فہرست مضامین
القول الرفیع فی مسئلۃ التسمیع
امام کے پیچھے سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کا علمی و تحقیقی جائزہ
أبو عبد الرحمان محمد رفیق الطاہر
مدرس جامعۃ دار الحدیث المحمدیۃ ملتان
یونیکوڈ کاوش
www.KitaboSunnat.com
بسم الرحمن الرحیم
مقتدی امام کے پیچھے سمع اللہ لمن حمدہ کہے گا یا نہیں یہ ایک ایسی بحث ہے جس میں اکثر لوگ الجھتے ہیں اور ان میں سے بہت سوں کو حق بات کا علم نہیں اور وہ اپنے باطل نظریہ کو ہی بزعم خود حق سمجھے بیٹھے ہیں، کل حزب بما لدیہم فرحون۔ تو ضروری ہے کہ اس مسئلہ میں سبب اختلاف کو سمجھا جائے اور حق بات کا تعین کیا جائے تاکہ ”صلوا کما رأیتمونی أصلی”(ایسے نماز پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتا دیکھتے ہو) [[بخاری، کتاب الأدب، باب رحمۃ الناس والبھائم(۶۰۰۸)]] کے اصول کے مطابق ہم بھی اقامۃ صلاۃ کرنے والوں میں شامل ہو جائیں۔
اختلاف کا سبب
سبب اختلاف انس بن مالکؓ والی وہ روایت ہے جسے امام بخاری نے کتاب الآذان باب انما جعل الامام لؤتم بہ (۷۸۹)اور امام مسلم نے کتاب الصلاۃ، باب ائتمام المأموم بالامام (۴۱۱)میں نقل فرمایا ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں :
” أن رسول اللہ صلى اللہ علیہ و سلم رکب فرسا، فصرع عنہ فجحش شقہ الأیمن، فصلى صلاة من الصلوات وہو قاعد، فصلینا وراءہ قعودا، فلما انصرف قال : ” إنما جعل الإمام لیؤتم بہ، فإذا صلى قائما، فصلوا قیاما، فإذا رکع، فارکعوا وإذا رفع، فارفعوا، وإذا قال : سمع اللہ لمن حمدہ، فقولوا : ربنا ولک الحمد………الحدیث
ایک دفعہ رسول اللہﷺ گھوڑے پر سوار ہوئے تو اس گر گئے جس کے نتیجے میں آپﷺ کا دائیاں حصہ زخمی ہو گیا۔ تو آپﷺ نے نمازوں میں کوئی ایک نماز بیٹھ کر پڑھائی تو ہم نے بھی آپﷺ کے پیچھے بیٹھ کر ہی نماز ادا کی۔ جب آپﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: یقیناً امام صرف اقتداء کیے جانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ لہٰذا جب وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ رکوع سے سر اُٹھاٍ لے تو تم رکوع سے سر کو اُٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو…الخ
لیکن میں کہتا ہوں کہ اس حدیث میں مقتدی کو تسمیع ( یعنی سمع اللہ لمن حمدہ) سے روکنے والی کوئی دلیل ہے ہی نہیں۔ کیونکہ نبی اکرمﷺ نے تو مقتدی کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ اپنے امام کی اقتداء کرے اور امام سے سبقت نہ لے جائے اور یہ کہ وہ امام کے سمع اللہ لمن حمدہ کہہ لینے کے بعد ربنا لک الحمد کہے اور مقتدی کو تسمیع سے منع نہیں کیا ہے لیکن اس کا ذکر تک بھی نہیں فرمایا اور اصول میں یہ بات مسلمہ ہے کہ عدم ذکر، عدم ثبوت کو مستلزم نہیں۔ (۱)
البتہ تسمیع کے مقتدی کے لیے مشروع ہونے کے کئی ایک دلائل موجود ہیں ان میں سے ایک حدیث عبداللہ بن عمرؓ والی ہے جسے بخاری نے روایت کیا ہے وہ یوں ہے :
” أن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما، قال : ” رأیت النبی صلى اللہ علیہ و سلم افتتح التکبیر فی الصلاة، فرفع یدیہ حین یکبر حتى یجعلہما حذو منکبیہ، وإذا کبر للرکوع فعل مثلہ، وإذا قال : سمع اللہ لمن حمدہ، فعل مثلہ، وقال : ربنا ولک الحمد، ولا یفعل ذلک حین یسجد، ولا حین یرفع رأسہ من السجود ” [[بخاری، کتاب الاذان، باب الی این یر فع یدیہ (۷۸۳)]]
عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ نے تکبیر کہہ کر نماز کا آغاز فرمایا اور جب تکبیر کہی تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اُٹھایا اور جب رکوع کیا تو پھر اسی طرح (ہاتھوں کو بلند)کیا اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہا تو اسی طرح کیا اور ربنا و لک الحمد کہا اور یہ (ہاتھوں کو بلند کرنا) آپﷺ نے سجدوں میں جاتے اور اُٹھتے ہوئے نہ کرتے تھے۔
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ رسول اللہﷺ تسمیع و تحمید دونوں ہی کہا کرتے تھے اور یہ بات معلوم ہے کہ رسول اللہﷺ اکثر تو امام ہوتے تھے اور آپﷺ نے جبریل (۱)اور عبدالرحمن بن عوفؓ (۲) کی اقتداء میں بھی نماز ادا کی ہے۔ اور یہ حدیث مطلق ہونے کی وجہ سے امام، منفرد اور مقتدی تینوں کے لیے تسمیع و تحمید کہنے پر دلالت کرتی ہے۔
امام شوکانی طویل بحث کے بعد فرماتے ہیں : "جو اس بات کے قائل ہیں کہ تسمیع و تحمید کو ہر نمازی کہے گا وہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں مگر یہ دعویٰ سے زیادہ خاص ہے کیونکہ رسول اللہﷺ کی امامت والی نماز کا بیان ہے جیسا کہ اکثر ہوتا تھا، مگر رسول اللہﷺ کا یہ فرمان کہ: "ایسے نماز پڑھو جیسا کہ مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو” اس اختصاص کی نفی کرتا ہے کہ یہ امام کے لیے ہی خاص ہے (یعنی تسمیع و تحمید کو جمع کرنا) اور وہ اس بات سے بھی دلیل پکڑتے ہیں جس کوطحاوی اور ابن عبدالبر نے نقل کیا ہے کہ منفرد (تسمیع و تحمید کو) جمع کرے گا، اور طحاوی نے اسی بات کو امام کے تسبیح و تحمید کو جمع کرنے کے لیے بھی حجت بنایا ہے تو مقتدی بھی اس میں شامل ہو جائے گا، کیونکہ اصول یہ ہے کہ نماز میں جو کام مشروع ہے وہ تینوں (امام، مقتدی، منفرد) کے لیے برابر طور پر مشروع ہے، ہاں مگر شریعت جس کو مستثنیٰ کر دے۔ ” [[نیل الأوطار للشوکانی، ۲۷۸/۲]]
اور امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : "امام، مقتدی اور منفرد تینوں ہی رکوع سے سر اُٹھاتے ہوئے سمع اللہ لمن حمدہ کہیں گے اور جب کہنے والا تسمیع سے فارغ ہو گاتو ساتھ ہی ربنا لک الحمد بھی کہے گا۔ [[کتاب الأم للشافعی، ۱۱۰/۱]]
مذکورہ بالا دلیل میں یہ بات معلوم ہوئی کہ تسمیع و تحمید، امام، مأموم اور منفرد کے لیے مشروع ہیں۔ رہا یہ سوال کہ اگر مقتدی تسمیع و تحمید (سمع اللہ لمن حمدہ)نہ کہے تو کیا حرج ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تینوں (امام، مقتدی، منفرد) میں سے جو کوئی بھی تسمیع کو ترک کرے گا اس کی نماز میں نقص (کمی) واقع ہو گا۔ جیسا کہ مسئی الصلاۃ والی حدیث میں ہے :
"فقال النبی صلى اللہ علیہ و سلم : ” إنہ لا تتم صلاة لأحد من الناس حتى یتوضأ، فیضع الوضوء – یعنی مواضعہ – ثم یکبر، ویحمد اللہ جل وعز، ویثنی علیہ، ویقرأ بما تیسر من القرآن، ثم یقول : اللہ أکبر، ثم یرکع حتى تطمئن مفاصلہ، ثم یقول : سمع اللہ لمن حمدہ حتى یستوی قائما، ثم یقول : اللہ أکبر، ثم یسجد حتى تطمئن مفاصلہ، ثم یقول : اللہ أکبر، ویرفع رأسہ حتى یستوی قاعدا، ثم یقول : اللہ أکبر، ثم یسجد حتى تطمئن مفاصلہ، ثم یرفع رأسہ فیکبر، فإذا فعل ذلک فقد تمت صلاتہ ” [[ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود (۸۵۶)]] وفی روایۃ لہ: فاذا فعلت فقد تمت صلاتک وما انتقص من ہذا شیئا فانما انتقصتہ من صلاتک [[حوالۃ سابقۃ]]
رسول اللہﷺ نے فرمایا: لوگوں میں سے کسی کی بھی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک وہ اچھی طرح وضو نہ کر لے اور پھر تکبیر کہے اور اللہ کی حمد و ثناء بیان کرے اور قرآن سے جو میسر آئے پڑھے، پھر وہ اللہ اکبر کہے پھر رکوع کرے حتی کہ اس کے جوڑ اطمینان میں آ جائیں پھر وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے حتی کہ برابر طور پر (سیدھا ) کھڑا ہو جائے پھر اللہ اکبر کہے پھر سجدہ کرے حتی کہ اس کے جوڑ اطمینان میں آ جائیں، پھر اللہ اکبر کہے اور اپنے سر کو اٹھائے حتی کہ برابر ہو کر بیٹھ جائے پھر اللہ اکبر کہے پھر سجدہ کرے حتی کہ اس کے جوڑ مطمئن ہو جائیں پھر اپنے سر کو اٹھائے اور تکبیر کہے تو پس جب وہ یہ کام کر لے گا، تب اس کی نماز مکمل ہو گی۔ ابوداؤد ہی کی ایک اور روایت میں ہے کہ (رسول اللہﷺ نے اس کو فرمایا) پس جب تو یہ کر لے گا تو تیری نماز مکمل ہو گی اور ان میں سے تو جس کو بھی چھوڑے گا تو تیری نماز میں نقص رہ جائے گا۔ ”
امام ابن حزم الظاہری نے اسی حدیث کی روشنی میں ہی فرمایا ہے : ” رکوع کے بعد کا قیام قدرت پانے والے پر فرض ہے حتی کہ وہ اعتدال کے ساتھ کھڑا ہو جائے اور سمع اللہ لمن حمدہ کہنا رکوع سے اٹھتے ہوئے ہر نمازی پر فرض ہے خواہ وہ امام ہو، مقتدی ہو یا منفرد، نماز کی تکمیل اس کے بغیر نہیں ہے۔ [[محلی ابن حزم ۲۵۵/۳]]
اور ابن حزم کی بات بالکل درست ہے کیونکہ رسول اللہﷺ فرما رہے ہیں : "لوگوں میں سے کسی کی بھی نماز مکمل نہیں ” خواہ وہ امام ہو، مقتدی ہو یا منفرد، مطلق طور پر نماز کی نفی فرمائی ہے۔ لہٰذا جب تک کوئی بھ سمع اللہ لمن حمدہ نہ کہے گا اس کی نماز مکمل نہیں ہو گی اور پھر آخر میں رسول اللہﷺ کا یہ فرمانا: "وما انتقص من ہذا شیئا فانما انتقصتہ من صلاتک”نماز کے ترک
تسمیع کی بنا پر ناقص ہونے کی واضح دلیل ہے کیونکہ جن چیزوں کو رسول اللہﷺ نے شمار کیا ہے تسمیع بھی ان میں شامل ہے۔
فقولوا ربنا و لک الحمد کا معنیٰ
بعض لوگ کہتے ہیں کہ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: "اذا قال الامام سمع اللہ لمن حمدہ فقولوا ربنا لک الحمد” "جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو”
لہٰذا امام صرف سمع اللہ لمن حمدہ کہے اور مقتدی صرف ربنا لک الحمد کہے کیونکہ یہ عبارت تقسیم کا تقاضا کرتی ہے کہ ایک عمل امام کے لیے ہے اور دوسرا مقتدی کے لیے۔
لیکن یہ قول باطل ہے کیونکہ اس حدیث میں امام کے لیے تحمید اور مقتدی کے لیے تسمیع کا ذکر ہی نہیں کہ امام تحمید اور مقتدی تسمیع نہ کہے اور اصول میں یہ بات مسلمہ ہے کہ عدم ذکر عدم ثبوت کو مستلزم نہیں ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” ولا حجة لہم فیہ لانہ امر بان یقول اللہم ربنا لک الحمد ونحن نقولہ فاما اذا قال معہ غیرہ فلیس بمذکور فی ہذا الخبر” [[مختصر خلافیات للبیہقی ۳۹۳/۱]]
"ان لوگوں کے لیے اس حدیث میں دلیل نہیں ہے کیونکہ آپﷺ نے ربنا لک الحمد کہنے کا حکم دیا اور ہم یہ کہتے ہیں کہ لیکن جب امام کے ساتھ سمع اللہ لمن حمدہ کوئی اور کہے، یہ اس حدیث میں مذکور ہی نہیں ہے۔ ”
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : "اس حدیث ( فقولوا ربنا لک الحمد) سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ امام ربنا لک الحمد نہ کہے اور مقتدی سمع اللہ لمن حمدہ نہ کہے کیونکہ اس کا روایت میں ذکر ہی نہیں ہے۔ جیسا کہ یہ بات طحاوی نے نقل کی ہے اور امام مالک اور ابو حنیفہ کا یہی مؤقف ہے۔ لیکن یہ مؤقف محل نظر ہے کیونکہ اس روایت میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو نفی پر دلالت کرتی ہو، بلکہ اس حدیث میں تو یہ بات ہے کہ مقتدی کا ربنا لک الحمد کہنا امام کے سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد ہو۔ اور ایسا ہی ہوتا ہے کیونکہ امام رکوع سے اُٹھتے ہوئے سمع اللہ لمن حمدہ کہتا ہے اور مقتدی اُٹھنے کے بعد حالت اعتدال میں ربنا لک الحمد کہتا ہے۔ تو مقتدی کی تحمید امام کی تسمیع کے بعد ہی آتی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں حکم ہے۔
اور یہ مسئلہ بھی آمین والے مسئلہ سے ملتا جلتا ہے جیسا کہ : "اذاقال الامام ولا الضالین فقولوا آمین” (جب امام ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو) سے یہ لازم نہیں آتا کہ امام ولا الضالین کے بعد آمین نہ کہے گا اور اس حدیث میں یہ بھی مذکور نہیں ہے کہ امام آمین کہے۔ جیسا کہ اس حدیث میں یہ ذکر نہیں ہے کہ امام ربنا لک الحمد کہے۔ لیکن یہ دونوں باتیں (امام کا آمین و تحمید کہنا ) دوسری صریح، صحیح دلیلوں سے ثابت ہے ……الخ [[فتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب فضل ربنا لک الحمد، ۲۸۳/۲]]
تو معلوم ہوا کہ اس حدیث کا معنی یہی ہے کہ امام سمع اللہ لمن حمدہ اور ربنا لک الحمد دونوں ہی کہے گا اسی طرح مقتدی و منفرد بھی۔ تسمیع و تحمید کا کسی ایک فریق کے ساتھ مختص ہونا کسی دلیل سے ثابت نہیں۔
احناف میں بھی امام محمد، قاضی ابو یوسف اور امام طحاوی کا یہ مؤقف ہے کہ امام تسمیع و تحمید دونوں کہے۔ [[عقود الجواہر المنیفۃ فی ادلۃ مذھب الامام ابی حنیفہ، صفحہ ۶۳]]
اسی طرح ملا علی قاری نے شرح مسند ابی حنیفہ میں ذکر کیا ہے کہ : "شرح الاقطع میں ابو حنیفہ سے یہ بات مروی ہے کہ امام و مقتدی دونوں تسمیع و تحمید کہیں گے اور یہی شافعی کا مسلک ہے اور اسی کو ابو یوسف اور محمد نے اختیار کیا ہے جیسا کہ ابن مالک نے شرح المشارق میں ذکر کیا ہے۔ ”
اور حدیث مسئی الصلاۃ آپ پہلے ملاحظہ فرما چکے ہیں جس میں رسول اللہﷺ نے تسمیع کا ذکر فرمایا اور اس کے آغاز میں اتمام صلوٰۃ کو ان مذکورہ امور پر مقصود فرمایا اور بعد میں کسی ایک کے معدوم ہونے کو نماز کے ناقص ہونے کا سبب گردانا ہے۔ جس سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ ترک تسمیع ہر ہر بندے کی نماز میں نقص کا سبب ہے خواہ وہ امام ہو، مأموم ہو یامنفرد۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : "جن بڑی بڑی باتوں سے ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ رسول اللہﷺ یہ فرمائیں کہ تم میں سے کسی کی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی حتی کہ وہ اس اس طرح کر لے یا یہ فرمائیں کہ اس اس طرح کرو، تو کوئی کہنے والا یہ سب سننے کے بعد یہ کہتا پھر کہ نماز اس کے بغیر بھی مکمل ہو جاتی ہے۔ ایسے بندے کی تقلید میں (یہ بات کہہ دے ) جو کہ خطا پر ہے کیونکہ اس کو حدیث نہیں پہنچی یا پہنچی تو ہے مگر وہ رسول اللہﷺ کی مخالفت کا ارادہ رکھتا ہے۔ اور اسی طرح باطل اور سنت سے کھیلنے والی بات ہے کہ رسول اللہﷺ چند مذکورہ امور کے بارہ میں فرمائیں کہ نماز اس کے بغیر مکمل نہیں ہے تو کوئی کہنے والا اپنی طرف سے یہ کہتا پھرے کہ ان میں سے بعض امور تو ایسے ہیں کہ (جن کے بغیر نماز مکمل نہیں ) اور بعض ایسے نہیں ہیں، اور اگر کوئی جھوٹا ان باتوں میں سے کسی پر اجماع کا دعوی کرے تو وہ ساری امت پر جھوٹ باندھتا ہے اور اس نے ایسی بات کا دعوی کیا ہے جس کا اسے علم نہیں۔ [[المحلی بالآثار، ۲۵۸/۳]]
حاصل بحث
مذکورہ بالا بحث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تسمیع و تحمید امام و مأموم و منفرد تینوں کے لیے لازمی و ضروری ہے اور دونوں میں سے کسی بھی چیز کا ترک تینوں کی نماز میں کمی پیدا کر دیتا ہے۔ اوار جو مقتدی کو تسمیع نہ کہنے کا فتویٰ دیتا ہے اس نے پاس فقولوا ربنا لک الحمد والی حدیث کے سوا اور کوئی دلیل نہیں ہے اور یہ دلیل بھی ان کے دعویٰ کو ثابت نہیں کرتی۔ کیونکہ رسول اللہﷺ نے مقتدی کو "تحمید” کا حکم تو دیا ہے لیکن ” تسمیع ” سے منع نہیں فرمایا۔ اور اصول کی دنیا میں یہ بات مسلمہ ہے کہ عدم ذکر عدم ثبوت کو مستلزم نہیں ہے۔ لہٰذا اس حدیث سے مقتدی کے لیے ترک تسمیع پر استدلال کرنا باطل ہے۔ جبکہ دیگر روایات سے مقتدی کے لیے تحمید و تسمیع کہنا ثابت ہے۔
ھذا واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ أکمل وأتم
ورد العم الیہ أسلم
الراجی الی عفو ربہ الظاہر
٭٭٭
تشکر: مرثد ہاشمی، مکتبہ جبرئیل۔ جن کے توسط سے فائل کی فراہمی ہوئی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید