فہرست مضامین
اندھے کنویں میں
محمد علوی
محبتیں، الفتیں شکستہ
شکست دل، حسرتیں شکستہ
رہے سہے خواب ٹکڑے ٹکڑے
بچی کھچی لذتیں شکستہ
قرار کے لمحے ٹوٹے پھوٹے
سکون کی ساعتیں شکستہ
یہ شہر جسکی فصیلیں غائب
مکان جن کی چھتیں شکستہ
حدِ نگہ تک اجاڑ منظر
ادھر ادھر تربتیں شکستہ
قدم قدم پر فساد برپا
جگہ جگہ چاہتیں شکستہ
یہ نقص کیسا ہے آئینے میں
کہ ہو گئیں صورتیں شکستہ
پھٹے پرانے لباس پہنو
لئے پھرو عزتیں شکستہ
ہمارا ورثہ شکستنی ہے
ملی ہیں سب نعمتیں شکستہ
یہ دور ہے اسلحوں کا علوی
پرانی سب حرفتیں شکستہ
٭٭٭
کشمیر ان نومبر
اونچے برفیلے کہسار
جھیلم، جھیلیں اور چنار
ڈونگے، شکارے، ہاؤس بوٹ
چلتے پھرتے اوور کوٹ
راکھ بنتی کانگڑیاں
پھیرن میں بجھتی خوشیاں
٭٭٭
بوڈھا آدمی
دنوں کا لہو
میرے بالوں میں گرکر
سفید ہو گیا ہے
ہزاروں کی تعداد میں چاند سورج
مری آنکھ کے پاس
چمکے ہیں، ٹوٹے ہیں، گم ہو گئے ہیں
مرے نقشِ پا سے
زمیں بھر گئی ہے!
زمیں اب مری پیٹھ پر گھومتی ہے!
میں اپنے بدن میں
کئی سال دفنا چکا ہوں !!
بھائی ذرا بتلانا تو
دھوپ کہاں ملتی ہے یہاں۔۔
٭٭٭
جزیروں کو پتہ ہے کیا ہے پانی
کھلی ہے آنکھ تو دیکھا ہے پانی
بڑی اونچائیوں سے وادیوں میں
چھلانگیں مارتا اترا ہے پانی
ندی نالوں کو دریاؤں کو لے کر
سمندر ڈھونڈنے نکلا ہے پانی
یوں ہی اڑتے نہیں آبی پرندے
کہیں نزدیک ہی بہتا ہے پانی
درختوں سے یہ کیسی دوستی ہے
انہیں چھپ چھپ کے کیوں ملتا ہے پانی
پڑا رہتا ہے گہری کھائیوں میں
بہت چل چل کے جب تھکتا ہے پانی
کبھی تنہائی میں دریا کنارے
سنا ہے تم نے کیا کہتا ہے پانی
کہاں جاتے ہو مرنا ہے تو پیارے
ادھر آؤ یہاں گہرا ہے پانی
٭٭٭
ہواوٴں کے گھر
ہوا یوں تو ہر دم بھٹکتی ہے، لیکن
ہوا کے بھی گھر ہیں
بھٹکتی ہوا
جانے کتنی دفعہ
شہد کی مکھیوں کی طرح
گھر میں جاتی ہے اپنے !
اگر یہ ہوا
گھر نہ جائے تو سمجھو
کہ اس کے لئے گھر کا دروازہ وا
پھر نہ ہوگا کبھی
اور اسے اور ہی گھر بنانا پڑےگا
یہ ہم اور تم
اور کچھ بھی نہیں
ہواوٴں کے گھر ہیں !
٭٭٭
کوئی موسم ہو بھلے لگتے تھے
دن کہاں اتنے کڑے لگتے تھے
خوش تو پہلے بھی نہیں تھے لیکن
یوں نہ اندر سے بجھے لگتے تھے
روز کے دیکھے ہوئے منظر تھے
پھر بھی ہر روز نئے لگتے تھے
ان دنوں گھر سے عجب رشتہ تھا
سارے دروازے گلے لگتے تھے
رہ سجھاتی تھیں اندھیری گلیاں
لوگ پہچانے ہوئے لگتے تھے
جھیلیں پانی سے بھری رہتی تھیں
سب کے سب پیڑ ہرے لگتے تھے
شہر تھے اونچی فصیلوں والے
ڈر زمانے کے پرے لگتے تھے
باندھ رکھا تھا زمیں نے علوی
ہم مگر پھر بھی اڑے لگتے تھے
٭٭٭
پرندے اڑے پھڑپھڑاتے ہوئے
بہت شور اٹھا رات جاتے ہوئے
نہ رستے میں کوئی سواری ملی
نہ گھوڑے ملے ہنہناتے ہوئے
وہی لمبا سنسان سا راستہ
وہی پیڑ سائے اٹھاتے ہوئے
نہ پورب نہ پچھم ہوائیں چلیں
نہ بادل اٹھے گڑگڑاتے ہوئے
وہی خشک بنجر زمین چار سو
وہی لوگ آنسو بہاتے ہوئے
وہی موسموں کی تبہ کاریاں
وہی شوخ سیلاب آتے ہوئے
وہی چاند بڑھتا سمٹتا ہوا
ستارے وہی ٹمٹماتے ہوئے
وہی سورجوں کا مسلسل زوال
وہی رات دن آتے جاتے ہوئے
مہینے وہی دوڑتے بھاگتے
وہی سال صدیاں بناتے ہوئے
وہی بےوفا سنگدل آسماں
وہی سب خدا منھ چھپاتے ہوئے
وہی سب وہی سب وہی سب کا سب
وہی سب کا سب بڑبڑاتے ہوئے
پلٹ آئے کیوں گھر کی دہلیز سے
کہاں چل دیئے لڑکھڑاتے ہوئے
وہی بار* علوی اسی بار میں
وہی شعر پھر سے سناتے ہوئے
*Bar
٭٭٭
ارادہ ہے کسی جنگل میں جا رہوں گا میں
تمہارا نام ہراک پیڑ پر لکھوں گا میں
ہرایک پیڑ پہ چڑھ کر تمہیں پکاروں گا
ہرایک پیڑ کے نیچے تمہیں ملوں گا میں
ہرایک پیڑ کوئی داستاں سنائے گا
سمجھ نہ پاؤں گا لیکن سنا کروں گا میں
تمام رات بہاروں کے خواب دیکھوں گا
گرے پڑے ہوئے پتوں پہ سو رہوں گا میں
اندھیرا ہونے سے پہلے پرندے آئیں گے
اجالا ہونے سے پہلے ہی جاگ اٹھوں گا میں
تمہیں یقین نہ آئے تو کیا ہوا علویؔ
مجھے یقین ہے ایسے بھی جی سکوں گا میں
٭٭٭
کسے آئے نظر اندھیرے میں
ہاں کوئی ہے مگر اندھیرے میں
ایک دو پل کو پھر سے ابھرا ہے
اک دیا ڈوب کر اندھیرے میں
اس سے آگے زمیں نہ ہو شاید
سوچ کے پاؤں دھر اندھیرے میں
حوصلے ماند پڑتے جاتے ہیں
نظر آتے ہیں ڈر اندھیرے میں
روشنی کھڑکیاں بناتی ہے
چونک پڑتے ہیں گھر اندھیرے میں
چاند نکلا نہ رات بھر علویؔ
کھو گئی رہگزر اندھیرے میں
٭٭٭
دھوپ
اجلی اجلی دھوپ آنگن میں در آئی
حلقے حلقے قدموں سے دہلیز چڑھی
ڈرتے ڈرتے دروازے میں پاؤں دھرا
گھر میں گھور اندھیرے کو بیٹھے دیکھا
شرمائی، جھجکی، گھبرائی، لوٹ گئی۔۔
٭٭٭
رات اور چاند ستارے
رات اک سمندر ہے
چاند اک جزیرہ ہے
اور یہ ستارے سب
ننھے منے بجرے ہیں
جو بہت ہی آہستہ
چاند کے جزیرے کی
سمت بڑھتے رہتے ہیں
اور صبح ہونے تک
ایک ایک کرکے سب
کالی کالی لہروں میں
ڈوب ڈوب جاتے ہیں
چاند کے جزیرے میں
بھوت مسکراتے ہیں۔
٭٭٭
خیالوں کے سمندر میں
پڑے رہنا، پڑے رہنا
عجب راحت ہے بستر میں
یوں ہی جیسے نہیں زندہ
شکن آئے نہ چادر میں
اتر جانا، اتر جانا
خیالوں کے سمندر میں
وہاں ڈوبے جہازوں میں
خزانے ڈھونڈے رہنا
مزے میں اونگھتے رہنا۔۔
٭٭٭
چاند پر
وہاں کون تھا؟
کس سے کہتے کے ہم
بستیوں میں رہے
پر اکیلے رہے
کس سے کہتے کے ہم
بستیاں چھوڑکر
بھاگ کر آئے ہیں
کس سے کہتے کے ہم
اپنی تنہائیاں
ساتھ ہی لائے ہیں
وہاں کون تھا !
٭٭٭
پربت
اجلی اجلی جھیل کو پہلو میں رکھ کر
اپنا چہرہ دیکھ رہا ہے اک پربت
اپنے آپ میں گم سم کھویا کھویا سا
جانے کب سے بیٹھا ہے آئینہ لئے
جانے کب سے جھیل بنی ہے آئینہ
جانے کتنے موسم آئے، اور گئے
جھیل نہ جانے کب کب ابھری اور چھلکی
کب کب سمٹی، سکڑی، تہ میں بیٹھ گئی
کتنے پودے نکلے، جھومے، سوکھ گئے
کتنے پھول کھلے، مرجھائے، ٹوٹ گئے
کتنے پنچھی آئے، ٹھہرے، لوٹ گئے
پربت سب سے بے پروا کھویا کھویا
اجلی اجلی جھیل کو پہلو میں رکھ کر
اپنا چہرہ دیکھ رہا ہے کیوں اب تک
٭٭٭
آخری دن کی تلاش
خدا نے قرآن میں کہا ہے
کہ لوگو میں نے
تمہاری خاطر
فلک بنایا
فلک کو تاروں سے
چاند سورج سے جگمگایا
کہ لوگو میں نے تمہاری خاطر
زمیں بنائی
زمیں کے سینے پہ
ندیوں کی لکیریں کھینچیں
سمندروں کو
زمیں کی آغوش میں بٹھایا
پہاڑ رکھے
درخت اگائے
درخت پر
پھول پھل لگائے
کہ لوگو میں نے
تمہاری خاطر
یہ دن بنایا
کہ دن میں کچھ کام کر سکو تم
کہ لوگو میں نے تمہاری خاطر
یہ شب بنائی
کہ شب میں آرام کر سکو تم
کہ لوگو میں نے تمہاری خاطر
یہ سب بنایا
مگر نہ بھولو
کہ ایک دن میں یہ ساری چیزیں سمیٹ لوں گا۔۔
خدا نے جو کچھ کہا ہے
سچ ہے
مگر نہ جانے وہ دن کہاں ہیں
وہ آخری دن
کہ جب خدا یہ تمام چیزیں سمیٹ لے گا
مجھے اسی دن کی جستجو ہے
کہ اب یہ چیزیں
بہت پرانی
بہت ہی فرسودہ ہو چکی ہیں۔۔
٭٭٭
کل رات سونی چھت پہ عجب سانحہ ہوا
جانے دو یار، کون بتائے کہ کیا ہوا
نظروں سے ناپتا ہے سمندر کی وسعتیں
ساحل پہ ایک شخص اکیلا کھڑا ہوا
لمبی سڑک پہ دور تلک کوئی بھی نہ تھا
پلکیں جھپک رہا تھا دریچا کھلا ہوا
مانا کہ تو ذہین بھی ہے، خوب رو بھی ہے
تجھ سا نہ میں ہوا تو بھلا کیا برا ہوا
دن ڈھل رہا تھا جب اسے دفنا کے آئے تھے
سورج بھی تھا ملول زمیں پر جھکا ہوا
کیا ظلم ہے کہ شہر میں رہنے کا گھر نہیں
جنگل میں پیڑ پیڑ پہ تھا گھر بنا ہوا
علوی غزل کا خبط ابھی کم نہیں ہوا
جائے گا جی کے ساتھ یہ ہو کا لگا ہوا
٭٭٭
گرہ میں رشوت کا مال رکھیے
ضرورتوں کو بحال رکھیے
ارے یہ دل اور اتنا خالی
کوئی مصیبت ہی پال رکھیے
جہاں کہ بس اک طلسم سا ہے
نہ ٹوٹ جائے خیال رکھیے
تڑا مڑا ہے مگر خدا ہے
اسے تو صاحب سنبھال رکھیے
٭٭٭
اداس ہے دن ہنسا کے دیکھیں
ذرا اسے گدگدا کے دیکھیں
وہاں پہاڑوں میں کچھ نہیں ہے
نہیں ہے کچھ، پھر بھی جا کے دیکھیں
یہاں بھی کوئی نہیں سن گا
صدا یہاں بھی لگا کے دیکھیں
ہمیں بھی آتا ہے مسکرانا
مگر کسے مسکرا کے دیکھیں
بھلا لگےگا یہ شہر علوی
چلو اسے دور جا کے دیکھیں
٭٭٭
ہرایک دل میں اسی کی آرزو ہے
‘بدی’ بوڑھی ہے پھر بھی خوب رو ہے
پڑی رہتی ہے گھر میں سر چھپائے
یہ ‘نیکی’ تو بچاری فالتو ہے
ہمیں کیا گھاس ڈالے گی بھلا وہ
‘خوشی’ اونچے گھرانے کی بہو ہے
کسی بھی ہونٹ پر جا بیٹھتی ہے
‘ہنسی’ سچ پوچھئے تو فالتو ہے
کہاں ملتی ہے علوی سچ بتانا
‘مسرت’ کی ہمیں بھی جستجو ہے
٭٭٭
خلل
حوض میں بے حرکت
پانی کہ سطح پر
ایک مینڈھک پاؤں لمبائے
آرام سے اونگھ رہا ہے
ابھی کوئی
وضو کرنے آئے گا
اور پانی میں
ہلچل مچائے گا…
٭٭٭
رستے میں ایک گاؤں
چھ سات پرانے گھر آپس میں مل کے بیٹھے تھے
اک ٹوٹے پھوٹے چھکڑے میں اک دو کتے اونگھ رہے تھے
پیپل کے اک پیڑ کے نیچے
کچھ بھینسیں خاموش کھڑی تھیں
دو چیلیں سوکھے کھیتوں پر
پر پھیلائے تیر رہی تھیں
دھول اڑائے جاتا تھا کچا رستہ
کار کے پیچھے بھاگ رہا تھا اک بچہ
٭٭٭
مشورہ
مری جاں اس قدر اندھے کوئیں میں
بھلا یوں جھانکنے سے کیا ملے گا
کوئی پتھر اٹھاؤ اور پھینکو
اگر پانی ہوا تو چیخ اٹھے گا
٭٭٭
تخلیق
ایک زنگ آلودہ
توپ کے دہانے میں
ننھی منھی چڑیا نے
گھونسلا بنایا ہے۔۔
٭٭٭
ابن مریم ہوا کرے کوئی
تو پھر یوں ہوا
ابن مریم نے
اک بھیڑ کی اون میں
انگلیاں ڈال کر
اس کی الجھی ہوئی اون سلجھائی
اور مسکراکر کر کہا
سیکڑوں روگ ہیں
اور میرے پاس ان کی دوا ہے
مگر بھائی
تو کون سے روگ میں مبتلا ہے؟
تو میں نے کہا
میری الجھنیں میرے اندر ہیں
٭٭٭
موت
تو ہم سب کی ماں ہوتی ہے
ہم سب تیری گود میں آ کر
گہری نیند میں کھو جاتے ہیں
دیکھ میں تیرے پیچھے کب سے
ہاتھ پسارے بھاگ رہا ہوں
ماں مجھ کو بھی گود میں لے لے
میں برسوں سے جاگ رہا ہوں
٭٭٭
دکھ کا احساس نہ مارا جائے
آج جی کھول کے ہارا جائے
ان مکانوں میں کوئی بھوت بھی ہے
رات کے وقت پکارا جائے
سوچنے بیٹھیں تو اس دنیا میں
ایک لمحہ نہ گزارا جائے
ڈھونڈتا ہوں میں زمیں اچھی سی
یہ بدن جس میں اتارا جائے
ساتھ چلتا ہوا سایہ اپنا
ایک پتھر اسے مارا جائے
٭٭٭
یہ رات اور دن
یہ رات اور دن
بھری دوپہر
یہ شام و سحر
انھیں دیکھ کر
مجھے ایسا لگتا ہے
میں جی رہا ہوں
مگر کوئی ہے جو
کبھی رات کو
کبھی دوپہر میں
کبھی شام کو
کبھی منہ اندھیرے
مرے کان میں
حقارت سے کہتا ہے
تو مر رہا ہے
٭٭٭
ایک آنکھ سے کانی ہے
غزل ادب کی رانی ہے
خوشی بدیسی ہے تو کیا
غم تو ہندستانی ہے
بندر اپنا دادا ہے
بلی شیر کی نانی ہے
اب کے دسمبر میں سردی
دہلی سے منگوانی ہے
مارچ میں تھوڑی سی گرمی
شملہ پر بھجوانی ہے
ریت ہی ریت زمیں پر ہے
آسمان پر پانی ہے
اس میں تو تم ہنستے ہو
یہ تصویر پرانی ہے
نقادوں کا کہنا کیا
سب ان کی من مانی ہے
ہوا خدا کا کرنا یوں
آگے وہی کہانی ہے
آج نہیں تو کل علویؔ
موت کبھی تو آنی ہے
٭٭٭
بھائی مرے گھر ساتھ نہ لے
جنگل میں ڈر ساتھ نہ لے
بھیگی آنکھیں چھوڑ یہیں !
دیکھ یہ منظر ساتھ نہ لے
یادیں پتھر ہوتی ہیں
مورکھ پتھر ساتھ نہ لے
نیند یہیں رہ جانی ہے
تکیہ چادر ساتھ نہ لے
چلو بھر پانی کے لئے
سات سمندر ساتھ نہ لے
ایک اکیلا بھاگ نکل
سارا لشکر ساتھ نہ لے
ساتھ خدا کو رکھ علویؔ
مسجد منبر ساتھ نہ لے
٭٭٭
سچ تو یہ ہے کہ گماں ہوں میں بھی
تو نہیں ہے تو کہاں ہوں میں بھی
جن میں جل بجھ گئے احباب میرے
ان مکانوں کا دھواں ہوں میں بھی
یاد کرتا ہوں پرانی باتیں
سوچتا ہوں کہ رواں ہوں میں بھی
مجھ میں رہتی ہے یہ پریاں کیسی
کیا کوئی اندھا کنواں ہوں میں بھی
جھوٹ ہی جھوٹ بھرا ہے مجھ میں
کسی مجرم کا بیاں ہوں میں بھی
خواب میں دیکھ کے خود کو علویؔ
ایسا لگتا ہے کہ ہاں! ہوں میں بھی
٭٭٭
دن اک کے بعد ایک گذرتے ہوئے بھی دیکھ
اک دن تو اپنے آپ کو مرتے ہوئے بھی دیکھ
ہر وقت کھلتے پھول کی جانب تکا نہ کر
مرجھا کے پتیوں کو بکھرتے ہوئے بھی دیکھ
ہاں دیکھ برف گرتی ہوئی ڈال ڈال پر
تپتے ہوئے خیال ٹھٹھرتے ہوئے بھی دیکھ
اپنوں میں رہ کے کس لئے سہما ہوا ہے تو
آ مجھ کو دشمنوں سے نہ ڈرتے ہوئے بھی دیکھ
پیوند بادلوں کے لگے دیکھ جا بجا
بغلوں سے آسمان کترتے ہوئے بھی دیکھ
حیران مت ہو تیرتی مچھلی کو دیکھ کر
پانی میں روشنی کو اترتے ہوئے بھی دیکھ
اس کو خبر نہیں ہے ابھی اپنے حسن کی
آئینہ دے کے بنتے سنورتے ہوئے بھی دیکھ
دیکھا نہ ہوگا تونے مگر انتظار میں
چلتے ہوئے سمے کو ٹھہرتے ہوئے بھی دیکھ
تعریف سن کے دوست سے علویؔ تو خوش نہ ہو
اس کو تری برائیاں کرتے ہوئے بھی دیکھ
٭٭٭
دہلی
دہلی تیری آنکھ میں تنکا
قطب مینار
دہلی تیرا دل پتھر کا
لال قلعہ
دہلی تیرے بٹوے میں
غالب کی مزار
رہنے بھی دے بوڑھی دہلی
اور نہ اب ملبوس اتار
٭ ٭ ٭
صبح
آنکھیں ملتے آتی ہے
چائے کی پیالی پکڑاکر
اخبار میں گم ہو جاتی ہے
٭٭٭
شہر
کہیں بھی جاؤ، کہیں بھی رہو تم
سارے شہر ایک جیسے ہیں
سڑکیں سب سانپوں جیسی ہیں
سب کے زہر ایک جیسے ہیں
٭٭٭
امید
ایک پرانے حجرے کے
ادھ کھلے کواڑوں سے
جھانکتی ہے ایک لڑکی
٭٭٭
ایک اور مشورہ
مری جاں گھر میں بیٹھے غم نہ کھاؤ
اٹھو دریا کنارے گھوم آؤ
برہنہ پاذرا ساحل پہ دوڑو
ذرا کو دو، ذرا پانی میں اچھلو
افق میں ڈوبتی کشتی کو دیکھو
زمیں کیوں گول ہے، کچھ دیر سوچو
کنارہ چومتی موجوں سے کھیلو
کہاں سے آئیں ہیں، چپکے سے پوچھو
دمکتی سیپیوں سے جیب بھر لو
چمکتی ریت کو ہاتھوں میں لے لو
کبھی پانی کنارے پر اچھالو
اگر خوش ہو گئے، گھر لوٹ آؤ
وگرنہ خامشی میں ڈوب جاؤ !!
٭٭٭
حادثہ
لمبی سڑک پر
دوڑتی ہوئی دھوپ
اچانک
ایک پیڑ سے ٹکرائی
اور ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی
٭٭٭
کون
کبھی دل کے اندھے کوئیں میں
پڑا چیختا ہے
کبھی دوڑتے خون میں
تیرتا ڈوبتا ہے
کبھی ہڈیوں کی
سرنگوں میں بتی جلا کے
یوں ہی گھومتا ہے
کبھی کان میں آ کے
چپکے سے کہتا ہے
تو اب بھی جی رہا ہے
بڑا بے حیا ہے
میرے جسم میں کون ہے یہ
جو مجھ سے خفا ہے
٭٭٭
خدا
گھر کی بیکار چیزوں میں رکھی ہوئی
ایک بیکار سی
لالٹین ہے !
کبھی ایسا ہوتا ہے
بجلی چلی جائے تو
ڈھونڈ کر اسکو لاتے ہیں
بڑے ہی چین سے جلاتے ہیں
اور بجلی آتے ہی
بیکار چیزوں میں پھینک آتے ہیں !
٭٭٭
سرد دن
پھر ایک
سرد ٹھٹھرا ہوا دن
دبے پاؤں چلتا ہوا
بالکنی سے کمرے میں آیا
مجھے اپنے بستر میں
دبکا ہوا دیکھ کر
مسکرایا
٭٭٭
مختلف ہندی ویب سائٹس سےرسم الخط کی تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید