FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اپنی تلاش میں

               مشرف عالم ذوقی

               ذوقی کی کتاب سلسلۂ روز و شب کا چوتھا حصہ

               سناّٹے میں تارا۔1

سب بھول، گیا کچھ یاد نہیں

میں سب کچھ بھول گیا۔ کچھ بھی یاد نہیں رکھنا چاہتا۔میری پچھلی کتاب ’’صدی کو الوداع کہتے ہوئے … ‘‘ تھی۔ یہ کتاب سن 2000ء کے اوائل میں شائع ہو کر منظر عام پر آئی۔

سن 2000ء  ____نئی الفی کی شروعات ہو گئی تھی۔ نئی الفی، نئی صدی۔ نیا موسم …  لیکن نئی صدی یا نئی الفی کے محض ان تین برسوں نے ہمیں کہاں لا کر کھڑا کر دیا ہے …

سن 2000ء میں شائع شدہ اپنی کتاب میں،  ’سناّٹے میں تارا عنوان کے تحت میں نے کھل کراپنی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی تھی____

’’ تمہارے ہاتھوں پر

ناچتی رہی ہے

ناچتی رہی ہے یہ دنیا ‘‘

            ____ناظم حکمت

میں نے سناّٹے میں تارا، کی شروعات میں، ناظم حکمت کے یہ نظم شامل کی تھی۔ آج نئی صدی کے تین برس گزر جانے کے بعد لگتا ہے____ میرے ہاتھوں پر کب کہاں ناچی تھی یہ دنیا____ دنیا کی تو رفتار ہی رُک گئی ہے____

چلتے چلتے جیسے زندگی کی سوئی ٹھہر گئی____

چلتے چلتے جیسے وقت رک گیا____

چلتے چلتے جیسے تین برسوں میں بھیانک طوفان آ گیا____

ہر شاخ جل گئی____

محبت کے معنی بدل گئے____ سیاست بدل گئی____ دنیا بدل گئی …  اور بدل گیا مسلمان …

وہ اخوت بھائی چارگی اور معصومیت کی مثال، مسلمان____

وہ مسلمان____ جن کے نام سے ایمانداری اور محبت کی دہائیاں دی جاتی تھی …

سناّٹے میں ایک تارا ٹوٹا اور چپکے سے خلاء میں سوراخ کرتا ہوامسلمانوں کے ماتھے پر آ کر خاموشی سے لکھ گیا____دہشت پسند …

سن 31؍دسمبر 1991ء کو اخبار کی سرخیاں تھیں …

بے گناہ انسانوں کو یرغمال بنانا____ ایذا پہنچانا، قطعی غیر اسلامی اور غیر انسانی عمل

اغوا کاروں کے عمل کا جہاد اور اسلام کے نظام عدل و انصاف سے کوئی تعلق نہیں ____

انڈین ائیرلائنز کے اغوا کاروں سے بات چیت کے لئے قندھار جانے کی پیشکش کرتے ہوئے افغانستان کے حکمراں طالبان سے پُر زور اپیل کی گئی ہے کہ وہ طیارہ میں یرغمال بنائے گئے معصوم بچوں اور روپن کٹیال کی بیوی کی فوری رہائی کو یقینی بنائے۔

نئے سال کے موقع پر ہم نے اطمینان کا سانس تو بھرا کہ بدلی ذرا سی چھٹی تھی۔ اغوا کنندگان مسرت سے جھومتے، اپنے گھر جانے کی تیاری کر رہے تھے۔یعنی ٹھیک نئی الفی کے پہلے دن صورت حال بدل چکی تھی۔

تین جنگجوؤں کے عوض یرغمال مسافروں کی رہائی

مسافروں کی وطن واپسی٭طیارہ اغوا بحران کا ڈراپ سین٭ اغوا کار تینوں جنگجوؤں کو لے کر نامعلوم منزل کی طرف روانہ٭ ہائی جیکروں نے اپنے ایک ساتھی کو مار ڈالا

انڈین ائیرلائنز کے طیارہ اغوا سے پیدا غیر یقینی صورت حال 154 مسافروں اور عملہ کے ارکان کے بدلے تین کٹر جنگجوؤں کی رہائی کے سمجھوتے کے ساتھ ختم ہو گئی۔ ہائی جیکروں اور طالبان کے ساتھ ہندوستانی مذاکرات کاروں کی پانچ روز تک صبر آزما بات چیت کے بعد اس بحران کو ختم کرنے کا معاہدہ عمل میں آیا۔ جس کے تحت اغوا شدہ طیارہ سے رہا کئے گئے مسافروں کے پہلے دستے کو لے کر انڈین ائیرلائنز کا ایک خصوصی طیارہ بوئنگ 737 آج رات پونے نو بجے یہاں پہنچا جس میں 101 مسافر سوار تھے۔ دوسرا طیارہ ائیربس اے 320 اس کے کچھ ہی دیر کے بعد اترا اس پر باقی ماندہ مسافر اور عملہ کے لوگ تھے۔ ہوائی اڈہ پر رہا کئے گئے مسافروں کے رشتہ دار بڑی تعداد میں موجود تھے۔ اپنے عزیزوں کو دیکھ کر ان کی خوشی کی حد نہ رہی اور کئی لوگوں کو بلکتے دیکھا گیا۔

لیکن طوفان ابھی تھما نہیں تھا۔ ان تین برسوں میں دنیا کو کیا کیا نہیں دیکھنا پڑا____ 11؍ستمبر کے____ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے حادثہ کے بعد امریکہ کا انتقامی سلسلہ …  افغانستان سے عراق تک تباہیوں کا ایک نیا خطرناک موسم …  دیکھتے دیکھتے دنیا کا گلوب گھوم گیا۔ دہشت پسندی دنیا کے ایک ایک صفحے پر لکھ دی گئی …  ہندستان میں جمہوریت کا قتل عام ہوا …  کشمیر سے کنیا کماری تک خون ہی خون پھیل گیا …  گودھرا سے شروع ہوا خونی سفر، ہر صوبے کو گجرات بنانے کی تیاری میں اپنے اپنے سیاسی مہرے چل رہا ہے ____

اور …

اس گہرے سناّٹے میں کس کس دکھ کا حساب رکھوں۔

رکھوں بھی تو کیوں ؟____

کیوں سوچوں کہ پہلی بار یہ دنیا میرے ہاتھوں پر کب ناچی تھی____

پہلی بار یہ دنیا میرے اشاروں پر کب جھومی تھی____

پہلی بار یہ دنیا میرے اندر کب مسکرائی تھی!____

دہشت پسندی کا سفر

’’ایک عجیب سی مشکل میں ہوں اِن دنوں

میری بھرپور نفرت کرنے کی طاقت

دن بدن کمزور پڑتی جا رہی ہے

انگریزوں سے نفرت کرنا چاہتا ہوں

تو شیکسپئر آڑے آ جاتے ہیں

مسلمانوں سے نفرت کرنا چاہتا ہوں

تو غالب آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں … ‘‘

                                     … کنور نرائن

اب چلئے دہشت پسندی کے کچھ منظر آپ کو دکھاتا ہوں ____

منظر ایک  …

4؍اکتوبر 2002ء سب ٹی وی چینل پر منوج رگھوونشی کا پروگرام کھلا منچ چل رہا ہے____ تماشائی ہال میں بیٹھے لوگ آپس میں جرح کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جرح کرنے والوں میں راشٹریہ سہارا اردو کے ایڈیٹر عزیز برنی ہیں ____تو دوسری طرف ایودھیا متنازعہ سے روشنی میں آئے اور اپنی بے لگام زبان کے لئے مشہور پروین توگڑیا____ موضوع ہے ’’اسلامی دہشت گردی … ‘‘ منوج، پروین توگڑیا کے سُر میں ہی بولتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں پر مسلسل اپنا طنزیہ تیر چلا رہے ہیں ____ قرآن کی دھجیاں اڑا رہے ہیں ____ تماشائی ہال میں شور ہے____ عزیز برنی اکیلے پڑے، اپنا بچاؤ کرنے میں پریشان نظر آرہے ہیں …

منوج رگھوونشی چیخ رہے ہیں …  نہیں آپ کہئے …  قرآن صرف اس مخصوص وقت کے لئے صحیح تھا، یا آج کے لئے۔‘

توگڑیا پوچھتے ہیں ____ آخر اسلامی دہشت گرد کی مخالفت کرنے کے لئے کوئی مسلمان سامنے کیوں نہیں آتا۔ ایک بھی مسلمان؟

تماشائی ہال میں بیٹھے زیادہ تر لوگوں کے ہاتھوں میں فتوے، حدیث اور قرآن پاک کے الگ الگ نسخے، آیتوں کے ترجمے موجود ہیں ____ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا جواب ایک ایسے آدمی کو دینا ہے جو ایک اردو روزنامہ کا ایڈیٹر ضرور ہے مولوی یا عالم نہیں۔

بات کھلے منچ کی نہیں ہے۔ آئے دن ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، جب وشوہندو پریشد اور شیوسینکوں کو تماشا گاہ میں بیٹھا کرپروین توگڑیا جیسے بے لگام جانوروں کے سامنے ڈاکٹر برنی جیسے سیدھے سادھے لوگوں کو کھڑا کر دیا جاتا ہے____ ایسے پروگرام ساری دنیا دیکھتی ہے اور جو پیغام ایسے پروگراموں کے ذریعہ عوام تک پہنچایا جاتا ہے____ وہ بہت صاف ہوتا ہے____ مثلاً مسلمان بھگوڑے تھے …  اسلام تلوار کے زور سے پھیلا …  اسلام دہشت گردی کا مترادف ہے …  اور مسلمان،وطن کا غدار ہے۔

ہندوستان میں اسلام مخالف لہر کچھ عرصے سے بے حد تیز ہوئی ہے۔ نتیجے کے طور پر ملک کی سب سے بڑی اقلیت یا دوسرے لفظوں میں ملک کی دوسری بڑی اکثریت، یعنی مسلمانوں نے اگر ایک بار پھر خود کو عدم تحفظ کے گھیرے میں دیکھنا شروع کیا ہے، تو یہ کہیں سے غلط نہیں ہے۔ ایسے ملک میں جہاں کا وزیر اعظم تک جذبات کے بہاؤ میں مسلمانوں کے خلاف آگ اگلنے میں ذرا بھی ہچک محسوس نہیں کرتا ہے، وہاں یہ سوچنا تو پڑے گا ہی____ کہ آخراس شدّت پسند روییے کا سچ کیا ہے____؟ واجپائی جیسے سیاستداں کو بھی مسلمانوں کے بارے میں وہی ٹیپ چالو کرنا پڑتا ہے …  جسے وشوہندوپریشد ایک لمبے عرصہ سے بجاتا آیا ہے____ تب سوچنا پڑتا ہے کہ دال میں کچھ نہیں بلکہ ’خطرناک حد تک کالا ضرور ‘ ہے۔

ایک وقت ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ایودھیا تنازعہ یا ہندوتوا کا ’موضوع‘ اقتدار کے گلیارے میں خاص ہلچل پیدا کرنے میں ناکام ہے____ لیکن بعد کے حادثوں نے بتا دیا کہ ایسا سوچنے والے غلط تھے۔ دراصل ہندستانی تہذیب میں مذہب کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ 100کروڑ کے عوام سے لے کر اقتدار اور سیاست کے گلیارے تک____ ہر زمانہ، ہر عہد کا اکیلا فاتح یا ہیرو ’مذہب‘ رہا ہے …  اور یہ بھی کھلا سچ ہے کہ نئی صدی کا تیسرا سال ختم ہوتے ہوتے اسی مذہب کی آڑ لے کر، ایک بار پھر سے اسلام کو جھوٹا، قرآن کو غلط کتاب اور مسلمانوں کو دہشت گرد عائد کرنے کی کارروائی اپنی تمام حدیں پھلانگ چکی ہے۔

منظر2-

24؍ستمبر2002ء کو ایک ساتھ دو حادثے ہوئے تھے____ جموں کشمیر ودھان سبھا الیکشن کے دوسرے دور میں 28سیٹوں کے لئے پولنگ ہوئی۔ اس دن صبح سے جی نیوز چینل ’’فدائن، انکاؤنٹر، پروگرام میں رونگٹے کھڑا کرنے والا لائیوشو دکھا رہا تھا۔ جسے دیکھ کر اپنے آدمی ہونے پر شرمندگی ہو رہی تھی۔ 16گھنٹے تک چلنے والی کارروائی اس وقت ختم ہوئی جب سیکورٹی فورسیز نے گوگی باغ کے مکان میں چھپے دونوں فدائن دہشت گردوں کو مار گرایا۔ ذرا اس خطرناک منظر کو یاد کیجئے____ ایک طرف جاری الیکشن____ دوسری طرف ’’دہشت گردوں کو مار گرانے کی کارروائی …  کیمرا بار بار چھت پر گرے ایک دہشت گرد پر فوکس ہوتا ہے …  جو مر چکا ہے۔ مکان سے آگ کے شعلے اٹھ رہے ہیں …  آگ میں جلتا ہوا ایک چھجہ دہشت گرد کے پاس گرتا ہے …  اور دیکھتے ہی دیکھتے دہشت گرد کا بدن آگ کے شعلوں میں جھلس جاتا ہے …

25-20 سال کے ان جوانوں کی شناخت اسلامی دہشت گرد کے طور پر کرائی جا رہی ہے۔ اسلام____ جو پیدائش سے اپنی تعلیم میں تشدد، بھید بھاؤ، چھوا چھوت کے خلاف، جنگ لڑتا رہا ہے____ 20ویں 21-ویں صدی میں ’بڑی طاقتوں ‘ کے ذریعہ ایک سچے مذہب اور دنیا کی دوسری بڑی آبادی کو آج دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے۔

24؍ستمبر کو ہی گجرات کے اکچھردھام مندر پر فدائن حملہ اور ____دہشت گردوں کے حملے کی خبریں سارے ملک میں چیخ رہی تھیں۔ لوگ سانس روکے اسلامی دہشت گردی اور پولیس کمانڈو کی کارروائی کو دیکھ رہے تھے۔ ملک کا ہر نیوز چینل اس لائیو شو کو زیادہ سے زیادہ سنسنی خیز بنا کر دکھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ کیا یہ دونوں کارروائیاں اسلامی تھیں ؟ یا صرف دہشت گردی کی کارروائیاں … ؟

آپ کہہ سکتے ہیں کہ فدائن چونکہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر کر رہے تھے …  اس لئے یہ اسلامی کارروائی ہے۔ لیکن یہ فیصلہ کون کرے گا کہ ’فدائن‘ اس طرح کی کارروائی سچ مچ اسلام کے نام پر کر رہے تھے؟ اسلامی تحریکوں سے وابستہ ’حرکت القصاص، لشکر طیبہ یا حرکت المجاہدین کو چیخنے دیجئے____ حقیقت میں کوئی بھی ہندوستانی مسلمان اسے گلے اتارنے کو تیار نہیں ہے کہ یہ فدائن ان کے آدمی ہوسکتے ہیں …  یا یہ سب کچھ اسلام کو بچانے کے لئے کیا گیا تھا …  اس کے بعد بھی، ابھی حال تک جموں اور کشمیر میں (اگست 2003) ہونے والے فدائین حملوں کے بارے میں خود کیجئے____ جب جب دہشت گردی کا کوئی بھی ’حادثہ‘، مذہب یا خاص طبقہ سے جوڑ دیا جاتا ہے تو پورے ملک میں رہنے والے اس فرقہ کے لوگوں پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے …

حقیقت میں امریکہ یہی چاہتا ہے۔ اسلام ایک بڑی طاقت کے طور پر ملک کے نقشے پر ابھرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس اثر کو مٹانے کے لئے مسلمانوں اور اسلام کو حاشیے پر ڈھکیلنے کے لئے امریکہ نئے نئے بہانے ڈھونڈتا رہا ہے اور ایک بڑی طاقت کا ساتھ دینے کے لئے چھوٹے بڑے سبھی ملک مل کر امریکی تاناشاہ کا ہاتھ تھامنے کو تیار ہو گئے تھے____ حقیقت میں دیکھا جائے تو امریکی تہذیب کا سب سے زیادہ مضحکہ خیز اور گھنونا اعلان تھا …  ’’اسلامی دہشت گردی کا اعلان‘‘ آج تک کسی بھی مذہب …  ملک یا سماج میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں کو مذہب سے جوڑ کر نہیں دیکھا گیا____ عیسائی دہشت گردی، یہودی دہشت گردی یا ہندو دہشت گردی کی مثالیں کبھی نہیں دی گئیں ____ سن 84 میں کچھ وقت کے لئے سکھ دہشت گردی، کی آواز اٹھی تھی۔ مگر بعد میں ’اگروادی‘ یا آتنک وادی کہہ کر اس کلنک کو مذہب سے ہٹانے کی کوشش کی گئی …  پھر اسلامی دہشت گردی کیوں ؟ دوہری ذہنیت یا دوہرا رویہ کیوں ؟ کیا یہ کل ملا کر مسلمانوں کو حاشیے پر ڈالنے کی کارروائی نہیں ہے … ؟

یہ سوال حقیقت میں غور طلب ہے کہ کیا این ڈی اے کا ساتھ دینے والی سبھی پارٹیاں اور کچھ کچھ کانگریس بھی ایسا سوچنے پر مجبور ہے … ؟ کیونکہ مسلمانوں کا ساتھ دینے پر جس طرح پاسوان جیسوں کو حاشیے پر پھینک دیا گیا ہے، یہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ دراصل ووٹ بینک کے لئے دلت اور مسلمان دو ایسے بڑے ہتھیار رہ گئے ہیں جن کے اردگرد تمام پارٹیاں ڈول رہی ہیں۔ مسلمان جو نہ کبھی کمیونسٹ پارٹی کا ہوا، نہ کانگریس کا، نہ بی ایس پی کا ہوا اور نہ ہی سماجوادی کا۔ مسلمانوں کے ووٹ بینک کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا،یہ الیکشن میں اچھے اچھوں کی نیند اڑا دیتا تھا۔ مسلمانوں کے ساتھ سیاست، حکمت عملی یا ڈپلومیسی کے ’ٹانکے بھرانا بھی ناممکن تھا۔ مسلمانوں کو توڑ دو تو انتخابی تجزیہ خود آسان ہو جائے گا، کا اصول زیادہ آسان تھا۔ ادھر امریکہ نے لادین کی مقبولیت سے گھبرا کر اسلامی دہشت گردی کا راگ چھیڑا____ اور ادھر بی جے پی کی سیاست میں تیزی آ گئی۔

تو کیا بی جے پی کا برسوں پرانا خواب یہی تھا۔ حکومت کرنے کا اکیلا، خاموشی اور صبر کی بنیاد پر مبنی نظریہ یعنی …  صبر سے کام لو۔ وقت کی پرواہ مت کرو۔ بھگوا تعلیم، بھگوا رنگ اور بھگوا انجکشن … دیر آیددرست آید کے نظریوں پر کام کرتی بی جے پی سرکار کو اب صرف ایک قلعہ فتح کرنا ہے____ بھاجپا پر سے این ڈی اے کے ’چوکٹھے‘ کو الگ کرنا۔ نیوٹن کے نظرئیے اپنا رنگ دکھاتے ہیں …  تو اگلے انتخاب تک بی جے پی کو کسی بھی بیساکھی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

گجرات میں مودی کی فتح سے ان کا سینہ پہلے ہی ’چوڑا ہو چکا ہے …

مدرسے اسلامی دہشت گردی کی فیکٹری

دیکھتے ہی دیکھتے مدرسے اسلامی دہشت گردی کی فیکٹری بن گئے۔ ہندستان کی 100کروڑ عوام کے دل میں گانٹھ کی طرح یہ بات بیٹھا دی گئی کہ حقیقت میں مدرسے ہی نئی دہشت گردی کی پیداوار ہیں۔ مدرسوں کے حالیہ سروے سے کئی دلچسپ جانکاریاں ملی ہیں۔ ایک نوجوان نے اپنا نام خفیہ رکھتے ہوئے بتایا کہ سرکار کی طرف سے معائنہ کے لئے آئے لوگوں نے کچھ بے حد دلچسپ مگر قابل اعتراض سوالوں کی جھڑی لگا دی …

 … آپ پڑھتے ہیں ؟

-ہاں –

 … کہاں ؟

-مدرسے میں –

 … کیا تعلیم دی جاتی ہے؟

دینی تعلیم۔

 … کیا وہی تعلیم دی جاتی ہے جو افغانستان میں ملا عمر یا لادین حمایتیوں کو دی جاتی ہے۔

ہاں، دینی تعلیم ساری دنیا میں ایک ہی ہوتی ہے۔

 … آپ کیا پڑھتے ہیں ؟

قرآن و حدیث۔

 … کیا یہی قرآن و حدیث افغانستان میں بھی پڑھایا جاتا ہے؟

-ہاں –

کہنا نہیں ہو گا کہ ایسے سروے سے کیا نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مدرسے، اسلامی تعلیم کے مرکز ہیں۔ مدرسوں کو ڈھانے کا مطلب ہے۔ اسلام پر پابندی۔ ایک مکمل تہذیب کا خون۔ یہیں سے قرآن و حدیث کی تفسیر پڑھانے والے مولوی اور حافظ نکلتے ہیں۔ اپنے بچوں کو دینی تعلیم دینے کے لئے مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی انہیں پر منحصر رہتی ہے۔

مدرسوں کو ختم کرنے کی حکمت عملی بنانے سے زیادہ ضروری ہے، یہ دیکھنا کہ غلطی کہاں ہو رہی ہے؟ بے روزگاری اور بھوک سے، پیدا ہوئے سچ سے بھی زیادہ خطرناک ہے وہ ماحول____ جو پچھلے 15-10 سالوں سے اس ملک میں پیدا کیا جا رہا ہے۔ ایک سچ یہ بھی ہے کہ نئی نسل پاکستان سے شدید نفرت کرتی ہے۔ وہ تسلیم کرتی ہے کہ ہندوستان میں بھڑکنے والے فسادات کے پیچھے پاکستان کے ذریعہ دیئے جانے والے ____عجیب و غریب بیانات اور جنرل مشرف کی بھارت کے ساتھ  دشمنی کا ہاتھ ہے۔ مدرسوں میں ہونے والی غلط کارروائیوں کی مخالفت ضرور ہونی چاہئے____ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ’ایک ہی حمام‘ میں سارے ڈوبے ہوئے ہیں ____ اشتعال اور غصّے کا شکار تو اب قرآن جیسی پاک کتاب بھی ہونے لگی ہے، جس کے بارے میں کوئی بھی مسلمان ایک لفظ بھی سننے کو تیار نہیں ہے۔ اس پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے سچ الگ الگ ہیں …  ہاں، مدرسوں کی تعلیم میں راشٹریہ واد (وطن پرستی)کے سبق ضرور جوڑے جانے چاہئیں، جہاں پانی جیسے بھولے اور معصوم دماغ والے بچوں کو دینی تعلیم کے علاوہ یہ بھی بتانا چاہئے______ کہ ملک زیادہ اہم ہے … !  اور دیش پریم کیا ہوتا ہے … !

لیکن ’دیش پریم‘ کا مطلب وہ نہیں ہونا چاہئے، جیساکہ مسلمانوں سے امید کی جاتی ہے … یعنی آپ مسلسل پاکستان کو گالیاں دیجئے تو وفادار____مسلمانوں کو ایک نئی تعریف ڈھونڈھنی ہو گی۔ کیوں کہ آنے والے وقت میں دہشت گردی، حب الوطنی اور وفاداری سے متعلق انہیں کتنے ہی امتحانوں سے گزرنا باقی ہے۔

مسلمان مخالف بیانوں کا بڑھتا ’آتنک‘

کیا آپ نے غور کیا ہے____ پچھلے کچھ ایک مہینوں سے وزیر اعظم سے لے کر مودی، توگڑیا، نائیڈو اور آچاریہ گری راج کشور تک، جس طرح مسلمانوں کے خلاف بیان بازی کا سلسلہ شروع ہوا ہے وہ آزادی کے 56برسوں کی تاریخ پر ایک ایسا کلنک ہے، جسے نظر انداز کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ملک کی تاریخ میں ایسے حادثے کوئی پہلی بار نہیں ہو رہے ہیں۔ لیکن ہندو ’سائیکی‘ سے پیدا ہوئے ہیڈگوار ہوں …  شیاما پرشاد مکرجی، یا انڈمان کی جیل میں قیدی بنا کر بھیجے گئے ویر ساور کر____ یا جناح کے مسلم لیگی بیانات کا تلخ جواب دینے والے پٹیل ہوں۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ تب کی تاریخ اور ’سچ‘ مختلف تھا____ تب ہندوستان کا جسم غلام تھا …  اور گاندھی جی کی دو آنکھیں یعنی ہندو اور مسلمان کو تقسیم کرنے میں فرنگی سرکار نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ملک کی توڑ پھوڑ اور تقسیم کا مسئلہ اتنا خطرناک تھا کہ پاکستان، جناح، مسلم لیگ اور مسلمان …  نفرت کے مستحق سمجھ لئے گئے تھے۔

ملک کی تقسیم کی تاریخ کو بعد کی نسلیں بھی فراموش کرنے میں ناکام رہیں۔ گویا یہ اپنے آپ میں ایسا زخم تھا جس کا ذکر آتے ہی مسلمانوں کے لے ایک عجیب سی نفرت کا جذبہ پیدا ہوتا تھا____جن سنگھ اور جن سنگھ سے پیدا ہوئی  ہندو ’شاکھاؤں ‘ نے اسی نفرت بھرے تصور کو پروان چڑھایا …  لوگوں کو بھڑکایا …  دراصل یہ وہی فلسفہ تھا، جو خون آلودہ تقسیم کی کوکھ سے پیدا ہوا تھا …  شاید یہ سچ بھی جلد ہضم نہیں ہوسکا کہ بٹوارے سے پیدا ہوا ایک ملک تو اپنے کلچر اور تہذیب کو لے کر، ’’جمہوریت‘‘ اور سیکولرازم (جسے بعد میں نام نہاد سیکولرازم کا نام دیا گیا) کا دعویٰ ٹھوکتا رہا____ وہیں دوسرے ملک نے جمہوریہ اسلام کا ’ٹھپّہ‘ لگا کر رہی سہی وفاداری اور دوستی کی دیوار پر آخری کیل ٹھوک دی____ یہی نہیں جب اس جمہوریہ اسلام کہنے جانے والے ملک سے بنگلہ دیش الگ ہوا …  تب، اس دوسرے ملک پر بھی اسلامی ملک کا ٹھپّہ برقرار رہا____

پچھلے 56 برسوں میں وشوہندو پریشد، ہندو مہاسبھا، یا شیوسینا جیسی جماعتوں کے گلے سے اسلام کی ’ہڈی‘ نہیں نکلی ہے۔ آزادی کے بعد کی تاریخ میں پڑوسی ملک کے تعلق سے جب کبھی  مذہبی آزادی پر ’کلنک‘ جیسا کوئی بھی حادثہ سامنے آیا ہے، اسے فوراً اسلام سے یا مسلمانوں سے جوڑ کر دیکھا گیا ہے …  نتیجے کے طور پر نفرت کی آندھی کم ہونے کے بجائے بڑھتی چلی گئی ہے …

آزادی کے بعد جن سنگھ کی مسلسل شکست نے مسلمانوں اور سیکولرازم کے خلاف نیا مورچہ کھولنا شروع کیا۔ جن سنگھ کے نئے اوتار بھاجپا نے جن سنگھ سے سبق لیتے ہوئے نئے طریقے سے کام کرنا شروع کر دیا …  کام مشکل تھا۔ لیکن ٹھوس اور کامیاب نتیجہ دینے والا۔ اور جس رتھ کے مہارتھی اٹل بہاری، شری اڈوانی اور مرلی جی جیسے دانشور ہوں، وہاں ’صبر‘ انتظار اور راج کرو، کے نظرئیے خود ہی کام کرنے لگتے ہیں۔ رتھ یاترا، بابری مسجد یا متنازعہ ڈھانچے کے گرائے جانے کے بعد سے ہی ’نئے ہندوسمی کرن‘ بننے شروع ہو گئے تھے …  انہیں ’سمی کرنوں ‘ سے کٹیار،توگڑیا اور مودی جیسے تیز دھار والے بے لگام شمشیروں کی تخلیق ہوئی تھی۔اب یہ ایسے بے لگام گھوڑے بن چکے ہیں جن کی آواز اگر روکی نہیں گئی تو ملک کو ایک بار پھر سخت مصیبت سے گزرنا پڑسکتا ہے۔

ناموں کا چکّر

کہتے ہیں جرم کا کوئی مذہب، ایمان نہیں ہوتا …  مجرم نہ ہندو ہوتا ہے، نہ مسلمان …  مجرم کسی بھی ملک کی عدالت میں صرف مجرم ہی ہوتا ہے …  مجرم کی اس نئی سائیکی کے بارے میں دنیا کے سب سے بڑے مصنف شیکسپیئر کی بھی پہنچ نہیں تھی____ شاید اسی لئے شیکسپیئر کو کہنا پڑا تھا …  نام میں کیا رکھا ہے؟ آج نام میں بہت کچھ رکھا ہے۔

دہشت گردی کی تعریف آج بالکل ہی بدل دی گئی ہے۔ جو بھی ہے، سب کچھ نام میں ہے …  دوبئی کا داؤد ہو …  یا پرتگال میں پکڑا گیا ابوسالم …  مافیا اور انڈرورلڈ کے یہ مسلم نام اسلامی دہشت گردی کی علامت بن گئے ہیں۔

کیسی عجیب … مضحکہ خیز حقیقت ہے … مافیا سرغنہ چھوٹا راجن، چھوٹا راجن رہتے ہیں ____ لیکن چھوٹا شکیل، ابوسالیم یا داؤد مسلمان بن جاتے ہیں۔ ’نشیڑی‘ اور ’ٹیپ کانڈ‘ میں پکڑا گیا سنجے دت صرف ایک ایکٹر رہتا ہے____ اور جے پور کے ہرن تنازعہ یا حال میں کار ایکسیڈنٹ کرنے والا سلمان خاں ایکٹر سے مسلمان بن جاتا ہے۔کرکٹ سٹّہ اور جوئے میں ہندوستان سے ساؤتھ افریقہ تک بے شمار نام اچھالے جاتے ہیں لیکن کلونزرسے جڈیجہ اور مونگیا تک تنازعہ میں الجھے چہرے محض کرکٹر ہی رہتے ہیں۔ لیکن اسی سٹہ بازار کا شکار اظہرالدین مسلمان قرار دیا جاتا ہے____ کیوں ؟

دیکھا جائے تو نام میں بہت کچھ رکھا ہے____ جرم اور دہشت گردی کو قوم، برادری اور مذہب سے جوڑنا مناسب نہیں …  ایسا کرنا اپنے آپ میں جرم ہے____ اس سے پہلے کہ ناموں کا یہ چکّر بڑھتے بڑھتے نفرتوں کی نئی تاریخ لکھنا شروع کر دے، ان چھوٹی چھوٹی ’غلطیوں ‘ کی تلافی کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ جرم کو صرف جرم سمجھنے کی ذہنیت کو بڑھاوا ملنا چاہئے …  اخلاقیات سے ’مذہب کے ہاتھی دانت‘ نکال کر یہ بتانے کی کوشش ہونی چاہئے کہ اظہر ایک کرکٹر ہے۔ سلمان ایکٹر۔ داؤد یا کشمیر اور پاکستان انسپانسرڈ دہشت گرد، مسلمان یا اسلام سے جڑے لوگ نہیں ہیں۔ صرف مجرم ہیں۔

گجرات ہو یا بھاگلپور …  ملیانہ یا 1984ء کا سکھ ہندو دنگا …  دہشت گردی کیسے پیدا ہوتی ہے____ ہم دیکھ چکے ہیں۔ ناموں کے تنازعہ میں پھنس کر، بگڑتی ہوئی صورت حال اتنی خطرناک ہو جائے گی کہ مستقبل میں اس پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔

منظر3-

’’مردہ اسامہ زندہ اسامہ سے

زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے‘‘

حقیقت میں دیکھا جائے تو یہی ہو رہا ہے____ ’گمشدہ‘ اسامہ، اسلامی دہشت گردی کا نمونہ بن گیا ہے____ بُش اور امریکہ کی آنکھیں چاروں طرف اسے تلاش کرتی پھر رہی ہیں ____ اسی کا نتیجہ ہے کہ ورلڈ ٹریڈ ٹاور کی پہلی برسی منانے کے کافی دنوں بعد بھی امریکہ اور دوسرے مغربی ملکوں میں داڑھی والوں کو شک کی نگاہ سے دیکھے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ کمل ہاسن کو مسلمان سمجھ کر پکڑنا اور امریکہ میں عامر خاں کو پریشان کیا جانا اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔

دنیا کی یہ دوسری بڑی قوم نشانے پر ہے …  اور دہشت گرد ٹھہرائی جاچکی ہے …  10برسوں میں ’مسلمان‘ ہونے کا احساس کچھ زیادہ ہی زور پکڑتا چلا گیا ہے اور اب اسامہ بن لادن اور صدام کے نام کے ساتھ یہ ’مسلمان‘ نام کچھ ایسے خوفناک ہو چکے ہیں کہ آسٹریلیا، امریکہ اور انگلینڈ میں آئے دن ان دہشت گرد داڑھی والوں کو بیچ بازار میں پکڑ کر جان سے مارنے کی کارروائی چل رہی ہے …  مقصد صاف ہے …  دہشت گرد …  کو ماردو____ دہشت گردی خود ختم ہو جائے گی۔ لیکن دہشت گرد کون؟

مسلمان اور کون … ؟ مطلب پہلی گولی اسلام پر چلاؤ۔ مسلمان خود مر جائے گا۔

پچھلے دس برسوں میں دنیا کی اس سب سے بڑی قوم نے کسی بھی ملک میں، کسی بھی سطح پر کچھ بھی کہا یا کیا ہو____ میڈیا نے ہر بار ’مسلمان ‘ اور اسلام کو کچھ ایسے رنگوں میں پیش کیا ہے کہ پڑھے اور لکھتے ہوئے ہر بار مسلمان ہونے کی حیثیت سے تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ہے____تکلیف کا احساس تو ایک الگ بات ہے۔ ہندوستان کی اس 20کروڑ مسلمان آبادی کو، سامنے والے کی آنکھوں میں شک کی پرچھائیاں بھی نظر آنے لگی ہیں۔

 … آپ مسلمان ہو؟

ہاں بھائی ہاں،

 … تو مسلمان ایسے بھی ہوتے ہیں ؟

’یعنی‘ مسلمانوں کو کیسے ہونا چاہئے؟

 … ’نہیں ! میرا مقصد‘ …

میں سمجھاتا ہوں۔ میزائلیں … راکٹ لانچرس، اے کے 47- وغیرہ ہر وقت ہاتھوں میں لے کر گھومنا چاہئے …  تاکہ دور سے ہی انہیں دیکھ کر زمین جوتتا ہوا کسان تک چیخ اٹھے____ وہ جا رہا ہے مسلمان …  دہشت گرد …  ہے نہ؟ نیوز ویک ٹائمس سے لے کر انڈیا ٹوڈے جیسی میگزین دیکھ لیجئے۔ ہتھیار اٹھایا ہوا مسلمان …  توپ کے گولوں کے درمیان کھڑا مسلمان …  آگ لگاتا ہوا مسلمان۔ افغانی پہاڑیوں پر چوکس ہتھیار بند مسلمان …  چلاّتا ہوا مسلمان۔ پاکستان میں آئے دن خطرناک جلوسوں کی قیادت کرتا ہوا مسلمان …  کچھ عرصے پہلے ایک میگزین میں معصوم 16سال کی ایک بچی کی تصویر چھپی تھی۔ طالبان کے خلاف مورچہ پر، 14برس کی یاسمین …   بندوق اٹھائے ہوئے یاسیمین کی تصویر مسلمانوں کی نئی سمت کو صاف صاف بیان کرتی نظر آتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں کلاشنکوف اور گرینیڈ …  یہ تصویر سب کی نظروں میں آ چکی ہے۔ یعنی کل ملا کر طالبان بھی ہے مسلمان …  اور جو طالبان کے خلاف ہیں یا کھڑے کئے گئے ہیں وہ بھی مسلمان …  ناردن الائنس سے لے کر پاکستان اور عرب ملکوں تک مسلمان شک اور سوالوں کے گھیرے کھڑا ہے۔ امریکہ میں …  انگلینڈ میں …  ہندوستان میں …  پاکستان میں … ’وہ اسامہ اور صدام سے پہلے بھی شک کے گھیرے میں تھا اور اسامہ اور صدام کے بعد اس کا (مسلمان کا) چہرا اتنا بگاڑ دیا گیا ہے کہ وہ اب دور سے ہی دہشت گرد نظر آنے لگا ہے۔

تھوڑا تھوڑا کر کے مسلمانوں کی مخالفت اور زہر اگلنے کی کارروائی آج ایک بھیانک روپ لے چکی ہے۔ میڈیا نے ہر بار مسلمان اور اسلام کو غلط رنگوں میں پیش کیا ہے۔ پاکستان میں ’زانی‘ کو سنگسار، کرنے کا مسئلہ ہو …  بابری مسجد سے لے کر جنون یا مذہب کی کوئی بھی کارروائی ہو …  میچ فکسنگ یا اظہر کی بے ایمانیوں کی شہرت ہو …  ممبئی کا فساد ہو یا حاجی مستان …  کریم لالہ کی باتیں …  میڈیا کی سرخیوں میں اسلام آ جاتا ہے …  اور آدمی غائب ہو جاتا ہے۔ سماج اور مذہب پر انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں کا ذکر ہو تو سیمی سے القاعدہ تک …  ان تنظیموں کو میڈیا، اسلام سے کچھ اس انداز سے جوڑتا ہے کہ سڑک سے گزرنے والا معمولی مسلمان بھی دہشت گرد لگنے لگتا ہے____ دوسرے کے پھٹے میں پاؤں ڈالنے والا امریکہ خود اپنے ملک کا سروے کیوں نہیں کرتا، جہاں بلیک لبریشن آرمی، میچروز، دی آرڈر، جیوشن ڈفنس لیگ، پوج اومیکا 7 جیسی کتنی ہی دہشت گرد تنظیمیں سر اٹھائے اپنی کارروائیاں کئے جا رہی ہیں۔ پچھلی صدی ختم ہونے تک اور نئی صدی کے پہلے سورج طلوع ہونے تک ____فضا اسلام اور مسلمانوں کو لے کر خوفناک حد تک خراب ہو چکی تھی۔

سن 2002 کے جاتے جاتے صورت حال اتنی بھیانک ہے کہ آج کا مسلمان گویا بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے …  بُش سے مودی تک سب ایک ہی زبان بول رہے ہیں …  اسلام کو ختم کر دو۔ مسلمانوں کو مار ڈالو۔

اسلام، اسلام اور مسلمان

امریکہ سوچتا ہے کہ وہ تانا شاہ بن چکا ہے۔ یعنی ایسی طاقت جس پر فتح حاصل نہیں کی جا سکتی …  ایسی طاقت جسے کسی کے بھی خلاف استعمال کرسکتے ہیں ____ شعلوں میں گھرے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی طرف اچانک اپنے چھوٹے سے کیمرے کا رخ کرنے والے کے ہونٹوں سے ایک لفظ نکلا تھا …  شِٹ____ جلتے اور دھوئیں اگلتے ٹاور کی تصویر اپنے اپنے ٹی وی اسکرین پر جس کسی نے بھی دیکھی ہو، اس نے یہ لفظ ضرور سنا ہو گا …  یہ لفظ امریکہ کی اب تک کی غیر مفتوح طاقت پر ایک ایسا غیر جانبدارانہ تبصرہ ہے، جس پر امریکہ کو غور ضرور کرنا چاہئے۔ پہلی بار امریکی عوام کو بھی اس بات کا احساس ہوا____ کہ وہ بھی دوسرے ملکوں کے لوگوں کی طرح ہی معمولی انسان ہیں۔ جن پر حملے ہوسکتے ہیں۔

امریکہ جس کی ’فرعونیت‘ جاپان، کیوبا، ویت نام، نکرگوا، سومایہ، کوریا، عراق …  فلسطین سے نکل کر افغانستان تک پھیل گئی تھی____ ورلڈ ٹریڈ سینٹرپر حملے کے بعد اسی امریکہ کا سروے کیجئے تو اسامہ اور اینتھریکس کے خوف نے اس کی اصلیت کو ظاہر کر دیا ہے۔اس کی طاقت کے چیتھڑے اڑ چکے ہیں۔ امریکہ جو دوسرے کے گھروں میں سیندھ لگاتا پھرتا تھا اور دوسرے ملکوں میں ہونے والی ہر کارروائی کے بعد اس کی پہلی یہی تنقید ہوتی تھی کہ مجھے پہلے ہی سے سب کچھ پتہ تھا____ اس کی خفیہ ایجنسیوں کی پول بھی کھل چکی ہے۔

بُکر انعام یافتہ اروندھتی رائے نے اپنی ایک کتاب میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ امریکہ کے فوجی اور معاشی مرکز ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پنٹاگن پر حملے کیوں ہوئے۔ آزادی کی نشان اسٹیچو آف لبارٹی کو کیوں چھوڑ دیا گیا؟ یعنی یہ غصہ جمہوریت کی مخالفت میں نہیں ہے۔ بلکہ امریکی عوام کو سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا ان سے نفرت نہیں کرتی …  وہ امریکی حکومت کے طرز عمل سے نفرت کرتے ہیں۔

دیکھا جائے تو یہی بات اسلام پر عائد ہونی چاہئے …  دہشت گردی کی مخالفت ضرور ہونی چاہئے۔ لیکن اسلام کی نہیں۔ مذہب، عقیدے سے جڑا ایسا خزانہ ہے جس پر کھلے حملہ سے صورت حال بھیانک ہوسکتی ہے …  امریکہ کے ساتھ ساتھ باقی ملکوں کو بھی یہ بات اب سمجھ لینی چاہئے۔

سن 2003ء

سن 2003ء کی آندھی گزر چکی ہے …  نئی الفی کی شروعات نے زخم پر زخم دیئے جانے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، وہ جاری ہے …  گجرات حادثہ اور مودی کے ’جشن‘ کا طوفان ابھی تھما نہیں ہے۔ مسلمانو ں کو پریشان یا مشتعل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں، یہ محاسبہ کا دور ہے …  خوش فہمیوں کے جنگل سے باہر نکل کر ہمیں آنے والے وقت کو سمجھنا ہے …  گجرات کی فتح سے توگڑیا جیسے جاہلوں کو حوصلہ ملے گا، اس میں شک نہیں …  ہمیں، انہی لوگوں کے درمیان سے راستہ بنانا ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اچھے لوگوں سے دنیا کبھی خالی نہیں ہوئی ہے …  ہم سچے اور کھڑے ہیں تو لوگ ہماری حمایت میں ضرور آگے بڑھیں گے …

ارن دھتی رائے اور کچھ نئے پہلو

اردو میں تاریخی ناولوں کی ایک بڑی دنیا ہے۔ مغل بادشاہوں سے لے کر ان کے عروج،ان کے زوال، میر جعفر، میر قاسم اور سراج الدولہ تک____ تاریخی ناولوں کی کمی نہیں۔ (ابھی حال میں مصطفی کریم کا ناول ’’طوفانوں کی آہٹ‘‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے)یہاں ایسے تاریخی ناولوں کا تذکرہ میں نے جان بوجھ کر کیا ہے۔ ایسے ناولوں کے سہمے سہمے ہوئے ہندو کردار بار بار ایک محدود دائرہ کھینچ کر میرے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ چاہے اکبر بادشاہ کے دربار سے نکلے ہوئے کردار ہوں یا سراج الدولہ کے قریبی …  مجھے چاپلوسی میں ڈوبے، ان کرداروں کو بار بار پڑھتے ہوئے الجھن سی محسوس ہوئی ہے۔

مدتّ مدید کی تھکن اپنے وجود پر مسلط کرنے کے بعد، ایک انتہائی مہذب دنیا میں پہنچنے تک____ توگڑیا اور مودی جیسوں کی ’’نگہبانی‘‘ میں ____ ایسا لگتا ہے جیسے ایک بار پھر وہی پرانی کہانی شروع ہو گئی ہے۔ یہ جنگ اب صرف دو لوگوں کے درمیان ہے۔ ایک تاناشاہ ہے اور دوسرا مظلوم و محکوم …  ایک طرف اقلیت ہے تو دوسری طرف اکثریت۔ طاقتور اور کمزور کی لڑائی میں تمام دلیلیں، قاعدے قانون، اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد، سب کچھ جیسے طاق پر رکھا جا چکا ہے۔گلوبلائیزیشن کے اس عہد میں، سامراج واد کی آڑ میں اب یہی کھیل بُش اور بلئیر مل کر کھیل رہیں ہیں۔

۱۳؍مئی ۲۰۰۳ء نیویارک کے ریور سائڈ چرچ میں ارن دھتی رائے نے جو بیان دیا وہ خاصا اہمیت کا حامل ہے۔

’’ہم وقت کے ایسے دوڑ سے گزر رہے ہیں جب ہمیں یہ جاننے کے لئے بھی ایک دور میں شامل ہونا پڑ رہا ہے کہ کتنی تیزی سے ہماری آزادی چھینی جا رہی ہے۔ ایسے دور میں کچھ وقت کے لئے ہی سہی، اس دوڑ سے الگ ہونے اور اس طرح کے تمام واقعات، حادثات سے مکمل ’پولیٹیکل‘ تھیسس لے کر لوٹنے کا جوکھم چند لوگ ہی اٹھا سکتے ہیں۔ میں آج کی رات بھلا آپ کو کیا تحفہ دے سکتی ہوں۔ ہم ایک مشکل دور سے دوسرے مشکل دور کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ جنہیں سیٹلائٹ اور ٹی وی میڈیا لگاتار ہمارے دماغوں میں بھرنے کا کام کر رہی ہے۔ لیکن ہمیں اپنی زمین کے بارے میں غور کرنا ہے، سوچنا ہے____ ہم جنگ کے ملبے سے ہوتے ہوئے تاریخ کے دروازے میں داخل ہوتے ہیں۔ کتنے شہر ختم ہو گئے____کھیت سوکھ گئے، جنگل کٹتے جا رہے ہیں کتنی ہی ندیاں تاریخ کا حصہ بنتی جا رہی ہیں۔ کتنی ہی عظیم الشان لائبریریوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے گئے …  تو بھلا آج کی رات میں آپ کو کیا تحفہ دے سکتی ہوں۔ دولت، جنگ، سامراج، نسل کشی اور جمہوریت کے بارے میں کچھ منتشر خیالات …  کچھ ایسی فکر جو پتنگوں کی طرح میرے دماغ کے ارد گرد گھومتی ہیں اور مجھے راتوں کو جگائے رکھتی ہیں۔ ممکن ہے میری بات آپ کو اچھی نہیں لگے____ ممکن ہے مہذب دنیا کو یہ پسند نہیں آئے کہ ایک بھارتی شہری یہاں آ کر امریکی سامراج واد پر تنقید کرے۔ میں اپنے بارے میں نہ کوئی پرچم لہرانے آئی ہوں، نہ ہی کوئی حب الوطنی کا گیت گانے …  میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ ہر ملک، ہر صوبہ اور ہر ریاست کی مرتی ہوئی آتما پر آج ظلم اور دوغلے پن کا راج ہے____ لیکن جب ایک ملک صرف ایک ملک نہ رہ کر سامراج بن جائے تو تحریک کا معیار ڈرامائی طریقے سے بدل جاتا ہے____ میں بتانا چاہتی ہوں کہ آج میں ____ امریکی سامراج کے، ایک غلام کی حیثیت سے بول رہی ہوں ____ ایک ایسا غلام جو اپنے بادشاہ کا قصیدہ نہیں پڑھنا چاہتا بلکہ اس کے ظلم کے خلاف احتجاج کرنا چاہتا ہے۔‘‘

                                                ____ ارن دھتی رائے

حقیقتاً جب ایک ملک،ایک ملک نہ رہ کر، عظیم الشان سامراج بن جائے تو تحریک کا معیار ہی ڈرامائی انداز سے تبدیل ہو جاتا ہے۔ مجھے کچھ یہی حال اپنے یہاں مسلمانوں کا نظر آتا ہے۔منطق مت دیجئے____ ابھی حال میں ہندی کے مشہور رسالہ ’’کتھا دیش‘ ‘میں، دیئے گئے ایک انٹرویو میں مشہور ہندی افسانہ نگار  پرینود نے اس دکھ کو گہرائی سے محسوس کیا ہے …

’’آپ اقلیت میں ہوتے تو جانتے کہ اقلیت میں ہونا کیا ہوتا ہے۔‘‘

جی ہاں ! … بہت بھیانک____ جیسے کسی بھی موسم میں ترشول لئے سنگھیوں کا آپ کی پیشانی پر مسلمان ہونا پڑھ لیا جانا …  بسوں میں اردو کتابوں چھپاتے ہوئے … پاکستان پر بار بار غیر ضروری طریقوں سے اپنا بچاؤ کرنا____ ہند و پاک کرکٹ کا میچ ہویا کہیں بھی ہونے والا فدائین حملہ …  آپ نہیں جانتے کہ اقلیت میں ہونا کیا ہوتا ہے؟ آپ نہیں جانتے کہ غلام ہونا کیا ہوتا ہے؟ ارن دھتی نیویارک کے ریورس سائیڈ چرچ میں غلام بن گئی تھیں ____ مسلمان گودھرا سے پیدا شدہ سچ کے بعد کچھ ایسا ہی محسوس کر رہے ہیں۔

تقسیم ایک پڑاؤ تھا …  اب ایک اہم پڑاؤ گودھرا بن گیا ہے۔مسلمان آنے والے وقت میں بھی اس پڑاؤ سے گزرے بغیر آگے نہیں جا سکتے …  مہیش مانجریکر کی حالیہ فلم ’’پران جائے پر شان نہ جائے‘‘ میں ایک مسلم غریب کردار ایک ہندو کے منہ سے بار بار پاکستانی کہے جانے پر چیختا ہے …  ’’سالے۔۔۔ورلڈ ٹریڈٹاور میں ہوائی جہاز گھستا ہے تب بھی یہاں آ کر ہم سے پوچھتے ہو جیسے ہم نے ہی گھسایا ہے۔‘‘

اصلیت یہی ہے کہ آپ اقلیت میں ہوتے تو جانتے کہ اقلیت ہونا کیا ہوتا ہے۔ تقسیم کے بعد سے لے کر اب تک میں نے پتہ نہیں اپنے کتنے مضامین میں اس لفظ اقلیت کے خلاف اپنا احتجاج درج کرایا ہے۔مجھے شروع سے ہی اقلیتی کمیشن جیسے اداروں سے خداواسطے کا بیر رہا ہے۔ میری اپنی منطق تھی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 20کروڑ سے کم نہیں اور اتنی بڑی آبادی اقلیت نہیں ہوسکتی۔ اسے دوسری بڑی اکثریت کا نام دینا چاہئے۔مجھے احساس تھا کہ محض دوسری بڑی اکثریت کے اعلان کے انجکشن سے، ہمارے بہت سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں لیکن شائد میں غلطی پر تھا۔

گودھرا کانڈ کے بعد جیسے ساری حقیقتیں بدل گئی۔ مودی کا ہندوتو چمکا …  گجرات ہندوتو کی پہلی لیبارٹری بنا …  وی ایچ پی، بجرنگ دل جیسی ہندو تنظیموں کی نفرتیں کھل کر سامنے آئیں …  توگڑیا کا ترشول گھر گھر پہنچا …  ملک میں اس سے پہلے بھی فسادہوتے رہے لیکن نفرت کی ایسی کہانی کا جنم پہلی بار ہوا تھا …  کیا تاریخ خود کو دھرا رہی تھی؟ تہذیبوں کی تاریخیں بدلی تھی …  نئی دنیا میں مہذب ہونے کا ایک ہی مطلب تھا …  طاقتور ہونا____ ہم نے یہ بھی جانا کہ اصول،قاعدے قانون اقلیتوں کے پاس نہیں ہوتے____ طاقتوروں کے پاس ہوتے ہیں۔ ہزاروں چشم دید گواہوں کے باوجود مودی یا توگڑیا پر کوئی پوٹا کوئی قانون نافذ نہیں ہوتا____ چاروں طرف بارش کی طرف برستے ہوئے مکالمے ایک نئی نفسیاتی کہانی کا سبب بن جاتے ہیں جس کے پہلے صفحے پر لکھا ہوتا ہے____ کہ ’’آپ کو بزدل بن کر جینا ہے‘‘ …  یہی نفسیات ارن دھتی کو نیویارک میں غلام بنا دیتی ہے اور اسی نفسیات سے گزرتے ہوئے مسلمان بدلے بدلے سے ماحول میں خود کو غلامی کے گہرے کنویں میں قید محسوس کرتا ہے۔

               (2)

               بُرے وقت کے اداس موسم میں

تو قارئین! بُرے وقت کے اداس موسم میں یہ کتاب آپ تک پہنچاتے ہوئے مجھے ذرا سی بھی خوشی نہیں ہے۔

میں گہرے صدمات کے ریگستان میں پانی کی ایک بوند تلاش کر رہا ہوں ____ بُرے موسم میں تو سب کچھ خاک ہو گیا۔

پیارے خالد جاوید، یہ تم پر ہی منحصر تھا کہ تم ہی بُرے موسم کی تخلیق کرسکتے تھے۔ مجھے تو نئی صدی کے ان تین برسوں نے  بے حد اداس کر دیا ہے۔ اداس اور مغموم …

لینڈاسکیپ کے گھوڑے …  یہ گھوڑے میرے دوست اور پاکستان کے مشہور فنکار اس۔ال۔حسین نے بنائے تھے۔ دو گھوڑے۔ ایک ہندستان اور ایک پاکستان …

تقسیم کے 56برسوں میں آج بھی یہ گھوڑے مختلف دشاؤں میں دوڑ رہے ہیں۔ مجھے ان گھوڑوں کے تعلق سے بار بار جوناتھن سوئفٹ کے گھوڑوں کی یاد آتی ہے۔ جب گولیور گھوڑوں کے دیس پہنچتا ہے تو گھوڑے، اس کے کمزور ’انسانی‘ سراپا پر تحقیر آمیز نظر ڈالتے ہوئے کہتے ہیں۔ مجھے دیکھو اور اپنے آپ کو دیکھو۔ یہ تمہارے بے ڈول ہاتھ پاؤں …  تم سچ مچ کمتر ہو …

گھوڑے سچ مچ عظیم ہیں …

اور انسان تو امریکہ سے گودھرا اور گجرات تک اپنی کمینگی ظاہر کر چکا ہے …  اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ ابھی بھی ٹھہرا نہیں ہے …

میں بھی کہاں ٹھہرا ہوں۔

یہ پاگل کر دینے والا سناٹا مجھ سے کہتا ہے____ لکھو، تو ہاتھ شل ہے۔ قلم میں طاقت نہیں …

دنیا کی باتیں تو بہت ہو گئیں …

لیکن ابھی میری اپنی باتیں باقی ہیں …

ان تین برسوں میں بُرے موسم کی زد پر، میں بھی رہا ہوں۔ تین سال پہلے    ’’سناٹے میں تارا‘ لکھتے ہوئے، میں انتہائی فخر کے عالم میں اپنے فرشتہ جیسے باپ      مشکور عالم بصیری کے قصیدے پڑھ رہا تھا۔

اور اب یہ قلم خاموش ہے … وہ مہربان شفیق چہروں والا باپ 6؍مئی، 2001 کی صبح، بادلوں کے کچھ بے حد حسین ٹکروں کے بیچ ہمیشہ کے لئے گم ہو گیا۔

ایک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے …

6؍مئی 2001ء کو ابی کا انتقال ہوا اور اس کے ٹھیک 16دنوں بعد میرے صدمے کو کم کرنے کے لئے، میری بٹیا اس دنیا میں آ گئی____ صحیفہ، انعمۃ۔ دو دو نام رکھے بٹیا کے …

لگا، ابا کی واپسی ہو گئی ہے بٹیا میں …

وہی چہرہ، وہی وظیفہ پڑھنے والی انگلیاں ____

چہرے پر کھیلتی وہی مسکراہٹ____

مگر یہ مسکراہٹ تو فریب ہے۔ وقت کا دھوکہ ہے …

ابا پھر ایک بار لوٹ گئے۔

اﷲ کی نعمتیں کام نہیں آئیں۔

6؍جولائی 2003کی صبح بٹیا نے بھی رخصت سفر باندھ لیا____

6؍مئی ابا گئے تھے۔

6؍جولائی بٹیا …

6؍دسمبربابری مسجد شہید ہوئی تھی …

گہرے سناٹے میں ہوں …

اور اس سناٹے میں چپکے چپکے کچھ آوازیں مجھے گھیرے رہی ہیں …

میں …  وقت سے ٹوٹے ایک ذرا سے لمحے کا بھی حساب رکھنے والا____

میں … گھر کے ویران سے گوشے میں تنہائیوں کو خط لکھنے والا ____

میں … پُراسرار خوبصورت رات کو آنکھوں سے نیندیں چرانے والا____

میں … خاموشی اور سناٹے سے نکلے نغموں کا شیدائی____

میں … پت جھڑ کے دکھ سمجھنے والا____

میں … موسم بہار کی راگنی اور اس کے الاپ پر مست مست ہو جانے والا____

میں … تصورات کی  وادیوں سے نت نئے خواب چرانے والا____

میں … ایسے ہر خواب سے کہانیاں بُننے والا____

میں …

لیکن دوستو۔ اب یہ میں کہیں نہیں ہے۔ یہ میں تو رخصت ہو چکا ہے____ یہ میں، اب مجھ میں کہیں نہیں ہے۔ مجھے ڈھونڈھنے پر بھی نہیں ملتا۔ نئی صدی کے ان تین برسوں کے پت جھڑ نے مجھے ایک بے حد اداس ’ٹھونٹھ‘ میں بدل دیا ہے …

گودھرا سے گجرات، امریکہ سے عراق تک، تاریخ صرف اپنی بربادی کے قصّے ہی رقم کرتی رہی ہے …

تاریخ جیسے گونگی ہے____ جسے اپنے آپ کو ڈھنگ سے دُہرانا بھی نہیں آتا____ جوہر برس، ہر لمحہ گزرنے کے ساتھ زیادہ بے رحم اور زیادہ سفاّک ہوتی جا رہی ہے۔

میں تاریخ کے ایسے بے رحم صفحوں پر___ اپنے لئے جائے پناہ تلاش نہیں کرسکتا___

میں تو ایک معصوم سا ادیب ہوں۔ مظلوم، حساس، اور جذباتی …

میں تاریخ کے ایسے ہر حملے میں،ہر بار لہو لہو ہوا ہوں ____

 … ہر بار مرا ہوں

 … ہر بار زندہ ہوا ہوں

اور اب بھی لکھی جانے والی تاریخ کے، یہ بے رحم تھپیڑے کھانے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے …

مگر ان آنکھوں کا کیا کروں۔

یہ آنکھیں جو خوش رنگ منظروں کا واسطہ مانگتی ہیں۔

یہ آنکھیں، جو ماضی کی سنہری گم شدہ چاندنیوں کی واپسی چاہتی ہیں …

یہ آنکھیں جو صحیفہ مانگتی ہیں ____

 یہ آنکھیں جو شفیق مہربان چہروں والا باپ اور انعمۃ مانگتی ہیں ____

یہ آنکھیں صرف خوابوں میں ’زندہ‘ ہیں ____

یا خوابوں میں الجھ کر رہ گئی ہیں ____

اب سڑکوں پر ’وچار دھارائیں ‘ مرتی ہیں ____

            آئیڈ یالوجی مرتی ہے____

بیچ چوراہے  پرکسی ’تحریک‘ کو جوتوں سے پیٹا جاتا ہے____

کوئی دلیل اپنی موت آپ مرجاتی ہے____

سیاست کے گندے تالاب میں منطقوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ____صرف مہرے چلنے اور پیٹنے کا کھیل رہ گیا ہے____

آپ کو صرف اتنا کرنا ہے____

کہ اپنے آدمی ہونے کا لباس اتار دینا ہے____

آپ کو آدمی نہیں رہنا ہے____

٭٭٭

 

سناٹے میں تارا۔2

(اپنی کہانیوں کے حوالے سے)

               (1)

               کہانی کا پہلا چہرہ

’’تمہارے ہاتھوں پر

ناچتی رہی ہے

ناچتی رہی ہے

یہ دُنیا‘

 —  — ناظم حکمت

پہلی بار یہ دنیا میرے ہاتھوں پر کب ناچی تھی، یاد نہیں  —  —

پہلی بار یہ دنیا میرے اشاروں پر کب جھومی تھی، یاد نہیں  —  —

پہلی بار یہ دنیا میرے اندر کب مسکرائی تھی، یاد نہیں  —  —

کیوں یاد نہیں۔ میں تو وقت سے ٹوٹے ایک ذراسے لمحے کا بھی حساب رکھا کرتا تھا۔ میں گھر کے ایک ویران سے گوشے میں تنہائیوں کو خط لکھنے والا، میں پر اسرار،خوبصورت رات کی آنکھوں سے نیندیں چرانے والا، میں خاموشی اور سناٹے سے نکلے نغموں کا شیدائی، میں پت جھڑ کے دکھ سمجھنے والا، اور میں موسم بہار اور اس کی راگنی کے الاپ پر مست مست ہو جانے والا …  میں، تصورات کی وادیوں سے خواب چرانے، مجھے حال سے کم اور ماضی سے زیادہ پیار رہا  —   مجھے عالیشان کوٹھیاں راس نہیں آئیں، ہاں، کھنڈرات کی ویرانیوں نے مجھے قدم قدم پہ سحر زدہ کیا۔ سوچتا ہوں، پہلی بار یہ دنیا میرے ہاتھوں پر کب ناچی تھی، کیوں یاد نہیں  —  — ؟

یادوں کے پتھریلے راستوں سے گزرتا ہوں تو ایک چھوٹاسا، حسین سا شہر نظر آتا ہے  —   آرہ  —   مجھے سب کچھ یاد آ رہا ہے۔ یہ بھی، کہ پہلی بار یہ دنیا میرے اندر کب مسکرائی تھی —

شاید، میں کچھ بھی نہیں بھولا۔ شاید مجھے سب کچھ یاد ہے …  عمر کے پاؤں پاؤں چلتے ہوئے جلتے ریگستان میں میری 37بہاریں اور 37 خزائیں جل کر خاکستر ہو گئیں  —   اور کتنی بہاریں بچی ہیں ؟ اور کتنی خزائیں ؟ ان کا حساب رکھنا نہیں چاہتا  —   میں، جس کا ہر ایک لمحہ ادب کی آغوش میں گزرا، آج محاسبہ کے پل صراط سے گزر رہا ہوں، کہ میرے یار ذوقی، ادب کی اس منڈی میں، تم نے حاصل کیا، کیا؟ تو سوائے مسکرانے کے میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے —

مجھے شکوہ نہیں کہ ادب نے مجھے کیا دیا۔ مجھے بہت کچھ دیا ہے  —   مجھے ایک حسین زندگی عطا کی ہے  —   اس زندگی کو میں اپنے طور پر سوچتا ہوں، محسوس کرتا ہوں، اور اپنے سانچے میں اتار تا ہوں  —   میں ان میں نئے فلسفوں کی آمیزش کرتا ہوں۔ میں کچھ چلتے پھرتے زندہ کرداروں کو دوست بناتا ہوں، ان میں بیٹھتا ہوں، مسکراتا ہوں  —   میں آنکھیں بند کرتا ہوں، اور جیمس جوائز کے ڈبلن کی طرح، اس مہانگر میں میرا شہر آرہ میری آنکھوں میں زندہ ہو جاتا ہے۔ مچلتا ہے، مسکراتا ہے، شوخیاں کرتا ہے اور مجھے لکھنے کے لیے بے چین کرتا ہے  —   پھر یہ شہر کبھی میری فکر، کبھی میرا ذہن کبھی میرا قلم بن جاتا ہے —

میں لکھنے بیٹھتا ہوں …  اور عمر کے برسوں پیچھے چھوٹا ہوا ایک ننھا منا شاہزادہ میری انگلیوں کو تھام لیتا ہے —

مسٹر دوستوفسکی مسکراتے ہوئے مجھ سے کہتے ہیں  —   آہ، یہ بھی تم ہو!

عمر کے گھوڑے دوڑاتا میں آج کی شاہراہ پر واپس آتا ہوں تو یہاں بھی ایک ننھا منا شاہزادہ ہوتا ہے —

میری ہی طرح الجھے الجھے بال —

آنکھوں میں بے پناہ چمک …  شوخیاں بھی۔ شرارت بھی۔ذہانت بھی۔

وہ مسکراتا ہے، تو میری اپنی ہی کھوئی ہوئی مسکراہٹ دوبارہ میری آنکھوں میں واپس آ جاتی ہے  …

اس کے پیر تھرکتے ہیں، تو گم شدہ شوخیوں کے ماہ وسال، عمر مجھے واپس کر دیتی ہے۔

وہ بولتا ہے تو انا کی چنگاریاں جیسے ایک بار پھر مجھے جلانے کے لیے تیار ہو جاتی ہیں۔

مسٹر دوستو فسکی مسکراتے ہوئے کہتے ہیں  — ’یہ ساشا نہیں۔ آہ، یہ بھی تم ہو — ‘

کن فیکون  —   دنیا ہر روز بن رہی ہے  —   تم کہیں گئے ہی نہیں۔ اس لیے تم گم بھی نہیں ہوئے۔ تم میں ایک بے چین آتما کانواس رہا  —   اور   —   تم آئے، تم نے دیکھا اور تم نے فتح کیا —

لیکن کیا فتح کیا تھا میں نے ؟ میں جو بچپن کے، چھوٹے چھوٹے کھیلوں میں ہار جاتا تھا۔ اپنی ہی عمر کے چھوٹے چھوٹے بچوں سے۔ میں بار بار ہارتا تھا۔ یا ہر بار ہارتا تھا  —   لیکن شکست سے گھبراتا نہیں تھا  —   بچپن سے کھیل  —   بچپن کی شرارتیں۔ کب اس ماحول میں میرے ہاتھوں میں قلم آ گیا، نہیں جانتا —

اسی لیے، آج کل (نومبر 1992) کے ایک شمارہ میں اپنی کہانیوں کا ذکر کرتے ہوئے میں نے لکھا  ؎

’’آنکھیں کھولیں تو ابا حضور جناب مشکور عالم بصیری کی شفقتوں بھرا آسمان تھا اور اٹھتے بیٹھتے شیکسپئر، ملٹن، غالب و اقبال کی صدائیں تھیں، پھر جب لڑکپن کی حد شروع ہوئی تو دوسرے لڑکوں کی طرح میں نے بھی کھیل کود میں دلچسپی لینی چاہی۔ لٹو، گلی ڈنڈا، گولی سے لے کر کرکٹ، ہاکی، فٹ بال اور والی بال تک، مگر یہ کیا، آس پاس کے معمولی بچوں سے بھی میں شکست کھا جاتا، دل میں یہ خیال آتا کہ میں کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ ہر بار کھیل میں، میں ہار جاتا ہوں۔ یہ بار بار کی شکست کا صدمہ کچھ ایسا تھا کہ ہاتھوں میں قلم اٹھا لیا۔ اب نہیں ہاروں گا۔ صرف جیتوں گا۔ تب سے اب تک پریم چند کی اس بات پر عمل کرتا رہا ہوں کہ ادب تو مزدور کی طرح ہر دن مزدوری کرتا ہے۔ یہی کمنٹمنٹ تب سے اب تک بنا ہوا ہے۔‘‘

                                      —   نومبر۔1992 (آج کل)

تبسم مجھ سے پوچھتی ہے۔ اتنا کیوں لکھتے ہو؟ پھر دھیرے سے مسکراتی ہے  —   ’’لڑتے رہتے ہو ساری دنیا سے۔ اب میں تمہیں کبھی لڑنے نہیں دوں گی مصلحت کے چراغ کیوں نہیں جلاتے؟ دوسروں کی طرح کیوں نہیں بن جاتے — ‘‘

کیسے کہوں، کہ بس، یہی مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ میں دوسروں کی طرح نہیں بن سکتا۔ ادب میرے لیے زندگی سے زیادہ ہے  —   ادب میں، میں مصلحت کے چراغ نہیں جلا سکتا —

بس وہی اک کمٹمنٹ  —   ساری ساری رات …  میں اپنی ہی کہانیوں میں اتر رہا ہوں …  مجھے روکو مجھے سنبھالو، میری آنکھیں گم ہو رہی ہیں۔

سوچتا ہوں، یہ سب کیوں لکھ رہا ہوں۔ لیکن شاید، آنے والی نسلوں کو اس کی ضرورت محسوس ہو۔ اس لیے کہ میں نے ادب جیا ہے۔ میرا ہر پل ادب میں گزرا ہے …  ماضی میرا سرمایہ ہے۔ اور کھویا ہوا بچپن میرے لیے ایک ناقابل فراموش حادثہ  —

بچپن میرے لیے ہر بار ایسا تھا، جیسے خواب نئے نئے پیر ہن اتار اور بدل رہے ہیں  —   ہر بار ایک نیا لباس  —   ایک گھر تھا جو کوٹھی کے نام سے مشہور اور باہر کے راستے بچپن کے شرارتی قدموں کے لیے بند …  باہر کی دنیا، اور دنیا کی رنگینیاں تصور کی آنکھوں سے دیکھتا تھا۔ انتہائی کم عمری میں قلم کو ہی اپنا ہمدم وہمساز بنا لیا …  آج جب گنتر گراس The Tin drum لکھتا ہے اور اپنے وطن کی ڈانزگ کے (Danzig) محبت کے قصے بیان کرتا ہے، جوائز ڈبلن شہر کے گیت گاتا ہے۔ روسی مصنفوں کی تصنیف میں ان کا شہر ہنستا گاتا ہے، گبریل گار سیا مارکیز One hundred years of solitude اور اپنی دیگر کتابوں میں اپنے شہر، اپنے لوگوں کو زندہ کرتا ہے تو مجھے تعجب نہیں ہوتا —

دلی میں 1985 میں آیا۔ 85 تک اور 85 کے بعد آج تک میری کہانیوں میں میرا شہر آرہ زندہ رہا ہے۔ شہر آرہ کے مختلف کردار الگ الگ بھیس بدل کر میری کہانیوں میں زندہ ہوتے رہے۔ خاص کر ان کہانیوں میں، جو میں 85کے آس پاس لکھ چکا تھا۔ ان میں زیادہ تر کہانیاں ایسی ہیں، جس میں میرا شہر ہے، میرے اپنے ہیں اور میرے احساس ہیں  —

یہ میری کہانیوں کا پہلا چہرہ تھا، اس چہرے کو دکھانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ میرا ہر پل محاسبہ اور تجزیہ سے گزرتا رہا ہے  —   اس طرح، میری کہانیوں کے کئی چہرے رہے۔ ایک چہرہ جس میں میرا شہر زندہ رہا، ایک چہرہ جہاں جدید تر ہونے کی بھول بھلیاں میں، میں نے آڑی ترچھی تجریدی کہانیاں بھی لکھیں …  میں نے با وضو ہو کر ’’اساطیر‘‘ کے بطن سے بھی کہانیاں چرائیں  —   پھر ایک نیا چہرہ میری کہانیوں میں جنما  —   یعنی میں ترقی پسندی کی کھردری، دھوپ کی تمازت سے جلتی شاہراہ پر چلتا گیا  —   مگر آہ! سیاست یہاں بھی گرم تھی  —   اور میں Idealogy کے نازک سے شیشہ کو سینے سے چمٹائے رکھنا چاہتا تھا  —   میں جل رہا تھا، گم ہو رہا تھا …  محنت سے لکھی جانے والی کہانیوں کو انعام کیا ملتا، ایک طرف نہ جدیدیے انہیں اپنا نے کے لیے تیار تھے نہ ترقی پسندوں کی سیاست انہیں پسند کرنے پر آمادہ  —   سب اپنی اپنی ہانک رہے تھے —

1999کے آس پاس میں جیسے بھیانک خواب سے جاگا  —   اور میں نے اپنا محاکمہ کیا —

  —   مسٹر دوستو فسکی،کیا تم میری آواز سن رہے ہو؟

  —   آہ نہیں، تم سوچکے ہو اس لیے کہ روسی سلطنت کے کنگرے گر گئے۔ لینن کا بت ٹوٹ گیا —

 — مسٹر دوستو فسکی، تمہارے کراموزوف برادر کیا کہتے ہیں۔ کیا تم میری آواز سن رہے ہو۔ کیا تم اب روس کی اس تقسیم پر کرائم اینڈ پنشمنٹ لکھ سکتے ہو؟

  —   آہ، مسٹر دوستو فسکی، تم مجھے سن کیوں نہیں رہے، تمہاری آواز مجھ سے دور کیوں جا رہی ہے؟

دوستو فسکی میرا آئیڈیل تھا اور سن 1999یعنی ملینیم کے خاتمہ اور بیسویں صدی کے آخری برس مجھے ایسا کیوں لگا کہ میرے برسوں سے آئیڈیل کی تصویر دھندلی دھندلی ہونے لگی ہے  —   میں اس تصویر کی شناخت نہیں کر پا ے کرہا ہوں۔ یہ تصویر آہستہ آہستہ میری نگاہوں سے اوجھل ہونے لگی ہے۔

ll

کہانیوں کا پہلا چہرہ؟ بچپن کی شوخیاں، سر مستیاں  —   جی چاہتا ہے، ان کی کچھ جھلک آپ کو دکھاتا چلوں …  لیکن اسے کیوں دیکھیں گے؟ ایک گمنام سا ادیب، سیاست بازی کے اس عہد میں سب سے پچھڑا ہوا، یگانہ …  گوشہ نشیں …  جس کے پاس اپنے Projection کے لیے بھی کچھ نہیں۔

کیوں سلیم شیرازی؟ ٹھیک کہانا؟

بچپن کے کسی گلیمر بھرے لہجے میں جب بھی خود سے مخاطب ہونے کو دل چاہتا خود کو اسی نام سے مخاطب کرتا —

کیوں سلیم شیرازی؟ تم تو لگاتار ہار رہے ہو؟

ہارتے جا رہے ہو؟

تو سلیم شیرازی، بچپن کے یہ قصے بھی ضروری ہیں کہ ان کے بغیر میری کہانیاں ادھوری ہیں  —   اور تم زمانہ نہیں ہو …  اردو والوں کی بھیڑ نہیں ہو۔ میں چاہتا ہوں مجھے سمجھا جائے۔ اس لیے کہ اب رات اتر رہی ہے …  رات دھیرے دھیرے اترتی جا رہی ہے —

تو سلیم شیرازی ایک دن اچانک گم ہو جاتی ہے۔ لیکن کہانیاں زندہ رہتی ہیں  —

                (2)

               بچپن، امرود کا پیڑ اور کہانیاں

اپنے اندر جھانکوں تو جیسے شرمیلے پن کی عمر پاؤں پاؤں پیچھے چلتی ہوئی ماں کی اسی اندھی کوکھ میں اتر جاتی ہے …

مسٹر اسلم شیرازی تم پیدا ہوئے تبھی سب شرمیلے تھے …

شرمیلے ہونے کی ایک سے بڑھ کر ایک کہانیاں  —   مجھے اپنے ہونے پر شرم آتی تھی …  مجھے لیٹرین یا پاخانے جانے پر شرم آتی ہے …  ایسے موقع پر مجھے اپنا حلیہ دیکھنے پر شرم آتی تھی …  مجھے گھر کے باہر لٹکے ہوئے ٹاٹ کے پردے کو دیکھ کر شرم آتی تھی …  مجھے ٹوٹی ہوئی سیڑھیاں جھڑتی ہوئی قلعی، ٹوٹی ہوئی محرابوں کو دیکھ کر شرم آتی تھی …  مجھے مہمانوں سے شرم آتی تھی …  مجھے ان کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھتے ہوئے شرم آتی تھی …  مجھے اسکول جانے میں شرم آتی تھی …  مجھے بہت سارے …  بہت سارے بچوں کے ساتھ بیٹھتے ہوئے شرم آتی تھی …  مجھے ان بچوں سے باتیں کرتے ہوئے شرم آتی تھی …

  —   مجھے شرم آتی تھی، اس لیے کہ میں تیز بولتا تھا …

اس لیے کہ یہ خیال کھائے جاتا تھا …  کہ کسی کو میری آواز سمجھ میں آتی ہے یا نہیں۔

بچے میری آواز نہ سمجھ پانے کے جرم میں قہقہہ بکھیرتے، تب بھی مجھے بڑی زور کی شرم آتی …

مجھے شرم آتی تھی کہ اپنے خیالوں میں، میں دنیا کا سب سے حسین اور خوبصورت بچہ تھا …

مجھے شرم آتی تھی کہ ملنے والا ہر شخص، شاہراہ سے گزرنے والا راہگیر مجھے غور سے دیکھ رہا ہوتا تھا …  اس کی آنکھیں میری پیٹھ پر جمی ہوتی تھیں …  اور اس چبھن کے ساتھ ہی میرے پاؤں کے زاویے بدل جاتے …  قدموں میں لرزش آ جاتی …

یہ رنگ ہر پل، ہر لمحہ کسی نہ کسی نئی حسین کہانی کے جنم داتا بن جاتے …  یہ رنگ مجھے اپنی ہی آنکھوں کا ساحر بنا دیتا …

اور یہ رنگ مجھے اپنی ہی آنکھوں میں گرا دیتا …

میں اپنے شرمیلے رنگ میں، عمر کی نازک ننھی سیڑھیوں پرا پنی ہم عمر لڑکیوں میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑ چکا تھا …  تنہائی کے ایسے ایسے گوشے مجھے میسر تھے جہاں گھر کے کسی بھی شخص کی نگاہیں سفر نہیں کرسکتی تھیں …  اور میں ان لمحات کا فائدہ اٹھایا کرتا …

میں بہت کچھ سیکھ رہا تھا —

بہت کچھ نیا —

بہت کچھ جس سے میرے ہاتھ سماج میں جینے والے بچے شاید انجان رہتے ہوں …

من مور ساناچے …

من پپیہے سا بولے

من کوئل سا کوکے …

من مور سا لہرائے …

من …

اسلم شیرازی، ممکن ہے، بچپن میں تم نے بد تمیزیاں کی ہوں مگر داستان کی یہ گندی پوٹلی کھول کر کیوں بیٹھ گئے۔

کیونکہ،

میں پہلے پانیوں جیسا تھا …

نرم، ملائم، لچیلا …

رحم دل، حساس اور جذباتی

میں ہوا کے دوش پر اڑتا تھا، بل کھاتا تھا …

میں مور سا لہراتا تھا، ناچتا تھا …

اور سارا سارا دن اپنی تعریف سنتا تھا …  گھر والوں سے ملنے جلنے والوں سے، اسکول میں پڑھنے والے ساتھیوں سے اور …

تمام رشتے داروں سے …  ان آنکھوں میں میرے لیے پیار ہی پیار ہوتا …  ہوا کے دوش پر لہراتا ہوا ایک گھوڑا ہوتا …  گھوڑے پر کسی شہزادے کی طرح میں سوار رہتا …  اور گھوڑا آسمان میں اڑ رہا ہوتا …

میں سب کو پیچھے چھوڑ کر اوپر ہی اوپر پرواز کر رہا ہوتا …

اور حدِ پرواز میں کہیں ایک عجیب سی شرم بھی چھپی ہوتی …

واقعات کے رتھ دوڑتے ہوتے …

حادثات کے موسم اپنا رنگ دکھلاتے رہے …

اور میں …  اسلم شیرازی اپنی آنکھوں میں سپنیلی پرچھائیاں سمیٹے، دنیا کو اپنے خوابوں کے رنگ میں دیکھتا اور محسوس کرتا رہا …

مگر ہر بار ایک آئینہ ٹوٹ جاتا …

میرے عزائم پر کوئی شرمیلا بچھو کے ڈنک کی طرح زہر گھول دیتا اور میں سرتاپا اپنی شرم میں ڈوب مرتا …

میں صرف اندر سے سوال پوچھتا تھا اور جواب ہونٹوں تک آنے کا راستہ بھول جاتے تھے …

میں برابری چاہتا تھا …

مساوات چاہتا تھا …

اور ایسی بہت ساری باتیں جو کہانیوں سے کتابوں سے، ابا حضور کے ہونٹوں سے، اینجل اور مارکس کے فلسفوں سے ہوتی ہوئی میرے دماغ میں بس گئی تھیں …

ایسے بہت سارے خواب …

ایسے بہت سارے مناظر …  جنہیں میں اپنے فلسفوں کی دھوپ سے زندگی کے آنگن میں اتار کر زندہ کرنا چاہتا تھا مگر …

کمزور اور دبو آدمی

نکما اور ہارا ہوا آدمی …

اور بہت زیادہ شرمیلا …

جو لڑکیوں کے قہقہوں سے ڈر جاتا …  ان کی آواز سے گھبرا جاتا …  اس طرح سچ کی آواز پر بھی چپ ہو جاتا …

سچ کے لیے مصلوب ہونے کے قابل نہیں تھا، ہار مان لیتا …

اپنی تسلیوں کی، برف کی سل پر لیٹ جاتا …

اور خود کو ایک اندیکھے لمحے کی موت کو سونپ دیتا …

کل …  جو ابھی ابھی پاس سے گزرا لگتا ہے …  ہزاروں کھٹی میٹھی کہانیوں کو اپنے دامن میں سمیٹے …  ایسی کتنی ہی کہانیاں ہیں جو آپ پہلے بھی سن چکے …  جو میں پہلے بھی سنا چکا …  اور جسے ہر بار سناتے ہوئے مزہ آتا ہے …  کہانیوں میں کہانیاں …  واقعات در واقعات …

وہاں امرود کا پیڑ تھا …  بڑا سا صحن …  اتنا بڑا صحن کہ ہم لٹو نچانے سے لے کر کرکٹ، والی بال اور فٹ بال تک کھیلا کرتے تھے …  صحن کے دائیں جانب …  امرود کے پیڑ سے ذرا فاصلے پر بالائی منزل کو سیڑھیاں چلی گئی تھیں …  اونچی، لمبی سڑھیاں …  اس اطراف میں زیادہ تر خاموشی چھائی رہتی …  کیونکہ یہ اندر کے دالان، باور چی خانہ اور سونے کے کمروں سے کٹا ہوا علاقہ تھا …  ہماری کل جنت کا حاصل یہی کمرہ تھا …  یہاں اتنی دھماچوکڑی ہوتی تھی …  کہ  …  حافظے میں وہ سارے قصے، مونگ پھلی کا چھلکا اترنے کے باوجود تیرتے رہتے ہیں …

مونگ پھلی کا چھلکا  —   زندگی سے پھر کتنے چھلکے اترتے چلے گئے۔ ہر بار میرے ہاتھوں میں قلم تھا۔ بچپن تھا اور کہانیاں تھیں  —   ان میں وہی داستانی حویلی تھی۔ اور امرود کا پیڑ تھا۔ ابا حضور تھے  —   گرمی کی تپتی دوپہر یا تھی  —   لو کے جھکڑ تھے اور کہانیاں تھیں۔ کہانیاں جو مجھے لکھ رہی تھیں۔ کہانیاں، جو مستقل مجھے لکھے جا رہی تھیں  —

اور ایک پازیب تھی، جو مستقبل میرے اندر بجے جا رہی تھی —

امرود کے پیڑ پر آ کر ایک کوا بیٹھ گیا ہے۔ کائیں …  کائیں، کاؤں، کاؤں …  کوا پر کھولے اڑتا ہوا آنگن کا چکر مار کر دور نکل گیا ہے …  یہ میری ہتھیلیاں کانپ کیوں رہی ہیں …

ایک عجیب سارنگ چہرے پر آتا ہے، جاتا ہے …  ہوا میں کتنی تپش ہے …  کتنی گرمی اور چبھن ہے …  جیسے سارے جسم کو پگھلا کر رکھ دیں گی …  بھون دیں گی …  جیسے کباب بھونے جاتے ہیں …  اماں بھونتی ہیں …  بورسی میں ڈھیر سارے لکڑی کے کوئلے جلا کر …  لکڑی کے کوئلوں میں آگ دھیرے دھیرے پکڑتی ہے …  اماں دھیرے سے ہتھ پنکھا ڈلاتی ہیں …  اور دھواں آنکھوں میں انگاروں کی طرح بھر جاتا ہے …  اماں آنکھیں درد کر رہی ہیں …  مت جھلو اتنا تیز …  آنکھوں میں مرچی پڑ رہی ہے …

آنکھوں میں مرچی؟

سوچتا ہوں …  عمر کی یہ انوکھی سی پازیب اچانک اس وقت کیوں بجی تھی: کسی ہیجان خیز پل پرسوار، کسی ننھی منی عمر کا گھوڑا ایک بھری بھری سیلابی ندی کی آغوش میں اترنے کو کیسے تیار ہو گیا تھا …  ممکن ہے، جلتے بجھتے سے کچھ منظر رہے ہوں، جس نے لو کی اس تپتی دوپہریا میں مجھے اپنے احساس کا مجرم بنا دیا تھا …

ننھی عمر کی جھن جھن کرتی ہوئی پازیب مجھ میں کچھ ایسے بج رہی تھی کہ میں وجود میں اترے ہیجان کے دروازے کا قفل کھول رہا تھا …  تمہیں لکھنا ہو گا …  لکھنا ہو گا …  سن رہے ہو نا تم؟

میرے خیالوں کو جس اشتراکی نظریہ نے اپنی زمین فراہم کی تھی، اس کی بنیاد میں بھی اس شرمیلے پن کا لہو ملاہوا تھا …  میں صرف دیکھتا تھا …  سوچتا تھا …  کلپنا کرتا تھا یا تصور کرتا تھا …  یا صرف جذبات اور احساسات کی گیلی پگڈنڈیوں سے گز کر رہ جاتا …  اور انہی جذباتی پگڈنڈیوں سے اس وقت کی، میری زیادہ تر کہانیاں بھی گز رہی تھیں۔

تو بچپن کے کیسے کیسے رنگ تھے۔ ان انوکھے رنگوں کی کہانیاں کسی اور دن سناؤں گا۔ آج تو میں صرف ادب کا تذکرہ لے کر بیٹھا ہوں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ داستانی حویلی، امرود کے پیڑ اور بچپن کی شرارتوں کے درمیان ہی کہیں میری کہانیوں کا جنم ہوا تھا۔

               (3)

               وحشت کا بائیسواں برس: گھر آنگن کے چہرے

کیسے کیسے واقعات  —   اور واقعات کی رم جھم بارش میں شرابور بچپن  —   یہ بچپن آج بھی میری کہانیوں میں اتر آتا ہے۔ بچپن کی محسوسات کو سمیٹ کر صرف سترہ سال کی عمر میں، میں نے اپنا پہلا ناول مکمل کیا  —   ’عقاب کی آنکھیں ‘  —   یہ وہ زمانہ تھا جب میں رائیڈرز ہیگرڈ، الگزنڈر ڈیوما وغیرہ مصنفوں سے زیادہ متاثر تھا  —   عقاب کی آنکھیں کی بنیاد بچپن میں سیکس کے اثرات پر رکھی گئی تھی  —   اس ناول کے پیش لفظ میں، میں نے لکھا —

’’یہ ناول میری زندگی کا پہلا ناول ہے۔ اس ناول کو میں نے انتہائی کم سنی میں تحریر کیا، اس وقت عمر ہو گی یہی کوئی 17-16 سال۔ خواہش تو تھی کہ سب سے پہلے یہ ناول ہی منظر عام پر آتا، مگر ایسا نہیں ہوسکا۔

لکھنے کا شوق بہت چھوٹی عمر میں شروع ہو گیا۔ چھٹے ساتویں درجے سے ہی بچوں کے رسائل میں کہانیاں شائع ہونے لگیں  —   ابا حضور فرمایا کرتے کہ بیٹا، 24سال کی عمر تک اگر کوئی شاہکار نہیں لکھا تو پھر کبھی نہیں لکھا پاؤ گے۔ بس ان کی یہ بات گانٹھ سے بندھ گئی اور اس طرح اس ناول کا سفر شروع ہوا —

ناول لکھنے کے دوران کئی حیرت انگیز واقعات پیش آئے  —   اس زمانے میں ابھی (مشکور عالم بصیری) دربھنگہ(بہار) میں تھے۔ ہم پٹنہ سے دربھنگہ کے لیے اسٹیمر پرسفر کر رہے تھے۔ سفر کے دوران جہاں ایک طرف گنگا کی موجیں تھیں، ایک بے خود کر دینے والا احساس تھا، وہیں مجھے پتہ نہیں تھا کہ میرے پاس کھڑا ایک نوجوان ڈاکٹر میری حرکات وسکنات کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ نوجوانی کا یہ وہ زمانہ تھا جب میں خود کو جمالیاتی اعتبار سے دنیا کا حسین ترین آدمی تصور کرتا تھا اور اس نسبت سے مرد خصوصاً عورتوں کے لیے میرا حسن بے پناہ کشش رکھتا تھا  —   نوجوان ڈاکٹر چھوٹی سی ملاقات میں مجھ سے کھل گیا  —   پھر اس نے جو بتایا وہ مجھے حیران کر گیا  —   جیسے اس نے بتایا کہ عقاب کی آنکھیں،اس کہانی کا ایک کردار تو خود اس کی زندگی ہے اور یہ کہ آج کل وہ تنہا زندگی گزار رہا ہے۔ مجھے نوجوان ڈاکٹر کی باتوں میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ اس طرح نوجوان ڈاکٹر کی کہانی کے کچھ قصے بھی بعد میں اس ناول میں شامل کر لیے گئے — ‘‘

79-78کے آس پاس میں عقاب کی آنکھیں لکھ چکا تھا۔ یہ وہ دور تھا، جب میرے مشاہدے کی لو تیز تھی اور من کی کھڑکی سے سمندر کے رومانی لہروں کی گرجن مجھے صاف صاف سنائی دینے لگی تھی، ان لہروں نے مجھے بھی بھگویا اور میری کہانیوں کو بھی —

آرہ میں نے 1985میں چھوڑا تھا۔ یعنی 1985میں،میں دلی آ گیا تھا۔ آج سوچتا ہوں تو عجیب سا لگتا ہے۔ وہ ساری کہانیاں آج سچ معلوم ہوتی ہیں، جنہوں نے میرے قلم سے 1985سے پہلے جنم لیا تھا  —   82میں، میں نے گریجویشن مکمل کیا۔ یہ وہ دور تھا،جب نرم نرم احساس کی لہریں مجھے دور تک بھگوتی چلی گئی تھیں  —   ابا حضور کہا کرتے تھے۔ جس کی زندگی میں رومان نہ ہو، وہ اچھا ادب تحریر کر ہی نہیں سکتا۔ اور جس نے 24سال کی عمر تک کچھ نہیں لکھا، وہ بڑا ادب تخلیق کر ہی نہیں سکتا۔ میں دل ہی دل میں خوش کہ 18-20سال کی عمر میں چار ناول تخلیق کر چکا تھا …  نیلام گھر، لمحہ آئندہ، عقاب کی آنکھیں اور شہر چپ ہے  —   اس وقت تک ادب میں ناول کی ہوا نہیں چلی تھی یہاں تک کہ عبدالصمد کا ناول دو گز زمین بھی منظر عام پر نہیں آیا تھا۔میرے پاس وسائل کی کمی تھی۔ عمر کا تجربہ نہیں تھا۔ اور دلی بہت دور ہے، کا محاور ہ مجھ پر صادق آتا تھا۔ میں ان کتابوں کی اشاعت کے لیے دلی خط پر خط لکھتا رہا مگر دلی تو گونگی ہے۔ دلی کے پاس تو زبان ہی نہیں ہے  —   کسی نے بھی خط کا جواب دینا ضرور نہیں سمجھا۔ اور ناولوں کی اشاعت میرے لیے ایک مسئلہ بنتی چلی گئی۔ بہت ممکن ہے، یہ ناول اس عہد میں شائع ہو گئے ہوتے تو ہنگامہ مچا چکے ہوتے  —   نیلام گھر، اور شہر چپ ہے، تخلیق کے دس برسوں کے بعد شائع ہوئے۔ قمر رئیس نے لکھا، عظیم ناول لیکن زبان کمزور ہے  —   بہت ممکن ہے، دس سال قبل اسے ایک ابھرتے ہوئے نوجوان قلمکار کی کاوش ٹھہرا کر ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا۔ تب ممکن ہے یہ حوصلہ افزائی شاید مجھے کسی اور تخلیقی دنیا میں لے جاتی …  مگر چھوٹے شہر میں آنکھیں کھولنے کی بدنصیبی نے مجھ سے کئی تخلیقی برس، چھین لیے، مجھے زندگی بھر افسوس رہے گا —

85سے پہلے لکھی جانے والی کہانیوں کے کچھ چہرے آپ کو دکھانا چاہتا ہوں۔ ان میں میرا گھر ہے۔ میری بیوی، تبسم ہے۔ میرے بچے ہیں (ان دنوں شادی کہاں ہوئی تھی، سب کچھ تو میں تصور کی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا) مگر کہانیوں کے سارے واقعات، جیسے چپکے چپکے آنے والے کل میں اترتے چلے گئے۔ آج سب کچھ وہی ہے جو میں نے ان دنوں دیکھا۔ سوچا محسوس کیا، جن کے خواب دیکھے  —   میرا گھر۔ میرا کمرہ، میرا وجود، میرا سچ، میرے اندر کا جذباتی چہرہ۔ سچ مچ مکان بولتے ہیں۔ کمرہ بولتا ہے —

’’ آپ نے بھی غور کیا ہو گا اور میں نے بھی غور کیا ہے کہ آدمی جس مکان میں رہتا ہے وہ مکان اسے بے حد عزیز ہوتا ہے۔ مکان کا وہ کمرہ جس میں وہ لیٹتا ہے سوتا ہے، فرصت کے زیادہ لمحات گزارتا ہے، اس سے زیادہ اچھا کمرہ اسے پورے گھر میں کوئی دوسرا نہیں نظر نہیں آتا۔ یہ ممکن ہے کہ آپ کو اپنے کمرے سے اس شدت سے پیار نہ ہو جس شدت کے ساتھ مجھے ہے جب بھی میں کسی دوسرے شہر کا دورہ کرتا ہوں اور دوچار روز وہاں ٹھہرنا مقصود ہوتا ہے اپنے کمرے کی یاد مجھے توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ کتنی ہی بار دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ دورہ منسوخ کر دوں اور بھاگ کر اپنے اپنے کمرہ میں لوٹ جاؤں …  وہاں سب کچھ تو موجود ہو گا …  میری بکھری گردو غبار میں ڈوبی ہوئی کتابیں …  میرے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہوئی یادیں …  یادیں ! جن سے زندگی کا اتنا گہرا جڑاؤ ہے کہ میں کبھی سنبھلتا ہی نہیں۔ اگر میرے مونس و غم خوار کمرے نے مجھے سہارا نہیں دیا ہوتا ان دنوں اچانک جب پورے مکان میں ایک خلاء سا پیدا ہو گیا تھا …  اور مکان چار بزرگوں کی رونق سے محروم ہو گیا تھا تو یہی کمرہ تھا جس میں گھنٹوں بیٹھ کر ان کی بھولی بسری پرچھائیوں سے دل بہلا کرتا تھا …  آنکھوں میں آنسو آ جاتے …  پاگل کر دینے والی ہسٹریائی چیخیں بلند ہو جاتیں تو ہاتھوں میں منجن تھام لیتا اور گھنٹوں دانت رگڑتا رہتا۔ منجن کرنے سے کچھ سکون سا ملتا …  یادوں کے بیچ ایک ٹھہراؤ سا پیدا ہو جاتا …  پھرآہستہ آہستہ میں یادوں کے گھنے جنگل سے دور نکل آتا …  یہ زندگی کے وہ شب و روز تھے جہاں کوئی ٹھہراؤ نہ تھا …  ٹھہراؤ نہ تھا تو زندگی نہ تھی …  اور زندگی اس لیے نہ تھی کہ پا بہ زنجیر نہ تھا …  بس ایک لمبی تھکان تھی جو بائیس بہاروں کے یونہی گزر جانے کے بعد پیدا ہو گئی تھی۔کبھی وہی کمرہ اکیلے میں مجھے ڈسا کرتا …  مجھ سے پوچھا کرتا کہ زندگی کی بے رونقی سے یوں کب تک کھیلتے رہو گے؟ اپنے بارے میں کچھ سوچا ہے۔ افسانہ اور غزلیں تمہیں کچھ نہیں دے سکتیں سوائے روحانی آسودگی کے …  سوائے اس نجات کے جو تمہیں کرب و غم کی کیفیات سے دور نکال لاتے ہیں …  سن رہے ہو عالم …  افسانہ اور غزلیں تمہارے لیے ایک پوری زندگی نہیں بن سکتے …  اور تم بس انہی کے اندر لگتے ہو …  یہی ہے تمہاری کائنات …  تو اچانک کمرے سے سوال کرتا ہوں کہ یہ پاگل کر دینے والا سناٹا جو مجھے کاٹ کھا رہا ہے، اس سے باہر نکلنے کا جواز کون سا ہے …  جس نے معصومیت سے نکے ہوئے بزرگ قہقہوں کو اپنے اندر پیوست کیا ہو اور قہقہے اچانک ساتھ چھوڑ گئے ہوں تو کیا اکیلے پن کا گمان ممکن نہیں۔‘‘

تو کمرہ بولتا ہے۔ گھر سے اچانک چار بزرگ اٹھ گئے۔ چار نعشیں …  وقت کے کندھوں پر سوار۔ میں بوجھل بوجھل سا، اپنے اندر اترتا ہوں۔ اپنی رومانی کہانیوں کے کرداروں میں پناہ ڈھونڈھتا ہوں تو ایک سرکش گھوڑا ہے اور میں پابہ رکاب۔ ہوا میں بس اڑنے والا۔ اور عمر ہے، جسے ایک دن سب کو الگ کر دینا ہے۔ میں پاگلوں کی طرح، اپنے گھر اپنے کمرے کا جائزہ لیتا ہوں۔ کہانیوں کی آغوش نرم و نازک ہوتی ہے۔ میرے خیال ہوتے ہیں۔ میری رومانی کہانیوں کے حسین کردار ہوتے ہیں جو مجھے گھیر کر بیٹھ جاتے ہیں …  میری زندگی کا وہ عظیم حادثہ تھا۔ جب ماں وداع کی پہاڑیوں میں گم ہو گئیں۔ یہ حادثے میری کہانیوں میں کب کیسے داخل ہو گئے۔ میں نہیں جانتا۔ تو کیا یہ سب صرف جذباتی کہانیاں تھیں۔ شاید نہیں۔ ان کہانیوں کے طویل اقتباسات پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ اس لیے کہ ان میں، میں ہوں۔ برسوں پیچھے چھوٹا ہوا میں۔ اور برسوں پیچھے چھوٹے ہوئے مشرف عالم ذوقی کو سمجھنے کے لیے ان کہانیوں کا مطالعہ ضروری ہے۔

’’پتہ نہیں کس نے کہا تھا۔ دنیا میں جتنے بھی ملک ہیں، سب سے اچھا ملک میرا ہے۔ اسی ملک میں جتنے بھی شہر ہیں، سب سے اچھا شہر میرا ہے، شہر میں جتنے بھی مکان ہیں، سب سے اچھا مکان میرا ہے۔ اور مکان میں جتنے بھی کمرے ہیں ان میں سب سے اچھا کمرہ میرا ہے۔ میں اکثر تبو کو بتایا کرتا ہوں …  زندگی کے شب و روز کی اتنی ساری گتھیوں کو اس کمرے میں سلجھا تا رہا ہوں کہ اب روز ہی اس کمرے کو دیکھنے کی عادت سی پڑ گئی ہے۔ پتہ نہیں، لگتا ہے کہ بھیا اگر نئے سرے سے وہ مکان بنائیں گے تو وہ کمرہ بھی بدل جائے گا …  کمرے کے ساتھ ساتھ کتنا کچھ بدل جائے گا …  پورے گھر کا ڈھانچہ اور میرے وجود میں پھیلتی جائے گی۔ ایک تیز سنسناہٹ  —   جانے کیوں میں اس کمرے میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھنا چاہتا …  کہتے کہتے آنکھیں پتہ نہیں کیا ڈھونڈھنے لگتی ہیں۔ کیسی کیسی ہستیاں آنکھوں میں تھرانے لگتی ہیں …  امی کی …  بڑی امی کی …  دادی اماں کی …  نامی اماں کی …  تمام آوازیں زندہ ہو جاتی ہیں …  میں پرانی آوازوں کے پرانے شہر میں لوٹ آیا ہوں …  جہاں سب زندہ ہیں اور آنکھوں کے سامنے تھرک رہے ہیں۔ ان میں ہر شخص میرا اپنا ہے …  ان میں ہر شخص مجھے عزیز ہے …  سب کے سب محبت سے، معصومیت سے مجھے دیکھے جا رہے ہیں …  مجھے بلا رہے ہیں …  مجھے آواز دے رہے ہیں۔‘‘

                                                                         —  — کمرہ بولتا ہے

اس وقت تک نہ میرے پاس روزگار تھا، نہ کوئی کرئے کا مکان نہ تبسم میری زندگی میں ہی آئی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے بار بار یہ احساس ہو رہا تھا کہ مجھ سے میرا گھر چھوٹ جائے گا۔ مجھے ہجرت کرنی پڑے گی۔ اور ہجرت کے المیہ نے اس وقت مجھے ایسی دلدوز کہانیاں لکھنے پر مجبور کیا۔

’’اور اب نیا شہر ہے اور کرائے کا مکان …  تبو نے گھر کی خانہ داری سنبھال لی ہے۔ شام میں تھکا ہارا گھر آتا ہوں، تو آنکھیں پرانے مناظر کو تلاش کرتی پھرتی ہیں تو ایسے میں چائے کا کپ ہاتھوں میں لیے ہوئے تبو مجسم سوال بنی میرے سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی ہے …  کہ عالم! ایک بات پوچھوں …  تمہاری آنکھیں ہر وقت کسے ڈھونڈھتی رہتی ہیں …  تلاش کرتی رہتی ہیں …  یہ سچ ہے تبو کہ اب میں نئے امکانات کی فضا میں داخل ہو گیا ہوں …  مگر سچ بولوں تو مکان کی بڑی یاد آتی ہے …  اور اس کمرے کی جس کی ویرانی تم نے چرا لی تھی …  وہ حیرت سے میری آنکھوں میں جھانکتی ہے تو اس کے رسیلے ہونٹوں پر دن بھر کی تھکان رکھ کر کہتا ہوں …  تم سمجھی نہیں تبو …  زندگی میں ایک وہ بھی جنت ہوتی ہے جب آدمی کچھ بھی نہیں ہوتا اور سب کچھ اس کا کمرہ بن جاتا ہے …  کبھی بزرگ بن کر سہارا …  اور کبھی تم بن کر محبت کے ایک نئے باب میں داخل ہو جاتا ہے …  سچ تو یہ ہے کہ تبو کہ اس کمرے کی یاد بے پناہ ستاتی ہے …

تبو کھلکھلا کر ہنس پڑتی ہے …  ’’تمہارے فلسفے‘‘ …

یہ فلسفے ہمیشہ زندہ رہیں گے تبو کہ اب میں نئے سرے سے ایک مکان بن چکا ہوں …  ایک پختہ مکان …  اور محسوس کر رہا ہوں کہ یہاں سے ہزاروں میل کے فاصلے پر جو میرا مکان ہے وہ اب بھی مجھے صدائیں دے رہا ہے  —   بلا رہا ہے۔ کہ تم میرے ہی آنگن میں کھیلتے کھیلتے بڑے ہوئے ہو …  اور اس بے لوث رفاقت کا تقاضہ ہے کہ تمہیں اپنے لیے اسی کی خمیر کو پسند کرنا ہے … ‘‘

تبو اچانک میرے ہونٹوں پر انگلی رکھ دیتی ہے …  نہیں …  نہیں …  آگے کچھ مت کہنا …  اس کی آنکھیں نم ہیں۔ پتہ نہیں کیوں میری موت کی بات وہ برداشت نہیں کرپاتی ہے  …  کچھ دیر کے لیے میں بھی چپ ہو گیا ہوں …  کہوں تو کیا کہوں …  کہانیاں شروع ہوتی ہیں اور ختم ہو جاتی ہیں …  مگر مکان جاگتا رہتا ہے …  اور میری خود خواہش ہے کہ جب تبو نئے اجنبی کی آمد کی خوشخبری سنائے تو اس سے اتنا ضرور کہوں …  کہ میرا کمرہ تمہیں آواز دے رہا ہے تبو …  پتہ نہیں کیوں ایک عجیب سی خواہش ہے کہ جس کمرے میں میری خوشیاں جوان ہوئی تھیں اور میری سوچوں کو ایک نیا رخ دیا تھا، موڑ دیا تھا اور آج مجھے ایک مقام سے نوازا ہے …  وہی شوخیاں اسی کمرے میں آنے والے اجنبی کے اندر بھی داخل ہو جائیں …  اس لیے چلو تبو …  اپنا مکان مجھے آواز دے رہا ہے …  چلو  …  چلو …  چلو‘‘

                                                             — کمرہ بولتا ہے

’اس وقت کی‘۵۰ سے زائد کہانیوں پر یہی جذباتی لہریں حاوی تھیں۔ وحشت کا بائیسواں سال، پینتالیس سال کا سفرنامہ، مجھے موسم بننے سے روک لو پلیز، اللہ ایک ہے، پاک اور بے عیب ہے، لاش گھر، سر من ازنالہ من دور نیست، بشنواز نے … ‘ گمان آباد ہستی میں، سات کمروں والا مکان، وغیرہ …  میں ایک حساس دل رکھتا تھا۔ اور اس حساس دل میں ان دیکھے جذبوں کا ڈیرا تھا …  یہ جذبات مجھے اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے پریشان کیے جاتے …  زندگی اور موت کے فلسفوں پر آنکھیں رہ رہ کر بھیگ جاتیں …  لوگ گم کیوں اور کیسے ہو جاتے ہیں …  زندگیاں کیسے، کتنے کتنے خانوں میں بٹتی چلی جاتی ہیں۔

80کے آس پاس کا زمانہ  …  رات کا کوئی پچھلا پہر …  لائٹ نہیں ہے  —   لالٹین کا شیشہ کالا پڑ چکا ہے میں لمحہ آئندہ لکھ رہا ہوں۔ اور اچانک میں زور سے چیختا ہوں۔

’مجھے …  مجھے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔ مجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے‘

’لاش گھر‘ اللہ ایک ہے …  کہانیاں ان کہانیوں میں سے ہیں، جن میں، میں نے اپنی اس وقت کی کیفیت کا پورا پورا اظہار کیا ہے۔ نمونہ کے طور پر ’’اللہ ایک ہے پاک اور بے عیب ہے‘‘ سے ایک طویل اقتباس اپنے قارئین کی نذر کر رہا ہوں …

’’مگر میں ایسا کیوں سوچتا ہوں کہ میں اس بھرے پرے گھر میں اکیلا ہوں۔

تنہا ہوں۔ اور سب کے سب مجھ سے رخصت ہو گئے ہیں۔ سارے دروازے بند ہیں، اور میں ایک ایک دروازے کے اندر جھانک رہا ہوں جہاں گھر کے مختلف افراد کی نعشیں مجھ سے مخاطب ہیں اور مجھے گزرے دنوں میں لوٹ چلنے کو کہہ رہی ہیں …

’’میں ایسا کیوں سوچتا ہوں تم مجھے بتا سکتی ہو؟‘‘

مگر زیبا چپ ہے …  اور آہستہ آہستہ میری آنکھوں سے اوجھل ہوتی جا رہی ہے۔

تو وقت رخصت ہو گیا ہے۔

اور وقت اس قصاب کی طرح ہے جس نے مردہ جانور کی کتنی ہی بوٹیاں الگ کر ڈالی ہیں …

’’زیبا  …  زیبا با … ‘‘

آواز بھی دینا چاہوں تو زیبا اپنے دوسرے گھر سے واپس نہیں آئے گی ہاں گزرے دنوں کی ڈائری سے اس کے معصوم قہقہے نکل کر پھر سے میرے سامنے کھڑے ہوں گے۔ تھکن سے چور ہو کر بند کمرے سے نجات چاہوں گا تو آس پاس کی یادوں کا حملہ شروع ہو جائے گا۔ بھولنا چاہوں گا تو ایذا رسانی کا بیلٹ رات کی دودھیا چاندی میں پھر سے میرے ہاتھوں میں چمک اٹھے گا اور انجانے طور پر دیکھتی آنکھیں میرے اندر اس شیطان کو محسوس کر لیں گی جسے میں نے نہ پہچاننے کی قسم کھا رکھی ہے …

گھر سناٹے میں ڈوبا ہوا ہے اور ایک ایک کمرہ بند ہے …  میں تمام کمروں میں جھانک آیا ہوں …  کوئی نہیں ہے۔ بے خواب کواڑوں کی طرح مقفل …  اور چھت پر میری وحشت دیر تک خلاء میں دیکھتے دیکھتے تھک چکی ہیں …  اور پھر ایک نئے منظر کو اپنی گرفت میں لے رہی ہیں …

لوگوں کے کندھوں پر سوار …  چار نعشیں …  آخری منزل کی جانب رواں دواں ہیں …

انا للہ وانا الیہ راجعون

آگے آگے …  دو بوڑھے سر جھکائے ہوئے بوجھل قدموں سے چلتے ہوئے …  پیچھے پیچھے سوگواروں کی بھیڑ …  سرخ سرخ آنکھیں …  آگے آگے ابا، بڑے ابا …  پیچھے منور، ٹنو بھائی، جھنو بھائی، منجھلے بھیا …  اور حیران حیران سا پاگلوں جیسا دیکھتا ہوا میں …  بڑی اماں، امی  —   دادی اماں اور نانی اماں تم سب کہاں کھو گئے …  کہاں چلے گئے …  اب کبھی نہیں واپس آؤ گے کیا …

گھر کی بزرگ ہستیو!

الوداع …  الوداع

آخر کو تم نے رخت سفر باندھ ہی لیا …

تمہارے دم سے ہم نے اجالوں سے تعلق پیدا کیا تھا اور تم ہی یہ گھر یہ جہاں چھوڑ کر جا رہے ہو۔

تار عنکبوت اگر اس گھر کا مقدر ہے تو مقدر رہے …  کہ خوشیاں تقسیم کرنے اور دیکھنے والی آنکھیں اب تمہارے بغیر اس ٹوٹتے اجڑتے گھر میں چونا گردانی نہیں کرا سکتیں …

الوداع …  میرے بزرگو! کہ اب اس غریب الدیار کو تمہارے بعد تنہائی سے ہی رشتہ قائم کرنا ہو گا …

الوداع الوداع …

آسمان سب کچھ چرا کر لے گیا ہے۔ کبھی کبھی لگتا ہے زندگی ایک بے زبان مکالمہ ہے جو خود سے کیے جا  رہا ہوں …

زیبا اداس اداس سی میرے سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی ہے …  ’’جو لوگ وقت سے سمجھوتا نہیں کر پاتے وہ ٹوٹ جاتے ہیں۔‘‘

’’ہاں ٹوٹ جاتے ہیں …  ‘‘ جھنجھلاہٹ میں جواب دیتا ہوں …  کہ اب وہ تار ہی ٹوٹ گیا ہے جو موسیقی کی لہروں کو آواز دیا کرتا تھا اور خالی پن کا عجیب سا احساس مجھے دکھاتا ہے …  اپنے ہی گھر میں زندگی سے جھوجھتے ہوئے بڑے ابا کو …  اور دوسری طرف محض زندگی کاٹتے ہوئے ابا کو …  یعنی دو بوڑھے پیکر اور ان سے علیحدہ ہم …  اور حادثوں سے متاثر دکھائی دینے والا میرا چھوٹا بھائی …  میرے بھیا …  کیا یہ تمام باتیں چیخ چیخ کر نہیں کہتیں کہ سمجھوتے کی فصل اب دل میں نہیں اگ سکتی …  اور تم بھی اس قدر دور ہو گئی ہو کہ کل کو زندہ بھی کرنا چاہوں تو ممکن نہ ہو گا …  اور جب جب میں یہ سب سوچتا ہوں تب تب یہ بھی سوچتا ہوں کہ کیا سارے کے سارے میری ہی طرح سوچتے ہیں ؟ اگر ہاں تو پھر یہ سارے کے سارے جیتے کیسے ہیں ؟ کیا وہی ایذا رسانی کا بیلٹ رات کی دودھیا روشنی میں ان کے ہاتھوں میں چمک جاتا ہے …  کیا شرٹ ڈھکی پیٹھ پر ان گنت زخم رات کے سناٹے میں جاگ جاتے ہیں …  دکھنے لگتے ہیں …  اور وہ شب دیجور کی الگنی پر لٹکا ہوا چمگادڑ کیا سب سے ایسے ہی سوال کرتا ہے کہ مجھے لکھا کیوں نہیں …  لکھ کیوں نہیں سکتے …  تمہارے قلم ٹوٹ گئے ہیں کیا … ؟

                                                  —   اللہ ایک ہے …

واقعات و حادثات کے اس سلسلے نے مجھے کتنا زخمی کیا، اسے میں ہی جانتا ہوں  —   لیکن یہ وہ سانحے تھے، جنہوں نے مجھے بھی متاثر کیا اور میری کہانیوں کو بھی   —   1985میں، میں نے آرہ چھوڑ دیا  —   چھوڑنے سے قبل، میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا، امرتا پریتم کی ’پنجڑ‘  —   ایک انتہائی جذباتی کہانی —

میں نے خود سے کہا  ؎  ذوقی! اب میں کہانیوں میں جذبات کی عکاسی نہیں کروں گا  —   امرتا نے مجھے ڈرا دیا تھا  —   وہاں جذبات، کہانی پن پر حاوی تھا —

دلی میں نئے خیالات کے ساتھ آیا تھا لیکن اب مجھ پر ایک ترقی پسند چہرہ حاوی تھا  —   یہ میری کہانیوں کا تیسرا چہرہ تھا۔

               (4)

               دلی، اور کہانیوں کا بدلا بدلا سا چہرہ

کہانیوں کے پہلے اور تیسرے چہرے کے بیچ دوسرا چہرہ گم ہو گیا۔ میں اس چہرے کو تلاش کرنا بھی نہیں چاہتا  —   میں نے جان بوجھ کر اس چہرے کو Ignore کیا ہے۔ یہ چہرہ جدیدیت کی کوکھ سے جنما تھا۔ اس چہرے کی تاریخ پیدائش بھی وہی تھی، جو میری ناستلجیائی کہانیوں کی تھی  —   80کے آس پاس کا یہ عہد مجھے الجھوں میں مبتلا کرنے کے لیے کافی تھا۔ کیونکہ میں جو لکھنا چاہتا تھا، وہ اس عہد کے لیے موزوں نہیں تھا جو نہیں لکھنا چاہتا تھا، رسائل میں چھپنے کے لیے وہ لکھنے پر مجبور تھا  —   جدیدیت کی آندھی میں سچ پوچھیے تو میں بھی بہتا چلا گیا تھا —

’’یہ وہ کہانیاں ہیں، جنہیں میں نے رد کیا۔‘‘

دلی یعنی مہانگر، چھوٹے سے قصباتی شہر میں رہ کر، اس شہر کا تصور کر پانا بھی مشکل تھا  —   مجھے اس شہر سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ ہجرت کیا ہوتی ہے۔ اپنے گھر کا سکھ کیا ہوتا ہے۔ یہاں تو در در کی ٹھوکریں تھیں اور خالی ہاتھ تھے  —   دلی دل والوں کی دلی نہیں تھی تنگ دل لوگوں کی دلی بن کر رہ گئی تھی۔ بیشمار خطرات، ذہنی یا تنائیں، پریشانیاں  —   بہت ممکن ہے میں ہار گیا ہوتا، مگر، میں نے جو کچھ پڑھا تھا، اب وہی میرے کام آ رہا تھا  —   کہتے ہیں، ایک زندگی وہ ہوتی ہے جسے آپ اپنے طور پر جینے کی کوشش کرتے ہیں  —   ایک زندگی وہ ہوتی ہے جو آپ کا مطالعہ آپ کا Vision آپ کو سونپتا ہے  —   الکزینڈر پشکن نکولائی گوگول، فیودردوستوفسکی، لیوتا لستائے، میخائیل شولوخوف، میکسم گورکی، ترگنیف  —   روسی ادب کا میں مداح تھا، اور یہ لوگ میرے لیے مشعل راہ  —   ان سب کے یہاں زندگی سے لڑنے کی جسارت موجود تھی۔ خاص کر آرہ چھوڑنے سے قبل ایک بہت بعد کے روسی مصنف کی کتاب میں نے پڑھی تھی۔ بورس پولوو، کتاب کا نام تھا۔ The story of areal man   —   ایک فوجی جس کا پاؤں کاٹ ڈالا جاتا ہے۔اور جو اپنے ول پاور سے اپنی خود اعتمادی دوبارہ بحال کرنے میں کامیاب ہوتا ہے  —   مجھے ہیمنگ وے کے The old man and the sea سے محبت تھی  —   ہیمنگ وے کی کہانیوں کے مرد آہن مجھ میں نیا جوش، نیادم خم بھرتے تھے۔ مجھے ہنری ملر کے موبی ڈک سے پیار تھا  —   وکٹر ہیوگو، کفکا، ور جیناؤلف، البیر کامو، یہ سارے میرے اپنے تھے۔ خاص کر Les miserable کا پادری اور The plagueکا Dr. Riox میرا آئیڈیل تھا۔ ٹھیک اسی طرح کرائم اینڈ پنشمنٹ کا رسکلا نیکوو، گور کی مدر کا پاویل ولاسوف، اور تر گنیف کی The father and the son کے باپ بیٹے مجھے بے حد پیارے تھے  —   گوگول کی کتاب Deal soul مجھے ذہنی عذاب میں مبتلا کرتی تھی۔ وہیں گبریل گارشیا مارکیز کا ادب مجھے ایک نئی دشا میں لے جانے کی تیاری کر رہا تھا  —   عجیب بات تھی کہ مجھے الیکزینڈ سولنسٹین سے بھی اسی قدر محبت تھی۔ گلاگ آرکیپلا گو اور کینسر وارڈ دونوں مجھے پسند کر رہے تھے۔ نیتھنئیل ہیتنے کی The scarlet letter  بھی مجھے پسند تھی۔ جارج آرویل کی Animal farm اور 1984 مجھے نئی فکر سے روشناس کرا رہے تھے  —   میں سال بیلو کو بھی پڑھنا چاہتا تھا، ولیم گولڈنگ اور گراہم گرین کو بھی   —   اردو میں قرۃ العین حیدر کے یہاں مجھے تصنع کی جھلک ملتی تھی۔ منٹو مجھے چونکا تا تھا، لیکن فکری اعتبار سے زیادہ بلند نہیں لگتا تھا، عصمت مجھے راس نہیں آئیں۔ راجندر سنگھ بیدی کی کہانیاں ہر بار زیادہ سے زیادہ قربت کا احساس دلا رہی تھیں اور کرشن کی نثر کسی جادو کی طرح مجھ پر سوار تھی  —   مجھے اردو کی داستانوں نے لبھایا تھا اور مجھے لکھنا سکھایا تھا۔ مجھے پینچ تنتر بھی پسند تھی اور The magic mountaln بھی۔ طلسم ہوشربا کا تو میں شیدائی تھا —

دلی کی پاگل بھیڑ بھری سڑکوں پر ہیمنگ وے کا The oldman  پیر تسمہ پاکی طرح مجھ پر سوار تھا  —   دلی کی پریشان حال زندگی اور لڑتے رہنے کا جذبہ، 85سے 95تک کے بیچ میری کہانیوں پر ترقی پسندانہ رنگ غالب رہا  —   میں سوچتا تھا نثر، غریی کے بد حال جسم کی طرح ہونی چاہئے۔ Glamour less نثر اس کی زبان عصمت کی کہانیوں کی طرح رواں دواں نہیں ہوسکتی۔ میں نے اپنا تجزیہ کیا اور ایک نئی روش اپنائی، نئی ڈگر پر   چلا۔

بھوکا ایتھوپیا  —   بچھو گھاٹی، مرگ نینی نے کہا، میں ہارا نہیں ہوں کامریڈ، ہجرت، مت رو سالگ رام، فنی لینڈ، پربت، مہاندی، تحفظ، تحریکیں، کان بند ہے، جلا وطن، ہندستانی، دہشت کیوں ہے، کتناوش، سورباڑی، تناؤ وغیرہ —

میری کہانیاں تقسیم کے بطن سے جنمی تھیں۔ گو آزادی کے پندرہ برس بعد میرا جنم ہوا۔ لیکن میرے ہوش سنبھالنے تک یہ زخم تازہ تھا  —   بوڑھے بزرگ ہونٹوں پر تقسیم کا درد زندہ تھا اور کراہتا تھا  —   غلامی، میرے لیے ایک اذیت ناک تصور تھا، اور آزادی کے بعد کے فسادات میرے نزدیک انتہائی بے رحم آزادی کی خوں بھری سوغات کی مانند تھے —

میں اپنی زمین نہیں چھوڑ سکتا تھا —

میں اپنے مسائل کو نظر انداز کر کے، قلم نہیں اٹھا سکتا تھا۔

فساد، ہندو، مسلمان، اردو اور پاکستان میں کئی چیزیں مشترک تھیں  —

مجھے ڈر لگتا تھا جب خوف کی چنگاریاں بند کمرے میں سہما سہما چہرہ دکھایا کرتی تھیں۔ میں سوچتا تھا۔ کیوں ہوتا ہے ایسا —

گاندھی جی کا قتل ہوتا ہے۔ مسلمان اپنے اپنے گھروں میں چھپ جاتے ہیں  —   کسی مسلمان نے مارا ہو، تو — ؟

خدا نخواستہ قاتل کوئی مسلمان ہوا تو؟

اندرا گاندھی کی ہتیا ہوتی ہے  —   مسلمان اپنے اپنے گھروں میں چھپ جاتے ہیں۔

راجیو گاندھی کی ہتیا ہوتی ہے۔ مسلمان اپنے اپنے گھروں میں چھپ جاتے ہیں۔ کیوں ؟ کیوں ؟

۱۰۰ کروڑ کی آبادی والی جمہوریت میں ۲۵ کروڑ کی یہ آبادی اقلیت کہلاتی ہے؟ کیوں ؟

میں ترقی پسندی کے راستہ پر اسی لیے چلا کہ میں ان سوالوں سے بچ بچا کر نہیں گزر سکتا۔ میرے اندر کا تخلیق کار ان سوالوں کو نظرانداز نہیں کرسکتا تھا۔

اور میں صرف شوقیہ ادیب نہیں بننا چاہتا تھا  —   میں، کسی ایک قاتل لمحے سے بھی کہانی چرا سکتا تھا —

اسی لیے بھوکا ایتھوپیا کے پیش لفظ میں، میں نے پہلی بار اپنے خیالات کا اطہاریوں کیا —

’’دوست پوچھتے ہیں …  اتنا زیادہ کیوں لکھتے ہو سوچتا ہوں انہیں کیا جواب دوں ؟ کبھی کبھی لگتا ہے کسی نظریاتی تبدیلی کا خواہاں ہے، میرے اندر کا تخلیق کار کچھ نیا چاہتا ہے۔ اور اس نئے کے لیے بھٹکتا رہتا ہے۔ اس نظریاتی تبدیلی سے زندگی کے کتنے ہی موڑ پر لکھنے کے زاویے بدلے۔ اس طرف چلو، نہیں اس طرح۔ ’’نیلام گھر‘‘ بھی ایک پڑا تھا’ عقاب کی آنکھیں ‘ بھی ’شہر چپ ہے‘ بھی۔ ’لمحہ آئندہ‘ بھی۔ یہ ناول ۸۰ سے پہلے کے ہیں۔ اور کسی نئے نظریاتی تصور کو الگ الگ ان میں بہ آسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ میں ابھی بھی ٹھہرا نہیں ہوں، بھٹکنے کی حالت میں ہوں۔ سوچتا ہوں، چھوٹی چھوٹی چیز میں زندگی کا روپ کیوں نہیں لے سکتیں پھر کوئی سا، بہت عام واقعہ کہانی کیوں نہیں ہوسکتا۔ کوئی کوئی کہانی مجھے پسند آتی ہے تو دوست پوچھتے ہیں۔ یہ کیا لکھ دیا؟ کیسے کہوں کہ یہ کیوں لکھا۔ چیخوف کا کردار اگر اپنے چھینکنے پر شرمندہ ہوسکتا ہے اور چھینک اس وقت کے پورے روسی نظام کو لے کر زبردست کہانی بن سکتی ہے۔ تو پھر عام زندگی میں ہونے والا بہت ہی عام سا واقعہ کہانی کیوں نہیں بن سکتا؟

                                                  —   بھوکا ایتھوپیا

               (۵)

               سناٹے میں تارہ اور میں

 — سناٹے میں تارہ؟ رات میں کیوں نہیں۔

  —   یہ تو سب جانتے ہیں، تارے رات میں ہی نکلتے ہیں۔

  —   مگر سناٹے میں تارہ، اچھا بتاؤ، دنیا کا سب سے خوبصورت احساس کیا ہوسکتا ہے  —   چلو، میں بتاتا ہوں  —   دور تک نیلے آسمان کی چادر ہے۔ ایک کشادہ چھت ہے۔ رات کا سناٹا ہے۔ اور سناٹے میں صرف ایک تارہ ہے۔ آنکھیں بند کرو، ہوا کے خوشگوار جھونکوں کے بیچ آسمان کے بہت سارے تاروں میں صرف ایک محبوب تارہ کا انتخاب کرو  —   کیسا لگتا ہے یہ سناٹے میں تارہ —

اچھا چلو، آنکھیں بند کرتا ہوں  —

کچھ دیکھا؟ —

ہاں، سناٹے میں تارہ  —   مگر تارہ کہاں ہے، تارہ تو مجھے نظر ہی نہیں آ رہا۔

آسمان میں چمکتا سب سے خوبصورت تارہ، سناٹے میں تارا۔ دلی آنے کے بعد جیسے احساس کا پرندہ ہر لمحہ مجھ سے دور ہوتا گیا۔ کہیں برسوں پیچھے چھوٹی ہوئی دو آنکھیں مجھے یاد تھیں جو کہا کرتی تھیں دلی جا کر اپنی معصومیت کو ختم مت کرنا۔

آرہ۔ آرہ شہر کا آبائی مکان، مکان کی ایک ٹوٹی پھوٹی سی چھت سے جھانکتا تا حد نظر نیلگوں آسمان کا سمندر، اور سمندر میں بکھرے پڑے تارے، اور ان میں سناٹے میں صرف ایک تارہ، دلی کی بھاگم بھاگ کی زندگی میں میرے احساس میرے جذبات سب مجھ سے دور ہوتے جا رہے تھے۔ آہستہ آہستہ مشینی ہوا جا رہا تھا  —   ظاہر ہے اسی مشینی ہونے کا اثر میرے ادب پر بھی پڑا تھا۔ یہاں زندگی چٹان کی طرح سخت تھی۔ چھوٹے سے شہر میں کچھ نیا کرنے کا احساس اچانک آپ کو ہیرو بنا دیتا ہے۔ لیکن یہاں تو قدم قدم پر ہزاروں لاکھوں، ہیرے بیکار پڑے تھے۔ جنہیں کوئی پوچھنے والا بھی نہ تھا —

’’تم کون ہو، اسلیم شیرازی؟‘‘

خود کو دریافت کرنے والے راستے لہو لہان پڑے تھے۔ دلی آنے کے بعد شاید سب سے پہلی کہانی میں نے بچھو گھاٹی لکھی تھی۔ سپنے کیا ایسے ٹوٹتے ہیں۔ پنجابی شاعر پاش، کی کویتا جیسے میرے اندر اندر اتر گئی تھی —

’سب سے خطرناک ہوتا ہے ہمارے سپنوں کا مر جانا

چھوٹے سے شہر میں جو سپنے دیکھے تھے، مخمل و کمخواب کا بستر، ریشم کا تھال، شہزادوں جیسے بچے  —   سپنے جیسے ایک دم سے کھو گئے تھے۔

’’میرے بچے کیسے ہوں گے؟ ویسے ہی نا …  جیسے خوابوں میں نظر آتے ہیں۔ جیسے پریوں کے دیس کے بچے ہوتے ہیں۔ شہزادوں جیسے رنگ برنگ مخمل اور کمخواب کے کپڑوں میں   —   چھوئی موئی سے، میری بیوی کے سرپر شہزادیوں کا سا تاج ہو گا۔ ریشمی ساڑی میں سر تاپا حسن بنی ہوئی۔ لان میں نکلی ہوئی کرسیاں، ایک طرف سوئمنگ پول، ہاتھ باندھے کھڑے ہوئے نوکر چاکر، میٹھی کھنکتی ہوئی آواز کا سحر، کسی ایئر کنڈیشنڈ آفس میں ریوالونگ چیئر پر بیٹھا ہوا میں، تھری پیس سوٹ، کپڑے پر ایک بھی شکن نہیں۔ گھنگھریا خوبصورت بال، ہلکی ہلکی جھانکتی ہوئی بالوں سے سفیدی باہر شاندار گاڑی رکی۔ ڈرائیور نے دروازہ کھولا۔ دربان نے سلام داغا۔ چیمبر میں داخل ہونے تک کتنے ہی ہاتھ پیشانیوں تک جا جا کر سلام بن جاتے ایسا ہی نا؟ ایسا ہی کچھ خواب ہوتا تھا نا … ؟ لیکن اب کہاں تھا یہ خواب  —   کہیں نہ کہیں ضرور یہ خواب میرے اندر رہا تھا۔ ان کی باتیں کرتے ہوئے بھی جو یہ نہیں جانتے کہ ان پر بھی کہانیاں لکھی جا سکتی ہیں۔ تو ان کی باتیں کرتے ہوئے بھی یہ خوب صورت سا لطیف احساس مجھ سے کہیں نہ کہیں ضرور جڑا تھا۔ جو اکثر ہوا کے خوشگوار جھونکے کی طرح میرے اندر کے خوبصورت احساس والے آدمی کو چھپڑ دیتا۔ پھر چپ چپ مرنے لگا تھا۔ یہ خوابوں کا جزیرہ اور دکھائی دے رہا تھا۔ اصل ہندستان کا چہرہ۔ وہ جوکھیتوں میں آج بھی مویشیوں کی طرح جوتے جاتے ہیں آج بھی آزادی کے اتنے سال بعد جاگیردارانہ نظام کی نحوست تلے دبے جھکے ہوئے کولہو کے بیل جھنڈ کے ہاتھ پسارے ہوئے پھر خبروں میں، اخباروں میں، سرخیوں میں ’’کسی قبر سے نکلی ہوئی ایک معصوم مردہ بچے کی آنکھیں ‘‘ زندہ کیمروں میں قید کتنی ہی تصویریں، جو رسائل اخبارات کی سرخیوں سے ہوتی ہوئی عام جذبات میں ہلچل مچا دیتی ہیں، وحشت اور بربریت کے نام پر قطار میں سجی لاشیں مگر یہ سب۔ بربریت اور وحشت کا یہ خونی رقص ان سب سے بند ہو جانے والا نہیں۔ پھر کیا ملتا ہے۔ جذباتی طور پر ان سے قریب ہوتے ہوئے۔ سوچتا ہوں۔ سوچنا چھوڑ دوں اور مشین بن جاؤں۔‘‘

                                                              —   بچھو گھاٹی

بچھو گھاٹی میں میں نے ۱۹۸۷ میں لکھی۔ اور یہ ۱۹۸۹ کے آج کل میں چھپی۔ یہ کہانی میرے ادبی کیریئر کے لیے میل کا پتھر ثابت ہوئی، ادبی حلقوں میں اسے کافی پسند کیا گیا۔ میرے لیے اہم بات یہ تھی کہ میں اپنے آپ کو بدلا بدلا سا محسوس کرنے لگا تھا  —   آئیڈیا لوجی کی سطح پر بھی  —   ۸۰ کے آس پاس جس جدیدیت نے میرے اندر شترمرغ کی طرح خاموش سے اپنی گردن نکالی تھی، ایک بار پھر کسی آنے والی آندھی کے زیر اثر دوبارہ اس نے ریت میں منہ چھپا لیا تھا —

میری کہانیوں کا پہلا مجموعہ بھوکا ایتھوپیا تھا  —   بھوکا ایتھوپیا میں میری ۲۳ کہانیاں شامل تھیں۔ ان میں سے زیادہ تر کہانیاں اپنے عہد اور سلگتے مسائل کی کہانیاں تھیں  —   آنکھیں کھولنے کے بعد لگاتار ہونے والے فرقہ وارانہ فساد مجھے متاثر کرتے آئے تھے۔ اس مجموعہ کی زیادہ کہانیاں اسی فساد کی دین تھیں۔ مرگ نینی نے کہا، ہجرت، مت روسالگ رام، ہم خوشبو خریدیں گے، مہاندی، تحفظ، جلاوطن، ہندستانی، دہشت کیوں ہے، کتناوش، سور باڑی، وغیرہ۔ —

تبدیلیوں کے اس نئے دھوئیں میں، میں خود سے سوال کرتا تھا، اور اپنی کہانیوں سے جواب مانگتا تھا۔ کچھ کہانیوں کے اقتباس دیکھئے۔

’’میں ہارنے کیوں لگاہوں۔ یہ سوال اکثر اپنے آپ سے کرتا ہوں اور کوئی جواب نہیں سوجھتا، شاید اس لیے کہ اب خواب دیکھنے کی عمر نکل گئی۔ مگر یہ تو کوئی جواب نہیں ہوا۔ سچ کے لیے لڑنے کی طاقت تو ہر عمر میں ہونی چاہئے۔ پھر میں ہارنے کیوں لگاہوں ؟ اس سوال کو تھوڑا اور کریدتا ہوں۔ دوسروں کی طرح بے مقصد زندگی جینے کا میں عادی کبھی نہیں رہا۔ بہت چھوٹی عمر سے ہی میں نے اپنا ایک مقصد بنایا تھا۔ مجھے جینا ہے ان لوگوں کے لیے …  مگر نہیں، میں کوئی پیغمبر نہیں تھا۔ کوئی ولی یا بزرگ نہیں تھا۔ کوئی سنت، مہاتما یا مہاپرش نہیں تھا، صرف گردواطراف میں چھائی ہوئی انسانوں کی بے چینی اور درد میں شامل ہونے کا احساس میرے اندر کچھ جگا رہا تھا۔ وہی جو بعد میں میرے لکھنے کی وجہ ثابت ہوئی۔ قلم اٹھانے سے پہلے سوچا تھا۔ لکھوں مگر کس لیے؟ اور کیوں ؟ اور اس کا جواب بھی مل گیا تھا۔ ان کے لیے۔ سوال پھر اٹھا تھا، تو اس سے کیا ہو گا، کیا اس سے خود کو تسلی ہو جائے گی یا ان کے درد میں کمی ہو جائے گی؟ کبھی کبھی درد میں کوئی کمی نہیں آتی اور یہ بھی سچ ہے کہ دوسروں کے اندر کس حد تک جا سکتے ہیں ہم مگر ذہنی سطح پر احساس کی حد تک جاتے ہوئے ان سے خود کو قریب کرتے ہوئے، جوڑتے ہوئے،درندہ صفت لوگوں سے کٹ جاتے ہیں ہم۔ یہ درندہ صفت لوگوں سے خود کو بچالینے کا احساس بھی شاید بہت اہمیت نہیں رکھتا۔ پھر بھی اپنے آپ کی تسلی کے لیے کسی ٹانک کی طرح کام کرتا ہے۔ ان کے بارے میں سوچتا تو ہوں ہاں ان کے لیے لڑ نہیں پاتا۔ یہ گردواطراف میں پھیلے ہوئے لوگ ان کے لیے لڑ نہیں سکتا۔ صرف قلم اور قلم کی سطح پر ان کے نزدیک پہنچ جاتا ہوں۔ کیا یہی کم ہے … ؟

’’ہاں یہ بہت کم ہے۔ شاید تمہاری تخلیق کا مقصد بھی نہیں۔ کم از کم یہ میرے نزدیک کوئی مقصد نہیں ہوسکتا۔ مقصد اتنا کھوکھلا  —   اتنا دھندلا  —   جیسے پانی کی سطح پر تیرتا ہوا تیل اور تمہارے پاس آگ جلانے کے لیے صرف ایک بجھی ہوئی تیلی ہے۔ یہ جھوٹ موٹ کا محض تسلی بھرا احساس ہے۔ تم اسے اگر اپنی جیت سمجھتے ہو تو میں سمجھتی ہوں تم ٹھیک نہیں سوچ رہے ہو۔ ‘‘

                                                 — بچھو گھاٹی

’’اپنے اس تجزیہ کے سہارے میں پھر اسی نقطے پر پہنچ رہا ہوں کہ کیا یہ سب کچھ میری بھاوکتا (جذبات) کا کرادھرا ہے۔ شاید ایسا ہے۔ اس لیے ایسی کسی تحریک سے جڑاؤ سے پہلے ہمیں اپنی اس کھوکھلی بھاوکتا کا بھی انت (خاتمہ) کرنا ہو گا۔ ہاں ساتھی ’’ہل‘‘ اٹھانا اس مجبوری کا کہیں سے کوئی حل نہیں ہے۔ پر ایسا نہیں مانتا۔ اس کے لیے مجھے اپنے سپنوں کی وہ چھت توڑنی پڑی ہے جس کی کھوج مجھے مہانگری لے گئی تھی۔ ہوسکتا ہے مجھے نئے سرے سے اس جنگ کے لیے کوئی اسٹریٹجی تیار کرنی پڑے۔ ابھی اس کا خاکہ کیاہو گا۔ یہ صاف طور پر میرے ذہن میں نہیں ہے۔ پھر بھی اسے لے کر بار بار سوچ رہاہوں اور گاؤں میں اپنے ہی جیسے نوجوانوں کا ایک منچ تیار کر رہاہوں۔ ساتھی، تم نے ایک بار کہا تھا، میں تھوڑا نہیں بہت کنفیوزڈ ہوں۔ اس لیے ان سب باتوں کے باوجود میری سوچ وہیں مڑرہی ہے کہ کیا یہ سب ایک تحریک سے روحانی وابستگی، یہ سب صرف زندگی کو اپنے نظریے سے دیکھنے اور پہچاننے بھر ہے۔ آنکھیں بند ہونے کے بعد دوسرے اس تخلیقی مراحل کا ایک حصہ بن جاتے ہیں …  اور ناٹک لگاتار چلتا رہتا ہے …  تو کیا سچ صرف اتنا ہے ساتھی؟ تو کیا ہم سب جادوگر کے بند ڈبے سے نکلنے والی مرغی ہیں یا کسی انہونی کی پر تکچھا میں اس ناٹک کاحصہ بنے رہتے ہیں ؟ مجھے پورا جیون کسی سچ کی کھوج جیسی سچائی سے انکار نہیں ہے …  سارے دھرم، ساری تحریکیں، سبھی اس کھوج کو لے کر جنمی ہیں …  ہردور، ہر صدی میں   —   اور یہ پوری کھوج کسی مرگ ترشنا جیسی ہے …  کبھی ختم نہیں ہونے والی۔ جیون کا راز بنے رہنے میں ہی ہے …  اس لیے کہ اس راز میں ہی جیون کا سوندریہ (خوبصورتی) چھپا ہے …  کیوں ساتھی؟ اس لیے میں نے بھی سچ کی اس کھوج کی حصہ داری میں اپن امن بنالیا ہے۔

                                      —   میں ہارا نہیں ہوں کامرید

کہانیوں کا دوسرا مجموعہ منڈی ۹۷ میں شائع ہوا۔ اس طرح دس سال کے گیپ کے بعد یہ مجموعہ منظر عام پر آیا تھا۔ تیسرا مجموعہ غلام بخش ۹۸ میں شائع ہوا۔

بھوکا ایتھوپیا سے منڈی تک، میرے اندر کافی حد تک نظریاتی بدلاؤ آچکے تھے منڈی کی شروعاتی دس کہانیاں ہرا عتبار سے میرے مزاج اور آئیڈیا لوجی سے مختلف تھیں  —   اصل واقعہ کی زیراکس کاپی، ترلورشتے یہاں یہاں ٹوٹتے ہیں، ٹیلی فون، مادام ایلیا کو جاننا ضروری نہیں ہے، بھنوری میں ایلس، مجھے جانوروں سے بھوتوں سے پیار کرنے دو، میں نے اپنے اسلوب کو بھی بہت حد تک بدل دیا تھا  —   منڈی میں احساس کی زیریں لہریں (Under Currents) حاوی تھیں تو غلام بخش میں کردار اور واقعات پر زور دیے گئے تھے —

منڈی میں میں نے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کچھ یوں کی تھیں۔

’’میں نے اپنے بچے کی آنکھوں میں دیکھی ہے۔

مسکراہٹ، شرارت، زندگی

زندگی اور صرف زندگی

جس میں خمار ہے، نشہ اور تازگی

نئی کہانی اسی سے جنمے گی، اسی مسکراہٹ سے

نئی کہانی کسی بغاوت کی کوکھ سے نہیں جنمے گی

وہ جنمے گی اسی زندگی سے

سرشار، بہت ساری خوبصورت غلط فہمیوں،

اور ایک خاص طرح کے بھرم کے ساتھ

             — منڈی          (نئی کہانیاں )

غلام بخش کو میں نے جان بوجھ کر ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نام منسوب کیا غلام غلام بخش محض ہندستانی مسلمانوں کے درد سے گزرنے والی کہانی نہیں تھی کیوں کہ اس طرح کی کہانیاں ایک دو نہیں بلکہ میں پچاس سے زیادہ لکھ چکا تھا  —   وہی شک کی فضا، وہی ہر بار اسکول سے لے کر عام زندگی میں ہونے والا سلوک  —   وہی جن سنگھ، بی جے پی اور آر ایس ایس۔ اب مسلمانوں کی جانب سے ہونے والے ایک سنسنی خیز اعلان کی ضرورت تھی۔ اور میں نے غلام بخش کے کردار کے حوالے سے یہ اعلان کرتے ہوئے کوئی ہچک محسوس نہیں کی۔

’’میں نے ان کی آنکھوں میں جھانکا  —   یاد رکھیے اس کہانی کا سب سے اہم حصہ غلام بخش کے آخری ایام ہیں۔ آخری وقت میں یہ احساس اس کے اندر پیدا ہوا تھا کہ یہ مکان کیا اتنے برسوں بعد بھی اس کا نہیں ہے؟ اس نے اپنے اس موروثی گھر کے لیے کوشش کی۔ ظاہر ہے گھر نہیں مل سکا۔ اس نے پاکستان جانے کا ارادہ کر لیا۔ ویزا تک بنوالیا۔ حقیقت یہی ہے کہ اس نے فوقیت اپنے مکان کو دی۔ وہ پاکستان گیا نہیں۔ کیوں کہ یہ تلخ حقیقت اسے معلوم ہو گئی تھی کہ اب یہی اس کا گھر ہے اور اسے اسی گھر کے لیے کوشش کرنی ہے اور …

میں اظہر بائجان، میں نے گھوم کر نوین صاحب کی طرف دیکھا —

جو سکتے کے عالم میں میری طرف دیکھ رہے تھے اور میری ہر بات کے ساتھ ان کے چہرے پر بل بھی پڑنے لگے تھے۔ میں توقف سے مسکرایا۔

اور یہ رہی سب سے معمولی، سب سے اہم بات  —   مرتے وقت اس نے اپنے ہونے کی آخری کیل ٹھونک دی۔

’’مطلب؟‘‘ نوین بھائی نے کرسی پر پہلو بدلا۔

میں دھیرے سے مسکرایا۔ ’’مرا بھی کم بخت تو اپنے اسی باپ دادا والے پرانے گھر میں۔ ایسا کیوں کر ہوا، اس کا مطلب بتا سکتے ہیں آپ؟‘‘

میں نے غور کیا۔ نوین بھائی کے چہرے کا مانس ذرا سا کھنچ گیا تھا۔

                                                  —   غلام بخش

میں نے ادب میں کرداروں کو جیا ہے۔ لیکن غصہ تب آتا ہے جب بار بار اردو میں یہ باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ اردو میں کردار نگاری نہیں ہو رہی ہے۔ نئے ادب میں کوئی بھی زندہ جیتا جاگتا کردار نہیں ہے  —   پڑھنے والے اپنے دائرے کو محدود کر لیں تو ایسے لوگوں سے مجھے کوئی شکایت نہیں ہے۔ مگر مجھے علم ہے کہ ذوقی کو پڑھنے والا یہ شکایت کبھی نہیں کرے گا کہ اس کا جیتے جاگتے زندہ کرداروں سے واسطہ نہیں پڑا ہے  —   کردار میرے نزدیک ہوا میں معلق نہیں ہیں۔ میں انہیں محض ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر لکھنے کی حد تک گوارہ نہیں کرسکتا۔ میں ان کی موت پر سوسو آنسو بھی بہاتا ہوں سب سے پہلے غلام بخش کا تذکرہ کرتا ہوں  —   یہ کردار میرے ذہن میں کیسے آیا —

بہت ممکن ہے کہ آپ اسے بار بار بھی دیکھتے۔ تب بھی کوئی خاص بات اس میں آپ کو نظر نہیں آتی۔ لیکن پہلی بار میں ہی غلام بخش مجھے اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہا تھا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے، تب ہلکی ہلکی سردیاں پڑنی شروع ہوئی تھیں۔ ۱۹۸۶ کا زمانہ رہا ہو گا۔ نومبر یادسمبر کا مہینہ  —   میرے بدن پر ایک پرانا کوٹ تھا۔ پرانے کوٹ میں کتنی ہی پرانی یادیں بسی تھیں  —   تیز تیز چلتے ہوئے کوٹ کے دونوں حصے جھولنے لگتے تھے۔ آصف علی روڈ پر اسٹار پاکٹ بکس کا دفتر تھا۔ میرے ہاتھوں میں ناول کا مسودہ تھا۔ دروازہ پار کرتے ہی کوٹ کا ایک حصہ دروازہ کی کنڈی میں پھنس گیا۔ جلد بازی میں نکالنے کی کوشش میں، میں ایک شخص سے جا ٹکرایا   —   مگر یہ کیا وہ شخص اپنی ہی دھن میں مست تھا۔ نہ اس نے میری طرف دیکھا۔ نہ ہنسا، نہ غصہ ہوا، وہ بس، کچھ بڑبڑا تا ہوا مسکرائے جا رہا تھا۔

پاگل ہے —

میں نے دل میں سوچا۔ دوبارہ اس کی طرف دیکھا۔ مگر اسے کسی کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ ایسے ہی بڑبڑائے جا رہا تھا۔ بڑبڑاتا ہوا کبھی کبھی ہنسنے بھی لگتا۔ اسے اس بات کا احساس بھی نہیں تھا کہ کوئی اسے بغور دیکھ رہا ہے۔ بیچارہ غلام بخش لیکن یہ نام تو میری اپنی ایجاد تھی۔

مجھے پتہ بھی نہیں چلا۔ وہ ایک دم سے اچانک میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا تھا …  ’’مجھے لکھو۔ تمہیں مجھے لکھنا ہی ہو گا — ‘‘

مجھے کچھ چیزیں پاگل کر دیتی ہیں۔ کبھی کوئی البیلا سا قصہ۔ کوئی دلچسپ سی کہانی اور شاید ہمیشہ سے ہی ایسا ہوتا آیا ہے کہ کوئی کوئی کردار آلتی پاتی مار کر میرے سامنے بیٹھ جاتا ہے …  مجھے لکھو …

مجھے ان لوگوں پر رشک آتا ہے جو صرف نئے نئے کردار ہی نہیں گڑھتے بلکہ اپنے کرداروں کے بارے میں اس طرح کی باتیں کرتے ہیں جیسے وہ محض فرضی کردار نہ ہوں، بلکہ چلتے پھرتے آدمی ہوں …  زندہ مخلوق ہوں …  ابھی کچھ دنوں پہلے میں The fragrance of guava پڑھ رہا تھا۔ مارکیز نے اس کتاب میں اپنی کہانیوں اور کرداروں سے متعلق ایسے ایسے نکات پر گفتگو کی ہے، اس پر رشک کرنے کو جی چاہتا ہے۔ کہانیوں میں در آئی بہت چھوٹی چھوٹی سی چیزیں، واقعات، مثلاً گھر کا کوئی شخص کہانی کا کردار کیسے بنایا وہ اس کردار میں فٹ نہیں ہو رہا تھا مگر کردار کے لیے اسی کا سراپا نقش و نگار اور تیور کی ضرورت تھی۔ پھر یہ کیسے ممکن ہوا۔ آس پاس گھومتا ہوا کوئی آدمی، رشتے دار، عزیز، دوست، شناسا، یوں ایک دم سے کہانی کا کردار نہیں بن جاتا۔ ہاں، کبھی کبھی وہ یوں بھی کہانی میں سماجاتا ہے کہ کہانی کا ہی ایک حصہ لگتا ہے اور کبھی کبھی محض ایک کردار کو تین چار کرداروں سے ’’بھڑانا‘ پڑتا ہے، تب جا کر ایک دلچسپ کردار کھڑا ہو پاتا ہے۔

یہاں میں خصوصی طور پر قارئین کے لیے The fragrance of guava یعنی امرود کی مہک سے وہ دلچسپ اقتباسات پیش کرنا چاہتا ہوں،جسے پلینوا پولیؤ فیدوزا نے مارکیز سے ہونے والے طویل مکالمے کے بعد ترتیب دیا تھا —

(۱) میری تحریروں میں وہ واحد کردار (پتوں کا طوفان) جو میرے نانا سے مشابہت رکھتا ہے۔ بے نام کرنل ہے۔ میرے نانا کی ایک آنکھ ایسے واقعے میں ضائع ہو گئی تھی جسے ناول میں شامل کرنا مجھے ضرورت سے زیادہ ڈرامائی محسوس ہوا۔ وہ اپنے دفتر کی کھڑکی سے ایک خوبصورت سفید گھوڑے کو دیکھ رہے تھے کہ اچانک انہیں اپنی بائیں آنکھ میں کسی چیز کا احساس ہوا۔ اور وہ بغیر کسی درد کے اپنی بینائی کھو بیٹھے۔ میں نے اس واقعہ کی تکرار اپنے بچپن میں سنی تھی۔ جب میں نے کرنل کے کردار کو رنگ دینا شروع کیا تو اس میں جوں کا توں نانا کا رنگ آنے تھا۔ ہاں، یہ اور بات ہے کہ ناول میں کرنل اندھا نہیں بلکہ ایک ٹانگ سے لنگڑا ہے۔ اور میں نے یہ دکھایا کہ اس کا لنگڑا پن ایک جنگ میں زخمی ہونے کا نتیجہ ہے۔

(۲)  One hundred years of solitude یعنی تنہائی کے سو سال میں کرنل کا کردار میرے ذہن میں میں نانا کا تصور کے قطعی برعکس ہے۔ نانا بھاری بھرکم تھے۔ ان کی رنگت سرخی مائل تھی۔ اور ان جیسا کھانے کا شائق میں نے پوری زندگی میں کوئی اور نہیں دیکھا۔ ان کی جنسی اشتہا بھی اسی درجے کی تھی، جیسا کہ مجھے بعد میں معلوم ہوا۔ کرنل کے برخلاف جنرل رافیل کا کردار میرے نانا سے زیادہ میل کھاتا ہے۔ بیشک میں نے جنرل کو کبھی نہیں دیکھا۔ مگر نانی نے مجھے بتایا کہ جنرل جیسا ایک آدمی نانا کے دفتر میں تھا۔

(۳) Chronicle of a death foretold  ایک پیش گفتہ موت کی روداد سے پہلے کسی کتاب میں کوئی نسوانی کردار میری ماں سے مشابہت نہیں رکھتا۔ تنہائی کے سوسال کی ارسلا اگوار ان کردار میں ماں کے چند ایک خدوخال موجود ہیں۔ لیکن اس کردار میں میری جان پہچان کی اور بھی بہت سی عورتوں کی خصوصیات ہیں۔ دراصل ارسلا میرے لیے مثالی عورت کی حیثیت رکھتی ہے۔

(۴) ناول لکھنے کے دوران اس بات کا مجھے احساس رہتا ہے کہ کس کردار کے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے۔ لیکن ناول لکھنے کے عمل میں غیر متوقع واقعات پیش آ جاتے ہیں۔ کرنل اور یلیانو، بوئندیا کے بارے میں مجھے پہلا خیال یہ آیا تھا کہ وہ خانہ جنگی کا ایک پرانا سورما ہو گا، جس کی موت ایک درخت کے نیچے پیشاب کرتے ہوئے واقع ہو گی  —   جبکہ اس کی موت درحقیقت واقعی ہوئی تو یہ میرے لیے ایک انتہائی تکلیف دہ مرحلہ تھا۔ میں یہ تو جانتا تھا کہ کسی نہ کسی مقام پر اسے موت کے گھاٹ اتارنا ہی ہو گا لیکن مجھ میں اس کی ہمت نہیں تھی  —   کرنل اس وقت تک خاصا معمر ہو چکا تھا۔ تب ایک سہ پہر میں نے سوچا۔ اب اس کا وقت آ گیا ہے۔ مجھے اس کو ختم کرنا ہی پڑا۔ جب یہ باب مکمل ہوا تو میں لرز تا ہوا مکان کی دوسری منزل پر مرسیدس کے پاس گیا۔ اس نے میرے چہرے پر نظر ڈالتے ہوئے ہی اندازہ کر لیا کہ کیا ہو گیا ہے۔ کرنل مرگیا، اس نے پوچھا۔ میں بستر پر لیٹ گیا اور دو گھنٹے تک روتا رہا۔

’’ذبح‘‘ کا عبدل سقہ ہو، یا ’’بیان‘‘ کا بالمکند شرما جوش، میں ہارا نہیں ہوں کامریڈ کا ونے بہاری ہو  —   سپنے دیکھنے والا مسیتا، ہو  —   یا ہندو پریوار میں جنم لینے والی مرگ نینی،  —   میں ہر بار اپنے کرداروں کے ساتھ رہا ہوں۔ جیا ہوں اور مرا ہوں  —

اس سے قبل کہ ادب میں اپنے نظریہ کی وضاحت کروں،یہ بتانا ضروری ہے کہ اپنی کہانیوں کے حوالے سے قارئین سے اس گفتگو کا جواز کیا ہے —

تو جواز ہے کہ ادب میں گروہ بندی اور سیاست بازاری کی جو فضا ان آنکھوں سے، میں نے بہت قریب سے دیکھی اور محسوس کی ہے، اسے دیکھنے کے بعد اپنے ادب کا جائزہ لیا میرے لیے اس لیے بھی ضروری تھا کہ مجھے اندر بیٹھے آدمی کی تسلی کرنی تھی  —   کہ ضمیر فروشی کے عہد میں،میں نے تخلیق کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا ہے  —   میں خوشامد اور چاپلوسی کے خیمے نصب کرنے والوں سے بلند رہا  —   میں نے ادب میں خیرات نہیں چاہی  —   میں نے انعامات و اعزازات سے مدام خود کو بلند پایا  —   میرے جی میں آیا تو ترقی پسند کو گلے لگایا، فکری بہاؤ سے گزرا تو مابعد جدیدیت کے خلاف شمشیر برہنہ لے کر میدان میں آ گیا  —   میں نے کسی کے کہنے سے کچھ بھی قبول یا نا قبول نہیں کیا  —   اب اگر میں خود کو مابعد جدیدیت کے قریب محسوس کرتا ہوں، تو ایسا محسوس کرنے کا ٹھوس جواز بھی میرے پاس موجود ہے —

میں نے اپنی کہانیوں کا جائزہ لینا اسی لیے مناسب سمجھا کہ میری کہانیاں کیسی کیسی الہڑ، شوخ اور مستانہ لہروں سے گزری ہیں  —   کیسے کیسے انوکھے واقعات میری زندگی کے ساتھ پیش آئے اور ان سب نے قدم قدم پر مجھے میری کہانیوں کو نئی تبدیلیوں سے روشناس کرایا —

مجھے اس کا غم نہیں کہ کون مجھے تسلیم کرتا ہے اور کون نہیں  — ہاں یہ گلہ ضرور ہے کہ برسوں، مدتوں سے ادب کے ان ’’حنفیوں ‘‘ نے قرۃ العین حیدر کا ایک بت بنا رکھا ہے۔ اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے یہ آگ کا دریا انہیں خوفزدہ کرتا رہتا ہے اور یہ نیند کے عالم میں بھی اس کا فر ادا بت کو سلامی دینا نہیں بھولتے  —   ان معصوم، بھولے بھالے علویوں اور حنفیوں کو آپ ایک جادو کا ڈبہ دے دیجئے، یہ شوق سے ڈرائنگ روم میں بند ہو کر برسوں، مدتوں اس ڈبے سے کھیلے رہیں گے اور کسی دوسرے ڈبہ کی جستجو بھی نہیں کریں گے —

مجھے اس بات کا احساس بھی تھا کہ میرے ادب پر لکھنے، باتیں کرنے کے لیے آسمان سے کوئی فرشتہ نہیں اترے گا۔ اور جب برنارڈ شا یہ کہتا تھا۔ ’’کہ جب اپنے ادب کے بارے میں دوسروں سے عمدہ میں لکھ اور بول سکتا ہوں تو دوسروں کو یہ حق کیوں دوں، تو بھائی، یہاں تو بات حق کی بھی نہیں ہے۔ یہاں گفتگو گھر کی چہار دیواری میں بند ناقوں کی ہے کہ ان کے پاس برسوں سے وہی ایک جادو کا ڈبہ ملے۔ اور یہ لے دے کر اسی ایک آگ کے دریا سے گزرے جا رہے ہیں  —

ان سطور کے لکھے جانے کا مقصد بھی یہی ہے، کہ میں جانتا ہوں، میں نے کیا لکھا ہے۔

اور یہ کہ مجھے پتہ ہوتا ہے میں کیا لکھ رہا ہوں  —

مختصرا ان چند باتوں پر بھی روشنی ڈالنا ضروری ہے کہ آج کے عہد میں، میں نے ادب کو کس طور پر لیا ہے۔ کون کون سے ایسے تاریخی حقائق ہیں، جن سے میرا ادب متاثر ہوا ہے  —   پچھلے ۵۰ برسوں کے واقعات و حادثات میں کہانیوں میں کیا کیا تبدیلیاں آئی ہیں اور خود میں نے اپنی کہانیوں میں ان تبدیلیوں کو کس طور پر محسوس کیا ہے —

               (۶)

               نئی صدی: فکشن: کچھ ضروری باتوں کی وضاحت

ہزار داستانیں چپکے سے یوں سوگئیں، جیسے کچھ بھی ہوا نہ ہو۔ مگر غور کیجئے تو ان ہزار داستانوں کے صفحوں پر کیسے کیسے دل دہلا دینے والے واقعے درج ہیں۔ آج سے ہزار برس قبل محمود غزنوی اپنے لشکر کے ساتھ ہندستان آیا تھا۔ مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی آریہ ورت تبدیلیوں کی آندھی میں کھو گیا۔ محمد غوری کی آمد، مغل بادشاہوں کی حکومت۔ تہذیبیں اپنے اپنے نقوش چھوڑتیں رہیں۔پھر فرنگیوں کی حکومت ہوئی، غدر کا واقعہ پیش آیا۔ فرنگیوں کا جانا بھی اس ملک کے لیے حادثہ تھا، کہ نفرت کی آتش بازی کو تقسیم کے المیہ پر بجھنا مقصود تھا۔ ادھر پاکستان بنا۔ ادھر خانہ جنگی سے گھبرا کر شیخ مجیب نے ایک علیحدہ ملک بنگلہ دیش بنا لیا۔

یہاں اس تواریخ کی ضرورت نہیں کہ آریہ ورت کتنے کتنے ٹکڑوں میں تقسیم ہوا۔ آزادی کے ۵۳ برسوں کا کہرا اس قدر گھنا اور لہو آلودہ ہے کہ ماضی میں جھانکتے ہوئے بھی ہول آتا ہے۔ کیسے کیسے لوگ اور کیسی کیسی حکومتیں۔ سیاست کی بساط پر ہم نے جوکروں کا رقص دیکھا ہے۔ ختم ہوتی ہزار صدی ڈھلتے سورج کے ساتھ کتنے ہی چہروں کو بے نقاب کرتی چلی گئی۔

المیہ یہ بھی تھا کہ بابری مسجد شہید ہوئی۔

المیہ یہ بھی تھا کہ ایک دھکا اور دو، بابری مسجد توڑ دو۔ کی صدائیں مدھم مدھم ہوئیں تو انہی بھگوا جیالوں نے سیکولر لباس پہن لیا۔

المیہ یہ بھی تھا کہ بابری مسجد شہادت پر ایوانوں میں جن کی آوازیں گونجا کرتی تھیں وہ اچانک بھگوا رنگ میں نہا گئے۔

المیہ یہ بھی تھا اور المیہ وہ بھی تھا۔

یعنی اس ختم ہوتی الفی نے یہ بھی ثابت کر دکھا یا کہ تہذیب کے عروج اور ارتقاء میں آدرشوں کی بھومیکائیں نہیں ہوتی ہیں۔ جذباتیت سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے۔ اس ختم ہوتی صدی نے یہ بھی اعلان کیا کہ اب احساسات و جذبات کے لبادہ کو اتارنے کا وقت آ گیا ہے۔

یعنی ہر پارٹی سیکولر بھی ہے اور بیک وقت بھگوا رنگ میں ڈوبی بھی۔

ہر آدمی اپنی جگہ لبرل ہے اور بھگوا تہذیب میں آلودہ بھی۔

یعنی نئی صدی یا نئی الفی میں داخل ہوتے ہوئے آپ ایسی چھوٹی چھوٹی اور معمولی باتیں نہیں کہیں گے۔

اس ختم ہوتی صدی کے اور بھی بھیانک نتائج ہیں۔ جنہیں دیکھنا اور جن پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔

یعنی آدمی اچانک برانڈ بن گیا۔

بچے اچانک ام ٹی وی کے وی جے بن گئے

انٹرنیٹ کی عورتوں نے چونکا دیا۔

کہیں Marxism  کا جنازہ اٹھا اور کہیں اسلام کی آبرو خطرے میں نظر آئی۔

ایک دوست پڑوسی ملک سے دوستی کا ہاتھ مانگنے گیا اور خوبصورتی سے اس کی پیٹھ میں چھرا اتار دیا گیا۔

وہائٹ ہاؤس سے تہذیب، کے فتوے جاری ہوئے۔

اور

ہزار برس کے لاکھوں واقعات کے ہجوم میں نئی صدی نے جاتے جاتے کملا داس کو برقعہ کا تحفہ دیا۔ اور ۷۶برس کی خاتون کو اسلام میں پردہ ایک ایسی شے نظر آئی جہاں عورتوں کا تحفظ برقرار رہ سکتا ہے۔

ہم اشرف المخلوقات ہیں اس لیے ہمیں یہ سب دیکھنے سوچنے اور محسوس کرنے کا حق حاصل ہے۔

نئی الفی میں ہم ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کی فرسودہ بحث و مباحثہ کے ساتھ نہیں داخل ہوں گے …  یقیناً زمانہ بدلتا ہے۔ نئی تھیوری اور قدریں ہمارے سماج میں راہ پاتی ہیں اور فرسودہ روایتوں کا چلن ختم ہو جاتا ہے۔ پرانے بت ٹوٹتے ہیں اور نئے بت جنم لیتے ہیں۔

اور یہ سب کچھ تب ہوتا ہے جب حالات، تغیرات مل کر زیست کے نئے فلسفوں کی رہنمائی انجام دیتے ہیں۔ یعنی ایک بالکل ہی نیا فلسفہ۔ ایک بالکل ہی نیا آدمی۔ بالکل ہی نئی سیاست۔پرانے ڈھانچے نیست و نابود ہو چکے ہوتے ہیں۔

’’ایک چڑیا انڈے سے جنم لینے والی ہے۔ انڈا۔ کائنات ہے۔ جو جنم لینا چاہتا ہے،اسے ایک دنیا کو تباہ و برباد کرنا پڑے گا۔‘‘

                                     — ہرمن ہیسے( ڈیمیان ناول سے)

’’پرانی دنیا کا زوال نزدیک آ رہا ہے۔ یہ دنیا نئی شکل لے گی۔ جو دنیا سامنے ہے، اس سے موت کی مہک آ رہی ہے۔ موت کے بغیر کچھ بھی نیا نہیں ہو گا۔ جنگ ہو گی۔ تم دیکھو گے چاروں طرف کیسا ہنگامہ بپا ہے۔ یکسانیت سے اکتا کر لوگ مار کاٹ شروع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ دراصل نئی دنیا کی شروعات ہو چکی ہے۔ اور یہ بات ان لوگوں کے لیے بھیانک ہے جو پرانی دنیا سے چپکے ہوئے ہیں۔‘‘

                                                (ہرمن ہیسے ڈیمیان)

بدلتی ہوئی تہذیب، بدلتے ہوئے اقدار کا گواہ ادیب کو بننا پڑتا ہے۔ اس لیے ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی جیسی بحث سے آگے نکل کر ہمیں اپنے سامنے والی دنیا کے تعاقب میں بھی ہی ہو گا۔

نام نہاد نقادوں نے اب تک جن سوالوں کو خارج کیا ہے۔ کہ ہم کیوں لکھتے ہیں، اب کہیں زیادہ ان سوالوں کے تعاقب میں جانے کی ضرورت ہے —

’’میں یہ سوچنے کی جسارت کرتا ہوں کہ ہیبت ناک حقیقتوں کے اظہار میں مشکل کیوں پیش آتی ہے۔ ایک ایسی حقیقت جو کاغذی نہیں بلکہ ہمارے اندر رہتی بستی ہے۔ جو درد اور حسن سے معمور ہے۔ شاعر، گداگر، موسیقار، پیغامبر، جنگ باز اور بدمعاش۔ اس بے لگام حقیقت کی تمام مخلوقات ہم سب کو تخیل کے در پر کم ہی صدا لگانی پڑتی ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ایسے پابند اظہار یا ذریعے کی تلاش کا رہا ہے جو ہماری زندگیوں کی حقیقت کو قابل یقین بنانے میں ہماری مدد کرسکے۔ یہی میرے دوستو،ہماری تنہائی کا عقدہ ہے۔‘‘

  —   گابرئیل گارسیامارکیز کی ایک تقریر سے (کولمبیا کا مستقبل)

یقیناً ادب خلاء میں تخلیق نہیں ہوسکتا۔ ادیب کو اپنے دائرے سے آگے نکلنا ہی ہو گا۔ شخصی پھیلاؤ بھی آج کے ادب کا ہی ایک روشن تقاضہ ہے۔ زندگی، سماج اور فلموں کا مزاج تک بدلا ہے۔ ہندستانی فلمیں بھی کبھی تشدد، کبھی رومانی اور کبھی درمیان کا کوئی راستہ نکالنے پر اس لیے زور دے رہی ہیں کہ بدلے ہوئے ہندستانی ناظرین کا مزاج آج آسانی سے ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ اچانک سائبر اسپیس، گلوبل ویلیج اور اکیسویں صدی میں داخل ہوئے ہندستانی بچے کا چہرہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ ایک طرف جہاں بالی ووڈ ان تبدیلیوں کو لے کر پریشان ہے، وہیں ہالی ووڈ بھی جوراسک پارک، ڈلاسٹ ورلڈ، Saving private riyan انگلش پیشنٹ، اور حالیہ Titanic جیسی فلموں کے ذریعہ نت نئے تجربے کیسے جا رہا ہے کہ نئے ملینیم میں آخر عوام کی پسندکیاہو گی۔

حقیقتاً سائنس، کائنات اور انسان کا تعلق ہی آج کے ادب کی مضبوط بنیاد بن سکتا ہے اور سامنے کی ان حقیقتوں کو نظر انداز کر کے ہم کسی بڑے ادب کی تخلیق نہیں کرسکتے۔

مشہور تصوراتی مفکر Kurt vennegut نے کہا تھا۔

’’ادب اور فنون لطیفہ انسان کو کائنات میں مرکزیت کا درجہ دیتے ہیں۔ اور جب ایسا ہی ہے تو سائنس اپنی پیدائش کے دنوں سے ہی ہمیشہ شکست سے دوچار رہے اور شاید آنے والے وقتوں میں بھی ادب کے بالمقابل اسے وہ مقبولیت نہ مل سکے۔‘‘

ظاہر ہوا، ادب ہر عہد میں سائنس سے زیادہ مقبول رہا ہے۔ ادب کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں اور اس ختم ہوتی ہزار صدی اور نئی صدی میں ادب میں سب سے بامعنی بھی اور سب سے بھیانک موضوع ہو گا۔ انسان، انسان کی تلاش۔

یہ انسانی فرائیڈ کی تحقیقات سے آگے انسان ہو گا۔

یہ ڈارون کے خیالوں سے بھی الگ انسان ہو گا، جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ کائنات میں انسان کا وجود کسی رحم دل خدا کی وجہ سے نہیں ہوا ہے۔

ٹیسٹ ٹیوب بے بی اور کلوننگ سے آگے نکل کر اسی اشرف المخلوقات کے بارے میں یہ بھی کہا گیا۔

’’انسان صرف ایک پیشہ ور جینٹک روبوٹ یا بقا کی عارضی مشین ہے۔

تو طے ہوا، آج کا سب سے اہم موضوع انسان ہے۔ جو پھیل رہا ہے یا سکڑ گیا ہے۔ جو مائیکرو، سے نینو، کی طرف لوٹ رہا ہے۔ جو ایک دن اس قدر باریک یا نقطہ کی طرح مہیب ہو جائے گا کہ نظر آئے گا۔ جس نے اپنے تحفظ کے لیے ایٹم بم تیار کیے ہیں اور یہی ایٹمی بم اس کا نشان بھی صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے کافی ہیں۔ اب جس کی وجودیت کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ اسی انسان نے اپنے وجود کا لوہا یوں منوایا کہ اب یہ وجود بارود کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اور کسی وقت بھی انسان کی شناخت کے پرخچے بکھر سکتے ہیں۔

نئی صدی میں قدم رکھتے ہوئے۔ یقیناً کچھ پرانی روایتیں ٹوٹنی چاہئیں۔ یہ سب ہمیں یا ہمارے ادب کو دیئے جانے والے بہلاوے ہیں کہ ادیب محض فنکار ہوتا ہے۔ مبلغ یا مقرر نہیں ہوتا۔ تالستائے، دوستو فسکی سے وکٹرہیوگو، ہیمنگ وے، البر کا مو تک، نگاہ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ ادیب جیسے ایفل ٹاور یا قطب مینار کی بلندی پر کھڑا ہے اور اپنے آس پاس کا تجزیہ بھی کر رہا ہے، تصویریں بھی کھینچ رہا ہے۔ وہ ایک اچھا مصور بھی ہے اور مبلغ بھی۔ The plague  کے Dr. Riox کی ناول کے اختتام میں دی جانے والی تقریر کو کیا کہیں گے آپ؟

نئی صدی کے ادب کے لیے کچھ باتیں کافی اہم ہیں، جن کی نشاندہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

(۱) اچھے ادب کے لیے صرف مطالعے اور مشاہدہ نہیں، سیاحت بھی ضروری ہے۔

(۲) آپ کی شخصیت کے کئی Shades ہونے چاہئیں۔ حالیہ نابل انعام یافتہ گنترگر اس سے ارندھتی رائے تک۔

(۳) سیاست آج کے فکشن کا بنیادی منتر یا ہتھیار ہے۔

عہد بدلا ہے مسائل بدلے ہیں۔ ان کی نوعیت بدلی ہے۔ اس لیے اب پہلے سے کہیں زیادہ فکشن پر نئے سرے سے مکالمہ کی ضرورت ہے۔

               (۷)

               آنے والی صدی …  اور انسانی رشتوں کی کتھا

کیا سچ مچ وقت بدل گیا؟ ایک صدی گزر گئی۔ ایک ملینیم ختم ہو گیا  —   نئی صدی اور نئے ماحول میں رشتوں کی پریبھا شائیں بدلی ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں یہ کہانیاں نئے رشتے، نئی Sensibility کی کہانیاں ہیں۔ ان رشتوں کو میں کوئی نام دینا نہیں چاہتا۔ مگر وقت تیزی سے بدلا ہے۔ اور تیزی سے بدلتے وقت نے سب سے زیادہ اثر انسانی رشتوں پر ڈالا ہے۔ نئے چینلس کی یلغار بدلتے ہوئے انٹرنیٹ کے ماحول میں آنکھیں کھولنے والے بچے  —   دنیا سمٹ کر ایک گلوبل ویلیج میں تبدیل ہو چکی ہے۔

میں سوچتا ہوں یہ رشتے کھو گئے، تو کچھ بھی نہیں بچے گا۔ انسانی رشتوں کی Values کی نئی تعریفیں بھی تلاش کرنی ہیں۔ ایک طرف باپ بیٹی کے، بلاتکار کے واقعات بڑھے ہیں، تو ایک دلچسپ سروے، یہ بھی کہتا نظر آتا ہے کہ بیٹی کے لیے باپ زیادہ سمجھدار اور Loyal ثابت ہو رہا ہے۔ آج کی بیٹیاں ماں کی جگفہ باپ کو اپنا دوست سمجھنے لگی ہیں اور اپنے ہر طرح کے معاملے بس اسی سے شیر کر رہی ہیں۔

ایک زمانے میں بہو اور ساس کی لڑائیاں چلتی تھیں۔ انڈیا ٹوڈے نے ایک سروے کیا تو دلچسپ بات یہ پتہ چلی کہ زیادہ تر ساس اپنی بہوؤں سے زیادہ خوش ہیں۔ کیونکہ بہوئیں نہ صرف ان کے پاس رہتی ہیں بلکہ انہیں سمجھتی بھی ہیں۔

ضرورت نئی Sensibility بھی ہے۔ یہ Sensibility کہانی میں کیوں نہیں آنی چاہئے؟ اس مجموعے کی کہانیوں کی بنیاد انہی رشتوں پر رکھی گئی ہے جو تیزی سے بدل رہے ہیں اور جنہیں شاید بہت جلد نئے نام دینے کی ضرورت محسوس ہو۔

اگراس عہد کو مابعد جدید عہد کا نام دیا جائے تو کہا جا سکتا ہے اس مجموعے کی تمام کہانیاں مابعد جدید کہانیاں ہیں  —   نظریاتی اختلافات ممکن ہیں۔ لیکن میں ان کہانیوں کے ساتھ اب وہاں کھڑا ہوں جہاں بہت محدود اور تنگ نظر نہ ہو کر نہ خود کو دیکھ سکتا ہوں اور نہ اپنے ادب کو  —   مجھے ذہن بھی کھلا رکھنا ہے اور نئے افکار کی ٹھنڈی ہواؤں کا لمس بھی قبول کرنا ہے۔

تو یہ نئے انسانی رشتوں کی کتھائیں ہیں  —   ان کتھاؤں سے گزرنا میرے لیے آگ پر چلنے جیسا تھا۔ میں سراسیمہ بھی تھا، خوفزدہ بھی  —   لیکن میں نے اس کے باوجود انہیں لکھنے کا جوکھم قبول کیا  —   ان کہانیوں کے بارے میں مجھے یہ تسلیم کرتے ہوئے ہچکچاہٹ یا خوف نہیں کہ یہ مابعد جدید کہانیاں ہیں  —   پہلے میں خود اس طرح کے رویے کے خلاف تھا، لیکن آج سے دوسال قبل میں نے مسلسل اس بارے میں سوچتے ہوئے ایوانِ اردو میں لکھا —

’’مابعد جدید رویے کو لے کر ادھر میری رائے بدلی ہے۔ جیسے اب میں یہ سوچنے لگا ہوں۔

’’میں انسان کے خاتمے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہوں ‘‘ ولیم فاکنز۔

ایک عہد خاتمے کا مطلب ہے دوسرے عہد کی شروعات۔ اس حقیقت سے کم از کم اب گریز ممکن نہیں کہ گھسی پٹی ترقی پسندی کے زمانے اب لد چکے ہیں۔ تغیر زمانے کا نصیب رہا ہے۔ ایک انقلاب آتا ہے، پھر اس کی لاش سے گزر کر ایک دوسرا انقلاب آ جاتا ہے۔ یہ انقلاب بار نہ آئے تو حرکت و تموج کی فضا رک جائے۔ انسان کے کاروبار مدھم مدھم ہو جائیں۔ ارتقا کے دروازے تنگ ہو جائیں۔ انقلاب کی آمد ضروری ہے اور انقلاب کی آمد سے عہد کا متاثر ہونا اس سے کہیں زیادہ ضروری۔ ترقی پسندی اور جدیدیت کو جس قدر اپنا کام انجام دینا تھا، یہ دے چکے، اور کہنا چاہئے کہ ترقی پسندی اور جدیدیت کی کراس بریڈنگ سے مابعد جدید عہد کی نئی شروعات ہو گئی ہے۔ میں مستقل مابعد جدید رویوں کے بارے میں سوچ رہا ہوں … ‘‘

                                      —   نومبر ۹۸ (ایوان اردو)

ایک عہد ختم ہو گیا۔ ایک نئے عہد کی شروعات ہوئی ہے  —   کہیں خدا واپس آ گیا ہے (The god of small things) تو کہیں نئے انسانی رشتوں کے تناظر میں A suitable boy کی تلاش ہو رہی ہے  —   ہاں، یہ ہم، میں جواب تک بارگاہ خداوندی میں دعا، کیے جا رہے ہیں یا پاگل ہاتھیوں کی تلاش کر رہے ہیں  —   مستقبل اپنے اندر تلاش کیے بغیر، میں کہانی کے خاردار راستوں سے گزر ہی نہیں سکتا —

سناٹے میں تارہ  —   نیلگوں آسمان، بکھرے ہوئے تارے۔ اور ان کے درمیان وہی ایک محبوب ستارہ —

سناٹے میں یہ تارہ ایک بار پھر میرے آگے روشن ہو گیا ہے۔ مجھ سے کہتا ہے  —   لکھتے جاؤ یہ مت دیکھو کہ کون تمہیں کیا کہتا ہے۔ لکھتے جاؤ  —   تخلیق ایک بہاؤ ہے۔ تمہیں تو بہتے جانا ہے۔ مسلسل۔

تو میں مسلسل اس تخلیقی عمل میں بہتا چلا جا رہا ہوں۔ کب ٹھہروں گا۔ خدا معلوم  —   لیکن مجھے یہ خبر ہے کہ میں کیا لکھ رہا ہوں  —   اور یہ بھی  —   کہ میں کیوں لکھ رہا ہوں  —

میری منزل کیا ہے۔ نہیں معلوم

اور مجھے منزل پر بھروسہ بھی نہیں  —

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید