FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

اسلامی عقیدہ

 

 

 

               حمزہ قادری

 

 

 

اسلام کی بنیاد

 

سوال نمبر 1: اسلام کی بنیاد کتنی چیزوں پر ہے؟

جواب : اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اوّل اس امر کی شہادت (گواہی ) دینا کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ دوم نماز قائم کرنا، سوم زکوٰۃ دینا، چہارم حج کرنا، پنجم ماہ رمضان کے روزے رکھنا۔

 

سوال نمبر 2: کلمہ شہادت کیا ہے؟

جواب :اشھد ان لا الٰہ الا اللہ واشھد ان محمد ا عبدہٗ ورسولہٗ۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ سوائے اللہ کے کوئی سچا معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے خاص بندے اور رسول ہیں ۔

 

سوال نمبر3: کیا صرف زبان سے کلمہ پڑھ کر آدمی مسلمان ہو جاتا ہے؟

جواب :نری کلمہ گوئی یعنی صرف زبان سے کلمہ پڑھ لینے سے آدمی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ مسلمان وہ ہے جو زبان سے اقرار کے ساتھ ساتھ سچے دل سے ان تمام باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریات دین سے ہیں ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر بات میں سچا جانے اور اس کے کسی قول یا فعل سے اللہ و رسول کا انکار یا توہین نہ پائی جائے۔

 

سوال نمبر4: گونگے آدمی کا مسلمان ہونا کیسے معلوم ہو گا؟

جواب :گونگا آدمی کہ زبان سے انکار نہیں کر سکتا اس کے مسلمان ہونے کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اشارہ سے یہ ظاہر کر دے کہ سوائے اللہ کے کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے خاص بندے اور رسول ہیں اور اسلام میں جو کچھ ہے وہ صحیح اور حق ہے۔

 

سوال نمبر5: ضروریات دین جنہیں بغیر مانے آدمی مسلمان نہیں ہو سکتا وہ کیا ہیں ؟

جواب :ضروریات دین وہ مسائل ہیں جن کو ہر خاص و عام جانتا ہے جیسے اللہ عزوجل کی توحید (یعنی اسے ایک جاننا) نبیوں کی نبوت، جنت، دوزخ، حشر و نشر وغیرہ مثلاً یہ اعتقاد کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا۔

 

سوال نمبر6: ایک شخص کلمہ اسلام پڑھتا ہے اور دین کی کسی ضروری بات کا انکار بھی کرتا ہے وہ مسلمان ہے یا نہیں ؟

جواب :ہرگز نہیں ، جو شخص کسی ضروری دینی امر کا انکار کرے یا اسلام کے بنیادی عقیدوں کے خلاف کوئی عقیدہ رکھے اگرچہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہے، نہ اسلامی برادری میں داخل ہے نہ مسلمان ۔

 

سوال نمبر7: نفاق کیا ہے؟

جواب :زبان سے اسلام کا دعوےٰ اور دل میں اسلام سے انکار کرنا نفاق ہے۔ یہ بھی خالص کفر ہے۔ بلکہ ایسے لوگوں کے لیے جہنم کا سب سے نیچے کا طبقہ ہے۔

 

سوال نمبر8: کیا اس زمانے میں کسی کو منافق کہہ سکتے ہیں ؟

جواب :کسی خاص شخص کی نسبت یقین کے ساتھ تو منافق نہیں کہا جا سکتا ، البتہ نفاق کی ایک شاخ اس زمانے میں پائی جاتی ہے۔ کہ بہت سے بد مذہب اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور دیکھا جاتا ہے کہ اسلام کے دعوے کے ساتھ ضروریات دین کا انکار بھی کرتے ہیں ۔

 

 

اسلام کی تعریف

 

سوال نمبر 1:تم کون ہو؟

جواب :ہم مسلمان ہیں ۔

 

سوال نمبر 2:مسلمان کسے کہتے ہیں ؟

جواب :دین اسلام کی پیروی کرنے والے کو مسلمان کہتے ہیں ۔

 

سوال نمبر 3:اسلام کی بنیاد کن چیزوں پر ہے؟

جواب :اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔

۱۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے خاص بندے اور رسول ہیں ۔

۲۔ نماز قائم کرنا ۳۔ زکوٰۃ دینا ۴۔ حج کرنا ۵۔ ماہ رمضان کے روزے رکھنا۔

سوال نمبر 4:اسلام کا کلمہ کیا ہے؟

جواب :اسلام کا کلمہ یہ ہے : لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ o۔ (صلی اللہ علیہ وسلم)

 

 

تقدیر

 

سوال نمبر 1: تقدیر سے کیا مراد ہے؟

جواب :عالم میں جو کچھ برا یا بھلا ہوتا ہے اور بندے جو کچھ نیکی یا بدی کے کام کرتے ہیں ، وہ سب اللہ عزوجل کے علم ازلی کے مطابق ہوتا ہے، ہر بھلائی برائی اس نے اپنے علم ازلی کے موافق مقدر فرما دی ہے یعنی جیسا ہونے والا تھا اور جو جیسا کرنے والا تھا اللہ نے اسے اپنے علم سے جانا اور وہی لکھ لیا تو وہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہے اور اس کے پاس لکھا ہوا ۔ اسی کا نام تقدیر ہے۔

 

سوال نمبر 2: کیا تقدیر کے موافق کام کرنے پر آدمی مجبور ہے؟

جواب :اللہ عزوجل نے بندوں کو فرمایا، انھیں کان، آنکھ ، ہاتھ، پاؤں ، زبان وغیرہ عطا فرمائے اور انھیں کام میں لانے کا طریقہ الہام فرمایا پھر اعلیٰ درجے کے شریف جوہر یعنی عقل سے ممتاز فرمایا جس نے تمام حیوانات پر انسان کا مرتبہ بڑھایا۔ پھر لاکھوں باتیں ہیں جن کا عقل ادراک نہ کر سکتی تھی لہٰذا انبیاء بھیج کر کتابیں اتار کر ذرا ذرا سی بات جتا دی اور کسی کو عذر کی کوئی جگہ باقی نہ چھوڑی۔ آدمی جس طرح نہ آپ سے آپ بن سکتا تھا نہ اپنے لیے کان، ہاتھ، پاؤں ، زبان وغیرہ بنا سکتا تھا یونہی اپنے لیے طاقت ،قوت، ارادہ، اختیار بھی نہیں بنا سکتا، سب کچھ اسی نے دیا اور اسی نے بنایا۔ انسان کو ایک نوع اختیار دیا کہ ایک کام چاہے کرے چاہے نہ کرے، تو اس ارادہ اختیار کے پیدا ہونے سے آدمی صاحبِ ارادہ و صاحب اختیار ہوا نہ کہ مضطر ، مجبور، ناچار، آدمی اور پتھر کی حرکت میں فرق کیا ہے، یہی کہ وہ ارادہ اختیار نہیں رکھتا اور آدمی میں اللہ تعالیٰ نے یہ صفت پید اکی تو یہ کیسی الٹی مت ہے کہ جس صفت کے پیدا ہونے نے انسان کو پتھر سے ممتاز کیا۔ اسی کی پیدائش کو اپنے پتھر ہو جانے کا سبب سمجھے اور دیگر جمادات کی طرح اپنے آپ کو بے حس و حرکت اور مجبور جانے۔

 

 

سوال نمبر 3: آدمی جب مختار ہے تو اعمال کی بازپرس کس بنا پر ہو گی؟

جواب :یہ ارادہ و اختیار جس کا انسان میں پایا جانا روشن اور بدیہی امر ہے قطعاً یقینا اللہ عزوجل ہی کا پیدا کیا ہوا ہے، اس نے ہم میں ارادہ و اختیار پیدا کیا اس سے ہم اس کی عطا کے لائق مختار و صاحب اختیار ہوئے۔ یہ ارادہ و اختیار ہماری اپنی ذات سے نہیں تو ہم ’’مختار کردہ‘‘ ہوئے ’’خود مختار‘‘ نہ ہوئے کہ شتر بے مہار بنے پھریں اور بندہ کی یہ شان بھی نہیں کہ خود مختار ہو سکے۔ بس یہی ارادہ اور یہی اختیار جو ہر شخص اپنے نفس میں دیکھ رہا ہے، عقل کے ساتھ اس کا پایا جانا یہی دنیا میں شریعت کے احکام کا مدار ہے اور اسی نباء پر آخرت میں جز و سزا او ر ثواب و عذاب اور اعمال کی پرسش و حساب ہے۔ جزا اوسزا کے لیے جتنا اختیار چاہے و ہ بندے کو حاصل ہے۔

اؒلغرض اللہ تعالیٰ نے آدمی کو مثل پتھر او ر دیگر جمادات کے بے حس و حرکت پیدا نہیں کیا بلکہ اس کو ایک نوع اختیار دیا ہے اور اس کے ساتھ عقل بھی دی ہے کہ بھلے برے اور نفع و نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کے سامان اور اسباب مہیا فرما دئیے ہیں کہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے اسی قسم کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں اور اسی بناء پر اس سے مواخذ ہ ہے اپنے آپ کو بالکل مجبور یا بالکل مختار سمجھنا ، دونوں گمراہی ہیں ۔

 

سوال نمبر 4: کسی امر کی تدبیر کرنا تقدیر کے خلاف تو نہیں ؟

جواب :دنیا عالم اسباب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکومت بالغہ سے ایک چیز کو دوسری چیز کے لیے سبب بنا دیا ہے اور سنت الٰہی یوں جاری ہے کہ سبب پایا جائے تو مسبب (یعنی وہ دوسری چیز جس کے لیے یہ سبب ہے) پیدا ہو اور انھیں اسباب کو عمل میں لانا اور انھیں کسب فعل کا ذریعہ بنانا تدبیر ہے تو تدبیر منافی تقدیر نہیں بلکہ تقدیر الٰہی کے موافق ہے۔ جس طرح تقدیر کو بھول کر تدبیر پر پھولنا اور اسی پر اعتماد کر بیٹھنا کفار کی خصلت ہے یونہی تدبیر کو محض عبث و فضول اور مہمل بنانا کھلے گمراہ یا سچے مجنون کا کام ہے۔ انبیاء کرام سے زیادہ تقدیر الٰہی پر کس کا ایما ن ہو گا؟ پھر وہ بھی ہمیشہ تدبیر فرماتے اور اس کی راہیں بتاتے رہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کا زر ہیں بنانا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دس برس شعیب علیہ السلام کی بکریاں اجرت پر چرانا قرآن کریم میں مذکور ہے۔

 

سوال نمبر 5: تقدیر کا لکھا ہوا بدل سکتا ہے یا نہیں ؟

جواب :اصل کتاب لوحِ محفوظ میں جو کچھ لکھا ہے اور جسے قضائے مبرم حقیقی کہتے ہیں ، اس کی تبدیلی یا ناممکن ہے وہ نہیں بدلتا، اکابر محبوبانِ خدا اگر اتفاقاً اس بارے میں کچھ عرض کرتے ہیں تو انھیں اس خیال سے واپس فرما دیا جاتا ہے ، اور فرشتوں کے صحیفوں اور لوح محفوظ کے پٹھوں میں جو احکام ہیں ۔ (جنہیں قضائے، معلق اور قضائے مبرم غیر حقیقی بھی کہتے ہیں )۔ وہ اللہ عزوجل کے کرم سے مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے اپنی یا اولیاء کرام کی دعاؤں کی برکت سے والدین کی خدمت اور صلہ رحم وغیرہ سے زیادت و برکت کی جانب بدل جاتے ہیں اور گناہ و ظلم و نافرمانی والدین اور قطع رحم وغیرہ سے دوسری طرف تبدیل ہو جاتے ہیں مثلاً فرشتوں کے صحیفوں میں زید کی عمر ساٹھ برس تھی اس نے سرکشی کی بیس برس پہلے ہی اس کی موت کا حکم آ گیا یا نیکی کی، بیس برس اور زندگی کا حکم فرمایا گیا۔ یہ تقدیر میں تبدیل ہوئی ، لیکن علم الٰہی اور لوح محفوظ میں وہی چالیس یا اسی سال لکھے تھے اور ان کے مطابق ہونا لازم ہے۔

 

سوال نمبر6: کسی برائی کے متعلق یہ کہنا کہ تقدیر میں لکھی تھی، کیسا ہے؟

جواب :برا کام کر کے تقدیر کی طرف نسبت کرنا اور مشیت الٰہی کے حوالہ کرنا بہت بری بات ہے بلکہ حکم یہ ہے کہ جو اچھا کام کرے اسے من جانب اللہ کہے اور جو برائی سر زد ہو اس کو شامتِ نفس تصور کرے۔

 

سوال نمبر 7: تقدیری امور میں بحث کرنا کیسا ہے؟

جواب :تقدیری امور یعنی قضاء و قدر کے مسائل عام عقلوں میں نہیں آسکتے۔ ان میں زیادہ تر غور و فکر کرنا یا انھیں کسی مجلس میں ذریعہ بحث بنا لینا ہلاکت و نامرادی کا سبب ہے۔ صدیق و فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما اس مسئلہ پر بحث کرنے سے منع فرما گئے۔ ماؤشماکس گنتی میں ہیں ۔ عقیدۂ اہل سنت بس یہی ہے کہ انسان نہ پتھر کی طرح مجبور محض ہے، نہ خود مختار بلکہ ان دونوں کے بیچ میں ایک حالت ہے۔ تقدیر ایک گہرے سمندر کی مانند ہے۔ جس کی تہہ تک کسی کی رسائی نہیں ۔ یہ ایک تاریک راستہ ہے جس سے گزرنے کی کوئی راہ نہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک راز ہے جس پر انسان کی عقل کو دسترس نہیں ۔

 

سوال نمبر 8: تقدیر کسے کہتے ہیں ؟

جواب :دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اور بندے جو کچھ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی سے اسے جانا اور لکھ دیا، اسی کا نام تقدیر ہے۔

 

سوال نمبر 9: کیا تقدیر کے موافق کا م کرنے پر آدمی مجبور ہوتا ہے؟

جواب :نہیں ، یہ بات نہیں کہ جیسا اس نے لکھ دیا ویسا ہم کو کرنا پڑتا ہے، بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا اس نے لکھ دیا ویسا ہم کو کرنا پڑتا ہے، بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا اس نے لکھ دیا، اس کے علم یا لکھ دینے نے کسی کو مجبور نہیں کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے بندے کو اختیار دیا ہے، ایک کام چاہے کرے چاہے نہ کرے۔ اس کے ساتھ ہی عقل بھی دی ہے کہ بھلے برے ۔ نفع نقصان کو پہچان سکے۔ آدمی پتھر کی طرح بے حس تو نہیں ہے۔

سوال نمبر 10: تقدیر کا انکار کرنے والے کون ہیں ؟

جواب : تقدیر کا انکار کرنے والوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کا مجوسی بتایا ہے۔

 

اللہ کی صفات

 

سوال نمبر 1: سارے عالم کا خالق و مربی اور مدبر و مالک کون ہے؟

جواب :وہ ایک اللہ ہے ، وہی ہر شے کا خالق ہے، ذوات ہوں خواہ افعال سب اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں ۔ ساری کائنات کا نظام تربیت اسی کے ہاتھ میں ہے وہی ساری مخلوق کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف نشوونما دیتا اور اسے مرتبہ کمال تک پہنچاتا ہے، مربی کے یہی معنی ہیں ، دہی مدبر ہے کہ دنیا کے قیامت تک ہونے والے کاموں کو اپنے حکم و امر او ر اپنے قضا ء قدر سے تدبیر فرماتا ہے۔ زمین و آسمان اللہ ہی کی ملک ہیں ہم سب عبد محض ہیں اور تمام تر اسی کی ملک ، ہم خود بھی اور ہماری ہر چیز بھی اس کی مملوک ہیں ۔ زمین و آسمان کے یہ سارے کارخانے جو دنیا کے ہر طلسم سے بڑھ کر حیرت انگیز اور انسانی سائنس کے ہر شعبہ سے عجیب تر ہیں ، بجائے خود اس کی دلیل ہیں کہ نہ یہ اپنے آپ وجود میں آسکتے ہیں نہ باقی رہ سکتے ہیں جب تک کوئی قادر مطلق ہستی ان کی صانع و خالق اور مربی و مدبر نہ ہو اور وہ نہیں مگر ایک اللہ تعالیٰ واحد قہار جل جلالہ و عز شانہٗ ۔

 

سوال نمبر 2: اللہ کے معنی کیا ہیں ؟

جواب :اللہ خدا کے لیے اسم ذات ہے جو واجب الوجود ہے اور ہر کمال و خوبی کا جامع اور ہر اس چیز سے جس میں عیب و نقص ہے،پاک ہے۔ تمام صفاتِ کمالیہ اس میں موجود ہیں ۔

 

سوال نمبر 3: صفات کمالیہ کے کیا معنی ہیں ؟

جواب :خدائے تعالیٰ واجب الوجود ہے اس کی ذات تمام کمالات اور خوبیوں سے آراستہ اور ہر قسم کے عیوب و نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے تو اس کمال ذاتی کے لیے جن جن صفات سے اس کی ذات کا متصف ہونا ضروری ہے۔ ان صفات کو صفات کمالیہ کہتے ہیں ۔

 

سوال نمبر 4: صفات کمالیہ کتنی ہیں ؟

جواب :اللہ تعالیٰ کی ذات میں بہت سی صفتیں ہیں جن میں اہم صفتیں نو ہیں ۔ باقی صفات انہی نو صفتوں میں سے کسی نہ کسی کے تحت آ جاتی ہیں اور وہ نو صفتیں یہ ہیں :

حیات، قدرت، ارادہ و مشیت، علم، سمع، بصر، کلام، تکوین و تخلیق ، رزاقیت۔

 

سوال نمبر 5: حیات کے کیا معنی ہیں ؟

جواب :وہ حی ہے یعنی خود زندہ ہے اور تمام چیزوں کو زندگی والا، پھر جب چاہتا ہے ان کو فنا کر دیتا ہے۔

 

سوال نمبر 6: صفتِ قدرت کے کیا معنی ہیں ؟

جواب :اللہ تعالیٰ قدیر ہے اسے ہر چیز پر قدرت حاصل ہے، کوئی ممکن اس کی قدرت سے باہر نہیں ، جو چاہے وہ کرے، معدوم کو موجود اور موجود کو معدوم ، فقیر کو بادشاہ اور بادشاہ کو فقیر کر دے جس چیز میں جو خاصیت یا اثر چاہے پیدا کر دے اور جب چاہے و ہ اثر نکال لے اور دوسرا خاصہ اور تاثیر پیدا کر دے۔

 

سوال نمبر 7: کیا اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے پر بھی قادر ہے؟

جواب :اللہ تعالیٰ ہر اس چیز سے جس میں عیب و نقصان ہے، پاک ہے ،یعنی عیب و نقصان کا اس میں پایا جانا محال ہے، مثلاً جھوٹ ، دغا، خیانت، ظلم، جہل، بے حیائی وغیرہ عیوب اس پر محال ہیں اور یہ کہنا کہ جھوٹ پر قدرت ہے بایں معنی کہ وہ خود جھوٹ بول سکتا ہے محال کو ممکن ٹھہرانا اور خدا کو عیبی بتانا بلکہ خدا سے انکار کرنا ہے اور کذب (جھوٹ) تو ایسا گندا، ناپاک عیب ہے جس سے تھوڑی ظاہری عزت والا بھی بچنا چاہتا ہے بلکہ بھنگی ، چمار بھی اپنی طرف اس کی نسبت سے شرماتا ہے۔ اگر وہ اللہ جل جلالہ کے ممکن ہو تو وہ بھی عیبی ، ناقص، گندی نجاست سے آلودہ ہوسکے گا، تو کیا کوئی مسلمان اپنے رب پر ایسا گمان کر سکتا ہے؟ مسلمان تو مسلمان معمولی سمجھ والا یہودی اور نصرانی بھی ایسی بات اپنے رب کی نسبت گوارا نہ کرے گا اور جو خدا کی طرف اس کی نسبت کرے وہ یہودیوں اور نصرانیوں سے بدتر ہے۔

 

سوال نمبر 8: ارادہ مشیت کے کیا معنی ہیں ؟

جواب :اللہ تعالیٰ مرید ہے یعنی اس میں ارادہ کی صفت پائی جاتی ہے، اس کی مشیت و ارادہ کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ تمام چیزوں کو اپنے ارادے سے پیدا فرماتا ہے اور ان میں اپنے ارادے ہی سے تصرف فرماتا ہے، یہ نہیں کہ بے ارادہ اس سے فعل صادر ہو جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے ازلی ارادہ کے ماتحت ہی ہر چیز کا ظہور ہوتا ہے۔ اس پر کوئی چیز واجب و ضروری نہیں کہ جس کے کرنے پر مجبور ہو، مالک علی الااطلاق ہے جو چاہے کرے جو چاہے حکم دے۔

 

سوال نمبر 9: صفت علم کے کیا معنی ہیں ؟

جواب :اللہ تعالیٰ علیم ہے یعنی اس کو صفت علم حاصل ہے اس کا علم ہر شے کو محیط ہے، ہر چیز کی اس کی خبر ہے، جو کچھ ہو رہا ہے یا ہو چکا آئندہ ہونے والا ہے، پوری تفصیل کے ساتھ ان سب کو ازل میں جانتا تھا، اب جانتا ہے اور ابد تک جانے گا۔ اشیاء بدلتی ہیں اس کا علم نہیں بدلتا، ایک ذرہ بھی اس سے پوشیدہ نہیں ، اس کے علم کی کوئی انتہا نہیں ، وہ غیب و شہادت سب کو یکساں جانتا ہے۔ علم ذاتی اس کا خاصہ ہے۔

 

سوال نمبر10: صفت سمع و بصر سے کیا مراد ہے؟

جواب :اللہ تعالیٰ سمیع و بصیر ہے یعنی اس میں صفتِ سماعت و صفت بصارت ہے۔ ہر پست سے پست آواز تک کو سنتا ہے اور ہر باریک سے باریک کو کہ خوردبین سے محسوس نہ ہو، وہ دیکھتا ہے بلکہ اس کا دیکھنا اور سننا انھیں چیزوں پر منحصر نہیں وہ ہر موجود کو دیکھتا ہے اور ہر موجود کو سنتا ہے ۔ سمع کے معنی سننا اور بصر کے معنی دیکھنا ہے۔

 

سوال نمبر 11: صفت کلام سے کیا مراد ہے؟

جواب :اللہ تعالیٰ متکلم ہے یعنی اس کو کلام کرنے کی صفت حاصل ہے، جس چیز کو چاہتا ہے خبر دیتا ہے۔ انبیاء سے جب چاہتا ہے کلام کرتا ہے اور جس طرح وہ بے کان کے سنتا ہے اور بے آنکھ کے دیکھتا ہے اسی طرح وہ بغیر زبان کے بولتا ہے کہ یہ سب اجسام ہیں اور اجسام سے وہ پاک۔ اس کا کلام آواز سے پاک ہے اور مثل دیگر صفات کے اس کا کلام بھی قدیم ہے۔ تمام آسمانی کتابیں اور یہ قرآن عظیم جس کو ہم اپنی زبان سے تلاوت کرتے اور مصاحف میں لکھتے ہیں ، اسی کا کلام قدیم بلا صورت ہے اور یہ ہمارا پڑھنا، لکھنا، سننا اور حفظ کرنا حادث ہے، اور جو ہم نے پڑھا، لکھا اور سنا اور جو ہم نے حفظ کیا وہ قدیم ہے۔

 

سوال نمبر 12: یہ سات صفات جو اوپر گزریں انھیں کیا کہتے ہیں ؟

جواب :حیات، قدرت، سمع، بصر، علم ، ارادہ اور کلام ، اللہ تعالیٰ کی صفات ذاتیہ کہلاتی ہیں ۔

 

سوال نمبر 13: تکوین و تخلیق سے کیا مراد ہے؟

جواب :تکوین و تخلیق سارے جہان کو پیدا کرنے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ سارے جہان کا خالق ہے یعنی تمام عالم اسی کا پیدا کیا ہوا ہے اور آئندہ بھی ہر چیزوہی پیدا کرے گا ۔ چھوٹے سے چھوٹا ذرہ اور عالم کا مادہ ( آگ ، پانی، ہوا، خاک جنھیں اربع عناصر کہتے ہیں ) سب اسی کی مخلوق ہے۔ چیزوں کے پیدا کرنے میں وہ کسی آلہ کا محتاج نہیں ، نہ اس کو کسی مدد کی ضرورت ہے۔ جس چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کوکن (ہو جا) کہہ کر پیدا کر دیتا ہے۔ انسانوں کے کام اور عمل بھی سب اس کے مخلوق ہیں ، ذوات ہوں خواہ افعال سب اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں ۔

مارنا ،جلانا، صحت دینا، بیمار ڈالنا، غنی کرنا، فقیر کرنا وغیرہ صفات جن کا تعلق مخلوق سے ہیں اور جنھیں صفات اضافیہ اور صفاتِ فعیلہ بھی کہتے ہیں ۔ ان سب کو صفاتِ تکوین کی تفصیل سمجھنا چاہیے۔

 

سوال نمبر 14: صفت رزاقیت سے کیا مراد ہے؟

جواب :اللہ تعالیٰ رزاق ہے وہی تمام ذی روح کو رزق دینے والا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی مخلوق کو وہی روزی دیتا ہے، وہی ہر چیز کی پرورش کرتا ہے۔ وہی ساری کائنات کی تربیت فرماتا اور ہر چیز کو آہستہ آہستہ بتدریج اس کے کمال مقدار تک پہنچاتا ہے۔ وہ رب العالمین ہے۔ یعنی تمام عالم کا پرورش کرنے والا، حقیقۃً روزی پہنچانے والا وہی ہے۔ ملائکہ وغیرہ ہم وسیلے اور واسطے ہیں ۔

 

سوال نمبر 15: صفات سلبیہ کس کو کہتے ہیں ؟

جواب :صفات سلبیہ وہ ہیں جس سے اللہ تعالیٰ کی ذات مبرا اور پاک ہے۔ مثلاً وہ جاہل نہیں ، بے اختیار و بے کس نہیں ، کسی بات سے معذور و عاجز نہیں ، اندھا نہیں ، بہرا نہیں ، گونگا نہیں ، ظالم نہیں ، مجسم یعنی جسم والا نہیں ، زمانی و مکانی، جہت و مکان و زمان و حرکت و سکون و شکل و صورت اور تمام حوادث سے پاک ہے۔ کھانے پینے اور تمام حوائج بشری (انسانی حاجتوں ) اور ہر قسم کے تغیر و تبدل ، حدوث و احتیاج سے پاک ہے،نہ وہ کسی چیز میں حلول کئے ہوئے ہے کہ کسی چیز میں سما جائے ،نہ اس میں کوئی چیز حلول کئے ہوئے کہ اس میں پیوست ہو جائے ، یونہی وہ ذات کسی کے ساتھ متحد بھی نہیں جیسے کہ برف پانی میں گھل کر ایک ہو جاتی ہے نہ وہ کسی کا باپ ہے ،نہ کسی کا بیٹا ، نہ اس کے لیے بی بی ہے ، نہ اس کا کوئی ہمسر و برابر۔

 

 

سوال نمبر 16: خدائے تعالیٰ کا دیدار ممکن ہے یا نہیں ؟

جواب :دنیا کی زندگی میں اللہ عزوجل کا دیدار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے اور آخرت میں ہر سنی مسلمان کے لیے ممکن بلکہ واقع ہے جس سے اہل جنت کی آنکھیں روشن ہوں گی اور وہ دیدار الٰہی سے بڑھ کر انھیں کوئی نعت و دولت پیاری نہ ہو گی۔ رہا قلبی دیدار یا خواب میں توبہ دیگر انبیاء علیہم السلام بلکہ اولیاء کے لیے بھی حاصل ہے۔ ہمارے امام اعظم رضی اللہ عنہ کو خواب میں سو بار زیارت ہوئی۔ اللہ تعالیٰ یہ دولت ہمیں بھی میسر فرمائے ۔ آمین

 

سوال نمبر 17: کیا اللہ تعالیٰ کو اپنے افعال میں کسی غرض یا سبب کی احتیاج ہوتی ہے؟

جواب :اللہ تعالیٰ کے ہر فعل میں کثیر حکمتیں اور مصلحتیں ہیں جن کی تفصیل وہی خوب جانتا ہے ، خواہ ہم کو معلوم ہوں یا نہ ہوں اور اس کے فعل کے لیے کوئی غرض نہیں کہ غرض اس فائدے کو کہتے ہیں جو فاعل کی طرف رجوع کرے ، اور نہ اس کے افعال علت و سبب کے محتاج ہیں ، اس نے اپنی حکمت بالغہ کے مطابق ایک چیز کو دوسری چیز کے لیے سبب بنا دیا ہے۔ آنکھ دیکھتی ہے کان سنتا ہے، آگ جلاتی ہے، پانی پیاس بجھاتا ہے ، وہ چاہے تو آنکھ سنے، کان دیکھے، پانی جلائے، آگ پیاس بجھائے، نہ چاہے تو لاکھ آنکھیں ہوں ، دن کو پہاڑ نہ سوجھے، کروڑ آگیں ہوں اور ایک تنکے پر داغ نہ آئے۔

کس قہر کی آگ تھی جس میں ابراہیم علیہ السلام کافروں نے ڈالا، کوئی پاس بھی نہ جا سکتا تھا، اسے ارشاد ہوا، اے آگ ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا ! ابراہیم پر اور وہ آگ گلزار بن گئی۔

 

 

 

رسالت

 

سوال نمبر 1: پیغمبروں کے بھیجنے میں اللہ تعالیٰ کی کیا حکمت ہے؟

جواب :انبیاء و مرسلین کے مبعوث فرمانے (بھیجنے) میں اللہ تعالیٰ کی بڑی حکمت اور اپنے بندوں پر بڑی رحمت ہے۔ اس نے اپنے ان رسولوں کے ذریعہ سے اپنی رضا مندی اور ناراضی کے کاموں سے آگاہ کر دیا اس لیے کہ جب ہم لوگ باوجود ہم جنس ہونے کے کسی دوسرے شخص کی صحیح رائے بغیر اس کے ظاہر کئے ہوئے نہیں معلوم کر سکتے اور یہ نہیں جانتے کہ یہ کس چیز سے خوش اور راضی ہے اور کس چیز سے ناخوش و ناراض ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کی مرضی و نا مرضی کو بغیر اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے کیوں کر جان سکتے تھے؟ نہ کسی کو عذاب و ثواب کی اطلاع ہو سکتی تھی، نہ عالم آخرت کی باتیں معلوم ہو سکتی تھیں ، نہ عبادت کا صحیح طریقہ معلوم ہو سکتا تھا، نہ عبادت کے ارکان و شرائط اور آداب کا پتہ لگ سکتا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات تک رسائی تو خیال میں بھی نہیں آسکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لیے انسانوں میں سے کچھ برگزیدہ انسان ایسے پیدا کئے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے درمیان واسطہ ہوتے ہیں ۔ یہ برگزیدہ بندے اللہ کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں تاکہ پیغمبروں کے بعد پھر لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی حجت باقی نہ رہے، ان کی اطاعت کرنے والا مقبول اور مخالف مردود ہے۔

 

سوال نمبر 2: تنہا عقل انسان کی رہنمائی کر سکتی ہے یا نہیں ؟

جواب :اگر اللہ تعالیٰ ہمیں تنہا ہماری عقلوں پر چھوڑ دیتا تو ہم کبھی پورے طور سے سعادت و نجات کا راستہ نہیں معلوم کر سکتے تھے۔ دنیا کے عقلا کا حال ہم دیکھ رہے ہیں کہ مادیات و مشاہدات (رات دن مشاہدے اور تجربہ میں آنے والی چیزوں ) میں بھی ایک بات پر متفق نہیں ہیں ۔ بلکہ ایک ہی شخص کبھی کچھ اور کبھی کچھ رائے قائم کر لیتا ہے۔ تو روحانیت اور عالم غیب و عالم آخرت کے بارے میں وہ کیونکر صحیح بات معلوم کر سکتے تھے۔ لہٰذا ماننا پڑے گا کہ بغیر واسطہ پیغمبر تنہا عقل انسانی سعادت و نجات کا کما حقہ راستہ معلوم نہیں کر سکتی۔

 

سوال نمبر 3: انبیاء سب بشر تھے ، اس میں کیا حکمت ہے؟

جواب :اللہ تعالیٰ کی یہ بھی بڑی حکمت اور رحمت ہے کہ وہ اپنا نبی و رسول نبی نوع بشر سے منتخب فرماتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ فرشتوں میں سے کسی دوسری مخلوق میں سے ہمارے لیے رسول بھیجتا تو وہ ہماری عادات و خصائل سے واقف نہ ہوتا، نہ اس کو ہم پر وہ شفقت ہوتی جو ایک ہم جنس دو سرے ہم جنس سے ہوتی ہے، دوسرا اس کی طرف ہمارا میلان طبعی نہ ہوتا نہ اس کی باتوں میں ہم اس کی پیروی کر سکتے اور نہ ہماری کمزوریوں کا اسے احساس ہوتا۔

 

سوال نمبر 4: وحی کسے کہتے ہیں ؟

جواب :وحی کے لغوی معنی ہیں ’’کسی بات کا دل میں آہستہ ڈالنا‘‘ اور شریعت میں وحی کے معنی ہیں وہ کلام الٰہی جو پیغمبروں پر مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لیے نازل ہوا۔ سنت الٰہی اس طرح جاری ہے کہ خداوند عالم اپنی مخلوق سے دو بدو گفتگو نہیں کرتا، لیکن مخلوق کی ہدایت اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک احکامات الٰہی ان تک کسی ذریعہ سے نہ پہنچ جائیں ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں پر وحی نازل فرمائی اور ان کے ذریعہ سے اپنے بندوں کو نیک و بد سے آگاہ کر دیا۔

وحی کا لفظ قرآن شریف میں لغوی اور شرعی دونوں معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔

 

سوال نمبر 5: نزول وحی کے کتنے طریقے ہیں ؟

جواب :انبیاء علیہم السلام پر وحی کے چار طریقے ہیں :

۱۔ کسی غیبی آواز کا سنائی دینا۔

۲۔ کسی بات کا دل میں خود بخود پیدا ہو جانا۔

۳۔ صحیح اور سچے خوابوں کا دیکھنا چنانچہ نبی کو خواب میں جو چیز بتائی جاتی ہے وہ بھی وحی ہے، اس کے چھوٹے ہونے کا احتمال نہیں ۔

۴۔ کسی فرشتہ کا انسانی شکل میں ہو کر آنا اور پیغام الٰہی پہنچانا۔

 

سوال نمبر 6: الہام کے کیا معنی ہیں ؟

جواب :ولی کے دل میں بعض وقت سوئے یا جاگتے میں کوئی بات القاء ہوتی ہے اس کو الہام کہتے ہیں ۔

 

سوال نمبر 7: وحیِ شیطانی کسے کہتے ہیں ؟

جواب :شیطان اپنے رفیقوں یعنی کاہن، ساحر اور دوسرے کافروں اور فاسقوں کے دل میں کوئی بات ڈال دیتا ہے اسے لغوی معنی کے اعتبار سے وحی شیطانی کہتے ہیں ۔ یہ لوگ ایک دوسرے کو فریب دہی اور ملمع سازی کی چکنی چپڑی باتیں سکھاتے ہیں تاکہ انھیں سن کر لوگ ان کی طرف مائل ہو جائیں اور ان کو پسند کرنے لگیں اور پھر کبھی برے کاموں اور کفر و فسق کی دلدل سے نہ نکلنے پائیں ۔ لیکن جو خدا کے نیک بندے ہیں وہ ان کے اغوا میں نہیں آتے بلکہ لاحول بھیج کر دوسرے نیک کاموں میں مصروف رہتے ہیں ۔

 

سوال نمبر 8: اللہ تعالیٰ نے کل کتنے انبیاء مبعوث فرمائے؟

جواب :انبیاء علیہم السلام کی کوئی تعداد مقرر کرنا جائز نہیں کہ خبریں اس باب میں مختلف ہیں اور تعداد معین پر ایمان رکھنے میں نبی کی نبوت سے خارج ماننے یا غیر نبی کو نبی جاننے کا احتمال ہے اور یہ دونوں باتیں کفر ہیں لہٰذا اجمالاً یہ اعتقاد چاہیے کہ ہر نبی پر ہمارا ایمان ہے۔

 

سوال نمبر 9: کیا ہر ملک اور ہر قوم میں کوئی نہ کوئی نبی گزرا ہے؟

جواب :قرآن کریم سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہر امت میں اور ہر ملک میں ایک رسول ہوا جو انھیں دین حق کی دعوت دیتا اور خدا کی بندگی و طاعت کا حکم دیتا اور ایمان کی طرف بلاتا تاکہ خدا کی حجت تمام ہو اور کافروں اور منکروں کو کوئی عذر نہ رہے۔ اب یہ احکام پہنچانے والا خواہ نبی ہو یا نبی کا قائم مقام عالم دین جو نبی کی طرف سے خلق خدا کو اللہ تعالیٰ کا خوف دلائے۔

 

سوال نمبر 10: رام اور کرشن کو جنھیں ہندو مانتے ہیں ، نبی کہہ سکتے ہیں یا نہیں ؟

جواب :اللہ و رسول کو جنھیں تفصیلاً نبی بتایا اور قرآن و حدیث میں ان کا تذکرہ آیا ان پر تفصیلاً نا م بنام ایمان لائے اور باقی تمام انبیاء پر ہم اجمالاً ایمان لائے ہیں ۔ خدا و رسول نے ہم پر یہ لازم نہیں کیا کہ ہر رسول کو ہم جانیں ، یا نہ جانیں تو خواہی نخواہی اندھے کی لاٹھی سے ٹٹولیں کہ شاید یہ ہو، شاید یہ ہو، کا ہے کے لیے ٹٹولنا ہزاروں امتوں کا ہمیں نام و مقام تک معلوم نہیں نہ قطعی طور پر انبیاء کی صحیح تعداد معلوم ہے کہ کتنے پیغمبر دنیا میں آئے اور قران عظیم یا حدیث کریم میں رام و کرشن کا ذکر تک نہیں بلکہ ان کے وجود پر بھی ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں کہ یہ واقعی کچھ اشخاص تھے یا محض ہندوؤں کے تراشیدہ خیالات ہیں ، اور ہندوؤں کی کتابوں میں جہاں ان کا ذکر آتا ہے ، وہیں ان کے فسق و فجور، بداعمالیوں اور بد اخلاقیوں کا پتہ چلتا ہے۔ اب اگر ہندوؤں کی کتابیں درست مانی جائیں تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ رام و کرشن فاسق و فاجر اور بد کردار بھی تھے اور جو ایسا ہو وہ ہر گز نبی نہیں ہو سکتا کہ انبیاء کرام معصوم ہوتے ہیں ۔ ان کی تربیت و نگرانی اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے، ان سے گناہ سر زد ہو ہی نہیں سکتا۔

غرض یہ کہ سوائے ان نبیوں کے جن کے نام قرآن و حدیث میں مذکور ہیں ، کسی شخص کے متعلق تعین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ نبی یا رسول تھے۔

 

سوال نمبر 11: انبیاء کرام کو غیب کا علم ہوتا ہے یا نہیں ؟

جواب :بے شک اللہ عزوجل نے انبیاء علیہم السلام کو غیب کا علم عطا فرمایا۔ زمین وآسمان کا ہر زرہ ہر نبی کے پیش نظر ہے مگر یہ علم غیب جو کہ ان کو ہے، اللہ کے دینے سے ہے۔ لہٰذا ان کا علم عطائی ہوا۔ نبی کے معنی ہیں غیب کی خبر دینے والا، انبیاء علیہم السلام غیب کی خبریں دینے کے لیے ہی آ تے ہیں کہ جنت و نارو حشر و نشرو عذاب و ثواب غیب نہیں تو اور کیا ہیں ؟ ان کا منصب ہی یہ ہے کہ وہ باتیں ارشاد فرمائیں ، جن تک عقل و حواس کی رسائی نہیں ، اور اسی کا نام غیب ہے ۔ اولیاء کو بھی علم غیب عطائی ہوتا ہے مگر بوا سطہ انبیاء کے۔

سوال نمبر 12: خدا کی سار ی مخلوق میں سے سب سے افضل کون ہے؟

جواب :ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوقات الٰہی میں سب سے افضل و بالا اور بہتر و اعلیٰ ہیں کہ اوروں کو فرداً فرداً جو کمالات عطا ہوئے حضور میں وہ سب جمع کر دئیے گئے اور ان کے علاوہ حضور کو وہ کمالات ملے جن میں کسی کا حصہ نہیں ، بلکہ اوروں کو جو کچھ ملا حضور کے طفیل میں بلکہ حضور کے دست اقدس سے ملا۔ محال ہے کہ کوئی حضور کا مثل ہو، جو کسی صفت خاصہ میں کسی کو حضور کا مثل بتائے ، گمراہ ہے یا کافر۔

 

سوال نمبر 13: حضور کے فضائل و کمالات کا خلاصہ کیا ہے؟

جواب :۱۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ عزوجل نے مرتبہ محبوبیت کبریٰ سے سر فراز فرمایا، انھیں اپنا محبوب خاص و حبیب بنایا کہ تمام خلق رضائے الٰہی کی خواہش مند ہے اور اللہ عزوجل مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کا طالب ہے۔

خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم

خدا چاہتا ہے رضا ئے محمد (ﷺ)

۲۔ تمام مخلوق اولین و آخرین حضور کی نیاز مند ہے یہاں تک کہ ابراہیم خلیل اللہ۔

۳۔ قیامت کے دن شفاعت کبریٰ کا مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص سے ہے۔

۴۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت مدار ایمان ہے بلکہ ایمان اسی محبت ہی کا نام ہے۔

۵۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری عین اطاعت الٰہی ہے، اطاعت بے اطاعت حضور ناممکن ہے۔

۶۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم جزو ایمان و رکن ایمان ہے اور فعل تعظیم ، ایمان کے بعد ہر فرض سے مقدم ہے۔

عمل سے علی کے یہ ثابت ہوا ہے

کہ اصل عبادت تری بندگی ہے

۷۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر جس طرح اس وقت تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس عالم میں ظاہری نگاہوں کے سامنے تشریف فرما تھے اب بھی اسی طرح فرض اعظم ہے۔

۸۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کس قول و فعل و عمل و حالت کو جو بنظر حقارت دیکھے یا دیدہ و دانستہ کسی سنت کی توہین کرے وہ کافر ہے۔

۹۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اللہ عزوجل کے نائب مطلق ہیں ۔ تمام جہان حضور کے ماتحت ہے، جو چاہیں کریں اور جو چاہیں حکم دیں ، تما م جہان ان کے حکم کا پھیرنے والا کوئی نہیں ، سارا علم ان کا محکوم ہے۔

۱۰۔ جنت و نار کی کنجیاں دست اقدس میں دے دی گئیں ۔ رزق و خیر اور ہر قسم کی عطا ئیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے دربار سے تقسیم ہوتی ہیں ۔

۱۱۔ احکام شریعت حضور کے قبضہ میں کر دئیے گئے کہ جس پر جو چاہیں حرام فرما دیں ، جو چاہیں حلال فر ما دیں اور جو فرض چاہیں معاف کر دیں ۔

۱۲۔ سب سے پہلے مرتبہ نبوت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا۔ روز میثاق اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے حضور پر ایمان لانے اور حضور کی نصرت کرنے کا عہد لیا اور اسی شرط پر یہ منصب اعظم ان کو دیا گیا۔

۱۳۔ حضور نبی الانبیاء میں اور تمام انبیاء حضور کے امتی، سب نے اپنے عہد میں حضور کو نائب ہو کر کام کیا۔

۱۴۔ اللہ عزوجل نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ذات کا مظہر بنایا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے تمام عالم کو منو ر فرمایا بایں معنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ تشریف فرما ہیں ۔

(اللھم صل و سلم بارک علیہ و آلہٖ و اصحابہٖ ابداً)

 

سوال نمبر 14: حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و عادات کیا تھے؟

جواب :نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زندگی کے مبارک احوال و واقعات ہر ملک اور ہر طبقہ کے فرد اور جماعتوں کے لیے بہترین نمونہ اور مثال ہیں اور ان واقعات کے ضمن میں اس نبی عربی (فداہ ابی و امی) کے اخلاق و عادات اور خصائل و صفات کی چمک ایسی نمایاں ہے جیسے ریت میں کندن، یہاں مختصر طور پر ان کا ذکر کیا جاتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خندہ رو، ملنسار، اکثر خاموش رہنے والے ، بکثرت ذکر خدا کرنے والے ، لغویات سے دور ، بیہودہ پن سے نفور (بیزار) رہتے تھے۔ زبان مبارک پر کبھی کوئی گندی بات یا گالی نہیں آتی تھی اور نہ کسی پر لعنت کیا کرتے تھے۔

مساکین سے محبت فرمایا کرتے ، غرباء میں وہ رہ کر خوش ہوتے ۔ کسی فقیر کو اس کی تنگدستی کی وجہ سے حقیر نہ جانا کرتے اور کسی بادشاہی کی وجہ سے برا نہ جانتے غلام و آقا۔ حبشی و ترکی میں ذرا فرق نہ کرتے۔ جنگی قیدیوں کی خبر گیری مہمانوں کی طرح کرتے، جانی دشمنوں سے بکشادہ پیشانی ملتے ، مجلس میں کبھی پاؤں پھیلا کر نہ بیٹھتے ، جو کوئی مل جاتے اسے پہلے سلام کرتے اور مصافحہ کے لیے خود ہاتھ بڑھاتے ، کسی کی بات قطع نہ فرماتے۔ اگر نماز نفل میں ہوتے اور کوئی شخص پاس آ بیٹھتا تو نماز کو مختصر کر دیتے اور اس کی ضرورت پوری کرنے کے بعد پھر نماز میں مشغول ہو جاتے۔ اپنی جان پر تکلیف اٹھا لیتے مگر دوسرے شخص کو از راہِ حیا کام کرنے کو نہ فرماتے۔ زمین پر بلا کسی مسند و فرش کے تشریف رکھتے، گھر کا کام کاج بلا تکلیف کرتے، اپنے کپڑے کو خود پیوند لگا لیتے۔ گھر میں صفائی کر لیتے، بکری دوہ لیتے ، خادم کے ساتھ بیٹھ کر کھا لیتے خادم کو اس کے کام کاج میں مدد دیتے۔ بازار سے چیز خود جا کر خرید لاتے، جو کچھ کھانا سامنے رکھ دیا جاتا اسے بہ رغبت کھا لیتے۔

کنبہ والوں اور خادموں پر بہت مہربان تھے۔ ہر ایک پر رحم فرمایا کرتے ۔ کسی سے کچھ طمع نہ رکھتے، سر مبار ک کو جھکائے رکھتے ۔ جو شخص یکبارگی آپ کے سامنے آ جاتا وہ ہیبت زدہ ہو جاتا اور جو کوئی پاس آ بیٹھتا و فدائی بن جاتا۔

آپ سب سے زیادہ بہادر و شجاع اور سب سے زیادہ سخی تھے۔ جب کسی چیز کا سوال کیا جاتا فوراً عطا فرما دیتے۔ سب سے زیادہ حلیم و بردبار تھے اور سب سے زیادہ حیا دار۔ آپ کی نگاہ کسی کے چہرے پر ٹھہرتی نہ تھی۔ آپ ذاتی معاملات میں کسی سے انتقام نہ لیتے تھے اور نہ غصہ ہوتے تھے، ہاں جب خدائی احکام کی خلاف ورزی ہوتی تو غضب کے آثار چہرہ پر نمایاں ہوتے تھے اور پھر کوئی آپ کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا تھا۔ کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر فرماتے اور بے کار باتوں سے پرہیز کرتے تھے۔ خوشبو کو پسند اور بدبو سے نفرت فرماتے تھے، اہل کمال کی عزت بڑھاتے تھے، کبھی کبھی ہنسی اور خوش طبعی کی باتیں فرماتے تھے۔

لیکن اس وقت بھی وقار کے خلاف کبھی نہ بولتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ کا خلق قرآن مجید تھا یعنی جس چیز کو قرآن پسند نہ کرتا تھا آپ بھی اسے پسند نہ فرماتے تھے۔

(اللھم صل و سلم بارک علیہ و آلہ و اصحابہ ابداً)

 

سوال نمبر 15: حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنے معجزات ظاہر ہوئے؟

جواب :جس طرح حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و کمالات لا انتہاء و بے شمار ہیں یونہی آپ کے معجزات جو صحیح روایات سے ثابت ہیں ، ان کا شمار بہت زیادہ ہے اور ہر ایک نبی کے معجزات سے ان کی تعداد بھی زیادہ۔ اور کیفیت کے لحاظ سے بھی تمام انبیائے سابقین سے افضل ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت میں تمام انبیاء و مرسلین کی شان نظر آتی ہے اس لیے آپ کے معجزات میں وہ تمام معجزات آجاتے ہیں جو ان برگزیدہ ہستیوں سے ان کے زمانہ میں ظاہر ہوئے۔

ڈوبے ہوئے سورج کو پلٹانا ، اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے کر دینا، انگلیوں سے پانی جاری ہونا، تھوڑے سے طعام کو کثیر جماعت کے لیے کافی ہو جانا، دودھ کو معمولی مقدار سے کثیر افراد کو سیراب ہونا، کنکروں کا تسبیح پڑھنا، لکڑی کے ستون میں ایسی صفت پیدا ہو جانا جو خاص انسانی صفت ہے یعنی نہ صرف تھر تھرانا اور رونا بلکہ فراق محبوب کا اس میں احساس پیدا ہونا اوپر اس کا رونا، درختوں اور پتھروں کا آپ کو سلام کرنا، درختوں کو بلانا اور ان کا آپ کے حکم پر چل کر آنا، درندوں اور موذی جانوروں کا آپ کا نام سن کر رام ہو جانا اور ہزاروں پیشگوئیوں کا آفتاب کی طرح صادق ہونا وغیرہ وغیرہ ہزاروں معجزات ہیں جو نہ صرف آیات و صحیح احادیث سے ثابت ہیں بلکہ بہت سے غیرمسلم بھی اس کا اقرار کرتے ہیں اور ان کی کتابوں میں بھی ان کا ذکر پایا جاتا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے آپ کا یہ بھی ایک عظیم الشان معجزہ ہے کہ آپ نے دلوں کو بدل دیا اور روحوں کو پاکیزہ بنا دیا۔ جو لوگ آپ کے جانی دشمن تھے، جاں نثار دوست بن گئے۔

پھر ایک فرق اور ابھی ہے ۔ پہلے انبیاء کرام کے معجزات جو حسی اور عادی تھے وہ صرف ان کی مقدس ہستیوں تک محدود تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ قرآن کریم آج بھی ہر مسلمان کے ہاتھ میں ہے۔ جس کے مقابلہ میں دنیا کی ساری قوتیں اور جن وانسان عاجز ہیں ، قرآن کریم زندہ ، دائمی اور ابدی معجزہ ہے، (فصلی اللہ تعالیٰ وسلم و بارک علیہ قدر جاہہ و جلا لہ وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین)

 

سوال نمبر 16: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمۃ اللعالمین ہونے کا کیا مطلب ہے؟

جواب :رحمت کے معنی ہیں پیار ، ترس، ہمدردی، غمگساری ، محبت اور خیر گیری کے، اور لفظ عالم کا استعمال خدا کی ساری مخلوق کے لیے ہوتا ہے۔ عالمین اس کی جمع ہے رب العالمین نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ للعالمین فر ما کر یہ ظاہر کر دیا کہ جس طرح پروردگار کی الوہیت عام ہے ۔ اور اس کی ربوبیت سے کوئی ایک چیز بھی مستغنی نہیں رہ سکتی اسی طرح کوئی چیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر گیری اور فیضان محبت اور ہمدردی سے مستثنیٰ نہیں ۔

علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ہر نعمت تھوڑی ہو یا بہت چھوٹی ہو یا بڑی جسمانی ہو یا روحانی ، دینی ہو یا دنیوی ، ظاہری ہو یا باطنی روز اول سے اب تک ، اب سے قیامت تک ، قیامت سے آخرت اور آخرت سے ابد تک ، مومن یا کافر، فرمانبردار یا نافرمان، ملک یا انسان ، جن یا حیوان بلکہ تمام ماسوی اللہ میں جسے جو نعمت ملی یا ملتی ہے یا ملے گی انہی کے ہاتھ پر بٹی اور بٹتی ہے اور بٹے گی۔ یہی اللہ کے خلیفہ اعظم ہیں ، یہی ولی نعمت عالم ہیں ، وہ خود ارشاد فرماتے ہیں ۔’’ انما انا قاسم واللہ معطی‘‘ دینے والا تو اللہ ہے اور تقسیم کرنے والا میں ہوں ۔

غرض خدائی نعمتوں کی تقسیم انھیں کے مبارک ہاتھوں سے ہوتی ہے اور بارگاہ الٰہی سے جسے جو ملتا ہے انھیں کے واسطے سے ملتا ہے۔ یہی معنی ہیں رحمۃ للعالمین کے۔

 

سوال نمبر 17: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علم شریف کے متعلق اہل سنت کا عقیدہ کیا ہے؟

جواب :تمام اہل سنت و جماعت کا اس پر اجماع ہے کہ جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام کمالات میں جملہ انبیاء و مرسلین سے افضل و اعلیٰ ہیں اسی طرح آپ کمالات علمی میں بھی سب سے فائق ہیں ۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات اور احادیث کثیرہ سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام کائنات یہ علوم عطا فرمائے اور علوم غیب کے دروازے آپ پر کھولے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر چیز روشن فرما دی اور آپ نے سب کچھ پہچان لیا۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین پر ہے سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں آ گیا۔ آدم علیہ الصلوٰۃوالسلام سے لے کر قیام قیامت تک تمام مخلوق سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کی گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گزشتہ و آئندہ ساری مخلوق کو پہچان لیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر شخص کو اس سے زیادہ پہچانتے ہیں جتنا ہم میں سے کوئی اپنے ساتھی کو پہچانے اور امت کا ہر حال ، ان کی ہر نیت ، ان کے ہر ارادے اور ان کے دلوں کے خطرے سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر روشن ہیں ۔

وہ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے میرے سامنے دنیا اٹھا لی ہے، تو میں اسے اور جو کچھ اس میں قیامت تک ہونے والا ہے سب کو ایسا دیکھ رہا ہوں جیسے اپنی اس ہتھیلی کو دیکھتا ہوں اور جو کچھ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا علم نہیں بلکہ علم حضور سے ایک چھوٹا حصہ ہے ۔ حضور کے علوم کی حقیقت خود وہ جانیں یا ان کا عطا کرنے والا ان کا مالک و مولیٰ جل جلالہ۔

یہاں یہ بات ہمیشہ کے لیے ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ علم غیب ذاتی اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور انبیاء و اولیاء کو غیب کا علم اللہ تعالیٰ کی تعلیم سے عطا ہوتا ہے۔ بغیر اللہ تعالیٰ کے بتائے کسی چیز کا علم کسی کو نہیں اور یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے سے بھی کوئی نہیں جانتا محض باطل اور صد ہا آیات و احادیث کے خلاف ہے۔ اپنے پسندیدہ رسولوں کو علم غیب دئیے جانے کی خبر خود اللہ تعالیٰ نے سورۂ جن میں دی ہے اور بارش کا وقت اور حمل میں کیا ہے اور کل کو کیا کرے گا اور کہاں مرے گا؟ ان امور کی خبریں بھی بکثرت انبیاء و اولیاء نے دی ہیں اور کثیر آیتیں اور حدیثیں اس پر دلالت کرتی ہیں ۔

 

خصائصِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم

 

سوال نمبر 1:خصائصِ مصطفےٰ سے کیا مراد ہے؟

جواب :ہمارا ایمان ہے اور یہ ایمان قرآن و حدیث کی تعلیم پر مبنی ہے کہ اللہ عزوجل نے انبیاء ومرسلین میں بعض کو بعض پر فضیلت دی اور حضور سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سب انبیاء و مرسلین پر رفعت و عظمت بخشی ، قرآنِ کریم کا ارشاد گرامی ہے ورفع بعضھم درجٰتِِ oاور ان رسولوں میں بعض کو درجوں بلند فرمایا۔

 

ائمہ فرماتے ہیں کہ یہاں اس بعض سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں اور یوں مبہم، بلا نام لیے ذکر فرمانے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کا افضل المرسلین ہونا ایسا ظاہر و مشتہر ہے کہ نام لو یا نہ لو، انہیں کی طرف ذہن جائے گا اور کوئی دوسرا خیال میں نہ آئے گا، تو خصائصِ مصطفےٰ سے مراد وہ فضائل و کمالات ہیں جن کے باعث حضور المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیاء و مرسلین و ملائکہ مقربین اور تمام مخلوقاتِ الٰہی پر فضیلت بخشی گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے افضل و اعلیٰ و بلند بالا فرمایا گیا، وہ حضور ہی کے ساتھ خاص ہیں کسی اور کا ان میں حصہ نہیں ۔

 

سوال نمبر 2: خصائصِ مصطفےٰ میں کون کون سے فضائل و کمالات کو شمار کیا گیا ہے؟

جواب :حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ان خاص فضائل و کمالات کو پوری وسعت کے ست کس کی مجال اور کس میں طاقت ہے کہ بیان کرسکے، ان کا رب کریم ان کا چاہنے والا، ان کی رضا کا طالب جل جلا لہٗ و عم نوالہ ہی اپنے حبیب کی خصوصیات کا جاننے والا ہے۔ ہمارا تو اعتقاد یہ ہے کہ ہر کمال ہر فضل و خوبی میں ، انہیں تمام انبیاء ومرسلین پر فضیلتِ تامہ حاصل ہے کہ جو کسی کو ملا وہ سب انہیں سے ملا اور جو انہیں ملا وہ کسی کو نہ ملا۔

آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

بلکہ انصافاً جو کسی کو ملا آخرکس سے ملا؟ کس کے ہاتھ سے ملا؟ کس کے طفیل میں ملا؟ اسی منبعِ ہر فضل و کرم ، باعثِ ایجادِ عالم سے (ﷺ) ۔

 

سوال نمبر 3:بعض احادیث میں ہے کہ مجھے پانچ چیزیں وہ عطا ہوئیں کہ مجھ سے پہلے کسی کو نہ ملیں ، اس کا کیا مطلب ہے؟

جواب :بعض احادیث میں یہ ہے کہ میں چھ باتوں میں تمام انبیاء پر فضیلت دیا گیا، اور ایک حدیث میں ہے کہ میں انبیاء پر دو باتوں میں فضیلت دیا گیا، اور ایک حدیث میں ہے کہ جبریل نے مجھے دس چیزوں کی بشارت دی کہ مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں ۔

ان احادیث کریمہ میں نہ صرف عدد اور گنتی میں اختلاف ہے بلکہ جو چیزیں شمار کی گئی ہیں ، وہ بھی مختلف ہیں ، کسی میں کچھ خصائص کا ذکر ہے، کسی میں کچھ اور فضائل کا بیان ہے، ان احادیث میں معاذ اللہ کچھ تعارض نہیں اور نہ دو یا پانچ یا چھ یا دس میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلتیں منحصر ہیں ،حاشا للہ ً ان کے فضائل لامحدود او ر خصائص نا محصور، ان کی حد بندی اور حصر و شمار ہمارے بس کی بات نہیں ۔ در اصل ان احادیث میں یہ بیان ہے کہ بعض خصائص و فضائل یہ ہیں ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اور بھی ہیں تو کسی حدیث میں چند خصائص کا بیان اور کسی میں دوسرے خصائص کا ذکر، صرف اس لیے ہے کہ یہ خصائص جو وقتاً فوقتاً بیان کیے جا رہے ہیں ، اس کو دل و دماغ میں محفوظ کر لیا جائے تاکہ آفتابِ نبوت کے فضائل و کمالات کی گوناگوں شعاعوں سے مسلمان کا سینہ منور و روشن رہے اور محبت رسول میں روز فزوں ترقی ہو کہ یہی اصلِ ایمان و مدار ایمان ہے۔

ہم ان خصائص میں سے چند کا اجمالاً بیان کرتے ہیں :

(۱) حضور صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین میں :

قرآنِ کریم کا ارشادِ گرامی ہے:

ومآ ارسلنٰک الا رحمۃ للعٰلمینo

ترجمہ: اے محبوب! ہم نے تجھے نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہانوں کے لیے۔

عالَمین جمع ہے عالَم کی اور عالَم کہتے ہیں ماسوی اللہ کو، یعنی اللہ عزوجل کے سوا ساری کائنات ، جس میں انبیاء و مرسلین اور ملائکہ مقربین، سب داخل ہیں تو لا جرم حضور پر نور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کے لیے رحمتِ الٰہی اور نعمت خداوندی ہوئے اور وہ سب حضور کی سرکارِ عالی مدار سے بہرہ مند و فیضیاب ، اسی لیے علماء کرام تصریحیں فرماتے ہیں کہ ازل سے ابد تک ارض و سما (زمین و آسمان) میں ، اولیٰ و آخرت میں ، دنیا و دین میں ، روح و جسم میں ، ظاہری یا باطنی ، روزِ اول سے اب تک، اب سے قیامت تک ، قیامت سے آخرت ، آخرت سے ابد تک ، مومن یا کافر ، مطیع یا فاجر، ملک یا انسان ، جن یا حیوان بلکہ تمام ماسواللہ میں ، چھوٹی یا بڑی، بہت یا تھوڑی جو نعمت و دولت ، کسی کو ملی یا اب ملتی ہے یا آئندہ ملے گی، سب حضور کی بارگاہِ جہاں پناہ سے بٹی اور بٹتی ہے اور ہمیشہ بٹتی رہے گی، سب پر حضور ہی کے طفیل رحمت ہوئی، حضور ہی بارگاہِ الٰہی کے وارث ہیں ، بلا واسطہ خد ا سے حضور ہی مدد لیتے ہیں اور تمام عالَم مددِ الٰہی حضور ہی کے وسیلہ سے لیتا ہے۔ تو جس کو جو ملا یہیں سے ملا اور جس نے جو پایا یہیں سے پایا (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ واصحابہ وابنہ سےّدنا الغوث الاعظم و بارک وسلم) ۔ ان کا چاہنے والا ان کا خالق رب العالمین ہے اور یہ رحمۃ للعالمین ، جو اطلاق و عمومیت وہاں ہے، یہاں بھی ہے۔

بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مفر مقر

جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو جو یہاں نہیں تو وہا نہیں

(۲)حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوقِ الٰہی کے نبی ہیں :

قرآنِ کریم ارشاد فرماتا ہے:

ومآ ارسلنٰک الا کآ فۃ للناس o

ترجمہ: ہم نے تمھیں نہ بھیجا مگر رسول سب لوگوں کے لیے۔

علماء کرام فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالتِ عامہ کا تمام جن وانس کو شامل ہونا اجماعی ہے اور اہل تحقیق کے نزدیک ملائکہ کو بھی شامل ہے اور شجرو حجر،حور و غلمان، ارض و سما ، دریا، پہاڑ غرض تمام کائنات کا ذرہ ذرہ نخلستان کا پتہ پتہ، سمندروں کا قطرہ قطرہ، حضور کے عام و تام دائرۂ رسالت و احاطۂ نبوت میں داخل ہے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوق ، انسان و جن بلکہ ملائکہ حیوانات ، جمادات سب کی طرف مبعوث ہوئے۔

خود قرآنِ عظیم میں دوسری جگہ آپ کی نبوت کو عالَمین کے لیے بتایا اور مذکورہ بالا آیت میں لفظ ’’خلق‘‘ بمعنی مخلوقاتِ الٰہی آیا اور اس کی تاکید میں لفظ کافۃ لا کر یہ بتا دیا کہ آپ کی نبوت جن وانسان اور انبیاء و مرسلین و ملائکہ مقربین سب کے لیے ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رسولوں کے بھی رسول ہیں ، امتیوں کو جو نسبت انبیاء ورسل سے ہے کہ وہ ان سب کے نبی اور یہ ان کے امتی ، وہی نسبت انبیاء ورسل کو اس سید الکل سے ہے بلکہ وہی نسبت اس سرکارِ عرش وقار سے ہر زرہ مخلوق اور ہر فرد ماسوی اللہ کی ہے اسی لیے اکابر علماء تصریح فرماتے ہیں کہ جس کا خدا خالق ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں ، خود قرآنِ کریم اس حقیقت پر شاہد ہے کہ روزِ اوّل ہی امتیوں پر فرض کیا گیا کہ رسولوں پر ایمان لائیں اور رسولوں سے عہد و پیمان لیا گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گرویدہ بن جائیں ، حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آج اگر موسیٰ دنیا میں ہوتے تو میری پیروی کے سوا ان کو گنجائش نہ ہوتی۔

اور یہی باعث ہے کہ جب زمانہ قرب قیامت میں حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نزول فرمائیں گے با آنکہ بدستور منصبِ نبوت پر ہوں گے، حضور پر نور و کے امتی بن کر رہیں گے، حضور ہی کی شریعت پر عمل کریں گے اور حضور کے ایک امتی و نائب یعنی امام مہد ی کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔

غرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاء کے نبی ہیں اور تمام انبیاء و مرسلین اور ان کی امتیں سب حضور کے امتی ہیں ، حضور کی نبوت ورسالت ، ابو البشر سید نا آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے روزِ قیامت تک جمیع خلق اللہ کو عام و شامل ہے۔

حضور کے نیب الانبیاء ہونے ہی کا باعث ہے کہ شبِ اسراتمام انبیاء و مرسلین نے حضور کی اقتداء کی اور اس کا پورا ظہور کل بروزِ قیامت ہو گا جب حضور کے جھنڈے کے زیر سایہ تمام رُسل و انبیاء ہوں گے (صلی اللہ علیہ و علیہم و بارک وسلم) ۔

(۳) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دین کامل ہے اور نعمتیں تمام:

رب عزوجل ارشاد فرماتا ہے:

الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الا سلام دینا o

ترجمہ: میں تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔

علمائے کرام فرماتے ہیں کہ دین کا اکمال یہ ہے کہ وہ اگلی شریعتوں کی طرح منسوخ نہ ہو گا اور قیامت تک باقی رہے گا ، اکمالِ دین سے مراد یہ ہے کہ دین کو ایک مستقل نظامِ زندگی اور مکمل دستورِ حیات بنا دیا گیا جس میں زندگی کے جملہ مسائل کا وجاب اصولاً یا تفصیلاً موجو دہے، اور ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت نہیں ، اور نعمت تمام کرنے سے مراد اسی دین کی تکمیل ہے اور اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لینے کا مطلب یہ ہے کہ بندوں کی طرف سے قانونِ الٰہی کی تعمیل اور حدودِ شریعت پر قائم رہنے میں بندوں کی طرف سے کوئی کوتاہی نہ ہو اور وہ یقین رکھیں کہ انہیں درجہ قبولیت اسی شریعت کی اتباع سے حاصل ہو گا۔

مختصراً یوں کہنا چاہیے کہ جب انسان اپنے عقل و شعور میں حدِ بلوغ تک پہنچ گیا یا اس کے سامان پوری طرح مہیا ہو گئے ، تب نبوت ور سالت کو بھی حدِ کمال و تمام تک پہنچا کر ختم کر دیا گیا اور رشد و ہدایت کو رہتی دنیا تک اس طرح باقی رکھا کہ آخری پیغمبر کے ذریعے جو آخری پیغام کامل و مکمل بن کر آیا اسے تمام احکام و قوانین اور ہر دستورِ حیات کے لیے اساس و بنیاد بنا دیا۔

ظاہر ہے کہ اگر نبوت و رسالت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پہنچ کر ختم نہ ہوتی اور اس کا سلسلہ کمالِ نبوت ہی کی شکل میں آگے بڑھتا رہتا ، تو صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اطاعت کا حکم نہ دیا جاتا بلکہ خطاب یہ ہوتا کہ جو نبی تمہارے زمانہ میں موجود ہو اس کی اتباعِ کرو جبکہ قرآنِ مجید صاف صاف لفظوں میں بار بار ، جگہ جگہ یہ ارشاد فرما رہا ہے کہ اب انسانی رشدو ہدایت کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اللہ کی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جائے۔

بفرضِ غلط اگر ختمِ نبوت کی تصریح قرآنِ کریم یا احادیثِ صحیحہ میں نہ بھی ہوتی جب بھی یہی آیۃ کریمہ (الیوم اکملت لکم) اس عقیدہ کی بنیاد کو کافی تھی کہ جب کوئی درجہ مزید تعلیم اور اصلاح کا باقی ہی نہ رہا تو اب کسی نئے نبی کی ضرورت ہی کیا رہی کہ دین کامل ہے اور قرآن اگلی شریعتوں کا ناسخ ، اب نہ کسی دین کی ضرورت ہے نہ کسی کتابِ قانون کی حاجت، والحمد للہ رب العالمین۔

(۴) حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں :

قرآن شریف میں ارشاد فرمایا گیا :

ولٰکن رسول اللہ وخاتم النبین o

ترجمہ: محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم البنیین اور آخری نبی ہونا اور آپ پر نبوت کا ختم ہو جانا،آپ کے بعد کسی نئے نبی کا نہ قطعی ایقانی اجماعی عقیدہ ہے، نصِ قرآنی بھی یہی بتاتی ہے اور بکثرت احادیثِ صحیحہ، جو حدِ تواتر تک پہنچتی ہیں ، ان سب سے ثابت ہے کہ حضور سب سے پچھلے نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نیا نبی ہونے والا نہیں اور تاریخ کے اوراق اس بات کے شاہد ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ اقدس کے بعد جب بھی دنیا کے کسی گوشہ سے کسی مجنون لایعقل کے منہ سے دعویِ نبوت ہوا، امتِ مسلمہ نے اس کے دعویٰ کو ٹھکرا کر اسی کے منہ پر مار دیا۔

صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانۂ خلافت میں مدعیانِ نبوت کے خلاف تمام صحابۂ کرام کا جہاد بتا رہا ہے کہ انہوں نے خاتم النیین کے یہی معنی سمجھے اور اسی پر کاربند رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں ، آپ کے بعد کسی نئے نبی کی گنجائش نہیں اور مسیلمہ کذاب کا جو حشر ہوا وہ سب پر روشن ہے۔

 

سوال نمبر 4:خاتم النبیین کے معنی ’’نبیوں کی مُہر‘‘ یا افضل النبیین لینے والے کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب :معنی چار قسم پر ہیں ، لغوی، شرعی، عرفی عام و خاص۔

یہاں شرعی معنی کے لحاظ سے تو خاتم النبیین کے معنی آخر الانبیاء ہی متعین ہیں ، کسی اور معنی کا ادنیٰ سے ادنیٰ احتمال بھی نہیں اور عرفِ عام بھی اسی معنی شرعی پر ہے اور معنی لغوی کے اعتبار سے بھی خاتم بمعنی مُہر یا بمعنی افضل مراد لینا ، قطعاً باطل ہے۔ عربی کی تمام معتبر اور مشہور لغات سے یہی بات ثابت ہے کہ خاتم (بفتحِ تاء) ہو یا خاتم (بکسرِتائ) آخر ’’ شی ‘‘ اس کے حقیقی معنی ہیں اور جب کسی شخصیت کے لیے بولا جائے تو آخر القوم مراد ہوتے ہیں تو خاتم النبیین کے معنی ہوئے آخر الانبیاء اور خاتم الانبیاء تب ہی صحیح ہو گا کہ آنے والا آخری نبی ہو، اور لغت و شرع و عرف عام سے ہٹ کر اپنی اپنی اصلاح قائم کرنا اور کسی لفظ کے ایک نئے معنی گھڑنا یا خاص کر لینا نہ صر ف نرِی گمراہی بلکہ کھلا زندقہ و الحاد ہے کہ اگر ایسے دعوے قابلِ سماعت ہوں تو دین و دنیا کے تمام کارخانے درہم برہم ہو جائیں ۔

اور اگر خاتم بمعنیٰ مہر ہی لیا جائے اور خاتم النبیین کے معنی ’’نبیوں کی ُمہر‘‘ کے کئے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جس طرح کسی چیز کے ختم پر مہر اس لیے لگائی جاتی ہے کہ اس تحریر یا شئے کا اختتام ہو گیا اور اب اس میں کسی بھی اضافے کی گنجائش باقی نہیں رہی تو نبیوں کی مہر‘‘ کا مطلب بھی یہی ہو ا کہ اب فہرست انبیاء و مرسلین میں کسی اصافے کی گنجائش نہیں ۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے اور ہمیشہ ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ قرآنِ کریم کا حکیمانہ طریقہ استد لال یہ ہے کہ وہ ایک ہی بات کو مختلف اسلوب سے ادا فرما دیتا ہے اور ایک آیت دوسری آیت کی خود ہی تفسیر بن جاتی ہے اور حقیقت حال روشن ہو کر سامنے آ جاتی ہے چنانچہ یہاں بھی یہی صورتِ حال موجود ہے، قرآنِ حکیم کا وہ اعلان بھی آپ سن چکے کہ الیوم اکملت لکم دینکم o

اس آیت میں نہ خاتَم ہے نہ خاتِم کہ خواہ مخواہ کے احتمالات پیدا کئے جائیں ، صاف صاف بتا دیا گیا کہ شریعتِ خداوندی رفتہ رفتہ اب اس حد تک پہنچ گئی ہے جس کے بعد اب ترقی کا خاتمہ ہے اس لیے کہ وہ کامل و مکمل ہر کر سامنے گئی اور جب کسی نئے پیغام کی ضرورت باقی نہ رہی تو نئے پیغمبر کی ضرورت خود بخود باقی نہیں رہتی اور رہتی دنیا تک یہی پیغام و پیغمبر کا فی ہے۔

پھر جبکہ خود صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم نے بکثرت احادیث میں یہ معنی بیان فرما دئیے کہ میں آخری نبی ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں تو کسی اور معنی کے تصور کی بھی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

الغرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نئی نبوت کا دعویٰ یا اقرار یا اس کی تصدیق کرنے والا زندیق و مرتد ہے اور ختمِ نبوت بمعنی مشہور کا منکر نہ صرف منکر بلکہ اس میں شک کرنے والا، نہ صرف شک کرنے والا بلکہ اس میں نئے معنی کا ادنیٰ یا ضعیف سے ضعیف احتمال ماننے والا ملعون ، دائرۂ اسلام سے خارج اور جہنمی ہے۔

 

سوال نمبر 5:ختمِ نبوت کے بار ے میں چند احادیث بھی بیان فرمائیں ؟

جواب :نہ صرف دو چار، دس بیس بلکہ احادیث اس باب میں متواتر ہیں اور ان کا ماحصل یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

۱۔ میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں ماحی ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے سبب سے کفر مٹاتا ہے، میں حاشر ہوں میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہو گا (معنیٰ یہ کہ ان کا حشر میرے بعد ہو گا) میں عاقب ہوں اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ (بخاری، مسلم ،ترمذی شریف)

۲۔ میں سب انبیاء میں آخری نبی ہوں ۔ (مسلم وغیرہ)

۳۔ بالیقین میں اللہ کے حضور لوحِ محفوظ میں خاتم البنیین لکھا تھا اور ہنوز آدم اپنی مٹی میں تھے۔ (احمد و حاکم)

۴۔ بے شک رسالت و نبوت ختم ہو گئی، اب میرے بعد نہ کوئی رسول نہ کوئی نبی (احمد، ترمذی)

۵۔ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور دنیا جانتی ہے کہ عمر فاروق اعظم نبی نہ تھے، تو ثابت ہو گیا کہ حضور کے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا۔

۶۔ میری امت میں (یعنی امتِ دعوت میں میں کہ مومن و کافر سب کو شامل ہے) قریب تیس کے دجال نکلیں گے، ان میں ہر ایک کا گمان یہ ہو گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں (مسلم)

۷۔ میری اور سب انبیاء کی مثال ایک محل کی سی ہے جسے خوب بنایا گیا مگر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی گئی، دیکھنے والے آتے اور اس کی خوبی تعمیر سے تعجب کرتے مگر وہی ایک اینٹ کی جگہ نگاہوں میں کھٹکتی ، میں نے تشریف لا کر اس خالی جگہ کو بھر دیا ہے اب وہ عمارت میری وجہ سے مکمل ہو گئی ، مجھ سے رسولوں کی انتہا ہوئی ہیں قصرِ نبوت کی وہ پچھلی اینٹ ہوں اور خاتم الانبیاء۔ (بخاری ، مسلم)

۸۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ساری زمین مسجد اور پاک کرنے والی بنا دی گئی، ارشاد فرماتے ہیں (ﷺ) جعلت لی الارض مسجدا وطھورا (مسلم)یعنی میرے لیے ساری زمین مسجد گاہ او ر طاہر و مطہر (پاک کرنے والی) قرار دی گئی ۔

یہودی اپنے کنیسہ اور عیسائی اپنے کلیسا کے بغیر نماز نہ پڑھا کرتے تھے، مجوسی بھی آتشکدہ کے بغیر اور ہندو مندروں کے بغیر سرگرمِ عبادت نہ ہوا کرتے تھے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت مطہرہ کے مطابق، مسلمانوں کی نماز نہ محرابِ عبادت کی محتاج ہے ، نہ کسی مکان و مسجد کی موجودگی پر ان کی سجدہ ریزی موقوف ، ان کا گرمایا ہوا دل اور روشن آنکھیں آگ کی حرارت و روشنی سے بے نیاز ہیں اس لیے روئے زمین کا ہر ایک بقعہ اور ہر ایک قطعہ ان کی سجدہ ریزی کے لیے موزوں ہے اور اللہ تعالیٰ نے روئے زمین کو حضور کی مسجد بنا دیا ہے ۔

یونہی طہارت نماز کے لیے شرط ہے لیکن کیا نماز ، پانی کی غیر موجودگی کی صورت میں ان مسلمانوں پر معاف ہو جاتی جو گھاس کے پتے پتے اور زمین کے ذرہ ذرہ سے معرفتِ الٰہی کے خزانے سمیٹتے ہیں اور ڈالی ڈالی ، پتہ پتہ ان کی نگاہوں میں معرفتِ الٰہی کا سرچشمہ ہے۔

انسان مٹی ہی سے بنا ہے ،مٹی ہی اس کی اصل ہے اور مٹی ہی اس کو بن جانا ہے، مٹی ہی مخلوقات کا گہوارہ ہے اور مٹی ہی سے زمین کی کائنات اپنی خوراک حاصل کرتی ہے، اس لیے مٹی ہی کو طہور، پانی کے قائم مقام ، طاہر و مطہر بنا دیا گیا۔

۹۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جوامع الکلم کا عطیہ بخشا گیا۔

عالِم اعلم سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں اعطیت بجو امع الکم’’ مجھے جامع کلام دیا گیا(لفظ تھوڑے ہوں اور معنی زیادہ) (بخاری و مسلم)

جب کوئی شخص ان مبارک لفظوں پر غور کرے گا جو حضور پر نور کے دل و زبان سے گوش عالمیاں (مخلوق کے کانوں ) تک پہنچے اسے یقین ہو جائے گا کہ بے شک یہ کلام نبوت ہے، مختصر سادہ، صاف، صداقت سے معمور، معانی کا خزینہ، ہدایت کا گنجینہ۔

ایک اور حدیث شریف میں ہے اختصر لی اختصارا یعنی میرے لیے کمال اختصار کیا گیا۔

(۱) مجھے اختصارِ کلام بخشا کہ تھوڑے لفظ ہوں او ر معنی زیادہ۔

(۲) میرے لیے زمانہ کو مختصر کیا کہ میری امت کو قبروں میں کم وقت کے لیے رہنا پڑے گا۔

(۳) میرے لیے امت کی عمریں کم کیں کہ دنیا کے مکروہات سے جلد خلاصی پائیں ، گناہ کم ہوں اور نعمتِ باقی تک جل دپہنچیں ۔

(۴) میرے غلاموں کے لیے پل صراط کی راہ (کہ پندرہ ہزار بر س کی ہے) اتنی مختصر کر دی گئی کہ چشم زدن میں گزر جائیں گے جیسے بجلی کَوند گئی۔ (بخاری ومسلم)

(۵) قیامت کا دن پچاس ہزار برس کا ہے، میرے غلاموں کے لیے اس سے کم دیر میں گزر جائے گا جتنی دیر میں دو رکعت نماز پڑھا کرتے ہیں ۔ (احمد و بہیقی)

(۶) میری امت کے تھوڑے عمل پر اجر زیادہ دیا۔

( ۷) وہ علوم و معارف جو ہزار سال کی محنت د ریاضت میں حاصل نہ ہو سکیں ، میری چند روزہ خدمت گاری میں میرے اصحاب پر منکشف فرمائے۔

(۸) زمین سے عرش تک لاکھوں برس کی راہ میرے لیے ایسی مختصر کر دی کہ آنا اور جانا اور تمام مقامات کو تفصیلاً ملاحظہ فرمانا سب تین ساعت میں ہو لیا۔

(۹) مجھ پر وہ کتاب اتاری جس کے معدود ورقوں میں تمام گذشتہ اور آئندہ چیزوں کا روشن، مفصل بیان ہے، جس کی ہر آیت کے نیچے ساٹھ ساٹھ ہزار علم، جس کی ایک آیت کی تفسیر سے ستر ستر اونٹ بھر جائیں ۔

(۱۰) مشرق تا مغرب اتنی وسیع دنیا کو میرے سامنے ایسا مختصر کر دیا کہ میں اسے اور جو کچھ اس میں قیامت تک ہونے والا ہے، سب کو ایسا دیکھ رہا ہوں جیسا اپنی اس ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ۔ (طبرانی وغیرہ)

(۱۱) اگلی امتوں پر جو اعمال شاقہ (مشقت طلب) طویلہ تھے ، میری امت سے اٹھا لیے پچاس نمازوں کی پانچ رہیں اور حسابِ کرم و ثواب میں پوری پچاس ، زکوٰۃ میں چہارم مال کی جگہ چالیسواں حصہ فرض رہا اور اجر و ثواب میں وہی چہارم کا چہارم، و علیٰ ہذالقیاس۔

یہ حضور کے اختصارِ کلام سے ہے کہ ایک لفظ کے اتنے کثیر معنی (افادیت رضویہ)

(۱۲) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو منصبِ شفاعت دیا گیا۔

ارشادِ گرامی ہے:

واعطیت الشفاعۃ o

ترجمہ: یعنی مجھے شفاعت کا حق دیا گیا۔

شفاعت کی حدیثیں بھی متواتر ہیں اور ہر مسلمان صحیح الایمان کو یہ بات معلوم ہے کہ یہ قبائے کرامت، اس مبارک قامت، شایانِ امامت، سزااور سیادت کے سوا کسی قدِ بالا پر راست نہ آئی، نہ کسی نے بارگاہِ الٰہی میں ان کے سوا یہ وجاہت عظمٰی و محبوبیتِ کبریٰ و اذنِ سفارش و اختیار گذارش کی دولت پائی۔

روزِ قیامت کہ تمام اولین و آخرین ایک میدان وسیع و ہموار میں جمع ہوں گے اور گرمی آفتاب سے طاقت طاق ہو گی خود ہی تجویز کریں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلنا چاہیے، ان کے پاس جائیں گے ، شفاعت کے لیے عرض کریں گے ، آپ فرمائیں گے نفسی نفسی اذھبو آ الیٰ غیری oمجھے اپنی جان کی فکر ہے تم نوح کے پاس جاؤ اور یونہی باری باری تمام لوگ حضرتِ نوح علیہ السلام ، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام ، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور سب جگہ سے مایوس ہو کر تھکے ہارے، مصیبت، کے مارے، ہاتھ پاؤں چھوڑے ، چاروں طرف سے امیدیں توڑے، مولائے دو جہاں حضور پر نور محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عرش جاہ بیکس پناہ میں حاضر ہوں گے اور حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہِ الٰہی میں ان کی سفارش فرما کر ان کی بگڑی بنائیں گے۔

تمام اہل محشر کا حضور سے پہلے دیگر انبیائے کرام کے پاس حاضر ہونا اور دفعۃً حضور کی خدمت میں حاضری نہ دینا اور میدانِ قیامت میں (کہ صحابہ و تابعین ، ائمۂ محدثین اور اولیائے کا ملین بلکہ حضراتِ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والثناء سبھی موجود ہوں گے) اس جانی پہچانی بات کا ان کے دلوں میں سے بھلا دیا جانا، صاف بتا رہا ہے کہ یہ سارے انتظامات اس لیے کیے گئے کہ اولین و آخرین، موافقین و مخالفین پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و وجاہت کا راز کھل جائے اور کسی شخص کو یہ شبہہ باقی نہ رہے کہ اگر ہم سرورِ عالم کے سوا کسی دوسرے کے پاس جاتے تو ممکن تھا کہ وہ بھی شفاعت کر ہی دیتے، اب جبکہ ہر جگہ سے صاف جواب مل جائے گا تو سب کو بالیقین معلوم ہو جائے گا کہ یہ منصبِ رفیع حضور ہی کی خصوصیتِ خاصہ کا مظہر ہے۔

٭ لطیفہ ٭

ہم کہتے ہیں شفاعت مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم حق ہے اور ہم قطعاً حق پر ہیں ان کے کرم سے ہمارے لیے ہو گی، وہابی کہتے ہیں شفاعت محال ہے اور وہ ٹھیک کہتے ہیں ، امید ہے کہ ان کے لیے نہ ہو گی۔

 

گر بر تو حرامست ، حرامت بادہ

 

خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں روزِ قیامت میری شفاعت حق ہے تو جو اس پر یقین نہ لائے وہ اس کے لائق نہیں ۔ الغرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص کی پانچ دس کیا سو اور دو سو پر بھی انتہاء نہیں ، امامِ سیوطی نے ڈھائی سو کے قریب خصائص شمار کئے ، ان سے زیادہ علم والے زیادہ جانتے تھے اور علمائے ظاہر سے علمائے باطن کو زیادہ معلوم ہے پھر صحابہ کرام کا علم ہے اور ان کے علوم سے ہزاروں منزلیں آگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ہے جس قدر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے فضائل و خصائص جانتے ہیں ، دوسرا کیا جانے گا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ علم والا ان کا مالک و مولیٰ ہے جس نے ہزاروں فضائل عالیہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دئیے اور بے حد و بے شمار ابد الآباد کے لیے رکھے، اسی لیے حدیث میں ہے’’ اے ابو بکر! مجھے ٹھیک ٹھیک جیسا ہوں ، میرے رب کے سوا کسی نے نہ پہچانا‘‘ (مطالع المسرات)

تُرا چناں کہ توئی دیدۂ کجا بیند

بقدرِ بینش خود، ہر کسے کندادراک

 

صلی اللہ علیک وعلیٰ اٰلک واصحابک اجمعین

 

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں

 

سوال نمبر 1:تم کس امت میں ہو؟

جواب :ہم اللہ کے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہیں ۔

 

سوال نمبر 2:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مختصر حالات بتلاؤ؟

جواب :ہمارے اور سارے جہان کے سردار حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ملک عرب کے مشہور شہر مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد (باپ) کا نام حضرت عبد اللہ، دادا کا نام حضرت عبدالمطلب اور والدہ (ماں ) کا نام حضرت آمنہ خاتون ہے۔ حضرت حلیمہ آپ کی دودھ پلانے والی دایہ کا نام ہے۔ آپ کے والد حضرت عبداللہ کا سایہ آپ کے پیدا ہونے سے پہلے ہی سر سے اٹھ گیا تھا۔ اور جب آپ کی عمر شریف چھ بر س کی ہوئی تو آپ والدہ ماجدہ کی بھی وفات ہو گئی۔ والدین کے بعد آپ اپنے دادا حضرت عبدالمطلب کے پاس رہے اور جب آپ کی عمر شریف آٹھ برس دو مہینے اور دس دن کی ہوئی تو عبدالمطلب بھی دنیا سے رحلت فرما گئے۔ (یعنی گزر گئے)

 

سوال نمبر 3:آپ کس عمر میں نبی بنائے گئے؟

جواب :ویسے تو آپ کو سب نبیوں سے پہلے نبی بنایا جا چکا تھا اس لیے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے آپ ہی کے نور کو پیدا کیا اور آپ کو نبوت بخشی۔ مگر ظاہری طور پر چالیس برس کی عمر میں آپ پر وحی نازل ہوئی۔ اور آپ نے اپنے نبی ہونے کا اعلان کیا۔

 

سوال نمبر 4:ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کس طرح پھیلایا؟

جواب :چونکہ ساری دنیا میں خاص کر عرب میں جہالت کی حکومت تھی اور اس وقت کی حالت لوگوں کو حق کی آواز پر کان لگانے کی اجازت نہ دیتی تھی۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے پہل اپنی جان پہچان کے لوگوں میں اسلام کی تبلیغ شروع کی۔ مسلمان اب تک چھپ چھپا کر خدا کی عبادت کرتے تھے۔ یہاں تک کہ بیٹا باپ سے اور باپ بیٹے سے چھپ کر نماز پڑھتا تھا اس طرح ایک خاصی جماعت اسلام میں داخل ہو گئی۔ تین سال کے بعد جب کثرت سے مرد عورت اسلام میں داخل ہونے لگے۔ تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم بھیجا کہ علی الاعلان (کھلم کھلا) لوگوں کو کلمہ حق پہنچائیں ۔ چنانچہ آپ نے اس حکم کی تعمیل کی اور جب اسلام کی تعلیم کا عام چرچا ہو گیا۔ تو مکہ ّ کے باہر بھی لوگ کثرت سے اسلام میں داخل ہونے لگے۔

 

سوال نمبر5: سب سے پہلے کون شخص اسلام لایا؟

جواب :مردوں میں سب سے پہلے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نے آپ کی تصدیق کی اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔ اور عورتوں میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ کبرُیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اسلام لائیں ۔ لڑکوں میں سب سے پہلے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور غلاموں میں سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام قبول کیا۔

 

سوال نمبر6: حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام عمر کہاں رہے؟

جواب :دس برس تک برابر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے قبیلوں میں اعلان کے ساتھ اسلام کی تبلیغ مکہ میں رہتے ہوئے فرماتے رہے اور خداوند عالم کو یہ منظور تھا کہ اسلام کی اشاعت اور ترقی مدینہ میں ہو تو اس نے چند آدمی مدینہ طیبہ سے آپ کی خدمت میں بھیج دئیے۔ یہ لوگ مسلمان ہو کر مدینہ واپس آئے اور مدینہ کے گھر گھر میں اسلام کا چرچا ہونے لگا اور اسلام کے سب سے پہلے مدرسہ کی بنیاد مدینہ طیبہ میں پڑ گئی۔ آہستہ آہستہ مکہ کے مسلمانوں نے بھی مکہ معظمہ چھوڑ کر مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی اور پھر تمام عمر شریف وہیں گزاری مدینہ ہی میں آپ کا وصال شریف ہوا اور یہیں آپ کا روضۂ مبارکہ ہے جس پر کروڑوں مسلمانوں کی جانیں نثار ہیں ۔ آپ درحقیقت زندہ ہیں اور روضۂ مبارک میں آرام فرما رہے ہیں ۔ ظاہراً آپ نے(63) تریسٹھ سال کی عمر شریف پائی۔

 

سوال نمبر7: مکہ معظمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا خاص بات حاصل ہوئی؟

جواب :نبوت کے پانچویں سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جاگتے ہوئے جسم کے ساتھ معراج ہوئی۔ آپ مسجد حرام (مکہ معظمہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس)اور وہاں سے ساتوں آسمانوں اور عرش و کرسی کی سیر کے لیے تشریف لے گئے۔حوضِ کوثر دیکھا پھر جنت میں داخل ہوئے پھر دوزخ آپ کے سامنے پیش کی گئی ۔ اس کے بعد آپ نے اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کا جمال دیکھا۔ اور خدا کا کلام بلاواسطہ سنا، غرض آپ نے آسمانوں اور زمین کے ذرہ ذرہ کو ملاحظہ فرمایا۔ یہیں نمازیں فرض کی گئیں ۔ اس کے بعد مکہ معظمہ راتوں رات واپس آ گئے۔

 

سوال نمبر 8: کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی اور نبی بھی گزرا ہے؟

جواب :نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے نبوت کا سلسلہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یا بعد میں کوئی نیا نبی کسی لحاظ سے نہیں ہو سکتا۔ جو شخص حضور کے زمانہ میں یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نیا نبی مانے یا جائز جانے وہ کافر ہے۔

 

سوال نمبر 9: ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے نبیوں سے مرتبے میں بڑے ہیں یا چھوٹے؟

جواب :نبیوں میں سب سے بڑا مرتبہ ہمارے آقا و مولا سید الانبیاء ،نبیوں کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور نبیوں کو جو کمالات جدا جدا ملے حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں وہ سب کمالات جمع کر دئیے گئے۔ اور ان کے علاوہ حضور کو وہ کمالات ملے جن میں کسی کا کوئی حصہ نہیں ۔ غرض خدا نے انھیں جو مرتبہ دیا ہے وہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا۔

 

سوال نمبر 10:جو حضور کو اپنے جیسا بشر یا بھائی برابر کہے وہ کون ہے؟

جواب :حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جیسا بشر یا بھائی برابر کہنے والے یا کسی اور طرح حضور کا مرتبہ گھٹانے والے مسلمان نہیں ، گمراہ ، بد دین ہیں ۔

قرآن کریم میں جگہ جگہ کافروں کا یہ طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ کہ وہ نبیوں کو اپنے جیسا بشر کہتے تھے۔ اسی لیے گمراہی اور کفر میں پڑے۔

 

سوال نمبر11:حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے کا کیا مطلب ہے؟

جواب :آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے کا مطلب ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کا آخری رسول یقین کرے، ہر بات میں آپ کو سچا جانے۔ خدا تعالیٰ کی ساری مخلوق میں آپ کو سب سے افضل سمجھے۔ ہر بات میں آپ کی تابعداری کو نجات کا ذریعہ جانے، ماں باپ، اولاد اور تمام جہان سے زیادہ آپ کی محبت دل میں رکھے بلکہ ایمان اسی محبت کا نام ہے۔

 

سوال نمبر12:حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی علامت (پہچان) کیا ہے؟

جواب :حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی علامت یہ ہے کہ اکثر آپ کا ذکر کرے، درود شریف کثرت سے پڑھے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آئے تو بڑے ادب اور پیار سے سنے۔ نام پاک سنتے ہی درود شریف پڑھے۔ نام پاک لکھے تو اس کے بعد صلی اللہ علیہ وسلم لکھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام آل و اصحاب اور دوستوں سے محبت رکھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو اپنا دشمن سمجھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں جو الفاظ استعمال کرے وہ ادب میں ڈوبے ہوئے ہوں ، حضور کا نام پاک کے ساتھ نہ پکارنے بلکہ یوں کہہ ’’یا نبی اللہ ! یا رسول اللہ !‘‘ اور محبت کی یہ نشانی بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور عمل لوگوں سے دریافت کرے اور ان کی پیروی کرے، میلاد شریف پڑھے اور محفل میلاد میں ذو ق و شوق سے شریک ہو اور نہایت ادب سے صلوٰۃ و سلام پڑھے۔

 

قرآن مجید

 

سوال نمبر1:قرآن مجید کیا ہے؟

جواب :قرآن مجید اللہ کا کلام ہے جو اس نے سب سے افضل رسول حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا اس میں جو کچھ بھی لکھا ہے ا س پر ایمان لانا ضروری ہے۔

 

سوال نمبر2:یہ کیسے معلوم ہوا کہ قرآن مجید خدا کا کلام ہے؟

جواب :قرآن مجید کتاب اللہ (خدا کا کلام) ہونے پر اپنے آپ دلیل ہے کہ خد اعلان کے ساتھ کہہ رہا ہے کہ ’’ اگر تم کو اس کتاب میں جو ہم نے اپنے سب سے خاص بندے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) پر اتاری، کوئی شک ہو تو اس کی مثل (یعنی اس جیسی) کوئی چھوٹی سے سورت کہہ لاؤ‘‘ لہٰذا کافروں نے اس کے مقابلہ میں جی توڑ کوششیں کیں ‘‘۔ اس کے مثل سورت تو کیا ایک آیت نہ بنا سکے اور نہ بنا سکیں گے۔

 

سوال نمبر3:قرآن عظیم میں اللہ تعالیٰ نے کیا خاص بات رکھی ہے؟

جواب :اگلی کتابیں صرف نبیوں ہی کو یاد ہوتیں لیکن یہ قرآن عظیم کا معجزہ ہے کہ مسلمانوں کا بچہ بچہ اسے یاد کر لیتا ہے۔

 

سوال نمبر4:قرآن عظیم کتنے عرصہ میں نازل ہوا؟

جواب :تےئیس سال کی مدت میں پورا قرآن مجید نازل ہوا۔ قرآن کریم کی سورتیں اور آیتیں ضرورت کے مطابق ایک ایک دو دو کر کے اترتی تھیں ۔

 

سوال نمبر5:قرآن مجید پڑھنے میں کتنا ثواب ملتا ہے؟

جواب :ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھے گا۔ اس کو ایک نیکی ملے گی جو دس نیکیوں کے برابر ہو گی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے، لام دوسرا حرف اور میم تیسرا حرف ہے۔

 

سوال نمبر6:جو شخص قرآن عظیم پڑھنا نہ سیکھے وہ کیسا ہے؟

جواب :ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے سینہ میں کچھ قرآن نہیں وہ ویران مکان کی طرح ہے۔

 

سوال نمبر7:قرآن شریف پڑھنے کے آداب کیا ہیں ؟

جواب :سنت یہ ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت پاک جگہ میں ہو اور مسجد میں زیادہ بہتر ہے تلاوت کرنے والے کو چاہیے کہ قبلہ رو (یعنی قبلہ کی طرف منہ کر کے) بیٹھے اور نہایت عاجزی اور انکساری سے سرجھکا کر اطمینان سے ٹھہر ٹھہر کر پڑھے، پڑھنے سے پہلے منہ کو خوب صاف کر لے کہ بدبو باقی نہ رہے۔ قرآن شریف کو اونچے تکیہ یا رحل پر رکھے اور تلاوت سے پہلے اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھ لے۔ بلا وضو قرآن کو ہاتھ لگانا گناہ ہے اورسننے والا خاموش اور دل لگا کر سنے۔

 

سوال نمبر 8ُُُُُ : قرآن کریم پڑھنے کے قابل نہ رہنے تو کیا کرنا چاہیے؟

جواب :قرآن کریم جب پرانا بوسیدہ ہو جائے اور اس کے ورق اِدھر اُدھر ہو جانے کا خوف ہو اور وہ تلاوت کے قابل نہ رہے تو کسی پاک کپڑے میں لپیٹ کر احتیاط کی جگہ دفن کر دیا جائے کہ وہاں کی کسی کا پیر نہ پڑے اور دفن کرنے میں بھی لحد بنائی جائے تاکہ اس پر مٹی نہ پڑھے۔

 

سوال نمبر 9: کیا صحیح قرآن شریف آج کل ملتا ہے؟

جواب :جی ہاں قرآن شریف ہر جگہ صحیح ملتا ہے اس میں ایک حرف کی بھی فرق نہیں ہو سکتا اس لیے کہ اس کا نگہبان اللہ تعالیٰ ہے۔

 

سوال نمبر10: قرآن شریف کس لیے آیا؟

جواب :اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی صحیح رہنمائی کیلئے قرآن عظیم اتارا تاکہ بندے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو جانیں ، اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کو پہچانیں ، ان کی مرضی کے موافق کام کریں اور ان کاموں سے بچیں جو اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہیں ۔

 

 

دوزخ کا بیان

 

سوال نمبر 1:دوزخ کیا ہے؟

جواب :اللہ تعالیٰ نے گنہ گاروں اور کافروں کے عذاب اور سزا کے لیے ایک جگہ بنائی ہے۔ جس کا نام جہنم ہے اس کو دوزخ بھی کہتے ہیں ۔ دوزخ میں ستر ہزار وادیاں (جنگل) ہیں ۔ ہر وادی میں ستر ہزار گھاٹیاں ، ہر گھاٹی میں ستر ہزار بچھو اور ستر ہزار اژدھے ہیں ۔

 

سوال نمبر 2:دوزخ میں کیا کیا ہو گا؟

جواب :دوزخ میں ہر قسم کی تکلیف دینے والے طرح طرح کے عذاب اللہ تعالیٰ نے مہیا کئے ہیں جن کے خیال سے ہی رونگٹے کھڑے ہوتے اور اچھے بھلے آدمی کے حواس جاتے رہتے ہیں ۔ اس میں آگ کا عذاب ہے، سخت سردی کا عذاب ہے، سانپ، بچھو اور زہریلے جانوروں کا عذاب ہے۔ جہنم کے شرارے (آگ کے پھول) اونچے اونچے محلوں کے برا بر اڑیں گے، گو یا زر دانوں کی قطار کے بر ا بر آتے رہیں گے، آدمی اور پتھر اس کا ایندھن ہیں ، اس کی آگ بالکل سیاہ ہے جس میں روشنی کا نام نہیں ۔

 

سوال نمبر 3:گناہ گار مسلمان کی نجات کیسے ہو گی؟

جواب :مسلمان کتنا بھی گناہ گار ہو کبھی نہ کبھی ضرور نجات پائے گا اور جنت میں جائے گا۔ خواہ اللہ تعالیٰ اس کے گناہ محض اپنے فضل سے بخش دے یا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے بعد اسے معاف فرما دے یا دوزخ میں اپنے کنے کی سزا پا کر جنت میں جائے اس کے بعد کبھی جنت سے نہ نکلے گا۔

 

سوال نمبر4:کافر کی بھی بخشش ہو گی یا نہیں ؟

جواب :کفر اور شرک کبھی نہ بخشے جائیں گے۔ کافر اور مشرک ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے اور طرح طرح کے عذاب میں گرفتار، اور آخر میں کافر کے لیے یہ ہو گا کہ اس کے قد کے بر ابر آگ کے صندوق میں اسے بند کر کے یہ صندوق آگ کے دوسرے صندوق میں رکھ کر اس میں آگ کا قفل لگا دیا جائے گا تو اب ہر کافر یہ سمجھے گا کہ اس کے سوا اور کوئی عذاب نہ رہا اور یہ اس کے لیے عذاب پر عذاب ہو گا۔

 

 

 

جنت کا بیان

 

سوال نمبر 1:جنت کیا ہے؟

جواب :جنت ایک مکان ہے جو اللہ تعالیٰ کے ایمان والوں کے لیے بنایا ہے۔ اس میں سو درجے ہیں اور ایک درجے سے دوسرے درجے تک اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین سے آسمان تک، اور ہر درجہ اتنا بڑا ہے کہ اگر تمام دنیا ایک درجے میں ہو تب بھی اس میں جگہ باقی رہے۔

 

سوال نمبر 2:جنت میں کیا کیا ہو گا؟

جواب :جنت میں اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی جسمانی اور روحانی لذتوں کے سامان پیدا کیے ہیں ۔ جن کا حاصل یہ ہے کہ ان نعمتوں کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کان نے سنا، نہ کسی کے دل میں اس کا خطرہ گزرا، بڑے سے بڑے بادشاہ کے خیال میں بھی وہ نعتیں نہیں آسکتی ہیں جو ایک ادنیٰ جنتی کو ملیں گی۔

 

سوال نمبر 3:جنت کی سب سے بڑی نعمت کون سی ہے؟

جواب :سب سے بڑی نعمت جو مسلمانوں کو اس روز ملے گی وہ اللہ تعالیٰ کا دیدار (دیکھنا ) ہے کہ اس نعمت کے برابر کوئی نعمت نہیں ، جسے ایک بار اللہ کا دیدار نصیب ہو گا، وہ ہمیشہ ہمیشہ اسی کے ذوق میں ڈوبا رہے گا کبھی نہ بھولے گا۔

 

سوال نمبر 4:جنت میں داخل ہونے والوں کی تعداد( گنتی ) کیا ہے؟

جواب :ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت سے ستر ہزار بے حساب جنت میں داخل ہوں گے اور ان کے طفیل میں ہر ایک کے ساتھ ستر ہزار ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ تین جماعتیں اور کر دے گا، معلوم نہیں ہر جماعت میں کتنے ہوں گے۔ اس کا شمار تو وہی جانے یا اس کے بتائے سے اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.hamzaaliqadri.com/islamic-faith

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید