FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ

               ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی

 

پیش لفظ

            ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا۔ جو مومنہ، مہاجرہ اور بیوہ تھیں ۔ان کے بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے شادی فرمائی ۔ امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن میں یہی کنواری تھیں اور سب سے زیادہ ذہین اور مضبوط حافظے کی مالکہ تھیں ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جملہ ازواج میں سب سے زیادہ محبت و الفت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی سے فرماتے تھے۔ علم و فضل اور زہد و تقویٰ میں ان کا رتبہ بڑا بلند تھا۔ بل کہ اکثر صحابۂ  کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ عالمہ بھی تھیں اور بڑے بڑے علما صحابہ آپ سے بعض ایسے احکام کے بارے میں سوال کرتے تھے جو انھیں مشکل لگتے تھے۔

            حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مَیں نے طب ، فقہ اور شعر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں دیکھا۔ ‘‘ احادیث اور سیرت کی کتابیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بیش بہا علم اور سمجھ داری کی گواہ ہیں ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمانا بڑی حکمتوں کا حامل تھا۔ چناں چہ عورتوں سے متعلق اکثر احکام و مسائل آپ ہی سے روایت کردہ ہیں ۔آپ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرتیں اور آپﷺ  جو باتیں ارشاد فرماتے انھیں  ازبر کر لیتیں ۔ یہی وجہ ہے حدیث کی کتابوں میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ حدیثوں کی کافی تعداد ہے۔امام بخاری اور امام مسلم علیہم الرحمۃ کے مطابق حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے علاوہ کسی دوسرے صحابی نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ حدیث روایت نہیں کی۔شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ ’’نزہۃ القاری شرح بخاری‘‘ میں لکھتے ہیں کہ : اِن(حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) سے ۲۲۱۰؍ حدیثیں مروی ہیں ، علما فرماتے ہیں کہ دین کا چوتھائی حصہ آپ سے مروی ہے۔ ‘‘(ص ۱۷۷)

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی سیرت اور کردار پر یوں تو کئی ضخیم کتابیں لکھی گئیں ۔ رحمانی پبلی کیشنز کی تاریخی شخصیات سیریز کے لیے بچّوں کی عمر اور ان کی نفسیات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پیشِ نظر کتاب تالیف کی گئی ہے بہ ظاہر اسے کوئی اضافہ نہ قرار دیا جائے لیکن پھر بھی اس کتاب سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مختصر سوانح اور آپ کی زندگی کے اہم واقعات سے آگاہی ہو جاتی ہے۔ اہل علم سے التماس ہے کہ کتاب پر اپنی گراں قدر رائے سے ضرور نوازیں ۔

                                                (ڈاکٹر) محمد حسین مُشاہدؔ رضوی ، مالیگاؤں

                                      سروے نمبر ۳۹، پلاٹ نمبر ۱۴، نیا اسلام پورہ ، مالیگاؤں (ناسک)

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

               حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نام و نسب اور خاندان

            ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نام ’’عائشہ‘‘ اور لقب ’’صدیقہ‘‘ اور ’’ حمیرا‘‘ ہے۔ اُن کی کنیت ’’اُم عبداللہ ‘‘ اور خطاب ’’ اُم المؤمنین‘‘ ہے۔ آپ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے محبوب بیوی ہیں ۔ آپ کے والد ماجد خلیفۂ  اول امیر المؤمنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور والدۂ  ماجدہ مشہور صحابیہ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا ہیں ۔ والدِ گرامی حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرف سے آپ کا سلسلۂ  نسب اس طرح ہے:

            ’’ عائشہ بنت ابو بکر بن ابو قحافہ بن عثمان بن عامر بن عمر بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک۔‘‘

            والدۂ  ماجدہ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا کی طرف سے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا سلسلۂ  نسب اس طرح ہے:

            ’’ ام رومان بنت عامر بن عویمر بن عبد شمس بن عتاب بن اذنیہ بن سبع بن دھمان بن حارث بن غتم بن مالک بن کنانہ۔‘‘

            پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا سلسلۂ  نسب ساتویں پشت میں جا کر مل جاتا ہے اور والدۂ  ماجدہ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا کی طرف سے بارہویں پشت پر کنانہ سے جا ملتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے والدِ ماجد حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ اعلانِ نبوت سے پہلے اور بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر و  حضر کے ساتھی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے جو بے مثال قربانیاں ہیں وہ اسلامی تاریخ کے صفحات پر جگمگا رہی ہیں ۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یارِ غار اور مسلمانوں کے پہلے خلیفہ کے لقب سے سرفراز ہوئے۔ آپ کی شرافت اور بزرگی بڑی بے مثال ہے ، وصال کے بعد بھی آپ کو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی والدۂ  ماجدہ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا بھی اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے لیے اپنی بے لوث خدمات کی وجہ سے عظیم المرتبت صحابیات میں نمایاں مقام کی حامل ہیں ۔آپ کی وفات   ۶   ھ میں ہوئی ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود اُن کی قبر میں اترے اور فرمایا کہ:’’ جو کوئی جنت کی حورِ عین کو دیکھنا چاہتا ہو وہ امِ رومان (رضی اللہ عنہا) کو دیکھ لے۔‘‘

               حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ولادت

            اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی والدۂ  ماجدہ حضرت اُم رومان رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح عبداللہ ازدی سے ہوا۔ عبداللہ کی موت کے بعد آپ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کے  بطن سے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ایک بیٹا حضرت عبدالرحمان اور ایک بیٹی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نصیب فرمائے ۔

            اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سنہ ولادت کے بارے میں تاریخ و سیرت کتابیں خاموش نظر آتی ہیں ۔ لیکن یہ بات متفقہ طور پر تسلیم کی گئی ہے کہ ہجرت کے وقت آپ کی عمر شریف ۶؍ سال تھی۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا نکاح ۶؍ کی عمر میں ہی ہوا ،شوال    ۱   ھ میں آپ ۹؍ سال کی تھیں کہ رخصتی ہوئی، ۹؍ سال نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساتھ رہیں ، یعنی جب آپ کی عمر شریف ۱۸؍ برس ہوئی تو ربیع الاول   ۱۱   ۔ھ میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا۔ اس طرح اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ولادت کی تاریخ اعلانِ نبوت کے پانچویں سال کا آخری حصہ ہو گا ، یعنی شوال    ۹  ھ قبل ہجرت بہ مطابق جولائی  ۶۱۴  ء  ۔

               حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا سنہری بچپن

            ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خلیفۃ المسلمین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس مقدس اور مبارک خاندان میں پیدا ہوئیں ۔ جس میں سب سے پہلے اسلام کی کرنوں نے اپنا اجالا بکھیرا۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا گھر ابتدا ہی سے نبوت کے نور سے روشن و منور رہا ۔ کفر و شرک کا اس گھرا نے میں دور دور تک پتا نہ تھا اسی نورانی ماحول میں آنکھ کھولنے والی ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا دامن بھی ہمیشہ کفر و شرک کی گندگیوں سے پاک و صاف رہا۔ بچپن ہی سے آپ نے اسلامی اور ایمانی فضا میں اپنی گزر بسر کی ۔

            جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے گھر میں بنی ہوئی مسجد میں تشریف لاتے اور قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تو ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ایسے وقت میں موجود رہتیں اور فیض اٹھاتیں ۔ ہر چند کہ بچپن کا زمانہ بچپن کا زمانہ ہی ہوتا ہے لیکن اللہ رب العزت جل شانہٗ جن مقدس بندوں کو نوازنا اور بلند مقامات پر پہنچانا ہوتا ہے وہ ابتدا ہی سے انھیں بے پناہ صلاحیتوں اور خوبیوں سے مالامال فرما دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بچپن کے اس دور کو ضائع ہونے نہیں دیا بل کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کیے ہوئے قیمتی حافظے سے کام لیتے ہوئے بہت کچھ یاد کیا جو بعد میں امت کے لیے منافع کا سبب بنا۔ چناں چہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ فرمایا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ :  ’’ جب یہ آیت نازل ہوئی تھی بل الساعۃ موعدہم والساعۃ ادھی وامر   ترجمہ: تو مَیں کھیل رہی تھی۔ ‘‘

            اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت اما م ولی الدین محمد بن عبداللہ الخطیب رحمۃ اللہ علیہ مشکوٰۃ شریف میں نقل فرماتے ہیں کہ : ’’ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا گڑیوں سے کھیل رہی تھیں ۔ اُن گڑیوں میں ایک گھوڑا بھی تھا ، جس کے دائیں بائیں دو پر لگے ہوئے تھے، نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں سے گذر ہوا تو آپﷺ  نے گھوڑے کے بارے میں دریافت فرمایا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ یہ گھوڑا ہے۔ آپﷺ  نے فرمایا کہ : ’گھوڑوں کے پر تو نہیں ہوتے۔‘‘ تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فوراً جواب دیا: ’کیوں ؟ حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑوں کے پر تو تھے۔‘‘

               حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی تعلیم و تربیت

            ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بچپن ہی سے بے پناہ ذہین اور مثالی قوتِ حافظہ کی مالکہ تھیں ۔ آپ کے والدِ ماجد خلیفۃ المسلمین سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی بڑے علم و فضل والے اور حکمت و دانائی کے مجموعہ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی دوسری اولاد کی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خصوصی تربیت فرمائی ۔ اور انھیں تاریخ و ادب کے علاوہ اُس زمانے کے ضروری علوم بھی پڑھائے۔ جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ہو گیا اُس کے بعد بھی اُن کے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تعلیم و تربیت فرماتے رہے۔ والدِ ماجد کی اِن ہی تربیت کا اثر تھا کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکاح میں آ جانے کی وجہ سے مسلمان عورتوں کے زیادہ ترمسائل اور اُن کی ضروریات کی باتیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے توسط سے ہی پہنچیں ۔

            ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے والدِ گرامی کے زیرِ سایا تعلیم و تربیت حاصل کرتی رہیں اور جلد ہی انھوں نے اپنے خداداد مثالی قوتِ حافظہ اور ذہن کی وجہ سے علوم و فنون میں مہارت حاصل کر لی۔ جب آپ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آ گئیں تو یہ دور اُن کی تعلیم و تربیت کا حقیقی دور بنا۔ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاشانۂ  اقدس میں آ کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جو کچھ سیکھا وہ آج پوری امتِ مسلمہ خصوصاً مسلمان عورتوں کے لیے بھلائی اور نجات کا سامان بنا ہوا ہے۔

            نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوری کائنات کے معلمِ اعظم کی حیثیت سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تربیت فرماتے رہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جملہ ازواج کے ایک ایک فعل کی نگرانی فرماتے اور کہیں کوئی لغزش نظر آتی تو فوراً اصلاح فرماتے ۔اس سلسلے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو جو امتیاز حاصل ہوا وہ ایک مثال رکھتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر شریف نکاح کے وقت کم تھی اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے ذریعہ امت کی عورتوں کی تعلیم و تربیت کا کام لینا مقصود تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اللہ رب العزت نے ذہانت عطا فرمائی تھی اس کے ہوتے آپ کے سامنے جب بھی کوئی مسئلہ درپیش آتا تو آپ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیتیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسئلہ واضح فرما دیتے تو وہ انھیں ازبر کر لیتیں ۔ یہی وجہ ہے حدیث کی کتابوں میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ حدیثوں کی کافی تعداد ہے۔امام بخاری اور امام مسلم علیہم الرحمۃ کے مطابق حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے علاوہ کسی دوسرے صحابی نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ حدیث روایت نہیں کی۔شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ ’’نزہۃ القاری شرح بخاری‘‘ میں لکھتے ہیں کہ : اِن(حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) سے ۲۲۱۰؍ حدیثیں مروی ہیں ، علما فرماتے ہیں کہ دین کا چوتھائی حصہ آپ سے مروی ہے۔ ‘‘(ص ۱۷۷)

            ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پڑھنے کے ساتھ لکھنا بھی سیکھا ، ناظرہ قرآن پڑھا، علم انساب سے واقفیت حاصل کی، علمِ طب میں مہارت پیدا کی ، شریعت کے باریک باریک نکات یاد کیے،خطابت میں عبور حاصل کیا، ضروریاتِ دین اور قرآنی و نبوی علوم میں ملکہ پیدا کیا۔ اللہ جل شانہٗ نے آپ رضی اللہ عنہا کو قرآن و سنت سے مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے کا شعور بخشا ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے اثر نے آپ کو امت کی ایک بہترین فقیہ اور عالمہ بنا دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے صحابہ مشکل سے مشکل مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرتے اور تسلی بخش جواب پاتے۔

               حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نکاح

            جب ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اِس دنیا سے رخصت ہو گئیں تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑے غمگین رہنے لگے، تو حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی بیوی حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ  :

            ’’ یارسول اللہ! آپ دوسرا نکاح فرما لیجیے۔‘‘

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کس سے کروں ؟‘‘

            حضرت خولہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :’’ آپ چاہیں تو بیوہ عورت سے یا کنواری لڑکی سے نکاح کر لیں ۔ ‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کون کنواری ہے اور کون بیوہ ہے؟‘‘

            حضرت خولہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :’’ بیوہ تو سودہ بنت زمعہ ہیں اور کنواری تو اُس آدمی کی بیٹی ہیں جو ساری کائنات میں آپ کو بہت عزیز ہے یعنی عائشہ بنت ابو بکر ۔ ‘‘

            نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :’’ بہتر ہے کہ تم عائشہ کے بارے میں بات چیت کرو۔‘‘

            حضرت خولہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مَیں اس کے بعد سیدھا اُمِّ رومان رضی اللہ عنہا کے پاس گئی اور ان سے کہا کہ:’’  تمہارے لیے بہت عظیم خوش خبری ہے جس میں دنیا و آخرت کی بھلائیاں چھپی ہوئی ہیں ۔‘‘ انھوں نے کہا کہ:’’ وہ کون سی خوش خبری ہے؟‘‘ مَیں نے کہا :’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ کا ذکر فرما رہے تھے۔ ‘‘ انھوں نے کوئی جواب دینے کی بجائے کہا: ’’ تھوڑا انتظار کرو ابھی میرے شوہر ابوبکر(رضی اللہ عنہ) تشریف لا نے ہی والے ہیں ۔‘‘ حضرت خولہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : ’’کچھ ہی دیر بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے تو مَیں نے اُن سے اِس بات کا تذکرہ کیا تو انھوں نے فرمایا کہ کیا  یہ اُن کے لیے صحیح ہے عائشہ تو اُن کی بھتیجی ہے ۔‘‘

            حضرت خولہ رضی اللہ عنہا نے واپس آ کر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :’’ ابوبکر میرے اسلامی بھائی ہیں اور اسلامی بھائیوں کے یہاں نکاح کرنا جائز ہے۔‘‘

            جب یہ بات حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوئی تو انھوں نے اس مبارک ترین رشتے کو فوراً قبول کر لیا ۔ لیکن چوں کہ اس سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت جبیر بن مطعم کے بیٹے سے طے کی جاچکی تھی۔ وعدہ خلافی نہ ہو جائے اس لیے اُن لوگوں سے بھی پوچھنا ضروری تھا۔ حضرت خولہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جبیر بن مطعم کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا آپ لوگوں نے ہماری بچی کا رشتہ مانگا تھا اب تم اس بارے میں کیا کہتے ہو؟ جبیر بن مطعم کے گھر والے اب تک مسلمان نہ ہوئے تھے، مطعم (رضی اللہ عنہ) نے اپنی بیوی سے اس بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ اگر یہ لڑکی (عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) ہمارے گھر آ گئی تو ہمارا لڑکا بھی اپنے باپ دادا کے دین سے پھِر جائے گا اس لیے ہمیں کسی صورت یہ بات منظور نہیں ۔‘‘

            حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان دونوں کی رائے جان لینے کے بعد وہاں سے تشریف لے آئے اب انھیں وعدہ خلافی کا کوئی خطرہ نہ تھا۔ خوشی اور مسرت کی کوئی انتہا نہ تھی۔ آنے کے بعد حضرت خولہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ :’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر کہو کہ آپ کا پیغام مجھے بسر و چشم قبول ہے، آپ تشریف لے آئیے۔‘‘

            حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا پیغام سُن کر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے آپ کا نکاح کر دیا۔ مہر کی مقدار چار سودرہم مقرر ہوئی ۔

            حضرت ابو عمر بن عبد البر کہتے ہیں کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نکاح شوال کے مہینے میں ہوا، اور رخصتی بھی شوال میں ہوئی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اسی کو پسند فرمایا کرتی تھیں کہ عورتوں کا نکاح بھی شوال میں ہو اور رخصتی بھی شوال میں ہو۔ آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح بھی شوال میں فرمایا اور رخصتی بھی شوال میں فرمائی ۔ بھلا ایسی کون سی بیوی ہے جو آپ کو مجھ سے زیادہ پیاری ہو ۔‘‘ صحابۂ  کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی شوال ہی میں شادی پسند فرماتے تھے ۔نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نبوت کے دسویں سال ہجرت سے تین سال پہلے ہوا اور رخصتی مدینۂ  منورہ میں ہوئی ۔آپ رضی اللہ عنہا نوسال تک نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں ۔

               حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مدینۂ  منورہ ہجرت

            نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح ہونے کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا قریب تین سال تک اپنے والدین کے گھر میں رہیں ۔ ان تین برسوں میں سے دوسال تین مہینے ہجرت سے پہلے یعنی مکۂ  مکرمہ میں رہیں اور سات یا آٹھ مہینے ہجرت کے بعد مدینۂ  منورہ میں رہیں ۔

            جب مکۂ  مکرمہ کے کافروں ، مشرکوں اور اسلام کے دشمنوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی اور انھیں طرح طرح سے بے جا پریشان کرنا شروع کر دیا تو اللہ جل شانہٗ کے حکم سے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکۂ  مکرمہ کو چھوڑ کر مدینۂ  منورہ ہجرت فرما نے کا ارادہ کر لیا۔

            ہجرت کے اس اہم واقعہ کو ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خود یوں بیان فرمایا ہے کہ:’’  نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ روز کا معمول تھا کہ آپ ہر دن صبح یا شام کو ہمارے گھر تشریف لایا کرتے تھے۔ اس وقت مَیں اور میری بہن (حضرت) اسما(رضی اللہ عنہا) دونوں بیٹھی ہوئی تھیں ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ سلم نے پکار کر ارشاد فرمایا:’ ابوبکر ذرا اپنے قریب سے لوگوں کو ہٹا دیں مجھے تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں ۔‘

            حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ :’ یارسول اللہ! یہاں کوئی دوسرا نہیں ہے بل کہ صرف آپ کے اہلِ خانہ ہی ہیں ۔ تشریف لائیے۔ چناں چہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف فرما ہوئے اور مکۂ  مکرمہ سے مدینۂ  منورہ کی طرف ہجرت کا خیال ظاہر فرمایا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مَیں اور (حضرت) اسما(رضی اللہ عنہا) نے مل کر سفر کاسامان تیار کیا اور دونوں حضرات نے اپنے وطن کو الوداع کہا اور مدینۂ  منورہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اس وقت ان دونوں حضرات نے اللہ عزوجل پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے تمام گھر والوں کو بھی مکۂ  مکرمہ میں چھوڑ دیا۔ ‘‘

            نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مکۂ  مکرمہ سے مدینۂ  منورہ ہجرت فرما لی اور جب یہاں کے حالات بہتر ہوئے تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل و عیال اور رشتے داروں کو جنھوں نے اسلام قبول کر لیا تھا لا نے کے لیے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور اپنے ایک غلام حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کو ۵۰۰؍ درہم دے کر مکۂ  مکرمہ کی طرف روانہ فرمایا۔ اسی طرح امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی ایک آدمی کو مکۂ  مکرمہ بھیجا تاکہ وہ اُن کے گھر والوں کو مدینۂ  منورہ لے آئے۔

            حضرت عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ عنہما اپنی والدہ ماجدہ حضرت اُمّ رومان رضی اللہ عنہا اور دونوں بہنوں حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت اسما رضی اللہ عنہن کو مکۂ  مکرمہ سے لے کر مدینۂ  منورہ کی طرف قصد کیا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ باب الہجرت میں فرماتے ہیں کہ اتفاق سے جس اونٹ پر حضرت عائشہ صدیقہ اور ان کی والدہ حضرت اُمّ رومان رضی اللہ عنہن بیٹھی ہوئی تھیں وہ بِدکا اور تیزی سے بھاگنے لگا، اس کی رفتار ایسی تیز تھی کہ یوں لگ رہا تھا جیسے اونٹ پر بندھی ہوئی ڈولی جس میں حضرت عائشہ صدیقہ اور ان کی والدہ رضی اللہ عنہن سوار تھیں اب گرتی ہے اب گرتی ہے۔

            اونٹ تیز رفتاری سے دوڑا جا رہا تھا اور حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا اپنی لاڈلی بیٹی کی فکر میں گریہ و زاری کر رہی تھیں ۔لیکن اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد یوں ہوئی کہ غیب سے آواز آئی کہ’ اونٹ کی نکیل  چھوڑ دو۔‘ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مَیں نے اس کی نکیل چھوڑ دی تو وہ آرام کے ساتھ ٹھہر گیا اور اللہ کی مدد سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنی والدہ ، بہن اور بھائی کے ساتھ مکۂ  مکرمہ سے مدینۂ  منورہ سلامتی کے ساتھ ہجرت فرمائی ۔

               کاشانۂ  نبوت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تشریف آوری

            ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جب مکۂ  مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینۂ  منورہ تشریف لائیں تو اس وقت آپ اپنے رشتے داروں کے ساتھ بنو حارث ابن خزرج کے محلے میں قیام فرمایا۔ یہاں آپ اپنی والدہ کے ساتھ سات یا آٹھ مہینے تک مقیم رہیں ۔ اس وقت مدینۂ  منورہ کی آب و ہوا بڑی سخت تھی جس کی وجہ سے مدینۂ  منورہ ہجرت کر کے آنے والے اکثر حضرات بیمار ہونے لگے۔ خود حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کی صاحب زادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی بیمار ہو گئے۔

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جب صحت یاب ہوئیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ:’’ یا رسول اللہ ! آپ اپنی بیوی کو اپنے گھر بلوا لیجیے۔‘‘  نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’  اس وقت میرے پاس مہر ادا کرنے کے لیے رقم نہیں ہے۔‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ :’’یارسول اللہ ! میری دولت قبول فرما لیجیے ۔ ‘‘

            چناں چہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ اوقیہ اور ایک نش یعنی سو روپے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے قرض لے کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھجوا دیے۔ اس کے بعد انصارِ مدینہ کی چند عورتیں دلہن کو لینے کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر آئیں ۔ حضرت امّ رومان رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو آواز دی وہ اس وقت اپنی سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھولنے میں مصروف تھیں ۔

             حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی والدہ حضرت اُمّ رومان رضی اللہ عنہ نے اُن کا منہ دھلایا ،بال سنوارے اور پھر اُن کو اس جگہ لے آئیں جہاں انصار کی خواتین بیٹھی ہوئی تھیں ۔ جب  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا دلہن بنی ہوئی وہاں پہنچیں تو مہمانوں نے ’’ علی الخیر والبرکۃ و علی خیر طائر‘‘ یعنی تمہارا آنا خیرو برکت پر ہے اور نیک فال ہے ۔ کی صدا لگا کر دلہن کا شان دار طریقے سے بڑھ کر استقبال کیا۔

            تھوڑی دیر بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما ہوئے۔ حضرت اسما بنت یزید رضی اللہ عنہا جو کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی سہیلی ہیں بیان کرتی ہیں کہ اس وقت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر والوں نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسے معزز ترین مہمان کی خاطر مدارت کے لیے ایک پیالہ دودھ پیش کیا گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے خوش دلی کے ساتھ قبول فرما لیا اور اس میں سے تھوڑا سا دودھ پی کر اسے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف بڑھایا۔ چناں چہ انھوں نے حیا کرتے ہوئے پیالہ لے لیا اور اس میں سے تھوڑا سا دودھ پی لیا۔

            اس طرح شوال کے مہینے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس کا شانے میں بڑی سادگی سے رخصت ہو کر آ گئیں ۔

               حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی کنیت

            جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی ہوئی اس وقت ان کی بہن حضرت اسما بنت ابوبکر زوجہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہم اکا زمانۂ  ولادت نزدیک تھا، انھوں نے ہجرت کر کے قبا میں قیام کیا تھا اور وہیں بچّے کی ولادت ہوئی ۔ جس کا نام اسلامی تاریخ میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ سے مشہور ہوا ۔ ان کی پیدایش سے مسلمانوں میں خوشی و فرحت کا جو ماحول ہوا وہ اسلامی تاریخ کے صفحات میں روشن باب کے طور پر مانا جاتا ہے ۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ یہودیوں نے یہ مشہور کر رکھا تھا کہ ہم نے مسلمانوں پر سخت جادو کر دیا ہے اب اُن کے یہاں کوئی اولاد نہیں ہو گی ۔ جب حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو یہودیوں کے جھوٹ کی قلعی کھل گئی۔

            امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کرتے ہیں کہ اُم المؤمنین فرماتی ہیں : ’’ جب عبداللہ بن زبیر (رضی اللہ عنہ) پیدا ہوئے تو مَیں ان کو لے کر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تو آپ نے اُن کو اپنی گود میں لے لیا اور ایک کھجور منگا کر اپنے مبارک منہ میں چبائی پھر بچّے کے منہ میں ڈال دی اس طرح اُن کے پیٹ میں سب سے پہلے جانے والی چیز نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لعابِ مبارک تھا اور آپ نے فرمایا ان کا نام عبداللہ ہے اور تم یعنی عائشہ اُمّ عبداللہ ہو۔ آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اُس دن سے میری کنیت ’’اُم عبداللہ‘‘ پڑ گئی ۔ ‘‘

            ایک دوسری روایت میں یوں منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا :’’ یارسول اللہ! آپ نے اپنی تمام بیویوں کی کنیت وضع فرمائی ، میری بھی کنیت وضع کیجیے۔‘‘  نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تمہاری کنیت تمہاری بہن کے بیٹے کے نام سے ’’اُمّ عبداللہ‘‘ ہے۔‘‘

               بارگاہِ خداوندی میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا مرتبہ

            اللہ عزوجل کی بارگاہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بڑا مرتبہ ہے ۔ جب آپ رضی اللہ عنہا پر  منافقوں نے بہتان باندھا تو اس وقت اللہ جل شانہٗ نے برأت کے لیے قرآنِ کریم کی سترہ آیتیں اتار دیں ۔ جو قرآن مجید کا حصہ ہیں اور ان شآء اللہ ہمیشہ آپ کی عظمت و بزرگی اور عزت و عصمت کا اظہار کرتی رہیں گی۔

            اسی طرح اللہ تعالیٰ کی اجازت سے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت جبریلِ امین علیہ السلام نے آپ کی شبیہ لائی اور عرض کیا کہ :’’یارسول اللہ! یہ آپ کی دنیا و آخرت میں بیوی ہوں گی۔ ‘‘ اور تین مرتبہ خواب میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا دکھائی گئی تھیں ۔ چناں چہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا:’’ اے عائشہ! تم مجھے تین مرتبہ خواب میں دکھائی گئی تھیں کہ جبریل امین تمہاری تصویر ریشم کے ایک کپڑے میں لپیٹ کر لائے اور مجھ سے کہا یہ تمہاری بیوی ہے ، مَیں وہ کپڑا کھول کر دیکھتا اور کہتا کہ یہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو ہو کر رہے گی۔‘‘

            ان باتوں کے علاوہ  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے تیمم کا حکم نازل فرما کر امت کے لیے آسانی پیدا فرمائی ۔ جس کی تفصیل آگے درج کی جائے گی ، ان شآء اللہ۔

            ان روایتوں سے بارگاہِ خداوندی میں اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا مقام و مرتبہ سمجھ میں آتا ہے ، آپ رضی اللہ عنہا کو ایسا رتبۂ  بلند جو حاصل ہوا وہ سب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دل و جان سے اطاعت و فرماں برداری کی وجہ سے تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہونے کے سبب سے جو خدمت گزاری کی وہ امت مسلمہ کی عورتوں کے لیے مشعلِ راہ ہے اور  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امتی ہونے کی حیثیت سے جو اطاعت کی وہ پوری امت کے لیے ایک سبق ہے۔

               بارگاہِ رسالت میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا مرتبہ

            نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ساری امت کی مقدس ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا جو مقام و مرتبہ اور عظمت و عزت تھی وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ احادیث اور سیرت کی کتابوں میں ایسی سیکڑوں روایتیں موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زوجۂ  محترمہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بے پناہ محبت و الفت فرمایا کرتے تھے۔ بل کہ خود صحابۂ  کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حبیبہ اور محبوبہ ہونے کی گواہی دی ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عمر بن غالب کے طریق سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ :’’ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک آدمی نے بُرے انداز میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہاں سے دور ہو جا تجھ پر کتّے بھونکیں کیا تو محبوبۂ  حبیبِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو بُرا کہتا ہے۔ (ترمذی شریف))

            حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عائشہ(رضی اللہ عنہا) کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسی ’’ثرید‘‘ کی فضیلت تمام کھانوں پر ہے۔‘‘(بخاری ومسلم و ترمذی شریف) ___(’’ثرید‘‘سالن یا شوربے وغیرہ میں روٹی کے ٹکڑے ڈال کر تیار کیے جانے والے کھا نے کو کہتے ہیں جو محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب غذاؤں میں سے ایک ہے، جس کے بارے میں اطبا کا خیال ہے کہ ایسا کھانا صحت کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے)

             حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ عرض کیا کہ : ’’ یارسول اللہ ! آپ کو لوگوں میں سب سے زیادہ کون پسند ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ عائشہ (رضی اللہ عنہا)۔(بخاری و ترمذی شریف)

            ایک موقع پر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مجھے عائشہ(رضی اللہ عنہا) کے بارے میں تکلیف نہ پہنچاؤ ۔ بے شک مجھ پر عائشہ(رضی اللہ عنہا) کے بستر کے علاوہ کسی کے بستر میں وحی نہیں نازل ہوئی۔‘‘ (بخاری و مسلم و ترمذی شریف)

            اسی طرح ایک مرتبہ اپنی پیاری بیٹی حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ’’اے میری پیاری بیٹی ! کیا تم اس سے محبت نہیں کرو گی جس سے مَیں محبت کرتا ہوں ؟ ‘‘ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :’’ کیوں نہیں ؟‘‘ (یعنی مَیں بھی اس سے ضرور محبت کروں گی جس سے آپ کو محبت ہے) ___تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ سوعائشہ(رضی اللہ عنہا) سے محبت کرو۔‘‘(بخاری و مسلم و نسائی شریف)

            ان احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بڑی قدر  و منزلت تھی اور آپ اُن سے بے پناہ محبت و الفت فرمایا کرتے تھے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عظمت و رفعت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اخیر وقت میں مسواک چبا کر دینے والی ہماری مقدس ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی ہیں ۔ حتیٰ کہ اس دنیا سے ظاہری طور پر رخصت ہوتے ہوئے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک سر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں تھا اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے ہی میں ہوئی ۔

               حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نبیِ کریمﷺ  کو محبت سے دیکھنا

            نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے محبت و الفت فرمایا کرتے تھے ۔ ویسے ہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جاں نثاری اور فدا کاری کے جذبات سے سرشار تھیں ۔ آپﷺ  کی اطاعت و فرماں برداری اور خدمت گزاری آپ کا شعار تھا ۔ ہمیشہ آپﷺ  کو خوش رکھنا اور دل جوئی کرنا آپ کے پسندیدہ مشاغل میں سے تھا۔

            چناں چہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ ایک مرتبہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نعلینِ مبارک کو اپنے مقدس ہاتھوں سے سی رہے تھے، اور مَیں بیٹھی ہوئی تھی۔ اتفاق سے میری نظر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ  مبارک کی طرف گئی تو مَیں نے دیکھا کہ آپﷺ  کی مبارک پیشانی پر پسینے کے چند قطرات ابھرے ہوئے ہیں اور پسینے کے اندر سے ایک نور ہے جو بڑھتا جا رہا ہے۔ ‘‘ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ میرے لیے یہ منظر ایسا دل کش اور سہانا تھا کہ مَیں محبت و سرور اور حیرت و تعجب سے پورے انہماک کے ساتھ کافی دیر تک نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک پیشانی کو دیکھتی رہی۔

            اچانک نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر اٹھا کر میری طرف دیکھا کہ مَیں آپﷺ  کو حیرانگی اور دل جمعی سے دیکھ رہی ہوں تو ارشاد فرمایا:’’ اے عائشہ ! کیا یہ بات؟‘‘ کیوں اس طرح میری طرف دیکھ رہی ہو؟‘‘

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ مَیں نے عرض کیا یارسول اللہ! مَیں نے دیکھا کہ آپﷺ  کی پیشانی پر پسینے کے قطرات نمودار ہیں اور مجھے پسینے کے ان قطروں میں ایک چمکتا ہوا نور دکھائی دے رہا ہے جو مجھے بڑھتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ اس خوش نما اور خوب صورت منظر نے مجھے آپﷺ  کی طرف محبت و سرور سے مسلسل دیکھنے پر مجبور کر دیا تھا۔خدا کی قسم! اگر ’’ابو کبیر ہذلی‘‘ (زمانۂ  جاہلیت کا مشہور شاعر) آپ کو دیکھ لیتا تو اُسے اپنے خود کے اِن اشعار کا صحیح مصداق سمجھ میں آ جاتا اور وہ کہہ اٹھتا کہ اِن اشعار سے مراد یارسول اللہ! آپ ہی ذات ہے۔

            نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ سناؤ تو سہی اس کے اشعار کیا ہیں ؟‘‘ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مَیں نے ابو کبیر ہذلی کے یہ اشعار سنائے    ؎

ومبئر من کل غیر حیضۃ

وفساد مرضعۃ وذاء مغیل

واذا نظرت الی اسرۃ وجہہ

برقت کبرق العارض المتھلل

ترجمہ: ’’وہ ولادت اور شیر خوارگی کی گندگیوں سے پاک ہے ، اس کے روشن چہرے کو دیکھو تو معلوم ہو گا کہ نور اور روشن چمکتی ہوئی بجلی جلوہ دے رہی ہے۔ ‘‘

            جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اشعار سنے تو جو کچھ ہاتھ میں تھا وہ رکھ دیا اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا:’’ اے عائشہ ! جو خوشی و مسرت مجھے تیرے کلام سے ملی ہے اس قدر خوشی و سرور تجھے میرے دیدار سے بھی حاصل نہیں ہوا ہو گا۔ ‘‘ (مستدرک ، حاکم ، مدارج السالکین)

               دشمنانِ رسولﷺ    کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا جواب

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا دل و جان سے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صدقے اور واری جاتی تھیں ۔آپﷺ  کو اگر کوئی ایذا پہنچا نے کی کوشش کرتا تو آپ اس کا جواب دیتیں ۔ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کو دیکھ کر دشمنانِ اسلام کے دلوں پر سانپ رینگنے لگے تھے۔ اسلام سے دشمنی اور مسلمانوں کو نقصان پہنچا نے کی کوشش ابتدا ہی سے یہودیوں کی عادت بل کہ فطرت رہی ہے۔

            اسی فطرت کے مطابق ایک دفعہ چند یہودی نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور اپنی ازلی خباثت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ :’’ السام علیک‘‘ یعنی تم پر موت ہو۔ اتفاق سے اس موقع پر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جاں نثار اور و فا شعار ہم مسلمانوں کی مقدس ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی موجود تھیں اور وہ اُن یہودیوں کی بات سُن رہی تھیں وہ سمجھ گئیں کہ ’’السام علیک‘‘ سے اُن یہودیوں کی کیا مراد ہے ؟ اور اس کے کیا معنی ہیں ؟ چناں چہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو سخت طیش آ گیا انھوں نے ان کے جواب میں کہا کہ ’’ اَلسَّامُ عَلَیْکُم لَعْنَکُمُ اللّٰہُ وَ غَضِبَ عَلَیْکُم‘‘ یعنی تم پر موت ہو اور تم پر خدا کی لعنت ہو اور خدا کا غضب ٹوٹے۔‘‘

            نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سُن کر فرمایا:’’ اے عائشہ سخت کلامی نہ کرو کہ اللہ تعالیٰ نرمی کو پسند فرماتا ہے۔ ‘‘ اور فرمایا :’’کیا تم نے سنانہیں مَیں نے کیا جواب دیا ؟، ’’وعلیکم‘‘ کہہ کر مَیں نے ان کی بات ان پر ہی لوٹا دی ہے ۔ اب اللہ تعالیٰ میری بددعا اُن کے حق میں قبول فرما لے گا اور ان کی یہ بددعا میرے حق میں قبول نہ ہو گی۔ (بخاری و مسلم شریف)

               نبیِ کریمﷺ  کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نیند کا خیال رکھنا اور مرحومین کی مغفرت کے لیے دعا سکھانا

            نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جیسی محبت و الفت فرمایا کرتے تھے۔ اُس تعلق سے چند ایمان افروز واقعات اوپر گذرے ۔اسی ضمن کی ایک روایت ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نیند کا بھی بے حد خیال رکھتے تھے۔ چناں چہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں کہ :

            ’’ ایک رات جب کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تھے ، آپﷺ  نے اپنی چادر رکھی اور جوتے مبارک اتارے مَیں نے اُن کو آپﷺ  کے مبارک پیروں کے قریب رکھ دیا۔نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کروٹ کے بل لیٹ گئے ۔ آپﷺ  اتنی ہی دیر لیٹے ہوں گے کہ جتنی دیر میں آپﷺ نے یہ گمان کیا ہو گا کہ مَیں سوگئی ہوں ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خیال فرما کر کہ مَیں سوگئی ہوں نہایت آہستگی سے اپنی چادر اٹھائی اور بالکل آہستہ سے جوتے پہنے اور دروازے سے باہر نکل گئے اور بڑی نرمی اور آہستگی سے دروازے کو بند کیا تو مَیں نے بھی اپنے سر کو ڈھانپا اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلنے لگی ۔ یہاں تک کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ’’جنت البقیع ‘‘ میں تشریف لے گئے۔ پھر آپﷺ  کافی دیر تک وہیں رہے مَیں نے دیکھا کہ آپﷺ  نے تین مرتبہ اپنے ہاتھوں کو اٹھایا پھر آپ تیزی سے واپس ہوئے، مَیں بھی اتنی ہی تیزی سے گھر کی طرف لپکی اور آپﷺ  سے پہلے ہی گھر پہنچ گئی ۔ مَیں لیٹی ہی تھی کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوئے اور مجھے بڑے پیار سے فرمایا:’’ اے عائشہ! تم بے چین اور گھبرائی ہوئی کیوں ہو؟ ‘‘ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ مَیں نے عرض کیایارسول اللہ! کوئی بات نہیں ۔‘‘ آپﷺ  نے فرمایا کہ : ’’ تم مجھے بتاتی ہو کہ علیم و خبیر رب مجھے خبر دے؟‘‘ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی:’’ یارسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔‘‘ یہ کہہ کر آپ رضی اللہ عنہا نے پورا ماجرا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا دیا۔

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس پر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’ وہ سایا تمہارا ہی تھا جو مَیں نے اپنے آگے دیکھا تھا؟ ‘‘ مَیں نے عرض کیا:’’ جی ہاں ! ‘‘ چناں چہ آپﷺ نے مجھے پیار سے ایک مکا مارا جس سے مجھے تھوڑی سی تکلیف محسوس ہوئی۔ اور پھر فرمایا کہ : ’’ کیا تم یہ گمان کرتی ہو کہ اللہ اور اس کا رسول تمہارے ساتھ کوئی ناانصافی کریں گے؟‘‘

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :’’ لوگ جتنا بھی کسی بات کو چھپا نے کی کوشش کریں لیکن اللہ تعالیٰ اس بات کو جانتا ہے ۔‘‘ آپﷺ  نے فرمایا: ’’ ہاں ! میرے پاس جبریل امین علیہ السلام اس وقت آئے تھے جب تم نے مجھے دیکھا تھا ۔ پس انھوں نے مجھے آہستہ سے آواز دی اور مَیں نے بھی انھیں آہستہ سے جواب دیا تاکہ تمہیں خبر نہ ہو ، اور جبریل امین علیہ السلام تمہارے بے پردہ ہونے کی حالت میں تمہارے پاس نہیں آسکتے۔ جب مَیں نے یہ سمجھا کہ تم سوچکی ہو تو مَیں نے تمہیں جگانا مناسب نہ خیال کیا اور یہ کہ کہیں تمہیں جگا نے سے تم ڈر نہ جاؤ۔

            جبریل علیہ السلام نے مجھے سے عرض کیا کہ :’’ یارسول اللہ ! آپ کا رب آپ کو یہ حکم دے رہا ہے کہ جنت البقیع میں دفن ہونے والوں کے پاس جائیں اور ان کے لیے دعاے مغفرت فرمائیں ۔

            ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا :’’ یارسول اللہ ! ہم ان کے لیے کیسے دعا کریں ؟‘‘ پس نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو یوں دعا سکھائی اور فرمایا کہ پڑھو :  ’’ السَّلامُ عَلیٰ اَہلِ الدِّ یارِ  مِنَ الْمُؤمِنِینَ و الْمُسْلِمِینَ وَیَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِینَ مِنَّا وَالْمُسْتَاخِرِینَ وَاِنْ شَآئَ اللّٰہُ لَلَاحِقُوْن۔‘‘

            (ترجمہ) ’’سلامتی نازل ہو مومن اور مسلمان مردوں (اور عورتوں) پر جو ان گھروں میں رہتے ہیں (یعنی قبروں میں دفن ہیں) اور اللہ تعالیٰ رحم فرمائے ہم میں سے جو موت میں ہم سے سبقت لے گئے ہیں اور ان پر بھی جو ان کے پیچھے رہ گئے ہیں (یعنی زندہ ہیں) اور بے شک ہم ایک دن ان شآء اللہ تم سے ملنے والے ہیں ۔‘‘ (ترمذی و نسائی شریف)

            درج بالا حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت جبریل امین علیہ السلام نے آہستہ سے گفتگو کر کے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی نیند کا خیال رکھا ۔

               اے فاطمہ (رضی اللہ عنہا) تم بھی عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے محبت کرو

            حضرت امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ :’’ ایک مرتبہ ازوجِ مطہرات(رضی اللہ عنہن) نے حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا انھوں نے آ کر اجازت چاہی۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت میرے ساتھ آرام فرما رہے تھے ، آپﷺ  نے اجازت دے دی ۔ (حضرت) فاطمہ(رضی اللہ عنہا) نے عرض کیا :’’ یارسول اللہ! مجھے آپ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن نے بھیجا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ آپ ابو قحافہ کی بیٹی(حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) کے معاملہ میں ان کے ساتھ انصاف کیجیے۔ ‘‘

            نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ اے میری پیاری بیٹی فاطمہ! کیا تم اس سے محبت نہیں کرتیں جس سے مَیں محبت کرتا ہوں ؟ ‘‘ انھوں نے عرض کی :’’کیوں نہیں ۔‘‘تو نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :’’تم بھی عائشہ سے محبت کرو۔‘‘

             حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ:’’ (حضرت) فاطمہ(رضی اللہ عنہا) نے جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ جواب سنا تو ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے پاس تشریف لے گئیں اور انھیں پورا ماجرا سنایا۔ ازواجِ مطہرات نے دوبارہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں جا کر عرض کرنے کے لیے کہا کہ:’’ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کہتی ہیں کہ ابو قحافہ کی بیٹی (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا)کے معاملہ میں ان کے ساتھ عدل کریں ۔ ‘‘حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی محبت کا اندازہ لگا چکی تھیں اس لیے انھوں نے دوبارہ جانے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ :’’ اللہ کی قسم ! مَیں اس کام کے لیے دوبارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں جاؤں گی۔‘‘

            ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن نے ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ مقدسہ میں بھیجا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ حضرت زینب بنت جحش حسب نسب میں میرے ہم پلہ تھیں اور ساتھ ساتھ تقویٰ و طہارت،دین کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے، سچ بولنے اور صلہ رحمی کرنے میں مَیں نے اُن سے بڑھ کر کسی اور عورت کو نہ دیکھا تھا اور نہ اُن سے زیادہ تواضع کرنے والی ۔عبادت و ریاضت اور صدقہ و خیرات میں گویا انھوں نے اپنے آپ کو تھکا ڈالا تھا۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے بعد اُن سے ہی محبت و الفت فرمایا کرتے تھے۔

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: ’’ انھوں نے آ کر اجازت طلب کی نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح میرے ساتھ آرام فرما رہے تھے جیسے فاطمہ (رضی اللہ عنہا)کے آنے پر تھے۔ آپﷺ  نے انھیں اندر آنے کی اجازت عطا فرما دی انھوں نے عرض کیا :’’ یارسول اللہ ! مجھے آپ کی دوسری ازواج نے بھیجا ہے اور وہ آپ سے ابو قحافہ کی بیٹی(حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) کے معاملہ میں انصاف چاہتی ہیں ۔‘‘ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ! یہ ابو بکر کی بیٹی ہے۔‘‘  (مسلم شریف باب فضائل الصحابہ)

               حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بستر پر وحی کا نازل ہونا

            صحابۂ  کرام رضی اللہ عنہم اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کرناِ  حقیقت میں اللہ عزوجل کی خوشی حاصل کرنا ہے۔ اس کے لیے وہ مواقع کی تلاش میں رہا کرتے تھے کہ ہم کسی نہ کسی طرح اپنے آقا و مولا نبیِ کریم روف و رحیم صلی اللہ علیہ وسلم کا دل جیت لیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے جب دیکھا کہ آپﷺ  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بہت محبوب رکھتے ہیں تو وہ اُن کی باری کے وقت نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ہدیے وغیرہ بھیجا کرتے تھے تاکہ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہو جائیں ۔

            ایک مرتبہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن نے یہ طَے کیا کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا جائے کہ آپ لوگوں سے فرما دیجیے کہ جو آدمی بھی ہدیہ وغیرہ بھیجنا چاہے وہ میری ازواج میں سے مَیں کسی کے بھی گھر ہوں بھیج دیا کرے ۔اس کام کے لیے انھوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں روانہ کیا ۔

             چناں چہ اما م احمد و ابوحاتم رحمہم اللہ تعالیٰ نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا ہے کہ دیگر ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن نے مجھ سے کہا کہ : ’’ تم نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو کہ آپ لوگوں سے فرما دیں مَیں جہاں بھی ہوں ہدیے بھیج دیا کریں ۔کہ لوگ(حضرت)عائشہ(رضی اللہ عنہا) کی باری کا انتظار کرتے ہیں جب کہ ہم بھی (حضرت) عائشہ (رضی اللہ عنہا) ہی کی طرح بھلائی چاہتی ہیں ۔‘‘حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ مَیں نے بارگاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کیا کہ یارسول اللہ! آپ کی بیویوں کا کہنا ہے کہ آپ لوگوں کو حکم دیں کہ مَیں جہاں بھی ہوں ہدیے بھیج دیا کریں کیوں کہ دیگر اُن کا کہنا ہے کہ جس طرح عائشہ کو خیر و بھلائی پسند ہے اُسی طرح ہم کو بھی پسند ہیں ۔‘‘ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں کچھ اس طرح ہے کہ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ جب میں نے تین بار نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :’’ اے ام سلمہ ! مجھے عائشہ کے بارے میں تکلیف مت دو۔ اللہ کی قسم! تم سب کے علاوہ میرے پاس وحی صرف عائشہ کے بستر میں نازل ہوتی ہے۔ ‘‘

            اس روایت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے امتیازی فضائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اُن کے بستر میں وحی کا نزول ہوا۔

               حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر قرآنِ پاک نازل ہوتا تھا

            ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن پر مجھے چار چیزوں میں فضیلت حاصل تھی۔

(۱)نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کنواری ہونے کی حالت میں شادی فرمائی جب کہ میرے علاوہ کوئی بھی بیوی کنواری نہیں تھی۔

(۲) جب سے مَیں آپﷺ  کے نکاح میں آئی قرآن میرے ہی گھر میں نازل ہوتا تھا کسی اور بیوی کے گھر میں نازل نہیں ہوتا تھا۔

(۳) میرے معاملہ میں صفائی کے لیے قرآنِ کریم کی آیتیں نازل ہوئیں جو قیامت تک پڑھی جائیں گی۔

(۴)میرے نکاح سے پہلے دو مرتبہ حضرت جبریل امین علیہ السلام میری تصویر لے کر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے۔

               نبیِ کریمﷺ  کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے دعا

            نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے لیے خصوصی دعا فرمائی جس سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو خوشی حاصل ہوئی ۔غرض یہ کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس طرح خوش رکھنا اُمتِ مسلمہ کے شوہروں کے لیے ایک سبق کی حیثیت رکھتا ہے کہ وہ بھی اپنی بیویوں کے ساتھ ایسا ہی محبت آمیز برتاؤ کریں ۔

            امام ا بو حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتی ہیں :’’ جب مَیں نے ایک دن یہ دیکھا کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے خوش ہیں تو مَیں نے عرض کی :’ یارسول اللہ! میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے ۔‘  تو آپﷺ  نے فرمایا  :

اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِعَائِشَۃِ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِہا وَمَا تأ خَّرَ وَمَا اَسَرتَ وَ مَا اَعْلَنْتَ

ترجمہ:’’ اے اللہ! عائشہ کے اگلی پچھلی ساری لغزشیں معاف فرما دے اور جو چھپی ہوں یا ظاہر ہوں ان کو بھی معاف فرما دے ۔‘‘

            نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا سُن کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا خوشی سے اس قدر شرمائیں اور ہنسیں کہ آپ کا سر اپنی گود تک جھک گیا۔ یہ دیکھ کر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے عائشہ ! کیا تمہیں میری دعا سے خوشی ہوئی ہے؟‘‘ عرض کیا :’’ یارسول اللہ! مجھے آپ کی دعا سے خوشی کیوں نہ ہو؟‘‘ آپﷺ  نے فرمایا:’’ مَیں اپنی امت کے لیے ہر نماز میں یہی دعا کرتا ہوں ۔‘‘

            سبحان اللہ!اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کا کس قدر خیال فرماتے تھے خود فرما رہے ہیں کہ مَیں اپنی امت کے لیے ہر نماز میں ان کی مغفرت کی دعا کرتا ہوں ۔ یہاں مقامِ غور ہے کہ ہمارے لیے تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دعاؤں پر دعا کرتے رہے اور ہم آپﷺ  کے فرامین سے کوسوں دور ہیں ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کرنے کے لیے اُن کی سنت اور شریعت کی پابندی کو اپنا شعار بنا لیں ۔

               حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ایک دل چسپ واقعہ

            حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ایک مرتبہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور میرے درمیان کچھ بات ہو گئی ، تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’تم ہمارے درمیان کس کو حَکم بناؤ گی کیا عمر(رضی اللہ عنہ) ٹھیک ہیں ؟‘___فرماتی ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہ :’’ مَیں نے کہا عمر (رضی اللہ عنہ) نہیں ، کیوں کہ وہ سخت آدمی ہیں ۔‘‘ تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کیا ابوبکر(رضی اللہ عنہ) پر راضی ہو کہ وہ فیصلہ کریں ؟‘‘ مَیں نے عرض کیا :’ ابوبکر(رضی اللہ عنہ) ٹھیک ہیں ۔‘‘

            نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلا کر فرمایا:’’ عائشہ ایسی ایسی بات کہتی ہے اور معاملہ کچھ اس طرح ہے۔‘‘ حضرت عائشہ روایت فرماتی ہیں کہ :’’ مَیں نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہہ دیا کہ ’ آپ اللہ سے ڈریں اور صرف حق بات کہیں ۔‘ فرماتی ہیں کہ :’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میری ناک پر ہاتھ مارا جس سے میری ناک لہولہان ہو گئی اور فرمایا تیرے ماں باپ نہ رہیں تو نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتی ہے کہ حق بات کہیں اور اللہ سے ڈریں !___آپﷺ جو فرما رہے ہیں کیا وہ حق نہیں ہے؟ ‘‘___حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:’’ میری ناک کے نتھنے ایسے ہو گئے جیسے مشکیزے کا نچلا حصہ ہوتا ہے۔ ‘‘

            نبیِ کریم رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ ماجرا دیکھا تو تو فرمایا:’’ اے ابوبکر! ہم نے تو تمہیں اس لیے نہیں بلایا تھا ۔‘‘ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ گھر میں کھجور کی ایک سوکھی ٹہنی پڑی ہوئی تھی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وہ اٹھائی اور مجھے ضرب لگانا شروع کر دی،  مَیں بھاگ کر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر سے لپٹ گئی ۔ حتیٰ کہ آپﷺ  نے فرمایا:’’قسم ہے تمہیں ابوبکر! جواَب تم نے مارا تو، ہم نے تمہیں اس لیے تو نہیں بلایا تھا ۔‘‘ پھر جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دور جا کر کھڑی ہو گئیں ، آپﷺ  نے فرمایا میرے قریب آ جاؤ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انکار کر دیا ۔ آپﷺ  نے مسکراتے ہوئے فرمایا ابھی تھوری دیر پہلے تو بڑے زور سے میری کمر سے لپٹی تھیں ؟‘‘

            ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے ساتھ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو بھی واقعات اور معمولات پیش آئے دراصل وہ امت کے لیے ایک سبق ہیں کہ ہم اُن حکایات سے زندگی گذارنے کے صحیح طریقے اور آداب سیکھیں ۔

                حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک حبشی عورت کا کھیل دیکھنا

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ ایک مرتبہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ ہم نے اچانک ایک شور و غل سنا ، اور ہمیں بچوں کی آوازیں سنائی دیں ۔ جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھ کر دیکھا تو ایک حبشی عورت بچوں کو عجیب و غریب قسم کے کھیل دکھا رہی تھی اور ساتھ میں ناچ رہی تھی۔ بچّے اور دوسرے لوگ اس کے گرد جمع تھے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اے عائشہ! ادھر آؤ اور دیکھو۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک کندھے پر اپنارخسار رکھ کر اس عورت کو دیکھنے لگیں ۔

            تھوڑی دیر بعد آپﷺ  نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا :’’ کیا جی بھر گیا ہے؟ کیا جی بھر گیا ہے؟ ‘‘ تو مَیں آپﷺ  سے یہی کہتی کہ جی نہیں مَیں دیکھنا چاہتی ہوں اور میرا یہ کہنا اس وجہ سے نہیں تھا کہ مجھے اور دیکھنے کا شوق تھا بل کہ مَیں تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اپنی محبت اور اپنے مرتبے کا اندازہ لگانا چاہتی تھی کہ آپﷺ  کے یہاں میرا کیا درجہ ہے؟ یہاں تک کہ آپ پر تھکن کے آثار ہوئے۔

            اتنے میں اچانک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہاں سے گذر ہوا تو ان کے رعب و دبدبہ کی وجہ سے مجمع اِدھر اُدھر ہو گیا تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مَیں جنوں اور انسانوں کے شیطانوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ ’’عمر ‘‘ (رضی اللہ عنہ کے رعب و ہیبت) سے ڈر کر بھاگ رہے ہیں ۔ اس کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا لوٹ آئیں ۔ (ترمذی شریف)

            محدثین کرام علیہم الرحمۃ والرضوان فرماتے ہیں کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ جنوں اور انسانوں کے شیطانوں کو دیکھ رہا ہوں یہ گویا اس اعتبار سے تھا کہ وہ ایک لہو و لعب کی صورت تھی اور ممکن ہے اس میں کوئی ناپسندیدہ چیز بھی ہو لیکن اُس کھیل میں کوئی حرام کام ہرگز نہیں تھا ورنہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیسے اسے دیکھتے اور کیسے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دکھا سکتے تھے؟___‘‘

               نبیِ کریمﷺ  کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا دوڑ لگانا

            حضرت امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا:’’ ایک دفعہ ایک غزوہ کے موقع پرسفر میں مَیں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی۔ میری عمر اس وقت چھوٹی تھی اور میرا بدن ہلکا پھلکا تھا۔نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام صحابۂ  کرام رضوان اللہ علیہم کو حکم دیا کہ وہ آگے چلے جائیں ، وہ سب آگے چلے گئے پھر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا:’ آؤ آپس میں دوڑ لگائیں ، دیکھیں کون دوڑ میں آگے نکلتا ہے؟ ‘ ‘

            حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’مَیں نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوڑ لگائی۔مَیں دُبلی پتلی تھی اس لیے دوڑ میں مَیں آپﷺ  سے آگے نکل گئی۔ لیکن اس موقع پر نبیِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد پھر اسی قسم کا واقعہ پیش آیا۔میں فربہ ہو گئی اور وہ واقعہ بھول گئی تھی۔ ایک مرتبہ سفر میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ  کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حکم دیا تم آگے چلے جاؤ۔ وہ سب آگے چلے گئے تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:’ آؤ دوڑ لگائیں اور دیکھیں کہ کون آگے نکلتا ہے۔‘ چناں چہ اِس مرتبہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے نکل گئے۔آپ مسکرا نے لگے اور فرمایا: ’’ اے عائشہ ! یہ اس دن کا جواب اور بدلہ ہے ۔‘‘

               جبریل علیہ السلام کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو سلام

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے فضائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا نے جبریل امین علیہ السلام کو دیکھا اور جبریلِ امین علیہ السلام نے انھیں سلام بھی کہا ۔

            چناں چہ خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ غزوۂ  احزاب کے بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم غسل کے لیے جانے لگے تو جبریلِ  امین علیہ السلام آپ کے پاس تشریف لائے اور عرض کیا :’ یارسول اللہ! کیا آپ نے ہتھیار اتار دیے ہیں ؟ ہم (یعنی فرشتوں) نے تو ابھی تک ہتھیار نہیں اتارا۔‘ ‘___ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ :’’مَیں نے دروازے کی درازوں سے جبریل امین علیہ السلام کو دیکھا کہ ان کا سر گرد و غبار سے اٹا ہوا تھا۔‘‘

            ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ مَیں نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ  دحیہ کلبی (رضی اللہ عنہ) کے گھوڑے کی پیشانی پر اپنا مبارک ہاتھ رکھے ہوئے اُن سے باتیں کر رہے ہیں ۔‘‘ فرماتی ہیں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہ :’’ جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو مَیں نے عرض کیا کہ آپ دحیہ کلبی (رضی اللہ عنہ) سے کیا بات فرما رہے تھے؟ ‘‘  نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :’’ کیا تم نے ان کو دیکھا تھا ؟‘‘ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا : ’’ہاں ! یارسول اللہ ! مَیں نے ان کو دیکھا تھا۔‘‘ آپﷺ  نے دوبارہ پوچھا :’’ کیا تم نے ان کو دیکھا تھا؟‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا : ’’ہاں ! ضرور دیکھا تھا۔‘‘  نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے عائشہ! وہ جبریل امین تھے اور تمہیں سلام کہہ رہے تھے۔ فرماتی ہیں ام المؤمنین کہ مَیں نے کہا اُن پر بھی سلامتی ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کے بہترین ساتھی کی طرف سے انھیں بہترین جزا عطا فرمائے ۔

            روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت جبریل امین علیہ السلام اکثر صحابیِ رسول حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی شکل میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے۔ مذکورہ بالا روایت سے بھی اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو سلام کہنے کے لیے بھی جبریل علیہ السلام ان ہی کی شکل میں آئے۔

               حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نبیِ کریمﷺ سے سوالات کرنا

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ۹؍ سال رہیں اور ان ۹؍ سالوں میں آپ رضی اللہ عنہا نے خوب خوب علم حاصل کیا ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیشہ کچھ نہ کچھ سوالات کیا کرتی تھیں اور آپﷺ  جو جوابات عنایت فرماتے انھیں یاد کر لیتیں ۔بل کہ خود نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خصوصی تربیت فرماتے تھے۔  یہی وجہ ہے کہ آپ سے کثیر تعداد میں احادیث مروی ہیں ۔ آپ کا سوال کرنا بھی حکمت سے خالی نہ تھا کہ اس وجہ سے امت کو دینی احکام و مسائل سیکھنے کو ملے۔ ذیل میں چند روایتیں نقل کی جاتی ہیں جو ہمارے لیے بہترین سبق اور تعلیم ہیں ۔

            ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبیِ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ: ’’ یارسول اللہ! میرے دو پڑوسی ہیں ، فرمائیے کہ مَیں ہدیہ دینے میں ان دونوں میں سے کس کو اولیت دوں ؟‘‘ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ دونوں میں سے جس کے گھر کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو اس کو اولیت دو۔‘‘ (بخاری شریف)

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ ایک دن مَیں نے اور (حضرت) حفصہ (رضی اللہ عنہا) نے نفلی روزہ رکھ لیا پھر کھانا مل گیا جو کہیں سے ہدیہ آیا تھا۔ ہم نے اس میں سے کھا لیا۔ تھوڑی دیر بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ۔ میرا ارادہ تھا کہ مَیں آپﷺ  سے سوال کروں مگر مجھ سے پہلے حفصہ (رضی اللہ عنہا) نے پوچھ لیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :’’ یارسول اللہ! مَیں نے اور عائشہ (رضی اللہ عنہا) نے نفلی روزے کی نیت کی تھی۔ پھر ہمارے پاس ہدیۃً کھانا آ گیا جس سے ہم نے روزہ توڑ دیا۔ پس فرمائیے کہ اس کا کیا حکم ہے؟ ‘‘ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم دونوں اس کی جگہ کسی دوسرے دن روزہ رکھ لینا۔‘‘

            ایک مرتبہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :’’ قیامت کے دن لوگ ننگے پاؤں ، ننگے بدن ، بغیر ختنہ اٹھائے جائیں گے ۔ (جیسا کہ ماں کے پیٹ سے دنیا میں آتے ہیں) ‘‘ یہ سن کر ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :’’ یارسول اللہ! یہ تو بڑے شرم کا مقام ہو گا ۔ کیا مرد و عورت سب برہنہ ہوں گے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوں گے؟ ‘‘ اس کے جواب میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ اے عائشہ ! قیامت کے دن کی سختی اس قدر زیادہ ہو گی اور لوگ گھبراہٹ اور پریشانی سے ایسے بدحال ہوں گے کہ کسی کو کسی کی طرف دیکھنے اور توجہ کرنے کا ہوش و حواس ہی نہ ہو گا۔ مصیبت اتنی زیادہ اور شدید ہو گی کہ کسی کو اس کا خیال بھی نہ آئے گا۔‘‘

            ایک مرتبہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ : ’’ اَلّٰلہُمَّ اَحْیِینِی مِسکینًا وَّ وَاَمِتنِی مِسکینًا وَّ احْشُرْ فِی زُمرَۃِ الْمَساکیِن  ‘‘___ترجمہ: اے اللہ! مجھے مسکین زندہ رکھ اور حالتِ مسکینی میں مجھے دنیا سے اٹھا اور قیامت میں مسکینوں کے ساتھ حشر فرما۔

            یہ دعا سن کر ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :’’ یارسول اللہ! آپ نے ایسی دعا کیوں فرمائی؟‘‘ آپﷺ  نے فرمایا:’’ اس لیے کہ بلاشبہ مسکین لوگ مال داروں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے ۔ ‘‘ پھر فرمایا نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ :’’ اے عائشہ! اگر مسکین سائل ہو کر آئے تو مسکین کو کچھ دیے بغیر واپس نہ کرو اور کچھ نہ بھی ہو تو کھجور کا ایک ٹکڑا ہی دیے دیا کرو۔ اے عائشہ ! مسکینوں سے محبت کرو اور ان کو اپنے رب سے قریب کرو جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہیں قیامت کے روز اپنے سے قریب فرمائے گا۔‘‘(ترمذی شریف)

            بعض محدثین اور شارحین نے اس حدیث میں مسکینی سے مراد باطنی مسکینی لی ہے ان کے مطابق نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعا فرمانا کہ :’’ مجھے مسکین زندہ رکھ‘‘ یعنی آپﷺ  کا باطنی مسکینی کو  خشوع و خضوع کے ساتھ طلب کرنا ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم مسکینوں اور فقرا کو نہ جھڑکیں اور اپنے باطن کو مسکینیت سے سجائیں یعنی اللہ و رسول جل شانہٗ و صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و الفت میں جئیں اور مریں ۔

            ایک مرتبہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو پسند فرماتا ہے۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو نا پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو ناپسند فرماتا ہے ۔ ‘‘ یہ ارشادِ مبارک سن کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :’’ یارسول اللہ! موت ہم سب کو بُری لگتی ہے(لہٰذا آپ کے فرمان کا مطلب یہ ہوا کہ ہم میں کوئی شخص بھی اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند نہیں کرتا لہٰذا اللہ تعالیٰ بھی ہم میں سے کسی کی ملاقات کو پسند نہیں فرماتا)‘‘ ___اس کے جواب میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اس کا یہ مطلب نہیں ہے جسے طبعی طور پر موت بری لگی اللہ کواس کی ملاقات نا پسند ہے بل کہ مطلب یہ ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت نزدیک آ جاتا ہے تو اس کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام و اکرام کی خوش خبری سنائی جاتی ہے لہٰذا اُس کے نزدیک کوئی چیز اُس سے زیادہ محبوب نہیں جو مرنے کے بعد اُسے ملنے والی ہے۔ اس وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرنے لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی ایسے بندوں کی ملاقات کو پسند فرما نے لگتا ہے۔ اور بلاشبہ کافر کی موت کا وقت جب نزدیک آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا ملنے کی اس کو خبر سنائی جاتی ہے لہٰذا اُس کے نزدیک کوئی چیز اُس سے زیادہ ناپسند اور بُری نہیں ہوتی جو مرنے کے بعد اُس کو ملنے والی ہے اسی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے ، چناں چہ اللہ تعالیٰ بھی ایسوں کی ملاقات کو ناپسند فرماتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف)

            معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی موت کا دن ایک طرح سے اُن کے لیے خوشی و مسرت کا دن ہوتا ہے کیوں کہ وہ اپنے اللہ سے ملنے والے انعامات اور اکرامات سے قریب ہونے جا رہے ہوتے ہیں ۔ جب کہ کافروں اور مشرکوں کے لیے موت ہی سے سختی کا دروازہ کھل جاتا ہے۔

               حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی گھریلو زندگی

            ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی گھریلو زندگی بڑی سادہ تھی۔ آپ بڑی قناعت پسند خاتون تھیں ۔ فقر و فاقہ سے رہتیں ۔ آپ کے شوہرِ نامدار نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں تو اللہ عزوجل نے مالکِ کونین بنا کر مبعوث فرمایا تھا۔ لیکن نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے غریب امتیوں کا خیال رکھتے ہوئے سادگی کو پسند فرمایا۔ کاشانۂ  نبوت میں چند چیزیں تھیں ۔ جہاں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیاہ کر آئی تھیں ۔ کتابوں میں آتا ہے کہ چالیس چالیس راتیں گذر جاتیں مگر گھر میں چراغ روشن نہ ہوتا ، مہینہ مہینہ بھر گھر میں چولھا نہ جلتا، صرف سوکھی کھجوریں اور پانی پی کر گزر بسر ہوتی تھی۔اگر گھر میں کہیں سے کچھ آ جاتا تو ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی سخی طبیعت کی بنا پر وہ سب کچھ راہِ خدا میں لٹا دیتیں ۔

            حضرت مسروق تابعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :’’ مَیں ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انھوں نے میرے لیے کھانا منگوایا پھر کھانا منگا کر فرمایا کہ اگر مَیں پیٹ بھر کر کھالوں اور اس کے بعد رونا چاہوں تو روسکتی ہوں ! ۔ مَیں نے سوال کیا ـ:کیوں ؟ فرمایا کہ مَیں اس حا ل کو یاد کرتی ہوں جس حال میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کو چھوڑ کر تشریف لے گئے ہیں ۔ اللہ کی قسم ! کسی روز (بھی) دو مرتبہ آپ نے گوشت اور روٹی سے پیٹ نہیں بھرا، یہ ترمذی شریف کی روایت ہے ۔ بیہقی شریف میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :’’ کہ اگر ہم چاہتے تو پیٹ بھر کر کھا لیتے لیکن واقعہ یہ ہے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نفس پر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے۔

            حضرت عبدالرحمن ابن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے اور آپ نے اور آپ کے گھر والوں نے جَو کی روٹی سے بھی پیٹ نہیں بھرا۔‘‘

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ اپنے بھانجے حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے فرمایا کہ:’’ اے میری بہن کے بیٹے ! سچ جانو ہم تین چاند دیکھ لیتے تھے اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں آگ نہیں جلتی تھی۔ ‘‘انھوں نے سوال کیا کہ:’’ خالہ جان!  پھر آپ حضرات کیسے زندہ رہتے تھے؟ ‘‘ فرمایا :’’ کھجوروں اور پانی پر گذارا کر لیا کرتے تھے اور اس کے سوا یہ بھی ہوتا تھا کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں رہنے والے انصار اپنے دودھ کے جانوروں کا دودھ ہدیۃً بھیج دیا کرتے تھے آپ اس دودھ کو ہمیں پِلا دیا کرتے تھے۔ ‘‘(بخاری و مسلم شریف)

            حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ :’’نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں پر بغیر چراغ روشن کیے اور بغیر چولہے میں آگ جلائے کئی کئی مہینے گذر جاتے تھے اگر زیتون کا تیل مِل جاتا تو تھوڑا سا ہونے کی وجہ سے اس کو روشن کرنے کی بجائے بدن اور سر پر مَل لیتے تھے اور چربی مِل جاتی تو اس کو کھا نے میں لے آتے تھے۔‘‘

              حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ مَیں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (تہجد کے وقت) سوجاتی تھی اور میرے پاؤں آپ کے سامنے (سجدہ کی جگہ) پھیل جاتے تھے۔ لہٰذا جب آپ سجدہ میں جاتے تو میرے پاؤں کو ہاتھ لگا دیتے تھے مَیں پاؤں سکیڑ لیتی تھی اور جب آپ سجدہ سے فارغ ہو کر کھڑے ہو جاتے تھے تو مَیں پھر پاؤں پھیلا دیتی تھی۔‘‘ اتنا بیان کرنے کے بعد مزید فرمایا کہ :’’ اس زمانے میں ہمارے گھروں میں چراغ نہ تھے۔‘‘(بخاری و مسلم شریف)

            نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بستر بھی عمدہ اور نرم نہیں رکھتے تھے۔ آپﷺ  کی ہمراہی کی وجہ سے ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن بھی اسی طرح گذارا کرتی تھیں ۔ بھلا اِن مقدس خواتین کو یہ کیسے گورا ہوسکتا تھا کہ خود آرام اٹھا لیں اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سادگی سے زندگی بسر فرماتے دیکھیں ؟

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ :’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس بستر پر سوتے تھے وہ چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی اور جس تکیہ پر سہارا لگا کر بیٹھتے تھے وہ بھی اسی طرح کا تھا۔‘‘(مشکوٰۃ شریف)

            نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس کاشانے میں کپڑے بھی زیادہ نہ تھے ۔ بعض مرتبہ ایسا ہوا کہ آپﷺ کا کپڑا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے دھویا تو آپﷺ  اسی کپڑے کو پہنے ہوئے مسجد میں نماز کے لیے تشریف لائے اور دھونے کی تَری اُس میں موجود رہی۔‘‘

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کیمقدس کاشانے میں صرف دو ہی فرد تھے ایک نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسری حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا __ ہاں !کچھ دنوں بعد ایک باندی حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا بھی گھر والوں میں شامل ہو گئیں ۔ایک مرتبہ ایک صاحب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اس وقت آپ رضی اللہ عنہا ۵؍ درہم کا کرتا پہنے ہوئے تھی۔ اس وقت آپ کی باندی حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا بھی وہیں موجود تھیں اُس کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ:’’ ذرا میری اس باندی کو دیکھو وہ اس کرتے کو گھر کے اندر پہننے سے بھی انکار کرتی ہے۔‘‘  اور فرمایا: ’’ ہمارا پچھلا زمانہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری موجودگی میں یہ تھا کہ اس قسم کے کرتوں میں کا ایک کرتا میرے پاس تھا جو مدینہ میں ہر شادی کے وقت دلہن کو سجانے کے لیے مجھ سے مانگا جاتا تھا پھر رخصتی کے بعد واپس کر دیا جاتا تھا۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف)

             تاریخِ اسلام اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ کاشانۂ  نبوت میں باوجود اِن ظاہری مصائب و آلام اور پریشانیوں کے گھر میں کبھی بھی کوئی نا خوش گوار واقعہ نہیں ہوا۔ گھر کے لوگوں میں جو محبت و الفت بل کہ باہمی عقیدت تھی اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں کوئی نہیں پیش کر سکتا۔

               حضرت عائشہ اور دیگر ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کی باہمی الفت

            نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواجِ مطہرات کے درمیان بڑی محبت و الفت اور آپس میں بڑی بے تکلفی تھی۔ باہم کبھی بھی کسی قسم کی رنجش اور شدید اختلاف کا واقعہ کہیں نہیں ملتا ۔ یوں تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب چہیتی اور محبوب زوجہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تھیں ۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آپﷺ  تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن سے بھی بے پناہ محبت فرمایا کرتے تھے۔ جس کی روشن مثالیں کتابوں میں موجود ہیں ۔

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ ایک مرتبہ مَیں نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے (آٹا دودھ یا گھی ملا کر) حریرہ پکایا، (حریرہ  حلوے سے ملتی جلتی ایک غذا کا نام ہے جو عربوں کے یہاں پسند کی جاتی تھی)  اس وقت ہمارے گھر میں حضرت سودہ رضی اللہ عنہا موجود تھیں ۔ مَیں ’’حریرہ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائی اور سودہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم بھی کھاؤ۔ انھوں نے کھا نے سے انکار کیا تو مَیں نے اصرار کرتے ہوئے کہا کہ تمہیں ضرور کھانا پڑے گا۔ ورنہ مَیں یہ حریرہ تمہارے چہرے پر مل دوں گی۔ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے پھر بھی کھا نے سے انکار کیا تو مَیں نے اپنا ہاتھ حریرہ میں ڈالا اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے چہرے پر لیپ دیا۔ یہ منظر دیکھ کر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا نے لگے۔

            ام المؤمنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ اس کے بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ تم بھی عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے چہرے پر حریرہ مَل دو۔ چناں چہ مَیں نے بھی حریرہ میں ہاتھ ڈالا اور (حضرت) عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) کے چہرے پر مَل دیا تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر ہنسے جیسا کہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے فعل پر ہنسے تھے۔ اتنے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا وہاں سے گذر ہوا وہ کسی کو پکارتے ہوئے اے عبداللہ! اے عبداللہ! کہہ رہے تھے ، نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گمان ہوا کہ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)اندر آ جائیں گے اس لیے ہم سے فرمایا کہ جا کر اپنا منہ دھولو۔ (کنز العمال)

               نبیِ کریمﷺ  کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دل لگی کرنا

            ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سر میں درد ہو رہا تھا ۔ جب کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض الموت شروع ہو رہا تھا۔ آپﷺ  نے فرمایا:’’ اے عائشہ! تم میرے سامنے مرتیں تو مَیں تم کو اپنے ہاتھ سے غسل دیتا اور اپنے ہاتھ سے تمہاری تجہیز و تکفین کرتا اور تمہارے لیے دعائے خیر کرتا۔

             حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ سُن کر بڑے ناز و انداز سے عرض کیا کہ :’’ یارسول اللہ ! آپ میری موت مناتے ہیں اگر ایسا ہو جائے تو آپ اسی حجرے میں نئی بیوی لا کر رکھیں ۔

            نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ جواب سنا تو خوب تبسم فرمایا۔ (بخاری و مسلم شریف)

               حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا میدانِ جنگ میں

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے فضائل و شمائل سے اسلامی تاریخ کے صفحات بھرے ہوئے ۔ آپ جہاں ایک بے مثال فقیہ، مجتہدہ،عالمہ ، فاضلہ ، ادیبہ،طبیبہ ، ذہانت و فطانت کی پیکر ، سلیقہ شعار اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مزاج شناس مقدس و محترم خاتون تھیں وہیں آپ رضی اللہ عنہا کی زندگی مجاہدانہ کارناموں سے پُر ہے۔

            چناں چہ ۳؍ ہجری کا واقعہ ہے کہ غزوۂ  احد کے موقع پر ایک اتفاقی غلطی کی وجہ سے مسلمانوں کی فتح شکست سے بدلنے لگی ۔اسی دوران منافقوں اور دشمنانِ اسلام نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر اڑا دی ۔ مدینۂ  منورہ سے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور ان کے ساتھ کئی خواتین بے خوف و خطر جان ہتھیلی پر لے کر میدان جنگ کا رُخ کیا۔ میدانِ جنگ میں پہنچ کر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں کو پانی سے دھویا ۔ پھر پانی کے مشکیزے بھر بھر کر زخمیوں کو پانی پلایا۔

            حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:’’ مَیں نے غزوۂ  احد میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور اُم سلیم کو دیکھا ، جب دوسرے صحابۂ  کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو اِدھر اُدھر منتشر ہو گئے تھے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب جمع ہونے لگے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور دوسری خواتینِ اسلام مدینۂ  منورہ واپس تشریف لائیں ۔

               حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور علوم کی اشاعت

            نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال فرما نے کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بڑی تیزی سے دینی علوم کی اشاعت اور فروغ کے لیے نمایاں کارنامے انجام دیے ۔ان کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ کتابوں میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے علم دین سیکھنے والے افراد کی تعداد ۲۰۰؍ کے لگ بھگ ہے۔ جن میں صحابۂ  کرام بھی ہیں اور تابعین حضرات بھی ، رضی اللہ عنہم اجمعین ۔  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات ۵۸ھ میں ہوئی، اس حساب سے دیکھا جائے تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انھوں نے ۴۸؍ سال تک مسلسل علمِ دین پھیلایا ۔ آپ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ احادیث کی تعداد ۲۲۱۰ بتائی جاتی ہے ، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اسلامی علوم و فنون کی ترویج و اشاعت میں کتنا بڑا اور اہم کردار ادا کیا۔

            روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بڑے خلوص و للہیت اور فیاضی کے ساتھ علم دین کی اشاعت فرمائی۔ لڑکے اور عورتیں اور جن مردوں سے ان کا پردہ نہ تھا وہ پردے کے اندر بیٹھ کر اُن کی علمی مجلس میں فیض حاصل کرتے تھے ، اور باقی حضرات جنھیں ان کی شاگردی کا شرَف حاصل ہوا وہ پردے کے پیچھے بیٹھ کر علم کی تحصیل کیا کرتے تھے ۔ مختلف قسم کے سوالات کیے جاتے تھے اور نبیِ کریم معلم کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی فیض یافتہ امت کی یہ مقدس ماں جنھیں راز دارِ  نبوت کہا جاتا ہے یعنی  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اُن کے سوالات کے تسلی بخش جوابات قرآن اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اعمال و افعال کی روشنی میں عنایت فرماتی تھیں ۔ ہاں ! بعض مرتبہ کسی مسئلے کے حل کے لیے وہ سائل کو کسی دوسرے صحابی رضی اللہ عنہ یا امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن میں سے کسی کے پاس بھیج دیا کرتی تھیں ۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو یہ معلوم ہوتا تھا کہ اس مسئلہ کا شافی و کافی حل وہیں سے ملے گا۔ دینی مسائل معلوم کرنے کے لیے اگر کوئی سائل شرماتا تو وہ فرماتیں کہ علم کے حصول کے لیے شرماؤ نہیں بل کہ جو پوچھنا ہو وہ کھل کر پوچھو ۔ یہی اصول دراصل درس و تدریس کا کامیاب ترین اصول ہے۔

            آپ رضی اللہ عنہا ہر سال حج بیت اللہ شریف کے لیے مکۂ  معظمہ تشریف لے جایا کرتی تھیں تاکہ دور دراز سے آنے والے زائرین بھی اپنی علمی پیاس بجھا سکیں اور وہ علوم دینیہ کی ترویج و اشاعت کا فریضہ انجام دے سکیں ۔ روایتوں میں آتا ہے کہ حج کے لیے آنے والے افراد  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے خیمہ کے باہر جمع ہو جاتے اور دینی سوالات کرتے اور وہ ان کے جوابات عنایت فرماتیں ۔ مکۂ  معظمہ میں زم زم کے کنویں کے قریب پردہ ڈال کر آپ رضی اللہ عنہا تشریف فرما ہو جاتیں اور فتویٰ طلب کرنے والوں کا مجمع لگ جاتا ۔ آپ تمام لوگوں کے سوالات کے جوابات دے کر اُن سائلین کی رہنمائی فرماتیں ۔ اس طرح حج بیت اللہ شریف کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ علم دین کی اشاعت کا یہ عمل پورے جوش و خروش اور مستعدی سے جاری رہتا۔

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا شمار اُن جلیل القدر صحابہ میں کیا گیا ہے جو باضابطہ طور پر فقیہ اور مفتی تھے۔  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے والد ماجد حضرت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی کے زمانۂ  خلافت سے مفتی ہو گئی تھیں ۔ یہاں تک کہ کتابوں میں آتا ہے کہ جلیل القدر خلفائے اسلام حضرت عمر فاروق و حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہما تو خود آدمی بھیج کر ان سے مسائل معلوم کرواتے تھے۔

            حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے زمانۂ  امارت میں دمشق کے اندر قیام فرما تھے اور جب ضرورت پیش آتی قاصد بھیج کر  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مسئلہ معلوم کر کے عمل کرواتے تھے۔ قاصد ملک شام سے چل کر مدینۂ  منورہ آتا اور  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر کے دروازے کے سامنے با ادب کھڑے ہو کر سوال کا جواب حاصل کرتا اور واپس چلا جاتا تھا۔

            اسی طرح بہت سارے لوگ خطوط لکھ کر  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دینی معلومات حاصل کیا کرتے تھے اور وہ ان کے جوابات لکھا دیتی تھیں ۔ حضرت عائشہ بنت طلحہ رضی اللہ عنہا جو  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خاص شاگردہ ہیں فرماتی ہیں :’’ لوگ مجھے دور دور کے شہروں سے خطوط لکھتے تھے اور ہدایا بھیجتے تھے مَیں عرض کرتی تھی کہ اے خالہ جان! یہ فلاں شخص کا خط ہے اور اس کا ہدیہ ہے، فرمائیے اس کا کیا جواب لکھوں ؟ وہ فرما دیتی تھیں کہ اے بیٹا اسے یہ جواب لکھ دو اور ہدیہ کا بدلہ دے دو۔‘‘

            احادیث شریفہ کی کتابوں میں  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے فتاوے کثیر تعداد میں موجود ہیں ۔ لوگ آپ رضی اللہ عنہا سے خصوصی طور پر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اندرونِ خانہ زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کیا کرتے تھے اور وہ بہت بے تکلفی اور خلوص کے ساتھ جواب عنایت فرمایا کرتی تھیں ۔ چوں کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کائناتِ ارضی میں معلم بنا کر ہی بھیجے گئے تھے۔ آپﷺ  کا ایک ایک فعل اور ایک ایک عمل ہمارے لیے بہترین نمونہ اور آپﷺ  کا اسوۂ  حسنہ ہماری دینی ، دنیا وی اور اُخروی کامیابی کا ضامن ہے۔ اسی وجہ سے  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہوں یا کوئی دوسری ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کے کسی بھی پہلو کو وہ ہرگز نہیں چھپاتی تھیں ۔ آپﷺ کی سیرت و کردار اور شمائل و خصائل سے دنیا کو مالامال کرنے میں انھیں امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کا اہم رول رہا ہے۔

            حضرت اسود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :’’ مَیں نے  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کیا کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا اپنے گھر کے کام کاج میں مصروف رہا کرتے اور جب نماز کا وقت ہو جا تاتو نماز پڑھنے کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس کو ذرا تفصیل سے اس طرح بیان فرمایا کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جوتی کی مرمت خود فرما لیا کرتے تھے اور اپنا کپڑا خود ہی سی لیتے تھے اور اپنے گھر میں اس طرح کام کیا کرتے تھے جیسے تم لوگ اپنے گھروں میں کام کرتے ہو۔‘‘(ترمذی شریف)

            ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ :’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کی طرح بات میں بات نہیں پروتے چلے جاتے تھے بل کہ آپﷺ  کی گفتگو ایسی سلجھی ہوئی ہوتی تھی کہ ایک ایک کلمہ علاحدہ علاحدہ ہوتا تھا جسے پاس بیٹھنے والاآسانی سے یاد کر لیتا تھا۔‘‘(ترمذی شریف)

            ایک مرتبہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہنسنے کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ :’’ مَیں نے آپﷺ کو کبھی پورے دانتوں اور ڈاڑھوں کے ساتھ ہنستے ہوئے نہیں دیکھا جس سے آپ کے مبارک حلق کا کوّا نظر آئے آپﷺ  تو بس مسکراتے تھے۔‘‘ (بخاری شریف)

            حضرت سعد بن ہشام فرماتے ہیں کہ مَیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہو ا اور عرض کیا کہ :’’ یا ام المؤمنین! نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اَخلاق و عادات کے بارے میں ارشاد فرمائیے کہ وہ کیسے تھے؟ اس پر انھوں نے فرمایا :’’ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ہو؟ ‘‘ مَیں نے عرض کیا کیوں نہیں ؟  فرمایا:’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قرآن ہی تھی۔‘‘(مشکوٰۃ شریف)

            ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جانتی تھیں کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ  حسنہ امت کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ اس لیے انھوں نے آپﷺ کی ہر ہر بات اور ایک ایک ادا اچھی طرح سے محفوظ کر لیا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اندرونی حالات اور رات کے اعمال و افعال حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی سے مروی ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہا کا امت پر بڑا احسان ہے کہ انھوں نے مصاحبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امت کو علوم دینیہ سے سرفراز کیا۔

               حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے کلماتِ حکمت

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بڑی ذہین اور صاحبِ حکمت و  موعظت تھیں ۔ آپ کی باتیں اور اقوال بڑے سبق آموز ہوتے تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہا بڑی عمدہ اور پتے کی باتیں فرماتی تھیں ۔ بعض صحابہ بھی ان سے نصیحتیں کرنے کی فرمایش کیا کرتے تھے۔

            زیادہ کھا نے کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ :’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد سب سے پہلی مصیبت اُمت میں یہ پیدا ہوئی کہ لوگ پیٹ بھر کر کھا نے لگے۔ جب پیٹ بھرتے ہیں تو بدن موٹے ہو جاتے ہیں اور دل کمزور ہو جاتے ہیں اور نفسانی خواہشیں زور پکڑ لیتی ہیں ۔‘‘

            ایک مرتبہ فرمایا کہ:’’ گناہوں کی کمی سے بہتر کوئی پونجی ایسی نہیں ہے جسے لے کر تم اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرو جسے یہ خوشی ہو کہ عبادت میں محنت سے انہماک رکھنے والے سے بازی لے جائے اسے چاہیے کہ اپنے آپ کو گناہوں سے بچائے۔‘‘

            حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک خط حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نام لکھا جس میں اپنے لیے مختصر نصیحت کرنے کی فرمایش کی ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس کے جواب میں فرمایا:

            ترجمہ:  ’’ تم پر سلام ہو۔ سلام کے بعد یہ واضح ہو کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مَیں نے سنا ہے کہ جو شخص لوگوں کی ناراضگی کا خیال نہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب ہو اللہ تعالیٰ لوگوں کی شرارتوں سے بھی اسے محفوظ فرما دیتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کو ناراض کر کے لوگوں کو راضی رکھنا چاہتا ہو اللہ تعالیٰ اس کی مدد نہیں فرماتا بل کہ اسے لوگوں کے حوالے فرما دیتا ہے وہ اس کو جیسے چاہیں استعمال کریں اور جس طرح چاہیں اس کا دَلیہ بنا دیں ۔  والسلام علیک ۔‘‘

            ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو غالباً ان کی درخواست پر یہ بھی لکھا کہ  :

            ترجمہ:  ’’یعنی جب بندہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے کام کرتا ہے تو اس کو اچھا کہنے والے بھی بُرا کہنے لگتے ہیں ۔‘‘

               حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا علمی مقام و مرتبہ

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا علمی مقام و مرتبہ بڑا بلند تھا۔ وہ قرآن، تفسیر، طب، فرائض ، فقہ وغیرہ علوم و فنون میں مہارت رکھتی تھیں ۔ حتیٰ کہ بڑے بڑے صحابہ بھی آپ سے مسائل پوچھتے تھے ۔ مشورے طلب کیا کرتے تھے۔ جس کی تفصیل ’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور علوم کی اشاعت ‘‘ کے ضمن میں پیچھے بیان کی جاچکی ہے۔

            حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ :’’ ہم اصحابِ رسول(رضی اللہ عنہم) پر جب کوئی حدیث مشکل گذرتی اور سمجھ میں نہ آتی تو جب (حضرت) عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے اس کے بارے میں پوچھا جاتا اس کا علم اُن ہی کے پاس پایا جاتا۔ (ترمذی شریف)

            حضرت امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے ایک روایت نقل کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ: ’’ مَیں اور ابنِ عمر رضی اللہ عنہما حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے پاس ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے (اور ہمیں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مسواک کرنے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی) مَیں نے حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا ابو عبدالرحمن ! کیا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب کے مہینے میں کبھی عمرہ ادا فرمایا تھا؟ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا  ہاں ! ادا فرمایا تھا۔ مَیں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا آپ سُن رہی ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کیا کہہ رہے ہیں کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب میں عمرہ فرمایا تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرما یا  اللہ تعالیٰ ابن عمر کی مغفرت فرمائے اللہ کی قسم ! نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی رجب کے مہینے میں عمرہ نہ کیا اور جب بھی عمرہ کیا مَیں ساتھ ہوتی تھی۔ ‘‘ (مسلم شریف)

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا علمی مقام و مرتبہ ایسا تھا کہ اکابر صحابۂ  کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی دینی امور میں آپ سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ چوں کہ آپ بڑی ذہین اور پختہ قوتِ حافظہ کی مالک اور بڑی صاحب فہم و فراست تھیں ، اس بات کا اندازہ ذیل کی روایت سے لگایا جا سکتا ہے کہ اچھے اچھے سمجھ دار حضرات بھی آپ رضی اللہ عنہا سے مشورہ لیا کرتے تھے۔

             حضرت نافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :’’ مَیں شام اور مصر کو مال لے جا کر تجارت کرتا تھا۔ ایک مرتبہ تجارت کے ارادے سے عراق اپنا مال لے کر گیا واپس آ کر مَیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچا اور سارا واقعہ سنایا کہ مَیں پہلے تجارت کے لیے اپنا مال شام لے جاتا تھا اس مرتبہ عراق لے کر گیا اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اس پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کیوں بلاوجہ اپنی پچھلی تجارت گاہ کو چھوڑتے ہو ایسا مت کرو کیوں کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مَیں نے سنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کسی ذریعہ سے رزق کے اسباب پیدا فرما دے تو جب تک خود ہی وہ سبب کسی وجہ سے نہ بدل جائے یادوسرارُخ اختیار نہ کر لے تو اُس کو نہ چھوڑو۔‘‘ (ابن ماجہ)

               حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور روایتِ حدیث

            نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوری کائنات کے معلمِ اعظم کی حیثیت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تربیت فرماتے رہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر شریف نکاح کے وقت کم تھی اس میں  یہی حکمت پوشیدہ تھی کہ ان کے ذریعہ امت کی عورتوں کی تعلیم و تربیت کا کام لیا جائے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اللہ رب العزت نے بَلا کی ذہانت عطا فرمائی تھی اس کے ہوتے آپ کے سامنے جب بھی کوئی مسئلہ درپیش آتا تو آپ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیتیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسئلہ واضح فرما دیتے تو وہ انھیں ازبر کر لیتیں ۔ یہی وجہ ہے حدیث کی کتابوں میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ حدیثوں کی کافی تعداد ہے۔حضرت امام بخاری اور حضرت امام مسلم علیہم الرحمۃ کے مطابق حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے علاوہ کسی دوسرے صحابی نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ حدیث روایت نہیں کی۔

            چناں چہ روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ۲۲۱۰؍ حدیثیں مروی ہیں ، بعض علما فرماتے ہیں کہ دین کا چوتھائی حصہ آپ ہی سے روایت کردہ ہے۔ ‘‘(نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری ص ۱۷۷)

               حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی برکت سے تیمم کے حکم کا نزول

            ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے امت پر جو احسانات ہیں ان کا شمار ممکن ہی نہیں ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مصاحبت میں رہ کر جو کچھ سیکھا اور سمجھا سب کو یاد کر کے بیان بھی فرما دیا اور لوگوں کو سکھایا بھی۔ یہی وجہ ہے احادیث کی کتابوں میں کثرت سے آپ کی روایت کردہ حدیثیں ملتی ہیں ۔ بعض علما نے تو یہاں تک کہا ہے کہ دین کا چوتھائی حصہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی سے مروی ہے۔

            اسلامی شریعت میں وضو کی جگہ شرعی مجبوری کی وجہ سے بعض مواقع پر تیمم کیا جا سکتا ہے ۔ تیمم کی وجہ سے امت پر بڑی سہولت اور آسانی ہو گئی ہے۔ یہ واقعہ سن کر آپ کی معلومات میں اضافہ ہو گا کہ تیمم کے حکم کا نازل ہونا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے ہی ہوا اور یہ آپ رضی اللہ عنہ کی امت کے لیے برکتوں اور احسانات میں سے ایک برکت اور احسان ہے۔ اس واقعہ کو خود انھوں نے بیان فرمایا ہے۔

            چناں چہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ ایک سفر (غزوۂ  بنی مصطلق) کے موقع پر مَیں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی۔اس سفر میں بہت سارے مسلمان بھی ہمارے ہمراہ تھے۔ مَیں نے ایک ہار پہن رکھا تھا ۔ جب ہمارا قافلہ ذات الجیش کے مقام پر پہنچا تو وہاں یہ ہار ٹوٹ کر گم ہو گیا۔

            لہٰذا اس ہار کو ڈھونڈنے کے لیے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں مزید قیام فرمایا اور آپ کے ساتھ آپ کے ہمراہی بھی وہیں ٹھہرے رہے۔ اتفاق سے قافلے نے جہاں پڑاؤ   ڈالا تھا وہاں دور دور تک پانی کا نام و نشان نہ تھا، صبح قریب تھی لوگوں کو فجر کی نماز پڑھنے کی فکر تھی ۔ پانی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ گھبرائے ہوئے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچے اور انھیں اپنی حالت سنائی (کہ نماز کا وقت ہو چکا ہے اور وضو کے لیے دور دور تک پانی نہیں ہے ، کیا کِیا جائے؟) اور یہ بھی کہا کہ تم دیکھ رہے ہو کہ (حضرت) عائشہ (رضی اللہ عنہا) نے کیا کر دیا ہے؟ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام ہمراہیوں کو روک لیا اور حال یہ ہے نہ پانی قریب ہے نہ اپنے پاس ہے۔‘‘

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ لوگوں کی یہ باتیں سُن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور مجھے سرزنش کرنا شروع کر دی۔ اس وقت نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے زانو پر اپنا سرِ مبارک رکھے ہوئے آرام فرما رہے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میرے پہلو میں کچوکے لگائے ۔ لیکن مَیں نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام میں خلل نہ آئے اس خیال سے ذرا بھی حرکت نہ کی ۔‘‘ (بخاری شریف)

             یہاں تک کہ صبح جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو دیکھا پانی موجود نہیں ہے۔ اسی دوران وحی کے آثار نمایاں ہوئے اور حکم نازل ہوا کہ پہلے تو نماز کے لیے صرف وضو ہی پاکی کا ذریعہ تھا لیکن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ہار گم ہو جانے کی وجہ سے قافلے کو بے آب و گیاہ وادی میں ٹھہرنا پڑا جہاں وضو کے لیے پانی نہ ملا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی برکت سے امت پر یہ احسان فرمایا کہ ایسی صورتوں میں وضو کرنے کی بجائے اگر تیمم کر لیا جائے تو نماز ہو جائے گی۔ قرآنِ کریم میں اللہ رب العزت جل شانہٗ کا ارشاد ہے کہ  :  وان کنتم مرضیٰ او علیٰ سفر اوجآء احد منکم من الغائط اولامستم النسآء فلم تجدو مائً فتیمموا صعیدًا طیبًا فامسحوا بوجوھکم وایدکم ان اللہ کان عفوًا غفورًا(سورۃ النسآء آیت ۴۳)

            ترجمہ : ’’ اور اگر تم بیمار یا سفر میں ہو، تم میں کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو، یا تم نے عورتوں کو چھوا، اور پانی نہ پایا تو پاک مٹی سے تیمم کرو تو اپنے منہ اور ہاتھوں کا مسح کرو بے شک اللہ معاف کرنے والا بخشنے والا ہے۔ ‘‘

            ابھی کچھ دیر قبل صحابۂ  کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نماز کے لیے پانی نہ ملنے کی وجہ سے بے حد پریشانی کے عالم میں تھے۔ لیکن جب تیمم کا حکم نازل ہو گیا تو اُن کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ تمام صحابۂ  کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دل وفورِ مسرت سے جھوم جھوم اٹھے۔ اور وہ اپنی مقدس ماں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دعائیں دینے لگے۔

            حضرت ابن شہاب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جو کہ چند لمحہ پہلے اپنی بیٹی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو سرزنش کر رہے تھے تیمم کا حکم نازل ہو جانے پر انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : ’اللہ کی قسم! مجھے تو علم نہ تھا کہ تم اتنی مبارک ہو۔‘‘

            یہ تمام ماجرا دیکھ کر صحابیِ رسول حضرت اسید بن حُضیر رضی اللہ عنہ خوشی و مسر کے عالم میں پھڑک اٹھے اور کہا کہ :’’ اے ابوبکر کے گھر والو! تم ہمیشہ سے برکت والے ہو ۔ یہ تمہاری پہلی برکت ہی نہیں ہے ۔ اس کے بعد جب قافلے کی روانگی کے لیے اونٹ کو کھڑا کیا گیا تو ہار اونٹ کے نیچے پڑا ہوا ملا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کتاب المناقب باب فضل عائشہ میں لکھتے ہیں کہ :’’ حضرت اُسید بن حُضیر رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا کہ :’’ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے اللہ کی قسم! آپ کے بارے میں جب بھی کوئی واقعہ پیش آیا اللہ نے اس سے نجات کا راستہ نکالا اور مسلمانوں کے لیے اس میں برکت رکھی۔ ‘‘

               حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے خواتین پر احسانات

            اسلام نے عورتوں کو بڑا بلند مقام دیا ہے ۔ اسلامی طریقۂ  زندگی ان کی عزت و عصمت کی حفاظت کا حقیقی ضامن ہے۔ بعض سرپرست لڑکی کی رضا کے بغیر زور زبرستی کر کے ان کا نکاح اپنے اختیار سے کہیں بھی کرا دیتے ہیں ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں بھی ایسا ایک واقعہ پیش آیا تھا۔زمانۂ  رسالت میں عورتوں کے لیے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا حجرۂ  مبارک عدالتِ عالیہ کا درجہ رکھتا تھا۔ چناں چہ وہ لڑکی جس کے سرپرستوں نے زبردستی لڑکی کا نکاح کر دیا تھا وہ اسی حجرے پر حاضر ہوئی۔ اس وقت نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف فرما نہیں تھے۔

            اس لڑکی نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا کہ :’’ میرے والد نے زبردستی میرا نکاح اپنے بھتیجے کے ساتھ کر دیا ہے تاکہ میرے ساتھ نکاح کرنے سے ان کی(دنیاوی) حیثیت اور مرتبہ بڑھ جائے اور اس (لڑکے) کا رتبہ کم ہوسکے حال آں کہ مَیں اس نکاح سے ناخوش ہوں ۔‘ ‘

            ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس لڑکی کو اپنے پاس بٹھا لیا ۔ جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو آپﷺ  کے سامنے بات پیش کی گئی ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی کے باپ کو بلایا اور لڑکی کو اپنا مختار آپ بنا دیا ۔ یہ سن کر لڑکی نے عرض کیا یارسول اللہ! میرے باپ نے جو کچھ کیا ، مَیں اب اُس میں راضی ہوں ، میرا مقصد صرف یہ تھا کہ عورتوں کو اپنے حقوق معلوم ہو جائیں ۔ ‘‘

               حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا : علوم و فنون کا پیکر

            ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا معلمِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبتِ بابرکت سے فیض یافتہ تھیں ۔ وہ مختلف علوم و فنون کا حسین سنگم تھیں ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (حضرت) عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے بڑھ کر علم قرآن و فرائض اور حلال و حرام ، شعر و تاریخ عرب ، نسب اور فقہ و طب میں کوئی نہ دیکھا ۔

               حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور علم تفسیر

            ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو علم تفسیر میں بھی دَرک حاصل تھا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نقل فرمایا ہے کہ :’’ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ارشادِ باریِ تعالیٰ :  ان الصفا والمروۃ من شعائر اللّٰہ فمن حج البیت اوعتمر فلا جناح علیہ ان یطوف بہما  (سورۃ البقرہ آیت ۱۵۸)

            ترجمہ: ’’بے شک صفا اور مروہ اللہ کے نشانوں میں سے ہیں ۔ تو جو اس گھر کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں کہ ان دونوں کے پھیرے کرے ۔‘‘ ___  کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ واللہ ! کوئی گناہ نہیں اس آدمی پر جو ان دونوں کا طواف نہ کرے ۔‘‘

            تو  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اے میرے بھانجے! تم نے بہت بُری بات کہہ ڈالی اگر یہ آیت کریمہ اس طرح ہوتی جیسے تم بیان کر رہے ہو تو صاف طریقے سے کہہ دیا جاتا کہ جو ان کا طواف نہ کرے اسے کوئی گناہ نہیں ۔ بل کہ حقیقت یہ ہے کہ آیت کریمہ انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جب وہ اسلام قبول کرنے سے پہلے بتوں کے نام پر تلبیہ(لبیک) پڑھا کرتے تھے ۔ اور جب کوئی بتوں کے نام پر تلبیہ (لبیک) پڑھتا تو اس وادی کا طواف کرنے میں بڑا حرج سمجھتا تھا۔

            جب انصار نے اسلام قبول کر لیا تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھا یارسول اللہ ! ہمیں صفا و مروہ میں طواف کرتے ہوئے حرج محسوس ہوتا ہے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی  : ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ  ۔ ’’بے شک صفا اور مروہ اللہ کے نشانوں میں سے ہیں ۔‘‘

             حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ صفا و مروہ میں طواف مسنون قرار دیا گیا ہے ۔ لہٰذا کسی کے لیے اسے چھوڑنا جائز نہیں ۔حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مَیں نے ابوبکر بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہما کو بتایا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ علم تو آج تک مجھے بھی نہ معلوم ہوسکا البتہ مَیں نے اہل علم حضرات کو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ کچھ لوگ پچھلے زمانہ میں ایسے تھے جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ذکر کیا وہ بتوں کے نام پر تلبیہ(لبیک) پڑھتے تھے اور صفا و مروہ کے درمیان طواف کیا کرتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے طواف بیت اللہ کا تذکرہ قرآن مجید میں فرمایا اور صفا و مروہ کا ذکر ترک کیا تو ان لوگوں نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یارسول اللہ! اگر ہم صفا و مروہ کا طواف کرتے ہیں تو کو ئی حرج ہے ؟ تو یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی  :  ’’ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ ‘‘

یعنی ’’بے شک صفا اور مروہ اللہ کے نشانوں میں سے ہیں ۔‘‘

            حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ:’’ میرا گمان ہے کہ یہ آیت کریمہ دونوں فریقین کے لیے نازل ہوئی ہے وہ لوگ جو زمانۂ  جاہلیت میں صفا و مروہ کے طواف کو گناہ سمجھتے تھے اور وہ لوگ زمانۂ  جاہلیت میں تو طواف کرتے تھے اور اسلام قبول کرنے کے بعد صفا و مروہ کے طواف کو گناہ سمجھتے تھے۔ ‘‘

               حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور علم شعرو طب

            ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے زمانے کے مریضوں کے علاج و معالجے کا کام بھی کیا کرتی تھیں ۔عرب کے اشعار یاد رکھنے میں بھی ان کو بڑی مہارت حاصل تھی۔ وہ برجستہ اور بر محل شعرائے عرب کے اشعار سنادیا کرتی تھیں ۔ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو جب کوئی حادثہ پیش آتا تو اس کے متعلق ضرور کوئی نہ کوئی شعر پڑھ دیتی تھیں ۔

            ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو علم طب میں تو گویا ملکہ حاصل تھا، آپ کے بھانجے حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ:’’ ایک مرتبہ مَیں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا کہ اے اماں جان!  مجھے آپ کے فقیہ ہونے پر تعجب نہیں ہے کیوں کہ آپ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ  محترمہ ہیں ۔ اور آپ کے علم و شعر اور تاریخ عرب پر بھی مجھے تعجب نہیں کیوں کہ آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحب زادی ہیں ۔ وہ خود ایک بہت بڑے تاریخ داں تھے ، لیکن مجھے تعجب ہوتا ہے کہ آپ کو طب سے کیوں کر واقفیت ہوئی؟ اور یہ علم آپ نے کہاں سے حاصل کر لیا۔

            حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے میرے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے فرمایا اے عروہ! آخری عمر میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم مریض ہو گئے تھے اور لوگ دور  دور سے آپﷺ  کی عیادت کے لیے آتے تھے ۔ لوگ علاج کے مختلف طریقے بتاتے مَیں ان کے ذریعہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا علاج کیا کرتی تھی ۔ لہٰذا علم طب سے آگاہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری عمر شریف کا صدقہ ہے۔ ‘‘

               حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور علم فرائض

            حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا ارشاد ہے کہ :’’ مَیں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کوئی قرآن کا عالم اور فرائضِ اسلام اور حلال و حرام کا جاننے والا اور عرب کے واقعات اور اہل عرب کے نسب سے واقفیت رکھنے والا نہیں دیکھا۔‘‘

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا علمِ تفسیر ، شعر و طب ، فقہ وغیرہ علوم و فنون کی طرح علم فرائض میں بھی دسترس رکھتی تھیں ۔ چناں چہ ابن عبدالبر نے حضرت مسروق رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ وہ قسم کھا کر فرماتے کہ مَیں نے اکابر صحابہ رضوان اللہ علیہ م اجمعین کو فرائض کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سوال کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی علمی قابلیت کے بارے میں امام زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اور ساری عورتوں کا علم جمع کیا جائے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا علم سب سے بڑھ کر ہو گا۔

               حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تواضع

             حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بڑی نرم دل اور منکسر المزاج تھیں ۔ آپ کی طبیعت میں سختی اور درشتی کا دور دور تک نشان نہ تھا۔ امام ابوحاتم رحمۃاللہ علیہ نے نقل کیا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر تشریف لائے اور اندر آنے کی  اجازت طلب کی۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کوئی ضرورت نہیں ۔ حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہما نے عرض کیا یہ آپ کے نیک بیٹوں میں سے ایک ہیں اور آپ کی عیادت کے لیے تشریف لائے ہیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا چلو آنے دو۔

            گھر میں داخل ہونے کے بعد جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا اماں جان! آپ کے لیے خوش خبری ہے کہ آپ کے اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے درمیان صرف روح نکلنے کا فاصلہ ہے۔ نبیِ مکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوں میں آپ سب سے زیادہ محبوب اور چہیتی تھیں اور آپ پاک چیزوں سے ہی محبت رکھتے تھے۔

            حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ بھی فرمایا کہ ذات الجیش کے مقام پر آپ کا ہار گم ہو گیا تھا اور تمام لوگوں نے اس حال میں صبح کی تھی کہ ان کے پاس پانی نہ تھا اللہ تعالیٰ نے یہ آیتِ کریمہ نازل فرمائی  :  ’’ فلم تجدوا ماءً فتیمموا صعیدًاطیبًا‘‘ (سورۃ المائدہ۶)

            ترجمہ : ان صورتوں میں پانی نہ پایا تو پال مٹی سے تیمم کرو ۔‘‘

            یہ حکم نازل ہونا بھی آپ ہی کی برکت سے تھا کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے امت کے لیے آسانی فرما دی ۔ اے پیاری ماں ! یہ آپ کا امت پر بڑا احسان ہے۔ اور مسطح (رضی اللہ عنہ) کا معاملہ بھی عجیب تھا کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں سے آپ کی براءت نازل فرما دی ۔ اب کوئی مسجد ایسی نہیں جس میں اللہ کا ذکر ہو اور آپ کا ذکر نہ ہو ۔

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جب یہ سنا تو تواضع اور انکساری کی پیکر ہماری اس مقدس ماں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جو تاریخی کلمات فرمائے وہ آپ کی تواضع کا روشن ثبوت اور جھوٹی تعریفوں پر گھمنڈ کرنے والوں کے لیے تازیانۂ  عبرت اور سبق ہے۔ فرمایا ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ:’’ اے ابن عباس چھوڑو اس تذکرے کو اور میرے تزکیہ کو مَیں تو یہ چاہتی ہوں کہ مَیں بالکل بھلا دی جاؤں کہ میرا تذکرہ بھی نہ ہو۔ ‘‘

               حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا جذبۂ  ایثار و قربانی

            ا م المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ایثار و قربانی اور صلۂ  رحمی کے جذبات سے سرشار تھیں جس کا اندازہ ذیل کی روایت سے لگایا جا سکتا ہے ۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ مؤطا میں نقل فرماتے ہیں کہ :’’ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ’’مقامِ غابہ‘‘ میں موجود اپنے کھجور کے درختوں میں سے بیس وسق کھجوریں انھیں تحفہ کے طور پر دینے کے لیے مخصوص کر لیے تھے۔ لیکن جب حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بلا کر فرمایا بیٹی! بخدا دنیا میں میرے لیے تم سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے اور نہ ہی میرے بعد تمہاری تنگ دستی سے بڑھ کر کسی اور کے لیے کوئی چیز تکلیف دہ ہے۔

            مَیں نے تم کو دینے کے لیے بیس وسق کھجوریں مختص کر لی تھیں ۔ گر تم نے وہ کھجوریں اتروا لی ہیں اور ان کا ذخیرہ کر لیا ہے تو پھر وہ تمہاری ہی ہیں نہیں تو آج کے بعد یہ وراثت کا مال ہے اور اس کے وارث تمہارے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں ۔ اس لیے میرے اس چھوڑے ہوئے مال کو میرے بعد قرآنی احکام کی روشنی میں تقسیم کر لینا۔

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ابا جان! اگر مجھے اس سے بھی زیادہ مال آپ عطیہ دے دیتے تو مَیں پھر بھی میراث کی تقسیم کی خاطر اس مال سے دست بردار ہو جاتی۔ لیکن ابا جان! میری ایک بہن اسما ہوئی دوسری بہن کون ہے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہاری دوسری بہن وہ ہے جو میری بیوی حبیبہ بن خارجہ رضی اللہ عنہا کے شکم میں ہے۔

            حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اُس طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:  ’’اراہا جایۃ‘‘ میرا خیال ہے کہ بچّی پیدا ہو گی۔ چناں چہ بعد میں ایسا ہی ہوا اور ام کلثوم بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا اس حمل سے پیدا ہوئیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے تمام متروکہ مال کو کتاب اللہ کی روشنی میں تقسیم فرما دیا اور خود انھیں جو بطور تحفہ دیا گیا تھا اسے بھی اپنے بھائیوں بہنوں کے لیے چھوڑ کر ایثار و قربانی کی مثال قائم فرما دی ۔

               حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی انصاف پسندی

            ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ابتدائی تربیت تو ان کے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمائی لیکن آپ کی خصوصی تربیت کائنات کے معلمِ اعظم حضور احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے کاشانۂ  اقدس میں آنے کے بعد ہوئی ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا کی ذات خوبیوں اور کمالات کا ایک حسین مجموعہ بن گئی ۔عام طور پر دیکھا یہ گیا کہ جو شخص خوددار ہوتا ہے اُس کے اندر انصاف پسندی کا مادہ کم ہی پایا جاتا ہے ۔ لیکن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فیضانِ نبوت کی تربیت یافتہ تھیں وہ بَلا کی خوددار تو تھیں ہی ساتھ میں وہ ایسی انصاف پسند تھیں کہ ان کا یہ وصف اسلامی تاریخ میں مثالی حیثیت رکھتا ہے۔

            ایک مرتبہ مصر کے ایک صاحب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے ، ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے دریافت فرمایا کہ میدانِ جنگ میں تمہارے ملک کے موجودہ حاکم کا رویہ کیسا ہوتا ہے؟ جواب میں اُس نے عرض کیا کہ اب تک ہم کو کوئی ایسی بات نہیں دکھائی دی جس پر اعتراض کیا جا سکے۔ اگر جنگ میں کسی کا اونٹ مر جاتا ہے تو وہ دوسرا اونٹ دے دیتے ہیں خرچ کی ضرورت پڑتی ہے تو خرچ بھی دیتے ہیں ۔

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ارشاد فرمایا کہ انھوں نے میرے بھائی محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہما کے ساتھ جو بھی بدسلوکی کی ہے اس پر مَیں یہ حق بات بتا نے سے نہیں رک سکتی کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اس گھر میں تشریف فرما کر یہ دعا فرمائی تھی کہ :’’ اے اللہ! جو میری امت کا حاکم ہو ، اگر وہ امت پر سختی کرے تو تُو بھی اس کے ساتھ سختی کرنا ، اور جو میری امت پر نرمی کرے تُو بھی اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ فرمانا ۔‘‘

               حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حق گوئی

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بڑی حق گو اور قرآن و حدیث کے واضح حکم کو بیان کرنے میں کسی کی رو رعایت نہیں فرماتی تھیں ۔ حق کا برملا اور دو ٹوک اظہار کیا کرتی تھیں ۔

            چناں چہ حضرت عمرو بن غالب تابعی رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ:’’ مَیں حضرت عمار اور اشتر ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے سلام عرض کیا :’’ اے امی جان السلام علیک ! حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ ، یعنی ہدایت کی پیروی کرنے والے پر سلامتی ہو۔ یہاں تک کہ حضرت عمار نے دویا تین مرتبہ اسی سلام کو دہرایا۔

            پھر عرض کیا : اگرچہ یہ بات آپ کو بُری لگے مگر اللہ کی قسم ! آپ رضی اللہ عنہا ہماری ماں ہیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ عرض کیا یہ اشتر ہیں تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تم وہی اشتر ہو جس نے میرے بھائی کو قتل کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ اشتر نے جواب دیا : جی ہاں ! مَیں نے ہی اُن کے قتل کا ارادہ کیا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اگر تو نے اس کو قتل کر دیا تو تُو کبھی فلاح نہیں پا سکے گا۔ باقی عمار تم نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیثِ مبارک سن رکھی ہے کہ آپﷺ  نے فرمایا ہے کہ : کسی مسلمان کا خون کسی صورت میں حلال نہیں ہے سواے تین صورتوں کے پہلی صورت کوئی شادی شدہ انسان زنا کا ارتکاب کرے ، یا کوئی اسلام کے بعد ارتداد اختیار کر لے ، یاکسی کو قتل کرنے کے بدلے میں قصاص کے طور پر اس کو قتل کر دیا جائے۔‘‘

               حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا زہد و فقر

            نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سید الزاہدین تھے۔ پیٹ بھرنے اور مزے دار چیزیں حاصل کرنے اور سامان جمع کرنے کو ناپسند فرماتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپﷺ  نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا :’’ اے عائشہ! اگر مَیں چاہوں تو میرے ساتھ سونے کے پہاڑ چلیں ، میرے پاس ایک فرشتہ آیا جس کی قامت کا یہ عالم تھا کہ اس کی کمر کعبہ تک پہنچ رہی تھی ۔ اس نے مجھ سے کہا کہ آپ کے رب نے آپ کو سلام فرمایا ہے اور یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو عام بندوں کی طرح بندہ اور نبی بن کر رہیں اور اگر چاہیں تو نبی اور بادشاہ بن کر رہیں ۔ مَیں نے جبریل امین علیہ السلام کی طرف مشورہ لینے کے  طور پر دیکھا تو انھوں نے اشارہ کیا کہ تواضع اختیار کرو۔ لہٰذا مَیں نے جواب دے دیا کہ مَیں نبی ہوتے ہوئے عام بندوں کی طرح ہو کر رہنا چاہتا ہوں ۔ ‘‘

            نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فقر اور زہد اختیاری تھا اگر آپ چاہتے تو آپ کے ساتھ سونے کے پہاڑ چلتے لیکن آپﷺ نے تواضع پسند فرمائی اور یہی عادتِ کریمہ جملہ ازواجِ مطہرات امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن میں بھی آئیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شان فقر پر کئی روایتیں ملتی ہیں جن میں سے بعض پچھلے صفحات پر ’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی گھریلو زندگی‘‘ عنوان کے تحت نقل کی جاچکی ہیں ۔ ذیل میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ایک روایت بیان کی جاتی ہے وہ لکھتے ہیں کہ :’’ حضرت ابن ایمن فرماتے ہیں کہ مَیں ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا آپ نے ایک موٹی چادر اوڑھ رکھی تھی جس کی قیمت پانچ درہم تھی۔ اس وقت آپ رضی اللہ عنہا کی خادمہ بھی وہاں موجود تھیں ۔ آپ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ذرا میری اس خادمہ کو دیکھو یہ اس چادر کو گھر میں اوڑھنے سے بھی انکار کرتی ہے ۔ اور فرمایا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں میرے پاس ایک ایسی ہی چادر تھی ۔جسے مدینۂ  منورہ میں لوگ دلہن کو سجانے کے لیے مانگ کر لے جاتے اور رخصتی کے بعد واپس کر دیتے تھے۔ ‘‘

               حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سخاوت

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس سخی باپ یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آغوشِ تربیت کی پروردہ تھیں جنہوں نے ایک غزوہ کے موقع پر اپنا پورا مال و اسباب بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش کر دیا تھا اور سخاوت و فیاضی اور محبت و ایثار کی وہ لافانی مثال قائم کی کہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی ۔ چناں چہ روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور ان کی بڑی بہن حضرت اسما بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا بھی اس عظیم صفت سے متصف تھیں ۔ یہ دونوں سخاوت و فیاضی میں بڑا مقام و مرتبہ رکھتی تھیں ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ :’’ مَیں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسمارضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کوئی عورت سخی نہیں دیکھی لیکن دونوں کی سخاوت میں ایک فرق تھا اور وہ یہ کہ  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تھوڑا تھوڑا جمع کرتی رہتی تھیں یہاں تک کہ جب خاصی مقدار میں جمع ہو جاتا تو ضرورت مندوں میں تقسیم فرما دیتی تھیں اور حضرت اسما رضی اللہ عنہا کا یہ حال تھا کہ وہ کل کے لیے کچھ بھی نہیں رکھتی تھیں ۔

            حضرت ام ذرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ :’’ مَیں  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس جایا کرتی تھی۔ ایک مرتبہ عبداللہ ابن زبیر نے ان کے پاس مال بھیجا جو تقریباً ایک لاکھ اسی ہزار کی مالیت تھی۔  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے تھال منگوایا اور اس کو درہموں سے بھر کر اسی وقت تقسیم کرنا شروع کر دیا ۔ جب شام ہوئی تو کچھ بھی نہ تھا۔

             اُس دن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روزے سے تھیں ۔انھوں نے خادمہ سے فرمایا افطار لاؤ۔ تو آپ رضی اللہ عنہا کی خادمہ سوکھی روٹی اور زیتون کا تیل لے کر آئی ۔‘‘ حضرت ام ذرہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: ’’  مَیں نے عرض کیا آج سارادن آپ نے جو مال تقسیم کیا اگر اس میں تھوڑا رکھ لیتیں تو شام میں افطار کے لیے گوشت وغیرہ کا انتظام کر لیتیں تو اچھا ہوتا۔ ‘‘ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اب کہنے سے کیا ہوتا ہے اس وقت تم یاد دلاتیں تو مَیں اس کا خیال کر لیتی۔

            ایک دن کا واقعہ ہے جسے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا خود بیان فرماتی ہیں کہ :’’ میرے پاس ایک عورت آئی جس کے ساتھ دو لڑکیاں تھیں اس نے سوال کیا ۔ اس وقت میرے پاس ایک کھجور کے سوا کچھ نہ تھا مَیں نے وہی دے دی۔ اس نے کھجور کو لے کر دو ٹکڑے کر کے دونوں بچیوں کو ایک ایک ٹکڑا دے دیا اور خود نہ کھایا ۔ اس کے بعد وہ چلی گئی اور اس کے بعد ہی نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجرے میں تشریف لائے ۔ مَیں نے  آپﷺ  کے سامنے واقعہ بیان کیا تو آپﷺ  نے فرمایا کہ جو شخص ان لڑکیوں کی پرورش میں ذرا بھی مبتلا کیا گیا اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا تو یہ لڑکیاں اس کے لیے دوزخ کی آڑ بن جائیں گی۔ (مشکوٰۃ شریف)

            حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اپنا آنکھوں دیکھا واقعہ بیا ن فرماتے ہیں کہ :’’ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک روز ستر ہزار کی مالیت ضرورت مندوں میں تقسیم فرما دی اور اپنا حال یہ تھا کہ تقسیم کرتے وقت اپنے کرتے میں پیوند لگا رہی تھیں ۔ ‘‘

            حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں سچے موتیوں سے بھرا ہوا ایک طبق بہ طورِ ہدیہ روانہ فرمائے ۔ جن کی قیمت ایک لاکھ درہم تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ہدیہ قبول فرما لیا لیکن اپنے علاوہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواجِ مطہرات میں اس کو تقسیم فرما دیا۔

            حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت یوں نقل فرماتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا کہ :’’ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس جو بھی مال آتا آپ اسے صدقہ کر دیا کرتی تھیں ۔(بخاری شریف)

               حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا خوفِ خدا اور تقویٰ

            حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس قدر بلند و بالا مقام و مرتبے پر فائز ہونے کیساتھ ساتھ زاہدہ اور متقیہ تھیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والی اور آخرت کی ہمیشہ فکر کرنے والی مقدس خاتون تھیں ۔

            ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دوزخ یاد آ گئی تو آپ رضی اللہ عنہا نے رونا شروع کر دیا ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رونے کا سبب پوچھا تو عرض کیا مجھے دوزخ کا خیال آ گیا ہے اسی لیے رو رہی ہوں ۔ (مشکوٰۃ شریف)

            امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نقل  کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’ ایک مرتبہ میرے رضاعی چچا میرے گھر تشریف لائے اور گھر میں آنے کی اجازت چاہی تو مَیں نے انکار کر دیا اور کہا کہ مَیں نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھوں گی جب آپﷺ  تشریف لائے تو مَیں نے عرض کیا آج میرے رضاعی چچا تشریف لائے تھے اور گھر میں آنے کی اجازت چاہی تو میں نے انکار کر دیا ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے رضاعی چچا تم سے مل سکتے ہیں ان کا پردہ نہیں وہ محرم ہیں ۔ اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری مقدس ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پردے کا کس قدر لحاظ فرمایا کرتی تھیں ۔

            ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کیا :’’ یارسول اللہ! جب سے آپ نے منکر نکیر کی(ہیبت ناک آواز)کا اور قبر کے بھینچنے کا ذکر فرمایا ہے ۔ اس وقت سے مجھے کسی چیز سے تسلی نہیں ہوتی (اور دل کی پریشانی دور نہیں ہوتی) آپﷺ  نے ارشاد فرمایا کہ اے عائشہ! منکر نکیر کی آواز مومن کے کانوں میں ایسی معلوم ہوتی ہے (جیسے آنکھوں میں سرمہ) اور قبر کا مومن کو دباناایسا ہوتا ہے جیسے کسی کے سر میں درد ہو اور اس کی شفقت والی ماں آہستہ آہستہ اس کے سر کو دبائے اور وہ اس سے آرام و راحت پائے۔ پھر فرمایا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اے عائشہ ! اللہ کے بارے میں شک کرنے والوں کے لیے بڑی خرابی ہے اور وہ قبر میں اس طرح بھینچے جائیں گے جیسے انڈے پر پتھر رکھ کر دبایا جائے ۔ (شرح الصدور اردو ترجمہ قبر کے حالات)

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ ایک دن میرے پاس ایک یہودی عورت گھر میں آئی اور اس نے قبر کے عذاب کا ذکر کیا ۔ ذکر کرتے کرتے اس نے مجھ سے کہا  ’ اَعَاذَکِ اللّٰہُ مِنْ عَذَابِ القَبرِ‘  (اللہ تعالیٰ تجھے قبر کے عذاب سے پناہ میں رکھے) ۔

            جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو مَیں نے عذاب قبر کے بارے میں سوال کیا۔ آپﷺ  نے فرمایا کہ عذاب قبر حق ہے۔ اس کے بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ ہر نماز کے بعد عذابِ قبر سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے۔ (اور یہ عمل امت کی تعلیم کے لیے تھا)(بخاری و مسلم شریف)

               حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عبادتوں کا حال

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا زیادہ تر روزے سے رہا کرتی تھیں ۔ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ:’’ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کثرت سے روزے رکھا کرتی تھیں ۔‘‘نیز حضرت قاسم بن محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ:’’ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا طویل زمانے تک روزہ رکھتی تھیں گویا صائم الدہر ہوں آپ یومِ عید یا یومِ عید الاضحی کو افطار فرماتی تھیں ۔ ‘‘

             فرض نمازوں کے علاوہ نوافل کی بہت زیادہ کثرت کیا کرتی تھیں ۔ چاشت کی نماز کا خاص اہتمام کرتی تھیں ،اس وقت آپ رضی اللہ عنہا آٹھ رکعت پڑھا کرتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ میرے ماں باپ بھی اگر (قبر) سے اٹھ کر آ جائیں تب بھی یہ نماز نہ چھوڑوں گی۔ (بل کہ ان کی خدمت کرتے ہوئے بھی مَیں یہ نماز پڑھوں گی) (مشکوٰۃ شریف)

            حضرت قاسم بن محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ میر ا ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ جب صبح کو گھر سے نکلتا تو سب سے پہلے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر جاتا اور سلام کرتا (یہ ان کے بھائی کے بیٹے تھے) ایک مرتبہ مَیں جب ان کے پاس گیا تو دیکھا کہ وہ کھڑی ہوئی نفل نماز پڑھ رہی ہیں اور بار بار اس آیتِ کریمہ پڑھ رہی ہیں اور رو رہی ہیں ’ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُوْمْ‘(ترجمہ: اور اللہ نے ہم پر احسان کیا اور لُو کے عذاب سے بچا لیا، سورۂ  طور آیت ۳۷) مَیں سلام پھیرنے کے انتظار میں کھڑا رہا ۔ یہاں تک کہ میری طبیعت اکتا گئی اور مَیں ان کو اِسی حال میں چھوڑ کر اپنی ضرورت کے لیے بازار چلا گیا۔ پھر جب واپس آیا تو دیکھا وہ اب بھی اسی طرح نماز میں کھڑی ہیں اور رو رہی ہیں ۔‘‘

            روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تہجد کی نماز بھی پابندی سے پڑھا کرتی تھیں ۔ حتیٰ کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال فرما جانے کے بعد بھی آپ کا یہ معمول جاری رہا ۔ روزوں کی کثرت ان کا خاص شغل تھا۔ ایک مرتبہ سخت گرمی کے موسم میں عرفہ کے دن یعنی نویں ذی الحجہ کو روزہ سے تھیں ۔ سخت گرمی کی وجہ سے سر پر پانی کے چھینٹے مارے جا رہے تھے ۔ حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما نے (جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی تھے) فرمایا اس گرمی میں (نفل) روزہ کوئی ضروری نہیں ہے افطار کر لیجیے۔ یہ سن کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ بھلا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سننے کے بعد کہ عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے سال بھر کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ مَیں اپنا روزہ توڑ دوں گی؟‘‘ (مسند احمد)

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا شریعت میں منع کی گئیں معمولی معمولی چیزوں سے بھی سختی کے ساتھ بچتی تھیں ۔ راستے سے گذرتے وقت اگر گھنٹے کی آواز آ جاتی تو کنارے ٹھہر جاتیں تاکہ اس کی آواز کانوں میں نہ آسکے ۔ نیکیوں کو پھیلا نے کے ساتھ ساتھ برائیوں سے روکنا بھی ان کا خاص مشغلہ تھا، اور اس کے لیے ہر ممکن طاقت خرچ کر دینا ضروری سمجھتی تھیں ۔

               حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حیا

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بڑی با غیرت اور حیا دار خاتون تھیں ۔ آپ پردے کا بڑا اہتمام فرمایا کرتی تھیں ۔ روایتوں میں آتا ہے کہ جب آپ رضی اللہ عنہا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ  مبارک پر حاضر ہوتیں تو بغیر پردے کے جایا کرتی تھیں اور وہ یہی گمان فرماتی تھیں کہ اس میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور میرے والد ہی تو ہیں ان سے کیا پردہ کرنا۔ لیکن جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس حجرے میں مدفون ہو گئے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کبھی بھی بغیر پردے کے روضۂ  مبارک میں قدم نہیں رکھا ۔ خود فرماتی ہیں کہ : ’’ مجھے عمر (رضی اللہ عنہ) سے حیا مانع تھی۔ (مسند احمد)

               حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک عظیم فضیلت

            نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض الموت جب شدت اختیار کر چکا تو اس وقت نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے مکان میں آرام فرما رہے تھے ۔ آپﷺ  کے سرہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیٹھی ہوئی تھیں اور نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ٹیک لگائے ہوئے تشریف فرما تھے۔

            اتنے میں ام المؤمنین  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما گھر میں داخل ہوئے ۔ان کے ہاتھوں میں تازہ مسواک تھی۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا ۔  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جو کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مزاج شناس تھیں فرماتی ہیں کہ :’ ’ مَیں سمجھ گئی کہ آپﷺ  مسواک کرنا چاہتے ہیں ۔ مَیں نے مسواک اُن سے  لی اور اسے اچھی طرح چبا کر نرم کیا اور پھر آپﷺ  کو پیش کر دی نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھی طرح مسواک فرمائی۔ ‘‘

            بعد میں  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوں میں مجھے یہ شرَف حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری وقت میں میرے اور آپﷺ  کے لعاب کو جمع فرما دیا ۔(مسلم شریف)

               حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی دس امتیازی خصوصیات

            یوں تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ہی ازواجِ مطہرات امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن سب ہی اپنی اپنی جگہ عظمت و بزرگی اور شان و شوکت کی حامل ہیں ۔ ہاں ! یہ اللہ جل شانہٗ کی قدرت اور شان ہے کہ وہ ایک دوسرے کو آپس میں درجوں بلند فرما تا ہے ۔ چناں چہ  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بھی اُس نے اپنے فضل و کرم سے کئی فضیلتوں کا جامع فرما دیا ۔

            چناں چہ خود ام المؤمنین  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دسصفات مرحمت ہوئیں جو پہلے کبھی کسی عورت کو نہ ملیں  :

 (۱) نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت جبریل امین علیہ السلام ایک ریشمی کپڑے میں میری تصویر لے کر آئے ۔

(۲) نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میر ے علاوہ کسی دوسری کنواری لڑکی سے نکاح نہ فرمایا۔

(۳) نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے علاوہ کسی ایسی خاتون سے نکاح نہ فرمایاجس کے والدین مہاجر ہوں ۔

(۴) جبریل امین علیہ السلام نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : ’’ ان سے نکاح فرما لیجیے یہ آپ کی بیوی ہیں ۔ ‘‘

(۵) نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول بھی میرے بستر پر ہوا۔

(۶) آسمانوں سے میری براءت نازل ہوئی ۔

(۷) نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری دنیا میں مَیں ہی سب سے زیادہ محبوب تھی۔

(۸) جب آپ کا وصال ہوا تو میری ہی باری کا دن تھا۔

(۹) نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب وصال فرمایا تو آپﷺ  میر ے سینے اور گلے کے درمیان ٹیک لگائے ہوئے تھے ۔

(۱۰) نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین بھی میرے ہی مکان میں ہوئی۔‘‘

نبیِ کریمﷺ  کا زندگی کے آخری ایام حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں بسر فرمانا

            نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بڑی انسیت فرماتے تھے ۔ یہاں تک کہ روایتوں میں آتا ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مبارک زندگی کے آخری ایام بھی زیادہ تر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں ہی بسر فرمائے ۔ چناں چہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے ہر زوجۂ  مطہرہ کی باری کے اعتبار سے ان کے یہاں آرام فرماتے اور پوچھتے رہتے کہ کل کہاں ہوں گا؟ (آپ کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر کا اشتیاق تھا) چناں چہ جب آپﷺ  میرے گھر تشریف لائے تو مطمئن ہو گئے۔

            حضرت امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت نقل کی ہے کہ جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت کے دنوں میں تھے تو بار بار پوچھتے تھے کہ کل کہاں ہوں گا؟ آپﷺ  کا مقصد تھا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کا دن کب آئے گا جب ازواجِ مطہرات نے آپﷺ  کی رغبت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی طرف دیکھی تو سب نے متفقہ طور پر عرض کیا کہ آپ جہاں رہنا پسند فرمائیں وہیں رہیں گے تو نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے۔ وہیں رہے یہاں تک کہ آپ نے وصال فرمایا۔ (مسلم شریف)

            امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت نقل فرمائی ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام ازواج مطہرات کو بلا کر فرمایا کہ اب مَیں بیماری کی وجہ سے تم میں سے ہر ایک کے پاس نہیں جا سکتا اگر تم چاہو تو مجھے اجازت دے دو کہ مَیں عائشہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر ہی میں رہوں اس پر تمام ازواج نے اجازت دے دی۔

            ان روایات سے واضح ہوتا ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ وہ اپنی زندگی کے آخری ایام حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں گزاریں اور دیگر ازواجِ مطہرات نے باہمی الفت و محبت کی مثال قائم کرتے ہوئے اس بات کو خوشی خوشی قبول کر لیا کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف فرما رہیں ۔

               نبیِ کریمﷺ  کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں سر رکھے وصال فرمانا

            ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے فضائل و مناقب یوں تو گذشتہ صفحات میں تفصیل سے بیان کیے جا چکے ہیں لیکن نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ رضی اللہ عنہا کی گود میں سرِ مبارک رکھے ہوئے انتقال فرمانا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے فضائل میں سے ایک نمایاں فضیلت ہے ۔ یہی نہیں بل کہ آپﷺ  کی تدفین بھی ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں ہوئی چناں چہ آج تک نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کے حجرے میں آرام فرما ہیں ۔

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جس دن نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس دن میری ہی باری تھی ۔ آپﷺ  میرے حجرے ہی میں قیام فرما تھے۔ آپﷺ  کی مبارک روح نے اس حال میں پرواز فرمایا کہ آپ میرے سینے اور گلے کے درمیان ٹیک لگائے ہوئے تھے اور اس دن نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب سے میرا لعاب بھی مل گیا۔

            ایک دوسری روایت میں یوں ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحت وتندرستی اور شفا یابی کے لیے دعا مانگ رہی تھیں کہ اچانک نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مبارک ہاتھ جو کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ہاتھ میں تھا کھینچ لیا اور فرمایا:’’ اللہم الرفیق الاعلیٰ ‘‘

            ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تندرستی کی حالت میں فرمایا کرتے تھے کہ پیغمبر کو اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت دنیا وی یا اخروی زندگی قبول کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔‘‘

             حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ جوں ہی مَیں نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس زبان سے یہ جملے سنے مَیں چونک پڑی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے دور ہونے کا ارادہ فرما لیا ہے اور آخرت کی زندگی کو قبول فرما لیا ہے۔‘‘

            اب تک تو  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس سر کو اپنی گود میں سنبھالے ہوئے بیٹھی تھیں ، فرماتی ہیں کہ :’’ مجھے اچانک نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بدنِ مبارک کا بوجھ محسوس ہوا مَیں نے آپﷺ  کی آنکھوں کی طرف دیکھا تو وہ کھلی ہوئی تھیں ۔ مَیں نے نہایت آہستہ سے سرِ مبارک کو تکیے پر رکھا اور رونا شروع کر دیا ۔ ‘‘

            یہی حجرۂ  عائشہ رضی اللہ عنہا بعد میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مدفن بنا اور آج دنیا بھر کے اہلِ عقیدت و محبت گنبدِ خضرا کے نیچے حجرۂ  عائشہ رضی اللہ عنہا میں آرام فرما اپنے پیارے آقا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس مزار کی زیارت کو اپنی قسمتوں کی معراج سمجھتے ہیں ۔

               حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا صحابہ و تابعین کی نظر میں

            حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ’’جب ہم صحابۂ  کرام رضی اللہ عنہم کو کوئی ایسی مشکل بات پیش آئی اور ہم نے اس کے متعلق عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے پوچھا  تو ہم نے اس (مسئلے) کے بارے میں انھیں ذی علم پایا ۔‘‘

            حضرت موسیٰ بن طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :’’ مَیں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ فصاحت والا کسی کو نہیں پایا۔‘‘

            حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک آدمی نے بُرے انداز میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ذکر کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا دفع ہو جا تجھ پر کتے بھونکیں کیا تو محبوبۂ  حبیبِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو بُرا کہتا ہے۔

            تابعین کے پیشوا حضرت امام زہری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :’’ اگر تمام مردوں کا اور امہات المؤمنین کا علم ایک جگہ جمع کیا جاتا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا علم ان سب سے وسیع ہوتا۔‘‘

            ایک دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا: ’’ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تمام لوگوں میں سے زیادہ عالمہ تھیں ، بڑے بڑے صحابۂ  کرام رضی اللہ عنہم ان سے مسائل پوچھا کرتے تھے۔‘‘

               حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات

            ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے آخری حصے میں ہوئی اس دوران مروان مدینے کا حاکم تھا۔ وفات کے وقت آپ رضی اللہ عنہا کی عمر شریف سڑ سٹھ سال تھی۔ ۵۸ھ رمضان المبارک میں آپ بیمار ہوئیں چند روز علیل رہیں ۔ بالآخر منگل کے روز ۱۷؍ رمضان المبارک ۵۸ھ کو نمازِ وتر کے بعد رات کے وقت میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں ۔

            حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے وفات سے پہلے وصیت فرمائی تھی کہ مجھے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیویوں کے ساتھ جنت البقیع میں وفات کے فوراً بعد ہی دفن کیا جائے ۔ چناں چہ آپ رضی اللہ عنہا کو رات ہی کے وقت جنت البقیع میں دفن کر دیا گیا۔

            حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور آپ رضی اللہ عنہا کو قبر مبارک میں حضرت عروہ بن زبیر ،حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت قاسم بن محمد بن ابوبکر اور حضرت عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہم اجمعین نے اتارا۔

            ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی تدفین کی رات جنت البقیع میں جنازۂ  مبارک میں اتنا زیادہ ہجوم تھا کہ لوگوں کا بیان ہے کہ رات کے وقت اتنا مجمع کبھی نہیں دیکھا گیا ۔ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ عورتوں کا اتنا کثیر مجمع دیکھ کر عید کے دن کے ہجوم کا دھوکا ہوتا تھا۔

            ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا عمر میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیویوں میں سب سے چھوٹی تھیں ، مگر علم و فضل ، زہد و تقوا ، سخاوت و شجاعت ، عبادت و ریاضت میں سب سے بڑھ کر ہوئیں ۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مبارک زندگی سے سبق حاصل کر کے ہمیں اپنی زندگی اچھی طرح گذارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

٭٭٭

مصنف کے تشکر کے ساتھ جنہوں نے ان پیج فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید