استفتاءات
جلد اول، حصہ اول*
آیت اللہ علی خامنہ ای
*اصل کتاب کی جلد اول کے چار حصص کر دئے گئے ہیں
کتاب اجتہاد و تقلید
(ا)
س۱۔ تقلید کا واجب ہونا خود تقلیدی مسئلہ ہے یا اجتہادی ؟
ج۔ اجتہادی اور عقلی مسئلہ ہے۔
س۲۔آپ کے نزدیک احتیاط پر عمل کرنا بہتر ہے یا تقلید پر؟
ج۔ چونکہ احتیاط پر اس وقت عمل ہوسکتا ہے جب اس کے موارد و مواقع کو جانتا ہو اور احتیاط کے طریقوں سے واقف ہو اور ان دونوں کو بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں اس کے علاوہ احتیاط پر عمل کرنے میں عام طور پر بہت زیادہ وقت صرف ہوتا ہے، اس بنا پر جامع الشرائط مجتہد کی تقلید بہتر ہے۔
س۳۔ احکام میں احتیاط کا دائرہ اور اس کے حدود فقہا کے فتووں میں کیا ہیں ؟ اور کیا سابق علماء کے فتووں کو بھی اس میں شامل کرنا واجب ہے؟
ج۔ وجود موارد میں احتیاط سے مراد ان تمام فقہی احتمالات کی رعایت کرنا ہے جن کے واجب ہونے کا احتمال پایا جاتا ہو۔
س۴۔ چند ہفتوں کے بعد میری بیٹی بالغ ہونے والی ہے اور اس وقت اس پر اپنے لئے مرجع تقلید کا انتخاب واجب ہو جائے گا اور چونکہ یہ امر اس کے لئے مشکل ہے لہذا اس سلسلہ میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
ج۔ اگر وہ اس سلسلے میں اپنے شرعی وظیفہ کی جانب متوجہ نہ ہو تو اس سلسلے میں اس کی ہدایت و رہنمائی آپ کی ذمہ داری ہے۔
س5۔ مشہور ہے کہ موضوع کی تشخیص مکلف کا کام ہے اور حکم کی تشخیص مجتہد کے ذمہ ہے۔ پس جن موضوعات کی تشخیص مرجع خود کرتا ہے۔ ان کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟
کیا ا س تشخیص کے مطابق عمل کرنا واجب ہے کیونکہ ہم مرجع تقلید کو ایسے بہت سے موارد میں بھی دخیل پاتے ہیں ؟
ج۔ جی ہاں ! موضوع کو مشخص کرنا مکلف کا کام ہے لہذا اپنے مجتہد کی تشخیص کا اتباع مکلف پر واجب نہیں ہے، مگر یہ کہ وہ اس تشخیص سے مطمئن ہو یا موضوع کا تعلق استنباطی موضوعات سے ہو۔
س6۔ روزمرہ کے شرعی مسائل ، جن سے مکلف کا سابقہ پڑتا رہتا ہے ، کیا ان کا علم حاصل نہ کرنے والا گناہگار ہے؟
ج۔اگر شرعی مسائل کا علم حاصل نہ کرنا کسی واجب کے چھوٹ جانے یا فعل حرام کے ارتکاب کا سبب بنے تو گناہگار ہے۔
س7۔ جب ہم بعض کم علم لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ تمھارا مرجع تقلید کون ہے؟ تو وہ کہتے ہیں ہم نہیں جانتے یا کہتے ہیں کہ فلاں مرجع کی تقلید کرتے ہیں جبکہ وہ خود کو اس بات کا پابند نہیں سمجھتے کہ اس کی توضیح المسائل کو دیکھیں اور اس کے مطابق عمل کریں۔ ایسے لوگوں کو اعمال کا کیا حکم ہے؟
ج۔ اگر ان کے اعمال احتیاط یا واقع یا اس مجتہد کے فتوے کے مطابق ہیں جس کی تقلید ان پر واجب تھی تو ان کو صحیح مانا جائے گا۔
س8۔ جن مسائل میں مجتہد اعلم احتیاط واجب کا قائل ہے، کیا ہم ان میں اس کے بعد کے اعلم کی طرف رجوع کرسکتے ہیں ؟ اور دوسر سوال یہ ہے کہ اگر اس کے بعد والا اعلم بھی اس مسئلہ میں احتیاط واجب کا قائل ہو تو کیا ہم اس مسئلے میں ان دونوں کے بعد والے اعلم کی طرف رجوع کرسکتے ہیں ؟ اور اگر تیسرا بھی اسی بات کا قائل ہو تو کیا ہم ان کے بعد والے اعلم کی طرف رجوع کریں گے ؟۔۔ الخ۔ اس مسئلہ کی وضاحت فرما دیجئے۔
ج۔ اس مجتہد کی طرف رجوع کرنے میں جو اس مسئلہ میں احتیاط کا قائل نہیں بلکہ اس میں ا سکا صریح فتویٰ موجود ہے، کوئی حرج نہیں ہے۔ ہاں اعلم فالاعلم کی رعایت کرنا ہو گی۔
تقلید کے شرائط
س۹۔ کیا ایسے مجتہد کی تقلید جائز ہے جس نے اپنی مرجعیت کے منصب کو نہ سنبھالا ہو اور نہ اس کا رسالۂ عملیہ موجود ہو ؟
ج۔ جو مکلف تقلید کرنا چاہتا ہے، اگر اس پر یہ ثابت ہو جائے کہ وہ جامع الشرائط مجتہد ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س10۔ کیا مکلف اس مجتہد کی تقلید کرسکتا ہے جس نے فقہ کے کسی ایک باب مثلاً نماز و روزہ میں اجتہاد کیا ہے، پس کیا وہ اس باب میں اس مجتہد کی تقلید کرسکتا ہے جس میں اس نے اجتہاد کیا ہے؟
ج۔ مجتہد متجزی کا فتویٰ خود اس کے لئے حجت ہے لیکن دوسروں کا اس کی تقلید کرنا محل اشکال ہے اگرچہ اس کا جائز ہونا بعید نہیں ہے۔
س11۔ کیا دوسرے ملکوں کے علماء کی تقلید جائز ہے ، خواہ ان تک رسائی بھی ممکن نہ ہو؟
ج۔ شرعی مسائل میں جامع الشرائط مجتہد کی تقلید میں یہ شرط نہیں ہے کہ مجتہد مکلف کا ہم وطن ہویا اس کے شہر کا رہنے والا ہو۔
س12۔ مجتہد اور مرجع تقلید میں جو عدالت معتبر ہے کیا وہ کمی یا زیادتی کے اعتبار سے اس عدالت سے مختلف ہے جو امام جماعت کے لئے ضروری ہے؟
ج۔ منصب مرجعیت کی اہمیت اور حساسیت کے پیش نظر مرجع تقلید میں احتیاط واجب کی بنا پر عدالت کے علاوہ یہ بھی شرط ہے کہ وہ اپنے سرکش نفس پر مسلط ہو اور دنیا کا حریص نہ ہو۔
س13۔ کیا زمان و مکان کے حالات سے واقف ہونا اجتہاد کی شرطوں میں سے ایک شرط ہے؟
ج۔ ممکن ہے بعض مسائل میں اس کا دخل ہو۔
س13۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مرجع تقلید کے لئے واجب ہے کہ وہ عبادات و معاملات کے علم پر مسلط ہونے کے علاوہ سیاسی ، اقتصادی ، فوجی ، سماجی اور قیادت و رہبری کے امور کا بھی عالم ہو۔ پھلے ہم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مقلد تھے اور اب بعض افاضل علماء کی رہنمائی اور خود اپنی رائے کی بناء پر آپ کی تقلید کو واجب سمجھتے ہیں۔ اس طرح ہم نے قیادت و مرجعیت کو ایک جگہ پایا ہے۔ اس سلسلہ میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟
ج۔ مرجع تقلید کی صلاحیت کی شرطیں ( ان امور میں جن میں ایک غیر مجتہد و محتاط پر اس کی تقلید ضروری ہے جس میں مقررہ شرطیں پائی جاتی ہوں ) ، تحریر الوسیلہ اور دوسری کتابوں میں تفصیل کے ساتھ مرقوم ہیں۔
لیکن شرائط کے اثبات کا مسئلہ اور فقہا میں سے تقلید کے لئے صالح شخص کی تشخیص خود مکلف کے نظریہ پر منحصر ہے۔
س14۔ تقلید میں مرجع کا اعلم ہونا شرط ہے یا نہیں ؟ اور اعلمیت کے معیار اور اس کے اسباب کیا ہیں ؟
ج۔ جن مسائل میں اعلم کے فتوے دوسروں سے مختلف ہیں ان میں اعلم کی تقلید احتیاطاً واجب ہے۔ اعلمیت کا معیار یہ ہے کہ وہ دوسرے مجتہدین سے احکام خدا کے سمجھنے اور الہی فرائض کا ان کی دلیلوں سے استنباط کرنے میں زیادہ مہارت رکھتا ہو۔ نیز اپنے زمانے کے حالات کو اس حد تک جانتا ہو جتنا احکام شرعی کے موضوعات کی تشخیص اور شرعی فرائض بیان کرنے کے لئے فقہی رائے کا اظہار کرنے میں ضروری ہے۔ کیونکہ زمانے کے حالات سے آگاہی کو اجتہاد میں بھی دخل ہے۔
س15۔ اگر اعلم میں تقلید کے لئے معتبر شرائط موجود نہ ہونے کا احتمال ہو ، ایسے میں اگر کوئی شخص غیر اعلم کی تقلید کر لے تو کیا اس کی تقلید کو باطل قرار دیا جا سکتا ہے؟
ج۔ صرف اس احتمال کی وجہ سے کہ اعلم میں ضروری شرائط موجود نہیں ہیں ، اختلافی مسئلہ میں بنا بر احتیاط واجب غیر اعلم کی تقلید جائز نہیں ہے۔
س16۔ اگر چند مسائل میں چند علماء کا اعلم ہونا ثابت ہو جائے ( اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک کسی خاص مسئلہ میں اعلم ہے) تو ان کی طرف رجوع کرنا جائز ہے یا نہیں ؟
ج۔ تبعیض یعنی متعدد مراجع کی تقلید کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔بلکہ اگر ہر مجتہد اس مسئلے میں اعلم ہو جس میں مکلف اس کی تقلید کر رہا ہے تو بنا بر احتیاط جس مسئلہ میں ان کے فتوے مختلف ہوں۔ ان میں بھی تبعیض واجب ہے۔
س17۔ کیا اعلم کی موجودگی میں غیر اعلم کی تقلید کی جا سکتی ہے؟
ج۔ ان مسائل میں غیر اعلم کی طرف رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جن میں اس کا فتویٰ اعلم کے فتوے کے خلاف نہ ہو۔
س18۔ مرجع تقلید کی اعلمیت کے سلسلہ میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟ اور اس پر آپ کی کیا دلیل ہے؟
ج۔ جب متعدد جامع الشرائط فقہا موجود ہوں اور اپنے اپنے فتووں میں اختلاف رکھتے ہوں تو احتیاط واجب یہ ہے کہ غیر مجتہد مکلف، مجتہد اعلم کی تقلید کرے، مگر یہ کہ اس کا فتویٰ احتیاط کے خلاف ہو، اور غیر اعلم کا فتویٰ احتیاط کے موافق ہو۔ اس کی دلیل سیرت عقلاء ہے، بلکہ اگر امر تعیین و تخییر میں دائر ہو جائے تو عقل بھی تعیین کا حکم دیتی ہے۔
س19۔ ہمارے لئے کس کی تقلید کرنا واجب ہے؟
ج۔ جامع الشرائط مجتہد اور مرجع کی تقلید واجب ہے بلکہ احوط یہ ہے کہ وہ مجتہد اعلم ہو۔
س20۔ کیا ابتداء سے میت کی تقلید کی جا سکتی ہے؟
ج۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ ابتداء میں زندہ اور اعلم مجتہد کی ہی تقلید کی جائے۔
س21۔ ابتداء میں میت کی تقلید زندہ مجتہد کی تقلید پر موقوف ہوتی ہے یا نہیں ؟
ج۔ ابتداء میں میت کی تقلید کرنے یا میت کی تقلید پر باقی رہنے کا جواز زندہ مجتہد اعلم کی اجازت پر موقوف ہوتا ہے۔
اجتہاد اور اعلمیت کا اثبات اور فتوی حاصل کرنے کے طریقے
س22۔ دو عادل گواہوں کی گواہی سے ایک مجتہد کی صلاحیت ثابت ہو جانے کے بعد کیا اب میرے اوپر اس سلسلہ میں کسی اور سے بھی سوال کرنا واجب ہے ؟
ج۔ کسی معین جامع الشرائط مجتہد کی صلاحیت کے اثبات کے لئے اہل خبرہ (اہل علم)حضرات میں سے دو عادل گواہوں کی گواہی پر اعتماد کافی ہے اور اس سلسلہ میں مزید افراد سے سوال کرنا ضروری نہیں ہے۔
س23۔ مرجع تقلید کے انتخاب اور اس کا فتویٰ حاصل کرنے کے کیا طریقے ہیں ؟
ج۔ مرجع تقلید کے اجتہاد اور اس کی اعلمیت کے اثبات کے لئے ضروری ہے کہ یا انسان خود عالم ہو اور تحقیق کرے یا اسے علم حاصل ہو جائے چاہے ایسی شہرت کے ذریعہ ہی ، جس سے یقین ہو جائے یا اطمینان حاصل ہو جائے یا اہل خبرہ میں سے دو عادل گواہی دیں۔
مرجع تقلید سے فتویٰ حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ خود اس سے سنے یا دو عادل نقل کریں بلکہ ایک ہی عادل کا نقل کرنا کافی ہے یا پھر ایسے معتبر انسان کا نقل کرنا بھی کافی ہے جس کی بات پر اطمینان ہو یا اس کی توضیح المسائل میں دیکھے جو غلطیوں سے محفوظ ہو۔
س24۔ کیا مرجع کے انتخاب کے لئے وکیل بنانا صحیح ہے؟ جیسے بیٹا اپنے باپ کو اور شاگرد اپنے استاد کو اپنا وکیل بنائے؟
ج۔ اگر وکالت سے مراد جامع الشرائط مجتہد کی تحقیق کو باپ، استاد یا مربی وغیرہ کے سپرد کرنا ہے تواس میں کوئی حرج نہیں ہے، ہاں اگر اس سلسلہ میں ان کا قول یقین اور اطمینان کے قابل ہو یا اس میں دلیل و شہادت کے شرائط موجود ہوں تو ان کا قول شرعاً معتبر اور حجت ہے۔
س25۔ میں نے چند مجتہدین سے پوچھا کہ اعلم کون ہے۔ انہوں نے جواب دیا فلاں شخص کی طرف رجوع کرنے سے انسان بری الذمہ ہے تو کیا میں ان کی بات پر اعتماد کرسکتا ہوں جبکہ مجھے معلوم نہیں کہ موصوف اعلم ہیں یا نہیں یا مجھے ان کے اعلم ہونے کے بارے میں احتمال ہے یا اطمینان ہے کہ وہ شخص اعلم نہیں ہے اس لئے کہ دوسرے فقہا کے بارے میں بھی مثلاً ایسی ہی شہادت اور گواہی موجود ہے؟
ج۔ جب کسی جامع الشرائط مجتہد کے اعلم ہونے پر شرعی دلیل قائم ہو جائے تو جب تک اس دلیل کے خلاف کسی اور دلیل کا علم نہ ہو وہ حجت ہے اور اس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے ، یقین یا اطمینان حاصل کرنا اس کے لئے شرط نہیں ہے اور نہ اس کے خلاف گواہیوں کے بارے میں تحقیق کی ضرورت ہے۔
س26۔ کیا وہ شخص شرعی احکام کے جوابات دے سکتا ہے جس کے پاس اجازہ نہیں ہے اور وہ بعض مقامات پر اشتباہ سے بھی دوچار ہوتا اور احکام کو غلط بیان کر دیتا ہے اور اس حالت میں کیا کیا جائے جبکہ اس نے توضیح المسائل سے پڑھ کر مسئلہ بیان کیا ہو؟
ج۔ مجتہد کا فتویٰ نقل کرنے اور شرعی احکام بیان کرنے کے لئے اجازہ شرط نہیں ہے لیکن اگر اس سے غلطی یا اشتباہ ہوتا ہے تو اس کے لئے بیان اور نقل کرنا جائز نہیں ہے۔ اور اگر کسی ایک مسئلہ بیان کرنے میں اس سے غلطی ہو جائے اور بعد میں اس کی طرف متوجہ ہو تو اس پر واجب ہے کہ سننے والے کو اس غلطی سے آگاہ کر دے۔ بہر حال سننے والے کو بیان کرنے والے کی بات پر اس وقت تک عمل کرنا جائز نہیں ہے جب تک اس کے قول اور اس کی بیان کردہ بات کے صحیح ہونے پر اسے اطمینان نہ ہو جائے۔
تقلید بدلنا
س۲۸۔ ہم نے مجتہد میت کی تقلید پر باقی رہنے کے لئے غیر اعلم سے اجازت لی تھی، پس اگر اس سلسلہ میں اعلم کی اجازت شرط ہے تو کیا اس صورت میں اعلم کی طرف رجوع کرنا اور مجتہد میت کی تقلید پر باقی رہنے کے لئے اس سے اجازت لینا واجب ہے؟
ج۔ اگر اس مسئلہ میں غیر اعلم کا فتویٰ اعلم کے فتوے کے موافق ہو تو اس کے قول کے مطابق عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس صورت میں اعلم کی طرف رجوع کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
س۲۹۔ کیا ان جدید مسائل میں مجتہد اعلم سے عدول جائز ہے جن میں اس کے لئے یہ ممکن نہیں کہ تفصیلی دلیلوں کے ذریعہ صحیح احکام کا استنباط کرسکے؟
ج۔ اگر مکلف اس مسئلہ میں احتیاط نہیں کرنا چاہتا یا نہیں کرسکتا ہے اور اسے کوئی ایسا مجتہد مل جائے جو اعلم ہے اور مذکورہ مسئلہ میں فتویٰ رکھتا ہو تو اس کی طرف رجوع کرنا اور اس مسئلہ میں اس کی تقلید کرنا واجب ہے۔
س۳۰۔ کیا امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے کسی فتوے سے عدول کر کے اس مجتہد کے فتوے کی طرف رجوع کرنا واجب ہے جس سے میں نے میت کی تقلید پر باقی رہنے کی اجازت لی تھی یا دوسرے مجتہدین کی طرف بھی رجوع کیا جا سکتا ہے؟
ج۔ عدول کے لئے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ پس ہر اس جامع الشرائط مجتہد کی طرف عدول کیا جا سکتا ہے جس کی تقلید صحیح ہو۔
س۳۱۔ کیا اعلم کی تقلید چھوڑ کر غیر اعلم کی طرف رجوع کرنا جائز ہے؟
ج۔ اس صورت میں عدول احتیاط کے خلاف ہے بلکہ احتیاط واجب کی بناء پر اس مسئلہ میں عدول جائز نہیں جس میں اعلم کا فتویٰ غیر اعلم کے فتوے کے خلاف ہو۔
س۳۲۔ میں ایک مجتہد کے فتوے کے مطابق امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید پر باقی تھا لیکن جب استفتا آت میں آپ کے جوابات اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید پر باقی رہنے کے سلسلے میں آپ کا نظریہ معلوم ہوا تو میں نے پھلے مجتہد سے عدول کر لیا اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے فتووں نیز آپ کے فتاوی کے مطابق عمل شروع کر دیا کیا میرے اس عدول میں کوئی اشکال ہے؟
ج۔ ایک زندہ مجتہد کی تقلید سے عدول کر کے دوسرے زندہ مجتہد کی تقلید کی جا سکتی ہے اور اگر دوسرا مجتہد مکلف کی نظر میں پھلے مجتہد کی بہ نسبت اعلم ہو تو بنا بر احتیاط اس مسئلہ میں عدول واجب ہے جس میں دوسرے مجتہدین کا فتویٰ پھلے مجتہد کے فتوے کے خلاف ہو۔
س۳۳۔ جو شخص امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا مقلد تھا اور ان ہی کی تقلید پر باقی رہا وہ کسی خاص مسئلہ مثلاً تہران کو بلاد کبیرہ شمار نہ کرنے کے سلسلے میں مراجع تقلید میں سے کسی ایک کی طرف رجوع کرسکتا ہے یا نہیں ؟
ج۔ اس کے لئے رجوع کرنا جائز ہے اگرچہ ان مسائل میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید پر باقی رہنا ہی احتیاط کے مطابق ہے ، جن میں انہیں زندہ مجتہد سے اعلم سمجھتا ہے۔
س۳۴۔ میں شرعی اعمال کا پابند ایک جوان ہوں ، بالغ ہونے سے پھلے ہی میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا مقلد تھا لیکن کسی شرعی دلیل کے بغیر ، بس اس بنیاد پر تقلید کرتا تھا کہ امام کی تقلید مجھے بری الذمہ کرنے کے لئے کافی ہے۔ کچھ مدت کے بعد میں نے دوسرے مجتہد کی تقلید اختیار کر لی ، لیکن میرا عدول صحیح نہیں تھا جب اس مرجع کا انتقال ہوا تو میں نے آپ کی طرف رجوع کیا ، پس میں نے جو اس مجتہد کی تقلید کی تھی اس کا کیا حکم ہے ؟ اس زمانہ کے میرے اعمال کا کیا حکم ہے؟ اور اس وقت میرا کیا فریضہ ہے؟
ج۔ تمھارے گزشتہ وہ اعمال جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں یا ان کی وفات کے بعد ان کی تقلید پر باقی رہتے ہوئے انجام پائے ہیں صحیح ہیں۔ لیکن وہ اعمال جو دوسرے مجتہد کی تقلید میں انجام دئیے ہیں اگر وہ اس مجتہد کے فتووں کے مطابق ہیں جس کی تقلید تمھارے اوپر واجب تھی یا اس مجتہد کے فتووں کے مطابق ہیں جس کی تقلید اس وقت تم پر واجب ہے تو وہ صحیح ہیں ورنہ ان کا تدارک واجب ہے اور اس وقت تمھیں اختیار ہے چاہے متوفی مرجع کی تقلید پر باقی رہو یا اس کی طرف رجوع کرو جسے قوانین شرع کے مطابق تقلید کا اہل پاتے ہو۔
میت کی تقلید پر باقی رہنا
س۳۵۔ ایک شخص نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد ایک معین مجتہد کی تقلید کی اور اب وہ دوبارہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کرنا چاہتا ہے، کیا یہ اس کے لئے جائز ہے؟
ج۔ زندہ جامع الشرائط مجتہد کی تقلید سے مجتہد میت کی تقلید کی طرف رجوع کرنا بنا بر احتیاط واجب جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر زندہ مجتہد جامع الشرائط نہیں تھا تو اس کی طرف عدول کرنا ہی باطل تھا اور وہ مجتہد میت کی تقلید پر باقی رہا ہے اب اسے اختیار ہے کہ مردہ مجتہد کی تقلید پر باقی رہے یا ایسے زندہ مجتہد کی طرف عدول کرے جس کی تقلید جائز ہے۔
س۳۶۔ میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی حیات ہی میں بالغ ہو گیا تھا اور بعض احکام میں ان کی تقلید بھی کرتا تھا لیکن مسئلہ تقلید میرے لئے واضح نہیں تھا، اب میرا کیا فریضہ ہے؟
ج۔ اگر آپ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں اپنے عبادی و غیر عبادی اعمال ان کے فتووں کے مطابق بجا لاتے رہے چاہے بعض احکام میں ہی ان کے مقلد رہے ہوں تو آپ کے لئے تمام مسائل میں ان کی تقلید پر باقی رہنا جائز ہے۔
س۳۷۔ اگر میت اعلم ہو تو اس کی تقلید پر باقی رہنے کا کیا حکم ہے ؟
ج۔ میت کی تقلید پر باقی رہنا ہر حال میں جائز ہے ، واجب نہیں ہے لیکن میت کے اعلم ہونے کی صورت میں احتیاط یہی ہے کہ اس کی تقلید پر باقی رہا جائے۔
س۳۸۔ کیا میت کی تقلید پر باقی رہنے کے لئے اعلم سے اجازت لینا ضروری ہے یا کسی بھی مجتہد سے اجازت لی جا سکتی ہے؟
ج۔ میت کی تقلید پر باقی رہنے کے جواز کے مسئلہ میں اعلم سے اجازت لینا واجب نہیں ہے اور یہ اس صورت میں ہے جبکہ بقا بر تقلید میت کے جواز پر فقہا کا اتفاق ہو۔
س۳۹۔ ایک شخص نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کی اور ان کے انتقال کے بعد اس نے بعض مسائل میں دوسرے مجتہد کی تقلید کی اب اس مجتہد کے انتقال کے بعد اس کا کیا فریضہ ہے؟
ج۔ وہ پھلے کی طرح مرجع اول کی تقلید پر باقی رہ سکتا ہے۔ اسی طرح اسے اختیار بھی ہے کہ جن مسائل میں اس نے دوسرے مجتہد کی طرف عدول کیا تھا، ان میں اسی کی تقلید پر باقی رہے یا زندہ مجتہد کی طرف رجوع کرے۔
س۴۰۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد میں نے یہ گمان کیا کہ مرحوم کے فتوے کے مطابق میت کی تقلید پر باقی رہنا جائز نہیں ہے لہذا زندہ مجتہد کی تقلید کر لی، کیا اب میں دوبارہ امام خمینی (رح) کی تقلید کرسکتا ہوں ؟
ج۔ زندہ مجتہد کی طرف تمام فقہی مسائل میں عدول کرنے کے بعد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف رجوع کرنا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ زندہ مجتہد کا فتویٰ یہ ہو کہ متوفیٰ اعلم کی تقلید پر باقی رہنا واجب ہے اور آپ کو یقین ہو کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ زندہ مجتہد کی نسبت اعلم ہیں تو ایسی صورت میں ان کی تقلید پر باقی رہنا واجب ہے۔
س۴۱۔ کیا میں کسی ایک مسئلہ میں کبھی مجتہد میت کی اور کبھی زندہ اعلم کی طرف رجوع کرسکتا ہوں باوجودیکہ اس میں دونوں کا فتویٰ مختلف ہو؟
ج۔ میت کی تقلید پر باقی رہنا جائز ہے لیکن زندہ مجتہد کی طرف عدول کرنے کے بعد دوبارہ میت کی طرف رجوع کرنا جائز نہیں ہے۔
س۴۲۔ کیا امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مقلدین اور ان لوگوں کے لئے جو ان کی تقلید پر باقی رہنا چاہتے ہیں زندہ مراجع میں سے کسی ایک سے اجازت لینا ضروری ہے یا اس مسئلے میں اکثر مراجع عظام و علمائے اسلام کے تقلید میت پر باقی رہنے کے جواز پر اتفاق کافی ہے؟
ج۔ میت کی تقلید پر باقی رہنے کے جواز پر جو اتفاق ہے اس کی بنا پر امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید پر باقی رہنا جائز ہے۔ اس سلسلہ میں کسی معین مجتہد کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
س۴۳۔ جس مسئلہ پر مکلف نے مجتہد میت کی حیات میں عمل کیا تھا یا نہیں کیا تھا اس میں میت کی تقلید پر باقی رہنے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟
ج۔ تمام مسائل میں میت کی تقلید پر باقی رہنا جائز اور کافی ہے خواہ ان پر عمل کیا ہو یا نہ کیا ہو۔
س۴۴۔ میت کی تقلید پر باقی رہنے کے جواز کی صورت میں کیا اس حکم میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اس مجتہد کی حیات میں مکلف نہیں ہوئے تھے، مگر اس کے فتووں پر عمل کرتے تھے؟
ج۔ اگر وہ لوگ مجتہد کی حیات میں اس کی تقلید کر چکے ہوں چاہے تقلید بالغ ہونے سے پھلے ہی کی تھی تو اس کی موت کے بعد بھی اس کی تقلید پر باقی رہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س۴۵۔ ہم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مقلد تھے اور ان کی وفات کے بعد بھی ان کی تقلید پر باقی ہیں لیکن بعض اوقات ہمیں بعض نئے مسائل پیش آتے ہیں خصوصاً جبکہ ہم عالمی استکبار و طاغوت سے مقابلہ کے زمانہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں ، ایسے میں ہم تمام شرعی مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں لہذا ہم آپ کی طرف رجوع کا ارادہ رکھتے ہیں اور آپ کی تقلید کرنا چاہتے ہیں ، کیا ہم ایسا کرسکتے ہیں ؟
ج۔ آپ کے لئے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ طاب ثراہ کی تقلید پر باقی رہنا جائز ہے فی الحال ان کی تقلید سے عدول کرنے کا کوئی سبب نہیں ہے اگر رونما ہونے والے حوادث میں کسی حکم شرعی کے معلوم کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اس سلسلہ میں ہمارے دفتر سے خط و کتابت کرسکتے ہیں وفقکم اللہ تعالیٰ لمراضیہ۔
س۴۶۔ اس مقلد کا کیا فریضہ ہے جو ایک مجتہد کی تقلید میں ہو جبکہ اس کے لئے دوسرے مرجع کی اعلمیت ثابت ہو جائے؟
ج۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ ان مسائل میں اپنے مرجع تقلید سے اس مرجع کی طرف جس کی اعلمیت ثابت ہو چکی ہے، رجوع کر لے جن میں موجودہ مجتہد کا فتویٰ اعلم کے فتویٰ سے مختلف ہو۔
س۴۷۔ کس صورت میں مقلد کے لئے اپنے مجتہد سے عدول کرنا جائز ہے ؟
ج۔ اس صورت میں جبکہ دوسرا مجتہد موجودہ مجتہد سے اعلم ہو یا اس کے مساوی ہو۔
س۴۸۔ اگر اعلم کے فتوے زمانہ کے مطابق نہ ہوں یا ان پر عمل دشوار ہو تو کیا غیر اعلم کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے؟
ج۔ صرف اس گمان پر کہ اعلم کا فتویٰ ماحول اور حالات کے مطابق نہیں یا اس کے فتاویٰ پر عمل کرنا دشوار ہے، اعلم سے دوسرے مجتہد کی طرف عدول کرنا جائز نہیں ہے۔
متفرقات
س۴۹۔ جاہل مقصر کسے کہتے ہیں ؟
ج۔ جاہل مقصر وہ ہے جو اپنی جہالت سے بھی واقف ہو اور اس کو دور کرنے کے ممکنہ طریقے بھی جانتا ہو لیکن ان پر عمل نہ کرتا ہو۔
س۵۰۔ جاہل قاصر کون ہے؟
ج۔ جاہل قاصر وہ ہے جو اپنی جہالت سے بالکل آگاہ نہ ہو یا اپنے جہل کو دور کرنے کے طریقے نہ جانتا ہو۔
س۵۱۔ احتیاط واجب کے کیا معنی ہیں ؟
ج۔ یعنی کسی عمل کو انجام دینا یا ترک کرنا احتیاط کی بنا پر واجب ہے۔
س۵۲۔ کیا فتووں میں مذکورہ عبارت ’ فیہ اشکال ‘ (اس میں حرج ہے)حرمت پر دلالت کرتی ہے؟
ج۔ موقع و محل کے اختلاف سے اس کے معنی بھی مختلف ہوتے ہیں اگر جواز میں اشکال ہو تو مقام عمل میں اس کا نتیجہ حرمت پر مبنی ہو گا۔
س۵۳۔ ان عبارتوں ’ فیہ اشکال ‘ (اس میں حرج ہے)، ’مشکل‘ (مشکل ہے)’ لا یخلو من اشکال ‘ (حرج سے خالی نہیں )’ لا اشکال فیہ ‘ ( اس میں کوئی حرج نہیں ) سے فتویٰ مراد ہے یا احتیاط ؟
ج۔ ’لا اشکال فیہ ‘ کے علاوہ کہ وہ فتویٰ ہے ، باقی سب احتیاط ہیں۔
س۵۴۔ عدم جواز اور حرام میں کیا فرق ہے؟
ج۔ مقام عمل میں دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
قیادت و مرجعیت
س۵۵۔ اگر اجتماعی ، سیاسی اور ثقافتی مسائل میں ولی امر مسلمین اور دوسرے مرجع تقلید کے فتوے میں تعارض و اختلاف ہو تو ایسے میں مسلمانوں کا شرعی فریضہ کیا ہے ، کیا کوئی ایسی حد فاصل ہے جو ولی امر مسلمین اور مرجع کے صادر کردہ احکام میں امتیاز پید اکرسکے ؟ مثلاً اگر موسیقی کے سلسلہ میں مرجع تقلید اور ولی امر مسلمین کی آراء میں اختلاف ہو تو یہاں کس کا اتباع واجب اور کافی ہے اور عام طور پر وہ کون سے حکومتی احکام ہیں جن میں ولی امر مسلمین کا حکم مرجع تقلید کے فتوے پر ترجیح رکھتا ہے؟
ج۔ اسلامی ملک کے نظم و نسق اور مسلمانوں کے عمومی مسائل میں ولی امر مسلمین کے حکم کا اتباع کیا جائے گا اور انفرادی مسائل میں مکلف اپنے مرجع تقلید کا اتباع کرسکتا ہے۔
س۵۶۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ اصول فقہ میں ’ اجتہاد متجزی ‘ کے عنوان سے بحث کی جاتی ہے کیا امام خمینی (رح) کا مرجعیت کو قیادت سے جدا کرنا تجزی کے تحقق کی جانب ایک قدم نہیں ہے؟
ج۔ ولی فقیہ کی قیادت اور مرجعیت تقلید سے الگ الگ ہو جانے کا اجتہاد میں تجزی والے مسئلہ سے کوئی ربط نہیں ہے۔
س۵۷۔ اگر میں کسی مرجع کا مقلد ہوں اور ولی امر مسلمین ظالم کافروں سے جنگ یا جہاد کا اعلان کرے اور میرا مرجع تقلید مجھے جنگ میں شریک ہونے کی اجازت نہ دے تو میں اس کی رائے پر عمل کروں یا نہ کروں ؟
ج۔ امور عامہ میں ولی امر مسلمین کے حکم کی اطاعت واجب ہے، ان ہی امور میں اسلام اور مسلمانوں کا دفاع اور حملہ آور کافروں اور طاغوتوں سے جنگ بھی شامل ہے۔
س۵۸۔ ولی فقیہ کا حکم یا اس کا فتویٰ کس حد تک قابل عمل ہے اور اگر ولی فقیہ کا حکم یا فتویٰ مرجع اعلم کی رائے کے خلاف ہو تو ان دونوں میں سے کس پر عمل کیا جائے گا اورکسے ترجیح دی جائے گی؟
ج۔ ولی امر مسلمین کے حکم کا اتباع تمام لوگوں پر واجب ہے اور یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اختلاف کی صورت میں مرجع تقلید کے فتوے کو ولی فقیہ کے حکم کے مقابلے میں لایا جائے۔
ولایت فقیہ اور حکم حاکم
س۵۹۔ مفہوم و مصداق کے اعتبار سے ’ اصل ‘ ولایت فقیہ کا اعتقاد عقلی ہے یا شرعی ؟
ج۔ بے شک ولایت فقیہ۔ جو کے معنیٰ دین سے آگاہ عادل فقیہ کی حکومت ہے۔ شریعت کا تعبدی حکم ہے جس کی تائید عقل بھی کرتی ہے اور اس کے مصداق کی تعیین کے لئے عقلی طریقہ بھی ہے جس کو اسلامی جمہوریہ کے دستور میں بیان کیا گیا ہے۔
س۶۰۔ کیا ولی فقیہ اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت عامہ کے پیش نظر شریعت کے حکم کو بدل سکتا ہے یا اس پر عمل کرنے سے روک سکتا ہے؟
ج۔ مختلف حالات میں اس کا حکم مختلف ہے۔
س۶۱۔ کیا ذرائع ابلاغ کو اسلامی حکومت کے سایہ میں ولی فقیہ کے زیر نظر ہونا واجب ہے یا انہیں مراکز علوم دینیہ کی نگرانی میں ہونا چاہئیے یا کسی اور ادارہ کے زیر نظر ؟
ج۔ واجب ہے کہ ذرائع ابلاغ ولی امر مسلمین کے زیر فرمان اور ان کے زیر نظر ہوں اور انہیں اسلام و مسلمانوں کی خدمت ، الہی معارف کی نشر و اشاعت ، اسلامی معاشرہ کی عام مشکلوں کے حل اور فکری اعتبار سے اس سے مسلمانوں کی ترقی اور ان کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے اور ان کے درمیان اخوت و برادری کی روح کو فروغ دینے اور اسی طرح کے دوسرے امور انجام دینے کے لئے استعمال کیا جائے۔
س۶۲۔ کیا اس شخص کو حقیقی مسلمان سمجھا جائے گا جو فقیہ کی ولایت مطلقہ کا معتقد نہ ہو؟
ج۔ غیبت امام زمانہ عج کے عہد میں اجتہاد یا تقلید کی بناء پر فقیہ کی ولایت مطلقہ پر اعتقاد نہ رکھنا ارتداد اور دائرہ اسلام سے خارج ہونے کا باعث نہیں ہے۔
س۶۳۔ کیا ولی فقیہ کو ولایت تکوینی حاصل ہے جس کی بنیاد پر اس کے لئے کسی وجہ سے جیسے مصلحت عامہ کی بنا پر دینی احکام کا منسوخ کرنا ممکن ہے؟
ج۔ رسول اعظم صلوات اللہ علیہ و آلہ کی وفات کے بعد شریعت اسلامیہ کے احکام منسوخ نہیں کئے جا سکتے البتہ موضوع کا بدلنا ، کسی ضرورت یا مجبوری کا پیش آنا ، یا حکم کے نفاذ میں کسی وقتی رکاوٹ کا وجود نسخ نہیں ہے اور ولایت تکوینی اس کے نظر میں جو اس کا قائل ہے معصومین (ع)سے مخصوص ہے۔
س۶۴۔ ان لوگوں سے متعلق ہمارا کیا فریضہ ہے جو فقیہ عادل کی ولایت کو صرف امور حسیبہ میں محدود سمجھتے ہیں ، جانتے ہوئے کہ ان کے بعض نمائندے اس نظریہ کی اشاعت بھی کرتے ہیں ؟
ج۔ ہر زمانہ میں معاشرہ کی قیادت اور اجتماعی امور کی ہدایت کے لئے ولایت فقیہ مذہب حقہ اثنا عشری کا ایک رکن رہی ہے اور اس کا تعلق اصل امامت سے ہے اور اگر کوئی شخص دلیل کے ذریعہ ولایت فقیہ کا قائل نہ ہو تو وہ معذور ہے لیکن اس کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ تفرقہ اور اختلاف پھیلائے۔
س۶۵۔ کیا ولی فقیہ کے اوامر پر عمل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے یا صرف اس کے مقلدین کا فریضہ ہے؟ نیز جو مرجع تقلید ولایت مطلقہ کا معتقد نہ ہو اس کے مقلد پر ولی فقیہ کی اطاعت واجب ہے یا نہیں ؟
ج۔ شیعہ فقہ کے اعتبار سے ولی امر مسلمین کے صادر کردہ ولائی شرعی او امر کی اطاعت کرنا اور اس کے امر و نھی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا تمام مسلمانوں ، یہاں تک کہ تمام فقہائے عظام پر بھی واجب ہے چہ جائیکہ ان کے مقلدین پر۔ اور ہم ولایت فقیہ کی پابندی کو اسلام کی پابندی اور آئمہ کی ولایت سے جدا نہیں سمجھتے۔
س۶۶۔ لفظ ’ ولایت مطلقہ ‘ رسول (ص)کے زمانہ میں اس معنی میں استعمال ہوتا تھا کہ اگر رسول (ص)کسی شخص کو کسی چیز کا حکم دیں کہ تم خود کو قتل کر ڈالو ! تو اس پر خود کو قتل کر دینا واجب تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا آج بھی ولایت مطلقہ کے وہی معنی ہیں ؟ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ نبی(ص) معصوم تھے اور اس زمانہ میں کوئی ولی معصوم نہیں ہے؟
ج۔ جامع الشرائط فقیہ کی ولایت مطلقہ سے مراد یہ ہے کہ دین اسلام تمام آسمانی ادیان کے آخر میں آنے والا اور قیامت تک باقی رہنے والا دین ہے۔ یہ دین حکومت ہے اور معاشرہ کے امور کی دیکھ بھال کرنے والا دین ہے، پس اسلامی معاشرہ کے تمام طبقات کے لئے ایک ولی امر، حاکم شرع اور قائد کا ہونا ضروری ہے جو امت کو اسلام و مسلمانوں کے دشمنوں سے بچائے، ان کے نظام کا محافظ ہو، ان کے درمیان عدل قائم کرے، طاقتور کو کمزور پر ظلم کرنے سے باز رکھے، معاشرہ کی ثقافتی ، سیاسی اور اجتماعی امور کی ترقی کے وسائل فراہم کرے۔
اس امر کا عملی میدان میں نفاذ بعض اشخاص کی خواہشات ، منافع اور آزادی سے ٹکراؤ رکھتا ہے۔ لہذا حاکم مسلمین پر واجب ہے کہ وہ اس کے نفاذ کے وقت فقہ اسلامی کی روشنی میں ضرورت کے تحت لازمی اقدامات کرے۔
اس بنا پر ضروری ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے مصالح عامہ کے پیش نظر ولی امر کا ارادہ اور اس کے اختیارات تعارض اور ٹکراؤ کی صورت میں عوام کے ارادہ اور ان کے اختیارات پر حاکم ہوں اور یہ ولایت مطلقہ کا ایک معمولی سا پھلو ہے۔
س۶۷۔ جس طرح مجتہد میت کی تقلید پر باقی رہنے کے سلسلہ میں فقہا کا فتویٰ ہے کہ اس کے لئے زندہ مجتہد کی اجازت کی ضرورت ہے ، کیا اسی طرح مرحوم قائد کی طرف سے صادر ہونے والے حکومتی احکام و اوامر پر عمل کے سلسلے میں بھی زندہ قائد کی اجازت درکار ہے یا وہ اپنی جگہ ویسے ہی باقی ہیں۔
ج۔ ولی امر مسلمین کی طرف سے صادر ہونے والے حکومتی احکام اور اشخاص کی تقرریاں اگر وقتی نہ ہوں تو اپنی جگہ پر باقی رہیں گے ورنہ اگر موجودہ ولی امر مسلمین انہیں منسوخ کر دینے میں مصلحت سمجھتا ہو گا تو منسوخ کر دے گا۔
س۶۸۔ کیا اسلامی جمہوریہ ایران میں زندگی گزارنے والے اس فقیہ پر، جو ولی فقیہ کی ولایت مطلقہ کا قائل نہیں ہے، ولی فقیہ کے احکام کی اطاعت کرنا واجب ہے؟ اگر وہ ولی فقیہ کے حکم کی مخالفت کرے تو کیا اسے فاسق سمجھا جائے گا؟ اور اگر کوئی فقیہ ولایت مطلقہ کا تو اعتقاد رکھتا ہے لیکن اس منصب کے لئے اپنی ذات کو زیادہ سزاوار سمجھتا ہے، اس صورت میں اگر وہ ولایت کے منصب پر فائز فقیہ کے احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے تو کیا اسے فاسق سمجھا جائے گا؟
ج۔ ہر مکلف پر واجب ہے کہ وہ ولی امر مسلمین کے حکومتی اوامر کی اطاعت کرے چاہے وہ فقیہ ہی کیوں نہ ہو اور کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ خود کو اس منصب کا زیادہ حقدار سمجھ کر ولی امر مسلمین کے احکام کی خلاف ورزی کرے۔ یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ موجودہ ولی فقیہ نے ولایت کے منصب کو اس کے مروجہ قانونی طریقہ کے مطابق حاصل کیا ہو ورنہ دوسری صورت میں مسئلہ کلی طور سے مختلف ہے۔
س۶۹۔ کیا جامع الشرائط مجتہد کو زمانہ غیبت میں حدود جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے؟
ج۔ زمانہ غیبت میں بھی حدود کا جاری کرنا واجب ہے اور اس کی ولایت اور اختیار صرف ولی امر مسلمین سے مخصوص ہے۔
س۷۰۔ ولایت فقیہ کا مسئلہ تقلیدی ہے یا اعتقادی؟ اور اس شخص کا کیا حکم ہے جو اسے تسلیم نہیں کرتا ؟
ج۔ ولایت فقیہ اس امامت و ولایت کے سلسلہ کی کڑی ہے جو اصول مذہب میں سے ہے لیکن اس کے احکام کا استنباط بھی فقہی احکام کی طرح شرعی دلیلوں سے کیا جاتا ہے اور جو شخص استدلال کے ذریعہ ولایت فقیہ کو قبول نہ کرے وہ معذور ہے۔
س۷۱۔ بعض اوقات ہم بعض عہدہ داروں سے ’ ولایت اداری ، کے نام کا عنوان سنتے ہیں یعنی اعلیٰ عہدہ داروں کی بے چون و چرا اطاعت کرنا۔ اس سلسلہ میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟ اور ہماری شرعی ذمہ داری کیا ہے؟
ج۔ وہ اداری و انتظامی احکام جو اداری قوانین و ضوابط کی بنیاد پر صادر ہوتے ہیں ان کی مخالفت اور خلاف ورزی جائز نہیں ہے۔ لیکن اسلامی مفاہیم میں ’ ولایت اداری ‘ نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔
س۷۲۔ کیا فوجی عہدہ داروں اور افسروں کے لئے جائز ہے کہ وہ سپاہیوں کو اپنے ذاتی کاموں کی انجام دھی کا اس دلیل کے ساتھ حکم دیں کہ اگر وہ ان امور کو خود انجام دیں تو ان کا وقت ضائع ہو گا؟
ج۔ افسروں یا کسی دوسرے شخص کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ سپاہیوں سے اپنے ذاتی کام لیں اور اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کو اس کام کی اجرت دینا پڑے گی۔
س۷۳۔ نمائندہ ولی فقیہ جو احکام اپنے اختیارات کی حدود میں صادر کرتا ہے کیا ان کی اطاعت واجب ہے؟
ج۔ اگر اس کے احکام ان اختیارات کی حدود میں ہیں جو اس کو ولی فقیہ کی طرف سے تفویض کئے گئے ہیں تو ان کی مخالفت جائز نہیں ہے۔
٭٭٭
کتاب نجاسات
کتاب نجاسات اور ان کے احکام
(ا)
س۲۷۹۔ کیا خون پاک ہے ؟
ج۔ جن جانداروں کا خون اچھل کر نکلتا ہو خواہ و انسان و ہو یا غیر انسان، وہ خون نجس ہے۔
س۲۸۰۔ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری میں ایک انسان پوری طاقت سے اپنا سر دیوار سے ٹکراتا ہے ،ا س سے بہنے والے خون کی چھینٹیں مجلس عزا میں شرکت کرنے والوں کے سروں اور چھروں پر پڑتی ہیں وہ خون پاک ہے یا نجس؟
ج۔ انسان کا خون ہر حال میں نجس ہے۔
س۲۸۱۔ دھلنے کے بعد کپڑے پر جو خون کا دھبہ رہ جاتا ہے کیا وہ ہلکے رنگ کا دھبہ نجس ہے ؟
ج۔ اگر عین خون زائل ہو جائے اور فقط رنگ باقی رہ جائے اور دھو نے سے زائل نہ ہو تا ہو تو پاک ہے۔
س۲۸۲۔ اگر انڈے میں خون کا ایک نقطہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے ؟
ج۔ پاک ہے لیکن اس کا کھانا حرام ہے۔
س۲۸۳۔ فعل حرام کے ذریعہ مجنب ہو نے والے کے پسینے اور نجاست خوار حیوان کے پسینے کا کیا حکم ہے۔
ج۔ نجاست خوار اونٹ کا پسینہ نجس ہے لیکن نجاست خوار اونٹ کے علاوہ دوسرے نجاست خوار حیوانات اور اسی طرح (فعل) حرام سے مجنب ہو نے والے شخص کے پسینہ کے بارے میں اقویٰ یہ ہے کہ پاک ہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ (فعل) حرام سے مجنب ہو نے پر جو پسینہ آئے اس میں نماز نہ پڑھی جائے۔
س۲۸۴۔ میت کو آب سدر اور آب کافور سے غسل دینے کے بعد اور خالص پانی سے غسل دینے سے پھلے جو قطرے میت کے بدن سے ٹپکتے ہیں وہ پاک ہیں یا نجس؟
ج۔ میت کا بدن اس وقت تک نجس کھلائے گا جب تک تیسرا غسل کامل نہ ہو جائے۔
س۲۸۵۔ ہاتھوں یا ہو نٹوں یا پیروں سے بعض اوقات جو کھال جدا ہو تی ہے وہ پاک ہے یا نجس؟
ج۔ ہاتھوں یا ہو نٹوں یا پیروں یا بدن کے دیگر اعضاء سے کھال کے جو ٹکڑے یا چھلکے خود بخود جدا ہو تے ہیں وہ پاک ہیں۔
س۲۸۶۔ جنگی محاذ پر ایک شخص ایسے دور سے گزرا کہ وہ سور کو مارنے اور اسے کھانے پر مجبور ہو گیا، کیا اس کے بدن کا پسینہ اور لعاب دھن نجس ہے ؟
ج۔ حرام گوشت کھانے والے انسان کے بدن کا پسینہ اور لعاب دھن نجس نہیں ہے اور نہ اس پر استبراء واجب ہے۔ لیکن رطوبت کے ساتھ جو چیز بھی سور کے گوشت سے مس ہو گی وہ نجس ہو گی۔
س۲۸۷۔ تصویریں بنانے اور لکھنے کے کام آنے والے بالوں کے برش (موقلم)جن کی نئی اور بہترین قسم اسلامی ملکوں سے منگوائی جاتی ہیں۔
اور بیشتر اوقات وہ سور کے بالوں سے بنائے جاتے ہیں۔ ایسے برش ہر جگہ خاص طور سے تبلیغاتی اور ثقافتی مراکز میں موجود ہیں اور استعمال کئے جاتے ہیں۔ پس اس قسم کے برشوں کے استعمال کے سلسلے میں شرعی حکم کیا ہے ؟ اور دوسرے یہ کہ ان کے ذریعہ قرآنی آیات اور احادیث شریفہ کے لکھنے کا کیا حکم ہے ؟
ج۔ سور کے بال نجس ہیں اور ان سے ان امور میں استفادہ جائز نہیں ہے جن میں شرعاً طہارت شرط ہو تی ہے لیکن ان امور میں ان کا استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں جن میں طہارت شرط نہیں ہے اور اگر ان برشوں کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ وہ سور کے بالوں سے بنے ہیں یا نہیں تو ان کا استعمال ان امور بھی بلا اشکال ہے جن میں طہارت شرط ہے۔
س۲۸۸۔ جرمنی میں ایک محترم عالم دین تشریف لائے، انہوں نے بتایا تھا کہ یہاں تین ہی چیزوں میں شک پر اعتناء کرنا واجب ہے اور وہ موارد یہ ہیں :
گوشت ، کھا ل اور روغن (گھی یا تیل)وغیرہ۔ بقیہ چیزوں میں شک کی پرواہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ کیا یہ رائے صحیح ہے ؟ اس وقت یہاں کئی قسم کے بناسپتی گھی ملتے ہیں۔ ان پر جو عبارت لکھی ہو تی ہے اس کے اعتبار سے ان میں کوئی ایسا مواد نہیں ہے جس میں اشکال ہو ، لیکن برادران کی تحقیق سے یہ ثابت ہو ا کہ ان میں سے ایک قسم کے ’ گھی ‘ میں تھوڑی سی مقدار میں دیسی گھی کی ملاوٹ کی جاتی ہے لیکن ڈبے پر لکھا نہیں جاتا، اس مسئلہ کا کیا حکم ہے ؟
ج۔ ہر وہ گوشت جس کا حلال ہو نا یا حلال اور پاک ہو نا ذبح شرعی پر موقوف ہو ، وہ غیر اسلامی ممالک میں مردار اور جھٹکے کے حکم میں ہے لیکن دیسی گھی پاک اور حلال ہے ، مگر یہ معلوم ہو جائے کہ یہ غیر مزکی حیوان کی چربی سے بنا ہے یا نجس چیز کے مل جانے سے نجس ہو گیا ہے۔
س۲۸۹۔ اگر مجنب کا لباس منی سے نجس ہو جائے تو اول یہ کہ اگر ہاتھ یا اس کپڑے میں سے کوئی ایک گیلا ہو تو ہاتھ سے اس لباس کو چھو نے کا کیا حکم ہے ؟ اور دوسرے یہ کہ مجنب کے لئے جائز ہے کہ وہ کسی شخص کو وہ لباس پاک کرنے کے لئے دے؟ کیا مجنب کے لئے ضروری ہے کہ وہ دھلنے والے کو یہ بتائے کہ یہ لباس نجس ہے ؟
ج۔ منی نجس ہے اور جب اس سے کوئی سرایت کرنے والی گیلی چیز ملے تو وہ بھی نجس ہو جائے گی ، اور لباس دھونے والے کو یہ بتانا ضروری نہیں ہے کہ وہ نجس ہے۔
س۲۹۰۔ پیشاب کرنے کے بعد استبراء کرتا ہوں لیکن اس کے بعد ایک سیال چیز نکلتی ہے جس سے منی کی بو آتی ہے امید ہے کہ اس سلسلے میں نماز کے لئے میرا حکم بیان فرمائیں گے؟
ج۔ اگر اس کے منی ہو نے کا یقین نہ ہو اور اس کے ساتھ منی نکلنے کے سلسلے میں جو شرعی علامتیں بیان ہوئی ہیں وہ بھی نہ پائی جاتی ہوں تو پاک ہے اور اس پر منی کا حکم نہیں لگے گا۔
س۲۹۱۔ کیا کوے کا پاخانہ نجس ہے ؟
ج۔ اقویٰ یہ ہے کہ پاک ہے۔
س۲۹۲۔ رسالۂ عملیہ میں (مراجع عظام نے)ذکر کیا ہے کہ ان حیوانات اور پرندوں کا پاخانہ نجس ہے جن کا گوشت نہیں کہا یا جاتا۔ تو جن حیوانات کا گوشت کہا یا جاتا ہے مثلاً گائے، بکری یا مرغی ان کا پاخانہ نجس ہے یا نہیں ؟
ج۔ حلال گوشت جانوروں کا پاخانہ پاک ہے۔
س۲۹۳۔ اگر بیت الخلاء میں کموڈ کے اطراف یا اس کے اندر نجاست لگی ہوئی ہو اور اس کو کر بھر پانی یا قلیل پانی سے دھویا جائے اور عین نجاست باقی رہ جائے تو کیا وہ جگہ جہاں عین نجاست نہیں لگی ہے بلکہ صرف دھونے کے لئے ڈالا جانے والا پانی اس تک پہنچا ہے وہ نجس ہے یا پاک ہے ؟
ج۔ جو جگہ نجاست کے قریب ہے لیکن اس تک نجاست سے متصل پانی نہیں پہنچتا ہے وہ پاک ہے۔
س۲۹۴۔ اگر مہمان ، میزبان کے گھر کی کسی چیز کو نجس کر دے کیا اس سے میزبان کو مطلع کرنا واجب ہے ؟
ج۔ کھانے پینے والی چیزوں اور کھانے کے برتنوں کے علاوہ دوسری چیزوں کے سلسلے میں مطلع کرنا ضروری نہیں ہے۔
س۲۹۵۔ نجس چیز سے ملنے والی چیز بھی نجس ہو جاتی ہے یا نہیں ؟ اور اگر نجس ہو جاتی ہے تو کیا یہ حکم تمام واسطوں میں جاری ہو گا یا صرف نزدیک کے واسطوں میں جاری ہو گا؟
ج۔ کم سے کم تین واسطوں تک نجاست کا حکم جاری ہو گا، چوتھے اور اس کے بعد والے واسطہ کے لئے اقرب یہ ہے کہ پاک ہے اگرچہ احتیاط (مستحب)یہ ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے۔
س۲۹۶۔ کیا غیر مزکی حیوان کی کھال کے جوتے استعمال کرنے والے کے لئے وضو سے قبل ہمیشہ پیروں کو دھو نا واجب ہے ؟ بعض لوگ کہتے ہیں : اگر جوتے کے اندر پیروں کو پسینہ آ جائے تو دھو نا واجب ہے ، اور میں نے دیکھا ہے کہ ہر قسم کے جوتوں میں پیروں سے تھوڑا بہت پسینہ ضرور نکلتا ہے ، اس مسئلہ میں آپ کی کیا رائے ہے ؟
ج۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ مذکورہ جوتے میں پیر سے پسینہ نکلتا ہے تو نماز کے لئے پیروں کا دھو نا واجب ہے۔
س۲۹۷۔ اس بچہ کے گیلے ہاتھ، اس کی ناک کے پانی اور اس کی جھوٹی غذا کا کیا حکم ہے جو خود کو نجس کرتا رہتا ہے اور ان بچوں کا کیا حکم ہے جو اپنے گیلے ہاتھوں سے اپنے پیر چھو تے ہیں ؟
ج۔ جب تک ان کے نجس ہو نے کا یقین حاصل نہ ہو جائے اس وقت تک انہیں پاک مانا جائے گا۔
س۲۹۸۔ میں مسوڑھوں کے مرض میں مبتلا ہوں اور ڈاکٹر کے مشوروں کے مطابق انہیں ہمیشہ ملتے رہنا ضروری ہے اس سے بعض مسوڑھے سیاہی مائل ہو جاتے ہیں گویا ان کے اندر خون جمع ہو جاتا ہے اور جب ان پر کاغذی رومال (دست مال)رکھتا ہوں تو اس کا رنگ سرخ ہو جاتا ہے ، اس لئے میں اپنا منہ آبِ کر سے پاک کرتا ہوں اس کے باوجود وہ جما ہو ا خون کافی دیر تک باقی رہتا ہے اور دھو نے سے نہیں چھوٹتا۔ پس دھلنے کے بعد جو پانی میرے منہ کے اندر ہے ، اور ان جگہوں سے گزرا ہے اور پھر میں کلی کر دیتا ہوں چونکہ اب جو پانی مسوڑھوں کے نیچے جمع خون کے اجزاء سے مل کر گزرا ہے ، کیا نجس ہے یا اسے لعاب دہن کا جزء شمار کیا جائے گا اور پاک ہو گا؟
ج۔ پاک ہے اگرچہ احتیاط (مستحب)یہ ہے کہ اس سے پرہیز کیا جائے۔
س۲۹۹۔ اور یہ بھی پوچھنا چاہتا ہوں کہ میں جو کھانا کہا تا ہوں وہ مسوڑھوں میں جمع شدہ خون سے مس ہو تا ہے تو یہ کھانا نجس ہے یا پاک؟ اور اگر نجس ہے تو کیا اس کھانے کو نگلنے کے بعد منہ کی فضا نجس رہتی ہے ؟
ج۔ مذکورہ فرض میں کھانا نجس نہیں ہے اور نہ اس کے نگلنے میں کوئی اشکال ہے اور منہ کے اندر کی فضا پاک ہے۔
س۳۰۰۔ مدتوں سے مشہور ہے کہ میک اپ کا سامان نجس ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب بچہ پیدا ہو تا ہے تو اس وقت اس کی جھلی کو اتار لیتے ہیں اور اسے خنزیر میں محفوظ رکھتے ہیں ، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنین کی میت کو بھی محفوظ رکھتے ہیں اور اس سے میکپ (سنگھا ر)کا سامان۔ جیسے لپ اسٹک حلق کے نیچے بھی اتر جاتی ہے تو کیا یہ نجس ہے ؟
ج۔ سنگہار کی چیزوں کے نجس ہو نے پر پروپیگینڈے کوئی شرعی دلیل نہیں ہیں اور جب تک شریعت کے معتبر طریقوں سے ان کی نجاست ثابت نہیں ہو تی اس وقت تک ان کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س۳۰۱۔ ہر لباس یا کپڑے کے ٹکڑے سے بہت ہی باریک روئیں گرتے رہتے ہیں کپڑوں کو پاک کرتے وقت جب ہم طشت کے پانی کو دیکھتے ہیں تو اس میں یہ باریک روئیں نظر آتے ہیں ، اس بنا پر جب طشت پانی سے بھرا ہو اور اس کا اتصال نل کے پانی سے ہو تو اس وقت میں طشت میں لباس کو غوطہ دیتا ہوں اور طشت سے باہر گرنے والے پانی میں ان روؤں کی موجودگی کی وجہ سے میں احتیاطاً ہر جگہ کو پاک کرتا ہوں یا جب میں بچوں کا نجس لباس اتارتا ہوں تو اس جگہ کو بھی پاک کرتا ہوں جہاں لباس اتارا گیا تھا خواہ وہ جگہ خشک ہی ہو اس لئے کہ میں کہتا ہوں وہ روئیں اس جگہ گرے ہیں۔ پس کیا یہ احتیاط ضروری ہے ؟
ج۔ پاک کرتے وقت جس لباس کو ظرف میں رکھ کر اس پر پائپ کا پانی ڈالا جاتا ہے اور پانی اچھی طرح لباس کو گھیر لیتا ہے تو ( اس وقت) وہ لباس ظرف اور ظرف کے اندر کا پانی اور لباس سے جدا ہو کر پانی میں تیرنے والے روئیں سب پاک ہو جاتے ہیں اور یہ روئیں یا غبار جو نجس کپڑے سے جدا ہو کر گرتے ہیں ، پاک ہیں ، مگر یہ کہ یقین حاصل ہو جائے کہ یہ روئیں نجس جگہ سے جدا ہوئے ہیں اور صرف اس شک کی بنا پر کہ روئیں گرتے ہیں یا نہیں یا روئیں نجس جگہ سے گرتے ہیں یا پاک جگہ سے احتیاط ضروری نہیں ہے۔
س۳۰۲۔ اس رطوبت کی مقدار کیا ہے جو ایک چیز سے دوسری چیز میں سرایت کرنے کا سبب بن جاتی ہے ؟
ج۔ سرایت کرنے والی رطوبت کا معیار یہ ہے کہ کوئی گیلی چیز جب دوسری چیز سے ملے تو اس کی رطوبت محسوس طریقہ سے اس میں منتقل ہو جائے۔
س۳۰۳۔ ان کپڑوں کا کیا حکم ہے جو پاک کرنے کے لئے دھو بی یا ڈرائی کلیننگ کو دئے جاتے ہیں ؟ اس بات کی وضاحت کر دینا ضروری ہے کہ انہیں جگہوں پر اقلیتیں مثلاً یہودی اور عیسائی وغیرہ بھی اپنا لباس دیتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ ڈرائی کلیننگ والے کپڑے دھو نے میں کیمیاوی مواد کا استعمال کرتے ہیں۔
ج۔ جو لباس ڈرائی کلیننگ میں دیا جاتا ہے اگر وہ پھلے سے نجس نہ ہو تو پاک ہے اور اہل کتاب اقلیتوں کے ساتھ مل کر دھلے ہوئے کپڑے نجس نہیں ہو تے۔
س۳۰۴۔ جو کپڑے گھر کی آٹو میٹک کپڑا دھو نے کی مشین سے دھوئے جاتے ہیں ، وہ پاک ہیں یا نہیں ؟ مذکورہ مشین اس طرح کام کرتی ہیں کہ پھلی بار مشین کپڑوں کو کپڑے دھو نے والے پاؤڈر سے دھو تی ہے جس کی وجہ سے کچھ پانی اور کپڑوں کا جہا گ مشین کے دروازے کے شیشے اور اس پر لگے ہوئے ربر کے خول پر پھیل جاتا ہے اور جب مشین دوسری بار دھو نے کے لئے پانی لیتی ہے تو پانی اس کے دروازے اور ربر کے خول پر لگے جہا گ کو پوری طرح گھیر لیتا ہے اور اگلے مراحل میں مشین کپڑوں کو تین مرتبہ آب قلیل سے دھو تی ہے پھر اس کے بعد دھو ون کو باہر نکالتی ہے۔ برائے مہربانی وضاحت فرمائیں کہ اس طرح کپڑے پاک ہو تے ہیں یا نہیں ؟
ج۔ عین نجاست زائل ہو جانے کے بعد جب پانی پائپ کے ذریعہ براہ راست مشین میں داخل ہو کر کپڑوں اور مشین کے اندر ہر جگہ پہنچ جائے اور پھر اس سے جدا ہو کر نکل جائے تو ان کپڑوں پر طہارت کا حکم لگے گا۔
س۳۰۵۔ اگر زمین پر یا حوض یا حمام میں جس میں کپڑے دھوئے جاتے ہیں ، پانی بہا یا جائے اور اس پانی کے چھینٹے لباس پر پڑ جائیں تو وہ نجس ہو جائے گا یا نہیں ؟
ج۔ اگر پانی پاک جگہ یا پاک زمین پر بہا یا جائے تو اس کے چھینٹے پاک ہیں۔
س۳۰۶۔ بلدیہ کی کوڑا ڈھونے والی گاڑیوں سے جو پانی سڑکوں پر بہتا جاتا ہے۔ بعض اوقات تند ہو ا کی وجہ سے لوگوں کے اوپر بھی پڑ جاتا ہے ، وہ پانی پاک ہے یا نجس؟
ج۔ پاک ہے مگر یہ کہ نجاست سے ملنے کی وجہ سے اس پانی کے نجس ہو نے کا کسی شخص کو یقین ہو جائے۔
س۳۰۷۔ سڑکوں کے گڑھوں میں جمع ہو جانے والا پانی پاک ہے یا نجس؟
ج۔ یہ پاک پانی کے حکم میں ہے۔
س۳۰۸۔ ان لوگوں کے ساتھ گھریلو آمدو رفت رکھنے کا کیا حکم ہے جو کہا نے، پینے وغیرہ میں طہارت و نجاست کے مسائل کو اہمیت نہیں دیتے ؟
ج۔ طہارت و نجاست کے موضوع میں ہر وہ چیز جس کے نجس ہو نے کا یقین نہ ہو بظاہر شرع میں پاک ہے۔
س۳۰۹۔ برائے مہربانی درج ذیل صورتوں میں قے کی طہارت اور نجاست کے بارے میں حکم شرعی بیان فرمائیں :
الف : شیر خوار بچہ کی قے۔
ب : اس بچہ کی قے جو دودھ پیتا اور کھانا بھی کھاتا ہے۔
ج : بالغ انسان کی قے۔
ج۔ تمام صورتوں میں پاک ہے۔
س۳۱۰۔ شے محصورہ ( یعنی ایسی چیزیں جن میں سے ایک نجس ہے ان میں سے کسی ) سے ملنے والی چیز کا کیا حکم ہے ؟
ج۔ اگر ان میں سے بعض چیزوں سے ملے تو اس پر نجس ہو نے کا حکم مرتب نہیں ہو گا۔
س۳۱۱۔ ایک شخص کھانا بیچتا ہے اور اس میں سرایت کرنے والی تری ہو نے کے باوجود اسے اپنے جسم سے مس بھی کرتا ہے لیکن اس کے دین کا پتا نہیں ہے ، کیا اس سے اس کے دین کے بارے میں سوال کرنا واجب ہے یا اس پر اصالت طہارت کا حکم جاری ہو گا؟ جبکہ یہ معلوم ہے کہ وہ اسلامی ملک کا باشندہ نہیں ہے بلکہ وہاں کام کرنے آیا ہے ؟
ج۔ اس سے اس کا دین پوچھنا واجب نہیں ہے بلکہ اس کو اور اس سے لی گئی چیز کو بھی جو اس کے جسم سے مس ہو رہی ہے ، اصالت طہارت کی بنا پر پاک سمجھیں گے۔
س۳۱۲۔ کسی شخص کے گھر میں یا اس کے رشتہ داروں کے گھروں میں ایک ایسا آدمی ہے جو ان لوگوں کے گھروں میں آیا جایا کرتا ہے اور یہ آدمی طہارت و نجاست کو اہمیت نہیں دیتا ، جس سے گھر اور اس میں موجود چیزیں وسیع پیمانہ پر نجس ہو جاتی ہیں جن کا دھو نا اور پاک کرنا ممکن نہیں ہے ، پس اس صورت میں ان لوگوں کا فریضہ کیا ہے ؟ اور ایسی صورت میں انسان کیسے پاک رہ سکتا ہے خصوصاً نماز میں جس کے صحیح ہو نے میں طہارت شرط ہے ؟ اور اس سلسلہ میں کیا حکم ہے ؟
ج۔ تمام گھر کو پاک کرنا ضروری نہیں ہے اور نماز صحیح ہو نے کے لئے نماز گزار کا لباس اور سجدہ گاہ کا پاک ہو نا کافی ہے۔ گھر اور اس کے اثاثہ کی نجاست نماز اور کھانے پینے میں طہارت کا لحاظ رکھنے سے زیادہ انسان پر کوئی مزید ذمہ داری عائد نہیں ہو تی۔
نشہ آور چیزیں
س۳۱۳۔ انگور اور کھجور کے اس عرق کا کیا حکم ہے جس کو آگ پر ابالا گیا ہو اور دو تھائی سے کم جلا ہو لیکن نشہ آور نہ ہو ؟
ج۔ اس کا پینا حرام ہے لیکن وہ نجس نہیں ہے۔
س۳۱۴۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کچے انگور یا پھل کا عرق نکالنے کے لئے اسے ابالا جائے اور اس میں انگور کے کچھ دانے ہوں یا ایک ہی دانہ ہو تو ابال آ جانے کے بعد وہ سب حرام ہو جاتا ہے کیا یہ بات صحیح ہیں ؟
ج۔ اگر انگور کے دانوں کا پانی بہت ہی کم ہو اور وہ کچے انگور کے عرق میں اس طرح مل گیا ہو کہ اسے انگور کا عرق نہ کہا جاتا ہو تو حلال ہے لیکن اگر خود انگور کے دانوں کو آگ پر ابالا جائے تو حرام ہے۔
س۳۱۵۔ دور حاضر میں بہت سی دواؤں میں الکحل۔ جو درحقیقت نشہ آور ہے۔ خاص طور سے پینے والی دواؤں اور عطریات ( خصوصاً ان خوشبوؤں میں استعمال ہو تا ہے جنہیں باہر سے منگایا جاتا ہے ) تو کیا اس سے واقف یا ناواقف آدمی کے لئے ان چیزوں کا خریدنا، بیچنا، فراہم کرنا استعمال کرنا اور دوسرے تمام فوائد حاصل کرنا جائز ہے ؟
ج۔ جس الکحل کے بارے میں یہ نہ معلوم ہو کہ وہ بذات خود نشہ آور سیال ہے تو وہ پاک ہے اور ان سیال چیزوں کی خرید و فروخت اور ان کے استعمال میں بھی کوئی حرج نہیں ہے جن میں الکحل ملا ہو ا ہو۔
س۳۱۶۔ کیا سفید الکحل کے ذریعہ ہاتھ اور طبی آلات کو طبی امور میں استعمال کے لئے جراثیم سے پاک کرنے کی غرض سے نیز ڈاکٹر یا طبی بورڈ کے ذریعہ علاج کی غرض سے استعمال کیا جا سکتھے ؟سفید الکحل جو طبی الکحل ہے اور پینے کے قابل بھی ہے اور اس کا معادل (c2hooh ) ہے ، پس کیا جس کپڑے پر اس الکحل کا ایک قطرہ یا اس سے زیادہ گر جائے اس کپڑے میں نماز جائز ہے ؟
ج۔ جو الکحل دراصل سیال نہ ہو ، پاک ہے اگرچہ نشہ آور ہی ہو اور طبی وغیرہ طبی امور میں اس کے استعمال میں مضائقہ نہیں ہے۔ اس لباس میں نماز بھی صحیح ہے جس پر ایسا الکحل پڑ جائے۔ اس کے پاک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
س۳۱۷۔ کفیر نام کا ایک مادہ ہے جو غذائیں اور دوائیں بنانے میں استعمال ہو تا ہے اور تخمیر کے دوران اس مادہ میں سے ۵%یا ۸ % الکحل حاصل ہو تا ہے۔ الکحل کی یہ قلیل مقدار مستہلک ہو جانے کی صورت میں کسی قسم کے نشہ کا سبب نہیں بنتی۔ آیا شریعت کی رو سے اس کے استعمال میں کوئی مانع ہے یا نہیں ؟
ج۔اس حاصل شدہ مادہ میں موجود الکحل اگر بذات خود نشہ آور ہو تو وہ نجس و حرام ہے اور چہ ے وہ قلیل مقدار ہو نے اوراس مادہ میں ممزوج ہو جانے کے سبب نشہ آور ہے یا شک ہو کہ وہ اصل میں سیال ہے یا نہیں تو حکم مختلف ہو گا۔
س۳۱۸۔ ۱۔ دینائیل الکحل نجس ہے یا نہیں ؟ ( بظاہر الکحل منشیات میں موجود ہو تا ہے اور نشہ آور ہو تا ہے )
۲۔ الکحل کی نجاست کا معیار کیا ہے ؟
۳۔ وہ کونسا طریقہ ہے جس سے ہم ثابت کریں کہ فلاں مشروب نشہ آور ہے ؟
۴۔ صنعتی الکحل سے کیا مراد ہے ؟
ج۔ الکحل کی وہ تمام قسمیں جو نشہ آور اور دراصل سیال ہیں نجس ہیں۔
۲۔ نشہ آور ہو اور دراصل سیال ہو۔
۳۔ اگر خود مکلف کو یقین نہ ہو تو اس کے لئے موثق اہل علم کی گواہی کافی ہے۔
۴۔ اس سے مراد وہ الکحل ہے جس کو رنگ اور تصویر بنانے کی صنعت، آپریشن کے اوزار کو جراثیم سے پاک کرنے اور انجکشن لگانے نیز ان کے علاوہ دوسرے موارد میں استعمال کیا جاتا ہے۔
س۳۱۹۔ بازار میں موجود مشروبات کے پینے اور اسی ضمن میں ملک میں بننے والے مشروبات ( کوکا کولا ، پیپسی وغیرہ) کا کیا حکم ہے ؟ جبکہ یہ کہا جاتا ہے کہ اس کا اساسی مواد باہر سے لگایا جاتا ہے اور احتمال ہے کہ اس میں مادۂ الکحل پایا جاتا ہو ؟
ج۔ طاہر و حلال ہیں مگر یہ کہ خود مکلف کو یہ یقین ہو کہ ان میں بالاصالۃ نشہ آور سیال الکحل ملایا گیا ہے۔
س۳۲۰۔ کیا غذائی سامان خریدتے وقت اس بات کی تحقیق ضروری ہے کہ اس کے بیچنے والے یا بنانے والے نے اسے ہاتھ سے چھو ا ہے یااس کے بنانے میں اس نے الکحل استعمال کیا ہے ؟
ج۔ پوچھنا اور تحقیق کرنا ضروری نہیں ہے۔
س۳۲۱۔ میں ’ اٹروپین سلفیٹ اسپرے ‘ بناتا ہوں جو الکحل کے لئے اس کے دوائی توازن کی ترکیب ( فارمولیشن) میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ یعنی اگر ہم اس میں الکحل کا اضافہ نہ کریں تو اسپرے نہیں بن سکتا ہے اور کار آمد ہو نے کے لحاظ سے مذکورہ اسپرے ایسا دفاعی اسلحہ ہے جس سے لشکر اسلام جنگ میں اعصاب پر اثر انداز ہو نے والی گیسوں سے محفوظ رہتا ہے۔ کیا آپ کی نظر شریف میں شرعی طور پر الکحل کا استعمال مذکورہ بالا دوا بنانے کے لئے جائز ہے ؟
ج۔ اگر الکحل مسکر اور اصلاً سیال ہے تو وہ نجس و حرام ہے لیکن اس کو دوا کے طور پر کسی بھی حال میں استعمال کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
وسوسہ اور اس کا علاج
س۳۲۲۔ چند سال سے وسواس کی بلا میں مبتلا ہوں ، یہ چیز میرے لئے بڑی تکلیف دہ ہے اور یہ وسواس دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے ، یہاں تک کہ میں ہر چیز میں شک کرنے لگا ہوں۔میری پوری زندگی شک پر استوار ہے ، میرا زیادہ تر شک کھانے میں اور تر چیزوں میں ہو تا ہے۔ لہذا میں عام لوگوں کی طرح معمول کے کام نہیں کرسکتا۔ چنانچہ جب میں کسی مکان میں داخل ہو تا ہوں تو فوراً اپنے موزے اتار لیتا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ میرے موزے پسینہ سے تر ہیں اور وہ کسی چیز کے ساتھ ملنے سے نجس ہو جائیں گے یہاں تک کہ میں جانماز پر بھی نہیں بیٹھ سکتا اور جب بیٹھ جاتا ہوں تو میرا نفس مجھے اٹھنے پر مجبور کرتا ہے کہ جانماز کے روئیں میرے لباس پر نہ لگ جائیں اور میں انہیں دھو نے پر مجبور ہو جاؤں گا پہلے میری یہ حالت نہیں تھی لیکن اب تو مجھے ان اعمال سے شرم آتی ہے ، ہمیشہ یہی دل چاہتا ہے کہ کسی کو خواب میں دیکھوں اور اس سے سوال کروں ، یا کوئی معجزہ ہو جائے جس سے میری زندگی بدل جائے اور میں پھلے جیسا ہو جاؤں ، امید ہے کہ میری ہدایت فرمائیں گے؟
ج۔ طہارت و نجاست کے وہی احکام ہیں جن کو تفصیل کے ساتھ رسالہ عملیہ میں بیان کیا گیا ہے اور شریعت کی رو سے ہر چیز پاک ہے سوائے اس کے جس کو شارع نے نجس قرار دیا ہو اور انسان کو اس کے نجس ہو نے کا یقین حاصل ہو گیا ہو اور اس حالت میں وسواس سے نجات کے لئے خواب یا معجزہ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مکلف پر واجب ہے کہ وہ اپنے ذاتی ذوق کو ایک طرف رکھ دے اور شریعت مقدسہ کی تعلیمات کے سامنے سراپا تسلیم ہو جائے ان پر ایمان لے آئے، اور اس چیز کو نجس نہ سمجھے جس کے نجس ہو نے کا یقین نہ ہو آپ کو یہ یقین کہاں سے حاصل ہو ا کہ دروازہ ، دیوار ، جا نماز اور آپ کے استعمال کی تمام چیزیں نجس ہیں آپ نے کیسے یہ یقین کر لیا کہ جانماز ، جس پر آپ چلتے یا بیٹھتے ہیں اس کے روئیں نجس ہیں اور اس کی نجاست آپ کے موزے ، لباس اور بدن میں سرایت کر جائے گی؟! بہر صورت اس حالت میں آپ کے لئے اس وسواس کی طرف اعتناء کا عادی بننا آپ کی شرعی ذمہ داری ہے۔ ان شاء اللہ خدا آپ کی مدد کرے گا اور آپ کے نفس کو وسواس کے چنگل سے نجات دے گا۔
س۳۲۳۔ میں ایک عورت ہوں میرے چند بچے ہیں ، میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں ، میرے لئے مسئلہ طہارت مشکل بنا ہو ا ہے اور میں نے ایک دین دار گھرانہ میں پرورش پائی ہے اور میں تمام اسلامی دستورات پر عمل کرنا چاہتی ہوں لیکن چونکہ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ لہذا ہمیشہ ان کے پیشاب پاخانہ میں مشغول رہتی ہوں اور ان کا پیشاب پاک کراتے وقت سائفن کے پانی کے چھینٹے اڑ کر میرے ہاتھوں ، پیروں یہاں تک سر پر بھی پڑ جاتے ہیں اور ہر مرتبہ ان اعضاء کی طہارت کی مشکل سے دو چار ہو تی ہوں ، اس سے میری زندگی میں بہت سی مشکلیں پیدا ہو گئی ہیں۔ دوسری طرف ان امور کی رعایت کو میں ترک نہیں کرسکتی کیونکہ اس کا تعلق میرے دین اور عقیدہ سے ہے ، میں نے کئی بار ماہر نفسیات سے رجوع کیا ہے لیکن کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکی۔ اس کے علاوہ دیگر امور بھی میری پریشانی کا سبب ہیں جیسے نجس چیز کا غبار بچہ کے نجس ہاتھوں سے محتاط رہنا جن کا یا پاک کرنا مجھ پر واجب ہے یا اسے دوسری چیزیں چھو نے سے باز رکھنا۔ میرے لئے نجس چیز کا پاک کرنا بہت مشکل کام ہے لیکن ساتھ ہی ان برتنوں اور کپڑوں کا دھو نا میرے لئے آسان ہے جو میلے یا گندے ہوں۔ امید ہے کہ آپ کی راہنمائی سے میری زندگی آسان ہو جائے گی۔
ج۔۱۔ شریعت کی نظر میں باب طہارت و نجاست میں اصل طہارت ہے یعنی جس جگہ بھی تمہیں نجاست میں معمولی سا شک ہو وہاں تمہارے اوپر واجب ہے کہ عدم نجاست کا حکم لگاؤ۔
۲۔ نجاست کے سلسلہ میں جو لوگ بہت حساس ہیں ( اسلامی فقہ کی اصطلاح میں جنہیں وسواسی یا شکی کہا جاتا ہے ) اگر انہیں بعض جگہوں پرنجاست کا یقین بھی ہو جائے تب بھی ان پر واجب ہے کہ ان پر نجس نہ ہو نے کا حکم لگائیں سوائے ان موارد کے جنہیں انہوں نے اپنی آنکھوں سے نجس ہو تے دیکھا ہو۔ اس طرح کہ اگر کوئی بھی دوسرا شخص دیکھے تو نجاست کے سرایت کرنے کا یقین کرے ایسی جگہوں پر واجب ہے کہ وہ بھی نجاست کا حکم لگائیں اور یہ حکم اس وقت تک ان لوگوں پر جاری رہے گا جب تک مذکورہ حساسیت بالکل ختم نہ ہو جائے۔
۳۔ جو چیز یا عضو نجس ہو جائے اس کی طہارت کے لئے، عین نجاست زائل ہو نے کے بعد اسے ایک مرتبہ پائپ سے دھو نا کافی ہے ، دوبارہ دھو نا یا پانی کے نیچے رکھنا واجب نہیں ہے اور اگر نجس ہو نے والی چیز موٹے کپڑے کی جیسی ہو تو اسے بقدر معمول نچوڑیں تاکہ اس سے پانی نکل جائے۔
۴۔ چونکہ آپ نجاست کے سلسلہ میں بے حد حساس ہو چکی ہیں ، پس جان لیجئے کہ نجس غبار آپ کے لئے کسی صورت میں بھی نجس نہیں ہے اور بچہ کے پاک یا نج س ہاتھ کے سلسلہ میں محتاط رہنا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی اس سلسلہ میں دقت کرنا ضروری ہے کہ بدن سے خون زائل ہو ا یا نہیں اور آپ کے لئے یہ حکم اس وقت تک باقی ہے جب تک مکمل طور پر آپ کی حساسیت بالکل ختم نہیں ہو جاتی۔
۵۔ دین اسلام کے احکام سہل و آسان اور فطرت انسان کے موافق ہیں انہیں اپنے لئے مشکل نہ بنائے اور اس صورت میں اپنے بدن اور روح کو تکلیف و ضرر میں مبتلا نہ کیجئے اور ایسے حالات میں قلق و اضطراب سے زندگی تلخ ہو جاتی ہے۔ بے شک خدائے متعال اس بات سے خوش نہیں ہے کہ آپ اور آپ کے متعلقین عذاب میں مبتلا ہوں۔ آسان دین کی نعمت پر شکر ادا کیجئے اور اس نعمت پر شکر ادا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے دین کے احکام کے مطابق عمل کیا جائے۔
۶۔ آپ کی موجودہ کیفیت وقتی اور قابل علاج ہے ، اس میں مبتلا ہو نے کے بعد بہت سے لوگوں نے مذکورہ طریقہ کے مطابق عمل کر کے بہت آرام محسوس کیا ہے ، خدا پر بھروسہ کیجئے اور اپنے اندر عزم و ہمت پیدا کیجئے۔
کافر کی نجاست
اہل کتاب کی طہارت اور دوسرے کفار کا حکم
س۳۲۴۔ اہل کتاب پاک ہیں یا نجس؟
ج۔ ان کا ذاتاً پاک ہونا بعید نہیں ہے۔
س۳۲۵۔ بعض فقہا اہل کتاب کو نجس اور بعض انہیں پاک قرار دیتے ہیں آپ کی کیا رائے ہے؟
ج۔ اہل کتاب کی ذاتی نجاست ثابت نہیں ہے، بلکہ ہم انہیں ذاتاً پاک کے حکم میں سمجھتے ہیں۔
س۳۲۶۔ وہ اہل کتاب جو فکری لحاظ سے خاتم النبیین کی رسالت کے قائل ہیں لیکن اپنے آباء و اجداد کے عادات اور ان کی روش کے مطابق عمل پیرا ہیں کیا وہ طہارت کے مسئلے میں کافر کے حکم میں ہیں ؟
ج۔ صرف خاتم النبیین کی رسالت کا اعتقاد رکھنا اسلام کے تحت آنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ لیکن اگر ان کا شمار اہل کتاب میں ہوتا ہے تو وہ پاک ہیں۔
س۳۲۷۔ میں نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ ایک گھر کرایہ پر لیا،ہمیں معلوم ہوا کہ ان میں سے ایک نماز نہیں پڑھتا ، اس سلسلے میں پوچھا ہے جانے پر اس نے جواب دیا کہ وہ دل سے تو خدا پر ایمان رکھتا ہے لیکن نماز نہیں پڑھتا۔ اس بات کے پیش نظر کہ ہم اس کے ساتھ کھانا کہاتے ہیں اور اس سے بہت زیادہ گھلے ملے ہیں ، آیا وہ نجس ہے یا پاک؟
ج۔ صر ف نماز اور روزہ اور دوسرے شرعی واجبات کا ترک کرنا، مسلمان کے مرتد اور نجس ہونے کا موجب نہیں ہوتا، بلکہ جب تک اس کے مرتد ہونے کا یقین نہ ہو جائے اس کا حکم سارے مسلمانوں جیسا ہے۔
س۳۲۸۔ وہ کون سے ادیان ہیں جن کے ماننے والے اہل کتاب ہیں ؟ اور معیار کیا ہے جو ان کے ساتھ رہن سہن کے حدود کو معین کرتا ہے۔
ج۔اہل کتاب سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا تعلق کسی الہی دین سے ہو، وہ اپنے کو انبیاء اللہ میں سے کسی نبی (ص)کی امت سے مانتے ہوں اور ان کے پاس انبیاء پر نازل ہونے والی آسمانی کتابوں میں سے کوئی کتاب ہو، جیسے یہودی، عیسائی، زرتشی اور اسی طرح صائبی ہیں ( ہماری تحقیق کی رو سے) اہل کتاب ہیں۔ پس ان سب کا حکم اہل کتاب کا حکم ہے اور اسلامی قوانین و اخلاق کی رعایت کرتے ہوئے ان کے ساتھ معاشرت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س۳۲۹۔ ایک فرقہ ہے جو اپنے کو ’ علی اللہیہ ‘ کہتا ہے۔ وہ لوگ امیر المومنین علی ابن ابی طالب کو خدا سمجھتے ہیں اور ان کا عقیدہ یہ ہے کہ دعا اور طلب حاجت، نماز اور روزے کا بدل ہیں ، کیا یہ لوگ نجس ہیں ؟
ج۔ اگر وہ امیرالمومنین علی بن ابی طالب کو اللہ مانتے ہیں۔ تعالیٰ اللہ عن ذلک علوا ًکبیراً۔ تو ان کا حکم اہل کتاب کے سوا دوسرے غیر مسلموں جیسا ہے۔
س۳۳۰۔ ایک فرقہ ہے جس کا نام ’ علی اللہیہ ‘ ہے اس کے ماننے والے کہتے ہیں کہ علی خدا تو نہیں ہیں لیکن خدا سے کم بھی نہیں ہیں ، ان کا کیا حکم ہے؟
ج۔ اگر وہ ( حضرت علی(ع) کو ) خدائے واحد و منان کا شریک قرار نہیں دیتے تو وہ مشرک کے حکم میں نہیں ہیں۔
س۳۳۱۔ کسی شیعہ اثنا عشری نے اگر امام حسین (ع)یا اصحاب کساء (پنجتن پاک)کے لئے نذر کی ہو تو کیا اس نذر کو ان مراکز میں دینا صحیح ہے جہاں فرقہ ’ علی اللہیہ ‘ کے ماننے والے جمع ہوتے ہیں اور یہ (نذر)کسی نہ کسی شکل میں ان مراکز کی تقویت کا باعث بنتی ہے؟
ج۔ مولائے موحدین (حضر ت علی علیہ السلام)کو خدا ماننے کا عقیدہ باطل ہے اور ایسا عقیدہ رکھنا اسلام سے خارج ہونے کا موجب ہے ایسے فاسد عقیدہ کی ترویج میں مدد کرنا حرام ہے، مزید یہ کہ اگر مال کو کسی خاص
س۳۳۲۔ ہمارے علاقے اور بعض دوسرے علاقوں میں ایک فرقہ پایا جاتا ہے جو اپنے کو ’ اسماعیلیہ ‘ کہتے۔ وہ لوگ گر چہ اماموں ( پہلے امام سے چھٹے امام تک) کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ لیکن وہ کسی بھی واجبات دینی کو نہیں مانتے اسی طرح وہ ولایت فقیہ کو بھی نہیں مانتے ، لہذا آپ بتائیں کہ اس فرقے کی پیروی کرنے والے نجس ہیں یا پاک؟
ج۔ صرف چہ معصومین (ع) یا احکام شرعیہ میں سے کسی حکم پر اعتقاد نہ رکھنا اگر وہ اصل شریعت سے انکار نہ ہو اور نہ خاتم الانبیاء علیہ و آلہ والصلاۃوالسلام کی نبوت سے انکار ہو تو کفر و نجاست کا موجب نہیں ہے۔ مگر یہ کہ وہ لوگ کسی امام کو برا بھلا کہیں یا ان کی اہانت کریں۔
س۳۳۳۔ یہاں سب سے بڑی آبادی( بدھ مذہب کے ماننے والے) کافروں کی ہے۔ اگر یونیورسٹی کا کوئی طالب علم کرایہ پر مکان لے تو اس مکان کی طہارت و نجاست کا کیا حکم ہے؟ کیا اس مکان کو دھونا اور اسے پاک کرنا ضروری ہے؟ اس بات کی طرف بھی اشارہ کر دوں کہ یہاں اکثر مکان لکڑی کے بنے ہوئے ہیں ان کا دھونا ممکن نہیں ہے، نیز ہوٹلوں اور ان میں موجود چیزوں کا کیا حکم ہے؟
ج۔ جب تک کافر غیر کتابی کے ہاتھ اور بدن کا سرایت کرنے والی رطوبت کے ساتھ مس ہونے کا یقین نہ ہو، اس پر نجاست کا حکم نہیں لگے گا اور نجاست کا یقین ہونے کی صورت میں ہوٹلوں اور مکانوں کے دروازوں اور دیواروں کا پاک کرنا واجب نہیں ہے، بلکہ کھانے پینے میں اور نماز کے لئے استعمال کی جانے والی چیزیں اگر نجس ہوں تو ان کا پاک کرنا واجب ہے۔
جناب یحییٰ
س۳۳۴۔ خوزستان (ایرا ن) میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنے کو صائبی کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم جناب یحییٰ کے ماننے والے ہیں اور ہمارے پاس ان ((ع)) کی کتا ب ہے اور دین شناسوں کے نزدیک ثابت ہو چکا ہے کہ یہ وہی صائبی ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ لہذا آپ بتائیں کہ وہ اہل کتاب میں سے ہیں یا نہیں ؟
ج۔ مذکورہ گروہ اہل کتاب کے حکم میں ہے۔
س۳۳۵۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ کافر کے ہاتھ کا بنا ہوا گھر نجس ہوتا ہے اور اس میں نماز پڑھنا مکروہ ہے کیا یہ صحیح ہے؟
ج۔ ایسے گھر میں نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے۔
س۳۳۶۔ یہودیوں اور کافروں کے دوسرے فرقوں کے یہاں کام کرنے اور ان سے اجرت لینے کا کیا حکم ہے؟
ج۔ اس میں بذات خود کوئی مانع نہیں ہے بشرطیکہ وہ کام حرام اور اسلام و مسلمین کے مفادات کے خلاف نہ ہو۔
س۳۳۷۔ جس جگہ ہم فوج میں کام کرتے ہیں وہاں بعض قبیلے ہیں جن کا تعلق ایسے فرقہ سے ہے جسے مذہب ’ الحق‘ کہا جاتا ہے۔ کیا ان کے ہاتھ سے دودھ دھی اور مکھن لے کر کھا سکتے ہیں ؟
ج۔ اگر وہ اصول اسلام کے معتقد ہوں تو طہارت و نجاست کے مسئلے میں سارے مسلمانوں کے حکم میں ہیں۔
س۳۳۸۔ جس گاؤں میں ہم پڑھاتے ہیں وہاں کے لوگ نماز نہیں پڑھتے کیونکہ وہ فرقہ ’ الحق ‘ سے ہیں اور ہم ان سے روٹی لینے اور ان کے یہاں کھانا کھانے پر مجبور ہیں ، کیونکہ ہم رات دن اسی قریہ میں رہتے ہیں ، تو کیا وہاں ہماری نمازوں میں کوئی اشکال ہے؟
ج۔ اگر وہ توحید اور نبوت کے منکر نہ ہوں ، نہ ضروریات دین میں سے کسی چیز کے منکر ہوں اور نہ رسول اسلام کی رسالت کے ناقص ہونے کے معتقد ہوں تو ان پر نہ کفر کا حکم لگے گا اور نہ نجاست کا۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو تو ان کا کھانا کھانے اور انہیں چھونے کی صورت میں طہارت و نجاست کا لحاظ رکھنا واجب ہے۔
س۳۳۹۔ ہمارے رشتہ داروں میں ایک صاحب کمیونسٹ تھے ، انہوں نے بچپن میں ہمیں بہت ساری چیزیں اور مال دیا تھا، پس اگر وہ مال اور چیزیں بنفسہ موجود ہوں تو ان کا کیا حکم ہے؟
ج۔ اگر اس کا کفر اور ارتداد ثابت ہو جائے اور اس نے سن بلوغ میں اظہار اسلام سے پھلے کفر اختیار کیا تو اس کے اموال کا حکم وہی ہے جو دوسرے کافروں کے اموال کا ہے۔
س۳۴۰۔ مندرجہ ذیل سوالات کے جواب مرحمت فرمائیں :
۱۔ ابتدائی ، متوسط اور اس سے بالاتر کلاسوں کے مسلمان طلاب کا بھائی فرقے کے طلاب کے ساتھ ملنے جلنے ، اٹھنے بیٹھنے اور ان سے ہاتھ ملانے کا کیا حکم ہے، خواہ وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں ، مکلف یا غیر مکلف، اسکول میں ہوں یا اس سے باہر ؟
۲۔ جو طلاب اپنے کو بہائی کہتے ہیں یا جن کے بہائی ہونے کا یقین ہے ان کے ساتھ اساتذہ اور مربیوں کو کس طرح کا رویہ رکھنا واجب ہے؟
۳۔ جن چیزوں کو سارے طلاب استعمال کرتے ہیں ان سے استفادہ کرنے کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے جیسے پینے کے پانی یا بیت الخلاء کا نل، لوٹا، صابن اور اسی جیسی دوسری چیزیں جہاں ہاتھ اور بدن کے مرطوب ہونے کا یقین ہو؟
ج۔ گمراہ فرقہ بہائی کے تمام افراد نجس ہیں ، اور ان کے کسی چیز کے چھونے کی صورت میں جن امور میں طہارت شرط ہے ان میں طہارت کا لحاظ رکھنا واجب ہے، لیکن اساتذہ اور مربیوں پر واجب ہے کہ ان کا رویہ بہائی طلاب کے ساتھ قانونی مقررات اور اسلامی اخلاق کے مطابق ہو۔
س۳۴۱۔ اسلامی معاشرہ میں بہائی فرقہ کے ماننے والوں کی وجہ سے جو کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لئے مومنین اور مومنات کی کیا ذمہ داری ہے؟
ج۔ سارے مومنین پر واجب ہے کہ وہ بہائی فرقہ کی فتنہ پردازی اور ان کے مکروہ حیلے کو روکیں اور لوگوں کو اس گمراہ فرقہ کے ذریعہ منحرف ہونے سے بچائیں۔
س۳۴۲۔ بعض اوقات بہائی فرقہ کے ماننے والے کھانے کی یا دوسری چیزیں ہمارے پاس لاتے ہیں ، تو کیا ان کا استعما ل کرنا ہمارے لئے جائز ہے؟
ج۔ ان کے تحفوں کو واپس کرنا اور ان کو قبول نہ کرنا واجب نہیں ہے اور جن تر چیزوں کے بارے میں شک ہو کہ اس میں ان کا ہاتھ لگا ہے یا نہیں ایسی صورت میں بنیاد طہارت پر رکھنی چاہئیے ، لیکن ان کی ہدایت اور انہیں اسلام کی طرف مائل کرنے کی سعی و کوشش آپ پر لازم ہے۔
س۳۴۳۔ ہمارے پڑوس میں بہت سے بہائی رہتے ہیں اور ہمارے ہاں اکثر ان کا آنا جانا ہوتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ بہائی نجس ہیں اور کوئی کہتا ہے کہ پاک ہیں ، اور یہ بہائی بہت اچھے اخلاق کا اظہار کرتے ہیں ، پس وہ نجس ہیں یا پاک ہیں ؟
ج۔ وہ نجس ہیں اور تمہارے دین اور ایمان کے دشمن ہیں۔ پس اے میرے عزیز بیٹے ! تم ان کے ساتھ سنجیدگی کے ساتھ پرہیز کرو۔
س۳۴۴۔ بسوں اور ریل گاڑیوں کی ان سیٹوں کا کیا حکم ہے جن پر مسلمان اور کافر دونوں بیٹھتے ہیں اور بعض علاقوں میں کافروں کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ ہے ، کیا یہ سیٹیں پاک ہیں ؟ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ گرمی کی وجہ سے پسینہ نکلتا ہے بلکہ وہ پسینہ میں سرایت کر جاتا ہے۔
ج۔ جب تک ان کے نجس ہونے کا علم نہ ہو ان کو پاک سمجھا جائے گا۔
س۳۴۵۔ دوسرے ممالک میں پڑھنے کا لازمہ یہ ہے کافروں کے ساتھ تعلقات رکھے جائیں ایسے موقع پر ان کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا کھانے کا کیا حکم ہے ( بشرطیکہ حرام چیزوں کے نہ ہونے کی رعایت کی جائے جیسے غیر مزکی گوشت) اگرچہ اس میں ان کے گیلے ہاتھ کے لگنے کا احتمال ہو؟
ج۔ صرف کافر کے تر ہاتھ لگنے کا احتمال وجوب اجتناب کے لئے کافی نہیں ہے۔ بلکہ جب تک کافر کے تر ہاتھ سے مس ہونے کا یقین نہ ہو جائے اس وقت تک چیز پاک کھلائے گی اور اگر کافر اہل کتاب ہو تو اس کی نجاست ذاتی نہیں ہے لہذا اس کے تر ہاتھ کے مس ہونے سے کوئی چیز نجس نہیں ہو گی۔
س۳۴۶۔ اگر اسلامی حکومت میں زندگی بسر کرنے والے مسلمان کے تمام مصارف و اخراجات پورے ہو رہے ہیں اور اس کے باوجود وہ غیر مسلم کی ملازمت کرتا ہو اور اس سے اس کے گہرے تعلقات ہوں تو ایسے مسلمان سے گھریلو تعلقات قائم کرنا اور کبھی کبھار اس کے یہاں کھانا کھانا جائز ہے؟
ج۔ مسلمانوں کے لئے مذکورہ مسلمان سے تعلقات رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن اگر غیر مسلم کی دوستی سے اس مسلمان کے عقیدہ میں انحراف کا خوف ہو تو اس پر اس کام سے کنارہ کش ہونا واجب ہے اور ایسی صورت میں دوسرے مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس کو غیر مسلم کی ملازمت سے باز رکھیں۔
س۳۴۷۔ افسوس کہ میرے برادر نسبتی مختلف اسباب کی بنا پر مرتد ہو گئے تھے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ دینی مقدسات کی اہانت کے مرتکب بھی ہوتے تھے۔ کئی سال گزر جانے کے بعد اب ان کے ایک خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ اسلام پر ایمان لے آئے ہیں لیکن اس وقت بھی وہ روزے نماز کے پابند نہیں ہیں ایسی صورت میں ان سے ان کے والدین اور رشتہ داروں کے کیسے تعلقات ہونا چاہئیں اور کیا ان کو کافر قرار دیتے ہوئے نجس سمجھنا چاہئیے؟
ج۔ اگر سابق میں اس کا مرتد ہونا ثابت ہو جائے تو جب اس سے توبہ کر لے گا تو پاک ہو جائے گا اور اس کے والدین اور رشتہ داروں کے لئے اس سے تعلقات رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
س۳۴۸۔ اگر کوئی شخص بعض ضروریات دین جیسے روزہ کا منکر ہو جائے تو کیا اس پر کافر کا حکم لگے گا؟
ج۔ اگر بعض ضروریات دین کا انکار ، رسالت کا انکار یا پیغمبر اسلام (ص)کی تکذیب یا شریعت کی تنقیص کھلاتا ہو تو یہ کفر و ارتداد ہے۔
س۳۴۹۔ کافر ذمی کافر حربی مرتد کے لئے جو سزائیں معین کی گئی ہیں کیا وہ سیاسی نوعیت کی ہیں اور قائد کے فرائض میں شامل ہیں یا وہ سزائیں قیامت تک کے لئے ثابت ہیں ؟
ج۔ یہ الہی اور شرعی حکم ہے۔
کتابِ نماز
نماز کی اہمیت اور شرائط
س۳۵۰۔ عمداً نماز ترک کرنے والے یا اسے سبک سمجھنے والے کا کیا حکم ہے ؟
ج۔ نماز پنجگانہ شریعت اسلامیہ کے ہم واجبات میں سے ہے ، بلکہ یہ دین کا ستون ہے اور اس کا ترک کرنا یا سبک سمجھنا شرعاً حرام اور عذاب کا موجب ہے۔
س۳۵۱۔ اگر کسی کو وضو اور غسل کے لئے پانی اور تیمم کے لئے خاک میسر نہ ہو تو کیا اس پر نماز واجب ہے ؟
ج۔ ادا کرنا واجب نہیں ہے اگرچہ احتیاط مستحب ہے کہ ادا کرے (لیکن) احتیاطاً قضا پڑھنا واجب ہے۔
س۳۵۲۔ آپ کی نظر میں ایک واجبی نماز سے کن موقعوں پر عدول کیا جا سکتا ہے ؟
ج۔ مندرجہ ذیل موارد میں عدول کرنا واجب ہے :
۱۔ عصر کی نماز سے ظہر کی طرف عدول کرنا اگر نماز کے درمیان متوجہ ہو کہ اس نے ظہر کی نماز نہیں پڑھی ہے۔
۲۔ عشاء کی نماز سے مغرب کی طرف بشرطیکہ اس نے محل عدول سے تجاوز نہ کیا ہو اور متوجہ ہو گیا ہو کہ مغرب کی نماز نہیں پڑھی ہے۔
۳۔ اگر ترتیب وار پڑھی جانے والی دو قضا نمازوں میں بہو ل سے بعد کی نماز کو پہلے شروع کر دیا ہو۔
اور مندرجہ ذیل موقعوں پر عدول مستحب ہے :
۱۔ ادا نماز سے قضا کی طرف ، بشرطیکہ ادا نماز کی فضیلت کا وقت فوت نہ ہو جائے۔
۲۔ جماعت میں شرکت کی غرض سے واجب نماز سے مستحبی کی طرف عدول۔
۳۔ اگر جمعہ کے دن نماز ظہر میں سورہ جمعہ کے بجائے بہو ل کر دوسرا سورہ شروع کر دیا ہو اور نصف یا کچھ زائد پڑھ چکا ہو تو وہ واجبی نماز سے مستحبی نماز کی طرف عدول کرسکتا ہے۔ تاکہ نماز فریضہ کو سورہ جمعہ کے ساتھ ادا کرسکے۔
س۳۵۳۔ جمعہ کے دن جو نمازی جمعہ اور ظہر دونوں نمازوں میں صرف ’ قربۃ الی اللہ ‘ یا دونوں میں واجب قربۃ الی اللہ کی نیت کرے؟
ج۔ دونوں میں قربت کی نیت کرنا کافی ہے اور کسی میں وجوب کی نیت واجب نہیں ہے۔
س۳۵۴۔ اگر نماز کے اول وقت سے تقریباً آخر وقت تک منہ یا ناک سے خون جاری رہے تو ایسے میں نماز کا کیا حکم ہے ؟
ج۔ اگر بدن کے پاک کرنے پر قادر نہ ہو اور وقت نماز کے ختم ہو جانے کا خوف ہو تو اسی حالت میں نماز پڑھے گا۔
س۳۵۵۔ نماز میں مستحبی ذکر کو پڑھتے وقت کیا بدن کو پوری طرح ساکن رکھنا واجب ہے ؟
ج۔ خواہ ذکر واجب ہو یا مستحب اثنائے نماز میں دونوں کی قرأت کے وقت جسم کا مکمل سکون و اطمینان کی حالت میں ہو نا واجب ہے۔
س۳۵۶۔اسپتالوں میں مریضوں کو پیشاب کے لئے نلکی لگا دی جاتی ہے جس سے غیر اختیاری طور پر سوتے جاگتے یہاں تک کہ درمیان نماز بھی مریض کا پیشاب نکلتا رہتا ہے پس یہ فرمائیں کہ کیا اس پر دوبارہ نماز پڑھنا واجب ہے یا اس حالت میں پڑھی جانے والی نمازیں کافی ہیں ؟
ج۔ اگر اس نے اپنی نماز اس وقت کے شرعی فریضہ کے مطابق پڑھی ہو ، تو صحیح ہے اس پر نہ تو اعادہ واجب ہے اور نہ قضا۔
س۳۵۷۔ جو نمازیں میں نے مستحبی غسل سے اور وضو کے بغیر پڑھی ہیں وہ صحیح ہیں یا نہیں ؟
ج۔ اگر آپ نے اس مرجع کے فتوے کے مطابق نماز پڑھی ہے جس کی تقلید کو اپنے لئے شرعاً صحیح سمجھا ہے تو وہ نمازیں صحیح ہیں۔
اوقات نماز
س۳۵۸۔ شیعہ فرقہ نماز پنجگانہ کے وقت کے بارے میں کس دلیل پر اعتماد کرتا ہے ؟ جیسا کہ آپ جانتے ہیں اہل سنت وقت عشاء کے داخل ہو نے کو نماز مغرب کے قضا ہو نے کی دلیل قرار دیتے ہیں ، ظہر و عصر کی نماز کے بارے میں بھی ان کا یہی نظریہ ہے۔ اسی لئے وہ معتقد ہیں کہ جب وقت عشاء داخل ہو اور پیش نماز ، نماز عشاء پڑھنے کے لئے کھڑا ہو تو مامومین اس کے ساتھ مغرب کی نماز نہیں پڑھ سکتے ، اس لئے کہ ( اس طرح ) مغرب اور عشاء ایک ہی وقت میں پڑھ لی جائے گی؟
ج۔ دلیل ، آیات قرآنیہ اور سنت نبویہ کا اطلاق ہے ، اس کے علاوہ بہت سی روایتیں ہیں جو خاص طور سے دو نمازوں کو ملا کر پڑھنے کے جواز پر دلالت کرتی ہیں اور ظاہر ہے کہ اہل سنت کے یہاں بھی ایسی روایتیں ہیں جو دو نمازوں کو کسی ایک نماز کے وقت میں ادا کرنے پر دلالت کرتی ہیں۔
س۳۵۹۔ اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ نماز عصر کا آخری وقت مغرب ہے اور نماز ظہر کا آخری وقت مغرب سے اتنا پہلے تک ہے جتنی دیر میں صرف نماز عصر پڑھی جا سکے۔ یہاں میں یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ مغرب سے کیا مراد ہے ؟ کیا غروب آفتاب ہے یا اس شہر کے افق کے اعتبار سے اذان مغرب کا بلند ہو نا ہے ؟
ج۔ غروب آفتاب مراد نہیں ہے۔ بلکہ مراد، وقت اذان مغرب ہے یعنی جب مشرق کی سرخی زائل ہو جاتی ہے تو وہ نماز عصر کا آخری وقت ہے جو نماز مغرب کے اول وقت سے متصل ہو جاتا ہے۔
س۳۶۰۔ غروب آفتاب اور اذان مغرب میں کتنے منٹ کا فاصلہ ہو تا ہے ؟
ج۔ بظاہر یہ فاصلہ موسموں کے اختلاف کے ساتھ ساتھ گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔
س۳۶۱۔ میں تقریباً گیارہ بجے رات ڈیوٹی سے گھر پلٹتا ہوں اور لوگوں کی زیادہ آمد و رفت کی وجہ سے ڈیوٹی کے دوران نماز مغربین نہیں پڑھ سکتا، تو گویا گیارہ بجے رات کے بعد نماز مغربین کا پڑھنا صحیح ہے ؟
ج۔ کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ نصف شب نہ گذرنے پائے، لیکن کوشش کیجئے کہ گیارہ بجے رات سے زیادہ تاخیر نہ ہو بلکہ نماز کو اول وقت پڑھنے کی کوشش کیجئے۔
س۳۶۲۔ کتنی رکعتی نماز وقت میں ادا ہو نا چاہئیے جس کے بعد ادا کا اطلاق صحیح ہو اور اگر شک ہو کہ اتنی مقدار وقت میں پڑھی گئی یا نہیں تو اس کا کیا حکم ہے ؟
ج۔ نماز کی ایک رکعت کا آخر وقت کے اندر انجام پانا ادا کے لئے کافی ہے ، اور شک ہو کہ کم از کم ایک رکعت کے لئے وقت ہے یا نہیں ، تو پھر ما فی الذمہ کی نیت سے نماز پڑھے اور ادا اور قضا کی نیت نہ کرے۔
س۳۶۳۔ غیر مسلم ملکوں میں اسلامی جمہو ریہ کے سفارت خانوں اور کونسل خانوں کی طرف سے اداروں اور بڑے بڑے مراکز اور شہروں کے لئے اوقات نماز کے نقشے شائع ہو تے ہیں ان پر کس حد تک اعتبار کیا جا سکتھے ؟ اور دوسرے یہ کہ ان ملکوں کے دوسرے شہروں میں رہنے والوں کا کیا فریضہ ہے ؟
ج۔ معیار یہ ہے کہ مکلف کو اطمینان حاصل ہو جائے اور اگر مکلف کو ان نقشوں کے وقت کے مطابق ہو نے کا یقین نہ ہو ، تو اس پر واجب ہے کہ احتیاط کرے، اور اس وقت تک انتظار کرے کہ اسے وقت شرعی کے داخل ہو نے کا یقین حاصل ہو جائے۔
س۳۶۴۔ صبح صادق اور صبح کاذب کے مسئلہ میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ اور اس سلسلہ میں نمازی کی شرعی ذمہ داری کیا ہے ؟
ج۔ نماز اور روزے کے وقت کا شرعی معیار ، صبح صادق ہے اور اس کی تعیین و تشخیص کی ذمہ داری ہے۔
س۳۶۵۔ ایک مدرسہ جس میں پورے دن کلاسیں ہو تی ہیں۔ اس کے ذمہ دار حضرات ظہرین کی جماعت کو تقریباً ۲ بجے ظہر کے بعد اور عصر کی کلاسیں شروع ہو نے سے پہلے منعقد کراتے ہیں۔ تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ صبح کی کلاسوں کے دروس اذان ظہر سے تقریباً پون گھنٹہ پہلے ختم ہو جاتے ہیں اور ظہر شرعی تک طلاب کا ٹھہرنا مشکل ہے۔ اس بنا پر اول وقت نماز ادا کرنے کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے (ا س نماز کے بارے میں ) آپ کا کیا حکم ہے ؟
ج۔ اگر نماز کے اول وقت طلاب حاضر نہیں ہو سکتے تو نماز گزاروں کی خاطر تاخیر میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
س۳۶۶۔ کیا اذان ظہر کے بعد نماز ظہر کا پڑھنا اور نماز عصر کا وقت شروع ہو نے کے بعد نماز عصر کا پڑھنا واجب ہے اور کیا اسی طرح نماز مغرب و عشا کا پڑھنا بھی واجب ہے ؟
ج۔ وقت کے داخل ہو نے کے بعد نمازی کو اختیار ہے کہ وہ دونوں کو ملا کر پڑھے یا جدا جدا۔
س۳۶۷۔ کیا چاندنی راتوں میں نماز صبح کے لئے ۱۵ منٹ سے ۲۰ منٹ تک انتظار کرنا واجب ہے ؟ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ وقت کافی ہے اور طلوع فجر کا یقین حاصل کیا جا سکتھے ؟
ج۔ طلوع صبح صادق ،وقت نماز صبح اور ترک سحر کے وجوب کے سلسلے میں چاندنی راتوں یا اندھیری راتوں میں کوئی فرق نہیں ہے اگرچہ اس سلسلے میں احتیاط بہتر ہے۔
س۳۶۸۔صوبوں اور شہروں میں افق کے اختلاف کی وجہ سے اوقات شرعیہ میں جو اختلاف ہو تا ہے کیا دن رات کی واجب تمام نمازوں میں وہی وقت میعاد ہے ؟مثال کے طور پر اگر دو شہروں میں ظہر کے شرعی وقت میں ۲۵ منٹ کا اختلاف ہو تو کیا دوسرے اوقات میں بھی اتنا ہی اختلاف ہو گا یا صبح و عشاء میں اس سے مختلف ہے ؟
ج: فجر ،ظہر یا غروب آفتاب کے وقت کا اندازہ ایک جیسا ہو نے کا لازمی نتیجہ یہ نہیں ہے کہ دوسرے اوقات میں بھی اتنا ہی فرق اور فاصلہ ہو بلکہ مختلف شہروں میں اکثر تینوں اوقات کا اختلاف متفاوت ہو تھے۔
س۳۶۹:اہل سنّت نماز مغرب کو غروب شرعی سے پہلے پڑھتے ہیں ، کیا ہمارے لئے ایام حج یا دوسرے ایام میں ان کی اقتدا میں نماز پڑھنا اور اسی نماز پر اکتفا کر لینا جائز ہے ؟
ج۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کی نماز وقت سے پہلے ہو تی ہے ، لیکن ان کی جماعت میں شرکت کرنے اور ان کی اقتداء کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور وہ نماز کافی ہے ، لیکن وقت نماز کا درک کرنا ضروری ہے۔ مگر یہ کہ وقت کے بارے میں بھی تقیہ کیا جائے۔
س۳۷۰۔ ڈنمارک اور ناروے میں صبح کے سات بجے سورج نکلتا ہے اور اس وقت تک آسمان میں چمکتا رہتا ہے۔ جبکہ دوسرے نزدیکی ملکوں میں رات کے بارے بج چکے ہو تے ہیں۔ ایسی صورت میں میری نماز و روزہ کا کیا حکم ہے ؟
ج۔ نماز پنجگانہ کے لئے اس جگہ کے افق کا خیال رکھنا واجب ہے ، اور اگر دن کے طولانی ہو نے کی وجہ سے روزہ رکھنا شاق ہو تو اس وقت روزہ ساقط ہے اور بعد میں اس کی قضا واجب ہے۔
س۳۷۱۔ سورج کی شعاعیں تقریباً سات منٹ میں زمین تک پہنچ جاتی ہیں ، آیا نماز صبح کے وقت کے ختم ہو نے کی معیار طلوع آفتاب ہے یا اس کی شعاعوں کا زمین تک پہنچنا ہے ؟
ج۔ معیار طلوع آفتاب اس کا اس افق میں دیکھا جانا ہے جہاں نماز گزار موجود ہے۔
س ۳۷۲۔ ذرائع نشر و اشاعت ہر روز آنے والے دن کے شرعی اوقات کا اعلان کرتے ہیں کیا ان پر اعتماد کرنا جائز ہے اور ریڈیو و ٹیلی ویژن کے ذریعہ نشر کی جانے والی اذان کو وقت کے داخل ہو جانے کا معیار بنایا جا سکتا ہے ؟
ج۔ معیار یہ ہے کہ مکلف کو وقت کے داخل ہو جانے کا اطمینان حاصل ہو جائے۔
س۳۷۳۔ کیا اذان کے شروع ہو تے ہی نماز کا وقت شروع ہو جاتا ہے یا اذان کے ختم ہو نے کا انتظار کرنا واجب ہے اور اس کے بعد نماز کو شروع کرنا چاہئیے؟ اور اسی طرح کیا اذان کے شروع ہو تے ہی روزہ دار کے لئے افطار کرنا جائز ہے یا یہ کہ یہاں بھی آخر اذان تک انتظار کرنا واجب ہے ؟
ج۔ اگر اس بات کا یقین ہو کہ وقت داخل ہو جانے کے بعد اذان شروع ہوئی ہے تو آخر اذان تک انتظار کرنا واجب نہیں ہے۔
س۳۷۴۔ کیا اس شخص کی نماز صحیح ہے جس نے دوسری نماز کو پہلی نماز پر مقدم کر دیا ہو جیسے عشاء کو مغرب پر؟
ج۔ اگر غلطی یا غفلت کی وجہ سے مقدم کیا ہو اور پوری نماز پڑھ ڈالی ہو تو اس کے صحیح ہو نے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر اس نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے تو وہ نماز باطل ہے۔
قبلہ کے احکام
س۳۷۵۔ درج ذیل سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں :
۱۔ بعض فقہی کتابوں میں ہے کہ خرداد ماہ کی چوتھی اور تیر ماہ کی چھبیسویں مطابق ۲۵ مئی اور ۱۷ جولائی کو خانہ کعبہ پر سورج کی کرنیں عمودی پڑتی ہیں ، تو کیا اس صورت میں جس وقت مکہ میں اذان ہو تی ہے اس وقت شاخص نصب کر کے جہت قبلہ کی تشخیص کی جا سکتی ہے ؟ اور اگر جہت قبلہ کے سلسلے میں شاخص کے سایہ اور مسجدوں کی محراب کی سمت میں اختلاف ہو تو کس کو صحیح سمجھا جائے گا؟
۲۔ کیا قطب نما پر اعتماد کرنا صحیح ہے۔
ج۔ شاخص اور قطب نما کے ذریعے اگر مکلف کو جہت قبلہ کا یقین حاصل ہو جائے تو اس پر اعتماد کرنا صحیح ہے اور اس کے مطابق عمل کرنا واجب ہے ، اور اگر یقین نہ ہو تو جہت قبلہ کے تعین کے لئے مسجدوں کی محراب اور مسلمانوں کی قبروں پر اعتماد کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
س۳۷۶۔ جب جنگ کی شدت جہت قبلہ کی تعیین میں مانع ہو تو کیا کسی بھی طرف ( رخ کر کے) نماز کا پڑھنا صحیح ہے ؟
ج۔ اگر وقت ہو تو چاروں طرف نماز پڑھی جائے ورنہ جتنا وقت ہو اس میں جتنی سمتوں میں قبلہ کا احتمال ہو اتنی سمتوں میں نماز پڑھے گا۔
س۳۷۷۔ اگر کرہ زمین کی دوسری سمت میں خانہ کعبہ کے مقابل ایک نقطہ دریافت ہو جائے اس طرح کہ اگر ایک خط مستقیم زمین کعبہ کے وسط سے کرہ ارض کو چیرتا ہو ا مرکز زمین سے گزر کر اس نقطہ کے دوسری طرف نکل جائے تو اس نقطہ پر قبلہ رو کیسے کھڑے ہوں گے؟
ج۔ بقدر واجب قبلہ رو ہو نے کا معیار یہ ہے کہ کرہ زمین کی سطح سے خانہ کعبہ کی طرف رخ کرے اس طرح کہ جو شخص روئے زمین پر ہے وہ اس کعبہ کی طرف رخ کرے جو کہ مکہ مکرمہ میں سطح زمین پر بنا ہو ہے اور اسی بنا پر اگر وہ زمین کے کسی ایسے مقام پر کھڑا ہو جہاں سے کھینچے جانے والے خطوط مساوی مسافت کے ساتھ کعبہ تک پہنچتے ہیں تو اسے اختیار ہے کہ جس طرف چاہے رخ کر کے نماز پڑھے لیکن عرف عام میں جس سمت قبلہ ہے اگر اس کے مقابلہ میں کسی اور سمت کے خط کی مسافت کم ہو تو نماز گزار پر واجب ہے کہ اسی طرف رخ کر کے نماز پڑھے۔
س۳۷۸۔ جس جگہ ہم جہت قبلہ کو نہ جانتے ہوں اور جہت معلوم کرنے کے لئے ہمارے پاس وسائل بھی نہ ہوں نیز چاروں سمتوں میں قبلہ کا احتمال ہو تو ایسی جگہ پر ہمیں کیا کرنا چاہئیے؟
ج۔ اگر چاروں سمتوں میں قبلہ کا احتمال مساوی ہو تو چاروں طرف رخ کر کے نماز پڑھنی چاہئیے تاکہ یہ یقین ہو جائے کہ اس نے رو بہ قبلہ نماز ادا کر دی ہے۔
س۳۷۹۔ قطب شمالی اور قطب جنوبی کی سمت کو کس طرح معین کیا جائے گا؟ اور کس طرح نماز پڑھی جائے گی؟
ج۔ قطب شمالی و جنوبی میں سمت قبلہ معلوم کرنے کا معیار یہ ہے کہ نماز گزاروں کی جگہ سے کعبہ تک سب سے چھوٹا خط کھینچا جائے گا اور اس خط کے معین ہو جانے کے بعد اسی رخ پر نماز پڑھی جائے گی۔
نماز گزار کے مکان کے احکام
س۳۸۰۔ وہ جگہیں جن کو ظالم حکومتوں نے غصب کر لیا ہے ،کیا وہاں بیٹھنا نماز پڑھنا اور چلنا جائز ہے ؟
ج۔ اگر غصبی ہو نے کا علم ہو تو اس میں تصرف ناجائز ہو نے اور تصرف کی صورت میں ضامن ہو نے کے سلسلے میں ان امکانات کا حکم وہی ہے جو غصبی چیزوں کا ہو تا ہے۔
س۳۸۱۔ اس زمین پر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے جو پہلے وقف تھی اور پھر حکومت نے اس پر تصرف کر کے مدرسہ بنا دیا ہو ؟
ج۔ اگر اس بات کا قوی احتمال ہو کہ اس میں تصرف کرنا شرعی لحاظ سے جائز تھا تو اس جگہ نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
س۳۸۲۔میں کئی مدرسوں میں نماز جماعت پڑھتا ہوں ، ان مدرسوں کی بعض زمینیں ایسی ہیں جو ان کے مالکوں سے ان کی رضامندی کے بغیر لی گئی ہیں ، لہذا ان جیسے مدرسوں میں میری اور طلاب کی نمازوں کا کیا حکم ہے ؟
ج۔ اگر ان زمینوں کے شرعی مالک سے غصب ہو نے کا یقین نہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
س۳۸۳۔ اگر کوئی شخص ایک مدت تک غیر مخمس جا نماز یا لباس میں نماز پڑھے تو اس کی نمازوں کا کیا حکم ہے ؟
ج۔ اگر وہ نہ جانتا ہو کہ ان چیزوں میں خمس ہے یا ان پر تصرف کے حکم سے ناواقف رہا ہو تو جو نمازیں اس نے ان میں پڑھی ہیں ، صحیح ہیں۔
س۳۸۴۔ کیا یہ بات صحیح ہے کہ نماز میں مردوں کو عورتوں سے آگے ہو نا واجب ہے ؟
ج۔ واجب نہیں ہے ، اگرچہ اس مسئلہ میں احتیاط کی رعایت کرنا بہتر ہے۔
س۳۸۵۔ مسجدوں میں امام خمینی(رح) اور شہداء انقلاب کی تصویروں کے لگانے کا کیا حکم ہے ، جبکہ امام خمینی (رح) مساجد میں اپنی تصویروں کو لگانے پر راضی نہ تھے۔ اسی طرح اور بھی اقوال ہیں جو اس سلسلہ میں کراہت پر دلالت کرتے ہیں ؟
ج۔ مسجدوں میں ان افراد کی تصویروں کے لگانے میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے اور اگر وہ تصویریں قبلہ کی طرف اور نمازی کے سامنے نہ ہوں تو کراہت بھی نہیں ہے۔
س۳۸۶۔ ایک شخص حکومت کے مکان میں رہتا تھا اب اس میں اس کے رہنے کی مدت ختم ہو گئی اور مکان خالی کرنے کے لئے اس کے پاس نوٹس بھی جا گیا، پس جس تاریخ میں مکان خالی کرنا تھا اس کے بعد اس میں پڑھی جانے والی نماز اور روزے کا کیا حکم ہے ؟
ج۔ اگر مقررہ تاریخ کے بعد متعلقہ حکام کی طرف سے اس مکان میں رہنے کی اجازت نہ ہو تو اس میں تصرف کرنا غصب کرنے کے حکم میں ہے۔
س۳۸۷۔ جس جا نماز پر تصویریں اور سجدہ گاہ پر نقش و نگار بنے ہوئے ہیں ، کیا ان پر نماز پڑھنا مکروہ ہے ؟
ج۔ بذات خود کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر اس سے شیعوں پر تہم ت لگانے والوں کے لئے بہا نہ فراہم ہو تا ہو توایسی چیزیں بنانے اور ان پر نماز پڑھنے سے اجتناب کرنا واجب ہے۔
س۳۸۸۔ اگر نماز پڑھنے کی جگہ پاک نہ ہو لیکن سجدہ کی جگہ پاک ہو ، تو کیا ہماری نماز صحیح ہے ؟
ج۔ اگر اس جگہ کی نجاست لباس یا بدن میں سرایت نہ کرے اور سجدہ کی جگہ پاک ہو تو ایسی جگہ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س۳۸۹۔ میرے دفتر کی موجودہ عمارت پرانے قبرستان پر بنائی گئی ہے۔ تقریباً چالیس سال قبل سے اس میں مردے دفن کرنا چھوڑ دیا گیا تھا لہذا تیس سال پہلے اس عمارت کی بنیاد پڑی اب پوری زمین پر یہ عمارت مکمل ہو چکی ہے اور اس وقت قبرستان کا کوئی نشان باقی نہیں ہے۔ پس ایسے دفتر میں اس کے کارکنوں کی نمازیں شرعی اعتبار سے صحیح ہیں یا نہیں ؟
ج۔ اس وقت تک اس میں کام کرنے اور نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے جب تک شرعی طریقے سے یہ ثابت نہ ہو جائے کہ یہ جگہ میت دفن کرنے کے لئے وقف کی گئی تھی۔
س۳۹۰۔ مومن نوجوان نے ( امر بالمعروف کی خاطر) ، پارکوں اور تفریح گہوں میں ہفتے میں ایک یا دو دن اقامہ نماز کا پروگرام بنایا ہے ،لیکن بعض مشہور اور سن رسیدہ افراد اعتراض کرتے ہیں کہ پارکوں اور تفریح گہوں کی ملکیت واضح نہیں ہے۔ لہذا ان جگہوں پر نماز کیسے ہو گی؟
ج۔ موجودہ پارکوں اور تفریح گہوں کو نماز وغیرہ کے لئے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور غصب کا احتمال قابل توجہ نہیں ہے۔
س۳۹۱۔ اس شہر ( ہا دی شہر ) کے موجودہ مدارس میں سے ایک مدرسہ کی زمین ایک شخص کی ملکیت ہے۔ شہر کے نقشہ کے مطابق اس کو پارک میں تبدیل کرنا مقررہ کیا گیا تھا۔ لیکن جب مدرسہ کی شدید ضرورت محسوس ہو نے لگی تو اسے میونسپل بورڈ کی اجازت سے مدرسہ میں تبدیل کر دیا گیا مگر چونکہ مالک زمین ( حکومت کی طرف سے) اس ضبطی پر راضی نہیں ہے اور اس نے اعلان کر دیا ہے کہ اس میں نماز وغیرہ صحیح نہیں ہے۔ لہذا آپ فرمائیں کہ مذکورہ عمارت میں نماز کا کیا حکم ہے ؟
ج۔ اگر اس زمین کو اس کے حقیقی مالک سے پارلیمنٹ کے پاس کئے ہوئے قانون کے تحت جس کی شورائے نگہبان نے بھی تائید کی ہو ، لیا گیا ہے تو اس میں تصرف کرنے اور نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
س۳۹۲۔ ہمارے شہر میں دو ملی ہوئی مسجدیں تھیں جن کے درمیان صرف ایک دیوار کا فاصلہ تھا۔ کچھ دنوں پہلے بعض مومنین نے دونوں مسجدوں کو ایک کرنے کے لئے درمیانی دیوار کے بڑے حصے کو گرا دیا۔ یہ اقدام بعض لوگوں کے لئے شک و شبہ کا سبب بنا ہو ا ہے اور وہ ان مسجدوں میں نماز نہیں پڑھ رہے ہیں۔ آپ فرمائیں کہ اس مسئلہ کا کیا حل ہے ؟
ج۔ دونوں مسجدوں کے درمیان کی دیوار کو گرانے سے ان میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج واقع نہیں ہو تا۔
س۳۹۳۔ شاہراہوں پر کھانے کے ہو ٹلوں میں نماز پڑھنے کی بھی ایک مخصوص جگہ ہو تی ہے ، لہذا اگر کوئی شخص اس ہو ٹل میں کھانا نہ کھائے تو کیا اس کے لئے وہاں نماز پڑھنا جائز ہے یا اجازت لینا واجب ہے ؟
ج۔ اگر اس کا احتمال ہو کہ نماز کی جگہ ہو ٹل والے کی ملکیت ہے اور وہاں صرف وہی اشخاص نماز پڑھ سکتے ہیں جو اس ہو ٹل میں کھانا کہا تے ہیں ، تو اجازت لینا واجب ہے۔
س۳۹۴۔ جو شخص غصبی زمین پر لیکن ایسی جانماز یا تختے پر نماز پڑھے جو مباح ہو تو اس کی نماز باطل ہے یا صحیح؟
ج۔ غصبی زمین پر پڑھی جانے والی نماز باطل ہے خواہ وہ مباح جا نماز یا تخت پر ہی کیوں نہ پڑھی جائے۔
س۳۹۵۔ موجودہ حکومت کے زیر تصرف اداروں اور کمپنیوں میں بعض افراد وہ ہیں جو نماز با جماعت میں شرکت نہیں کرتے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عمارتیں ان کے مالکوں سے شرعی عدالت کے فیصلہ پر ضبط کی گئی ہیں۔ برائے مہربانی اس سلسلے میں آپ اپنے فتوے سے مطلع فرمائیں ؟
ج۔ نماز جماعت میں شرکت کرنا بنیادی طور سے ضروری نہیں ہے ، ہر شخص کو کسی عذر کی وجہ سے شریک جماعت نہ ہو نے کا حق ہے اور رہا مکان کا حکم شرعی تو اگر یہ احتمال ہے کہ ضبط کرنے کا حکم ایسے شخص نے دیا تھا جس کو قانونی حیثیت حاصل تھی اور اس نے شرعی اور قانونی تقاضوں کے مطابق ضبط کرنے کا حکم دیا تھا تو شرعاً اس کا عمل صحیح تھا۔ لہذا ایسی صورت میں اس مکان پر تصرف کرنا جائز ہے اور غصب کا حکم نافذ نہیں ہو گا۔
س۳۹۶۔ اگر امام بارگہوں کے پڑوس میں مسجد بھی ہو تو کیا امام بارگاہ میں نماز جماعت قائم کرنا صحیح ہے اور کیا دونوں جگہوں کا ثواب مساوی ہے ؟
ج۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسجد میں نماز پڑھنے کی فضیلت دوسری جگہوں پر نماز پڑھنے سے زیادہ ہے ، لیکن امام بارگاہ یا دوسری جگہوں پر نماز جماعت قائم کرنے میں شرعاً کوئی مانع نہیں ہے۔
س۳۹۷۔ جس جگہ حرام موسیقی ہو رہی ہو کیا وہاں نماز پڑھنا صحیح ہے ؟
ج۔ اگر وہاں نماز پڑھنا حرام موسیقی سننے کا سبب بنے تو اس جگہ ٹھہرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن نماز صحیح کھلائے گی اور اگر موسیقی کی آواز نماز سے توجہ ہٹانے کا سبب بنے تو اس جگہ نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
س۳۹۸۔ ان لوگوں کی نماز کا کیا حکم ہے جن کو بحری جہا ز کے ذریعہ خاص ڈیوٹی پر بھی جا جاتا ہے اور سفر کے دوران نماز کا وقت ہو جاتا ہے اور اگر اسی وقت وہ نماز نہ پڑھیں تو پھر وہ وقت کے اندر نماز نہیں پڑھ سکیں گے؟
ج۔ مذکورہ صورت میں ان پر واجب ہے کہ وہ کشتی میں جس طرح ممکن ہو نماز پڑھیں۔
مسجد کے احکام
س۳۹۹۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنا مستحب ہے ، کیا اپنے محلہ کی مسجد چھوڑ کر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے شہر کی جامع مسجد جانے میں کوئی اشکال ہے ؟
ج۔ اگر اپنے محلہ کی مسجد چھوڑنا دوسری مسجد میں نماز جماعت میں شرکت کے لئے ہو خصوصاً شہر کی جامع مسجد میں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س۴۰۰۔ اس مسجد میں نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے جس کے بانیوں میں سے بعض یہ کہتے ہیں کہ یہ مسجد ہم نے اپنے لئے اور اپنے قبیلہ والوں کے لئے بنائی ہے ؟
ج۔ کوئی مسجد جب بن گئی تو کسی قوم ، قبیلہ اور اشخاص سے مخصوص نہیں رہتی بلکہ اس سے قوم مسلمانوں کو استفادہ کرنا جائز ہے۔
س۴۰۱۔ عورتوں کے لئے مسجد میں نماز پڑھنا افضل ہے یا گھر میں ؟
ج۔ مسجد میں نماز پڑھنے کی فضیلت مردوں ہی کے لئے مخصوص نہیں ہے۔
س۴۰۲۔ دور حاضر میں مسجد الحرام اور صفا و مروہ کی جائے سعی کے درمیان تقریباً آدھا میٹر اونچی اور ایک میٹر چوڑی دیوار ہے یہ مسجد اور جائے سعی کے درمیان مشترک دیوار ہے ، کیا وہ عورتیں اس دیوار پر بیٹھ سکتی ہیں جن کے لئے ایام عادت کے دوران مسجد الحرام میں داخل ہو نا جائز نہیں ہے ؟
ج۔ اس میں کوئی حرج نہیں ، مگر یہ کہ یہ یقین ہو جائے کہ وہ مسجد کا جزو ہے۔
س۴۰۳۔ کیا محلہ کی مسجد میں ورزش کرنا اور سونا جائز ہے ؟ اور اس سلسلہ میں دوسری مساجد کا کیا حکم ہے ؟
ج۔ مسجد ورزش گاہ نہیں ہے اور مسجد میں سونا مکروہ ہے۔
س۴۰۴۔ کیا مسجد کے صحن میں جوانوں کو فکری، ثقافتی ، عقائدی اور عسکری درس دیا جا سکتا ہے ؟ اور ان امور کو اس مسجد کے ایوان میں انجام دینے کا شرعی حکم کیا ہے ، جس سے استفادہ نہیں کیا جاتا؟ جبکہ اس طرح کی تعلیم کے لئے جگہیں بہت کم ہیں ؟
ج۔ یہ چیزیں مسجد کے صحن و ایوان کے وقف کی کیفیت سے مربوط ہیں۔ اور اس سلسلہ میں مسجد کے امام جماعت اور انتظامیہ کمیٹی کی رائے حاصل کرنا واجب ہے۔واضح رہے کہ امام جماعت اور انتظامیہ کمیٹی کی موافقت سے جوانوں کو مساجد میں جمع کرنا اور دینی کلاسیں لگانا مستحسن اور مطلوب فعل ہے۔
س۴۰۵۔ بعض علاقوں ، خصوصاً دیہاتوں میں لوگ مساجد میں شادی کا جشن منعقد کرتے ہیں یعنی وہ رقص اور گانا تو گھروں میں کرتے ہیں لیکن صبح یا شام کا کھانا مسجد میں کھلاتے ہیں۔ شریعت کے لحاظ سے یہ جائز ہے یا نہیں ؟
ج۔ مہمانوں کو مسجد میں کھانا کھلانے میں فی نفسہ کوئی اشکال نہیں ہے لیکن مسجد میں جشن شادی منعقد کرنا اسلام کی مسجد کی عظمت کے خلاف ہے ، اور یہ جائز نہیں ہے اور شرعی طور سے حرام کاموں کو انجام دینا جیسے ، گانا اور طرب انگیز لہو یا موسیقی سننا مطلقاً حرام ہے۔
س۴۰۶۔ قوی کو اپریٹیو کمپنیاں رہائش کے لئے فلیٹ اور کالونیاں بناتی ہیں۔ شروع میں شرکاء کے ساتھ اس بات پر اتفاق ہو تا ہے کہ ان فلیٹوں میں عمومی استفادہ ، جیسے مسجد وغیرہ کے لئے جگہیں ہوں گی۔
جب گھر تیار ہوئے اور شرکاء کو دئیے گئے تو اب بعض حصہ داروں کے لئے جائز ہے کہ وہ قرارداد کو توڑ دیں اور یہ کہہ دیں کہ ہم مسجد کی تعمیر کے لئے راضی نہیں ہیں ؟
ج۔ اگر کمپنی تمام شرکاء کی موافقت سے مسجد کی تعمیر کا اقدام کرے اور مسجد تیار ہو جانے کے بعد وقف ہو جائے تو اپنی پہلی رائے سے بعض شرکاء کے پھر جانے سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن اگر مسجد کے وقف ہو نے سے قبل بعض شرکاء اپنی سابقہ موافقت سے پھر جائیں تو مسجد کی تعمیر کمپنی کے تمام اعضاء کے مشترکہ اموال اور ان کی مشترک زمین میں ان کی رضا مندی کے بغیر جائز نہیں ہے مگر یہ کہ کمپنی کے تمام شرکاء سے عقد لازم کے ضمن میں یہ شرط کر لی گئی ہو کہ مشترک زمین کا ایک حصہ مسجد کی تعمیر کے لئے مخصوص کیا جائے گا اور تمام اعضاء نے اس شرط کو قبول کیا ہو۔اس صورت میں انہیں اپنی رائے سے پھرنے کا کوئی حق نہیں ہے ا ور ان کے پھرنے سے کوئی اثر نہیں پڑ سکتا ہے۔
س۴۰۷۔ غیر اسلامی تہذیبی اور ثقافتی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لئے ہم نے مسجد میں ابتدائی اور مڈل کلاسوں کے تیس لڑکوں کو گروہ اناشید کی شکل میں ( چند نفر کا ایک ساتھ قرآن یا مدح پڑھنا) جمع کیا، اس گروہ کے افراد کو عمرو استعداد کے مطابق قرآن، احکام اور اسلامی اخلاق کا درس دیا جاتا ہے۔ اس تحریک کو چلانے کا کیا حکم ہے ؟ اور اگر یہ لوگ آلہ موسیقی جسے ’ آرگن‘ کہا جاتا ہے ، استعمال کریں تو اس کا کیا حکم ہے ؟ اور شرعی قوانین کی رعایت کرتے ہوئے مسجد میں اس کی مشق کرانے کا کیا حکم ہے ؟ کہ یہ چیزیں ریڈیو اور ٹیلی ویژن اور ایران کی وزارت ارشاد اسلامی میں عام ہیں ؟
ج۔ تہذیبی اور ثقافتی یلغار کا مقابلہ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا، موسیقی کے آلات سے استفادہ پر موقوف نہیں ہے خصوصاً مسجد میں پس مسجد کی عظمت کا لحاظ کرنا واجب ہے ، اس میں عبادت کرنا چاہئیے اور اس سے دینی معارف کی تبلیغ اور انقلاب کے تابناک افکار کی ترویج کرنا چاہئیے۔
س۴۰۸۔ کیا مسجد میں ان لوگوں کو جو قرآن کی تعلیم کے لئے آتے ہیں ، ایسی فلمیں دکھانے میں کوئی حرج ہے جن کو ایران کی وزارت ارشاد اسلامی نے فراہم کیا ہو ؟
ج۔ مسجد کو فلم دکھانے کی جگہ میں تبدیل کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن ضرورت کے وقت اور مسجد کے پیش نماز کی موافقت سے دکھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س۴۰۹۔ کیا آئمہ معصومین (ع)کی عید میلاد کے موقع پر مسجد سے فرح بخش کے نشر کرنے میں کوئی شرعی اشکال ہے ؟
ج۔ واضح رہے کہ مسجد ایک خاص شرعی مقام ہے ، پس اس میں موسیقی ( کا پروگرام) رکھنا اور نشر کرنا اس کی عظمت کے منافی ہے۔ لہذا حرام ہے ، یہاں تک کہ غیر مطرب موسیقی بھی حرام ہے۔
س۴۱۰۔ مساجد میں موجود لاؤڈ اسپیکر ، جس کی آواز مسجد کے بہر سنی جاتی ہے ، اس کا استعمال کب اور کس صورت میں جائز ہے ؟ اور اذان سے قبل اس پر تلاوت قرآن اور انقلابی ترانے سنانے کا کیا حکم ہے ؟
ج۔ جن اوقات میں محلہ والوں اور ہم سایوں کے لئے تکلیف و آزار کا سبب نہ ہو ان میں اذان سے قبل چند منٹ تلاوت قرآن نشر کی جا سکتی ہے۔
س۴۱۱۔ جامع مسجد کی تعریف کیا ہے ؟
ج۔ وہ مسجد جو شہر میں اکثر شہر کے اجتماع کے لئے بنائی جاتی ہے اور کسی قبیلہ یا بازار والوں سے مخصوص نہیں ہو تی ہے۔
س۴۱۲۔ تیس سال سے ایک چھت دار مسجد کا ایک حصہ ویران پڑا تھا اس میں نماز نہیں ہو تی تھی اور وہ ایک کھنڈر بن چکا تھا ،اس کے ایک حصہ کو مخزن بنا لیا گیا ہے۔ ادھر کچھ مدت قبل رضاکاروں ( بسیجیوں ) کی طرف سے اس میں بعض تبدیلیاں ہوئی ہیں جو اس کے چھت والے حصہ میں پندرہ سال سے مقیم ہیں اور ان تبدیلیوں کی وجہ سے عمارت کی نامناسب حالت تھی ، خصوصاً چھت گرنے کے قریب تھی اور چونکہ بسیج والے مسجد کے شرعی احکام سے ناواقف تھے اور جو لوگ جانتے تھے انہوں نے ان کی راہنمائی بھی نہیں کی۔ لہذا انہوں نے چھت والے حصے میں چند کمرے تعمیر کرا لئے، اور ان تعمیرات پر خطیر رقم بھی خرچ ہو چکی ہے۔ اب تعمیر کا کام اختتام پر ہے۔ برائے مہربانی درج ذیل موارد میں حکم شرعی سے مطلع فرمائیں :
۱۔ فرض کیجئے اس کام کے بانی اور اس پر نگراں کمیٹی کے اراکین مسئلہ سے ناواقف تھے تو کیا ان لوگوں کو بیت المال سے خرچ کئے جانے والی رقم کا ذمہ دار کہا جائے گا؟ اور وہ گناہگار ہیں یا نہیں ؟
۲۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ یہ رقم بیت المال سے خرچ ہوئی ہے۔ کیا آپ ان کو یہ اجازت دیتے ہیں کہ وہ ( جب تک مسجد کو اس حصہ کی ضرورت نہ ہو اور اس میں نماز قائم نہ ہو اس وقت تک) ان کمروں سے مسجد کے شرعی احکام و حدود کی رعایت کرتے ہوئے قرآن و احکام شریعت کی تعلیم کے لئے استفادہ کریں۔ اسی طرح مسجد کے امور کے لئے بھی ان کمروں کا استعمال کیا جائے یا ان کمروں کو فوراً منہدم کر دینا واجب ہے ؟
ج۔ مسجد کے چھت والے حصہ میں بنے ہوئے کمروں کو منہدم کر کے اس کو سابقہ حالت پر لوٹانا واجب ہے اور خرچ شدہ رقم کے بارے میں افراط و تفریط نیز کوتہی نہ ہوئی ہو یا جان بوجھ کر ایسا نہ کیا گیا ہو تو اس کا کوئی ضامن نہیں ہے اور مسجد کے چھت والے حصہ میں قرأت قرآن، احکام شرعی، اسلامی معارف کی تعلیم اور دوسرے دینی و مذہبی پروگرام منعقد کرنے میں اگر نماز گزاروں کے لئے زحمت کا باعث نہ ہو اور امام جماعت کی نگرانی میں ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اور امام جماعت ، رضا کاروں اور مسجد کے دوسرے ذمہ داروں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا واجب ہے تاکہ مسجد میں رضا کار بھی موجود رہیں اور مسجد کے عبادی فرائض جیسے نماز وغیرہ میں بھی خلل واقع نہ ہو۔
س۴۱۳۔ ایک سڑک کی توسیع کے منصوبے میں متعدد مساجد آتی ہیں۔ منصوبہ کے اعتبار سے بعض مساجدکا کچھ حصہ گرایا جائے گا تاکہ ٹریفک کی آمد و رفت میں آسانی ہو۔ برائے مہربانی اپنا نظریہ بیان فرمائیں ؟
ج۔ مسجد یا اس کے کسی حصہ کو منہدم کرنا جائز نہیں ہے مگر اس مصلحت کی بناء پر جس سے چشم پوشی ممکن نہ ہو۔
س۴۱۴۔ کیا مسجد میں لوگوں کے وضوء کے لئے مخصوص پانی کو مختصر مقدار میں اپنے ذاتی استعمال میں لانا جائز ہے جیسا کہ دوکاندار اس سے ٹھنڈا پانی پینے یا چائے بنانے یا موٹر گاڑی میں ڈالنے کے لئے لیتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس مسجد کا واقف کوئی ایک شخص نہیں ہے جو اس سے منع کرے؟
ج۔ اگر یہ معلوم نہ ہو کہ یہ پانی خصوصاً نماز گزاروں کے وضو ء کے لئے وقف ہے اور عرف میں یہ رائج ہو کہ جس محلہ میں مسجد ہے اس کے ہم سایہ اور راہ گیر اس کے پانی سے استفادہ کرتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ اس سلسلے میں احتیاط بہتر ہے۔
س۴۱۵۔ قبرستان کے پاس ایک مسجد ہے اور جب بعض قبور کی زیارت کے لئے آتے ہیں تو وہ اپنے کسی عزیز کی قبر پر پانی چھڑکنے کے لئے اس مسجد سے پانی لیتے ہیں اور ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ پانی مسجد کے لئے وقف ہے یا سبیل عام ہے اور بالفرض اگر یہ معلوم ہو کہ یہ پانی مسجد کے لئے وقف نہیں ہے لیکن وضوء و طہارت کے لئے مخصوص کیا گیا ہے تو کیا اسے قبر پر چھڑکنا جائز ہے ؟
ج۔ جب قبر پر چھڑکنے کے لئے مسجد سے بہر پانی لے جانا لوگوں میں رائج ہو اور ناپسندیدہ نہ ہو اور اس بات پر کوئی دلیل نہ ہو کہ پانی صرف وضوء کے لئے یا وضوء اور طہارت کے لئے وقف ہے تو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س۴۱۶۔ اگر مسجد میں ترمیم کی ضرورت ہو تو کیا حاکم شرع یا اس کے وکیل کی اجازت ضروری ہے ؟
ج۔ اگر مسجد کی ترمیم و تعمیر اپنے یا خیر افراد کے مال سے کرنا ہو تو اس میں حاکم شرع کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
س۴۱۷۔ کیا میں اپنے مرنے کے بعد کے لئے یہ وصیت کرسکتا ہوں کہ مجھے محلے کی اس مسجد میں دفن کیا جائے جس کے امور کی بہت ری کے لئے میں نے کوشش کی تھی کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ مجھے اس مسجد میں دفن کیا جائے خواہ مسجد کے اندر یا اس کے صحن میں ؟
ج۔ اگر صیغۂ وقف جاری کرتے وقت مسجد میں میت دفن کرنے کو مستثنیٰ نہ کیا گیا ہو تو اس میں دفن کرنا جائز نہیں ہے اور اس سلسلہ میں آپ کی وصیت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
س۴۱۸۔ ایک مسجد تقریباً بیس سال پہلے بنائی گئی ہے اور اسے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے نام مبارک سے موسوم کیا گیا ہے اور یہ معلوم نہیں ہے کہ مسجد کا نام صیغۂ وقف میں ذکر کیا گیا ہے یا نہیں پس مسجد کا نام مسجد صاحب زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے بجائے بدل کر جامع مسجد رکھنے کا کیا حکم ہے ؟
ج۔ صرف مسجد کا نام بدلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س ۴۱۹۔ زمانہ قدیم سے عام رواج ہے کہ محلہ کی مسجد میں نذریں دی جاتی ہیں تاکہ انہیں محرم ، صفر ، رمضان اور تمام مخصوص ایام میں صرف کیا جائے ادھر اسے بجلی اور ائر کنڈیشنر سے بھی آراستہ کر دیا گیا ہے جب محلہ والوں میں سے کوئی مر جاتا ہے تو اس کے فاتحہ کی مجلس بھی مسجد ہی میں ہو تی ہے اور مجلس میں مسجد کی بجلی اور ائرکنڈیشنر وغیرہ کو استعمال کیا جاتا ہے لیکن مجلس کرنے والے اس کا پیسہ ادا نہیں کرتے شرعی نقطہ نظر سے یہ جائز ہے یا نہیں ؟
ج۔ مسجد کے وسائل اور امکانات سے فاتحہ کی مجلس وغیرہ میں استفادہ کرنا مسجد کے وقف یا مسجد کو نذر کئے گئے وسائل کی کیفیت پر موقوف ہے۔
س۴۲۰۔ گاؤں میں ایک جدید التعمیر مسجد ہے ( جو پرانی مسجد کی جگہ بنائی گئی ہے ) موجودہ مسجد کے ایک کنارے پر جس کی زمین پرانی مسجد کا جزو ہے ، مسئلہ سے ناواقفیت کی بنا پر چائے وغیرہ بنانے کے لئے ایک کمرہ بنایا گیا ہے اور اسی طرح اس کی بالکنی پر جو کہ مسجد میں داخل ہے ایک لائبریری بنائی گئی ہے ، برائے مہربانی اس سلسلہ میں اپنا نظریہ بیان فرمائیں ؟
ج۔ سابق مسجد کی جگہ پر چائے خانہ بنانا صحیح نہیں ہے اور اس جگہ کو دوبارہ مسجد کی حالت میں بدلنا واجب ہے مسجد کی چھت بھی مسجد کے حکم میں ہے اور اس پر مسجد کے تمام شرعی احکام و آثار مترتب ہوں گے لیکن بالکنی میں کتابوں کے لئے الماریاں رکھنے اور مطالعہ کے لئے وہاں جمع ہو نے میں ، اگر نماز گزاروں کے لئے مزاحمت نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
س۴۲۱۔ اس مسئلہ میں آپ کی کیا رائے ہے کہ ایک گاؤں میں ایک مسجد گرنے والی ہے لیکن فی الحال اسے منہدم کرنے کے لئے کوئی شرعی جواز نہیں ہے کیونکہ وہ راستہ میں رکاوٹ نہیں ہے کیا مکمل طور پر اس مسجد کو منہدم کرنا جائز ہے ؟ اس مسجد کا کچھ اثاثہ اور پیسہ بھی ہے یہ چیزیں کس کو دی جائیں ؟
ج۔ مسجد کو منہدم و خراب کرنا جائز نہیں ہے اور عمومی طور سے مسجد کا خرابہ بھی مسجدیت سے خارج نہیں ہو گا، اور مسجد کے اثاثہ و مال کی اگر اس مسجد کو ضرورت نہیں ہے تو استفادہ کے لئے انہیں دوسری مسجدوں میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔
س۴۲۲۔ کیا مسجد کے صحن کے ایک گوشہ میں مسجد کی عمارت میں کسی تصرف کے بغیر ، میوزیم بنانے میں کوئی شرعی حرج ہے جیسا کہ آج کل مسجد کی عمارت کے ایک حصہ میں ہی لائبریری بنا دی جاتی ہے ؟
ج۔ صحن مسجد کے گوشہ میں لائبریری یا میوزیم بنانا جائز نہیں ہے اگر وہ صحن مسجد کے وقف کی کیفیت کے مخالف یا عمارت مسجد کی تغیر کا باعث ہو مذکورہ غرض کے لئے بہتر ہے کہ مسجد سے متصل کسی جگہ کا انتظام کیا جائے۔
س۴۲۳۔ ایک موقوفہ جگہ میں مسجد، دینی مدرسہ اور عام لائبریری بنائی گئی ہے اور سب کام کر رہے ہیں لیکن اس وقت یہ سب بلدیہ کی توسیع کے نقشہ میں آرہے ہیں جن کا انہدام بلدیہ کے لئے ضروری ہے ، ان کے انہدام کے لئے بلدیہ کاکیسے تعاون کیا جائے اور کیسے ان کا معاوضہ لیا جائے تاکہ اس کے عوض نئی اور اچھی عمارت بنائی جا سکے؟
ج۔ اگر میونسپلٹی اس کو منہدم کرنے اور معاوضہ دینے کے لئے تیار ہو جائے تو معاوضہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن کسی ہم مصلحت کے بغیر موقوفہ مسجد و مدرسہ کو منہدم کرنا جائز نہیں ہے۔
س۴۲۴۔ جامع مسجد کی توسیع کے لئے اس کے صحن سے چند درختوں کو اکھاڑنا ضروری ہے۔ کیا ان کو اکھاڑنا جائز ہے ، جبکہ مسجد کا صحن کافی بڑا ہے اور اس میں اور بھی بہت سے درخت ہیں ؟
ج۔ اگر مسجد کی توسیع کی ضرورت ہو اور مسجد کے صحن کو مسجد میں داخل کرنے اور درخت کاٹنے کو وقف میں تغیر و تبدیلی شمار نہ کیا جاتا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س۴۲۵۔ اس زمین کا کیا حکم ہے کہ جو مسجد کے چھت والے حصہ کا جزو تھی ، بعد میں بلدیہ کے توسیعی دائرے میں آنے کے بعد مسجد کے اس حصہ کو مجبوراً منہدم کر دیا گیا اور سڑک میں تبدیل ہو گئی؟
ج۔ اگر اسے مسجد کی پہلی حالت کی طرف پلٹانے کا احتمال بعید ہو تو اس مسجد کے آثار مرتب ہو نا لا معلوم ہے۔
س۴۲۶۔ میں عرصہ سے ایک مسجد میں نماز جماعت پڑھا تا ہوں ، اور مسجد کے وقف کی کیفیت کی مجھے اطلاع نہیں ہے ، دوسری طرف مسجد کے اخراجات کے سلسلے میں بھی مشکلات درپیش ہیں پس کیا مسجد کے سرداب کو مسجد کے شایان شان کسی مقصد کے لئے کرایہ پر دیا جا سکتا ہے ؟
ج۔ اگر سرداب پرمسجد کا عنوان صادق نہیں آتا ہے اور وہ اس کا ایسا جزء بھی نہیں ہے جس کی مسجد کو ضرورت ہو تو کوئی حرج نہیں ہے ؟
س۴۲۷۔ مسجد کے پاس کوئی املاک نہیں ہے جس سے اس کے اخراجات پورے کئے جا سکیں اور انتظامیہ کمیٹی مسجد کے چھت والے حصہ کے نیچے مسجد کے اخراجات پورا کرنے کے لئے ایک تہہ خانہ کہو د کرا س میں کارخانہ یا دوسرے عمومی مراکز بنانا چاہتی ہے ، یہ عمل جائز ہے یا نہیں ؟
ج۔مسجد کے چھت والے حصے کے نیچے کار خانہ وغیرہ بنانے کے لئے تہہ خانہ بنانا جائز نہیں ہے
س۴۲۹۔ کیا اس مسجد میں نماز پڑھنا جائز ہے جو کفار کے ہاتھوں سے بنی ہو ؟
ج۔ اس میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س۴۳۰۔ اگر ایک کافر اپنی خوشی سے مسجد بنانے کے لئے پیسہ دے یا کسی اور طریقہ سے مدد کرے تو کیا اسے قبول کرنا جائز ہے ؟
ج۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س۴۳۱۔ اگر ایک شخص رات میں مسجد میں آ کر سوجائے اور اسے احتلام ہو جائے لیکن جب بیدار ہو تو مسجد سے نکلنے پر قادر نہ ہو تو اس کی کیا ذمہ داری ہے ؟
ج۔ اگر وہ مسجد سے نکلنے اور دوسری جگہ جانے پر قادر نہ ہو تو اس پر واجب ہے کہ فوراً تیمم کرے تاکہ اس کے لئے مسجد میں باقی رہنے کا جواز پیدا ہو جائے۔
دوسر ے دینی مکانات کے احکام
س۴۳۲۔ کیا شرعی نقطہ نظر سے امام بارگاہ کو معین اشخاص کے نام رجسٹرڈ کرنا جائز ہے ؟ اور اگر دوسرے افراد جنہوں نے اس عمل خیر یعنی امام بارگاہ کی تعمیر میں شرکت کی ہے ، اس امر سے راضی نہ ہوں تو اس کا کیا حکم ہے ؟
ج۔ دینی مجالس برپا کرنے کے لئے موقوفہ ، امام بارگاہ کو معین اشخاص کے نام رجسٹرڈ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بہر حال بعض معین افراد کے نام کرنے کے لئے لازم ہے کہ ان تمام افراد کی اجازت لی جائے جنہوں نے اس عمارت کے بنانے میں شرکت کی ہے۔
س۴۳۳۔ مسائل کی کتابوں میں لکھا ہو ہے کہ مجنب شخص اور حائضہ عورت دونوں کے لئے آئمہ علیہم السلام کے حرم میں داخل ہو نا جائز نہیں ہے۔ برائے مہربانی اس کی وضاحت فرمائیں کہ کیا صرف قبہ کے نیچے کی جگہ حرم ہے یا اس سے ملحق ساری عمارت حرم ہے ؟
ج۔ حرم سے مراد وہ جگہ ہے جو قبۂ مبارک کے نیچے ہے اور عرف عام میں جس کو حرم اور زیارت گاہ کہا جاتا ہے۔ لیکن ملحقہ عمارت اور راہداری حرم کے حکم میں نہیں ہیں ، ان میں مجنب و حائضہ کے داخل ہو نے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر یہ کہ ان میں سے کسی کو مسجد بنا دیا گیا ہو۔
س۴۳۴۔ قدیم مسجد سے ملحق ایک امام باڑھ بنایا گیا ہے اور آج کل مسجد میں نماز گزاروں کے لئے گنجائش نہیں ہے ، کیا مذکورہ امام باڑھ کو مسجد میں شامل کر کے اسے مسجد کے عنوان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ؟
ج۔ امام باڑھ میں نماز پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر امام باڑھ شرعاً صحیح طریقہ سے امام باڑھ کے عنوان سے وقف کیا گیا ہے تو اسے مسجد میں تبدیل کرنا اور اسے برابر والی مسجد میں مسجد کے عنوان سے ضم کرنا جائز نہیں ہے۔
س۴۳۵۔ کیا اولاد آئمہ علیہم السلام میں سے کسی کے مرقد کے لئے نذر میں آئے ہوئے اسباب اور فرش کو محلہ کی جامع مسجد میں استعمال کیا جا سکتا ہے ؟
ج۔اگر یہ چیزیں فرزند امام علیہ السلام کے مرقد اور اس کے زائرین کی ضرورت سے زیادہ ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے۔
س۴۳۶۔ جو تکیے یا عزا خانے حضرت ابو الفضل العباس (ع) اور دیگر شخصیات کے نام پر بنائے جاتے ہیں کیا وہ مسجد کے حکم میں ہیں امید ہے کہ ان کے احکام بیان فرمائیں گے؟
ج۔ تکیے اور امام بارگہیں مسجد کے حکم میں نہیں ہیں۔
سونے ،چاندی کا استعمال
س۴۵۱۔ مردوں کا سونے کی انگوٹھی پہننے کا ( خصوصاً نماز میں ) کیا حکم ہے ؟
ج۔ مرد کے لئے سونے کی انگوٹھی پہننا جائز نہیں ہے اور اس میں نماز باطل ہے۔
س۴۵۲۔ مردوں کے لئے سفید سونے کی انگوٹھی پہننے کا کیا حکم ہے ؟
ج۔ جسے سفید سونا کہا جاتا ہے اگر وہ زرد سونے کے علاوہ کسی دوسرے مادہ سے مرکب ہو تو اس کی انگوٹھی پہننا حرام نہیں ہے۔
س۴۵۳۔ کیا اس وقت بھی سونا پہننے میں کوئی شرعی اشکال ہے جب وہ زینت کے لئے نہ ہو اور دوسروں کی نظر میں نہ آئے؟
ج۔ مردوں کے لئے سونا پہننا مطلق طور پر حرام ہے چاہے وہ زینت کے قصد سے نہ پھنا جائے یا دوسروں کی نظروں سے پوشیدہ رکھا جائے۔
س۴۵۴۔ مردوں کے لئے سونا پہننے کا کیا حکم ہے ؟ کیونکہ ہم بعض لوگوں کو یہ ادعا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ کم مدت کے لئے ، جیسے عقد کے وقت، سونا پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے ؟
ج۔ مردوں کے لئے سونا پہننا حرام ہے چاہے تھوڑے وقت کے لئے ہو یا زیادہ وقت کے لئے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
س۴۵۵۔ نماز گزاروں کے لباس کے احکام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور اس حکم کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ مردوں کا خود کو سونے سے مزین کرنا حرام ہے۔ درج ذیل دو سوالوں کے جواب مرحمت فرمائیں :
۱۔ یا سونے سے زینت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مردوں کے لئے مطلق طور پر سونے کا استعمال حرام ہے خواہ ہڈی کے زخم اور دانت بنوانے ہی کے لئے ہو ؟
۲۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ہمارے شہر میں رواج ہے کہ نئے شادی شدہ جوڑے، منگنی میں زرد سونے کی انگوٹھی پہنتے ہیں اور عام لوگوں کی نظر میں یہ چیز کسی طرح بھی زینت میں شمار نہیں ہو تی بلکہ یہ اس شخص کے لئے، ازدواجی کی شروعات کی علامت ہے ، اس سلسلہ میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟
ج۔ مردوں کے لئے سونا پہننے کے حرا م ہو نے کا معیار زینت کا صادق آنا نہیں ہے بلکہ کسی بھی طرح اور کسی بھی قصد سے سونا پہننا حرام ہے چاہے وہ سونے کی انگوٹھی ہو یا گلوبند و زنجیر وغیرہ ہو لیکن زخم میں بہر نے اور دانت بنوانے میں مردوں کے لئے سونے کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔
۲۔ منگنی کے لئے زرد سونے کی انگوٹھی پہننا مردوں کے لئے ہر حال میں حرام ہے۔
س۴۵۶۔ سونے کے ان زیورات کو بیچنے اور انہیں بنانے کا کیا حکم ہے جو مردوں سے مخصوص ہیں اور جنہیں عورتیں نہیں پھنتیں ؟
ج۔ سونے کے زیورات بنانا اگر وہ صرف مردوں کے استعمال کے لئے ہوں حرام ہے اور اسی طرح انہیں مردوں کے لئے خریدنا اور بیچنا بھی جائز نہیں ہے۔
س۴۵۷۔ہم بعض دعوتوں میں دیکھتے ہیں کہ شیرینی چاندی کے ظروف میں پیش کی جاتی ہے کیا اس عمل کو چاندی کے ظروف میں کھانے سے تعبیر کیا جائے گا؟ اور اس کا کیا حکم ہے ؟
ج۔ کھانے کے قصد سے چاندی کے برتن میں سے کھانے وغیرہ کی چیز لینا حرام ہے۔
س۴۵۸۔ کیا مردوں کے لئے جائز ہے کہ وہ دانتوں پر سونے کا رنگ چڑھوائیں یا سونے کا دانت لگوائیں ؟
ج۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، سامنے کے چار دانتوں کے سوا۔ پس اگر زینت کے قصد سے ایسا کیا جائے تو اس میں اشکال ہے۔
س۴۵۹۔ کیا دانت پر سونے کا خول چڑھوانے میں کوئی اشکال ہے ؟ اور دانت پر پلاٹینیم کا خول چڑھوانے کا کیا حکم ہے ؟
ج۔ دانت پر سونے یا پلاٹینیم کا خول چڑھوانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر زینت کی غرض سے خصوصاً سامنے کے چار دانتوں پر سونے کا خول چڑھو ائے تو اشکال سے خالی نہیں ہے۔
نماز گزار کے لباس کے احکام
س۴۳۷۔ اگر مجھے اپنے لباس کے نجس ہو نے میں شک ہو اور میں اس میں نماز پڑھ لوں تو میری نماز باطل ہے یا نہیں ؟
ج۔ جس لباس کے نجس ہو نے میں شک ہو وہ پاک ہے اور اس میں نماز صحیح ہے۔
س۴۳۸۔ میں نے جرمنی میں کھال کی ایک پیٹی ( بیلٹ) خریدی کیا اس کو باندھ کر نماز پڑھنے میں کوئی شرعی اشکال ہے۔ اگر مجھے یہ شک ہو کہ یہ اصل کھال کی ہے یا مصنوعی اور یہ کہ یہ تزکیہ شدہ حیوان کی کھال کی ہے یا نہیں تو میری ان نمازوں کا کیا حکم ہے جو میں نے اس میں پڑھی ہیں ؟
ج۔ اگر یہ شک ہو کہ یہ طبیعی کھال کی ہے یا نہیں تو اسے باندھ کر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر طبیعی کھال ثابت ہو نے کے بعد یہ شک ہو کہ وہ تزکیہ شدہ حیوان کی کھال ہے یا نہیں ؟ تو وہ مردار کے حکم میں ہے مگر گزشتہ نمازیں صحیح ہوں گی۔
س۴۳۹۔ اگر نماز گزار کو یہ یقین ہو کہ اس کے لباس و بدن پرنجاست نہیں ہے اور وہ نماز بجا لائے اور بعد میں معلوم ہو کہ اس کا بدن یا لباس نجس تھا تو اس کی نماز باطل ہے یا نہیں ؟ اور اگر وہ اثنائے نماز میں اس کی طرف متوجہ ہو جائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟
ج۔ اگر وہ اپنے بدن یا لباس کے نجس ہو نے کا قطعی نہ جانتا ہو اور نماز کے بعد اسے نجاست کا علم ہو تو اس کی نماز صحیح ہے اور اس پر اعادہ یا قضا واجب نہیں ہے لیکن اگر وہ اثنائے نماز میں اس کی طرف متوجہ ہو جائے اور وہ نجاست کو بغیر ایسے فعل کے جو نماز کے منافی ہے ، دور کرسکتا ہو تو اس پر یہی واجب ہے کہ وہ نجاست دور کرے اور اپنی نماز تمام کرے گا لیکن اگر نماز کی شکل کو باقی رکھتے ہوئے نجاست دور نہیں کرسکتا اور وقت میں بھی گنجائش ہے تو نماز توڑنا اور نجاست دور کرنے کے بعد دوبارہ بجا لانا واجب ہے۔
س۴۴۰۔ زید مراجع عظام میں سے ایک کا مقلد ہے وہ ایک زمانہ تک ایسے حیوان کی کھال ، جس کا ذبح ہو نا مشکوک ہو اور جس میں نماز صحیح نہیں ہو تی ، میں نماز پڑھتا رہا۔ پس اس کے مرجع کی رائے کے مطابق اگر ایسے حیوان کی کھال کے نماز میں استعمال پر،جس کا گوشت نہیں کھایا جاتا ، احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز کا اعادہ کیا جائے تو کیا مشکوک التزکیہ حیوان کا بھی وہی حکم ہے جو غیر ماکول اللحم حیوان کا ہے ؟
ج۔ جس حیوان کا ذبح مشکوک ہو وہ نجاست میں مردار کے حکم میں ہے۔ اس کا کھانا حرام ہے اور اس ( کی کہا ل) میں نماز جائز نہیں ہے۔
س۴۴۱۔ ایک عور ت نماز کے درمیان اپنے بعض بالوں کو کھلا ہو ا محسوس کرتی ہے اور فوراً چھپا لیتی ہے اس پر نماز کا اعادہ واجب ہے یا نہیں ؟
ج۔ اگر بال کھولنا جان بوجھ کر نہ رہا ہو تو اعادہ واجب نہیں ہے۔
س۴۴۲۔ ایک شخص پیشاب کے مقام کو مجبوراً ڈھیلے یا کنکری ، لکڑی یا کسی اور چیز سے پاک کرتا ہے اور جب گھر لوٹتا ہے تو اسے پانی سے پاک کر لیتا ہے تو کیا نماز کے لئے داخلی لباس کا بدلنا پاک کرنا بھی واجب ہے ؟
ج۔ اگر پیشاب کے مقام کی رطوبت سے لباس نجس نہ ہو ا ہو تو اس پر لباس پاک کرنا واجب نہیں ہے۔
س۴۴۳۔ بیرون ملک سے جو بعض صنعتی آلات منگائے جاتے ہیں وہ غیر ملکی ماہروں کے ذریعہ فٹ کئے جاتے ہیں جو اسلامی فقہ کے اعتبار سے کافر اور نجس ہیں اور یہ معلوم ہے کہ ان آلات کی فٹنگ تیل اور دوسری چکنائی وغیرہ لگا کر ہاتھ کے ذریعہ انجام پاتی ہے نتیجہ یہ ہے کہ وہ آلات پاک نہیں ہو تے کام کے دوران ان آلات سے کاریگروں کا لباس اور بدن مس ہو تھے اور وہ کام کے دوران مکمل طور سے لباس و بدن کو پاک نہیں کرسکتے تو نماز کے سلسلہ میں ان کا فریضہ کیا ہے ؟
ج۔ ممکن ہے کہ آلات کو فٹ کرنے والا اہل کتاب میں سے ہو جو کہ پاک کھلاتے ہیں یا کام کے وقت وہ دستانہ پہنے ہوئے ہو۔ پس صرف کافر کے کام کرنے سے جگہ اور آلات کے نجس ہو نے کا یقین حاصل نہیں ہو تا۔بالفرض اگر کام کے دوران آلات، بدن اور لباس کے نجس ہو نے کا یقین حاصل ہو گیا تو نماز کے لئے بدن کا پاک کرنا اور لباس کا پاک کرنا یا بدلنا واجب ہے۔
س۴۴۴۔ اگر نماز گزار خون سے نجس رومال یا اس جیسی کوئی نجس چیز اٹھائے یا اسے جیب میں رکھے ہو تو اس کی نماز صحیح ہے یا باطل؟
ج۔ اگر رومال اتنا چھوٹا ہو جس سے شرم گاہ نہ چھپائی جا سکے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س۴۴۵۔ کیا اس کپڑے میں نماز صحیح ہے جو آج کل کے ایسے عطر سے معطر کیا گیا ہو جس میں الکحل پایا جاتا ہے ؟
ج۔ جب تک مذکورہ عطر کی نجاست کا علم نہ ہو اس سے معطر کپڑے میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س۴۴۶۔ حالت نماز میں عورت پر کتنا بدن چھپانا واجب ہے ؟ کیا چھوٹی آستین والے لباس پہننے اور جوراب میں کوئی حرج ہے ؟
ج۔ معیار یہ ہے کہ چھرے کی اتنی مقدار جس کا وضوء میں دھو نا واجب ہے اور گٹوں تک دونوں ہاتھوں اور دونوں پیروں کو چھوڑ کر پورے بدن کو چھپائے چاہے وہ پردہ ایرانی ہی جیسا ہو۔
س۴۴۷۔ حالت نماز میں عورتوں پر قدموں کو چھپانا بھی واجب ہے یا نہیں ؟
ج۔ پنڈلیوں ( کی ابتداء) تک دونوں قدموں کا چھپانا واجب نہیں ہے۔
س۴۴۸۔ کیا حجاب پہنتے وقت اور نماز میں ٹھڈی کو مکمل طور پر چھپانا واجب ہے یا نچلے حصہ ہی کو چھپانا کافی ہے یا ٹھڈی کا اس لئے چھپانا واجب ہے کہ وہ چھرہ کی اس مقدار کا مقدمہ ہے جس کا چھپانا شرعاً واجب ہے ؟
ج۔ ٹھڈی کا نچلا حصہ چھپانا واجب نہ کہ ٹھڈی کا چھپانا کیونکہ وہ چھرے کا جزو ہے۔
س۴۴۹۔ ایسی نجس چیز ( مثلاً رومال یا ٹوپی وغیرہ) جس میں نماز نہیں ہو تی ، اس کے ساتھ نماز کے صحیح ہو نے کا حکم صرف اس حالت سے مخصوص ہے جب انسان بھولے سے اس میں نماز پڑھ لے یا اس کے حکم یا موضوع کو نہ جانتے ہوئے نماز پڑھ لے یا پھر یہ حالت شبہ موضوعیہ یا شبیہ حکمیہ دونوں میں عام ہے ؟
ج۔ یہ حکم نسیان یا جہا لت حکمی یا موضوعی دونوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ نجس شدہ غیر ساتر لباس میں جس میں نماز نہیں ہو تی ، حتیٰ علم یا توجہ ہو جانے کی صورت میں بھی نماز پڑھنا جائز ہے۔
س۴۵۰۔ کیا نماز گزار کے لباس پر بلی کے بال یا اس کے لعاب دہن کا وجود نماز کے باطل ہو نے کا سبب ہے ؟
ج۔ ہاں نماز کے باطل ہو نے کا سبب ہے۔
٭٭٭
ماخذِ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید