FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

انتخاب سیماب

 

 

                سیماب اکبر آبادی

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

رہیں گے چل کے کہیں اور اگر یہاں نہ رہے

بَلا سے اپنی  جو آباد گُلِسْتان نہ رہے

 

ہم ایک لمحہ بھی خوش زیرِ آسماں نہ رہے

غنیمت اِس کوسَمَجْھیے کہ جاوداں نہ رہے

 

ہمیں تو خود چَمن آرائی کا سلیقہ ہے

جو ہم رہے توگُلِسْتاں میں باغباں نہ رہے

 

شباب نام ہے دل کی شگفتہ کاری کا

وہ کیا جوان رہے جس کا دل جواں نہ رہے

 

حرم میں، دَیروکلیسا میں، خانقاہوں میں

ہمارے عشق کے چرچے کہاں کہاں نہ رہے

 

کبھی کبھی، رہی وابستگی قفس سے بھی

رہے چمن میں تو پابندِ آشیاں نہ رہے

 

فضائے گل ہے نظر کش و مَن ہے دامن کش

کہاں رہے تِرا آوارہ سر، کہاں نہ رہے

 

بہار جن کے تبسّم میں مُسکراتی تھی

وہ گُلِسْتاں  وہ جوانانِ گُلِسْتاں نہ رہے

 

خدا کے جاننے والے تو خیر کچھ تھے بھی

خدا کے ماننے والے بھی اب یہاں نہ رہے

 

ہمیں قفس سے کریں یاد پھر چمن والے

جب اور کوئی ہوا خواہِ آشیاں نہ رہے

 

کِیا بھی سجدہ تو دل سے کِیا نظر سے کِیا

خدا کا شُکر کہ ہم بارِ آستاں نہ رہے

 

ہے عصرِ نَو سے یہ اِک شرط انقلاب کے بعد

ہم اب رہیں جو زمیں پر تو آسماں نہ رہے

 

برائے راست تعلّق تھا جن کا منزل سے

وہ راستے نہ رہے اب وہ کارواں نہ رہے

 

ہَمِیں خرابِ ضعیفی نہیں ہوئے سیماب

ہمارے وقت کے اکثر حَسِیں جواں نہ رہے

٭٭٭

 

 

 

 

شاید جگہ نصیب ہو اُس گُل کے ہار میں

میں پھُول بن کے آؤں گا، اب کی بہار میں

 

خَلوَت خیالِ یار سے ہے انتظار میں

آئیں فرشتے لے کے اِجازت مزار میں

 

ہم  کو تو جاگنا ہے ترے انتظار میں

آئی ہو جس کو نیند وہ سوئے مزار میں

 

اے درد!  دل کو چھیڑ کے، پھر بار بار چھیڑ

ہے چھیڑ کا مزہ خَلِشِ بار بار میں

 

ڈرتا ہوں، یہ تڑپ کے لحد کو اُلٹ نہ دے

ہاتھوں سے دِل دبائے ہوئے ہُوں مزار میں

 

تم نے تو ہاتھ جور و سِتم سے اُٹھا لیا

اب کیا مزہ رہا سِتمِ روزگار میں

 

اے پردہ دار! اب تو نکل آ، کہ حشر ہے

دنیا کھڑی ہوئی ہے ترے انتظار میں

 

عمرِ دراز، مانگ کے لائی تھی چار دن

دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

 

سیمابؔ پھول اُگیں لحدِ عندلیب سے

اتنی تو تازگی ہو، ہوائے بہار میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اب کیا بتائیں عمرِ وفا کیوں خراب کی

نوحہ ہے زندگی کا کہانی شباب کی

 

تم نے خبر نہ لی مِرے حالِ خراب کی

کالی ہوئیں فراق میں راتیں شباب کی

 

تھی الوداعِ ہوشِ تجلّیِ مختصر

میرا تو کام کر گئی جنْبش نقاب کی

 

وہ میرے ساتھ ساتھ مُجسّم تِرا خیال

وہ جنگلوں میں سیر شبِ ماہتاب کی

 

ممنُون ہوں تِری نگہِ بے نیاز کا

رُسوائیاں تو ہیں مِرے حالِ خراب کی

 

میں اپنی جلوہ گاہِ تصوّر سجاؤں گا

تصویر کھینچ دے کوئی اُن کے شباب کی

 

دے دو غبارِ دل میں ذرا سی جگہ ہمیں

تربت بنائیں گے دلِ خانہ خراب کی

 

گھبرا کے جس سے چیخ اُٹھا عالَمِ وجُود

وہ چیز دل نے میرے لئے اِنتخاب کی

 

چمکیں تو خوفناک، گِریں تو حیات سوز

ساون کی بجلیاں ہیں نگاہیں عتاب کی

 

سیماب زندگی کی ہے تاریخ ہر غزل

ہر شعر میں ہے ایک کہانی شباب کی

٭٭٭

 

 

 

 

تم مِرے پاسِ رہو، پاسِ ملاقات رہے

نہ کرو بات کسی سے تو مِری بات رہے

 

ہو سرافرازِ یقیں، حدّ ِ تصّور سے گُزر

وہ بھی کیا عشق جو پابندِ خیالات رہے

 

میں نے آنکھوں سے نہ دیکھی سَحَرِشامِ فراق

شمع سے پہلے بُجھا ایک پہر رات رہے

 

ذہن ماؤف، دِل آزردہ، نگاہیں بے کیف

مر ہی جاؤں گا جو چندے یہی حالات رہے

 

دَیر میں آنے کی تکلیف تو کی ہے سیماب

یاد کعبے کی بھی اے قبلۂ حاجات رہے

٭٭٭

 

 

 

 

ہَمَیں تو یوں بھی نہ جلوے تِرے نظر آئے

نہ تھا حجاب، تو آنکھوں میں اشک بھر آئے

 

ذرا سی دیر میں دُنیا کی سیر کر آئے

کہ لے کے تیری خبر تیرے بے خبر آئے

 

اسِیر ہونے کے آثار پھر نظر آئے

قفس سے چھوٹ کر آئے تو بال و پر آئے

 

تجھے ملال ہے ناکامیِ نظر کا فضول

نظر میں جو نہ سمائے وہ کیا نظر آئے

 

وہ جانتا ہے، میں پابندِ رسم و راہ نہیں

فضول ٹھوکریں کھانے کو راہبر آئے

 

تمام عمر یہ ناکامیاں قیامت ہیں

کبھی کبھی تو الٰہی، اُمید بر آئے

 

جسے تصرفِ تیرِ نظر نہ ہو معلوم

وہ تیرے سامنے لے کے دل و جگر آئے

 

شریکِ قسمتِ تنہائیِ فراق ہوں میں

اجل بھی کیوں تِرے آنے سے پیشتر آئے

 

بلائے جاں ہے وہ نصفِ شباب کا عالم

کسی حَسِین کی جب زلف تا کمر آئے

 

نگاہِ جلوہ میں شاید سما گئے سیماب

کہ منتظِر گئے لوٹے تو منتظَر آئے

٭٭٭

 

 

 

 

مجھے فکر و سرِ وفا ہے ہنوز

بادۂ عِشق نارسا ہے ہنوز

 

بندگی نے ہزار رُخ بدلے

جو خُدا تھا، وہی خُدا ہے ہنوز

 

او نظر دل سے پھیرنے والے

دل تُجھی پر مِٹا ہُوا ہے ہنوز

 

ساری دُنیا ہو، نا اُمید تو کیا

مجھے تیرا ہی آسرا ہے ہنوز

 

نہ وہ سرمستِیاں نہ فصلِ شباب

عاشقی صبر آزما ہے ہنوز

 

دل میں تُجھ کو چھُپائے پھرتا ہوں

جیسے تُو میرا مُدّعا ہے ہنوز

 

آستاں سے ابھی نظر نہ ہٹا

کوئی تقدیر آزما ہے ہنوز

 

دل میں باقی ہے سوزِ غم شاید

ہر نَفس میں گُداز سا ہے ہنوز

 

محوِیت بے سَبب نہیں سیماب

رُوح پر کوئی چھا رہا ہے ہنوز

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیا جانے میں جانا ہے ، کہ جاتے ہو خفا ہو کر !

میں جب جانُوں مِرے دل سے چلے جاؤ جُدا ہو کر

 

تصور آپ کا، کیا کیا فریبِ جلوہ دیتا ہے

کہ رہ جاتا ہُوں میں اکثر، ہم آغوشِ ہوا ہو کر

 

وہ پروانہ ہُوں، میری خاک سے بنتے ہیں پروانے

وہ دیپک ہُوں، کہ انگارے اُڑاتا ہُوں فنا ہو کر

 

قیامت تک اُڑے گی دِل سے اُٹھ کر خاک آنکھوں تک

اِسی رستے گیا ہے، حسرتوں کا قافلا ہو کر

 

تُمھِیں اب دردِ دل کے نام سے گھبرائے جاتے ہو !

تُمھِیں تو دِل میں شاید آئے تھے درد آشنا ہو کر

 

یُونہی ہم تُم گھڑی بھر کو مِلا کرتے تو بہتر تھا !

یہ دونوں وقت جیسے روز مِلتے ہیں جُدا ہو کر

 

یقینی حشر میں سیماب اُن کی دید ہے لیکن !

وہ پھر پردے میں جا بیٹھے اگر جلوہ نما ہو کر؟

٭٭٭

 

 

 

 

تصویر ذہن میں نہیں تیرے جمال کی

آباد ہو کے لُٹ گئی دُنیا خیال کی

 

دامن کشِ حواس ہے وحشت خیال کی

کتنی جُنوں اثر ہے بہار اب کے سال کی

 

میں صُورتِ چراغ جَلا اور بُجھ گیا

لایا تھا عمر مانگ کے شامِ وصال کی

 

یوں طُورکو جَلا دِیا برقِ جمال نے

پتّھر میں رہ نہ جائے تَجلّی جمال کی

 

پہلے خیال، خواب سے تھا طالبِ سُکوں

اب خواب ڈھونڈتا ہے پناہیں خیال کی

 

موسیٰ کو لاؤ، طور پر آ جاؤ دیکھ لو

اب بھی یہیں کہیں ہے تجلّی جمال کی

 

جلوَت میں ہُوں، تو شاکیِ ہنگامۂ ہجُوم

خلوَت میں ہُوں، تو ساتھ ہے دُنیا خیال کی

 

تاریک تھی رہِ طَلب، آزردہ تھے کلِیم

بجلی نے آ کے شمع جلادی جمال کی

 

چھوڑ آئی لامکاں کو بھی پیچھے تِری تلاش

اپنی حدوں سے بڑھ گئی وُسعَت خیال کی

 

سیماب، یہ شباب، یہ ابر، اور یہ بہار

انگڑائیاں ہیں یہ صرف نشاطِ خیال کی

٭٭٭

 

 

 

 

جو تھا برتاؤ دنیا کا، وہی اُس نے کیا مجھ سے

میں دنیا سے انوکھا تھا کہ وہ کرتا وفا مجھ سے؟

 

ہوئی ہے آئینہ خانے میں کیا ایسی خطا مجھ سے

کہ تیرا عکس بھی ہے آج شرمایا ہوا مجھ سے

 

تپِ فرقت کا شاید کچھ مداوا ہونے والا ہے

کہ اب خود پوچھتے ہیں چارہ گر میری دوا مجھ سے

 

مرے پہلو میں دل رکھ کر مجھے قسمت نے لٹوایا

نہ میرے پاس دل ہوتا نہ کوئی مانگتا مجھ سے

 

جلا کر اے مذاقِ دید تو نے خاک کر ڈالا

جمالِ یار کا اب پوچھتا کیا ہے مزا مجھ سے

 

شبِ غم مجھ پہ جو گذری تھی میں اس سے نہ واقف تھا

چراغِ صبح نے شب بھر کا قصہ کہہ دیا مجھ سے

 

میں دیوانہ ہوں میرے پاس محشر میں کھڑے رہنا

نہ جانے میں کہوں کیا اور کیا پوچھے خدا مجھ سے

 

تو کیا اپنی سزائے قتل پر خود دستخط کر دوں؟

وہ لکھواتے ہیں کیوں جرمِ وفا کا فیصلہ مجھ سے

 

غلط تھی یہ مَثَل سب دبنے والے کو دباتے ہیں

دبا میں خاک میں، تو خاک کو دبنا پڑا مجھ سے

 

یہ میری حیرتِ دیدار کا انجام ہونا ہے

نہ تم جلوہ دکھاؤ گے نہ دیکھا جائے گا مجھ سے

 

بتا او میرے غارت گر، اب ان کو کیا بتاؤں میں؟

مسافر پوچھتے ہیں تیری منزل کا پتا مجھ سے

 

سنے کس کس کی وہ سیماب کس کس کو تسلی دے

پڑے رہتے ہیں لاکھوں اُس کے در پر بے نوا مجھ سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

رہے گا مبتلائے کشمکش انساں یہاں کب تک؟

یہ مشتِ خاک پر جنگِ زمین و آسماں کب تک؟

 

یہ آوازِ درا بانگِ جرس، مہمل سے نغمے ہیں

چلے گا ان اشاروں کے سہارے کارواں کب تک؟

 

میں اپنا راز خود کہہ کر نہ کیوں خاموش ہو جاؤں؟

بدل جاتی ہے دنیا، اعتبارِ  راز داں کب تک؟

 

بقدرِ یک نفس غم مانگ لے اور مطمئن ہو جا

بھکاری! یہ مناجاتیں نشاطِ جاوداں  کب تک؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

پرستارِِ محبت کی محبت ہی شریعت ہے

کسی کو یاد کر کے آہ کر لینا عبادت ہے

 

جہاں دل ہے، وہاں وہ ہے، جہاں وہ ہے، وہاں سب کچھ

مگر پہلے مقامِ دل سمجھنے کی ضرورت ہے

 

بہت مشکل ہے قیدِ  زندگی میں مطمئن ہونا

چمن بھی اک مصیبت تھا، قفس بھی اک مصیبت ہے

 

مری دیوانگی پر ہوش والے بحث فرمائیں

مگر پہلے انہیں دیوانہ بننے کی ضرورت ہے

 

شگفتِ دل کی مہلت عمر بھر مجھ کو نہ دی غم نے

کلی کو رات بھر میں پھول بن جانے کی فرصت ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جو ذوقِ عشق دنیا میں نہ ہمت آزما ہوتا

یہ سارا کاروان زندگی غافل پڑا ہوتا

 

خموشی پر مری، دنیا میں شورش ہے قیامت کی

خدانا خواستہ لب کھل گئے ہوتے تو کیا ہوتا

 

شعارِ حسن پابندی، مزاجِ عشق آزادی

جو خود اپنا ہی بندہ ہے، وہ کیا میرا خدا ہوتا

 

خدا نے خیر کی، تھی راہِ عشق ایسی ہی پیچیدہ

کہ میرے ساتھ میرا رہنما بھی کھو گیا ہوتا

 

اڑا دی میں نے آخر دھجیاں دامانِ ہستی کی

گریباں ہی کے دو تاروں سے کیا زور آزما ہوتا؟

 

کہاں یہ دہرِ کہنہ اور کہاں ذوقِ جواں میرا

کوئی دنیا نئی ہوتی، کوئی عالم نیا ہوتا

 

کیا اک سجدہ میں نے حسن کو تو ہو گیا کافر

اگر سر کاٹ کر قدموں پہ رکھ دیتا تو کیا ہوتا؟

٭٭٭

 

 

 

 

لفظوں کے پرستار خبر ہی تجھے کیا ہے؟

جب دل سے لگی ہو تو خموشی بھی دعا ہے

 

دیوانے کو تحقیر سے کیوں دیکھ رہا ہے

دیوانہ محبت کی خدائی کا خدا ہے

 

جو کچھ ہے وہ، ہے اپنی ہی رفتارِ عمل سے

بت ہے جو بلاؤں، جو خود آئے تو خدا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

یوں اٹھا کرتی ہے ساون کی گھٹا

جیسے اٹھتی ہو جوانی جھوم کے

 

جس جگہ سے لے چلا تھا راہبر

ہم وہیں پھر آ گئے ہیں گھوم کے

 

آ گیا سیمابؔ جانے کیا خیال؟

طاق میں رکھ دی صراحی چوم کے

٭٭٭

 

 

 

 

 

زبان بندی سے خوش ہو، خوش رہو، لیکن یہ سن رکھو

خموشی بھی میری افسانہ بن جائے گی محفل میں

 

دل اور طوفانِ غم، گھبرا کے میں تو مر چکا ہوتا

مگر اک یہ سہارا ہے کہ تم موجود ہو دل میں

 

نہ جانے موج کیا آئی کہ جب دریا سے میں نکلا

تو دریا بھی سمٹ کر آ گیا آغوشِ ساحل میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

خراب ہوتی نہ یوں خاکِ شمع و پروانہ

نہیں کچھ اور تو انسان ہی بنا کرتے

 

مزاجِ عشق میں ہوتا اگر سلیقۂ ناز

تو آج اس کے قدم پر بھی سر جھکا کرتے

 

یہ کیا کیا کہ چلے آئے مدعا بن کر

ہم آج حوصلۂ  ترکِ مدعا کرتے

 

کوئی یہ شکوہ سرایانِ جور سے پوچھے

وفا بھی حسن ہی کرتا تو آپ کیا کرتے؟

 

غزل ہی کہہ لی سنانے کو حشر میں سیمابؔ

پڑے پڑے یوں ہی تنہا لحد میں کیا کرتے؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

میں سپردِ خود فراموشی ہوں تو محوِ خودی

تیری ہشیاری سے اچھا ہے میرا دیوانہ پن

 

غافلوں پر گر نہ ہو فطرت کو مُردوں کا یقیں

رات کو دنیا پہ ڈالا جائے کیوں کالا کفن

 

فرش سے تا عرش ممکن ہے ترقی و عروج

پھر فرشتہ بھی بنا لیں گے تجھے، انساں تو بن

٭٭٭

 

 

 

 

خدا سے حشر میں کافر! تیری فریاد کیا کرتے؟

عقیدت عمر بھر کی دفعتاً برباد کیا کرتے؟

 

قفس کیا، ہم نے بنیادِ قفس کو بھی ہلا ڈالا

تکلف بربنائے فطرتِ آزاد کیا کرتے

 

بہت محتاج رہ کر لطف اٹھائے عمرِ فانی کے

ذرا سی زندگی جی کھول کر برباد کیا کرتے

 

شبِ غم آہِ زیرِ لب میں سب کچھ کہہ لیا ان سے

زمانے کو سنانے کے لئے فریاد کیا کرتے؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

کچھ ہاتھ اٹھا کے مانگ نہ کچھ ہاتھ اٹھا کے دیکھ

پھر اختیار خاطرِ بے مدعا کے دیکھ

 

تضحیک و التفات میں رہنے دے امتیاز

یوں مسکرا نہ دیکھ کے، ہاں مسکرا کے دیکھ

 

تو حسن کی نظر کو سمجھتا ہے بے پناہ

اپنی نگاہ کو بھی کبھی آزما کے دیکھ

 

پردے تمام اٹھا کے نہ مایوسِ جلوہ ہو

اٹھ اور اپنے دل کی بھی چلمن اٹھا کے دیکھ

٭٭٭

 

 

 

 

ترے قدموں پہ سر ہوگا،  قضا سر پہ کھڑی ہوگی

پھر اس سجدے کا کیا کہنا انوکھی بندگی ہوگی

 

نسیم صبح گلشن میں گلوں سے کھیلتی ہو گی

کسی کی آخری ہچکی کسی کی دل لگی ہوگی

 

تمہیں دانستہ محفل میں جو دیکھا ہو تو مجرم ہوں،

نظر آخر نظر ہے بے ارادہ اٹھ گئی ہوگی

 

مزا آ جائے گا محشر میں کچھ سننے سنانے کا،

زباں ہوگی ہماری اور کہانی آپ کی ہوگی

 

سر محفل بتا دوں گا سر محشر دکھا دوں گا،

ہمارے ساتھ تم ہو گے،  یہ دنیا دیکھتی ہوگی

 

یہی عالم رہا پردہ نشینوں کا تو ظاہر ہے،

خدائی آپ سے ہوگی نہ ہم سے بندگی ہوگی

 

تعجب کیا لگی جو آگ اے سیمابؔ سینے میں،

ہزاروں دل میں انگارے بھرے تھے، لگ گئی ہوگی

٭٭٭

 

 

 

 

 

شب غم اے میرے اللہ بسر بھی ہوگی

رات ہی رات رہے گی،کہ سحر بھی ہوگی

 

میں یہ سنتا ہوں  وہ دنیا کی خبر رکھتے ہیں،

جو یہ سچ ہے تو انہیں میری خبر بھی ہوگی

 

چین ملنے سے ہے ان کے نہ جدا رہنے سے،

آخر اے عشق کسی طرح بسر بھی ہوگی

٭٭٭

 

 

 

 

 

نامہ گیا کوئی نہ کوئی نامہ بر گیا

تیری خبر نہ آئی، زمانہ گزر گیا

 

ہنستا ہوں یوں کہ ہجر کی راتیں گزر گئیں،

روتا ہوں یوں کہ لطف دعائےسحر گیا

 

اب مجھ کو ہے قرار تو سب کو قرار ہے،

دل کیا ٹھہر گیا کہ زمانہ گزر گیا

 

یا رب نہیں میں واقف روداد زندگی

اتنا ہی یاد ہے کہ جیا اور مر گیا

٭٭٭

 

 

 

 

نہ ہو گر آشنا نہیں ہوتا

بت کسی کا خدا نہیں ہوتا

 

تم بھی اس وقت یاد آتے ہو،

جب کوئی آسرا نہیں ہوتا

 

دل میں کتنا سکون ہوتا ہے،

جب کوئی مدعا نہیں ہوتا

 

ہو نہ جب تک شکار ِنا کامی،

آدمی کام کا نہیں ہوتا

 

زندگی تھی شباب تک سیمابؔ

اب کوئی سانحہ نہیں ہوتا

٭٭٭

 

 

 

 

حرم اور دیر کے کتبے وہ دیکھے جسے فرصت ہے

یہاں حدِ نظر تک صرف عنوانِ محبت ہے

 

پرستارِ محبت کی محبت ہی شریعت ہے

کسی کو یاد کر کے آہ کر لینا عبادت ہے

 

ہو اک کردار تم بھی مرے معمولِ محبت کا

مجھے تم سے نہیں، اپنی محبت سے محبت ہے

 

وہ کیا سجدہ؟ رہے احساس جس میں سر اُٹھانے کا

عبادت اور بقیدِ ہوش، توہینِ عبادت ہے

 

مری دیوانگی پہ ہوش والے بحث فرمائیں

مگر پہلے انہیں دیوانہ بننے کی ضرورت ہے

 

مقامِ عشق کو ہر آدمی سیمابؔ کیا سمجھے

یہ ہے اک مرتبہ، جو ماورائے آدمیت ہے

٭٭٭

 

 

 

 

چمک جگنو کی برقِ بے اماں معلوم ہوتی ہے

قفس میں رہ کے قدرِ آشیاں معلوم ہوتی ہے

 

کہانی میری رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے

جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے

 

ہوائے شوق کی قوت وہاں لے آئی ہے مجھ کو

جہاں منزل بھی گردِ کارواں معلوم ہوتی ہے

 

قفس کی پتلیوں میں جانے کیا ترکیب رکھی ہے

کہ ہر بجلی قریبِ آشیاں معلوم ہوتی ہے

 

ترقی پر ہے روز افزوں خلش دردِ محبت کی

جہاں محسوس ہوتی تھی، وہاں معلوم ہوتی ہے

 

نہ کیوں سیماب مجھ کو قدر ہو ویرانیِ دل کی

یہ بنیادِ نشاطِ دو جہاں معلوم ہوتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جنت جو ملے لا کے میخانے میں رکھ دینا

کوثر میرے چھوٹے سے پیمانے میں رکھ دینا

 

میت نہ مری جا کے ویرانے میں رکھ دینا،

پیمانوں میں دفنا کے میخانے میں رکھ دینا

 

وہ جس سے سمجھ جائیں رداد مرے غم کی،

ایسا بھی کوئی ٹکڑا افسانے میں رکھ دینا

 

سجدوں پہ نہ دیں مجھ کو ارباب حرم طعنے،

کعبے کا کوئی پتھر بت خانے میں رکھ دینا

 

سیمابؔ یہ قدرت کا ادنیٰ سا کرشمہ ہے،

خاموش سی اک بجلی پروانے میں رکھ دینا

٭٭٭

 

 

 

 

غم مجھے، حسرت مجھے، وحشت مجھے، سودا مجھے

ایک دل دے کر خدا نے دے دیا کیا کیا مجھے

 

ہے حصول آرزو کا راز ترک آرزو

میں نے دنیا چھوڑ دی تو مل گئی دنیا مجھے

 

کہہ کے سویا ہوں یہ اپنے اضطراب شوق سے،

جب وہ آئیں قبر پر، فوراً جگہ دینا مجھے

 

صبح تک کیا کیا تیری امید نے طعنے دئیے،

آ گیا تھا شام غم اک نیند کا جھونکا مجھے

 

یہ نماز عشق ہے کیسا ادب کس کا ادب،

اپنے پائے ناز پر کرنے دو اک سجدہ مجھے

 

دیکھتے ہی دیکھتے دنیا سے میں اٹھ جاؤں گا،

دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے گی دنیا مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

بقدر شوق اقرار وفا کیا

ہمارے شوق کی ہے انتہا کیا

 

محبت کا یہی سب شغل ٹھہرا

تو پھر آہِ رسا کیا، نا رسا کیا

 

دعا دل سے جو نکلے کارگر ہو

یہاں دل ہی نہیں دل سے دعا کیا

 

دل آفت زدہ کا مدعا کیا،

شکستہ ساز کیا، اس کی سزا کیا

 

سلامت دامن امید سیمابؔ

محبت میں کسی کا آسرا کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

مجھ سے ملنے کے وہ کرتا تھا بہانے کتنے

اب گزارے گا مرے ساتھ زمانے کتنے

 

میں گرا تھا تو بہت لوگ رکے تھے لیکن،

سوچتا ہوں مجھے آئے تھے اٹھانے کتنے

 

جس طرح میں نے تجھے اپنا بنا رکھا ہے،

سوچتے ہوں گے یہی بات نہ جانے کتنے

 

تم نیا زخم لگاؤ تمہیں اس سے کیا ہے،

بھرنے والے ہیں ابھی زخم پرانے کتنے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اب کیا بتاؤں میں ترے ملنے سے کیا ملا

عرفان غم  ہوا مجھے، دل کا پتہ ملا

 

جب دور تک نہ کوئی فقیر آشنا ملا،

تیرا نیاز مند ترے در سے جا ملا

 

منزل ملی،مراد ملی مدعا ملا،

سب کچھ مجھے ملا جو ترا نقش پا   ملا

 

یا زخم دل کو چیر کے سینے سے پھینک دے

یا اعتراف کر کہ نشان وفا ملا

 

سیمابؔ کو شگفتہ نہ دیکھا تمام عمر،

کمبخت جب ملا ہمیں کم آشنا ملا

٭٭٭

ماخذ: مختلف اردو ہندی ویب سائٹس سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید