FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اخترالایمان: جمالیاتی لیجنڈ

شکیل الرّحمٰن

حصہ دوم

 

چند نظمیں

        اختر الایمان نے  ’یادیں ‘  کے  پیش لفظ میں  تحریر کیا ہے:

 ’’میری نظموں  کا بیشتر حصّہ علامتی شاعری پر مشتمل ہے، علامیہ کیا ہے اور شعر میں  اس کا استعمال کس طرح ہوتا ہے، میں  اس تفصیل میں  نہیں  جاؤں  گا، صرف اتنا کہوں  گا علامیہ کی شاعری سیدھی سیدھی شاعری سے  مختلف ہوتی ہے، ایک تو اس لیے  کہ علامیہ کا استعمال کرتے  وقت شاعر کا رویہ آمرانہ ہوتا ہے، وہ ایک ہی علامیہ کو کبھی ایک ہی نظم میں  ایک سے  زیادہ معانی میں  استعمال کر جاتا ہے، دوسرے  الفاظ کے  بظاہر جو معنے  ہوتے  ہیں  وہ علامیہ کی شاعری میں  بدل جاتے  ہیں۔ مثال کے  طور پر میری نظم ’قلوبطرہ‘  اس نظم کا پس منظر دوسری جنگ عظیم ہے۔ لفظ قلوبطرہ کو میں  نے  نہ اس کے  تاریخی پس منظر میں  استعمال کیا ہے اور نہ اس کے  اپنے  معنوں  میں۔ قلوبطرہ کے  نام سے  جو اخلاقی پستی وابستہ ہے  یہاں  اس تصور کا فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ جنگ کے  نتائج میں  ایک قحبگی کی افزائش بھی ہے، قلوبطرہ کا علامیہ استعمال کر کے  اس قحبگی کی طرف اشارہ کیا ہے، اس ایک نام کے  ساتھ نظم میں اور بھی کئی نام ہیں  جیسے  ’پرویز‘ ، ’انطونی‘  یہ بھی علامیہ کے  طور پر استعمال کیے  گئے  ہیں۔‘‘

(یادیں )

        اختر الایمان کی علامتیں  داخلی  اور  حسی کیفیات کو سمجھاتی ہیں، روحانی کرب، گہری اُداسی، تنہائی کے  احساس وغیرہ کو سمجھنے  میں  ان کی علامتوں  سے  مدد ملتی ہے۔ ذہنی تصادم نے  جن علامتوں  کی تخلیق کی ہے  ان میں   محبت کی ناکامی  اور  زندگی کی شکست و ریخت کی پہچان مشکل نہیں  ہے۔ مسجد، موت، پرانی فصیل، قلوبطرہ، زندگی کے  دروازے  پر، تنہائی میں، پگڈنڈی، دستک، پیمبر گل، ایک لڑکا، یادیں، پس دیوار چمن، اذیت پرست شہر، قبر، لوگو اے  لوگو،  اور  دوسری کئی نظمیں  علامتی کردار سے  پہچانی جاتی ہیں۔

        اختر الایمان نے  روایتی پیکروں اور نئے  پیکروں  کو اپنے  گہرے  تاثرات سے  تابندہ کر دیا ہے۔ جام، گلیاں، خزاں، بہار، رخسار، درد، آنسو، مسافر، چراغ، شبنم، پتنگے، شمع، کلیاں، کانٹے، کارواں، زنجیر، داغ، لہو، اشک، دیا، زخم، چشم نم، فرہاد، چاند، کرن، گردش، ازل، ابد، سورج، خلا، افلاک، ندی، سمندر  اور  دوسرے  بہت سے  الفاظ  اور  پیکر استعمال کیے  ہیں اور اپنے  تاثرات سے  روایتی لفظوں  میں  زندگی پیدا کر دی ہے۔

        ’عمارت‘  اختر الایمان کی محبوب علامت ہے، ان کی شاعری کی مرکزی علامت! اس سے  بہت سے  پیکروں  کی تشکیل ہوئی ہے۔ مثلاً:

محل

مٹّی، دستک

مکتب، مکان، خانقاہ، مسجد

گھروندہ، مدرسہ، دریچہ، اینٹ، در و بام، گنبد

معمار، دُکانیں، محراب، شہتیر، بازار، مینار، پتھر، معبد

دروازہ، چونے  کی تہہ، کتبہ، قبر، خرابہ

چار دیواری، شفا خانہ

دیوار!

        وہ مکان، مسجد، پرانی فصیل، زندگی کے  دروازے  پر، تعمیر، کتبہ، قبر، ریت کے  محل، پس دیوار چمن، کے  عنوانات اس محبوب علامت کو سمجھاتے  ہیں۔ ’آمادگی‘  میں  اسی علامت نے  بنیادی خیال کو روشن کیا ہے اور پیکروں  کو اُبھارا ہے۔ ہیرو کی ذات  اور  اس کی شخصیت کو ٹوٹتی ہوئی عمارت میں  جذب کر دیا گیا ہے:

ایک اِک اینٹ گری پڑتی ہے

سب دیواریں  کانپ رہی ہیں

ان تھک کوششیں  معماروں  کی

سر کو تھامے  ہانپ رہی ہیں

موٹے  موٹے  شہتیروں  کا

ریشہ ریشہ چھوٹ گیا ہے

بھاری بھاری جامد پتھر

ایک اِک کر کے  ٹوٹ گیا ہے

لوہے  کی زنجیریں  گل کر

اب ہمّت ہی چھوڑ چکی ہیں

حلقہ حلقہ چھوٹ گیا ہے

بندش بندش توڑ چکی ہیں

چونے  کی اِک پتلی سی تہہ

گرتے  گرتے  بیٹھ گئی ہے

نبضیں  چھوٹ گئیں  مٹّی کی

مٹّی سے  سر جوڑ رہی ہے

سب کچھ ڈھیر ہے  اب مٹّی کا

تصویریں  وہ دلکش نقشے

پہچانو تو رو دو گی تم

گھر میں  ہوں  باہر ہوں  گھر سے

اب آؤ تو رکھا کیا ہے

چشمے  سارے  سوکھ گئے  ہیں

یوں  چا ہو تو آ سکتی ہو

میں  نے  آنسو پونچھ لیے  ہیں

(آمادگی)

        ’عمارت‘  کی علامت، علامت نگاری کی ذاتی  اور  تعلقاتی سطح کو اُبھار رہی ہے، حیاتیاتی  اور  جسمانی سطح بھی اسی سطح کے  ساتھ اُبھرتی ہے۔ اس علامت میں  ’تاثرات‘   اور  ’تجزیہ‘  دونوں  قابلِ غور ہیں۔ اختر الایمان نے  ’عمارت‘  کی علامت کو پسند کیا ہے۔ لہٰذا رنگ محل، مسجد، در، چٹان، راستے  زرد مٹّی، دریچہ، دستک، شیشہ، گنبد، محراب شکستہ  اور  گنبد و مینار وغیرہ تجربوں  کو سمجھنے  میں  مدد کرتے  ہیں۔ ایک اچھے  علامت نگار کی طرح انھوں  نے  مجرد صورت کو روحانی  اور  وجودی حقیقت بنا دیا ہے۔ ’آمادگی‘  میں  عمارت کے  تعلق سے  یہ تمام پیکر  اور  الفاظ محض اظہار بیان کے  لیے  نہیں  ہیں  بلکہ ان سے  ایک بنیادی خیال، ایک بنیادی تجربہ، ایک بنیادی حقیقت کا اظہار ہوتا ہے۔ ذات کی ویرانی کو ان پیکروں اور لفظوں  سے  سمجھایا گیا ہے۔ عمارت کی ویرانی ذات کی ویرانی بن گئی ہے۔ اس کی ٹوٹتی صورت ذات کی ٹوٹتی صورت نظر آ رہی ہے۔ اختر الایمان کی علامتیں  تجریدی نہیں  ہیں، ان کو عام تاثراتی علامتوں  سے  تعبیر کرنا چاہیے۔

        اختر الایمان کی علامتیں  پیچیدہ  اور  پُر اسرار نہیں  ہیں، ان کے  تاثرات اتنے  گنجلک نہیں  کہ ہم سچائی کو پہچان نہ سکیں۔ ان کے  تجربات جانے  پہچانے  ہیں۔ علامتوں  میں  ذاتی  اور  سماجی تجربوں  کو پیش کر نے  کی کامیاب کوشش کی ہے، انفرادی  اور  ذاتی سطح کے  ساتھ سماجی  اور  اجتماعی سطح کی پہچان بھی ہو جاتی ہے، شاعر کو اعلیٰ عمدہ بلند  اور  شریف قدریں  عزیز ہیں۔ وہ ان سے  بے  پناہ  محبت کرتا ہے اور جب یہ قدریں  مجروح ہوتی ہیں  تو وہ بے  چین ہو جاتا ہے، کرب کا شکار ہو جاتا ہے، شکست کے  احساس سے  اس میں  بے  چینی سی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر وہ علامتوں  میں  سوچنے  لگتا ہے۔ اختر الایمان کی علامتوں  میں  ادنیٰ  اور  معمولی قدروں اور ضمیر کے  تصادم کی پہچان مشکل نہیں  ہے۔ ان کے  المیہ رجحان نے  علامتوں  کی تخلیق کی ہے۔ پیکروں اور علامتوں  پر سوچتے  ہوئے  ہم ان کے  بنیادی المیہ رجحان کو نظر انداز نہیں  کر سکتے۔

        ’مسجد‘  ایک اچھی پیاری سی نظم ہے۔ وقت کے  گزر جانے  کا احساس ملتا ہے۔ تغیر کا احساس متاثر کرتا ہے۔ لہجے  کی افسردگی توجہ طلب ہے۔ ’مسجد‘  ایک علامت ہے۔ ماضی کی اعلیٰ قدروں  کی علامت، اس کی ویرانی  اور  تباہی نے  ایک گہری افسردگی پیدا کی ہے۔ تنہائی کا احساس ہے، ماضی کی قدروں  کی تصویریں، حال سے  ماضی کی جانب جانے  والے  لمحے، مسجد کی ویرانی  اور  نظم کا مجموعی آہنگ۔۔۔ سب متاثر کرتے  ہیں۔

        ’آب جو‘  کے  پیش لفظ میں  اختر الایمان نے  لکھا ہے:

 ’’مسجد‘‘ ایک ویران مسجد کا خاکہ ہے۔۔۔  مسجد مذہب کا علامیہ ہے اور اس کی ویرانی عام آدمی کی مذہب سے  دوری کا مظاہرہ ہے، رعشہ زدہ ہاتھ مذہبیت کے  آخری نمائندہ ہیں اور وہ ندی جو مسجد کے  قریب سے  گزرتی ہے  وقت کا دھارا ہے  جو عدم کو وجود  اور  وجود کو عدم میں  تبدیل کرتا رہتا ہے اور اپنے  ساتھ ہر چیز کو لے  جاتا ہے  جس کی زندگی کو ضرورت نہیں  رہتی۔‘‘

بنیادی خیال عمدہ ہے، موضوع اہم ہے، نظم یہ ہے:

دور، برگد کی گھنی چھاؤں  میں  خاموش و ملول

جس جگہ رات کے  تاریک کفن کے  نیچے

ماضی و حال گنہگار نمازی کی طرح

اپنے  اعمال پہ رو لیتے  ہیں  چپکے  چپکے

ایک ویران سی مسجد کا شکستہ سا کلس

پاس بہتی ہوئی ندی کو تکا کرتا ہے

 اور  ٹوٹی ہوئی دیوار پہ چنڈول کبھی

گیت پھیکا سا کوئی چھیڑ دیا کرتا ہے

گرد آلود چراغوں  کو ہوا کے  جھونکے

روز مٹّی کی نئی تہہ میں  دبا جاتے  ہیں

 اور  جاتے  ہوئے  سورج کے  وداعی انفاس

روشنی آ کے  دریچوں  کی بجھا جاتے  ہیں

حسرت شام و سحر بیٹھ کے  گنبد کے  قریب

ان پریشان دُعاؤں  کو سنا کرتی ہے

جو ترستی ہی رہیں  رنگ اثر کی خاطر

 اور  ٹوٹا ہوا دل تھام لیا کرتی ہے

یا ابابیل کوئی آمد سرما کے  قریب

اس کو مسکن کے  لیے  ڈھونڈ لیا کرتی ہے

 اور  محراب شکستہ میں  سمٹ کر پہروں

داستاں  سرد ممالک کی کہا کرتی ہے

ایک بوڑھا گدھا دیوار کے  سائے  میں  کبھی

اونگھ لیتا ہے  ذرا بیٹھ کے  جاتے  جاتے

یا مسافر کوئی آ جاتا ہے، وہ بھی ڈر کر

ایک لمحے  کو ٹھہر جاتا ہے  آتے  آتے

فرش جاروب کشی کیا ہے  سمجھتا ہی نہیں

کالعدم ہو گیا تسبیح کے  دانوں  کا نظام

طاق میں  شمع کے  آنسو ہیں  ابھی تک باقی

اب مصلیٰ ہے  نہ منبر، نہ مؤذن نہ امام!

آ چکے  صاحب افلاک کے  پیغام و سلام

کوہ و در اب نہ سنیں  گے  وہ صدائے  جبریل

اب کسی کعبہ کی شاید نہ پڑے  گی بنیاد

کھو گئی دشت فراموش میں  آوازِ خلیل

چاند پھیکی سی ہنسی ہنس کے  گزر جاتا ہے

ڈال دیتے  ہیں  ستارے  دھُلی چادر اپنی

اس نگار دل یزداں  کے  جنازے  پہ بس اِک

چشم نم کرتی ہے  شبنم یہاں  اکثر اپنی

ایک میلا سا، اکیلا سا، فسردہ سا دیا

روز رعشہ زدہ ہاتھوں  سے  کہا کرتا ہے

تم جلاتے  ہو، کبھی آ کے  بجھاتے  بھی نہیں

ایک جلتا ہے، مگر ایک بجھا کرتا ہے!

تیز ندی کی ہر اِک موج تلاطم بردوش

چیخ اٹھتی ہے  وہیں  دور سے  فانی فانی

کل بہا لوں گی تجھے  توڑ کے  ساحل کی قیود

 اور  پھر گنبد و مینار بھی پانی پانی!

(مسجد)

        اختر الایمان لکھتے  ہیں: ’’ماحول مغموم، گھٹا ہوا  اور  موت سے  پر محسوس ہوتا ہے، محسوس ہی نہیں  ہوتا، ہے  بھی‘‘  ۔۔۔ ’مسجد‘ ایک تہذیب کی علامت ہے، مذہب، ثقافت  اور  فن کی علامت اس کی تصویروں  سے  ایک تہذیب کی ویرانی کا احساس ملتا ہے، شاعر کے  لہجے  کی المناکی سے  اس ویرانی کا احساس بڑھ جاتا ہے، شاعر رینگتی تاریکی کا مشاہدہ کر رہا ہے، یہ تاریکی جو گہری ہوتی جا رہی ہے۔ فطرت  اور  وقت دونوں  کی علیحدہ پہچان مشکل ہے۔ ہوا چراغوں  کو بجھا رہی ہے۔ ایک مقدس آرچ ٹائپ سے  رشتہ ٹوٹ رہا ہے۔

        ’عمارت‘  بنیادی طور پر ایک عوامی آرٹ ہے، پناہ، دفاع  اور  عبادت کے  احساس  اور  ان کی ضرورتوں  کے  پیش نظر عمارت کی تعمیر ہوئی ہے۔ مسجد  اور  دوسری عبادت گاہیں  جماعت پسندی کے  رجحان کو نمایاں  کرتی ہیں۔ ایک دوسرے  کے  ساتھ رہ کر جینے، خوف کے  احساس  اور  قبیلے  یا جماعت کی جدوجہد کی علامت ہے۔ میناروں  سے  آسمان تک پہنچنے  کی آرزو  اور  اپنی آواز خلاؤں  تک پہنچانے  کی تمنّا موجود رہی ہے۔ محرابوں  میں  پناہ لیتے  ہوئے  یہ احساس ہے  کہ آسمان حفاظت کے  لیے  جھک کر نیچے  آ گیا ہے، تمام مذہبی  اور  تمدنی اقدار کی حفاظت ہو رہی ہے۔ عمارت میں  انسان کے  جسم کا آہنگ ہے۔ اس کی تعبیر سے  انسان کی نفسیات کو ہمیشہ سکون حاصل ہوا ہے، کسی عمارت کو ویران دیکھ کر باطنی سطح پر جھرجھری سی آ جاتی ہے، غیر شعوری طور پر محسوس ہوتا ہے  جیسے  آسمان سے  رشتہ ٹوٹ رہا ہے، اعتماد، یقین  اور  ایمان کے  ستون کمزور ہو کر گر نے  والے  ہیں، آسمان اوپر چلا گیا ہے، زندگی کا تقدس چھن رہا ہے، تاریکی روشنی کو نگل رہی ہے، نفیس، مہذب  اور  شریف قدریں  ٹوٹ رہی ہیں  ارفع  اور  اعلیٰ احساسات گم ہو رہے  ہیں، وقت کی لہریں  ظالم  اور  سفّاک ہیں، وقت کی رفتار تیز ہے، چیزیں  ٹوٹتی جا رہی ہیں۔ اس مسجد کو دیکھتے  ہوئے  شاعر کے  لاشعور  اور  شعور میں  یہی باتیں  ہیں، مسجد کی ویرانی ایک پوری تہذیب کی ویرانی بن گئی ہے۔ شاعر کا عقیدہ یہ ہے  کہ گزرتا ہوا وقت ہر شئے  کو بہا لے  جاتا ہے۔

        یہ نظم  اور  خوبصورت بن سکتی تھی، آخری بند سے  نظم کا تاثر ختم ہو جاتا ہے، آخری بند میں  ’فانی فانی‘  کی آواز عجیب سی لگتی ہے۔ یہ کہنے  کی ضرورت ہی نہ تھی:

تیز ندی کی ہر اِک موج تلاطم بردوش

چیخ اُٹھتی ہے  وہیں  دُور سے  فانی فانی

کل بہا لوں گی تجھے  توڑ کے  ساحل کی قیود

 اور  پھر گنبد و مینار بھی پانی پانی!

(آخری بند ’مسجد‘ )

        شاعر جو کچھ کہنا چاہتا تھا کہہ چکا تھا۔ فنکارانہ انداز میں  تخیلی فکر سامنے  آ گئی تھی، اس آخری بند سے  تاثر کو جھٹکا سا لگتا ہے۔ یہ بند خیال  اور  اظہارِ بیان کے  اعتبار سے  یوں  بھی اہمیت نہیں  رکھتا۔ شاعر  اور  اس عمارت کے  درمیان تیز ندی کی آواز کو وقت  اور  تباہی کی علامت بنایا جا سکتا تھا، اس نظم میں  یہ پتہ تو چلتا ہے  کہ اس مسجد کے  پاس ایک ندی ہے  (جو وقت کی علامت ہے ) لیکن ہم اس ندی کی آواز نہیں  سنتے، عام احساس ملتا ہے اور ایک معمولی سی بات سامنے  آتی ہے۔ ندی کی علامتی اہمیت نہیں  رہتی۔ ’فانی فانی‘   اور  ’گنبد و مینار پانی پانی‘  کہنے  سے  بہتر یہ تھا کہ اس ندی کو بھی اپنے  احساس میں  جذب کر نے  کی کوشش کی جاتی۔ دو علامتیں  ’مسجد‘   اور  ’رعشہ زدہ ہاتھ‘  اہم ہیں، تیسری علامت ’ندی‘  علامت نہیں  بن سکی ہے، نئی  اور  پرانی قدروں  کے  تصادم کے  اس پیکر میں  تیسری علامت بھی متاثر کرتی تو یہ نظم ایک یادگار بن جاتی۔

        اختر الایمان کے  لہجے  کا سوز متاثر کرتا ہے۔ ان کی درد مندی متاثر کرتی ہے، یہ ان کی رومانیت ہے  جو انھیں  دور برگد کی گھنی چھاؤں  میں  لے  گئی ہے اور ایک ویران سی مسجد دکھا رہی ہے۔ مسجد کی یہ عمارت ایک آئینہ ہے  جس میں  مٹتی ہوئی تصویروں اور مٹتے  ہوئے  خاکوں  کو دیکھا جا رہا ہے، ’برگد کی گھنی چھاؤں ‘ ، ’خاموش فضا‘ ، ’رات کا تاریک کفن‘ ، ’ویران سی مسجد کا شکستہ کلس‘ ، ’ٹوٹی دیوار پر چنڈول‘ ، ’گرد آلود چراغ‘ ، ’سورج کے  وداعی انفاس‘ ، ’پریشان دعائیں ‘ ، ’ٹوٹے  ہوئے  دل کی کیفیت‘ ، ’طاق پر شمع کے  آنسو‘ ، ’چاند کی پھیکی ہنسی‘ ، ’نگار دل یزداں  کے  جنازے ‘  ان سے  ایک فضا بنی ہے۔ شاعر کی ذہنی کیفیت  اور  جذباتی کشمکش کے  ساتھ معاشرے  کی کیفیت بدلتی ہوئی قدروں  کے  تماشے اور وقت کی بے  مہری کا اندازہ ہوتا ہے۔

        ’پرانی فصیل‘  میں  بھی اختر الایمان کا بنیادی رجحان وہی ہے  جو ’مسجد‘  میں  ہے۔ انھوں  نے  ’پرانی فصیل‘  کی آنکھوں  سے  بدلتے  ہوئے  معاشرے  کو دیکھا ہے۔ ’پرانی فصیل‘  خود شاعر کا پیکر ہے! یوں  تو صدیوں  میں  پھیلی ہوئی، بکھری ہوئی قدریں  اس پیکر کے  سامنے  ہیں:

یہاں  پر دفن ہیں  گزری ہوئی تہذیب کے  نقشے!

لیکن وہ ماضی میں  عریاں  جذبات، قتل و خوں اور ہوس رانی کے  تماشے  دیکھتا رہا ہے، معاشرہ اندرونی طور پر کھوکھلا ہو چکا ہے۔ وہ دنیا جو رنگین  اور  دلنواز نظر آ رہی ہے، اس میں  بھی وہی عناصر ہیں  جنھیں  وہ ماضی میں  دیکھ چکا ہے  لیکن نئے  عناصر  اور  نئے  رجحانات  اور  بھی ناقابلِ برداشت ہیں۔ معاشرہ  اور  زیادہ کھوکھلا ہو گیا ہے۔

        ’پرانی فصیل‘  کی تشنگی ہنوز موجود ہے۔ شاعر اس پیکر میں  جن اعلیٰ اقدار  اور  جن دلنواز  اور  خوبصورت رجحانات کو دیکھنا چاہتا ہے  وہ کہیں  نظر نہیں  آتے، یہ صدیوں  کی تلاش ہے۔ اعلیٰ  اور  عمدہ اقدار کی تلاش۔۔۔ شاعر کی رومانیت  اور  اس کے  مضطرب ذہن کو تلاش کے  اسی عمل میں  دیکھا جا سکتا ہے۔

        ’پرانی فصیل‘  کے  لیے  کل کا دور بھی ناقابلِ برداشت تھا  اور  آج کا دور بھی ناقابل برداشت ہے۔ آج ہر دل نوازی میں  طنز کا پہلو ہے۔ چارہ ساز تضحیک کے  نشتر کے  ساتھ آتے  ہیں، احساس کی کوئی قیمت نہیں۔ زندگی کی ہر ادا میں  خوشامد ہے، چاندی کے  ترازو میں  مسرت فروخت ہوتی ہے۔ عورت ایک زہر آلود سا کانٹا ہے  جو چبھ سکتا ہے  لیکن درد کا حاصل نہیں  ہوتا، بھوکی نگاہیں  ہیں، دیوتا کی کمی نہیں  ہے  لیکن حقیقت ہے  کہ کوئی اہل دل نہیں  ہے، شاعروں اور فنکاروں  کی فکر بھی مشینوں  میں  ڈھلتی ہے  فکر کی جدت پر طنز کیا جاتا ہے۔

        ’پرانی فصیل‘  کی آنکھوں  سے  شاعر نے  یہی کچھ دیکھا ہے۔

        ابتدائی بندوں  سے  ایک رومانی فضا بنتی ہے، ویرانی، تنہائی  اور  پُر اسرار سرگوشیوں  کا احساس فنکارانہ طور پر دلایا گیا ہے  لیکن خیال کے  ارتقاء کے  ساتھ نظم کا حسن قائم نہیں  رہتا، سچائیاں  سامنے  آتی ہیں، حقیقتیں  اُبھرتی ہیں  لیکن عام انداز میں  تخیلی فکر  اور  داخلی رچاؤ کے  بغیر۔۔۔ ’پرانی فصیل‘  کی پُر اسرار آواز سنائی نہیں  دیتی، شاعر کی چیخ سنائی دیتی ہے، اس چیخ سے  طلسمی فضا اچانک گم ہو جاتی ہے، سپاٹ سی حقیقتیں  اُبھر نے  لگتی ہیں اور یہ محسوس ہوتا ہے  کہ نظم سے  زیادہ اچھی نثر میں  ان خیالات کا زیادہ فنکارانہ اظہار ہو سکتا تھا۔ معمولی خیالات ملتے  ہیں، معمولی مصرعے  ملتے  ہیں، تاثر ختم ہو جاتا ہے۔ نظم کی ابتداء میں  شاعر ایک فنکار کی طرح ہمیں  اپنے  احساس  اور  شعور سے  قریب کرتا ہے، تنہائی  اور  ویرانی کے  احساس میں  شریک کرتا ہے، ہم اس فضا میں  سرگوشیاں  سننے  کے  لیے  تیار ہوتے  ہیں  لیکن مایوسی ہوتی ہے، ’پرانی فصیل‘  کا پیکر اچانک ٹوٹ جاتا ہے اور شاعر کی چیخ سنائی دیتی ہے۔ اس کا اثر نظم کی ’سی مٹری‘  پر ہوتا ہے۔ اختر الایمان کی بعض نظموں  کی یہ بنیادی خامی ہے۔ ان کی فکر علامتی نہیں  رہ جاتی ہے۔ نظم اس طرح شروع ہوتی ہے:

مری تنہائیاں  مانوس ہیں  تاریک راتوں  سے

مرے  رخنوں  میں  ہے  اُلجھا ہوا اوقات کا دامن

مرے  سائے  میں  حال و ماضی رُک کر سانس لیتے  ہیں

زمانہ جب گزرتا ہے  بدل لیتا ہے  پیراہن

یہاں  سرگوشیاں  کرتی ہے  ویرانی سے  ویرانی

فسردہ شمع اُمید و تمنّا لو نہیں  دیتی

یہاں  کی تیرہ بختی پر کوئی رونے  نہیں  آتا

یہاں  جو چیز ہے  ساکت، کوئی کروٹ نہیں  لیتی

اس قسم کے  بند بھی ملتے  ہیں:

یہاں  اسرار ہیں، سرگوشیاں  ہیں، بے  نیازی ہے

یہاں  مفلوج تر ہیں  تیز تر بازو ہواؤں  کے

یہاں  بھٹکی ہوئی روحیں  کبھی سر جوڑ لیتی ہیں

یہاں  پر دفن ہیں  گزری ہوئی تہذیب کے  نقشے

ایک فضا بنتی ہے، شاعر کے  احساس سے  قریب ہو جاتے  ہیں، محسوس ہوتا ہے۔ ’پرانی فصیل‘  اپنا ہی پیکر ہے۔ یہ اپنی پُر اسرار آواز ہے  جو اس خاموش ماحول میں  سنائی دے  رہی ہے  لیکن فوراً ہی یہ احساس ختم ہو جاتا ہے  شاعر کی چیخ سنائی دیتی ہے اور اس قسم کے  بند سامنے  آتے  ہیں:

وہاں  احساس کی جنس گراں  قیمت نہیں  رکھتی

وہاں  کا ہر نفس مانگی ہوئی دُنیا میں  رہتا ہے

مسرت تول کر لیتے  ہیں  چاندی کے  ترازو میں

خوشامد زندگی کی ہر ادا میں  کار فرما ہے!

وہاں  عورت فقط اِک زہر آلودہ سا کانٹا ہے

جو چبھ سکتا ہے  لیکن درد کا حاصل نہیں  ہوتا

وہاں  بھوکی نگاہیں  گھورتی ہیں  تنگنائے  میں

مگر سب دیوتا ہیں  کوئی اہلِ دل نہیں  ہوتا!

وہاں  ہر فکر کی جدت پہ طعنے  پیش ہوتے  ہیں

وہاں  شاعر مشینوں  کی طرح سانچوں  میں  ڈھلتے  ہیں

وہی اگلے  ہوئے  لقمے  طبائع کا سہارا ہیں

انھیں  ویران را ہوں  پر کھڑے  ہیں، آنکھ ملتے  ہیں!

کہیں  روتے  بھنکتے  پھر رہے  ہیں، ہر طرف ہر سو

غلاظت آشنا، جھلسے  ہوئے  انسان کے  پلے

یہ وہ ہیں  جو نہ ہوتے  کوکھ پھٹ جاتی مشیت کی

تمنّاؤں  میں  ان کی رات دن کھینچے  گئے  چلے!

بہت معمولی اشعار ہیں، کوئی گہرا خیال  اور  کوئی اہم تخیل نہیں  ہے، علامتی فکر بھی نہیں  ہے اور پیکر تراشی بھی نہیں  ہے۔ اختر الایمان لکھتے  ہیں:

 ’’میری شاعری احساس کی شاعری ہے، میں  اس موضوع کو محسوس کر نے  کی کوشش کرتا ہوں۔  اگر  یہ موضوع اپنا احساس میرے  ذہن  اور  میرے  رگ و پے  میں  نہیں  چھوڑتا، نظم کی صورت اختیار نہیں  کرتا، لیکن  اگر  احساس کی شکل اختیار کر لیتا ہے  یا احساس بن جاتا ہے  تو پھر اسے  نظم کی صورت دینے  کے  لیے  مناسب الفاظ  اور  موزوں  بحر کی تلاش ہوتی ہے۔‘‘  (یادیں )

 اور  یہ بھی کہتے  ہیں:

 ’’اس تلاش میں  نہ کوئی وقت کا تعین ہوتا ہے اور نہ اس کی کوئی جامد صورت ہوتی ہے، میرے  ذہن میں  اس کی مثال قوس قزح کی سی ہے۔‘‘  (یادیں )

        ہم سوچتے  ہیں  ایسی نظموں  کے  موضوعات صرف موضوعات ہیں  یا کوئی موضوع واقعی احساس بھی بنا ہے؟ موزوں اور مناسب الفاظ پر شاعر نے  کتنا غور کیا ہے؟ ایسے  معمولی مصرعوں  میں  تخلیقی عمل کی پہچان ہی نہیں  ہوتی، قوس قزح کے  رنگ کہاں  ہیں۔ اختر الایمان نے  کہا ہے  پچھلی نظمیں  مسلسل غزلیں  ہیں، صحیح معنوں  میں  کوئی نظم، نظم نہیں  ہے، نظم کسی خیال، تصور، احساس یا موضوع کو اس انداز میں  بیان کر نے  کا نام ہے  کہ اس میں  حشو و زوائد نہ ہوں۔ پوری نظم میں  کوئی ایسا حصہ نہ ہو جسے   اگر  نکال دیا جائے  تو نظم کے  مفہوم پر کوئی اثر نہ پڑے  یا کسی قسم کی کمی کا احساس نہ ہو۔

        ان کا یہ چیلنج خود حیرت سے  انھیں  دیکھ رہا ہے، وہ اس روایت کی ایک کڑی ہیں  جسے  وہ چیلنج کر رہے  ہیں، انھوں  نے  نظم کی اچھی تعریف کی ہے  لیکن ان کی کئی نظمیں  خود اس معیار پر پوری نہیں  آتیں۔ ایسی نظم کی مثال لیجیے، آپ چاہیں  تو اطمینان سے  ’پرانی فصیل‘  سے  کئی بند نکال سکتے  ہیں  مرکزی خیال پر کوئی اثر نہ ہو گا۔

        اختر الایمان یوں  تو علامیہ کی شاعری کا مطالعہ بہت مشکل بتاتے  ہیں اور ہے  بھی بہت مشکل کہتے  ہیں  علامیہ کی شاعری پڑھتے  وقت بہت محتاط رہنے  کی ضرورت ہے، یہ ان لوگوں  کے  مزاج کو بالکل راس نہیں  آتی جن کے  لیے  شاعری کوئی سنجیدہ چیز نہیں اور جو اسے  روا روی میں  پڑھنا چاہتے  ہیں۔

        اختر الایمان فرماتے  ہیں  لیکن ’پرانی فصیل‘  کو ایک علامت سمجھتے  ہوئے  (جو صدیوں  کی قدروں  کے  درمیان کھڑی ہے ) ہمیں  علامتی فکر کی کن جہتوں  سے  آشنائی ہوتی ہے۔ کیا ہم ’بھوکی نگاہوں ‘  اہلِ دل دیوتا، مشینوں  کے  سانچے، اگلتے  ہوئے  لقمے، ویران راہیں، انسان کے  پتلے، مشیت کی کوکھ کو علامیہ  اور  علامتی نقوش کہیں۔ کون سی علامت ’وژن‘  بنی ہے۔ کوئی لفظ پھیل کر شعور و احساس میں  جذب نہیں  ہوتا، یہ تو عام الفاظ  اور  عام تجربے  ہیں۔ علامیہ  اور  حسی پیکروں  کی کمی محسوس ہوتی ہے، ایک علامت کئی حقیقتوں اور سچائیوں  میں  داخلی رشتہ پیدا کر دیتی ہے  اس طرح تجربوں  میں  ایک تنظیم ہو جاتی ہے۔ اس نظم میں  اُلجھے  ہوئے  رشتوں  کا احساس تو ہوتا ہے، داخلی تنظیم کی کمی محسوس ہوتی ہے، کسی لفظ سے  کوئی احساس یا تصور بیدار نہیں  ہوتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

        ’موت‘  اختر الایمان کی ایک نمائندہ نظم ہے۔ یہ نظام زندگی کا مرثیہ ہے، ڈرامائی کیفیتیں  متاثر کرتی ہیں، مکالمے  کی تکنیک میں  موضوع کا حسن بڑھ گیا ہے:

 ’’کھٹکھٹاتا ہے  کوئی دیر سے  دروازے  کو

ٹمٹماتا ہے  مرے  ساتھ نگاہوں  کا چراغ‘‘

 ’’اس قدر ہوش سے  بیگانہ ہوئے  جاتے  ہو‘‘

 ’’تم چلی جاؤ، یہ دیوار پہ کیا ہے  رقصاں

میرے  اجداد کی بھٹکی ہوئی روحیں  تو نہیں؟

پھر نگاہوں  پہ اُمنڈ آیا ہے، تاریک دھواں

ٹمٹماتا ہے  مرے  ساتھ یہ مایوس چراغ

آج ملتا نہیں  افسوس پتنگوں  کا نشاں

میرے  سینے  میں  اُلجھنے  لگی فریاد مری

ٹوٹنے  والی ہے  انفاس کی، زنجیر گراں

توڑ ڈالے  گا یہ کم بخت مکاں  کی دیوار

 اور  میں  دَب کے  اسی ڈھیر میں  رہ جاؤں  گا!‘‘

اختر الایمان نے  اس نظم کے  متعلق لکھا ہے:

 ’’موت ایک چھوٹا سا منظوم ڈراما ہے  جس میں  تین کردار ہیں۔ مرد، عورت  اور  دستک، مرد بیمار ہے، بستر مرگ پر ہے اور نزع کے  عالم میں  ہے، عورت اس کی محبوبہ ہے اور مرد کے  ذہن کو موت کے  اس خیال سے  باز رکھنا چاہتی ہے  جو اس پر حاوی  اور  مسلّط ہو گیا ہے اور دستک ایک ایسی آواز ہے  جو مسلسل دروازہ پر سنائی دے  رہی ہے اور ماحول کی ہیبت  اور  فضا نے  سرسری پڑھنے  والوں  کے  ذہن میں  یہ خیال پیدا کیا ہے  کہ یہ نظم قنوطی ہے، وہی دراصل اس کا حسن ہے۔‘‘

        موت میں  جو آدمی بستر مرگ پر ہے  وہ ان پرانی قدروں  کا علامیہ ہے  جو اَب مر رہی ہیں، محبوبہ جھوٹی تسلّیاں  ہیں اور مسلسل دستک وقت کی وہ آواز ہے  جو کبھی بند نہیں  ہوتی، ہمیشہ زندگی کے  دروازے  کو کھٹکھٹاتی رہتی ہے اور مکین  اگر  اس کی آواز نہیں  سنتا تو وہ اس مکان کو توڑ ڈالتی ہے اور اس کی جگہ نیا مکان تعمیر کر ڈالتی ہے۔ (دیباچہ ’آب جو‘ )

        اس نظم کے  متعلّق اب زیادہ کہنے  کی ضرورت نہیں  ہے۔ شاعر کی فنکارانہ صلاحیتوں  کا احساس ہوتا ہے، علامتی فکر ملتی ہے، قدروں  کا احساس ہوتا ہے، زندگی کے  تسلسل  اور  حیات نو کے  تصور کو فنکارانہ انداز میں  اُبھارا گیا ہے۔ تفریحی  محبت کے  تصوّر پر طنز بھی قابلِ توجہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

        ’فیصلہ‘  میں  اختر الایمان کی جذباتی تنہائی ملتی ہے، ایسی کامیاب  اور  اچھی نظموں  میں  جذباتی آہنگ بھی ہے اور جذبات کی کامیاب پیشکش بھی۔ لہجے  کا دھیما پن  اور  داخلی کیفیت بھی غور طلب ہے۔ ایک فرد کا درد  اور  سوز معاشرے  کے  تمام حساس افراد کا سوز  اور  درد بن جاتا ہے، محبوب کا کردار بھی مبہم نہیں  ہے، اُلجھنیں  بھی اہم ہیں۔ چند اشعار سنئے  پوری نظم کی فضا کا احساس مل جائے  گا:

چند لمحوں  میں  گزر نے  کو ہے  ہنگامہ، شب

سو گئے  جام صراحی کا سہارا لے  کر

سرد پڑنے  لگا اُجڑی ہوئی محفل کا گداز

تھک گئی گردش یک رنگ سے  ساقی کی نظر

چند بیدار فسانوں  کا اثر ٹوٹ گیا

دب گیا تلخ حقیقت میں  نشہ تابہ کمر

سوچ میں  ڈوب گئے  راہ گزر کے  خم و پیچ

کوئی آئے  گا اب امید کے  ویرانے  میں

        ’تنہائی میں ‘  بھی اختر الایمان کی نمائندہ نظم ہے، اس نظم میں  بھی یادیں اور تنہائی کا شدید احساس ہے۔ تنہائی میں  سہارے  کی تلاش لاشعوری  اور  نفسیاتی خواہش ظاہر کرتی ہے۔ پوری فضا شاعر کے  جذبات  اور  احساسات میں  جذب ہے، اس کا المیہ رجحان پورے  ماحول کو غم ناک بنا دیتا ہے۔ اثر آفرینی بھی ہے اور پیکر تراشی بھی۔ جھنجھلاہٹ نہیں  ہے۔  اگر چہ تلخیاں  ہیں، جو سچائیوں  کو اُبھارتی ہیں، داخلی  اور  اندرونی تباہی کی تصویر بھی ہے اور معاشرے  کی تباہی  اور  بربادی کا تخیلی خاکہ بھی۔ ابتداء میں  تنہائی کا احساس  اور  یاد کی خلش ہے:

میرے  شانوں  پہ ترا سر تھا، نگاہیں  نمناک

اب تو اِک یاد سی باقی ہے  سو وہ بھی کیا ہے

گھر گیا ذہن غم زیست کے  اندازوں  میں

سر ہتھیلی پہ دھرے  سوچ رہا ہوں  بیٹھا

کاش اس وقت کوئی پیر خمیدہ آ کر

کسی آزاد طبیعت کا فسانہ کہتا!

        اس طرح نظم شروع ہوتی ہے، دوسرے  مصرعے  میں  ایک ٹھنڈی سانس  اور  ایک سرد آہ ہے  جس سے  پورے  جسم میں  سنسناہٹ سی آ جاتی ہے۔ اس دور کے  المیہ ہیرو کی ایک تصویر اُبھر آتی ہے۔ اس کے  بعد فضا کی تصویر ہے  جو جذبات سے  ہم آہنگ ہے، جذباتی خلش  اور  اندرونی اضطراب کو کچھ خارجی اشاروں  سے  سمجھانے  کی فنکارانہ کوشش کی گئی ہے۔ حالات، ماحول  اور  متمدن اقدار کی بھی کسی حد تک وضاحت ہوتی ہے، شاعر اپنے  وقت کا مخالف ہے  لیکن اس کی شخصیت وقت کا ایک حصہ ہے:

اِک دھُندلکا سا ہے، دم توڑ چکا ہے  سورج

شب کے  دامن پہ ہیں  دھبّے  سے  سیہ کاری کے

 اور  مغرب کی فنا گاہ میں  پھیلا ہوا خوں

دبا جاتا ہے  سیاہی کی تہوں  کے  نیچے

        نئی تشبیہیں  حقائق کو سمجھاتی ہیں، ’حقائق‘   اور  ’مناظر‘  میں  جذبی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ دونوں  ایک دوسرے  میں  جذب ہیں۔ منظر نگاری کا یہ عروج ہے۔ ایک تو جذبات  اور  حقائق زندگی میں  ہم آہنگی ہے اور پھر جذبات، حقائق  اور  مناظر میں  جذبی کیفیت پیدا ہو گئی ہے  ان سے  نظم کا تاثر گہرا ہوا ہے۔ شاعر کی افسردگی، حقائق زندگی کی افسردگی، اُداسی  اور  افسردگی بھی ہے اور مناظر کی بھی، جذبات  اور  مناظر ایک دوسرے  کے  لیے  آئینہ ہیں۔ اذیتوں  کی ترجمانی فضا سے  ہوتی ہے، پورا ماحول شاعر کی داخلی کیفیتوں  کا آئینہ ہے، تنہائی میں  زندگی کو پہچاننے  کی کوشش ہے۔ داخلی کیفیتیں  ماحول میں  بکھر گئی ہیں۔ دھُندلکا ڈوبتا ہوا سورج، رات، خون، سیاہی کی تہیں، سوکھی ہوئی ببول، ٹوٹے  ہوئے  ویران مکان، بجھا ہوا چاند، یہ سب داخلی کیفیتوں  کی علامتیں  ہیں:

دور تالاب کے  نزدیک وہ سوکھی سی ببول

چند ٹوٹے  ہوئے  ویران مکانوں  سے  پرے

ہاتھ پھیلائے  برہنہ سی کھڑی ہے  خاموش

جیسے  غربت میں  مسافر کو سہارا نہ ملے

اس کے  پیچھے  سے  جھجکتا ہوا اِک گول سا چاند

اُبھرا بے  نور شعاعوں  کے  سفینہ کو لیے

میں  ابھی سوچ رہا ہوں  کہ  اگر  تو مل جائے

زندگی گو ہے  گر انبار پہ اتنی نہ رہے

غم جاناں اور غم دوراں  کا تصور ایک ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ دونوں  غموں  کی اُلجھن  اور  گھٹن سے  شاعر پریشان ہو جاتا ہے:

کوئی مرکز ہی نہیں  میرے  تخیل کے  لیے

اس سے  کیا فائدہ جیتے  رہے اور جی نہ سکے

اب ارادہ ہے  کہ پتھر کے  صنم پوجوں  گا

تاکہ گھبراؤں  تو ٹکرا بھی سکوں  مر بھی سکوں

ایسے  انسانوں  سے  پتھر کے  صنم اچھے  ہیں

ان کے  قدموں  پہ مچلتا ہو دمکتا ہوا خوں

 اور  وہ میری  محبت پہ کبھی ہنس نہ سکیں

میں  بھی بے  رنگ نگاہوں  کی شکایت نہ کروں

یا کہیں  گوشۂ اہرام کے  سنّاٹے  میں

جا کے  خوابیدہ فراعین سے  اتنا پوچھوں

ہر زمانے  میں  کئی تھے  کہ خدا ایک ہی تھا

اب تو اتنے  ہیں  کہ حیران ہوں  کس کو پوجوں

اب تو مغرب کی فنا گاہ میں  وہ سوگ نہیں

عکس تحریر ہے  اِک رات کا ہلکا ہلکا

 اور  پُر سوز دھُندلکے  سے  وہی گول سا چاند

اپنی بے  نور شعاعوں  کا سفینہ کھیتا

اُبھرا نمناک نگاہوں  سے  مجھے  تکتا ہوا

جیسے  گھل کر مرے  آنسو میں  بدل جائے  گا

ہاتھ پھیلائے  ادھر دیکھ رہی ہے  وہ ببول

سوچتی ہو گی کوئی مجھ سا ہے  یہ بھی تنہا

آئینہ بن کے  شب و روز تکا کرتا ہے

کیسا تالاب ہے  جو اس کو ہرا کر نہ سکا

        پر سوز دھندلکوں  سے  بے  نور شعاعوں  کا سفینہ کھیتا گول سا چاند اپنی نمناک نگاہوں  سے  اسی طرح تک رہا ہے  جیسے  گھل کر آنسو میں  تبدیل ہو جائے  گا۔ یہ تصور اہم ہے، خارجی  اور  داخلی اضطراب  اور  محرومی، ناکامی  اور  اُداسی سے  فطرت یا نیچر بھی متاثر ہوتی ہے۔ یہ ’چاند‘  فرد کے  احساس  اور  جذبے  کا آئینہ بن گیا ہے، وہ سورج جو دم توڑ چکا ہے، مغرب کی فناگاہ میں  پھیلا ہوا خون۔۔۔ سیاہی کی تہیں، تالاب کے  نزدیک سوکھی ببول۔ بے  نور شعاعوں  کے  سفینہ کو لیے  گول سا چاند، انگور کی بیل، یہ سب معنی خیز اشارے  ہیں، ان میں  شاعر کا شعور محفوظ ہیں، یہ علامتیں  ایک سے  زیادہ سچائیوں  کا احساس دلاتی ہیں۔ داخلی  اور  خارجی اُلجھنوں  میں  ترتیب پیدا کرتی ہے، فطرت کے  عناصر  اور  مناظر کے  یہ اشارے  انتشار میں  ایک ترتیب  اور  تنظیم کا احساس پیدا کرتے  ہیں، کچھ احساسات  اور  جذبات پیدا ہوتے  ہیں، اُلجھے  ہوئے  رشتوں اور منتشر  اور  متضاد تجربوں  میں  ان فطری علامتوں  سے  ایک داخلی تنظیم بھی پیدا ہوئی ہے، ذہنی تصویر شعری تجربہ بن گئی ہے  اس لیے  کہ ان سے  شاعر کی جذباتی  اور  حسی قدروں  کی تشکیل ہوئی ہے۔ اختر الایمان نے  ماضی  اور  حال کو ایک دوسرے  میں  جذب کر دیا ہے  ماضی کی یادیں اور حال کی تباہ کاریاں۔۔۔ داخلی ویرانی میں  ماضی  اور  حال کے  لمحات ہیں، ترشے  ہوئے  مصرعے  ملتے  ہیں۔ اختر الایمان نے  اس نظم کے  متعلق لکھا ہے:

 ’’تنہائی میں۔۔۔ ببول  اور  تالاب یوں ہی استعمال نہیں  کیے  گئے  انھیں  جہاں  بار بار دہرا کر ڈرامائی تاثر کو اُبھارا گیا ہے  وہاں  علامیہ کے  طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ ببول بے  برگ و بار زندگی کا علامیہ ہے اور تالاب۔۔۔ اس سرمایہ کا جو تالاب کے  پانی کی طرح ایک جگہ اکٹھا ہو کر رہ گیا ہے  جن میں  پانی باہر سے  آ کر ملتا ہے  مگر باہر نہیں  جاتا جو ایک جگہ پڑے  پڑے  سڑنے  لگتا ہے اور اس میں  ایسی جانور (کیڑے؟) پیدا ہو گئے  ہیں  جنھوں  نے  انسانی سماج کو چکلے اور جنسی بیماریاں  دی ہیں۔‘‘  (پیش لفظ۔۔۔ آب جو)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

        ’تصور‘  میں  بھی یاد  اور  تنہائی کی باتیں  ہیں، تاریک ماضی کا خیال  اور  وہی رخسار، آغوش  اور  سیاہ زلفوں  کا تصور، گہرے  ’پیتھوس‘ کے  ساتھ جذباتی آرزو مندی سامنے  آئی ہے:

پھر وہی مانگے  ہوئے  لمحے  وہی جام شراب

پھر وہی تاریک راتوں  میں  خیال ماہتاب

پھر وہی تاروں  کی پیشانی پہ اِک رنگ زوال

پھر وہی بھولی ہوئی باتوں  کا دھُندلا سا خیال

پھر وہ آنکھیں  بھیگی بھیگی دامن شب میں  اُداس

پھر وہ اُمیدوں  کے  مدفن زندگی کے  آس پاس

پھر وہی فردا کی بانہیں، پھر وہی میٹھے  سراب

پھر وہی بیدار آنکھیں، پھر وہی بیدار خواب

پھر وہی وارفتگی، تنہائی افسانوں  کا کھیل

پھر وہی سرگوشیاں  ’سپنے ‘  وہ دیوانوں  کا کھیل

پھر وہی رخسار، وہ آغوش، وہ زلف سیاہ

پھر وہی شہر تمنّا، پھر وہی تاریک راہ!

زندگی کی بے  بسی اف وقت کے  تاریک جال

درد بھی چھننے  لگا، اُمید بھی چھننے  لگی

پھر وہی تاریک ماضی، پھر وہی بے  کیف حال

پھر وہی بے  سوز لمحے، پھر وہی جام شراب

پھر وہی تاریک راتوں  میں  خیال ماہتاب!

        پیاری سی نظم ہے۔ شعریت بھی ہے اور تاثیر بھی۔ لمحوں  کے  شدید احساس سے  ہر لمحہ قیمتی بن گیا ہے۔ شاعر کی رومانیت شخصیت کے  اضطراب  اور  ذہن کی کشمکش کو احساس  اور  جذبے  سے  قریب کر دیتی ہے۔ اس نظم کی رومانی فضا آفرینی میں  انبساط  اور  غم کی لہریں  ایک دوسرے  سے  مل کر جمالیاتی مسرت عطا کرتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

        ’زندگی کے  دروازے  پر‘  بھی ایک عمدہ نظم ہے۔ تاثر گہرا ہے۔ ’پرانی فصیل‘  کی خامی نظر نہیں  آتی، احساس  اور  جذبے  کی ہم آہنگی ملتی ہے۔ جذبے  کی تہہ داری متاثر کرتی ہے، اعلیٰ اقدار کی تلاش و جستجو میں  رومانی ذہن کی پہچان ہوئی ہے۔ بنیادی خیال یہ ہے:

زندگی اپنے  دریچوں  میں  ہے  مشتاق ابھی

کیا خبر توڑ ہی دے  بڑھ کے  کوئی قفل جمود!

اس نظم کی فضا پُر اسرار ہے، جس سے  موضوع کی دلکشی بڑھ گئی ہے:

پا برہنہ و سراسیمہ سا اِک جمِ غفیر

اپنے  ہاتھوں  میں  لیے  مشعل بے  شعلہ و دود

مضطرب ہوکے  گھروندوں  سے  نکل آیا ہے

جیسے  اب توڑ ہی ڈالے  گا یہ برسوں  کا جمود؟

ان پپوٹوں  میں  یہ پتھرائی ہوئی سی آنکھیں

جن میں  فردا کا کوئی خواب اُجاگر ہی نہیں

کیسے  ڈھونڈیں گی در زیست کہاں  ڈھونڈیں  گی

ان کو وہ تشنگیِ شوق میسر ہی نہیں!

جیسے  صدیوں  کے  چٹانوں  پہ تراشے  ہوئے  بت

ایک دیوانے  مصور کی طبیعت کا اُبال

ناچتے  ناچتے  غاروں  سے  نکل آئے  ہوں

 اور  واپس انھیں  غاروں  میں  ہو جانے  کا خیال

زندگی اپنے  دریچوں  میں  ہے  مشتاق ابھی

 اور  یہ رقص طلسمانہ کے  رنگیں  سائے

اس کی نظروں  کو دیئے  جاتے  ہیں  پیہم دھوکے

جیسے  بس آنکھ جھپکنے  میں  وہ اُڑ کر آئے

شہپر موت کسی غول بیاباں  کی طرح

قہقہے  بھرتا ہے  خاموش فضاؤں  میں  صدا

کانپتے  کانپتے  اِک بار سمٹ جاتی ہے

ایک تاریک سا پردہ یوں ہی آویزاں  رہا

کوئی دروازہ پہ دستک ہے  نہ قدموں  کا نشاں

چند پُر ہول سے  اسرار تہہ سایہ دار

خود ہی سرگوشیاں  کرتے  ہیں  کوئی جیسے  کہے

 ’’پھر پلٹ آئے  یہ کمبخت وہی شام و سحر؟‘‘

ناچتا رہتا ہے  دروازہ کے  باہر یہ ہجوم

اپنے  ہاتھوں  میں  لیے  مشعل بے  شعلہ و دود

زندگی اپنے  دریچوں  میں  ہے  مشتاق ابھی

کیا خبر توڑ ہی دے  بڑھ کے  کوئی قفل جمود؟

        اس نظم کی معنوی گہرائی توجہ طلب ہے، اظہارِ بیان اختر الایمان کے  ’ڈکشن‘  کی بنیادی خصوصیات لیے  ہوئے  ہے۔ ہر بند مکمل ہے  لیکن ساتھ ہی دوسرے  بند سے  باطنی رشتہ رکھتا ہے۔ لہجے  کا توازن متاثر کرتا ہے۔ مفہوم  اور  الفاظ ایک دوسرے  میں  جذب ہیں۔ بعض نظموں  جیسی خطابت یہاں  نہیں  ہے۔ یہاں  جذبے اور تخیل کی کار فرمائی ہے  جس سے  شعور و آگہی کی پہچان ہوتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

        ’قلو بطرہ‘  میں  اختر الایمان یہ بتانا چاہتے  ہیں  کہ  محبت سو رہی ہے اور قحبگی جاگ رہی ہے، اس نظم کا پس منظر دوسری جنگِ عظیم ہے۔ اختر الایمان نے  لکھا ہے:

         ’’قلوبطرہ کے  نام سے  جو اخلاقی پستی وابستہ ہے  اس تصور کا فائدہ اٹھایا گیا ہے‘‘  ۔ ’آب جو‘  کے  دیباچے  میں  اس کی وضاحت ملتی ہے:

 ’’اس نظم کا پس منظر دوسری جنگِ عظیم ہے اور اس کا مرکزی تخیل وہ قحبگی ہے  جو جنگ کے  سبب وجود میں  آتی ہے اور جس کا شکار عام طور پر داخلی نسل کی وہ لڑکیاں  ہوتی ہیں  جو نسلی اعتبار سے  نفسیاتی اُلجھنوں  میں  پھنسی ہوئی ہوتی ہیں اور اپنے  آپ کو دوسرے  ہم وطنوں  سے  برتر  اور  مختلف سمجھتی ہیں۔‘‘

مرکزی خیال اہم ہے، ڈکشن میں  شاعر کا تربیت یافتہ ذہن ملتا ہے:

شام کے  دامن میں  پیچاں  نیم افرنگی حسیں

نقرئی پاروں  میں  اِک سونے  کی لاگ

رہ گزر میں  یا خراماں  سرد آگ

یا کسی مطرب کی لے، اِک تشنۂ تکمیل راگ!

ایک بحر بے  کراں  کی جھلملاتی سطح پر

ضو فگن افسانہ ہائے  رنگ و نور

نیلے  نیلے  دو کنول موجوں  سے  چور

بہتے  بہتے  جو نکل جائیں  کہیں  ساحل سے  دور

چاند سی پیشانیوں  پر زر فشاں  لہروں  کا جال

احمریں  اُڑتا ہوا رنگ شراب

جم گئی ہیں  اشعۂ صد آفتاب

گردنوں  کے  پیچ و خم میں  گھل گیا ہے  ماہتاب

عشرت پرویز میں  کیا نالہ ہائے  تیز تیز

اُڑ گیا دن کی جوانی کا خمار

شام کے  چہرے  پہ لوٹ آیا نکھار

ہو چکے  ہیں  ہو رہے  ہیں اور دامن داغ دار

اس کا زریں  تخت، سیمیں  جسم ہے  آنکھوں  سے  دور

جام زہر آلود سے  اُٹھتے  ہیں  جھاگ

چونک کر انگڑائیاں  لیتے  ہیں  ناگ

جاگ انطوفی  محبت سو رہی ہے  جاگ جاگ

        اختر الایمان کی اکثر نظمیں  قاری کے  ادراک کی تربیت میں  حصہ لیتی ہیں  مگر ایسا محسوس نہیں  ہوتا۔ یہی فنکاری ہے۔ ہر ایسی نظم اپنی تازگی کے  ساتھ سرگوشی کرتی ہے۔ انسان دوستی کا جذبہ موجود رہتا ہے، شاعر انسان کے  صحت مند محرکات کے  تئیں  بیدار کرتا رہتا ہے۔ ایسی نظموں  سے  لطف و بصیرت کی ایک عمدہ سطح اُبھرتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

        ’جواری‘   اور  ’انجام‘  یہ دونوں  نظمیں  موضوعات  اور  زبان و بیان کے  اعتبار سے  مکمل  اور  خوبصورت ہیں۔ درد وکرب کا اظہار مناسب لفظوں  میں  ہوا ہے۔ ہندی کے  میٹھے اور لطیف الفاظ خوب صورتی سے  استعمال ہوئے  ہیں۔ میرا جی کے  لہجے اور ان کی تکنیک کا اثر نظر آتا ہے۔ لہجہ متوازن ہے، شعور پختہ ہے، ادراک کی لطافت متاثر کرتی ہے۔ ’جواری‘  کے  یہ بند سنئے:

گہرے  سائے  ناچ رہے  ہیں  دیواروں  پر محرابوں  میں

سہمے  ہوئے  ہیں  ہار نے  والے، جیتنے  والے  ہار  رہے  ہیں

پونجی نقدی جو کچھ بھی ہے  لے  کر داؤ مار رہے  ہیں

چہروں  پر ہے  موت سی طاری آنکھیں  ناؤ گردابوں  میں

مٹتی آشا اُکساتی ہے، کھیل جواری کھیل جواری

جو بھی ہار ا ہار  چکا ہے، اب کی بازی جیت سمجھنا

ہار بھی تیری ہار  نہیں، یہ جیت نگر کی ریت سمجھنا

سانسیں  قیدی خوف کے  پہرے  گھیرے  ہے  اِک چار دواری

تجھ سے  پہلے اور کھلاڑی جیتے  بھی ہیں  ہارے  بھی ہیں

ہار  اور  جیت کا سودا ہے  یہ، دُبدھا کیسی ڈرنا کیسا

پانسا پھینک جھجکتا کیوں  ہے  جیتے  جی ہی مرنا کیسا

ویرانوں  میں  طوفانوں  میں  سائے  بھی ہیں  سہارے  بھی ہیں!

ایک ہی بازی، ایک ہی بازی، کوئی بیٹھا اُکساتا ہے

تن کے  کپڑے، سر کی پگڑی بیچ، یہ بازی اپنانی ہے

ہم چشموں  میں  بات رہے  گی، مایا تو آنی جانی ہے

ہار بھی تیری ہار  نہیں  ہے، من کو من ہی سمجھاتا ہے

ہونٹ چبائے  پہلو بدلے  سب کچھ بیچا بازی جیتی

پھر لالچ میں  آ کر بیٹھے، آنکھیں  چمکیں  من لہرایا

ایسے  کھوئے  خود کو بھولے، کھیل میں  کچھ بھی یاد نہ آیا

جب اٹھے  تو جیب تھی خالی کون یہ پوچھے  کیسی بیتی

گہرے  سائے  اندھے  دیپک ناچ رہے  ہیں  جاگ رہے  ہیں

دیواروں  کے  حلقے  میں  ہے  بازی داؤ  اور  جواری

کیا جانے  یہ اندھی بازی کس نے  جیتی کس نے  ہار ی

کیا جانے  کیوں  سانجھ سویرا آگے  پیچھے  بھاگ رہے  ہیں

ہم تو اپنی سی کر ہارے، کوئی بھی تعمیر نہ ٹوٹی

سب ہی جواری، سب ہی لٹیرے  کون کسی سے  بازی جیتے

بیت گئی ہے  جیسے  بیتی، باقی چاہے  جیسی بیتے

وہم و جنوں  کی، رنگ و فسوں  کی پاؤں  سے  زنجیر نہ ٹوٹی!

(جواری)

اس نظم میں  جیسے  کبیر کے  کسی دوہے  کا رس اُتر گیا ہو، تاثرات اہم ہیں، تاثراتی مصوری کی خصوصیات ملتی ہیں، آہنگ مدھم ہے۔ اختر الایمان کا ایمائی انداز موجود ہے۔ افسردگی  اور  درد مندی کے  تاثرات متاثر کرتے  ہیں۔ ’انجان‘  کا آہنگ بھی مدھم ہے، اس کا بھی ایمائی انداز متاثر کرتا ہے:

تم ہو کس بن کی پھلواری اتا پتا کچھ دیتی جاؤ

مجھ سے  میرا بھید نہ پوچھو، میں  کیا جانوں  میں  ہوں  کون

چلتا پھرتا آ پہنچا ہوں، راہی ہوں، متوالا ہوں

ان رنگوں  کا جن سے  تم نے  اپنا روپ سجایا ہے

ان رنگوں  کا جن سے  تم نے  اپنا کھیل رچایا ہے

ان گیتوں  کا جن کی دھن پر ناچ رہے  ہیں  میرے  پران

ان لہروں  کا جن کی رو میں  ڈوب گیا ہے  میرا مان

میرا روگ مٹانے  والی اتا پتا کچھ دیتی جاؤ

مجھ سے  میرا بھید نہ پوچھو میں  کیا جانوں  میں  ہوں  کون

میں  ہوں  ایسا راہی جس نے  دیس دیس کی آہوں  کو

لے  لے  کر پروان چڑھایا  اور  رسیلے  گیت بنے

چنتے  چنتے  جگ کے  آنسو اپنے  دیپ بجھا ڈالے

میں  ہوں  وہ دیوانہ جس نے  پھول لٹائے  خار چنے!

میرے  گیتوں اور پھولوں  کا رس بھی سوکھ گیا تھا آج

میرے  دیپ اندھیرا بن کر روک رہے  تھے  میرے  کاج

میری جوت جگانے  والی اتا پتا کچھ دیتی جاؤ

مجھ سے  میرا بھید نہ پوچھو میں  کیا جانوں  میں  ہوں  کون

ایک گھڑی اِک پل بھی سکھ کا امرت ہے  اس راہی کو

جیون جس کا بیت گیا ہو کانٹوں  پر چلتے  چلتے

سب کچھ پایا پیار کی ٹھنڈی چھاؤں  جو پائی دنیا میں

اس نے  جس کی بیت گئی ہو برسوں  سے  جلتے  جلتے

میرا درد بٹانے  والی اتا پتا کچھ دیتی جاؤ

مجھ سے  میرا بھید نہ پوچھو، میں  کیا جانوں  میں  ہوں  کون

(انجان)

        ایسے  درد بھرے  لہجے اور ’پیتھوس‘  سے  جمالیاتی حس کو سکون ملتا ہے۔ زندگی کے  کانٹوں  پر چلتے  چلتے،  اور  دنیا والوں  کے  آنسو چنتے  چنتے  زندگی گزر گئی، دیوانے  نے  پھول لٹائے اور کانٹے  چنے، ایک لمحے  کا بھی سکھ مل جاتا ہے  تو راہی اسے  امرت سمجھتا ہے۔ حالت یہ ہو گئی ہے  اس کے  دیپ اندھیرے  کی صورت اس کے  کام روک رہے  ہیں، اختر الایمان کی ہیومنزم کا جوہر اس نظم میں  موجود ہے، پوری زندگی کے  لیے  جینا  اور  دُکھ اٹھانا  اور  اس دُکھ سے  لذّت لینا آسان نہیں  ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

        ’نئی صبح‘  میں  بھی گہری افسردگی  اور  درد مندی کی وجہ سے  تجربہ پُر کشش بنا ہے۔ زبان و بیان کا آہنگ متاثر کرتا ہے، صوتی ترتیب میں  فنکاری ملتی ہے:

کالے  ساگر کی موجوں  میں  ڈوب گئیں  دھُندلی آشائیں

جلنے  دو یہ دیئے  پرانے  خود ہی ٹھنڈے  سو جائیں  گے

بہہ جائیں  گے  آنسو بن کر روتے  روتے  سو جائیں  گے

اندھے  سایوں  میں  پلتے  ہیں  مبہم سے  غمگین فسانے

دُکھ کی اِک دیوار سے  آ کر ٹکرا جاتے  ہیں  پروانے

دور فسردہ کی انگڑائی لے  بن بن کر ٹوٹ رہی ہے

سُرخ زباں  کی نازک لو پر جاگ رہی ہے  ایک کہانی

ٹوٹے  پھوٹے  جام پڑے  ہیں، سونی سونی ہے  کچھ محفل

دھُوپ سی ڈھل کر بیت گئی ہے  ساقی کی مجبور جوانی

کیا جانے  کب سورج نکلے، بستی جاگے  غم مٹ جائیں!

        لہجہ متوازن ہے۔ انداز گفتگو میں  اعتدال  اور  توازن ہے۔ سچائی واضح کر نے  کے  لیے  مدھم  اور  دلنشیں  انداز اختیار کیا گیا ہے۔ مایوسی  اور  اُمید دونوں  تجربے  کا جوہر بنے  ہوئے  ہیں، یہ حسیات کی شاعری ہے  جو منفرد حیثیت رکھتی ہے۔

        میرے  ایک سوال کے  جواب میں  اختر الایمان نے  مجھے  لکھا تھا:

 ’’بنگالی زبان کی شاعری یا ادب کا مجھ پر کوئی اثر نہیں  ہے، میں  نے  ایک زمانے  میں  کبیر پنتھی شاعر داد و کا مطالعہ کیا تھا۔ میں  سمجھتا ہوں  ٹیگور نے  اپنا طرز وہیں  سے  لیا تھا، غالب  اور  اقبال کی شاعری کا میں  نے  کوئی اثر نہیں  لیا، ابتداء میں  میر کو پڑھنے  سے  یہ احساس ہوا تھا، اس شاعر کے  لہجے  میں  خلوص  اور  صداقت بہت ہے، جو کسی اچھی شاعری کا بنیادی جزو ہے۔ میں  نے  اپنی شاعری میں  اس کا خیال رکھا ہے  ورنہ جہاں  تک  اور  دوسری روایات کا تعلق ہے  میرا خیال ہے  میری شاعری ان کی بالکل ضد ہے۔‘‘  (راقم الحروف کے  نام ایک خط سے )

        اس کی روشنی میں  ان تینوں  نظموں  کا مطالعہ کیجیے اور ان کے  ساتھ ’اجنبی‘   اور  بلاوا‘  کو بھی پیش نظر رکھئے  جن میں  ڈکشن کی صورت یہ ہے:

تو ہے  ایک پہیلی جس کو جو بوجھے  وہ جان سے  جائے

تو ہے  ایسی مٹی جس سے  لاکھوں  پھول چڑھیں  پروان

(اجنبی)

میں  ہوں  ایسا پات ہوا میں  پیڑ سے  جو ٹوٹے اور سوچے

دھرتی میری گور ہے  یا گھر، یہ نیلا آکاش جو سرپر

پھیلا پھیلا ہے اور اس کے  سورج چاند ستارے  مل کر

میرا دیپ جلا بھی دیں  گے  یا سب کے  سب رُوپ دکھا کر

ایک اِک کر کے  کھو جائیں  گے، جیسے  میرے  آنسو اکثر

پلکوں  پر تھرتھرا کر تاریکی میں  کھو جاتے  ہیں

جیسے  بالک مانگ مانگ کر نئے  کھلونے  سو جاتے  ہیں!

(بلاوا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

        ’پگڈنڈی‘  میں  سکوت کی بلاغت  اور  خاموشی کی آواز ہے، خوبصورت نظم ہے، ایک پیکر سے  کئی خاکے  ذہن میں  اُبھرتے  ہیں، ایک کہانی میں  بہت سی حقیقتیں  شعری نزاکتوں  کے  ساتھ شامل ہو گئی ہیں۔ اس نظم کا یہ بند ملاحظہ فرمائیے:

غم دیدہ پسماندہ راہی تاریکی میں  کھو جاتے  ہیں

پاؤں  راہ کے  رخساروں  پر دھُندلے  نقش بنا دیتے  ہیں

آنے  والے اور مسافر پہلے  نقش مٹا دیتے  ہیں

وقت کی گرد میں  دبتے  دبتے  ایک فسانہ ہو جاتے  ہیں

پگڈنڈی زندگی کا راستہ ہے۔ وقت  اور  لمحوں  کا مطالعہ اس علامت کے  ذریعہ کیا گیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

        ’پس منظر‘   اور  بعض ایسی نظموں  کو پڑھ کر ہی غالباً چند نقادوں  نے  اختر الایمان کو ’قنوطی‘  کہا تھا۔ اس زمانے  میں  ’قنوطی‘  ’رجائی‘  کی اصطلاحیں  استعمال ہوا کرتی تھیں  جو آج مضحکہ خیز بن گئی ہیں۔ یہ نظمیں  ایک حساس، بیدار  اور  مضطرب ذہن کی پیداوار ہیں، اختر الایمان کی تخلیقی صلاحیتوں  کا اظہار ایسی ہی نظموں  سے  ہوا ہے۔ ’پس منظر‘  بھی ایک اہم نظم ہے، ذہنی اُلجھنوں اور تنہائی کے  احساس کے  تاثرات مثاثر کرتے  ہیں۔ خارجی دباؤ کا ردِّ عمل  اور  سوچ کی کیفیتیں  لفظوں، پیکروں اور استعاروں  میں  نمایاں  ہیں۔ نظم کی ’سی مٹری‘  (Symmetry) توجہ چاہتی ہے۔ تربیت یافتہ رومانی مزاج کی یہ ایک عمدہ تخلیق ہے۔ یادوں  کی پرانی قبروں اور ان قبروں  کے  کتبوں  سے  شاعر کے  جذبات  اور  احساسات کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ نظم کا مجموعی آہنگ  اور  تاثر متاثر کرتا ہے۔ فکر کے  مقابلے  میں  تخیل کی گرفت زیادہ مضبوط ہے۔ جذباتی تاثر گہرا ہے۔ فرد کا المیہ اپنا اثر چھوڑ جاتا ہے۔ لب و لہجے  کی درد مندی  اور  المناکی نظم کے  حسن کو بڑھاتی ہیں۔ اندرونی ویرانی  اور  تباہی کو علامتوں  میں  پیش کیا گیا ہے۔ قدروں  کا کھوکھلا پن بھی ظاہر ہوتا ہے، ایک یاد اندھیرے  میں  چمک کر پریشان کر دیتی ہے اور پھر کئی خاکے  ابھر نے  لگتے  ہیں۔ ماضی کے  بعض لمحے  روشن ہو جاتے  ہیں۔ شاعر اپنے  المیہ تجربوں  کو ان سے  دور رکھنا چاہتا ہے۔ وہ ماضی کے  غم  اور  درد کو کہاں  تک سنبھالے  چونکہ پرانی قبروں  میں  نہ کسی کا ماس ہے اور نہ ہڈی  اور  نہ کسی کا رُوپ نہ چھایا  اور  اس کی مٹّی کی سوندھی خوشبو اُڑی جا رہی ہے، جس مٹّی میں  اس نے  اپنے  آنسو بوئے  تھے  اس لیے  وہ فیصلہ کرتا ہے:

۔۔۔ سوچ رہا ہوں  جو ہو

ان کتبوں  کو ان قبروں  میں  دفن کروں اور آنکھ بچا لوں

اس منظر کی تاریکی سے۔۔۔ جو رہ جائے  وہ اپنا لوں!

        بات یہ بھی ہے  کہ یادوں  کی قبروں  کو دیکھتے اور کھودتے  ہوئے  کچھ سائے  بھی نظر آئے  ہیں  درد کی صورت۔۔۔ وہ ان قبروں، ماضی کے  ان کھنڈروں  کو ہمیشہ کے  لیے  بند کر دینا چاہتا ہے  ’کتبے ‘  کی یاد کی علامت میں، ان ہی سے  قبر (ماضی) کی تمام باتیں اور یادیں  وابستہ ہیں۔ ایک یاد سے  جانے  کتنی باتیں  زندہ  اور  تازہ ہو جاتی ہیں اور وہ۔۔۔ اس علامت کو ختم کر دینا چاہتا ہے۔ ان کتبوں  کو قبروں  میں  دفن کر کے  اندھیرے اور تاریکی سے  آنکھیں  بچا لینا چاہتا ہے۔ نظم یہ ہے:

کس کی یاد چمک اٹھی ہے، دھندلے  خاکے  ہوئے  اُجاگر

یوں ہی چند پرانی قبریں  کھود رہا ہوں  تنہا بیٹھا

کہیں  کسی کا ماس نہ ہڈی، کہیں  کسی کا رُوپ نہ چھایا

کچھ کتبوں  پر دھندلے  دھندلے  نام کھدے  ہیں  میں  جیون بھر

ان کتبوں، ان قبروں  ہی کو اپنے  من کا بھید بتا کر

مستقبل  اور  حال کو چھوڑے، دکھ سکھ سب میں  لیے  پھرا ہوں

ماضی کی گھنگھور گھٹا میں  چپکا بیٹھا سوچ رہا ہوں

کس کی یاد چمک اُٹھی ہے  دھندلے  خاکے  ہوئے  اُجاگر

بیٹھا قبریں  کھود رہا ہوں، ہوک سی بن کر ایک اِک مورت

درد سا بن کر ایک اِک سایا، جاگ رہے  ہیں  دور کہیں  سے

آوازیں  سی آ جاتی ہیں، گزرے  تھے  اِک بار یہیں  سے

حیرت بن کر دیکھ رہی ہے، ہر جانی پہچانی صورت

گویا جھوٹ ہیں  یہ آوازیں  کوئی میل نہ تھا ان سب سے

جن کا پیار کسی کے  دل میں، اپنے  گھاؤ چھوڑ گیا ہے

جن کا پیار کسی کے  دل سے  سارے  رشتے  توڑ گیا ہے

 اور  وہ پاگل ان رشتوں  کو بیٹھا جوڑ رہا ہے  کب سے!

میری نس نس ٹوٹ رہی ہے  بوجھ سے  ایسے  درد کے  جس کو

اپنی روح سمجھ کر اب تک لیے  لیے  پھرتا تھا ہر سو

لیکن آج اُڑی جاتی ہے  اس مٹّی کی سوندھی خوشبو

جس میں  آنسو بوئے  تھے  میں  نے  بیٹھا سوچ رہا ہوں  جو ہو

ان کتبوں  کو ان قبروں  میں  دفن کروں اور آنکھ بچا لوں

اس منظر کی تاریکی سے  جو رہ جائے  وہ اپنا لوں

’پس منظر‘ ۔۔۔۔ جدید اُردو نظم میں  ایک قابل قدر اضافہ ہے!

        ’ایک لڑکا‘  اختر الایمان کے  نرگسی رجحان کی عمدہ تخلیق ہے۔ جدید نظم ایک شاہکار ہے۔ نارسی سس (Narcissus) نے  جس دریا یا تالاب میں  اپنی صورت دیکھی تھی وہ وقت یا ’ٹائم‘  کا دریا تھا۔ اختر الایمان نے  بھی نارسی سس کی طرح وقت کی لہروں  میں  اپنی صورت دیکھی ہے۔ اس آئینے  میں  ان کے  ساتھ ایک پورا معاشرہ  اور  اس معاشرے  کی قدریں  نظر آ رہی ہیں۔ ماضی  اور  حال کا یہ رومانی تصور ہمہ گیر ہے۔ وقت کی ان لہروں  میں  انھیں  وہ اختر الایمان نظر آیا جو ایک معصوم لڑکا ہے، وہ نہیں  کہ جس نے  زمانے  کے  ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہے۔ اس نظم میں  شاعر نے  اپنے  اس پیکر کو دیکھا ہے  جسے  وہ ماضی میں  چھوڑ آیا تھا، یہ پیکر متحرک ہے  زندہ ہے، لڑکے  کا یہ پیکر خود شاعر کی شخصیت کا ایک حصّہ ہے  سے  وہ اپنے  گاؤں  چھوڑ آیا تھا۔ وہ ہمزاد ہے، سایہ ہے، شاعر کے  لاشعور کی تاریکیوں  جسے  نکل کر یہ سایہ، یہ ہمزاد مسکراتا ہوا کچھ پوچھ رہا ہے۔

        والیرا کے  ایک افسانے  کی ہیروئن کہتی ہے  ’’میں  اپنے  جلتے  ہوئے  ہونٹ آئینے  کی سرد سطح پر رکھ دیتی ہوں اور اپنے  پیکر کو بے  اختیار چومتی ہوں۔‘‘  اختر الایمان نے  دراصل غیر شعوری طور پر اپنے  پیکر کو اسی طرح پیار کیا ہے، اس پیکر کو جوان کے  وجود سے  نکل کر بہت پیچھے  رہ گیا تھا، ماضی کے  دھندلکوں  میں۔۔۔ اس نظم کا لڑکا، انسان کے  سادہ، معصوم  اور  آزاد پیکر کی علامت بن جاتا ہے اور اس طرح اس نظم کی معنویت پھیل جاتی ہے۔ سادہ معصوم  اور  آزاد انسان کے  اس تصور سے  روسو کے  انسان کی یاد آ رہی ہے۔ اختر الایمان نے  لکھا ہے:

 ’’مجھے  اپنے  بچپن کا ایک واقعہ ہمیشہ یاد رہا ہے اور یہ واقعہ ہی اس نظم کا محرک ہے۔ ہم ایک گاؤں  سے  منتقل ہو کر دوسرے  گاؤں  جا رہے  تھے، اس وقت میری عمر تین چار سال کی ہو گی۔ ہمارا سامان ایک بیل گاڑی میں  لادا جا رہا تھا  اور  میں  اس گاؤں  کے  پاس کھڑا اسی منظر کو دیکھ رہا تھا۔ میرے  چہرے  پر کرب  اور  بے  چینی تھی۔ میں  نے  کہا کہ میں  گاؤں  کو چھوڑنا نہیں  چاہتا تھا کیوں؟ یہ بات میں  اس وقت نہیں  سمجھتا تھا، اب سمجھتا ہوں، وہاں  بڑے  بڑے  باغ تھے، باغوں  میں  کھلیان پڑے  تھے، کوئلیں  کوکتی تھیں، پپہیے  بولتے  تھے، وہاں  جوہڑ تھے، جوہٍڑ میں  نیلوفر  اور  کنول کھلتے  تھے۔ وہاں  کھیتوں  میں  ہرنوں  کی ڈاریں  کلیلیں  کرتی نظر آتی تھیں، وہاں  وہ سب تھا جو ذہنی طور پر مجھے  پسند ہے  مگر وہ معصوم لڑکا اس گاڑی کو روک نہ سکا، میں  اس گاڑی میں  بیٹھ کر آگے  چلا گیا مگر وہ لڑکا وہیں  کھڑا رہ گیا۔‘‘

(پیش لفظ یادیں )

        وہ لڑکا شاعر کے  لاشعور میں  زندہ رہا۔ شاعر دنیا کی کشمکش میں  الجھا رہا لیکن وہ لڑکا آزاد تھا، فطرت کی معصومیت  اور  نیچر کے  حسن میں  جذب رہا، تتلیوں  کو پکڑتا رہا، کھیتوں، پگڈنڈیوں  پر کھیلتا رہا۔ یہ لڑکا اس نظم میں  آزادی، فطرت کی معصومیت  اور  سچائی کا علامیہ بن جاتا ہے، شاعر کی زندگی کی پیچیدگی، کشمکش  اور  تضاد کا علامیہ۔

        اختر الایمان نے  لکھا ہے:

 ’’اس کے  بعد اس لڑکے  کو میں  نے  اکثر اپنے  گردو پیش پایا۔ یہ لڑکا جس کے  اختیار میں  کچھ بھی نہیں  تھا مگر جو آزاد تھا یا آزاد رہنا چاہتا تھا، جس کی فطرت  اور  نیچر دونوں  ایک دوسرے  سے  قریب تھیں  جو معصومیت، سچائی  اور  ستھرے  پن کا علامیہ تھا جو ملوث نہیں  تھا کسی کدورت سے  بھی!‘‘  (پیش لفظ۔۔۔ یادیں )

آگے  لکھتے  ہیں:

 ’’وقت کے  ساتھ اس لڑکے  کی تصویر میرے  ذہن سے  محو ہو گئی، میں  دنیا کی کشمکش میں  کھو گیا  اور  شاعر ہو گیا۔ پھر ایک بار میرے  ذہن میں  خیال آیا میں  ایک نظم کہوں، جس میں  اپنے  نام کا استعمال کروں، بظاہر یہ لڑکا  اور  اپنے  نام والا احساس دونوں  ایک دوسرے  سے  الگ ہیں  مگر دراصل ایک ہے، وہ لڑکا جس کی تصویر کبھی میرے  ذہن میں  تھی اس کا نام اختر الایمان ہے۔ احساس کی اس دوسری منزل کے  بعد مجھے  اس لڑکے  کا جگہ جگہ کا سفر یاد آیا۔ یہ لڑکا خانہ بدوش تھا، کوئی اس کا مستقل گھر نہیں  تھا، اس کے  پاس مناسب اسباب معیشت نہیں  تھے، اس کا کوئی پاس مستقبل نہیں  تھا، مجھے  اس لڑکے  سے  ہمدردی ہو گئی، یہ ہمدردی دراصل مجھے  اپنے  سے  تھی مگر چونکہ میں  نے  اپنے  کو اس لڑکے  سے  الگ کر لیا تھا اس لیے  میری شخصیت دب گئی۔ اس لڑکے  کی شخصیت اُبھر آئی۔ تخلیقی عمل کی چوتھی منزل یہ تھی۔۔۔ میں  نے  غیر شعوری طور پر اس لڑکے  کو اپنا ہیرو بنا لیا۔‘‘

(پیش لفظ۔۔۔ یادیں )

        اس نظم کا حسن تصادم  اور  کشمکش میں  ہے، شاعر خود کو اپنے  معاشرے  کی کشمکش  اور  اپنے  عہد کے  تضاد میں  گرفتار دیکھتا ہے  لیکن جب اس کی نظر اس آئینے  پر جاتی ہے  تو وہ والیرا کی ہیروئن کی طرح اس لڑکے  کو غیر شعوری طور پر چوم لیتا ہے  جس کی صورت اس آئینے  میں  نظر آتی ہے۔

        نظم کے  پیچھے  اس جذباتی کشمکش  اور  کیفیت کی پہچان مشکل نہیں  ہے۔ بظاہر محسوس ہوتا ہے، شاعر اپنے  ہمزاد  اور  اپنے  سائے  کو دیکھ اُلجھ گیا ہے  لیکن حقیقت یہ ہے  کہ وہ اس کے  قریب ایک خاص قسم کا انبساط پا رہا ہے۔ چاہتا ہے  یہ پیکر اس کو پوچھے، یہ ظاہر ہو کہ معاشرتی ہیجانات سے  الگ اس سچائی  اور  معصومیت  اور  انسانیت کی روح  اور  ضمیر کی اہمیت کیا ہے  اس نظم کے  حسن میں اور اضافہ ہو گیا ہے۔ جب شاعر خود اپنے  تمدن  اور  معاشرے  کی علامت بن گیا ہے اور اس لڑکے  کو پوری انسانیت کے  ضمیر کا علامیہ بنا دیا ہے۔ اس طرح نرگسی رجحان  اور  ہمہ گیر ہو گیا ہے۔ اپنی شخصیت کو اس طرح دو حصوں  میں  تقسیم کر کے  شاعر نے  دو آئینے  سامنے  رکھ دیئے  ہیں۔ ایک آئینہ وہ جو عہد  اور  معاشرے  کا ہے  جس میں  فرد  اور  زمانے  کی سمجھوتہ بازی صاف دکھائی دے  رہی ہے اور دوسرا آئینہ وہ جس میں  پوری انسانیت کی روح  اور  پوری زندگی کا ضمیر نظر آ رہا ہے۔ یہ نظم داخلی  اور  خارجی کشمکش کو اچھی طرح نمایاں  کرتے  ہوئے  شاعر کی تخیلی فکر  اور  اس کی رومانیت کی ہمہ گیری کو سمجھاتی ہے۔ پیکر کی تقسیم میں  جذباتی پہچان  اور  رومانی گریز کے  عمل کو سمجھا جا سکتا ہے، المیہ کا احساس اس وقت بڑھ جاتا ہے  جب ہم یہ سنتے  ہیں:

یہ لڑکا پوچھتا ہے  جب تو میں  جھلا کے  کہتا ہوں

وہ آشفتہ مزاج اندوہ پرور اضطراب آسا

جسے  تم پوچھتے  رہتے  ہو کب کا  مر چکا ظالم

اسے  خود اپنے  ہاتھوں  سے  کفن دے  کر فریبوں  کا

اسی کی آرزوؤں  کی لحد میں  پھینک آیا ہوں

 اور  اس المیہ کا حسن اس وقت اُبھرتا ہے  جب:

یہ لڑکا مسکراتا ہے، یہ آہستہ سے  کہتا ہے

یہ کذب و افترا ہے، جھوٹ ہے، دیکھو میں  زندہ ہوں!

        انسان کی جذباتی زندگی کا یہ آئینہ کتنا روشن  اور  تابناک ہے، غیر شعور کی تاریکیوں  میں  برسوں  سانس لینے  والا معصوم لڑکا پوری انسانیت کی روح بن کر اُبھرتا ہے۔ یہ لڑکا پرچھائیں  ہے، روح ہے، ضمیر ہے، معصوم  اور  پاکیزہ زندگی کے  خواب کی علامت ہے، آنے  والے  روشن لمحوں اور مستقبل کا روشن اشارہ ہے، اس نرگسی رجحان میں  موت کی جبلّت کو جس طرح اُبھارا گیا ہے  اس سے  شاعر کی فنکارانہ صلاحیتوں  کا گہرا احساس ملتا ہے۔ غیر شعوری طور پر اس پیکر کو توڑ دیا گیا ہے  جو تضاد  اور  تصادم کا شکار تھا، وہ پیکر زندہ ہے  جو معصوم ہے، جو پوری انسانیت کی روح ہے اور جو ایک نئی تاریخ  اور  ایک نئی زندگی کا عنوان ہے۔

        وہ لڑکا جو اونچے  ٹیلوں، آموں  کے  باغوں اور کھیتوں  کے  مینڈوں  پر اُچھل رہا ہے، جو جھیلوں  کے  پانی  اور  بستی کی گلیوں  میں  کھیل رہا ہے  جو تتلیوں اور تھے  پرندوں  کو چپکے  سے   پکڑ رہا ہے اور جو خوابوں  میں  بادل بن کر اڑ رہا ہے، وہ بھی شاعر کی رومانی فکر کا ایک پیکر ہے، وہ بھی ایک معصوم نرگسی کردار ہے، قدروں  کے  تصادم  اور  معاشرے  کے  تضاد کے  ساتھ اس نظم میں  داخلی کشمکش کے  کرب کی داستان ہے۔

        اس نظم کا گہرا طنز زندگی کی شکست و ریخت  اور  تضاد کے  ردِّ عمل سے  پیدا ہوا ہے۔ قدروں  کو تبدیل کر نے اور زندگی کو خوب صورت بنانے  کی ابدی تمنا بھی ہے اور ساتھ ہی اس حقیقت کا گہرا احساس کہ ہر عہد میں  اس تمنا کی شکست ہوئی ہے۔ اس آرزو کا خون ہوا ہے۔ خود شاعر نے  مجبور ہو کر وقت سے  سمجھوتہ کر لیا ہے۔ حالانکہ اس کے  دل میں  بھی زندگی کی قدروں  کو تبدیل کر نے اور حیاتِ انسانی کو خوب صورت  اور  زیادہ سے  زیادہ روشن کر نے  کی آرزو تھی۔ داخلی طور معصوم لڑکے  کی صورت یہ آرزو زندہ ہے۔۔۔ داخلی طور پر شاعر زندگی کے  حسن کو سب کچھ تصور کرتا ہے، ظاہری طور پر اس میکانکی، مشینی  اور  سرمایہ دارانہ زندگی کے  شکنجے  میں  گرفتار ہے۔ شاعر اس عہد کے  فرد کی علامت ہے اور ساتھ ہی نئے  ذہن کا ایک مکمل اشارہ۔ اس کی شکست اس لڑکے  کی شکست نہیں  ہے  جو اب بھی قدروں  کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ یہ لڑکا فطرت کی معصومیت، جدوجہد  اور  پورے  انسانی وجود کی روشنی کا پیکر ہے۔

        زبان و زبان کے  اعتبار سے  بھی یہ ایک کامیاب نظم ہے۔ اختر الایمان کی انفرادیت کی پہچان ایسے  ہی اسلوب میں  ہوتی ہے۔ یہ ان کی ’پرسنل ڈکشن‘  ہے۔ جذباتی تلازمات (Emotional Association) کے  لیے  جن لفظوں  کا انتخاب کیا گیا ہے  وہ بھی توجہ طلب ہے، تکنیک کے  حسن کو تشبیہوں اور استعاروں، ڈرامائی عناصر  اور  خیال افروزی رمزیت  اور  ایمائیت  اور  لہجے  کی تیزی  اور  غنائی کیفیتوں  کے  پیش نظر دیکھئے  تو محسوس ہو گا یہ کتنا اہم شعری تجربہ ہے۔ جذباتی  اور  حسیاتی شعور میں  ایک پیکر کا خاکہ جذباتی تلازمات  اور  سماجی تلازمات کے  ذریعہ اُبھرا ہے اور کئی سچائیوں  کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ اس فرد آشوب میں  پورے  معاشرے اور پوری انسانیت کے  ہیجانات ظاہر ہوئے  ہیں۔ ’’دیکھو میں  زندہ ہوں‘‘  کی آواز سے  وہی سکون ملتا ہے  وہی مسرت حاصل ہوتی ہے اور وہی لذت ملتی ہے  جو کسی اچھے  المیہ ڈرامے  سے  حاصل ہوتی ہے۔ ضمیر کی یہ آواز بہت اہم ہے اور اس آواز کو نہایت فنکارانہ انداز میں  اُبھارا گیا ہے۔ ہر فرد کے  دل کی آواز معلوم ہوتی ہے، لفظی صناعی اختر الایمان کے  داخلی ہیجانات کا پردہ بن گئی ہے۔ لیکن ہر لفظ ایک اشارہ ہے  اضطراب  اور  روحانی کرب کا اشارہ، ترشے  ہوئے  مصرعے  ملتے  ہیں، حسی تجربوں  کا اظہار متاثر کرتا ہے۔ موضوع  اور  اسلوب سے  اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے  کہ نیا آدمی ذہنی طور پر کتنا مختلف ہے، خارجی  اور  داخلی شکست و ریخت ڈرامائی تناؤ کے  ساتھ سامنے  آئی ہے، تخلیقی کرب کی پہچان کے  لیے  اس ڈکشن سے  مدد ملتی ہے۔

        ’ایک لڑکا‘  پڑھتے  ہوئے  مجھے  ورڈس ورتھ (Wordsworth) کی نظم ’ایک لڑکا تھا‘  (There was a Boy) بار بار یاد آئی۔ دونوں  نظموں  میں  نرگسی رجحان ملتا ہے۔ ورڈس ورتھ کی نظم کا لڑکا بھی اختر الایمان کے  لڑکے  کی طرح خود شاعر کا پیکر ہے، کہا جاتا ہے  کہ اس نظم میں  ورڈس ورتھ نے  پہلے  ’میں ‘  (I )  اور  ’میرا‘  (My) کا استعمال کیا تھا پھر ’وہ‘  (He)  اور  ’اس کا‘  (His) استعمال کیا، غالباً نظر ثانی کے  بعد  اور  کئی برسوں  بعد اس نظم میں  بچپن کی یادیں  ہیں۔ اس فردوس گمشدہ کی تلاش ہے، ورڈس ورتھ کو بچپن کے  لمحوں  سے  دلچسپی اس لیے  ہے  کہ اس لڑکے  کا گہرا رشتہ آزاد، خوبصورت  اور  اپنے  نشے  میں  جھومتی فطرت یا نیچر سے  ہے۔ ان لمحوں  کے  ذریعہ شاعر ’نیچر‘  میں  جذب ہونا چاہتا ہے، وہ ان لمحوں  کو پھر گرفت میں  لینے  کا خواہش مند ہے۔ اسی آرزو میں  ورڈس ورتھ کی رومانیت پوشیدہ ہے۔ اس کی آرزو مندی کا تجزیہ اس کی رومانیت کا تجزیہ ہے۔ اس نظم میں  بھی تاثرات بہت اہم ہیں۔ جذباتی آرزو مندی، تخیل پسندی، داخلی اضطراب  اور  بے  چینی، نگاہوں  کے  پیکر  اور  آوازوں  کی حسی تصویریں۔۔۔ یہ تمام باتیں  اہم ہیں۔ شاعر معصوم بچہ بن جاتا ہے، آبشاروں  کی آوازیں  سنتا ہے، پتھروں اور چٹانوں  سے  لطف اندوز ہوتا ہے، جنگلوں  میں  دیوانہ وار گھومتا ہے، چشمے  میں  آسمان کو چومتا ہے۔ انگریزی ادب میں  اس نظم کا ذکر بہت کم ملتا ہے، حالانکہ یہ ورڈس ورتھ کی ایک خوب صورت نظم ہے۔ فطرت کے  حسن  اور  لڑکے  کے  جذبے اور احساس کی ہم آہنگی غضب کی ہے۔ ورڈس ورتھ نے  ماضی کی قدروں اور ماضی کے  لمحوں  سے  جو بے  پناہ  محبت کی ہے  اس کی یہ عمدہ مثال ہے۔ چونکہ وہ لڑکا خود شاعر کا اپنا پیکر ہے  اس لئے  جذباتی  اور  حسیاتی کیفیت زیادہ متاثر کرتی ہے۔

        اختر الایمان کا پیکر وہی ہے  جو ورڈس ورتھ کا ہے  لیکن دونوں  شعراء کے  رجحانات مختلف ہیں۔ وقت  اور  زمانے  کے  اختلاف  اور  موضوع کی مختلف سطحوں  کے  اختلاف سے  دونوں  نظموں  کا مزاج مختلف نظر آتا ہے۔

        ’ایک لڑکا‘  اُردو شاعری میں  ایک اضافہ ہے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

        ’ محبت‘  اس نظم کو پڑھتے  ہوئے  مجھے  ہیرک (Herrick) کی ایک نظم یاد آ رہی ہے۔ جس کا موضوع بھی ’ محبت  اور  وقت‘  ہے۔ اس نظم کا مفہوم یہ ہے  ’زندگی مختصر ہے، لمحے  تیزی سے  بھاگ رہے  ہیں، لمحے  پگھل رہے  ہیں، ہر لمحہ پانی کا ایک قطرہ ہے، گم ہو گیا تو پھر ہم اسے  پا نہیں  سکتے، ہم بھی تو مٹتی ہوئی پرچھائیاں  ہیں،  محبت  اور  ہماری تمام مسرتیں۔۔۔ رات کی گہری تاریکیوں  میں  گم ہو جاتی ہیں، آؤ۔۔۔ میرے  پاس آؤ۔۔۔‘‘

        اختر الایمان کا رجحان مختلف ہے۔ ان کے  رومانی ذہن نے  ’ محبت  اور  وقت‘  کے  روایتی  اور  ابدی موضوع کو احساس کا ایک نیا لہجہ عطا کیا ہے۔ موضوع  اور  ہیئت کے  اعتبار سے  یہ نظم جدید اُردو نظم میں  ایک اضافہ ہے۔ اختر الایمان کا ’ڈکشن‘  ایک ’وژن‘  عطا کرتا ہے۔ اس نظم میں  اسلوب کا حسن متاثر کرتا ہے۔ حسی فکر  اور  علامت سازی کے  عمل کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ زندگی کی کشمکش  اور  تصادم  اور  اذیتوں اور حسرتوں  کے  لمحوں  میں  روح کے  کرب کی پہچان بھی ہوتی ہے اور ساتھ ہی روح کی تابناکی  اور  اس کی ہمیشگی  اور  ابدیت کا احساس بھی گہرا ہوتا ہے۔ ’طائر‘  اسی روح کی علامت ہے۔ یہ حسی پیکر  اور  ’آرچ ٹائپ‘  ہے۔ نظم کے  آہنگ سے  شاعر کے  درد  اور  پیتھوس کو سمجھنے  میں  مدد ملتی ہے۔ آہنگ  اور  لہجہ پر وقار  اور  پُر اثر ہے۔ تیزی سے  بھاگتے  لمحوں  کی کیفیتوں  کو سمجھانے  میں  اس آہنگ  اور  لہجے  سے  مدد لی گئی ہے:

رات میں  دیر تک اُڑتے  بادل کھلے  چاند کی کشمش

ٹکٹکی باندھ کر ایسے  دیکھا کیا جیسے  یہ ماجرا

میری ہی داستاں  کا کوئی پارہ ہے، کون آوارہ ہے

تو کہ میں ؟ ایک چھوٹا سا طائر فضا میں  تھا نغمہ سرا

دور نزدیک پھر دور ہر سمت اِک تان کی گونج تھی

رات آہستہ آہستہ رُک رُک کے  ایسے  گزرتی رہی

جیسے  میں اور تو وقت کی وادیوں  سے  گزرتے  ہوئے

شہر کی سونی، سنسان خاموش گلیوں  میں  گم ہو گئے!

رات کی کالی دھاری سے  دن کی سفیدی الگ ہو گئی

دونوں  اِک دوسرے  سے  الگ ہو گئے  ہاں  وہ طائر مگر

یوں  ہی گاتا رہا، اُڑتے  بادل، کھلی چاندنی کا سماں

وقت کے  ساتھ ساتھ آپ تبدیل تحلیل ہوتا رہا

میں  تجھے  تو مجھے  ڈھونڈتی رہ گئی، وقت اُڑتا گیا

ان خنک سانولی بھیگی راتوں  کی پر  صنا

تھرا، دو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کتا ہے۔ز‘شوق تنہائیاں

صرف اِک داغ غم تاب کی شکل میں  منجمد ہو گئیں

پر وہ نغمہ، وہ حسن زمین و زماں، روشنی

اس پرندے  کی وہ دھیمی آواز، وہ میٹھی کلکاریاں

بنت آغاز و انجام کے  با کرہ بطن میں  رہ گئیں!

 اور  اِک نسل سے  دوسری نسل تک عکس روح ازل

عکس روح ابد ایسے  نشو و نما پائے  گا خون میں

جیسے  بنجر زمیں  قطرۂ ابر سے  سیر و شاداب ہو!

اُڑتے  بادل کھلی چاندنی کا سماں، میٹھی تنہائیاں

سب کی سب بن کے  مٹتی ہوئی پیاری تصویریں  ہیں

صرف تبدیل ہوتی ہوئی روشنی کی جھلک زندہ ہے

صرف حسن ازل  اور  حسن ابد کی مہک زندہ ہے

صرف اس طائر خوش ادا خوش نوا کی لہک زندہ ہے

ایک دن آئے  گا تو بھی مر جائے  گی میں  بھی مر جاؤں  گا!

        ’رات‘  اُڑتے  ہوئے  بادل، چاند کی کشمکش، ان سے  زندگی کی قدروں اور ان کے  تصادم  اور  لمحوں  کی کیفیتوں  کو سمجھانے  کی ایک فنکارانہ کوشش ہے۔ روح کی آواز کو دور نزدیک  اور  پھر دور کہہ کر شدت سے  محسوس کرانے  کی کوشش کامیاب ہے۔ طائر روح  اور  شخصیت کا پیکر ہے اور اس کی آواز  محبت کا نغمہ  اور  پیغام ہے۔ وقت گزر جاتا ہے  لیکن آواز زندہ رہتی ہے۔ شاعر نے  اسے  حسن زمین و زماں  کہا ہے۔ ازل سے  ابد تک کی جمالیاتی قدروں  کا احساس ایک جگہ سمٹ آیا ہے۔ داغ غم ہر دور  اور  ہر عہد میں  جانے  کہاں  کہاں  منجمد ہے۔ یہ نشان اسی حقیقت کی پہچان ہے  کہ ہر عہد میں  یہ روح زندہ رہی ہے  ایک نسل سے  دوسری نسل تک طائر کا سفر، روح کا سفر ہے،  محبت کا سفر ہے، شاعر کو یقین ہے  کہ یہ عکس روح ازل  اور  یہ عکس روح ابد خون میں  نشو و نما پائے  گا۔ مٹتی ہوئی خوبصورت  اور  دل فریب  اور  پیاری تصویروں  کے  ساتھ اس کا ارتقا ہوتا رہے  گا۔ موت تصویروں  کو مٹا دیتی ہے  لیکن اس روشنی کو نہیں  بجھا سکتی، ہر عہد میں  اس کی روشنی مختلف ہو جاتی ہے۔ یہاں  تخریب کے  عمل میں  تعمیر  اور  تشکیل کے  عمل کو پہچاننے  کا رومانی رجحان ملتا ہے۔ کیٹس کے  ’نائٹ اینگل‘  کی طرح اختر الایمان کا طائر بھی شاعر کے  وجود  اور  اس کی روح کی علامت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

        ’عمر گریزاں  کے  نام‘  میں  اختر الایمان نے  زندگی کو ایک حسین خوبصورت سی صورت دیکھنے اور محسوس کر نے  کی کوشش کی ہے، زاویۂ نگاہ منفرد ہے۔ محرومی  اور  ناکامی کا احساس گہرا ہے۔ عمر گریزاں  کا پیکر محبوب کا پیکر بن گیا ہے، تیزی سے  گزرتے  ہوئے  لمحوں  سے  شاعر اسی طرح مخاطب ہے  جس طرح وہ اپنے  محبوب سے  مخاطب ہوتا ہے۔ دلفریب نظم ہے:

عمر یوں  مجھ سے  گریزاں  ہے  کہ ہر گام پہ میں

اس کے  دامن سے  لپٹتا ہوں  مناتا ہوں  اسے

واسطہ دیتا ہوں  محرومی و ناکامی کا

داستاں  آبلہ پائی کی سناتا ہوں  اسے

خواب ادھورے  ہیں  جو دُہراتا ہوں  ان خوابوں  کو

زخم پنہاں  ہیں  جو وہ زخم دکھاتا ہوں  اسے

اس سے  کہتا ہوں  تمنّا کے  لب و لہجے  میں

اے  مری جان مری لیلیِ تابندہ جبیں

سنتا ہوں  تو ہے  پری پیکر و فرخندہ جمال

سنتا ہوں  تو ہے  مہ و مہر سے  بھی بڑھ کے  حسیں

یوں  نہ ہو مجھ سے  گریزاں  کہ ابھی تک میں  نے

جاننا تجھ کو کجا پاس سے  دیکھا بھی نہیں

صبح اُٹھ جاتا ہوں  جب مرغ اذاں  دیتے  ہیں

 اور  روٹی کے  تعاقب میں  نکل جاتا ہوں

شام کو ڈھور پلٹتے  ہیں  چراگاہوں  سے  جب

شب گزاری کے  لیے  میں  بھی پلٹ آتا ہوں

یوں  نہ ہو مجھ سے  گریزاں  مرا سرمایہ ابھی

خواب ہی خواب ہیں  خوابوں  کے  سوا کچھ بھی نہیں

ملتوی کرتا رہا کل پہ تری دید کو میں

 اور  کرتا رہا اپنے  لیے  ہموار زمیں

آج لیتا ہوں  جواں  سوختہ راتوں  کا حساب

جن کو چھوڑ آیا ہوں  ماضی کے  دھندلکے  میں  کہیں

صرف نقصان نظر آتا ہے  اس سودے  میں

قطرہ قطرہ جو کریں  جمع تو دریا بن جائے

ذرّہ ذرّہ جو بہم کرتا تو صحرا ہوتا

اپنی نادانی سے  انجام سے  غافل ہو کر

میں  نے  دن رات کیے  جمع خسارہ بیٹھا

جاننا تجھ کو کجا پاس سے  دیکھا بھی نہیں

اے  مری جان مری لیلیِ تابندہ جبیں

یوں  نہ ہو مجھ سے  گریزاں  مرا سرمایہ ابھی

خواب ہی خواب ہیں  خوابوں  کے  سوا کچھ بھی نہیں!

        اس نظم کو پڑھتے  ہوئے  بنگلہ کے  مشہور شاعر جیونند داس کی یاد آ رہی ہے، ان کی نظموں  میں  بھی زندگی اسی طرح خوابوں  کے  پیکروں  میں  ملتی ہے۔ خوابوں  کی پرچھائیاں  اہمیت رکھتی ہیں۔ چاند، تاریکی، بلی  اور  عورت جیونند داس کی محبوب علامتیں  ہیں۔ پر تبھی ملوک، (کائنات) لتاسن،  اور  ’ویرال‘  (بلی) ان کی مشہور نظمیں  ہیں۔ زندگی، خواب  اور  تیزی سے  گزرتے  لمحوں  کی باتیں  اختر الایمان کے  تاثرات سے  ملتی جلتی ہیں۔ عمر گریزاں  کو محبوب کی صورت دے  کر اختر الایمان نے  بھی اسی طرح بہت سے  تصورات اُبھارے  ہیں۔ زندگی گزار نے  کے  بعد محسوس ہوتا ہے  کہ اسے  ’پاس‘  سے  دیکھا بھی نہیں۔۔۔ زندگی سے   محبت  اور  عقیدت  اور  والہانہ کیفیت سے  اندازہ کیا جا سکتا ہے  کہ شاعر کے  احساسات کیا ہیں۔ زندگی کی میکانیت نے  زندگی کے  حسن کو محسوس کر نے  کی مہلت ہی نہیں  دی۔ شاعر اپنی محرومی، ناکامی  اور  آبلہ پائی کی داستان سناتا ہے۔ اپنے  زخموں  کو دکھا کر ادھورے  خوابوں  کا ذکر کرتا ہے اور اسے  مناتا ہے۔ اس بات کا احساس کہ وہ کچھ کرنہ سکا  اور  اس میکانکی زندگی میں  اپنی نادانی سے  انجام سے  غافل رہا  اور  نقصان برداشت کیا۔ گہرے  دُکھ کو پیار کرتا ہے۔ نظم میں  گہری افسردگی کی وجہ سے  جو تڑپ پیدا ہوئی ہے  وہ توجہ طلب بن گئی ہے۔

        بودیلیر (Baudelaire) زندگی  اور  وقت کی دہشت سے  حسن نچوڑنے  کی کوشش کرتا ہے۔ اختر الایمان زندگی  اور  وقت کی میکانیت میں  حسن و جمال کو شدت سے  محسوس کر رہے  ہیں۔ یہ احساس جمال ہی ہے  جس سے  تیزی سے  گزرتی زندگی کو اس طرح دیکھ  اور  محسوس کر رہے  ہیں۔ شاعر کے  جمالیاتی شعور کی پہچان ہو جاتی ہے۔ عام  اور  معمولی زندگی  اور  تیزی سے  بھاگتے  لمحے  جمالیاتی قدروں  کی علامت بن جاتے  ہیں۔ میکانکی زندگی کی سطح کے  نیچے  خوابوں  کی زندگی ہے، حیات انسانی کا حسن اس سطح کے  نیچے  نظر آتا ہے۔ غور کیجیے  تو محسوس ہو گا کہ شاعر کا جمالیاتی  اور  رومانی شعور وقت کے  بہاؤ سے  علیحدہ نہیں  ہے۔ زندگی کی میکانیت کی تصویر اس طرح سامنے  آتی ہے:

صبح اُٹھ جاتا ہوں  جب مرغ اذاں  دیتے  ہیں

 اور  روٹی کے  تعاقب میں  نکل جاتا ہوں

شام کو ڈھور پلٹتے  ہیں  چراگاہوں  سے  جب

شب گزاری کے  لیے  میں  بھی پلٹ آتا ہوں

        ایسے  اشاروں  کو دیکھ کر کچھ لوگ کہتے  ہیں  کہ ان میں  ’شعریت‘  نہیں  ہے۔ حالانکہ اس نظم میں  ان عام پیکروں  کی اہمیت ہے۔ اختر الایمان کے  بنیادی اسلوب کے  پیشِ نظر بھی ان عام پیکروں  کو دیکھنا چاہیے، بودیلیر نے  جب اپنی ایک نظم میں  زندگی کی دہشت  اور  وحشت، گہری اُداسی  اور  اُلجھنوں  کو عام پیکروں  میں  اُجاگر کیا  اور  پیرس کی گلیوں  میں  بوڑھے  مرد عورت، کیچڑ اور  مٹّی  اور  ٹوٹی ہوئی گاڑیوں  کے  پیکروں  کو پیش کیا تو ان تمام پیکروں  پر اسی قسم کے  اعتراضات کئے  گئے  تھے۔ بودیلیر نے  جواب دیا تھا کہ اس مشینی  اور  میکانکی زندگی میں  جہاں  ہر روز ایک نیا شہر بسایا جا رہا ہے۔ مجھے  چند پیکر ملے  ہیں اور میں  ان ہی پیکروں  سے  سچائیوں  کی جانب اشارے  کرتا ہوں۔ انسان جس جگہ کھڑا ہے  وہاں  ان کے  علاوہ  اور  ہے  کیا؟ کیچڑ اور  مٹّی، ٹوٹی ہوئی گاڑیاں، بوڑھی زندگی، پتھر  اور  کہاسہ! فنکاروں  کو چاہیے  وہ کچھ پیکر منتخب کر لیں اور ان پیکروں  کو اپنے  ’وژن‘  کی روشنی دیں۔۔۔ ان چار مصرعوں  میں  شاعر کا ’وژن‘  پرکھئے۔ عام پیکروں  میں  زندگی کے  چکر کو سمجھا دیا گیا  اور  نظم کی ’سمٹری‘  پر کوئی خراب اثر نہیں  ہوتا ہے۔ میکانکی مصروفیت کی تصویر سامنے  آ جاتی ہے۔ اس نظم کا بنیادی خیال یہی ہے  کہ میکانکی تگ و دو  اور  میکانکی مصروفیتوں  کی وجہ سے  زندگی  اور  فطرت کے  حسن و جمال کو دیکھا  اور  محسوس نہیں  کیا، لطف حاصل نہیں  کیا، لذت حاصل نہیں  کی  اور  زندگی تیزی سے  بھاگتی جا رہی ہے، موت کا احساس بھی موجود ہے اور ساتھ ہی زندگی کے  حسن کا شدید احساس بھی ہے۔۔۔ ایسے  احساسات کے  بغیر ایسے  تجربے  سامنے  نہیں  آتے، ایک طرف زندگی کے  خواب ہیں، زندگی کا جمال ہے  دوسری طرف موت (انجام) ہے، زندگی ہے  جو بس موت کی جانب بڑھتی ہی جا رہی ہے اور اس میکانکی زندگی میں انسان کو حسن و جمال کو پانے، دیکھنے اور محسوس کر نے  کی فرصت ہی نہیں  ملی۔ اختر الایمان کی علامتی فکر نے  زندگی کو ایک کردار دیا ہے اور اس کردار سے  کچھ کہتے  ہوئے  میکانکی تمدن کی تصویر اُجاگر ہوئی ہے۔ نئی زندگی کی المناکی نمایاں  ہوئی ہے۔

        اس نظم کا ’تجزیہ‘  کرتے  ہوئے  وزیر آغا نے  لکھا ہے:

 ’’زیر نظر نظم میں  شاعر نے  خوابوں  کی اس دنیا کو نہ صرف اصل زندگی بلکہ آرزوؤں  کا مرکز بھی قرار دیا ہے اور اپنی عام گوشت پوست کی زندگی کو نفرت کی نگاہوں  سے  دیکھا ہے  (؟) شاعر نے  اس بات کا اظہار کیا ہے  کہ وہ اپنی عام زندگی میں  اصل زندگی (یعنی خوابوں  کی فضا) کے  لیے  ذہن ہموار کرتا رہا لیکن اس کے  یہ خواب ہمیشہ شرمندہ، تعبیر رہے اور زندگی نے  کبھی اسے  اپنی جھلک نہ دکھائی۔‘‘

        حیرت ہے  وزیر آغا نے  اس نظم کے  متعلق یہ رائے  قائم کی ہے۔ ’’اپنی تمام گوشت پوست کی زندگی کو نفرت کی نگاہوں  سے  دیکھنے‘‘  کی کوئی بات ہی نہیں، یہاں  تو زندگی سے  بے  پناہ  محبت ہے، زندگی کے  حسن و جمال کا گہرا احساس ہے  پھر شاعر نے  اس خیال کا کہیں  اظہار نہیں  کیا ہے  کہ ’’وہ اپنی عام زندگی میں  خوابوں  کی زندگی کے  لیے، زمین ہموار کرتا رہا  اور  اس کے  یہ خواب ہمیشہ شرمندۂ تعبیر رہے‘‘  وہ تو یہ کہہ رہا ہے:

یوں  نہ ہو مجھ سے  گریزاں  مرا سرمایہ ابھی

خواب ہی خواب ہیں  خوابوں  کے  سوا کچھ بھی نہیں

        نہایت خوب صورت۔ خیال ہے  ابھی تو اس نے  زندگی کے  جمال کو دیکھا ہی نہیں، زندگی کو خوبصورت بنانے  کے  خواب ہی دیکھے  ہیں، وہ ان تمام دلفریب خوابوں  کو حقیقت میں  بدلنا چاہتا ہے اور اس کے  لیے  زندگی کو روکنا چاہتا ہے، چاہتا ہے  زندگی پھیل جائے  گہری ہو جائے۔ اس کا تسلسل قائم رہے  اس کا ارتقا ہوتا رہے  تاکہ اس کا ہر خواب حقیقت بن جائے، ’’اپنی عام گوشت پوست کی زندگی کو نفرت کی نگاہوں  سے  دیکھنے‘‘  کا سوال ہی نہیں  ہے۔

        وزیر آغا نے  آگے  تحریر کیا ہے:

 ’’اس نظم کا مرکزی خیال زیادہ وضاحت  اور  حسن کے  ساتھ قاری کے  سامنے  آ جاتا  اگر  شاعر خواب  اور  زندگی کو آپس میں  گڈمڈ نہ کرتا لیکن ایسا نہ ہوا  اور  نظم میں  بلاوجہ ایک اُلجھاؤ پیدا ہوا۔ یہ اُلجھاؤ دراصل خیال کا نہیں  بلکہ ابلاغ کا اُلجھاؤ ہے۔ لفظوں  پر شاعر کی گرفت مضبوط نہیں اور لفظوں  کے  انتخاب میں  اس کی بے  پروائی واضح ہے۔ اس کے  علاوہ نظم کو بلا ضرورت پھیلا دیا گیا ہے،  اگر  شاعر کفایت (Economy) کو ملحوظ رکھتا تو نظم کا تاثر بری طرح مجروح نہ ہوتا۔‘‘

        یہ بڑی نا انصافی ہے!حیرت ہوتی ہے  کہ وزیر آغا نظم کی روح تک پہنچ نہ سکے۔ حالانکہ یہ نظم آسان زبان میں  ہے اور اپنے  جوہر کا احساس فوراً دلا دیتی ہے۔

        ۳۱ مصرعوں  کی یہ ایک مختصر نظم ہے۔ دو مصرعے  دو بار آئے  ہیں (اے  مری جان مری لیلیِ تابندہ جبیں )  اور  ۔۔۔ (جاننا تجھ کو کجا پاس سے  دیکھا بھی نہیں ) ان سے  تاثر کو بڑھایا گیا ہے۔ وزیر آغا نظم کی روح کو نہ سمجھ سکے  تو فیصلہ کر دیا کہ ’’شاعر نے  خواب  اور  زندگی کو گڈ مڈ کر دیا ہے اور اس سے  نظم میں  اُلجھاؤ پیدا ہو گیا ہے۔‘‘  ، ’’خوابوں  کی دنیا کو اصلی زندگی قرار دیا ہے  ’ اور  ‘  عام گوشت پوست کی زندگی کو نفرت کی نگاہوں  سے  دیکھا ہے۔ اسی خیال سے  ’نقاد‘  کی اُلجھن شروع ہوتی ہے!

        حقیقت یہ ہے  کہ خیال یا ابلاغ کی کوئی اُلجھن نہیں  ہے۔ لفظوں  کے  انتخاب میں  بھی شاعر محتاط ہے۔ نظم پھیلی بھی نہیں  ہے۔ نظم کا تاثر مجروح نہیں  ہوا ہے۔ ’عمر گریزاں ‘  میں  نفرت کا جذبہ کہیں  بھی نہیں  ہے  البتہ میکانکی زندگی  اور  میکانکی تمدن کے  دباؤ کا شدید احساس ہے اور اسی دباؤ میں  انسان زندگی کے  حسن و جمال سے  لطف اندوز نہ ہو سکا، ہر لمحے  حسن کا شدید احساس ہے، اپنے  خوابوں  کو حقیقت میں  تبدیل نہ کر سکا، زندگی بڑی تیزی سے  انجام کی طرف چلی جا رہی ہے۔ نقاد کو میکانکی مصروفیت، زندگی کی المناکی، عمر گریزاں  کے  شخصی پیکر، شاعر کے  جمالیاتی شعور  اور  رومانی رجحان اقدار  اور  ضمیر کے  تصادم  اور  انداز تخاطب پر غور کرنا چاہیے  تھا۔ لفظوں  کے  انتخاب میں  کہاں  بے  پروائی ہے، کاش بتا دیتے۔ اسی طرح زندگی  اور  خواب کو آپس میں  گڈ مڈ کر نے  کا کوئی سوال ہی نہیں  ہے۔ خوبصورت زندگی کے  تصور سے  خوبصورت خواب پیدا ہوئے  ہیں۔ خوابوں  کی تعبیر دیکھنے  کے  لیے  وہ اب بھی چین ہے۔ حسرت تعمیر  اور  شہر آرزو کو بسائے  وہ تو یہ کہہ رہا ہے:

یوں  نہ ہو مجھ سے  گریزاں  کہ ابھی تک میں  نے

جاننا تجھ کو کجا، پاس سے  دیکھا بھی نہیں

یوں  نہ ہو مجھ سے  گریزاں  مرا سرمایہ ابھی

خواب ہی خواب ہیں  خوابوں  کے  سوا کچھ بھی نہیں

        یہ عام تجربے  ہیں، جنھیں  شاعر نے  جمالیاتی تجربوں  کی صورت دے  دی ہے۔ جذباتی  اور  ذہنی کشمکش میں  قدروں  کے  تصادم  اور  تضاد کو سمجھنا مشکل نہیں  ہے۔ وزیر آغا کا تجزیہ افسوس ناک ہے، غیر ذمہ دارانہ جملے  اچھی تنقید کے  جملے  نہیں  کہے  جا سکتے۔ گمراہ کن تنقیدی بیانات کی یہ عمدہ مثال ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

        ’نیا شہر‘  چھوٹی سی نظم ہے:

جب نئے  شہر میں  جاتا ہوں، وہاں  کے  در و بام

لوگ وارفتہ، سراسیمہ، دکانیں، بازار

بت نئے، راہنماؤں  کے، پرانے  معبد

حزن آلود شفا خانے  مریضوں  کی قطار

تار گھر، ریل کے  پل، بجلی کے  کھمبے  تھیٹر

راہ میں  دونوں  طرف نیم برہنہ اشجار

اشتہار ایسی دواؤں  کے  کے  ہر اِک جا چسپاں

اچھے  ہو جاتے  ہیں  ہر طرح کے  جن سے  بیمار

اس نئے  شہر کی ہر چیز لبھاتی ہے  مجھے

یہ نیا شہر نظر آتا ہے، خوابوں  کا دیار

شاید اس واسطے  ایسا ہے  کہ اس بستی میں

کوئی ایسا نہیں  جس پر ہو مری زیست کا بار

کوئی ایسا نہیں  جو جانتا ہو میرے  عیوب

آشنا، ساتھی، کوئی دشمن جاں، دوست شعار!

        مختصر سی نظم ہے، تجربہ صاف  اور  واضح ہے۔ طنزیہ رجحان توجہ طلب ہے، اس نظم میں  تہذیب کے  المیہ کے  ساتھ فرد کی ذہنی کیفیت ملتی ہے، ہنگامے اور بھیڑ میں  تنہائی کا احساس ملتا ہے اور اس احساس کی لذت ملتی ہے۔ اختر الایمان نے  اشاروں  میں  نئی زندگی کی سچائی کے  چند پہلو اُجاگر کئے  ہیں۔ طنز ایسا ہے  کہ معاشرے  سے  ہمدردی ہو جاتی ہے۔ اس نظم میں  شہر، در و بام، لوگ، بازار، بت، پرانے  معبد، حزن آلود شفا خانے، تار گھر، ریل کے  پل، بجلی کے  کھمبے، نیم برہنہ اشجار، اشتہار، مریضوں  کی قطار کی باتیں  عام باتیں  ضرور ہیں  لیکن انھیں  پڑھتے  ہوئے  محسوس ہوتا ہے  کہ ان کے  بغیر یہ نظم ایسی تلخی لے  کر آ ہی نہیں  سکتی تھی۔ المیہ کا احساس ذرا کھردرے  اسلوب سے  دلایا گیا ہے  لیکن بڑی بات یہ ہے  کہ کھردرے  اسلوب ہی کی وجہ سے  چند توجہ طلب جہتیں  پیدا ہوئی ہیں اور تہہ داری آئی ہے۔ ایسی زندگی کے  اظہار کے  لیے  اسی قسم کے  لہجے  کی ضرورت تھی، وزیر آغا کی اُلجھن کا سبب یہی ہے، کہتے  ہیں۔۔۔ ’نظم کا خیال تو عمدہ ہے  لیکن شاعر نے  نظم کے  اسلوب (Diction) کی طرف پوری توجہ نہیں  دی۔ بعض اشعار تو صحافتی انداز کے  حامل ہیں، اسی لیے  نظم کا تاثر کمزور ہے۔‘‘  اس نظم کے  متعلق وزیر آغا یہ بھی لکھتے  ہیں۔ ’’اس نظم کا شاعر بھی بنیادی طور پر‘‘  آزاد منش ’’آدم ہے اور اسی لیے  اسے  نیا شہر اپنی کثافتوں، اُلجھنوں اور بیماریوں  کے  باوجود ایک جنت گمشدہ نظر آتا ہے۔ محض اس لیے  کہ اس نئے  ماحول میں  وہ زنجیریں اور بندھن موجود نہیں  جو اس کے  اپنے  شہر میں  موجود تھے اور جن کے  باعث اس کی روح گھٹ کر رہ گئی تھی‘‘  نظم کے  موضوع  اور  کلام کے  مزاج سے  الگ بات کہی گئی ہے  جو حیرت انگیز ہے۔ یہ ظلم ہے  کہ ہم شدت احساس  اور  جذباتی کیفیت کو نظر انداز کر دیں اور المیہ  اور  اس کے  احساس  اور  جذباتی کیفیت کی جانب توجہ نہ دیں۔ یہ تجربہ صرف کسی ایک فرد کا نہیں  ہے  اس عہد کے  ہر حساس فرد کا تجربہ ہے۔ بازار، دکانیں، لوگ، پرانے  معبد، بت، حزن آلود شفا خانے، مریضوں  کی قطار سے  جو تصورات اُبھرتے  ہیں  ہم انھیں  کس طرح نظر انداز کر دیں۔ ان سے  ایک فضا بنتی ہے  اس دور کا ایک آئینہ سامنے  آتا ہے، اختر الایمان کی بعض نظموں  میں  میکانکی  اور  مشینی تمدن  اور  نظام زندگی کے  تضاد، میکانکی مصروفیتوں اور بے  حسی، نت نئے  تماشوں اور بحران وغیرہ کے  تعلّق سے  جو اشارے  آئے  ہیں  وہ زندہ  اور  متحرک اشارے  ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

        ’سبزۂ بیگانۂ، ’میرا نام‘ ،’میر ناصر حسین‘ ، ’کرم کتابی‘ ، ’قبر‘  وغیرہ عمدہ طنزیہ نظمیں  ہیں۔ ان نظموں  سے  اُردو شاعری میں  ایک منفرد طنزیہ رجحان پیدا ہوا ہے۔ اختر الایمان کی اکثر نظموں  میں  طنز کا تیکھا پن موجود ہے، یہ تیکھا پن تجربے  میں  گھلا ہوتا ہے اور ٹیس پیدا کرتا ہے۔ ان نظموں  میں  طنز کی لہریں  تیز ہیں۔ تیکھا پن حسن بن گیا ہے۔ لہجے  میں  جو تلخی ہے  اس سے  باطنی اضطراب کی پہچان ہوتی ہے۔ کسی حساس فنکار پر معاشرتی اقدار کی شکست و ریخت کے  جو اثرات  اور  جو ردِّ عمل ہو سکتے  ہیں  ان کی یہ عمدہ تصویریں  ہیں۔

        ان نظموں  کا مطالعہ کرتے  ہوئے  اندازہ ہوتا ہے  کہ اختر الایمان طنز کرتے  ہوئے  سچائی کو نہایت خلوص سے  آہستہ آہستہ نمایاں  کرتے  جاتے  ہیں اور پھر۔۔۔ ایک ساتھ کئی تلخ سچائیوں  کا احساس ہوتا ہے۔ ان کی ذہنی  اور  جذباتی کیفیتیں  اس عہد کے  کسی بھی حساس شخص کی کیفیتیں  ہیں۔ طنزیہ نظموں  میں  لفظوں  کے  انتخاب  اور  ان کی ترتیب پر نظر گہری ہے۔ طنز کرتے  ہوئے  سچائیوں  کو اپنا دوست ساتھی بنا لینا آسان کام نہیں  ہے، سچائیوں  سے  جذباتی رشتہ قائم کر لینا  اور  پھر ان پر طنز کرنا بڑی بات ہے۔ ان نظموں  میں  احساس  اور  جذبے اور لہجے  میں  ہم آہنگی ہے اور شاعر ہماری تخیلی ہمدردی حاصل کر لیتا ہے۔

        شاعر المیاتِ زندگی کی علامت بن جاتا ہے۔ ’سبزۂ بیگانہ‘ ، ’قبر‘   اور  ’میر ناصر حسین‘  میں  کہانی سنانے اور قصّے  کو ڈرامائی طور پر پیش کر نے  کا انداز ہے۔ ’قبر‘  کے  آخری ایک مصرعے  سے  کہانی مکمل ہو جاتی ہے۔ نقطۂ عروج کے  فوراً بعد اختتام کی منزل ہے۔ ’سبزۂ بیگانہ‘  اس عہد کے  انسان کے  داخلی کرب اس کی شدید گھٹن کی داستان ہے:

حسب نسب ہے  نہ تاریخ و جائے  پیدائش

کہاں  سے  آیا تھا، مذہب نہ ولدیت معلوم

مقامی چھوٹے  سے  خیراتی اسپتال میں  وہ

کہیں  سے  لایا گیا تھا وہاں  یہ ہے  مرقوم

مریض راتوں  کا چلاتا ہے  مرے  اندر

اسیر زخمی پرندہ ہے  اِک، نکالو اسے

گلو گرفتہ ہے  یہ حبس دم ہے  خائف ہے

ستم رسیدہ ہے، مظلوم ہے  بچا لو اسے

        جذباتی ارتعاش میں  بھی توازن موجود ہے۔ نظم اس طرح شروع ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ مریض کے  وجدان  اور  اس کی ذہنی کیفیتوں  کی تصویریں  آتی جاتی ہیں۔ اس کی چیخ سے  وجدان  اور  ’وژن‘  دونوں  کے  ’ایکس رے ‘  (X.ray) کو پیش کیا گیا ہے۔ مریض کی باتیں  ایک بڑے  دائرے  کی صورت زندگی کے  اَنگنت موضوعات کو گھیر لیتی ہیں۔ شکست و ریخت کی داستانیں  ہیں، جنگ و جدل، ویت نام، کشمیر، تیل کے  چشمے، زمین کی موت، سرود و نغمہ، علم کے  گہوارے، سب کا ذکر کرتا ہے، بے  ربط باتیں، شکایتوں  کا ایک دفتر لیے  ہو جیسے۔۔۔ تحلیل نفسی ہوتی ہے، ڈاکٹر رائے  دیتے  ہیں  کہ یہ کوئی ذہنی مرض ہے۔ مریض چیختا رہتا ہے  درد کی دوا نہیں  ملتی، تمثیل نقطۂ عروج یا منتہا پر اس طرح پہنچتی ہے اور پھر کردار کا زوال ہوتا ہے:

غرض کہ نکتہ رسی میں  گزر گیا سب وقت

وہ چیختا رہا  اور  درد کی دوا نہ ملی

نشست بعد نشست  اور  معائنے  شب و روز

انھیں  میں  وقت گزرتا گیا شفا نہ ملی

پھر ایک شام وہاں  سرمہ در گلو آئی

جو اس کے  واسطے  گویا طبیب حاذق تھی

کسی نے  پھر نہ سنی درد سے  بھری آواز

کراہتا تھا جو خاموش ہو گیا وہ ساز

برس گزر گئے  اس واقعہ کو ماضی کی

اندھیری گود نے  کب کا چھپا لیا اس کو

مگر سنا ہے  شفا خانے  کے  در و دیوار

وہ گرد و پیش جہاں  سے  کبھی وہ گزرا تھا

خرابے، بستیاں، جنگل، اُجاڑ راہگزار

اسی کی چیخ کو دُہرائے  جا رہے  ہیں  ابھی

کوئی مداوا کرو ظالموں  مرے  اندر

اسیر زخمی پرندہ ہے  اِک نکالو اسے

گلو گرفتہ ہے  یہ، حبس دم ہے، خائف ہے

ستم رسیدہ ہے، مظلوم ہے، بچا لو اسے!

        تمثیل ختم ہو جاتی ہے۔ درد کی لہریں  اُٹھنے  لگتی ہیں، اختر الایمان کی نظموں  میں  ’پیتھوس‘  کا ذکر کیا ہے، طنزیہ نظموں  کے  باطن میں  بھی پیتھوس جوہر بنا رہتا ہے۔ درد سے  طنز جنم لیتا ہے اور طنز درد کا شدید احساس عطا کر دیتا ہے۔

        ’سبزۂ بیگانہ‘  اُردو کی عمدہ نظموں  میں  ایک اضافہ ہے۔

        نظم پڑھتے  ہوئے  محسوس ہوتا ہے  جیسے  شاعر نے  سچائیوں  کو بھینچا ہے۔ احساس و شعور سے  ہم آہنگ کیا ہے، انھیں  اپنا تجربہ بنایا ہے  اس تجربے  کے  درد کو شدت سے  محسوس کرتے  ہوئے  ایک تمثیل کی صورت پیش کر دیا ہے۔

        یہ ایک المناک ڈراما ہے  جو موضوع  اور  اسلوب کی خوبصورت ہم آہنگی کا احساس دلاتا ہے۔ اختر الایمان کے  منفرد ڈکشن کی کئی خصوصیات موجود ہیں  جو متاثر کرتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

        ’تنہائی‘ ، ’ایک لڑکا‘ ، ’یادیں ‘ ، ’بنت لمحات‘ ، ’آخری ملاقات‘ ، ’پس منظر‘ ، ’آگہی‘ ، ’مسجد‘ ، ’موت‘ ، ’لغزش‘ ، ’آمادگی‘ ، ’تجدید‘ ، ’یوں  نہ کہو‘ ، ’ایک سوال‘ ، ’سرِ راہ گزارے ‘ ، ’جب  اور  اب‘ ، ’انجان‘ ، ’بے  تعلقی‘ ، ’اذیت پرست‘ ، ’نیا شہر‘ ، ’عمر گریزاں  کے  نام‘ ، ’پس دیوار چمن‘ ، ’وہ مکاں ‘ ، ’پرانی فصیل‘ ، ’باز آمد‘ ، ’مشفقی‘ ، ’پگڈنڈی‘ ، ’ڈاسنہ اسٹیشن کا مسافر‘ ، ’پھیلاؤ‘ ، ’کہاں  تک‘ ، ’کالے  سفید پروں  والا پرندہ  اور  میری ایک شام‘ ، ’درد کی حد سے  پرے ‘ ، ’سبزۂ بیگانۂ، ’برندابن کی گوپی‘   اور  دوسری نظمیں  نمائندہ تخلیقات ہیں۔ ان نظموں  کی فضائیں  متاثر کرتی ہیں۔ ان کے  پیکر  اور  ’ا4‘  متاثر کرتے  ہیں۔ اکثر ایسے  جو لاشعور کے  اندھیرے  سے  جھانکتے  ہیں۔ اختر الایمان کی شاعری میں  جذباتی ردِّ عمل  اور  داخلی کیفیات کے  اشارے  اہمیت رکھتے  ہیں۔ بعض نظموں  کے  سیدھے اور دل نشیں  اندازِ بیان احساس دلاتے  ہیں۔ ایسی تمام نظموں  سے  اختر الایمان کے  رومانی رویوں اور عہد کے  انتشار  اور  پیچیدگیوں  کا شعور ملتا ہے۔ ’بنت لمحات‘ ، ’پیمبر گل‘ ، ’قافلہ‘ ، ’یادیں ‘ ، ’پس دیوار چمن‘ ، ’عمر گریزاں  کے  نام‘ ، ’پس منظر‘ ، ’ساتویں  دن کے  بعد‘ ، ’باز آمد‘  وغیرہ میں  ڈکشن کا حسن منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ تجربوں  کو شعری پیکر میں  ڈھالتے  ہوئے  فنکار تراکیب، تشبیہات  اور  استعارات کے  تئیں  چوکنّا ہے۔ کئی نظموں  میں  تمثیل  اور  ڈراما نے  ڈکشن کے  حسن میں اور اضافہ کر دیا ہے۔ جذباتی  اور  تخیلی تو انائی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ ’اندھیروں  پر غنیم نور کے  حملے ‘ ، ’دیار درد میں  مسیحا کی آمد‘ ، ’خوشبو کے  قافلے ‘ ، ’خلائے  صبح میں  سحر کی شہنائی‘ ، ’سرمگیں  اُجالے ‘ ، ’لمحۂ گریزاں ‘ ،،عشق پیچاں  کی گھنی بیل‘  ان سے  ذہنی پیکر بنتے  ہیں، جمالیاتی تاثرات پیدا ہوتے  ہیں۔ تجربوں  کے  پیش نظریہ نظمیں  بہت صاف  اور  آسانی سے  ذہن نشیں  ہو جانے  والی ہیں۔ تجربوں  کے  مطابق فارم کی تشکیل ہوئی ہے۔ پیکروں اور لفظوں  کا جذبات پر اچھا اثر ہوتا ہے۔ ان پیکروں، علامتوں اور لفظوں  کی حسیاتی خصوصیتیں  ہیں۔ یہ قاری کے  تخیل کی رہنمائی بھی کرتے  ہیں اور معنویت کے  تئیں  بیدار بھی کرتے  ہیں، اختر الایمان نے  روایتی الفاظ  اور  کلاسیکی تراکیب میں  بھی اپنے  تجربوں اور ’ڈکشن‘  سے  نئی روح پھونک دی ہے۔ فسانۂ گل، نغمۂ شوق، حکایت بت، نگار صبح، دامن گل، ہنگام بہار، آتش گل، محفل زیست، غم حیات، چشم نم، نگار دل، منزل شوق، خم ابرو، کوئے  جاناں، غم زیست، غم تنہائی، جام شراب، جنون شوق، طلوع صبح، شام غم، دیوار چمن، سنگ گراں، خونِ جگر، کشمکش زیست، غنیم نور کے  ساتھ خزاں، بہار، صبح، شام، رات، کفن، پیرہن، رہگزار، آستیں، لہو، گل، خمار، لاش، لحد، پھول، شاخ، ڈالیاں، آسمان، بہشت، اہرمن، چاندنی، سامری، فرعون، وحشی، زلف، چمن، نسیم، منزل، سفر، شعلہ، فریاد، اُجالا، رنگ و بو، صبا، کوثر  اور  دوسرے  عام الفاظ ملتے  ہیں۔ ان سے  اختر الایمان نے  جذباتی کیفیتوں اور خارجی حقیقتوں  کو سمجھنے  کی کوشش کی ہے۔

        ’اُداس اُداس نقش پا‘ ، ’حلقہ ہائے  بندگی‘ ، ’نقش ہائے  عمر‘ ، ’حلقہ ہائے  روز و شب‘ ، ’درد کا ساماں ‘ ، ’معصوم زخموں  کا لہو‘ ، ’حنائی انگلیوں  کی جنبش‘ ، ’رات کا تاریک کفن‘ ، ’حسرت شام و سحر‘ ، ’دشت فراموشی میں  آواز خلیل‘ ، ’احساس کی زنجیر گراں ‘ ، ’اجداد کی بھٹکی ہوئی روحیں ‘ ، ’سینے  میں  اُلجھی ہوئی فریاد‘ ، ’موہوم تمنّا کا مزار‘ ، ’مغموم فضاؤں  کا الم ناک سکوت‘ ، ’سلگتی ہوئی شام‘ ، ’خون اُگلتے  ہوئے  چشمے ‘ ، ’کانپتی ہوئی راہ گزار‘ ، ’رخنوں  میں  اُلجھا ہوا اوقات کا دامن‘ ، ’سائے  میں  رُک کر سانس لیتے  ہوئے  حال و ماضی‘ ، ’ویرانی سے  ویرانی کی سرگوشیاں ‘ ، ’پپوٹوں  میں  پتھرائی ہوئی آنکھیں ‘ ، ’شب کے  دامن پر سیہ کاری کے  دھبّے ‘ ، ’فردا کا پر پیچ دھندلکا‘ ، ’زرد پتوں  کا ڈھیر‘ ، ’درد جمال‘ ، ’آبلوں  پر رنگ حنا‘ ، ’تھکی ہوئی نگاہیں ‘ ، ’جبیں  شوق میں  ایک سجدے  کی قربانی‘ ، ’زمیں  کے  تاریک گہرے  سینے ‘ ، ’رات کے  چہرے  پرستاروں  کا کفن‘ ، ’ذروں  میں ماضی کا لہو‘ ، ’جلتے  ہوئے  زماں  و مکاں ‘ ، ’پھولوں  کی زرد لاشیں ‘ ، ’رگ آہن کا لہو‘ ، ’سنگ پاروں  سے  اُبلتی ہوئی شراب‘ ، ’قحبہ خانوں  کی مغموم، تابندگی‘ ، ’ماضی کے  اندھے  غاروں  سے  رنگوں  کا چشمہ‘ ، ’یادوں  کے  بوجھل پردے ‘ ، ’دشت ہویدا کا دیوانہ‘ ، ’رات کے  بطن میں  سوئی ہوئی آسودہ کرن‘ ، ’رویات دشت و در‘ ، ’سبزہ گل کا کفن‘ ، ’سحر کی آرزو میں  شب کا دامن‘ ، ’ماضی کی پارینہ کتاب‘ ، ’دھُندلے  دھُندلے   اور  اق‘ ، ’خوابوں  کے  افسردہ شہاب‘ ، ’لمحات جمیل‘ ، ’گہنائی ہوئی راتیں ‘ ، ’پرانے  معبد‘ ، ’آبلہ پائی کی داستان‘ ، ’زخم پنہاں ‘ ، ’عمر گریزاں ‘ ، ’سوختہ راتوں  کا حساب‘ ، ’ماضی کے  دھُندلکے ‘ ، ’بنت لمحات‘ ، ’غنیم نور کا حملہ‘ ، ’دیار درد میں  مسیحا کی آمد‘ ، ’خوشبو کے  قافلے ‘ ، ’سحر کی شہنائی‘ ، ’لمحہ گریزاں ‘ ، ’شورش‘ ، ’رائیگاں ‘ ، ’سنگ گراں ‘ ، ’یاد کی سبز پریاں‘‘  ۔۔۔ اختر الایمان کے  رجحان  اور  ذہنی رویے  کو ان سے  بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ احساس، جذبہ، رجحان، انداز فکر  اور  اُمنگوں اور تشنہ کامیوں  کی یہ مختلف تصویریں  ہیں، ذہنی پیکروں اور حسیاتی تصویروں  کا یہ البم شاعر کی شعوری  اور  لاشعوری کیفیتوں  کو سمجھتا ہے۔ شاعر کی اندرونی کشمکش  اور  اس کی اَنا  اور  سوپرایغو، کے  تصادم  اور  ذاتی تجربوں  کے  ساتھ اجتماعی لاشعور کو سمجھنے  میں  آسانی ہوتی ہے۔ انداز فکر نے  کتنا منظم، گہرا  اور  معتبر بنا دیا ہے، اس کا اندازہ ہوتا ہے۔ شاعر کے  لہجے  کی گھلاوٹ  اور  نرمی  اور  سوز و گداز  اور  جذباتی کشمکش کی پہچان ہوتی ہے۔ ان ترکیبوں  میں  داخلیت کی رنگ آمیزی جذباتی شدت ہے، رمزیت  اور  اشاریت کی ہمہ گیری ہے۔ حسرتیں، یادیں، اندیشے، زندگی کی تیز رفتاری،بے  بسی، ماضی  اور  حال  اور  مستقبل کے  تصورات، غم  اور  درد، کرب  اور  اضطراب  اور  بے  چینی  اور  زخموں  کی صورتیں  سب کچھ ہیں۔ شخصیت کے  اظہار، تجربوں  کی گہرائی  اور  انفرادیت کی تشکیل کا مطالعہ کرتے  ہوئے  ان پیکروں، علامتوں اور لفظوں  کو پیش نظر رکھئے  تو جمالیاتی انبساط یقیناً زیادہ حاصل ہو گا۔

        چند تشبیہیں  ملاحظہ فرمائیے:

ماضی و حال گنہگار نمازی کی طرح

اپنے  اعمال پہ رو لیتے  ہیں  چپکے  چپکے

(مسجد)

تجھ سے  وابستہ وہ اِک عہد، وہ پیمان وفا

رات کے  آخری آنسو کی طرح ڈوب گیا

(محرومی)

روز خورشید، دہکتے  ہوئے  تانبے  کی طرح

ایک لاوے  کے  سمندر میں  ڈھلک آتا ہے

(وِداع)

کتنا دلکش ہے  دھُندلکا سا اُفق کے  نزدیک

آسماں  چوم ہی لینے  کو ہے  تقدیر زمیں

(وِداع)

دُور تالاب کے  نزدیک وہ سوکھی سی ببول

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاتھ پھیلائے  برہنہ سی کھڑی ہے  خاموش

جیسے  غربت میں  مسافر کو سہارا نہ ملے

اس کے  پیچھے  سے  جھجکتا ہوا اِک گول سا چاند

اُبھرا بے  نور شعاعوں  کے  سفینہ کو لیے

(تنہائی میں )

قہقہے  سوگ میں  ڈوبے  ہوئے  آنکھیں  مغموم

جیسے  صحرا سے  چلا آتا ہے  دیوانہ کوئی

(خاک و خون)

 اور  اپنے  امکاں  میں

اس قدر نہیں  منہ کو

زخم کی طرح سی لیں

(وہ مکاں )

جیسے  میرے  آنسو اکثر

پلکوں  پہ تھرتھرا کر تاریکی میں  کھو جاتے  ہیں

جیسے  بالک مانگ مانگ کر نئے  کھلونے  سو جاتے  ہیں

(بلاوا)

بارہا یوں  ہوا کہ یہ دُنیا

مجھ کو ایسی دکھائی دی جیسے

صبح کی ضو سے  پھول کھلتا ہو

بارہا یہ ہوا کہ روشن چاند

یوں  لگا جیسے  ایک اندھا کنواں

یا کوئی گہرا زخم رستا ہوا

(سلسلے )

        یہ ذہنی تصویریں  بھی اہم ہیں۔ شعوری  اور  لاشعوری ہیجانات  اور  جذباتی آسودگی کا پتہ چلتا ہے۔ یہ تشبیہیں اور ذہنی تصویریں  اجنبی  اور  پُر اسرار نہیں  ہیں۔ داخلی تصادم  اور  جذبات کی شدت کو سمجھنے  میں  ان سے  مدد ملتی ہے۔ ورڈس ورتھ کی ایک ذہنی تصویر ہے:

                        "It is a beauteous evening, cam and free,

                        The holy time is quiet as a nun

                        Breathless with adoration.”

        شام کا تصور عبادت کرتی راہبہ کا تصور ہے۔ عبادت کرتی راہبہ کی طرح شام بھی خاموش ہے۔ یہ شام اس راہبہ کی طرح خوب صورت ہے۔ دراصل شاعر نے  شام کی مقدس خاموشی  اور  اسرار کو راہبہ کی صورت میں  متقل کر دیا ہے۔ اختر الایمان نے  ماضی و حال کو گنہگار نمازی کی طرح (اپنے  اعمال پر چپکے  چپکے  روتے ) دیکھا ہے۔ روشن چاند کو اندھا کنواں اور رستا ہوا گہرا زخم کہتے  ہوئے  انھوں نے  معاشرے  کی کیفیت  اور  فرد کی المناک زندگی پیش کر دی ہے۔

        اختر الایمان کی شاعری میں  تشبیہوں  سے  زیادہ پیکر تراشی  اور  ذہنی تصویروں  کی اہمیت ہے۔ وہ تشبیہوں  کو بھی ذہنی تصویریں  بناتے  ہیں۔ کلام میں  اس قسم کے  پیکر ملتے  ہیں، یہ ذہنی  اور  حسی تصویریں  ہیں:

میں  نے  دیکھا ہے  ٹپکتے  رگ آہن سے  لہو

سنگ پاروں  سے  اُبلی ہوئی دیکھی ہے  شراب

روز خورشید، دہکتے  ہوئے  تانبے  کی طرح

ایک لاوے  کے  سمندر میں  ڈھلک جاتا ہے

مری تنہائیاں  مانوس ہیں  تاریک راتوں  سے

مرے  رخنوں  میں  ہے  اُلجھا ہوا اوقات کا دامن

مرے  سائے  میں  حال و ماضی رُک کر سانس لیتے  ہیں

زمانہ جب گزرتا ہے، بدل لیتا ہے  پیراہن

اس کا زریں  تخت، سیمیں  جسم ہے، آنکھوں  سے  دور

جام زہر آلود سے  اٹھتے  ہیں  جھاگ

چونک کر انگڑائیاں  لیتے  ہیں  ناگ

جیسے  صدیوں  کے  چٹانوں  پہ تراشے  ہوئے  بت

ایک دیوانے  مصور کی طبیعت کا اُبال

ناچتے  ناچتے  غاروں  سے  نکل آئے  ہوں

 اور  واپس انھیں  غاروں  میں  ہو جانے  کا خیال

تڑپ کی آگ میں  جلتے  ہوئے  زماں  و مکاں

مٹے  نشاط میں  بھٹکے  ہوئے  خمار کے  گیت!

        اختر الایمان کی تشبیہوں، استعاروں، ذہنی تصویروں اور پیکروں  سے  حسی تصورات پیدا ہوتے  ہیں اور نظموں  کی معنوی کیفیت کا احساس ملتا ہے، لفظوں  کا آہنگ بھی متاثر کرتا ہے، جذبے  کی شدت سے  پیکر متحرک ہو جاتے  ہیں۔ ان کی نظموں  میں  بحروں  کے  انتخاب  اور  زبان کی نرمی، تیزی جوش  اور  ٹھہراؤ سے  فنکار کا احساس بڑھتا ہے۔ بحروں  کے  آہنگ میں  جذبات کا آہنگ شامل ہے۔ اُداسی، محرومی  اور  شکست کا احساس بحروں  کے  آہنگ سے  بھی ہوتا ہے۔ جذبات کی شدت بڑھ جاتی ہے  تو بحر کے  آہنگ میں  بھی شدت آ جاتی ہے۔ جذبات کی تیزی سے  آہنگ بھی بدل جاتا ہے۔ زندگی سے   محبت، زندگی کی حقیقت کا احساس، وقت کے  گزر جانے  کا احساس، زندگی  اور  لمحوں  کی تیز رفتاری  اور  شاعر کے  تلازمی تصورات کی شدت کا اندازہ بھی بحروں  کی روانی  اور  تیز رفتاری سے  ہوتا ہے۔ بحروں  نے  موضوعات کی مدد کی ہے۔ تاثیر بخشی ہے، شاعر کے  جذبات  اور  مزاج، تیور  اور  رجحانات کو بھی بحروں  کے  انتخاب سے  سمجھا جا سکتا ہے۔ ڈاسنہ اسٹیشن کا مسافر، قلوبطرہ، آمادگی، جواری، تعمیر، ایک لڑکا، یادیں، پس دیوار چمن، بنت لمحات، اذیت پرست، باز آمد، دستک  اور  آمادگی کی بحروں  سے  ان حقائق کا احساس ہو گا۔

        اختر الایمان کی بعض نظموں  میں  عروضی قواعد کی پابندی سے  زیادہ تاثر کے  تسلسل  اور  صوتی آہنگ کی اہمیت ہے۔ قافیوں  کو ضرورت کے  مطابق استعمال کیا گیا ہے۔ عہد وفا، آخر شب، یادیں، دوسری کئی نظموں  میں  مصرعے  ٹوٹتے  ہیں۔ ایک مصرعہ دو حصوں  میں  مکمل ہوتا ہے  تو دوسرا مصرعہ تیسرے  مصرعے  کے  درمیان ختم ہوتا ہے۔ شاعر دراصل احساس کی شدت بڑھانا چاہتا ہے۔ تاثر کے  تسلسل کو قائم رکھنے اور قاری کے  شعور و احساس میں  شعری تجربوں  کو جذب کر دینے  کی خواہش رہی ہے۔ ’عہدِ وفا‘  ایک چھوٹی سی نظم ہے، شاعر بہت محتاط رہا ہے  ورنہ اس منظوم نثر میں  نقص پیدا ہو جاتا۔ اختر الایمان کو شعری ساخت کا خیال رہتا ہے۔ ان کی تکنیک کو فکر کی وحدت کے  پیش نظر رکھئے۔ الفاظ  اور  آواز کے  زیر و بم سے  وہ بہت سے  حقائق کا احساس گہرا کر دیتے  ہیں۔ مختصر نظموں  میں  بڑی معنویت ہے۔ دستک، عہد وفا، خاکدان، کتبہ، جب  اور  اب، ایک یاد، درد کی آواز، اعتماد، قیامت، شکوہ، سکون، سلسلے، خوبصورت مختصر نظمیں  ہیں۔ تاثرات گہرے  ہیں  جو متاثر کرتے  ہیں۔

        ’دور کی آواز‘  مختصر نظم ہے، ہر لحاظ سے  مکمل  اور  خوبصورت، ایک پوری کہانی دور کی آواز کے  ساتھ اُبھرتی ہے۔ اختر الایمان کی مختصر نظموں  میں  اسے  ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے:

نقرئی گھنٹیاں  سی بجتی ہیں

دھیمی آواز میرے  کانوں  میں

دُور سے  آ رہی ہے، تم شاید

بھولے  بسرے  ہوئے  زمانوں  میں

اپنی میری شرارتیں، شکوے

یاد کر کر کے  ہنس رہی ہو کہیں!

        رومانی فسانے  کا ’ابتدائیہ‘  ہے۔ چند مصرعوں  میں  ایک پورے  سفر کی داستان ہے، تنہائی میں  کسی کی آواز کا یہ تاثر بہت رومانی ہے۔ عاشق کی کیفیت ظاہر نہیں  ہوتی ہے  لیکن اس کے  المیہ کا تاثر یقیناً پھیل جاتا ہے۔ اندرونی کرب کو بھی سمجھنا مشکل نہیں  ہے۔

        ’عہد وفا‘  مختصر نظم ہے۔  محبت کی اس مختصر کہانی میں  جیسے  صدیوں  کی داستان سمٹ آئی ہے۔ لہجے  کی دلکشی متاثر کرتی ہے۔

        یہی شاخ تم جس کے  نیچے  کسی کے  لیے  چشم نم ہو، یہاں  اب سے  کچھ سال پہلے  مجھے  ایک چھوٹی سی بچی ملی تھی جسے  میں  نے  آغوش میں  لے  کے  پوچھا تھا بیٹی: یہاں  کیوں  کھڑی رو رہی ہو، مجھے  اپنے  بوسیدہ آنچل میں  پھولوں  کے  گہنے  دکھا کر وہ کہنے  لگی میرا ساتھی، ادھر، اس نے  انگلی اٹھا کر بتایا، ادھر اس طرف ہی جدھر اونچے  محلوں  کے  گنبد، ملوں  کی سیہ چمنیاں، آسماں  کی طرف سر اُٹھائے  کھڑی ہیں، یہ کہہ کر گیا ہے  کہ میں  سونے  چاندی کے  گہنے  ترے  واسطے  لینے  جاتا ہوں  رامی!

        اپنی مختصر نظموں  کے  متعلق اختر الایمان نے  لکھا ہے:

 ’’میری شاعری کا ایک اہم جزو مختصر نظمیں  بھی ہیں، کئی نقادوں  نے  ان نظموں  کا محرک جاپانی شاعری کو بتایا ہے  یا انھیں  ان نظموں  میں  جاپانی شاعری کی جھلک نظر آئی ہے، ایسا کیوں  ہوا مجھے  معلوم نہیں۔ مختصر نظم کہنے  کی تحریک مجھے  جہاں  ملی تھی وہ سارترے  کی ایک نظم ہے۔ نظم اس وقت میرے  ذہن میں  نہیں  صرف ایک مصرعہ یاد ہے:

        کبھی میرا بھی اِک گھر تھا!

یہ چھ سات مصرعوں  کی نظم تھی  اور  تاثر سے  بھرپور تھی یا مجھے  بھرپور نظر آتی تھی یا محسوس ہوئی تھی، ایسی نظمیں  خالصتاً احساس کی نظمیں  ہوتی ہیں، یہ اس قدر مختصر ہوتی ہیں، ان میں  کسی موضوع کو دخل ہوہی نہیں  سکتا، یہ نظمیں  دراصل اُڑتے  ہوئے  رنگ پکڑنے  والی بات ہے  مجھے  یہ صنف اسی لیے  بہت اچھی لگی تھی۔ اس میں  تاثر  اور  احساس بھرپور آتا ہے۔ یہ نظمیں  دراصل چھوٹی چھوٹی رنگا رنگ کی تتلیاں  ہیں  جوہر طرف اُڑتی پھرتی ہیں اور جو کبھی پکٍڑ میں  آ جاتی ہیں، کبھی نہیں  آتیں۔‘‘

(اختر الایمان )

        اختر الایمان کی ایسی مختصر ترین نظمیں  تاثر  اور  احساس سے  بھرپور ہیں۔ لمحاتی تجربوں  کے  رنگ ملتے  ہیں، لمحوں  کی روشنی  اور  لمحوں  کی خوشبو ملتی ہے۔ ایسی نظموں  میں  لمحے  گفتگو کرتے  ہیں، شاعر کی نظر الفاظ کے  انتخاب  اور  ترتیب پر گہری ہے، احساس  اور  لمحوں  کے  رنگوں  سے  ’وژن‘  پیدا ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چند دوسری نظمیں

        ’آج  اور  کل‘  میں  چھوٹے  چھوٹے  صرف سات مصرعے  ہیں:

ہزار بار ہوا یوں  کہ جب اُمید گئی

گلوں  سے  واسطہ ٹوٹا نہ خار اپنے  رہے

گماں  گزر نے  لگا ہم کھڑے  ہیں  صحرا میں

فریب کھانے  کو جا رہ گئی نہ سپنے  رہے

نظر اٹھا کے  کبھی دیکھ لیتے  تھے  اوپر

نہ جانے  کون سے  اعمال کی سزا ہے  کہ آج

یہ واہمہ بھی گیا سر پہ آسماں  ہے  کوئی

        نئے  ذہن کی کیفیت ہے، نئے  شعور کا تجربہ ہے۔ لمحوں  کا احساس ہے، اقدار و عقائد کے  چٹخنے  کی آواز ہے۔

        ’کتبہ‘  سنئے:

دل ہے  کہ اُجاڑ کوئی بستی

ہر سمت مزار جا بجا ہیں

میں  مرثیہ خواں  نہیں  کسی کا

لیکن وہ مزار لوح جس کی

شفّاف ہے  آئینہ کی مانند

کس کا ہے  چلو نہ آؤ دیکھیں

ہے  ہے  کوئی طفل آرزو ہے

کمسن ہے  کلی ہے  نو دمیدہ

’پس و پیش‘  بھی ایک پیاری سی نظم ہے:

خلش ہے  رنگ تبسم کی میرے  پہلو میں

جلو میں  رفتہ بہاروں  کو لے  کے  آئی خزاں

کوئی نہیں  بھری دنیا میں  ہم نفس میرا

وہ راہبر و ہوں  جسے  ہر قدم پہ ہے  یہ گماں

یہ سنگ میل کہیں  سنگ رہ نہ بن جائے

کہیں  فریب نہ ہو شوق منزل جاناں

کہیں  نہ ظلمت شب گھیرے  سر منزل

سیاہ رات نہیں  میرے  درد کا درماں

’اتفاق‘  صرف چھ مصرعوں  کی مکمل نظم ہے:

دیار غیر میں  کوئی جہاں  نہ اپنا ہو

شدید کرب کی گھڑیاں  گزار چکنے  پر

کچھ اتفاق ہو ایسا کہ ایک شام کہیں

کسی اِک ایسی جگہ سے  ہو یوں ہی میرا گزر

جہاں  ہجوم گریزاں  میں  تم نظر آ جاؤ

 اور  ایک ایک کو حیرت سے  دیکھتا رہ جائے

        ’دستک‘  میں  نو مصرعے  ہیں  یوں  یہ سات مصرعوں  کی نظم ہے۔ ایک مصرعے  کو تین بار پیش کیا گیا ہے:

اس سے  پہلے  بھی یہ دروازہ کھلا

        مختصر نظموں  میں  مصرعوں  کو توڑ کر، پہلے  مصرعے  کو دوسرے  میں  مکمل کر کے اور دوسرے  مصرعے  کو تیسرے  مصرعے  کے  درمیان میں  ختم کر کے اور بعض مصرعوں  کو دُہرا کے  تاثر گہرا کیا گیا ہے۔ ایسی نظموں  میں  عموماً بنیادی المیہ رجحان ہر جگہ ہے اور ’پیتھوس‘  پیدا ہوا ہے  مثلاً:

کون سی راحت دوراں  جو میسر آئی

داغ دے  کر نہ گئی، کون سے  لمحات نشاط

ٹیس بن کر نہ اٹھے، زہر نہ چھوڑا مجھ میں

ہر نیا واقعہ اِک حادثہ تھا، ہر نئی بات

فال بد نکلی، کیا زخم دروں  کو گہرا

ہر نئے  موڑ پہ دنیا ہوئی ثابت وہ بساط

جس پہ انسان فقط مہرے  ہیں اُلٹے  سیدھے

پھر بھی وہ کون سا جادو ہے  جو ہر تازہ وفات

یوں  بھلا دیتا ہے  جی سے  کہ نشاں  بھی نہ ملیں؟

(سحر)

        اختر الایمان نے  ’رومانی دو شیزہ‘  یا ’عورت‘   اور  غم دوراں  کے  شکار عاشق کی بھی کہانی سنائی ہے۔  اگر چہ ان کے  کلام میں  عورت، رومان  اور   محبت کا روایتی تصور ملتا ہے  لیکن شاعر کے  زخمی دل  اور  اس کی بے  قرار روح کی بھی پہچان ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے  عمر کی ایک منزل پر دل نے  چوٹ کھائی ہے۔ سوز و گداز متاثر کرتا ہے۔

        اختر الایمان:

ابھی تو زیست کا عنواں  بدل نہیں  سکتا

 محبتوں  کو فسانہ بنا کے  دیکھ تو لوں

(محلکے )

کہتے  ہوئے اور فردا کا خیال کرتے  ہوئے  یہ سوچنے  لگے:

چوم لینے  دے  شہابی رخسار

کتنا تاریک ہے  فردا کا خیال!

(مآل)

        اختر الایمان نے  بعض خوبصورت رومانی نظمیں  کہی ہیں  لیکن ’محلکے ‘   اور  ’مآل‘  دونوں  ہلکی پھلکی نظمیں  ہیں۔ ’دیکھ تولوں ‘  کی ردیف میں  تجربوں  کا اظہار نہ ہو سکا ہے اور بعض مصرعے  ایسے  ہیں  کہ بس انھیں  پڑھ جائیے۔ ’مآل‘  میں  شاعر رومانی دوشیزہ کے  متعلق اس طرح سوچتا ہے:

مجھ کو اس وقت یہ احساس نہیں

جھوٹ گو جھوٹ ہے  رنگین تو ہے

تو کسی  اور  کی میراث نہیں

ایک ناکام سی تسکین تو ہے

شاعر کی پوری زندگی ایک ’آہ‘  میں  صرف ہو جاتی ہے۔ یہ دوشیزہ یا عورت کسی  اور  کی بن گئی ہے۔ اب شاعر کے  پاس یادوں  کے  سوا  اور  کچھ نہیں  ہے۔ وہ حنائی انگلیوں  کی جنبشوں  کو یاد کرتا ہے۔  اور  آنکھوں  میں  لہو کی بوند جذب کر لیتا ہے۔ تنہائی میں  سانس چل رہی ہے:

میں  اکیلا جا رہا ہوں اور زمیں  ہے  سنگلاخ

اجنبی وادی میں  میرا آشنا کوئی نہیں

راستے  کٹتے  ہوئے  ہیں  دھند میں

دھند سے  آگے  خلا ہے  راستہ کوئی نہیں

یہ کیوں۔۔۔؟ اس لیے  کہ:

 اور  تیری نرم بانہیں  مجھ سے  اب نا آشنا

 اور  ہی گردن کے  حلقے  میں  لپٹ کر سو گئیں

(لغزش)

تنہائی میں  بھولی بسری باتیں  یاد کر کے  عاشق اپنی سادگی پر مسکرا دیتا ہے، سوچتا ہے:

کس قدر تیزی سے  یہ باتیں  پرانی ہو گئیں

        اس نظم میں  یادوں  کا سلسلہ بھی ہے اور تنہائی کا احساس بھی۔ ایسی نظمیں  عمدہ رومانی نظمیں  ہیں۔ شاعر کے  کرب کا اثر ہوتا ہے۔ اس کے  ہیجانات متاثر کرتے  ہیں۔ داخلی کیفیتیں  پر کشش ہیں۔ ’لغزش‘  ایک اچھی مکمل رومانی نظم ہے۔ اس میں  وہ بنیادی خامی نہیں  جو بعض دوسری نظموں  میں  ملتی ہے ’دور کی آواز‘  کا ذکر کر چکا ہوں، خوب صورت البیلی مختصر نظم ہے۔ مشفقی، اختر الایمان کی عمدہ نظموں  میں  شمار کی جا سکتی ہے۔ یادوں  کے  خوب صورت آہنگ میں  اسے  ایک بار پھر دیکھنے  کی آرزو کا جس طرح اظہار ہوا ہے  وہ اثر انگیز ہے:

رنگوں  کا چشمہ سا پھوٹا، ماضی کے  اندھے  غاروں  سے

سرگوشی کے  گھنگھرو کھنکے  گرد و پیش کی دیواروں  سے

یاد کے  بوجھل پردے  اٹھے، کانوں  میں  جانی انجانی

لوچ بھری آوازیں  آئیں  جیسے  کوئی ایک کہانی

دور پہاڑی کی چوٹی پر بیٹھا پھولوں  سے  کہتا ہو

جیسے  جھرنا قطرہ قطرہ رِس رِس کر بہتا رہتا ہو

مدت بیتی ان باتوں  کو مضطر آج تلک رہتا ہے

 دشت ہویدا کا دیوانہ تند بگولوں  سے  کہتا ہے

آگ ہے  میرے  پاؤں  کے  نیچے  دُکھ سے  چور مری نس نس ہے

ایک دفعہ دیکھا ہے  اس کو ایک دفعہ کی  اور  ہوس ہے!

رومانی مزاج کی ایک خوبصورت تخلیق ہے!

        ’محرومی‘  میں  کیفیت یہ ہے  کہ شاعر کے  پاس کچھ بھی نہیں  ہے۔ اسے  کچھ باتیں  یاد ہیں  کچھ یاد نہیں، وہ ایک دورا ہے  پر کھڑا سوچ رہا ہے  کہ کس طرف جانا چاہیے، اس کی حالت یہ ہے:

خواب انگیز نگاہیں  وہ لب درد فریب

اِک فسانہ ہے  جو کچھ یاد رہا کچھ نہ رہا

میرے  دامن میں  نہ کلیاں  ہیں  نہ کانٹے  نہ غبار

شام کے  سائے  میں  داماندہ سحر بیٹھ گئی

کارواں  لوٹ گیا مل نہ سکی منزل شوق

ایک اُمید تھی سو خاک بسر بیٹھ گئی

ایک دو را ہے  پہ حیران ہوں  کس سمت بڑھوں

اپنی زنجیروں  سے  آزاد نہیں  ہوں  شاید

میں  بھی گردش گہہ ایام کا زندانی ہوں

درد ہی درد ہوں  فریاد نہیں  ہوں  شاید

محبوبہ آئی ہے اور رو رہی ہے، شاعر کہتا ہے:

تیرے  آنسو مرے  داغوں  کو نہیں  دھو سکتے

تیرے  پھولوں  کی بہاروں  سے  مجھے  کیا لینا

’جمود‘   اور  ’آمادگی‘  میں  بھی اسی قسم کے  خیالات ہیں:

ساقی و بادہ نہیں، جام و لب جو بھی نہیں

تم سے  کہنا تھا کہ اب آنکھ میں  آنسو بھی نہیں

(جمود)

شاعر پر جمود کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ’آمادگی‘  میں  کہتا ہے:

اب آؤ تو رکھا کیا ہے

چشمے  سارے  سوکھ گئے  ہیں

یوں  چا ہو تو آ سکتی ہو

میں  نے  آنسو پونچھ لیے  ہیں

(آمادگی)

        ’آمادگی‘  کا ذکر کر چکا ہوں۔ ایک اچھی نظم ہے۔ خارجی عناصر کی تصویر میں  داخلیت کو اُبھارا گیا ہے۔ خوبصورت اشارے  ہیں۔ داخلی زندگی کی تباہی کی تصویر فنکارانہ انداز میں  پیش کی گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے  جیسے  شاعر کی ذات ایک عمارت تھی جو ٹوٹ گئی ہے۔ یہ عمارت ایک علامت ہے۔ ایک ایک اینٹ کے  گرنے، دیواروں  کے  کانپنے، شہتیروں  کے  ٹوٹنے،  اور  چونے  کی ایک پتلی سی تہہ کے  گرتے  گرتے  بیٹھنے  کے  تصورات خوبصورتی سے  اُبھارے  گئے  ہیں۔ محسوس ہوتا ہے  جیسے  آنکھوں  کے  سامنے  کوئی عمارت ٹوٹ رہی ہے۔ آنکھوں  کے  سامنے  کوئی سسک رہا ہے۔ اس کے  بعد پھر ایک یاد رہ جاتی ہے:

میرے  دامن پہ کئی اشک ہیں  اب تک تازہ

میرے  شانوں  پہ وہی جنبش سر ہے  اب بھی

میرے  ہاتھوں  کو ہے  احساس، انھیں  ہاتھوں  کا

میری نظروں  میں  وہی دیدۂ تر ہے  اب بھی

آج آہٹ بھی نہیں  کوئی اشارہ بھی نہیں

کسی ڈھلکے  ہوئے  آنچل کا سہارا بھی نہیں

        یہ سب خوبصورت مختصر رومانی نظمیں  ہیں۔ عورت کے  آرچ ٹائپ سے  رشتے اور داخلی رشتے  کو سمجھانے  کی غیر شعوری  اور  نیم شعوری کوشش ہے۔ محرومی، اُداسی  اور  داخلی پسپائی کی رومانی تصویریں  ہیں  جن میں  فرد کے  ہیجانات  اور  جذبات  اور  حسی کیفیات کی اہمیت ہے۔ اختر الایمان نے  عام رومانی داستان کو اپنے  احساس  اور  جذبے  سے  ہم آہنگ کر کے  نئی تخلیق کی ہے۔ اپنے  مزاج کے  تیور، اپنی شخصیت کا سوز  اور  اپنی روح کی گرمی  اور  روشنی میں  تجربے  کو تپایا ہے۔ یہ تجربے  ان کے  شعری پیکروں  میں  ڈھل کر پُر کشش بن گئے  ہیں۔

        تصور، جبر، پس منظر،  محبت، اعتراف، اجنبی، تجھے  گماں  ہے، سلسلے  ٹوٹ گئے، ریت کے  محل، باز آمد، اچھی رومانی نظمیں  ہیں۔

**

٭٭٭

مصنف کے تشکر کے ساتھ جنہوں نے فائل عنایت کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین، اور ای بک کی تخلیق: اعجاز عبید