FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

ایڈس

اسباب و عوامل پیش رفت اور اسلام

 

               مفتی فخر الزماں ازہر قاسمی، مظفر نگری

 

 

 

 

               حدیث

 

’’ لَمْ تَظْھَرِ الْفَاحِشَۃُ فِیْ قَوْمٍ قَطُّ حَتّٰی یُعْلِنُوْابِھَا اِلَّا فَشَا فِیْھِمْ الطَّاعُوْنُ وَالْاَوْجَاعُ الَّتِیْ لَمْ تَکُنْ مَضَتْ فِیْ اَسْلَافِھِمُ الَّذِیْنَ مَضَوْا۔۔۔۔ ‘‘

’’جب کسی قوم کے لوگ بے حیائی کے امور برسرعام انجام دینے لگتے ہیں تو ان لوگوں میں اس طرح کی پریشانیاں آ جاتی ہیں، جو اس سے پہلے کبھی نہیں آئی اور اس سے پہلے لوگوں میں بھی کبھی نہیں آئی ہوتی۔ ‘‘

 

 

 

 

انتساب

 

ّٓاس ذات اقدس ومقدس کے نام:

جس ذات نے انسانوں کے اندر انسانیت کی روح پھونک کر عورت کو بام عروج تک پہنچایا۔

اس معزز والد کے نام:

جس کی بے مثال تربیت ہمارے لئے استقامت بر راہ حق میں ممد و معاون بنتی رہی ہے۔

جو ہمارے لئے بہترین مربی بھی ہے عمدہ استاذبھی، مشفق بھی ہے اورمحسن بھی۔

جس کا وجود ہمارے لئے آنکھوں کاسروربھی ہے، دلوں کا سکون بھی ہے اور وقار زندگی بھی۔

اس مقدس ماں کے نام:

جس کو محسن انسانیت نے ’’اَلْجَنَّۃُ تَحْتَ اَقْدَامِ الْاُمَّھَات‘‘ فرما کر جنت سے بالاتر مقام کی مہر ثبت کر دی۔

اس عظیم ماں کے نام :

جو راہ حق کی مسافرہ بھی تھی، داعیہ بھی اور لائق تقلید بھی۔

اس محسن ماں کے نام :

جو ہرکسی کے لئے ہر دکھ درد میں ہمہ وقت مداوا ہوتی تھی۔

اس پیار بھری ماں کے نام:

جس کی مخلصانہ سحرگاہی اور سحرخیزی دعائیں کبھی بھی ہمارے تذکرے سے خالی نہ ہوتی تھی۔

اس مقدس ماں کے نام:

جو موت وزیست کی اس جنگ میں شکست سے دوچار ہوئی، جہاں اعلی و ادنیٰ اور حاکم و راعی حتی کہ ہر کوئی زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔

24؍مارچ2013بروزیکشنبہ کی وہ ایک رات تھی(جو ہم چھ بھائی بہن کے لئے سخت غم انگیز اور نہایت ہی الم خیز رات بن کر ظاہر ہوئی تھی، جس رات میں ہم سب ماں کی ممتا کی ٹھنڈی اور گھنی چھاؤں سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو گئے تھے)گھڑی قریب 9بجا رہی تھی، وہ فرش مرگ پر دراز تھی، حکم خداوندی ’’ کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ‘‘ یوم ازل سے طے تھا ہی کہ حکم موعود ’’اِذَاجَاءَ اَجَلُھُمْ لَایَسْتَاخِرُوْنَ سَاعَۃً ‘‘آن پہنچا، ہونٹوں کو ذرا جنبش ہوئی اوربس!پھر وہ اثنائے راہ سسکتا چھوڑ کر ہمیں داغ مفارقت دے گئی۔ ’’رَبِّ اغْفِرْلِی وَلِوَالِدَيَّوَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ۔ ‘‘آمین

دفترہستی میں تھی، زریں ورق تیری حیات

تھی سراپادین و دنیا کا سبق تیری حیات

فخر الزماں ازہر قاسمی مظفر نگری

امام و خطیب جامع مسجدوزیرآباد، دہلی

 

 

 

 

پہلی بات

 

عالمی پیمانے پرہرسال ’یکم دسمبر‘کو’’یوم ایڈس‘‘Aids Dayمنایا جاتا ہے، سال گذشتہ یکم دسمبرکو’روزنامہ انقلاب‘ میں ایڈس کے متعلق کچھ معلومات مرقوم تھیں، جو میں ایڈس کے بارے میں پہلی بار پڑھ رہا تھا، میں نے مزید معلومات کے حصول کے لئے کئی جگہ کوشش کی، جو طلبہ I.A.S.کی تیاری کے لئے یہاں رہتے ہیں، ان سے بھی وافر مقدار میں معلومات حاصل ہوئیں، انٹرنیٹ کا بھی سہارالیا گیا، بعد نماز عشا جامع مسجدوزیراباد، دہلی میں روزانہ تفسیرقرآن کا عمل چلتا ہے، اس میں اتفاقاکسی طرح اس موضوع پر بات نکل چلی، اسلامی نقطہ نظرکوسامنے رکھ کر اس موضوع پر تفصیلی بات ہوئی،

جو ذخیرہ اس وقت ذہن و دماغ میں موجود تھا اس کو قلم بند کیا، مگر نہایت ہی اختصار کے ساتھ، وہ مواد اب ایک طویل مضمون کی شکل میں تیار ہو گیا تھا، جوسب سے پہلے ہفت روزہ ’’الحارث‘‘ مظفر نگر میں مسلسل چارقسطوں میں شائع ہوا، بعد ازاں مولانا مصطفی صاحب کے توسط سے دہلی کے کئی اخباروں میں شائع ہوا، مذکور موصوف نے اس مضمون کو ایجنسی میں بھی ارسال کیا۔

امسال ماہ شوال میں جب یہ کاپیاں میری نظروں سے گذریں توازسرنومطالعہ کیا کچھ ترمیم و تبدیلی کے ساتھ اضافے کا بھی داعیہ پیدا ہوا پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ مضمون کافی ضخیم ہوتا چلا گیا، گذشتہ تین سال کے عرصے میں راقم کے نصف درجن سے زائد کتابچے کئی کئی ایڈیشن کے ساتھ شائع ہو کر مقبول عام ہو گئے تھے، اس بار دیر ہو رہی تھی، ساتھی مسلسل تقاضا بھی کر رہے تھے، مشورے کے بعداسی مضمون کی طباعت کا فیصلہ ہوا، طباعت سے پہلے میں نے اس سلسلے میں کئی ڈاکٹروں سے بھی صلاح لی، ان کے ایما پر کچھ حذف و اضافہ اور ترمیم کا عمل کیا گیا اور یہ کام کئی بار ہوا، بفضل ایزدی اب یہ پائے تکمیل تک پہنچ گیا ہے ا ور اللہ کے فضل و کرم سے یہ مضمون آج ایک کتاب کی شکل میں ہم سب کے ہاتھوں میں ہے، اللہ قبول فرمائے، اور ہم سب کے لئے ذریعہ مغفرت بنائے، آمین۔

فخر الزماں ازہر قاسمی مظفر نگری

 

 

 

 

تمہید

 

 

جہاں بہت سے انسان اکٹھے رہتے ہیں، اس کو بستی، قصبہ اور شہر کہا جاتا ہے اور ان شہروں میں کتنے ہی اقسام کے باشندے اور مختلف المزاج لوگ زندگی کے شب و روز گذارتے ہیں، ان میں ہر فرد بشر کی صلاحیت و استعداد جدا جدا ہوتی ہے، ان میں لینے کی صلاحیت بھی جدا ہوتی ہے اور دینے کی استعداد بھی، بیماری سے نبرد آزما ہونے کی اور نپٹنے کی طبیعت بھی الگ الگ ہوتی ہے، ہمیشہ ہوا ہے کہ مختلف النوع صلاحیتوں میں بعض صلاحیت بہت جلد متاثر ہو جاتی ہے اور بعض بالکل اس کے برعکس ہوتی ہے، جب کہ بعض ان دونوں سے ذرا مختلف ہوتی ہے، ان مختلف النوع اور مختلف المزاج صلاحیتوں و طبیعتوں کے بیچ ہی ایک معاشرہ پروان چڑھتا ہے، یہ بھی طے ہے کہ جب معاشرے میں بے راہ روی در آتی ہے تو معاشرے میں بسی طبیعت بھی ضرور متاثر ہوتی ہے، بسا اوقات یہ اثرات بد اتنے قوی تر اور زود اثر ہوتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی آدمی پھندے میں آ جاتا ہے، پھر اس قفس سے خلاصی ناممکن ہو جاتی ہے، ان اثرات میں سے ایک اثر بد ایڈس (AIDS) بھی ہے۔

یہ خوفناک اور جان لیوا مرض(Disease)گذشتہ صدی کے آٹھویں دھائی میں ایسا وجود پذیر ہوا ہے، جس کو عذاب سماوی کے علاوہ کسی اور عنوان سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا اور جب سے ہمارے معاشرے میں اس کے پودے ہرے ہونا شروع ہوئے ہیں، روزبروز ان کی جڑیں صلابت ہی کی طرف گامزن ہے اور متاثرین کی تعداد میں روز و شب اضافہ ہی ہو رہا ہے، اس کے سبب کتنی ہی دیگر بیماریاں و دشواریاں جنم لے رہی ہیں اور بے شمار جانیں تلف ہو رہی ہیں، مشترکہ فیملی بکھر رہی ہے، خاندانوں میں بجائے قرب کے بعد شدید ہو رہا ہے، معاشرے میں سراسیمگی کے بادل چھا رہے ہیں ، حالاں کہ اس خطرناک مہلک مرض کے خاتمہ کے لئے سرکاری اور کتنی ہی غیر سرکاری تنظیمیں انتھک جد و جہد اور محنت شاقہ میں لگی ہوئی ہیں، اس کے باوجود ایڈس(AIDS) سے متاثرین کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔

شروعات:

بیسویں صدی کی چھٹی دھائی سے پہلے فرد انسانی میں کوئی ایسا نہ تھا، جس میں ایڈس پایا جاتا ہو اور اس کا علم عام ہو گیا ہو، انسان کے کسی بھی فرد میں اس کا وجود نہ تھا، اسی وجہ سے اس وقت کے جملہ ریکارڈ(Record)اس مرض کے تذکرے سے یکسرخالی ہیں، یہ مرض جوں ہی شروع ہوا تو جنگل میں آگ کی طرح بہت تیزی سے پھیلتا گیا، اور اسی وقت سے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لیتا گیا، آج کل تو سیکڑوں بلاداسلامیہ وغیراسلامیہ میں نہایت ہی شدت اور کر و فر کے ساتھ پایا جاتا ہے، مگر ابتدا میں پانچ ممالک پیش پیش تھے۔

(۱)مشرقی امریکا North America)

(۲)جنوبی امریکا(South America)

(۳)یورپ(Europe)

(۴)جنوبی افریقہ(South Africa)

(۵)آسٹریلیا(Australia)۔

اوّل اوّل سبھی اس مہلک مرض سے نا آشنا تھے، اسی ناآشنائی کی وجہ سے علاج و معالجہ میں بھی کامیابی و کامرانی مشکل تھی، مگر 1980میں ڈاکٹر کاپوسل سارکوما(Dr. Kaposil Sarkoma)نے اس مرض کو ’’کینسر‘‘(Cancer)سے ملتی جلتی بیماری سے لوگوں کو روشناس کرایا، ابھی تحقیق وتخریج جاری ہی تھی کہ 1981میں نیویارک(New York)کے اندر اس بیماری میں ملوث آٹھ معاملات(Cases)ایسے لوگوں کے پیش آئے جو غیر محفوظ جنسی عمل(Sex)کے بھی دلدادہ تھے، چوں کہ تمام تر توجہ دوسری طرف تھی تو یہ معاملات (Cases)اس وقت ان لوگوں کے لئے نہایت ہی چونکا دینے والے ثابت ہوئے، لیکن انھیں دنوں کیلیفورنیا (California)اور نیویارک(New York )میں پھیپھڑوں (lungs)میں پائی جانے والی ایک بیماری کا بھی ہر چہار جانب چرچا تھا، جس سے لوگوں میں خوف وسراسیمگی پھیلی ہوئی تھی، ڈاکٹرز اس کو اس بیماری کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کی کوششوں میں مصروف تھے، تو جون 1981کو ہوا یوں کہ امریکا میں لاس اینجلس(Los Angeles)میں پانچ ایسے لوگوں کے معاملات(Cases)پیش آئے، جوایڈس میں پوری طرح ملوث تھے، ان معاملات کی جانچ کرائی گئی، جانچ کی رپورٹ(Report)کے ذریعہ ماہرین ڈاکٹرز نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ اس بیماری کے پھیلنے و پھولنے کا سبب اصلی کہیں غیر محفوظ جنسی تعلقات (unprotected sex with multiple partners)تو نہیں ، کیوں کہ اسی غیر محفوظ جنسی تعلقات یا خلاف فطرت جنسی عمل (Homosexual)سے اس مرض کے اثرات (Transmitted) ایک سے دوسرے کی طرف دوسری چیزوں کی بہ نسبت زیادہ منتقل ہوتے ہیں۔

آخری میٹنگ:

آئندہ ماہ جولائی 1981کو 23صوبہ جات میں مزیدایسے 52معاملات پیش آئے تو سرکاری سطح پر بھی لوگوں میں تشویش پیدا ہوئی، اس دہشت گرد مرض کے سد باب (Prevention)کے لئے واشنگٹن ڈی۔ سی۔ (Washington D.C.)میں 24جولائی1981کو ایک میٹنگ بلائی گئی، جس میں اس مرض کے تئیں بحث و تمحیص اور غور و خوض کیا گیا، میٹنگ کی برخاستگی کے بعد بھی تفکیر، تدبیر اور تعمیل کا سلسلہ برابر چلتا رہا، یہاں تک کہ 28ستمبر1981کو ہونے والی میٹنگ میں اس بیماری کو حتمی طور پر ایڈس کے نام سے موسوم کیا گیا، نیزاسی میٹنگ میں موجود تمام شرکا کے اتفاق رائے سے یہ بھی طے پایا کہ یہ مہلک مرض دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ غیر محفوظ یا خلاف فطرت جنسی تعلقات کی بنیاد پرسب سے زیادہ پروان چڑھتا ہے۔

ایڈس نام:

ایڈس یہ چار بڑے نام کا مخفف (Short Form)ہے، جس سے مرض کی چار علامتوں کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے۔

Aسے:۔ Acquired(حاصل شدہ)

Iسے:۔ Immuno(قوت مدافعت)

Dسے:۔ Deficiency(خرابی، کوتاہی)

Sسے:۔ Syndrome(علامت)

کی طرف اشارہ ہوتا ہے، توایڈس کا پورا نام(Full Form)ہے، Acquired Immuno Deficiency Syndrome یعنی:یہ مرض ایسا پریشان کن اور پیچیدہ علامتوں والا خطرناک مرض ہے، جس میں مریض کو وہ قوت مدافعت جو دیگر امراض کے خطرے کے خلاف جسم انسانی میں بجانب قدرت خداوندی عطا کی جاتی ہے، جسم کے اندرسے نامعلوم اور غیرحسی طریقے سے ختم ہوتی جاتی ہے۔

تعارف:

یہ بیماری ایک ایسے اثر(Effective)سے متاثر ہو کر پروان چڑھتی ہے، جس کا اثر بہت تیزی سے نشوونما پا کر پھیلتا ہے، ایڈس جس اثر سے متاثر ہو کر وجود میں آتا ہے، اس اثر کا نام H.I.V.ہے، اس کا پورا نام ہوتا ہے۔

Hسے:۔ Human

Iسے:۔ Immunodeficiency

Vسے:۔ Virus

پہلی قسم:

H.I.V. دو طرح کا ہوتا ہے، ان میں ایک کو H.I.V./1اوردوسرے کوH.I.V./2کے نام سے جانا جاتا ہے، اول الذکرقسم، جس کا اثر جسم میں بڑی تیزی کے ساتھ منتقل ہوتا ہے، اور یہ قسم سب سے پہلے کیمرون (Cameroon) ایکویٹوریل (Equitorial)گینیا(Guinea) گیبوں (Gaboo)اور کانگو(Congo)وغیرہ ممالک میں بکثرت پائے جانے والا ایک جانورجس کا نام گوریلا (Chimpanzee) تھا، اس کے اندرسب سے پہلے اس کے اثرات دریافت ہوئے، اس کے بعد وہاں سے انسانوں میں منتقل ہوئے، کیوں کہ وہاں کے باشندوں کو گوریلا(Chimpanzee)سے خاصی دلچسپی تھی، وہ اس کو پالتے بھی تھے اور قلبی لگاؤ بھی رکھتے تھے، اور بوقت ضرورت اس کو خوراک کا حصہ بنا کر اپنی کمر بھی مضبوط کیا کرتے تھے، نیزانسانی معاشرے میں خواہشات و فواحشات بھی امنڈتے سیلاب کی طرح تھی، نفسانیات کی فضاپرمسموم تھی، اس سے ہر طرح کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کی جاتی، یوں اس طرح اُدھرسے اِدھر اس کے اثرات منتقل ہوتے گئے۔

دوسری قسم:

آخرالذکر (H.I.V./2) قسم کے اثرات میں نشوونما کی صلاحیت ذرا کم ہوتی ہے، اس لئے وہ بہت دھیرے دھیرے جسم میں سرایت کرتا ہے، یہ اثر جسم میں داخل ہو کر 2سے20برس تک ایک ہی مقام پر بے جان پڑا رہ سکتا ہے، اس طویل العرصہ کے بعد جب بھیH.I.V./2زندہ(Develop)ہوتا ہے، اپنا خوب خوب اثر دکھلاتا ہے، اور بے جان(Undevelop)ہونے کی صورت میں جانچ (Report)میں بھی معلوم نہیں ہو پاتا۔

یہ پہلے پہل کینیا(Kenya)سیارالیون(Sierra Leone) لائبیریا(Liberia)اور ایوری کوسٹ (Ivory Coast) ممالک میں کثرت سے پایا گیا۔

یہ H.I.V./1ہویاH.I.V./2دونوں قدرتی طور پر جسم انسانی میں موجود قوت مدافعانہ کو بتدریج (Slowly Slowly)کمزور ہی نہیں کرتے، بل کہ مستقبل(Future) میں پنپنے والی قوت کی اس صلاحیت کو بالکلیہ نیست و نابود کر دیتے ہیں، جس سے انسان کو بیماری سے نبرد آزما ہونے کی استعداد میں افزودگی(Incressment) ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ فی زمانا ایڈس ایک لاعلاج بیماری بن کر ابھری ہے۔

وجوہات مرض :

اطبا و حکما آج تک کی تحقیق وجستجو کے بعدجس نتیجہ پر متفق ہوئے ہیں، وہ یہ ہے کہ اس بیماری کے پھیلنے پھولنے کا بڑا سبب رگ(Vein)کے انجکشن کے ذریعہ منشیات (Drugs)کا استعمال اورجنسی اختلاط کی کثرت ہے، یہ یا تو عام طور پر ہم جنسی (غیر فطری عمل )سے پیدا ہوتا ہے، یا ایسے افراد متاثر ہوتے ہیں، جو بلا کسی امتیاز کے ایک سے زائد عورتوں سے غلط جنسی تعلقات استوارکرتے ہیں، یا ایسی عورتیں جو ایک سے زیادہ مردوں سے غلط جنسی تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی لیتی ہیں۔

نیشنل ایڈس کنٹرول کمیٹی ناکو(NACO) کے تازہ ترین شمارے کے مطابق:

’’مردوں میں بہ نسبت خواتین کے H.I.V.اورAIDS کی شرح زیادہ ہے، خلاف فطری جنسی عمل کے دلدادہ لوگوں میں یہ شرح5.61فیصد ہے، جب کہ جسم فروشی کے دھندے میں پھنسی عورتوں میں یہ شرح 5.38 فیصد ہے، یہ تو قطعی طور پر نہیں مانا جا سکتا ہے کہ اس اژدھے کا سبب اصلی خلاف فطری جنسی عمل ہی ہے، البتہ یہ قطعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ 80 فیصد یہ خبیث مرض غیر محفوظ جنسی تعلقات اور خلاف فطرت جنسی عمل کی بنا پر ہی پروان چڑھتا ہے۔ ‘‘

اسٹیٹ ریفرینس لیپ( S.R.L.)کی رپورٹ سے یہ بخوبی واضح ہو جاتا ہے، S.R.L. کی رپورٹ میں ہے :

’’ امسال 158، H.I.V. کے معاملات میں سے 123 معاملات میں ملوث لوگ ایک نہیں ، بل کہ کئی ایک کے ساتھ غیر محفوظ جنسی تعلقات قائم کرنے کی وجہ سے اس گھناؤنے مرض کے شکار ہوئے ہیں۔ ‘‘

حالانکہ اس کے علاوہ دیگر چند وجوہات سے بھی یہ گھناؤنی بیماری پھیلتی ہے۔ مثلاً …………

نمبر شمار وجوہات مرض مرد خواتین کل تعداد
۱ غیر فطری جنسی عمل 84 39 123
۲ ہوموسیکسوئل 1 0 1
۳ عفونت زدہ خون چڑھانے سے 3 0 3
۴ غیر محفوظ (عفونت زدہ) سرنچ سے 3 0 3
۵ ماں کی طرف سے بچے کو 5 6 11
۶ دیگر وجوہات 8 9 17
کل تعداد 104 54 158

 

مذکورہ نقشے اور رپورٹ سے یہ چڑھتے سورج کی طرح واضح ہو گیا کہ جہاں خلاف فطرت جنسی عمل اور غیر محفوظ جنسی تعلقات ہوں گے وہاں یہ مرض کشاں کشاں کھنچا چلا آئے گا۔

اثرات و علامات:

جس طرح ہر بیماری اپنا ایک خاص اثر رکھتی ہے کہ اس سے اس کی پہچان ہوتی ہے، اسی طرح ایڈس(AIDS )کی عام علامتوں میں سے یہ ہے کہ اس بیماری کا جسم میں اثر پیدا ہوتے ہی یکایک وزن (Weight)گھٹنے لگتا ہے، اور وزن گھٹنے کی رفتار10%فی ماہ تک ہو جاتی ہے، اسی طرح ذرا ذرا بعد بخار(Fever)کی حرارت بھی ہوتی رہتی ہے، دست(Loose motion) کی شکایت میں کافی اضافہ ہو جاتا ہے، دماغ(Brain)بھی متاثر ہو جاتا ہے۔

It’s not always easy to recognize the signs of an STI (Sexually Transmitted Infection) in any one. In fact, some STI’s have no symptoms at all, so you may not even know you have one unless you get tested.

:One might have an STI if you experience any of these signs:

Burning feeling in your genitals or when you pee.

Sores, small bumps or blisters on or near your penis, vagina or anus.

Itching around your penis, vagina or anus.

Unusual discharge – like a different colour, smell or amount from the vagina or penis.

Lower abdominal pain.

Pain in the testicles.

Bleeding after intercourse or between periods.

Pain during sex or masturbation.

For women, unusual bleeding during your period.(1)

اس کے علاوہ اس سے دیگر کتنی ہی بڑی بیماریاں جیسے:آتشک اور سوزاک وغیرہ، جنم لے لیتی ہیں ، جن کی وجہ سے فریقین کے تناسلی اعضا کے اندرونی جھلیوں میں ان جراثیم کی موجودگی ورم، پیپ، جلن یا اس جیسی تکالیف کو پیدا کرتی ہے، پھر پیپ آمیز رطوبت برابررستی رہتی ہے، جس کے سبب عدم طہارت کا عذر مسلسل لگا رہتا ہے، عضو خاص (Penis)کی مقامی خرابیاں، بد رنگی، بد وضعی، استادگی میں تکلیف اور عجیب وضع اور پیشاب کی نالی میں خراش کے سبب فوری شہوت مفقود ہو جاتی ہے، مجامعت ناتمام و ناکام رہتی ہے، پیشاب کی نالی میں کہیں بھی کبھی بھی سوراخ ہونے کا اندیشہ ہو جاتا ہے، انزال کے وقت بجائے لذت کے بوجہ زخم (پیشاب کی نالی کی خراش) منی کی نمکینی سے زخم پر نمک کا معاملہ ہوتا ہے، سوزشِ بول تو عام ہے، زخم ہونے کے سبب پیشاب کی نالی چھوٹی اور تنگ سی ہو جاتی ہے، جب وہاں سے پیشاب گذرتا ہے تو کچھ نہ کچھ اس حصے کو پھاڑتا ہوا گزر جاتا ہے، اس طرح پیشاب کی نالی میں کئی سوراخ پڑسکتے ہیں، ایسے نوجوانوں کی زندگی پر مغموم، صورت پژمردہ اور ان کی جوانی کی کھیتی بہت جلد خزاں آشنا بن جاتی ہے، جب ان جراثیم کا اثر منی بافندہ اعضا خصیتین، (Testis)میں پہنچ جاتا ہے تو مرد بانجھ سا ہو جاتا ہے، آلۂ تناسل کا رابطہ دیگر اعضاسے کٹ جاتا ہے پھر آلہ تناسل جماع کے قابل نہیں رہتا اور اگر خوش بختی سے اولاد ہو بھی گئی تو اولاد میں بھی موروثی مرض منتقل ہو جاتا ہے، بوقت ولادت بسا اوقات یہ زہریلا مادہ معصوم بچے کی آنکھ میں لگ کر اس کو اندھا بنا دیتا ہے، ایسی اولاد زچہ و بچہ دونوں کے لئے جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے ، لیکن اس بیماری کی خوفناک خصوصیت یہ ہے کہ مریض کے جسم سے ہرقسم کی مدافعانہ قوت (Natural Power)کی صلاحیت معدوم(Decrease) ہو جاتی ہے، چلنے پھرنے کی سکت نہیں رہتی، کسی بھی کام میں دل نہیں لگتا، خون میں سفیدخلیے تباہ ہو جاتے ہیں جس سے مریض خون کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے، چناں چہ اس کے بعد خفیف سے خفیف تر بیماری کا تحمل (Bear)بھی نہیں ہو پاتا، پھر معمولی سا عارضہ(Disease) بھی جان لیوا ثابت ہوتا ہے، یہی وجہ ہے ایڈس میں مبتلا ہونے کو موت(Death) کا یقینی ذریعہ سمجھاجاتا ہے۔

خون پر حملہ:

یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ جب جسم میں کسی طرح کے جراثیم داخل ہوتے ہیں تو ان جراثیم کے خلاف جسم کے سفید خلیات(جن کوW.B.C.کہا جاتا ہے) فوراً متاثر ہوتے ہیں ، جن کی وجہ سے وہT. Cellsبن جاتے ہیں، بالفاظ دیگر یہ چند بایوجیکل (حیاتیاتی)مادوں میں تبدیل ہو کر ان جراثیم کے خلاف مدافعت کا کام انجام دیتے ہیں ، لیکن ایڈس کے جراثیم میں اس طرح کی صلاحیت ہوتی ہے کہ جسم میں موجود W.B.C.کے ساتھ ساتھ T. Cellsپربھی حملہ آور ہو کر تمام تر قوت مدافعت کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں بخار، ملیریا، نمونیا، دماغی فالج اور اس جیسی دیگر بیماریوں پربھی حملہ مکمل طور پر ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے۔

عالمی اعداد و شمار پر نگاہ:

اگر عالمی اعداد و شمار پر نگاہ ڈالی جائے تو لگتا بھی ایساہی ہے کہ اموات بڑے پیمانے پر ہو رہی ہیں، یہاں 101ممالک پر مشتمل ایک نقشہ پیش کیا جاتا ہے، جس میں سالانہ اموات اور موجود مریضوں کی تعداد کا تذکرہ ہے، اس نقشے کا مواد 5 جنوری2011 کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (W.H.O.)نے یو نیسیف (UNICEF) کی مددسے فراہم کیا ہے، اس موضوع پر ایک کتاب بھی آئی ہوئی ہے، جس کا نام (the world factbook) ہے، وہیں سے ہی یہ ماخوذ ہے۔

ممالک کے نام     مریضوں کی تعدادسالانہ اموات

(۱)ساؤتھ افریقہ 5,600,000310,000

(۲)نائجیریا         3,300,000220,000

(۳)ہندوستان           2,400,000170,000

(۴)کینیا              1,500,00080,000

(۵)موزمبیق   1,400,00074,000

(۶)تنزانیہ1,400,00086,000

(۷)یوگانڈا1,200,00077,000

(۸)زمبابوے1,200,000140,000

(۹)متحدہ امریکا1,148,00017,000

(۱۰)کانگو1,100,000100,000

(۱۱)ایتھوپیا980,00067,000

(۱۲)رشیا980,00013,000

(۱۳)زیمبیا980,00056,000

(۱۴)ملاوی920,00068,000

(۱۵)چائنا740,00026,000

(۱۶)کیمرون610,00039,000

(۱۷)برازیل600,00015,000

(۱۸)تھائی لینڈ530,00028,000

(۱۹)کوٹے آیؤری450,00038,000

(۲۰)یوکرین350,00019,000

(۲۱)بوسوانا320,00011,000

(۲۲)انڈونیشیا310,0008,700

(۲۳)لیستھو290,00018,000

(۲۴)ویتنام280,00024,000

(۲۵)گھانا260,00021,000

(۲۶)سوڈان260,00012,000

(۲۷)برما240,00025,000

(۲۸)میکسیکو220,00025,000

(۲۹)چاڈ210,00011,100

(۳۰)نیمبیا200,0005,100

(۳۱)سوزی لینڈ190,00010,000

(۳۲)کولمبیا170,0009,800

(۳۳)وسطی افریقہ160,00011,000

(۳۴)اٹلی150,0001,900

(۳۵)روانڈا150,0007,800

(۳۶)فرانس140,0001,600

(۳۷)اسپین140,0002,300

(۳۸)برکینیا 130,0009,100

(۳۹)ٹوگو130,0009,100

(۴۰)ہیٹی120,0007,200

(۴۱)برونڈی110,00011,000

(۴۲)وینزویلا110,0004,100

(۴۳)ملائشیا100,0003,900

(۴۴)مالی100,0005,800

(۴۵)پاکستان98,0005,100

(۴۶)گینیا87,0004,500

(۴۷)ایران86,0004,300

(۴۸)انگلینڈ85,000500

(۴۹)جمہوریہ کانگو77,0005,100

(۵۰)پیرو76,0003,300

(۵۱)کمبوڈیا75,0006,900

(۵۲)کینیڈا73,000500

(۵۳)نیپال70,0005,000

(۵۴)سینیگال67,0001,800

(۵۵)بینن64,0003,300

(۵۶)جمہوریہ ڈومینیکن62,0004,100

(۵۷)نائیجر61,0004,000

(۵۸)گونٹے مالا59,0003,900

(۵۹)سیرالیون55,0003,300

(۶۰)جرمنی53,000500

(۶۱)گیبون49,000500

(۶۲)چلی40,000……

(۶۳)سلواڈور35,0001,700

(۶۴)لائبیریا35,0002,300

(۶۵)نیوگینی34,0001,000

(۶۶)پرتگال34,000500

(۶۷)ہونڈورس28,0001,900

(۶۸)جمیکا27,0001,500

(۶۹)اکواڈور26,0001,400

(۷۰)ایری ٹرا25,0001,700

(۷۱)سوزی لینڈ25.000500

(۷۲)صومالیہ24,0001,600

(۷۳)نادرلینڈ22,000200

(۷۴)مورککو21,0001,000

(۷۵)پناما20,0001,000

(۷۶پولینڈ20,000200

(۷۷)آسٹریلیا18,000100

(۷۸)جیبوتی16,0001,100

(۷۹)بسّاؤ16,000500

(۸۰)ازبکستان16,000500

(۸۱)بیلجیم15,000100

(۸۲)رومانیہ15,000350

(۸۳)مڈغاسکر14,0001,000

(۸۴)مارطانیہ14,0001,000

(۸۵)تری ناڈ14,0001,900

(۸۶)بیلاروس13,0001,100

(۸۷)گویانا13,0001,000

(۸۸)موریشس13,000100

(۸۹)پراگوے13,0001,000

(۹۰)بنگلہ دیش12,000500

(۹۱)قزاقستان12,000500

(۹۲)یمن12,000…….

(۹۳)اکویٹوریل11,000370

(۹۴)گریس11,000100

(۹۵)لٹویا10,000500

(۹۶)لیبیا10,000…….

(۹۷)سعودی عرب10,000300

(۹۸)تاجکستان10,000500

(۹۹)ارگوے10,000500

(۱۰۰)استونیا9,900500

(۱۰۱)آسٹریا9,800100

اس نقشے سے معلوم ہوتا ہے کہ جتنے ممالک اس مرض سے متاثر ہو کر جوجھ رہے ہیں، ان میں ہندوستان تیسرے نمبر ہے، اور پاکستان کانمبرپینتالیس واں ہے، جب کہ سعودی عرب ستانویں نمبر ہے۔

مندرجہ بالا ممالک کی فہرست سے مریضوں کی تعداد اور سالانہ اموات کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ معلوم ہوتا ہے، اس مرض نے جس طرح سیکڑوں ممالک کو اپنی مضبوط گرفت میں لیا ہوا ہے، اور سالانہ اموات کا جو بڑھتا ہوا پیراگراف ہے، اس کے لئے کو ئی مؤثر پیش رفت اور ٹھوس عملی اقدامات کی از حد ضرورت ہے۔

مؤثر پیش رفت:

محکمہ صحت وانسانی خدمات کے سکریٹری’’ اولٹس باون‘‘ کا کہنا ہے :

’’اگر ہم بیماری کی روک تھام میں کوئی مؤثر پیش رفت نہ کرسکے تو آئندہ دس سال کے اندر دنیا کے کروڑوں افراد کے لئے ایک عالمگیر پیغام موت کا خوفناک اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔ ‘‘

اور جان پاپ کنس یونیورسٹی کے ماہر وبائی امراض’’ بی فرینک پاک ‘‘نے کہا ہے :

’’بعض ملک اپنی آبادی کا 25%فی صد حصہ اس وبائی مرض میں گنوا بیٹھیں گے۔ ‘‘

ہندوستان کی حالت زار:

یہ مرض پوری آب و تاب اور آن و شان کے ساتھ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور حکومت اس مہلک مرض پر قابو پانے میں بری طرح ناکام نظر آ رہی ہے، جب کہ یہ اضافہ تشویش ناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، 195 این جی اوز کی انتہائی مشقت اور 10کروڑ کے بجٹ کے باوجود صرف راجدھانی میں ہر سال اوسطاً 5 ہزار H.I.V. مریضوں کے نئے نئے چہرے سامنے آرہے ہیں، یہ سالانہ اضافہ ثابت کرتا ہے کہ سرکاری نظام میں ایسی خرابی در آئی ہے، جو حکومت کی عدم کامیابی پر غماز ہے ، کیوں کہ 2007میں H.I.V. کے مریضوں کی تعداد 13494 تھی، جب کہ 2012 تک یہ تعداد بڑھ کر 35036 تک پہنچ گئی ہے، یہ اعداد و شمار چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ اس مرض پر کنٹرول کرنے میں کسی ناکام حکومت کا ہاتھ ہے، اور یہ اعداد و شمار تو ان مریضوں کے ہیں، جو رجسٹرڈ ہو چکے ہیں اور باقی جو رجسٹرڈ نہیں ہو پائے ان کی تعداد سرکاری و غیر سرکاری کسی بھی ڈپارٹمنٹ (Department)میں نہ ہو گی، اس لئے یہ تعداد بالیقین اور بھی بڑھ سکتی ہے۔

رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد سال کے اعتبارسے کچھ اس طرح ہے۔

سال                  تعداد

2007           13494

2008           18451

2009           23946

2010           29534

2011           35036

اینٹی ایٹرو وائرل ٹریٹمنٹ(Treatment)کے مطابق:

’’مذکورہ تعداد میں 21801 مرد اور 10618 خواتین شامل ہیں۔ ‘‘

بہار کی صورت حال :

بہار ایڈس کنٹرول کمیٹی ( B.S.A.C.S) کے کنٹرولر ’’دیوتم ورما‘‘ (حکومتی سطح پر کیا گیا سروے )کے مطابق اس وقت بہار میں ایڈس سے متاثرین کی تعداد 35000سے متجاوز ہے، حالاں کہ غیر سرکاری جائزے کے مطابق :ریاست بہار میں قریب ایک لاکھ افراد ایڈس(AIDS) سے متاثر ہیں۔

آر۔ ٹی۔ آئی۔ (R.T.I.)سے ہوئے اس انکشاف سے دہلی حکومت کا   ’’محکمہ صحت‘‘ بھی حیرت واستعجاب میں آ گیا، وزیر صحت ڈاکٹر’’ اے۔ کے۔ والیہ‘‘ نے اس انکشاف کے بعد. H.I.V پر ہو رہی تمام کاروائیوں کا جائزہ لینے کی بات کہہ کر اپنا دامن چھڑا لیا، اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر صحت کا اس سلسلے میں کوئی اقدامات کرنا اس مہلک مرض کے لئے کہاں تک سنگ میل ثابت ہوتا ہے۔

میڈیکل ایسو سی ایشن دہلی کے صدر ڈاکٹر ’’ہریش گپتا ‘‘کا کہنا ہے :

’’ حکومت کا معیار کوشش غیر صحت بخش ہے، یہی وجہ ہے کہ حکومت کا اس پر قابو پانا مشکل تر ہو گیا ہے۔ ‘‘

آر۔ ٹی۔ آئی۔ کارکن’’ راج بنسل‘‘ کہتے ہیں :

’’ مذکورہ انکشافات سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں یقینی طور پر پیسوں کی کمی نہیں ہے ، لیکن قوت ارادی اور عزم پیہم کا بڑا فقدان ہے، جس کی وجہ سے H.I.V. کے مریضوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے اور اس تعداد پر کنٹرول کرنے میں حکومت ناکام نظر آ رہی ہے۔ ‘‘

عمر اور مریض :

یہ بھی بڑا سنگین مسئلہ ہے کہ یہ اضافہ ہر چہار جانب ہو رہا ہے، جس طرح مرد اس خطرناک مرض کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں، اسی طرح خواتین بھی لقمہ تر بن رہی ہیں، قریب البلوغ بچے بھی ہیں اور معمر افراد بھی اس کے شکار ہو رہے ہیں۔

ایڈس سے متاثرین کی تعداد عمر کے حساب سے کچھ اس طرح ہے۔

عمریں 2009 2010 2011 2012
14سال سے کم 13 16 9 18
15سے 24 19 17 18 10
25سے 34 63 59 69 51
35سے 40 65 68 75 62
50سے زائد 17 10 18 14
کل تعداد 77 170 189 155

(یہ2009سے ستمبر 2012 تک کے اعداد و شمار ہیں۔ )

یونیسیف(UNICEF) کی تعلیمی مشاورتی کمیٹی اور مہاراشٹر کی ایڈس کنٹرول سوسائٹی کے لئے اپنی تمام تر خدمات پیش کرنے والی مسز’’ ادیدھا گول ‘‘کہتی ہے :

’’ 24 تا 34 عمر کے نوجوان افراد کا اس خطرناک مرض کی زد میں آنے کا احتمال زیادہ قوی ہے، اس کی وجہ خاص ان کا جنسی (SEX) لذت کے حصول کے لئے ایک سے زائد طوائفوں سے جنسی تعلق ہے اور اس مرض کے پھیلنے پھولنے کا اہم سبب بھی غیر محفوظ اور خلاف فطرت جنسی تعلقات ہی ہے۔ ‘‘

جنسی رفتار:

لاس اینجلس (Los Angeles)کے ’’ایڈس پروجیکٹ‘‘ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر’’ جرمن میسونیٹ ‘‘ (Dr. German Maisonet)کا تخمینہ یہ ہے :

’’اوسطاً ہر پانچ سیکنڈ کے بعد ایک امریکی انتہائی خطرناک جنسی عمل میں مصروف ہو جا تا ہے۔ ‘‘

ہمارے ملک ہندوستان میں صورت حال بھی کافی بھیانک ہے، راجدھانی دہلی میں امسال 17%فی صد کا اضافہ ہوا ہے، 15دسمبرتک ایسے 661معاملات سامنے آئے ہیں، جب کہ گزشتہ سال اس مدت کے دوران 564 معاملے سامنے آئے تھے۔

دہلی پولیس کے کمشنر ’’نیرج کمار‘‘ نے اس طرح کی بات کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا:

’’2006میں عصمت دری کے 609، 2007میں 581، 2008میں 466، 2009میں 459اور2010میں 489واقعات سامنے آئے ہیں۔ ‘‘

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق:

’’ہر 25منٹ میں ایک عصمت دری کا واقعہ رونما ہوتا رہتا ہے، اور 40منٹ پر ایک نابالغہ کی عصمت پر دمانکوئی درندہ حملہ آور ہو کر اپنی بھوک وپیاس کو پروان چڑھاتا ہے۔ ‘‘

کم عمر کی 20لاکھ:

جو عمر عام طور پر گڈے گڑیوں سے کھیلنے، لکھائی اور پڑھائی کی ہوتی ہے اس عمر کی لڑکیاں ترقی پذیر ممالک کی 14سال سے کم عمر کی 20لاکھ بچیاں ہرسال ’’ماں ‘‘(Mom)بن جاتی ہیں، اقوام متحدہ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں 70لاکھ سے زیادہ لڑکیاں 18سال سے کم عمر میں حاملہ ہو جاتی ہیں۔

اقوام متحدہ نے کل ہی یہ اعداد و شمار جاری کئے ہیں، جس میں یہ چونکا دینے والی بات سامنے آئی ہے، عالمی سطح پر خواتین کے حالات سدھار نے کے لئے مہم چلائی جاتی ہیں ، جن میں ان کی صحت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، دنیا بھرمیں ترقی پذیر ممالک میں خواتین کو نقص تغذیہ سے بچانے کے لئے طرح طرح کے منصوبے چلائے جاتے ہیں اور چلائے بھی جا رہے ہیں، اور عالمی تنظیمیں ان کاموں میں دیگر ممالک کو اپنا تعاون فراہم کر رہی ہیں ، لیکن جب بات نوجوان لڑکیوں کے حاملہ ہونے کی آتی ہے توسارے منصوبے ناکام اور خاک آلودہ نظر آتے ہیں۔

کم عمر میں حاملہ ہونے پر کسی بھی ملک کے سماجی اور معاشی ڈھانچے پر برا اثر تو پڑتا ہی ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ ان حاملہ ہونے والی لڑکیوں کی صحت پر بھی برا اثر مرتب ہوتا ہے، کیوں کہ کم عمر میں ماں بننے والی ان لڑکیوں کے بیشتر بچے بھی صحت مند نہیں ہوتے، جس سے ایک غیر صحت مند معاشرے کی تشکیل ہوتی نظر آتی ہے، رپورٹ کے مطابق ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کس بے چارگی کی حالت میں لڑکیوں کے حاملہ ہو جانے کے سب سے زیادہ معاملے سامنے آتے ہیں، اس رپورٹ سے لڑکیوں کی کمزوری، غریبی، شوہر یا عاشق، بڑوں، کنبہ اور برادری کے دباؤ کے بارے میں بھی پتہ چلتا ہے، اس رپورٹ کو اقوام متحدہ کی مردم شماری کے ڈاٹا کے ایکزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر ’’باباٹنڈے ایسوتی میہن‘‘ نے جاری کیا ہے۔

زنا ام الامراض:

اسلام دین فطرت ہے، اس لئے اس کاسچا پیروکار (مسلمان) ہمیشہ اسلام کے فرامین و احکامات میں سکون، امن اور سکھ چین دیکھے گا، اور فطرت اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ جب یہ اصول فطرت سے منہ موڑ لے گا تو یہ طرح طرح کے مصائب و آلام کا شکار ہوتا جائے گا، بیماریاں، پریشانیاں اور معاشرتی ذلتیں اس کا مقدر بنتی جائے گی۔

مشہور و معروف یورپی سماجی راہنما ’’پاول سٹیفن‘‘(Pual Stephen) نے بڑی عجیب بات کہی ہے، وہ کہتے ہیں :

’’اگر یورپ صرف زناسے بچ جائے تو اس کے تمام مسائل کو میں حل کر دوں گا۔ ‘‘

مسلمان تو پر امن قوم کا نام ہے ، لیکن آج یہ بد امن قوم کیوں کر بنی ہوئی ہے؟اس کا جواب بھی اسی میں پوشیدہ ہے، جو بھی اس میں اپنے آپ کو ملوث کرے گا اسی کا حال تباہ ہوتا جائے گا۔

ایک امریکی جج جس کا نام Ben Lindseyہے، وہ اپنی کتاب’’Revolt of Modern Youth‘‘ میں صفحہ 82پرلکھتا ہے :

’’اب امریکا میں بچے قبل از وقت بالغ ہو رہے ہیں، اس نے نمونے کے طور پر 312لڑکیوں کے حالات کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ 312میں سے255ایسی لڑکیاں تھیں جو اپنی خاص عمر سے 3اور4سال قبل بالغ ہو چکی تھیں اور ان کے اندرایسی منفی خواہشات اور ایسے جسمانی مطالبات کے آثار رونما تھے، جو ایک18برس، بل کہ اس سے بھی زیادہ عمر کی لڑکیوں میں ہونے چاہئیں۔ ‘‘

جج ’’بن لنڈسے‘‘ کا یہ بھی اندازہ ہے :

’’ہائی اسکول کی کم از کم 45فی صد لڑکیاں اسکول چھوڑنے سے پہلے ہی خراب ہو چکی ہوتی ہیں، اور بعد کے تعلیمی مدارج میں فی صد اس سے بھی بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ ‘‘

اسی کتاب میں وہ ایک جگہ لکھتا ہے:

’’ہائی اسکول کا لڑکا بمقابلہ ہائی اسکول کی لڑکی کے جذبات کی شدت میں بہت پیچھے رہ جاتا ہے، جب کہ لڑکی اس سے کافی آگے ہو جاتی ہے، عام طورسے لڑکی ہی کسی نہ کسی طرح پیش قدمی کرتی ہے اور لڑکا اس کے اشاروں پر کام کرتا ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر ایڈتھ ہو کر(Edith Hooker)اپنی کتابLaw of Sex میں لکھتی ہیں :

’’نہایت مہذب، شائستہ اور متمول وبا اثر طبقوں میں بھی یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے کہ ان کی سات آٹھ برس کی لڑکیاں اپنے ہم عمر لڑکوں سے عشق و محبت کے تعلقات رکھتی ہیں، اور ان کے ساتھ یکسر مباشرت بھی ہو جاتی ہے۔ ‘‘

وہ اپنی کتاب کے صفحہ 328پربطور نمونہ دو واقعات کا ذکر کرتی ہیں :

(۱)’’ایک سات سال کی چھوٹی سی لڑکی، جو ایک نہایت شریف خاندان کی چشم و چراغ تھی، وہ خود اپنے بڑے بھائی اور اس کے دیگر دوستوں کے ساتھ ملوث ہوئی۔ ‘‘

(۲)’’پانچ بچوں کا ایک گروہ جو دو لڑکیوں اور تین لڑکوں پر مشتمل تھا، ان کے گھر پاس پاس ہی تھے، وہ باہم شہوانی تعلقات میں پائے گئے، انھوں نے دوسرے کم سن بچوں کو بھی اس کی ترغیب دی، جو کہ کامیاب ہوئی، ان میں سب سے بڑے بچے کی عمر صرف دس برس تھی۔ ‘‘

اسی کتاب کے 177صفحے پرHaltimoreکے ایک ڈاکٹر کی رپورٹ کا تذکرہ کر تے ہوئے لکھا ہے:

’’ایک سال کے اندر اس کے شہر میں ایک ہزار سے زائد ایسے مقدمات پیش ہوئے، جن میں بارہ سال سے کم عمر لڑکیوں کے ساتھ مباشرت کی گئی تھی۔ ‘‘

یہ پہلا ثمرہ ہے اس ہیجان انگیز ماحول کاجس میں ہر طرف جذبات کو بر انگیختہ کرنے والے اسباب و وجوہات ہمہ وقت بہتے سمندر کی مانند مہیا ہیں، جس میں معاشرے کا فرد فرد نہ چاہتے ہوئے بھی جڑا ہوا ہے۔

تین شیطانی قوتیں :

ہمارے ماحول میں تین زبردست شیطانی قوتیں کارفرما ہیں، جن کا ’’تثلیث ‘‘آج کی تقریباً کل دنیا پر چھایا ہوا ہے، اور یہ تینوں قوتیں ایک جہنم تیار کرنے میں مصروف و مشغول ہیں۔

(۱)فحش لٹریچر:حیرت انگیز رفتار کے ساتھ اپنی فحش لٹریچر( (Fantasy Literatures بے شرمی اور کثرت اشاعت میں بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے، ورسائل و جرائد نے عریانیت کو ایک مستقل ذریعہ تجارت بنا رکھا ہے، ایسے نہ جانے کتنے بے حیائی پر مشتمل رسالے (Magazines) اور گندے ناول (Disests) ہیں، جو صرف عریاں تصویروں، فحش افسانوں اور بے حیائی پر مشتمل مضامین کے ذریعہ چل رہے ہیں، اور ان سے جنس پرستی کا رجحان روز بروز قوت اختیار کر رہا ہے۔

(۲)دھڑکتی تصویر:

نیم عریاں (Half Nacked)ہی نہیں ، بل کہ بالکل مکمل عریاں (Nacked)تصویروں (Pictures) ، جو شہوانی محبت کے جذبات کو نہ صرف بھڑکاتی ہیں ، بل کہ عملی درس بھی دیتی ہیں، کی خرید و فروخت عام ہو چکی ہیں، اور نئی نسل کے نوجوان لڑکے لڑکیاں ایسی ا یسی متحرک تصویروں کے پورے کے پورے البم(Album)کھلم کھلا اور بلا جھجھک خرید رہے ہیں، جن میں انسانوں، گدھوں، کتوں اور دیگر جانوروں کو طرح طرح ’’جنسی اختلاط‘‘ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، ان تصویروں پر ایسی ایسی عبارت (Heading) ہوتی ہیں، جن سے شیطان رجیم بھی پناہ مانگتا ہو۔

(۳)عورتوں کا گرا ہوا اخلاقی معیار:

جو ان کے لباس، انداز مشی، (Walking Behaviour) ادا، طرز تکلم، بسا اوقات ان کی برہنگی اور مردوں کے ساتھ ان کے ہر قید امتیازسے ناآشنا اختلاط کی صورت میں ہر چہار جانب ظاہر و باہر ہوتا ہے، اگر آپ اس سے آگے بڑھ کر دولت مند طبقات اور نام نہاد اونچی سوسائیٹیوں (Societies)میں کیا ہو رہا ہے اس کا صرف تصور کریں تو وہ بھی لرزہ خیز ہو گا، ان کے یہاں ماڈل گرلز(Model Girls)اور سنگرگرلز (Singer Girls)کے ذریعہ عصمت فروشی تہذیب و تمدن کا جز بن گئی ہے، پستی و ذلت اور کمینگی کی انتہا ہے کہ ان اونچے حلقوں میں ’’تبادلۂ ازواج ‘‘کے باقاعدہ کلب(Club)بنے ہوئے ہیں ، جن میں اس دیّوثی کو ایک فن بنا لیا گیا ہے، یہ اور دیگر ان جیسی چیزیں ہمارے معاشرے میں روز افزوں ترقی پر ہیں، جس کا لازمی نتیجہ اخوت و بھائی چارگی، امن و آشتی کا فقدان، تہذیب و تمدن، ثقافت و معاشرت کا زوال اور آخر کار تباہی و ہلاکت ہی ہے، اگر اس پر بر وقت قدغن نہ لگی اور ان اسباب کا سدباب نہ کیا گیا تو ہماری اور ہماری پوری قوم کی تاریخ بھی ان اقوام کے مماثل ہو جائے گی، جو ازمنۂ ماضیہ میں ان جیسی چیزوں کی رسیا ہو کر رو بہ سیاہ ہوئی ہیں۔

وجود امراض کا سبب :

فواحش کی اس کثرت کا لازمی نتیجہ امراض خبیثہ کی کثرت ہے، ’’جج بن لنڈسے‘‘نے لکھا ہے :

امریکا کی قریب قریب 90%آبادی امراض خبیثہ سے متاثر ہے ’’انساءیکلوپیڈیا برٹانیکا‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہاں کے سرکاری دوا خانوں (Hospital)میں اوسطاً سالانہ آتشک کے دو لاکھ اور سوزاک کے ایک لاکھ 60ہزارمریضوں کا علاج کیا جا تا ہے، مگر سرکاری دوا خانوں سے زیادہ مرجوعہ (Interest) پرائیویٹ (Private) ڈاکٹروں کا ہے، جن کے پاس آتشک کے 61%اورسوزاک کے 89%مریض جا تے ہیں۔ تیس اور چالیس ہزار کے درمیان بچوں کی اموات موروثی آتشک کی بدولت ہوتی ہیں، بخار کے سواباقی تمام امراض سے جتنی اموات واقع ہوئی ہیں، ان میں سب سے زیادہ تعداد ان اموات کی ہے جو صرف آتشک کی وجہ سے ہوئی ہیں، سوزاک کے ماہرین کا کم سے کم تخمینہ ہے 60%نوجوان اشخاص اس مرض میں مبتلا ہیں، جن میں شادی شدہ بھی ہیں اور غیر شادی شدہ بھی، امراض نسواں کے ماہرین کا متفقہ بیان ہے کہ شادی شدہ عورتوں کے اعضائے جنسی پر جتنے آپریشن(Operation)کئے جاتے ہیں، ان میں 70%ایسی عورتیں نکلتی ہیں جن میں سوزاک کا اثر پایا جاتا ہے۔

تدابیر اور ہم:

اپنے یہاں تو پھر بھی عافیت سی ہے، مگر امریکی معاشرے میں پھنسے کتنے ہی باشندوں کے اندرجنسی بے راہ روی جس بری طرح سے رچ بس گئی ہے، اور اس سلسلے میں وہ جس مقام پر پہنچ گئے ہیں، اس کو مد نظر رکھتے ہوئے اصلاح حال کی جس طرح کی کوشش اور جد و جہد کی گئی ہے، اس سے سوائے مایوسی کے اور کچھ ہاتھ نہ لگ سکے گا، اور معاشرے کے جنسی طرز عمل میں کوئی نمایا ں تبدیلی رونما نہ ہوسکے گی ، کیوں کہ یہ مرض کا صحیح علاج ہے ہی نہیں، انھوں نے کوشش کی ہے تو اس طرح سے کی کہ۔

نیویارک کی کولمبیایونیوسٹی (Columbia University)میں ’’خدمات صحت‘‘ کے ڈائریکٹر نے طلبہ و طالبات کی سہولت کے پیش نظر ’’خدمات صحت‘‘ کی عمارت کے اندر بنے بیت الخلا (Toilet)میں کنڈوم (Condom)کی فراہمی کا بہترین انتظام کیا ہوا ہے، اور اس پر مستزاد31صفحات پر مشتمل ایک پمفلٹ (Pamphlet) بھی تقسیم کرایا ، جس میں ’’محفوظ جنسی عمل ‘‘کے بارے میں درج معلومات کو اتنے صاف اور واشگاف الفاظ میں بیا ن کیا گیا تھا کہ پڑھنے والا اس کریہہ المنظر کو گویا سامنے عملاً (Practical)دیکھ رہا ہے، ’’ محکمہ صحت ‘‘نے اس کے علاوہ اور بھی کچھ کوششیں کی ہیں کہ کم از کم لوگ جنسی عمل کے دوران ایسی احتیاطی تدابیر اختیار کریں جس سے ایڈس(AIDS)کی لگام کو کسا جا سکے۔

کیلیفورنیا کی یونیورسٹی میں ’ایڈس اور کالج کا احاطہ‘ کے موضوع پر ایک سمپوزیم(Symposium) کا انعقاد کیا گیا، جس میں 90کالجوں کے 435نمائندوں نے شرکت کی، سمپوزیم کے دوران شرکا کو ایک فلم دکھائی گئی، جس میں ’’محفوظ جنسی عمل‘‘(Safe sex)کا عملی مظاہرہ پیش کیا گیا، لیکن طلبہ و طالبات نے ان خدمات سے فائدہ اٹھانے سے انکار کر دیا، مذکورہ کتابچہ(Pamphlet) ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور کنڈوم(Condom)کے استعمال کو بے آرامی کا ذریعہ (Inconvenience)قرار دیا۔

ایک اکیس سالہ طالب علم سے اس طرز عمل کے بارے میں جب سوال کیا گیا، تو اس نے جواب دیا:

’’جذبات کے بر انگیختہ ہو جانے کے بعد انسان ایسے مرحلے پر پہنچ جاتا ہے، جہاں رکنا تودرکناراس وقت تو کچھ سوچنا بھی محال ہوتا ہے، اس وقت پانچ سال بعد کی بات نہیں سوچی جا سکتی ہے، اس وقت تو صرف اسی وقت کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ ‘‘

کنڈوم کا فائدہ:

عام طور پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ کنڈوم کے استعمال کے ذریعہ H.I.V.سے بچا جا سکتا ہے، مگر یہ بات درست نہیں ہے، کیوں کہ ماہرین ایڈس تحقیق کے بعداس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کنڈومH.I.V. سے نہیں بچا سکتا، اس لئے کہ کنڈوم جس چیزسے تیار ہوتا ہے اس میں اتنے بڑے بڑے سوراخ ہوتے ہیں کہH.I.V.کا وائرس ان سوراخوں سے آرام سے گذر کر کسی دوسرے فرد میں منتقل ہو جاتا ہے، یہی وجہ ہے مغرب و یورپ میں تمام حفاظتی تدابیر اور کنڈوم کے استعمال کے باوجودایڈس نہایت تیزی کے ساتھ پھیلتا جا رہا ہے۔

تبصرے کی آواز:

امریکن کالج ہیلتھ ایسوسی ایشن نے ایک ٹاسک فورس(Task Force) ایڈس کے مقابلے کے لئے بنائی تھی، اس کے چیرمین ڈاکٹر ’’رچرڈکیلنگ‘‘ نے ایڈس کے سلسلے میں ہونے والی تعلیمی جدوجہد کے نتائج سے مایوس ہو کر اظہار کرتے ہوئے کہا تھا:

’’تعلیم و صحت کے بارے میں ایک امید انگیز نظریہ ہے کہ ایڈس سے مرنے والوں کی تعداد جب تک ہولناک حد تک نہ بڑھ جائے، اس وقت تک ایڈس معاشرے کے باقی ماندہ افراد کے لئے ذاتی مسئلہ نہیں بنے گا، اور وہ سنجیدگی کے ساتھ اپنے طرز عمل میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں لائیں گے۔ ‘‘

اف!یہ انجام:

ان مورکھوں نے اس طرح کی تدبیریں پیش کرنا شروع کیں تو ان کی تدبیر و تفکیر کی تعلیم و تبلیغ سے فحاشی و عیاشی، کرائم و جرائم اور عصمت دری کے واقعات میں کمی ہونے کے بجائے بلا کا اضافہ ہو گیا، ایسا کیوں ہوا؟’ ’مارتھا سملجس‘ ‘ (Martha Samlaj )نے جواب دیتے ہوئے کہا:

’’ان تدبیر و تفکیر کی تعلیم کو جب عام کیا گیا، اور T.V.پرانسان کی جسمانی حرکات اور کنڈوم جیسے جنسی تحفظات کے استعمال پر تفصیل کے ساتھ تذکرے ہوئے تو ان کے نتیجے میں جنسی طور طریقے عوام میں الم نشرح ہو کر اس طرح پھیلے کہ ایک سال قبل ان کے اس طرح گھر گھر پھیلنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ‘‘

اس کے برخلاف اسلام نے روز اول ہی سے ان منحوس اعمال کی بیخ کنی کی ہوئی ہے، یہاں آ کر یہ بات تو دعوے کے ساتھ کہی جا سکتی ہے، اس خطرناک مرض کے علاج میں تعلیمات قرآنی اور احکامات اسلامی کے علاوہ کوئی اور حربہ زیادہ کامیاب نہ ہوسکے گا۔

اسلام کی سب سے بڑی خوبی :

اسلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ دنیا کے ہر خطے ہر طبقے کی ہر زمانے میں بھلائی اور خیر خواہی چاہتا ہے، اسی لئے سبھی کو علم و عمل کی تلقین کرتا ہے، اسلام اپنے دیگر احکامات کے ساتھ ساتھ پاکبازی کا بھی حکم دیتا ہے، جب کہ بدکاری، بدکرداری اور بد فعلی کی سخت مذمت کرتا ہے اور غیر فطری جنسی عمل کے فاعل و مفعول کو سخت سزا کا مستحق گردانتا ہے، یہی معلومات ہمیں ایڈس (AIDS)جیسے دہشت انگیز امراض سے مامون و محفوظ رکھتی ہے، کیوں کہ اکثر و بیشتر بد فعلی اور غیر محفوظ جنسی تعلقات ہی کی وجہ سے ایڈس وجود میں آ رہا ہے، اس لئے شریعت اسلامی کے احکامات کی روشنی میں حفظ ما تقدم کی تدابیر و تراکیب اختیار کر کے ایڈس سے متاثرہ افراد کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کرنے نیز ان ادویہ کا استعمال کرنے سے جن سے اس مرض کے خلاف مدافعانہ قوت میں اضافہ ہو، بالکلیہ ختم کیا جا سکتا ہے۔

یہاں خلاف فطرت جنسی تعلقات پر اسلامی روشنی ڈالنا فائدے سے خالی نہ ہو گا۔

خلاف فطرت جنسی عمل:

ہم جنسی عمل یعنی مردوں کا مردوں سے اور عورتوں کا عورتوں سے خواہشات بد پوری کرنے کا عمل وہ منحوس اور بدترین جرم ہے، جس کا دنیا میں سب سے پہلے قوم لوط نے ارتکاب کیا، جس کی وجہ سے اس قوم کو دنیا ہی میں خدا کی جانب سے ایسا بھیانک عذاب دیا گیا، جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی، ان کی بستیوں کو الٹ دیا گیا جہاں یہ لوگ سکونت پذیر تھے، انہیں پتھروں سے سنگسار کیا گیا اور جس جگہ یہ بستیاں الٹی گئیں، وہ جگہ آج بھی درس عبرت پیش کر رہی ہے، بیت المقدس اور نہر اردن کے درمیان آج بھی وہ قطعۂ زمین ’’بحر لوط‘‘ یا ’’بحر میت‘‘ کے نام سے ایسی جھیل سے موسوم ہے، جس میں اب تک بھی کوئی جاندار و متنفس چیز زندہ نہیں رہتی ہے، اس کی سطح سطحِ سمندرسے بہت زیادہ گہری ہے، اس میں عجیب قسم کا پانی پایا جاتا ہے، جس میں ہر کوئی جاندار گرتے ہی مر جاتا ہے، اس لئے اس کو   ’’بحر مردار‘‘ بھی کہتے ہیں۔

یہ اس درجہ گھناؤنا اور منحوس عمل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی خوف کھاتے تھے، ایک حدیث شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

’’ اِنَّ مِنْ اَخْوََفِ مَا اَخَافُ عَلَی اُمَّتِیْ۔ اَوْ عَلَی ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ۔ عَمَلُ قَوْمِ لُوْطٍ۔ ‘‘

’’ان بدترین اور خبیث ترین اعمال میں سے جن کا مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خطرہ ہے وہ قوم لوط کا عمل ہے۔‘‘

اور آج۔۔۔

یہ اس نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے، جو ہر زمانے کے سارے انسانوں کے لئے باعث رحمت بن کر آئے، جس کے لئے دورمستقبل کے انسانوں کے جملہ اعمال و افعال گویا آنکھوں دیکھے تھے، انھوں نے رونما ہونے والے بھیانک ترین احوال و کوائف کا اپنی دوررس نگاہوں سے بڑے قریب سے جائزہ لیا ہوا تھا، جب کہ فی زمانا حالات سوفی صدبرعکس ہوئے ہیں، ان کو تو خوف تھا اور آج کے لوگوں کو شوق ہے۔

صدر امریکا :

اللہ اکبرکبیراً ! مغربی ممالک میں تو اب لواطت و اغلام بازی اور ایک ہی صنف سے شادی رچانا فیشن سا بن چکا ہے، بل کلنٹن نے ایک مرتبہ وہائٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اور قوم لوط کے عمل کو اہمیت دیتے ہوئے اغلام بازی اور لواطت کو مزید فروغ(Develop) دینے کی تائید کی تھی، انہوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا :

’’ میں امریکی معاشرے کے تمام تر گروہوں اور ہم جنس پرست خواتین و حضرات کے درمیان مساوات کے قیام کیلئے کی جانے والی جدوجہد کی بھرپور تائید کرتا ہوں۔ ‘‘

آج کا امریکی صدر:

ابھی قریب ایک ماہ پہلے’’ فرانسیسی پوپ ‘‘نے اٹلی کی ایک میگزین کو انٹرویو کے دوران کہا تھا:

’’اسقاط حمل، حمل ٹھہرنے سے روکنے کے طریقوں اور ہم جنس پرستی جیسے موضوع پر اپنے سخت رویے کی وجہ سے چرچ نے اپنے آپ کو محدود دائرے میں سمیٹ لیا ہے۔ ‘‘

امریکا کے موجودہ صدرمسٹر’’ براک اوباماحسین‘‘نے ہم جنس پرستی کے حقوق کی کھلم کھلا حمایت کی ہے، جب کہ سال گذشتہ ہم جنس پرست شادی کی جم کر وکالت کی تھی، انھوں نے حمل ٹھہرنے سے روکنے کے طریقوں اور حمل ساقط کرانے کو خواتین کا حق تسلیم کئے جا نے کی حمایت کی بھی تھی۔

مسٹر ’’ براک اوباماحسین‘‘ نے (C.N.B.C.)کو دئے گئے انٹرویو میں کہا :

’’میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ پوپ کے اعلان سے بہت ہی متاثر ہوں، کیوں کہ یہ بات انھوں نے بہت ہی نرم دلی سے کہی ہے، پوپ ایسے شخص دکھائی دیتے ہیں کہ جو عیسی مسیح کی تعلیمات کو پورا کرتے ہیں، اور بے دین لوگوں کے ساتھ نرم طریقے سے پیش آتے ہیں، ان کی اسی خاصیت سے میں بہت ہی متاثر ہوں۔ ‘‘

ایک واقعہ :

یورپی عوام کی ہم جنسیت میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ اب ان کے یہاں سرکاری و عوامی سطح پر ہم جنسی تعلقات کوئی قابل اعتراض یا غیر اخلاقی جرم نہیں رہا، یورپ کی کتنی ہی پارلیامنٹوں اور حکومتوں نے اسے قانونی تحفظ فراہم کیا ہوا ہے، اور انتہا تو اس وقت ہوئی جب برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی بیوی نے ایک ہم جنس پرست جوڑے کا عدالت میں باقاعدہ مقدمہ لڑا اور یہ بھی مطالبہ کیا کہ اس جوڑے کو پارٹنر شپ کے برابر حقوق فراہم کرائے جائیں۔

اس بھیانک مرض کی پیداوار در اصل فطری (اسلامی ) قانون سے انحراف کا نتیجہ ہے (جو کہ بڑا بھیانک ہے) اللہ رب العزت نے تو مردوں کے لئے عورتوں سے اور عورتوں کے لئے مردوں سے شادی کا نظام بنا کر بنی نوع انسانی کو دیگر کتنی ہی ساری برائیوں سے محفوظ کر کے اطمینان و سکون کا سامان فراہم کیا تھا، مگر ہم انسان اپنے نفس امارہ کی اتباع کرتے ہوئے اس خدائی نظام عفت و عصمت کو پامال کر کے خود ہی اپنے ہاتھوں سے تباہی کو جنم دیا ہے، اور اس سے بڑی تباہی و بربادی وہ ہے جو شریعت اسلامی نے خلاف فطرت جنسی تعلقات قائم کرنے والے کے لئے بطور سزا قائم کی ہے۔

تاہم موقع کی مناسبت سے استلذاذبالمثل کی حرمت و شدت اوراس کی سزاوتعزیرکا تذکرہ اس مقام پر بے جا نہ ہو گا، احادیث وآثارسے بطور نمونہ چند کو نقل کیا جاتا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں سے سات قسم کے لوگوں پرآسمان کی بلندیوں سے لعنت فرمائی ہے، اور ان سات اقسام میں سے ایک قسم کے لوگ ایسے ہیں، جن پر اللہ تعالیٰ نے ایک ساتھ تین تین دفعہ لعنت فرمائی ہے، اور باقی پر صرف ایک بار، فرمایا:

’’مَلْعُونٌ مَن عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوْطٍ، مَلْعُوْنٌ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوْطٍ، مَلْعُوْنٌ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوْطٍ۔ ‘‘

(۱)

’’قوم لوط کا سا عمل کرنے والا ملعون و نامراد ہے، قوم لوط کا سا عمل کرنے والا ملعون و نامراد ہے، قوم لوط کا سا عمل کرنے والا ملعون و نامراد ہے۔ ‘‘

ایک اور حدیث ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

چار شخص ایسے ہیں جب ان پر صبح نمودار ہوتی ہے تو بھی غضبِ خداوندی میں وہ ماخوذ ہوئے ہوتے ہیں، اور جب شام ہوتی ہے تو بھی ناراضگیِ خداوندی ان کا مقدر ہوئی ہوتی ہے، راوی کا بیان ہے، میں نے معلوم کیا :اے اللہ کے رسول!یہ ہیں کون لوگ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’اَلْمُتَشَبِّھُوْنَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ وَالْمُتَشَبِّھَاتُ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ وَالَّذِیْ یَاْتِی الْبَھِیْمَۃَ، وَالَّذِیْ یَاْتِی الرِّجَالَ۔ ‘‘(۱)

’’وہ عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مرد اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتیں نیز جانوروں اور مردوں کے ساتھ خواہشات بدکی تکمیل کرنے والے لوگ ہیں۔ ‘‘

قتل کر دو:

اس منحوس و مبغوض عمل کی شریعت میں انتہائی سخت مذمت وارد ہوئی ہے، ایک حدیث شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

’’ مَنْ وَجَدْتُّمُوْہُ یَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوْطٍ فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُوْلَ۔ ‘‘

’’ تم جن لوگوں کو غیر محفوظ جنسی عمل کا ارتکاب کرنے والا پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں ہی کو قتل کر ڈالو۔ ‘‘

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے ایسے شخص کی سزا کے بارے میں فرمایا:

’’یُنْظَرُ اَعْلَی بِنَاءٍ بِالْقَرْیَۃِفَیُلْقَی مِنْہُ ثُمَّ یُتْبَعُ بِالْحِجَارَۃِ۔ ‘‘

’’ اسے شہر کی سب سے اونچی عمارت سے گرا کر سنگسار کر دیا جائے۔ ‘‘

حضرت حماد بن ابراہیم نخعی کہتے تھے :

’’ لَوْکَانَ اَحَدٌ یَسْتَقِیْمُ اَنْ یَرْجِمَ مَرَّتَیْنِ لَرُجِمَ اللُّوْطِیْ۔ ‘‘

’’ اگر کسی کو دو مرتبہ سنگسار کرنا مناسب ہوتا تو خلاف فطرت جنسی عمل کے مرتکب کو دو مرتبہ سنگسار کیا جاتا۔ ‘‘

علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’اس گناہ میں شریک آدمی کو ایسی عبرت ناک سزادی جائے، جس میں لوگوں کے لئے درس عبرت ہواورسرکش آدمی کی شہوت ٹوٹ کر بکھر جائے۔ ‘‘

ایک واقعہ اور عہد صحابہ:

ابن ابی الدنیا اور امام بیہقی محمد بن منکدر سے روایت کرتے ہیں : کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خط لکھا :

’’ ہمیں یہاں ایک ایسا آدمی ملا ہے جو خلاف فطرت جنسی عمل کراتا پھرتا ہے، جب یہ خط حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ملا تو صحابہ کرام کو جمع کر کے ایک میٹنگ کی، جس میں یہ مشورہ کیا گیا کہ ایسے شخص کو کیا سزا دی جائے ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ تجویز پیش کی :

’’اِنَّ ھٰذَا ذَنْبٌ لَمْ یَعْمَلْ بِہٖ اُمَّۃٌ اِلَّا اُمَّۃٌ وَاحِدَۃٌفَفَعَلَ اللّٰہُ بِھِمْ مَا قَدْ عَلِمْتُمْ اَرَی اَنْ تَحْرِقَہٗ بِالنَّارِ۔ ‘‘

’’ اس نے ایسے جرم کا ارتکاب کیا ہے، جس کا سابقہ زمانے میں صرف ایک امت نے ارتکاب کیا تھا، ان کو اللہ رب العزت نے ایسی سزا دی جو آپ سب کو معلوم ہے، میرا مشورہ یہ ہے کہ ایسے شخص کو آگ میں جلا دیا جائے۔‘‘

اس رائے پر تمام صحابہ کرام کا اتفاق ہو گیا، چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تمام موجود صحابہ کے اتفاق کے مطابق اس شخص کو آگ میں جلا دینے کا حکم صادر فرما دیا۔

خلاف فطرت جنسی عمل کرنے والے مجرمین کو چار خلفاء نے آگ کی سزا دی ہے۔

(۱)حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

(۲) حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ

(۳) حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ

(۴) ہشام بن عبد الملک۔ (الترغیب والترہیب :۳؍۲۵۱)

حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’لَوْاَنَّ الَّذِیْ یَعْمَلُ ذَالِکَ الْعَمَلَ (یعنی:عمل قوم لوط)اِغْتَسَلَ بِکُلِّ قَطْرَۃٍ مِنَ السَّمَاءِ وَکُلِّ قَطْرَۃٍفِی الْاَرْضِ لَمْ یَزَلْ نَجِساً۔‘‘

’’ یہ عمل اتنا منحوس ہے کہ اس عمل سے گذرنے والا شخص اگر آسمان و زمین کے ہر ہر قطرے سے بھی نہا لے گا پھر بھی ( باطنی طور پر ) ناپاک ہی رہے گا۔ ‘‘

مشہور محدث محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’لَیْسَ شَیْئٌ مِنَ الدَّوَابِ یَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوْطٍ اِلَّا الْخِنْزِیْرُوَالْحِمَارُ۔ ‘‘

’’ جانوروں میں سے بھی سوائے گدھے اور خنزیر کے کوئی جانور خلاف فطرت جنسی عمل نہیں کرتا ہے۔ ‘‘

مذکورہ معلومات سے معلوم ہوا کہ یہ اتنا منحوس و مبغوض عمل ہے کہ کائنات میں پھیلی بکھری مخلوقات کی اتنی کثیر تعداد، کتنے ہی مختلف الاقسام، مختلف النوع اور بھانت بھانت قسموں کے جانوروں میں سے صرف دو ذی روح جانور اس عمل خبیث کا ارتکاب کرتے ہیں، خلاف فطرت جنسی عمل کا مرتکب فرد جب اس عمل سے گذرتا ہے تو وہ انسانوں کی عظیم صف سے نکل کر جانوروں کی مہیب صف میں آ کھڑا ہوتا ہے، جانور تو بے عقل ہوتا ہے، لیکن انسان تو عاقل و دانا ہوشیار ہوتے ہوئے بھی اس عمل بد کا مرتکب ہو ؟ نہایت ہی افسوس کا مقام ہے۔

دوسرارخ:

یہ سب آثارو روایتیں استلذاذ بالجنس سے متعلق تھیں، روایات میں عورتوں کے ساتھ غیر فطری عمل کرنے پر بھی شدید ترین وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ مثلاً:

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’لَایَنْظُرُاللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِلَی رَجُلٍ اَتَی رَجُلاًاَوْاِمْرَاَۃًفِی دُبُرِھَا۔ ‘‘

’’اللہ رب العزت اس بندے کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھتے جو کسی مرد یا عورت کے ساتھ غیر فطری عمل کرے۔ ‘‘

ایک حدیث میں ہے حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’اِنَّ اللّٰہَ لَایَسْتَحْیِیْ مِنَ الْحَقِّ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ لَاتَاتُوا النِّسَاءَ فِی اَدْبَارِھِنَّ۔ ‘‘

’’اللہ جل شانہ حق کو بیان کرنے میں نہیں شرماتے، یہ تین بار ارشاد فرمایا(پھر فرمایا:)عورتوں کے پاس غیر فطری طریقے سے مت آیا کرو۔ ‘‘

ایک اور حدیث ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر فطری عامل کے بارے میں لعنت ارشاد فرمائی ہے:

’’مَلْعُوْنٌ مَنْ اَتَی اِمْرَاَۃً فِی دُبُرِھَا۔ ‘‘

’’ملعون ہے وہ شخص جو غیر فطری طریقے سے اپنی عورت کے ساتھ جماع کرتا ہے۔ ‘‘

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لوگوں کے متعلق ارشاد فرمایا:کہ یہ لوگ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر ہو گئے ہیں،

’’مَنْ اَتَی حَائِضاً اَوْ اِمْرَاَۃً   فِیْ دُبُرِھَا اَوْکَا ھِناً فَصَدَّ قَہٗ بِمَایَقُوْلُ فَقَدْکَفَرَبِمَا اُنْزِلَ عَلَی مُحَمَّدٍ[صلی اللہ علیہ وسلم۔ ‘‘

’’جو مرد حیض کی حالت میں بیوی کے ساتھ جماع کرے یا غیر فطری طریقے سے جماع کرے، یا کسی کاہن کے پاس آنا جانا کرے اور اس کی باتوں کی تصدیق کرے توایسے لوگ اس دین(متین) کے منکر ہو گئے ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے۔ ‘‘الامان والحفیظ!

غیر محفوظ جنسی تعلق :

خلاف فطرت جنسی عمل سے بہت ہی ملتا جلتا ایک عمل ہے جس سے ایڈس(AIDS) کے مرض کو پھیلنے پھولنے کی قوت میں بلا کی تقویت ملتی ہے اور وہ غیر محفوظ جنسی تعلقات (زنا) ہے، یہ بدترین خبیث ترین عمل آج ہمارے معاشرے میں ایسا ناسور بنا ہوا ہے، جس کی رو میں کتنے ہی بے شمار افراد بہے چلے جا رہے ہیں، حالاں کہ مذہب اسلام نے جس طرح بدکاری، بدکرداری اور بد فعلی کی مذمت کی ہے، اسی طرح غیر محفوظ جنسی تعلقات کی بھی سخت مذمت کرتے ہوئے اس کی بیخ کنی کی ہے، اس میں ملوث افراد کی سخت سرزنش کی ہے اور ایسی سزا کا اعلان کیا ہے جس سے روح کانپ کانپ جاتی ہے۔

ایک حدیث میں ہے کہ زانی اپنی زناکاری کے سبب ایمان کامل سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’لایَزْنِی الزَّانِیْ حِیْنَ یَزْنِی وَھُوَمُوْمِنٌ۔ ‘‘

’’ز انی بوقت زنا مومن کامل نہیں رہتا۔ ‘‘

ایک حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ زنا سب سے زیادہ خطرناک چیز ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

’’ یَا نِعَایَا الْعَرَب، یَانِعَایَا الْعَرَب! اِنَّ اَخْوَفَ مَا اَخَافُ عَلَیْکُمْ اَلزِّنَا وَالشَّہْوَۃَ الْخَفِیَّۃ۔ ‘‘ ( ۲)

’ ’ اے عرب کے بد کارو!اے عرب کے بد کارو! مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ ڈر اور خطرہ زنا اور پوشیدہ شہوت سے ہے۔ ‘‘

یعنی یہ ایسا منحوس عمل ہے جس سے معاشرتی نظام بالکل تباہ و برباد ہو جاتا ہے، گھر گھر میں فتنہ و فساد اور خون خرابہ کی نوبت تک آجاتی ہے، یہ تو اتنی بُری شئے ہے اس سے تو نسلیں مشتبہ ہو جاتی ہیں، غیر محفوظ جنسی عمل (زنا) ایک ایسا قبیح و غیر اخلاقی فعل ہے، جسے کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ فرد بھی اپنے خاندان و معاشرے میں برداشت نہیں کرسکتا، کیوں کہ ہر فرد کی یہ دلی تمنا ہوتی ہے کہ اس کا گھرانہ پاکیزگی کا نمونہ ہو اور اس کی ذریت صاف و شفافیت سے پُر چشمے سے دھلی ہوئی ہو، تاکہ معاشرتی و خاندانی اقدار بلند و بالا اور شخصی کردار اعلیٰ ہو، انسان تو انسان بعضے حیوانات بھی اس فعل قبیح کو گوارہ نہیں کرتے اور وہ اس معاملہ میں بہت زیادہ حساس و غیرت مند ہوتے ہیں۔

عجیب واقعہ :

جیسا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ’’فتح الباری‘‘ میں ایک بندر اور بندریا کا واقعہ لکھا ہے :

’’ جب مادہ بندریا نے اپنے شوہر (مذکر بندر) کو چھوڑ کر کسی دوسرے بندر سے منہ کالا کرا لیا تو دوسرے بندروں کو اس کے شوہر نے آواز دے کر جمع کیا، پھر سارے بندروں نے مل کر زانی بندر اور زانیہ بندریا کو گڑھا کھود کر پتھر سے سنگسار کیا۔ ‘‘

حضرت عمر بن میمون رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

’’رَاَیْتُ فِی الْجَاھِلِیَّۃِ قِرَدَۃً اِجْتَمَعَ عَلَیْہَا قِرَدَۃٌ قَدْ زَنَتْ فَرَجَمُوْھَا فَرَجَمْتُھَامَعھُمْ۔ ‘‘

’’میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بندریا کو دیکھا، جس نے زنا کا ارتکاب کیا تھا، تو دوسرے کئی ایک بندر اکٹھا ہوئے اور اس بندریا کو سنگسار کیا اور میں نے بھی ان کے ساتھ اس بندریا کو پتھر مارا تھا۔ ‘‘

…اور عہد نبوت :

جب حیوانوں کا اس قبیح و شنیع فعل کے متعلق یہ تنفرانہ رویہ ہے تو انسان جو کہ اشرف المخلوقات ہے، انسان کو اس قبیح فعل سے کیسی سخت نفرت ہونا چاہئے، وہ جگ ظاہر ہے، اس لئے قرآن کریم نے اس فعل کو گھناؤنا جرم قرار دیتے ہوئے اس کے قریب پھٹکنے سے سختی سے روکا۔

’’ وَلَا تَقْرَبُوْا الزِّنَا اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَاءَ سَبِیْلاً۔ ‘‘

’’خبردار ! زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا، کیوں کہ وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ ہے۔ ‘‘

قرآن اس فعل کو بُری راہ سے تعبیر کرتا ہے، اگر اس راہ کے راہ گیر کی کثرت ہو جائے گی تو بے راہ روی عام ہو جائے گی، جس سے معاشرہ لامحالہ اخلاقی انارکی میں پھنس جائے گا، پھر آئندہ نسلوں میں نئی نئی بیماریاں، دشواریاں، بربادیاں، خامیاں جنم لینا شروع ہو جائیں گی، بایں سبب سب کچھ تہ و بالا ہو جائے گا، اسلام اس عمل اور عامل عمل کا سخت مواخذہ کرتا ہے، یہی وجہ ہے قرآن و حدیث کے ذریعہ اس فعل کی سخت سزا مقرر کی گئی ہے، قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے:

’’اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِی فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍمِنْھُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ وَلَا تَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَافَۃٌفِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَلْیَشْھَدْعَذَابَھُمَاطَائِفَۃٌ مِنَ الْمُؤْمِنِیْن۔ ‘‘

’’ زنا کار مرد و عورت میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ، ان پر اللہ کی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہرگز ترس نہ کھانا چاہئے، اگر تم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہئے۔ ‘‘

اسلام نے اس پر بہت ہی سختی سے عمل کیا، اسی لئے عہد نبوی میں اس کی کتنی ہی مثالیں مل جائیں گی۔

۱۔ عہد نبوی میں حضرت ماعز رضی اللہ عنہ اور غامدیہ رضی اللہ عنہا کو بحکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سنگسار کیا گیا۔

۲۔ ایک واقعہ’’ بخاری شریف‘‘ میں منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں زنا کا ایک مقدمہ پیش کیا گیا، پورا واقعہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَاَقْضِیَنَّ بَیْنَکُمَابِکِتَابِ اللّٰہِ۔ ‘‘(۳)

’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ ‘‘

مذکورہ فیصلے میں دونوں کو سنگسار کیا گیا۔

۳۔ ایسے ہی ایک واقعہ سنن ابوداؤد، ترمذی وغیرہ میں ہے کہ زانی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سنگسار کیا گیا، جس کے بعد آپ نے فرمایا تھا :

’’ لَقَدْ تَابَ تَوْبَۃً لَوْتَابَھَا اَھْلُ الْمَدِیْنَۃِ لَقَبِلَ مِنْھُمْ۔ ‘‘

اہم بات :

مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اپنی تفسیر قرآن میں رقم طراز ہیں :

’’ یہ سزا اس لئے ہے کہ تمام داخلی و خارجی تدابیر اصلاح کے باوجود جو شریر النفس کھلے ہوئے جائز مواقع کو چھوڑ کر ناجائز طریقے سے اپنی خواہش نفس پوری کرنے پر اصرار کریں، ان کی کھال ادھیڑ دی جائے اور بدکار کو سزا دے کر معاشرے کے ان بہت سے لوگوں کا نفسیاتی آپریشن کر دیا جائے، جو اس طرح کے میلانات رکھتے ہیں۔ ‘‘

اور یہ چڑھتے سورج کی طرح سچ ہے کہ اگر خاطی کو قرار واقعی سزا مل جائے، تو معاشرے میں در آئی داخلی و خارجی بیماریوں کے علاج کا آپریشن یقینی ہو جائے اور روز افزوں نت نئے انداز سے وجود پذیر ہونے والی بیماریاں بالخصوص فی زمانا AIDS جو آج ہمارے معاشرے کا رِستہ زخم بنا ہوا ہے اور اس جیسی کتنی ہی دیگر بیماریوں پر قدغن لگ جائے ، کیوں کہ یہ طے ہے، جہاں جہاں خلاف فطرت جنسی عمل اور غیر محفوظ جنسی تعلقات (زنا) کی جڑیں پنپے گی، وہاں وہاں ایڈس اور ایڈس جیسی لاعلاج بیماریاں کشاں کشاں کھینچی چلی آئیں گی۔

زنا کے نقصانات :

(۱)زنا انسان کی بزرگی و شرافت کو داغدار بناتی ہے۔

(۲)زنا کی وجہ سے عدم تربیت کے سبب اولاد بے راہ روی پر آ جاتی ہے۔

(۳)زنا کی وجہ سے نظام زندگی درہم برہم ہو جاتا ہے۔

(۴)زنا کی وجہ سے بیوی سے اکثر ازدواجی تعلقات ختم ہو جاتے ہیں۔

(۵)زنا کی وجہ سے نسب خلط ملط ہو جاتا ہے۔

(۶)زنا کی وجہ سے معاشرے کی اجتماعیت ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے۔

(۷)زنا کی وجہ سے حرامی بچوں کی افزودگی(Increasement) ہوتی ہے۔

(۸)زنا کی وجہ سے زانی لوگوں کی ناراضگی مول لیتا ہے۔

(۹)زنا کی وجہ سے زانی کا دل پریشان پریشان رہتا ہے۔

(۱۰)زنا کی وجہ سے زانی کو غم و فکر اور نہ ختم ہونے والا خوف دامن گیر رہتا ہے۔

(۱۱)زنا کی وجہ سے زانی اموال کی تباہی و بربادی کا دروازہ وا کر دیتا ہے۔

(۱۲)زنا کی وجہ سے زانی کے جسم میں امراض خبیثہ پیدا ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔

(۱۳)زنا کی وجہ سے زانی غضب خداوندی کو دعوت دیتا ہے۔

(۱۴)زنا کی وجہ سے زانی کی عمر کم ہو جاتی ہے۔

(۱۵)زنا کی وجہ سے زانی سے اللہ قیامت کے دن گفتگو نہیں کرے گا۔

(۱۶)زنا کی وجہ سے زانی بروز قیامت آگ کے تنور میں ہوں گے۔

(۱۷)زنا کی وجہ سے زانی کا ایمان مسلوب ہو جاتا ہے۔

(۱۸)زنا کی وجہ سے زانی قبولیت دعا کی دولت سے محروم رہتا ہے۔

(۱۹)زنا کی وجہ سے زانی فقر و فاقہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

(۲۰)زنا کی وجہ سے زانی کے چہرے کی رونق و کشادگی یکسر پژمردہ ہو جاتی ہے۔

(۲۱)زنا کی وجہ سے زانیوں کی شرمگاہوں سے جہنم میں ایسی بدبو پھوٹے گی کہ خود اہل جہنم کے لئے بھی باعث اذیت ہو گی۔

(۲۲)قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت زنا بھی ہے۔

(۲۳)زنا کی کثرت دنیا کی ہلاکت و تباہی کی بھی علامت ہے۔

(۲۴)زنا بہت ہی بری راہ اور بے حیائی کا کام ہے۔

(۲۵)زنا کے عموم کی وجہ سے کثرت کے ساتھ اموات واقع ہوتی ہیں۔

(۲۶)زنا کی وجہ سے زانی کا حساب و کتاب سختی سے لیا جائے گا۔

(۲۷)زنا کی وجہ سے زانی کو جہنم میں جانا پڑے گا۔

(۲۸)زنا کی کثرت کی وجہ سے زانی برابر مصیبتوں اور آفتوں میں گھرا رہتا ہے۔

(۲۹)زنا کی وجہ سے زانی کی عقل ماؤف ہو جاتی ہے۔

(۳۰)زنا کی وجہ سے زانی کو اللہ نے کہا ہے :’’تم حد(انسانیت)سے تجاوز کرنے والے لوگ ہو۔

(۳۱)زنا کی وجہ سے زانی کو اللہ نے کہا ہے :’’یقیناً تم لوگ بڑے گمراہ ہو۔

(۳۲)زنا کی وجہ سے زانی کو اللہ نے کہا ہے :’’یہ تو ناشکرے و ناقدرے لوگ ہیں۔

(۳۳)قتل کی جتنی واردات رونما ہوتی ہیں ان میں ایک وجہ زنا بھی ہے۔

اسلام کا مزاج :

مذکورہ واقعات سے بخوبی معلوم ہو گیا کہ خلاف فطرت جنسی عاملین اور غیر محفوظ جنسی متعلقین کے متعلق تعلیمات اسلامی کیا سخت رویہ اپناتی ہے، مجرمین کو کیا بھیانک سزا دینے کا مزاج رکھتی ہے، اس کا اثر آج تک اظہر من الشمس ہے کہ جہاں جہاں اور جن جن بلاد اسلامیہ میں اسلامی قوانین کا نفاذ ہے اور وہ خاطی حضرات کو سخت سزا کا مستحق گردانتی ہے، وہاں وہاں لوگوں کا نفسیاتی علاج قبل از وقت ہو چکا، اس لئے ان ممالک میں خلاف فطری جنسی عمل اور غیر محفوظ جنسی تعلق قائم کرنے والے خال خال ہی نظر آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج وہ ممالک ایڈس اور ایڈس جیسی خطرناک لاعلاج بیماریوں، دشواریوں اور خامیوں سے دودھ کی طرح صاف و شفاف ہیں یا وہاں اس طرح کا اکا دکا واقعہ ہی نظر سے گذرتا ہے اوراس کی وجہ ان کا اسلامی قوانین پر عمل درآمد ہے، جو خالق کائنات نے وضع کئے ہیں، لیکن اس کے برعکس وہ ممالک جنہوں نے اپنے قوانین خود وضع کئے تو جس طرح قانون داں خطاؤں سے پُر غلطیوں کا مجموعہ اسی طرح ان کے اپنے بنائے ہوئے قوانین بھی خطاؤں اور غلطیوں سے خالی نہیں ہیں۔

وہ کون ہے؟

انسان کے خمیر کو اللہ نے پہلے ہی سے بھول اور خطا کے امتزاج سے سنگم کیا ہے، جیساکہ مقولہ مشہور ہے ’’ اَلْاِنْسَانُ مُرَکَّبٌ مِنَ الْخَطَاءِ وَالنِّسْیَان۔ ‘‘ کہ انسان کو غلطی اور بھول کے خمیر سے پیدا کیا گیا ہے۔

دوسرے یہ کہ خالق حقیقی نے علم قلیل اور جہالت کثیرہ کے ساتھ انسان کی تخلیق کی ہے۔ ’’ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْماً جَھُوْلاً۔ ‘‘ پھر انسان جو کچھ بھی پڑھتا، سیکھتا یا تجربات و مشاہدات سے حصول علم کرتا ہے، اس کے متعلق ارشاد خداوندی ہے ’’ وَ مَا اُوْتِیْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلاً۔ ‘‘ جو کچھ تم کو ملا ہے علم میں سے وہ بہت ہی کم ہے، اور یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے علم غیر کثیر، عقل غیر سلیم اور معلومات قلیل کے ہوتے ہوئے صحیح فیصلہ نہیں ہوسکتا۔

اس لئے یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ایڈس کے سبب اصلی غیر محفوظ جنسی تعلقات اور خلا ف فطرت جنسی عمل کو صفحہ ہستی سے بالکلیہ ختم کرنے کے لئے ’’آئین ہند ‘‘ میں دفعہ 376 اور 377 ناکافی ہے، کیوں کہ یہ انسان کا خود کا بنایا ہوا ہے، جو ایک ملک میں بسنے والے بنی نوع انسانی کے جذبات پر حاوی نہیں ہوسکتا تو لامحالہ اس مرض کے سبب اصلی کے ازالے کے لئے ایسے قانون داں کی ضرورت درکار ہے، جو تمام بنی نوع انسانی کے جذبات سے بالکلیہ واقف کار ہو …… وہ کون ہے ؟ سبھی کو معلوم ہے، کیوں کہ انسان سمیت اس کائنات کا خالق وہی ہے اور جو خالق ہو گا، چوں کہ وہ اپنی تمام مخلوقات کے نفع و ضرر اور مصالح و مفاسد سے واقف بھی ہو گا، اس لئے وہی اس لائق ہوسکتا ہے کہ اس کے احکام کی بجا آوری کی جائے۔

وہ ممالک جو ایڈس جیسی بیماریوں سے جھوجھ رہے ہیں، انہوں نے اس مرض سے نپٹنے کے لئے اصل علاج کو ترک کر کے غیر اصل علاج کی طرف اپنی تمام تر توجہ مبذول کی ہوئی ہے تو بھلا مریض کی صحت یابی کیسے ممکن ہے ؟

ذمہ داران حکومت نے اس مرض کے سد باب کے لئے پانی کی طرح پیسہ بہایا، لیکن کیا فائدہ ہوا ؟ مرض ناپید تو کیا ہوتا …بریک تو کیا لگتی …… معاشرہ تو کیا پاک ہوتا …… سکون کی سانسیں تو کیا ملتیں …… صحت کا راج تو کیا ہوتا …… ہاں البتہ اتنا ضرور ہوا…… مریضوں کی تعداد میں اضافہ یقینی ہوا … پیسہ پانی کی شکل میں بہہ کر اپنے سوتوں میں چلا گیا …… حکومت کی تجوری ذرا خالی ہوئی …… حکومت کی ناکامی کا پردہ فاش ہوا …… اور اہل حکومت کی کمزوری اجاگر ہوئی ……اور بس۔

ہم کیا کر رہے ہیں ؟

لگتا ہے حکومت سبب اصلی جانے بغیر پیسوں سے سد باب کرنا چاہتی ہے، جو کبھی بھی ممکن نہیں ہوسکتا ہے، ایڈس پر صرف ہونے والی خطیر رقم سے تو گویا یہی معلوم ہوتا ہے، جیسا کہ ذیل کے نقشے سے بخوبی واضح ہو جائے گا۔ وزارت صحت اور فیملی ویلفیر کے قومی ایڈس کنٹرول تنظیم کے ذریعہ حق اطلاعات قانون کے تحت ملنے والی معلومات کے مطابق حکومت کی طرف سے سالانہ رقم اس طرح خرچ کی گئی ہے۔

 

سال بجٹ بنایا گیا خرچ کی گئی رقم
2005-6 533.50کروڑ روپئے 520.82کروڑ روپئے
2006-7 705.67کروڑ روپئے 669.49 کروڑ روپئے
2007-8 815کروڑ روپئے 917.56کروڑ روپئے
2008-9 1100کروڑ روپئے 938.05کروڑ روپئے
2010-11 1435کروڑ روپئے 1176.21کروڑ روپئے
2011-12 1700کروڑ روپئے 1304.96کروڑ روپئے

 

درج بالا اخراجات کو جمع کیا جائے تو کل رقم 6559.82 کروڑ روپیہ ہوتی ہے جو 2005 سے لے کر اب تک AIDS کے سد باب پر اتنی خطیر رقم خرچ کی جاچکی ہے، نیز یہ رقم اس رقم کے علاوہ ہے، جو حکومت غیر سرکاری اداروں کو ایڈس پر روک تھام کے لئے دے رہی ہے، جیسے R.T.I. سے ملی دستاویزات کے مطابق ممبئی کے جے جے ہسپتال میں جاری ’’ ایڈس ریسرچ اینڈ کنٹرول سینٹر ‘‘ (ARCON) کو ملنے والی رقم کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔

2004-5 میں 216.19 لاکھ روپئے

2006-7 میں 113.74لاکھ روپئے

2007-8میں 111.74لاکھ روپئے

2008-9میں 82.29لاکھ

ممبئی کے علاوہ پورے ہندوستان میں چل رہے کتنے ہی ریسرچ سینٹرز کو حکومت سالانہ بڑی بھاری رقوم دیتی رہتی ہے، پھر بھی ہر ریسرچ سینٹر، ہر ادارے اور ہر ہسپتال ناکامی کی طرف گامزن ہے۔

یہ حقیقت ہے :

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ صرف پیسہ اس مرض خبیث کے علاج میں سنگ میل ثابت نہیں ہوسکتا، اعداد و شمار پر اپنی تیز نگاہوں کو مرکوز کرنے والے بخوبی جانتے ہیں، ان چند سالوں میں حکومت نے اس مجنوں مرض کی روک تھام کے لئے تجوریوں کی گرہ ڈھیلی کی اور اتنی وافر مقدار میں پیسہ بہایا ہوش بھی پراں ہوئے جاتے ہیں، حکومت نے جو رقم خرچ کی ہے اس کو اگر فی مریض پر تقسیم کیا جائے تو ایک مریض پر 1872308.5 لاکھ روپیہ صرف ہوا ہے، میری اپنی معلومات کے مطابق: ہمارے ملک ہندوستان میں کوئی مرض ایسا نہیں ہے، جس کے مریض پر اس رقم کا 11/4 حصہ بھی صرف ہوتا ہو، یہاں آ کر ناکام حکومت کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے، فہم ناقص کو فہم کامل بنانا ہو گا، ماضی کی تلخیوں سے سبق لینا ہو گا، گذشتہ ہوئی اندھیر نگری کے بالمقابل روشن مستقبل کا سامان تیار کرنا ہو گا، ماقبل میں ہوئی غیر معقول حرکتوں کا تدارک کرنا ہو گا، پراگندہ ذہنیت میں تبدیلی پیدا کرنا ہو گی اور اس ذہنی تغیر و تبدل کے سلسلے میں حکومت کے اہلکاروں کو پہلے آگے آنا ہو گا … بھلا قانون کے رکھوالے ہی جب قانون شکن بن کر عوام سے یہ توقع رکھیں کہ وہ قانون کی پاسداری کریں، تو یہ توقع فضول تر ہو گی، عربی کا بہت ہی مشہور و معروف مقولہ ہے ’’ اَلنَّاسُ عَلیٰ دِیْنِ مُلُوْکِھِمْ۔ ‘‘ ( ۱) جس ذہنیت کا راہ نما و سرخیل ہو گا، عوام بھی لازماً اسی ذہنیت کی ہو گی، ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ گیندے کی پنکھڑیوں سے عرق گلاب برس جائے، پہلے خود کی نوک پلک درست کرنا ہو گی، اپنی خواہشات پر قدغن لگانا ہو گی، بے لگام جوانیوں پر لگام عفت کسنا ہو گی، حکومت پیسہ کی جگہ اگر موتیوں کو بھی لٹائے، مگرکسی بھی مریض کو شفا یابی نہ ہو گی، ایک ایک مریض 1872308.5 لاکھ کا دو چند گنا بھی ہضم کر جائے گا، لیکن مرض بڑھتا جائے گا اور دیگر کتنی ہی لاعلاج بیماریاں نت نئے انداز سے اس طرح جنم لیں گی، جیسے تسبیح ٹوٹ کر دانے بکھر گئے ہوں، …… پھر حکومت اور اہلیان حکومت اس کو بنا نے سنوارنے کی سعی پیہم بھی کریں، لیکن بھیانک ناکامی ان کا مقدر بن چکی ہو گی۔

کیا یہ سچ ہے؟

اسلام کی بڑی خوبیوں میں سے ہے کہ اسلام ہر زمانے میں تمام بنی نوع انسانی کے لئے باعث رحمت و رافت ہے، اسی لئے اسلام نے ان جیسے دلسوز واقعات کی طرف اپنے ابتدائے آفرینش ہی میں واشگاف لفظوں میں بتلا دیا تھا، جب بھی کسی زمانے کے لوگ ان جیسے بے حیا امور میں دلچسپی کا مظاہرہ کریں گے تو ان میں طرح طرح کی نئی نئی بیماریاں پھوٹ پڑیں گی جن کا علاج ان کے پاس نہ ہو گا۔

ایک حدیث شریف میں ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’ مَا ظَھَرَتِ الْفَاحِشَۃُ فِی قَوْمٍ قَطُّ یُعْمَلُ بھَا فِیھِم عَلَانِیَۃً اِلَّا ظَھَرَفِیْھِمْ الطَّاعُوْنُ وَالْاَوْجَاعُ الَّتِیْ لَمْ تَکُنْ فِیْ اَسْلَافِھِم۔ ‘‘

’’جب بھی کسی قوم کے افراد میں بے حیائی اور بدکاری کی کثرت ہو جائے گی تو ان لوگوں میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جائیں گی، جو ان سے پہلے لوگوں میں نہ پائی جاتی ہوں گی۔ ‘‘

یہ بات تو محض قیاس آرائی کی بنیاد پر بھی کہی جا سکتی ہے کہ ’’فحاشی کی کثرت سے بیماریاں جنم لیتی ہیں ‘‘مگر یہ بات کہنا کہ ’’فحاشی کی کثرت کے سبب ایسی بیماریاں جنم لیں گی جو گذرے ہوئے اسلاف کے زمانے میں بھی موجود نہ تھیں ‘‘اس طرح کی بات اس وحی الٰہی کی روشنی کے بغیر نہیں کہی جا سکتی ہے، جو کسی نبی ورسول کو صدیوں کے پار دیکھنے صلاحیت عطا کرتی ہے۔

اسلام کی تعلیمات:

جملہ مذاہب کی تعلیمات کا اگر غامض نگاہ سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہر مذہب میں ایک ضابطۂ اخلاق اور ضابطۂ حیات ہوتا ہے، اور وہ ضابطہ انسانی زندگی پر گہرے نقوش چھوڑتا ہے، کیوں کہ مذہب کی گرفت بڑی مضبوط ہوتی ہے، اسلام ان تمام مذاہب میں ایک نمایاں، کامل، مکمل اور اکمل حیثیت کا حامل دین ہے، اس لئے اللہ اعلان کرتا ہے:

’’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً۔ ‘‘

’’آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو(ہر طرح سے)کامل و مکمل کر دیا اور اپنا انعام واحسان (بھی)تمام کر دیا اور میں نے اسلام کو تمہارا دین بننے کے لئے(ہمیشہ کے لئے )پسندکر لیا۔ ‘‘

یہ اعلان کر کے اللہ نے خود ہی بتایا کہ اسلام مذہب ہونے کے اعتبارسے کامل و مکمل اور میراپسندیدہ دین ہے، جوسب سے عمدہ ضابطۂ حیات و اخلاق پیش کرتا ہے اورانسانی اقدار کی اہمیت کوسب سے زیادہ سمجھتا ہے، اس لئے اسلام دیگر تمام مذاہب و ادیان میں سب سے آگے ہے، کیوں کہ و ہ انسانی زندگیوں کو سنوارنے، عظمتوں کو رفعت دینے، عصمتوں کی حفاظت کرنے، شرم و حیا کی تعلیم دینے، اخلاقیت کو جلا دینے، روحانی تربیت کرنے، اعمال صالحہ کی طرف راغب کرنے، اعمال طالحہ سے نفرت پیدا کرنے، اصول و ضوابط پرسختی سے عمل پیرا ہونے، بے حیائی پر قدغن لگانے، فواحشات و منکرات اور بدعات و خرافات کا سدباب کرنے اور ایک منظم معاشرے کی تشکیل کرنے میں اعانت کرنے جیسے مسائل میں اسلام بہت ہی حساس ہے، ذرا دیکھئے اسلام کس طرح اس جیسی بیماریوں سے بچنے میں ممد و معاون ہوتا ہے؟اوراسلام انسانی اقدار کی نشو و نما کے لئے شادی، بیوی، اولاد، ازدواجی زندگی، معاشرت اور آپسی تعلقات کوکس طرح اجاگر کرتا ہے؟ اس کی چند جھلکیاں قرآن و حدیث کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں۔

قرآن کا اسلوب خاص:

قرآن کریم میں بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اللہ نے تمہاری ہی جنس اور تمہاری ہی قوم سے تمہارے لئے تمہاری بیبیاں بنائی ہیں ، تاکہ باہمی موانست کی بھی تکمیل ہو جائے اورنسل انسانی کی شرافت و بزرگی بھی قائم رہے، اور تاکہ تم لوگ یہ بات سمجھ سکوکہ تمہاری بیبیوں کی ضروریات و جذبات بھی بالکل تمہارے ہی جیسے ہیں ، اس لئے ان کے جذبات کی قدر کرو، اللہ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَاللّٰہُ جَعَلَ لَکُمْ مِنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجاًوَّجَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ بَنِیْنَ وَحَفَدَۃً وَّرَزَقَکُمْ مِنَ الطَّیِّبَاتِ اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَتِ اللّٰہِ ھْمْ یَکْفُرُوْنَ۔ ‘‘

’’اللہ نے تم ہی میں سے(یعنی :تمہاری جنس اور نوع سے)تمہارے لئے بیبیاں بنائیں اور(پھر)ان بیبیوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے اور تم کو اچھی اچھی چیزیں کھانے (پینے)کودیں، کیا پھر بھی بے بنیاد باتوں پر عمل کرتے ہو؟اور اللہ تعالی کی نعمت کی ناشکری(و ناقدری)کرتے ہو؟‘‘

ایک جگہ ارشاد ہے:

’’وَمِنْ آیَاتِہِ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجاً لِتَسْکُنُوْا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَوَدَۃً وَّرَحْمَۃًاِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ۔ ‘‘

’’اوراس (اللہ کی قدرت کی)نشانیوں میں سے یہ (بھی)ہے کہ اس نے تمہارے(فائدے کے لئے)تمہاری جنس کی بیبیاں بنائیں (اور و ہ فائدہ یہ ہے کہ)تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرسکواورتم دونوں (زن و شوہر)کے درمیان محبت و ہمدردی پیدا کر دی۔ ‘‘

ایک جگہ کامیاب مومنین کے اوصاف بیان کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: جن ایمان والوں کے اندر مذکورہ اوصاف پائے جائیں گے تو وہی کامیابی و کامرانی سے ہم کنار ہوں گے، پھر اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا:

’’وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حَافِظُوْنَ۰اِلَّا عَلَی اَزْوَاجِھِمْ اَوْمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ فَاِنَّھُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ۰فَمِنِ ابْتَغٰی وَرَائَ ذٰلِکَ فَاؤُلٰئِکَ ھُمُ الْعَادُوْنَ۔ ‘‘

’’اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں اور اپنے ماتحت عورتوں کے(کیوں کہ ان سے زناشوئی میں )ان پر کوئی الزام نہیں ہے، لیکن جو اس کے علاوہ (شہوت رانی کا )طلب گار ہو گا وہی حد شرع سے تجاوز کرنے والا ہو گا۔ ‘‘

ایک جگہ ارشاد ہے:

’’وَلَاتَقْرَبُوْا الْفَوَاحِشَ مَاظَھَرَمِنْھَاوَمَابَطَنَ۔ ‘‘

’’اور بے حیائی(و بدکاری کے جتنے بھی طریقے ہیں ان)کے پاس بھی مت جاؤ، خواہ وہ اعلانیہ ہو یا پوشیدہ۔ ‘‘

ایک جگہ ارشاد ہے:

’’اِذْقَالَ لِقَوْمِہِ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ۰اَئِنَّکُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَھْوَۃً مِنْ دُوْنِ النساء بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تَجْھَلُوْنَ

’’اس وقت کو یاد کرو جب (حضرت )لوط( علیہ السلام)نے اپنی قوم سے کہا تھا کیا تم بدکاری کرتے ہو حالاں کہ تم سمجھدارہو(کیا تم اس کی برائی نہیں سمجھتے؟ پھر اس برائی کا بیان کرتے ہوئے فرمایا:)کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے مجامعت (شہوت رانی)کرتے ہو؟یقیناً تم لوگ بڑے گمراہ ہو۔ ‘‘

ایک جگہ ارشاد ہے:

’’وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَکُمْ رَبُّکُمْ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عَادُوْنَ۔ ‘‘

’’اور(کیا)تم اپنی ان بیبیوں کو چھوڑ کر مردوں سے مجامعت کرتے ہو، جن کو اللہ نے تمہارے لئے پیدا کیا تھا؟بل کہ تم یقیناً حد(انسانیت)کو پار کرنے والے لوگ ہو۔ ‘‘

ایک جگہ ارشاد ہے:

’’ وَلَا تَقْرَبُوْا الزِّنَا اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَاءَ سَبِیْلاً۔ ‘‘ ( ۲)

’’خبردار ! زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا، کیوں کہ وہ بڑی بے حیائی (کی بات)ہے اور بہت ہی بری راہ ہے۔ ‘‘

ایک جگہ ارشاد ہے:

’’اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِی فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍمِنْھُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ وَلَا تَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَافَۃٌفِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَلْیَشْھَدْعَذَابَھُمَاطَائِفَۃٌ مِنَ الْمُؤْمِنِیْن۔ ‘‘(۳)

’’ زنا کار مرد و عورت میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ، ان پر اللہ کی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہرگز ترس نہ کھانا چاہئے، اگر تم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو (اور)ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہئے۔ ‘‘

حدیث شریف کی جھلکیاں :

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’مَنِ اسْتَطَاعَ البَائَۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ فَاِنَّہٗ اَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَاَحْصَنُ لِلْفَرَجِ وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بِالصَّوْمِ فَاِنَّہٗ لَہٗ وِجَاءٌ۔ ‘‘

’’جو لوگ شادی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ شادی کریں، اس سے ان کی شہوت کم ہو جائے گی اور عزت و عصمت (بھی)محفوظ رہے گی، اور جو شادی کے قابل نہیں ہیں وہ روزوں کا اہتمام کریں ، کیوں کہ روزہ شہوت کو کم کرتا ہے۔ ‘‘

ایک حدیث میں ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’یَا شَبَابَ قُرَیْشٍ! احْفَظُوْا فُرُوْجَکُمْ لَا تَزْنُوْا اَلَا مَنْ حَفِظَ اللّٰہُ لَہٗ فَرْجَہٗ دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔ ‘‘

’’اے قریشی نوجوانوں !اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو(اور)زنا مت کرو، یاد رکھو!جو شرمگاہ کے اعتبارسے محفوظ ہو گا وہ جنت میں (ضرور)داخل ہو گا۔ ‘‘

ایک حدیث میں ہے، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’اِذَا اَبْصَرَ اَحَدُکُمْ اِمْرَاَۃً فَلْیَاْتِ اَھْلَہٗ فَاِنَّ ذٰلِکَ یَرُدُّ مَا فِیْ نَفْسِہٖ۔ ‘‘

’’تم میں سے جب کوئی کسی عورت کو دیکھ(اور شہوت ابھر آئے)تواسے چاہئے کہ وہ اپنی بیوی کے پاس آئے اور اس تقاضے کی تکمیل کرے جو اس کے دل میں آیا ہے۔ ‘‘

چھ نقصانات:

ایک حدیث میں ہے، زنا سے بچو، کیوں کہ جوزناسے نہیں بچے گا اس کو دنیا و آخرت میں چھ مصیبتوں کا سامنا کرنا ہو گا، ان میں سے تین دنیا میں اور تین آخرت میں پائی جائیں گی، حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِیْنَ !اِیَّاکُمْ وَالزِّنَا فَاِنَّ فِیْہِ سِتَّ خِصَالٍ ثَلَاثٌ فِی الدُّنْیَا وَثَلَاثٌ فِی الْآخِرَۃِ فَاَمَّا الَّتِیْ فِی الدُّنْیَا:فَذَھَابُ الْبَھَائِ وَدَوَامُ الْفَقْرِ وَقَصْرُ الْعُمُرِ، وَاَمَّا الَّتِیْ فِی الْآخِرَۃِ: سَخَطُ اللّٰہِ وَسُوْئُ الْحِسَابِ وَالْخُلُوْدُفِی النَّارِ۔ ‘‘

’’اے مسلم معاشرے کے لوگو!زنا سے اپنے آپ کو بچاؤ، کیوں کہ زنا چھ چیزیں ساتھ رکھتی ہے، ان میں سے زانی کو تین تو دنیا میں ملتی ہیں اور تین آخرت میں، دنیا والی تین پریشانی یہ ہیں (۱)عقل ماؤف ہو جاتی ہے(۲)فقر و فاقہ چھا جاتا ہے(۳)عمر کم ہو جاتی ہے، آخرت والی تین مصیبتیں یہ ہیں (۱)اللہ ناراض ہو گا(۲)روز قیامت حساب و کتاب بہت براہو گا(۳)زانی کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ ‘‘

ایک حدیث میں ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:اے لوگو!اس وقت کیا حال ہو گا جب تم لوگ پانچ چیزوں میں مبتلا ہو جاؤ گے ، حالاں کہ میں تمہارے لئے اللہ سے اس میں ملوث ہونے سے پناہ مانگتا ہوں، پھر ان چیزوں کا بیان کرتے ہوئے فرمایا، ان میں سے ایک یہ ہے،

’’ لَمْ تَظْھَرِ الْفَاحِشَۃُ فِیْ قَوْمٍ قَطُّ حَتّٰی یُعْلِنُوْابِھَا اِلَّا فَشَا فِیْھِمْ الطَّاعُوْنُ وَالْاَوْجَاعُ الَّتِیْ لَمْ تَکُنْ مَضَتْ فِیْ اَسْلَافِھِمُ الَّذِیْنَ مَضَوْا۔۔۔۔ ‘‘

’’جب کسی قوم کے لوگ بے حیائی کے اموربرسرعام انجام دینے لگتے ہیں تو ان لوگوں میں اس طرح کی پریشانیاں آ جاتی ہیں، جو اس سے پہلے کبھی نہیں آئی اور اس سے پہلے لوگوں میں بھی کبھی نہیں آئی ہوتی۔ ‘‘

ایک حدیث میں ہے،

’’لَا ظَھَرَتِ الْفَاحِشَۃُ فِیْ قَوْمٍ قَطُّ اِلَّا سَلَّطَ اللّٰہُ عَلَیْھِمُ الْمَوْتَ۔ ‘‘

’’جب بھی لوگوں میں فحش باتوں کی کثرت ہو گی تو اللہ ان لوگوں میں اموات کی کثرت کر دے گا۔ ‘‘

ایک حدیث میں ہے،

’’لَا ظَھَرَتِ الْفَاحِشَۃُ فِیْ قَوْمٍ اِلَّا عَمَّھُمُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ بِالْبَلَاءِ۔ ‘‘

’’کسی بھی قوم کے لوگ جب جب بھی بے حیائی کی باتوں میں دلچسپی لیں گے تو اتنا ہی اللہ مصیبتوں کے دروازے ان پر کھول دے گا۔ ‘‘

آخری بات:

آج جتنے بھی ممالک ایڈس جیسی کتنی ہی خطرناک لاعلاج بیماریوں کی وجہ سے جو جوجھ رہے ہیں، یہ قانون فطرت کو ترک کرنے، روشنی کے بدلے تاریکی کو اختیار کرنے اور وحی الٰہی کے بجائے نادان، کم علم لوگوں کے اپنے بنائے ہوئے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کے نتیجہ میں ہے۔

یہ بھی اللہ کا فضل ہے کہ ہمارا معاشرہ ابھی خباثت، رذالت، منکبت اور قعر مذلت کی اس انتہا کو تو نہیں پہنچا، جو مذکورہ مضمون میں جگہ جگہ نظرسے گذرا ہو گا، لیکن ایسے بہت سے اسباب و عوامل ہیں، جن کی جڑیں صلابت کی طرف گامزن ہے، ہمارے یہاں بکثرت ایسے خطوط و نقوش موجود ہیں، جو نہایت تیزی کے ساتھ معاشرے کو انتہائی پستی کی طرف گھسیٹ لئے جا رہے ہیں، جس کے سبب عفت و عصمت، نجابت و شرافت کی قدریں تیز رفتاری سے مٹ رہی ہیں، اختلاط مرد و زن، بے پردگی، بے راہ روی، آزادانہ میل جول، عورتوں کی بے محابہ چلت پھرت، ڈھول تماشے، گانے بجانے، مخلوط تعلیم و تربیت، مراسیوں کے امورسے حد درجے کی دلچسپی، جملہ شعبہائے زندگی میں عورتوں کا مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرنے کا نعرہ، اس طرح کے اور بھی بہت سے اوامر ہیں، جس میں ہمارا معاشرہ مکڑی کے جال کی طرح پھنسا ہوا ہے، ویڈیو (Videos) فلموں (Films) اور وی سی آر(V.C.R.)نے تو رہی سہی کسربھی پوری کر دی، ستم ظریفی کی انتہا دیکھئے کہ معاشرے کی اقدار کی گراوٹ کو محسوس کیا جاتا ہے، مگر پھر بھی ان وجوہ مفاسد کی درآمدگی پر ’’سہولت درسہولت‘‘بہم پہنچائی جاتی ہیں، کہ وہ اس متعفن ’’امریکی تہذیب‘‘ کے مناظر گھر بیٹھے دیکھ سکیں، اور اس طرح ’’ہم جنس پرستی‘‘کا یہ کوڑھ بسہولت تمام گھر گھر پھیل سکے۔

خدارا!اس قوم پر رحم کرو:

اب اگر کوئی مذکورہ بالا حقائق کے حوالے سے یہ کہتا ہے :

خدارا!اس قوم پر رحم کرو، معاشرے سے پے پردگی، فحاشی او ر عریانی کو ختم کرو، مخلوط تعلیم کے زہر سے نسل نو کو بچاؤ، مرد و زن کے آزادانہ اختلاط پر روک لگاؤ، ویڈیو اور کیسٹوں (Cassettes)کے ذریعہ پھیلنے والے اخلاقی جذام کا سدباب کرو، فحش گانے بجانے اور برہنہ و نیم برہنہ رقص وسرودکی محفلوں پر پابندی عائد کرواوراس طرح اس قوم کو پستی و ہلاکت کے اس مہیب غار سے بچاؤ، جس کی آخری تہہ سے مغرب کے کراہنے کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔

ایسی باتیں کہنے والے پر پرلے درجے کا دقیانوسی، رجعت پسندی، تنگ نظری اور جنونی ہونے کا انمٹ داغ ثبت کر دیا جائے گا، اس کے بارے میں کہا جائے گا اسے زمانے کے ساتھ قدم ملا چلنا نہیں آتا ہے، تو لہذا اس کی چیخ وپکار کو بہر صورت، بہر قیمت ’’ماڈرن زندگی‘‘(Modern life)کے شور و طرب میں گم ہو جانا چاہئے۔

علاج کے لئے:

ابھی تک اس بیماری کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے، بڑی کد و کاوش اور نہایت ہی جد و جہد کے بعد چند دوائیاں ایجاد ہوئی ہیں، جو صرف عارضی تدابیر کی حیثیت رکھتی ہیں، جن سے عوارض کی شدت میں وقتی افاقہ ہوسکے گا۔

ایڈس کے علاج کے لئے تیا رکی گئیں چند ادویہ یہ ہیں۔

(۱)اے زیڈ ٹی

(۲)ٹی سی 3

(۳) ڈی 4 ٹی

(۴) سیکوانر

(۵)ڈی ڈی سی

(۶)نیویرا پائن*

(۷) ایجی ڈاتھی مائڈین

(۸) جڈو وِیو ڈائن

(۹)کاٹ کھائر

(۱۰)کیڈی ڈیٹ

(۱۱) اولاک

(۱۲) انٹر لیوکنس پروٹین

(۱۳)٭٭ ونٹیگر آرمینکم

* www.aids-india.org/विज्ञान एवं प्रौद्योगिकी पृ० 212

ٹیسٹ کرانے کے لئے :

اس بیماری کی صحیح معلومات حاصل کرنے کے لئے مختلف طرح کی جانچ کی جاتی ہیں، مثلاً:مریض اگر مرد ہوتواس کے لئے یہ جانچ کرائی جا تی ہیں۔

The types of tests you’ll take will vary depending on your concerns. The doctor or nurse will explain what tests are going to be done and why. Don’t be afraid about asking them questions! For most procedures, it’s best not to pee for two hours before your check-up.

In the clinic or doctor’s office, you’ll have to undress partially or completely. Then the doctor or nurse will do some or all of these procedures as part of the physical exam:

1) Visual check of your genitals

2) Examine the penis and testicles to check for discharge, pain, sores

3) Take a swab from the urethra (the opening of the penis)

4) Ask for a urine sample

5) Take a blood test

مریض اگر عورت ہوتواس کے لئے یہ جانچ کرائی جا تی ہیں۔

The types of tests you’ll take will vary depending on your concerns. The doctor or nurse will explain what tests are going to be done and why. Don’t be afraid about asking them questions! When you see the doctor or nurse, they will ask you to undress partially or completely.

The doctor or nurse will do some or all of these procedures as part of the physical exam:

1 ) Visual check of your genitals

2) Speculum exam:

  1. a)     This involves placing a speculum inside the vagina so that the vagina and cervix can be observed
  2. b)     Swabs may be taken from the vagina and/or cervix
  3. c)     If you are getting a Pap test samples will be taken from the cervix using a tiny brush and spatula

3) Bi-manual exam:

  1. a)     This involves the doctor or nurse placing the fingers of one hand into the vagina while the other hand presses on the abdomen. This is so they can feel your ovaries and uterus.

4) Take a swab from a lesion or sore if you have one

5) Ask for a urine sample

6)Take a blood test

 

 

 

 

ماخذ و مراجع

 

قرآن کریم

الدر المنثور

معارف القرآن

تفہیم القرآن

بخاری شریف

مسلم شریف

ابوداودشریف

ترمذی شریف

مؤطا امام مالک

ابن ماجہ

مسنداحمد

مجمع الزوائد

صحیح الترغیب والترہیب

الترغیب والترہیب للمنذری

شعب الایمان

مستدرک للحاکم

فتح الباری

شرح البخاریالمجالسۃ و جواہر العلم

المفصل فی تاریخ العرب نو

جوان تباہی کے دہانے پر

اصلاح معاشرہ

آپ کا طرز عمل کس کے ساتھ کیسا؟

سنت نبوی اور جدیدسائنس

روزنامہ انقلاب

روزنامہ سہارا

روزنامہ ٹائم

روزنامہ U.S.A.

www.cdc.gov/mmwrhtm1/0001163.htm

www.sfaf.org/about-us/our-missin/

www.apla.org/about/history.html

www.cdc.gov/mmwr/preview/mmwrhmtm1/00001203.htm

www.cdc.gov/preview/mmwrhmtm1/00001257.htm

www.thebody.com/content/art13573k.html

www.cdc.gov/hiv/topics/survillance/resources/reports/past.htm

www.time.com/time/magazine/article/0.9171.962215.00.html

www.heart-intl.net/heart/hiv/comp/bangui1985report.pdf

www.ncb.nlm.nih.gov/pubmed/2867415

www.time.com/time/magazine/article/0.9171.963143.00htm

www.intheknowpeel.ca/stiaids/list.htm

Related articles

Research Project-South Africa (/research-project-sout-africa.htm)

Umunthu Foundation-Malawi (/umunthu-foundation-malawi.htm)

Sisonke project-south Africa(/sisonke-project-south-africa.htm)

Avet Overseas Partners(/avet-overseas-partners.htm)

Avert History (/avert-history.htm)

٭٭٭

نوٹ: اصل کتاب میں بھی حواشی بے ترتیب دئے گئے تھے، اس لئے اس ای بک سے تمام حواشی حذف کر دئے گئے ہیں۔ ا ع

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

دوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید