FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اصلی جادو

معراج

چینی جادوگر ہوانگ ہو اپنے کمالات دکھانے کے لیے آ رہا تھا۔ اسکول کے سب بچے بہت بےچینی سے اس کے آنے کا انتظار کر رہے تھے ۔ آخر وہ دن آ پہنچا جس کا سب بچوں کو بڑی شدت سے انتظار تھا۔

مس عابدہ نے کہا: "میں کل سب بچوں کو دوپہر کے بعد ٹاؤن ہال لے جاؤں گی۔ جو بچے جادو کا شو دیکھنا چاہتے ہیں وہ دو دو روپے دے کر ٹکٹ خرید لیں۔”

سب بچوں نے ٹکٹ خرید لیے ۔ صرف فرحانہ اور عادل رہ گئے۔ مس عابدہ سمجھیں کہ ان بچوں نے کوئی شرارت کی ہو گئی، اس لیے ان کی ماں نے سزا کے طور پر انھیں جادو تماشے میں جانے سے روک دیا ہے۔

عادل اور فرحانہ نے اپنی دادی سے میجک شو (جادو تماشے) میں جانے کی اجازت مانگی تو دادی نے کہا: "بیٹا! تمھارے ابو شہر کے بڑے ہسپتال میں داخل ہیں۔ میں ان کے علاج کے لیے سب روپے پیسے بھیج چکی ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ عید کے دن پہننے کے لیے میں تمھارے لیے نئے کپڑے بھی نہ سلوا سکوں۔” دونوں بچے بہت رنجیدہ ہوئے، لیکن منھ سے کچھ نہیں بولے۔

مس عابدہ نے کہا: "کل دوپہر کو سب بچے اسکول کے برآمدے میں جمع ہو جائیں۔ میں انھیں ساتھ لے کر ٹاؤن ہال جاؤں گی۔ جو بچے جانا نہیں چاہتے۔ انھیں اسکول آنے کی ضرورت نہیں۔ کل ان کی چھٹی ہے۔” فرحانہ اور عادل کا دل تو چاہ رہا تھا کہ وہ بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ میجک شو (جادو کا تماشا) دیکھتے، لیکن مجبوری آڑے آ گئی۔

اگلی صبح دادی جان نے انھیں اسکول جانے کے لیے کہا اور بولیں: "بچو! جلدی سے اٹھ کر منھ ہاتھ دھو کر کنگھا کرو اور اسکول جانے کی تیاری کرو۔”

عادل کروٹ بدل کر بولو: "دادی جان! آج اسکول کی چھٹی ہے۔”

دادی جان حیرت سے بولیں: "وہ کیوں بھلا؟”

عادل نے کہا: "میں نے بتایا تو تھا کہ چینی جادوگر اپنے کمالات دکھانے کے لیے آ رہا ہے ۔ آج سب بچے میجک شو دیکھنے جائیں گے۔”

دادی کو اس بات کا بےحد دکھ تھا کہ دونوں بچے اپنے دوستوں کے ساتھ جادو کا شو دیکھنے سے رہ گئے۔ دادی نے اپنے بٹوے کو ٹٹولا۔ اس میں مشکل سے دو یا ڈھائی روپے باقی رہ گئے تھے۔ وہ بولیں: "میں تمھیں جادو کا شو دیکھنے کے لیے پیسے نہ دے سکی۔ یہ تھوڑے سے پیسے باقی رہ گئے ہیں۔ تم ایک روپیہ لے جاؤ اور اسٹیشن پر سے چاکلیٹ لے کر کھالو۔”

دونوں بچے بےحد نیک اور فرمانبردار تھے۔ انھوں نے دادی کا کہنا مان لیا اور اسٹیشن پر چاکلیٹ خریدنے چلے گئے۔ جب وہ چاکلیٹ لے چکے تو اسی وقت ریل گاڑی کے انجن کی سیٹی سنائی دی۔ وہ ریل کے آنے تک وہاں ٹھہر گئے۔ تھوڑی دیر میں ریل گاڑی چھک چھک کرتی ہوئی آ گئی، ریل کے انجن سے کالے دھویں کا بادل سا نکل رہا تھا۔

وہ ایک چھوٹا سا اسٹیشن تھا۔ بہت کم لوگ وہاں آتے جاتے تھے۔ اس دن اتفاق سے صرف ایک ہی آدمی ریل گاڑی سے اترا۔ وہ لمبے قد کا دبلا پتلا آدمی تھا۔ اس نے سیاہ رنگ کا کوٹ پہنا ہوا تھا اور اس پر ہرے رنگ کی چادر لپیٹ رکھی تھی۔ اس نے کچھ ڈبے، سوٹ کیس اور تھیلے بھی ریل سے اتارے۔ وہ تانگے یا کسی ٹیکسی کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھنے لگا، لیکن وہاں تو دور دور تک ٹیکسی یا تانگے کا نام و نشان نظر نہیں آتا تھا۔

بےچارہ مسافر یہ صورت حال دیکھ کر بے حد پریشان ہوا۔ اس نے دونوں بچوں سے اس بارے میں پوچھا تو عادل بولا: جناب! یہاں تانگا یا ٹیکسی وغیرہ نہیں ملتے۔ قلی بھی آج کل بیمار ہے۔”

اجنبی مسافر بولا: "یہاں کھڑے رہ کر وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ میں خود ہی یہ سامان اٹھا کر لے چلتا ہوں۔”

اس نے دونوں سوٹ کیس سر پر رکھے، ڈبے اور تھیلے بغل میں دبائے اور چل پڑا۔ دونوں بچے اسے جاتے ہوئے دیکھتے رہے۔ وہ مسافر تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ اچانک ایک تھیلا اس کی بغل سے نکل کر گر پڑا۔ وہ جھک کر اسے اٹھانے لگا تو سر پر رکھے ہوئے سوٹ کیس بھی گر پڑے۔ تھیلے میں رکھی ہوئی چیزیں سڑک پر بکھر گئیں۔ بے چارے مسافر کا برا حال تھا۔ وہ جلدی جلدی تمام چیزوں کو اکٹھا کرنے لگا۔ اس نے سب چیزوں کو سمیٹا، سوٹ کیس دوبارہ سر پر رکھے اور ابھی تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ دونوں تھیلے پھر زمین پر گر پڑے۔ مسافر سر پکڑ کر رہ گیا۔

دونوں بھائی بہن کو اس پر بہت ترس آیا۔ فرحانہ بولی: "ہمیں اس شخص کی مدد کرنی چاہیے، دادی جان بھی تو یہی نصیحت کرتی ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو ہمیں دوسروں کی مدد کرنی چاہیے۔”

دونوں بچے اس اجنبی کے پاس پہنچے۔ عادل نے بڑی تمیز سے پوچھا: "کیا ہم آپ کی مدد کر سکتے ہیں؟ اگر آپ پسند کریں تو ہم یہ سامان اس جگہ پہنچا آئیں جہاں آپ کو جانا ہے۔”

اجنبی مسافر بولا: "ہاں بھئی، مجھے تمھاری مدد کی سخت ضرورت ہے۔ اگر میں یوں ہی چیزیں گرا گرا کر جمع کرتا رہا تو مجھے تو شام ہو جائے گی۔” اس نے فرحانہ کو ایک تھیلا اور ڈبا دیا ۔ دو ڈبے اور ایک تھیلا عادل کو دیا۔ باقی سامان خود اٹھایا۔ پھر وہ تینوں وہاں سے چل دیے۔

اجنبی شخص نے کہا: "میرا خیال ہے کہ ہمیں کافی دور تک چلنا پڑے گا۔ پیارے بچو! تم تھک تو نہیں جاؤ گے؟”

عاد بولا: "جی نہیں، یہ سامان زیادہ بھاری نہیں ہے۔”

مسافر نے پوچھا: ” تم آج اسکول کیوں نہیں گئے؟”

عادل بولا: "آج ہمارے اسکول میں چھٹی ہے۔ سب بچے چینی جادوگر ہوانگ ہو کے کمالات دیکھنے جائیں گے۔”

اس شخص نے پوچھا: "تم دونوں کیوں نہیں گئے؟”

عادل نے کہا: "ہمارے ابو بیمار ہیں۔ وہ شہر کے بڑے ہسپتال میں داخل ہیں۔ دادی جان نے سارے روپے پیسے ان کے علاج کے لیے بھیج دیے ہیں، اس لیے ہم جادوگر کے کمالات دیکھنے کے بجائے ادھر آ گئے۔ "وہ باتیں کرتے کرتے ٹاؤن ہال تک پہنچ گئے۔ دروازے پر بچوں کا ہجوم تھا، جو ٹکٹ دکھا کر ہال کے اندر داخل ہو رہے تھے۔

اجنبی مسافر بولا: "یہ لو، ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ مجھے اندر جانا ہے۔ تم جانتے ہو کہ میں کون ہوں؟ میں ہی چینی جادوگر ہوانگ ہو ہوں۔”

دونوں بچے ایک آواز ہو کر بولے: "کیا آپ سچ مچ جادوگر ہوانگ ہو ہو؟”

وہ بولا: "ہاں بھئی، میں سچ مچ جادوگر ہوانگ ہو ہوں۔ اچھا بھئی، اب یہ ڈبے اور تھیلے مجھے دے دو، مگر تم کہیں چلے مت جانا۔”

جادوگر تھیلے اور ڈبے وغیرہ لے کر ٹاؤن ہال کے اندر چلا گیا۔ فرحانہ بولی: "ہمیں ٹھہرنا نہیں چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ جادوگر واپس آ کر ہمیں کچھ انعام دے۔ تم جانتے ہو دادی جان نے کیا کہا تھا؟ انھوں نے کہا تھا کہ ہمیں نیکی کر کے اس کا بدلا نہیں لینا چاہیے، ورنہ نیکی کا ثواب ضائع ہو جاتا ہے۔”

عادل بولا: ” ہاں، مجھے دادی کی نصیحت یاد ہے۔ اب تم جلدی سے چل دو۔ ہم گھر جا کر دادی جان کو بتائیں گے کہ اگر ہم نے جادو کا تماشا نہ دیکھا تو کیا ہوا، ہم نے جادوگر کر تو دیکھ ہی لیا ہے نا۔”

وہ گھر کی طرف دوڑے۔ جادوگر ہوانگ ہو اتنی دیر میں ٹاؤن ہال سے باہر آ گیا تھا۔ اس نے دونوں بچوں کو بہت آوازیں دیں ، لیکن شور و غل میں اس کی آواز دب کر رہ گئی۔ جادوگر ان بچوں کے لیے جادو کے شو کے دو ٹکٹ لایا تھا۔ اگر وہ کچھ دیر اور ٹھہر جاتے تو وہ بھی دوسرے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر جادو کے کمالات دیکھتے۔

عادل اور فرحانہ گھر پہنچے تو ان کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے۔ انھوں نے پورا واقعہ اپنی دادی کو سنایا کہ کس طرح انھوں نے اہن اجنبی شخص کی مدد کی اور بعد میں معلوم ہوا کہ وہ جادوگر ہوانگ ہو ہے۔ دادی بہت دلچسپی اور توجہ سے ان کی باتیں سنتی رہیں۔ نیک کام کرنے پر انھوں نے بچوں کو شاباشی دی۔

اگلے دن جمعہ تھا۔ اسکول کی چھٹی تھی۔ دادی جان نے میز پر ناشتہ لگایا۔ دونوں بچے منھ ہاتھ دھو کر ناشتہ کرنے میں مشغول ہو گئے۔ اس وقت دروازے پر زوردار دستک کی آواز سنائی دی۔ دادی نے دروازہ کھولا۔ وہاں ایک اجنبی شخص کو کھڑے ہوئے دیکھ کر دادی ٹھٹک گئیں۔

وہ شخص بولا:”اماں جی! میرا نام ہوانگ ہو ہے۔ میں آپ کے بچوں کا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں۔ اگر انھوں نے کل میری مدد نہ کی ہوتی تو میں جادو کے کمالات نہ دکھا پاتا۔”

فرحانہ اور عادل بھی وہاں آ گئے۔ فرحانہ نے پوچھا: "آپ یہاں تک کیسے پہنچے؟”

جادوگر مسکرا کر بولا: "بہت آسانی سے۔ میں نے اسکول کے ہیڈ ماسٹر سے تمھارا پتہ معلوم کیا اور پھر پوچھتا پوچھتا تمھارے گھر تک پہنچ گیا۔”

پھر وہ دونوں بچوں سے بولا: "عزیز بچو” ادھر آؤ۔ میں تمھارا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں۔”

فرحانہ بولی: "جو کچھ ہم نے کیا وہ ہمارا فرض تھا۔ آپ ہمیں شرمندہ نہ کیجیے انکل!”

جادوگر بولا: "میں نے تمھیں ٹاؤن ہال کے دروازے پر انتظار کرنے کے لیے کہا تھا، لیکن تم میرا انتظار کیے بغیر چل دیے؟”

فرحانہ بولی: "ہم سمجھے کہ آپ ہمیں کچھ انعام دینا چاہتے ہیں۔”

عادل جلدی سے بولا: "دادی جان کہتی ہیں کہ نیکی کر کے اس کا معاوضہ وصول نہیں کرنا چاہیے۔”

چینی جادوگر ہنس کر بولا: "اماں جی! آپ نے بچوں کی بہت اچھی تربیت کی ہے۔”

دادی بولیں: "بیٹا! ذرا دیر کے لیے اندر آ جاؤ۔ ناشتہ تیار ہے۔ تم ہمارے ساتھ چائے پی کر جانا۔”

جادوگر بولا: "مجھے آپ کے ساتھ چائے پی کر بے حد خوشی ہو گی۔”

چینی جادوگر بھی ان کے ساتھ ناشتے میں شریک ہو گیا۔ اس نے اپنے سر سے ہیٹ اتارا اور بولا : "کیک حاضر ہے۔” یہ کہہ کر اس نے ہیٹ میں ہاتھ ڈالا اور ایک بڑا سا کیک نکال کر میز پر رکھ دیا۔ پھر اس نے ہیٹ میں ہاتھ ڈال کر چار گرما گرم سموسے نکال کر پلیٹ میں رکھ دیے۔ بچے یہ کمال دیکھ کر ہنس دیے۔ پتا نہیں کس طرح اتنا بڑا کیک اور چار سموسے ہیٹ سے نکلے۔

جلد ہی وہ لوگ ایک مزے دار کیک اور گرما گرم سموسوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ فرحانہ نے اپنی پلیٹ میں ایک سموسا رکھا تھا، مگر جب وہ اسے اٹھانے لگی تو نہ جانے کس طرح ایک کے دو سموسے بن گئے۔ عادل نے خالی کپ دادی جان کی طرف بڑھایا اور اسے دوبارہ بھرنے کے لیے کہا: "دادی جان ہنس کر بولیں: "یہ تو اوپر تک بھرا ہوا ہے۔”

عادل حیرانی سے بولا: "مگر میں نے تو چائے کا آخری قطرہ تک پی لیا تھا۔”

فرحانہ کی نظر میز پر رکھے ہوئے شیشے کے جگ پر پڑی۔ وہ چیخ کر بولی: "اماں جی! دیکھیے تو جگ میں ایک چھوٹی سی سنہری مچھلی تیر رہی ہے۔”

ہوانگ ہو تو بہت کمال کا جادوگر نکلا۔

چینی دان کے ڈھکن سے باہر ایک ٹشو پیپر لٹک رہا تھا۔ عادل نے جب اسے کھینچا تو وہ کھنچتا ہی چلا گیا۔ پہلے لال رنگ کا ٹشو نکلا۔ پھر نیلے رنگ کا، پھر اودے رنگ کا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ چینی دان میں اتنے بہت سے ٹشو سما سکتے ہیں۔

جب عادل دوبارہ کرسی پر بیٹھا تو کوئی نرم نرم سی چیز اس کے نیچے چیں چیں کرنے لگی۔ عادل گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ ایک سفید رنگ کا لال لال آنکھوں والا خرگوش تھا۔ عادل حیران رہ گیا۔ اس نے خرگوش کو اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔ دادی جان چائے دانی سے پیالی میں چائے انڈیلنے لگیں۔ اچانک ہی چائے شربت میں تبدیل ہو گئی۔ دادی جاں حیرانی سے بولیں: "تم یہ سب کیسے کر لیتے ہو؟”

جادوگر نے کہا: "بہت آسانی سے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ بس ذرا سی مشق اور مہارت کی ضرورت ہے۔ میرا خیال ہے کہ صبح ناشتے میں آپ چائے پینا پسند کرتی ہیں۔ اب ذرا دوسری پیالی میں چائے دانی انڈیل کر دیکھیے۔”

جب دادی نے اسے دوسری پیالی میں انڈیلا تو چائے دانی میں سے پھر چائے نکلنے لگی۔

عادل نے شربت کا گھونٹ بھرا اور خوش ہو کر بولا: "واہ! یہ تو بہت مزے دار شربت ہے۔”

فرحانہ بولی: "آپ یہ سب کیسے کر لیتے ہیں؟”

چینی جادوگر بولا: "بہت آسانی سے۔ میں نے مشق کر کے اتنی مہارت حاصل کر لی ہے کہ میں تمھاری نظروں کے سامنے کسی بھی چیز کو چھپا سکتا ہوں اور چھپائی ہوئی چیزوں کو نکال کر تمھارے سامنے پیش کر سکتا ہوں۔”

چینی جادوگر نے ایک شیشے کا گولا دکھاتے ہوئے کہا: "یہ لو میں اسے غائب کر رہا ہوں۔ ایک دو تین۔ دیکھا! گولا غائب ہو گیا۔۔ گولا غائب نہیں ہوا بلکہ میں نے پھرتی سے اسے اپنی جیب میں ڈال لیا ہے۔ اور یہ لو، گولا پھر حاضر ہے۔ یہ میں نے اسی تیزی سے جیب سے نکال کر تمھارے سامنے پیش کر دیا ۔”

دادی جان اور دونوں بچے بہت دل چسپی سے چینی جادوگر کی باتیں سن رہے تھے۔ عادل بولا: ” انکل! کیا آپ ہمیں جادو سکھائیں گے؟”

چینی جادوگر ہنس کر بولا: "اصل جادو میٹھے بول ہیں۔ تم اپنے اچھے اخلاق سے لوگوں کا جیت لو۔ پھر تم جہاں بھی جاؤ گے لوگ تمھاری نیکی اور شرافت کی تعریف کریں گے۔”

دونوں بچے جادوگر کی باتوں سے بےحد متاثر ہوئے۔

جادوگر بولا: "نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ تم نے میرے ساتھ نیکی کی۔ میں اس کا جواب دینے کے لیے خود چل کر تمھارے پاس پہنچا ہوں۔”

عادل بولا: "آپ ہمیں کوئی اور کمال دکھائیں گے؟”

چینی جادوگر بولا: "اچھا بھئی! اب تم اپنی آنکھیں بند کر لو۔ میں دس تک گنتی گنتا ہوں، اماں جی! آپ بھی اپنی آنکھیں بند کر لیجیے۔”

بچوں نے آنکھیں بند کر لیں۔ جادوگر ان کے سامنے بیٹھا تھا۔ وہ گنتی گننے لگا۔ جوں ہی اس نے دس کہا، انھوں نے آنکھیں کھول دیں جادوگر بولا: "ذرا اپنے کمروں میں جا کر تکیوں کے نیچے تو دیکھو کہ وہاں کیا رکھا ہے؟”

دونوں بچے دوڑتے ہوئے اپنے کمرے میں پہنچے۔ جادوگر ہوانگ ہو نے اپنا ساماں سمیٹا اور جانے کی تیاری کرنے لگا۔ اتنے میں دونوں بچے دوڑتے ہوئے آئے۔ ان کے ہاتھوں میں دو بند لفافے تھے۔

جادوگر بولا: "یہ لفافے تم میرے جانے کے بعد کھولنا۔” پھر اس نے دونوں بچوں کو پیار کیا۔ دادی جان کو سلام کیا اور وہاں سے رخصت ہو گیا۔

دونوں بچے حیرانی سے بولے: "دادی جان! یہ لفافے اس نے ہمارے تکیوں کے نیچے کب رکھے؟ وہ تو ہمارے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا۔”

دادی جان کے پاس بھی اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔

عادل بولا: "ہوانگ ہو واقعی اصل جادوگر تھا۔ جادو کے بغیر وہ ایسا کام کر ہی نہیں سکتا۔”

فرحانہ بولی: "ان لفافوں کو کھول کر دیکھنا چاہیے کہ ان میں کیا ہے؟”

دادی نے لفافے کھولے۔ ان میں سو سو کے کئی نوٹ رکھے ہوئے تھے اور ایک کاغذ پر ٹیڑھے میڑھے حروف میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ فرحانہ نے اونچی آواز میں پڑھا۔ لکھا تھا: "میٹھے بول میں جادو ہے۔”
٭٭٭

ٹائپنگ : مقدس
پروف ریڈنگ: فہیم اسلم، اعجاز عبید
ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید