں مختصراً بتا یا۔۔۔  انھوں نے پو چھا

’’تم نے اپنا کیا نام بتا یا تھا ؟‘‘

’’جی نصیبہ‘‘

’’ہاں نصیبہ مجھے ایک ایسے ساتھی کی ضرورت ہے جو ہمہ وقت میرے ساتھ رہے میری طبعیت کے لحاظ سے میرا کام کرے دراصل میں بچپن ہی سے ایک چڑچڑ ا اور ضدی انسان رہا ہوں کیونکہ میں نے اپنے والدین کو ہمیشہ ایک دوسرے سے جھگڑ تے دیکھا ہے میری ماں ایک دولت مند گھرا نے کی ان پڑھ عورت تھی اپنی انا کی سیج پر بیٹھی ہوئی عورت اچھی بیوی نہیں بن سکتی اور  مرد ایک عورت کے غصہ اور  جہالت کو کب تک بر داشت کرتا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں میں علیٰحدگی ہو گئی ہمارے چھوٹے  سے خاندان کا شیرازہ بکھر گیا والد نے دو سری شادی کر لی اور  مجھے بورڈ نگ ہاؤ زمیں شر یک کرا دیا پھر کسی نے مجھے پلٹ کر نہیں دیکھا دوسرے بچوں اور  انکے والدین کو دیکھ کر میرے اندر ٹو ٹ  پھوٹ ہوتی رہتی اور  میرا چڑ چڑ اپن بڑھ جاتا۔

بورڈنگ میں محبت اور  ہمدردی نام کی چیز نہیں تھی کوئی میرا اپنا نہیں تھا میں اپنے آپ کو تنہا پا کر کڑھتا رہتا۔  کہتے ہیں کہ وقت زخموں پر مر ہم رکھ دیتا ہے مجھے بھی شاید صبر آ گیا میں اپنی پڑھائی میں لگ گیا۔  وقت گز رتا رہا۔  پتہ نہیں  پھر کب سے والد نے آنا جاتا شروع کیا میری تعلیم ختم ہو گئی وہ مجھے گھر لے آئے و ہاں معلوم ہوا کہ سو تیلی ماں مر چکی ہے میں نے والد کا بزنس سنبھال لیا کچھ  عرصہ بعد انھوں نے زبردستی میری شادی کر دی میں شادی کرنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ مجھے عورت ذات سے نفرت ہو چکی تھی میں اپنی بیوی کو وہ پیار نہ دے سکا جس کی وہ حقدار تھی۔  پیار کے لئے ترسا ہوا ایک انسان کسی کو کیا پیار دے سکتا ہے۔  وہ بچوں کو لیکر امریکہ چلی گئی اب میں کوئی شادی کرنا نہیں چاہتا بس ایک ایسی سمجھدار عورت کو اپنے گھر میں رکھنا چاہتا ہوں جو میرے لئے اچھا کھانا پکائے میرا ہر کام اپنے ہاتھ سے کرے گھر کی ہر چیز پر نظر رکھے اور  میرے غصہ کو خندہ پیشانی سے بر داشت کر سکے میں معقول معاوضہ دینے کے لئے تیار ہوں ، مجھے دو دن میں تمہارا جو اب چاہئے ‘‘ میں نے جواب دیا ’’میں آپ کی خدمت کے لئے تیار ہوں ‘‘۔  جبار صاحب نے سب سے پہلے تمہیں اچھے اسکول میں شریک کروایا اسکول کے ہا سٹل میں تم بہت خوش تھیں میں بھی دلو جان سے جبار صاحب کی خدمت میں لگ گئی انکے ابرو کے اشارے پر اپنا سر تسلیم خم کر دیتی۔  اس طرح اس حویلی میں پند رہ سال  گزر گئے میرے بارے میں صرف بشیرا آپا جانتی تھیں کہ میں کہاں ہوں کیا کرتی ہوں کل بشیرا آپا کا خط آیا تھا معلوم ہوا کہ تمہاری دادی کا انتقال ہو گیا ہے  انھوں نے اپنی آدھی جائیداد تمہارے چچا عباس علی کے نام اور  آدھی تمہارے نام کر دی ہے معلوم ہوا کہ عباس علی یہاں و کیل کے ساتھ آ رہے ہیں تمہارے ماموں بھی ان حالات سے واقف ہیں گاؤں سے ان کی چٹھی آئی تھی وہ بھی آنے والے ہیں ‘‘

امی خاموش ہوئیں تو میں نے کہا ’’امی آپ نے ماموں کو منع کیوں نہیں کیا اب ہم سے ملنے کی کیا ضرورت ہے ہمارے بُرے دِن ختم ہو نے والے ہیں جب ہم پریشان حال تھے کسی نے پلٹ کر نہیں دیکھا ‘‘ماں نے کوئی جواب نہیں دیا۔  تب ہی جبار صاحب  کے ڈرائیور رفیق انکل کے لڑکے سکندرنے آ کر بتایا کہ جبار صاحب نے ماں کو بلوایا ہے اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا۔

’’ارے نازیہ!تم ؟ یہاں ؟ اچانک کیسے آنا ہوا ؟

’’امی نے ٹیلی گرام دے کر بلوایا ہے کچھ ضروری کام ہے ‘‘وہ امی کے ساتھ ہی چلا گیا ہم بچپن ہی سے ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے وہ بھی بوائز ہاسٹل میں ہے پتہ نہیں کیوں وہ اپنا سالگتا ہے۔  امی حواس باختہ سی آئیں اور  بتایا کہ جبار صا حب کی طبعیت بگڑ گئی  ہے اور  انھیں  ہا سپٹل لے جا رہے ہیں۔  ہم سب ہی ان کے ساتھ گئے رات آنکھوں میں کٹ گئی  دوسرے دن شام میں ان کی حالت قدرے سنبھلی تو وکیل کو بلوا کر وصیت نامہ تیار کروایا دو دن بعد حالت پھر بگڑ گئی ڈاکٹر نے بتا یا کہ ان کے دماغ پر فا لج کا اٹیک ہوا ہے ڈاکٹروں نے انکے ٹھیک ہو نے کی امید نہیں دلائی۔ ماں کے آنسو خشک ہی نہ ہوتے تھے یا تو وہ جبار صاحب کے قریب بیٹھی رہتیں یا پھر دعا عبا دت میں مشغول رہتیں لیکن معلوم ہوا کہ انسان کی زندگی اور  موت کے بیچ ایک ایسا موڑ بھی آتا ہے جہاں دوا اور دعا ء دونوں بے اثر ہو جا تے ہیں شام   ڈھلنے سے پہلے جبار صاحب کی میت کو گھر لایا گیا اور  فجر کے ساتھ ہی سپرد خاک کر دیا۔  دوچار دن بعد چاچا عباس علی اور  ان کا لڑکا وکیل کے ساتھ آئے اور  دادی کا وصیت نامہ اور  زمین کے کاغذات ہمارے حوالے کئے۔ چاچا نے امی سے کہا ’’بھا بی مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔ ‘‘

’’جی کہئے ‘‘چاچا نے رفیق انکل اور  سکندر کی طرف دیکھا ماں نے کہا ’’یہ میرے بھائی جیسے ہیں میرا کوئی کام اور  کوئی بات ان سے چھپی نہیں ہے ‘‘تب چاچا گو یا ہوئے۔

’’بھابی کہنا یہ ہے کہ گاؤں میں زمینوں کی قیمت گر رہی ہے تم وہاں رہ کر کھیتی باڑی تو کر نہیں سکتیں بہتر ہو گا کہ اسے فروخت کر دو اور  شہر میں ایک مکان لے لو‘‘۔  ’’گاؤں کے حالات آپ بہتر جانتے ہیں ‘‘۔  ’’ٹھیک ہے۔ ’’تم اس مختا ر نامہ پر دستخط کر دو جیسے ہی زمین کے اچھے دام آئیں گے میں تمہیں اطلاع کر دوں گا دوسری بات یہ کہنی ہے کہ میں ناز یہ کو اپنی بہوبنا نا چاہتا ہوں اسطر ح ہمارے بگڑے ہوئے ہوئے تعلقات بحال ہو سکتے ہیں تمہارا کیا خیال ہے ؟‘‘ماں نے جواب دیا ’’بھائی صاحب میرے بھائی آ جائیں تو ان سے بھی مشورہ کر لوں تب آپ کو بتاؤں گی ‘‘۔۔۔

چاچا کی باتیں سن کر میرے دل میں ٹوٹ پھوٹ سی ہونے لگی ان کا  لڑکا مجھے ایک آنکھ نہیں بھا یا تھا۔  چاچا نے کہا ’’بھا بی تمہیں اپنی زمین اور  بیٹی کے معاملے میں کسی سے مشورہ کرنے کی کیا ضرورت ہے میں دو دن سے اپنا کام چھو ڑ کر یہاں ٹھیرا ہوا ہوں مختار نامہدے دو تو چلا جاؤں پھر کبھی آؤں گا‘‘

’’ز مین کا مختار نامہ آپ کودے سکتی ہوں لیکن بیٹی پنچ کی ہوتی ہے اور  میں پہلے نازیہ سے بات کروں گی ‘‘ماں نے مختار نامہ پر دستخط کر دئے۔  چاچا فوراً چلے گئے۔  میں نے کہا

’’امی آپ نے چاچا کی بات کیوں مان لی سوچنے کے لئے وقت لیا ہوتا اور  یہ چاچا اور  ماموں کے دل میں ہمارے لئے محبت کے سو تے کیوں پھوٹ رہے  ہیں۔ ‘‘

’’ناز یہ تم ٹھیک کہتی ہو میں نے سمجھا کہ یہ لوگ اپنے کئے پر شرمندہ ہوں گے اور  عارفبھائی تو میرا اپنا خون ہے ‘‘ماموں آ گئے۔  برسوں بعد بہن بھائی ملے بڑی دیر تک گلے شکوے ہوتے رہے۔  پھر ماں نے تمام واقعات تفصیل سے بتائے تو مختار نامہ کی بات پر وہ بگڑ گئے ‘‘’’نصیبہ مختار نامہ دے کر تم نے بہت بڑی غلطی کی ہے جن لوگوں نے تمہارے ساتھ کبھی اچھا سلوک نہیں کیا ان کے دل میں آج اچانک بھائی کی بیوی اور  اولا دکی محبت جاگ اٹھی ؟ تم نے یہ کیسے مان لیا کہ زمین فروخت کر کے ایک خطیر رقم تمہارے ہاتھ پر رکھ دیں گے ؟ رہی نازیہ کی بات تو تم خود سوچو شہر کی پڑھی لکھی لڑکی کیا گاؤں میں زندگی گزار سکتی ہے ؟ا سکے لئے میرے بیٹے عادل سے زیادہ منا سب کون ہو سکتا ہے ؟‘‘ماں کے چہرے سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ بڑی کشمکش میں ہیں۔  تب معلوم ہوا کہ جبار صاحب کے وکیل آئے ہیں۔  رسمی سی گفتگو کے بعد وکیل نے جو کچھ کہا وہ سن کر ہم سب حیران رہ گئے انھوں نے بتا یا کہ جبار صاحب نے میری اور  سکندر کے تعلیمی اخراجات کے لئے بیسں بیسں لا کھ بنک میں رکھا دیئے باقاعدہ دینی و عصری تعلیم کے لئے و قف کرتے ہوئے  ٹر سٹ قائم کر دیا ہے وصیت نامہ کی روسے ہمیں جلد از جلد حویلی کو چھو ڑ نا ہے۔  ہم سب گم صم بیٹھے ہوئے وکیل کی طرف حیرت سے تک رہے تھے۔

ماموں نے کہا ’’چلو نصیبہ تم دونوں میرے ساتھ رہو گی میں تمہیں اپنے گھر لے جاؤں گا۔ ‘‘

’’بھائی جان اب میں ایک الگ مکان لے کر ناز یہ کے ساتھ شہر میں رہوں گی  میں رفیق بھائی کا ساتھ چھو ڑ نا نہیں چاہتی وہ برسوں میرے زخموں پر مر ہم رکھتے رہے ہمت اور  تسلی دیتے رہے ہیں ‘‘

’’تم چاہو تو انھیں بھی اپنے ساتھ رکھ سکتی ہو ہما را مکان بہت  بڑ ا ہے ہم آدھا مکان تم سب کو دے دیں گے  ‘‘جانے کیوں ماموں کی باتیں میرے دل میں کھٹک رہی تھیں۔  امی نے رفیق انکل سے پوچھا  تو وہ بخوشی راضی ہو گئے۔  میں نے دیکھا ان کی پلکیں بھیگ گئی تھیں ان کی رضا مندی سے مجھے سکون سا محسوس ہوا۔  ماموں نے کہا ’’نصیبہ تم اپنا مختار نا مہ واپسلے لو تم کہو تو میں عادل کو گاؤں بھیج دوں وہ کسی طرح لے آئے گا ‘‘جیسی آپ کی مرضی ماں نے کہا ہم سب شہر منتقل ہو گئے پُر فضا ء مقام پر کشادہ مکان تھا۔  امتحان شروع ہو نے میں ایک ہفتہ باقی تھا میں نے تیاری  میں دن رات ایک کر دئے اسی دوران تقریباً ً دو بجے لیٹنے کی تیاری کر رہی تھی کہ ماموں کے کمرے سے سر گوشی کے انداز میں غصہ کی آواز آ رہی تھی۔  میرے دل میں تجسس پیدا ہوا شاید میری چھٹی حس کا اشارہ تھا کہ میں نے ان کے دروازے  کے قریب جا کر کان لگا دئے عادل کہہ رہا تھا۔

’’ابو آپ جانتے ہیں میں نادرہ سے محبت کرتا ہوں بچپن سے ہمارا رشتہ طئے ہے میں نازیہ سے شادی کیسے کر سکتا ہوں ؟‘‘

’’عادل بے و قو فی کی باتیں مت کرو آج ناز یہ 50۔  60لاکھ کی مالک ہے نا درہ کو سمجھا منا کر نازیہ سے شادی کر لو چند دن بعد ہم اسے پاگل ثابت کر کے پا گل خانہ بھیج دیں گے وہ سب تم مجھ پر چھو ڑ دو عیش و آرام کی زندگی گزارنے کے لئے محبت سے زیادہ دولت کی ضرورت ہوتی ہے تم اپنے دماغ سے کام لے کر دونوں چیزیں اپنے قبضے میں کر لو۔ سمجھ میں کچھ آ رہا ہے ؟‘‘

’’ابو آپ کا فلسفہ میری سمجھ میں تو آ رہا ہے لیکن عملاً یہ ایک دشوار مر حلہ ہے ‘‘۔  ’’میں نے کہا نا تم سب مجھ پر چھو ڑ دو۔  پہلے تم عباس علی سے وہ مختار نا مہ کسی طرح حاصل کر لو پھر ہم گاؤں کی زمین کا حساب کتا ب کریں گے ‘‘’’ٹھیک ہے جیسے آپ کی مر ضی‘‘

ان دونوں کی گفتگو سن کر میرے ہاتھ پاؤں لرز نے لگے میں پسینے میں نہائی ہوئی اپنے کمرے کی طرف بھا گی اور  بستر میں دبک گئی۔۔۔   صبح نو بجے ماں نے جگا یا میں بستر پر بیٹھی سوچ رہی تھی کہ رات جو کچھ سنا وہ خواب تھا یا حقیقت ؟ میں پوری طرح بیدار ہو چکی تھی ماں کو سب کچھ سنا دیا وہ گم صم بیٹھی سب کچھ سنتی رہیں مجھے خاموش پا کر کہا ’’معلوم ہوتا ہے ابھی کچھ آزمائش باقی ہے ہم بہت جلد اس گھر کو چھو ڑ دیں گے۔ ‘‘

امتحان کی فکر کھائے جا رہی تھی اور  پڑھائی میں میرا دل نہیں لگ رہا تھا۔  شام ڈھلتے ہی ایک انجانا ساخوف طاری ہو جاتا۔  ماں کے بیڈ کے قریب اپنا بیڈ لگا کر پڑھنے کی کوشش کرتی رہی شاید سکندر بھی اپنے کمرے میں پڑھ رہا تھا۔  میری نظر اچانک گیٹ کی طرف اُٹھ گئی ایک سا یہ سا لپکتا  نظر آیا پھر دھم  سے کسی کے کودنے کی آواز آئی کودنے والے کے ہاتھ میں شاید بریف کیس تھا وہ ماموں کے کمرے کی طرف بھا گا پھر دروازہ بند ہونے کی آواز آئی تب ہی کسی گاڑی کے بریک چر چرائے گیٹ کھلا اور  کچھ کانسٹیبل اور  پولیس انسپکٹرگھس آئے وہ کسی کو تلاش کر رہے تھے گڑ بڑ اور  شور کی وجہ سے سب ہی جاگ گئے ہم نے باہر نکل کر پو چھا ’’کیا بات ہے ؟ آپ لوگ کسے تلاش کر رہے ہیں ؟‘‘’’ابھی ابھی عادل نامی شخص اسی گھر میں گھسا ہے کہاں ہے وہ ؟‘‘

’’کیا کیا ہے اس نے۔ یہ اسی کا گھر ہے ‘‘میرا دل اچھل رہا تھا ’’گاؤں میں عباس علی کا قتل کر کے وہ بھاگ نکلا ہے ہم اسی کو تلاش کر رہے ہیں کہاں ہے وہ جلدی بتاؤ ورنہ تم سب کی خیر نہیں ؟’’وہ اس طرف ان کا کمرہ ہے شاید وہ اپنے کمرے میں ہو۔ ‘‘

سب اس طرف دوڑ گئے اور  کمرے کا دروازہ پیٹنے لگے پھر دھکے مارکر اسے تو ڑ دیا۔  ماموں اور  عادل اندر مو جود تھے۔

’’تم میں عادل کون ہے ؟ عباس علی نے دم تو ڑ نے سے پہلے اس کا نام اور  پتہ بتا یا ہے ‘‘انسپکٹر نے دونوں کی طرف گھورتے ہوئے کہا عادل نے آگے بڑھ کر کہا ‘‘میں ہوں عادل ‘‘انسپکٹر نے اس کے ہاتھ میں ہتھکڑی لگا دی اور  ماموں کو بھی ساتھ چلنے کہا ماموں نے اپنے دونوں ہاتھ سینے پر رکھے اور  چکرا کر گر پڑے۔

٭٭٭

 

 

وقت کی کروٹ

 

صبا نے پھر در زنداں پہ آ کے دستک دی

سحر قریب ہے دل سے کہو نہ گھبرائے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاداب اسے اپنی جانب آتا ہوا دیکھ کر بیرونی دروازہ کی طرف لپکی دوسرے ہی لمحہ وہ دولت خان کی بانہوں میں تھی جو اسے دبوچتے ہوئے اناپ شناپ بک رہا تھا۔  شاداب دعائیں مانگ رہی تھی میرے مالک آج تو ہی مجھے بچا سکتا ہے تو اپنے بندوں کی التجاسنتا ہے۔ دلوں کا حال جانتا ہے۔ اپنی قدرت کا کرشمہ بتا دے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ا سکا ذہن ہمیشہ عجیب و غریب خیالات میں الجھا رہتا انجانے غم گمنام اندیشے ، بے نام و سو سے۔  ان دیکھے خنجر اسے زخمی کرتے رہتے وہ جس جہاں میں رہتی تھی وہاں اندھیروں کا راج تھا امید کی کرنوں کا گزر نہیں تھا اسے محسوس ہوتا کہ آنکھوں میں کھارے آنسوؤں کا ایک سمندر چھپا ہے جو بہہ جا نے کو بے قرار ہے۔

چار سال پہلے شا داب کے سر سے سائبان ہٹ گیا تھا  تیتیس سالہ نوجوان کی بیوہ زندگی کی خار دار را ہوں پر چلچلاتی دھوپ میں اپنے بکھرے و جو دکو سمیٹے تنہا کھڑی تھی اس کے والد نے اپنی زند گی میں بہت کوشش کی کہ اس کا گھر دو بارہ بسا دیں لیکن کوئی نیک بندہ اس ایک لڑکی کی ماں کو قبول کرنے تیار ہی نہ ہوا تھا۔  آج اس کی بیٹی مہتاب نے اعلی نشانات سے انٹر پاس کیا تھا وہ بہت خوش تھی لیکن افسر دہ اور  فکر مند بھی تھی اس کی سوچوں میں ڈوبی ہوئی آنکھوں نے چہرے کو اور  بھی پر کشش بنا دیا ہوا تھا۔  وہ تھی بھی خو بصورت اسے دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ ایک سترہ سالہ لڑکی کی ماں ہے مہتاب ماں سے زیادہ حسین تھی اور  یہی حسن ماں بیٹی کے لئے و بال جان بن گیا تھا۔  شا داب کے والد نے اس کے نام پر ایک بڑی رقم بینک میں جمع کر وادی تھی اسیر قم سے اس نے روزگار کا  ذریعہ نکال لیا تھا مہتاب نے انٹر کے ساتھ کمپیوٹر کے کو رسس بھی کئے تھے۔  اس لئے شاداب نے اس کی خواہش پر کمپیوٹر اور  ٹا ئپ رائٹنگ انسٹیٹوٹ کھول لیا تھا لیکن محلے کے آوارہ لڑکوں نے ان کا جینا حرام کر دیا۔  اگر وہ پو لس میں شکایت درج کراتیں یا کسی سے کچھ کہتیں تو ان ہی کو نشان ملامت بنا یا جا تا،  چند بزرگ لوگوں کے ذریعہ انھیں تنبیہ کی جاتی تو چند دن کے لئے سب ادھر ادھر ہو جا تے پھر اسی چال پر آ جاتے زندگی کی سنگلا خ چٹانوں میں جینے کا راستہ بنانا مشکل معلوم ہو رہا تھاکسی نے مشورہ دیا کہ وہ سیٹھ دولت خاں کی مدد لیں وہی ان غنڈوں کو سبق سکھائیں گے ایک دن ہمت کر کے دونوں  دولت خاں کے محل نما مکان پر گئیں چوکیدار نے آنے کا مقصد پو چھا پھر سیٹھ کو اطلاع دی گئی انھیں اندر آنے کی اجازت مل گئی دولت نے ماں بیٹی کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا وہ سلام کر کے کھڑی ہوئی تھیں اور  سیٹھ کی تیز نظریں جیسے انکے جسم میں چھید کر رہی  تھیں چند لمحوں بعد جب دولت کو ہوش آیا تو اس نے دونوں کو بیٹھنے کے لئے کہا اور  آنے کا مقصد پوچھا شاداب کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔  مہتاب نے ہمت کر کے بتا یا کے محلے کے چند آوارہ لڑکے انھیں چھیڑ تے اور  نت نئی شرارتیں کرتے ہیں وہ عاجز آ چکی ہیں سیٹھ دو لت خاں نے کہا ’میرے ہو تے ہوئے محلے کے لڑکوں کی یہ ہمت ؟میں کل ہی ان سے بات کروں گا کیا تم پڑھ رہی ہو ؟ ‘‘دولت نے مہتاب سے پوچھا ’’جی میں نے انٹر کر لیا ہے اور  اب لڑکیوں کے لئے ٹائپ اور  کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ چلاتی ہوں ‘‘۔ ’’یہ تو اچھی بات ہے کل تم میرے کچھ کاغِذات ٹائپ کر کے لا دینا جو بھی معاوضہ ہو گا دیدیا جائے گا‘‘ مہتاب نے ماں کی جا نب دیکھا اور  خا موش ہو گئی۔  وہ دونوں دو بارہ اُس جگہ جا نا نہیں چاہتی تھیں کوئی انجا نا سا خوف انھیں روک رہا تھا دوسرے دن شا داب نے ہمت کر کے کہا کہ وہ اکیلی ہی جا کر کاغذات لے آئے گی بیٹی نے روکا لیکن شاداب اسے اپنے ساتھ لے جانا نہیں چاہتی وہ جب وہاں پہنچی تو چوکیدار نے اسے روکا نہیں لیکن اس کی آنکھیں کچھ کہہ رہی تھیں شاداب نے اس کے چہرہ کی طرف نہیں دیکھا اور  اندر چلی گئی۔  آخر وہی ہوا جس کا اسے ڈر تھا۔

دولت خاں ہاتھ میں گلاس تھا مے بیٹھا ہوا تھا سا منے میز پر شراب کی بو تل رکھی تھی۔  شاداب کو دیکھتے ہی اس کی با چھیں کھل گئیں اس نے کہا ’’آؤ آؤ!میں جانتا تھا تم ضرور آؤ گی ‘‘اس کے بے تکلفانہ انداز اور  لب و لہجہ نے شاداب کو سہما دیا اس کے ہاتھ پاؤں منجمد سے ہو نے لگے چہرہ پر پسینہ کی بوندیں ابھر آئیں ’جائے ر فتن نہ پائے ما ندن، والا معاملہ تھا اس کا دماغ ماؤف ہو رہا تھا ریٹرھ کی ہڈی میں سر دسی لہر سننا رہی تھی دولت کی آواز نے اسے چونکا دیا۔

’’گھبراؤ نہیں اطمینان سے بیٹھو میں تمہیں ہر روز کام دیا کروں گا معقول معاوضہ بھی دیا کروں گا بس تم اسی طرح ہر روز آیا کرنا‘‘ شاداب کھڑی ہو گئی سرد ہو تے ہاتھوں سے چہرہ کا پسینہ صاف کرتے ہوئے بمشکل کہا ’’میں اب چلتی ہوں مجھے کام نہیں چاہئے معافی چاہتی ہوں ‘‘دولت خاں کے چہرہ پر وحشیانہ مسکراہٹ تھی شاداب کی طرف لڑکھڑاتے قدموں سے بڑھتے ہوئے کہا

’’ا بھی آئے ابھی بیٹھے ابھی دامن سنبھا لا

تمہاری جاؤں جاؤں نے ہمارا دم نکالا ‘‘

شا داب اسے اپنی جانب آتا ہوا دیکھ کر بیرونی دروازہ کی طرف لپکی لیکن دوسرے ہی لمحے وہ دو لت خاں کی بانہوں میں تھی جواسے دبوچتے ہوئے انا پ شناپ بک رہا تھا شاداب دعائیں ما نگ رہی تھی’’ میرے مالک آج تو ہی مجھے بچا سکتا ہے تو اپنے بندوں کی التجا سنتا ہے دلوں کا حال جانتا ہے اپنی قدرت کا کر شمہ بتا دے مجھے شیطان کے پنجے سے چھڑا لے بتا دے کہ تو آسمانوں میں ہے اور  سب کچھ دیکھ رہا ہے ‘‘۔  اسی وقت گیٹ کھلنے کی آواز کے ساتھ ہی کسی گاڑی کے پہیوں میں بر یک لگا نے کی آواز آئی دولت نے ایک جھٹکے سے شاداب کو الگ کیا اور  دروازے کی جا نب دیکھنے لگا نشہ ہرن ہو چکا تھا ایک لحیم شحیم سانوے رنگ کی عورت نہایت قیمتی لباس زیب تن کئے دندناتی اندر داخل ہوئی اس کے پیچھے انیسں بیسں سال کا ایک لڑکا بھی تھا ’’او ہو یہاں عیش کے سامان سجائے بیٹھے ہو مجھ سے کہا تھا کہ کام بہت ہے مزید چند دن یہاں ٹھیر نا پڑے گا! تو یہ کام ہو رہا ہے ہاں ؟‘‘ ’’نا درہ میری بات تو سنو!مجھے کچھ کاغذات ٹائپ کروانے تھے و ہی دینے کے لئے اس عورت کو یہاں بلوایا تھا محلے کی غریب عورت سمجھ کر اسے کام دینا چاہا تھا لیکن یہ تو یہاں چوری کی نیت سے آئی تھی یہ دیکھو! میرا سونے کا لائٹر اور  گھڑی لے کر بھاگ رہی تھی کہ میں نے پکڑ لیا ‘‘۔  شا داب شیطان کے چنگل سے چھوٹ گئی تھی اسے ما لک حقیقی پر پیار آ گیا وہ رو پڑی اس الزام سے بھی وہی بری کرے گا اس نے آگے بڑھ کرنا درہ کے پاؤں پکڑ لئے اور کہا

’’آپ یقین کریں بیگم صاحبہ یہ صاحب مجھ پر جھوٹا الزام لگا رہے ہیں کام دینے کے بہانے یہاں بلوا کر مجھے بے عزت کیا ہے یہ مجھے زبردستی روک رہے تھے اسی دوران لائٹر اور  گھڑی یہاں گر گئے آپ خود صحیح حالات کا اندازہ کر سکتی ہیں ان صاحب کی حالت دیکھ کر میں اسی وقت لوٹ جانا چاہتی تھی مگر ‘‘۔  نا درہ نے آؤ دیکھا نہ تا ؤ دولت خاں پر  گھونسوں کی بارش شروع کر دی ’’تم نے جس گھر کو عیاشی کا اڈہ بنایا ہے وہ میرا ہے یا تمہارے باپ کا میرے باپ نے تمہیں فرش سے اٹھا کر عرش پر بٹھا دیا اور  تم اپنی اوقات بھول گئے ؟ ہمیں بے وقوف بناتے رہے کئی دن سے تمہارے بارے میں سن رہی تھی اور  آج رنگے ہاتھوں پکڑ لیا اب تمہیں میرے باپ کی عدالت سے سزا ہو گی تب تک نہ تم یہاں سے باہر جاؤ گے نہ کوئی اندر آئے گا ‘‘نا درہ نے باہر آ  کر دروازہ بند کر دیا۔  شاداب کے دماغ میں اتھل پتھل ہو رہی تھی کہ مردوں کی اس دنیا میں مردوں کے بنائے ہوئے قا نون مرد ہی کیوں تو ڑ تے ہیں اور  کبھی کبھی عورت کے ہاتھوں سزا پا تے ہیں ایسے احسان فرا موش شوہر کو سزا ملنی ہی چاہئے۔  نا درہ شا داب کا ہاتھ پکڑے اسے کھسیٹتی ہوئی دوسرے کمرے میں لے جا رہی تھی تب ہی مہتاب آ گئی ماں کی واپسی میں دیر ہو جانے پر وہ گھبرائی ہوئی آئی تھی۔  یہاں آنے کے بعد اسے سمجھ میں نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے ؟ اس نے آگے بڑھ کرنا درہ کا ہاتھ پکڑ لیا ’’آپ میری ماں کو کہاں لے جا رہی ہیں انھوں نے کیا کیا ہے آپ مجھے بتائیں کیا ہوا ہے ؟‘‘

’’اچھا تم ان کی لڑکی ہو ادھر آؤ ہم اس کمرے میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں ‘‘نادرہ کی ہمدردی پا کر ماں بیٹی نے اپنے تمام حالات بتا دئے تب نادرہ نے سمجھا یا ’’دیکھو شاداب تم جوان ہو خوبصورت ہو اور  ایک جوان و حسین بیٹی کی ماں ہو تم کب تک یونہی تنہا ان حالات کا مقابلہ کرو گی بہتر ہو گا کہ کسی شریف آدمی کو سہارا بنا کر زندگی گزار لو ‘‘۔

’’جی میرے والد نے بہت کوشش کی تھی لیکن ایک لڑکی کے ساتھ مجھے قبول کرنے کوئی تیار نہ تھا اب تو بیٹی بھی بڑی ہو گئی ہے میں اس کی شادی کے لئے فکر مند ہوں میرے پاس اتنی سکت نہیں ہے کہ میں اسے دلہن بنا کر عزت کے ساتھ رخصت کر سکوں اور  اس دور میں تو لڑکے والے اپنے لڑکوں کو سکوں میں تول رہے ہیں اب آپ ہی بتائیں میں کیا کروں ‘‘

نادرہ:۔ ’’شاداب اس دنیا کی سب سے بڑی حقیقت روٹی ہے اور  پیٹ بھر روٹی کھانے کے لئے پیسے کی ضرورت ہے اور  پیسہ کمانے کے لئے محنت اور  ذہانت کی ضرورت ہے آج روٹی کپڑے کے لئے ایک مرد کی غلامی ضروری نہیں ہے آج کی عورت بہت کچھ کر سکتی ہے اور  کر رہی ہے عزت کے ساتھ پیہ کما رہی ہے بس ذراسی ہمت کرنی ہو گی زندگی ایک بار ملتی ہے اس خوبصورت زندگی کو رو کر گزار نا کفران نعمت ہو گا ہر انسان کی زندگی میں اچھے اور  برے دن ضرور آتے ہی‘‘’’آپ جیسا کہیں میں ویسا ہی کرنے کے لئے تیار ہوں ‘‘شاداب نے پر یقین لہجے میں کہا۔

’’ٹھیک ہے تم اب اپنے گھر جا ؤ میں کل تمہارے گھر پر ملوں گی اور  آگے کیا کرنا ہے بتاؤں گی۔ ‘‘عامر تشکر بھری نگاہوں سے ماں کی طرف دیکھ رہا تھا پھر شاداب اور  مہتاب کی طرف دیکھ کر مسکرایا جیسے کہہ رہا ہو ’’کتنی اچھی ہے نا میری ماں ؟‘‘

وہ دونوں ایک نیا عزم لئے کھڑی ہو گئیں جیسے انھیں اپنی منزل کا پتہ مل گیا ہو! نادرہ نے انھیں گھر پر چھوڑ ا اور  چلی گئی دوسرے دن وہ مژدۂ جانفزاء بن کر آئی۔  آج وہ بہت اچھے موڈ میں تھی شاداب اور  مہتاب کو اپنے سامنے بٹھا یا اور  گو یا ہوئی میں تم دونوں کے لئے ایک اچھی اسکیم لائی ہوں اب تمہیں اپنی ہمت ’ محنت اور  ذہانت سے کام لینا ہو گا تم دونوں پڑھی لکھی ہو ایک اسکول قائم کر لو اس کے ساتھ کمپیوٹر اور  ٹائپ رائٹنگ انسٹیٹو ٹ بھی ہو گا پیسہ میں لگاؤں گی اور  گا ہے ما ہے تم سے ملتی اور  تمہاری رہنمائی کرتی رہوں گی کیا خیال ہے مہتاب نے مارے خوشی کے تالیاں بجاتے ہوئے کہا۔

’’آنٹی یہ میری دیرینہ خواہش تھی کہ میں اچھے پیمانے پر اسکول چلاؤں آپ نے میری پسند کا کام دیا ہے اب دیکھئے ہم دونوں مل کر کیا کرتے ہیں ‘‘بہت جلد انھوں نے اپنے محلے سے بہت دور شاندار پیمانے پرا سکول قائم کر لیا اور  زندگی کی دوڑ میں شا مل ہو گئیں نادرہ اور  عامر اکثر اسکول آ جا تے اور  ان دونوں کی کار کر دگی سے محظوظ و مطمئن ہو تے  اسی دوران مہتاب اور  عامر ایک دوسرے کے قریب آ گئے ایک دن اچانک نادرہ نے بتا یا کہ عامر اعلیٰ تعلیم حا صل کرنے کے لئے اپنے ماموں کے پاس امر یکہ جا رہا ہے وہ بھی اس کے ساتھ جا رہی ہے ہو سکتا ہے جلدی واپس آ جائے یا دیر بھی ہو سکتی ہے دو تین سال کے عرصہ میں شاداب کے اسکول کا شمار شہر کے اچھے اسکولس میں ہو نے لگا ماں اور  بیٹی نے محنت اور  لگن سے اپنا ایک مقام بنا لیا اب نہ صرف بیٹی کے لئے بلکہ ماں کے لئے بھی اعلی خاندان کے رشتے آنے لگے لیکن شاداب نادرہ کے صلاح مشورہ کے بغیر کوئی قدم اٹھا نا نہیں چاہتی تھی۔  اس نے کسی کو کوئی جواب نہیں دیا وہ نادرہ سے بات کرنا چاہتی تھی لیکن فون کی لائن نہیں مل رہی تھی دو چار دن یونہی گزر گئے۔  اچانک نادرہ کا فون آ گیا شاداب نے لپک کر فون اٹھا لیا نادرہ کہہ رہی تھی ’’شاداب تم اور  مہتاب چھٹیاں شروع ہوتے ہی یہاں آ جاؤ میرے سامنے کچھ مسائل ایسے ہیں جن کا حل تمہاری مدد سے نکالنا چاہتی ہوں ویسے چھٹیاں ہونے میں کتنے دن باقی ہیں ‘‘نادرہ نے ایک ہی سانس میں کہہ دیا۔  ’’جی یہی کوئی ہفتہ دس دن باقی ہیں ‘‘میں خود آپ سے اپنے مسائل کے سلسلے بات کرنا چاہتی تھی تین دن سے کوشش میں تھی لائن نہیں لگ رہی تھی لیکن آپ کچھ پریشان سی معلوم ہو رہی ہیں کیا بات ہے مجھے بتائیں نا ’’بات بے حد اہم اور  خاص ہے یہاں آ جاؤ تب ہی بتاؤں گی ویسے پریشانی کی بات نہیں ہے بس تمہارا شدت سے انتظار ہے میں نے ویزا اور  ٹکٹ کا انتظام کر دیا ہے بس تم چھٹیوں کے حساب سے سیٹ ریزرو Reserve کروا لینا، اچھا خدا حافظ اپنی صحت کا خیال رکھنا مہتاب کو پیار لینا‘‘شاداب اور مہتاب امریکہ کیلئے روانہ ہو گئیں زندگی میں پہلی بار ہوائی سفر پر نکلی تھیں۔  طیارے میں بیٹھے ہوئے بار بار ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر یقین کرنا چاہتی تھیں کہ وہ خواب میں نہیں بلکہ حقیقت میں پلین میں بیٹھی ہیں کئی گھنٹوں کی مسافت طئے کرنے کے بعد وہ اپنے خوابوں کے شہر شکاگو پہنچ گئیں۔  نادرہ انھیں لینے آئی تھی دو دن آرام لینے کے بعد وہ تازہ دم اور شگفتہ ہو گئی تھیں امریکہ کی آب و ہوا نے انکے حسن کو توبہ شکن بنا دیا تھا تیسرے دن نا درہ انھیں شہر گھمانے لے گئی اور  راستے میں ڈھیر ساری باتیں ہوتی رہیں ایک ایک مشہور جگہ دکھاتی رہی باتوں باتوں میں نادرہ نے بتایا کہ ’’چھ ماہ قبل اس کی بھاوج کا اچانک انتقال ہو گیا ہے اور  یہ کہ وہ شاداب کو اپنی بھاوج کی جگہ پر دیکھنا چاہتی ہے اور  مہتاب کو اپنی بہو بنانا چاہتی ہے ‘‘۔  شاداب کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ دنیا کے سب سے اونچے مینار پر کھڑی ہو اس کا دل بری طرح دھڑ ک رہا تھا زبان لڑکھڑا رہی تھی اور  لڑکھڑاتی زبان دلی کیفیت کے اظہار کے لئے صحیح الفاظ ادا نہیں کر سکتی اسے اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا۔  اس نے اضطراری کیفیت میں نا درہ کے ہاتھ کو تھام لیا آج وہ اس منزل پر تھی جہاں پہنچ کر کوئی آرزو کوئی تمنا نہیں رہ گئی تھی حیرت اور  مسرت اس کی ڈبڈبائی آنکھوں سے عیاں تھی۔

٭٭٭

 

 

اور  ہم غبار دیکھتے رہے

 

رات کا ماجرا کس سے پوچھوں شمیم

کیا بیتی بزم پر تیرے اٹھ جانے کے بعد

لذت سجدہ     سنگِ در       کیا    کہیں

ہوش ہی کب رہا سر جھکا دینے کے بعد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منجمد جذبات میں ہلچل سی ہو رہی تھی جیسے ساکت پانی میں کسی نے کنکری پھینک دی ہو رات بستر پر لیٹی وہ کروٹیں بدلتی رہی خوش حال ،  خوش اخلاق اور  خوش شکل باس اس کے مشام جاں میں اترتا رہا دل چپکے چپکے سرگوشی کر رہا تھا۔ تو یک ننھی چڑ یا ہے تیرے نازک پروں میں قوت پرواز کب تک رہیگی۔  شکاری رحم دل ہے اس کی اسیر ہو جا اسی میں تیری عافیت اور  پرسکون عاقبت بھی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سال کی آخری رات تھی اور  محفل پورے شباب پر تھی ہر کوئی اپنے رنگ میں مست دبے خود تھا۔ شائستہ حیرت سے سب کچھ دیکھ رہی تھی ایسی محفل میں شریک ہو نے کا یہ پہلا موقع تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ تعلیم یافتہ دولتمند لوگ شراب کے نشہ میں چور ہو کر نئے سال کا استقبال اس طرح کرتے ہیں۔  نت نئے ڈیزائن کے قیمتی ملبوسات زیب تن کئے بیوٹی پارلر سے میک اپ کر وائی خواتین ایسے معلوم ہو رہی تھیں جیسے وہ ایک دوسرے کو مات دینے کی ٹھان کر آئی ہوں۔  شائستہ سوچ رہی تھی آخر باس نے اس محفل میں اسے کیوں مد عو کیا۔  ویسے اسٹاف کی دو سری خواتین بھی مو جود تھیں ورنہ وہ زیادہ دیر اس جگہ نہیں ٹھہر سکتی تھی۔  اپنے باس کو دیکھ کر اسے تعجب ہوا تھا کہ اعلی تعلیم یافتہ با وقار باس شراب پی کر بے خودی میں قہقہے لگا رہے تھے وہ ان کی بہت عزت کرتی تھی لیکن انھیں اس رنگ میں دیکھ کر مایوس اور  اداس ہو گئی۔  وہ سوچ رہی تھی کیا فرق ہے اس کے مرحوم شوہر اور  باس میں ؟ وہ سستی شراب پی کر گھر آتا الٹی سیدھی بحث تکرار کے بعد نڈھال ہو کر سورہتا اسی شراب نے ایک دن اس کی جان لے لی۔  اور  باس اعلی قسم کی شراب پی کر جانے کو نسا غم بھلانے کی کوشش کرتے ہیں۔  محفل کے شورسے بے خبر شائستہ سوچوں کے دھارے میں بہہ رہی تھی۔۔۔  وہ ایک متوسط گھرانے کی پروردہ تھی متوسط طبقہ ایسا ہوتا ہے جیسے ہوا میں کوئی معلق چیز!اس طبقہ کو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کیلئے زندگی کے دکھوں اور تکلیفوں کے ساتھ بڑی جدوجہد کرنی پڑتی ہے یہاں زندگی ایک روگ ہوتی ہے روٹی کپڑے مکان کا روگ، نا کام آرزوؤں اور  نامرادیوں کا روگ۔  اس نے انٹرپاس کیا تھا ملازمت کر کے والدین کا سہارا بننا چاہتی تھی کہ اچانک ماموں کے لائے ہوئے ایک رشتے کیلئے والد نے ہاں کر دی اور بلا تحقیق اسے ایک اجنبی کے حوالے کر دیا وہ انکار بھی نہ کر سکی کیوں کہ والد اپنی گرتی ہوئی صحت سے مایوس ہو چکے تھے اور  جلد از جلد بیٹی کی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جانا چاہتے تھے۔  شائستہ نے مقدر کے ساتھ سمجھو تہ کر لیا اور  اس شخص کو راہ راست پر لا نے کی کوشش کر کے تھک گئی انجام وہی ہوا جو ہو نا تھا شوہر کے بعد والد بھی چل بسے زندگی کے اس مو ڑ پر وہ تنہا کھڑی شمع کی لو کی طرح لرز رہی تھی لیکن وہ بو کھلائی نہیں جوان اور  خوبصورت تھی پڑھی لکھی اور  ذہین تھی زندگی کا سفرتنہا طے کرنے کی ہمت رکھتی تھی لیکن وہ ماں کیلئے فکر مند تھی اور ماں اس کے لئے پریشان تھی اور سوچتی رہتی کہ کوئی تو ان کا غم با نٹنے کے لئے آئے گا خون کے رشتے سہارا دیں گے زخموں پر ہمدردی کا مر ہم رکھیں گے تسلی دے کر ہمت بندھائیں گے لیکن شائستہ نے محسوس کر لیا کہ سب چہرے بدل چکے ہیں تمام کردار ریت کے نشانوں کی طرح مٹ گئے ہیں لہجے تندو تیز ہو گئے ہیں انھیں دیکھ کر دروازے بند کر لئے جاتے ہیں وہ اس دنیا کی حقیقت کا مکر وہ چہرہ پہچاننے لگی تھی۔  بڑی بھاگ دوڑ کے بعد اسے ایک آفس میں ملازمت مل گئی۔  جانے کیوں باس اس پر مہربان تھے معقول تنخواہ پر اس کا تقرر کر لیا تھا۔  سوچ میں ڈوبی ہوئی غم نا ک اور  نمناک آنکھوں والے باس اسے اچھے لگے تھے۔

شائستہ اپنی لامتناہی سوچوں کے حصارسے اس وقت باہر نکلی جب گھڑ یال نے بارہ کا گجر سنایا چند سکنڈ کے لئے لائٹ آف ہوئی اور  کھل گئی ساتھ ہی تالیوں اور  قہقہوں کا ایک شور بپا ہوا کچھ دیر بعد محفل بر خو است ہو گئی۔  شائستہ رات بھر بے کل سی رہی ذہن کچی لکڑی کی طرح سلکتا رہا دو سرے دن وہ آفس میں بجھی بجھی سی تھی اس کی خاموشی کو صفی احمد نے محسوس کیا اپنے کمرے میں بلوایا چند لمحے اسے غور سے دیکھنے کے بعد گو یا ہوئے!

’’کیا بات ہے تم آج اداس سی لگ رہی ہو طبیعت کیسی ہے ؟ والدہ کیسی ہیں ؟کیا تھک گئی ہو؟‘‘

جی۔ جی کوئی خاص بات نہیں ہے والدہ بھی ٹھیک ہیں ‘‘’’کچھ تو ہے جس کی وجہ سے تم پریشان معلوم ہو رہی ہو۔  تم ایسا کرو آفس ٹا ئم کے بعد مجھ سے ملو کچھ بات کرنی ہے ‘‘۔  ’’جی بہتر‘‘ وہ کچھ سوچتی ہوئی باہر آ گئی۔

آفس کے سبھی لوگ جا چکے تھے شائستہ صفی احمد کے کمرے میں گئی وہ سگریٹ منہ میں دبائے ڈائری کی ورق گردانی کر رہے تھے شائستہ سرجھکائے بیٹھی تھی۔ باس نے ڈائری بند کی اور  اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔ ’’شائستہ بغیر کسی تمہید کے کہنا چاہتا ہوں کہ میں تھیں پسند کرنے لگا ہوں تمھیں اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہوں ،  کیا میرا ساتھ دو گی؟‘‘شائستہ حیرت زدہ سی صفی کی طرف دیکھ رہی تھی بمشکل اس نے کہا۔ ’’سر یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں آپ شادی شدہ مر داور  دو بچوں کے باپ ہیں آپ اپنی آسودہ زندگی میں پر سکون ہیں مجھ نا چیز کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کا کیا مطلب ہے میں سمجھی نہیں ؟ ‘‘’’تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ دو لت  اور آسائش کسی انسان کو سکون دے سکتے ہیں ؟ میں اپنی زندگی کا رونا تمھارے آگے رونا نہیں چاہتا صرف اتنا کہوں گا کہ میں اپنے موجو دہ حالات سے مطمئن نہیں ہوں میری بیوی اسری کو اپنے گھر اور  بچوں کی فکر ہے نہ میری پر واہ اپنی سہیلیوں کلب اور پارٹیوں کی رنگین دنیا میں کھوئی ہوئی ہے اسے یاد نہیں کہ وہ کسی کی بیوی اور  دو بچوں کی ماں بھی ہے مجھے سکون کی تلاش ہے بس‘‘’’سر میں اوسط گھرانے کی پلی ہوئی ایک بیوہ ہوں میرا شوہر شرابی تھا خوب پیتا تھا اور ایک دن شراب اسے پی گئی۔  سر!آپ بھی تو شراب کے رسیا ہیں۔  ویسے میں آپ کے لائق نہیں ہوں۔ ‘‘

’’ہاں شائستہ میں پیتا ہوں۔  جب انسان کی زندگی میں کوئی خوشی نہ ہو کوئی اسے پو چھنے والا اس کا اپنا نہ ہو تو وہ کیا کرے اس شخص کے دل کا حال تم نہیں جان سکتیں جس نے اپنی بیوی کو ہر طرح کا سکھ اور  خوشی دینے کے باوجود سکون کا ایک پل بھی نہ پا سکا ہو بیوی شوہر کے ہی دو ست کے ساتھ عاشقی کرنے لگے اس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے لگے تو اس سے زیادہ بے عزتی و بے سکونی اور  کیا ہو سکتی ہے ؟ رہی تمھاری بات تو میں یہی کہوں گا کہ تم جیسی سلجھی ہوئی ذہین اور سنجیدہ لڑکی گھر کو جنت کا نمو نہ بنا سکتی ہے یہ تمھاری بد قسمتی ہے کہ کسی نے تمھاری قدر نہیں کی۔  اب تم آفس کے کام سے واقف ہو چکی ہو میں نے دیکھا ہے تم بڑے سلیقہ سے بات کرتی ہو تمھیں گفتگو کرنے کا فن آتا ہے یہ سب کو نہیں آتا۔  میں نے بارہا اپنی بیوی کو سمجھایا ہے کہ وہ گھر اور  دفتر کے معاملات میں میرا ساتھ دے میرے قدم سے قدم ملا کر چلے لیکن اس کے شوق اس کی سوچ اس کی دنیا ہی الگ ہے۔  ‘‘

سربرانہ مانیں تو ایک بات پوچھوں ؟

’’ہاں ہاں پوچھو‘‘

’’آپ کے وہ کون سے دو ست ہیں جن سے میڈم قریب ہو گئی ہیں جہاں تک میری عقل کام کرتی ہے میں کہوں گی کہ کوئی شریف عورت اس طرح مرد کو دھوکہ نہیں دے سکتی۔  ہو سکتا ہے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہو‘‘

’’نہیں شائستہ کوئی مرد غلط فہمی میں مبتلا ہو کر بیوی پر الزام نہیں لگاتا تم رشید سے واقف ہو جو اکثرآفس آتا ہے اور گہری نظروں سے تمھیں غورسے دیکھتا ہے وہ میرے گھر بھی آتا ہے تقریباً ہر روز اسریٰ سے فون پر بات کرتا ہے ‘‘’’بیوی سے فون پر بات کر نا تو عاشقی کا ثبوت نہیں ہے سریقیناً آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ ‘‘’’وہ اکثر میری غیر موجود گی میں بھی آتا ہے اور فون پر بھی ایسے وقت بات کرتا ہے جب میں گھر پر نہیں ہوتا مجھے چوکیدارسے سب کچھ معلوم ہوتا ہے۔  اب تم بتاؤ تمھارا کیا خیال ہے کیا میں امید رکھوں کہ تم میری پیش کش کو رد نہیں کرو گی ؟ ویسے آج کی اس ملاقات کی یادگار یہ انگوٹھی قبول کرو خاص تمھارے لئے خریدی ہے۔  ‘‘

چھوٹا ساہیراجڑی ہوئی خوبصورت انگوٹھی شائستہ کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی دل دھڑ ک رہا  تھا منزل کا روشن مینار اس کے سامنے تھا ماضی کی محرومیاں کچو کے لگا رہی تھیں آرزوؤں کی کہکشاں تصور میں بکھر رہی تھی زندگی کو ہر  چیز کی ضرورت ہوتی ہے روٹی کپڑا مکان اور  محبت خواہ وہ جھوٹی ہی کیوں نہ ہو۔  شا ئستہ نے سنبھل کر کہا ’’سرمجھے سوچنے کے لئے کچھ وقت دیں ‘‘

شش و پنج کے سمندرمیں غلطاں وہ چپ چپ سی اٹھ کر چلی گئی منجمد جذبات میں ہلچل سی ہو رہی تھی جیسے ساکت پانی میں کسی نے کنکری پھینک دی ہو۔  رات بسترپر لیٹی وہ کروٹیں بدلتی رہی۔  خوش حال خوش اخلاق خوش شکل باس اس کے مشام جاں میں اترتا رہا۔  دل چپکے چپکے سرگوشی کر رہا تھا کہ تو ایک ننھی سی چڑ یا ہے نازک پروں میں قوت پرواز کب تک رہے گی شکاری رحم دل ہے اس کی اسیر ہو جا۔  اسی میں تیری عافیت ہے اور پر سکون عاقبت بھی ہے۔  صبح وہ نہا دھوکر ہلکی پھلکی ہو گئی۔  آفس جلدی چلی گئی۔  اتفاقا صفی احمد بھی جلدی آ گئے تھے۔ شائستہ غیر ارادی طور پر صفی کے کمرے میں چلی گئی اس سے نگاہ ملتے ہی نظریں آپ ہی آپ جھک گئیں ہو نٹوں پر دبی دبی سی مسکراہٹ تھی اسے دیکھتے ہی صفی احمد نے کہا۔  ’’تو فیصلہ کر لیا تم نے ‘‘وہ کچھ کہنے کے لئے اندر گئی تھی اچانک سوال پر شرما کر باہر آ گئی اس کا دل دھڑ ک رہا تھا توبہ کتنے چا لا ک ہیں چہرے کی کتاب کیسے پڑھ لیتے ہیں۔۔۔  صفی نے اسے آواز دی وہ پھر اندر گئی اور  جلدی سے کر سی پر بیٹھ گئی۔ ’’کچھ کہنا چاہتی ہو ؟‘‘

’’جی کوئی خاص بات نہیں ہے آپ سے بس ایک وعدہ لینا تھا۔  ‘‘

’’کیساوعدہ جلدی بتاؤ؟‘‘

’’یہ کہ آپ۔۔۔  آج سے۔۔۔  شراب۔۔۔  نہیں پئیں گے!‘‘

’’تو تم نے ابھی سے پابندیاں لگانا شروع کر دیں ؟‘‘

’’جی یہ پابندی نہیں ہے بلکہ آپ کی صحت اور  مستقبل کی حفاظت کے لئے ایک وعدہ لے رہی ہوں آپ کی جان اکیلے آپ کی نہیں ہے نا۔  ‘‘

’’ٹھیک ہے آج آخری بار پیوں گادوستوں نے پہلے سے پرو گرام دے رکھا ہے خود میں نے کہہ دیا تھا کہ یہ آخری پروگرام ہو گا۔  ‘‘

’’ٹھیک ہے بس اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو اس دولت جائیداد اور  اولاد کا کیا ہو گا؟‘‘

اور  باس نے مسکر اکر اس کے ہاتھ اپنے گرم ہاتھوں میں لے لئے اور تر نم کے ساتھ ایک خوبصورت شعر پڑھا۔

اے دوست ذرا اور  قریبِ رگ جاں ہو

کیا جا نے کہاں تک شب ہجراں کا دھواں ہو

دوسرے دن صبح وہ ٹائم پر آفس پہنچی تو ایک سرا سمیگی کا عالم تھا چوکیدار کے علاوہ اسٹاف کے سبھی ممبرس کی پلکیں بھیگی ہوئی تھیں ٹائپسٹ نندا نے جلدی سے آگے بڑھ کر شائستہ سے کہا کہ ’’باس اب ہمارے بیچ نہیں رہے وہ کبھی نہ آنے کیلئے ہم سے بہت دور چلے گئے ہیں۔  چلو ہم سب ان کے گھر جا رہے ہیں۔ ‘‘شائستہ کو سکتہ سا ہو گیا وہ خالی خالی آنکھوں سے سب کے چہرے دیکھ رہی تھی تب ہی جہاں کھڑی تھی وہیں گر گئی۔  کچھ لوگ اسے اسپتال لے گئے تین دن تک اسے غش آتے رہے چوتھے دن وہ ہوش میں آئی ٹا ئپسٹ نند ااسے دیکھنے آئی تھی شائستہ کے پو چھنے پر اس نے بتا یا کہ اس رات باس اپنے دوستوں کے پاس سے گھر آ رہے تھے کہ روڈ ڈوائڈرسے ان کی کار ٹکر آ گئی اور آن دی اسپاٹ ان کی ڈیتھ ہو گئی۔  شائستہ کو یاد آیا کہ وہ اپنا آخری پروگرام  اٹنڈ کرنے گئے تھے وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی اور پھر بے ہوش ہو گئی۔  پندرہ دن بعد وہ کچھ نارمل ہوئی ڈسچارج ہو کر گھر آئی ماں پریشان تھی اس کی خاطر اپنے آپ کو سنبھالا۔  دوسرے دن آفس گئی تو دیکھی کہ صفی احمد کی کر سی پر ان کا دو ست رشید بیٹھا تھا شائستہ کو دیکھ کر کھڑا ہو گیا۔

’’آؤ شائستہ آؤ میں پچھلے پندرہ دن سے شدت کے ساتھ تمھارا انتظار کر رہا تھا تم سے کچھ بات کرنے کے لئے بے چین تھا۔  ‘‘

شائستہ کی آنکھوں سے غیر ارادی طور پر آنسو رواں تھے وہ ایک کر سی پر بیٹھ گئی۔  رشید نے کہا۔

’’شائستہ آج میں تمھیں اپنے ایک راز میں شامل کر کے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’کیساراز رشید صاحب!اور  آپ نے اپنے راز میں مجھے شامل کرنے کا ارادہ کیوں کیا ہے ؟‘‘

’’اس لئے کہ اس کا تعلق تم سے بھی ہے۔  شائستہ میں تمھارا اور  اسریٰ کا گنہ گار ہوں ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا۔ ‘‘’’رشید صاحب صاف صاف بتائیے بات کیا ہے آپ پہیلیاں کس لئے بجھا رہے ہیں ؟‘‘

’’تمھیں معلوم ہے صفی میرا دوست تھا بزنس پارٹنر بھی تھا اس کے خاندان کے لوگ مجھے اپنے ہی خاندان کا ایک فرد مانتے تھے اس لئے اکثراس کے گھر بھی جا یا کرتا تھا۔  تم یہ بھی جانتی ہو کہ اسریٰ کبھی کبھی اچانک آفس آ جاتی تھی۔  تمھارے تقرر کے بعد جب وہ آفس آئی اور  تمھیں دیکھا تواسی دن سے شک میں پڑ گئی اس نے مجھے تم پر اور  صفی پر نظر رکھنے کے لئے کہا میں رفتہ رفتہ تم لوگوں کے تعلقات سے واقف ہو گیا اور  اسریٰ کو بھی واقف کرتا رہا۔  وہ صفی کو جلا نے کی خاطر اپنا وقت زیادہ تر باہر کلب اور  پارٹیوں میں گزارنے لگی تھی میری رپورٹس سن کر صفی سے متنفر ہوتی جا رہی تھی میں یہی چاہتا تھا کہ دونوں کے بیچ نفرتوں کے پہاڑ کھڑے ہو جائیں دراصل میری نیت خراب ہو گئی تھی میں کالج کے زمانے سے ہی اسریٰ کو اپنا لینا چاہتا تھا لیکن صفی کے بیچ میں آ جانے سے ایسا نہ ہو سکا۔  ‘‘

رشید کچھ دیر کے لئے رک گیا میز پر رکھے ہوئے باٹل سے گلاس میں پانی لے کر پیا اس دوران وہ شائستہ کے چہرے کا بغور جائزہ لے رہا تھا جو بے حس و حرکت بیٹھی رشید کے چہرے پر نظریں لگائے ہوئے تھی۔  ’’تم سن رہی ہو نا؟‘‘

’’جس رات صفی کی کار حادثہ کا شکار ہوئی اس رات میں اس کے دوست ساجدکے گھر پہونچا۔ دو چاردوست پینے پلا نے کی محفل سجائے مصروف تھے موقع دیکھ کر میں نے صفی کی کار کے بر یک کھول دیے اور  پھر وہی ہوا جو میں چاہتا تھا لیکن آج اس کے بیوی بچوں کی اور  تمھاری حالت مجھ سے دیکھی نہیں جاتی میرے دل پر ایک بوجھ سا تھا اب میں اسری سے بھی معافی مانگنے جا رہا ہوں پہلے تم مجھے معاف کر دو تاکہ۔۔۔  ‘‘

رشید کا جملہ ختم ہونے سے پہلے شائستہ ایک جھٹکے سے اٹھی میز پر رکھا ہوا پانی کا باٹل اٹھایا اور  اس کے سرپردے مارا اور  وہ ہذیانی انداز میں چلا رہی تھی۔

’’کمینے خودغرض انسان تو حیوان سے بدتر ہے تو نے صفی کو مار ڈالا ایک فرشتے کا قتل کر دیا تجھے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے میں تجھے  جینے نہیں دوں گی۔۔۔  ‘‘

رشید کے سرسے خون کا فوارہ بہہ رہا تھا وہ سر پر دستی رکھے تیزی کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گیا شائستہ ہاتھ میں باٹل لئے ہوئے اس کی طرف لپکی اور  لڑکھڑا کر گر گئی۔

٭٭٭

 

 

پیاسی شبنم

 

ہمارے بعد اس محفل میں افسانے بیان ہوں گے

بہاریں ہم کو ڈھونڈیں گی نہ جانے ہم کہاں ہوں گے

نہ ہم ہوں گے نہ تم ہو گے نہ غم ہو گا مگر پھر بھی

ہزاروں منزلیں ہوں گی ہزاروں کارواں ہوں گے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کل عماد کی روانگی تھی ،  دونوں ایک دوسرے کی قربت میں وقت گزارنا چاہتے تھے ،  دن رات کی بانہوں میں سمٹ گیا ،  ہزاروں راتوں کا حسن وہ ایک رات میں سمودینا چاہتے تھے کہ یہ رات ان کے پیار کی گواہ رہے دونوں کے دل سے ایک ہی دعا نکل رہی تھی کہ اے خدا تیری قدرت کے صدقے اس رات کی سحر نہ کرنا رات کے گزرتے ہی میرا حبیب مجھ سے جدا ہو جائے گا لیکن سحر تو ہونا ہی تھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خوب صورت ایر ہو سٹس دو تین بار اس کے سامنے آئی اور  شائستہ لہجے میں اس کی کسی ضرورت کے بارے میں دریافت کیا لیکن عماد نے احساس تشکر کے ساتھ انکار میں سرہلا دیا اور  وہ مسکراہٹ کے پھول بکھیرتی ہوئی چلی گئی۔  چار پانچ گھنٹے قبل اپنی ماں کے زانوں پر سر رکھے وہ انھیں تسلیاں دے رہا تھا۔  بے روزگاری سے بیزار اپنے ہی وطن میں اپنے مستقبل سے مایوس وہ دیار غیر کی طرف نکل پڑ ا تھا۔ روٹی دنیا کی ایک زبردست حقیقت ہے اس روٹی کے لئے انسان کیا کچھ نہیں کرتاسچ تو یہ ہے کہ اس دنیا کا سارا کاروبار روٹی ہی کے اطراف گھوم رہا ہے۔  ماں گزشتہ پچیس سال سے ہمیں اپنی محنت کی کھلاتی رہی ہیں ، عماد سوچوں کے عمیق سمندر میں غرق تھا اتنے سالوں میں باپ نے کبھی پلٹ کر نہیں پوچھا۔  اپنوں سے امی نے کوئی آس رکھی نہیں انھیں اس بات سے کوئی واسطہ نہیں تھا کہ دونوں ماموں خو بصورت بنگلوں اور قیمتی کاروں کے مالک تھے دولت ان کے گھرکی باندی تھی۔ انھیں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ اپنے عیش و آرام کا ذرا سا حصہ اپنی بہن کے نام لکھ دیتے۔  خدا کی اس تقسیم پر ہم نے قناعت کر لی تھی ماں نے کبھی کسی کے آگے اپنی کم مائیگی کا رونا نہیں رویا۔  کروڑوں متوسط لوگوں میں سے ہم بھی تھے کبھی اچھا کھا لیا کبھی برا،  کبھی اچھا پہن لیا کبھی برا،  کبھی ہنس لئے کبھی رو لئے۔  محرومیوں پر کڑھتے اور  خوبصورت امیدوں پر جیتے ہم دونوں بھائی زندگی کے ساتھ چل پڑے اور  آج جوان ہو کر اپنی ماں کو آسودہ زندگی دینے کے قابل ہو گئے ہیں پہلے ہم ایک چھوٹا ساگھر بنائیں گے اور  ماں اپنے پوتوں پوتیوں کے ساتھ۔۔۔   پلین نے ایک ہلکاساجھٹکا لیا عماد ماضی کے حصارسے نکل آیا گھڑی پر نظر ڈالی اسے جہاز پر سوار ہوئے تین گھنٹے ہو رہے تھے زمین سے جو نہی  جہاز کا رابطہ ٹوٹا عماد اپنی ماں کی جھرنے بہاتی سرخ سرخ آنکھوں کو یاد کر کے بے چین ہو رہا تھا۔  گزرے ہوئے دنوں کی تکلیف وہ یا دوں میں الجھ گیا تھا جہاز کے جھٹکوں نے خیالات کا تسلسل تو ڑ دیا۔  معاً اعلان ہوا کہ منزل مقصود قریب ہے سب اپنی اپنی پیٹیاں باندھ لیں مستقبل کے سہانے سپنوں کے کیف وسرور میں جھومتا ہوا وہ ایر پورٹ پر اترا تو اس کے دوست نظر آ گئے جو اسے لینے آئے تھے ان کے ساتھ ایک سانولی سلونی سی دلکش خدوخال والی لڑکی بھی نظر آئی جو لبوں پر خفیف سی مسکراہٹ لئے اشتیاق بھری نظروں سے عماد کو گھورے جا رہی تھی جیسے اس کی آنکھوں کو عماد ہی کا انتظار تھا۔  عماد کو اپنے و جود کے اندر ایک انجانی سی آتشیں لہر سرسراتی محسوس ہوئی وہ ایک ایک کر کے اپنے دو ستوں سے بغل گیر ہو نے لگا اور  سیاہ آنکھوں والی اس لڑکی پر ایک گہری نظر ڈالتے ہوئے اس نے ہیلو کہا۔  اس نے بھی ایک دلا ویزسی مسکراہٹ کے ساتھ ہیلو سے ہی جو اب دیا اور  گھنی پلکیں جھکا لیں۔  اسے یوں محسوس ہوا جیسے ان پلکوں نے اسے اپنے اندر سمیٹ لیا ہو۔  اظہر نے تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ یہ مس صبا ہیں اور  انھیں کے ساتھ دوا خانہ میں کام کرتی ہیں دو دن گزرے تھے کہ عماد کو تیز بخار نے دبوچ لیا۔  ماں کی جدائی ؛ سفر کی تکان اور بدلے ہوئے گرم خشک موسم کا اثر تھا کہ وہ نڈھال ہو گیا۔ سسٹر صبا ہاتھ میں واٹر بیگ لئے تیز تیز قدم اٹھاتی عماد کے روم کی طرف جا رہی تھی جہاں وہ اپنے دو سرے تین ساتھیوں کے ساتھ مقیم تھا۔  راستے میں سسٹرنسیم مل گئی اور پوچھا : یہ واٹر بیگ کس کے لئے لے جا رہی ہو ؟‘‘

’’عماد بہت تیز بخار میں مبتلا ہیں ان ہی کے لئے لے جا رہی ہوں ؛؛

’’چلو میں بھی دیکھ لیتی ہوں ‘‘نسیم نے کہا

عماد بیڈ پر لیٹا ہوا بہت کمزور دکھائی دے رہا تھا صبا اور  نسیم بیڈ کے قریب بیٹھ گئیں ،  صبا متفکر نظر آ رہی تھی۔

’’صبا! ایک اجنبی کا اتنا خیال اتنی خدمت کیا بات ؟! کوئی گڑ بڑ تو نہیں ؟‘‘نسیم نے صبا کی طرف شوخ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا ’’نسیم۔۔۔   یوں تو اپنا پیشہ ہی ایسا ہے ناکہ ہمیں ہر مریض کا خیال رکھنا چاہئیے پھر عماد تو  اپنے اسٹاف سے ہے۔  پتہ نہیں کیا بات ہے وہ جب سے آئے ہیں ایسا لگتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔  ‘‘

’’پانی۔۔۔  پانی۔۔۔  ‘‘عماد کی آواز میں نقاہت تھی وہ نیم بے ہوشی کے عا لم میں پانی مانگ رہا تھا۔  صبا نے چمچے سے اسے پانی پلایا۔  عماد کے صحت یاب ہونے تک صبا اس کی خدمت میں لگی رہی اور  عماد قطرہ قطرہ اس کی بانہوں میں پگھلتا رہا۔  اس کی محبت میں اس قدر ڈوب گیا کہ اس کی ہر سوچ صبا سے شروع ہو جاتی اور  اسی پر ختم ہو جاتی وہ جلد از جلد صبا کے بارے میں اپنی ماں کو تفصیلی خط لکھ دینا چاہتا تھا وہ اپنی سوچوں میں گم سگریٹ سے شغل کر رہا تھا کہ صبا آ گئی اور  اس کے ہاتھ سے سگریٹ لیکر پھینکتے ہوئے کہا۔ ’’تم آج پھر سگریٹ کا پیکٹ لے بیٹھے!کیا آج پھر سوچوں کا دو رہ پڑ گیا ہے ؟‘‘’’ہاں سوچ رہا ہوں تم نے مجھے کیاسے کیا کر دیا ہے تمھارے سوا مجھے سب کچھ بھول گیا ہے دو مہینے ہو گئے امی جان کو خط نہیں لکھا آج ان کی بہت یاد آ رہی ہے بھائی کو دوبئی گئے ہوئے سات ماہ ہو گئے جا نے ماں کتنا اکیلا پن محسوس کرتی ہوں گی۔  صباسچ بتانا تمھاری شخصیت میں یہ کیا جادو ہے کہ۔۔۔  ‘‘’’بس بس ‘‘صبا نے اس کے ہو نٹوں پر اپنی انگلیاں رکھ دیں عماد نے اس کے ہاتھ کو تھام لیا اور اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا صبا نشہ بن کر اس کی رگ رگ میں اتر رہی تھی ’’عماد کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ تم اتنے اداس کیوں رہتے ہوں ؟کیا مجھے نہیں بتاؤ گے ؟اپنے دکھ کسی کو سنانے سے دل ہلکا ہو جاتا ہے بتاؤ نا کیاسوچ رہے ہو؟‘‘’’کچھ نہیں صبا کوئی خاص بات نہیں ہے بتایا تو تھا کہ میری ایک ماں ہے اور  ایک بھائی اور  بہن کو خالہ نے اپنے پاس رکھ لیا ہے تقدیر شاید ہم سے روٹھی ہوئی ہے بھائی کہیں تو بہن کہیں ماں کہیں اور میں کہیں سب ایک دوسرے کی یا دمنی جلتے سلگتے رہتے ہیں۔  میں اکثرسوچتا ہوں کہ یہ بے جوڑ شادیاں ہوتی کیوں ہیں کہ ایک ون میاں بیوی میں علیٰحدگی ہو جاتی ہے اولاد تباہی کا سامنا کرتی اور  زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔  میرے ہی والدین کو دیکھ لور پانچ سال تک ایک دوسرے کے ساتھ رہے لیکن ایک دوسرے کو سمجھ نہ پائے والد نے دوسری شادی کر لی اور ماں نے خلع لے لی مہر کے عوض ہم بچوں کو مانگ لیا تب ہی سے محرومیاں ہمارا مقدر بن گئی ہیں مستقبل کی آسودگی اور  کامیابیاں منجمد اندھیروں میں ڈھل گئیں ہم نے ہمت نہیں ہاری خوداعتمادی کا دامن نہ چھوڑ اجیسے تیسے پڑھ لکھ لیا اور  اب ہم دونوں بھائی کچھ نہ کچھ کمانے کے قابل ہو گئے ہیں لیکن پھر بھی۔۔۔  ‘‘۔  ’’عماد ایک بات کہوں برا تو نہ مانو گے ؟‘‘عماد خلاؤں میں گھور رہا تھا۔

’’سنو عماد!انسان کی زندگی اتنی بے مقصد تو نہیں کہ چند حادثات کو نا سوربنا لیا جائے تم اسی دوا خانے میں کیسے کیسے مریضوں کو دیکھتے ہو جو طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہیں کچھ تو خدا کی کسی نہ کسی نعمت سے محروم ہیں تو کوئی مرضِ لاعلاج میں مبتلا ہے کبھی ان غریب بچوں کے بارے میں غور کیا جو کم عمری میں محنت مشقت کرتے اور لاتوں کی بارش میں روکھی سوکھی کھا کر فٹ پاتھ پر گزارہ کرتے ہیں کبھی اوروں کے دلوں  میں جھانکنے کی کوشش کرو دیکھو کہ لوگ زخمی آرزوؤں اور اجڑے ارمانوں کو چھپائے کس طرح زندہ دلی کے ساتھ جی رہے ہیں تم ان لوگوں سے ہزار سے درجہ بہتر ہو جو گھٹ گھٹ کر زندگی گزارتے ہیں۔۔۔  عماد!میری کہانی بالکل مختصر ہے ہم چھ بہنیں اور  دو بھائی ہیں والد نے دو بھائیوں کی شادی کر دی بہنیں اپنی گھر گرہستی سے اچھی ہیں بھائیوں نے اپنی بیویوں کے ساتھ الگ گھر بسالئے ہیں اب انھیں ہم سے کوئی واسطہ نہیں ہے چھوٹی بہن یہاں میرے ساتھ کام کرتی ہے۔  اُس نے اپنی پسند کے لڑکے سے شادی کر لی ہے میں نے والدین اور  دو بہنوں کی ذمہ داری سنبھال لی ہے ‘‘

’’انھوں نے تمھاری شادی کیوں نہیں کی ؟‘‘

’’کوشش توکی تھی لیکن لڑکے والوں کے مطالبات پورے کرنے سے وہ قاصر تھے ایک لڑکے والوں نے تو حد کر دی تھی سنو گے کیا ہوا تھا ؟‘‘

’’کیا ہوا تھا ؟‘‘

’’لڑکے کے والدین اور  تین بہنیں جب مجھے دیکھنے کے لئے آئیں تو وہ مجھے دیکھنے کیلئے کم گھر اور گھر کے سازو سامان کو زیادہ دیکھ رہی تھیں بلکہ وہ ہمارے گھرکا باقاعدہ معائنہ کر رہی تھیں پھر میں نے کہا کہ آپ کے گھر میں ٹی وی ہے نہ فر ج کو لر ہے نہ واشنگ مشین،گیس چولہے ہیں نہ گیزر یہاں تک کہ ڈرائنگ روم میں پرانے زمانے کے صوفے پڑے ہیں جن کے نیچے کارپٹ تک نہیں ہے ہمارے بھائی تو ایسی جگہ ایک گھنٹہ بھی نہیں ٹھہر سکتے پتہ نہیں آپ لوگ کیسے جی رہے ہیں۔ سچ کہتی ہوں عماداس دن میرے دل پر اتنے گھونسے پڑے ہیں کہ میں گھنٹوں روتی رہی حیرت ہے کہ انسان ایک دوسرے کہ حق میں اس قدر سفاک کیوں ہو گیا ہے۔  اور  پھر میرے اندر روشنی کی ایک لہر ابھر آئی مجھے اپنے پاؤں پر کھڑا ہوئے بغیر چارہ نہ تھابس میں یہاں چلی آئی آج میں دولت سے اپنی بہنوں کے لئے اچھے تعلیم یافتہ لڑکوں کو خرید سکتی ہوں ‘‘صبا کی آواز بھر آ گئی اور  آنکھیں سرخ ہو گئیں۔

’’کیا صرف بہنوں کا خیال کرو گی ؟‘‘عماد نے صبا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔

’’یہ نہ بھولنا کہ کوئی بندہ بے دام تمھارے ہاتھ بک چکا ہے سمجھ گئیں نا؟‘‘

’’عماد تم جب سے یہاں آئے ہو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میرا اپنا کوئی میرے قریب ہے۔ ‘‘صبا نے آنکھوں کو صاف کرتے ہوئے کہا ’’صبا کیا تم میری بنو گی ؟‘‘عماد نے نشہ میں ڈوبی ہوئی آواز میں سرگوشی کی صبا۔ اس سوال کی مٹھاس میں کھو گئی دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سحر زدہ سے بیٹھے رہے۔

’’عماد۔۔۔  کہتے ہیں کہ محبت کسی کو راس نہیں آتی محبت ایک فنا کر دینے والا جذبہ ہے وہ پودا ہے جو صرف آنسوؤں کے پانی سے پروان چڑھتا ہے محبت کے مقدر میں بے سکونی ہوتی ہے تڑ پناسسکنا ہوتا ہے! عماد وقت اور حا لات کو بدلتے دیر نہیں لگتی‘‘۔

’’ایسانہ کہو صبا!ایسانہ کہو تمھیں ڈر لگتا ہے تواس لفظ محبت کو ہمارے درمیان سے ہٹا دو یوں سمجھوکہ ہم ایک دوسرے کے دوست اور  ہمدرد ہیں تم حوصلہ رکھو صبا میرا ساتھ دو گی تو ہمارے درمیان آنے والی ہر رکاوٹ کو ہٹا دوں گا ‘‘۔

اس دن آسمان سے آگ برس رہی تھی عماد بے حد اداس اور پریشان تھا ماں نے خط میں لکھا تھا کہ چھ ماہ کی تگ و دو کے بعد انھوں نے اس کیلئے ایک لڑکی پسند کر لی ہے اور  بہت جلد بات پکی کر نا چاہتی ہیں عماد بڑی کشمکش میں تھا رات بھر کرو ٹیں بدلتا رہا آخر اس نے ماں کو جو اب دے دیا کہ وہ شادی کرے گا تو صرف صباسے ہی کرے گا ورنہ کسی سے نہیں کرے گا اس نے اور  صبا نے ایک ساتھ جینے اور مرنے کی قسم کھائی ہے اور  ایک دوسرے کے بغیر جینے کا تصور تک نہیں کر سکتے۔  ماں نے فورا جو اب میں لکھا کہ محبت ایک جھاگ ہے جو وقت کے ساتھ خود بخود بیٹھ جاتا ہے یہ ایسانشہ ہے جو عقل کو ماؤف کر دیتا ہے اچھا یا برا تمیز کرنے کی صلاحیت چھین لیتا ہے اور یہ کہ وہ کسی بھی ملازمت پیشہ لڑکی سے شادی کرے گا تو وہ اپنا دودھ نہیں بخشے گی۔  عماد کے خوب صورت خواب کرچیوں میں تبدیل ہو نے لگے اس کی آنکھوں سے لہورسنے لگا زندگی نے سنگین موڑ پر لا کھڑا کیا تھا اس کا دماغ ماؤف ہو گیا اس نے ماں کا خط صبا کو بتایا جنھیں پڑھنے کے بعد صبا پتھر کی طرح ساکت رہ گئی اس نے صبر و ضبط کا دامن تھام لیا اور  سوچنے لگی جانے کیوں کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کو اپنے سینے پر صبر کی سل رکھنی پڑتی ہے مصلحت کے دھاگوں سے لب سی کر خاموشی کی چادر اوڑھ لینی پڑتی ہے اور یہ اذیت ناک خاموشی عجیب سی لذت میں زندگی گزار دینے کو جی چاہتا ہے۔  اب اسے شیشے کی ڈگر پر چلنا تھا اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور  عماد سے گو یا ہوئی۔

عماد تمھاری ماں نہیں چاہتیں کہ مجھ جیسی لڑکی سے شا دی کرو میں بھی نہیں چاہتی کہ ہم ان کی خوشیوں کی لاش پر اپنی محبت کا تاج محل تعمیر کریں۔  تمھیں وہیں شادی کرنا چاہئیے جہاں تمھاری ماں چاہتی ہیں۔

’’صبا تم ایسے وقت میراساتھ چھوڑ رہی ہو جبکہ مجھے تمھاری ضرورت ہے صبا میں تمھیں پا کر کھونا نہیں چاہتا ‘‘۔

’’عماد اپنے جذبات پر قابو رکھنا ہو گا تمھاری والدہ کتنی مشکلیں اٹھا کر کتنے پیار اور  ارمانوں سے تم لوگوں کی پرورش کی ہے!کتنے دنوں کا چین اور  کتنی راتوں کی نیندیں حرام کی ہیں! کیا اولاد کا یہی کام ہے کہ ان کی محبت اور شفقت کا یہ صلہ دے ؟والدین بہت عظیم ہو تے ہیں عماد! وہ اپنی نالائق اولاد کو بھی سینے میں چھپا لیتے ہیں اگر واقعی مجھ سے محبت ہے تو تم میرا کہا مان لو گے ‘‘صبا کی آواز میں لرزش تھی۔

’’ٹھیک ہے صبا اگر تم یہی چاہتی ہو تو ایسا ہی کروں گا لیکن تمھیں مجھ سے ایک وعدہ کر نا ہو گا ‘‘۔

’’مجھے تمھاری ہر شرط منظور ہے بتاؤ کیا کر نا ہو گا ؟‘‘

’’تمھیں شادی کر کے اپنا گھر بسانا ہو گا ‘‘عماد کا لہجہ بھیگ رہا تھا صبا کے چہرے پر سایہ ساپھیل گیا بھری دوپہر تاریک ہو گئی عجیب سادرداس کے رگ و پے میں اتر رہا تھا اور  پلکیں نم ہو رہی تھیں وہ اپنے آپ کو سنبھال رہی تھی۔ وعدہ بشرطِ وقت آ جانے پر!‘‘۔

’’کیا تم دل سے کہہ رہی ہو صبا؟ کیا تم اپنا وعدہ نبھاؤ گی ؟‘‘

’’ہاں عماد!وقت بڑے بڑے زخموں کو مندمل کر دیتا ہے وقت اور  حالات سے سمجھوتہ کر نا ہی پڑتا ہے تم خوش رہنا عماد میں بھی خوش رہنے کی کوشش کروں گی۔  تم میرے لئے دعا کیا  کرنا میں تمہارے لئے دعاگو رہوں گی ‘‘۔

کل عماد کی روانگی تھی۔  دونوں ایک دو سرے کی قربت میں وقت گزار نا چاہتے تھے۔  دن رات کی بانہوں میں سمٹ گیا وہ ہزار راتوں کا حسن ایک رات میں سمو دینا چاہتے تھے کہ یہ رات ان کے پیار کی گواہ ہے دونوں کے دل سے ایک ہی دعا نکل رہی تھی کہ ’’اے خدا تیری قدرت کے صدقے اس رات کی سحر نہ کر نا کہ رات کے گزرتے ہی میرا حبیب مجھ سے جدا ہو جائے گا‘‘۔  لیکن سحر تو ہو ناتھی ،  ہو گئی۔

موذن کی اذاں نے سحر کی آمد کا احساس دلا یا دونوں نے فجر کی نماز ادا کی اور  چند گھنٹوں بعد عماد روانہ ہو گیا اور  صبا کے سکون کا سائبان اپنے ساتھ لے گیا۔

قیامت خیز حالات میں بھٹکتی صبا!اپنے یخ بستہ جذبات سے بر سرپیکار تھی۔  تہی دامنی کے غم سے نڈھال تھی۔  عماد کے خط اسے مسلسل ملتے رہے جس میں شدت کے ساتھ اصرار ہو تاکہ وہ شادی کر کے اپنا گھر بسا لے۔ وہ اپنے وطن واپس آئی اور  ایک مقامی دوا خانہ میں نرس کا کام سنبھال لیا اپنے آپ کو بھلا کر خدمت خلق میں لگ گئی سسڑ نسیم جب اپنے وطن اپنے شہر آئی تو اسے معلوم ہوا کہ شہر میں کسی بی بی صبا کا چرچا ہے جس نے بھری جوانی میں جوگ لے لیا ہے۔  دن بھر دوا خانہ میں نرس کے فرائض انجام دیتی ہے اور  رات عبادت الہی میں گزارتی ہے۔

نسیم نے پہلے عماد سے ملاقات کی پھر وہ بی بی صبا کے دیدار کے لئے گئی اسے دیکھا تو دیکھتی رہ گئی۔  سسڑ صبا! بی بی صبا!! صبا نے نسیم کو دیکھا اور  بے اختیار اس سے بغل گیر ہو گئی۔ دل کا آنگن یا دوں کی پھوارسے بھیگنے لگا نسیم نے پوچھا ’’صبا یہ کیا حالت بنا لی ہے کیوں اپنی جو انی برباد کر رہی ہو ؟‘‘

’’تم کیا جانو نسیم ایثار اور  قربانی دل کو کتنا سکون دیتے ہیں یہ ایسا نشہ پلاتی ہے کہ روح تک سرشار ہو جاتی ہے ‘‘۔

٬٬کیا تم بھول گئیں کہ تم نے عماد سے کوئی وعدہ کیا تھا اور  اسی وعدہ کی بناء پر اس نے اپنی شادی کی تھی ؟ یہ لو عماد نے تمھارے نام یہ خط بھیجا ہے لو پڑھ لو۔۔۔  ‘‘صبا نے بعجلت لفافہ چاک کیا ، لکھا تھا۔

ڈیر صبا!

آداب و خلوص۔  عرصۂ درازسے تمھارا کوئی خط نہیں ملا۔  سسڑ نسیم سے معلوم ہوا کہ تمھیں وطن واپس آئے کئی مہینے ہو گئے ہیں۔  میں نے اپنے ہر خط میں لکھا تھا تم جلد شادی کر کے مجھ سے کیا ہوا وعدہ پورا کر دو لیکن تم نے اس سلسلے میں کوئی جواب نہیں دیا۔  مجھے تم سے امید نہ تھی کہ تم وعدہ خلافی کرو گی۔  تم نے مجھے والدہ کی محبت کا واسطہ دیا تھا مجھے سمجھا منا کر شادی کرنے پر مجبور کیا تھا۔

آج تمھیں اپنے والدین اور  بھائی بہنوں کا خیال کیوں نہیں آتا وہ تمھارے لئے پریشان ہوں گے کیا تم ان کی مرضی کا احترام نہیں کرو گی ؟ کیا مجھ سے کئے ہوئے وعدہ کو نہیں نبھاؤ گی ؟ صبا تم ایک سمجھدار اور  حوصلہ مند لڑکی ہو راکھ میں چنگاری تلاش نہ کرو تم ہی نے مجھ سے کہا تھا ناکہ آدمی کو حالات سے سمجھوتہ کرنا چاہئے تمھارے دکھ اور  تنہائی نے میرا سکھ چین چھین لیا ہے تم حالات سے سمجھو تہ کر کے کیا میرے دل کا بوجھ نہیں ہٹا ؤ گی ؟

ایک بات سنو! سسڑ نسیم جو تمھاری اچھی دو ست ہیں تمھیں اپنے خالہ زاد کے لئے پسند کر لیا ہے لڑکا فارماسٹ ہے اور  بیرون ملک ملازم ہے تمھیں میری خاطر اس رشتے کو قبول کر نا ہو گا۔  تمھیں حالات سے سمجھو تہ کر نا ہو گا مجھے امید ہے کہ تم جلد از جلد میرے دل کو سکون دو گی اور  یہ تمھاری محبت کا ثبوت ہو گا۔

خدا حافظ

تمھارا دعاگو

عماد

دو ہفتوں بعد عماد کے ہاتھ میں صبا کی شادی کا رقعہ تھا اور  ہو نٹوں پر ایک اداس سی مسکراہٹ۔۔۔  اور  جلتی ہوئی پیاسی آنکھوں سے پگھلتے آنسو۔۔۔  شبنم کی مانند برس رہے تھے۔

 

*****

 

 

فیصلے کی رات

 

ناخدا بے خود فضا خاموش ساکت موج آب

اور  ہم ساحل سے تھوڑی دور پر ڈوبا کئے

مختصر یہ ہے ہماری داستان زندگی

ایک سکون دل کی خاطر عمر بھر تڑ پا کئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہتے ہیں کہ ہر انسان کی زندگی میں کچھ پر کیف سے لمحات ضرور آتے ہیں جن کے سرور و لذت کو وہ اپنے وجود کے اندر جذب کر لینا چاہتا ہے۔  تم میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے مجھ سے مخاطب تھے یہ سب کچھ مجھے اچھا  معلوم ہو رہا تھا دل چاہتا تھا کہ وقت کی رفتار تھم جائے میں تمہیں دیکھتی رہوں تمہیں سنتی رہوں اچانک ہی تمہاری پر سوز نگاہوں کی تپش سے میرے اختیاری جبر کا بت پگھلنے لگا خرد نے کسی کو نے سے آواز دی ہوش میں آ تجھے یہ جنوں زیب نہیں دیتا اسی وقت تم نے۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سفینہ کی نظر جسیے ہی رفیق پر پڑی وہ دروازے کی اوٹ میں ہو گئی پھر جھک کر دیکھا۔  ہاں وہی ہیں لیکن کتنے بدل گئے ہیں کنپٹیوں پر سفید بال چمک رہے ہیں آنکھوں میں وہی سوز ہو نٹوں پر وہی اداس سی مسکراہٹ اور  چال میں وہی آن بان۔

رفیق کو وہ پچھلے دس برسوں میں کوشش کے باوجود لمحہ بھر کے لئے بھی نہ بھلا سکی تھی آج سفینہ نے اپنی بیٹی اسماء کی سالگرہ اعلی پیمانے پر منا نے کا اہتمام کیا تھا کیونکہ اسی سال اس نے میٹر ک درجہ اول میں پاس کیا تھا۔  سفینہ کے بار بار منع کرنے کے باوجود تقریب کا ساراخرچ اور  انتظام اس کے اسکول کے ڈائرکٹر حسن جاوید نے اپنے ذمہ لے رکھا تھا وہ ان کے اسکول میں پر نسپال تھی۔  آج اس تقریب میں رفیق کو دیکھنے کے بعد اس کی حالت عجیب سی ہو رہی تھی۔  وہی رفیق جسے پہلی بار دیکھتے ہی سفینہ کی خرد کے کو اڑ اپنے آپ بند ہو گئے اور وہ دیوانگی کے ساتھ گیٹ میں داخل ہوئے وہ صدر دروازہ کے قریب پہنچ گئے تھے۔  سفینہ جو مہمانوں کا استقبال کر رہی تھی تیزی کے ساتھ اپنے بیڈ روم میں چلی آئی اور  دروازہ بند کر لیا۔  یادوں کے ہجوم نے اسے گھیر لیا۔

اسٹینو ٹا ئپسٹ کے انٹر ویو کے لئے جب میں تمہارے ڈیٹکٹیوآفس میں آئی تو کچھ مرد و خواتین وہاں پہلے سے موجود تھے میرا نمبر آخری تھا نام پکارنے پر جب میں اندر آئی تو دیکھا کہ ایک میز کے دونوں سروں پر دو آفیسرز اور  درمیان میں تم بیٹھے ہوئے تھے میں چند لمحوں کے لئے تمہاری پر کشش شخصیت میں کھو گئی۔  سحر زدہ سی ہو گئی جسیے صدیوں سے مجھے تمہاری ہی تلاش تھی کتنی معصومیت تھی تمہارے چہرے پر تم مجھے ایسے دیکھ رہے تھے جسیے کوئی کمسن بچہ اپنے من پسند کھلو نے کو دیکھتا ہو۔  تمہاری آنکھوں میں ایک سوز اور  ہونٹوں پر سوگوارسی مسکراہٹ تھی۔  میں تمہارے سوالوں کے جواب کھوئے کھوئے انداز میں دیتی رہی تم نے پو چھا ’’آپ نے کہاں تک تعلیم پائی ہے ؟ ’’جی میں نے بی۔  اے کیا ہے  ‘‘’’پہلے بھی کہیں کام کیا ہے ؟ ’’جی ہاں میں ٹیچر ہوں ‘‘’’موجو دہ ملازمت کیوں چھوڑ نا چاہتی ہیں ؟‘‘میں خاموش رہی ’’آپ کیا تنخواہ چاہتی ہیں ؟ ‘‘’’یہ تو وقت اور  کام پر منحصر ہے ؟ ‘‘’’کیا آپ کو جا سوسی کے کام سے دلچسپی ہے ؟‘‘

’’جی ہاں بہت ہے ‘‘’’آپ کے شوہر کیا کرتے ہیں ؟ ‘‘’’وہ گزر چکے ہیں وہ زمیندار تھے ‘‘’’کتنے بچے ہیں ؟‘‘’’ایک لڑکی ہے ‘‘’’والدین ہیں ؟‘‘’’جی نہیں۔  میں اپنے سوتیلے بھائی اور  بھابی کے ساتھ رہتی ہوں ‘‘’’ٹھیک ہے آپ باہر بیٹھیں ‘‘ایک گھنٹہ انتظار کے بعد تم نے مجھے اپو ائنٹ منٹ لیٹر دید یا وہ ایک گھنٹہ میری ساری زندگی پر محیط ہو گیا۔  رات کے پچھلے پہر ہی سے میں آفس آنے کی تیاری شروع کر دیتی اور  سب سے پہلے پہنچ جاتی۔  تم وقت کے بڑے پابند تھے صفائی تمہیں بہت پسند تھی۔  کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ میں سارے آفس کی صفائی اپنے ہاتھ سے کر دیتی آہستہ آہستہ میں نے آفس کا حلیہ بدل کر رکھ دیا لیکن تم نے یہ سب کچھ پسند کیا تھا یا نہیں اس بات کا مجھے اندازہ نہ ہو سکا کیونکہ کام سے ہٹ کر تم کسی سے کوئی بات نہ کرتے تھے۔  کسی نے تمہیں مسکراتے بھی نہیں دیکھا تھا صبح ٹائم پر آفس آ جاتے اور  شام ہونے پرہی اپنے کمرے سے باہر نکلتے تمہاری شخصیت مجھے شرلاک ہو مزکی طرح پر اسرارسی لگتی  میں تمہیں دیکھنے کی منظر رہتی صبح اور شام کا انتظار صرف تمہیں دیکھنے کیلئے کرتی رہتی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ مجھے کیا ہو رہا ہے یہ کو نساجذ بہ ہے جس نے مجھے ہر چیز سے بے نیاز کر دیا ہے دید کی طلب کے اس جذبے کا نام کیا ہے اور اس کا انجام کیا ہے ؟ میری بے تاب نظروں کا راز اگر طشت از بام ہو جائے تو کیا ہو گا میں نے تو اپنے جذبات واحساسات کے خزانے کو ایک کال کوٹھڑی میں بند کر دیا تھا۔  تم ایک افسانوی شہزادے کی مانند میری ویران دنیا میں کہاں سے آ گئے اور اس کال کوٹھڑی پر کیوں دستک دے رہے ہو جسے مقفل کر کے میں نے اس کی کنجی بھی کسی سمندر میں پھینک دی ہے۔  میری زندگی کا چاند تو گہنا گیا میں نے اجالوں کی تمنا ہی چھوڑ دی تھی پھر یہ رنگ و نور کی کہکشاں سی میری را ہوں میں کیوں بکھر رہی ہے میں تو ایک خالی سیپ کی مانند ہوں ایک تیس سالہ بیوہ جس کے سامنے اس کی ایک لڑکی کا مستقبل بھی ہے۔  میری ذراسی لغزش بد نامی و رسوائی کے گہری کھائی میں ڈھکیل سکتی ہے۔  بار ہا سوچا کہ استعفی دیدوں اس ارادہ کو عملی جامہ پہنا نے کی کوشش میں دو دو دن غیر حاضر ہو جاتی لیکن تیسرے دن بے تاب و بے حال دوڑی چلی آتی۔  دن گزر رہے تھے چند ماہ بعد تم نے مجھے جاسوسی کے کیس دینا شروع کئے مجھے اپنے کمرے میں بٹھا کرکیس سمجھا تے۔  جب تک تمہارے سامنے بیٹھی رہتی کان تمہارے الفاظ پر اور  نظر تمہارے چہرے پر مرکوز رہتی میں کیس کو خوش اسلوبی کے ساتھ سلجھاتی رہی اور خود الجھتی چلی گئی تم میرے کام سے مطمئن معلوم ہوتے تھے ایک انجانا سا اطمینان مجھے بھی محسوس ہوتا تھا وہ دن مجھے آج بھی یاد ہے جسیے کل ہی کی بات ہوآسمان پر گھٹائیں چھا رہی تھیں ماحول پر ایک سکوت ساطاری تھا ایسا سکوت جو کبھی کبھی کسی طوفان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوتا ہے۔  شام کے چار بج چکے تھے ایک اہم کیس کے سلسلہ میں تم نے مجھے بلایا اور  آفس ٹائم کے بعد اپنے ساتھ چلنے کہا۔  تمہاری قربت کے خیال ہی سے میرے دل کی دھڑکنیں بے قابوسی ہو رہی تھیں۔  میرے اندر سلگتی آگ کی حرارت کو اگر تم نے محسوس کر لیا تو کیا ہو گا۔

اپنے احساسات و خیالات سے میں تمہیں آگاہ کرنا نہیں چاہتی تھی۔  مجھے تم سے محبت تھی بس ، روحانی محبت ، جسے میں ایک طرفہ ہی رکھنا چاہتی تھی۔  اکیلی فنا ہو جانا چاہتی تھی کیونکہ اس فنا میں مجھے اپنی بقا نظر آتی تھی۔  نہ چاہتے ہوئے بھی میں کانپتی لرزتی تمہاری گاڑی میں بیٹھ گئی راستہ بھر ہم نے کوئی بات نہیں کی۔  تم مجھے اپنے اس گھر میں لے گئے جو زیر تعمیر تھا تمہارا چوکیدار حیرانی سے دیکھ رہا تھا تم نے بتایا کہ مزدوروں کی نگرانی کے بہانے وہاں ٹھیر کرسامنے والے گھر کی مالکہ کی حرکات و سکنات پر نظر رکھوں جو ایک ہیلت کیئر سنٹر چلا رہی تھی جہاں مردو خواتین کا تانتا بندھا رہتا۔  اس کا شوہر ملک سے باہر ملازمت کرتا تھا۔  تم نے چوکیدار کو ناشتہ اور  چائے لانے کہا۔  پہلی بار تم نے کام سے ہٹ کر کوئی بات کی تھی۔  میرا دل اچھلنے لگا۔

کہتے ہیں کہ ہر انسان کی زندگی میں کچھ پر کیف سے لمحات ضرور آتے ہیں جن کے سرورولذت کو وہ اپنے وجود کے اندر جذب کر لینا چاہتا ہے تم میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے مجھ سے مخاطب تھے یہ سب کچھ مجھے اچھا معلوم ہو رہا تھا۔  دل چاہتا تھا کہ وقت کی رفتار تھم جائے میں تمہیں دیکھتی رہوں تمہیں سنتی رہوں۔  اچانک ہی تمہاری پر سوز نگاہوں کی تپش سے میرے اختیاری جبر کا بت پگھلنے لگا خرد نے کسی کونے سے آواز ادی ہوش میں ا!! تجھے یہ جنون زیب نہیں دیتا۔  اسی وقت تم نے میرے ہاتھ کو اپنے مضبوط اور  تپتے ہوئے ہاتھ کی گرفت میں لے لیا جس کی تپش میرے وجود کے اندر اتر نے لگی۔  تم نے میری کال کوٹھڑی کے قفل کو کھول دیا۔  میں نے تمہیں معصوم شہزادہ سمجھا تھا اپنی سجدہ گاہ میں تمہیں بٹھا لیا تھا میں اپنے جنون کے سہارے مقام آگہی کو پا لینا چاہتی تھی۔  تم نے یہ کیا کر دیا ؟ محبت کی موم بتی کو پگھلا کر قطروں میں بہا د یا! تم بھی عام مردوں کی طرح نکلے میرے بھرم کو پا مال کر دیا! اب کیا ہو گا ؟ میں کیا کروں! تم سے لمحہ بھر کی فرقت برداشت نہیں کر سکتی اور تم مجھے عمر بھر کی رفاقت دے نہیں سکتے۔  کیونکہ تم ایک شادی شدہ مرد ہو۔  ایک کنبہ کے سرپر ست ہو۔

تمہارا اپنا ایک سما جی مقام ہے اور میں ایک بیوہ!۔۔۔ بیوہ کی شادی کو ہمارے سماج میں معیوب سمجھا جاتا ہے۔  اس کے جذبات واحساسات کو پند و نصیحت کی وزنی سلوں تلے دبا دیا جاتا ہے پھر بھی اس پر الزام لگائے جاتے ہیں کہ یہ بیوہ یا مطلقہ عورتیں ہمارے معاشرہ کے چہرہ  پر ایک بد نما داغ ہیں۔  جان بوجھ کراس بات سے چشم پو شی کی جاتی ہے کہ عمر کے ہر حصہ میں عورت کے لئے ایک مرد کا سہارا ضروری ہوتا ہے۔

کسی گھر کے لئے چھت کا ہونا لازمی ہے۔  دوسرے دن میں نے اپنا استعفی بھیج دیا اپنے آپ کو سنبھالنے میں بہت وقت لگا۔۔۔ پھر مجھے ایک اسکول میں ملازمت مل گئی۔  اسی اسکول کے ڈائرکٹر حسن جاوید مجھے مجبور کرتے رہے ہیں کہ وہ میری بیٹی اسماء کو باپ کا پیار دینا چاہتے ہیں انہوں نے اسماء کی سالگرہ کے دن میرا فیصلہ مانگا ہے آج کی رات فیصلہ کی رات ہے اور  آج بر سوں بعد تم کہاں سے چلے آئے۔  میرے دماغ میں آندھیاں چل رہی ہیں سینے سے دھواں سا اٹھ رہا ہے آنکھوں کے آگے دھند سی چھا رہی ہے  میں کیا کروں دل کی وحشت بڑھتی جا رہی ہے میرے خدا مجھے ہمت دے۔۔۔۔۔۔

کوئی زور زور سے دروازہ پیٹ رہا تھا۔  سفینہ نے لڑکھڑاتے قدموں سے جا کر دروازہ کھو لا اس کی بیٹی اسماء اسے تلاش کرتی ہوئی آئی تھی۔  ’’ممی کیا ہوا ؟ آپ ٹھیک تو ہیں نا ؟ یہاں کیا کر رہی ہیں ؟ مہمان آپ کا انتظار کر رہے ہیں جاوید انکل بار بار پو چھ رہے ہیں اور ہاں رعنا کے ڈیڈی رفیق انکل بھی آپ سے ملنا چاہتے ہیں چلئے ممی آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا ؟‘‘

’’ہاں بیٹا ٹھیک ہوں سرمیں درد ہو رہا تھا تم چلو میں ابھی آ رہی ہوں۔ ‘‘

سفینہ نے منہ دھو کر ہلکا سامیک اپ کیا اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔  اسی وقت حسن جاوید بھی آ گئے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہوئے لے گئے تمام مہمان میز کے اطراف جمع تھے تالیوں کے شور میں اسماء نے کیک کا ٹا مبارک کی صدائیں بلند ہوئیں سفینہ کی نظر رفیق پر پڑی جو والہا نہ انداز میں اسی کی طرف دیکھ رہے تھے۔  سفینہ کی نظر ان پر جم سی گئی اور چند لمحوں بعد وہ بے ہوش ہو چکی تھی۔۔  رفیق بے ساختہ اس کی طرف بڑھے حسن جاوید بھی قریب آ گئے کچھ دیر بعد ڈاکٹر کمال۔  نے بتا یا کہ بے ہوشی شد ید صدمہ اور  سوچ کا نتیجہ ہے جلد ہی ہوش آ جائے گا۔  انہوں نے انجکشن لگا دیا تھا۔  آدھ گھنٹہ بعد سفینہ کو ہوش آیا وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی سب لوگ خاموش تھے اسماء رو رہی تھی رفیق بھی اس کے قریب بیٹھے ہوئے تھے وہ انہیں دیکھتی رہی پھر پو چھا ’’کیا بجا ہے ؟ آپ گھر نہیں گئے ؟‘‘رفیق نے بہ آہستگی کہا ’’سفینہ مجھے خوشی ہے کہ برسوں بعد پھر تم سے ملاقات ہوئی میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں تم براتو نہیں مانو گی سفینہ تم جب پہلی بار میرے آفس آئی تھیں اسی دن تمہیں اپنا نے کی تمنا نے میرے دل میں گھر کر لیا تھا۔  تمہیں اپنی سمجھنے لگا تھا تمہارے استعفی سے ایک دن پہلے میں بہک گیا تھا دوسرے دن تم سے معافی مانگنا اور  تمہارا ہاتھ تھام لینا چاہتا تھا اس دن تم نہیں آئیں دوچار دن انتظار کرنے کے بعد تمہارے گھر گیا تو معلوم ہوا تم کہیں اور منتقل ہو چکی ہو اور  آج ‘‘۔۔۔  رفیق خاموش ہو گئے۔  حسن جاوید دودھ کا گلاس لئے آ گئے تھے اور  سفینہ کو سہار ادے کر اٹھا نے لگے رفیق بھی آگے بڑھے اور  اسی وقت سفینہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

٭٭٭

 

 

مکافات عمل

 

دل کا وہ حال ہوا  ہے غم دوراں کے تلے

جیسے اک لاش چٹانوں میں دبا دی جائے

تم بھی مجرم ہو فقط میں ہی گنہ گار نہیں

میں یہ کہتا ہوں کہ دونوں کوسزادی جائے

کیا عزت دار مرد ایسے ہی ہوتے ہیں جو اپنی نو بیاہتا جوان بیوی کو چھوڑ کر ہزاروں میل دور چلے جاتے ہیں اور بر سوں صورت نہیں دکھاتے کیا ایک عزت دار مرد کے دل میں اولا دکی بھی محبت نہیں ہوتی؟کوئی عورت کہاں تک حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر سکتی ہے ؟ ایک افلاس زدہ بیمار ماحول میں کوئی کب تک زندگی گزارسکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دن مجھے نرم گرم گدے پر لیٹنے کا موقع مل گیا دل کی آرزو پوری ہو گئی تھی برسات کی ٹھنڈی ہوائیں اور  سردی جانے کہاں چلی گئی تھی بہت مزا آ رہا تھا میں فریدہ بی بی کے ساتھ چمٹ کر لیٹ گئی تھی ان کے صاف ستھرے کپڑوں میں سے بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی ان کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے میں کہیں کھو گئی تھی کاش ہمارا بھی ایسا گھر ہوتا ایسا ہی نرم گرم بستر ہوتا جا نے کیوں کچھ لوگ بہت پیسے والے ہو تے ہیں اور کچھ ہماری طرح غریب کیوں ہو تے ہیں میرا کچا ذہن ان باتوں کو سمجھنے سے قاصر تھا۔

میری ماں محلے کے تین چار گھروں میں کام کر کے اپنا اور  اپنے خاندان کا پیٹ پال رہی تھی خاندان ہم تین نفوس پر مشتمل تھا ماں مجھے پیار سے نگینہ کہتی تھی اور ایک بڑا بھائی تھا شبیر ، دن بھر کام کرتے کرتے میرے ہاتھ پاؤں درد کرتے تھے ماں بھی بہت محنت کرتی تھی چار گھروں میں جھاڑو برتن پونچھا کرتی اور  کپڑے دھوتی تھی اس کے تمام کاموں کو نپٹانے میں ، میں اس کی پوری مدد کرتی تھی ان گھروں سے ہمیں جو کھانا ملتا وہ ہم سب کے دو وقت کے لئے کافی ہو جاتا تھا۔  لیکن ہمارا گھر بس نام کا گھر تھا۔  مٹی کی بو سیدہ دیواروں کا ایک کمرہ جس پر ٹوٹے ہوئے اسبسطاس کی چھت تھی بر سات کا پانی کمرے میں بھر جاتا تو میں اور  میرا بھائی برتنوں میں پانی بھر بھر  کر باہر پھینکتے رہتے اور  رات یو نہی گزر جاتی ان دنوں ماں بیمار ہو جاتی تب مجھے اکیلے ہی کام پر جانا پڑتا ورنہ ہمیں بھو کے رہنا پڑتا تنخواہ لگ کٹ جاتی۔  مجھے بارش کا موسم بہت اچھا لگتا تھا دن بھر پانی میں اچھلتی کودتی تمام کام کرتی رہتی تھی۔  فریدہ بی بی کے لوگ بہت اچھے تھے مجھے بہت پیار کرتے میرے کام کو پسند کرتے تھے میں انھیں کے دیئے ہوئے کپڑے اور  سینڈل پہنتی تھی میری بستی کی لڑکیاں ان چیزوں کو دیکھ کر جلتی تھیں دو ایک سہیلیاں مجھے دیکھ خوش ہوتیں اور کہتیں ’’نگینہ تو ان کپڑوں میں شہزادی لگتی ہے تو اتنی خوب صورت کیوں ہے ؟ بستی کا ہر لڑکا تجھے اپنی دلہن بنانا چاہتا ہے۔  ہم سے تو کوئی بات بھی نہیں کرتا ’’چھوٹے بڑوں سے اپنی تعریف سن کر میں پھولی نہ سماتی ماں اور  دوسرے لوگ بھی میری تعریف کرتے نہ تھکتے تھے۔  اور میں سوچاکرتی کہ میں فریدہ بی بی سے زیادہ خوب صورت ہوں تو میرے پاس زیور، کپڑے اچھا گھر  اور کار نہیں ہے نرم گرم گدے والابستر اور  اچھے  کھلو نے کیوں نہیں ہیں اس دن مجھے نرم گرم گدے والی مسہری پر لیٹنے کا موقع مل گیا میں صرف ایک گھر میں کام کر کے فریدہ بی بی کے گھر آ گئی تھی ان کی امی نہیں تھیں اس لیے ان کے ساتھ  ان کے بستر پر لیٹ گئی تھی تب ہی انھوں نے کہا کہ میرے کپڑوں سے گندی بو آ رہی ہے میں سیدھے ان کے باتھ روم میں گھس گئی خوشبودار صابن مل مل کر خوب نہا یا ان کے کپڑے مانگ کر پہنے پاؤ ڈر اور لپ سٹک لگائی آئینے میں اپنا سراپا دیکھا تو دیکھتی ہی رہ گئی بہت دیر تک یوں ہی اپنے آپ کو دیکھتی رہی کچھ دیر بعد اپنے وہی میلے کچیلے کپڑے پہن لئے جلدی جلدی کام پورا کر کے گھر بھاگی ماں اور بھائی میرے انتظار میں بھوکے بیٹھے تھے۔  کھانا کھانے کے بعد میں نے ماں سے پوچھا۔  ’’ماں کچھ لوگوں کے پاس ڈھیرساری اچھی اچھی چیزیں ، بنگلہ اور  کار کیوں ہوتے ہیں ہمارے پاس نہ گھر ہے نہ گھر کا سا مان ہے نہ ہی ہم دو وقت پیٹ بھر کر روٹی کھا سکتے ہیں ایسا کیوں ہے ماں ؟‘‘

’’بیٹا سب لوگ بہت بڑی پڑھائی کر کے بہت ساروپیہ کماتے ہیں اور اسی پیسے سے سب کچھ خرید تے ہیں ‘‘۔

’’میں بھی پڑھوں گی ماں پڑھ لکھ کرپیسہ کماؤں گی مجھے بھی اسکول میں شریک کرا دو نا ماں ‘‘۔

’’تجھے پڑھا نے میں پیسہ کہاں سے لاؤں گی اور تو پڑھنے جائے گی تو کام کیسے ہو گا ؟‘‘

’’ماں تم دو گھروں میں کام کر لینا باقی دو گھروں کا میں اسکول سے آ کر کر لوں گی میں ضرور پڑھوں گی ماں!ورنہ کام بھی نہیں کروں گی۔۔ ہاں ‘‘

دوسرے دن فریدہ بی بی کی امی کے پیروں کو چھو کر،  ہم نے انھیں راضی کر لیا مجھے اسکول میں شریک کرا دیا تھا اسکول کی دنیا دیکھ کر میں دنگ رہ گئی ایک ہی جیسے صاف ستھرے کپڑے ساکس اور جوتے پہنی نکھری نکھرسی لڑکیاں مجھے بہت اچھی لگیں میرے پاس تو اچھے کپڑے تھے نہ جوتے لیکن میرے پاس اچھا بیگ اور  کتا بیں تھیں۔  میں نے دل لگا کر پڑھائی شروع کر دی۔  ہر سال امتیازی نمبروں سے پاس ہوتی رہی اکثر لڑکیاں مجھ سے جلتی تھیں لیکن میری ٹیچرس میری ماں اور  مجھے پڑھا نے والے مجھ سے خوش تھے مڈل کلاس میں آتے ہی میرا تعلیمی وظیفہ مقرر ہو گیا تھا۔  جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے تک مجھے اپنے حسن و شباب پر غرور پیدا ہو چکا تھا میٹرک پاس کرنے سے پہلے میرے لئے رشتے آنے شروع ہو گئے لیکن میں کسی کو خاطر میں نہ لاتی تھی میں نے ماں سے کہہ دیا کہ ’’تعلیم مکمل کرنے تک مجھے شادی نہیں کرنی ہے مجھے بہت آگے جانا ہے ایک آسودہ زندگی حاصل کرنے کے لئے بہت کچھ کرنا ہے ہم کب تک محرومیوں کے ساتھ گزارا کرتے رہیں گے دو وقت کی روٹی کے لئے تم کب تک برتن مانجھتی رہو گی ہم کب تک غربت اور افلاس کی چکی میں پستے رہیں گے میں جتنی حسین ہوں اتنی ہی حسین اپنی زندگی بنا نا چاہتی ہوں ‘‘۔

ماں مجھے حیرانی سے دیکھتی اور چڑ کر کہتی ’’تو پڑھ لکھ کر بہت باتیں بنانا سیکھ گئی ہے جھونپڑی میں رہ کر محلوں کے خواب دیکھنے لگی ہے تجھے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہمیں خواب دیکھنے کا کوئی حق نہیں ہے تو اپنی حدسے آگے نکلتی جا رہی ہے۔۔۔  اچھا نہیں ہو گا۔ ‘‘

’’کیوں ماں ایک دن تم ہی نے تو کہا تھا ناکہ لوگ پڑھ لکھ کرپیسہ کماتے اور شاہی زندگی گزارتے ہیں پھر میں پڑھ لکھ کر شاہی زندگی کے خواب کیوں نہیں دیکھ سکتی ؟میں تو خوب صورت بھی ہوں کیا مجھے خوب صورت زندگی نہیں مل سکتی ؟ کیا کوئی دولت مند لڑکا مجھ سے شادی نہیں کر سکتا ؟‘‘

’’ہم جھونپڑی میں رہنے والوں کی لڑکی کو محلوں کا شہزادہ کیوں بیاہ کر لے جائے گا ہمیں اپنے برابر والوں میں رشتہ کرنا چاہیئے!دیکھ شرفو آٹو والے کے رشتے کو ٹھکرا کر تو پچھتائے گی اس کا ذاتی آٹو ہے ذاتی مکان ہے پھر وہ تجھے پسند بھی کرتا ہے ہر عید بقر عید پر ہم سب کے لئے اپنی سکت سے زیادہ کپڑے وغیرہ لا کر دیتا ہے اور کیا چاہیے تجھے ؟‘‘

’’ماں!تم یہ کیا کہہ رہی ہو ؟ مجھے پڑھا لکھا کر ایک آٹو والے کے ہاتھ میں میرا ہاتھ دے دو گی؟ میری تعلیم میرا حسن کیا ایک آٹو والے کیلئے ہے تم دیکھ لینا کوئی بنگلے اور کار والا ہی مجھے بیاہ کر لے جائے گا ابھی مجھے شادی وادی نہیں کرنی ہے بس اب آگے کچھ نہ کہنا ہاں ‘‘میں نے اپنا دو ٹوک فیصلہ سنا دیا۔

میٹرک کے امتحان ہو گئے ہمیشہ کی طرح میں اچھے نمبروں سے پاس ہو گئی فریدہبی بی بھی پاس ہو گئیں ان کا رشتہ طئے ہو چکا تھا لڑکے والوں نے امتحان کے فوری بعد رخصتی کرانے کہہ دیا تھا مجھے ان لوگوں نے ایک ہفتہ پہلے سے اپنے گھر میں رکھ لیا قریبی رشتے دار جمع ہو گئے باہر سے بھی کچھ لوگ آ گئے تھے بڑا ہنگامہ تھا۔  تمام عورتیں اور لڑکیاں ایک سے بڑھ کر ایک زیورات ، اعلی قسم کے سوٹ اور  ساڑ یوں میں ملبوس ہنستی بو لتی بہت خوش تھیں ان سب کو میں آنٹی یا آپا کہہ کر پکارتی مجھ سے چھوٹوں کو ان کے نام سے بلاتی تھی صرف فریدہ کو میں فریدہ بی بی کہتی تھی انھوں نے مجھے اپنے چار چھ پرانے سوٹ دے دئے اور دو نئے سوٹ سلوائے تھے جو بہت بھاری ہیں۔  کاش ہمارے گھر پر بھی ایسی خوشیاں نچھاور ہوتیں دھوم دھڑ اکا ہوتا میں ان ہی خیالوں میں کام نپٹاتی ادھر ادھر بھاگ دوڑ کر رہی تھی۔  پان کی کشتی جلدی جلدی لے جاتے ہوئے میں کسی سے ٹکرا گئی نظر اٹھا کر دیکھا تو دیکھتی رہ گئی مردانہ وجاہت کا دلکش نمونہ!یہ نظروں کا تصادم تھا یا دلوں کا ٹکراؤ!کون ہے یہ جو مجھے اپنی رگ جاں سے قریب محسوس ہو رہا ہے جیسے میری روح اسے صد یوں سے جانتی پہچانتی ہو!میرے دل کی دھڑکنوں سے صدا آ  رہی تھی ہاں تم وہی تو ہو جسے میں اپنے خوابوں میں دیکھتی رہی ہوں ، ہاں تم وہی شہزادہ ہو جو مجھے شاہی زندگی دے سکتا ہے جس کی میں برسوں سے آرزو کرتی رہی ہوں تم وہی ہو وہی تو ہوا ن کے ہونٹوں پر شریر مسکراہٹ کھیل رہی تھی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پو چھا ’’آپ کی تعریف ؟ ‘‘میری زبان جیسے گنگ ہو گئی تھی میں وہاں سے بھا گی پلٹ کر بھی نہیں دیکھا کہ میں پتھر کی نہ بن جاؤں!کچن میں آ کر دم لیا۔  فریدہ بی بی نے مجھے کہیں سے دیکھ لیا اور جلدی سے آ کر پو چھا ’’کیا ہوا نگینہ اتنی گھبرائی ہو کیوں ہو؟‘‘

’’جی۔۔۔۔۔۔  جی۔۔۔۔۔۔  وہ گورے لمبے سے۔۔۔۔۔۔  ‘‘

’’ہاں ہاں وہ خرم بھائی ہیں امریکہ سے آئے ہیں وہاں کے مشہورو مقبول ڈاکٹر ہیں انھوں نے تم سے کیا کہہ دیا ؟‘‘

اب میں کیا بتاتی کہ کچھ بھی نہ کہتے ہوئے انھوں نے کیا کچھ کہہ دیا تھا ایک نشہ سا میری رگ رگ میں اتر رہا تھا میں نے سنبھل کر کہا۔

’’جی کچھ نہیں۔  کچھ بھی تو نہیں کہا‘‘ جانے وہ کیوں مسکرائیں اور چلی گئیں ‘‘۔

فریدہ بی بی کی شادی کے بعد ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا شادی کے کام سے تھک کر ماں گھر ہی پر تھی میں اکیلی کام پر آ رہی تھی اکثر گھر دیرسے پہنچتی ماں یہی سمجھے ہوئی تھی کہ شادی کا گھر ہے کام بہت ہو گا اس لئے دیر ہو جاتی ہے ہماری ہر شام باہر گزرنے لگی تھی نرم گدوں والی خوشبو میں نہائی ہوئی لمبی سی کار میں بیٹھنے کے بعد میرا رواں رواں جھوم اٹھتا کبھی پکچر کبھی پارک کبھی کسی بڑے سے ہوٹل میں بیٹھے رہتے۔  امریکہ واپس جانے سے پہلے وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے انھوں نے میری ماں کو راضی کر لیا پھر بھی ماں مجھے سمجھاتی رہی لیکن خرم کا جادو میرے سرچڑھ کر بول رہا تھا ماں کی کسی بات پر میں نے دھیان نہیں دیا۔  خرم نے پہلے ایک مکان کرائے پر لے لیا۔  اور ضرورت کا سا مان بھی لے آئے میرے لئے زیور کپڑے اور نرم گدوں والی مسہری بھی لائی گئی انھوں نے اپنی ماں کو کیوں کر راضی کیا میں نہیں جانتی بس ہمارے گھر میں خاموشی کے ساتھ نکاح ہو گیا اور میں ان کے محل نما مکان میں پہنچا دی گئی۔  اس رات انہوں نے مجھے کوئی ٹھنڈی ٹھنڈی کڑوی سی چیز پلا دی مجھے ابکائی سی آئی لیکن انھوں نے اپنی محبت کا واسط دیا اور بتا یا کہ شادی کی رات سب دولہا دلہن یہی چیز پی کرمست و بے خود ہو جاتے ہیں۔  میں نے زبردستی پیلی اور کچھ دیر بعد خوابوں کے ہنڈولے پر بیٹھی اور ہی دنیا کی سیر کر رہی تھی پلک جھپکتے ایک مہینہ گزر گیا خرم چلے گئے وعدہ کر گئے کہ مجھے بہت جلد امریکہ بلوا لیں گے۔

دن مہینوں میں اور  مہینے بر سوں میں ڈھل گئے خرم نے مجھے امر یکہ نہیں بلوا یا۔  میری بیٹی تین سال کی ہو گئی اس کے بارے میں کبھی کبھی خط لکھ دیا کرتے تھے امریکہ بلوانے کے بارے میں کبھی میں نے خط لکھا تواس کا کوئی جواب نہیں آیا۔  میں زندگی کی یکسانیت سے اکتا گئی تھی ماں مر چکی تھی اور بھائی جانے کہاں چلا گیا تھا۔  بیمار ساس کی خدمت کرنا اور ان کی جلی کٹی سُننّا میرے لئے دوہی کام تھے۔  بچی کوا سکول لے جانے اور  لانے کے لئے باہر نکلا کرتی تھی۔  گھر سے قریب ہی ایک خاتون کا بیوٹی پارلر تھا اکثر آتے جاتے وہ مجھے دیکھ کر مسکرایا کرتی تھیں۔  ایک دن بچی کے بال بنوانے کے لئے میں وہاں گئی تو پارلر کی مالکہ نشاط نے پو چھا۔  ’’کیا تم وہی ہو جسے تین چار سال پہلے ایک صاحب نے یہاں لایا تھا اس دن تمہاری شادی تھی اور  میں نے سنگھارکیا تھا وہ صاحب امریکہ سے آئے ہوئے تھے ؟‘‘

’’جی ہاں تین چار سال پہلے میری شادی ہوئی تھی اور امریکہ سے آئے ہوئے ڈاکٹر خرم میرے شوہرہیں آپ نے خوب پہچانا ‘‘۔

’’بھئی تم بہت بدل گئی ہو تمہارے گالوں کی سرخیاں اور  آنکھوں کی شوخیاں سب ماند پڑ چکی ہیں کیا بات ہے ؟‘‘

’’جی وہ شادی کے ایک ماہ بعد امریکہ چلے گئے اور آج تک نہیں لوٹے شوہر جو دل کے قریب ہوتا روح میں سما یا ہوتا،  نئے نویلے جذبوں کا پا سبان ہوتا ہے وہ اچانک ہزاروں میل دور چلا جائے تو آپ اندازہ کر سکتی ہیں کہ۔۔۔۔۔۔  ‘‘۔

’’یہ تو بہت برا ہوا شا ید اسی سوچ اور فکر نے تمہاری یہ حالت بنا دی ہے بھئی انسان کو زندگی ایک بار ملتی ہے اور زندگی میں جوانی کا موسم ایک ہی بار آتا ہے اسے یوں ضائع کر دیا جائے تو پھر جینے کا مقصد کیا رہا ؟‘‘۔

’’آپ ہی بتائیں میں کیا کر سکتی ہوں اس دنیا میں سوائے ساس کے اور کوئی نہیں ہے کسے اپنا دکھ بتاؤں ؟‘‘۔

’’تم مجھے اپنی بہن سمجھو اپنے دکھ اور کوئی بھی تکلیف ہو مجھے بتا دیا کرو بہتر ہو گا کہ تم ہر  روز یہاں آیا کرو میرا اور تمہارا وقت اچھا گزرے گا ‘‘نشاط کی محبت آمیزتسلی کی باتیں سن کر میری پلکیں بھیگ گئیں ’’لیکن نشاط باجی میں ساس صاحبہ کو کیا بتاؤں گی وہ تو مجھ پر کڑی نظر رکھتی ہیں ؟‘‘

’’دیکھو نگینہ میں تمہاری ساس سے مل سکتی ہوں تم بتا دینا کہ میں تمہاری ٹیچر تھی اور  اب تم مجھ سے انگلش وغیرہ پڑھنے کے لئے میرے گھر یا پا رلر جایا کرو گی ‘‘۔

’’ہاں یہ بات تو میری سمجھ میں آ گئی کب چلیں گی آپ ؟‘‘،’’ابھی چلتے ہیں چلو‘‘

نشاط باجی کو امی جان نے بڑے غورسے دیکھا اور میں نے ان کے چہرے پر ناگواری کے سائے لہراتے دیکھے پتہ نہیں وہ کیا سوچ رہی تھیں بہر حال ہفتے میں دو تین بار مجھے نشاط باجی کے پاس جانے کی اجازت مل گئی۔  اس دن سے میں اپنا زیادہ وقت نشاط کے ہاں گزارنے لگی نشاط کی صحبت نے میری دنیا بدل کر رکھ دی ایک دن اس نے مجھ سے کہا ’’نگینہ!شوہر تو عورت کی ذات کا ایک حصہ ہوتا ہے اس حصہ کو الگ کر دیا جائے تو عورت مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے اس کی زندگی میں ایک خلا ء ساپیدا ہو جاتا ہے تم نے شوہر سے دور اتنے سال کیسے گزار لیے ؟ بھئی زندگی میں حرارت اور تپش نہ ہو تو جینے سے دل اکتا جاتا ہے کیا تمہارا دل نہیں چاہتا کہ تمھیں چاہا جائے سراہا جائے تم ایسی محفلوں میں جاؤ جہاں تمہاری پذیرائی ہو۔  تمہاری سیج کو سونی کر جانے والے کی یاد کو سینے سے لگائے جوانی کے دن کیوں ضائع کر رہی ہو ؟ آنکھیں کھول کر دیکھو دنیا میں کیا نہیں ہے۔ اگر تم چاہو تو میں تمہیں ایسے مقام پر لے جا سکتی ہوں جہاں صرف خوشیاں ہیں قہقہے ہیں رنگ و نور کی بارشیں ہیں ‘‘میں ان کی صورت دیکھتی رہ گئی۔  اور  ایک دن انھوں نے مجھے بڑی محنت اور پیار سے تیار کیا ایک بیش قیمت خوب صورت لباس مجھے پہنا یا جب آئینے میں اپنا سراپا دیکھا تو میں خود کونہ پہچان پائی آج پھر غرورحسن سے میری گردن اکڑ گئی نشاط نے مجھے ہر زاویہ سے دیکھا اور  میرا ما تھا چوم لیا پھر مجھ پر خوشبو کی بارش کر دی ایک ہاتھ پھیلائے قدرے جھک کر مجھے چلنے کا اشارہ کیا جیسے میں کوئی شہزادی ہوں۔  میں مسکرا کر اٹھلاتی ہوئی ان کے ساتھ چل پڑی۔  میں پہلی بار کلب گئی تھی رنگ و نور اور خوشبوؤں کی محفل میں ہنستے مسکراتے مردو خواتین سلیقے کے میک اپ قیمتی زیورات اور دیدہ زیب کپڑوں میں ملبوس بڑے سے ہال میں پھیلے ہوئے تھے سگریٹ اور مختلف مشروبات کی ملی جلی خوشبو چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی موسیقی کی مدھم آواز فضاء میں نشہ گھول رہی تھی مجھے نشاط کے ساتھ آتا ہوا دیکھ کر بے شمار نظریں ہماری طرف اٹھ گئیں مرد مجھے للچائی ہوئی تعریفی نظروں سے دیکھ رہے تھے عورتوں کی آنکھوں میں حسد اور جلن کی چنگاریاں ناچ رہی تھیں۔  ایک طرف سے ایک وجیہ و شکیل خوبرو سا نو جوان ہماری طرف تیزی کے ساتھ آتا ہوا نظر آیا قریب آنے پر قدرے جھک کرسلام کیا اور گو یا ہوا ’’آہا ہا!آپ ہی ہیں وہ چہرہ چمن میخانہ بدن واقعی نشاط نے آپ کی تعریف غلط نہیں کی تھی مجھے دلاور کہتے ہیں ‘‘جی ہاں نشاط باجی نے آپ کے بارے میں بتا یا تھا ‘‘’’آئیے ہم اس طرف چل کر بیٹھتے ہیں ‘‘دلاور نے کہا ’’وہ ہمیں ہال کے اس حصے میں لے گیا جہاں لوگ کچھ کم تھے۔  سنیکس اور آئسکریم منگوائی گئی ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں دلا ور نے کہا ’’زندگی کا یہ روپ آپ کوکیسا لگا ؟ ‘‘دلا ور صاحب! میں زندگی کی یکسا نیت سے اکتا گئی تھی اس محفل میں آپ لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنے آپ ہلگا پھلکا محسوس کر رہی ہوں مہکتی فضاؤں میں اڑ نے لگی ہوں ‘‘

’’آپ نے کتنے ماہ سال برباد کئے ہیں کچھ انداز.ہ ہے آپ کو؟‘‘

’’یوں سمجھئے میں اپنے آپ سے انتقام لیتی رہی ماں نے بہت سمجھا یا تھا کہ میں خرم سے شادی نہ کروں لیکن آج میری سمجھ میں آ رہا ہے کہ انھوں نے کیوں سختی کے ساتھ منع کیا تھا ، دراصل مرد ہی عورت کی سب سے بڑی طاقت ہے اگر مرد کا ساتھ نہ ہو تو عورت اپنے آپ کو بے حد کمزور سمجھنے لگتی ہے اور میں اپنے بکھرے بکھرے کمزورو جود کوسنبھا لے تنہائی کا زہر پیتی رہی ہوں ‘‘

’’یہ جینا بھی کوئی جینا ہے انسانوں کی اس بستی میں آپ فرشتوں جیسی زندگی بسر کرنا چاہتی ہیں نا ممکن!!بالکل نا ممکن بات ہے۔  آج سے آپ ہر روز کلب آئیں گی اور آج سے اپنے آپ کو تنہا یا  کمزور نہیں سمجھیں گی ہم جو آپ کے ساتھ ہیں ،  کہئے منظور ؟ ‘‘دلا ور کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ تھی میں نے مسکرا کر سر جھکا لیا گھڑی پر نظر ڈالی اور  نشاط سے چلنے کے لئے کہا رات بھر جانے کیوں میں دلاور  کے بارے میں سوچتی رہی اور  فیصلہ کر لیا کہ اب اپنی زندگی کا ڈھنگ بدل کر جیؤں گی اپنے آپ کو خوش رکھوں گی اور  کسی کی پرواہ نہیں کروں گی۔  چند دن تک تو میں اور نشاط ساتھ ہی جایا کرتے تھے اور واپسی میں دلا ور ہمیں چمچماتی کار میں اپنے اپنے گھر چھوڑ دیا کرتا تھا پھر یوں ہونے لگا کہ ہم اکیلے ملنے لگے اور  یہ ملاقاتیں اتنی بڑھیں کہ ہم ایک دن بھی ایک دوسرے سے ملے بغیر نہ رہتے میں اکثر گھر دیرسے آنے گلی ساس صاحبہ کا رویہ بدل گیا تھا انھوں نے مجھے وارننگ دی ’’تم ایک عزت دار اور مشہور ڈاکٹر کی بیوی اور اس گھر کی بہو ہو یہاں رہنا ہو تو شریف عورتوں کی طرح سے رہو ورنہ جہاں سے آئی ہو وہیں چلی جاؤ ‘‘۔

’’آج میں آپ سے پوچھتی ہوں کہ عزت دار مرد کیا ایسے ہی ہوتے ہیں جو اپنی نو بیاہتا جوان بیوی کو چھوڑ کر ہزاروں میل دور چلے جاتے ہیں اور برسوں صورت نہیں دکھاتے ؟ کیا ایک عزت دار مرد کے دل میں ادلا دکی بھی محبت نہیں ہوتی ؟ کوئی عورت کہاں تک حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر سکتی ہے ؟ ایک افلاس زدہ بیمار ماحول میں کوئی کب تک زندگی گزارسکتا ہے ؟ میں اس جہنم میں کب تک در و دیوار کو تکتی بیٹھی رہوں کب تک تنہائی کا بوجھ ڈھوتی رہوں کچھ وقت گھر سے باہر گزار لیا تو کسی کا کیا بگڑتا ہے؟‘‘

’’آخر آ گئی نا اپنی اصلیت پر کتے کو کھیر نہیں پچتی! اسی لئے اس نا مر ادسے کہا تھا کہ رشتہ برابر والوں میں ہو نا چاہئے لیکن دو کوڑی کی جادو گرنی کا جادو سر پر سوار تھا۔  تم جیسی آفت کی پر کالا بھولے بھالے مردوں کو گھیرنے میں ماہر ہوتی ہیں میں آخری بار کہے دیتی ہوں تم نے آوارہ گر دی نہیں چھوڑی تو انجام اچھا نہیں ہو گا ‘‘۔

اس وقت میں نے خاموش ہی رہنا منا سب سمجھا دوسرے دن دلا ور اور نشاط کو اپنی الجھن بتا دی دلاور  نے کہا کہ وہ مجھے اپنے ذاتی فلیٹ میں رکھے گا جسے کرائے داروں نے حال ہی میں خالی کیا ہے میرے دل کو سکون سامل گیا اس رات کا فی دیر ہو گئی تھی دلاور مجھے گھر پر چھوڑ کر چلا گیا بارہا بیل بجانے پربھی دروازہ نہیں کھولا گیا پھر میں نے بیل پر ہاتھ رکھا تواس وقت تک نہیں ہٹا یا جب تک کہ دروازہ نہیں کھلا جیسے ہی دروازہ کھلا میں لڑکھڑاتے قدموں سے اندر داخل ہوئی میرے ہاتھ میں شراب کی بو تل تھی اور میں آج کچھ زیادہ ہی سرور میں تھی میں نے کہا ’’آپ کو خیال نہیں آتا کہ ایک عورت باہر کھڑی بیل بجا رہی ہے اور  آپ دروازہ کھولنے تیار نہیں ؟ ‘‘’’تم اس وقت یہاں کیوں آئی ہو جہاں سے آئی ہو وہیں پر رات گزار لیتیں ‘‘

’’آپ میرے ساتھ زیادہ بک بک نہ کریں ورنہ اچھا نہ ہو گا‘‘

’’میرے ساتھ زبان لڑاتی ہے ؟ مجھے دھمکی دیتی ہے تیری یہ مجال ؟ ابھی نکل جا یہاں سے دفع ہو جا‘‘

ان آوازوں سے میری بچی بھی جاگ گئی تھی وہ چلا چلا کر رو رہی تھی میں نے آؤ دیکھا نہتا ؤ شراب کا شیشہ ساس کے سر پر دے مارا انھوں نے ایک چیخ ماری اور  لڑکھڑا کر گریں اور ساکت ہو گئیں محلے والے جمع ہو گئے تھے ساس کے سرسے خون بہہ رہا تھا میرا نشہ ہرن ہو چکا تھا اسی وقت سب نے مل کر مجھے تھا نے پہنچا دیا صبح ڈیوٹی پر متعین انسپکٹر کی منت سماجت کر کے میں نے کسیطر ح دلا ور سے فون پر بات کی تمام واقعہ سنا یا اور میری طرف سے وکیل کھڑا کرنے کہا دلا ور نے جواب دیا

’’میں ایک عزت دار شہری ہوں اور شریف لوگ تم جیسی بازاری عورتوں کے لئے تھانے اور  عدالت کے چکر نہیں لگاتے شوہر والی اور  ایک بچی کی ماں ہوتے ہوئے تم نے غیروں کے ساتھ گل چھرے اڑ ائے ہیں۔  اولا دکی محبت ہے نہ شوہر کی عزت و ناموس کا لحاظ تم کسی کی وفادار نہیں ہو تم رحم کے قا بل نہیں ہو تمھیں جتنی بھی کڑی سزادی جائے کم ہے آئندہ مجھے فون کرنے کی کوشش نہ کرنا ‘‘دلا ور نے فون پٹخ دیا میری آنکھوں کے آگے اندھیر اچھا گیا زبان گنگ ہو گئی۔  خرم باہر سے آ گئے تھے مجھ پر مقدمہ چلا یا گیا۔  میرا کوئی وکیل نہیں تھا۔  میری بیٹی خود چشم دید گواہ تھی اسی کی گواہی اور  بیان پر مجھے چودہ سال کی قید با مشقت ہو گئی۔  آج میں جیل کی سلا خوں کے پیچھے بیٹھی اپنی زندگی کے دن گن رہی ہوں۔

دل کا وہ حال ہوا  ہے غم دوراں کے تلے

جیسے اک لاش چٹانوں میں دبا دی جائے

تم بھی مجرم ہو فقط میں ہی گنہ گار نہیں

میں یہ کہتا ہوں کہ دونوں کو سزادی جائے

٭٭٭

فائل مصنفہ کے صاحب زادے مصطفیٰ قاسمی، شارپ کمپیوٹرس، حیدر آباد سے وصول ہوئی، ان کی اجازت سے

پرو ف ریڈنگ، ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید