FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

اردو

 

زیر تکمیل ناول

 

                مشرف عالم ذوقی

 

 

 

 

 

 

 

بادِ رواں تاکہ بود مہر و ماہ

سکّہ اردوئے جہانگیر شاہ

۔۔بادشاہ جہانگیر

 

 

 

 

رات دن آٹھ پہر جاگتے سوتے اردو

اس قدر پیار بھی اچھا نہیں بیمار کے ساتھ

۔۔نعمان شوق

 

 

 

نعمان شوق کے لیے

 

 

 

 

 

 

                حصۂ اول

 

نور علی شاہ

                (1984تا حال)

 

 

 

 

عہد شاہی سے فقیری تک

 

سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

 

 

پس داستان

 

بادِ رواں تاکہ بود مہرو ماہ

سکّہ اردوے جہانگیر شاہ

بادشاہ جہانگیر

 

چھتنار، لمبے درختوں کا دور تک ختم نہیں ہونے والا ایک لمبا سلسلہ۔۔

درختوں کی اوٹ سے شفق رنگ سورج، آسمان میں در آئے بادلوں کے قافلے کے درمیان چھپنے کی تیاری کر رہا تھا۔۔

جنگل میں خیمے نصب ہونے لگے۔ یہ لشکر میں آرام کرنے اور سستانے کا وقت تھا۔۔لشکر کے ساتھ چلنے والے جانور بھی تھک چکے تھے۔۔رات کی سیاہی آ رہی تھی اور پرندے واپس لوٹ رہے تھے۔۔

ٹھیک یہی وقت تھا، جب لشکر کے امیر نے آگ روشن کرنے، جانور کے بھوننے اور آرام کرنے کا اعلان کیا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے امیر کی آنکھوں میں حیرانی تھی۔۔

’ وہ۔۔ وہ کہیں نظر نہیں آ رہی ہے۔۔؟‘

کہاں گئی۔۔؟

ہمارے ساتھ ہی تو تھی۔۔؟

امیر کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی آوازیں ابھریں۔۔

لیکن وہ کہاں گئی ہو گی؟

سوال اب بھی امیر کا پیچھا کر رہے تھے۔۔

’ وہ کہیں نہیں جا سکتی۔ مطمئن رہیں آپ۔۔وہ لشکر میں ہی پیدا ہوئی۔ لشکر میں ہی پلی ہے۔ وہ کہیں جا بھی کہاں سکتی ہے؟‘

امیر کے ہونٹوں پر ایک زہر بھری مسکراہٹ تیر رہی تھی۔

’ سچ کہتے ہو۔ وہ جا بھی کہاں سکتی ہے۔ ہم نے اُسے اس لائق ہی کہاں چھوڑا ہے کہ وہ کہیں جا سکنے کے قابل ہو۔۔

’ یقیناً۔۔‘

’ لیکن۔۔ اس کے باوجود امیر لشکر کا شبہ برقرار تھا۔ سارے لوگ آ چکے ہیں۔ صرف وہی نہیں ہے۔ اُسے لشکر کے ساتھ ہی ہونا چاہئے تھا۔۔ کہیں ایسا تو نہیں ؟

امیر کے چہرے پر روشن آگ کے سائے میں اچانک اُمڈ آئے خوف کو بہ آسانی پڑھا جا سکتا تھا۔۔

’ ایسا تو نہیں۔۔ مطلب ہے ؟‘

’ مطلب ‘ امیر کی آنکھوں میں خیمے کے باہر جلتے ہوئے آگ کے شعلوں کا عکس تیر رہا تھا۔۔

’ میرا مطلب ہے۔ وہ کہیں بھاگ تو نہیں گئی۔۔‘

’ نہیں امیر۔۔ وہ بھاگ کر کہیں نہیں جائے گی۔ آپ امید رکھیں۔۔ ویسے وہ بھاگ کر جا بھی کہاں سکتی ہے۔ جس طرح ہمیں اُس کی ضرورت ہے اُس کو بھی ہماری ضرورت ہے۔ یقین رکھیں امیر۔ بس کچھ دور تک چہل قدمی کے لیے۔۔۔۔۔۔ اور یقیناً وہ واپس آتی ہی ہو گی ۔۔۔۔۔۔ لیکن ایک بات ہے، اُس کے بغیر لشکر کی رونق اٹھ جاتی ہے۔ وہ ابھی لوٹ آئے گی۔۔

امیر نے آواز بلند کی ۔۔۔۔۔۔

’ ہندوی۔۔ کہاں ہو۔۔‘

مشعلیں روشن ہو گئی تھیں ۔۔۔۔۔۔ جنگل کی تاریکی میں سورج کے ڈوبتے نظاروں کے درمیان ان شعلوں کی روشنی سے جنگل ایک بار پھر روشن ہو گیا تھا۔۔

’ ہندوی۔۔‘

امیر نے آواز بلند کی۔۔۔۔۔۔

دوسرے سرداروں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔ پھر سب الگ الگ ناموں سے اُسے آواز دینے لگے۔۔

گجری۔۔

دکنی۔۔ کہاں ہو۔۔؟

ہندوی۔۔ کہاں ہو

لاہوری، کھڑی۔۔؟

کہاں ہو۔۔؟

کہاں ہو۔۔؟

جنگل کے ایک گوشے میں تن تنہا ان آوازوں کو ان سنا کرتے ہوئے ہندوی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔۔ وہ کہاں جائے گی۔ اسی لشکر میں تو پیدا ہوئی۔ جو ملا، اس نے اپنا نام دے دیا۔۔ پیار سے ہر بار اس کا نام بدلتا رہا۔۔۔۔۔۔ محبتوں نے ہر بار اُسے ایک نئی شکل دے دی۔۔

جنگل کے بہتے شفاف دریا میں، لہروں کی طغیانی میں اُس نے اپنا چہرہ ڈال دیا۔ ایک لمحے کو چونک گئی۔

ارے۔۔ یہ کون ہے؟

اس چہرے کو تو وہ پہچانتی بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔

کون ہے یہ ۔۔۔۔۔۔؟ ہندوی یا دکنی۔ گجری یا لوہاری، برج بھاشی یا۔۔

جلتی ہوئی مشعلیں قریب آ گئی تھیں۔۔

ہندوی یا جو بھی اُس کا نام تھا، زیر لب مسکرائی اور لشکر کی طرف بڑھ چلی۔۔

٭٭

 

ہندوی ہر بار لشکر کے ساتھ آگے بڑھتی رہی۔ جنگل پہاڑ، دریا نالے، گلی کوچوں میں آوارہ اور بازار ہالٹ میں پریشاں حال ماری ماری پھرتی رہی۔۔ کبھی اقتدار کی قوت نے دبایا تو کبھی اپنوں نے ہی حقیر جان کر اُس سے دوری برقرار رکھی۔ حاکم قوتیں اپنی نشانیاں اور اپنی تہذیب ساتھ لے کر آتیں۔۔ محکوم قومیں، اس نئی تہذیب و تمدن سے متاثر ہو کر اپنی شکل کو اُن کے اپنے آئینہ اور آئینہ کے عکس میں ڈال دیتیں۔۔ جہاں اُن کا ہی چہرہ ہوتا، اُن کی ہی شکل ہوتی۔۔ ہندوی بار بار اپنے چہرے کا عکس پانی میں تلاش کر رہی ہوتی۔۔

وہ کون ہے۔۔

گجری! دکنی۔۔ فارسی۔۔ عربی۔۔ ترکی۔۔ یا۔۔؟

٭٭

 

تو معزز قارئین، میری اس کہانی کا سفر ہزار برسوں پر مشتمل ہے۔ اور یہ جو اردو ہے، میری کہانی کی ہیروئن، سچ پوچھئے تو اس کا شجرہ اسی ہندوی، دکنی، عربی یا ترکی سے جا کر ملتا ہے۔۔ اس سچ کا چہرہ دکھانا یوں ضروری سمجھا گیا، جس سے میری کہانی کی ہیروئن اردو کے معاملات سمجھنے میں آسانی ہو۔۔ کہ آئندہ آنے والے صفحات میں وہ جن کانٹوں بھری راہوں سے گزری، وہ یکایک اُس کی زندگی نہیں آئے تھے۔ بلکہ یہ برسوں بلکہ صدیوں کے بدلتے ہوئے موسم کا کرشمہ تھا کہ وہ ایک فاتح قوم یا فاتح کلچر کے ساتھ آئی تو ضرور مگر ہر بار اُس کی قسمت میں کانٹوں کا تاج ہی لکھا گیا۔۔

ہندوی وہ ساری کہانیاں سنتی ہوئی بڑی ہوئی تھی کہ کس طرح آریوں نے اس ملک کو اپنا بنایا۔۔لیکن آریا یکایک یہاں آباد نہیں ہوئے بلکہ یہ سینکڑوں، ہزاروں برسوں کی تاریخ تھی کہ اُن کے قبیلے یہاں آتے رہے۔ آباد ہوتے رہے۔ اور یہاں آنے کے بعد وہ اپنے وطن مالوف سے رشتہ توڑ کر بس یہیں کے ہو جاتے۔

ہندوی کو وہ تاریخ بھی یاد تھی کہ جب مسلمان سندھ و پنجاب پر قابض ہوئے تو انہیں زندگی سے تجارت تک ایک زبان کو اپنا بنانے کی خواہش زور مارنے لگی۔۔

وہ لشکر میں، بازار ہاٹ میں ہر جگہ ساتھ تھی۔۔

سندھ اور ملتان کی شاندار فتح کے بعد ان کے تہذیب و معاشرت نے اس سرزمین کی تہذیب اور زبان کو متاثر کیا۔۔اور یہ حقیقت ہے کہ سلطان محمود غزنوی کے حملے (۱۰۰۱ء) سے قبل مسلمان مغربی ہندستان میں اپنی فتح کا پرچم لہرا چکے تھے۔۔ تہذیبیں آپس میں مل کر ایک نئی تہذیب اور زبان کو فروغ دے رہی تھیں۔۔ بر اعظم کے باقی حصے میں خانہ جنگیاں عام تھیں ۔۔۔۔۔۔ یہ مسلسل فتح کا زمانہ تھا۔ سندھ، ملتان اور پنجاب سے لے کر یہ سلسلہ دراز ہوتا جا رہا تھا۔۔اور اس درمیان صوفی سنتوں اور بھکتی گیتوں نے بھی ہندوی کو متاثر کیا۔۔

سوامی تم ہی گرو سائیں

امہی جوش سبد اک بوجھیا

نرانکھے چیلا کونٹر بدھ رہے

ست گرو ہوئی سا بچھیا کہے

ہندوی نئے روپ، نئی آواز میں ڈھل رہی تھی۔ آہستہ آہستہ اُس کی صورت شکل واضح اور صاف ہوتی جا رہی تھی۔۔ اب پانی میں تیرتے عکس پر وہ چونکتی نہیں تھی۔۔ بلکہ ہولے سے مسکرا اٹھتی تھی۔۔

سوامی، تم ہی گرو سائیں۔۔

٭٭

 

چھتنار، لمبے درختوں کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ۔۔ لیکن اب سورج غروب ہونے والا تھا۔

خیمے نصب ہو گئے تھے۔۔

جاگتی آنکھوں میں ہزاروں خواب لیے ہندوی آسمان پر چمکتے چاند کو دیکھ رہی تھی۔۔

تو معزز قارئین۔۔

اور اسی لیے اس مقدمے کی گنجائش پیدا ہوئی کہ یہ بات قبول کی جا سکے، کہ ہزاروں برس کے سفر میں جب مسلمانوں کے قدم اس دھرتی پر پڑے تو وہ یہاں واپس لوٹنے کے ارادے سے نہیں آئے۔۔

بلکہ، آریوں کی طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس ملک کو اپنا بنانے کے ارادے سے آئے تھے۔۔

اور یہی وہ کلید ہے، جس نے اس داستان کی بنیاد رکھی۔۔

کہ وہ آئے/

انہوں نے فتح کیا/

انہوں نے اپنی تہذیب کی داغ بیل ڈالی۔۔

اور پھر عرصہ گزر گیا۔۔

وہ کلیاں مرجھانے لگیں۔

پتّے زرد ہو گئے۔۔

بیل جھک گئی۔۔

اور ہزارہا برسوں کے سفر کے بعد تہذیب و تمدن کے چراغ روشن کرنے والے اپنے ہی ملک میں شک کی نگاہوں سے دیکھے جانے لگے۔۔

ایک تہذیب گم ہونے لگی۔۔

اور ہندوی نے شتر مرغ کی طرح ریت میں اپنا چہرہ چھپا لیا۔۔

کیونکہ وہ قبل از وقت آنے والی آندھی کا سراغ لگا چکی تھی۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۱)

 

’’ اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے‘‘

 

معاملہ زنا بالجبر کا تھا۔

حوالدار موہن ساورکر کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔ اُسے اپنے تمام افسروں پر غصہ آ رہا تھا۔۔ س۔ سالے۔ سب کے سب باہر مرنے کے لیے اُسے چھوڑ گئے۔ یہ کوئی وقت ہے۔ باہر جانے کا۔ کوئی کیس آ گیا تو۔۔؟

کیس تو آ ہی گیا تھا۔

وہ بھی زنا بالجبر کا معاملہ۔

٭٭

 

بستی حضرت نظام الدین میں ڈوبنے سے پہلے شام کا سورج یکایک چھوٹے موٹے آگ کے گولے میں تبدیل ہوا۔ ایک ٹھنڈا، آگ کا گولا۔ پھر سیاہ لہراتی ’ بدلیوں ‘ کا ایک ہجوم آیا اور آگ کا گولا تھوڑے وقت کے لیے ان بدلیوں میں چھپ گیا۔

درگاہ حضرت نظام الدین میں بیٹھے قوالوں نے اُس ڈوبتی شام، پھر اُسی مکھڑے کی تان کھینچی اور گونجتی ہوئی آوازیں آنکھوں میں ’ عقیدت‘ کے ہزار جگنو پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔۔

گوری سوئے سیج پر۔۔

ہو ئء او ئء گوری سوئے سیج پر

مکھ پر ڈارے کیس

چل خسرو۔۔

ہاں۔۔ ہاں۔۔ چل خسرو۔۔

گھر آپ نے۔۔ سانجھ بھائی چودیس۔۔

چودیس۔۔

قوالوں نے لہک لہک کر گانا شروع کیا۔ آسمان پر منڈلاتی بدلیاں ایک لمحہ کو چھٹ گئیں۔ سورج کا گولا پھر سامنے تھا۔۔

آسمان شانت اور پرسکون تھا۔۔ آسمان کے نیلا پن کا پکّا رنگ کچھ کم پڑ گیا تھا۔ ماہ جون کی گرمی، ماحول میں حبس پیدا کر رہی تھی۔۔

سورج ڈوبنے کی تیاری کر رہا تھا۔۔

حضرت نظام الدین کی مسجدوں سے مغرب کی اذان کی آواز بلند ہونے لگی تھی۔ درگاہ کے آنگن میں قوالوں کے ہونٹ خاموش تھے۔ اور وہ سب ’ وضو‘ بنانے اور نماز پڑھنے کی تیاریوں میں لگ گئے تھے۔ اور یہی وقت تھا جب تھانہ حضرت نظام الدین کے مین گیٹ سے اندر داخل ہونے والی لڑکی اندر جا کر حوالدار موہن راؤ ساورکر کے سامنے والے بینچ پر بیٹھ گئی۔۔

’ میں اردو ہوں۔۔ میرے ساتھ زنا بالجبر ہوا ہے۔‘

’ اردو۔۔‘

موہن راؤ ساولکر نے بڑی مشکل سے اس لفظ کو اپنی زبان سے ادا کیا۔۔ اُردو؟ یہ کیا نام ہوا۔۔ آخری جملہ اُس نے اپنے دل میں جوڑا۔ لمحہ بھر لڑکی کو دیکھا۔ لیکن لڑکی اندر اور باہر دونوں طرف سے اتنی لہولہان دکھائی دی، کہ وہ دیر تک دیکھنے کی ہمت یا حوصلہ نہیں جٹا پایا۔

مغرب کی اذان ختم ہو گئی تھی۔ حوالدار کی مشکل یہ تھی کہ وہ کرے تو کیا کرے۔ نہ ایس ایچ او۔ نہ انسپکٹر۔۔ سب سالے اپنی ترنگ میں باہر چلے گئے۔ اور وہ کوشل، منہ سے گندی گالی نکل گئی۔۔ بول کے گیا تھا س۔۔ سالا۔۔ بس ابھی آیا۔۔

موہن راؤ ساورکر کو یاد آیا۔ کوشل کا موبائیل تو یاد ہے۔ آج کل تو ذرا ذرا سی بات پر س سالا۔۔ میڈیا، ٹی وی میں گھسیٹ لیتا ہے۔ اونچ نیچ ہو گئی تو س۔ سالا ایسی جگہ پھینک دیا جائے گا جہاں صبح صبح بھینس کا تازہ دودھ بھی نہیں ملتا ہو۔

فون لگ گیا تھا۔

دوسری طرف سے کیشو کی جھنجھلاہٹ بھری آواز تھی۔

کیا ہے؟

کیس آیا ہے۔۔

کیس؟

زنا بالجبر۔۔؟

کون آیا ہے۔ باپ، بھائی، ماں۔۔ کوئی سگا رشتہ دار۔۔

ساورکر نے لڑکی کو دیکھا۔۔ پھر دھیمی آواز میں بولا۔

’ لڑکی خود آئی ہے؟‘

’ یعنی جس کے ساتھ زنا بالجبر ہوا ہے؟‘

’ جی!‘

’ اوہ۔۔ مار ڈالا۔۔ دوسری طرف سے کوشل نے گندی گالی بکی۔ س سالی۔۔ یہ عورتیں آجکل کی ہو گئی ہیں۔۔ (گالی) پہلے۔۔ (گالی)۔۔ پھر رپورٹ لکھواؤ۔ نہیں لکھی تو چینل تک پہنچ جائیں گی۔

’ جی سر۔۔‘

’ سر۔۔ سر کیا کرتا ہے۔۔‘ کوشل نے پھر گالی بکی۔۔ بیٹھا کر رکھ۔ اور ہاں پوچھ۔ زنا بالجبر کرنے والے کو دیکھا ہے؟ جانتی ہے۔۔؟ پوچھ۔۔؟

ساورکر نے پلٹ کر لڑکی سے پوچھا۔۔

زنا بالجبر کرنے والے کا چہرہ دیکھا ہے۔۔

’ ہاں۔۔‘

وہ فون پر بولا۔۔’ کہتی ہے کہ ہاں دیکھا ہے۔۔‘

’ اچھا پوچھ۔۔ کس نے۔۔؟‘

ساولکر نے ایک بار پھر لڑکی کو دیکھنے کی ہمت کی۔ اس کا لہجہ لڑکھڑا رہا تھا۔۔

’ کس نے۔۔ میرا مطلب ہے۔۔ تم نے دیکھا۔۔‘

’ ہاں۔۔‘

’ جانتی ہو؟‘

’ ہاں ‘

پہچان جاؤ گی؟

’ ہاں ‘

کون تھا۔۔ میرا مطلب ہے کس نے تمہارے ساتھ زنا بالجبر کیا۔۔؟

’ سب نے۔۔‘

لڑکی کا دو ٹوک جواب تھا۔

ساولکر کے ہاتھوں سے ریسیور چھوٹتا محسوس ہوا۔ انسپکٹر کوشل فون پر دہاڑ رہا تھا۔۔

’ س۔۔ سالا سو گیا تھا۔۔ کیا بولا۔۔ کچھ بتایا کہ نہیں لڑکی نے۔۔‘‘

’ جی۔ بتایا۔۔‘

بتایا تو بول نا۔۔ (گالی)۔۔ ایسے ہڑک رہا ہے۔۔ جیسے س۔۔ سالے تو نے ہی۔۔ ہا ئء ہا۔۔ ہاں۔۔ کس نے کیا بتایا۔۔

’ سب نے ‘ ۔۔۔۔۔۔ساولکر گڑ بڑا کر بولا۔

’سب نے۔۔ ‘ دوسری طرف سے انسپکٹر ایسے چونکا جیسے کرنٹ لگ گیا ہو۔۔ مطلب، اجتماعی زنا بالجبر۔۔‘

’ جی۔۔‘

’ جی کیا۔۔ پوچھ۔۔ اپنے تھے۔۔ مطلب سگے رشتہ دار‘ دوست۔۔‘

حوالدار موہن راؤ ساولکر کے لیے اس سوال کا کوئی جواز نہ تھا۔۔ جب لڑکی خود ہی اس بات کا اقرار کر چکی ہے کہ سب نے کیا تھا، پھر اس سوال کی کیا ضرورت ہے۔۔ اب کیا سارے سگے رشتہ دار مل کر ایک لڑکی کا زنا بالجبر کر رہے ہوں گے۔ ایسا سوچنا بھی بے وقوفی ہی ہو گی۔۔ دو ایک لمحہ ریسیور کو خاموش پکڑے جیسے وہ اندر حوصلہ جٹا پانے کی کوشش کرتا رہا۔ تب تک انسپکٹر نے بھی گالی بکی۔

’ س۔۔ سالے۔۔ شام ہوتے ہی گانجا چڑھا لیا۔۔‘

’ نا۔۔‘

تو پوچھ نا۔ لڑکی زنا بالجبر کرنے والوں کو پہچانتی ہے تو وہ کون تھے۔۔ اپنے یا۔۔

لیکن اس سے پہلے کہ ساولکر اس سوال کو پوچھ پاتا، لڑکی خود ہی آگے بڑھی۔ بینچ سے ہو کر اس کی کرسی کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔

’ وہ اپنے بھی تھے۔ اور غیر بھی۔۔ میں چاہتی ہوں آپ میرا بیان لیں اور ایف آئی آر درج کریں۔‘

 

حضرت بستی نظام الدین، درگاہ کے اندر مغرب کی نماز ختم ہو چکی تھی۔ حضرت امیر خسرو اور حضرت نظام الدین اولیاء کے آستانوں پر حاضری دینے والوں کی قطار بڑھ گئی تھی۔ آستانے کے پاس پتھر کے فرش پر کرتا پائجامہ پہنے اور گول گول ٹوپی لگائے مجاوروں نے اپنی چندے کی دکانیں کھول لی تھیں۔ درگاہ میں چاروں طرف بلب اور قمقمے روشن ہو چکے تھے۔۔ علی جان عقیدت مندوں سے پیسے لے کر، فرش پر مشک سے پانی کا چھڑکاؤ کر رہا تھا اور میاں ولی چار فٹ لمبا بڑا سا ہتھ پنکھا لیے پسینے سے شرابور عقیدت مندوں کو ’جھلے‘ جا رہا تھا۔ اس امید میں کہ ولی اولیاء کی چوکھٹ ہے۔ ولیوں کے ولی رات کے کھانے کا انتظام ضرور کر دیں گے۔

حضرت کے آستانے کے ٹھیک سامنے، قنات کے نیچے فرش پر بیٹھے قوالوں کی منڈلی ایک بار پھر جم گئی تھی۔اب وہ لہک لہک کر گا رہے تھے۔۔

شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و زور و رحلت چوں کوتاہ

سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

یکایک از دل در چشم جادو بصد فریج ببرد تسکیں

کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں۔۔‘

پیارے پی کو ہماری بتیاں۔۔

آواز گونج رہی ہے۔۔

جیسے یہاں سے آنے ‘ جانے والا ہر شخص اس آواز کے سحر میں ہے۔ قوالوں نے سماں باندھ دیا۔ ایک لمحے کو وقت ٹھہر گیا۔۔ میاں ولی ہتھ پنکھا لیے اولیاء کی چوکھٹ کی سیڑھیوں سے آ کر قوالوں کو ٹک ٹکی باندھ کر دیکھنے لگے۔

عقیدت مندوں کا آنا جانا بدستور جاری تھا۔۔

’ پیارے پی کو ہماری بتیاں۔۔‘

کسے پڑی ہے جو جاسنا وے۔۔ پیارے پی کو۔۔

اور ادھر مدھم سی روشنی میں، تھانہ بستی حضرت نظام الدین کے اندر حوالدار موہن ساوکر کے کمرے میں لکڑی کے بنچ پر بیٹھی ہوئی نیم مردہ لڑکی نے اپنے ہونٹ کھولے۔۔

میں نہیں جانتی۔۔ مجھے یہ کہانی کہاں سے شروع کرنی چاہئے۔۔ آواز جیسے گہرے کنویں سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ جیسے بے حد سرد کہرے کے دنوں میں سردی سے کٹکٹاتے، دانتوں کی آوازوں کا سنگیت، الفاظ کے بر بر و بم ہیں کھو جاتا ہے۔۔

موہن راو ساورکر کی آنکھیں لڑکی کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔۔ اور وہ لڑکی۔۔ وہ جیسے کسی گہری دھند میں اُتر گئی تھی۔۔ ایک ایسی دھند تھی۔۔ جہاں روشن ماضی کے علاوہ کچھ بھی صاف نہ تھا۔۔ جہاں ہزاروں برسوں کی کہانیوں کا بھوت اس پر قہقہہ لگانے کے لیے موجود تھا۔۔

اس نے آنکھیں بند کر لیں۔۔

جسم میں لرزہ سا طاری ہوا۔۔ جیسے وہ چاروں طرف منڈراتے گدھوں کو دیکھ رہی ہو۔ پھر ایک ذرا توقف کے بعد اس نے بولنا شروع کر دیا۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

                بابِ اوّل

 

تاریخ کی گواہی

 

 

(۱)

 

’’تواریخ کے گلیاروں میں

مردار کے گوشت کی بوٹیاں ہیں /

اور آسمان پر

منڈراتے ہوئے گدھ/

ان میں سے ایک گدھ چپکے سے آ کر بیٹھ گیا تھا

بستی حضرت نظام الدین کے،

نور علی شاہ کے مکان کی چھپڑ پر/

ٹھیک یہی وقت تھا

جب فرنگی صاحب انہیں کھوجتے ہوئے آئے تھے۔۔‘‘

٭٭

 

صبح سے کوّے کاؤں۔۔کاؤں کر رہے ہیں۔۔

کوّوں کا کیا۔۔ جگہ نہیں ملی، تو بس آ گئے، نور علی شاہ کے گھر۔۔ چھپڑ پر بیٹھ گئے۔۔ اور لگے ایک ساتھ کاؤں کاؤں کرنے۔۔

نور علی شاہ کے جی میں آتا، اٹھائیں پتھر اور بھاگ لیں کوّوں کے پیچھے۔۔ لیکن باہر آتے ہی گلی کے پاگل، بدمعاش اور آوارہ بچوں کی ٹولیاں بھی اُن کے ہمراہ ہو لیتیں۔ اور دل مسوس کر رہ جاتے نور علی شاہ۔۔

یاد رکھنے کے لئے صرف ایک شاندار یا عظیم الشان ماضی رہ گیا تھا۔ یا پھر کنکریاں اور پتھر چننے کے لئے۔۔ وہ اپنے آج یا اپنے حال سے خوش نہیں تھے۔  بستی حضرت نظام الدین کی تنگ و پر پیچ گلیوں کے درمیان یہ حال ان کا منہ چڑھا رہا ہوتا۔ تھک جاتے یا پریشان ہو جاتے تو غالب کے مزار کے پاس آ کر پھول والوں کی چیخ و پکار سنتے، تبلیغی جماعت والی مسجد سے نکلتے۔۔  باہر سے آنے والی جماعت کے چہرے میں اپنے لئے امید کی موہوم سی روشنی تلاش کرنے کی کوشش کرتے۔۔ یا پھر صدقہ یا غریبوں کو کھانا کھلانے کے نام پر ہوٹل والوں یا کوپن دینے والوں کی چیخ و پکار کا لطف لیتے۔۔ کچھ دیر تک اخبار بیچنے والے کی دکان پر بیٹھتے۔ وہاں سے ہو کر کریم ہوٹل کے بارودی دربان کے پاس آ کر دوچار باتیں کر لیتے۔۔

پھر اپنے اُسی ویران حجرے میں واپس آ جاتے۔۔

جو سچ تھا، وہ تاریخ کے صفحات میں چھپ گیا۔۔ نہیں، چھپا دیا گیا۔۔ تاریخ کے گندے نالے میں۔۔ اور نالے سے اٹھتی ہوئی بدبو سونگھنے والے، بھلا کیسے سوچ پائیں گے کہ کبھی ’سلطنت‘ اور ’ شہنشاہیت‘ کے گزرے قصوں میں ان کی بھی ساجھے داری رہی ہو گی۔ نہیں نور علی شاہ، اس جھانسے سے کام نہیں چلے گا۔ جو کبھی تھا، وہ گزر چکا ہے، اور جو ہے وہ اس گندے نالے سے بھی بدتر ہے، جس کے ارد گرد جانے سے بھی لوگ گریز کرتے ہیں۔ دور بھاگتے ہیں۔ بستی حضرت نظام الدین کے اندر چار کھمبے والی گلی۔ گلی کے اندر ایک چھوٹا سا ٹوٹا مکان۔۔ کبھی اپنا بھی مکان ہوتا۔ یہ آرزو دل کی دل میں ہی رہ گئی۔ زندگی کٹ گئی تواسی کرائے کے اصطبل میں۔ باہر دروازے پر ٹاٹ کا جھولتا ہوا پردہ۔۔ بہت تھک جاتے تو آلتی پالتی مار کر دروازے پر ہی بیٹھ جاتے۔ دروازے کے سامنے زیادہ تر کنجڑے، قصابوں کے گھر تھے۔ جن کے آوارہ بچے دن بھر اودھم مچاتے ہوئے گلی سر پر اٹھائے رہتے۔ بچوں کے چیخنے، ہنگامے کی آواز انہیں پریشان کرتی، تو گلی سے کئی بار سنی گالیوں کی تھال لئے غصے میں بچوں کو مارنے دوڑ پڑتے۔۔ ’’ مادر۔۔ حرامیوں۔۔ ماں باپ نے سکھایا نہیں کہ گلی میں کیسے کھیلتے ہیں ؟ تعلیم اور تہذیب سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور واسطہ رہے بھی کیسے، یہ سب چیزیں تو خاندانی ہوتی ہیں۔ خون میں تہذیب دوڑ رہی ہوتی تو جانتے کہ اچھے گھرانوں کے بچّے زندگی کس طرح گزارتے ہیں۔‘

 

بہت زیادہ غصے میں آ جاتے تو فرّاٹے دار گالیاں بکتے ہوئے ہاتھ میں اینٹ یا پتھر اٹھا لیتے اور گلی کے کسی مقام پر کھڑے ہو کر بچّوں کے ماں باپ کے ساتھ سات پشتوں کی فضیحت کر بیٹھتے۔ اس درمیان بچوں میں سے کسی کی جان پہچان والا آ جاتا تو سمجھئے جھگڑا شروع ہو گیا۔ اگر کوئی نہیں آتا تو بچّے خود ہی ہلّے رہے۔۔ رے۔۔ کرتے ہوئے نور علی شاہ کو دوڑا دیتے۔ بچّوں میں سے کوئی دبی آواز میں منہ بنا کر بولتا، بیٹا۔۔ اور نور علی شاہ سر پٹ بھاگ رہے بچوں کو طرح طرح کی گالیاں بکتے ہوئے رگید دیتے۔۔ کمبخت، کمینے۔۔ آ گئے نا اپنی اوقات پر۔۔ نور علی شاہ کو بیٹا کہنے کی ہمت کرتے ہو۔۔ جس کا خاندان نواب امجد علی شاہ کے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ کم بختوں میرا مذاق اڑاتے ہو۔ افسوس! اب ہمارا زمانہ نہیں ہے۔۔ ورنہ مصاحبوں سے کہہ کر خانہ بدوشوں کی طرح یہاں سے اٹھوا نہ دیا ہوتا تو میرا نام بھی بدل دیتے۔۔ نا اہلو۔۔ بد بختو۔۔‘‘

ایک بار جو گالیوں کی بارش شروع ہوئی تو پھر کہاں تھمنے والی تھی۔ اس درمیان اسلم کو اس کی خبر لگ جاتی تو وہ انہیں زبردستی کھینچتا ہوا اندر لے آتا۔ نور علی شاہ جھٹکے سے ہاتھ چھڑا کر پھر دروازے پر آ جاتے اور باقی بچی گالیوں کی تھال پروسنے میں لگ جاتے۔ چھوٹا بھائی اسلم، یعنی اسلم علی شاہ۔۔

تب بڑی مشکل سے سر پر آنچل ڈالے بڑی بی دروازے پر آتیں۔ بے پردگی کا سامنا ہی ان کی مخالفت کی آخری کڑی ثابت ہوتی۔

’’لو بہت ہو گیا، اب اندر بھی آ جاؤ۔ ذرا پرانے وقت کا لحاظ رکھو۔ احمد علی شاہ کے خاندان پر رحم کرو۔۔! ذرا سوچو، ان کی روحیں قبروں میں اس منظر کو دیکھ کر کیسے تڑپتی ہوں گی۔‘‘

بڑی بی‘ بھائی اسلم کے لئے بڑی بی تھیں۔ عمر تھی بتیس سال۔

بڑی بی کو دیکھتے ہی نور علی شاہ کے بدن میں بے چینی چھا جاتی۔ ’’ ارے تم کیوں آ گئی۔ چلو اندر جاؤ۔۔‘ دھول میں ڈوبی ہوئی تیز آندھی جیسے ایک جھٹکے میں تھم جاتی۔ بدن میں تہذیب اور اخلاقیات کے گرگٹ تھرکنا اور کانپنا شروع کر دیتے۔ وہ بغیر رکے جھٹ سے اندر چلے آتے اور گالیوں سے کوسنے کی طرف دن کا دوسرا حصہ بھی ڈھلنے لگتا۔۔۔۔۔۔ وہ بڑ بڑاتے رہتے۔۔

’’ لو دیکھو۔۔ دیکھو بھائیوں۔۔ امجد علی شاہ کے خاندان پر کیا بد نصیب وقت آن پڑا ہے۔۔ اب وہ پالکیاں کہاں۔۔ کہاں کے کہار۔ عورتیں غیر محرموں کو شکل دکھانے کے لئے باہر نکلنے لگی ہیں۔۔ ہے ہے۔۔ زمین پھٹ جائے پاک پروردگار۔۔ اب کون سا دن دیکھنے کو یہ آنکھیں باقی ہیں ؟‘‘

دن بھر کے قصوں میں یہ سارے منظر روز کا حصہ تھے۔ لیکن ابھی ایک اور منظر بچ رہا ہوتا۔ اسلم لاکھ ضبط کے بعد بے قراری کے عالم میں بڑے بھائی کے سامنے، ہوا کے زور سے ہلتی کمزور دیوار کی طرح ڈنٹنے کی کوشش کرتا۔۔ ہڈیوں کے ڈھانچے میں جیسے کرنٹ بہنا شروع ہو جاتا۔۔ اٹھنگا سا پائجامہ اور کرتا پہنے اسلم اپنی پتلی پتلی بینت جیسی ٹانگوں پر کھڑا ہو جاتا۔

’’ اچھا بہت مذاق بن چکا ہمارا! ایسا کیوں کرتے ہیں آپ؟‘‘

وہ ایسے دیکھتا جیسے ایتھینس کے بھگوان کو نہ پوجے جانے کے جرم میں سزائے موت کے طور پر زہر کا پیالہ پینے کی تجویز رکھنے والوں نے سقراط کو دیکھا تھا۔۔ اور سقراط آنکھیں جھکا کر اپنے بد صورت پیروں کو تاکنے لگا تھا اور خوش ہوا تھا کہ اُس کا انتہائی ٹنڈ منڈ پیر بے وقوفوں اور نا سمجھوں کے چہرے سے زیادہ چمک رہا تھا۔

 

نور علی شاہ ٹھیک ایسے ہی جھک کر اپنے پیروں کو دیکھتے، آہستہ سے مسکرا دیتے اور اٹھ کر اپنی بیٹھک میں آ جاتے۔

بیٹھک میں آنے تک وقت ٹھہر چکا ہوتا۔ حال سے اوقات کی تنگ گلیوں میں داخل ہونے تک وقت کا مارا‘ خبطی بوڑھا دوسروں کی نظر بچا کر کب کا ان میں پورا کا پورا اُتر چکا ہوتا۔

ایسے بھی دن ڈھلتا ہے کیا؟

راتیں آسمان پر ٹمٹماتے ستاروں کی طرح اتنی چھوٹی کیوں ہوتی ہیں ؟

بچپن سے، اماں کے ہاتھ سے بیلن چوکی چھین کر بنائی گئی ٹیڑھی میڑھی چھوٹی چھوٹی روٹیوں کی طرح۔۔

عمر کے پاؤں پاؤں چل کر تاریخ کے گلیارے میں احساس اور جذبات سے دھینگا مشتی کرتے ہوئے گزرا وقت چہرے پر گہری جھرّیاں چھوڑ گیا تھا۔۔

ان جھرّیوں میں گزرے دنوں کی خلش موجود تھی۔۔

اب کمزوری سما گئی تھی۔ سانسیں تھمنے اور ٹوٹنے لگی تھیں۔ زندگی میں حاصل کے نام پر بس صفر کے خالی خالی سفر تھے۔۔ اور سنہرے کل کے آبشار‘ کے شور تھے کہ بس ابھی ابھی تو سلطنت، جاگیریں اور شہنشاہیت کے قصبوں سے نکل کر ٹرین ’ جمہوریت‘ کے بے حال اسٹیشن تک پہنچی ہے۔۔

آنکھوں میں آنسو نہیں ہوتے، بس۔۔ سوکھی سی گرد ہوتی ہے۔ آنکھوں کو صاف کرتے۔ پائجامہ تھوڑا سا اوپر چڑھا کر، اُکڑوں بیٹھ کر دونوں پاؤں کے پنجوں کو برابر پھیلا دیتے۔۔ غور سے پنجوں کو دیکھتے۔

’’ ہاں، اسے کہتے ہیں خاندانی پاؤں۔۔ محراب نما انگوٹھا اور مسجد کے ستون کی طرح ایک دوسرے سے جڑی تنی تنی لمبی لمبی انگلیاں، خوبصورت عورت کے سینے جیسا ابھرا ہوا تلوا۔۔ تلوے سے انگوٹھے کی طرف جاتی ہوئی ٹیڑھی میڑھی سڑک۔۔ اسی پر تو وہ جان نثار کرتے تھے، اور ابّا مرحوم لیاقت علی شاہ فخر سے بتایا کرتے تھے کہ نور علی شاہ دھیان سے سنو، خاندانی لوگ اپنے ہاتھ اور پاؤں سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ خوبصورت سانچے میں ڈھلے ہوئے۔۔ واللہ کیا کہنے۔۔ ہم تو نوابوں کے خاندان سے ہیں۔ ہماری برابری بھی کیا ہے؟‘‘

٭٭

 

نواب اور نوابوں کا خاندان۔۔ بدلتے وقت کے سانچے میں نہیں ڈھلے تو بس اسی وجہ سے کہ قدم قدم پر نوابی ہونا ریڈ سگنل کی طرح انہیں روک دیتا تھا۔ زندگی میں کچھ بھی نہیں کیا تو بس اس لئے کہ نوابی خاندان پر انگلی نہ اٹھے۔ اللہ، نوابی خاندان کے بکھرنے کے بعد بھی، ان کی نسلوں نے اس نوابیت، کی عزت بچا تو رکھی تھی۔۔

ابّا میاں لیاقت علی شاہ نے بھی کیا کیا، بس زندگی بھر اُسی کفن کو اٹھائے ڈھوتے رہے۔ نوابوں کی یادگار کے نام پر بس ایک صندوق تھا جو نسل در نسل ہوتا ہوا اب ان کے پاس تھا۔ خدا کی مار کہ اب اس شاہی صندوق کو بھی اسی کباڑ نما دو چھوٹی چھوٹی کوٹھریوں والے ’ دربے‘ میں کون سی جگہ ملی تھی۔ پا خانہ جانے والے راستے کے پاس اسٹور کے استعمال کے لئے تھوڑی سی جگہ تھی، جہاں گھر کی بیکار چیزیں پھینک دی جاتیں، وہیں کنارے۔ یہاں چار کھمبے والی گلی میں مکان ملنے کے بعد بس اس صندوق کو یہی جگہ نصیب ہوئے تھی۔

صندوق اتنا بڑا تھا کہ کوٹھری میں رکھنے کے بعد جگہ اور بھی تنگ ہو جاتی۔ آخر سوچ سمجھ لینے کے بعد بڑے صبر اور آہ کے ساتھ، گندی گلی جانے والے راستے پر صندوق کو رکھ دیا گیا۔ پاخانہ آتے جاتے نور علی شاہ اُس خاندانی صندوق کو درد بھری نظروں سے دیکھتے اور وقت کے کٹّر پن پر گیلی لکڑی کی طرح نم ہو جاتے۔ ماضی کی بھول بھلیّاں میں گم ہونے کی خواہش ہوتی تو صندوق کا تالا کھولتے۔ صندوق کی گرد صاف کرتے ہوئے کُرتا اور پائجامہ دھول سے بھر جاتا۔ کہتے ہیں صندوق قیمتی صندل کی لکڑیوں کا بنا تھا۔ کئی پشتوں تک صندل کی خوشبو نسل در نسل اپنی مہک کی خیرات بانٹتی ہوئی۔ آخر کار یہ خوشبونسل در نسل اپنی مہک کی خیرات بانٹتی رہی۔ وقت کے حادثوں میں کھو گئی۔ اب اٹھتی لکڑی میں گھسا کر رگڑیئے، تو کم بخت خوشبو نہیں بلکہ ایک عجیب سی بدبو ناک ہے۔ منہ میں گھس جاتی ہے۔ لیاقت علی شاہ نے مرنے سے پہلے صندوق کی تالہ‘ چابی نور علی شاہ کے ہاتھ میں سونپی تھی۔

’’ لے بیٹا، بس یہی تیرے خاندانی ہونے کی نشانی ہے۔ اسے سنبھال کر رکھیو۔‘‘ انہوں نے تالہ اچھی طرح بند کر کے دیکھا، چابی جیب میں رکھی، پھر ابّا کی طرف مڑے تو ابّا زندگی سے منہ موڑ کر آرام کی نیند سوچکے تھے۔ جیسے بیٹے کو جاگیر سونپتے ہی شانتی مل گئی ہو۔

٭٭

 

لیاقت علی شاہ کے چہلم سے فارغ ہو کر پہلی بار نور علی شاہ نے بے چینی کی حالت میں صندوق کا تالہ کھولا تھا۔ صندوق اور پرانی نشانیوں کے بار بار ذکر نے ان کے بدن میں کپکپی پیدا کر دی تھی۔ لیکن علی بابا کے کھل جا سم سم کہتے ہی سارا جادو ٹوٹ گیا۔ جستجو میں کھوئی آنکھیں پرانے ریشمی کپڑوں میں کم خواب اور نیلم کے ذکر کو ٹٹولتی رہی تھیں۔ ایک زنگ لگی تلوار تھی۔ دوچار سنہرے برتن تھے۔ سرکاریں چھن جانے کے ڈر سے بچائی ہوئی امجد علی شاہ کی ’عبا‘ اور پگڑی تھی اور تاج نما کوئی چیز تھی جس میں نہ ہیرا تھا نہ یاقوت، نہ نیلم تھا نہ کوہ نور۔ یہاں تک کہ سونا پیتل کا پانی تک نہ تھا۔ نور علی شاہ نے ’پرکھوں ‘ کی اُس آخری یادگار کو خوف سے دوبارہ اس کے مقام تک رکھ دیا۔ ہاں، سوچا۔۔سونے کے برتن پہلے بھی برے دنوں میں کام آئے ہوں گے، اب بھی برے دنوں میں ساتھ نبھائیں گے۔ ہاں، اس شاہی لباس کو دوبارہ ان کے مقام پر رکھتے ہوئے ان کے ہاتھوں میں عقیدت کی وہ کپکپی نہیں تھی، جو صندوق کھولتے وقت ان کے ہاتھوں میں خود بخود پیدا ہو گئی تھی۔

دھڑام سے تالہ بند کرتے ہوئے انہوں نے سوچا، نور علی شاہ، کافی وقت گزر چکا ہے۔۔ اب بیوی ہے، اور گھر کی ذمہ داری ہے۔ اس لئے سوچو کہ اب آگے کیا کرنا ہے۔ پشتینی صندوق میں مستقبل کی جامہ تلاشی کے بعد پریشان حال ہونے کا احساس اچانک اُنہیں موجودہ پتھریلی سڑکوں پر کھینچ لایا تھا۔

٭٭

 

پرانی بات ہے۔لیاقت علی شاہ کو ہندستانی حکومت کی طرف سے کل پانچ سو روپے شاہی بھتّہ ملتا تھا۔ بھتّے کی رقم میں بدلتے وقت کے ساتھ نہ کمی آئی نہ اضافہ ہوا۔ بس یہ بھتہ بندھا رہا۔ یہ بھتہ ان کے خاندان کو مل رہا تھا۔ زندگی ٹھکانے لگانے کے لئے اسی بھتے کا سہارا تھا۔

کبھی کبھی نئی سرکار بھی ان کے درمیان اس بھتے کے ملنے میں رکاوٹ بن جاتی۔ کورٹ کچہری کے دس چکّر لگتے تو یہ بھتہ پھر جاری ہو جاتا۔۔ کبھی کبھی کوئی بڑا سرکاری افسر اچانک اُس پر ترس کھا جاتا۔

’’ اوہ اتنے بڑے خاندان سے ہیں آپ۔ لگتا نہیں ہے، جیسے ان کی ’ بے گور و کفن‘ لاش میں اس دور کی ’نوابیت‘ تلاش کر رہا ہو۔ پھر ایک مذاق سے بھرپور ہنسی۔ وہ اس ہنسی کو اچھی طرح پہچانتے تھے۔ جی حضوری کے قائل تو نہیں تھے، مجبوری تھی اور نتیجے میں بھتہ اب ایک بار پھر بند ہو چکا تھا۔ پانچ سو روپے تو مکان کا کرایہ ہی نکل جاتا۔ خوشحالی کے نام پر صرف نواب گھرانے کے ہونے کا احساس تھا اور وہ اس احساس کو پوری شان سے نسل در نسل ڈھوئے جا رہے تھے۔

پڑوس میں ہی مختار بنئے کی دکان تھی۔ جب تب اُسی دکان کا آسرا تھا۔۔ لیکن جہاں کمائی کا کوئی راستہ نہ ہو وہاں اکیلا بنیا بیچارا کہاں تک سودا سامان اُدھار دیتا رہتا۔ ایک دن غصے میں آ کر نور علی شاہ کو ادھار دینا بند کر دیا۔۔ پڑوسی ہونے اور نوابی شان۔۔سب کوششیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ مختار کی اکڑ اور ہٹ میں پیٹ کی دوزخ، پگھل پگھل گئی۔ گھر میں دو روز سے فاقہ تھا۔ جام شہادت قبول کرنے کا وقت آ چکا تھا۔ وہ جیسے پہلی بار مختار کے آگے سرنگوں ہو گئے۔

’’ لو ننگا آیا ہوں، اب بولو! احمد علی کے خاندان کا کوئی آدمی خواب میں بھی کبھی اس طرح ننگا نہ ہوا ہو گا میاں، جیسے میں ہو رہا ہوں، تمہارے سامنے۔ چاہو تو مجھے بندھک رکھ لو۔ میرا تماشہ بنا لو۔ مگر اُدھار بند مت کرو۔‘‘

اور مختار نے جیسے قربانی کے جانور کو ذبح کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔۔ ’’ ٹھونگا بنا سکتے ہو آپ۔ میاں جی ٹھونگا بنائے، ہم خریدیں گے۔ آس پاس کی کئی دکانوں میں بھی بات کرا دیں گے۔ ہر طرح کے چھوٹے بڑے، کیلو دو کیلو والے۔۔ دام مناسب ملیں گے۔‘‘

 

تب سے وہ ٹھونگا ہی تو بنا رہے ہیں۔ شروع شروع میں گھر میں رکھی پرانی کتابیں اور کاپیاں اس کام میں آ گئیں۔ پھر سڑکوں سے بیکار پڑے کاغذ اٹھا اٹھا کر گھر لائے جانے لگے۔ بیوی بچّے سارا دن کام کرنے پر مجبور تھے۔ مہینے میں دو سو سے ڈھائی سو روپے کے ٹھونگے بن جاتے۔ مختار نے دو چار جگہوں پر بات کرا دی تھی۔ شروع شروع میں تو ٹھونگے پہنچانے وہی جایا کرتے تھے۔۔ پھر اسلم بھی جانے لگا۔ ہاں، کبھی کبھی دل سے آہ اٹھتی تو زور زور سے چیخنا چلانا شروع کر دیتے۔۔

’’ہے ہے۔۔ دیکھو لوگوں۔۔ کیا نازک زمانہ آ گیا ہے۔۔ امجد علی شاہ کے خاندان والے اب ردّی کے ٹھونگے بھی بنانے لگے ہیں۔‘‘

 

سب کچھ حسب معمول چل رہا تھا کہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہو گیا۔ ممکن ہے دوسروں کی نظر میں اس کی بہت اہمیت نہ ہو‘ لیکن نور علی شاہ کے لئے اس کی اہمیت اتنی تھی‘ جتنی سمندر میں بھٹک رہے جہاز کے لئے قطب تارے کی۔ آکسفورڈ یونی ورسٹی کے پروفسیر ہیکسلے اپنی کتاب کے سلسلے میں ہندستان آئے ہوئے تھے۔ در اصل وہ ہندستان کے شاہی گھرانوں اور ان کے زوال پر ایک اہم کتاب ترتیب دے رہے تھے۔ اس سلسلے میں پورے ملک میں گھوم گھوم کر انہوں نے کافی ’ مواد‘ اکٹھا کر لیا تھا۔ پروفیسر ہیکسلے کو جب نواب امجد علی شاہ کے گمنام خاندان کا پتہ لگا تو وہ خود کو ملنے سے روک نہیں پائے۔ چار کھمبوں کی بند گلی میں کار جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے کار باہر کھڑی کرنی پڑی۔

پروفیسر ہیکسلے کے ساتھ ان کا ایک انڈین فرینڈ بھی تھا جس سے ان کی پرانی خط و کتابت تھا۔ کتاب سے متعلق ’ مواد‘ اکٹھا کرنے میں اس نے کافی مدد کی تھی۔

تنگ گلی میں گورے چٹّے انگریز کو دیکھتے ہی کانا پھوسی کا بازار گرم ہو گیا۔ بچوں کے علاوہ مختار کی دکان پر بھیڑ لگانے والوں نے بھی حیرت سے گوری چمڑی والے کو دیکھا۔ سچ مچ اس وقت ان کی حیرت اپنی حد سے بڑھ کر تھی۔ جب اس کے ساتھ والے آدمی نے کسی سے نور علی شاہ کے بارے میں پوچھا۔

مختار نے گردن اچکا اُچکا کر انگریز کو کسی آٹھویں ’ عجوبے‘ کے طور پر دیکھا اور پاس کھڑے گاہک سے طنزیہ لہجے میں بولا ’’ یہ انگریز سالے تو ہندستان سے چلے گئے تھے، پھر واپس کیسے آ گئے ؟‘

’’ نور علی شاہ کو پوچھ رہا ہے۔‘‘

’’نور علی شاہ !‘‘

مختار کی ہنسی چھوٹتے چھوٹے رہ گئی۔ جیسے اچانک اس نے نور علی شاہ کے سراپا میں ان کے بنائے ٹھونگوں کا عکس دیکھ لیا ہو۔ اور حیرت یہ کہ اس وقت بھی اس کے ہاتھ میں وہی ٹھونگا تھا جو نور علی شاہ کے یہاں سے بن کر آیا تھا اور وہ اس میں کسی گاہک کا سودا باندھ رہا تھا۔

پروفیسر ہیکسلے اور ساتھ والا حیدر آبادی چھوٹے چھوٹے گندے بچوں کی فوج پار کرتے ہوئے نالے پر بنے مکان پر چڑھ گئے۔۔جہاں دروازے پر بھورے رنگ کا ٹاٹ کا پردہ گرا ہوا تھا۔ کسی محلے والے نے دروازے کی کنڈی ہلا کر بانگ لگائی۔

نور علی، بدیس سے کوئی ملنے کو آئے ہیں۔

نواڑ کے پلنگ سے، دھب سے کودے نور علی شاہ۔ پائجامہ کا ناڑا پکڑے ہوئے دروازے کی طرف تیزی سے دوڑ گئے۔ سچ مچ سامنے ایک خوبصورت سا ۴۵۔۴۰ برس کی عمر کا ایک گوری چمڑی والا انگریز کھڑا تھا۔

’’ ٹوم نور علی شاہ؟‘‘ اس نے نرمی سے پوچھتے ہوئے ہاتھ بڑھایا۔

حیدر آبادی نے بتایا۔۔

’’ یہ آکسفورڈ سے آئے ہوئے ہیں۔ آپ سے خاص طور پر ملنے کے خواہش مند تھے۔ در اصل آپ کے شاہی خاندان کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہتے ہیں۔‘‘

اس نے محسوس کیا۔۔ ہکسلے بھی ٹوٹی پھوٹی زبان آسانی سے بول پا رہا تھا۔

نور علی شاہ کا چہرہ کھل اٹھا۔۔ ’’ آئیے۔۔ باہر کیوں کھڑے ہیں ‘ اندر آ جائیے۔۔ ‘‘

مگر اندر کون سی جگہ تھی بیٹھنے بٹھانے کے لائق۔ دنیا بھر کے کپڑے پھیلے ہوئے تھے۔ چھوٹے سے برامدے میں الگنی میں پسرے کپڑوں سے پانی اب بھی ٹپک رہا تھا۔ وہیں ایک طرف اسلم اور فاطمہ بیٹھے ٹھونگے بنا رہے تھے۔ بڑی بی سر جھکائے گندے برتنوں کو تیزی سے دھونے میں لگی تھیں۔

غصہ جیسے چڑیئے کی طرح اچانک نور علی شاہ کی ناک پر بیٹھ گیا۔

’’ یہ دیکھئے نوابوں کا خاندان۔۔ مگر ٹھہریئے۔ میری عورتیں پردہ کرتی ہیں۔۔‘‘

انہوں نے غصے میں ڈانٹ کر بیوی کو باہر جانے کا اشارہ کیا۔ غصے میں ابلتے ہوئے چیخ پڑے۔

’’ اب ہماری قدر کہاں ؟ قدر تو انگریز جانتے تھے۔ آپ جانتے تھے اور بھارت سرکار نے ہماری بولی لگائی۔ صرف ڈیڑھ ہزار روپے جس میں ایک سرکاری افسر کے لئے ایک اچھی سی شراب تک نہیں آسکتی اور اب تو یہ تنخواہ بھی بند ہو گئی انگریز بہادر۔

پروفیسرہکسلے نے ان کے کندھے پر پیار سے ہاتھ رکھا۔۔ ’’ ہم کو معلوم۔ یہی تو جاننے اور پوچھنے ہم آیا۔۔‘‘

اس نے پیار سے بیحد معصوم دیکھنے والی نیلی نیلی آنکھوں سے کسی بچے کی طرح ان کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے گردن ہلائی۔ تب تک مختار بنئے کا بھیجا ہوا لڑکا دو بینت کی کرسی لے آیا تھا۔ نواڑی کی پلنگ پر نور علی شاہ پیروں کو لٹکائے سوچ میں گم ہو گئے۔ یہاں ان کے ملک سے تو کبھی ایک چڑیا بھی ان کی تلاش کرنے نہیں آئی اور کہاں باہر سے۔۔ باہر والوں کی بات ہی نرالی ہے۔

’’ کوئی تکلف نہیں۔ ہم صرف کچھ پوچھنے آئے ہیں۔‘‘

حیدر آبادی نے ٹائی کی ناٹ ٹھیک کی۔ ترچھی نظروں سے گھر کا جائزہ لیا۔ اڈگی کواڑ سے سہمی ہوئی نظریں ادھر ہی دیکھ رہی تھیں۔ اس درمیان ایک بچہ دو گلاس اسپیشل چائے لے کر آ گیا۔ حیدر آبادی کو گلاس تھامتے ہوئے تھوڑی ہچک بھی ہوئی، مگر گوڑی چمڑی والے نے آسانی سے شکریہ کہتے ہوئے گلاس تھام لیا اور آہستہ آہستہ چسکی لینے لگا۔

’’ ہاں امجد علی شاہ کے بارے میں۔۔ ٹوم جو بولے گا، ہم لکھے گا‘‘

اس کے لہجے میں نرمی تھی۔ پھر جیب سے نوٹ بک نکال کر، خالی گلاس نیچے رکھ کر وہ سننے کے لئے بے چین ہو گیا۔۔

تاریخ کی سبز وادیوں کی یادگار پر دھول جم چکی تھی۔ نور علی شاہ آہستہ آہستہ اُس دھول کو صاف کر رہے تھے۔ سب کچھ تو وقت نے چھین لیا تھا۔ کیسی ریاستیں اور جاگیریں۔۔ پرانے قصوں کے پٹارے کھل گئے تھے۔ راجا مہاراجا کی شان و شوکت کی انوکھی البیلی کہانیاں، عیش و آرام کی عجیب داستانیں۔۔ وہ سناتے رہے۔ بتاتے رہے۔۔سب کہانیاں ماضی کا ایک حصہ بن کر رہ گئیں۔

ہندستان تب تقسیم نہیں ہوا تھا۔ لیکن نواب امجد علی شاہ کے پر پوتوں کے نصیب کو گرہن لگ چکا تھا۔ ریاست ختم ہو چکی تھی۔ جاگیریں حکومت نے چھین لیں۔ محل، شاہی اصطبل سب حکومت نے میوزیم کی شکل میں، اپنی نگرانی میں لے لئے۔۔اب ٹورسٹ آتے ہیں۔۔ جاتے ہیں۔۔ لاکھوں کے وارے نیارے ہیں اور یہاں، یہ بندہ بیراگی جسے نواب امجد علی شاہ کا وارث بتاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے، بھوک سے بے حال ہے۔۔ کپڑوں سے ننگا ہے۔۔ اور اس پھٹے حال میں صرف ’ داستان گو‘ بن کر رہ گیا ہے۔۔ اوہ۔۔ امجد علی شاہ کا اصطبل دیکھئے، جہاں شاہی گھوڑے باندھے جاتے تھے‘ وہ آج کی عالیشان عمارتوں اور کوٹھیوں سے بھی اچھے ہیں۔۔

وہ سناتے رہے۔ انگریز بیچ بیچ میں روک روک کر کچھ سوال کرتا۔۔ حیدر آبادی دھیمے سر میں کچھ جواب دیتا۔ انگریز سر ہلاتا، پھر لکھنے میں مصروف ہو جاتا۔

دوپہر کا سورج منڈیروں سے کچھ دور چلا گیا تھا۔ آنگن میں کچھ بدلی سی چھا گئی تھی۔ نور علی شاہ پھر سے اُس زمانے میں پہنچ گئے تھے۔ جذبات کی شدت سے آواز کبھی لڑکھڑا جاتی تھی، رندھ جاتی۔ اچانک وہ چپ ہو گئے۔۔ آنکھوں میں گزرے وقت کی دھول پڑ گئی۔

’’ نشانی۔۔ آپ نشانی پوچھتے ہیں ؟‘‘

’’ ہاں ‘ یس‘‘۔۔ انگریز نے متاثر کرنے والے انداز میں سر کو دوبارہ ہلایا اور بے قراری میں اٹھ کھڑا ہوا۔ گردن سے جھولتا ہوا کیمرہ نکالا اور معصومیت سے بولا۔۔

’’ نور شاہ علی ہم ایک پوز چاہٹا‘‘۔۔

جھٹ سے فلیش چمکا۔۔ اور نور علی شاہ جھب سے کیمرے میں سما گئے۔

’’ لیجئے۔۔ لیجئے۔۔ آواز جذبات کی شدت سے بھاری تھی۔۔ اس مرغی کے دربے کی بھی تصویر لیجئے۔ جہاں ہم رہتے ہیں۔ مگر نہیں معاف کیجئے گا یا یوں کہہ لیجئے کہ عزت کی خاطر عورتوں کو آپ کے سامنے حاضر نہیں کرسکتا۔ نہیں۔۔

بیشک نہیں۔ کبھی نہیں۔ آپ اِدھر اُدھر کی جتنی مرضی تصویر میں لے لیجئے۔‘‘

انگریز کے کیمرے کی فلیش گھر کی بوسیدہ جگہوں پر کئی بار چمکی۔ اس کی آنکھوں میں احسان کا جذبہ چھپا تھا۔

حیدر آبادی نے پوچھا، ’’ کوئی نشانی جو محفوظ رہ گئی ہو۔۔؟‘‘

’’ ہاں، ہے تو صحیح۔۔ ‘‘ ان کے دل سے سرد آہ نکل گئی ’’ آئیے۔ چلئے ‘ آپ بھی دیکھئے۔‘‘

وہ پاخانہ جانے والے راستے کی طرف بڑھے۔ پھر تھم سے گئے۔ بدبو کا ایک تیز ریلا کھلے سنڈاس سے نکل کر ہوا میں گھل مل گیا تھا۔

’’یہ ہم ہیں۔۔ ‘‘ وہ دانت پیس کر بولے۔۔’’ گوہ  اور موت میں نہائے ہوئے۔۔ دن رات اسی بدبو کو برداشت کرتے ہیں۔۔اور جیتے ہیں بس۔‘‘

انہوں نے اسلم کو آواز لگائی۔۔ اسلم جو کواڑ کے پیچھے چھپا کھڑا تھا تیزی سے آیا۔ انگریز اور حیدر آبادی کو جھٹکے سے سلام کیا اور بھائی کی آنکھوں میں جھانکا۔

’’ یہ صندوق۔۔ اسے باہر نکالیے۔‘‘

انہوں نے پھیلے کباڑے کی طرف اشارہ کیا۔ پھر انگریز کی طرف دھیان سے دیکھتے ہوئے بولے۔۔

’’ اس کے اندر جو کچھ بھی ہے وہ دیکھنے کے قابل نہیں ہے، نہ آپ کے کسی کام کا۔۔ مگر نشانیاں تو ہیں ‘ اور دیکھئے تو سہی، ان نشانیوں کو کیسی جگہ نصیب ہوئی ہے۔‘‘

انگریز کے فلیش چمکتے رہے۔ تالا کھلنے پر بھی صندوق کے اندر سے دھول گرد کا ایک تیز جھونکا اٹھا۔ انگریز نے ہاتھوں سے ان نشانیوں کا ’ لمس ‘ محسوس کیا۔ بے آن، بے رنگ، بے رونق اور اپنی چمک کھوتی نشانیاں۔۔

اس نے پھر ایک تصویر لی۔ اس کا چہرہ مسکرا رہا تھا۔۔ دوسرے ہی لمحے اس کا ہاتھ اپنی جیب میں گیا اور کچھ کرنسی نوٹ اس نے مضبوطی سے نور علی شاہ کے ہاتھ میں پکڑا دیئے۔ آہستہ آہستہ ان کے ہاتھوں کو تھپتھپایا اور حیدر آبادی کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکل آیا۔

 

وہ کب گئے۔۔گاڑی کب روانہ ہوئی۔۔ انہیں کچھ پتہ نہیں۔۔ وہ بس بے خبری میں کھو رہے۔ ایک عجیب سی آگ تھی جو اچانک ان کے اندر بھٹّی کی طرح دہک رہی تھی۔ بدن تپ رہا تھا۔ سر پھٹا جا رہا تھا۔ نشانیاں۔۔ وہ صرف نشانیوں کے بارے میں غور کر رہے تھے۔۔ نواب امجد علی شاہ کے خاندان کی آخری نشانی۔۔ اب اس نشانی کو دیکھنے کے لئے بھی لوگ آیا کریں گے۔ پھر جاتے جاتے دیکھنے کا ٹیکس بھی ادا کریں گے۔۔

وہ بار بار بھڑک رہے تھے۔۔ بار بار پروفیسر ہیکسلے کے کیمرے کا فلیش آن کی آنکھوں میں چمک رہا تھا۔

وہ دیکھ رہے تھے۔۔ وہ کھڑے ہیں۔۔ گندا سا، اٹھنگا سا پائجامہ اور اس میں جگہ جگہ شکن۔۔ چہرے پر پڑی ہوئی ’ جھائیاں ‘ اور ’ اجھڑائے‘ بال۔۔ ان کا دبلا پتلا جسم۔۔ اور فلیش چمک رہا ہے۔۔

سنڈاس کے پاس، کباڑے کے ڈھیر میں پڑا تاریخی صندوق۔۔ صندوق میں پڑی دھول گرد میں ڈوبی صدیوں پرانی نشانیاں۔۔اور فلیش چمک رہا ہے۔۔ زمین پر پھیلے ہوئے برتن۔۔ الگنی پر سوکھتے ہوئے کپڑے۔۔ اور فلیش مچک رہا ہے۔۔

نور علی شاہ ! وہ بہت آہستہ سے مردہ لہجے میں بڑبڑائے۔۔ تم صرف نشانی رہ گئے ہو۔۔ اپنے پرکھوں کی آخری یادگار۔

زمین پر دونوں پاؤں جوڑ کر وہ غور سے دیکھتے رہے۔۔ ایک عجیب سی کراہیت‘ ان کی نس نس میں بس چکی تھی۔ وہ بہت غور سے، جھکے ہوئے، اپنے پاؤں کو دیکھ رہے تھے مگر اب سب کچھ انہیں ٹیڑھا میڑھا، لنج پنج نظر آ رہا تھا۔۔

٭٭

 

کون تھا؟ کمرے میں واپس آنے تک بڑی بی کے چہرے پر ناگواری کا تاثر چھا چکا تھا۔۔’’ بڑا بے ادب تھا۔۔‘‘

’ بے شرم کہو بھابھی۔‘ یہ اسلم تھا

’’ہاں، بے ادب بھی، بے شرم بھی۔ تم نے دیکھا کیسے گردن اچکا اچکا کر ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔۔‘‘

’’کیوں نہیں دیکھا۔ اور بھیّا بھی ناں۔۔، اسلم غصے سے بڑے بھائی کو دیکھ رہا تھا۔۔کیا ضرورت تھی، اگلی پچھلی تاریخ دہرانے کی۔۔ کیا مل گیا۔۔‘‘

’ یہ۔۔؟‘

نور علی شاہ نے ہاتھ آگے کر دیا۔۔ خیرات کہو یا صدقہ۔۔ جو آیا وہ کچھ نہ کچھ دے کر گیا۔۔

’ بادشاہت کے ختم ہونے کا ڈھنڈورا پیٹو گے تو صدقہ ہی ملے گا۔۔ میں بولوں، کب تک پرانی تاریخ کے چیتھڑے بچھا کر سوتے رہو گے۔ کہاں کی بادشاہت میاں۔ سمجھو۔ جاگو۔ بادشاہت کو ختم ہوئے بھی سینکڑوں برس گزر گئے۔ اب بادشاہت نہیں ہے۔ بھک منگوں سے بھی بدتر ہیں ہم۔۔ بڑی بی کی آنکھوں میں آنسو مچل رہے تھے۔۔ بھک منگے تو کم بخت شرم و حیا بیچ کر کہیں بھی بیٹھ کر دو وقت کی روٹی تو کھا لیتے ہیں اور ایک ہم ہیں۔۔

’’نحوست نہیں پھیلاؤ۔۔ نور علی شاہ کے لہجے میں ٹھہراؤ تھا۔۔

’ اللہ دے گا۔۔ چھپّر پھاڑ کر دے گا۔۔‘

بے روغن دیوار پر کیل سے لگے، چھوٹے سے شیشے کے ٹکڑے میں اپنے چہرے کے عکس کو دیکھا نور علی شاہ نے۔۔ اور کسی گہری سوچ میں گم ہو گئے۔۔

 

پروفیسرہکسلے کا نور علی شاہ کے گھر آنا مختار بنئے کے لیے یقیناً ایک بڑی بات تھی۔ یعنی ایک ایسا آدمی جس کا مذاق اڑانے میں اس نے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی، مگر ایک ودیشی اسے پوچھتا ہوا اس کے گھر آیا تھا۔ دوپہر ۲ بجے کے آس پاس جب ادھار تیل مانگنے کی غرض سے نور علی شاہ اُس کے پاس گئے تو مختار بنئے کے لہجے میں فرق آ چکا تھا۔۔ وہ نہ جھڑکا، نہ پیسے مانگے۔۔ بس تیل کی بوتل پکڑائی اور ایک لمحے کو فلاسفر بن گیا۔

’’ سب اللہ کی مرضی جی۔ فکر مت کرنا۔ اس کی لاٹھی میں آواز نہیں ہے۔‘

گھر آ کر نواڑ کی پلنگ پر لیٹتے ہی مختار بنئے کے چہرے نے ایک بار پھر نور علی شاہ کو اُداس کر دیا تھا۔ آخر وہ ایسا کیوں  بولا۔۔اندر کمرے سے چھوٹے بھائی اسلم علی شاہ اور اس کی بیوی کے جھگڑے کی آواز آ رہی تھی۔۔ لڑائی کی وجہ وہی ٹھونگا تھا، جس کے زیادہ اور کم کے سوال پر اکثر ہی دونوں کے بیچ تو تو میں میں کی نوبت آ جاتی تھی۔ پھر تو مغلیہ گالیوں کے دروازے بھی شان سے کھل جاتے۔ کچھ دیر کے بعد یہ جھگڑے رک گئے۔ پلنگ سے اٹھ کر نور علی شاہ کمرے کی طرف گئے۔ مقصد یہ دیکھنا تھا کہ کتنے ٹھونگے بنے۔ اور اندر کی خانہ جنگی‘ اب کہاں پہنچی ہے۔۔ مگر دیکھ کر ٹھٹھک گئے نور علی شاہ۔۔اسلم بھابھی کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا۔ اور حسنو اس کی جوئیں نکال رہی تھیں۔

’توبہ۔۔ یہ کیا منحوسیت ہے۔۔‘

’’نہائے گا نہیں تو جوئیں نہیں پڑیں گی‘‘

ایک طرف ٹھونگے کے ڈھیر پڑے تھے۔ وہاں سے اٹھ کر نور علی شاہ باورچی خانے کی طرف نکل آئے۔ خالی دقچی میں کچھ کھانے کی چیزیں تلاش کرتے رہے۔ ناکام رہے تو جیب میں ہاتھ ڈال کر دیکھا۔ پروفیسر ہکسلے کے دیئے گئے پیسوں میں سے پچاس روپے کا نوٹ اب بھی ان کی جیب میں چمک رہا تھا۔۔وقت کا اندازہ لگایا۔۔ اور چرمرانے والے دروازے کو کھول کر باہر آ گئے۔۔ گلیاں پار کرتے ہوئے ایک منٹ کو مختار بنئے کی دکان کے پاس رُکے۔ پھر نکڑ کی طرف نکل گئے۔ جہاں غالب اکادمی، غالب کا مزار اور بڑے کے گوشت کی دکانیں ایک قطار سے لگی ہوئی تھیں۔۔ کچھ دیر تک خریدنے اور نہیں خریدنے کے درمیان کشمکش چلتی رہی۔۔پھر اندر کی بھوک اس کشمکش میں بازی مار گئی۔ دکان سے گوشت خریدا۔ پولیتھین میں لے کر آگے بڑھے تو تبلیغی جماعت کے جھنڈ کے ساتھ عرب ملکوں سے آئے ہوئے وفد کے آگے رک گئے۔ ایک نوجوان عرب۔۔ چہرہ چمکتا ہوا۔۔ ہاتھ میں تسبیح۔۔ ادھر اُدھر کا موازنہ کر رہا تھا۔ ہاتھ میں پولتھین کو تھامے چہرے پر چمک لیے ہوئے آگے بڑھے نور علی شاہ۔ لیکن بات کیسے کریں۔ اردو کے علاوہ تو کچھ جانتے نہیں۔۔ لیکن مطمئن ہیں۔۔ چلو، یہ کارنامہ بھی کر گزرتے ہیں۔ ٹوٹی پھوٹی انگریزی کافی ہوتی ہے۔۔ کئی عرب تو بہت اچھی انگریزی بول لیتے ہیں۔ نوجوان عرب کے ساتھ کئی لوگ تھے۔ نور علی شاہ ایک دم سے اس کے سامنے چلے گئے۔۔ مسکرائیے۔ اشارہ کیا۔

’’امپائر۔۔ کنگ ڈم۔۔ یو نو۔۔ ہم تھے۔۔ لانگ لانگ ٹائم ایگو۔۔ یو نو۔۔‘‘

نوجوان عرب مسکرایا۔۔ کچھ عربی میں بولا۔ تسبیح پر ہاتھ کی انگلیاں چل رہی تھیں۔۔

’’ یو نو۔۔ وی۔۔ ہولڈ ان انڈین امپائر۔۔ یو نو۔۔‘‘

عرب نے ایک ہندستان نظر آنے والے چہرے کی طرف دیکھا۔۔ جو اس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔۔ ہندستانی کے چہرے پر ایک ناگوار سا تاثر ابھرا۔۔ وہ کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ نوجوان عرب نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔۔

’ یو مین۔۔‘

’’یس۔۔ وی آر۔۔ ونس اپن اے ٹائم۔۔ یو نو۔۔ امپائر۔۔ کنگ ڈم۔۔ آئی ام نور علی شاہ۔۔ یو نو۔۔

ہندستانی نے آہستہ سے کچھ کہا۔

عرب نوجوان مسکرایا۔ ہاتھ جیب میں گیا۔ واپس آیا تو ہاتھ میں سو سو کے تین نوٹ دبے ہوئے تھے۔۔ نوٹ نور علی شاہ کی ہتھیلیوں پر رکھا۔ اپنے سخت خوبصورت ہاتھوں سے اس کی ہتھیلیاں دبائیں۔ اور آگے بڑھ گیا۔۔

نور علی شاہ کے لئے یہی بہت تھا۔ دو تین دنوں کی چھٹّی ہو گئی تھی۔

مگر اس کمال کے آئیڈیا‘ نے آنے والے دنوں کے لیے ان کی راہیں کھول دیں تھیں۔۔ ارے، اپنے باپ دادا کے سنہرے ماضی کو بھی کیش کیا جا سکتا ہے۔۔ اس میں بھلا کرنا ہی کیا ہے۔۔ بس ذرا سا ہاتھ پھیلا دینا ہے۔ پرانے بادشاہت کے دنوں کا واسطہ دینا ہے اور۔۔

مسکرائے نور علی شاہ۔

بھر دے جھولی مری یا محمد۔۔

لوٹ کر در سے جاؤں نہ خالی۔۔

وہ اکیلے کہاں ہیں۔۔ہزاروں لوگ ہیں۔۔جن کی پرورش ہی ولیوں کے ولی کے چوکھٹ سے ہوتی ہے۔۔ صبح سے شام تک بس آنے والے لوگوں کا چہرہ پڑھتے رہیے۔ چہرے پڑھتے پڑھتے آسانی سے معلوم ہو جاتا ہے۔ کون پردیسی ہے اور کون دلی کا رہنے والا۔۔بس، پردیسی تو پردیسی ہوتا ہے۔۔ ولی کی چوکھٹ سے دن گزارنے والوں کی کمی نہیں اور پچھلی بار ہی تو وہ حسنسہ کو لے کر خواجہ غریب نواز کے یہاں گئے تھے۔ خواجہ نے بلایا تھا حسنہ کتنی بار کہہ چکی تھی۔۔ خواجہ کے یہاں چلو۔ مرادیں پوری ہوتی ہیں۔

’مرادیں کیا یہاں پوری نہیں ہوتیں۔۔ ہم تو آستانے کے قریب ہیں۔ محبوب اولیاء کے آستانہ کے قریب۔‘

’ تم سے کون الجھے۔ محبوب اولیاء بھی دعا کریں گے اور خواجہ پیر بھی۔ سب اجمیر جاتے ہیں۔ دلی رہتے ہوئے اجمیر آج تک نہیں گئے ہم۔۔

نور علی شاہ کے دل میں آیا، حسنہ سے پوچھیں۔۔اجمیر کیا پیدل جاؤ گی۔ ٹرین کے پیسے نہیں لگتے ہیں کیا۔ اور اتنے پیسے کبھی آئے ہی نہیں کہ اجمیر جانا ہو۔۔۔۔۔۔  زندگی کی پٹری پر ہزاروں برس پہلے جو بادشاہت کی ریل گزری تھی، وہ اپنی کہانی سینہ بہ سینہ، خاندان در خاندان منتقل ہوتی رہی۔۔بادشاہت کا بوجھ ڈھونے والے کندھے اتنے ناتواں اور کمزور ہو چکے تھے کہ زندگی کی خاردار راہوں سے گزرنا ہی بھول گئے تھے۔۔امجد علی شاہ سے شروع ہوئی کہانی لیاقت علی شاہ اور چچا جان قاسم علی شاہ تک آتے آتے ایک بے رحم اور اذیت ناک داستان میں تبدیل ہو چکی تھی۔۔ابّا حضور لیاقت علی شاہ کے ورثے میں تھوڑی تعلیم آ گئی تھی۔۔اس وقت تک نور علی شاہ نے دلّی کی شکل کہاں دیکھی تھی۔ ابّا یعنی لیاقت علی شاہ کلکتہ کے اس علاقے میں تھے جو واجد علی شاہ کے نام سے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۲)

 

ابا کہا بھی کرتے تھے۔ واجد علی شاہ کے بیٹے برجیس قدر تک آتے آتے زندگی آتش رفتہ کے سراغ میں گم ہو چکی تھی۔۔ نوابیت کو گہن لگ گیا۔۔شہنشاہیت گھٹا ٹوپ اندھیرے میں چھپ گئی۔۔ انگریزوں نے راج پاٹ چھینا تھا۔ مگر حیثیت تسلیم کرتے تھے۔ بادشاہوں کے مرتبے اور رتبے کا خیال تھا۔ اس لیے راج پاٹ چھن جانے کے بعد بھی فرنگیوں نے راجہ مہاراجہ اور بادشاہوں کے وارثوں کا خیال رکھا تھا۔ مگر آزادی کی صبح طلوع ہوتے ہوتے یہ وارث سرکاری خزانوں سے ملنے والی رقم سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔۔ لیاقت علی شاہ اپنے آخری دنوں میں محلے کے بچوں کو قرآن اور اردو پڑھایا کرتے تھے۔ اور خالی وقت نکڑ کے ہوٹل واجد علی شاہ میں بیٹھ کر گپیں لڑاتے تھے، پرانے دنوں کو یاد کرتے تھے۔۔ اور افسوس کرتے تھے کہ ہے ہے۔۔ تم لوگوں کا کیا ہو گا۔ خدا نے اتنا دیا ہی نہیں کہ اسکول کالج کا منہ دیکھ سکو۔ جس نے پیدا کیا ہے، وہی تمہارے لیے راستہ بھی پیدا کرے گا۔

حسنہ کئی بار خالی جھولی کا طعنہ دے چکی تھی۔ سنتے سنتے نور علی شاہ کے صبر کا باندھ لبریز ہو گیا تھا۔ مگر خالی جھولی کا ہونا ان کے نزدیک ایک طرح سے اچھا ہی تھا۔ یہاں تو دور روٹی کے لیے لالے پڑ جاتے ہیں۔ بچے کو کہاں سے کھلائیں گے نور علی شاہ۔۔ اور اس پر سے یہ کرائے کا مکان۔۔ مکان مالک جب تب تلوار لے کر سوار۔۔ میاں کرایہ نکالو۔۔

گھر لوٹنے تک، اسلم کے چہرے پر اڑتی ہوائی سے یہ سمجھنے میں پریشانی نہیں ہوئی کہ معاملہ کچھ سیرئس ہے۔

’کیا ہوا۔‘

’بھابھی کو الٹیاں ہوئی ہیں۔ ‘

’کچھ غلط سلط کھا لیا ہو گا۔۔‘

’نہیں۔‘ اسلم کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔۔

’بھابھی، املی اور اچار کھانے کو کہہ رہی تھیں۔۔‘

’املی اور اچار۔۔؟‘

نور علی شاہ کے ہاتھوں کی پوٹلی کانپ گئی۔ حسنہ کے کمرے میں آئے  تو وہ نڈھال سی بستر پر پڑی تھی۔ مگر ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔

’سنتے ہو جی۔ولیوں کے ولی نے ہماری سن لی۔‘

حسنہ کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔ نور علی شاہ پر یہ خبر بجلی کی طرح گری تھی کہ آئندہ آنے والے کچھ ماہ میں بہت کچھ بھیانک ہونے والا ہے۔ اور بستر پر لیٹی ہوئی، املی اور اچار کی مانگ کرنے والی حسنہ نے ابھی ابھی جو خبر انہیں دی ہے، اس کا تعلق کسی ایسی سنگین خبر سے ہے، جس کا بوجھ اٹھانے کی ان میں ہمت نہیں ہے۔۔ مگر نور علی شاہ مایوس نہیں تھے۔ یعنی یہ خبر جو انہیں آج رات کے ٹھیک آٹھ بجے اور محرم مہینے کیے تیرہویں تاریخ کو دی جا رہی تھی، یعنی اس دن، اس تاریخی دن، ولی اولیاء کی چوکھٹ سے انہیں ایک اور بشارت ملی تھی۔۔ یعنی اسی دن وہ عرب نوجوان ان سے ٹکرایا تھا۔ نور علی شاہ کی مٹھیاں گرم کی تھیں۔ اسی دن اپنے پرانے اور شاندار ماضی کو فروخت کرنے کا خیال ان کے دل میں آیا تھا۔۔ یعنی اگر روزگار کا یہ سلسلہ کامیاب ہوا تو ٹھونگوں کی دنیا سے بھی باہر نکلنے کے راستے کھل جائیں گے۔۔ اور سچ یہ ہے کہ نور علی شاہ کو یہ ٹھونگے بنانے والا کام پسند نہیں تھا۔ وہ تو تقدیر کی مجبوری اور مختار بنیے کا احسان، جس نے بیٹھے بٹھائے ایک نئے روزگار سے انہیں جوڑ دیا تھا۔۔مگر سڑک، گلیوں پر ردی کے کاغذوں کو اٹھاتے اٹھاتے اب وہ خاصہ پریشان ہو چکے تھے۔ کئی بار تو بخشو ہوٹل کے مالک نے بھی شکایت کی۔۔ میاں، آپ ہمارا اخبار تو نہیں لے گئے۔۔ آپ ہی پڑھ رہے تھے۔ چھوٹا بھائی اسلم اورحسنہ بھی جب باہر نکلتے تو صاف ستھرے کاغذ اور اخباروں کی ٹوہ، میں رہتے۔انہیں گھر لے آتے۔۔ کبھی کبھی نور علی شاہ کو اپنے گھر میں ایک عجیب سی بدبو کا احساس ہوتا، جو کھلے سنڈاس اور ٹھونگے والے کاغذوں سے مل کر دو کمرے والے اس گھر میں حملہ بول چکی ہوتی۔۔ ادھر آس پاس بنے مکانوں میں زیادہ تر گھروں میں کھلے سنڈ اس ہی تھے۔جمعہ دارنی صبح ہی صبح ہاتھ میں بیلچا، کینٹر اور بالٹی لیے پہنچ جاتی۔ وہ بالٹی میں گندہ نکالتے وقت۔ ان گھروں میں رہنے والوں کو کوسے بھی دیتی جاتی۔ مگر نور علی شاہ کے نصیب میں اب صرف اور صرف یہی دن دیکھنے رہ گئے تھے۔

کبھی کبھی وہ گھر کے باہر نکلی ہوئی تھوڑی سی بالکنی والی جگہ پر کھڑے ہو جاتے۔ سامنے ایک قطار سے بنے مکانوں کے سنڈاس باہر نکلے ہوئے تھے۔ وہ غور سے جمعہ دارنی کو گندا نکالتے ہوئے دیکھتے رہتے۔ دو ایک بار ایسا ہوا، جب غصے میں جمعدارنی نے دو ایک گالی بھرے لفظ ان کے لیے بھی نکالے۔۔ ایک تاریخ کو پیسہ مانگنے آئی جمعدارنی نے حسنہ سے بھی شکایت کی۔ کھڑے کھڑے دیکھتا رہتا ہے مجھے۔ تم سے سنبھلتا نہیں کیا۔ اور کی جوڑو پر نظر گڑاتا ہے۔ نور علی شاہ آسمان سے گرے تھے۔ چھناک۔۔ اب یہ عزت رہ گئی ان کی۔ کمبخت، بادشاہوں کے خاندان کا آدمی اتنا چھوٹا ہو گیا کہ جمعدارنی کو بھی دیکھنے لگا۔ حسنہ نے برا مانا تھا۔ غصہ ہوئی تھی۔ کافی دیر تک جھگڑا چلا۔ وہ یہ ماننے کو قطعی تیار نہیں تھی کہ وہ نور علی شاہ نے زندگی بھر کے تجربے میں ’ایک گندگی‘ کا اضافہ کر دیا تھا۔ یعنی بھلا، سنڈاس کی گندگی بھی کوئی دیکھنے کی چیز ہے؟ بہتے ہوئے پاخانے پر رینگتے ہوئے کیڑے یا پلو کوئی کیسے نظر اٹھا کر دیکھ سکتا ہے۔۔ سیدھی سی بات ہے۔ میاں کی نظر میں کھوٹ ہے۔۔ جب اپنے گھر کے دروازے سے جمعدارنی تک پر بری نظر ڈال سکتے ہیں تو جانے باہر کیا کیا کرتے ہوں گے۔ اللہ رسول کا واسطہ دینے کے بعد بھی حسنہ یہ ماننے کو تیار نہیں ہوئی کہ میاں جی کی نیت ٹھیک ہے۔ جمعدارنی کی عمر ہی کیا ہے۔ بیس نہ پچیس۔ شکل صورت بھی کمبخت کی ایسی کہ اگر ہاتھ میں بالٹی نہ ہو تو نیت خراب ہونے میں دیر نہ لگے۔ مگر اب آدمی اتنا خود کو گرا لے کہ جمعدارنی تک پر بری نظر رکھنے لگے۔

’کیوں دیکھ رہے تھے آپ۔۔؟‘

’نہیں دیکھ رہا تھا۔‘

’جھوٹ بول رہی تھی، جمعدارنی‘ حسنہ کی آنکھوں کی چمک وہ بھولے نہیں ہیں۔

’نہیں۔ جمعدارنی جھوٹ کیوں بولنے لگی۔ جھوٹ بول رہا تھا امجد علی شاہ کا وارث۔ جسے دیکھنے اور پسند کرنے کے لیے اب جمعدارنی ہی بچی ہے۔‘

’یعنی پسند کرنے کا بھی خیال تھا۔ اور کیا پتہ جو دل ہی دل میں پسند بھی کر چکے ہوں۔‘

’اتنا نیچے مت گراؤ بیگم۔‘

’لو، تو اب گرنے کے لیے بچا ہی کیا ہے۔۔‘ حسنہ زور زور سے رو رہی تھی۔۔ ایک دن کی بات ہو تو چلو معاف بھی کروں۔ وہ جمعدارنی کہہ رہی تھی کہ ٹھیک ٹیم جب وہ آتی ہے، تم کھڑے ہو جاتے ہو۔۔

نور علی شاہ کے لیے حسنہ کو یہ سمجھانا بہت مشکل تھا کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ اور یہ بات خود ان کی سمجھ میں بھی مشکل سے آ رہی تھی کہ آخر سنڈاس سے گندگی نکالنے والے منظر میں ایسا کیا تھا جو وہ ایک روٹین کی طرح پوری کرتے تھے۔ یعنی ٹھیک وقت پر گھر سے باہر نکلی بالکنی پر کھڑے ہو جاتے۔ اور دیر تک اس منظر، سے لطف اندوز ہوتے۔ اور اس درمیان سنڈاس سے اٹھنے والی بدبو تک کو بھول جاتے۔ یا یہ کہنا بہتر ہو گا کہ آہستہ آہستہ وہ اس بدبو کے عادی ہو گئے تھے۔۔

 

اس دن ہونے والے ہنگامے کا یہی منظر شاید ایک ساتھ حسنہ اور نور علی شاہ دونوں کی آنکھوں میں ایک ساتھ اتر آیا تھا۔ نور علی شاہ نے پلٹ کر حسنہ کی طرف دیکھا۔ حسنہ کی آنکھوں میں مسکراہٹ تھی۔

’اب جمعدارنی کو نہیں دیکھنا۔ گھر میں مہمان آنے والا ہے۔‘

اور یقینی طور پر نور علی شاہ برسوں بعد ملی ہوئی اس خوشخبری کو سننے کے بعد بھی کانپ گئے تھے۔۔

’مہمان کی آمد ہے۔‘

’ہاں۔‘

ہاں، کہتے ہوئے حسنہ نے غور سے نور علی شاہ کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی تھی۔ مگر آنکھوں میں تھا ہی کیا۔۔ نور علی شاہ تو یہ سوچ کر پریشان تھے کہ نئے مہمان کی آمد کے بعد یہ زندگی اس طرح آسانی سے نہیں گزر سکتی۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ وہ ساری زندگی ٹھونگا بھی نہیں بنا سکتے۔

 

گرمیوں کے دن تھے۔ نور علی شاہ اپنی عمر کے ۳۸ سال مکمل کر چکے تھے۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ اس خوشخبری کو سننے کے بعد وہ اچانک سناٹے میں آ گئے تھے۔ شام تک وہ یونہی ادھر ادھر ٹہلتے رہے۔ جی میں آیا تو کسی کو سلام کر لیا۔ جی میں آیا تو کسی کے سلام کا جواب دے دیا۔ بستی حضرت نظام الدین میں سورج غروب ہونے کی تیاری کر رہا تھا۔ نور علی شاہ پھول والوں کے راستوں سے جگہ بناتے ہوئے گلی کی طرف مڑ گئے۔ یہ گلی اگلے موڑ پر جہاں ختم ہوتی تھی، وہاں سے کچھ دور پر ہی قبرستان کی دیوار نظر آنے لگتی تھی۔۔ اکثر شام ٹہلتے ہوئے نور علی شاہ اس طرف نکل آتے۔ یہاں گاڑیوں کے شور نہیں تھے۔ ٹریفک کے ہنگامے نہیں تھے۔ شام کی پرچھائیاں آسمان پر پھیل چکی تھیں۔ وہ آہستہ آہستہ گنگنا رہے تھے۔

منزل فقر و فنا جائے ادب ہے غافل

بادشاہ تخت سے یاں اپنے اتر لیتا ہے

ماضی کی پرچھائیوں کا رقص تھا۔ اور نیم تاریکی میں نور علی شاہ کو گم ہونے کا احساس۔۔ کلکتہ اس امید سے چھوڑا کہ آستانۂ دہلی میں دعائے روزگار کو قبولیت ملی تھی۔ اور کلکتہ چھوڑنے سے قبل انہیں سمجھانے والوں کی کمی نہیں تھی کہ اب یہاں ہے ہی کیا۔۔ یہاں رہنے والوں کی حیثیت متاع کوچہ و بازار کے سوا ہے ہی کیا۔۔ ولیوں کے ولی کے آستانۂ مبارک پر حاضری دو اور زندگی کے گیسو سنوارو۔ یہاں ماضی کے خار چننے سے بہتر ہے کہ حضرت کے آستانے کی قدم بوسی کی جائے۔۔‘

’مگر حسنہ اور اسلم۔۔؟‘

ولیوں کے دربار میں سب کی عرضی سنی جاتی ہے۔۔ تمہاری بھی سنی جائے گی۔۔

داتا کے دربار میں ان کی کتنی فریاد سنی گئی، وہ نہیں جانتے۔۔ لیکن ان برسوں میں مصیبتوں کے ساتھ زندگی گزارنے کا سلسلہ چلتا رہا۔۔ کتنے ہی بار دوست بن گئے۔ کباب والے کے پاس بیٹھ جاتے یا انور علی کیسٹ کی دکان پر چلے جاتے جہاں بھر دے جھولی مری یا محمد، کی آواز ابھر رہی ہوتی۔ نور علی شاہ کے سپرد دکان کر کے انور کچھ دیر کے لیے گھر یا باہر ہو لیتا۔ اور نور علی شاہ ذمہ داری کے ساتھ آئے ہوئے گاہکوں کو کیسٹ دکھانے میں لگ جاتے۔ انور علی واپس آتا تو کچھ پیسے ان کے ہاتھوں میں رکھ دیتا۔۔کبھی خالی ہوتے تو جعفر پھول اور چادر والے کے پاس ہو آتے۔ داتا کے دربار چلے جاتے۔ وہاں لنگر کھلائے جا رہے ہوتے تو وہ غرباء اور مسکینوں کے ساتھ آرام سے بیٹھ کر لنگر کی روٹیاں توڑ لیتے۔ مگر اب۔۔ ذہن میں دھماکے ہو رہے تھے۔۔ بہت کچھ تبدیل ہونے والا ہے۔ نور محمد۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حسنہ کے منہ سے مہمان کے آنے کی خبر سن کر وہ خوفزدہ ہو گئے تھے۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۳)

 

کناٹ پلیس میں تھوڑی سی شاپنگ اور سیر کے بعد پروفیسرہکسلے واپس جن پتھ ہوٹل کے روم نمبر ۲۰۳ میں پہنچ چکے تھے۔ ان کے ساتھ جو انڈین تھا، اس کا نام فرید تھا۔ فرید شیخ۔۔ زندگی جامع مسجد اور پرانی دلی کی گلیوں کے درمیان گزری تھی۔ انگریزی بولنے کا شوق تھا۔ اور اس شوق نے آہستہ آہستہ پرانی دلی اور لال قلعہ کی سیر کو آنے والے سیاحوں سے اسے قریب کر دیا تھا۔ فرید کے ابو کی جامع مسجد میں کپڑوں کی دکان تھی۔ مگر فرید کو اس طرح کے کاروبار پسند نہیں تھے۔ اکثر اپنے مزاج اور شوق کے مطابق وہ جامع مسجد اور لال قلعہ کی سیر کو آئے سیاحوں کو پکڑ لیتا۔ اور انہیں گائیڈ کی طرح ان عمارتوں، مغلیہ حکومت کے زوال اور مسلمانوں کی پسماندگی کی کہانیاں سنا کر مرعوب کرنے کا ہنر جانتا تھا۔ اور کبھی کبھی اس شوق میں فرید کو اچھے پیسے مل جاتے تھے۔ اس سے فرید کو دو فائدے تھے۔ ایک تو اس کی انگریزی کی مشق جاری تھی۔ اور دوسرا سیاحوں کے ملتے رہنے سے اب وہ انہی کے لہجے میں گفتگو کرنے لگا تھا۔ پروفیسرہکسلے سے اس کی ملاقات لال قلعہ میں ہوئی تھی۔ وہ لائٹ اینڈ ساؤنڈ پروگرام کے بارے میں جاننا چاہتے تھے۔ اور یہی وقت تھا، پروفیسر ہکسلے پر اپنی معلومات کے نقش چھوڑنے کا۔۔ لیکن فرید شیخ کو تعجب اس وقت ہوا، جب اس نے دیکھا کہ پروفیسر ہکسلے اس سے اس کی اپنی زبان میں باتیں کر رہا ہے۔۔

’آپ اردو جانتے ہیں۔۔‘

پروفیسرہکسلے مسکرا کر بولے۔

’اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے‘

’تو پھر آپ نے یہ بات ہم سے چھپائی کیوں ؟‘

’سنو فرید۔ کبھی کبھی کچھ جاننے کے لیے کچھ چھپانا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔نہیں چھپاتا تو تمہارے جیسا دوست کہاں ملتا۔‘

پھر ہکسلے نے بتایا کہ یہاں وہ ایک ضروری کام سے آئے ہیں اور اگر اس کے پاس وقت ہے تو وہ ان کی مدد کرے۔ وہ جب تک انڈیا رہیں گے، وہ ان کے ساتھ رہے گا۔ اور اس کے بدلے میں وہ اسے۔۔‘

یہ ایک بڑی رقم تھی اور فرید شیخ نے بغیر کسی الجھن کے اپنی منظوری دے دی تھی۔ پروفیسر ہکسلے نے بتایا تھا کہ ان کے باپ سیاستداں اور جنرل تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں فرانس میں نازی حملے میں ان کے باپ کی موت ہو گئی۔۔ اس وقت یہ ماں کے ساتھ انگلستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں تھے۔ بعد میں یہ لنڈن آ گئے۔ جہاں ہندوستانیوں پر ظلم کی کہانیوں نے انہیں بے حد متاثر کیا تھا۔ اپنی پہلی مختصر ملاقات میں ہی سلطنت مغلیہ کو لے کر فرید نے اپنے غصے کا اظہار کر دیا تھا۔

وہ لٹیرے ہوتے تو چنگیز اور نادر شاہ کی طرح لوٹ کر واپس لوٹ گئے ہوتے۔ لیکن وہ لٹیرے نہیں تھے اور یہاں آباد ہونے اور حکومت کرنے کے خیال سے آئے تھے۔‘

پروفیسر ہکسلے نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔

فرید نے مسکرا کر اپنی بات جاری رکھی۔۔ اس ملک میں مسلمانوں کا عہد تاریخ کا سب سے روشن باب ہے۔ مسلمانوں کی حکومت کا آغاز آپ دیکھیں تو پہلی صدی ہجری سے شروع ہو جاتا ہے۔ شان و شوکت اور انصاف کے ساتھ مسلمان حکمراں اس ملک پر حکومت کرتے رہے۔ اور نگ زیب تک آتے آتے عروج و زوال کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا۔ اورنگ زیب کے مرتے ہی ملک کا شیرازہ بکھر گیا۔ سلطنتیں کمزور ہو گئیں۔ متحدہ ہندستان الگ الگ رجواڑوں اور صوبوں میں تقسیم ہوتا گیا۔ اور آپ نے اس کا فائدہ اٹھایا۔۔

’یس۔۔‘ پروفیسر ہکسلے نے فرید کی طرف دیکھا۔

’سولہویں صدی کے آخر میں آپ آ گئے۔ اور یہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی جڑیں مضبوط ہو گئیں۔ مغلیہ خاندان زوال کی طرف آمادہ تھا اور خانہ جنگیاں شروع ہو چکی تھیں۔۔ اور آپ نے بہت آسانی سے اودھ، بنگال، میسور، پنجاب، سندھ اور برما کو فتح کرتے ہوئے لال قلعہ پر بھی قبضہ کر لیا۔ آخری مغل تاجدار، بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کر کے رنگون بھیج دیا اور ملک کی  باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ آپ مٹھی بھر آئے اور ایک پورے ملک پر زبردستی حکومت کرنے کا خواب دیکھنے لگے۔۔ اور صرف خواب ہی نہیں دیکھا۔ ہندستانیوں کے ساتھ کتوں سے بھی زیادہ خوفناک سلوک کیا۔۔‘

’یس۔۔‘ پروفیسر ہکسلے درد سے مسکرائے۔۔’ کچھ زخم رہ جاتے ہیں۔ کچھ قرض رہ جاتے ہیں۔ سمجھو ایک قرض چکانے آیا ہوں۔ میں ایسے لوگوں سے ملنا چاہتا ہوں، جن کے ہاتھوں میں حکومت رہی ہو۔ لیکن آج۔۔ وہ پیسوں پیسوں کے محتاج ہوں۔۔‘

’کیوں ملنا چاہتے ہیں ؟ سناہے لٹے پٹے ہوئے ان لوگوں کی کہانیاں مہنگی قیمتوں میں آپ کے ملک میں آج بھی بک جاتی ہیں۔‘

’ایک لفظ ہے بھروسہ، میں اس نیت سے نہیں آیا۔۔‘ پروفیسر ہکسلے مسکرائے۔۔’ اور مجھے وضاحت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں۔‘

 

پروفیسر ہکسلے واش روم سے باہر آ چکے تھے۔ بریف کیس سے فائلیں نکال کر وہ کچھ دیر تک دیکھتے رہے۔ پھر فائل بند کی اور فرید کے سامنے والے صوفے پر جم گئے۔ ان کی آنکھیں فرید کی آنکھوں میں جھانک رہی تھیں۔

’انگریزی حکومت ایک بھی ایسا نام پیدا نہیں کرسکی جو ہندستان کی تاریخ رقم کرنے میں انصاف پسند ہو۔ ہمارے مورخ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کہتے رہے۔ خمیازہ تمہیں اٹھانا پڑا۔ یہاں آنے سے پہلے کولکتہ گیا تھا۔ وہاں ایک خاتون مہر سلطانہ سے ملا، جو خود کو مغلیہ سلطنت کی آخری بہو کہتی ہیں اور مفلسی کے دن گزارنے پر مجبور ہیں۔ ایک طرف حکومت راجے رجواڑوں کے وارثین کو تلاش کر کے لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہوئے فخر محسوس کرتی ہے اور دوسری طرف لٹی ہوئی سلطنت کے یہ تنگدست ہیں جن کا پرسان حال کوئی نہیں۔‘

فرید کی آنکھوں میں چبھن پیدا ہوئی۔ ’آخری ایسے لوگوں کے لیے ہی ہمدردی کیوں ؟‘

پروفیسر ہکسلے مسکرائے۔۔ اسے ایک لفظ میں کہنا آسان ہے کہ یہ لوگ ہمارے مارے ہوئے ہیں۔ لیکن صداقت کچھ اور بھی ہے۔ ہر تہذیب کو زوال آتا ہے۔ کچھ تہذیبیں مردہ ہونے کے بعد پھر سے اٹھنے اور زندہ ہونے کی کوششیں کرتی ہیں۔‘

’تو آپ دیکھنے آئے ہیں کہ ہم نے ایسی کوئی کوشش شروع کی ہے یا نہیں۔؟‘

پروفیسر ہکسلے مسکرائے۔۔ ہر سچ کے ظاہر ہونے کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ سچ کو قبل از وقت کیوں جاننا چاہتے ہو۔۔؟‘اس نے پلٹ کر فرید شیخ کو دیکھا۔ ٹھنڈی آہ بھری۔’ ہندستان میں مسلمانوں کے زوال کی خونچکاں داستان سے زیادہ عبرتناک کوئی اور داستان نہیں۔ اس میں تاریخ کے بھید چھپے ہیں۔ اور گردش روز کے ستم۔۔‘

فرید شیخ کچھ بولنا چاہتا تھا لیکن خاموش رہنے میں ہی بھلائی تھی۔ کیونکہ اسے ساتھ رہنے کا معاوضہ مل رہا تھا۔ اسے خوف بھی تھا کہ پروفیسر ہکسلے ناراض ہوئے تو اس کام کے لیے انہیں کوئی نہ کوئی دوسرا مل جائے گا۔ اور اس لیے فرید پروفیسر کو ناراض کرنے حق میں نہیں تھا۔ اس کی مشکل یہ تھی کہ وہ اپنے قوم کی خونچکاں داستان کو سننے سے پرہیز کرتا تھا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو ماضی کو فراموش کرتے ہوئے حقیقت اور حال پر بھروسہ کرنا جانتے ہیں۔ اور اسی لیے فرید کو ہکسلے پر غصہ آ رہا تھا، جو بار بار اپنے لفظوں میں مسلمانوں کے حسین ماضی کو یاد کرتا ہوا، انکے آج کا مذاق اڑا رہا تھا۔۔ مگر اندر ابل رہے غصے کے باوجود وہ اپنی بات کہنے سے مجبور تھا۔

پروفیسر ہکسلے کی آنکھیں چھت کی طرف دیکھ رہی تھیں۔۔ ’کیسی کیسی دل کو لہو کر دینے والی داستانیں۔ اجڑے ہوئے دیار کے قلعے۔۔ تم پوچھتے ہو میں یہاں کیوں آیا۔۔ وہ کہانیاں۔۔ مجھے زخمی کرتی رہیں۔۔‘ وہ اچانک اس کی طرف گھوم گئے۔ تمہیں کلثوم زمانی بیگم کی کہانی معلوم ہے؟‘

’بہادر شاہ ظفر کی لاڈلی بیٹی۔۔؟‘

’آہ۔۔ آخری مغل تاجدار کے ساتھ بھی وقت نے کیسا ظالمانہ سلوک کیا۔ بادشاہت ختم ہوئی۔ تاج و تخت لٹ گیا۔ لال قلعہ میں کہرام مچ گیا۔ اور ادھر ایک بوڑھا بادشاہ مصلے پر دعاؤں میں گم، کہ خدا محلوں میں رہنے والے یہ بچے تیرے سپرد کرتا ہوں۔۔ یہ نہ جنگل جانتے ہیں اور نہ جنگل کی ویرانیوں کو۔۔ انہیں تو کبھی دھوپ کی شدت سے بھی واسطہ نہ پڑا۔ صدیوں کی حکومت۔۔اور تہذیبوں کا زوال۔۔ سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں۔۔‘

کہتے کہتے ٹھہرے پروفیسر ہکسلے۔ فرید کی طرف دیکھا۔

’اچھا سنو۔ وہ تمہارا نور علی شاہ۔۔ مجھے اس سے ایک بار اور ملنا ہے۔‘

’اب اس غریب سے کیا غلطی ہو گئی؟‘ فرید شیخ نے مسکرا کر پوچھا۔

’غلطی نہیں ہوئی۔ میں نے اس کا انٹرویو کل ہی انگریزی اخبار میں بھیج دیا۔ مگر کچھ باتیں اور بھی ہیں جو ابھی جاننی باقی ہیں۔۔

پروفیسر ہکسلے مسکرائے۔۔ تاریخ سے نجات نہیں۔۔ تاریخ ایک کھلی ہوئی قبر ہے جہاں سے گمشدہ داستانوں کو برآمد کرنا مجھے اچھا لگتا ہے۔‘

اتنا کہہ کر وہ لیٹ گئے۔ آنکھیں بند کر لیں۔ فرید کے منہ کا مزہ کڑوا ہو چکا تھا۔ اس کے جی میں آیا کہ کہے، تاریخ کی سرنگ سے صرف ہماری ہی کہانیاں کیوں۔۔؟ صرف اس لیے کہ ہم اس وقت ساری دنیا میں ذلیل ہو رہے ہیں۔ ‘ مگر وہ خاموش رہا۔

اس سے زیادہ وہ کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا۔۔

٭٭

 

صبح ہو گئی تھی۔ بستی حضرت نظام الدین کی رونقیں جاگ گئی تھیں۔ صبح سویرے سے ہی پھول والوں کی دکانیں سج جاتیں۔ لنگر خانے کھل جاتے۔ ہوٹلوں میں سے کوپن بھی تقسیم کرنے والے لڑکے زائرین سے غریبوں کو کھانا کھلا دو، کی فریاد کرنے لگتے۔ درگاہ کو جانے والی گلی گلزار ہو جاتی۔ تبلیغی جماعت والی مسجد کے پاس باہر سے آئے ہوئے لوگوں کی جماعت گفتگو میں مصروف ہوتی۔ غالب اکادمی کی سیڑھیوں کے پاس سے بوڑھا فقیر غلام دین اٹھ کر رحمت کدہ کے پاس اپنا بوریا بستر بچھا کر بیٹھ جاتا اور یہی وقت ہوتا جب نور علی شاہ گھر سے نکلنے اور بستی کے ہنگاموں کا ایک ضروری حصہ بن جاتے۔۔

لیکن یہ صبح عام صبح جیسی نہیں تھی۔ یہ صبح کچھ خاص تھی۔ یہ صبح ایک نیا ہنگامہ اپنے ساتھ لائی تھی۔ یہ اور بات تھی کہ تبلیغی جماعت کی مسجد کے پاس کھڑے ہوئے نور علی شاہ اس بات سے واقف نہیں تھے۔ وہ اچانک اس وقت چونکے جب مختار بنیے کو سامنے دیکھا۔

’کیا بات ہے۔ سانسیں کیوں پھول رہی ہیں۔‘

’بھاگتا ہوا آ رہا ہوں۔ پہلے آپ کو گھر میں تلاش کیا۔۔‘

تم کہنے والے مختار کے منہ سے آپ سن کر وہ چونک گئے تھے۔ مختار کے چہرے کا رنگ اڑ ا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک انگریزی اخبار تھا۔

’یہ دیکھیے۔ آپ کی تصویر چھپی ہے۔۔‘

’میری تصویر۔۔؟‘

انگریزی اخبار میں اپنی تصویر دیکھ کر نور علی شاہ تعجب میں پڑ گئے تھے۔ وہ انگریزی نہیں جانتے تھے، لیکن اس بات سے واقف تھے کہ ان کے گھر آنے والے فرنگی نے انہیں سارے زمانے میں ننگا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ہو گی۔ لیکن وہ اس بات سے خوش بھی تھے کہ اللہ پاک نے اگر روزگار کے لیے اسی راستہ کا انتخاب کیا ہے تو وہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ کچھ دیر تک سکتہ کی حالت میں نور علی شاہ اپنی اور اپنے کرائے کے گھر کی تصویریں دیکھتے رہے۔ یہاں اس تاریخی صندوق کی تصویر بھی تھی، جو پاخانے کے پاس رکھا ہوا گمشدہ تاریخ کا حصہ بن چکا تھا۔۔ مختار کے نزدیک اب ان کی حیثیت کسی شہنشاہ سے کم نہ تھی۔ اس لیے جب نور علی شاہ نے اس بات کا اظہار کیا کہ اس خبر کے معنی کیسے سمجھے جائیں تو مختار بیٹے نے فورا تبلیغی مسجد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے علی۔

’وہ اپنے علی میاں ہیں نا۔۔؟‘

’علی میاں ‘

’ارے وہی۔ اعظم گڑھ والے۔ وہ ابھی چالیس دن کے چلہ پر ہیں۔ اس وقت خالی ہوں گے۔

مسجد کی سیڑھیاں طے کرتے ہوئے ادب سے چپل اتار کر نور علی شاہ اور مختار اندر کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ آگے ایک چھوٹی سی گیلری تھی۔ گیلری کے اندر کچھ کمرے بنے ہوئے تھے۔ اور اتفاق ہی تھا کہ علی میاں اس وقت تنہا تھے۔ نور علی شاہ اور مختار کو دیکھ کر وہ مسکرائے۔ نور علی شاہ سے اخبار لیا۔ خبر پڑھی۔ غور سے نور علی شاہ کی طرف دیکھا۔ پھر مسکرائے۔۔

’یہ بات تم نے پہلے کیوں نہیں بتائی نور شاہ؟‘

’کون سی بات؟‘

’ارے یہی کہ تم امجد علی شاہ کے خاندان سے ہو۔‘

نور علی شاہ نے ٹھنڈی سانس لی۔۔راجے رجواڑے اور بادشاہ تو کب کے رخصت ہو گئے صاحب۔ اب تو بس ان نشانیوں کو ڈھونے والے رہ گئے ہیں۔‘

مختار کو جلد بازی تھی۔۔’ آپ پڑھ کر بتائیے نا صاحب۔۔ کیا لکھا ہے۔۔؟‘

علی میاں کی آنکھیں خبروں پر جم چکی تھیں۔ وہ ا ٓہستہ آہستہ اس کا ترجمہ کر رہے تھے۔ Relatives of kings have been living a miserable life۔۔’واجد علی شاہ کے وارث پر زندگی کے دروازے تنگ۔۔ فقیروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور۔۔‘

وہ ایک لمحے کے لیے رکے۔

’آگے کیا لکھا ہے۔‘ مختار کی آنکھوں میں چمک تھی۔

علی میاں نے جیسے کچھ سنا ہی نہیں۔ وہ گہری فکر میں ڈوب گئے تھے۔۔ نور علی شاہ بغور ان کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لے رہے تھے۔ علی میاں نے پلٹ کر ان کی طرف دیکھا۔ اس بار ان کے چہرے پر ناراضگی تھی۔

’یہاں کون ہے جو بادشاہوں کا وارث نہیں۔ لیکن ان بادشاہوں نے ماضی کی بدنام کہانیوں اور رسوائیوں کے سوا دیا ہی کیا ہے۔۔ عیش و عشرت کی محفلیں سجتی تھیں۔ جنگوں میں اپنوں کے لہو بہائے جاتے تھے۔ اسلام تو صرف نام کا تھا۔ اور اسلام کی آڑ میں خود کو ظل سبحانی تک کہلوانے میں ان آقاؤں نے شرم نہیں محسوس کی۔ کیسی بادشاہت میاں۔۔‘

علی میاں، نور علی شاہ کی طرف گھومے۔۔ اور اگر مان بھی لیجئے کہ آپ وارث تھے تو اب آپ کی حقیقت کیا ہے۔۔؟ یہ۔۔ انہوں نے غصے میں اخبار آگے کیا۔ جہاں آپ کی کم اور آپ کے پردے میں مسلمانوں کی رسوائی کی داستان زیادہ لکھی گئی ہے۔۔ یہ ہیں آپ۔۔ اور ساری دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ مسلمان قوم جو پہلے شہنشاہیت کا دم بھرتی تھی اب گٹر میں پڑی ہے۔ اور میاں چلیے مان لیتے ہیں کہ آپ نواب گھرانے سے ہیں تو آپ کے جد امجد کیا تھے۔۔ کیوں رسوا کیا انگریزوں نے۔۔؟ اودھ سے نکال کر کلکتہ بھیج دیا۔‘

 

ایک لمحہ کے اندر فرماں روایان اودھ کی ہزاروں کہانیاں نور علی شاہ کے ذہن و دماغ میں روشن ہو گئیں۔ محمد علی شاہ اور امجد علی شاہ کے وارثین کی زندگی میں یہ دن بھی آسکتا ہے، اس سے قبل کون سوچ سکتا تھا۔۔  نور علی شاہ کی آنکھیں بند تھیں اور جیسے ابا حضور کے منہ سے بار بار سنی ہوئی کہانیوں کے طاق روشن ہو گئے تھے۔ انگریزی فوج نے لکھنؤ میں قدم رکھا اور بادشاہ وقت کو فرنگی فرمان ملا کہ آپ کا ملک انگریزی محروسہ میں شامل کر لیا گیا۔۔ اور بادشاہ کون، جو بے فکری کے ساتھ اودھ میں رنگ رلیاں منانے میں مصروف تھا۔ ادھر فرمان آیا اور ادھر میرٹھ سے آب و دانہ اٹھ گیا وہاں بھی دل نہ تو لگا تو انگلستان کا سفر کیا اور ادھر میرٹھ سے بنگالے تک غدر کی آگ پھیل چکی تھی۔ ہندستان کی حکومت ایک بزرگ بادشاہ کے سپرد تھی جو خود اپنی جان و امان کی خیر چاہتا تھا۔۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ بزرگ بادشاہ کے ساتھ انگریزوں نے کیا سلوک کیا۔ اودھ پر اب انگریزوں کا غلبہ تھا۔ محلے اجڑتے چلے گئے۔۔ خاندان مٹتے چلے گئے۔۔ نشانیاں گم ہوتی چلی گئیں۔۔ پھر جگہ ملی تو کلکتہ سے کچھ دور، جنوب کی طرف دریائے ہگلی کے کنارے۔ ایک زمانے میں یہاں عالیشان کوٹھیاں تھیں۔ لیکن مفرور بادشاہ نے اودھ کی کہانی سے بھی سبق نہ سیکھا اور یہاں بھی رنگ رلیوں میں ڈوب گئے۔۔ پھر وہ دن بھی آیا کہ مٹیا برج کی یہ کوٹھیاں فرنگی ہمدردی کی محتاج ہو گئیں۔۔ لیکن رحم کی درخواست سننے والا تھا ہی کون۔۔عیش و عشرت کی محفلیں کھو گئیں۔ سامان کوڑیوں کے مول بک گیا۔ اور نور علی شاہ کے والد بتایا کرتے تھے کہ پھر جو تقدیر کو نظر لگی، اس نے از سر نو آباد ہونے کی مہلت ہی نہ دی۔۔ تاج و تخت گیا اور  آنے والی زندگیاں ماضی کی رنگ رلیوں کے ساتھ زوال کی کہانیاں ہی لکھتی رہیں۔۔ اور دادا حضور تک صرف یادوں کا قبرستان رہ گیا تھا۔۔

نور علی شاہ آنکھوں میں امڈ آئے قطرے کو پی چکے تھے۔ انہیں اچانک احساس ہوا مختار بیٹا ان کے چہرے کے کشمکش کو بغور دیکھ رہا ہے۔ مختار کو علی میاں کی باتیں کچھ زیادہ پسند نہیں آئی تھیں۔ اس سے پہلے کہ علی میاں آگے کچھ بولتے مختار نے جھپٹ کر اخبار ان کے ہاتھوں سے چھین لیا۔

’آپ سے خبر پڑھوانے آئے تھے، تقریر سننے نہیں۔۔‘

علی میاں کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور ایک رنگ گیا، اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے، مختار بیٹے نے پلٹ کر ایک وار کیا۔

’اور سن لیجئے۔۔ ہر کوئی ایرا غیر بادشاہوں کے خاندان سے نہیں ہوتا۔ اب اللہ نے یہ دن دکھائے ہیں تو اچھے دن بھی دکھائیں گے۔ چلیے میاں۔۔‘

نور علی شاہ مختار بیٹے کے ساتھ واپس آئے تو جیسے پوری دنیا بدلی ہوئی تھی۔ حال کی سڑکیں سو گئی تھیں، ذہن میں ماضی آباد تھا اور وہ جانتے تھے اس ماضی کی وراثت سے باہر نکلنا کوئی سہل کام نہیں۔۔ نور علی شاہ چونک گئے تھے۔ مختار غور سے ان کے پریشان چہرے کو دیکھ رہا تھا۔

’آپ کیوں پریشان ہیں۔؟‘

’نہیں پریشان نہیں ہوں۔‘

’لوگ اب آپ سے جلنے لگے ہیں۔؟‘

’بھلا لوگ مجھ سے کیوں جلنے لگیں گے۔۔؟‘

کیونکہ۔۔ مختار مسکرایا۔۔ ہمارے پاس،ان کے پاس تو وہ بھی نہیں ہے جو آ پ کے پاس ہے۔۔‘

’میرے پاس۔۔؟‘

’ہاں۔۔‘ مختار کو اچانک علی میاں کی بات آ گئی تھی۔ وہ مسکرایا۔۔ ماضی۔۔ ایسا ہی کچھ بولا تھا نا وہ۔۔ اپنا علی میاں۔۔ ‘ آپ کے پاس ماضی ہے۔۔‘ مختار کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔۔ ہم تو آٹے چاول کا بھاؤ جانتے ہیں اس سے آگے نہیں جانتے ہیں۔ مگر۔ ماضی کو سستے میں نہیں بیچنا چاہئے۔۔ بیچنا ہی ہے تو اس کی صحیح قیمت وصولو نور علی شاہ۔۔ اچھا میں چلتا ہوں۔ دکان کھولنے کا وقت ہو رہا ہے۔۔‘

 

مختار کے جانے کے بعد کافی دیر بعد تک نور علی شاہ وہیں کھڑے رہے۔۔ اب ان کے چہرے پر مسکراہٹ روشن تھی۔ انہیں یاد آیا،حسنہ اجمیر جانے کی ضد کر رہی ہے۔ خواجہ بلائیں گے تو وہ اجمیر ضرور جائیں گے۔ اور کیا پتہ خواجہ کا بلا وا کب آ جائے۔

گھر کی طرف بڑھتے ہوئے اچانک وہ ٹھہر گئے۔ کوئی ان کا نام لے کر آواز دے رہا تھا۔ انہوں نے پلٹ کر دیکھا اور اس آدمی کو پہچاننے میں ذرا بھی بھول نہیں کی۔ یہ وہی آدمی تھا جو اس دن پروفیسر ہکسلے کے ساتھ آیا تھا۔۔

’وہ۔۔ آپ کے گھر سے آ رہا ہوں۔۔‘

’سب خیر تو ہے۔۔‘

فرید کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ ’میں فرید ہوں۔۔ فرید شیخ۔ پرانی دلی میں رہتا ہوں۔ اس دن آپ سے تعارف نہیں ہوسکا‘

’جی۔۔ کہیے۔‘ نور علی شاہ کے ذہن و دماغ میں ابھی بھی مختار کی آواز گونج رہی تھی۔۔اس لیے اس بار انہوں نے اپنے لہجے میں توازن کو برقرار رکھا تھا۔۔

’وہ۔۔ پروفیسر ہکسلے۔۔ جو اس دن ملنے آئے تھے۔‘

’جی۔۔ معلوم ہے۔ آج خبر بھی دیکھ لی۔۔‘ اس بار نور علی شاہ کے چہرے پر سختی نمودار ہوئی۔۔

’وہ آپ سے دوبارہ ملنا چاہتے ہیں۔ مگر اس بار آپ کے گھر نہیں۔ہوٹل میں۔۔ جہاں وہ ٹھہرے ہیں۔۔

’کیوں ؟ میں جان سکتا ہوں۔۔‘

’کیوں نہیں۔‘ فرید کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔۔ وہ آپ سے آپ کے بارے میں مزید باتیں دریافت کرنا چاہتے ہیں۔‘

’باتیں دریافت کرنا نہیں چاہتے۔۔‘ نور علی شاہ کے لہجے کی سختی برقرار تھی۔۔ وہ میرا ماضی خریدنا چاہتے ہیں۔۔‘

’جی۔۔‘۔۔فرید اچانک چونک گیا تھا۔

’اب اس ماضی کی قیمت لگے گی صاحب۔ ہکسلے صاحب سے کہہ دینا۔ بادشاہوں کی داستان سستے میں نہیں بیچی جائے گی مجھ سے۔‘

نور علی شاہ نے فرید کے چہرے کے تاثرات پڑھنے کی کوشش نہیں کی۔ مگر وہ آگے بڑھ گئے۔۔ لیکن اس بار فرید کا چہرہ ایک نیا رنگ لے چکا تھا۔ فرید خود اپنے چہرے پر نمودار ہوئے اس رنگ سے واقف نہیں تھا۔ وہ نور علی شاہ کو دور تک جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ لیکن اب اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آ گئی تھی۔ اس نے گردن کو تیز جھٹکا دیا۔ پھر سرعت سے آگے بڑھ گیا۔

وہ اس بات سے واقف نہیں تھا۔ کہ پروفیسر ہکسلے پر نور علی شاہ کی ان باتوں کا رد عمل کیا ہو گا۔۔ مگر یہ نور علی شاہ وہ نہیں تھا، جسے اس دن اس نے ایک ٹوٹے پھوٹے خستہ حال گھر میں دیکھا تھا۔ یہ نئی تبدیلی کی دستک تھی۔۔

فرید شیخ کو اچانک اس کھیل میں مزہ آنے لگا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۴)

 

کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ

مشرق سے نکلتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

سورج آہستہ آہستہ مغرب کی طرف گم ہوتا جا رہا تھا۔ بستی حضرت نظام الدین کے اونچے نیچے مکانوں سے دھوپ غائب ہو چکی تھی۔۔ نور علی شاہ گھر واپس لوٹے تو میر باقر کی آواز گلیوں اور چوکھٹ سے ہوتی ہوئی ان کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ یہیں سیماب کباب والے کی دکان کے قریب میر باقر اکثر ٹیلے پر بیٹھ جاتا۔۔ اور پھر وجد کی کیفیت اس پر طاری ہو جاتی۔۔

گوری سوئے سچ پر مکھ پر ڈارے کیس

چل خسرو گھر اپنے سانجھ بھئی چودس

فرید شیخ کا چہرہ اوجھل تھا اور اب وہ ایک روحانی کیفیت سے سرشار تھے۔۔ لیکن تب تک نور علی شاہ کے علم میں کہاں تھا کہ اخبار میں چھپی ہوئی خبر اپنا اثر دکھا چکی ہے۔۔ وہ گھر پہنچے تو پریشانی کے عالم میں ٹہلتے ہوئے اسلم کو دیکھ کر چونک گئے۔

’کیا بات ہے۔۔؟‘

’کہاں دیر لگا دی آپ نے؟‘

’دیر تو روز ہی ہو جاتی ہے۔ مگر بات کیا ہے۔۔‘

اسلم غور سے نور علی شاہ کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔’ کبھی کبھی ڈر لگتا ہے بھائی۔ مٹیا برج سے لٹے پٹے یہاں کی خاک نصیب ہوئی ہے۔ خدا نخواستہ یہاں سے بھی جانا پڑا تو آسرا کہاں ملے گا؟‘

’اب یہ کیا بات ہوئی میاں۔ نشہ یا بھانگ چڑھا کر تو نہیں آ رہے۔‘

’ارے نہیں۔‘ اسلم نے سنجیدہ ہونے کی کوشش کی۔ حالات اچھے نہیں بھائی۔ بھابھی کی طبیعت بھی خراب ہے۔ اس لیے آگے کی زندگی کے بارے میں سوچ کر ڈر جاتا ہوں۔‘

’اب اس طرح ڈر ڈر کر رہے تو زندگی گزر چکی میاں۔‘

اسلم نے غور سے بھائی کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کا جائزہ لیا۔

’وہ۔۔ خواجہ رجب ہاشمی کے یہاں سے بلاوہ آیا تھا۔‘

’بلاوہ۔‘اس بار نور علی شاہ چونک گئے تھے۔

’ایک لڑکا آیا تھا۔ دو بار آپ کو کھوج کر جا چکا ہے۔۔‘

’خواجہ رجب ہاشمی؟۔‘ نور علی شاہ کے ذہن و دماغ میں ہلچل ہوئی۔ اتنی مدت بعد رجب ہاشمی صاحب کو انکا دھیان کیسے آیا۔۔ دلی، رحمتوں کی چوکھٹ پر قدم دھرنے کے بعد ہی نور علی شاہ کو خواجہ رجب ہاشمی کے بارے میں معلومات ہوئی تھی۔۔ بستی کے معزز اور پرہیزگار گھرانے سے تعلق رکھنے والے خواجہ رجب ہاشمی جس کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ دیں، تجلیات اور روزگار دونوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔۔ اور وہ مفلس و نادار ایک خواجہ کے آستانے پر سر رکھنے کے بعد خواجہ پیر کی چوکھٹ پر حاضر ہوا تھا۔ اور بڑی بڑی آنکھوں نے کچھ وقفے اسے دیکھنے کے بعد اپنا فیصلہ سنادیا تھا۔

’ہم تو خود اس چوکھٹ کی خاک پا ہیں۔ تمہیں جو ملنا ہے اسی در سے ملے گا۔ اسی خاک سے زرہ کوہ نور ہوتا ہے۔‘

نور علی شاہ واپس آ گئے۔۔ لیکن خواجہ رجب ہاشمی کے تذکرے روز ہی کسی نہ کسی کی زبان پر ہوتے۔ ان کی شخصیت میں ایک وقار، ایک ٹھہراؤ تھا اور لاکھوں تھے، جو ان کی تعظیم میں سرخم کر لیا کرتے تھے۔ نور علی شاہ کی آنکھوں میں استعجاب کی قندیلیں روشن تھیں۔

خواجہ رجب ہاشمی نے بلایا۔’ خیریت۔۔‘

٭٭

 

دربار خالی تھا۔ قالین پر سفید چادر بچھی ہوئی تھی۔ مسند پر گو تکیے رکھے تھے اور ایک گو تکیہ کا سہارا لیے ہوئے خواجہ رجب ہاشمی گہری نگاہوں سے نور علی شاہ کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔ خواجہ صاحب کچھ دیر تک فکر میں ڈوبے رہے پھر ان کی طرف دیکھا۔

’تو آپ واجد علی شاہ کے خاندان سے ہیں ؟‘

’جی۔۔‘ نور علی شاہ کے کمزور وجود پر یہ آواز کسی برق کی طرح گونجی تھی۔

’ہونہہ۔‘

رجب ہاشمی نے دوبارہ پلٹ کر ان کی آنکھوں میں دیکھا۔۔’ واجد علی شاہ کے معاشقوں کی بھی ایک لمبی داستان ہے۔۔ ان کی پہلی شادی تو اس وقت ہوئی جب ان کی عمر محض ۱۵ برس کی تھی۔ جن سے شادی ہوئی ان کا نام عالم آرا بیگم تھا۔ اور وہ ان سے پانچ سال بڑی تھی۔‘

’جی۔۔‘

’واجد علی شاہ کی اور بھی کئی بیگمات تھیں۔۔ خواجہ رجب ہاشمی کی آنکھیں غور سے نور علی شاہ کی ٹھہری ہوئی پتیلیوں کا معائنہ کر رہی تھیں۔

’جی۔۔‘

’ان کی بیگمات سے بھی کئی کئی بچے ہوئے۔۔ ‘ ذرا ٹھہر کر کہا گیا۔۔’ قیاس لگانا آسان ہے کہ وہ کثیر العیال تھے۔۔‘

’جی۔۔‘

خواجہ رجب ہاشمی غور سے اب بھی اسے پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔’ تاریخ میری مضبوطی بھی ہے اور کمزوری بھی۔ آپ کو اپنی اس تاریخ کا کچھ اندازہ ہے‘

نور علی شاہ کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ خواجہ تاریخ کے بہانے ان سے کیا جاننے اور پوچھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر اب وہ وقت آ چکا تھا، جب تاریخ کے رستے ہوئے زخم سے کراہتی ہوئی ایک کہانی باہر آنے کا راستہ دیکھ رہی تھی۔ یہ وہ کہانی تھی جسے وہ بہت حد تک بھول چکے تھے۔ یہ وہ کہانی تھی جس کے ذکر پر ابا حضور لیاقت علی شاہ کے ہونٹوں کا ذائقہ بدل جاتا اور وہ کئی دنوں تک مغموم دکھائی دیتے۔ نور علی شاہ رجب علی ہاشمی کے سوالوں کی تہہ تک اتر چکے تھے۔ اور یہ وہی لمحہ تھا جب انہیں سچائی کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی برائی نظر نہیں آئی۔

’ان کا نام شیریں آرا بیگم تھا۔۔‘

’ہونہہ۔‘ خواجہ صاحب نے گہری سانس لی۔۔’ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ نکاح تھا یا متعہ۔۔؟‘

’متعہ۔۔‘

’یعنی کچھ برس کے بعد یہ واجد علی شاہ کی زندگی سے الگ ہو گئیں۔۔ کہانی اب صاف ہوئی ہے۔۔‘ خواجہ رجب ہاشمی کے ہونٹوں پر طنز آمیز مسکراہٹ تھی۔۔’ اور اس کے باوجود آپ۔۔‘

’متعہ بھی نکاح ہوتا ہے۔‘

’کانٹیکٹ میرج۔۔‘ خواجہ مسکرائے۔۔’ آپ جانتے ہیں۔ صبح کا اخبار پڑھ کر میں کیوں پریشان ہوا۔۔ اس سے قبل بھی واجد شاہ کے خاندان کا وارث ہونے کی، اپنی اس زندگی میں کم سے کم دس سے زائد خبریں میں پڑھ چکا ہوں۔ آپ بستی حضرت نظام الدین کے نہ ہوتے تو آپ کو تکلیف بھی نہ دیتا۔ مگر۔۔ غصہ بھی آتا ہے۔ اور رحم بھی۔ مسلمانوں نے اپنی نیلامی لگانے کے لیے کیسے کیسے حربے استعمال کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ چلیے، تسلیم کرتے ہیں کہ شیریں آرا بیگم سے متعہ نہیں بلکہ نواب صاحب کا نکاح ہوا تھا۔۔ پھر کیا ایک آزاد ملک میں ان کے جائز اور ناجائز وارثین اپنی وراثت کا حساب مانگتے پھریں گے۔۔؟ اور حکومت اتنی سادہ لوح کہ بھر بھر جھولیاں۔ وہ آپ کی طرف لٹاتی رہے گی۔۔ کیا یہ آپ کو نہیں لگتا کہ یہ آپ کے ساتھ مسلمانوں کی بھی توہین ہے۔۔؟‘

نور علی شاہ کے جسم میں ہلچل ہوئی۔ ایک لمحہ کے لیے ہزار داستان کو نگاہوں کو فروزاں کر گئیں۔۔ مگر وہ مطمئن تھے۔ اس چھوٹی سی زندگی میں وہ اتار چڑھاؤ کے ایسے ایسے رقص دیکھ چکے تھے کہ خواجہ رجب ہاشمی کی باتیں بجلی کی طرح لہرائیں اور گم بھی ہو گئیں۔۔ وہ جواب دے سکتے تھے۔۔ اور جواب نور علی شاہ کے پاس موجود بھی تھا۔ مگر وہ مطمئن تھے۔ ابھی بہت سی باتوں کے جواب باقی ہیں اور وقت آنے پر عمر و عیار کی زنبیل سے ان جوابوں کو نکالا جا سکتا ہے۔۔ اس درمیان وہ نگاہیں اٹھا کر گھر کے کہنہ ہوتے نگار و نقوش کو دیکھتے رہے۔۔ ذہن کو دور لے جانے کے لیے یہ ایک بہتر راستہ تھا۔ نور علی شاہ اس امر سے واقف تھے کہ دہلی اور لکھنؤ کے مکانوں کی ظاہری نمائش شاہی محلات کے لیے مخصوص تھی۔ امرا کے مکانات کے باہری حصے میں کشش برائے نام ہوتی اور ایسا اس لیے بھی کیا جاتا کہ بادشاہوں کی نظر میں اکثر ایسے خوبصورت اور شاندار مکانات آ جاتے۔۔ اور پھر ان مکانوں کے مالک اپنے لیے کوئی اور بندوبست کرتے نظر آتے۔۔ اسی لیے مکان باہر سے کچھ اور ہوتا لیکن اندر سے اس کی نفاست اور شان کی داستان ہی کچھ اور ہوتی۔۔ اس لیے دہلی میں مقبروں کے سوا ایک بھی ایسی عالیشان عمارت کا سراغ نہیں ملتا۔ جو کسی دولت مند تاجر نے بنوائی ہو۔۔ کچھ یہی قصہ رجب ہاشمی کے اس مکان کے ساتھ بھی تھا۔۔ باہری صدر دروازے اور بے رونق ہوتی دیواروں میں صدیوں کی تھکن موجود تھی۔ شاہجہانی محرابوں کے نمونے اس کمرے میں بھی دیکھے جا سکتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی قوسوں کو جوڑ کر ایک بڑی محراب کو شکل دے دی گئی تھی۔ نور علی شاہ اس وقت چونکے جب انہیں خواجہ رجب ہاشمی کی سرد آواز سنائی دی۔

’کیا سوچ رہے ہیں۔۔؟‘

’کچھ نہیں۔‘ نور علی شاہ کی آنکھیں اب بھی بوسیدہ ہوتے نقش و نگار کو دیکھ رہی تھیں۔۔

خواجہ رجب ہاشمی کے ہونٹوں پر حرکت ہوئی۔۔ ’سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا ہوا۔۔ سب کچھ لٹ جانے کے بعد بھی تاریخ کا بھروسہ رہ جاتا ہے۔ ایک تاریخ بقول شاہد احمد دہلوی درو سے بلبلاتی ہوئی زبان دکھاتی ہے۔۔ اور دوسری تاریخ عبرت کی ہولناک سرنگ سے گزرتے ہوئے نیا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔۔‘

’وہی کر رہا ہوں۔۔‘

جو آپ کر رہے ہیں، کیا اسے نئی تاریخ کی عبارت لکھنے سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔۔‘

خواجہ رجب ہاشمی زور سے ہنسے۔۔ پابند شرع باپ امجد علی شاہ نے آنکھیں موند لیں اور حکومت بڑے بیٹے واجد علی شاہ کو مل گئی۔ یہ وہ عہد تھا جب ہندستان کی تمام سلطنتیں تباہ ہو چکی تھیں۔ اور دولت برطانیہ کو حق حاصل تھا کہ وہ ان کمزور اور عیاش حکمرانوں کو سبق سکھاتی۔۔ پنجاب، دکن، بنگال اور دہلی دربار پر برا وقت آیا۔ اور اودھ کی سلطنت ایک ایسے حاکم کے سپرد کی گئی جو عیش و نشاط میں ڈوبا ہوا موسیقی کے نئے سروں کو آواز دے رہا تھا۔۔ موسیقی اور رقص و نشاط کی محفلیں آراستہ کرنے والے بھول گئے کہ دولت برطانیہ ان کے نقوش مٹانے پر آمادہ ہے۔ اور پھر جو ہوا وہ آپ کے سامنے بھی ہے۔۔‘ خواجہ ثانی نے الجھن بھری نگاہوں سے نور علی شاہ کی طرف دیکھا۔

’بیگم نے لکھنؤ کب چھوڑا۔۔؟‘

’غدر کے بعد۔۔‘

’ہونہہ۔ واجد علی شاہ تو پہلے ہی غدر سے ایک سال قبل لکھنؤ چھوڑ کر کلکتے جا چکے تھے۔ اور کلکتہ اس لیے گئے تھے کہ دوبارہ اپنی حکومت کی واپسی کا خواب دیکھ سکیں۔۔ جب گورنر جنرل ہند کو منانے میں نا کام رہے تو لندن، ملکۂ انگلستان سے رحم کی اپیل کی گئی۔ اور اس اپیل کے لیے اپنے خاندان کو لندن بھیج دیا۔‘

’بادشاہ اپنی صحت کی خراب کی وجہ سے لندن نہیں گئے۔ لیکن انہیں امید تھی کہ ملکہ کی ہمدردی ان کے حصے میں آئے گی۔ اور دوبارہ تاج و تخت پر ان کا قبضہ ہو جائے گا۔ مگر۔۔ ایک سال بعد ہی غدر ہو گیا۔ میرٹھ سے بنگالہ اور دلی تک ایسا کون تھا جو اس آگ کی زد میں نہ آیا۔۔ اودھ کا برا حال تھا۔ بادشاہ کے دس برس کے نابالغ بچے برجیس قدر کو تخت پر بیٹھا دیا گیا۔ اور ادھر ملک کی قسمت ایک بوڑھے بادشاہ کو سونپ دی گئی۔

نور علی شاہ نے غور سے خواجہ رجب ہاشمی کی طرف دیکھا۔۔ تاریخ میں بہت سے پیوند لگے ہیں صاحب۔ اتنے پیوند کہ تاریخ کی ایک کڑی کو دوسری کڑی سے جوڑ کر دیکھنا اور دلیلیں قائم کرنا بھی کبھی کبھی دشوار طلب ہو جاتا ہے۔ حکومت برطانیہ باغیوں کو صاف کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ گولے اور بارود چھوڑے جا رہے تھے۔ اور ادھر یہ آگ اودھ سے کلکتہ تک پہنچ چکی تھی۔ لندن میں اپیل پر اس واسطے عمل نہ ہوسکا کہ حکومت برطانیہ نے کہا کہ وہ ملک ابھی ہمارے قبضے میں نہیں، باغیوں کے قبضے میں ہے۔ بادشاہ حراست میں تھے اور اودھ کے گولی کوچوں میں بھٹکتی ہوئی بیگم شیریں آرا کو خیال آیا کہ اب مٹیا برج ہی ان کا محافظ ہوسکتا ہے۔ ادھر فرنگی فوج اور ادھر غدر کے متوالے باغی۔۔ اور ان سے الگ بیگم شیریں آرا کسی طرح مصائب کا سامنا کرتی ہوئی مٹیا برج پہنچ گئیں۔۔ بادشاہ خرچ کی تنگی سے پریشان انگریزوں کو خوش کرنے میں لگے تھے۔ غدر کی آگ سرد پڑ گئی تھی۔ بادشاہ مٹیا برج واپس آ گئے لیکن شیریں آرا کو محل میں تو جگہ نہ مل سکی ہاں بادشاہ نے رحم کھاتے ہوئے ایک چھوٹے سے مکان اور ذاتی خرچ کا بندوبست ضرور کر دیا۔۔ پھر تاریخ نے کتنے ہی رنگ دکھائے۔ تقدیر نے کتنے ہی موسم دیکھیے۔۔‘

خواجہ رجب ہاشمی مسکرائے۔ ’اچھا کیا جو کچھ دیر تاریخ کی سیر کر لی۔ مگر تاریخ سے کچھ سیکھا نہیں آپ نے۔‘

’سیکھا نہیں۔۔؟‘ نور علی شاہ چونک گئے۔

’ہاں۔‘ رجب ہاشمی مسکرائے۔ تاریخ بے رحم ہوتی ہے۔ لیکن وہ کہیں نہ کہیں ہمارے لیے سیکھنے اور عبرت کا سامان کر جاتی ہے۔‘

’اور جو تاریخ سے اس کے باوجود سبق نہیں سیکھتے۔۔؟‘

’تاریخ ان پر دوبارہ حملہ کرتی ہے۔ دوبارہ وہی کھیل شروع کرتی ہے۔ پھر نام و نشان مٹا کر چھوڑتی ہے۔‘

نور علی شاہ کے لیے اب صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ پہلے تو ان کو غصہ آیا، پھر یہ غصہ آہستہ آہستہ مسکراہٹ میں تبدیل ہوتا گیا۔ خواجہ ہاشمی، نور علی شاہ کے چہرے کے، بدلتے ہوئے رنگوں کو دیکھ رہے تھے۔

’آپ نے تاریخ سے نصیحت لی ہوتی تو۔۔‘

’بس۔۔‘ نور علی شاہ نے ہاتھ کا اشارہ کیا۔۔’ آپ نے تاریخ سے عبرت لی۔۔؟ اور آپ کیا ہیں خواجہ رجب ہاشمی۔۔؟ نشانے پر صرف میں ہی کیوں۔۔ میں قصور وار ہوں تو میں اس کی سزابھی برداشت کر رہا ہوں۔۔ مگر خدا کے لیے بتائیں گے کہ آپ کیا ہیں ؟ اور آپ کے لہجے میں اگر ا مجد علی شاہ کے وارثوں کے لیے تہمت اور الزاموں کے گلدستے سجائے جا رہے ہیں تو آخر کیوں ؟

خواجہ رجب ہاشمی کو اس جواب کی امید نہ تھی۔ حیرانی و پشیمانی کی ایک لہر چہرے پر آئی اور تھم گئی۔۔

نور علی شاہ غصے میں تھے۔۔ آپ بھی تو انہیں میں سے ایک ہیں خواجہ رجب ہاشمی صاحب۔۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ تقدیر نے آپ کو ایک خوبصورت چور دروازہ دکھا دیا۔۔ آپ کا خاندان سجادہ نشیں رہا ہے۔۔ جانتا ہوں۔ گدی ملی ہوئی ہے۔ ولیوں کے ولی کی چوکھٹ پر ایک حکومت آپ کی بھی رہی ہے۔۔ سجادہ نشیں، گدی نشیں۔۔ اور یہ سلسلہ صدیوں پر محیط۔۔ ولی کا دربار کھلا ہے۔ اور ولی کے دربار میں آپ کا اپنا دربار بھی کھلا ہے۔ پیسے برس رہے ہیں۔ جو آتا ہے کچھ دے کر جاتا ہے۔۔ اور صدیوں سے اسی گدی کی بدولت آپ کا گھر گھرانہ چلتا رہا ہے مگر آپ نے کیا کیا۔۔ آپ کی محنت کہاں ہے۔۔‘

نور علی شاہ نے اس بار کسی فاتح بادشاہ کی طرح مسکرا کر خواجہ رجب ہاشمی کی طرف دیکھا۔۔’ تاریخ سے آپ بھی کھیلتے رہے۔ اور میں بھی۔ آپ ایک تاریخ کو جانشینی اور گدی کا نام دے کر پیسے وصول کرتے رہے۔۔ میں نے یہ ہنر اب جا کر سیکھا ہے تو برا کیا ہے۔۔ آپ کی جھولی بھرتی جا رہی ہے اور میری خالی۔۔ اور خواجہ رجب ہاشمی۔۔ یہ ہنر بھی مجھے فرنگی سکھا گئے کہ تاریخ کو بیچا جا سکتا ہے۔ آپ بیٹھے بیٹھائے ایک تاریخ کی کمائی کھا رہے ہیں۔۔ تو مجھ سے ناراضگی کیوں۔۔ ہاں، اب تک کسی فیصلہ پر نہیں پہنچا تھا۔۔ آج آپ نے تاریخ کی سرنگوں سے گزارا تو میرا فیصلہ مستحکم ہو چکا ہے۔۔ اگر میری تاریخ اچھے پیسوں میں فروخت ہوسکتی ہے میں اسے ضرور بیچنے کی کوشش کروں گا۔۔ اور اس کے لیے مجھے کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں ہو گی۔‘

 

خواجہ رجب ہاشمی کا جسم کسی پتھر کی مورت میں تبدیل ہو چکا تھا۔ انہیں امید نہیں تھی کہ کوئی ایرا غیرا اس طرح بھی، ان کے اپنے دولت خانے میں انہیں ذلیل کر کے جا سکتا ہے۔۔ نور علی شاہ نے جاتے ہوئے سلام کیا تو وہ اچھی طرح جواب کی ادائیگی بھی نہ کرسکے۔ اور اس وقت انکا پوا جسم مثل بید کانپ رہا تھا۔ صدیوں کے تکبرو تہذیب اور خاندانی وقار کو کوئی ایک لمحہ کے اندر داغدار کر کے چلا گیا تھا۔۔ جبیں پر پسینے کی بوندیں چمک رہی تھیں اور جسم جیسے برف میں دبی لاش میں تبدیل ہو چکا تھا۔

نور علی شاہ باہر نکل آئے تھے۔ بستی نظام الدین کی گلیوں کی رونق ابھی بھی ماند نہیں ہوئی تھی۔ وہ پہلے سے کہیں زیادہ پرسکون تھے۔ جیسے تاریخ کی گرد جھاڑتے ہی انہیں آرام مل گیا ہو اور نیا راستہ بھی۔۔

٭٭٭

 

 

 

(۵)

 

ابا حضور لیاقت علی شاہ اور ان سے وابستہ ہزار داستانوں کے اوراق نور علی شاہ کے سامنے کھلتے چلے گئے تھے۔ شہنشاہیت کے قدموں تلے خاک تھی۔ اور نشیمن میں مفلسی کا بسیرا۔ نور علی شاہ کو سب کچھ یاد تھا۔ اماں تو ماضی کو کوستے ہوئے اس کے بچپن میں ہی ساتھ چھوڑ گئیں۔ اور لیاقت علی شاہ اس ماضی کے تذکرے سے ہی برہم نظر آتے۔۔ کہ ان داستانوں میں عیش پرستیوں اور نظارے بازیوں کے سوا ہے ہی کیا۔۔ اور ہمارے لیے کچھ چھوڑا ہو تاتو ماضی کے شیشہ وسنگ بھی قبول کر لیتا۔ لیکن نور علی شاہ تک آتے آتے، حقیقتیں بہت حد تک بدل چکی تھیں۔ بستی حضرت نظام الدین کی چوکھٹ پر جگہ ملی تو وہ کتنے ہی چہرے اور رنگوں میں تقسیم ہوتے گئے۔ کبھی داتا کے دربار میں خادم بن آ جاتے۔۔

’آئیے صاحب۔۔ ما شاء اللہ۔۔ پہلے یہاں زیارت کیجئے۔‘

’۔۔چپل یہاں اتاریے۔۔‘

’سر پر ٹوپی پہن لیجئے۔ بغیر ٹوپی کے دربار میں نہیں جاتے۔‘

پھر کسی اجنبی کو لے کر بھائی صدیق کے پاس پہنچ جاتے۔۔’یہاں جو مرضی نذرانے دے دیجئے۔ یہاں صبح و شام غریبوں مسکینوں کے لیے لنگر چلتے رہتے ہیں۔ اللہ خوش رکھے۔ ولیوں کے ولی حاجت مندوں کو خالی ہاتھ نہیں بھیجتے۔‘

اس طرح بھائی صدیق سے بھی نذرانے مل جاتے۔ زیارت کو آنے والا کچھ نہ کچھ دے کر ہی جاتا۔ اور یہاں تو پوری دنیا سے آنے والوں کی کمی نہ تھی۔

اور اب ایک نیا رنگ سامنے آیا تھا۔ نور علی شاہ نے اخبار کو سنبھال کر رکھا تھا۔ بلکہ اس خبر کی فوٹو کاپی کرالی تھی۔ اور ایک کاپی ہر وقت ان کی جیب میں محفوظ رہتی۔۔

حسنہ کی بیماری کو لے کر وہ پریشان تھے۔ اور نور علی شاہ سے کہیں زیادہ پریشان تھا، ان کا چھوٹا بھائی اسلم علی شاہ۔

’بھابھی کو کسی اچھے اسپتال میں نہیں دکھایا جا سکتا؟‘

’کیوں نہیں۔‘

’پھر پیسوں کا انتظام کیجئے۔ بھابھی بولتی نہیں تو کیا ہوا، میں جانتا ہوں، اندر سے وہ بہت بیمار ہیں۔‘

’انتظام ہو جائے گا۔‘

نور علی شاہ نے کہنے کو تو کہہ دیا مگر انہیں اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ اتنے پیسوں کا بندوبست آسان نہیں ہے جس سے حسنہ کو کسی اچھے اسپتال میں دکھایا جا سکے۔ مگر حضرت کا آسرا تھا اور اسی امید پر ان کے قدم درگاہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔

عصر کی نماز ختم ہو چکی تھی۔ عصر اور مغرب کے وقفے میں اس علاقہ کی رونق کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہے۔ دریوزہ گر سے لے کر ہوٹلوں، چائے والوں اور غالب اکادمی کے قریب ہزاروں نئے چہرے ہوتے جو الگ الگ گروپ میں، گفتگو میں مصروف ہوتے۔ تبلیغی جماعت والی مسجد کے پاس بھی نئے چہرے نظر آتے جو باہر سے چلہ یا تبلیغ کے لیے آئے ہوتے۔

نور علی شاہ کو جیسے اپنی دعا قبول ہوتی نظر آئی اور ان کی آنکھیں اس شخص پر جم کر رہ گئیں جو مسجد کے باہر لوگوں سے گھرا ہوا تھا۔ پختہ گورا رنگ۔ نورانی چہرہ۔ سیاہ بڑھی ہوئی داڑھی۔ چہرے سے سرخی بھی جھانک رہی تھی۔ قد چھ فٹ سے بھی نکلتا ہوا۔ ہٹا کٹا تندرست۔ اب نور علی شاہ ان چہروں کو پہچاننے لگے تھے۔ ممکن ہے، روس کے کسی شہر یا ازبکستان سے آیا ہو۔ ان لوگوں کے پاس پیسوں کی کمی کہاں رہتی ہے۔ نور علی شاہ تذبذب میں تھے کہ وہ آگے بڑھیں یا نہیں، بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ وہ ابھی تک خواجہ نے غلط کیا کہا تھا۔

شیریں آرا بیگم کے بارے میں لیاقت علی شاہ نے ایک سرد سی آہ کے بعد بتایا تھا کہ ان کا تعلق طوائف گھرانے سے تھا۔ شہنشاہ کی نظر پڑی اور لٹو کی طرح گھوم گئے۔ متعہ کیا اور حرم میں لے آئے۔ جب حضرت بیگم نے برجیس قدر کے نام کا اعلان کیا تب تک شیریں آرا بیگم کی تقدیر میں بھی غدر کی سیاہی آ چکی تھی۔ کہاں وہ وقت کہ سرکار بنی بیٹھی تھیں۔ دروازے پر پالکی موجود رہتی۔ شہر کی حالت بگڑی تو تین پتیلیاں زیور کی بھری لے کر شہزادیوں کے ساتھ یہ بھی بھاگ کھڑی ہوئیں۔ غدر کی لوٹ مچی تو پتیلیاں خالی اور زیورات غائب۔۔ بیگم حضرت محل سے ملنے گئیں تو جواب ملا کہ نہ میرے پاس تنخواہ دینے کے لیے خزانہ ہے۔ اور نہ حضرت میاں کا ساتھ کہ وہ تو کلکتہ جا کر بس گئے۔۔ اور یہاں میں تنہا ولی عہد کو لے کر اپنی جنگ لڑ رہی ہوں۔۔ شیریں آرا بیگم کو یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ یہاں کسی آسرا کی امید ہی فضول ہے۔ خود حضرت بیگم کیا تھیں۔ فیض آباد کے ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ افتخار النساء بیگم نام تھا۔ آباء  و اجداد ایران سے آ کر اودھ میں بس گئے تھے۔ حضرت محل کی تعلیم ایک رقاصہ کی شکل میں ہوئی۔ واجد علی شاہ کو وہ اتنی پسند آئیں کہ اپنے حرم میں جگہ دی۔ جب بیٹے کی ولادت ہوئی تو رتبہ بڑھا اور نواب صاحب نے ان کو اپنے ازدواج میں شامل کر کے ان کا رتبہ بڑھا دیا۔۔بیگم حضرت محل کے نیپال میں پناہ لینے اور لکھنؤ میں انگریزوں کا قبضہ ہونے سے قبل ہی شیریں آرا بیگم کلکتہ کے لیے کوچ کر چکی تھیں۔۔ نور علی شاہ نے پلکیں جھپکائیں اور ایک بار پھر اس روسی شہزادے کی طرف دیکھا۔ آگے بڑھتے بڑھتے رک گئے۔ مسکرائے اور پھر گردن جھٹک کر گھر کی طرف بڑھ گئے۔۔

وہ ہی پروانے، وہی محفل، وہی عیش و طرب

دوسری شب آئے گی شمع شبستاں، غم نہ کھا

اے طبیب جانِ نازک بہر درماں غم نہ کھا

کر دوائے درد سب، نکلیں گے ارماں غم نہ کھا

خوش خرامی سے عجب کیا ہر روش گل لالہ ہو

پھر تجھے سرسبز کر دیں گے گلستاں، غم نہ کھا

گھر کی طرف بڑھتے ہوئے نور علی شاہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ خدا جانے یہ مسکراہٹ فتح کے احساس کی تھی یا ازبکستان کے شہزادے کو بخش دیے جانے کے احساس کی۔۔ مگر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ مدتوں بعد وہ وجد کی کیفیت میں لوٹ آئے تھے۔۔ اور ان کا جی چاہتا تھا کہ وہ گھر میں داخل ہو کر واجد علی شاہ کے رہس، بھرے رنگ کو خود پر طاری کر لیں۔ پاؤں میں گھنگھرو باندھ لیں اور یوں تھرکنے لگیں کہ ساری فضا رقص کرنے لگے۔۔ یہ خیال کوئی پہلی بار نہیں آیا تھا۔ بلکہ وہ بچپن کے دنوں میں کئی بار ایسا کر چکے تھے۔ اور انہیں یاد ہے، بچپن کی اداؤں پر بھی ابا حضور لیاقت علی شاہ کی ناراضگی دیکھنے کے لائق ہوتی۔ تب اماں زندہ تھیں۔۔اماں مسکراتیں تو لیاقت علی شاہ چیخ اٹھتے۔

’اب یہ کمینگی برداشت سے باہر ہے۔ میاں نور علی بڑے ہو رہے ہیں۔ اور یہی دن تربیت کے ہیں۔ مگر نور علی تربیت کے سبق کیا سیکھیں گے، خون میں رقص اور مجرے کے گھنگھروؤں کے سر ملے ہوئے ہیں۔۔ کہتے ہیں حضرت پیا تو عمر کے پانچوں سال ہی چالیس سالہ عورت پر مر مٹے تھے۔ اور اپنی رسوائیوں کی مثنوی تک لکھ ڈالی۔۔ ہے ہے۔۔ طوائفوں کا شوق نہ ہوتا تو ہم بھی نہ ہوتے اور نور علی یہ اخلاق سوز حرکت نہ کرتے کہ کم بخت بھانڈوں کی طرح ناچے جا رہے ہیں۔‘

’ابھی عمر ہی کیا ہے۔۔ ‘ اماں کہتے کہتے ٹھہر جاتیں۔

لیاقت علی شاہ زور سے چیختے۔ ’یہی عمر تو سمجھانے کی اور روکنے کی ہے۔ ابھی نہیں رکے توکل کیا معلوم، مٹیا برج کے بھانڈ کہلائیں۔‘

لیکن ننھے نور علی شاہ ان باتوں کی گہرائی تک کیسے جاتے۔ رسوائی اور ذلت کی بڑی بڑی باتوں تک رسائی کیسے ہوتی۔ وہ سب کچھ بھول کر پاؤں کو حرکت دیتے۔۔

چمک چمک، دمک دمک آیو گھنگھور بادل، گرج برس

نین جھر جھر رکت بہتیاں، لالن سوں کہ رہے۔۔

سیام گھٹا آئی باوا، پیا درشن بن مورا جیا ترس۔۔

مالن بچے سوں پھولن کمھلات۔۔

چمک۔۔چمک۔۔ دمک۔۔ دمک

مالن بچے۔۔ سوں پھولن کمھلات۔۔

موسیقی کے ساتوں سر جاگ گئے ہیں۔ اور کانوں میں لیاقت علی خاں کی آواز لہراتی ہے۔۔’ تمہاری غلطی نہیں ہے نور علی شاہ۔۔ کہتے ہیں خون کا رشتہ ہوتا ہی ایسا ہے۔ سات پشتوں تک اپنا اثر دکھاتا ہے۔ ابا حضور اور میں موسیقی اور رقص و طرب کی کیفیت سے بے نیاز رہے تو یہ خاندانی تحفہ تمہیں مل گیا۔۔ مگر اللہ کے واسطے ان پیشوں سے دور ہی رہنا۔ حضرت پیا کو انہی عادتوں نے خراب کیا۔ حکومت گئی اور ہزاروں اپنوں کو بے سہارا کر گئے۔۔ خود تو ڈوبے ہی اپنی نسلوں کے نام بھی گمنامی اور ذلت دے گئے۔۔‘

 

گھر کا دروازہ آ چکا تھا۔ دروازے پر دستک دینے تک نور علی شاہ دوبارہ اپنی خاموشی کی دنیا میں واپس آ چکے تھے۔ مگر کیا سچ مچ ایسا تھا؟ ذہن میں اس درمیان ہونے والے واقعات کی آندھی چل رہی تھی۔ آسمان پر بجلی کڑکی تھی۔ اور کمزور جسم میں ابال آیا ہوا تھا۔ آنکھوں کے آگے ایک نہ ختم ہونے والی فلم چل رہی تھی۔ ایک چہرہ پروفیسر ہکسلے کا تھا۔۔ ایک چہرہ فرید شیخ کا۔۔ پھر ایک چہرہ مختار بنیے کا تھا۔ اور ایک چہرہ حضرت پیا کا۔۔ ایک چہرہ شیریں آرا بیگم کا تھا۔۔

رقص وسرور کی محفلیں سج رہی ہیں۔۔ سر جھکائے ہوئے خواجہ سرا جواب کے منتظر ہیں۔ پریوں کی طرح نظر آنے والی طوائفیں آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسرے کو دیکھ رہی ہیں۔ اور حضرت پیا کو زنانہ لباس پہنانے کی تیاری کر رہی ہیں۔ حضرت پیا جھوم رہے ہیں۔ مٹک رہے ہیں۔۔

’ہائے اللہ۔ واری جاؤں۔۔‘

’کیا ادائیں ہیں۔۔ صدقے جاؤں۔۔ واری جاؤں۔۔‘

’پیا باج پیالہ پیا جائے نا۔۔‘

’صدقے جاؤں۔۔ نار میں ناری کے ایسے رنگ پہلے کہاں دیکھے۔‘

’واری جاؤں۔ جان عالم کی مہربانی ہو جائے۔‘

ستار، طبلہ اور تاشہ جیسے سازوں میں حرکت ہوئی۔ سارنگی اور پکھاوج کے سر تیز ہوئے۔ کہیں سے ٹھمری بجی اور کہیں کتھک شروع ہو گیا۔۔ ٹپہ، ٹھمری، غزل اور دادرا گائے جانے لگے۔ رقاصہ کے پاؤں میں بجلی کوندی اور۔۔ گوالیار اور بھوپال سے بلائی گئی جھومن طوائفوں کے سروں سے فضا گونج اٹھی۔۔

اور یہی وہ لمحہ تھا جب حسنہ کمرے میں آئی تو نور علی شاہ پر شہنشاہیت کا حملہ ہو چکا تھا۔۔ وہ حسنہ کو ایسے دیکھ رہے تھے جیسے ایک عیش پسند بادشاہ مسکراتا ہوا معشوق کی نگاہوں کو دیکھتا ہے۔۔ پھر وہ ہوا کہ حسنہ بھی چونک گئیں۔ بڑی ادا سے مسکراتے ہوئے نور علی شاہ نے حسنہ کی طرف دیکھا۔۔

’آ گئیں آپ۔۔‘

’جی۔۔‘

’پکھراج پری اور نیلم پری کا بھیس بدلے بغیر آ گئیں۔‘

’ یہ کیا قیامت ہے۔۔ ‘ حسنہ کو غصہ آ گیا۔

مگر شہنشاہ کی مسکراہٹ برقرار تھی۔۔ پری خانہ سجا یا جائے۔ ٹھمری، خیال، رہس۔۔ دھرپد۔۔ کیا سنائیں گی۔۔؟‘

’پاگل ہو گئے ہیں۔ بیوی کو نچائیں گے۔ بس یہی لے دے کر ایک کسک رہ گئی تھی دل میں۔ ساری زندگی مفلسی میں آٹا گیلا کرتے رہے اور اب ٹھمری سناؤں۔ پکھراج پری اور نیلم پری کو یاد کیا جا رہا ہے۔۔‘

حسنہ نے زور کا دھکا دیا تو جیسے آسمان سے گرے اور کھجور میں اٹکے۔۔ نور علی شاہ نے حیران بھری نگاہوں سے حسنہ کی طرف دیکھا۔

’تم کب آئی؟‘

’میں کب آئی۔ یہ آج نشہ کر کے تو نہیں آ گئے۔‘

’توبہ توبہ کیسی باتیں کرتی ہیں بیگم۔‘

’لو باتیں میں کرتی ہوں یا آپ۔ پتہ نہیں کہاں سے چلے آ رہے ہیں جو گھر میں داخل ہوتے ہی بہکی بہکی باتیں شروع کر دیں۔‘

’میں نے شروع کر دی۔۔؟‘

’اور کیا میں نے۔ نیلم پری اور پکھراج پری کو بلایا جا رہا تھا۔۔ ناٹک زیادہ دیر چلتا تو میں بھی بیٹھی نہیں رہتی۔‘

’پھر کیا کرتیں آپ؟‘

’میں کیا کرتی۔ پھر خود ہی دیکھ لیتے۔ بھری بالٹی پانی ڈالتی تو خود ہی ہوش میں آ جاتے۔‘

نور علی شاہ نے مسکرانے کی کوشش کی مگر حسنہ کا غصہ دیکھ کر ان کے ہونٹ مسکرانا بھی بھول گئے تھے۔ حسنہ پاس آ کر بیٹھ گئی۔ وہ غور سے نور علی شاہ کی طرف دیکھ رہی تھی۔

’اسلم پرانی دلی گئے تھے۔‘

’کیوں۔‘

’اردو بازار کے پاس ایک چھوٹی سی کپڑے کی دکان ہے۔ وہاں کام مل گیا ہے۔‘

’اللہ کا شکر ہے۔۔‘

’مگر اسلم پانچ بجے ہی واپس آ گئے۔ آپ کو تو کوئی خبر نہیں ہو گی۔‘

’اسلم واپس آیا تو مجھے خبر کیوں ہو گی۔؟‘

ساری بستی کو خبر ہے بس ایک آپ کو خبر نہیں۔ جانے کہاں سوئے پڑے تھے کہ دنیا کا کچھ خیال ہی نہیں۔ پرانی دلی میں فضا خراب ہو گئی تھی۔ دکانیں جلدی جلدی بند ہو گئیں۔۔

خدا معلوم، کیا ہونے والا ہے۔‘

’پرانی دلی میں۔۔؟‘

حسنہ کی آنکھیں خوفزدہ تھیں۔ شہر کا ماحول بھی اچھا نہیں ہے۔ اور۔۔‘ اس نے پلٹ کر نور علی شاہ کی طرف دیکھا۔ آپ کو تو کوئی فکر ہی نہیں ہے۔ دو پہر میں میری طبیعت پھر سے خراب ہو گئی تھی۔

نور علی شاہ چونک گئے۔ تمہاری طبیعت بھی خراب ہو گئی تھی۔۔

’ہاں۔‘

’میں موجو بھائی کے پاس بیٹھا تھا۔ تم اسلم کو بھیج تو سکتی تھی۔‘

’اب میں اسلم کو کہاں کہاں بھیجتی۔ وہ اکیلا بیچارہ سارا دن میرے لیے دوڑتا رہتا ہے۔‘

’لیکن میاں اسلم ابھی نظر نہیں آ رہے ہیں۔‘

’میری دوا لانے گئے ہیں۔ آ رہے ہوں گے۔‘

دروازہ تیزی سے کھلا تھا۔ گھبرائے ہوئے اسلم کمرے میں داخل ہوئے۔ چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ حسنہ نے اسلم کی کیفیت کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’کیسا بات ہے۔ پریشان کیوں لگ رہے ہو۔۔‘

’دکانیں بند ہو رہی ہیں۔ شہر کے باہری حصے میں کچھ ہنگامہ ہوا ہے۔‘

’کیا ہنگامہ ؟‘

’یہ تو کسی نے نہیں بتایا۔ شٹر جلدی جلدی گر رہے تھے۔‘

نور علی شاہ پریشان ہو گئے تھے۔ حسنہ کی طبیعت بھی خراب تھی۔ حسنہ کی طبیعت خدا نخواستہ زیادہ خراب ہو گئی تو وہ اسے لے کر ڈاکٹر کے یہاں بھی نہیں جا سکتے تھے۔ ان کا دل گھبرا رہا تھا۔

سن ۱۹۸۴۔۔ آسمان پر بادلوں کے ٹکڑے لہو میں ڈوبے ہوئے معلوم ہو رہے تھے۔ نور علی شاہ کی کہانی سے الگ ہندستانی سیاست کے صفحات پر ایک اور لرزہ دینے والی کہانی لکھی جا رہی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

(۶)

 

اقلیتیں مرنے کے لیے ہوتی ہیں

 

یہ وہ زمانہ تھا، جب سیاست نے اپنا خوفناک کھیل دکھانا شروع کیا۔ گولڈن ٹیمپل سے نکلی ہوئی آگ نے ہندستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ تحریک خالصتان اپنے عروج پر تھی۔ پنجاب میں بغاوت کے آثار تھے اور ملک میں کہرام مچا ہوا تھا۔ حالات بے قابو ہوئے جا رہے تھے۔

نور علی شاہ کو ایسے پر آشوب موسم میں، شدت سے جگجیت سنگھ کی یاد آ رہی تھی۔ کچھ مہینے پہلے تو درگاہ کے اندر جگجیت بابا سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ ہفتہ میں ایک بار درگاہ ضرور آیا کرتے تھے۔ اور یہ جگجیت سنگھ نے ہی بتا یا تھا۔

’یہاں آنے کے بعد جو شانتی ملتی ہے، وہ دکھ سکھ سب بھلا دیتی ہے۔ لاہور سے دلی آئے تو درگاہ پر جو بھی منتیں مانگیں، وہ نظام الدین بابا نے پوری کر دیں۔ بچے کام سے لگ گئے زندگی سے مطمئن تھا کہ چلو ہنستے مسکراتے زندگی کٹ گئی۔ مگر اب تو ڈر لگتا ہے۔۔ پنجاب سلگ رہا ہے۔‘

 

پہلی ملاقات میں ہی جگجیت سنگھ نے نور علی شاہ کا دل جیت لیا۔ نور علی شاہ درگاہ کے قریب پتھر پر بیٹھے ہوئے دیر سے اس سکھ عقیدت مند کو دیکھے جا رہے تھے۔ لال پگڑی۔ چہرے پر جھریوں کا جال مگر انتہائی معصوم اور فرشتوں جیسا چہرہ۔ چلنے میں تکلیف تھی۔ نور علی شاہ دیر سے ان کا جائزہ لے رہا تھا۔ بابا نے سب سے پہلے امیر خسرو ؒ کے مزار کے باہر متھا ٹیکا۔ وہاں سے نکلے تو قوالوں کے پاس کچھ دیر تک بیٹھ گئے۔ قوال جھومتے ہوئے، بے نیاز گانے میں مصروف تھے۔۔

سکھی پیا کو جو میں نے نہ دیکھوں۔۔ تو کیسے کاٹوں۔۔

اندھیری رتیاں۔۔

اندھیری رتیاں۔۔

سکھی پیا کو۔۔

جگجیت سنگھ کچھ دیر تک قوالی میں گم رہے۔ پھر وہاں سے آگے بڑھے۔ اور بابا کے مزار کے پتھر کو چوما۔ عقیدت سے پیچھے ہٹے اور سر جھکا کر، سجدہ کیا۔ زمین کا بوسہ لیا۔ اٹھنے لگے تو پاؤں کی کمزوری نے اٹھنے نہ دیا۔۔ اور یہی وہ لمحہ تھا جب نور علی شاہ آگے بڑھے۔ جگجیت بابا کو سہارا دیا۔۔ اور سہارا دے کر کچھ دیر تک مزار کے قریب والے پتھر پر بیٹھنے کے لیے کہا۔

جگجیت سنگھ نے مسکرا کر دیکھا۔ ’اب یہاں آتے آتے تھک جاتا ہوں۔ مگر بابا نظام الدین جب تک بلاتے رہیں گے، آتا رہوں گا۔‘

اور اس پہلی ملاقات میں ہی جگجیت سنگھ سے دوستی ہو گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ یہیں پاس میں جنگی پورہ میں رہتا ہوں۔ دو بیٹے ہیں۔ بہوئیں ہیں۔ سب کی اپنی دنیائیں ہیں۔ اور ان کی دنیا گرنتھ صاحب اور بابا کا یہ دربار ہے۔۔‘

پھر گفتگو چل پڑی۔ پنجاب کا ذکر آیا تو جگجیت سنگھ ادا س ہو گئے۔

نور علی شاہ نے آہستہ سے پوچھا۔۔’ پنجاب میں جو کچھ ہو رہا ہے۔۔‘

جگجیت سنگھ نے پلٹ کر دیکھا۔ نگاہیں جھکا لیں۔

’’تقدیر نے اتنے رنگ دیکھے ہیں کہ پنجاب کا رنگ دیکھ کر حیران نہیں ہوں۔ سوچتا ہوں۔ دنیا میں آنے کا ایک فائدہ تو ہوا۔ انقلابات دیکھے۔ دوسری جنگ عظیم دیکھی۔ بدلتے ہوئے چہروں پر خون کی لکیریں دیکھیں۔ فرنگیوں کو دیکھا۔ فرنگیوں نے ہم میں اور کتوں میں کوئی تمیز نہ کی۔ لیکن ہم نے کون سی تمیز کی نور علی شاہ۔۔ پنجاب کو ہی لو۔۔ گھر جلاتے ہوئے ہاتھ کہاں آدمی اور کتے کی تمیز کرتے ہیں۔ سڑک پر لوٹ اور فساد کرتے ہوئے ہاتھ کہاں جانوروں کے چہرے اور انسانی چہروں کا موازنہ کرتے ہیں۔ اب دو آدمی زور سے بولتے ہیں تو لگتا ہے کہ بھونک رہے ہوں۔ ایک کتا ان میں داخل ہو جاتا ہے۔ پھر احساس ہوتا ہے۔۔ زمین ایک بار پھر خون میں نہا جائے گی۔‘

پہلی ملاقات میں احساس ہی نہیں ہوا، کہ وہ کسی اجنبی سے مل رہے ہیں۔۔ ایک ایسا شخص جو ان کے مذہب کا بھی نہیں۔۔ اس ملک کے لیے ایک اقلیت اور بقول جگجیت سنگھ۔۔’ اقلیتیں مرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ وہ ہر بار شک کے دائروں میں ہوتی ہیں۔ تم نہیں ہو کیا؟‘

انہوں نے مسکرا کر  پوچھا تو نور علی شاہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔

’ایک اقلیت، جسے برسوں کی شہنشاہیت کی اب سزا ملنے لگی ہے۔‘

’خدا جانے، یہ پاگل پن اور جنون کیا رنگ دکھائے گا۔۔‘

٭٭

 

جگجیت سنگھ اب نور علی شاہ کے لیے بابا تھے۔ ایک معصوم صفت انسان، جس کے چہرے کی جھریاں بھی اسے اچھی لگتی تھیں۔ پنجاب کے زخم نے تقسیم کے حادثے کو تازہ کر دیا تھا۔ اس دن لاہور کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بابا کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔

’لاہور کی یادیں تو دلوں میں اب بھی تازہ ہیں نور علی شاہ۔ کون بھلا سکتا ہے انہیں۔ وقت کی آندھی نے جسم کی عظیم الشان عمارت کو تو ہلا دیا مگر دلوں سے یادوں کے زخم مٹا نہ سکیں۔ پنجاب کے بٹوارے کا زخم بھی دل میں چبھ گیا۔۔ کانٹے کی طرح۔۔ سیاپا اور بین کی آوازیں جیسے اب بھی کانوں میں گونج رہی ہیں۔۔ وہاں غیر ہی کون تھا۔ سب ا پنے تھے۔۔ اور ہم تھے۔۔ کہ ہجرت کے لیے سامان سفر باندھ چکے تھے۔ اپنوں کا ہجوم سامنے تھا۔

’ایک پنجاب تو یہاں بھی ہے بھائی جی۔ مت جاؤ۔۔‘

’تم بھی چھوڑ جاؤ گے بھیا۔۔‘

نور علی شاہ نے بابا کی نم آلودہ آنکھوں کو دیکھا جو ماضی کی سرنگ میں اتر گئی تھیں۔۔

’تب چاروں طرف گدھ منڈرا رہے تھے۔ کچھ اپنے بھی گدھ ہو گئے تھے۔ اچّی پگڑی والے کتھے چھٹ گیا۔۔ مگرسب چھوٹ گیا۔۔ بٹوارے کی چھری چل چکی تھی۔ گہرے زخموں کے ساتھ دلی آ گیا۔۔ گرو تیغ بہادر اور گرو گوبندسنگھ کی یادوں سے ہوتا ہوا قافلہ ایک بار پھر زخمی پنجاب کو دیکھنے کے لیے مجبور ہے۔ وہی خونی تاریخ جیسے پھر سے دہرائی جا رہی ہے۔‘ بابا نے اس کی طرف مڑ کر دیکھا۔۔’ ۱۶۹۹ میں گرو گوبند سنگھ نے اسی واسطے خالصہ کی بنیاد ڈالی کہ ایک مخصوص لباس میں سب دور سے پہچانے جائیں۔ مگر تقدیر دیکھو، اب ان لباسوں کی طرف نفرت کی نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے۔۔‘

نور علی شاہ چونک گئے تھے۔ انہوں نے اپنے لباس کی طرف دیکھا۔۔ گردن کو جھٹکا دیا اور بابا کی طرف دیکھنے لگے۔۔ جگجیت سنگھ کی آنکھیں کہیں اور ہی دیکھ رہی تھیں۔ لہجہ کمزور اور اداس تھا۔۔

’تب تہواروں کا اپنا مزہ تھا۔ عید بقرعید، ہولی، دسہرہ، بیساکھی۔ ہولی کے دن تو ہولی میں گم ہو جاتے۔ لوکاں دیاں ہولیاتے خالصے داہو لائے۔۔ مگر وقت کی آگ ایک بار ہمیں بھینچ کر پھر وہیں لے آئی ہے نور علی شاہ پتر۔۔ اس دن بڑے بیٹے نے بھی خالصتان کی مانگ کو جائز قرار دیا تو دل ٹوٹ گیا۔ کیا ہو رہا ہے ملک میں۔۔ پنجاب میں سکھوں کی بری حالت ہو گئی ہے۔ بیساکھی کے دن اکال تخت میں اکالی لیڈروں نے ہزاروں لوگوں کو کرو یا مارو کی شپتھ دلائی۔ ادھر لونگوال اور بھنڈراں والا کہتے ہیں۔ کہ شہدی جتھے کا گھٹن ایک تاریخی ضرورت ہے۔ گروؤں نے سکھ پنتھ کی گریما برقرار رکھنے کے لیے آتم بلیدان پر زور دیا ہے۔ یہ میں نہیں، میرے بچے کہتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر کسی نے ہمارے استھان کو گندہ کیا تو۔۔‘

’تو۔۔؟‘ نور علی شاہ نے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔

جگجیت سنگھ مسکرائے۔۔ بس ملک کو ٹوٹتے دیکھ رہا ہوں۔ کون ذمے دار ہے وحشت کے اس ننگے رقص کا۔ اکالی پارٹی، در بارا سنگھ یا حکومت۔۔؟ امرت سر کے گولڈن ٹیمپل میں اسلحوں سے لیس لوگوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ روز نئی نئی سرخیاں۔۔ میں ٹکڑے ٹکڑے ملک کو دیکھ رہا ہوں۔۔ یہاں ایک اقلیت تم ہو اور ایک میں۔۔ اس ملک میں اقلیتوں کا خدا ہی حافظ ہے۔۔‘

اس کے بعد بابا ٹھہرے نہیں، چلے گئے تھے۔

 

نور علی شاہ کو بابا کی باتیں اداس کر گئی تھیں۔ اس دن شہر کا ماحول خراب ہوا تو اسے شدت سے بابا کی یاد آئی۔ بابا سے بہت سی باتیں کرنی تھیں۔ ایک تو اخبار والی بات تھی۔ وہ اپنی تصویر پر بابا کا رد عمل جاننا چاہتا تھا۔ اور پروفیسر ہکسلے سے، ملاقات سے قبل وہ بابا سے ملنا چاہتا تھا۔

نور علی شاہ کی آنکھیں سوچ میں گم تھیں۔ وہ اس بات سے خوش اور پر امید تھے کہ اب انہیں ایک بزنس مل گیا ہے۔ وہ اس بات کو جانتے تھے کہ بزنس کی باریکیوں کے معاملے میں سکھ سے زیادہ ہشیار قوم کوئی دوسری نہیں۔

’لیکن وہ پوچھیں گے کیا؟‘

نور علی شاہ اس سوال پر آ کر ٹھہر جاتے۔ مسلمانوں میں اور سکھوں میں ایک بڑا فرق یہ بھی رہا ہے کہ سکھ ماضی کو فراموش کر کے نئے سرے سے زندگی جینا شروع کرتے ہیں اور کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ اور مسلمان نئی زندگی کی شروعات میں بھی، ماضی کے احساس کے ساتھ ہی جینا پسند کرتے ہیں۔ اور ایک دن ماضی کا بوجھ بدبو دار لاش کی طرح اتنا وزنی ہو جاتا ہے کہ اٹھانا مشکل ہو جاتا ہے۔۔

اس لیے یہ سوال برقرار تھا کہ کیا جگجیت بابا کیا اس کی باتوں کو سمجھ پائیں گے؟

اگر ہاں تو کتنا سمجھ پائیں گے؟

کیا وہ اس نئے بزنس میں اس کی کوئی مدد کر پائیں گے؟

بزنس کی نئی شروعات میں آنکھیں بند کرتے ہی یہ ماضی بھوت کی طرح نور علی شاہ کے وجود کو جکڑ لیتا تھا اور وہ اس بات سے مطمئن تھے کہ ان کا سرمایہ بھی ماضی ہے۔۔ اور اسی ماضی کو وہ اپنے نئے بزنس میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔۔ اچانک ان کے ہونٹوں پر کچھ سوچ کر ہنسی آ گئی۔ جیسے گھر کے باہر سبزی اور ریہڑی والے آواز لگایا کرتے ہیں۔ آلو لے لو۔۔ سبزی لے لو۔۔ ایک خوبصورت سی دکان ہے۔ دکان میں چاروں طرف شیشے لگے ہیں۔ اور وہ خوبصورت لباس میں آواز لگا رہے ہیں۔۔ ماضی لے لو۔۔ سنہرا کل لے لو۔۔ گزری ہوئی یادیں لے لو۔۔ بادشاہوں کے قصے لے لو۔۔ شہنشاہیت کے دن لے لو۔۔ کوہ نور ہیرا لے لو۔۔ زوال کی راتیں لے لو۔۔ ماضی کی سیاہ بدلیاں لے لو۔۔‘

نور علی شاہ مسکرائے۔ اب ان کی ایک ہی منزل تھی۔ جگجیت بابا کا گھر۔۔

٭٭

 

شام کی پرچھائیوں نے بستی حضرت نظام الدین پر سایہ ڈال دیا تھا۔ وہ گھر سے نکلے تو محلے کے آوارہ بچوں نے ہمیشہ کی طرح انہیں دیکھتے ہی آواز لگائی۔ بیٹا۔۔ اور دنوں کی طرح نور علی شاہ گالیوں کی سوغاتیں لے کر نہیں دوڑے۔ وہ مسکرائے، پلٹ کر ان آوارہ بچوں کی طرف دیکھا۔ پھر مسکرائے۔۔

’تمہارا بیٹا تو ہو نہیں سکتا۔۔ کیوں ؟‘

وہ چار پانچ بچے تھے۔ اچانک نور علی شاہ کے ہونٹوں پر آئی ہوئی یہ مسکراہٹ نہ صرف ان کے لیے اجنبی تھی بلکہ حیران کرنے والی تھی۔ اس بار یہ آوارہ بچے سہمے ہوئے ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ نور علی شاہ کو مزہ آ رہا تھا۔

’تمہارا بیٹا تو نہیں ہوسکتا۔ یہ طے ہے۔‘ وہ دوبارہ مسکرائے۔۔ ’تمہاری باپ کی عمر کا ہوں۔ تمہارا باپ تو ہوسکتا ہوں۔۔‘

’چلو جی۔ اس کا دماغ چل گیا ہے۔‘ ایک لڑکے نے دوسرے لڑکے کو دیکھا۔

’آج اسے کیا ہو گیا ہے۔‘

تیسرا سرگوشیوں میں بولا۔ ’ کیا خبر۔ غصے میں کہیں ہم پر ہاتھ نہ اٹھا دے۔‘

’چلو۔۔‘

لڑکے آگے بڑھ گئے تو فتح کی مسکراہٹ کے ساتھ نور علی شاہ نے اس مقام کی طرف دیکھا، جہاں کچھ دیر پہلے یہ آوارہ لڑکے کھڑے تھے۔ اندر آئی ہوئی اس تبدیلی نے خود نور علی شاہ کو بھی حیران کر دیا تھا۔ وہ گھر سے نکلے۔ سڑک کراس کیا۔ بس پکڑی۔ اور جنگی پورہ بس اسٹینڈ پر اتر گئے۔ لیکن سہمے ہوئے بچوں کا چہرہ اب بھی ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پیدا کر رہا تھا۔

جگجیت سنگھ کا کاروبار اب ان کے دونوں بیٹوں نے سنبھال لیا تھا۔ اس لیے اب وہ کسی حد تک خود کو آزاد تصور کرتے تھے۔ جنگی پورہ میں خوبصورت کوٹھی تھی۔ دو منزلہ۔۔ گیٹ کے بائیں طرف کھلنے والا کمرہ ان کے لیے وقف تھا، جہاں وہ اپنے لوگوں سے ملتے، باتیں کرتے یا آرام کرتے۔ پنجاب میں جب سے حالات خراب ہوئے تھے، جگجیت سنگھ خاموش رہنے لگے تھے۔

 

نور علی شاہ کے کمرے میں کرسی پر بیٹھ جانے تک جگجیت سنگھ اپنے ہی خیالوں میں ڈوبے رہے۔ کچھ دیر کے لیے وہ یہ پوچھنا بھی بھول گئے کہ نور علی شاہ کس مقصد کے تحت آئے ہیں۔ سامنے والی کرسی پر بیٹھے ہوئے جگجیت سنگھ گہرے خیالوں میں غرق تھے۔ نور علی شاہ کو کہنا پڑا۔

’بابا، میں غلط وقت پر تو نہیں آ گیا۔‘

’نہیں۔‘

’سب خیر تو ہے۔؟‘

’خیر ہی تو نہیں ہے پتّر۔‘

جگجیت سنگھ نے مسکرا کر نور علی شاہ کی طرف دیکھا۔۔’ ایک بات سوچ رہا تھا۔ علیحدگی پسندی کے رجحان پیدا ہی کیوں ہوتے رہیں نورا؟ پنجاب کو لو، کشمیر کو لو، اور تقسیم کی طرف ذرا پیچھے چلے جاؤ۔ پریشانی تو انگریزوں سے تھی۔ پھر مسلمان پاکستان کے لیے آواز کیوں بلند کرنے لگے۔۔ کیا کسی طور انہیں سمجھایا نہیں جا سکتا تھا۔ کشمیر کا معاملہ مان لو۔ پھر بھی الگ ہے نورا۔۔ مگر پنجاب۔ وہ کیسے سیاسی حالات ہیں کہ آزاد خالصتان کا تصور سر اٹھانے لگا۔ بغاوت کیوں اور کہاں جنم لیتی ہے نورا؟ کچھ تو ہے۔۔ کبھی کبھی لگتا ہے، بچے وقت کے ساتھ چل رہے ہیں، بس ہم ہی وقت کے ساتھ نہیں چل پائے۔‘

جگجیت سنگھ نے ٹھنڈی سانس بھری۔۔’ اس ملک کی بدنصیبی کہ ایک اقلیت نے حقوق کی پامالی کے خوف سے اپنا الگ ملک لے لیا اور اب سکھ نوجوان خالصتان کی مانگ اٹھا کر مارے جا رہے ہیں۔‘

’اسی ملک میں برسوں انہی اقلیتوں نے حکومت کے فرائض بھی انجام دیے ہیں۔۔‘ نور علی شاہ کہتے کہتے ٹھہر گئے۔

’ہاں۔‘ جگجیت نے نور علی شاہ کی طرف دیکھا۔۔’ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت کرنے والے آج بھی اس سچ کو ہضم نہیں کر پائے۔۔ اور اسی لیے اقلیتوں پر ظلم کے راستے کھل جاتے ہیں۔۔‘

حکومت کے نام سے ایک بار پھر نور علی شاہ اسی دیار عشق میں پہنچ گئے تھے جہاں برسوں کی شہنشاہیت کے قمقمے روشن تھے۔ جہاں جھولیاں بھر بھر مرادیں بانٹی جاتی تھیں۔

’کہاں کھو گئے۔۔‘ جگجیت سنگھ نے پوچھا تو ماضی کے رین بسیروں سے نور علی شاہ واپس اپنی دنیا میں آ گئے۔

’کہیں نہیں۔‘

’میں تو اپنی ہی سنانے میں لگ گیا۔ تم سے پوچھنا بھی بھول گیا کہ آخر کس مقصد سے آنا ہوا۔‘

’ایک چھوٹا سا کام تھا۔۔‘

’کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔۔‘ جگجیت سنگھ ہنسے۔ تمہاری آنکھیں بتا رہی ہیں کہ تم کسی خاص کام سے آئے ہو۔‘

’جی۔۔ ایک مشورہ کرنا تھا آپ سے۔۔ دراصل۔۔‘ نور علی شاہ کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنی گفتگو کہاں سے شروع کریں۔انہیں پریشانی تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو، جگجیت سنگھ ان کی بات کو سمجھ ہی نہ سکیں۔ آنکھوں کے پردے پر ایک ساتھ کئی تصاویر روشن تھیں اور نور علی شاہ کو بس ایک ہی بات یاد آ رہی تھی، وقت نے ایک موقع دیا ہے تو انہیں اس موقع کا استعمال کرنا چاہئے۔

جگجیت سنگھ اب بھی نور علی شاہ کی طرف غور سے دیکھ رہے تھے۔ نور علی شاہ اب مطمئن تھے۔ مسکرائے اور بابا کی طرف دیکھا۔

’دراصل ایک مشورہ کرنا تھا آپ سے۔۔‘

’اوئے پوچھو جی۔‘

’ میں بزنس کرنا چاہتا ہوں۔‘

’یہ ہوئی نا بات۔‘ جگجیت سنگھ مسکرائے۔۔’ برا وقت کس پر نہیں آتا نورا پتر۔ سب پر آتا ہے۔ راجہ مہاراجاؤں، بادشاہ، بیگمات پر آتا ہے تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ تمہیں دیکھنے سے لگتا ہے کہ وقت کے مارے ہو۔ کبھی پوچھا نہیں۔ پوچھنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔‘

’جی۔‘

’ہم پر بھی تو برا وقت آیا تھا نورا۔ لاہور سے لٹے لٹائے دلی۔ پہنچے تو ہاتھ میں کیا تھا۔ کچھ بھی نہیں۔ محنت کرنا جانتے تھے۔ مشقت سے گھبراتے نہیں تھے۔ سب کچھ لٹا کر آئے۔۔ دلی کی گلیوں میں سوئی دھاگہ بیچنا شروع کیا۔ اور اب دیکھو۔ وائے گرو کی کرپا۔۔ وہ کیا ہے کہ۔۔‘

جگجیت سنگھ مسکرائے۔۔ ’سارا ہنر ہاتھوں میں ہے نورا۔ اور کوئی بزنس چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔ محبت سے کرو تو ہر بزنس پھل دے کر جاتا ہے۔ بس بزنس کا طریقہ آنا چاہئے۔ اور بزنس کا طریقہ یہ ہے کہ لگاؤ دو تو چار پانے کی امید رکھو۔‘

’جی۔۔‘

جگجیت سنگھ ہنسے۔۔’ بزنس کرنے کا ہنر آ گیا تو زمین کی خاک بھی ہیروں کے مول بک سکتی ہے۔ اور بزنس کرنا نہ آئے تو کوہ نور ہیرا بھی دو کوڑی کا۔ اب ایک گل سنو بادشاؤ۔ ہمارے پنجاب کے ایک وید تھے۔ بڑے نیک۔ ان کا ایک شاگرد تھا۔ بڑا ہونہار اور تیز۔ گرو سے سارے گر سیکھ لیے۔ ایک نئے گاؤں میں گیا۔ پہلے اپنے نام کے بڑے بڑے پوسٹر لگائے۔ چمتکار کو نمسکار۔۔  پھر خود وہاں پہنچا تو ہزاروں کا مجمع اس کے استقبال کے لیے کھڑا تھا۔ وید بیچارا وہیں رہا۔ شاگرد نے نیا طریقہ اپنایا تو اس کی لاٹری نکل آئی۔‘

جگجیت سنگھ ہنسے۔۔’ ہم کیوں کامیاب ہوئے پتہ ہے؟‘

نور علی شاہ خاموش رہے۔۔

سکھ بزنس میں کیوں کامیاب ہوتے ہیں ؟

’نہیں پتہ۔۔‘

’کیونکہ وہ بیتے کل کے بارے میں نہیں سوچتے۔ وہ آج کی سوچتے ہیں۔ اب دیکھو۔ لاہور سے لٹا پٹا دلی آیا۔۔ اب اگر دلی آ کر لاہور کے بارے میں ہی سوچتا رہتا تو بزنس کیا خاک کرتا۔۔ اب مانا کہ وہاں لاہور میں کوٹھیاں تھیں مگر بادشاؤ۔ دلی میں آج دیکھو تو اپنی شان کچھ کم ہے کیا۔۔؟‘

’جی۔۔‘

لیکن جگجیت بابا کی بات سن کر نور علی شاہ پریشان ہو گئے تھے۔ سکھ قوم آج پر بھروسہ کرتی ہے۔ لیکن ان کے بزنس کا سارا معاملہ تو گزرے ہوئے کل پر ہے۔۔ انہیں تو یہ سنہرا کل ہی فروخت کرنا ہے۔ انہیں بھوت بیچنا ہے۔ ماضی کی بولی لگانی ہے۔

’کیا سوچنے لگے۔۔‘ جگجیت سنگھ نے پلٹ کر پوچھا۔

’نہیں کچھ نہیں۔۔‘

’ارے جو دل میں ہے، بولو پتر۔۔‘

نور علی شاہ کچھ دیر تک گہری سوچ میں ڈوبے رہے۔ پھر جیب سے نکال کر اخبار کا انٹرویو والا صفحہ آگے کر دیا۔ جگجیت بابا کی نگاہیں اخبار پر پھسلتی رہیں۔ کبھی وہ خبر کی طرف دیکھتے اور کبھی نگاہ اٹھا کر نور علی شاہ کی طرف۔۔ خبر پڑھنے کے بعد انہوں نے ٹھنڈی سانس بھری۔ نور علی شاہ کی طرف دیکھا۔۔

’یہ سب تو تم نے کبھی بتایا نہیں نورا پتر۔‘

’ضرورت نہیں پڑی بابا۔۔‘

’اتنے بڑے خاندان سے ہو۔‘

’ہاں۔ لیکن اب سمجھ میں نہیں آتا۔ اسے اپنی خوش بختی کہوں یا بدبختی۔‘

’ہم تو بزنس مین ٹھہرے۔ برے وقت کو خوشیوں میں بدلنا جانتے ہیں۔‘

اس جملے نے جادو کا اثر کیا۔ نور علی شاہ کے چہرے پر ایک نئی چمک پیدا ہوئی۔

’اور اسی لیے ہم آپ کے پاس آئے ہیں۔‘

’کھل کو بولو بادشاؤ۔‘

نور علی شاہ نے مڑا ہوا اخبار دوبارہ جیب میں ڈال دیا۔ پلٹ کر جگجیت بابا کی طرف دیکھا۔

’کچھ لوگ میرا ماضی خریدنا چاہتے ہیں۔‘

’تو بیچ ڈالو۔۔‘

جگجیت سنگھ نے ٹھہاکا لگایا۔۔ ’ہوسکتا ہے میرے گھر کی خاک میرے لیے خاک ہو۔ مگر یہی خاک کسی اور کے لیے قیمتی بھی ہوسکتی ہے۔ جیسے مثال کے لیے۔۔ اگر اب لاہور والی کوٹھی کے لیے کوئی قیمت لگانا چاہے تو میں کوئی بھی بڑی سے بڑی قیمت دینے کو تیار ہوں۔۔ چاہے وہ کوٹھی اب ملبہ کیوں نہ بن گئی ہو۔۔ جانتے ہو کیوں ؟ اس لیے کہ اس کوٹھی کی قیمت، میری نظر پہچانتی ہے۔ وہاں میرا بچپن ہے۔ وہاں میری جوانی ہے۔ اور ماضی کوئی یونہی نہیں خریدتا نورا۔ جو خریدے گا، وہ اس کا مول بھی پہچانے گا۔۔‘

’جی۔۔‘

’کچھ بھی رہتا کہاں ہے بادشاؤ۔ سب ختم ہو جاتا ہے۔ بادشاہت چلی گئی۔ نوا بیت کا جنازہ نکل گیا۔ جاگیریں ختم ہو گئیں۔ جاگیردار کہانیاں بن گئے۔ اور وقت بدل گیا۔ میری مانو تو اس بدلے ہوئے وقت میں سب کچھ بیچا جا سکتا ہے۔ خریدار ہیں۔ بس بیچنے کا ہنر آنا چاہئے۔ سوئی سے ہوئی جہاز تک جو چاہے خرید لو۔ ایک وقت میں غلام خریدے اور بیچے جاتے  تھے۔ داسیاں تحفے میں دی جاتی تھیں۔۔ مال ہے تو خریدار بھی ہیں۔ اور اب اگر کوئی تمہارا ماضی خریدنا چاہتا ہے تو پہلے اس ماضی کو ٹٹولو۔ پڑھو۔ اور پھر سوچو کہ اگر سامنے والا اس ماضی کی قیمت لگانے کو تیار ہے تو کچھ تو بات ہو گی۔۔ پاگل تو نہیں ہو گا،جو تمہاری داستان سنے گا۔ دو آنسو بہائے گا۔ تجوری کھولے گا اور تمہارے گزرے کل پر ماتم کرتے ہوئے تمہیں دو پیسے دے جائے گا۔۔ بزنس مین ہوں نورا پتر۔ ایک بات گانٹھ سے باندھ لو۔ بازار میں جانور بھی خریدنے جاتے ہو تو پہلے مول لگانے سے پہلے اسے چھو کر ٹٹول کر مطمئن ہو جاتے ہو پھر بولی لگاتے ہو۔ اس لیے۔‘

جگجیت مسکرائے، نور علی شاہ کی طرف دیکھا۔۔ ’کوئی جلد بازی نہ کرنا نورا پتّر۔۔ ہوسکتا ہے یہ ماضی سوا لاکھ کا ہو اور دینے والا تمہیں محض سوا روپیہ دے رہا ہو۔۔‘

’جی۔‘ جگجیت سنگھ نے قہقہہ لگایا۔۔’ چلو اچھا ہے۔ وقت کے ساتھ تاریخ اور ماضی کی بولی بھی لگنے لگی۔ اس عمر میں یہ بھی سن لیا پتر۔ دل کو تکلیف نہیں ہوئی۔ تکلیف تو پیٹ کو بھوکا رکھنے سے ہوتی ہے پتر۔ اور۔۔ جیسا کہ تمہاری گفتگو سے ظاہر ہے، تم خود بازار میں نہیں بیٹھے ہو۔۔ بلکہ کوئی ہے جو تمہارے ماضی کی قیمت لگا رہا ہے۔۔‘

’جی۔۔ ایک فرنگی ہے۔۔‘

جگجیت سنگھ نے پھر قہقہہ لگایا۔۔’ ان فرنگیوں نے پہلے بھی اس ملک کی بولی لگائی تھی نورا پتر۔۔ سونے کی چڑیا کہے جانے والے ملک کو کوڑیوں میں لے لیا۔۔ تجارت کرنے آئے اور ہماری تقدیر میں برسوں کی غلامی لکھ گئے۔ ایک بات کہے دیتا ہوں نورا پتر۔ ان فرنگیوں سے ہشیار رہنا۔ یہ کبھی اپنے نہیں ہوسکتے۔‘

نور علی شاہ کی آنکھوں میں پروفیسر ہکسلے کا چہرہ ابھرا۔ یہ چہرہ گم ہوا تو دوسری تصویر مختار بنیے کی تھی۔۔ نور علی شاہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ جگجیت بابا نے اشاروں میں زندگی کے معنی سجھا دیئے تھے۔ اب وہ مطمئن تھے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ زندگی کے نئے راستے اب انہیں اپنی طرف بلا رہے تھے۔ وہ خوش تھے۔ اب تک باپ داداؤں کے نام کے بھروسہ رہے تو زندگی مفلسی کی تنگ و تاریک گلیوں میں بھٹکتی رہی اور یہ خیال بھی نہ آیا کہ باپ داداؤں کے نام کو زندگی میں کبھی کیش بھی کیا جا سکتا ہے۔

اب وہ پروفیسر ہکسلے سے ملنے کو بے تاب تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۷)

 

نور علی شاہ جگجیت سنگھ کے گھر سے باہر آئے تو آسمان پر چاند روشن تھا۔ نیلے آسمان میں چمکتے چاند کو دیکھنا نور علی شاہ کو ہمیشہ سے پسند تھا۔ مٹیا برج والے گھر میں بھی وہ شام ہوتے ہی ٹوٹی سیڑھیوں سے ہو کر کھلی چھت پر آ جاتے اور دیر تک چاند کو دیکھا کرتے۔ بادلوں کے درمیان چاند کا بار بار نکلنا اور چھپنے کا کھیل انہیں بیحد پسند تھا۔ وہ کچھ دیر تک مسکراتے ہوئے چاند کو دیکھتے رہے، جیسے چاند کی چمک میں اپنی آنے والی زندگی کی تقدیر پڑھ رہے ہوں۔ یہ چمک ان کی ۳۸ سال کی زندگی میں شاید ہی کبھی آنکھوں میں داخل ہوئی ہو۔ مٹیا برج کی تنگ و تاریک گلیوں سے دلی بستی حضرت نظام الدین آنے تک وہ حزن و ملال اور شکستہ حالی کے احساس سے کبھی باہر نہیں نکل سکے۔ اور اب نور علی شاہ ان برسوں کا تجزیہ آسانی سے کرسکتے ہیں۔ مثال کے لیے ابا حضور لیاقت علی شاہ ساری زندگی شہنشاہیت کے صدمے میں رہے۔ اور یہ صدمہ ایسا رہا کہ سوائے گھٹن بھری زندگی اور معاش کے لیے بچوں کو پڑھانے کے سوا کچھ کر بھی نہ کرسکے۔ اور حقیقت یہی ہے کہ صدیوں کی یہ گھٹن ان کے حصے میں بھی آئی تھی۔ بہت ممکن ہے، بقول خواجہ رجب ہاشمی، شہنشاہوں اور نوابوں کے دیگر وارثین بھی اسی گھٹن کے شکار رہے ہوں۔ اور کتنی عجیب بات ہے کہ ایک ہنستی مسکراتی زندگی اس گھٹن کے نام ہو جاتی ہے۔۔

نور علی شاہ کے ہونٹوں پر ابھی بھی مسکراہٹ تھی۔۔ ابھی تو وہ تبدیلیوں کے پہلے زینہ پر بھی نہیں ہیں مگر محض تبدیلیوں کے احساس سے ایک دنیا بدل چکی ہے۔ وہ مغموم، چرا چرا ا نور علی شاہ رخصت ہو چکا ہے۔ اور ایک نیا نور علی شاہ ان کے وجود میں داخل ہو رہا ہے۔ سنتے آئے تھے قدرت کے کارخانے میں دیر ہے اندھیر نہیں۔ اچھے دن آتے ہیں تو خوش خبریوں کے دروازے بھی کھل جاتے ہیں۔ ایک خوشخبری تو یہی تھی کہ اسلم علی شاہ بھی کام سے لگ گئے اور پرانی دلی کی کتابوں کی دکان میں انہیں نوکری مل گئی۔ کہاں تو گھر میں سارے دن بیکاری کی روٹیاں توڑنا اور کہاں اب صبح صبح ہی کام پر نکل جانا۔۔

 

درگاہ کو اندر جانے والی سڑک پر مجمع لگا تھا۔ نور علی شاہ کو یاد آیا، کل ایک پولس والے نے نکڑ پر ٹھیلہ لگانے والے ایک بزرگ عمو میاں کو پیٹ دیا تھا۔ آس پاس کے کافی لوگ بچانے آئے لیکن پولس والا دیر تک بے رحمی سے عمو میاں کی پٹائی کرتا رہا۔ نور علی شاہ کے پوچھنے پر کسی نے بتایا کہ عمو میاں کی اسپتال میں موت ہو گئی۔ کافی لوگ جمع تھے۔ ٹھیلے والے اور ریہڑی والوں میں غصہ پھوٹ پڑا تھا۔ ایک مقامی نیتا ایک خالی ٹھیلے پر کھڑا ہو کر تقریر کر رہا تھا۔

نور علی شاہ بھیڑ میں شامل ہو گئے۔۔

مقامی نیتا غصے میں چیخ رہا تھا۔۔

’حکومت ناکارہ ہو چکی ہے۔ پولس کا ظلم بڑھتا جا رہا ہے۔ کیا ہم نہیں جانتے، فسادات میں ان پولس والوں کا رول کیا ہوتا ہے۔ چن چن کر مارتے ہیں مسلمانوں کو۔ اور دیکھیے بیچارے عمو میاں کو مار دیا۔۔ اب مسلمانوں سے یہ لوگ روزگار بھی چھن لینا چاہتے ہیں۔ عمو میاں یہاں برسوں سے ٹھیلہ لگاتے تھے۔ کہاں جاتے۔ دو وقت کی روٹی کہاں سے پیدا کرتے۔ اور اب ذرا سوچئے، عمو میاں کے خاندان کا کیا ہو گا۔‘

نور علی شاہ اس مقامی نیتا کو پہچانتے تھے۔ لیکن اس وقت وہ اس کی جوش سے بھری تقریر کو سن کر حیران تھے۔ انہیں اچانک احساس ہوا، ایک آگ ان کے اندر بھی بھڑک رہی ہے۔ دماغ سلگ رہا ہے۔ لفظ باہر آنے کے لیے بے تاب ہیں۔ انہوں نے اپنے سراپا کا جائزہ لیا۔ کرتا پائجامہ۔ پاؤں میں ہوائی چپل۔ جگجیت سنگھ کے گھر جاتے ہوئے انہوں نے صاف کرتا پائجامہ نکال کر پہنا تھا۔ نور علی شاہ کو ہنسی آئی۔ اس وقت اگر وہ سر پر نیتاؤں والی ٹوپی پہن لیں تو وہ بھی کسی نیتا سے کم نہیں لگیں گے۔۔

مقامی نیتا کی آواز  بارود بن کر ابھر رہی تھی۔

’ہم چاروں طرف مارے جا رہے ہیں۔ جہاں دیکھیے، ہماری روزی روٹی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن اب ہم چین سے نہیں رہیں گے۔‘

نور علی شاہ کے کانوں میں جگجیت سنگھ کی آواز گونج رہی تھی۔ اچانک ان کے قدموں میں تیزی آئی۔ بھیڑ کو ہٹاتے ہوئے وہ تیزی سے آگے بڑھے۔ ہاتھ اوپر کیا اور مقامی نیتا کو اشارہ کر کے بولے۔

’مجھے بھی کچھ کہنا ہے۔‘

مقامی نیتا نے پہلے حیرت پھر ناگواری سے ان کی طرف دیکھا۔

’جی۔ کہیے۔۔‘

نور علی شاہ تیزی کے ساتھ ٹھیلے پر چڑھ گئے۔ ایک نیا نور علی شاہ ان کے اندر زندہ ہو گیا تھا۔ وہ مجمع کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔

’’اقلیتیں مر رہی ہیں۔۔

اقلیتیں مرنے کے لیے ہوتی ہیں۔

اقلیتوں کو کچلا جا رہا ہے۔۔ کچھ سمجھے آپ۔۔‘‘

گلا رندھ گیا تھا۔ منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔ وہ ٹھیلے سے اتر آئے۔ مجمع میں سے کچھ لوگوں نے تالیاں بجائیں۔ نور علی شاہ نے ٹھیلے سے اترنے کے بعد ٹھنڈی سانس لی۔ وہ فتح کے احساس کے ساتھ مڑے۔ اور بھیڑ سے ہوتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔۔ قدموں میں تیزی آ گئی تھی۔ دل اب بھی زور سے دھڑک رہا تھا۔ لیکن نور علی شاہ مطمئن تھے، ان کے ساتھ بہت کچھ نیا ہو رہا ہے۔ جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ لیکن وہ اس بات سے واقف نہیں تھے کہ اگلے ہی موڑ پر ایک اور نیا واقعہ ان کا انتظار کر رہا ہے۔۔

٭٭

 

بستی حضرت نظام الدین کی گلیوں میں رونق شام کے وقت کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہے۔ یہ وہی وقت ہوتا ہے جب زائرین درگاہ سے لوٹ رہے ہوتے ہیں۔ دکانوں کی رونق بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ چائے خانے اور ہوٹل آباد ہو جاتے ہیں۔ کیسٹ کی دکانوں سے نغموں اور قوالیوں کے شور گونجتے ہیں۔ کریم ہوٹل والی گلی گلزار ہو جاتی ہے۔ اور گیٹ پر کھڑا با وردی دربان نگاہیں بچھائے آنے والوں کا استقبال کرتا ہے۔ وہ ایک عرب نوجوان تھا، جو اپنے مخصوص لباس میں، شان سے تبلیغی جماعت کی مسجد سے نکلا اور مسجد سے دو قدم آگے بڑھ کر ٹھہر گیا۔ اسے گھیرے ہوئے کئی لوگ کھڑے تھے۔ وہ اپنے مخصوص عربی لہجے میں اپنے ہی جیسے کچھ دوستوں سے گفتگو میں مصروف تھا۔

اور یہی لمحہ تھا، جب گھر کی طرف بڑھتے ہوئے نور علی شاہ کی نظر اچانک اس عرب پر پڑی اور ان کے ہونٹوں پر فتح آمیز مسکراہٹ آ گئی۔ وہ مسکراتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھے۔ جیب میں ہاتھ ڈالا۔ مڑا ہوا اخبار نکالا۔ وہی اخبار جس میں ان کی تصویر شائع ہوئی تھی۔ شان سے آگے بڑھے۔ اور وہ صفحہ عرب نوجوان کے سامنے آگے کر دیا۔۔ عرب نوجوان اور اس کے ساتھیوں نے چونک کر نور علی شاہ کو دیکھا۔۔ آپس میں عربی زبان میں بات چیت کی۔ نور علی شاہ نے دیکھا، عرب نوجوان غور سے اس کی تصویر کی طرف دیکھ رہا ہے۔۔ پھر پلکیں جھپکاتے ہوئے اس کے چہرے سے تصویر کا موازنہ کر رہا ہے۔

’یس۔۔ آئی۔۔ ام۔۔ یہ میں ہوں۔‘ نور علی شاہ نے فخر سے بتایا۔۔ ونس اپن اے ٹائم۔۔ کنک۔۔ لائک یو۔۔ نواب امجد علی شاہ۔۔ نواب واجد علی شاہ۔۔ ریاست اودھ۔۔

عرب نوجوان نے اپنے ساتھی کی طرف اشارہ کیا۔۔ نور علی شاہ نے دیکھا، اس کے ساتھی نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور بند مٹھی سے کچھ نوٹ اس کے ہاتھوں میں پکڑا دیا۔۔ نور علی شاہ زور سے بولے۔۔

’سر۔۔ وہاٹ از دس۔۔ آئی ام ناٹ اے بیگر۔۔

یو نو۔۔ ونس اپن اے ٹائم۔۔‘

عرب نوجوان مسکرایا۔۔ ساتھی نے کچھ اور نوٹ جیب سے نکالے۔ نور علی شاہ نے ہاتھ بڑھایا۔۔ جھک کر شکریہ کہا۔ دو بار تعظیم میں سر کو جھکایا۔ پھر آگے بڑھ گئے۔

 

درگاہ والی گلی میں داخل ہوتے ہوئے، ادھر ادھر دیکھ کر انہوں نے پیسے گنے اور اطمینان کر لیا کہ اب کچھ دن آرام سے گزر جائیں گے۔ اب ایک فاتحانہ شان کے ساتھ وہ گھر کی طرف بڑھ رہے تھے۔ وہ خوش تھے کہ آج انہوں نے ایک ساتھ کئی مورچہ فتح کیا ہے۔۔ آج عرب نوجوان سے اپنا حق مانگنے میں بھی ایک کمزور اور جھکا ہوا نور علی شاہ نہیں تھا بلکہ ایک نئے نور علی شاہ کی واپسی ہوئی تھی جس کے لہجے میں اعتماد تھا اور یقین بھی۔ کہ گزری ہوئی تاریخ کو گواہ بنا کر بھی اپنے آج کو سنوارا جا سکتا ہے۔

آگے گلی کے موڑ والا ہوٹل بند ہو چکا تھا۔ اور اب وہاں سیڑھیوں کے قریب عبداللہ سورہا تھا۔ عبداللہ فقیر کی سریلی آواز کے سب دیوانے تھے۔ کئی ہوٹل والے تو بلا بلا کر پیسے دے کر اس سے قوالی سنا کرتے تھے۔ گھر کی طرف بڑھتے ہوئے عبداللہ کو دیکھ کر نور علی شاہ ٹھہر گئے۔ جیب میں ہاتھ گیا اور پانچ کا سکہ نکال کر خاموشی سے عبداللہ کے سرہانے رکھ کر وہ آگے بڑھ گئے۔

٭٭

 

گھر میں داخل ہوئے تو مرچ کے جلنے کی مہک نے سانس لینا دشوار کر دیا۔ نور علی شاہ زور زور سے کھانسنے لگے۔ بیگم پر غصہ آ رہا تھا۔ چلا کر بولے۔

’یہ جناتوں کو بھگایا جا رہا ہے۔‘

’نوج۔ کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ۔ اچھے بھلے گھر میں جنات۔۔ کوئی مذاق میں بھی ایسی باتیں نہیں کرتا۔‘

نور علی شاہ کمرے میں آئے تو دیکھا، حسنہ، اسلم کے بالوں میں کنگھی کر رہی ہے۔ زلفیں تیل سے بھیگی ہوئی ہیں اور اس عالم میں اسلم میاں کا چہرہ ایسا سپید ہو رہا تھا، جیسے بھوتوں کو دیکھ کر چہرہ خوف سے زرد پڑ گیا ہو۔۔

کھانسی ابھی بھی اٹھ رہی تھی مگر سامنے کے منظر کو دیکھ کر ایک مسکراہٹ خود بخود نور علی شاہ کے چہرے پر پیدا ہو گئی۔

’جنات نہیں تو پھر یہ سرخ مرچ کیوں جلائی جا رہی تھی۔‘

’دیکھتے نہیں۔ بچے کا چہرہ کیسا پیلا پڑ گیا ہے۔ نظر اتاری جا رہی تھی۔‘

’نظر۔۔؟‘

نور علی شاہ نے قہقہہ لگایا۔

’اسلم علی شاہ کو اب نظر بھی لگنے لگیں۔‘

’کیوں ؟‘ حسنہ نے برا سا منہ بنایا۔۔ شہنشاہوں اور نوابوں کے اکیلے وارث آپ ہی ہیں۔ ماشاء اللہ اسلم میاں کے چہرے سے ہی نور ٹپکتا ہے۔ گھر آئے تو اجڑا  اجڑا چہرہ دیکھ کر میں سمجھ گئی کہ ضرور کسی بد نگاہ کا شکار ہوئے ہیں۔۔‘

’ہو۔۔ ہو۔۔ ہو۔۔‘ نور علی شاہ پھر زور سے ہنسے۔۔

اسلم علی شاہ ناراض ہو کر بولے۔ ’دیکھا بھابھی۔۔ بھیا کو۔۔‘

’ہاں دیکھ لیا۔۔‘ حسنہ نے برا سا منہ بنا کر جواب دیا۔۔’ آپ کی طرح بیکار نہیں ہیں۔ اسلم میاں۔ ما شاء اللہ کام کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ اور فرمانبرداری دیکھیے، جو پیسے ملتے ہیں وہ سیدھے میرے ہاتھوں میں لا کر رکھ دیتے ہیں۔ آپ کو کیا پتہ۔‘

نور علی شاہ دن بھر کی ریاضت اور محنت سے تھک گئے تھے۔ حسنہ کے آخری جملوں نے ان کی غیرت کو للکار دیا تھا۔ جیب سے پانچ سو کے مڑے ہوئے کئی نوٹ نکالے اور بیگم کے ہاتھوں پر رکھ دیے۔ حسنہ نے اتنے پیسے جو ایک ساتھ دیکھے تو چونک پڑیں۔ غلط نگاہوں سے نور علی شاہ کی طرف دیکھا۔

’اتنے پیسے۔۔؟‘

’میری محنت اور کمائی کے ہیں۔ آپ بھی کیا یاد کریں گی۔‘

نور علی شاہ شان سے بولے۔۔’ آپ کو اجمیر بھی لے جانا ہے اور ڈاکٹر کو بھی دکھانا ہے۔۔ اور ہاں۔۔‘

چلتے چلتے وہ ٹھہر گئے۔۔ ’اب پیسوں کی فکر نہ کیجئے گا۔ بس سمجھ لیجئے، کل تک جو تقدیر روٹھ کر گھر سے باہر چلی گئی تھی، اب اس تقدیر نے ایک بار پھر گھر کا راستہ دیکھ لیا ہے۔

حسنہ کو حیرت کی وادیوں میں چھوڑ کر وہ آگے بڑھ گئے۔۔ حسنہ اور اسلم ایک دوسرے کی طرف حیران نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ جیسے پوچھ رہے ہیں، برسوں میں تو اس گھر میں، کبھی کوئی معجزہ نہیں ہوا۔ اب نور علی شاہ کی لاٹری کیسے نکل آئی۔ وہ اس بات سے واقف نہیں تھے کہ ابھی اس حقیقت کو صرف نور علی شاہ جانتے ہیں۔

اور نور علی شاہ بھی کہاں واقف تھے کہ واقعات کے ان گھنے جنگلوں میں ایک نئی کہانی انکا انتظار کر رہی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

(۸)

 

’تاریخ واقعات کا ملبہ ہے۔

اور اکثر اس سے

کہانیاں برآمد ہوتی رہتی ہیں۔‘

 

تاریخ کو گواہ بنا کر، کہ یہ وہی سال تھا جب نور علی شاہ کی زندگی میں نئے واقعات و حادثات کی یلغار ہو رہی تھی اور یہ وہی وقت تھا جب اس ملک کی اقلیتیں حکومت کے باغی رویے سے خوف اور دہشت میں زندگی گزارنے پر مجبور تھیں۔ یہ وہی وقت تھا جب خالصتان تحریک کو دبانے کے لیے موجودہ وزیر اعظم نے آپریشن بلیو اسٹار کا سہارا لیا تھا۔ اور مقدس مقام میں فوجی دخل کو برداشت نہ کرتے ہوئے ہندستان کے سکھوں میں غم و غصہ کی لہر تیز ہو گئی تھی۔ اور ادھر سیاچن گلیشیر کے درجہ حرارت میں دونوں ملکوں کی سیاست سے اتنا اضافہ ہوا تھا کہ گلیشیر پگھلنے لگا تھا۔۔ سیاچن ہمالہ کے شمالی پہاڑی سلسلہ میں واقعہ دنیا میں سب سے بلندی پر قائم دوسرا بڑا گلیشیر ہے۔ ہندو پاک کی اب تک کی جنگوں میں سیاچن گلیشیر کے تنازع کا ہمیشہ سے اہم رول رہا ہے۔ قدرتی ماحول کو تحفظ دینے والے یہ گلیشیر سیاسی ماحول میں تیزی کے ساتھ پگھلتے جا رہے ہیں۔۔ یہ وہی سال تھا جب اس تنازع سے الگ ہندستانی حکومت نے سیاچن گلیشیر پر اپنی فتح کا پرچم لہرا دیا تھا اور ایک بار پھر دونوں ملکوں کے درمیان نفرت کی سیاست تیز ہو گئی تھی۔ سیاچن کے لفظی معنی جنگی گلاب کے پھول ہیں۔ ہندستان نے اس جنگی پھول پر فتح تو حاصل کر لی لیکن اقلیتی پھولوں پر ظلم و زیادتی کی کارروائی کو جاری رکھا۔۔ اور اسی سلسلے کا ایک خوفناک رخ اس وقت پنجاب کے بہانے سارے ملک میں دیکھنے کو مل رہا تھا۔

نور علی شاہ اس حقیقت سے آشنا تھے۔ پاکستان میں جب کبھی نفرت کی سیاست ہوتی ہے تو اس کا اثر ہندستان کے مسلمانوں پر بھی پڑتا ہے۔ سیاچن کا گلیشیئر پگھلا تو کشمیر سے کنیا کماری تک خوف کی ہوا پھیل گئی۔ اور ادھر پنجاب کا سیاسی درجہ حرارت بڑھنے سے طوفان اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ جگجیت سنگھ پنجاب کی سیاسی فضا کو لے کر پریشان تھے۔۔ اس دن درگاہ پر آئے تو نور علی شاہ کو کچھ زیادہ ہی پریشان نظر آئے۔ کچھ دیر تک درگاہ میں ہی پتھر کے ٹیلے پر بیٹھے بیٹھے پنجاب اور ہندستان کی سیاست کا ماتم کرتے رہے۔ جگجیت سنگھ کو صدمہ اس بات کا تھا کہ نئی سیاسی فضا میں ان کے بیٹوں کی سوچ بھی بدلنے لگی ہے۔۔ جیسے بڑا بیٹا تو دلی چھوڑ کر پنجاب جانے کی ضد کرنے لگا ہے۔۔ ذرا ٹھہر کر جگجیت سنگھ نے نور علی شاہ کی خیریت پوچھی تو نور علی شاہ نے مرزا رجب ہاشمی کے واقعہ کا ذکر چھیڑ دیا۔

جگجیت سنگھ چونک پڑے۔۔ مرزا رجب ہاشمی۔۔‘ ان کی آنکھوں میں الجھن کے آثار تھے۔۔’ نہیں نورا پتر۔ یہ آپ نے غلط کیا۔۔ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔‘

’کیوں۔؟‘

’ہمارے بزنس کا ایک اصول ہے نورا پتر۔ ہم کسی کا دل نہیں دکھاتے۔ کون جانے کب کس سے واسطہ پڑ جائے۔ دنیا گول ہے۔ گھوم پھر کر ہم میں سے ہر آدمی کہیں نہ کہیں ایک دوسرے سے ٹکرا ہی جاتا ہے۔‘

’جی۔۔‘

’اور یہ بات سمجھنے کی ہے نورا پتر کہ جو آج آپ کی دکان سے خالی ہاتھ جا رہا ہے وہ کل دوبارہ بھی آسکتا ہے۔ اور جب آئے گا تو آپ کو فائدہ بھی پہنچا کر جائے گا۔ ویسے بھی خواجہ صاحب اچھے انسان ہیں۔ نیک انسان۔ اور ابھی آپ بہت زیادہ ان کے بارے میں نہیں جانتے۔ وہ کہتے ہیں نا نورا پتر کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، ویسے یہاں درگاہ میں بیٹھے ہوئے سارے لوگ بھی ایک جیسے نہیں نہیں پتر۔

’جی۔۔‘

تمہیں ان کے پاس جانا چاہئے۔۔ ویسے بھی بڑے لوگوں سے مل کر انسان چھوٹا نہیں ہو جاتا۔ بڑے لوگ اپنا تجربہ بانٹتے ہیں۔ ہوسکتا ہے تم ان کے پاس جاؤ تو تمہارا کچھ فائدہ ہی ہو جائے۔‘

نور علی شاہ نے حامی بھری۔ وہ ضرور جائیں گے۔ اور اس دن کے واقعہ پر معافی بھی مانگیں گے۔۔

 

جگجیت سنگھ کچھ دیر رک کر ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ پھر چلے گئے۔

نور علی شاہ درگاہ سے باہر آئے تو قدوس کیسٹ والے کی آواز سن کر رک گئے۔

’نور بھائی۔۔‘

’کیا ہے؟‘ نور علی شاہ نے پلٹ کر دیکھا۔

’وہ۔۔ آپ کے پاس وقت ہو تو۔۔ کچھ دیر کے لیے دکان سنبھال لیجئے۔‘ نور علی شاہ رک گئے۔ یہاں تین چار کیسٹ والوں کی دکان آس پاس تھی۔۔ دکان کچھ دیر کے لیے سنبھالنے کا مطلب تھا، چائے سبزی کے پیسے آ جائیں گے۔ ویسے بھی پیسے کس کو برے لگتے ہیں۔ نور علی شاہ نے غور سے قدوس کے چہرے کا جائزہ لیا۔

’کہیں باہر جا رہے ہیں۔؟‘

’ہاں۔ دیر ہو جائے گی۔ بیوی کو بچہ ہونے والا ہے۔ اسپتال لے کر جانا ہے۔ شام تک آ جاؤں گا۔‘

قدوس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔

’یعنی آنے میں چار پانچ گھنٹے لگ جائیں گے۔‘

’اتنا وقت تو لگ ہی جائے گا نور بھائی۔‘

’پھر سو روپیہ سے کم نہیں لوں گا۔‘

’سو روپیہ۔ ‘ قدوس کے چہرے کی چمک فوراً ہی بجھ گئی۔۔ اتنی تو کمائی بھی نہیں ہوتی نور بھائی۔ رہنے دو۔ دوکان بند کر کے چلا جاؤں گا۔‘ ذرا ٹھہر کر قدوس نے نور علی شاہ کے چہرے کی طرف دیکھا۔۔ ’ہاں پچاس سے کام چل سکتا ہے تو ٹھیک ہے۔ چار پانچ گھنٹے میں خریداری بھی تو ہونی چاہئے۔‘

نور علی شاہ خوش تھے۔ بیٹھے بٹھائے آسمان سے ٹپکنے والے یہ پچاس روپے بھی کم نہیں تھے۔ قدوس کے جانے کے بعد نور علی شاہ نے دوکان سنبھال لی۔ قدوس کی جگہ کرسی پر وہ اس شان سے بیٹھے جیسے دکان کے اصلی مالک وہی ہوں۔ اس درمیان گاہک بھی آنے لگے تھے۔

’اجمیر والے خواجہ کا کوئی کیسٹ ہے؟‘

’کیوں نہیں۔‘

’وہ ذرا بھر دے جھولی میری یا محمد والا کیسٹ دکھائیے گا۔‘

’ابھی دکھاتا ہوں۔‘

’قوالی کے کچھ پرانے کیسٹ ملیں گے۔۔؟‘

بالکل مل جائیں گے۔

گاہکوں کو مسکرا مسکرا کر کیسٹ دیتے ہوئے نور علی شاہ کے سامنے قدوس کا چہرہ بھی گھوم جاتا، جو جانے سے پہلے ایک ایک کیسٹ کا حساب کر کے جاتا تھا۔ اور وہ بھی ان لوگوں میں شامل تھا جو نور علی شاہ کی ایمانداری کی قسمیں کھاتے تھے۔ مگر یہیں ‘ بزنس کے نئے تجربے میں اب وہ ایمانداری کی ڈگر چھوڑ کر نئے راستہ پر چلنے کو تیار تھے۔ گھوڑا گھاس سے یاری کرے گا تو کھائے گا کیا۔۔ ابا حضور لیاقت علی شاہ تک خاندانی ہونے کا احساس کچھ ایسا حاوی رہا کہ ساری زندگی مفلسی اور تنگدستی کے درمیان بسر ہوئی۔ ایمانداری اور خاندانی ہونے کے احساس نے اب تک دیا ہی کیا ہے۔ ذلت؟ رسوائی؟ فاقہ کشی۔۔ نور علی شاہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ وہ بار بار پلٹ کر پیچھے کی طرف دیکھتے تھے۔ جہاں شیلف میں کچھ بے حد پرانے کیسٹ پڑے تھے اور نور علی شاہ کو یقین تھا کہ قدوس میاں کبھی ان کیسٹوں کی گنتی نہیں کرتے۔ اور اسی لیے جب ایک گاہک نے پرانے زمانے کی قوالی کی فرمائش کی تو وہ شیلف سے ایسے کچھ کیسٹ نکال کر لے آئے۔

’لیجئے۔‘

’یہ نہیں۔‘

’تو یہ دیکھیے۔ صاحب، ایک زمانہ تھا جب جدن بائی کی اس قوالی پر ایک دنیا فدا تھی۔‘

’اچھا۔۔‘

’ارے آپ سن کر تو دیکھیے۔‘

نور علی شاہ نے جدن بائی کا نام تو سنا تھا لیکن وہ اس بات سے واقف نہیں تھے کہ جدن بائی محض اداکارہ تھیں، طوائف تھیں یا قوالی سے بھی کوئی سروکار تھا۔؟ مگر اب وہ آہستہ آہستہ کیسٹ بیچنے کے فن میں ماہر ہوتے جا رہے تھے۔ گاہک کے جانے کے بعد نوٹوں کو چوم کر انہوں نے کرتا کے اندر بنی ہوئی جیب میں ڈال دیا۔ مسکرائے۔ یہ ان کی محنت کی کمائی ہے۔ محنت کی کمائی تو محنت کی کمائی ہوتی ہے۔ وہ دیر تک کشمکش میں ڈوبے رہے۔ لیکن جلد ہی انہوں نے اپنے آپ کو مطمئن کر لیا۔۔ لیکن اندر کوئی تھا، جو بار بار ان سے کچھ کہنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔ چہرے پر ایک رنگ آیا اور گیا۔۔ پہلی بار نور علی شاہ کو احساس ہوا، جسم میں ایک ہمزاد بھی رہتا ہے۔ اور یہ ہمزاد وقت، بے وقت آپ کی چٹکی بھی لیتا رہتا ہے۔ آپ کو ہنساتا ہے۔ سنجیدہ کرتا ہے۔۔ اور ایک لمحہ وہ بھی آتا ہے جب ہمزاد کسی فلاسفر کی طرح آپ سوال کرتا ہے۔۔

’چوری کر لی۔۔؟‘ یہ ہمزاد تھا۔

’ہاں۔۔‘

’ہا ہا۔۔ ہو۔۔ ہو۔۔ شہنشاہ اعظم سے سیدھے چور۔۔‘

’بکو مت۔۔‘

’چوری تو چوری ہے بھیا۔ دو پیسے کی ہو یا دو کروڑ کی۔۔‘

’تب تو آپ سامنے نہیں آئے، جب ہمارا حق مارا جا رہا تھا۔۔‘

’حق۔۔؟’۔۔ ہمزاد کا چہرہ اس وقت کچھ کچھ عمرو عیار جیسا ہو رہا تھا۔ طلسم ہوشربا کی کہانیوں سے نکل کر عمر عیار زندہ ہو گیا تھا۔ اور اس وقت نور علی شاہ کے سامنے اپنے کرتب دکھا رہا تھا۔۔ کاغذ کی ٹوپی سر پر پہنے وہ عجیب نگاہوں سے نور علی شاہ کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔۔ ’کیسا حق۔۔؟‘

’سلطانی حق۔۔؟‘

’سلطانی حق بھی ہوتا ہے بھیا۔۔؟ راجے، رجواڑے گئے۔ نوابیت ختم۔ جاگیروں کا جنازہ نکلا پھر بھی حق۔۔ کیسا حق بھیا۔۔ بولے تو۔۔‘ ہمزاد بہاری اور ممبئی کے انداز میں نور علی شاہ کا تمسخر اڑا رہا تھا۔

’سنو میاں۔۔ دلازاری تو ہو گی۔ مگر سچ کو گرہ میں باندھ لو نور علی شاہ۔۔ مغلوں نے عیاشی میں حکومت گنوادی اور تمہارے آقاؤں کو دن میں تارے نظر آئے تو جانتے ہو تم لوگ کیا ہو گئے۔۔ ہو۔۔ ہو۔۔ ہا۔۔ وہ سرکس میں ایک موٹے سے بھدّے سے جانور کو دیکھا ہے۔ گنڈیل، بد نما سا جانور۔۔ ہپو پو ٹیمس۔۔ تم لوگ سلطان ہونے کے نشہ میں اتنے چور تھے کہ ہپو پو ٹیمس ہو گئے۔ ماضی کی کھا کھا کے بد نما ہوتے رہے۔۔ اور کمبھ کرن کی نیند سوتے رہے۔ اور نیند کھلی تو۔۔ ہو۔۔ ہو۔۔ کھانے پینے کے پیسے نہیں تھے تمہارے پاس۔۔ نوابیت اور شہنشاہیت کا کھانا بھی باسی ہو چکا تھا۔ کچھ سمجھ رہے ہو آپ۔۔‘

’بکے جاؤ۔۔‘

لیکن اب صحیح ہے۔۔ ہو۔۔ ہو۔۔ کھیل کی بازی اب پلٹی ہے۔ بس۔۔ مجھے تو کھیل دیکھنا ہے۔ شہنشاہیت والا کھیل بھی دیکھ لیا۔ اور اب تمہارا یہ نیا اوتار دیکھنا ہے۔۔ اچھا چلتا ہوں۔ خدا حافظ۔۔‘

پاس والی مسجد سے مغرب کی اذان کی آواز آئی تو نور علی شاہ چونک پڑے۔ ہمزاد غائب تھا۔ اور سامنے قدوس کھڑا تھا۔

’ساری بھائی۔ دیر ہو گئی۔‘

’پیسے ملا لیجئے۔ سامان چیک کر لیجئے۔۔‘ نور علی شاہ نے کرسی کی طرف اشارہ کیا اور قدوس کی کرسی سے الگ ہٹ کر کھڑے ہو گئے۔ قدوس نے مسکراتے ہوئے جگہ سنبھال لی۔ پیسے گنے۔ شیلف سے کیسٹ گنے اور دوبارہ کرسی پر بیٹھ گیا۔ پچاس روپے کا نوٹ نور علی شاہ کی طرف بڑھاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں کہیں نہ کہیں شک کی پرچھائیاں تیر رہی تھیں۔

قدوس نے پوچھا۔۔ ’سب ٹھیک ہے۔۔ نا۔۔‘

’سب ٹھیک ہے۔۔ سے مطلب؟‘ نور علی شاہ نے غصے سے قدوس کی طرف دیکھا۔

قدوس دوبارہ مسکرایا۔۔ ’نہیں۔ ایسے ہی پوچھا۔ اب آپ جائیے۔۔‘

’ٹھیک ہے۔‘

نور علی شاہ آگے بڑھ گئے۔ لیکن قدوس کی نظریں تب تک ان کا پیچھا کرتی رہیں جب تک وہ مکمل طور پر نگاہوں سے اوجھل نہ ہو گئے۔ میاں قدوس ابھی بھی شک میں گرفتار تھے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ نور علی شاہ کو لے کر ان کے دل و دماغ میں کبھی بھی شک کے کیڑے نہیں رینگے تھے۔ مگر آج جانے کیا ہوا تھا۔ وہ بار بار پلٹ کر شیلف کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اور انہیں لگ رہا تھا، آج اس نور علی شاہ کے بچے نے کچھ نہ کچھ ہیرا پھیری ضرور کی ہے۔ جاتے وقت وہ ایک ایک کیسٹ کی گنتی کر کے گئے تھے۔ گنتی برابر تھی۔ قدوس نے دوبارہ مسکرانے کی کوشش کی۔

’حد ہے۔ ایماندار آدمی پر بھی شک کرنے لگے قدوس میاں۔‘

گاہک آنے لگے تھے۔ قدوس میاں گاہکوں کی فرمائش پوری کرنے لگے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۹)

 

 

دریائے جمنا کا پانی خشک تھا۔ پروفیسر ہکسلے کی گردن سے دوربین جھول رہا تھا۔ ہکسلے نے پلٹ کر فرید شیخ کی طرف دیکھا پھر دوربین آنکھوں سے لگا کر آس پاس کے مناظر دیکھنے میں غرق ہو گئے۔ فرید شیخ دیر سے پروفیسر ہکسلے کے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ پروفیسر ہکسلے نور علی شاہ کے بارے میں جاننے کے باوجود خاموش کیوں ہے۔ اس نے آتے ہی نور علی شاہ کے بارے میں پروفیسر ہکسلے کو مطلع کر دیا تھا۔۔کہ نور علی شاہ مفت میں ماضی بیچنے کو تیار نہیں۔ وہ اس قیمت چاہتے ہیں۔ پروفیسر ہکسلے مسکرا کر رہ گئے تھے۔

دوپہر کا وقت تھا۔۔ دھوپ گرم تھی۔۔ موسم کی حدت میں اضافہ ہو چکا تھا۔۔ سر پر گرم سورج کا سایہ تھا۔۔ پروفیسر ہکسلے نے دوربین کو آنکھوں سے ہٹایا۔ فرید شیخ کی طرف مسکرا کر دیکھا۔

’’تاریخ سے زندگی کا خاص لگاؤ ہوتا ہے فرید۔یہ تمہاری دلی بھی عجیب نگری ہے۔۔ شاید ایک ساتھ ایسی عجیب تاریخ کا سنگم کسی اور شہر میں دیکھنے کو نہ ملے۔۔ کچھ لوگ اس تاریخ سے عبرت کا کام لیتے ہیں، اور کچھ اس تاریخ کی قیمت چاہتے ہیں۔ یو نو فرید۔۔ تم سے پہلے یہاں ہندو سلطان ہوا کرتے تھے۔

فرید غور سے اب بھی پروفیسر ہکسلے کے چہرہ کا جائزہ لے رہا تھا۔ پروفیسر کی آنکھیں ماضی کے کھنڈرات میں گم ہو گئی تھیں۔

’’اور نگری نہیں یہ دلی ہے۔۔ دلی نے بھی کتنے ہی نام بدلے۔ ہندوؤں نے دلی کہا تو مسلمانوں نے دہلی کر دیا۔ کبھی یہ اندرپرست ہوا کرتا تھا جسے پانڈوں بھائیوں کے بڑے بھائی یودھشٹر نے بسایا تھا۔۔ پانڈوؤں کے وقت میں بھی یہاں کی شان و شوکت دیکھنے میں آتی تھی۔ سیاح آتے تو اس سرزمین کو جنت قرار دیتے۔۔ پھر اس شہر کے کتنے ہی نام بدلتے چلے گئے۔ سکرپرست، سکرپوری، ست کرت پرست، کھنڈوا پرست۔۔ مشکل یہ ہے کہ ہندوؤں نے اپنی تاریخ سنبھال کر ہی نہیں رکھی۔ دلی سے لگ کر یہی جمنا بہتی تھی۔ جمنا نے کتنے ہی رخ بدلے۔ تاریخ نے بھی بدلے۔ ہندوؤں نے قدم تاریخ کو کلجگ کا نام دے دیا۔۔ نشانیاں بھی کہاں ملیں۔ کچھے نشانیاں ستونوں پر منقوش ہیں تو کچھ تانبے کے پتروں پر لکھی ہوئی۔ چندر گپت، بکرما جیت، تنوار خاندان کے راجہ اننگ پال۔۔ سوبرس تک دلی میں حکومت کی۔ فصیلیں بنوائیں۔ 1151میں چوہان راجپوتوں نے دلی کو فتح کر لیا۔۔ جے ہند۔۔ پرتھوی راج۔۔ راجپوت راجاؤں کی آپسی رنجش مہنگی پڑی اور مسلمان فاتح ہوتے چلے گئے۔  ہمارے سامنے صرف ایک ہزار عیسوی کے واقعات ہیں جب محمود غزنوی نے ہندستان پر حملہ کر کے متھرا اور قنوج کو نقصان پہنچایا تھا۔۔ تب بھی تمہاری دلی کہاں تھی۔۔ 1052تک جب محمود غزنوی ہندستان سے چلا گیا تو دلی اسی طرح ویران رہی۔ ‘

فرید شیخ کی آنکھیں الجھنوں میں گم تھیں۔۔ وہ اب بھی مسکراتے ہوئے پروفیسر ہکسلے کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ پروفیسر ہکسلے کچھ لمحے کے لیے خاموش رہے۔ پھر انہوں نے پلٹ کر فرید شیخ کی طرف دیکھا۔۔

’’فتح و شکست کی کہانیوں نے کیسے کیسے امتحان لیے ہیں۔۔ کیسے کیسے دن دکھائے ہیں۔۔ راجپوت سلطنتیں تباہ ہو گئیں، افغان بادشاہوں نے قدم رکھا اور 1200تک مسلمانوں نے دلی کو فتح کر لیا۔ ‘‘

’’یہ سب آپ مجھے کیوں سنا رہے ہیں۔ ؟‘‘

’’تاریخ حساب مانگتی ہے فرید۔اب مجھے ہی دیکھو تمہاری دلی، تمہارا ملک۔۔ لیکن تمہاری تاریخ سے محبت جاگی تو ہندستان آ گیا۔ ‘‘

فرید شیخ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔۔ ’زندگی ہو یا تاریخ، آپ ہر جگہ تجارت دیکھتے ہیں۔ آپ ہمدردی کرنے اور دکھانے کی بھی قیمت وصول کرتے ہیں۔‘

پروفیسر ہکسلے کی مسکراہٹ برقرار رہی۔

’بادشاہ ہمایوں بیمار پڑا۔ آپ نے اچھا کر دیا اور تجارت کے راستے مانگ لیے۔ ہماری بھول تھی کہ ہم سمندر کی طاقت سے آگاہ نہیں تھے۔ اور آپ کی چالاکی کہ آپ بہت قبل سمندر کی طاقت پہچان چکے تھے۔ آپ نے سمندری کناروں کا انتخاب کیا اور تجارت کے لیے قلعے بنوانے لگے۔ وقت کے ساتھ ہندو اور مسلمانوں کا فاصلہ ختم ہو چکا تھا۔ اور آپ جانتے تھے، انہیں لڑایا نہیں گیا، تو ان پر حکومت بھی نہیں ہوسکتی۔‘

’ہماری سوچ کچھ اور کہتی ہے فرینڈ‘۔۔پروفیسر ہکسلے مسکرائے۔۔ ہندوؤں کو اندازہ تھا کہ تمہاری شاطرانہ چالوں نے اس ملک کو ہڑپ لیا ہے۔ محمد غوری کا حملہ ہوا۔ خزانے لوٹے گئے۔ محمد غوری کے بیٹے آپس میں لڑے تو سلجوقی حاوی ہو گئے۔ شمالی ہند میں، راجپوتوں کی چار طاقتور سلطنتیں تھیں۔ دہلی، اجمیر، قنوج اور گجرات۔۔ یہاں تنوار، بھگیلوں، راٹھور اور چوہان کی حکومت تھی۔ آپس کا بگاڑ، راجپوتوں کو سلطنت کی بربادی کی وجہ بن گیا۔‘

پروفیسر ہکسلے نے ٹھنڈی سانس بھری۔۔تمہیں کیا لگتا ہے، یہ تاریخ اتنی پرانی ہے کہ ہندوؤں کو یاد بھی نہ ہو گی؟ کیوں ؟

پروفیسر ہکسلے فرید شیخ کو دیکھ کر مسکرائے۔۔ ’’ناراض تو ہندوؤں کو بھی ہونا چاہئے تھا۔ ان کی حکومت تھی، اور مسلمان اس ملک کو لوٹنے چلے آئے۔۔ کیوں ؟ تمہیں نہیں لگتا، کہ آج یہ ہندو اگر اس پرانی تاریخ کی دہائی دے رہے ہیں تو کیا کچھ غلطی کر رہے ہیں۔ ‘‘

فرید شیخ کا لہجہ اس بار ناراضگی سے بھرا ہوا تھا۔۔’’ہندو ملک نہیں مانگ رہے ہیں۔ پہلے بھی نہیں مانگا۔ مغل آئے تو ہندو جانتے تھے کہ یہ مغل حکومت کرنا جانتے ہیں۔ ہندوؤں نے مغلوں کو آنکھوں پر بٹھایا۔ مغلوں نے بھی ہندوؤں کو سینے سے لگایا۔ لیکن مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ ہی آپ کی سازشیں بھی شروع ہو گئیں۔ یہ آپ تھے، جنہوں نے ہندوؤں کے دل میں یہ باتیں بیٹھانی شروع کیں، کہ کبھی یہاں ان کی بھی حکومت تھی۔ یا یہ کہ ہندستان کے اصل وارث تو تم ہو۔۔ مسلمان تو بھگیرو تھے یا لٹیرے۔ نادر شاہ آیا تو خزانہ لوٹ کر لے گیا۔۔ لیکن مغلوں نے ایسا نہیں کیا۔۔اور اب آپ ہزار برسوں کی تاریخ میں دوبارہ یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ ملک مسلمانوں کا تھا ہی نہیں۔۔ ‘‘

پروفیسر ہکسلے کی آنکھوں میں زہریلی مسکراہٹ تھی۔۔

’’حقیقت برداشت کرنا سیکھوفرید۔۔ جیسے یہ ہمارا ملک نہیں تھا۔۔ ویسے ہی کبھی تم بھی اس ملک کے لیے اجنبی تھے۔ ہم ہندوؤں کے طور طریق نہیں سیکھ سکے۔ اس لیے تمہاری طرح صدیوں حکومت بھی نہیں کرسکے۔ تم شاطر تھے۔۔ تم آئے اور تم نے ہندوؤں کے طور طریق بھی سیکھ لیے۔ اور ابھی بھی تمہاری یہ شاطرانہ غرض کم نہیں ہوئی ہے۔ اب دیکھو نا۔۔ نور علی شاہ کو ہی لو۔۔

پروفیسر ہکسلے مسکرا رہے تھے۔۔’ میں سوچ ہی رہا تھا کہ نور علی شاہ کے ذہن میں اچانک یہ بات کیسے پیدا ہوئی۔۔؟ مگر جانتے ہو فرید۔۔میں ناراض نہیں ہوں۔ میں خوش ہوں۔۔ ایک وقت آتا ہے جب ہم صدیوں کی دیمک چاٹتے چاٹتے حقیقت کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔۔ پھر ایک وقت آتا ہے جب ہم اس حقیقت کی روشنی میں اپنا جائزہ لیتے ہیں۔ مجھے اب لگتا ہے، نور علی شاہ نے اس درمیان حقیقت کے گھنے راستے اپنا جائزہ ضرور لیا ہو گا۔۔ اور کیا ملا ہو گا اس سے۔۔ صدیوں کا چیتھڑا۔۔؟ تنگدستی کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان۔۔ اور پھر ایک تسلی کہ وقت کو بدلا جا سکتا ہے۔۔ ایک نئی تاریخ شروع کی جا سکتی ہے۔ اس لیے جانتے ہو فرید شیخ۔۔ اب میرا دل اس سے ملنے کے لیے زیادہ پریشان ہے۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں، کیا وہ خود سے آتا ہے یا مجھے دوبارہ اس کے پاس تمہیں بھیجنے کی ضرورت محسوس ہو گی۔ اگر وہ خود سے آتا ہے تو اس کا مطلب ہے وہ کسی نتیجے پر پہنچ چکا ہے۔ اگر ایسا ہے تو نور علی شاہ میرے زیادہ کام آسکتا ہے۔

فرید شیخ ابھی بھی پروفیسر ہکسلے کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسے اس بات کا یقین تھا کہ پروفیسر ہکسلے کے اندر نور علی شاہ کے لیے کوئی نہ کوئی سازش ضرور چل رہی ہے۔ مگر نور علی شاہ سے ملنے کے بعد وہ مطمئن تھا کہ اب حالات کے مارے ہوئے نور علی شاہ نے خود کو وقت کے مطابق ڈھال لیا تھا۔

 

سامنے خشک جمنا کے کنارے صدیوں کی تاریخ بیان کر رہے تھے۔۔ پروفیسر ہکسلے کچھ دیر تک دور بین سے ادھر ادھر دیکھتا رہا۔ پھر اس نے نوٹ بک پر کچھ تحریر کیا۔ مسکرایا۔ فرید شیخ کی طرف دیکھا۔

’اب چلنا چاہئے۔‘

گاڑی میں بیٹھنے تک فرید شیخ کی الجھن کم نہیں ہوئی تھی۔ اسے ملال اس بات کا تھا کہ ملک چھوڑ کر جانے کے بعد بھی  انگریز اپنی سازش سے باز نہیں آئے۔ مسلمانوں کے ماضی اور تہذیب میں آج بھی ان کی دلچسپی کے درمیان بغض اور نفرت کی کہانیوں کو پڑھا جا سکتا ہے۔ فرید شیخ مطمئن تھا، ہکسلے نے زیادہ پریشان کیا تو وہ اس کی نوکری چھوڑ دے گا۔ لیکن اس بہانے وہ یہ جاننے کا آرزومند تھا کہ آخر پروفیسر ہکسلے کے دل میں کیا ہے۔۔ مسلمانوں کی تاریخ کو اپنے حساب سے رقم کرنے کے پیچھے ہر بار وہ کسی نہ کسی نئی سازش کا سراغ حاصل کر لیتا تھا۔۔ پروفیسر ہکسلے کو بھی اس چھیڑ چھاڑ میں مزہ ملتا تھا۔

نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی

تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بیزار بیٹھے ہیں

گاڑی اب دریائے جمنا کے کنارے کنارے آگے بڑھ رہی تھی۔

٭٭

 

اسلم علی شاہ پرانی دلی، جامع مسجد کے قریب اردو بازار میں کتابوں کی ایک دکان میں ملازم ہو گئے تو ان کے طور طریقے بھی بدل گئے۔ سفید کرتا پائجامہ، سر پہ ہر وقت چپکی رہنے والی گول ٹوپی، نماز میں پابندی اور ہر بات پر شکر اللہ، جزاک اللہ، سبحان اللہ کے الفاظ ان کے منہ سے موتیوں کی طرح جھڑتے تھے۔۔ پرانی دلی کی اپنی رونقیں تھیں اور یہ رونق انہیں بادشاہوں کے عہد کی یاد دلاتی تھی۔۔ اب انہیں افسوس ہو رہا تھا کہ اگر انہوں نے تعلیم کی طرف توجہ دی ہوتی تو شاید یہ دن کچھ اور ہوتے۔ تبدیلیوں کی آندھی تیز تھی۔ نور علی شاہ بھی نئی آندھیوں کی زد میں تھے۔ اس دن پہلی بار قدوس میاں کی دکان پر انکا ہمزاد ان سے ٹکرایا تھا۔ پھر تو جیسے یہ معمول بن گیا۔۔ ان کی ہر نئی حرکت پر یہ ہمزاد چپکے سے نکل کر سامنے آ جاتا۔ کبھی کبھی تو صورتحال اتنی عجیب ہو جاتی کہ آس پاس کے لوگ پلٹ کر ان کی جانب دیکھنے لگتے کہ آیا اس شخص پر دیوانگی کا دورہ تو نہیں پڑا۔ نور علی شاہ بھی اپنے ہمزاد کی حرکتوں سے عاجز تھے۔ مگر جیسے جیسے ان کی زندگی میں نئی تبدیلیوں کے در کھل رہے تھے، ویسے ویسے ہمزاد نے کچھ زیادہ ہی اپنی سرگرمیاں تیز کر دی تھیں۔۔ جیسے اس دن پھول والوں کے قریب سے گزرتے ہوئے ہمزاد اچانک نکل کر سامنے آ گیا۔۔

’قدوس کو پتہ چل گیا ہے۔۔؟‘

’کیا۔۔‘

’وہی۔۔ کہ آپ نے ہاتھ صاف کیا ہے۔۔ ہیرا پھری۔۔‘

’لیکن وہ وثوق سے نہیں کہہ سکتا۔‘

’ہاں۔ یہ تو ہے۔۔ لیکن میاں سنبھل کر۔ اس راہ میں کانٹے بہت ہیں۔‘

’کانٹے پہلے نہیں تھے؟‘

’پہلے کہاں تھے؟ ہمزاد ہنسا۔۔’ پہلے آپ کچھ کرتے ہی کہاں تھے۔۔ پہلے اپنی خوبیوں کو پہچانا ہی کہاں تھا استاد۔‘

’تو کیا میں غلط کر رہا ہوں۔۔‘

’نہیں استاد۔ یہ میں نے کب کہا۔ لیکن راستہ پر خطر ہے۔ سنبھل کر چلنا بہتر ہے۔‘

’اب قدم بڑھا ہی دیا ہے تو سوچنا کیا۔‘ نور علی شاہ ہنسے۔۔ لیکن یہ الجھن برقرار تھی کہ اگر کسی دن کہیں بھی ان کی چوری پکڑی گئی تو اس کا نتیجہ کیا ہوسکتا ہے۔ ان چھوٹی موٹی چوریوں کے لیے ان کے پاس خاطر خواہ تسلی کے جواز موجود تھے۔۔ جیسے محتاج اور بھوکے شخص کے لیے کتے کا گوشت بھی جائز ہے اگر اس کے گھر کئی دنوں سے فاقہ ہو رہا ہو۔۔ یہاں تو زندگی فاقے میں گزر گئی۔ اور اب اگر انہوں نے اپنے گھر کی خوشحالی کے لیے یہ راستہ اختیار کیا ہے تو غلط کیا ہے۔ پھول والے، کیسٹ والے، درگاہ کی سیر کو آنے والے سیاح، عقیدت مند، تبلیغی مسجد میں باہر سے آئے لوگ، گوشت کی دکان، کباب والے، ٹھیلے والے، کتاب کی دکان یا ٹوپیوں والے۔۔ اب آمدنی کا ذریعہ محدود نہیں تھا۔ وہ پلک جھپکتے دوچار دس روپے تو یوں اڑا دیتے تھے کہ ہمزاد بھی چونک جاتا۔

’کمال کے شاطر ہو گئے ہو۔۔‘

’اب یہ کمال کا شاطر ہونا کیا ہے۔۔‘

’زندگی جینا سیکھ گئے ہو میاں۔۔‘

’اب کیا کرتا۔ راستہ ہی کیا بچا تھا۔ ابا حضور لیاقت علی شاہ تک ایک اداس کرنے والے ماضی میں فاقے کے ساتھ پناہ تلاش کرنا لکھا تھا اور یہاں۔۔‘

ہمزاد ہنسا۔۔ ماضی کی ایسی ہنسی۔۔ بھلا شہنشاہیت کے قصے رنج اور صدمے کے علاوہ دے ہی کیا سکتے تھے۔ اور تم نے تو ماضی کی بھی بولی لگانی شروع کر دی؟

’ابھی نہیں۔ لیکن نئے طریقے سیکھے ہیں تو ماضی کی بولی بھی لگے گی۔‘

 

اس دن اسلم علی شاہ نے خالی کمرے میں نور علی شاہ کو خود سے بڑبڑاتے دیکھ لیا تو پریشان ہو کر حسنہ کے پاس پہنچ گئے۔

’بھیا پر اوپری ہوا کا سایہ تو نہیں۔۔؟‘

’کیوں کیا ہوا۔۔‘

اسلم علی شاہ نے خوف سے ادھر ادھر دیکھ کر کہا۔۔’ کچھ دنوں سے دیکھ رہا ہوں بھابھی۔ آثار اچھے نہیں۔ خالی کمرے میں کسی سے باتیں کرتے رہتے ہیں۔ یہ جنات ونات کا معاملہ تو نہیں۔‘

’خدا معلوم۔ ‘ حسنہ کی آنکھوں میں بھی خوف تھا۔ مجھے بھی یہی ڈر ہے۔ اس دن پتہ ہے کیا ہوا، میں کمرے میں گئی، تو مجھ سے کہا گیا۔۔ ٹھمری سنائیں گی یا دادرا۔۔‘

اسلم علی شاہ سوچ میں گرفتار تھے۔۔ خدا معلوم، یہ نوابوں کی روح تو نہیں آ گئی۔ جو بھی ہو بھابھی، بھیا پر نظر رکھنی ہو گی۔ حالات ٹھیک نہیں ہیں اور بھیا کا دماغی توازن بھی بگڑا ہوا لگتا ہے۔‘

حسنہ کی بڑی بڑی آنکھیں ابھی بھی الجھن کا شکار تھیں کہ آخر ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔۔ مٹیا برج کے کتنے ہی چہرے نظر کے آگے طواف کر گئے۔ یہاں تک کہ سنڈاس صاف کرنے والی مہترانی کا چہرہ بھی نگاہوں کے آگے کوند گیا، جو ایک دن میاں جی کی شکایت لے کر آئی تھی۔ کیا پتہ، اسی نے جادو ٹونہ نہ کرا دیا ہو۔

’کیا سوچنے لگیں بھابھی؟‘

اسلم نے پوچھا توحسنہ نے چونک کر اسلم کی طرف دیکھا۔۔

’تم ٹھیک کہتے ہو اب ان پر نظر رکھنی پڑے گی۔ اس سے پہلے کبھی ایسی الٹی پلٹی حرکتیں سامنے نہیں آئی تھیں۔۔‘

اسلم علی شاہ کی پیشانی شکن آلودہ تھی۔۔ ’مجھے تو سایہ ہی لگتا ہے بھابھی۔‘

 

بستی حضرت نظام الدین کی تنگ گلیوں سے گھر کے دروازے پر قدم رکھتے ہوئے نور علی شاہ چونک گئے۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ دروازہ بند کیا تو ہمزاد چپکے سے نکل کر سامنے کھڑا تھا۔

’اب کیا ہے؟‘

’گھر کی خبر لیجئے۔ آپ کے بارے میں خبریں بننے لگی ہیں۔۔‘ ہمزاد ہنس رہا تھا۔

’تمہیں کیسے معلوم؟‘

’آپ تو صرف اپنی خبر رکھتے ہیں، مجھے تو دنیا کی بھی خبر رکھنی ہوتی ہے۔‘

اس سے پہلے کہ نور علی شاہ ہمزاد کو کوئی جواب دیتے، سامنے حسنہ اور اسلم علی شاہ کو دیکھ کر چونک گئے۔۔ حسنہ شک اور خوف کے عالم میں ان طرف دیکھ رہی تھی۔‘

’خدا دشمنوں کو موت دے۔ آپ کی طبیعت تو اچھی ہے نا۔۔؟‘

’یہ دشمنوں کو کوسہ کیوں دے رہی ہیں۔ اور ہمارا دشمن ہے ہی کون۔۔؟‘

’اب دشمنوں کی کون کہے۔ تقدیر کو بھی بری نظر لگتی ہے۔ اور آج تو ہر کوئی حاسد کی نگاہ سے ہی دیکھتا ہے۔‘

نور علی شاہ نے قہقہہ اچھالا۔۔’ کمال کرتی ہو بیگم۔ حاسد کوئی تب بنے، جب ہمارے پاس نواب واجد علی شاہ جیسا خزانہ ہو۔۔ آپ کہاں کی باتیں لے کر بیٹھ گئیں۔۔کھانا نکالیے۔۔ بھوک لگی ہے۔‘

قدوس میاں سے حاصل کیے گئے پیسے انہوں نے فرمانبردار شوہر کی طرح بیگم کے ہاتھ میں رکھ دیئے۔ اسلم کی طرف دیکھا۔۔

’میاں۔۔ یہ آپ کی کوئی شرارت تو نہیں کہ دشمنوں کو کوسہ دیا جا رہا ہے۔‘

’لو۔۔ بھیا کی سنو۔۔‘ اسلم نے پلٹ کر حسنہ کی طرف دیکھا۔ حسنہ نے مسکراتے ہوئے نور علی شاہ کی طرف دیکھا۔

’چلیے۔ کھا لیجئے۔ چہرہ بھی اترا ہوا ہے۔‘

نور علی شاہ نے قہقہہ لگایا۔۔ ’گزرے نوابوں کے خالی گھر میں پیدا ہونے کا نتیجہ ہے بیگم، چہرہ پر روغن کہاں سے آئے گا۔۔ مگر۔۔‘ نور علی شاہ مسکرائے۔۔ مگر اب نظر آئے گا۔۔آپ  دیکھتی جائیے بیگم۔۔ یہ وقت بدلے گا۔۔‘

’وہ کیسے۔۔ ؟‘ اسلم نے پوچھا۔۔

نور علی شاہ کی آنکھوں کے سامنے پروفیسر ہکسلے کا چہرہ آ گیا تھا۔۔ گمشدہ لمحات اور کھوئی ہوئی شہنشاہیت کو زندہ کرنے کا ارادہ ہے بیگم۔۔‘

نور علی شاہ ہنس رہے تھے۔ مگر اس جواب سے غیر مطمئن حسنہ اور اسلم علی شاہ ایک بار پھر نور علی شاہ کو دیکھ کر پریشان ہو گئے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۱۰)

 

رات ہو گئی تھی۔ آسمان پر تاروں کا رقص جاری تھا۔ نیلے آسمان پر تیرتا ہوا چاند ستاروں کے جھرمٹ میں آنکھ مچولی کا کھیل، کھیل رہا تھا۔ بستی حضرت نظام الدین کی گلیاں سو گئی تھیں۔ ہوا تیز تھی۔ درختوں کے پتے جھوم رہے تھے۔۔ نور علی شاہ چھت پر آئے تو گہری اداسی نے گھیر لیا۔ وہ ایک ٹک ستاروں کے رقص اور آسمان پر پھیلی ہوئی چاندنی کو دیکھتے رہے۔

اچانک رقص ٹھہر گیا۔۔

ستارے اوجھل ہو گئے۔ چاندنی چھپ گئی۔ اب آسمان پر سیاہ بادلوں کا قافلہ تھا۔۔ ایک اداس کرنے والی موسیقی تھی جو اس وقت ان کے کانوں میں گونج رہی تھی۔۔

صرف حکومتوں کو زوال نہیں آتا۔۔ تہذیبیں بھی فنا ہو جاتی ہیں۔۔

یونان، روم، بابل۔۔ کمزور بنیادوں کے بت گر گئے۔۔ قدریں بدل گئیں۔۔ اودھ کی شان کھو گئی۔۔ مٹیا برج کو اودھ کی طرح آباد کرنے والی خواہشوں کا فرنگی حکومت نے گلہ گھونٹ دیا۔۔ قدیم رؤسا اور عمائدین بٹیر بازی، کنکوے بازی، کبوتر بازی اور عیاشیوں کے شوق میں تباہ ہو گئے۔ فنکاروں کی صناعی کے نمونے آج بھی دعوت نظارہ دیتے ہیں مگر ان کی نسلیں فاقہ کشی اور گمنام موت کی تقدیر لے کر پیدا ہوتی رہی ہیں۔۔ درباروں کی مسندیں اٹھ گئیں۔۔ جاہ و حشم کے چراغ کب کے بجھ گئے۔۔

کیا یہ چراغ پھر سے روشن ہوسکیں گے؟

تاریخ کا ملبہ سامنے تھا۔ اور نور علی شاہ اپنے ہی سوالوں میں گم کہ اودھ کے عمائدین اور رؤسا انگریزوں کی شاطرانہ چال کو سمجھ سکتے تو کیا بوستان لکھنؤ اسطرح تاخت و تاراج ہوسکتا تھا۔۔؟ شہنشاہ کی معزولی کے بعد ڈیوڑھیوں، محلوں اور محلسراؤں میں رقص و موسیقی کی جگہ ویرانی کو آباد کرنے والے جھینگروں اور کبوتروں کے غول نے لے لیا۔ مکڑے کے جالے اور چمگادروں نے اجڑے دیار کی کہانیاں لکھیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وقت نے ایک لمبا سفر طے کر لیا۔۔

 

تارے چھپ گئے تھے۔ چاند بدلیوں کی آغوش میں کھو گیا تھا۔ آدھی رات کا گجر بج چکا تھا۔ اور یہ وہی وقت تھا جب اچانک حسنہ ایک تیز چیخ کے ساتھ اٹھ کر بیٹھ گئیں۔۔ نور علی شاہ کی بھی نیند لگ گئی تھی۔ انہیں تو یہ بھی خیال نہیں تھا کہ وہ تاریخ کے ملبہ سے کب واپس آئے اور کب آ کر بستر پر حسنہ کے پاس آ کر لیٹ گئے اور کب آنکھیں نیند کی وادیوں میں کھو گئیں۔ مگر حسنہ کی چیخ نے انہیں جگا دیا۔۔ سوئچ پر ہاتھ رکھا۔ بلب روشن کیا۔ حسنہ کا چہرہ دیکھ کر چونک پڑے۔۔ حسنہ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ چہرہ سخت اور تناؤ سے بھرا ہوا لگ رہا تھا۔۔

’کیا ہوا۔۔؟‘ نور علی شاہ قریب آ گئے۔۔

’وہ۔۔‘

’ہاں۔۔ بولو۔۔ وہ کیا۔۔ طبیعت خراب لگ رہی ہے۔۔؟‘

’نہیں۔۔‘

’پھر کیا بات ہے۔۔؟‘

’وہ۔۔‘ حسنہ نے پلٹ کر نور علی شاہ کی آنکھوں میں دیکھا۔۔’ ریت اڑ رہی تھی۔۔ دور تک پھیلا ہوا ریگستان۔۔‘

’ریگستان۔۔؟‘نور علی شاہ چونک گئے۔

’ہاں۔۔ ریگستان۔۔ اور وہ اس ریگستان میں سرپٹ بھاگ رہی تھی۔ اس کے پیچھے گھوڑے تھے۔۔ نہیں۔۔ کچھ لوگ تھے۔۔ بیحد ڈراؤنے لوگ۔۔ نہیں۔۔ گھوڑے تھے۔۔‘

’گھوڑے۔۔ ڈراؤنے لوگ۔۔ اور وہ بھاگ رہی تھی۔۔؟‘ نور علی شاہ نے پاگلوں کی طرح حسنہ کی طرف دیکھا۔۔ ’کہاں کی باتیں کر رہی ہو؟ کس کی باتیں کر رہی ہو۔۔؟‘

حسنہ کی بے جان آنکھیں بے رنگ دیواروں کو دیکھ رہی تھیں۔۔

’اس کا چہرہ زرد تھا۔ عمر یہی کوئی سولہ سترہ۔۔ دوڑتے ہوئے سر پر رکھا ہوا آنچل راستہ میں کہیں گر گیا تھا۔ ریت کی آندھی اٹھی تھی۔ اور اس کے پیچھے دوڑتے ہوئے حیوان تھے جو قہقہہ لگاتے ہوئے مسلسل اس کا پیچھا کر رہے تھے۔۔ اور وہ لڑکی‘

’لڑکی۔۔‘

حسنہ نے بیقرار ہو کر نور علی شاہ کے ہاتھوں کو تھام لیا۔۔

’بیحد ڈراؤنا خواب تھا۔۔ آنکھوں کے آگے ابھی بھی اس لڑکی کا چہرہ گھوم رہا تھا۔‘

’مگر وہ لڑکی کون تھی۔۔؟‘

حسنہ نے جیسے نور علی شاہ کے سوال کو سنا ہی نہ ہو، وہ ابھی بھی ایک ٹک بے رونق دیواروں کو دیکھ رہی تھی۔۔

’زمانہ خراب ہے۔۔ میں خوف محسوس کر رہی ہوں۔ آپ دیکھ رہے ہیں نا۔۔ سب طرف لوٹ پاٹ مچی ہے۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔ کیا وہ اس ماحول میں آنکھیں کھولے گی۔۔؟‘

’کون۔۔؟‘ اس بار نور علی شاہ چیخ کر بولے۔۔

’میری بیٹی۔۔‘ کہتے ہوئے حسنہ نے سر جھکا لیا۔۔

باہر کتے زور زور سے بھوک رہے تھے۔ کھڑکی سے سیاہ آسمان نظر آ رہا تھا۔۔ ہوا کے زور سے کھڑکی کے پٹ ڈول رہے تھے۔۔

’میری بیٹی۔۔؟‘ نور علی شاہ نے چونک کر پوچھا۔

حسنہ نے اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں چھپا لیا۔اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ آواز لرز رہی تھی۔

’ہاں۔ ہماری بیٹی۔۔‘

نور علی شاہ کی آنکھوں کے آگے اندھیرے جمع ہو گئے تھے۔ وہ آگے بڑھے۔ کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھا۔ سیاہ آسمان پر تیرتے بادلوں کے ٹکڑے سرخ رنگ میں تبدیل ہو چکے تھے۔

’آندھی آنے والی ہے۔۔‘

انہوں نے پلٹ کر حسنہ کی طرف دیکھا۔ کھڑکی بند کر دی۔ روشنی گل کر دی۔۔ حسنہ نے دوبارہ آنکھیں بند کر لی تھیں۔ مگر نور علی شاہ کی آنکھوں سے نیند غائب تھی۔۔

کیا سچ مچ آنے والا وقت کوئی اور ہی کہانی قلمبند کرنے والا ہے؟

یہ کیسا ڈراؤنا خواب تھا؟

کیا اس خواب کا تعلق ان کی آنے والی زندگی سے ہے؟

بادلوں کے سیاہ ٹکڑے اب ان کی آنکھوں میں سمٹ آئے تھے۔ نیند اچٹ چکی تھی۔۔

اور اس حقیقت سے الگ۔۔ وقت ایک بے رحم داستان لکھنے کی تیاری کر رہا تھا۔

٭٭

 

رجب ہاشمی کی مشکل یہ تھی کہ نور علی شاہ سے، ملنے سے قبل زندگی کو کبھی اس زاویے سے نہیں سوچا تھا۔ ملنے والوں کی کمی نہیں تھی۔ قدر و عزت کا معاملہ یہ تھا کہ حکومت کا وزیر ہو یا اعلی درجہ کا افسر، کوئی بھی ملتا تو جھک کر ملتا۔ ساتھ ساتھ بیٹھنے کا تو سوال ہی نہیں۔ جہاں بھی قدم اٹھتا، وہاں قدم بوسی کے لیے ہزارسر سجدے میں چلے جاتے۔ وہ منع بھی کرتے کہ یہ بدّت ہے۔ مجھے گنہگار تو نہ بنائیے مگر عقیدت مندوں کی جھکی ہوئی آنکھیں یہ قصہ بیان کرتیں کہ یہاں سے ایک راستہ جذب و فیض کی منزلوں کی طرف جاتا ہے۔ قصہ کوتاہ کہ وہ اس راستے سے الگ ساری زندگی کچھ اور دیکھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کر سکے۔ سرپر قالب چڑھی چکن کی چو گوشیہ ٹوپی ان کی مخصوص شناخت بن چکی تھی۔ بدن میں انگرکھا، پانو میں عرض کے پائنچوں کا پائجامہ، کندھے پر جالی دار رومال۔۔ نئی تہذیبوں کی آمد کے باوجود یہ وضع قطع برقرار تھی۔ جبکہ وقت کے ساتھ شرفا پرانی وضع چھوڑ کر نئی وضع کے کرتے اور پائجامے پہننے لگے تھے۔ اس لباس خاص میں دور سے ہی ان کی شناخت میں کوئی مشکل نہیں آتی تھی۔ گھر پر ہوتے تو عقیدت مندوں کے آنے جانے کا سلسلہ جاری رہتا۔ قدم بوسی۔ ہاتھوں کو آنکھوں سے لگا کر بوسہ دینا۔ دو قدم پیچھے ہٹنا اور سر جھکا کر بیٹھ جانا۔ لیکن نور علی شاہ کے جانے کے دوسرے دن رجب ہاشمی کے اندر بہت حد تک تبدیلیاں آ چکی تھیں۔

شام کے سائے نمودار ہوئے۔ مغرب کی اذان ہوئی۔ نماز کے بعد آنے والوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ان پر ایک عجیب کیفیت طاری تھی۔ وہ آنے والوں کو قریب آنے سے روکتے ہوئے، اشارہ کرتے اور بیٹھ جانے کا حکم دیتے۔ عقیدت مند پہلے کی طرح قدم بوسی کے لیے جھکتے تو وہ ناگواری سے روک دیتے۔

’بس میاں۔۔‘

’شاہ صاحب۔۔ ہم سے کوئی غلطی ہوئی کیا۔۔‘

ان کی آنکھیں ایک ٹک خلا میں دیکھتی ہوئی سامنے والے کے چہرے پر مرکوز ہو جاتیں تو جیسے وقت ٹھہر جاتا۔ سامنے والا گھبرائی ہوئی کیفیت میں نظر آنے لگتا۔

’کوئی گستاخی ہوئی شاہ صاحب۔۔‘

’نہیں۔ میرے عزیز۔۔‘

’پھر آج قدم بوسی کی اجازت کیوں نہیں ؟‘

رجب شاہ نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی۔ عقیدت مندوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ آنکھوں میں گھبراہٹ اور سوالات دونوں تھے۔۔ لیکن رجب علی شاہ بھلا انہیں کیا بتاتے اور بتاتے بھی تو یہ عقیدت مند اس وقت ان باتوں کی گہرائی کو کیا سمجھتے۔ رجب علی شاہ کو احساس تھا کہ ایک طلسم ٹوٹ گیا ہے۔ برسوں، صدیوں کا طلسم۔۔ اور ایک جھٹکے سے ایک بیحد معمولی آدمی نے علم و فضیلت کے اس طلسم کو ڈھا دیا، جس پر ان کی بنیاد پڑی تھی۔ وہ فخر کیا کرتے تھے۔ لیکن ایک بیحد معمولی آدمی۔۔

رجب ہاشمی کو اس بات کا احساس تھا کہ دنیا بہت حد تک بدل چکی ہے۔ بدل چکی ہے تو وہ کیوں نہیں بدلے، ان کے خاندان میں تبدیلیاں کیوں نہیں آئیں ؟ ان کے بیٹے کیوں نہیں بدلے۔۔ بستی حضرت نظام الدین بدل رہی تھی۔ یہاں نئے نئے مکانات اٹھ رہے تھے۔ اور یہ پوری دنیا تبدیل ہو رہی تھی۔ پھر وقت نے انہیں بھی تو موقع دیا تھا۔ کمی کیا تھی ان کے پاس۔ وقت کے ساتھ تجارت اور تجارت کے انداز بدل گئے۔ تعلیم میں فرق آ گیا۔ پھر انہوں نے اپنے بچوں کو تبدیلیوں کی نئی شاہراہ پر کیوں نہیں ڈالا؟ کیا اس کے لیے وہ اپنے بچوں سے باتیں کریں ؟ رجب ہاشمی کو بچوں پر اعتبار تھا کہ بچے ان کی بات سنیں گے بھی اور غور بھی کریں گے۔ یہ غلطی تو ان کی تھی کہ باپ داداؤں سے چلی آ رہی گدی بچوں کے حوالے کر دی مگر۔۔ اپنی تربیت پر بھروسہ تھا، اس لیے رات کا کھانا دسترخوان پرچنا گیا تو وہ اپنے بچوں کو اس نئے موضوع پر لانے کے لیے بہانہ تلاش کرنے لگے۔ دو بیٹے تھے۔ اسد ہاشمی اور نورین ہاشمی۔ ماشاء اللہ دونوں کی شادیاں ہو چکی تھیں اور دونوں کے خاندان اسی حویلی میں آباد تھے۔ یہ رسم باقی تھی کہ کھانا ایک ساتھ ہی بنتا۔ گھر کی ضروریات میں کنبہ کے ہر فرد کی اپنی اہمیت تھی۔ رجب ہاشمی خاموش تھے۔ اسد اور نورین غور سے رجب ہاشمی کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔

’کوئی بات ہوئی ہے ابا۔۔‘ اسد نے پوچھا۔۔

’نہیں۔۔‘

’آپ کی طبیعت ناساز تو نہیں۔۔؟‘ نورین نے لقمہ لیتے ہوئے پوچھا۔

’نہیں۔۔‘

رجب ہاشمی اپنی اسی دنیا میں گم تھے، جس کے شیرازے ابھی کچھ روز ہوئے تیز ہوا کی لہروں نے بکھیر دیئے تھے۔ مگر بچوں کو کیا خبر کہ انجانے میں نور علی شاہ وہ چوٹ اس عمر میں دے کر گیا ہے، جس سے باہر نکلنے کا راستہ انہیں دور تک دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

’کوئی بات بھی نہیں، طبیعت بھی اچھی ہے، پھر کیا بات ہوسکتی ہے ابا؟‘ اسد نے تشویش سے نورین کی آنکھوں میں جھانکا۔

’کسی نے کچھ کہا ہے؟‘ نورین رجب ہاشمی کے چہرے پر گمشدہ تھپیڑوں کے نشان پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

رجب ہاشمی نے غور سے دونوں بیٹوں کی طرف دیکھا۔ اس بار مسکرانے کی ناکام کوشش کی، لہجہ برف سے زیادہ یخ تھا۔

’’یعنی اک عمر پہ جینے کا نہ انداز آیا۔۔ بڑھتی ہوئی عمر تاریکی کا راستہ دکھاتی ہے اور خاموشی سے کچھ ایسے سوال داغ دیتی ہے جس کا جواب نہیں ہوتا۔ جواب نہیں ہوتا تو ان سوالوں میں الجھ جاتا ہوں۔ تہذیبوں کی اس بدلی ہوئی شکل میں کیا تم لوگوں نے باہر کی دنیا کی حدت و شدت محسوس کی ہے۔۔؟ یا وہی ایک حجرے سے نکلے اور دوسرے حجرے میں پہنچ گئے۔ کیا کبھی تصور کیا کہ ایک دنیا بستی حضرت نظام الدین اور ولیوں کے ولی کے آستانۂ مبارک سے الگ کی بھی دنیا ہے۔ جہاں بارش ہوتی ہے۔ سیاست ہوتی ہے۔ جہاں سرد و گرم کی اپنی کہانیاں، اپنی قندیلیں ہیں۔۔ کبھی محسوس کیا کہ آستانہ سے باہر کیا ہو رہا ہے؟‘

’کیوں نہیں۔‘ اسد ہاشمی نے لقمہ لیا۔’ پنجاب میں ہونے والے فسادات میں اور یہ آگ پھیلتی جا رہی ہے۔

’ابا۔ ہم حجرے میں تو رہتے ہیں لیکن سیاست کا تماشہ بھی دیکھتے رہتے ہیں۔‘ نورین نے کہا۔

’سیاست اورسماج کے آپسی رشتے اور اس رشتے سے الگ کی ایک دنیا، جو تمہارے حجرے سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔ ایک بدلتی ہوئی دنیا۔ آہ۔۔ آپ لوگ اسی دنیا سے واقف نہیں یا میں ہی کوتاہ اندیش، نا تجربہ کار کہ آپ کی واقفیت اس دنیا سے نہیں کرا سکا۔ بدلتے ہوئے وقت کی دستک اتنی مدھم ہوتی ہے کہ کبھی کبھی سننا بھی آسان نہیں ہوتا۔۔‘

رجب ہاشمی نے مسکرانے کی کوشش کی۔۔ پہلے یہی بستی کیا تھی۔ آپ کی بستی۔ ہماری بستی۔ یہ بستی حضرت نظام الدین۔۔ یہ جمنا کے کنارے بسا ہوا موضع غیاث پور تھا۔ شیخ نظام الدین اولیاء شہر کے ہنگاموں سے گھبرا گئے تو غیاث پور آ گئے۔ اس کی بھی ایک لمبی داستان ہے۔ حضرت، یاد الہی کے لیے خانقاہ اور خانقاہ کے لیے جگہ کی تلاش میں تھے۔ ایک دن حوض قتلغ خاں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ایک صوفی درویش سے ملاقات ہوئی۔ اس نے شیخ کو شہر سے ہجرت کا مشورہ دیا۔ اور اس طرح شیخ غیاث پور آ گئے۔ یہ جگہ ویران پڑی تھی۔ پہاڑ، چٹانیں اور سخت زمین کی وجہ سے یہاں عمارات کی تعمیر ممکن نہیں تھی۔ سلطان کیقباد نے کیلو کھڑی، محل تعمیر کر کے رہنا شروع کیا تو آہستہ آہستہ آبادی اس اطراف میں منتقل ہونے لگی۔ کہاں اس وقت کا غیاث پور اور کہاں آج کی بستی حضرت نظام الدین۔۔ وقت بدلتا ہے۔ تہذیبیں بدل جاتی ہیں۔۔ ہم اشرف المخلوقات ہیں۔ اس لیے وقت کی ہر آہٹ اوردستک پر نظر رکھنی ہوتی ہے۔۔‘

نورین ہاشمی اور اسد ہاشمی نے غور سے رجب ہاشمی کی طرف دیکھا کہ آیا اتنے برسوں بعد اس داستان کی ضرورت ہی کیوں محسوس ہوئی۔ رجب ہاشمی ایک لمحہ کے لیے خاموش ہوئے۔ دونوں بیٹوں کی طرف دیکھا۔۔

’دہلی کی توسیع ہوئی تو شہر بھی بدلتا چلا گیا۔۔ بس ہم نہیں بدلے۔ اسی حجرے کے مسافر رہے۔ آپ لوگ نہیں بدلے۔ ایک حجرہ ہمارے آبا و اجداد نے ہمیں سونپا۔ ہم نے آپ کو سونپ دیا۔ لیکن صاحبزادے۔ ایک دنیا اس حجرے سے باہر بھی ہے۔ اور اب آخری وقتوں میں جی چاہتا ہے، آپ سے کہوں، حجرے سے نکلیے۔ باہر کی دنیا بھی دیکھ لیجئے۔ انقلابوں سے بے پرواہ، آنکھیں بند کیے رہنا بھی زندگی کا عمل نہیں ہے برخوردار۔ زندہ قومیں اور تہذیبیں اپنے حال پر نگاہ رکھتی ہیں۔۔‘

’ہم اب بھی نہیں سمجھے ابا حضور۔۔ اسد کے لہجے میں بے چارگی تھی۔۔ آخر آپ کہنا کیا چاہتے ہیں ابا؟‘

’کچھ پلّے نہیں بڑا۔‘ نورین کا لہجہ سخت تھا، وہ اتنا تو سمجھ گیا تھا کہ رجب ہاشمی اس حجرے سے باہر کی دنیا دیکھنے کے لیے کہہ رہے ہیں مگر یہ کون سا وقت ہے کہنے کا، یہ بات نورین کی سمجھ سے بالا تر تھی۔‘

اسد ہاشمی مسکرائے۔۔’ الجھی ہوئی باتوں کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ اور وہ بھی آپ کی فلسفیانہ باتیں۔ آپ آسان الفاظ میں سمجھائیں گے ابا۔۔؟‘

نورین ہاشمی کا لہجہ ابھی بھی سخت تھا۔۔’ مشکل یہ ہے کہ آج آپ کی کوئی بھی بات ہماری سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔‘

’کیا یہ ممکن نہیں کہ آپ سمجھنا ہی نہیں چاہ رہے ہوں۔۔‘ رجب ہاشمی نے کمزور آواز میں جواب دیا۔

کھانا ہو چکا تھا۔ دسترخوان اٹھ چکا تھا۔ رجب ہاشمی گو تکیہ سے ٹیک لگائے دونوں بیٹوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اسد اور نورین دو زانو بیٹھے خاموشی سے ان کی جانب دیکھ رہے تھے۔

رجب ہاشمی نے لمبی سانس کھینچی۔ یہ سلسلہ حضرت سلطان المشائخ محبوب الہی کے وقت سے شروع ہوا۔ شیخ المشائخ کی مجلس میں سید محمد ہاشمی کا خاص مرتبہ ہوا کرتا تھا۔ اقربا اور خلفاء میں سے کوئی سلطان المشائخ سے بیعت کرنے آتا تو امام ہاشمی کی موجودگی میں بیعت کرتا۔ نسل در نسل یہ سلسلہ جاری رہا۔ اور یہ بتایا جاتا رہا کہ حضرت محبوب الہی کی مقررہ کردہ سجادگی پر فخر نہ کیا جائے۔ تاریخ شاہد ہے کہ یہ ہاشمی خاندان تکبر اور شان سے بے نیاز رہا۔۔کہ زندگی چوکھٹ کی بندگی کے نام ہوئی اور عمریں اسی بندگی میں تمام ہوئیں۔۔ تصوف اور مجاہدات کا سلسلہ، سلسلہ در سلسلہ منتقل ہوتا رہا۔ کئی ایسے مقامات آئے جب مخالفت بھی ہوئی۔ دلازاری بھی کی گئی۔ انگریزوں کا زمانہ بھی دیکھا۔ اور یہ بھی الزام لگایا گیا کہ ہم انگریزوں سے ملے ہوئے ہیں۔ اور۔۔

رجب ہاشمی نے اسد ہاشمی کی طرف دیکھا۔۔’ غلام نظام الدین اولیاء ہوں۔ مخالفین کو خواب آئے۔ خواب میں حضرت ؒ کی جھلک دیکھی۔ کہا گیا کہ ہاشمی تو ہمارے ہیں۔ ان کی مخالفت کیسی۔۔ بدگمانیاں دور ہوتیں اور زندگی کا سفر اسی ٹھہرے ہوئے انداز میں شروع ہوتا۔۔ مگر آہ۔۔ وقت کی دھوپ تو دیکھو۔۔ یہ بھی پہلے سے زیادہ شدت اختیار کر چکی ہے۔ موسموں کے رنگ تو دیکھو کہ یہ بھی اب بدلتے جا رہے ہیں۔ حضرتؒ کے بعد یہ زمانہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔۔ حجرے سے باہر رہ کر بھی حضرت سلطان المشائخ کے اقوال زریں کو لوگوں تک پہنچائے جانے کا سلسلہ جاری رکھا جا سکتا ہے۔۔‘

نورین اور اسد نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اسد کا لہجہ حیرانی سے پر تھا۔

’ہم اب بھی نہیں سمجھے ابا۔۔‘

رجب ہاشمی نے اسد کے ہاتھوں کو تھاما۔ آنکھوں میں جھانکا۔۔’ نماز تو کہیں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ گھر یا مسجد۔ ہندستان، ملیشیا یا امریکہ۔ جہاں، جب، جیسا موقع ہو۔۔ اور کوئی فرمان یا عہد ساری زندگی یا نسل در نسل چلتے رہنے کے لیے نہیں ہوتا۔۔ میں یہ چاہتا ہو۔۔‘

رجب ہاشمی ایک لمحے کے لیے رکے، دونوں بچوں کی طرف باری باری سے دیکھا۔ پھر گویا ہوئے۔

’میری خواہش ہے۔ اور اس سے پہلے ایک بات جان لیجئے کہ اللہ نے اس حجرے میں کسی چیز کی کمی نہ رہنے دی ہے۔ آپ لوگ ما شاء اللہ اس لائق ہیں کہ زندگی کے نئے راستوں کو بھی اس گدی نشینی کی جگہ اختیار کرسکتے ہیں۔‘

اس بار نورین کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی تھی۔ اس نے رجب ہاشمی کی طرف دیکھا۔

’تو آپ چاہتے ہیں کہ ہم، غلام اولیاء، خدمت خلق کا کام چھوڑ کر تجارت یا کوئی دوسرا راستہ اختیار کر لیں ؟‘

اسد ہاشمی کی کمزور آواز ابھری۔ ابا، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ایسا کہنے میں آپ نے کافی دیر کر دی۔۔‘

’ہاں۔ دیر تو ہو چکی ہے۔‘

رجب ہاشمی نے ایک بار پھر دونوں بیٹوں کی طرف دیکھا۔

’حکم نہیں ہے۔ فریاد بھی نہیں۔ ایک خواہش ہے کہ تم لوگ زندگی کی وہ جھلک بھی دیکھتے، جس کے کئی سردوگرم رنگ ہم نہیں دیکھ پائے۔ یہاں سے ایک راستہ، ایک نئی زندگی کی طرف بھی جاتا ہے۔۔‘

’جاتا ہو گا، ابا۔۔‘ نورین کی آواز سرد تھی۔ لیکن وہ راستہ ہمارے لیے نہیں ہے۔ ہم یہی جانتے تھے۔ یہی کچھ بچپن سے دیکھا اور سیکھا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اس راستے کے سوا کسی اور راستے پر جانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔‘

’میں نورین سے متفق ہوں ابا۔ چھوٹا تھا تو آپ اپنے ساتھ آستانہ مبارک لے جانے لگے۔ پھر کچھ اور دیکھنے اور سمجھنے کا خیال ہی کہاں آیا۔‘

رجب ہاشمی خاموش تھے۔ بچوں کے چہرے دھند میں ڈوب گئے تھے۔ وہ یہ جواب جانتے تھے لیکن اس کے باوجود یہ جواب بچوں کے منہ سے سننا چاہتے تھے۔

نورین نے اٹھتے ہوئے کہا۔۔’ اجازت ابا۔ صبح سویرے ہی درگاہ میں کسی سے ملنے جانا ہے۔‘

پہلے نورین گیا۔ پھر اسد۔۔ چھت کو دیکھتی ہوئی خاموش نگاہیں تھیں اور رجب ہاشمی جانتے تھے کہ نور علی شاہ نے در اصل اس شب نہیں بلکہ انہیں آج شکست دی ہے۔

وہ اپنے ہی بیٹوں سے ہار گئے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۱۱)

 

 

حسنہ کو اس بات کا احساس تھا کہ گھر میں تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں مگر وہ خوش بھی تھی کہ اسلم کام سے لگ گئے اور نور علی شاہ نے بھی خود کو مصروف کر لیا تھا۔ مگر مشکل یہ تھی کہ نور علی شاہ میں جو ظاہری تبدیلیاں آ رہی تھیں، وہ انہیں پریشان کر رہی تھیں۔ مثال کے لیے خودسے باتیں کرنا۔ مثال کے لیے کھوئے کھوئے رہنا۔۔ اور جیسا کہ اسلم نے بھی کہا تھا کہ کہیں کوئی جناتی عمل تو نہیں ہے۔ لیکن حسنہ مطمئن تھی کہ اللہ پاک کا سہارا ہے، جس نے مٹیا برج سے ہجرت کے بعد بھی عزت رکھی ہے۔ وہی آگے کی نیا بھی پار لگائے گا۔ اسلم اور نور علی شاہ گھر سے نکل جاتے تو خالی وقت کو کاٹنا مشکل ہو جاتا۔ اور حسنہ کے لیے ایسے میں صرف ایک ہی شغل رہتا۔ ردی بیکار کاغذات کو جمع کرنا اور ٹھونگے بنانا۔ پہلے اسلم اور نور علی شاہ بھی اس کام میں اس کی مدد کیا کرتے تھے۔ مگر اسلم اور میاں جی کے مصروف ہو جانے کے بعد حسنہ اگر اس کام میں خود کو مصروف نہ رکھتی تو شاید خالی وقت کاٹنا اس کے لیے دشوار ہو جاتا۔۔ مختار بنیا کی دکان کے دروازے اب بھی کھلے تھے اور اب تو وہ ماشاء اللہ نور علی شاہ کے عقیدت مندوں میں تھا۔ دکان میں نور علی شاہ کی موجودگی کو دیکھ کر گھبرا جاتا۔ اور پھر ٹھونگے کو بغیر گنے، نور علی شاہ کی گنتی پر بھروسہ کرتے ہوئے دراز سے پیسے نکالتا اور نور علی شاہ کی طرف بڑھاتا ہوا اتنا ضرور کہتا۔

’اب یہ اچھا نہیں لگتا میاں۔‘

’کیوں بھائی۔؟‘

’اب یہ سوال ہم سے نہ پوچھیے تو اچھا ہے۔ سچ تو آپ بھی جانتے ہیں میاں۔ اللہ جانتا ہے کہ ہر بار آپ کو دیکھ کر میرا کلیجہ منہ کو آتا ہے۔۔ اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں ہے۔۔‘

’ہاں۔ یہ تو ہے۔۔‘

مختار بنیا دوبارہ ہمدردی سے دیکھتا۔۔ اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ اس کی لاٹھی میں آواز نہیں میاں۔ آپ سن بھی نہیں پائیں گے اور دنیا بدل چکی ہو گی۔‘

’مٹیا برج سے دلی آ گئے۔ اب تک تو نہیں بدلی بھائی۔‘

’مگر اب بدلے گی۔ ٹھہرے ہوئے پانی میں بھی سیلاب آتا ہے میاں۔ اللہ پر بھروسہ رکھیے۔ اور آپ تو۔۔ نواب ہیں۔۔ شہنشاہ ہیں۔ ماشاء اللہ۔ کوئی کہنے کی بات نہیں ہے۔ تاریخ نہیں پڑھی تو کیا۔ اتنا تو جانتے ہی ہیں کہ صدیوں حکومت کی ہے آپ لوگوں نے۔ بس ذرا غلطی ہو گئی۔۔‘

نور علی شاہ کو بھی ان مکالموں میں مزہ آتا۔۔ مسلم بادشاہوں نے عیاشی میں سب گنوا دیا۔‘

’وہی میاں۔ یہ بات ہم تو اپنے منہ سے نہیں کہہ سکتے نا۔۔ مگر خیر۔ جو ہوا برا ہوا۔ مگر دیکھیے گا میاں۔ آپ کے دن ہمیشہ ایسے نہیں رہیں گے۔ آپ کے دن بھی بدلیں گے۔‘

’آپ مذاق کرتے ہیں مختار بھائی۔‘

’قسم اللہ کی۔ مذاق کریں میرے دشمن۔ میں مذاق نہیں کرتا میاں۔۔‘ پھر مختار چہ می گوئیوں کے انداز میں بتاتا۔’ اب آپ ہی دیکھیے میاں۔ آپ کی ترقی سن کر یہ سارے جلنے لگے نا۔۔‘

’کون جلنے لگا مختار بھائی۔ آپ بھی نا۔۔ اب اس نور علی شاہ سے بھلے کوئی اس لیے جلے گا کہ ماضی میں۔۔ وہ بھی صدیوں پرانا ماضی۔۔‘ نور علی شاہ قہقہہ مار کر ہنستے۔

مختار بنیا نور علی شاہ کی ہنسی کا برا نہیں مانتا۔۔ ’ہنس لو میاں۔ ماضی وراثت ہوتا ہے۔ اور کتنوں کے پاس ایسا ماضی ہے، جو آپ کے پاس ہے۔ اور ایک دن میرا دل کہتا ہے میاں۔۔ وہی پرانے دن آپ کو پھر سے آواز دیں گے۔۔‘

’شہنشاہیت لوٹ آئے گی؟‘

’اب شہنشاہیت کیا لوٹے گی میاں۔ مگر دن بدلیں گے۔ بدلیں گے کیا۔ بدلنے لگے ہیں میاں۔ اور آپ بھی ان کی آہٹ سننے لگے ہیں۔۔‘

 

نور علی شاہ مختار بنیے کی دکان سے باہر نکلتے تو ہمزاد راستہ روک دیتا۔

’سنا، وہ کیا کہہ رہا تھا۔‘

’ہاں سن لیا۔‘

ہمزاد نے مختار بنیے کی نقل اتاری۔’ آپ اب بھی نہیں سمجھے میاں۔ وقت آپ کے دروازے پر دستک دینے لگا ہے میاں۔‘

’اسے دستک دینا نہیں کہتے۔‘ نور علی شاہ غصے سے ہمزاد کی طرف دیکھتے۔۔’ اسے دنیاداری کہتے ہیں۔ پہلے دنیا داری نہیں آتی۔۔تھی لوگ بیوقوف بنایا کرتے تھے۔ اور اب۔۔‘

’لوگوں کو بیوقوف بنانا سیکھ گئے ہیں۔‘

’ہاں۔ اس میں غلط کیا ہے۔‘

’میں نے کب کہا کہ غلط ہے۔‘

’پہلے لوگ لوٹتے تھے۔ کام کرو تو محنت سے کم معاوضہ دیتے تھے اور اب۔۔‘ نور علی شاہ مسکراتے۔۔ ’اب معاوضہ حاصل کرنا سیکھ لیا ہے۔۔‘

’معاوضہ حاصل کرنا نہیں۔ پیسے اینٹھنا۔۔‘ ہمزاد ہنستا ہوا دوبارہ غائب ہو جاتا۔

٭٭

 

پنجاب کی سیاسی فضا میں طوفان آیا ہوا تھا۔ اور اس وقت اس طوفان کی زد میں پورا ہندستان تھا۔

حسنہ نے ایک بار پھر اجمیر جانے کی ضد شروع کر دی تھی۔ نور علی شاہ جانتے تھے کہ اجمیر جانے کا مطلب ہے، اچھا خاصہ خرچ۔۔ ان کی آنکھوں کے آگے پروفیسر ہکسلے کا چہرہ روشن تھا۔ اس وقت یہی چہرہ تھا جو ان کی اجمیر جانے میں مدد کرسکتا تھا۔ مٹیا برج سے چلتے وقت ہی حسنہ نے کہہ دیا تھا۔۔ سنا ہے، دلی سے اجمیر قریب ہے۔ خواجہ کے دربار میں منّتیں قبول ہوتی ہیں۔‘

’ضرور جائیں گے۔ کیوں نہیں جائیں گے۔‘

اس دن نور علی شاہ دیر تک اجمیر جانے کے بارے میں غور کرتے رہے۔ رجب ہاشمی سے بھی ملاقات کرنی تھی۔ کئی دنوں سے جگجیت سنگھ کی بھی کوئی خبر نہیں ملی تھی۔ وہ اس بات سے خوش تھے کہ گلی کے بچوں نے اب انہیں پریشان کرنا بند کر دیا تھا۔ یہ بھی تبدیلی کی ایک نئی آہٹ تھی۔ ورنہ کل تک تو یہ بدتمیز بچے انکا جینا مشکل کر دیتے تھے۔ مگر اس دن کے بعد اب یہ بچے نور علی شاہ کو دیکھتے بھی تو کترا کے نکل جاتے۔ درگاہ کی چوکھٹ سے لے کر آس پاس کی دکانوں تک روزگار کے ذرائع تو کھلے تھے مگر نور علی شاہ جانتے تھے کہ بنجاروں کی طرح زندگی نہیں گزاری جا سکتی۔۔ اس لیے اب وہ کسی بڑے کھیل میں خود کو آزمانا چاہتے تھے۔ ایسے موقع پر ابا حضور لیاقت علی شاہ کی یاد آتی تو نور علی شاہ کے چہرے پر الجھن کے آثار پیدا ہو جاتے۔ ابا نے اگر وقت کی قیمت پہچانی ہوتی تو زندگی میں دربدر کی ٹھوکر نہ ہوتی۔۔

اس دن صبح اٹھ گئے۔ داتون لے کر باہر آئے تو گلی میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ جھاڑو لے کر گلی کی گندگی صاف کرتی ہوئی جمعدارنی نظر آئی۔ آج اس نے سفید چمکتی ہوئی ساڑی پہن رکھی تھی۔ نور علی شاہ کو یاد آیا ایک بار اس جمعدارنی کو لے کر حسنہ سے ان کی جنگ بھی ہو چکی ہے۔ جمعدارنی نے پلٹ کر ان کی طرف دیکھا تو وہ نظر بچا کر داتون کرنے لگے۔۔ نور علی شاہ کو احساس ہوا، جمعدارنی غور سے ان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ مگر آج اس کی نظروں میں غصہ نہیں تھا۔ بلکہ ایک بار تو پلٹ کر، مسکراتے ہوئے اس نے نور علی شاہ کی طرف دیکھا لیکن نور علی شاہ دوسری طرف دیکھتے ہوئے اس کی ذات سے انجان بنے رہے۔ انہیں یاد تھا کہ ایک دن اسی جمعدارنی نے حسنہ کے سامنے ان کی عزت کے پرخچے اڑا دیئے تھے۔ داتون کرتے ہوئے نور علی شاہ پروفیسر ہکسلے کے بارے میں سوچ رہے تھے، جن سے ملنا اب ان کے لیے ضرور ہو گیا تھا۔

جمعدارنی صفائی کرتے ہوئے گلی سے کہیں دور نکل گئی تھی۔ آمنے سامنے کے دروازوں میں ہلچل ہوئی۔ نوجوان، بوڑھے، بچے گھروں سے باہر نکلنے لگے تھے۔ نور علی شاہ جانتے تھے، ان میں زیادہ تر گھروں میں ناشتہ بھی گل فروشوں کے قریب والے ہوٹل سے منگوایا جاتا تھا۔ آس پاس کے سنڈاسوں کے منہ کھلے تھے اور فضا میں ایک عجیب سی بد بو بھی پھیلی ہوئی تھی۔ اچانک نور علی شاہ نے دیکھا، ایک نوجوان، کرتا، پائجامہ پہنے ہوئے تیزی سے ان کی طرف بڑھتا ہوا آ رہا ہے۔ قریب آ کر وہ ٹھٹھک گیا۔ نور علی شاہ کی طرف دیکھا۔ کرتے کی جیب میں ہاتھ ڈالا۔

’آپ ہی نور علی شاہ ہیں۔‘

’جی۔۔‘

نور علی شاہ نے نوجوان کی طرف دیکھا۔ عمر یہی کوئی پچیس چھبیس سال، صاف کرتا پائجامہ میں کسی شرف خاندان کا معلوم ہو رہا تھا۔ نوجوان نے ایک رقعہ آگے بڑھایا۔

’پڑھ لیجئے شاہ صاحب نے بھیجا ہے۔‘

’شاہ صاحب نے۔‘

’جی ہاں۔۔ مجھے اجازت دیجئے۔ صبح کا وقت ہے۔ بس پکڑ کر دلی گیٹ جانا ہے۔۔‘

نور علی شاہ ہاتھ میں رقعہ لیے غور سے نوجوان کو جاتے ہوئے دیکھتے رہے۔ نوجوان جب گلی کے دوسرے موڑ پر جا کر غائب ہو گیا تو انہوں نے داتون کو چبا کر گندے نالے کی طرف پھینکا اور رقعہ کھول کر اس کی عبارت پڑھنے لگے۔ ہاتھ کی تحریر دیکھ کر وہ چونک گئے تھے۔ تحریر رجب ہاشمی کی تھی۔ لکھا تھا۔۔ کل شام ۵ بجے غالب اکادمی آ جائیے۔ میری موجودگی بھی ہو گی۔ یہ محفل خصوصی طور پر آپ کے لیے بلائی گئی ہے۔ شام ۵ بجے۔ مجھے یقین ہے آپ ضرور تشریف لائیں گے۔ احقر۔۔رجب ہاشمی۔

رجب ہاشمی کی تحریر کو غور سے دیکھتے رہے نور علی شاہ۔ لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ آخر انہیں غالب اکادمی آنے کی دعوت کیوں دی گئی ہے۔ لیکن ایک سچ اور بھی تھا۔ پروفیسر ہکسلے سے ملنے اور انگریزی اخبار میں تصویر کے شائع ہو جانے کے بعد وہ خبروں میں آ گئے تھے۔ اور دن ہوتا تو شاید نور علی شاہ جانے سے انکار بھی کر دیتے۔ مگر اب نور علی شاہ کو ایسے معاملات بھی کامیابی کی سیڑھیاں لگنے لگے تھے۔ لیکن یہ فکر انہیں اب بھی پریشان کر رہی تھی۔

آخر انہیں کیو ں بلایا گیا ہے؟

ہمزاد نکل کر سامنے آ گیا تھا۔۔’ میاں، اب بڑے آدمی ہو، اس لیے۔ ‘

’بڑے آدمی۔۔‘ نور علی شاہ مسکرائے۔ ’غالب اکادمی تو بڑے اور پڑھے لکھے لوگوں کے لیے ہے۔‘

ہمزاد ہنس رہا تھا۔۔ واجد علی شاہ کے وارث، اب آپ کا شمار بھی پڑھے لکھوں میں ہونے لگا ہے۔۔

کہیں یہ رجب ہاشمی کی کوئی سازش تو نہیں ؟

ہمزاد نے ناراضگی سے ان کی طرف دیکھا۔۔’ اپنا شک اپنے پاس ہی رکھیے۔ رجب ہاشمی جیسے لوگ سازش نہیں کرتے۔ یہی کرنا ہوتا تو کہیں اور بلاتے۔۔‘

’مگر غالب اکادمی۔۔‘

ہمزاد زور سے ہنسا، کیسٹ والوں، کباب کی دکان، درگاہ، گل فروش اور کتاب والوں کے پاس جاتے ہو۔ کبھی بھول کر غالب کے مزار بھی چلے جایا کرو۔ اردو کا اتنا بڑا شاعر آرام کر رہا ہے۔۔ غالب اکادمی سے بلاوہ آیا ہے، کوئی کھیل نہیں ہے میاں۔‘

’یہ تو میں بھی سمجھ رہا ہوں۔ کہیں رجب ہاشمی نے خاندانی رسوائی کا کوئی نیا بہانہ تو تلاش نہیں کر لیا۔؟‘

’تم نہیں بدلو گے نور علی شاہ۔ پاگل ہو تم۔‘

ہمزاد گم ہو گیا تھا۔ لیکن اپنے کمرے میں آنے تک نور علی شاہ اس سچ کو ہضم نہیں کر پا رہے تھے کہ آخر انہیں غالب اکادمی بلانے میں رجب ہاشمی کی کیا مصلحت ہوسکتی ہے۔

’خیر جو بھی ہو گا۔ دیکھیں گے۔‘

نور علی شاہ نے سر کو جھٹکا دیا۔ ابھی بہت سے کام تھے۔ قدوس بھائی نے بھی بلایا تھا۔ درگاہ بھی جانا تھا۔۔ اور وہ پروفیسر ہکسلے سے بھی ملنے کے بارے میں غور کر رہے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۱۲)

 

حسنہ بھی ان خوشگوار تبدیلیوں کو محسوس کر رہی تھی جس نے اب آہستہ آہستہ گھر کی صورت بدلنی شروع کر دی تھی۔ مٹیا برج سے دلی تک کے سفر میں، پریشانی اور الجھنوں نے حسنہ کو ایک بد مزاج اور جھگڑالو عورت بنا دیا تھا۔ مگراس میں خود حسنہ کا قصور کیا تھا۔ نور علی شاہ ماضی اور غربت کی داستان کو لے کر بیٹھے تھے اور گھر یلو مسائل شیر کی طرح منہ کھولے، کچھ سمجھ میں نہیں آتا تو وہ نور علی شاہ سے آنسو بہاتی ہوئی لڑنے بیٹھ جاتی۔ اس گھر میں اگر کوئی مضبوط سہارا تھا تو اسلم۔ اور اسلم بھی بھابھی کی محبت میں جان تک دینے کے تیار رہتا۔

آج صبح سے حسنہ کی بائیں آنکھ پھڑک رہی تھی۔ اسلم اور نور علی شاہ کے لیے ناشتہ تیار کرتے وقت بھی حسنہ کو بار بار یہی احساس ہو رہا تھا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ حسنہ کی خواہش ہو رہی تھی کہ وہ آج باہر جانے کے لیے نور علی شاہ کو روک دیں۔ کون سا ایسا سرکاری کام ہے کہ روز باہر نکلنا ضروری ہے۔ ایک دن نہیں گئے تو کون سی آفت آ جائے گی۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو نور علی شاہ کو غصہ آ گیا۔

’لو بیگم کی سنو۔ پہلے تو گھر میں بیٹھے رہنے کے لیے طعنے ملتے تھے۔ اب باہر جانے سے روکا جا رہا ہے۔‘

’روک کہاں رہی ہوں۔ بس یہ کہہ رہی ہوں کہ آج نہیں جاتے تو اچھا تھا۔‘

’کیوں بھئی۔ کیوں نہ جاؤں۔‘

’اب بھابھی کہہ رہی ہیں تو کوئی مصلحت بھی ہو گی۔‘ اسلم نے بھائی کی طرف دیکھا۔

’اب اس میں مصلحت کیا ہو گی۔ سوا اس کے، کہ اب گھر میں بیٹھ کر روٹیاں توڑوں گا۔ بہت سے کام ہیں۔ قدوس بھائی کا بھی بلاوہ آیا ہے۔ ان کی بیوی کے پاؤں بھاری ہیں۔ آج بھی وہ ان کو لے کر ڈاکٹر کے یہاں جانے والے ہیں۔‘

اسلم نے حسنہ کی طرف دیکھا پھر بڑے بھائی کی طرف۔۔ بھابھی کی مان لیں گے تو کیا ہو جائے گا۔ ایک دن نہیں جانے سے آسمان تو نہیں گر جائے گا۔‘

نور علی شاہ نے ناراضگی کا اظہار کیا۔۔’ آج کل بہت بولنے لگے ہیں آپ۔ نوکری کیا کرنے لگے۔ آپ تو بڑے اور چھوٹے کا فرق ہی بھول گئے۔‘

’لو، اب اس میں بڑے اور چھوٹے کی بات کیا ہو گئی۔۔‘ حسنہ قریب آ کر اسلم کے بالوں کو سہلانے لگی۔۔’ ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے۔ ایک دن نہیں جانے سے آسمان تو نہیں ٹوٹ پڑے گا۔‘

’ٹوٹ پڑے گا بیگم۔ میں نے درگاہ کے متولی اور قدوس بھائی کو زبان دی ہے۔ وہ لوگ راستہ دیکھ رہے ہوں گے۔ آپ اپنا خیال رکھیے۔ ڈاکٹر کے یہاں جانا ہو تو بتا دیجئے گا۔‘

نور علی شاہ باہر نکل گئے۔ ان کے جانے کے کچھ ہی دیر بعد اسلم میاں بھی پرانی دلی کے لیے بس پکڑنے چلے گئے۔ مگر حسنہ کی پریشانی برقرار رہی۔ دل بار بار یہی کہہ رہا تھا، آج ا نہیں کسی بھی قیمت پر نور علی شاہ کو باہر نہیں بھیجنا چاہئے تھا۔

٭٭

 

قدوس بھائی کو اسی دن شک ہو گیا تھا کہ دال میں کچھ کالا ہے مگر جب یہ ’کالا‘ نظر نہیں آیا تو وہ مطمئن ہو گئے۔ وہ نور علی شاہ کو رنگے ہاتھوں پکڑنا چاہتے تھے۔ اس درمیان دو مواقع اور ایسے آئے جب انہیں دوکان پر نور علی شاہ کو چھوڑ کر اہلیہ کو لے کر ڈاکٹر کے یہاں جانا تھا۔ اور دونوں بار قدوس نے محسوس کیا کہ دوکان میں ہاتھ کی صفائی دکھائی گئی ہے۔ اب وہ اس تاک میں تھے کہ نور علی شاہ کو پکڑا کیسے جائے۔نور علی شاہ کی ایمانداری مشکوک ہو چکی تھی۔ مگر آس پاس کوئی ایسا آدمی بھی نہیں تھا۔ جس پر بھروسہ کر کے وہ دوکان کی ذمہ داری دے سکتے ہوں۔ اگر یہ شک بھی تھا تو اس کو دور کرنا ضروری تھا۔

گیارہ بجے نور علی شاہ قدوس بھائی کی دکان پر پہنچ گئے۔ قدوس بھائی نے مسکراتے ہوئے دکان نور علی شاہ کے حوالے کی اور رسمی کلمات کے بعد چلے گئے۔ نور علی شاہ قدوس بھائی کی کرسی پر تو بیٹھ گئے مگر حسنہ کے خیالوں سے باہر نہیں نکل سکے۔ آخر حسنہ انہیں روکنے کی کوشش کیوں کر رہی تھی؟۔

بستی حضرت نظام الدین میں چہل پہل شروع ہو چکی تھی۔ زائرین اور عقیدتمندوں کا آنا جانا شروع ہو چکا تھا۔ باہر کے شور بھی کانوں سے ٹکرا رہے تھے۔۔ ان میں ٹریفک اور رکشہ والوں کا شور بھی شامل تھا۔۔ دوکان کی شیلف میں سلیقے سے رکھے گئے کیسٹس چمک رہے تھے۔ خریدار آنے لگے تھے۔ اور نور علی شاہ قدوس بھائی کے انداز میں خریداروں سے مسکراتے ہوئے مول تول کرنے لگے تھے۔

’بالکل نیا آیا ہے صاحب۔ ابھی مارکیٹ میں آیا ہی نہیں ہے۔ اور صرف دو پیس ہے۔ اس کے بعد ملے گا بھی نہیں۔‘

’اچھا۔۔‘

’اور یہ دیکھیے۔ نازاں قوال کی حضرت کی شان میں قوالی۔ کیا آواز پائی ہے صاحب۔‘

’نازاں قوال۔۔؟‘

’اور یہ لیجئے۔ گوہر سلطانہ کے کیسٹ بھی دو دن بھی پہلے آئے ہیں۔‘

’اجمیر والے خواجہ۔۔؟‘

’ایسا کہیے نا۔۔اپنے بابا حضرت نظام الدین ہوں یا اجمیر والے خواجہ۔۔ آپ آئے ہیں تو یہاں سے بھی خالی ہاتھ نہیں جائیں گے۔ یہ دیکھیے صاحب۔‘

 

پاس والی دکان سے موسیقی کی آواز ابھر رہی تھی۔

بھر دے جھولی مری یا محمد

لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی۔۔

آسمان پر بدلیوں کا کھیل چل رہا تھا۔ گلی میں گل فروش اپنی دکان سجائے بیٹھے تھے۔ ہوٹلوں سے صدقے کا کھانا کھلائیے، غریب بھوکے دعائیں دیں گے، کا شور بھی اٹھ رہا تھا، اور یہی وقت تھا جب نور علی شاہ کی آنکھوں میں سامنے کھڑے خریدار کو دیکھ کر چمک آ گئی تھی۔۔ اور یہ وہی چمک تھی جہاں نور علی شاہ ذلت اور رسوائی کی کہانی کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ اور اس دن یہی تو کہا تھا مختار بنیے نے۔۔ ’چور کون نہیں ہے یہاں۔ سیاست سے تجارت تک۔ ہر شخص دو پیسے کی کمائی کرنے آیا ہے۔ سب کے بیوی بچے ہیں۔ خاندان ہیں۔ اور نور علی شاہ، محنت کا ایک روپیہ کمانے کے لیے بھی پسینہ بہانا پڑتا ہے۔ جو جتنی اونچی کرسی پر ہے، اتنا ہی بڑا چور ہے۔ اور یہ چوری نہیں ہے میاں۔ دنیاداری ہے۔ پیٹ کا جغرافیہ دنیاداری بھی سکھا دیتا ہے۔‘

افسوس اس بات کا تھا کہ نور علی شاہ نے یہ دنیاداری اب جا کر سیکھی تھی۔ اور ابھی بھی سیکھی کہاں تھی، سیکھ رہے تھے۔ دو دو چار کرنے کا سلیقہ آ گیا تو اس طرح کے کاموں میں بھی دو پیسوں کی بچت ہونے لگی۔ قدوس بھائی کی دوکان پر پیچھے کے حصے میں رکھے پرانے کیسٹس نور علی شاہ کے لیے حاتم طائی کو ملنے والے گمشدہ خزانے سے کم نہیں تھے۔ قدوس بھائی نے نئے کیسٹس کا پورا حساب رکھا تھا۔ اور اسی لیے اب تک نور علی شاہ اس کی گرفت میں نہیں آسکا تھا۔ نور علی شاہ کے سامنے ایک خریدار تھا، جس کو دس پندرہ برس پرانی قوالی کے کچھ کیسٹس چاہتے تھے اور نور علی شاہ ان باتوں سے بے نیاز تھے کہ وہ آج دو آنکھوں کے نشانہ پر ہیں اور یہ آنکھیں مسلسل ان کی ہر کارروائی پر نظر رکھے ہوئی ہیں۔ ادھر نور علی شاہ نے پرانے کیسٹ نکالے، خریدار کو بڑھائے، اور ادھر ادھر دیکھ کر پیسے جیب کے حوالے کرنا ہی چاہتے تھے کہ چور چور چیختا ہوا قدوس بھائی اچانک سے سامنے آ گیا۔ یہ ایسی کارروائی تھی کہ نور علی شاہ کے ہوش اڑ گئے۔۔ گلی سے گزرتے ہوئے لوگ رک گئے۔ بھیڑ لگ گئی۔۔ قدوس بھائی نے نور علی شاہ کا گریبان تھام رکھا تھا۔ نور علی شاہ کا چہرہ زرد ہو رہا تھا۔ روپیہ ابھی بھی مٹھیوں میں دبا ہوا تھا۔ جسم مردے کی طرح بے جان۔ آنکھیں پھیل گئی تھیں۔۔ قدوس بھائی نے غصے میں دو ہاتھ جڑ دیئے۔ نور علی شاہ کو دن میں تارے نظر آ گئے۔ لیکن اچانک وہ ہوا کہ قدوس بھائی بھی اس کا تصور نہیں کرسکے۔۔ زار و قطار روتے ہوئے نور علی شاہ دکان کی میز پر کھڑے ہو گئے۔ وہ بڑی مشکل سے قدوس بھائی کے ہاتھ سے اپنے ہاتھوں کو چھڑانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اور یہ نظارہ عبرت انگیز تھا کہ جس نے بھی دیکھا، اپنی جگہ ساکت ہو گیا۔ بھیڑ میں ایک شخص، کرتا پائجامہ پہنے دکان کی میز پر کھڑا تھا اور چیخ رہا تھا۔

’جھوٹ بولتا ہے یہ۔ میں چور نہیں ہوں۔ خدا کی قسم میں چور نہیں ہوں۔ بادشاہ ہوں میں۔۔ ونس اپن اے ٹائم۔۔‘ نور علی شاہ کی آواز ان کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔۔ وہ چیخ رہے تھے۔۔

’خدا اور رسول کا واسطہ۔ یہ شخص جھوٹ کہتا ہے۔ چور نہیں ہوں میں۔ بس خدا کی مصلحت کہ آج اس نے یہ دن دکھائے ہیں۔ اور اللہ کے کس بندے پر برے دن نہیں آئے۔ بادشاہوں کے خاندان سے ہوں۔ چور نہیں ہوسکتا۔۔ اور دیکھیے۔۔ میں کہیں بھاگا بھی نہیں۔ گیا بھی نہیں۔ جو کچھ ہے۔ سب یہیں ہے۔ چوری کی تہمت لگائی ہے تو پوچھا جائے، میں نے کیا چرایا ہے۔۔‘

نور علی شاہ کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ وہ زار و قطار رو رہے تھے۔۔

’بادشاہوں کے خاندان سے ہوں۔ مگر چور نہیں ہوں۔‘

’ٹھیک کہتا ہے یہ۔ آئیے صاحب۔ اتریے۔۔ تماشہ نہ بنائیے اپنا۔۔‘

دو ہاتھ آگے بڑھے۔ نور علی شاہ کو میز سے اترنے میں مدد دی۔ نور علی شاہ نے گھوم کر دیکھا۔۔ یہ مختار بنیا تھا۔ مختار بنیا غصے اور کھا جانے والی نظروں سے امڈی ہوئی بھیڑ اور قدوس بھائی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ نور علی شاہ ابھی بھی تھر تھر کانپ رہے تھے۔ اب قدوس بھائی کا چہرہ زرد ہو رہا تھا۔ مختار بنیا بھیڑ کی طرف دیکھ رہا تھا۔

’جائیے آپ لوگ۔ تماشہ مت بنائیے۔‘ اس نے غصے سے قدوس بھائی کی طرف دیکھا۔

’تیری اوقات کیا ہے رے قدوس۔۔ جانتا بھی ہے، یہ کون ہے؟ بادشاہوں کا خاندان ہے۔ میں جانتا ہوں انہیں۔ پوری بستی جانتی ہے انہیں۔ بس۔۔ وقت کا قصور ہے۔ بادشاہ نہیں رہے۔ سمجھا کیا۔۔ آئندہ دوکان کرنے نہیں دوں گا اس بستی میں۔۔‘ وہ تیزی سے نور علی شاہ کی طرف گھوما۔۔’ اب آپ بھی اپنی حیثیت پہچانیے میاں۔ ان ایرے غیروں کے یہاں کام مانگنے نہ جائیے جو آپ کی حیثیت سے واقف نہ ہوں۔‘

بھیڑ منتشر ہو چکی تھی۔ قدوس بھائی زرد چہرے کے ساتھ کرسی پر بیٹھ گئے۔ مختار بنیا جا چکا تھا۔ کسی نے نور علی شاہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ نور علی شاہ پلٹے تو انہیں رجب ہاشمی نظر آئے۔

’السلام علیکم۔‘

وعلیکم السلام۔۔‘

رجب ہاشمی کا لہجہ سخت تھا۔ ’میاں خود کو اس طرح تماشہ نہ بننے دیجئے۔ گھر جائیے۔ آرام کیجئے۔ اور ہاں۔ کل غالب اکادمی آنا ہے آپ کو۔ رقعہ مل گیا ہو گا۔‘

رجب ہاشمی آگے بڑھ گئے تھے۔

نور علی شاہ ابھی بھی گہرے سناٹے میں تھے۔ مطمئن بھی کہ ایک بار پھر حسین ماضی نے انہیں بچا لیا تھا۔ حسنہ کی یاد آ رہی تھی۔ اب اس بوجھل حادثہ کو فراموش کرتے ہوئے ان کے قدم گھر کی طرف اٹھ رہے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

                بابِ دوم

 

نور علی شاہ: نئے سفر کی تیاری

 

 

(۱)

 

غالب اکیڈمی کے پاس محمد علی بھائی ٹھیلہ لگاتے تھے، ٹوپیوں کا کاروبار تھا۔ ٹوپی کی قسمت ایسے بھی کھل سکتی ہے، محمد علی بھائی نے کبھی سوچا نہیں تھا۔چھوٹی بڑی،ترچھی، دو پلی، فیروزآبادی، حیدرآبادی، لکھنوی، ملتانی، مولانا ابوالکلام آزاد،محمد علی جوہر اسٹائل۔۔ہر طرح کی ٹوپیاں ان کے ٹھیلے پر سجی رہتی تھیں۔محمد علی بھائی صبح سے شام تک رنگین، ریشمی، مخملی، ملائم، چکور، گول اور ولایت علی خاں والی ٹوپیوں کا مول تول کرتے گذار دیتے تھے۔۔دور کہاں، یہیں اپنی دلّی کے نظام الدین میں۔۔ بستی حضرت نظام الدین۔سنا ہے پڑوس میں کوئی بہت بڑے شاعر بھی تھے۔ غالب نام تھا۔ ارے وہی غالب اکیڈمی والے غالب۔جہاں ٹھیلا لگاتے ہیں، وہی تو ان کا گھر ہے۔۔ گھر نہیں دکان۔۔ یا جو بھی ہو، محمد علی بھائی صبح سے شام اس لئے بھی پریشان رہتے ہیں کہ ہر آنے والا نیا مسافر بس اُسی کے ٹھیلے کے پاس آ کر پوچھتا ہے۔۔

’غالب اکیڈمی جانتے ہو؟‘

اب کیا۔۔ وہ چیخیں یا چلاّئیں کہ بھیاّ، جہاں کھڑے ہو وہی تو ہے اُن کی دکان۔ پتہ نہیں اس دکان مکان میں یا جو بھی کہہ لیں، صبح سے کیا کیا ہوتا ہے کہ لوگ بس جوق در جوق چلے ہی آتے ہیں۔جیسے اور کوئی کام ہی نہیں۔کتنے ہی لوگ اس کی دکان پر آ کر دریافت کرنے کے بعد، جیسے اُسے پریشان کرنے پر آمادہ ہو جاتے۔۔

۔۔نہیں جانتے ؟

نہیں۔۔

۔۔غالب کو نہیں جانتے؟

نہیں۔

۔۔ہو گا کوئی ایسا جو کہ غالب کو نہ جانے؟

میں نہیں جانتا، بس۔

۔۔پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہیں ؟

تم ہی بتلاؤ کے ہم بتلائیں کیا

۔۔یعنی کوئی مسلمان غالب کو نہیں جانے

’اے بھائی اِس کو مسلمان مت کہئے‘۔۔ بتانے والوں نے محمد علی بھائی کو بتایا تھا۔۔ نہیں جانتے کیا۔ شاعر تھا۔۔ کوٹھے پر جاتا تھا۔۔ شراب پیتا تھا۔

’توبہ توبہ توبہ‘۔۔

محمد علی بھائی کی آنکھوں میں غالب، ان کے خاندان، بلکہ خاندان در خاندان کے لئے ڈھیر ساری نفرت جمع ہو جاتی۔

۔۔روزے نہیں رکھتا تھا

اچھا

۔۔نماز بھی نہیں پڑھتا تھا

اچھا

۔۔پھر تو ٹوپی بھی نہیں پہنتا ہو گا؟

نہیں۔۔ یہی تو۔۔ غزلوں کی طرح اُس کی ٹوپی بھی مشہور ہے۔غالب کی بڑی سی ٹوپی۔۔  بابل کے ٹیڑھے مینار کی طرح دور تک جانے کے بعد ذرا سی جھک گئی۔۔ٹوپی کے اوپر کے حصہ میں پیوند لگی ہوئی۔۔ کپڑے کا بالشت بھر حصہ۔ مخملی ٹوپی۔۔ کچھ لوگ اس کے ٹھیلے کے پاس آ کر پوچھتے بھی تھے۔۔

غالب ٹوپی ہے؟

نہیں

’کمال ہے، غالب اکیڈمی کے پاس ٹوپی بیچتے ہو اور غالب ٹوپی نہیں رکھتے۔ بھائی کمال ہے۔‘

 

کمال تو بس پوچھنے والے کی نظر میں ہوتا۔۔  یعنی، ہو گا کوئی ایسا جو کہ غالب کو نہ جانے۔ محمد علی بھائی بدلی ہوئی سیاست کی فارسی نہیں جانتے تھے۔ مگر غالب کو مسلمان کہنے کے نام پر ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی۔۔۔۔۔۔  شرابی اور مسلمان۔ ہونہہ۔ سنا ہے ڈومنی کے کوٹھے پر جاتا تھا۔ فرنگیوں کے لئے شاعری کرتا تھا۔ان ہی گلیوں میں گھومتا ہو گا کل۔۔نہیں۔کسی نے بتایا۔۔۔۔۔۔  وہ تو گلی قاسم جان میں رہتے تھے۔۔۔۔۔۔ یہاں سے کیا واسطہ ۔۔۔۔۔۔ پھر یہاں کاہے کو آ گئے۔۔۔۔۔۔؟ دکان کھلوا دی اور وہ مزار تو دیکھئے۔۔۔۔۔۔  یہاں مزار بھی بنوا لیا۔۔۔۔۔۔ لیکن کیا ہوا بھائی۔۔ اتنا بڑا مزار اتنی جگہ گھیر لی۔ مگر باہر سے تالہ بند۔ دروازے پر کتے لوٹتے ہیں یا صاحب جان فقیر دو چار کتوں کو کسی محبوب کی طرح اپنے سینے سے چمٹائے 24گھنٹہ سوتا رہتا ہے۔

’’یہی ہوتا ہے مذہب سے پھرنے کا انجام۔ ارے انہی مسلمانوں نے تو۔۔اور شراب پئیں ‘‘۔

محمد علی بھائی کو غالب کا ذکر گوارا نہ تھا۔ کچھ پیارا تھا، تو اپنے محبوب کا تذکرہ۔۔۔۔۔۔  محبوبِ اولیا یعنی درگاہ حضرت نظام الدین۔ ایک قطار سے پھول والے۔۔۔۔۔۔ چھوٹی چھوٹی اِن تنگ گلیوں میں محبوب اولیاء کی برکت ہے۔ چھوٹے چھوٹے ہوٹل تو دیکھ لیجئے۔ ہزاروں کی تعداد میں بھوکے، لاچار، غریب، فقیر۔ پانچ پانچ روپے میں کھانا کھلائیے۔ باہر سے آنے والا آدمی محمد علی بھائی کی دکان پر بھی رکتا ہے۔ ٹوپی کی قیمت پوچھتا ہے۔

’کتنے کی ہے؟‘

’توبہ توبہ۔۔‘ سرُمے، والی آنکھیں اور زیادہ ندی جتنی گہری ہو جاتیں ۔۔۔۔۔۔ ’کیا بولتے آپ۔ ٹوپی کی قیمت نہیں ہوتی۔۔ ہدیہ ہوتا ہے۔ ہدیہ۔۔

’جو مرضی ہدیہ دے دیں۔‘

محمد علی بھائی جانتے تھے، ہدیہ کے نام پر دینے والا دو چار پیسے زیادہ ہی دے جائے گا۔کبھی کم نہیں دے گا۔۔۔۔۔۔ اب بھلا قرآن پاک، تسبیح اور ٹوپی جیسی پاک چیزوں کی خرید پر مول تول کرنے کی ہمت کون کرے گا۔۔۔۔۔۔ اﷲ کا کلام۔ اﷲ کے گھر میں با ادب جانے کے لئے ایک ٹوپی ہی تو احترام کا واحد ذریعہ ہے۔ بچپن میں ابا بھی کہتے تھے۔۔۔۔۔۔ مسجد میں سرڈھک کر جانا چاہئے۔

’کیوں ؟‘

’فرشتے ہوتے ہیں۔مقدس گھر ہے اس لئے۔‘

’نہیں پہنی تو؟‘

’شیطان سر پر تھپڑ مارتے ہیں۔‘

ہوss ہو ss محمد علی بھائی کو ہنسی آتی ہے۔ ایک وہ دن اور ایک یہ۔۔۔۔۔۔ ٹوپی کی عزت اور دبدبہ جو دل میں قائم ہوا، سو آج تک ہے۔۔۔۔۔۔

 

ٹوپی کو آنکھوں سے چومتے ہیں۔ ریشمی، دوپلّی، ترچھی، بچوں کی، روئی جیسی ملائم ٹوپیاں ہاں ۔۔۔۔۔۔ تو۔ ذکر چلا تھا، ڈومنی کے کوٹھے پر جانے والے غالب کا۔ شراب پینے والے غالب کا اور تقدیر تو دیکھئے۔ جگہ ملی تو کہاں۔ یہاں محبوب اولیاء کے آستانہ کے قریب۔۔۔۔۔۔ عرس کے دنوں میں یہاں ٹھیلا لگانا بھی مشکل ہو جاتا۔ جو ق در جوق آدمی ہی آدمی۔۔۔۔۔۔ محبوب اولیاء کے آستانہ پر قوال اپنے اپنے راگ الاپ رہے ہیں۔

’بھر دے جھولی مری یا محمد

لوٹ کر پھر میں جاؤ ں نہ خالی۔۔‘

وہ ٹھیلے کو غالب کے مزار والی گلی کے کنارے لگا کر، کپڑے سے برابر کر، محبوب اولیاء کے در پر دستک دینے پہنچ جاتا۔ کسی نے بتایا تھا۔ یہیں علامہ اقبال کی دعاء بھی قبول ہوئی تھی۔ کہتے ہیں اقبال نے سات برسوں تک کچھ بھی نہیں لکھا۔ آستانے میں حاضری دی اور یہ شعر پڑھا۔۔۔۔۔۔

فرشتے پڑھتے ہیں جس کو، وہ نام ہے تیرا

مسیح  و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا

’اب دیکھئے اقبال کہاں ہیں ۔۔۔۔۔۔ شاعر مشرق کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ کسی نے بتایا تھا، علامہ کا مزار تو لاہور میں ہے۔۔۔۔۔۔ یہی تو غلط ہے۔ علامہ کو یہاں ہونا چاہئے تھا۔ یہاں تو بیکار غالب کو بھیج دیا۔ شرابی کہیں کا۔‘

محمد علی بھائی کو اقبال پسند تھے۔۔ پسند ہی نہیں تھے، بہت پسند تھے۔ وہ کہتے بھی تھے۔۔۔۔۔۔ ارے غالب کی کیا بات کرتے ہو۔ شاعر تھے تو اقبال۔ ایک کیا۔ دس سنادوں اشعار۔ ابھی اِسی وقت۔ مسلمانوں کے تھے۔ اپنے تھے اور یہ غالب۔ لیکن دقّت یہی تھی۔ کبھی کبھی لوگ غالب ٹوپی تو پوچھنے چلے آیا کرتے، اقبال ٹوپی پوچھنے کوئی نہیں آتا تھا۔

 

یہ پوری بستی ہی محمد علی بھائی کو اﷲ کی سوغات لگتی تھی۔ نور سے جھلمل۔۔۔۔۔۔ چاروں طرف جیسے نور ہی نور پھیلا ہو۔ ایک قطار سے پھول والوں کی سیر۔۔۔۔۔۔ اور ٹھیک اُن سے چار قدم، آنکھوں کے فاصلے پر تبلیغی جماعت والوں کا دفتر ۔۔۔۔۔۔ دفتر کیا تھا، مسجد کہئے۔ مسجد کیا، سب کے لئے ایک آشیانہ۔۔۔۔۔۔ دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں۔ سوڈانی، چینی، افریقی، امریکی اور پتا نہیں کہاں کہاں سے۔۔۔۔۔۔ چہرے الگ، رنگ الگ، زبان الگ۔ لیکن کام ایک۔ مشن ایک۔ اسلام کی تبلیغ۔

تب اُس نے شروع شروع یہاں ٹھیلا لگانا شروع کیا تھا۔ ٹوپی خریدنے آئے بہت سے لوگوں کو تو وہ پہچان بھی نہیں پاتا تھا ۔۔۔۔۔۔کہ کیا، یہ بھی مسلمان۔۔۔۔۔۔ کمال ہے۔ یہ بھی۔۔۔۔۔۔ یہ کالا بھچنگ۔۔۔۔۔۔ یہ بھی۔ یہ افریقی بھی۔ یہ چینی بھیّا بھی۔۔۔۔۔۔ سب کو ٹوپیاں دیتے دیتے ایک دن وہ مسجد میں چلا گیا۔ اُف۔ چاروں طرف نور کی بارش۔ اُس سے کہا گیا۔۔۔۔۔۔

’وہ چلّا میں چلے۔ چالیس دنوں تک۔ نہیں تو چوبیس دن۔ نہیں تو اپنے شہر میں ہی تین دن کا وقت نکالے۔ آزاد اپارٹمنٹ سے تاج اپارٹمنٹ۔ گھر گھر گھومنا ہے۔ نماز پڑھنے کی تبلیغ کرنی ہے۔‘‘

’سبحان اﷲ۔۔سبحان اﷲ‘

محمد علی بھائی ہر بات پر سبحان اﷲ کہتے ہیں۔ تبھی سے یہ عادت پڑی ہے۔ چلّا میں جانے لگے تو جیسے گھر والوں کو بھولنے لگے۔ ابّا تو جاہی چکے تھے۔ مرشد آباد میں انتقال ہوا۔۔۔۔۔۔ اور وہ اپنے بھائی مشتاق کے ساتھ یہاں خوریجی، دہلی میں آ کر بس گئے۔۔۔۔۔۔ زیادہ دنوں تک غائب رہنے لگے تو بیوی نے طوفان اُٹھا دیا۔۔۔۔۔۔

’گھر کی سوچو۔ دو دو بچے ہیں۔‘

’تو۔۔‘

’بچہ مدرسہ جانے لگا ہے۔‘

’اچھی بات ہے۔‘ سرمہ لگی آنکھوں میں ’خاندانی جنون‘ پیدا ہوا۔۔۔۔۔۔ ’عیاشی میں جاتا ہوں کیا۔ مذہب کے کام سے جاتا ہوں۔‘

’اور گھر؟‘

’بتایا تھا نا۔ پہلے خلیفہ نے کیا کیا تھا۔ پیارے نبیؐ کے لئے گھر میں کچھ بھی نہیں چھوڑا۔ ‘محمد علی بھائی کو، جاہل بیوی کو پیٹنے کی خواہش ہوئی۔ مذہب کے کام پر بندش لگاتی ہے۔ مگر کیا کرتے۔ جب آس پاس والوں کے ’مشورے‘ بڑھے کہ بھائی اولاد والے ہو، اور پھر بزنس بھی ٹھپ۔۔ پڑ رہا ہے۔۔ تو ذرا سی آنکھ کھلی اور ’چلّے‘ میں جانا کم کر دیا۔ بند نہیں کیا۔ بڑا بھائی مشتاق اُن دنوں ’ڈرائیوری‘ کرنے لگا تھا۔ دو ایک بار شیخ اور ایک ’عرب‘ کی صحبت میں دوسرے ملک جا سچکا تھا۔ اس لئے محمد علی بھائی بھی ڈرائیونگ کرنا سیکھ چکے تھے۔‘ اس درمیان سعودی عرب سے تبلیغ میں آئے شیخ یاسر سے اُن کا سامنا ہوا تھا۔ تبلیغ کے لئے حیدرآباد گئے۔ وہاں سترہ سال کی ایک دلہن پسند آ گئی۔ غریب باپ کو بیٹی کی قیمت چکائی۔۔۔۔۔۔ واپسی میں بستی نظام الدین آئے۔ محمد علی بھائی سے ملے تو دل کی بات ہونٹوں پر آ گئی۔

’ہمارے ساتھ چلو گے؟‘

’کیوں نہیں ؟‘

’ویزا بنا ہوا ہے‘

’بالکل ہے۔‘

ڈرتے ڈرتے محمد علی بھائی نے پوچھا۔ ’عمرہ (آدھا حج) تو کرسکوں گا نا؟

’عمرہ کیوں۔ حج کیوں نہیں ۔۔۔۔۔۔؟‘

محمد علی بھائی لاجواب ہو گئے۔ مکہ مدینہ کے پُر نور نظارے آنکھوں میں گشت کرنے لگے۔۔۔۔۔۔ بیوی بچوں کو، پیسے کے لئے تسلی دی۔۔۔۔۔۔ اور خود نکل گئے، اﷲ میاں کی نگریا۔۔۔۔۔۔ خانہ کعبہ۔ اﷲ میاں کا گھر ہی تو ہے۔۔۔۔۔۔ عمرہ کیا۔ حج بھی کر آئے اور دوسال میں ہی شیخ کی نوکری بھی چھوڑ کر آ گئے۔

 

محمد علی بھائی لوٹ تو آئے لیکن تجارت اور بزنس کے ’’دو اور دو‘ دو سو‘‘ کے پہاڑے سیکھ چکے تھے۔۔۔۔۔۔ آنکھیں کھل گئی تھیں ۔۔۔۔۔۔ لے دے کر وہی ایک ٹھیلا۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی اِس ’تجارت‘ کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے فراق میں تھے۔۔۔۔۔۔ شاید اس لئے بھی کہ مشتاق نے سلیم پور میں گھر لے لیا تھا اور وہ اب تک خوریجی کے دو کمروں والے کرائے کے فلیٹ میں دہلی کی گرمی برداشت کر رہے تھے۔ لیکن امید تھی۔ اﷲ کی لاٹھی میں دیر ہے اندھیر نہیں ۔۔۔۔۔۔ ایک دن معجزہ ہو گا۔ جھولی پھیلائیں گے، اور محبوب اولیاء اتنا دے دیں گے کہ قارون کا خزانہ بھی کم پڑ جائے گا۔

 

محمد علی نے نور علی شاہ کو سامنے سے آتے دیکھا تو چونک گیا۔

’اخّاہ۔ تو آپ ہیں۔‘

’ہاں۔‘

’وہی تو ہم کہیں۔ صبح میں، قومی آواز میں آپ کا نام دیکھا، تب سے پریشان ہیں۔‘

’تو کیا قومی آواز میں بھی خبر چھپی ہے۔؟‘

محمد علی نے زور سے قہقہہ لگایا۔۔’ اخّاہ۔۔ آپ بھی نا نور علی شاہ بھائی۔ کمال کرتے ہیں آپ۔ ارے ساری دنیا کو پتہ ہے۔ اور ہم آپ کو بتائیں۔ اللہ قسم۔ ہمارا تو سینہ چوڑا ہو گیا۔‘

’وہ بھلا کیوں ؟‘

’ارے کوئی کھیل ہے، اس عمارت کے اندر جانا۔‘

’عمارت نہیں، غالب اکادمی۔‘

’ارے ہاں وہی۔ غالب اکادمی۔۔‘ محمد علی شاہ نے منہ بنایا۔ مگر آپ جا رہے ہیں۔ ہمارے لیے یہ عزت کی بات ہے۔ اور کیوں نہ ہو، آپ ہمارے بھائی ہیں۔ ‘

’تو آپ بھی آ رہے ہیں محمد علی بھائی۔‘

’کیوں نہ آئیں گے۔ آپ کو دیکھیں گے۔ آپ کا نام چھپا ہے اخبار میں۔ صبح سے شک میں مبتلا تھے۔ اب تو سینہ چوڑا کر کے بتائیں گے، ہمارا یار ہے۔‘

نور علی شاہ مسکرائے۔ ’وقت ہونے والا ہے، جلدی آ جائیے گا۔‘

’اخاہ۔۔ آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ بس آپ گئے اور میں پہنچا۔‘

محمد علی کی سرمد لگی آنکھوں میں تہذیب و اخلاق کی قمقمیں روشن تھیں اور اس وقت نور علی شاہ ان کی نظر میں کیا تھے، اس کے لیے بہ آسانی ان کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو دیکھ کر ان کے جذبات کو سمجھا جا سکتا تھا۔

٭٭

 

غالب اکادمی کے پاس گاڑیوں کا آنا جانا شروع ہو چکا تھا۔ گاڑیاں رکتیں۔ صاف کرتے پائجامہ یا سوٹ میں ادیب و شاعر اترتے اور سیڑھیوں سے ہو کر اندر ہال میں جا کر بیٹھ جاتے۔۔ باہر رکشہ والوں اور گاڑیوں کے ہارن کا بھی شور تھا۔ غالب اکادمی کے پاس جگہ کی کمی ہے، اس لیے گاڑیاں بمشکل آتی ہیں۔ پارکنگ کی دشواری بھی ہے۔ اور شام کے وقت درگاہ سے باہر نکلنے والوں اور درگاہ پر جانے والوں کا ایک ہجوم رہتا ہے۔ بنگلہ والی مسجد کے آس پاس بھی باہر سے آئے ہوئے سیلانیوں کی تعداد کچھ کم نہیں ہوتی۔ نور علی شاہ کچھ دیر غالب اکادمی کے باہر ہی ٹھہر کر ماحول کا جائزہ لینا چاہتے تھے۔ وہ  ابھی بھی اس شش و پنج میں تھے کہ کیا وہ واقعی اس عمارت کے اندر جانے کے لائق ہیں۔۔؟ اور کہیں ایسا تو نہیں کہ خواجہ رجب علی ہاشمی نے ایک بار پھر ان سے انتقام لینے کی کوشش کی ہو۔۔ لیکن ان کا دل کہتا تھا، اس بار ایسا نہیں ہو گا۔ ویسے بھی کل قدوس بھائی کی دکان کے پاس نور علی شاہ نے جس رجب علی ہاشمی کو دیکھا تھا، ان سے کسی ایسے انتقام کی امید نہیں کی جا سکتی تھی۔

’ارے آپ یہاں ہیں، اندر چلیے۔‘

نور علی شاہ اچانک چونک گئے۔ آنکھوں کے سامنے خواجہ رجب علی ہاشمی تھے۔ سیاہ بڑی آنکھیں۔ چمکتا ہوا چہرہ، اپنے مخصوص لباس میں یہ چہرہ دور سے ہزاروں کی بھیڑ میں پہچانا جا سکتا تھا۔ خواجہ رجب ہاشمی کو گھیرے ہوئے کئی لوگ موجود تھے۔ خواجہ رجب ہاشمی نور علی شاہ کو دیکھ کر مسکرائے۔ پھر کہا۔

’میں سمجھ سکتا ہوں کہ ابھی آپ کے اندر کیا کشمکش چل رہی ہو گی۔ لیکن آج کی یہ بزم آپ ہی کے لیے سجائی گئی ہے۔ آئیے۔۔‘

خواجہ صاحب نے ہاتھ کے اشارہ سے آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ نور علی شاہ کی آنکھوں میں ایک چمک کوندی۔ قدم میں لرزش ہوئی۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے خواجہ صاحب کی طرف دیکھا۔ اور اس ایک لمحے کے اندر، نور علی شاہ کے وجود میں ایک نئے نور علی شاہ کا قالب سما چکا تھا۔

 

خواجہ رجب ہاشمی کے، ہال میں قدم رکھتے ہی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے لوگ تعظیم میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ السلام علیکم کی بوچھاریں ہونے لگیں۔ خواجہ صاحب سب سے ہاتھ ملاتے ہوئے، مسکراتے ہوئے آگے کی صف میں بیٹھ گئے۔ نور علی شاہ کو پاس ہی بیٹھنے کے لیے کہا۔ نور علی شاہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ کرسیاں ہی کرسیاں۔ بیٹھے ہوئے لوگ۔ لیکن وہ آگے کی صف میں خواجہ رجب ہاشمی کے ساتھ تھے۔ ایسا کتنی ہی بار ہوا جب انہوں نے آخری صف سے، دروازے سے چھپ کر اسٹیج اور پروگرام کا منظر دیکھا تھا۔ لیکن آج تو یہ دنیا تبدیل ہو چکی تھی۔ اسٹیج پر بڑے سے چمکتے ہوئے بینر پر لکھا ہوا تھا۔۔ گزشتہ دربار، گمشدہ دربار۔۔ مہمان خصوصی میں نور علی شاہ کا نام چمک رہا تھا۔ نور علی شاہ کی آنکھیں بینر پر لکھے ہوئے اپنے نام پر چپک کر رہی گئی تھیں اور اس وقت کسی کے لیے بھی ان کی خوشیوں کا اندازہ کر پانا مشکل ہو رہا تھا۔ نور علی شاہ کے لیے جیسے وہ پرانا نوابوں اور بادشاہوں کا زمانہ لوٹ آیا تھا۔ اور خدا کی قسم، اس وقت وہ خود کو واجد علی شاہ سے کم محسوس نہیں کر رہے تھے۔

پہلے چائے اور ناشتہ ہوا۔ ناشتہ میں مٹھائیاں سموسہ اور دنیا بھر کی چیز یں تھیں۔ اس درمیان خواجہ رجب ہاشمی، نور علی شاہ کو مختلف لوگوں اور دانشوروں سے ملاتے رہے۔آج نور علی شاہ نے اس خاص موقع کے لیے پرانا چوڑی دار پائجامہ اور چکن والے کرتے کا انتخاب کیا تھا۔ اور انہیں یقین تھا کہ اس لباس خاص میں وہ بنجارہ نور علی شاہ کہیں غائب ہو چکا تھا اور وہ نور علی شاہ زندہ ہو گیا تھا جس کے آبا و اجداد نے کبھی مٹیا برج کے علاقے میں وہ عمارتیں بنوائی تھیں کہ اودھ کی چمک بھی ماند پڑ گئی تھی۔۔ اور اس لمحہ وہی شاہی خون تھا، جو نور علی شاہ کی رگوں میں دوڑ رہا تھا۔ چائے ناشتہ کے بعد ناظم جلسہ نے خواجہ رجب ہاشمی کے ساتھ نور علی شاہ کو بھی اسٹیج پر آنے کی دعوت دی۔ اردو کے ایک بڑے دانشور پروفیسر انور رئیس بھی اسٹیج پر بلائے گئے۔ اسٹیج کے سامنے ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اور نور علی شاہ کو اس بات کا احساس تھا کہ اس وقت سارا عالم بس ان کی طرف دیکھ رہا ہے۔ کرسیوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کے تعارف کے بعد، نظامت کرنے والے نے نور علی شاہ کی طرف دیکھا۔ مسکرایا۔ اور پھر بلند آواز میں کہا۔

’حاضرین جلسہ۔ آج کے مہمان خصوصی ہیں جناب نور علی شاہ۔ اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں، آج ہمارے پروگرام کا موضوع ہے، گزشتہ دربار، گمشدہ دربار۔۔ کہتے ہیں کوئی بھی شئے ہمیشہ قائم نہیں رہتی۔انسانی ذات بھی فنا ہونے کے لیے ہے۔ ایک دن قارون کا خزانہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ کبھی شہنشاہیت کے قصے ہوا کرتے تھے۔ نوابوں کی حسین داستانیں ہوا کرتی تھیں۔ دربار شاہی ہوا کرتا تھا۔ مگر کیا ہوا، ہوا چلی۔ پتے بکھر گئے۔ بہار رخصت ہوئی۔ خزاں نے اپنا سایہ کر دیا۔ جاگیریں چھن گئیں۔ جاگیردار کہاں کھو گئے، کچھ پتہ بھی نہیں چل سکا۔ دربار گمشدہ ہو گئے، گزشتہ ہو گئے۔ آج اسی گزشتہ دربار کو یاد کرنے کی خواہش ہے۔ اور یہاں آپ کا تعارف اس شخص سے کرایا جا رہا ہے، جو اب محتاج تعارف نہیں۔

خواجہ رجب ہاشمی نے مڑ کر نور علی شاہ کی طرف دیکھا۔ اور نور علی شاہ کے یہ لمحے ایسے جاوداں لمحے تھے، جس نے گمشدہ تہذیب و تمدن کی بہاروں کو واپس لوٹا دیا تھا۔ ناظم جلسہ کی آواز گونج رہی تھی۔۔ شہنشاہیت کھو جاتی ہے، دربار گم ہو جاتے ہیں مگر انسانی قافلہ چلتا رہتا ہے۔ نسلیں آتی جاتی رہتی ہیں، اور یہ نور علی شاہ ہیں، چہرے پر وہی نشان، وہی آن مگر وقت شاہوں کا قصیدہ پڑھتا ہوا مٹیا برج کی ان جگہوں کو ویران کر گیا ہے، جہاں کبھی ان کی موجودگی کے معنی ہوا کرتے تھے۔۔ مگر یقین ہے، وقت خود کو دہرائے گا۔ کیونکہ وقت دہرانے کے لیے ہوتا ہے۔ ایک تاریخ پرانی ہوتی ہے اور ایک نئی تاریخ کی شروعات ہو جاتی ہے۔

 

نور علی شاہ کے جسم میں لرزش تھی۔۔ کبھی کبھی ذہن اچانک سناٹے میں چلا جاتا۔ وہ آنکھوں کے سامنے کی اس بھیڑ کو دیکھ رہے تھے جہاں کرسیوں پر بیٹھے ہوئے لوگ ہمہ تن گوش ہو کر گمشدہ دربار کے قصہ سن رہے تھے۔ اور یقیناً ان کی آنکھوں میں اس شخص کے لیے ایک خاص چمک ہو گی، جس کا تعلق کبھی اس گمشدہ دربار سے رہا تھا۔۔ پھر کتنے ہی لوگ آئے۔۔ بولے اور چلے گئے۔ نور علی شاہ کا ذہن ابھی بھی سائیں سائیں کر رہا تھا۔ اب صرف دو لوگ رہ گئے تھے۔ لیکن ہال ابھی بھی کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ناظم جلسہ نے اچانک نور علی شاہ کو آواز دی تو جیسے ان کے جسم میں خون کی گردش یکایک تیز ہو گئی۔ لیکن نام پکارا جا چکا تھا اور۔ گزشتہ دربار، گمشدہ دربار کا آخری قصہ لوگ ان کے منہ سے سننا چاہتے تھے۔لیکن وہ کیا سنائیں گے۔ خواجہ رجب ہاشمی نے یہ کیسا امتحان لیا۔ وہ تو پڑھے لکھے بھی نہیں۔ مفلسی میں آنکھیں کھولیں تو ڈھنگ کے لوگوں کے درمیان اٹھنا بیٹھنا بھی نصیب نہیں ہوا۔۔ ابا حضور لیاقت علی شاہ گزرے ہوئے ماضی کا قصہ تو بیان کرتے رہے، لیکن خود کیا تھے۔ ایک معمولی اسکول ٹیچر۔ اور گھر میں فاقے ہوتے تھے۔ مٹیا برج کی ویران و تنگ گلیوں سے دلی، بستی حضرت نظام الدین آنے تک کبھی نور علی شاہ نے خواب و خیال میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن، اس طرح گزشتہ دربار کے بجھے ہوئے قمقموں میں جان پڑ جائے گی۔ وہ شہر کے ادباء و امراء کے ساتھ اسٹیج پر بلائے جائیں گے اور غالب اکادمی کے کھچا کھچ بھرے ہال میں انہیں عام لوگوں سے خطاب بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ مگر اب وہ منزل آ چکی تھی۔ ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔ نور علی شاہ اپنی جگہ سے اٹھے، ڈائس پر آئے۔ گلہ کھکھارا۔ اور جیسے آنکھوں کے آگے ہزاروں فانوس روشن ہو گئے ہوں۔

’میں۔۔ میں۔۔ نور علی شاہ۔۔ آپ کے درمیان ایک ادنیٰ سا انسان۔۔ مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ تقریر کیسے کی جاتی ہے۔ مجھے یہ بھی خبر نہیں کہ پڑھے لکھوں کے درمیان بیٹھا اور بولا کیسے جاتا ہے۔ خواجہ رجب ہاشمی کی مہربانی۔۔‘

آواز کھو گئی۔ نور علی شاہ ٹھہر گئے۔ خواجہ رجب ہاشمی کی طرف مڑ کر دیکھا۔ خواجہ صاحب عقیدت مندانہ نظروں سے انہیں حوصلہ دے رہے تھے۔۔

’خواجہ رجب ہاشمی کی مہربانی۔۔‘

دو۔ تین بار ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں نور علی شاہ نے اس لفظ کی ادائیگی کی۔۔ ادھر ادھر دیکھا۔ ایسا احساس ہوا، جیسے ہزاروں، لاکھوں نگاہیں ان کے جسم میں اتر گئی ہوں۔۔ لوگ قہقہہ لگا رہے ہوں۔

یہ بادشاہ ہے۔۔ ہا۔۔ ہا۔۔

یہ توٹچا دکھتا ہے۔۔ ہا۔۔ ہا۔۔ ہا۔۔

کوئی پاگل لگتا ہے۔۔ ہا۔۔ ہا۔۔ ہا۔۔

یہ تو قدوس بھائی کی دکان میں چوری کرتا ہوا پکڑا گیا ہے۔۔ ہا۔۔ ہا۔۔

ولیوں کے ولی کے دربار میں حاجتمندوں کو پانی پلاتا ہے۔ پنکھے جھلتا ہے۔ اور مختار بیٹھے کے لیے ٹھونگا بناتا ہے۔۔ ہا۔۔ ہا۔۔

قہقہے بڑھتے جا رہے تھے۔ گلہ گھٹ رہا تھا۔ آواز تنگ ہوئی جا رہی تھی۔۔ اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا۔ پاؤں بے جان ہو رہے تھے۔ اور اچانک اس نے دیکھا، خواجہ رجب ہاشمی اپنی جگہ سے اٹھے۔ چلتے ہوئے اس کے پاس آئے۔ مائیک لیا۔۔ نور علی شاہ کو وہیں ٹھہرنے کے لیے کہا۔ اور پھر خواجہ رجب ہاشمی کی بلند آواز گونجی۔

’حاضرین جلسہ۔۔ خدائے رب العزت نے ہمیں اشرف المخلوقات کہا ہے۔ اور خیال رہے کہ اشرف صرف اس مخلوق کو نہیں کہا جس کا تعلق درباروں سے تھا۔ شاہی تخت سے تھا یا تخت طاؤس سے تھا، اور کون نہیں جانتا کہ وقت کا سیل رواں تاریخ اور تہذیب کے کسی ایک موڑ پر ٹھہرتا نہیں۔۔ سکندر کھو جاتا ہے۔ پورس گم۔ نادر شاہ اور چنگیز کہانی بن جاتے ہیں۔ اور دربار گزشتہ اور گمشدہ ہو کر ہماری، آپ کی کہانیوں کا حصہ بن جاتا ہے۔ اور حاضرین جلسہ، میری نظر سے دیکھیں تو عظیم مغلیہ سلطنت اور تہذیب شان اودھ کے چراغ بھی گل ہو گئے۔ یہ چراغ گل ہونے ہی تھے۔ اس لیے میری نظر سے دیکھیں تو سکندری سے زیادہ قلندری کا قائل ہوں۔ تخت طاؤس سے زیادہ زمین پر بچھے فرش کا قائل ہوں۔ دربار سلطنت سے زیادہ عام آدمی یعنی نور علی شاہ کا قائل ہوں۔سلطنت کے نگہبان عام انسانوں کا درد کہاں جانتے تھے اور آج سلطنت کے نگہبان کے وارث اس درد سے گزر رہے ہیں۔۔ جو درد آپ کا بھی ہے اور ہمارا بھی۔‘

رجب علی شاہ نے مسکرا کر نور علی شاہ کی طرف دیکھا۔ کرسی پر واپس جا کر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ پھر مسکرا کر سامنے قطار میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف دیکھا۔

’حاضرین جلسہ۔۔ عیش و عشرت کی طلسمی دنیا افسانہ بن گئی۔ دربار مٹ گئے۔ تہذیب و تمدن کی آخری بہار بھی رخصت ہوئی۔ پتنگ بازیوں، بیت بازیوں، تعزیہ داری، مرغ بازی، داستان گوئی کے قصے وقت کے حجرے میں ہمیشہ کے لیے بند ہو گئے۔ محلات کی ڈیوڑھیاں اور محل سراؤں کی رونقیں قصہ بن گئیں۔ ایک وقت میں یہی تہذیبیں پھلتی پھولتی ہیں۔ پھر نئی تہذیب ان عشرت کدوں کے فانوس بجھا دیتا ہے۔ جلوے منتشر ہو جاتے ہیں۔ اور نئی حقیقت بیانی کے ساتھ نئے جلوے پیدا ہوتے ہیں۔۔

خواجہ رجب ہاشمی کی سحر آگیں آواز گونج رہی تھی۔۔ مجمع خاموش تھا اور ادھر نور علی شاہ کے ذہن میں سائیں سائیں کرتی آندھیوں کا شور بڑھ چکا تھا۔۔ آنکھیں بند تھیں۔ اور یہ لمحے ان کی زندگی اب تک کی تاریخ کے سب سے حسین لمحے تھے۔۔، وہ نہیں جانتے تھے، خواجہ رجب ہاشمی کب تک بولتے رہے۔ انہیں یہ بھی خبر نہیں کہ کب تالیوں کا شور اٹھا اور کب تالیوں کا بجنا بند ہوا۔۔ انہیں بس لوگوں کے اٹھنے سے اس بات کا احساس ہوا کہ پروگرام ختم ہو چکا ہے۔

سڑک کے باہر گاڑیوں کے ہارن چیخ رہے تھے۔ ہزاروں ہاتھ تھے جو ان سے ہاتھ ملانے کے لیے آگے بڑھے۔ نور علی شاہ خود کو سنبھالے، مسکراتے ہوئے سب سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ پھر ایک ایک کر کے لوگ رخصت ہونے لگے۔ خواجہ رجب ہاشمی نے جاتے وقت سرگوشیوں میں کہا۔ کل ممکن ہو تو کسی وقت تشریف لائیے۔‘

’جی ضرور۔‘

وہ غالب اکادمی کی سیڑھیوں سے اترے تو محمد علی بھائی نے فرط جذبات سے انہیں گلے لگا لیا۔

’اخّاہ۔۔ آپ تو چھا گئے۔‘

’چھایا کہاں میاں۔۔ میں تو بول ہی نہیں پایا۔‘

’اتنے بڑے مجمع میں بولنا آسان ہوتا ہے کیا۔ اخّاہ۔ لیکن مان گئے بھائی نور علی شاہ۔ جو عزت آپ کو آج ملی وہ تو ساری زندگی کسی کو نہیں ملی۔ شکرانے کی نماز پڑھیے۔‘

نور علی شاہ جیسے ابھی بھی خواب کی وادیوں میں تھے۔ انہیں ابھی بھی یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ جو کچھ ہوا، وہ خواب نہیں، حقیقت ہے۔ محمد علی بھائی نے پھر قہقہہ لگایا۔

’اخّاہ۔۔ آپ نے یہ بات اب تک چھپا کر رکھی۔ وہی تو میں کہوں۔ آپ کبھی بھی دوسرے لوگوں کی طرح نظر نہیں آئے۔‘

’دوسروں لوگوں کی طرح۔۔؟‘

’اخّاہ۔۔ آپ سمجھے نہیں نور علی شاہ بھائی۔ مطلب ایک دم خاص اور کسی سے کم ہیں آپ۔ بادشاہ ہیں بادشاہ۔‘

 

نور علی شاہ کو احساس ہوا، یہی بات تو مختار بنیا بھی کہتا ہے۔۔ بستی حضرت نظام الدین میں شام کا سایہ گھنا ہو رہا تھا۔ مگر جانے کیا بات تھی، کہ اب ان کا دل بوجھل تھا۔وہ بھیڑ میں خود کو تنہا محسوس کر رہے تھے۔ آنکھیں اشکبار ہوئی جا رہی تھیں۔ راستہ میں قدوس بھائی اور مختار بنیے نے آواز بھی دی، مگر ان کے قدم رکے نہیں۔ نظریں جھکی تھیں۔ جذبات کا ایک سیل رواں تھا۔ دل تیز تیز دھڑک رہا تھا۔ وہ گھر پہنچے۔ دروازے پر دستک دی۔ حسنہ نے دروازہ کھولا۔ نور علی شاہ کی طرف مسکرا کر دیکھنے کی کوشش کی۔ مگر آج تعریفوں کی بارش کے بعد اب ایک انجانا سا درد محسوس کر رہے تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے، مسرتوں کے لمحے مختصر کیوں ہوتے ہیں۔۔؟ دل میں درد اتر آیا تھا۔ وہ اپنے کمرے میں آئے۔ بستر پر گر کر تکیے کو دونوں ہاتھوں میں لیے پھپھک پڑے۔۔ وہ اس بات سے بے نیاز تھے کہ دو آنکھیں غور سے ان کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ اور یہ آنکھیں حسنہ کی تھیں۔ حسنہ یہ سمجھنے سے قاصر تھیں کہ نور علی شاہ کے اچانک رونے کا سبب کیا ہے۔ کیا آج دوبارہ ان کی رسوائی کا سامان کیا گیا۔۔؟ گئے تو خوش خوش تھے۔ پھر اچانک یہ کیا ہو گیا۔ مگر نور علی شاہ اس بات سے واقف تھے کہ کبھی کبھی اچانک ملنے والی خوشیاں آنسوؤں کے راستہ بھی کھول دیتی ہیں۔

٭٭

 

باہر تیز ہوا چل رہی تھی۔ کھڑکی کے پٹ ہوا سے ٹکرا رہے تھے۔ آدھی رات گزر چکی تھی۔ مگر نور علی شاہ کی آنکھوں میں نیند نہیں تھی۔ حسنہ بغور ان کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لے رہی تھی۔۔ نور علی شاہ کی آنکھوں میں اب بھی آنسو تھے۔ مگر اب ان آنسوؤں کے ساتھ چہرے فکر اور مسکراہٹ کا سنگم بھی تھا۔

نور علی شاہ آہستہ سے بڑبڑائے۔۔’جب سے آیا ہوں بیگم، ایک کشمکش ہے۔ سمجھ نہیں پا رہا ہوں کہ میں کون ہوں۔ میری حقیقت کیا ہے۔۔ مٹیا برج کی تنگ و تاریکی گلیوں میں ایک چھوٹا سا دو کمرے والا پرانا گھر۔ جہاں ہوا بھی چلتی تو گھر تنکے کی طرح ڈول جاتا۔ ایک عمر گزر گئی۔ کتنی نسلیں۔ مگر کوئی بھی یاد ایسی باقی نہیں جس کا سلسلہ آج کی شام سے وابستہ کرسکوں۔۔ میرا کیا ہو گا بیگم۔۔‘

’کیا ہو گا۔۔‘حسنہ نے چونک کر نور علی شاہ کو دیکھا۔۔ ’یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ۔۔ کیا ہو گا مطلب؟‘

’ایک نایاب خوشی کے بلند دروازے پر پہنچ کر پیچھے لوٹنا مشکل ہوتا ہے بیگم۔۔ دنیا ہی بدل گئی ہو جیسے۔ کبھی کبھی لگتا ہے۔۔ کہیں یہ بھی کوئی سازش تو نہیں۔۔

’سازش؟‘ حسنہ نے غصہ سے دیکھا۔۔’ اب آپ کو ہر چیز میں سازش نظر آنے لگی ہے۔۔‘

’ایسا نہیں ہے بیگم۔ مگر آپ نہیں جانتیں۔ وہاں میرے ساتھ کیا ہوا۔ وہاں۔۔ یہ نور علی شاہ تھا ہی نہیں۔ وہاں تو کوئی اور ہی نور علی شاہ تھا۔ وہ پرانا نور علی شاہ جس کا رشتہ جد امجد اور شاہی تخت سے وابستہ ہو جاتا ہے۔۔ ابھی میں نے کہا تھا نا۔۔ مٹیا برج کی گلیوں میں بھٹکنے والے نور علی شاہ کو بھلا اس دنیا کا کیا علم تھا۔۔ گمشدہ دربار کے نام پر جو عزت اس حقیر فقیر کو دی گئی، اس توقیر نے میرے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دی ہیں۔۔ لگتا ہے، اب گھر سے نکلوں گا تو وہ آنکھیں مجھے غور سے دیکھ رہی ہوں گی۔۔ ہنس رہی ہوں گی۔۔ بادشاہوں کے خاندان کا وارث اور اس حال میں۔۔

’ایسا کیوں سوچتے ہیں آپ۔۔‘

اس دنیا سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا ہوں بیگم۔ مگر کل شام سے دوبارہ اپنی حیثیت اور اوقات کی شاہراہ تک آنا بہت آسان نہیں ہے بیگم۔۔ مگر اب سوچ لیا ہے۔۔ سوچ لیا ہے۔۔‘

تیز ہوا سے کھڑکی کے پٹ ڈول رہے تھے۔ نور علی شاہ کی نظریں خستہ دیواروں کی طرف دیکھ رہی تھیں۔

’کیا سوچ لیا ہے۔۔؟‘

’سوچ لیا ہے۔۔‘ نور علی شاہ مسکرا رہے تھے۔۔ زندگی اتنی آسان نہیں ہے، جس قدر ہم سوچتے ہیں۔ مشکل ہے زندگی۔ یہ طے ہے کہ وہ راج پاٹ واپس نہیں آئے گا۔ جاگیریں ختم ہو چکی ہیں۔ نوابوں کا عہد واپس آنے سے رہا۔ مگر اب مفلسی کے اس پیکر سے باہر نکلنا ہو گا۔۔ اور اس کے لیے۔۔‘

حسنہ نور علی شاہ کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔ تیز ہوا میں بادلوں کی گرج شامل ہو گئی تھی۔ حسنہ کی آنکھوں میں اس گفتگو سے شک کے ڈورے تیر رہے تھے۔ وہ نور علی شاہ کی آنکھوں میں جھانکتی ہوئی اس سچ کو پڑھنے کی خواہش مند تھی، جو نور علی شاہ اس سے چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔ آخر وہ کیا سوچ رہے ہیں ؟ کس راستے پر جانا چاہتے ہیں۔۔؟

نور علی شاہ کا چہرہ اس وقت سپاٹ اور جذبات سے عاری تھا۔ اب نیند آہستہ آہستہ ان پر حاوی ہو رہی تھی۔ انہیں یاد آیا، خواجہ رجب علی شاہ نے چلتے وقت انہیں گھر آنے کے لیے کہا تھا۔ پھر محمد علی بھائی سے بھی ملنا تھا۔ نور علی شاہ کو یقین تھا، جب زندگی نے یہ نئے راستے کھولے ہیں تو روزگار کے نئے راستے بھی پیدا ہوں گے۔۔

ہوا پھر تیز ہو گئی تھی۔

بادلوں کی گرج کے ساتھ اب بارش بھی شروع ہو چکی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۲)

 

دوسرے ہی دن نور علی شاہ صبح سویرے رجب علی شاہ کے گھر کے دروازے پر تھے۔ فجر کی نماز ہو چکی تھی۔ قرب و جوار سے چڑیوں کے چہچہانے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ اردو کے اخبار آ چکے تھے اور رجب علی شاہ مسکراتے ہوئے نور علی شاہ کو کل کے پروگرام کی رپورٹس اور تصویریں دکھا رہے تھے۔

’یہ دیکھیے۔ یہ صبح نو۔۔ اور یہ قومی آواز۔۔ اور یہ الہلال۔۔ سب جگہ آپ ہی آپ ہیں۔‘

’آپ کی مہربانی۔‘

’مہربانی نہیں۔ تقدیر کے کھیل۔۔ یہ تو سات آسمانوں کے شہنشاہ کو پتہ ہے کہ کس کی تقدیر کیا کروٹ لینے والی ہے۔‘

خواجہ رجب ہاشمی نے نور علی شاہ کے چہرے کی طرف دیکھا جو اب بھی اخبارات میں اپنی تصویریں دیکھ رہے تھے اور حیران ہو رہے تھے۔ اردو کا کوئی بھی اخبار ایسا نہ تھا جس میں ان کی تصویروں کو جگہ نہ ملی ہو۔ اخباروں کی سرخیاں بھی جلی حروف میں چمک رہی تھیں۔

۔۔گمشدہ دربار، نئے وارث کی کھوج۔

۔۔گزشتہ دربار، کل کی یادیں اور آج کے نور علی شاہ

۔۔ اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر۔۔

۔۔شاہی خاندان کے وارث نور علی شاہ کی تاجپوشی

نور علی شاہ ہوا کے رتھ پر سوار تھے۔ کہاں کی تاجپوشی۔ بھلا ہو خواجہ رجب علی شاہ کا کہ وقت کے مارے ہوئے نور علی شاہ کو اس مقام تک لے آئے جہاں عہد ماضی کی سسکیاں حال کے اوراق شکستہ پر حاوی ہو جاتی ہیں۔۔ پھر درد کی جولان گاہیں ہوتی ہیں اور درد و غم کے بسیرے میں ایک زندگی گزر جاتی ہے۔

’کیا سوچ رہے ہیں ؟‘ رجب علی شاہ نے مسکراتے ہوئے نور علی شاہ کو دیکھا۔

’کچھ نہیں۔‘

’کچھ تو ہے۔۔‘

’ہاں۔ سوچ رہا تھا۔ کل جو کچھ ہوا۔ ایک خواب تھا۔۔‘

’لیکن خواب آتے ہیں اور کھو جاتے ہیں۔ خواب سے زندگی نہیں بدلی جاتی۔‘

’یہی سوچ رہا تھا خواجہ صاحب۔‘

’کل اخباروں میں سمٹ گیا۔۔ پھر کل نیا سورج نکلے گا۔ یہ اخبار بھی گم ہو جائیں گے اور آپ بھی۔‘

’ہاں۔‘

’لیکن اب آپ کو نہیں کھونا چاہئے۔‘ خواجہ رجب ہاشمی کی بڑی بڑی آنکھوں میں درد کی پرچھائیاں تیر رہی تھیں۔

’میں ہار گیا اور آپ جیت گئے صاحب۔‘ رجب ہاشمی مسکراتے ہوئے نور علی شاہ کی طرف مڑے۔۔ شاید آپ مجھ سے زیادہ اس حقیقت کو سمجھ بھی نہیں سکتے کہ آخر آپ کیسے جیت گئے اور میں کیسے ہار گیا۔ یہ تقدیر کے کھیل ہوتے ہیں۔ اس دن آپ کے جانے کے بعد میں کچھ دیر تک پریشان رہا۔ پھر خیال آیا، آپ کی بات کو آزما کر دیکھا جا سکتا ہے۔‘

نور علی شاہ کو شرمندگی ہو رہی تھی۔خواجہ رجب ہاشمی نے نور علی شاہ کے جذبات پڑھ لیے۔ وہ مسکرائے۔

’شرمندہ ہونے کی بات نہیں ہے۔ بلکہ شرمندہ تو مجھے ہونا چاہئے تھا، جو علم و فضیلت کی دھند میں گم ہو کر حقیقت کو فراموش کر بیٹھا تھا۔ میں نے اس زندگی کے بارے میں کبھی نہیں سوچا، جس پر صدیوں کی گرد پڑی تھی۔ کبھی اس گرد کو صاف کرنے کا خیال نہیں آیا۔‘

رجب ہاشمی مسکرا رہے تھے۔ ان کی بڑی بڑی آنکھوں میں الجھنوں کے بھنور اس وقت دیکھے جا سکتے تھے۔

’خیر۔ میں نے اپنے بیٹوں کو بلایا۔ مشورہ کیا۔ نئی دنیا کے دروازے دکھائے۔ بتایا کہ ایک راستہ آستانہ سے الگ بھی جاتا ہے۔ اور کیا ضروری ہے کہ اسی راستے پر چلا جائے، جہاں جد امجد کی نشانیاں ہیں۔ ان نشانیوں سے الگ اپنا راستہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔ مگر جانتے ہیں کیا ہوا۔۔‘

خواجہ رجب ہاشمی کھلکھلا کر ہنسے۔۔ ’مجھے یقین تھا کہ میری بات ٹالنے کی ہمت کسی میں نہ ہو گی۔ لیکن یہ خوش فہمی تھی میری۔ بچے اس راستے پر چلنے کے لیے تیار نہ تھے، جہاں انجانے راستے، انجانے درازوں کی طرف جاتے تھے۔ میرے بچوں کے نزدیک وہ عام سا راستہ ہی صحیح تھا جو گھرسے آستانہ کی طرف جاتا تھا۔ وہ نئی منزلوں کے سکندر بننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ پھر مجھے آپ کی یاد آئی۔۔ مجھے خیال آیا، آپ نے آسانی سے مجھے شکست دے دی تھی۔۔‘

’میں شرمندہ ہوں۔‘

’نہیں۔ اس میں شرمندگی کی کوئی بات نہیں۔ بلکہ میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ آپ اس نئے راستہ کی طرف اشارہ نہ کرتے تو میں ساری زندگی آستانہ کو ہی زندگی سمجھتا رہتا۔ زندگی آستانہ سے باہر بھی ہے۔‘

خواجہ رجب ہاشمی کے نورانی چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ مجھے یقین ہے، آپ کی زندگی بھی نئی تبدیلیوں کا انتظار کر رہی ہے۔ اور یقیناً یہ خوشگوار تبدیلیاں آپ کی زندگی کی سمت رفتار کے بدلنے میں معاون ثابت ہوں گی۔۔ ایک کام تھا آپ سے۔‘

خواجہ رجب ہاشمی کہتے کہتے ٹھہر گئے۔

نور علی شاہ نے بغور رجب ہاشمی کے چہرے کا جائز لیا۔۔’ حکم کیجئے۔ اس دن جو غلطی ہوئی وہ دوبارہ نہیں دہرائی جائے گی۔‘

’حکم نہیں۔‘ خواجہ رجب ہاشمی مسکرائے۔۔ ’صدیوں کی گرد۔۔ ابھی میں نے ذکر کیا تھا، صدیوں کی گرد صاف کرنے کا خیال بھی نہیں آیا۔۔ مگر اب آ گیا ہے۔‘

مطلب؟

’یہ مکان دیکھ رہے ہیں آپ۔ اس میں صدیوں کے پیوند لگے ہیں۔۔ اب سوچتا ہوں، بچوں کے دماغ میں بیٹھی ہوئی گرد تو صاف نہیں کر پایا، مکان کی دھول تو صاف کی جا سکتی ہے۔‘

خواجہ رجب ہاشمی مسکرائے۔۔ ’مزدوروں کو بلایا ہے۔ ذرا سی صفائی ہو جائے گی۔ دو ایک کمرے میں بڑے بڑے صندوق ہیں۔ جو ایک مدت سے کھولے ہی نہیں گئے۔ مجھے آپ جیسے ایک ایماندار شخص کی ضرورت ہے۔ مزدور اپنا کام کریں گے مگر نگرانی کے لیے مجھے آپ جیسے ایماندار شخص کی ضرورت ہو گی۔‘

ایمانداری کے نام پر نور علی شاہ کے ہونٹوں پر ایک اجنبی مسکراہٹ پیدا ہوئی مگر وہ مطمئن تھے، خواجہ صاحب کے معاملے میں وہ ایمانداری کا پورا خیال رکھیں گے۔

’کیوں نہیں۔‘

’دس بجے مزدور آ جائیں گے۔‘

’پھر میں دس بجے آ جاؤں گا۔‘

نور علی شاہ چلنے لگے تو خواجہ رجب ہاشمی نے اخبارات کی طرف اشارہ کیا۔

’انہیں لے جائیے۔ یادگار تصویریں ہیں۔ اخبارات میرے پاس آ جائیں گے۔‘

’شکریہ۔‘

 

بستی حضرت نظام الدین کی گلیوں میں صبح ہو چکی تھی۔ دکانیں کھلنے لگی تھیں۔ وہ آگے بڑھے تو سامنے سے آتے ہوئے محمد علی بھائی سے ٹکرا گئے۔

’اخّاہ تو آپ۔۔ اتنے سویرے سویرے۔۔‘

’خواجہ صاحب کے یہاں گیا تھا۔‘

’اخّاہ۔۔‘ محمد علی بھائی نے اخبارات کی طرف دیکھا۔ سرمہ لگی ہوئی آنکھوں میں نور کے قمقمے روشن تھے۔۔’ میں نے تصویریں دیکھ لیں نور علی بھائی۔ گھر والوں کو بھی دکھایا کہ اپنا یار ہے۔ بادشاہ ہے بادشاہ۔‘

’کہاں کا بادشاہ محمد علی بھائی۔‘

’کمال کرتے ہیں آپ بھی۔۔ تقدیر کو پلٹنے میں دیر لگتی ہے کیا۔ دیکھیے گا۔ تقدیر پلٹنے والی ہے اب۔‘

محمد علی بھائی آگے بڑھ گئے تو وہ دیر تک۔۔ جھومتے ہوئے تیز تیز آگے بڑھتے ہوئے محمد علی بھائی کو اس وقت تک دیکھتے رہے، جب تک وہ آگے والی گلی میں گم نہیں ہو گئے۔ مگر اب نور علی شاہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ کیا حقیقت میں تقدیر نے اب ان کے گھر کا راستہ دیکھ لیا ہے۔۔؟‘

اچانک ان کا ہمزاد نکل کر سامنے آ گیا تھا۔

’خوش فہمیوں پر بھروسہ مت کرو۔‘

’بکو مت‘

ہمزاد کھلکھلا کر ہنسا۔۔’ سچ یہ ہے کہ سب آپ کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ اور بدلا کچھ بھی نہیں ہے میاں۔ آپ وہی ہو۔ مٹیا برج کے بھانڈ۔ کل بھی ہوائی چپل پہنے گلیوں کی خال چھان رہے تھے اور آج بھی۔ بدلنا ہے تو ہوا ہوائی پر نہیں۔ خود پر اعتبار کرنا سیکھو۔‘

ہمزاد غائب تھا۔۔

اور اس میں کوئی شک نہیں کہ نور علی شاہ ہمزاد کی گفتگو سے اداس ہو گئے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۳)

 

فرید شیخ کو اس بات کا احساس تھا کہ پروفیسر ہکسلے کے دماغ میں مسلسل کچھ نہ کچھ چل رہا ہے۔ لیکن کیا چل رہا ہے، وہ اس بات کا اندازہ لگانے سے بھی قاصر تھے۔ فرید شیخ کا یہ خیال اب پختہ ہوا جا رہا تھا کہ یہ انگریز اپنے چہرے مہرے سے بالکل پتہ نہیں لگنے دیتے کہ ان کی عیاری اور مکاری کس انتہا کو پہنچنے والی ہے۔ شاید اسی لیے وہ اس ملک میں دو صدی سے زائد حکومت کرنے میں کامیاب ہوئے مگر فرید شیخ اچھی طرح جانتا تھا کہ اگر اس نے ہکسلے کے سامنے اس خیال کا اظہار بھی کیا تو وہ ہنس کر صابن کے جھاگ کی طرح اس کے خیال کو ہوا کر دیں گے۔۔

’آپ نہیں جانتے۔ آپ کا تجزیہ ابھی کمزور ہے۔‘

پچھلے دو ہفتے سے وہ پروفیسر ہکسلے کے ساتھ دلی کی سیر کر رہا تھا۔ اور اسے خود پر حیرت ہو رہی تھی کہ دلی کی کئی ایسی جگہیں جنہیں وہ پروفیسر کے ساتھ دیکھنے اور تلاش کرنے میں کامیاب ہوا تھا، شاید پروفیسر کے بغیر وہ زندگی میں کبھی بھی ان جگہوں کو تلاش کرنے کی خواہش بھی نہیں کرتا۔۔ آخر یہ انگریز لوٹ جانے کے بعد بھی ہندستان سے کیسا رشتہ رکھتے ہیں ؟ آخر وہ کیوں ہندستان کے چپہ چپہ سے واقف ہونا چاہتے ہیں۔۔؟ یہ محض تجسس ہے یا تاریخ سے رشتہ، لیکن اسی تاریخ کی بدولت صدیوں میں ہندستان بار بار غیروں کی پناہ میں جاتا رہا اور فرید شیخ آہستہ آہستہ اب اس تاریخ سے واقف ہو گئے تھے۔۔ پچھلے ایک ہفتہ کے اندر اس نے غور کیا تھا، پروفیسر ہکسلے اپنی نوٹ بک نکالتے۔ نقشہ بناتے۔ اور پھر گاڑی لے کر مختلف مقامات کی سیر کو نکل جاتے۔ اجمیری دروازہ، ترکمان دروازہ، کشمیری دروازہ۔۔ مینا بازار، پرانا قلعہ، بلبن کا قلعہ۔ پروفیسر ہکسلے کیمرہ نکالتے۔ تصویریں کھینچتے۔ پھر دیر تک اپنے لیے کسی مخصوص تنہا مقام کا انتخاب کرتے اور نوٹ بک پر لکھتے چلے جاتے۔ مسکراتے۔۔ اور فرید شیخ سے اس درمیان میں مختصر سی گفتگو ہو جاتی۔۔ ایک ہفتہ کی سیر وسیاحت کے بعد آج کا دن آرام کا دن تھا۔ اور اس وقت پروفیسر ہکسلے ہوٹل کے اپنے کمرے میں آرام کر رہے تھے۔ کچھ دنوں کے لیے وہ واپس آکسفورڈ جانے والے تھے۔ وقت ملتا تو دو آکسفورڈ کی یادوں کو بھی بات چیت کا حصہ بنا لیتے۔ لیکن ایسی ہر گفتگو کے بعد فرید شیخ کو احساس ہوتا، پروفیسر ہکسلے کی شخصیت پر اسرار کی ایک اور تہہ چڑھ گئی ہو۔

’سالے، ان انگریزوں نے اسی لیے حکومت کی کہ معصوم ہندستانی ان کے جذبات و احساس کو پڑھ ہی نہیں پائے۔ اور وہ اسی کا فائدہ اٹھاتے رہے۔‘

 

پروفسیر ہکسلے نے پلٹ کر فرید شیخ کو دیکھا۔ مسکرائے۔۔

’خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو تاریخ میں پناہ لیتے ہیں۔‘

فرید شیخ کے لہجے میں ناراضگی تھی۔ ’لیکن آپ تو تاریخ کے گڑے مردے اکھاڑتے رہتے ہیں۔‘

پروفیسر ہکسلے نے قہقہہ لگایا۔۔’ وقت گزرتے ہی تاریخ دھندلی ہونے لگتی ہے۔ اگر ہم اسے نئے سرے سے دریافت کرنا چاہتے ہیں تو غلط کیا ہے۔‘

فرید شیخ ہنسا۔۔’ غلط یہ ہے کہ آپ تاریخ کو نئے سرے سے دریافت کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی تاریخ ہوتی کچھ ہے، آپ اپنے حساب سے اسے کچھ اور بنا دیتے ہیں۔‘

پروفیسر ہکسلے نے اس بار زور دار قہقہہ لگایا۔ ’تو یہ کام آپ بھی کیجئے۔ تاریخ کی حفاظت کیجئے۔ یہ تو آپ سے ہوتا نہیں۔ اور دوسری اہم بات یہ، پروفیسر ہکسلے نے گہری سانس لی۔ ’آپ ہر بات کا غلط تجزیہ کر رہے تھے اور اسی لیے تاریخ کے بہانے ہی سہی، آپ پر آسانی سے حکومت کی جا رہی تھی۔‘

’مطلب؟‘

پروفیسر ہکسلے اٹھ کر بیٹھ گئے۔ آج ان کا لباس بھی بدلا ہوا تھا۔ وہ صاف اجلے کرتے اور پائجامہ میں تھے۔ اور اس وقت چہرے مہرے سے ایک معصوم مسلمان کے عکس کو اس میں دیکھا جا سکتا تھا۔

پروفیسر ہکسلے آگے بڑھے اور صوفے پر بیٹھ گئے۔

’آپ نے محکومی اور غلامی کو غلط معنوں میں لے لیا۔ اور اسی لیے آپ پیچھے چلے گئے۔‘

’مطلب؟‘ فرید شیخ نے تعجب سے پروفیسر ہکسلے کے چہرے کی طرف دیکھا۔

’میں سمجھاتا ہوں آپ کو۔۔‘ پروفیسر ہکسلے نے ٹھنڈی سانس لے کر کہنا شروع کیا۔۔ آپ کمزور ہیں تو کوئی بھی آپ پر قبضہ کرسکتا ہے۔ اس وقت بھی دیکھیے تو آزاد دنیا اور آزاد معاشرہ میں یہی ہو رہا ہے۔ کشمیر کو ہی دیکھیے۔ تبت کا معاملہ اٹھا لیجئے۔ چین کو دیکھیے، جو مسلسل آپ کی زمین پر نگاہیں رکھ رہا ہے۔ یہ آغاز سے ہوتا رہا ہے۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔۔ تاریخ کی بات کریں تو ۱۶۶۴ میں فرنچ ایسٹ انڈیا کمپنی قائم ہوئی۔ فرانس مارٹن کے زمانے میں پانڈیچری پر فرانسسیوں کا قبضہ ہوا۔ اور یہاں سے فرانسیسی مقبوضات کا سلسلہ شروع ہوا۔ یعنی قبضہ کرنا، تجارت کرنا، حکومت کا خواب دیکھنا۔۔کلائیو آیا اور اس نے یہاں برطانوی سلطنت کی بنیاد ڈال دی۔ فرانسیسی کمزور تھے، وہ خود ہی ایک معاہدے کے ذریعہ اپنے مقبوضات سے دستبردار ہو گئے۔۔ خالی زمین، تجارت اور قبضے کی جنگ۔۔ کیا یہ سب ہم نے ہی کیا۔ دنیا کے بننے سے آج تک کی کہانی اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ ہندستان میں پہلی بار جس یوروپین قوم نے قدم رکھا وہ پرتگیز تھے۔ تجارت کے لیے آئے۔ اور ہندستان کی مختلف زمینوں پران کا قبضہ پھیلتا گیا۔ ۱۵۲۶ میں بابر آیا۔ پرتگیزوں کی طاقت ٹوٹ گئی اور مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی گئی۔ مغلیہ سلطنت کی بنیادیں کمزور پڑیں اور ہم آ گئے۔‘

فرید شیخ غور سے پروفیسر ہکسلے کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔

’مغل آپ جیسے نہیں تھے۔ وہ لٹیرے نہیں تھے۔ یہی تاریخ کا وہ جھوٹ ہے جو بار بار ہم ہندستانیوں پر تھوپنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔ اور اسی کے نتیجے میں آپ نے تقسیم کا حربہ استعمال کیا۔ ہندو مسلمانوں کے درمیان تفریق پیدا کیا۔ مغل یہاں صرف حکومت کے ارادے سے نہیں آئے تھے، وہ یہاں رہنے، بسنے آئے تھے۔ وہ ہم میں سے تھے اور ہماری تہذیب کو بھی صدیاں گزر گئی تھیں۔‘

پروفیسر ہکسلے کے چہرے پر ناراضگی پیدا ہوئی۔۔’ لیکن وہ بھی باہر سے آئے تھے۔ اس بات کو نہ بھولیے فرید شیخ۔ ان کی تاریخ بھی حکمرانوں کی رہی ہے۔‘

فرید شیخ مسکرایا۔۔ ’یہ بات تو کسی بھی ملک کے لیے کہی جا سکتی ہے پروفیسر ہکسلے۔ کچھ لوگ صرف لوٹ کے ارادے سے آتے ہیں اور ایسے لوگوں کی پہچان آرام سے ہوسکتی ہے۔ آپ کی نیت میں کھوٹ تھا اور آپ حکومت نہیں، ہمیں غلامی کی دلدل میں ڈھکیل رہے تھے۔‘

’یہی تو۔۔‘ پروفیسر ہکسلے مسکرائے آپ سمجھ ہی نہیں سکے، غلامی اور محکومی کے فرق کو۔ سمجھ لیتے تو شاید ہمیں آپ کی زمین کو تقسیم کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ غلامی اور محکومی کے درمیان بس ایک ذرا سا فرق ہے۔ اور اس فرق کو سمجھنے کی کشش کیجئے۔۔ جب ہم حکومت میں ہوتے ہیں تو آپ محکوم ہوتے ہیں۔۔ آپ پر حکومت کی جا رہی ہوتی ہے۔ آپ اس بات کو سمجھتے بھی ہیں پھر آپ اس سے نکلنے کی تدبیریں سوچنے لگتے ہیں۔ اور آپ کو سوچنا بھی چاہئے۔ لیکن جب آپ خود کو غلام تصور کرنے لگتے ہیں تو یہاں نفسیات کا وہ نکتہ سامنے آتا ہے جو آپ کو احساس کمتری میں مبتلا اور کمزور کر دیتا ہے۔ پھر آپ کے پاس بغاوت کے لفظ تو ہوتے ہیں لیکن اس غلامی سے نکلنے میں صدیاں گزر جاتی ہیں اور جیسا کہ آپ کے ساتھ پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔‘

’ایک ہی بات ہے۔۔‘ فرید شیخ نے اس بار طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ پروفیسر ہکسلے کو دیکھا۔ یہ آپ اپنا فلسفہ اپنے پاس رکھیے سر۔۔ محکوم ہونے کا مطلب ہی ہے کہ ہم آپ کی رعیت ہیں۔ پر جا ہیں، نوکر چاکر ہیں۔ غلامی اس سے الگ کیا ہوتی ہے۔ آپ نے دو صدیوں تک یہی کیا۔ ہمیں الفاظ کے سحر میں پھنسائے رکھا۔ اب یہ حقیقت ہم پر واضح ہو چکی ہے۔ اور آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ہندستانیوں کی آنکھیں کھل چکی ہیں۔۔‘

فرید مسکرایا۔ آپ تاریخ تاریخ تو چلاتے رہے لیکن ایک بات بھول گئے۔ ہماری قومی تہذیبی تاریخ کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ ہندستان کے تمام افراد ایک ملک گیر قومی معاشرے کی نمائندگی کرتے آئے ہیں۔۔ سب اپنے لسانی، مذہبی، نسلی دائرے میں بھی ہیں اور آزاد ہیں۔۔ اور یہاں سے برطانیہ لوٹنے سے پہلے آپ کو اس بات کا احساس ہو چکا تھا۔‘

فرید شیخ اب بھی مسکرا رہا تھا۔۔ اس نے غور کیا، پروفیسر ہکسلے کی آنکھیں ہوٹل کی چھت کو دیکھ رہی ہیں۔ وہ اس بات سے واقف تھا کہ اب وہ پروفیسر ہکسلے کی کمزوری بن چکا ہے۔ اس درمیان دو تین بار ایسا ہوا، جب غصہ میں آ کر اس نے پروفیسر ہکسلے کی نوکری سے دور نکلنے کی کوشش کی لیکن پروفیسر ہکسلے مسکرا کر اسے روک لیتے۔ کچھ زیادہ پیسے ہاتھ میں رکھ دیتے۔ مسکرا کر کہتے۔۔ آپ بہت جلد جذباتی ہو جاتے ہیں فرید۔ اتنا غصہ صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔۔ فرید شیخ اب خود کو دوسرے کاموں میں آزمانا چاہتا تھا لیکن مشکل یہ تھی کہ اب وہ پروفیسر ہکسلے کی حقیقت کو جاننے کا خواہشمند تھا۔ آخر پروفیسر جیسے لوگ ہندستان کیوں آتے ہیں۔۔؟ ہندستان سے کیا چاہتے ہیں۔۔؟ فرید شیخ کو اب اس چھیڑ چھاڑ میں مزہ بھی آنے لگا تھا۔ گھر پہنچے کے بعد وہ دیر تک تاریخ کی کتابوں میں غرق رہتا۔ اسے اسی کام کے پیسے مل رہے تھے۔ وہ پرانی دلی سے تاریخ کی موٹی موٹی کتابیں لے آیا تھا۔ اور اسے اس بات کا بھی احساس تھا کہ تاریخ سے ناوابستگی کی بنیاد پر بھی غیروں نے ہندستان پر حکومت کی۔ تاریخ صرف ماضی کے کھنڈروں میں پناہ نہیں لیتی، راستہ بھی بناتی ہے۔‘

اس درمیان فرید کو کئی بار اپنے ابو اور بھائیوں کا غصہ بھی سہناپڑا۔

ابو ناراض تھے۔۔ ’سارا سارا دن آوارگی۔ اس انگریز کے پیچھے خود کو تباہ کرنے سے کیا ملے گا۔‘

’آوارگی تو نہیں کر رہا ابو۔ اور اس آوارگی کے پیسے بھی تو مل رہے ہیں۔‘

’تم اپنی تجارت بھی تو کرسکتے ہو۔ کسی کے ماتحت کام سے بہتر ہے کہ اپنی تجارت میں دل لگایا جائے۔‘

بھائی کا کہنا تھا۔۔ کہ فرید شیخ کی شادی کر دی جائے۔ اس سے وہ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرے گا۔‘

لیکن فرید شیخ ابھی شادی کرنے کے حق میں نہیں تھا۔

’کیوں نہیں کرنا چاہتے ہو شادی؟‘ ابو نے خفگی سے پوچھا۔

’ابھی زندگی کو سمجھنا چاہتا ہوں۔‘

بڑے بھائی زور سے ہنسے۔۔’ دیکھا۔ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ زندگی کوئی سمجھنے کی چیز ہے۔ زندگی جینی پڑتی ہے۔‘

’بغیر سمجھے ہوئے جینا؟‘ فرید شیخ نے پہلی بار بڑے بھائی متین شیخ کی طرف دیکھا۔۔’ آپ کی تجارت میں زندگی کو سمجھنا لکھا ہی کہاں ہے۔ صبح اٹھے۔ دکان گئے۔ شام واپس آئے۔۔ سو گئے۔‘

’پھر جینا کیا ہوتا ہے؟‘ ابو الجھن سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔

’میرے لیے یہ جینا نہیں ہے۔ اگر یہی جینا ہے تو یہ زندگی میرے نزدیک موت سے بد تر ہے۔‘

’کیا؟‘ ابو زور سے چیخے۔۔ ہمارے خاندان نے تو دو اور دو تجارت کا یہی پہاڑہ سیکھا۔ تو کیا وہ لوگ جینا جانتے ہی نہیں تھے۔۔‘

فرید شیخ نے نظر جھکا لی۔۔ ’زندگی مجھے تجارت کے اس پہاڑے میں نظر نہیں آتی۔ شاید اسی لیے میں نے اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ ابھی میں زندگی کو سمجھنا چاہتا ہوں۔‘

بڑے بھائی متین غصے میں تھے۔۔’ ابو۔ اس کی مت سنیے۔ یہ پاگل ہو گیا ہے۔ اس کی شادی کی کر دیجئے۔ اپنی اوقات میں آ جائے گا۔‘

’شادی میری سوچ کا حل نہیں ہے۔ اور ویسے بھی میں کسی لڑکی کی زندگی خراب کرنے میں یقین نہیں رکھتا۔‘

’اس میں زندگی خراب کرنے کی بات کہاں سے آ گئی۔۔؟ اتنا بڑا گھر ہے۔ یہاں رہے گی۔ کھائے گی پیئے گی۔‘ ابو نے پلٹ کر فرید شیخ کی طرف دیکھا۔

’میرے لیے بیوی کی تعریف کچھ اور ہے۔‘

’لو۔۔‘ متین زور سے قہقہہ مار کر ہنسے۔۔’ باؤلا ہو گیا ہے۔ بیویاں کیا گھر سے باہر نکلنے کے لیے ہوتی ہیں۔ پاؤں کی جوتی کے نیچے رکھو تو ساری زندگی آرام سے رہیں گی۔‘

’میرے لیے بیوی برابر کی ہمسفر ہے۔ پاؤں کی جوتی نہیں۔ وہ ایک دوست ہوتی ہے، جس کے ساتھ زندگی ساتھ ساتھ گزارنے اور بہتر بنانے کے فلسفے پر گفتگو کی جا سکتی ہے۔‘

فرید شیخ کھانے سے اٹھ گئے۔ انہیں اس بات کا احساس تھا کہ اس کے گھر والے، اس کی فکر کو سمجھ ہی نہیں سکتے اور اس میں ان کی غلطی بھی نہیں تھی۔۔ پرانی دلی کے اس علاقے کے مرد، عورتوں کی دوسری تعریف جانتے بھی نہیں تھے۔ ان کے لیے بیویاں گھر کی دہلیز سے بندھی ہوئی گائیں تھیں، جن پر حکومت کرنے کے طریقے انہیں بچپن سے ہی سکھائے جاتے رہے تھے۔ وقت بدلا تھا۔ زندگی بدلی تھی۔ تہذیبیں بدل رہی تھیں اور اس کے ساتھ تعریفیں بھی بدل گئی تھیں۔

 

فرید شیخ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ یادوں کی پرچھائیاں گم تھیں۔۔ وہ اب پروفیسر ہکسلے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پروفیسر ہکسلے ابھی بھی چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کسی خیال میں ڈوبے ہوئے تھے۔

دروازے پر دستک ہوئی تو فرید کے ساتھ پروفیسر ہکسلے بھی چونک گئے۔

’ویٹر ہو گا؟‘

’آپ نے کافی کا آرڈر دیا تھا؟‘ فرید نے پوچھا۔

’وہ تو ایک گھنٹہ پہلے دیا تھا۔ یہاں کی سروس اچھی نہیں ہے۔ دیکھو، ویٹر ہی ہو گا۔‘

’دیکھتا ہوں۔‘

فرید شیخ اپنی جگہ سے اٹھا۔ آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔۔ نور علی شاہد کو سامنے دیکھ کر چونک پڑا۔

’آپ؟‘

پروفیسر ہکسلے کی آواز آئی۔۔ ’کون ہے۔۔؟‘

’آپ خود دیکھ لیجئے۔‘

فرید شیخ نے نور علی شاہ کو اندر آنے کا اشارہ کیا۔۔ پروفیسر ہکسلے کے لیے یہ حیرت میں ڈوبا ہوا لمحہ تھا۔ اتفاق کی بات یہ تھی کہ اس لمحہ وہ نور علی شاہ کے بارے میں ہی سوچ رہے تھے۔ انکا آرٹیکل برٹش جنرل میں بھی شائع ہوا تھا۔ اور وہاں کے لوگ نور علی شاہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کے خواہشمند تھے۔ اور وہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ نور علی شاہ ایسی سونے کی مرغی ہے، جس کو برٹش میڈیا میں آرام سے فروخت کیا جا سکتا ہے۔ وہ کرسی پر بیٹھے رہے۔ مسکرائے۔ نور علی شاہ کو پاس والے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

’آنے میں کافی وقت لگا دیا آپ نے۔‘

ان کی آنکھیں بغور نور علی شاہ کے حلیہ کا جائزہ لے رہی تھیں۔ چوڑی دار پائجامہ۔ چمڑے کی سیاہ چپل۔ چمکدار سفید کرتا۔ چمکتا ہوا چہرہ۔۔ مفلسی اور تنگدستی کے باوجود اس چہرے میں خاندان اور نوابوں کے اثرات تلاش کیے جا سکتے تھے۔

فرید شیخ دونوں کے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا۔

’میں نے فرید کو بھی بھیجا تھا۔۔ آپ نے بتایا نہیں، اتنا وقت کیوں لیا آنے میں ؟‘

’کچھ زمانے اور روزگار کی الجھنیں بھی ہوتی ہیں صاحب۔۔ اور کچھ اپنی مرضی کا دخل۔‘

اس اچانک کے جواب کی پروفیسر ہکسلے نے امید نہیں کی تھی۔ فرید شیخ مسکرایا۔ اس درمیان پروفیسر ہکسلے اپنے چہرے پر مسکراہٹ پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔۔

’ہو۔۔ ہو۔۔ اپنی مرضی۔۔ اپنی مرضی کا دخل ضروری ہے۔۔‘ وہ دو بارہ ہنسے۔ your choice is important وہ غور سے نور علی شاہ کا سپاٹ چہرہ پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔

"It is your life. you win. make decision in your life but sometimes did not understand life.

Life seems to be false. Lie. truth is hidden. we seem false. the country is also false.”

پروفیسر ہکسلے ٹھہر ٹھہر کر بول رہے تھے۔ فرید شیخ غور سے ان کے جذبات کو پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ جبکہ نور علی شاہ کا چہرہ اب بھی جذبات سے عاری تھا۔ اور وہ یہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ یہاں انہیں یاد کیے جانے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے۔

 

پروفیسر ہکسلے اندر ہی اندر حسابی کارروائی سے الجھ رہے تھے۔ ہندستان میں کافی عرصہ گزرا تھا، اس لیے اب وہ ہر طرح کے ہندستانیوں کے جذبات کو سمجھنے لگے تھے۔ انہیں اس بات کا احساس شدت سے تھا کہ ایک عام ہندستانی میں بھی انانیت اور غرور کا جذبہ کہیں نہ کہیں دبا ہوتا ہے۔ خاص کر نور علی شاہ جیسے لوگوں میں تو یہ جذبہ اس قدر ہوتا ہے کہ سنبھل سنبھل کر اپنا کام نکالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہکسلے نے ان بوجھل لمحوں سے دور نکلنے کی کوشش کی۔ فرید کو آواز لگائی۔

’ذرا انگلیوں کو جنبش دیجئے۔ ریسیپشن پر فون لگائیے۔۔ چائے یا کافی تو منگائیے۔۔‘

’اس وقت میں کچھ نہیں لیتا۔‘ نور علی شاہ نے آہستہ سے کہا تو ٹیلی فون کی طرف بڑھتے ہوئے فرید شیخ کے قدم ٹھہر گئے۔

نور علی شاہ اب غور سے پروفیسر ہکسلے کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے آہستہ سے کہا۔

’ہم کنواں کھودنے والے لوگ ہیں صاحب۔۔ ہر روز کنواں کھودنے کی اجرت ملتی ہے۔‘

’اوہ۔۔ یس۔۔ یس۔۔‘

پروفیسر ہکسلے مسکرایا۔ فرید شیخ کی طرف دیکھا۔۔ ’کنواں کھودنا۔۔ یہ مشکل کام ہے۔۔ لیکن اگر کنواں کھودنے کی ضرورت ہی نہ پڑے تو۔۔؟‘

فرید شیخ ٹھہر گیا۔

پروفیسر ہکسلے اب بھی نور علی شاہ کی آنکھوں میں جھانک رہے تھے۔

’اب میں نے خواب دیکھنا بند کر دیا ہے صاحب۔‘

نور علی شاہ کی آواز سرد تھی۔ اتنی سرد کہ پروفیسر ہکسلے کو جھٹکا لگا تھا۔۔

’خواب سے آگے کے راستے بھی نکلتے ہیں۔۔؟‘

’خواب۔۔ پیچھے بھی چھوڑ آتے ہیں۔‘

’ہونہہ‘

پروفیسر ہکسلے مسکرانے کی کوشش کر رہے تھے۔

’پھر آپ کے لیے زندگی کیا ہے۔‘

’زندگی بے رحم ہے۔ خواب نہیں ہے۔ اور جینے کے لیے بے رحم ہونا پڑتا ہے۔‘

’اوہ یس۔۔‘ پروفیسر ہکسلے کو اچانک جسم پر سانپ سرسراتے ہوئے محسوس ہوئے۔

فرید شیخ مطمئن تھا۔ اسے اس بات کا شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ آج نور علی شاہ نے اپنی آواز کی گرمی سے پروفیسر ہکسلے اور اس کی سیاست کی بساط پلٹ دی تھی۔

’پھر بھی ایک کافی ہو جائے۔‘

پروفیسر ہکسلے اپنی جگہ سے اٹھے۔ ٹیلی فون پر کافی اور اسنیکس کا آرڈر دیا۔ کچھ لمحہ کمرے میں خاموشی چھائی رہی۔ اس درمیان ویٹر اسنیکس اور کافی لے آیا تھا۔ پروفیسر ہکسلے نے اسنیکس فرید اور نور علی شاہ کی طرف بڑھایا پھر کافی تیار کرنے لگے۔ نور علی شاہ کی طرف کافی بڑھانے تک پروفیسر ہکسلے اپنی دنیا میں لوٹ آئے تھے۔ اب وہ نور علی شاہ کے پاس والے صوفے پر بیٹھ گئے۔۔

’’ہم تاریخ میں پناہ تلاش کرنے والے لوگ ہیں اور اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ تاریخیں کبھی نہیں مرتیں۔ زندہ رہتی ہیں۔‘‘

نور علی شاہ نے چائے کا کپ خالی کر کے میز پر رکھ دیا۔ مسکرائے۔۔’ پھر ہماری سلطنت لوٹا دیجئے۔۔ تاریخ تو زندہ ہے۔ ہم سمجھ لیں گے، اودھ نے آخری بہار کا تحفہ قبول ہی نہیں کیا۔۔‘

’ہو۔۔ہو۔۔‘ فرید شیخ ہنستے ہنستے رک گیا۔

پروفیسر ہکسلے بھی زور سے ہنسے۔’گڈ جوک۔ سلطنت نہیں دے سکتے۔ لیکن جو دینے کے قابل ہیں، وہ ضرور دے سکتے ہیں۔ مانگیے تو سہی۔‘

’زبان کے خالی جانے کا افسوس ہو گا۔ آپ نے بلایا تھا۔حاضر ہو گیا۔‘

’او یس۔۔ یس۔۔‘ پروفیسر ہکسلے مسکراتے ہوئے نور علی شاہ کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔ ’اس دن آپ سے ملنے گھر گیا تھا۔ تب سے آج تک کتنا کچھ بدل چکا ہے۔ اس دن جس نور علی شاہ کو دیکھا تھا، وہ نور علی شاہ آج نہیں ہے۔‘

’اس نور علی شاہ کو مارنا ضروری تھا۔ مار دیا۔۔ نور علی شاہ کی آنکھیں سنجیدہ تھیں۔ وہ آپ کی طرح تاریخ کی سرنگ میں رہتا تھا۔ نہیں مارتا تو وہ جینے نہیں دیتا۔‘

’ہونہہ۔ آپ نے بتایا، آپ بے رحم ہو گئے ہیں۔‘ پروفیسر ہکسلے آہستہ آہستہ گردن ہلا رہے تھے۔ ’بے رحم ہونا اچھا نہیں ہوتا۔‘

’آپ بھی تو ہوئے تھے۔ کیا بگاڑا تھا ہم نے۔ جی تو رہے تھے۔ بہاریں دیکھیں تو زوال بھی دیکھنے کے لیے تیار تھے۔ مغلیہ سلطنت کا زوال۔۔ لیکن آپ بیچ میں کیوں ٹپک پڑے۔ وہ بھی بے رحم ہو کر۔۔‘

’ہو۔۔ ہو۔۔‘ فرید شیخ ہنستے ہنستے ٹھہر گیا۔

فروفیسر ہکسلے مسکراہٹ بحال رکھنے میں کامیاب تھے۔ مجھے ذرا بھی برا نہیں لگا۔ یقین کیجئے۔ سب کچھ بدل گیا۔۔‘

’سب کچھ بدل گیا۔۔‘ فرید شیخ نے پروفیسر ہکسلے کی طرف دیکھا۔۔ جرأت اظہار کو زبان دینا مناسب ہو تو عرض کروں کہ جو بدل گیا اس کا شکوہ ہی کیا۔ محل سراؤں اور دیوڑھیوں کی تاریخ کھو گئی۔ ٹوپیاں بدل گئیں۔ تسلیمات،کورنش، بندگی اور مجرا عرض کرنے کا چلن کھو گیا۔ باندیوں، ماؤں، اصلیوں، مغلانیوں، کھلانیوں، اناؤں، استانیوں کے قصے کھو گئے۔‘

’سب کچھ کھو گیا۔ مگر تاریخ کھوئے ہوئے کو زندہ کرتی رہتی ہے۔ اور اسی لیے۔۔‘ پروفیسر ہکسلے نے نور علی شاہ کی طرف دیکھا۔ ایک تاریخ آپ کے پاس ہے۔ اور ہم اس تاریخ تک رسانی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ تاریخ ہمیں کتابوں کے شکستہ اوراق میں مل جائے گی مگر اس تاریخ کی زندہ صورت آپ ہیں۔ وہ نسلوں سے آپ کے حافظے میں منتقل ہوتی رہی ہے۔ ہمیں کتابوں سے زیادہ اس تاریخ کی ضرورت ہے۔‘

’ہونہہ۔‘ نور علی شاہ نے نظریں جھکا لیں۔ کچھ دیر سوچتے رہے۔ پھر پلٹ کر پروفیسر ہکسلے کو دیکھا۔۔

’ہزاروں کہانیاں۔۔ جو یہاں۔۔ اس دل میں محفوظ ہیں۔ اور میں انہیں بھلا دینے کا آرزو مند تھا۔‘

’ہمیں بتا دیجئے۔ پھر بھلا دیجئے۔‘

فرید نے مسکراتے ہوئے کہا۔’ پھر آپ اپنے طریقے سے اسے کتابوں میں زندہ کر دیں گے۔ بھلانے کہاں دیں گے۔‘

پروفیسر ہکسلے نے فرید شیخ کو ناراضگی بھری نگاہوں سے دیکھا۔ اب دوبارہ ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ موجود تھی۔

’یہ دنیا ایک بڑا بازار ہے۔ یہاں ہر شئے کے لیے خریدار موجود ہیں۔ بشرطیکہ فروخت کرنے والا اس شئے کی اہمیت سے واقف ہو۔ میں خریدار ہوں۔ اور آپ کے پاس تاریخ کا خزانہ موجود ہے۔ مگر میری ایک شرط ہے۔‘

نور علی شاہ نے پروفیسر ہکسلے کی طرف دیکھا۔ ان کے جسم میں ہلچل ہوئی تھی۔

’بازار میں جو بکتا ہے اس کا خیال رکھنا ہو گا آپ کو۔ بازار میں قصائد نہیں، شہنشاہوں کی آہیں بکتی ہیں۔ محلسراؤں کے آنسو بکتے ہیں۔ عبرتناک داستانوں کے خریدار ہیں یہاں۔ ڈیوڑھیاں اور حرم کی داستان عشق اور جلوے بکتے ہیں۔ آخر آپ سے کیا چھپا ہے۔، اودھ کے شہنشاہ سے زیادہ یہ سب کس کے پاس تھا۔‘

نور علی شاہ نے ٹھنڈی سانس لی۔۔’ تو آپ ہمارے آنسو خریدنے آئے ہیں۔‘

’آنسو کہیے یا تاریخ کی گلیوں میں کھو جانے والے دردناک قصے۔۔‘

’جن کا سفر آہوں اور آنسوؤں پر ختم ہوتا ہے۔‘

’ہاں۔ بازار کی زبان میں کہوں تو مجھے اسی کا سودا کرنا ہے۔ آپ کو صحیح قیمت ادا کی جائے گی۔ ممکن ہے جو آپ نے سوچا ہو، اس سے کہیں زیادہ۔‘

فرید شیخ نے کروٹ لی۔ وہ نور علی شاہ کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر نور علی شاہ کا چہرہ ابھی بھی جذبات سے عاری تھا۔ نور علی شاہ کے جسم میں خون کی گردش بڑھ گئی تھی۔ یہاں تاریخ کا سودا ہو رہا تھا۔ ایک عبرتناک تاریخ، ماضی کا اساسہ اس کے پاس تھا اور سامنے والا کھل کر اس خزانے کی بولی لگا رہا تھا۔

ماحول میں سناٹا چھایا تھا۔

ویٹر آ کر چائے کے خالی کپ لے کر جا چکا تھا۔

فرید شیخ کے لیے یہ لمحے قیامت کے لمحے تھے۔

اور نور علی شاہ۔۔ ایک لمحے کے لیے مٹیا برج سے لے کر دلی تک کے واقعات نگاہوں میں گھوم گئے۔ غربت وافلاس کی وہ کہانی جس سے گزرتے ہوئے ابا حضور لیاقت علی شاہ نے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ ایک کہانی جو شاہی نظام کے بعد بربادی کے افسانے لے کر آئی تھی لیکن اس وقت اسی کہانی کو خریدار مل گئے تھے۔

نور علی شاہ الجھن میں تھے۔۔

کیا پیوند لگے ہوئے بوسیدہ ماضی کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔ وہ آج تک تو اس ماضی سے اور اس ماضی سے اٹھنے والی سرانڈ اور بدبو سے اپنا دامن بچائے رہے۔ مگر اب۔۔؟

کیا زندگی سچ مچ ایک نئی کروٹ لینے والی ہے؟

اندر سے ایک آواز بار بار ابھر رہی تھی۔ اب تک گزرے ہوئے کل نے ڈسنے اور رسوا کرنے کے سوا کیا ہی کیا ہے۔ اب تو پیسے مل رہے ہیں نور علی شاہ۔۔ سوچنا کیا ہے۔ سوچنے کے لیے تمہارے پاس ہے ہی کیا۔۔ چھوٹی چھوٹی چوریوں سے بہتر ہے کہ رسوا کرنے والے ماضی سے سمجھوتہ کر لو۔ گھر سے آستانہ مبارک کا سفر۔ گلیوں گلیوں در بدری۔ بھائی قدوس کی دکان سے گل فروشوں کی دکان تک سفر۔۔ اور اب شاید بنگلہ والی مسجد سے نکلنے والے، کسی شہنشاہ جیسے نظر آنے والے شخص کے آگے انہیں ہاتھ پھیلانے کی بھی ضرورت نہیں ہو گی۔۔ کہ کبھی ہم بھی شہنشاہ تھے۔۔

’کیا سوچ رہے ہیں آپ؟‘

پروفیسر ہکسلے نے پوچھا تو نور علی شاہ جیسے خیالوں کے حجرے سے باہر نکل آئے۔

فرید شیخ اب بھی مسلسل ان کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔

نور علی شاہ نے زیر لب مسکرانے کی کوشش کی۔ سوچنا تو پڑتا ہے۔۔ معاملہ اتنا آسان نہیں۔‘

’پیسے اسی معاملات کے دیئے جا رہے ہیں، ایک بات اور ہے۔۔‘

پروفیسر ہکسلے کہتے کہتے ٹھہرے۔ نور علی شاہ کے تاثرات کا جائزہ لیا۔ پھر مسکرا کر بولے۔۔’ آپ لکھیں گے۔ جو واقعات بھی ہوں گے، آپ مجھے ٹکڑے ٹکڑے نہیں سنائیں گے۔ آپ لکھ لیں گے۔‘

’یعنی پوری کتاب؟‘

فرید شیخ اپنی جگہ سے اچھلا۔ ’کتاب لکھنا آسان ہوتا ہے کیا؟‘

’میں نے کب کہا کہ آسان ہوتا ہے۔ آپ کو ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو باضابطہ پیسے مل جائیں گے۔ آپ یہ سمجھ لیجئے کہ آپ یہاں کہیں بھی ہوں گے، آپ پر ہماری نظر ہو گی۔ ہم کیمرے کی آنکھ سے آپ کو دیکھ رہے ہوں گے۔ کوئی جلدی نہیں ہے۔ آپ اطمینان سے لکھیے۔ لیکن۔۔‘ پروفیسر ہکسلے مسکرائے۔۔ یاد رہے، میری آنکھیں ہر جگہ آپ کو دیکھ رہی ہوں گی۔ صرف وہ داستان نہیں بلکہ آپ کی داستان سے بھی مجھے دلچسپی ہے۔ اور یاد رکھیے، ماضی کی داستان میں جب تک حال کی پتھریلی سڑکوں کی گونج نہ شامل ہو جائے، مزہ نہیں آتا۔۔‘

جسم میں جیسے خون کی گردش رک گئی تھی۔ نور علی شاہ اس وقت خود کو کسی بے جان لاش کی طرح محسوس کر رہے تھے۔ آنکھوں کے آگے تاریکی کا سیاہ سمندرہ تھا اور وہ سوچ رہے تھے۔۔ کیا وہ لکھ سکتے ہیں۔۔؟ انہیں لکھنا ہی کب آتا ہے؟ کیا ماضی کی داستانوں کو وہ اپنی تحریر میں منتقل کرسکتے ہیں۔ یہ سب آسان نہیں ہے۔ مگر کیا زندگی آسان ہے؟ اسے آسان بنانا ہو گا۔

پروفیسر ہکسلے مسکرا رہے تھے۔۔’ سمجھئے، آپ ایک سال کے لیے میرے ہو گئے۔ ایک برس میں ۱۲ مہینے ہوتے ہیں۔ ۱۲ مہینے کچھ بھی نہیں ہوتے۔ آپ کے یہ بارہ مہینے میرے ہیں۔ اور آپ کو ان بارہ مہینوں میں میرا یہ کام کرنا ہے۔ ان بارہ مہینوں کا ہر لمحہ میرا ہے۔ جسم آپ کا۔ دماغ آپ کا۔ حکومت میری۔ سمجھ رہے ہیں نا۔۔ اور آپ کو ان کی اچھی قیمت دی جائے گی۔۔ ٹھہریے۔۔‘

پروفیسر ہکسلے آگے بڑھے۔ بریف کیس کھولا۔ ایک لفاف نکالا۔ لفاف میں کچھ روپے رکھے۔ مسکرا کر نور علی شاہ کی طرف دیکھا۔

’یہ ایڈوانس رکھ لیجئے۔ بس اس لمحہ سے آپ میرے ہو گئے۔ سوچئے مت۔ کام شروع کیجئے۔‘

فرید شیخ نور علی شاہ کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔

نور علی شاہ کو دیواریں ہلتی ہوئی نظر آ رہی تھیں۔ پروفیسر ہکسلے کا روشن چہرہ سامنے تھا۔ ہاتھ میں لفافہ۔ لفافے میں نوٹ۔ اس وقت انہیں پیسوں کی شدت سے ضرورت بھی ہے۔ آنکھیں بند ہیں۔ بھائی قدوس کی دکان سے ابھرتی ہوئی قوالی کی صدا گونج رہی ہے۔۔ بھر دے جھولی میری یا محمد۔

نور علی شاہ اچانک اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ مسکرانے کی کوشش کی۔ نگاہ اٹھا کر فرید شیخ کی طرف دیکھا۔ پھر پروفیسر کی طرف۔۔

’ابھی مجھے سوچنے کا وقت دیجئے۔ جب سوچ لوں گا، تو آپ کا یہ تحفہ بھی قبول کر لوں گا۔ ذمہ داری بڑی ہے۔ اور سوچنا یہ ہے کہ میں ابھی اس ذمہ داری کو قبول کرنے کے لائق ہوں بھی یا نہیں۔‘

نور علی شاہ آگے بڑھے۔ دروازہ کھولا اور باہر نکل گئے۔ پروفیسر ہکسلے لفافہ ہاتھوں میں لیے خالی دروازے کی طرف دیکھتے رہے۔ پھر پلٹ کر فرید شیخ سے، مسکراتے ہوئے بولے۔

’ایک بہتر آدمی۔ جیسا میں نے سوچا، اس سے کہیں زیادہ ایک بہتر آدمی۔‘

فرید شیخ نے جیسے پروفیسر کی بات سنی ہی نہ ہو۔ وہ اب چھت کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ایک لمحے کے لیے یہ مکمل دنیا فرید شیخ کے لیے طلسم کدہ بن گئی تھی۔ اس وقت نور علی شاہ کا قد اس کی نظروں میں نواب واجد علی شاہ سے زیادہ بلند ہو گیا تھا جنہوں انگریزوں کی حکمرانی سے قبل ہی اپنے تخت و تاج سمیٹ لیے تھے۔ یہاں ایک تاجر تھا اور ایک قلاش بادشاہ۔۔تہی دست،تہی دامن۔ لیکن اس نے روپئے جھٹک دیے اور شان سے دروازہ کھول کر گمنام راہوں کا مسافر بن گیا۔ ممکن ہے وہ واپس لوٹ آئے لیکن اس وقت ان پیسوں کا ٹھکرانا فرید شیخ کی نظر میں بڑی بات تھی۔ کم از کم یہ کام وہ نہیں کرسکتا تھا۔

٭٭

 

دونوں طرف سڑکوں کے منہ کھلے ہوئے تھے۔ سڑک پر گاڑیوں کی رفتار زیادہ نہیں تھی۔ نور علی شاہ سڑک کراس کر کے فیروز شاہ والی سڑک پر آ گئے۔ یہاں سے انہیں بس مل سکتی تھی۔ سڑک کے کنارے درختوں کی ایک لمبی قطار تھی۔ ایک درخت کے سائے میں ایک بوڑھا مسلمان فقیر بیٹھا تھا۔ بڑی بڑی داڑھی۔ سرپر دو پلی ٹوپی۔ کرتا اور پائجامہ پہنے۔ وہ ایک پرانا پھٹا ہوا کمبل بچھائے بیٹھا تھا۔ آنکھیں آسمان کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ درمیان میں وہ زور سے یا شیخ کا نعرہ لگاتا پھر آہستہ آہستہ کچھ بدبدانے لگتا۔

دھوپ سخت تھی۔ ہوا کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ایک درخت کے سائے میں کھڑے ہوئے نور علی شاہ دیر سے اس بوڑھے مسلمان فقیر کو دیکھے جا رہے تھے۔ فقیر کے پاس ایک موٹے گتّے کے کاغذ پر کچھ لکھا ہوا نظر آ رہا تھا مگر نور علی شاہ کے لیے یہاں سے پڑھنا آسان نہیں تھا۔

اس درمیان دھوپ کی شدت میں اچانک اضافہ ہو گیا۔ گزرتے ہوئے راہگیر بوڑھے فقیر کی کمبل پر کچھ سکے ڈال دیتے اور آگے بڑھ جاتے۔

یا شیخ۔۔

بوڑھے فقیر نے پھر صدا لگائی اور اچانک اس کی آنکھوں نے نور علی شاہ کو دیکھ لیا۔ فقیر نے قریب آنے کا اشارہ کیا۔ زور سے آواز لگائی۔۔ یا شیخ۔۔

نور علی شاہ گھبرائی ہوئی حالت میں فقیر کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔ فقیر نے دو تین بار یا شیخ کی زوردار صدا لگائی پھر موٹے گتے والا کاغذ ہاتھ میں اٹھایا۔ نور علی شاہ کی طرف دیکھا اور زور سے بولا۔۔ پڑھ۔۔

حروف الٹے تھے۔ نور علی شاہ نے پڑھنے کی کوشش کی مگر پڑھ نہیں پائے۔

فقیر نے فلک شگاف قہقہہ لگایا۔ یا شیخ۔۔ پھر نور علی شاہ کی طرف دیکھا۔۔

’سب کچھ آسانی سے سمجھ جا نا چاہتا ہے۔ یہ دنیا مشکل ہے۔ جیسا تو سوچتا ہے ویسا نہیں ہے۔ سب کچھ الٹا کر کے دیکھ۔۔ لے، اب اس کاغذ کو الٹا کر کے پڑھ۔‘

نور علی شاہ نے کاغذ لیا۔ الٹا کیا۔ اور اچانک چونک گیا۔ کاغذ پر جلی حروف میں لکھا ہوا اللہ کا نام چمک رہا تھا۔

’اللہ۔۔‘ نور علی شاہ مسکرائے۔

فقیر نے پھر قہقہہ لگایا۔۔’ اس کے بھید، اسی کو معلوم۔ اور انسان۔ جو سوچ لیا وہی صحیح۔ ارے الٹا کر کے سوچ۔ خود پر اتنا بھروسہ ٹھیک نہیں۔ الٹا کر دے۔ جو سوچ رہا ہے، اسے الٹا کر دے۔ جا۔۔ منزل ملے گی تجھے۔ یا شیخ۔۔‘

نور علی شاہ نے غور کیا۔ بوڑھے فقیر کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ دور سے آنے والی بس، بس اسٹاپ پر رکنے والی تھی۔۔

’جا۔۔ جا۔۔ بس پکڑ لے۔‘ بوڑھے فقیر نے اشارہ کیا۔ نور علی شاہ گھبرائے ہوئے آگے بڑھے۔ بس، اسٹاپ پر رکی۔ بہت کم مسافر تھے۔ نور علی شاہ نے بس کے اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔ وہ بوڑھا فقیر اتنی دیر میں پاؤں سکوڑ کر سونے کی حالت میں آ گیا تھا۔

بس نے رینگنا شروع کر دیا تھا۔

 

بستی حضرت نظام الدین میں چہل پہل شروع ہو چکی تھی۔ نور علی شاہ کے ذہن میں اس وقت دھماکے ہو رہے تھے۔ ایک طرف پروفیسر ہکسلے کا چہرہ تھا اور دوسری طرف اس بوڑھے مسلمان فقیر کا چہرہ۔۔ سب کچھ الٹا کر دو۔۔ بوڑھے فقیر کا چہرہ گم ہوتا تو پروفیسر ہکسلے کا چہرہ روشن ہو جاتا۔۔ وہ یہ سوچنے سے قاصر تھے کہ انہوں نے اس وقت پیسوں کو ٹھکرا کر اچھا کیا ہے یا برا۔ جبکہ اس وقت انہیں پیسوں کی اشد ضرورت تھی۔ خدا معلوم، پروفیسر ہکسلے اپنی بات سے پلٹ نہ جائیں۔ لیکن نور علی شاہ مطمئن تھے۔ انہوں نے ٹھیک کیا۔ اگر اس وقت وہ پیسے لے لیتے تو شاید پروفیسر ہکسلے کا یقین اور اعتماد کم ہو جاتا۔ اور کون سا انہوں نے انکار کیا ہے۔ صرف سوچنے کی مہلت مانگی ہے۔

بنگلہ والی مسجد کے قریب آ کر ان کے قدم اچانک ٹھٹھک گئے۔ آنکھوں کے آگے سارے منظر اوجھل ہو چکے تھے۔ ایک طرف رکشہ والوں کی چیخ پکار تھی۔ آٹو والے، آٹو لگانے کے لیے ایک دوسرے سے جھگڑ رہے تھے۔ فٹ پاتھ پر کچھ چھوٹی موٹی دکانیں آباد ہو گئی تھیں۔ مگر نور علی شاہ کی آنکھیں ان سب سے بے نیاز بنگلہ والی مسجد کے پاس کھڑے اس نیگرو شہزادے کو دیکھ رہی تھیں۔ سیاہ چمکتا رنگ۔ گھنگھریالے بال۔ اور اس پر ایک چھوٹی سی ٹوپی۔ نقشہ سڈول۔۔ اس نے ایک لمبا سفید کرتا پہن رکھا تھا۔ اور اس وقت وہ کچھ ہندستانیوں کے درمیان محو گفتگو تھا۔ کیسٹس کی دکانوں سے بھر دے جھولی کی موسیقی ابھر رہی تھی۔ اور ایک لمحہ کے اندر وہ ہو گیا، جس کی نور علی شاہ نے توقع نہیں کی تھی۔

وہ آگے بڑھا۔ بلکہ کہنا چاہئے، شان سے آگے بڑھا۔ نیگرو شاہزادے کے قریب کھڑے ہندستانیوں کو ادھر ادھر کیا اور نیگرو شاہزادے کے پاس اسی شان سے کھڑا ہو گیا، جیسے وہ نیگرو کھڑا تھا۔ یہ سلسلہ تین سے چار سکنڈ کا رہا ہو گا۔ نیگرو اور اس کے ساتھی حیرت سے نور علی شاہ کا یہ عمل دیکھ رہے تھے۔ جو کرنا یا دیکھنا تھا۔ نور علی شاہ اس منزل سے گزر چکا تھا۔ پھر اس نے فخریہ انداز میں ان لوگوں کی طرف دیکھا اور اس کے قدم گھر کی طرف بڑھ گئے۔

 

دیکھا جائے تو اس ایک لمحے میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا، جس کی وضاحت ضروری ہو۔ اور اگر وضاحت کرنے کی ضرورت بھی ہو تو یہ حقیقت صرف اور صرف نور علی شاہ پر آشکارا تھی کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ پروفیسر ہکسلے سے ملنے کے بعد وہ آخر کیا تھا، جس نے نور علی شاہ کی ذات میں یہ ہلچل پیدا کی تھی۔ آج اس نے نیگرو شاہزادے کو اپنے نوابی خاندان کا واسطہ بھی نہیں دیا۔ بلکہ صرف یہ کیا کہ اس کے مقابل جا کر شان سے کھڑا ہو گیا۔ اور پھر اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔۔ شاید یہ منظر اس وقت کسی کی نوٹس میں بھی نہیں آیا ہو گا۔ یہ وہی لمحہ تھا جب ہادی ہوٹل والے ٹوکن کے لیے چلا رہے تھے۔۔ ملا ربی زور زور سے آواز لگاتا ہوا پتھر پر گوشت کی بوٹیاں الگ کر رہا تھا۔مجّو بھائی گل فروش کی دکان پر ایک بزرگ سکھ پھولوں کی قیمت کو لے کر بلند آواز سے بول رہا تھا۔ اور غلام بخش دیوانہ ننگے پاؤں وجد کے عالم میں نظام نظام چیختا ہوا ادھر سے ادھر بھاگ رہا تھا۔ سائین وہاب تندور پر روٹیاں سینکتا ہوا بڑبڑا رہا تھا۔۔ حضرت نظام الدین کا نام کو کوئی ایسے بھی لیتا ہے۔ اس دیوانے کو تو قتل کر دینا چاہئے۔

آستانہ والی گلی میں زائرین کے آنے جانے کا سلسلہ جاری تھا۔ محمد علی بھائی کی اپنی ٹوپیوں کے ٹھیلے کے پاس کھڑے ایک باہری نوجوان کو ٹوپی پہننے کا سلیقہ سکھا رہے تھے۔

’اخّاہ۔۔ اب صورت آئینہ میں دیکھے، ایک راز کی بات بتاؤں۔ ٹوپی لینا تو لوگ جانتے ہی نہیں۔ بس لیا اور سر پر ڈال دیا۔ صاحب ٹوپی پہننا بھی ایک آرٹ ہے۔ آخر دل میں اللہ۔ آنکھوں میں اللہ۔ ٹوپی پہنی اور ادھر عقیدت اور بندگی کے راستہ کھل گئے۔۔ اخّاہ۔۔‘

قدوس بھائی کو غم تھا کہ اب نور علی شاہ نے آنا کم کر دیا ہے۔ مختار بنیا اس بات سے راضی کہ نور علی شاہ کے نصیب نے انہیں پھر سے آواز دی ہے۔۔

 

نور علی شاہ کے گھر کا دروازہ کھلا تھا۔ ایک بار پھر نظروں کے آگے ساری تصویریں گڈ مڈ ہو گئی تھیں۔ یا شیخ کی آواز کان کے پردے پھاڑ رہی تھی۔ اور اس بزرگ فقیر کی آواز کان کے پردے پر گونج رہی تھی۔ سب کچھ الٹا کر دو۔ سچ صرف الٹا ہے۔ حقیقت کو سمجھنا آسان نہیں۔ حقیقت کو سمجھنا ہو تو حقیقت کے آئینہ کو الٹ کر دیکھو۔۔‘

نور علی شاہ کے اندر ذہنی کشمکش چل رہی تھی۔

حقیقت کو الٹ دینے سے کیا ہو گا۔

ہمزاد نکل کر سامنے آ گیا تھا۔۔

’پہلے کر کے دیکھو۔ سوچتے بہت ہو آجکل۔‘

’بکو مت۔‘

’ابھی تھک گئے ہو۔ آرام کر لو۔ پھر آرام سے اس بارے میں سوچنا۔‘

’کس بارے میں۔۔‘

’وہی جو سوچ رہے ہو تم۔۔‘

’میں۔۔ اوہ۔۔‘ نو علی شاہ ایک بار پھر خیال کی وادیوں میں تھے اور بوڑھے درویش کا چہرہ بار بار آنکھوں کے آگے جگہ گھیر لیا تھا۔ اٹھا کر کے دیکھا۔ لیکن الٹا کرنے سے کیا ہو گا؟ انہوں نے اس سے قبل ایسے سینکڑوں درویش اور فقیروں کی کہانیاں سنی تھی۔ اور ان کی ڈرامے بازی اور ڈھونگ سے بھی وہ واقف تھے۔ دراصل ایسے لوگ ڈھونگ اور ڈرامہ نہ کریں تو عام انسان پر قابو کیسے پایا جائے۔ مگر ان کا دل کہہ رہا تھا، وہ درویش ڈھونگی نہیں تھا۔ وہ کچھ ایسی بات کہہ گیا تھا جسے شاید ابھی اس لمحہ سمجھنا ان کے لیے مشکل ہو۔ مگر دیر سویر اس راز سے پردہ ضرور اٹھے گا۔۔

کیا سوچ رہے ہو۔ ہمزاد ناگواری سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا

تمہارے بارے میں۔۔

کیا! ہمزاد اپنی جگہ سے اچھلا تھا۔

نور علی شاہ کو ہنسی آ گئی۔ سوچ رہا تھا اگر تم کو الٹا دیکھوں تو تم کیسے لگو گے۔۔

ہمزاد نے غائب ہونے سے پہلے بس اتنا جواب دیا۔

خود کو آئینہ میں دیکھ لیا کرو۔ تم الٹے ہی ہو۔ اور تم کو سیدھا دیکھنے کی کوشش بیکار ہے۔

نور علی شاہ ایک لمحے کو مسکرائے۔ اس مسکراہٹ میں اسرار کی رمق تھی۔ وہ جیسے ایک لمحہ کے اندر الٹا، ہونے کے اثرات کو پڑھ لینا چاہتے تھے۔ وہ کمرے میں آئے۔ ادھر ادھر دیکھا۔ بوسیدہ سی چھت۔ بے رنگ و روغن دیواریں۔ پرانے زمانے کی، بڑی سی بے ڈھب چوکی، جس پر ایک پرانی سی چادر بچھی تھی۔ وہ چوکی پر چڑھ گئے۔ ادھر ادھر دیکھا۔ اور مسکراتے ہوئے سر کو چوکی سے ٹیک لگا کر پاؤں کو چھت کی جانب اٹھا دیا۔۔ یہ وہی لمحہ تھا، جب حسنہ چائے کا کپ لے کر کمرے میں داخل ہوئی تھی۔ اور یہ وہی لمحہ تھا جب سرور و کیف کی منزلوں سے گزرتے ہوئے وہ تاریک بدلیوں کو چھپتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔

’غضب خدا کا یہ کیا کر رہے ہیں۔۔‘

ایک بجلی چمکی۔ اور وہ اپنی دنیا میں واپس لوٹنے تک چائے کا کپ ہاتھوں میں لیے نور علی شاہ مسکرا رہے تھے۔

آپ نہیں سمجھیں گی۔

’نہیں سمجھوں گی؟‘ حسنہ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ وہ اب اس میں سمجھنے کے لیے کیا رکھا ہے۔

’اب نہیں سمجھو گی؟‘

نور علی شاہ نے آہستہ سے وہی جملہ دہرایا۔۔ تم نے جو کچھ دیکھا وہ فریب نظر تھا۔ میں جو کچھ دیکھ رہا تھا، وہاں ایک بدلی ہوئی کائنات تھی۔۔‘

نگاہ عشق تو بے پردہ دیکھتی ہے اسے

خرد کے سامنے اب تک حجاب عالم ہے

کبھی کبھی چمگادڑوں کی طرح الٹا لٹکا ہوتا ہے اور علوم باطنی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔۔‘

حسنہ کی آنکھوں میں اب الجھن کے آثار تھے۔ اس کے لیے فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ یہ اس کے سامنے کون کھڑا ہے؟ مٹیا برج سے شاہ جی کی گلی تک یہ آدمی ان لاکھوں آدمیوں میں سے ایک تھا، جہاں نہ زندگی کی رمق ہوتی ہے نہ آگے بڑھنے کا احساس۔ لیکن ابھی اس لمحے وہ آنکھوں میں حیرانیاں لیے نور علی شاہ کو دیکھتی جا رہی تھی۔ اندر سے گھبراہٹ بھی ہو رہی تھی۔ اور دل کہہ رہا تھا ان کچھ دنوں میں بہت کچھ بدلا ہے۔۔

نور علی شاہ ابھی بھی اپنی دنیا میں گم تھے۔ کانوں میں رقص کی صدائیں گونج رہی تھیں۔۔ آنکھیں بند تھیں۔۔ بند آنکھوں میں آہستہ آہستہ جھل مل پرچھائیوں کا بسیرا ہو رہا تھا۔

٭٭

 

شاہ رجب ہاشمی کے گھر کی صفائی شروع ہو گئی تھی۔۔ مزدور کام پر لگ گئے تھے۔ رجب ہاشمی نے نور علی شاہ کو بلا کر کچھ مشورے دیے پھر دالان خانے میں چلے گئے۔ اس وقت اندر کا یہ کمرہ ہی ان کی بیٹھک تھا۔ یہ کمرہ دوسرے کمروں سے مختلف بھی تھا اور کٹا ہوا بھی تھا۔ مزدوروں کے ہنگامے اور شور شرابے کی آواز یہاں تک نہیں آئی تھی۔ نور علی شاہ ذمہ داری اور عقیدت کے ساتھ اپنے کام میں لگ گئے تھے وہ غور سے ایک ایک چیز کا جائزہ لے رہے تھے۔ چکن اور کامدانی کے کپڑے، طلائی اور نقرئی زیورات پیتل اور تانبے کے ظروف۔۔ کپڑے ایسے نفیس کہ آنکھیں خیرہ ہو جائیں۔ نور علی شاہ نے ان کاڑھے کے کپڑوں کے بارے میں بڑے بوڑھوں سے سن رکھا تھا۔ ایک زمانہ تھا جب ہنر مندوں کے ہاتھ میں یہ ہنر تھا۔ چکن سازی کے کام میں پردے میں رہنے والی مستورات کی نازک انگلیوں کا کمال ہوتا تھا۔ کامدانی، زردوزی، اور ان ملبوسات پر سونے اور چاندی کے چڑھے ہوئے تار۔ کامدانی کی ٹوپی۔ ملبوسات سے ہی کئی ٹرنک اور بکے بھرے ہوئے تھے۔ ایک ٹرنک میں طلائی اور نقرئی زیورات بھرے ہوئے تھے۔ چاندنی کے طشت، گلاس، تشتریاں، پرانی مور پنکھیاں اور میر جھلیں، ان کی ڈنڈیوں پر بھی چاندی کا کام کیا ہوا تھا۔ ٹرنک کی صفائی کرنے کے بعد یہ کام انہوں نے اپنی ذمہ داری میں لیا ہوا تھا۔ ٹرنک کی صفائی کرنے کے بعد یہ کام انہوں نے اپنی ذمہ داری میں لیا ہوا تھا۔ کیا خبر کوئی مزدور پلک جھپکتے کچھ غائب نہ کرے۔۔ رجب ہاشمی کی مہربانی کہ مدتوں بعد اس کام کے لیے انہوں نے نور علی شاہ کو اس کی ذمہ داری تھی۔

آسمان کا رنگ نیلا تھا۔ ہوا تیز تھی۔ نور علی شاہ صبح جب چلنے کو ہوئے تھے تو اس وقت آسمان پر سیاہ بادلوں کا کارواں بھی تھا لیکن اب سیاہ بادل چھٹ چکے تھے۔ ہوا تیز اور خوشگوار تھی۔ ہاشمی کے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر بائیں طرف کو جاتی ہوئی گلی ولیوں کے ولی کے چوکھٹ کی طرف جاتی تھی۔۔ رجب ہاشمی کے یہاں پردوں کا خاص اہتمام تھا، اس لیے اس وقت باہر ی صحن اور کمروں میں صرف مزدور ہی نظر آ رہے تھے جو اپنے اپنے کام میں مصروف تھا۔ ایک کمرے کا سامان باہر لا کر رکھا جاتا تو مزدور صفائی اور سفیدی کا کام شروع کر دیتے۔۔ نور علی شاہ ابھی بھی ملبوسات اور زیورات میں گم تھے۔ جھانوریاں، چاند تارے، لچھے، جھانچ، توڑے، پازیب، چھلے، پاؤں کے چھاگل۔۔ نقرئی کنجیوں کا گچھا۔۔ طوق، گلو بند، چاند، ہنسلی، جگنو، چمپا کلی۔۔ رؤسا اور عمائدین کی بیگمات عام طور پر بھاری زیورات پہننے میں یقین رکھتی تھیں۔ یہ زیورات کبھی کبھی خاص موقع پر ہی دیدار کو سامنے آتے تھے۔ کلائیوں میں چوڑیاں اکڑے، جہانگیریاں، دست بند، اور گجرے پہننے کا رواج تھا۔

نور علی شاہ کبھی کبھی آنکھیں اٹھا کر آ س پاس کا بھی جائزہ لے لیتے۔۔ ڈیوڑھی کا رقبہ خاص بڑا تھا۔۔ بیرونی نشست کے لیے صرف باہر والا کمرہ تھا۔ مردانی نشست گاہ سے زنانی محل سرا کے درمیان کافی فاصلہ تھا۔ زنانی محل سرا کے دروازے پر موٹے پردے پڑے تھے۔ اور اندر کے کمرے میں عام عورتوں کو بھی جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ہال نما کمرہ میں دیدہ زیب قالین مسند کے طور پر بچھا ہوا تھا۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید