FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

اقبال: ایک باپ کی حیثیت سے

 

 

 

               ڈاکٹر جاوید اقبال

 

 

ماخوذ: مطالعۂ اقبال کے سو سال

مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، سہیل عمر، وحید اختر عشرت

 

 

 

 

 

 

میں نے سن رکھا ہے کہ میری پیدائش سے چند سال قبل ابا جان شیخ احمدؒ  سرہندی مجدد الف ثانی کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ انھیں ایک بیٹا عطا کرے۔ آپ نے حضرت مجدد ؒسے یہ عہد بھی کیا کہ اگر خداوند تعالیٰ نے انھیں بیٹا دیا تو اسے ساتھ لے کر مزار پر حاضر ہوں گے۔

آپ کی دعا پوری ہوئی اور کچھ عرصے بعد جب میں نے ہوش سنبھالا تو مجھے اپنے ہمراہ لے کر دوبارہ سرہند شریف پہنچے۔ اس سفر کے دھندلے سے تصورات میری نگاہوں کے سامنے ابھرتے ہیں کہ میں ان کے ساتھ ان کی انگلی پکڑے مزار میں داخل ہو رہا ہو ں۔ گنبد کے تیرہ و تار مگر پُر وقار ماحول نے مجھ پر ایک ہیبت سی طاری کر رکھی ہے۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے میں اپنے چاروں طرف گھور رہا ہوں جیسے میں اس مقام کی خاموش فضا سے کچھ کچھ شناسا ہُوں۔ ابا جان نے مجھے اپنے قریب بٹھا لیا۔ پھر انھوں نے قرآن مجید کا پارہ منگوایا اور دیر تک پڑھتے رہے۔ اس وقت صرف ہم دو ہی تربت کے قریب بیٹھے تھے۔ گنبد کی خاموش اور تاریک فضا میں ان کی آواز کی گونج ایک ہولناک ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو امڈ کر رخساروں پر ڈھلک آئے ہیں۔ ایک روز وہاں ٹھہرنے کے بعد ہم گھر واپس آ گئے،لیکن مجھ پر اس راز کا انکشاف نہ ہُوا کہ آخر اس مزار پر جانے کا مقصد کیا تھا اور وہ آنسو کس لیے تھے۔ مجھے یاد ہے، میں بچپن میں اکثر یہی سوچا کرتا۔

اپنی زندگی میں ابا جان نے مجھے شاذ ہی کوئی ایسا موقع دیا ہو گا جس سے میں ان کی شفقت یا اس الفت کا اندازہ لگا سکتا جو انھیں میری ذات سے تھی۔ والدین بچوں کو اکثر پیار سے بھینچا کرتے ہیں ، انھیں گلے سے لگاتے ہیں ، انھیں چومتے ہیں ، مگر مجھے آپ کے خدوخال سے کبھی اس قسم کی شفقت پدری کا احساس نہ ہوا۔ بظاہر وہ کم گو اور سرد مہر سے دکھائی دیتے تھے۔ مجھے کبھی گھر میں منہ اٹھائے اِدھر اُدھر بھاگتے دیکھ کر مسکراتے تو مربیانہ انداز سے۔ گویا کوئی انھیں مجبوراً مسکرانے کو کہہ رہا ہو۔ اور اکثر اوقات تو میں انھیں اپنی آرام کرسی یا چارپائی پر آنکھیں بند کئے اپنے خیالات میں مستغرق پاتا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ انھیں مجھ سے محبت نہ تھی، سراسر غلط ہے۔ ان کی محبت کے اظہار میں ایک اپنی طرز کی خاموش تھی جس میں عنفوانِ شبا ب کے وقتی ہیجان کا فقدان تھا یا اس کی نوعیت فکری یا تخیلی تھی جس تک پہنچنے کی اہلیت میرا ذہن نارسا نہ رکھتا تھا۔ بہر حال، جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے۔ میں ان سے محبت تھوڑی کرتا تھا اور خوف زیادہ کھاتا تھا۔

ہر گھر کی باتیں چھوٹی موٹی ہوا کرتی ہیں ، مگر ان سے گھر کے افراد کے کردار پر روشنی پڑتی ہے۔ بعض اوقات والدین میں اپنے بچوں کی تربیت کے سلسلے میں تنازع بھی ہو جایا کرتا ہے۔ اسی طرح ابا جان اور اماں جان میں میری وجہ سے کئی بار تکرار ہو جاتی۔ مثلاً اماں جان کو میرے متعلق ہر گھڑی یہی فکر دامن گیر رہتا کہ جب کبھی میں اکیلا کھانا کھاؤں ،پیٹ بھر کر نہیں کھاتا، اس لیے وہ ہمیشہ مجھے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلایا کرتیں یہاں تک کہ میں آٹھ نو برس کا ہو گیا۔ لیکن پھر بھی مجھے اپنے ہاتھ سے کھانا کھانے کی عادت نہ پڑی ابا جان اس بات پر بار بار ناراض ہوئے کہ تم اسے بگاڑ رہی ہو، اگر یہ جوان ہو کر بھی خود کھانا نہ کھا سکا تو کیا ہو گا۔ ہم لوگ رات کو اکثر خشکہ کھایا کرتے تھے۔ لہٰذا اب یوں ہوتا کہ بطور احتیاط چمچہ میری پلیٹ کے قریب رکھ دیا جاتا، مگر کھانا اماں جان ہی کھلاتیں۔ ابا جان کی عادت تھی کہ وہ ہمیشہ دبے پاؤں زنانے میں آیا کرتے، اس طرح کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے پاتی۔ بہرحال، جب بھی اماں جان مجھے کھلا رہی ہوتیں ، ان کا دھیان باہر ہی رہتا اور جونہی وہ ابا جان کے قدموں کی ہلکی سی آہٹ سنتیں تو اپنا ہاتھ پھرتی سے علیحدہ کر کے چمچہ میرے آگے رکھ دیتیں اور میں خود کھانا کھانے میں مشغول ہو جاتا۔ مجھے یقین ہے کہ ابا جان کئی مرتبہ اس کا سراغ لگا چکے تھے، لیکن وہ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے بعد چلے جایا کرتے۔

میں بچپن میں بے حد شریر تھا، پڑھائی سے بھی کوئی خاص دلچسپی نہ تھی، اس لیے اماں جان سے مار کھانا میرا معمول بن چکا تھا۔ اماں جان بچوں کی پرورش کے سلسلے میں ایک ایسے اصول کی پابند تھیں جو نہایت سخت تھا۔ وہ اکثر کہا کرتیں کہ اولاد کو کھانے کو دو سونے کا نوالہ، لیکن دیکھو قہر کی نظر سے۔ اسی اصول کے پیش نظر، گو میں ان کے ہاں بارہ برس کے شدید انتظار کے پیدا ہوا، مجھے یاد نہیں کہ انھوں نے مجھ پر کبھی ایسی شفقت یا محبت کا اظہار کیا ہو جس کی توقع بچے اپنی ماؤں سے رکھتے ہیں۔ البتہ میں نے اتنا سن رکھا ہے کہ وہ جب کبھی بھی مجھے پیار کرتیں ، میری نیند کے عالم میں کرتیں تاکہ مجھے علم نہ ہو سکے۔ شاید اسی لیے بچپن میں میرے ذہن میں یہ خیال بھی گزرا کرتا کہ میری ماں دراصل میری حقیقی ماں نہیں بلکہ سوتیلی ماں ہے۔

بہر حال، ابا جان سے میں نے بہت کم مار کھائی ہے۔ میرے لیے ان کی جھڑک ہی کافی ہوا کرتی گرمیوں میں دوپہر کے وقت دھوپ میں ننگے پاؤں پھرنے پر مجھے کئی بار کوسا گیا۔ ابا جان جب کبھی بہت برہم ہوتے تو ان کے مُنہ سے ہمیشہ یہی الفاظ نکلتے ’’احمق آدمی! بیوقوف !!‘‘مجھے یہاں ابا جان سے مار کھانے کا ایک واقعہ یاد آ گیا ہے۔ بچپن میں مجھے روز ایک آنہ خرچ کرنے کو ملا کرتا اور اسے خرچ کر چکنے کے بعد خواہ میں اماں جان کی کتنی ہی منتیں کرتا، مجھے مزید کچھ نہ ملتا بلکہ ہر لمحہ ان کے ناراض ہونے کا احتمال رہتا۔ ایک دفعہ اتفاق یوں ہوا کہ کوئی مٹھائی بیچنے والا ہمارے گھر کے سامنے سے گزرا۔ مٹھائی دیکھ کر میں للچا گیا۔ لیکن جیب خالی تھی۔ اسے بٹھا تو لیا اور اماں جان کے پاس دوڑا آیا کہ شاید کچھ مل جائے۔ مگر انھوں نے ٹکا سا جواب دے دیا۔ طبیعت ضدی تھی۔ خیال آیا کہ اس خوانچہ فروش سے پوچھوں کہ پیتل لے کر مٹھائی دے سکتا ہے یا نہیں۔ بد قسمتی سے اس نے ہاں کہہ دی بس پھر کیا تھا۔ سائے کی طرح ابا جان کے کمرے میں گھسا اور بڑے ٹیبل فین کے پیچھے لگے پیتل کے پرزے کو اتار خوانچہ فروش کو دے آیا اور مٹھائی لے لی۔ لیکن شامت اعمال کہ ہمارا شوفر ادھر سے گزر رہا تھا۔ اس نے آ کر ابا جان سے شکایت کر دی۔ میں خوشی خوشی اچھلتے کودتے جو گھر کی حدود میں داخل ہوا تو مجھے اطلاع ملی کہ ابا جان بلا رہے ہیں۔ ڈرتے ڈرتے ان کے کمرے میں گیا۔ وہ اپنی آرام کرسی پر نیم دراز تھے۔ مجھے دیکھتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور تین چار تھپڑ میری گردن پر جما دیے۔ ابا جان مجھے جب کبھی مارتے، گدی پر مارتے۔ وہ زور سے تو نہ مارتے مگر گدی جسم کا ایسا حصہ ہے جہاں چوٹ زیادہ لگتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر مجھے ان سے مار کھانے کا اتفاق ہوا تو اس کی وجہ نوکروں کو برا بھلا کہنا یا جھوٹ بولنا تھی۔

بعض اوقات ایسا ہوا کہ اگر ابا جان نے میری کسی شرارت پر مجھے مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا تو اماں جان بیچ میں آ کھڑی ہوئیں اور انھیں روک دیا یا اگر اماں جان نے مجھے ضرورت سے زیادہ پیٹا تو ابا جان خفا ہوئے کہ بچے کو اس بے دردی سے نہیں مارنا چاہئے۔ ایک دفعہ میں آنکھوں پر پٹی باندھے اماں جان کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھا کہ ٹھوکر لگی اور منہ کے بل گر پڑا جس کی وجہ سے ہونٹ کٹ گیا اور منہ سے خون جاری ہو گیا۔ اتفاق سے اسی لحظہ ابا جان زنانے میں داخل ہوئے اور اچانک میرے منہ سے یوں خون بہتا دیکھ کر بے ہوش ہو گئے۔

ہم گھر میں شور نہ مچا سکتے تھے۔ اگر میں اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ باہر دالان میں کبھی کرکٹ کھیل رہا ہوتا تو ہمیں حکم ملتا کہ یہاں مت کھیلو، اور ہم منہ لٹکائے وہاں سے چل دیتے۔ لیکن بعض اوقات وہ ہمارے کھیل میں خود بھی شریک ہو جایا کرتے۔ ہمارے ہاتھ ان کی طرف گیند پھینکتے پھینکتے تھک جاتے مگر وہ بلا تھامے ’ٹھپ ٹھپ‘ کرتے رہتے۔ ایک دفعہ وہ اندر بیٹھے تھے۔ میں نے ہٹ جو لگائی تو گیند دروازے کے شیشے کو توڑتی ان کے کمرے میں جا گری۔ اس دن سے ہمیں کرکٹ کھیلنے کی ممانعت کر دی گئی۔ کئی بار کھلی بہار میں جب میں کوٹھے پر پتنگ اڑا رہا ہوتا تو وہ دبے پاؤں اوپر آ جاتے اور میرے ہاتھ سے پتنگ لے کر خود اڑانے لگتے۔ مگر مجھے یاد ہے کہ انھوں نے جب بھی کسی اور پتنگ سے پیچ لڑایا تو ہمیشہ ہماری پتنگ ہی کٹی۔

ہمارے گھر میں کھانا اماں جان پکایا کرتی تھیں۔ ان کی مدد کے لیے ایک اور خاتون بھی تھیں جنھیں میں بڑی اماں کہا کرتا۔ ان کے علاوہ ہماری کوٹھی کے پیچھے ایک نومسلموں کا محلہ تھا جس کی لڑکیاں اماں جان سے قرآن مجید کا سبق لینے آتیں ، سینا پرونا سیکھتیں اور گھر کا کام کاج بھی کرتیں۔

مجھے خواب کی طرح یاد ہے کہ ہمارے یہاں ایک مرتبہ ایک مہمان آ کر ٹھہرے تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار انھیں ابا جان کو اقبال کہہ کر پکارتے سنا۔ یہ متناسب جسم،میانہ قد، باریش بزرگ نہایت خوش پوش، خوش باش اور خوش خور تھے۔ بمبئی سے آئے تھے اور مجھے چاکلیٹ کا ڈبہ تحفہ کے طور پر دیا تھا۔ آپ کے قہقہے سارے گھر میں گونجتے رہتے اور آپ کے لیے اماں جان روز طرح طرح کے کھانے پکاتیں۔ آپ کا نام مولانا محمد علی تھا۔ یہ وہی محمد علی تھے جن کے متعلق اس زمانے میں مجھے ایک شعر حفظ ہو گیا تھا   ؎

بولی اماں محمد علی کی

جان، بیٹا!خلافت پہ دے دو

دو ایک مرتبہ میں ابا جان اور اماں جان کے ساتھ سیالکوٹ بھی گیا۔ تب دادا جان بقید حیات تھے، گو بہت ضعیف ہو چکے تھے اور اپنے کمرے میں ہمیشہ چار پائی پر بیٹھے رہتے۔ میں ان کے پاس جاتا تو آنکھوں کو اپنے ہاتھ کا سایہ دے کر مجھے دیکھتے اور پوچھتے کہ کون ہے۔ ؟جب میں اتنا بتاتا کہ میں جاوید ہوں تو ہنس پڑتے، طاق میں سے ایک ٹین کا ڈبہ اٹھاتے اور اس میں سے برفی نکال کر مجھے کھانے کو دیتے۔ سیالکوٹ کے مکان میں یا محلہ چوڑیگراں کی گلیوں میں جہاں میں بھاگتا پھرتا تھا، وہیں ابا جان کا بچپن بھی گزرا تھا۔

میرے بچپن میں رمضان کا مہینہ سردیوں میں آیا کرتا اور عید بھی سردیوں میں آتی تھی۔ رمضان کے دنوں میں اماں جان باقاعدہ روزے رکھتیں اور قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتیں۔ گھر کے ملازم بھی روزے رکھتے۔ مجھے سحری کھانے کا بے حد شوق تھا اور ایک آدھ بار ابا جان کے ساتھ سحری کھانا بھی یاد پڑتا ہے۔ وہ روزہ کبھی کبھار رکھتے تھے اور جب رکھتے، تو ہر نصف گھنٹے کے بعد علی بخش کو بلوا کر پوچھتے کہ افطاری میں کتنا وقت باقی ہے۔ (۱)

جب عید کا چاند دکھائی دیتا تو گھر میں بڑی چہل پہل ہو جاتی۔ میں عموماً ابا جان کو عید کا چاند دکھایا کرتا تھا۔ گو مجھے نہانے سے سخت نفرت تھی، لیکن اس شب گرم پانی سے اماں جان مجھے نہلاتیں اور میں بڑے شوق سے نہاتا۔ نئے کپڑے یا جوتوں کا نیا جوڑا سرہانے رکھ کر سوتا۔ صبح اٹھ کر نئے کپڑے پہنے جاتے، عیدی ملتی، کمخواب کی ایک اچکن جس کے نقرئی بٹن تھے، مجھے ہر عید پر اماں جان پہنایا کرتیں سر پر تلے کی گول ٹوپی پہنتا اور مجھے کلائی پر باندھنے کے لیے ایک سونے کی گھڑی بھی دی جاتی جو افغانستان کے بادشاہ نادر شاہ نے میرے لیے تحفے کے طور پر بھیجی تھی۔ سج دھج کر میں ابا جان کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے کے لیے جاتا۔ ان کی انگلی پکڑے شاہی مسجد میں داخل ہوتا اور ان کے ساتھ عید کی نماز ادا کرتا۔ نماز سے فارغ ہو کر ہم گھر آتے۔ ابا جان کی عادت تھی کی وہ عید کے روز سویوں پر دہی ڈال کر کھایا کرتے تھے۔ سارا دن انھیں ملنے والوں کا تانتا بندھا رہتا اور دن کھاتے پیتے، ہنستے کھیلتے گزر جاتا۔ رات آتی تو اماں جان سونے کی گھڑی اور اچکن اتروا لیتیں اور پھر اگلی عید تک مجھے ان کا انتظار کرنا پڑتا۔

کبھی بیمار ہوتا تو اماں جان اور ابا جان بہت پریشان ہو جاتے۔ میرے سرہانے روپوں کے نوٹ رکھے جاتے اور کھیلنے کے لیے اماں جان مجھے نو اشرفیاں دیتیں جو میری پیدائش کے وقت ابا جان کے مختلف احباب سے بطور تحفہ ملی تھیں۔ اماں جان کا خیال تھا کہ اگر بچہ بیمار ہو اور اسے کھیلنے کے لیے روپے یا اشرفیاں دی جائیں تو وہ جلد صحت یاب ہو جاتا ہے۔ ابا جان مجھ سے بار بار پوچھتے کہیں درد تو نہیں ہو رہا، اور اگر میں انکار سے سر ہلاتا تو کہتے:’’منہ سے بولو بیٹا!سر مت ہلاؤ۔ ‘‘میرا بچپن زیادہ تر تنہائی میں گزرا۔ ۱۹۳۰ء میں منیرہ پیدا ہوئی لیکن وہ مجھ سے چھ سال چھوٹی تھی اس لیے ہم اکٹھے کھیل بھی نہ سکتے تھے۔

مجھے وہ دن بھی خوب یاد ہے جب میں پہلی بار اسکول گیا۔ میری عمر کوئی پانچ ساڑھے پانچ سال کی ہو گی۔ اماں جان بہت فکر مند تھیں کہ میں سارا دن گھر سے دور کیسے رہ سکوں گا۔ ابا جان انھیں دلاسا دیتے رہے،لیکن ساتھ خود بھی علی بخش سے پوچھتے کہ جاوید کو لینے کوئی نہیں گیا۔ چھٹی ہونے پر جب میں گھر آیا تو اماں جان برآمدے میں کھڑی میری راہ تک رہی تھیں۔ ابا جان بھی اپنے کمرے سے اٹھ کر آ گئے اور مجھ سے پوچھنے لگے کہیں اداس تو نہیں ہو گئے تھے۔ بعد میں اسکول جانا ایک معمول بن گیا۔

مجھے موسیقی سے بھی خاصا لگاؤ تھا۔ لیکن ہمارے گھر میں نہ تو ریڈیو تھا اور نہ گراموفون بجانے کی اجازت تھی کیونکہ ابا جان ایسی چیزوں کو پسند نہ کرتے تھے۔ البتہ گانا سننے کا انھیں شوق ضرور تھا، اور اچھا گانے والوں کو جب کبھی گھر بلوا کر ان سے اپنا یا اوروں کا کلام سنتے تو مجھے بھی پاس بٹھا لیا کرتے۔ فقیر نجم الدین مرحوم ، ابا جان کو اکثر ستار بجا کر سنایا کرتے تھے۔ خود ابا جان کو جوانی میں ستار بجانے کا شوق رہ چکا تھا۔ لیکن جب وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے یورپ گئے تو اپنی ستار کسی دوست کو دے گئے۔ ۱۹۳۱ء میں جب گول میز کانفرنس میں شمولیت کے لیے انگلستان گئے تو اس وقت میری عمر کوئی سات سال کے لگ بھگ تھی۔ میں نے انھیں ایک اوٹ پٹانگ سا خط لکھا اور خواہش ظاہر کی کہ جب وہ واپس تشریف لائیں تو میرے لیے گراموفون لیتے آئیں۔ گراموفون تو وہ لے کر نہ آئے لیکن میرا انھیں انگلستان میں لکھا ہوا خط ان کی مندرجہ ذیل نظم کی شان نزول کا باعث ضرور بنا   ؎

 

دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر

نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر

 

خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو

سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر

 

اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احساں

سفال ہند سے مینا و جام پیدا کر

 

میں شاخِ تاک ہوں ، میری غزل ہے میرا ثمر

مرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر

 

مرا طریق امیری نہیں ،فقیری ہے

خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر

 

اماں جان کی بڑی آرزو تھی کہ ابا جان تمام دن گھر پر پڑے رہنے کی بجائے کہیں ملازمت کر لیں۔ یہ سن کر ابا جان عموماً مسکرا دیا کرتے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ بچپن میں میں نے بھی اس معمے کو سلجھانے کی بارہا کوشش کی کہ میرے ابا جان کام کیا کرتے ہیں۔ اگر کوئی اجنبی مجھ سے یہ سوال پوچھ بیٹھتا تو میں خاموش ہو جاتا کیونکہ میں خود نہ جانتا تھا۔ اسی طرح اماں جان اس بات پر مصر رہتیں کہ کرائے کا گھر چھوڑ کر اپنا گھر بنوائیے۔ ان ایام میں ہم میکلوڈ روڈ پر رہا کرتا تھے۔

چند سالوں بعد اماں جان کے ،گھر کے اخراجات سے بچائے ہوئے، روپوں سے زمین خریدی گئی اور ’جاوید منزل‘ کی تعمیر شروع ہوئی۔ زمین اور مکان اماں جان کے نام تھے اور انہی کی ملکیت تھے۔ بہر حال،جب تعمیر مکمل ہو گئی تو ہم میو روڈ پر اٹھ آئے۔ لیکن اماں جان نئے گھر میں بیمار گاڑی پر ہی لائی گئیں کیونکہ ان دنوں وہ سخت علیل تھیں۔ انھیں چار پائی پر لٹائے اندر لایا گیا۔ دوسرے دن ابا جان جب انھیں دیکھنے کے لیے زنانے میں آئے تو انھوں نے اپنے ہاتھ میں کچھ کاغذات اٹھا رکھے تھے۔ آپ نے اماں جان سے کہا کہ اس مکان کو جاوید کے نام ہبہ کر دو لیکن اماں جان نہ مانتی تھیں وہ کہتی تھیں کہ مجھے کیا معلوم یہ لڑکا بڑا ہو کر کیسا نکلے۔ میں انشاء اللہ جلد صحت یاب ہو جاؤں گی۔ آپ کسی قسم کا فکر نہ کریں۔ لیکن ابا جان نے انھیں آگاہ کیا کہ زندگی اور موت تو خدا کے ہاتھ میں ہیں۔ اس پر انھوں نے ہبہ نامہ پر دستخط کر دیئے۔ یوں ’جاوید منزل‘ میرے نام منتقل ہو گئی۔ ابا جان نے کرایہ نامہ بھی تحریر کیا جس کی رو سے آپ میرے کرایہ دار کی حیثیت سے رہنے  لگے۔ آپ سامنے کے تین کمروں میں رہائش کا کرایہ ہر ماہ کی ۲۱تاریخ کو ادا کرتے تھے۔

نئے گھر میں قدم رکھنے کے تیسرے یا چوتھے روز اماں جان پر اچانک غشی کا عالم طاری ہو گیا۔ کوئی پانچ بجے شام کے قریب جب مجھے ان کے پاس لے جایا گیا تو  وہ بستر پر بیہوش پڑی تھیں۔ میں نے ان کے حلق میں شہد ٹپکایا اور روتے ہوئے کہا کہ اماں جان میری طرف دیکھئے۔ انھوں نے آنکھیں کھول دیں۔ لحظہ بھر کے لیے میری طرف دیکھا اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔ اسی شام انھوں نے غشی کے عالم میں داعی اجل کو لبیک کہا اور رات کو دفن کر دی گئیں۔ ان کی وفات کے وقت میری عمر دس برس تھی اور منیرہ کی چار برس۔

اماں جان کے انتقال کے بعد ہم دونوں بچے ابا جان کے زیادہ قریب آ گئے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جس وقت اماں جان فوت ہوئیں تو ہم دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے، روتے روتے ابا جان کے کمرے کی طرف گئے۔ وہ حسب معمول اپنی چار پائی پر نیم دراز تھے کیونکہ ان دنوں خود بھی بیمار رہتے تھے۔ گلا بیٹھ چکا تھا اور صاف بول نہ سکتے تھے۔ میں اور منیرہ ان کے دروازے تک پہنچ کر ٹھٹھک سے گئے۔ یوں روتے کھڑا دیکھ کر انھوں نے انگلی کے اشارے سے ہمیں قریب آنے کو کہا، اور جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ایک پہلو میں مجھے اور دوسرے میں منیرہ کو بٹھا لیا۔ پھر اپنے دونوں ہاتھ پیار سے ہمارے کندھوں پر رکھ کر قدرے کرختگی میں مجھ سے گویا ہوئے:’’تمہیں یوں نہ رونا چاہیے!یاد رکھو‘ تم مرد ہو‘ اور مرد کبھی نہیں رویا کرتے۔ ‘‘اس کے بعد اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ انھوں نے ہم دونوں بہن بھائیوں کی پیشانیوں کو باری باری چوما۔

اماں جان کی بے وقت موت نے ابا جان کو پژمردہ سا کر دیا۔ لیکن اب وہ ہم دونوں بچوں کا بے حد خیال رکھنے لگے۔ ہمیں حکم تھا کہ ان سے مل کر اسکول جایا کریں۔ جانے سے پہلے، اور آنے کے بعد وہ ہم دونوں کی پیشانیوں پر بوسہ دیا کرتے۔ مگر مجھے اس بوسے میں شفقت کی بجائے ہمیشہ معمول کی جھلک دکھائی دیتی گویا وہ ہمیں اس لیے چومتے ہیں کہ کہیں ہم دونوں یہ تصور نہ کر لیں کہ ہمیں ابا جان کی محبت میسر نہیں ہے۔ بہرحال، منیرہ کو ان کا قرب حاصل تھا اور رات کو عموماً انہی کے بستر میں سو جایا کرتی۔ اس کی ہر خواہش بغیر کسی حیل و حجت کے پوری کر دی جاتی، اور اگر میں کبھی اسے جھڑکتا یا مار بیٹھتا تو میری شامت آ جاتی۔ انھیں ہم دونوں بہن بھائیوں کے جھگڑے پر بہت رنج ہوتا تھا۔ وہ اپنے احباب سے اکثر مایوسانہ انداز میں کہا کرتے کہ یہ دونوں آپس میں لڑتے رہتے ہیں اور مجھ سے دیکھا نہیں جاتا۔ اور احباب کے یہ کہنے کے باوجود کہ جس گھر میں بچے ہوں ، وہاں لڑائی جھگڑا ہوا ہی کرتا ہے، ان کی تسلی نہ ہوتی۔ مجھ سے بار ہا جل کر کہا کرتے ’’تمہارا دل پتھر کا ہے۔ تم بڑے سنگ دل ہو۔ اتنا نہیں جانتے کہ اس بہن کے سوا تمہارا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ ‘‘

اماں جان کی وفات کے کچھ عرصے بعد وہ مجھے اس خیال سے اپنے ہمراہ بھوپال لے گئے کہ ان کی عدم موجودگی میں منیرہ سے لڑتا نہ رہوں۔ اس سفر کی دھندلی سی یاد اب تک میرے ذہن میں موجود ہے۔ بہت لمبا سفر تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کئی دن اور کئی راتیں ریل گاڑی ہی میں گزریں۔ رات کو علی بخش مجھے اوپر کی برتھ پر سلا دیتا اور ابا جان نیچے کی برتھ پر سوتے۔ ناشتہ، دوپہر اور رات کا کھانا بھی وہیں منگوا لیا جاتا۔ جب ہم بھوپال پہنچے تو اسٹیشن پر محمد شعیب استقبال کے لیے موجود تھے۔ ہم موٹر کار میں شیش محل پہنچے جہاں ابا جان کی رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔ شیش محل ایک پرانی وضع کی نہایت وسیع و عریض عمارت تھی۔ اتنے بڑے بڑے کمرے تھے کہ مجھے رات کو ان میں سے گزرتے ڈر آیا کرتا۔

ہم بھوپال میں کوئی دو ایک ماہ ٹھہرے۔ وہاں ڈاکٹر باسط ابا جان کے معالج تھے اور ان کے گلے کا علاج برقی شعاعوں سے کرتے تھے۔ مجھے روز پڑھانے کے لیے ایک استاد بھی شیش محل آیا کرتے۔ شیش محل کے قریب، ایک جھیل کے کنارے، میں ڈاکٹر باسط کے بچوں کے ساتھ کھیلا کرتا۔ ڈاکٹر باسط کا گھر شیش محل کے مقابل تھا اور اس کے سامنے غالباً ایک وسیع میدان تھا۔

تقریباً ہر دوسرے تیسرے روز میں ابا جان کے ساتھ سید راس مسعود کے ہاں ’ریاض منزل ‘جایا کرتا۔ وہ میری زندگی میں دوسری ایسی شخصیت تھے جنھیں میں نے ابا جان کو اقبال کہہ کر پکارتے سنا۔ سید راس مسعود قد میں ابا جان سے بہت اونچے،قومی ہیکل اور گورے چٹے بزرگ تھے۔ مجھ سے ہر وقت مذاق کرتے رہتے۔ میں اور ابا جان ہفتے میں دو ایک بار رات کا کھانا سید راس مسعود اور بیگم امت المسعود کے ساتھ ’ریاض منزل‘ میں کھایا کرتے بسا اوقات ہم اور جگہوں پر بھی کھانے پر مدعو ہوتے۔ ایک مرتبہ ہم کسی دعوت سے واپس آ رہے تھے اور گاڑی میں ابا جان کے ساتھ ادھیڑ عمر کی فربہ سی ہنس مکھ خاتون بیٹھی تھیں۔ وہ مجھ سے نہایت شفقت سے پیش آئیں۔ بعد میں ابا جان نے مجھے بتایا کہ وہ سروجنی نائیڈو تھیں۔ اسی طرح ایک شام بیگم صاحبہ بھوپال کے ہاں چائے پر مجھے اپنے ساتھ لے گئے کیونکہ بیگم صاحبہ نے فرمائش کر رکھی تھی کہ جاوید کو ساتھ لائیے۔ سید راس مسعود ہمارے ہمراہ تھے۔ جب ان دونوں بزرگوں نے بیگم صاحبہ بھوپال کو جھک کر فرشی سلام کیے تو مجھے بڑی ہنسی آئی۔

بہرحال، بھوپال میں میرا بیشتر وقت ابا جان کی نگاہوں کے سامنے ہی گزرتا تھا۔ رات کو کھانے کی میز پر مجھے سکھایا کرتے کہ چمچہ اس طرح پکڑنا چاہیے اور کانٹا یوں۔ میں فطرتاً کچھ شرمیلا واقع ہوا تھا، اس لیے جب کبھی انھیں لوگ وہاں ملنے آتے یا وہ لوگوں کے ہاں جاتے تو مجھ سے ہمیشہ کہا کرتے کہ لوگوں کے سامنے خاموش بیٹھے رہنے کی بجائے ان سے بات چیت کرنی چاہیے۔

بھوپال سے واپسی پر ہم چند دنوں کے لیے دہلی ٹھہرے۔ وہاں ابا جان بذات خود مجھے تاریخی مقامات کی سیر کرانے کے لیے لے گئے۔ پہلے لال قلعہ دیکھا۔ پھر نظام الدین اولیا گئے۔ اور پھر نئی دہلی سے ہوتے ہوئے قطب پہنچے۔ میرا دل چاہا کہ قطب مینار کے اوپر چڑھ جاؤں ، اور میں نے ابا جان کو بھی ساتھ آنے کے لیے کہا مگر وہ بولے ’’تم جاؤ، میں اتنی بلندی پر نہیں چڑھ سکتا، اور جب اوپر پہنچو تو نیچے کی طرف مت دیکھنا، کہیں دہشت سے گر نہ پڑو۔ ‘‘ بالا خر ہم واپس لاہور آ گئے

گرمیوں میں ابا جان باہر سوتے اور میری چارپائی ان کے قریب ہوا کرتی۔ رات گئے تک وہ جاگتے رہتے کیونکہ انھیں عموماً رات کو تکلیف ہوتی تھی۔ اور جب شعر کی آ مد ہوتی تو ان کی طبیعت اور بھی زیادہ خراب ہو جایا کرتی۔ چہرے پر تغیر رونما ہو جاتا، بستر پر کروٹیں بدلتے، کبھی اٹھ کر بیٹھ جاتے اور کبھی گھٹنوں میں سر دے دیتے۔ اکثر اوقات وہ رات کے دو یا تین بجے علی بخش کو تالی بجا کر بلاتے اور اس سے اپنی بیاض اور قلم دوات لانے کو کہتے۔ جب وہ لے آتا تو اشعار لکھ دیتے۔ اشعار لکھ چکنے کے بعد ان کے چہرے پر آہستہ آہستہ سکون کے آثار نمودار ہو جاتے اور وہ آرام سے لیٹ جاتے۔ بعض اوقات تو وہ علی بخش کو اس غرض کے لئے بلواتے کہ میری پائینتی پر پڑی ہوئی چادر کو میرے اوپر ڈال دو۔

ابا جان کی عادت، سر کے نیچے ہاتھ رکھ کر، بستر پر ایک طرف سونے کی تھی۔ اس حالت میں ان کا ایک پاؤں اکثر ہلتا رہتا جس سے دیکھنے والا یہ اندازہ لگا سکتا کہ وہ ابھی سوئے نہیں بلکہ کچھ سوچ رہے ہیں۔ لیکن جب وہ گہری نیند سو جاتے تو خراٹے لیا کرتے،اور نہایت بھیانک قسم کی آوازیں نکلتیں۔ کئی بار میں ان کے خراٹوں سے ڈر جایا کرتا۔

ابا جان کو میں نے بیسیوں مرتبہ خودبخود مسکراتے یا روتے دیکھا ہے۔ جب کبھی تنہائی میں بیٹھے اپنا کوئی شعر گنگناتے تو ان کا بے جان سا ہاتھ عجیب تغافل کے عالم میں اٹھتا اور ہوا میں گھوم کر اپنی پہلی جگہ پر آ گرتا۔ ساتھ ہی ان کے سر کو ہلکی سی جنبش ہوتی۔ صبح کو نماز بہت کم چھوڑتے تھے۔ گرمیوں میں باہر رکھے ہوئے تخت پر ہی نیت باندھ لیتے، دھوتی اور بنیان زیب تن ہوتی اور سرپر تولیہ رکھ لیتے۔ ان کے کمرے کی حالت پریشان سی رہتی تھی، دیواریں گرد و غبار سے اٹی ہوتیں۔ بستر ان کی دھوتی اور بنیان کی طرح میلا ہو جاتا مگر انھیں بدلوانے کا خیال نہ آتا۔ منہ دھونے اور نہانے سے گھبراتے، اور اگر کبھی مجبوراً باہر جانا پڑتا تو کپڑے بدلتے وقت سرد آہیں بھرا کرتے۔ وہ فطرتاً سست تھے اس لئے اگر کہیں وقت کی پابندی ہوتی تو انھیں ہمیشہ دیر ہو جایا کرتی۔ ویسے چارپائی پر نیم دراز پڑے رہنے میں بہت خوش رہتے۔ کئی بار دوپہر کا کھانا کسی کتاب میں منہمک ہونے کی وجہ سے بھول جایا کرتے اور جب وہ کتاب ختم ہو جاتی تو علی بخش کو بلوا کر معصومانہ انداز میں پوچھتے ’’کیوں بھئی، میں نے کھانا کھا لیا ہے؟‘‘ شام کو گھر کے دالان ہی میں دو ایک چکر لگا لیا کرتے۔ اس کے سوا ان کی زندگی میں بظاہر کامل جمود تھا۔

اماں جان کی وفات کے بعد ابا جان صرف ایک بار زنانے میں آئے، وہ بھی تب جب مجھے بخار آیا تھا۔ آپ کو پہلی بار تب معلوم ہوا کہ زنانہ حصے میں کمروں کی تعداد کتنی ہے۔ اسی طرح اماں جان کی وفات کے بعد ابا جان نے خضاب لگانا بھی ترک کر دیا تھا۔ ایک دن میں نے ان سے از سر نو خضاب شروع کرنے کو کہا تو مسکرا کر بولے ’’میں اب بوڑھا ہو چکا ہوں ‘‘۔ میں نے پھر کہا ’’لیکن، ابا جان! ہم تو آپ کو جوان دیکھنا چاہتے ہیں۔ ‘‘چنانچہ شاید اس خیال سے کہ بچے میرے سفید بالوں کو دیکھ کر ضعیف سمجھنے لگے ہیں ، انھوں نے پھر سے خضاب لگانا شروع کر دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر چند مہینوں بعد پھر چھوڑ دیا اور میری ہمت نہ پڑی کہ ان سے دوبارہ خضاب شروع کرنے کو کہوں۔

اماں جان کی وفات کے کوئی دو ایک سال بعد منیرہ کی دیکھ بھال کے لئے ابا جان نے ایک جرمن خاتون کو علی گڑھ سے بلوایا، اور وہ ہمارے یہاں رہنے لگیں۔ ہم انھیں ،آپا جان، کہا کرتے۔ ان دنوں ہماری گھریلو زندگی میں ایک ترتیب سی آ گئی۔ ہم سب، ابا جان سمیت، دوپہر اور رات کا کھانا کھانے والے کمرے میں کھایا کرتے۔ منیرہ اور آپا جان، ہر شام ابا جان کے پاس بیٹھا کرتیں۔ ابا جان جرمن زبان بخوبی جانتے تھے، اس لئے آپا جان، سے جرمن ہی میں گفتگو کیا کرتے، اور منیرہ سے بھی کہتے کہ جرمن زبان سیکھو، جرمن عورتیں بڑی دلیر ہوتی ہیں۔ منیرہ ان دنوں جرمن زبان کے چند فقرے سیکھ گئی تھی، اس لئے وہ بھی ان سے جرمن میں بات چیت کرتی اور خوب ہنسی مذاق ہوتا۔

مجھے مصوری سے بھی دلچسپی تھی لیکن ابا جان کو میرے اس شوق کا علم نہ تھا۔ ایک مرتبہ میں نے ایک تصویر بنائی جو اتفاق سے خاصی اچھی بن گئی۔ ان دنوں تایا جان سیالکوٹ سے لاہور آئے ہوئے تھے اور ہمارے ہاں مقیم تھے۔ تایا جان خود انجینئر تھے لیکن جب انھوں نے میری بنائی ہوئی تصویر دیکھی تو بے حد خوش ہوئے۔ فوراً تصویر ہاتھ میں لے کر ابا جان کو دکھانے چلے گئے۔ میں بھی ان کے پیچھے پیچھے گیا۔ ابا جان کو پہلے تو یقین نہ آیا کہ تصویر میں نے بنائی ہے، لیکن جب یقین آ گیا تو میری حوصلہ افزائی کرنے لگے۔ کچھ عرصے بعد انھوں نے فرانس، اطالیہ اور انگلستان سے میرے لئے خاص طور پر آرٹ کی کتب منگوائیں۔ انھیں خیال تھا کہ دنیا کے بہترین مصوروں کے شاہکاروں کو دیکھ کر مصوری کے لئے میرا شوق بڑھے گا لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا۔ جب میری نظر سے مصوری کے شاہکار گزرے تو میں نے اس خیال سے ہمت ہار دی کہ اگر میں ساری عمر بھی کوشش کروں تو ایسی خوبصورت تصاویر نہیں بنا سکتا۔

ابا جان کی تمنا تھی کہ میں تقریر کرنا سیکھوں۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ میں کشتی لڑا کروں۔ چنانچہ اس سلسلے میں میرے لیے گھر میں ایک اکھاڑہ بھی کھدوایا گیا تھا۔ وہ اکثر کہا کرتے کہ اکھاڑے کی مٹی میں ڈنڑ پیلنا یا لنگوٹی باندھ کر لیٹ رہنا صحت کے لیے نہایت مفید ہے۔ پھر بڑی عید کے روز مجھے ہمیشہ تلقین کیا کرتے کہ بکرے کے ذبح ہوتے وقت میں وہاں موجود رہوں۔ لیکن ان کا اپنا یہ حال تھا کہ کسی قسم کا خون بہتے نہ دیکھ سکتے تھے۔ ابا جان میں قوت برداشت کی انتہا تھی، مگر جب ایک مرتبہ کسی سے ناراض ہو جاتے تو پھر ساری عمر اس کا چہرہ دیکھنے کے روادار نہ ہوتے۔ انھیں کبوتر بازی کا شوق بھی رہ چکا تھا۔ آخری عمر میں ان کی خواہش تھی کہ گھر کی چھت پر ایک وسیع پنجرہ بنوایا جائے جس میں لاتعداد کبوتر چھوڑ دیئے جائیں اور ان کی چار پائی ہر وقت کبوتروں کے درمیان رہا کرے۔ انھیں یقین تھا کہ کبوتروں کے پروں کی ہوا صحت کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے۔

ابا جان کے عقیدت مندوں میں ایک حجازی عرب بھی تھے جو کبھی کبھار انھیں قرآن مجید پڑھ کر سنایا کرتے۔ میں نے بھی ان سے قرآن مجید پڑھا ہے۔ ان کی آواز بڑی پیاری تھی۔ ابا جان جب بھی ان سے قرآن مجید سنتے، مجھے بلا بھیجتے اور اپنے پاس بٹھا لیتے۔ ایک باز انھوں نے سورۃ مزمل پڑھی تو آپ اتنا روئے کہ تکیہ آنسوؤں سے تر ہو گیا۔ جب وہ ختم کر چکے تو آپ نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور مرتعش لہجے میں بولے ’’تمہیں یوں قرآن پڑھنا چاہیے!‘‘اسی طرح مجھ سے ایک مرتبہ مسدس حالی پڑھنے کو کہا، اور خاص طور پر وہ بند …..جب قریب بیٹھے ہوئے میاں محمد شفیع نے دہرایا   ؎

’’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا!‘‘

تو آپ سنتے ہی آبدیدہ ہو گئے۔ میں نے اماں جان کی موت  پر انھیں آنسو بہاتے نہ دیکھا تھا مگر قرآن مجید سنتے وقت یا اپنا کوئی شعر پڑھتے وقت یا رسولؐ اللہ کا اسم مبارک کسی کی نوک زبان پر آتے ہی ان کی  آنکھیں بھر آیا کرتیں۔

ابا جان کو انگریزی لباس سے سخت نفرت تھی۔ مجھے ہمیشہ شلوار اور اچکن پہننے کی تلقین کیا کرتے۔ منیرہ بھی اگر اپنے بالوں کو دو حصوں میں گوندھتی تو نا پسند کرتے اور کہتے :’’اپنے بال اس طرح مت گوندھا کرو، یہ یہودیوں کا انداز ہے۔ ‘‘اور اگر میں کبھی غلطی سے اپنی قمیضوں یا شلواروں کا کپڑا بڑھیا قسم کا خرید لاتا تو بہت خفا ہوتے اور کہتے ’’تم اپنے آپ کو کسی رئیس کا بیٹا سمجھتے ہو؟تمہاری طبیعت میں امارت کی بو ہے۔ ا ور اگر تم نے اپنے یہ انداز نہ چھوڑے تو میں تمہیں کھدر کے کپڑے پہنوا دوں گا۔ ’’میرے لیے بارہ آنے گز سے زائد قمیص کا کپڑا خریدنا یا آٹھ روپے سے زائد کا بوٹ خریدنا جرم تھا جس کی سزا خاصی کڑی تھی۔ لیکن اگر انھیں کبھی یہ معلوم ہو جاتا کہ میں آج پلنگ پر سونے کی بجائے زمین پر سویا تو بڑے خوش ہوا کرتے۔

اپنی زندگی میں صرف ایک بار انھوں نے مجھے سنیما دیکھنے کی اجازت دی۔ وہ ایک انگریزی فلم تھی جس میں نپولین کا عشق دکھایا گیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ابا جان کو یہ نہ بتایا گیا بلکہ کہا گیا کہ اس فلم میں نپولین کے حالات زندگی ہیں۔ ابا جان دنیا بھر کے جری سپہ سالاروں سے  والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ مجھے اکثر خالد بن ولید ؓ اور فاروق اعظمؓ کی باتیں سنایا کرتے۔ ایک دفعہ انھوں نے مجھے بتایا کہ نپولین کے اجداد عرب سے آئے تھے،اور واسکوڈی گاما کو عربوں ہی نے ہندوستان کا راستہ دکھایا۔

مجھے کہانیوں کی کتابیں پڑھنے کا بھی بے حد شوق تھا۔ باغ و بہار (قصہ چہار درویش)حاتم طائی،طلسم ہو شربا اور عبد الحکیم شرر کے سب ناول پڑھ ڈالے تھے۔ ساتویں جماعت کے امتحان کے قریب میرے ہاتھ الف لیلہ لگ گئی،اور اس کتاب سے میں اس قدر مسحور ہوا کہ رات گئے تک اسے پڑھتا رہتا۔ امتحان سر پر آ گئے لیکن میں نے الف لیلہ کو نہ چھوڑا بلکہ رات کو امتحان کی تیاری کرنے کی بجائے الف لیلہ پڑھتا رہتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ساتویں جماعت کے امتحان میں ناکام رہ گیا۔ جب اباجان کو علم ہوا کہ میں الف لیلہ میں منہمک ہونے کی وجہ سے امتحان میں ناکام رہا ہوں تو برہم نہ ہوئے، کہنے لگے ’’اگر تم امتحان میں کامیاب ہو جانے کے بعد الف لیلہ پڑھتے تو تمہیں اور بھی لطف آتا‘‘۔

ایک مرتبہ گرمیوں کے موسم میں ابا جان نے کشمیر جانے کا ارادہ بھی کیا کیونکہ ان کے احباب کا اصرار تھا کہ وہ تبدیلی آب و ہوا کی خاطر لاہور سے تھوڑے عرصے کے لیے کہیں باہر چلے جائیں۔ انھوں نے منیرہ اور مجھ سے بھی ساتھ چلنے کو کہا۔ ہم بڑے خوش تھے کہ ابا جان کے  ہمراہ کشمیر جا رہے ہیں۔ لیکن کشمیر میں ابا جان کا داخلہ ممنوع تھا لہٰذا انھوں نے حکومت سے اجازت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ عرصے تک خط و کتابت جاری رہی۔ مگر جب اجازت ملی تو گرمیوں کا موسم نکل چکا تھا۔ یوں وہ اپنی زندگی میں آخری بار وادی کشمیر میں کچھ دن گزارنے سے محروم رہ گئے۔ اسی طرح بیت اللہ کے حج پر جانے کا قصد بھی کیا، لیکن وہ بھی پورا نہ ہو سکا۔

ابا جان کو معلوم تھا کہ مجھے بڑی بڑی شخصیتوں کے آٹو گراف لینے کا شوق ہے۔ گو وہ میری اس عادت کو نہ تو برا سمجھتے اور نہ سراہتے، لیکن ایک شام انھوں نے مجھے  خاص طور پر بلوا کر کہا کہ ہمارے یہاں ایک مہمان آرہے ہیں ، جب وہ آ کر بیٹھ جائیں تھوڑی دیر بعد میں کمرہ میں داخل ہوں اور ان سے آٹو گراف دینے کی استدعا کروں۔ چنانچہ جب مہمان تشریف لے آئے تو میں ان کے حکم کے مطابق کمرے میں داخل ہوا۔ ابا جان کے پاس ایک دبلے پتلے مگر نہایت خوش پوش شخص بیٹھے تھے۔ ان کی نگاہوں میں عقاب جیسی پھرتی تھی۔ اور ان کے ساتھ سفید کپڑوں میں ملبوس ایک دبلی پتلی خاتون بھی تھیں۔ ابا جان نے ان سے میرا تعارف کرایا اور میں نے آٹو گراف کی کتاب آگے بڑھا دی۔ مہمان نے مجھ سے انگریزی میں پوچھا ’’کیا تم بھی شعر کہتے ہو؟‘‘میں نے کہا ’’جی نہیں !‘‘اس پر انھوں نے سوال کیا ’’پھر تم بڑے ہو کر کیا کرو گے؟‘‘میں خاموش رہا۔ وہ ہنستے ہوئے، ابا جان سے مخاطب ہوئے ’’کوئی جواب نہیں دیتا! ‘‘’’یہ جواب نہیں دے گا۔ ‘‘ ابا جان بولے۔ ’’کیونکہ یہ اس دن کا منتظر ہے جب آپ اسے بتائیں گے کہ اسے کیا کرنا ہے۔ ‘‘ میری آٹو گراف کی کتاب پر دستخط کر دیے گئے۔ یہ میری خالق پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور محترمہ فاطمہ جناح سے پہلی ملاقات تھی تب قائد اعظم کو پنجاب میں زیادہ لوگ نہ جانتے تھے اور مسلم عوام پاکستان کے تصور سے ابھی روشناس نہ ہوئے تھے۔ بہرحال، میں نے اس مختصر سے عرصے میں یہ اندازہ لگا لیا کہ ابا جان اُن کی کس قدر عزت کرتے ہیں۔

آخری ایام میں ابا جان کی نظر بہت کمزور ہو گئی تھی اس لیے مجھے حکم تھا کہ انھیں ہر روز صبح اخبار پڑھ کر سنایا کروں۔ اگر کسی لفظ کا تلفظ غلط ادا کر جاتا تو بہت خفا ہوتے۔ اسی طرح رات کو میں انھی کی کوئی غزل گا کر بھی سنایا کرتا۔ ان دنوں مجھے ان کی صرف ایک غزل یاد تھی  ع

گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر!

ابا جان کے سامنے وہ غزل پڑھنا میرے لیے ایک عذاب ہوا کرتا۔ اگر کوئی شعر غلط پڑھ جاتا تو وہ ناراض ہوتے اور کہتے ’’شعر پڑھ رہے ہو یا نثر؟‘‘

ان کی وفات سے کوئی دو ایک ماہ پیشتر ایک شام پنڈت نہرو کو ان سے ملنے کے لیے آنا تھا۔ ابا جان نے مجھے بلا کر حکم دیا کہ پنڈت نہرو کے استقبال کے لیے ڈیوڑھی میں کھڑا رہوں۔ میں نے تعجب سے پوچھا پنڈت نہرو کون ہیں ؟کہنے لگے ’’جس طرح محمد علی جناح مسلمانوں کے قائد ہیں ، اسی طرح پنڈت نہرو ہندوؤں کے سربراہ ہیں۔ ‘‘میں باہر کھڑا پنڈت جی کا انتظار کرتا رہا۔ جب وہ تشریف لائے تو میں نے انھیں ’’السلام علیکم‘‘ کہا اور انھوں نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر سلام کا جواب دیا، میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر نہایت شفقت سے میری کمر میں بازو ڈال کر ابا جان کے کمرے میں داخل ہوئے۔ ابا جان ان سے بڑے تپاک سے ملے اور صوفے پر بیٹھنے کو کہا۔ لیکن پنڈت جی نے نیچے فرش پر بیٹھنے پر اصرار کیا۔ بالآخر وہ فرش پر چوکڑی مار کر بیٹھ گئے، اور ابا جان بستر پر لیٹے ان سے باتیں کرنے لگے۔

ابا جان سے لوگ گھر پر ہی ملنے آتے۔ ہر شام احباب کی محفل جما کرتی۔ ان کی چارپائی کے گرد بہت سی کرسیاں رکھی ہوتیں اور لوگ ان پر آ کر بیٹھ جایا کرتے۔ آپ چارپائی پر لیٹے، ان سے باتیں کرتے رہتے اور ساتھ ساتھ حقہ بھی پیتے جاتے۔ رات کا کھانا نہ کھاتے تھے، صرف کشمیری چائے پینے پر اکتفا کرتے۔ رات گئے تک علی بخش ان کے پاؤں دباتا اور اگر میں کبھی دبانے بیٹھتا تو منع کر دیتے اور کہتے ’’تم ابھی چھوٹے ہو، تھک جاؤ گے۔ ‘‘

مجھے خاص طور پر حکم تھا کہ جب بھی ان کے پاس لوگ بیٹھے ہوں اور کوئی بحث مباحثہ ہو رہا ہو تو میں وہاں ضرور موجود رہوں۔ لیکن مجھے ان کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہ ہوا کرتی کیونکہ وہ میری سمجھ سے بالاتر ہوتیں۔ سو، میں عموماً موقع پا کر وہاں سے کھسک جایا کرتا جس پر انھیں بہت رنج ہوتا اور وہ اپنے احباب سے کہتے ’’یہ لڑکا نہ جانے کیوں میرے پاس بیٹھنے سے گریز کرتا ہے۔ ‘‘دراصل اب وہ تنہائی بھی محسوس کرنے لگے تھے اور اکثر اوقات افسردگی سے کہا کرتے ’’سارا دن یہاں مسافروں کی طرح پڑا رہتا ہوں ، میرے پاس آ کر کوئی نہیں بیٹھتا!‘‘

آخری رات ان کی چارپائی گول کمرے میں بچھی تھی۔ عقیدت مندوں کا جمگھٹا تھا۔ میں کوئی نو بجے کے قریب اس کمرے میں داخل ہوا تو پہچان نہ سکے۔ پوچھا کون ہے؟‘‘میں نے جواب دیا ’’میں جاوید ہوں۔ ‘‘ہنس پڑے اور بولے ’’جاوید بن کر دکھاؤ تو جانیں !‘‘پھر اپنے قریب بیٹھے ہوئے چودھری محمد حسین سے مخاطب ہوئے ’’چودھری صاحب!اسے جاوید نامہ کے آخیر میں وہ دعا ’’خطاب بہ جاوید‘‘ ضرور پڑھوا دیجیے گا۔ ‘‘

اس رات ہمارے ہاں بہت سے ڈاکٹر آئے ہوئے تھے۔ ہر کوئی ہراساں دکھائی دیتا تھا کیونکہ ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ آج کی رات مشکل سے کٹے گی۔ کوٹھی کے صحن میں کئی جگہوں پر، دو دو تین تین کی ٹولیوں میں ، لوگ کھڑے باہم سرگوشیاں کر رہے تھے۔ ابا جان سے ڈاکٹروں کی یہ رائے مخفی رکھی گئی۔ مگر وہ بڑے تیز فہم تھے۔ انھیں اپنے احباب کا بکھرا ہوا شیرازہ دیکھ کر یقین ہو گیا تھا کہ بساط عنقریب الٹنے والی ہے۔ اس کے باوجود وہ اس رات معمول سے زیادہ ہشاش بشاش نظر آتے تھے۔

مجھے بھی حالات سے آگاہ نہ کیا گیا اس لیے میں معمول کے مطابق اپنے کمرے میں جا کر سو رہا۔ مگر صبح طلوع آفتاب سے پیشتر مجھے علی بخش نے آ کر جھنجھوڑا اور چیختے ہوئے کہا:’’جاؤ دیکھو ! تمہارے ابا جان کو کیا ہو گیا ہے۔ ‘‘

نیند اچانک میری آنکھوں سے کافور ہو گئی۔ میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ گھر کے مختلف حصوں سے کراہنے اور سسکیاں بھرنے کی بھنچی ہوئی آوازیں اٹھ رہی تھیں۔ میں اپنے بستر سے اس خیال سے نکلا کہ جا کر دیکھوں تو سہی کہ انھیں کیا ہو گیا ہے۔ جب میں اپنے کمرے سے گزرتا ہوا ملحقہ کمرے میں پہنچا تو منیرہ تخت پر اکیلی بیٹھی، اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے چھپائے رو رہی تھی۔ مجھے ابا جان کے کمرے کی جانب بڑھتے دیکھ کر وہ میری طرف لپکی اور میرے بازو سے چمٹ گئی۔ اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے لیکن اس کے باوجود وہ میرے ساتھ چل رہی تھی۔ ہم دونوں ان کے کمرے کے دروازے تک پہنچ کر رک سے گئے۔ میں نے دہلیز پر کھڑے کھڑے اندر جھانکا۔ ان کے کمرے میں کوئی بھی نہ تھا۔ کھڑکیاں کھلی تھیں اور وہ چارپائی پر سیدھے لیٹے تھے۔ انھیں گردن تک سفید چادر سے ڈھانپ دیا گیا تھا جو کبھی کبھار ہوا کے جھونکوں سے ہل جاتی۔ ابا جان کی آنکھیں بند تھیں ، چہرہ قبلے کی طرف تھا، مونچھوں کے بال سفید ہو چکے تھے،اور سر کے بالوں کے کناروں پر میرے کہنے سے آخری بار لگائے ہوئے خضاب کی ہلکی سی سیاہی موجود تھی۔

منیرہ کی ٹانگیں دہشت سے کانپ رہی تھیں۔ اس نے میرے بازو کو بہت زور سے پکڑ رکھا تھا اور مجھے اس کی سسکیوں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ مگر میں کوشش کے باوجود بھی نہ رو سکتا تھا۔ مجھے خوف تھا کہ اگر میں رو دیا تو وہ ابھی اٹھ کھڑے ہوں گے، اپنی انگلی کے اشارے سے ہم سے قریب آنے کو کہیں گے۔ اور جب ہم ان کے قریب پہنچ جائیں گے تو وہ اپنے ایک پہلو میں مجھے اور دوسرے میں منیرہ کو بٹھا لیں گے، پھر اپنے دونوں ہاتھ پیار سے ہمارے کندھوں پر رکھ کر قدرے کرختگی سے مجھ سے کہیں گے ’’تمہیں یوں نہ رونا چاہیے۔ یاد رکھو تم مرد ہو، اور مرد کبھی نہیں رویا کرتے!‘‘

 

مئے لالہ فام، اقبال اکادمی لاہور، ۱۹۹۲ء۔

٭٭٭

حاشیہ

 

۱۔ جاوید اقبال صاحب کے بچپن کا یہ مشاہدہ علامہ کی زندگی کے ان آخری برسوں کا ہے،جب (۱۹۳۴ء سے) علامہ کی طویل علالت کا آغاز ہو چکا تھا۔ (مرتبین)

٭٭٭

تشکر: وسیع اللہ کھوکھر جن کےتوسط سے فائل کا حصول ہوا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید