ادھوری کہانی
فہرست مضامین
اور دوسری کہانیاں
نجمہ ثاقب
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
گیارہواں کمّی
وسط پوس(پوہ) کی رات کا آخری کنارہ ٹوٹ رہا تھا جب مولوی حسن دین پکی گلی کے کھجور والے سرے سے نمودار ہوئے۔ اس رات تاریکی حد سے بڑھی ہوئی تھی اور سرد ہوا جسم کو بَرمے کی طرح کاٹتی تھی۔
یہ اُن کا معمول تھا۔ وہ فجر سے بہت پہلے مسجد آ جاتے۔ تہجد کی نماز ادا کر چکنے کے بعد ذکر اذکار کرتے اور جب کھُلے پیٹوں والی چاٹیوں میں رنگ برنگی دودھ بلونیاں تھرکنے لگتیں اور سوتی جاگتی گلیوں کے پامال سینوں پر بیلوں کے قدموں کی دھمک اُن کے گلوں میں بجتی ٹلیوں سے ہم آہنگ ہونے لگتیں تو مولوی حسن دین کی گونجیلی اذان مسجد کے مناروں سے نکل کر فضا میں تیرتی پورے گاؤں پر تنبو سا تان لیتی۔
مولوی حسن دین کے والد مولوی چراغ دین کب اس گاؤں میں آئے تھے، اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانا تو مشکل ہے۔ ’’اماں کالعہ‘‘ چودھری عطاء محمد کی والدہ کے مطابق اس سال دریائے چناب میں زبردست ’’کانگ‘‘ آئی تھی جس نے چناب کنارے کے ’’بیلے‘‘ اور ’’ترائی‘‘ کے گاؤں اکھاڑ پچھاڑ کے دریا میں ڈال دیے تھے۔ تب مولوی چراغ دین اور اُن کا خاندان اپنے جیسے لٹے پٹے لوگوں کے ساتھ چندکوس کے فاصلے پر چیلیانوالہ سے باہر ٹھیک اس اونچے ٹیکرے پر آ کے ٹھہرا تھا جہاں انگریز بہادر اور سکھوں کے درمیان وہ تاریخی لڑائی ہوئی تھی جسے دیکھنے کے لیے چودھری عطاء محمد کے والد اور چچا گھوڑوں کی ننگی پیٹھوں پر سوار ہو کے بھاگے تھے جہاں انگریزوں نے وہ یادگاری منارے تعمیر کیے تھے جنھیں دیکھنے کے لیے آج بھی لمبوترے چہروں والے پھیکے انگریز اور موسلی کے دستوں جیسی کَسی ننگی ٹانگوں والی میمیں آتی تھیں۔
خود مولوی حسن دین نے اپنے والد سے یہ سنا تھا کہ دریا پار بیلوں میں ان کا آبائی گھر اور اونچے مناروں والی وہ مسجد تھی جسے ان کے دادا مولوی الہ بخش نے آباد کیا تھا۔ جس کی دیواروں کے کچے کنگرے ہمیشہ سفید چونے سے لپے رہتے تھے اور جس کے اکیلے کمرے کی کھردری چٹائیاں کبھی سجدوں سے خالی نہیں ہوئی تھیں۔ اس بحث سے قطع نظر یہ تھا کہ گاؤں کے مشرقی سرے پر دور دور تک پھیلے مٹی کے اونچے نیچے ٹیلوں وسیع کھیتوں میں گنے، مکئی اور کپاس کی ہری بھری فصلوں، اُن کے اطراف میں وہاں بکھرے کسانوں، ادھر ادھر بندھے اور چَرتے ڈنگروں سے لے کر، چلت پھرت سے بھری راہوں، ان کے کنارے کیکر کی ٹنڈ منڈ جھاڑیوں اور چودھری عطاء محمد کی حویلی کے وسط میں ۱۰۰؍ سالہ بوڑھے ’’برگد‘‘ کی گھنیری شاخوں تک سب اُن کی اذانوں کے اس طرح عادی ہو گئے تھے کہ اگر انھیں منظر سے نکال دیا جائے تو سارے منظر یکبارگی بکھر جائیں۔
مولوی صاحب مسجد کے دروازے پر پہنچے۔ اندھیرے میں ٹٹول کر کنڈی گرائی اور لالٹین کو ہاتھ میں اونچا کرتے نماز گاہ میں داخل ہوئے۔ وضو وہ گھر سے کر کے آتے تھے اور ان کا ارادہ ۲؍ رکعت نفل ادا کرنے کا تھا۔ مصلے کی جانب قدم بڑھاتے وہ یکدم ٹھٹھک گئے۔ نماز گاہ کے کونے میں مدھم ٹمٹماتے اجالے کی پرچھائیوں میں اُبھرتی ڈوبتی انسانی شبیہ ان کی نظر کا دھوکا ہرگز نہ تھی۔ ہو سکتا ہے کوئی مسافر ہو مگر رات تک تو یہاں کوئی نہ تھا۔ بڑی مدھم خود کلامی کے ساتھ ہاتھ بڑھا کر انھوں نے لالٹین کی لو اونچی کی۔ سردی کی شدت اس کے شیشوں سے دھند کے بادل بن کر لپٹ رہی تھی۔
’’السلام علیکم!‘‘ وہ کہتے آگے بڑھے۔
’کون ہو تم؟‘‘ اور ’’بھائی‘‘ کا لفظ ان کے حلق ہی میں گھُٹ کر رہ گیا۔ وہ اسے پہچان گئے تھے۔
وہ بانو تھی۔ چودھری عطاء محمد کی پوتی اور چودھری فتح محمد کے چچیرے بھائی غلام محمد کی نورِ نظر۔ انھیں لگا کہ زمین ہولے ہولے اُن کے قدموں تلے سرک رہی ہے اور ان کی بزرگی اور پارسائی کا وہ بھرم جسے قائم کرنے میں انھوں نے عمرِ گزشتہ کا ہر لمحہ صرف کیا تھا، ایک ہی ہلے میں ٹوٹ جانے کو ہے۔
’’بانو! بیٹی یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘ انھوں نے آواز کی لرزش پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
’’میں آپ کا انتظار کر رہی تھی مولوی صاحب۔‘‘ لڑکی کی آواز میں اعتماد کا رچاؤ اور بے باکی کی اُٹھان تھی۔
’’مگر کیوں ؟‘‘ اِدھر حیرانی سی حیرانی تھی۔
’’تاکہ آج پَو پھٹنے سے پہلے آپ چودھری فیض محمد سے میرا نکاح پڑھوا دیں۔‘‘
مولوی صاحب نے انگلی سے اپنی خشخشی ڈاڑھی کھجائی اور قدرے توقف کے بعد بولے
’’بانو بیٹی! یہ بات تو تمھارے والدین کے کہنے کی ہے۔‘‘
بانو اپنی جگہ پر ذرا سا کسمسائی اور بولی ’’آپ بھی بڑے بھولے ہیں مولوی صاحب! اگر ایسا ہو پاتا تو میرے رات کے اس پہر خانۂ خدا میں آنے کی نوبت کیوں آتی۔ اماں کسی طور چاچی عظمت کے سامنے چھوٹی نہیں پڑے گی اور ابا کی ناک کو چودھری فتح محمد کی لمبی ناک سے نیچا ہونا گوارا نہیں۔‘‘
’’مگر اس معاملے میں ہمارا کوئی واسطہ کہاں بنتا ہے بانو؟ یہ سب خالص تمھارے گھر کے مسئلے ہیں جنھیں وہیں حل ہونا چاہیے۔ تم یہاں کیوں آئی ہو؟ اور فیض محمد کہاں ہے؟ جس کے لیے تم نے اتنا بڑا قدم اٹھایا ہے؟‘‘ مولوی صاحب نے ٹٹولتی نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھا۔ مبادا کسی کواڑ کے پیچھے یا کسی دیوار کے سائے میں اس کی شبیہ تھرتھرا رہی ہو۔
’’اُسے شہر سے آنا ہے۔ وہ فجر کے وقت پہنچ جائے گا، یہ اُس کا وعدہ ہے۔‘‘ بانو کی آواز میں عین الیقین کی گواہی تھی۔
’’مگر یہ تو سوچو بیٹا!‘‘ مولوی صاحب نے اپنے تئیں لہجے کو نرم بناتے ہوئے کہا۔ ’’ابھی تھوڑی دیر میں نمازی مسجد میں آنا شروع ہو جائیں گے اور وہ تمھیں یہاں دیکھ کر کیا سوچیں گے۔ تمھیں میری اور اپنے باپ کی عزت کا خیال کرنا چاہیے۔‘‘
بانو تن کر کھڑی ہو گئی اور مولوی صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی ’’جب انھیں میرا خیال نہیں تو میں اُن کا خیال کیوں کروں۔ فیض محمد کو پہنچ لینے دیں مولوی صاحب! مجھے تو اتنا پتا ہے کہ مجھے اپنے ارادے کے پورا ہونے تک یہیں ٹھہرنا ہے اور میں اپنی ہَٹ کی بہت پکی ہوں۔‘‘
مولوی صاحب نے گھڑی پر نظر دوڑائی۔ تہجد کا وقت نکل رہا تھا۔ اذان میں چند منٹ باقی رہ گئے تھے اور انھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اذان ہوتے ہی نمازی اِدھر کو چل پڑیں گے۔ سردی، کُہر اور دھند کی وجہ سے سارے نمازی نہ بھی آتے تو بابا شرفو تیلی، غلام رسول گوجر اور اسلم کمہار نہیں ٹھہرنے کے۔ خاص طور پر بابا شرفو کا اگر بس چلتا تو صبح سے لے کر رات گئے تک مسجد میں گزار دیتا اور ۵؍ کے بجائے ۸؍ نمازیں پڑھتا۔ جوانی اس نے کبڈی کھیلتے اور اِدھر اُدھر منہ ماری کرتے بِتا دی تھی اور اب پکی توبہ کر کے بڑھاپا حلال کر رہا تھا اور غلام رسول گوجر تو تھا ہی پکا نمازی۔ اس نے مسجد میں تب آنا شروع کیا تھا جب اس کی مسیں بھی نہ بھیگی تھیں اور اب اس کے کھُمبیوں جیسے سفید پَٹے پگڑی کے نیچے سے جھانکتے تھے۔
گرمیوں کی چلچلاتی دوپہروں میں جب سورج کا جلتا گولا عین کسانوں کے سروں پر دہکتا، وہ زمین کے سینے کو ہل سے چیرتے پسینے پسینے ہو جاتے اور جب زرد تھال مغرب کی طرف جھکنے لگتا اور انگلی برابر لمبی بیلوں کو ہنکا کر سائے میں لا کھڑا کرتا اور کندھے پر رکھے صافے سے چہرے کا پسینہ پونچھتا مسجد کی طرف چل دیتا۔ اسلم کمہار ان دونوں سے بڑھ کے شیدائی تھا۔ وہ منہ اندھیرے مسجد میں آتا، احاطے میں جھاڑو دیتا، سردیوں میں دَگڑ دَگڑ ہاتھ کا نلکا چلاتا اور جب ٹھنڈا پانی نیم کنکواں ہو جاتا تو لوٹے بھر بھر کر وضو کی جگہ پر رکھتا جاتا۔ گرمیوں میں اندر باہر ٹھنڈے پانی کا چھڑکاؤ کرتا اور محراب کی درزوں میں اگر بتی جلاتا اور جب بابا شرفو خاص لے میں میاں محمد بخش کے کلام کی تان اٹھاتا تو اسلم کمہار ایڑیوں کے بَل یوں گھوم جاتا جیسے چاک پر مٹی کا برتن گھومتا ہے۔
مولوی حسن دین کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی آگیا تو وہ اسے بانو کی موجودگی کی کیا وضاحت دیں گے؟ ’’مجھے پتا ہے مولوی صاحب!‘‘ بانو مصلیٰ پھاند کر دروازے کے پاس آ کھڑی ہوئی۔ ’’آپ ڈر رہے ہیں۔ آپ میرے وجود سے خوف کھا رہے ہیں۔ میں زمینداروں کی لڑکی ہوں۔ مجھے علم ہے کہ جب پکی پکائی گنوں کی رسیلی فصلوں کو راتوں میں گیدڑ اور لومڑ اُجاڑ جاتے ہیں۔ ان کی جڑوں پہ چوہے سیندھ لگاتے ہیں اور مکئی اور آلوؤں کے تیار کھیتوں میں ’’سیہہ‘‘ پڑجاتی ہے تو زمینداروں کے دل پہ کیا گزرتی ہے۔ فصل تو دوبارہ اُگ آتی ہے۔ کھیت پھر لہلہانے لگتے ہیں لیکن بنی بنائی عزت پہ دن دہاڑے ڈاکا پڑجائے تو دوبارہ نہیں بنتی۔ آپ اپنی عزت سے ڈرتے ہیں مولوی صاحب؟‘‘
’’بانو! تم بڑی سیانی باتیں کرتی ہو۔‘‘ مولوی صاحب نے اُس کے سر پر شفقت سے ہاتھ دھرا۔ ’’پھر اپنی عزت کیوں داؤ پہ لگانے پہ تُلی ہو؟‘‘
’’آپ نہیں سمجھیں گے مولوی صاحب۔ آپ نہیں سمجھیں گے۔‘‘ اس کا انداز اس قدر قطعی تھا کہ مولوی صاحب کو خود پہ جاہلِ مطلق کا گمان ہونے لگا۔ ’’اگر ’’فیض محمد‘‘ سے طے نہ ہوتا تو شاید میں چلی جاتی مگر خیر۔ میں حجرے میں چلتی ہوں آپ بے فکر ہو جایے۔‘‘ وہ غڑاپ سے حجرے میں گم ہو گئی اور دروازہ بھیڑلیا۔
اس روز مولوی حسن دین نے نماز پڑھائی، نماز کے بعد ہلکا پھلکا وعظ بھی کیا اور قرآنِ پاک کا درس لینے والے بچوں کو اگلا سبق بھی پڑھایا۔ دزدیدہ نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھتے، وہ فیض محمد کی متوقع آمد سے متعلق چوکنا بھی رہے اور حجرے میں مقید بانو کے کسی راز کی طرح افشا ہو جانے کے ضرر سے بے چین بھی۔ حتیٰ کہ ہل ہل کر سبق یاد کرنے والے بچوں کی تیسری قطار میں سلطان خان کی شکایت کرتے اسلم کمہار کے لڑکے خورشید نے جب حجرے سے چھڑی نکال کر لانے کی پیش کش کی تو انھوں نے احمد علی پسر سلطان خان کی شرارت کو بذاتِ خود دیکھنے کے باوجود خورشید کو جھڑک دیا اور احمد علی کو کچھ بھی نہ کہا۔
لڑکوں نے پہلے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا، پھر پاروں میں منہ دے کے زور زور سے ہنسنے لگے۔ جب مولوی صاحب پھر بھی چپ رہے تو انھوں نے ایک دوسرے کو چٹکیاں کاٹیں اور آنکھ بچا کر ایک آدھ کو دھول دھپا بھی کیا۔ چاشت کے قریب بچے آگے پیچھے مسجد سے نکلے تو بانو باہر آئی۔
’’فیض محمد نہیں آیا مولوی صاحب؟‘‘ اس کی آواز میں خدشے اور خوف یک رُخ لرز رہے تھے۔ انھوں نے نفی میں سر ہلایا تو وہ چپ رہ گئی۔پھر مٹی کو پاؤں کے انگوٹھے سے کریدتے ہوئے کچھ بڑبڑائی پھر سیدھی چلتی باہر کو دروازہ پار کر گئی۔ مولوی حسن دین نے سینے میں دبی گہری سانس خارج کی اور عمر دین کا انتظار کرنے لگے جو اس وقت بخاری شریف کا درس لینے آتا تھا۔
عمر دین مولوی صاحب کا بڑا بیبا بچہ تھا۔ اس نے پانچ کوس پر قصباتی سکول سے میٹرک پاس کیا تو چودھریوں کے لڑکے فیض محمد کے ساتھ لاہور جانے کے پروگرام بنانے لگا۔ فیض محمد اس کا لنگوٹیا یار تھا۔ دونوں نے اپنے بچپن کا زمانہ اکٹھے گاؤں کی چھوٹی نہر میں چھلانگیں لگاتے، چودھریوں کی لمبی چوڑی اراضی کے گنے چوستے، آگ کے الاؤ پہ کچے پکے گڑ کی باس سونگھتے اور گرمیوں کی شامیں کبڈی کے داؤ ایک دوسرے پہ آزماتے گزاری تھیں اور مولوی حسن دین اچھی طرح جانتے تھے کہ چھوٹے چودھری کا میراثیوں، موچیوں اور کمہاروں اور کم رقبے والے کسانوں کے لڑکوں کے ساتھ کھیل کود کرنا اور بات ہے اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اُن کے پہلو بہ پہلو علمی مدارج طے کرنا دوسری بات ہے۔
سال میں ایک بار گندم اور ایک بار مونجی کی فصل اکٹھی کر کے انھوں نے ایساکوئی تیر نہ مار لیا تھا کہ بیٹے کی تعلیم اور رہائش کے اخراجات پورے کر سکتے۔ دوسرے اُن کا ارادہ اُسے اپنے سالے کے پاس دیوبند بھیجنے کا تھا جو حدیث کا عالم بن رہا تھا اور اس نے مولوی حسن دین سے وعدہ کر رکھا تھا کہ مناسب موقع ملتے ہی وہ بھانجے کو بُلوا بھیجے گا۔
عمر دین سمجھدار بچہ تھا۔ باپ کے کہنے پہ اس نے اپنی ضد واپس لے لی اور لاہور جانے کے بجائے مسجد میں باپ سے بخاری شریف کا درس لینے لگا۔ ان دنوں مولوی صاحب کو اندازہ ہوا کہ ان کا بیٹا کچھ مختلف سوچنے لگا ہے۔ اس کی نگاہوں میں باپ کا احترام جھلکتا ہے۔ وہ ان کی بزرگی اور شرافت کا مداح ہے اور ان کی علمی فضیلت کا اعتراف بھی کرتا ہے۔ مگر وہ ان جیسا نہیں بننا چاہتا۔
’’پُتر!امامت نبیوں اور ولیوں کا منصب رہا ہے۔‘‘ مولوی صاحب اسے سمجھاتے۔
’’لیکن ابا جی! آپ نے اسے پیشہ بنا دیا ہے۔‘‘
’’چلو پیشہ ہی سہی، پر باقی پیشوں سے بھلا ہے کہ نہیں ؟ دیکھو یہ وہ عمل ہے جسے اللہ کے نبیؐ نے ساری حیاتی خود انجام دیا اور مرنے سے پہلے اپنے خلیفہ کو اس پہ مامور کر گئے اور خلیفہ نے اپنے سے اگلے خلیفہ کو اور اگلے نے اپنے سے اگلے خلیفہ کو۔‘‘
’’اباجی!‘‘ عمر دین کچھ دیر سوچ کر بولا۔ ’’اگر ایسا ہے تو پھر تو گاؤں میں نماز پڑھانے کی ذمے داری چودھری فتح محمد کو اُٹھانی چاہیے اور ضلع کی مسجد میں ضلعی کمشنر کو اور صوبائی دارالحکومت میں گورنر صاحب کو اور…‘‘ عمر دین کی فہرست لمبی ہو گئی اور مولوی صاحب اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ ذرا دیر کے بعد بولے تو ان کی آواز میں عجیب یاسیت کا رنگ گھلا ہوا تھا ’’کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو پُتر! پر مدت گزری منصب داروں نے منصب کا حق سمجھنا اور اسے ادا کرنا چھوڑ دیا ہے۔ حکومت کو ہوس اور لوبھ کے بندوں نے بانٹ لیا اور دین پیشہ بننے کے لیے چھوڑ دیا۔‘‘
’’تو ٹھیک ہے میں بھی آپ کی میراث ضرور سنبھالوں گا مگر تب، جب منصب پہ حق دار فائز ہونے لگیں گے جو اس کے اہل ہوں گے اور اس ذمے داری کو نبھانا جانتے ہوں گے اور ہو سکتا ہے اباجی! تب میں بھی کسی علاقے کا چھوٹا موٹا کمشنر ہو جاؤں۔‘‘ اس کے لہجے کی شرارت جان کر مولوی صاحب لاحول پڑھ کر رہ گئے اور انھوں نے دِل میں پکا ارادہ کر لیا کہ وہ اُسے جل داز جلد دیوبند بھجوا دیں گے۔
مولوی صاحب مسجد سے اٹھے تو چودھری فتح محمد کی حویلی کی راہ لی۔ وہ بانو اور فیض محمد کے معاملے کو جلداز جلد ان کے گوش گزار کر کے اپنی پتلی گردن کو کسی متوقع پھندے سے بچا لینا چاہتے تھے۔ چودھری صاحب حویلی کے احاطے میں اپنے مخصوص رنگین پایوں والے نواڑی پلنگ پہ نیم دراز تھے۔ ان کے بھاری پگڑ کا طرّہ بانگ دیتے مرغے کی کلغی کی طرح سیدھے رُخ میں یوں اٹھا ہوا تھا جیسے ابھی نیچے سے آواز آئے گی ککڑوں کوں۔ پلنگ کے طول و عرض پہ پھیلے چودھری صاحب کے تن و توش کو رمضان مصلّی اور جہان مراثی نے بیک وقت خاصی مہارت سے قابو کر رکھا تھا اور بڑی مہارت سے اُسے دبا رہے تھے۔
’’آؤ جی! مولوی صاحب! جی آیاں نوں۔‘‘ انھوں نے مولوی صاحب کے سلام کا جواب دے کر مونڈھے پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا اور مراثی کے ہاتھوں ٹانگ چھڑاتے ہوئے بولے ’’جا جہان! حقہ تازہ کر کے لا اپنے مولوی صاحب آئے ہیں۔‘‘
’’مہربانی چودھری صاحب! اس کی ضرورت نہیں ہے میں تو اس وقت آپ سے چند خاص باتیں کرنے آیا ہوں۔‘‘ مولوی صاحب نے تمہید باندھی اور چودھری کا اشارہ پا کر دونوں کامے وہاں سے کھسک لیے۔ مولوی صاحب صبح کا قصہ مختصراً بیان کرتے ہوئے کہنے لگے۔ ’’چودھری صاحب! چھوٹا منہ بڑی بات، بانو آپ کی بھتیجی ہے اور فیض محمد سگی اولاد۔ بہتر ہوتا تو آپ بھائی آپس میں بیٹھ کر معاملہ طے کر لیتے اور بچے خاندان کی عزت کو نہ رولتے۔‘‘
بات یہ ہے مولوی جی!‘‘ چودھری فتح محمد نے تہبند سمیٹا اور تھوڑی دیر اِدھر اُدھر ہاتھ مارنے کے بعد پلنگ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھنے میں کامیاب ہو گئے۔ ’’غلام محمد مجھ سے کئی حصے چھوٹا ہے، عمر میں بھی مرتبے میں بھی۔ اُسے ’’نمبرداری‘‘ کے منصب پہ پہنچنے میں ابھی وقت لگے گا۔ مگر وہ ایک ہی جَست میں اُسے جا لینا چاہتا ہے۔ چودھری ابھی وہ اتنا سا ہی ہے کہ اگر مٹھی چانپی کرتے کسی کامے کو ٹانگ مار کے پرے گِرا دے تو وہ اِدھر اُدھر ہو جانے کے بجائے ہاتھ جوڑتا، ناک رگڑتا دوبارہ اس کی جی حضوری کے لیے آ پہنچتا ہے۔
پُرکھوں کی زمینیں کس طرح بڑھاتے ہیں اور اپنے مربعے کس طرح چھوٹے زمینداروں کے رقبوں تک پھیلاتے ہیں یہ وہ ابھی نہیں جانتا۔‘‘
یہاں تک پہنچ کر چودھری صاحب ہانپنے لگے۔ انھوں نے اوپر کا زانو نیچے اور نیچے کا زانو اوپر رکھتے اور سانس بحال کرتے ہوئے بولے۔’’اس کی بیوی بانو کا رشتہ اپنے بھائی کو دینا چاہتی ہے مگر ہم جیتے جی باپ دادا کے مربعوں پہ غیروں کے ہل چلنے نہیں دیں گے۔ فکر کی کوئی بات اس لیے نہیں کہ بانو ہمارے ساتھ ہے۔ فیض محمد کو آنے میں کچھ دیر ہو گئی تھی۔ اس کی طرف سے وہ کچھ بد ظن تھی مگر اب مطمئن ہے۔ مولوی صاحب! وہ مسجد سے سیدھی میری طرف آئی ہے۔ پہلے آ جاتی تو اچھا تھا۔ مگر خیر… اور اب وہ میری پناہ میں ہے۔‘‘
’’بات یہ ہے چودھری صاحب!‘‘ مولوی حسن دین نے خشک ہوتے حلق کو تھوک سے تر کرتے ہوئے کہا ’’آپ دونوں صاحبان ایک دادا کی اولاد ہیں اور میرے لیے دونوں قابلِ قدر ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ کم از کم مجھے ایسی کسی آزمایش میں نہ ڈالیں جسے آپ میں سے کوئی اپنے لیے ذلت جانے۔‘‘
’’اچھا اچھا تو آپ اس لیے آئے ہیں۔‘‘ چودھری صاحب کا فلک شگاف قہقہہ اُن کے گُل مچھوں سے ٹکرا کر کھڑکھڑایا اور اُن کا بڑے قطر والا پیٹ دیر تک تَھل تَھل کرتا رہا۔ بڑی دیر بعد جب یہ طوفان تھما تو چودھری کی ہانپتی آواز مولوی صاحب کی سماعت سے ٹکرائی۔ ’’آپ بے فکر ہو جائیے مولوی صاحب! فیض محمد نے اس کا انتظام کر لیا ہے۔ آپ گھر جا کر اللہ اللہ کریں۔‘‘ مولوی صاحب اٹھے تو جہان اور رمضان یوں چودھری کے وجود پر لپکے جیسے گِدھ تازہ لاش پر جھپٹتی ہے۔
مولوی حسن دین کی فکر اس وقت دوچند ہو گئی جب ظہر کی نماز پڑھا کر وہ گھر آئے۔ بسم اللہ پڑھ کر کھانے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو عمر دین صحن میں داخل ہوا۔ اس وقت اس کا چہرہ معمول سے زیادہ بشاش تھا اور اس پہ انوکھا سا جوش لہریں مارتا دکھائی دیتا تھا۔
’’اباجی!‘‘ وہ ان کے قریب چارپائی پر بیٹھتے ہوئے بولا ’’میں آج ایک ایسا کام کر آیا ہوں جسے جان کر آپ شاید ناراض ہوں گے۔ مگر میں نے صرف یار سے یاری نبھائی ہے۔ آپ چاہتے تھے ناں کہ میں آپ کی مسند سنبھال لوں تو میں امام مسجد بن کر فیض محمد کا بانو سے نکاح پڑھا آیا ہوں۔‘‘
یہ سن کر مولوی صاحب کا لقمہ حلق میں پھنس گیا۔ انھوں نے پانی کا پورا گلاس خلافِ معمول ایک ہی سانس میں چڑھایا اور بغیر کھائے برتن آگے بڑھا کر بولے۔ ’’یہ تم نے کیا کر دیا عمر دین۔ اب ہم غلام محمد کے قہر سے کیسے بچ پائیں گے۔ کیا تم جانتے نہ تھے کہ امام مسجد سارے گاؤں کا سانجھا ہوتا ہے۔ ‘‘
’’جیسے موچی، مراثی، ماچھی اور جولاہے سب کے سانجھے ہیں ؟ ہے ناں ابا جی؟‘‘ عمر دین کے لہجے میں جو طنز کی کاٹ تھی وہ مولوی صاحب سے پوشیدہ نہ رہی تھی۔ مگر اس وقت وہ ایسے کسی بحث مباحثے کے حق میں نہیں تھے۔ انھیں صرف عمر دین کی حماقت پر افسوس ہو رہا تھا۔
’’اباجی!‘‘ عمر دین دوبارہ بولا تو اس کی آواز میں اطمینان چمک رہا تھا۔ ’’آپ فکر کیوں کرتے ہیں ؟ چودھری فتح محمد کا ہاتھ ہمارے اوپر ہے۔ وہ خود بانو کے ولی بن کر آئے تھے۔ پھر آپ کو معلوم توہے فیض محمد میرا دوست ہے۔ میں اس کا کہا کیسے ٹال سکتا تھا؟‘‘
’’اب تم اللہ سے صرف خیر مانگو۔‘‘ مولوی صاحب نے کہا اور اُٹھ کر کمرے میں چلے گئے۔ عمر دین کو لگا ان کے قدموں میں صدیوں کی تھکن دوڑ گئی ہے۔
نکاح کی اطلاع آناً فاناً یہاں سے وہاں ہوتی پورے گاؤں میں پھیل گئی اور اندھیرا پھیلنے سے پہلے پہلے دونوں اطراف کے مسلح دستے میدان میں اُتر آئے۔ گنے اور مکئی کے کھیتوں کی اوٹ میں مورچہ بندی ہوئی۔ بازو چڑھا لیے گئے۔ انتقام کی قسمیں کھاتے اور بڑھکیں مار مار کر منہ سے کَف اُڑاتے گئے اور کچی ادھ پکی فصلوں کے آر پار بارہ بور کی بندوقیں اور آہنی رائفلیں شعلے اگلنے لگیں۔ اِدھر سے ایک گولی چلی تو اُدھر سے جواب میں چار آئیں۔ کوئی ایک فریق بھی پیچھے ہٹنے یا کمزور پڑنے کو تیار نہ تھا۔
جانثاروں کی سپاہ تازہ کمک کے ساتھ موقع پر پہنچتی رہی اور رات گئے جب کچھ ٹھہراؤ آیا تو معلوم ہوا کہ چودھری فتح محمد کی طرف سے ’’خان مصلّی اور چودھری غلام محمد کی طرف سے مصلیوں کے ہی کڑیل جوان ’’طفیل خان‘‘ مالکوں پر قربان ہو گئے۔ گولا باری وقتی طور پر بند کر دی گئی۔ لاشیں سمیٹی گئیں اور اس رات مصلیوں کی ٹھٹھی میں مقتولین کی وارث عورتوں نے اتنے وحشت ناک بین کیے کہ گلیوں کے کتے بھی بھونکنا چھوڑ کر دہلیزوں پہ دبک گئے اور گاؤں سے باہر سانسیوں کے ڈیرے کے پچھواڑے بیریوں کے جھنڈ پر اُلو چیختے رہے۔
دوچار دن یونہی ویرانی اور سکوت اوڑھے گزرے تو برادری کے بوڑھے حرکت میں آ گئے۔ انھوں نے سوچا دونوں ایک دادا کی اولاد، مینڈ سے مینڈ جُڑی ہے اور چوکھٹ سے چوکھٹ، ایک دوسرے سے فرار ہو بھی تو کیسے ہو؟ دونوں فریق یونہی تنے رہے تو مزید خون خرابا ہو گا اور بارودیے گولے مصلیوں اور موچیوں کے سینوں کو پھلانگ کر اپنے لہو کو چاٹنے لگیں گے۔ زمینیں اپنے خون سے سیراب ہونے لگیں گی اور چودھری عطاء محمد کی ساری نسل کسی اندھی دشمنی کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔ چودھری فتح محمد کے پگڑ کا اونچا طرّہ سوگ کی علامت بن کر ان کے کندھے پر لٹکا رہ جائے گا اور غلام محمد کی رنگین ستونوں والی حویلی میں محض دھول اڑا کرے گی تو اس سے بڑھ کر بھلا اور کیا خسارہ ہو گا؟
لہٰذا دونوں گھرانوں میں بزرگوں کی آمدورفت بڑھ گئی۔ ابتدائی پھوں پھاں کرنے، علامتی بازو چڑھانے اور مصنوعی اکڑفوں دکھانے کے بعد بالآخر دونوں اطراف کے مابین مذاکرات کا بالواسطہ سلسلہ شروع ہوا۔ چوپال میں پنچایت مسلسل تین روز تک بیٹھتی رہی۔ بانو کے ننھیال والوں کا خون گرم ہو ہو کر اُبلتا رہا۔ بات چیت کے دوران بارہا ہاتھ پہلوؤں میں اڑسی بندوقوں پہ پڑتے رہے۔ نوجوان اِک دوسرے کے گریبان پکڑنے کو بے تاب ہو اُٹھتے اور بڑے انھیں ٹھنڈا کر کر کے بٹھاتے رہے۔
تیسرے دن شام ڈھلے خاندان کے سب سے عمررسیدہ اور جہاندیدہ بزرگ ’’نیک محمد‘‘ نے مشترکہ اعلامیہ سنایا جس پہ سب کا اتفاق ہونا قرار پایا۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ سرپھرے غیرت مند نوجوان دھسّوں کے پیچھے منہ دے کر بڑبڑ کر رہے تھے اور اپنی رانوں پہ ہاتھ مار مار کر علانیہ یہ بات کہتے تھے کہ اگر بزرگوں کی زبانوں کا پاس نہ ہوتا اور اگر پُرکھوں کی قبریں ہاتھ نہ باندھ دیتیں تو آج چوپال سے کوئی زندہ نہ جانے پاتا۔
فیصلے کے مطابق قرار یہ پایا کہ بانو کے بدلے میں چودھری فتح محمد کی بیٹی کلثوم بانو کے ممیرے بھائی سے بیاہ دی جائے گی جو اپنے ساتھ ایک مربع قابلِ کاشت زمین بطور جہیز لے کر جائے گی۔ چوپال میں اس وقت گاؤں کے سرکردہ لوگوں کے علاوہ بستی کے چیدہ چیدہ افراد بھی موجود تھے جن میں مقتول مصلیوں کے رشتے دار مردوں کے علاوہ کچھ کامے، پرائمری سکول کے ہیڈماسٹر صاحب، غلام رسول گوجر اور ان کے داہنی طرف بیٹھے مولوی حسن دین تھے جو اس صلح پر دِل سے مسرت محسوس کر رہے تھے اور ان کا بیٹا عمر دین جو فیض محمد کا لنگوٹیا یار تھا اور اس وقت بھی اس کے قریب چوڑے پایوں والی چارپائی پر بیٹھا اُٹھ کر اس کے گلے ملنے اور اُسے مبارکباد دینے کا سوچ رہا تھا۔ جب دونوں چودھری صاحبان اُٹھ کر ایک دوسرے کے گلے لگے اور مبارک سلامت کا شور تھوڑا کم ہوا تو چودھری غلام محمد کے سالے کا لڑکا جو اس سے قبل فیض محمد کا رقیب تھا اور اب اس کا بہنوئی بننے کو تھا، نے دزدیدہ نظروں سے عمر دین کی طرف دیکھا اور اپنی جگہ سے اُٹھ کر بابے نیک محمد کو مخاطب کر کے بولا:
’’میاں جی! اللہ کے فضل سے اور بزرگوں کی دعاؤں سے سارے فیصلے سیدھے ہو گئے پر یہ تو پتا چلے کہ فیض محمد کا نکاح کس نے پڑھایا تھا؟کیوں جی؟‘‘ اس نے مجمع کی طرف رُخ پھیر کر کہا۔ ’’آخر پتا تو چلنا چاہیے کہ کون ایسا … کا تخم ہے جس نے چودھری غلام محمد کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی ہے اور جس کام کو مولوی حسن دین جیسے بزرگوں نے نہیں کیا اس نے اس کی بھی جرأت کر لی۔‘‘
’’چاچا جی!‘‘ چودھری غلام محمد بولا۔ ’’بچہ درست کہتا ہے۔ جس نے بھی یہ حرکت کی ہے اسے سزا ملنی چاہیے۔ آخر وہ کیوں چھوٹ جائے۔ آیندہ کوئی ایسا کرے گا تو سو مرتبہ سوچے گا۔‘‘
اس وقت اگر کوئی عمر دین کے چہرے کی طرف دیکھتا تو اُسے معلوم ہوتا کہ اس کے بدن کا سارا خون سِمٹ کر اس کے چہرے پر جمع ہو گیا ہے۔ ’’چودھری صاحب!‘‘ مولوی حسن دین کھنکھار کر بولے۔ ’’عمر دین بچہ ہے اور بچوں سے ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ پھر اس نے یہ حرکت محض فیض محمد کی یاری میں کی ہے۔ آپ تو ان دونوں کے تعلق کو اچھی طرح جانتے ہیں۔‘‘
’’مولوی جی!‘‘ بابا نیک محمد بولا۔ ’’آپ نے درست فرمایا، غلطیاں بچوں سے ہی ہوتی ہیں مگر غلطیاں اپنی جگہ اور اُصول اپنی جگہ۔ آپ نے دیکھا نہیں فیض محمد سے غلطی ہوئی اور اس کا تاوان یہاں اس کا بابا بیٹھا بھر رہا ہے۔ عمر دین کو بھی اپنے کیے کی سزا بھگتنا ہو گی۔‘‘
چوپال میں سناٹا چھا گیا۔ صرف بزرگوں کی چارپائی کے اردگرد بِھن بِھن مکھیاں بھنبھناتی رہیں۔ ’’میں فیصلہ سنا رہا ہوں۔‘‘ بابا نیک محمد کچھ دیر کے بعد بولا ’’عمر دین کو یہیں چوپال میں سب کے سامنے ۱۰؍ جوتے مارے جائیں گے۔ جُرمانے کی سزا اس لیے نہیں سنائی جا رہی کہ وہ مولوی حسن دین کو ادا کرنا پڑے گا اور اس میں ان کا کوئی قصور نہیں۔ پھر وہ پنڈ کے بزرگ ہیں۔ ہمارے دلوں میں ان کے لیے بڑی عزت اور احترام ہے اور جب مولوی حسن دین اپنے صافے کے کنارے سے اپنی آنکھیں پونچھ رہے تھے اور عمر دین ضبط کی آخری حد پر کھڑا تھا اور جہان مصلّی چودھری فتح محمد کا اشارہ پا کر اس سے قریب ہوا تھا تو فیض محمد نے تڑپ کر چودھری فتح محمد کا تہبند پکڑ کر کہا تھا ’’اباجی! میرا یار ہے تو پھر اُسے یہ سزا کیوں ؟‘‘
چودھری صاحب نے ایک جھٹکے سے اپنا تہبند اس کے ہاتھ سے چھڑایا اور چمک کر بولے ’’تو اس کی جگہ تم جا کر کھڑے ہو جاؤ۔‘‘ فیض محمد نظریں چُرا کر رہ گیا۔
’’دیکھو فیض محمد!‘‘ چودھری صاحب نے اپنی آواز کو دھیما کرتے ہوئے کہا۔ ’’تمھارے کیے کو میں نے قربانی دے کر ڈھانک لیا ہے۔ اس سے بڑھ کر تم اور کیا چاہتے ہو؟ تمھاری جان بچانے کی خاطر مجھے غلام محمد کے سامنے سرجھکانا پڑا۔ ایک مربع زمین سے ہاتھ دھونا پڑے۔
کنگن
دونوں کنگن جُڑواں تھے۔ ایک سا ڈیزائن، ایک سے جڑے نگینے، ایک سی جسامت اور ایک ہی سی نگاہوں کو خیرہ کر دینے والی چمک دمک۔ سلمیٰ نے انہیں ڈبے سے نکال کر سنگھار میز پر دھرا، تو اس کی نند عذرا نے لپک کر ہاتھوں میں اُٹھا لیے۔ پھر انہیں ہاتھوں میں ہی تولتے ہوئے بولی : ’’بھابھی! یہ تو بہت قیمتی ہیں۔ کیا بھائی جان کی طرف سے تحفہ ہیں ؟‘‘ سلمیٰ کھلکھلا کر ہنسی اور بولی ’’یوں ہی سمجھو۔‘‘ اس مبہم سے جواب سے عذرا کی تشفی تو نہ ہوئی مگر اس جانب زیادہ دھیان دینے کے بجائے وہ زیور کے باریک نمونے پر غور کرنے لگی جسے کسی ماہر ہاتھ نے نہایت نفاست سے گھڑا تھا۔
’’بھائی جان! کتنے اچھے ہیں نا بھابی؟ انہیں آپ کا کس قدر خیال ہے۔ ایک آذر ہے جسے میری کوئی پروا ہی نہیں۔‘‘ عذرا کے لہجے میں اپنے شوہر کے حوالے سے عجیب سی دل گرفتہ کر دینے والی کیفیت تھی۔ ابھی سلمیٰ اسے کوئی مناسب جواب دینے ہی والی تھی کہ عذرا کا موبائل فون بجنے لگا اور وہ ہیلو ہیلو کرتی ہوئی باہر نکل آئی۔ دوسری جانب اس کے شوہر آذر تھے جو رات کو عذرا کے بڑے بھائی کے ہاں منعقد ہونے والی سالگرہ پارٹی میں شرکت کے حوالے سے بات کرنا چاہ رہے تھے۔ عذرا چونکہ ۲ روز سے چھوٹے بھائی کے ہاں آئی ہوئی تھی لہٰذا شام سے پہلے پہلے آذر کو اُسے لینے آنا تھا تاکہ وہ گھر سے ہی تیار ہو کر فنکشن میں پہنچ سکے۔
’’میں نہیں جا رہی کسی سالگرہ وغیرہ میں۔‘‘ عذرا چھوٹتے ہی بولی۔ آذر کو بغیر دیکھے ہی اندازہ ہو گیا کہ یہ کہتے ہوئے عذرا کا منہ پھول کر کپا ہو چکا ہے۔ ’’مگر کیوں بھئی؟‘‘ وہ اس کایا پلٹ پرحیران اس لیے تھا کہ عذرا نے اس تقریب کے لیے بے حد خوشی خوشی تیاری کی تھی۔ اس نے آذر کے ساتھ خود جا کر نیا جوڑا خریدا تھا اور جوتے، پرس اور دیگر اَلا بلا خریدنے میں آذر کی جیب خاصی ہلکی کی تھی۔ ’’مجھے بھائی جان کے ہاں جا کر اپنی جگ ہنسائی نہیں کروانی۔ میرے پاس بازوؤں میں ڈالنے کو کوئی تار تک نہیں۔ بڑی بھابھی تو سونے میں پیلی ہوتی ہی ہیں، اب چھوٹی بھی کنگن ڈال کے خوب اِترائے گی اور میں خالی خولی کانچ چھنکا کر رہ جاؤں گی۔‘‘
’’بہتر ہو گا کہ اس مسئلے پر ہم گھر پہنچ کر بات کریں۔ فی الحال تم تیاری پکڑو، میں آرہا ہوں۔‘‘ آذر نے بحث میں پڑنے کے بجائے فون بند کر دیا۔ عذرا دل ہی دل میں تلملاتی سلمیٰ کی جانب آئی تاکہ اسے نندوئی کی آمد کے بارے میں بتا سکے۔
سلمیٰ الماری کھولے رات کو پہننے کے لیے جوڑا منتخب کر رہی تھی۔ ہڑبڑا کر بولی ’’ارے اس وقت؟ آج تو ماسی بھی چھٹی پر ہے۔ گھر بھر بکھرا پڑا ہے اور پھر کھانے کی تیاری بھی تو کرنا ہو گی۔ آذر کبھی کبھی توآتا ہے۔‘‘ ’’سو تو ہے۔‘‘ عذرا نے اس کی بوکھلاہٹ کا مزہ لیتے ہوئے کہا۔ ’’آپ ماسی کو بلا لیجیے، قریب ہی رہتی ہے ناں ؟‘‘
’’ہاں ہے تو قریب ہی مگر اسی ہفتے میں اس کی بیٹی کی شادی ہے۔ اب پتا نہیں وہ آئے کہ نہ آئے۔ چلو دیکھتی ہوں۔‘‘ اور تھوڑی دیر کے بعد ماسی تو نہ آئی مگر اس نے اپنی بڑی بیٹی کو بھیج دیا جس نے کھانا پکانے کا کام اپنے ذمے لیا اور تندہی سے اس میں جُت گئی۔ اوپر کے کام اور صفائی ستھرائی کے لیے سلمیٰ نے کچی آبادی سے ایک عورت بلوا بھیجی جو اکثر اس طرح کے حادثاتی موقعوں پر کام آتی تھی۔ وہ اپنی دس بارہ سال کی لونڈیا کو بھی ساتھ لیتی آئی اور گھنٹوں کا کام منٹوں میں ختم کر کے گھر بھر چمکا دیا۔
دوپہر کو آذر آیا تو عذرا نے اُسے صاف صاف کہہ دیا ’’کنگن نہیں تو ایک آدھ چوڑی ہی لے دو۔ یوں خالی ہاتھ میں بھائی جان کے گھر نہیں جانے کی۔‘‘ آذر لڑائی نہیں چاہتا تھا مگر فی الحال وہ اس طرح کی کسی بھاری خریداری کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ کھانے کی میز پر عذرا کا موڈ بدستور خراب دیکھ کر بھائی جان یعنی سلمیٰ کے میاں کہنے لگے : ’’آذر! تم ایسا کرو۔ فی الحال عذرا کو کوئی اچھا سا مصنوعی زیور لا دو۔ اس کی بات بھی رہ جائے گی اور تم پر زیادہ بار بھی نہ ہو گا اور پھر آج کل تو ایسی ایسی خوبصورت چیزیں آئی ہوئی ہیں کہ نقل پر اصل کا گمان ہوتا ہے۔ وہ ابھی اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ میز کے نیچے سے سلمیٰ نے ان کا پاؤں زور سے دبایا۔ وہ یکدم چپ ہو کر اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔
’’چھوڑیے جی رہنے دیجیے۔ اگر اِسے شوق ہے تو لے لینے دیں، آپ کیوں منع کرتے ہیں۔‘‘ عذرا کا منہ بھائی جان کی بات سُن کر مزید سُوج گیا۔ وہ سوچنے لگی، بھائی جان نے اپنی بیگم کو تو اتنے بھاری کنگن دِلا دیے اور مجھے مصنوعی زیورات کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ’’چلیں دیکھتے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔‘‘ آذر مسکراتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس کا دماغ کسی متوقع بدمزگی کے خیال سے بوجھل ہو گیا تھا۔ عذرا کو شوہر کے سیاسی جواب سے اطمینان تو نہ ہوا مگر وہ سہ پہر کے بعد اُس کے ساتھ روانہ ہو گئی۔ اُس کے جاتے ہی سلمیٰ نے شوہر کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ’’کیا ضرورت تھی عذرا کو مصنوعی زیورات کی خریداری کا مشورہ دینے کی؟ بلکہ آپ تو میرا پول بھی کھولنے چلے تھے۔ کتنی سُبکی ہوتی میری اگر عذرا کو معلوم ہو جاتا کہ ایک کنگن مصنوعی ہے۔‘‘
’’اس میں سُبکی کی کیا بات ہے؟‘‘ اس کے شوہر نے حیرانی سے کہا۔ ’’اگر ایک مصنوعی ہے تو دوسرا اصلی بھی تو ہے نا۔ اگر پتا چل بھی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘
’’فرق پڑے نہ پڑے آپ بہرحال چُپ رہیں گے۔ سلمیٰ نے قطعیت سے کہا اور اُٹھ کر کمرے میں چلی آئی‘‘۔ میز پر نظر پڑی تو دِل دھک دھک کرنے لگا۔ جو کنگن صبح عذرا کو دِکھا کر میز پر رکھے تھے انہیں نند کو جلانے کی ترنگ میں وہاں سے اٹھانا بھول گئی تھی اور اس کے بعد ایسے کاموں میں کچھ ایسے مشغول ہوئی کہ ذہن سے نکل گیا۔ اب وہاں ڈبے کے ساتھ لش لش کرتا فقط ایک کنگن پڑا تھا۔ اس نے بہتیرا تلاش کیا۔ درازیں کھول کھول کر دیکھیں، نیچے فرش پر ڈھونڈا۔ صوفے، بیڈ، سنگھارمیز سب کو اپنی جگہ سے کھسکا کر دیکھ لیا، الماری تک کھنگال ڈالی۔ بس فرش ادھیڑ کر تکنے کی کسر رہ گئی مگر کنگن کہیں ہوتا تو ملتا۔
دھڑکتے دل کے ساتھ میز پر پڑے کنگن کو اٹھا کر الٹا پلٹا اور یہ دیکھ کر رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی کہ کنگن پر سے جوہری کی لگائی وزن کی مہر غائب تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ چور جو کوئی بھی ہو بہرحال بے حد ہوشیار اور زیرک تھا۔ وہ اصل اور نقل کے فرق سے بخوبی آگاہ تھا، اسی لیے تو نقلی کنگن چھوڑ کر اصلی اٹھا لے گیا۔ اس کنگن کی کہانی بھی بڑی دلچسپ تھی۔ جب سلمیٰ کی شادی ہوئی تو اس کے اصلی گہنوں پاتوں کے سا تھ یہ نقلی کنگن بھی آیا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ سلمیٰ کی بے حد عزیز سہیلی کی جانب سے اس کے لیے تحفہ تھا۔ ایک تو سہیلی پیاری تھی، دوسرے یہ کنگن اُسے بے حد پسند بھی آیا تھا بلکہ اس نے تو لگے ہاتھوں اَمی سے فرمایش بھی کی تھی : ’’امی! مجھے اسی ڈیزائن میں اصلی والا کنگن بنوا دیں۔ یہ تو پانی لگتے ہی خراب ہو جائے گا۔‘‘
اور امی نے جواب میں یہ کہہ کر بات ختم کر دی۔’’ہم سے جو ہوسکا سو بنوا دیا۔ اب یہ فرمایش اپنے شوہر سے کرنا۔‘‘ سلمیٰ نے شادی کے بعد موقع ملتے ہی یہ فرمایش شوہر کے کانوں میں ڈال دی جسے پورا کرنے کا اس نے وعدہ بھی کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ وعدہ نبھاتے نبھاتے سلمیٰ ۴ بچوں کی ماں بن گئی۔ مگر اس سارے عرصے میں اُس نے کنگن کو خوب سنبھال کر رکھا تھا اور اب جبکہ وہ صاحبِ استطاعت ہو گئی تھی، اس نے دونوں کنگن خصوصی موقع پر اکٹھا پہننے کا فیصلہ کیا۔ بھلا کسے خبر ہوتی کہ ایک کنگن نقلی ہے مگر چور تو بہت باخبر نکلا جس نے چُن کر اصل کنگن اٹھایا اور نقل چھوڑ گیا۔ اب کہاں کی سالگرہ اور کیسی شرکت؟؟ وہ اس وقت کو کوس رہی تھی جب اُس نے کنگن میز پر چھوڑے تھے۔
’’ہو نہ ہو یہ عذرا کی حرکت ہے۔ اس سے میری خوشی کبھی برداشت نہیں ہوتی۔‘‘ سلمیٰ کا اتنا کہنا تھا کہ اس کے شوہر بگڑ گئے۔ ’’فضول باتیں مت کرو۔ عذرا بھلا ایسا کیوں کرنے لگی۔ دیکھو تم سیدھا سیدھا میری بہن پر چوری کا الزام لگا رہی ہو اور وہ بھی میرے منہ پر۔‘‘ شوہر کا غصہ دیکھ کر سلمیٰ جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ ’’پھر آپ ہی بتائیے؟ یہ کون ہو سکتا ہے؟ میں نے سارا کمرا چھان مارا ہے کہیں کوئی نشان تک نہیں۔‘‘ ’’تم ذہن پر زور ڈال کر سوچو! آج ہمارے گھر میں کون کون آیا تھا؟‘‘ شوہر نے اُسے مشورہ دیا۔ وہ سوچ میں پڑ گئی۔ ’’صفائی کرنے والی ماسی اور کھانا پکانے کے لیے ماسی کی بیٹی آئے تھے مگر ماسی کی بیٹی تو سارا وقت کچن میں رہی اور صفائی والی اور اس کی بیٹی کمرے میں گئی تو تھیں مگر اُس وقت میں اُن کے ساتھ تھی۔ صفائی والی کی بیٹی نے کنگن دیکھ کر اس کی تعریف بھی کی تھی مگر اُن پر میں اس لیے شک نہیں کر رہی کہ پہلے انہوں نے کبھی ایسا کام نہیں کیا۔‘‘
’’ہوسکتا ہے کہ پہلے انہیں موقع نہ ملا ہو۔‘‘ اس کے شوہر نے خدشہ ظاہر کیا۔ ’’یہ آپ درست کہہ رہے ہیں۔‘‘ وہ کچھ سوچ کر بولی۔ ’’میرا بھی یہی خیال ہے۔ یہ انہی میں سے کسی کا کام ہوسکتا ہے۔ ماسی کی بیٹی کی تو شادی بھی ہونے والی ہے۔ سچ ہے غریب کا کوئی ایمان نہیں۔‘‘ شوہر کی بات نے سوچ کے نئے دروازے کھولے تو وہ چلا کر بولی۔ ’’انہیں ابھی بلوائیے، فوراً ابھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔ ماسی اور اس کی بیٹی پیام ملتے ہی دوڑی چلی آئیں۔ ’’خیر تو ہے بی بی، دوبارہ بلوا لیا۔ کیا مہمان ابھی گئے نہیں ؟ سلمیٰ کی صورت نے اُن کی بولتی بند کر دی۔ دوسری طرف کچی آبادی میں صفائی والی بمشکل گھر پہنچی ہو گی کہ اُسے اُلٹے پاؤں واپس آنا پڑا۔ سلمیٰ آتے ہی اُن پر اُلٹ پڑی۔ ماسی تو کانوں کو ہاتھ لگا رہی تھی اور اس کی بیٹی کارنگ یوں تھا جیسے ہلدی کی گانٹھ کا چُورا۔
’’قسم لے لیجیے بی بی، غریب ضرور ہوں پربے ایمان نہیں۔‘‘کچی آبادی والی پاؤں میں آن پڑی۔ ’’میری بچی نے اگر یہ حرکت کی ہے تو میں آپ کے سامنے اُس کی کھال کھینچوں گی مگر مجھے یقین ہے کہ یہ اس کا کام نہیں۔‘‘ ’’یہ چکما کسی اور کو دینا۔ تم لوگوں کے نکلتے ہی کیا کنگن کو پاؤں لگ گئے تھے اور تمہاری وہ لونڈیا، کیسے بھوکوں کی طرح کنگنوں کو تک رہی تھی۔ ماسی اور اُس کی بیٹی کی زبان گنگ اور رنگ فق تھا۔ اُس نے کہا تو صرف اتنا ’’ ۴ دن بعد میری بیٹی کی شادی ہے اور میرے پاس عزت کے سوا اور کچھ نہیں بی بی۔‘‘ اگر وہ دونوں پروں پر پانی نہیں پڑنے دے رہی تھیں تو سلمیٰ بھی کسی طور انہیں چھوڑنے پر تیار نہیں تھی۔ شام ڈھلنے لگی تو میاں کو بھائی کے ہاں پہنچنے کا خیال ہوا۔ وہ کسی فیصلے پر پہنچتے ہوئے خود اندر آئے اور کہنے لگے : ’’اب اِن کو چلتا کرو۔ صبح تک کنگن گھر پہنچ جانے چاہئیں ورنہ مجھے پولیس میں رپٹ لکھوانا پڑے گی‘‘۔
پولیس کا نام سُن کر دونوں ملازمائیں مرنے والی ہو گئیں۔ لگیں دُہائی دینے مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی تو روتے پیٹتے گھر سے نکل گئیں۔ سلمیٰ کا دل ہرگز کسی تقریب میں شریک ہونے پر آمادہ نہ تھا۔ لاکھ ٹال مٹول کی، طبیعت کی خرابی کا بہانہ بنایا۔ دل کے بُجھنے اور اُمنگ کے بوڑھا ہو جانے کی تاویلیں دیں مگر میاں نے ایک نہ سنی اور صاف کہہ دیا ’’میرے بھائی کے گھر کی تقریب ہے، جانا تو ہو گا۔‘‘ سلمیٰ بجھے دل سے اُٹھی۔ کمرے میں جا کر صبح کا منتخب کردہ جوڑا استری کرنے کو صوفے سے اٹھایا تو چھن سے کچھ نیچے گرا۔ ارے، وہ گنگ کھڑی رہ گئی، دوسر اکنگن اُس کے قدموں میں پڑا لش لش کر رہا تھا۔ ’’اوہ خدایا… یہ کیا اور کیسے ہو گیا؟‘‘ وہ ایک مرتبہ پھر سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ میاں اندر اُسے بلانے آئے تو سامنے کا منظر دیکھ کر اُن کی حالت بھی کم و بیش ایسی ہی ہو گئی۔ وہ کبھی سلمیٰ کے ہاتھ میں پکڑے کنگن کو دیکھتے اور کبھی میز پر پڑے دوسرے کو۔
’’یہ کہاں سے ملا؟‘‘ انہوں نے بدقت پوچھا۔ ’’میرے کپڑوں کے اندر سے۔‘‘ وہ بدبدائی۔ ’’ایک تو تم عورتیں …‘‘ وہ ایک مرتبہ غضب ناک ہو کر آگے بڑھے پھر یکدم پیچھے ہٹے اور ٹھنڈے ہو کر صوفے پرگر سے گئے۔ ’’میرا اندازہ ہے۔‘‘ سلمیٰ کی سرسراتی ہوئی آواز اُبھری۔ ’’جب عذرا نے مجھے آذر کی آمد کے بارے میں بتلایا تھا، میں رات کے لیے جوڑا منتخب کر رہی تھی۔ شاید اس وقت جلدی میں، میں نے اسے میز پر ڈال دیا اور جب دوبارہ اٹھا کر صوفے پر رکھا تو کنگن چوپٹے کے کام پر اٹک کر چھپ گیا اور کچھ اِس طور اٹکا کہ جھاڑنے پر بھی نیچے نہیں گرا۔‘‘ میاں کچھ دیر تاسف سے اسے دیکھتے رہے پھر اُٹھ کر باہر جانے لگے، تو سلمیٰ انہیں روک کر بولی : ’’بھاڑ میں جائے ایسی خوشی جو دلوں میں تعفن، نفرت اور دُکھ کے ببول بوئے۔ بدگمانیوں کی فصل کاشت اور بے کسی اور بے بسی کے لمحوں کو ثمربار کرے۔ آپ یہ کنگن جوہری کے ہاتھ بیچ آئیے۔ رقم لے کر ماسی کی بیٹی کو شادی کا تحفہ دینے میں خود جاؤں گی۔ دوسرا کنگن صفائی والی کی بیٹی کا ہے، اُسے پسند جو آیا تھا۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے کنگن حیران و پریشان میاں کے ہاتھ میں دیا اور چپکے سے باہر نکل گئی۔
٭٭٭
ماکھے
رات اتنی گہری نہیں ہوئی تھی۔ مگر ٹبّے والی نہر کے کچے پر تاریکی یوں بچھی بیٹھی تھی جیسے گاڑھے کے ریشم کی سیاہ بانات ہو۔ فضا میں معمولی سا حبس جسے وقفے وقفے سے چلنے والی ہوا کے اتفاقی جھونکے اچانک چھیڑتے تو کنارے پر ایک ہی سیدھ میں لگے سفیدوں کے پتے تالیاں بجانے لگتے۔ کہیں کہیں کائی کھائے سبزے میں اکا دکا جھینگر بول پڑتا اور پُل سے پرے ’’بڈھے پیر‘‘ کے مزار کے احاطے میں پرانے برگد کی رسیاں لٹکاتی شاخوں پر بوڑھے الو کی آنکھیں گول گول گھومنے لگتیں۔
ایسے میں جب وہ دونوں پل کے پار نشیب میں اترے، تو کلونس کھائے ماحول کا ایک حصہ ہی معلوم ہوتے تھے۔ دونوں نے اپنے چہروں پر کَس کے ڈھاٹے باندھ رکھے تھے۔ چودھری شیر کے داہنے ہاتھ میں لوہے کی ’’کھرپی‘‘ اور لمبا سا خنجر تھا۔ جبکہ ’’ماکھے‘‘ نے جدید طرز کا ریوالور تھام رکھا تھا۔ اس کا جسم کسرتی تھا اور چال میں چودھری کی نسبت پھُرتی اور فطری سا بہاؤ تھا۔ اس نے دانستہ خود کو اس سے دو قدم پیچھے رکھا ہوا تھا۔ نشیبی حصہ کھیتوں کے دائرے میں اُترا، تو چودھری نے رُک کر دائیں بائیں دیکھا۔ پھر دور ’’رانجھوں ‘‘ کے ڈیرے پر ٹمٹماتی لرزتی مدقوق روشنی پر نظریں گاڑ کر بولا۔
’’لے ماکھے! یہاں تک تو پہنچ آئے ہیں۔ اب آگے بھی اللہ کا آسرا ہے۔‘‘ کالے ڈھاٹے کے اندر ماکھے کے کالک زدہ ہونٹ آپس میں ملے۔ مگر ان کی ہلکی بڑبڑاہٹ ڈھاٹے کی تہہ بہ تہہ سلوٹوں میں گم ہو کر رہ گئی۔ چودھری نے اپنے منہ سے کپڑا ہٹایا اور چہرہ اُٹھا کر اوپر دیکھا۔ آسمان پر تھوڑی دیر پہلے تک چھائی بدلیوں کی چادر رفتہ رفتہ ہٹ رہی تھی اور ان کے درمیان سے آدھا ادھورا چاند کا مکھڑا نمودار ہو رہا تھا۔
چودھری کی دیکھا دیکھی ماکھے نے بھی چہرہ کھول دیا اور حبس زدہ ماحول میں کھل کے سانس لینے لگا۔ چودھری کی نگاہ چاند سے ہٹ کر ماکھے کے چہرے پر پڑی اور اس کی ہنسی نکل گئی۔ ’’ماکھے!‘‘ وہ پیٹ پکڑے ہنسی روکنے کی کوشش میں نیچے بیٹھ گیا۔ ’’چاند بھی تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اوئے! تو تو کالی رات ہے۔ ابے کوئلے کے دلال اس وقت تجھے سلطان خان دیکھ لے تو بھوت جان کر یہیں چِت ہو جائے۔‘‘
ماکھا چُپ کھڑا رہا۔ اس کا چہرہ کسی پتھر کی طرح جامد اور سپاٹ تھا۔ چودھری کے لیے یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ ماکھے کو اس کے زیرِسایہ آئے ۱۵ سال تو ہونے کو تھے۔ اس عرصے میں چودھری نے تو کیا، کسی نے بھی اس کے چہرے پر کبھی جذبات کا مدّوجزر نہ دیکھا تھا۔ وہ بحرِ منجمد کے اُن افتادہ ساحلوں کا سا تھا جن پر برف اپنے اثرات ہمیشہ کے لیے چھوڑ جاتی ہے اور ان کی کٹی پھٹی شورہ زمین پر جلی بھسی کائی بھی نہیں اُگتی۔
حتیٰ کہ آس پاس جھنکتی سرگوشیاں بھی اس پر اثرانداز نہ ہوتیں۔ لوگ کہتے تھے ’’ماکھا بے حس ہے اور بے حس پر کسی بات کا کیا اثر۔‘‘ کوئی کہتا ’’چودھری نے لونڈا کَس کے رکھا ہوا ہے۔ مجال ہے پٹھّے پر ہاتھ دھرنے دے۔ گاؤں کی سب سے بوڑھی اور تجربہ کار ’’مائی بھاگی‘‘ نے تو یہ تک کہہ دیا ’’ماکھے پر کسی ہوائی چیز کا اثر ہے جس نے بالک عمر میں اسے پتھر کا کر دیا تھا۔ نیا نیا شہر کے سکول میں جا کر پڑھنے والے سلیم احمد نے اسے ’’روبوٹ‘‘ قرار دیا اور پھر سب کو مثالیں دے دے کر جَتنوں سے سمجھایا کہ امریکا کے لوگوں نے کس طرح بجلی کے بندے بنائے ہیں جو بٹن دباتے ہی اُن کی ہدایت کے مطابق حرکت کرتے ہیں تو سب دل ہی دل میں مان گئے کہ ماکھا بھی کوئی ایسی ہی چیز ہے۔ جس کا بٹن ہمیشہ چودھری شیر کے ہاتھ میں رہتا ہے اور مضبوط بدن اُس کی ہدایت پر حرکت کرتا ہے۔
اس وقت بھی چودھری اس کی بے تحاشا سیاہ اور کلونسی رنگت پر چوٹ کرتے ہوئے ہنس رہا تھا اور ماکھا یوں کھڑا تھا جیسے گندم کے کھیتوں میں الٹی سیدھی لکڑیوں سے بنایا پتلا جو چڑیوں کو فصل سے دور رکھنے کو گاڑا جاتا ہے۔ تھوڑی دیر تک اکیلا ہی ہنستے رہنے کے بعد چودھری ’’ریتی‘‘ کا سہارا لیتے اُٹھ کھڑا ہوا اور اپنی بھوسلی بھنوؤں کو سکیڑ کر ماتھے کے اوپر ہتھیلی کا چھجا سا بنا کر رانجھوں کے ڈیرے کی طرف بغور دیکھنے لگا۔
’’تیرا کیا خیال ہے ماکھے، سلطان خان آج ڈیرے پر اکیلا ہو گا؟‘‘ ’’اطلاع تو ایسی ہے مالک۔‘‘ ماکھے نے اب کی بار لب کھولے۔ ’’اسے ہونا بھی اکیلا ہی چاہیے۔ چودھری نے گردن کو آگے پیچھے ہلاتے ہوئے کہا۔ کوئی ایک آدھ بندہ شادی پر جانے سے رہ بھی گیا ہو تو کوئی بات نہیں۔ چودھری شیر کے بازوؤں میں ابھی بہت طاقت ہے اور میری سب سے بڑی طاقت تو تُو ہے ماکھے تُو۔‘‘ چودھری نے اس کی پیٹھ تھپکی۔ اُسے لگا اس کا ہاتھ لکڑی کے بے ڈھب تختے سے ٹکرا کر رہ گیا ہو۔
تھوڑی دور چل کر چودھری دوبارہ رُک گیا۔ ’’ہتھیار تیار ہے ناں ماکھے؟‘‘ ماکھے کا سر اثبات میں ہلا۔ ’’جی مالک۔‘‘ ’’چل پھر تو بھی تیار رہنا۔ میرے پیروں میں ابھی سے گدگدی ہونے لگ گئی ہے۔ سلطان خان کی اصیل گھوڑی کی رکابیں کتنی چِکنی اور ڈھلواں ہیں۔ واہ بھئی مزہ ہی آ جائے گا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے چودھری نے اپنی رفتار تیز کر لی۔
اور اس کے پیچھے ماکھے نے بھی۔ انھیں زیادہ دور نہیں جانا پڑا۔
ڈیرے کے وسیع و عریض کھلے احاطہ میں بیری اور شہتوت کے درختوں کے جھنڈ کے قریب جناتی سائز کے پایوں والی سلطان خان کی مخصوص چارپائی بچھی ہوئی تھی جس پر وہ چادر تانے دنیا و مافیہا سے بے نیاز سو رہا تھا۔ قریب ہی چند فرلانگ کے فاصلہ پر جانور بندھے ہوئے تھے، جن میں بڑے سینگوں والی بھوری بھینسوں، اعلیٰ نسل کی ساہیوالی گایوں اور دیگر چھوٹے موٹے ڈنگروں سے داہنی جانب ذرا سا پرے ہٹ کر سلطان خان کی وہ اصیل گھوڑی بندھی تھی جس کی خاطر وہ دونوں آج یہاں نظر آ رہے تھے۔ فضا میں گوبر کی باس رچی ہوئی تھی اور چاند کی اِکّا دُکّا کرنیں شہتوت کی گھنیری شاخوں سے چھن چھن کر سیدھی گھوڑی کی چکنی سفید کھال پر پڑ رہی تھیں۔
چودھری نے توصیفی نگاہوں سے اُسے دیکھا اور دبے قدموں آگے بڑھتے ہوئے ماکھے کو اشارہ کیا۔ ماکھے نے چودھری کے ہاتھوں سے ریتی پکڑی اور اُسے ہاتھ میں تولتے ہوئے دزدیدہ نظروں سے سلطان خان کی چارپائی کی جانب دیکھ کر بولا: ’’مالک! گھوڑی بول پڑی تو؟‘‘ ’’تو میں اس کا علاج کر لوں گا۔‘‘ چودھری نے کندھے پر پڑی زائد چادر اتاری اور گھوڑی کے منہ کے قریب جا کر کھڑا ہو کے اُسے پچکارنے لگا۔ گھوڑی نے اجنبیوں کو اپنے قریب دیکھ کر دائیں بائیں سر ہلانا شروع کر دیا۔
ماکھا گھوڑی کے پیر میں بندھے فولادی تالے پر ریتی آزمانے لگا۔ گھوڑی اب حرکت میں آگئی تھی اور وہ ’’کِلّے‘‘ کے گرد دائرے میں یوں مسلسل چکر لگا رہی تھی گویا طواف کر رہی ہو۔ سنگلوں کی ہلکی کھڑکھڑاہٹ نے سلطان خان کی نیند میں معمولی خلل ڈالا۔ اس نے کسمسا کر کروٹ لی اور اُن کی جانب منہ موڑ لیا۔ چاند کی روشنی اب براہِ راست اُس کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔
ماکھے کے ہاتھوں میں بلا کی تیزی تھی۔ گھوڑیوں کے تالے کھولنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا اور پھر یہ پہلا موقع تھا بھی نہیں۔ اس طرح کی کئی وارداتیں وہ چودھری کی ہمراہی میں اس سے پہلے کر چکا تھا۔ لہٰذا اب بغیر گھبرائے یا سستائے ہاتھوں کو آگے پیچھے مخصوص لَے میں حرکت دے رہا تھا اور جب تالے کا نوکیلا کیل اتنا سا اندر رہ گیا کہ اگر وہ اسے ہاتھ سے بھی پکڑ کے کھینچتا تو بلاتردد وہ اس کے ہاتھ میں آ جاتا۔ گھوڑی پوری آواز سے ہنہنائی اور اس نے اپنی اگلی دونوں ٹانگیں اوپر ہوا میں اُٹھالیں۔ چودھری نے کپڑا اُس کے منہ پر پھینکا اور اسے ہاتھوں سے دبانا چاہا۔
گھوڑی منہ زور اور مالک کی سر چڑھی تھی۔ اس نے چودھری کے ہاتھ سر مار کے دور جھٹک دیے اور پہلے سے زیادہ اونچی آواز میں ہنہنائی۔ سلطان خان ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ ہنہناتی گھوڑی اور اسے قابو میں لانے کی کوشش میں ہلکان ہوتے ۲ اجنبی۔ اس منظر نے سلطان خان کے بدن میں بجلی بھر دی۔ وہ پارے کی طرح تڑپ کر چارپائی سے اترا اور سینہ تان کر بولا: ’’کون ہو تم اوئے؟‘‘ ماکھے نے جھٹ تہبندکی ڈب سے ریوالور نکال لیا اور اس کاشست باندھ کر سیدھا کھڑا ہو گیا۔
’’گھوڑی چھوڑ دے چودھری! میں تجھے پہچان گیا ہوں۔‘‘ سلطان خان دیہی دشمنوں کے درمیان پلا بڑھا تھا۔ ریوالور کی نالی اُسے خوفزدہ نہ کرسکی۔ اس کی بات نے چودھری کو گڑبڑا دیا۔ مگر گھاگ چور تھا۔ سلطان خان کے چہرے پر نظریں گاڑ کے بولا۔ ’’پہچان گیا ہے تو اور بھی اچھا ہے۔ اب تجھے پتا چل جانا چاہیے کہ ہم یاروں کے یار اور دشمنوں کے دشمن ہیں۔ چل ماکھے گھوڑی آگے لگا۔‘‘ ’’گھوڑی یہیں رہے گی چودھری…‘‘ سلطان خان نے زیرِ لب گالی بکی۔ ’’سچ تو یہ ہے تجھے چودھری نہیں چور کہنے کو دل کرتا ہے۔ چار بیگھوں سے چل کر چار مربعوں تک پہنچا ہے مگر دماغ اس زمانے پر رُک گیا ہے جب تو لڑکپن میں لوگوں کی مرغیاں اور بکریاں چرایا کرتا تھا۔‘‘ سلطان خان کی بات چودھری کے سر پر لگی اور تلووں پر بجھی۔
اللہ بخشے میری بے بے کہا کرتی تھیں۔ چوری شیرو کے منہ کو لگ گئی ہے۔ جہاں کہیں اچھا جانور دیکھتا ہے رال ٹپک پڑتی ہے۔ شریف ماں باپ کے گھر ایسی اولاد چہ چہ… اِدھر اُدھر سے لپیٹ کر زمین اکٹھی کر کے لوگوں کے بیچ چودھری صاحب بن کے تو بیٹھ گیا۔ مگر چودھری بننا نہ آیا۔ ابے تیری اصلیت تو میں جانتا ہوں۔ چُپ کر جا سلطانے وگرنہ… غضب کی شدت سے چودھری کا چہرہ گویا لہو سے لبالب بھرا گول کٹورا تھا جو چھلکنے کو تیار پڑا تھا۔
سلطان خان نے اس کی کیفیت کا مزہ لیا اور غالباً کسی پرانی دشمنی کا بدلہ لیتے ہوئے بولا۔ اگر تجھے یہ گھوڑی اتنی پسند تھی تو مجھ سے کہتے میرا ڈیرہ فقیروں مسکینوں کے لیے چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے۔ ایک تم بھی سہی۔‘‘ ’’گولی چلا دے ماکھے۔‘‘ چودھری کی اب بس ہو گئی تھی۔ سلطان خان نے اس کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا۔ اس کے منہ پر اسے چور کہا تھا۔
اگرچہ اس بات کا اعتراف وہ یاروں کی منڈلی میں بیٹھ کر خود کرتا تھا۔ جب وہ یہ کہہ کر آپ اپنا ٹھٹھا اُڑاتا۔ ’’قسم لے لو اللہ پاک کی جو آج تک کوئی جانور پلّے سے خریدا ہو۔ اللہ بخشے میری اماں نے ایک بار بڑی حسرت سے کہا تھا۔ شیرو! ہر خوشی غمی پر دل کھول کے اُڑاتے ہو۔ اچھے سے اچھا جانور چھری تلے رکھتے تمھارا دل تنگ نہیں پڑتا۔ میرا بڑا دل چاہتا ہے کبھی کوئی جانور خانۂ خدا کے نام پر بھی دوں۔ مسجد میں کبھی تو میرے نام کی پکار پڑے۔
’’چودھری شیر کی ماں نے مسجد کے نام بھینس بھیجی ہے یا پھر چھوڑ بکری ہی سہی۔‘‘ میں نے کہا ’’اماں یہ بھی کوئی بڑی بات ہے کیا؟ تو پہلے کہتی پَر یارو! قسم لے لو اللہ پاک کی۔ جانوروں پر نگاہ ڈالی تو کوئی ایک ڈنگر بھی پاک نہ نکلا۔ اب خانۂ خدا کو ناپاک مال کیسے بھجوا دیتا۔ آخر ہوں تو مسلمان ناں ؟‘‘ اور یار لوگ ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنستے۔ مگر دوسروں کو اس نے یہ جرأت نہ بخشی تھی۔ کہ منہ در منہ اسے چور کہتے۔ پھر یہاں تو سلطان خان تھا۔ اس کا پرانا رقیب اور زمینداری میں اس کا ہم پلّہ۔ فرق اتنا تھا کہ وہ چور نہ تھا اور اس نے لوگوں کے بیچ اونچا شملہ لگا کے چودھراہٹ بھگارنے کا شوق بھی نہ پالا تھا۔
ماکھے کے ہتھیار نے شعلہ اُگلا اور گولی سلطان خان کے سینے کے آر پار ہو گئی۔ پھُرّ کی آواز سے درختوں کی ڈالیوں میں سوئے پرندے یکبارگی اُڑے اور گولی کی آواز سُن کر ڈیرے کے اندر سوئے دو چار لوگ ننگے پاؤں باہر بھاگے۔ کھیل بگڑ چکا تھا۔ سلطان خان سینہ پکڑے نیچے کو دُہرا ہو رہا تھا اور کھڑے کانوں والی گھوڑی پوری آواز سے ہنہنائے جا رہی تھی۔ ماکھے کی سوالیہ نگاہیں چودھری کی طرف اٹھیں جیسے پوچھ رہی ہوں : ’اب کیا حکم ہے مالک؟‘‘ لیکن جواب دینے سننے سے پہلے درختوں کے جھنڈ کی جانب سے اکٹھی دو گولیاں چلیں اور چودھری کی پگڑی سے ٹکراتی دیوار سے جالگیں۔ اس نے ماکھے کو نکلنے کا اشارہ کیا۔
دونوں ہوائی فائر کرتے ہوئے باہر کو بھاگے۔ لینا، پکڑنا، جانے نہ پائے کی آوازوں کے شور میں چند ہیولے اُن کے پیچھے لپکے۔ فضا میں تڑ تڑ آتشیں گولے تیرنے لگے اور وہ آگے پیچھے کھیتوں میں دوڑتے فصلوں کو روندنے لگے۔ ماکھے کی رفتار کی ازلی پھرتی اور جسم کی قدرتی لچک اسے ہوا کے جھونکے پر سوار کیے ہوئے تھی۔ وہ چاہتا تو چیتے کی سی زقند لگاتا اب تک منظر سے غائب ہو جاتا۔ مگر اس نے چودھری کا نمک کھا رکھا تھا۔ اسے پتا تھا کہ اس کا بٹن چودھری کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جب تک اُسے دبائے گا نہیں اسے اس کا سایہ بنے رہنا ہے۔وہ نہر کے کچے میں اترے تو بُری طرح ہانپ رہے تھے۔ پیچھے گولیاں متواتر چل رہی تھیں اور قدموں کی دھمک فضا کے سناٹوں کو بار بار چیرے دیتی تھی۔
’’میں اب اور نہیں دوڑسکتا ماکھے۔ ہائے سلطان کی گھوڑی کی رکابیں۔‘‘ چودھری نے اپنے گھٹنے پکڑ کر سسکاری لی۔ ’’مالک!‘‘ ماکھا بولا۔ ’’رفتار کم کی تو پکڑے جائیں گے اور اگر سلطان خان مر چکا ہوا تو کل کا سورج ہمارے لیے کیا لے کر طلوع ہو گا۔ آپ کو تو اچھی طرح پتا ہے جی۔‘‘ ’’ہاں یہ تو ہے۔‘‘ چودھری نے نہر کے شرر شرر گرتے پانی کے پریشر کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔ ’’ماکھے!‘‘ اس کی آنکھیں اندھیرے میں بلی کے دیدوں کی طرح چمکیں۔
’’چلو مائی تاجی کے گھر چلتے ہیں۔ وہ دیکھو۔ چند قدم پر تو ہے۔‘‘ ماکھے کے اُٹھتے قدم زمین میں گڑ گئے۔ ’’مالک!‘‘ اس کی آواز میں حیرت ڈوب ڈوب کر ابھر رہی تھی۔ ’’مائی تاجی سلطان خان کی سگی پھوپھی ہے۔ وہ آپ کو کیسے بچائے گی؟‘‘ ’’اوئے مورکھ!‘‘ چودھری بولا ’’مائی کو بھلا واقع کی کہاں خبر ہے۔ اس وقت اس سے اچھی جگہ کوئی نہیں۔ یہاں کھڑے رہے تو لازماً پکڑے جائیں گے۔ مائی کے گھر پر ان لوگوں کو کبھی شک نہیں ہو سکتا۔ بھلا کبھی کسی نے دشمن کے گھر بھی پناہ لی ہے؟ جب تک مائی کو خبر ہو گی ہم کہیں کے کہیں نکل چکے ہوں گے۔ ویسے بھی مائی بڑی اللہ لوک ہے۔ وہ تو اللہ کے نام پر زندگی بھر کی کمائی لٹا بیٹھی ہے۔ گھڑی دو گھڑی کو مہمان بنانا کیا مشکل ہے۔‘‘ چودھری اس مشکل وقت میں بھی ٹھٹھا لگانے سے باز نہ رہا۔ اور یہ بات تو ماکھے نے بھی سن رکھی تھی بلکہ اس بات کا تو گاؤں کے بچے بچے کو علم تھا کہ کس طرح مائی تاجی کا سارا زیور، عمر بھر کی کمائی ’’سروپاسنار‘‘ اٹھا کر لے گیا اور مائی بے وقوف نے کس طرح اُسے اللہ کے نام پر معاف کر دیا۔
سننے میں آیا ہے کہ سلطان خان کی یہ پھوپھی جوانی میں بیوہ ہوئی اور بڑھاپے میں جوان بیٹے سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ بیوگی کے زمانے میں میکے، سسرال سے ملا سارا زیور ایک پوٹلی میں باندھ کر ’’سروپ چند‘‘ کے پاس لے گئی تاکہ وہ اسے پگھلا کر خالص سونا علحٰدہ کر کے اس کی ٹکڑیاں بنا دے۔ خیر سے میرا بیٹا جوان ہو گا، تو اس کے پاس ماں باپ کی کمائی ہو گی۔ زمینیں خریدے گا اور خوشحال جوانیاں مانے گا۔
اُدھر سروپے نے کام شروع کیا اُدھر ملک تقسیم ہونے لگا۔ اس اکھاڑ پچھاڑ اور لپاڈگی میں اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر قافلے آنے جانے لگے۔ اب اللہ جانے سروپے نے موقع دیکھ کر ’’مال‘‘ اُدھر منتقل کر دیا۔ یا واقعتا اُسے لوٹ کے ہاتھ لگ گئے۔ جب ملٹری کے ٹرک بچے کھچے ہندوؤں اور سکھوں کو اُٹھانے آئے تو کسی نے مائی کو ’’سروپے‘‘ کی روانگی کے متعلق بتایا۔ وہ روتی پیٹتی ٹرک کے پاس آ کھڑی ہوئی۔ لوگوں نے سروپے کو نیچے اُتار لیا۔ مائی نے روتے دھوتے اپنا سونا مانگا۔ سروپے کا سر جھکا ہوا تھا اور نگاہیں زمین میں تیر کی طرح گڑی ہوئی تھیں۔ گھڑی بھر بعد بولا تو اتنا : ’’میرے پاس اپنی جان کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ چاہو تو مجھے روک لو چاہو تو مجھے جانے دو۔‘‘ مائی نے ایک نظر اُسے دیکھا۔ دوسری ٹرک پر ڈالی جہاں سروپے کا بال بچہ اُچک اُچک کر باہر کو لپکتا تھا اور ملٹری کے جوان انھیں پکڑ پکڑ کر اندر دھکیلتے تھے۔
مائی کی آواز گلے میں گھٹ گئی اور آنکھیں پانیوں سے لبالب بھر گئیں۔ تو سروپا بولا : ’’تمھیں تمھارے اللہ اور رسول کا واسطہ مائی۔ مجھے معاف کر دے۔ آگے تیری مرضی۔‘‘ پھر دیکھنے والوں نے دیکھا اور سنانے والے سناتے ہیں۔ مائی نے دونوں ہاتھوں کی پشت سے آنکھیں رگڑ کر صاف کیں اور کڑک کر بولی: ’’جا میں نے تجھے اللہ کے نام پر معاف کیا۔‘‘ اس کے بعد اس نے بیٹے کو کس طرح پالا، کس طرح جوان کیا، پھر کس طرح اس کی جوانی لُٹتی دیکھی۔ سب کچھ تو سامنے تھا۔ پھر کیسے چودھری اُس پر اعتبار نہ کرتا اور کیسے ماکھا اس کے قدموں کے نشان نہ روندتا۔
مائی نے دروازہ کھولا اور بولی ’’بسم اللہ کروں اس وقت کون اللہ کے بندے آگئے۔‘‘ ’’مسافر ہیں مائی۔‘‘ چودھری کا چہرہ بدستور ڈھکا ہوا تھا اور اس کے پیچھے ماکھا کسی مقتدی کی طرح روپ سروپ میں اس جیسا بنا کھڑا تھا۔ ’’تھوڑی دیر سستانا ہے۔ اجازت دو تو گھڑی دو گھڑی ٹھہر کر چل پڑیں گے۔‘‘ ’’اجازت کیسی بیٹا۔ تمھارا اپنا گھر ہے۔ چلو چل کر آرام کرو۔‘‘ وہ انھیں اپنے پیچھے پیچھے لیے اندر آئی۔ ’’اس کمرے میں دو چارپائیاں ہیں۔ کوئی روٹی پانی چاہیے ہو تو بتاؤ۔‘‘ مائی کے جسم پر چھایا رعشہ اس کی آواز میں بھی لرز رہا تھا۔ ’’نہیں اماں۔ اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ دونوں کمرے میں آ کر چارپائیوں پر ڈھیر ہو گئے۔
ماکھے نے نگاہ اُٹھا کر دیکھا۔ صاف ستھرے کمرے میں معمولی سامان ساتھ کے کمرے سے نکلتی مدقوق روشنی کے سایوں میں اونگھ رہا تھا۔ دو کمروں کے درمیانی دروازے پر لٹکا پردہ ذرا سا لرزا۔ ماکھے نے سرگوشی نما آواز پر کان دھرنے چاہے۔ ’’اماں ! تم بھی کبھی کبھی عجیب ہو جاتی ہو۔ پتا نہیں کون ہیں۔ اتنی تو فائرنگ کی آوازیں آ رہی ہیں۔ کہیں کوئی ڈاکہ پڑ گیا ہو تو؟ کہیں یہ ڈاکو ہی نہ ہوں ؟‘‘ ’’جھلّی نہ ہو تو۔‘‘ ماکھے نے تصوراتی آنکھ سے دیکھا۔ مائی نے پوتی کو پیار سے گھُرکا ہو گا۔ ’’اللہ کے بندے ہیں بے چارے۔ اللہ کے نام پر ٹھہرایا ہے میں نے انھیں۔ ڈاکو ہیں تو ہمیں کیا؟ ہمارا تو رب راکھا ہے۔‘‘
جواب میں لڑکی جو کچھ بھی بڑبڑائی۔ آواز کی کمی اور فاصلے کی دوری کے باعث ماکھا سُن نہ سکا۔ چودھری چارپائی پر لیٹ کر سچ مچ اونگھنے لگا۔ جبکہ ماکھا کان، آنکھیں اور ہاتھ بن کر اُس کا پہرہ دینے لگا۔ رات کے آخری پہر جب فائرنگ مکمل رُک گئی اور شب کے نمناک سناٹے نے معمول کی چادر پہن لی تو چودھری نے نکلنے کی کی۔ ’’اب کدھر مالک؟‘‘ ماکھے نے جوتے پہنتے چودھری کو کچھ سوچتے پایا تو بولا۔ ’’یہ بھی تجھے بتا دوں گا۔ یہاں سے تو نکل۔‘‘ اور دونوں چپکے سے سٹک لیے۔ نہر کے ساتھ ساتھ چلتے دونوں پل کے قریب پہنچے۔ تو نہر کا پانی ابھی بھی شرر شرر گر رہا تھا۔ فضا پر مانوس سیاہ چادر تنی ہوئی تھی۔
کہیں کہیں اکّا دکّا جھینگر بول رہے تھے اور سفیدے کے لمبے لمبے پتے تالیاں بجا رہے تھے۔ پُل کے پار ’’بُڈھے پیر‘‘ کا مزار اندھیرے میں ہیبت ناک منظر پیش کر رہا تھا اور اس کے احاطے میں اُگے پرانے برگد کی رسیاں لٹکتی ٹہنیوں پر بیٹھا الو سحر کے قریب آ لگنے پر آنکھیں بند کیے سونے کی تیاریوں میں تھا جب چودھری رُکا اور اچھل کر پُل کی مینڈھ پر بیٹھ گیا۔ ’’ماکھے!‘‘ وہ پُرسوچ لہجے میں بولا۔ ’’گھر سے تو نکل ہی آئے ہیں اور گھٹنے گھٹنے پھنس بھی گئے ہیں۔ اب بچاؤ کا صرف ایک ہی راستہ بچا ہے اور وہ یہ کہ اپنے کیے سے مُکر جائیں۔
سلطان خان کے سوا کسی نے ہمیں پہچانا نہیں اور اگر تو اُس کا مُک مُکا ہو گیا تو کیا فکر بچتی ہے۔ اگر خدا نخواستہ زندہ رہا تو کہہ دیں گے اُسے غلطی لگ گئی ہے۔ بندہ بشر ہے۔ اندھیرے میں دھوکا کھا بیٹھا ہے۔ کیوں ماکھے؟‘‘ ’’ٹھیک کہتے ہو سرکار۔‘‘ ماکھے نے بھلا کب اُس کی بات موڑی تھی۔ ’’تو پھر چلیں ؟‘‘ وہ بولا۔ ’’پَو پھٹنے سے پہلے گھر پہنچ جائیں گے۔‘‘ ’’نہیں میں کچھ اور سوچ رہا ہوں۔‘‘ چودھری بولا۔ ’’ہاں تو میں کہہ رہا تھا ماکھے۔ گھر سے تو ہم نکل ہی آئے ہیں۔ اب خالی ہاتھ واپس جاتے کیا اچھے لگیں گے؟
ماکھے کو اندازہ ہو گیا۔ چودھری کا ذہن یقینا کسی نئے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ مگر وہ کیا چاہتا ہے یہ وہ نہ جانتا تھا۔ ’’دیکھ ماکھے!چودھری نے ٹوٹی تمھید کا نیا نویکلا سِرا اُٹھایا۔ ’’میں نے سُن رکھا ہے مائی اپنی پوتی کے بیاہ کی تیاریوں میں ہے۔ زیور کپڑا تو اس نے کچھ نہ کچھ ضرور بنا رکھا ہو گا۔ میں نے پردے کے پیچھے اُس کی پوتی کی جھلک دیکھی تھی۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے۔ جو بُندے اس نے اُس وقت پہنے ہوئے تھے کوئی ڈیڑھ تولے کے تو ضرور ہوں گے۔‘‘
ماکھا سمجھ گیا۔ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ وہ چودھری کے ساتھ ۱۵ سال سے تھا۔ ۱۵ سال سے وہ دن رات اس کا سایہ بنا ہوا تھا۔ وہ اس کے اَبرو کے اشارے پر حرکت کرتا تھا اور شکار لا کر اُس کے قدموں میں ڈھیر کر دیتا تھا۔ اس نے کبھی اس کے آگے چوں نہیں کی تھی اور لوگ کہتے تھے وہ روبوٹ ہے۔ جس کا بٹن چودھری کے ہاتھ میں ہے۔ اس نے نگاہ چودھری پر گاڑ دی۔ جو اپنے انوکھے خیال پر مسرور دکھائی دیتا تھا اور ایک مکارانہ مسکراہٹ اس کے سرخ و سپید چہرے پر لوٹ پوٹ ہو رہی تھی۔
پھر ماکھے نے خود پر نظر کی۔ اُس کا آبنوسی وجود اندھیرے کا حصہ معلوم ہوتا تھا اور گٹھا ہوا بدن کسی وحشی درندے کی طرح ویرانے میں ایستادہ تھا۔ یک بارگی اُس کے دماغ میں ایک خیال سر سرایا اور لمحے میں تصویر بدل گئی۔ اُسے لگا چودھری ایک آدم خور بھیڑیا ہے۔ جس کے بدن پر انسان کا چہرہ لگا ہوا ہے اور وہ اُس کا گُرگا ہے۔ محض شکاری کتا۔ اپنے مالک کی فقط ایک ششکار کا منتظر۔ خون ایک دم سے اُس کی رگوں میں اُبلنے لگا۔ اس نے اپنے ہاتھوں کو میکانکی انداز میں اُٹھتے پایا۔ ’’ماکھے!‘‘ چودھری پانی پر نگاہ جمائے بولا۔ اپنے خیال کا مزہ لیتے ہوئے اُس نے ماکھے کے چہرے کی جانب نہیں دیکھا۔ چودھری نے اُس کی نگاہوں کے بدلتے رنگوں کو نہیں دیکھا۔
شرر کی آواز کے ساتھ پانی کا ریلا نیچے گرا اور ماکھے نے دونوں ہاتھوں سے چودھری کی گردن دبوچ لی۔ وہ اس ناگہانی آفت پر لڑکھڑا کر مینڈھ سے نیچے لٹک گیا اور اس کے حیران دیدے باہر کو اُبلنے لگے۔ آواز گلے میں گھُٹ گئی اور وہ اپنے دفاع کے لیے ہوا میں ہاتھ پاؤں چلانے لگا۔ ’’ماکھے…ما…ما… کھے۔ یہ کیا؟‘‘ کوئی اس وقت ماکھے کو دیکھ لیتا، تو اُسے معلوم ہوتا کہ اس کی آنکھوں میں ابھرنے والے سورج کی ساری لالی سمٹ آئی ہے اور اس کے بھدے نقوش والے چہرے پر ایستادہ سر پر خون سوار ہو گیا ہے۔ قریب تھا کہ وہ پوری قوت سے اُسے اٹھا کر پانی کے پرہول پریشر میں دھکیل دیتا۔
نہر کی مینڈھ پر چودھری کی گھگھیائی ہوئی کٹی پھٹی آواز رونے لگی۔ ’’تجھے کیا ہو گیا ہے ماکھے… تجھے کیا ہو گیا ہے… مجھے مت مارو… تجھے اللہ رسول کا واسطہ مجھے مت مارو۔‘‘ اور ماکھے کے سخت ہوتے ہاتھ آپوں آپ ڈھیلے ہونے لگے۔ اس نے نگاہیں چودھری پر گاڑ دیں۔ چودھری سکتے کے عالم میں اُس کی جانب دیکھ رہا تھا۔ اس وقت وہ اس خوفزدہ کبوتر کی طرح تھا جسے بلی کو سر پر دیکھ کر آنکھیں بند کرنے کی مہلت بھی نہیں ملتی۔
ماکھے کا چہرہ ساکت تھا۔معمول کی طرح سپاٹ اور جامد۔ گویا وہ کوئی بے حس پتھر ہو۔ ہاتھوں کو آہستہ آہستہ ڈھیلا چھوڑتے ہوئے اُس نے چودھری کے سر کو پکڑا اور اُٹھا کر زور سے پیچھے دھکیل دیا۔ اس کی پگڑی کھل کر گلے کا ہار بن گئی اور وہ خوفزدہ ہو کر بالکل مینڈھ سے لگ گیا۔ ’’ہم جیسے شیطان انسانوں کے منہ سے اللہ کے واسطے اچھے نہیں لگتے مالک۔ پر آج مائی کے گھر سے نکلنے کے بعد مجھے لگا میرے اندر سے کوئی بول پڑے گا اور تیرے ناپاک ارادوں نے مجھے بُلوا چھوڑا ہے۔ جا میں
نے تجھے اس نام کی برکت پر چھوڑ دیا چودھری جو میرے اندر بھی آج ہی بولا ہے۔‘‘ ماکھے نے اتنا کہا اور با آواز بلند روتا ہوا سفیدے کے قطار اندر قطار درختوں کے جھنڈ میں گُم ہوتا جانے کدھر نکل گیا۔
٭٭٭
ادھوری کہانی
انسان بنانے والے نے تخیل کے پردے پر ایک اَن چھوا نقش ابھارا، اُسے خواہش کے سانچے میں ڈھال کر آرزو کے رنگ بھر دیئے۔
تیار شدہ مال چاہنے والے کے لیے کتنا ہی انمول کیوں نہ ہو، جب تک اس میں تخلیقی عمل کا خون پسینہ شامل نہ ہو، مزہ نہیں آتا۔ کبھی آپ نے ماں اور بچے کے تعلق پہ غور کیا ہے؟
اگرچہ ماں اسے تخلیق نہیں کرتی مگر محض تخلیقی عمل سے گزرنے پہ جو فخروانبساط اس کے رواں رواں سے پھوٹتا ہے وہی اسے دیگر ہم جنسوں میں ممتاز بنا کر اس کے قدموں تلے جنت تعمیر کرتا ہے۔
فرشتوں کو اللّٰہ نے اس نعمت سے محروم رکھا ہے۔ ’’کن فیکون‘‘ کے اس گورکھ دھندے میں عمل کی کسوٹی پہ آزمانے کے لیے خالق کو انسان جیسی مخلوق چاہیے تھی۔
اور وہ اس لوبھی دنیا کی ایک ادنیٰ اکائی تھیں۔
ساری زندگی کسی مزدور کی سی گزاری۔ حالات کی تپتی ردا اوڑھ کے زندگی کی سنگلاخ شاہراہ پر نکلیں تو پاؤں ننگے تھے۔ منزل تلک پہنچنے تک دل فگار اور بدن شکستہ ہو چکا تھا مگر جھولی اخلاص، محبت اور قربانی جیسے جواہر موتیوں سے مالا مال۔
حقیقت میں وہ دنیا کی امیر ترین عورت تھیں۔
چھوٹوں، بڑو ں میں یکساں مقبول!!
شکیل کو وہ محبت اور چاہت کا ایسا مرکز معلوم ہوتیں جس کے گرد گرویدہ دلوں کا جمگھٹا سا لگا رہتا ہو۔
یہ ساٹھ یا ستر کی دہائی کی بات ہے۔ ملک میں عورتوں کی غالب اکثریت دفتروں کے بجائے اپنے گھروں میں نوکریاں کرتی تھی جہاں معدودے چند کے سوا باقی کو ہٹلر قسم کی ساسوں سے واسطہ رہتا تھا جو اندرونی اور بیرونی ہر دو میدانوں میں اپنے تئیں خود کو اہل تر پاتی تھیں۔ بڑی روشن اور نتھری صبح تھی جب ساس اماں نے جمال پور روانگی کا اعلان کیا۔
دونوں بہوؤں کے لیے یہ غیر متوقع خبر نہ تھی۔ مہینے آدھ کے بعد اپنے میکے کا چکر لگانا ان کا معمول تھا۔ البتہ جب سے چھوٹی بہو کو بیاہ کر لائی تھیں، یہ وقفہ لمبا ہونے لگا تھا۔ وجہ بہو سے محبتانہ لگاؤ نہیں بلکہ بہت حد تک اس کے پیچھے نگرانی کا مقصد کارفرما تھا۔
شروع دنوں سے اس کا اٹھلا پن انھیں کھٹک رہا تھا۔
بڑی جتنی اجلی، متین اور سبھاؤ والی تھی، چھوٹی اتنی ہی اتاؤلی اور بڑبولی تھی۔
ادھر میکے سے عجیب و غریب خبروں کا تانتا بندھا آ رہا تھا۔ خاندان میں قتل ہوا۔ مقتول چچا کا بیٹا تھا اور قاتل سگے ماموں کی اولاد۔
جانا ضروری ٹھہرا تو بڑی بہو صالحہ خاتون کو لمبا چوڑا ہدایت نامہ تھما کر نکل پڑیں۔
بنیادی طور پر وہ کوئی ظالم ساس نہ تھیں نہ اُن کا روّیہ کسی انتہائی قسم کی سنگدلی یا زیادتی پر مبنی تھا۔ مگر عرصہ تلک ہندو سماج کے بیچ رہتے بستے وہ بہوؤں پہ حکمرانی کو اپنا حق سمجھ کر استعمال کرتی تھیں۔
حالانکہ وہ اپنے وقت کی بڑی وضعدار خاتون تھیں۔
اس زمانے کی وضع داریاں بھی عجیب تھیں۔ سناکرتے ہیں کہ ان کے والد بزرگوار جن کا شمار علاقے کے چھوٹے موٹے چوہدریوں میں ہوتا تھا، اگلے چار پانچ دیہہ تک میں وہ واحد شخص تھے جنھیں گلستانِ سعدی حکایات و اشعار سمیت ازبر تھی۔
گرمیوں میں شام ڈھلے جب تھکے ہارے کسانوں کو حقے کی نَے یہ علمی خزانے لوٹنے کا موقع ملتا تو رات گئے تک الاؤ روشن رہتے۔ سعدی سے رومی اور رومی سے سعدی تک فکری گھمن گھیریوں میں رات بھیگنے لگتی اور جب نذر محمد جمائیاں روکتے روکتے بے حال ہو جاتا اور جب پگڈنڈیوں پر آوارہ کتے ایک دوسرے کے مقابلے میں بھونک بھونک کر چپ ہو جاتے، چوہدری صاحب کو محفل سمیٹنے کا خیال آتا۔ وہ نذر محمد کو اٹھنے کا اشارہ کرتے۔ کسی فرمانبردار مؤکل کی طرح وہ باپ کے پیچھے پیچھے چلنے کا عادی ہو گیا تھا۔ اس کی فرمانبرداری کا اعتراف وہ خود کیا کرتے۔
قابلیت کا یہ عالم تھا کہ وکالت کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرنے پہ انگلستان کا وظیفہ آرام سے لگ گیا تھا اور فرمانبرداری کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ والد صاحب نے بڑی سہولت سے وظیفے کے کاغذات یہ کہہ کر چولھے میں رکھ دیئے:
’’کافروں کے ملک میں کرسٹانوں کے سے اطوار اختیار کر کے میرے سر میں دھول ڈالو گے۔‘‘ تومنہ سے بھاپ تک نہ نکالی۔ حالانکہ یہ معنوی راکھ حقیقی صورت میں ان کے اپنے سر میں ڈالی جا چکی تھی۔
یہ بھی بڑا دلچسپ قصہ ہے۔
نذر محمد جب بھرپور نوجوان تھے۔ ایک روز ننگے سر خانۂ خدا میں داخل ہونے کا اتفاق ہوا۔ صافہ غالباً گھر بھول آئے تھے۔ گلی سے بچے کو لینے دوڑایا اور خود اندر صفوں پہ بیٹھ کر انتظار کرنے لگے۔
بچہ تو واپس نہ آیا، البتہ چوہدری صاحب نماز سے کچھ دیر پہلے مسجد پہنچے تو بیٹے کو ننگے سر دیکھ کر بدکے مگر بولے کچھ نہیں۔ نماز مکمل ہوئی تو اسی بچے کو جو صافہ لے کر آیا تھا، ساتھ کے گھر سے تسلہ بھر راکھ لانے کو کہا اور پھر سب نمازیوں کے سامنے تسلہ بیٹے کے عین سر پر الٹ دیا کہ ننگے سر یہاں بیٹھنے سے بہتر تھا کہ تم سر پہ خاک ڈال لیتے۔
بیٹے پہ کیا گزری اور لوگ کس کس طرح ہنسے ہوں گے۔ یہ ایک الگ قصہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ سب پڑھ کر آپ بھی ہنس دیئے ہوں۔
لیکن بہرحال اس زمانے کی وضع داریاں ایسی ہی ہوتی تھیں اور ’’ساس اماں ‘‘ ان کی وہ اولاد تھیں جنھوں نے روایات اور پرانی قدروں کو میکے سے ملے بڑھیا جہیز کی طرح سینے سے لگا کر رکھا تھا جس کی دیکھ ریکھ اور تام جھام سے وہ کبھی غافل نہ رہیں۔
تو بات ہو رہی تھی اس روز کی۔
صبح سویرے جب وہ گھر سے نکل گئیں اور گھر گرہستی کی ذمہ داری مکمل طور پر بڑی بہو کے کندھے پر آگئی تو چھوٹی بہو کا دل کچھ نیا کرنے کو ’’پھڑکنے‘‘ لگا۔ بڑی بہو صالحہ خاتون کی مرنجان مرنج شخصیت سے اسے کوئی آڑ لینے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی تھی۔ ویسے بھی ان دنوں اسے سب ‘‘نیا نیا‘‘ سوجتا تھا۔ کئی روز سے دیسی گھی میں تربتر پراٹھا کھانے کو جی چاہ رہا تھا۔ لیکن ساس سے حجاب مانع تھا۔ سب کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھتیں اور وہی کھا کر اٹھتیں جو سب کھاتے۔
دوجے جی نے کچھ کھٹا کھانا چاہا تومیاں رات کے اندھیرے میں چھپا کر لے آئے۔ مگر چھپ چھپا کر کھانے میں وہ مزا کہاں۔ اب ساس اماں گھر سے نکلیں اور یہ نعمت خانے میں آ موجود ہوئیں۔ خوب جم کر پراٹھا بنایا۔ ابھی توے سے اتار رہی تھیں کہ حمیدہ بیگم (ساس اماں ) جتنی جلدی میں گئی تھیں، اتنی تیزی سے گھر میں داخل ہوئیں۔ وہ کتنا راستہ طے کر کے واپس لوٹی تھیں اور گھر میں کیا رکھ کر بھول گئی تھیں، جو انھیں واپس لے آیا۔
چھوٹی کو اس بات پہ غور کرنے کا موقع نہ ملا۔ ساس کی آواز سن کر یوں بدحواس ہوئی کہ چمٹا ہاتھ سے چھوٹ کر پاؤں پہ آن رہا۔ وہ سی کر کے رہ گئی۔ دیسی گھی کی خوشبو سارے گھر میں سرسرارہی تھی۔ حمیدہ بیگم تیر کی طرح نعمت خانے پہنچیں۔
’’بڑے نام اور چھوٹے درشن۔‘‘ انھوں نے بہو کے اونچی ناک والے میکے پہ طنز کا تیر دے مارا۔
جواباً بولنے کا زمانہ نہ تھا۔ لہٰذا بہو منہ ہی منہ میں کچھ بدبدا کر رہ گئی۔بڑی بہو جسے سلطنت کی عارضی راجدھانی سونپ کر گئی تھیں، دروازے پہ کھڑی حیرانیاں سمیٹ رہی تھی۔
ساس نے مڑ کر کڑی نظروں سے انھیں دیکھا۔ وہ ندامت کے پانی میں مصری کی ڈلی کی طرح گھلنے لگیں۔ اس وقت ان کی حیثیت ایسے معزول گورنر کی سی تھی جسے حاکم نے غداری کا الزام لگا کر ملک بدری کا حکم سنا دیا ہو۔
اس دن سے ساس اماں نے یہ طے کر لیا کہ چھوٹی اتاؤلی ہونے کے ساتھ ساتھ ندیدی اور تھڑدلی بھی ہے اور بڑی اپنی ہزار اچھائیوں کے باوجود ان کا راج پاٹ سنبھالنے کے لائق نہیں۔ تب سے انھوں نے اپنے اور بہو کے بیچ ایک بے نام اجنبیت کی ایسی دیوار کھڑی کر لی جس کی نیو بے معنی ضد اور انجانی نفرتوں سے اٹھائی گئی تھی۔ لطف کی بات یہ کہ دونوں کے درمیان جس تیزی سے فاصلے بڑھے، اس سے کئی گنا تیزی سے صالحہ خاتون کی مقبولیت کا سطح لوگوں میں اونچی ہونے لگی۔
صبح منہ اندھیرے مہترانی دروازے پہ آواز لگاتی۔
’’گھر بچوں کی خیر، اس کے صدقے کل عالم کی خیر۔‘‘ جتنی دیر میں وہ کوڑا کرکٹ سمیٹتی، ساس اماں رات کا بچا سالن روٹیوں میں رکھ کے باندھ دیتیں جسے مہترانی کی جھولی میں ڈالتے ہوئے صالحہ خاتون کے نچلے ہاتھ سے کوئی نہ کوئی موسمی پھل، کبھی تازہ پراٹھے خودبخود پوٹلی کے ساتھ سرک جاتے۔سردیوں کے شروع میں رحمتے میراثن چلی آتی۔ ساس اماں دھڑادھڑ رضائیوں کے ٹانکے ادھیڑ دیتیں۔روئی نئے سرے سے دھنوائی جاتی۔ لحاف، رضائیاں نگندنے کا کام آنگن کی کھلی دھوپ میں کئی دنوں تک جاری رہتا۔
مٹھی بھر پیسوں اور گندم، چاول کی گٹھڑی سر پر رکھے، میراثن جاتے ہوئے صالحہ بیگم کے کمرے کے دروازے پہ ضرور حاضری دیتی۔ سیما کی قمیص پار سال پھٹ گئی تھی، سی سی کر کام چلاتی رہی۔ اس سال ’’اوپرا‘‘ جاڑا آیا ہے، دلائیوں میں دانت بجتے ہیں بی بی اور وہ مصنوعی طور پر دانت بجانے لگتی۔
صالحہ بیگم ’’بہشتی زیور‘‘ میں گھریلو طبی ٹوٹکے والے باب کا صفحہ موڑ کر سرھانے رکھتیں اور صندوق میں سے نئی نکور کوٹی اور شال نکالتیں۔ کبھی کھونٹی سے گرم سوٹ کھینچ کر اتارتیں اور بے نیازی سے کتاب اٹھا کر دوبارہ بیٹھ جاتیں۔
میراثن جھٹ پٹ سویٹر، شال بغل میں داب، سوٹ الٹا سیدھا لپیٹ قمیص کے نیچے لاچے کی ڈب میں اُڑس کر یوں کمرے سے نکلتی جیسے برسات کے سخت حبس میں سانپ اپنے بل سے تڑپ کر نکلتا ہے۔ حکیم بیگم سے تعلقات کی نوعیت سب سے جدا تھی۔ دیوار سے دیوار ملی تھی اور چھتوں سے چھت۔ جب وہ نئی نئی بیاہ کر آئیں تو انھوں نے علی الاعلان انھیں اپنی تیسری بیٹی کا درجہ دیا تھا۔ کسی زمانے میں ان کا صالحہ خاتون کی والدہ سے خوب گاڑھا بہناپا رہا تھا جس کی وقعت والدہ صالحہ کی وفات کے بعد کم ہوتے ہوتے نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ اب نئے سرے سے اس کی تجدید کا موقعہ آیا۔ تو ’’صالحہ خاتون‘‘ نے اسے نبھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ روزانہ بلا ناغہ وہ خالہ کی خیریت دریافت کرنے ہمسایہ میں ضرور جاتیں۔ یہ ایک ایسا معمول تھا جس کی راہ میں آندھی، طوفان، بارش، دھوپ کی گرمی حتیٰ کہ ساس کا کڑا روّیہ بھی رکاوٹ نہ بن سکا۔
خالہ کی آئے روز کی بیماریاں، ان کی بہو کی جملہ زچگیاں، بیٹیوں کے رشتوں کے موقع پر مہمانوں کی آمد سے لے کر جہیز کی تیاری اور شادی کے ہنگاموں تک کے سارے مرحلے انھی کی نگرانی اور ذاتی دلچسپی سے طے پاتے رہے۔
تعلقات میں پہلے سے بھی بڑھ کر گرمجوشی تب آئی جب خالہ کا اکلوتا چشم و چراغ ایک حادثے میں زمین کا رزق بن گیا۔ اب ’’صالحہ خاتون‘‘ نے چپکے سے ایک اور ذمہ داری اپنے سر لے لی۔مہینے میں ایک آدھ مرتبہ ’’میاں جی‘‘ گھر کا چکر لگاتے تو چند روپلی فرض کی طرح ہاتھوں میں ضرور تھما جاتے۔ ’’صالحہ خاتون‘‘ ممنون ہوتی نظروں کی پروا کیے بغیر وہ نقدی خالہ کی مٹھی میں دبا دیتیں۔ اپنے حصے کے پھل، میوے، کبھی برتن بھر اناج، کبھی گرمی سردی کے ملبوسات دیوار سے اس طرف منتقل ہوتے رہے۔
شدید جاڑے کے دن تھے۔ دھند کے بادل قطرہ قطرہ ٹپک کر در و دیوار پر منجمد ہوئے جاتے تھے۔ کائنات پہ نیم تاریکی کی ملگجی سی چادر تنی ہوئی تھی۔ جب خالہ کے پوتے نے صالحہ بیگم کو میاں جی کی آمد کا سندیسہ سنایا۔ وہ اس وقت موسم کی شدت کی پروا کیے بغیر خالہ کے برآمدے میں بیٹھی مشین پر گھرر گھرر خالہ کے بڑے پوتے کی شلوار سی رہی تھیں جسے ماسٹر صاحب نے یہ کہہ کر سکول سے نکال دیا تھا کہ کل بھی بغیر وردی سکول آئے تو بیٹھنے نہیں دوں گا۔
اب صورت حال یہ تھی کہ نہ تو گھر میں کوئی سفید کپڑا میسر تھا اور نہ ہی جیب میں اتنی نقدی کہ کم از کم کوئی سستا سا سفید کپڑا شلوار کے لیے خرید لیا جائے۔ اس کا بڑا آسان سا حل ’’صالحہ خاتون‘‘ نے یہ نکالا کہ اپنا ’’شٹل کاک‘‘ سفید برقعہ جو عرصے سے متروک الاستعمال پڑا تھا، کتر بیونت کر سینے بیٹھ گئیں۔ میاں کی آمد کی اطلاع پا کر ہڑبڑا کر اٹھیں۔ آج پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ وہ اُن کی آمد پر گھر سے باہر تھیں۔ چند قدم کا فاصلہ طے کر کے گھر پہنچیں تو میاں اماں کے کمرے میں بیٹھے تھے۔ ان کے سلام کے جواب میں منہ پھلا لیا۔
’’کیسے ہیں ؟‘‘
’’اچھا ہوں۔‘‘ منہ بدستور پھولا ہوا تھا۔
’’کھانا کھائیے گا؟‘‘ انھوں نے پوچھا۔
’’کھا چکا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کے منہ پھیر اماں کے گھٹنے سے لگ گئے۔
’’ہیں …؟تو گویا بہت دیر سے آئے بیٹھے ہیں۔‘‘ مجھے بلوا لیا ہوتا۔‘‘
’’بی بی! ساس اماں چہک کر بولیں ’’تمھیں گھر، میاں کی اتنی فکر ہے تو گھر پر ٹک کے رہو۔ یہ تیرے میرے دروازے پر نہ جھانکتی پھرو۔‘‘
’’چھوڑو اماں ! اسے اپنی من مانی کرنیاں کرنے دو۔ اب ہم بھی وہی کریں گے جس پہ ہمارا دل چاہے گا۔‘‘
اور اماں نے بھی رخ پھیر لیا۔ وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے باہر نکل آئیں۔ چھوٹی اپنے منے کو اٹھائے سامنے سے چلی آرہی تھی۔
’’آج اندر کیا کھچڑی پک رہی ہے؟ کچھ سن گن ملی؟‘‘ اس نے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
’’معلوم نہیں اور مجھے کوئی تجسس بھی نہیں۔‘‘ وہ نعمت خانے کی طرف بڑھنے لگیں۔
’’اتنی بے خبر نہ رہا کریں آپا، کہیں کوئی نقصان نہ اٹھا لیجیے گا۔‘‘
اور اس سے بڑا نقصان کیا ہوتا کہ اگلی مرتبہ کے پھیرے میں ’’میاں جی‘‘ آئے تو ’’مرمروں کا تھیلا‘‘ سی صغریٰ خاتون ان کے ہمراہ تھیں۔ اماں صدقے واری ہونے لگیں۔
مرد کو گھر کا سکون نہ ملے۔ تو اسے ایسا قدم اٹھانا پڑتا ہے۔ حکیم بیگم جو اطلاع ملنے پہ بھاگی بھاگی آئی تھیں، یہ سن کر حیرت کی زیادتی سے گُنگ ہو گئیں۔ صالحہ خاتون جوں کمرے میں گھسیں لوٹ کر باہر نہیں نکلیں۔ سوچ سوچ کر دماغ ماؤف ہوا جا رہا تھا، قصور کہاں نکلتا ہے؟ غلطی کہاں سے شروع ہوئی۔ کوئی سرا ہاتھ نہ آتا تھا۔ صدمے کی ایسی کیفیت تھی کہ ذہن کام کرنا چھوڑ گیا تھا۔ اماں کی زیادتیوں، دل آزار رویوں پہ انھوں نے مدت پہلے مٹی ڈال دی تھی، وہ ان سے کسی بھی قسم کے گلے کی خوگر نہ تھیں، دل تو میاں کے روّیے پہ ٹوٹا تھا۔
جملہ خدمت گزاریوں، وفا شعاریوں کو یک لخت بھول کر اتنا بڑا قدم اٹھا لینا آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ گزری سات آٹھ سال پہ محیط رفاقت بھری زندگی پہ بار بار نظر ڈالتی تھیں اور آنسو پونچھتی جاتی تھیں۔ کہیں پہ کوئی قابل گرفت بات ہاتھ نہ لگتی تھی سوائے اس کے کہ وہ انھیں وارث کے نام پہ کوئی اولاد دینے کی متحمل نہ ہو پائی تھیں، جس کے متعلق وہ ہمیشہ بڑے وثوق سے کہا کرتے۔
’’اولاد مرد کا نصیب ہوا کرتی ہے۔ عورت کے نصیب سے رزق ملتا ہے اور وہ الحمد للّٰہ بہت ہے‘‘۔
پھر اب کیا ان کی رائے بدل گئی تھی یا اماں کا کوئی پرانا داؤ چل گیا تھا۔
اماں حقیقت میں بڑی خوش خوش پھرا کرتیں۔ آئے گئے کے سامنے بڑے چاؤ سے نئی دلہن کی رونمائی ہوتی۔ اس کے ظاہری (جس میں بے تحاشا گوری رنگت کے سوا اور کچھ قابل ذکر نہ تھا) اور باطنی محاسن پہ سیر حاصل روشنی ڈالے جانے کے بعد نتیجہ یہ قرار پاتا کہ’’میاں صاحب‘‘ بے حد خوش قسمت واقع ہوئے ہیں جو اس نعمت غیر مترقبہ کو پا کر دنیا میں جنت کے مزے لوٹ رہے ہیں اور چڑھتے سورج کی پجاری دنیا تائید میں سر ہلاتی تو دیر تک ہلتا ہی رہتا۔
اٹھانے کو تو ’’میاں جی‘‘ نے بھی اتنا بڑا قدم اٹھا تو لیا تھا مگر اب بیگم کا سامنا کرنے کا یارا نہ تھا۔ منہ اندھیرے گھر سے نکلتے اور اپنے ڈھیروں نادیدہ کاموں سے فارغ ہو کر شام ڈھلے لوٹتے۔
ہر آنے والے دن کے ساتھ صالحہ بیگم سمجھوتا کرتی گئیں۔ جسے پیا چاہے وہی سہاگن۔ انھوں نے سارے آنسو ایک ہی مرتبہ اپنی اوڑھنی میں بہا کر پونچھ ڈالے اور جس روز ’میاں جی‘‘ نئی بیگم کو ہمراہ لے کر واپس نوکری پہ سدھارے، تب سے کسی نے صالحہ خاتون کو پھر روتے نہیں دیکھا۔ کسی مفتوحہ فوج کی طرح انھوں نے ساس اماں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور روزمرّہ کے کاموں میں یوں جت گئیں گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
’’میاں جی‘‘ پھر لوٹ کر نہیں آئے۔ شاید احساس جرم کا کوئی آدھا ادھورا کانٹا ان کے ضمیر میں اٹکا رہ گیا تھا جس کی پھانس انھیں کبھی کبھار چبھتی تھی۔
انھوں نے شہر میں اپنا ذاتی گھر خرید لیا اور وہیں کے ہو رہے۔ نئی بیگم البتہ چھ مہینے سال کے بعد بچوں کے ہمراہ چکر لگاتیں۔ ’’صالحہ خاتون‘‘ کھلے بازوؤں ان کا سواگت کرتیں، پتیلے بھر بھر پکاتیں، بچے سیر ہو ہو کھاتے اور دلوں میں پرانی امی کی محبتیں برسات کی خودرو گھاس کی طرح اگنے لگتیں۔ بڑا لڑکا شکیل جو ہو بہو باپ کی تصویر تھا، دادی کی گود سے زبردستی اتر کر ان کی طرف لپکتا، جدھر جدھر وہ جاتیں، چادر کا کونا ہاتھ میں لیے پیچھے پیچھے چلتا رہتا۔
’’سودائی ہو گیا ہے تو؟‘‘ دادی اسے کھینچ کھینچ کر گود میں بھرنے کی کوشش کرتیں۔ وہ دیوار پر چڑھتے کیکڑے کی طرح نیچے پھسلتا۔ پھر دادی پوتے میں دیر تک بے نتیجہ جدوجہد ہوتی رہتی۔
نئی امی آلکسی سے پلنگ پر پڑی نظارہ کیے جاتی۔ ’’بہت تھک جاتی ہوں۔ گھر بھر کا ڈنڈوت اٹھائے رکھنا آسان نہیں۔ کیا ہے جو آپا ہمارے ساتھ چلی جائیں۔‘‘ وہ دبی زبان میں ساس کے کان میں پھونکتی،
اماں ہڑبڑا کر ادھر ادھر دیکھتیں ’’ایسا ممکن نہیں صغریٰ۔ یہاں بھی تو گھر بار ہے۔‘‘
’’تو آپ کی چھوٹی بہو کس مرض کی دوا ہے۔‘‘ نئی دلہن چمک کر کہتیں۔
’’اس کا مرض لاعلاج ہے۔ آیندہ ایسی خواہش نہ کرنا۔‘‘ انہی دنوں بڑے میاں بیمار پڑگئے اور مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
چھوٹی پھر امید سے تھی۔ اس نے میاں سمیت گھر گرہستی علٰحٰدہ کر لی۔
اماں نے اعتراض کیا تو بیٹے نے گویا تختے پہ آخری کیل ٹھونک دی۔
’’آخر بھائی جان بھی تو کبھی کے علحٰدہ رہ رہے ہیں۔‘‘
اماں میں اب وہ پہلا سا دم خم باقی نہ رہا تھا۔ بیمار شوہر سمیت دونوں صالحہ خاتون کے رحم و کرم پہ آن رہے جنھوں نے انھیں یوں اپنے دامن میں سمیٹ لیا جیسے روتے بچے کے لوٹ آنے پہ ماں اسے گود میں بھر لیتی ہے۔
وقت کب رکا ہے۔ امتدادِ زمانہ نے اگر صالحہ خاتون کے بالوں میں چاندی بھر دی تو ساس سسر بھی بوسیدہ سے بوسیدہ تر ہوتے چلے گئے۔ دونوں کا دل پسند مشغلہ دھوپ میں لیٹ کے بلغم تھوکنا اور بچھڑی اولاد کی یاد میں جی بھر کے آہیں بھرنا تھا۔
سُسر دمے کا مستقل مریض، چارپائی پہ پڑا استخوانی ڈھانچہ معلوم ہوتا تھا۔ ساس اٹھ کر بیٹھ جاتیں مگر سہارے کے بغیر چلنے پھرنے سے معذور تھیں۔ پرانا طنطنہ کب کا رخصت ہو چکا تھا۔ اس کی جگہ احساسِ ندامت نے لے لی تھی جو صالحہ بیگم کو پھرکی کی طرح اپنے اردگرد گھومتے، اپنا گھر موت سمیٹتے دیکھ کر روز بروز بڑھتا جا رہا تھا۔ ’’صالحہ خاتون‘‘ اس طرح بے نیاز رہتیں جیسے سب کچھ ایسا ہی ہونا مطلوب تھا۔
دونوں بڈھے اُن کا وہ نیوکلیس تھے جس کے اردگرد ان کی گردش دن رات کا حساب رکھے بغیر جاری و ساری رہتی تھی۔ جس روز بڑے میاں کی اوپر کی سانس نے نیچے جانے سے انکار کر دیا وہ پھپھک پھپھک کر روئیں۔
فاتحہ پہ منہ موڑے رنگ برنگے موضوعات چھیڑتی عورتوں نے اندر باہر جاتی صالحہ خاتون کو بارہا گفتگو کا موضوع بنایا۔ ’’کیسی خدمت کی دیوی ہے۔ اس عالم میں تو اپنی اولاد بھی منہ موڑ لیتی ہے۔ کسی دل موہ لینے والی مٹی سے خمیر اٹھا ہے۔ سب قسمت کے کھیل ہیں بی بی۔ روپ کی روئے کرم کی کھائے‘‘۔ حکیم بیگم نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔
اُدھر گول کمرے میں دادا کے پوتے پوتیوں کا موضوعِ سخن بھی یہی ٹھہرا۔ صبا، چھوٹی بہو کی چلبلی صاحبزادی یونیورسٹی میں نئی نئی داخل ہوئی تھی۔
٭٭٭
بھانبھڑ
جب مُشکی گھوڑی نے ڈھوک نواں لوک کے آرپار بہتے راج بہا کے تنگ موگے کو پار کرنے کے لیے اپنے آبنوسی وجود کو تولا۔ تو دونوں وقت مِل رہے تھے اور کچے نیم پکّے گھروں سے نکلتا دھواں جھٹپٹے میں مد غم ہو گیا تھا۔
گھوڑی نے کنوتیاں دبائیں اور اگلے سموں کو اوپر اٹھا کر فضا میں تیری۔ ایک ہی چھلانگ میں موگا عبور کرتی ’’وڈے لوک‘‘ کی سیدھی سطیر سڑک پہ گرد اُڑانے لگی۔ آبادی سے باہر جوہڑ کے کنارے گھوڑ سوار نے ایک ثانیے کے لیے پٹی چھوڑی۔
پھر جھٹکے سے باگ کھینچی اور رکاب میں پاؤں دھرے دھرے بائیں ہاتھ سے نیزے کی نوکیلی انی کائی زدہ اتھلے پانیوں کے بھر بھرے کنارے میں گاڑ کر حلق پھاڑ کے بولا:
’’اکالی جتھے کالی آندھی کی طرح چڑھے آرہے ہیں۔ اپنا سامان کرلو۔ ‘‘
جوہڑ سے اپنی پنج کلیانی بھینس کو باہر ہانکتے کرم دین نے چونکیل جانور کی طرح ٹھٹھک کر اِدھر ُادھر دیکھا۔
’’بنسو‘‘کے چوکے پہ کسی شریر بچے نے مردہ پرندے کی ہڈی پھینک دی تھی۔وہ جوہڑ کنارے چلتی پھرتی گایوں کے پیچھے پیچھے زمین سے اُن کا گوبر سمیٹتی پھر رہی تھی۔جب ’’دھرم شالہ‘‘ کے مہا پنڈت نے گھوڑ سوار کی بات سن کر پانی سے بھری گڑوی اور دودھ کا تاملوٹ جوہڑ کے داہنی جانب اشنان گھاٹ کے پتھروں پہ رکھ دیا۔
اور بولا:
’’رام۔رام۔ سنو گھر بھاگ جا۔ چولہا چکلا پوتنے کی فکر چھوڑ۔ سرداروں کی منڈلی میں ’’لپاڈگی‘‘ ہونے کو ہے جب یہ بات فاطمہ اورمحسن کے کانوں میں پڑی۔ تو وہ خوفزدہ ہوکر بڑی گلی میں لٹو کی طرح گھومنے لگے۔
فاطمہ بس اتنی سیانی تھی کہ اُسے گھر کا راستہ آتا تھا اور وہ بہن بھائیوں کو پکڑ کر اندر باہر لاسکتی تھی۔ محمد حسین اتنا چھوٹا، کہ پاؤں پاؤں چلتا تھا اور عام رواج کے مطابق اس کی ماں لمبی قمیض کے نیچے ابھی اسے کچھا نہ پہناتی تھی۔
آناً فاناً پوری گلی آوازوں کے شور سے بھر گئی۔
سِکھ آ گئے۔ سِکھ آ گئے۔
گھوڑی والے نے چند قدم آگے جا کے باگ دوبارہ کھینچی۔
اور پیچھے منہ کر کے بولا:
ڈنگہ شہر سارا جلا دیا گیا۔چیلیا نوالہ سے دھواں اُٹھ رہا ہے۔
بیچ کے سارے گاؤں کٹ گئے ہیں۔ اُدھر بیلہ لاشوں سے اٹا پڑا ہے۔
جس کے ہاتھ میں جو آیا۔ لاٹھی، ڈنڈا، بلم، کرپان، کلہاڑا اٹھا کر میاں جی کے گھر کی طرف دوڑے۔ فاطمہ اور محمد حسین پھوپھی جی کو میراثیوں کے گھر چار پائی تلے چھپے ملے۔ وہ انھیں بغل میں داب گھر پہنچیں۔ تو صحن عورتوں اور مردوں سے اٹا اٹ تھا۔
اُدھر ’’دھرم شالہ‘‘ میں غیر مسلموں کا خفیہ اجلاس بلایا گیا۔ گھنٹہ آدھ اندر جانے کیا کُھدبُد ہوتی رہی۔ بالآخر دروازہ کھلا اور سب سے پہلے پنڈت بھجن لعل باہر نکلے۔کھچڑی بالوں والی چتکبری چٹیا ان کی پشت پر مرے سانپ کی طرح ڈھیلی پڑی تھی۔ پیچھے چلتے ’’پریتما‘‘ کے بوسیدہ گالوں پر آنسوؤں کا تار سا ٹوٹ رہا تھا۔ پریتما کے پیچھے’’ جَکت رام‘‘اُس کے پیچھے ’’لبھو‘‘ پھر ’’ہری سنگھ‘‘ اور اس کے پیچھے ہندو، سکِھ جاتی کے مردوں عورتوں کا ٹھٹ جلوس کی شکل میں چلتا مرکزی جامع مسجد کے سامنے آ کے کھڑا ہو گیا۔
پنڈت بھجن لعل نے مسجد کی دہلیز پہ ایک پاؤں اندر اور دوسرا باہر رکھا اور نعرہ مار کے بولا:
مولوی صاحب۔ کلمہ پڑھائیے۔ ہم پاک ہونے آئے ہیں۔
’’بنسو‘‘ کے ہاتھ ابھی تک گوبر سے سَنے ہوئے تھے۔ وہ موت کے گلیارے میں بھی چوکا پوت کے پاک کر آتی تھی۔
پھر عشاء کی نماز پہ بھرے صحن کی مسجد میں مولوی صاحب نے کلمہ پڑھایا اور سب سے پہلے کلمہ پنڈت جی نے پڑھا۔ پھر سب سے عمر رسیدہ جُگت رام نے پڑھا۔پھر ملگجی آنکھوں اور کالے کیسوں والے کرتار سنگھ نے پڑھا۔ پھر سُکھے نے پھر پرنیم نے زیر لب کلمہ دُہرایا۔ اس کے بعد جب سجن سنگھ کی باری آئی اور مولوی صاحب بولے۔ کہو۔’’میں گواہی دیتا ہوں۔ کہ اللہ کے سِوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘ تو سجن نے تن کر پھر یری لی۔
اور اپنے تھن متھے ہاتھوں سے مسجد کے دروازے کو پکڑ کر لمحہ بھر کے لیے چپ کھڑا رہا۔ پھر اپنے خشک لبوں پہ زبان پھیرنے لگا۔ نمازیوں میں وزیر علی سجنے کا سنگی تھا۔ گرمیوں کی شاموں میں اُس کے ساتھ گتکا کھیلتا اور سردیوں میں شیر گرم پہ شرطیں بدتا۔اس نے اپنے ساتھی نمازی کے کندھے پہ ہاتھ مارا اور ٹھٹھا لگا کے بولا۔ سجن کا کلمہ پڑھنا ایسا ہی ہے۔ جیسے عربی فارسی میں بھاشا کا ٹانکا۔
سجن سنگھ نے منہ میں جمع کڑوا پانی باہر تھوکنے کی بجائے ایک گھونٹ میں اندر اتارا اور اپنی گیرورنگی پگڑی سے چہرہ پونچھ کے کڑک کے بولا: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘
مولوی صاحب نے باقی لوگوں کی طرح انھیں بھی میاں جی کے گھر کی طرف دھکیل دیا۔ اس رات کوئی نہ سویا۔ مرد لمبی لمبی چھڑیوں پہ جلتی شمعیں لے کر گلیوں میں پہرہ دیتے رہے اور عورتیں اینٹیں، روڑے جمع کر کے چھت پہ بیٹھی بنسو، تارو اور ’’کلونت کور‘‘ جیسی نو مسلمات کو نماز، روزے کے مسائل بتاتی رہیں۔
یہ رات آنکھوں میں کٹی اور اکالی جتھہ شاید راستہ بھول بیٹھا کہ ممکنہ خون ریزی رک گئی۔ لوگ بکھر نکھر کے اپنے اپنے گھروں کو چلے تو شیدے ماچھی، موجو نائی اور لوہاروں کے دو تین لڑکوں نے مانگے تانگے کی نٹیوں کو ایڑ لگائی اور براستہ چیلیانوالہ ڈنگہ کی طرف روانہ ہوئے۔
راستے ویران اور خاموش پڑے تھے۔ پگڈنڈیاں اور کچی سڑکیں چپ چاپ لیٹی تھیں اور کناروں پہ اُگے چھوٹے موٹے خود رو پودے اُچک اُچک کر مسافروں کی راہ تکتے تھے۔ کبھی آہستہ، کبھی تیز، کبھی دُلکی چال چلتے وہ چیلیانوالہ پہنچے۔ شیر سنگھ جرنیل اور انگریزی فوج کے تاریخی مرن گھاٹ پہ وہ تھوڑی دیر کے لیے رکے۔
شیدے ماچھی نے چوڑے خاکستری پتھروں سے بنی چوکھنڈی کے دروازے پہ کھڑی پرانی ’’بوڑھ‘‘ کی شاخ سے گھوڑی کی رسی اٹکائی اور زمین پہ گری لا ل لال ’’گولوں‘‘ کو پاؤں سے روندتے ہوئے یادگاری مینار کی پانچویں سیڑھی پہ چڑھ کے جنوب مشرق کی جانب نظر دوڑائی۔ اور بڑھک مار کے بولا ’’دیکھ یارو! ڈنگہ بھانبھڑ بنا ہوا ہے۔ آگ کے شعلے یہاں تک نظر آرہے ہیں۔
تینوں، چاروں دوستوں نے اس کی تقلید میں سیڑھیوں کی جانب زقند بھری۔ پھر اُچک کر دوبارہ گھوڑوں کی پشتیں آباد کرتے ہوئے آسمان سے باتیں کرتے شعلوں کی جانب جانوروں کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دیں۔
ڈنگہ جیسا بڑا اور تاریخی قصبہ فتح ہوئے تیسرا دن تھا۔ جب گاؤں میں پہلا مہاجر داخل ہوا۔ شیدا ماچھی ڈنگہ سے غنیمت میں دو بچے لایا تھا۔ دونوں شیر بچے تھے۔مگر سہمی کبوتری کی طرح غٹرغوں تھے۔ اس کی ماں نے انھیں دائیں بائیں ٹھونک بجا کے دیکھا اور ناک بھوں چڑھا کے بولی ’’لو جی اور دیکھو! دوسرے تو سونے کی پوٹلیاں اور چاندی کے توڑے لائے۔ بیل، گائے، بھینسیں ہنکاتے آئے اور نہیں تو برتن بھانڈے اور چارپائیاں ہی اٹھا لائے اور یہ کیا لے کے آیا ہے۔ ایسی سوغاتیں تو ادھر بھی بہت تھیں۔‘‘
شیدا صحن میں آسمان تلے لیٹا دو روز پہلے کی مہم کا مزہ لے رہا تھا۔ آنکھیں موندے موندے بولا ’’اینٹ، پتھر، لوہا، فولاد بندے کا بدل نہیں ہے۔ بات تو تب بنتی ہے جب جگر آوی چڑھے۔ پھر اس پہ جدائی کی کٹاری پھرے۔ ہم یاروں کے یار اور دشمنوں سے دشمنی نبھانے والے ہیں۔‘‘
تو دشمنیاں نبھاتا رہ اور میں ادھر ان کاگُوہ موت اٹھاتی رہوں گی۔ اس کی بوڑھی ہڈی بیٹھے بیٹھے چٹخی تو شیدا تلخ ہو کے اٹھا اور دونوں کو آگے لگا کے میاں جی کی دہلیز پہ چھوڑ گیا۔ رات کو بے جی نے فاطمہ اور محمد حسین کے سامنے سالن کی کٹوری رکھی تو دوسری ان دونوں بہن بھائیوں کے سامنے رکھ کے بولیں: ’’لو بسم اللہ کرو! اللہ کا نام لے کر کھاؤ۔‘‘
لڑکا بمشکل تین سال کا ہو گا۔ بھوکا تھا یا سالن کی مہک نے اس کی اشتہا کو انگیز کیا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کے بوٹی اٹھائی اور منہ میں ڈال کر اسے کچلنے لگا۔
لڑکی نے کہنی سے اسے ٹہوکا مارا اور کسمسی آواز میں بولی ’’ہم باہمن ہیں پریتو! ہم ماس نہیں کھاتے۔ کل جگت بے جی نے تھالی پرے سرکائی اور آلو کی بھجیا کو تڑکا لگا کے باہر کا دروازہ چوپٹ کھول دیا۔ جہاں سے پہلا مہاجر خاندان اندر داخل ہوا۔ یہ غلام محمد روہتکی عرف گاما تھا۔ اس نے کھدر کا مٹی مٹی تہبند اور پرچونسی کا اٹنگا کرتا پہن رکھا تھا۔
اور سر پہ کالے رنگ کا لوہے کا ٹرنک اٹھا رکھا تھا۔ جو زمین پہ دھرنے سے بجا تو اندازہ ہوا کہ اندر بالکل خالی ہے۔ اس کے پیچھے عین اس کے قدموں پہ چلتی ’’بیگماں‘‘ تھی۔ جس کے پہلو میں تن کے دو جوڑے گٹھڑی کی صورت بندھے لٹک رہے تھے۔ اور اس کی آنکھوں میں ڈھیلے بن میں وحشت زدہ ہرنی کی طرح ناچ رہے تھے۔ ان کے عین نیچے ناک کے متوازی اندر کو دھنستے گوشت نے دو کھائیاں سی بنا دی تھیں۔ جن میں آنسویوں رواں تھے۔ جیسے راج بہاسے پانی نکل نکل کر موگے میں رواں ہو جاتا ہے۔
اس نے محمد حسین اور فاطمہ کو دیکھا۔ پھر پریتو اور اس کی پنج سالہ آپا پہ نظر کی۔ جو آلو کی بھجیا میں لقمے بنا بنا کر بھائی کے منہ میں رکھ رہی تھی۔ اور چیخ مار کے گٹھڑی ٹرنک پہ دے ماری۔ خالی ٹرنک پھٹے ڈھول کی طرح بج اٹھا۔
’’بیگماں‘‘ چیل کی طرح جھپٹی اور دونوں بچوں کے گرد بازوؤں کا حلقہ بنا کے انھیں گود میں بھر لیا۔ محلے ٹولی کے لوگ مہاجرین کی آمد کا سُن کر صحن میں جمع ہو رہے تھے۔ وہ اپنے تئیں انصار کی رسم اخوت نبھاتے کچھ نہ کچھ گھروں سے اٹھاتے آئے تھے۔
کسی نے تھالی میں گڑ کی بھیلی دھری تھی، کوئی اچار کی چار پھانکیں تندوری روٹی سمیت لایا، کسی نے مکئی کے بھنے بھٹے اور کوئی رسیلے گنوں کی مٹیاں۔
بے جی نے ’’جی آیاں نوں‘‘ کہہ کے چادر زمین پر بچھا دی، لانے والے سوغاتیں وہاں رکھنے لگے۔
میاں جی نے سب کو مخاطب کر کے کہا ’’اللہ خیر رکھے! تو مہاجر بھائیوں کا آنا جانا اب لگا رہے گا۔ یہ نہ ہو کہ شروع کا جوش بعد میں بالکل ٹھنڈا پڑ جائے۔ ہتھ ہولا رکھو بھائیو! پانچ دس بندوں کا رزق تو میرے گھر سے نکل ہی آئے گا۔‘‘
’’سنا ہے بڑا ظلم ہو رہا ہے۔ٹرینوں کی ٹرینیں کٹی پڑی ہیں۔‘‘ الہ دین نے حصّے کے منہنال میاں جی طرف پھیر کے کہا۔
’’اللہ سب کا مالک ہے۔جو ڈالتا ہے، وہ سہارتا بھی ہے۔‘‘
پرجی! بدلہ تو شرع شریعت میں بھی ہے۔ پھر ہمارے ہاتھ کیوں بندھے ہوئے ہیں۔ ہندو سکھ تو ابھی ادھر بھی بہت ہیں۔ وزیر علی نے کسی ممکنہ خیال کے پیش نظر کہا ’’چل اوئے! انھوں نے کلمہ پڑھا ہے۔ اپنی ہی بہنوں کے سالو‘‘ لال رنگنے کی بات کرتے ہوئے بے غیرت۔
الہ دین ڈپٹ کے بولا ’’تو وزیر علی‘‘ بڑ بڑ کرتا چپ ہو گیا۔
ہوا ہے، ہوا ہے، ایسا بھی ہوا ہے۔ بدلہ لینے والوں نے بھی اپنی پوری ہمت مار لی ہے۔ شیدا بتا نہیں رہا تھا۔ ڈنگہ بازار لوٹا گیا۔ سکھ، کھتری سب نکل گئے۔ ایک آدھا مارا بھی گیا۔ گھروں میں بھی لوٹ مار ہوتی رہی۔ اسی لوٹ مار کے مال کو بیگماں نے کسی گمشدہ متاع کی طرح سینے سے لگا رکھا تھا اور غلام محمد شیرے پہ گرتی مکھیوں کی طرح بڑھتے ہجوم کے بیچوں بیچ بیٹھا تاسف سے سر ہلا ہلا کے بتا رہا تھا۔
بڑا جُلم ہوا ہے جی! بیگماں بھرے بجار، میں ترکاری سبزی خریدتی پھر رہی تھی۔ جب مُشکی گھوڑی والا نیزہ لہراتا ٹاپو ٹاپ بیچ بازار سے گجرا۔ اس نے بتایا بَلوہ ہو گیا۔ آگ لگ گئی، مسلمانوں کے محلے بھانبھڑ بن گئے ہیں۔
حاضرین کے کان کھڑے ہو گئے۔ مکھیاں بھنبھنانے لگیں۔ بھن بھن چہ مگوئیوں میں بدلی اور اونچی اواز میں تبصرے شروع ہو گئے۔
مُشکی گھوڑے والا؟
جن تھا یا چھلاوا!
ہر جگہ بلوے کی، ہلّہ بولے جانے کی خبریں ہر شخص کی زبان پہ اس کا قصہ۔یہ ضرور کوئی شیطان کا چیلا تھا جو افواہیں اڑا کر افراتفری پیدا کرنا چاہتا تھا۔ میاں جی نے کہا۔
’’افواہ کہاں جی! گاما بولا۔ ’’سچ تھا،سب سچ تھا۔ بیگماں گرتی پڑتی روتی پیٹتی گھر پہنچی۔ تو گھر کی جگہ راکھ کا ڈھیر تھا اور بچوں کی وہاں جلی ہوئی ہڈیاں بھی نہ تھیں۔
تب سے… گامے نے تہبند کی ڈب لمبی کھینچ کے آنکھیں پونچھیں۔ اور انگلی سے بیگماں کی طرف اشارہ کر کے بولا ’’تب سے یہ جھلی بنی ہوئی ہے۔ ہر بچے پہ اپنے بچوں کا گمان کرتی ہے۔
مجمع میں ٹھنڈی سانسیں حبسیلی ہوا کی طرح سرسرائیں اور ہاتھ دیدہ و نادیدہ آنسوؤں کو صاف کرنے کے لیے چہروں کا طواف کرنے لگے۔
ادھر ہندوؤں کے محلے پہ راتوں رات جھاڑو پھر گئی۔فجر کی نماز میں نو مسلموں کی گنتی کی گئی تو آدھے سے زیادہ غائب تھے۔ دن چڑھے عورتیں کھتری بازار سے دال، سبزی اور چھوٹی موٹی روزینہ ضرورت کی لینے گئیں۔ تو کئی گھروں کے دروازے کھلے پڑے تھے۔ اور اندر خالی ڈھنڈار کمرے بھائیں بھائیں کر رہے تھے۔
دوپہر تک خبر سارے گاؤں میں پھیل گئی۔ کہ کھتری ہم سے ہاتھ کر گئے ہیں۔
دو چار بڈھوں، ایک آدھ غریب غربا گھرانوں کے سوا سب نکل لیے تھے۔
اجی انھیں بھی نکال باہر کریں۔ بلکہ یہیں شمشان گھاٹ بناتے ہیں۔ وید جی کو لہو کا اشنان کرواتے ہیں۔
شیدے، وزیرے اور موجو جیسے جوشیلے نوجوان تو ڈنڈے اٹھا کر تیار ہو گئے۔
کیوں بے بس نہتے لوگوں کا اجاڑ مانگتے ہو۔ میاں جی نے انھیں کہا۔
سہ پہر ڈھلے مہاجروں کے دوسرے قافلے کی آمد نے ہوا کا رخ اس طور بدلا کہ سب لٹے پٹے بے خانماں لوگوں کو انھیں بے آباد گھروں میں لا کے بٹھایا گیا اور انصار ہتھ پنکھیوں سے غم سے نڈھال لہو نچڑتی آنکھو ں اور اجڑے پجڑے بدنوں کو ہوا دیتے کوئی چھوٹا موٹا تسلی دلاسہ ہاتھ میں تھماتے کف افسوس ملتے رہے۔
اگر پہلے سے اندازہ ہوتا کہ ہندو ہمارے ساتھ دھوکہ کرنے جا رہے ہیں۔ تو سامان سمیت بیچ کھیت کے دھر لیتے۔ وزیرا منہ سے کف اُڑاتا بار بار بازو اوپر چڑھاتا تھا۔ وہ اپنی رگوں میں ابلتی توانائی کے یوں ضائع ہونے پہ سخت بد دل تھا اور کئی مرتبہ ٹوکا ہاتھوں میں تول کے دیکھ چکا تھا۔
بنیامر کے بھی ساہو کار ہی رہتا ہے۔ مجال ہے جو ایک تنکا بھی چھوڑ کے گئے ہوں۔ دہائی خدا کی یہ بھی کوئی انصاف ہے۔ ہمارے بھائی اپنی آدھی سانسیں بھی ادھر چھوڑ آئیں اور … اس کی بات بیچ میں ہی رہ گئی اور لوگوں کی توجہ ایک مرتبہ پھر ہٹ کر اس جانب ہو گئی جہاں دروازے سے روتی پیٹتی خاتون، نڈھال مرد اور دوچار لڑکوں کے سہارے اندر داخل ہو رہی تھی۔
سب کی متا ٔسف نظریں اُن پر جم گئیں۔موجُو بھاگ کر سلور کے کٹورے میں دودھ لے آیا۔
دارے نے پانی کی بالٹی آگے کھسکائی، سرور روٹیوں کی چنگیر کھسکا لایا۔
کہانی وہی گزشتہ سے پیوستہ تھی۔ خاتون کے بچے جلے تو نہیں تھے، بلوائیوں کے ہاتھوں نیزے کی انیّوں پہ بھی نہ چڑھے تھے۔ وہ اس کے ہاتھوں سے کھینچے گئے تھے۔
میری بیٹی… اس کی ہچکی بندھ گئی… میری جوان عذرا وہ یکدم رک کے بین کرنے لگی۔ انھوں نے اسے میرے ہاتھوں سے، اپنے بھائیوں کے بازوؤں کے درمیان سے کھینچ لیا اور ہمیں نہر پار دھکیل دیا۔
لڑکے آبدیدہ ہو کے ماں کو سنبھالنے لگے۔
بیگماں نے دلدوز چیخ ماری۔ اور دونوں برہمن بچوں کو مرغی کی طرح پروں میں سمیٹ لیا۔
کسی نے ہاتھ پکڑ کر انھیں دھکیلنا چاہا۔ نکالو ان سنپولیوں کو، سانپ کے بچے کو سو سال تک دوھ پلاؤ گے، پھر بھی وہ اپنا نہ بنے گا۔
نہیں، نہیں! بیگماں کا استخوانی وجود التجا بن گیا۔ بچے خوفزدہ ہو کر اس کے گلے کا ہار ہونے لگے۔
گاماں، بیگماں اور لوگوں کے درمیان کود پڑا۔ رہنے دو نمانی کو… جھلی تو پہلے ہی ہوئی پڑی ہے۔ اب کیا جان سے بھی جائے۔
لڑکے جزبز ہو کے پیچھے ہٹے۔مگر بیگماں کی سسکیاں اس وقت اور تیز ہو گئیں جب شام ڈھلنے لگی اور دو فوجی ٹرک دھرم شالہ سے باہر آ کے رکنے لگے۔ نیچے اترتے فوجی سب مسلمان تھے، ضلع کچہری میں ہندو برادری کی درخواست پہنچی ہے۔ انھیں یہاں حبس بے جا میں رکھا گیا ہے۔ شکر کریں، مسلمان ملٹری آئی ہے، ہندو سپاہی آتے تو ہو سکتا کوئی چھوٹا موٹا فساد ہو جاتا۔
آہستہ روی سے رینگتا ٹرک میاں جی کی ڈیوڑھی پہ پہنچا تو پچھلے حصے میں ننگے فرش پر بیٹھے جٹا دھاری لبھو رام نے دونوں ہاتھ ماتھے پہ رکھ کے سپاہی سے کہا۔
ادھر ہمارے دو بچے ہیں سرکار۔ ایک لڑکا اور لڑکی دونوں برہمن زادے ہیں۔
ٹھیک پانچ منٹ بعد جب پاک فوج کے جوان دونوں بچوں کو بازیاب کرا کے ٹرک میں سوار کروا رہے تھے۔ تو بیگماں بے پتوار ڈولتی کشتی کی طرح دروازے سے باہر لپکی۔ اس کا بایاں بازو گامے کے ہاتھ میں تھا اور بکھرے بالوں والے سر سے گرتی چادر پیچھے جھاڑو پھیر رہی تھی۔ جب وہ چلتے ٹرک کے پیچھے دوڑی تو چادر اس کے ہوا میں لہراتے بازوؤں سے جھٹکا کھا کر نیچے جا گری اور اس کی ناک کے متوازی اندر کو دھنسے گوشت میں کھائیوں کی طرح گہرے گڑھوں میں آنسویوں بہنے لگے۔ جیسے نالے سے پانی نکل نکل کے موگے میں رواں ہو جاتا ہے۔
٭٭٭
مورکھا
جب بھری برسات میں دونوں میاں بیوی ’’چک لدھا‘‘ سے روانہ ہوئے تو دوپہر ڈھل چکی تھی اور کالے سیاہ بادلوں نے آسمان پہ تنبو تان کے پانیوں سے بھرے سمندر کے آگے پرنالا باندھ دیا تھا۔ دونوں نے لانگڑ کھینچ کے تَہبند پنڈلیوں سے اوپر تک اُڑسے اور ایڑیوں کی پھٹی بوائیاں کمائے چمڑے کی گہری براؤن گرگابیوں میں یوں پھنسا لیں۔ جیسے بدصورت دلھن گھونگھٹ کی اوٹ میں وقتی طور پر اپنا چہرہ چھپا لیتی ہے۔
جب وہ پنڈ سے باہر نلکے والے موڑ پہ پہنچے تو کچی پکی اینٹوں کے سولنگ سے ٹخنوں برابر پانی شڑاپ شڑاپ گزر رہا تھا اور اس کے کیچڑ زدہ گدلے رنگ میں گھسی اینٹوں کی رَہند کھُوند بھی نظر نہ آتی تھی۔
سرداراں اور غلام علی پچھلے تیس سال سے میاں بیوی تھے۔ دونوں ساتھ ساتھ اُگے درختوں کی طرح دھوپ چھاؤں، سردی، گرمی اور نیکی بدی میں ایک دوجے کے حصہ دار تھے۔ ان کی خوشی غمی، دکھ سکھ اولاد کی طرح سانجھے تھے۔ اتنے عرصے کے ساتھ کا اعجاز تھا کہ توأم بچوں کی طرح دونوں کی عادتیں بھی ملنے جلنے لگی تھیں۔ دونوں ایک دوسرے کے دل کی بات بن کہے یوں سمجھ جاتے تھے۔ جیسے شیشے کے جگ میں پانی ڈالو تو دونوں اک مک ہو جاتے ہیں۔ پر رہتے الگ الگ ہیں۔
ہاں تو دونوں جب پنڈ سے باہر نلکے والے موڑ پہ پہنچے تو پانی سڑک کے اوپر سے شڑاپ شڑاپ گزر رہا تھا اور یوں آس پاس کھڑی فصلوں والے کھیتوں میں ننھے منے پودے کلّر کے ناگوں کی طرح جھوم رہے تھے۔
کھیتوں کے مشرقی سِرے پر صدیق کا خچر آنکھوں پہ پوپٹ جمائے کھڑا تھا اور اس کے صحت مند جثے کے پیچھے جتے تانگے کی پلاسٹک مڑھی پھسلواں سیٹ کے کونے میں دبکا صدیق کھل بنولے کی مُڑی تڑی بوری کی طرح دھرا تھا۔ اس نے خاکستری چادر سے اپنا وجود لپیٹ رکھا تھا۔ اوپر کے دَھڑ کو سر سمیت گھٹنوں میں میخا ہوا تھا۔
غلام علی نے اللہ کا نام لے کر پائیدان پہ قدم رکھا اور سرداراں سے مخاطب ہو کے بولا، ’’میں نہ کہتا تھا! کوئی نہ کوئی سفر کا آسرا ملے گا ضرور۔ گھر سے نکل پڑو تو اللہ راستے کھول دیتا ہے۔‘‘
سرداراں نے دونوں ہاتھوں سے فاختہ کے پروں جیسی سلیٹی چادر کی بُکل سمیٹی اور تانگے کے پچھلے حصے پر چڑھتے ہوئے بولی، ’’اس صدیقے نمانے کو دیکھو! وے نکڑ میاں اس کالی گھور رُت میں ٹپ ٹپ تلے بیٹھے ہو؟ پانی نے پنڈا پکڑ لیا تو چار دن چارپائی سے نہ اٹھ سکو گے۔‘‘
صدیق نے کندھوں سے چادر پرے سرکائی اور چابک سیدھی کرتے ہوئے خچر کی بانچھوں میں گڑے فولادی چھلّوں میں پروئی چرمی باگ کو کھینچا۔ مالک کی حرکت سے اس کے جھوٹے پڑتے وجود نے بجلی کی سی پھریری لی۔ اس نے ایک جھٹکے سے قدم اٹھائے اور پانی میں رہوار چلنے لگی۔
صدیق نے اپنے جھکورے کھاتے جسم کو سیٹ پر ٹکایا اور بولا، ’’میں یہاں نہ بیٹھا ہوتا تو تُو سفر کیسے کرتی ماسی؟ اور میں اپنے پیسے کیسے کھرے کرتا؟ سب روزی روٹی کے وسیلے ہیں۔‘‘غلام علی سڑک کے دائیں بائیں دور دور تک پھیلے کھیتوں کو دیکھ رہا تھا۔ جہاں بارانی پانیوں نے کھیتوں کو بھر دیا تھا اور تواتر سے اترتی بوندوں نے نظروں کے سامنے جالا سا باندھ دیا تھا۔ بڑی ظالم بارش ہے۔ آگے ایک دو پہر تک نہ رکی تو فصلیں لیٹ جائیں گی۔
غلام علی نے کہا، جمعرات کی جھڑی ہے چودھریا! صدیق نے ایک ہاتھ سے باگ کھینچتے اور دوسرے سے منہ سر لپیٹتے ہوئے کہا۔ ہفتہ دس دن سے پہلے نہیں رکنے والی۔ اللہ بخشے میری بے بے کہا کرتی تھی، جمعرات کی جھڑی ہو یا قتل کی آندھی، دونوں آسمان کو اوندھا دیتی ہیں او تیری خیر ہو۔ خچر کا پاؤں پانی میں چھپے کسی اجنبی گڑھے میں پڑا تھا۔
تانگہ ایک ثانیے کے لیے ڈگمگایا۔ پھر اپنی گزشتہ پوزیشن میں آ گیا۔ تانگے کی ڈگمگاہٹ سے نیچے سرکتے وجود کو نشست پر جماتے ہوئے سرداراں بولی: تمہاری بے بے بھی حقی سچی ہے۔ تقسیم کا بلَوہ اس نے دیکھا ہے۔ پنڈاروں کے منڈوے پہ ہونے والے فسادوں کی وہ گواہ ہے اور مُنڈی کٹے افضل کے ہاتھوں نمبر داروں کی عورت کا قتل تو اس کے سامنے ہوا تھا۔
غلام علی نے خچر کی کمانچہ بنی گردن کی سیدھ میں دیکھتے صدیق کے کندھے پہ ہاتھ مارا اور کہا: افضل کے سے جی دار بھی ماؤں نے کم کم جنے ہیں۔ تقسیم کی رات جب جتھہ داروں نے افضل کے پردے میں برچھا مارا تو اس کی مُنڈی کٹ کر اس کے کندھے پہ لٹک گئی اور لہو نے اُبل اُبل کر اس کے کپڑے اور زمین ایک رنگ کے کر دئیے۔
صدیق نے اپنے منہ پر ہلکا سا چانٹا رسید کرتے ہوئے کہا: اللہ نے اس کی سانسیں رکھی تھیں۔ ورنہ پریوں نے اسے مارنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ غلام علی نے افضل پہ گزری خونی رات کے تصور کو جرعہ جرعہ پیتے ہوئے کہا:
جب سِکھ مردہ جان کر چھوڑ گئے تو اس نے ہمت پکڑی اور قطرہ قطرہ موت ٹپکاتی گردن کو سپید پڑتے ہاتھوں سے تھام کر کندھے پہ رکھا اور لہو رنگی چادر سے کس کے باندھ دیا۔ پھر وہ ڈگ مگ کرتے قدموں پہ چلتا جوگندر سنگھ کی چوکھٹ پہ جا کے گرا تو جوگندرسیّاں نے اسے بھڑولے میں ڈال کر دروازہ بھیڑدیا۔ خود لہو میں ڈوبی کرپان لے کر دروازے پہ بیٹھ کے بڑھکیں مارنے لگا۔
تانگہ اب پانی کے تالاب سے نکل کر گیلی سڑک پہ آ گیا تھا۔ تیز بارش معمولی رم جھم میں بدل گئی تھی۔ غلام علی بولا: ’’پورا ایک مہینا افضل نے اپنے بیلی کے گھر چکنی مرہم لگواتے کڑوی پھیکی معجونیں چاٹتے اور چینی ہر دل کی دھونیاں لیتے گزارا۔ جب ملٹری کے ٹرک پہ عورتوں، بچوں اور زخمیوں کے جمگھٹے میں سوار ہو کے وہ والٹن کیمپ اُترا تو اس کی موڈھی صحیح سلامت کندھے پہ دھری تھی۔ اس کی موٹی گردن پہ ہاتھ برابر زخم کا نشان ابھی کچا پکا تھا۔
صدیق نے بے اختیار ہو کر جھرجھری لی اور خچر کے جانگھوں پہ چابک رسید کرتے ہوئے بولا: ’’اللہ بخشے میری بے بے کہا کرتی تھی۔ گردن کا نشان ساری زندگی افضل کی شناخت بنا رہا۔ جب اس نے نمبرداروں کی عورت پہ ہاتھ ڈالا تو اسی نشان کو دیکھ کر اس نے دہائی دی۔ جب افضل نے طیش میں آ کر اس کا گلا گھونٹ ڈالا۔‘‘ سرداراں بولی:’’نمبر داروں کی اس عورت کا نام سلمیٰ تھا۔
غلام علی نے کہا: ’’ایسی ہی برسات تھی۔ ایسے ہی پانی نے زمین آسمان ایک کر رکھا تھا۔ دن کی روشنی کو اندھیرے نے نگل لیا تھا۔ جب سلمیٰ اپنے ڈیرے سے نکلی۔ اس کا معذور باپ آخری دموں پہ تھا۔ اس کے پاس سلمیٰ کی ضعیف ماں کے علاوہ اور کوئی نہ تھا۔ اس نے کمر کسی اور بن پہ بن پھلانگتی وہاں پہنچ گئی۔ جہاں بانس کے درختوں نے جنگل سا بنا دیا ہے۔ اُدھر افضل اپنے نوروں کے لیے بھوسہ لاد کے لے جا رہا تھا۔ اس نے سلمیٰ کا پیچھا کیا اور اسے بیچ کھیت کے دھر لیا۔
توبہ! توبہ!… پچھلی سیٹ پر سرداراں نے اپنے کلّے پیٹ ڈالے۔ غلام علی پھر بولا: ’’خیر سلمیٰ بھی اُکل کھری زنانی تھی۔ مُکہ مار کے اگلے کا جبڑا توڑ دیتی تھی۔ اس نے افضل کی گردن پہ اپنے دانت گاڑ دیے۔جب وہ بلبلا کر پیچھے ہٹا تو سلمیٰ نے جھپٹ مار کر اس کا ڈھاٹا ہٹا دیا۔ اللہ جانے اب اُدھر سے کوئی گزر رہا تھا۔ یا سلمیٰ کی دہائیاں سن کر آسے پاسے سے لوگ جمع ہوئے۔ ان کے آتے ہی افضل بھاگ گیا اور سلمیٰ نے دو چار منٹوں میں جان دے دی۔
ماحول پہ عجیب دم گھونٹتی افسردگی چھا گئی اور سڑک خچر کے سموں کی ٹخ ٹخ سے گونجنے لگی۔ خیر افضل پکڑا تو گیا تھا۔ صدیق نے خاموشی کو توڑا۔ غلام علی نے کہا، ’’پکڑا بھی گیا تھا اور اسے سزا بھی ہو گئی۔ مگر پھر دونوں پارٹیوں نے صلح کر لی۔ افضل کے چچا نے اپنی دو بیٹیاں مخالف پارٹی کو بیاہ دیں۔ افضل چھوٹ کے گھر آ گیا اور ٹھیک پانچ سال بعد ایک روز اپنی ہی چارپائی پہ لیٹا لیٹا مر گیا۔
تانگہ ایک جھٹکے سے رک گیا۔ سرداراں نے اللہ کا نام لے کر پائیدان پہ پاؤں رکھا اور بولی: ’’اگر دیکھو تو یہ بھی ایک زیادتی تھی۔ افضل کی دونوں چچا زاد بہنیں ایک مدت تک دشمنوں کے گھر میں پستی رہیں۔ ان کی زندگی مُردوں سے بھی بدتر تھی۔ ان کی ماں اکثر ان کے غم میں روتی ملتی تھی۔ مگر اسے ان سے ملنے کی اجازت نہ تھی۔
غلام علی نے چادر کے اندر ہاتھ ڈال کے داہنے پہلو میں بنی جیب سے کرایہ نکال کر صدیق کو تھمایا اور بولا، ’’زیادتی خیر ہوئی تھی۔ مگر یہ ہمارے وڈکوں، پرکھوں سے ہوتا آیا ہے۔ بھائیوں کی گرتی پگڑیوں کو بہنیں ہی سہارتی ہیں۔‘‘
یہ تو ہے… یہ تو ہے… صدیق نے سر ہلا کر مانی ہوئی حقیقت کی طرح اسے قبول کیا اور تانگہ واپس اسی سڑک پہ موڑ لیا۔ جدھر سے آیا تھا۔غلام علی اور سرداراں دس، پندرہ منٹ تک آگے پیچھے پیدل چلے۔ پھر کتھئی روغن اور روپہلے کوکوں والے لکڑی کے اونچی چوکھٹ والے دروازے سے اندر داخل ہو گئے۔ اندر لمبوترے صحن میں پانی کا خود کار نل کھلا تھا اور گدلا گدلا
انی تیل وانس جیسی تنگ موری سے بہہ بہہ کر صحن میں کیچڑ بنا رہا تھا۔ اسی کیچڑ کے بیچوں بیچ بچھی الانی چارپائی پہ سرداراں کی اماں دونوں پاؤں اوپر دَھر کے بیٹھی تھی۔ سراہندی پواندی مٹر کے دانوںکی طرح بکھری مرغیوں کو ہشت ہشت بھگا رہی تھی۔
بیٹی اور اس کے پیچھے داماد کو دیکھ کر اس کا دل بھیگی روئی کی طرح بوجھل ہو گیا۔ مگر اندر مچتی کھڑ دنبی پہ مسکراہٹ کا جھانپڑ مار کے بولی، ’’جی آیا نوں! خیر نال آئے ہو؟‘‘
پھر ٹھنڈے ٹھار لہجے میں دانستہ بھپارہ دیتی چائے کی سی گرمی پیدا کرتے ہوئے بولی، مینہ اور ہوا نے اتھری سے اتھری مخلوق کو اندر باندھ رکھا ہے۔ تم دونوں کیسے نکل آئے؟
سرداراں نے غلام علی کو دیکھا۔ دونوں کی نگاہوں نے چقمقاق رگڑا اور غلام علی کے لہجے کو چنگاری چنگاری کر ڈالا۔ میں نے بھا انور کو بتایا تھا کہ ہم جمعرات کو آئیں گے اور اس پھیرے میں مُک مُکا کر کے ہی جائیں گے۔
سرداراں کی ماں کے اندر پریشر ککر کی سیٹی بجنے لگی۔ وہ خوف اور اندیشوں کے درمیان یوں گھِر گئی، جیسے جنگلی چوپایہ شکاری کتوں کے نرغے میں پھنس جاتا ہے۔ غلام علی پتر! اس نے بھپ بھپ کرتی بھاپ کو دھیرے دھیرے نکلنے کا راستہ دیتے ہوئے کہا، کیوں آگ کے شعلوں کو ہوا دیتے ہو؟ اچھا یہی ہے کہ بھڑکنے سے پہلے اس پہ پانی ڈال دو۔ ورنہ سب سواہ ہو جائے گا۔
تو ٹھیک ہے اماں! آپ انور سے کہیں سرداراں کا حصہ سیدھے ہاتھ میرے حوالے کر دے۔ ہمارا اس کا جھگڑا ختم… سامنے پلیٹ فارم کی طرح لمبے اور صحن کی سطح سے اونچے برآمدے میں تازہ وارنش پھرے دروازے سے انور شرمن ٹینک کی طرح نمودار ہوا۔ سالے کے تیور دیکھ کے غلام علی نے امڈتے اشتعال کا گھونٹ ایک ہی ڈیک میں اندر اتارا اور سواگت کو آگے بڑھا۔ انور نے جھٹک کر اس کا ہاتھ پرے کیا۔ دیدے باہر کو ڈھلکاتے ہوئے بولا، ’’میں نے تمھیں کہا تھا لالہ! سو بار آؤ! جم جم آؤ! پر اس واسطے دوبارہ نہ آنا۔‘‘
واجی واہ! غلام علی بولا، ’’اس واسطے کیسے نہ آؤں؟ اپنا حق چھوڑ دوں؟ ہاں! دونوں کی تُو تُو میں میں گرم ہوئی۔ تو اماں کا وجود بیٹھے بیٹھے بے جڑ کے پودے کی طرح ڈولا۔ وہ سینے پر دو ہتڑ جما کے بولی: ’’ہائے میں کیا دیکھ رہی ہوں۔ شیر علی کی اولاد انچ انچ زمین پیچھے مر رہی ہے۔ اے سرداراں تم ہی کچھ بولو، کھڑی کیا تک رہی ہو۔‘‘ سرداراں کے وجود میں خفیف سی حرکت ہوئی۔ مگر وہ منہ میٹی کھڑی رہی۔
انور نے ماں کا واویلا نظر انداز کر دیا اوربولا: ’’کونسا حق اور کیسا حق؟ بہن کا حق بیاہتے وقت جہیز کی صورت میں بیاج سمیت دے دیا تھا۔ اب کس حق کی بات کرتے ہو؟‘‘ تت تت! غلام علی چمک کے بولے، ’’وہی حق جو سرداراں کا باپ کی وراثت میں بنتا ہے۔‘‘
انور ایک لمحے کے لیے ٹھٹکا۔ اس نے غور سے سرداراں کو دیکھا۔ مڑا اور نپے تلے قدموں پر چلتا اندر کمرے میں چلا گیا۔ یک ثانیے بعد اسی رفتار سے واپس آیا تو اس کا چہرہ چٹان بنا ہوا تھا اور دانت آپس میں لپٹی دوسانگیوں کی طرح بھینچے ہوئے تھے۔ حق اس کے ہونے سے ہے ناں؟ اس نے بائیں ہاتھ کی دوسری انگلی سرداراں کی طرف اٹھائی۔ اور دائیں ہاتھ میں پکڑے پسٹل سے ٹھائیں ٹھائیں فائر کھول دیا۔
سرداراں شکستہ برتن کی طرح چٹخی اور کھڑے پیر سیدھی نیچے جا گری۔ مرغیاں پھڑ پھڑ دروازے سے باہر بھاگیں۔ نیچے بکھرا گدلا پانی کچ لہو بن کے کیچڑ میں پھیل گیا۔ فضا میں عاشورہ محرم کی سوگواریت چھا گئی اور سرداراں کا ٹھنڈا پڑتا وجود ایک دم ساکت ہو گیا۔
کسی انہونی کے وہم میں گم صم غلام علی ڈراؤنے خواب سے جاگے بچے کی طرح اس کی طرف بڑھا، بے بے نے پچھاڑ کھا کر ایک نظر پیلے پڑتے انور کو دیکھا اور دوسری نگاہ غلام علی پر ڈال کے بولی! ’’مورکھا! کبھی بہنوں نے بھی حصے مانگے ہیں۔‘‘
٭٭٭
انتظار
کہتے ہیں جب آغا حکمت اللہ نے قصہ خوانی بازار کے عین دل میں کھڑے تنگ بالکنیوں اور لکڑی کے اُوندھے چھجوں والی لکشمی بلڈنگ کے صدر دروازے پہ قدم رکھے تو ’یاور خاناں‘ انھیں دروازے کے پیچھے چار قدم کے فاصلے پہ وہاں کھڑا ملا جہاں مغل شہنشاہوں کی پرانی یادگاری باؤلی پہ ٹوٹی اینٹیں اور ان گھڑے پتھر بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے تھے۔ اس کے چہرے پر پھیلے آنسوؤں نے گرد، مٹی اور میل کے داغوں کو مزید گدلا رکھا تھا اور وجود پہ بھولپن کے چھینٹوں کی جگہ وحشت اور درماندگی ناچ رہی تھی۔
آغا نے اس کی انگلی تھامی اور اونچے چوبارے کے اس گوشے پہ چڑھ آئے جہاں گول چکر کھاتا تنگ زینہ سب سے اوپری منزل کی جانب مڑ جاتا تھا۔ وہاں فولادی زنجیروں اور لکڑی کے دوہرے تختوں سے بنا ہاتھی دانت کے سے سفید لٹوؤں اور جا بجا گڑی میخوں والا وہ تاریخی دروازہ تھا جسے دیکھ کر آغا کی خانم نے بغل میں دابے بچے کو گٹھڑی بھر بوجھ کی طرح زمین پہ اتار دیا اور دوچند ہوتی حیرت سے بولی: ’’ایں چیست آغا؟‘‘
اور آغانے کمالِ بے نیازی سے سر اونچا کر کے کہا تھا: ’’ایں خانۂ شماست۔‘‘
’’چہ قدر خوب! خانم کے لہجے میں چھپے طنز کو شیر قند کی طرح حلق سے اتارتے آغا نے ’یاور خاناں ‘کی کمر پہ ایک مشفق دھپ رسید کی۔ بولے: ’’ایں سوم است (یہ تیسرا بیٹا ہے)‘‘
خانم نے ناک بھوں چڑھا کر کہا: ’’چہ طور؟ (کیسے؟)۔‘‘
آغا بولے: ’’چشمِ تماشا بیار (دیکھنے والی نگاہ لاؤ)
خانم نے ایک نگاہِ غلط اس پر ڈالی اور غڑاپ سے آدھ درجن بچوں سمیت دروازے سے اندر گم ہو گئی جہاں سیلے در و دیوار والے بے صحن کے کمروں والے گھر میں دن کو بھی ملگجا اندھیرا چھایا رہتا تھا۔ جہاں آنے والے دوچار سالوں میں خانم آہیں بھر بھر کر گنگنایا کرتی تھی:
’’روئے گل سیر ندیدیم و بہار آخر شُد
حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شُد‘‘
(ہم نے ابھی پھول کا چہرہ جی بھر کے نہ دیکھا تھا کہ بہار ختم ہو گئی، افسوس! کہ پلک جھپکنے میں محبوب کی رفاقت ختم ہو گئی)
انھیں آنے والے دنوں میں ’یاور خاناں‘ کو پتا چلا کہ آغا کا اصل وطن ہرات ہے جہاں کی خالص چمڑے اور گدیلی روئی سے بنی پوستینیں سارے وسط ایشیا میں جانی جاتی ہیں۔ جہاں آغا چمڑے کے اتنے ہی بڑے تاجر تھے کہ سال میں دو چکر روس اور ایک آدھ پاکستان یا بھارت کا لگا لیتے۔ مگر ان کا گھر زندگی کے لیے ضروری سبھی آسائشوں سے بھرا ہوا تھا اور اتنا کھلا اور کشادہ تھا کہ خانم کو وہاں یہاں جیسی تنگ دامنی کا احساس کم از کم نہ ہوتا تھا۔
جب کبھی وہ موج میں ہوتیں تو اس سمیت سب بچوں کو سامنے بٹھا کر ایسی تصویر کشی کرتیں کہ یاور خاناں کو لگتا کہ وہ اپنے زندہ وجود سمیت وہاں گھوم آیا ہے۔
جہاں سیاہی مائل پتھروں اور خاکستری اینٹوں سے بنی دیواریں انگور کی بیلوں میں آنکھ مچولی کھیلتی ہیں۔ کھلے صحنوں میں آلوچے، سرخ انار، سرخ اور سبز کا امتزاج لیے سیب دہک رہے ہیں۔ سردیوں میں دھندلے راستوں پہ بچھی سفید برف قدموں کے نشان ڈھونڈتی ہے۔ آس پاس کہیں آبشاروں کے میٹھے پانیوں کی شرر شرر سکوت کی چادر کو دھیرے سے مسک دیتی ہے۔
یہاں وہاں بھیڑوں کی نرم روئی سے گندھا فرغل پہنے خانم قصہ کہتے کہتے منظر کا حصہ بن جاتی۔ پھر آغا آتے، اپنی بوسیدہ ٹی بی زدہ کھانسی کھانستے۔ لکڑی کا بھاری دروازہ ایک گڑگڑاہٹ کے ساتھ کھلتا اور ملگجے کمرے کا سحر ٹوٹ جاتا۔ بچے مرغی کے چوزوں کی طرح اِدھر اُدھر کونوں میں پھیل جاتے۔ شکست خوردہ سی خانم چھجے کی طرف چل دیتی جہاں آغا نے کپڑا تان کر عارضی باورچی خانے کی شکل بنائی تھی۔ خانم نے ’یاور خاناں‘ کی مدد سے دیوار میں دو لمبے لمبے کیل ٹھونک کر ایک فرائنگ پین اور ایک توا لٹکا کر نیچے مٹی کے تیل کا چولھا رکھ دیا تھا۔
پھر ایک روز آغا وقت سے پہلے گھر آ گئے۔ وہ پہلے کی نسبت پُر جوش اور خوش دکھائی دیتے تھے۔ ویسے تو ان کے گھر آنے کا کوئی خاص وقت مقرر نہ تھا اور نہ ہی اسے معلوم تھا کہ وہ روزانہ کہاں اور کس غرض سے جاتے ہیں۔ البتہ یہ سب جانتے تھے کہ وہ دن کا بڑا حصہ گھر سے باہر رہتے ہیں۔ جب واپس آتے تو ان کے کپڑے گرد آلود ہوتے۔ ہاتھوں پر خراشیں اور قدموں سے تھکن لپٹ رہی ہوتی۔ وہ دونوں ٹانگیں لٹکا کر چار پائی پہ بیٹھ جاتے اور خانم گرم پانی سے ان کے ہاتھ پاؤں دھلواتے، منہ ہی منہ میں کچھ بدبدایا کرتی۔
پھر جب گھر سے باہر کھلے آسمان پہ تارے چمکنے لگتے۔ عروسِ شب اپنے نقرئی گہنے پاتوں سمیت رونق افروز ہوتی۔ نیچے بازار میں زمینی کپڑوں کی مانند بکھری آواز نیند کی رہگزر میں اتر جاتیں اور خانم کے خراٹے بچوں کے معصوم اور البیلے خوابوں سے ہم آہنگ ہونے لگتے۔ آغا اپنی درد بھری آواز میں وہ نغمہ چھیڑتے جسے سننے کی خواہش میں ’یاور خاناں ‘اپنی چارپائی پہ دیر تک چپکا پڑا رہتا تھا۔
وہ کمرے کے ملال کھلائے سیلے سیلے ماحول میں ’’یا قربان‘‘ کی تان اٹھاتے۔ یاور خاناں کا انگ انگ کان بن جاتا۔
ستادستر گوبلا واخلے ما (اے میری جان! میں تمھاری آنکھوں پر
وجانا نہ زما(قربان ہو جاؤں)
اسے اپنی پختون دادی یاد آ جاتی جو ہمیشہ چار گز گھیراؤ کی لمبی فراک پہنتی تھی اور ہفتے میں ایک روز بالوں میں خوب تیل ڈال کر انھیں مینڈھی مینڈھی گوندھتی تھی۔ جو کنواری لڑکیوں کے ماتھے کھدوا کر نشانوں کو سرمے سے بھرتی۔ جو پختونوں کو سب سے اچھا مسلمان اور یوسف زئیوں کو سب سے اچھا پختون سمجھتی تھی اور جس نے دشمنی کی بھینٹ چڑھ جانے والے بیٹوں اور پوتوں کی لاشوں پہ کھڑے ہو کر کمالِ ضبط سے’یا قربان‘کا نعرہ داغا اور ’یاور خاناں ‘کو یہ کہہ کر ہمیشہ کے لیے علاقہ بدر کرا دیا کہ یہاں رہے تو باپ بھائیوں کی طرح اپنے ہی چچیرے بھائیوں کے ہاتھوں قتل ہو جاؤ گے۔ دور چلے جاؤ، ایسی جگہ جہاں تمھارے سانسوں کی ڈوری سلامت رہے اور اونچے کوہاٹی طروں والے خانوں کے دلوں میں یہ امید باقی رہے کہ ان کے مرقدوں پہ کبھی نہ کبھی کوئی دیا جلانے آئے گا۔
ہاں تو اس روز آغا وقت سے پہلے گھر آ گئے۔ وہ پہلے کی نسبت خوش اور پر جوش دکھائی دیتے تھے۔ انھوں نے آتے ہی سب بچوں کو آوازیں دے دے کر بلایا۔ وہ اکٹھے ہوئے تو انھیں پشاور کی سیر کرانے نکل کھڑے ہوئے۔ خانم نے اس افتاد پہ پہلے تو انھیں حیرت سے گھور کر دیکھا۔ پھر حسبِ عادت بُڑ بُڑ کرتی اندر کمرے کے اندھیرے میں گم ہو گئی۔
آغا آگے آگے چل رہے تھے اور بچے ان کے پیچھے۔ یاور خاناں کی نگرانی میں دائیں بائیں یوں تکتے چلے آ رہے تھے جیسے اردگرد کے سارے مناظر، دکانوں کے تھڑوں پر سجی اشیا، شیشے کے دروازوں کے اندر دھرے رنگ رنگیلے کھلونوں سمیت ہر شے نگاہوں میں سمو لینا چاہتے ہوں۔
خود یاور خاناں کو بھی اس روز بازار کی رنگینی معمول سے سوا معلوم ہوئی۔ قہوہ خانے کے باہر دیگ جتنی بڑی کیتلی اینٹوں سے چُنے چولھے پر دھری تھی اور اس کے نیچے دھڑا دھڑ جلتی لکڑیاں اب انگاروں میں تبدیل ہو گئی تھیں۔
انہی انگاروں کی تپش کو محسوس کرتے نسوار فروش جابجا زمین پہ کپڑا بچھائے مال لگا کے بیٹھے تھے۔ وقفے وقفے سے دکانوں سے باہر بنے تھڑوں پر بیٹھے تماش بین بوڑھے جو حقے کی نے چھوڑتے تو پہلو میں دھرے تھال سے گُڑ کی ڈلیا اٹھا کر منہ تر کرتے۔ کبھی کبھار مزہ دوبالا کرنے کے لیے چٹکی بھر نسوار کلّے میں دبا کر بازار کی ان پرانی رونقوں کو یاد کر کر کے آہیں بھرتے جنھیں صرف ان کے باپ دادا نے دیکھا تھا۔
جس کے قصّے انھوں نے منہ زبانی بڑے شوق سے دہرائے تھے۔ جب خیبر کے درّے سے گزر کر قافلے اس پار اترتے تھے اور کمر سے پٹکی باندھے سارے وسط ایشیا سے آنے والے رنگ رنگیلے تاجر قصہ خوانی بازار کی سرایوں اور قہوہ خانوں میں ان علاقوں کی کہانیاں سناتے تھے۔ جہاں جنگجو برسات کی کھمبیوں کی طرح اگتے ہیں۔ راستے سارا سال برف اوڑھ کے اونگھتے رہتے ہیں۔ جہاں سرد راتوں میں چاندنی چٹکتی تو زمین روئی کا سفید بچھا بستر معلوم ہوتی۔ تارے جھک جھک کر پربتوں سے سرگوشیاں کرنے کے بعد وادیوں میں اتر آتے۔ مناظر کا بوجھ پلکوں پہ دھرے سننے والے اونگھنے لگتے اور بازار سیاحوں، راہ گیروں اور تاجروں کے قدموں کی دھمک سے ہونکنے لگتا۔
بازار میں نو عمر لڑکے جا بجا خوانچے گلے میں لٹکائے امریکی سگریٹ، ایرانی صابن اور روسی ماچس بیچ رہے تھے۔ الائچی اور گرم مسالا بیچنے والوں کی پوری پوری دکانیں دیکھ کر بچوں نے ابھی حیرت سے انگلیاں مونہوں میں دابی ہی تھیں کہ بازار ختم ہو گیا۔ آغا دُلکی چال چلتے بڑی سی سڑک پر ہو لیے۔پھر تھوڑی دیر چل کر داہنی طرف مڑ گئے۔ پھر بائیں، پھر دائیں اور آخر میں ناک کی سیدھ میں چلنا شروع ہوئے تو بڑے لڑکے کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا۔
وہ انگشت شہادت کی طرح سیدھا اکڑ کر کھڑا ہو گیا اور ترنت بولا:
’’آغا! کجا می روی؟ (کہاں جا رہے ہیں؟)
آغا پہلی مرتبہ کھل کے ہنسے۔ ان کے ہموار دانتوں کی سفیدی ایک لحظے کے لیے کوندی۔ وہ بولے: ’’جان پدر!منزل مادورنیست۔‘‘
پھر یکدم چلتے چلتے وہاں رک گئے جہاں لوہے کے فولادی جنگلے، ریلوے اسٹیشن کی حدود شروع ہونے کا پتا دیتے تھے اور جس کے اندر لوہے کی وہ فولادی پٹڑی بچھی تھی۔ جس پر ریل کا کالا بھجنگ انجن دن میں کئی بار سبز اور پیلے ڈبوں کی قطار پیچھے لگائے چھکا چھک بھاگا کرتا تھا۔
بچوں نے زندگی میں پہلی مرتبہ دور تک جاتی پٹڑی کو کالی ناگن کی صورت زمین پر لیٹے دیکھا اور جب دور سے دھک دھک کرتی زمین کے سینے پر سیاہ رو انجن نمودار ہوا تو سب سے چھوٹا بچہ آغا کی ٹانگوں سے چمٹ گیا۔ اس کے دل کی دھڑکن اور انجن کی دھمک میں کچھ فرق باقی نہ رہ گیا۔ جب کھلے دروازوں اور سلاخوں والی کھڑکیوں میں رنگ برنگے لوگوں کو بٹھائے شیطان کی آنت جیسی لمبی بلا ڈھڑ دھڑ کرتی ان کے قریب سے گزر کر گز بھر کے فاصلے پہ رک گئی تو انھوں نے کھلی کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ لوگوں کا ایک طوفان بدتمیزی ہے جو ریل کے دروازوں کے اندر باہر آن بپا ہوا ہے۔
باہر آنے والے اندر جانے والوں کو دھکیل رہے ہیں۔ اندر جانے والے باہر آنے والوں کو دوبارہ گاڑی پرسوار کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ تب آغا نے بچوں کے سیب کی طرح تمتماتے گالوں کو نظر بھر کے دیکھتے ہوئے بتایا کہ اس لمبی بلا کا نام ’’ریل گاڑی‘‘ ہے۔ یہ خاص چیز ان سب کے لیے اس لیے نئی اور انوکھی ہے کہ اس کا وجود ان کے وطن میں کہیں نہیں پایا جاتا۔
اسی لیے آج وہ ان سب کو اس کی زیارت کرانے لائے ہیں اور جلد ہی جب انھیں موقع ملے گا۔ وہ انھیں اس پر سوار بھی کرائیں گے مگر کئی روز گزرنے پر بھی ایسا موقع نہ آیا۔ آغا بیمار پڑ گئے، ان کی روز افزوں کھانسی جان کا روگ بنی جاتی تھی۔ وہ خانم کے ’’خیراتی دوا خانے‘‘ سے لائی دوا پی کر دن بھر چار پائی پہ پڑے رہتے۔ دل چیر دینے والی آواز میں گنگنایا کرتے۔
؎نہ مکتوب تومی آید نہ از حالت خبر دارم
(نہ تمھارا کوئی مکتوب آتا ہے نہ تمھاری حالت کی خبر ہے)
پھر آہ بھر کر کہتے:
چوں مسافر باز شد ہستم یا نیستم
خانم تیر کی طرح اندر سے نکلتی اور چادر کے کنارے سے آنکھیں پونچھ کر کہتی:
’’روزی مسافر باز خواہد آمد
(مسافر ایک روز ضرور واپس آئے گا)
اور آغا کی ذات پر لمبی خاموشی کا وقفہ در آتا۔
آغا کا باہر جانا کیا موقوف ہوا۔ یاور خاناں پہ ان کی فگار انگلیوں کا راز کھلنے لگا۔ گھر میں اب دو وقت خمیری روٹی بھیگے قہوے کے گلاس کے ساتھ نگلی جانے لگی۔ قہوے کی کیتلی جو سارا سارا دن آگ پہ دھری کالی ہوتی رہتی تھی، اب وقت کے وقت چولھے پہ چڑھائی جانے لگی۔
تب ’یاور خاناں‘ کے خالص پختون خون نے ابال کھایا۔ اس نے بنوں وول کی سِلی تھیلی سے وہ مڑے تڑے نوٹ نکالے جو کوہاٹ بس اڈے پر دادی نے اس کے حوالے کیے تھے۔ چھتی سے لوہے اور تام چینی کے روغن اترے تھال کو اتار کر اس میں مُلٹھی، سوکھا دھنیا اور الائچی سجا کے بڑی سڑک کے کنارے جا بیٹھا۔ پہلے روز راہگیروں نے صرف اسے دیکھا۔ دوسرے روز اس کے قریب رکے اور تیسرے دن ایک آدھ نے دو چار الائچیاں اور پاؤ بھر دار چینی خرید ڈالی۔
اگلے پندرہ بیس روز میں وہ اس قابل ہو گیا کہ خانم کے دستر خوان پر گوشت نہ سہی سبزی دال ضرور چن دیتا۔ انہی کملائے سنولائے دنوں میں ایک روز وہ واپس آیا تو آغا کے پاس ایک اجنبی صورت پیر مرد بیٹھے دیکھا جس کے چہرے سے تھکن ہویدا تھی۔ مٹیالی پگڑی کے میل خوردہ پیچ کسی لمبے سفر سے آمد کی گواہی دے رہے تھے۔
البتہ آغا اسے پہلے کی نسبت قدرے خوش اور بشاش معلوم ہوئے۔ انھوں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے قریب بلایا۔
یہ ہرات میں میرے ہم کار ہوتے تھے۔ آج مدت بعد ملے ہیں اور میرے لیے بڑی خوشخبری لے کر آئے ہیں۔
یاور خاناں کو ان سے ملنے کی خوشی کیا ہوتی وہ تو اس بات پر مسرور تھا کہ آغا آج بڑے دنوں کے بعد مسکرائے تھے۔ ان کی کھچڑی داڑھی ہولے ہولے لرز رہی تھی۔ اگلی
صبح انھوں نے پھر اسے پاس بٹھا لیا۔
یاور خاناں! تم جانتے ہو آج میں کتنا خوش ہوں؟
سیف اللہ میرا حقیقی بھائی ہے۔ دس سال پہلے جنگ کے مہلک شعلوں نے اسے نگل لیا۔ وہ دشتِ لیلیٰ کا مسافر بنا اور نامعلوم مدت کے لیے مجھ سے بچھڑ گیا۔ آج وہ مجھ سے ملنے یہاں آ رہا ہے۔
تب اسے معلوم ہوا کہ کل جو خوشخبری لے کر وہ اجنبی آیا تھا۔ اسی کی تاثیر ہے کہ آج گھر کا ہر فرد بلبل ہزار داستاں کی طرح چہک رہا ہے۔
تم میرے تیسرے بیٹے ہو، یاور خاناں۔ انھوں نے اس کی پیٹھ ٹھونکی۔ مجھے اپنے انتخاب پہ ناز ہے۔
پھر وہ حسبِ عادت گنگنا اٹھے، اور اسی شام انھیں لیے وہ ایک مرتبہ پھر ریلوے اسٹیشن کی جانب روانہ ہوا جہاں وہ چند ماہ پہلے بچوں کے ہمراہ گئے تھے۔ فرق یہ تھا کہ تب آغا صحت مند تھے اور اب بیمار۔ مگر چال میں آج بھی پہلے کی سی سبک رفتاری اور روانی تھی۔
انھوں نے اپنا اکلوتا سوٹ دھلوا کر پہنا تھا۔ ہراتی پوستین کو دبا کر استری کیا تھا اور کوہاٹی چپل کو گیلے کپڑے سے رگڑ رگڑ کر صاف کرنے کے بعد اب وہ بازار کے اس حصے میں اڑے اڑے پھر رہے تھے جہاں قہوہ خانوں کی رونق ماند پڑنے لگتی ہے اور بساطیوں کے ٹھیلوں کے پہلو بہ پہلو دنداسہ بیچنے والے کریم پاؤڈر اور ازاربند، دیا سلائی، سگریٹ، پان والے خوانچہ بردار آواز کا جادو جگاتے ہیں۔
بازار ختم ہوا۔ پھر بڑی سڑک گزری، پھر دائیں اور بائیں مڑنے اور ناک کی سیدھ پہ یک رخ چلنے کے بعد جب لوہے کا مخصوص نوکدار جنگلا نظر آیا جو پشاور ریلوے اسٹیشن کی حدود کے شروع ہونے کی نشاندہی کرتا تھا تو آغا کی دُلکی چال میں عجیب سی مستی در آئی۔
انھوں نے مڑ کر کسی معمول کی طرح پیچھے پیچھے آتے یاور خاناں کو دیکھا اور بولے: ’’ دس سال ایک عرصہ عمر ہوتا ہے۔ کسے خبر اب وہ کیسا ہو گا؟‘‘ مجھے پہچانے گا بھی یا نہیں۔
پہچانے گا کیوں نہیں آغا! خون خود بول پڑے گا دیکھنا! آغا اس کی بات پہ کھل کر ہنسے۔ یاور خاناں کو لگا کہ چاند بدلیوں کے درمیان سے نکل آیا ہے۔ ہر طرف اجلی چاندنی چٹکنے لگی ہے۔
اسٹیشن پہ وہی معمول کی رونق تھی۔ پکوڑوں، سموسوں، خوانچے والے جگہ جگہ پھر رہے تھے۔ چائے پان والوں کے کھوکھوں پہ مخصوص رونق تھی اور رسالوں کے اسٹال پہ اکا دکا لوگ فلمی جریدوں کی ورق گردانی کر رہے تھے۔
آغا پلیٹ فارم پہ دھرے سنگی بنچ پہ بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد اٹھ کے ٹہلنے لگے پھر جھک کر ریل کی پٹڑی پہ دور اس رخ تکا کیے جہاں سے گاڑی کو نمودار ہونا تھا۔ پھر تھک کر واپس آئے اور بنچ پہ بیٹھ کر گنگنانے لگے:
یا قربان! ستاد ستر گو بلا واخلے ما وجانانہ زما
کبھی کبھی سب سے توجہ ہٹا کر وہ یاور خاناں کو دیکھتے اور پوچھتے: ’’کیا خیال ہے یاور خاناں! گاڑی آج لیٹ نہیں ہو گئی؟
یا…سوچتا ہوں۔ سیف اللہ مجھے پہچان تو لے گا؟
یا… تمھاری خانم نے آج کابلی پلاؤ بنانا تھا۔ اسے میوۂ خشک تو پکڑا آئے تھے؟
اور جب یاور خاناں ان کے ہر سوال پہ تسلی بخش جواب دیتے دیتے اکتانے لگا تو گاڑی کا اگلا سرا مخصوص گڑگڑاہٹ کے ساتھ نمودار ہوا اور پلیٹ فارم اس کی آمد سے تھرتھرانے لگا۔ آغا یک لخت کھڑے ہو گئے۔
دھڑ دھڑ کرتے دو چار ڈبے ان کے سامنے گزر گئے اور گاڑی سست ہوتے ہوتے بالآخر رک گئی۔ پھر وہی معمول کی دھکم پیل، ہر شخص چڑھنے یا اترنے کو لپکا پڑتا تھا۔ پلیٹ فارم پر دور دور تک سروں کی فصل اگ آئی تھی۔
آغا کبھی ایک ڈبے کی طرف دیکھتے۔ کبھی تیز تیز چلتے دوسری جانب جاتے۔ بھیڑ کے اندر سے جھانکنے کی کوشش کرتے۔ ان کا بس نہ چلتا تھا کہ انسانی جنگل کے اوپر سے تیر کر گاڑی کے اندر داخل ہو جاتے۔
بھیڑ قدرے چھٹی تو آغا پھر آگے کو ہوئے۔ سامنے کے ڈبے سے نکلتے کسی مانوس چہرے نے ان کے قدموں کو اٹھایا۔ پھر یوں جکڑ لیا جیسے پتھر کی طرح ساکت آغا زمین میں گڑ گئے ہوں۔
’یاور خاناں‘ نے ان کی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھا۔ بے بازو اور بن ٹانگوں کے گٹھڑی سا دھڑ تنو مند جوان کے کندھوں پہ دھرا دروازے کے پائیدان سے اتر رہا تھا۔ اس کے سرخ و سفید چہرے پہ آغا کی سی کھڑی ناک دھری تھی اور سنہری بالوں سے بھرے ماتھے تلے دو بے نور آنکھیں یوں گڑی تھیں جیسے آغا حکمت اللہ کی جوانی دشتِ لیلیٰ کے صحرا میں مسافر ہو گئی ہو۔
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید