FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

افسانے کی شعریات

 

 

 

رضی شہاب

 

مکمل کتاب پڑھنے کے لیے ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

 

 

 

انتساب

 

 

لفظ اور خالق لفظ

کے نام

 

 

 

پیش لفظ

 

اردو میں افسانے کی حیثیت ایک مقبول اور متمول صنف ادب کی ہے۔ ہماری جدید ادبی حسیت کی تخمیر و تشکیل میں دیگر اصناف ادب کے ساتھ اس صنف نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ بظاہر چھوٹی اور محدود کینوس کی صنف معلوم ہونے کے باوجود اس میں تخلیقی اظہار کے متنوع پیرایوں کے لامحدود امکانات کی ایک دنیا آباد ہے۔ اس محدود کینوس میں اتنی سکت اور وسعت پائی جاتی ہے کہ ہر پل رنگ بدلنے اور ہمہ وقت تغیر پذیر رہنے والی انسانی زندگی کی تمام تر بے کرانی اور اس بے کرانی میں جلوہ افروز مختلف رنگوں کی دنیاؤں کو اپنے اندر سمیٹ سکتا ہے۔

افسانہ نگاری کارِ طفلاں نہیں، فلسفہ طرازی ہے۔ اس میں زندگی کا فلسفہ، فن کے قالب میں ڈھل کر دو آتشہ ہو جاتا ہے۔وہ منظر دیدنی ہوتا ہے جب رنگ صہبا شیشے سے چھلکا پڑ رہا ہو اور ایک دنیا اسے دیکھ کر دم بخود ہوئی جا رہی ہو۔ تحیر کا وصف فن کا اعجاز ہوتا ہے اور ہم جب یہ کہتے ہیں کہ؎

معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود

تو ہم فن کی تعظیم و تکریم اور اس کی تقدیس کا اعتراف کر رہے ہوتے ہیں۔اس اعتراف کی اپنی اہمیت ہے لیکن اس سے فن کی تفہیم و تنقید کا حق ادا نہیں ہوتا۔ تفہیم و تنقید کا حق ادا کرنے کا اہل ہونے کے لیے بھی آدمی کو خون جگر صرف کرنا پڑتا ہے۔ اس کی استعداد اور توفیق عام نہیں۔ اور پھر اس عمل کی اپنی بھی تو ایک تخلیقی جہت ہوا کرتی ہے۔

اردو میں وقار عظیم کی کتاب’ فن افسانہ نگاری‘ سے شمس الرحمن فاروقی کی ’افسانے کی حمایت میں ‘ تک افسانہ تنقید کی ایک صحتمند روایت پائی جاتی ہے۔ اس روایت میں ممتاز شیریں کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انھوں نے صنف افسانہ سے متعلق نظری مباحث چھیڑنے میں پہل کی۔افسانے میں بیانیہ کے عمل دخل پر بھی سب سے پہلے ممتاز شیریں ہی نے لکھا۔ ممتاز شیریں کے بعد شمس الرحمن فاروقی نے بیانیات Narratology میں ہونے والی علمی پیش رفت کا احاطہ کچھ ایسے اعتماد اور استناد کے ساتھ کیا کہ داستان اور افسانہ دونوں کے طرز وجود اور ان کی شعریات کی بازیافت کا فریضہ انجام دے گئے۔

رضی شہاب پہلی مرتبہ جب ملے تو اندازہ ہوا کہ یہ خون جگر صرف کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ ’افسانے کی حمایت میں ‘ ان کی آزمائش کا قرینہ قرار پائی تو انھوں نے عملاً ثابت کر دیا کہ ہمارا اندازہ غلط نہیں تھا۔ہم نے پہلے ہی دن سے ان کو کہانی کا اسیر پایا۔ ہمارے لیے یہ امر باعث مسرت و اطمینان ہے کہ ان کا یہ کام زیور طباعت سے آراستہ ہو رہا ہے اور اپنے علمی سفر کے آغاز ہی میں اس نوگرفتار افسانہ نے یہ جان لیا کہ فلسفہ طرازی و نظریہ بازی اپنی جگہ، فن پارے کی فنی قدر اس کی دیگر اقدار پر مقدم ہوا کرتی ہے۔

کتاب کی اشاعت پر ہم رضی شہاب کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ دنیائے علم و ادب اسے بہ نظر تحسین دیکھے گی۔

معین الدین جینابڑے

پروفیسر(اردو)

نئی دہلی مرکز برائے السنۂ ہند

مورخہ ۳؍ ستمبر ۲۰۱۶ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی

 

 

 

اعتراف

 

 

البرٹ آئنسٹائن نے کہا تھا کہ ’تعلیم کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ بہت ساری حقیقتیں جان لی جائیں۔ تعلیم کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دماغ کی اس طرح تربیت ہو جائے کہ جو کچھ کتابوں میں نہیں ہے وہ بھی سمجھ میں آ سکے۔‘یقین کے ساتھ کہوں تو مجھے ہمیشہ کسی تخلیق کو سمجھنے کے لیے کسی نہ کسی تنقیدی تحریر کا مطالعہ ناگزیر سا محسوس ہوا۔ ایسا نہیں کہ ان تخلیقات میں پروئے گئے معانی کے سرے میری دسترس سے بالکل باہر تھے۔ تاہم اپنی فہم پر اس قدر اعتبار نہیں ہو پاتا اور یہی سبب ہے کہ دوسری تحریریں میرے مطالعے کا حصہ بنتی ہیں تاکہ میں اپنے افہام و تفہیم کے اس عمل کو پورے اعتماد کے ساتھ برت سکوں۔ ادب انسانی زندگی کا اہم ترین شعبہ ہے اور اس سے میری دلچسپیاں اپنی نوعیت کی ہیں۔ کہانیاں میرے روز و شب کا حصہ ہیں اور ان کی قرأت کا میرا اپنا ڈھنگ ہے۔ افسانے مجھے عزیز ہیں اور ان پر بحث و مباحثہ میرے تفہیمی عمل کا ایک سرا ہے۔بیانیہ حیات کے برابر ہے اور اخبار کی رپورٹ، تاریخی کتابیں، ناول، افسانہ، فلم، رقص، گپ شپ ان چند ایک بیانیوں میں سے ہیں جو ہماری زندگی میں بہت زیادہ دخیل ہیں۔اس لیے ان جیسے سوالات سے دو چار ہوئے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ بیانیہ کیا ہے ؟ افسانوی بیانیہ کیا ہے ؟دیگر بیانیوں سے یہ کس طرح مختلف ہے ؟ کوئی متن افسانوی بیانیہ کیسے بنتا ہے ؟ یا کون سے عوامل ہیں جو اس کے افسانوی بیانیہ ہونے سے مانع ہوتے ہیں ؟ افسانے میں بیان کنندہ کی صورتیں، نوعیتیں، راوی کے اقسام، تصور حقیقت، زمان و مکان کا تصور اور افسانے کے افراد یعنی کرداروں کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کتاب میں ان چند سوالوں کے علاوہ افسانوی بیانیہ سے وابستہ کئی پہلوؤں کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ یہ واضح کر دوں کہ میں اس بات کا بالکل بھی اہل نہیں کہ فنون کے اصول و مبادیات اور اس کی شعریات تشکیل کر سکوں، یہ کام مشرق و مغرب کے دانشوروں نے بہت پہلے ہی کر دیا ہے، تاہم یہ ایسے مباحث ہیں جو ہمیشہ ہی بحث طلب رہے ہیں کیونکہ علم و تحقیق میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔میرا خیال ہے کہ زندگی اور اس سے جڑی دیگر چیزوں، جن میں فنون لطیفہ بھی شامل ہیں، کا صحیح علم ہمیں سوال کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے افسانے کے حوالے سے چند ایک سوالات قائم کیے اور دور حاضر کی اس مقبول صنف پر کسی قدر سنجیدہ گفتگو کی۔ ان کی کتاب ’افسانے کی حمایت میں ‘نے افسانوں کے مطالعے کو ایک نئی سمت اور ایک جدید پیٹرن عطا کیا۔ اس کی مخالفت و موافقت میں طویل بحثیں ہوئیں، بعض لوگوں نے اس کی اقتدا بھی کی اور اس کے طفیل افسانوی تنقید کا شعبہ کسی قدر با ثروت بھی ہوا۔میری یہ کتاب ’افسانے کی حمایت میں ‘ میں مذکور ان نظری مباحث پر مکالمہ قائم کرنے کی ایک کوشش ہے جن کا تعلق افسانے کی شعریات سے ہے۔

افسانے سے دلچسپی اور افسانوی تنقید سے لگاؤ نے ذاتی مطالعے کے لیے ہمیشہ ہی افسانہ تنقید کو ترجیح دی ہے۔ شکر گزار ہوں پروفیسر معین الدین جینابڑے کا جنھوں نے شمس الرحمن فاروقی کی ایک متنازعہ تاہم اہم کتاب ’افسانے کی حمایت میں ‘ کے مطالعے کا مشورہ دیا۔ دوران مطالعہ ذہن میں کئی سوالات اٹھے۔ کچھ کے جواب سمجھ میں آئے اور کچھ نے ذہن کو الجھا کر رکھ دیا۔ استاد محترم کی محبتوں اور نوازشوں کا ممنون ہوں کہ انھوں نے میری دلچسپی کو دھیان میں رکھتے ہوئے نہ صرف یہ کہ ایک بنیادی کتاب کے مطالعے کی جانب میری رہنمائی فرمائی بلکہ دوران مطالعہ جب جب ضرورت محسوس ہوئی، بات چیت، سوال و جواب اور بحث و مباحثے کے ذریعے میری الجھنوں کو دور کرنے میں دلچسپی لی۔اپنے تحقیقی کام کے چند نکات پر میں نے استاد محترم کی زیر نگرانی ازسر نو کام کیا اور تقریباً ڈیڑھ برس کی محنت کے بعد یکسر تبدیلیوں کے ساتھ یہ صورت سامنے آ سکی ہے۔ استاد محترم کی اس عنایت کا بھی قرض دار ہوں کہ انھوں نے میری اس کتاب کے مسودے پر ایک نظر ڈالنے کی زحمت گوارہ کی اور اس دوران کئی اہم نکات کی جانب اشارہ کیا۔اس کتاب میں جو بھی کام کی باتیں ہو سکی ہیں، میں انھیں اپنے استاد کی دلچسپیوں کا نتیجہ سمجھتا ہوں۔

اس موقع پر اپنے ان اساتذہ کا شکر گزار ہوں جن کی تربیت سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اپنے دوستوں کا ممنون ہوں جن کی صحبتیں ہمیشہ میری زندگی کی معنویت میں اضافہ کرتی ہیں۔ اپنے ہم سبق دوستوں میں شبنم افروز، فاروق اور اظہار کا تہہ دل سے ممنون ہوں جن کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے میں نے بارہا اس موضوع پر اپنی الجھنیں بیان کیں اور ان لوگوں سے بات ہی بات میں بہت کچھ حاصل کیا۔ ڈاکٹر عبد الرافع اور برادرم تفسیرکا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جنھوں نے مسودے کا پروف پڑھنے کی مشکلیں برداشت کیں۔ ندیم اور مجیب تمہارا بھی شکریہ کہ تمہاری موجودگی میری قوت ہے۔علم دوست اور کھرے ناقد حقانی القاسمی کا ممنون ہوں کہ انھوں نے گاہے بگاہے میری حوصلہ افزائی فرمائی اور موضوع پر مواد کی فراہمی میں بھی تعاون کیا۔ والدین کا شکریہ کن لفظوں میں ادا کیا جائے، بس اللہ رب العالمین سے دعا گو ہوں کہ ان کا سایہ تا دیر ہمارے سر پر قائم رہے اور اللہ انھیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ بڑے بھائی صلاح الدین سلفیؔ کا ممنون ہوں جنھوں نے ہمیشہ مجھے لکھنے پڑھنے کی ترغیب دی اور کئی اہم ذمہ داریوں سے آزاد رکھا۔ خالق کل کی حمد و ثنا ضروری ہے کہ وہی باقی رہنے والی ذات ہے۔

اس بات کا معترف ہوں کہ اس کتاب میں جو بھی غلطیاں یا کمیاں ہیں، وہ میری کم فہمی، کم علمی یا میری کاہلی کا نتیجہ ہیں، جن کی نشاندہی بسروچشم قبول ہے۔؎

صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

 

رضی شہاب

نئی دہلی

مورخہ۳۰؍ اپریل۲۰۱۶ء

 

 

 

 

افسانے کی حمایت میں : شور برپا ہے خانۂ دل میں

 

 

افسانہ عہد حاضر کی سب سے مقبول صنف ہے۔اس عہد میں شاید جتنا افسانہ تحریر کیا جا رہا اور پڑھا جا رہا ہے اتنی کوئی دوسری صنف نہیں۔ در اصل یہ ایسا آرٹ ہے جو زندگی کے نشیب و فراز کا مزاج داں ہے اور زمانے کے مزاج کا مظہر بھی، انسانی جذبات و احساسات اور نفسیاتی ضرورتوں کا وسیلہ ہے اور حیرت و استعجاب کے لمحات عطا کر کے جمالیاتی تلذذ سے ہمکنار کرنے کا ذریعہ بھی۔ آج بکثرت افسانے لکھے جا رہے ہیں اور ان پر اچھی بری تنقیدیں بھی تحریر کی جا رہی ہیں۔مگر افسانوی ادب کئی اہم سوالات کے گھیرے میں کھڑا ہوا ہے۔ بعض لوگوں کی نظروں میں اس کے اندر بیانیہ کا ہونا اس کی کمزوری ہے ؟ بعض اسے شاعری سے کم تر قرار دے رہے ہیں، بعض اس کے اندر جدت و ندرت کے فقدان کا شکوہ کر رہے ہیں جبکہ بعض اس میں استعاروں اور ایمائیت کی غیر موجودگی کے مسئلے سے نبرد آزما نظر آ رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ کبھی تو افسانوی ادب کی دنیا میں ’اکہانی ‘ جیسی جدید صنف وجود میں آتی ہے تو کبھی کہانی پن کی واپسی یا بیانیہ کے دوبارہ کہانی میں در آنے کا شور اٹھتا ہے۔ افسانے کی تنقید کرتے وقت متعدد تنقید نگاروں نے اس طرح کے سوالات اٹھائے ہیں، جن کے جوابات کا حتمی روپ ابھی بھی پردۂ خفا میں ہے۔ در اصل اردو افسانے کی تنقید زیادہ تر عمومی نوعیت کی ہی رہی ہے۔ ہلکے پھلکے تبصرے، موضوعاتی سطح پر افسانوں کی فہرست سازی یا پھر انتخاب اور نام گنوانے بھر کی دلچسپیوں نے اردو افسانے کی تنقید کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ تجزیاتی نوعیت کے مقالے بھی افسانے کے حوالے سے تحریر کیے گئے جن میں افسانوں کی تشریح و تعبیر موجود ہوتی ہے۔ یہ عمل اپنی جگہ اہم ہے تاہم ایسے مقالے یا کتابیں جو افسانے کے نظری مباحث کو سامنے لاتی ہیں یا افسانوں پر سنجیدہ تنقیدی مباحث قائم کرتی ہیں، ان کی تعداد انگلیوں پر گنے جانے کے قابل ہے۔ممتاز شیریں نے پہلی بارافسانہ تنقید سے متعلق سنجیدہ اور نظریاتی پہلوؤں پر مبنی گفتگو ’معیار‘ (۱۹۶۳ء) میں کی تھی۔ انھوں نے افسانے سے متعلق کئی بنیادی سوالات کو موضوع بحث بنایا اور اردو افسانہ تنقید کو نئے زاویے عطا کیے تھے۔ ان کے علاوہ افسانہ تنقید کے حوالے سے پچھلے کئی برسوں سے جو لوگ اپنی شناخت قائم کر کے ایک استناد کی حیثیت حاصل کر چکے ہیں، ان میں وارث علوی، مہدی جعفر، فضیل جعفری، عابد سہیل، گوپی چند نارنگ اور شمس الرحمن فاروقی کے نام قابل ذکر ہیں۔ بعض دیگر ناقدین نے بھی اپنے مضامین میں افسانے کے کئی پہلوؤں پر بحث کی ہے۔ لیکن جب تک افسانے کا ناقد ان جیسے سوالات سے آنکھیں چار نہیں کرتا ہے کہ اَفسانہ کیا ہے ؟واقعہ کسے کہتے ہیں ؟ بیانیہ کیا بلا ہے ؟ کہانی پن کیا ہے ؟ پلاٹ کیا ہے ؟ کیا نہیں ہے ؟ اور اِسے کیسا ہونا چاہیے ؟ وغیرہ تب تک بطور فن افسانے پر گہری تنقید کا در وا نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یہی افسانے کے سروکار اور اس کی بنیاد ہیں اور اگر عمارت کا خاکہ واضح نہیں ہے تو معاملہ ’تا ثریا می رود دیوار کج‘ (آسمان تک دیوار ٹیڑھی ہی ہو گی) کا ہو گا۔ اردو کی افسانہ تنقید میں مذکورہ بالا سوالات سے نظر ملانے کی جرأت اردو افسانے کی تاریخ کا ایک لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد پہلی بار شمس الرحمن فاروقی نے کی اور ’افسانے کی حمایت میں ‘(۱۹۸۲ء)نامی کتاب تحریر کی۔

افسانے کی تنقید کے باب میں فاروقی نے اپنی الگ چھاپ چھوڑی ہے۔ ’’افسانے کی حمایت میں ‘‘اس سلسلے میں ان کی فہم اور تنقیدی بصیرت کی واضح مثال ہے۔’یہ کتاب جدید افسانے کی تنقید میں سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے ‘۔اس کتاب کی اشاعت پہلی بار مئی 1982میں ہوئی تھی۔ اس کتاب میں فاروقی نے افسانے کی تنقید اور اس کے مسائل سے متعلق جو بھی گفتگو کی ہے اور جس طرح کے نظریات پیش کیے ہیں، انھیں اہل علم و ادب نے سنجیدگی سے لیا۔ افسانے کی شعریات اور نظری تنقید سے متعلق فاروقی کے نظریات کی مخالفت بھی ہوئی۔ مثلاً وارث علوی، وہاب اشرفی وغیرہ نے ان کے نظریات کو صحیح تسلیم نہیں کیا اور اپنے مضامین میں فاروقی کے ان نظریات کے بطلان کے اسباب سے حتی الامکان بحث بھی کی۔ تاہم اس سے اس کتاب کی مقبولیت پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اسی وجہ سے اس کتاب کے کئی ایڈیشن اب تک منظر عام پر آ چکے ہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ فاروقی نے جو نظریات اس کتاب میں پیش کیے وہ ان کے اپنے وضع کردہ نظریات نہیں تھے بلکہ یہ نظریات عالمی ادب کا پہلے سے حصہ بن چکے تھے۔ فاروقی کا کام فقط اتنا تھا کہ وہ ان نظریات کو اردو میں پہلی بار متعارف کرانے کا عمل انجام دے رہے تھے۔ اس کتاب میں جو باتیں سب سے زیادہ موضوع بحث بنیں، ان کا تذکرہ کرتے ہوئے فاروقی نے کئی بار کتاب ہذا میں ذکر بھی کیا ہے۔

اس کتاب کے پہلے ایڈیشن میں کل گیارہ مضامین شامل تھے جبکہ تیسرا ایڈیشن سترہ مضامین پر مشتمل ہے اور چوتھا ایڈیشن جو حال ہی میں پاکستان سے شائع ہوا ہے، اس میں کل چوبیس مضامین شامل ہیں۔شمس الرحمن فاروقی کی افسانہ تنقید پر بات کرنے کے لیے میں نے ان تینوں مجموعوں کو سامنے رکھا ہے۔

اس کتاب میں فاروقی کے ان مضامین کو جمع کیا گیا ہے جو فن افسانہ نگاری یا مختلف افسانہ نگاروں کی افسانوی صفات و خصوصیات سے متعلق تحریر کیے گئے ہیں۔چوبیس مضامین کے اس مجموعے میں ’افسانے کی حمایت میں ‘(چھ مضامین) ’افسانے کی تنقید سے متعلق چند مباحث‘، ’پلاٹ کا قصہ‘، ’ افسانے میں کہانی پن کا مسئلہ‘، ’چند کلمے بیانیہ کے بیان میں ‘ اور ’افسانے میں بیانیہ اور کردار کی کشمکش‘ کے علاوہ کئی دیگر مضامین فن افسانہ نگاری سے متعلق ہیں جبکہ پریم چند، قمر احسن، انور سجاد، بلراج کومل، سجاد حیدر یلدرم، شفیع جاوید، سریندر پرکاش، منشا یاد، محمد شاہد حمید اور بلونت سنگھ کے افسانوں پر عملی تنقید سے متعلق دیگر مضامین شامل اشاعت ہیں۔

فاروقی نے اپنے ان مضامین میں افسانے کی تنقید کے سلسلے میں بعض مفید اور معنی خیز سوالات اٹھائے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ ان سوالات کے جوابات دے پائے ہیں یا انھوں نے بحث شروع کر کے اسے تشنہ چھوڑ دیا ہے ؟ بیانیہ، پلاٹ، افسانے میں واقعیت و حقیقت اور کہانی پن جیسے مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے اردو افسانے کی تنقید کو ایک نئی سمت دینے کی کوشش کی ہے۔ افسانہ اور شاعری میں اولیت کسے ہے یا کسے زیادہ اہمیت حاصل ہے، کی بحث کو فاروقی نے پورے اعتماد کے ساتھ پیش کیا ہے اور اس کے لیے حتی المقدور دلیلیں اور تاویلیں بھی پیش کی ہیں۔در اصل یہی وہ بحث ہے جس کے شور میں ’ افسانے کی حمایت میں ‘ ہونے والی بحثیں دب کر رہ گئیں۔ اس کتاب سے متعلق لکھنے والوں نے ادبی اصناف کی درجہ بندی سے اختلاف و حمایت میں اتنا زور صرف کیا کہ ان کا دھیان کتاب کے دوسرے مثبت پہلوؤں کی طرف نہیں گیا اور ’افسانے کی حمایت میں ‘ کی صدا، صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ اس درمیان کچھ لوگوں نے ضرور افسانوی تنقید کے ریگستان میں اگنے والے اس ہرے درخت کی طرف توجہ دی، مگر کیا کیجیے کہ کبھی کبھی رد و قبول میں تعداد بھی اہمیت رکھتی ہے۔

مذکورہ کتاب(افسانے کی حمایت میں ) سب سے زیادہ کیوں موضوع بحث رہی؟ اگر اس سوال کا جواب تلاش کریں تو جو بنیادی بات نکل کر سامنے آئے گی وہ شاعری اور افسانے میں موازنے کی بحث ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے اگر یہ بات نہ کہی ہوتی کہ ’افسانہ کمتر صنف سخن ہے ‘ تو اس کتاب کے سلسلے میں اتنا شور ہر گز نہ ہوتا اور نہ ہی اس کے مثبت و منفی پہلوؤں کو کریدنے کی کوشش ہی کی جاتی۔ کبھی کبھی جب غور کرتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ شاید فاروقی بھی افسانے کو چھوٹا یا بڑا ثابت کرنے کی کوشش میں نہیں تھے بلکہ وہ خواب خرگوش میں مست تنقید نگاروں کی فوج کو افسانوی تنقید کی طرف بھی متوجہ کرانا چاہتے تھے کہ اے ناقدو ! سنو، اب وقت آ گیا ہے کہ شاعری کی طرح افسانے کے بھی قواعد مقرر کر دیے جائیں۔ اس کے اصول و ضوابط کی نشاندہی کر دی جائے۔ اس کی ضروریات و لوازمات سے بھی لوگوں کو آگاہ کر دیا جائے۔ تاکہ ایسا نہ ہو کہ ہر شخص جو دو چار لفظ لکھنا جانتا ہے وہ چند ادھر ادھر کے واقعات کو جوڑ کر رسالوں کے صفحات کے حوالے کر دے اور خود کو ’معاصر افسانہ نگاروں ‘ کی فہرست میں شامل کیے جانے کے لیے صدا بلند کرنے لگے۔ ورنہ آخر کیا بات تھی کہ فاروقی نے تقابل اور موازنے کی بنیادی ضرورتوں کو بھی دھیان میں نہیں رکھا اور دو مختلف طرز کی اصناف میں برتری اور کہتری کے سوالات کھڑے کر دیے۔

جہاں تک میں سمجھتا ہوں تقابل اگر برتر یا کہتر ثابت کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے تو جن چیزوں میں تقابل ہو رہا ہے ان کے درمیان کچھ مماثلتیں ہونی چاہیے۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ ہم آسمان اور زمین میں تقابل کرنے بیٹھ جائیں کہ ان میں کون برتر اور بدتر ہے۔ شاعری اور افسانہ دو مختلف اصناف ہیں۔ دونوں کی ضروریات اور لوازمات مختلف ہیں اس لیے دونوں میں تقابل بسلسلۂ افضلیت درست نہیں ہے۔ شاعری میں ایک شاعر کی غزل گوئی کا موازنہ دوسرے شاعر کی غزل گوئی سے کیا جا سکتا ہے لیکن ایک شاعر کی رباعی کا موازنہ دوسرے شاعر کی نظم سے نہیں کیا جا سکتا۔ یاد رہے یہاں بات اس موازنے کی ہو رہی ہے جس کے ذریعہ کسی کو کسی پر فوقیت دینے کے لیے دلائل قائم کیے جاتے ہیں۔ ’افسانے کی حمایت میں ‘میں شمس الرحمن فاروقی نے شاعری اور افسانے کے درمیان موازنہ کیا ہے اور شاعری کو افسانے پر فوقیت دی ہے۔ ظاہر ہے ایسا تقابل درست نہیں ہے البتہ انھوں نے جن نکات کی بنا پر دونوں کو برتر و بد تر ثابت کیا ہے ان کا جواب بھی کئی ناقدین نے (آدھا ادھورا) دیا ہے۔ میں اس بحث میں شعوری طور پر پڑنا نہیں چاہتا، کیونکہ شمس الرحمن فاروقی یا برنارڈ برگونزی[Bernard Bergonzi] اور ہاورڈ نیموروف [Howard Nemerov]جیسے ناقدوں کے افسانے کودوسرے، تیسرے درجے کی صنف سخن قرار دے دینے سے افسانہ قبر رسید ہو گیا اور نہ ہی شاعری کی مقبولیت ہی مزید بڑھ گئی۔نیموروف نے اپنے ایک مضمون Composition and fate in the Short Storyمیں افسانے کو گڑیا سے تشبیہہ دی ہے۔ [1]اس کا افسانے کے وجود پر کوئی منفی اثر نہیں ہوا البتہ افسانہ نگاری کا فن اس حد تک ترقی حاصل کرنے میں ضرور کامیاب رہا ہے کہ ناقدین فن آنے والے صدی کو افسانے کی صدی کے نام سے پکارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ بہر حال مجھے سبھی اصناف سخن عزیز ہیں۔شاعری کا تخلیقی عمل کچھ اور قرینے اور لوازمات مانگتا ہے جبکہ فکشن کے مطالبات الگ ہیں۔ یہی نہیں شاعری کے اندر غزل اس طرح نہیں لکھی جا سکتی، جس طرح کہ آپ نظم یا مرثیہ تحریر کرتے ہیں، بعینہٖ اسی طرح ناول کے تقاضے الگ ہیں اور افسانے کے مطالبات اس کے ماسوا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو فاروقی نے جو باتیں (قابل اعتراض) افسانے سے متعلق کہی ہیں، انھیں وہ شعر میں کہتے، لیکن وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ اس کے لیے نثری پیرایۂ اظہار ہی زیادہ کارآمد ہو گا۔

شمس الرحمن فاروقی نے افسانے پر جو اعتراضات کیے ہیں، میں انھیں افسانے کی حمایت میں اٹھایا گیا ایک’ بدنام قدم‘ سمجھتا ہوں۔ کیونکہ فاروقی اگر یہ مضامین افسانے کی حمایت میں نہ قلمبند کر رہے ہوتے تو یہ ہرگز نہ لکھتے کہ’ ’افسانے کی حمایت میں سب سے بڑی بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ اس کو بیانیہ کی امداد حاصل ہوتی ہے جو شاعری کے ساتھ اتنی ہمدردی نہیں رکھتا‘‘[2]یا پھر ’’افسانہ وقت کا محکوم ہے، اسی وجہ سے وہ ہم آپ (جو وقت کے محکوم ہیں ) کی ان پیچیدگیوں اور مجبوریوں کا اظہار کر سکتا ہے جو شاعری کے ہاتھ نہیں لگتیں ‘‘۔[3]اور خود افسانہ نگاری کے میدان میں قدم رکھنے سے قبل وہ یہ نہ لکھتے کہ’ ’جس صنف کی عمر ابھی آپ کے یہاں مشکل سے ستر پچھتر (70-75) سال ہو اس میں کسی عظیم تحریر کا امکان زیادہ نہیں ہو سکتا ‘‘۔[4]تاہم اگر اس دوران انھوں نے درجہ بندی والے اتنے سخت الفاظ نہ استعمال کیے ہوتے تو شاید اردو افسانہ اب تک نئے امکانات سے بے بہرہ ہوتا اور افسانے کی تنقید بھی خلاصے اوراقتباسات کے تذکروں تک پہنچ کر ہانپنے لگتی۔ اس سے یہ مطلب برآمد کرنا بے جا ہے کہ میں اپنی یہ باتیں فاروقی صاحب کی حمایت میں تحریر کر رہا ہوں۔ وہ ہمارے بزرگ عالم ادب ہیں اور دنیائے ادب انھیں عزت و احترام کی نظر سے دیکھتی ہے۔ البتہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ افسانے کی تنقید پر سنجیدگی سے دھیان دینے کی ضرورت ہے اور اس عمل میں فاروقی کے فراہم کیے گئے نسخے بے حد کامیاب ثابت ہو سکتے ہیں۔ ذیل میں ان نکات یا ان کمزوریوں کو بیان کیا جا رہا ہے جن کی وجہ سے شمس الرحمن فاروقی کے نزدیک افسانہ دوسرے درجے کی صنف سخن قرار پایا۔حالانکہ ’’ساحری، شاہی، صاحب قرانی‘‘ میں فاروقی صاحب خود لکھتے ہیں کہ’ ’اصل بات یہ ہے کہ ہر صنف اپنی جگہ پر مکمل اور نقص سے عاری ہوتی ہے۔ عینی طور پر ہر صنف اپنے مقصد کے لیے کافی اور مثالی ہوتی ہے ‘‘۔[5]لہٰذا افسانے کی کمزوریوں کی گنتی کا کیا مطلب ہے ؟

یقیناً افسانہ اور شاعری یا مختلف اصناف کے مابین موازنے کی بحث اردو میں سب سے پہلے شمس الرحمن فاروقی نے شروع کی۔ انھوں نے کہا کہ اگر ارسطو اصناف میں موازنہ کر سکتا ہے جس کی بوطیقا ہماری تنقید کی پہلی اینٹ ہے، وہی کام میں کروں تو اس میں برائی کیا ہے ؟ ’افسانے کی حمایت میں ‘ کتاب سامنے آئی، مگر بحث ’موازنہ‘ یا ’افضل و بدتر‘ تک سمٹ کر رہ گئی۔اس کتاب پر بہت باتیں ہوئیں مگر اس پر معروضی نوعیت سے بحث نہیں کی گئی۔حالانکہ شمس الرحمن فاروقی نے افسانے پر اعتراضات کرتے ہوئے جو دلیلیں دیں ان میں سے متعدد بے شک کمزور اور ادنیٰ ہیں اور ان دلیلوں کے جواب بھی دیے گئے ہیں۔ مگر ایک بات جو اس حوالے سے مطالعہ کرنے کے بعد ذہن کو کریدتی ہے وہ یہ کہ آخر فاضل ناقدین نے افسانے کو چھوٹا ثابت کرنے والے فروعی دلائل کا بخیہ ادھیڑنے میں تو دیر نہ کی لیکن ان سوالات کو کیوں نہیں اٹھایا جن کی وجہ سے افسانے کو چھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ فاروقی سے یہ سوال بھی ہونا تھا کہ وہ اردو افسانہ کی بات کر رہے ہیں یا صنف افسانہ کی؟ افسانے کو چھوٹا ثابت کرنے کے عمل کا خمیر اگر ہم اس سلسلے میں تلاش کریں کہ جدیدیت بہر حال ترقی پسندی کی سکہ بند روایت سے انحراف اور بغاوت کے طور پر اردو ادب میں داخل ہوئی، ترقی پسندوں نے غزل پر کچھ خاص نظر کرم نہیں کی تھی اور فاروقی صاحب اس کی شان میں قصیدہ خوانی کا نظریہ رکھتے ہیں۔ لہٰذا جب جدیدیت نے اپنے بال و پر کھولے تو جو صنف ترقی پسندوں کا ہتھیار بنی اس پر ان کے سخت تیور نظر آئے۔ اس طرح کے سوالات اگر اٹھائے جاتے تو ایک مضبوط بحث سامنے آ سکتی تھی۔

میں یہاں ان اعتراضات کو افسانے کے نظری مباحث کے طور پر اخذ کر رہا ہوں اس لیے ان کا جواب دینے کی کوشش کرنے کی بجائے ان کی وضاحت کر رہا ہوں۔ حالانکہ ایسا بہت ممکن ہے کہ اس بحث میں ان اعتراضات کے جوابات بھی سامنے آ جائیں۔ اگر آپ ان اعتراضات کے مکمل جوابات کے متلاشی ہیں تو لیجئے حوالے نوٹ فرمائیے، (حالانکہ یہاں فاروقی کے اعتراضات کے مکمل جوابات ملنے ذرا مشکل ہیں )، فضیل جعفری (کمان اور زخم، ص: ۲۷۲۔۲۹۴)، وہاب اشرفی(مضمون، افسانے کا منصب، مشمولہ معنی کی تلاش، ص:۹۔۲۴)، شہنشاہ مرزا(تنقیدی تجزیے، ص:۱۳۲۔۱۵۱)، محمد حمید شاہد(اردو افسانہ صورت و معنی، کتاب میں کئی جگہوں پر جوابات موجود ہیں )، وارث علوی( فکشن کی تنقید کا المیہ، مکمل کتاب ’افسانے کی حمایت میں ‘کے جواب میں لکھی گئی ہے ) اور عابد سہیل(فکشن کی تنقید :چند مباحث۔۱)۔ اس سلسلے میں ایک بات یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ افضلیت اور برتریت کی کٹ حجتی میں بیشتر ناقدین نے سب کچھ لکھ دیا تاہم سنجیدگی سے افسانے کے نظری مباحث قائم کرنے کی جسارت کم ہی لوگوں نے کی۔ بھلا ہو مرحوم عابد سہیل کا، جنھوں نے فاروقی کے مضامین کو حقیقی طور پر افسانے کی حمایت میں کے طور پر لیا اور افسانے کے بنیادی مباحث پر سوالات کھڑے کیے اور لوگوں کو بھی ان مسائل کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی۔مجھے جلال الدین رومی کا قول یاد آ رہا ہے کہ اپنی آواز کی بجائے اپنے دلائل کو بلند کیجئے۔ پھول بادل کے گرجنے سے نہیں برسنے سے اگتے ہیں۔افسانے کی حمایت میں فاروقی صاحب کی بہت سی با توں سے اختلاف کی گنجائش ہے اور اختلاف کرنا بغرض اصلاح یا صحیح بات سامنے لانے کے لیے ضروری ہے۔ مگر افسوس کہ کاتا اور لے دوڑے والی مثال، کہ ہمارے ناقدین کو یہ تو نظر آیا کہ فاروقی نے افسانے کی عزت اتار دی ہے مگر اس بات پر دھیان دینے کی زحمت محسوس نہ ہوئی کہ اس معاملے کو دو دوچار کر لیں۔ تنقید کی زبان ریاضی کی طرح ہے، دو دو چار، مطلب جواب میں چار ہی آنے چاہیے۔ گول مول گھما کر اور پورا فلسفہ اور تاریخی، لفظی طومار باندھنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ وارث علوی نے جو کتاب’ افسانے کی حمایت میں ‘ کے جواب میں تحریر کی وہ کتاب یقیناً بہت مقبول ہوئی۔ اور ہونا بھی تھا کیونکہ اسے قابل قرأت بنانے کے لیے مصنف نے ایسے پینتروں کا استعمال کیا ہے کہ زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والا شخص اسے از راہ تفنن طبع پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ تاہم علم کے سنجیدہ مباحث کے ضمن میں اس کے ہاتھ آتا کیا ہے، اس کا اندازہ کتاب کے ختم ہونے کے بعد اسے اپنا سر کھجاتے ہوئے لگانا پڑتا ہے۔میرے ایک دوست کے مطابق فاروقی کے ’’مخالفین‘‘ وارث علوی مرحوم کی کتاب ’فکشن تنقید کا المیہ‘ کا ورد ’’کلمے ‘‘ کی طرح کرتے ہیں۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ کتاب ہذا میں فاروقی کے بیانات سے نا اتفاقی کا اظہار کرتے ہوئے تیر و سنگ برسانے والے وارث علوی (مرحوم )خود فاروقی کی افسانہ تنقید کو اپنے ایک دوسرے مضمون میں سراہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اپنی کتاب ’غزل کا محبوب اور دوسرے مضامین‘ میں سریندر پرکاش کے افسانوں پر مشتمل اپنے مضمون میں وہ افسانہ تنقید کے باب میں فاروقی کی فہم کی داد دیتے ہیں جو افسانوی تنقید کے باب میں ان کی حیثیت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے، مگر کیا کریں کہ ان ہی کا ’المیہ ‘ یہ بتاتا ہے کہ فاروقی افسانہ تنقید کے میدان کے طفل مکتب بھی کہے جانے کے مستحق نہیں۔اسی لیے بعض اصحاب علم و دانش نہایت وسیع قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فاروقی نے شاعری کی تنقید میں جو کیا سو کیا، مگر افسانہ تنقید ان کے بس کی بات نہیں۔

بہر کیف، ملاحظہ ہوں افسانے پر فاروقی کے اعتراضات/احسانات!۔

٭افسانے کی چھوٹائی یہی ہے۔ اس میں اتنی جگہ نہیں ہے کہ نئے تجربات ہو سکیں، ایک آدھ بار تھوڑا بہت تلاطم ہوا اور بس۔۔۔۔

٭افسانے کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس کا بیانیہ کردار پوری طرح بدلا نہیں جا سکتا۔

٭افسانہ ایک معمولی صنف سخن ہے اور علی الخصوص شاعری کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا۔

٭تاریخ کم بخت تو یہی بتاتی ہے کہ کوئی شخص صرف و محض اَفسانہ نگاری کے بانس پر چڑھ کر بڑا ادیب نہیں بن سکا ہے۔

٭افسانہ وقت کے چوکھٹے میں قید رہتا ہے۔ افسانہ نگار Time Sequence کو الٹ پلٹ تو سکتا ہے لیکن یہ ممکن نہیں کہ افسانہ میں سرے سے Time ہی نہ ہو۔

٭اعلیٰ شاعری میں ٹھونس ٹھانس، حشو و زوائد، برائے بیت یعنی Slack کی گنجائش نہیں ہوتی لیکن اعلیٰ سے اعلیٰ افسانے میں بھی Slack نکل آتا ہے۔یعنی افسانہ کی زبان میں وہ تناؤ نہیں ہوتا جو شاعری کا خاصہ ہے۔

یہ وہ چند بنیادی اعتراضات ہیں جن کے ذریعہ شمس الرحمن فاروقی نے شاعری اور افسانے میں شاعری کو برتر اور افسانے کو دوسرے درجے کی صنف سخن کے طور پر پیش کیا ہے۔تاہم اگر غور کریں تو در اصل یہی وہ بنیادی نکتے ہیں جن پر ہم افسانے کے نظری مباحث کی بنیاد قائم کر سکتے ہیں۔افسانہ اور بیانیہ، افسانہ اور زمان و مکان، افسانے کے کردار، واقعہ، قصہ، افسانہ اور حقیقت، افسانہ اور زبان یا اس جیسے دیگر مسائل جو افسانے پر سچی بحث کا مغز ہیں، انھیں اعتراضات سے نکل کر سامنے آتے ہیں۔

یقیناً تنقید ایک اکتسابی عمل ہے، جو اپنی غذا مطالعے سے حاصل کرتی ہے۔ مطالعہ جس قدر وسیع اور گہرا ہوتا ہے، تنقید کا رنگ اسی قدر چوکھا ہوتا جاتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کی افسانہ تنقید کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ ’’افسانے کی حمایت میں ‘‘ کو مطالعے کی میز پر رکھیے اور اس کے اندر موجود مضامین کا سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کیجیے تو آپ کو بھی میری بات بھلی لگے گی، اور اگر سنی سنائی با توں پر یقین کرنا آپ کے ضمیر کو قبول ہے تو پھر پڑھیے ہزار صلواتیں فاروقی کے نام پر کہ ’تم نے اس صنف (افسانہ) کا جنازہ نکال دیا ہے ‘۔ ایسا اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اس کتاب کے ساتھ بیشتر معاملے اسی طرح کے سر انجام دیے گئے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی کے بھی تمام اقوال یا مفروضوں سے اتفاق کرنا ضروری نہیں ہے اور یہی اصل ایمان بھی ہے کہ غلط چیزوں پر ٹوکیے، گرفت کیجیے، مگر خدا کے واسطے اچھی با توں سے بیر مت رکھیے۔ اور یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سکّے کے دو رخ ہوتے ہیں یا پھر کسی بھی چیز کے مثبت و منفی دونوں پہلو ہوا کرتے ہیں۔میں اسی اصول پر قائم ہوں اور شمس الرحمن فاروقی سے شاعری اور افسانے کی درجہ بندی کے معاملے میں اختلاف کرتا ہوں۔ مگر میں ان کے دیگر نظریات کا یکسر منکر نہیں، بلکہ ان پر مباحثے قائم کیے جانے کا طلبگار ہوں، کیونکہ یہ مباحث یقیناً افسانے کے تعلق سے اہمیت کے حامل ہیں اور افسانے کی صنفی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے ان سے انحراف کی گنجائش تقریباً معدوم سی ہو جاتی ہے۔ افسانے کے جو نظری مباحث شمس الرحمن فاروقی نے اٹھائے ہیں، ان سے اختلاف و اتفاق کی صورتیں ہوتے ہوئے بھی میں انھیں افسانے کی حمایت میں اٹھایا گیا قدم سمجھتا ہوں، کہ میرے نزدیک تنقید ایک اجتہادی عمل ہے جس میں صواب و خطا کے مساوی امکانات موجود ہوتے ہیں، پھر مجتہد چاہے شمس الرحمن فاروقی ہوں یا کوئی اور۔

در اصل شمس الرحمن فاروقی کی افسانہ تنقید کے پیمانے روایتی پیمانوں پر تولے نہیں جا سکتے ہیں۔کیونکہ افسانہ تنقید سے متعلق ان کے سروکار متن کے سیاسی، سماجی، معاشرتی یا دیگر موضوعاتی سطحوں تک سمٹے ہوئے نہیں ہیں بلکہ ان کے لیے افسانوی تنقید میں بیانیہ، پلاٹ، کردار، زبان، راوی، واقعہ اور دیگر عناصر سے متعلق تفصیلات زیادہ اہم ہیں۔ وہ صرف افسانے کی معنیاتی تشریح و تعبیر پر غور کرنے کے قائل نہیں ہیں بلکہ افسانوں پر نقد کرتے ہوئے اس کے فنی رموز و نکات سے بحث کرنا بھی ان کا شغل ہے۔ وہ افسانے کو بطور فن پارہ دیکھتے ہیں اور اس ضمن میں وہ افسانوں کے خلاصے یا اس کے مقتبسات پر مشتمل تنقیدی رویے سے گریز کرتے ہیں۔ وہ موضوع سے زیادہ اسلوب کو اہمیت دیتے ہیں کہ اکثر اوقات بہت ہی معمولی سے معمولی موضوع کو اسلوب کی دلکشی شہ پارے کا درجہ عطا کر دیتی ہے اور بیشتر اوقات عظیم موضوعات کو اسلوب کی کرختگی اور کمزوری ڈسٹبن کی نذر کرنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔

در حقیقت شمس الرحمن فاروقی نے افسانہ تنقید میں جن با توں سے معاملہ رکھا ہے ان میں بنیادی طور پر افسانے کے کرداروں کی تفہیم کا مسئلہ ہے۔کہانی میں کرداروں کے تناظر کا تعین کیسے ہوتا ہے ؟اس کے علاوہ افسانے میں وقت کا تصور کیا ہے ؟ کیا واقعہ کہانی کے متن میں وقت کے ساتھ بندھا ہوتا ہے ؟مکان کا کیا تصور ہے ؟ علامت کسے کہتے ہیں ؟کوئی کردار، واقعہ یا پھر پوری کہانی کیسے علامتی سطح کو چھونے لگتی ہے ؟افسانے میں واقعہ قائم ہونے کی بنیادی شرائط کیا ہیں ؟ اَفسانے میں اسلوب سے کیا مراد ہے اور یہ کیسے بنتا ہے ؟ ایک ہی موضوع اور لگ بھگ ایک سے وسائل استعمال کرنے والے کیسے اور کیوں مختلف ہو جاتے ہیں ؟ حقیقت کیا ہے اور افسانے میں حقیقت کا تصور کیا ہے یا پھر کیا ہونا چاہیے ؟ ان سوالات کے سلسلے میں نظری مباحث اُٹھاتے ہوئے شمس الرحمن فاروقی نے اکثر علمی اور استدلالی بحث کے ذریعے ذہن کے تاریک گوشوں کو منور کرنے کی کوشش کی ہے۔اس کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ وہ بذات خود ناول و افسانہ نگار ہیں اور افسانوی تنقید کے وقت ان کا تخلیقی شعور ان کے ساتھ رہتا ہے۔

باوجودیکہ مجھے اپنی کم فہمی کا اعتراف ہے، میرا ذاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ ’’افسانے کی حمایت میں ‘‘ نے اردو افسانے کی تنقید سے متعلق ان مباحث کو جو اب تک حاشیے پر تھے یا جن کا وجود بھی نہ تھا، انھیں تنقیدی متن کا حصہ بنا دیا ہے۔ادب یا تنقید سے متعلق میری جو رائے بن پائی ہے اس کی بنا پر یہ کہتے ہوئے مجھے کسی طرح کی جھجھک نہیں کہ کوئی بھی ناقد اسی وقت نئے تنقیدی ضابطے کی تشکیل کر سکتا ہے جب وہ یہ فیصلہ کر لے کہ ادب کی تخلیق کیوں ہو ؟ یا ادب کیوں تخلیق کیا جائے ؟ اور پھر جو صنف ادب اس کے بحث کا حصہ ہے اس سے اس کی مراد کیا ہے ؟ اور شمس الرحمن فاروقی کے سروکاروں کا تجزیہ کرنے کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انھوں نے تنقید میں زیادہ تر معاملہ اسی سے کیا ہے۔ یہی سارے مسائل ان کی تنقید کا پیش خیمہ رہے ہیں۔ ’’افسانے کی حمایت میں ‘‘ نے افسانے کی تنقید سے متعلق ایک نیا وژن دیا ہے جو افسانے کی قدر و قیمت کے تعین کے حوالے سے ہمارے تنقیدی شعور میں اضافے کا باعث ہے۔گرچہ اس کے بعض مباحث سے اختلاف و اتفاق کی صورتیں وقت کے ساتھ ساتھ پیدا اور ختم ہوتی رہتی ہیں۔

’’افسانے کی حمایت میں ‘‘ کا مطالعہ اور اس کے تنقیدی تصورات کا جائزہ لیتے ہوئے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ شمس الرحمن فاروقی کی افسانہ تنقید، ان کی شاعری کی تنقید کی طرح اردو ادب کے لیے بیش قیمت سرمایہ ہے۔ باوجودیکہ ان کے کچھ نظریات مختلف فیہ ہیں جن پر بحث کے در کھلے ہیں مگر مجموعی لحاظ سے ان کی افسانہ تنقید اطمینان بخش اور بصیرت افروز ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے افسانہ تنقید کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا ہے اور افسانہ تنقید کو ایک شناخت یا چہرہ دینے کی کوشش کی ہے۔ لفظوں اور مرصع و مقفیٰ جملہ طرازیوں کی مصنوعی فضا سے نکال کر اسے معروضی لہجہ عطا کیا ہے۔ تن آسانی کو طاق نسیاں کے حوالے کر رزمگاہ متن میں پنہاں معانی و مفاہیم کے ہوش ربا ناز و انداز واشگاف کرنے کی دعوت دی ہے۔ افسانوی خال و خد اور اس کی ضروریات کو معرض بحث میں لا کر اس کی اپنی پہچان قائم کرنے کی کوشش کی۔افسانے کے ان اچھوتے پہلوؤں کو افسانہ تنقید کے ضمن میں متعارف کرایا، جن کے متعلق ان سے قبل بات کرنے کی ضرورت کم ہی محسوس کی گئی۔ افسانے کے نظری مباحث کو قلمبند کیا کہ افسانہ بھی شاعری کی طرح ایک مکمل صنف ہے اور اس کے بھی اپنے اصول و ضوابط ہیں۔ یہی اصول اس کی پہچان ہیں اور یہی اسے دوسری اصناف سے ممتاز بھی کرتے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی نے پر زور طور پر یہ بات کہی کہ افسانہ صرف معنیاتی جہان آباد رکھنے والے فن پارے کا ہی نام نہیں بلکہ وہ ایک فن بھی ہے، جو قاری کے احساس جمال کو تسکین بہم پہنچاتا ہے اور یہ بات ان اصولوں اور خصائص کے حوالوں کے بغیر تلاش کرنا فعل عبث کے مترادف ہے۔

ذیل میں ان اعتراضات اور ’افسانے کی حمایت میں ‘میں شامل دوسرے مضامین سے برآمد ہونے والے افسانے کے نظری مباحث، جنہیں افسانے کی شعریات کا نام دیا جا سکتا ہے، پر حتی الامکان بحث کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

٭٭٭

 

مکمل کتاب پڑھنے کے لیے ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل