FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

اکیسویں صدی میں جدید اردو افسانے کے تخلیقی نقوش

 

 

 

                   مبین مرزا

 

 

 

 

 

— ۱ —

 

اکیسویں صدی کے ابتدائی دس بارہ برسوں کے اردو ادب کے تجزیے کا یہ سوال بالعموم اور افسانے کے جائزے کا بالخصوص کئی اعتبار سے غور طلب اور اہم ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ انسانی تاریخ کی یہ صدی اپنی کیفیت، رجحان اور آثار کا بالکل الگ نقشہ اپنے اوائل ہی سے ہمارے سامنے لاتی ہے۔ اس کے ابتدائی برسوں میں رونما ہونے والے انسانی مسائل کو دیکھتے ہوئے آج اس حقیقت کو سمجھنا ایسا دشوار نہیں کہ یہ نقشہ در اصل اُنھی خواہشوں اور خوابوں کی عملی تعبیر سے ترتیب پا رہا ہے جن کا اظہار پہلے بیسویں صدی کی دوسری عالمی جنگ میں ہیرو شیما اور ناگاسا کی پر بہیمانہ بمباری سے ہوا اور اس کے بعد پانچویں دہائی میں اسرائیل میں صہیونی بستیوں کی نئی آبادکاری سے ہوتے ہوئے نویں دہائی کے اواخر میں سوشلسٹ نظام کے انہدام تک بتدریج جن کی صورت واضح ہوئی تھی۔

اس کے بعد نیوورلڈ آرڈر کی اصطلاح وضع ہوئی جس کی گونج گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں چار دانگ عالم میں سنی گئی۔ جڑواں ورلڈ ٹریڈ ٹاورز کی تباہی سے، افغانستان اور پھر عراق پر امریکہ کی یورش اور لیبیا اور مصر کے بعد اب شام میں حکومتوں کی تبدیلی میں پس پردہ کام کرنے والے سی آئی اے، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کے کردار اور اس صدی کے بارہویں برس کے اختتام تک پاکستان میں جاری امریکی ڈرون حملوں تک نیوورلڈ آرڈر کی اصطلاح اپنے معافی تہ در تہ منکشف کیے جاتی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ آج ہم انسانی تاریخ کی اس صدی میں جی رہے ہیں جو ایک طرف تسخیر کائنات اور انسانی امنگوں کی تکمیل میں ما قبل زمانوں سے ہزارفرسنگ آگے ہے تو دوسری طرف فطرت اقتدار میں ظاہر ہونے والی وحشت، بربریت اور سفاکی کے لحاظ سے بھی تاریخِ عالم کا کوئی دوسرا دور عصرِ حاضر سے آنکھ ملانے کی تصور تک نہیں کر سکتا۔

چنانچہ اس دور میں عامۃ الناس کی تالیفِ قلب ہی کے لیے نہیں بلکہ انسانی تمدن کی تاریخ کے سفر کو باطل ہونے سے بچانے اور انسانیت پر اپنے اعتبار کو قائم رکھنے کے لیے بھی تہذیبی اوضاع اور ثقافتی مظاہر پر نگاہ رکھنا نا گزیر ہے۔ جملہ فنونِ لطیفہ اور خصوصاً ادب کے توسط سے ہمیں یہ نگاہ فراہم ہی نہیں ہوتی بلکہ نگاہ رکھنے میں بھی یہ ہماری کفالت کرتے ہیں۔ چنانچہ اکیسویں صدی کے ان دس بارہ برسوں میں ادب کی صورت حال کا جائزہ اسی طرح کی ایک بامعنی کوشش سے عبارت ہو گا۔ یہ کوشش اس لحاظ سے بھی اہم اور معنی خیز ہو سکتی ہے کہ اس کے ذریعے ہمیں اپنے ادب اور اس کی عصریت ہی کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع نہیں ملے گا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انسانی طرزِ احساس کے زمین میں جڑ پکڑنے والے رجحانات کا شعور بھی ہم حاصل کر سکتے ہیں۔ جو آج اس کے قلب و نظر کی فضا کو متغیر کر رہے ہیں اور جن کے توسط سے آنے والے ادوار کے انسانی مزاج کی بھی کسی نہ کسی درجے میں پیش بینی کی جا سکتی ہے۔ یوں اس مطالعے اور تجزیے کی بنیاد پر ہمیں اپنے امروز ہی کے نہیں، فردا کے خط و خال کا بھی اندازہ ہو پائے گا اور یہ اندازہ مستقبل کی انسانی صورت حال کے بہتر شعور کی بنیاد بن سکتا ہے۔

ادب کا معاملہ یوں تو افراد، اشیاء، عناصر اور عوامل کے براہ راست اظہار سے نہیں ہوتا، لیکن وہ جو ناول اور افسانہ کی بابت کہا جاتا ہے کہ یہ ایک سطح پر زندگی نامہ ہوتے ہیں، اس رو سے دیکھا جائے تو اس دورانیے کے ادب اور بالخصوص افسانے کی صورت حال ہمیں اس عہد میں انسانی زندگی میں پیدا ہونے والے ارتعاشات کی نوعیت، کیفیت اور اس عہد کے انسان کے دل و دماغ پر اُن کے اثرات سے آگاہ کر سکتی ہے۔ اس طرح ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ اس عہد میں انسانی تہذیب و تمدن کے مظاہر کے عقب میں، در اصل کون سے محرکات کارفرما ہیں۔ اس کے ساتھ ہمیں اس نوع کے مطالعے کے توسط سے یہ بھی جاننے اور سمجھنے کا موقع مل سکتا ہے کہ نئے انسان کے ذہنی رجحانات اور اس عہد کی سماجی اقدار کی تشکیل میں کون سے عناصر کس نوع کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ نتیجتاً ہم یہ بھی جان سکتے ہیں کہ آج کے انسان کا شعور کن تغیرات سے گزرا ہے اور اس کے احساس کا منطقہ اب کس حد تک اُس کے تجربات سے روشن ہے، اور یہ بھی کہ شعور و احساس کے مابین ترسیل و ابلاغ کا عمل عہدِ جدید کے انسان کی زندگی میں کس نہج اور کس سطح پر ہو رہا ہے۔ غرض یہ اور ایسے ہی کچھ اور سوالوں کی تفتیش اس مطالعے کے ذریعے کی جا سکتی ہیں۔

تاہم اس موضوع پر کام کرنے سے قبل ہمیں اس بات پر بھی غور کر لینا چاہئے کہ کیا اس تفتیش کے ذریعے حاصل ہونے والے نتائج واقعی اور پوری طرح قابل اعتبار ہوں گے ؟ اس سوال کا جواب اگر واضح طور پر اور کلیتاً نفی میں نہ ہو تو اس کے ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اس مطالعے سے حاصل کردہ نتائج ہمارے کس کام آئیں گے ؟ یہ دونوں سوال بے حد اہم ہیں اور ہماری اس تفتیش و جستجو کی ضرورت اور اہمیت کا تعین کرتے ہیں۔ دوسرے سوال کا جواب چونکہ سیدھا اور دو ٹوک ہے، سواسی کو پہلے دیکھتے ہیں۔ اس مطالعے کی بابت، جیسا کہ ہم نے سوچا کہ اس کے ذریعے حاصل ہونے والے نتائج ہمیں اپنے عہد کی انسانی صورت حال کو عقلی، جذباتی اور روحانی سطح پر دیکھنے اور سمجھنے کا موقع فراہم کریں گے، یوں ہم جان پائیں گے کہ آج انسانیت اور اس کی تہذیب کس مرحلے میں ہے اور آئندہ اُسے کیا مراحل پیش آنے جا رہے ہیں۔ گویا اسے ایک لحاظ سے انسانیت اور اس کی اقدار کی بقا کے سوال کی تفتیش کہا جا سکتا ہے۔ اب آئیے پہلے سوال پر۔ ادب اور اس کا کسی بھی طرح کا مطالعہ ہمیں براہِ راست جوابات یا نتائج فراہم نہیں کرتا، کر ہی نہیں سکتا۔ اس لیے کہ یہ ادب کا منشا اور مصرف ہوتا ہی نہیں۔ البتہ ادب سے ہمیں جو کچھ شعور اور احساس کی سطح پر حاصل ہوتا ہے، وہ بے مصرف اور بے اعتبار نہیں ہوتا۔ تاہم یہاں ایک بنیادی نکتے کو ہمیں واضح طور پر سمجھ لینا چاہئے اور اس کا تعلق ہے ادب کے مخصوص اور محدود زمانی تناظر سے۔

تقویم ماہ وسال کے مختصر ضابطے کو بنیاد بنا کر ادب کے سنجیدہ مسائل اور عمیق رجحانات کا کوئی فکر افروز اور جامع مطالعہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ادب میں رویوں، رجحانات، طرز احساس اور اسالیب کی تشکیل اور ظہور کا عمل اپنی خارجی سطح پر خواہ کتنا ہی سادہ نظر آتا ہو، لیکن واقعہ یہ ہے کہ انسانی احساس اور اس کے اظہاری سانچوں کی تہہ میں یہ عمل خاصا پیچیدہ ہوتا ہے۔ تشکیل و ظہور کے اس عمل کے محرکات عام طور سے بہ یک وقت کئی ایک ہوتے ہیں۔ مزید برآں، یہ ضروری نہیں کہ اُن سب کا باہمی تعلق ہو یا اُن میں تطبیق کا رشتہ ہو۔ عین ممکن ہے کہ ان میں کچھ محرکات ایک دوسرے کی ضد پر قائم ہوں اوراس تضاد یا تصادم سے وہ طرزِ احساس پیدا ہو جو کسی رویے، رجحان یا اسلوب کا جواز ٹھہرے۔ چنانچہ ادب میں رجحانات اور اسالیب کی تبدیلی کو سمجھنے کے لیے اُن کے محض خارجی دائرے اور ظاہری سطح پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے، بلکہ ان کے داخلی عوامل اور تہ نشین عناصر کی تفتیش، تفہیم اور تجزیہ بھی بے حد ضروری ہوتا ہے۔

تو کیا ایک زمانی تناظر کو ادب کے مطالعے کی بنیاد ہی نہیں بنایا جا سکتا؟ یہ سوال یوں بھی کیا جا سکتا ہے کہ اگر ہم کسی خاص عہد کے سیاق میں ادبی رویے، رجحان، طرزِ احساس اور اسلوب کے تغیرات کا مطالعہ کرنا چاہیں تو اس کے مخصوص تقویمی ضابطے کے تعین کے بغیر یہ کیونکر ممکن ہو گا؟ اصل میں یہی بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ادب کے مطالعے میں تقویمی ضابطے یا زمانی تناظر کی ممانعت تو بہر حال نہیں ہے، بلکہ یہ تک تسلیم کرنے میں باک نہیں ہونا چاہئے کہ اس نوع کے مطالعے بھی ایک حد تک اور ایک رخ سے ادب کی تفہیم میں اپنا محدود اور ایک طرح سے مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے ذریعے ادب کے عصری مسائل کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور اس امر کو سمجھا جا سکتا ہے کہ اپنے عہد کی انسانی اور تہذیبی صورتِ حال کے حوالے سے وہ کتنے زندہ سوالوں کا سامنا کر رہا ہے اور انسانی تجربے کی سچائی کو سہارنے کی کتنی سکت رکھتا ہے ؟ یہ اُن دو تین بنیادی سوالوں میں سے ایک ہے جو کسی عہد کے ادب کی قدر و قیمت کے تعین میں سب سے پہلے پوچھے یا دیکھے جاتے ہیں۔

گویا زمانی تناظر کا سوال نقدِ ادب کے زمرے میں نہ صرف یہ کہ ممنوعات میں نہیں آتا بلکہ ایک حد تک مفید مطلب بھی ہوتا ہے۔ البتہ جب ہم ادب میں اُن تبدیلیوں کی تفتیش کرتے ہیں جو انسانی شعور میں ہونے والے تغیر کا اظہار کرتی ہیں، یا تہذیبی اوضاع اور اقدار میں تبدل کا اشارہ دینے والے ادبی مظاہرہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ادب کے زمانی تناظر کا سوال ثانوی ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ ایسے سوالوں پر غور کرتے ہوئے وقت کی اکائی مہینوں یا برسوں والی نہیں رہتی بلکہ اس ضمن میں چھوٹی سے چھوٹی اکائی بھی دہائیوں کے اس کیل پر طے ہوتی ہے۔ یوں تقویمِ ماہ و سال کا ضابطہ ادب کے بڑے سوالوں اور ہمہ گیر رجحانات کو سمجھنے میں کچھ اس طرح مؤثر نہیں رہتا جیسے ادب کے سال بہ سال لیے جانے والے اخباری جائزوں میں۔ تاہم حقیقت احوال کے مکمل اظہار کے لیے یہاں اس امر کی نشاندہی میں چنداں مضائقہ نہیں کہ سالانہ ادبی جائزوں کی بدعت کے فروغ کا سہرا صرف اخبارات کے سر نہیں باندھنا چاہئے، اس کام میں اُن پروفیسر حضرات کا بھی معتد بہ حصہ ہے جو ادب کی تفہیم کے لئے سال بہ سال دائرے بناتے اور ان میں اپنے پسندیدہ ناموں کے حاشیے چڑھاتے ہیں۔ اُن کے نزدیک ادیبوں، شاعروں کے ناموں کی کھتونی اور کتابوں کے شماریاتی قسم کے حوالے ادب کے بحرِ نا پیدا کنار میں تموج پیدا کرنے والے سوالوں کو نپٹانے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں تنقید میں ابتذال پسندی کا جیسا مظاہرہ ایسے جائزوں اور ایسی ادبی تاریخوں میں دیکھنے میں آتا ہے، وہ ہماری تنقیدی ندامتوں کا ایک الگ باب ہے اور اپنی مثال آپ۔

بہر حال، ہم بات کر رہے تھے، محدود زمانی تناظر کے ادب میں نمایاں ہونے والی تبدیلیوں کی۔ اب تک کی گفتگو سے ہم چند نکات کو واضح طور پر طے کر سکتے ہیں۔ اول، اس نوع کی تبدیلیاں ادب کی سطح پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ دوم، ان سے کچھ نتائج بھی اخذ کیے جا سکتے ہیں، جو بذاتہ قابلِ اعتبار بھی ہوں گے۔ سوم، اس لیے انہیں عصری انسانی احوال اور تہذیبی اقدار کے دائرے میں ظاہر ہونے والے تغیر کو سمجھنے کا ذریعہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔ چہارم، یہ تبدیلیاں عصری شعور اور زمانے کے مسائل کے ادراک کے لیے مفید ہو سکتی ہیں، لیکن انہیں ادب و تہذیب کے مجموعی ضابطے میں رونما ہونے والی تبدیلی کی تفہیم کی بنیاد نہیں بنایا جانا چاہئے اور نہ ہی انہیں قائم بالذات اقدار پر حکم بنایا جانا چاہئے۔

یہاں ضمناً اور بر سبیل تذکرہ اس امر کا اظہار بے محل نہ ہو گا کہ اکیسویں صدی میں ادب کی صورت حال کے اس مطالعے کا مقصد ادیب سے کسی طرح کے مطالبے کا اظہار ہرگز نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس مطالعے اور جائزے کے ذریعے ادیب کو ایساکوئی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش نہیں کیا جا رہا ہے کہ اُسے بہرصورت اپنے زمانے اور اُس کے مسائل سے اپنی وابستگی کا اظہار کرنا ہے، یا پھر یہ کہ اُسے ثابت کرنا ہے کہ اُس کے عہد کے حالات نہ صرف اُس کی نظر میں ہیں، بلکہ اُن کے بارے میں وہ سنجیدگی سے سوچتا اور انہیں ہر ممکن اپنے فن کا حصہ بناتا ہے، تاکہ یہ امر پایۂ ثبوت کو پہنچے کہ وہ ایک زندہ اور سنجیدہ ادیب ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ راقم الحروف نہ صرف یہ کہ اس انداز سے اور ان اصطلاحوں میں خود سوچتا نہیں، بلکہ وہ ایسے کسی بھی فرمائشی پروگرام کو سراسر لغو سمجھتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ادب حالات، سماج یا حکومت یا کسی سیاسی و نظریاتی پارٹی لائن کے خارجی مطالبے پر تخلیق نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تو سراسر کسی تخلیق کار کا داخلی اور فطری داعیہ ہوتا ہے جو اُس کے فن اور نگارش کا جواز بنتا ہے۔ پارٹی لائن یا خارجی مطالبے پر جو کچھ پیش کیا جاتا ہے، اُس کا معتد بہ حصہtrashکی صورت میں سامنے آتا ہے اور بالآخر تاریخ کے کوڑے دان میں جگہ پاتا ہے۔ اس لیے کہ اُس کی نہاد میں فن کار کے داخلی تقاضے اور باطنی احساس کا وہ لمس نہیں ہوتا جو کسی تحریر کو ادب بناتا ہے اور دیگر سماجی اور افادی نوع کی تحریروں سے الگ کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ترقی پسند تحریک اور اس کی پارٹی لائن کے زیر اثر پیش کیا جانے والا وہ تحریری انبار ہے جسے کبھی ادبِ عالیہ کے غلغلے کے ساتھ ابھارا جاتا تھا لیکن پھر وقت کے عمل نے اُسے ایسا کوڑا ثابت کیا کہ آج اُس کی طرف کسی کی اچٹتی ہوئی نگاہ بھی نہیں جاتی۔ استثنیٰ کے اصول کا اطلاق ترقی پسندوں پر بھی ہوتا ہے، پر یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی داخلی آواز اور سچے انسانی اور فنکارانہ احساس کو اپنے فن میں ڈھالا۔ فیض کی شاعری، عزیز احمد کے فکشن اور سجاد ظہیر کے مطالعۂ بیدل کو ایسے ادب کی مثالوں کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔

خاطر نشان رہے کہ یہاں ادب اور ادیب کے عصری رجحان کی نفی بھی کسی طور پر مقصود نہیں۔ ہر عہد کا ادب اپنی عصریت کی بھی ایک جہت رکھ سکتا، بلکہ رکھتا ہے — اور اس میں چنداں مضائقہ نہیں۔ ایک سطح پر تو بلکہ اس کی اپنی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ یہاں صرف اس امر کا اظہار مقصود ہے کہ کوئی مخصوص زاویہ اور محدود دائرہ مقر ر کر کے ادب تخلیق کرنے یا اپنے وقت کے فیشن کا بار ڈھوتی تحریروں کو ادب کے نام پر پیش کرنے سے ادب کو بذاتہ گزند پہنچتی ہے، وہ یوں کہ اس طرح اس کی سطح پست اور تاثر مبتذل ہو جاتا ہے۔

٭٭

 

 

 

—۲—

 

اب آئیے اکیسویں صدی کے ان دس بارہ برسوں میں تخلیق کیے گئے افسانوی ادب کے مطالعے اور جائزے کی طرف۔ اس ضمن میں ہمارا پہلا سوال یہ ہے کہ اگر ہم یہ جاننا اور دیکھنا چاہیں کہ اس عرصے میں افسانوی ادب کے اہم رجحانات کیا رہے ہیں اور آیا وہ موضوعاتی، اسلوبیاتی اور فکری سطح پر کسی طرح کی تبدیلیوں کا اظہار کر رہا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو پھر اہم رجحانات یا تبدیلیوں کو جاننے اور سمجھنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ اس کے دو طریقے ہو سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ جس عہد کے ادب کا مطالعہ مقصود ہو، اُس کے نمائندہ ادیبوں کے کام کو، یعنی اس عرصے میں شائع ہونے والی اُن کی کتابوں کو فرداً فرداً سامنے رکھا جائے اور دیکھا جائے کہ براہ راست اور نسبتاً آسان نوعیت اور اسلوب کی سطح پر کس قسم کی تبدیلیوں کا سراغ دیتی ہیں۔ یہ کام براہ راست اور نسبتاً آسان نوعیت کا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ اس مطالعے کے لئے افراد کے بجائے ان مسائل، عناصر، عوامل اور محرکات کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے اور اُن پر اس تجزیے کی بنیاد رکھی جائے جو اُس عہد کے ادب میں اسالیب، بیانیے، موضوعات، اشارات، علامات، کنایات اوراستعارات وغیرہم میں کسی نہ کسی سطح پر تغیر و تبدل کا باعث بنے ہیں، اور یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ وہ اس عہد کے انسانی شعور پر کس طرح اثر انداز ہوئے ہیں اور ان کے اثرات کا اظہار انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کس طور منعکس ہوا ہے۔

یہ کام ذرا پیچیدہ اور قدرے دشوار تو بے شک ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ دیکھا جائے تو اصل میں یہی وہ طریقہ ہے جو ہمیں پورے ایک عہد کو اس کی کلیت میں بہ یک وقت عقلی، جذبی اور روحانی جہتوں کے ساتھ سمجھنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔ اس طرح ہم ایک عہد کے اجتماعی شعور، اس کے تہذیبی ضمیر اور روحِ عصر سے آگہی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہیں نہیں بلکہ غور کیا جائے تو فطرت انسانی کو انفرادی درجے سے لے کر اجتماعی دائرے تک بہ یک ساعت گرفت کرنے کا مؤثر منہاج بھی یہی ہو سکتا ہے۔ سو اس مضمون میں مؤخر الذکر طریقے ہی کو بروئے کار لاتے ہوئے اکیسویں صدی کے عشرۂ اولیں میں اردو افسانے کی صورتِ حال، فکری مسائل اور اسلوبیاتی تجربات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی، تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ اس زمانی تناظر میں ہم عصر اردو افسانے کے تخلیقی نقوش کس نہج پر اُجاگر اور کس درجہ روشن ہو کر سامنے آتے ہیں۔

اکیسویں صدی کا آغاز ہی، جیسا کہ عرض کیا گیا، دہشت، بربریت، اور جنگ و جدل سے ہوا۔ تاہم اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جانا چاہئے کہ افراد کی طرح ادوار یا زمانے بھی isolationمیں ظہور نہیں کرتے اور نہ ہی اُن میں رونما ہونے والی تبدیلیاں آناً فاناً یا شب آفریدہ ہوتی ہیں۔ افراد کے رویوں کی طرح زمانے کا مزاج بھی مختلف عوامل کے زیر اثر اور درجہ بدرجہ ترتیب پاتا اور تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ لہذا اکیس ویں صدی کے اولین عشرے کے سیاسی، تہذیبی اور سماجی رجحانات جو آج کی انسانی زندگی پر اثر انداز ہو رہے ہیں یا اُس کی صورت گری کر رہے ہیں، اُنہیں اس وقت تک بہتر انداز سے سمجھا ہی نہیں جا سکتاجب تک گزشتہ صدی کی کم سے کم دو دہائیوں کے حقائق ہمارے پیش نظر نہ ہوں۔ کچھ ایسی ہی صورتِ حال ادب کے مطالعے کے ضمن میں بھی ملحوظِ خاطر رہنا ضروری ہے۔ چنانچہ اکیسویں صدی میں ادب کی کسی صنف میں ہونے والے کام کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں بیسویں صدی کے آخری برسوں کو بھی نگاہ میں رکھنا ہو گا۔

اس تناظر کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم جان پاتے ہیں کہ یہ وہ زمانہ ہے جب ایران انقلاب سے گزر چکا، روس افغانستان سے برسوں جنگ میں رہنے کے بعد بالآخر شکست تسلیم کر چکا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ روس کے گھٹنے ٹیکنے کے بعد افغان قبائل اب آپس میں طاقت کے کھیل میں مصروف ہو چکے، عراق کی کویت پر مسلح جارحیت بھی اپنے منطقی نتائج کو پہنچی، سوشلسٹ روس جو دنیا کی دوسری بڑی طاقت تھی اور نظامِ عالم میں کسی نہ کسی طور اس کا طاقت کے توازن میں ایک کردار بھی تھا، اب اُس کے انہدام کے بعد دنیا یک قطبی ہو چکی اور ایران امریکہ کے مابین حربی قوتوں کا ٹکراؤ ختم ہوا۔ یہاں قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ یہ واقعات برسوں پرانے ہو چکے، لیکن اقوامِ عالم کی صورتِ حال بتا رہی ہے کہ ان کے اثرات کا دائرہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ کم ہونے کے بجائے بڑھتا چلا گیا ہے۔

ا سی دوران پاکستان چاغی میں چھ ایٹمی دھماکے کر کے اپنے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان بھی کر ڈالتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں ممالک کی اسٹریٹجک پوزیشن اور عالمی طاقتوں کے مفادات نے پہلے ہی یہاں کے حالات دگر گوں کیے ہوئے تھے۔ ان دھماکوں کے نتیجے میں ہندوستان پاکستان کے مابین صورتِ حال، جو پہلے بھی اچھی نہ تھی، اب تو باقاعدہ اور سخت کشیدہ ہے۔ ایسے میں یہ دونوں ممالک ہی نہیں بلکہ عالمی برادری بھی جنگ کے بادل منڈلاتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ یہی نہیں، حالات کا دباؤ یہ خطرہ بھی محسوس کرا رہا ہے کہ اب چھڑنے والی جنگ محض مقامی یا علاقائی نہیں ہو گی، اس کے عالمی جنگ میں تبدیلی ہونے کا خاصا امکان ہے، اور خوف یہ کہ ایسا ہوا تو یہ دونوں عالمی جنگوں سے بدر جہا مہلک اور تباہ کن جنگ ہو گی، اس لیے کہ جوہری ہتھیار اب دونوں طرف ہیں۔

یہ وہ مرحلہ ہے جب ہم اپنے ادب اور خصوصاً افسانے میں ایک بار پھر ادیب کی سماجی ذمے داری اور عصری تقاضوں کے شعور کو پوری طرح بیدار ہوتے اور بروئے کار آتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ افسانہ نگاروں کی صفِ اول سے انتظار حسین کا افسانہ ’’ مورنامہ‘‘ شائع ہوتا ہے۔ حکایت اور علامت کے امتزاج سے تخلیقی اسلوب پانے والا یہ افسانہ جنگ اور اس کے زیرِ اثر تخریبی سائیکی کو موضوع بناتا ہے۔ انسان کے اندر تخریب اور شر کے عنصر کی نشاندہی کرتا ہے اور اُن حالات کو بیان کرتا ہے جن کے دباؤ میں جنگ کرنے والے کسی مرحلے پر رُک کر تحمل سے وقت کی ضرورت اور احوال کی نزاکت کو سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہوتے چلے جاتے ہیں۔ تب ورثہ، عزت، راحت کچھ باقی نہیں بچتا۔

جنگ آدمی کو کیا سے کیا بنا دیتی ہے۔ اشوتتھاما کو دیکھو اور عبرت کرو۔ درونا چاریہ کا بیٹا۔ باپ نے وہ عزت پائی کہ سارے سورما کیا کورو کیا پانڈو، اس کے سامنے ما تھا ٹیکتے تھے، چرن چھوتے تھے۔ بیٹے نے باپ سے ورثے میں کتنا کچھ پایا مگر یہ ورثہ اسے پچا نہیں۔ اس جنگ کا سب سے ملعون آدمی آخر میں یہی شخص ٹھہرا۔

اس ذلت اور ندامت کا اہم ترین سبب جنگ کی وہ مخصوص فضا اور اس کے زیر اثر رو بہ کار آنے والی سائیکی ہے جس کا شدید ترین اظہار، فتح و شکست سے قطع نظر جنگ کے اُن لمحات میں ہوتا ہے، جو فیصلہ کن یا نتیجہ خیز ہوتے ہیں۔ بقول انتظار حسین:

جنگ کے آخری لمحوں سے ڈرنا چاہئے۔ جنگ کے سب سے نازک اور خوف ناک لمحے وہی ہوتے ہیں۔ جیتنے والے کو جنگ کو نمٹانے کی جلدی ہوتی ہے۔ ہارنے والا جی جان سے بیزار ہوتا ہے تو وہ خوف ناک ہتھیار جو بس دھمکانے ڈرانے کے لیے ہوتے ہیں آخری لمحوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ پھر بے شک شہر جل کر ہیرو شیما بن جائے دل کی حسرت تو نکل جاتی ہے۔ جنگ کے آخری لمحوں میں دل کی حسرت کبھی جیتنے والا نکالتا ہے، کبھی ہارنے والا۔ کروکشیتر میں آخر میں دل کی حسرت اشوتتھاما نے نکالی اور برہم استر پھینک مارا۔

جنگ، اُس کی کیفیت اور اثرات پر گزشتہ بارہ پندرہ برسوں میں ہمارے متعدد لکھنے والوں نے توجہ کی ہے۔ موضوع کی اہمیت اور وقت کی ضرورت اپنی جگہ تاہم ادب کے سروکار اور اس کے طریقِ اظہار دونوں ہی سطحوں پر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مستقل نوعیت کی شے بنیاد میں کارفرما ہوتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ مسئلہ چاہے کتنا ہی time bindingکیوں نہ ہو، ادب میں بیان کی سطح پر آتے ہوئے اس کا timelessعنصر بہر حال نمایاں ہو جاتا ہے۔ در اصل یہی وہ شے ہے جو صحافتی رپورٹنگ اور ادب کے مابین امتیاز قائم کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خبر پرانی ہو کر obsoleteاور کبھی تو مضحکہ خیز یا گمراہ کن ہو جاتی ہے، جبکہ ادب نہ صرف یہ کہ پرانا ہو کر بیکارِ محض نہیں ہوتا، بلکہ اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ بڑے ادب کی معنوی تہیں آنے والے ادوار میں کھلتی ہیں جو بعد کے زمانوں سے اُس کی relevanceکو اجاگر کرتی ہیں۔ خیر، ہم بات کر رہے تھے عصرِ حاضر میں جنگ اور اُس کے اثرات و کیفیات کے حوالے سے لکھے گئے افسانوں کی۔ یہاں اس موضوع پر لکھے گئے، تمام افسانوں کا جائزہ نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی اُس کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ ہم اس موضوع کے ضمن میں اردو افسانے کا اشاریہ مرتب نہیں کر رہے۔ ویسے بھی یہ کام تنقید کا نہیں ہے، ہاں مدرسین نقادوں اور محققوں کو اس سے دلچسپی ہو سکتی ہے۔ تنقید تو ایک عہد کی ذہنی کیفیت کو اس کے اظہار کی اعلیٰ سطحوں پر دیکھتی ہے اور اُن کی بابت کلام کرتی ہے۔ سو ہم اس ضمن میں دو ایک افسانہ نگاروں کی نگار شات پر اور نگاہ ڈالتے ہوئے آگے چلیں گے۔

اس صدی کی ابتدائی دہائیوں میں جنگ کے حوالے سے جیلانی بانو کا افسانہ ’’ عباس نے کہا‘‘ بھی غور طلب ہے۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ اس افسانے کے ڈسکورس میں جنگ کے دونوں معانی روشن کئے گئے ہیں، ایک جسے ہم جنگی جنون اور انسان دشمنی کہیں گے اور دوسرا بقا اور مقاومت کا سوال۔ دیکھا جائے تو کسی بھی جنگ کے یہ دونوں پہلو بیک وقت غور طلب ہوتے ہیں۔ ایک فریق غلبے کی خواہش کے ساتھ بربریت کا اظہار کرتا ہے، جبکہ دوسرا بسا اوقات نخواہی اس جنگ کا حصہ بنتا ہے کہ اُس کے پاس اب بقا کا ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے — یہ کہ وہ مغلوب نہ ہو۔ جیلانی بانو کے افسانے کی فضا میں جنگ کی قیمت چکاتے ایک کردار(عباس) کا یہ فقرہ ’’ بش نے میرے ہاتھ کاٹ دیے ہیں، مگر میں اُسے لات مار سکتا ہوں۔ ‘‘ در اصل بقا کے سوال سے جڑی مقاومت کی ضرورت کا اظہار ہے۔ اپنے مکانی تناظر میں یہ افسانہ عراق کی سرزمین کا نقشہ ابھارتا ہے جہاں یک قطبی دنیا کی بدمست سپرپاور نے جھوٹ اور فریب کو بنیاد بنا کر جنگ مسلط کی تھی۔ تاہم افسانہ نگار کی فنی گرفت اسے دوسری طرف ایران کے مذہبی و ثقافتی منظر نامے سے بھی مربوط کرتی ہے، بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ارضِ خدا کے ہر اُس گوشے سے مربوط کرتی ہے جہاں مذہب اور اُس کی پاسداری کا احساس تصور حیات کا جزوِ اعظم ہے۔ اس افسانے میں کردار اور اُن کا مزاج انہیں کربلا کی تلمیحاتی، تشبیہاتی اور استعاراتی فضا سے بھی جوڑ دیتا ہے اور یوں اس افسانے کی معنویاتی توسیع ہو جاتی ہے۔ ویسے کربلا جیلانی بانو کے یہاں ایک اہم اور مستقل حوالے کا درجہ رکھتا ہے۔ اُن کے ایک اور افسانے ’’ دشت کربلا سے دور‘‘ میں بھی یہ حوالہ ایک معاشرے میں سول وار کی صورت حال کو استعاراتی سطح پر خوبی سے بیان کرتا ہے۔

امریکہ عراق جنگ( حالانکہ اسے امریکہ کی عراق پر جنگی جارحیت کہا جانا چاہئے ) کے پس منظر خالدہ حسین کا افسانہ ’’ ابن آدم‘‘ بھی تخلیقی اور فکری دونوں لحاظ سے ایک اہم اور غور طلب بیانیہ ہے۔ سرتاسر سیاسی مزاج رکھنے والے اس موضوع کو خالدہ حسین نے ایسی فنکارانہ چابکدستی سے پیش کیا ہے کہ افسانے کے پورے بیانیے میں جنگ کے حالات اور اُن کے تحت انسانی مسائل میں جان لیوا اضافے اور انسانی احساس میں ہولناک توڑ پھوڑ کرنے والے عوامل سے ہماری توجہ ہٹنے ہی نہیں پاتی۔ خالدہ حسین نے بہت کامیابی سے ان عوامل کے دباؤ کے تحت انسانوں کی ہونے والی کایا کلپ کو موضوع بنایا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کردار جن کا سیاست سے کوئی تعلق ہے اور جو نہ ہی کسی طرح کی حربی سرگرمیوں میں ملوث ہیں، حالات کا جبر اور اندوہناک معاشرتی و ذاتی تجربات ایک سفاک قوت کی طرح دھکیلتے ہوئے انہیں لے جاتے ہیں اور پھر جنگ سے نفرت کرنے والے ہی لوگ جنگ کا ایندھن بننے پر خود بہ رضا و رغبت تیار ہو جاتے ہیں۔

ابو حمزہ اس روز اپنے آپ کو خودکش حملے کے لیے تیار کر رہا تھا۔ لیلیٰ اور قدوس بھی وہیں تھے۔ وہ اس تباہ شدہ عمارت کی چھوٹی سی کوٹھری میں تھے جو ملبے میں گھری نظروں سے اوجھل تھی۔ اس روز وہ بڑی مشکل سے روٹی کے چند پھپھوندی لگے ٹکڑے کوڑے کے ڈھیر پر سے چن کر لایا تھا۔ وہاں سب اپنے اپنے ٹکڑے ٹھونگنے کی کوشش کر رہے تھے۔

لیلیٰ کے رخسار پر ایک لمبا گہرا شگاف تھا۔ ایک بم دھماکے میں شیشے کا ٹکڑا پیوست ہو گیا تھا۔ ابو حمزہ نے اپنی ڈائی سیکشن کی چمٹی سے اسے نکالا تھا۔ لیلیٰ کے ہاتھ تکلیف کی شدت سے بالکل برف ہو رہے تھے اور پورا جسم کانپ رہا تھا۔ اس روز اس کے باپ اور چھوٹی بہن ہنکا کر لے جائے گئے تھے۔ حالانکہ وہ سب در اصل ابوحمزہ اور لیلیٰ کی تلاش میں تھے۔ دہشت گردی کے نام پر محلے کے محلے زندانوں میں ٹھونس دیے گئے تھے۔ اس سے پہلے انہیں کب خبر تھی کہ زندان آبادیوں سے زیادہ بڑے ہیں۔ یوں بھی ان کے نزدیک جانے کی کسی کو اجازت نہ تھی۔

ابو حمزہ نے پھپھوندی لگی روٹی کی ایک چٹکی منہ میں ڈالی اور اسے ابکائی آ گئی۔

’’ اس میں تمام بیکٹیریا بھرے ہیں۔ اس سے مرنے سے بہتر ہے کہ آدمی بہتر موت کا انتخاب کرے۔ ‘‘

جبر کو جان لیوا بنانے اور زندگی کو تذلیل کی پستی تک پہچانے والے یہی وہ حالات ہوا کرتے ہیں جو آدمی کے اندر اتنا دھواں بھر دیتے ہیں کہ پھر موت اُس کے لیے ایک بہتر انتخاب بن جاتی ہے۔ خالدہ حسین کے یہاں اول تو سیاست اور اُس کے عوامل و اثرات سے دلچسپی ہمیں زیادہ نظر نہیں آتی۔ پھر یہ بھی ہے کہ اگر یہ موضوع اس سے پہلے اُن کے یہاں آیا ہے تو انہوں نے اسے اپنے علامتی اسلوب میں اس طرح ڈھالا ہے کہ اس کا اظہار معنویت کے ایک الگ ہی دائرے میں ہوا ہے۔ اس افسانے میں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سیاست اور جنگ کا موضوع انہوں نے سماجی حقیقت نگاری اور راست بیانیہ کے ساتھ اختیار کیا ہے۔ فنی لحاظ سے یہ اُن جیسے فن کار کے لیے تو تلوار کی دھار پہ چلنے کے مترادف ہے، لیکن یہاں اُن کا فن جس سلامت روی اور معنی آفرینی کا ثبوت دیتا ہے، وہ مثال کے درجے کی بات ہے۔ انہوں نے اس افسانے میں اپنے فن کارانہ تجربے اور نفس انسانی کی غیر معمولی آگہی سے نہایت خوبی سے کام لیا ہے۔ زندگی اور موت کے بیچ حد فاصل کے مٹنے اور ترجیحات کے بدلنے کا یہ منظر دیکھئے :

اس وقت لیلیٰ اپنی کمر کے گرد وہ بیلٹ باندھ رہی تھی۔ ’’مگر اس سے حاصل کیا ہو گا۔ تم خود اور کچھ وہ … اور یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کیسے اور کتنے ؟ ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی دوسرے بے فائدہ قسم کے لوگ ہوں جو اس دھماکے کی لپیٹ میں آ جائیں اور سب سے بڑھ کر تمہاری بہن اور بابا کو اس کا کچھ فائدہ نہ ہو گا؟‘‘ اس نے لیلیٰ سے کہا تھا۔

’’ ان کو تو اب کسی بات سے کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ ‘‘ لیلیٰ نے جواب دیا تھا۔ ’’مجھے معلوم ہے اب سکینہ اگر زندہ ہے تو کس حال میں ہو گی اور میرا باپ…!‘‘ وہ خاموش ہو گئی۔

’’کیا تم چاہو گے کہ میرا بھی وہی حال ہو جو سکینہ کا ہوا ؟‘‘

’’ نہیں نہیں !‘‘ اس نے فوراً کہا تھا اور پھر خود اٹھ کر اس کی ڈیوائس سیٹ کرنے لگا۔ لیلیٰ بالکل پرسکون تھی۔ اس نے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا۔ اس وقت اس میں ایک نرم گرماہٹ تھی۔ اس کی بھوری آنکھیں اور بھی گہری نظر آ رہی تھیں۔

اس افسانے کی ایک اور بہت اہم فنی جہت یہ ہے کہ حالات کے بدلتے ہوئے رُخ کے ساتھ افسانے کے کرداروں میں زندگی کی خواہش اور جینے کے تصور میں تبدیلی، دونوں چیزیں ایک سطح پر باہم مربوط ہو جاتی ہیں۔ خالدہ حسین نے حالات کے جبر میں انسانی نفسیات کے ردِ عمل کی مختلف صورتوں کا اظہار بڑی عمدگی سے کیا ہے۔ چنانچہ افسانے میں اگر ایک طرف لیلیٰ کے دل میں اُس کے اہل خانہ کے الم ناک انجام سے زندگی کی لایعنیت کا خیال حب وطن اور مقصدیت کے جذبے کے ساتھ مل کر پروان چڑھتا ہے تو دوسری طرف ہمیں امین کا کردار بھی ملتا ہے، جسے محبت اور رومان کی ناکامی، حسد اور بغض کے جذبات اور جینے کی تمنا ذلت آمیز زندگی کی بھینٹ چڑھا دیتی ہے۔ تب وہ وطن دشمن قوتوں کا آلۂ کار بن جاتا ہے۔ زندگی اس کے لیے آخرت کی کھیتی نہیں رہتی، بلکہ حرص و ہوس کی جولاں گاہ بن جاتی ہے۔ یوں یہ کردار اپنی سرشت میں محض ایک کردار نہیں رہتا بلکہ فطرتِ انسانی کے اسفل میلان کا ایسا سانچا بن جاتا ہے جسے ہم اپنی تاریخ کے مختلف ادوار میں اپنے مذہبی، اخلاق اور تہذیبی وجود سے کٹ کر خود اپنوں کے خلاف کام کرتے اور دشمنوں کی فتح کا راستہ ہموار کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

یوں تو اس افسانے کا ہر کردار اپنی جگہ تخلیقی قوت کا حامل ہے، لیکن ابوحمزہ کو اردو افسانے کے زندہ کرداروں میں شامل کیا جانا چاہئے۔ یہ کردار جب فاعل ہے اور اپنے قول و فعل کے ساتھ سامنے آتا ہے، تب بھی اہم اور معنی خیز نظر آتا ہے اور جب دشمنوں کے ہتھے چڑھ کر مجبور محض ہو جاتا ہے، تب بھی اس کا صبر، استقامت اور ظرف اس کے قامت کو بلند کرتے ہوئے اسے ایک علامت میں ڈھال دیتا ہے۔ یہ علامت ہے انسانی عزم و ہمت کے ناقابل تسخیر ہونے کی، اس لیے کہ دشمن قوتیں اُسے تشدد اور ذلت کی بدترین سطح پر لے جانے کے باوجود نہ تو اُس سے کوئی راز اگلوا پاتی ہیں اور نہ ہی زندگی اور رحم کی بھیک کا سوال اُس کے ہونٹوں سے سن پاتی ہیں۔ یہ کردار ایک اور معنوی جہت بھی رکھتا ہے کہ عنصری برتری رکھنے والے افراد اور سماج لاکھ جتن کر لیں لیکن وہ کبھی انسانی روح اور اُس کے جوہر پر فتح نہیں پا سکتے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جنگ جب ختم ہو گی تو انسانی جوہر پھر ظہور کرے گا اور پھر نمو پائے گا۔

٭٭

 

 

 

 

۳—

 

جنگ، اس کے ہتھیار، کردار، مسائل اور اثرات کے چھ پہلو تو وہ ہیں جنھیں ہم سطورِ گزشتہ میں انتظار حسین، جیلانی بانو اور خالدہ حسین کے افسانوں کے ضمن میں بیان کر آئے ہیں، لیکن دیکھنے اور سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ اس کھیل کے شروع ہونے سے پہلے کی فضا میں بھی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ جس کے تحت انسانی ذہن خوف اور مایوسی کے کسی تجربے سے گزرتا ہے۔ یقیناً ایسا ہوتا ہے کہ انسان کا ذہن آنے والے مہیب حالات کے قدموں کی چاپ سن کر اس درجہ اعصاب شکن کیفیت میں ہوتا ہے کہ اپنے عزیز ترین رشتوں اور اُن کی قربت و محبت تک سے دست بردار ہونے پر آمادگی میں تأمل محسوس نہیں کرتا۔ اس کیفیت کو فردوس حیدر نے اپنے ایک افسانے ’’ خالی ہوا یہ دل‘‘ میں بیان کیا ہے۔ یہ افسانہ تین نسلوں کے مابین انسانی مراسم کو واضح کرتا ہے۔ ان مراسم میں محبت، مقصدیت، لگن، وابستگی اور جذبے کے ساتھ ساتھ بشری تقاضوں کے زیر اثر پیدا ہونے والی شخصی کمزوریوں اور مسائل کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ اختتام تک آتے آتے افسانے میں بنیادی کرداروں کی کایا کلپ ہو جاتی ہے۔ اس تجربے کے پس منظر میں ان کرداروں کے عمر بھرکے رویے اور اصولوں کے درجے میں اختیار کیے گئے فیصلے تک لایعنی ہو جاتے ہیں۔ تب انسان کو یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ زندگی وہ نہیں جو کہ اب تک وہ سمجھتا رہا ہے اور یوں محبت کا مسئلہ بقا کے سوال کے آگے ماند پڑ جاتا ہے۔

جس دن چاغی کے علاقے میں ایٹمی تجربہ ہوا، ڈرائیور نے اخبار سب سے پہلے اِن کے ہاتھ میں جا پکڑایا۔ اس سے پہلے کہ میں ان کے ہاتھ سے اخبار لیتا، وہ خبر پڑھ چکے تھے اور بڑ بڑا رہے تھے، ’’ پورا پہاڑ سفید ہو گیا!‘‘ میں نے دیکھا اُن کا چہرہ سفید ہو گیا۔ میں نے آگے بڑھ کر اُن کو سہارا دینا چاہا۔ وہ میری گود میں یوں گر گئے جیسے میں بچپن میں لوگوں کی باتوں سے پریشان ہو کر اُن کی گود میں گر جایا کرتا تھا اور رونے لگتا تھا۔ لیکن نانا جی روئے نہ لوگوں کی شکایت کی اور نہ آنکھیں کھول کر میری جانب دیکھا۔ وہ ہمیشہ کے لیے پر سکون ہو گئے جیسے انہوں نے اپنے حصے کا کام ختم کر لیا ہو…

فردوس حیدر کا یہ افسانہ فنی لحاظ سے انوکھا تجربہ یا تخلیقی اعتبار سے کوئی شاہکار نہیں ہے۔ سیدھے سادے بیانیے میں لکھا گیا افسانہ ہے، البتہ یہ المیے کی ایک قوت کا اظہار ضرور کرتا ہے۔ ایک طرف انسانی رشتوں کی complexنوعیت اور اپنے اپنے زاویے سے زندگی کو برتنے اور بنانے کا انسانی مزاج اس افسانے کے تارو پود میں مرکزی مسئلے کی طرح گوندھا گیا ہے، جس کا اظہار افسانے کے آخر میں آ کر ہوتا ہے اور وہ بھی اُس وقت جب نانا( افسانے کا سب سے اہم کردار) حالات کی تبدیلی کے آگے سپر ڈال دیتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ہے کہ افسانہ نگار نے مسلسل پیش نظر رکھا ہے کہ حالات کا خارجی دباؤ مختلف کیفیات میں زندگی گزارنے والوں پر کس کس انداز میں اثر ڈالتا ہے۔ افسانے کے آخری حصے میں یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ افسانہ نگار نے بنیادی طور پر یہی بتانے کی کوشش کی ہے کہ خوف اور مایوسی کے تجربے سے گزرتے وقت عمر بھر کے استحکام اور استقلال کو ہارنے والوں کے لیے کس طرح زندگی اور اُس کے مظاہر لا یعنی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اور پھر بے بسی زندگی کا سب سے بڑا المیہ بن جاتی ہے۔

چاغی میں پاکستان کے ایٹمی تجربات کے حوالے سے ہمارے یہاں کئی افسانے لکھے گئے۔ ان میں امراؤ طارق کا افسانہ ’’ آتش فشاں کی گود میں ‘‘ اس نوع کے وجودی تجربے کو سامنے لاتا ہے جو یوں تو far fetchedمعلوم ہوتا ہے، لیکن افسانہ نگار نے اسے ایک ایسے مسئلے سے جوڑ دیا ہے کہ قاری افسانے کی آخری سطریں پڑھتے ہوئے افسردگی محسوس کیے بغیر نہیں رہتا۔ یہ افسانہ قبائلی زندگی کے سیاق و سباق میں بنا گیا ہے۔ وہ لوگ جو سرحدی علاقوں اور اُن کی طرزِ معاشرت اور انسانوں کے باہمی مراسم کی نوعیت کو سمجھتے ہیں، وہ افسانہ نگار کے پیدا کیے ہوئے زاویے کی اہمیت کو محسوس کر سکتے ہیں۔ وہاں افراد کے رشتے قبائل کی دوستی اور دشمنی کی بنیاد بن جایا کرتے ہیں اور یہ دوستی اور دشمنی نسل در نسل سفر کرتی ہے۔ اس پس منظر میں اگر ایک شخص اپنی منگیتر سے شادی کرنے سے انکار کر دے تو اس کے نتائج کا تصور کچھ ایسا مشکل نہیں — لیکن اگر مسئلے کی نوعیت وہ ہو جو امراؤ طارق نے اپنے اسا فسانے میں بیان کی ہے تو انسانی محرومی اور اذیت کی وہ کیفیت سامنے آتی ہے کہ جرگے کے افراد مہر بہ لب ہو کر رہ جاتے ہیں۔

…میں اس وقت جھیل کے درمیان میں تھا اور جھیل کا پانی میرے ہونٹوں کو چھو رہا تھا، میرا پورا جسم پانی میں ڈوبا ہوا تھا… اس وقت دھماکا ہوا، ایسا دھماکا جو اس سے قبل یہاں نہ ہوا تھا۔ پہاڑوں کے سیاہ رنگ سفید ہو گئے، درخت کھڑے کھڑے راکھ میں بدل گئے، کان بند ہو گئے، دانت ایک دوسرے میں کھب گئے اور جھیل کا پانی میرے گھٹنوں سے نیچے اُترا تو جھیل کے درمیان میں بے لباس کھڑا ہوا تھا اور میری ایڑیوں سے ایک برقی رو میرے گھٹنوں تک آ گئی تھی اور میرے پیر میرا بوجھ سہارنے کے قابل نہ رہ گئے تھے، میں اپنے آپ کو گھسیٹتا ہوا کنارے تک لایا اور گر کر بے ہوش ہو گیا۔ جھیل کے کنارے تک آتے ہوئے برقی رو میرے گھٹنوں سے میری کمر تک آئی اور میری کمر کے گرد ہالہ بنا کر بیٹھ گئی۔ ‘‘

اس نے سردار کی طرف دیکھا اور خاموش ہو گیا، جیسے اب اُسے کچھ نہ کہنا ہو۔

’’ وہ برقی رو! ‘‘ قادر بخش نے کہا، ’’ وہ برقی رو اب بھی میری کمر کے گرد بیٹھی ہوئی ہے۔ میرے پاؤں اس قابل نہیں کہ میں رکاب سنبھال سکوں، میرے گھٹنے اس قابل نہیں کہ میں ابلق پر جم کر سواری کر سکوں اور نہ میری کمر اس لائق رہ گئی ہے کہ میں شادی کر سکوں۔ میں نامرد ہو گیا ہوں۔ شہید مرزا ارسلان کا پوتا اور شیر دل خدا بخش کا بیٹا اپنی نسل آگے نہیں بڑھا سکتا، نامرد ہو گیا، اُسے گولیوں سے بھون دو، کیونکہ وہ شادی سے انکار کرتا ہے۔ ‘‘

ایٹمی تابکاری اور تباہی کے موضوع پر اس سے قبل بھی اردو میں ایسے افسانے لکھے گئے ہیں جو انسانی احساس کو متغیر کرتے ہیں۔ ان میں احمد ندیم قاسمی کا ’’ ہیروشیما سے پہلے، ہیروشیما کے بعد‘‘ محمد سلیم الرحمن کا ’’ راکھ‘‘، حسن منظر کا ’’ زمین کا نوحہ‘‘، زاہدہ حنا کا ’’ تنہائی کے مکان میں ‘‘بالخصوص قابلِ ذکر ہیں کہ ان میں انسانی تجربے اور احساس کے المیے کو تخلیقی ژرف نگاہی اور فنکارانہ صداقت سے بیان کیا گیا ہے، لیکن یہ تمام افسانے در اصل عالمی جنگ کی تباہی اور امریکہ کے ایٹم بم کے استعمال کے سیاق و سباق میں لکھے گئے ہیں۔ اس لیے ان کا بر صغیر، بلکہ یوں کہیے کہ جنوبی ایشیا کی زندگی کے تجربے سے براہ راست تعلق نہیں ہے۔ تاہم ادیب اور فن کار کا معاملہ تو یہ ہوتا ہے کہ اُس کا مشاہدہ بمنزلہ تجربہ ہوتا ہے اور تصور و خیال بمنزلہ مشاہدہ۔ یہاں ان افسانوں کے ذکر کا مقصد اس امر کا اظہار ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کی تباہی اور انسانی مستقبل کی ہولناکی کا یہ سوال آج، یعنی اُس وقت اردو افسانہ نگاروں کی توجہ کا مرکز نہیں بنا کہ جب یہ آگ خود ان کے گھر تک آ پہنچی ہے، بلکہ اُنہوں نے اس مسئلے کی بابت اس وقت بھی بات کی تھی اور اپنا احتیاج ریکارڈ کیا اور تشویش ظاہر کی تھی، جب یہ مسئلہ صرف دنیائے اول کی جنگ میں سامنے آیا تھا۔ یہ تخلیقی صداقت اس امر کی گواہی دیتی ہے کہ فن کار ایک سطح پر آ کر زبان، نسل، رنگ، قوم اور جغرافیے کی حدود سے ماورا ہو جاتا ہے اور اپنے فن میں انسانیت کے لیے آواز بلند کرتا ہے۔ انسانیت سے اس کی یہی وابستگی اس کے فن کو آفاقیت سے ہم کنار اور اُس جوہر سے بہرہ ور کرتی ہے جو اُسے جاودانی عطا کرتا ہے۔

٭٭

 

 

 

 

۴—

 

آج اس حقیقت کے اعتراف میں تأمل کی کوئی گنجائش نہیں کہ جنگ عصر حاضر کا سب سے بڑاPhenomenaہے۔ اس جنگ کی نوعیت اور اُس کے تباہ کن اثرات کا دائرہ اب تک کی انسانی تاریخ کی تمام جنگوں کے مجموعی اثرات سے بڑا ہے۔ اس کا سبب محض یہ نہیں کہ اپنی طاقت کے اظہار اور اسلحے کی دوڑ میں سبقت لے جانے کی خواہش نے اقوام عالم کی ایک بڑی تعداد کو بارود کے ڈھیر پر لا بٹھایا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست اور اہم ہے کہ آج کی دنیا ایک ایسے پہاڑ پر بسی ہوئی ہے جسے اس کی سیاسی اور فوجی مقتدرہ نے اپنے اپنے مفادات کے لیے آئیڈیا لوجی اور deterrenceکے نام پر بالآخر آتش فشاں بنا دیا ہے۔ تاہم یہ آج کی دنیا اور اُسے در پیش ( تباہی کے ) سب سے بڑے خطرے کا ایک رخ ہے کہ اب اگر عالمی جنگ چھڑتی ہے تو وہ اس خطۂ ارض کے لیے ناقابلِ تصور حد تک تباہ کن ہو گی۔ آج کی انسانی صورت حال کو سمجھنے کے لیے، تباہی کے خوف کا ایک رخ اور بھی ہے اور وہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے۔ یہ رخ ہے آج کے سماج میں phenomenalسطح کو پہنچتی ہوئی تخریبی قوتیں۔

یہ کہنا تو خیر درست نہ ہو گا کہ انتشار اور دہشت صرف آج کی انسانی زندگی کا تجربہ ہے اور اس سے قبل تاریخ کے کسی دور میں اور کسی سماج میں یہ صورت حال پیدا نہیں ہوئی۔ ماننا چاہیے کہ اب سے پہلے بھی تہذیبوں اور معاشروں پر انتشار اور دہشت کے دورانیے گزرے ہیں، بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ اب سے پہلے کی جنگوں کے اثرات کا اظہار بھی ہمیشہ دو سطحوں پر ہوتا رہا ہے، ایک براہ راست جنگ کے نتائج کی صورت میں اور دوسرے جنگ کے دوران اور اس کے بہت دن بعد تک بھی نفسا نفسی اور خلفشار کی صورت میں۔ اس کیفیت کا دائرہ بعض اوقات اس درجے تک بھی پہنچا کہ اسے سول وار کا نام دیا گیا۔ اکیسویں صدی کی دنیا ماقبل زمانوں سے اس لیے بھی مختلف ہے کہ آج اس کے بعض خطے خاصے عرصے سے ایک مسلسل سول وار کی حالت میں ہیں۔ ان علاقوں میں دہشت گردی اور استحصال کی بدترین صورتیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ دہشت گردی کی اس لہر نے ویسے تو ایک عالم کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، لیکن بعض علاقے جن میں بطورِ خاص وطنِ عزیز شامل ہے، اس کے شدید ترین عذاب کو جھیل رہے ہیں۔ یہاں آئے دن کتنے ہی معصوم اور بے گناہ شہری اس آگ میں ایندھن کی طرح جھونکے جا رہے ہیں۔ سول وار کی علامتوں میں سے ایک اہم علامت یہ ہے کہ نہ تو مارنے والے کو معلوم ہوتا کہ وہ جس شخص کو مار رہا ہے، اُس سے آخر اس کا کیا جھگڑا یا دشمنی ہے اور وہ کیوں اسے مار رہا ہے اور نہ ہی مرنے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ کس جرم کی پاداش میں اور کس نے اُسے مارڈالا ہے ؟

دہشت گردی کا یہ مظہر اپنی ماہیت اور تخریبی قوت ہر دو لحاظ سے بے حد مختلف اور نہایت بڑا ہے۔ عصر رواں کے اردو افسانے کی اس مسئلے پر خصوصیت سے توجہ رہی ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے تو انتظار حسین کے افسانے ’’ ریزروسیٹ‘‘ کا حوالہ دینا چاہئے۔ سیدھی سادی کہانی کی صورت سماجی حقیقت نگاری کا عام مگر نہایت مؤثر بیانیہ افسانے کے اس بنیادی مسئلے کو سامنے لاتا ہے جو افسانہ نگار کی توجہ کا مرکز ہے۔ بڑی بوا کے ڈراؤنے خواب سے شروع ہونے اور گھر کی گہما گہمی، رشتے ناتوں کی رونق اور بھرے پرے کنبے کی راحت و نعمت کو سمیٹتے ہوئے آگے بڑھنے والا افسانہ اختتام پر آ کر ایک لخت دل الٹنے والی اذیت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ بڑی بوا کی فرمائش پر دوسرے شہر سے اُن کی عیادت کو آتے ہوئے بیٹا اُن کے پوتے ( یعنی اپنے بیٹے ) کو بھی دادی سے ملانے لے آیا تھا۔ بڑی بوا پوتے کو دیکھ کر نہال تھیں کہ باپ نے بیٹے کی مذہبی تعلیم پر بھی توجہ دی تھی۔ وہ شرع کے مسئلے مسائل سے بھی واقف تھا اور نماز بھی پابندی سے پڑھتا تھا۔ بس یہی نیک سیرتی اُس کا جرم بن گئی اور وہ مسجد میں آ کر کلا شنکوف سے گولیاں برسانے والوں کے ہاتھوں مارا گیا۔

بڑی بوا ابھی جا نماز ہی پہ تھیں کہ محلے میں شور پڑ گیا۔ انہوں نے کلیجے پہ ہاتھ رکھا، ’’ الٰہی خیر، یہ کیسا شور ہے ؟‘‘ مگر خیر کہاں تھی۔ مسجد میں ابھی صف کھڑی ہوئی تھی کہ کچھ مسٹنڈے منہ پہ ڈھاٹے باندھے کلاشنکوفیں تانے اندر گھس آئے اور نمازیوں کو بھون ڈالا۔ کتنے تو سجدوں سے سر ہی نہیں اٹھا سکے۔

مار پیچھے پکار پڑی۔ خلقت مسجد کی طرف دوڑ پڑی۔ محلے والے ارتضیٰ کو اٹھا کر گھر لائے۔ خون میں لت پت۔ فوراً ڈاکٹر کے لئے آدمی دوڑائے گئے، مگر ادھر وقت آ چکا تھا۔ ڈاکٹر کے آنے سے پہلے ہی اس نے دم توڑ دیا۔

بڑی بوا نے سینے پہ دو ہتڑ مار مار کے اپنا آپا دھن ڈالا۔ اپنے آپ کو کوسا کہ کیوں انہوں نے ارتضیٰ کو ساتھ لانے کے لیے لکھا تھا۔ پھر دہشت گردوں کو کوسنے لگیں کہ ان کل مونہوں کو ڈھائی گھڑی کی موت آئے۔ کیسے شقی تھے کہ خانۂ خدا کا بھی پاس نہ کیا۔ ارے کم بختو! تم کیسے مسلمان تھے، بچے کو نماز تو ختم کر لینے دیتے۔ اور پھر بلک بلک کے بین کرنے شروع کر دیے۔

یوں تو اس افسانے کے توسط سے ہم دیکھتے ہیں کہ بازاروں، محلوں اور گلیوں سے گزر کر دہشت و بربریت کا یہ عفریت اب مسجدوں اور امام باڑوں تک آ پہنچا ہے۔ وہ جگہیں جنھیں خدا اور اُس کے رسولﷺ نے حرمت کا مقام ٹھہرایا، وہیں مذہب کے نام پر انسانی جانوں سے کھیلنے کا یہ کھیل معمول بنتا چلا جاتا ہے۔ انتظار حسین نے بڑی سہجتا اور سادگی سے اس عہد کے بدترین انسانی تجربے کو اپنے اس افسانے میں بیان کیا ہے۔ اُن کی فنکارانہ متانت کی داد دینی چاہئے کہ انہوں نے ایک ایسے مسئلے کو جو سفاکی کے بدترین اظہار کا درجہ رکھتا ہے، کسی طرح کی جذباتیت کی نذر نہیں ہونے دیا اور نہ ہی اسے رد عمل کی اس سطح پر آنے دیا ہے کہ جب ادب، ادب نہیں رہتا، بلکہ نعرہ بن جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ رزق اور موت دونوں ہی نصیب کے ضابطے سے انسان تک پہنچتے ہیں۔ جس طرح کسی کے حصے کا لقمہ کسی اور کو نہیں مل سکتا، اسی طرح کسی کی موت کا لمحہ ٹل کر کسی اور کے حصے میں نہیں آتا۔ تاہم عہد گزشتہ اور ہمارے زمانے میں یہ فرق تو بہر حال ہے کہ پہلے موت کسی کی طرف بڑھتی تھی تو صرف وہی نہیں شاید اور لوگ بھی اُس کے قدموں کی چاپ سن لیتے اور سمت کا اندازہ کر لیا کرتے تھے، لیکن اب دہشت گردوں کی برسائی ہوئی کوئی اندھی گولی جب کسی معصوم انسان کے جسم کو چھیدتے اور اُس کا لہو چاٹتے ہوئے نکلتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس پر کس کا نام لکھا ہوا تھا۔ دہشت گردی یوں تو ہمیشہ ہی اور ہر معاشرے اور اس کے افراد کے لیے بھیانک تجربہ رہی ہے، مگر اس وقت جس بڑے اس کیل اور جس فریکوئنسی پر یہ تجربہ ہمارے معاشرے کے افراد کو ہونے لگا ہے، اُس نے اس کی اندوہناکی میں بدرجہا اضافہ کر دیا ہے۔ اب آئے دن اس کی لپیٹ میں ایسے لوگ آنے لگے ہیں کہ جن کے مرنے کی مثال اُس چراغِ خانہ کے بجھنے کے مماثل ہوتی ہے جس کے بعد پورے گھرانے کی قسمت میں تاریکیاں در آتی ہیں۔

عہد جدید اپنی ترقی اور خوش حالی کو تو گلوبل ولیج کے انسانوں کا مشترک تجربہ نہیں بنا سکا، لیکن اس نے دہشت اور وحشت کے تجربے کو جغرافیائی سرحدیں اور مذہبی و تہذیبی حدیں مٹا کر دنیا کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے انسانوں کی قسمت کا مشترک factorبہر حال بنا دیا ہے۔ دنیا کے امن پسند، نہتے اور بے بس انسانوں کے ایک بڑے انبوہ کی زندگی میں اذیت اور ہزیمت شامل کرنے والا یہ factorویسے تو اب بلا تفریقِ رنگ و نسل اور بلا تخصیصِ مذہب و تہذیب جہاں بھی نظر آتا ہے، سراسر شائبہ تقدیر کی طرح نظر آتا ہے لیکن تیسری دنیا، پس ماندہ ممالک اور مذہب و لا مذہب کی آویزش سے گزرنے والے معاشرے بطورِ خاص آج بڑی حد تک اس تجربے کا میدان بنے ہوئے ہیں۔ اس مسئلے کی لپیٹ میں آنے اور اس کے بدترین نتائج بھگتنے والے لوگ مختلف زبانوں، علاقوں، تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن ان کا مسئلہ اور اس مسئلے کا پیدا کردہ دُکھ ایک ہے۔ یوں درد و غم کی ایک مشترک اور دل کو مٹھی میں لینے والی زبان کتنے ہی لوگوں میں اظہار و ابلاغ کا وسیلہ ہی نہیں، ہم رشتگی کا حوالہ بھی بن گئی ہے۔ زاہدہ حنا نے اپنے افسانے ’’ رقصِ بسمل ہے ‘‘ میں اسی مسئلے کو موضوع بنایا ہے۔

دہشت و بربریت کا طوفان ماؤں سے کس طرح اُن کی عمر بھر کی جمع پونجی، اُن کے بڑھاپے کا سہارا، اُن کی جوان اولاد چھینتے ہوئے آگے اور آگے بڑھتا چلا رہا ہے، کس طرح موت ایک ایک در جھانکتی اور کوچہ و بازار میں ناچتی پھر رہی ہے، اور یہ تجربہ رنگ و نسل اور ملک و ملت کے کسی امتیاز کے بغیر پھیلتا جا رہا ہے اور درد کی سوغات نہتے، بے بس اور بے خطا انسانوں میں کس طرح بٹ رہی ہے، زاہدہ حنا کا افسانہ دکھ کے ساتھ اور فنکارانہ سبھاؤ میں ہمیں بتاتا ہے۔

شام ہوتے ہی وہ گھر آ گیا، exclusive shootمکمل ہو گئی تھی۔ وہ اپنے پیروں سے چل کر گیا تھا، آیا تو دوستوں کے شانوں پر۔ صبح جس تخت پر وہ اماں کی گود میں سر رکھ کر لیٹا رہا تھا، وہیں اُسے لٹایا گیا۔ ناہید دیوار تھامے کھڑی تھی اور سارے بدن سے کانپ رہی تھی، اماں نجیب کے دوستوں کا گریہ سن کر ننگے پاؤں اپنے کمرے سے نکلیں تو کسی نے انھیں سہارا دے کر نجیب کے سرھانے بٹھا دیا۔ ناہید نے اماں کی خالی گود کو دیکھا، شام غریباں — کہیں دور سے آواز آ رہی تھی— ابھی تو سینے میں اک آگ سی لگی ہو گی— ابھی تو گود کی گرمی نہ کم ہوئی ہو گی۔ اماں اپنی استخوانی انگلیوں سے نجیب کے بال سلجھا رہی تھیں، اس کے رخساروں، اس کی بند آنکھوں کو جھک کر چوم رہی تھیں۔ پنکھے کی تیز ہوا نے نجیب کے سینے پر پڑی ہوئی خون آلود چادر اڑائی۔ سیاہ دھاگے سے سلا ہوا سینہ۔ صبح انہوں نے اسے جھڑکا تھا، یہ سوئی ابھی تمہیں چبھ گئی ہوتی۔ ‘‘اماں نے لرزتی ہوئی انگلیوں سے چادر ذرا اور سرکائی۔ ’’ تم تو سارا سینہ ہی رفو کرا آئے نجیب۔ ‘‘ ناہید نے اماں کا جملہ سنا اور چیخیں مارتی ہوئی زمین پر گر گئی۔

زاہدہ حنا نے اپنے معاشرے میں حد درجہ بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے رجحان کو معرض بیان میں لاتے ہوئے متعدد فنی لوازمات سے اس طرح کام لیا ہے کہ افسانہ قاری کے اعصاب کو جھنجھوڑ کے رکھ دیتا ہے۔ تاریخ، تہذیب اور سیاست کے مختلف عناصر زاہدہ حنا کے افسانوں میں زیریں سطح پر معنویت کی تہہ کو دبیز کرتے جاتے ہیں۔ اس افسانے میں بھی انہوں نے ان عناصر سے بخوبی کام لیا ہے۔ تاہم افسانہ ہمیں درد کی لہر کے ساتھ چھوڑ کر اختتام پذیر نہیں ہوتا بلکہ مقاومت کی اور جہد للبقا کی صورت کو کچھ اس انداز میں سامنے لاتا ہے کہ زندگی لایعنیت کی طرف جانے کے بجائے معنویت کے مدار کی طرف لوٹ آتی ہے اور یہاں انسانوں کے درمیان زبان، رنگ، تہذیب سے ماورا خالص انسانی رشتہ اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے۔

وہ تیار ہو کر کمرے سے نکلی تو اماں اور خانم خجستہ اب لاؤنج میں نہیں تھیں۔ ٹیبل پر ٹی کوزی سے ڈھکی ہوئی چائے دانی رکھی تھی، پیالیاں، ٹوسٹ اور مکھن۔ اسے حیرت ہوئی ایک پیالی جھوٹی تھی، تو کیا اماں نے ناشتہ کر لیا تھا؟ اس کی نظر دیوار گیر گھڑی پر گئی، نجیب کی رخصت سے پہلے اماں روزانہ اسی وقت مونیسٹری کا رخ کرتی تھیں۔ اس نے کھلی ہوئی کھڑکیوں سے مالتی کی باڑھ کی طرف دیکھا جو گھر اور مونیسٹری کو تقسیم کرتی تھی۔ اسے کچھ بچے اچھلتے کودتے، پختہ روش پر بھاگتے ہوئے دکھائی دیے، پھر اماں نظر آئیں، کلف لگی سفید ساڑی پہنے وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی بچوں کی طرف جا رہی تھیں، خانم خجستہ ان کا پرس اٹھائے ہوئے ان کے پیچھے تھیں۔

٭٭

 

 

 

 

۵—

 

ٹامس مان نے کہا تھا کہ عہد جدید کے انسان کی تقدیر( اور اس کے احوال بھی) سیاست کی زبان میں بیان ہو گی۔ اس پر سوال دریافت کیا جا سکتا ہے کہ کون سی سیاست کی اصطلاحوں میں ؟اس لیے کہ آج سیاست کے معروف اور مروجہ ادارے ہی سیاست نہیں کر رہے، بلکہ فلاحی اور سماجی تنظیموں سے لے کر اخلاقی و مذہبی اداروں تک سب ہی سیاست کے کھیل کا حصہ بن چکے ہیں۔ بات صرف اتنی ہی نہیں ہے، بلکہ اس سے کہیں زیادہ گمبھیر اور اذیت دہ ہے۔ اس عہد کی ایک بڑی اور نا قابل تردید سچائی یہ ہے کہ اب افراد ہی نہیں بلکہ پورے پورے شہر اور ذرا غور کیجئے تو معلوم ہو گا کہ کہیں کہیں تو پورے پورے ممالک سیاست کی اس بساط پر محض پٹ جانے والے مہرے ہیں —ایسے مہرے کہ جنھیں یہ تک ٹھیک سے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کس کے ہاتھ میں ہیں اور انہیں کب، کہاں اور کون پیٹنے کے لیے بیٹھا ہے۔

نیرنگی سیاست دوراں کا یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ اب سیاسی بساط صرف سیاست کے نام پر نہیں بچھتی۔ یہ کہیں اصلاح احوال کا عنوان رکھتی ہے، کہیں فلاح عام کا۔ کہیں آزادی اظہار کا نام رکھتی ہے تو کہیں ترقی اور روشن خیالی کا۔ کہیں یہ سماجی اقدار کا بہروپ بھرتی ہے اور کہیں مذہب کو اپنے مقصد کے حصول کے لئے استعمال کرتی ہے۔ نو ارب سے زائد انسانوں کی اس آبادی کے پچانوے فی صد سے زیادہ لوگ مطلق لا تعلقی اور لا علمی کے باوجود نہ صرف اس کھیل کا حصہ ہیں بلکہ کھلاڑیوں کی ہار جیت کی قیمت بھی یہی بے چارے پچانوے فی صد لوگ اپنی انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں جذباتی اور معاشرتی استحصال کی صورت میں چکاتے ہیں۔

سیاست کے کھلواڑ کو یونس جاوید نے عہد در عہد سفر کرتے ہوئے اپنے افسانے ’’ ستونت سنگھ کا کالا دن‘‘ میں بہت سنبھل کے اور فنی در و بست کا لحاظ رکھتے ہوئے بیان کیا ہے۔ دو عمر رسیدہ آدمیوں کی لاہور میں اچانک اور غیر متوقع ملاقات سے شروع ہونے والا افسانہ جب تہ در تہ کھلتا ہے تو اعلان آزادی کے دنوں تک فلیش بیک میں پھیلتا چلا جاتا ہے۔ تب ہم دیکھتے ہیں کہ مدتوں سے ساتھ رہنے اور رنگ، نسل، زبان اور مذہب کی تفریق سے بالاتر ہو کر نسل در نسل سماجی رشتے نبھاتے، افراد اور خاندان کس طرح سیاست کی بھینٹ چڑھے اور دیکھتے ہی دیکھتے زہر ناک ہو گئے۔ پھر یہ ہوا کہ جو رشتے ناتے مان تھے، وہ دشمن جاں ہو گئے۔ اوتار سنگھ اور انور خاں دونوں سیاست کی بساط پر پٹے ہوئے مہرے ہیں، جنہیں عمر کے آخری مرحلے پر تقدیر نے اس طرح لا ملایا ہے کہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔ تب ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں طرف کیا کیا زخم ہرا نہیں ہوا اور کون کون سا گھاؤ لو نہ دینے لگا۔ انور خاں نے تو کہہ بھی دیا اوتار سنگھ سے، ’’ کاش— تم مجھے نہ ملتے۔ ‘‘ نیرنگی سیاست دوراں اس فقرے پر ضرور مسکرائی ہو گی۔ کیوں نہ مسکراتی کہ اسے اگلی بازی جو کھیلنی تھی۔ ساٹھ برسوں سے زیادہ طویل عرصے کی باتیں، یادیں، قصے سمٹتے سمٹتے افسانہ اپنے اختتام کو آ پہنچتا ہے، پر یہ اختتام کب ہے، سیاست ایک بار پھر ان پٹے ہوئے مہروں کو پیٹ ڈالتی ہے۔ گو یہ کھیل ختم نہیں ہوا، ابھی چل رہا ہے — لیکن اب اس کا عنوان کچھ اور ہے۔ یونس جاوید نے اس افسانے کی تخلیق کے دوران اپنے طویل فن کارانہ تجربے ہی سے نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ڈراما نگاری کے شعبے میں اپنی تکنیکی مہارت سے بھی خوب کام لیا ہے :

دونوں کی آنکھیں ایک ہی قسم کی شرمساری سے مندی تھیں۔ دونوں ہلکی ہوا سے ایک نشہ کشید کر رہے تھے، تھوڑی دیر اسی مست پن میں گزری تھی کہ کمانڈوز کے دستے اندر کو دے — اور دونوں کو کچھ بولے کہے بغیر گھیر لیا۔ ایک بڑی گاڑی میں سائیکل سمیت دونوں کو اٹھا کر رکھا گیا تھا جب تک دوسری اسپیشل گاڑی قریب آ کر رکی— صاحب نے شیشے کو نیچے کیا اور صرف ’’ ہوں ‘‘ کہا۔

کمانڈوز کا ہیڈ بولا”Red handed terrorists sir”

’’ احمد یوں کی عبادت گاہوں پر حملے کے مفروروں کو ہم ٹریس کر رہے تھے۔ ‘‘ اس نے اپنے حساس ٹیپ ریکارڈر کا بٹن دبایا— اور گاڑی کا شیشہ نیچے کرنے والے آفیسر کے قریب کیا۔ اوتار کی آوازیں پھیلنے لگیں۔

——

اس افسانے کا اختتامیہ اگر اس ڈرامائی اسلوب میں نہ لکھا گیا ہوتا تو پورا امکان تھا کہ افسانہ ختم ہونے سے پہلے سیاسی بیانیے میں تبدیل ہو جاتا۔ یونس جاوید کی فنکارانہ کامیابی یہ ہے کہ وہ پوری کتھا کو سمیٹتے ہوئے فطرت انسانی کی سادگی اور سیاست کی اندھی اور سفاک جبلت کو آپس میں ٹکرا کے دکھا دیتے ہیں۔ یہ کرتے ہوئے انہوں نے فنکارانہ ضبط سے بھی پورا کام لیا ہے۔ کرداروں کو پیش آنے والی ان ہونی اور اس کے پس منظر کی صورت حال پر کوئی تبصرہ، کوئی غصہ، کوئی بیان، کوئی نعرہ، کوئی ملال— کچھ بھی تو نہیں آتا پورے افسانے میں افسانہ نگار کی طرف سے۔ بس قاری اور اس کے جھنجھناتے اعصاب کہانی کے روبرو ہیں، اور یہاں کہانی بے مہر تقدیر ہو گئی ہے۔

’’ مشرف عالم ذوقی کے افسانے ’’ ایک اَن جانے خوف کی ریہرسل‘‘ کا ایک کردار کہتا ہے، ’’ اصل بھارت تو جھٹکوں میں بستا ہے صاحب!‘‘ کچھ آگے چل کر وہ پھر لب کشا ہوتا ہے، ’’ سچ پوچھو تو ہم ڈر جاتے ہیں صاحب، بڑھتی ہوئی مہنگائی سے، روز ہونے والے دنگوں سے اور…‘‘ وہ ہنسا تھا— ’’جمہوریت سے۔ ‘‘ ذوقی نے افسانے کی زماں مکاں کو کسی ہچکچاہٹ کے بغیر واضح کیا ہے۔ یہ ضروری بھی تھا کہ اس کے بغیر افسانے کی معنویت کا اظہار اور ابلاغ پورا نہ ہو پاتا۔ لیکن افسانہ پڑھتے ہوئے قاری کا دھیان از خود محسن حامد کی ان سطروں کی طرف جاتا ہے جنھیں ایک طرح سے افسانے کا سرنامہ بنایا گیا ہے۔ تب وہ خود سے سوال کیے بغیر نہیں رہ پاتا کہ کیا جھٹکوں میں رہنے والی آبادی اور مہنگائی سے، دنگوں سے اور جمہوریت سے ڈرنے والے صرف بھارت میں ہیں ؟ نہیں — بلکہ سیاست اور دہشت کے پنجے میں جکڑے تمام خطوں اور اُن کے باسیوں کی تقدیر اور احوال نامہ یہی ہے، بالکل یہی۔ گلوبل سوسائٹی کی بہت بڑی اکثریت کی مشترک تقدیر۔ ذوقی نے خوف کی اس ریہرسل کی ہمہ گیری اور شدت کو واضح کرنے کے لئے متعدد اجزا استعمال کیے ہیں — مزدوروں کا آندولن، اَن گنت مسائل، سوالوں اور اندیشوں سے سہمے ہوئے کردار کے بیٹے کی گم شدگی، اوبڑ کھابڑ ٹوٹے پھوٹے راستے، تخریب اور دہشت کے عالمی منظر نامے کے ٹکڑے اور دھماکے۔ بہت مسالا ڈالا ہے ذوقی نے اس افسانے میں۔ اس کے ساتھ ساتھ کہیں علامت سے، کہیں تجرید سے اور کہیں حقیقت کے بیان سے کام لیا ہے۔ کیوں ؟ اس لیے کہ سیاست و دہشت کا یہ مسئلہ راست اور اکہرے بیانیے کی پکڑ میں نہیں آ پاتا۔ ‘‘

٭٭

 

 

 

 

۶—

 

اسرار گاندھی نے اپنے افسانے ’’غبار‘‘ میں اسی مسئلے کو موضوع بنایا ہے۔ افسانہ دو کرداروں پر بنیادی طور سے قائم ہے۔ ویسے تو افسانے میں بیک ڈراپ کے طور پر پورا ہندوستانی معاشرہ نظر آتا ہے۔ تاہم یہاں ہندوستانی معاشرہ محض علامت کا درجہ رکھتا ہے، ورنہ اسے جغرافیہ کی حدود سے الگ کر کے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس لیے کہ یہ در اصل آج کے انسانی معاشرے اور اس کے نظام کی وہ عمومی صورت ہے جو عالمی سطح پر اپنا اظہار کرتی ہے۔ البتہ اس اعتراف میں ہمیں تأمل نہیں ہونا چاہئے کہ یہ مسائل بالخصوص تیسری دنیا، ترقی پذیر اور پس ماندہ اقوام میں نمایاں طور سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ وہ ایک مدت کے بعد اپنے دوست کو ڈھونڈ رہا ہے۔ ملاقات نہ ہونے کا یہ وقفہ اتنا طویل کیوں ہو گیا؟ کیا راوی کہیں گیا ہوا تھا یا یوسف کہیں چلا گیا تھا؟ آخر اب یک لخت اُسے یوسف کیوں یاد آ گیا؟ ان سب سوالوں سے حذر کرتے ہوئے افسانہ براہ راست اپنے سرو کار یعنی یوسف کی تلاش سے شروع ہوتا ہے اور آگے چل کر جب یوسف کے کردار کی گرہیں کھلتی ہیں تو اس طویل وقفے کا جواز بھی سامنے آتا ہے۔ بہر حال افسانے کے آغاز ہی میں راوی فلیش بیک میں تیس برس پیچھے لوٹ جاتا ہے، جب اُس کی یوسف سے ملاقات اور دوستی ہوئی تھی۔ یوسف معاشرے کے پست طبقے کا لڑکا تھا۔ طبقاتی تقسیم کے تلخ شعور نے یوسف کو زیادہ حساس بنا دیا تھا۔ اس کے رویے میں بے رحم حقائق کی سفاکی سے پیدا ہونے والی کڑواہٹ صاف نظر آتی تھی، لیکن وہ سماجی نظام میں قائم کی گئی تقسیم کو مسترد کرتا تھا اور اسی بنیاد پر اُسے مذہبی رہنماؤں سے چڑھ تھی۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ وہ مذہب کو نہیں بلکہ مذہبی رہنماؤں کو برا سمجھتا ہے اور اس کا جواز اس کے پاس یہ ہے کہ ان لوگوں کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ راوی کا نا سٹلجیا یوسف کی شخصیت کا ہم سے پوری طرح تعارف کرا دیتا ہے اور پھر فلیش بیک ختم ہوتا ہے اور تیس برس بعد کا یوسف راوی کے سامنے آ جاتا ہے لیکن یہ کون سا یوسف ہے ؟ راوی بھی داڑھی اور کرتے پاجامے والے مولانا کو چہرے سے نہیں آواز سے پہچانتا ہے۔ ملاقات کے اختتام پر یہی مولانا یوسف اسے بتاتے ہیں :

’’ پھگن چکوا کا لونڈا یوسفوا دس سال پہلے جل کر مر گیا تھا اور اس کی راکھ سے میں پیدا ہوا ہوں، میں مولانا یوسف۔ گاؤں والے میرے ایک اشارے پر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ گاؤں کے تمام گھروں سے عورتیں میرے پاس دعا کرانے کے لئے آتی ہیں اور میں مولانا یوسف ان کے سروں پر ہاتھ پھیر کر ان کے لیے دعائیں کرتا ہوں۔ ‘‘ وہ مسکرایا۔ اس کی طنزیہ مسکراہٹ زہر میں بجھی ہوئی تھی۔

یہ ہیئت اجتماعیہ کی وہ قوت جو فرد کے جوہر کو، اس کی صداقت کو کچل ڈالتی ہے اور پھرا سے اپنے ڈھرے پر لے آتی ہے۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ کردار کا یہ بحران جس معاشرے میں پایا جاتا ہے، اس کے تمام تر اسباب بھی در اصل اسی معاشرے کے داخل میں پائے جاتے ہیں اور اس کے نظام کا ایندھن خود اس کے افراد اور اُن کی زندہ روحیں بنتی رہتی ہیں۔

کردار کے اسی بحران کو اسد محمد خاں نے اپنے مخصوص تخلیقی اسلوب میں دیکھا ہے۔ افسانے کا نام ہے ’’ عون محمد وکیل، بے بے اور کا کا۔ ‘‘ اسد محمد خاں نے بظاہر تو یہ افسانہ راست بیانیہ میں لکھا ہے لیکن جب ہم ذرا سا غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس بیانیہ میں تھری ڈی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افسانے کا موضوع اپنی نزاکت اور حساسیت کے باعث داخلی طور سے یہ تقاضا رکھتا ہے کہ اسے ایک رخ سے دیکھنے پر اکتفا نہ کیا جائے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ اس افسانے میں صرف اس کے کردار ہی کلام نہیں کرتے بلکہ ان کرداروں کا معاشرہ اور اس کی سائیکی بھی اکثر مقامات پر کلام کرتی سنائی دیتی ہے۔ چنانچہ اس پورے تناظر کو فوکس کرنے کے لیے یک رخا بیانیہ ہر گز کفالت نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ ایک سے زیادہ زاویوں سے ان کرداروں، ان کے باہمی تفاعل اور سماجی رجحانات اور رویوں کو پیش نظر رکھا جائے۔ ظاہر ہے، ایسا تھری ڈی تکنیک کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا تھا۔

اس افسانے کا موضوع blasphemeہے۔ عصر حاضر کا یہ ایک حساس اور اہم موضوع ہے، خصوصاً ہندوستان اور پاکستان کے حوالے سے۔ افسانے کے تین بنیادی کردار تو وہی ہیں جن کے نام پر افسانے کا عنوان قائم کیا گیا ہے، یعنی عون محمد وکیل، بے بے اور اُس کا بیٹا یعنی کا کا۔ چوتھا اہم کردار پیش امام ہے۔ افسانے کا موضوع بادی النظر میں سادہ نظر آتا ہے، لیکن ایسا ہے نہیں۔ اس لیے کہ اپنی حساسیت اور نزاکت کے باعث یہ موضوع گہرے فنی شعور اور فنکارانہ چابک دستی کا تقاضا کرتا ہے۔ ذرا سی بے احتیاطی اسے اخباری رپورٹ یا کسی نیوز چینل کی بریکنگ نیوز میں تبدیل کر سکتی تھی۔ اسد محمد خاں نے نہایت متانت اور ذمے داری سے موضوع کو ہی نہیں سنبھالا، بلکہ وہ تلوار کی دھار پر قائم افسانے کے پورے ڈسکورس میں اور سب سے بڑھ کر کرداروں کے معاملے میں بھی کسی طرح کی افراط و تفریط کا شکار نہیں ہوئے ہیں۔

شموئل احمد نے اپنے ایک افسانے ’’ عنکبوت‘‘ میں اسی مسئلے کو بیان کیا ہے۔ افسانے کا اختتامیہ کسی قدر جذباتیت اور خود افسانہ نگار کے شخصی غصے کا اظہار کرنے کے باوجود یہ افسانہ مؤثر بھی ہے اور ہمیں کئی طرح کے سنجیدہ سوالوں سے بھی دوچار کرتا ہے۔ افسانے کے مرکزی کردار میاں بیوی ہیں، جو الگ الگ چیٹنگ میں مصروف ہیں اور دیکھتے ہیں کہ دونوں virtual realityکی اس دنیا میں در اصل رئیلٹی ہی کی نفی نہیں کر رہے، بلکہ اپنی سماجی اقدار اور اپنے کردار کی بھی نفی کر رہے ہیں — اور دونوں اس حقیقت سے بے خبر یا لا تعلق رہتے ہیں۔ اب دیکھیے کہ ان کی آنکھیں کب کھلتی ہیں، اس وقت جب دونوں ایک دن لا علمی میں ایک دوسرے سے chat کرتے ہیں۔ اس کے بعد شوہر کو گھر آ کر کمپیوٹر پر کام کرتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بیوی تو اسی آئی ڈی سے chat کرتی ہے جس سے وہ ابھی اتنی برہنہ گفتگو کر کے آ رہا ہے۔ یہ ہے غلاظت بھری اس تفریح کا ذلت سے بھرپور انجام۔ شموئل احمد نے سائبر پنک کے اس کھیل کو اس کی اصطلاحوں، زبان اور کنایوں کے ساتھ افسانے کا حصہ بنایا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے افسانے کے واقعات کی رفتار بھی اتنی ہی تیز رکھی ہے، جتنی اس دنیا کے اعمال و افعال کی رفتار ہوا کرتی ہے۔ اس طرح وہ اردو ادب کو زندگی کے تازہ ترین اور نہایت وحشت خیز مسئلے کے حوالے سے ایک مؤثر افسانہ دینے میں کامیاب رہے ہیں۔

انٹر نیٹ کی اسی بے حقیقت اور vulgarرشتے داری پر ایک اور افسانہ بھی توجہ طلب ہے، وہ ہے مشرف عالم ذوقی کا ’’ واپس لوٹتے ہوئے ‘‘—Chat کرتا ہوا شادی شدہ مرد ورچوئل ریئلٹی کی اس دنیا میں ایک نوجوان لڑکی کے قریب آ جاتا ہے۔ دو اجنبی دل ملنے لگتے ہیں، لیکن یہ ملاپ بھی ورچوئل ہے اور اسی طرح اخلاقی قدروں اور حجاب داری کے لطف سے عاری۔ تاہم ذوقی نے آگے چل کر اسے ایک طرف سیاست کے زاویے سے جوڑ دیا اور دوسری طرف مرد اور عورت کے ازدواجی رشتے کے امور اس کے سماجی انسلاکات اور میاں بیوی کے رشتے میں وفا کے سوال سے مربوط کر دیا ہے۔ اس طرح یہ افسانہ ہمیں اس نئی دنیا کے کئی ایک سنجیدہ مسائل پر غور کرنے کا ایک زاویہ فراہم کرتا ہے۔

 

ان سب عناصر، عوامل اور مسائل کے انسانی دل و دماغ، اس کے اعصاب اور اس کی روح پر کیا اثرات ہیں ؟ اکیسویں صدی کے افسانوی ادب کے مطالعے اور جائزے میں یہ ہمارا آخری سوال ہے۔ اس سوال کا یوں تو بلا واسطہ جواب ہمیں گزشتہ صفحات کے مباحث میں مل چکا ہے۔ تاہم اس سوال کی براہ راست ایک ذرا الگ تفتیش کی ضرورت یوں محسوس ہوتی ہے کہ ہم دیکھیں، عصری ادب نے اپنے عہد کے انسانی اور تہذیبی حقائق کو کس طور سے سہارا ہے۔ جتنا اہم یہ سوال ہے، اتنا ہی پریشان کن ہے اس کا جواب۔ اس لیے کہ اکیسویں صدی کا جدید اردو افسانہ متنوع صورتوں اور متعدد حوالوں کے ساتھ اس کا جواب فراہم کرتا ہے اور اس جواب کی ہر صورت ہمارے لیے ایک نئی تشویش اور نئی وحشت کی بنیاد بنتی ہے۔

٭٭٭

تشکر: تبسم فاطمہ، مدیر اعزازی، ادب سلسلہ،  شمارہ ایک ۔ جنہوں نے جریدے کی فائل فراہم کی جس سے اس برقی کتاب کا متن حاصل ہوا۔

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید