FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

سہ ماہی

ادب سلسلہ

 

اردو زبان و ادب کا عالمی سلسلہ

 

جلد :۱                        شمارہ: ۱

اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۵

 

حصہ چہارم

                   مدیر

                   محمد سلیم (علیگ)

مدیر اعزازی

                   تبسم فاطمہ

      E-mail: adabsilsila@gmail.com

 

 

سلسلۂ مضامین

 

 

اکیسویں صدی میں جدید اردو افسانے کے تخلیقی نقوش ——مبین مرزا

 

٭٭٭

 

 

 

اُردو اَفسانے کا مابعد الطبیعیاتی آہنگ  — محمد حمید شاہد

 

جس موضوع پر مجھے اظہار خیال کی دعوت دی گئی ہے، اس پر سوچتے ہی میرے ذہن میں ایک جھپاکا سا ہوا اور کوئی انتالیس چالیس سال پرانی ایک تحریر روشن ہوتی چلی گئی۔ جی، جو مجھے یاد آ رہی تھی اسے محمد حسن عسکری نے لکھا تھا۔ مجھے اس کا عنوان بہت عجیب لگا تھا، ’بارے آموں کا کچھ بیاں ہو جائے ‘ مگر جب مضمون کے آخر میں یثرب اور وادی بطحا کی کھجور، اِدھر کا آم ہو گئی تھی تو میں نے اس سے خوب خوب لطف لیا تھا۔ اسی تحریر میں، کہ جو بعد میں ان کی کتاب ’’وقت کی راگنی‘‘ کا حصہ ہوئی، حسن عسکری نے دلچسپ پیرائے میں قدامت پسند اخبار ’’ٹائمز لٹریری سپلیمنٹ‘‘ سے مقتبس کرتے ہوئے لکھا تھا کہ لوگوں کو ایذرا پونڈ سے شکایت تھی کہ انہوں نے چینی الفاظ چینی رسم الخط میں لکھ کر پڑھنے والوں کو خواہ مخواہ الجھن میں ڈالا، لیکن اگلی صدی میں شاید یہی شاعر سب سے زیادہ قابل قبول ہو گا کیونکہ ممکن ہے سوسال کے اندرمغرب چینی زبان بول رہا ہو گا۔ عسکری نے جو لگ بھگ چالیس سال پہلے پیشین گوئی کی اس کے پورا ہونے کے آثار ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں کہ چین اپنی زبان کو لے کر مغرب کی منڈی میں یوں گھس گیا ہے کہ کوئی اب اس زبان اور اس کے رسم الخط کو دیکھ کر کسی الجھن میں نہیں پڑتا۔

اب جبکہ پاک چین دوستی، گوادر پورٹ اور اکنامک کوریڈور کے راستے بہت اہم اور مرکزی معاشی سرگرمی بننے جا رہی ہے توایسے میں ہمیں بھی چینی زبان کی طرف دیکھتے ہوئے جو اُلجھن ہوا کرتی تھی، وہ جاتی رہی ہے۔ عسکری مرحوم کی باتیں اور بطور خاص وہ مضمون جس کا میں ذکر لے بیٹھا ہوں ہم جیسوں کو بہت اُلجھاتا رہا ہے مگر انہوں نے چینی اور اردو زبان کا مشترکہ مابعد الطبیعیاتی وطیرہ نشان زد کیا اسے میں اب تک نہیں بھول پایا ہوں۔ عسکری نے جو کہا اس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ ’چینی تہذیب کی بقا اور استحکام چینی زبان کے رسم الخط پر منحصر ہے اور اردو زبانکارسم الخط ہمارے بنیادی عقائد کے ساتھ مربوط اور منضبط ہے۔ آگے چل کر وہ لکھتے ہیں کہ کائناتی اور مابعدالطبیعیاتی نقطۂ نظر دونوں زبانوں میں ہے، بس اگر فرق ہے تو تاکید اور اصرار کا ہے۔ اس باب میں ان کا اضافہ تھا کہ چینیوں نے معرفت کے دو اصول بنارکھے تھے، ’’ین‘‘ اور ’’یانگ‘‘؛ ’’ ین‘‘ اگر ظاہر تھا تو ’’یانگ‘‘ باطن ہوا۔ ’’ین‘‘ ظلمت اور بدی، منفی ہونے کی علامت تھا اور ’’یانگ‘‘ نور اور نیکی اور مثبت راہ کی۔ دونوں ہر کہیں ہوتے مگر کسی میں ’’ین‘‘ زیادہ ہوتا کسی میں ’’یانگ‘‘ اور اسی سے تصویر کے دورُخ الگ الگ پہچانے جا سکتے تھے۔ یہی معاملہ اردو زبان کا بھی ہے یہاں بھی آدمی اصل الاصول کے مقابلے اپنے آپ کو چینی والا ’’ین‘‘ سمجھتا ہے اور کائنات کے مقابلے میں ’’یانگ ‘‘ کہ اسے بہر حال کُل کی طرف لپکنا ہوتا ہے۔

اُردو افسانے کی تاریخ کا مطالعہ کریں توہماری ملاقات اُن ’’وجودی‘‘ کرداروں سے ہوتی ہے جنہیں بے اطمینانی(uneasiness)، تشویش (anxiety)، فکر (care)، منصوبے (project)، موت اور آزادی وغیرہ جیسی وجودی اصطلاحوں سے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ توشی ہیکو از تسو(Toshihiko Izutsu)، (کہ جو بقول محمد عمر میمن، تیس زبانوں میں رواں تھے، اورجنہوں نے عربی فارسی، چینی، جاپانی، یونانی، سنسکرت اور یورپی زبانوں کا تقابلی مطالعہ کیا )، نے ’’وجود ‘‘ کے اس اظہار کو مارٹن ہیڈیگر(Martin Heidegger) کی آخری دور کی تحریروں سے جوڑا اور صاف لفظوں میں کہا تھا کہ ’’یہ تو غیر انسانی وحشیانہ حقیقی ماحول کے درمیان انسانی رقت آفرینی کا غنائی اظہار ہے ‘‘(دیکھیے :وجودیت:مشرق و مغرب از تشی ہیکو از تسو، ترجمہ محمد عمر میمن)۔ خیرabsurdityاور غیر انسانی میکان کیت کے چرکے سہتے اور اپنی تنہائی کے تعفن پر ابکائی پر مجبوراس ’’وجود‘‘ کو جہاں اُردو کے افسانے میں گزشتہ صدی کے چھٹے اور ساتویں دہے کے افسانوں میں دیکھا جا سکتا ہے تو وہیں عین اسی زمانے ہیں اس شخصی وجود کے علاوہ وجود بالائے ذات بھی آپ کو پوری طرح موجود ملے گا؛ جوہری طور پر تجریدی مگر کائناتی کہ جوہری طور یہ ایک وجود سے جڑتا ہے، جو سب وجودوں کی اصل ہے ؛ جی، یہی کلی حقیقت ہے اور یہی وہ وجود ہے، جو واحد ہے اور جسے کبھی اصالت الوجود کی اصطلاح سے سمجھا گیا ہے اور کبھی مطلق حقیقی وجود کی اصطلاح سے۔ اُردو اَفسانے کی یہ مابعدالطبیعیات صرف ایک یا دو دہایؤں کے افسانوں میں ظاہر نہیں ہوئی، ایک صدی سے زائد عمر پانے والے افسانے میں ہرکہیں محسوس کی جا سکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا ہونا ہمارے مزاج کے عین مطابق ہے۔ بجا کہ ہم نے افسانے کی صنف مغرب سے لی مگر اس میں اپنے مزاج کو داخل کر دیا اور اسے ’’رسالتہ الطائر‘‘کی تماثیل، ملاوجہی کے ’’قصہ حسن ودل‘‘، داتا گنج بخش کی کشف المحجوب اور اپنے ہاں کی قدیم داستانوں اور قصوں سے اخذ کرنے پر بھی ہمیشہ مائل پایا ہے۔ افسانہ نگار جمیل احمد عدیل نے تو کوئی ایک چوتھائی صدی پہلے ’’نروان‘‘ کے نام سے ایسے افسانوں کا انتخاب مرتب کیا تھا جن میں یہ مابعد الطبیعیاتی عنصر بہت نمایاں ہو گیا تھا اور جنہیں بقول عدیل، روحانی افسانے کہا جا سکتا تھا۔ اس انتخاب میں ممتاز مفتی(ٹیڑھی سرکار)، احمد ندیم قاسمی(عاجز بندہ)، عزیز احمد(تصورشیخ)، قدرت اللہ شہاب( بملا کماری کی بے چین روح)، محمد خالد اختر(فورتھ ڈائمنشن)، اشفاق احمد(بیاجاناں )، انتظار حسین(زرد کتا)، سلیم اختر(تیر ہواں بُرج)، جیلانی بی اے (اذان)، بانو قدسیہ(کعبہ میرے پیچھے )، منشایاد(رُکی ہوئی آوازیں )، رشید امجد(لمحہ جو صدیاں ہوا)، خالدہ حسین(مکڑی)، مرزا حامد بیگ(ایک خاکی کا معراج نامہ)، اعجاز احمد فاروقی(ایک غیر مرئی الہ آباد)، مظہر الاسلام(می رقصم)، ابدال بیلا(بند مٹھی)، محمدحمید شاہد(ایک ماخوذ تاثر کی کہانی) اور جمیل احمد عدیل(رتن مالا اور کاتب کلام)، کُل بیس افسانے شامل تھے۔ خیر بات ان روحانی افسانوں تک محدود نہیں ہے یہ روحانی پہلو تو زبان کی ترکیب (کہ جسے عسکری نے شناخت کیا)، اور اصالت الوجود سے جڑنے کی طرف مائل ہمارے مزاج (جس کی نشاندہی توشی ہیکو از تسو نے کی تھی)، کا غیر معمولی اور نمایاں وصف ہو چکا ہے جسے طوطی نامہ، بیتال پچیسی، قصہ چہار درویش سے لے کرانتظار حسین کے ’’ آخری آدمی‘‘ اور ’’ زرد کتا‘‘تک اور رشید امجد کے ’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں ‘‘ اوراسلم سراج الدین کے ’’سمر سامر‘‘ سے لے کرآج کے افسانہ نگار آصف فرخی کے افسانے ’’بودلو‘‘تک ہر کہیں دیکھا جا سکتا ہے۔

’’ایک چیز لومڑی کا بچہ ایسی اُس کے منہ سے نکل پڑی۔ اُس نے اُسے دیکھا اور پاؤں کے نیچے ڈال کر روندنے لگا، مگر وہ جتنا روندتا تھا اُتنا وہ بچہ بڑا ہوتا جاتا تھا۔ جب آپ یہ واقعہ بیان فرما چکے تو میں نے سوال کیا :یا شیخ لومڑی کے بچہ کی رمز کیا ہے اور اس کے روندے جانے سے بڑے ہونے میں کیا بھید مخفی ہے ؟ تب شیخ عثمان کبوترنے ارشاد فرمایا کہ لومڑی کا بچہ تیرا نفس امارہ ہے۔ تیرا نفس امارہ جتنا روندا جائے گا موٹا ہو گا۔ ‘‘

(زرد کتا: انتظار حسین)

’’ لاؤنج کا صوفہ ایک طرف کر کے چارپائی ایک طرف بچھا دی گئی اور اسٹریچر سے اُس کا وجود چارپائی پر منتقل کر دیا گیا۔ ’’گھر میں چار پائی کتنی ضروری ہے۔ ‘‘ کسی عورت نے دوسری عورت کے کان میں کہا۔ ۔ ’’اور ہمارے گھروں میں اب اس کا رواج ہی نہیں۔ ‘‘ لاؤنج میں ست رنگا پرندہ پر پھیلائے چہک رہا تھا اور ناچ رہا تھا لیکن اس کی چہک کسی کو سنائی نہیں دے رہی تھی، نہ اس کے رنگ کسی کو نظر آ رہے تھے۔ ‘‘

(ست رنگے پرندے کے تعاقب میں :رشید امجد)

’’چوپٹ راجہ نے بہانے سے بودلے فقیر کو بلوایا کہ حضرت کا طلب گار تھا اور پلکوں سے مٹی صاف کر کے کہتا تھا، میرا مرشد لعل قلندر آتا ہے۔ اور اس کو ایک قصائی کے حوالے کر کے اس کی بوٹیاں دیگ میں پکوا دیں۔ بودلے کے گوشت کا سالن سینی میں سجایا اور دسترخوان پر لگا کر شہر بھر کی دعوت کی۔ ایک رکابی پوش سے ڈھانپ کر اُن کو بھی بھیجی اور جب رکابی ان کے سامنے آئی تو اُنہوں نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ پھر سیدھے چوپٹ راجہ کے سامنے گئے اور تین مرتبہ آواز دی، بودلہ، بودلہ، بودلہ۔ تین مرتبہ شہر کی طرف منہ کر کے آواز دی، تین مرتبہ دریا کی طرف رُخ کر کے پکارا، ذرا دیر میں جواب آیا، میرے مرشد نے پکارا، میں لعلوں لعل آیا۔ گوشت کی بوٹیاں جن جن برتنوں میں رکھی ہوئی تھیں اُڑ اُڑ کر جمع ہونے لگیں۔ ‘‘

(بودلو :آصف فرخی)

کہیں ایک چینی کہاوت پڑھی تھی کہ اگر ہم دُکھ کے پکھیرو کو اپنے سروں پر منڈلانے سے روکنے پر قادر نہیں ہیں تو ہم ایسا تو کر سکتے ہیں کہ انہیں اپنے بالوں میں گھونسلا بنانے سے روک دیں۔ کہنا یہ ہے کہ جہاں اُردو افسانے میں ایسے کردار موجود ہیں جو لڑھکتے ہوئے پتھر جیسے ہیں، سرسبز ہونے کے امکانات نہ رکھنے والے اورحوادث کی ٹھوکروں پرپڑے ہوئے وجود؛ جی وہی پریم چند کے ’’ کفن‘‘ والے گھیسو اور مادھو، راجندر سنگھ بیدی کے ’’ متھن‘‘ کی کیرتی، منٹو کے ’’کھول دو‘‘ کی سکینہ یا انتظار حسین کے ’’کایا کلپ‘‘ کے مکھی ہو جانے والے شہزادہ آزاد بخت جیسے، وہیں یہ ہمہ وقت اپنے نفس امارہ کی لومڑی کو کچلنے والے ایقان کے ساتھ آگے بڑھنے والے اور ایک اور سطح وجود پر جینے کے لیے ست رنگے پرندے کی چہک سننے یا پھر اپنے بوٹی بوٹی ہو چکے اور بکھر چکے وجود کو حقیقت کی لطیف ترین سطحوں پربھرپورپن کے ساتھ جی اٹھنے والے ہرے بھرے کردار بھی ہو گئے ہیں، ایسا تخلیقی وجود، جو حقیقت کے ارفع تصور سے جڑ کر نہ صرف انسان کو پھر سے کائنات کے مرکز میں لاتا ہے اسے اصالت الوجود ہو جانے کی للک بھی عطا کرتا ہے۔ اُردو افسانے کا یہی وہ مابعدالطبیعیاتی اور سری آہنگ ہے جو اسے نہ صرف بہت گہری معنویت سے ہمکنار کرتا ہے، بلکہ اسے ایسی قوت اور قرینہ بھی عطا کرتا ہے کہ اس کے لافانی کردار اپنے سروں پر منڈلاتے دکھ پرندوں کو اپنے بالوں میں گھونسلا بنانے سے پہلے روک دیتے ہیں۔ اس سری مزاج کی عطا یہ ہے کہ لکھنے والے کا باطن، بے پناہ تشویش، نہ ختم ہونے والی بے کلی اور شدید اکلاپے سے اوب کر ابکائی کرنے سے کہیں پہلے، وجود کی لطیف سطحوں سے جڑتا ہے۔ یہی لطیف سطحیں در اصل بالائے ذات وجودہیں اور اس وسیلے سے اردو کا افسانہ نگار پوری کائنات سے بھیدوں بھرا رشتہ استوار کرتا اور تخلیقی اعتبار سے اور بھی سر سبز ہو جاتا ہے۔

کہہ لیجئے کہ اردو افسانہ محض اور صرف عمومی اور حسی حقیقت یا پھر سائنس کی اصطلاحوں میں nothingnessسے ٹائم اور سپیس کے پیمانوں میں اترنے یا پھر پازیٹو اور نیگیٹو کے بعدوں کے ساتھ لیباریٹری میں پرکھی جا سکنے والی حقیقت تک محدود نہیں رہتا، اس نے مادے سے پیوست اور کُچل کر رکھ دینے والی حقیقت سے اُکتا کر فرار کے لیے فینتاسی کو شعار نہیں کیا اور وجودی ابکائیوں کے ذریعے تخلیقی استفراغ کے سراب میں زندگی کی تہمت لگی موت پر بھی راضی نہیں ہوا، یہ جسم کے اندر سے روح کے ساتھ ککلی کھیلتی حقیقت کو یوں دریافت کرتا ہے جیسے مادی ذرات کے گہرے وسط میں سے Higgs boson یعنی God Particle دریافت ہو جایا کرتا ہے ؛نظر میں نہ آنے والا مگردیگر ذرات کی کمیت اور شناخت وضع کرنے اور اپنے وجود کی بالواسطہ شہادت فراہم کرنے والا:یوں یہ سریت سے جڑتا ہے اور قطرے میں کائنات کو زندہ دیکھتا اور فنا سے ہمکنار ہونے والاذرہ ہو کر بھی کل اور ہمیشگی سے جڑ جاتا ہے، کچھ اس ادا سے کہ جیسے ہمارے فانی وجودوں میں روح رقص کرتی ہے، اور یوں اس میں بھیدوں بھری نئی نئی دنیائیں تخلیق کرنے کے امکانات بھی پیدا ہوتے چلے گئے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

فاقصص القصص۔ ۔ . (افسانوں کے متعلق چند باتیں )  —حقانی القاسمی

 

 

مہاتما بدھ نے کہا تھا کہ لوگ بچوں کی مانند ہیں اور کہانیاں سننا پسند کرتے ہیں۔ مگر میں جس عہد میں زندہ ہوں، اس عہد میں آدمی کے اندر کا بچہ مرچکا ہے۔

(انتظار حسین)

 

کہانی کسے کہتے ہے ؟ اس کا شجرۂ نسب کیا ہے ؟ مجھے نہیں پتہ!

]شایدکہانی کدم کا پھول ہے، کٹج کی کلی ہے، کرشن کی بانسری ہے یا جوہی، کیتکی، یاسمن، نیلوفر، سنبل، مالتی، سرس، سوسن، ریحان، رعنا، زیبا، کبود کی خوشبوؤں کا منتھن ہے۔ [

کہانی جب کرشن کی بانسری بن جاتی ہے تو کہانی کو معراج نصیب ہوتی ہے۔ جس کہانی میں کرشن کی بانسری نہ ہو، وہ کہانی، کہانی نہیں ہوتی۔ کہانی تو ’مدھوبن‘ میں جنم لیتی ہے۔ لکشمی کے مدور استنوں پر وشرام کرتی ہے۔

]شاید استنوں سے لذت اور قوت کشید کرنے کا نام ہی کہانی ہے۔ اِندر کی زعفرانی شراب بھی کہانی ہے اور محافے میں بیٹھی ہوئی حسین دلربا قتالۂ عالم رقاصۂ فلک بھی۔ [

کہانی کا محل وقوع گنگا، جمنا اور سرسوتی کے ساحل بھی ہیں اور دارۂ جلجل بھی۔ کہانی قتّان پہ بھی رہتی ہے، کتیفہ پہ بھی۔ دماوند میں بھی، دمون میں بھی۔ راوی میں بھی، راہون میں بھی۔ زبرجد پہ بھی، زبرون میں بھی۔ شعب بوان میں بھی، شوالک میں بھی۔ ہر مکھ میں بھی، ہمالہ میں بھی۔ کہانیاں وہی زندہ رہتی ہیں جن کے اندر تخلیقیت کا ترفع اور تجمل ہو۔ بغیر تجمل اور ترفع کے کہانی زندہ نہیں رہتی۔ ہماری افسانوی تاریخ میں ’مشہود بالاجادہ‘ کہانیوں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں۔ ہاں کچھ ناقابل فراموش افسانے ضرور ہیں مثلاً کفن (پریم چند) ان داتا (کرشن چندر) پھندنے، ٹوبہ ٹیک سنگھ (منٹو) لاجونتی (بیدی) لحاف (عصمت چغتائی) سوکھے ساون (ضمیرالدین احمد) مدن سینا اور صدیاں (عزیز احمد) میگھ ملہار (ممتاز شیریں ) کچھوے، آخری آدمی، کشتی (انتظار حسین)گائے، کونپل (انور سجاد) ماچس، کمپوزیشن، سریز (بلراج مینرا) تلقارمس، جمغورہ الفریم (سریندر پرکاش) فوٹو گرافر، ہاؤسنگ، سوسائٹی (قرۃ العین حیدر) رقص مقابر (زاہدہ حنا) سواری (خالدہ حسین) کلو (بانو قدسیہ) عطر کافور (نیر مسعود) آگ، الاؤ، صحرا (قمر احسن) پرندہ پکڑنے والی گاڑی (غیاث احمد گدی) بجوکا (سلام بن رزاق) ڈار سے بچھڑے (سید محمد اشرف) ہانکا (ساجد رشید) زہرا ( محسن خان) چابیاں (طارق چھتاری) میرے حصے کا زہر(فیاض رفعت) صدی کو الوداع کہتے ہوئے (مشرف عالم ذوقی)۔ ۔ .

’بین العدمین‘ کچھ کہانیاں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں اور کچھ کہانیوں کی عمر صرف چودہ دن ہوتی ہے۔ ۔ . جن کہانیوں کو گاندھاری کی نظر کی شکتی میسر ہوتی ہے، وہ امرہو جاتی ہیں۔ جن کہانیوں کو گاندھاری کی نظر نہیں لگتی۔ وہ کہانیاں بس یوں ہی سی رہ جاتی ہیں۔ اور ان کہانیوں کے جسم زخمی اور لہولہان ہوتے رہتے ہیں۔ ان کے ناک نقشے بھی ٹیڑھے میڑھے ہوتے ہیں۔ کہانی تو ہر لحظہ نیا طور، نئی برقِ تجلی مانگتی ہے۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ ہمارا تخلیقی ادب ابھی تک ابوالعلا معری کی ’’الانسان والحیوان‘‘ اور ابن طفیل کے ’’حی بن یقظان‘‘ جیسے عظیم تخلیقی اظہاریہ کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔ بغیر باپ کے پیدا ہونے والے ہرن کی آغوش میں پرورش پانے والے ایک ایسے بچے کی داستان ہے جو اپنی مسلسل جستجو سے ایک مافوق الفطرت ہستی کو تلاش کر لیتا ہے۔ الف لیلہ ولیلہ، کلیلہ دمنہ اور مقامات روائی ادب کی اولین شناخت ہیں۔ صدیاں گزر جائیں گی مگر یہ تحریریں زندہ جاوید رہیں گی۔

بلراج مینرا نے بہت صحیح لکھا ہے کہ اردو کے بیشتر ادیب نہ جی رہے ہیں نہ ادب لکھ رہے ہیں بلکہ تنبولا کھیل رہے ہیں۔ ۔ . اور سچی بات یہ ہے کہ اردو میں Hoax زیادہ ہیں، تخلیق کار کم اور یہ بھی ’مساس ملاعبہ‘ تک ہی موقوف و محدود ہیں۔ تخلیق کاروں نے مجربات بو علی سینا کے ’میموں ‘ کا استعمال ترک کر دیا ہے۔ اس لیے ان کی تخلیق حد درجہ نحیف و ضعیف ہو گئی ہے۔ بو علی سینا کے ’میموں ‘ کا متروک ہو جانا تخلیقی توانائی اور افسانوی صحت کے لیے مضر ثابت ہوا ہے۔ تخلیق کار مبہیات، ممسکات کا استعمال کرتے تو افسانہ نہ ذیابیطس کا شکار ہوتا نہ سیلان و جریان کا اور لطف تو یہ ہے کہ بعض تخلیق کار، اذریطوس اوکتے ہیں۔ کتے کہانیوں کے کہتے ہیں کہ ہماری کہانیوں کاسرچشمہ’ پنچ تنتر‘ ہے جو حیوانوں کی زبان میں لکھی گئی تھی۔ اس زمانے میں جب دستورِ زباں بندی تھی تو حیوان مطلق کی زبان، حیوان ناطق کا ذریعۂ اظہار بن گئی تھی۔ حیوانی حرکات، اشارات، علامات، انسانی اظہار کے مؤثر ترین ذرائع تھے اور حیوان اس لحاظ سے بہت ممتاز تھا کہ اس کے اوپر کوئی دارو گیر، کوئی گرفت نہیں تھی۔ بعد کے زمانوں میں ان حیوانات نے کافی ارتقائی یاترا کی۔ دِمیری نے ’حیاۃ الحیوان‘ لکھا اور جاحظ نے ’کتاب الحیوان‘۔ ۔ .گوکہ ہمارے افسانہ نگاروں نے نہ دِمیری کو پڑھا اور نہ جاحظ کو۔ ۔ . پھر بھی ان کے افسانوں میں حیوانی کردار پوری قوت کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ بالخصوص سید رفیق حسین کے افسانوں میں اور ان میں بھی ’کتے ‘ کو اشرفیت اور افضلیت حاصل ہے۔ سب سے زیادہ بطور استعارہ اسی کا استعمال ہوا ہے۔ ہمارے بیشتر کہانی کاروں نے ’کتے ‘ سے کئی سیاسی سماجی، تہذیبی استعارے اور ثقافتی خلقیے خلق کئے ہیں اور کتے کی جبلی، نفسیاتی کیفیات کی مؤثر عکاسی کی ہے اور انسانی سچویشن کے تناظر میں ’کتے ‘ کو منفرد کردار کی حیثیت سے پیش بھی کیا ہے۔ مثلاً سلام بن رزاق نے اپنی کہانی ’قصہ دیوجانس جدید‘ میں کتے کا استعاراتی استعمال کیا ہے :

’’جب بھی کوئی اس سے ملنے جاتا وہ کتوں میں گھرا ہوا ملتا۔ اسے کئی کئی منٹ تک پتہ ہی نہ چلتا کہ کوئی اس سے ملنے آیا ہے۔ ایسا لگتا تھا اسے اپنے کتوں کے سوا دنیا میں کسی اور چیز سے دلچسپی ہی نہیں ہے۔ کتوں کی مختلف حرکات و سکنات اور ان کے ردِّ عمل سے پیدا ہونے والے نتائج کا نہایت باریک بینی سے مشاہدہ کرتا۔ اس کی شخصیت بستی والوں کی نظر میں روز بروز پراسرار ہوتی گئی۔ ایک ڈھنڈورچی نے تھالی پیٹ پیٹ کر مذکورہ اعلان کیا۔ لوگوں کا سویا ہوا تجسس ایک دم سے جاگ پڑا۔ سارے لوگ کاٹھ اور مٹی کے پتلوں کی طرح بے حس و حرکت کھڑے تھے اور کان اس کی آواز پر لگے تھے۔ لوگوں نے حیرت سے دیکھا کہ وہ اسٹول پر کھڑا دونوں ہاتھ ہوا میں لہراتا کسی کتے کی طرح بھونک رہا ہے۔ ‘‘

( قصہ دیوجانس جدید)

مشرف عالم ذوقی کے یہاں یہی ’کتا‘ کنزیومر ورلڈ کی نئی علامت کے طور پر ابھرتا ہے۔ ’’یہ کسی تھکی ہوئی رات کی داستان نہیں ہے ‘‘ ذوقی کی مشہور کہانی ہے، جو دو حصوں میں ہے۔ یہاں کتا بیک وقت جانور بھی ہے، انسان بھی۔ اپنی جبلت اور درندگی وہ انسان کو دے چکا ہے اور دردمندی کے ساتھ اس سے تھوڑی سی انسانیت مانگ رہا ہے۔

 

(۱)

دروازہ شاید رات میں کھلا رہ گیا تھا۔ اب مجھے خوف کا احساس بھی ہو رہا تھا۔ کوئی قریب ہی کھڑا تھا اور میں اس کی باتوں کو صاف سن رہا تھا۔ وہ جو بھی تھا۔ لیکن مجھ سے یوں مخاطب تھا۔

’’ سنئے آپ ہماری درندگی اور جبلّت سب کچھ لے چکے ہیں ____ نرم شائستہ لہجہ____ آپ سن رہے ہیں نا____ مہینوں میں، برسوں میں اور شاید صدیوں میں آپ تھوڑا تھوڑا کر کے اپنے انسان ہونے کے خطرے کو ____ (ہنسی) کم کرتے رہے ہیں ____ برا مت مانیے ____ انسان تو آپ کو اپنے علاوہ پسند تھے نہیں ____ جانور آپ کے پالتو بن چکے تھے … آہ، سن رہے ہیں نا، خیر۔ اس غیر دلچسپ گفتگو سے مجھے کوئی لینا دینا نہیں۔ میں صرف اتنی التجا کرنے آیا ہوں کہ اگر آپ کو ہم سے کچھ لینے کا حق ہے تو ہمیں بھی____ آپ سمجھ رہے ہیں نا____ آپ ہم سے ہماری جبلّت لے چکے ہیں ____ آپ اپنی تھوڑی سی انسانیت ہمیں دے سکتے ہیں ‘‘

 

(۲)

اب کہانی بالکل ختم پر ہے ____ میری نیند اچٹ گئی وہی دھیما اور مہذب لہجہ… جیسے کوئی میرے قریب کھڑا چبا چبا کر نرمی اور متانت سے لفظوں کی ادائیگی کر رہا ہو، اور ادائیگی کرنے والا اتنا پاس کھڑا ہو کہ اس کی سانسیں بھی گننے میں مجھے کوئی دشواری نہ ہو… وہی نرم ملائم اور مہذب انداز گفتگو۔

’’سنئے اب یہاں آپ کو، یا سب کو میری ضرورت ہی کیا ہے وفاداری اور غلامی کی آپ کی نظروں میں قیمت ہی کیا رہی؟ ناراض مت ہوئیے۔ غور کیجئے، آپ ہم میں سے سب کچھ لے چکے ہیں۔ ہماری حیوانیت، درندگی___ جبلت۔ نہیں اس میں افسوس کرنے جیسی کوئی بات نہیں ہے محترم____ اچھا اب مجھے اجازت دیجئے، لیکن اتنا یاد رکھئے گا____ اپنی وفاداری اور غلامی، میں نے ٹھیک طرح سے نبھائی ____ کیوں ٹھیک ہے نا؟ تو جاتے جاتے آپ سے تھوڑی سی انسانیت مانگ رہا ہوں۔ اگر آپ کے اندر بچ گئی ہے تو … نہیں ؟ … اچھا الوداع… ‘‘

میں جانتا تھا شمو بھائی، آپ یقین نہیں کریں گے، مگر اس وقت یہاں میری موجودگی کی حد تک، جس کا آپ کہیں تو ثبوت بھی دے سکتا ہوں … وہ راکسی ہی تھا، اور وہ وہی میرے مخصوص لباس میں تھا____ سوٹ، ہیٹ____ ہاتھ میں اسٹک____ اس نے ہیٹ اتار کر، جھک کر مجھے سلام کیا پھر تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا۔

(یہ کسی تھکی ہوئی رات کی داستان نہیں ہے (۱)… ذوقی)

اس سے پہلے کہ ہم کچھ سمجھ پاتے، کانسٹبل چلا کر بولا۔ سر، چمتکار ہو گیا۔ انہونی ہو گئی۔

سینئر غصے میں دہاڑا۔ ’’ بکو کیا بکنا چاہتے ہو؟‘‘

’’ سر۔ اس کتے کی آواز سنئے۔ جی ہاں سر۔ غور سے سنیے۔ ‘‘

اور… بالکل سچ کہتا ہوں صاحبو، وہ کتا انسانی آواز میں بول رہا تھا۔

’’ شرافت کا زمانہ نہیں رہا۔ سراسر ظلم ہے، زیادتی ہے۔ آپ لوگ کسی بھی شریف کتے کو پکڑ کر اندر بند کر لیتے ہیں۔ ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے۔ ‘‘

کتا بڑ بڑا رہا تھا۔ سینئر کی آنکھیں پھیل گئی تھیں ____ جونیئر پر غشی طاری تھی۔ اور تب سینئر نے دھیرے سے جونیئر کے کندھے تھپتھپائے۔ بولا____ ’’ سنو … غور سے سنو۔ ایسا ہوتا ہے … ایک خاص مدت میں … جب ہم ارتقا پذیر ہوتے ہیں … سمجھ رہے ہونا… ارتقا پذیر… تنزلی کے راستے بھی یہیں سے پھوٹتے ہیں، سمجھ رہے ہونا… یعنی اگر کچھ بدل جائے۔ ہم تم ہو جائیں۔ تم ہم… فیشن سے لے کر اخلاقیات … یعنی کتا انسان ہو جائے اور انسان… ایک خاص وقت میں … یعنی یہ ارتقاء کا بہت معمولی سا دستور ہے … تم سمجھ رہے ہونا… در اصل زمین اپنے مرکز سے ہٹ رہی ہے۔ نیا پرانا ہو رہا ہے۔ یعنی… میں جو کہہ رہا ہوں … تم سمجھ… ‘‘

سینئر ٹھہر ٹھہر کر سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر صاحبو، جو بات اب میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں، وہ ناقابل یقین ہے۔ سینئر بول ضرور رہا تھا مگر۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ وہ بولنے کی کوشش ضرور کر رہا تھا مگر اس کے نرخرے سے مستقل کتوں جیسی آواز نکل رہی تھی اور سب چونک کر حیرت سے اسے دیکھے جا رہے تھے۔

(یہ کسی تھکی ہوئی رات کی داستان نہیں ہے (۲)… ذوقی)

شوکت حیات کے یہاں بھی یہی ’کتا‘ باندازِ دگر آتا ہے :

’’گلی کا کتا اس کی بغل میں بیٹھا ہوا اس کا بدن چاٹتا اور اس کی کانپتی ہوئی انگلیوں کی تال پر دم ہلاتا رہتا۔ گردن اٹھائے ہوئے کتے کے ساتھ وہ گردن اٹھاتا۔ گردن جھٹکتے ہوئے کتے کے ساتھ وہ گردن جھٹکتا۔ ناخن رگڑتے ہوئے کتے کے ساتھ وہ اپنی انگلیاں توڑتا اور پھر لمحوں کے اوپر۔ نیچے بیچ یا کسی بھی لمحے میں پیچھے کی جانب سے ہاتھوں میں کچھ روٹیوں کے سر کتے ہی اس کی گردن نیچے جھک جاتی۔ انگلیاں کانپنے لگتیں اور کانپتی ہوئی ہتھیلیوں پر کانپتی ہوئی روٹیوں کو دیکھ کر کتے کی زبان بھی کانپتی۔ اس کی گردن اور بھی نیچے جھک جاتی۔ کانپتی ہوئی ہتھیلیوں پر کانپتی ہوئی روٹیوں کو دیکھ کر کتے کی زبان رال ٹپکاتی۔ اس کی گردن اور بھی نیچے جھک جاتی۔ کانپتی ہوئی ہتھیلیوں پر کانپتی ہوئی روٹیوں کو دیکھ کر کتا بھونکتا۔ اس کی گردن اور بھی۔ ۔ .‘‘

م۔ ق۔ خان نے بھی ’کتے ‘ کو ایک نئی معنویت عطا کرتے ہوئے اپنی کہانی کا موضوع بنایا ہے۔ اس میں ’کتے ‘ کی قلبِ ماہیت اور اس کی ممتا کا بیان تحیر سے خالی نہیں :

’’غار میں ساتھ دینے والا اصحاب کہف کا کتا ہو، اندھیری رات میں بھیڑوں کی حفاظت اور رکھوالی کرتا ہوا گڈریے کا کتا ہو۔ مجرم کی تلاش میں مدد کرتا ہوا پولیس کا تربیت یافتہ کتا ہو، Romulus اور Remus کا اسطوری قصہ ہو۔ آج کے خلائی دور کی کتیا Lyka ہو۔ انسان اور کتوں کا رشتہ بڑا ہی پرانا، معتبر اور دلچسپ ہے۔ یہ کہانی اسی رشتے کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ اتفاق ہے کہ واقعہ کسی خاص شہر کا ہے لیکن ایسے حالات ہر بڑے اور چھوٹے شہر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس رات وہ کتیا رونی آواز میں گیٹ کے پاس بھونکتی رہی اور مجھے رات بھر نیند نہیں آئی۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ اس لڑکے اور کتے میں کیسا رشتہ تھا؟ مجھے اسطوری قصوں پر یقین ہونے لگا۔ جنہیں میں محض علامتی قصے کہانیاں تصور کرتا تھا۔ خاص کر اس زرد کتیا کا عجیب کردار تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ کتیا اس لڑکے کی اپنی ماں ہو۔ وہ نہ صرف لڑکے کے ساتھ کھیلا کرتی تھی بلکہ اسے کھانا لاکر بھی دیتی تھی اور اپنی بساط بھر اس کی حفاظت بھی کرتی رہتی تھی۔ (رشتے —م۔ ق۔ خان)

انور عظیم کے یہاں ’کتا‘ ایک جنسی علامت کے طور پر سامنے آتا ہے :

’’اور جب کبھی گراج کے مالک کی بیوی جو ماڈرن قسم کی سٹھانی ہے، نظر آ جاتی ہے تو بلا وجہ طوطے کی طرح چونچ نکال کر سیٹی بجانے لگتا ہے اور اپنے جھبرے کتے کی گردن پر یوں ہاتھ پھیرنے لگتا ہے جیسے سوتی ہوئی عورت کی شہوت جگانے کے لیے ران سہلا رہا ہو۔ ‘‘                     (آخری رات— انور عظیم)

بلراج کومل کی کہانی ’’تیسرا کتا‘‘ میں بھی کتا Social Status کی ایک علامت بن کر ابھرا ہے۔ یہ سماجی سوچ کا نیا زاویہ ہے، جو کتے کے حوالے سے ان کی کہانی میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کہانی کاکردار ایسا ہے جوکتے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور اچھی نسل کا کتا اس کے اچھے خاندانی ہونے کا واحد ثبوت بن جاتا ہے :

’’مسز لکشمی داس جس کی صحت کثرتِ احتیاط، کثرت اولاد، کفایت شعاری اور دن دونی رات چوگنی ترقی کرتی ہوئی قیمتوں کے کارن تباہ ہو چکی تھی۔ ہر شام پلے کو سینے سے لگا کر محلے کے ان تمام مکانوں کے سامنے سے مٹرگشت کرتی ہوئی نکلتی جن کے اندر کتوں کی مختلف نسلوں کے نمونے روز و شب راگ الاپتے رہتے تھے۔ اس کے چہرے کی زردی کچھ دیر تک اس وقار تلے دب جاتی جو پلے کے لمس سے اس کے چہرے پر پیدا ہو جاتا۔ وہ دل ہی دل میں اس کے لیے دعا کرتی۔ ‘‘

’’دوسرے پلے کی نسل اچھی تھی۔ اس کا جنم ایک پلیا کے اس فراخ دل دوست کے خاندانی دو منزلہ مکان کے پچھواڑے کے ایک جھنڈ میں ہوا تھا۔ پلے کا رنگ اچھا تھا اور دیکھنے میں بڑا تندرست تھا۔ ۔ . نیا پلا بڑا خوبصورت تھا۔ ہر روز کہیں نہ کہیں گھومتا پھرتا، کھیلتا کودتا نظر آ جاتا۔ لکشمی داس کے بچے اس کے ساتھ بہت پیار کرتے۔ اس کو اس قسم کے کرتب سکھاتے۔ اس کے بعد اپنی ممی کی ہدایات اور رسم و زمانے کے مطابق غلط سلط انگریزی میں بات کرتے۔ کتا بہت خوش ہوتا۔ ‘‘

’’تیسرا کتا پہلے دونوں کتوں سے بہتر تھا۔ اس کی تھوتھنی سفید تھی، آنکھیں بھوری، نوکے لیے لمبے کان، چھریرا بدن اور گھپے دار دم اور اس پر طرہ یہ کہ کتا بلا کا چست تھا۔ اس بار سیر کے لیے جاتے ہوئے جب لکشمی داس سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ اس بار اس نے کتا پوری چھان بین کے ساتھ حاصل کیا ہے اور اس کا ارادہ اس کو مستقل طور پر رکھنے کا ہے۔ پہلے دو کتوں کا نام غالباً لکشمی داس نے رکھا تھا یا نہیں۔ بہرحال ان کے ناموں کا علم نہ ہو سکا۔ یہ بلند کردار کتا بڑا خوش بخت نکلا۔ اس کا نام ریمو رکھا گیا اور چونکہ یہ کتا پہلے دو کتوں سے زیادہ محبت، عزت اور روشن مستقبل کے امکانات لیے ہوئے تھا۔ اس لیے ٹینو اور وینا نے کچھ ہی دنوں میں اسے لکشمی داس پوپلی کے خاندان کا فرد قرار دے کر اسے بھی ریمو پوپلی کے نام سے پکارنا شروع کر دیا۔ ۔ .

(تیسرا کتا — بلراج کومل)

ناصربغدادی کا افسانہ ’’خوف زدہ کتے ‘‘ بھی اسی نوع کی کہانی ہے۔ اس کا ایک کردار جرمن شیفرڈ کتا شیرو ہے۔ یہ کہانی ایک ایسے شہر کی ہے جہاں جبر اور تخویف کا ماحول ہے۔ ناصر بغدادی کی کہانی کا کتا’ شیرو‘ انسانی بستی سے بیزار ہو کر کہیں دور نکل جاتا ہے۔ کہانی یوں شروع ہوتی ہے :

’’شیرو اپنے باوقار طرز عمل سے سب پر یہ واضح کر دیتا تھا کہ وہ اعلیٰ نسل کا کتا ہے۔ محلے کے کتوں سے میل ملاپ اور یاری دوستی کو وہ بالکل پسند نہیں کرتا تھا۔ اپنا زیادہ تر وقت وہ گھر ہی میں گزارتا تھا۔ یہ کتا پچھلے دو برسوں سے ہمارے گھر میں بڑے مزے سے رہ رہا تھا۔ جب گھر میں لایا گیا تھا تو بالکل چھوٹا سا کھلونا دکھائی دیتا تھا۔ اس وقت زیادہ تر دودھ پر ہی اس کا گزارا ہوتا تھا۔ مگر اب تو توانا اور تنومند ہو گیا تھا۔ اس کی حرکات و سکنات سے تو یہی محسوس ہوتا تھا کہ اس کا کسی بے حد شائستہ گھرانے سے تعلق تھا۔ اس کو ہر چیز کھانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ چھچڑے اور کچا گوشت تو دور کی بات ہے۔ وہ ایسی ویسی ڈشوں کو دیکھ کر ہی اپنا منہ پھیر لیتا تھا۔ ‘‘    (خوف زدہ کتے —ناصر بغدادی)

Ward No:6

اردو کہانیاں پڑھتے ہوئے جانے کیوں ایسا لگتا ہے جیسے ابھی تک ہمارا فکشن چیخوف کے Ward No-6 میں سسک رہا ہے۔ آخر کیا بات ہے کہ اردو فکشن میں فرانس اور روس کچھ زیادہ ہی نظر آتا ہے۔ کلکتہ اور ممبئی بہت ہی کم۔ جانے کیوں اردو فکشن پڑھتے ہوئے بین السطور میں چیخوف اور موپاساں بار بار ابھرتے ہیں۔ یہ میرے ساتھ ہی ہے یا کسی اور کو بھی ایسا ہی کچھ کچھ ہوتا ہے۔ وہ موپاساں جس کی ایک ایک سطر میں نیا افق ہے۔ مگر ان کی تتبعی اور تقلیدی کہانیوں میں ایک نیا افق تلاش کرتا ہوں تو وہ افق تا آفاق نظر نہیں آتا۔ کہتے ہیں کہ موپاساں کے پاس جسم ہے اور چیخوف کے پاس روح۔ اور جب اس جسم اور روح کا قران السعدین ہوتا ہے تو ایک خوبصورت افسانوی کائنات جنم لیتی ہے۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے فکشن میں نہ مکمل جسم ہے نہ پوری آتما۔ کہانی تو لاجونتی کی طرح سمپورن ہوتی ہے۔ مقدس، پروقار، پاکیزہ۔ مجھے منٹو کی سوگندھی، نیلم، کلونت کور اور موذیل سبھی سے یک گونہ پیار، عشق اور محبت ہے۔ منٹو کاغذ پہ افسانے لکھتا ہے تو افسانے کی ساری آگ اس کاغذ پہ دکھائی دیتی ہے۔

کوئی ضروری نہیں کہ ہر کہانی ہر کسی کو پسند آئے۔ ہر ایک کی اپنی پسند ہوتی ہے اور ہر ایک کا اپنا مذاق۔ مجھے بنیادی طور پر وہ کہانیاں اچھی لگتی ہیں جن میں تحیر ہو، سسپینس ہو، گوتھک قسم کی پراسراریت ہو اور نیا انفس و آفاق ہو اور میری اس پسند کی فہرست میں بہت سارے افسانہ نگار شامل ہیں۔ مجھے جتیندر بلّو بھی اچھے لگتے ہیں، جوگندر پال، حمید سہروردی، حسین الحق، ساجد رشید، شوکت حیات، شموئل احمد، رشید امجد، زاہدہ حنا، نیرمسعود، نور الحسنین، رام لعل، رتن سنگھ، دیویندر ستیارتھی، دیویندر اسّراور اپنے ’مٹھی بھر سانپ‘ کے ساتھ سلیم اختر بھی، اقبال مجید، عبدالصمد، پیغام آفاقی، الیاس احمد گدی، انیس رفیع، مظہر الزماں خان، سید محمد اشرف اور مشرف عالم ذوقی، شاہد اختر، انور قمر، غضنفر، ذکیہ مشہدی، قمر جہاں، غزال ضیغم، ترنم ریاض، نگار عظیم، اس کے علاوہ اور بھی بہت سے افسانہ نگار ہیں جو اچھا لکھتے ہیں۔ خالد سہیل بھی مجھے اچھے لگتے ہیں۔ کیونکہ وہ نئے ڈائمنشن کی کہانیاں لکھتے ہیں۔ ان کی کہانیوں کی باکرہ فکر مجھے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیتی ہے۔ ان کی کہانی کا پہلا لفظ پڑھتے ہوئے آنکھ آخری سطر پر ہی جا کر ٹھہرتی ہے اور پھر آنکھ آگے کی سطریں تلاش کرنے لگتی ہے اور معدوم سطروں میں بھی ایک نئی معنویت دریافت کر لیتی ہے۔ ’ہم زاد‘ ایک ایسی کہانی ہے۔ نئے فنی اور ہیئتی تجربے، نئے لفظیاتی علائم و استعارات اور ان کا معنوی انسلاک اتنا خوبصورت ہوتا ہے کہ قاری بین السطور بھی بہت سارے احساسات کے مدو جزر کو دیکھ لیتا ہے۔ اس کہانی کی طلسماتی سحر کاری دیکھئے :

’’بعض شہروں میں مرد اور عورتیں ایک دوسرے کی قربت سے اتنے محروم ہوئے کہ ہم جنسی میں مبتلا ہو گئے تھے، حتیٰ کہ بچوں کی عصمت بھی محفوظ نہ رہی تھی۔ ان علاقوں میں کئی اساتذہ اور کئی مذہبی رہنما پکڑے گئے تھے جنہوں نے بچوں کو اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ ایسے دیہاتوں سے گزرا تھا جہاں جہالت کا ملکہ کی حکمرانی تھی۔ نوجوان مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے جسموں سے کیا، اپنے جسموں سے بھی ناواقف تھے۔ وہ اب بھی سمجھتے تھے کہ مشت زنی سے انسان کی نظر کمزور ہو جاتی ہے، عورتیں، مردوں کو بوسہ دینے سے حاملہ ہو جاتی ہیں۔ حیض میں مباشرت کرنے سے انسان پاگل ہو جاتا ہے۔ وہ یہ نہ جانتے تھے کہ عورتیں مہینے میں صرف دو یا تین دن حاملہ ہو سکتی ہیں۔ وہاں عورتوں کے آج بھی ختنے کئے جاتے ہیں اور لوگ بعض آدمیوں کو جبراً زنخا بنا کر ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔

اس نے ہزاروں بے اولاد عورتوں کو پیروں فقیروں کی قبروں پر نمک کھاتے، جھاڑو دیتے اور منتیں مانتے دیکھا تھا اور سوچنے لگا تھا کہ جب لوگ زندہ انسانوں کو چھوڑ کر مردہ قبروں سے امیدیں لگائے بیٹھے رہیں تو انسانوں کی زندگیوں میں قبروں کی تاریکی اتر آتی ہے۔ انسان آنکھیں رکھنے کے باوجود نابینا، کان رکھ کر بھی بہرے اور زبان رکھ کر بھی گونگے ہو جاتے ہیں اور اپنے فرسودہ عقائد کے دھندلکوں میں ایسے کھوتے ہیں کہ درخت گنتے گنتے جنگل ان کی آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔

خالد سہیل کے علاوہ معاصر اردو فکشن کے منظرنامے پر کچھ اور بھی نام ہیں جن کے تخلیقی متون کی طلسماتی فضا متاثر کرتی ہے اور جن کی تخلیقی کائنات کی سیاحت کرتے ہوئے ایک نئے تجربے سے ذہن کو آگہی ملی اور نگاہوں کو ایک نیا تحیر میسر آیا۔ ان میں ایک نمایاں نام سید محمد اشرف کا بھی ہے جن کے ناولٹ کو پڑھتے ہوئے کنارِ دریا خود کو رقصاں لہروں کے درمیان محسوس کیا ہے، آتی جاتی لہریں جن میں ٹھہراؤ نہیں، تموج ہے، اضطراب ہے۔ ایک ثانیے میں جس طرح موجوں کا منظر نامہ بدلتا ہے، اسی طرح اس ناولٹ کے منظرنامے میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ مجھے ایک ایک سطر میں موج مے کی سرشاری نظر آتی ہے، مجھے کیا خبر، مجھے کیا پتہ کہ فکشن کیا ہوتا ہے۔ ۔ . ڈی۔ ایچ۔ لارنس سے کبھی پوچھوں گا تب فکشن کے مضمرات، فنی لوازمات پر طول طائل بحث کروں گا۔

سردست تو میں نے یہ ناولٹ اس گزرے ہوئے زمانے میں کھوکر پڑھا ہے، جب صرف تخلیق تھی، تنقیدی فارمولے نہیں تھے، نہ نظریات کی آویزش تھی۔ صرف آنکھیں تھیں، بیدار جاگتی ہوئی، صدیوں کے ماورا دیکھ لینے والی آنکھیں (آنکھ سے بڑا کوئی قاری آج تک پیدا نہیں ہوا۔ وزیر آغا) حواس خمسہ تھے اور انسان کے پاس چھٹی حس تھی، تخلیق بھی آزاد تھی، قاری بھی آزاد، نہ نظریاتی فکری بندشیں تھیں نہ اسلوبیاتی معنویاتی زنجیریں۔ تخلیق کا حسن گل کی صورت کھلتا تھا، اماوس کی رات میں تخلیق پورن ماشی کی طرح چمکتی تھی، اس وقت تخلیق کا مطلع بھی صاف تھا، آسمان و زمین بھی یک رنگ تھے۔ تخلیق کا دریا بہتا تھا اور اس کی موجیں ہر طرف پھیل جاتی تھیں۔ میں نے بہت کوشش کی کہ اس ناولٹ کی ’’فعال قرأت‘‘ کروں لیکن میری ’’قرأت منفعل‘‘ رہی۔ ناولٹ کے بہاؤ میں اس قدر کھو گیا کہ آنکھوں کی کشتی پر سوار نہ جانے کدھر نکل گیا۔ آنکھ کھلی تو نیاجزیرہ تھا، جہاں نئی نئی کتھائیں بکھری پڑی تھیں، جانور بھی تھے، انسان بھی اور دونوں ایک دوسرے میں گتھم گتھا کہ انسان اور حیوان کی تمیز دشوار تھی۔ کبھی انسان کے چہرے پر حیوان کا گمان گزرتا تو کبھی حیوان کو انسانی جون میں تبدیل ہوتا ہوا دیکھتا، یہی تقلیب ماہیت شاید اس ناولٹ کا فکری محور ہے اور یہی جواز بھی۔ ۔ . واللہ اعلم بالصواب!

سید محمد اشرف کا یہ ناولٹ پڑھ کر خلیل جبران بے طرح یاد آئے جنہوں نے کلیسائی نظام کے جبر و استحصال کی کہانیاں لکھیں اور یہ واضح کیا کہ مذہب جبر کی بہت بڑی علامت ہے اور یہ علامت اتنی مقدس ہے کہ لوگ اپنی زبانیں بند رکھتے ہیں اور ظلم کا تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔ نیل گائے سے نیلا کا دہشت کی ایک علامت بن جانا، اس بات کا اشاریہ ہے کہ مذہب در اصل دہشت کی ایسی علامت بن گیا ہے جس کے خلاف لوگ بولتے ہوئے ڈرتے ہیں مگر اس سے حددرجہ پریشان بھی رہتے ہیں۔ نیلا کو ’’مندر والے کھیت‘‘ میں چھپانا اور اس کے بدن کا کیسر یا ہو جانا، مذہبی دہشت کا زبردست بیانیہ ہے، نیلے کا سورج دیوتا کے ڈوبتے وقت مندر کی طرف ڈنڈوت کرنا اور دونوں کھر جوڑنا اس بات کا ثبوت ہے کہ نمبردار کی صحبت میں وہ بھی ایک ایسا دھارمک بن گیا ہے جسے دھرم کی آڑ میں ہر طرح کے جبر و دہشت کی آزادی ہے۔ ۔ .

نمبردار ایک جاگیردار ہے جو اپنی جاگیر داری کے تحفظ کے لیے تمام استحصالی حربے آزماتا ہے، عوام کو غریبی اور جہالت کے اندھیرے میں رکھ کر مکمل طور سے اقتدار پر قابض رہنا چاہتا ہے۔ نمبر دار کو بچوں کی تعلیم بھی بہت اکھرتی ہے۔ ٹھاکر اودل سنگھ نے اپنی زندگی کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے پورے نظام کو غیرمتوازن بنا دیا اور اس توازن میں نیلا سب سے بڑا معاون ثابت ہوا کیونکہ اقتدار، دولت اور اختیار کو ہضم کرنے کے لیے نیلا کی دہشت بہت ضروری تھی اور یہی نیلا کو پالنے کا کارن بھی تھا۔ نیلا میں یہ دہشت پیدا کرنے کے لیے ٹھاکر اودل سنگھ نے اسے وہ کھان پان دیا جو انسانوں کو دیا جاتا ہے۔ جنگل کی ماداؤں سے دور اسے انسانوں کی صحبت میں رکھا اس کی وجہ سے اس کے جنون کا پارہ بڑھ گیا اور وہ فطری ڈر ختم ہو گیا جو ہر جانور کو انسان سے محسوس ہوتا ہے بلکہ وہ الٹا انسانوں کے لیے خوف کی علامت بن گیا۔ ۔ .

اس ناولٹ میں مقامات آہ و فغاں کے سوا کئی خوبصورت مقامات بھی آئے ہیں۔ مثلاً بڑکی کے تعلق سے پورا سلسلہ واقعہ اسی ذیل میں آتا ہے۔ جہاں اشرف کا قلم رومانی جولانی میں کھوجاتا ہے۔ پوریاں بیلتے وقت بڑکی کے جھولتے بدن کا بیان دیکھئے :

’’اس (اونکار) نے اپنی فکر کو دو بڑے بڑے میدوں کے پیڑوں کی شکل میں مجسم دیکھ لیا تھا۔ ‘‘

اس کے بعد کا جو قصہ ہے وہ بے معنی نہیں ہے۔ اشرف نے پوریاں بیلتے وقت بدن جھولنے سے لے کر سراغ رسانی کے جس نئے طریقہ کا انکشاف کیا اس میں بھی ایک ذہانت چھپی ہوئی ہے۔

’’اس نے زندگی میں صرف ایک مرد کی سانس کی مہک سونگھی تھی۔ اس لیے اسے اپنا مجرم پہچاننے میں دقت نہیں ہوئی‘‘ ظاہر ہے کہ یہ بیان بے معنی نہیں ہے۔ اس طرح سید محمد اشرف کے ناولٹ میں ایسے بیانات مل جاتے ہیں جو قاری کے اندر شعور و فکر اور تجسس کی ایک متحرک کائنات کو بیدار کر دیتے ہیں۔

سید محمد اشرف کا ناولٹ ’نمبر دار کا نیلا‘ہمارے عہد کا زبردست تخلیقی بیانیہ ہے۔ ایسا بیانیہ جو ان کے ہم عصر فکشن رائٹرز سے بیان، سوچ اور قوت اظہار، ابلاغ و ترسیل کے اعتبار سے مختلف اور منفرد اور اعلیٰ ہے۔

انل ٹھکربھی ہمارے عہد کے ایک اہم ناول نگار ہیں جنہوں نے ’’اوس کی جھیل‘‘ جیسا بڑے کینوس کا اس ناول میں اردو کو ایک اچھا اور مختلف ناول دیا ہے۔

ناول نگار کی آنکھیں وہ سب کچھ دیکھ لیتی ہیں جو چاروں دشاؤں میں پھیلی ہوئی ہزاروں آنکھیں بھی نہیں دیکھ سکتیں۔ ایک تخلیق کار کی آنکھیں محیط الارضی ہوتی ہیں اور اس کی آتما میں ہر طرف سور داس کی آنکھیں لگی ہوتی ہیں یا شنکر کی کہ وہ ماورائے عصر اور پس پردہ ہر ایک واقعے کو اپنی نظروں کے دائرے میں سمیٹ لیتا ہے۔ انل ٹھکرنے بھی اپنے اس ناول میں وہ سب کچھ سمو لیا ہے جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے۔

یہ ناول در اصل اخلاقی اور سماجی زوال کے منظرنامے پر محیط ہے۔ معاشرتی انحطاط اور سماجی تنزل کی کہانی بڑی ہی خوبصورتی سے کہی گئی ہے۔ انل ٹھکرنے اس ناول میں ڈرامائی تکنیک اور تشکیل کا بھی سہارا لیا ہے کہ بنیادی طور پر وہ ڈراما نگار ہیں۔ ڈرامے اور فکشن کایہ حسن امتزاج، فکشن کو نئی وسعتوں سے ہم کنار کرے گا۔ یہ بات بلا تامل کہی جا سکتی ہے۔

اِس ناول کے صنم خانے میں جتنے بھی کردار ہیں، اصلی اور ضمنی سبھی اہمیت کے حامل ہیں اور ایک دوسرے سے مربوط و منضبط جن کا انفکاک کسی بھی طور پہ ممکن نہیں۔ یہ ناول ہماری آج کی سماجی زندگی، زندگی کی پیچیدگیوں اور مسائل و متعلقات کو پیش کرتا ہے۔ دفتروں کے در و دیوار میں بسی ہوئی عفونت، کرسیوں میں اٹکی ہوئی غلاظت، قمقموں سے روشن کمروں کی ظلمت اور تاریک سماج کے رستے ہوئے زخم اور ناسور— یہ تمام چیزیں جو سماج کے چہرے پر بدنما داغ ہیں، انہیں انل ٹھکرنے بڑی ہی فنکاری کے ساتھ ہماری آنکھوں کے حوالے کر دیا ہے۔ اِس میں اشوک ایک کردار ہے جو ’’عروج بالفروج‘‘ کی ایک نمائندہ مثال ہے :

’’سست قدموں سے چل کر گھر کا دروازہ بند کیا اور خواب گاہ میں آیا۔ وہاں ساوِتری پارٹی میں پہنے کپڑے بدل کر انہیں سینت رہی تھی۔ اشوک نے ٹائی نکال کر کرسی پر پھینکی۔ کوٹ اُتار کر کرسی کی پشت پر ڈالا۔ دونوں سنجیدہ تھے۔ دونوں کے چہروں پر تناؤ تھا، اشوک نے جوتے اُتار کر پلنگ کے نیچے سرکائے۔ اُس کی نظر پلنگ پر کھلے پڑے بریف کیس پر گئی۔ اس کا خون کھول اٹھا۔ اس کی انا گرج اٹھی۔

’’میں یہ جاننا چاہتا ہوں، یہ روپئے واپس کیسے آئے ؟‘‘

’’انہوں نے مانگے نہیں ‘‘ ساوِتری نے اطمینان سے کہا۔

’’کیوں ؟‘‘

’’میں نے پوچھا نہیں۔ ‘‘

’’بغیر رقم لیے انہوں نے کام کر دیا؟‘‘

ساوتری خاموش رہی۔ اس کے دماغ کی رگیں پھٹنے کو تھیں۔ اشوک چیخ اٹھا۔

’’میں پوچھ رہا ہوں۔ بغیر قیمت لیے۔ ۔ .‘‘

’’قیمت انہوں نے لے لی ہے — بہت بڑی قیمت۔ ۔ . جسے آپ کبھی وصول نہیں کر سکتے۔ ‘‘

اشوک کی آنکھوں سے شرارے برسنے لگے۔ ساوتری نے تہہ کیے ہوئے کپڑے رکھنے کے لیے الماری کھولی۔

’’تم نے کیوں ہونے دیا یہ سب؟— اشوک نے تلخی سے پوچھا۔

ساوتری خاموشی سے اپنا کام کرتی رہی۔ اس نے عالم طیش میں آگے بڑھ کر ساوتری کو بانہہ سے پکڑ کر اپنی طرف موڑا۔

’’سنا نہیں، کیوں ہونے دیا یہ سب؟‘‘

’’آگ میں دھکیل کر یہ پوچھ رہے ہیں، ہاتھ کیوں جلے۔ یہاں تو پورا جسم جل گیا ہے۔ ‘‘ ساوِتری نے اپنی بانہہ کو اس کی گرفت سے آزاد کیا۔

اشوک غصے سے تھرا رہا تھا۔ اس کی آنکھیں شعلہ زار ہو رہی تھیں۔ اس نے اپنی ران پر مکا مارا۔ اس کے منہ سے بے بسی و بے چارگی ٹیس بن کر پھوٹ پڑی۔

’’اب پاگلوں کی طرح چیخنے چلانے سے کیا ہو گا۔ انسان اور درندوں کی تمیز نہیں تھی تو بھیجا کیوں مجھے ؟‘‘

انل ٹھکر بہت ہی خوبصورت منظرنگاری کرتے ہیں۔ بالکل قدیم داستانوں جیسی منظرنگاری۔ ایک اقتباس:

’’پدمنی نے دیکھا اس کے گول چہرے پر شام کو کیا ہوا میک اَپ اب بھی تروتازہ نظر آ رہا تھا۔ لپ اسٹک کی سرخی ہونٹوں پر قائم تھی۔ کٹے ہوئے بال شانوں پر پھیلے ہوئے تھے۔ تراشی ہوئی ابرو، کٹی زلفیں اُس کے چہرے کو جاذبِ نظر بنا رہی تھیں۔ بلاؤز کی کٹائی کچھ اتنی نیچی تھی کہ گورے گداز سینے کی گولائیاں دیکھنے والے کو لبھاتی تھیں۔ اسے بار بار پلو سنبھالتے دیکھ کر نظریں دھوکا کھا جاتیں کہ ساری جسم سے پھسل رہی ہے یا جسم ساری میں سے سرکتا جا رہا ہے۔ ‘‘

یہ ناول یقینی طور پر ہمارے عہد کا ایک شاک انگیز سلسلہ کہانی ہے جس میں ہمیں پورا سماج اور معاشرہ مجرم کی طرح نظر آتا ہے۔ انہوں نے بڑی فنکاری کے ساتھ ہندوستان کی سماجی زندگی کے منظرنامے کو پیش کیا ہے اور ملے جلے مخلوط کردار میں سماج کے متوسط طبقے کی نفسیات، رجحانات، میلانات اور رویے کو واضح کیا ہے۔ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے اس ناول کے حوالے سے بڑا ہی بیش قیمت پیش گفتار درج کیا ہے اور انل ٹھکر کے اس ناول کو فکشن کے سرمائے میں ایک گراں قدر اضافہ قرار دیا ہے۔ یقیناً انل ٹھکرنے اپنے موضوع کا اچھا ٹریٹمنٹ کیا ہے۔ اپنی مشاقی اور تخلیقی ہنرمندی کا ثبوت دیا ہے۔

یہ ناول ایک ایسے موضوعاتی دائرے کو محیط ہے جس کے بارے میں ہمارے سماج کے لوگ کم ہی سوچتے ہیں۔ ہمارا سماج جس تیزی کے ساتھ تنزل کی راہ پہ گامزن ہے۔ اُس سماج کے لیے ناول ایک آئینہ ہے کہ ایک فنکار اپنے سماج کا آئینہ ہوتا ہے اور اس کے ادب سے ہی سماج کے درجۂ حرارت کو ناپا جا سکتا ہے۔ سو انل ٹھکرنے یہ کام بخوبی انجام دیا ہے اور معاشرے کے تمام مکروہ رنگوں کو ہمارے سامنے پیش کر دیا ہے۔ یہ ناول محض مشق نہیں ہے بلکہ اِس میں عبرت کی بہت سی داستانیں بھی مخفی ہیں۔ جہاں تک زبان و بیان کا تعلق ہے انل ٹھکر کی زبان بہت خوبصورت ہے۔

فیاض رفعت بھی اردو فکشن کا ایک معتبر حوالہ بن چکے ہیں۔ اُن کے افسانوں کا مجموعہ ’’میرے حصے کا زہر‘‘ ان کی تخلیقی عظمت کا نشان ہے۔

مگر المیہ یہ ہے کہ جب ان کا کوئی افسانوی مجموعہ شائع ہوتا ہے تو لوگ ان کی شاعری کے حوالے سے گفتگو کرنے لگتے ہیں اور جب ان کا شعری مجموعہ منظر عام پہ آتا ہے تو ان کے افسانوں پہ بحث شروع ہو جاتی ہے، یہ ممکن ہے کہ ان کی شاعری اور افسانے میں کوئی قدر مشترک ہو مگر یہ بات فہم سے بالاتر ہے کہ کیوں نقاد کبھی ان کے اندر کے افسانہ نگار کو مار دیتے ہیں تو کبھی ان کی شاعری کو منوں مٹی تلے دفن کر دیتے ہیں۔ ادب کے بابا لوگ نہ تو انہیں بحیثیت شاعر برداشت کرپاتے ہیں اور نہ بحیثیت افسانہ نگار۔ جبکہ سچ یہ ہے کہ فیاض رفعت جتنے اچھے شاعر ہیں اتنے ہی اچھے افسانہ نگار بھی ہیں۔ کہانی میں جتنے بولڈ ہیں شاعری میں بھی اتنے ہی بولڈ ہیں اور شاید یہی بولڈنیس ہے جو ہمارے نقادوں کے گلے سے نیچے نہیں اترتی۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے نقاد ان کی علمیت، ذہانت، فطانت، ذکاوت حس کا بجا طور پہ اعتراف بھی کرتے ہیں پھر بھی ادب میں انہیں وہ مقام دینے کے لیے تیار نہیں ہیں جس کے صحیح معنوں میں وہ مستحق ہیں۔ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ ان کا مائنڈ اس کیپ بہت بڑا ہے، ان کے ذہن کا روشن دان کھلا ہوا ہے، دریچے سارے وا ہیں جن میں تازہ ہواؤں کے جھونکے آتے ہیں۔ ان کا ظاہر و باطن ایک ہے، ان کی آنکھیں جو کچھ دیکھتی ہیں، وہ قرطاس پر لفظوں کی شکل میں بکھر جاتی ہیں۔ ان کے ذہن اور آنکھ کے رشتوں نے در اصل ان انسانی رشتوں کے مظہر کو دریافت کر لیا ہے، جن سے لوگ آنکھیں چرائے پھرتے ہیں۔

مشرف عالم ذوقی اس کے بعد کی دہائی کے ایک اہم افسانہ نگار ہیں جنہوں نے اپنے افسانوی فن کے ذریعے عصری فکشن کے منظرنامے پر اپنا نام ثبت کر لیا ہے۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے اور ناول شائع ہو چکے ہیں۔ جن میں ’’بیان‘‘ کو ہر طبقہ کے نقادوں نے سراہا ہے۔ ان کا ایک قابل قدر مجموعہ ’’منڈی‘‘ ہے۔ ذوقی نے اپنے اس افسانوی مجموعہ کو چار حصوں میں منقسم کیا ہے۔ (۱) نئی کہانیاں جن میں ۱۹۹۰ء سے ۱۹۹۷ء تک کی وہ تمام کہانیاں شامل ہیں جو مقتدر ادبی مجلات میں شائع ہو کر تنازعات اور مباحث کے نہ جانے کتنے در کھول چکی ہیں (۲) کچھ پرانی کہانیاں جن میں ۱۹۸۰ء سے ۱۹۹۰ء تک کی کہانیاں ہیں (۳) جدید لب و لہجہ کی کہانیاں، جنہیں ذوقی نے یہ کہہ کر رد کیا کہ اس کی زبان کہانی کی زبان نہیں بلکہ بوجھل اور ثقیل نثر کا ایک نمونہ ہے جو بے معنی تجریدی پینٹنگس کی طرح ہے (۴) جو چپ رہے گی زبان خنجر۔ ۔ . جس میں آج کے سیاسی، مذہبی جنون، جبر و تشدد کے خلاف لکھی گئی کہانیاں ہیں۔ پہلے حصے میں ذوقی کی وہ شاہکار کہانیاں ہیں جن میں وہ فکر و اسلوب کے کولمبس نظر آتے ہیں۔ ایک نئے اختراعی ذہن اور نئی تجرباتی و موضوعاتی دریافت کے ساتھ— ایک کہانی کا یہ اقتباس:

’’میں مانتا ہوں می لارڈ۔ ۔ . مگر جو واقعہ یا حادثہ ایک لمحے میں ہو گیا۔ ایک بے حد کمزور لمحے میں اس کے لیے مجھے ویتنام تو کیا، فلسطین، ایران، عراق، امریکہ، روس، روانڈا سب جگہوں پر جانے دیجئے۔ میں گیا اور میں نے دیکھا۔ ۔ . سب طرف لوگ مر رہے ہیں۔ ۔ . جب ہم ہنستے ہیں، روتے ہیں، باتیں کرتے ہیں، قہوہ یا چائے پیتے ہیں، قتل عام ہو رہے ہیں۔ ۔ . لوگ مر رہے ہیں۔ ۔ . مارے جا رہے ہیں۔ ۔ . سموئل نے ناگواری سے دیکھا۔ بیوقوفی بھری باتیں۔ کوری جذباتیت۔ اس کیس میں ایک ریپ ہوا ہے۔ ریپسٹ ایک باپ ہے جس نے اپنی۔ ۔ . کہیں تم گے (Gay) لیس بین (Lesbian) یافری کلچر کے حق میں تو نہیں ہو۔ ۔ .؟

’’نہیں۔ آہ۔ تم غلط سمجھے سموئل۔ اس نے گردن ترچھی کی۔ شاید میں سمجھ نہیں پارہا ہوں۔ ۔ . تم نے جن کلچرز کا ذکر چھیڑا، وہ سب دکھ کی پیداوار ہیں۔ دکھ۔ ۔ . جو ہم جھیلتے ہیں۔ مہاتما بدھ کے بھنشکرمن سے لے کر بھگوان کی آستھاؤں اور نئے خداؤں کی تلاش تک۔ ۔ . پھر ہم کسی روحانی نظام کی طرف بھاگتے ہیں۔ کبھی اوشو کی شرن میں آتے ہیں۔ ۔ کبھی گے بن جاتے ہیں تو کبھی لیس بین۔ قتل عام ہو رہے ہیں۔ ۔ . اور بھاگتے بھاگتے اچانک ہم شدبد کھوکر کنڈوم کلچر میں کھوجاتے ہیں۔ ۔ . ہم مر رہے ہیں۔ سموئل اور جو نہیں مر رہے ہیں وہ جانے انجانے ایچ آئی وی پازیٹیو کی تلاش میں بھاگ رہے ہیں۔

اور مان لو سموئل، دنیا ختم ہو جاتی ہے۔ بس ایک ایٹم بم یا اس سے بھی بھیانک ہتھیار ویتنام کے شعلے تو سیگون ندی سے اٹھ کر آسمان چھوگئے تھے۔ مان لو صرف دو ہی شخص بچتے ہیں۔ دنیا کا سفر جاری رہنا ہے۔ ایک باپ ہے، دوسری بیٹی۔ ‘‘

(اصل واقعہ کی زیراکس کاپی)

یہ کہانی بالکل نئے Dimension کی کہانی ہے۔ آج کی عصری اور بھیانک سچائی کا اظہار کرتی ہوئی جسے ایک فن کار نے بڑی ہنرمندی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ نابغہ فن ہی ایسا کمال دکھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ’’مجھے جانوروں سے، بھوتوں سے پیار کرنے دو‘‘، مادام ایلیا کو جاننا ضروری نہیں ہے ‘‘، ’’بھنور میں ایلس‘‘، ’’حالانکہ یہ سب سچ نہیں ہے ‘‘ یا ’’ نور علی شاہ کو اداس ہونے کے لیے کچھ چاہیے ‘‘— یہ سب زندہ احساس اور عصری شعور کی کہانیاں ہیں جو بادلوں کی دھند میں کھوئی ہوئی نہیں ہیں اور نہ ہی موت کی گھونگھٹ میں قید— یہ کہانیاں در اصل وہ آنکھیں ہیں جن سے ہم عصری زندگی کے زرد، نیلے پیلے، مرجھائے، جھلسے ہوئے یا شاید شگفتہ چہرے دیکھتے ہیں۔ یہ فن کار کی آنکھوں کے دائروں میں سمٹ آنے والی وہ سچائیاں ہیں جنہیں وہ لفظ اور جذبے کے خوب صورت لمس سے ہم پر آشکار کرتا ہے اور حیرت زدہ بھی۔ یہ کہانیاں اس لیے عظیم ہیں کہ ان میں ہمارا عہد سانس لے رہا ہے۔

اس مجموعے میں ’’لیپروسی کیمپ‘‘، ’’مردہ روحیں ‘‘، ’’میرا ملک گم ہو گیا ہے ‘‘، ’’رام دین کچھ نہیں بولے گا‘‘ جیسی عمدہ اور بہترین کہانیاں ہیں۔ حتیٰ کہ دابۃ الارض، اشغلاء کی بند مٹھیاں نامی کہانیاں بھی بری نہیں ہیں جنہیں ذوقی نے بلاوجہ مسترد کر دیا۔ کم از کم یہ کہانیاں نقادوں کو الجھانے کا کام تو دیتیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے۔ میری بلا سے، ذوقی نے اپنے ان افسانوں کے حوالے سے عصری فکشن کے منظرنامہ پر اپنا نام واضح طور پر ثبت کر دیا ہے۔ ذوقی کی فکر و نظر کی دنیا سب سے مختلف ہے اور منفرد بھی۔ بس یہ کہہ سکتے ہیں کہ ذوقی کی زبان کمزور ہے۔ مگر زبان کی خامی— یہ زبان کوئی منزل من اللہ تو ہے نہیں اور پھر کون ہے جو کوثر و تسنیم میں دھلی زبان لکھتا ہے اور اگر کوئی لکھتا ہے تو وہ کہانی کے ساتھ انصاف نہیں کرپاتا۔ کہانی اپنے چہرے سے پہچانی جاتی ہے زبان سے نہیں۔ ذوقی نے کہانی کے چہرے کو نکھارا ہے۔ یہ ماننا ہی پڑے گا۔ ہاں اگر آپ کے ذہن میں فساد اور طبیعت میں شر ہے تو پھر ہمارے یقین کے دائرے سے دور رہنے ہی میں آپ کی عافیت ہے۔

اسی نسل کے ایک اور افسانہ نگار مشتاق احمد نوری کی کہانیاں ذہن و دل کو بہت متاثر کرتی ہیں۔ اُن کے کئی مجموعے آ چکے ہیں۔ ’’تلاش‘‘ کے بعد ’’بند آنکھوں کا سفر‘‘ اُن کا تازہ افسانوی مجموعہ ہے جس سے اُن کی تخلیقی حرکیات اور فنی جمالیات کا صحیح طور پر ادراک کیا جا سکتا ہے۔

ار ریا، اس تخلیق کار کی کتھا بھومی ہے جو نہ شہر گلزار ہے اور نہ اس کی ہر گلی باغ و بہار ہے، نہ رشک گلشن جناں ہے اور نہ خطۂ بے نظیر و دل پذیر مگر اس سرزمین پر قصہ کا خزانہ عامرہ ہے۔ یہ حکایتوں کی سرزمین ہے۔ یہاں کی ندیوں، درختوں، باغات، بنوں، رمناؤں اور پرتیوں میں ڈھیر ساری کہانیاں ہیں۔ یہاں کا مالسور مرا نہیں ہے، ابھی زندہ ہے۔ جس کے محیرالعقول واقعے زبان زد خلائق ہیں۔ ۔ . ہمدردی اور عطوفت اور سخاوت کا یہ استعارہ ہمارے اجتماعی تخیل میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ۔ . اور سب سے بڑی بات یہ کہ یہاں کا پورا سماجی اور ثقافتی نظام ہی ایک کہانی کی مانند ہے۔ ایک فطری کہانی جس میں حضارت کا حسن نہیں بلکہ بداوۃ کا غیر مجلوب حسن ہے۔ ان کہانیوں کے لب پر لاکھے اور لپسٹک نہیں ہیں بلکہ فطری اور قدرتی حسن ہے اور یوں بھی بقول مصحفی:

محتاج عطر کب ہے وہ پیراہن بتاں

یہی وجہ ہے کہ اس سرزمین سے ابھرنے والی کہانیاں ذہنوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں اور دیارِ غیر میں بھی اپنائیت کا احساس دلاتی ہیں۔ مشتاق احمد نوری کی کہانی صاف ستھری اور سادہ ہے۔ اور ان مہملات سے پاک ہے جن کی وجہ سے کہانیاں۔ ۔ . کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ ۔ . ہو جاتی ہیں۔ وہ کہانیوں میں زیادہ لند پھند نہیں دکھاتے۔ سیدھے سادے انداز میں جو کچھ لوحِ ذہن پر ابھرتا ہے، اسے قرطاس کے سپرد کر دیتے ہیں۔ ’’بند آنکھوں کا سفر‘‘ بہت اچھی کہانی ہے جس کا اختتامیہ واقعتاً بہت حسین ہے :

میں کنارے پر تھا اور تم سمندر کے درمیان تھیں۔

میں آگے بڑھ نہیں سکتا تھا کہ سامنے ایک تصویر تھی جس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اور پیچھے بھی نہیں جا سکتا تھا۔ وہاں بھی ایک تصویر تھی جسے میں پلٹ کر نہیں دیکھ سکتا تھا۔

کون جانے دیکھ لیتا تو امر ہو جاتا—

یا پتھر کے بت میں تبدیل ہو جاتا—

رفیع حیدر انجم، مشتاق احمد نوری ہی کی نسل اور کتھابھومی کے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے اپنی ایک الگ تخلیقی دنیا بسائی ہے۔ انہیں اپنی تخلیقی قوت اور فن پر پورا اعتماد ہے۔ اس لیے وہ شہرت کے بینڈ و گن پر سوار نہیں۔ انہوں نے Literary Gimmicks کا کبھی سہارا نہیں لیا، وہ ادبی اٹھائی گیروں اور آرگنائزڈ مافیا سے ہمیشہ دور رہ کر کنج تنہائی میں اردو فکشن کی آبیاری کرتے رہے۔ ’’بے ارادہ‘‘ ان کے افسانوں کا تازہ ترین مجموعہ ہے جس میں ۲۲ افسانے شامل ہیں اور یہ تمام افسانے ایک نئے سماجی تہذیبی منطقے دریافت کرتے ہیں۔ رینو کے افسانے اَر ریا کے ’ کلچرل میموری‘ کی حیثیت رکھتے ہیں تو انجم کے افسانے بھی اسی تہذیبی روایت کی توسیع ہیں۔

آج جبکہ اردو افسانے میں کہانی پن کی گم شدگی، قاری کی عدم دلچسپی اور Hypertext Fiction کی بات ہو رہی ہے۔ ایسے میں یہ افسانے یہ احساس دلاتے ہیں کہ کہانی زندہ ہے، مری نہیں۔ گو کہ ’’الف لیلہ و لیلہ‘‘ کی طرح طلسماتی تحیراتی کہانیاں خال خال ہیں، پھر بھی غنیمت ہے کہ کچھ عصری کہانیاں ہماری ایسی سات راتوں کی کہانیاں ہیں جو اپنے اندر کم و بیش وہی قوت و تاثر رکھتی ہیں ’’بے ارادہ‘‘ کی کچھ کہانیاں بھی اسی زمرے میں آتی ہیں۔ رفیع حیدر انجم کے افسانوں میں داخلی کشمکش، ذہنی تناؤ، باطنی کرب، انسان کی بے حسی، بے مروتی، استحصال، جبر اور قصباتی زندگی کے مسائل اور المیوں کا سچا بیان ملتا ہے۔ فرقہ واریت، فسادات، بابری مسجد انہدام پر لکھے گئے ’’راڈار، اور ’’ستون‘‘ آج کے سفاک حالات کے عکاس ہیں مگر ان افسانوں میں بھی ایک مثبت زاویہ ابھرتا ہے۔ انجم کے تخلیقی بیانیہ میں بھرپور قوت ہے۔ لفظوں سے خوب صورت محاکاتی تاثر پیش کیا گیا ہے۔ ان کے افسانوں کے بدن میں آگ ہے، حرارت ہے، تخلیق کار کا جو کرب ان کہانیوں میں چھپا ہے، وہ یقیناً قاری کی آنکھوں سے لہو بن کر ٹپکے گا۔

رفیع حیدر انجم کا یہ مجموعہ عصری اردو فکشن میں ایک نئے امکان کا اشاریہ ہے اور ایک نئے افق کی تلاش۔ افسانے کی تنقید کا کوئی بھی فریم ورک تیار کیا جائے، رفیع حیدر انجم کے افسانے اس معیار پر پورے اتریں گے اور عمدہ و منفرد قرار پائیں گے۔

ایم۔ مبین ہمارے عہد کے ایک اہم افسانہ نگار ہیں جنہوں نے اردو کے علاوہ ہندی کی افسانوی دنیا میں بھی اپنی الگ شناخت قائم کی ہے۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں ’’ٹوٹی چھت کا مکان‘‘ اور تازہ مجموعہ ’’نئی صدی کا عذاب‘‘ قابل ذکر ہیں۔

ایم۔ مبین جیسے تخلیق کار جو کھلی آنکھوں سے سماج اور سیاست کا منظرنامہ دیکھ رہے ہیں، ان کا المیہ یہی ہے کہ وہ ان سانحات اور واقعات سے اپنی آنکھیں بند نہیں کر سکتے جو آج کے صنعتی شہری معاشرے میں رونما ہو رہے ہیں۔ ایک حساس ذہن وقت کی دستکوں کو اپنے سینے پر محسوس کرتا ہے اور یہی دستکیں اس کے پورے وجود میں پھیل جاتی ہیں تو وہ بے کلی اور اضطراب سا محسوس کرتا ہے اور یہی اضطراب جب تخلیق میں بدلتا ہے تو یہ اضطرابی لہریں ان ذہنوں کو بھی اسیر کر لیتی ہیں جو انہیں محسوسات کی سطح پر دیکھتے تو ہیں مگر اظہاری سطح پر اپنے درد کا اظہار کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔

ایم۔ مبین کے افسانے آج کے عہد کا آشوب نامہ ہیں۔ انہوں نے اپنے عہد کے انتشار کو تخلیقی ہنرمندی کے ساتھ اپنے اظہار کا لمس عطا کیا ہے۔ اپنے عہد کی معاشرتی، سیاسی صورت حال اور انسانی ذہن اور احساس کی کیفیات کو بڑی ہی فن کاری کے ساتھ اپنی کہانیوں میں پیش کیا ہے اور یہاں اس حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ جن تخلیق کاروں نے اپنے عہد کے انتشارکو اپنی تخلیق کا محور بنایا ہے، وہ زمانی و مکانی حدود سے ماورا ہو گئے ہیں اور ان کی تخلیقات کو مابعد کے زمانوں میں حوالوں کی حیثیت حاصل رہی ہے۔

ایم۔ مبین نے بھی اپنی تخلیق میں زیادہ تر اپنے عہد سے ہی سروکار رکھا ہے اور اپنے عہد کی تمام تر تصویروں کو اپنی تخلیق میں قید کر لیا ہے۔

انہوں نے تجریدی طرز اظہار یا علامتی اسلوب سے قاری کے لیے پیچیدگیاں پیدا نہیں کیں بلکہ صاف شفاف بیانیہ اسلوب میں اپنے عہد کی تفہیم کی کوشش کی ہے اور اس میں قاری کی ذہنی سطحوں کا بھی خیال رکھا ہے۔ ان کے اسلوب میں جو کھردرا پن ہے، وہ بھی ماحول کا زائیدہ ہے۔ ایسے پرخطر ماحول میں انسان کی سوچ بھی کھردری ہو جاتی ہے اور زندگی کی بے کیفی، اسلوب پر حاوی ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے لہجے اور اسلوب میں صرف کرختگی ہے بلکہ یہ کرختگی افسانے کا تقاضا ہے اور اس کی تکمیل کے لیے یہ اسلوب ہی ناگزیر تھا۔

ایم۔ مبین کی کہانیاں اپنے عہد کی تاریخ بھی ہیں اور اپنے عہد کا اضطراب بھی۔ ان کے بیشتر افسانوں کا محور مذہبی خطوط پر انسانی ذہنوں کی تقسیم اور اس تقسیم سے پیدا شدہ بھیانک مسائل ہیں۔ ایم۔ مبین کے افسانوں میں فسادات، جبر اور ہولناکی کی جو فضا ہے، وہ آج کے ماحول کی دین ہے۔

ایم۔ مبین کے زیادہ تر افسانے System کے خلاف ہیں۔ وہ سسٹم جو ساری برائیوں اور سارے فساد کی جڑ ہے۔ در اصل یہی وہ نظام ہے جس کی وجہ سے انسان زرد کتا بن گیا ہے۔

ایم۔ مبین کے افسانوں میں سوالات ہیں، احتجاج کی آوازیں ہیں اور یہی احتجاج، آج کے افسانے کا غالب عنصر ہے۔ افسانوں سے احتجاج غائب ہو جائے تو پھر افسانے معنویت کھودیتے ہیں۔

ایم۔ مبین نے اپنے افسانوں کے ذریعہ اپنے عہد کی بے زبانی کو بھی زبان عطا کرنے کی کوشش کی ہے۔ در اصل خوف و دہشت میں جکڑی ہوئی زبانیں جب سکوت اختیار کر لیتی ہیں تو مسائل اور بھی پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ ایم۔ مبین نے آج کے انسان کے کرب اور ذہنی کیفیات کے تناظر میں کہانیاں لکھی ہیں اور یہ کہانیاں انسانی رشتوں اور تعلقات کی کہانیاں ہیں۔ اس میں Inner اور Outer life کی جھلکیاں ملتی ہیں۔

ان کی کہانیوں کے کردار بالکل ویسے ہی حقیقی ہیں جیسے وار اینڈ پیس، وینٹی فیر، مادام بواری، Tristam Shandy کے کردار حقیقی ہیں۔ ایم۔ مبین کے افسانوی کرداروں کی آنکھوں سے محبت، جنگ، امن، دہشت، خوف، فیملی لائف، سوشل لائف کے سارے رنگ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ کردار راوی کے ذہن سے نکل کر قاری کے ذہن میں ہلچل اور ہیجان بپا کرتے ہیں۔

ایم۔ مبین کی کہانیاں صرف ایک حساس ذہن کے اضطراب کی آئینہ دار نہیں ہیں بلکہ ان کہانیوں میں ہمارے عہد کا اضطراب ہے، وہ اضطراب جو تخلیقی ذہنوں میں شعلگی کی کیفیت پیدا کرتا ہے اور پھر یہی شعلگی جب حساس خلاق ذہن سے عام انسانی ذہن میں منتقل ہوتی ہے تو آگ سی دہکتی ہے اور قاری اپنے وجود کو شعلوں کے حصار میں محسوس کرتا ہے۔

شہرزاد نے اپنے عہد کے کرب کو کہانی میں پیش کیا تھا۔ ہمارے آج کا تخلیق کار بھی اپنے عہد کے کرب کو پیش کر رہا ہے۔ ایم۔ مبین کے افسانوں کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے اپنے افسانے میں آج کے عہد کی سوچ کرب اور اس کے تمام تر زاویوں کو پیش کیا ہے۔

ایم۔ مبین کی کہانیاں آج کی سچویشن کی شاعری ہے اور یہ شاعری اپنی تمام تر اظہاری قوت کے ساتھ ہمارے عہد کے ضمیروں کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ یہ اسی نوع کی پوئٹری ہے جیسی وار اینڈپیس ودرنگ ہائٹس میں اور جین آسٹن کے ہاں ملتی ہے۔

احمد صغیر، مابعد نسل کے ہیں مگر بہت ہی مختصر عرصے میں ۱۹۸۰ء کے بعد افسانوی افق پر اپنی شناخت قائم کر لی ہے۔ اُن کے افسانوی مجموعے ’’منڈیر پر بیٹھا پرندہ‘‘ کو ادبی دنیا میں کافی محبوبیت نصیب ہوئی۔ دوسرا مجموعہ ’’انا کو آنے دو‘‘ اُن کے تخلیقی تحرک کا خوبصورت اشاریہ ہے۔ ’’جنگ جاری ہے ‘‘ اُن کا ایک اچھا موضوعاتی ناول ہے۔ ’’انا کو آنے دو‘‘ میں احمد صغیر کا فن ارتفاع کو چھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس میں بارہ افسانے شامل ہیں۔ جو ہماری بارہ راتوں کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ در اصل وہ بارہ چشمے ہیں جو تخلیقی ذہن کی ضرب سے فکشن کے دریا میں پھوٹ پڑے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے بارہ دائرے ہیں جن میں فکشن کے موج صد رنگ کو محسوس کیا جا سکتا ہے اور یہ بارہ دھارے، فکشن کے دریاؤں کا رخ بھی موڑ سکتے ہیں۔ ان افسانوں میں ’’انا کو آنے دو‘‘ مرکزی کہانی ہے اور یہ کہانی ایک نئی زمین، نئے آسمان، نئے چاند سورج اور نئے ستاروں کے جلو میں لکھی گئی ہے۔ کہانی مختصر سی ہے مگر اس کا تاثر بہت گہرا ہے۔ پھلمتیا اس کا ایک ایسا کیرکٹر ہے جسے اگر اور مانجھا گیا تو ہوری کی طرح کسی دن ایک زندہ کردار بن جائے گا۔ دوسرا کردار اَنا، ایک علامت ہے مزاحمت اور مقاومت کی، جد و جہد اور بغاوت کی، سماجی سیاسی نظام کو بدلنے والے ایک انقلابی انسان کی۔ کہانی کا ایک اقتباس اَنا کے اس علامتی کردار کی تمام تر وسعتوں کو پیش کرنے کے لیے کافی ہے۔

’’کیا اکیلا کوئی انا اس نظام کو بدل دے گا یا ہر گھر میں ایک انا کا وجود اب لازمی ہے ؟ ہر گاؤں ہر قصبے اور ہر گھر میں انا کی ضرورت ہے جو موجودہ نظام کو بدلنے میں معاون ہو سکے۔ لیکن اس قدر اَنا آئے گا کہاں سے ؟ برسوں میں صرف ایک انا پیدا ہوتا ہے اور بس ایک دن میں اسے ختم کر دیا جاتا ہے یا جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے۔ ‘‘

احمد صغیر کی کہانیاں بہت مختصر مگر بہت ہی معنی خیز ہوتی ہیں۔ ان کہانیوں کا جوعلاقائی تناظر اور مقامی تشخص ہے، یہی تناظر اور تشخص ان کہانیوں کو نئی معنویت، نئی وسعت اور آفاقیت عطا کرنے کے لیے کافی ہے۔ جب تک علاقائی جڑوں کی تلاش کی کوشش نہیں کی جائے گی تب تک کوئی بھی ادب آفاقی نہیں ہو سکتا۔ علاقائیت کی کوکھ سے ہی آفاقیت جنم لیتی ہے اور احمد صغیر نے اس رمز کو سمجھ لیا ہے۔ اس لیے وہ ایسی کہانیاں لکھتے ہیں جس سے اردو فکشن کو ایک نیا ڈائمنشن ملے اور ایک ایسا نیا کنوارا تناظر جو دوسروں کے ذہن میں واضح نہ ہو۔ نئے تناظر کی یہ کہانیاں، اردو فکشن کو وسعتوں اور رفعتوں کی نئی منزلیں عطا کریں گی، یہ میرا گمان ہے۔ کیا عجب کہ کبھی یہ گمان، یقین میں بدل جائے —!!

ظہیر کیفی، اردو کے شاید وہ بدنصیب افسانہ نگار ہیں، جنہیں اتنی شہرت اور مقبولیت نصیب نہ ہو سکی جس کے وہ مستحق تھے، مگر انہوں نے ’’مسکوٹ‘‘ کے ذریعے فکشن کے منظرنامے پر اپنے جو نقوش ثبت کئے ہیں، وہ یقیناً اُن کے ہونے کی گواہی دیتے رہیں گے۔ ’’مسکوٹ‘‘ میں بعض بہت ہی عمدہ قسم کے افسانے شامل ہیں، جنہیں ہمارے فکشن کے ناقدین اگر سنجیدگی سے پڑھیں تو اُنہیں ظہیر کیفی کی ذہنی رفعتوں اور فنی عظمتوں کا احساس ہو گا۔

’’مسکوٹ ‘‘میں یوں تو ۱۷ افسانے ہیں۔ مگر صرف دو افسانوں سے میرے قلب و نظر کا رشتہ استوار ہو سکا ہے۔ یہ دو افسانے، واقعتا اتنے سحر آفریں اور پُراثر ہیں کہ قاری اس کے طلسماتی سحر میں بندھ سا جاتا ہے۔ ان دو افسانوں میں کہانی کار نے اپنے مشاہدے کی وسعت اور حواس کی شدت کو جس طرح فنی پیکر عطا کیا ہے، اس کی داد نہ دینا کم ظرفی ہو گی۔ کسی افسانوی مجموعے میں اگر دو ایک اچھی کہانیاں مل جائیں تو یہ بہت بڑی بات ہے۔ ورنہ اکثر کہانیوں کو پڑھتے ہوئے حمیم، زقوم، غساق اور غسلین جیسی بے لذتی کا احساس ہوتا ہے۔

تحسین منور ہمارے عہد کے نئے افسانہ نگار ہیں۔ اُن کا مجموعہ ’’معصوم‘‘ ابھی حال ہی میں شائع ہوا ہے اور خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ تحسین منور کی کہانیاں بعض ان لوگوں سے بہتر ہیں جو مستقل اور متواتر برسوں پہلے سے چھپتے رہے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں شب کی تیرگی نہیں، سریت ہے۔ یہ کہانیاں کسی بھی سطح کے ذہن میں اپج سکتی ہیں مگر منور نے ان کہانیوں کو اپنے مرتفع ذہن سے معتبر بنا دیا ہے۔ کہانی بھی تو مہر میں اعتبار مانگتی ہے۔ سو اعتبار کا نور ان کہانیوں کے قلاوے میں چمک رہا ہے۔ یہ کمال ہے تحسین کا جنہوں نے کہانیوں کو نئی تجمیل عطا کی۔

 

اسطور اساس افسانہ

 

اساطیر کی اساس پر جو کہانیاں لکھی گئی ہیں وہ اپنے اندر ایک جہان طلسمات سمیٹے ہوئے ہیں۔ اساطیر ہمارا اجتماعی حافظہ اور شعور بھی ہیں۔ کتھا سرت ساگر، رامائن، مہابھارت اور جاتک کہانیوں سے کسی بھی تخلیقی ذہن کو مفر نہیں۔ اسی لیے اساطیری عناصر جن افسانوں میں ملتے ہیں، ان افسانوں کا قدو قامت تو بڑھ ہی جاتا ہے۔ ان کی دل کشی اور جاذبیت بھی دو چند ہو جاتی ہے۔ انتظار حسین کی بیشتر کہانیاں اسطوری محور کے ارد گرد گھومتی ہیں۔ اس لیے ان کے اندر ایک تجسس اور تحیر بھی ہوتا ہے اور تاثر آفرینی کی کیفیت بھی۔ کشتی، کچھوے کے علاوہ ’مورنامہ‘ ان کا ایک ایسا ہی اسطوری افسانہ ہے جس میں آج کے تناظر کو قدیم دیومالائی سیاق و سباق میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سریندر پرکاش کا ’پیاسا سمندر‘ اور ’گاڑی بھر رسد، بجوکا، بازگوئی، بن باس۔ ۸۱، بھی اسطوری کہانیاں ہیں۔ ان کا فکری منبع مہابھارت ہے۔ اس میں آج کے حالات میں ان پرانے اسطوری کرداروں کا احیاء کیا گیا ہے۔ ’پیاسا سمندر‘ کا کردار بکاسر راکشش ہے جو صدیوں کے بعد بھی غائب نہیں، حاضر ہے۔ اسی طرح ’پیاساسمندر‘ کا کردار پربھاکر پنڈت جو رادھے بھگت ہے اسے ایک شبھ نام کی عورت سے پیار ہوتا ہے مگر وہ اس کے ساتھ لذت وصال حاصل نہیں کر سکتا۔ اس لیے اس کی تصویر کے سامنے ننگ دھڑنگ ہو کر جنسی تلذذ حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح حسین الحق نے ’آتم کتھا‘، قمر احسن نے ’کل یگ کی علامت‘ اور جوگندر پال نے ’’مہابھارت کی دوسری جنگ‘‘ میں قدیم اسطوری کرداروں کو re-create کر کے اس حال کو ماضی سے مربوط کر دیا ہے۔ سلام بن رزاق نے بھی آریائی اساطیر کا تخلیقی استعمال اپنے افسانوں میں کیا ہے۔ ’ایک اور شرون کمار‘ اسطور اساس افسانہ ہے۔ عزیز احمد کی ’’مدن سینا اور صدیاں ‘‘ اور ممتاز شیریں کا ’’میگھ ملہار‘‘ بھی اسطوری تناظر میں لکھے گئے ہیں۔ عطیہ سید کے بھی کچھ افسانے اسطوری تناظر لیے ہوئے ہیں۔ سمیع آہو جہ کی کہانیوں میں بھی ہندودیومالائی عناصر ملتے ہیں۔ ’’برسات کی رات‘‘ اسی نوع کی کہانی ہے۔ منصور قیصر کا افسانہ ’’نئی بشارت کا نوحہ‘‘ انور قمر کی کہانی ’’ارتھ ہین یاترا‘‘ انور خان کی ’’ہوا‘‘ بھی اسطور اساس کہانیاں ہیں۔

 

المیہ افسانوی تنقید کا

 

مجھے اپنی بے بضاعتی اور کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے کبھی کوئی جھجک نہیں ہوتی۔ میں نے مولوی محمد حسین آزاد کی آبِ حیات نہیں پڑھی اور نہ ہی خواجہ الطاف حسین حالی کی مقدمۂ شعر و شاعری۔ ۔ . میرے لیے تو جاحظ کی ’البیان والتبیین‘ ابن عبد ربہ کی ’العقد الفرید‘ مبرد کی ’الکامل‘ ابو علی قالی کی ’الامالی‘ ایسے سمندر ہیں جن میں غواصی کے لیے پوری حیات بھی ناکافی ہے۔ قدامہ بن جعفر، ابوہلال عسکری، ابن رشیق، جرجانی، ابن خلدون اس کے ماسوا ہیں۔ اس لیے میں اردو فکشن کی تنقید کے متعلق کوئی بات لکھوں تو چھوٹا منہ بڑی بات ہو گی۔ یہ میدان ان لوگوں کا ہے جنہوں نے فکشن اور فکشن کی تنقید کے دشت کی سیاحی میں ایک عمر گزاری ہے۔ مجھے تو اس وقت قاضی عبدالستار یاد آ رہے ہیں۔ جنہوں نے یہ لکھا ہے کہ اردو تنقید کی گردن میں بہت سے فقرے تعویذوں کی طرح پڑے ہوئے ہیں اور اسی کو بالفاظ سراج منیر یوں کہا جا سکتا ہے کہ تنقید کی اصطلاحیں جالِ الیاسی ہیں اور ادب کے دبستان عمر عیار کی زنبیل۔ کسی ادب پارے کی آبرو نقاد کی دست برد سے محفوظ نہیں ہے۔ ہر ایک پر کسی اصطلاح کالیبل ہے اور ہر تحریر کسی دبستاں کی تہمت:

آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت

اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا

نقاد جب Parasite بن جائیں تو تنقید اپنا اعتبار کھو دیتی ہے اور طفیلی تنقید جنم لیتی ہے۔ ایزرا، ایڈمنڈ ولسن یا ڈیوڈ لاج کے حوالے دے کر کوئی بڑا نقاد تو نہیں، ہاں بڑا نقال ضرور بن سکتا ہے۔ صاحب نظر کہتے ہیں کہ فکشن کی تنقید صحیح طور پر لکھی ہی نہیں گئی۔ جہاں تک وارث علوی کا تعلق ہے ان کے بارے میں رائے یہ ہے کہ علوی کی تنقید سراسر سفلی ہوتی ہے۔ باقی نقادوں کا حال اللہ بہتر جانتا ہے۔ علی گڑھ کٹ دہانِ تنگ تنقید کی تو بات ہی چھوڑیے، خدا جھوٹ نہ بلوائے مجھے تو اردو کے بہت سے نقاد دشت قیچاق کے قزاق نظر آتے ہیں۔ ۔ . صحیح کہہ رہا ہوں نا!

فکشن کی تنقید میں صرف چند ایک کو چھوڑ کر پروفیسر گوپی چند نارنگ کی ذات ہی ایسی ہے جنہوں نے نئی نسل کے افسانہ نگاروں کو درخور اعتناء سمجھا اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشنے میں نمایاں رول ادا کیا۔ نارنگ صاحب نے نسلی خلیج کو بھی دور کیا اور اس تازہ ترین نسل کی تخلیقی حرکیات پہ بھی لکھا جس کے بارے میں ہمارے ابن کوش نمرود نقاد ایک سطر بھی لکھنا کسرِ شان سمجھتے ہیں۔ نارنگ صاحب کو نئی نسل اس لیے بھی زیادہ محترم معتبر مستند سمجھتی ہے کہ نارنگ صاحب نے نئی نسل کو نظرانداز نہیں کیا اور فکشن کی تنقید میں نئی نسل کے تخلیق کاروں کو بھی نمایاں اہمیت دی۔ فکشن کی تنقید کو انہوں نے یقیناً ایک نیا تناظر عطا کیا ہے اور تنقید کے جمود اور جلمود کو توڑا ہے اور ایسی تنقید لکھی ہے جس کی مثال بمشکل ملتی ہے۔ وارث علوی تک اقرار کرتے ہیں کہ فکشن کی تنقید کے آداب کوئی نارنگ سے سیکھے —!

٭٭٭

 

 

 

اردو کہانیوں کا بدلتا رنگ: منٹو سے ذوقی تک — ڈاکٹر مشتاق احمد

 

 

نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر

نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر

(اقبالؔ)

اردو فکشن کا سفر طویل رہا ہے۔ پریم چند کو اردو افسانے کا بابا آدم تصور کریں تو ۱۱۸ سال کے عرصہ میں جو ادبی تاریخ نظر آتی ہے وہ ترقی اور کامیابی کی تاریخ ہے۔ اور یہ ادبی تاریخ یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ اردو فکشن کو ہندی اور دیگر زبانوں کے فکشن کے مقابلہ میں کہیں بھی کم نہیں کہا جا سکتا۔ پریم چند نے معاشرے اور سماج سدھار کے نام پر جو کہانیاں لکھیں وہ اس وقت کی بڑی ضرورت تھیں۔ اس وقت زیادہ تر روایتی قسم کی کہانیاں لکھی جا رہی تھیں مگر ان کہانیوں میں اپنے زمانے کے سچ اور ترقی پسندی کو بھی دیکھا جا سکتا تھا۔ ترقی پسند تحریک نے اردو ادیبوں کے لیے ترقی پسندی کی راہیں کھول دیں۔ یہ اس وقت کی ضرورت بھی تھی۔ سجاد ظہیر کی تحریک میں اس وقت کے تمام بڑے نام شامل ہوئے۔ ملک راج آنند سے لے کر فیض احمد فیض ؔاور پریم چندؔ تک نے اس تحریک کی نگہبانی کی اور اسی ترقی پسند عہد میں اردو کو منٹو جیسا عظیم افسانہ نگار ملا۔ منٹو کی کہانیوں نے اپنے عہد کو متاثر کیا۔ منٹو میں نشتریت تھی— اس کی تحریر کی روانی قاری کو بے چین کر جاتی تھی۔ اس کے کاٹ دار جملوں پر اردو کے نقاد بھی فدا تھے۔ منٹو کی کہانیوں نے اپنی شروعات کے ساتھ ہی اردو کہانی کے منظرنامہ کو یہ مژدہ سنادیا کہ اب پرانی روایتی کہانیوں کا عہد نہیں رہا۔ منٹو اپنے عہد سے بہت آگے کا فنکار تھا۔

اس وقت جہاں کہانیوں سے الگ گھراور معاشرے میں ایک تنگ نظر مرد کی پرورش ہو رہی تھی، منٹو آزادیِ نسواں کی بات کرتا تھا اور وہ بھی ایسے بولڈ انداز میں کہ اس کی کہانیوں پر فحاشی کے الزام بھی لگنے لگے۔ اس عہد میں اردو کو پچاس سے زیادہ بڑے نام میسر آئے، آج بھی جن کے بغیر اردو کہانیوں پر ہونے والی گفتگو کو ادھورا تصور کیا جائے گا۔ ممتاز مفتی، اشفاق حسین، بانو قدسیہ، احمد ندیم قاسمی، کرشن چندر، عصمت چغتائی وغیرہ۔ ان میں بیشتر ایسے نام ہیں جو آج بھی اردو فکشن کی تاریخ کا ایک اہم جز بن چکے ہیں۔ راجندر سنگھ بیدی کی کاٹ دار کہانیوں نے اردو افسانہ کو بلندی پر پہنچا دیا۔ ’’ لمبی لڑکی‘‘ اور ’’ لاجونتی‘‘ جیسی کہانیوں نے اس وقت کے نقاد اور قاری کو بھی حیران کر دیا تھا۔ اسی دور میں ایشیا کے عظیم افسانہ نگار کرشن چندر کی زبان، اسلوب اور کہانیوں کی مخصوص بناوٹ نے بھی قارئین کا دل جیتا۔ عصمت چغتائی، کہانیوں میں بغاوت کے راستہ سے آئی تھیں۔ ’’چوتھی کا جوڑا ‘‘ہو یا ’’چچا چابڑے ‘‘یا پھر ان کی شہرہ آفاق کہانی ’’ لحاف‘‘۔ عصمت چغتائی عورتوں کے استحصال اور کمزوریوں سے نالاں تھیں۔ وہ مردانہ حکومت سے بیزار تھیں۔ ان کے چٹخارے دار جملوں نے ترقی پسند کہانیوں میں جان بھونک دی۔ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ترقی پسند تحریک نے ۱۹۴۰ تک اردو کہانیوں کا دامن لازوال اور نہ بھولنے والی کہانیوں سے بھر دیا۔ ۱۹۴۰ کے بعد جدیدیت کی تحریک نے اردو افسانے کے تابناک مستقبل میں ٹھہراؤ پیدا کر دیا۔ جدیدیت کی لایعنی تحریک نے اردو افسانے سے اس کا قیمتی جزو یعنی بیانیہ چھین لیا۔ اس تحریک نے اردو افسانے کو بہت نقصان پہنچایا۔ ایک بڑا نقصان یہ بھی تھا کہ اردو پڑھنے والے قارئین کی تعداد کم ہو گئی۔ کیوں کہ اب افسانوں کی دنیا تاریک ہو کر رہ گئی تھی۔ لیکن ۱۹۸۰ کے بعد یہ تحریک بھی دم توڑ گئی۔ لا یعنی افسانے بھی کھو گئے اور بیشتر لکھنے والے بھی وقت کی آندھی میں بکھر گئے۔

۱۹۸۰ کے بعد لکھنے والوں میں سب سے اہم نام مشرف عالم ذوقی کا ہے۔ یوں تو ۸۰ کے بعد بیانیہ کی واپسی کے ساتھ ہی کئی نام ابھر کر سامنے آئے۔ کچھ لوگ ۸۰ سے پہلے سے، لکھ رہے تھے۔ جیسے حسین الحق، شوکت حیات، شموئل احمد، عبدالصمد، سلام بن رزاق، انور قمر، مقدر حمید، م ق خان، علی امام نقوی وغیرہ۔ ان میں کئی ایسے افسانہ نگار تھے جن کو ۸۰ تک ایک بڑی شناخت مل چکی تھی۔ عبدالصمد بارہ رنگوں والا کمرہ سے پہچانے گئے۔ علی امام نقوی کو ڈونگر واڑی کے گدھ نے شناخت دی۔ سلام بن رزاق کا جھکاؤ جدیدیت کی طرف ہوا لیکن بعد میں وہ بھی بیانیہ کی طرف واپسی کر گئے۔ ۸۰ کے بعد ذوقی کے ساتھ ادبی افق پر کئی ستارے چمکے۔ غضنفر، سید محمد اشرف، طارق چھتاری، بیگ احساس، مشتاق احمد نوری، شائستہ فاخری، تبسم فاطمہ، ان میں ہر فنکار کی اپنی تخلیقی فکر تھی۔ اپنا انداز بیان تھا۔ زبان کی سطحوں پر بھی ان کی کہانیوں کے رنگ الگ الگ تھے۔ غضنفر کی ’’ سانڈش‘‘ائستہ فاخری کی کہانی ’’ اداس لمحوں کی خودکلامی‘‘ بیگ احساس کی کئی کہانیوں نے اردو افسانے کو نئی پہچان دی۔ ۱۹۸۰ کے بعد اقبال مجید کی بھی نئے انداز میں واپسی ہوئی۔ ان کے ناولٹ بھی ۸۰ کے بعد ہی سامنے آئے۔ غرض یہ کہا جا سکتا ہے کہ جدیدیت کے اثرات سے باہر نکل کر ایک بار پھر کہانی کو نیا افق مل گیا تھا۔ اور مشرف عالم ذوقی کی صورت میں اردو افسانے کو ایک ایسا لیجنڈ مل گیا تھا جس نے منٹو کے بعد کی روایت میں نہ صرف اضافہ کیا بلکہ اردو افسانے کو وہاں لاکھڑا کیا جہاں اردو فکشن پر بلا شک وشبہ اعتبار اور فخر کیا جا سکتا ہے۔ ذوقی نے کہانیوں کے موجودہ منظرنامہ سے پرہیز کیا۔ ان کی شروعاتی دور کی کہانیوں نے ہی یہ ظاہر کر دیا تھا کہ اردو فکشن کو منٹو کے بعدا یک بڑا ادیب حاصل ہو چکا ہے۔ بارہ تیرہ سال پہلے بہار کے لوکل اخبار میں میرا ایک مراسلہ شائع ہوا تھا کہ ذوقی کو اب تک ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کیوں نہیں دیا گیا۔ غور کریں تو ۱۲۔ ۱۳ سال قبل ہی ذوقی اپنی کہانیوں کی شناخت سے اردو فکشن کی تاریخ میں اضافہ کا سبب بن چکے تھے۔

یہاں مثال کے طور پر میں ذوقی کی چند کہانیوں کو سامنے رکھنا ہو گا۔

’’آہ تم غلط سمجھے سموئل، ابھی تم نے جن کلچرز کاذ کر چھیڑا، وہ سب دکھ کی پیداوار ہیں … دکھ… جو ہم برداشت کرتے ہیں _ مہاتما بدھ کے مہان بھشکر من سے لے کر بھگوان کی آستھاؤں اور نئے خداؤں کی تلاش تک___ پھر ہم کسی روحانی نظام کی طرف بھاگتے ہیں ___ کبھی اوشو کی شرن میں آتے ہیں … کبھی گے (GAY) بن جاتے ہیں تو کبھی لیسبین۔ قتل عام ہو رہے ہیں … اور بھاگتے بھاگتے اچانک ہم کنڈوم کلچر کی طرف آ جاتے ہیں ___ ہم مر رہے ہیں سموئل اور جو نہیں مر رہے ہیں وہ جانے انجانے ایچ آئی وی پازیٹیوکی تلاش میں بھاگ رہے ہیں …‘‘

’’ہمارا ملزم اپنا دفاع نہیں کر پارہا ہے۔ اس لئے مقدمہ خارج۔ ‘‘

وہ غصّے سے سموئل کی طرف مڑا___ ایک باپ پشیمانی کی انتہا پر کھڑا ہے اور تم اسے اپنی بات مکمل کرنے کا موقع بھی نہیں دینا چاہتے۔ ویدک ساہتیہ کولو۔ دھرم کے بعد کام کا ہی استھان ہے۔ موکش کا نمبر اس کے بعد کا ہے۔ گیتا میں کہا گیا ہے، شری کرشن سب جگہ ہیں … انسانوں کے اندر وہ کامیکچھا کے روپ میں موجود ہیں ___ کھجوراہوکے مندروں میں سمبھوگ کے چتر اس بات کے ثبوت ہیں کہ سمبھوگ پاپ نہیں ہے ___ اگر پاپ ہوتا، اپوتر ہوتا تو اسے مندروں میں جگہ کیوں کر ملتی سموئل___؟(اصل واقعہ کی زیراکس کاپی)

ایک مثال اور دیکھئے

’’باپ نارمل ہو چکا ہے۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘ لڑکی چونک گئی تھی۔

’’ہاں، اس میں توازن لوٹ آیا ہے۔ وہ برابر برابر ہنستا ہے یعنی جتنا ہنسنا چاہئے، وہ برابر برابر… یعنی اتنا ہی مسکراتا ہے، جتنا مسکرانا چاہئے اور کبھی کبھی، کسی ضروری بات پر اتنا ہی سنجیدہ ہو جاتا ہے، جتنا…‘‘

’’یعنی وہ لڑکی اس کی زندگی سے دور جا چکی ہے ؟‘‘

’’یا اسے باپ نے دور کر دیا؟‘‘

لڑکی کی آنکھوں میں جیسے اندھیرا چھا گیا ہو۔ وہ ایک لمحے کے لئے کانپ گئی تھی۔ شاید ایک قطرہ آنسو اس کی آنکھوں میں لرزاں تھا___

’’کیا ہوا تمہیں ؟‘‘

’’کچھ نہیں۔ ماں کا خیال آ گیا‘‘

’’اچانک۔ مگر کیوں …؟‘‘

لڑکی نے موضوع بدل دیا۔ ’’اب سوچتی ہوں میری ماں مکمل کیوں نہیں ہو سکی۔ ؟

(باپ بیٹا)

ذوقی کی ان کہانیوں میں عام بستیاں آباد نہیں ہیں۔ یہ فکرونظر کی بستیاں ہیں۔ یہ محض خیال پیکر کی دنیا ہے۔ یہاں زندگی سے جڑے ہوئے حیران کرنے والے واقعات اور ان واقعات سے پیدا شدہ فلسفے نے کہانیوں میں جو رنگ بھرا ہے، اس کی مثال دور تک اردو تو کجا ہندی اور دیگر زبانوں کی کہانیوں میں بھی نہیں ملتی۔ اس طرح غور کریں تو ذوقی اپنی ہر کہانی میں فکر وخیال کی ایک نئی دنیا سجاتے ہیں۔ اس لیے میں ذوقی کو دنیا کے ان حساس قلمکاروں میں شامل کرتا ہوں جو نہ صرف اپنے عہد سے وابستہ ہیں بلکہ اس سڑے گلے نظام کے لیے زندگی کا نیا فلسفہ بھی لے کر آتے ہیں۔ ذوقی مبہم اور تجریدی دنیا میں سانس نہیں لیتے۔ وہ حقیقت سے پیکر تراشتے ہیں۔ اور بیک وقت ان کی کہانیوں میں بیانیہ، علامتیں، فنٹاسی کا حسین پیکر بھی نظر آتا ہے۔ اس عہد میں سلام بن رزاق سے لے کر عبدالصمد، شموئل احمد، شوکت حیات، غضنفر اور دیگر قلمکاروں نے بھی ایسی کہانیاں لکھی ہیں جنہوں نے اردو فکشن کے قد کو بلند کیا ہے مگر غور کیجئے تو ذوقی کے فکشن کا رنگ سب سے مختلف ہے۔ اس جائزے کا یہ مطلب نہیں کہ میں دوسرے افسانہ نگاروں کے قد کو ذوقی سے کم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ذوقی کی تحریر میں جادو ہے۔ جیسے ایک وقت تھا جب منٹو کے جادو کو قبول کیا گیا تھا۔ آج ہمارے درمیان ایک سے بڑھ کر ایک لکھاڑی موجود ہیں مگر ذوقی کی تخلیقی قوت نے جو جادو جگایا ہے، اس نے ہندستانی اردو فکشن کو عالمی فکشن کے مقابلہ لاکھڑا کیا ہے۔ کچھ اوراقتباس دیکھئے۔

لڑکی کا چہرہ بجھ گیا تھا۔ اپنی اپنی باری کے انتظار میں سب امید بھری نظروں سے پوتے کو دیکھ رہے تھے، جس نے رسی کا ایک سرا پہاڑی کے ایسٹ پول میں پھنسا کر، دوسرا سرا اپنے آئرن بیلٹ سے جوڑ لیا تھا۔ اب وہ چمکتی نگاہوں سے، چمکتی برفیلی چٹانوں اور اپنے دوستوں کا چہرہ پڑھ رہا تھا۔

’اچھا مان لو، تم واپس نہیں آئے تو؟‘ ایک ساتھی نے مسکراکر دریافت کیا۔

’___کیاواپس آنا ضروری ہے ؟‘ پوتے کے لہجے میں ہنسی تھی۔

’نہیں ‘— دوست شرمندہ تھا۔

’___پھرہم کہاں ملیں گے ؟‘

’کیا پھر ملنا ضروری ہے ___؟ پوتا اس بار زور سے ہنسا۔

’نہیں ‘

’___لیکن! اس کے باوجود ہم ملیں گے۔ اگر واپس نہیں آئے تو؟‘

’کہاں ؟‘

پوتے نے اشارہ کیا… ’’وہاں ___ گلیشیرس میں ___ ٹھنڈی موجوں ___ بہتے پانی میں … اور چمکیلی برف میں …‘‘

پوتے نے اس بار ہنسنے سے پہلے ہی چھلانگ لگادی۔ (دادا اور پوتا)

’’آخر اسے ایک تہذیب مل گئی۔ جس کی کھوج میں وہ برسوں سے لگا تھا۔ ایک قدیم تہذیب…یہ اس ڈراونے ویلٹائن ڈے کے چوتھے دن بعد کا قصہ ہے۔ مسوری، ہماچل وغیرہ میں برف گری تھی شاید۔ سردی اچانک تیز ہو گئی تھی… وہ رات کے 3بجے آیا۔ میں سو گئی تھی۔ عام طور پر جب میں اکے لیے ہوتی ہوں۔ بیڈروم میں __تو برائے نام لباس پہنتی ہوں … وہ مجھے اٹھا رہا تھا۔ جانوروں کی طرح…

’’ہوہو۔ ۔ اٹھو۔ ۔ اٹھو۔ ‘‘

میں نے سمجھا، ایک جانور پیاسا ہے۔ عام طور پر وہ اسی طرح، ایک بے حس جانور کی طرح اپنی بھوک مٹاتا تھا۔ رات کے تین بجے اُٹھا کر اس نے مجھے صوفہ پر بیٹھا دیا۔

’بولو۔ اُٹھایا کیوں۔ میں گہری نیند میں تھی۔ ‘‘

’مل گیا۔ یوریکا۔ ’’اسے میرے لفظوں کی، نیند کی فکر نہیں تھی… ’’تمہیں یاد ہے … وہ کمرے میں ٹہل رہا تھا____ میں نے بتایا تھانا، 1991ء کے آس پاس جرمن سیاحوں کو آلپس کی پہاڑیوں پر ٹہلتے ہوئے انسانی اعضاء ملے تھے۔ یاد ہے ؟ وہ بیسویں صدی کی سب سے عظیم دریافت تھی____ سب سے عظیم دریافت۔ گیارہ برس بعد____ اس کے ٹھیک گیارہ برس بعد۔ آہ تم یقین نہیں کرو گی۔ مگر ہم دنیا بدل دیں گے۔ تاریخ نئے سرے سے لکھی جائے گی۔ میں ان کچھ لوگوں میں سے ایک تھا____ گجرات کے ساحل سے 30کلو میٹر دور کھمباٹ کی کھاڑی میں ایک عظیم خزانہ ہاتھ آ گیا ہے۔ سونوفوٹو گرافی۔ تمہیں یاد ہے نا، چار دن پہلے …

’جلتے ہوئے گجرات میں، عظیم خزانہ…؟‘(انکو بیٹر)

’’برسوں پہلے موہن جوداڑو کی کھدائی سے ____ تمہیں یاد ہے … ’سفید چادر میں اس کے ہلتے پاؤں نے میرے ننگے پاؤں پر اپنا گداز بوجھ ڈال دیا تھا____ تمہیں یاد ہے حسین، وہ آرکائیو والوں کے لئے یقیناً ایک انوکھی، قیمتی اور مہنگی چیز تھی۔ مجھے یاد کرنے دو…ایک عظیم بھینسا، رالچھس جیسا… بڑی بڑی سیں گیں … لیکن چھوٹا سر… دونوکیلی سیں گیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں … میں نے یہ تصویر کسی امریکن میگزین میں دیکھی تھی… لیکن، مجھے یاد رہ گئی۔ پتہ ہے، وہ عظیم بھینسا کون تھا۔ وہ تم تھے حسین!‘‘

وہ اچھلی…سفید چادر اس کے اجلے نرم ملائم بدن سے پھسل کر اس کی جانگھوں تک چلی گئی تھی____

’’تم اس وقت بھی تھے۔ موہن جودڑو کی تہذیب میں۔ ایک عظیم بھینسے کی صورت میں۔ لیکن اس وقت میں کہاں تھی حسین…؟‘‘

وہ تارکول کی طرح میرے بدن پر پھسل رہی تھی… ’’میں بن رہی تھی شاید… ہر بار بننے کے عمل میں تھی۔ عیسیٰ قبل کئی صدیاں پہلے یونان میں … کبھی ’پارتھنیان‘، کے آدھے گھوڑے آدھے انسانی مجسمے کی صورت… کبھی وینس اور ’اپالو‘ کی پینٹنگ میں … کبھی لیونارڈودی ونچی کی مونالزا اور جن آف راکس، دی میڈونا اینڈ چائلڈ اور باچیوز میں … اور کبھی رافل، رمبراں اور جان اور میر کی تصویروں میں …‘‘

(لینڈ اس کیپ کے گھوڑے )

’’انجلی بڑی ہو رہی تھی۔ باپ ڈر رہا تھا… باپ دوست بننے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن، لڑکی یا عورت کے بدن سے جڑی ہوئی کچھ ایسی ’خفیہ‘ کہانیاں بھی ہوتی ہیں، جو اچانک پُراسرار راتوں کی طرح جاگ جاتی ہیں۔ کبھی کبھی، سہمی سہمی راتیں مجھ میں ڈر پیدا کر دیتیں … خاص کر سرما جیسے موسم میں ____ ایک ہی لحاف میں …انجلی کے بدن سے لپٹے ہوئے ہاتھ اچانک، خرگوش سے سانپ جیسے بھیانک ہو جاتے …

میں لیمپ روشن کر دیتا۔ کمرے کو اپنی لمبی لمبی، گہری گہری سانسیں سونپ دیتا ہوں۔

یہ مجھے کیا ہو رہا ہے۔ انجلی بیٹی ہے۔ بیٹی ہے۔ دو ایکم دو۔ دو دونی چار… انجلی بیٹی ہے …بیٹی ہے … بیٹی ہے … دو ایکم دو۔ دو دونی چار/ انجلی بیٹی ہے …بیٹی ہے …بیٹی ہے …میں اپنی سانسوں سے الجھنے کی کوشش کر رہا ہوں …‘‘

(فزکس، کیمسٹری، الجبرا)

’’وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنی ریشمی ساڑی کی ’شکنوں ‘ میں کھو گئی تھی____

’تمہیں مجھے خوش رکھنا ہو گا۔ میری… میری فرمائشیں پوری کرنی ہوں گی… سن رہے ہو، نربھے چودھری… میرے لئے …‘

اس کی نقرئی، لڑکھڑاتی آواز کا ’جل ترنگ‘ کمرے میں گونج رہا تھا…

’سوچو میں … ڈھل جاؤں تو؟ میں جیسی ہوں، ویسی نظر نہ آؤں تو____ یہ سب کچھ تم پر ہے نربھے چودھری… تم پر____ مجھے خوبصورتی پسند ہے۔ اس کمرے کو جنت سے زیادہ خوبصورت بنادو… مجھے خوشبوئیں پسند ہیں … میرے لئے خوشبوؤں کا خزانہ لے آؤ____ میرے لئے تم بھی اپنے آپ کو بدلو گے نربھے چودھری… بدلو گے نا…؟ خوشبو کو، خوشبو اور ایک حسین جسم کو ایک حسین جسم کی چاہت ہوتی ہے … میرے لئے تم یہ سب کرو گے نا، نربھے چودھری، ورنہ… ورنہ…‘(فریج میں عورت‘‘)

غرض کہ۱۹۸۰ کے بعد اردو افسانے کی صورتحال میں بڑی حد تک تبدیلیاں سامنے آ چکی ہیں۔ اردو افسانے کا مستقبل تابناک اور روشن ہے۔ ایک وقت تھا جب اردو افسانے پر منٹوؔ کی حکومت تھی— آج برصغیر میں ذوقی ؔکی کہانیوں کی دھوم ہے۔ ذوقی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ حال وماضی کو ملا کر کہانیوں کا ایک ایسا کولاژ تیار کرتے ہیں جو اپنے پڑھنے والوں کو حیران کرجاتا ہے۔ ان کہانیوں میں حیات وممات کے ایسے فلسفے بھی ہوتے ہیں جو مدتوں تک قاری کو پریشان رکھتے ہیں۔ ذوقی کی کہانیاں ماضی میں بھی سانس لیتی ہیں اور جدید سائنسی منظرنامے کی گواہ بھی بن جاتی ہیں۔

٭ ٭٭

 

 

 

 بیسویں صدی کا اردو افسانہ اور تنقید— رحمن عباس

 

’جدید تنقید نے ادب اور قاری کے درمیان پل کم بنائے، دیواریں زیادہ کھڑی کی ہیں۔ ‘

( تہذیب اور تنقید کا رشتہ : شمیم حنفی)

 

( یہ مضمون اس بات پر بحث کرتا ہے کہ ۱۹۳۰ کے بعد سے اردو فکشن کا جو سنہرا دور شروع ہوا وہ بیدی کے انتقال تک کسی نہ کسی صورت جاری تھا۔ اب اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر نیا اور جدید افسانہ کیا ہے ؟ وہ افسانہ کون سا افسانہ ہے جس کی حمایت شمس الرحمن فاروقی آج بھی اور ابتدا میں گوپی چند نارنگ کرتے رہے ؟ وہ تنقید کیا ہے جو جدید افسانے کی تنقید کے طور پر لکھی گئی جس کی مخالفت وارث علوی نے بہت سخت لہجے میں کی تھی۔ )

٭٭٭

پریم چند (۱۸۸۰ تا ۱۹۳۶)، سعادت حسن منٹو ( ۱۹۱۲ تا ۱۹۵۵)، عصمت چغتائی (۱۹۱۵ تا ۱۹۹۱ )، کرشن چندر(۱۹۱۴ تا ۱۹۷۷)، راجندر سنگھ بیدی ( ۱۵ ۱۹ تا ۸۴ ۱۹)، قر ۃالعین حیدر (۱۹۲۸ تا ۲۰۰۷) اور انتظار حسین (۱۹۲۳ پیدائش) بیسویں صدی کے نامور افسانہ نگار ہیں۔ پریم چند، سعادت حسن منٹو اور بیدی کے لیے عظیم افسانہ نگار کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے۔ علی عباس حسینی (۱۸۹۷ تا ۱۹۶۹)، حیات اللہ انصاری (۱۹۱۱تا ۱۹۹۹)، اوپندر ناتھ اشک ( ۱۰ ۱۹ تا ۹۶ ۱۹ )، احمد ندیم قاسمی ( ۱۶ ۱۹ تا ۲۰۰۶)، غلام عباس ( ۱۹۰۷ تا ۱۹۸۲)، بلونت سنگھ (۱۹۲۱ تا ۱۹۸۶ )، ممتاز مفتی (۱۹۰۵ تا ۱۹۹۵) وغیرہ ان نامور افسانہ نگاروں کے معاصر ین تھے اور سب نے مل کر اردو افسانے کو بیسویں صدی میں وقار عطا کیا۔ ہندستان میں اردو افسانے کی ادبی تاریخ میں تقسیم کے فوراً بعد ابھرنے والے افسانہ نگاروں میں خواجہ احمد عباس (۱۹۱۴ تا ۸۷ ۱۹)، قاضی عبدالستار (۱۹۳۳ پیدائش)، اقبال مجید (۱۹۳۱ پیدائش) رتن سنگھ (۱۹۲۹ پیدائش)، سریندر پرکاش (۱۹۳۰ تا ۲۰۰۸) اور نیر مسعود (۱۹۳۶ پیدائش) کے نام بھی اب شامل کئے جا سکتے ہیں جن کی مجموعی افسانہ نگاری ندرت اور تخلیقی تجربہ عطا کرتی ہے۔ مذکورہ بالا تمام افسانہ نگاردر اصل بیسویں صدی میں اردو افسانے کی تاریخ اور ڈسکورس کا اہم حصہ ہیں۔ یہ سب پریم چند کے بعد ادب کے منظر نامے پر ابھرے اور زیادہ تر ۱۹۸۰ تک ادب میں سرگرم رہے ہیں، سوائے سعادت حسن منٹو۔ کچھ افسانہ نگار آج بھی لکھ رہے ہیں۔ قاضی عبدالستار، اقبال مجید، رتن سنگھ اور انتظار حسین اکیسویں صدی میں بھی ادبی محفلوں اور مباحث میں بھی پیش پیش نظر آتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا نام ترقی پسند تحریک، مارکسی نظریات یا ترقی پسند نظریات کی حامل ادبی شخصیات کے ساتھ وابستہ ملتا ہے جبکہ سریندر پرکاش ایک ایسا فن کار ہے جس کی ادبی روایت کو ایک علحدہ افسانوی تجربے کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے لیکن بھلا ہو شمس الرحمن فاروقی کا جنھوں نے سریندر پرکاش کی اسلوبیاتی جہت کا ربط خود ہی راجندر سنگھ بیدی کے اسلوب میں تلاش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’ پچھلی نسل کے بڑے افسانہ نگاروں میں بیدی کو سریندر پرکاش کا پیش رو کہا جا سکتا ہے، اس معنی میں کہ دونوں نہایت ٹھنڈے دماغ کے افسانہ نگار ہیں اور دونوں اپنی برہمی کو طنز اور اسطور میں بدل دینے کی قوت رکھتے ہیں۔ ‘ (باز گوئی: پیش لفظ)۔ شمس الرحمن فاروقی افسانے کی فنی جہات، فکشن کی شعریات، افسانوی اسلوب کی بازیافت اور فکشن کی جمالیات کی تشکیل کی کوششوں میں کیوں نہ کامیاب ہوئے اس پر مضمون میں آگے تفصیل سے غور خوض ہو گا لیکن یہاں ان کا مذکورہ بیان اس بات کا اشارہ کرتا ہے کہ فاروقی کی نگاہ میں بھی بیدی ایک بڑے افسانہ نگار ہیں جو سریندر پرکاش کے پیش رو ہیں۔

ہمارے یہاں عموماً ۱۹۳۰ سے ۱۹۶۰ تک کے عہد کو ترقی پسند ادب کا دور کہا جاتا ہے اور ۱۹۶۰ سے ۱۹۷۰ کے عرصے کو جدیدیت کا دور کہا جاتا ہے۔ یہ تقسیم تنقید لکھنے والوں کا کارنامہ ہے۔ تنقید کے جو دبستان ہمارے یہاں ملک کی تقیسم کے بعد سامنے آئے انھوں نے ادب کو ان خانوں میں تقسیم کیا۔ رفتہ رفتہ یہ بات مقبول بھی ہو گئی اور کسی نے ادب کو ان دوخانوں میں تقسیم کرنے کی معنویت پر سوالات نہیں کئے ؟ترقی پسند افسانے اور جدیدیت سے منسوب افسانے کی مابین طریقۂ کار کا جو فرق ہے اس پر گوپی چند نارنگ کے تفصیلی مضامین ہیں جن سے میں نے اس مضمون میں جی کھول کر استفادہ بھی کیا ہے لیکن سوال یہ ہے ۱۹۵۵ میں منٹو کی موت واقع ہوئی، منٹو ترقی پسند افسانہ نگار نہیں تھا لیکن ترقی پسند تحریک کے تمام بڑے افسانہ نگار اور وہ افسانہ نگار جن کا تعلق جدیدیت سے منسوب افسانہ نگاروں میں نہیں ہوتا ہے ۱۹۸۰ تک اچھا ادب تخلیق کر رہے تو ایسے میں ترقی پسند تحریک کے خاتمے کا اعلان کیسے ہو سکتا ہے ؟

اکیسویں صدی میں اگر بیسویں صدی کے افسانے کا معروضی انداز میں مطالعہ کیا جائے تو پہلا سوال ترقی پسندی اور جدیدیت سے منسوب عہد کی تقسیم پر ہو گا۔ ہمارے ادبی رسائل اور کچھ کتابوں (مثلاً احتشام حسین، عزیز احمد، قمر رئیس، محمد حسن، سردار جعفری اور فاروقی کی تنقیدی کتابیں ) کی اشاعت نے اس گمراہ کن تقسیم کو ادبی سند کا درجہ عطا کیا۔ دوسری طرف اردو فکشن کا مطالعہ اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ جدیداردو افسانے کی ابتدا پریم چند کا افسانہ ’کفن‘ ہے۔ پریم چند کی افسانہ نگاری اور حقیقت نگاری پر شمیم حنفی کو ایک اعتراض یہ ہے کہ ’ وہ ایک طرح کی اجتماعیت ) (collectivismکے گرویدہ تھے چنانچہ بعض لوگوں کے خیال میں نئی کہانی کے تخلیقی رویے سے پریم چند کے اسی اجتماعیت پسندانہ رویے کی مخالفت کی۔ (پریم چندکا تیسرا موڑ : ۱۹۸۰) کاش! شمیم حنفی یہ بھی بتاتے کہ جن لوگوں کے لیے انھوں نے ’بعض لوگ‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے وہ کون تھے ؟ کیونکہ: ایک آدمی نے کہا تھا۔ کہیں میں نے سنا تھا۔ یاـ بعض لوگوں نے کہا‘ایسے حوالے تنقید کی ایمانداری کو کم نہیں تو مشتبہ ضرور کرتے ہیں۔ پریم چند کے بارے میں ان کے اس ’بصیرت افروز‘ مضمون کے متن میں مذکورہ بیان کی حیثیت محض ایک خیال کی ہے۔ ٹھوس حقیقت یا کسی مدلل منطقی استدلال پر یہ قائم نہیں ہے۔ یہ بیان صداقت پر مبنی نہیں ہے کیونکہ اس کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ شمیم حنفی کا ایک اور بیان مجھے یاد آتا ہے جو بہت convincing لگتا ہے :’ اپنی روایت کے بنیادی تہذیبی حوالوں پر اصرار کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہم تہذیب کے عالمی تصور سے دست بردار ہو گئے ہیں۔ نہ تو مقامیت آفاقیت کی ضد ہوتی ہے، نہ انفرادیت بین الاقوامیت کو مسترد کرتی ہے ‘ (تہذیب اور تنقید کا رشتہ:شمیم حنفی)۔ اس بیان کی روشنی میں مجھے لگتا ہے پریم چند کی حقیقت نگاری ان کے آدرش واد کے باوجود مقامیت اور بنیادی تہذیبی حوالوں سے عبارت ہے۔ بہر کیف! جدید اردو افسانے کی ابتدا کے زیادہ واضح نشانات اور مضمرات سعادت حسن منٹو کے افسانوں بالخصوص ’پھندنے ‘ اور’ بو‘ میں نظر آتے ہیں لیکن تنقید نے ’کفن ‘کو ترقی پسند افسانے کا بنیاد گذار کہنے پر اصرار کیا اور’ پھندنے ‘کو جدید اردو افسانے کی ابتدا قرار دیا۔ یہ تقسیم آرٹ کی سطح پر ہر گز قائم نہیں ہے اور اس بات کا اشارہ ہے کہ اردو فکشن کے نقادوں کو اپنی تخیلی نارسائی کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں گوپی چند نارنگ کا یہ خیال بامعنی ہے کہ’ پریم چند نے ’کفن‘ میں سماجی حقیقت نگاری اور انسانی نفسیات کو جس عمدگی سے فن کے تقاضوں سے آمیزکیا تھا، بعد میں اس سے آگے بڑھنا تو کجا، اس معیار کو بر قرار بھی نہ رکھا جا سکا، اور خارجی تقاضوں اور فارمولوں کے تحت اختیار کی ہوئی رومانیت و جذباتیت نے کہانی کو نقصان پہنچایا۔ ‘ (نیا افسانہ: روایت سے انحراف اور مقلدین کے لیے لمحۂ فکریہ)۔ اس بیان میں کیا بات کہی گئی ہے اس پر کسی نے غور کیا ہے ؟

افسانے کی ایک صدی مکمل ہونے کے بعد یہ سوال زیادہ بامعنی ہو جاتا ہے کہ اردو افسانے کی روایت کیا ہے ؟ جدیدیت سے منسوب افسانہ کس طرح کا افسانہ ہے ؟ ایک صدی پر مشتمل اردو افسانے کی ادبی تاریخ میں ترقی پسند تحریک اور جدید یت سے منسوب افسانے کی اہمیت کیا ہے ؟ جدید یت سے منسوب افسانہ اردو افسانے کی روایت سے متصادم ہے یا روایت کی توسیع کرتا ہے ؟ یہ اور اس نوع کے سوالات بیسویں صدی کے فکشن کے نقادوں کے لیے شاید اہم نہیں تھے۔ بیسویں صدی کی فکشن کی تنقید در اصل نظریات کی تبلیغ، نظریے سے وابستہ قلم کاروں کی ستائش اور فکشن کی غیر فنی تنقید پر فنی تنقید کی آویزش سے عبارت تھی۔ آزادی کے بعد ممتاز شیر یں، محمد حسن عسکری، قمر رئیس، محمد حسن، گوپی چند نارنگ، شمیم حنفی، شمس الرحمن فاروقی اور وارث علوی فکشن کی تنقید کے اہم نام ہیں۔ اکیسویں صدی میں فکشن کی تنقید لکھنے والے بار بار ان نقادوں کی نگارشات کی طرف مرجع ہوں گے۔ ان ہی کے ساتھ سے اختلاف کریں گے اور ان ہی سے عقیدت کا اظہار بھی کریں گے۔ ہندوستان کی سطح پر گوپی چند نارنگ اور شمس الرحمن فاروقی فکشن کی تنقید کے ناقابل فراموش نام ہیں۔ وارث علوی نے کیا عمدہ بات کہی ہے : ’ یہ عہد فاروقی اور نارنگ کے نام لکھا گیا ہے۔ دوسرے نقاد تو ان کے باراتیوں میں بھی نہیں بلکہ ان پھٹے حال چاکروں جیسے لگتے ہیں جو سر پر گیس کی بتیاں لے کر چلتے ہیں جن کی روشنی میں ان دولہوں کے سہروں کے پھول جگمگاتے ہیں۔ ‘ (لکھتے رقعہ لکھے گئے دفتر: وارث علوی)۔ یہ بات دیکھی گئی ہے کہ بیسویں صدی کے بہت سارے دیگر تنقید لکھنے والے بہت کم حوصلہ رہے ہیں جن کا کوئی ادبی موقف اور نظریہ نہیں رہا ہے۔ ان حضرات نے اپنی ساری صلاحیتیں فاروقی اور نارنگ کی ادبی سرگرمیوں میں ڈیکوریشن والے کا رول ادا کرنے میں صرف کی ہیں۔ غالباً اسی بات کو وارث علوی نے اپنے کھٹے مٹھے انداز میں بیان کیا ہے۔ دوسری طرف وارث علوی اکیسو یں صدی میں بیسویں صدی کی فکشن کی تنقید کی عظمت اور اسفل ترین سطحوں کا مطالعے کرنے والوں کے لیے روشنی کا ایک مینار بن کر ابھریں گے۔ ان کی تحریروں نے فکشن کی تنقید کے احتساب، آرٹ کے مباحث کے فنی امکانات، فن سے والہانہ عشق، معروضیت اور ادبی دیانت داری کی صحت مند روایت قایم کی ہے۔ وارث علوی نے فکشن کی تنقید کو ادبی اصطلاحات کا قبرستان بننے سے بچائے رکھا اور ظرافت کی رنگینی سے تنقید کو دلوں میں خون کی طرح بہانا سیکھایا۔ بلاشبہ کچھ ادبی متون کے تعینِ قدر میں ان سے استحلال ہوا اور بعض اوقات ان کی تنقید روایتی تنقیدی حدوں کو پھلانگ کر تخلیقی نثر کی آزاد گلیوں میں آوارگی سے بھٹکتی رہی اس کے باوجود افسانے، ناول اور فکشن کی مجموعی روایت، تاریخ اور مباحث پر ان کا قلم ایک سر کش گھوڑے کی طرح دوڑتا رہا۔

٭

گذشتہ سو برسوں کی فکشن کی تاریخ میں جدیدیت سے منسوب افسانہ جسے ۱۹۶۰ سے ۱۹۷۰ بلکہ ۱۹۷۵ تک کچھ لوگوں کے یہاں تلاش کیا جاتا ہے اس کا عرصہ اتنا مختصر کیوں ہے ؟ کیا واقع اتنا مختصر ہے ؟ کیوں بیسویں صدی کے بڑے فن کاروں میں کوئی نام جدیدیت سے منسوب افسانہ نگاروں کی فہرست سے یا جدیدیت کی افسانے کی تعبیر کی بنیاد پر اپنے لیے جگہ نہیں بنا سکا؟ کیا جدیدیت سے منسوب افسانہ محض ایک تنقیدی مفروضہ تھا جو ایک دہائی میں تنقید کے زور پر پروپیگیٹ propagate تو کیا گیا لیکن اردو افسانے کی روایت میں اپنے لیے کوئی جگہ نہیں بنا سکا؟ یہ دوسری قسم کے سوالات ہیں جن سے اکیسویں صدی کے افسانہ نگار اور تنقید نگار بنر دآزما ہیں۔ یقیناً یہ سوالات بیسویں صدی کی فکشن کی تنقید اور نقادوں کے لیے اہم نہیں ہوں گے۔ البتہ گوپی چند نارنگ کا مذکورہ بیان کہ ’کفن‘ سماجی حقیقت نگاری اور انسانی نفسیات کو فن کے تقاضوں سے آمیز کرتا ہے، کیا کم معنی خیز ہے لیکن’ کفن ‘ جیسے افسانے کو کس مفروضے کے تحت ہم نے آدرش وادی افسانہ اور ترقی پسند افسانہ قرار دیا اس کا کوئی مدلل جواز کیوں نہیں ملتا ؟ سوائے اس کہ پریم چندنے ترقی پسند تحریک کے ماتحت منعقد اجلاس میں شرکت کی تھی۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ پریم چند تو زندگی کے حسن کے معیار کو بدلنے کا خواب بھی دیکھ رہے تھے۔ ’کفن ‘ زندگی کے حسن کو بدلنے کے خواب کی تعبیر بھی تو ہو سکتا ہے جس کا مکمل احساس ہمیں منٹو کی دو درجن کہانیوں میں ہوتا ہے۔ جہاں نہ آدرش ہے، نہ غیر ضروری جذباتیت ہے، نہ تقریر ہے نہ مشورہ بازی کا کوئی چلن ہے۔ بلکہ زندگی اپنی زیادہ برہنہ صورت میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گوپی چند نارنگ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ’ نئی نسل نے پریم چند کی آدرش وای ذہنیت کو کتنا ہی کیوں نہ رد کیا ہو، ’ کفن‘ کو کبھی نہیں ٹھکرایا۔ البتہ باغیانہ لے اور روایتی سانچوں سے انحراف کے معاملے میں نئی نسل کا رشتہ ’کفن‘ کے پریم چند کی بہ نسبت ’بو‘ یا ’پھندنے ‘ کے منٹو سے زیادہ فطری تھا۔ ‘ یہاں ’نئی نسل ‘مراد کون لوگ ہیں ؟ چونکہ اب بہت وقت گذر گیا ہے اس لیے اکیسویں صدی کا اردو قاری یہ پوچھ سکتا ہے کہ جس نسل کو باغی بنا کر پروجیکٹ کیا گیا تھا خود اس نسل نے ’ کفن‘ جیسی سماجی حقیقت نگاری اور انسانی نفسیات کو فن کے تقاضوں سے آمیز کرنے والے کتنے افسانے لکھے ہیں ؟ مجھے تو وارث علوی کا وہ جملہ یاد آتا ہے کہ’ جدید افسانہ اس کھلنڈرے پن اور طراری سے محروم ہے جو نوجوانوں کی بغاوت کو رنگ و آہنگ بخشتی ہے ہم سے نہ ’بو ‘لکھا گیا نہ’ لحاف‘۔ ، ہمارا افسانہ انشائیہ بن گیا جس میں زندگی نہیں بلکہ شخصیت پیش پیش ہوتی ہے۔ ‘ (اجتہادات روایت کی روشنی میں : وارث علوی)۔ کیا یہ بات کہنا زیادتی ہو گی کہ باغی نسل نے روایتی سانچوں سے انحراف کرنے کے بعد اور’ کفن‘ کی ترقی پسند لے سے انکار کے بعد افسانے کو آگے بڑھنا تو کجا، اس معیار کو بھی بر قرار نہیں رکھا جس معیار پر پریم چند اسے ’کفن ‘میں لیے آئے تھے ؟ نظر تو یہ آتا ہے کہ کاغذ پر باغی قرار دی گئی نسل نقادوں کے فرمودات کی اسیر، غیر فنی اور اور غیر ادبی مکاشفوں کی شکار ہو کر ایک دہائی بھی نہیں چل سکی۔ کیا یہ غلط ہے کہ باغی نسل لسانیاتی تقاضوں اور تنقیدی فارمولوں کی محبوس ہوئی اور خود ایک ناکامیاب ادبی تجربے میں بدل گی؟ ایسا کیوں ہوا؟ کیوں جدیدیت سے منسوب افسانہ جدید اردو افسانے کی روایت اور تاریخ میں حاشیے پر لکھی گئی غیر ضروری اندراجات میں بدل گیا؟ حالانکہ اہم سوال یہ ہے کہ جب جدیدیت سے منسوب افسانہ شمس الرحمن فاروقی اور شمیم حنفی کی علمیت اور بصیرت کی روشنی میں روایت سے منحرف ہو رہا تھا اس وقت جدید افسانہ کیا کر رہا تھا۔ کیا’ کفن‘، ’ لحاف‘، ’ بو‘، ’پھندنے ‘ سے مزین، پرکش اورانسانی روح میں سرایت کرجانے والا افسانہ ختم ہو گیا تھا۔ کیا واقعی ترقی پسندی ختم ہو گئی تھی اور ترقی پسند نظریات ادب سے معدوم ہو گئے تھے ؟ کیا سماجی حقیقت نگاری اور انسانی نفسیات کوفن کے تقاضوں سے آمیز کرنے والا افسانہ نہیں لکھا جا رہا تھا؟ ۱۹۶۰ تو ایک طرف ۱۹۵۰ سے ۱۹۸۰ تک فکشن کی تاریخ کا مطالعہ ایک دوسری ہی صورت حال پیش کرتا ہے۔ ’لحاف‘ اور’ کفن‘ کی جدید اردو افسانے کی روایت کو منٹو نے بامِ عروج پر پہنچایا اور ۱۹۵۵ میں خود زندگی کی ستم ظریفی کا شکار ہو کار فکشن کے آفاق پر ایک لافانی کتبے میں بدل گیا لیکن سماجی حقیقت نگاری اور انسانی نفسیات کی آمیزش اور فن کے تقاضوں سے آمیز افسانہ بہت طاقت ور ہو گیا تھا۔ اس افسانے کی باگ ڈور ابھی علی عباس حسینی، حیات اللہ انصاری، اوپندرناتھ اشک، غلام عباس، بلونت سنگھ، ممتاز مفتی، خواجہ احمد عباس، عصمت چغتائی، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، قر ۃالعین حیدر، انتظار حسین کے ہاتھوں میں تھی۔ بہت جلد اس کارواں میں قاضی عبدالستار، اقبال مجید اور رتن سنگھ بھی شامل ہو گئے۔ ان افسانہ نگاروں نے سماج، آدمی اور سماجی صورت حال سے انکار نہیں کیا۔ ان کے افسانوں میں جدید اردو افسانے کی حقیقی روایت بدستور جاری رہی اور ہے۔ ان میں سے بعض نے پلاٹ کے ترتیب اور کہانی کی پیش کش میں کئی تجربات بھی کئے۔ ان افسانہ نگاروں نے کئی معیاری افسانے تحریر کئے جن کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سماجی حقیقت نگاری کی روایت جو اردو افسانے اور فن افسانہ نگاری کی کلید ہے ۱۹۶۰ میں ختم نہیں ہوئی جیسا کہ جدیدیت کے مبلغ نقادوں نے اعلان، بلکہ پروپیگنڈا کیا تھا۔ یہ پروپیگنڈا در اصل مستحکم ادبی اور افسانوی روایت کو کمزور کرنے کی کوشش تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ جدید اردو افسانے کی روایت جس کی نبیاد’ کفن‘ میں دکھائی دیتی ہے، آج یعنی اکیسویں صدی مزید توسیع پسندی کی جانب گا مزن نظر آتی ہے۔

٭

اکیسویں صدی میں جب ہم بیسویں صدی کے بڑے اور اہم افسانہ نگاروں کو پڑھتے ہیں اور ان کی فن کاری پر بحث کرتے ہیں تب ترقی پسند تحریک کی سماجی کمٹ منٹ والی بحث اور جدیدیت سے منسوب افسانے سے متعلق ہئیت پرستی کی بحث ہمارے لیے کیا کوئی اہمیت رکھتی ہے ؟ کیا مذکورہ افسانہ نگاروں کے فنی امتیازات، انسلاکات، میلانات، موضوعات، اور فنی اسالیب پر تنقیدی نظریات کی چھاپ اتنی گہری ہے کہ اس کے بغیر ان کا مطالعہ ادھورا ہو گا ؟کیا کسی بھی ادبی تحریر کے مطالعے کے لیے اس تنقیدی و نظریاتی بحث کا مطالعہ لازمی ہے جس میں وہ تحریر لکھی جاتی ہے ؟ اکیسویں صدی میں ترقی پسند تحریک اردو معاشرے ادبی تحریک کے طور پر ختم ہو گئی ہے لیکن ترقی پسند نظریات کی اہمیت کو بہ شمار ہندستان ساری دنیا میں محسوس کیا جا رہا بلکہ گلوبلائیزشن، سر مایہ داری، امریکہ اور اس کے حواریوں کی توسیع پسندی، اور امیر ملکوں کا غریب ممالک پر بڑھتا شکنجہ یا طاقت ور ملکوں کی کمزور ممالک کے خلاف بڑھتی ہوئی یلغار نے ایک بار پھر زندگی کی اساس کو منتشر کر دیا ہے۔ اکیسو یں صدی میں تہذیبی تصادم، جمہوریت اور مذہبی کے نام پر تشدد اور سیاست بھی امریکی نو آبادیاتی توسیع پسندی کے بہانے بن گئے ہیں نتیجتاً ہر جا آدمی بے شمار تہذیبی، سیاسی، تمدنی اور وجودی کرائسس کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف اردو میں جدیدیت سے منسوب ادبی رجحان ایک مہین، بے جان، نحیف لکیر میں بدل کر رہ گیا ہے۔ آج بمشکل چار پانچ افسانہ نگار ہوں گے جو بے ہئیت، چیستان اور نثری نظم کو خالص افسانہ قرار دیتے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی کے علاوہ اب کوئی نقاد بے فیض، نیم ادبی اور چیستان تحریروں کو فکشن کا واحد طریقہ کار نہیں کہتا۔ دوسری طرف مابعد جدیدیت بطور ایک نئے رجحان تھیوری اور سماجی ڈسکورس کے نئے مباحث سامنے لا کرجدیدیت کی نحیف لکیر کو کالعدم قرار دے رہی ہے۔ حالانکہ ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ خود مابعد جدیدیت اردو افسانے اور فکشن کے روایت میں کس حد تک کار گر ثابت ہو گی۔ سید محمد اشرف اپنے مضمون ’ اردو میں مابعد جدید افسانے کے تشکیلی عناصر کی شناخت؛ کچھ اشارے ‘ میں لکھتے ہیں :’ مابعد جدید افسانے کی ابتدا ۱۹۷۰ کے آس پاس ہوئی۔ غیاث احمد گدی، انور خان، سلام بن رزاق، انور قمر نے اس زمانے میں بھی خوبصورت اور مامعنی کہانیاں لکھیں جب افسانے میں تجریدیت کا زبردست زور تھا۔ ۔ ۔ ۔ چند نسبتاً سنیئر افسانہ نگار ایسے بھی ہیں جن کی کہانیوں میں کہانی پن ہمیشہ قائم رہا مثلاً قاضی عبدالستار، رام لعل، غیاث احمد گدی، جیلانی بانو، اقبال مجید، عابد سہیل وغیرہ وغیرہ۔ ان بیانات کے بعد سید محمد اشرف لکھتے ہیں کہ ’ مابعد جدید افسانے میں نہ سمجھ میں آنے والی علامت نگاری، فیشن زدگی، تجریدیت اور مبہم موضوعات نہیں تھے۔ ۔ غرض یہ کہ اردو میں مابعد جدید افسانے کی اپنی ایک مستحکم شناخت ہے جو تاریخی اور سیاسی عوامل، تکینک کی رنگارنگی، موضوعات کی تبدیلی اور عالمی اثرات کی ٹھوس بنیادوں پر قائم ہے۔ ‘ سید محمداشرف نے اس مضمون میں اردد مابعد جدیدیت اور اردو افسانے پر اس کے اثرات اور امکانات کا اچھا جائزہ پیش کیا ہے۔ اردو مابعد جدیدیت کی فلسفیانہ تشریحات اور رجحان کے اطلاق میں نمایاں رول گوپی چند نارنگ نے ادا کیا ہے۔ اس ضمن میں ان کی خدمات قابلِ قدر اس لیے بھی ہیں کہ مابعدجدیدیت بطور رجحان جدید اردو افسانے کی مجموعی روایت کا منکر نہیں ہے اور پریم چند، منٹو، بیدی اور کرشن چندر کی روایت کا نہ صرف احترام کرتا ہے بلکہ ان کے فن کی نیرنگی کو نئے نئے زاویوں سے سمجھنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ گوپی چند نارنگ نے ابتدا میں علامت نگاری، تمثیل اور دیگر تخلیقی عناصر کی کہانی میں اہمیت پر جو غیر ضروری توجہ صرف کی تھی اس کے سبب ایک تاثر یہ قائم ہوا تھا کہ وہ بھی جدیدیت سے منسوب افسانے کے مدعی ہیں، ممکن ہے رہے بھی ہوں، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انسانی رویے اور فن کی ماہئیت کا شعور بدلتا ہے۔ مابعدجدیدیت کی کلیدی اور نبیادی باتوں پر جو مضامین انھوں نے تحریر کئے ہیں ان میں ’ مابعد جدیدیت کے حوالے سے کشادہ ذہنوں اور نوجوانوں سے کچھ باتیں ‘، مابعد جدیدیت اردو کے تناظر میں ‘ (۱۹۹۷)، ’ترقی پسندی جدیدیت اور مابعدجدیدیت ‘ (۱۹۹۵) اہم اور بحث طلب ہیں۔ اول الذکر مضمون میں گوپی چند نارنگ نے اپنے موقف کو بڑے اختصار سے بیان کیا ہے :’اس بات کو اب پوری طرح واضح ہو جانا چاہیے کہ غیر مشروطیت کا زمانہ گذر گیا، غیر مشروطیت کے نام پر بے وقوف بنانا اب اتنا آسان نہیں رہا۔ ہر لکھنے والے کو اپنے نقطۂ نظر کی آزادی ہے، نقطۂ نظر کے بغیر کوئی ادب ادب نہیں بنتا۔ ہرلکھنے والا جس طرح انفرادی طور پر ادبی اقدار کا شعور رکھتا ہے وہ سماجی ثقافتی نقطۂ نظر بھی رکھتا ہے، جس کا اظہار اس کی تخلیق میں لامحالہ ہوتا ہے۔ یہی چیز آئیڈیولوجیکل موقف ہے یا سماجی سروکار جس سے مفر نہیں۔ ‘ یہ بیان در اصل جدید اردو افسانے کی حقیقی روایت کا اعتراف اور جدیدیت سے منسوب افسانے کی اساس کی بیخ کنی بھی ہے۔ افسانہ اگر فن ہے تو وہ غیر مشروطیت کیسے رہ سکتا ہے اور کیسے سماجی شعور اور سماجی سروکار سے کٹ کر رہ سکتا ہے۔ جہاں تک مابعد جدیدیت بطور رجحان کا تعلق ہے اس کی فلسفیانہ اور نظریاتی تعبیریں تو گوپی چند نارنگ نے عمدگی سے کی ہیں لیکن دیکھنا ہے کہ جن لوگوں نے خود کو مابعد جدیدیت سے منسوب افسانہ نگار یا تخلیقی فن کار کے طور پر پیش کیا ہے ان لوگوں کی تخلیقات کیسی ہیں۔ کیا ان کو ادبی معیار اور ادب کی بنیادی اقدار کا پاس ہے۔ کیونکہ اتنا تو ہم سب جانتے ہیں اور یہ بات سید محمد اشرف نے بھی عمدگی سے کہی ہے کہ ’کسی بھی ادبی تحریک یا رجحان سے وابستہ کوئی نقاد حتیٰ کہ کوئی تخلیق کار بھی اگر صرف کسی مخصوص تحریک یا رجحان سے وابستگی کو تاثر اورمعیار کی شرط بتاتا ہے تو اس کا مطلب صرف یہ نکلتا ہے کہ وہ تخلیق کے اعلیٰ، پر اسرار اور جمالیاتی عمل سے انکار کر رہا ہے اور اس عمل سے پیدا ہونے والے تاثر کو کسی تحریک یا رجحان سے وابستہ بتاکر تخلیقی عمل اور تاثر کا قد چھوٹا کر رہا ہے۔ (اردو میں ما بعد جدید افسانے کے تشکیلی عناصر کی شناخت۔ ۔ کچھ اشارے )

اردو افسانے کی تنقید کے ان مباحث سے پرے دیکھیں تو آج پریم چند، منٹو، بیدی، عصمت اورانتظار حسین قومی اور بین الاقوامی سطح پر پڑھے جا رہے ہیں اور ان کے افسانوں کے مختلف زبانوں میں تراجم شائع ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف وہ مباحث جن کا تعلق ترقی پسند تنقید اور ہئیت پرست تنقید سے تھا اب لگ بھگ عوامی یادداشت اور ڈسکورس سے محو ہو گئے ہیں۔ اب صرف وہ لوگ جو افسانہ نگار ہیں یا ادب جن کی پیشہ ورانہ سرگرمی ہیں وہ ان مباحث کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش میں نظر آتے ہیں۔ افسانہ آگے بڑھ گیا ہے جبکہ نظریات اور تنقید کے کالے اور سفید دفتر الگ بھگ کرم خوردہ ہو رہے ہیں۔ کیا ان کرم خوردہ کاغذوں پر بحث ضروری ہے ؟ اس مشق کا حاصل کیا ہے ؟ ان سوالات کا جواب حاصل کرنے سے پہلے مختصرا اردو افسانے کی راویت کے کچھ اہم پہلوؤں کو دیکھ لیتے ہیں۔

٭

بلاشبہ بیسویں صدی اردو افسانہ کی صدی تھی۔ مذکورہ ناموں کے علاوہ بھی کم از کم پچاس نام ایسے ہوں گے جن لوگوں نے کچھ اچھے افسانے لکھے۔ ۱۹۳۰ سے قبل بھی اور ۱۹۸۰ کے بعد بھی۔ آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعدادبی رسالوں میں افسانوں کی اور ہندستان بھر میں افسانہ خوانی کی محفلوں کی بہار تھی۔ ہر طرف افسانہ، افسانہ کے عناصرِ ترکیبی، افسانہ اور زندگی، افسانہ اور عصری حسیت، افسانہ اورغیر افسانہ وغیرہ موضوعات پر گرما گرم مباحث ہوئے۔ ہر زندہ معاشرہ زندگی کی سرگرمیوں سے نبردآزما رہتا ہے اور بدلتا رہتا ہے۔ صدی کی ابتدا میں مقصدیت اور ادب کی سماجی افادیت اردو افسانے کا ایک فکری جز تھا جس کو شاہکار ادبی وظیفے میں پریم چند کی افسانہ نگاری نے بدلا لیکن چونکہ آس پاس کی دنیا بدل رہی تھی اور سماجی و سیاسی افکار میں نمایاں تبدیلیاں واقع ہو رہی تھیں اس لیے مقصدیت کے فکری عنصر کا انتشار بھی سامنے آنا تھا اور ’کفن‘ اس کی عمدہ عکاسی کرتا ہے۔ پریم چند کی زندگی کے آخری برسوں میں اشتراکیت اور سماجی مساوات کے نظریات ہندستانی معاشرے تک پہنچ گئے تھے اور علمی اور ادبی حلقوں میں زیر بحث تھے۔ بیسویں صدی کے چوتھی دہائی ہندستانی معاشرے میں علمی اور فکری تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے جس نے بہت جلد اردو اور دیگر ہندستانی زبانوں میں مارکسی افکار کو پھیلایا۔ روس کے سماجی انقلاب کے اثرات پوری دنیا پر اس وقت نمایاں تھے۔ دنیا کے بیشتر ممالک اور معاشرے ایک خواب میں گرفتار تھے جسے مارکس اور اس کے ہم خیال مفکروں نے نہ صرف دیکھا تھا بلکہ انقلاب روس کی صورت تعبیر بھی پیش کی تھی۔ مارکسی انقلاب کے اثرات پوری دنیا کی علمی، سماجی اور سیاسی تحریکات پر پڑے۔ فنونِ لطیفہ براہِ راست یا بالواسطہ آدمی کی ذات اور سماج سے منسلک رہتا ہے چنانچہ اس پر بھی مارکسی انقلاب کے اثرات ناگزیر تھے۔ اردو افسانہ کی ادبی تاریخ میں ’ انگارے ‘ (۱۹۳۲)کی ایک اہمیت اس بات میں بھی پہناں ہے کہ یہ مجموعہ روسی انقلاب کی تصور کردہ انسانی اقدار اور مارکسی خیالات کی کوکھ میں دیکھے گئے خوابوں کا اظہار تھا۔ یہ خواب بنیادی انسانی اخلاقیات سے ہمکنار تھے جن میں مساوات، مردو عورت کی یکساں اہمیت، ظلم اور جاگیردارانہ سماج کی بربریت کے خلاف عام آدمی کی آواز کو بلند کرنا شامل تھا۔ اس لیے یہ خواب سماجی و سیاسی تحریکات سے وابستہ افراد کا مقصدِ حیات بن گیا اور نظر یے کی صورت ترقی پسندتحریک نے ادیبوں اور شاعروں کو اپنی جانب راغب کیا۔ بیسویں صدی کی ساتویں دہائی تک اردو ادب، فکر اور ذہن پر روسی انقلاب، مارکسی خواب اور کمیونزم کے اثرات نمایاں ہیں۔ ترقی پسند تحریک کا زوال ہمارے یہاں صرف تحریک کا زوال نہیں ہے بلکہ اقدار کا زوال بھی ہے، لیکن ترقی پسند تحریک کا زوال حقیقت پسند افسانے کا زوال نہیں ہے۔ ایک سیاسی حقیقت یہ بھی ہے کہ جب روس کے افکار کے خلاف مغرب کی سرمایہ دارانہ حکومتیں بہت زیادہ سرگرم ہو گئیں تو روس کے مزاج میں شک و شبہات نے جنم لیا۔ مغرب روس کے خلاف ہر محاذ پر سرگرم تھا جس میں علمی اور ادبی محاذ بھی شامل تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ روس نے ادیبوں پر بھی تحریک سے وابستگی کو مشروط کر دیا۔ ان کی وفاداری کی پیمائش ان کی ریاست کے فیصلوں سے وفاداری کی بنیاد پر ہونے لگی۔ ایسے ادیبوں کی مذمت ہوئی جو ریاست کی کارکردگی یا نظریے پر تنقید کرنا چاہتے تھے یا جن کے خیالات آزادی پسند تھے یاجو خود کو انسانی نفس اور روح کی کیفیات کا ترجمان بنانا چاہتے تھے، پارٹی اور تحریک کو آلۂ کار بنے بغیر۔ ہمارے یہاں سعادت حسن منٹو اور بیدی کے مارکسی نظریات سے بڑی حد کے غیر اعلانیہ وابستگی کے باوجود پارٹی اور تحریک سے عملی سطح پر دوری اس بات کا ثبوت ہے۔ دوسری طرف ترقی پسند نقادوں کے منٹو کے خلاف فتوے بھی اسی تناظر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کی اچھی مثال وارث علوی نے پیش کی ہے، وہ لکھتے ہیں سردار جعفری نے منٹو کو ایک خط میں لکھا تھا:’ میں تمہاری افسانہ نگاری پر ایک طویل مضمون لکھنے کا ارادہ کر رہا ہوں، تمھیں دقیانوسی قسم کے لوگوں نے اب تک گالیاں ہی دی ہیں، ان سے اور کسی چیز کی توقع بے کار ہے۔ ‘ اس کے بعد وارث علوی لکھتے ہیں :’ لیکن افسوس ہے کہ سردار جعفری کا رویہ بھی غیر دقیانوسی نہیں رہا۔ ان کی کتاب ’ترقی پسند ادب‘ کے سب سے کمزور مقامات وہ ہیں جہاں وہ منٹو پر مخاصمانہ اور جارحانہ حملے کرتے ہیں۔ ایسے جملے جن سے جعفری کا تنقیدی خلوص بھی مشتبہ ہو جاتا ہے۔ ‘ (منٹو کی افسانہ نگاری: وارث علوی) یہ مثال صرف یہ ثابت کرنے کے لیے پیش کی گئی ہے کہ ترقی پسند نقاد پارٹی کی وفاداری کا شکار ہو گئے تھے اور ادب کی پرکھ کے لیے تحریک کے سیاسی اور فلسفیانہ افکار کو وسیلہ بنانے لگے جس سے ادب میں حد بند یاں قائم ہونے لگیں۔ اسلوب، تنوع، آرٹ کی جادوگری، تخیل کی نیرنگی، اور فن کاری کے بجائے نظر یے کا پروپیگنڈا اور خارجی حقیقت کے کم بالیدہ شعور کو ادب تسلیم کرنے کی غیر دانشوری نے پہلی بار اردو میں ادب کی سطح پر ایک اجتہاد کی ضرورت کو محسوس کیا۔ گوپی چند نارنگ نے اس اجتہاد کے بارے میں لکھا ہے کہ ’ اسلوب، اور اظہار کی سطح پر بھی چونکہ خارجیت نے غیر تخلیقی نوعیت کی اشتہاریت اور خطابت کو جنم دیا تھا۔ اس کے ردعمل کے طور پر لفظ کی معنیاتی کائنات، اس کے تہہ در تہہ رشتوں، علامتی، تجریدی اور تمثیلی پہلوؤں اور منطقی معنی سے قطع نظر معنی کے معنی اور ان کے معنیاتی انسلاکات کے تخلیقی امکانات کی جستجو ہونے لگی۔ ( نیا افسانہ: روایت سے انحراف اور مقلدین کے لیے لمحۂ فکریہ، گوپی چند نارنگ) اب یہ بات ایک حقیقت ہے کہ بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں افسانہ نگاری کے افق پر ابھرنے والے کئی نام اشتہاریت اور خطابت کا شکار بھی ہو گئے تھے لیکن اس کے باوجود اس وقت کے آدمی کے مسائل اور اطراف کی سچویشن کی پیش کش کو اہمیت دینے والے فنکار بھی میدان میں آ رہے تھے۔ ان لکھنے والوں میں رام لعل، جو گیندر پال، کلام حیدری، شرون کمار ورما، غیاث احمدگدی، جیلانی بانو، اقبال مجید، اقبال متین، رتن سنگھ، قیصر تمکین، منیر احمد شیخ، آمنہ ابو الحسن، وغیرہ بطور خاص ہیں۔ ان فن کاروں کے نزدیک زندگی کے مسائل، آدمی کی شخصیت پر اثر انداز ہونے والے خارجی عوامل اور ان عوامل سے پیدا ہونے والی داخلی سچویشن کا بیان اہمیت رکھتے تھے۔ لیکن اسی عہد کے آس پاس ایسے لکھنے والے بھی میدان میں آ رہے تھے جن کے نزدیک انسان کے مسائل، سچویشن اور سماجی سروکار کی اہمیت یا تو نہیں تھی یا پھر فن کے سطح پر اتنی زیادہ نہیں تھی کی ان کی کہانیوں کا اہم عنصر کہلاتا۔ ان لوگوں نے کہانی کے روایتی فارم کو بدلنے، فارم کے تجربات کرنے اور بیان کے غیر روایتی ڈھانچے ترتیب دینے کے ساتھ علامتی، تجریدی، تمثیلی اور تجرباتی طریقۂ اظہار کو برتنے پر زور دیا۔ ان میں انور سجاد، بلراج مینرا، سریندر پرکاش، احمد ہمیش، اور بلراج کو مل کے نام خصوصیت کے حامل ہیں۔

عجیب بات یہ نہیں ہے کہ انور سجاد، بلراج مینرا، سریندر پرکاش اور دیگر لکھنے والوں نے پریم چند کی اخلاقیات، آدرش وادی سماجی حقیقت نگاری اور ترقی پسند نظریات کی ادب میں تبلیغ سے گریز کرنے کی کوشش کی بلکہ عجیب بات یہ ہے کہ حقیقت سے فرار اور اظہارِ حقیقت کے زیادہ کامیاب وسیلوں سے گریز اور انحراف کو ان لوگوں نے اپنا منصوبہ بنایا۔ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر انسان دوستی اور مظلوم افراد کے حق میں آواز بلند کرنے کی فورمولابازی کے باوجود عصمت چغتائی بہت پہلے ’لحاف‘ لکھ چکی تھیں۔ ترقی پسندوں کی مذمت اور مذہبی اخلاق پسندوں کی جانب سے قانونی چارہ جوئی کے باوجود سعادت حسن منٹو ’بو ‘اور’ پھندنے ‘لکھ چکے تھے۔ یہ وہ کہانیاں ہیں جن کا جواب آگے چل کر گریز کرنے والی جدیدیت اور جدیدیت سے منسوب افسانہ نگار پیدا نہیں کر سکے۔ یہ کہانیاں صرف موضوعاتی سطح پر منفرد نہیں ہیں بلکہ آرٹ کا بھی نادر نمونہ ہیں جس کا سبب پلاٹ کی غیر ہموار ی، بیانِ واقعہ میں تسلسل کی جگہ انتشار، اور کردار وں کی سفاکانہ پیش کش ہے۔ ان کہانیوں اور اس طرح کی کئی کہانیوں کا بیسویں صدی کے چوتھی اور پانچویں دہائی میں اردو میں لکھا جانا بہت اہم اور بڑی بات ہے۔ جدیدیت کے رجحان کی فنی اساس جس کی بنیادکا سہرا جدیدیت نواز نقاد اپنے سر چاہتے ہیں، یہ کہانیاں ان کو بھی رد کرتی ہیں اور اس بات کو سمجھنے کا امکان بھی ان کہانیوں کے سبب پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسے عناصر تھے کہ چھٹی دہائی میں اردو کے عمدہ افسانوں کی فنی روایت سے گریز اور انحراف کی ضرورت کو محسوس کیا گیا؟ اسی تناظر میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اردو افسانہ جدیدیت کی آمد سے پہلے اپنی معراج کو پہنچ چکا تھا۔ کسی بھی زبان میں فکشن کے ابتدائی عہد میں جس طرح کی کہانیاں لکھی جا سکتی ہیں اس سے عمدہ کہانیاں پریم چند نے لکھی تھیں جن میں آدرش واد اور معاشرتی زندگی کی بہتری کی کوشش پس پردہ کام کر رہی تھیں جن کو آرٹ کے زیادہ حسین نظام میں کمزوری شمار کیا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود پوس کی رات، عید گاہ، مس پدما، شطرنج کے کھلاڑی، دودھ کی قیمت، نئی بیوی، جرمانہ وغیرہ بڑی اہم کہانیاں ہیں۔

سعادت حسن منٹو پریم چند کے بعد ایسے استعارے کے طور پر سامنے آتا ہے جس کے یہاں انسانی زندگی کی سفاکی اور برہنگی کا عجائب گھر موجود ہے۔ کہانیاں آرٹ کے فارم کی توسیع ہیں اور کئی کہانیاں روایتی فارم سے کلی طور پر آزاد اپنی خود مکتفی دنیائیں رکھتی ہیں۔ اس دنیا میں اس عہد کے آدمی کے باطن، نفس، نفسیات اور نفس کے اسفل ترین حد تک گرنے کے تماشے کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ تماشا نہیں ہوتا تو محمد حسن عسکری، ہاجرہ مسرور، ممتاز شیر یں سے لے کر عصمت چغتائی، کرشن چندر اور بیدی تک لکھنے والے منٹو کے آرٹ کے معترف نہیں ہوتے۔ منٹو محض افسانہ نگار نہیں ہے بلکہ آزادی کے بعد کے اردو افسانے کا امام ہے جس نے افسانے کے فارم، پلاٹ، بیانیہ، حقیقت نگاری کی تکنیک میں تجربات کئے اور کہانی کو متنوع انداز میں پیش کیا۔ کھول دو، پھندنے، بو، ہتک، شاہ دولے کا چوہا، گور مکھ سنگھ کی وصیت، ٹیٹوال کا کتا، سوگندی، ٹوبہ ٹیک سنگھ، دھواں، ٹھنڈا گوشت، کالی شلوار، یزید، سرکنڈوں کے پیچھے، جان کی، بابو گوپی ناتھ، باسط، ممی، موذیل اور کئی کہانیاں منٹو نے لکھی جن پر بے شمار تنقیدیں لکھی گئی ہیں اور نقادوں نے ان کہانیوں کے ان گنت پہلو قارئین کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اردو معاشرے میں یہ کہانیاں آج بھی پڑھی جاتی ہیں اور ادب سے وابستہ لوگ ان کہانیوں کی روشنی میں انسان کی فطرت کے رموز کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ منٹو پر کچھ اعتراض اپنی جگہ اعتراض تو لوگ صوفی سنتوں پر بھی کرتے رہے ہیں اس ضمن میں وارث علوی نے عمدہ بات کہی ہے : ’منٹو کے بدنام سے بدنام افسانوں میں بھی کوئی جنسی اشتعال نہیں ملتا۔ ہتک، کالی شلوار، ڈرپوک، ٹھنڈا گوشت، دھواں، کوئی بھی افسانہ ان معنوں میں جنسی ہیجان پیدا نہیں کرتا جن معنوں میں عزیز احمد، کے ناول ہوس اور مرو خون، اشک کا افسانہ ابال، اطالوی مصنف مورادیا کی ناول روم کی عورت یا پیری لوئی کا ناول افروڈیت جنسی ہیجان پیدا کرتے ہیں۔ منٹو کا مقام دنیائے کے عظیم فن کاروں کے درمیان ہے وہ موپاساں، جیمس جائس، لارنس، زولا وغیرہ کی صف کا ادیب ہے جن کی تخلیقات فکر انگیز باشعور اور بصیرت افروز ہوتی ہیں۔ ان کے ہاں جنس کا ذکر اس لیے ملتا ہے کہ جنس زندگی کی بنیادی حقیقت ہے اور موجودہ معاشرہ میں جنس کی پیچدگیوں کو سمجھنا، الجھنوں کو دور کرنا اور صحت مند جنسی تعلقات کے امکانات پر فلسفیانہ سوچ بچار کرنا ان کا مطمح نظر ہے۔ (منٹو کی افسانہ نگاری : وارث علوی)

مذکورہ بالا بیان اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ منٹو کے نام کے ساتھ جنس نگاری کی اصطلاح غیر ضروری ہے بلکہ اس کی افسانہ نگاری جنس، آدمی اور فطرت کے بابین جاری ازلی کشمکش کو سمجھنے کا ایک طریقۂ کار ہے۔ منٹو ہندستان کی آزادی سے دو دہائیوں قبل سے افسانے لکھ رہا تھا اور آزادی کے بعد بھی چند برسوں تک یعنی اپنی موت تک افسانے لکھتا رہا۔ پریم چند کے آدروش واد سے ابھرنے والا جدید اردو افسانہ منٹو کے یہاں آدرش کی چادر اتار پھینکتا ہے اور انسانی جبلت کے بہت سارے مخفی یا ناگفتہ پہلوؤں کو تشت از بام کرتا ہے۔ دوسری طرف اسی دور میں عصمت چغتائی جوترقی پسند تحریک اور نظریات سے وابستہ رہیں اردو افسانے میں مسلم معاشرت کو موضوع بناتی ہیں۔ لحاف، چوتھی کا جوڑا، جڑیں، چھوئی موئی، لال چیونٹے، کچے دھاگے، سونے کے انڈے اور دیگر افسانے ادب میں اضافہ ہیں۔ عصمت چغتائی، منٹو کی طرح معاشرتی حقیقت کو بیان کرنے میں یقین رکھتی تھیں خواہ پھر موضوع ہنگامی صورت حال سے ہی کیوں نہ لیا گیا ہو۔ عصمت چغتائی نے لکھا ہے :’ جو لوگ فسادات پر لکھے ہوئے ادب کو ہنگامی ادب اور وقتی پروپیگنڈا کہہ کر اس کی وقعت کم کرنا چاہتے ہیں وہ زیادہ تر وہی لوگ ہیں جو خود کچھ نہ لکھ سکے، یا شاید اس ادب کو اپنے مطلب کے خلاف پا کر اسے گمنامی سے ڈرا کر میدان صاف کرنا چاہتے ہیں۔ ‘ (فسادات اور ادب: عصمت چغتائی)

کرشن چندر نے فسادات، استحصال، عدم مساوات اور مزدورں کی زندگیوں پر کہانیاں لکھیں۔ کرشن چندر نے ایک طرح سے پریم چند کے آدرش وادی کرداروں کے معاشرتی جبر اور سماجی عدم مساوات کے شکنجے میں گرفتار ہونے کے باوجود اپنی انسانیت کی حفاظت میں محو بتانے کی کوشش کی۔ یہ کوشش چونکہ براہ راست ترقی پسند نظریے کی پیداوار تھی اور سماجی حقیقت نگاری کے بجائے رومانیت سے مامور تھی اس لیے وقت کے ساتھ ساتھ ان رومانی افسانوں میں سے بے شمار افسانے وقت کی دھند میں غائب ہو گئے ہیں۔ اس کے باوجود کرشن چندر کی فن کاری کے بے شمار نمونے ایسے ہیں جن کے سامنے منحرف اور خود کو باغی کہنے والا جدیدیت سے منسوب افسانہ جس نے آرٹ کی تفہیم، فن کی تعبیر وتشریح میں ہما وقت محو ہونے کا دعوی بھی کیا تھا پیدا نہیں کر سکا۔ ادب کا جواب ادب ہے، تنقید نہیں ہے۔ ادب سے انحراف کا جواز بھی ادب ہونا چاہئے نہ کہ ادبی مضامین۔ کرشن چندر بلاشک ایک بڑا فن کار ہے اور اس کی فن کاری پر جتنی تنقید کی جائے اس کے باوجود کرشن چندر میں بہت ساری ایسے خو بیان باقی ہیں جو ان کی لکھی گئی کہانیوں کو لوگوں میں آج بھی پسندیدہ رکھتی ہیں اور تنقید کی دنیا میں ان کہانیوں پر نئے افق کھلتے جاتے ہیں۔ گوپی چند نارنگ کی اس بات سے میں متفق ہوں کہ’ کرشن چندر ایک سمندر ہیں۔ کرشن چندر نے بہت لکھا، مختلف اسالیب میں لکھا، مختلف اصناف میں لکھا، مختلف مقاصد سے لکھا اور مختلف ذہنی سطحوں سے لکھا۔ ‘ (کرشن چندر اور ان کے افسانے ) اور اسی لیے کرشن چندر کو صرف جذباتیت یا رومانیت کے بہانے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے نثر کی جو شعریت اور حسن کاری ہے وہ خود اردو افسانہ نگاری کی تاریخ اور روایت میں صحت مند اضافہ ہے۔ جدیدیت سے منسوب نئے افسانے نے روایتی کہانی سے انحراف کا اعلان کرنے کے بعد اسالیب اور بیان میں ندرت کی دریا فت کا نعرہ لگایا لیکن اس کا انجام شعری نثر پاروں میں ہوا۔ کرچن چندر کے نثر میں جو بلاخیز بہاؤ، سحر آفریں حسن اور غنائیت ہے جو کہیں کہانی کو نقصان پہنچاتی ہے کہیں کہانی کے حسن میں اضافے کا سبب بھی بنتی اس بہاؤ کو حاصل کرنا بعد کے افسانے کا خواب تو بن گیا لیکن زندگی کی رمق اور آرزو کی شکست کے سبب وہ کبھی حاصل نہیں کر سکا۔ نئی صدی کے افسانے کو جدید یت سے منسوب افسانے کیاس شکست سے بہت کچھ حاصل ہو سکتا اگر اس بات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ کرشن چندر نے بالکونی، ایک سورئیلی تصویر، غالیچہ، کالو بھنگی، دو فرلانگ لمبی سڑک، مہا لکشمی کا پل، پانی کا درخت، اور کئی کہانیاں ایسی لکھی ہیں جو فن کاری کا عمدہ نمونہ ہیں۔

بیسویں صدی میں جدید اردو افسانہ پریم چند کے بعد سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی اور کرشن چندر کے ساتھ ایک ایسے دور سے گذرا ہے جس نے بے شمار عمدہ افسانوں سے اردو ادب اور ہندستانی ادب کو مالا مال کیا ہے۔ عصمت چغتائی اور کرشن چندر ۶۰ء تک کئی شاہکار لکھ چکے تھے اور ان کا سفر ابھی جاری تھا جبکہ اردو معاشرہ ان کا معترف بھی ہو چکا تھا۔ ان لکھنے والوں نے معاشرے کی رجعت پسندی، اقدار، اور سماج میں جاری معاشی اور انسانی تقسیم کے خلاف بھی لکھا۔ کبھی ان کی لے مدھم رہی کبھی بہت تیز بھی ہوئی۔ جب سماجی مسائل اور مسائل کے حل کے لیے پارٹی کے تجویز کردہ نکات اور ان کا پروپیگنڈا ترقی پسند تحریک کے ماتحت لکھنے والوں پر حاوی ہوا تو ان کی تحریروں کی تاثیر پذیری مانند پڑ گئی اور ادب کی باطنی اور دایمی آواز ان کے خلاف اٹھنا شروع ہوئی۔ دوسری طرف راجندر سنگھ بیدی اس دائمی آواز اور ادب کے بنیادی تقاضے کو سمجھتے ہوئے خاموشی سے کہانی کی نوک پلک درست کر رہے تھے۔ اس سے یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ بڑا فن کار وقت کے بہاؤ سے خود کو بچا لیتا ہے۔ بیدی (۱۹۱۵ تا ۱۹۸۴) کا پہلا افسانوی مجموعہ دانہ و دام ۱۹۳۹ میں شائع ہوا اور یہ سفر دیگر کتابوں کے ساتھ اپنے دکھ مجھے دے دو (۱۹۶۵)، ہاتھ ہمارے قلم ہوئے (۱۹۷۴)، مکتی بودھ (۱۹۸۲) تک جاری رہا۔ بیدی کی فکر میں ہندستانی اساطیری، معاشرت اور رشتوں کی تلچھٹ میں مدفون انسانی نفس کی حرکیات ضم ہیں۔ بیدی کا مشہور جملہ ہے کہ ’ حقیقت اور تخیل کے امتزاج سے جو چیز پیدا ہوتی ہے اس کو احاطۂ تحریر میں لانے کی سعی کرتا ہوں۔ ‘ یہی سعی ان کے افسانوں کو ادبی مرتبہ اور آرٹ کی رنگینی سے مزین کرتی ہے اور ترقی پسندی کی نعرہ بازی سے ان کو ممیز کرتی ہے۔ بیدی کے آرٹ پر ایک اچھا مضمون ’بیدی کے فن کی استعاراتی اور اساطیری جڑیں ‘کے عنوان سے گوپی چند نارنگ نے لکھا ہے۔ اس مضمون کی ساری خوبیوں کے باوجود اس میں آرٹ کی سطح پر بہت سی باتوں سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے۔ بیدی نے لاجونتی، بھولا، گرم کوٹ، گرہن، جو گیا، ببل، اپنے دکھ مجھے دے دو، صرف ایک سگریٹ، کلیانی، متھن، رحمان کے جوتے، چیچک کے داغ، ایک باپ بکاؤ ہے، لمبی سڑک اور کئی دیگر عمدہ افسانے لکھے۔ بیدی کا اسلوب منٹو اور کرشن چندر کے اسلوب سے جداگانہ ہے۔ وہ قاری کو نہ چونکاتا ہے نہ کسی طرح کی نیرنگی میں گرفتار کرتا ہے۔ بیدی قاری سے مطالعے کا تقاضا کرتے ہیں اور کہانی کو آرٹ کے فارم میں بدل کر قاری کو زندگی کی حقیقتوں، معاشرت، تہذیب، کلچر اور آدمی کے آدمی سے رشتوں کی نوعیت کو سمجھاتا ہے۔ گوپی چند نارنگ نے لکھا ہے کہ ’ بیدی نے انسان کے زمانی اور لازمانی رشتوں میں جو ربط تلاش کیا تھا اور براہ راست و استعاراتی انداز بیان کا جو فطری استحلال کیا تھا اس پر وجد تو کیا جا سکتا تھا لیکن اس کے اسرار کی تہہ تک پہنچنا آسان نہ تھا۔ یہ بات اس لیے بھی درست ہے کہ آج بھی بیدی کے اسرار تک ہم نہیں پہنچے ہیں جبکہ شمس الحق عثمانی اور وارث علوی نے اس میدان بھی خاصی حوصلہ افزا کوشش کی ہے۔

اس سے پہلے کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ اگر بیسویں صدی کے ابتدا سے ۱۹۸۴ تک یعنی بیدی کے انتقال تک اردو افسانہ پریم چندر، منٹو، عصمت چغتائی کرشن چندر سے وابستہ ہے اور ان بڑے قلم کاروں کے ساتھ علی عباس حسینی، حیات اللہ انصاری، اوپندر ناتھ اشک، احمد ندیم قاسمی، غلام عباس، بلونت سنگھ، اور ممتاز مفتی ۱۹۳۰ سے ساتویں دہائی تک سرگرم تھے تو پھر جدیدیت کی معنویت کیا ہے اور جدیدیت اردو فکشن کی تاریخ میں کیا اہمت رکھتی ہے۔ یہ بات تسلیم کر لینا چاہے کہ ۱۹۴۰ سے ۱۹۸۰ تک قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین اپنی ادبی انفرادیت کو اپنے افسانوں اور ناولوں سے بھی منوا چکے تھے۔ ان کی فکر اور ان کی تحریروں کا بھی کوئی براہ راست رشتہ سکہ بند جدیدیت سے نہیں ہے۔ بلکہ بیدی نے اپنی کہانیوں اور افسانوں میں اساطیری، دیو مالائی، تہذیبی عناصر کے امتزاج سے جس تہذیبی فضابندی کو دریافت کیا تھا جدیدیت سے منسوب افسانہ اس کی توسیع سے بھی محروم ہے۔ گوپی چند نارنگ نے اپنے مضمون ’ بیدی کے فن کی استعاراتی اور اساطیری جڑیں ‘ میں اس طرف بھی ہلکا سا اشارہ کیا ہے۔

قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین نے تقسیم اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل پر لکھا لیکن ان کی افتادِ طبع، فنی امتیازات، تخلیقی بصیرت اور اسلوب ایک دوسرے سے جدا ہے۔ ماضی اور تہذیبی تاریخ کے اثرات اور کہانی کی تہذیبی روایت پر ان دونوں فن کاروں کی رائے اور زاویے نظر الگ الگ ہے جس کے پس منظر میں ان کے تخلیقی محرکات کا مطالعہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ گوپی چند نارنگ نے اس تفریق کو عمدگی سے پیش کیا ہے ’ قرۃ العین حیدرصدیوں کے رشتوں، ماضی، کی بازیافت اور وقت کے تسلسل کو گرفت میں لینے میں اپنی نظیر نہیں رکھتیں۔ انتظار حسین کا فن فضا آفرینی کا فن ہے۔ وہ ماضی کی روح اور انسانی وجود کے اس حصے کی تلاش میں سرگرداں ہیں جو کٹ کر ماضی میں رہ گیا ہے اور جس کے بغیر انسانی وجود مکمل نہیں۔ (نیا افسانہ: روایت سے انحراف اور مقلدین کے لیے لمحۂ فکریہ)

اس مختصر تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ۱۹۳۰ کے بعد سے اردو فکشن کا جو سنہرا دور شروع ہوا تھا وہ بیدی کے انتقال تک کسی نہ کسی صورت جاری تھا۔ اب اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر نیا اور جدید افسانہ کیا ہے ؟ وہ افسانہ کون سا افسانہ ہے جس کی حمایت شمس الرحمن فاروقی آج بھی اور ابتدا میں گوپی چند نارنگ کرتے رہے ؟ وہ تنقید کیا ہے جو جدید افسانے کی تنقید کے طور پر لکھی گئی جس کی مخالفت وارث علوی نے بہت سخت لہجے میں کی تھی۔

جدیدیت سے منسوب افسانہ کے سب سے اہم وکیل اور مفسر اردو میں جدیدیت کے علمبردار نقاد فاروقی شمس الرحمن فاروقی ہیں۔ فاروقی نے جدیدیت سے منسوب افسانے کی وضاحت ’افسانے کی حمایت میں (۱) ۱۹۷۰، افسانے کی حمایت میں (۲) ۱۹۷۲، افسانے کی حمایت میں (۳) ۱۹۸۲، افسانے کی تنقید سے متعلق چند مباحث ۱۹۷۹، پلاٹ کا قصہ ۱۹۸۱ اور دیگر مضامین میں کی ہے۔ فاروقی اس بات پر بضد رہے کہ فی نفس افسانہ ناول کے مقابلے ایک کم وقعت صنف ہے۔ فاروقی کا ماننا تھا کہ جدیدیت کا پروردہ افسانہ پلاٹ اورTime Sequence سے انکار کرتا ہے، افسانہ بیانیہ کا محتاج ہے، جو وقت سے بندھا ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فاروقی بیانیہ کے خلاف تھے بلکہ ان کا بیان ہے ’ افسانہ ہے تو بیانیہ ہو گا، انتظار حسین کے افسانے کچھ کم افسانے نہیں ہیں، اگرچہ خالص بیانیہ میں ہیں۔ ‘ اب سوال یہ ہے کہ جدیدیت کے پروردہ افسانے کے بیانیہ کا تصور فاروقی کے ذہن میں کیا ہے ؟ اس کا جواب بھی فاروقی کے اس بیان میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ’ سریندر پرکاش کے افسانے ’بدوشک کی موت‘ یا ’جپی ژان‘ وقت کے ادغام confusion کی کوشش کرتے ہیں لیکن بیانیہ سے انکار نہیں کرتے۔ ہمارے ہم عصر وں میں انور سجاد بیانیہ کو اس طرح Disguise کر کے لاتے ہیں کہ اگر چہ Timeالٹ پلٹ ہو جاتا ہے لیکن وہ Spiritual Time سے نزدیک رہتا ہے۔ ظاہری ترتیب بگڑ جاتی ہے لیکن بیانیہ کا دھارا موجود رہتا ہے۔ اسی لیے انور سجاد کے یہاں جدید بیانیہ بہترین شکل میں نظر آتا ہے۔ (افسانے کی حمایت میں (۱)۔ گوپی چند نارنگ نے بھی ابتدا میں جدید افسانے کی اشکال اور تشکیلی عناصر کو گرفت میں لانے کی سعی کی تھی۔ جدیدیت سے منسوب افسانے کو آزادی کے بعد جدید اردو افسانے میں ایک رجحان کے طور پر وہ دیکھ رہے تھے۔ گوپی چند نارنگ کے مطابق جدیدیت سے منسوب افسانے کا رجحان تجریدی اور علامتی افسانے کا ہے۔ اور علامتوں کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ’علامتیں ایک طرح کے وسیع استعارے ہیں جن کے شعوری اور نیم شعوری رشتوں کو ابھار کر افسانہ نگار معنوی تہہ داری پیدا کرتا ہے۔ تجرید کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ ’تجریدی افسانہ ہمارے افسانے کے اس سفر کی نشاندہی کرتا ہے جس کا رخ خارج سے داخل کی طرف ہے۔ یہ انسان کے ذہنی مسائل، اس کے کرب اور حقیقت کے عرفان کی تلاش کا اظہار ہے۔ (اردو میں علامتی اور تجریدی افسانہ : گوپی چند نارنگ، ۱۹۶۷) حا لانکہ فارم کے اس تجربے کی کمی آزادی سے پہلے لکھے گئے افسانوں میں بھی نہیں تھی۔ کہانی کہنے کے بے شمار اسالیب ہیں جن میں علامت، پلاٹ کی الٹ پلٹ، کردار کی داخلی کیفیات کے لیے شعور کی رو کا استعمال یا کسی تمثیل یا اساطیری کردار کے ذریعے افسانہ نگار اپنی بات کہتے رہے ہیں مثلاً منٹو کا افسانہ ’یزید‘ کرشن چندر کا افسانہ’غالیچہ‘، ’چورا ہے کا کنواں ‘، احمد ندیم قاسمی کا افسانہ ’سلطان، ممتاز شرین کا ’میگھ ملہار‘ وغیرہ۔ جدیدیت سے منسوب افسانے کی حمایت میں لکھے گئے ان کے مضمون ’اردو میں علامتی اور تجریدی افسانہ (۱۹۶۷ ) کے بعد ان کا ایک اہم مضمون ’نیا اردو افسانہ: روایت سے انحراف ہے جو ۱۹۸۰ میں لکھا گیا ہے اور اس مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ گوپی چند نارنگ نے محض ایک اسلوب کو افسانے کی کل کائنات قرار دینے کی شمس الرحمن فاروقی کے موقف کو رد کر دیا ہے۔ گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں ’فکشن کتنا ہی تجریدی کیوں نہ ہو اس کو کہیں نہ کہیں زمین پر پیر ٹکانے ہی پڑتے ہین اور کسی نہ کسی زمانے میں سانس لینی ہی پڑتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کسی نہ کسی کردار یا متکلم کی زبان کے وسیلے کے بغیر خواہ وہ خود کلامی کی زبان ہو یا خواب و بیداری کے درمیانی منطقے کا اظہار ہو یا بے تعلق یا انام متکلم کا بیان ہو، کہانی کو کہانی ہونے کے لیے سماجی و معاشرتی سہارا چاہیے۔ کہانی زمان و مکان کے منطقی ربط و احساس سے لاکھ گریز کرے، ان سے کلیتاً ماورا نہیں ہو سکتی۔ (نیا افانہ: روایت اور انحراف اور مقلدین کے لیے لمحۂ فکریہ۔ ۱۹۸۰) نارنگ نے اس بات کا بھی برملا اعتراف کیا ہے کہ ’ پچھلے دس بارہ برسوں میں علامتی کہانی کے نام پر اس طرح کی بے مزہ تحریریں اتنی بڑی تعداد میں شائع ہوئی ہیں کہ مقلدین کی اس یلغار سے نئی کہانی کا مستقبل خطرے میں ہے۔ (نیا افسانہ: علامت، تمثیل اور کہانی کا جوہر، ۱۹۸۵) اس مضمون میں گوپی چند نارنگ نے شمس الرحمن فاروقی کے بیان:’ سماجی حقیقت نگاری کی وہ کہانی جو تاریخی دستاویز کے طور پر پڑھی جا سکے، کلیتاً مسترد ہو چکی ہے کا بھی عمدہ جواب دیا ہے لیکن اکیسویں صدی ایسی تنقیدی نظر کو مسترد کرنے کے لیے تیار ہے جو کہانی سے سماجی حقیقیت نگاری، سماج، معاشرت، آدمی، اور آدمی کے مسائل کو نظر انداز کرتی ہے۔ اکیسویں صدی کے فن کاروں کا یہ مسئلہ ہر گز نہیں ہے کہ صرف علامتی، تمثیلی، یا سماجی حقیقیت نگاری سے مملو ہو بلکہ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ کہانی آرٹ کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے یا نہیں کیونکہ علامیت، تمثیل اور حقیقت نگاری تو اظہار کے وسیلے ہیں اور کہانی کی تاریخ میں کہانی بیان کرنے کے اسالیب اور وسیلے بدلتے رہتے ہیں۔ وارث علوی نے اس موقف کو’ جدید افسانہ اور اس کے مسائل‘ میں یوں پیش کیا ہے :’علامتی اور تجریدی طریقہ کار بھی افسانہ نگاری کے من جملہ دوسرے طریقوں میں سے ایک، اور فی نفسہ کسی افسانے کی اچھائی اور برائی کا ضامن نہیں۔ ۔ ۔ میں یہ قبول کرتا ہوں کہ طریقہ کار کی تبدیلی تخلیقی احساس کی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔ مجھے آپ کی یہ بات بھی قبول ہے کہ مثلاً احساس کی تبدیلی کی وجہ سے حقیقت پسند افسانہ کے برعکس علامتی افسانہ میں فنکار ایک سماجی مبصر کی بجائے ایک شاعر ایک سریت پسند ایک وجودی فلسفی کے طور پر سامنے آتا ہے لیکن اس سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ اس احساس کے ہونے سے افسانہ افسانہ بھی بنتا ہے۔ ‘

اکیسویں صدی کے لکھنے والے اور ۱۹۸۰ کے بعد کے لکھنے والوں کی ایک کوشش یہ نظر آتی ہے کہ وہ کہانی پن کے انحراف کو رد کرتے ہیں اور کہانی پن کے بنیادی عنصر کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور کہانی کوکسی بھی نظریے یا رجحان کی تبلیغ کا آلہ کار بننے نہیں دینا چاہتے۔ اب اس بات کو مزید جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ کہانی کا اپنا سماج، اپنی زبان اور قاری ہوتا ہے اگر افسانہ سماج، زبان اور قاری کو قبول نہیں تو پھر وہ افسانہ ردی کا ڈھیر ہے چاہیے کوئی نقاد ہمالیہ کی چو ٹی پر بیٹھ کر اس کی عظمت کا کتنا ہی دھنڈورا کیوں نہ پیٹے۔ خود مدعی، وکیل اور میزبان کی صورت میں جج بننے والے نقادوں نے سماج، زبان اور قاری سے محروم افسانے کو عظیم افسانہ قرار دینے کی بہت کوشش کی۔ ہمارے یہاں ہئیت پسند تنقید ایسے نقادوں کا جلوس تھا جو مذکورہ محروم افسانہ نگاروں کی فریم گلے میں لٹکائے ان کو موپاساں، چیخف، ہنری، بنانے کی قسمیں کھاتے تھے۔ اس طرح کے نقادوں پر وارث علوی کا یہ فرمان غیر ضروری نہیں لگتا کہ:’ہئیت پسندوں کی تنقید دو قسم کی ہے۔ ایک وہ جو تجریدی افسانہ کو بانس پر چڑھانے کے لیے حقیقت پسند افسانہ کو دار پر چڑھاتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ہئیتی تنقید کی دوسری قسم وہ ہے جو مجض طریقہ کار کی بنیاد پر قدری فیصلے کرتی ہے یا کسی مخصوص طریقہ کار کی صفات کا بیان ایسے پر جوش لہجہ میں کرتی ہے کہ ہر وہ لکھنے والا جو اس طریقہ کار کا دعویدار ہوتا ہے بڑا فنکار نظر آنے لگتا ہے۔ یہ بھی ایک قسم کی ظواہر پرستی ہے۔ بعینہ ایسی ہی جیسا کہ فضائل صوم و صلوۃ کا ایسا بیان کہ ہر پابند صوم وصلوۃ خود کو ولی کامل سمجھنے لگے۔ ولی ء کامل کے لیے چند باطنی خوبیوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔ (اجتہادات راویت کی روشنی میں۔ وارث علوی)، وارث علوی کی اس بر گشتگی کو ان کے اس مشہور جملے میں بھی دیکھا جا سکتا ہے :’ علامتی نقادوں کی حالت ضبطِ تولید کے ان رضاکاروں کی سی ہو گئی ہے جو دفتر کے اندراجات پر کرنے کے لیے لنجے، لنگڑے بوڑھے بھکاریوں تک کو خصی کر ڈالتے ہیں۔ (افسانہ نگار اور قاری۔ وارث علوی) ہئیت پرست جدیدیت سے منسوب افسانے کو چند نقادوں نے علامت اورتجرید کے مایا جال میں قید کر کے صرف اس لیے بانس پر چڑھایا تھا کہ وہ کسی طرح پریم چند، منٹو، کرشن چندر اور بیدی کی مستحکم روایت کو کمزور کر سکیں اور علامت اور تجرید کے چیستان کی غیر اطمینان بخش تفاصیل بیان کر کے اپنی بصیرت کا لوہا منوا سکیں۔ ایسی بصیرت جس میں سماج، آدمی اور سماجی حقیقت پسندوں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ اس طرح کی تنقید سے وارث علوی بہت خفا تھے۔ وہ کہتے ہیں :ہئیت پسند تنقید جب علامت کے چیٹھرے ہٹانے کے بعدلولے اور لنجے ہاتھوں کی بھی تعریف کرتی ہے تو وہ حسن کا معیار بدلنے کا نہیں بلکہ بدصورتی کو معیار حسن بنانے کا ڈھٹائی بھر امطالبہ کرتی ہے۔ اس کا اصرار ہوتا ہے کہ خراب نثر کو شاعرانہ نثر۔ ۔ مولویانہ تمثیل کو فنکارانہ علامت۔ چڑ چڑے پن کو سو فسطائی کلبیت، اعصاب زدگی کو غم، انانیت پسندی کو انفرادیت، اور پمفلٹ بازوں کے صحافیانہ سوچ بچار کو فلسفیانہ دانشمندی سمجھا جائے۔ (اجتہادات راویت کی روشنی میں۔ وارث علوی)

٭٭

 

ہندستان میں ۱۹۶۰ تا ۱۹۷۰ میں جس جدیدیت سے منسوب افسانے کا شور تھا اس کے دو بڑے نقاد شمس الرحمن فاروقی اور گوپی چند نارنگ تھے۔ جن افسانہ نگاروں کواس رجحان کا نمایندہ کہا جا رہا تھا ان میں دیوندر اسر، بلراج مینرا، سریندرپرکاش، بلراج کومل، کمار پاشی، احمد ہمیش، عوض سعیدشامل رہے۔ کچھ عرصے بعد اس رجحان کو احمد یوسف، قمر احسن، حمید سہر وردی نے بھی قبول کیا۔ پاکستان میں اس فہرست میں انور سجاد، غلام الثقلین اور خالدہ اصغر کے ساتھ انتظار حسین اور عبداللہ حسین کے نام بھی لیے جا رہے تھے تا کہ فہرست دلچسپ لگے۔ وقت گزرنے کے بعد اور جدیدیت کی سونامی شانت ہونے پر گوپی چند نارنگ نے جدیدیت سے منسوب اس افسانے کے بارے درست کہا ہے کہ :’نئی کہانی انحراف سے زیادہ اجتہاد اوار انقطاع کے لمحوں کی پیداوار تھی۔ ‘ لیکن شمس الرحمن فاروقی اس بات کو آج بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ جس کہانی کو وہ نئی کہانی کے طور پر اردو میں متعارف بلکہ اسی کہانی کو کہانی کا معیار بنا کر پیش کرنا چاہتے تھے وہ ایک مایا جال اور چھلاوا تھا۔ اس کے برخلاف فاروقی لکھتے ہیں :’گذشتہ سو برسوں کے اردو افسانے کی ادبی حیثیت سے فی الحال بحث نہیں۔ اس پوری صدی کا بہت سارا اردو افسانہ ’حقیقت نگاری، ’واقعیت‘، سماجی(یا سوشلسٹ) حقیقت نگاری‘ کے مایا جال میں محبوس رہا ہے۔ ‘ (بدلتا ہوا عالمی منظر نامہ اور اردو افسانہ) یہ بیان شکست کا اعتراف بھی ہے۔ کیوں کہ صدی کا افسانہ ان لوگوں سے عبارت ہے جن کا ذکر میں نے مضمون کے شروع میں کیا ہے اور جس فہرست میں سریندرپرکاش کا شمار تجریدیت کے سبب نہیں بلکہ ان کی مجموعی افسانہ نگاری کے تحت ہوتا ہے جس میں کئی خوبصورت بیانیہ کہانیاں بھی ہیں جو کردار اور پلاٹ کے ساتھ سماجی زندگی کی سیاست اور آدمی کی نفسیات سے مربوط ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی کے لیے صرف ابہام زدہ، بیانیہ کی غیر منطقی ترتیب میں بنا گیا اور سماجی صورت حال سے مبرا افسانہ، افسانہ ہے۔ یہی ان کا جدیدیت سے منسوب افسانے سے واحد تقاضا تھا اور اسی سبب وارث علوی نے ان کی ہٹ دھرمی پر بے رحمی سے تنقید کی ہے اور گوپی چند نارنگ کو جدیدیت کی ہٹ دھرمی کے سبب اس سے علحدہ ہونا پڑا۔ جیسا افسانہ فاروقی چاہتے ہیں افسانہ ویسا بھی ہو سکتا ہے۔ کیوں نہیں ہو سکتا؟ لیکن یہ ضد کہ افسانہ گر ہے تو اس کا معیار یہی ہے غیر فنی اور غیر ادبی موقف ہے۔ جدیدیت سے منسوب افسانہ اس غیر فنی اور غیر ادبی مزاج کی عکاسی کرتا ہے لیکن یہ مزاج جدید اردو افسانے کا ایک ورق ہے پوری کتاب نہیں۔ ایک طرف فاروقی کو اپنے اس موقف کی شکست کا اعتراف ہے اس لیے وہ بیسویں صدی کی مجموعی افسانہ نگاری پر بحث کرنے سے گریز کرتے ہیں اورد وسری طرف افسانے کی حمایت میں (۴)، افسانے کی حمایت میں (۵)، افسانے کی حمایت میں (۶) کے عنوانات سے مضامین لکھ کر خود اپنے مدعی، وکیل اور جج بن کر اپنی مدافعت پر مجبوردکھائی دیتے ہیں۔ یہ مضامین(’صورت و معنیِ سخن: ۱۲۱۰) میں شامل ہیں۔ افسانے کی حمایت میں (۵) کا یہ پیرا گراف ملاحظہ ہو:’میں اگر افسانے، یا ناول، یا دونوں کا مخالف بھی ہوں تو کیا ہوا؟ میرے اختلاف سے افسانے کا کیا بگڑ گیا؟۔ ۔ ۔ بلکہ کچھ بھلا ہی ہوا کہ افسانے پرتنقید اور غور و فکر کا سلسلہ شروع ہوا۔ ورنہ میری نام نہاد مخالفت کے باوجود افسانے خوب لکھے جا رہے ہیں۔ ‘ وارث علوی نے بہت مدلل انداز میں پہلے سوال کا جواب دیا ہے کہ افسانے کی غیر ضروری غیر فنی مخالفت سے کس کا کیا بگڑا ہے اور کس کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ وارث علوی کی کتاب ’فکشن کی تنقید کا المیہ‘ اور ’جدید افسانہ اور اس کے مسائل‘ کا مطالعہ بھی اس ضمن میں خاصی اہمیت رکھتا ہے اوران کتابوں میں وارث علوی نے بہت تفصیل سے یہ بتا یا ہے کہ فاروقی کیوں فکشن کے کمزور نقاد ہیں اور فکشن کی شعریات کا ان کا شعور کس حد تک کمزور ہے۔ مختصراً اتنا کہا جا سکتا ہے کہ ’ پریم چند کے بعد کا نیا افسانہ اور ترقی پسند افسانہ سات موٹی گایوں کا خواب تھا۔ جدید افسانہ سات دبلی گایوں کا کابوس ہے۔ کہانی کی دم غائب، مواد پتلا اور کردار ہڈیوں کا ڈھانچہ‘۔ ( اجتہادات روایت کی روشنی میں : وارث علوی)۔ اسی بات کو گوپی چند نارنگ نے یوں کہا ہے کہ ’ افسانے کے بھی کچھ اپنے صنفی تقاضے ہیں، شب خونی ’نری علامت نگاری‘ کے چکر میں پڑ کرانھیں یکسر فراموش کرنا اور مہمل نگاری اور ہذیان گفتاری کا شکار ہو جانا بھی کوئی قابلِ فخر بات نہیں ہے۔ کہانی سے کہانی کو جوہر اور اس کے صنفی تقاضوں کو کاٹنا در اصل آرٹ کے ایک فارم کو قتل کرنا ہے۔ (نیا افسانہ: علامت، تمثیل اور کہانی کا جوہر۱۹۸۵)

اکیسویں صدی میں جب ہم مڑ کر پیچھے دیکھتے ہیں تو ہمیں جدیدیت سے منسوب افسانے کے نام پر بوگس لڑیچر کا انبار نظر آتا ہے۔ وارث علوی کی اس بات سے اتفاق ہوتا ہے کہ پریم چند، منٹو، قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین نے ناول اور افسانے لکھے جبکہ جدید افسانے کا کوئی قاری نہیں ہے۔ اسے وہی لوگ کسی زمانے میں پڑھا کرتے تھے جن کو شب خون میں شائع ہونا تھا یا جو جدیدیت سے منسوب افسانے کی تنقید کا حصہ بننا چاہتے تھے۔ آج کا قاری جدیدیت کے چیستان کو رد کرتا ہے اور زندگی سے لبریز، آدمی کی زندگی اور اس کی ذات سے وابستہ فکشن پڑھنا چاہتا ہے خواہ پھر وہ علامتی، بیانیہ، تمثیلی، روایتی یا غیر روایتی پلاٹ میں تحریر کیا گیا ہو۔ اصل چیز تو افسانہ ہے، کہانی ہے، پیش کشں ہے۔ ادب کے ذوق سے معمور قاری جھوٹ نہیں بولتا کیوں کہ بقول وارث علوی اس کے اعصاب زندہ ہوتے ہیں۔ جبکہ تنقید جھوٹ بولتی ہے کیونکہ تنقید نظریاتی اور گروہی پاسداریوں کے تحت یا اپنی عالمانہ نخوت اور بلند جبینی کی نمائش کی خاطر پر فریب بیانات دینے کے ساتھ ہتھ کنڈوں سے واقف ہوتی ہے۔ ان ہتھ کنڈوں سے لکھنے والوں اور پڑھنے والوں کو بہت نقصان ہوا ہے جس کا اعتراف جدیدیت سے منسوب افسانے کے نقاد کو نہیں ہے۔ جدید افسانے کی روایت اور اس روایت کی توسیع میں فاروقی کے کتاب ’سواراور دیگر افسانے ‘ کو بھی شامل کرتا ہوں کہ یہ افسانے خالص بیانیہ، کردارنگاری، زمان ومکان، انسانی اور طبقاتی معاشرے اور مخصوص ثقافتی انحطاط کی روداد بیان کرتے ہیں۔ حالانکہ ان افسانوں کا ایک عیب ان میں زمانی و مکانی ندرت کی کمی بھی ہے۔ فاروقی نے ماضی پرستی کی اگر قسم کھائی ہے تو کوئی ان کو معاصر زندگی پر کہانی لکھنے کا مشورہ کیوں دے۔ ان کی مرضی کا احترام کیا جانا چاہیے لیکن جدید اردو افسانے کو جس طرح کا افسانہ بنا کر پیش کرنا چاہتے تھے اس رویے سے بغاوت ضروری تھی اور اسی سبب ۱۹۷۰ کے بعد لکھنے والوں کو فاروقی کے نظریے کو علانیہ رد کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ ۱۹۷۰ کے بعد ابھر نے والے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی کے سائے تلے بیانیہ افسانے کی حقیقت پسند توسیع میں زیادہ منہمک نظر آتے ہیں اور جدیدیت سے منسوب افسانے کو ایک طبقے کی ذہنی عیاشی یا انحراف کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ ان لکھنے والوں میں سلام بن رزاق، حسین الحق، شوکت حیات، انور قمر، علی امام نقوی، انور خان، سید محمد اشرف، طارق چھتاری، ساجد رشید، مشرف عالم ذوقی وغیرہ وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ ان افسانہ نگاروں نے جدیدیت کے ناکامیاب تجرنے سے بہت کچھ سیکھا اور خود کو اس آگ میں گرنے سے بچانے کی کوشش کی ہے جس میں لایعنی، مبہم، چیستان اور کہانی پن کا انکار تھا۔ یقیناً اس فہرست میں اور بھی کئی نام ہیں جن میں بعض کی تخلیقی صلاحیتیں دوسروں کی نسبت منفرد اور یکساں نہیں ہیں۔ ان میں کئی کو اس بات کا احساس بھی ہے کہ آرٹ خطابت، غیر ضروری رومانیت، فارمولابازی، سطحیت، نظریے کی اشتہاریت اور ادب کا رشتہ ہمیشہ سماج، معاشرت، صدیوں کی تہذیبی تاریخ، نسلی اثرات اور اجتماعی لاشعور سے باقی رہے گا۔ اس ضمن میں گوپی چند نارنگ کی یہ بات اہم ہے کہ ایسے معاشرے میں جو پنچ تنتر اور کتھا سرت ساگر کی دھرتی سے تعلق رکھتا ہو اور جس کی ذہنی تشکیل میں الف لیلیٰ، طلسم ہوش ربا اور داستان کا رسیا رہا ہو اور جس میں کہانی کی روایت کتھا اور حکایت سے جڑی ہوئی ہو، اس میں کہانی کتنی ہی نئی کیوں نہ ہو جائے، وہ کہانی پن سے کلیتاً دامن کیسے چھڑا سکتی ہے۔ لیکن اگر فن کار میں فکر، احساس اورتازگی نہیں ہو گی تو وہ کہانی کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا۔ (نیا افسانہ: روایت سے انحراف)

اکیسویں صدی کا اردو افسانہ مذکورہ بالا ادبی تجربات کی روشنی میں فن کاری کی مثبت اقدار سے مزین ہونے کی کوشش ہو گا لیکن کیا صرف کوشش سے ادب پیدا ہوتا ہے ؟

٭٭٭

 

 

 

فکشن کا بدلتا منظرنامہ اور تنقیدی زاویے  — ڈاکٹر انوارالحق

 

 

یہ دنیا بڑی عجیب جگہ ہے۔ اس دنیا کی ایک بے حد حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہاں انسان بستے ہیں اور ان کے اندر قوتِ حاسّہ موجود ہوتی ہے۔ احساسات و جذبات کو اگر انسانی وجود سے الگ کر دیا جائے تو انسان کی حیثیت ایک چلتے پھرتے بت سے زیادہ کچھ نہیں رہ جاتی۔ گویا قوتِ حاسّہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو انسان کو دوسرے ذی حیات سے ممیّز کرتی ہے۔ احساسات انفرادی ہوتے ہیں۔ جب مختلف افراد ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور اپنی قوتِ اظہار کے مختلف ذرائع کو حرکت میں لا کر اپنے احساسات کا تبادلہ کرتے ہیں تو ہوتا یوں ہے کہ کچھ احساسات تو ایک دوسرے کے مخالف ہوتے ہیں اور کچھ بالکل ایک جیسے۔ محبت، نفرت، عزت و احترام، بغض و کینہ دوستی و دشمنی جیسے جذبات ان ہی انفرادی احساسات کے تبادلے اور ان کے ایک دوسرے سے مماثل یا مخالف ہونے پر موقوف ہوتے ہیں۔

جب احساسات اظہار کا روپ لیتے ہیں تو مختلف قسم کے آرٹ وجود میں آتے ہیں۔ یعنی اگر کوئی ان احساسات کو برش اور کینوس کا سہارا لے کر بیان کرتا ہے تو وہ فن پارہ مصوری کی صورت سامنے آتا ہے اور اگر کوئی اس کو الفاظ کے تانے بانے سے ادا کرتا ہے تو وہ شاعر، نغمہ نگار، یا فکشن نگار کہلاتا ہے۔ کوئی ناچنے والا ان احساسات کو رقص کے ذریعہ پیش کرتا ہے تو اداکار اپنی اداکاری سے اپنے احساسات دوسروں تک پہنچاتا ہے۔

جب ایک سے زیادہ افراد کے احساسات یکساں ہوتے ہیں تو وہ ایک تنظیمی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ دنیا میں آنے والے بڑے بڑے انقلابات ان ہی احساسات کی تنظیمی شکل اختیار کرنے کے نتیجے میں رونما ہوئے ہیں۔ بادشاہوں کی بادشاہت، خلفا کی خلافت، علما کی علمیت، قائدین کی قیادت وغیرہ در اصل ان ہی احساسات کی ہم آہنگی کی بدولت ہوتے ہیں اور جب احساسات کا امتزاج نہیں ہوتا تو پھر بغاوت جنم لیتی ہے۔

آرٹ کی جتنی ہیئتیں ہیں ان سب میں تحریکات اور رجحانات اور ان کی سمت و رفتار سب احساسات کی اجتماعیت کی بنیاد پر ہی طے پاتی ہیں۔ انسانی فطرت یہ ہوتی ہے کہ جب وہ کسی بھی طرح کی نا انصافی یا نا برابری یا ظلم و جبر ہوتے ہوئے دیکھتا یا سنتا ہے تو اس کا ردِّ عمل وہ کسی نہ کسی طرح ضرور ظاہر کرتا ہے۔ اور اگر وہ اس کی استعداد نہ رکھتا ہو تو وہ ڈھکے چھپے طریقے سے اپنا ردِّ عمل ظاہر کرتا ہے۔ یہی ڈھکا چھپا اظہار آرٹ کہلاتا ہے۔ ادب بھی آرٹ کی ایک شاخ ہے لہٰذا ادیب و شاعر بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ جب ہندوستان میں انگریزی حکومت تھی تو اس وقت بھی یہی ہوا کہ جو لوگ انگریزوں کی بربریت اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے اور اس کی کھلی مخالفت نہیں کر سکتے تھے انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ لوگوں کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ انہیں اس ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔

جب پوری دنیا میں غریب اور مزدور طبقے پرامرا، رؤ سا اور نوابین کے ظلم و زیادتی کے دل دہلانے والے واقعات رونما ہونے لگے تو ان کے نتیجے میں میں ترقی پسند تحریک وجود میں آئی۔ یہ وہ تحریک تھی جس نے آرٹ کی مختلف شاخوں میں پرولتاری طبقے کی ہمدردی میں آواز اٹھانی شروع کی۔ ترقی پسند تحریک کا تمام آرٹ فارم پرلمبے عرصے تک اثر رہا۔ تمام دنیا کے ادب پر اس تحریک نے اپنی مثبت چھاپ چھوڑی۔ ادبی سرگرمیاں بڑھیں۔ کل ملا کر ادب عوام میں خوب خوب مقبول ہوا۔

اردو میں بھی ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر عظیم فن پارے وجود میں آئے۔ ایک طرف فیض اور مجاز جیسا بڑا شاعر اردو کو نصیب ہوا تو دوسری طرف پریم چند اور کرشن چندر جیسا افسانہ نویس اردو کے حصے میں آیا۔ ہر عروج کو زوال ہے، ترقی پسندی اپنا کام کر کے جا چکی۔ وقت بدلا۔ عوام کے احساسات بدلنے لگے۔ لوگ اب نعرے اور ولولے سن سن کر کوفت ہونے لگے۔ اب کھانا کتنا بھی لذیذ کیوں نہ ہو۔ ایک ہی قسم کا کھا نا اگر روز روز کسی کو دیا جائے تو وہ کوفت ہو جاتا ہے اور منہ کا مزہ بدلنا چاہتا ہے۔ لوگ ترقی پسند آئیڈیو لوجی سے بالآخر تنگ آ گئے اور جدیدیت کے نئے دور کا آغاز ہوا پھر جدیدیت کا بھی وہی حشر ہوا جو ترقی پسندوں کا ہوا تھا۔ چونکہ انسانی احساسات پائدار نہیں ہوا کرتے بدلتے رہنا احساسات کی فطرت ہوتی ہے اس لیے تحریکات اور رجحانات بھی بدلتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ فلاں تحریک کبھی نہیں مر سکتی تو اس کو غلط فہمی یا خوش فہمی کا نام دیا جا سکتا ہے۔

اس بابت پروفیسر گوپی چند نارنگ اپنی کتاب اردو ما بعد جدیدیت پر مکالمہ میں لکھتے ہیں :

’’ہر زبان میں رجحانات و میلانات ہوں یا تحریکیں، اس زبان کے مخصوص حالات کے پیشِ نظر ہی پنپتی ہیں۔ اردو میں انتحریکوں کے ماڈل لاکھ عالمی ہوں لیکن ان کے بعض خصائص اورtiming خاص ہمارے حالات کے مطابق ہوں گے۔ سامنے کی بات ہے کہ اردو میں جدیدیت عین اس وقت شروع ہوئی جب وہ دنیا میں تقریباً ختم ہو چکی تھی۔ مزید یہ کہ دنیا میں جدیدیت روشن خیالی کا حصہ تھی اور اس میں ترقی پسندی کا ایک جوہر تھا۔ اردو میں جدیدیت ترقی پسندی کی ضد کے طور پر ابھری اور مارکسزم دشمنی (بالخصوص ماس کو برانڈ مارکسزم دشمنی) اس کی اساسی پہچان تھی۔ سر دست اس سے بحث نہیں کہ صحیح کیا اور غلط کیا تھا۔ ترقی پسندی کی طرح جدیدیت نے بھی بیس پچیس برس اردو کو سیراب کیا اور پھر اس کی قوت ختم ہو گئی۔ اس بات سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہوکہ جب تک اردو میں جدیدیت کا زور تھا، کوئی نظریاتی خلا نہیں تھا۔ جیسے جیسے جدیدیت کمزور ہوتی گئی اور اس میں تکرار و تعمیم کی صورت پیدا ہوئی اور ذہن و شعور کو انگیز کرنے والی تازگی ختم ہو گئی، نظریاتی خلا پیدا ہوتا گیا۔ ما بعد جدیدیت جو دنیا میں کئی دہائیاں پہلے شروع ہو چکی تھی۔ اور کئی فکری کروٹیں لے چکی تھی اردو میں اس نظریاتی خلا میں داخل ہونا شروع ہو ئی۔ ادب میں بھی چونکہ زندگی کی طرح جدلیاتی عمل جاری رہتا ہے۔ اور نئے پرانے کی کشمکش جاری رہتی ہے، بالآ خر نئے نظریات پرانے نظریات کو رد کر کے یا ان کی تقلیب کر کے سامنے آ ہی جاتے ہیں۔ کبھی ان کی آمد کا اعلان زور شور سے ہوتا ہے اور ان کے مویدین شدت اور انتہا پسندی کا اظہار کرتے ہیں، کبھی یہ کام نسبتاً پر سکون اور گہرے طریقے پر ہوتا ہے۔ لیکن ہوتا ضرور ہے۔ ‘‘(ادب کا بدلتا منظر نامہ اردو ما بعد جدیدیت پر مکالمہ، مرتبہ گوپی چند نارنگ، صفحہ نمبر ۳۹۔ ۴۰، )

اب بات یہ ہے کہ ترقی پسند تحریک، جدیدیت اور ما بعد جدیدیت اور اب آگے کیا؟ کیا اب ایک نظریاتی خلا ہے ؟

یہ ایک بے حد اہم موضوع ہے۔ ترقی پسند تحریک میں حقیقت نگاری کا زور رہا جب کہ اس سے پہلے کی تخلیقات میں تخیل کی پرواز اور ما فوق الفطری عناصر پر زور صرف کیا جاتا رہا۔ پریم چند نے اردو میں حقیقت نگاری کو آگے بڑھایا۔ جدیدیت کے زیرِ اثر جو تخلیقات معرض وجودمیں آئیں ان میں زیریں لہر میں ایک نئے معنیاتی نظام قائم کرنے اور علامتی تخلیقات کا سلسلہ شروع ہوا۔

اور پھر آگے چل کر باتیں یہ شروع ہوئیں کہ کیوں ہم اجتماعی احساسات کے غلام بن جائیں۔ ہر ادیب کو اپنے احساسات و خیالات کو الفاظ میں پیش کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ اور پھر ہوا یوں کہ انفرادیت کے ان متوالوں نے اجتماعیت کا ثبوت دیا اور مابعد جدیدیت وجود میں آئی۔ اس تحریک کے بعد کوئی باضابطہ تحریک تو سامنے نہیں آئی ہاں البتہ میلانات و رجحانات ضرور موجود رہے۔ جادوئی حقیقت نگاری، اور اس کی مختلف قسمیں ایک ٹول کے طور پر استعمال کی جانے لگیں جس سے متن کے حسن کی تلاش کی جا سکے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شئے قوتِ احساس کی مختلف الجہتی کی وجہ سے کسی کو حسین معلوم ہوتی ہے تو وہی شئے دوسروں کو بد صورت لگ سکتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح ایک شئے کسی کو بد صورت لگتی ہے تو دوسروں کو خوبصورت۔ تو اب سوال یہ ہے کہ اس شئے کے تعلق سے کیا رائے قائم کی جائے۔ آیا وہ شئے خوبصورت ہے یا بد صورت؟ یہی معاملہ ادب کا ہے۔ کس ادب کو اچھا ادب کہا جائے اور کس کو دوسرے یا تیسرے درجہ کا؟ یہ معاملہ اتنا آسان نہیں جتنا یہ بظاہر آسان معلوم ہوتا ہے۔ بقول میلان کندرا

Beauty has long since disappeared. It has slipped beneath the surface of the noise, the noise of words, sunk deep as Atlantis. The only thing left of it is the word, whose meaning loses clarity from year to year).

’’حسن تو زمانہ پہلے کہیں کھو چکا۔ یہ شور و ولولہ کے درمیان سے دبے پاؤں نکل گیا۔ الفاظ کا شور، کسی گہرے سمندر میں اٹلانٹِس کی طرح ڈوب گیا۔ محض ایک شئے باقی رہ گئی اور وہ ہے ’لفظ‘ ہر سال جس کی معنویت اپنی سادگی کھوتی جا رہی ہے۔ ‘‘

میلان کندرا کی اس رائے سے اتفاق کیا جا سکتا ہے۔

اب الفاظ ہی ہیں جو حسن کو بڑھا چڑھا کر یا گھٹا کر پیش کرتے ہیں۔ ہر فرد کے لیے حسن کا اپنا ایک معیار ہوتا ہے۔ اور وہ معیار زاویہ نگاہ کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر۔ فیشن کو لے لیں تو ہم کئی طریقے سے اس پر اپنی رائے قائم کر سکتے ہیں۔ ایک لڑکی جب بکنی پہن کر ریمپ پر چلتی ہے تو کسی فردِ واحد کو وہ بہت خوبصورت لگ سکتی ہے جب کہ کسی مذہبی شخص کی نظر میں وہ بے حیا کہلائے گی۔ اتنا ہی نہیں

ایک ہی شخص کے نزدیک وہ کبھی خوبصورت تو کبھی بد صورت ہو سکتی ہے۔ ایک شخص جب کسی ماڈل کی تصویر دیکھتا ہے تو اس کو اس کے چھوٹے کپڑے بہت فیشن والے لگتے ہیں اور وہی کپڑے اگر اس کی بہن یا بیٹی پہن لے تو اس کو بے حیا ئی سے تعبیر کرے گا اور اس کو کبھی اپنی منظوری نہیں دے گا۔ ظاہر ہے فیشن کی کوئی طے شدہ صورت نہیں۔ تو آخر یہ ہے کیا۔ یہ زاویِہ نظر طے کرتا ہے۔

ادب کے حوالے سے بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ ایک ادب پارہ کسی کو بہت اچھا معلوم ہو سکتا ہے تو کسی کو بے حد خراب۔ لیکن اگر زاویہ بدل جائے تو ایک ہی ادب پارہ کے تعلق سے ایک ہی شخص کی رائے مختلف ہو سکتی ہے۔ بیوی، بہن، اور فلمی ہیروئنوں کے کپڑوں کے متعلق ایک ہی شخص کی رائیں الگ الگ ہو سکتی ہیں۔

روایتی مکانات اور آج کے مکانات کے متعلق نوجوانوں اور بوڑھوں کی رائیوں میں اتفاق نہ پایا جانا، یا پرانے گانوں اور نئے گانوں کے پسند کرنے والوں کے درمیان اختلافات یہ ثابت کرتے ہیں کہ خوبصورتی یا بد صورتی کسی شئے کی حتمی شکل نہیں ہوتی۔ یہ حالات، وقت، اور دیکھنے والوں کی کیفیت کے مطابق بدلتی رہتی ہیں۔

اب مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں ادب پاروں کے متعلق اگر گفتگو کریں تو ہمیں یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اچھے اور برے ادب کا انحصار محض متن پر نہیں بلکہ قاری کے احساسات پر ہے۔ اور احساسات بدلتے رہتے ہیں۔ ہر فرد کا احساس الگ ہوتا ہے، ہر ملک اور ہر سماج کی حسیت مختلف ہوتی ہے اور اس میں فرد اور اس کے متعلقات، تجربات و حادثات اور مختلف امور کار فرما ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج کے ادب کو انیسویں صدی یا بیسویں صدی کے نظریہ سے نہیں دیکھ سکتے نا ہی ہم ان گذرے زمانوں کے پیمانوں سے ہم ان کا مقام متعین کر سکتے ہیں۔

تو پھر اب سوال یہ ہے کا آج کے فن پاروں کا مقام متعین کرنے کے لیے کیا کرنا ہو گا؟ وہ کون سا پیمانا بنا یا جائے جس سے آج کے ادب کا مقام متعین کیا جا سکے ؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا کہ ہر فرد کے احساسات مختلف ہوتے ہیں اسی طرح ہر فرد کے لیے اچھے اور برے فن پارے کا پیمانہ بھی مختلف ہو گا۔ ایک بوڑھے شخص کے لیے اچھے گانے کچھ اور ہوں گے اور ایک نو عمر شخص کے لیے اچھے گانوں کا پیمانہ کچھ اور ہو گا۔ اسی طرح مختلف تہذیب و ثقافت سے تعلق رکھنے والوں کے لیے اچھے فن پاروں کی قدریں اور پیمانے مختلف ہوں گے۔ تو ایسے میں فن پاروں کا مقام متعین کرنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ فن پارے کو اہمیت دیے جانے والے زاویے کی اہمیت سمجھی جائے۔

بالخصوص فکشن کے تعلق سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک زمانہ ما فوق الفطری عوامل کا تھا پھر حقیقت نگاری نے اس کی جگہ لے لی۔ آج کا دور ایک ترقی یافتہ دور ہے۔ اس لیے آج کے تقاضے بدل چکے ہیں۔ آج ہم سیدھے سیدھے باتیں کرنے کو فن نہیں سمجھتے۔ اور نا ہی پریوں اور دیوں کی کہانیوں سے خود کو جوڑ پاتے ہیں۔ آج کا دور سائنس فکشن کا ہے۔ اگر تخیل کی پرواز کو بنیاد بنا کر دیکھا جائے تو سائنس فکشن آج کا فکشن ہے جس کی موجود گی اردو میں نہیں کے برابر ہے۔ فکری سطح پر اگر جائزہ لیا جائے تو فکشن کی حقیقت نگاری میں اب وہ حظ نہیں جو پریم چند کے زمانے میں ہوا کرتا تھا۔ آج کے زمانے کی حقیقت اتنی خوفناک شکل اختیار کر چکی ہے کہ اس کو ادب میں برتنا ادب کے چہرے کو مسخ کرنا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اب ہم یہ کر سکتے ہیں کہ حقیقت کو موہومیت کی چادر میں لپیٹ کر قارئین کے سامنے پیش کریں تاکہ قارئین کے سامنے حقیقت آ بھی جائے اور حقیقت کی خوگ ناکی کا ابہام بھی بر قرار رہ جائے۔

آج کے دور میں ایک پر امن دنیا کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ ایک پر امن اور آئیڈیل دنیا کو افسانوی ادب کے ذریعہ حقیقی طور پر تو پیش نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اس کا تصور تو کیا جا سکتا ہے۔ علمِ نفسیات کی زبان میں اس کو ’’خیالی دنیا‘‘ یا Phantasy کہتے ہیں جس میں ایک شخص اپنی پوری خیالی دنیا تیار کر لیتا ہے اور اس میں خود کو ہیرو بنا لیتا ہے۔ اب یہی کیفیت جب حد پار کر جاتی ہے تو جنون کی کیفیت بن جاتی اور اس شخص پر پاگل پن کا دورہ پڑنے لگتا ہے۔ خوش خیا لیوں کی یہ کیفیت day dreaming کہلاتی ہے۔ جس کو ادب میں باضابطہ طور پر Hallucinatory Realism یعنی موہوم حقیقت نگاری کا نام دیا جاتا ہے۔ آج کا ادب اچھا ادب تب ہو سکتا ہے جب اس میں کہیں نہ کہیں فنطاسی کی کار فرمائی ہو۔ مشہور عالمِ نفسیات برنارڈ ہارٹ انسان کی اس حالت کے تعلق سے بات کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’نفسیاتِ جنوں ‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’کومپلیکس کے زیرِ اثر افعال متحرک ہو کراپنے مقاصد کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ مقصد کا حصول مکمل نہیں بلکہ ناقص اور محدود ہوتا ہے۔ یعنی حقیقی نہیں محض خیالی ہوتا ہے۔ یہی چیز وہمی صورت گری کہی جاتی ہے، انسان خیالی پلاؤ پکاتا ہے۔ اور اس طرح احمقوں کی جنت کی سیر کر لیتا ہے۔ کومپلیکس حقیقی دنیا کی تشفی کے بجائے خوش گوار خیالی تصویریں بنا کر خواہشات کی تکمیل کر لیتا ہے۔ کومپلیکس اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جو دو مختلف حقیقی اور خیالی طریقے اپناتا ہے اس کا فرق ایک مثال کے ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے۔ خود نمائی اور تسلط کے ذریعہ انسان اپنے کو منفردو ما فوق قرار دیے جانے کے لیے بڑی جد و جہد کرتا ہے۔ اس کی حریصانہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ ایسا کارِ نمایاں کرے جس کی بدولت اس کی عزت اور توقیر دوسروں کی نظر میں بڑھے۔

افعال میں، براہِ راست اظہار کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ خود نمائی کی یہ خواہش وہمی صورت گری(Phantasy) کا سہارا لے کر آگے بڑھنے کی کوشش کرے اور خوش خیالیوں کا شکار ہو جائے۔ انسان اپنی عمر کے ہر دور میں اس کے زیرِ اثر آتا ہے لیکن بلوغت کا زمانہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ اپنی خیالی دنیا میں خود کو ہیرو سمجھتے ہوئے بے شمار ایسے کار نامے انجام دیتا ہے جس کے لیے وہ مجمع سے اپنے خیال میں بڑی داد بھی وصول کرتا ہے۔ وہمی صورت گری کی دنیا میں جنس کا کومپلیکس بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔ دونوں مل کر بڑے شاندار کارنامے عام طور پر اس لڑکی یا محبوبہ کی موجودگی میں انجام دیتے ہیں۔ جس کی تحسین آمیز نگاہِ التفات کو ہیرو صاحب اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

(نفسیاتِ جنون، برنارڈ ہارٹ، اردو ترجمہ عبیدہ زمان، صفحہ ۸۶۔ ۸۷، )

 

انسان کی اسی ذہنی حالت کی ترجمانی کرنے والے فن پارے کو موہومیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیکن ہاں اگر اس صورت گری کی زیریں لہر میں حقیقت کی پیش کش کی جائے تو اسے ہم موہوم حقیقت نگاری(Hallucinatory Realism) کا نام دے سکتے ہیں۔ فن پارے کی قدر کے تعین میں یہ بھی ایک زاویہ نظر ہے جس کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے جس سے فن پارے کے حسن کو پرکھا جا سکے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ آج کے اس پر آشوب دور میں ایسے ادب پارے فن کے بہترین نمونے ثابت ہو سکتے ہیں جن میں خوابوں کی دنیا کو پیش کیا جائے اور زیریں لہر میں حقیقت کی عکاسی بھی ہو جائے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ چین کے مشہور ادیب مویان کو ۲۰۱۲ میں نوبل انعام موہوم حقیقت نگاری کی بنا پر دیا گیا۔ چونکہ خوابوں کی دنیا کی داستان ’فکشن ‘ کی صنف سے زیادہ قریب ہے فرق صرف اتنا ہے کہ خواب میں زمان اور مکان متعین نہیں رہا کرتے۔ یعنی ایک شخص ابھی اپنے گھر سے نکلتا ہے اور کچھ ہی منٹوں میں ہزاروں کلو میٹر کا فاصلہ طے کر لیتا ہے اور پلک جھپکتے واپس بھی آ جاتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص اپنے بچپن کے ایام سے اپنے بڑھاپے تک کا سفر بھی واقعات کے ذریعے پل بھر میں طے کر لیتا ہے اور کبھی کبھی تو صبح سے شام تک وہ کئی دفعہ بچپن اور بڑھاپے کے درمیان سفر کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے واقعات کی صحیح عکاسی یا تو افسانوں میں ممکن ہے یا ناولوں میں۔ اس طرح کے اہم انعکاسات کو یکسر نظر انداز کر دینے سے ہماری اردو تنقید کا دبستان ادھورا رہ جائے گا۔ اب تک جو کچھ بھی اصولِ تنقید ہمارے یہاں اردو میں رائج ہے اس میں اضافے کی سخت ضرورت ہے۔ چونکہ ادب کسی طے شدہ شے کا نام نہیں۔ یہ کسی معین محور پر گردش نہیں کرتی اس لیے اس کو دیکھنے اور پرکھنے کے لیے بھی ہم ہر وقت کسی طے شدہ تنقیدی نسخے کا استعمال نہیں کر سکتے۔

ہماری حقیقی دنیا بدل چکی ہے۔ اب بلاگس، سوشل میڈیا، اور اس طرح کے ڈھیروں الیکٹرانک ذرایع ادب پروڈیوس کر رہے ہیں۔ ان ذرائع ابلاغ پر قارئین کی تعددیگر روایتی ذرائع سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اب لوگ باگ اخبار کے بجائے صبح صبح اپنے موبائل فون میں سرخیاں پڑھتے ہیں۔ اور جس سرخی پر ان کا ذہن متجسس ہوتا ہے اس پر کلک کر کے اس کی تفصیل پڑھتے ہیں۔ اور اس خاص سرخی کے متعلق سیکڑوں دیگر خبروں تک ان کی رسائی چٹکیوں میں ہو جاتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ آج کے ہمارے مسائل نے بھی اپنی شکل بدل لی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارا مسئلہ ہماری آئڈنٹیٹی کا تھا۔ ایک زمانہ آج ہے جب ہمارا مسئلہ گلوبل آئڈینٹیٹی کا بن چکا ہے۔ پہلے ادب کے تخلیق کاروں اور قارئین کے علاقے، زبان اور تہذیبیں مختص ہوا کرتے تھے۔ اب معاملہ بالکل الگ ہے۔ اب کوئی ادب کسی خاص قاری کی ملکیت نہیں، نا ہی کسی خطے، کسی زبان یا کسی مخصوص طبقے کی ملکیت ہے۔ آج کا ادب چٹکیوں میں گلوبل ادب کا حصہ بن جاتا ہے۔ اور جو ادبا و شعرا اپنی اپنی زبانوں میں بڑے بڑے طرم خاں بنے بیٹھے رہتے تھے اب ان کا مقابلہ دنیا بھر کے ادیبوں سے ہوتا ہے اور ان نام نہاد بونے ادیبوں کو اپنی حقیقت سمجھتے دیر نہیں لگتی۔ اس کے بر عکس پرانے زمانوں میں جو بڑے بڑے تخلیق کار اور ناقدین حضرات اپنی زبان اور اپنی تہذیب کے حدود میں گم ہو جایا کرتے تھے اب انہیں گلوبل فیگر بنتے دیر نہیں لگتی۔ آج دنیا کے حالات بدل چکے ہیں۔ ہمارے مسائل بدل چکے ہیں۔ جہاں ہمارے ادبی اکابرین کے بڑے مسائل ۱۸۵۷ کا غدر یا ۱۹۴۷ کی تحریکِ آزادی، یا انگریزوں کی ظلم و زیادتی، یا فیوڈل نظام کا خاتمہ، یا تقسیمِ ہند اور اس بعد کی نقلِ مکانی یا پھر ظبقاتی کشمکش تھے آج کا منظر نامہ بدل چکا ہے۔

آج پوری دنیا میں کچھ خاص ممالک کا دبدبہ، چند ممالک کے قابلِ رحم حالات، کچھ خاص مذاہب کے خلاف دنیا کی گولبندی، اقتصادی مسائل، نیوکلیائی خطرات، گورِیلا جنگیں، دہشت گردی، اور انسانی آزادی کے مسائل زیادہ اہم ہیں۔ دنیا میں وقوع پزیر ہونے والے حادثات و واقعات کے اثرات ادب پر پڑتے ہیں۔ اور اس طرح وقت کے ساتھ ساتھ ادب کی شکل بدتی ہے۔ اب زمانہ لوک کتھاؤں کا نہیں ہے۔ اب جو زمانہ ہے وہ ہائبرڈ ادب کا ہے۔ دو ممالک کے ادب کا فیوژن، یا لوک کتھاؤں اور آج کی کہانیوں کا فیوژن، یا دنیا کی دو مختلف تہذیبوں یا مذاہب کے ادب کا فیوژن۔ اور اس طرح ہم ادب کو عالمی ادب کے ہم پلہ کر سکتے ہیں۔ ایسے میں کوئی ایک تنقیدی نظریہ ادب کا مقام متعین کرنے کے لیے ناکافی ہو گا۔

آج کے ادب کا مقام متعین کرنے کے لیے ہر طرح کے تنقیدی آلات کا استعمال ناگذیر ہے۔ اب ہم جرمنی کے گوتھک ریلزم کا سہارا لے کر بھی اپنے ادب کا مطالعہ کر سکتے ہیں اور چین کی لوک کتھاؤں سے بھی اپنے ادب کا فیوژن تیار کر سکتے ہیں۔ افریقہ کے جنگلوں میں انسانیت سوز مظالم کے نتیجے میں وجود پذیر ادب کا تقابل دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے ادب سے بھی کر سکتے ہیں۔ کچھ سخت گیر مذہبی تنظیموں کی ظلم و زیادتیوں کے طریق میں جس طرح کوئی فرق نہیں ہوتا۔ فلسطین کے بچوں پر ہونے والی زیادتیوں اور میامار میں روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والی زیادتیوں کے ماخذات جب ادب کا حصہ بنتے ہیں تو ان دونوں ادب کے محاسن و معائب کو پرکھنے کے لیے الگ الگ تنقیدی زاویوں کی ضرورت پیش آئے گی۔

چین کے مشہور ناول نگار مو یان کو اس بات کا اندازہ پہلے ہی ہو چکا تھا۔ اس لیے انہوں نے چین کی لوک کتھاؤں اور لاطینی امریکی ادب کا ہائبریڈ ادب پیش کر کے دنیا کو تخلیق کے ایک نئے نظریے سے واقف کرا یا۔

میں یہ نہیں کہتا کہ خواہ مخواہ کسی بھی تنقیدی تھیوری کا اطلاق کہیں بھی کر دیا جائے۔ مگر ہاں یہ بھی تو درست نہیں کہ آج کے ادب پر تنقید کرتے ہوئے ۱۹۴۷ کے اصول اور نظریہ کا استعمال کیا جائے۔ آج کا ادب بدل چکا ہے۔ اس کے تقاضے بدل چکے ہیں تو اس ادب کا مقام متعین کرنے کے لیے ہمیں تنقیدی آلات بھی بدلنے ہوں گے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ کسی طے شدہ تحریکی یا تنظیمی زاویے نظر کو بروئے کار لانے کے بجائے اپنی ذاتی رائے کو بنیاد بنا کر مختلف تنقیدی آلات کو بروئے کار لایا جائے۔ ایسے میں ادب کے مختلف داخلی پہلوؤں کے محاسن کو اجاگر کرنے میں جادوئی حقیقت نگاری اور موہوم حقیقت نگاری بہت اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

سلسلہ ؍انٹرویو

 

نالۂ شب گیر: ایک ضروری مکالمہ عورتوں کے تعلق سے —سیمیں کرن

 

نوٹ: مشرف عالم ذوقی کے ناول نالۂ شب گیر کے مطالعہ کے دوران میں کئی اہم سوالوں سے گزری۔ ان کا جواب تلاش کرنا ضروری تھا۔ پہلے اس ناول کے بارے میں مختصر سی گفتگو کر لوں تو اس مکالمے کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ نالۂ شب گیر … بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ ان کے حل پیش کرتا ہے — conception سے perception کی جانب سفر کرتا ہے۔ ایک مفکر کی طرح، عظیم فلسفیوں کی طرح ذوقی صاحب نے بھی ایک مثالی انسان کا تصور دیا ہے۔ ۔ .مگر سب سے بڑا اور ہلا دینے والا تجربہ یہ ہے کہ انسان کے اب تک کے تجربوں کے برخلاف اس عورت کو پیش کیا گیا ہے جو ایک عظیم عورت ہے ایک مفکرہے …آگ پہ پکی کندن کی طرح جس کے رستے میں رشتے ناطے حتی کہ ممتاکی بھی بیڑی بھی نہیں۔ ۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ عورت مشرف عالم ذوقی کے ذھن کی پیداوار ہے یا اس نے ایسی کسی عظیم عورت کا مشاہدہ کیا —؟اور سوال تو یہ بھی ہے کہ کونسے عوامل ہیں جو مصنف کو مرد کے اس حد تک خلاف جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ ؟ عورت جو ایک فلسفی کی طرح اس معاشرے میں زھر گھولتے حروف کی بدرو کو صاف کرنے جیسی اہم مہم انجام دیتی ہے … ایک ایسا کردار جو فطرت سے بھی جنگ پہ آمادہ ہے اور مالک سے سوال کرتی ہے اتنا کمزور کیوں بنا دیا عورت کو—؟ جسم سے بڑی بھوک کیوں بنا دی…؟اسی عورت کا اک دوسرا عکس صوفیہ ہے جو آخر اپنے خوف کو محبت بنا لیتی ہے۔ ۔ .سوال تو یہ بھی ہے کہ مشرف عالم ذوقی نے کیسے عورت کے من میں بیٹھ کر اس کے ہر خوف اور زخم کو کھوجا ہے اور بیان کرنے کی جرأت بھی کی ہے۔ ۔ وہ مردانہ سماج کی ان عورتوں سے زیادہ عورت سے مخلص نظر آتے ہیں اور اس کی معاشی آزادی اور تعلیم میں اس کے زخموں کا مرحم بھی کھوجتے ہیں …ایک ایسا سماج تشکیل کرنے کی آرزو جہاں مرد کی مردانگی عورت کی نسوانیت سے بڑی نہیں … دعا ہے کہ یہ خواب تمام آنکھوں میں منتقل ہو جائے۔

نالۂ شب گیر نے زخم کھرچ دیئے — بچپن سے ہی مجھے مردانہ سماج کے یہ محاورے یاد رہے کہ عورتیں دی مت گت پچھے۔ ۔ بزدلوں کو عورت ہونے کا طعنہ۔ ۔ بچپن سے ہی عورت بہت سا زہر پیتی آئی ہے … صوفیہ میں بھی اک خوفزدہ عورت ہے جو رشتوں کو کھو دینے کے خوف میں مبتلا ہے …یہ ناول اتنا بھرپور ہے کہ ایک مدت تک ذہن پہ حکومت کرے گا … اس ناول نے کہاں کہاں تازیانے نہیں مارے … ان خوابون کو زندہ کیا کہ عورت اتنی خودمختار اور مضبوط کیوں ہو نہیں سکتی ہے …؟ اس ناول کو کہاں کہاں کن کن زاویوں سے دیکھوں …

میں نے کوشش کی ہے کہ اک بہت بڑے ناول پر بڑے سوال اٹھاؤں تاکہ اس کی تحقیق کا صحیح رخ متعین ہو سکے …میں نے یہ سوال اس لیے اٹھانا ضروری سمجھا کہ اس ناول کی روح کسی ایک مرد میں جاگی تو کیسے جاگی—؟ کسی نے ایسا سوچا تو کیسے سوچا…؟ ایک پل میں لگا کہ میں کسی ایسی چوٹی پہ کھڑی ہوں جس نے اس ناول کی روح کو جانا ہے … اور میرا دل چاہا کہ اس روح کوہر مرد اور عورت کے اندر رکھ دوں …

میری دلی خواہش ہے کہ اس مکالمہ پر باتیں ہوں … ان سوالوں کو سوچا جائے … کیونکہ لفظ کی قوت سے میں آگاہ ہوں …اسی بات سے اک اور سوال میرے ذہن میں تھا۔ ذوقی صاحب نے بدلتے حالات اور زمانے کے ارتقا سے بلی کی علامت میں جس طاقت ور عورت کو دیکھا ہے، وہیں الفاظ کے ارتقا کا نظریہ بھی پیش کیا ہے ؟ کیا یہ درست ہے ؟ لفظ قتل بھی کرتے ہیں اور لفظ زندہ بھی کرتے ہیں — ادا کس نے کیا بس یہ اہم ہے … کن بھی تو اک لفظ ہی ہے …میں اکثر سوچتی ہوں کہ کیا ہمیں اس مالک نے شودروں کی طرح پیروں سے پیدا کیا تھا—؟ کوئی جواب نہیں ملتا— پھر کہتی ہوں اچھا میرے رب میں نے تسلیم کیا جو تو نے مجھ سے میری نظر اور عقل سے پوشیدہ رکھا…

کچھ منتشر خیالات تھے جو نالۂ شب گیر کامطالعہ کرتے وقت میرے ذہن میں پیدا ہوئے۔ اب اس مکالمے میں، میں آپ کو شامل کر رہی ہوں۔

سیمیں کرن: آپ کے خیال میں مصنف کو بے شرم ہونا پڑتا ہے۔ وہ کسی جوکر کی طرح ہے کیا یہ انفرادی نظریہ ہے یا پھر اب اسے اجتماعی نظر میں دیکھتے ہیں ؟

مشرف عالم ذوقی: مصنف پر بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ بیک وقت وہ کئی کردار نبھا تا ہے۔ وہ محبوب بھی ہوتا ہے اور ظالم بھی۔ وہ منصف بھی ہوتا ہے اور قاتل بھی۔ کئی بار کہانی اور واقعات کے تعلق سے اسے جلاد کا کردار بھی ادا کرنا ہوتا ہے۔ تم نے پوچھا ہے یہ انفرادی نظریہ ہے یا اجتماعی نظریہ—؟ میرے خیال سے یہ نظریہ تمام لکھنے والوں پر صادق آتا ہے۔ کیونکہ محض شرافت کردار اور واقعات کے تعلق سے ایک دنیا کا تعاقب کرنے میں ناکام رہے گی۔ منٹو بیحد شریف تھا لیکن اس کی کہانیوں میں ہر طرح کے واقعات اور ہر طرح کے کردار تھے۔ طوائف بھی۔ دلّے بھی۔ سماج کے ٹھیکیدار بھی۔ ایک مکمل عریاں معاشرہ منٹو کے سامنے تھا— اور اسی لیے ناول کی شروعات میں ہی مجھے کہنا پڑا کہ میں ایک جو کر ہوں۔ یہ جوکر دوستو فکسی کی کہانی کا ریڈیو کلیس مین بھی ہے اور ایڈیٹ بھی۔ یہ جوکر مذاق مذاق میں زندگی کے فلسفوں کے قریب پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ جوکر کو دوسروں سے کہیں زیادہ یہ پتہ ہوتا ہے کہ زندگی کیا ہے۔ دوستو فکسی کے مشہور زمانہ ناول ایڈیٹ میں جب شہزادی ایڈیٹ کو لے کر اپنے دوستوں سے ملانے آتی ہے تو اس نئے ماحول میں ایڈیٹ کے جسم میں لرزہ پیدا ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ سے شیشے کا گلاس چھوٹ جاتا ہے۔ جب شہزادی کے دوست اس مسخرے پر ہنسنے کی کوشش کرتے ہیں تو شہزادی کہتی ہے، اس بھیڑ میں یہ شخص خالص سوناجیسا ہے۔ جہاں کوئی نمائش نہیں۔ یہی جوکر کا کمال ہے۔ وہ اپنے مذاق، اپنی طبیعت سے ایک مکمل معاشرے اور دنیا کو آپ کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ آپ اس پر ہنس سکتے ہیں۔ لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ انتہائی کمال و ہشیاری سے اس نے آپ کو بے نقاب اور عریاں کر دیا ہے۔

سیمیں کرن۔ آپ نے اپنے ناول میں ایک عظیم طاقتور عورت کی تخلیق کی ہے۔ جبکہ معاشرتی رویوں کے برعکس ہے یعنی کیا یہ محض تخیل ہے۔ ؟

مشرف عالم ذوقی: تم نے پوچھا کہ میں نے ناول میں ایک عظیم طاقتور عورت کی تخلیق کی ہے۔ جبکہ یہ معاشرتی رویوں کے برعکس ہے۔ تمہیں یقین نہیں آئے گا سیمیں کرن، تمہارے اس سوال پر حیران ہوں۔ تم خود ایک عورت ہو۔ اور یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ مرد اساس معاشرے کا جبر ہے کہ تم نے خود کو کبھی عظیم یا طاقتور نہیں سمجھا۔ کمزور ہی سمجھا۔ میں عورتوں کو قصوروار نہیں ٹھہراتا کہ ایسا کیوں ہے۔ کیونکہ اس کے پیچھے صدیوں کی تاریخ ہے۔ ظالم مرد نے کبھی عورت کو بلند یا طاقتور ہونے دیا ہی نہیں۔ تم نے مجھے موقع دیا ہے کہ میں نالۂ شب گیر کے حوالہ سے مرد، عورت اور آزادی کے تعلق سے دوباتیں کر سکوں۔ آزادی… ذرا تصور کرو، اس لفظ میں کتنی زندگی اورسرشاری ہے۔ مگر افسوس، صدیوں سے آج تک مرد نے اس آزادی کو اپنے پاس محفوظ رکھا اور عورت کے لیے اس لفظ کو ممنوعہ قرار دیا۔ حضرت نوحؑ سے آخری نبی حضرت محمدؐتک عورت وہی کچکڑے کی گڑیا رہی، جس کا استعمال ہوتا رہا۔ قرآن میں کہا گیا— ’عورت تمہارے لئے کھیتیاں ہیں ‘— لیکن ان ’کھیتیوں ‘ نے صدیوں سے مردوں کی طاقت اور کمزوریوں کو سمجھ لیا تھا۔ عرب میں حضرت محمدؐ کے آنے تک عورت بازاروں میں بکنے والی چیز تھی۔ جس کے ہاتھ لگ جاتی، اُسی کی ملکیت ہو جاتی— صدیوں میں سانس لیتی عورت نے جب اپنی آزادی کے آسمان کی تمنا کی، تو سب سے پہلی جنگ اُسے مذہب سے ہی لڑنی پڑی— خود اسلام میں عورت کے نام پر اتنی ساری پابندیاں اُس کی تقدیر میں لکھ دی گئی تھیں، جنہیں آج کے مہذب ترین دور میں بھی عورت نبھائے جانے کے لئے مجبور ہے۔ مذہب کی حیثیت کیسی تلوار جیسی ہے، جو عورت کے سر پر صدیوں سے لٹک رہی ہے۔ عورت اس تلوار کے خلاف جاتی ہے، تو وہ سرکش، باغی تو کبھی بے حیا اور طوائف بھی ٹھہرا دی جاتی ہے۔

اسلام میں عورت کو جو بھی مقام عطا گیا ہے، شریعت کا فرمان جاری کرنے والے اور اُس پر عمل کرنے والے مولویوں نے ہر بار مذہب کی حفاظت کی آڑ لے کر عورت کو اپنے پاؤں کی جوتی بنانے کی کوشش کی ہے۔ مسلسل ظلم، کئی کئی بیویوں کا رواج، آزادی سے کچھ قبل تک بیوی کی موجودگی میں ’داشتہ‘ رکھنے اور کوٹھوں پر جانے کا رواج، اس بارے میں اپنی مردانگی کی جھوٹی دلیلیں، شہزادوں، نوابوں اور مہاراجاؤں کے ہزاروں لاکھوں قصوں میں عورت نام کی چڑیا سچ مچ کھیتی، بن گئی تھی___ مرد عورت کی ’زمین‘ پر ہل چلاسکتا تھا، رولر چلا سکتا تھا۔ زمین کو چاہے تو ذرخیز اور چاہے تو بنجر بناسکتا تھا___ وہ مرد کی ’کھیتی‘ تھی اس لئے اُسے بولنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ مرد اُس کا کوئی بھی استعمال کر سکتا تھا۔

مسلم معاشرے نے عورت کو وہیں اپنایا، جہاں وہ مجبور تھی، جہاں اُسے مارا پیٹا یا سزا دی جا سکتی تھی۔ جہاں مرد دو دو، تین تین، بلکہ چار چار عورتوں سے شادی کر سکتے تھے۔ جہاں مرد عورتوں کو ’حلال‘ کر کے جبراً ان کے مالک بن سکتے تھے — جہاں زنا یا عصمت دری میں ذہنی چوٹ سہنے کے باوجود سزا صرف اُن کے لئے ہی لکھی گئی تھی— جہاں ان کے سجنے سنورنے اور ان کے سنگار پر پابندی تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ دوسرے مذاہب میں یہ عورت راحت وآرام کی سانس لے رہی تھی— یہ عورت ہر جگہ بندشوں میں گھری ہوئی تھی— عورت ہر جگہ قید میں تھی۔ تبھی تو سمون دبوار کو کہنا پڑا— ’عورت پیدا نہیں ہوتی، بنائی جاتی ہے۔ ‘

سمون دبوار کی آپ بیتی کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ قاہرہ کے ایک سیمینار میں بولتے ہوئے سمون نے مردوں پر عورتوں کے لئے حاکمانہ، زمیندارانہ اور ظالمانہ رویہّ اختیار کرنے کا الزام لگایا۔ وہاں تقریب میں شامل مردوں نے سمون کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ عورتوں کی نابرابری اُن کے مذہب کا حصہ ہے اور قرآن میں اس کا ذکر ہے اور مذہب کا قانون دنیا کے ہر قانون سے اوپر ہے۔

سمون نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کر لی—کیونکہ برابری اور نابرابری جیسے معاملوں کے درمیان بار بار مذہب کو فوقیت دی جاتی رہی ہے۔ ایم جی لیوس کا مشہور ناول ’دی میک…‘جب1796 میں شائع ہوا، تو ادبی دنیا میں ہلچل مچ گئی۔ دنیا بھر کے عیسائی طبقے میں اس ناول کو لے کرنا اتفاقی کی فضا پیدا ہو گئی۔ پادریوں نے خاص اعلان کیا کہ یہ ناول نہ خریدا جائے، نہ پڑھا جائے اور نہ گھر میں رکھا جائے۔ ’دی میک‘ میں عورتوں کو ’نن‘ بنانے والی رسم کے خلاف جہاد چھیڑا گیا تھا___ مذہبی پادریوں کے، عورتوں کے جسمانی استحصال کے ایسے ایسے قصّے اس کتاب میں درج تھے کہ دنیا بھر میں اس کتاب کی ہولی جلائی گئی___ سچ تو یہی ہے، جیسا کہ سیمون دبوار نے کہا تھا___ ’’عورتیں پیدا نہیں ہوتیں بنائی جاتی ہیں۔ وہ ہر بار نئے مردانہ سماج میں نئے نئے طریقے سے ’ایجاد‘ کی جاتی رہی ہے۔ ‘‘

اب حجاب امتیاز علی کی ایک کہانی کی مثال لو 1936میں تحریر کی گئی۔ کیا عورت قوم سے خارج ہے ؟ کیا قوم صرف مردوں کی جماعت کا نام ہے ؟

’’اللہ، کیا مشرق میں لڑکی صرف اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کی خوشیوں پر قربان کر دی جائے ؟ کیا اُسے خود اپنی زندگی کے معاملے میں دخل دینے کا اختیار نہیں ؟ کدھر ہے وہ ریفارمر، جو قوم کے آگے لمبی لمبی تقریریں کرتے اور بہبودیِ قوم کا ترانہ بڑے زور شور سے گاتے ہیں ؟ اسٹیجوں پر کھڑے ہو کر اپنے سینے پر ہاتھ رکھ رکھ کر قومی درد جتانے والے ریفارمر کدھر ہیں ؟ وہ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں، انہوں نے اپنی ماؤں کے لئے کیا کیا؟ لڑکیوں کے لئے کیا کیا؟ اگر اُن کے احساس صرف مردوں کے دکھ درد تک ہی محدود ہیں، تو پھر یہ بزرگ کس منہ سے قوم کے امام بنے پھرتے ہیں ؟ پھر وہ کیوں اس نام سے جوڑے جاتے ہیں ؟ کیا وہ عورت کو قوم سے ’خارج‘ سمجھتے ہیں ؟ کیا قوم صرف مردوں کی جماعتوں کا نام ہے۔ ‘‘ ___بیمارغم

ایک مثال کیشور ناہید کی بھی ہے، جسے کہنا پڑا۔ ’پاکستان نے اپنے وجود کو عورت کے وجود کی طرح تقسیم ہوتے دیکھا۔ شکار ہمیشہ عورتیں رہیں۔ ‘

سیمیں کرن۔ تہمینہ درانی نے بھی اپنے ناول میں اسی آزادی کی بات کی تھی۔ میں نے اسی لیے آپ سے پوچھا کہ جو ناول آپ نے تخلیق کیا ہے، وہ معاشرتی رویوں کے برعکس ہے۔

مشرف عالم ذوقی:۔ تم نے صحیح کہا۔ در اصل نئے اسلامی معاشرے میں نوکرشاہی اور سیاست کا جو گھنونا کھیل شروع ہوا تھا، وہاں ’حاکم‘ صرف اور صرف مرد تھا۔ عورت نئی اسلامی جمہوریت میں، مذہب کا سہارا لے کر پاؤں کی جوتی بنا دی گئی تھی، درد بھرے انجام کو پہنچی عورتوں کی اسی کہانی کو لے کر تہمینہ درّانی نے اپنی آپ بیتی لکھنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستانی سیاست کے اہم ستون مصطفیٰ کھر نے سیاست اور مذہب کے درمیان ہم آہنگی قائم کرتے ہوئے اپنی بیویوں کے ساتھ ایسے ظلم کئے کہ آج کے مہذب سماج کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تہمینہ کی آپ بیتی ’میرے آقا‘ نے پاکستان کے سیاسی ادبی حلقے میں ہنگامہ کھرا کر دیا۔ یہ عورت کے ظلم و ستم کی داستاں تو تھی ہی۔ لیکن عورت اب بھی اپنے وجود کے لئے مرد کو نیچا دکھانے پر اتر آئی تھی۔ اب تہمینہ کے ناول مائی لارڈ سے ایک مثال دیکھو۔

’’میرے ابا جان، بھائی اور کچھ نزدیکی رشتہ داروں کے سوا مرد لوگ میرے لئے پرائے تھے اور شروعاتی لمحوں سے ہی مجھے مردوں سے دور رہنا سکھایا گیا تھا۔ میرے بچپن میں ایسی ہدایتوں کی فہرست بہت لمبی تھی کہ مجھے کیا کیا نہیں کرنا ہے اور اِن سب کا ہی مقصد میرے اور مردوں کی دنیا کے درمیان ایک غیر تجاوز دوری بنائے رکھنا تھا۔ جیسے کریم پاؤڈر یا نیل پالش کا استعمال مت کرو۔ لڑکوں کی طرف مت دیکھو، نئے زمانے کی سہیلیاں مت بناؤ اور ایسی کسی بھی لڑکی سے دوستی مت کرو، جس کا کوئی بڑا بھائی ہے۔ بغیر اجازت کسی دوست کے گھر مت جاؤ۔ کبھی فون مت اُٹھاؤ۔ ڈرائیور کے ساتھ کبھی اکیلی باہر مت جاؤ۔ نوکروں کے ساتھ کبھی باورچی خانہ میں کھڑی مت رہو۔ ‘‘

یہ کہانی کا ایک رُخ ہے، دوسرا رُخ کشور ناہید کی کتاب ’بُری عورت کی کتھا‘ میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ آخر وہ کیسا نظام ہے، جہاں پیدائش کے بعد سے ہی ظلم وجبر سہتی ایک مسلمان عورت کبھی اپنی آزادی اور کبھی مذہب کے خوف سے گھبرا کرباغی بن جاتی ہے —

’جب ماں نے مصالحہ پیسنے کو کہا، تو میں نے گلی میں نکل کر اپنے ہم عمروں سے پوچھا—کیا یہ میری سگی ماں ہے ؟ مجھے مرچیں پیسنے کو دیتی ہیں اور میری انگلیوں میں مرچ لگ جاتی ہے۔ آگے بڑھوں تو سات سال کی عمر… اب مجھے برقعہ پہنادیا گیا۔ میں گرگر پڑتی تھی، مگر مسلمان گھرانوں کا رواج تھا— 13سال کی عمر کی ہوئی تب سارے رشتے کے بھائیوں سے ملنا بند۔ 15سال کی عمر کالج میں داخلے کے لئے بھوک ہڑتال۔ 19سال کی عمر یونیورسٹی میں داخلے کے لئے باویلا۔ 20سال کی عمر، شادی خود کرنے پر اصرار— 20سال کی عمر کیا آئی، شادی کیا ہوئی، سوچ میرا پہریدار ہو گیا۔ ‘

مجھے معاف کرنا سیمیں، یہی وہ عوامل تھے، جس نے مجھے نالۂ شب گیر لکھنے پر مجبور کیا۔ کشور ناہید سے تہمینہ درانی تک، غور کرو تو ایک سہمی ہوئی عورت ہے اور جابر مرد ہاتھوں میں ہنٹر لیے کھڑا ہے۔ آخر ایسا کب تک ہو گا؟ صدیوں سے آج تک اس مہذب سماج میں یہی کہانی دہرائی جاتی رہی ہے۔ ممکن ہے یہ معاشرتی رویوں کے برعکس ہو، ممکن ہے یہ تخیل ہو، مگر اب بہت ہو چکا۔ وہ عظیم عورت پیدا ہو چکی ہے۔ یا پیدا ہو رہی ہے۔ یا اسے پیدا ہونا ہی پڑے گا۔ مردوں کے لیے یہ خوفزدہ کرنے والی خبر ہے کہ صدیوں کے ظلم کے بعد اب ناہیدوں، نے جنم لینا شروع کر دیا ہے۔

سیمیں کرن: مردانہ طاقت جس کے ساتھ ایک دنیا، ایک معاشرہ، فطرت، مذہب سب کچھ شامل ہے، آخر کون سا ایسا محرک ہے کہ مردانہ انا پر پاؤں رکھ کر آپ نے عورت کو اتنا طاقتور بنا دیا۔ ؟

مشرف عالم ذوقی: مردانہ انا پہ پاؤں نے تمہارے اس سوال کو پہلے سوال سے الگ کر دیا ہے۔ میں مصنف بعد میں ہوں۔ پہلے ایک مرد ہوں۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ اکیلا مرد سماج اور معاشرے کے لیے بیکار ہے۔ اسے جنم دینے والی بھی ایک عورت ہے۔ جو ماں کہلاتی ہے۔ اور یہ عظیم درجہ ہے، جو ماں کو دیا گیا۔ ایک وہ بھی عورت ہے، جو اس کی زندگی میں نصف بہتر کی حیثیت سے شریک ہوتی ہے۔ اور زندگی کے سفر میں اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کی نسل کو آگے بڑھاتی ہے۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ صدیوں کے سفر میں مرد نے عورت سے وابستہ رشتوں کی عظمت سے بھی انکار کیا اور ایک ایسی انا پر اپنی سفاک سلطنت کی بنیاد ڈالی جہاں عورت، ماں، بہن بیٹی ہوتے ہوئے بھی محکوم تھی— کیا مرد خوفزدہ تھا؟ مرد زندگی کے کچھ ہی مقام پر بڑا یا مضبوط تھا، فطرت نے عورت کو زیادہ ذمہ داریاں تھیں۔ وہ مرد کی دیکھ بھال، ایک گھر کی نگرانی کے ساتھ ساتھ بچوں کی پرورش میں بھی وقت دیتی تھی۔ در اصل اس نظام میں مرد نے ازل سے ہی عورت کی عظمت اور طاقت کو محسوس کر لیا تھا۔ اور اسی لیے فطرتاً معصوم، بے زبان اور جسم سے کمزور عورت پر اپنی مردانہ انا کا پاؤں رکھ کر اس نے یہ انداز اختیار کیا کہ عورت کبھی اٹھنے یا بلند ہونے کا تصور ہی نہ کرے۔ اور دیکھا جائے تو صدیوں میں یہی ہوتا رہا۔

ورجینا وُلف کی ایک کتاب تھی___ ’اے روم آف ونس آن‘۔ اُن سے جب عورت اور اصناف ادب پر بولنے کے لئے کہا گیا تو وہ ایسی کھری سچائیوں تک پہنچی، جہاں پہنچنا آسان نہیں تھا۔ ورجینیا نے صاف لفظوں میں کہا کہ ’’میں عورتوں کی پوری اور مکمل آزادی کو پسند کرتی ہوں۔ ‘‘ لیکن ورجینیا کو بھی پتہ تھا کہ اس، مردوں کے سماج میں عورتوں کی کیا جگہ ہے ؟ شاید اسی لئے اس نے سخت الفاظ میں اپنے وقت کے سماج کو دھیان میں رکھتے ہوئے کہا— ’’اب مجھے تھوڑا سخت لہجہ اپنانے دیجئے۔ کیا میں نے پیچھے لکھے الفاظ میں مردوں کے چیلنج کو آپ تک پہنچایا نہیں ؟ میں نے آپ کو بتایا کہ ’مسٹر آ سکربراؤننگ‘ آپ کے بارے میں بہت ہلکی رائے رکھتے ہیں۔ میں نے اشارہ کیا تھا کہ کبھی نیپولین نے آپ کے بارے میں کیا سوچا تھا اور ابھی موسولنی کیا سوچتا ہے ؟ اگر آپ میں سے کوئی افسانہ یا ادب لکھنا چاہے تو آپ کے فائدے کے لئے میں ایک ناقد کی صلاح اُتارلائی ہوں جو عورتوں کی تنقید حوصلہ منظور کرتے ہیں۔ میں نے پروفیسر ایمنس کا نام لیا ہے اور اُن کے اِس بیان کو اولیت دی ہے کہ عورتیں شعوری، اخلاقی اور جسمانی طور پر مردوں سے کمزور ہیں اور اب یہ آخری چیلنج کے ساتھ ہے۔ مسٹر جان لیگڈن ڈیوس کی طرف سے۔ مسٹر جان لیگڈن ڈیوس عورتوں کو چیلنج دیتے ہیں کہ ’جب بچوں کا ’چاہنا‘ پوری طرح ختم ہو جائے گا تو عورتوں کی ضرورت بھی پوری طرح ختم ہو جائے گی۔

سمون دَبوبوآر نے ’دی سکنڈ سیکس‘ میں لکھا تھا—ایمانداری وہ نہیں ہے، جو عام طور پر سمجھی جاتی ہے۔ ’المیہ یہی ہے۔ اگر آپ حقیقت میں ایمانداری کا بیان کرنا چاہتے ہیں تو آپ پر تہمت اور لگام لگانے والوں کی کمی نہیں ہے۔ شاید اِسی لئے ’بوبوآر‘ اس سچ کو اور بھی خطرناک طریقے سے کہنے کی کوشش کرتی ہیں … ’ایک مرد کی زبان سے نکلا ہوا لفظ ’عورت‘ ایک طرح کی ذلت کی علامت ہے۔ دوسری طرف اپنے بارے میں یہ سن کر فخر محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ تو مرد ہے … علم حیات کی سطح پر اس بات کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔ سوال یہ جاننے کا ہے کہ انسانی تہذیب نے ’انسان مادہ‘ کا کیا حال کر دیا ہے۔ ‘‘

سیمیں، مجھے اسی انسان ہونے سے شکایت تھی کہ اس نے انسان (مادہ) کا کیا حشر کر دیا ہے۔ اور اس کے لیے اس مردانہ انا کو کچلنا ضروری تھا، جس نے صدہا ہزار برسوں میں عورت کو غلام بنا رکھا تھا۔ ایک مہذب دنیا میں، چاند سے مریخ تک کا سفر طئے کرتے ہوئے، نئی نئی دنیاؤں پر کمند ڈالتے ہوئے میں عورت کو، مرد کے کھلونے کے طور پر برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے مجھے ایک ایسے موضوع کی ضرورت تھی جہاں میں اس مرد کی تمام کمزوریوں کو بے نقاب کر سکوں، جس کے دم پر اس نے اپنی سلطنت قائم کر رکھی ہے۔ ناہید نے قریب سے اس مرد کو دیکھا تو وہ ایک چوہا نظر آیا۔ معمولی گوشت کی جھلی، جس کے سہارے مرد اپنے وجود کی عمارت کو مضبوط اور پختہ تصور کرتا ہے۔ مگر ناہید کے لیے عورت ایک ایسی بلی کی علامت ہے، جو ارادہ کرے تو اس چوہے کا کام تمام کر سکتی ہے۔ مگر نہیں۔ وہ اس چوہے کا راز جان کر اس کو آزاد کرتی ہے۔ اور اپنے لیے بھی آزادی کی روش اختیار کرتی ہے۔

سیمیں کرن۔ عظیم انسان کو ایک عظیم عورت کے روپ میں دکھانا میرے محدود علم کے مطابق تو اک انوکھا تجربہ تھا۔ مگر کیا یہ عورت تخلیق کرتے کرتے کیا آپ کو یہ محسوس نہیں ہوا کہ بہت جگہ آپ کی لڑائی فطرت سے ہے ؟ یعنی کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ نظریہ قابل عمل ہے ؟

مشرف عالم ذوقی: میں فطرت کے خلاف گیا ہی نہیں۔ میری جنگ فطرت سے ہے نہیں۔ مرد عورت دونوں اسی دنیا میں رہتے ہیں۔ آدم کو بھیجا گیا تو پسلی سے حوا بھی پیدا کی گئی۔ اور سیمیں، حقیقت یہ ہے کہ میں نے کسی عظیم عورت کی تخلیق نہیں کی۔ یہ وہی عام عورت ہے، جیسا کہ عام مرد۔ یہ عورت میری بیوی بھی ہو سکتی ہے۔ اور تم بھی۔ یہ مرد تھا جس نے اپنی سفاک آزادی میں اعلان کیا کہ خدا نے فطرتاً عورت کو کمزور پیدا کیا ہے۔ پھر مرد نے مذہب کا سہارا لیا۔ مذہب سے دلیلیں پیدا کیں کہ عورت کمتر ہے۔ عورت کے لیے گھٹن بھرے سامان پیدا کیے گئے۔ اسے داسی بنایا گیا۔ اس نے آزادی کی خواہش کی تو اسی مردانہ سماج اور معاشرے نے اسے برے ناموں سے یاد کیا۔

در اصل یہ بھی مرد کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا کہ عورت کو معاشرہ اورمذہب کا ایسا خوف دکھاؤ کہ وہ اپنی زندگی میں کبھی بھی آزادی کا کوئی تصور بھی نہ کر سکے۔ میری جنگ فطرت سے نہیں، مردانہ فطرت سے ضرور ہے۔ غور کریں تو آج عورت اپنی شناخت کی جنگ لڑتی ہوئی نظر آئے گی۔

سیمیں کرن:اور اگر عورتیں اس نہج پر تیار ہونا شروع ہو جائیں تو کیا معاشرتی اور عائلی زندگی منہدم نہیں ہو جائے گی۔

مشرف عالم ذوقی:کیا معاشرتی زندگی میں توازن ہے ؟ کیا مردوں نے اس زندگی کو منہدم نہیں کیا؟ تاریخ کے صفحات آتشیں پر نظر دوڑاؤ تو عورت کس کس عذاب سے دوچار نہیں ہوئی۔ وہ فروخت کی جاتی تھی۔ وہ داسی تھی۔ اس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اس کا جسم بھی اس کا جسم نہیں تھا۔ اس کا گھر بھی اس کے لیے محفوظ قیام گاہ نہیں تھا۔ اس کی بولی لگتی تھی۔ وہ سرعام نیلام ہوتی تھی۔ اور آج بھی ایک مہذب دنیا میں وہ نیلام ہی تو ہو رہی ہے۔ پاکستان میں بھی وہ بندش کاشکار ہے۔ گھر کی چہاردیواری میں قید۔ ہندوستان میں اس کی آزادی کا یہ عالم ہے کہ سرعام سڑکوں پر خونی منقار والے گدھ اس کی تلاش میں گھومتے رہتے ہیں۔ اور آئے دن وہ زنا بالجبر کی شکار ہوتی رہتی ہے۔ مہذب دنیا کی کتاب میں شرمندہ کرنے والے یہ صفحے بھی موجود ہیں کہ ایک لڑکی اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں۔ وہ دفتر میں محفوظ نہیں۔ سڑکوں پر محفوظ نہیں۔ کیا تم اسی کو زندہ معاشرے کا نام دیتی ہو؟ ہاں یہ صحیح ہے کہ صدیوں کے جبر وظلم کے بعد، تعلیم یافتہ ہونے کے بعد عورت اپنے لیے بھی ترقی کے نئے نئے راستوں پر نظر دوڑا رہی ہے۔ آج وہ حکومت چلا سکتی ہے۔ عورت بہترین پائلٹ ہے۔ وہ ہوائی جہاز اڑا سکتی ہے۔ وہ کشتی لڑ سکتی ہے۔ وہ سرکاری محکموں میں بڑے بڑے عہدوں پر ہے۔ صدیوں پہلے مرد نے اس کی آواز چھین لی تھی۔ آج کی نئی تہذیب میں اس نے بولنا سیکھ لیا ہے۔ بہت کچھ تبدیل ہوا ہے۔ عورت آج برانڈ بن چکی ہے۔ ایک ایسا برانڈ، جس کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے اپنے پروڈکٹ کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لئے عورتوں کی مدد لیتی ہیں۔ چاہے وہ جنیفیر لوپیز ہوں، ایشوریہ رائے یا سشمتا سین۔ سوئی سے صابن اور ہوائی جہاز تک، بازار میں عورت کی مارکیٹ ویلیو، مردوں سے زیادہ ہے۔ تیزی سے پھیلتی اس مہذب دنیا، گلوبل گاؤں یا اس بڑے بازار میں آج عورتوں نے ہر سطح پر مردوں کو کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے — یہاں تک کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف میں بھی عورتوں کے حسن اور جسمانی مضبوطی نے صنف نازک کے الزام کو بہت حد تک ردّ کر دیا ہے۔ یعنی وہ صنف نازک تو ہیں لیکن مردوں سے کسی بھی معنی میں کم یا پیچھے نہیں۔ صدہا برسوں کے مسلسل جبروظلم کے بعد آج/ اگر عورت کا نیا چہرہ سامنے آیا ہے تو کسی غلط فہمی میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عورت اب مرد اورمرد کی حکومت کی بیڑیاں توڑ کر آزاد ہونا چاہتی ہے —اور اب آپ اُسے روک نہیں سکتے۔

سینکڑوں، ہزاروں برسوں کی تاریخ کا مطالعہ کیجئے تو عورت کا بس ایک ہی چہرہ بار بار سامنے آتا ہے۔ حقارت، نفرت اور جسمانی استحصال کے ساتھ مردکبھی بھی اُسے برابری کا درجہ نہیں دے پایا— عورت ایک ایسا ’جانور‘ تھی جس کا کام مرد کی جسمانی بھوک کو شانت کرنا تھا اور ہزاروں برسوں کی تاریخ میں یہ ’دیوداسیاں ‘ سہمی ہوئی، اپنا استحصال دیکھتے ہوئے خاموش تھیں — کبھی نہ کبھی اس بغاوت کی چنگاری کو تو پیدا ہونا ہی تھا۔ برسوں پہلے جب رقیہ سخاوت حسین نے ایک ایسی ہی کہانی ’مرد‘ کو لے کر لکھی تو مجھے بڑا مزہ آیا۔ رقیہ نے عورت پر صدیوں سے ہوتے آئے ظلم کا بدلا یوں لیا کہ مرد کو، عورتوں کی طرح ’کوٹھری‘ میں بند کر دیا اور عورت کو کام کرنے دفتر بھیج دیا۔ عورت حاکم تھی اور مرد آدرش کا نمونہ— ایک ایسا ’دو پایا مرد‘، جسے عورتیں، اپنے اشاروں پر صرف جسمانی آسودگی کے لئے استعمال میں لاتی تھیں۔ میں رقیہ سخاوت حسین کی اس کہانی کا دلدادہ تھا اور بچپن سے کسی بھی روتی گاتی مجبور وبے بس عورت کو دیکھ پانا میرے لئے بے حد مشکل کام تھا—میں عورت کو کبھی بھی دیوداسی، بڑنی، سیکس ورکر، نگر بدھو، گنیکا، کال گرل یا بارڈانسر کے طور پر دیکھنے کا حوصلہ پیدا ہی نہ کر سکا۔ بادشاہوں یا راجے مہاراجاؤں کی کہانیوں میں بھی ملکہ یا مہارانی کے ’رول ماڈل‘ کا میں سخت مخالف رہا۔ میں نہ اُسے شہزادی کے طور پر دیکھ سکا، نہ ملکہ عالم یا مہارانی کے طور پر وہ مجھے مطمئن کر سکیں —کیونکہ ہر جگہ وہ مردانہ سامراج کے پنجوں میں پھنسی کمزور اور ابلا نظر آئیں۔ خواہ انہوں نے اپنے سر پر ملکہ کا تاج یا شہزادیوں سے کپڑے پہن رکھے ہوں۔ تاریخ اور مذہب کی ہزاروں برسوں کی تاریخ میں، خدا کی اِس سب سے خوبصورت تخلیق کو میں لاچار، بدحال اور مجبوری کے ’فریم‘ میں قبول نہیں کر سکتا تھا— ایسا نہیں ہے کہ نالۂ شب گیر لکھ کر میں ان لوگوں کی مخالفت کر رہا ہوں جو عورت کی حمایت میں صفحے در صفحے سیاہ کرتے رہے ہوں۔

اس مہذب دنیا میں جب مرد، عورت کہتا ہے تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے وہ فطرت کے قانون کو توڑ کر عورت دھجیاں بکھیر رہا ہو۔ اسے کمتر گردان رہا ہے۔ معاشرے میں توازن کے لیے ضروری ہے کہ ترازو کے دونوں پلڑے برابر ہوں۔ اور میں نے اس ناول میں یہی کیا ہے۔ یہ ایک قرض تھا مجھ پر اور میں نے اس قرض کی ادائیگی کی کوشش کی ہے۔ میری ماں بھی ایک عورت تھی۔ میری بیوی بھی ایک عورت ہے۔ میں نے ان دونوں کو مضبوط دیکھا ہے۔ عورت کی مضبوطی اورآزادی سے ہی ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد پڑے گی۔

سیمیں کرن:آپ مرض کو پکڑتے پکڑتے اس کی جڑ تک چلے گئے … یہ بات مکمل تو تھی مگرآدھی درست ضرور ہے کہ مرد کو آدھی قوت ان الفاظ نے دے رکھی ہے … مگر کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ رویے بھلے موجود تھے اور لفظ تو صرف ان کا اظہار بن کر آئے۔ ؟ اس ناول میں بیک وقت آپ الفاظ کی طاقت کا ادراک بھی کر رہے ہیں۔ لفظ جو اپنے وجود میں حیرت انگیز قوت رکھتے ہیں … صوفی ان الفاظ کی قوت سے آگاہ ہوتا ہے۔ الفاظ کی قوت الکیمسٹ میں ہمیں مظاہر فطرت تک کو تابع کرنا سکھاتی ہیں۔ اور دوسری طرف اب لاشعوری سطح پر یہ انہیں بے جان سمجھتے ہیں کہ محض ان کو بدل دینے سے رویے بدلاؤ میں آئیں گے ؟ آپ اس امر کی وضاحت کیجئے ؟

مشرف عالم ذوقی: ہاں یہ سچ ہے کہ میں نے صرف مرض کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس کی جڑ تک جانا ضروری سمجھا۔ اور اس لیے مرد کا نفسیاتی تجزیہ ضرور تھا۔ وہ کہاں مضبوط ہے اور کہاں کمزور۔ الفاظ میں طاقت ہے۔ بائبل میں کہا گیا، جب کچھ نہیں تھا، تب بھی لفظ تھے — لفظوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اور اسی لیے ناول میں ایک مقام وہ بھی آتا ہے جب ناہید لغات کے الفاظ کو تبدیل کرنے کا بیڑا اٹھاتی ہے۔ وہ دیکھتی ہے کہ تمام کمزور الفاظ عورتوں سے منسوب ہیں۔ فاحشہ، رنڈی، کلنکی، بے غیرت… وہ ان خوفناک لفظوں میں اپنا ماضی دیکھتی ہے۔ اپنی ماں کو یاد کرتی ہے۔ ایک اجڑی اجڑی حویلی یاد آتی ہے جہاں عورتوں کے منہ میں زبان ہی نہیں تھی۔ وہ اس حویلی کو چھوڑ آئی تھی۔ اس حویلی میں، اس نے مردوں کے ایسے ایسے روپ دیکھے تھے کہ اسے مردوں سے نفرت ہو گئی تھی۔ لیکن ناہید نے یہ بھی دیکھا کہ آخری عمر میں ماں کی ایک چیخ پر اس کا ظالم باپ ایک کمزور مرد میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ پہلی بار ناہید کی ماں بھی محسوس کرتی ہے کہ اگر شروع میں ہی یہ چیخ اس کا ساتھ دیدیتی تو آج یہ دور نہیں آتا— تم نے صحیح کہا کہ مرد کو آدھی قوت الفاظ نے دے رکھی ہے۔ الفاظ کی اہمیت کو جاننا ہو تو جارج آرویل کا ناول 1948 پڑھ لو۔ میں نے کچھ عرصہ پہلے ہندی میں ترجمہ کیا ہوا۔ ایک خوفناک ناول پڑھا تھا۔ لیسبن کی گھیرا بندی۔ وہاں لفظ ایک ذرا سی پروف کی غلطی کے ساتھ اس قدر خطرناک اور بھیانک ہو جاتا ہے کہ پوری انسانیت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ناول نگار انسانی عمارت سے لفظ کی ایک چھوٹی سی اینٹ کھسکا دیتا ہے اور ایک ایسا نفسیاتی نکتہ سامنے آتا ہے جو مذہب کے عام اصولوں سے انکار کا حوصلہ رکھتا ہے۔

اسی لیے سیمیں، میں نے لفظوں کی اہمیت کو سامنے رکھا۔ ناہید لفظوں سے جنگ کرتی ہے۔ اور تم نے صحیح کہا کہ یہ رویے پہلے سے ہمارے سماج میں موجود تھے۔ مگر عورت سے اس کی چیخ، اس کے لفظ اس کی زبان چھن لی گئی تھی۔ اس پر مذہب، عقیدے، سماج اور معاشرے کا ایسا بوجھ رکھ دیا گیا تھا کہ اس کی آزادی مصلوب ہو گئی تھی۔ اور یہی تو صدیوں سے ہوتا رہا۔ اور آج بھی ہو رہا ہے۔ لیکن اسی سماج اور معاشرے میں، جس نے سن ۲۰۰۰ کے بعد ایک نئی کروٹ لی ہے، وہیں عورت کو اس کے ہونے کا احساس بھی دلا دیا ہے۔ تم نے صحیح کہا ہے کہ اس ناول میں، میں نے الفاظ کی طاقت کو بیان کیا ہے۔ تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ لاشعوری سطح پر میں نے ان الفاظ کو بے جان تصور کیا—؟ اگر بے جان تصور کرتا تو ناہید معاشرے سے جنگ لڑتی ہوئی الفاظ کو بدلنے پر آمادہ ہی کب ہوتی۔ وہ مردانہ سماج کی تمام برائیوں کی ایک جڑ ان الفاظ کے ذخیرے میں بھی محسوس کر رہی تھی کہ یہ الفاظ بھی مردوں کی ہی دین تھے۔ لغات بھی مرد ہی تیار کرتے تھے۔ ناہید نے الفاظ بدلے تو اس رویہ کی مکمل تبدیلی تم ناول میں ہی دیکھ سکتی ہو۔ جب پبلشر ناہید اور کمال کو دفتر میں بلاتا ہے۔ اور اس کے اندر کا کمزور مرد زندہ ہو جاتا ہے۔

’شکریہ۔ میں تبدیلی کی بات کر رہا تھا۔ جیسا کہ آپ نے لغات میں تبدیلی کے دوران محسوس کیا ہو گا۔ اگر تبدیلی آئی ہے تو دوچند لوگ ہی کیوں محسوس کریں ؟ میں پچھلے دنوں جان گرے کی ایک کتاب ’مین آر فرام مارس اینڈ ویمن آر فرام وینس‘ پڑھ رہا تھا۔ سیکسوئیلیٹی کو ہی لیجئے۔ عورت زیادہ سخت ہو گئی ہے۔ بیڈ روم کا مرد ہار رہا ہے۔ باب ڈلن کا ایک گیت یاد آ رہا ہے … کیا تم کھانا پکا سکتے ہو، بیج بو سکتے ہو؟ پھول کھلا سکتے ہو… کیا تم میرے درد کو محسوس کر سکتے ہو—؟ اور نیا مرد کہتا ہے — ہاں … یہ نیا مرد آج شیف ہے۔ سب سے اچھا کھانا بناتا ہے۔ مساج پارلر میں آج اس کی ڈیمانڈ عورتوں سے زیادہ ہے۔ وہ جم جا کر باڈی بھی بنارہا ہے اورجسم میں لچک بھی پیدا کرہا ہے۔ وہ کانوں میں چھلے پہنتا ہے — وہ مونچھ اور داڑھی کٹا رہا ہے۔ اسے چکنا نظر آنا زیادہ پسند ہے۔ وہ نیا ما چومین ہے … وہ کچن بھی سنبھال رہا ہے اور گھر بھی— نرمل اساس کا لہجہ بدلا ہوا تھا… یہ نیا مرد وجود میں آ چکا ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں پیدا ہو رہا ہے۔ ایک لچر سماج میں، ایک ختم ہوتی تہذیب میں، ایک کمزور ہوتی جمہوریت میں اور اس آئی ٹی انڈسٹری میں ہم نے نئی عورت اور نئے مرد کو تلاش کر لیا ہے۔ یہ ہماری ٹنڈ منڈ اورمغرب سے برآمد تہذیب، ملی جلی اکانومی اور پزا برگر کے ذائقہ سے برآمد ہوا ہے اور حقیقت ہے کہ اس وقت سب بدل چکا ہے … آئینہ کے سامنے لپسٹک لگاتا ہوا مرد اور فائیلوں میں گھری عورت— نرمل اساس آہستہ سے بولے — خوفناک…

کیا… ناہید چونک کر بولی…

’اور اب میری سمجھ میں آیا کہ ان سب کے پیچھے کون ہے —؟ مائی گاڈ… سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے تھا اور ہم کتنے بے خبر تھے۔

’ان سب کے پیچھے کون ہے ؟‘ ناہید کا لہجہ بھی بدل گیا تھا۔

’عورت۔ ‘

نرمل اساس کا لہجہ اس وقت برف کی طرح سرد تھا—’ عورت، جس نے آئی ٹی انڈسٹری سے سائبرا سپیس تک قبضہ کر لیا۔ اور انتہائی ہوشیاری سے مردوں کو ایک نیا مرد بنا دیا۔ یعنی عورت…‘

بطور ناول نگار میرے لیے ان واقعات سے سرسری گزرنا آسان نہیں تھا— کیونکہ نئی صدی کی شروعات سے ہی ان تبدیلیوں کا بہت کچھ، اشارہ ملنے لگا تھا— اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ نئی، تیز رفتار بدلتی ہوئی دنیا اگر نئی عورت کو ڈسکورکر رہی تھی تو یہاں نیا مرد بھی پیدا ہو رہا تھا— اور یہ حقیقت ہے کہ یہ نیا مرد اور یہ نئی عورت سائبر سے آئی ٹی انڈسٹری اور تمام گلیمر ورلڈ تک پھیل گئی تھی۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس انڈسٹری کی اپنی سوشل نیٹ ورکنگ تھی— فیس بک سے ٹوئٹر تک پرانے الفاظ غائب ہوتے چلے گئے تھے اور ان کی جگہ نئے الفاظ لے رہے تھے۔ ٹوئٹ کرنے والوں اور فیس بک کا استعمال کرنے والوں کے لیے لفظ و معنی کی اپنی دنیا آباد تھی اوران میں بے شمار الفاظ ایسے تھے، جو لغات یا ڈکشنری میں نہیں تھے — اور یہ نسل اس نئی سوشل نیٹ ورکنگ کے سہارے رشتے، معیار اور زندگی کا اپنا راستہ تلاش کر رہی تھی یا ان کی نئی تعریفیں ڈھونڈھنے میں لگی تھی— کرن جوہر، راہل ملہوترہ جیسے ہزاروں نام جس نے ماچومین کی تعریف بدل کر رکھ دی۔ کیا مرد کو اس نئی تہذیب میں لانے والی عورت ہے — ؟مرد سیلون جاتے ہیں — فیشئل اور پیڈیکیور کراتے ہیں — وہ اچھا نظر آنا چاہتے ہیں اورجیساکہ ایک سائیکوتھریپسٹنے کہا تھا—’ ہندوستانی مردوں میں عورتوں کی صفات دیگر ملکوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں —‘ لیکن ہوتی ہر جگہ ہے — ہر ملک میں —اور اس لیے مرد کے تصور میں ایک نئی عورت سامنے آ گئی تھی—

سامرسیٹ مام نے ایک جگہ لکھا تھا، لفظوں نے ندی کے بہاؤ کی طرح اپنا رخ تبدیل کر دیا ہے۔ یہ وقت پرانے لفظوں کے زوال کا ہے۔ نئے لفظ نئی تبدیلی کے ساتھ پیدا ہوں گے — سیمیں، در اصل ہم تہذیب کے اس پڑاؤ پر ہیں جہاں ایک تیز آندھی ہے۔ پرانے درخت گریں گے اور پرانی تہذیبی عمارت بھی مسمار ہو گی۔ عورت کا جاگنا ایک علامت ہے۔ ایک نئی تہذیب اس ’جاگی ہوئی عورت‘ کے سہارے ہمارے معاشرے میں داخل ہو رہی ہے۔ ابھی سناٹا ہے۔ لیکن یقین رکھو، انقلاب کی رفتار سست ضرور ہے لیکن انقلاب میں تاریخ کو بدلنے کی ہمت ہوتی ہے۔

 

سیمیں کرن: شکریہ ذوقی صاحب …میں سمجھتی ہوں کہ لاشعوری طورپہ لفظوں کو بے جان اس لیے متصور کیا کہ ہم ان کو کوئی بھی مفہوم دینے پر قادر ہیں … مگر لفظوں کے ان معنی ومفہوم کے پیچھے ایک طویل سفر ہے … جب کچھ نہیں تھا، تب بھی خلا میں ان لفظوں کا سفر جاری تھا۔ آپ نے ان لفظوں سے نالۂ شب گیر میں بڑا کام لیا۔ مرد ذات کے ساتھ عورت کی نفسیات تک پہنچنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ بلا شبہ کسی بھی بڑے ناول کی کامیابی چھپی ہوتی ہے کہ وہ صحت مند سوالوں کو جنم دے۔ مکالمے کو جنم دے … بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مشرف عالم ذوقی نے اس ناول میں جن ممنوعہ سرحدوں کو چھوا وہ ایک مشکل مرحلہ تھا۔ عورت کے اس منصب پہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی یہ ممکن ہے کہ ہم لفظوں کی بدرو کی صفائی کرنا شروع کریں تو رویوں کی علامت بھی صاف ہونی شروع ہو جائے گی۔ آپ کا ایک بار پھر شکریہ۔

٭٭٭

تشکر: تبسم فاطمہ، مدیر اعزازی، ادب سلسلہ،  جنہوں نے جریدے کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید