فہرست مضامین
ایک شبِ آوارگی
خورشید اقبال
اس برقی کتاب سے افریقی ادب کے متعلق مصنف خورشید اقبال کے کچھ مضامین الگ سے ’افریقی ادب‘ نامی برقی کتاب میں شائع کئے گئے ہیں)
اپنے ابا
اور اماں
کے نام
جن کی تربیت کے بغیر
آج میں وہ نہ ہوتا
جو میں ہوں !
افریقہ
جسے تاریک براعظم کہا جا تا ہے
شاید اس لیے کہ
وہاں کے باشندوں کا مقدر تاریک ہے
جہاں بھوک ہے۔ ۔ ۔ ۔
غریبی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جہالت ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
استحصال ہے۔ ۔ ۔ ۔
طوائف الملوکی ہے۔ ۔ ۔ ۔
بے بسی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
موت ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اور خود کو ترقی یافتہ کہنے والے سفید فاموں کی
نسلی منافرت ہے !!
عرضِ حال
تقریباً تین سال قبل میں نے چند افریقی افسانے پڑھے تو دل میں برسوں پرانی ترجمہ نگاری کی خواہش عود کر آئی۔ انگریزی زبان میں جب بھی کوئی اچھی کہانی پڑھتا تو بے ساختہ دل میں آتا کہ اسے اردو کا جامہ پہنا یا جائے، لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ میں نے اس سلسلے میں کبھی کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھا یا تھا۔ دراصل انگریزی ادب کا ترجمہ، میں اس خیال سے نہیں کر نا چاہتا تھا کہ تقریباً تمام معروف افسانہ نگاروں کی کہانیاں پہلے ہی کئی کئی بار ترجمہ کی جاچکی تھیں۔ میں یہی سوچ کر رک جاتا کہ ان کو ترجمہ کر کے میں کون سا تیر مار لوں گا۔
لیکن جب افریقی افسانے پڑھے تو لگا کہ ان کا ترجمہ ضرور ہونا چاہیے، کیوں کہ یہ اردو ادب میں اضافہ ہو گا۔ جہاں تک میں جانتا ہوں افریقی افسانوں پر اردو میں باقاعدہ کوئی کام نہیں ہوا۔ سوائے جاوید دانش اور خالد سہیل کی مشترکہ کاوش ’کالے جسموں کی ریاضت‘ کے، جس میں نظموں، لوک کتھاؤں، ڈراموں، مضامین، سوانح حیات وغیرہ کے ساتھ چند افسانے بھی شامل ہیں۔ علاوہ از ایں اُس کتاب میں صرف افریقہ کا ادب نہیں، بلکہ سیاہ فاموں کا ادب تھا جن میں آسٹریلیا، امریکہ اور یورپ میں بسے سیاہ فام بھی شامل ہیں۔
چند افریقی افسانے پڑھنے کے بعد میری دلچسپی بڑھتی گئی اور میں نے انٹر نیٹ کی مدد سے تلاش کر کے بہت سے افسانے حاصل کر لیے۔ ان میں کچھ اچھے تھے، کچھ بہت اچھے اور کچھ بالکل بکواس۔ میں نے اُن میں سے چنندہ افسانوں کا ترجمہ شروع کر دیا۔
٭٭
ترجمہ کرتے وقت میں نے خاص طور پر اس بات کا خیال رکھا کہ پڑھتے وقت قاری کو ترجمے کا احساس نہ ہو، البتہ اسے ایسا لگے جیسے وہ اوریجنل افسانہ پڑھ رہا ہے، کیوں کہ کسی بھی زبان کے ادب کو جب دوسری زبان میں منتقل کیا جاتا ہے تو اس کی اپنی روح ختم ہو جاتی ہے اور ایک نوع کا بوجھل پن اس پر حاوی ہو جاتا ہے، اور میں یہی نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے ہر جملے کا ترجمہ کرتے وقت میں بس یہ سوچتا تھا کہ اگر میں نے خود اس افسانے کی تخلیق اردو زبان میں کی ہوتی تو اس جملے کو کس انداز میں لکھتا … اور میں وہی لکھ لیتا۔ میرا یہ انداز، فن ترجمہ نگاری کے معیار پر کس حد تک پورا، اترے گا، یہ میں نہیں جانتا۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگ اسے سرے سے ترجمہ ہی نہ مانیں۔ بات کسی حد تک درست بھی ہے۔ در اصل میں نے ہر جملے کو اردو میں ترجمہ نہیں کیا بلکہ Re-writeکیا ہے۔ ایسا کرنے کی وجہ سے مجھے کہیں کہیں اوریجنل افسانے سے ہلکا پھلکا اختلاف بھی کرنا پڑا ہے، کیوں کہ محض ترجمہ کر دینے سے کہانی میں وہی بوجھل پن آ جاتا۔ ہر زبان کا اپنا انداز ہوتا ہے، اپنے محاورے ہوتے ہیں، الفاظ کے استعمال کا اپنا طریقہ ہوتا ہے جو دوسری زبان میں بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اگر ترجمہ شدہ مضمون میں سلاست اور بلاغت پیدا کرنی ہو تو اس میں اردو کا اپنا مخصوص نظام، اندازِ بیان اور محاورات استعمال کرنے ہوں گے اور اس صورت میں بعض تبدیلیاں نا گزیر ہیں۔
اتنا تو یقین ہے کہ میرا یہ انداز قارئین کو پسند آئے گا، لیکن ناقدین ادب کا رویہ کیا ہو گا، مجھے نہیں معلوم۔
٭٭
ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے اور کسی بھی ملک کے ادب میں ہمیں وہاں کا پورا کلچر سانسیں لیتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس لیے کسی بھی ملک کے ادب کو پڑھنے سے قبل اس ملک کے تواریخی، جغرافیائی، سماجی، معاشی اور سیاسی حالات کا جاننا بے حد ضروری ہے ورنہ ہم اس کے ساتھ صحیح انصاف نہیں کر پائیں گے۔
جغرافیائی حالات کی وجہ سے افریقہ کو’ تاریک براعظم‘ بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ انیسویں صدی سے قبل تک یورپ اور ایشیا کے لوگ افریقہ کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے۔ ہاں ! بر اعظم افریقہ کا ایک ملک جو ہزاروں برسوں سے ساری دنیا میں مشہور تھا … وہ تھا مصر (Egypt)بلاد مصر کی اپنی تہذیب اور اپنا ادب تھا۔ مصر چوں کہ افریقہ کے بالکل شمالی حصے میں، عرب ملکوں کے قریب واقع ہے، اس لیے مصر کا باقی دنیا سے رابطہ بہت پرانا ہے۔ اسلامی فتوحات کے دور میں افریقہ کے کچھ، اور شمالی حصوں مثلاً مراقش، تیونس، لیبیا، موریطانیہ اور الجیریا وغیرہ پر مسلمانوں نے قبضہ کیا اور اسلامی سلطنت کی بنیاد ڈالی(ان ممالک کو مسلمانوں نے مغرب(Maghreb) کا نام دیا، آج بھی یہ نام رائج ہے)۔ یہ سارے وہ علاقے تھے جہاں بیرونی دنیا کے افراد با آسانی پہنچ سکتے تھے۔
لیکن اس براعظم کے باقی حصوں تک پہنچنا، ناممکن نہیں، تو کم از کم مشکل ضرور تھا، بلکہ جان جوکھم کا کام تھا۔ راستے ناقابل عبور تھے۔ دنیا کے خطرناک ترین جنگل اور دنیا کے سب سے بڑے ریگستان درمیان میں تھے۔ خطرناک ترین درندے اور نہایت زہریلے سانپ بچھو راہ میں تھے۔ خطرناک بیماریوں کے جراثیم اور وائرس فضا میں تھے۔ یہاں تک کہ مکھیاں تک زہریلی تھیں۔ انھی جنگلوں کے درمیان انسانی بستیاں آباد تھیں۔ جن میں بسنے والے لوگ عجیب، ان کے رسم و رواج عجیب، مذہب عجیب … تہذیب و تمدن کی بو، انھیں چھو کر بھی نہیں گزری تھی۔ یہاں تک کہ بعض قبائل آدم خورتھے اور سیاحوں کو پکڑ کر کھا جاتے تھے۔ ایسے میں بھلا کون ان تک پہنچنے کی ہمت کرتا۔ یہی وجہ تھی کہ انیسویں صدی تک دنیا والے اس براعظم کے زیادہ تر حصوں سے ناآشنا تھے۔ اسی بنیاد پر ۱۸۷۸ء میں ہنری ایم۔ اسٹینلے نے اس براعظم کو’ تاریک براعظم‘ کا نام دیا تھا۔
آہستہ آہستہ بیرونی دنیا کے لوگوں نے افریقہ میں داخل ہونا شروع کیا، لیکن افسوس یہ ہے کہ ان کا مقصد وہاں کے اَن پڑھ اور بھولے بھالے لوگوں کا استحصال کرنا تھا۔ غلامی کے دورِ عروج میں افریقہ غلاموں کے حصول کا سب بڑا ذریعہ تھا۔ غلاموں کے کاروباری افریقہ کے گاؤں اور بستیوں سے افریقیوں کو بالکل جانوروں کی مانند پکڑ کر لے جاتے۔ کبھی کبھی اس کوشش میں مقامی لوگوں سے تصادم بھی ہوتا، لیکن یہ لوگ اپنے جدید اسلحہ جات کی بنا پر ہمیشہ کامیاب رہتے اور بڑی بے رحمی سے افریقیوں کا خون بہاتے۔ ماؤں سے ان کے بچے چھین لیے جاتے، شوہروں سے ان کی بیویاں اور بیویوں سے شوہروں کو الگ کر دیا جاتا۔ غلاموں کو پکڑنے کے بعد ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا۔ انھیں جہازوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح بھرا جاتا، جہاں وہ مہینوں لمبے سفر کے دوران ہاتھ پاؤں بھی مشکل سے ہلا پاتے۔ انھیں چابکوں سے پیٹا جاتا، زنجیروں میں جکڑ کر رکھا جاتا اور کتوں سے بھی بدتر خوراک دی جاتی۔
خدا خدا کر کے غلامی کے کاروبار کا خاتمہ ہوا، لیکن افریقیوں کو راحت کی سانس نصیب نہیں ہوئی۔ ان پر دوسری افتاد حریص حکومتوں کے نوآبادیاتی نظام کی صورت میں پڑی۔ برطانیہ، پرتگال، فرانس، اٹلی، جرمنی، اسپین اور بیلجیم وغیرہ ان پر گِدھوں کی طرح ٹوٹ پڑے اور پورا افریقہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑ گیا۔ ان میں سب سے بڑا حصہ برطانیہ اور فرانس کا تھا۔ دونوں تقریباً دو تہائی افریقہ پر قابض تھے۔ غلامی کیا ہوتی ہے اور اس کے نتائج کیا ہوتے ہیں، یہ ہم ہندوستانی بہت اچھی طرح جانتے ہیں، کیوں کہ ہم نے بھی ۲۰۰ برسوں تک انگریزوں کی غلامی برداشت کی ہے۔ یوروپی سفید فاموں نے افریقہ کے قدرتی وسائل کو بری طرح لوٹا اور اسے کھوکھلا کر ڈالا، لیکن وہاں کے لوگ … ان کے نصیب میں اب بھی وہی غریبی، وہی جہالت، وہی بے بسی کی موت تھی۔
اور آج …
افریقہ، ایشیا کے بعد، دنیا کا دوسرا سب سے بڑا، اور سب سے گھنی آبادی والا بر اعظم ہے جو روئے زمین کی تقریباً ۲۰ فیصد سطح پر پھیلا ہوا ہے۔ اس بر اعظم میں ۵۴آزاد مملکتیں ہیں، جن میں تقریباً ایک ارب انسان رہتے ہیں۔
آج غلامی کی زنجیریں کٹ چکی ہیں۔ کہنے کو تو افریقی ممالک آزاد ہو چکے ہیں، لیکن حالات اب بھی وہی ہیں۔ بیشتر ممالک میں سیاسی عدم استحکام ہے۔ بغاوتیں عام ہیں۔ جمہوریت بس ایک تماشہ ہے۔ آمریت کی دھوم ہے۔ جس کے ہاتھ میں طاقت آ جاتی ہے، وہی حکومت کا تختہ پلٹ کر حکمراں بننا چاہتا ہے۔
اورافریقی عوام؟
وہ آج بھی بھوک سے مر رہے ہیں۔ کیا آپ نے ایتھوپیا اور صومالیہ کے لوگوں کی تصاویر اخباروں اور رسائل میں نہیں دیکھیں جو فاقہ کشی کی وجہ سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئے ہیں ؟افریقہ میں آج بھی جہالت ہے۔ افریقہ کے بیشتر ممالک کے عوام آج بھی بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔ آج بھی صدیوں پرانی توہم پرستی کے اندھیروں میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ نوکری اور تجارت کے راستے معدوم ہیں۔ غریبی اور بھک مری نے ان کے اخلاق پر گہرا، اثر ڈالا ہے جس کی وجہ سے جرائم اور کرپشن عام ہو گئے ہیں۔
ایسا لگتا ہے جیسے تاریک براعظم کے باشندوں کا مقدرہی تاریک ہے۔
٭٭
کسی بھی ملک کے ادب میں اس ملک کے سماج کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔ جب آپ یوروپی اور امریکی افسانے اور ناول پڑھتے ہیں تو ان میں آپ کو چمچماتی ہوئی کاریں، فلک بوس عمارتیں، فائیو اسٹار ہوٹلز، کیبرے ڈانس اور کڑکڑاتے ہوئے ڈالر نظر آتے ہیں، مگر یہ حیرت کی بات نہیں۔ درحقیقت یہی وہاں کا سماج ہے۔
لیکن اس کے بر عکس جب آپ افریقی افسانے پڑھتے ہیں تو ان میں آپ کو بھوک سے بلکتا ہوا بچہ دکھائی دیتا ہے، مجبوری میں خود کو فروخت کرتی ہوئی عورت دکھائی دیتی ہے، روزی روٹی کے لیے پریشان حال مرد، دکھائی دیتا ہے، اور الجھنوں میں شکار نوجوان نظر آتا ہے۔ ان کہانیوں میں توہم پرستی، جہالت، کرپشن اور بغاوتیں ہیں۔ انقلاب اور حکمرانوں کا ظلم ہے۔ عوام کی بے بسی ہے … اور ان سب ساتھ ساتھ بہتر کل کی امید بھی ہے۔
٭٭
اس انتخاب میں جو افسانے شامل ہیں وہ چوں کہ افریقہ کے مختلف ممالک سے چنے گئے ہیں، اس لیے ان میں سے ہر افسانے کا ماحول اور وہاں کے مسائل آپ کو مختلف نظر آئیں گے۔ مجھے امید ہے کہ ان کے مطالعے سے افریقہ کے مختلف ممالک کے سماج، وہاں کے عوامی مسائل، وہاں کے لوگوں کے رہن سہن کی متعدد تصویریں آپ کی نگاہوں کے سامنے آ جائیں گی۔
٭٭
اس انتخاب کے ہر افسانے کی شروعات میں متن سے متعلق تصویر بھی شامل کی گئی ہے جو مشہور آرٹسٹ جمیل خان کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ ان تصاویر کی شمولیت کا مقصد ایک طرف جہاں کتاب کی خوبصورتی میں اضافہ ہے وہیں ایک اور بات بھی میرے ذہن میں تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں چاہتا تھا کہ افسانہ شروع کرنے سے قبل قاری کے ذہن میں اس متن کے ’افریقی‘ کرداروں کی تصویریں بس جائیں تاکہ افسانہ پڑھتے وقت اس کے تصور میں ’افریقی‘ کردار جیتے جاگتے دکھائی دیں۔
٭٭
آخر میں، میں اپنے دوستوں عظیم انصاری اور بلند اقبال، اور عزیز ی معید رشیدی کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے اس کتاب کے آئیڈیا سے لے کر طباعت و اشاعت تک کے ہر مرحلے میں، ہر قدم پر، میری ہمت افزائی کی، اور اپنے گراں قدر مشوروں سے نوازا۔ میں عزیزی جمیل خان کا بھی ممنون ہوں جنھوں نے اس انتخاب کے لیے بڑی محنت سے تصویریں بنائیں۔
جگتدل
۲؍ ستمبر ۲۰۱۰ء
خورشید اقبال
افریقی کہانیاں
بر اعظم افریقہ جسے تاریک براعظم بھی کہا جاتا رہا ہے، وہاں کے شعرو ادب کے سلسلہ میں جہاں دوسری زبانوں میں ترجمہ کا کافی کام ہوا ہے وہیں اردو میں بھی اس پر کچھ نہ کچھ کام کیا جا تا رہا ہے۔ افریقی شاعری اور وہاں کی دوسری ادبی اصناف کے اردو تراجم کی چند کتابیں جانی پہچانی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر خورشید اقبال کی کتاب ’’اک شبِ آوارگی‘‘ کو شمار کیا جانا چاہیے۔ یہ بر اعظم افریقہ کے وسیع و عریض خطہ میں لکھی جانے والی کہانیوں کا ایک مختصر سا انتخاب ہے، جسے خورشید اقبال نے اردو میں ترجمہ کر کے اردو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ نائیجیریا سے تین، جنوبی افریقہ اور تنزانیہ سے دو، دو، اور موزمبیق، زنجبار، کانگو، مالاوی، مصر اور سوڈان سے ایک ایک کہانی کا انتخاب کیا گیا ہے۔ یوں مجموعی طور پر تیرہ کہانیاں ترجمہ کی گئی ہیں۔ خورشید اقبال نے ترجمہ کرتے وقت جہاں افریقی معاشرت اور وہاں کے کلچر کو نمایاں کیا ہے وہیں لسانی سطح پر اردو میں ترجمہ کرتے وقت کافی آزادی سے کام لیا ہے۔ کہانی کی روح کو برقرار رکھتے ہوئے جملوں کی ساخت کو اردو کے لسانی کلچر سے ہم آہنگ کرنے کی شعوری کوشش کی ہے۔ اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں۔
کہانیوں سے پہلے ’’عرضِ حال ‘‘ میں اور آخر میں ’’خصوصی مطالعہ‘‘ کے تحت خورشید اقبال نے جو باتیں لکھی ہیں، افریقی ادب کے تناظر میں وہ بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ ان سے نہ صرف افریقی ادب کا ماضی اور حال سامنے آتا ہے بلکہ اس ارتقائی عمل کی رفتار سے افریقی ادب کے مستقبل کے امکانات کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ کتاب کا نام ’’اک شبِ آوارگی‘‘ تنزانیہ کی ایک کہانی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ یہ بظاہر ایک سادہ سی کہانی ہے جو وہاں کے مخصوص ماحول کی عکاسی کرتی ہے لیکن شبِ آوارگی میں ننھے بچے کی موت اور ڈرائیور کا کام پورا کر کے خاموشی سے نکل جانا، کہانی کو درد انگیز اور پُر تاثیر بنا دیتا ہے۔ یہاں کہیں کوئی ظلم نہیں ہوا۔ سب کچھ طے شدہ سودے کے مطابق ہوا ہے، مرد نے رقم کی ادائیگی بھی پوری کر دی ہے۔ تاہم جنسی ضرورت پوری کرنے کے دوران بیمار بچے کی موت ہو جانا کہانی کو ایک سوگوار کیفیت سے بھر دیتا ہے۔ اس مجموعے کی دوسری کہانیاں ’’اُڑان‘‘، ’’پاپا، سانپ اور میں ‘‘، ’’انتظار‘‘، ’’پنجرے‘‘، ’’اللہ کی مرضی‘‘، ’’کاہنہ‘‘، ’’خادمہ‘‘، ’’وہ آدمی‘‘، ’’کوڑے کا ڈھیر‘‘، ’’تیسری منزل سے ہونے والی گفتگو‘‘، ’’مٹھی بھر کھجوریں ‘‘ اور ’’امن کے بعد‘‘ بھی سب اپنی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں۔ پڑھے جانے کے لائق ہیں۔
جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں ’’عرضِ حال‘‘ اور ’’خصوصی مطالعہ‘‘ کے تحت خورشید اقبال نے بڑی اہم معلومات فراہم کی ہے۔ انھوں نے دریا کو کوزے میں بند کیا ہے اور میں ان کے کوزے میں سے چند قطرے قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ افریقی ادب کے موضوعات لگ بھگ وہی ہیں جو تھوڑے بہت فرق کے ساتھ مشترکہ انسانی تاریخ کے طور پر ہم دنیا کے ہر خطے کے ادب کے موضوعات میں دیکھتے ہیں۔ دیو مالائی ادوار سے لے کر جدید دور تک کے سارے موضوعات یہاں کے ادب میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ تاہم گزشتہ کچھ عرصہ کے موضوع میں آزادی اور سماجی انصاف کا ذکر زیادہ ہے۔
بر اعظم افریقہ میں ۵۴ ممالک ہیں اور ایک ارب کی آبادی ہے۔ وہاں پورے خطے میں تقریباً ایک ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں۔ تاہم یہ زیادہ تر مقامی قبائلی سطح کی زبانیں ہیں، جنہیں افریقہ ہی کے دوسرے علاقہ یا قبیلے کے لوگ بھی نہیں جانتے۔ ۔ ۔ ایک ہزار زبانوں میں سے صرف پچاس زبانیں ایسی ہیں جن کے بولنے والوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہے۔ افریقی ادب میں ایک عرصہ تک زبانی ادب( Oral Literature)رائج رہا۔ عرب مسلمانوں کی آمد کے بعد شمالی افریقہ میں عربی زبان میں لکھنے کا آغاز ہوا۔ شمالی افریقہ میں ابھی تک عربی زبان کا غلبہ ہے۔ افریقہ میں نوآبادیاتی نظام سے پہلے تحریری ادب محفوظ ہونا شروع ہو گیا تھا، چنانچہ صرف ٹمبکٹو کی لائبریری میں تقریباً تین لاکھ قلمی نسخے موجود تھے جو زیادہ تر عربی زبان میں تھے۔ سترھویں صدی میں نوآبادیاتی نظام کے دوران افریقہ میں انگریزی، فرانسیسی، پرتگالی زبانوں میں بھی لکھا جانے لگا۔ یہ ادب زیادہ تر آزادی و خود مختاری کے جذبات سے مملو ہوا کرتا تھا۔ بیسویں صدی کے وسط تک جب بیشتر افریقی ممالک کو آزادی مل گئی تو یورپی اور عربی زبانوں میں لکھنے والوں کے ساتھ مقامی زبانوں میں لکھنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد ابھر کر سامنے آتی گئی۔
شمالی افریقہ میں مسلمان عربوں کی آمد کے بعد سے اب تک عربی زبان ہی کا غلبہ ہے۔ جنوبی افریقہ میں Shona، Xhosa اور Zulu زبانیں رائج ہیں۔ مشرقی افریقہ میں سواحیلی زبان بولی جاتی ہے جس میں عربی اور ’’بان تُو‘‘ کے کئی الفاظ شامل ہیں۔ مغربی افریقہ میں Bantu ’’بان تُو‘‘ زبان بولی جاتی ہے جو بنیادی طور پر ۲۵۰ زبانوں کی ایک پوری جماعت ہے۔ شاید ہم اسے محدود معنی میں وہاں کی قبائلی لشکری زبان کہہ سکتے ہیں۔ انگریزی تو بہر حال اب نہ چاہتے ہوئے بھی عالمی سطح پر رابطے کی زبان بن گئی ہے سو افریقہ میں نوآبادیاتی اثرات کی وجہ سے بھی اور اپنی عالمی اہمیت کی وجہ سے بھی انگریزی زبان موجود ہے۔ نو آبادیاتی اثرات کی وجہ سے فرانسیسی اور پرتگالی زبانیں بھی بعض حصوں میں ابھی موجود ہیں۔
افریقہ کے سیاسی و سماجی مسائل پر ماضی، حال اور مستقبل کے حوالے سے بہت ساری باتیں کی جا سکتی ہیں، بہت سے تجزیے کیے جا سکتے ہیں۔ نوآبادیاتی دور کی شدید مذمت کی جا سکتی ہے، افریقیوں کی جدوجہد آزادی کو خراج تحسین پیش کیا جا سکتا ہے، آزادی کے بعد تاریکی کے سفر سے نکلنے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا جا سکتا ہے، لیکن میں یہاں ایک تلخ اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ہمارا افریقیوں کے ساتھ پیار محبت کا سارا سلسلہ زبانی جمع خرچ تک ہے۔ جب دنیا کا منظر نامہ بدلا، مغربی ممالک کو اپنی غلطیوں یا زیادتیوں کا احساس ہوا تو ان کی ہمدردی زبانی جمع خرچ تک نہیں رہی۔ انھوں نے گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں رہنے دی۔ گورے مرد اور افریقی لڑکیاں۔ ۔ افریقی مرد اور گوری لڑکیاں۔ ۔ گوروں کی طرف سے افریقیوں کے ساتھ بے شمار شادیاں کی گئیں۔ یہ اپنی غلطیوں کی تلافی کی عملی اور سماجی صورت تھی۔ اس کے بر عکس ہم اپنی تمام تر ہمدردی کے باوجود ابھی تک یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے سماجی سطح پر ہمدردی اور محبت کا کوئی مثالی کردار ادا کیا ہو۔ کیا ہم بھی اہلِ مغرب کی طرح افریقہ والوں سے ایسی محبت اور ہمدردی کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار ہیں ؟اس سوال کے جواب میں ہی اصل حقیقت پنہاں ہے۔
سیاسی و سماجی معاملات سے قطع نظر جہاں تک ادبی سطح کا تعلق ہے، اردو میں افریقی ادب کا متعارف کرایا جانا، اردو والوں کے لیے مفید ثابت ہو گا۔ دنیا جہان کا ادب کسی گلدستے کے رنگ برنگے پھولوں کی طرح ہے۔ سو جتنے رنگوں کے پھول اس میں سجائے جاتے رہیں، ادب کے لیے خوبصورتی، خوش رنگی و خوشبو کا باعث بنتے رہیں گے۔ اس اچھے کام کے لیے خورشید اقبال کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ترجمہ کے کام سے دلچسپی رکھنے والے ہمارے احباب اردو ادب کو بھی دوسری زبانوں میں متعارف کرانے کی صورت نکالیں گے تاکہ محبت یک طرفہ نہ رہے۔
حیدر قریشی
مدیر جدید ادب جرمنی
٭٭٭
کالے لفظوں کا اجالا
فن کے ابعاد اپنی نیرنگیوں میں شمار کی حد سے نکل جاتے ہیں۔ شاعری ہو کہ فکشن، باطن میں چھپی آگ کی کرید ہے۔ اس آگ میں تپ کر کندن ہو جانے والا لفظ کبھی بانجھ نہیں ہوسکتا۔ کہانی لفظوں سے بنتی ہے۔ تنہا لفظ کہانی خلق نہیں کرسکتا۔ لفظوں کا اجتماع تجربے کا اجتماع ہے۔ کوئی تجربہ واردات بن کر جب تک روح کی گہرائی میں اتر نہیں جاتا، واقعہ تو بن سکتا ہے، کہانی ہرگز نہیں۔ کہانی انسان کا سایہ ہے کہ وہ ساتھ تو چلتا ہے، مگراس کے قدم نہیں رکتے، اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کسی غار میں جا کر چھپ جاتا ہے۔ یعنی کہانی رات کا بدن ہے۔ با ذوق قاری اس بدن میں گم ہو جاتا ہے۔ مکروہ سیاست دان اس بدن کو نوچ کھاتے ہیں۔ کہانی حوا کی بیٹی ہے کہ آج تک لٹ رہی ہے۔ افلاس، بھوک اور بیماری سیاسی نعروں سے نہیں مٹتی۔ کہانی کاراس دکھ کوسمجھتاہی نہیں ؛اس میں جیتا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے لفظ رقص نہیں کرتے، جل کربھسم نہیں ہوتے، بلکہ سلگتے رہتے ہیں۔ اس جلن کا اس وقت تک کوئی مرہم نہیں، جب تک خون کی سیاہی دھل نہیں جاتی۔ روسونے کہا تھا کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے، لیکن ہر قدم پر پا بہ زنجیر ہے۔ کہانی اس زنجیرسے آزاد ہونا چاہتی ہے۔ غلامی انسان کا مقدر نہیں ؛سیاست کا طوق ہے۔ اس سے رہائی کی جنگ میں نہ جانے کتنے تجربے شکست سے دو چار ہوتے ہیں۔ یہ شکستگی فن کا مظہر ہے۔
ہمیں پڑھایا گیا تھا کہ افریقہ تاریک براعظم ہے۔ بچپن کی ننھی سمجھ نے یہی جانا کہ وہاں سورج ہی نہیں نکلتا، مگر معاملہ کچھ اور تھا، جسے خواجہ جاوید اختر نے آسان کر دیا:
ہاں یہ سورج حیات بخش سہی
دھوپ کھا کر گزر نہیں ہوتا
زندگی توکسی نہ کسی طور گزر ہی جاتی ہے، لیکن آگہی کے عذاب نے کب کسی کو بخشا ہے۔ انسان اور جانور میں کچھ تو فرق ہے۔ مساوات کا نعرہ بلند کرنے والی کھوکھلی جمہوریت محض تماشائی ہے۔ انسان تماشا نہیں، دردِ دل کا شناسا ہے۔ تماشائی اگراس شناسائی پر ایمان لے آئیں تو دنیا کا نقشہ کچھ اور ہو گا۔ لفظ، کالا یا گورا نہیں ہوتا۔ جذبۂ اسفل اسے سیاہ کر دیتا ہے۔ اصل شے بدن کی رنگت نہیں، جذبے اور روح کاتقدس ہے۔ افریقی کہانیوں میں یہ تقدس، آنسوؤں کے جلنے کے ساتھ پیدا ہوا ہے۔ افریقہ کی تاریکی کہانی کا پیرہن ہو گئی ہے۔ ظاہر میں یہ پیرہن جتناچاک ہے، باطن میں اس کی گرفت اتنی ہی مضبوط ہے۔ افریقی ادیبوں کے موضوعات میں داستان، اساطیر، غریبی، فاقہ کشی، نسلی منافرت، تعصب، بے روزگاری اوراستحصال بار بار آتا ہے۔ غلامی اور نوآبادیاتی جبر کے کرب کا اثر آج بھی مضبوط ہے۔ افریقی کہانیاں حالات کا نوحہ نہیں ؛ احتجاج کی علامت ہیں۔ افریقہ شروع ہی سے استعمال ہوتا رہا ہے۔ وہاں کے لوگ غلام کی حیثیت سے بیچے اور خریدے جاتے رہے ہیں۔ آج بھی صورتِ حال کچھ زیادہ بہتر نہیں۔ روٹی، کپڑا اور مکان کے مسائل میں غذائی اجناس کی عدمِ سہولت، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضرورتیں آج بھی زندگی کو تاریکی میں گھسیٹ رہی ہیں۔
خورشید اقبال میں کئی طرح کی صلاحیتیں ہیں۔ مصروفیات انھیں صیقل کرنے کا موقع نہیں دیتیں۔ وہ شعر بھی کہتے ہیں۔ کچھ افسانے بھی لکھے ہیں۔ گاہے گاہے تراجم سے بھی الجھتے رہے ہیں۔ یہ کتاب ان تراجم پر مشتمل ہے، جوجستہ جستہ گذشتہ دو ڈھائی برسوں میں کیے گئے ہیں۔ ان میں سے کچھ، رسائل میں شائع بھی ہوئے۔ پہلی بار کتابی صورت میں یہ ترجمے منظر عام پر آ رہے ہیں۔ فکشن کے قارئین کے لیے یہ کتاب دلچسپ ہے۔ یہ دلچسپی دوسطحوں پر ہے۔ خورشید اقبال نے محض تراجم پر اکتفا نہیں کیا۔ ’خصوصی مطالعہ ‘کے تحت انھوں نے براعظم افریقہ کی تاریخ، تہذیب اورلسانی ارتقا کے مراحل پر روشنی ڈالی ہے۔ ادبی ساخت کی تشکیل اور تنوع کے خصائص نشان زد کیے ہیں۔ یہ مطالعہ سرسری نہیں ہے۔ تحقیق اور غور و خوض کے بعد انھوں نے جو منظرنامہ پیش کیا ہے، وہ ادبی، لسانی، تاریخی، معاشرتی اورسیاسی حالات پر محیط ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ انھوں نے ترجمے کا عام ڈھب اختیار نہیں کیا۔ مکھی پر مکھی بٹھانے سے تو اچھا ہے کہ کوئی اور پیشہ اختیار کیا جائے۔ تخلیق کی طرح ترجمہ بھی سنجیدگی کا تقاضا کرتا ہے۔ اور اگر معاملہ ادبی تخلیق کے ترجمے کا ہو تو یقیناً یہاں بھی خون پانی کرنا پڑتا ہے۔ ترجمہ ہو بہو ممکن ہی نہیں۔ تخلیقی زبان ٹھوس نہیں، سیال ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معنی ہاتھوں سے پھسل پھسل جاتا ہے۔ بعض ترجمے تخلیق کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ رنگ یہاں بھی ہے۔ افسانوں کا انتخاب معمولی کام نہیں۔ یہ نظر کا امتحان ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ خورشید اقبال یہاں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ عربی، فارسی اور انگریزی سے قطع نظر اردو میں دیگر زبانوں کی ادبیات کے ترجمے کی روایت کچھ مستحکم نہیں۔ یہ سچ ہے کہ انگریزی نے دنیا کے بڑے حصے کو اپنے تسلط میں لے لیا ہے۔ یہ دیگر زبانوں کی تخلیقات تک پہنچنے کا اہم اور سب سے بڑا وسیلہ بن گئی ہے۔ مترجم نے بھی اسی وسیلے کو بروئے کار لایا ہے۔
شامل کتاب افسانوں کا تعلق مخصوص سیاق اور خطے سے ہے۔ اردو کا قاری، بھلا ان افسانوں سے کیوں کر محظوظ ہو؟ہوسکتا ہے کہ کوئی قاری اس زبان، سیاق اور خطے سے ناآشنا ہو، لیکن فن کی بنیادی صفت یہ ہے کہ اس میں اشتراک کا پہلو غالب ہوتا ہے۔ فن کا موضوع ہے انسان۔ اور انسان دنیا کے کسی بھی مذہب، رنگ، نسل، تہذیب، زبان اور خطے کاہو، انسان کا دکھ سمجھتا ہے۔ دردِ دل کی شناسائی ہی جذبے کو آفاقی بناتی ہے۔ تو صاحب، لیجیے یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا۔ قرأت کے جواز کے بعد دومسئلے سامنے آتے ہیں۔ ایک تو متن کی گتھیوں کو سلجھانے کا، دوسرے اس عمل میں جمالیاتی عناصر کے انکشاف کا۔ چوں کہ معاملہ شر حیات کا نہیں، ترجمے کا ہے، اور وہ بھی تخلیقی ترجمے کا، اس لیے خورشید اقبال کو بھی ا ن مسائل سے جوجھنا پڑا ہے۔ تخلیقی کرب کا احساس، دخل در معقولات کو قبول نہیں کرتا۔ یہ کرب ترجمے میں زندگی کی حرارت کا احساس دلاتا ہے۔ اس احساس میں قاری کی شرکت نہ صرف متن کو اعتبار عطا کرتی ہے، بلکہ اس کی بافت میں معنوی امکانات کو چمک اٹھنے کے مواقع بھی مل جاتے ہیں۔ خورشید اقبال نے ترجمے کو تخلیق کا بدل نہیں گردانا۔ مطالعۂ متن میں انھوں نے بھی تخلیقی کرب کو اپنے اندر ہوا دی اور تخئیل کے نشیب و فرا زسے گزرتے ہوئے انھوں نے کہانی کی تھیم کو ایک نئی صورت دینے کی کوشش کی۔ اردو کے سیاق، روزمرہ اور محاوروں کا لحاظ رکھتے ہوئے انھوں نے جملوں کی ساخت سے لے کر معنوی ربط و تسلسل تک کا اہتمام کیا ہے۔ زبان کے برتاؤ میں تخلیقی عناصر کی موجودگی قاری کے ادبی ذوق کومایوسیوں سے بچاتی ہے۔ آنکھوں میں تجسس بھرکر زندگی کے تجربات کا مشاہدہ نہ صرف گنجینۂ معنی سے گلے ملتا ہے، بلکہ چھوٹے بڑے خطوط، دبے ابھرے جذبات اور افہام و تفہیم کے ہزار رنگ کے ادراک سے گزرتا ہے۔ ہزار رنگ کے ادراک کا تجربہ ابہام کی دھند سے آزاد نہیں۔ چھوٹے بڑے تجربے کو بیانیہ کی شکل عطا کرنا اور اس میں متعلقاتِ متن کے اقتضا کا لحاظ رکھناآسان نہیں۔ ان نکات کے عرفان کے بغیر نہ کوئی تخلیقی عمل پوراہوسکتا ہے اور نہ ترجمے کو استنادحاصل ہوسکتا ہے۔ خورشید اقبال نے ترجمے میں کہانی کی روح سے سمجھوتا نہیں کیا۔ انھیں تخلیق اور ترجمے کا فرق معلوم ہے۔ اس لیے تخلیقی متن میں ترجمے کے سروکاروں کو انھوں نے نظرانداز نہیں کیا:
ترجمہ کرتے وقت میں نے خاص طور پر اس بات کا خیال رکھا کہ پڑھتے وقت قاری کو ترجمے کا احساس نہ ہو، البتہ اسے ایسا لگے جیسے وہ اوریجنل افسانہ پڑھ رہا ہے، کیوں کہ کسی بھی زبان کے ادب کو جب دوسری زبان میں منتقل کیا جاتا ہے تو اس کی اپنی روح ختم ہو جاتی ہے اور ایک نوع کا بوجھل پن اس پر حاوی ہو جاتا ہے، اور میں یہی نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے ہر جملے کا ترجمہ کرتے وقت میں بس یہ سوچتا تھا کہ اگر میں نے خود اس افسانے کی تخلیق اردو زبان میں کی ہوتی تو اس جملے کو کس انداز میں لکھتا … اور میں وہی لکھ لیتا۔ [عرضِ حال]
یہ اپروچ مترجم کو نہ صرف لکیر کا فقیر ہونے سے بچا لیتا ہے، بلکہ اسے تخلیقیت کی بہاروں سے منہ موڑنے نہیں دیتا۔ یہ رویہ لفظ کو نرا لفظ نہیں سمجھتا۔ خورشید اقبال کے اندر کا تخلیق کا ر کب خاموش رہتا۔ اس رویے نے اسے کمک پہنچایا۔ اس لیے یہاں ترجمہ لفظوں کا نہیں ہوا ہے، بلکہ معانی کی کیفیات کو گرفت میں لانے کی سعی کی گئی ہے۔ اس عمل میں متن کے متعلقات کے خدوخال روشن ہوئے ہیں۔ تجربے کی آنچ محسوس کی گئی ہے۔ اس احساس کو ابھارنے کے لیے الفاظ کے انتخاب اور اطلاق میں موصوف کے تخلیقی ذہن نے کافی ساتھ دیا ہے:
کبھی کبھی حمید کو ایسامحسوس ہوتا جیسے وہ اس دکان میں ہمیشہ سے ہے اور ایک دن اس کی زندگی اسی دکان میں ختم ہو جائے گی۔ حالاں کہ اب اسے یہاں رہنے میں کسی قسم کی پریشانی محسوس نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی اسے رات کے آخری پہروں میں وہ پراسرار آوازیں سنائی دیتی تھیں جو کبھی اس کا دل دہلا دیا کرتی تھیں۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ یہ آوازیں شہر کے آخری کنارے پر واقع دلدل سے آتی ہیں جس میں نہ جانے کون کون سے حشرات الارض بھرے پڑے تھے۔ اس کی دکان مضافات کی جانب سے آنے والی سڑک پر، بڑی ہی اچھی جگہ تھی۔ وہ اپنی دکان صبح تڑکے کھولتا جب مزدور اپنے کام پر جانا شروع کرتے اور رات کواس وقت تک بند نہیں کرتا جب تک کہ ان میں سے آخری شخص بھی لوٹ کر اپنے گھر نہ پہنچ جاتا۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ وہ اپنی دکان پر بیٹھا زندگی کے ہر رنگ کو اپنے قریب سے گزرتے ہوئے دیکھا کرتا ہے۔ [پنجرے]
میکا نے دروازہ کھولا اور تیز، مضطرب قدموں سے چلتا ہوا باہر نکل گیا۔ جھونپڑیوں کے چھپروں پر پڑنے والی سورج کی اولین کرنیں اور چولھوں سے اٹھنے والے دھوئیں کے مرغولے ایک نئے دن کی شروعات کا اعلان کر رہے تھے۔ [اک شب آوارگی]
لڑکے نے حیرت سے سوچا، کیا یہی کاہنہ ہے؟۔ اسی دوران ایک بار پھر کتا دھیرے دھیرے اس کی ٹانگوں سے رگڑ کھاتا ہوا گزرا۔ لڑکے کو ایک ہلکی سی نرماہٹ بھری گرمی کا احساس ہوا اور ایک عجیب سی سنسناہٹ اس کے پورے جسم میں دوڑ گئی۔ گرمی کا احساس تو لمحاتی تھا لیکن سنسناہٹ باقی رہی جو اس کی پیٹھ سے ہوتی ہوئی اس کی گردن کے پچھلے حصے تک پھیل گئی اور خوف کی ایک سرد لہرسے اس کا جسم ہولے ہولے کپکپانے لگا۔ [کاہنہ]
دس منٹ ایک خوفزدہ سی خاموشی کے سایے میں گزر گئے ایسی خاموشی جیسی شاید کائنات کی ابتدا سے پہلے تھی۔ پھر فوجیوں کے کمانڈر نے انتقامی کاروائی کے آغاز کا اشارہ کر دیا۔ کچھ فوجیوں نے گاؤں والوں میں سے چند کو پکڑ کر الٹا لٹکا دیا اور بری طرح پیٹنے لگے، دوسرے فوجی ان کے زخموں پر لال مرچیں لگانے لگے جب کہ کچھ نے انھیں گائے کا تازہ گوبر کھانے پر مجبور کیا، لیکن گاؤں والے اس شخص کا نام نہیں بتا رہے تھے۔ آخر، فوجیوں نے گاؤں کے تمام مکانات جلا ڈالے، فصلوں کو بھی نہ چھوڑا۔ ایک ایسا ملک جہاں کے لوگوں کو بڑی مشکلوں سے دو وقت کا کھانا نصیب ہوتا تھا، وہاں سال بھر کی محنت کو یوں آگ کی نذر کر ڈالا گیا، لیکن گاؤں والوں نے اب بھی اس شخص کے بارے میں نہیں بتایا۔ دراصل ان کی خاموشی کا راز بس اتنا ہی تھا کہ وہ بے چارے جانتے ہی نہیں تھے۔ انھیں سچ مچ یہ پتا نہیں تھا کہ یہ کارنامہ کس نے انجام دیا ہے۔ [وہ آدمی]
یہ اقتباسات ترجمے کو تخلیق بنانے کی مثالیں ہیں۔ یہ افسانے اپنی تہذیبی اور فکری روایات کاتسلسل ہیں۔ اس لیے انھیں اکائی کی صورت میں دیکھنے سے نہ صرف وہاں کی تہذیب، رسم و رواج، عقیدے اور سماجی شعور کا علم ہوتا ہے، بلکہ بنت میں فنی رچاؤ کاسیاق بھی فراہم ہو جاتا ہے۔ انھیں اس آغاز کا حصہ سمجھنا چاہیے، جہاں دیومالا جنم لیتا ہے۔ افریقہ جیسے براعظم کی تاریکی شاید وہ دیومالائی ابہام ہے، جس کی گتھیاں آج بھی نہایت پیچیدہ ہیں۔ آج بھی وہاں کے عوام دیومالا میں جیتے ہیں۔ تاریک براعظم میں تخلیق پانے والی کہانیوں کے تجربے سے گزر کر ان میں اترنا اور خود کو ان مراحل میں شریک کرنا، اس چمک سے عبارت ہے، جہاں سے روشنی کا سرچشمہ پھوٹتا ہے:
ابتدائے آفرینش میں
دودھ کا ایک بہت بڑا قطرہ تھا
ڈونڈاری آیا اور اس نے اس سے پتھر کو پیدا کیا
پھر پتھر نے لوہے کو پیدا کیا
پھر لوہے نے آگ پیدا کی
پھر آگ نے پانی پیدا کیا
پھر پانی نے ہوا پیدا کی
تب ڈونڈاری دوسری بار آیا اور اس نے پانچوں عناصر سے انسان کو پیدا کیا
لیکن انسان مغرور ہو گیا
تب ڈونڈاری نے بے بصری پیدا کی
لیکن جب بے بصری مغرور ہو گئی
تب ڈونڈاری نے نیند پیدا کی
لیکن جب نیند مغرور ہو گئی
تب ڈونڈاری نے پریشانی پیدا کی
لیکن جب پریشانی مغرور ہو گئی
تب ڈونڈاری نے موت کو پیدا کیا
لیکن جب موت بھی مغرور ہو گئی
تب ڈونڈاری تیسری بار دنیا میں آیا
اس بار وہ گوینو کے اوتار میں آیا، جو لافانی تھا
اور گوینو نے موت کو شکست دی
معید رشیدی
نئی دہلی
۳۰؍دسمبر۲۰۱۰ء
٭٭٭
کالے بدن کی کتھا
بھوک کہیں کی ہو کسی زمین کی ہورات کی طرح کالی ہوتی ہے۔ ہجرت بدن کی ہو یا اپنی مٹی کی اماوس میں لپٹی ہوئی آنکھیں ہوتی ہیں۔ جہاں ’بدن‘ کہانی اس لیے بنتا ہو کہ اس کی ہر تہہ میں مٹی کا رنگ گاڑھا ہے اور پیٹ کی ازلی فطرت نے ’حسن ‘کی داخلی منطق بھی بدل دی ہو، تو وہاں بدن کی کتھا کالی ہی ہو گی۔ لیکن اس کتھا کی ایک بڑی اور مکروہ سچائی یہ ہے کہ اس کے مدمقابل بدن کے’ روشن‘ خطوط میں کوئی کالی روح بھی نواس کرتی ہے۔ اس کالی روح کا سایہ کہاں نہیں ہے؟اس کی شناخت کا عمل شاید آسان نہیں کہ ’پردوں کا چلن‘ عام ہو چکا ہے۔ ہم شاید بے زمین ہو چکے ہیں، البتہ کھنڈروں کی کہانی آج بھی کہیں زندہ ہے۔ بے زمین آنکھوں کی راتیں کیسی ہوتی ہیں ؟اس کا بیان شاید ممکن نہیں ہے چوں کہ اس کا راوی ابھی اپنے ’دن‘سے ہی کہاں نکلا ہے۔ رات تو ان زمینوں میں اُگتی ہے جہاں بدن چہرہ سب سالم ہوں، ورنہ افریقی براعظم میں سب جانتے ہیں کہ دن اور رات، بدن کی کالی کتھا اور اس کے اسلوب و آہنگ سے الگ کوئی وجود نہیں رکھتے۔ ہندوستان ایسے ملک میں اس سائکی کو ہر وہ فرد سمجھ سکتا ہے جس کو اپنی مٹی کا پاس ہے، یہاں کی صدیوں پرانی روایات اور اس کے مادری اسلوب کو نوآبادیات کی منطق نے اس طور دھندلا دیا ہے کہ مجھے اپنے وجود میں لپٹا ہوا ہر سایہ’ افریقہ ‘معلوم ہوتا ہے۔ شاید اس لیے تاریک براعظم کا کوئی بھی کردار مجھے اجنبی نہیں لگتا۔ ’خورشید بدن‘ کی قرأت میں یہ سیاہی ایسی شدید ہے کہ میں خود کو کسی اجنبی جزیرہ کا باشندہ سمجھنے لگا ہوں۔ پروین شاکر کی ایک نظم اس وقت مجھے کیوں یاد آ رہی ہے ؟
کھوئی کھوئی آنکھیں
بکھرے بال
شکن آلود قبا
لٹا لٹا انسان!
سائے کی طرح سے میرے ساتھ رہا کرتا ہے -لیکن
کسی جگہ مل جائے تو گھبرا کے مُڑ جاتا ہے
اور پھر دور سے جا کر مجھ کو تکنے لگتا ہے
کون ہے یہ؟
(نظم ’اجنبی‘، مشمولہ ’خوشبو‘)
شاید ’خورشید بدن‘ کا اسلوب و آہنگ سالم ہے، ورنہ ترجمے کی شرحیات سے نباہ کرتے ہوئے اکثر قواعد کی تشکیل اس نوع کی ہو جاتی ہے کہ احساس کی سائکی کا گزر بھی بہ مشکل ہوتا ہے۔ قرأت کی اس کیفیت کو سمجھنے کی سعی میں یہ نکتہ روشن ہوتا ہے کہ اُردو ایسی زبان میں افریقی سیاہی کو روشن کرنے کی ازلی فطرت موجود ہے۔ اس لیے خورشید اقبال کے ترجمے میں افریقی سیاہی اکثر طبع زاد معلوم ہوتی ہے۔ میں نے خورشید اقبال کی تخلیقی ریاضت اور اُردو کی اس فطرت کو قرأت کی اسی منطق میں ’خورشید بدن‘ کا نام دیا ہے۔ ’خورشید بدن‘ کے سائے میں کالے دن کی کتھا ایسے روشن ہوتی ہے جیسے کسی کی معصوم نظروں میں ممتا کا ٹیکا۔ ’خورشید بدن‘ کی تفریدی جہت یہی ہے کہ اس میں فن اور احساس کی منطق اپنے مادری اسلوب میں پھیل گئی ہے۔ ان افسانوں کے مطالعات میں اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ تخلیقی متون کے تاریک بری قطعات کی سیاحت ترجمے کی معراج ہے۔ حالاں کہ کسی بھی نوع کے متن کے علمیاتی زمرہ کی نشاندہی اور اس کے G-SPOTکی تخصیص کے بغیر اس آرٹ کی کامیابی ان معنوں میں مشکوک سمجھی جاتی ہے کہ صرف و نحو کی شدت پسندی میں اکثر متن اپنے غیاب کا انعکاس نہیں کرتا۔ اس طور پر نئی ساخت میں زبان کی اپنی تہذیب اور مادری اسلوب کو بیک وقت قائم کرنا کسی تخلیقی صدمہ سے کم نہیں ہوتا۔ ’خورشید بدن‘ میں یہ پہلو نہ صرف روشن ہے بلکہ زبان کی تخلیقی منطق میں نئی لغت کی تشکیل بھی ایک قابل ذکر واقعہ ہے۔ ان باتوں کے باوجود کسی نئی ساخت میں تخلیقی احساس کا بعینہ ادراک و عرفان فراڈ ہے، لیکن احساس کی انفرادی جہتوں سے انکار بھی غیر ممکن ہے۔ لفظ اپنے تشکیل کے عمل میں ہی اپنی سانسوں کو پا لیتا ہے، اس لیے اس کی ANATOMYخود تشکیل کار کو بھی بدلی ہوئی لگتی ہے۔ ترجمہ کا آرٹ اس سے الگ نہیں ہے۔ ’خورشید بدن ‘میں بھی یہ بات پورے طور پر روشن ہے کہ زبانیں فقط نشانات کا مجموعہ ہوتی ہیں، تخلیقی احساس کی انفرادی قواعد لفظوں کو بینائی عطا کرتی ہے۔ گویا کوئی بھی زبان اس حد تک غیر اور مردہ ہوتی ہے کہ ہم ان نشانات سے واقف نہیں ہوتے ورنہ ’تخلیقی نشاط‘ حضرت انسان کا مشترکہ کرب ہے۔ خورشید اقبال نے ان نشانات کی تجدید کی ہے اور یہ باور کرایا ہے کہ تخلیق فن عبادت ہے اور ترجمہ اس عبادت کے بہ ہر پہلواستغراق کی شدت کا نام ہے۔ بعض جگہوں پر بالخصوص عنوان کے تعین میں خورشید اقبال نے لفظوں پر اعتبار کیا ہے، اس کے باوجود ان کی کہانیاں اپنے تکنیکی مشاہدات کی نفی کرتی ہیں اور احساس کی ایک فرہنگ وضع کرتی ہیں۔ یہ ایسی بات ہے جس کو ان کا عیب گرداننے کے بہ جائے تشکیل کار کی مجبوری کہہ سکتے ہیں۔ اس طورپر ’اک شب آوارگی‘، کے مطالعات میں ’خورشید بدن‘ کا شناخت نامہ یہ ہے:
-خورشید اقبال کے آرٹ میں فکشن کا بدن اور چہرہ سالم ہے۔
-خورشید اقبال کے ہاں تخلیقی محاورات کی تشکیل و تعمیر فنی ریاضت اور احساس کی منطق سے الگ نہیں ہے۔
-افریقی ثقافت اور اس کا مادری اسلوب’ خورشید بدن‘ میں شامل ہے۔
-ان کے فن میں احساس اور تخیل کی سانس کہیں پھولی نہیں ہے۔
-راوی کے بیان اور کرداروں کے تشخص میں ان کا بیانیہ اپنی فطری سائکی کو صیقل کرنے میں صد گونہ کامیاب ہے۔
-ثقافتی نقوش کے بیان میں ان کا بیانیہ، اسلوب کے فطری مشاہدہ کو صیقل کرتا ہے۔
-ان کے ہاں احساس کا رنگ اپنی بالائی ساخت سے زیادہ قصہ گوئی کی داخلی کیف میں نمایاں ہے۔
ایسی بہت سی باتیں ’خورشید بدن ‘کا عنوان ہو سکتی ہیں۔ بعض جگہوں میں فن کی داخلی کرید شکستہ بدن کی ترجمان بھی ہے۔ لیکن بدن کی سندرتا اپنی ساخت میں اتنی نمایاں نہیں ہوتی جتنی کہ اس کے بھاؤ میں اس کا داخلی حسن پیدا ہوتا ہے۔ اس طور پر ’خورشید بدن‘ کی تفریدی جہت یہ بھی ہے کہ اس میں فن کی ہر کروٹ کا صیغہ موجود ہے۔ ان افسانوں کی خالص شعریات میں فکشن کی اپنی معراج کا حسن کسی قدر نظر آتا ہے۔ بعض افسانوں میں اختتامیہ اتنا شدید اور غیر متوقع ہے کہ خورشید اقبال مترجم سے زیادہ تخلیق کار معلوم ہوتے ہیں۔ دراصل بیانیہ کے تخلیقی خواص کی تشکیل میں انھوں نے ترجمے کی شرحیات سے الگ ہو کر فن کی داخلی بافت سے روشنی حاصل کی ہے۔ اس باب میں ان کا اپنا شعوری تجربہ بھی ہے کہ ’ہر جملے کا ترجمہ کرتے وقت میں بس یہ سوچتا تھا کہ اگر میں نے خود اس افسانے کی تخلیق اردو زبان میں کی ہوتی تو اس جملے کو کس انداز میں لکھتا‘۔ خورشید اقبال نے شعوری طور پر فن کے اجتماعی وجود اور اس کے تخلیقی خواص کو اپنے اسلوب و آہنگ میں پیش کرنے سعی کی ہے، اس لیے ان کے ہاں TARGET TEXTبھی باز تخلیق کے عمل میں انفرادی طور پر استھاپت ہو گیا ہے۔ SOURCEکے اکتشاف کو ادبی جمال میں منقلب کرنے کی ہنر مندی ان کے ہاں اکثر مقامات میں موجزن ہے۔ اس نوع کے ترجمے کے لیے متعلقہ کلچر کی روپ ریکھا، اس کے روزمرہ، دیومالا، لوک روایات اور ایسے ہی بعض محاورات کا تخلیقی احساس ناگزیر ہے۔ خورشید اقبال نے اپنے انتساب، تخلیقی بیانیہ اور علمی مضامین کے وسیلہ سے اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ افریقہ ان کے لیے فقط جغرافیائی حدود نہیں ہے۔ اس لیے ان کہانیوں کے درون میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ جہاں اسلوب کی مقامیت اہمیت رکھتی ہے وہیں فن کا آفاقی چہرہ بھی ہوتا ہے۔
’خورشید بدن‘ کے مطالعات میں مجھ ایسے قاری کی اپنی ترجیحات یہ ہیں کہ ان افسانوں کی موجودہ صورت کیا ہے؟ان میں فن کا انفراد کن سطحوں پر ہے؟فقط قواعد کی پابندی ہے، بیانات کے منقلب ہونے کا انداز ہے یا پھراس کے اجتماعی وجود میں تخلیقی کیف و کم بھی ہے؟یہاں میں اپنے اس خیال کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں کہ ان کے ہاں فکشن کی خالص شعریات وضع ہو گئی ہے۔ بعض مثالیں ملاحظہ کیجیے:
-وہ بہت دور دیس ہے … امریکہ(اڑان)
-ایک پرندہ اپنے پروں کو پھڑپھڑا رہا تھا … مسٹرویلجی اپنی کرسی پر بیٹھے دانشمندانہ انداز میں سرہلارہے تھے … اور ماں کی آنکھیں دور کہیں تک رہی تھیں۔ (اڑان)
-مرغیاں ڈر کر جدھرسینگ سمائے بھاگ نکلیں۔ (پاپا، سانپ اور میں )
-کیا تمہارے کپولانا کے اندر بہت گرمی لگ رہی ہے۔ (پاپا، سانپ اور میں )
-کیا مرغیوں کے باڑے میں ہمیشہ سانپ رہتے ہیں۔ (پاپا، سانپ اور میں )
-انسان کو امید قائم رکھنی چاہیے۔ (پاپا، سانپ اور میں )
-سدھائے ہوئے گھوڑے روز مرتے ہیں۔ (پاپا، سانپ اور میں )
-وہ چپ چاپ کھڑا اندھیرے کے اس ٹکڑے کو گھورتا رہا جس میں وہ غائب ہو گئی تھی۔ (پنجرے)
-اتنی با وقار لگتی ہے کہ سورج کو بھی اس پر اپنی دھوپ کی کرنیں ڈالتے ہوئے جھجک محسوس ہو۔ (پنجرے)
-برسوں کے اندھیرے نے اس کی حالت غیر کر دی تھی۔ (پنجرے)
-روشنی کے ننھے ننھے نقطے جو تاریکی کی سیاہ چادر میں ستاروں کی طرح ٹنکے ہوئے تھے۔ (پنجرے)
-اچانک بجلی کے ایک انتہائی تیز کوندے نے جیسے ان کی آنکھیں اچک لیں۔ (اللہ کی مرضی)
-کھانسیاں جیسے اس کے اندر سے ابلی آ رہی تھیں۔ (کاہنہ)
ان مثالوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے ہاں فن کا داخلی بھید بیانیہ کی اپنی ساخت میں ہے۔ تخلیقی محاورات کی کوئی صورت نظر آتی ہے تو یہ بھی بیانیہ کی اس ساخت سے الگ نہیں ہے۔ تفکر، تجسس، تحیر غرض حرف و صوت کا ہر آہنگ اس بیانیہ کو صیقل کرتا ہے اور قاری کو اپنے بدن کی لمس کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ان افسانوں کے مطالعات میں قاری کی شرکت کا ایک جواز یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں فکشن کے ثقافتی نقوش میں ان موضوعات کا احاطہ کم و بیش کیا گیا ہے۔ بعض افسانہ تو ایسے ہیں کہ منٹو کے متون کا چہرہ ہماری نگاہوں میں پھرنے لگتا ہے۔ ’خورشید بدن ‘کی اس تخلیقی ریاضت کو ہماری تنقید شاید اپنے اکتشاف میں جگہ نہ دے لیکن فکشن پسند قارئین اس کے اسلوب و آہنگ کو بامعنی بنائیں گے۔ اک شب آوارگی، کی تخلیقی تپش کو میں ایک قاری کی حیثیت سے خوش آمدید کہتا ہوں۔ خالد سہیل کے بعد خورشید اقبال کے ہاں ’کالے جسموں کی ریاضت ‘کا ایک بھرپور عنوان قائم ہوا ہے اس لیے بھی اس کی پذیرائی ہو گی۔ ’خورشید بدن‘ کی مصوری میں جمیل خاں نے لکیروں کو بے پناہ گویائی عطاکی ہے۔ چنانچہ معنی کی نئی جہتیں قائم ہو گئی ہیں۔
— فیاض احمد وجیہہ
نئی دہلی
۲۸؍دسمبر۲۰۱۰ء
٭٭٭
اڑان
تنزانیہ
کِشویلے اسٹریٹ کا نام اب اُوہُورُو اسٹریٹ ہو گیا تھا۔ میری دونوں بہنیں اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد شادی کر کے اپنے اپنے گھروں کی ہو چکی تھیں۔ ماں اکثر انھیں یاد کر کے اداس ہو جایا کرتی تھی۔ مہرُن نے شادی کے کئی خواہش مندوں میں سے آ خر کار ہمارے اسکول کی کرکٹ ٹیم کے سابق سلامی بلّے باز کو چن لیا تھا اوراب وہ اس کے ساتھ اسی شہر میں رہتی تھی، جبکہ رضیہ دارالسّلام کے شمالی ساحلی قصبے ٹانگا کی ایک متمول خاتونِ خانہ تھی۔ میرے بھائی فیروز نے اپنے آخری تعلیمی سال میں اسکول کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کا اتنا پڑھ لینا ہی کچھ کم حیرت کی بات نہیں۔ اور اب وہ ’اورینٹل امپوریم‘ میں منشی تھا جہاں سے وہ کبھی کبھی اسٹیشنری کی چیزیں چرا کرگھر لے آ یا کرتا تھا۔
ماں نے اپنی ساری امیدیں ہم دونوں چھوٹے بیٹوں یعنی مجھ سے اور اَلو سے لگا رکھی تھیں۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ ہم اسٹور کے کاموں میں الجھ کر تعلیم سے اپنی توجہ ہٹائیں۔ اس لیے اس نے ایک شام آخری بار اسٹور کے مضبوط چوبی تختوں والے دروازوں پر نصف درجن تالے لگائے اور اسٹور فروخت کر دیا۔ یہ رضیہ کی شادی کے ٹھیک ایک ہفتے بعد کا واقعہ ہے۔ رضیہ پُر اشک آنکھوں کے ساتھ رخصت ہو چکی تھی اور اپنے پیچھے اُوہُورُو اسٹریٹ کے چکر کھاتے غبار کے درمیان کھڑی پریشان حال ماں کو چھوڑ گئی تھی۔
پھر ہم لوگ اُپانگا کے رہائشی علاقے میں منتقل ہو گئے۔ اُوہُورُو اسٹریٹ کی ہما ہمی کے مقابلے یہاں کا ماحول بے حد پر سکون تھا۔ سڑک پر بسوں، سائیکلوں اور کاروں کے شور کی بجائے ہم اب مینڈکوں کی ٹر ٹراہٹ اور جھینگروں کی آوازیں سنا کرتے تھے۔ راتیں ڈراؤنی، سنسان اور ویران ہوا کرتی تھیں جن کی عادت ڈالنے میں ہمیں ایک عرصہ لگا تھا۔ اوپانگا روڈ شام کے سات بجتے ہی سنسان ہو جایا کرتا تھا اور بغلی گلیاں تاریکی میں ڈوب جاتی تھیں، کیوں کہ روشنی کا کوئی انتظام نہ تھا۔ زیادہ تر علاقے اب تک غیر آباد تھے، اور جہاں تک مکانات بن چکے تھے، ان کے بعد کا پورا علاقہ گھنی جھاڑیوں، دیو پیکر، ہیبت ناک’ باؤباب ‘کے درختوں، آموں اور ناریل کے جھنڈسے بھرا پڑا تھا۔
کبھی کبھی شام کو جب ماں بہت اداس ہوتی تو اَلو اور میں ماں کے ساتھ دو۔ تین۔ پانچ کھیلتے، جو تاش کی، تین لوگوں کے درمیان کھیلی جانے والی ایک قسم ہے۔ میں اب یونیورسٹی میں داخل ہو چکا تھا اور اکثر سنیچر ہی کو گھر آیا کرتا تھا۔ اَ لو اسکول میں اپنے آخری سال میں تھا۔ وہ پڑھائی میں بے حد تیز تھا … ہماری امیدوں سے کہیں زیادہ۔
اسی سال مسٹر داتو، ہمارے اسکول کے ایک سابق ٹیچر، جو اسی اسکول کے طالب علم بھی رہ چکے تھے، امریکہ سے چند دنوں کے لیے لوٹے۔ مسٹر داتو طلبہ میں کافی مقبول تھے۔ وطن واپسی پر انھیں ایک زبر دست استقبالیہ دیا گیا۔ اس کے بعد کے چند دن انھوں نے کسی مقبول رہنما کی طرح پورے قصبے کا دورہ کیا۔ وہ جہاں جاتے، ان کے پیچھے ان کے مداح طلبہ کا ایک جم غفیر بھی ساتھ ہوتا۔ انھی میں سے ایک اَلو بھی تھا۔
اس پر جوش واقعے نے اَلو کے دل میں بھی امیدوں کے چراغ روشن کر دیے تھے کہ اسے بھی کسی امریکن یونیورسٹی میں نہ صرف داخلہ مل سکتا ہے بلکہ اسے جانے کے لیے اسکالر شپ بھی مل سکتی ہے۔ باقی پورے سال کے دوران اس نے بے شمار یونیورسیٹیوں کو خطوط لکھے جن کے نام، اس نے USISمیں موجود کتابوں سے حاصل کیے تھے۔ یو نیورسیٹیوں کے ناموں کا انتخاب وہ اکثر یونہی بلا سوچے سمجھے یا پھر ناموں کے صوتی آہنگ کی بنیاد پر کیا کرتا تھا۔
ماں اس کی ان کاوشوں کو ہنسی میں اڑا دیتی۔ وہ اکثر مسکرا کر کہتی ’’وہاں امریکہ میں تمھارے ماموں بیٹھے ہیں جو تمھیں کالج میں داخلہ دلانے کے لیے ہزاروں شیلنگ ادا کریں گے؟‘‘ اس کی نظر میں یہ سب تضیع اوقات کے سوا کچھ نہ تھا اور اَلو بیچارہ اس سے کبھی یہ نہ کہہ پاتا، کہ اسے جو مدد ماں سے مل سکتی ہے، وہ کسی اور سے کبھی نہیں مل پائے گی۔
چند ہفتوں ہی میں اس کی اس خط و کتابت کے نتائج ظاہر ہونے لگے جن میں سے زیادہ تر امید افزا تھے۔ آہستہ آہستہ اَلو کو پتا چلنے لگا کہ ان میں سے بہتر جگہیں کون سی ہیں اور ان میں سے کون صحیح معنوں میں اہم اور مشہور ہیں۔ جلد ہی چند مختلف یونیورسیٹیوں کے معلوماتی کتابچے بھی موصول ہوئے جو کافی دل کش تھے۔ ایسا لگتا کہ وہ خط و کتابت میں جتنا زیادہ محنت کر رہا تھا، کسی امریکن یونیورسٹی میں اس کے داخلے کے امکانات اتنے ہی روشن ہوتے جا رہے تھے، یہاں تک کہ مشہور ترین یونیورسیٹیوں سے بھی اسے مایوس نہیں ہونا پڑ رہا تھا۔ اب اسے ان مضامین کے بارے میں پتا چل رہا تھا جن کے بارے میں اس نے پہلے کبھی سنا تک نہ تھا: جینیٹکس، کاسمو لوجی، آرٹی فیشیل انٹیلی جینس:ایک بالکل ہی نئی کائنات وہاں اس کی منتظر تھی … شرط بس اتنی تھی کہ وہ ایک بار کسی طرح وہاں تک پہنچ جائے، لیکن اسے یقین نہیں تھا کہ وہ وہاں تک کبھی پہنچ سکے گا۔ پتا نہیں وہ اس قابل تھا بھی یا نہیں۔ اس کا وجود امید اور نا امیدی کے درمیان جھولتا رہتا تھا۔
بے شک اَلو مقامی یونیورسٹی میں جگہ پانے کے قابل تھا۔ سال کے آخر میں جب اخبارات میں منتخب امیدواروں کے نام شائع ہوئے تو اس کا بھی نام اس میں شامل تھا، لیکن شاید کسی بد قماش افسر نے، جو شاید رشوت خور بھی تھا، اس کی قسمت کا ایسافیصلہ کیا، جو اس کے لیے ایک صدمے سے کم نہ تھا۔ اس نے میڈیسن میں داخلے کے لیے درخواست دی تھی، لیکن اسے ایگری کلچر میں جگہ دی گئی تھی۔ وطن پرستی اپنی جگہ، لیکن کسی دیہات میں ایگری کلچرل آفیسر کے طور پر کام کرنا، اس کی زندگی کا مقصد نہیں تھا۔ وہ کبھی شہر سے باہر نہیں نکلا تھا۔ صرف ایک بار اسکول کی جانب سے جنگل کی سیر کرنے گیا تھا … بس !
جب اَلو کو کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنا لوجی کی جانب سے ایک خط ملا جس میں اسے داخلے اور اسکالر شپ کی پیش کش کی گئی تھی تو وہ بالکل ہکا بکا رہ گیا۔ اس نے خط کو بار بار پڑھا۔ اس میں جو کچھ درج تھا، اس پر اسے یقین نہیں آرہا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے کہیں اس نے پڑھنے میں کوئی غلطی نہ کی ہو۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میں وہ خط پڑھ کراسے سناؤں۔ اور جب اسے یقین ہو گیا کہ اس میں کسی غلطی کا امکان نہیں ہے تو وہ خوشی سے جیسے پاگل ہو اٹھا۔
’’جہنم میں گیا ایگری کلچر۔ ‘‘اس نے زہر خند کے ساتھ کہا۔
لیکن اسے سب سے پہلے ماں کو رام کرنا تھا۔
ماں کو اس کی بات پر یقین ہی نہیں آیا۔ ’’جاؤ … جاؤ ! … میرا دماغ مت چاٹو … مجھے تنگ مت کرو۔ ‘‘
’’لیکن یہ سچ ہے۔ ‘‘ اَلو نے احتجاج کیا، ’’ وہ لوگ مجھے اسکالر شپ دے رہے ہیں۔ ‘‘
ہم لو گ میز پر تھے … ہم تینوں … اور تھرماس سے ابھی ابھی چائے انڈیلی گئی تھی۔ ماں میرے سامنے بیٹھی تھی۔ اس نے اپنی طشتری پر ایک نگاہ ڈالی اور پھر سر اٹھا کر میری طرف دیکھا۔
’’کیا یہ سچ ہے؟‘‘ اس نے مجھ سے پوچھا۔
’’ہاں یہ سچ ہے۔ بس اسے اپنے ساتھ صرف ۴۰۰ ڈالر جیب خرچ کے طور پر لے جانے ہیں۔ ‘‘
’’ یہ کتنے شیلنگ کے برابر ہیں ؟‘‘اس نے پوچھا۔
’’ تقریباً تین ہزار۔ ‘‘
’’ اور ہم لوگ یہ تین ہزار شیلنگ کس طرح پیدا کریں گے؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تمھاری لاٹری لگی ہے؟ … اور ٹکٹ کا کیا ہو گا؟ … کیا وہ لوگ ہمیں ٹکٹ بھی بھیج رہے ہیں ؟‘‘
اس نے جیسے ہی یہ کہا اَلو کو اپنے سارے منصوبے خاک میں ملتے دکھائی دینے لگے۔ وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی۔ اَلو کو جتنے روپیوں کی ضرورت تھی، وہ ہمارے لیے ایک خطیر رقم تھی۔
’’کیا ہم قرض نہیں لے سکتے؟ ‘‘ اس نے پوچھا ’’میں وہاں کام بھی کروں گا … ہاں میں وہاں ویٹر کا کام کروں گا … ایک ویٹر کا … میں جانتا ہوں، تم پیسوں کا انتظام کر سکتی ہو ماں … میں پیسے واپس بھیج دوں گا۔ ‘‘
’’ امریکہ میں تمھارے ماموں ہو سکتے ہیں جو تمھاری مدد کریں گے۔ ‘‘ ماں نے اس سے کہا، ’’ لیکن یہاں کوئی ہماری مدد نہیں کرے گا۔ ‘‘
اَلو کے کندھے جھک گئے اور وہ وہاں بیٹھا اپنے کپ کو گھماتا رہا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی بھی پل رو پڑے گا۔ ماں بیٹھی اپنی طشتری میں چائے انڈیل کر پیتی رہی۔ اس کی پیشانی شکن آلود تھی۔ میری پشت کی جانب واقع کھڑکی سے شام کی روشنی کمرے میں داخل ہو رہی تھی، جس میں اس کا چشمہ چمک رہا تھا۔ آخر کار اس نے اپنی طشتری میز پر رکھ دی۔ وہ غصے میں تھی۔
’’ اور آخر ہم سے اتنی دور وہاں جانا ہی کیوں چاہتے ہو؟کیا میں نے تمھیں اسی دن کے لیے پال پوس کر بڑ ا کیا تھا کہ تم مجھے چھوڑ کر دور دیس چلے جاؤ؟ جہاں تم جانا چاہتے ہو کیا وہاں تمھیں ہماری یاد نہیں آئے گی؟ کیا ہم تمھارے لیے اتنے غیر اہم ہو گئے ہیں ؟ اگر تمھیں کچھ ہو گیا تو … ۔ ‘‘
اَلو رو رہا تھا۔ اس کی کپ میں آنسو کا ایک قطرہ گرا، اس کی ناک بھی بہہ رہی تھی۔ ’’کتنے ہی بچے جاتے ہیں اور واپس آ جاتے ہیں … انھیں کچھ بھی نہیں ہوتا … اگر یہی کرنا تھا تو پھر مجھے پہلے ہی کیوں نہیں روک دیا؟ … جب مجھے جانے نہیں دینا چاہتی تھیں تو پھر مجھے درخواستیں بھیجنے سے کیوں نہیں روکا؟ … اگر میری امیدوں کو یوں چکنا چور ہی کرنا تھا تو پھر انھیں پروان کیوں چڑھنے دیا؟‘‘ وہ بہت تیز آواز میں بولے جا رہا تھا … میں نے پہلی بار اسے ایسا کرتے دیکھا تھا۔ جذبات کی شدت سے وہ کانپ رہا تھا۔
پھر اس دن کے بعد اس نے یہ سوال پھر کبھی نہیں اٹھایا۔ اس نے ایگری کلچر کالج میں داخلے کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار کر لیا اور کلاسز شروع ہونے کا انتظار کر نے لگا۔ گھر پر وہ صوفے پر پڑا ناول پڑھتا رہتا … روزانہ ایک ناول !
اگر وزارت تعلیم کے اس نامعلوم افسر نے اس کے ساتھ نا انصافی نہ کی ہوتی تو اَلو کو اتنا غم نہ ہوتا، اور ماں کو مجبور ہو کر اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت بھی نہ پڑتی۔
چند دنوں بعد، اتوار کی صبح، ماں نے اپنی سلائی مشین سے نظریں اٹھائیں اور ہم دونوں سے مخاطب ہوئی ’’ہم لوگوں کو چل کر یہ خط مسٹر ویلیجی کو دکھانا چاہیے۔ وہ ان معاملات کے ماہر ہیں، ہمیں ان سے مشورہ کرنا چاہیے۔ ‘‘
مسٹر ویلیجی ہمارے اسکول کے سابق ایڈ منسٹریٹر تھے۔ ان کا سر کافی بڑا، انڈے جیسا، جسم چھوٹا اور گٹھا ہوا تھا۔ اپنی چوڑی پیشانی اور سیاہ چشمے کے ساتھ وہ کسی روایتی دانشور کی مضحک تصویر نظر آتے تھے۔ ہم تینوں ان کے نشست کے کمرے میں کرسیوں پر بیٹھے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے اور انتظار کر رہے تھے۔ تبھی وہ اکڑے ہوئے سے، کسی کھلونے سپاہی کی طرح چلتے ہوئے، کمرے میں داخل ہوئے اور ہمیں خوش آمدید کہا۔
’’ تم کیسی ہو بہن؟‘‘ انھوں نے کہا ’’ میں تمھارے لیے کیا کر سکتا ہوں ؟‘‘
ان کے بیٹھنے تک اَلو اور میں ادب سے کھڑے رہے۔
’’ہم آپ کے پاس مشورے کے لیے آئے ہیں۔ ‘‘ ماں نے کہنا شروع کیا۔
’’ ٹھیک ہے … بولو۔ ‘‘ انھوں نے اطمینان سے بیٹھ کر اپنے ہاتھوں کوسر کے پیچھے باندھتے ہوئے کہا۔
ماں نے انھیں اپنے بارے میں بتایا کہ وہ کس خاندان میں پیدا ہوئی، کس خاندان میں اس کی شادی ہوئی، میرے والد کے مرنے کے بعد اس نے کیسے اپنے بچوں کی پرورش کی۔ اس نے تو ہمارے خاندانوں کے درمیان مشترکہ رشتے بھی تلاش کر لیے۔ ’’ اب یہ … ‘‘ ماں نے اَلو کی طرف اشارہ کیا۔ ’’ یونیورسٹی میں پڑھتا ہے یہ لڑکا … امریکہ جانا چاہتا ہے … اپنے کاغذات انھیں دکھاؤ۔ ‘‘ ماں نے اَلو کو حکم دیا۔
یوں لگا جیسے اَلو نے بڑی مشکلوں سے خود کو صوفے سے اٹھایا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھ کر کاغذات مسٹر ویلیجی کے ہاتھوں میں دے دیے۔ کاغذات دیکھنے سے قبل مسٹر ویلیجی نے اَلو سے اس کے فائنل امتحان کے رزلٹ کے بارے میں پوچھا۔
اَلو کے جواب سے ان کی آنکھیں پھیل گئیں ’’ ہیں ؟ … ‘‘ انھوں نے کہا ’’سارے کے سارے A گریڈ؟‘‘
’’جی ہاں ‘‘ اَ لو نے نہایت ادب سے جواب دیا۔
مسٹر ویلیجی نے پہلے پہل یوں ہی بے دلی کے ساتھ ایک کے بعد ایک کاغذات پلٹے، لیکن پھروہ انھیں نہایت توجہ سے دیکھنے پر مجبور ہو گئے۔ انھوں نے طویل ویزا فارم کو دیکھا جس میں ایک اصل فارم کے نیچے کئی کاربن کاپیاں سلیقے سے پِن کی ہوئی تھیں۔ انھوں نے فارن سٹوڈنٹ ایڈوائزر کا دوستانہ انداز میں لکھا خط پڑھا۔ انڈر گریجویٹ کلب کے ممبران کے دعوتی خطوط پڑھ کر انھوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ آخر کار انھوں نے منکسرانہ انداز میں سر اٹھایا۔
’’ یہ لڑکا ٹھیک کہتا ہے۔ ‘‘ وہ بولے، ’’یونیورسٹی اچھی ہے اور وہ لوگ اسے وظیفہ بھی دے رہے ہیں۔ میں تمھیں مبارک باد دیتا ہوں۔ ‘‘
’’لیکن اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘‘ماں نے پریشانی کے ساتھ پوچھا ’’آپ کا کیا مشورہ ہے؟ ہمیں بتائیے کہ ہم کیا کریں۔ ‘‘
’’ ٹھیک ہے۔ ‘‘ مسٹر ویلجی بولے ’’یہ اس کی تعلیم کے لیے بہتر ہو گا۔ ‘‘انھوں نے اپنا ہاتھ اٹھا کر گلا صاف کیا اور پھر دھیرے سے بولے ’’لیکن تم اگر اسے جانے دو گی تو اپنے بیٹے کو کھو دو گی۔ ‘‘
’’ وہ بہت دور دیس ہے … امریکہ۔ ‘‘ انھوں نے گویا بات ختم کرتے ہوئے پوچھا ’’ اب بتاؤ تم کیا لو گی؟ … چائے؟ … نارنگی کا جوس؟ ‘‘
اور آرڈر لینے کے لیے ان کی بیوی کسی جن کی طرح اچانک نمودار ہو گئی۔
’’ تمام امیر لڑکے ہر سال جاتے ہیں اور وہ نہیں کھوتے۔ ‘‘ گھر لوٹتے ہوئے اَلو تلخ لہجے میں بدبدایا۔ ماں خاموش رہی۔
اس رات وہ سلائی مشین پر تھی اور اَلو صوفے پر لیٹا پڑھ رہا تھا۔ ریڈیو دھیمی آواز میں بج رہا تھا اور سامنے کے کھلے دروازے سے ہوا کے خوشگوار جھونکے آ کر سٹنگ روم کے ماحول کو سرد کر رہے تھے۔ میں دروازے پر کھڑا تھا۔ باہر کیلے کے درخت ہوا میں لہرا رہے تھے۔ سڑک پر ایک کار تیزی سے گزرتے ہوئے پڑوس کے مکانات پر پرچھائیاں ڈال رہی تھی۔ ایک جوڑا جو شاید سیر کو نکلا تھا، آہستہ آہستہ باتیں کرتے ہوئے نا ہموار باڑھ کے پاس سے گزر رہا تھا۔ لڑکے لڑکیوں کے جھنڈ اپنے اپنے مکانوں کو لوٹنے سے قبل گپیں مار رہے تھے۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ماں کی سلائی مشین میں لگے ہوئے موٹر کی گھر گھراہٹ سنائی دے رہی تھی۔ کمرے میں وہ ہم سے دور دوسرے کونے میں بیٹھی تھی جہاں اندھیرا کچھ زیادہ تھا۔
تھوڑی دیر بعد، اس نے ہماری طرف دیکھا اور دھیمے لہجے میں بولی ’’ ذرا مجھے دکھاؤ تو سہی کہ یہ یونیورسٹی آخر ہے کیسی … وہ کتاب لاؤ … لاؤ گے؟‘‘
ماں نے یونیورسٹی کا معلوماتی کتابچہ کبھی نہیں دیکھا تھا اور ہمیشہ اسے نظر انداز کیا تھا۔ اس نے اس مقام کے بارے میں جاننے کی کبھی ہلکی سی بھی خواہش ظاہر نہیں کی تھی جہاں جانے کے لیے اَلو اس قدر بے قرار تھا۔
اب ہم تینوں کتابچے کے چمکدار صفحات پر جھکے جدید کلاسکی انداز کی عمارتوں، گنبدوں اور انسانوں سے کئی گنا بلندستونوں کی تصاویر دیکھ رہے تھے۔ طلبہ و طالبات مختلف قسم کے کاموں میں مصروف تھے۔ وسیع لانوں میں گھنے سایوں کے نیچے کلاسز ہو رہے تھے۔ یہ سب کچھ حیرت انگیز بھی تھا اور دلفریب بھی۔
’’ غضب کی جگہ ہے … ہے نا؟‘‘ اَلو نے دھیرے سے کہا۔ وہ اپنا جوش چھپا نہیں پا رہا تھا ’’ وہاں سیکڑوں طرح کے کورسز کرائے جاتے ہیں … وہ لوگ خلا میں راکٹ بھیج رہے ہیں … دوسری دنیاؤں میں … چاند پر۔ ‘‘
’’ میرے بیٹے !اگر تم چاند پر چلے گئے تو میرا کیا ہو گا؟‘‘ماں نے بڑی خوش مزاجی سے کہا۔ وہ چمکتی ہوئی آنکھوں سے ہماری طرف دیکھ رہی تھی۔
اَلو واپس اپنی کتاب لے کر بیٹھ گیا اور ماں پھر سے سلائی کرنے لگی۔
تھوڑی دیر بعد میں نے ماں کی طرف دیکھا۔ وہ گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی، اورجیسا کہ وہ عموماً ایسے موقعوں پر کیا کرتی تھی، وہ بے خیالی میں اپنی ٹھوڑی کھجا رہی تھی۔ شاید میں پہلی باراسے اپنی ماں کی بجائے ایک عورت کے طور پر دیکھ رہا تھا۔ میں سمجھ سکتا تھا کہ اس وقت اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔ وہ ہماری پرورش و پرداخت کے لیے کتنی مشکلات سے گزری تھی۔ جب ہمارے والد کا انتقال ہوا، وہ صرف ۳۳ سال کی تھی، لیکن اس نے شادی کے لیے آنے والی کئی درخواستوں کو ٹھکرا دیا تھا، کیوں کہ شادی کی صورت میں ہمیں یتیم خانے بھیجنا پڑتا۔ والد کے انتقال سے قبل کی تصویروں میں ماں بے حد خوبصورت اور مسرور دکھائی دیتی تھی۔ وہ صحت مند تو تھی، لیکن اسے موٹی بالکل نہیں کہا جا سکتا تھا۔ بال فیشن ایبل انداز میں سنوارے ہوئے ہوتے تھے۔ پیروں میں اونچی ایڑی کے سینڈل اور چہرے پر میک اپ بھی نظر آتا تھا۔ ان میں سے ایک تصویر، جو کسی اسٹوڈیو میں لی گئی تھی اوراسے ٹچ اپ کر کے نکھارا بھی گیا تھا، اب والد کی تصویر کی بغل میں لٹکی ہوئی تھی۔ اس تصویر میں وہ سیاہ پس منظر کے سامنے، بڑی ادا سے ایک کتاب ہاتھ میں لیے کھڑی تھی۔ نائیلون کے لباس کو ہلکے سبز رنگ سے پینٹ کیا گیا تھاجس کا گھیرا بڑے پر وقار انداز میں نیچے تک پھیلا ہوا تھا اور کناروں پر سکے نما، زیورات ٹنکے ہوئے تھے۔ میں نے اسے اس حالت میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اسے تو میں نے ہمیشہ کھردرے چہرے کے ساتھ دیکھا تھا جو عمر کے ساتھ ساتھ مزید کھردرا ہوتا چلا گیا، کیوں کہ جھریوں کی لکیریں مستقل ہوتی چلی گئیں۔ بال کم ہو گئے تھے، جسم موٹا ہو گیا تھا اور آواز بھی بھاری ہو گئی تھی۔
مجھے یاد آیا کہ بچپن میں اَلو اور میں کیسے رات میں اس کے بڑے بستر پر اس کے ساتھ سونے کے لیے اپنی اپنی باریوں کا انتظار کرتے تھے؛ کیسے وہ مجھے اپنے گداز بازوؤں میں سمیٹ کر اپنے سینے سے لگا لیتی تھی۔ یہاں تک کہ مجھے سانس لینے میں دشواری ہونے لگتی تھی اور میں سوچتا تھا کہ وہ مجھے جلد چھوڑ دے تاکہ میں سانس لے سکوں۔
اس نے مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے دیکھا اور بولی … مجھ سے نہیں، اَلو سے … ’’ وعدہ کرو … وعدہ کرو کہ اگر میں تمھیں وہاں جانے دوں گی تو تم کسی سفید فام عورت سے شادی نہیں کرو گے۔ ‘‘
’’اوہ ! ماں ! … تم جانتی ہو کہ میں ایسا نہیں کروں گا۔ ‘‘ اَلو نے کہا۔
’’ اور وعدہ کرو کہ تم سگریٹ اور شراب نہیں پیو گے۔ ‘‘
’’ تمھیں پتا ہے … میں وعدہ کرتا ہوں۔ ‘‘ وہ روہانسا ہو کر بولا۔
٭٭
اَلو کا پہلا خط اس کے جانے کے ایک ہفتے بعد لندن سے آیا۔ یہاں وہ اپنے ایک پرانے دوست سے ملنے کے لیے رکا تھا۔ اس خط میں جذبات کا ایک سیلاب بند تھا۔
’’ میں کیسے بیان کروں۔ ‘‘ اس نے لکھا تھا ’’ہوائی جہاز سے نظر آنے والا منظر … میلوں میل تک پھیلے سلیقے سے سجے کھیت … جیسے زمین کو خوبصورت سبز مربعوں میں تقسیم کر دیا گیا ہو، یہاں تک کہ پہاڑ بھی صاف اور مہذب۔ اور لندن، اوہ لندن ایسا لگتا ہے، جیسے اس شہر کا کوئی آخری سرا ہے ہی نہیں … مکانات کے ان گنت بلاک، چوراہے، پارک، یادگاریں کیا کوئی شہر اس سے بھی بڑا ہو سکتا ہے … اس ایک بڑے شہر میں ہمارے شہر دارالسلام جیسے کتنے ہی شہر سما جائیں گے … ۔ ‘‘
٭٭
ایک پرندہ اپنے پروں کو پھڑ پھڑا رہا تھا … مسٹر ویلجی اپنی کرسی پر بیٹھے دانش مندانہ انداز میں سر ہلا رہے تھے … اور ماں کی آنکھیں دور کہیں تک رہی تھیں۔
Original Story: LEAVING
By: M. G. Vassanji (Tanzania)
پاپا، سانپ اور میں
موزمبیق
جیسے ہی پاپا ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ کرسِٹنگ روم میں اخبار پڑھنے چلے گئے، میں بھی اٹھ گیا۔ مجھے پتا تھا کہ ماما اور باقی لوگوں کو ابھی دیر لگے گی لیکن مجھے اب وہاں رکنے میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔
میں جیسے ہی کھڑا ہوا، ماما نے میری طرف دیکھا اور بولیں ’’یہاں آؤ … ذرا، اپنی آنکھیں تو دکھاؤ۔ ‘‘
میں ڈرتے ڈرتے ان کے قریب پہنچا، کیوں کہ ماما جب ہمیں بلاتی ہیں تو یہ کہنا مشکل ہو تا ہے کہ وہ غصے میں ہیں یا خوش ہیں اور اس کے بعد ہمارے ساتھ کیا ہو گا۔
انھوں نے اپنے بائیں ہاتھ سے میری پلکوں کو اٹھا کر میری آنکھوں کا معائنہ کیا، اور پھر اپنی پلیٹ کی طرف متوجہ ہو گئیں، میں کھڑا انتظار کرتا رہا کہ وہ مجھے وہاں سے جانے کو کہیں یا کوئی اور حکم دیں۔ لقمہ چبانے اور نگلنے کے بعد ہڈی کو اپنے ہاتھ میں اٹھا کر ایک آنکھ بند کر کے وہ اس کی درمیانی سوراخ میں جھانکنے لگیں۔ پھر وہ اچانک میری طرف مڑیں، ان کے چہرے پر غصے کے آثار تھے۔
’’تمھاری آنکھیں سرخ ہیں … تم بہت کمزور ہو گئے ہو … تمھاری بھوک بھی کم ہو گئی ہے۔ ‘‘
انھوں نے یہ الفاظ جس لہجے میں ادا کیے … میں دل ہی دل میں بہت خوش ہوا کہ اس میں میری کوئی غلطی نہیں تھی … ان میں سے ایک کے لیے بھی میں خود ذمہ دار نہیں تھا۔ باقی سب لوگ متجسس نگاہوں سے مجھے دیکھ رہے تھے کہ پتا نہیں اب آگے کیا ہو گا۔
ماما نے پھر ہڈی کی درمیانی سوراخ میں جھانکا۔ پھر اپنی آنکھیں بند کر کے اسے چوسنے لگیں۔ دفعتاً انھوں نے رک کر میری طرف دیکھا اور بولیں ’’کل تمھیں جلاب لینا ہے۔ ‘‘
دوسروں نے جیسے ہی یہ حکم سنا، سب کے سب بڑی تیزی سے، زوردار آواز کے ساتھ کھانے لگے۔ ماما کو شاید کچھ اور نہیں کہنا تھا۔ میں باہر آنگن میں نکل آیا۔
گرمی بہت تیز تھی، سڑک پر کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ پچھلی چہار دیواری کے پار بیٹھے تین بیلوں نے میری طرف دیکھا۔ شاید وہ انتظامیہ کے ذریعہ بنائے گئے پانی کے حوض سے نکل کر آئے تھے اور سایے میں آرام کر رہے تھے۔ بیلوں کی سینگوں کے اوپر بہت دور، خار دار جھاڑیوں کے جھنڈ ہوا میں شعلوں کی طرح کپکپا رہے تھے۔ دوری پر موجود ہر چیز کانپ رہی تھی … یہاں تک کہ سڑک پر موجود پتھروں سے بھی حرارت کی لہریں خارج ہوتی محسوس ہو رہی تھیں۔ مکان کے سایے میں سارٹیناتنکوں کی بنی چٹائی پر بیٹھی اپنا کھانا کھا رہی تھی۔ آس پاس نگاہیں دوڑاتی ہوئی وہ دھیرے دھیرے چبا رہی تھی۔ وقفے وقفے سے وہ کھانے کے قریب پہنچ جانے والی مرغیوں کو بھگا بھی رہی تھی۔ اس کے باوجود اکثر کوئی نہ کوئی بہادر مرغی پلیٹ کے کنارے پر جھپٹا مار کر اس کی پلیٹ سے میلی میل(مکئی کے موٹے آتے سے بنی ایک افریقی ڈش) کا تھوڑا حصہ اپنی چونچ میں لے بھاگتی لیکن پھر ان مرغیوں کے آپسی جھگڑے میں وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اتنے ننھے ذرات میں بکھر جاتا کہ پھر چھوٹے چوزوں کے لیے بھی اسے اپنی چونچ میں اٹھانا، نا ممکن ہو جاتا۔
جیسے ہی مجھے آتے دیکھا، اس نے فوراً اپنا کپولانا(افریقی عورتوں کا لنگی جیسا لباس) اپنی ٹانگوں پر نیچے تک کھینچ لیا۔ یہی نہیں اس نے اوپر سے اپنے ہاتھ کو بھی گھٹنوں پر پھیلا لیا جیسے اسے یقین ہو کہ میں جھانک کر کچھ دیکھنے والا ہوں۔ میں نے اپنی نگاہیں دوسری طرف پھیر لیں، پھر بھی اس نے اپنے ہاتھ کو نہیں ہٹایا۔
ٹوٹو اپنی زبان نکالے، دھیرے دھیرے چلتا ہوا سارٹینا کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے تھوڑی دوری سے پلیٹ کو سونگھا۔ پھر مڑ کر دیوار کے سایے کی طرف چلا گیا اور اپنے لیے ایک آرام دہ جگہ ڈھونڈ کر لیٹ گیا۔ وہ سمٹ کر گول ہو گیا اور یہاں تک کہ اس کی ناک اس کی دم سے جا لگی، اس نے ایک لمبی جماہی لی۔ سر کو دونوں پنجوں کے درمیان رکھ کر جسم کو ہلکا سا بل دیا اور یہ محسوس کر کے کہ وہ انتہائی آرام دہ حالت میں ہے، اپنے کانوں کو پیروں سے بند کر کے سو گیا۔
کھانا ختم کرنے کے بعد اپنا ہاتھ گھٹنوں کے درمیان سے ہٹانے سے قبل اس نے میری طرف دیکھا اور جیسے ہی اسے اس بات کا یقین ہوا کہ میں اس کی طرف نہیں دیکھ رہا ہوں، وہ تیزی سے اچھل کر اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی۔ اس کی پلیٹ اتنی صاف تھی کہ چمک رہی تھی۔ ایک مشکوک نظر مجھ پر ڈالتے ہوئے اس نے اسے حوض میں ڈال دیا۔ وہ بے دلی سے چل رہی تھی اور اس کے کپولانا میں اس کے کولھے اوپر نیچے حرکت کر رہے تھے۔ وہ حوض پر جھک گئی، پیچھے سے اس کی پنڈلیوں کے عریاں حصے مجھے نظر آرہے تھے۔ جیسے ہی اسے اس بات کا احساس ہوا وہ فوراً حوض کی دوسری طرف چلی گئی تاکہ میری نظروں سے محفوظ ہو جائے۔
ماما کچن کے دروازے میں دکھائی دیں۔ ہڈی ابھی تک ان کے ہاتھ میں تھی۔ ٹیبل صاف کرنے کے لیے سارٹینا کو آواز دینے سے قبل انھوں نے اپنی متجسس نگاہیں چاروں طرف دوڑائیں کہ سب کچھ اپنی جگہ پر ٹھیک ٹھاک ہے یا نہیں۔
’’ٹوٹو کو کھانا دینا مت بھول جانا۔ ‘‘انھوں نے رونگا زبان میں کہا۔
سارٹینا اپنے ہاتھوں کو اپنے کپولانا میں پوچھتے ہوئے، اندر چلی گئی … وہ واپس لوٹی تو اس کے ہاتھ میں ڈھیر ساری پلیٹیں تھیں۔ دوسری بار جب وہ باہر آئی، اس کے ہاتھ میں ٹیبل کلاتھ تھا جسے وہ سیڑھییوں کے قریب جھاڑنے لگی۔ مرغیاں کھانے کے ٹکڑوں کے لیے آپس میں جھگڑنے لگیں۔ وہ ٹیبل کلاتھ کو دو، چار اور پھر آٹھ تہوں میں موڑ کر واپس اندر لے گئی۔ جب وہ دو بارہ واپس آئی، اس کے ہاتھ میں المونیم کی پلیٹ تھی، جس میں ٹوٹو کا کھانا تھا، جسے اس نے پانی کے میٹر کے اوپر بنے سیمنٹ کے ڈھکن کے اوپر رکھ دیا۔ ٹوٹو کو کھانے کے لیے آواز دینے کی ضرورت نہ تھی، پلیٹ رکھتے ہی وہ کھانے پر ٹوٹ پڑا۔ اس نے اپنی ناک چاولوں کے اندر گھسا دی اور گوشت کے ننھے ننھے ٹکرے تلاش کر نے لگا۔ جیسے ہی کوئی ٹکر ا، اسے ملتا وہ فوراً کھا جا تا۔ تمام گوشت ختم ہو گیا تو اس نے ہڈیوں کو ایک طرف کیا اور چاولوں کو کھانے لگا۔ مرغیاں اس کے چاروں طرف موجود تھیں، لیکن وہ قریب آنے کی ہمت نہیں کر پارہی تھیں، کیوں کہ انھیں پتا تھا کہ ٹوٹو کو کھاتے وقت ان کی مداخلت بالکل پسند نہیں۔
جب وہ جی بھر کے چاول نگل چکا تو جا کر گنے کے پودوں کی چھاؤں میں جا بیٹھا، جیسے اسے اور کھانے کی حاجت نہ ہو، اور انتظار کر نے لگا کہ مرغیاں کیا کرتی ہیں۔ وہ خوفزدہ انداز میں پلیٹ کی طرف بڑھیں اور ڈرتے ڈرتے ایک دو چونچیں ماریں۔ ٹوٹو کوئی بھی حرکت کیے بغیر بالکل خاموش پڑا، انھیں دیکھتا رہا۔ کتے کی لاپروائی سے مرغیوں کی ہمت بڑھی اور وہ بڑے جوش و خروش سے پلیٹ کے گرد جمع ہو گئیں، اور بے تحاشہ شور غل مچاتے ہوئے چونچیں مارنے لگیں۔ اچانک ٹوٹو اچھل کر کھڑا ہو گیا اور اپنے چاروں پیروں کو تیزی سے حرکت دیتے ہوئے شیر کی طرح غرانے لگا۔ مرغیاں ڈر کر جدھر سینگ سمائے بھاگ نکلیں۔ ٹوٹو پھر سے چھاؤں میں جا کر بیٹھ گیا اور مرغیوں کے واپس آ کر جمع ہونے کا انتظار کر نے لگا۔
٭٭
کام پر جانے سے قبل پاپا، ماما کے ساتھ مرغیوں کے باڑے کا معائنہ کرنے کے لیے گئے۔ دونوں کچن کے دروازے سے باہر نکلے۔ ماما اپنا ایپرن پہنے ہوئے تھیں اور پاپا منھ میں ٹوتھ پِک اور بغل میں آج کا اخبار دبائے ہوئے تھے۔ جب وہ میرے قریب سے گزرے، پاپا کہہ رہے تھے ’’ناممکن … ایک دم نا ممکن … چیزیں اس طرح غائب نہیں ہو سکتیں۔ ‘‘
میں ان کے پیچھے پیچھے گیا اور جیسے ہی ہم مرغیوں کے باڑے میں داخل ہوئے، ماما میری طرف گھومیں، جیسے وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں، لیکن پھر انھوں نے اپنا ارادہ بدل دیا اور تار کی جالی کی طرف بڑھ گئیں۔ مرغیوں کے باڑے کی دوسری طرف ڈھیر سارا کاٹھ کباڑ پڑا ہوا تھا۔ کھیتوں میں پون چکی کی تعمیر سے بچنے والے پائپ، کنکریٹ کے بلاک، جو پا پا نے آؤٹ ہاؤز کی تعمیر کے لیے خریدی تھیں، سیمنٹ، بکس، لکڑیاں اور نہ جانے کیا کیا وہاں جمع تھا۔ مرغیاں عموماً ان کے اندر جا کر انڈے دے دیا کرتی تھیں جو ماما کی پہنچ سے باہر ہوتے تھے۔ باڑے کی ایک جانب ایک مرغی مری پڑی تھی۔ ماما نے اس کی طرف اشارہ کیا اور پرتگالی زبان میں بولیں ’’اب یہ ایک ادھر ہے … مجھے نہیں پتا ادھر چند دنوں میں کتنی مرغیاں مریں ہیں … چوزے اور انڈے تو غائب ہی ہو جاتے ہیں … اسے میں نے تمھیں دکھانے کے لیے یہاں چھوڑ دیا تھا … میں تمھیں بول بول کر تھک گئی ہوں … لیکن تم ہو کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہو۔ ‘‘
’’ٹھیک ٹھیک ہے … لیکن تم مجھ سے کیا چاہتی ہو؟ ‘‘
’’دیکھو مرغیاں اچانک مر رہی ہیں۔ چوزے اور انڈے غائب ہو جاتے ہیں … رات میں کوئی بھی مرغی کے باڑے میں نہیں جاتا … اور ہم نے کبھی کسی طرح کی آوازیں بھی نہیں سنیں … تم پتا لگاؤ کہ مرغیاں اور چوزے کیوں مر رہے ہیں ؟‘‘
’’تمھارا کیا خیال ہے؟ … ‘‘
’’مرغیوں پر دانتوں کے نشان ہوتے ہیں اور چوزے کھا لیے جاتے ہیں … تم سمجھ سکتے ہو، یہ کام صرف ایک ہی جانور کر سکتا ہے … کیوں ؟ … یا کوئی اور خیال تمھارے دماغ میں ہے؟‘‘
’’ٹھیک ہے میں کل ہی سانپ کو ختم کرنے کا انتظام کرتا ہوں … کل اتوار ہے اور اس کام میں مدد کرنے کے لیے ہمیں لوگ مل جائیں گے … کل … ۔ ‘‘
پاپا مرغیوں کے باڑے سے باہر نکل ہی رہے تھے کہ ماما نے کہا ’’لیکن کل ضرور … میں نہیں چاہتی کہ میرا کوئی بچہ سانپ کا شکار بنے۔ ‘‘
پاپا کام پر جانے کے لیے نکل کر مکان کے کونے تک پہنچ چکے تھے۔ تبھی ماما مجھ سے مخاطب ہوئیں ’’کیا یہ بات تمھیں کبھی نہیں سکھائی گئی کہ جب تمھاری ماما اور پاپا ضروری باتیں کر رہے ہوں تو وہاں رک کر ان کی باتیں نہیں سننی چاہییں۔ میرے بچے اتنے بد تمیز تو نہیں ہوسکتے … ۔ ‘‘
پھر وہ سارٹینا کی طرف مڑ یں جو تار کی جالی سے لگی کھڑی ہماری باتیں سن رہی تھی۔ ’’ تم یہاں کیوں ہو؟ کیا کسی نے تمھیں بلایا؟ … میں اپنے بیٹے سے بات کر رہی ہوں اور تمھاری یہاں کوئی ضرورت نہیں۔ ‘‘
سارٹینا کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا، کیوں کہ وہ پرتگالی اچھی طرح نہیں سمجھ پاتی تھی، لیکن وہ شرمندہ سی ہو کر وہاں سے تیزی سے حوض کی طرف چلی گئی۔ ماما پھر میری طرف متوجہ ہو گئیں۔ ’’اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تم مجھے بیوقوف بنا دو گے اور بندوق لے کر شکار پر جا سکوگے تو یہ تمھاری بہت بڑی بھول ہے … اگر تم نے ایسا کرنے کی کوشش بھی کی تو میں تمھیں مار مار کر ٹھیک کر دوں گی … اور اگر تم سمجھتے ہو کہ تم مرغیوں کے اس باڑے میں رہو گے تو بھی غلط سوچ رہے ہو … میں تمھاری کوئی غلطی برداشت نہیں کرنے والی … کیا تم سن رہے ہو؟ ‘‘
ماما آج بے حد غصے میں تھیں، کیوں کہ میں نے سارے دن انھیں ہنستے ہوئے نہیں دیکھا، جیسا کہ وہ عموماً کرتی تھیں۔ مجھ سے باتیں کرنے کے بعد وہ مرغیوں کے باڑے سے باہر نکل آئیں، میں بھی ان کے پیچھے تھا۔ جب وہ سارٹینا کے قریب سے گزریں تو اس سے رونگا زبان میں بولیں ’’کیا تمھارے کپولانا کے اندر بہت گرمی لگ رہی ہے؟کس نے تمھیں یہاں آ کر سب کو اپنی ٹانگیں دکھانے کے لیے کہا تھا؟‘‘
سارٹینا نے کوئی جواب نہیں دیا اور حوض کے گرد گھوم کر دوسری جانب چلی گئی اور جھک کر برتن دھونے لگی۔
ماما چلی گئیں اور میں پہلے جہاں بیٹھا تھا، وہیں جا بیٹھا۔ سارٹینا نے میری طرف غصیلی نظر سے دیکھا اور اس نے اپنا یک سُراگیت گانا شروع کر دیا۔ یہ انھی گیتوں میں سے ایک تھا جسے و ہ غصے کی حالت میں کبھی کبھی پورے سہ پہر گایا کرتی تھی۔
٭٭
ٹوٹو مرغیوں کے ساتھ کھیل کھیل کر بور ہو چکا تھا۔ اس دوران وہ اپنے چاولوں کو کھا کر ختم کر چکا تھا اور اپنے اگلے پیروں کے پنجوں سے کانوں کو ڈھکے سو رہا تھا۔ کبھی کبھی وہ زمین میں لوٹتا اور پیٹھ کے بل سو کر اپنے مڑے ہوئے پیروں کو ہوا میں اٹھائے رکھتا۔
گرمی بہت تھی اور میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں شکار کے لیے جاؤں جیسا کہ میں ہر سنیچر کو کیا کرتا تھا یا مرغیوں کے باڑے میں جا کر سانپ کو دیکھوں۔
مڈونانا اپنی پشت پر جلاون کی لکڑیاں لیے آیا اور انھیں رکھنے کے لیے اسی سمت گیا جہاں سارٹینا بیٹھی برتن دھو رہی تھی۔ سارٹینا نے اسے دیکھا تو گانا بند کر دیا اور ہونٹوں پر بھدی سی مسکراہٹ بکھیرنے کی کوشش میں مشغول ہو گئی۔
چاروں طرف دیکھتے ہوئے مڈونانا نے اس کے کولہے پر ایک چٹکی لی جس کے جواب میں اس نے شرمیلی ہنسی کے ساتھ اس کے بازو پر ہولے سے ایک طمانچہ مارا اور دونوں ہنس پڑے۔
ٹھیک اسی وقت ننڈیٹو، زوزنہو، نیلیلا اور گیٹا ایک گیند لیے ہوئے وہاں آئے اور کھیلنے لگے۔
ماما کچن کے دروازے سے وارد ہوئیں، وہ کپڑے پہن کر شاید کہیں باہر جانے کو تیار تھیں۔ جیسے ہی وہ آئیں مڈونانا فوراً زمین پر جھک گیا، جیسے وہ وہاں کچھ دیکھنے کی کوشش کر رہا ہو اور سارٹینا جلدی سے حوض پر جھک گئی۔
’’سارٹینا، خیال رکھنا کہ ایک بھی پلیٹ نہ ٹوٹے … جلدی کرو … اور تم مڈونانا … سارٹینا کو اس کا کام کر نے دو اور اپنا کام دیکھو … میں اپنے گھر میں اس قسم کی بد تمیزیاں برداشت نہیں کر سکتی … اگر تم آئندہ ایسا کرو گے، تو میں تمھارے مالک سے شکایت کروں گی۔ ‘‘
’’اور تم … گِنہو … ۔ ‘‘ وہ میری طرف مخاطب ہو کر پرتگالی زبان میں بولیں ’’گھر کا خیال رکھنا … یہ یاد رکھنا کہ تم اب بچے نہیں رہے … کسی کو مارنا نہیں اور بچوں کو آنگن کے باہر مت جانے دینا۔ ٹینا اور لولوٹا اندر صفائی کر رہی ہیں … خیال رکھنا کہ وہ اپنا کام ٹھیک ڈھنگ سے انجام دیں۔ ‘‘
’سارٹینا‘(رونگا زبان میں )’’یہ کام ختم کرنے کے بعد بچوں کی چائے کے لیے کیتلی چولہے پر رکھ دینا اور مڈونانا سے کہو کہ وہ جا کر بریڈ خرید لائے … دیکھنا کہیں بچے مکھن کا پورا پیکٹ نہ ختم کر دیں۔ ‘‘
’گِنہو‘ (پرتگالی زبان میں )’’ہر چیز کا خیال رکھنا … میں ابھی تھوڑی دیر میں آ جاؤں گی۔ میں آنٹی لوسیا کے پاس تھوڑی گپ شپ کے لیے جا رہی ہوں۔ ‘‘
ماما نے اپنا لباس ٹھیک کیا اور آس پاس ایک نظر دوڑائی کہ سب کچھ ٹھیک ہے یا نہیں … اور پھر وہ چلی گئیں۔
سینہور کاسٹرو کا کتا، اولف، گلی سے ٹوٹو کو دیکھ رہا تھا۔ جیسے ہی ٹوٹو نے اسے دیکھا وہ بھی دوڑ کر اس کی طرف گیا اور دونوں ایک دوسرے پر بھونکنے لگے۔
گاؤں کے سارے کتے ٹوٹو سے ڈرتے تھے۔ یہاں تک کہ ان میں سب سے بڑا کتا بھی ٹوٹوکو دیکھ کر بھاگ جاتا تھا، جب ٹوٹو غصے میں ہوتا تھا، اور یہی دیکھ کر شاید دوسرے کتے زیادہ مرعوب تھے۔
وہ عام طور سے ان سے دور رہتا تھا اور مرغیوں کے ساتھ کھیلنا زیادہ پسند کرتا تھا … یہاں تک کہ کتیوں کو بھی وہ کبھی کبھار ہی منھ لگا تھا۔ میرے لیے تو وہ ایک ’خاندانی‘ کتا تھا۔ اس کے اندر ایک حاکمانہ انداز تھا، اور وہ صرف اور صرف ماما سے ڈرتا تھا، حالاں کہ انھوں نے اسے کبھی مارا نہیں تھا۔ کبھی کبھی اسے ایک کرسی سے اتارنے کے لیے ماما کو بلانا پڑتا تھا۔ ہمیں تو وہ اپنے دانت دکھاتا تھا۔ یہاں تک کہ پاپا کو بھی۔
دونوں کتے آمنے سامنے تھے اور اولف اب ڈر کر پیچھے ہٹنے لگا تھا۔ اسی لمحے ڈاکٹر ریس کا کتا ’کِس‘ وہاں سے گزرا، اور ٹوٹو اس پر بھی بھونکنے لگا۔ کِس بھاگ کھڑا ہوا اور اولف اس کے پیچھے دوڑا۔ وہ اس کے جسم کے پچھلے حصے پر کاٹ رہا تھا۔ اس نے اس کاپیچھا تبھی چھوڑا جب وہ درد سے چیخنے لگا۔ جب اولف واپس آیا تو وہ اچانک دوست بن گئے اور کھیلنے لگے۔
٭٭
ننڈیٹو میرے پاس آ کر بیٹھ گیا اور میرے کچھ پوچھنے سے پہلے اس نے بتا یا کہ وہ گیند سے بور ہو چکا ہے۔
’’لیکن تم یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘
’’کیا تم نہیں چاہتے کہ میں تمھارے ساتھ رہوں ؟‘‘
’’میں نے ایسا تو نہیں کہا۔ ‘‘
’’تب میں یہاں رکوں گا۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے … اگر تم چاہتے ہو … ۔ ‘‘
میں اٹھ کھڑا ہوا، وہ میرے پیچھے تھا ’’تم کہاں جا رہے ہو؟ … کیا تم شکار پر جا رہے ہو؟‘‘
’’نہیں۔ ‘‘
’’تب پھر۔ ‘‘
’’مجھے تنگ کرنا بند کرو … میں بچوں سے بات کرنا پسند نہیں کرتا۔ ‘‘
’’تم بھی بچے ہو … ماما تہیں ابھی بھی مارتی ہے۔ ‘‘
’’پھر سے یہ بات کہی تو میں مار کر تمھارا منھ توڑ دوں گا۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے … میں اب نہیں کہوں گا۔ ‘‘
میں مرغیوں کے باڑے میں داخل ہوا۔ وہ بھی میرے پیچھے تھا۔ پائپ گرم تھے اور مجھے ایک کپڑے کی مدد سے انھیں ہٹانا پڑ رہا تھا۔ نتیجے میں اڑنے والی دھول بہت گھنی تھی جس میں دم گھٹ رہا تھا۔
’’تم کیا ڈھونڈ رہے ہو؟ … کیا میں تمھاری مدد کروں ؟‘‘
میں کنکریٹ کے بلاک ایک ایک کر کے ہٹانے لگا، ننڈیٹو بھی وہی کر رہا تھا۔
’’تم دور، رہو۔ ‘‘میں نے ڈانٹا۔
وہ باڑے کی دوسری طرف چلا گیا اور رونے لگا۔
جب میں نے آخری بلاک ہٹایا تو میں نے سانپ کو دیکھا۔ وہ ایک انتہائی سیاہ ممبا سانپ تھا(افریقہ کا سب سے زہریلاسانپ)۔ اسے جب یہ احساس ہو گیا کہ اسے دیکھ لیا گیا ہے تو اس نے کنڈلی مار کر اپنا مثلث نما پھن پھیلا لیا۔ اس کی چوکنّی آنکھیں چمک رہی تھیں اور سیاہ دو شاخہ زبان بار بار باہر نکل رہی تھی۔
میں پیچھے ہٹ کر احاطے کے پاس آگیا اور زمین پر بیٹھ گیا۔ ’’ننڈیٹو روؤ مت۔ ‘‘
’’تم بہت خراب ہو … تم میرے ساتھ کھیلنا نہیں چاہتے۔ ‘‘
’’اچھا روؤ مت … میں تمھارے ساتھ کھیلوں گا … روؤ مت۔ ‘‘
ہم دونوں خاموش بیٹھے تھے۔ سانپ نے اپنا پھن دھیرے دھیرے نیچے کر کے اپنی کنڈلی پر رکھ لیا تھا۔ اس کے جسم کی کپکپاہٹ بند ہو گئی تھی، لیکن وہ اب بھی چوکنّی آنکھوں سے مجھے ہی گھور رہا تھا۔
’’ننڈیٹو … کچھ بولو … مجھ سے باتیں کرو۔ ‘‘
’’کیا باتیں کروں ؟ ‘‘
’’جو تمھیں پسند ہوں۔ ‘‘
’’میرا دل بات کرنے کو نہیں چاہتا۔ ‘‘
ننڈیٹو ابھی تک اپنی آنکھیں مل رہا تھا اور مجھ سے غصہ تھا۔ ‘‘
’’کیا تم نے کبھی سانپ دیکھا ہے؟ … کیا تم سانپوں کو پسند کرتے ہو؟ … کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ … جواب دو۔ ‘‘
’’کہاں ہیں سانپ ؟‘‘ننڈیٹو خوف سے اچھل کر کھڑا ہو گیا اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔
’’جھاڑیوں میں … بیٹھو اور باتیں کرو۔ ‘‘
’’یہاں تو کوئی سانپ نہیں ؟‘‘
’’نہیں … باتیں کرو … مجھ سے سانپوں کی باتیں کرو۔ ‘‘
ننڈیٹو مجھ سے چپک کر بیٹھ گیا۔
’’مجھے سانپوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔ ماما کہتی ہیں کہ جھاڑیوں میں نہیں جانا چاہیے کیوں کہ ان میں سانپ ہوتے ہیں۔ گھاس چلتے ہوئے اگر ہمارا پیر غلطی سے ان پر پڑ جاتا ہے تو وہ کاٹ لیتے ہیں۔ اور جب سانپ کاٹتا ہے تو آدمی مر جاتا ہے۔ سارٹینا کہتی ہے کہ اگر سانپ کاٹ لے اور ہم مرنا نہ چاہیں تو ہمیں چاہیے کہ سانپ کو مار ڈالیں، اسے آگ میں اچھی طرح بھون لیں اور کھا جائیں۔ وہ ایک سانپ کھا چکی ہے اس لیے اب اسے سانپ کاٹ بھی لے تو وہ نہیں مرے گی۔ ‘‘
’’کیا تم نے کبھی سانپ دیکھا ہے؟‘‘
’’ہاں ! … چیکو کے گھر میں … اس کے نوکر نے اسے مرغیوں کے باڑے میں مار ڈالا تھا۔ ‘‘
’’کیسا تھا؟‘‘
’’بڑا، اور لال رنگ کا … اس کا منھ مینڈک جیسا تھا۔ ‘‘
’’کیا تم ابھی ایک سانپ دیکھنا چاہو گے؟‘‘
ننڈیٹو خوفزدہ انداز میں مجھ سے لگ کر کھڑا ہو گیا۔ ’’ کیا مرغیوں کے باڑے میں کوئی سانپ ہے؟مجھے ڈر لگ رہا ہے … مجھے باہر جانا ہے … ۔ ‘‘
’’اگر تم باہر جانا چاہتے ہو تو ضرور جاؤ … میں نے تمھیں بلایا تو نہیں تھا۔ ‘‘
’’میں اکیلے باہر نہیں جاؤں گا … مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ ‘‘
’’تو پھر بیٹھو اور میرے جانے کا انتظار کرو … ۔ ‘‘
چند لمحے ہم دونوں بالکل خاموش رہے۔
ٹوٹو اور اولف باڑے کے باہر کھیل رہے تھے۔ وہ ایک کھمبے سے دوسرے کھمبے تک دوڑ رہے تھے۔ ہر کھمبے کے پاس جا کر وہ اس کا ایک چکر لگاتے اور اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر پیشاب کرتے۔
اچانک وہ باڑے کے اندر چلے آئے اور اپنے پیٹوں کے بل لیٹ کر آرام کرنے لگے۔ اچانک اولف نے سانپ کو دیکھا اور بھونکنے لگا۔ ٹوٹو بھی اس کی دیکھا دیکھی بھونکنے لگا حالاں کہ اس کی پشت اولف کی طرف تھی۔
’’بھائی … کیا مرغیوں کے باڑے میں ہمیشہ سانپ رہتے ہیں ؟‘‘
’’نہیں تو … ۔ ‘‘
’’کیا یہاں ایک سانپ ہے؟‘‘
’’ہاں۔ ‘‘
’’تو پھر ہم لوگ باہر کیوں نہیں جا رہے ہیں ؟ … مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ ‘‘
’’اگر تم جانا چاہو، جا سکتے ہو … جاؤ۔ ‘‘
اولف سانپ کی جانب بڑھا۔ اب وہ بڑی تیزی میں بھونک رہا تھا۔ ٹوٹو نے اپنا سر گھمایا لیکن ابھی تک اسے پتا نہیں تھا کہ بات کیا ہے۔ ‘‘
اولف کی ٹانگیں کپکپا رہی تھیں اور وہ غصے میں زمین پر پیر مار، رہا تھا۔ بار بار وہ میری طرف عجیب سی نظروں سے دیکھ رہا تھا، شاید وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ میں اس کی چیخوں کو سن کر بھی کچھ کر کیوں نہیں رہا ہوں۔ اس کی آنکھیں، بالکل انسانوں کی طرح، خوف سے پھیلی ہوئی تھیں۔
’’یہ اس طرح کیوں بھونک رہا ہے؟ ‘‘
’’کیوں کہ اس نے سانپ کو دیکھ لیا ہے۔ ‘‘
ممبا بلاکوں کی درمیانی جگہ میں سمٹا ہوا تھا اب اس نے کنڈلی کو تھوڑا ساکھول کر اپنے جسم کو پھیلا لیا تھا تاکہ جسم کو زمین کا بہتر سہارا مل سکے، لیکن اس کے سر اور گردن پر باقی جسم کی حرکت کا کوئی اثر نہیں پڑا تھا اور وہ اب بھی اوپر اٹھے ہوئے تھے۔ اس کی آنکھوں میں آگ نظر آ رہی تھی۔ اولف کے بھونکنے میں اب زیادہ تیزی آ گئی تھی۔ اس کی گردن کے بال کھڑے ہو گئے تھے۔
سارٹینا، لولوٹا اور مڈونانا باڑے کی جالی کے قریب کھڑے پر تجسس انداز میں اندر جھانک رہے تھے۔
’’تم سانپ کو مار کیوں نہیں ڈالتے؟‘‘ نندیٹو نے بے حد خوفزدہ آواز میں کہا، وہ میری گردن میں بانہیں ڈالے مجھے جکڑے ہوے تھا۔
’’کیوں کہ میں ضروری نہیں سمجھتا۔ ‘‘
کتے اور سانپ کے درمیان تقریباً پانچ فٹ کا فاصلہ تھا۔ سانپ نے اپنی دم ایک بلاک اور زمین کے درمیان کی جگہ پھنسائی اور اوپر اٹھنے لگا۔ اس کے جسم کے پیچ ایک ایک کر کے کھلتے چلے گئے … وہ حملے کے لیے تیار تھا۔ اس کا مثلث نما سر تھوڑا سا پیچھے کو جھکا۔ پھر اٹھی ہوئی گردن کا اگلا حصہ آگے کی طرف بڑھا۔ کتے کو شاید حالات کی نزاکت کا احساس ہو گیا تھا اس لیے وہ اور تیزی میں بھونکنے لگا، لیکن وہ بھی پیچھے نہیں ہٹ رہا تھا۔ اس کے تھوڑے پیچھے کھڑے ٹوٹو نے بھی اس کے ساتھ ساتھ بھونکنا شروع کر دیا تھا۔
ایک سیکنڈ کے چھوٹے سے حصے میں، اچانک سانپ کی گردن تھوڑی سی مڑ ی اور اس کا سر پیچھے کی طرف جھکا۔ ایسا لگا جیسے اس کے سر کو زمین سے باندھے رکھنے والی کوئی ان دیکھی ڈور ٹوٹ گئی ہو … انتہائی برق رفتاری کے ساتھ اس کا سر آگے کو بڑھا … حالاں کہ کتے نے اپنے جسم کو بکری کی طرح دو ٹانگوں پر اٹھا لیا تھا … سانپ نے اس کے سینے پر پوری طاقت سے کاٹا۔ کنڈلی کی آخری پیچ کے کھلتے ہی اس کی دم ہوا میں برق رفتاری سے لہرائی۔
اولف دبی دبی غراہٹ کے ساتھ، پشت کے بل زمین پر گر پڑا۔ اس کے پیر بری طرح ہل رہے تھے۔ ممبا تیزی کے ساتھ واپس ہوا، اور پائپوں کے درمیان کہیں غائب ہو گیا۔
’نہوکا ‘(سانپ)، سارٹینا چلائی۔
ننڈیٹو نے مجھے ایک طرف دھکیلا اور بے تحاشہ دوڑتا ہوا باڑے سے باہر چلا گیا اور مڈونانا کی بانہوں میں جا کر سمٹ گیا۔ جیسے ہی اولف نے محسوس کیا کہ سانپ غائب ہو گیا ہے، اولف نے دس بارہ بڑی چھلانگیں لگائیں اور سینہور کاسٹرو کے مکان کی جانب جا کر غائب ہو گیا۔
بچے یہ سمجھے بغیر کہ ہوا کیا ہے … چیخ چیخ کر رونے لگے۔ سارٹینا ننڈیٹو کو اپنے بازوؤں میں اٹھا کر گھر کے اندر لے گئی۔ جب بچے سارٹینا کے پیچھے چلے گئے تو میں نے مڈونانا کو کہا کہ وہ سانپ کو مارنے میں میری مدد کرے۔
مڈونانا ایک کپڑے کو اوپر اٹھائے منتظر تھا جب کہ میں ایک جھاڑو کے ڈنڈے سے پائپوں کو ہٹا رہا تھا۔ جیسے ہی سانپ سامنے آیا مڈونانا نے اس پر کپڑا پھینک دیا اور میں نے جھاڑو کے ڈنڈے سے اسے پیٹ پیٹ کر اس کا بھرکس نکال دیا۔
٭٭
جب پاپا کام سے واپس آئے، ننڈیٹو کا خوف کم ہو چکا تھا لیکن وہ اب بھی روئے جا رہا تھا۔ ماما جنھوں نے اب تک سانپ کو نہیں دیکھا تھا، پاپا کے ساتھ مرغیوں کے باڑے میں گئیں۔ جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ پاپا سانپ کو ایک چھڑی کی مدد سے الٹ پلٹ رہے ہیں۔
’’میں یہ بات سوچنا بھی نہیں چاہتا کہ اس قسم کا سانپ میرے کسی بچے کو کیا نقصان پہنچا سکتا تھا۔ ‘‘پاپا مسکرائے ’’ یا کسی بھی دوسرے شخص کو … میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ اس سانپ کا یہ چھ فٹ کا جسم میری مرغیاں کھا کھا کر بنا ہے۔ ‘‘
اسی لمحے سینہور کاسٹرو کی گاڑی ہمارے مکان کے سامنے رکی۔ پاپا اس کی طرف بڑھ گئے اور ماما سارٹینا سے باتیں کرنے کے لیے اس کی طرف چلی گئیں۔ میں پاپا کے پیچھے گیا۔
’’گڈ آفٹر نون، سینہور کاسٹرو … ۔ ‘‘
’’سنو چیمبین … مجھے ابھی ابھی پتا چلا ہے کہ میرا کتا مر گیا ہے … اس کے سینے پر ورم ہے۔ میرے گھر والوں کا کہنا ہے کہ مرنے سے قبل وہ تمھارے مکان سے چیختا ہوا برآمد ہوا تھا … میں بعد کا کوئی جھمیلا پسند نہیں کرتا … میں تم سے کہے دیتا ہوں … تم سیدھی طرح اس کا معاوضہ ادا کرو … ورنہ میں انتظامیہ میں اس بات کی شکایت کروں گا۔ وہ میرا، اب تک کا سب سے اچھا کتا تھا۔ ‘‘
’’دیکھیے میں ابھی ابھی کام سے واپس آیا ہوں … مجھے کچھ پتا نہیں۔ ‘‘
’’میں وہ سب کچھ نہیں جانتا … بحث مت کرو … تم معاوضہ ادا کر رہے ہو یا نہیں ؟‘‘
’’لیکن سینہور کاسٹرو … ۔ ‘‘
’’سینہور کاسٹروکو چھوڑو … تم معاوضے کی بات کرو … ۷۰۰ ؍پاؤس … بہتر ہے کہ یہ معاملہ گھر ہی میں حل ہو جائے۔ ‘‘
’’جیسا آپ چاہیں، سینہور کاسٹرو … لیکن ابھی میرے پاس اتنی رقم نہیں۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے اس بارے میں ہم پھر بات کر لیں گے۔ میں اس مہینے کے آخر تک انتظار کروں گا اور اگر تم نے رقم ادا نہیں کی تو پھر سمجھ لینا۔ ‘‘
’’سینہور کاسٹرو … ہم لوگ ایک دوسرے کو عرصے سے جانتے ہیں اور ہمارے درمیان کبھی کوئی … ۔ ‘‘
’’مجھ سے یہ سب کہنے کی ضرورت نہیں … مجھے پتا ہے تمھیں کیا چاہیے … تمھیں تو بس موقع چاہیے … ۔ ‘‘
سینہور کاسٹرواپنی گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔ پاپا کار کو جاتے ہوئے دیکھتے رہے … ’’کتیا کا بچہ … ۔ ‘‘
میں ان کے قریب گیا اور ان کے کوٹ کا آستین ہلایا … ’’پاپا آپ نے یہ بات اس کے منھ پر کیوں نہیں کہی؟‘‘
انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
٭٭
جب ہم رات کا کھانا ختم کر چکے تو پاپا نے کہا ’’ سارٹینا سے کہو کہ وہ جلدی سے میز صاف کر دے … میرے بچو ! … ہمیں دعا کرنی چاہیے … آج ہم لوگ بائبل کی تلاوت نہیں کریں گے … آج ہم لوگ صرف دعا کریں گے۔ ‘‘
پاپا رونگا زبان میں باتیں کر رہے تھے … مجھے افسوس ہو رہا تھا کہ میں نے تھوڑی دیر قبل ان سے وہ سوال کیوں کیا تھا؟‘‘
جب سارٹینا نے پلیٹیں اٹھا لیں اور ٹیبل کلاتھ تہ کر لیا تو پاپا نے دعا شروع کی، ’’ تتانا، ہاکوڈُمباہوسی یا ٹیلو میسا با … (مقدس باپ ! ہم تجھ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ اے آسمان و زمین کے مالک … )۔ ‘‘
جب انھوں نے دعا ختم کی تو ان کی آنکھیں سرخ تھیں۔
’’آمین ! ‘‘
’’آمین ! ‘‘
ماما کھڑی ہو گئیں۔ انھوں نے بڑے ہی بیزار لہجے میں پوچھا۔
’’لیکن یہ سینہور کاسٹرو آخر چاہتا کیا ہے؟‘‘
’’کوئی خاص بات نہیں۔ ‘‘
’’ ٹھیک ہے … کمرے میں آ کر اس کے بارے میں بتاؤ … میں جاتی ہوں مجھے بچوں کی چیزیں ٹھیک کر نی ہیں … تم گِنہو! … کل سویرے اٹھنا اور جلاب لینا۔ ‘‘
جب سب لوگ چلے گئے تو میں نے پاپا سے پوچھا ’’ پاپا، جب آپ بہت غصے میں ہوتے ہیں تو ہمیشہ دعا کیوں کرتے ہیں ؟‘‘
’’کیوں کہ وہ سب سے بڑا مددگار ہے۔ ‘‘
’’اور اس نے آپ کو، کون سی راہ بتائی؟‘‘
’’وہ مجھے راستہ نہیں بتا تا … وہ مجھے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی ہمت عطا کرتا ہے۔ ‘‘
’’پاپا، کیا آپ اس پر بہت زیادہ یقین کرتے ہیں ؟‘‘
پاپا نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے وہ مجھے پہلی بار دیکھ رہے ہوں، اور پھر وہ غصے سے بولے۔ ’’میرے بچے، انسان کو امید قائم رکھنی چاہیے۔ جب ایک دن ختم ہو اور ہم جانتے ہوں کہ آنے والا دن بھی بالکل کل جیسا ہی ہو گا، تمام حالات ویسے ہی رہیں گے، تو ہمیں اس ہمت کی ضرورت ہوتی ہے کہ ہم پھر بھی مسکرا سکیں اور یہ کہہ سکیں کہ ’’کوئی بات نہیں۔ ‘‘روزانہ کی اس بہادری کے لیے ہمیں اپنے لیے ایک انعام خود ہی مقرر کر لینا ہو گا۔ ہمیں اس انعام کے لیے ایک دن مقرر کرنا ہو گا، بھلے ہی وہ دن ہماری موت ہی کاکیوں نہ ہو۔ آج تم نے دیکھا سینہور کاسٹرو نے کس طرح میری بے عزتی کی۔ یہ تو آج کے دن کا صرف ایک حصہ تھا جو تم نے دیکھا، آج بہت سی ایسی باتیں ہوئیں، جنھیں تم نے نہیں دیکھا … نہیں میرے بچے … ہمیں امید ہر حال میں قائم رکھنی ہے … ہر حال میں … اور … اگر ساری دنیا ’اسے‘ جھٹلائے، پھر بھی ’وہ ‘ موجود رہے گا۔ ‘‘
پاپا اچانک خاموش ہو گئے اور مسکرانے کی کوشش کی … پھر بولے ’’ایک بے حد غریب آدمی کو بھی کچھ نہ کچھ تو چاہیے … خواہ وہ محض امید ہو … جھوٹی امید ہی سہی۔ ‘‘
’’ پاپا ! میں سینہور کاسٹرو کے کتے کو سانپ کے کاٹنے سے بچا سکتا تھا … ۔ ‘‘
پاپا نے میری طرف شفقت بھری نگاہوں سے دیکھا اور نرمی سے بولے ’’کوئی بات نہیں … یہ اچھا ہی ہوا کہ سانپ نے اسے کاٹ لیا۔ ‘‘
ماما دروازے پر دکھائی دیں ’’ تم بچے کو سونے کے لیے جانے دو گے یا نہیں ؟‘‘میں نے پاپا کی جانب دیکھا۔ ہم دونوں کے دل میں سینہور کاسٹرو کا خیال آیا اور ہم دونوں زور سے ہنس پڑے۔ ماما کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔
’’کیا تم دونوں پاگل ہو گئے ہو؟‘‘
’’ہاں ! … ہم دونوں پاگل ہو گئے ہیں۔ ‘‘
پاپا اپنے کمرے کی طرف جا رہے تھے۔ میں نے ذرا تیز آواز میں ان سے کہا ’’پاپا … کبھی کبھی۔ ۔ ۔ ۔ پتا نہیں کیوں … مجھے نہیں معلوم کیوں … ایسا لگتا تھا جیسے میں آپ سے پیار نہیں کرتا … آئی ایم ساری … ۔ ‘‘
ماما کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ہم کیا باتیں کر رہے ہیں۔ اس لیے وہ خفا ہو گئیں اور بولیں ’’بند کرو یہ بکواس … ۔ ‘‘
’’تمھیں پتا ہے، میرے بچے ‘‘ پاپا نے بھاری آواز میں کہا۔ وہ ہر لفظ کے ساتھ اپنے ہاتھوں کو حرکت دے رہے تھے ’’تم جانتے ہو … اندر کے خالی پن کو برداشت کرنا سب سے مشکل کام ہے … اور یہ انسان کو بہت دکھ دیتا ہے … بہت، بہت بہت دکھ … لیکن چیخنا بھی مشکل ہو تا ہے … تم سمجھ رہے ہو؟‘‘
’’پاپا … اور جب سینہور کاسٹروآئے گا؟‘‘
ماما دخل دینا چاہ رہی تھیں لیکن پاپا نے ان کا کندھا دبا دیا ’’ کو ئی بات نہیں، تم جانتی ہو، ہمارے بیٹے کو پتا ہے کہ لوگ جنگلی گھوڑوں پر سواری نہیں کرتے بلکہ وہ بھوکے اور سدھے ہوئے گھوڑوں کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اور جب بھی کوئی گھوڑا بے قابو ہو جاتا ہے تو اسے گولی مار دی جاتی ہے، اور اس کی کہانی ختم ہو جاتی ہے … سدھائے ہوئے گھوڑے روزانہ مرتے ہیں۔ روزانہ … کیا تمھیں سنائی دیتا ہے؟ … ہر دن … ہر ایک دن … جب تک وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکتے ہیں۔ ‘‘
ماما انھیں دیکھ رہی تھیں، ان کی آنکھیں حیرت سے پھیلی ہوئی تھیں۔
’’تم جانتی ہو … اس سچائی پر اعتبار کرنا بہت مشکل ہے … لیکن میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ میں اس سے یہ کہوں کہ یہ جھوٹ ہے … وہ اس سچائی کو دیکھتا ہے … آج بھی اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے … میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ میرے بچوں میں وہ صلاحیت موجود ہو کہ وہ ان حالات کو سمجھ سکیں۔ ‘‘
پاپا اور ماما اپنے کمرے میں جا چکے تھے۔ اس لیے میں کچھ اور نہیں سن پایا، لیکن ماما نے وہیں سے چیخ کر کہا ’’ کل صبح تم جلاب لینا … اس سے تمھیں پتا چل جائے گا … میں تمھارے پاپا جیسی نہیں ہوں جو لوگوں کے سامنے نرم پڑ جاتے ہیں۔ ‘‘
٭٭
بستر زرد چاندنی میں نہایا ہوا تھا اور اپنی عریاں جلد پر چاندنی کا ٹھنڈا لمس بہت بھلا لگ رہا تھا۔ نہ جانے کیوں … اچانک سارٹینا کے وجود کی گرمی میرے احساس میں رینگ آئی … کئی منٹ تک میں اس کے خیالی وجود کو اپنی بانہوں میں سمیٹے رہا … میں اسے اپنے ساتھ لیے سو جانا چاہتا تھا، تاکہ کتے اور سانپ میرے خوابوں میں داخل نہ ہوسکیں۔
Original Story : Papa, Snake & I
By: B. L. Honwana (Mozambique)
انتظار
ساؤتھ افریقہ
اس کی رہائی کی خبر ملتے ہی میں اپنے کھیت میں پاگلوں کی طرح دوڑتی ہوئی، کھیتوں کے درمیانی احاطے کو چھلانگ کر پار کرتی ہوئی، دوسرے کھیت میں جا پہنچی تاکہ یہ خوشخبری دوسروں کو سنا سکوں۔ اس بات کا احساس تو مجھے بہت بعد ہوا کہ احاطے کے کانٹے دار تاروں سے الجھ کر میرا لباس بری طرح پھٹ گیا تھا، اور میرے کاندھے پر ایک لمبی خراش آ گئی تھی جس سے خون رس رہا تھا۔
اسے یہاں سے گئے آٹھ سال بیت گئے تھے۔ وہ ایک کنسٹرکشن کمپنی میں نوکری کرنے کے لیے شہر گیا تھا … ایک بڑی کنسٹرکشن کمپنی جو کانچ کی دیواروں والی فلک بوس عمارتیں بناتی ہے۔ پہلے دوسالوں تک وہ مہینے میں ایک بار دو دنوں کے لیے اورکرسمس میں دو ہفتوں کے لیے گھر آیا کرتا تھا۔ اسی دوران اس نے میرے باپ سے میرا ہاتھ مانگا تھا اور رقم دینی شروع کر دی تھی۔ ہم دونوں کا خیال تھا کہ اگلے تین سالوں میں وہ اچھی خاصی رقم چکانے میں کامیاب ہو جائے گا اور پھر ہم شادی کر سکیں گے، لیکن اسی دوران اس نے انقلابی نعروں والی ٹی شرٹ پہننی شروع کر دی۔ اس نے بتایا کہ وہ یونین میں شامل ہو گیا ہے۔ اس نے ہمیں ہڑتال کے بارے میں بتایا۔ اس نے بتایا کہ وہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ کس طرح مالکوں سے بات چیت کرنے گیا تھا کیوں کہ کچھ لوگوں کو ہڑتال کرنے کے جرم میں نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔ وہ بات چیت بہت سلیقے سے کرتا تھا … انگلش میں بھی۔ وہ اخبار بھی پڑھا کرتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی اخبار جن میں اسٹور کا ہندوستانی مالک صابن اور شکر لپیٹ کر گاہکوں کو دیا کرتا ہے۔
جس ہوسٹل میں وہ رہا کرتا تھا اس میں کرائے کو لے کر کچھ مسائل پیدا ہو گئے تھے۔ اس نے مجھے … صرف مجھے بتایا کہ … گاؤں میں، قصبوں میں، جہاں بھی لوگ اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں، تقریریں کر رہے ہیں، جلوس نکال رہے ہیں … در اصل وہ اپنے لیے نہیں بلکہ ہم سب کے لیے لڑائی کر رہے ہیں … یونینیں ان کے ساتھ ہیں … وہ ان کے ساتھ ہے۔
تیسرے سال ہم نے سنا کہ اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ شادی کا خواب ادھورا ہی رہ گیا۔ جب تک مقدمہ شروع نہیں ہوا، ہمیں یہ بھی پتا نہ چل سکاکہ اسے کس جیل میں رکھا گیا ہے۔ مقدمہ ایک دور دراز شہر میں چل رہا تھا۔ میں بار بار وہاں جا بھی نہیں سکتی تھی کیوں کہ میں نے آٹھویں جماعت پاس کر لی تھی اور اب ایک فارم اسکول میں کام کرتی تھی۔ میرے گھر والوں کے پاس بھی پیسوں کی کمی تھی۔ میرے دو بھائی جو کمانے کے لیے شہر گئے تھے، وہ کچھ بھیجتے ہی نہ تھے۔ شاید وہ اپنی گرل فرینڈز کے ساتھ رنگ رلیوں میں مصروف ہوں گے اور ساری کمائی انھیں پر لٹا رہے ہوں گے۔ میرا باپ اور تیسرا بھائی سفید فام مالک کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کی تنخواہ بے حد کم ہے۔ ہمارے پاس دو بکریاں اور چند گائیں تھیں اور زمین کا ایک مختصر سا ٹکڑا جس پر میری ماں تھوڑی سی سبزیاں اگا لیتی تھی۔ اس سے کوئی آمدنی نہیں ہوتی تھی۔
جب میں نے اسے عدالت میں دیکھا تو وہ نیلے سوٹ، دھاری دارشرٹ اور بھوری ٹائی میں بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ تمام ملزمین، جنھیں وہ کامریڈ کہا کرتا تھا، اچھے لباس میں تھے۔ یونین نے ان کے لیے عمدہ لباس کا انتظام کیا تھا، تاکہ جج اور سرکاری وکیل انھیں معمولی درجے کے’یس باس‘ ٹائپ کے سیاہ فام نہ سمجھ لیں، جنھیں اپنے حقوق کے بارے میں کچھ پتا ہی نہیں ہوتا۔ یہ بات، اوردوسری کئی اہم باتیں اس نے مجھے اس وقت بتائیں جب مجھے جیل میں اس سے ملنے کی اجازت دی گئی تھی۔ مقدمے کے دوران ہی ہماری بچی پیدا ہوئی۔ جب میں بچی کو عدالت میں پہلی بار اسے دکھانے کے لیے لے کر گئی تو اس کے ’کامریڈس‘ نے اسے گلے سے لگا لیا اور پھر قیدیوں کے کٹہرے کے پار ہی سے مجھے بھی باری باری گلے سے لگایا اور آپس میں چندہ کر کے انھوں نے مجھے کچھ رقم بھی دی کہ میں بچی کے لیے کوئی تحفہ خرید لوں۔ اس نے بچی کا نام اِنکُو لیلُوکُو رکھا۔
مقدمہ ختم ہوا، اوراسے چھ سال کے لیے جزیرے پر بھیج دیا گیا۔ ہم سب کو جزیرے کے بارے میں پتا تھا۔ ہمارے لیڈروں نے وہاں لمبی سزائیں کاٹی تھیں، لیکن میں نے اسکول کی کتابوں میں سمندر کو ہمیشہ نیلے رنگ ہی میں دیکھا تھا اور میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی کہ اس کے درمیان زمین کا کوئی ٹکڑا بھی ہو سکتا ہے۔ جزیرے کے تعلق سے جو تصور میرے ذہن میں ابھرتا تھا وہ بارش کے جمع ہوئے پانی پر تیرتے ہوئے گائے کے تازہ گوبر کا ہوتا تھا … بارش کا صاف چمکتا ہوا پانی … جس میں نیلے آسمان کا عکس دکھائی دیتا ہے … اور اس پر تیرتا گوبر … میں اپنے اس تصور پرخود ہی شرمندہ ہو جایا کرتی تھی۔
جیل میں اسے ہر ماہ ایک خط کی اجازت تھی اور وہ خط میرا ہوا کرتا تھا کیوں کہ اس کے ماں باپ لکھنا نہیں جانتے تھے۔ میں ان کے پاس اس فارم میں جاتی تھی جہاں وہ کام کرتے تھے اور ان سے پوچھ لیا کرتی تھی کہ وہ اپنے بیٹے کو کیا پیغام بھیجنا چاہتے ہیں۔ اس کی ماں اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر رونے لگتی … کبھی کچھ نہ کہتی … اور باپ جو پہلے ہر اتوار کو میدان میں ہمیں نصیحتیں کیا کرتا تھا، کہتا میرے بیٹے کو لکھ دو کہ ہم اس کے لیے دعا کر رہے ہیں۔ خداوند اس کی مشکلات دور فرمائے گا۔ ایک بار اس کا جواب آیا … ’’ہمارے لوگ، جو کھیتوں میں کام کرتے ہیں، ان کے ساتھ یہی مصیبت ہے کہ وہ یہ سوچتے ہیں کہ ان کے لیے جو بھی مناسب ہو گا، خدا خود فیصلہ کرے گا۔ اس لیے وہ خود سے اپنی زندگی بدلنے کی کوشش کبھی نہیں کرتے۔ ‘‘
دو سال گزر گئے۔ اب ہم نے اتنی رقم جمع کر لی تھی کہ کیپ ٹاؤن جا کر اس سے مل سکیں۔ ہم ٹرین سے گئے اور رات اسٹیشن کے ننگے فرش پر سوئے۔ صبح ہم نے لوگوں سے گھاٹ کا راستہ دریافت کیا۔ لوگ بہت ہمدردی سے پیش آرہے تھے۔ انھیں پتا تھا کہ اگر کوئی گھاٹ کا پتا پوچھے تو اس کا مطلب ہوا کہ اس کا کوئی عزیز جزیرے کی جیل میں قید ہے۔
ہم لوگ ساحل پر پہنچ گئے … سمندر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا … نیلے سبز رنگ کا، تا حد نظر پھیلاسمندر … لہریں بار بار اوپر اٹھ کر گر رہی تھیں اور سفید جھاگ میں بدل جا رہی تھیں۔ ہوا کے نہایت تیز جھونکے چل رہے تھے۔ جزیرہ دکھائی نہیں دے رہا تھا لیکن چند دوسرے لوگ جو ہماری طرح کشتی کے منتظر تھے، وہ سمندر میں دور اس طرف اشارہ کر رہے تھے جدھر جزیرہ تھا۔ سب کچھ میرے تصور سے بالکل مختلف تھا۔
وہاں دوسری کشتیاں اور جہاز بھی موجود تھے جنھیں دنیا کے دوسرے علاقوں میں جانا تھا … لیکن وہ کشتی جسے جزیرے تک جانا تھا، وہ صرف جزیرے تک ہی جاتی تھی اور کہیں نہیں۔ یعنی وہاں جو لوگ بھی کشتی کے انتظار میں تھے انھیں دراصل جزیرے پر ہی جانا تھا۔ ہمارے پاس مٹھائیاں اور بسکٹ تھے، اس کے لیے پتلونیں اور ایک گرم کوٹ تھا ( ایک عورت جو وہاں کھڑی تھی اس نے بتایا کہ ہمیں اسے کپڑے دینے کی اجازت شاید نہیں ملے گی)۔ میں اپنے سر پر وہ پرانیبیریٹ (نرم کپڑے کی ٹوپی) نہیں پہنے ہوئے تھی جو کھیتوں میں کام کرنے والی لڑکیاں عموماً پہنا کرتی ہیں، بلکہ اس وقت میں نے اپنے بالوں میں ریلیکسر کریم لگا رکھی تھی جو میں نے اس پھیری والے سے خریدی تھی جو ایک بکس میں اس طرح کی چیزیں لیے اپنی سائکل پر کھیتوں میں آیا کرتا تھا۔ میرے بال سلیقے سے سنورے ہوئے تھے اور سر پر ایک پھولدار اسکارف تھا جس نے میرے کانوں میں چمکتی سنہری بالیوں کو نہیں چھپایا تھا۔ اس کی ماں نے اپنے لباس کے اوپر سے اپنا کمبل لپیٹ کر کمر کے پاس باندھ رکھا تھا اور ایک عام دیہاتی عورت معلوم ہو رہی تھی، لیکن میں وہاں موجود کسی بھی لڑکی سے کم نہ تھی۔ جب کشتی ہمیں لے جانے کے لیے تیار ہو گئی تو ہم سب خاموشی سے ایک دوسرے کے ساتھ چپک کر کھڑے ہو گئے جیسے مویشی باڑے کے گیٹ سے نکلتے وقت کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک آدمی کھڑا چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کی ٹھوڑی ہِل رہی تھی، وہ ہمیں گن رہا تھا، شاید وہ ڈرا ہوا تھا کہ مسافروں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور کہیں کشتی والے اسے لے جانے سے انکار نہ کر دیں۔ ہم سب سامنے کھڑے نگراں پولیس والے کی طرف بڑھے اور ہمارے آگے موجود تمام مسافر کشتی میں سوار ہو گئے۔ جب ہماری باری آئی تو پولیس والے نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ میں نہیں سمجھ سکی کہ وہ کیا چاہتا تھا۔
ہمارے پاس اجازت نامہ نہیں تھا۔ دراصل ہمیں پتا ہی نہیں تھا کہ کیپ ٹاؤن آنے سے قبل، اس گھاٹ پر قدم رکھنے سے قبل، پولیس سے جزیرے پر جاکر قیدی سے ملنے کا خصوصی اجازت نامہ حاصل کرنا پڑتا ہے۔ میں نے اس پولیس والے سے درخواست کرنے کوشش کی لیکن تیز ہوا کے جھونکے میرے منہ سے نکلے الفاظ اڑا لے گئے۔
ہم واپس ہو گئے۔ ہم نے کشتی کو لہروں پر ڈولتے دیکھا۔ وہ لہروں کے ساتھ اوپر نیچے ہو رہی تھی اور لمحہ بہ لمحہ چھوٹی ہوتی جا رہی تھی۔ یہاں تک کہ وہ ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو گئی اور ہمیں یہ سمجھنا مشکل ہو گیا کہ نظروں کے سامنے لہروں کے ساتھ اوپر نیچے ہونے والی شے وہی کشتی تھی یا کوئی پرندہ تھا۔
ایک بات اچھی ہوئی کہ مسافروں میں سے ایک شخص نے بسکٹ اور مٹھائیاں ہم سے یہ کہہ کر لے لیں کہ وہ اس تک پہنچا دے گا۔ بعد میں اس نے خط میں لکھا تھا کہ وہ مٹھائیاں اور بسکٹ اسے مل گئے تھے، لیکن وہ کوئی اچھا خط نہیں تھا۔ اس میں اس نے اپنے غصے کا زبردست اظہار کیا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ مجھے اتنا بے وقوف نہیں ہونا چاہیے تھا، اور مجھے اجازت نامے کے بارے میں پہلے سے پتا ہونا چاہیے تھا۔ اس نے ٹھیک ہی لکھا تھا … میں نے ٹرین کے ٹکٹ خریدے … اس بات کا پتا لگایا کہ کشتی کہاں ملے گی … تو مجھے اجازت نامے کے بارے میں بھی معلومات حاصل کر لینی چاہیے تھی۔ اس نے لکھا تھا کہ میں جاہل نہیں تھی … آٹھویں جماعت پاس کر چکی تھی۔ قصبے میں پوچھ تاچھ کا دفتر تھا، چرچ سے بھی معلومات حاصل کی جا سکتی تھیں، لیکن میں بھی کیا کرتی۔ ہمارے کھیت قصبے سے بہت دور ہیں اور ہم ان چیزوں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں رکھتے … اس نے لکھا تھا … ہماری ناواقفیت ہی تمام خرابیوں کی جڑ ہے جس کی وجہ سے ہمیں ہمارے حقوق کا پتا نہیں چلتا، اسے ختم ہونا چاہیے۔
ہم نے واپسی کی ٹرین پکڑ لی اور پھر کبھی جزیرے پر نہیں جا سکے … ان تین طویل برسوں میں اسے ایک بار بھی نہیں دیکھ سکے … ایک بار بھی نہیں … ہمارے پاس ٹرین کا کرایہ ہی جمع نہ ہو سکا۔ اس دوران اس کے باپ کا انتقال ہو چکا تھا اور مجھے اس کی ماں کی کفالت اپنی تنخواہ سے کرنی پڑ رہی تھی۔ ہم لوگوں کے لیے رقم ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ میں نے اسے لکھا کہ ہم لوگ کب تک کسمپرسی کی زندگی گزارتے رہیں گے؟ … کب ہم لوگوں کے پاس زندگی گزارنے کے لیے مناسب رقم آئے گی؟ … جواب میں اس نے ایک بہت پیارا خط بھیجا۔ اس نے لکھا تھا: یہی وہ وجہ ہے جس کے لیے میں، تم سے دور، جزیرے میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہا ہوں۔ میں یہاں اسی لیے ہوں کہ ایک دن میرے ہم وطن اپنی ضروریات زندگی کو باآسانی حاصل کر سکیں گے، انھیں بھر پیٹ کھانا مل سکے گا، اور ان کے ساتھ ہونے والے متعصبانہ سلوک کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس خط میں کچھ اور بھی لکھا تھا جسے میں ٹھیک سے پڑھ نہ سکی، میں صرف لفظ ’طاقت‘ پڑھ سکی باقی پر سیاہی پھیر کر مٹا دیا گیا تھا۔ دراصل اس کا خط صرف میں ہی نہیں پڑھتی تھی … مجھ سے پہلے جیل کے حکام پڑھتے تھے۔
٭٭
اور پانچ سال کے بعد وہ آ رہا تھا !
مجھے جیسے ہی یہ خبر ملی، مجھے لگا کہ درمیان کے پانچ طویل سال اچانک غائب ہو گئے … مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ مجھے ابھی ایک اور پورا سال انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ میں نے اپنی … ہماری۔ ۔ ۔ ۔ ننھی سی بیٹی کو اس کی تصویر دکھائی … یہ تمھارے ڈیڈی ہیں … یہ آرہے ہیں … تم جلد ہی انھیں دیکھ سکوگی۔ اس نے اپنے اسکول میں سارے بچوں کو بتا دیا کہ اس کے ایک ڈیڈی بھی ہیں جو جلد ہی آئیں گے۔
ایک طرف ہم چاہتے تھے کہ وہ فوراً آ جائے جب کہ دوسری طرف ہم یہ بھی چاہتے تھے کہ ہمیں تیاری کے لیے تھوڑا وقت مل جائے۔ اس کی ماں اس کے ایک چچا کے یہاں رہتی تھی۔ اس کے باپ کی موت کے بعد اب اس کے باپ کا کوئی مکان بھی نہ تھا جس میں وہ شادی کے بعد مجھے لے جا سکے۔ اگر وقت ملتا تو میرا باپ درختوں کے لمبے تنے کاٹ لاتا۔ میں اور میری ماں مل کر اینٹیں بنا کر پکا لیتے اور جھاڑیاں کاٹ لاتے اور ان سب سے ہم ایک مکان بنا لیتے … اس کے لیے … میرے لیے … اور ہماری بچی کے لیے … ۔
ہمیں پتا نہیں تھا کہ وہ کس دن آئے گا۔ میں نے توبس اس کا نام اپنے ریڈیو پر سنا تھا … اس کا اور اس کے کچھ ساتھیوں کا جنھیں رہا کیا جا رہا تھا۔ پھر میں نے ہندوستانی کی دکان پر اخبار دیکھا۔ ’دی نیشن‘ … جو سیاہ فاموں کا اپنا اخبار ہے … اس کے صفحۂ اول پر کئی لوگوں کی ایک تصویر تھی … رقص کرتے ہوئے … ہاتھ ہلاتے ہوئے … کچھ لوگوں نے کچھ لوگوں کو کاندھوں پر اٹھایا ہوا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ ان میں سے وہ کون تھا۔ ہم منتظر تھے۔ کشتی نے اسے ساحل پر پہنچا دیا ہو گا۔ لیکن مجھے یہ بھی پتا تھا کہ کیپ ٹاؤن یہاں سے بہت دور ہے۔ اس لیے اسے وقت لگے گا۔
اور پھر وہ آگیا۔ سنیچر کا دن تھا۔ اسکول کی چھٹی تھی۔ اس لیے ماں کے ساتھ کھیت میں کام کر رہی تھی … میں ہاتھ میں کھرپی لیے مکئی اور کہنڑے کے پودوں کی دیکھ بھال میں مصروف تھی … میرے بال، جن کی میں بہت حفاظت کیا کرتی تھی، ایک بوسیدہ رومال میں بندھے تھے۔ تبھی میں نے دیکھا کہ سامنے گھاس کے میدان سے ایک کومبی گاڑی چلی آ رہی ہے … اس کے کامریڈس اس کے ساتھ تھے۔ میں نے سوچا کہ میں دوڑ کر بھاگ جاؤں اور ہاتھ منھ دھو لوں لیکن تب تک وہ میرے سامنے آ کھڑا ہوا، اور اپنے کامریڈس کے ساتھ چیخ رہا تھا … ہے! ہے! … اور اس کے گرد ایک شور بپا تھا۔ میری ماں اپنی تیز باریک آواز میں چیخ رہی تھی۔ آئی! آئی! … اور میرا باپ لڑکھڑاتا ہوا، تالیاں بجاتے ہوئے اس کی طرف بڑھ رہا تھا … اس نے اپنی بانہیں ہماری طرف پھیلا رکھی تھیں … اس کی وجیہہ شخصیت شہری لباس اور پالش کیے ہوئے جوتوں میں بہت پر وقار لگ رہی تھی۔ اس نے مجھے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔ میں اپنی کیچڑ میں سنے، گندے ہاتھوں کو اس کی پشت کی طرف اس سے دور رکھے ہوئے تھی کہ اس کا لباس گندا نہ ہو جائے۔ اس کے دانتوں نے میرے گال کو اپنی مضبوط گرفت میں لے لیا۔ اس نے میری ماں کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور ماں نے خود کو چھڑاتے ہوئے بچی کو اس کی طرف بڑھا دیا۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم سب گر پڑیں گے۔ بچی میری ماں کے پیچھے جا کر چھپ گئی۔ اس نے اسے گود میں اٹھا لیا، لیکن اس نے اپنا سر دوسری طرف گھما لیا۔ وہ اس سے باتیں کر رہا تھا، لیکن وہ اس سے کچھ نہیں بول رہی تھی۔ بیچاری تقریباً چھ سال کی معصوم بچی تھی جس نے اپنے باپ کو دیکھا ہی نہیں تھا … میں نے کہا … ’’یہی تمھارے پاپا ہیں … باتیں کرو۔ ‘‘ تو وہ بولی … ’’۔ نہیں یہ وہ نہیں ہیں۔ ‘‘
اس کے اس جواب پر کامریڈوں نے ایک زبردست قہقہہ لگایا جس میں ہم سب نے ان کا ساتھ دیا … بچی بھاگ گئی، وہ بولا ’ ’ ابھی اسے کچھ وقت لگے گا۔ ‘‘
وہ موٹا ہو گیا تھا … ہاں ! اچھا خاصا۔ ناقابل یقین بات … پہلے وہ اتنا دبلا تھا کہ اس کے پیر ضرورت سے زیادہ بڑے نظر آتے تھے … میں اس کی ہڈیاں محسوس کیا کرتی تھی … لیکن اب … اس رات مجھے اپنے بدن پر اس کا جسم بہت وزنی لگ رہا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ وہ پہلے کبھی اتنا بھاری محسوس ہوا ہو۔ حیرت انگیز بات ہے کہ کوئی جیل میں رہ کر اتنا صحت مند ہو جائے۔ میں سمجھتی تھی کہ اسے جیل میں کھانے کو نہیں ملتا ہو گا اور وہ جیل سے نکلے گا تو انتہائی کمزور ہو چکا ہو گا۔ سب لوگ اس کی طرف دیکھ کر کہتے، دیکھو کیا گبرو جوان بن کر لوٹا ہے۔ اور وہ اپنی مٹھی کو سینے پر مارتا ہوا زور سے ہنس پڑتا۔ وہ بتا تا کہ وہ اور دوسرے کامریڈ جیل کے اندرکس طرح اپنی کوٹھریوں میں ہی کسرت کیا کرتے تھے۔ وہ خود اپنی کوٹھری میں ایک ہی جگہ پر پیروں کو اچھال کر تقریباً تین میل روزانہ دوڑا کرتا تھا۔
پہلے جب ہم رات میں ایک ساتھ ہوتے تو کافی دیر تک سرگوشیاں کیا کرتے تھے لیکن اب میں محسوس کر رہی تھی کہ اس کا ذہن کہیں اور الجھا ہوا تھا۔ وہ پتا نہیں کیا سوچ رہا تھا اور میں اپنی باتوں سے اسے پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اور پھر میری سمجھ میں یہ بھی نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا باتیں کروں ؟ … اس سے پوچھوں کہ پانچ سال مجھ سے دور وہاں بند رہنا کیسا لگا؟یا اسے اپنے اسکول یا ہماری بچی کے بارے میں بتاؤں ؟ … یا اس کی غیر موجودگی میں پیش آنے والے دیگر واقعات بتاؤں ؟ … نہیں … مجھے انتظار کرنا چاہیے۔
دن میں کسی وقت میں نے اسے بتایا کہ اس کے بغیر میری زندگی کے پانچ سال اس گھر میں، اس فارم میں کس طرح گزرے۔ وہ دلچسپی کے ساتھ سنتا رہا … ٹھیک اسی طرح جیسے جب دوسر ے فارم سے لوگ آ کر اسے اس کی غیر موجودگی میں پیش آنے والے چھوٹے چھوٹے واقعات بیان کرتے تھے اور وہ سنتا تھا … مسکراتے ہوئے سر ہلاتا تھا … اور پھر کھڑے ہو کر انگڑائی لیتا تھا … یہ اس بات کا اشارہ ہوتا تھا کہ بس اب بہت ہو گیا … انھیں جانا چاہیے۔ میں سمجھ جاتی کہ اس کے ذہن میں پھروہی خیال کلبلانے لگا ہے جس میں وہ ان کے آنے سے قبل گم تھا … جب کہ ہم دیہاتی لوگ بہت سست رفتار واقع ہوئے ہیں اور باتوں کو بہت آہستہ آہستہ بیان کرتے ہیں … خود وہ بھی تو پہلے ویسا ہی تھا۔
اس نے کوئی دوسری نوکری تلاش نہیں کی تھی، لیکن وہ یوں ہمارے ساتھ گھر میں پڑا نہیں رہ سکتا تھا۔ ہم سب کا خیال تھا کہ وہ نیلے سبز سمندر کے درمیان جزیرے پر پانچ طویل سال گزار کر آیا ہے اس لیے ابھی کچھ دن آرام کر رہا ہے۔ اکثر کومبی یا کوئی دوسری گاڑی آتی اور وہ اس میں بیٹھ کر چلا جاتا اور ہم سے کہہ کر جاتا کہ اسے نہیں معلوم کہ وہ کس دن واپس آئے گا، لیکن فکر کرنے کی کوئی بات نہیں، وہ جلد ہی واپس آ جائے گا۔ پہلے پہل میں نے پوچھا کہ کب تک؟کیا اگلے ہفتے؟اس نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی … تحریک میں پہلے سے یہ پتا نہیں ہوتا کہ مجھے کب، کہا ں جانا ہے اور میرے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے۔ اور یہی معاملہ رقم کا بھی ہے … یہ کسی نوکری کی طرح نہیں کہ ہر ماہ مقررہ تاریخ پر مقررہ رقم مل جائے … اسے یہ بتانے کی ضرورت نہ تھی، یہ تو مجھے پہلے ہی سے معلوم تھا … وہ یہ سب ہمارے اپنوں کے لیے ہی تو کر رہا تھا جو دنیا بھر کی مصیبتیں جھیلتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس رقم نہیں ہے … اپنی زمین نہیں ہے … دیکھو … اس نے ہمارے مکان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا … مکان جو میرے ماں باپ کا تھا، میرا تھا اور اب اس کا اور اس کی بچی کا بھی ہونے والا تھا … اس جگہ کو دیکھو … گورا مالک ساری زمین کا مالک ہے، اور اس نے ہمیں کیچڑ بھری زمین پر، ٹن کے جھونپڑے میں رہنے کی اجازت دی ہے اور وہ بھی تب تک، جب تک ہم اس کے لیے کام کرتے رہیں … بابا اور تمھارا بھائی اس کے لیے کھیتی کرتے ہیں اور اس کے مویشیوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں … ماں اس کے مکان کی صفائی کرتی ہے اور تم اسکول میں پڑھاتی ہو جہاں ایک ٹیچر کے طور پر تمھاری ضروری ٹریننگ کا بھی انتظام نہیں۔ گورا کہتا ہے کہ وہ ہم سب کا مالک ہے۔ پہلے میں سوچتی تھی کہ ہم اس کے جزیرے سے لوٹنے سے قبل اس کے لیے گھر نہیں بنا سکے … لیکن اب یہ سمجھ میں آیا تھا کہ حقیقت میں گھر تو ہم میں سے کسی کا بھی نہیں تھا … میں اس کا نقطۂ نظر سمجھ گئی تھی۔
میں بے وقوف نہیں ہوں۔ جب اس کے کامریڈ کومبی میں بیٹھ کر اس سے باتیں کرنے کے لیے آتے تو میں اپنی ماں کے ساتھ ان کے لیے چائے بنا کر لے جاتی یا اگر ماں نے ہفتے کی شام کے لیے بیئر تیار کی ہوتی تو وہی لے جاتی۔ وہ لوگ ماں کے ہاتھوں کی بنی بیئر بہت پسند کرتے۔ وہ لوگ ہماری تہذیب و ثقافت کی باتیں کیا کرتے۔ ان میں سے ایک اکثر میری ماں کے گلے میں بانہیں ڈال کر اسے پیار سے ’سب کی ماں ‘ کہا کرتا تھا … پورے افریقہ کی ماں۔ کبھی کبھی وہ لوگ ماں کو خوش کرنے کے لیے وہ گیت سناتے جو وہ جزیرے میں قید کے دوران گایا کرتے تھے اور ماں سے وہ قدیم گیت سنا کرتے تھے جو ہم سب بچپن میں اپنی اپنی دادیوں سے سنا کرتے تھے، پھر وہ لوگ اس کی آواز میں اپنی بھاری آوازیں ملا دیا کرتے تھے۔ میرا باپ اس شور و غل کو پسند نہیں کرتا تھا۔ اسے خوف تھا کہ کہیں گورے مالک کو یہ پتا نہ چل جائے کہ میرا آدمی ایک انقلابی ہے اور جزیرے کی قید سے چھوٹ کر آیا ہے اور اب اس کی زمین پر بیٹھ کر سیاسی میٹینگ کیا کرتا ہے۔ ایسی حالت میں وہ میرے باپ کو ہمارے پورے خاندان کے ساتھ اپنی زمینوں سے ہمیشہ کے لیے نکال دیتا، لیکن میرے بھائی کا کہنا تھا کہ ڈرنے کی بات نہیں، گورا مالک اگر اس سلسلے میں کبھی کچھ پوچھے تو اسے سیدھے یہ کہہ دیا جائے کہ یہ مذہبی دعا کی محفل ہے … جب گانا ختم ہو جا تا تو میری ماں سمجھ جاتی کہ اب اسے مکان کے اندر چلے جانا چاہیے۔
لیکن میں اندر نہیں جاتی … میں وہیں بیٹھ کر اس کی باتیں سنتی … وہ جب کسی مسئلے پر گفتگو شروع کر دیتا تو پھر یہ بھول جاتا کہ میں بھی وہاں موجود ہوں لیکن جب اس کا کوئی کامریڈ کسی موضوع پر بولتا تو وہ میری طرف دیکھتا … انھی نظروں سے جن سے میں اسکول میں اپنے کسی پسندیدہ بچے کی طرف دیکھتی، تاکہ اسے حوصلہ ملے اور وہ بات سمجھ سکے۔ وہ لوگ براہ راست کبھی مجھ سے مخاطب نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی میں ان سے کچھ بولتی تھی۔
وہ لوگ جن موضوعات پر باتیں کرتے ان میں سب سے اہم موضوع ہوتا … کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں میں بیداری پیدا کرنا … میرے باپ اور بھائی جیسے کھیت مزدوروں میں … خود اس کے ماں باپ بھی ایسے ہی مزدور ہوا کرتے تھے … میں اب ان کی باتوں کو سمجھنے لگی تھی … مناسب اجرت … کام کے معین گھنٹے … ہڑتال کا حق … سالانہ ضروری چھٹیاں … حادثات کا معاوضہ … پینشن … بیماری اور زچگی کی چھٹیاں وغیرہ۔ وہ لوگ کبھی کبھی ’بڑے آدمی‘ اور ’بوڑھے آدمی‘ کا ذکر کیا کرتے۔ میں اب سمجھنے لگی تھی کہ یہ کون لوگ ہیں۔ یہ ہمارے محترم رہنما ہیں جو جیلوں سے چھوٹ کر آ گئے ہیں۔
میں پھر حاملہ ہوں … میرے اندر دوسرا بچہ پل رہا ہے … میں نے اسے آنے والے بچے کے بارے میں بتا یا … اس نے کہا’’ … اور یہ بچہ ایک نئے ملک کا باشندہ ہو گا … ایک آزاد ملک کا … یہ اس ملک کی تعمیر کرے گا جس کی آزادی کی جنگ ہم لڑ رہے ہیں۔ ‘‘ میں جانتی ہوں کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے پاس ان باتوں کے لیے فی الحال وقت نہیں۔ اس کے پاس بچوں کے لیے وقت ہے ہی نہیں۔ وہ میرے پاس ویسے ہی آیا کرتا ہے جیسے وہ کھانا کھانے اور کپڑے بدلنے کے لیے آیا کرتا ہے۔ وہ بچی کو گود میں اٹھا کر ایک دو بار گول چکر لگا لیتا … بس … اور پھر کومبی میں بیٹھ کر چلا جاتا۔ بیچاری ننھی بچی آج تک اس سے مانوس نہیں ہو پائی تھی، لیکن مجھے پتا تھا کہ ایک دن وہ اپنے باپ پر فخر کرے گی۔
ایک چھ سال کی بچی کو یہ سب باتیں کیسے بتائی جا سکتی ہیں … لیکن میں اسے بتا تی تھی … ’’ہمارے سیاسی رہنماؤں، ’بڑے آدمی‘ اور ’بوڑھے آدمی‘ کے بارے میں … تاکہ وہ یہ جان سکے کہ اس کا باپ بھی انھی لوگوں کے ساتھ جزیرے میں قید تھا … اس کا باپ بھی ایک عظیم آدمی ہے۔
سنیچر کو، اسکول نہیں ہوتا۔ اس دن میں اپنی ماں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتی ہوں۔ کام کرتے وقت وہ گایا کرتی ہے، لیکن میں نہیں گاتی … میں سوچتی ہوں … اتوار کو کوئی کام نہیں ہوتا … صبح میں ہم گورے مالک کے احاطے میں پیڑوں کے نیچے دعا کی محفل میں شامل ہوتے ہیں اور پھر کیچڑ بھری زمین پر بنی ٹن کی جھونپڑیوں میں، جہاں ہمارے گورے مالک نے ہمیں رہنے کو جگہ دے رکھی ہے، بیئر پی جاتی ہے، لیکن اس دن میری مصروفیات الگ ہی ہوتی ہیں۔ میں بچپن ہی سے اتوار کے دن بالکل تنہا بیٹھی کھلونے بنایا کرتی یا پھر خود سے باتیں کیا کرتی … ایسی جگہ جہاں کوئی دوسرا سننے والا نہ ہو۔
سہ پہر کو میں کسی اونچے مقام پر، کسی گرم پتھر پر بیٹھ جاتی جہاں سے پوری وادی پہاڑیوں کے درمیان ایک ایسے راستے جیسی نظر آتی جو میرے قدموں سے شروع ہو رہا ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ گورے مالک کا فارم ہے … لیکن نہیں یہ فارم اس کا کہاں ؟ … یہ تو کسی کا بھی نہیں ہے … جس طرح ایک گائے کو یہ پتا نہیں ہوتا کہ کون اس پر اپنا حق ملکیت جتا رہا ہے … جیسے وادی میں چرتی بھیڑیں۔ ۔ ۔ ۔ جو بھورے پتھروں کے طرح دکھائی دے رہی ہیں۔ ۔ ۔ اور جب وہ ایک ساتھ چلتی ہیں تو ایک رینگتے ہوئے بھورے، موٹے سانپ جیسی لگتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ انہیں بھی یہ پتا نہیں کہ وہ کس کی بھیڑیں ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے جھونپڑے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شہتوت کا بوڑھا درخت۔ ۔ ۔ ۔ بھوری زمین کا ٹکرا جسے میری ماں کل کھود رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چمنی کے ارد گرد بکھرے درختوں کے جھنڈ اور فارم ہاؤس پر لگا چمکدار ٹی وی اینٹینا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس زمین پر کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ انہیں یوں فنا کر سکتی ہے جیسے ایک کتا اپنی دم پر بیٹھی مکھی کو اڑا دیتا ہے۔
میں بادلوں کے ساتھ اوپر اڑ رہی ہوں۔ میرے عقب میں سورج آسمان پر مختلف رنگ بکھیر رہا ہے اور بادل دھیرے دھیرے اپنی شکلیں بدل رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ان میں کچھ سفید ہیں جو خود کو بلبلوں کی طرح اڑا رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ان کے نیچے سیاہ بادلوں کی پرت ہے جو اتنے کم ہیں کہ برس نہیں سکتے، وہ بس لمبائی میں پھیلتے جا رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے نیچے کے سارے بادل گلابی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہیں دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ جیسے ایک پتلی سی تھوتھنی ہو، لمبا سا جسم ہو اور آخر میں ایک طویل دم ہو۔ ۔ ۔ ۔ جیسے آسمان میں ایک بڑا سا چوہا آسمان میں گھوم رہا ہو اور آسمان کو نگلتا جا رہا ہو۔
میں وہیں بیٹھی ہوں جہاں میں اس زمانے میں آیا کرتی تھی جب وہ جزیرے میں تھا … میں یہاں دوسروں سے دور، اکیلے بیٹھ کر اس کا انتظار کیا کرتی تھی … میں چوہے کو دیکھ رہی ہوں۔ وہ اپنے آپ کو کھو رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ اپنی شکل کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آسمان کو کھا تے ہوئے۔ ۔ ۔ ۔ !
اور میں اس کا انتظار کر رہی ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اس کے واپس آنے کا انتظار … انتظار … طویل انتظار!
Original Story : Amnesty
By : Nadine Gordimer (South Africa)
اِک شبِ آوارگی
تنزانیہ
کافی دیر تک میکا تذبذب کی حالت میں بیٹھا رہا، ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اپنی فطری خود اعتمادی کھو چکا ہو، رگوں میں جوش مارتا الکوحل بھی اس معاملے میں اس کی کوئی مدد کرنے سے قاصر تھا۔ پھر اچانک اسے اپنی یہ بے اطمینانی بڑی احمقانہ محسوس ہوئی۔
اس نے کافی زور دار آواز میں کھنکھار کر اپنا گلا صاف کیا اور اس سے مخاطب ہوا۔
’’کیا نام ہے تمھارا؟‘
’’ ماما تُمائنی( تمائنی کی ماں )‘‘ اس نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا اور بچے کو زمین پر بچھی چٹائی پر سلانے میں مصروف ہو گئی۔ اچانک بچہ زور زور سے کھانسنے لگا۔ کھانسیوں کی وجہ سے اس کا پورا جسم بری طرح جھٹکے لے رہا تھا۔
میکا نے جھک کر بچے کو چھوا۔ اس کے ابرو نم تھے اور جسم بخار میں تپ رہا تھا۔
’’ اس کا علاج ہو رہا ہے؟‘‘ اس نے پوچھا، اسے خوشی ہوئی کہ چلو بات کرنے کے لیے کوئی موضوع تو ہاتھ آیا۔
’’ ڈسپنسری میں ایک اسپرین کی گولی تک نہیں ہے۔ ‘‘ اس نے جواب دیا۔
ماں کی تھپکیوں سے بچہ تمائنی دھیرے دھیرے چپ ہو گیا اور آخر کار سو گیا۔ اس کی سانسیں کافی تیز چل رہی تھیں۔ ماما تمانی نے اسے چادر اڑھا دی اور پھر مچھروں کو بھگانے والی ایک کوائل جلا دی۔ دھوئیں کا مرغولہ اٹھ کر چٹائی کے آس پاس پھیلنے لگا۔ بچہ کسمسا یا۔ دھوئیں کی وجہ سے اسے چھینک آ گئی۔ ماں اس کے پاس بیٹھ گئی اور ہلکی ہلکی تھپکیوں سے اسے پھر سلا دیا۔
’’ خدا تمھیں صحت دے میرے لعل۔ ‘‘ وہ بدبدائی’’ خدا تمہیں صحت اور طاقت دے، اپنی ماں کے ننھے فوجی۔ ‘‘
’’فوجی کیوں … ؟‘‘میکا نے پوچھا۔
’’کیوں کہ فوجی بھوکے نہیں مرتے اور نہ ہی بیمار پڑتے ہیں۔ ‘‘ اس نے اتنے معصومانہ انداز میں جواب دیا جیسے وہ کوئی چھوٹی سی بچی ہو۔
’’ ہاں، وہ بھوکے نہیں مرتے … ۔ ‘‘میکا نے کہا’’ … قتل ہوتے ہیں۔ ‘‘
’’ہماری اس بے بسی کی زندگی سے تو موت ہی بہتر ہے۔ ‘‘وہ تیز لہجے میں بولی ’’بھوک اور بیماریوں میں تڑپ کر روز تِل تِل مرنے سے بہتر ہے کہ ایک تیز رفتار گولی سینے کے پار ہو جائے۔ ‘‘
’’اوہ ! شاید تمھیں پتا نہیں … فوجی بھی بھوکے مرتے ہیں … جب کھانے کو کچھ نہیں ہوتا … ۔ ‘‘ میکا نے کہنا چاہا، لیکن وہ گہرے خیالوں میں ڈوبی ہوئی تھی، شاید اس نے اس کی بات سنی ہی نہ تھی۔ پھر وہ خود کلامی کے انداز میں بولی، جیسے وہ اس کمرے میں اکیلی ہو۔
’ ’ تُمائنی کا باپ ایک فوجی تھا … ۔ ‘‘
’’تھا … ؟‘‘ میکا نے چونک کر پوچھا۔
’’ … بے حد طاقتور تھا وہ … کوئی اس کے مقابلے کا نہیں تھا۔ اس کی موجودگی میں زندگی کتنی سہل تھی۔ وہ میرے لیے، میری ماں کے لیے، ہم سب کے لیے، ایک باپ کی طرح مہربان تھا۔ آج اس کے بغیر زندگی کتنی دشوار ہو گئی ہے۔ ہمیں چھوٹی چھوٹی چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے جد و جہد کرنی پڑتی ہے … ہر چیز … ہر چیز کی قیمت ہمیں اپنے خون پسینے سے چکانی پڑتی ہے … اگر تُمائنی کا باپ آج موجود ہوتا … ۔ ‘‘ ایسا لگا جیسے اگلے ہی پل وہ رو پڑے گی، لیکن پھر وہ سنبھل گئی۔
’’ کیوں ؟ … کیا اب وہ زندہ نہیں ہے؟ ‘‘میکا نے پوچھا … بس یونہی … اس کے لہجے میں تجسس نہیں تھا، اس کی آواز کافی تیز اور سپاٹ تھی جس پر اس عورت کے درد و الم کا کوئی خاص اثر نہ تھا۔
’’ میں اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتی … مجھ سے کچھ مت پوچھو … پلیز۔ ‘‘ اس نے التجا کی اور پھر رو پڑی۔
’’وہ لڑنے کے لیے یوگانڈا گیا تھا … پتا نہیں … ہو سکتا ہے وہ زندہ ہو … ہوسکتا ہے وہ مر چکا ہو۔ ‘‘ اس نے روتے روتے بتایا۔
میکا کچھ نہ بولا۔ بچہ تُمائنی اب بالکل خاموش تھا، اس کی ماں کا ہاتھ اس کے بدن پر تھا۔ وہ بے خیالی میں اب بھی اسے تھپکیاں دیے جا رہی تھی۔ آخرکار ماما تُمائنی اسے چھوڑ کر سیدھی ہوئی اور اس نے کمرے میں جلتے ٹن کے ننھے سے چراغ کو بجھا دیا۔ اندھیرے میں اس نے اپنے آپ کو خاموشی سے میکا کے سپرد کر دیا، اس خود سپردگی میں فرض سناشی بھی تھی اور پیشہ ورانہ مہارت بھی، لیکن بعد میں جب میکا اس سے الگ ہوا تو مکمل آ سودگی حاصل ہونے کے باوجود اس کے ذہن میں فتح مندی اور خوشی کا کوئی تاثر نہیں تھا۔ وہ بستر پر گومگو کی حالت میں چت لیٹا تھا۔ چٹائی سے آنے والی، بچے کی اکھڑی اکھڑی سانسوں کی آواز اس کی بے اطمینانی میں اضافہ کر رہی تھی۔
پتا نہیں کب اسے نیند آ گئی تھی۔ اچانک اس کی آنکھ کھلی، تھوڑی دیر کے لیے اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کہاں ہے۔ پھر اس نے ماما تُمائنی کے جسم کو اپنے پہلو میں محسوس کیا اور تب اسے یاد آیا کہ وہ کہاں ہے۔
اس نے بستر سے اٹھ کر ایک سگریٹ سلگا لیا۔ مچھروں کو بھگانے والی کوائل پوری طرح جل کر ختم ہو چکی تھی اور اب مچھر ہر طرف غصے میں بھنبھناتے پھر رہے تھے۔ وہ اندھیرے میں پریشان سا بیٹھا رہا۔ کوئی بات اس کے دل میں چبھ رہی تھی، لیکن وہ بات کیا تھی اس کا اسے خود پتا نہیں تھا۔ اچانک اس کا ذہن کمرے میں چھائی گہری خاموشی کی طرف مبذول ہوا۔
اس کا گلا سوکھ رہا تھا اور سر میں دھمک سی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ اٹھا، اپنی سگریٹ بجھا کر چٹائی کی طرف بڑھا۔ بچہ بالکل خاموش تھا۔ صبح کی اولین کرنوں میں اسے بچے کے جسم کا صرف ہیولاسا محسوس ہو رہا تھا۔ لیکن وہ ماچس جلانے کی ہمت نہ کر سکا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر بچے کو چھوا اور اپنی نگاہیں، جو رفتہ رفتہ اندھیرے سے مانوس ہو چکی تھیں، بچے کے ہیولے پر مرکوز کر دیں۔ بچے کا جسم ٹھنڈا اور بے جان تھا۔
ماما تُمائنی کروٹ بدلتے ہوئے کچھ بڑبڑ ائی اور پھر گہری نیند میں ڈوب گئی۔ میکا نے بستر پر بیٹھنے سے قبل انتظار کیا کہ اس کی سانسیں پھر سے گہری ہو جائیں۔ اس نے نہایت احتیاط سے دوسرا سگریٹ سلگایا۔ اس کا ذہن الجھا ہوا تھا۔
پھر، اس نے آہستگی سے اپنے کپڑے اٹھائے جو فرش پر ایک ڈھیر کی شکل میں پڑے تھے۔ کپڑے پہننے کے بعد وہ تھوڑی دیر خاموش کھڑا رہا۔ نادانستہ طور پر اس کی آنکھیں بچے کے مردہ جسم پر ٹکی ہوئی تھیں۔ نہیں ! اسے یہاں سے فوراً نکل جانا چاہیے … اس نے سوچا … ورنہ صبح کو خواہ مخواہ رونے پیٹنے اور کفن دفن کے چکروں میں پڑے گا۔ یہ ایک بے مقصد بات ہو گی اور خواہ مخواہ کافی وقت برباد ہو گا … آخر یہ بچہ اس کا کون تھا؟ … اس کی ماں سے اس کا رشتہ ہی کیا تھا؟ … مشینی انداز میں اس نے اپنا بٹوہ نکالا اور اس میں سے کئی نوٹ نکال کر، گنے بغیر، بسترکے پاس پڑے اسٹول پر رکھ دیے اور چراغ کو ان کے اوپر پیپر ویٹ کے طور پر رکھ دیا۔
جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا، دروازہ زور سے چرمرا یا۔ وہ رک گیا۔ ، اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا، کان بستر کی طرف لگے تھے۔
ماما تُمائنی نے کروٹ بدلی ’’ کیا تم جا رہے ہو؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ہاں ‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’اتنے سویرے ؟‘‘
’’تمھیں پتا ہی ہے کہ ٹرانسپورٹ کا کتنا پرابلم ہے اور مجھے آج ہی روانہ ہونا ہے۔‘‘
٭٭
اسے آج جیسے بھی ہو نکلنا تھا۔ وہ رات تک دارالسلام پہنچ جانا چاہتا تھا۔ پچھلے دو دنوں سے وہ اس چھوٹے سے گنجان قصبے میں پھنسا ہوا تھا، کیوں کہ پٹرول کی قلت کی وجہ سے آمد و رفت کا نظام درہم برہم ہو چکا تھا اور اس چھوٹے سے قصبے میں ضرورت سے زیادہ مسافر جمع ہو گئے تھے۔ پسینے میں شرابور لوگ پورے قصبے میں سواری کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے۔ بری طرح اکتا کر آخرکار اس نے پچھلی شام کو باہر نکل کر تھوڑی آوارگی اور موج مستی کا پروگرام بنایا تھا۔ اس مایوسی اور اضمحال کی حالت میں اسے شراب کی سخت ضرورت محسوس ہو رہی تھی، لیکن بئیر، جو اس کی پسندیدہ شراب تھی، قصبے میں ناپید ہو چکی تھی۔ وہ سب سے پہلے جس بار میں داخل ہوا، وہاں اسے بتایا گیا کہ بئیر کا ٹرک قصبے کی طرف آتے ہوئے، پُل کے پاس حادثے کا شکار ہو کر دھات کے ایک بے کار ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ میکا اس بات پر یقین نہیں کرنا چاہ رہا تھا، پھر بھی اسے لگا کہ شاید یہ بات سچ ہی ہو۔ بیئر کی طلب اتنی شدید تھی کہ وہ اس کے لیے کوئی بھی قیمت دینے کو تیار تھا، لیکن بس اسٹاپ کے آس پاس کے علاقے میں بیئر کی ایک بوند بھی نہ تھی۔
دو پتلی، دھول بھری گلیاں قصبے کے درمیان سے گزرتی تھیں جن کے گرد جھونپڑیوں کے بے ترتیب جھنڈ تھے۔ اپنی تلاش میں ناکام ہونے کے بعد اسے ’پومبے‘ نامی مقامی شراب سے کام چلانا پڑا، جس کی وہاں بہتات تھی۔ مقامی شراب اسے پسند نہ تھی، اس کے باوجود وہ دھیرے دھیرے بے دلی کے ساتھ گھونٹ بھرتا رہا۔ رفتہ رفتہ نشہ چڑھنے لگا اور کچھ دیر کے بعد وہی شراب اسے اچھی لگنے لگی۔ وہ مستی میں آکر ساتھ والی ٹیبل پر بیٹھے مقامی شرابیوں کے ایک ٹولے میں شامل ہو گیا، لیکن جیسے ہی شام ڈھلی، وہ پھر اپنے آپ کو تنہا محسوس کرنے لگا۔ اس کے ساتھی شرابی اپنے اپنے گھروں کو یا دوسرے شراب خانوں کو جا چکے تھے۔ وہ بھی اٹھا اور رات کی تاریکی میں لڑکھڑ اتا ہوا، وہاں سے چل پڑا۔ اسے یاد نہیں تھا کہ وہ کیسے ماما تُمائنی کے گھر پہنچا، یا اس نے ایسا کیوں سوچا کہ وہ اپنے اس کمرے کے بستر پر اکیلے رات نہیں گزار سکے گا، جو اس نے لاج میں کرائے پر لے رکھا تھا۔
’’کیا بے وقوفی کی بات ہے؟ ‘‘اس نے سوچا … ’’ کمرے کا کرایہ ادا کر نے کے بعد رات کہیں اور گزارنا … رقم کی بربادی کے سوا، اور کیا تھا !… ‘‘
٭٭
ماما تُمائنی بول رہی تھی ’’تب بھی … کیا تم تھوڑا انتظار نہیں کر سکتے کہ میں اٹھ کر تمھارے لیے چائے بنا دوں ؟‘‘
وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اٹھے اور اسے اپنے بچے کی موت کا پتا چلے۔ اس سے قبل ہی وہ یہاں سے نکل جانا چاہتا تھا۔
’’ نہیں، نہیں !‘‘وہ جلدی سے بولا ’’میرا سامان لاج میں پڑا ہے، مجھے تیار ہونا ہے۔ چائے میں کہیں اور پی لوں گا۔ ‘‘
’’ جیسے تمھیں آسانی ہو۔ ‘‘ وہ کروٹ بدلتے ہوئے بولی۔ پھر اس نے نہایت مدھم، تقریباً نہ سنے جانے لائق آواز میں اس کے لیے ایک آرام دہ اور محفوظ سفر کی تمنا کی۔
اس نے اس کا شکریہ ادا کیا، اور پھر دھیرے سے، احساسِ جرم کے بوجھ تلے دبی آواز میں بولا’’ تمھاری رقم … میں نے تمھاری رقم رکھ دی ہے … تمھاری رقم … اس اسٹول پر۔ ‘‘ لیکن وہ شاید پھر سے گہری نیند میں ڈوب چکی تھی یا پھر اب اس سے اکتا چکی تھی … اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
میکا نے دروازہ کھولا اور تیز، مضطرب قدموں سے چلتا ہوا باہر نکل گیا۔ جھونپڑیوں کے چھپروں پر پڑنے والی سورج کی اولین کرنیں اور چولھوں سے اٹھنے والے دھوئیں کے مرغولے ایک نئے دن کی شروعات کا اعلان کر رہے تھے۔
Original Story : A Night Out
By: Tololwa Marti Mollel (Tanzania)
پنجرے
زنجیبار
کبھی کبھی حمید کو ایسامحسوس ہوتا جیسے وہ اس دکان میں ہمیشہ سے ہے اور ایک دن اس کی زندگی اسی دکان میں ختم ہو جائے گی۔ حالاں کہ اب اسے یہاں رہنے میں کسی قسم کی پریشانی محسوس نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی اسے رات کے آخری پہروں میں وہ پراسرار آوازیں سنائی دیتی تھیں جو کبھی اس کا دل دہلا دیا کرتی تھیں۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ یہ آوازیں شہر کے آخری کنارے پر واقع دلدل سے آتی ہیں جس میں نہ جانے کون کون سے حشرات الارض بھرے پڑے تھے۔ اس کی دکان مضافات کی جانب سے آنے والی سڑک پر، بڑی ہی اچھی جگہ تھی۔ وہ اپنی دکان صبح تڑکے کھولتا جب مزدور اپنے کام پر جانا شروع کرتے اور رات کواس وقت تک بند نہیں کرتا جب تک کہ ان میں سے آخری شخص بھی لوٹ کر اپنے گھر نہ پہنچ جاتا۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ وہ اپنی دکان پر بیٹھا زندگی کے ہر رنگ کو اپنے قریب سے گزرتے ہوئے دیکھا کرتا ہے۔ مصروفیت کے اوقات میں و ہ مسلسل کھڑے رہ کر گاہکوں کو سمجھاتارہتا اور بہت مزے لے لے کر ان سے خوش گپیاں کیا کرتا۔ اور پھر آخر کار تھک کر اپنی سیٹ پر بیٹھ جا تا۔
ایک دن اندھیرا ہونے کے بعد وہ دکان بند کرنے ہی جا رہا تھا کہ وہ لڑکی اس کی دکان پر آئی۔ حمید نے اس کی طرف دیکھ کر دو مرتبہ اپنا سر ہلایا۔ اتنی رات کو ایک جوان لڑکی کی جانب کوئی اشارہ کرنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ دوسری بار اشارہ کرنے کے بعد ہی خوف کی ایک سرد لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی۔ اسے لگا جیسے ابھی کوئی بڑا ساہاتھ اس کی گردن دبوچ کر اسے اس کی جگہ سے گھسیٹ لے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اس کے سامنے کھڑی اس کی توجہ کی منتظر تھی۔ اس کے چہرے سے تھوڑی ناگواری بھی جھلک رہی تھی۔
’’گھی‘ ‘آخر کافی دیر انتظار کر نے کے بعد وہ بولی’ ’ایک شیلنگ کا۔ ‘‘
بولتے وقت وہ دوسری طرف تھوڑا ساگھوم گئی جیسے حمید کی قربت اسے گراں گزر رہی ہو۔ ایک کپڑا اس کی بغلوں سے ہوتا ہوا، اس کے جسم کے گرد لپٹا ہوا تھا۔ نرم سوتی کپڑا اس کے جسم سے چپک گیا تھا اور اس کے حسین بدن کے خدّ و خال نہایت واضح ہو رہے تھے۔ اس کے شانے عریاں تھے اور مدھم روشنی میں چمک رہے تھے۔ اس نے اس سے پیالہ لیا اور جھک کر گھی کے ڈبے سے گھی نکالنے لگا۔ لڑکی کو دیکھ کر اچانک اس کے اندر دبی ہوئی نہ جانے کتنی حسرتیں چیخ اٹھیں، اسے اپنے دل میں ایک ٹیس کا احساس ہوا۔ جب اس نے پیالہ اسے واپس کیا تو لڑکی نے اس کی طرف بے اعتنائی سے دیکھا۔ اس کی آنکھیں سپاٹ اور تکان بھری تھیں۔ حمید نے لڑکی کو بغور دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ وہ جوان تھی۔ ۔ ۔ ۔ ننھا ساگول چہرہ اور صراحی دار گردن۔ ایک لفظ بھی کہے بغیر وہ پیچھے مڑی اور فٹ پاتھ اور سڑک کے درمیان واقع گڈھے کو لمبی چھلانگ لگا کر پار کرتی ہوئی اندھیرے میں گم ہو گئی۔ حمید اس کے اندھیرے میں مدغم ہوتے سایے کو دیکھتا رہا۔ کہیں اندھیرے میں اسے کوئی حادثہ نہ پیش آ جائے۔ ۔ ۔ ۔ اس کے دل میں آیا کہ وہ اسے آواز دے کر اپنا خیال رکھنے کو کہے، لیکن اس کے گلے سے صرف ہلکی سے آواز نکل کر رہ گئی۔ لاشعوری طور پر وہ اس کی کسی چیخ کا منتظر رہا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ صرف اس کی چپلوں کی دور جاتی آواز سنائی دیتی رہی۔
لڑکی بڑی ہی دلکش تھی … وہ چپ چاپ کھڑا اندھیرے کے اس ٹکرے کو گھورتا رہا جس میں وہ غائب ہو گئی تھی۔ اسے خود سے نفرت محسوس ہونے لگی۔ وہ لڑکی اس کی طرف حقارت سے دیکھنے کے لیے حق بجانب تھی۔ اس کا جسم خستہ حال اور چہرہ بجھا ہوا تھا جسے وہ ہر دوسرے دن دھویا کرتا تھا۔ بستر سے دکان تک کا سفر بہ مشکل ایک منٹ کا تھا۔ وہ کہیں اور جاتا بھی نہیں تھا۔ تو پھر روز دھونے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ صحیح طور پر استعمال نہ ہونے کی وجہ سے اس کے پیروں کی ساخت بگڑ کر ٹیڑھی ہو چکی تھی۔ وہ سارادن بس ایک ہی جگہ، گزار دیتا تھا اور نہ جانے کتنے مہینے، کتنے سال ایسے ہی گزر گئے تھے … اس نے بہت بے دلی سے دکان بند کر دی۔
اگلی شام وہ لڑکی پھر اس کی دکان پر آئی۔ حمیداس وقت منصور نامی ایک گاہک سے باتیں کر رہا تھا، وہ عمر میں حمید سے تھوڑا بڑا تھا اور اس کی دکان کے قریب ہی رہتا تھا۔ وہ اکثر شام کو حمید کے پاس گپیں لڑانے کے لیے پہنچ جاتا تھا۔ موتیا بندسے وہ تقریباً نصف اندھا ہو چکا تھا اور لوگ اکثر اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ کبھی کبھی یہ مذاق خاصہ بے رحمانہ بھی ہو جایا کر تا تھا۔ لوگ اس سے کہتے کہ وہ اندھا ہو تا جا رہا ہے کیوں کہ اس کی آنکھوں میں گندگی بھری ہے۔ وہ ہمیشہ لڑکوں کے چکر میں رہا کرتا تھا۔ کبھی کبھی حمید بھی یہ سوچنے لگتا تھا کہ وہ اس کی دکان پر کہیں خوداس کے چکر میں تو نہیں آتا ؟ لیکن نہیں … شاید وہ محض ملاقات اور گپ شپ کے لیے ہی آیا کرتا تھا۔ لڑکی کے آتے ہی منصور چپ ہو گیا اور اپنی آنکھیں سکیڑ کر اسے بغور دیکھنے لگا جیسے وہ مدھم روشنی میں اسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔
’’جوتے کا پالش ملے گا؟ کالا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ ہاں ‘‘ حمید نے کہا۔ اسے اپنی آواز پھنستی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس نے کھنکھار کر گلا صاف کیا اور اپنا جواب دہرایا۔ لڑکی مسکرائی۔
’’خوش آمدید جانِ من!کیسی ہو؟‘‘ منصور نے لڑکی سے پوچھا۔ منصور کی آواز اتنی صاف اور خوشگوار تھی کہ حمید کو حیرت ہوئی۔ ’’تمھاری خوشبو لاجواب ہے۔ ۔ ۔ تمھاری آواز کوئل جیسی اور جسم ہرنی جیسا ہے۔ ۔ ۔ ۔ یہ بتاؤ جانم! کیا آج رات تمھیں فرصت ہے؟ میں اپنی پیٹھ کی مالش کے لیے تمھاری مدد کی ضرورت محسوس کر رہا ہوں۔ ‘‘
لڑکی نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ ان دونوں کی سمت اپنی پشت پھیرے حمید ابھی تک منصور کی بکواس سن رہا تھا جو لڑکی کی تعریف میں قصیدے پڑھ پڑھ کر اسے پٹانے کی بھر پور کوشش کر رہا تھا۔ بوکھلاہٹ میں حمید کو جوتے پالش کی ڈبیا بھی نہیں مل رہی تھی۔ آخر کار جب وہ ڈبیا تلاش کر کے واپس پلٹا تو اسے احساس ہوا کہ شاید اس دوران لڑکی مسلسل اسی کی طرف دیکھتی رہی تھی۔ اسے اپنی بوکھلاہٹ پر ہنسی آنے لگی۔ وہ لڑکی کی طرف دیکھ کر مسکرایا لیکن لڑکی کے چہرے پر غصے کے آثار تھے۔ اس نے خاموشی سے قیمت ادا کی۔ منصور اب بھی اس کے بازو میں کھڑا، اپنی جیکٹ کی جیب میں موجود سکوں کو کھنکا کر، اس کی خوشامد کر کے، اسے پھسلانے کی کوشش کیے جا رہا تھا، لیکن وہ پیچھے مڑی اور بنا ایک لفظ کہے وہاں سے چلی گئی۔
’’اسے دیکھا تم نے … اتنی با وقار لگتی ہے کہ سورج کو بھی اس پر اپنی دھوپ کی کرنیں ڈالتے ہوئے جھجک محسوس ہو … لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ کمبخت بہت سستی چیز ہے۔ ‘‘ منصور نے کہا، اس کا جسم اس کی دبی دبی ہنسی کی وجہ سے جھٹکے لے رہا تھا، ’’ میں ایک نہ ایک دن اسے حاصل کر لو ں گا … تمھیں کیا لگتا ہے … کتنا لے گی؟ … اس قسم کی عورتیں سب ایسی ہی ہوتی ہیں … ان کا یہ سب دکھاوے کا غصہ اور بیزاری … لیکن ایک بار جب تم انھیں اپنے بستر پر سلانے میں کامیاب ہو جاتے ہو تو پھر تمھیں پتا ہی ہے کہ کون غالب ہوتا ہے اور کون مغلوب‘‘
اس کی بات پر حمید نے قہقہہ لگایا۔ وہ اسے ایسی لڑکی نہیں سمجھتا تھا جسے خریدا جا سکتا ہو۔ وہ اپنے ہر انداز، اپنے ہر عمل سے اتنی شریف لگتی تھی کہ وہ منصور کے ذریعہ لگائے گئے بیہودہ الزامات پر کبھی یقین نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے ذہن میں بار بار لڑکی کا خیال آ رہا تھا۔ جب وہ بالکل تنہا ہوتا تو اس کا تصور حمید کے اتنے قریب آ جاتا، کہ وہ خیالوں ہی میں اس کے ساتھ ساری حدیں پار کر جاتا۔ رات میں دکان بند کرنے کے بعد وہ چند منٹ کے لیے دکان کے بوڑھے مالک’ فجر‘ کے پاس جا بیٹھا جو دکان کے عقب میں ہی رہتا تھا۔ اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا اور وہ اپنے بستر سے بہت کم ہی اٹھا کرتا تھا۔ دن میں توپڑوس کی ایک عورت آ کر اس کی دیکھ بھال کر دیا کرتی تھی جس کے عوض اسے دکان سے مفت سامان مل جاتا تھا لیکن رات میں حمید کو کچھ دیر اس کے پاس بیٹھنا پڑتا تھا۔ وہ باتیں کرتے تھے اور کمرے میں لب گور بوڑھے کے جسم کی نا آسودہ سی مہک پھیلتی رہتی تھی۔ ان کی باتوں کا کوئی خاص موضوع نہیں ہوتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ کاروبار کی مندی کا رونا یا پھر بوڑھے کی صحت مندی کے لیے دعائیں۔ کبھی کبھی جب فجر بہت مغموم ہوتا تو وہ آبدیدہ ہو کر اپنی موت اور آنے والی عاقبت کی زندگی کی باتیں کرتا۔ پھر حمید بوڑھے کو ٹوائلٹ لے جاتا، خیال رکھتا کہ اس کا کموڈ صاف ستھرا ہو۔ رات گئے فجر اکثر اونچی آواز میں خود کلامی کیا کرتا تھا جس میں اکثر وہ حمید کا نام لے کر پکارتا بھی تھا۔
حمید اندرونی آنگن میں سوتا تھا۔ بارش کے موسم میں وہ اسٹور میں تھوڑی جگہ خالی کر لیتا اور سو جاتا۔ وہ اپنی راتیں تنہا گزارتا اور کبھی باہر نہ جاتا۔ اسے اپنی دکان سے باہر نکلے تقریباً ایک سال ہو گیا تھا۔ ایک سال قبل وہ فجر کے ساتھ باہر گیا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب فجر بستر علالت پر نہیں پڑا تھا۔ فجر اسے ہر جمعہ کو مسجد لے جاتا تھا۔ حمید کو لوگوں کی بھیڑ اور بارش کے چھینٹوں کے درمیان بھاپ اگلتی فٹ پاتھ یاد آئی۔ آخری بار مسجد سے گھر لوٹتے ہوئے فجر اسے بازار لے گیا تھا اور بوڑھے نے بعض مزیدار پھلوں اور رنگین سبزیوں کے نام اسے بتائے تھے بلکہ کچھ کو تو حمید نے چھوا اور سونگھا بھی تھا۔ اپنے بچپن ہی سے، جب سے وہ اس شہر میں رہنے کے لیے آیا تھا، حمید فجر کے یہاں نوکری کر رہا تھا۔ فجر نے اپنی دکان کی پوری ذمہ داری حمید پر ڈال دی تھی۔ رات کے سناٹے میں حمید اکثر اپنے باپ، اپنی ماں اور اپنے آبائی قصبے کے بارے میں سوچا کرتا تھا۔ اب وہ بچہ نہیں رہا تھا پھر بھی یا دیں اکثر اسے رلا دیا کرتی تھیں۔ یہ یادیں کبھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی تھیں۔
لڑکی جب پھراس کی دو کان پر دال اور چینی لینے آئی تو حمید نے تولنے میں کافی فیاضی دکھائی۔ لڑکی نے اس بات کو محسوس کیا اور مسکرا دی۔ حمید بھی خوشدلی سے مسکرا دیا حالاں کہ اس نے محسوس کیا تھا کہ لڑکی کی مسکراہٹ میں تھوڑا بہت تمسخر بھی شامل تھا۔ اگلی بار اس نے حمید سے بات کی، عام سی رسمی علیک سلیک، لیکن اس میں خلوص کی آمیزش تھی۔ بعد میں اس نے بتا یا کہ اس کا نام رقیہ ہے اور وہ اس علاقے میں اپنے رشتے داروں کے پاس رہنے آئی ہے۔
’’تمھارا آبائی مکان کہاں ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’مویمبارینگو‘‘ اس نے اپنے ہاتھ سے دور ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا ’’ تمھیں کچی سڑکوں اور پہاڑیوں سے ہو کر گزرنا پڑے گا۔ ‘‘
اس کے نیلے لباس سے، جو اس نے پہن رکھا تھا، حمید نے بخوبی اندازہ لگا لیا کہ وہ گھریلو نوکرانی کے طور پر کام کرتی ہے۔ جب اس نے پوچھا کہ وہ کہاں کام کرتی ہے تو اس نے پہلے اپنی ناک سکوڑی جیسے یہ سوال غیر ضروری تھا پھر بتایا کہ جب تک اسے کوئی بہتر کام نہیں مل جاتا، وہ شہر کے ایک نئے ہوٹل میں خادمہ کے بطور کام کر رہی ہے۔
ـ’’سب سے بہتر ہوٹل، دی ایکویٹر میں ‘‘ اس نے بتایا ’’ اس میں ایک سوئمنگ پُول ہے اور ہر طرف قالینیں بچھی ہوئی ہیں۔ اس میں ٹھہرنے والے سفید فام ہیں … یوروپین … چند ہندوستانی بھی ہیں … لیکن ان میں ایک بھی دیسی نہیں جس کی وجہ سے ہوٹل کی چادروں میں بدبو پیدا ہو جائے۔ ‘‘
رات کو دکان بند کرنے کے بعد وہ، دکان کے عقب میں واقع چھوٹی سی خواب گاہ کے دروازے پر کھڑا سوچوں میں گم تھا۔ رات کے اس پہر گلیاں ویران تھیں اور ہر طرف سناٹے کا راج تھا۔ وہ رقیہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ کئی بار اس کا نام اس کے ہونٹوں پر آیا۔ ۔ ۔ جتنا وہ اس کے بارے میں سوچتا اتنا ہی زیادہ اپنی تنہائی کا احساس اس کے دل میں کچوکے لگا تا۔ اسے یاد آیا کہ رقیہ نے پہلی ملاقات پر اسے کن نگاہوں سے دیکھا تھا۔ وہ اسے چھونا چاہتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ برسوں کے اندھیروں نے اس کی حالت غیر کر دی تھی اور اب اس کی پُر امید نگاہیں ایک انجانے قصبے سے آئی ایک انجان لڑکی، کی منتظر تھیں کہ شاید وہ اسے چھو کر نئی زندگی بخش دے۔
ایک رات اس نے گلی میں قدم رکھا اور اپنے پیچھے دروازے کی کنڈی لگا دی۔ وہ دھیرے دھیرے نزدیکی بجلی کے کھمبے کی جانب بڑھ رہا تھا اور پھر اس کے آگے والے کھمبے کی جانب۔ اسے حیرت ہوئی کہ اسے کسی قسم کا خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ اپنے عقب میں اسے کوئی حرکت محسوس ہوئی لیکن اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ جب اسے پتا ہی نہیں تھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے تو پھر ڈرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ وہ بالکل مطمئن تھا۔
گلی میں دونوں جانب دو رویہ دکانیں موجود تھیں جن میں سے دو ایک میں روشنی نظر آ رہی تھی۔ وہ ایک موڑ مڑا، پھر آگے جا کر دوسرا موڑ بھی مڑ گیا۔ اسے کوئی نظر نہیں آیا، نہ کوئی پولیس والا اور نہ ہی کوئی چوکیدار۔ ایک چوراہے کے درمیان بنے اسکوائر کی ایک لکڑی کی بنچ پر وہ بیٹھ گیا۔ اسے حیرت تھی کہ یہ سب کچھ اسے جانا پہچانا لگ رہا تھا۔ ایک طرف ایک کلاک ٹاور تھا جس کی گھڑی کی ہلکی سی ٹِک ٹِک کی آواز رات کے سناٹے میں گونج رہی تھی۔ اسکوائر کے کنارے لگے دھات کے بنے کھمبے اسے بڑے اچھے لگ رہے تھے۔ ایک طرف بسیں ایک صف میں کھڑی تھیں اور تھوڑی ہی دوری پر واقع سمندر کی آوازیں اس کے کانوں تک پہنچ رہی تھیں۔
اس نے آواز کی طرف توجہ دی تو اسے لگا کہ وہ ساحل کے بالکل قریب ہے۔ پانی کی مانوس بُو نے اچانک اسے اپنے آبائی مکان کی یاد دلا دی۔ اس کا قصبہ بھی سمندر کنارے واقع تھا جہاں وہ بھی دوسرے بچوں کی طرح ساحل پر اور اتھلے پانی میں کھیلا کرتا تھا۔ وہ تو بالکل بھول ہی گیا تھا کہ کبھی کہیں اس کا کو ئی مکان بھی تھا۔ پانی ہلکے ہلکے ساحل کی دیوار کے ساتھ ٹکرا رہا تھا۔ اس نے جھک کر دیکھا، لہریں کنکریٹ کی دیوارسے ٹکرا کر سفید جھاگ میں بدل کر واپس لوٹ رہی تھیں۔ ایک جیٹی پر تیز روشنیاں چمک رہی تھیں اور مشینوں کے چلنے کی ہلکی سی گھڑ گھڑاہٹ سنائی دے رہی تھی، حالاں کہ یہ بات نا ممکن سی لگ رہی تھی کہ رات کے اس پہر کوئی شخص مشینوں پر کام کر رہا ہو۔
خلیج کے کنارے روشنیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ ۔ ۔ ۔ روشنی کے ننھے ننھے نقطے جو تاریکی کی سیاہ چادر میں ستاروں کی طرح ٹنکے ہوئے تھے۔ وہاں کون رہتا ہو گا؟۔ ۔ ۔ ۔ اس نے حیرت سے سوچا۔ شہر کے اُن اندھیرے حصوں میں بسنے والے لوگوں کے تصور نے اس کے جسم میں خوف کی ایک سرد لہر دوڑا دی۔ اس کے ذہن میں بے رحم چہروں والے لمبے تڑنگے انسانوں کی تصویریں ابھریں جو اس کی طرف دیکھ کر قہقہے لگا رہے تھے۔ تصور کی آنکھوں سے اسے انسانی سایے دکھائی دئے جو اجنبیوں کے انتظار میں اندھیروں میں چھپے کھڑے تھے، پھراسے ایک لاش کے گرد مردوں اور عورتوں کی بھیڑ دکھائی دی۔ اس نے دیکھا کہ ان کے پاؤں ایک قدیم مذہبی دھن پر رقصاں ہیں اوروہ اپنے دشمن کا لہو زمین پر بہتے دیکھ کر خوشی کے نعرے لگا رہے ہیں۔
وہ دکان کی طرف پلٹ گیا۔ اس دن کے بعد وہ خود کو روک نہیں پاتا تھا۔ خوف اپنی جگہ، لیکن یہ احساس اس پر غالب تھا کہ اس نے ہمت کا کام کیا ہے۔ اب یہ اس کی عادت بن گئی تھی کہ روزانہ رات میں دکان بند کرنے کے بعد وہ فجر سے ملاقات کرتا اور پھر ساحل کی طرف نکل پڑتا۔ فجر اس بات کو نا پسند کرتا تھا۔ اسے شکایت تھی کہ حمید اسے روزانہ اکیلے چھوڑ کر چلا جا تا ہے لیکن حمید کو اس کی شکایتوں کی کوئی پروا نہیں تھی۔ راستے میں کبھی کبھار وہ دوسرے لوگوں کو دیکھتا تھا لیکن وہ لوگ اس کی طرف دیکھے بغیر گزر جاتے تھے۔ دن کے وقت اس کی نگاہیں اس لڑکی کے انتظار میں بچھی رہتی تھیں۔ رات میں وہ اسے اپنے ساتھ محسوس کرتا تھا۔ جب وہ خاموش سڑکوں سے گزرتا تو اسے ایسا لگتا، جیسے وہ اس کے ساتھ چل رہی ہے، اس سے باتیں کر رہی ہے، مسکرا رہی ہے اور کبھی کبھی وہ اپنا ہاتھ اس کی گردن پر رکھ دیتی ہے۔
وہ جب بھی دکان پر آتی وہ اسے کوئی نہ کوئی چیز مفت ضرور دے دیتا اور پھر اس کی مسکراہٹ کا منتظر رہتا۔ وہ اکثر باتیں بھی کر لیا کرتے تھے، بس چند رسمی سے دوستانہ الفاظ۔ جب کبھی اس کی دکان میں سامان کی کمی ہوتی تو وہ اسے اپنے خفیہ ذخیرے سے سامان دیا کرتا تھا جو اس نے خاص گاہکوں کے لیے رکھ چھوڑا تھا۔ کبھی کبھی وہ ہمت کر کے اس کی خوبصورتی کی تعریف میں ایک آدھ جملہ کہہ دیتا تھا، اس خوف کے ساتھ کہ کہیں وہ برا نہ مان جائے، لیکن وہ برا نہیں مانتی تھی بلکہ اس کے لبوں پر جاں فزامسکراہٹ بکھر جاتی تھی۔ حمید کو لڑکی سے متعلق منصور کی بے سروپا باتیں جب بھی یاد آتیں وہ ہنس پڑتا۔ وہ ایسی لڑکی نہیں ہے جسے چند سکوں کے عوض خریدا جا سکے، بلکہ اسے محبت اور جرأت کے بل پر حاصل کیا جا سکتا ہے اور نیم اندھے منصور یا حمید دونوں میں یہ چیزیں نہیں تھیں۔
ایک شام رقیہ اس کی دکان پر شکر خریدنے آئی۔ وہ حسب معمول اپنے نیلے لباس میں تھی جو اس کی بغلوں میں پسینے کی وجہ سے بد رنگ ہو چکا تھا۔ دکان پر کوئی دوسرا گاہک موجود نہیں تھا اور وہ جلدی میں بھی لگ رہی تھی۔ وہ حمید کو چھیڑنے لگی۔
’’تم یہاں جتنی محنت کرتے ہو اس لحاظ سے تمھارے پاس کافی دولت ہونی چاہیے۔ کیا تمھارے آنگن میں کوئی گڈھا ہے جس میں تم اپنی دولت چھپاتے ہو … یہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ دکانداروں کے پاس خفیہ ذخیرے ہوتے ہیں … کیا تم اپنے گاؤں واپس لوٹنے کے لیے رقم جمع کر رہے ہو؟‘‘
’’ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ ‘‘ اس نے بتایا، ’’یہاں کچھ بھی میرا نہیں ہے۔ ‘‘
’’لیکن تم اتنی محنت کرتے ہو‘‘ اس کے لہجے میں بے اعتمادی تھی ’’ تم کسی قسم کی تفریح بھی نہیں کرتے … ۔ ‘‘
وہ مسکرائی جب حمید نے اسے اچھی خاصی چینی زیادہ دے دی۔
’’شکریہ‘‘ وہ اپنا چینی کا پیکٹ لینے کے لیے آگے جھکتی ہوئی بولی۔ وہ ضرورت سے زیادہ دیر تک جھکی رہی اور پھر بہت دھیرے دھیرے سیدھی ہوتی ہوئی بولی’’ تم مجھے ہمیشہ کچھ نہ کچھ دیتے رہتے ہو۔ مجھے پتا ہے کہ تم اس کے عوض مجھ سے کچھ چاہو گے، لیکن یاد رکھنا۔ ان چھوٹے چھوٹے تحفوں سے بات نہیں بنے گی۔ اُس وقت تمھیں مجھے اور بھی بہت کچھ دینا ہو گا۔ ۔ ۔ ۔ سمجھ گئے۔ ‘‘
حمید نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ سخت شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔ لڑکی نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا اور چلی گئی۔ اندھیرے میں گم ہونے سے قبل اس نے پلٹ کر حمید کی طرف دیکھا اور مسکرا دی۔
Original Story : Cages
By: Abdul Razak Gurnah (Zanzibar)
اللہ کی مرضی
نائجریا
ویسے تو چاندنی رات تھی لیکن اس وقت اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ڈوگو نے اپنی نگاہیں اوپر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔ سیاہ بادلوں نے چاند کو پوری طرح ڈھک لیا تھا۔ اس نے کھنکھار کر اپنا گلا صاف کیا اور بڑبڑایا ’’آج رات بارش ہو گی۔ ‘‘اس نے اپنے ساتھی کی طرف دیکھا۔ اس کے ساتھی سُولے نے کو ئی جواب نہیں دیا۔ وہ ایک لمبا اور مضبوط جسم کا آدمی تھا۔ اس کے اور اس کے ساتھی کے چہروں سے بیوقوفی بھری جہالت ٹپک رہی تھی۔ چوری ان دونوں کا پیشہ تھا۔ اس وقت وہ تھوڑا لنگڑا کر چل رہا تھا۔
’’ایسا کہنا غلط ہو گا ‘‘سُولے نے تھوڑی دیر کے بعد کہا۔
اس کی انگلیاں لمبے اور خمدار خنجر کو چھو رہی تھیں جو اس کے بائیں بازو کے اوپری حصے پر بندھا ہوا تھا۔ اس کے اپنے الفاظ میں ’’ وہ جب بھی ’ڈیوٹی ‘پر ہوتا ہے تو وہ خنجر اس کے بازو پر ضرور بندھا ہوتا ہے۔ ‘‘ ایسا ہی ایک خطرناک ہتھیار اس کے ساتھی کے بازو پر بھی بندھا ہوا تھا۔
’’ تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو؟‘‘
’’میں پورے یقین کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔ ‘‘ڈوگو بولا۔ اس کے لہجے میں غصہ اور جھنجھلاہٹ تھی۔ مقامی زبان میں ڈوگو کا مطلب ’لمبا‘ ہوتا ہے لیکن یہ شخص کوتاہ قد اور تندرست تھا۔ لمبا تو کسی صورت نہیں کہا جا سکتا تھا۔ اس نے اپنا ہاتھ تیزی سے بھاگتے بادلوں کی جانب اٹھاتے ہوئے کہا ’’ تمھیں بس صرف اوپر دیکھنے کی ضرورت ہے تم خود سمجھ جاؤ گے۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت بارشیں دیکھی ہیں۔ وہ جو اوپر بادل ہیں وہ بارش والے ہی ہیں۔ ‘‘
تھوڑی دیر تک وہ خاموشی سے چلتے رہے۔ بڑے قصبے کی روشنیاں ان کے پیچھے ہلکے سرخ رنگ کی خمیدہ لکیر کی طرح پھیلی ہوئی تھیں۔ دو چار لوگ ہی باہر دکھائی دے رہے تھے کیوں کہ رات نصف سے زیادہ بیت چکی تھی۔ رات کی تاریکی میں، تقریباً آدھے میل کی دوری پر، اگلے قصبے کی روشنیاں بے ترتیب پھیلی دکھائی دے رہی تھیں، یہی ان کی منزل تھی۔ ٹیڑھی میڑھی گلیوں میں ایک بھی اسٹریٹ لیمپ جلتا نظر نہیں آ رہا تھا۔ عام لوگوں کے لیے بھلے ہی یہ پریشانی کی بات ہو لیکن ان دونوں کے پیشے کے مطابق یہ ایک اچھی بات تھی۔
’’تم اللہ نہیں ہو۔ ‘‘ آخر کار سُولے نے کہا ’’ تم اتنے یقین سے یہ بات کیسے کہہ سکتے ہو۔ ‘‘
سُولے ایک چھٹا ہوا مجرم تھا۔ جرم اس کی روزی روٹی تھا۔ پچھلے مقدمے کے دوران، جس میں اسے ہلکی سی سزا ہوئی تھی، اس نے جج سے یہی جملہ کہا تھا۔
اسے یاد ہے، عدالت میں موجود لوگوں کی بھنبھناہٹ کے درمیان، جج نے بے حد سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا تھا’’سماج کو تم جیسے لوگوں سے نجات دلانا چاہیے … ‘‘ سولے کٹہرے میں بالکل سیدھا کھڑا تھا، اسے اپنے جملے اور لہجے پر کوئی شرمندگی نہیں تھی۔ جج کے جملے اس کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے تھے۔ وہ پہلے بھی کئی بار یہ سب سن چکا تھا … ’’تم اور تمھارے جیسے لوگ عام انسانوں کی جان و مال کے لیے خطرہ ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ عدالت ہمیشہ اس بات کا خیال رکھے گی کہ تمھیں قانون کے مطابق بھر پور سزا ملے … اور صحیح سزا ملے۔ ‘‘
جج نے اس کی طرف نہایت سخت نگاہوں سے دیکھا تھا، جواب میں سُولے نے بھی اسے ویسی ہی نگاہوں سے دیکھا … یہ کوئی نئی بات نہ تھی، اس سے قبل بھی وہ کئی نام نہاد ججوں کی آنکھوں میں جھانک چکا تھا۔ وہ دنیا کی کسی چیز سے اور کسی انسان سے نہیں ڈرتا تھا، … ڈرتا تھا تو صرف اللہ سے!
جج نے اپنی تھوڑی اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ’’کیا یہ سیدھی سی بات تمھاری سمجھ میں نہیں آتی کہ جرم کا راستہ تمھیں ہمیشہ مصیبتوں، دکھوں اورسزا کی جانب ہی لے جائے گا، … تم ہر قسم کے کام کے لیے موزوں دکھائی دیتے ہو … تو پھر ایمانداری کی روزی کمانے کا ایک تجربہ کیوں نہیں کرتے؟ … تمھیں اچھا لگے گا۔ ‘‘
سولے اپنے چوڑے کاندھوں کو اچکاتے ہوئے بولا ’’میں نے روزی کمانے کا بس ایک ہی طریقہ سیکھا ہے … بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ میں نے ایک ہی طریقہ چنا ہے۔ ‘‘
اسے سمجھا نے کی کوشش میں ناکام ہو کر جج مایوس ہو چکا تھا۔ پھر بھی اس نے ایک اور کوشش کرتے ہوئے، آگے کی طرف جھک کر اس سے کہا ’’کون سا طریقہ؟ … جرم کا؟‘‘
ایک بار پھر سُولے نے اپنے کاندھوں کو اچکایا اور بولا ’’میں جس طریقے سے روزی کماتا ہوں، اس سے پوری طرح مطمئن ہوں۔ ‘‘
’’مطمئن؟‘‘ جج نے حیرت سے کہا اور عدالت کے کمرے میں لوگوں کی دھیمی دھیمی بھنبھناہٹ گونج اٹھی جسے جج نے اپنا ہتھوڑا بجا کر روکا۔ ’’کیا تم قانون توڑنے کا جرم کر نے کے بعد بھی مطمئن رہتے ہو؟‘‘
’’میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ ‘‘ سُولے نے کہا ’’قانون ایک واہیات چیز ہے جو ہمیشہ لوگوں کے راستے میں آتا رہتا ہے۔ ‘‘
’’بار بار کی گرفتاری اور قید کی سزا … کیا جیل جانا تمھیں اچھا لگتا ہے؟‘‘جج نے اپنی پیشانی پر بل ڈالتے ہوئے بڑی حیرت سے اس سے پوچھا۔
’’ہر پیشے میں کوئی نہ کوئی جوکھم تو اٹھانا ہی پڑتا ہے۔ ‘‘ سُولے نے فلسفیانہ انداز میں کہا۔
جج نے اپنا چہرہ رومال سے پوچھتے ہوئے کہا ’’لیکن بھلے آدمی تم قانون کو توڑ نہیں سکتے … تم صرف اسے توڑنے کی کوشش کرتے ہو … اور اس کوشش میں تم خود ہی ٹوٹ جاتے ہو۔ ‘‘
سُولے نے اثبات میں اپنا سر ہلاتے ہوئے کہا ’’ہاں اس سلسلے میں ایک محاورہ بھی مشہور ہے … وہ جو ایک کھمبے کو ہلانے کی کوشش کرتا ہے دراصل وہ خود ہل کر رہ جاتا ہے۔ ‘‘اس نے چیں بہ جبیں جج کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’آپ کا قانون … موٹے کھمبے جیسا ہے … ہہہ۔ ‘‘
جج نے اسے تین ماہ کی سزا سنائی۔ سُولے نے اپنے کاندھوں کو اچکایا اور بولا ’’اللہ کی مرضی پوری ہو کر رہتی ہے۔ ‘‘
٭٭
آسمان پر بجلی کا ایک کوندا لپکا۔ سُولے نے آسمان کی طرف دیکھا اور بولا ’’بہت ممکن ہے کہ بارش ہو … لیکن تم پورے یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ بارش ہو گی … تم صرف ایک فانی انسان ہو … تمھیں صرف اتنا کہنا چاہیے … اگر اللہ کی مرضی ہوئی تو بارش ہو گی۔ ‘‘ سُولے ایک انتہائی مذہبی انسان تھا۔ اس کا مذہب اسے مستقبل کے بارے میں کوئی بھی بات یقین کے ساتھ کہنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ اس کے دل میں خوف الٰہی تھا جو بالکل اصلی تھا … اس میں کوئی بناوٹ نہیں تھی … روزی حاصل کر نے کے بارے میں اس کا عقیدہ بڑا عجیب تھا۔ اس کا خیال تھا کہ رزق کے حصول کا طریقہ اللہ نے ہر انسان کی اپنی مرضی پر چھوڑ دیا ہے۔ اللہ نے بعض لوگوں کو ان کی ضرورت سے زیادہ دولت دی ہے اور وہ لوگ جن کے پاس کم ہے وہ ان سے اپنا حصہ لے سکتے ہیں۔ بے شک اللہ یہ نہیں چاہے گا کہ کچھ پیٹ خالی رہیں اور کچھ ضرورت سے زیادہ بھرے ہوں۔
ڈوگو غرایا۔ وہ ملک کے تقریباً سبھی شہروں کی جیلوں میں قید رہ چکا تھا۔ جیل اس کے لیے دوسرے گھر کی طرح تھا۔ اپنے ساتھی سُولے کی طرح وہ بھی دنیا کے کسی آدمی سے نہیں ڈرتا تھا لیکن اس کے بالکل برخلاف اس کا کوئی مذہب نہیں تھا … اگر اس کی نظر میں کچھ تھا تو وہ بس اپنی حفاظت کا جذبہ تھا۔
’’تم اور تمھارا مذہب … ‘‘ اس نے برا سا منہ بنا کر کہا ’’تمھیں اس نے بہت فائدہ پہنچا یا ہے … ۔ ‘‘
سُولے نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ڈوگو جانتا تھا کہ سُولے مذہب کے معاملے میں بہت حساس ہے اور اس سلسلے میں غصہ آنے پر اس کا پہلا جواب سر پر پڑنے والے زبردست گھونسے کی صورت میں ہوتا ہے۔
وہ دونوں یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کے درمیان پیار یا دوستی کا کوئی رشتہ نہیں تھا۔ دونوں جب بھی جیل سے باہر ہوتے، ایک دوسرے کے ساتھ کام کرتے … صرف اس لیے کہ اس طرح دونوں کو بہت آسانی ہوتی تھی۔ ایک ایسی پارٹنر شپ جس میں ہر پارٹنر کو صرف اپنے فائدے سے غرض تھی … کوئی بھی کسی اصول کا پابند نہیں تھا۔
’’کیا تم اس عورت سے آج ملے تھے؟‘‘ ڈوگو نے موضوع بدلتے ہوئے پوچھا، اس لیے نہیں کہ وہ سُولے کی ناراضگی سے ڈرتا تھا بلکہ اس کے جھینگر جیسے دماغ نے اچانک ایک نئی سمت میں سوچنا شروع کر دیا تھا۔
’’ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ سُولے نے ہنکارا بھرا۔
’’کیا ہوا؟ ‘‘ ڈوگو نے سُولے کو خاموش دیکھ کر پوچھا۔
’’کمبخت!‘‘ سولے نے جذبات سے عاری لہجے میں کہا۔
’’کون؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں ؟‘‘ ڈوگو نے پوچھا۔
’’ہم لوگ اس عورت کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ ‘‘ سُولے نے جواب دیا۔
وہ ایک چھوٹے سے چشمے کے قریب پہنچ گئے تھے۔ سولے رک کر اپنے ہاتھ، پیر اور منڈے ہوئے سر کو دھونے لگا۔ ڈوگو چشمے کے کنارے بیٹھ گیا اور ایک پتھر پر اپنے خنجر کی دھار تیز کرنے لگا۔
’’تمھارا کیا خیال ہے؟ … کہاں چلنا ہے؟ … ‘‘سُولے نے سر اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
’’یونڈر گاؤں … مجھے پتا ہے، وہاں تمھاری ایک محبوبہ رہتی ہے۔ ‘‘ ڈوگو نے جواب دیا۔
’’میں کسی عورت کے پاس نہیں جا رہا ہوں … ‘‘ سُولے نے کہا ’’میں کچھ بے کار پڑی چیزیں حاصل کر نے جا رہا ہوں … اگر اللہ نے چاہا۔ ‘‘
’’تمھارا مطلب ہے … چوری کرنے۔ ‘‘ ڈوگو نے تصحیح کی۔
’’ہاں … ‘‘ سُولے نے اعتراف کیا۔ وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور اپنے سیاہ فام بازو کو ڈوگو کی طرف اٹھاتے ہوئے بولا ’’ تم بھی تو ایک چور ہو لیکن ساتھ ہی بہت بڑے کمینے بھی۔ ‘‘
ڈوگو نے خنجر کی نوک کو اپنے بازو پر ہلکے سے آزماتے ہوئے سر ہلایا ’’کیا یہ تمھارے مذہب میں شامل ہے … آدھی رات کو چشمے پر ہاتھ منھ دھونا۔ ‘‘
سولے نے کوئی جواب نہیں دیا جب تک وہ کنارے پر چڑھ نہ گیا ’’جب کوئی چشمہ ملے تو ضرور دھو لینا چاہیے … کیوں کہ اگلا چشمہ تمھیں کب ملے گا یہ صرف اور صرف ا للہ کی مرضی پر منحصر ہے‘‘ وہ لنگڑاتا ہوا چل پڑا۔ ڈوگو بھی اس کے پیچھے چل پڑا۔
’’تم نے اسے کمبخت کیوں کہا تھا؟‘‘ ڈوگو نے پوچھا۔
’’کیوں کہ وہ وہی ہے۔ ‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’اس نے مجھ سے کہا کہ اس نے وہ کوٹ اور وہ سیاہ بیگ صرف پندرہ شیلنگ میں فروخت کیے ہیں۔ ‘‘ اس نے اپنے ساتھی کی طرف دیکھا اور بولا ’’میرا خیال ہے کہ مجھ سے پہلے تم اس کے پاس گئے تھے اور اسے اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ اسے کیا کہنا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں ؟‘‘
’’میں نے ایک ہفتے سے اسے دیکھا تک نہیں ہے‘‘ ڈوگو نے احتجاج کیا ’’کوٹ کافی پرانا تھا۔ ۔ ۔ ۔ میرا خیال ہے کہ پندرہ شیلنگ ٹھیک ہی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے بالکل صحیح کام کیا تھا‘‘
’’بے شک‘‘ سولے نے کہا۔ اسے ڈوگو کی بات پر بالکل یقین نہیں تھا ’’میں بھی ایسا ہی کہتا اگر میں نے بھی اس کے ساتھ حصے داری کی ہوتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
ڈوگو نے کچھ نہیں کہا۔ سُولے ہمیشہ اس کی جانب سے مشکوک رہتا تھا اور اسی لیے ایسی باتیں اس کی زبان پر آ جاتی تھیں۔ کبھی کبھی ان کا ایک دوسرے پر شک بالکل بے بنیاد ہوتا تھا اور کبھی کبھی ٹھیک بھی۔
ڈوگو نے اپنے کاندھے اچکائے ’’میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے، تم یہ کیا باتیں کر رہے ہو‘‘
’’نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم سمجھوگے بھی نہیں۔ ‘‘ سولے انتہائی خشک لہجے میں بولا۔
’’مجھے صرف اپنے حصے سے مطلب ہوتا ہے‘‘ ڈوگو بولا۔
’’تمہارا مطلب ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہارا دوسرا حصہ؟‘‘ سُولے نے کہا ’’ تم دونوں اس میں حصہ لگاؤ گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بن باپ کے، دھوکے باز بیٹے۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چڑیل عورت۔ ‘‘ وہ ایک لمحے کو رکا، پھر بولا ’’اس کتیا نے میری ران پر چاقو مارا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’اوہو! میں سوچ رہا تھا کہ تم لنگڑا کیوں رہے ہو؟‘‘ ڈوگو نے کہا ’’اس نے تمہاری ران میں چاقو اتار دیا؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سچ میں ؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عجیب بات ہے نا؟‘‘‘
’’اس میں عجیب کیا ہے؟‘‘ سُولے اس کی طرف چبھتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اس نے تمہیں چاقو مار دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صرف اس لیے کہ تم نے اس سے رقم کے لیے درخواست کی تھی؟‘‘
’’ کوئی بے وقوف ہی اس بات پر اعتبار کرے گا کہ وہ کوٹ اور بیگ صرف پندرہ شیلنگ مالیت کے تھے۔ ‘‘سولے نے کہا۔
’’اور ظاہر ہے کہ تم بیوقوف نہیں ہو۔ ۔ ۔ ۔ کیوں ؟‘‘ ڈوگو چٹخارہ لے کر بولا۔ ’’ تو تم نے کیا کیا؟‘‘
’’میں نے اسے بری طرح پیٹ ڈالا‘‘ سولے دانت پیس کر بولا۔
’’چلو ٹھیک ہے‘‘ ڈوگو بولا ’’لیکن افسوس یہ ہے کہ تم نے اسے جتنی چوٹ پہونچائی، اس نے تمہیں اس سے کہیں زیادہ واپس کر دیا۔ ‘‘ اس نے پھر چٹخارہ لیا۔
’’ایک خون اگلتا زخم مذاق نہیں ہوتا‘‘ سُولے نے زہریلے لہجے میں کہا۔
’’تو مذاق کون کر رہا ہے؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے بھی چاقو کے زخم لگ چکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم رات میں چاقو لے کر نکلتے ہو تو تمہیں خود بھی چاقو کا زخم کھانے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیں ایسی باتوں کو اپنا پیشہ ورانہ خطرہ سمجھنا چاہیے۔ ‘‘
’’بے شک‘‘ سولے نے کہا ’’لیکن ایسا سوچ لینے سے زخم اچھا تو نہیں ہو جاتا؟‘‘
’’ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے لیے ہسپتال موجود ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ ڈوگو نے کہا۔
’’مجھے پتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن ہسپتال میں علاج سے پہلے زخم لگنے کی وجہ پوچھی جاتی ہے‘‘۔
تھوڑی ہی دیر بعد وہ لوگ گاؤں میں داخل ہو رہے تھے۔ ان کے سامنے چوڑا راستہ کئی پتلی پتلی گلیوں میں تقسیم ہو کر گھروں کی طرف جا رہا تھا۔ سُولے ایک لمحے کو رکا، پھر ایک راستے پر چل پڑا۔ دونوں اپنے ارد گرد محتاط نگاہیں ڈالتے، خاموش قدموں سے چلے جا رہے تھے۔ مٹی کے ان گنت مکانوں میں سے کسی میں بھی روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ تمام کھڑکیاں اور سوراخ بند تھے … شاید طوفان کی آمد کے ڈر سے۔ مشرق کی جانب سے بجلی کی گرج بار بار سنائی دے رہی تھی۔ گاؤں کے راستوں پر ان کے سوا اگر کوئی تھا تو وہ چند بھیڑیں اور بکریاں تھیں جو ان کی آہٹ پر چونک کر اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔ ہر تھوڑی دیر بعد سُولے کسی مکان کے پاس رکتا، دونوں آس پاس ایک بھر پور نگاہ ڈالتے، وہ اپنے ساتھی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتا، وہ اپنا سر نفی میں ہلاتا اور پھر دونوں آگے بڑھ جاتے۔
وہ دونوں پندرہ منٹ تک چلتے رہے۔ اچانک بجلی کی ایک انتہائی تیز کوندے نے جیسے ان کی آنکھیں اچک لیں۔
’’ہمیں جلدی کرنی چاہیے۔ ‘‘ ڈوگو نے سرگوشی کی ’’طوفان قریب آ چکا ہے۔ ‘‘
سُولے نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ان سے چند گز کے فاصلے پر ایک بوسیدہ سامکان تھا۔ وہ اس کے قریب گئے۔ مکان کی حالت سے انھیں کوئی مطلب نہیں تھا۔ ان کا یہ برسوں پرانا تجربہ تھا کہ مکان کی ظاہری حالت کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں، کہ اس میں کتنا مال ملے گا۔ کئی بار بوسیدہ جھونپڑیوں میں انھیں کافی دولت مل چکی تھی۔ ڈوگو نے سُولے کی جانب دیکھ کر اثبات میں سر ہلایا۔ ’’تم باہر ٹھہرو … اور … جاگتے رہنا‘‘سُولے نے کہا۔ اس نے ایک بند کھڑکی، کی جانب اشارہ کیا ’’تم وہاں کھڑے رہ سکتے ہو۔ ‘‘
ڈوگو اپنی جگہ پر چلا گیا۔ سُولے لکڑی کے ایک بوسیدہ دروازے پر قسمت آزمائی کرنے لگا۔ ڈوگو کے آزمودہ کار کانوں نے بھی کسی قسم کی کوئی آواز نہیں سنی اور اسے پتا بھی نہ چلا کہ کب سُولے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ حالاں کہ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے لیکن اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اسے وہاں کھڑے صدیاں بیت گئی ہوں۔ اچانک اس نے دیکھا کہ اس کے قریب موجود کھڑکی نہایت آہستگی کے ساتھ کھل رہی ہے۔ وہ دیوار سے چپک گیا۔ مگر یہ سُولے کے موٹے ہاتھ تھے جو کھڑکی سے باہر آئے تھے۔ ان میں ایک بڑا سا تونبا (کھوکھلا کیا ہوا کدو جس میں سامان رکھتے ہیں ) تھا۔ ڈوگو نے تونبا تھام لیا۔ اس کے وزن سے اسے حیرت ہوئی۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی۔ یہاں کے لوگ تونبوں پر بینک سے زیادہ بھروسا کرتے تھے اور اپنا سارا مال انھی میں رکھتے تھے۔
’’چشمے کے کنارے … ‘‘ سولے نے کھلی ہوئی کھڑکی سے سر گوشی کی۔
ڈوگو سمجھ گیا۔ تونبے کو اپنے سر پر اٹھائے وہ بڑی تیز رفتاری سے چشمے کی جانب چل پڑا۔ سولے مکان سے نکل کر اس کے پاس آ جائے گا۔
چشمے کے پاس پہنچ کراس نے تونبے کو احتیاط سے زمین پر رکھ دیا۔ اس نے اس کے اوپر لگے ہوئے ڈھکن کو ہٹایا۔ اگر اس کے اندر کوئی قیمتی چیز ہے تو پھر اسے اور سُولے کو اس کے دو برابر حصے کر نے کی ضرورت نہیں۔ اس نے سوچا۔ اگر وہ اس میں سے کچھ نکال لے گا تو سولے کو پتا کیسے چلے گا۔ اس نے یہ تونباکھڑکی سے اس کے حوالے کرنے سے قبل اس میں موجود اشیا کو دیکھا ہی کب ہو گا۔ اس نے اپنا ہاتھ تونبے کے اندر ڈالا۔ اچانک اسے اپنی کلائی پرتیز ٹیس کا احساس ہوا۔ اس کے منھ سے ایک حیرت زدہ چیخ نکلی اور اس نے اپنا ہاتھ ایک جھٹکے سے باہر کھینچ لیا۔ اس نے اپنی کلائی کا قریب سے معائنہ کیا اور پھر بڑی تیز رفتاری وہ کوسنے اور گالیاں بکنے لگا۔ وہ دنیا کی ہر چیز کو دو زبانوں میں، جنھیں وہ جانتا تھا، بے تحاشہ گالیاں بک رہا تھا۔ وہ اپنے ہاتھ کو پکڑے ہوئے زمین پر بیٹھ گیا اور ہلکی آواز میں گالیاں بکنے لگا۔ اس نے سولے کے قدموں کی آہٹ سنی اور خاموش ہو گیا۔ اس نے تونبے کا ڈھکن بند کر دیا اور انتظار کر نے لگا۔
’’کوئی مشکل تو نہیں پیش آئی۔ ‘‘
’’نہیں … ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ‘‘ سُولے نے جواب دیا۔
وہ دونوں تونبے پر جھک گئے۔ ڈوگو نے اپنے بائیں ہاتھ سے دائیں کلائی کو دبا رکھا تھا لیکن سُولے نے اس بات پر کوئی توجہ نہیں دی۔
’’تم نے اسے کھولا تھا؟‘‘ سُولے نے پوچھا۔
’’کون؟ میں نے؟ … ارے نہیں ! ‘‘ڈوگو نے جواب دیا۔
سُولے کو اس پر اعتبار نہیں آیا اور یہ ڈوگو کو بھی پتا تھا۔
’’اس میں اتنا بھاری کیا ہے۔ ‘‘ ڈوگو کے لہجے میں تجسس تھا۔
’’دیکھتے ہیں … ‘‘ سولے نے کہا۔
اس نے ڈھکن ہٹایا اور اپنا ہاتھ تونبے کے کھلے منھ کے اندر داخل کیا۔ اسے اپنی کلائی پر تیز ٹیس کا احساس ہوا۔ اس نے فوراً اپنا ہاتھ تونبے سے باہر کھینچ لیا۔ وہ کھڑا ہو گیا۔ ڈوگو بھی کھڑا ہو گیا۔ پہلی بار سُولے نے دیکھا کہ ڈوگو اپنی کلائی کو دوسرے ہاتھ سے تھامے ہوئے ہے۔ کافی دیر تک دونوں ایک دوسرے کو گھورتے ہوئے خاموش کھڑے رہے۔
’’جیسا کہ تم ہر بار یہ ضد کیا کرتے ہو کہ ہمیں ہر چیز میں برابر کا حصہ دار ہونا چاہیے۔ ‘‘ ڈوگو نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
بڑی ہی دھیمی آواز میں سُولے نے بولنا شروع کیا … وہ ڈوگو کو ہر وہ گالی دے رہا تھا جو اسے یاد تھی۔ جواب میں ڈوگو بھی اسے ویسی ہی گالیاں دے رہا تھا۔ دونوں اس وقت خاموش ہوئے جب ان کے پاس گالیوں کا ذخیرہ ختم ہو گیا۔
’’میں گھر جا رہا ہوں۔ ‘‘ ڈوگو نے کہا۔
’’رکو … ‘‘ سُولے نے کہا۔ اپنے دوسرے ہاتھ کو جیب میں ڈال کر اس نے ماچس نکالی۔ بڑی دقتوں سے اس نے ماچس جلائی اور تونبے کے منھ کے پاس لے جا کر اس کے اندر جھانکا۔
’’گھر جانا ضروری نہیں ہے۔ ‘‘اس نے ڈوگو سے کہا۔
’’کیوں … ؟‘‘ ڈوگو نے پوچھا۔
’’اس کے اندر ایک غصے میں بھرا کوبرا سانپ موجود ہے‘‘ سُولے بولا۔
ڈوگو کو اچانک اپنا ہاتھ بہت بھاری ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ درد بہت تیز تھا۔ وہ زمین پر بیٹھ گیا۔
’’میں ابھی بھی نہیں سمجھا کہ میں گھر کیوں نہیں جا سکتا؟‘‘اس نے پوچھا۔
’’کیا تم نے کبھی وہ کہاوت نہیں سنی، کہ جسے کوبرا کاٹ لیتا ہے، وہ کوبرے کے قدموں ہی میں دم توڑتا ہے؟ … اس کا زہر نہایت سریع الاثر ہوتا ہے … تم جیسے سور کی اولاد کے لیے بالکل مناسب … تم گھر تک پہنچ ہی نہیں پاؤ گے … بہتر ہے کہ بیٹھ جاؤ اور یہیں مرو۔ ‘‘
ڈوگو یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھا لیکن بڑھتے ہوئے درد نے اسے وہیں بیٹھنے پر مجبور کر دیا۔
وہ لوگ کئی منٹوں تک خاموش بیٹھے رہے … ان کے ارد گرد بجلیاں کوندتی رہیں۔
آخر ڈوگو نے کہا ’’کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ تمھاری آخری لُوٹ ایک سپیرے کا تونبا تھا۔ ‘‘
’’ میرے خیال میں اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز، بات یہ ہے کہ اس میں کوئی اور سانپ نہیں، بلکہ کوبرا تھا … تمھارا کیا خیال ہے؟‘‘ سُولے نے کہا۔
’’میں سمجھتا ہوں کہ ساری مضحکہ خیز باتیں اس رات کے بیتنے سے قبل ہی انجام پا جائیں گی۔ ‘‘ڈوگو بولا۔ وہ درد سے برے برے منھ بنا رہا تھا۔
’’ہاں … مثال کے طور پر دو بے ضرر سی موتیں … ‘‘سُولے بولا۔
’’ہمیں اس کمبخت سانپ کو بھی مار ڈالنا چاہیے‘‘ ڈوگو نے مشورہ دیا۔
اس نے اٹھ کر چشمے کے کنارے سے ایک پتھر اٹھانے کی کوشش کی لیکن اٹھا نہیں سکا۔ ’’آہ … ٹھیک ہے‘‘ وہ زمین پر لیٹتا ہوا بولا، ’’کوئی فرق نہیں پڑتا … ۔ ‘‘
بارش شروع ہو گئی۔
’’لیکن بارش میں کیوں مریں ؟‘‘ ڈوگو غصے سے بولا۔
’’ بارش میں بھیگ کر مرو تو تمھارے لیے بہتر ہے کیوں کہ یہاں سے تمھیں سیدھے جہنم میں جانا ہے۔ ‘‘سُولے نے کہا۔ اپنے دانتوں کو بھینچے ہوئے وہ خود کو گھسیٹتے ہوئے تونبے تک پہنچا۔ وہ اپنے غیر زخمی ہاتھ میں خنجر تھامے ہوئے تھا۔ اپنی آنکھیں بھینچ کر اس نے خنجر اور اپنا ہاتھ تونبے کے اندر داخل کیا اور سانپ کے بل کھاتے جسم پر خنجر کے ان گنت وار کیے۔ اس دوران وہ بری طرح ہانپ رہا تھا۔ چند منٹ کے بعد جب وہ رینگتا ہوا وہاں سے ہٹ کر زمین پر لیٹا تو اس کی سانسیں اس کی ناک سے سیٹیوں کی طرح نکل رہی تھیں … اس کا بازو سانپ کے دانتوں کے نشانات سے بھرا پڑا تھا … لیکن … سانپ مر چکا تھا۔
کئی منٹ خاموشی سے گزر گئے۔ زہر نے انھیں اپنے خونی پنجے میں بری طرح جکڑ لیا تھا … خاص طور پر سُولے کو … جو اپنی کراہوں کو روک نہیں پارہا تھا۔ اب صرف چند لمحوں کی دیر تھی۔
’’اس طرح اپنے انجام کو پہنچنا کتنا درد ناک ہے۔ ‘‘ڈوگو بدبدایا۔
’’جو بھی ہو … تمھارے لیے یہ اتنا برا بھی نہیں تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خبیث کہیں کے۔ ‘‘ سُولے نے بڑی مشکل سے کہا’’یہ تمھاری زندگی کا اختتام ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن تمھیں پتا ہونا چاہیے کہ تم جیسوں کی زندگی کا ایک نہ ایک دن ایساہی اختتام ہوتا ہے … تم سڑے ہوئے کتے۔ ‘‘اس نے ایک بڑی گہری سانس لی۔ ’’آہ … !‘‘ اس نے آخری سانس لیتے ہوئے کہا ’’اللہ کی مرضی پوری ہو کر رہتی ہے۔ ‘‘
بارش تیزی سے ہو رہی تھی۔
Original Story : Will Of Allah
By : David Owoyele (Nigeria)
کاہنہ
ساؤتھ افریقہ
لڑکے نے دروازے پر دھیرے سے دستک دی۔ ایک بڑا سا موٹا کتا اس کے ٹخنوں کو سونگھ رہا تھا۔ کتے کی موجودگی سے وہ خاصا پریشان تھا۔ اسے اجنبی کتوں سے بہت ڈر لگتا تھا اور وہ جلد از جلد مکان کے اندر داخل ہو جانا چاہتا تھا، لیکن اب تک اسے اپنی دستک کا کوئی جواب نہیں ملا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کیا اسے سیدھے دروازے کا ہینڈل گھما کر اندر داخل ہو جانا چاہیے … لیکن … کاہنہ کیا کہے گی؟ … کیا وہ اسے بد دعا دے دے گی؟
یہ کہنا مشکل تھا کہ وہ کس سے زیادہ خوفزدہ تھا، اس کتے سے یا کاہنہ سے ؟
اسے ڈر تھا کہ اگر وہ دروازے پر زیادہ دیر تک کھڑا رہا تو شاید کتا یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ وہ کسی غلط مقصد سے آیا ہے اور اگر وہ واپس ہو گا تو کتا شاید یہ سمجھ بیٹھے گا کہ وہ بھاگ رہا ہے … اور کاہنہ ؟ … وہ جب آخر کار دروازہ کھولے گی اور کسی کو دروازے پر نہ پائے گی تو کیا کہے گی؟ وہ تو یہی سمجھے گی ناکہ شایدکسی نے اس کے ساتھ مذاق کیا ہے اور پھر وہ یقیناً اس کی طرف آسمانی بجلیاں بھیج دے گی۔ اورساتھ ہی، یہاں سے اس طرح بھاگ جانے میں اس کا ایک اور نقصان بھی تھا … اس صورت میں اسے’مقدس پانی ‘ نہیں مل پاتا جس کے لیے اس کی بیمار ماں نے اسے کاہنہ کے پاس بھیجا تھا۔
کاہنہ اور ’مقدس پانی‘ کا معاملہ بڑا پر اسرار تھا۔ لڑکے نے ان سے متعلق، شہر کی گلیوں میں گردش کرتی، کئی افواہیں سنی تھیں۔ مقدس پانی حاصل کرنا کوئی مشکل نہیں تھا، بس ایک خالی بوتل میں پانی بھر کر اسے کاہنہ کے پاس لے جانے کی ضرورت ہوتی تھی۔ وہ بوتل پر اپنا ہاتھ رکھ کر دعائیں کرتی۔ اس کے بعد وہ پانی ’مقدس ‘ہو جاتا اور اس میں شفا بخشنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی۔ اس کی ماں نے تواسے یہی بتایا تھا۔
لڑکے نے دوبارہ دستک دی۔ اس بار اس کی دستک میں شدت تھی، لیکن اس نے یہ خیال بھی رکھا تھا کہ اس کی دستک اتنی تیز نہ ہو کہ کاہنہ ناراض ہو جائے۔ اندھیرا پھیل رہا تھا۔ کتا اب بھی اس کے ٹخنوں کو سونگھے جا رہا تھا۔ لڑکے نے بوتل کو مضبوطی سے تھام لیا جس میں اس نے کاہنہ کے گھر کے ٹھیک سامنے والی گلی کی دوسری جانب واقع نل سے ابھی ابھی پانی بھرا تھا۔ اس نے سوچاکہ وہ اس بوتل کو کتے پر دے مارے اوراس حملے میں اگر بوتل ٹوٹ جائے تواس کے نوکیلے ٹکرے کتے کو بھونک دے … لیکن … کاہنہ کیا کہے گی؟ … وہ شاید اسے بد دعا دے گی … اس نے دوبارہ دستک دی اور اس بار اسے کسی عورت کی ہلکی سی آواز سنائی دی۔
’’کون ہے؟‘‘ آواز آئی۔
لڑکے نے جلدی سے دروازے کا ناب گھما کر اسے دھکا دیا لیکن دروازہ نہیں کھلا۔ کتا غرّایا۔ لڑکے نے گھبرا کر پھر ناب کو گھمایا اور دھکا دیا۔ اس بار کتا تیز آواز میں بھونکا اور لڑکے نے مضطربانہ انداز میں دروازے پر دستک دے ڈالی۔ تبھی اس نے دروازے کا بولٹ کھسکنے کی آواز سنی اور دروازہ کھل گیا۔ اندر تاریکی تھی۔ دروازے کا نصف حصہ جیسے تاریکی میں مدغم ہو گیا تھا۔ لڑکے نے کتے کے بالوں کی رگڑ اپنی پنڈلیوں پر محسوس کی۔ کتا کھلے دروازے سے گزر کر مکان کے اندر داخل ہو گیا تھا۔
’’ دفع ہو جاؤ! ‘‘ عورت اچانک غصے سے بولی۔
لڑکے نے حیرت سے سوچا، کیا یہی کاہنہ ہے؟۔ اسی دوران ایک بار پھر کتا دھیرے دھیرے اس کی ٹانگوں سے رگڑ کھاتا ہوا گزرا۔ لڑکے کو ایک ہلکی سی نرماہٹ بھری گرمی کا احساس ہوا اور ایک عجیب سی سنسناہٹ اس کے پورے جسم میں دوڑ گئی۔ گرمی کا احساس تو لمحاتی تھا لیکن سنسناہٹ باقی رہی جو اس کی پیٹھ سے ہوتی ہوئی اس کی گردن کے پچھلے حصے تک پھیل گئی اور خوف کی ایک سرد لہرسے اس کا جسم ہولے ہولے کپکپانے لگا۔
’’کتا اندر نہیں جا سکتا۔ ‘‘عورت چیخی، ’’ یہ کسی سفید فام کا مکان نہیں ہے۔ ‘‘
لڑکے نے چمڑے کے نرم جوتوں کی چرمراہٹ کو اندھیرے میں مدغم ہوتے سنا۔ عورت شاید اندر جا رہی ہے، لڑکے نے سوچا اور وہ بھی اس کے پیچھے مکان میں داخل ہو گیا۔
’’ دروازہ بند کر دو‘‘ عورت نے کہا جو اَب بھی اندھیرے میں آگے بڑھی جا رہی تھی۔ لڑکا یہ کام اس کے کہنے سے قبل ہی انجام دے چکا تھا۔
حالاں کہ باہر بھی اندھیرا پھیل رہا تھا لیکن اندر کا اندھیرا کچھ زیادہ ہی گہرا تھا۔ ڈھلتے ہوئے دن کی مدھم ہوتی روشنی کھڑکیوں سے کمرے کے اندر پہنچ رہی تھی، جن کے پردے ابھی کھینچے نہیں گئے تھے۔ ’’ کیا ایسا موم بتیوں کی بچت کے لیے کیا گیا ہے؟‘‘لڑکے نے حیرت سے سوچا۔ اس کی ماں بھی اسے مکمل اندھیرا ہونے سے قبل موم بتیاں جلانے پر اکثر ڈانٹا کرتی ہے۔
لڑکے کی نگاہیں بے ساختہ کھڑکی سے آنے والی مدھم روشنی کی طرف اٹھ گئیں۔ وہ حیران تھا کہ عورت اس اندھیرے میں آخر کہاں غائب ہو گئی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کہیں وہ اسے کھڑکی سے باہر جھانکتا دیکھ کر یہ تو نہیں سمجھ لے گی کہ وہ اندھیرے سے خوفزدہ ہے۔ وہ اپنی نگاہیں کھڑکی سے ہٹانا چاہتا تھا لیکن کھڑکی کے باہر دھیرے دھیرے ہلتی ہوئی انگور کی بیلوں کی گہری سبز پتیوں نے اسے مسحور کر رکھا تھا۔ وہ بھول چکا تھا کہ ابھی تھوڑی دیر قبل جب وہ انھی بیلوں کی اندھیری سرنگ سے گزر کر آ رہا تھا، جو مین گیٹ اور مکان کے دروازے کے درمیانی راستے کے اوپر پوری طرح چھائی ہوئی تھیں، تو وہ کس قدر خوفزدہ تھا۔ اس نے پوری کوشش کی تھی کہ اس کے ہاتھ ان بیلوں اور ان میں لٹکتے مخملی، سیاہ اور رسدار انگوروں سے مس نہ ہوں جو بالکل اس کی دسترس میں موجود شاخوں پر لٹکے اسے لبھا رہے تھے۔
’’ان بیلوں کو چھونا منع ہے۔ ‘‘ … یہ ایک ایسی تنبیہ تھی جس سے چارٹرسن قصبے کا ہر شخص واقف تھا۔ یہ مشہور تھا کہ ان بیلوں پر ایک گاڑھا، نظر نہ آنے والا گوند لگا ہوا ہے جس کی مدد سے کاہنہ رات میں انگور چرانے کی نیت سے آنے والے چوروں کو پکڑتی ہے۔ اندھیری سرد رات میں چور صبح ہونے تک ان بیلوں سے چپکے رو رو کر معافیاں مانگتے رہتے تھے۔ صبح سورج کی پہلی کرنوں کے ساتھ کاہنہ اپنے مکان سے نکلتی تھی، اپنے بازو آسمان کی طرف بلند کرتی اور کہتی تھی:’’جاؤ ! … جاؤ ! گنہگار انسان ؛ جاؤ ! اور اب گناہ مت کرنا۔ ‘‘ اچانک وہ چور آزاد ہو کروہاں سے چلا جاتا تھا، لیکن اب وہ بالکل بدلا ہوا ہوتا تھا … ایک بالکل مختلف انسان! … یہ وہی بیلیں تھیں … ہر سال گرمیوں میں قصبے میں ان کا تذکرہ رہتا تھا۔
٭٭
ایک دن جب وہ اپنے تین دوستوں کے ساتھ اسکول سے بھاگ نکلا تھا اور وہ چاروں ایک بس میں قصبے کی جانب واپس آرہے تھے، بس میں سوار کچھ لوگ کاہنہ کے انگوروں سے متعلق آپس میں بحث کر رہے تھے۔ بس میں اتنی بھیڑ تھی کہ ہلنا مشکل ہو رہا تھا۔ اسکول سے بھاگے ان دوستوں نے اپنی نشستیں معمر لوگوں کو دے دی تھیں اور خود بس کے درمیان میں ایک دوسرے سے چپکے ہوئے کھڑے تھے اور لوگوں کی باتیں سن رہے تھے۔ وہ ایسی جگہ کھڑے تھے کہ بس میں موجود زیادہ تر مسافروں کو با آسانی دیکھ سکتے تھے۔
’’ یہاں تک کہ اس نظر نہ آنے والے گوند سے ایک گائے بھی نہیں بچ سکتی۔ ‘‘ایک لمبے شخص نے کہا جس کے گالوں کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں اوراس کی بندر ٹوپی اس کے ماتھے کے ساتھ بے ترتیبی سے چپکی ہوئی تھی۔ نصف دائروں کی صورت میں اٹھی ہوئی مونچھوں کی وجہ سے وہ کافی خوفناک لگ رہا تھا۔
’’میرا توبس ایک ہی سوال ہے۔ ‘‘ ایک موٹی عورت بولی جو اپنی گود میں دھلے ہوئے کپڑوں کی ایک بڑی سی گٹھری لیے بیٹھی تھی۔ ’’ کیا تم نے کبھی کسی آدمی کو ان بیلوں سے چپکے ہوئے دیکھا ہے؟ … مجھے بس اس سوال کا جواب دو۔ ‘‘اس نے خود اعتمادی سے بھرپور لہجے میں کہا اور کھڑکی سے باہر جھانکنے لگی۔ باہرسائکلوں پر سوار مزدور ایک قطار میں، اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ بس ان کے اتنے قریب سے گزر رہی تھی کہ لڑکے کو ڈر لگنے لگا کہ کہیں وہ بس سے ٹکرا نہ جائیں۔
’’میں نے ایک شخص کے بارے میں سنا ہے کہ وہ ان بیلوں سے چپک گیا تھا۔ ‘‘ایک نوجوان نے کہا جو بس کی سب سے پچھلی نشست پر اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ وہ لوگ پورے راستے ایک دوسرے کو فحش لطیفے سناکر قہقہے لگاتے رہے تھے۔ نوجوان کے ہونٹ موٹے اور آنکھیں سرخ تھیں۔
’’ کب … میرا مطلب ہے کہ وہ ان بیلوں سے کب چپکا تھا؟ … اور وہ آدمی تھا کون ؟‘‘ موٹی عورت نے کہا۔
’’اس طرح کی باتیں واقعی ہوا کرتی ہیں۔ ‘‘ کئی عورتوں کی آوازیں بیک وقت گونجیں۔
’’ یہی تومیں بھی کہہ رہا ہوں۔ ‘‘ بندر ٹوپی والے شخص نے کہا۔ ’’کچھ عورتوں کے ساتھ مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ بات سمجھنا نہیں چاہتیں۔ انھیں تو بس مردوں کی مخالفت کرنی ہوتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صرف مخالفت۔ ‘‘
’’ کیا کہہ رہا ہے یہ۔ ‘‘ ایک عورت نے پوچھا ’’ بات کچھ اور ہو رہی تھی اور اس نے بات کو کہیں اور پہنچا دیا۔ ‘‘
’’یہی تو میں بھی کہہ رہی ہوں۔ ‘‘موٹی عورت اپنی کپڑوں کی گٹھری سنبھالتی ہوئی بولی ’’مجھے باتوں کے جال میں الجھانے کی کوشش مت کرو۔ میں نے بس ایک سیدھا سادا سوال کیا ہے۔ مجھے صرف اس کا جواب چاہیے۔ ‘‘
’’ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ‘‘ کئی عورتیں پھر ایک ساتھ بول اٹھیں۔
’’ ہاں بالکل ٹھیک کہہ رہی ہو تم لوگ۔ ۔ ۔ ۔ اپنی بات پر ڈٹی رہنا۔ ‘‘ پچھلی نشست پر بیٹھا نوجوان چلایا۔ وہ اب سگریٹ پی رہا تھا۔ رول کیا ہوا سگریٹ اس کی موٹی انگلیوں میں بہت چھوٹا دکھائی دے رہا تھا۔
’’ حالاں کہ تمھیں بات کرنے کی تمیز نہیں ہے لیکن پھر بھی میں تم سے یہ کہوں گی کہ یہ کوئی مذاق نہیں۔ ہم ایک سنجیدہ موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں۔ ‘‘ موٹی عورت بولی۔
’’ بیشک یہ مذاق نہیں ہے۔ ‘‘ ایک نیا شخص بحث میں شامل ہوتے ہوئے چلایا۔ وہ انگریزی میں بول رہا تھا اوراس کی آنکھیں غصے میں سلگتی ہوئی سی محسوس ہو رہی تھیں۔ وہ ایک خوش پوش نوجوان تھا۔ اس کی شرٹ کا سفید کالر اس کی جیکٹ کے کالر کے او پر بڑے سلیقے سے پھیلا ہوا تھا۔ سفید لباس میں ایک نرس اس کے بغل میں بیٹھی ہوئی تھی۔ ’’ ان ماں جی نے آپ لوگوں سے ایک سیدھا سا سوال کیا ہے کہ کیا آپ میں سے کسی نے اپنی آنکھوں سے کسی آدمی کو اس کاہنہ کے پھندے میں پھنسا دیکھا ہے؟ … ہے کوئی ایسا؟‘‘
’’اس نے ایسا کوئی سوال نہیں کیا ہے؟ ‘‘ پچھلی نشست پر بیٹھا نوجوان اپنی سگریٹ اپنے دوست کی جانب بڑھاتے ہوئے بولا’’ اس نے تو صرف اتنا پوچھا تھا کہ پھندے میں پھنسنے والا شخص کون تھا اور وہ کب پھنسا تھا؟‘‘ پچھلی نشست پر بیٹھے نوجوان ہنس پڑے۔ سگریٹ کا دھواں اب بس کی پچھلی نشست کے آس پاس کافی پھیل چکا تھا۔
’’ میرا سوال تھا۔ ‘‘ موٹی عورت نے اپنا سر گھما کر اس نوجوان کو گھورتے ہوئے کہا ’’کیا تم نے کبھی کسی کو وہاں پھنسے ہوئے دیکھا ہے؟‘‘پھر وہ باہر کی طرف دیکھنے لگی۔ وہ کافی غصے میں معلوم ہو رہی تھی۔
’’ماں جی! اتنا غصہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ‘‘ پچھلی نشست پر بیٹھا نوجوان بولا جس پر کئی زبردست قہقہے بلند ہوئے۔ ’’ میں تو صرف سمجھنا چاہ رہا تھا۔ ‘‘ وہ مزید بولا۔
’’ ہم لوگوں میں یہی تو خرابی ہے‘‘ خوش لباس نوجوان بس کے تمام مسافروں سے خطاب کرتے ہوئے بولا۔ اس کی آواز میں خود اعتمادی تھی۔ ’’ ہم کسی معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں اور ہر بات کو ہنسی میں اڑا دیا کرتے ہیں۔ آج گورے اگر ہم پر حکومت کر رہے ہیں تو اس میں حیرانی کی کون سی بات ہے؟ماں جی نے ایک بالکل سیدھا ساسوال کیا تھا مگر انھیں الجھاوے والے جواب دے کر گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کی ہنسی اڑائی جا رہی ہے۔ سچائی بس اتنی ہے کہ کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ کسی کے پاس بھی نہیں !کیا تم میں سے کسی نے بھی کسی شخص کو اپنی آنکھوں سے کاہنہ کے انگوروں سے چپکے ہوئے دیکھا ہے؟ کبھی نہیں !یہ سب بس توہم پرستی کے سوا اور کچھ نہیں۔ اور اس کاہنہ کے بارے میں بھی اب بہت ہو گیا۔ اس کی کہانیاں سنتے سنتے ہم میں سے بہتوں کے کان پک گئے ہیں۔ ‘‘
چند منٹوں کے لیے بس میں سناٹا چھا گیا۔ صرف کھچاکھچ بھری ہوئی بس کے، زور لگاتے انجن کی گھر گھراہٹ کے سوا کوئی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔ آخر کار بندر ٹوپی والے آدمی نے خاموشی توڑی۔
’’ نوجوان !‘‘۔ اس نے کہا ’’اپنے ظاہری رکھ رکھاؤ سے تم عقلمند اور تعلیم یافتہ نوجوان معلوم ہوتے ہو، لیکن شاید ایک بات کا تمھیں علم نہیں۔ ممکن ہے کاہنہ یہ سب باتیں سن رہی ہو۔ اس لیے اگر کسی دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں اچانک تم پر بچلی گر پڑے تو حیرت کا اظہار مت کرنا۔ ہم سب تمھارے جنازے میں موجود رہیں گے اور لوگوں کو یہ بتائیں گے کہ تم نے کیسے اپنی بدقسمتی کو دعوت دی تھی۔ ‘‘
اور اس طرح اس بحث کا اختتام ہو گیا لیکن لڑکے کو یاد تھا کہ کیسے ہر سال گرمیوں میں قصبے کے باغیچوں میں انگور کی بیلوں، شفتالو اور خوبانی کے درختوں کی شاخوں سے مختلف رنگوں کے رقیق مادوں سے بھری مختلف سائز کی بوتلیں لٹکی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔ ان درختوں سے پھل چرانے کی ہمت کسی میں نہیں ہوتی تھی۔ بھلا کون پھل کے درخت سے چپک کر شرمندہ ہونا چاہے گا؟ حیرت انگیز طور پر صرف کاہنہ کے درختوں کی شاخوں سے ایک بھی بوتل بندھی ہوئی نظر نہیں آتی تھی۔
٭٭
لڑکے نے اپنی نگاہیں کھڑکی سے ہٹا کر تاریک کمرے کی طرف مرکوز کر دیں۔ اس کی آنکھیں اب تاریکی سے مانوس ہو چکی تھیں اور اسے تھوڑا تھوڑا دکھائی دینے لگا تھا۔ اس نے عورت کو خود سے دور جاتے ہوئے دیکھا۔ وہ شاید ایسی چپلیں پہنی ہوئی تھی جس کے اوپری حصے پر نرم بالوں کے گچھے لگے ہوتے ہیں۔ وہ شاید انھیں بے حد پسند کرتی تھی۔ تبھی دور جاتی ہوئی ایک سفید شے پر نگاہ پڑی۔ وہ عورت سر پر ایک سفید رومال باندھے ہوئے تھی۔ لڑکے کی نظریں سفید رومال کا پیچھا کر رہی تھیں جو سیدھے آگے کی طرف جا کر زاویہ قائمہ بناتے ہوئے ایک طرف مڑ گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاید کسی میز کے گرد ! اور تبھی اسے میز کا سیاہ ہیولہ نظر آیا۔ سفید رومال رک گیا تھا اور لڑکے نے ایک کرسی کھینچے جانے کی آواز سنی۔ سفید رومال تھوڑا نیچے ہوا اور اپنی جگہ پر رک گیا۔ کمرے میں مکمل خاموشی تھی۔ لڑکا سوچ رہا تھا کہ وہ کیا کرے؟کیا وہ بھی ایک کرسی پر بیٹھ جائے، یا پھر عقیدت مندانہ انداز میں زمین پر اُکڑوں بیٹھ جائے؟کیا وہ اسے مخاطب کرے یا اس کے بولنے کا منتظر رہے؟ کاہنہ کے سامنے کھڑے ہو کر فیصلہ کرنا کتنا دشوار ہو رہا تھا۔ آخر اس کی ماں نے اسے ایسی جگہ بھیجا ہی کیوں ؟کاہنہ کے بارے میں اپنے دوستوں کو دلچسپ قصے سنانا( اب جب کہ وہ اس سے مل بھی چکا تھا)ایک الگ بات تھی، اور خود اس کے سامنے کھڑے ہونا دوسری بات۔ تبھی اس کے نتھنوں میں کافور کی بو آئی۔ اس کی ماں کو جب بھی جوڑوں کا درد ستا تا، وہ کافور استعمال کرتی۔ تو کیا کاہنہ بھی بیمار تھی؟کیا وہ خود اپنے لیے پانی پر دم کر رہی ہے؟ اچانک لڑکے کو اطمینان سا محسوس ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کاہنہ بھی بیمار پڑ سکتی ہے ! اسے بھی درد ہوتا ہے !
ـ’’ سلام ‘‘ … اس نے تھوڑا ہچکچاتے ہوئے اسے مخاطب کیا اور ہولے ہولے کھانس کر گلا صاف کرنے لگا۔
’’ جیتے رہو۔ ‘‘اس نے جواب دیا۔ ’’ بولو بچے !کیا بات ہے؟ ‘‘تھوڑی دیر بعد وہ بولی۔ اس کی آواز بڑی باریک تھی۔ وہ گہری سانسیں لے رہی تھی۔ وہ زور زور سے کھانسنے لگی۔ عجیب طرح کی کرخت آوازوں سے پورا کمرہ گونج اٹھا تھا۔ کھانسیاں جیسے اس کے اندر سے ابلی آ رہی تھیں۔ اور لڑکا سوچ رہا تھا کہ اگر وہ ایسے ہی کھانستی رہی تو کیا ہو گا؟کیا کچھ باہر آ جائے گا؟کیا اس کا ایک پھیپھڑہ؟ لڑکا اب عورت کا ہیولہ با آسانی دیکھ سکتا تھا۔ وہ تھوڑا آگے کو جھکی ہوئی تھی۔ کیا کچھ باہر نکل کر زمین پر گر پڑا ہے؟کھانسی رک گئی۔ عورت سیدھی ہو کر بیٹھ گئی اور اس نے اپنے گریبان میں ہاتھ ڈال کر ایک سفید کپڑا نکالا تھا۔ وہ آگے کو جھکی اور اس کپڑے میں تھوک کر اٹھ گئی۔ اب وہ لڑکے سے دور کمرے کے دوسرے حصے میں جا رہی تھی جہاں نسبتاً زیادہ اندھیرا تھا۔ ایک دروازے کے چرمرانے کی آواز آئی اور سفید رومال اس کے پیچھے غائب ہو گیا۔ لڑکا سوچ رہا تھا کہ اب وہ کیا کرے … اس سے پہلے کہ وہ اپنا مدعا بیان کرتا، کاہنہ غائب ہو گئی تھی۔ وہ انتظار کرتا رہا۔
اب اس کی آنکھیں اندھیرے سے مانوس ہو چکی تھیں۔ اسے کمرے میں بہت سی چیزیں نظر آنے لگی تھیں۔ میز پر ترچھے سجے ہوئے تین سفید دھبے دراصل ٹیبل میٹ تھے۔ بیچ والے میٹ کے درمیان ایک سیاہ دھبہ تھا، جو در اصل ایش ٹرے تھا۔ چوں کہ کاہنہ کمرے میں نہیں تھی اس لیے لڑکا اتنی ہمت تو کر ہی سکتا تھا کہ وہ میز کے قریب جا کر ان میٹس کو دیکھ سکے۔ یہ کروشیا کاری کیے ہوئے ٹیبل میٹ تھے۔ اسے یاد آیا کہ اس کی ماں نے چرچ کی قربان گاہ کی نذر کرنے کے لیے کتنی خوبصورت کروشیا کاری کی تھی۔
تبھی لڑکے نے ماچس کی تیلی رگڑے جانے کی آواز سنی۔ کئی کوششوں کے بعد آخر کار تیلی جل گئی۔ جلد ہی لیونگ روم کے نصف کھلے دروازے سے موم بتی کی پھیکی سی نارنجی روشنی کمرے میں داخل ہوئی۔ آہستہ آہستہ روشنی کا رقبہ بڑھتا گیا اور آخر کار کاہنہ ہاتھ میں موم بتی لیے کمرے میں داخل ہو ئی۔ اس نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی، شاید وہ موم بتی کو رکھنے کے لیے مناسب جگہ ڈھونڈ رہی تھی۔ اس نے درمیانی ٹیبل میٹ پر پڑے ایش ٹرے کو دیکھا، بیٹھ کر ٹیبل میٹ کو اپنی طرف کھینچا، موم بتی کو ترچھا کر کے ایش ٹرے پر موم کے قطرے ٹپکائے اور پھر موم بتی کواس پر چپکا دیا۔
کاہنہ اب موم بتی کی روشنی میں لڑکے کی جانب دیکھ رہی تھی۔ اس کے موٹے ہونٹ باہر کو نکلے ہوئے تھے جس سے اس کی جھریوں بھری جلد کھنچ گئی تھی اور اس کے گالوں پر جھریوں کے دو واضح دائرے نظر آرہے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے اس نے اپنے ہونٹوں کو بوسے کے لیے تیار کر رکھا ہے۔ پیشانی سے ناک کی ابھار تک ایک سیاہ لکیر گدی ہوئی تھی جس نے اس کی نیم وا آنکھوں کو تقسیم کر رکھا تھا۔ سر پر بندھا سفید رومال اتنا بڑا تھاکہ اس کا چہرہ چھوٹا لگ رہا تھا۔ اس نے سبز لباس پہن رکھا تھا جس کے اوپر کلف لگا ہوا سبز لبادہ تھا۔ لبادے پر جا بجا کشیدہ کاری کی مدد سے سفیدرنگ کی صلیبیں بنائی گئی تھیں۔ اس کے عقب میں، دیوار کے سہارے، بانس کی بنی ایک بڑی سی صلیب رکھی ہوئی تھی۔
کاہنہ پھر کھڑی ہو گئی اور لڑکے کے عقب میں واقع کھلی کھڑکی کی جانب بڑھی۔ اس نے کھڑکی کے پردے گرا دئے اور واپس جا کر اپنی کرسی پر بیٹھ گئی۔ جب وہ واپس جا رہی تھی تب لڑکے نے دیکھا کہ اس کے لبادے کی پشت پر ایک اور کافی بڑی صلیب بنی ہوئی تھی۔ بیٹھنے سے پہلے اس نے بانس کی صلیب کو اٹھا کر اپنے سامنے رکھ لیا تھا۔
’’ ہاں ! تو تم کیا چاہتے ہو بچے؟‘‘اس نے دھیرے سے پوچھا۔
’’ میری ماں نے مجھے پانی لینے کے لیے بھیجا ہے۔ ‘‘ لڑکے نے بوتل کو ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’ پانی لینے کے لیے؟ … تعجب ہے … تم اتنی دور سے چل کر یہاں پانی لینے آئے ہو؟‘‘
’’میرا مطلب ہے۔ ‘‘ لڑکا بولا، ’ ’ مقدس پانی‘‘۔
’’ اوہو … اچھا اچھا … دراصل تم جو کہنا چاہتے تھے اس کے لیے تم نے صحیح الفاظ کا استعمال نہیں کیا تھا۔ ‘‘کاہنہ ایک بار کھانسی، پھر بولی ’’ بیٹھ جاؤ بچے … ضروری ہے کہ تم جو کہنا چاہتے ہو اس کے لیے مناسب الفاظ کا استعمال کرنا سیکھو۔ الفاظ خدا کی جانب سے ہمارے لیے بیش بہا تحفہ ہیں۔ اس نے اپنی لامحدود عقل کا ایک بے حد ننھا سا حصہ ہمیں بخشا اور پھر ہمیں غور و فکر کر نے کی ہدایت کی۔ اس لیے الفاظ کا غلط استعمال کرنا گناہ ہے اور ان کا صحیح استعمال نہ جاننا بھی … خیر … کون ہے تمھاری ماں ؟‘‘
’’ میری ماں ؟‘‘ لڑکا اس کے اس اچانک سوال سے گھبرا گیا ’’ میری ماں ماسے مولا کی نرس ہے۔ ‘‘
’’ او … ۔ ‘‘ کاہنہ بولی، ’’ تم نرس کے بیٹے ہو ؟حیرت ہے وہ ایک اتنے بڑے بیٹے کی ماں ہے۔ ‘‘ وہ دھیرے سے مسکرائی۔
لڑکے نے اطمینان کی سانس لی۔ اب وہ اپنے آپ کو محفوظ محسوس کر رہا تھا کیوں کہ کاہنہ اس کی ماں کو جانتی تھی۔ اس نے ایک لمحے کے لیے کاہنہ کے چہرے سے اپنی نظریں ہٹائیں تو اسے اس کے عقب میں ایک بڑا سا مکھوٹا دکھائی دیا۔ سیاہ اور چمکدار۔ مکھوٹے کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور اس کے دو لمبے دانت ہونٹوں سے باہر نکل کر اوپر کی جانب اٹھے ہوئے تھے۔ اس سے دس فٹ کے فاصلے پر دیوار کی دوسری جانب عیسیٰ مسیح کی ایک تصویر تھی جس میں ان کا سینہ کھلا ہوا تھا اور قلب دکھائی دے رہا تھا۔ روشنی کی بے شمار کرنیں ان کے قلب سے پھوٹ رہی تھیں۔
’’ میرے بیٹے … تمھاری ماں کا دل سونے کا ہے۔ ‘‘ کاہنہ بولے جا رہی تھی ’’ تم خوش نصیب ہو کہ تم نے ایسی ماں پائی ہے … یاد رکھو … جب وہ کہے کہ میرے بیٹے یہ پیغام فلاں مکان تک پہنچا دو، ضرور جاؤ … جب وہ کہے کہ میرے بیٹے فلاں دکان تک چلے جاؤ … ضرور جاؤ … اور جب وہ کہے کہ میرے بیٹے کتاب اٹھاؤ اور پڑھو … تو ضرور پڑھو … در اصل وہ تمھیں دو باتیں سکھانا چاہتی ہے … علم حاصل کرنا اور خدمت خلق کرنا … یہی وہ دو چیزیں ہیں … میرے بچے … جو ہمارے لیے سب سے ضروری ہیں۔ ‘‘
پھر کاہنہ بانس کی صلیب کی جانب بڑے انہماک سے دیکھنے لگی۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ ا س میں کوئی ایسی چیز دیکھ رہی ہے جو لڑکے کو دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ چند لمحوں کے لیے جیسے اس کی سانسیں رک سی گئیں۔ وہ ایک بار زور سے کھانسی، پھر تھوڑی دیر کے لیے بالکل خاموش ہو گئی، اس کے گال ایسے ہل رہے تھے جیسے وہ کچھ چبا رہی ہو۔
’’ بوتل قریب لاؤ۔ ‘‘ آخر کار وہ بولی۔ اس نے اپنا ایک ہاتھ بوتل پر رکھا جب کہ دوسرے ہاتھ سے اس نے بانس کی بنی صلیب کو پکڑ رکھا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور چہرہ چھت کی جانب تھا۔ لڑکے نے دیکھا کہ گہرے انہماک کی وجہ سے اس کا چہرہ سکڑ گیا تھا اور جھریاں مزید گہری ہو گئی تھیں۔ پھر اس نے بولنا شروع کیا۔
’’تم نے اس گیت کواس سے پہلے نہیں سنا ہو گا میرے بچے، اس لیے اسے غور سے سنو۔ ہمیشہ نئی چیزیں سننے کی کوشش کرو۔ پھر ویسا ہی تم بھی کہنے کی کوشش کرو۔ جیسے میں کبھی بھی حمد کی بوسیدہ کتابیں الٹنے کی کوشش نہیں کرتی۔ خود ہی کہہ لیتی ہوں۔ ‘‘اور اس نے گانا شروع کر دیا۔
اگر ندی کی ایک مچھلی
گرمیوں کی دوپہر میں
ابل کر بھی
صبر سے شام کا انتظار کرسکتی ہے،
توہم بھی انتظار کر سکتے ہیں
برفیلی سرد ہواؤں کے جھکڑ والی اس سرزمین پر
بہار آئے گی
بہار آئے گی
اگر سر کنڈوں کے پودے
سردیوں میں سوکھ جاتے ہیں
اور مردہ دکھائی دیتے ہیں
لیکن بہار آتے ہی
پھر جی اٹھتے ہیں
توہم بھی اس آگ کو جھیل لیں گے
جو آ رہی ہے
وہ آگ جو آ رہی ہے
ہم بھی اس آگ کو جھیل لیں گے
جو آ رہی ہے
یہ ایک لمبا گیت تھا۔ جسے وہ دھیمے سروں میں گائے جا رہی تھی۔ گیت ختم ہوا تو اس نے دعا مانگنی شروع کی۔
’’ میرے خدا!تُو قادر مطلق ہے … تجھے جب بھی پکارا جاتا ہے … تو سنتا ہے … ہم اپنے دل اور اپنے خیالات کا رخ تیری جانب موڑنا چاہتے ہیں … لیکن یہ کہاں ممکن ہو پاتا ہے؟ … اس دنیا میں کس قدر برائیاں ہیں … ہمارے دل کتنے خالی ہیں … اور ہمارے ذہن کتنے بھٹکے ہوئے ہیں … لیکن تُو … خدائے قادر مطلق … برائیوں کو دور کر دیتا ہے … ہمارے قلب و ذہن کو ایک نئی طاقت اور نئی امید سے بھر دیتا ہے … تجھے شمشون یا د ہے؟ بے شک تجھے کیوں نہ یاد ہو گا۔ میرے مالک تو نے ہی تو اس کی تخلیق کی تھی … تو، جو ہر شے کا خالق ہے … تو نے اسے ایک بانجھ عورت کے بطن سے پیدا فرمایا تھا … اور تبھی سے ہم یہ جانتے ہیں کہ ریگستان میں بھی پھول کھل سکتے ہیں … اور بنجر زمینوں میں اگنے والے پودوں میں وہ قوت نمو پائی جا سکتی ہے جسے کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘
دفعتاً موم بتی کی لو بجھنے لگی۔ یکایک پھیلنے والے اندھیرے نے روشنی کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ بجھتی شمع کا ننھا سا نیلا شعلہ دیر تک ٹیبل پر نظر آتا رہا جو بیک وقت نہایت کمزور بھی لگ رہا تھا اور بے حد طاقتور بھی۔ لڑکے کو فرش کی ٹھنڈک اپنے ننگے تلوؤں سے گزر کر اوپر اٹھتی محسوس ہونے لگی اور اسے جھرجھری سی آ گئی۔
تبھی اندھیرے میں کاہنہ کا قہقہہ گونجا۔ اس کی شروعات ایک شوخ سی ہنسی کی صورت میں ہوئی … ایسی ہنسی … جیسی لڑکیاں اس وقت ہنستی ہیں جب ان کے دوست ایک چھوٹے سے بوسے کے لیے ان کے پیچھے پڑے ہوں اور وہ بھاگ رہی ہوں … اور پھر یہ ہنسی ایک ایسے بھرپور قہقہے میں بدل گئی جو بے انتہا خوشی کی حالت میں لوگ لگاتے ہیں … ایسا قہقہہ جو آنکھوں میں پانی لے آتا ہے۔ اس قہقہے میں ایک عجیب سی لے تھی جو اس اندھیرے ماحول میں لڑکے کو بہت پُر لطف لگ رہی تھی، لیکن وہ قہقہہ بالآخر ایک تیز اور باریک چیخ میں بدل گیا۔ چیخ اتنی بھیانک تھی کہ لڑکے کا دل چاہا کے وہ بھاگ کر دروازے کے باہر چلا جائے، لیکن کسی غیر مرئی قوت نے جیسے اس کے قدموں کو جکڑ رکھا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ چیخ دیوار پر لٹکے بھیانک مکھوٹے کے منہ سے نکل رہی ہے۔ اسے نہ جانے کیوں ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ابھی زمین پر گر کر کسی سانپ کی طرح بل کھانے لگے گا۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ وہ بری طرح تھک کر سو جائے گا۔ ۔ ۔ اور جب وہ اٹھے گا تو وہ اتنی ہی خوشی محسوس کرے گا جتنی وہ اس وقت محسوس کرتا ہے جب اس کی ماں اسے بے حد خوش ہو کر اپنی بانہوں میں سمیٹ کر اپنے سینے سے لگا لیتی ہے۔
لیکن اس ہنسی، قہقہے اور چیخ … سب کا خاتمہ ویسے ہی اچانک ہو گیا جیسے ان کی شروعات ہوئی تھی۔ تاریکی موم بتی کی لو کے پاس سے ویسے ہی دور ہوتی گئی جیسے تالاب کے پانی میں پتھر پھینکنے کے بعد لہریں وہاں سے دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اور اب وہاں روشنی تھی۔ دیوار پر مکھوٹا خاموشی سے مسکرا رہا تھا اور مسیح کے قلب سے روشنی کی زرد کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔
’’ لارڈ … لارڈ … لارڈ۔ ‘‘ کاہنہ نے مدھم، لیکن بھر پور آواز میں کہا۔ اس کی آواز میں اتنی ہی خوشی موجود تھی جتنی ایک دن اس لڑکے کی ماں کی آواز میں تھی جب ایک دن وہ گلی میں کھیل کر گھر واپس لوٹا تو اس کی ماں جو باورچی خانے کے دروازے کے پاس کرسی پر، جلتے ہوئے چولہے کے سامنے بیٹھی تھی، اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑی ہوئی اور اسے اپنے سینے سے لپٹاتے ہوئے بولی ’’میں ایک مدت سے کتنی بیمار ہوں، لیکن شکر ہے کہ تو میرے پاس ہے … تو میرا بیٹا ہے … تو میرا بیٹا ہے … تو میرا بیٹا ہے۔ ‘‘
اور لڑکے کو اس کے جسم سے کافور کی بھینی خوشبو نکلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے بھی اسے لپٹا لیا، حالاں کہ اس کی بانہیں اس کی ماں کی بغلوں تک ہی پہنچ رہی تھیں۔ اسے یاد تھا کہ ماں کی بغلوں میں دب کر اس کے ہاتھ کتنے گرم ہو گئے تھے۔
’’ لارڈ … لارڈ … لارڈ۔ ‘‘ کاہنہ بولے جا رہی تھی، ’’ہمارے دلوں اور دماغوں میں موجود ریگستانوں پر اپنے کرم کی بارش برسا … رحم کر … اس پانی پر اپنی رحمتیں نازل فرما … اسے اپنی قوت سے بھر دے … اسے آب حیات بنا دے … اور جو کوئی بھی اسے پیئے اس میں بہار کے پھولوں کی سی تازگی بھر دے … جو اس پانی کو پیئے اسے مایوسیوں سے نجات دیدے۔ ‘‘
جیسے ہی کاہنہ چپ ہوئی اس نے بانس کی صلیب کو آہستہ آہستہ نیچے کیا یہاں تک کہ وہ زمین پر آگیا۔ لڑکا سوچ رہا تھا کہ کیا اس کا عمل پورا ہو گیا یا ابھی کچھ باقی ہے؟ کیا اسے اٹھ کرمقدس پانی لے لینا چاہیے اور پھر وہاں سے چلے جانا چاہیے؟یا ابھی رکنا چاہیے؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جلد ہی اس کی اس مشکل کو کاہنہ نے حل کر دیا۔
’’ یہاں آؤ میرے بیٹے۔ ‘‘وہ بولی، ’’اور میرے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ جاؤ۔ ‘‘
لڑکا کھڑا ہو گیا اور آہستہ آہستہ کاہنہ کی جانب بڑھا اور گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھ اس کے دونوں جانب جھول رہے تھے۔ کاہنہ نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے سر پر رکھے۔ ہاتھ گرم تھے۔ لڑکے کو ان کی گرمی اپنے بالوں سے گزر کر سر کے اندر اترتی محسوس ہوئی۔ وہ سوچ رہا تھا شاید کاہنہ کی روح اس کے جسم میں داخل ہو رہی ہے۔ کیا یہ بات مشہور نہیں تھی کہ جب کاہنہ اپنا ہاتھ کسی کے سر پر رکھتی ہے تو وہ اپنی روح کے ذریعہ اس شخص کے اندر جھانک لیتی ہے۔ کاہنہ کو فریب دینا ناممکن ہے۔ اور لڑکا حیرت سے سوچ رہا تھا کہ کاہنہ کو اس کے پھیپھڑے کیسے دکھائی دیتے ہوں گے؟کیا اسے وہ پانی دکھائی دے رہا ہو گا جو وہ یہاں آنے سے قبل، گلی کے ٹھیک دوسری سمت واقع نل سے پی کر آیا ہے؟وہ پانی اب کہاں ہو گا؟معدے میں ؟یا گردوں میں ؟
تبھی کاہنہ نے اپنے ہاتھوں کو اس کے پورے سر پر پھیرا جیسے وہ اس کے سر میں کچھ ڈھونڈ رہی ہو۔ پھر وہ ہاتھ اس کی گردن پر پہنچے۔ ہاتھ اب قدرے ٹھنڈے محسوس ہو رہے تھے۔ اس ٹھنڈک سے اس کے جسم میں گدگدی کی لہریں پیدا ہو رہی تھیں۔ پھر ان ہاتھوں نے اس کے چہرے کو ڈھک لیا۔ آنکھیں بند کرنے سے قبل اس نے جلد کی جھریوں کو دیکھا جو اتنے قریب سے پہاڑیوں جیسے معلوم ہو رہی تھیں۔ ان ہاتھوں میں نیلے صابن اور موم بتی کے موم کی ملی جلی مہک تھی، لیکن ان میں نسوار کی مہک بالکل نہیں تھی۔ لڑکے کو بڑی حیرت ہوئی۔ شاید کاہنہ نسوار استعمال نہیں کرتی ہے … لیکن اس کی دادی نسوار استعمال کیا کرتی ہے اور اس کے ہاتھوں میں ہمیشہ نسوار کی مہک بسی ہوتی ہے۔ تبھی کاہنہ بولی۔
’’ میرے بیٹے۔ ‘‘وہ بولی، ’’جاؤ … جاؤ اور اپنی ماں کو شفا بخش دو۔ ‘‘جب اس نے اپنے ہاتھوں کو اس کے چہرے سے ہٹایا تواسے اپنا چہرہ سرد محسوس ہوا اور ساتھ ہی جلد کے سکڑنے کا بھی ہلکا سا احساس ہوا۔ وہ زمین سے اٹھا اور بوتل کو گردن سے پکڑ کر اٹھایا اور دروازے کی طرف چل پڑا۔ باہر نکل کر دروازہ بند کرتے ہوئے اس نے دیکھا کاہنہ موم بتی ہاتھ میں لیے اپنی خوابگاہ کی طرف جا رہی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ وہ ایش ٹرے کو واپس میز پر کب رکھے گی؟ … جب اس نے دروازہ بند کیا تب تک لیونگ روم تاریک ہو چکا تھا اور خواب گاہ روشن تھی۔
باہر رات کی تاریکی پھیل چکی تھی۔ لڑکا تھوڑی دیر کے لیے برآمدے میں رک گیا تاکہ اس کی آنکھیں تاریکی سے مانوس ہو جائیں۔ اسے کتے کا خیال آیا لیکن وہ وہاں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ سامنے انگوروں کی بیلیں نظر آ رہی تھیں جن پر ثمر ممنوعہ دکھائی دے رہے تھے اور وہ رنگین کیڑے بھی جو اِن بیلوں پر ہر وقت رینگتے رہتے تھے۔ انگوروں کی بیلوں کی سرنگ کے نیچے سے گزرتے ہوئے لڑکے نے اپنا سر یوں جھکا رکھا تھا جیسے لوگ تیز بارش میں چلتے وقت جھکا لیتے ہیں۔ شاید لاشعوری طور پروہ ان کیڑوں سے خوفزدہ تھا کہ کہیں ان میں سے کوئی اس کے جسم پر گر نہ پڑے … یہ کیڑے کتنے بڑے ہیں … اس نے نفرت سے سوچا۔ اسے ان کے شوخ رنگوں سے بھی خوف آ رہا تھا۔
سرنگ کے درمیان پہنچتے ہی وہ اپنا ضبط کھو بیٹھا اور تیزی سے دوڑتا ہوا مین گیٹ سے باہر آگیا … اب وہ آزاد تھا … اسے ماں کا خیال آیا جو مقدس پانی کی منتظر ہو گی … اور وہ بجلی کی سی سرعت سے تھائپ اسٹریٹ میں مغرب کی سمت دوڑتا چلا گیا … گھر کی جانب ! … جب وہ سڑک کے آخری سرے پر پہنچا تو اسے ملی جلی آوازوں کا ایک شور سنائی دیا جو بھیڑ بھری حجامت کی دکانوں اور ان کے عقب میں واقع بیّر کی دکانوں سے بلند ہو رہا تھا۔ کاہنہ کے گھر کے ماحول میں تھوڑا وقت گزارنے کے بعد یہ شور، یہ لوگ، یہ دکانیں، سڑک کے کھمبوں پر لگی بتیاں، بسیں اور ٹیکسیاں … سب کچھ نئے لگ رہے تھے۔ وہ ان سب سے بچتا ہوا جلد از جلدگھر پہنچنا چاہتا تھا۔ اگر وہ اگلے موڑ پر پہنچ کر بائیں مڑ ے گا تو اسے روشن اور پر ہجوم موشوشو اسٹریٹ سے گزرنا ہو گا جہاں جمعہ کی رات ویسے ہی زبردست بھیڑ رہتی ہے، اور اگر وہ دائیں مڑے گا تو اسے بانتو باتھو پوسٹ آفس کے پاس سے گزرنا ہو گاجو رات کے اس وقت تاریک، ویران اور خوفناک ہو گا اور پھر اس کے آگے چارٹرسن کلینک کے پیچھے واقع کیکر کے ڈراؤنے درختوں کے قریب سے گزرنا پڑے گا جس کے آگے گولف کا ویران میدان ہے۔ دوسرا راستہ چھوٹا ہے لیکن ایک اکیلے لڑکے کے لیے خطرناک ثابت ہو گا … حالاں کہ کاہنہ کی روح اس کے ساتھ ہے … پھر بھی ! … اور پھر اس راستے میں اکثر لاشیں بھی تو ملتی رہی ہیں … لڑکا بائیں جانب مڑ گیا۔
دکانوں کے پاس بھیڑ کی زیادتی کی وجہ سے اسے اپنی رفتار کم کرنی پڑی۔ اس نے بوتل کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے پیندے کو سہارا دیتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ اسے بوتل کو بڑی حفاظت سے گھر پہنچانا تھا۔ ایک قطرہ بھی برباد نہیں ہونا چاہیے۔ اس بوتل میں اس کی ماں کی شفا بند تھی۔ اس نے بوتل کی گردن کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور دکانوں کے سامنے سے گزرتا چلا گیا۔
بیّر ہال کے گیٹ کے سامنے، اسٹریٹ لیمپ کے نیچے نوجوان لڑکوں کا ایک جھنڈ کھڑا تھا۔ لڑکے کی رفتار ذرا کم ہو گئی۔ اسے ڈر لگا۔ … کون ہیں یہ لڑکے؟ … اس نے سوچا … اسے ان کے پاس سے گزر کر نکل جانا چاہیے … نہیں ڈرنے کی کوئی بات نہیں … اس نے بھیڑ میں دو شناسا چہرے دیکھ لیے تھے … تیمی اور بُو بُو … وہ دونوں اپنے محلے کے دوسرے لڑکوں کے ساتھ تھے۔ یہ سب بڑے لڑکے تھے۔ شاید چھٹی جماعت میں پڑھتے ہوں گے یا پھر با قاعدہ ہائی اسکول کے طالب علم ہوں گے یا پھر قصبے میں کہیں کام کرتے ہوں گے۔
تیمی نے لڑکے کو پہچان لیا۔
’’ کیا پیارے بچے۔ ‘‘ تیمی بولا ’’ اتنی رات کو سڑک پر کیا کر رہے ہو؟ ‘‘
’’ ہیلو ! تیمی بھائی ! ‘‘ لڑکے نے جواب دیا، ’’ بس دکانوں سے کچھ خریداری کر نی تھی۔ ‘‘ اس نے جھوٹ بولا۔ وہ اپنا اصل مقصد اس پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس کے خیال میں شاید یہ مناسب نہیں ہوتا۔
’’ارے تم ادھر سنو ‘‘ ایک لڑکا تیمی کی طرف دیکھ کر چیخا۔ یہ بیزا تھا۔ لڑکے نے اس سے قبل بیزا کو جب بھی دیکھا تھا، کسی نہ کسی لڑکی سے بات کرتے ہوئے ہی دیکھا تھا۔ کبھی لڑکی اس کی باتیں سن کر ہنس دیتی تھی اور کبھی وہ لڑکی کی کلائی اس وقت تک مڑوڑتا رہتا جب تک وہ ’راضی‘ نہ ہو جاتی۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ سب کچھ وہ دن دھاڑے بڑے دھڑلے سے کرتا تھا۔
’’تم میری بات پر یقین نہیں کرو گے‘‘ اس نے تیمی کو مخاطب کر کے کہا ’’لیکن جب میں تمہیں ثبوت دکھاؤں گا تو تم سب کی بولتی بند ہو جائے گی۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے۔ ۔ ۔ ۔ تو کیا ثبوت ہے تمہارے پاس؟ ‘‘ ایک دوسرے لڑکے نے کہا ’’یہاں سب کو معلوم ہے کہ اس لڑکی سونٹو کو حاصل کرنا کتنا مشکل ہے‘‘
’’ تو پھر آؤ۔ ۔ ۔ ۔ قریب آؤ‘‘ بیزا نے کہا ’’میں تمہیں دکھاتا ہوں ‘‘
لڑکوں کے جھنڈ نے سمٹ کر بیزا کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ لڑکا اس دائرے کے باہر کھڑا تھا۔ وہ بھی متجسس تھا اور دیکھنا چاہ رہا تھا کہ ماجرا کیا ہے؟ لیکن اس کے سامنے کھڑی جسموں کی دیوار ناقابل عبور تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں وہاں سے وہ بیزا کی آواز ضرور سن سکتا تھا۔
’’ دیکھا؟ دیکھا تم سب نے؟ میں ابھی اس لڑکی کے پاس سے آ رہا ہوں۔ دیکھو! دیکھو! یہ دیکھو؟ جب میں اسے اپنی انگلیوں پر لگا کر انگلیوں کو الگ کرتا ہوں تو مکڑی کے جالے جیسا تار بنتا ہے۔ ‘‘
’’ارے یار! ‘‘بھیڑ میں کسی نے کہا ’’ تم اس سے لوگوں کو بیوقوف نہیں بنا سکتے۔ یہ معمولی سا شعبدہ ہے۔ ایک لڑکا اپنی ناک سے بہنے والی رطوبت اس جگہ لگا کر اندھیرے سے باہر آتا ہے اور اپنے دوستوں کے سامنے اعلان کرتا ہے کہ ابھی ابھی اس نے ایک لڑکی کے ساتھ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’ہمیں اسے غور سے دوبارہ دیکھنا چاہیے‘‘ دوسرے نے کہا ’’اس کے بعد ہی ہمیں کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔ ‘‘
جھنڈ تھوڑا اور سمٹ گیا۔
’’دیکھا ؟ دیکھا تم نے؟ ‘‘ بیزا مسلسل بولے جا رہا تھا۔
’’میرا خیال ہے بیزا نے واقعی اس لڑکی کو حاصل کر لیا ہے۔ ‘‘
’’ ارے یار یہ ناک کی رطوبت ہے اور کچھ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ دوسرے نے اصرار کیا۔
’’ لیکن یار ! تم لوگوں کو اس معاملے میں بیزا کے سابقہ ریکارڈ کا تو پتا ہو گا ہی۔ ‘‘
’’دوسری بات! ہم اس بات پر کیسے اعتبار کر لیں کہ وہ سونٹو ہی تھی کوئی دوسری لڑکی نہیں تھی؟ کیا یہ بات بیزا کے جسم پر لکھی ہوئی ہے کہ وہ لڑکی سونٹو ہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ دکھاؤ۔ ۔ ۔ ۔ وہاں کہاں ’’سونٹو‘‘ لکھا ہے۔ ‘‘
’’ یہ تم نہیں تمہارے اندر کی جلن بول رہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم لوگوں کے ساتھ یہی مسئلہ ہے۔ ‘‘ بیزا نے کہا۔ سمٹا ہوا جھنڈ اب تھوڑا پھیل گیا تھا اور اب اتنی جگہ بن گئی تھی کہ لڑکا اس کے اندر جھانک سکتا تھا۔ اس نے دیکھا کہ بیزا اپنی پینٹ کی زِپ بند کر رہا تھا۔ اچانک اس کی نظر لڑکے کے چہرے پر پڑی۔
’’تم یہاں کیا دیکھ رہے ہو‘‘ وہ چیخا ’’چلو بھاگو یہاں سے‘‘۔
لڑکا حیرت سے سوچ رہا تھا کہ بیزا اسٹریٹ لیمپ کی روشنی میں اپنی پینٹ کی زِپ کھولے لڑکوں کو کیا دکھا رہا تھا۔ جو کچھ بھی تھا۔ ۔ ۔ دلچسپ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاید احمقانہ بھی۔ ۔ ۔ ۔ اور گناہ آلود۔ ۔ ۔ ۔ لڑکا خوش تھا کہ اس نے مقدس پانی کی بوتل کو ان سے بچا کر رکھا تھا اور ان میں سے کسی نے اسے چھوا نہیں تھا۔
ٹیچر ٹھیک ہی کہتے ہیں … لڑکے نے سوچا … ان کے دماغ میں خرافات کے سوا کچھ نہیں ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ اسکول میں ایک کے بعد ایک امتحان فیل کرتے چلے جاتے ہیں۔ خرافات اور اسکول دونوں ایک ساتھ ممکن نہیں۔
لڑکے کو اپنی برتری کا احساس ہوا۔ وہ اپنے ساتھ کاہنہ کی قوت رکھتا ہے اور اب وہ اپنی وہ قوت اپنی ماں کو دینے جا رہا ہے۔ وہ اسے شفا دینے جا رہا ہے۔ وہ لڑکے اپنی ماؤں کو شفا دینے نہیں جا رہے تھے۔ وہ اپنی ماؤں کو گھروں میں اکیلی چھوڑ کر آئے تھے۔ اس نے اپنی رفتار بڑھا دی۔ اسے جلد گھر پہنچنا تھا۔ وہ چارج آفس سے دائیں مڑ گیا اور کلینک کی جانب بڑھا۔ اس نے سڑک پار کی اور مایابا اسٹریٹ میں داخل ہو گیا۔ مایابا اسٹریٹ تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی اور اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ گھر اب قریب آگیا تھا۔ وہ محض اندازے سے چلا جا رہا تھا۔ ممکن ہے کچھ دیر میں اس کی آنکھیں اندھیرے سے مانوس ہو جائیں اور اسے تھوڑا بہت دکھائی دینے لگے۔ اس نے بوتل کو سینے سے ہٹا کر ہاتھ میں لٹکا لیا تھا۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا شاید تاروں کی مدھم روشنی سے اسے گھر پہنچنے میں مدد مل جائے، لیکن جیسے ہی اس نے اپنا چہرہ نیچے کیا اسے اپنے بالکل سامنے کوئی چیز دکھائی دی … اور … ٹھیک اسی لمحے اسے اپنی ران سے کسی چیز کے ٹکرانے کا احساس ہوا اور درد کی ایک تیز لہر اس کی ران سے شروع ہو کر سارے جسم میں پھیل گئی۔ پھر اسے دھات کی بنی کسی شے کے زمین پر گرنے کی آواز سنائی دی اور ساتھ زمین سے کچھ دھول بھی اڑ کر اس پر پڑی۔ لڑکے کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کب اورکیسے گر پڑا … اس نے خود کو اپنی ران پکڑے زمین پر پڑا پایا جس سے درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ چند فٹ کی دوری پر ایک شخص کھڑا اس پر چیخ رہا تھا۔
’’ کمبخت لڑکے‘‘، وہ چیخا۔ ’’جی چاہتا ہے تجھے ایک لات ماروں … سڑک پر ایسے چل رہا ہے جیسے تیرے باپ کی سڑک ہو … مردود … تُو تو ابھی اس کا ٹیکس بھی ادا نہیں کرتا … اس سے پہلے کہ میں تیری پٹائی کر دوں، دفع ہو جا یہاں سے‘‘ اس آدمی نے زمین سے اپنی سائکل اٹھائی اور اس کا ہینڈل سیدھا کر نے لگا۔ پھر وہ وہاں سے چلا گیا۔
لڑکے نے بہ مشکل خود کو زمین سے اٹھایا اور لنگڑاتا ہوا گھر کی جانب چل پڑا … سب کچھ اس کے ذہن سے محو ہو چکا تھا سوائے ران سے اٹھتی ہوئی درد کی ٹیسوں کے، لیکن چند لمحے بعد ہی اسے اپنے سینے میں درد کی ایک تیز لہر اٹھتی محسوس ہوئی اور اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ اسے بوتل کا خیال آیا جو اس ٹکر میں چکنا چور ہو گئی تھی اور سارا پانی زمین پر بہہ گیا تھا … مقدس پانی … جس میں اس کی ماں کی شفا بند تھی … اس کی ماں جس کی منتظر بیٹھی تھی … کیا کہے گا وہ ماں سے؟ … اگر وہ ان بدمعاش لڑکوں کے پاس نہیں رکا ہوتا تو شاید وہ سائکل سوار سے نہیں ٹکراتا … کیا اسے کاہنہ کے پاس واپس جانا چاہیے؟ … نہیں … وہاں وہ کتا ہے … وہاں انگور کی بیلیں ہیں … وہاں کیڑے ہیں … اور پھر وہاں کاہنہ خود موجود ہے۔ وہ اپنی دعاؤں کو یوں برباد کر نے والے کو سزا دئے بغیر نہیں چھوڑے گی … وہ سزا کیا ہو گی؟ … آسمانی بجلیاں ؟ … یا جہنم کی آگ؟ … لڑکا لنگڑاتا ہوا سڑک پر چلا جا رہا تھا … اپنی بد قسمتی اسے صاف دکھائی دے رہی تھی … بغیر مقدس پانی کے وہ کس منہ سے ماں کی خواب گاہ میں داخل ہو گا … ماں کی آنکھوں کی محرومی اورحسرت وہ کس طرح دیکھ سکے گا۔
وہ جیسے ہی اپنے گھر کے آنگن میں داخل ہوا، اسے بوتلوں کے ٹکرانے کی آوازسنائی دی۔ آواز اس کے کتے خانے کی جانب سے آ رہی تھی۔ اسے یاد آیا کہ کتے خانے کے پاس ہی پرانی بوتلوں کا ایک ڈھیر رکھا ہوا تھا۔ شاید اس کا کتا ریکس اسے دیکھ کر تیزی سے اس کی طرف لپکا تھا اور اس کوشش میں وہ بوتلوں سے ٹکرا گیا تھا۔ اس نے احسان مندی کے جذبے سے مغلوب ہو کر کتے کو لپٹا کر پیار کیا۔ اس نے ڈھیر سے ایک بوتل منتخب کی … نہایت خاموشی سے … شاید اسے پہلے سے معلوم تھا کہ ان حالات میں اسے کیا کرنا ہے … وہ بوتل لے کر آنگن سے نکلا اور مایابا اسٹریٹ پر واقع نل کی جانب بڑھا۔ بالکل میکانیکی انداز میں اس نے کئی بار اچھی طرح کھنگال کر بوتل صاف کی۔ پھر اس میں پانی بھر کر اس کے اوپر لگے پانی کو اپنی پتلون سے پوچھا۔ بوتل کا ڈھکن بند کیا اور لنگڑاتا ہوا گھر کی جانب چل پڑا۔
جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا اسے خواب گاہ سے آتی ماں کی آواز سنائی دی۔ شاید اس کی غیر موجودگی میں کوئی ماں سے ملنے آیا تھا۔
’’ میں کہتی ہوں سیسی! … اور میری بات یاد رکھنا … ایک تربیت یافتہ نرس کی بات … کہ یہ ساری دوائیں، یہ گولیاں اور یہ سارے انجکشن، یہ سب کافی نہیں ہیں … میں جڑی بوٹیاں بھی استعمال کرتی ہوں … لیکن ان کے باوجود شفا کے لیے دعا کی بھی ضرورت ہے … بیٹے کیا یہ تم ہو؟‘‘
’’ ہاں !ماں !‘‘ لڑکے نے احتیاط کے ساتھ دروازہ بند کرتے ہوئے جواب دیا۔
’’ کیا تم پانی لے آئے ؟ ‘‘
’’ ہاں، ماں !‘‘
’’ خوب … مجھے پتا تھا تم یہ کام کر لو گے … پانی اور تین پیالیاں لے آؤ … ماں شانگے اور ماں موکوئنا آئی ہوئی ہیں۔ ‘‘
لڑکے کی آنکھیں آنسوؤں سے دھندلا گئیں … اس کی ماں کو اس پر کتنا اعتماد تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ اسے یوں فریب دے کر اس اعتماد کو ٹھیس پہنچانے جا رہا تھا … نہیں … فی الحال اسے پر سکون رہنا ہے … اس نے اپنی ہتھیلی کی پشت سے آنکھوں کو صاف کیا اور پھر بوتل اور تین کپ ایک ٹرے میں رکھے۔ ۔ ۔ ۔ اسے تن کر بالکل سیدھا چلنا تھا۔ اسے اپنی ران کے درد کو چھپانا تھا۔ اسے اپنی ماں کو دیکھ کر مسکرانا تھا۔ اسے مہمانوں کی طرف دیکھ کر مسکرانا تھا۔ اس نے ٹرے اٹھایا لیکن خوابگاہ میں داخل ہونے سے قبل وہ چند لمحوں کے لیے رک کر ہمت جٹانے لگا۔ خوابگاہ کے اندر سے عورتوں کے باتیں کر نے کی آوازیں اسے بالکل صاف سنائی دے رہی تھیں۔
’’میں تمہاری بات سمجھ رہی ہوں، نرس!‘‘ ان میں سے ایک عورت بولی ’’یہی بات تو میں لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب دیکھو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دونوں بچے آپس میں کزن ہیں ‘‘
’’اتنا قریبی رشتہ ؟‘‘ لڑکے کی ماں کی آواز آئی۔
’’ ہاں اتنا قریبی رشتہ۔ ۔ ۔ ۔ ماں موکوئنا میری گواہ ہیں۔ ۔ ۔ ۔ میں نے ان کی موجودگی میں اس بات پر احتجاج کیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نرس تم ہی بتاؤ میں نے احتجاج کیا تھا یا نہیں ؟‘‘
’’ارے ہاں بھئی!میں نے توویسے لوگ اپنی زندگی میں نہیں دیکھے ‘‘ماں موکوئنا نے تائید کی۔
’’ میں نے اپنی آواز کو چھت تک بلند کرتے ہوئے کہا تھا : لوگو! میں نے بھی دنیا دیکھی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر یہ دونوں بچے واقعی شادی کرنا چاہتے ہیں تو کسی جانور کی قربانی دینی لازمی ہے تاکہ ان کے درمیان کے خون کے رشتے کو ختم کیا جا سکے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’اور تم سننا چاہو گی کہ ان لوگوں نے کیا جواب دیا؟‘‘ماں موکوئنا نے اس کی بات درمیان میں کاٹی۔
’’میں سن رہی ہوں ‘‘ لڑکے کی ماں بولی۔
’’اسے بتاؤ شانگے کی بیٹی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ماں موکوئنا بولی۔
’’انھوں نے کہا کہ یہ سب پرانی اور فرسودہ باتیں ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تب میں نے اپنے آپ سے کہا ’ شانگے کی بیٹی، اپنا منھ بند کر لے اور خاموش بیٹھ جا، آنکھیں کھلی رکھ اور دیکھتی جا‘۔ ۔ ۔ ۔ اور میں نے یہی کیا۔ ‘‘
’’شادی سے دو ہفتے قبل آخر کار ان کے اجداد کی روحوں نے انہیں سزا دے دی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جیسا کہ میں نے سوچا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لڑکی کو ہسپتال پہنچانا پڑا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے پیر ایسے پھول گئے تھے جیسے پتلون میں ہوا بھر دی گئی ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب میری باری آئی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے ان کی طرف انگلیاں اٹھاتے ہوئے اپنا منھ کھولا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’تم نے اس ناجائز شادی کے لیے اپنے اجداد کی روحوں سے اجازت لی تھی‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم وہاں ہوتیں تو دیکھتیں کہ ان کی گردنیں کیسے جھک گئیں تھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ لوگ نظریں چرا کر ادھر ادھر تو دیکھ رہے تھے لیکن میری طرف دیکھنے کی ہمت ان میں نہیں تھی۔ ہاں میری بات ان کے دل میں اتر گئی تھی اور سورج غروب ہونے سے قبل ہی وہ ایک بکری کی قربانی دے کر اس کا گوشت کھا رہے تھے۔ ایک ہفتے بعد بچے قربان گاہ پر گئے اور پجاری نے انہیں دعا دیتے ہوئے کہا ’’بہت خوبصورت جوڑی ہے تمہاری۔ ‘‘
’’کیا یہ سچ نہیں ہے کہ کچھ لوگ خود ہی مصیبتوں کو دعوت دیتے ہیں ‘‘ لڑکے کی ماں نے کہا۔
’’صرف وہ لوگ جو لوگوں کے مشوروں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ‘‘ ماں شانگے بولی۔
’’یہ لڑکا کہاں رہ گیا؟‘‘ لڑکے کی ماں نے کہا ’’بیٹے! پانی کا کیا ہوا؟‘‘
بے ساختہ لڑکے نے اپنے پیروں پر نگاہ ڈالی۔ کہیں ران کے درد کی وجہ سے اس کے پیر پھول تو نہیں رہے ہیں ؟ یا پھر اس کے جھوٹ کی وجہ سے؟ خوف کی ایک لہر اس کے رگ و پے میں دوڑ گئی۔ لیکن بہر حال اسے خود پر قابو رکھنا تھا نہیں تو ٹرے میں رکھی بوتل گر جائے گی۔ اس نے راہداری میں قدم رکھا۔ اس کی ماں سامنے تھی۔ اس کا بستر راہداری کے عین سامنے تھا اور وہ جیسے ہی راہداری میں مڑ ا اس کی نظر سیدھے ماں پر پڑی۔ وہ کئی تکیوں کے سہارے بستر پر بیٹھی ہوئی تھی۔ ان کی نظریں ملیں اور وہ مسکرائی۔ اس کے سامنے کے اوپری دانتوں کے درمیان کا خلا نظر آ رہا تھا جسے وہ اکثر اپنی زبان سے چھوتی رہتی تھی۔ اس نے سر پر بادامی رنگ کے شیفون کا رومال باندھ رکھا تھا جو لاپرواہی کی وجہ سے سر کے ایک جانب ڈھلکا ہوا تھا اور سر کے دوسری جانب اس کے بے ترتیب بالوں کی لٹیں دکھائی دے رہی تھیں۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کے نتھنوں میں کافور کی بو داخل ہوئی۔ اس نے دونوں مہمانوں کو سلام کیا۔ حالاں کہ بیڈروم میں گرمی تھی لیکن ماں شانگے اور ماں موکوئنا نے چمکدار، بڑے اور بھاری اوور کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ ماں موکوئنا اپنے کاندھوں پر ایک کمبل ڈالے ہوئے تھیں۔ سروں پر رومال بڑے سلیقے سے بندھے ہوئے تھے۔ لڑکے نے ٹرے کو ماں کے بستر کے قریب ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دیا اور پیچھے ہٹ کر ماں کو دیکھنے لگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ واپس کچن میں جائے یا یہیں رک کر اپنی بد قسمتی کا انتظار کرے۔
’’ ُپتا نہیں میں اس لڑکے کے بغیر کیا کرتی‘‘اس کی ماں ایک کہنی کے بل اٹھتی ہوئی بولی۔ ا س نے دوسرے ہاتھ سے بوتل اٹھائی اور جس ہاتھ کے سہارے بیٹھی تھی، اس سے ڈھکن کھولنے لگی۔ لڑکے نے چاہا کہ آگے بڑھ کر اس کی مدد کرے لیکن اس کے پاؤں جیسے زمین سے چپک گئے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں پایا … ماں نے ایک پیالی میں پانی ڈالا اور پی گئی … اس نے آسودگی کے احساس کے ساتھ اپنی آنکھیں بند کر لیں … ’’ اتنا ٹھنڈا پانی !‘‘ اس نے ایک طویل سانس لیتے ہوئے کہا ’’کیا میں تمھیں بھی دوں ؟‘‘اس نے باقی دو پیالیوں میں پانی ڈالا۔
ماں کو خوش دیکھ کر لڑکے کی خوشی کی انتہا نہیں تھی … اس نے اپنے آپ کو معاف کر دیا تھا … کاہنہ نے اس کے اندر کیا دیکھا تھا؟ … کیا وہ اسے اب بھی اپنے ہاتھوں میں محسوس کر رہی ہو گی؟ … کیا اسے پتا چل گیا ہو گا کہ اس نے ابھی ابھی کیا کیا ہے؟ … کیا مقدس پانی کا مزہ عام پانی سے مختلف ہوتا ہے؟ … اس کی ماں کو تو کسی فرق کا پتا نہیں چلا تھا … کیا اسے شفا ملے گی؟
’’ کاہنہ کے اس مقدس پانی کو پیتے ہوئے آج میں بے حد خوش ہوں … میری خوش نصیبی کہ میں تم سے ملنے آئی۔ ‘‘ ماں شانگے بولی۔
’’مجھے پہلے سے ٹھیک لگ رہا ہے … اس پانی کی کرامت سے … اور آپ دونوں کی آمد کی برکت سے … میں اپنے اندرسکون بخشنے والی ٹھنڈک محسوس کر رہی ہوں … ۔ ‘‘
لڑکا دھیرے دھیرے خوابگاہ سے باہر آگیا۔ اسے اپنی ران میں درد کا احساس ہوا، لیکن وہ خوش تھا … بے انتہا خوش … اس نے اپنی ماں کو شفا دی تھی … وہ اسے کل بھی شفا دے گا … اور ہمیشہ دے گا … اس کے لیے وہ دنیا کا سارا پانی استعمال کر ڈالے گا … وہ اسے شفا دے گا۔
Original Story : The Prophetess
By : Njabulo S. Ndebele (South Africa)
خادمہ
نائجریا
دیکھو، میں نہیں چاہتی کہ میں جو تمھیں بتانے والی ہوں وہ کہیں اور دہرایا جائے۔ پچھلی دفعہ میں نے کسی سے کچھ کہا اور اس ملعون چغل خور نکیچی ا وبیاگو نے خدا جانے کس سے اور کیسے سن لیا اور آج پوری دنیا کو میری سوانح حیات کا پتا ہے۔ خیر، سب سے پہلے۔ ۔ ۔ ۔ کیا میں نے تمھیں بتایا تھا کہ مادام لاگوس سے واپس آ چکی ہیں ؟وہ اپنے ساتھ جو کچھ لائی ہیں وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ میرے خدا ! لاگوس بھی کیا غضب کی جگہ ہے۔ مختلف اقسام کے زیورات جو ایسے چمکتے ہیں جیسے چاند اور سورج مادام کے اس سخت چمڑے کے بنے سفری تھیلے میں اتر آئے ہوں۔ نظروں کو خیرہ کر دینے والی بے شمار چیزیں جنھیں زمین کی اس جنت میں لوگ جدید ترین فیشن کے طور پر پہنتے ہیں اور محض ایک ہفتے کے بعد ترک کر دیتے ہیں۔ مادام نے اوبیا گیلی کو ایک خوبصورت لبادہ دیا جس میں اتنے خوبصورت رنگ ہیں کہ ہمارے گاؤں انیوگو کے سارے خوبصورت پھول شرما جائیں۔ اوبیا گیلی کو حکم ہوا کہ وہ اپنا ایک پرانا لبادہ اس چڑیل سیلینا کو دے دے۔
٭٭
ہمیشہ کی طرح، میرے لیے کچھ نہیں تھا۔ تمھیں پتا ہے، یہ کیسے ہوتا ہے۔ سیلینا کو سب کچھ ملتا ہے کیوں کہ وہ مادام کے آبائی شہر سے تعلق رکھتی ہے۔ سب سے پرانی نوکرانی ہونے کی وجہ سے میری اولیت کی مادام کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ میں کھانا پکانے میں کتنی ماہر ہوں، مالک ہمیشہ میری بنائی لذیذ ایگوسیکی فرمائش کرتے ہیں، لیکن کیا مادام کو اس کی پروا ہے؟دنیا جانتی ہے کہ میں گھر کے کام کتنے سلیقے سے انجام دیتی ہوں لیکن کیا مادام کو اس کی پروا ہے؟کیا تم نے سیلینا کو ایک کمرے میں بھی جھاڑو لگاتے دیکھا ہے؟مجھے لگتا ہے اس کی ماں نے اسے کچھ بھی نہیں سکھایا۔ میں اس سے اکثر پوچھ بیٹھتی ہوں کہ گھر کے کونوں میں وہ گرد و غبار وہ آخر کس کے لیے چھوڑ دیا کرتی ہے، لیکن۔ ۔ چھوڑو یہ ایک الگ کہانی ہے۔
٭٭
خیر، تمھیں یاد ہے جب مادام کا بیٹا کیلسٹس واپس آیا تھا۔ میں سمجھتی ہوں، تقریباً تین ماہ پہلے کی بات ہے۔ وہ اینوگو میں واقع اپنے اسکول میں پڑھائی میں کافی کمزور تھا، اس لیے مالک نے شاید اسے نکال لیا تھا یا پھر امتحانات میں مسلسل فیل ہونے کی وجہ سے اسے اسکول والوں نے ہی نکال دیا ہو گا۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ پڑھنے میں کمزور ہے، بس وہ اتنا بدمعاش ہے کہ کبھی پڑھتا ہی نہیں۔ کیا تمھیں پتا ہے کہ وہ کتابیں پڑھنے کے بجائے ایک پیشہ ور عورت کے چکر میں پڑا ہوا تھا؟ یہ پیشہ ور عورت چیف ایم۔ اے۔ نوا چوکوکی معشوقہ بھی ہے۔ میں اسی چیف کی بات کر رہی ہوں جس نے اس شخص پر اپنی دو نالی بندوق سے فائر کر دیا تھاجسے اس نے اپنی پانچویں بیوی کے بیڈ روم سے نکلتے ہوئے پکڑا تھا۔ تم سمجھ رہی ہو میں کس چیف کی بات کر رہی ہوں۔ کیلی خوش قسمت ہے کہ وہ نوا چوکو کے ہاتھوں پکڑا نہیں گیا۔ اوبیا گیلی کا کہنا ہے کہ کیلی ضرور اس پیشہ ور عورت کو روپے دیا کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ کنگال رہتا ہے۔ غضب کا بدمعاش لڑکا ہے … ہے نا؟کیا تم ہم سولہ سالہ خادماؤں سے یہ امید کر سکتی ہو کہ ہم اپنی تنخواہ لڑکوں پر لٹا دیں ؟ہاہا ہا … ہم انھیں پیسے خرچ کرنے پر مجبور کر دیں گے۔
٭٭
اوبیا گیلی کہتی ہے کہ وہ ہر ہفتے مادام کو پیسوں کے لیے خط لکھتا تھا، جن میں اسکول کے نئے یونیفارم اور نئی کتابوں کی خریداری سے متعلق بے شمار جھوٹ ہوتے تھے۔ وہ اسے پیسے بھیج ہی دیتی تھیں کیوں کہ وہ ان کا سب سے پیا را بیٹا ہے۔ مادام آج کل ایک فوجی ٹھیکے دار کے طور پر کافی پیسے کما رہی ہیں، لیکن میں جب بھی اپنی تنخواہ کی بات کرتی ہوں تو یا تو وہ مجھے صاف نظر انداز کر دیتی ہیں یا پھر کاٹنے کو دوڑتی ہیں … آہ ظالم، بے رحم دنیا !صرف اتنی سی بات کے لیے کہ میں اپنا پیسہ ان سے مانگتی ہوں، وہ مجھ پر پھنکارتی ہیں۔ تمھیں پتا ہے کہ جب سے میرے پاپا کی موت ہوئی ہے، انھوں نے مجھے ایک پیسہ بھی نہیں دیا؟ … آہ ظالم، بے رحم دنیا !کوئی نہیں جو میری مدد کر سکے۔ برا مت ماننا۔ میں ذرا، اپنے آنسو پونچھ لوں پھر آگے کی کہانی سناتی ہوں۔
٭٭
کیلی کو گھر پر ہی رہنا تھا جب تک اس کے پاپا اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کر لیتے۔ جب بھی اس کے دوست اس سے ملنے آتے، میں اسے اس پیشہ ور عورت کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے سنتی۔ میں اس کے بازو والے کمرے میں جھاڑو دینے کا بہانہ بناتی، اور تم مجھے جانتی ہو، میں اپنے کان کھلے رکھتی ہوں۔ اس معاملے میں تم میری مہارت کی قائل ہو سکتی ہو۔ اگر اس گھر میں کوئی بات سننے لائق ہے تو میرے کانوں سے بچنے والی نہیں۔ وہ لڑکے جن موضوعات پر گفتگو کیا کرتے تھے، خدا کی پناہ! … وہ لڑکے تو کیڑے پڑے ہوئے سڑے پھلوں سے بھی زیادہ سڑے ہوئے تھے۔
٭٭
ایک صبح میں نے دیکھا کہ وہ ڈائننگ ٹیبل پر اپنی کہنیاں ٹکائے، چہرے کو ہتھیلیوں کے درمیان لیے بیٹھا ہے۔ اسے دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے دنیا بھر کی مصیبتوں کا بوجھ اس کے ناتواں کاندھوں پر ڈال دیا گیا ہو۔ جب میں نے پوچھا کہ کیا ہوا، تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بس اٹھا اور وہاں سے چل دیا۔ میں نے بھی اس بارے میں زیادہ نہیں سوچا اور صبح صبح کے اپنے ضروری کاموں میں لگ گئی۔ جب میں اس کے کمرے میں جھاڑو لگانے کے لیے گئی تو میں نے دیکھا کہ چڑیلوں کی استانی، سیلینا اوکوری وہاں جھاڑو لگانے کے لیے پہلے سے موجود ہے، لیکن وہ اپنا کام چھوڑ کر اس کی ٹیبل کے پاس کھڑی تھی اور شاید وہاں کچھ دیکھ رہی تھی۔ میں تمھیں بتاؤں کہ جب سے کیلی اینوگو سے آیا ہے، وہ اس کی محبوب نظر بننے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ وہ بار بار اس کے کمرے کے چکر لگاتی ہے، کمرے کی بے ترتیب چیزوں کو ترتیب سے سجاتی ہے، اور ہمیشہ اس کے ارد گرد گھوم کر اپنی میٹھی آواز میں پوچھتی رہتی ہے … ’’کیلی ! کچھ چاہیے؟تمھارے کپڑے دھو دوں ؟تمھارے لیے اُگبا پکا دوں ؟ ‘‘ہو سکتا ہے اس طرح کی باتوں سے دوسروں کو جلن محسوس ہو تی ہو لیکن میں ایسا کچھ نہیں محسوس کرتی تھی کیوں کہ میں ان باتوں سے بہت اوپر ہوں، لیکن مجھے اس بات پر بالکل حیرت نہیں، کہ کیلی اس کی طرف کبھی متوجہ نہیں ہوتا … شاید اس کے باہر نکلے ہوئے دانتوں کی وجہ سے، جن کی وجہ سے وہ بھیانک چڑیل اگابا جیسی لگتی ہے … اتنی بھیانک کہ مضبوط سے مضبوط اعصاب کے لوگ بھی کانپ اٹھیں۔
٭٭
میں کیلی کے کمرے کے دروازے پر تھوڑی دیر کھڑی اسے دیکھتی رہی، وہ شاید ٹیبل پر پڑی کسی شے کو پڑھ رہی تھی۔ آخر میں برداشت نہ کر سکی اور اندر داخل ہو گئی۔
’’ سیلینا اوکوری ! ‘‘ میں چلائی۔ وہ چونک کر اچھل پڑی اور اپنا جھاڑو اٹھا کر تیزی سے جھاڑو لگانے لگی لیکن جب اس کی نظر مجھ پر پڑی تو تیزی میں حرکت کرتے اس کے ہاتھ رک گئے۔
’’ کیا دیکھ رہی تھیں تم اس ٹیبل پر؟‘‘میں چلائی’’ میں کیلسٹس سے کہہ دوں گی … چور ! … احمق کہیں کی ! ‘‘جیسا کہ تم جانتی ہو میں انگریزی میں گالیاں دینے میں ماہر ہوں۔ میں نے پانچویں درجے تک یوں ہی تعلیم حاصل نہیں کر رکھی ہے۔
’’تمھاری ماں احمق۔ ‘‘ اس نے نہایت اطمینان سے جواب دیا۔ میں تمھیں کیا بتاؤں، یہ لڑکی دوسروں کو پاگل کرنا اچھی طرح جانتی ہے۔ میں بھی آپے سے باہر ہو گئی۔
’’کیا ! ‘‘ میں چلائی’’ میری ماں نے تمھارا کیا بگاڑا ہے جو تم اسے درمیان میں لا رہی ہو۔ ‘‘
’’تم نے پہلے میری بے عزتی کی۔ ‘‘
’’ ٹھیک ہے … لیکن میں نے تمھاری ماں کی بے عزتی تو نہیں کی تھی۔ ‘‘
’’ ہوتا ہے، ایک ہلکی سی چپت کے جواب میں اکثر زبردست طمانچہ مل جاتا ہے۔ ‘‘
’’تب تمھیں میری طرف سے اس سے بھی زبردست تھپڑ قبول کرنا ہو گا۔ ‘‘
٭٭
اس کی قسمت اس دن بہت اچھی تھی، کیوں کہ اس سے قبل کہ میرا طمانچہ اس کے کان کا پردہ پھاڑ دیتا وہ بھاگ کر آنگن میں چلی گئی۔ جب مجھے اطمینان ہو گیا کہ وہ وہاں سے جا چکی ہے تو میں جھاڑو لگانے کا ادھورا کام مکمل کرنے کے لیے کمرے میں آئی۔ خدا گواہ ہے، کیلی کی ٹیبل پر جو کچھ تھا اسے پڑھنے کا میرا کوئی ارادہ نہ تھا۔ خدا جانتا ہے کہ میں گنہگار نہیں ہوں، لیکن اگر کوئی خط ٹیبل پر لا پروائی سے کھلا پڑا ہو تو شیطان کو مجھ جیسی معصوم لڑکی کو بہکانے میں بھلا کتنا وقت لگے گا؟ بیشک میں نے اپنے اندر کے شیطان سے کافی دیر تک لڑائی کی جو مجھے اس خط کو پڑھنے پر مجبور کر رہا تھا، لیکن تمھیں معلوم ہی ہے انجام کیا ہوا ہو گا۔
میں نے خط پڑھنا شروع کر دیا۔
٭٭
یہ اسی اینوگو والی پیشہ ور عورت کا خط تھا۔ اس نے اسے ’ میرے محبوب‘ کہ کر مخاطب کیا تھا۔ ہا ہا ! مجھے یقین ہے کہ اس کے کم از کم بیس اور محبوب ہوں گے۔ خط میں لکھا تھا کہ وہ چیف ایم۔ اے۔ نوا چوکو سے شادی کر رہی ہے۔ میرے خدا ! دولت ! کچھ لوگ اس سے بے حد پیار کرتے ہیں۔ ایک عورت کس طرح کیلی جیسے خوبصورت نوجوان کو چھوڑ کر بڈھے کھوسٹ چیف ایم۔ اے۔ نواچوکو سے شادی کر سکتی ہے جس کے جسم میں مردانگی کی رمق بھی باقی نہیں رہی؟ یہ سچ ہے! یہ مجھے اوبیا گیلی نے بتایا تھا، اور اوبیا یہ سب اچھی طرح جانتی ہے کیوں کہ اسے بہتوں کا تجربہ ہے … نہیں نہیں !میں نے کچھ بھی نہیں کہا !میں کچھ بول کر مشکل میں نہیں پڑنا چاہتی۔ میں اس ملعون چغل خور نکیچی ا وبیاگو جیسی نہیں ہوں، جو کسی ریڈیو سے بھی زیادہ خبروں سے بھری ہوئی رہتی ہے۔
٭٭
خیر، اس پیشہ ور عورت کے خط میں یہ لکھا تھا کہ وہ نہیں چاہتی کہ اب کیلی اس سے کبھی ملاقات کرے یا کوئی رابطہ رکھے، اسی میں دونوں کی بھلائی تھی۔ اوہو !میں نے سوچا، تو یہی وجہ ہے جو وہ آج اس قدر پریشان تھا، لیکن یہ اچھا ہی ہوا۔ اب ان دونوں کا نہ ملنا ہی بہتر ہے … آج کل کی کچھ عورتوں کو کو ئی شرم و حیا نہیں ہے۔ کس طرح ایک ۲۵سالہ حسینہ ایک ۱۷ سالہ لڑکے کو پھنسا کر اس سے پیسے اینٹھ رہی تھی؟ یہ اچھا نہیں تھا۔
٭٭
تھوڑی دیر بعد جب وہ اپنے کمرے میں جا رہا تھا، میں اس کے قریب سے گزرتی ہوئی بولی’’ مجھے تمھاری پوری تواریخ معلوم ہو گئی ہے … تمھارے سارے راز !‘‘
’’ کیا مطلب ہے تمھارا؟‘‘ وہ مجھے مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا۔
’’ بس یوں سمجھ لو کہ میں تمھارے بارے میں ہر بات جانتی ہوں۔ ‘‘ میں نے کہا۔ اس کی پیشانی پر کئی شکنیں پڑ گئیں اور اس نے اپنے کمرے میں جھانکا۔
’’ میرے محبوب … ‘‘ میں گنگناتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھ گئی۔
’’کک … کیا؟تمھیں کیسے معلوم … ؟‘‘وہ چلایا ’’یہاں آؤ !‘‘
میں کسی لکڑبگھے کی طرح وحشیانہ قہقہے لگاتی ہوئی وہاں سے بھاگی، وہ میرے پیچھے اپنی پوری طاقت سے چیختا ہوا آ رہا تھا’’ کمفرٹ … کمفرٹ، تم نے میرا خط پڑھا ہے … میں تمھیں مار ڈالوں گا ! ‘‘
٭٭
اس نے مجھے باہر جانے والی سیڑھیوں کے پاس پکڑا اور مجھے زمین پر گرا کر میری پسلیوں میں گدگدی کرنے لگا۔ میں بری طرح ہنس رہی تھی یہاں تک کہ میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ہم ایک دوسرے سے لپٹے زمین پر لڑھکتے جا رہے تھے … تم مجھے ایسے کیوں گھور رہی ہو؟ اپنے دماغ میں موجود کسی بھی گنہ آلود خیال کو نکال دو۔ یہ سب ایک معصومانہ کھیل تھا … تمھارا دماغ ہمیشہ برے پہلو کی جانب ہی کیوں جاتا ہے؟ … بہرحال ہم لڑھکتے ہوئے کسی کی ٹانگوں کے پاس جا کر رکے … سلیقے سے استری کی ہوئی پتلون میں ملبوس ٹانگیں … ہم نے اوپر دیکھا۔ یہ مالک تھے۔ کیلی کے پاپا۔
’’ اوہو!کیلی !میں دیکھ رہا ہوں کہ خواتین کے معاملے میں تم بہت اچھے جا رہے ہو۔ ‘‘ وہ غصے میں اپنا سر ہلاتے ہوئے بولے ’’لیکن ایک بات اچھی طرح یاد کر لو … اگر تم نے ان میں سے کسی کو حاملہ کر دیا تو تمھیں اس سے شادی کرنی ہو گی۔ ‘‘میرے دل میں آیا کہ میں ان سے پوچھوں کہ انھوں نے استانی مس اونی جیکو سے شادی کیوں نہیں کی۔ کسی سے کہنا مت … لیکن کیا تم جانتی ہو کہ حال ہی میں اس کا جو بچہ پیدا ہوا ہے، اس کے بارے میں افواہ ہے کہ وہ مالک کا ہے؟یہ سچ ہے ! نیکیچی نے مجھے بتایا ہے۔
٭٭
اس کے کچھ دنوں کے بعد، مادام لاگوس کے لیے روانہ ہو گئیں۔ جانے سے ایک دن پہلے میں پارلر میں گئی جہاں وہ اپنی دوست ماما موزِز کے ساتھ تھیں۔ تم ماما موزِز کو جانتی ہو؟وہ اتنی موٹی ہے کہ ایک پورے کمرے کو بھر دے۔ اس وقت بھی وہ ایک کاؤچ پر اکیلی بیٹھی تھی۔ جبکہ مادام اس کے مقابلے میں اس خشک مچھلی جیسی لگتی ہیں، جس سے ہم لوگ سوپ تیار کرتے ہیں، ( مجھے ان کا مذاق اڑانے میں کوئی جھجک نہیں ہوتی ہے کیوں کہ وہ میرے لیے بری ہیں )، وہ ماما موزز کے سامنے ایک چھوٹی سی کرسی پر بیٹھی تھیں۔ اپنے کامیاب بزنس کے باوجود مادام روز بروز دبلی ہوتی چلی جا رہی ہیں، کیوں کہ ان کے پتھر دل کی بے رحمی ان کے جسم کو چوس رہی ہے۔ جبکہ ان کی دوست ماما موزز کو دیکھو، وہ بزنس میں ان کی طرح کامیاب نہ ہوتے ہوئے بھی روز بروز پھیلتی جا رہی ہے، کیوں کہ وہ بہت اچھی اور رحم دل ہے۔ ایک دن قبل ہی اس نے نیکیچی کے چرچ جانے کے لیے اسے اونچی ایڑی کے سینڈل خرید ے تھے۔ کیا تم سوچ سکتی ہو کہ میڈم کبھی اپنی کسی نوکرانی کے لیے اتنا کریں گی؟میں صرف اتنا کہہ سکتی ہوں کہ اگر تم اچھی ہو تو خدا تمھیں انعام سے ضرور نوازے گا اور تم کھاتے پیتے دولت مند لوگوں جیسی دکھائی دو گی، اور اگر تم بری ہو تو خواہ تم جتنی بھی امیر رہو، خدا تمھاری شکل بھُک مری کے شکار لوگوں جیسی بنا دے گا۔
٭٭
خیرجو بھی ہو، اس شام دونوں ’ بزنس مادام‘ اپنے بزنس سے متعلق بات چیت میں مشغول تھیں جب میں ماما موزز کے لیے اسٹاؤٹ کی چوتھی بوتل لے کر کمرے میں داخل ہوئی (یہ عورت ہمارے گاؤں انیگو کے کسی بھی مرد سے زیادہ شراب پی سکتی ہے)۔ مادام نے اس سے کہا کہ وہ آج جتنی جی چاہے شراب پی سکتی ہے کیوں کہ ان کا بزنس ان دنوں بہت اچھا جا رہا ہے۔ مادام نے ماما موزز کو بتایا کہ وہ فوج کے ایک میجر جنرل سے ملاقات کر نے کے لیے لاگوس جا رہی ہیں، جو انھیں ایک نیا کنٹریکٹ دلوائے گا، جس سے انھیں تھیلے بھر بھر کر منافع حاصل ہو گا۔ جب میں نے یہ سنا تو میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا، اور میں نے دل ہی دل میں کچھ حساب کتاب کیا، اگر ان کا بزنس آج کل اچھا جا رہا ہے اور جلد ہی انھیں تھیلے بھر بھر کر آمدنی ہونے کی امید ہے، تو میرے لیے اپنی رقم میں سے کچھ مانگنے کا یہی بہتر موقع ہے۔ انھوں نے میرے مرتے ہوئے باپ سے جو وعدہ کیا تھا اسے بھی یاد دلانے کا یہی اچھا موقع ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے پہلے کبھی تمھیں بتایا ہے یا نہیں … کہ انھوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے اپنے بزنس میں شامل کریں گی اور مجھے اپنی طرح کامیاب بزنس مین بننے کے گُر سکھائیں گی۔ یہی وجہ ہے میں اب تک یہاں ہوں، ورنہ میں کب کی کسی دوسری جگہ جا چکی ہوتی … لیکن میں اپنی ساری زندگی محض ایک خادمہ بن کر نہیں گزارنا چاہتی۔ بالآخر اس رات ماما موزز کے جاتے جاتے میں اپنی رقم کے مطالبے کا فیصلہ کر چکی تھی۔
٭٭
ماما موزز کو الوداع کہنے کے بعد، مادام سیدھی اپنے کمرے میں چلی گئیں تاکہ سفر کے لیے پیکنگ کر سکیں۔ مجھے یہ اعتراف ہے کہ جب ان کے پاس جانے اور رقم کا مطالبہ کرنے کا وقت آیا تو میرا دل بری طرح دھک دھک کرنے لگا، اس بڑے نقارے کی طرح جسے لڑکے نئے’ یام‘ کی دعوت کے موقع پر بجاتے ہیں۔ میں اس کے کمرے کے سامنے سے سات بار گزری، لیکن اپنے دل کو اتنا مضبوط نہیں کر سکی کہ کمرے میں قدم رکھ سکوں۔ میں اب اپنا ارادہ بدلنے ہی والی تھی کہ اچانک انھوں نے اندر سے آواز دی ’’کون ہے وہاں ؟‘‘
٭٭
جی میں آیا کہ دوڑ کر بھاگ جاؤں، مگر میں نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو روکا۔ میں کیوں بھاگ رہی ہوں ؟ میں نے اپنے آپ سے پوچھا۔ میں اپنی ہی رقم تو مانگ رہی ہوں۔
’’ میں ہوں، کمفرٹ۔ ‘‘
’’ کیا چاہیے؟‘‘
’’میں آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ ‘‘
’’ہاں، بولو۔ ‘‘
’’جی … وہ … آپ جانتی ہی ہیں … کیا آپ کو یاد ہے؟‘‘
’’کیا بات ہے ؟ … جلدی بولو … میں نے ابھی پیکنگ مکمل نہیں کی ہے۔ ‘‘
’’جی … وہ … مادام … میری رقم … ۔ ‘‘
’’کیا اسی کی خاطر تم مجھے پریشان کر رہی ہو؟ بھاگ جاؤ یہاں سے۔ ۔ ۔ ۔ اس سلسلے میں بات کرنے کے لیے تمھیں کوئی دوسرا وقت نہیں ملا؟تمھیں دکھائی نہیں دیتا کہ میں مصروف ہوں۔ ‘‘
٭٭
میں کمرے سے بھاگی، مکان سے نکلی اور پائیں باغ کی سرد ہوا میں آ کر اپنے آپ کو زمین پر گرا دیا اور روپڑی۔ کیلی نے مجھے وہاں دیکھا۔
’’ کمفرٹ، کیا بات ہے؟‘‘وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر میرے چہرے پر جھکتے ہوئے چیخا۔
’’کچھ نہیں۔ ‘‘ میں نے جواب دیا، میں نہیں چاہتی تھی کہ میں اس سے اس کی ماں کے بارے میں کچھ برا کہوں۔
’’چپ ہو جاؤ۔ ۔ ۔ آؤ ہم واپس مکان کے اندر چلتے ہیں۔ ‘‘وہ میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا۔ ’’ مجھے نہیں بتاؤ گی کہ کیا ہوا ہے؟کیا ماں نے تمھیں مارا۔ ‘‘
وہ اتنا نرم دل لڑکا ہے کہ مجھے پورا یقین تھا کہ وہ مجھ سے ہمدردی سے پیش آئے گا۔ ایک پل کو میرے دل میں آیا کہ اسے سب کچھ صاف صاف بتا دوں، لیکن میں نے اس وقت کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ ایسے میں میری زبان سے اس کی ماں کے لیے برا ہی نکلے گا۔
’’ میں تمھیں کل بتاؤں گی‘‘ میں نے کہا اور آہستہ آہستہ مکان کی طرف چل پڑی۔
٭٭
دوسری صبح تمام نوکر ساڑھے چار بجے اٹھ گئے تاکہ مادام کے سفر کی تیاریاں مکمل کر سکیں۔ ہر طرف’ جلدی جلدی‘ کا ماحول طاری تھا۔ تم تو جانتی ہی ہو کہ جب مادام کو کسی کام کی جلدی ہوتی ہے تو کیا ہوتا ہے۔ وہ ہر ایک کو سپاہیوں کی طرح مارچ کرتے دیکھنا چاہتی ہیں۔ ڈرائیور رُومانَس ان کی کار کو دھونے کے لیے باہر لے گیا تھا؛سیلینا نے مادام کے نہانے کا پانی گرم کیا تھا اور اب ان کے کپڑے استری کر رہی تھی؛ میں نے ان کے ناشتے کے لیے’ اکارا ‘ تلا تھا اور ’اکامو‘ تیار کیا تھا۔ ابھی کافی اندھیرا تھا، جھینگر اب تک بول رہے تھے اور مرغوں نے ابھی بانگ دینا شروع ہی کیا تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب روحیں، اچھی بھی اور بری بھی، منڈلانا چھوڑ کر اپنے زیر زمین ٹھکانوں کی طرف لوٹتی ہیں۔ مادام جب اپنی کار کی ’مالکوں والی سیٹ‘ پر بیٹھ گئیں اور رُو مانَس گاڑی کو ڈرائیو کرتا ہوا کمپاؤنڈ سے باہر لے گیا اس وقت ذرا بھی ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ مادام کوکسی روح سے ملاقات کا کوئی خوف ہو گا۔
٭٭
مادام کی گاڑی اس شاندار شہر کی طرف روانہ ہو گئی جہاں کی راتیں سدا جوان رہتی ہیں اور جہاں کے لوگ شاید کبھی سوتے نہیں ہیں۔ ہم سب گاڑی کی دور جاتی روشنیوں کو اندھیرے میں مدغم ہوتے دیکھتے رہے پھر گھر کے اندر آ گئے۔ میں نے کچن میں جا کر دن کے کھانے کی تیاری کا بہانہ کیا، لیکن جیسے ہی مجھے یہ یقین ہو گیا کہ کوئی نہیں دیکھ رہا ہے، میں واپس پارلر میں آ گئی اور اپنی چٹائی کو ایک لمبے کاؤچ کے پیچھے بچھا کر، خود کو اپنے کپڑوں میں اچھی طرح لپیٹ کر پرسکون میٹھی نیند سو گئی … اسی وجہ سے مجھے مادام کا سفر پر جانا بے حد پسند ہے … ان دنوں مجھے صبح کے ساڑھے پانچ بجے اٹھنے کی جلدی نہیں ہوتی اور مجھے معمول سے زیادہ سونے کا موقع ملتا ہے۔ میرا خدا جانتا ہے … آخر میں کوئی سپاہی یا بانگ دینے والا مرغ تو ہوں نہیں جو روزانہ تڑکے اٹھنا میرے لیے ضروری ہو۔
٭٭
مجھے سوئے ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی جب مادام گھر میں داخل ہوئیں ! وہ شاید کچھ بھول گئی ہیں، میں نے سوچا، اس سے قبل کہ وہ مجھے سوتے ہوئے دیکھ لیں مجھے فوراً اٹھ جانا چاہیے۔ میں نے اٹھنا چاہا لیکن نہیں اٹھ سکی، مجھے ایسا لگا جیسے چٹائی نے میرے وجود کو چپکا لیا ہو۔ وہ کمرے میں داخل ہوئیں اور دوسرے ہی لمحے کمرے میں روشنی پھیل گئی۔
’’ کمفرٹ !‘‘
میں جیسے زمین سے چھ فٹ اوپر اچھل گئی۔ میرے ہاتھ متوقع طمانچے کو روکنے کے انداز میں پھیل گئے اور میرے ہونٹوں سے ایک چیخ نکلی ’’ نہیں مادام ! مجھے معاف کر دیجیے ! ‘‘
٭٭
لیکن جب میری آنکھیں کھڑکی سے آتی تیز دھوپ میں کچھ دیکھنے کے قابل ہوئیں تو میں نے دیکھا وہاں مادام نہیں تھیں، صرف سیلینا تھی، جو ایک کونے میں کھڑی، قہقہے لگا کر میرا مضحکہ اڑا رہی تھی۔
’’ نہیں مادام!مجھے معاف کر دیجیے!‘‘اس نے قہقہوں کے دوران میری نقل اتاری۔ میں تمھیں کیا بتاؤں، یہ سب میری برداشت کے باہر تھا۔ میں اسے سخت سست سنانے کو بے قرار ہو اٹھی۔
’’ سیلینا اوکوری! ‘‘ میں نے شروعات کی۔
’’ بولیے مادا م محوِ خواب ‘‘ اس نے پھر میرا مذاق اڑایا۔
’’ سیلینا!میرا مذاق مت اڑاؤ، میں ہر بات میں تم سے سینئر ہوں … عمر میں بھی … ۳۶۵ دن آخر مذاق نہیں ہوتے، اس لیے تمھیں چاہیے کہ اپنے سے بڑوں کا احترام کرو۔ یہ مت بھولو کہ جب تک مادام باہر ہیں، کھانا بانٹنا میری ذمے داری ہے۔ اگر تم سیدھی نہیں ہوئیں تو شاید چوہوں کو تمھارے مقابلے میں زیادہ کھانا نصیب ہوا کرے گا۔ ‘‘ میری دھمکی نے اثر دکھایا اور اس کے بعد دن بھر وہ بالکل سیدھی رہی۔
٭٭
اسی دن بعد میں، کیلی نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا، یہ پوچھنے کے لیے کہ میں گزشتہ شب کیوں رو رہی تھی۔ ’’ اب بات ختم ہو چکی ہے، اسے بھول جاؤ۔ ‘‘ میں نے کہا۔
’’ نہیں ! مجھے بتاؤ۔ ممی نے ڈانٹا تھا نا؟ َ … میں سمجھتا ہوں۔ تم مجھے بلا جھجک بتا سکتی ہو۔ میں ممی کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔ ‘‘
میں خاموش رہی۔
’’بتاؤ نا۔ ‘‘ اس نے پھر اصرار کیا۔
’’ مجھے اپنی اس گرل فرینڈ کی تصویر دکھاؤ، وہی جو چیف نوا چوکو سے شادی کر رہی ہے۔ ‘‘
’’ اگر میں تمھیں اس کی تصویر دکھا دوں تو کیا تم مجھے پوری بات بتاؤ گی؟‘‘
’’ہاں ‘‘
’’جھوٹی … تم بچوں کی کہانی والے کچھوے سے بھی زیادہ مکار ہو۔ ‘‘
’’ میں وعدہ کرتی ہوں کہ تصویر دیکھنے کے بعد میں تمھیں سب کچھ بتا دوں گی۔ ‘‘
اس نے مجھے اس کی ایک رنگین تصویر دکھائی۔ وہ بیضاوی چہرے والی، بے حد گوری اور خوبصورت تھی۔
میں نے اس سے کہا ’’بہت پیاری ہے، لیکن مجھے اس کا لباس پسند نہیں آیا۔ اس نے ایسی اسکرٹ کیوں پہن رکھی ہے جو کمر تک کٹی ہوئی ہے اور ایسا بلاؤز جس سے اس کی چھاتیاں ابلی پڑ رہی ہیں ؟ شاید اسے سب کے سامنے عریاں ہو کر پریڈ کرنے میں بھی کوئی شرم نہیں آئے گی۔ ‘‘ وہ ہنستے ہوئے مجھے پکڑنے کے لیے لپکا، لیکن میں نے عین وقت پر جھکائی دے کر خود کو بچا لیا۔
پھر میں نے اسے بتایا کہ تقریباً ایک سال قبل جب سے میرا باپ مرا ہے، مجھے میری رقم نہیں ملی۔ میرا باپ ہر ماہ کے آخر میں مادام سے پیسے لینے آیا کرتا تھا … دس نائرا ماہانہ … اور وہ اس میں سے تین نائرا مجھے خرچ کرنے کے لیے دیا کرتا تھا۔ ان دنوں میں خاصی امیر ہوا کرتی تھی۔ میں کانوں کی بالیاں، گلے کے ہار اور چیونگ گم خرید سکتی تھی۔
’’ میری ماں کے پاس تمھاری کتنی رقم نکلتی ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ڈیڑھ سو نائرا ‘‘میں نے جواب دیا، اس نے سیٹی بجائی۔
’’ ٹھیک ہے، میں دیکھوں گا، تمھارے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘
’’ بس اتنا کرنا کہ جو کچھ میں نے تمھیں بتایا ہے وہ کسی اور کو نہ بتانا۔ ‘‘میں نے کہا اور واپسی کے لیے مڑ گئی۔ ’’ ویسے … میں سمجھتی ہوں کہ اب تم اس لڑکی کے لیے رونا بند کر چکے ہو۔ اس کے بارے میں مت سوچو، وہ بے وفا ہے اور تم سے صرف پیسوں لے لیے محبت جتا رہی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ تمھیں اینوگو میں اس سے کہیں اچھی اور خوبصورت لڑکیاں ملیں گی … دیکھو ! جب تک مادام باہر ہیں میں تمھارے لیے تمھاری پسندیدہ ڈشیں پکاؤں گی، اور جب مجھے فرصت ہو گی میں تمھارے پاس آ کر بیٹھوں گی اور ہم ایک دوسرے کو کہانیاں سنائیں گے۔ بہت جلد تم اپنی اس بے وفا دوست کو بھول جاؤ گے۔ ‘‘ وہ مسکرایا اور میں کمرے سے باہر آ گئی۔
٭٭
چند گھنٹوں کے بعد جب میں اس کے کمرے کے سامنے سے گزر رہی تھی، اس نے مجھے اندر کھینچ لیا، اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے چند مڑے تڑے نوٹ میری مٹھی میں پکڑا دیے۔ میرے ہونٹوں سے ایک چیخ نکلی اور میں نے ان نوٹوں کو زمین پر پھینک دیا جیسے وہ سرخ، دہکتے انگارے ہوں۔ اس نے انھیں اٹھایا اور واپس میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ میں نے گنا۔ وہ تیس نائرا تھے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس نے یہ رقم کہاں سے حاصل کی، لیکن وہ بتانے پر تیار نہیں ہوا۔ میں نے اس سے کہا کہ چوں کہ مجھے پتا نہیں ہے کہ یہ رقم کیسی ہے، اس لیے میں اسے قبول نہیں کر سکتی۔ اس نے جلدی سے کہا کہ اس کی جیب خرچ سے بچی ہوئی رقم ہے۔
٭٭
مجھے اس کی اس کہانی پر یقین نہیں آیا۔ میرا دل بڑے زوروں سے دھڑک رہا تھا۔ میں نے نوٹوں پر ایک نظر ڈالی اور مجھے لگا جیسے میرا دل کہہ رہا ہو … دھک دھک … بالیاں، ہار … دھک دھک بالیاں، ہار … میں نے اپنے دماغ کو یوں سمجھایا:کیلی نے یہ رقم کہاں سے حاصل کی، کسے معلوم؟ ہو سکتا ہے اس نے اپنے باپ کے بٹوے سے چرایا ہو، یا اپنی ماں کی تجوری پر ہاتھ صا ف کیا ہو، اوراس جنگلی لڑکے سے یہ بھی بعید نہیں کہ اس کے کسی دوست نے نقلی نوٹ چھاپے ہوں !لیکن دوسری طرف یہ بھی ممکن ہے کہ اس نے یہ رقم سچ مچ اپنی جیب خرچ سے بچائی ہو۔ میں یہ رقم رکھ لیتی ہوں، اگر کوئی تیس نائرا کے گم ہونے کی شکایت کرے گا تو میں یہ رقم کیلی کو واپس کر دوں گی اور اگر ایسا نہیں ہوا تو میں اسے خرچ کروں گی۔
٭٭
بدقسمتی سے میں نے شیطان اور اس کے بہکاوے کو نظر انداز کر دیا تھا۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ لڑکیوں کو کیسے بہکانا چاہیے خصوصاً اس وقت جب وہ یہ سمجھتی ہوں کہ حالات ان کے کنٹرول میں ہیں۔ دوسرے دن اوبیا گیلی نے مجھے سُوپ کا سامان لانے کے لیے اکیلے بازار جانے کو کہا:میں ہمیشہ اس کے ساتھ یا مادام کے ساتھ بازار جایا کرتی تھی۔ میں نے اس سے درخواست کی کہ وہ بھی میرے ساتھ چلے، لیکن وہ ایک دوست کے گھر جانا چاہتی تھی جس سے اس کی مدت سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ آخر مجھے اکیلے ہی بازار جانا پڑا۔ شیطان کے میرے دل میں داخل ہونے کایہ سنہرا موقع تھا۔ میں نے وہ تیس نائرا اپنے لباس میں چھپا کر رکھ لیے۔ ’’اگر میں اسے یہاں چھوڑوں گی تو ممکن ہے یہ سیلینا کے ہاتھ لگ جائیں۔ ‘‘ میں نے خود کو یہ جواز پیش کیا۔
٭٭
سُوپ کے لیے بھنڈی اور تیل خریدنے کے بعد میں نے سستے نقلی زیورات کی دکانوں کا ایک چکر لگا یا۔ دل کو میں نے یہ کہہ سمجھا لیا کہ ’ ممکن ہے مجھے یہ رقم رکھ ہی لینی پڑے ایسے میں معلوم تو ہونا چاہیے کہ آج کل کن ڈیزائنوں کے زیورات دستیاب ہیں تاکہ خریدتے وقت زیادہ سوچنا نہ پڑے‘۔ در اصل مجھ جیسی نوجوان خادماؤں کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ اتنی لمبی مدت تک رقم کے بغیر رہیں، خصوصاً ایسے موقعوں پر جب نگاہوں کے سامنے خریدنے لائق بے شمار چیزیں موجود ہوں، اور نکیچی ا وبیاگو جیسی دوسری خادمائیں کانوں میں خوبصورت بالیاں اور اونچی ایڑی کی جوتیاں پہنے گھوم رہی ہوں۔ رقم کی کمی ہمیں حاسد بناتی ہے اور ہم میں سے بعض جو بری ہوتی ہیں وہ چوری تک کرنے پر مجبور ہو جا تی ہیں اور بعض کو جب بھی کہیں سے تھوڑی بہت رقم حاصل ہو جاتی ہے تو وہ اسے احمقانہ انداز میں خرچ کر ڈالتی ہیں۔ میں جب بازار سے نکلی تو میرے لباس میں نقلی سونے کی دو بالیاں اور صرف پانچ نائرا بچے ہوئے تھے۔
٭٭
اگر تم شیطان کو اور اس کے مکارانہ طور طریقوں سے واقف ہو تو تمھیں پتا ہی ہو گا کہ جب تم اس کے بہکاوے میں آ کر کوئی غلط قدم اٹھا لیتی ہو تو وہ قہقہے لگاتے ہوئے بھاگ جاتا ہے، اور اس نے تمھاری آنکھوں پر جو پردہ ڈالا ہوتا ہے وہ اٹھ جاتا ہے، تب تمھیں یہ احساس ہوتا ہے کہ تم نے کتنی بڑی بیوقوفی کی ہے۔ جلد ہی میری سمجھ میں یہ آ گیا کہ میں اپنا یہ نیا خزانہ اپنی ساتھی خادماؤں کو دکھا کر انھیں جلا نہیں سکتی تھی کیوں کہ خطرہ تھا کہ سیلینا ضرور مادام کو بتا دے گی۔ میں بری طرح خوفزدہ ہو گئی۔ اگر یہ رقم کیلی کی نہیں ہوئی اور اس نے مالک یا مادام کی چرائی ہو تو کیا ہو گا؟اگر ان میں سے کسی کی رقم غائب ہو اور وہ پولیس کو بلا لے تو کیا ہو گا؟ کیا کیلی یہ اقرار کر لے گا کہ یہ چوری اس نے کی ہے؟ وہ ایک اچھا لڑکا ہے، وہ یقیناً ایسا ہی کرے گا، میں نے خود کو سمجھایا … لیکن اگر یہ چوری اس وقت پکڑی جائے جب وہ شہر سے باہر، اسکول یا کہیں اور گیا ہوا ہو … تب کیا ہو گا؟ میں کیا کروں گی؟مالک یا مادام ضرور پولیس کو بلائیں گی اور وہ لوگ ان پولیس والوں کو بھیجیں گے جو وردی نہیں پہنتے ہیں اور سادہ لباس میں عام لوگوں کی طرح گھومتے پھرتے ہیں … جو ایک نظر تمھارے چہرے پر ڈالیں گے اور انھیں پتا چل جائے گا کہ چوری تم نے کی ہے۔ میں خوف سے کانپنے لگی۔ مجھے رونا آ رہا تھا کیوں کہ میں جیل جانا نہیں چاہتی تھی۔
٭٭
میں یہ سوچتے ہوئے گھر میں داخل ہوئی کہ ابھی کوئی مجھ سے پوچھ بیٹھے گا ’’ کمفرٹ ! وہ تیس نائرا کیا ہوئے؟‘‘ لیکن کسی نے نہیں پوچھا؛سارا گھر اتناپرسکون تھاجیسے بالکل خالی ہو۔ تبھی میں نے سیلینا کو دیکھا جو کیلی کے کمرے سے نکل رہی تھی۔
’’تم!‘‘میں چلائی، ’’ کیا میں نے تمھیں نہیں کہا تھا کہ تم کیلی کے کمرے میں نہیں جاؤ گی، چڑیل۔ ‘‘
’’ میں جہاں چاہوں جا سکتی ہوں۔ ‘‘ اس نے بڑے اعتماد بھرے لہجے میں کہا ’’ اور میں کہاں کہاں جاتی ہوں یہ دیکھنا تمھارا کام نہیں۔ ‘‘
’’ اپنی زبان کو لگام دو، ورنہ میں ایک طمانچے میں تمھارے دماغ میں بھرا خناس نکال دوں گی۔ ‘‘
’’ کوشش کر کے دیکھو۔ ‘‘ اس نے مجھے خونی نظروں سے دیکھتے ہوئے اور اپنی مٹھی کو گھونسے کی شکل میں باندھتے ہوئے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
میں اسے چند طمانچے لگانا چاہتی تھی لیکن مجھے لگا کہ یہ اس کام کا صحیح موقع نہیں تھا کیوں کہ ابھی میرے پاس بالیاں اور نائرا تھے جو لڑائی جھگڑے میں ظاہر ہو سکتے تھے۔ ٹھیک ا سی وقت کیلی نے اپنے کمرے سے سر باہر نکالا اور بولا ’’ تم دونوں کس بات کے لیے لڑ رہی ہو؟ کمفرٹ ! اسے کچھ مت کہو۔ اسے میں نے اپنا کمرہ صاف کرنے کے لیے بلایا تھا۔ ‘‘
٭٭
میں اس رات اس کے کمرے میں اسے بالیوں کے بارے میں بتانے کے لیے گئی۔ میں نے جب اسے یہ بتایا کہ میں انھیں دیکھ کر خریدنے کے لیے کس قدر بے قرار ہو اٹھی تھی تو وہ ہنس پڑا۔ اس نے مجھے انھیں پہننے کے لیے کہا۔ میں نے بالیاں پہنیں اور اس کی میز کے سامنے لگے آئینے میں خود کو ستائشی نظروں سے نہارنے لگی۔ تم وعدہ کرو، کہ اب میں جو کچھ تمھیں بتانے والا ہوں، تم اس کا ذکر کبھی کسی سے نہیں کرو گی۔ جب میں آئینے میں خود کو نہار رہی تھی، وہ میرے پیچھے آیا اور میرے پیٹ کو سہلانے لگا۔ دھیرے دھیرے اس کے ہاتھ میری چھاتیوں تک پہنچ گئے۔ ہاں !اس نے سچ مچ انھیں چھوا تھا۔ کیلی واقعی جنگلی ہے۔ میں نے اس سے التجا کی ’’ پلیز کیلی ! ایسا مت کرو۔ یہ غلط ہے‘‘، لیکن وہ کہاں سننے والا تھا ’’کیلی رک جاؤ، یہ گناہ ہے۔ ‘‘ میں چیخی۔ اچانک وہ رک گیا۔ ہم دونوں وہاں ایک دوسرے سے نظریں چرائے کھڑے تھے۔ یہ پہلا موقع تھا جب اس نے میرے ساتھ ایسی حرکت کرنے کی کوشش کی تھی۔ مجھے پتا ہے کہ میں صحت مند اور متناسب الاعضا ء ہوں تبھی تو جب میں زمین سے کچھ اٹھانے کے لیے جھکتی ہوں تو گھر کے سارے نوکر چور نگاہوں سے میری طرف دیکھتے رہتے ہیں، لیکن مجھے یہ پتا نہیں تھا کہ کیلی بھی مجھے ایسی نظروں سے دیکھتا ہے۔
٭٭
ایک طویل شرمسار سی خاموشی کے بعد، اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور دس نائرا نکال کر میری طرف بڑھائے۔
’’ یہ لو۔ ‘‘ اس نے کہا۔
’’ کیوں ؟تم مجھے سمجھتے کیا ہو؟ ‘‘ میں چلائی۔
’’ ارے یہ لے لو۔ یہ اس رقم کا ہی حصہ ہے جو ممی کے ذمہ باقی ہے۔ اس لیے اسے لے لو۔ بے وقوف مت بنو۔ ‘‘وہ بولا۔
’’ تم خود بے وقوف مت بنو۔ میں یہ نہیں لوں گی۔ ‘‘ میں نے غصے میں کہا اور کمرے سے نکل گئی، لیکن بعد میں میں نے وہ رقم لے لی۔ کیوں کہ وہ میرے پیچھے پیچھے ہر جگہ گیا اور مجھے رقم لینی ہی پڑی۔ اس نے مجھے اسے لینے پر مجبور کر دیا تھا۔ اور اگر تم سچائی جاننا چاہتی ہو ( کیوں کہ تمھارا دماغ ہمیشہ برے نتائج ہی اخذ کرتا ہے)تو … ہم نے ایک دوسرے کی قربت کا یہ کھیل پھر کھیلا۔ کئی بار کھیلا۔ میں تمھیں اس سے زیادہ نہیں بتا سکتی، بس اتنا یاد رکھنا کہ میں ایک اچھی لڑکی ہوں اور میں نے ان معاملات کے لیے کچھ حدود مقرر کر رکھے ہیں جن سے آگے کبھی نہیں بڑھتی۔
٭٭
مادام کے واپس لوٹنے سے کچھ پہلے ہی کیلی کو آیمو صوبے میں اوویری نامی قصبے میں بھیج دیا گیا جہاں اس کے چچا ایک سیکنڈری اسکول میں ٹیچر ہیں۔ یہ آدمی کیلی کے باپ کا بھائی ہے، اور ڈسپلین کے معاملے میں اتنا سخت ہے کہ کیلی جیسے جوان لڑکوں پر بھی بید برسانے سے گریز نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کیلی کے باپ نے اسے وہاں بھیجا ہے۔ اگر اس کا وہ چچا اسے کتابیں پڑھنے پر مجبور نہیں کر سکا، دنیا میں کوئی دوسرا نہیں کر پائے گا۔
٭٭
مادام کے لوٹنے اور تحفوں کی تقسیم کے بعدسے (جن میں جیسا کہ میں بتا چکی ہوں، میرے لیے کچھ نہیں تھا) چند دنوں قبل تک سب کچھ معمول کے مطابق رہا۔ اس دن میں کچن میں کھانا پکا رہی تھی اور سیلینا مادام کے کمرے میں ان کے ساتھ تھی۔ شاید وہ اپنے لباس کو ٹھیک کر رہی تھی تبھی کچھ رقم اس میں سے نکل کر زمین پر گر پڑی۔ بے وقوف لڑکی رقم وہاں رکھ کر بھول گئی تھی۔
’’ سیلینا ! یہ دس نائرا تمھیں کہاں سے ملے؟ ‘‘مادام نے سرد لہجے میں پوچھا۔
’’ یہ میرے دس نائرا ہیں۔ ‘‘ جب میں نے اس کی آواز سنی تو میں نے سوچا کہ شاید کمبخت میرے صندوق سے میری رقم لے اڑی ہے۔ میں ان کی باتیں سننے کے لیے اور قریب ہو گئی۔
’’ سیلینا ! میں پوچھ رہی ہوں تمھیں یہ دس نائرا کہاں سے ملے؟ کیا شیطان تمھاری زبان کاٹ لے گیا؟ اس سے پہلے کہ میں تھپڑ مار مار کر تمھیں بولنے پر مجبور کر دوں … خود ہی بتا دو۔ ‘‘
’’ میں نے انھیں سڑک پر پایا تھا۔ ‘‘
’’جھوٹی(چٹاخ!)جھوٹی(چٹاخ!چٹاخ!)میں نے دیکھا ہے کہ میری تجوری سے کچھ رقم غائب ہے۔ تم نے یہ وہیں سے حاصل کیے ہیں۔ بولوسچ ہے یا نہیں ؟ … بولو(چٹاخ!) بولو، … احسان فراموش لڑکی … میں نے تمھیں غریبی کے دلدل سے نکال کر یہاں سہارا دیا۔ کیا میں تمھاری ماں کو پابندی سے رقم نہیں بھیجتی ہوں ؟ پھر تم نے میری رقم کیوں چرائی؟ ‘‘
’’ مادام مجھے معاف کر دیجیے … کیلی نے مجھے یہ رقم دی تھی … یہ مجھے کیلی نے دی تھی۔ ‘‘
’’ ہاں ہاں … ضرور … اب میرے بیٹے پر الزام لگاؤ۔ کیوں کہ وہ اپنی صفائی دینے کے لیے یہاں موجود نہیں ہے … کیلی تمھیں دس نائرا کیوں دے گا؟ … تم بہت جھوٹی اور چور ہو … میں تمھیں قید کرنے جا رہی ہوں … کمرے میں جاؤ اور وہیں رہو … آج تمھیں کھانا نہیں ملے گا … اور کل میں تمھیں تمھارے گھر بھیج دوں گی۔ ‘‘
٭٭
یہ سن کر میرا جسم ایسے کانپنے لگا جیسے مجھے ملیریا بخار ہو گیا ہو۔ پہلے میں نے سوچا، سیلینا نے میری رقم چرائی ہے اور اب خدا، ا سے اس کی سزا دے رہا ہے، لیکن بعد میں میں نے اپنے دماغ میں کچھ حساب کتاب کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا:اگر اس نے میرے صندوق سے رقم چرائی تھی تو پھر پکڑے جانے پر اس نے میرا نام کیوں نہیں لیا؟ میں با آسانی پھنس جاتی اور وہ بچ جاتی۔ اس لیے ممکن ہے وہ سچ بول رہی ہو، ممکن ہے کیلی نے ہی اسے یہ رقم دی ہو۔ مجھے فوراً جا کر دیکھنا چاہیے کہ میری رقم اب تک میرے صندوق میں ہے یا نہیں۔ اس ارادے سے میں جیسے ہی کچن سے نکلی، مادام کی آواز سنائی دی، ’’ کمفرٹ!‘‘میرا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا۔ ’’آئی مادام۔ ‘‘ میں بولی اور اس کے کمرے کی طرف دوڑ پڑی میرا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔
٭٭
’’پکانے کا کام چھوڑ دو۔ ‘‘ وہ بولیں ’’اور ماما موزز کے پاس جاؤ اور اس کے پاس سے رتالو لے آؤ جو وہ میرے لیے اباکا لیکی سے لے کر آئی ہے۔ جلدی جاؤ تاکہ تم سُوپ تیار ہونے سے قبل واپس آ سکو۔ تب تک میں سُوپ کا خیال رکھوں گی۔ ‘‘
میں جس قدر تیزی سے ممکن ہوسکا، گھر سے نکلی۔ باہر آ کر میں نے اطمینان کی ایک طویل سانس خارج کی، لیکن راستے میں میری پریشانی پھر عود کر آئی۔ کیا وہ میری رقم تھی ؟ اگر نہیں تھی تب بھی میں مشکل میں پڑ سکتی ہوں کیوں کہ اب یہ بات صاف ہو چکی ہے کہ کیلی نے وہ رقم مادام کی تجوری سے چرا کر مجھے دی تھی۔ کیا مجھے اس بات کا اظہار کر کے سیلینا کو بچانا چاہیے؟حقیقتاً وہ کوئی بری لڑکی نہیں۔ یہ تو صرف حسد ہے جس نے ہم دونوں کو دشمن بنا رکھا ہے، لیکن اگر میں مادام کو بتا دوں کہ کیلی نے مجھے بھی رقم دی تھی، تو کیا وہ یقین کریں گی؟ وہ اس کے بارے میں کچھ بھی برا نہیں سننا چاہتی ہیں، اس لیے عین ممکن ہے کہ وہ یہ سمجھ بیٹھیں کہ میں نے سیلینا کے ساتھ مل کر یہ چوری کی ہے اور اب بچنے کے لیے ان کے بیٹے پر الزام لگا رہی ہوں کیوں کہ وہ گھر پر نہیں ہے۔ میں ان سے کہہ سکتی ہوں کہ وہ کیلی کو خط لکھ کر یہ اطمینان کر لیں اس نے ہمیں رقم دی ہے یا نہیں، لیکن میں جانتی ہوں کہ مادام اپنی خادماؤں کے لیے اتنا کبھی نہیں کریں گی۔ انھیں نئی خادمائیں آسانی سے دستیاب ہو جائیں گی۔ اور اس کے علاوہ مجھے یہ بھی پتا تھا کہ وہ پہلے ہی سے مجھے برخواست کرنے کے لیے کسی بہانے کی تلاش میں ہیں۔
٭٭
جب میں ماما موزز کے پاس سے رتالو لے کر لوٹی تو یہ خیالات میرے دماغ میں بڑی بڑی گندی مکھیوں کی طرح بھنبھنا رہے تھے۔ جب میں کچن میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ سیلینا سُوپ کی دیگچی کے پاس بیٹھی چمچے سے اسے چلا رہی تھی۔
’’تم باہر آ گئیں ! ‘‘میں نے لمبی سانس چھوڑتے ہوئے کہا۔
’’ ہاں !آ گئی۔ ‘‘ وہ بولی ’’ تم تو یہی سوچ رہی تھیں نا کہ آج میں گئی … کیوں … تمھاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ خدا مجھ جیسے بے گناہوں کو سزا سے بچا لیا کرتا ہے۔ ‘‘
بعد میں مجھے پتا چلا کہ اوبیا گیلی جب اسکول سے لوٹی تو اس نے سیلیناکو قید میں پایا۔ اس نے وجہ معلوم کی۔ جب مادام نے اسے بتایا تو وہ بہت ہنسی اور بولی کہ سیلینا شاید سچ ہی بول رہی ہے کیوں کہ مادام جب لاگوس میں تھیں تو اس نے کیلی کو مادام کی تجوری سے رقم نکالتے ہوئے پکڑا تھا۔ سیلینا کو ایک سخت تنبیہ کے بعد آزاد کر دیا گیا تھا کہ وہ آئندہ گھر کے کسی بھی فرد سے یہ جانے بغیر رقم قبول نہیں کرے گی کہ رقم کہاں سے آئی ہے۔ یہ سب سن کر شاید سب سے زیادہ اطمینان مجھے ہوا۔ میں نے دیکھا کہ میرے دس نائرا میرے صندوق میں بدستور موجود ہیں۔ اس دن میں نے آئندہ کے لیے یہ طے کر لیا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے میں اس رقم کی کسی کو ہوا بھی نہیں لگنے دوں گی۔
٭٭
اب سب کچھ معمول کے مطابق ہے، سوائے سیلینا کے۔ وہ آج کل زیادہ تر روتی رہتی ہے؛ اس کا رنگ پہلے کے مقابلے نکھرتا جا رہا ہے اور اس کی چھاتیاں بڑی ہوتی جا رہی ہیں۔
Original Story : The House girl
By : Okey Chigbo (Nigeria)
وہ آدمی
کانگو
نہیں ! … اس بار وہ نہیں بچ سکے گا! آخر کار اڑتالیس گھنٹوں کے بعد اس کا پتا لگا لیا گیا تھا۔ وہ جن راہوں سے گزرا تھا ان کا سراغ مل چکا تھا، اور وہ گاؤں، جہاں وہ چھپا ہوا تھا، اس کی نشاندہی ہو چکی تھی۔ اس دوران اس کی موجودگی کے کتنے ہی غلط سراغ ہاتھ لگے تھے۔ اسے بیک وقت لاتعداد مقامات پر دیکھا گیا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی مافوق الفطرت ہستی ہو اور بیک وقت ہر جگہ موجود ہو۔ یہ سمجھا جا رہا تھا کہ سرگرم انتہا پسند اسے بچا کر ملک کے مرکز کی جانب لے گئے ہیں۔ اس کی گرفتاری کے لیے جس گشتی دستے کو شمالی دلدلی علاقے میں پیرا شوٹ کی مدد سے اتارا گیا تھا اس کا دعویٰ تھا کہ اسے بری طرح زخمی کر دیا گیا ہے حالاں کہ اس بات کا واحد ثبوت محض خون کے چند دھبے تھے جو پہاڑی درے میں جا کر غائب ہو گئے تھے۔ سرحدی فوجیوں کا کہنا تھا کہ انھوں نے اسے گولی مار دی تھی جب وہ ایک چھوٹی سی کشتی میں فرار ہو رہا تھا، بدقسمتی سے کشتی ڈوب گئی اور اس کی لاش نہیں مل سکی، لیکن بعد کی تحقیقات سے یہ سارے دعوے غلط ثابت ہوئے تھے۔ پولیس جو پہلے ہی سے کافی چوکس تھی اسے اور بھی چوکس کر دیا گیا تھا۔ مسلح افواج کی تازہ دم ٹکڑیاں تعینات کی گئی تھیں اور فوج کو اس معاملے میں مکمل اختیارات دے دیے گئے تھے۔ فوجی شہر کے مزدوروں کے کوارٹروں میں داخل ہو گئے تھے، انھوں نے مکانات کے دروازے توڑ ڈالے، اپنی سنگینوں سے روئی اورگھاس سے بھرے گدوں کو چھید ڈالا۔ اناج سے بھرے بستوں کو کاٹ کر کھول ڈالا۔ جو بھی ان کے سوالات کے جواب دینے میں ذرا بھی ہچکچایا اسے اپنی رائفلوں کے کندوں سے بری طرح پیٹ ڈالا اورجس نے بھی اپنے گھر کی تباہی پر احتجاج کیا اسے بھی کاٹ کر رکھ دیا، لیکن ان ساری سخت ترین کاروائیوں کا نتیجہ صفر ہی رہا۔ سارے ملک پر خوف و ہراس کے سایے منڈلاتے رہے۔ نہ جانے وہ کہاں چھپا ہوا تھا؟
یہ ایک تقریباً ناممکن قتل تھا کیوں کہ بابائے قوم، عوام کا نجات دہندہ، عظیم رہنما، تاحیات صدر ِ مملکت اور فوجوں کا کمانڈر اِن چیف ایک عظیم الشان محل میں رہتا تھا۔ جہاں تک عام شہریوں کی رسائی ناممکن تھی۔ محل کے گرد کئی دائروں کی صورت میں جو حفاظتی حصار قائم تھے وہ ناقابلِ عبور تھے۔ حصاروں کا یہ نظام ایک اسرائیلی پروفیسرکی نگرانی میں تیار کیا گیا تھا جو فنونِ جنگ اور انسداد دہشت گردی میں کئی ڈگریاں حاصل کر چکا تھا۔ محل سے پانچ سو گز کی دوری پر ہتھیار بند کمانڈوز ایک دوسرے سے دس گز کے فاصلے پر دائرے کی صورت میں کھڑے رہتے تھے۔ کمانڈوز کا دوسرا حصار دوسو گز اور تیسرا حصار سو گز کی دوری پر قائم تھا۔ محل کے گرد پانی سے بھری ایک کافی گہری خندق تھی جس میں افریقی گھڑیال، اور وسطی امریکہ سے لائے گئے خوفناک مگر مچھ تیرتے رہتے تھے۔ انھیں کبھی بھی پیٹ بھر غذا نہیں دی جاتی تھی … خاص طور سے ملک میں اکثر ہونے والی ہر حقیقی یا فرضی بغاوت کو فرو کرنے کی مہمات کے دوران۔ اس خندق کے بعد ایک اور نسبتاًکم گہری خندق تھی جس میں بے شمار سیاہ اور سبز ممبا سانپ بھرے ہوئے تھے، جن کا زہر اپنے شکار کو چشمِ زدن میں ہلاک کر دیا کرتا تھا۔ محل کے گرد اینٹوں اور پتھروں سے بنی ایک ساٹھ فٹ اونچی چہار دیواری تھی جو زمبابوے کے کھنڈرات کی دیواروں کی یاد دلاتی تھی۔ دیوار پر واچ ٹاور تھے، سرچ لائٹیں تھیں، کیلیں تھیں، کانٹے دار تار اور کانچ کے نوکدار ٹکرے تھے۔ محل میں داخل ہونے کا واحد ذریعہ دو عظیم دروازے تھے، جو ان خندقوں کے لیے پُلوں کا کام بھی کرتے تھے۔ انھیں صرف محل کے اندر سے ہی کھولا اور بند کیا جا سکتا تھا۔ اور پھر محل … جہاں عوام کا مسیحا رہا کرتا تھا … اس میں ڈیڑھ سو کمرے تھے اور ہر کمرے میں بے شمار بڑے بڑے آئینوں کا ایسا نظام تھا جو ہر شخص کی ہلکی سے ہلکی حرکت کو بھی ظاہر کر دیتا تھا اور وہاں کسی کی نظر بچا کر کچھ بھی کر لینا، ناممکن تھا۔ کوئی بھی ملاقاتی ان آئینوں کے جال میں پھنس کر پریشان ہو جا تا تھا کہ اس کی ہر حرکت مختلف زاویوں سے دیکھی جا رہی ہے۔ حرکت خواہ جتنی بھی ہلکی ہوتی، کسی صدائے باز گشت کی طرح، ایک آئینے سے دوسرے آئینے کا سفر کرتی ہوئی آخر کار سب سے بڑے آئینے یعنی آقا کی آنکھوں تک پہنچ جاتی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جیسے وہ اپنی جگہ پر بیٹھا ساری کائنات کو دیکھ رہا ہو۔ کسی کو پتا نہیں تھا کہ قوم کا مسیحا کس کمرے میں سوتا ہے۔ یہاں تک کہ ان تیز طرار طوائفوں کو بھی اس بات کا پتا نہیں ہوتا تھا جنھیں وہ اپنی غیر فطری جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے لگاتار کئی کئی راتیں اپنے پہلو میں رکھتا تھا اور نہ ہی ان معصوم دوشیزاؤں کو کچھ پتا ہوتا تھا جن کی دوشیزگی سے کھیلنا اس کی پسندیدہ عادت تھی، لیکن اگر ایک طرف بابائے قوم، عوام کا نجات دہندہ، عظیم رہنما، تا حیات صدر ِ مملکت اور فوجوں کا کمانڈر اِن چیف جسمانی طور پر کسی کو دکھائی نہیں دیتا تھا تو دوسری طرف وہ ہر وقت ہر جگہ موجود تھا۔ قانون کے مطابق عوام کے لیے یہ ضروری تھا کہ اس کی تصویر ہر گھر میں لگائی جائے۔ ریڈیو کی نشریات کی شروعات اور اختتام اس کے اقوال زریں سے ہوا کرتے تھے۔ ٹیلی ویژن کی خبریں اس کی تصاویر کے ساتھ ہی شروع ہوتیں اور پھر اختتام تک یہی چلتا رہتا، اور واحد مقامی اخبار کے ہر شمارے کے کم از کم چار صفحات ان فرضی خطوط سے بھرے ہوتے، جن میں ملک کے شہری اس کے لیے اپنی محبتوں کا اظہار کیا کرتے۔
اور ان تمام حفاظتی اقدامات کے باوجود اس نے اسے قتل کر دیا تھا۔ وہ نہ جانے کیسے کمانڈوز، گھڑیالوں اور ممبا سانپوں سے بچتا ہوا محل میں داخل ہو گیا تھا۔ وہ آئینوں کے جال سے بھی بچ نکلا تھا اور بابائے قوم کو کسی عام انسان کی طرح قتل کر ڈالا تھا۔ پھر اس نے واپسی کا سفر شروع کیا اور ایک بار پھر واچ ٹاوروں، سیاہ اور سبز ممبا سانپوں، گھڑیالوں اور کمانڈوز سے بچتا ہوا صاف نکل گیا تھا۔ اور اب اڑتالیس گھنٹے گزر چکے تھے مگر وہ اب بھی آزاد تھا۔
… اور تبھی ایک افواہ پھیلی … کسی کو نہیں معلوم کہ اس کی شروعات کیسے ہوئی … کہ اس کا سراغ مل گیا ہے … و۔ ہ جن راہوں سے گزرا تھا ان کا پتا چل چکا ہے اور وہ گاؤں جہاں وہ چھپا ہوا ہے اس کی نشاندہی ہو چکی ہے … وہ گھر چکا ہے … اس بار وہ نہیں بچ پائے گا۔
بکتر بند گاڑیاں، جیپیں، اور فوجیوں سے بھری لاریاں صبح کے تین بجے ہی چل پڑیں۔ ٹینکوں نے راستے میں آنے والے گاؤں کے مکانات کے گرد گھوم کر جانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ وہ راہ میں آنے والے مکانات کو مسمار کرتے ہوئے چلے جا رہے تھے۔ ظاہر ہے۔ ۔ ۔ ۔ دو مقامات کے درمیان خط مستقیم سب سے کم دوری رکھتا ہے۔ اپنے پیچھے جلتے ہوئے گاؤوں کو چھوڑ وہ کر آگے بڑھتے جا رہے تھے، فصلیں تباہ ہو چکی تھیں اور بے شمارلاشیں ٹینکوں کے زنجیر نما پہیوں سے بننے والے گڈھوں میں پڑی ہوئی تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی فاتح ملک کی فوجیں ہوں جو مفتوح کو بری طرح کچلتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہوں۔ آخر کار وہ اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ انھوں نے اپنی رائفلوں کے کندوں سے گاؤں والوں کو جگایا۔ انھوں نے ہر طرف تلاشی لی، اناج کی کوٹھریوں کو خالی کر ڈالا۔ درختوں اور جھاڑیوں کو کھنگالا، لیکن وہ شخص انھیں نہیں ملا جس کی انھیں تلاش تھی۔ دستے کا کمانڈر بہت برہم تھا اور ایسا لگتا تھا جیسے اس کی ہلمٹ میں لگی زنجیر نیچے اس کی موٹی گردن پھول کر ابھی پھٹ جائے گی۔
’’ میں جانتا ہوں، وہ یہیں ہے … وہ کمینہ جس نے ہمارے پیارے بابائے قوم کو قتل کیا ہے … بابائے قوم جو ہمارے قومی ہیرو کے طور پر ہمیشہ زندہ رہے گا … میں جانتا ہوں کہ وہ بد ذات داڑھی والا اور یک چشم ہے۔ اگر تم نے دس منٹ کے اندر یہ نہیں بتایا کہ وہ کہاں چھپا ہوا ہے تو میں تمھارے سارے گھر جلا ڈالوں گا۔ میں تم میں سے کسی بھی ایک کو پکڑوں گا اور اسے بری طرح ٹارچر کر کے گولی مار دوں گا۔ ‘‘
دس منٹ ایک خوفزدہ سی خاموشی کے سایے میں گزر گئے ایسی خاموشی جیسی شاید کائنات کی ابتدا سے پہلے تھی۔ پھر فوجیوں کے کمانڈر نے انتقامی کاروائی کے آغاز کا اشارہ کر دیا۔ کچھ فوجیوں نے گاؤں والوں میں سے چند کو پکڑ کر الٹا لٹکا دیا اور بری طرح پیٹنے لگے، دوسرے فوجی ان کے زخموں پر لال مرچیں لگانے لگے جب کہ کچھ نے انھیں گائے کا تازہ گوبر کھانے پر مجبور کیا، لیکن گاؤں والے اس شخص کا نام نہیں بتا رہے تھے۔ آخر، فوجیوں نے گاؤں کے تمام مکانات جلا ڈالے، فصلوں کو بھی نہ چھوڑا۔ ایک ایسا ملک جہاں کے لوگوں کو بڑی مشکلوں سے دو وقت کاکھانا نصیب ہوتا تھا، وہاں سال بھر کی محنت کو یوں آگ کی نذر کر ڈالا گیا، لیکن گاؤں والوں نے اب بھی اس شخص کے بارے میں نہیں بتایا۔ دراصل ان کی خاموشی کا راز بس اتنا ہی تھا کہ وہ بے چارے جانتے ہی نہیں تھے۔ انھیں سچ مچ یہ پتا نہیں تھا کہ یہ کارنامہ کس نے انجام دیا ہے۔
اس شخص نے اکیلے ہی یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔ اس نے مہینوں اس سلسلے میں تیاریاں کی تھیں۔ پڑھا تھا، تحقیق کی تھی اور منصوبہ بندی کی تھی۔ پھر اس نے ایک نقلی داڑھی لگائی اور اپنی ایک آنکھ پر ڈاکوؤں جیسی سیاہ پٹی لگائی۔ اس نے پتا لگا لیا تھا کہ کیسے اس محل میں داخل ہو کر اس آمر کو قتل کیا جا سکتا ہے۔ اس نے یہ کام اتنی آسانی سے کیا تھا کہ اس نے اپنے آپ سے یہ عہد کیا تھا کہ وہ یہ راز کسی کو بھی نہیں بتائے گا، سخت سے سخت تشدد کی حالت میں بھی نہیں۔ تاکہ وہ طریقہ کبھی پھر استعمال کیا جا سکے۔ وہ اپنے گاؤں میں فوجیوں کو دیکھ کر سخت حیران ہوا تھا۔ لیکن کیا ان لوگوں نے سچ مچ اسے پہچان لیا تھا یا وہ صرف یونہی ہانک رہے تھے۔ صاف ظاہر تھا۔ ۔ ۔ ۔ ان لوگوں کو یہ پتا نہیں تھا جس کی تلاش میں وہ ہیں، وہ کون ہے۔ وہ تو ان کے سامنے کھڑا تھا اپنے گاؤں والوں کے ساتھ جن کو یہ بالکل ہی معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا کر آیا ہے۔ وہ وہیں کھڑا تھا، کلین شیو اور اپنی دونوں آنکھوں کے ساتھ۔ ۔ ۔ ۔ اس انتظار میں کہ آگے نہ جانے کیا ہونے والا تھا۔
گاؤں والوں کی خاموشی نے فوجیوں کے کمانڈر کو بے حد غضب ناک کر دیا تھا۔ ’’ میں آخری بار کہہ رہا ہوں۔ اگر تم نے نہیں بتایا کہ وہ منحوس یک چشم، جس نے ہمارے پیارے رہنما کو قتل کیا ہے، کہاں چھپا ہوا ہے تو میں تم میں سے کسی بھی ایک شخص کو گولی سے اڑا دوں گا۔ میں تمھیں پانچ منٹ دیتا ہوں۔ ‘‘
اس نے غصے میں دانت پیستے ہوئے اپنی کوارٹز گھڑی کی جانب دیکھا۔ دو منٹ۔ ۔ ۔ ۔ ایک منٹ … تیس سیکنڈ … ۔
’’ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کمانڈر صاحب ‘‘، گاؤں کے مکھیا نے فریاد کی، ’’ ہم اسے نہیں جانتے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ اس گاؤں میں نہیں ہے۔ ‘‘
’’یہ تمھارے لیے برا ہے۔ میں اب کسی بھی ایک شخص کو پکڑوں گا اور اسے گولی مار دوں گا۔ شاید تم میری بات اچھی طرح سمجھ رہے ہو … اے تم! ‘‘
کمانڈر اسی کی طرف اشارہ کر ر ہا تھا۔ اسے حیرت نہیں ہوئی۔ اسے تو اپنا انجام معلوم تھا۔ شاید اندر سے وہ یہی چاہتا بھی تھا۔ کیوں کہ اگر اس کی جگہ کسی اور کو مارا جاتا تو شاید وہ عمر بھر سکون سے نہیں رہ پاتا۔ وہ خوش تھا کہ وہ اپنے راز کو اپنے ساتھ لے کر مر رہا ہے۔
’’ تمھارے مکھیا اور گاؤں والوں کی بے وقوفی پر تمھیں بے موت مر نا پڑے گا … اسے ایک درخت سے باندھ دو اور شوٹ کر دو۔ ‘‘
وہ اسے ٹھوکروں اور رائفل کے کندوں سے مارنے لگے۔ انھوں نے اسے اپنی سنگینوں سے چھید ڈالا۔ وہ اسے زمین پر گھسیٹ کر ایک آم کے درخت تک لائے اور باندھ دیا۔ اس کی بیوی اس سے لپٹ گئی لیکن چار فوجیوں نے بڑی بے رحمی سے اسے کھینچ کر الگ کر دیا۔
’’ آخری بار میں پوچھ رہا ہوں … مجھے بتا دو کہ وہ قاتل کہاں چھپا ہے۔ ‘‘
’’ میں نہیں جانتا … کمانڈر۔ ‘‘ مکھیا گڑگڑایا۔
’’فائر !!!‘‘
اس کا سینہ ہلکا سا آگے کی طرف اچھلا اور پھر وہ بنا کسی آواز کے جھول گیا … اب وہ لوگ اسے کبھی نہیں پا سکیں گے۔
دھواں چھٹ گیا۔ گاؤں والے گہری خاموشی میں ڈوبے ہوئے تھے اور رسیوں میں بندھے اس کے مردہ جسم کو تکے جا رہے تھے۔ کمانڈر اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنا نے کے بعد ان کے سامنے کھڑا تھا۔ وہ جھجکا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اب انھیں کس بات کی دھمکی دے۔ اپنے اندرونی خوف کو چھپاتے ہوئے اس نے محض اپنی وردی میں لگے تمغوں کی لاج رکھنے کے لیے دہاڑا۔
’’ٹھیک ہے ؟‘‘ اس نے پوچھا۔
اس کی اس چیخ سے غم میں ڈوبے گاؤں والوں کو ایک بار پھر اس کی موجودگی کا احساس ہوا۔
’’ کیا ٹھیک ہے! ‘‘ گاؤں کا مکھیا غرایا۔ ’’ میں نے تم کو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ہمیں اس آدمی کا پتا نہیں ہے جسے تم ڈھونڈ رہے ہو۔ تم نے ہماری بات پر یقین نہیں کیا اور ہمارے ایک آدمی کو خواہ مخواہ مار ڈالا۔ اب میں اور کیا کہہ سکتا ہوں ؟‘‘
کمانڈر کو کوئی جواب نہیں سوجھ رہا تھا۔ وہ ہلکے ہلکے ہلنے لگا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آگے کر نا کیا ہے۔ آخر، اس نے اپنے فوجیوں کو حکم دیا۔
’’ اٹینشن ! … فارم اَپ! … شکار جاری رہے گا۔ وہ کمینہ دوسرے گاؤں میں چھپا ہو سکتا ہے۔ ہمارے پاس برباد کرنے کے لیے وقت نہیں ہے۔ آگے بڑھو !‘‘
پھر، گاؤں والوں کی طرف مڑتے ہوئے، وہ چیخا’’ ہم اسے ڈھونڈ نکالیں گے۔ کتے کا بچہ، وہ جہاں کہیں بھی ہو گا، ہم اسے ڈھونڈ لیں گے۔ ہم اس کے کان اکھاڑ لیں گے، اس کے ناخنوں کو اکھیڑ ڈالیں گے، اس کی آنکھیں نکال لیں گے، ہم اس کی بیوی، اس کی ماں اور اس کے بچوں کے سامنے اسے ننگا کر کے پھانسی پر لٹکائیں گے، اور اس کے بعد اس کی لاش ہم کتوں کو کھلا دیں گے، یہ تم سے میرا عہد ہے۔ ‘‘
جیپیں اور ٹینک اس کی تلاش میں کسی اور گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے۔
وہ لوگ اب بھی اسے تلاش کر رہے تھے۔ اس کی موجودگی کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے تھے، وہ کہیں چھپا تھا؟ مگر کہاں ؟ آمریت کی چکی میں پسے ہوئے لوگ کانپ اٹھتے، جب بھی کہیں ’اس آدمی‘ کا ذکر ہوتا۔ حالاں کہ پورے ملک پر پولیس کا عتاب پہلے سے زیادہ ہو گیا ہے … پورے ملک میں جاسوسوں، مخبروں اور پیشہ ور قاتلوں کا جال بچھا ہوا ہے … اور حالاں کہ نئے صدر مملکت، دوسرے بابائے قوم نے اپنی حفاظت کے لیے صرف اپنے قبیلے کے لوگوں پر بھروسا کیا ہے … اس کے باوجود وہ باہر نکلنے سے ڈرتا ہے۔ اس نے اپنے بارے میں مشہور کر رکھا ہے کہ وہ اَمَر ہے اور اسے قتل نہیں کیا جا سکتا ہے … لیکن اس کے باوجود وہ اپنے محل کے اندرونی حصوں میں محدود رہتا ہے کیوں کہ وہ نہیں جانتا کہ کب ’وہ آدمی‘ آ جائے گا اور اسے قتل کر دے گا تاکہ آزادی جو برسوں پہلے سلب ہو چکی ہے واپس مل سکے۔
’’ وہ آدمی‘‘ … قوم کی امید … ایک ایسا آدمی جو ’نہیں ‘ کہنا جانتا ہے۔
Original Story : The Man
By : E. B. Dongala (Congo)
کوڑے کا ڈھیر
مالاوی
لڑکا زمین پر اکڑوں بیٹھا ایک چھوٹی سی کھلونا کار پر جھکا ہوا تھا۔ کار کی باڈی کارڈ بورڈ کے مستطیل ٹکروں سے بنی تھی جو بے شمار مڑے تڑے تاروں کے درمیان پھنسایے گئے تھے۔ اس کے پہیے جوتے پالش کے خالی ڈبوں سے بنے تھے۔ اسٹیرنگ راڈ کے طور پرسرکنڈے کا ایک لمبا ٹکڑا استعمال کیا گیا تھاجس کے آخر میں بے بی پاؤڈر کے خالی ڈبے کا ڈھکن لگا ہوا تھا۔
لڑکے کا انہماک اس کے چہرے سے ظاہر تھا۔ منھ سختی سے بند تھا، ناک سکڑی ہوئی تھی، پیشانی پر بل پڑے تھے اور آنکھیں مِچی ہوئی تھیں۔ اس کے ہاتھ بے قراری سے ایک تار کو ٹھیک کرنے میں لگے ہوئے تھے، جو ڈھیلا پڑ گیا تھا۔ چند لمحوں میں آخر، وہ اسے پھر سے ٹھیک کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ایک اطمینان بھری ہنکار کے ساتھ اس نے کار کے پہیوں کو تیزی سے گھمایا اور اس کے ہونٹوں سے ایک گیت پھوٹ پڑا :
ازنگوُ زیروُ
کوپنگا دیگے
سی کانتھوُ کینا
کوما دی کھاما
اس کی باریک اور تیز آواز فضا میں تیرتی چلی گئی اور سول سروس کوارٹرز کئی منٹوں تک اس سے گونجتے رہے۔ گیت کے اس سلسلے کواس کوڑے گاڑی سے نکلنے والی چرچراہٹ، گڑگڑاہٹ اور جھنجھناہٹ کی ملی جلی آوازوں نے توڑا، جو مکانات کے آخری سلسلے سے بیس گز کی دوری پر واقع دھول بھری سڑک سے گزر رہی تھی۔ اس کا گیت جیسے فضا میں لڑکھڑایا اور کمزور ہو کر گر پڑا۔ جیسے جیسے کوڑا گاڑی قریب آتی جا رہی تھی چرچراہٹ، گڑگڑاہٹ اور جھنجھناہٹ کی ملی جلی آوازیں تیز تر ہوتی جا رہی تھیں۔
یہ مزامبیزی تھا۔ اس کے پیٹھ پیچھے سب اسے اسی نام سے پکارتے تھے … مزامبیزی … ہوائی اڈے کا صفائی والا … اپنی کوڑا گاڑی لے کر آ رہا تھا۔
لڑکے نے اپنی کار کو دو ٹوٹی اینٹوں کے درمیان کھڑی کرنے کا کام ترک کر دیا۔ اس کا دل دھک سے ہو گیا جب اسے یاد آیا آج جمعہ کا دن تھا اور آج وہ لندن سے آنے والے بڑے جہاز کو اترتے ہوئے دیکھنا بھول گیا تھا۔ عام طور سے وہ جہاز’چار انجنوں والے ‘ کے نام سے مشہور تھا۔ مزامبیزی اسی جہاز کا کچرا لا رہا تھا، اور اس کا مطلب تھا کہ جہاز اب سے گھنٹوں پہلے اتر چکا تھا۔ اس نے خود کو ملامت کی کہ وہ اپنی بالکونی میں کھڑے ہو کر، دور دیس سے آنے والے، بیش قیمت کپڑوں میں ملبوس مسافروں کو، تھیلے، کیمرے اور ڈھیروں سمجھ میں نہ آنے والی اشیا ء کے ساتھ جہاز سے اترتے ہوئے نہیں دیکھ سکا تھا۔ اب اتنی دیر ہو چکی تھی کہ ہوائی اڈے پر جانا بھی بیکار تھا۔ تمام مسافراب تک اپنی اپنی منزلوں کی طرف روانہ ہو چکے ہوں گے۔ بلکہ اب تک تو اس جہاز سے روانہ ہونے والے مسافر بھی اس میں سوار ہو چکے ہوں گے۔
تبھی ٹیک آف کے لیے تیار جہاز کی لمحہ بہ لمحہ تیز تر ہوتی ہوئی گڑگڑاہٹ کی آواز نے اس کے اس خیال کی تصدیق کر دی۔ لڑکے نے اپنی نگاہیں اس سمت مرکوز کر دیں جدھر سے جہاز کو آسمان پر ابھرنا تھا۔ چند ہی لمحے بعد جہاز کی کانوں کو پھاڑ دینے والی آواز سے اس کے گھر کی ٹین کی چھت اس بری طرح لرزنے لگی جیسے ابھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی۔ کسی بین الاقوامی ہوائی اڈے کے بالکل قریب رہنے کا یہ سب سے بڑا نقصان تھا۔ ہر تھوڑی تھوڑی دیر بعد اترنے اور اڑنے والے جہازوں کے شور سے پیدا ہونے والے ننھے زلزلوں سے اسٹاف کوارٹر لرز اٹھتے تھے، لیکن وہ اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا تھا۔ یہ تیز شور سن کر اس کا دل انسانی عقل و شعور کے لیے استعجاب و احترام کے جذبات سے لبریز ہو اٹھتا تھا، جس نے اتنی بڑی چیز کو آسمان پر اڑنے کی صلاحیت بخشی تھی۔
چند لمحے بعداس کی نگاہیں بادلوں سے آنکھ مچولی کھیلتی، دھیرے دھیرے مدغم ہوتی ہوئی دھوئیں کی نقرئی لکیروں کا پیچھا کر رہی تھیں جو جلد ہی نظروں سے اوجھل ہو گئیں۔ وہ سوچنے لگا کہ آج اس جہاز میں پتا نہیں کون لوگ سوار ہوں گے اور کہاں کہاں جا رہے ہوں گے۔ اس کے باپ نے ایک بار اسے بتایا تھا کہ یہ جہاز انگلینڈ جانے سے قبل جوہانس برگ اور سیلس بری میں رکتا ہے۔ جب وہ پڑھنا سیکھ جائے گا تو ان مقامات کے بارے میں اس کتاب میں پڑھے گا جس کے بارے میں اس کے باپ نے بتایا تھا کہ اس میں دنیا کے تمام مشہور مقامات کے بارے میں درج ہے … بہر حال، یہ نہایت افسوس کی بات تھی کہ آج وہ بالکونی میں نہیں جا سکا تھا۔
کوڑے گاڑی کی کرخت آواز اب بالکل قریب آ چکی تھی۔ اس کی آواز کسی پرانی خستہ حال موٹر سائیکل کی آواز سے ملتی تھی جسے زبردستی اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہو۔ لڑکا اپنی کار دو اینٹوں کے درمیان کھڑی کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ وہ اس راستے کی طرف بڑھ گیا جدھر سے مزامبیزی کو آنا تھا۔ کوڑے کا ڈھیر اس کے گھر سے صرف سو گز کے فاصلے پر واقع تھا۔
’’مارننگ جوائے! ‘‘مزامبیزی نے لڑکے کو پکارا۔
’’مارننگ‘‘جوائے رک کر اس کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگا۔
’’آج تم اسکول نہیں گئے؟‘‘
’’ میری ایک ماہ کی چھٹی ہے۔ ‘‘
’’ بہت خوب۔ ‘‘
’’ کیا لے کر جا رہے ہو؟‘‘
’’ مجھے معلوم نہیں۔ ‘‘مزامبیزی بولا، ’’ممکن ہے الٹیوں میں ڈوبے ہوئے پنیر کے چند ٹکڑے … ۔ ‘‘
جوائے نے الٹیوں کا ذکر سن کر اپنی ناک سکوڑی۔ اس نے سنا تھا کہ جہاز کے مسافر کبھی کبھی پلاسٹک کے تھیلوں میں قے کرتے ہیں، جو انھیں اسی مقصد سے دیے جاتے ہیں۔ جوائے کو حیرت ہوتی تھی کہ آخر ان لوگوں کو جہاز میں اڑتے ہوئے قے کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ؟اس نے اپنے باپ کو شراب پی کر گھر میں قے کرتے دیکھا تھا اور وہ منظر اسے بہت گھناؤنا معلوم ہوا تھا۔
جوائے نے مزامبیزی سے اپنی دوری بر قرار رکھی تھی جو اس کے آگے اپنی اس کھٹارہ گاڑی کو دھکیلتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ اس کی کوڑا گاڑی اس کے وجود کا ہی ایک حصہ معلوم ہوتی تھی۔ جوائے مزامبیزی کا، اس کی کوڑا گاڑی کے بغیر، یا کوڑا گاڑی کا، مزامبیزی کے بغیر، تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ در اصل ایر پورٹ ڈسٹرکٹ میں اپنے والدین کے ساتھ پہلا قدم رکھتے ہی جوائے نے جو پہلا دلچسپ منظر دیکھا تھا اس میں مزامبیزی اور اس کی کوڑا گاڑی دونوں شامل تھے اور اس کے بعدسے اس نے ہمیشہ دونوں کو ساتھ ہی دیکھا تھا۔
شاید وہ کوڑا گاڑی کبھی ایر پورٹ کے دمکتے جہازوں کی طرح ہی دھات کے چمکدار ٹکڑوں سے بنی ہو گی، لیکن یہ بہت پرانی بات تھی۔ اب تو وہ بری طرح زنگ آلود ہو چکی تھی جس پر پنیر اور دوسری سڑی گلی چیزوں کے لاتعداد دھبے موجود تھے۔ اس کا رنگ بگڑ کراب دھات کے اس ٹکڑے جیسا ہو گیا تھا جو برسوں نم زمین میں دفن رہا ہو۔ اس کے پہیے ایک گھسے ہوئے دھرے کے گرد گھومتے تھے۔ یہی وہ مقام تھا جہاں سے چرچراہٹ، گڑگڑاہٹ اور جھنجھناہٹ کی آوازوں کا پریشان کن شور پیدا ہوتا تھا۔ شاید ان آوازوں کو کم کرنے کے لیے گریز کا استعمال کیا گیا تھا لیکن اس کو بھی ایک مدت گزر چکی تھی۔ اب تو صرف گریز کے خشک سیاہ دھبے ہی بطور ثبوت باقی رہ گئے تھے۔
ان دونوں کی جوڑی خوب تھی … وہ دونوں … ایک انسان اور ایک مشین … گزرتے موسموں کے بے شمار نشانات دونوں ہی کے وجود پر ثبت تھے۔ بوڑھے مزامبیزی کے بوسیدہ کپڑے اب اس قابل ہو چکے تھے کہ انھیں اس کے جسم پر نہیں بلکہ کوڑے کے ڈھیر پر ہونے چاہیے تھے۔ اس کی خاکی ہاف پینٹ جو اس کے پھٹے ہوئے اوور آل کے نیچے صاف دکھائی دے رہی تھی، مختلف رنگ کے کپڑوں کے پیوند لگنے کی وجہ سے رنگ برنگی ہو گئی تھی۔ ایک ویسی ہی بوسیدہ سی فوجی ہیٹ اس کے سر پر جمی ہوئی تھی جو اسے چلچلاتی دھوپ سے ایک حد تک راحت دیتی تھی۔ ہیٹ کے چھجے کا ایک بڑا حصہ پھٹ کر غائب ہو گیا تھا اور اس طرح اب وہ ہیٹ کی بجائے کیپ زیادہ معلوم ہو رہا تھا۔ ہیٹ کے نیچے اس کے سیاہ بال سفید بالوں کے ساتھ مل کر کالک ملے ہوئے چونے کا تصور پیش کر رہے تھے۔
مختلف قسم کی بدبوؤں نے ان دونوں کو یہ بتا دیا کہ وہ کوڑے کے ڈھیر کے قریب آ چکے ہیں۔ کوڑے کے ڈھیر سے بدبوؤں کی لہریں اٹھ رہی تھیں جومزامبیزی اور جوائے کو اپنے گھیرے میں لیتی ہوئی آگے بڑھ کر قریبی کوارٹروں تک پہنچ رہی تھیں۔
جوائے کو اس پہلے دن کی ابکائیاں یاد آئیں جب وہ مزامبیزی کے پیچھے یہاں تک آیا تھا۔ دراصل وہ اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور تھا۔ اسے حیرت ہوتی تھی کہ کوڑا پھینکنے کے عمل میں مزامبیزی آخر اتنی دیر کیوں لگاتا تھا؟آخر وہ اتنی دیر تک وہاں کیا کرتا تھا؟جیسے جیسے وہ اس گڑھے کے قریب پہنچ رہا تھا بدبو تیز ہوتی جا رہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ بوڑھا گڑھے کے قریب بیٹھا اس میں جھانک رہا ہے۔ بدبو کا ایک زبردست جھونکا جوائے کے نتھنوں سے ٹکرایا اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ کسی سڑے ہوئے رقیق میں تیر رہا ہو۔ بدبو نے جیسے اس کا گلا دبوچ لیا تھا اور پھر اس کے معدے میں داخل ہو گئی تھی۔ اسے ابکائی آ گئی۔ اسی دوران اس نے کسی ابھری ہوئی شے سے ٹھوکر کھائی اور لڑکھڑا کر کسی نرم اورلسدار شے پر گر پڑا۔ ابکائیاں بڑھتی جا رہی تھیں جس کا خاتمہ ایک تکلیف دہ قے پر ہوا۔ اس نے اپنے کندھے پر ایک ہاتھ محسوس کیا اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوششیں کرنے لگا۔
’’کیا تم ٹھیک ہو؟‘‘ بوڑھے کی کرخت آواز اسے کہیں دور سے آتی ہوئی سی محسوس ہو رہی تھی۔
’’مجھے مت چھوؤ۔ ‘‘وہ پیچھے ہٹتے ہوئے چیخا۔
’’میں نے پوچھا کیا تم ٹھیک ہو؟‘‘
’’میرے قریب مت آؤ۔ ‘‘ وہ نفرت سے چیخا، ’’ … گندے، بوڑھے، مزامبیزی۔ ‘‘
بوڑھا دھیرے دھیرے سیدھا ہوا۔ جوائے بھی اپنی دوسری کوشش میں اٹھ کر کھڑا ہوا، اور میدان کی طرف دوڑ پڑا جو کوڑے کے ڈھیر اور مکانات کے درمیان واقع تھا۔ کافی دور پہنچ جانے کے بعد اس نے پلٹ کر دیکھا … بوڑھا دوبارہ اپنی پہلی حالت میں جابیٹھا تھا۔ جوبھی ہو … بہر حال اس کے جذبہ تجسس کی تسکین ہو گئی تھی۔ وہ بوڑھا مزامبیزی کچرے کے ڈھیر کو کرید کر اس میں سے کھانے کی بچی کھچی چیزیں نکال کر ایک کاغذ پر جمع کرتا ہے، اور کھا لیتا ہے۔
سب کچھ بھول کرجوائے اب ٹوکیو ایر پورٹ کے ٹاور پر موجود آپریٹر سے لینڈنگ کی اجازت مانگ رہا تھا، جیسا کہ اس کے باپ نے اسے سکھایا تھا : ’’لینڈنگ کی اجازت چاہیے … لینڈنگ کی اجازت چاہیے … ‘‘وہ کسی لینڈنگ کے منتظر جہاز کی طرح گول گول گھوم کر یہی الفاظ دہرائے جا رہا تھا۔ ’’ لینڈنگ کی اجازت چاہیے … کیا تم میری آواز سن رہے ہو؟ … اوور۔ ‘‘
’’ دیکھو جوائے ! ‘‘ ایک آواز نے اس کے کھیل میں دخل اندازی کی ’’میں تمھارے لیے ایک سچ مچ کا جہاز لایا ہوں۔ ‘‘
یہ مزامبیزی تھا۔ وہ بڑی خاموشی کے ساتھ کوڑے کے گڑھے سے اٹھ کر آیا تھا، اس کی کوڑا گاڑی بھی اس کے ساتھ نہیں تھی۔ ’’ ایئر روڈیشیا‘‘ کے جہاز کا ایک چھوٹا سا ماڈل اس کے ہاتھ میں تھا۔ جوائے نے خوفزدہ نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا۔ مزامبیزی کی بھوری آنکھوں میں معذرت تھی۔ جوائے ایک قدم پیچھے ہٹا، اس نے پلٹ کر اپنے گھر کی جانب دیکھا، جہاز کو پکڑا اور جتنی تیز اس کے لیے ممکن ہو سکتا تھا دوڑ پڑا۔ باورچی خانے کے پیچھے پہنچ کر وہ جہاز کو اپنے سینے سے لگائے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر جھک گیا اور کئی منٹوں تک بری طرح ہانپتا رہا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے تھے۔ اس نے میدان کی طرف دیکھا۔ بوڑھا جا چکا تھا۔ جوائے نے اس کی کوڑا گاڑی کی آواز بھی نہیں سنی تھی۔ وہ کھڑ اہو گیا اور باورچی خانے کے مختلف حصوں میں نگاہیں دوڑائیں، پھر اس نے جہاز کو اپنی شرٹ کے اندر گھسا لیاجس سے اس کی شرٹ کئی جگہ سے کافی ابھر آئی۔ اس نے زیادہ ابھرے ہوئے مقامات پر اپنے ہاتھ رکھ لیے اور دھڑکتے دل کے ساتھ، کاندھے اچکاتا ہوا گھر کی طرف بڑھ گیا۔ چلتے ہوئے وہ گا رہا تھا:
ازنگوُ زیروُ
کوپنگا دیگے
سی کانتھوُ کینا
کوما دی کھاما
خوش قسمتی سے اس کی ماں اس وقت بیڈ روم کی صفائی میں مصروف تھی۔ جوائے دوڑ کر اس کمرے میں داخل ہو گیا جس میں وہ سویا کرتا تھا۔ اس کا اسکول بیگ کھلا ہوا تھا اور چند کتابیں اور کاپیاں باہر نکلی ہوئی تھیں۔ اس نے جلدی سے اپنا ’ ائیر روڈیشیا ‘ اس میں چھپا دیا۔ اس کے بیگ میں کتابوں کے علاوہ غیر ملکی سکوں کا ایک ننھا سا ذخیرہ، ٹورسٹ گائڈس، سگریٹ کے خالی پیکٹ وغیرہ جیسی بہت سی چیزیں بھری ہوئی تھیں جو اس نے ائیر پورٹ سے اکٹھی کی تھیں۔ ہر بار جب وہ ائیر پورٹ کی بالکنی میں جاتا کوئی نہ کوئی نئی چیز اپنے اس پوشیدہ خزانے کے لیے ضرور لاتا۔ چھٹی کے دنوں میں ان چیزوں کو چھپانا، بے حد آسان تھا۔ کسی کو بھی اس کے بیگ کی تلاشی لینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
جوائے نے اپنی چٹائی بچھائی اور لیٹ گیا۔ دوسرے کمرے سے چیزوں کو صاف کرنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اس کا ہاتھ بیگ میں رینگ گیا اور جہاز کے ساتھ باہر آیا۔ اس نے باریکی سے جہاز کا مشاہدہ کیا۔ اس کی دم ٹوٹی ہوئی تھی لیکن اگر اسے دم کی طرف، ٹوٹی ہوئی جگہ سے پکڑ لیا جائے تو پھر اس کا عیب چھپ جاتا ہے اور ہو بہو اصل ہوائی جہاز جیسالگتا ہے۔
’’ جوائے ! کیا تم موجود ہو؟ـ‘‘
’’ ہاں ماں۔ ‘‘ جوائے نے جواب دیا اور جہاز کو جلدی سے بیگ میں چھپا کر بیگ کو دیوار کی جانب دھکیل دیا۔ تبھی دروازہ کھلا، وہ چٹائی پر پڑا گہری گہری سانسیں لے رہا تھا۔
’’ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ اس کی ماں کے لحیم شہیم جسم نے دروازے کے فریم کو پوری طرح بھر دیا تھا۔
’’ مم … میرے سر میں درد ہے … ماں۔ ‘‘
’’ تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ ‘‘
’’تم مصروف تھیں ماں۔ ‘‘
’’اتنی مصروف تو نہیں تھی کہ تم اپنی بیماری کا ذکر نہ کرتے۔ ‘‘
’’ میں … میں … ۔ ‘‘
’’جوائے ! یہاں آؤ۔ ‘‘
’’ہاں ماں۔ ‘‘
’’جھوٹ موٹ بیماری کا ناٹک مت کرو‘‘اس کی موٹی انگلی جوائے کی ناک سے محض دو انچ دور تھی۔
’’ نہیں ماں۔ ‘‘
’’ میں نے صرف چند منٹ پہلے تمھیں دوڑتے اور گاتے ہوئے دیکھا تھا۔ ‘‘
’’میں … میں … ماں … ۔ ‘‘
’’مجھ سے جھوٹ مت بولو۔ ‘‘
’’ نہیں ماں۔ ‘‘
’’ بہت اچھے ! … اب سیدھے بنیے کی دکان پر جاؤ اور ایک پاؤنڈ چینی اور ایک پیکٹ چائے کی پتی لے آؤ۔ ‘‘
’’ہاں ماں ! ‘‘
’’ یہ لو پیسے۔ ‘‘
جوائے نے رقم لی اور ایک لفظ بھی کہے بغیر گھر سے نکل گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کچھ پریشان سا تھا۔ کیا ہو گا اگر ماں نے جہاز کو دیکھ لیا؟اس نے بنیے کی دکان تک جانے اور واپس آنے میں تیز رفتاری کے گذشتہ سارے ریکارڈ توڑ ڈالے تھے۔ اس کی ماں اسے دیکھ کر بولی ’’کیوں ؟ تمھارے سر میں تو بہت تیز درد تھا۔ ‘‘
’’ وہ … وہ … ماں … وہ ٹھیک ہو گیا۔ ‘‘
’’ بہت خوب ! … اب آؤ ذرا، ان چیزوں کو ہٹانے میں میری مدد کرو تاکہ میں تمھارا کمرہ صاف کر سکوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم نے کمرہ اتنا گندہ کیوں کر رکھا ہے۔ ‘‘
جوائے نے دوڑ کر اپنا اسکول بیگ اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔
’’ میں نے ان تمام چیزوں کے بارے میں کہا تھا … صرف وہ بیگ نہیں۔ ‘‘
’’ہاں ماں۔ ‘‘
اس نے بیگ کو بڑی احتیاط سے چٹائی، کتابوں اور کپڑوں کے اوپر رکھا اور کمرے سے باہر لے جا کر ایک کونے میں رکھ دیا اور خود وہیں کھڑا ہو گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کی ماں نے آواز دے کر اسے آگاہ کیا کہ وہ صفائی ختم کر چکی ہے۔ اس نے اسی احتیاط سے سامان کو واپس کمرے میں پہنچایا۔
’’ کیا بات ہے ؟ آج تمھارا رویہ کچھ عجیب سا نہیں ہے؟‘‘اس کی ماں نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا، ’’ کیا سچ مچ تمھارا درد سر ختم ہو گیا؟‘‘
’’ نہیں ماں۔ ‘‘ جوائے نے ماں سے نظریں چراتے ہوئے کہا، ’’ وہ پھر سے ہونے لگا ہے۔ ‘‘
’’ ممکن ہے۔ ‘‘ وہ بولی، ’’ تم لیٹ جاؤ۔ ‘‘
جوائے نے چٹائی بچھائی اور لیٹ گیا۔ اب اسے اطمینان محسوس ہو رہا تھا۔ اس رات اس کا باپ کافی دیر سے گھر آیا۔ وہ شراب میں دھت تھا اور بلند آواز میں گا رہا تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے اسی طرح بلند آواز میں کھانا مانگا۔ جوائے کے کانوں تک ماں کی دھیمی دھیمی آوازیں پہنچ رہی تھیں … وہ کچھ پوچھ رہی تھی۔ باپ نے اسی زور دار آواز میں بتا یا کہ ایک سفید فام نے اسے شراب پلائی تھی۔ اس نے بتایا کہ وہ سفید فام بہت اچھا آدمی ہے۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ ہم سیاہ فام بھلا ان گوروں کے بغیر کچھ کر سکتے ہیں ؟ جب وہ موڈ میں ہوتا تھا تو اکثر گوروں کے احسانات گنوانے لگتا جو انھوں نے ملک پر کیے ہیں۔ نوکریاں، کاریں، ہوائی جہاز اور شراب … سب انھی کی دین تو ہیں۔ افریقیوں کو ان کا احسان مند ہونا چاہیے۔ ان کی وجہ سے وہ آج اچھے گھروں میں رہ رہے ہیں، اچھے کپڑے پہن رہے ہیں اور عمدہ زندگی گذار رہے ہیں … سنتے سنتے جوائے کو نیند آ گئی۔ اس کی ماں بیڈ روم میں چلی گئی تھی۔ حالاں کہ اس کا باپ جانتا تھا کہ وہ سن رہی ہے لیکن وہ تو زور دار آواز میں جیسے اپنی باتیں ساری دنیا کو سنانا چاہتا تھا۔
جوائے کو مزامبیزی سے دوبارہ سڑک پر ملاقات کرنے کے لیے ہمت جٹانے میں ایک ہفتہ لگ گیا۔ اس نے شرمسار لہجے میں جہاز کے لیے اس کا شکریہ ادا کیا، لیکن جواب میں بوڑھے نے دھیرے سے جو کچھ بھی کہا وہ اس کی کوڑا گاڑی کی چرچراہٹ، گڑگڑاہٹ اور جھنجھناہٹ کی ملی جلی آوازوں میں دب کر رہ گئی۔ جوائے ان دونوں کے پیچھے چل پڑا۔ ہر قدم پر بوڑھے کے پھٹی ایڑیوں والے پیروں کے نیچے سے دھول کا ہلکا سا گرداب پیدا ہو رہا تھا۔ اس کا اوور آل اس کی کوڑا گاڑی کی طرح ہی دھول میں اٹا ہوا تھا۔ جوائے نے اپنی رفتار تیز کر دی اور مزامبیزی کے بازو میں چلنے لگا۔
’’ آج تم کیا لے جا رہے ہو؟‘‘
’’مجھے نہیں معلوم۔ ‘‘ بوڑھاسیدھا اپنے سامنے دیکھتے ہوئے بولا ’’شاید گوشت کے چند ٹکڑے اور باقی وہی سب … ۔ ‘‘
جوائے نے پوری کوشش کی کہ ناگواری کے احساسات اس کے چہرے سے نہ ظاہر ہوں۔ بوڑھا آدمی اور لڑکا اس راستے پر مڑ گئے تھے جو سیدھا کوڑے کے ڈھیر کی جانب جاتا تھا۔ جیسے جیسے وہ قریب پہنچ رہے تھے۔ تعفن بڑھتا جا رہا تھا۔
کوڑے کا گڑھا کافی پرانا اور بہت بڑا تھا لیکن گہرائی زیادہ نہیں تھی۔ یہ وہاں جوائے کی پیدائش کے پہلے سے موجود تھا۔ پرانا کچرا اب سڑ گل کر مٹی میں تبدیل ہو چکا تھا۔ یہاں صرف مزامبیزی ہی کوڑا نہیں پھینکتا تھا دوسرے لوگ بھی یہاں کوڑا ڈالتے تھے۔ یہاں کیلوں، نارنگیوں اور دوسرے پھلوں کے چھلکے، گنے اور بھٹے کے باقی ماندہ حصے، کاغذ، ڈبے، مرغیوں اور مچھلیوں کے باقی ماندہ اندرونی حصے اور جانوروں اور بچوں کے فضلات جیسی ہزاروں گندی چیزوں کا انبار تھا۔ ان پر بڑی بڑی نیلی مکھیاں شہد کی مکھیوں کی طرح بھنبھنا رہی تھیں۔ مزامبیزی اور جوائے کے گڑھے کے کنارے پہنچتے ہی کوؤں نے کائیں کائیں کر کے آسمان سر پر اٹھا لیا۔
’’ کیا یہ سارا کچرا جہاز سے نکلا ہے؟‘‘
’’ہاں۔ ‘‘
’’ وہ لوگ بہت زیادہ کھاتے ہوں گے۔ ‘‘
’’یہ گورے جب کھاتے ہیں تو خوب کھاتے ہیں۔ ‘‘
’’لیکن جہاز میں صرف گورے ہی تو سفر نہیں کرتے ؟‘‘
’’ نہیں ! لیکن پھر بھی یہ گوروں کی غذائیں ہیں۔ تمھیں میری اس کوڑا گاڑی میں کھوبوے یا مگائیوا کبھی نہیں دکھائی دیگا۔ ۔ ۔ ۔ کیوں کبھی دیکھا؟‘‘
’’نہیں … یہ لوگ کیا کھا تے ہیں ؟‘‘
’’ڈبل روٹی۔ ‘‘
’’او … ۔ ‘‘
’’ ذرا سوچو۔ ‘‘ مزامبیزی اچانک باتونی بن گیا تھا۔ اس نے اپنی کوڑا گاڑی گڑھے کے کنارے روک کر گڑھے سے ایک خالی کین نکالا۔ ’’ ذرا سوچو۔ ‘‘ اس نے دوبارہ کہا، ’’ تم اندازہ لگا سکتے ہو یہ کہاں سے آیا ہو گا؟‘‘
’’ لندن سے۔ ‘‘
’’ نہیں۔ ‘‘
’’ پیرس سے۔ ‘‘
’’ نہیں، یہ ہانگ کانگ کا بنا ہوا ہے۔ ‘‘اس نے ڈرامائی انداز میں کہا’’ میں یہاں روزانہ بیٹھ کر گڑھے میں دیکھتا رہتا ہوں۔ میں اس میں سے کاغذ کے ٹکڑے یا گوشت کے خالی کین نکالتا ہوں اور انھیں دیکھتا ہوں اور یہ تصور کرتا رہتا ہوں کہ یہ کہاں سے آئے ہوں گے … جاپان سے؟ … روس سے؟ … انگلینڈ سے ؟ … امریکہ سے ؟ … ساؤتھ افریقہ سے ؟میں یہاں بیٹھا پنیر کے ٹکڑے کھاتا رہتا ہوں اور میرے سامنے ایک پوری دنیا آباد ہوتی ہے۔ یہ مچھلی کا کین کتنے ہزار کیلو میٹر راستہ طے کر کے یہاں پہنچا ہے؟اس بسکٹ کے خالی پیکٹ نے کن مقامات کی سیر کی ہو گی؟اس بیگ میں کس نے الٹیاں کی ہوں گی؟وہ کون سی زبان بولتا ہو گا؟ اس کے دل میں کیسی کیسی امیدیں اور آنکھوں میں کیسے کیسے خواب ہوں گے؟مجھے ان کے جہازوں میں سوار ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ میں یہاں بیٹھا رہتا ہوں اور روس، امریکہ، جاپان اور ہانگ کانگ سب میری دسترس میں ہوتے ہیں۔ ان سب کی آخری منزل یہ کوڑے کا ڈھیر ہے۔
’’ میں بھی یہی کرتا ہوں ‘‘ جوائے نے اس سے باتوں کا سلسلہ منقطع کرتے ہوئے کہا ’’جہازوں کو اڑان بھرتے اور اترتے ہوئے دیکھنے کے لیے میں جب بھی بالکنی میں جاتا ہوں۔ ہر دن جب میں اسکول میں اپنی کتابیں کھولتا ہوں۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا میں کبھی اتنا پڑھ لکھ سکوں گا کہ ان مقامات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان سکوں۔ کیا میں خودکبھی وہاں جا سکوں گا۔ لندن، نیو یارک یا ٹوکیو کی سڑکوں پر ٹہلنے کا تصور کتنا حسین ہے۔ ‘‘
میں سمجھ سکتا ہوں کہ تم کیا محسوس کرتے ہو گے‘‘ اپنے بازو میں بیٹھے لڑکے کی جانب دیکھتے ہوئے مزامبیزی کے چہرے پر کچھ عجیب سے، کھوئے کھوئے سے تاثرات تھے۔
’’ لیکن میں نے تو ان مقامات کو دیکھا بھی ہے‘‘ جوائے کی آنکھیں چمک اٹھی تھیں۔
’’کیا سچ مچ !‘‘
’’ ہاں، روزانہ، جب میں اپنی کار ڈرائیو کرتا ہوں، یا وہ جہاز اڑاتا ہوں جو تم نے مجھے دی تھی، میں ان مقامات کو صاف دیکھتا ہوں۔ میں نیو یارک میں کوکا کولا پیتا ہوں، لندن میں چائے پیتا ہوں اور ٹوکیو میں ڈرائیو کرتا ہوں۔ ‘‘
وہ دونوں کوڑے کے ڈھیر کے کنارے بیٹھے تھے، ان کے پیر گڑھے میں لٹکے ہوئے تھے، اور ان کی نگاہیں انگلینڈ میں بنی ٹوٹی بوتل پر تھیں، امریکہ میں بنے ڈبّا بند کھانے کی کین پر تھیں، جاپان اور روس میں بنی پلاسٹک کی ٹوٹی پھوٹی چیزوں پر تھیں۔ دونوں اپنے اپنے خیالوں میں گم تھے۔ کچرے کی مرطوب سی بدبو ان چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی، ان کے اندر پھیلی ہوئی تھی اور ان سے ہوتی ہوئی قریبی کوارٹروں تک پہنچ رہی تھی۔ کوّے ان کے سروں پر سیاہ لینڈنگ کرنے والے جہازوں کی طرح منڈلاتے ہوئے چیخ رہے تھے۔ کچرے کے درمیان زرد اور مٹیالی مکھیاں اوجھڑی کے اوپر منڈلا رہی تھیں۔
’’لو … ۔ ‘‘بوڑھے کی آوازنے اچانک خوابوں کا سلسلہ توڑ دیا، ’’یہ پنیر کا ٹکڑا کھاؤ۔ شاید یہ ساؤتھ افریقہ سے آیا ہے۔ ‘‘
جوائے نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ اس نے آرام کے لیے جھک کر کوڑے گاڑی سے ٹیک لگا لی۔ وہ خراب ہو رہے پنیر کے ٹکڑے کو چبانے لگا۔ اس کی نگاہیں گندگی کے اوپر منڈلاتی مکھیوں پر جمی تھیں۔ مکھیوں کی بھنبھناہٹ اور کوؤں کی کائیں کائیں کے شور کے سوا وہاں مکمل سناٹا تھا، لیکن اچانک ایک جہاز کے اڑان بھرنے کی آواز نے اس سکون کو درہم برہم کر دیا۔
’’یہ چار انجنوں والا جہاز ہے۔ ‘‘ جوائے بولا۔
’’ ہاں بڑا جہاز اڑ ان بھر رہا ہے۔ ‘‘
’’ میں سوچتا ہوں کیا یہ سیلس بری میں اترے گا۔ ‘‘
’’ ہو سکتا ہے۔ ‘‘
’’ پتا نہیں اس میں کون لوگ سوار ہیں ؟‘‘
’’اوہ!ہمیشہ کی طرح !زیادہ تر دولت مند موٹے سفید فام یاگندمی چمڑی والے اور صرف چند سیاہ فام۔ ‘‘
’’ چند طالب علم اعلیٰ تعلیم کے لیے جا رہے ہوں گے۔ ‘‘
’’ ہاں میں انھیں بھول گیا تھا۔ ‘‘
مزامبیزی ایک لمبی ہنکار کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے استخوانی ہاتھوں کو اوور آل سے پونچھتے ہوئے بولا’’ اب مجھے چلنا چاہیے۔ ‘‘
’’گڈ بائے‘‘ جوائے دھیرے سے بولا۔ وہ بھی کوڑا گاڑی کو چھوڑ کر کھڑا ہو گیا، ’’کل پھر ملاقات ہو گی؟‘‘
’’ضرور‘‘ بوڑھے نے کوڑا گاڑی کے دستے سنبھالتے ہوئے کہا۔ چند منٹوں میں چرچراہٹ، گڑگڑاہٹ اور جھنجھناہٹ کی آوازیں دور کہیں جا کر فضا میں مدغم ہو گئیں۔ جوائے سوچ رہا تھا ان میں پہلے کون مرے گا؟ … انسان یا مشین؟ … مشین کی چرچراہٹ، گڑگڑاہٹ اور جھنجھناہٹ کی آوازیں اوراس کے پیچھے چلتے ہوئے انسان کی مستقل خاموشی کسی الو کی غمگین چیخ سے بڑی مماثلت رکھتی ہے۔ لیکن جوائے کو پتا تھا کہ مزامبیزی کے ساتھ روزانہ ’’آج بڑے جہاز سے تم کیا لا رہے ہو؟‘‘ … ’’اوہ! گوروں کے ملک کی کچھ چیزیں … ‘‘جیسے جملوں کا تبادلہ ابھی ایک لمبی مدت تک ہونے والا ہے۔ ہر قسم کا کچرا، کوڑا پھینکنے کے گڈھے کا سفر کرتا رہے گا … اور وہیں موجود رہیں گے کوّے، مکھیاں، مزامبیزی … اور جوائے!
Original Story : The Rubbish Dump
By : Steve Chimombo (Malawi)
تیسری منزل سے ہونے والی گفتگو
مصر
وہ اس مقام پر دوسری بار آئی تھی۔ گھوڑے پر سوارپولیس والے نے نیچے اس پر نگاہ ڈالی۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ زرد رنگ کی چہار دیواری گلی کے کنارے دور تک پھیلی تھی۔ چہار دیواری کے اندر ایک بہت بڑی مستطیل، سہ منزلہ عمارت تھی جس کی ایک جیسی چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں تاریک سوراخوں کی طرح لگ رہی تھیں۔ عورت گھوڑے سے چند قدم دور کھڑی تھی۔ پولیس والے نے اپنے پیچھے کھڑکیوں کی طرف دیکھا پھر عورت پر نظر ڈالی۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ گھوڑے کی زین کے اگلے حصے پر ٹکا کر اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ تھوڑی دیر بعد گھوڑے نے حرکت کی، وہ گلی سے تھوڑا نیچے اتر آیا تھا۔ ایک لمحے بعد گھوڑا گھوما اور واپس اپنی جگہ پر آگیا۔
عورت دو قدم آگے بڑھی۔ گھوڑے نے اپنی ایک اگلی ٹانگ موڑی اور پھر سیدھی کر لی۔
’’سارجنٹ … پلیز … مجھے اس سے بس دو باتیں کرنے دیجیے۔ ‘‘
سارجنٹ کی آنکھیں اب تک بند تھیں اور اس کے ہاتھ گھوڑے کی زین کے اگلے حصے پر ٹکے ہوئے تھے۔
دیوار کے اوپر کانٹے دار تاروں کی باڑھ لگی تھی۔ دیوار کے آخر ی سرے پر لکڑی کا ایک واچ ٹاور تھاجس پر ایک مسلح سپاہی کھڑا تھا۔
عورت نے دوسرا قدم آگے بڑھایا۔
’’دیکھیے … اسے یہاں سے کہیں اور منتقل کیا جا رہا ہے … ۔ ‘‘
سورج نصف النہار سے گزر کر ایک طرف جھک چکا تھا، اس کے باوجود گرمی بہت تھی۔ چہار دیواری کی بنیاد کے قریب سایے کی ایک پتلی سی پٹی دکھائی دے رہی تھی۔
عورت نے اپنے بچے کو کاندھے پر ڈال لیا۔
جب اس نے دوبارہ پولیس والے کے چہرے کی طرف دیکھا تو اسے اس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے دکھائی دیے۔
خاموشی کے ساتھ وہ گھوڑے کے سامنے سے ہٹ کر دیوار کے قریب چلی گئی اور دیوار سے تھوڑی دوری پر، جیل کی سہ منزلہ عمارت کے سامنے موجود پتھروں کے ایک ڈھیر پر بیٹھ گئی۔
کھڑکیوں کی سلاخوں سے قیدیوں کے کپڑے آستینوں اور پائنچوں کی مدد سے لٹکے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ ہلکی ہلکی ہوا چلنے کے باوجود ان میں کوئی حرکت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
عورت زیر لب بڑبڑائی ’’شاید یہ بہت بھیگے ہیں۔ ‘‘
اس نے بچے کو گود میں لے لیا۔ ایک لمحے کو اس کی نگاہیں ایک جلابہ پر ٹک گئیں جو ہوا میں بہت آہستگی کے ساتھ ہل رہا تھا۔ اس نے اپنی ٹانگیں پھیلا لیں اور پیروں پرچپکی مٹی کو گھورنے لگی۔ اس نے دونوں پیروں کو آپس میں رگڑ کر مٹی چھڑانے کی کوشش کی اور پھر سے انھیں دیکھا۔
سر کو پیچھے کر کے اس نے نیم وا آنکھوں سے تیسری منزل کی کھڑکیوں کو دیکھا۔
واچ ٹاور میں موجود سپاہی نے ایک قدم آگے بڑھ کر اپنے سر کو لکڑی کی دیوار کے کنارے سے ٹکا لیا۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا، مکانوں کی چھتوں اور گلی پر نظر دوڑائی اور آخر، اس کی نگاہیں گھوڑے کے سفید سر پر رک گئیں۔
اچانک سناٹے میں ایک چیخ گونجی۔ عورت نے تیزی سے اپنے پیر سمیٹ لیے۔ اس کی نگاہوں نے تیسری منزل کی ایک کھڑکی کی سلاخوں کے درمیان سے باہر نکلے ایک ننگے بازو کو دیکھ لیا تھا۔
’’عزیزہ! عزیزہ! میں عاشور ہوں … ۔ ‘‘
وہ دیوار کی طرف ایک قدم آگے بڑھ گئی اور خاموشی سے کھڑکی کی طرف دیکھنے لگی۔
’’ میں عاشور ہوں عزیزہ … عاشور … ۔ ‘‘
اس نے اس کے دوسرے بازو کو بھی کھڑکی سے باہر آتے دیکھا۔ اس کی نگاہوں نے دونوں بازوؤں کے درمیان کچھ تلاش کرنے کی کوشش کی اور بالآخر دو سلاخوں کے درمیان چپکا ہوا اس کا چہرہ اسے نظر آ گیا۔ اس کے ارد گرد اور پیچھے کچھ دوسرے چہرے بھی نظر آئے۔
’’عزیزہ … مجھے یہاں سے منتقل کیا جا رہا ہے … کیا تمھیں میرا خط ملا تھا؟ … چار دن بعد میں یہاں سے چلا جاؤں گا … کیا تم نے کھجور کے دونوں درختوں کے پھل جھاڑ لیے؟ … حامد اور ثانیہ کہاں ہیں ؟ … انھیں ساتھ کیوں نہیں لائیں ؟ … میں یہاں سے منتقل ہو رہا ہوں … حامد کہاں ہے؟‘‘
اچانک وہ پیچھے مڑ کر چیخا، ’’ خاموش رہو کمینو۔ ‘‘
اس نے اسے چیختے ہوئے سنا اور پھر دوسرے چہروں کو کھڑکی سے غائب ہوتے دیکھا۔ ایک لمحے بعد اس کا چہرہ دوبارہ کھڑکی کی سلاخوں کے پیچھے دکھائی دیا اور پھر دوسرے چہرے بھی اس کے چہرے کے اوپر نظر آئے۔
’’عزیزہ!‘‘
عورت نے گھوڑے پربیٹھے پولیس والے کی طرف دیکھا اور پھر دوسری نگاہ واچ ٹاور میں موجود سپاہی پر ڈالی۔
’’عزیزہ … تمھاری گود میں کون ہے؟ … شاکر؟‘‘
اس نے اپنا سر دو بار ہلا یا۔
’’اسے اٹھاؤ … اسے اوپر اٹھاؤ … ۔ ‘‘
عورت نے بچے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اپنے سر کے اوپر اٹھا لیا۔
اس نے دیکھا کہ اس کے بازو اچانک کھڑکی کے اندر چلے گئے اور اس کے ہاتھوں نے کھڑکی کی سلاخوں کو پکڑ لیا۔ پھر اس کا چہرہ وہاں سے غائب ہو گیا۔ ایک لمحے کے لیے اس نے وہاں موجود دوسرے چہروں میں اس کا چہرہ تلاش کر نے کی کوشش کی۔ اس نے اپنے ہاتھ ذرا نیچے کر لیے۔ اسے کھڑکی سے قہقہوں کی آوازیں سنائی دیں۔ اس نے اس کے بازوؤں کو ایک بار پھر کھڑکی سے نکلتے دیکھا اور اس کا چہرہ کھڑکی کے درمیان نظر آیا۔
’’اوپر عزیزہ … اور اوپر … اس کا چہرہ سورج کی طرف کرو تاکہ میں اسے دیکھ سکوں۔ ‘‘ اس نے ایک لمحے کو اپنے بازوؤں کو نیچے کیا اور پھر انھیں اوپر اٹھا دیا … اس نے بچے کا چہرہ سورج کی طرف کر دیا۔ بچے نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور زور زور سے رونے لگا۔
’’یہ رو رہا ہے۔ ‘‘
وہ ہنستے ہوئے پیچھے کی طرف مڑا۔
’’بچہ رو رہا ہے … عزیزہ … اسے رونے دو … میں اس کی آواز سننا چاہتا ہوں … ۔ ‘‘
اس نے اپنی ہتھیلیوں کو اپنے منہ کے گرد پھیلا کر چیخ کر کہا، ’’اسے رونے دو … ۔ ‘‘
وہ قہقہہ لگا رہا تھا۔ اس کے ارد گرد کچھ اور چیخیں بھی سنائی دیں۔ اس کی بڑی سی ناک سلاخوں کے درمیان سے جھانک رہی تھی۔
’’بیوقوف عورت … اتنا کافی ہے … بچے کو چھپاؤ … اسے لُو لگ جائے گی … ۔ ‘‘ اسے کسی کی چیخ سنائی دی۔
اس نے بچے کوفوراً اپنے سینے سے لگا لیا۔ اس کی نگاہ سپاہی پر پڑی جو ٹاور کے اندر جا رہا تھا۔
’’تم نے دونوں کھجوروں کے پھل جھاڑ لیے؟‘‘
عورت نے نفی میں سر ہلایا۔
’’کیوں ؟ … تم کچھ بول کیوں نہیں رہی ہو؟ … میں یہاں سے منتقل ہو رہا ہوں … ابو اسمٰعیل کے پاس جا کر اسے میرا سلام کہنا … وہ درختوں کے پھل جھاڑنے میں تمھاری مدد کرے گا … پھر تم تھوڑی کھجوریں لے آنا … کیا تم سگریٹ لائی ہو؟ ‘‘
اس نے اپنے ہاتھ سے ایک اشارہ کیا۔
’’ منھ سے بولو نا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘
’’وہ تمھیں مل جائیں گے۔ ‘‘
’’زور سے بولو۔ ‘‘
’’وہ تمھیں مل جائیں گے … میں بھیج چکی ہوں۔ ‘‘
’’کب؟‘‘
’’ابھی ابھی۔ ‘‘
’’ابھی ابھی؟ … اچھا رکو … میں دیکھتا ہوں۔ ‘‘
وہ اچانک وہاں سے غائب ہو گیا۔ کھڑکی میں دو چہرے اب بھی دکھائی دے رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے اپنا ایک بازو کھڑکی سے باہر نکالا اور ایک فحش سا اشارہ کیا۔ عورت نے اپنی نظریں جھکا لیں اور واپس پتھروں کے ڈھیر پر جا بیٹھی۔
’’عزیزہ! ‘‘
حالاں کہ یہ آواز اس کے لیے نئی تھی، پھر بھی اس نے اوپر، کھڑکی کی طرف دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک آدمی وہاں مسکرا رہا ہے اور اس کا بازو اب بھی وہی فحش حرکت کر رہا ہے۔ ایک اور شخص گھٹنوں کے بل جھکا ہوا تھا، اس نے اپنا جلابہ اپنی رانوں کے اوپر اٹھا رکھا تھا اور چلا رہا تھا: ’’عزیزہ … یہ دیکھو۔ ‘‘
وہ مسکرائی۔ پولیس والا گھوڑے پر ویسے ہی بیٹھا ہوا تھا جیسے سو گیا ہو۔ ٹاور کی بغلی کھڑکی سے اسے سپاہی کے سر کا ایک حصہ دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے اپنا ہلمیٹ اتار دیا تھا۔
اس نے کئی آوازیں سنیں جو اسے پکار رہی تھیں۔ اس کے کان آوازوں پر لگے ہوئے تھے لیکن نظریں ٹاور میں موجود سپاہی کے سر پر جمی تھیں۔ اسے پکارنے کی آوازیں بار بار سنائی دے رہی تھیں۔ ان آوازوں میں چند گالیاں اور فحش الفاظ بھی شامل تھے۔ سپاہی نے ہلمٹ پھر سے پہن لیا تھا لیکن وہ اب بھی ٹاور کے اندر ہی بیٹھا تھا۔
اچانک آوازیں بند ہو گئیں اور سناٹا چھا گیا۔ پھر ایک لمحے بعد اس کے شوہر کی ہانپتی ہوئی آواز سنائی دی۔
’’عزیزہ … میں نے پانچ کہا تھا نا … میں نے تم سے پانچ پیکٹ سگریٹیں بھیجنے کے لیے نہیں کہا تھا؟‘‘
وہ اسے خاموشی سے تک رہی تھی۔
’’تین پیکٹ سگریٹوں سے کیا ہو گا؟ ‘‘
اس نے ہاتھوں سے کوئی اشارہ کیا۔
’’تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘
’’پانچ … میں نے پانچ ہی بھیجے تھے۔ ‘‘
’’پانچ؟ ‘‘ وہ غصے سے چیخا ’’سالے کمینے … ۔ ‘‘
وہ اچانک غائب ہو گیا … پھر دوبارہ کھڑکی میں جھکتے ہوئے بولا ’’ابھی جانا نہیں … میرا انتظار کرنا۔ ‘‘
عورت نے اپنی نگاہیں ٹاور کی کھڑکی کی طرف گھمائیں۔
اس کا شوہر تھوڑی ہی دیر بعد واپس آگیا اور بولا ’’ٹھیک ہے عزیزہ … کوئی بات نہیں … پانچ ہی تھے … دو انھوں نے لے لیے … خیر کوئی بات نہیں … سنو … ہاں میں کیا کہنے جا رہا تھا؟ … ۔ ‘‘
اس نے اسے خاموشی سے کھڑکی سے باہر تکتے ہوئے دیکھا۔ اس نے اپنا سیاہ جیلابہ ہلا یا اور اور دیوار کی طرف بڑھی۔ وہ مسکرایا۔
’’عزیزہ … میں سوچ رہا ہوں کہ تم سے کیا کہوں۔ ‘‘
ایک بار پھر وہ خاموش ہو گیا۔ عورت نے اپنا چہرہ دوسری طرف کر لیا جس سے اس کے چہرے کا ایک حصہ سورج کی مخالف سمت میں ہو گیا۔ اس نے اپنا دوپٹہ ٹھیک کیا۔
’’ان لوگوں نے دو پیکٹ لے لیے … خیر عزیزہ … فکر نہ کرو۔ ‘‘
وہ ہنسا۔ اس کی آواز میں ٹھہراؤ تھا۔ اس کے اگل بغل کے دوسرے چہرے غائب ہو گئے تھے صرف ایک چہرہ اس کے پاس موجود تھا۔
’’تم نے دیوار بنوا دی؟‘‘
’’ابھی نہیں۔ ‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’جب احمد چچا کی بھٹی میں اینٹیں تیار ہوں گی تو میں ان سے کچھ اینٹیں لے لوں گی۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے … ٹرام میں ہوشیار رہنا … بچے کی حفاظت کرنا۔ ‘‘
وہ کھڑی رہی۔
’’تمھیں کچھ چاہیے؟‘‘
’’نہیں۔ ‘‘
اس نے اپنے شوہر کے چہرے پر نگاہ ڈالی، اس کی بڑی ناک، اور ننگے بازوؤں کو دیکھا، وہ مسکرائی۔ اس کے پاس موجود دوسراچہرہ بھی مسکرایا۔
’’کیا تمھیں خط ملا تھا ؟ … میں دوسری جگہ منتقل کیا جا رہا ہوں۔ ‘‘
’’کہاں ؟‘‘
مجھے نہیں معلوم۔ ‘‘
’’کب؟‘‘
’’اصل میں اس جیل کو بند کیا جا رہا ہے۔ ‘‘
’’تم کہاں جاؤ گے؟‘‘
’’اللہ جانے … کہیں بھی ہو سکتا ہے … کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ ‘‘
’’کب؟‘‘
’’دو یا تین دنوں میں … یہاں اب مت آنا … جب میرا ٹرانسفر ہو جائے گا تو میں تمھیں اطلاع دوں گا … کیا بچہ سو گیا ہے؟‘‘
’’نہیں جاگا ہوا ہے۔ ‘‘
وہ ایک لمحے خاموشی سے اسے تکتا رہا پھر بولا۔
’’عزیزہ۔ ‘‘
ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔ اس کے پاس موجود دوسرا چہرہ مسکرایا پھر دھیرے سے پیچھے ہٹا اور غائب ہو گیا۔ اس کا شوہر خاموش تھا۔ اس کے بازو کھڑکی کی سلاخوں کے گرد لپٹے ہوئے تھے۔
اچانک اس نے اپنے پیچھے دیکھا اور اپنے ہاتھوں کو اندر کر لیا۔ اس نے بیوی کو چلے جانے کا اشارہ کیا اور کھڑکی سے غائب ہو گیا۔
وہ چند قدم پیچھے ہٹی لیکن اس کی نظریں کھڑکی پر ہی ٹکی تھیں۔
تھوڑی دیر کے بعد وہ پتھروں کے ڈھیر پر بیٹھ گئی۔ اس نے اپنی ٹانگیں سیدھی کر لیں اور اپنی جلابہ سمیٹ کر اپنے بچے کو دودھ پلانے لگی۔
دیوار کا سایہ اب گلی میں آدھی دور تک آگیا تھا اور اس کے قدموں کو چھو رہا تھا۔ اس نے اپنے پیروں کو تھوڑا سمیٹ لیا۔ ہر طرف خاموشی تھی اور لٹکے ہوئے کپڑے اب ہوا میں ہلکے ہلکے ہل رہے تھے۔
اس نے اپنے پیروں کی طرف دیکھا۔ سایہ اب اس کے انگوٹھے تک آگیا تھا۔ وہ کھڑی ہو گئی۔
سپاہی اب بھی ٹاور کے اندر تھا، اس کے جوتے کی نوک لکڑی کے پلیٹ فارم سے نکلی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ گھوڑے کے قریب پہنچنے سے قبل اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ کھڑکی خالی تھی۔
اس نے خاموش نگاہوں سے پولیس والے کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ اس کے ہاتھ گھوڑے کی زین کے اگلے حصے پر جمے ہوئے تھے۔ گھوڑا، اپنی جگہ ساکت و جامد تھا۔
وہ پتلی گلی میں چلتی ہوئی بڑی سڑک کی طرف بڑھ گئی۔
Original Story : A Conversation From The Third Floor
By : Mohamed El-Bisatie (Egypt)
مٹھی بھر کھجوریں
سوڈان
یہ تب کی بات ہے جب میں بہت چھوٹا تھا۔ مجھے یہ تو یاد نہیں کہ اس وقت میری عمر کیا تھی، بس اتنا یاد ہے کہ ان دنوں جب بھی لوگ مجھے میرے دادا کے ساتھ دیکھتے تو پیار سے میرا سر تھپتھپاتے اور میرے گال کو پیار سے مسلتے … ایسا وہ دادا کے ساتھ بالکل نہیں کرتے تھے۔ عجیب بات تھی کہ میرے والد مجھے اپنے ساتھ کبھی باہر نہ لے جاتے، لیکن دادا جب بھی کہیں جاتے، مجھے اپنے ساتھ ضرور لے جاتے۔ صرف صبح کے وقت ایسا نہ ہوتا، کیوں کہ اس وقت میں مسجد میں قرآن پڑھنے جایا کرتا تھا۔ مسجد، دریا اور کھیت … تینوں کا میری زندگی سے بہت گہرا تعلق تھا۔ عام طور سے میری عمر کے بچے مسجد میں جا کر قرآن پڑھنے سے کتراتے تھے، لیکن مجھے یہ بہت اچھا لگتا تھا۔ بلا شبہ اس کی وجہ یہی تھی کہ میں پڑھائی کے معاملے میں بہت ذہین واقع ہوا تھا اور جب بھی مدرسے میں باہر سے لوگ آتے تو میرے شیخ مجھے کھڑے ہو کر سورۃ رحمٰن کی تلاوت کرنے کا حکم دیا کرتے۔ میری ترنم ریز آواز سن کر مہمان بہت خوش ہوتے، میرا سر تھپتھپاتے اور میرے گال پیار سے مسلتے … بالکل ویسے ہی جیسے لوگ مجھے دادا کے ساتھ دیکھ کر کیا کرتے تھے۔
ہاں، مجھے مسجد سے پیار تھا … اور مجھے دریا سے بھی پیار تھا۔ قرآن کا سبق ختم کرتے ہی میں اپنی چوبی تختی ایک طرف پھینکتا اور کسی جن کی طرح برق رفتاری سے ماں کے پاس پہنچ جاتا، جلدی جلدی اپنا ناشتہ نگلتا اور دریا میں چھلانگ لگانے کے لیے دوڑ پڑتا۔ تیرتے تیرتے جب میں بری طرح تھک جاتا تو دریا کنارے بیٹھ جا تا اور پانی کے دھاروں کو تکتا رہتا، جو مشرق کی جانب بہتے ہوئے کیکر کے گھنے درختوں کے درمیان مڑ کر کہیں غائب ہو جاتے۔ میں اپنے خیالوں میں کھو جاتا … تصور کی آنکھوں سے میں کیکر کے ان گھنے درختوں کے جنگل میں دیوؤں کے ایسے قبیلے کے لوگوں کو دیکھتا جو دبلے اور بہت زیادہ لمبے ہوتے۔ جن کی ناکیں نوک دار، داڑھیاں لمبی اور سفید ہوا کرتیں … بالکل میرے دادا کی داڑھی جیسی۔ میرے ہر سوال کا جواب دینے سے قبل میرے دادا شہادت کی انگلی سے ناک ضرور کھجاتے۔ ان کی داڑھی نرم اور بے حد سفید تھی … بالکل روئی کے گالے جیسی۔ میں نے اپنی زندگی میں ان کی داڑھی سے زیادہ سفیداور حسین کوئی دوسری شے نہیں دیکھی۔ میرے دادا بہت لمبے بھی تھے … میں نے پورے علاقے میں ایسا کوئی شخص نہیں دیکھا تھا جسے ان سے بات کرتے وقت اپنی گردن اوپر نہ اٹھانی پڑتی ہو اور نہ ہی میں نے انھیں کسی گھر میں بغیر جھکے داخل ہوتے دیکھا تھا … وہ اتنا زیادہ جھکتے کہ مجھے کیکر کے جنگل کے درمیان مڑتا ہوا دریا یاد آ جا تا تھا۔ میں ان سے بہت پیار کرتا تھا اور بڑا ہو کر انھی جیسا لانبا اور چھریرا بننا چاہتا تھا، تاکہ میں انھی کی طرح لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے چل سکوں۔
مجھے پورا یقین ہے کہ میں ہی ان کا سب سے پیارا پوتا تھا اوراس میں حیرت کی کوئی بات نہ تھی۔ میرے باقی چچیرے بھائی میرے مقابلے خاصے بے وقوف تھے۔ لوگ مجھے’ عقل مند بچہ‘ کہا کرتے تھے۔ مجھے پتا تھا کہ دادا کب یہ چاہتے ہیں کہ میں ہنسوں اور کب خاموش رہوں۔ اس کے علاوہ مجھے دادا کی نمازوں کے اوقات کا بھی علم تھا اور میں کہے بغیر ہی ان کے لیے جانماز بچھا دیا کرتا اور وضو کا لوٹا بھر دیا کرتا۔ جب انھیں کوئی کام نہ ہوتا، تو وہ میری مترنم آواز میں قرآن مجید کی تلاوت سنا کرتے اور ان کے چہرے سے مجھے بخوبی اندازہ ہو جاتا کہ وہ اس میں کتنا ڈوب چکے ہیں۔
ایک دن میں نے ان سے اپنے پڑوسی مسعود کے بارے میں پوچھا۔ میں نے دادا سے کہا ’’دادا! مجھے لگتا ہے کہ آپ ہمارے پڑوسی مسعود کو پسند نہیں کرتے ؟‘‘
جس کے جواب میں انھوں نے اپنی ناک کی نوک کھجاتے ہوئے کہا ’’وہ کاہل انسان ہے اور میں ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔ ‘‘
میں نے پوچھا ’’ کاہل کسے کہتے ہیں ؟‘‘
میرے دادا نے ایک لمحے کے لیے سر جھکا یا پھر دور تک پھیلے کھیتوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولے ’’تم ریگستان کے کناروں سے لے کر دریائے نیل کے ساحل تک پھیلی ان زمینوں کو دیکھ رہے ہو؟ … تقریباً ایک سو فِدان زمین … تم کھجوروں کے وہ سارے درخت دیکھ رہے ہو؟ … اور وہ ببول اور دوسرے درخت دیکھ رہے ہو؟ … یہ سب کچھ مسعود کے باپ کے بعد اسے وراثت میں ملا تھا۔ ‘‘
دادا چند لمحوں کے لیے خاموش ہوئے تو میں نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی نگاہیں دادا کے چہرے سے ہٹا کر زمین کے اس پورے رقبے پر دوڑائیں … ’’ مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں۔ ‘‘ میں نے اپنے آپ سے کہا، ’’ … کہ کون ان کھجور کے درختوں کا مالک ہے یا یہ سیاہ پھٹی ہوئی زمینیں کس کی ہیں ؟ … میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ یہ میرے خوابوں کی سرزمین ہے … میرے کھیلنے کا میدان!‘‘
میرے دادا نے پھر کہنا شروع کیا ’’ میرے بچے! آج سے چالیس سال قبل یہ سب کچھ مسعود کا تھا … لیکن آج اس کا تقریباً دو تہائی حصہ میرا ہو چکا ہے۔ ‘‘
یہ اطلاع میرے لیے نئی تھی۔ میں تو اب تک یہی سمجھتا آیا تھا کہ یہ زمینیں ابتدائے آفرینش ہی سے میرے دادا کی ہیں۔
’’میں نے جب اس گاؤں میں قدم رکھا تھا تو ایک فدان زمین کا بھی مالک نہ تھا۔ ان دنوں مسعود ان ساری زمینوں کا مالک تھا، لیکن آج حالات بدل چکے ہیں اور میرا خیال ہے کہ اس کے مرنے سے پہلے پہلے بقیہ زمین بھی میری ہی ہو جائے گی۔ ‘‘
معلوم نہیں کیوں دادا کے ان الفاظ سے مجھے ڈر سا محسوس ہوا اور اپنے پڑوسی مسعود کے لیے مجھے اپنے دل میں ہمدردی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ شاید اسی لیے میں نے دل ہی دل میں دعا کی کہ دادا جو کچھ کہہ رہے ہیں ایسا کبھی نہ ہو۔ مجھے مسعود کا گانا یاد آیا … اس کی خوبصورت آواز … اس کے بھر پور قہقہے … جن کی آواز گلے میں پانی لے کر غر غرہ کرنے جیسی ہوتی تھی۔ میرے دادا تو کبھی ہنستے ہی نہ تھے۔
میں نے دادا سے پوچھا ’’ مسعود نے اپنی زمینیں کیوں فروخت کر دیں ؟‘‘
’عورتیں ‘دادا نے جس لہجے میں یہ لفظ ادا کیا تھا، اس سے ایسا لگا، جیسے ’عورتیں ‘بہت ہی بری اور ڈراؤنی ہوتی ہیں ’’میرے بچے!مسعود نے بہت سی شادیاں کیں اور اپنی ہر شادی کے موقع پر اس نے اپنی ایک یا دو فدان زمین میرے ہاتھوں فروخت کر دی۔ میں نے دل ہی دل میں فوراً حساب لگایا … تو اس کا مطلب ہے مسعود اب تک نوے شادیاں کر چکا ہے؟ … مجھے مسعود کی تین بیویاں یاد آئیں … اس کی مجہول سی شخصیت … اس کا لنگڑا ٹٹو اور اس کی سال خوردہ زین … اس کی پھٹی آستینوں والی عبا … میں مسعود کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا تبھی میں نے اسے اپنی جانب آتے ہوئے دیکھا۔ دادا، اور میں نے ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا۔
’’ ہم لوگ آج کھجوریں توڑیں گے‘‘ اس نے دادا سے کہا ’’ کیا آپ اس وقت وہاں موجود رہنا پسند کریں گے؟‘‘
مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ دادا کو آنے کی دعوت تو دے رہا ہے لیکن حقیقتاً وہ دادا کی موجودگی کوپسند نہیں کرتا۔ میرے دادا اچھل کر کھڑے ہو گئے۔ چند لمحوں کے لیے میں نے ان کی آنکھوں میں تیزچمک پیدا ہوتے دیکھی۔ انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور ہم اس طرف روانہ ہو گئے جہاں مسعود کی کھجوریں توڑی جانی تھیں۔
ایک شخص دادا کے لیے اسٹول لے آیا جس پر بیل کے چمڑے کا غلاف لگا تھا، جب کہ میں کھڑا رہا۔ وہاں بہت سے لوگ موجود تھے، میں چوں کہ سبھی سے واقف تھا اس لیے میں نے کسی کی طرف توجہ نہیں دی … میری ساری توجہ مسعود کی طرف تھی جو اس بھیڑ سے الگ تھلگ اس طرح کھڑا تھا جیسے اس سارے معاملے سے اس کا کوئی تعلق ہی نہ ہو … حالاں کہ جو کھجور توڑے جانے والے تھے وہ اسی کی ملکیت تھے۔ کبھی کبھی وہ زور دار آواز کے ساتھ نیچے گرتے کھجوروں کے گچھوں کی طرف متوجہ ہو جا تا۔ ایک بار جب ایک لڑکا کھجور کے درخت کی چوٹی پر پہنچ کر اپنی لمبی، تیز کٹار سے کھجوروں کے گچھوں کو کاٹ رہا تھا تو وہ چلا پڑا ’’اے دھیان سے! … درخت کے قلب کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ ‘‘
اس نے جو کچھ بھی کہا، اس پرکسی نے بھی توجہ نہ دی اور چوٹی پر بیٹھا ہوا لڑکا اپنی دھن میں، پوری توانائی کے ساتھ کام کر رہا تھا اور کھجور اس طرح گر رہے تھے جیسے آسمان سے کھجوروں کی بارش ہو رہی ہو۔
میں مسعود کے الفاظ ’درخت کے قلب‘ پر غور کر رہا تھا۔ مجھے لگا جیسے واقعی کھجور کے درخت کے مرکز میں ایک دھڑکتا ہوا دل موجود ہوتا ہے جس میں جذبات بھی ہوتے ہیں۔ مجھے مسعود کا ایک جملہ یاد آگیا جو اس نے مجھ سے کہا تھا جب میں کھجور کے ایک نوخیز درخت کی شاخیں پکڑ کر کھیل رہا تھا۔ اس نے کہا تھا ’’میرے بچے! انسانوں کی طرح کھجوروں کے درختوں کو بھی خوشی اور تکلیف کا احساس ہوتا ہے‘‘ … اور میں نے اپنے اندر ایک بے نام سی ندامت محسوس کی تھی۔
میں نے اپنے سامنے پھیلی وسیع و عریض زمین کی طرف نگاہیں دوڑائیں … میرے ساتھی بچے کھجوروں کے تنوں کے گرد چونٹیوں کی طرح جمع تھے اور کھجوریں اٹھا رہے تھے اور ان میں سے زیادہ تر کھجوریں خود کھا جارہے تھے۔ کھجوروں کو اونچے اونچے ڈھیروں کی صورت میں جمع کیا جا رہا تھا۔ پھر میں نے دیکھا کہ لوگ ان کھجوروں کو پیمانوں سے ناپ کر بڑے بڑے تھیلوں میں بھر رہے ہیں … جنھیں میں نے دل ہی دل میں گنا … تیس بوریاں تھیں۔ سب لوگ چلے گئے صرف کھجوروں کا تاجر حسین، ہماری زمین کی مشرقی جانب کی زمینوں کا مالک موسیٰ اور دو دوسرے لوگ جنھیں میں نہیں پہچانتا تھا، وہاں رہ گئے تھے۔
میں نے ہلکے خراٹوں کی آوازیں سنیں … گھوم کر دیکھا تو پتا چلا کہ دادا سو گئے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ مسعود اب بھی اسی حالت میں کھڑا تھا … صرف اتنا فرق پڑا تھا کہ اس نے کھجور کی ایک ننھی سی ٹہنی اپنے منہ میں ڈال لی تھی اور اسے چبا رہا تھا … اس آدمی کی طرح جس کا پیٹ بھر چکا ہو، اور وہ منہ میں لقمہ لیے سوچ رہا ہو کہ اب وہ اس کا کیا کرے۔
اچانک دادا جاگ گئے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر کھجوروں کی جانب بڑھے۔ ان کے پیچھے تاجر حسین، اور ہمارے پڑوس کی زمینوں کا مالک موسیٰ اور دونوں اجنبی بھی آگے بڑھے۔ میں نے مسعود کی طرف دیکھا … وہ ہماری طرف انتہائی سست روی سے بڑھ رہا تھا … کسی ایسے آدمی کی طرح جو رکنا چاہتا ہو لیکن اس کے قدم اسے آگے لیے جا رہے ہوں۔ وہ کھجوروں کے تھیلوں کے گرد دائرے کی شکل میں کھڑے ہو کر ان کا جائزہ لینے لگے … کسی کسی نے ایک دو کھجوریں کھانے کے لیے اٹھا لیں۔ میرے دادا نے ایک مٹھی کھجوریں مجھے دیں، جنھیں میں کھانے لگا۔ میں نے دیکھا کہ مسعود نے اپنی دونوں ہتھیلیوں میں کھجوریں اٹھا کر اپنی ناک کے پاس لے جا کر انھیں سونگھا اور پھر انھیں واپس رکھ دیا۔
پھر میں نے دیکھا کہ ان لوگوں نے کھجوروں کے تھیلے آپس میں تقسیم کر لیے۔ تاجر حسین نے دس تھیلے لیے، دونوں اجنبیوں نے پانچ پانچ تھیلے لیے، ہمارے پڑوس کی زمینوں کے مالک موسیٰ نے پانچ تھیلے لیے اور میرے دادا نے پانچ تھیلے لیے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ میں نے مسعود کی طرف دیکھا … اس کی آنکھیں دائیں بائیں حرکت کر رہی تھیں … ایسے چوہوں کی طرح جو اپنی بلوں کا رستہ بھول گئے ہوں۔
’’ تم ابھی بھی میرے پچاس پونڈ کے مقروض ہو۔ ‘‘میرے دادا نے مسعود سے کہا، ’’خیراس سلسلے میں ہم بعد میں بات کریں گے۔ ‘‘
حسین نے اپنے کارندوں کو آواز دی۔ وہ لوگ کھجوریں لادنے کے لیے چندخچر لے آئے، دونوں اجنبیوں نے اونٹوں کا انتظام کر رکھا تھا اور کھجوروں کے تھیلے ان پر لاد رہے تھے۔ ایک خچر زور دار آواز میں ہنہنایا جس کا برا مانتے ہوئے اونٹوں نے بھی زور دار آواز کے ساتھ اپنے منھ سے جھاگ اڑایا۔ نادانستہ طور پر میں مسعود کے قریب ہو گیا اور میرا ہاتھ اس کی طرف بڑھا جیسے میں اس کی عبا کا دامن پکڑنا چاہ رہا ہوں۔ اچانک اس کے گلے سے عجیب سی آواز نکلی جیسے کسی بھیڑ کو ذبح کیا جا رہا ہو۔ اور نہ جانے کیوں … مجھے اپنے سینے میں درد کی تیز ٹیس محسوس ہوئی۔
میں وہاں سے دوڑ کر بہت دور چلا گیا۔ میں نے سنا دادا مجھے آواز دے رہے تھے … ایک لمحے کے لیے میں جھجکا لیکن پھر دوڑتا چلا گیا … اس لمحے مجھے دادا سے نفرت سی محسوس ہوئی۔ میں نے اپنی رفتار بڑھا دی … میرے اندر کچھ تھا جس سے میں جلد از جلد نجات پانا چاہتا تھا۔ میں دریا کے کنارے اس جگہ پہنچا جہاں دریا مڑ کر کیکر کے درختوں میں گم ہو جا تا تھا۔ اور پھر … مجھے معلوم نہیں کیوں ؟ … میں نے اپنے گلے میں انگلیاں ڈال کر ان کھجوروں کو قے کرنے لگا جنھیں میں نے کھایا تھا۔
Original Story : A Handful Of Dates
By : Tayeb Salih (Sudan)
امن کے بعد
نائجریا
جوناتھن اوِگبو اپنے آپ کو بے حد خوش قسمت محسوس کر تا تھا۔ نئے نئے قائم ہونے والے امن کے ان دھندلے دھندلے سے دنوں میں پرانے دوستوں میں ایک دوسرے کو ’’زندگی مبارک ہو‘‘ کہہ کر مبارک باد دینے کا چلن تھا … لیکن اس کے لیے یہ محض مبارکبادی کا جملہ نہ تھا، بلکہ بہت کچھ تھا … یہ جملہ اس کے دل کی گہرائیوں میں اترا ہوا تھا۔ جنگ کے آتشیں ماحول سے وہ پانچ بیش بہا چیزیں بچا نے میں کامیاب رہا تھا۔ ان میں سے ایک تھا اس کا اپنا سر، ایک اپنی بیوی ماریا کا سر اور اپنے چار میں سے تین بیٹوں کے سر۔ یہی نہیں اضافی بونس کے طور پر وہ اپنی پرانی سائکل بھی بچانے میں کامیاب رہا تھا، جس کا بچ جانا ایک معجزے سے کم نہ تھا، بہرحال جو بھی ہو … پانچ انسانی سروں سے تو اس کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔
اس سائکل کی بھی اپنی الگ ہی کہانی تھی۔ ان دنوں جنگ زوروں پر تھی، اچانک ایک دن اس سے ’’ضروری فوجی کاروائی‘‘ کے لیے اس کی سائکل طلب کر لی گئی۔ حالاں کہ سائکل سے دستبردار ہونا اس کے لیے بہت ہی مشکل امر تھا پھر بھی وہ بلا جھجک سائکل ان کے حوالے کر ہی دیتا لیکن نہ جانے کیوں اسے ایسا لگا جیسے وہ اس فوجی افسر سے اپنی سائکل بچانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ایسا اس لیے نہیں تھا کہ اس فوجی افسر کی وردی بوسیدہ تھی، نہ ہی اس لیے کہ اس کے ایک پیر میں نیلا اور دوسرے پیر میں بھورا کینواس کا جوتا تھا جن سے اس کے پیروں کی انگلیاں جھانک رہی تھیں، اور نہ ہی اس لیے کہ اس کے عہدے کو ظاہر کرنے والے دونوں ستارے شاید بڑی جلدی میں بال پین سے بنائے گئے تھے۔ ان دنوں بے شمار اچھے اور بہادر فوجیوں کی حالت ویسی ہی یا اس سے بھی زیادہ خراب تھی۔ وہ تو اس فوجی کے انداز اور لہجے کی کمزوری تھی جس نے اسے ایسا سوچنے پر مجبور کیا تھا۔ اسے لگا جیسے وہ اس فوجی افسر سے اپنی بات منوا سکتا ہے۔ پس جوناتھن نے اپنے رافیا کے ریشوں سے بنے تھیلے میں تلاش کر کے دو پونڈ کے نوٹ نکالے اور اسے دے دیے۔ یہ رقم لے کر وہ جلاون کی لکڑیاں خریدنے نکلا تھا۔ اس کی بیوی ماریا یہ لکڑیاں فوجیوں کو فروخت کر کے کچھ آمدنی کر لیتی تھی تاکہ کچھ اضافی خشک مچھلی اور مکئی کی بنی غذا خرید سکے۔ بہر حال وہ اپنی سائکل بچانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اسی رات اس نے اپنی سائکل جھاڑیوں کے درمیان کی اسی چھوٹی سی خالی جگہ میں دفن کر دی، جہاں کیمپ کے دوسرے مردوں کے ساتھ اس کا چھوٹا بیٹا بھی دفن تھا۔ ایک سال بعد جب جنگ ختم ہو ئی اور اس نے زمین کھود کر اسے باہر نکالا تو یہ بالکل صحیح سلامت تھی، بس ذرا سی پام آئل ڈالتے ہی پھر سے قابل استعمال بن گئی۔ ’’خدا کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ‘‘اس نے حیرت سے کہا تھا۔
اس نے سائکل کا ایک بہتر استعمال ڈھونڈ لیا۔ اس نے اسے ٹیکسی کے بہ طور استعمال کر کے خاصی رقم کمالی۔ وہ فوجیوں اور ان کے اہل خانہ کو قریبی پکی سڑک، جو وہاں سے چار میل کے فاصلے پر تھی، پہنچا دیتا تھا۔ اس کے لیے وہ عام طور سے چھ پونڈ(بیا فرائی کرنسی ) کرایہ لیتا تھا اور جن لوگوں کے پاس رقم تھی وہ اس کا کچھ حصہ اس طرح خرچ کر کے خوش ہوتے تھے۔ دو ہفتوں ہی میں اس نے ایک سو پندرہ پونڈ جمع کر لیے جو اس کے لیے ایک خزانے سے کم نہ تھے۔
پھر ایک دن وہ اپنے شہراینوگو واپس گیا تو وہاں ایک اور معجزہ اس کا منتظر تھا۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ اس نے اپنی آنکھوں کو مل کر دوبارہ دیکھا … ہاں !وہ اس کے سامنے صحیح سلامت کھڑا تھا … لیکن پھر بھی یہ معجزہ اس کے خاندان کے پانچ سَروں کی سلامتی کے مقابلے کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ یہ نیا معجزہ اُوگوئی اُوور سائڈ پر واقع اس کا چھوٹا سا مکان تھا … بے شک !خدا کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں !اس سے صرف دو مکان آگے، ایک کنکریٹ کا بنا بہت بڑا اور شاندار مکان، جو ایک دولتمند ٹھیکے دار نے لڑائی چھڑنے سے چند دنوں قبل ہی بنوایا تھا، آج ملبے کا پہاڑ بنا پڑا تھا، اور وہیں جوناتھن کا جستے کی چادروں سے بنا مکان جس کی تعمیر میں مٹی کی کچی اینٹیں بھی استعمال کی گئی تھیں، صحیح سلامت تھا۔ بے شک دروازے اور کھڑکیاں غائب تھیں اور چھت کی پانچ چادریں بھی نہیں تھیں، لیکن یہ کوئی بڑی بات نہ تھی۔ وہ اینوگو بالکل صحیح وقت پر لوٹا تھا اور آس پاس بکھرے ملبے میں سے جستے کی چادریں، لکڑیاں اور کارڈبورڈ کے ٹکڑے چن سکتا تھا، اس سے قبل کہ ہزاروں لوگ اپنی جنگی پناہ گاہوں سے باہر نکل کر آتے اور یہی چیزیں تلاش کر تے پھرتے۔ اس نے ایک مفلوک الحال بڑھئی کو بھی ڈھونڈ نکالا جس کے اوزاروں والے تھیلے میں صرف ایک ہتھوڑی، ایک کند آری اور چندزنگ آلود، مڑی تڑی کیلیں ہی باقی بچی تھیں۔ وہ پانچ نائجیریائی شیلینگ یا پچاس بیافرائی پونڈ کے عوض لکڑی، جستے اور کارڈ بورڈسے، جو، جوناتھن چن کر لایا تھا، دروازے اور کھڑکیاں بنانے پر راضی ہو گیا۔ جوناتھن نے پونڈ اسے ادا کر دیے اور خوشی سے پاگل اپنے خاندان کے پانچ افراد کے ساتھ مکان میں داخل ہو گیا۔
نئے سرے سے زندگی کی شروعات کرنے کے لیے، اس کے بچے قریبی فوجی قبرستان سے آم توڑ کر فوجیوں کی بیویوں کو چند سکوں کے عوض فروخت کرنے لگے۔ اس کی بیوی پڑوس کے لوگوں کو فروخت کرنے کے لیے اَکارَا بال (ایک نائجریائی فاسٹ فوڈ ڈِش) بنانے لگی۔ جوناتھن اپنی سائکل پر آس پاس کے گاؤں سے تازہ تاڑی (تاڑ کی بنی شراب) خرید کر لاتا اور سڑک کے کنارے واقع نل سے، جس میں حال ہی میں پھر سے پانی آنا شروع ہوا تھا، پانی لا کر، تاڑی میں اچھی خاصی مقدار میں ملا تا۔ اس نے فوجیوں اور لڑائی میں زندہ بچ جانے والے خوش نصیب اور دولتمند لوگوں کے لیے ایک شراب خانہ کھول لیا تھا۔
کول کارپوریشن کے آفس میں، جہاں وہ پہلے کان کُن کے طور پر کام کرتا تھا، وہ بار بار جایا کرتا تھا، شروع شروع میں روزانہ، پھر ہر دوسرے دن اور پھر ہفتے میں ایک دن، تاکہ اسے نوکری کی بحالی کی کوئی خبر مل سکے۔ آخر کار جو بات اس کی سمجھ میں آئی وہ یہ تھی کہ اس کے مکان کا صحیح سلامت بچ جانا اس سے کہیں زیادہ بڑی خوش بختی تھی، جتنی وہ سمجھ رہا تھا … اس کے کچھ ساتھی کان کُن، جنھیں کوئی ٹھکانہ میسر نہیں تھا وہ دن بھر کے انتظار کے بعد، آفس کے درازوں کے باہر ہی بورن ویٹا کے ٹن کے ڈبوں میں اپنی استطاعت کے مطابق کوئی کھانے کی چیز پکا لیتے اور وہیں زمین پر سو جاتے۔ انتظار جب بہت طویل ہو گیا اور اس بات کی پھر بھی کوئی خبر نہ ملی کہ نوکری کا کیا ہو گا، تو اس نے ہر ہفتے آفس جانے کا اپنا معمول ختم کر دیا اور سنجیدگی سے اپنے شراب خانے میں دلچسپی لینے لگا۔
لیکن خدا کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ! قسمت اس پر مہربان تھی۔ ٹریزری آفس کے سامنے، تیز دھوپ میں، پانچ دن تک قطاروں میں لگنے کے بعد، آخر اس نے اپنے ہاتھ میں موجود بیس پونڈ کے نوٹوں کو گنا، جو اسے ’ایکس گریشیا‘ (Ex-gratia)انعام کے طور پر ملے تھے۔ جب رقم بٹنے لگی تو اس کے اور اس جیسے دوسروں کے لیے یہ سماں کرسمس سے کم نہیں تھا۔ زیادہ تر لوگ اسے ایگ ریشر کہا کرتے تھے کیوں کہ وہ اس کا صحیح تلفظ( ایکس گریشیا) ادا نہیں کر پاتے تھے۔
جیسے ہی پونڈ کے نوٹ اس کی ہتھیلی پر آئے اس نے فوراً سختی سے اپنی مٹھی بند کر لی اور پھر مٹھی کو اپنی پینٹ کی جیب میں ڈال لیا۔ وہ پوری طرح ہوشیار تھا، کیوں کہ ابھی دو دن قبل ہی اس نے ایک آدمی کو اس جم غفیر کے سامنے بری طرح پچھاڑیں کھاتے ہوئے دیکھا تھا۔ بے چارے کو جیسے ہی بیس پونڈ ملے، ویسے ہی کسی بے رحم جیب کترے نے اس کی جیب سے اڑا لیے تھے۔ اب ایک آدمی جس کے ساتھ اتنا بڑا حادثہ ہو چکا ہو، اسے کوئی الزام دینا کسی طرح مناسب نہ تھا، لیکن پھر بھی لوگ اس آدمی ہی کو اس کی لاپروائی کے لیے کوس رہے تھے، خاص طور سے جب اس نے اپنی جیب کو الٹ کر باہر نکالا تو اس میں ایک اتنا بڑا سوراخ موجود تھا جس میں سے ایک چور کا ہاتھ بڑی آسانی سے اندر جا سکتا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ وہ بضد تھا کہ رقم اس جیب میں نہیں دوسری جیب میں تھی، اس نے وہ جیب بھی باہر نکال کر دکھائی جو بالکل ٹھیک تھی … بہر حال ہر شخص کو محتاط رہنے کی ضرورت تھی۔
جلد ہی جوناتھن نے رقم بائیں ہاتھ میں لے کر پینٹ کی بائیں جیب میں ڈال لی، تاکہ ضرورت پڑنے پر، اس کا دایاں ہاتھ مصافحے کے لیے خالی رہے۔ حالاں کہ اس نے اپنی نگاہیں انسانی چہروں سے اوپر ایک ایسے زاویے پر ٹکا رکھیں تھیں کہ اسے یقین تھا کہ گھر پہنچنے تک اسے کسی سے مصافحہ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔
عام طور سے وہ بہت گہری نیند سویا کرتا تھا لیکن اس رات اس نے پاس پڑوس کی ساری آوازوں کو، ایک کے بعد ایک، رات کے سناٹے میں ڈوبتے ہوئے سنا۔ یہاں تک کہ رات کا چوکیدار، جو ہر گھنٹے، دور کسی دھاتی شے کو بجایا کرتا تھا، وہ بھی شاید ایک کا گھنٹہ بجانے کے بعد کہیں سو گیا تھا۔ جوناتھن یہی سوچتے سوچتے آخر خود بھی نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ ابھی اسے سوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک اس کی آنکھ کھل گئی۔
’’کون دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے؟‘‘ اس کی بیوی نے سر گوشی کی، جو زمین پر اس کی بغل میں لیٹی ہوئی تھی۔
’’مجھے پتا نہیں۔ ‘‘ اس نے بھی سر گوشی میں جواب دیا۔
دوسری بار ہونے والی دستک زیادہ تیز تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کمزور سا دروازہ گر پڑے گا۔
’’کون ہے؟‘‘ اس نے پوچھا، اس کی آواز کپکپا رہی تھی۔
’’ہم چور ہیں … دروازہ کھولو۔ ‘‘ باہر سے جواب ملا اور ساتھ ہی زور دار آواز میں دروازہ پیٹا گیا۔
اس کی بیوی ماریا نے سب سے پہلے چیخنا شروع کیا۔ اس کے ساتھ اس کے سبھی بچے بھی چیخنے لگے۔
’’چور … چور … پولیس! … پڑوسیو ! … ہمیں بچاؤ … چور آئے ہیں … ہم لٹ جائیں گے … ہم بر باد ہو جائیں گے … پڑوسیو! … تم لوگ سو رہے ہو … جاگو … ہمیں بچاؤ … پولیس … ۔ ‘‘
کافی دیر تک وہ لوگ چیختے رہے۔ پھر اچانک خاموش ہو گئے۔ شاید انھوں نے چوروں کو ڈر کر بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ مکمل سناٹا طاری تھا، لیکن بہت کم وقت کے لیے … ۔
’’چیخنا چلانا ہو گیا؟‘‘باہر سے آواز آئی، ’’ یا ہم بھی تمھاری تھوڑی مدد کر دیں ؟‘‘
اور پھر چور خود ہی چیخنے لگے’’ اے لوگو … چور … چور … پولیس! … پڑوسیو ! … ہم لٹ جائیں گے … ہم بر باد ہو جائیں گے … ہمیں بچاؤ … پولیس … ۔ ‘‘
سرغنہ کے علاوہ کم از کم پانچ دوسری آوازیں بھی اس خوفناک کورَس میں شامل تھیں۔
جوناتھن اور اس کے خاندان کا خوف سے برا حال تھا۔ ماریا اور اس کے بچے بری طرح بے آواز رو رہے تھے۔ جوناتھن لگاتار کراہے جا رہا تھا۔ اس کے پیر اس کے اپنے بوجھ تلے بری طرح کپکپا رہے تھے۔
چوروں کے چیخنے کے بعد کا سناٹا بڑا ڈراؤنا لگ رہا تھا۔ جوناتھن ان کے سرغنہ سے منتیں کرنے لگا کہ وہ اسے بخش دے، اس کے پاس انھیں دینے کے لیے کچھ نہیں۔
’’سنومیرے دوست۔ ‘‘ آخر چوروں کے سر غنہ نے کہا، ’’ہم برے نہیں ہیں۔ ہم کسی کو بے کار ستانا نہیں چاہتے۔ مشکلات کا دور ختم ہو گیا ہے۔ لڑائی ختم ہو گئی ہے۔ اب خانہ جنگی پھر نہیں ہو گی۔ اب امن کا دور ہے۔ ہے یا نہیں ؟‘‘
’’ہاں ہے۔ ‘‘ اس کے ساتھیوں نے ایک ساتھ اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
’’تم مجھ سے کیا چاہتے ہو ؟میں ایک بے حد غریب آدمی ہوں۔ میرے پاس جو کچھ بھی تھا وہ جنگ کی نذر ہو گیا۔ تم میرے پاس کیا لینے آئے ہو؟ تمھیں تو ایسے لوگوں کا پتا ہو گا جن کے پاس ابھی بھی دولت ہے۔ ہم لوگ تو … ۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے! ہم بھی یہ جانتے ہیں تمھارے پاس بہت زیادہ دولت نہیں، لیکن ہم کیا کریں ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ اس لیے تم یہ کھڑکی کھولو اور ہمیں صرف ایک سو ڈالر دے دو۔ ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔ دوسری صورت میں ہم اندر آئیں گے اور تمھیں مزہ چکھائیں گے۔ ایسے … ۔ ‘‘
ایک آٹومیٹک گن سے ہونے والے فائر کی زبردست آواز سے ماحول گونج اٹھا۔ ماریا اور بچے ایک بار پھر زور زور سے رونے لگے۔
’’اوہ مسّی … روؤ مت … اس کی ضرورت نہیں ہے … ہم نے کہا نا کہ ہم شریف چور ہیں … ہم صرف ایک چھوٹی سی رقم لیں گے اور خاموشی سے یہاں سے چلے جائیں گے … کوئی بے حرمتی نہیں کی جائے گی … ہمارا وعدہ ہے۔ ‘‘ سرغنہ کی آواز آئی۔
’’بالکل صحیح۔ ‘‘بقیہ چوروں کی آوازیں سنائی دیں۔
’’دوستو … ‘‘جوناتھن نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ’’تم نے جو بھی کہا میں نے سنا … میں تمھارا شکریہ ادا کرتا ہوں … اگر میرے پاس ایک سو پونڈ ہوتے تو میں … ۔ ‘‘
’’دیکھو میرے دوست! تم ہم سے کھیل کھیلنے کی کوشش مت کرو … اگر ہم غلطی سے تمھارے گھر کے اندر گھس آئے تو پھر اس کے بعد کا کھیل بہت برا ہو گا … ۔ ‘‘
’’خدا کی قسم جس نے مجھے پیدا کیا۔ تم گھر کے اندر آؤ اور اگر تمھیں ایک سو پونڈ مل جائیں تو میں تم سے کہتا ہوں کہ تم مجھے اور میری بیوی بچوں کو گولی مار دینا۔ میں خدا کی قسم کھاتا ہوں۔ آج میرے پاس اگر کوئی رقم ہے تو وہ ہے صرف بیس پونڈ جو آج ہی ایگ ریشر کے طور پر مجھے ملے ہیں … ‘‘ جوناتھن گڑگڑایا۔
’’ٹھیک ہے … چلو … کھڑکی کھولو اور وہ بیس پونڈ میرے حوالے کرو … ہم اسی میں کام چلا لیں گے۔ ‘‘
اچانک باہر سے بہت ساری بھنبھناتی ہوئی آوازیں سنائی دینے لگیں۔
’’ارے جھوٹ بولتا ہے۔ ‘‘
’’یہ آدمی جھوٹ بولتا ہے۔ ‘‘
’’ہمیں اندر جا کر اچھی طرح تلاشی لینی چاہیے۔ ‘‘
’’اس کے پاس زیادہ رقم ہے۔ ‘‘
’’خاموش رہو۔ ‘‘سرغنہ کی غراتی ہوئی آواز فائر کے دھماکے کی طرح فضا میں گونج اٹھی اور ساری بھنبھناتی آوازیں یک لخت خاموش ہو گئیں۔
’’کیا تم موجود ہو ؟ … ۔ جلد رقم میرے حوالے کرو۔ ‘‘
’’میں آ رہا ہوں۔ ‘‘ جونا تھن جلدی سے بولا۔ اندھیرے میں وہ لکڑی کے ننھے سے صندوق کا تالا کھولنے کی کوشش کر رہا تھا، جسے اس نے اپنے پاس ہی چٹائی پر رکھا ہوا تھا۔
٭٭
صبح کی پہلی کرن کے ساتھ ہی اس کے پڑوسی اور کئی دوسرے لوگ اظہار افسوس کے لیے جمع ہوئے۔ جوناتھن اپنا پانچ گیلن کا ڈرم سائکل کے کیریرسے باندھ رہا تھا اور اس کی بیوی آگ پر چڑھی مٹی کی ہانڈی میں کھولتے ہوئے تیل میں اکارا بالوں کو الٹ پلٹ رہی تھی اور پسینے میں شرا بور بھی۔ ایک طرف اس کا بڑا بیٹا بیئر کی پرانی بوتلوں سے کل کی بچی تاڑی کو دھو رہا تھا۔
’’میرے خیال سے یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں۔ ‘‘ اس نے ہمدردی جتانے والوں سے کہا، اس کی نگاہیں اس رسی پر جمی تھیں جسے وہ باندھ رہا تھا ’’ … ایگ ریشر کیا چیز ہے؟ … کیا میں گزشتہ ہفتے تک اس پر منحصر تھا؟ … کیاوہ ان چیزوں سے زیادہ قیمتی ہے جو میں اس جنگ میں کھو چکا ہوں ؟ … میں کہتا ہوں، اس ایگ ریشر کو چولہے میں جھونکو … اسے بھی وہیں جانے دو جہاں ہمارا سب کچھ گیا ہے … خدا کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں۔ ‘‘
Original Story : Civil Peace
By: Chinua Achebe (Nigeria)
شاملِ انتخاب افسانہ نگار
Abdulrazak Gurnah
عبدالرزاق گرناہ کی پیدائش 1948ء میں زنجیبار میں ہوئی۔ انھوں نے یونیورسٹی آف کینٹ، کنٹر بری، انگلینڈسے پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور اب اسی یونیورسٹی میں لکچرر کے عہدے پر فائز ہیں۔ ان کے کئی ناول اب تک شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں : Memory of Departure (1987)، Pilgrims Way (1988)، Dottie (1990)، Paradise (1994)، Admiring Silence (1996)، By the Sea (2001)اور Desertion (2005)۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ My Mother Lived on a Farm in Africa کے نام سے 2006 میں شائع ہو چکا ہے۔
Chinua Achebe
Igboنسل کے Achebe کا پورا نام Albert Chinualumogu Achebe ہے۔ ان کی پیدائش1930ء میں نائجریا کے شہر Ogidiمیں ہوئی۔ ان کے والدین نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا تھا۔ Achebeنے University of Ibadanسے انگریزی، تاریخ اور مذہبیات میں ڈگری حاصل کی۔ یونیورسٹی میں ہیAchebeنے اپنے انگریزی نام Albertکو تیاگ دیا اور اپنے روایتی نام Chinuaکو اپنا لیا۔
تعلیم حاصل کرنے کے بعد کچھ دنوں تک وہ بحیثیت استاد کام کرتے رہے پھر انھوں نے Nigerian Broadcasting Companyمیں نوکری کر لی۔ 1960میں انہیں Voice of Nigeria کے External Serviceکا ڈائرکٹر کے عہدے پر فائز کیا گیا۔
ان کے پہلے ناولThings Fall Apart نے زبردست کامیابی حاصل کی او راب تک دنیا کی تقریباً 50 زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ ان کے دیگر ناولوں No Longer at Ease (1960)، Arrow of God (1964) ، A Man of the People (1966) ، Anthills of the Savannah (1987)نے بھی کچھ کم شہرت نہیں پائی۔ ان کے افسانوں کا مجموعہGirls at war کے نام سے شائع ہو کر بے پناہ مقبولیت حاصل کر چکا ہے۔ انھوں نے شاعری بھی کی ہے۔ ان کے دو شعری مجموعے Beware, Soul Brother اور Christmas in Biafra کے نام سے منظر عام پر آ چکے ہیں۔
Emmanuel B. Dongala
Dongala کانگو کے شاعر، ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں۔ ان کا شمار افریقہ کے نمائندہ طنز نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی پیدائش 1941ء میں ہوئی۔ ثانوی تعلیم کانگو میں مکمل کرنے کے بعد ڈونگالا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکہ اور فرانس چلے گئے۔ اور وہیں Strassbourg University اورBrazzaville University میں کیمسٹری کے پروفیسر کے عہدوں پر فائز رہے۔ انھوں نے ایک ناول Un fusil dans la main, un poème dans la poche لکھا۔ ان کے افسانوں کے مجموعے Jazz et vin de palme پر کانگو میں پابندی لگا دی گئی تھی۔ اس انتخاب میں شامل افسانہ The Man (وہ آدمی) اس مجموعے میں شامل ہے جسے پڑھ کر بخوبی اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ اس افسانوی مجموعے پر پابندی کیوں لگائی گئی تھی۔
Luis Bernardo Honwana
Honwana کی پیدائش1942ء میں موزمبیق کی راجدھانی Moputoمیں ہوئی۔ ان کا بچپن Moamba میں بیتا۔ 17سال کی عمر میں وہ صحافت کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سےMoputo لوٹ آئے۔ 1964ء میں وہ موزمبیق کی آزادی کی لڑائی میں شامل ہو گئے اور بہت جلد ان کا شمار انتہائی سرگرم مجاہدین آزادی میں ہونے لگا۔ پرتگالی حکومت کے خلاف باغیانہ سر گرمیوں کے جرم میں انہیں تین سال کے لیے جیل بھی جانا پڑا۔ موزمبیق کی آزادی کے بعد انہیں اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز کیا گیا ساتھ ہی وہ موزمبیق کے صحافیوں کی قومی تنظیم کے صدر بھی مقرر ہوئے۔
1969ء میں ان کا افسانوی مجموعہWe Killed The Mangy-Dog and other stories شائع ہوا جس نے انہیں عالمی شہرت بخشی۔ اس کتاب کا ترجمہ دنیا کی کئی زبانوں میں ہوا۔
Mohamed El- Bisatie
محمد البساطی کی پیدائش 1937ء میں مصر کے شہر el-Gamalia میں ہوئی۔ انھوں نے1960ء میں اسکول آف کامرس، قاہرہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ اس کے بعد سے وہ مختلف سرکاری عہدوں پر کام کرتے رہے۔ حال ہی وہ اکاؤنٹینسی انسپکٹرکے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔
انھوں نے 1962ء میں لکھنا شروع کیا۔ ان کے افسانے باقاعدگی سے al-Masa’, al-Katib,al-Majalla, Rose el-Youssef وغیرہ رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ الکبیر والصغیر1967ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد سے ان کے افسانوں کے مزید 6 مجموعے اور 9 ناول شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں۔ ان کے کئی ناولوں اور افسانوں کا ترجمہ انگریزی، اطالوی، فرانسیسی اور اسپینش زبانوں میں ہو چکا ہے۔
Moyez Gulamhussein Vassanji
ہندوستانی النسل واسن جی کی پیدائش 1950ء میں نیروبی، کینیا میں ہوئی۔ انھوں نے دارالسلام، تنزانیہ کے آغا خان اسکول میں تعلیم حاصل کی پھر امریکہ چلے گئے اور میسا چوزٹس یونیورسٹی سے نیوکلیر فزکس میں ماسٹرس ڈگری اور یونیورسٹی آف پنسلوانیا سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور فی الحال کناڈا کے Chalk River Laboratoriesمیں سائنسداں کے عہدے پر فائز ہیں۔
اپنے پہلے ناولThe Gunny Sack کے لیے انھوں نے 1989ء میں Commonwealth First Book Prize (Africa) حاصل کیا۔ اس کے علاوہ انہیں Giller Prize (دو بار) ، Harbourfront Festival Prize، Bressani Prize ، Order of Canadaاور Governor-General’s Prize for best novel in Canada بھی مل چکے ہیں۔ اب تک ان کے چھ ناول اور دو افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔
Nadine Gordimer
گورڈیمرکا نام افریقی ادب میں کسی ستارے کی طرح روشن ہے۔ ان کی پیدائش 1923ء میں ساؤتھ افریقہ میں ہوئی۔ ان کے ماں باپ مہاجر یہودی تھے جو یورپ سے ہجرت کر کے افریقہ آئے تھے۔ یوروپی نسل سے تعلق رکھتے ہوئے بھی گورڈیمر دل سے افریقی ہیں اور ان کی پوری زندگی سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے لڑتے ہوئے افریقہ میں ہی گزری ہے۔
گورڈیمر کے اب تک چودہ ناول اور انیس افسانوی مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ ان کے علاوہ تنقیدی مضامین کے چار مجموعے اور دو ڈرامے بھی شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے ناول The Conservationist کو 1974ء میں Bookers Prize اور1975ء میں فرانس کے عالمی ادبی انعام Le Grand Aigle d’Or سے نوازا جا چکا ہے یہی نہیں 1991ء میں انہیں ادب کا نوبل پرائز بھی مل چکا ہے۔
Njabulo S. Ndebele
Ndebeleساؤ تھ افریقہ کے مشہور افسانہ نگار ہیں۔ ان کی پیدائش 1948ء میں جوہانسبرگ میں ہوئی۔ انھوں نے انگلینڈ کی کیمبرج یونیورسٹی سے ایم۔ اے اور امریکہ کی ڈینور یونیورسٹی سے پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں اور یونیورسٹی آف کیپ ٹاؤن، ساؤتھ افریقہ کے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔ ان کے افسانوی مجموعےFools and other stories کو 1983ء میں Noma Awardسے سرفراز کیا گیا جو افریقہ کا اعلیٰ ترین ادبی ایوارڈ ہے۔ ان کے دیگر کئی افسانوی مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں : Bonola and the peach tree (1991) ، The Prophetess (1992) ، Sarah, Ring & I (1993)، Death of a son (1996) ۔ ان کی حالیہ کاوش The Cry of Winnie Mandela نامی ناول ہے جو در اصل حقیقت اور فسانے کا دلچسپ امتزاج ہے۔
Okey Chigbo
Chigbo کی پیدائش 1955 ء میں نائجریا کے شہر اینوگو میں ہوئی۔ ثانوی تعلیم اپنے شہر میں مکمل کر نے کے بعد چگبو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے 1976ء میں کناڈا چلے گئے اور وینکور کی سائمن فراسر یونیورسٹی سے اکانمکس میں بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے مضامینWest Africa، New Africa، African Events، Black Enterprise، Class اور The Business Journal میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ موصوف Equinox اور Metro Toronto Business Journal کے ایسو سی ایٹ ایڈیٹر بھی ہیں۔ ان کے مضمون Reading, writing and racism کو 1997ء میں National Magazine Award سے نوازا گیا۔ ان کے افسانے بھی وقتاً فوقتاً افریقہ کے بیشتر رسائل کی زینت بنتے رہتے ہیں۔
Steve Chimombo
چی مومبو 1945ء میں مالاوی کے شہرزومبا میں پیدا ہوئے جو نوآبادیاتی دور میں مالاوی کی راجدھانی رہا ہے۔ انھوں نے یونیورسٹی آ ف مالاوی سے بی۔ اے اور امریکہ کی University of Wales اورColumbia University پھر ماسٹرس ڈگریاں حاصل کیں۔ دوران تعلیم ان کی ملاقات کئی جدید شاعروں اور مصنفین سے ہوئی جن میں ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ بھی شامل تھے۔ وطن لوٹنے کے بعد چانسلر کالج، یونیورسٹی آف مالاوی میں انگریزی کے پروفیسرکے عہدے پر فائز کیے گئے۔ انھوں نے ایک ناول The basket Girl لکھا۔ ان کے افسانوں کا مجموعہTell Me a Story کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ مالاوی کے زبانی ادب سے متعلق ایک کتاب، کئی ڈرامے اور افسانے بھی شائع ہو چکے ہیں۔ 1976ء میں ان کے افسانے نے برٹش کاؤنسل نیشنل شارٹ اسٹوری کمپٹیشن میں اول انعام جیتا۔
چی مومبو اچھے شاعر بھی ہیں۔ ان کی نظموں کے مجموعےNapola Poems کو 1988ء میں افریقہ کے سب سے بڑے ادبی انعامNoma Award سے نوازا گیا۔
Tayeb Salih
طیب صالح کی پیدائش 1929ء میں سوڈان کے Merowe نامی قصبے میں ہوئی۔ انھوں نے خرطوم یونیورسٹی اور پھر لندن یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور براڈ کاسٹنگ سروس سے منسلک ہو گئے۔
طیب صالح کے افسانوں کے موضوعات زیادہ ترسیاست اور عورتوں کے مسائل ہیں۔ عصری عربی ادب میں طیب صالح سب سے اہم افسانہ نگار مانے جاتے تھے۔ طیب صالح نے فلسفہ، سماجیات، عربی ادب اور مغربی ادب کا بھر پور مطالعہ کر رکھا تھا۔ ان کے افسانوں میں مصری اور مغربی ثقافتوں کا زبردست امتزاج ملتا ہے۔
ان کا ناول Season of Migration to the North (1966) عربی زبان میں شائع ہوا۔ جسے دمشق، شام کی Arab Literary Academy نے بیسویں صدی کا سب سے اہم عربی ناول قرار دیا۔ بعد ازاں ان کے تین مزید ناول اور افسانوں کا ایک مجوعہ شائع ہوئے۔ ان کے ایک ناولThe Wedding of Zein کو لیبیا میں ڈرامے کی شکل دی گئی جس پر بعد میں ایک کویتی فلم ساز نے فلم بھی بنائی جس نے Cannes Festival میں انعام جیتا تھا۔ 19 فروری 2009ء کو لندن میں ان کا انتقال ہو گیا۔
Tololwa Marti Mollel
Mollel کی پیدائش1952ء میں تنزانیہ کے شہر Arusha میں ہوئی۔ انھوں نے1972ء میں یونیورسٹی آف دارالسلام، تنزانیہ سے لٹریچر اینڈ تھیٹر میں بی۔ اے، 1979ء میں کناڈا کی University of Alberta سے ڈراما میں ایم۔ اے اور 2001ء میں پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ 1979سے 1986کے دوران تنزانیہ میں اور اور اس کے بعدسے کناڈا کی University of Albretaمیں ڈراما کے لکچرر کے عہدے پر فائز ہیں۔ ان کے افسانے Greenfield Review، Okike اور Kurapipiجیسے مستند رسائل کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ BBCریڈیو سے بھی ان کے کئی افسانے اور ڈرامے نشر ہو چکے ہیں۔
٭٭٭
تشکر: مترجم/،صنف جنہوں نے اس کی فائل بھی فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
بہت خوب . . .