

ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
فہرست مضامین
احساس، فکر اور فنی اظہار کی ایک مہکتی شام
تہذیبی ورثہ کا زندہ استعارہ، محترمہ قمر جمالی کے دولت کدے پر افسانوی نشست، (۲۵ مئی، ۲۰۲۵ء)
رپورتاژ
رفیعہ نوشین
ادب کی دنیا میں کچھ لمحات محض وقت کے صفحات پر نہیں اُبھرتے، بلکہ دل کی گہرائیوں، جذبوں کی شدت، اور لفظوں کی خوشبو سے جنم لیتے ہیں۔ ۲۵ مئی ۲۰۲۵ء کا دن بھی ایسا ہی ایک یادگار دن تھا، جب ہمیں حیدرآباد کی موقر فکشن نگار اور با وقار علمی شخصیت، محترمہ قمر جمالی آپا کے دولت کدے پر حاضری کا شرف حاصل ہوا۔
ان کے فلیٹ میں داخل ہوتے ہی دل جیسے ادبی تقدس سے بھر گیا۔ دیوار کے ساتھ سجے ایوارڈز گویا ان کی علمی، ادبی اور فکری کامیابیوں کی خاموش مگر پر جوش گواہی دے رہے تھے۔ ایک گوشے میں رکھی پرانی تصویریں ماضی کی خوشبو کو تازہ کر رہی تھیں۔ اور کتب سے آراستہ الماریاں علم و ادب کی سچائی کو لفظوں میں ڈھالتی محسوس ہو رہی تھیں۔ یہ صرف ایک گھر نہیں تھا، بلکہ تہذیبی ورثے کا ایک زندہ استعارہ تھا۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ ہم قمر آپا کے ہاں کسی محفل میں شریک ہوئے ہوں۔ ان کا گھر ہمیشہ سے ایک فکری گلستان رہا ہے۔ یومِ خواتین کی تقریبات ہوں، بنات کے اجلاس، بیرونی قلم کاروں کی ملاقاتیں ہوں یا ادبی نشستیں، یہ جگہ ہمیشہ تخلیقی ذہنوں کی آماجگاہ بنی رہی ہے۔ قمر آپا کا گھر، گویا الفاظ کی خوشبو سے مہکتا ایک ایسا گوشہ ہے، جہاں ہر چہرہ مسکراہٹ سے روشن اور ہر دل خلوص سے لبریز ہوتا ہے۔
آسمانی رنگ کے سوٹ میں ملبوس آپا لیونگ روم کے صوفے پر براجمان تھیں، جیسے ہی ان کی نظر ہم پر پڑی انہوں نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ ہمارا استقبال کیا۔ رسمی سلام دعا کے بعد آپا نے مجھ سے پوچھا
"دیر ہو گئی بیٹا۔۔۔؟ میں تو یہی سوچ رہی تھی کہ ہمیشہ سب سے پہلے پہنچنے والی رفیعہ سے آج تاخیر کیسے ہو گئی؟”
‘مَنی’ (Amma Mani جو آپا کی کیر ٹیکر ہے۔ جسے آپا ‘منی’ کے نام سے بلاتی ہیں) بھی پوچھ رہی تھی کہ "گڑوا چیسے اماں کب آئیں گی؟” ("గొడ్వ జేసే అమ్మ”)
ثمینہ حیرت سے مسکرائی، "یہ کیا مطلب ہوا آپا؟”
قمر آپا ہنسنے لگیں "ارے بھئی! رفیعہ جب بھی آتی ہے، خوب ہنگامہ کرتی ہے، سب کو ہنساتی ہے، محفل میں شور مچاتی ہے نا۔۔۔ تو منی یہی پوچھ رہی تھی کہ وہ زندہ دل اور خوش مزاج اماں کب آئیں گی؟”
زبانیں اور ثقافتیں کسی ایک جملے میں گھل مل جاتی ہیں تو وہ فقرہ کسی ترجمے کا محتاج نہیں رہتا، بلکہ دل کی دھڑکن بن جاتا ہے۔ "گڑوا چیسے اماں” بھی بس ایک زبان کا جملہ نہیں تھا، یہ میرے جینے کے انداز کا عکس تھا۔ کبھی کبھی ایک سادہ جملہ محض اظہارِ خیال نہیں ہوتا، بلکہ ایک مکمل شخصیت، اس کی شناخت اور اس کے اثرات کا تعارف بن جاتا ہے۔ ‘منی’ کی زبان سے ادا ہونے والا جملہ "گڑوا چیسے اماں کب آئیں گی؟” بظاہر ایک مقامی خادمہ کا بے ساختہ سوال تھا۔ مگر یہ جملہ کسی تعلیمی سند، سوانحی نوٹ یا تعارفی کارڈ سے کہیں زیادہ واضح، بھرپور اور جاندار تعارف تھا، میری شخصیت کی شوخی، خوش مزاجی، محفل میں زندگی بھرنے کی صلاحیت اور زندہ دلی کے اعتراف کا۔
جنوبی ہند، بالخصوص حیدرآبادی معاشرہ، لسانی میل جول اور بین الثقافتی ہم آہنگی کا نادر نمونہ ہے۔ یہاں تلگو بولنے والی ‘منی’ جیسی خواتین گھریلو دنیا میں اردو داں خواتین سے جڑ کر ایک نئی ثقافتی فضا تشکیل دیتی ہیں۔ جب وہ کہتی ہے "گڑوا چیسے اماں” کب آئیں گی؟” تو یہ فقرہ دونوں زبانوں کی روح میں رچا بسا ایک تہذیبی اظہار ہوتا ہے محبت، اپنائیت اور شناسائی کا۔
اُس دن میں نے بطورِ خاص گلابی رنگ کی شلوار قمیض کا انتخاب کیا تھا، کیونکہ گلابی رنگ نہ صرف آنکھوں کو بھلا لگتا ہے، بلکہ دل و دماغ پر ایک لطیف سا سکون بھی چھوڑ جاتا ہے۔ عطیہ نے مسکرا کر کہا، "باجی، آپ کے لباس کا رنگ تو بہت پیارا ہے!” ان کی بہن صبیحہ نے فوراً کہا، "صرف لباس ہی نہیں، آپ کی جیولری اور چوڑیاں بھی آپ پر بہت جچ رہی ہیں!” ان الفاظ میں جو محبت تھی، وہ میرے لئے انمول تھی۔
عطیہ نے ناسی رنگ کا دلکش لباس زیب تن کیا ہوا تھا، جس پر رنگ برنگے پھول کڑھے تھے۔ عطیہ کی مسکراہٹ اور چہرے کی شادابی، گویا اسی لباس کے پھولوں سے ہم آہنگ تھی نیز وہ خود بھی ایک کھلا ہوا گلاب محسوس ہو رہی تھیں۔
ظہر کا وقت تھا۔ ہم سب نے وضو کیا اور نمازِ ظہر ادا کی۔ عبادت کے بعد جسم و جاں دونوں کو غذا کی طلب محسوس ہوئی۔ جیسے روح سیراب ہو گئی ہو، اب بدن کی باری تھی۔ منی کے ساتھ مل کر ہم سب نے کھانا میز پر لگا دیا، جس کی خوشبو فضاء میں مہک کر اشتہا انگیز منظر تخلیق کر رہی تھی۔
میں اور عطیہ، ‘خوانِ خاص’ سے مٹن بریانی لے آئے تھے، ثمینہ اپنے گھر سے مرغ کی حلیم، چکن کا سالن اور بیکری کے کلچے لائی تھیں، جو کہ نہایت لذیذ تھے۔
گفتگو کے دوران ثمینہ نے بتایا کہ حلیم اُس کی بہو نے تیار کی تھی اور چکن کا سالن اُس کے بیٹے نے خود اپنے ہاتھوں سے پکایا تھا۔ یہ بات سب کے لیے باعثِ تعجب اور خوشی تھی کہ پہلی بار کسی ایسی محفل میں ایک مرد کے ہاتھوں کا ذائقہ ہمارے ذوق کی میز پر آیا تھا، عمومی طور پر یہ میدان خواتین کے ذمے ہوتا ہے، لیکن ثمینہ واقعی خوش نصیب ہیں کہ ان کا بیٹا اس خوبصورت روایت میں اپنا حصہ ڈال کر محفل کو ایک یادگار لمحہ دے گیا۔ اور چکن کا سالن ذائقے میں کسی عمدہ ریستوران کے کھانوں سے کم نہ تھا، بلکہ اُس میں خلوص کا تڑکا تھا، جو کسی بھی پکوان کو خاص بنا دیتا ہے۔
ثمینہ جو کلچے بیکری سے خرید کر لائیں تھیں، اُن پر سنہری زردی چھائی ہوئی تھی، اور ہرے دھنئے کی پتیوں نے جیسے موسمِ بہار کی کوئی نازک غزل اُن پر بکھیر دی ہو۔ ہر نوالہ، ہر ذائقہ، محض کھانے کی حد تک محدود نہ تھا، یہ سب محبتوں سے بنے، خلوص سے سجے لمحوں کی لذت تھی، جو نہ صرف زبان پر، بلکہ دل پر نقش ہو گئی۔
ادبی گفتگو اور ان چٹخارے دار کھانوں کا امتزاج ایک ایسا ذائقہ بن گیا جو صرف جسم نہیں، یادوں کو بھی سیراب کر گیا۔ یہ دسترخوان صرف کھانے کا نہیں تھا، یہ ایک مشترکہ کہانی کا متن تھا، جس میں ہر ڈش ایک پیراگراف تھی، اور ہر ذائقہ ایک جذبہ۔ اور سچ تو یہ ہے کہ
"جہاں لفظوں کی خوشبو اور کھانوں کی مہک ایک ساتھ فضا میں گھل مل جائے، وہیں اصل محفل جمتی ہے۔”
کھانے کے ذائقے ابھی لبوں پر باقی ہی تھے کہ محفل نے ایک نیا موڑ لیا اور ‘افسانوی نشست’ کا آغاز ہوا۔
جس کی صدارت قمر آپا فرما رہی تھیں، ایک ایسی شخصیت جو نہ صرف کہنہ مشق قلمکار ہیں بلکہ افسانے کے فنی اسرار و رموز سے بھی بخوبی واقف ہیں۔
نشست کا آغاز میرے افسانے "ادھوری کوکھ” سے ہوا، جو مصنوعی بیضہ دان (Synthetic Ovary) جیسے نازک اور عصری مسئلے پر مبنی تھا۔ اور ماہِ مئی کے "ہادیہ” (جماعت اسلامی کے خواتین کے ای۔ میگزین) میں شائع بھی ہو چکا تھا۔
افسانے کی قرأت مکمل ہونے پر قمر آپا نے نہایت سنجیدگی سے پہلا سوال کیا:
"یہ موضوع تمہارے ذہن میں کیوں کر آیا؟”
میں نے وضاحت کی کہ جنوری 2025 کی 16۔17 تاریخ کو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ تعلیم نسواں میں دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا جس میں آپ بھی (قمر آپا) شریک تھیں، موضوع تھا:
"خواتین اور مادریت پر معاون تولیدی ٹیکنالوجی کے اثرات کی تلاش”
(Exploring the Impacts of Assisted Reproductive Technology on Women and Motherhood)
"ہاں میں نے بھی شرکت کی تھی لیکن یہ موضوع میری سماعتوں سے نہیں گزرا” قمر آپا نے ذہن پر زور دیتے ہوئے کہا،
اس علمی نشست میں شرکت کی دعوت مجھے پروفیسر آمنہ تحسین نے دی تھی، جو میری محسن اور قابلِ احترام اُستاد بھی ہیں۔ کانفرنس میں ART (Assisted Reproductive Technology) پر سیر حاصل مقالات پڑھے گئے، اور مباحثے میں یہ بات شدت سے محسوس کی گئی کہ عوام اس پیچیدہ ٹیکنالوجی اور اس کے سماجی، اخلاقی اور نفسیاتی اثرات سے نا آشنا ہیں۔ ادب کو بطور ذریعہ استعمال کیے بغیر ان تک آگہی پہنچانا ممکن نہیں۔
تاہم، ایک تلخ حقیقت بھی اس موقع پر سامنے آئی۔
یونیورسٹیوں میں ہونے والی علمی کانفرنسوں اور سیمینارز میں تخلیق کاروں، خاص طور پر افسانہ نگاروں، شاعروں اور ادباء کو یا تو مدعو ہی نہیں کیا جاتا، یا پھر برائے نام بلایا جاتا ہے، اور اگر بلایا بھی جائے تو صرف مشاعرہ، شام افسانہ یا انشائیہ کی محفل تک محدود رکھا جاتا ہے۔
اس کے باوجود اگر ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ عصری علمی مباحث پر قلم اٹھائیں تو یہ عدم شمولیت سراسر ناانصافی ہے۔ جامعات کو چاہیے کہ وہ ادب کو صرف تزئینی عنصر نہ سمجھیں، بلکہ اسے علمی مکالمے کا سرگرم حصہ بنائیں کیونکہ
"جب علم کے خشک دریاؤں میں ادب کی نمی شامل ہو جائے، تو شعور کی فصلیں اُگتی ہیں۔”
پروفیسر آمنہ تحسین نے جب مجھ سے فرمایا تھا کہ :
"رفیعہ، تم اس کانفرنس کے لیے Surrogacy پر نظم لکھو!”
تو انکار کا سوال ہی نہ تھا۔ احترام اور محبت نے قلم کو جُھکنے نہیں دیا، بلکہ اُسے سوچنے، محسوس کرنے اور پھر تخلیق کرنے پر مجبور کیا۔
یہ موضوع بلا شبہ کٹھن تھا، جذبات، اخلاقیات، سائنس اور سماج کے گورکھ دھندے میں الجھا ہوا۔ لیکن جیسے ہی کاغذ پر پہلا لفظ لکھا، تو اشعار گویا ایک ایک کر کے آسمانِ خیال سے نازل ہونے لگے۔ یوں میری نظم "جذبات کا سودا” نے جنم لیا، جسے کانفرنس میں سن کر حاضرین نے خوب سراہا۔
ادب محض لفظوں کا کھیل نہیں، بلکہ ایک زندہ شعور کا اظہار ہے، جو سماج کی دھڑکنوں سے جڑتا ہے، اور قاری کے دل و دماغ کو جھنجھوڑتا ہے۔ افسانہ "ادھوری کوکھ” بھی ایسی ہی ایک تخلیق ہے جو نسوانی تجربات، سائنسی ترقی، سماجی محرومی اور مذہبی فکر جیسے پیچیدہ موضوعات کو ایک فنکارانہ بصیرت کے ساتھ جوڑتی ہے۔
اس افسانے نے محض ایک کہانی بیان نہیں کی، بلکہ مختلف قاری اور اہلِ علم و ادب کی بصیرت کو متحرک کیا، جس کے نتیجے میں ایک فکری محفل نے جنم لیا۔
زیرِ نظر تحریر میں انہی قاری تبصروں، علمی سوالات، اور جذباتی ردِ عمل کو سمیٹا گیا ہے جو "ادھوری کوکھ” کو صرف ایک افسانہ نہیں، بلکہ ایک جاری فکری مکالمہ بنا دیتے ہیں۔
افسانہ ادھوری کوکھ کے بارے میں ثمینہ نے کہا کہ :
"جیسے ہی میں نے افسانہ ادھوری کوکھ پڑھا، دل نے چاہا کہ فوراً اپنی دوست کو بھیج دوں۔”
دوست نے پڑھ کر فون کیا، اور بتایا کہ "یہ تو میری اپنی کہانی لگتی ہے… جیسے لفظوں نے میری خاموشی کو زبان دی ہو۔”
یہ جملہ صرف ایک قاری کی رائے نہیں، بلکہ اس سچ کی گواہی تھی کہ "ادب اور زندگی کے درمیان جو رشتہ ہے، وہ آئینے جیسا ہے”۔ تخلیق کار کوئی ماورائی وجود نہیں، وہ بھی ہمارے ہی سماج کی دھوپ، چھاؤں، سکھ اور دکھ سے گندھی ایک ہستی ہے۔
اسی لئے اُس کی تحریر میں قاری اپنی ذات کے عکس کو تلاش کر ہی لیتا ہے کبھی مکمل، تو کبھی ادھورا۔
عطیہ نے افسانے "ادھوری کوکھ” کے انجام پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا:
"مجھے افسانے کا غیر متعین انجام بہت پسند آیا۔ یہ وہی کھلا اختتام ہے جو قاری کو صرف کہانی کے باہر نہیں، بلکہ اپنے اندر جھانکنے کی دعوت دیتا ہے۔”
در اصل یہ کھلا افسانہ کوئی بند دروازہ نہیں، بلکہ ایک ایسی کھڑکی ہے جہاں سے قاری کئی امکانات، سوالات اور تعبیرات کی ہوا اپنے اندر آنے دیتا ہے۔
ایسا افسانہ صرف کہانی نہیں رہتا وہ سوچ کی شروعات، مکالمے کی زمین اور احساس کی فصل بن جاتا ہے۔
اور یہی افسانے کی اصل جیت ہے:
جب قاری صرف پڑھتا نہیں، بلکہ جیتا ہے۔
ادب کے سچے قاری اور فہم رکھنے والے جب کسی تخلیق پر رائے دیتے ہیں تو وہ محض تعریف نہیں کرتے، بلکہ قلمکار کی روح تک پہنچ جاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی لمحہ تھا جب میری عزیز دوست حمیرہ نے میرے افسانہ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا:
"رفیعہ باجی کے افسانے زندگی کی زمین پر اگے سچائی کے دانے ہوتے ہیں۔ وہ انہیں ایسے چنتی ہیں جیسے کوئی پرندہ باریک بینی سے دانا چگتا ہو۔”
حمیرہ کی اس بات میں میرے لئے تحسین کا سرمایہ بھی تھا اور فکری غذا بھی۔ وہ سمجھ چکی تھیں کہ میرے افسانے، محض کاغذی پرندے نہیں بلکہ سماجی سچائی کے پروں سے اڑنے والے گہرے پیغام ہیں۔ میرا ادب "ادب برائے ادب” کی سرحدوں سے نکل کر "ادب برائے زندگی” کی وادیوں میں قدم رکھ چکا ہے۔
اسی نشست میں حمیرہ نے ایک نہایت سنجیدہ اور فکری سوال بھی اٹھایا۔ اس کا استفسار تھا کہ
"انسانی جسم میں مصنوعی بیضہ دانی کی پیوند کاری، کیا اسلامی تعلیمات کے خلاف نہیں؟”
میں نے توقف کے بعد نرمی سے کہا:
"جب ہم دل، گردہ، جگر یا قرنیہ جیسے حساس اعضاء کی پیوند کاری کو قبول کرتے ہیں، اور انہیں حیاتِ نو کی کنجی سمجھتے ہیں، تو پھر بیضہ دان کیوں استثنا ہو؟”
ویسے اسلامی فقہ میں اس ضمن میں مختلف آراء موجود ہیں۔ اگر یہ عمل صرف میاں بیوی کے درمیان، نکاح کے بندھن کے اندر رہ کر، اور کسی تیسرے فرد کی مداخلت کے بغیر انجام پائے، تو فقہی اصولوں کے مطابق یہ مشروط طور پر جائز ہے۔ یہ ایک جدید طبی تقاضا ہے جسے شریعت نے توازن سے دیکھنے کی راہ دکھائی ہے۔
حمیرہ کی بات یہاں ختم نہیں ہوئی، بلکہ اس نے شرارتی انداز میں کہا:
"ویسے باجی، مجھے آپ کے افسانے کم اور غیر افسانوی تحریریں زیادہ پسند آتی ہیں۔ ان میں شگفتگی بھی ہوتی ہے اور دل کی بات بھی۔”
میں ہنس پڑی۔ اور مسکراتے ہوئے کہا:
"تم سچ کہتی ہو۔ افسانے میں قلمکار ایک تنگ کشتی کا مسافر ہوتا ہے۔ جہاں پلاٹ، وحدتِ تاثر، اور ساخت کی رسیاں اس کے ہاتھ باندھ دیتی ہیں۔ وہ سوچ کر بھی ہر رخ میں نہیں بہہ سکتا۔ لیکن غیر افسانوی ادب… وہ تو جیسے دریا ہو! جہاں تخیل، تجربہ، مشاہدہ سب بہتے ہیں بلا کسی بندش، بلا کسی رکاوٹ۔”
عطیہ کی بڑی بہن، صبیحہ، صرف قرابت دار نہیں بلکہ ایک صاحبِ ذوق، ادب نواز شخصیت بھی ہیں۔ جب بھی کوئی ادبی محفل سجتی ہے، وہ عطیہ کے شانہ بشانہ نظر آتی ہیں۔
میں نے غور کیا کہ افسانہ "ادھوری کوکھ” سننے کے بعد صبیحہ کی آنکھوں میں ایک خاموش سنجیدگی در آئی۔ ان کا تاثر تھا کہ "یہ موضوع، بلاشبہ عصر حاضر کا سلگتا ہوا موضوع ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جدید سائنس نے جن دروازوں کو کھول دیا ہے، وہ صرف طبّی امکانات نہیں بلکہ فکری، اخلاقی اور روحانی کائنات کے در بھی ہیں۔”
ایک لمحے کے توقف کے بعد انہوں نے ایک گہرا سوال کیا کہ،
"کیا انسان اپنی کمیوں کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا؟ کیا ہر خواہش کا پورا ہونا ہی زندگی کی کامیابی ہے؟”
یہ کہہ کر صبیحہ نے ایک حکیمانہ استدلال پیش کیا اور حضرت ابوذر غفاریؓ کا واقعہ سنایا، جو اپنی سادگی، زہد، اور استغناء کی وجہ سے رسول اکرمﷺ کے مقرب صحابہ میں شمار ہوتے تھے۔ وہ تمام عمر اولاد کی نعمت سے محروم رہے، مگر نہ کبھی شکوہ کیا، نہ تقدیر سے بغاوت۔ اُن کی زندگی اس بات کی دلیل تھی کہ اولاد کا نہ ہونا کوئی محرومی نہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے ایک حکمت بھی ہو سکتی ہے۔
صبیحہ کا اس واقعہ کا ذکر کرنا دراصل افسانہ "ادھوری کوکھ” کے مرکزی سوال سے ایک فکری پل باندھنا تھا۔
افسانے میں جہاں سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے مادریت کو ممکن بنانے کی جد و جہد نظر آتی ہے، وہیں صبیحہ کے زاویے سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ،”کیا ہر خالی کوکھ کو بھرنا ضروری ہے؟ یا کچھ ادھورے پن میں بھی مکمل ہونے کی گنجائش ہے؟”
ان کا نقطہ نظر ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کرتا ہے جہاں انسانی ارادہ، سائنسی ترقی، اور ربانی مشیت ایک دوسرے سے مکالمہ کرتے ہیں۔
حضرت ابوذرؓ کا حوالہ صبیحہ کی دانائی اور روحانیت کا مظہر تھا۔ وہ اس افسانے کو صرف ایک سائنسی یا نسوانی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک وجودی سوال کے طور پر دیکھ رہی تھیں کہ زندگی، کامل تبھی نہیں ہوتی جب ہر خواہش پوری ہو، بلکہ جب ہر نا آسودگی کو بھی قبول کیا جائے۔
ایسا نکتہ، افسانے کو محض ایک کہانی نہیں بلکہ ایک فکری دعوت بنا دیتا ہے۔
پروفیسر آمنہ تحسین اس بار کی نشست میں شریک نہ ہو سکیں، وہ تعطیلات منانے اپنی بیٹی کے پاس مسقط گئی ہوئی تھیں۔ محفل میں ان کی کمی محسوس کی گئی، گو وہ جسمانی طور پر موجود نہ تھیں، مگر میرے تصور میں وہ ہمارے درمیان موجود تھیں۔ خاموشی سے سن رہی تھیں، مسکرا رہی تھیں، اور کہیں نہ کہیں، افسانے کی کسی سطر پر حوصلہ افزا تبصرہ بھی فرما رہی تھیں۔
ایسے میں مجھے ‘ادھوری کوکھ’ پر کیا گیا ان کا پُر مغز تجزیہ یاد آیا، جو اُن کی بصیرت اور فکری گہرائی کا غماز تھا۔ انہوں نے مجھے دلی مبارکباد دیتے ہوئے خاص طور پر دو نکات کی طرف توجہ مبذول کرائی تھی، جو میرے لیے آج بھی رہنمائی کا مینار ہیں:
پہلا نکتہ یہ تھا:
"عصری مسائل اور حسیت و تقاضے ہم جسے کہتے ہیں۔ وہ اسی طرح کی کہانیوں میں نظر آتی ہے۔ موضوع چنتے وقت یہی ذہن میں رکھنا ہوتا ہے۔ پرانے موضوعات کو دو بارہ نئے انداز میں لکھنا فضول ہے۔ ادب میں کوئ اضافہ نہیں ہو گا”۔
یہ بات نہ صرف افسانے کی معنویت پر مہر ثبت کرتی ہے بلکہ میرے تخلیقی سفر کو ایک نیا زاویہ عطا کرتی ہے کہ قلم کار وہی کہانی لکھے جو زمانے کے دھڑکنوں سے جڑی ہو، جو سماج کی دھڑکتی ہوئی نسوں کو چھولے۔
دوسری بات انہوں نے انجام سے متعلق کہی، جو میرے افسانے کی روح تھی:
"افسانہ میں وہی اختتام بے حد اہم ہوتا ہے، جو قاری کو آگے سوچنے پر مجبور کردے اور وہاں سے کئ کہانیاں جنم لیں۔ کرہ ارض پر ہماری زندگی کی حقیقت یہی ہے کہ کہانیوں کا سلسلہ جاری ہے اور ابد تک یوں ہی جاری رہے گا۔”
ان کی یہ بات میری سوچ کا خلاصہ بن گئی۔ میں نے جب افسانے کو مکمل کیا تھا، تو یہی خواہش تھی کہ قاری صرف اختتام پر رکے نہیں، بلکہ وہاں سے نئے سوالات، نئے امکانات اور نئے افسانے خود تشکیل دے۔
اور پھر، ان کا یہ جملہ تو میرے دل کی آواز بن گیا:
"افسانے کا یہ جملہ کہ ‘درخت کے نیچے کھڑا خاموش این جی او کا آفس مجھے بہت ساری آہیں سنا گیا’۔ میرے دل کو چھو گیا۔ واہ۔۔۔! کیا خوب لکھا ہے۔ یہ دراصل آج کی حقیقت ہے۔ اسے جس طرح سے آپ نے افسانے میں متعارف کروایا ہے وہ متاثر کن ہے”۔
یہی تو وہ لمحہ ہے جب ایک استاد کا فیضانِ نظر، ایک تخلیق کار کے لیے سب سے بڑا اعزاز بن جاتا ہے۔ ان کا یہ تبصرہ، میرے لیے تحسین سے بڑھ کر ایک تخلیقی وصیت کی حیثیت رکھتا ہے کہ لکھنا ہے، تو وقت کے آئینے میں وہ عکس لکھو جو دھندلائے نہیں، جو قاری کے اندر ایک نئی سوچ کی شمع روشن کر دے۔
افسانوی نشست کی صدر، محترمہ قمر جمالی آپا، ایک جہاں دیدہ، با ذوق اور فکری بالغ نظر ادیبہ ہیں۔ جب "ادھوری کوکھ” پر گفتگو کا دور چلا، تو اُن کے خیالات نے محض افسانے کے مندرجات پر روشنی نہیں ڈالی، بلکہ اس کی تہہ میں موجود سماجی تناظرات کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے کہا
"یہ افسانہ قاری کو صرف متاثر نہیں کرتا بلکہ جھنجھوڑ کر سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے خاص طور پر یہ کہ فائقہ جیسی کردار تو کسی نہ کسی طرح این جی او کے دفتر تک پہنچ جاتی ہے، جہاں اسے مصنوعی بیضہ دان جیسی جدید سائنسی ٹکنالوجی کے بارے میں معلومات میسر آتی ہیں۔
لیکن معاشرے میں کتنی ایسی عورتیں ہیں جنہیں نہ این جی اوز کی موجودگی کا علم ہے، نہ وہاں تک رسائی حاصل ہے؟”
یہ سوال صرف افسانے کی کہانی کا نہیں، بلکہ سماج کی خاموش المیہ کا بیان تھا۔
انہوں نے قلم کار کی اخلاقی ذمہ داری پر بھی نہایت پُر اثر انداز میں روشنی ڈالتے ہوئے کہا:
"جب ایک ادیب لکھنے بیٹھتا ہے تو اس کا قلم اس کا ضمیر بن جاتا ہے ہر لفظ سے پہلے ایک آواز آتی ہے: لکھ، مگر سوچ سمجھ کر لکھ!”
یہ جملہ صرف ایک نصیحت نہیں بلکہ ادب کی روحانی میثاق تھا۔
پھر انہوں نے افسانے کے تکنیکی پہلوؤں کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لیا۔ وحدتِ تاثر پر گفتگو کرتے ہوئے کہا:
"افسانے کا تاثر ایک مربوط اور مکمل تجربے کی صورت میں قاری تک پہنچتا ہے مگر کچھ لوگ صرف وحدت تاثر کو اہمیت دیتے ہیں اور ‘زماں و مکاں’ (وقت اور جگہ) کو نظر انداز کر دیتے ہیں، جو کہ افسانے کے سیاق و سباق اور حقیقت نگاری کے لئے نہایت ضروری عناصر ہیں۔”
افسانے کی تکنیکی پختگی پر اظہار خیال کرتے ہوئے قمر آپا نے نہایت اعتماد سے کہا:
"تکنیکی اعتبار سے یہ افسانہ ہر قسم کی خامیوں سے پاک ہے۔”
یہ الفاظ میرے لیے محض تعریف نہیں، بلکہ اطمینان اور ادبی تائید کا چراغ تھے۔ ایک ایسی شخصیت کی جانب سے جن کی رائے اہلِ قلم کے لیے سند کی حیثیت رکھتی ہے۔
"ادھوری کوکھ” کی گونج اب صرف صفحات تک محدود نہیں رہی، وہ دلوں میں اتر چکی ہے، سوچوں میں گُھل چکی ہے۔
یہ کہانی مکمل ہو کر بھی ادھوری ہے، کیونکہ ہر قاری کی آنکھ میں ایک الگ منظر ہے، ہر دل میں ایک اور سوال۔
مگر ابھی بہت کچھ کہنا باقی ہے۔ افسانہ صرف صفحۂ قرطاس پر لکھا ہوا ایک بیانیہ نہیں ہوتا۔ یہ ایک احساس، ایک تجربہ اور ایک رابطہ ہوتا ہے، جو قاری یا سامع کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ ایسی ہی ایک پراثر ادبی نشست کا احوال ہے یہ جس میں سروگیسی جیسے نازک، سائنسی اور جذباتی موضوع پر گفتگو، ذاتی تجربات کی بےساختہ شراکت، اور ادب و سائنس کا بامعنی مکالمہ شامل تھا۔
یہ محفل محض کہانی سننے سنانے تک محدود نہ رہی، بلکہ یادوں، فہم، اور فکری لمس کی ایسی شام بن گئی جو سامعین کے دلوں میں دیر تک مرتعش رہے گی اور آخر میں ایک کیک، دو تخلیقی دلوں کی دھڑکن اور قمر آپا کی خاموش مسکراہٹ نے اس محفل کو مکمل کہانی میں بدل دیا۔
حمیرہ نے سروگیسی (Surrogacy) جیسے عصری، سائنسی اور پیچیدہ سماجی موضوع پر اپنا افسانہ "میری ماں” پیش کیا۔ بقول حمیرہ یہ افسانہ انہوں نے 2019 میں لکھا تھا اور اسی سال ‘محفل خواتین’ کے ایک اجلاس میں پہلی بار سنایا بھی تھا۔
حمیرہ کی آواز میں ٹھہرا ہوا درد اور الفاظ کی سچائی نے محفل کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ افسانہ اتنا جذباتی اور اثر انگیز تھا کہ سننے والوں کی آنکھیں نم ہو گئیں، اور دلوں میں دیر تک ہلچل باقی رہی۔
افسانے کی شدت اور جذبات کی گہرائی نے ثمینہ کو سیدھا ماضی کی اس پگڈنڈی پر لا کھڑا کیا جہاں وہ ایک ننھی سی بچی تھیں۔ ایک معصوم آنکھ، جو ماں کی ممتا کو سمجھنے کی پہلی کوشش کر رہی تھی۔
افسانہ ختم ہوا تو ثمینہ نے خاموشی کو توڑتے ہوئے اپنی زندگی کا ایک حساس باب کھول دیا، بچپن کی وہ یادیں جو وقت کی گرد میں کہیں دبی پڑی تھیں، اچانک سانس لینے لگیں۔ ان کے لہجے میں لرزش تھی، آنکھیں بھیگ گئی تھیں، اور اُن کی آواز میں وہ ٹوٹا ہوا سا ربط تھا جو صرف سچے درد سے جنم لیتا ہے۔
ان کی داستان سنتے ہوئے ہم تمام بھی جذبات کی رو میں بہنے لگے۔ محفل، جو لمحہ بھر پہلے ادب کی محض ایک نشست تھی، یکایک ایک مشترکہ تجربے، ایک اجتماعی درد میں بدل گئی۔
یہ وہ لمحہ تھا جہاں افسانہ حقیقت سے ہم آہنگ ہوا، اور سامعین کہانی کے کرداروں سے رشتہ جوڑ بیٹھے۔ اور یہی تو ادب کی معراج ہے۔ کہ وہ صرف سنایا نہ جائے، محسوس بھی کیا جائے۔
عطیہ اور صبیحہ نے حمیرہ کے افسانے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس افسانے نے فلم ‘بابی’ کی یاد دلائی۔
صبیحہ نے فلم "بابی” کے رشی کپور کے کردار کو ‘جمی’ (میری ماں کا مرکزی کردار) سے جوڑ کر ایک نادر نفسیاتی مماثلت کی طرف اشارہ کیا، دونوں کردار والدین کی محبت سے محروم ہو کر کسی دوسرے، غیر رسمی رشتے میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ یہ تعلق خون کا نہیں بلکہ محبت کا، قربت کا، اور جذبات کا ہے۔
یہ موازنہ اس بات کا ثبوت تھا کہ افسانوی ادب اور فلمی بیانیہ دونوں انسانی جذبات کے آئینے ہیں۔ چاہے وہ جمی ہو یا رشی، دونوں کردار ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ رشتے صرف خون کے نہیں ہوتے، بلکہ محبت، توجہ اور قربت کے احساس سے جنم لیتے ہیں۔
جب ثمینہ جیسی سامعین اس افسانے پر اپنی ذاتی یادیں اور آنکھوں کی نمی سے رد عمل دیتی ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ کہانی نے دل کی گہرائیوں تک رسائی حاصل کر لی ہے۔
میں نے حمیرہ کے افسانہ "میری ماں” پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس کہانی میں سروگیسی کے نفسیاتی اور جذباتی پہلو کو ایک بچے کی زبان میں جس شدت اور تاثیر سے پیش کیا گیا ہے، وہ بےحد قابلِ تحسین ہے۔ لیکن میرے ذہن میں ایک سوال ابھر رہا ہے کہ راوی ایک بچہ ہے، مگر اس کے مکالمے، اس کی سوچ اور احساسات کی گہرائی کسی بالغ ذہن کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس کی باتوں میں زندگی کی تلخیوں کا شعور اور جذبوں کی پرچھائیاں جس پختگی سے جھلکتی ہیں، وہ کسی عام بچے کی نفسیاتی عمر سے ماورا معلوم ہوتی ہے۔
میری اس بات پر قمر آپا نے سر ہلایا اور کہا: "ہاں، مکالمے خوبصورت ضرور ہیں، مگر کردار کی عمر سے غیر متناسب محسوس ہوتے ہیں۔” دیگر حاضرین نے بھی اس نکتہ پر اپنی رائے کا اظہار کیا اور سبھی کا عمومی تاثر یہی تھا کہ کردار کی عمر اور اس کی ذہنی و جذباتی پختگی میں ایک فاصلہ محسوس ہوتا ہے۔
اس پر حمیرہ نے وضاحت کی کہ "راوی دراصل بچہ نہیں بلکہ 18 برس کا ایک نوجوان لڑکا ہے۔ شاید افسانے میں یہ بات واضح طور پر ابھر کر نہ آ سکی۔”
ان کی یہ وضاحت ایک طرح سے افسانے کی تہہ داری کو کھول گئی۔ بلاشبہ، ایک کہانی میں کردار کی عمر کا درست تعین نہ صرف قاری کی تفہیم کو آسان بناتا ہے بلکہ کردار کی معنویت کو بھی جِلا بخشتا ہے۔
قمر آپا نے حمیرہ کا افسانہ "میری ماں” پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا:
"جو ماں نو مہینے تک بچے کو اپنی کوکھ میں سنبھالتی ہے، اس سے بچے کا انس، لگاؤ اور فطری محبت ایک لازمی جذبہ بن جاتا ہے۔ یہ تعلق صرف جسمانی نہیں بلکہ جذباتی اور روحانی بھی ہوتا ہے۔” مگر حیدرآباد کی معروف ماہر جینیات، محترمہ قرۃ العین کے مطابق:
"سروگیسی میں اگر حیاتی والدین کا انڈا اور نطفہ استعمال کیا گیا ہو تو سروگیٹ ماں، کا جینیاتی مواد بچے میں منتقل نہیں ہوتا۔”
میں نے بھی ان کی بات کی تائید میں سر کو خفیف سی جنبش دی، جب کہ حمیرہ نے بات کو مزید وضاحت سے بیان کرتے ہوئے کہا:
"جی ہاں، یہ بات سچ ہے۔ سروگیسی میں اگر مکمل جینیاتی مواد یعنی انڈا اور نطفہ حیاتی والدین سے لیا گیا ہو تو بچہ انہی کی جینیاتی ساخت رکھتا ہے۔ سروگیٹ ماں کا کام صرف حمل کو مکمل کرنا ہوتا ہے۔ اس کا ڈی این اے بچے میں شامل نہیں ہوتا۔ جذباتی سطح پر جو رشتہ بنے، وہ الگ بات ہے، لیکن حیاتیاتی طور پر وہ ماں شمار نہیں ہوتیں۔”
اس تبادلۂ خیال نے نہ صرف افسانے کے موضوع کو سائنسی تناظر میں مزید گہرائی سے سمجھنے کا موقع فراہم کیا بلکہ ادب اور سائنس کے بیچ ایک معنی خیز مکالمہ کی تشکیل میں بھی مددگار ثابت ہوا،
قمر آپا نے بات کو سمیٹتے ہوئے نہایت فراست سے فرمایا:
"افسانہ ’میری ماں‘ فنی اعتبار سے نہایت کامیاب ہے۔ موضوع نازک اور جذباتی ہے، لیکن اس کو جس سلیقے اور توازن کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، وہ قابلِ تحسین ہے۔”
ان کے اس بیان نے محفل کے ماحول کو مزید معتبر اور پراثر بنا دیا۔ یہ افسانوی نشست فقط کہانیوں کا تبادلہ نہ تھی، بلکہ خیالات، احساسات، اور فکری گہرائی کا ایک آئینہ تھی۔ یہاں ادب صرف پڑھا اور سنا نہیں گیا، بلکہ محسوس کیا گیا۔ ہر افسانہ ایک نئے در کا پتہ دے رہا تھا، ہر تبصرہ ایک نئی کھڑکی کھول رہا تھا۔
یہ ایک ایسی شام تھی، جہاں ادب نے سائنس سے ہاتھ ملایا، اور جذبات نے علم کی دہلیز پر سجدہ کیا تھا۔
یہ گفتگو میرے دل میں نقش ہو گئی۔ ادب صرف تخلیق نہیں، تبادلۂ خیال بھی ہے۔ جہاں سوال، فہم اور شعور مل کر فکر کی نئی شاخیں اگاتے ہیں۔ اور یہی لمحے ایک قلمکار کی یادداشت کا سب سے قیمتی حصہ ہوتے ہیں۔
ادب برائے زندگی اسی تصور نے اس شام کو یادگار بنا دیا۔
ماہ مئی کی 22 کو راقمہ کی سالگرہ اور 26 کو عطیہ کی سالگرہ تھی مگر محبتوں میں فاصلوں کا کیا کام؟
سو ہم دونوں نے وقت کو ایک پل میں سمیٹا، اور ایک ہی کیک پر دو دلوں کی دھڑکن سجا دی۔
اور قمر آپا کے پاس آتے آتے بیکری سے کیک بھی لے آئے تھے،
کیک کاٹنے کے لئے جب کیک کا ڈبہ کھولا گیا تو سب کی نظریں کیک پر ٹک سی گئیں۔ سرخ و سفید رنگوں کے حسین امتزاج والا کیک، جس پر چاکلیٹ کی آرائش، کناروں پر خشک میوے کی تہہ، چاکلیٹ لائننگ اور خوش رنگ "Happy Birthday” کی رنگین تختی، لگی تھی جو اس کی دلکشی کے ساتھ ہمارے لفظوں کی ترجمانی بھی کر رہی تھی۔
جیسے جیسے چھری کی دھار سے کیک کٹ رہا تھا، ویسے ویسے خوشیوں کی مٹھاس ہر دل میں اُتر رہی تھی، یہ صرف ایک کیک نہیں،
یہ دو تخلیقی روحوں کا جشن تھا۔
جب سب نے کیک ایک دوسرے کو اپنے ہاتھوں سے کھلایا تو جانا کہ اس کی مٹھاس تو ہماری الفت، فن، اور بہنوں کی بے مثال رفاقت کا ذائقہ لیے ہوئے ہے۔
قمر آپا کی موجودگی، ان کے چہرے پر برسوں کی دانشمندی، اور لبوں پر خاموش مسکراہٹ، ایک مکمل افسانہ تھی جو لفظوں کے بغیر بھی دل میں اترتی گئی۔ حمیرہ، صبیحہ اور ثمینہ جیسے کسی افسانے کے مضبوط کردار، جو صرف ساتھ دینے نہیں آئیں، بلکہ اس منظر کو لازوال بنانے آئی تھیں، ناہید، رعنا اور نکہت اس محفل میں موجود نہیں تھیں، ان کی کمی کو شدت سے محسوس کیا گیا۔
کیک، مشروبات اور پان کے دور کے ساتھ ہی یہ محفل اختتام پذیر ہوئی، تصویریں کھینچی گئیں، جو باقی رہ گیا وہ ہے وہ احساس جو ایسی محفلوں کے بعد دل میں دیر تک رچ بس جاتا ہے۔ قمر آپا کے فلیٹ میں گونجتی ہنسی، ہمارے چہروں کی چمک، یہ سب اُس ادب کا حصہ بن چکے ہیں جو دلوں میں لکھا جاتا ہے، کتابوں میں نہیں۔
یہ دن نہ صرف ادب کی محفل میں ایک حسین اضافہ تھا بلکہ دوستی، فہم، اور فکری ہم آہنگی کی ایک خوبصورت یاد کے طور پر ہمیشہ دل میں زندہ رہے گا۔
٭٭٭
تشکر: مصنفہ جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں