FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

اب میں وہاں نہیں رہتا

 

 

دیپک بُدکی

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 انتساب

 

اپنے ماماجی

آنجہانی مکھن لال نہرو

کے نام

 

 

 

 

 

 سپاس نامہ

 

اس مجموعے میں بیس افسانے شامل ہیں جو بر صغیر کے مختلف رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔ اشاعت کی تفصیل ذیل میں درج ہے:

گونگے سناٹے (ماہنامہ شاعر ممبئی، فروری ۲۰۱۶ء)؛ایک انقلابی کی سرگزشت ؛ دودھ کا قرض(ہندی /کو شر سماچار)؛ہرکارہ (ہندوستانی زبان، جلد ۱، شمارہ ۲، اکتوبر – دسمبر ۲۰۱۵ء)؛اب میں وہاں نہیں رہتا ( ماہنامہ آج کل، نئی دہلی، جنوری ۲۰۱۶ء) ؛ ایک معصوم کی دردناک موت ( انتساب عالمی، سرونج [دیپک بُدکی نمبر ] بعنوان سوری میڈم، جولائی -ستمبر ۲۰۱۶ء) ؛ آگ کا دریا (دو ماہی اختر پاکستان، اکتوبر ۲۰۱۵ء؛بیباک مالیگاؤں، نومبر ۲۰۱۵ء)؛ اپنے اپنے زاوئیے (تریاق، ممبئی، جلد ۵، شمارہ ۵، فروری ۲۰۱۶ء)؛ میری کہانی کا کردار (ماہنامہ تخلیق لاہور، پاکستان، جلد ۴۷، شمارہ ۳، مارچ ۲۰۱۶ء؛ جہاں نما گنگوہ جلد ۲، شمارہ ۸، اگست ۲۰۱۶ء) ؛ جاگتی آنکھوں کا خواب ؛ ڈاک بابو (اسباق، پونے جلد ۳۵، اکتوبر – دسمبر ۲۰۱۵ء) ؛ لہو کے گرداب (انتساب عالمی جلد ۳، شمارہ ۹، نومبر ۲۰۱۵ء -جنوری ۲۰۱۶ء) ؛ طالب بہشت (کائنات آن لائن، شمارہ ۷۷، اگست ۲۰۱۶)؛ ایک بے کار آدمی کی کہانی ( نگینہ جلد ۱، شمارہ ۴، مارچ -مئی ۲۰۱۶ء)؛ گواہوں کی تلاش ؛ موت کا کنواں ؛ پرت در پرت لوگ (اردو کاوش، جلد ۳، شمارہ۹، اکتوبر -دسمبر ۲۰۱۵ء) ؛یوم حساب ؛ فرض شناس ؛ اندھیر نگری(سہ ماہی شعر و سخن، مانسہرا، پاکستان، بعنوان منّین محافظ، اندھا راجہ، جلد ۱۷، اپریل -جون ۲۰۱۶ء)

میں مذکورہ بالا رسائل کے مدیروں کا تہہ دل سے سپاس گزار ہوں کہ انھوں نے میرے افسانوں کو اپنے موقر رسالوں میں شائع کیا۔ اس کے علاوہ ان دوستوں، ادیبوں اور قارئین کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے خاکسار کی کوششوں کوسراہا اور اپنی قیمتی آرا سے نوازا۔

اس مجموعے کی کمپوزنگ، ترتیب و تزئین میں نے خود کی ہے تاہم پبلشر کی محبتوں کا اعتراف کرنا میرا فرض بنتا ہے کیونکہ اس کی کوششوں کی بدولت ہی یہ مجموعہ منظر عام پر آ سکا ہے۔

 

دیپک بُدکی

٭٭٭

 

 

 

پیش لفظ

 

گزشتہ صدی میں اردو افسانے نے کئی ارتقائی منزلیں طے کی ہیں۔ ہر مرحلے پر اسے نئی زندگی اور نئی توانائی ملتی رہی۔ غرض و غایت بدلتی رہی، ہیئت بدلتی رہی اور اسلوب بھی بدلتا رہا۔ انیسویں صدی کے آخری عشرے میں جب اردو افسانے کی ابتدا ہوئی اس کا مقصد محض تفریحی تھا مگر رفتہ رفتہ یہ صورتحال بدل گئی۔ شروعات اصلاحی افسانوں سے ہوئی، پھر سجاد حیدر یلدرم اور اس کے مقلدوں نے رومانیت کو اپنا شعار بنا لیا جبکہ پریم چند اور اس کے پیرو کاروں نے حقیقت پسندی اختیار کر لی۔ ۱۹۳۶ء میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا جس میں پہلے پہل سوشلزم اور مساوات پر زور دیا گیا لیکن بعد میں افسانے مارکسی اشتہار بن گئے۔ متوازی رجحان کے طور پر فرائیڈ کی نفسیات نے بھی افسانوں میں اپنی جگہ بنا لی۔ اگلی منزل جدیدیت پسندی کی تھی جہاں علامتوں، استعاروں، تلازمۂ خیال اور شعور کی رو کا چلن رہا۔ جدید گردباد میں کہانی کی روح غائب ہو گئی اور قلم کار قاری سے دور ہو گیا۔ کسی نقاد کو افسانے کی موت نظر آئی اور کسی کو افسانہ نگار کی۔ آخرش آٹھویں دہائی میں افسانے میں کہانی پن لوٹ آیا اور قاری اور قلم کار کے درمیان پھر سے پُل استوار ہو گیا البتہ مغرب کی تقلید میں قلم کار مصلحتاً متن سے غائب رہنے کی کوشش کرتا رہا اور قاری کو براہ راست متن سے جوڑنے میں جٹ گیا۔ اب مابعد جدیدیت دور میں کئی مسائل پر بحث و مباحثہ ہو رہا ہے مثلاً آرٹ کا مدعا، قاری اور قلم کار کا رشتہ، عمل بیان، تشکیل و ردِ تشکیل وغیرہ۔ اس تناظر میں ادب اکیسویں صدی میں داخل ہو چکا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ادب اپنے نامیاتی ارتقا کے دوران نئے نئے سانچوں میں ڈھلتا رہا، قلبِ ماہیت کرتا رہا مگر کبھی مرنے کا نام نہیں لیا۔

ایک عجیب سا سوال میرے ذہن میں بار بار اٹھتا ہے کہ مجھے کیا اور کیسے لکھنا چاہیے ؟ معاصر فیشن کی نقالی میں وقت کے ساتھ بہنا چاہیے، جہاں ناموری ہے، نقادوں کی واہ واہی ہے، انعام و اکرام ہیں یا پھر اپنی اجتہادی ڈگر پر چلتے رہنا چاہیے، جہاں نظر اندازی ہے، گم نامی ہے اور ناقدری ہے تاہم انسانی رشتوں کا آئینہ خانہ ہے، بوسیدہ اخلاقیات کا حصار ہے اور تخریب و تعمیر کا تصادم ہے۔ میرے ضمیر نے مجھے ہمیشہ دوسرے راستے پر چلنے کی رہبری کی جس کے سبب میں اس راہ پر، اکیلا ہی سہی، گامزن رہا ہوں۔ میں نے ہمیشہ اپنے افسانوں کے توسل سے تفریح کے ساتھ ساتھ اپنی فکر و سوچ اور اپنے نقطۂ نظر کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ میں نے علامتوں اور استعاروں کا سہارا نہیں لیا مگر ان کو منزل تک پہنچنے کا صرف وسیلہ بنا یا، منزل نہیں۔ دو ایک جگہ جہاں ضرورت محسوس ہوئی کہانی کو تجریدی رنگ میں بھی پیش کیا۔ پھر بھی بیانیہ کو کبھی ترک نہیں کیا کیونکہ مجھے اس بات کا ہمیشہ احساس رہا کہ قاری کہانی کو اسی طرح انجوائے کرنا چاہتا ہے جیسے وہ بچپن میں دادی سے کہانی سن کر محظوظ ہوتا تھا۔ ان کہانیوں میں روانی تھی، انجذاب تھا، تحیّر تھا، تجسس تھا، تعلیق تھی، منتہا تھا اور غیر متوقع اختتام تھا۔ یہ احساس میرے فکر و خیال کو مہمیز کرتا رہا۔ میں نے اپنے سمند تخئیل کو ہمیشہ کھلا چھوڑا مگر سائنسی میلان کے سبب استنباط اور استخراج سے کام لے کر معروضیت اور معقولیت کو ہمیشہ ترجیح دی۔ یہی میری پہچان ہے اور میں اس راستے کو اپنا مخصوص راستہ مانتا ہوں۔ میرے قارئین بھی اسی راہ پر میرے ساتھ چلتے رہے ہیں کیونکہ انھیں میری کہانیوں کا یہی رنگ پسند ہے جن میں نہ وقتی رنگ آمیزی ہے، نہ جذباتی بلیک میل ہے اور نہ ہی الفاظ کی شعبدہ بازی۔

اس سلسلے کا میرا تازہ افسانوں کا مجموعہ ’ اب میں وہاں نہیں رہتا‘ حاضر خدمت ہے۔ امید ہے گذشتہ مجموعوں کی مانند ہی قارئین اسے پسند فرمائیں گے اور اپنے تاثرات سے نوازیں گے۔

وسُندھرا، غازی آباد(یو پی) دیپک بد کی

۱۸ نومبر ۲۰۱۶ء

 

 

 

 

گونگے سنّاٹے

 

یہ ایک سچّی کہانی ہے مگر میری گزارش ہے کہ ان کرداروں کو آپ ڈھونڈنے نہیں نکلنا کیونکہ اب وہ وہاں پر نہیں رہتے ہیں۔ نہ جانے ٹرانسفر ہو کر کہاں چلے گئے۔ منوہر کھرے کام تو کسی اور سنٹرل دفتر میں کرتا تھا مگر عبوری طور پر رہتا تھا کسی اور محکمے کے گیسٹ ہاؤس میں۔ یہ ساری مہربانی اس کے دوست دامودر پٹیل کی تھی جو دوسرے محکمے میں ڈائریکٹر تھا اور گیسٹ ہاؤس کا انصرام اس کے پاس تھا۔ دامودر پٹیل نے اسے گیسٹ ہاؤس میں رہنے کی اجازت دی تھی حالاں کہ قانوناً یہ جائز نہیں تھا۔ خیر قانون بنتا ہی ہے خلاف ورزی کرنے کے لیے۔ کچھ افسر ایسے ہوتے ہیں کہ انھیں حکم عدولی میں لذت محسوس ہوتی ہے۔ پٹیل نے زندگی میں جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنائی تھی۔ خود بھی کھاتا تھا، افسروں کو بھی کھلاتا تھا اور ماتحتوں کو کھانے کے مواقع فراہم کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کسی نے کبھی انگلی نہیں اٹھائی۔ منوہر کھرے نے بھی یہی طور طریقے اپنائے تھے۔ اس کی شخصیت میں کچھ عجیب سی مقناطیسی کشش تھی جس کے سبب وہ اجنبیوں کو منٹوں میں دوست بنا لیتا تھا۔ اور یہ دوستی کا جال ہر سٹیشن کے ساتھ بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔ منوہر اور دامودر میں گاڑھی چھنتی تھی۔ ان کی دوستی کا راز چند ہی دنوں میں مجھے معلوم ہوا۔ دونوں رنگ رسیا قسم کے آدمی تھے۔ اکثر شراب اور شباب کی پارٹیوں میں اکٹھے شریک ہو جاتے۔ پارٹی کے بعد معشوقاؤں کو اپنے ساتھ لے جاتے اور اکثر رات میں بستر بدل جاتے۔ بزرگوں نے سچ کہا ہے کہ شراب اور شباب کی دوستی بہت گہری ہوتی ہے۔ سو وہ بھی ایک دوسرے کے لیے جان چھڑکتے تھے۔

دامودر پٹیل کی ان پڑھ بیوی گاؤں میں رہتی تھی۔ ادھیڑ عمر کی ہو جانے کے باوجود گھونگھٹ میں رہنا پسند کرتی تھی۔ ہفتے کے اخیر میں دامودر اس کے پاس حاضری دے آتا جسے وہ بھگوان کا آشیربادسمجھ لیتی تھی۔ اس کے برعکس منوہر کھرے کی بیوی بہت ہی روشن خیال قسم کی عورت تھی۔ ممبئی میں الگ فلیٹ میں رہتی تھی۔ اکثر قمیص اور جینز پہنتی تھی جو اس کے فربہ جسم کو اور بھی نمایاں کر دیتا تھا۔ کچھ ایکسپورٹ کا کام کرتی تھی اور دنیا کے دور دراز ممالک میں اکیلی گھوما کرتی تھی۔ بہن نیوزی لینڈ میں تھی، کبھی کبھار مہینہ بھر وہاں گزار آتی۔ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے سے بے نیاز اپنی ہی دنیا میں مست رہتے تھے۔ جب بھی کبھی ملتے، ایک دوسرے کو ٹینشن دے کر جاتے۔ ایک جوان لڑکی چندریکا تھی جو باپ کے پاس رہتی تھی کیونکہ ماں کا کہیں کوئی ٹھکانہ نہ تھا، کب ہندستان میں رہے گی اور کب کسی اور ملک میں ہو گی۔ ممبئی میں اکیلے دن گزارنا اور وہ بھی جوان لڑکی کا بہت مشکل تھا۔

میں سامنے دوسرے گیسٹ ہاؤس میں رہتا تھا۔ کبھی کبھار صبح دفتر کے لیے نکل جاتا تو چندریکا کے درشن ہو جاتے۔ وہ اپنے کالج کے لیے جا رہی ہوتی۔ وہ نظریں جھکا لیتی اور جلدی سے کھسک کر سیڑھیاں اتر جاتی۔ اس کے چہرے پر نہ جانے کیوں اداسی سی چھائی رہتی تھی۔ پڑوسی ہونے کے ناتے میں نے کئی بار ہیلو کہا مگر اس نے میرے ہیلو کا جواب کبھی بھی نہ دیا۔ یہ اس کا غرور نہیں تھا بلکہ مجھے اس کے اندر کچھ خلا سا نظر آ رہا تھا جس کو پورا کرنے کے لیے اس نے خاموشی اوڑھ رکھی تھی۔

ایک روز اچانک ہنگامہ بر پا ہو گیا۔ سامنے گیسٹ ہاؤس سے بہت شور و غل سنائی دے رہا تھا۔ میں نے جونہی اپنا صدر دروازہ کھو لا سامنے والے گیسٹ ہاؤس سے منوہر کھرے کی نوکرانی دوڑتی ہوئی میرے گیسٹ ہاؤس میں پناہ لینے کے لیے گھس گئی۔ وہ رو رہی تھی اور مجھ سے التجا کر رہی تھی۔ ’’ سر مجھے بچاؤ۔۔ ۔۔ سر مجھے بچاؤ۔۔ ۔۔ ۔ یہ عورت مجھے مار ڈالے گی۔۔ ۔۔ سر مجھے بچاؤ۔ ‘‘

اس کے تعاقب میں منوہر کھرے کی ہٹی کٹی بیوی، جو شاید اسی روز وارد ہوئی تھی، میرے گیسٹ ہاؤس کے اندر گھس گئی۔ نہ اجازت لی اور نہ ہیلو کہا۔ ہاتھ میں بانس کا ڈنڈا تھا۔ وہ نوکرانی کو مارنے لگی مگر میں دونوں کے درمیان کھڑا ہو کر اس کو بچانے کی کوشش کرنے لگا۔ مسز کھرے خشمگیں آواز میں چلانے لگی۔ ’’لیو ہَر۔۔ ۔ لیو ہَر۔۔ ۔ شی اِز اے بِچ۔۔ ۔ آپ اس کو چھوڑ دو۔۔ ۔ آپ کو معلوم نہیں۔۔ ۔ یہ منوہر کے ساتھ سوتی ہے۔ میری سوتن بننے کی کوشش کر رہی ہے۔ شی از اے بچ۔۔ ۔۔ بلڈی بِچ۔۔ ۔ !‘‘

میں راستے سے نہیں ہٹا اور اس کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ پھر بھی اس کا فتور کم نہیں  ہو رہا تھا۔ اس درمیان منوہر کھرے بھی کمرے کے اندر آ گیا اور اپنی بیوی سے مخاطب ہوا۔ ’’اب اسے چھوڑ بھی دو۔ چلو میں اس کو نکال کر کل سے کسی اور کو کام پر رکھ لوں گا۔ ‘‘

دریں اثنا نوکرانی سہمی سہمی ایک کونے میں جا کھڑی ہوئی۔ میں نے دونوں میاں بیوی کو صوفے پر بٹھایا اور ان سے پوچھا۔ ’’ اس عورت نے کیا غلطی کی کہ آپ لوگ اس کی جان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ؟‘‘

مسز کھرے، جو ڈبلیو ڈبلیو ایف کی پہلوان جیسی لگ رہی تھی، سامنے صوفے پر بیٹھ گئی اور اس سے قدرے ہٹ کر اس کا مریل سا شوہر بیٹھ گیا۔ اس کے بعد مسز کھرے مجھ سے کہنے لگی۔ ’’ یو نو، دِس لیڈی از اے ویمپ۔ اس نے میرے شوہر کو اپنے وَش میں کر لیا ہے۔ یہ نہ صرف اس کا کھانا بناتی ہے بلکہ اس کا بستر بھی گرم کرتی ہے۔ میں نے کتنی بار منوہر کو ٹوکا مگر وہ مانتا ہی نہیں ہے۔ اس کو چینج کرنے کے لیے راضی ہی نہیں ہوتا۔ اس کو دفتر میں کیژول مزدور لگا رکھا ہے، تنخواہ وہاں سے ملتی ہے جبکہ یہاں پر اس کے ساتھ گلچھرے اڑاتا ہے۔ شیم لیس گائے۔ ‘‘

’’آپ کو کیسے معلوم کہ یہ اس کے ساتھ سوتی ہے ؟ ہو سکتا ہے آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہو۔ ‘‘ میں نے پوچھا۔

’’ اوہ نو، ڈونٹ تھنک آئی ایم دیٹ نائیو۔ مجھے سب کچھ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کیا  ہو رہا ہے۔ میں یہاں کی پل پل کی خبر رکھتی ہوں۔ رات کو یہ اس کو شراب پلا کر اپنے بستر میں سلاتا ہے۔ چھی، سی وہاٹ اے چوائس ہی ہیز۔ ‘‘

’’ آپ یہاں اپنے شوہر کے ساتھ کیوں نہیں رہتیں ؟آخر اس کی بھی تو کچھ ضروریات ہیں۔ آپ کے آنے سے اس کی تشنگی دور ہو جائے گی۔ پھر وہ کسی دوسری کے پاس کیوں چلا جائے گا؟‘‘

’’ اوہ نو۔ ہاؤ از اِٹ پوسبل؟ میں ممبئی کے بغیر کہیں اور رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ وہاں میرا بزنس چلتا ہے۔ میرا فرینڈ سرکل ہے۔ یہاں آ کر کیا کروں گی؟ ممبئی میں میرا بہت اچھا فلیٹ ہے۔ کبھی آ کر دیکھ لینا۔ میں کاندی وَلی میں رہتی ہوں۔ ‘‘

’’ ہاں ضرور جب کبھی میں ممبئی آ جاؤں گا آپ سے ضرور ملوں گا۔ اپنا ایڈریس دے دیجیے گا۔‘‘

’’ یس وہائی ناٹ۔ منوہر سے میرا ایڈریس لے لینا۔ ‘‘

منوہر کھرے کا چہرہ دفعتاً اتر گیا۔ اسے لگا جیسے دوسرے ہی روز میں ممبئی کی ٹکٹ لے کر مسز کھرے کے پاس جانے والا ہوں۔ وہ اپنی بیوی کی بات کاٹ کر بولا۔ ’’ آپ ممبئی جانے میں ان سے ملنے کی کوشش نہ کریں۔ یہ تو وہاں ہوتی ہی نہیں ہے۔ کبھی بہن کے پاس نیوزی لینڈ چلی جاتی ہے، کبھی کسی اور رشتے دار کے پاس جاتی ہے یا پھر غیر ممالک کی سیاحت پر ہوتی ہے۔ ممبئی میں اس کا ملنا بہت مشکل ہے۔ ‘‘

منوہر کھرے کے لہجے سے معلوم  ہو رہا تھا کہ مجھے ملی یہ دعوت اس کو اچھی نہیں لگی۔ یا تو اسے یہ خدشہ تھا کہ میں اس کی بیوی کو پھانس نہ لوں یا پھر مجھے اس کی اصلیت معلوم نہ ہو جائے۔ اس کے برعکس مجھے ان دونوں کی زندگی پر ترس آ رہا تھا۔ انھیں فردا کی فکر ہی نہ تھی۔ چند لمحاتی مسرتوں کے لیے انھوں نے اپنی جوان بیٹی کو بَلی چڑھایا تھا۔ انسان جب اپنی جبلی خواہشوں کا غلام بن جاتا ہے تو اپنے مستقبل کو بھی گروی رکھ لیتا ہے۔ میرے اندر جذبات کا ایک طوفان سا اُمڈ آیا اور مجھ سے رہا نہ گیا۔ مسز کھرے سے مخاطب ہوا۔ ’’ یہ بتائے کہ آپ اپنی بیٹی کو اپنے پاس کیوں نہیں رکھتے ؟ آپ ماں ہیں۔ یہ آپ کا فرض بنتا ہے۔ ‘‘

’’ اوہ، اٹ اِز اِمپوسبل۔ میں ممبئی میں کم ہی رہتی ہوں۔ پھر اس کی تعلیم کی طرف کون دھیان دے گا۔ یہاں اس کی سبھی ضروریات میسر رہتی ہیں۔ ‘‘

’’ضروریات۔۔ ۔ !‘‘ میرے ذہن میں ایک کوندا سا لپکا۔ ’’ایک معصوم جوان لڑکی کی ضروریات اس کا اوباش باپ میسر رکھتا ہے۔۔ ۔۔ لیکن ماں اپنی بلوریں دنیا کو تج نہیں سکتی۔ ماں کا کام تھا حیض کی مانند اس کو بدن سے خارج کرنا، سو اس نے کر دیا۔ اب وہ جانے اور اس کا باپ۔ ‘‘ مسز کھرے کی باتیں سن کر مجھے جنون سا طاری ہو گیا۔ اس نے میری نظروں میں ماں کا رتبہ کھو دیا تھا۔ مجھ سے رہا نہ گیا، اس لیے بول اٹھا۔ ’’کیا آپ کو یقین ہے کہ باپ اور بیٹی میں ناجائز تعلقات نہیں ہیں ؟مجھے شک  ہو رہا ہے کہ باپ بیٹی کے ساتھ بد فعلیاں کرنے کا مرتکب ہے۔ ‘‘

انسانی جذبات اس قدر مشتعل ہو سکتے ہیں مجھے گماں بھی نہ تھا۔ وقتی جنون میں مبتلا ہو کر میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے تھے مگر مجھے اس کا احساس بعد میں ہوا کہ اگر یہ بات صحیح نہ ہو تی تو میرا کیا حشر ہوا ہوتا! چندریکا کا باپ مجھے قتل بھی کر سکتا تھا۔ پھر ایسا مخدوش اور گھنونا الزام ثابت کرنا مشکل بھی تو تھا۔ مگر کمان سے نکلا ہوا تیر اور منہ سے نکلی ہوئی بات واپس نہیں آتی۔ اس لیے میں من ہی من میں دعا کرنے لگا کہ بات طول نہ پکڑے بلکہ جلدی سے دب جائے۔

مسز کھرے کی بھنویں تن گئیں۔ وہ تلملا اٹھی۔ ’’ ہاں آپ صحیح فرما رہے ہیں۔ چندریکا نے کئی بار مجھے اس بارے میں ٹیلی فون پر بتایا کہ یہاں پاپا شام کو شراب پی کر بہک جاتے ہیں۔۔ ۔۔ ۔ میں یہاں رہنا نہیں چاہتی ہوں۔۔ ۔ مجھے واپس ممبئی لے جاؤ۔۔ ۔۔ ۔ ‘‘ شرم کے مارے وہ آگے وضاحت نہیں کر سکی۔

’’ جب آپ کو یہ سب کچھ معلوم ہے، پھر بھی آپ نے اپنی بچی کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ اسے اپنے پاس نہیں بلایا۔ تعجب کی بات ہے۔ اس کے برعکس آپ کو یہ فکر لگی ہوئی ہے کہ آپ کا شوہر نوکرانی کے ساتھ ہم بستر ہوتا ہے۔ مجھے آپ کے اس رویے پر افسوس ہو رہا ہے۔ آپ کی ترجیحات پر حیرت  ہو رہی ہے، مسز کھرے۔ ‘ ‘

منوہر کھرے جو اب تک خاموش تھا، اپنے آپ کا دفاع کرنے لگا۔ ’’ نو، نو، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ کبھی کبھار میں اپنی بیٹی کو جنسی تربیت دیتا ہوں تاکہ مستقبل میں وہ ازدواجی زندگی کے لیے تیار ہو جائے۔ ‘‘

اس کی بات سن کر مجھے ہزار وولٹ کا جھٹکا لگا۔ ’’ ایک باپ اپنی بیٹی کو ازدواجی زندگی کے لیے تربیت دے رہا ہے۔ یہ کس صحیفے میں لکھا ہوا ہے۔ ماں اپنی بیٹی کو ازدواجی زندگی کے لیے تیار کرے، یہ تو میں نے سن لیا تھا مگر باپ اپنی بیٹی کو سیکس سے متعارف کرائے، یہ تو میں نے پہلی بار سن لیا۔ ‘‘

مسز کھرے بپھر گئی۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ پھر سے الجھ گئی مگر شوہر اپنی بات پر ڈٹا رہا۔ میں نے بات کاٹنا ہی مناسب سمجھا۔ اس لیے نوکرانی کو ہدایت دینے لگا۔ ’’ دیکھو تم رات بھر یہیں ڈرائنگ روم میں سو جاؤ اور صبح ہوتے ہی اپنے گھر چلی جانا۔ سمجھے۔ ابھی تم اپنے لیے کچن میں دو چار روٹی بنا لو۔ فرِج میں کچھ سبزی پڑی ہوئی ہے اس کے ساتھ کھا لینا۔ ‘‘

اس کے بعد میں مسز کھرے کی جانب مڑا۔ ’’ آپ کب ممبئی جا رہی ہیں ؟‘‘

’’ کل رات کو راجدھانی سے جا رہی ہوں۔ یہاں آ کر ہر بار میرا موڈ خراب ہو جاتا ہے۔ ‘‘

’’ ٹھیک ہے۔ اب آپ لوگ جا کر سوجائیے اور نوکرانی کی فکر مت کیجیے۔ ہاں اپنی بیٹی کی فکر کرنا آپ کا فرض بنتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آپ اس کو اپنے ساتھ ہی لے جائیں۔ ‘‘

اور پھر اگلا دن گزر گیا اور رات کے تین بجے وہ راجدھانی سے روانہ ہو گئی۔

دوسرے روز جب میں صبح سویرے دفتر کے لیے نکل پڑا، میرے سامنے چندریکا حسب معمول کتابیں بغل میں دبائے کالج جانے کے لیے سیڑھیاں اتر رہی تھی۔ اس کا چہرہ معمول کی طرح مجروح و مضروب لگ رہا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

ایک انقلابی کی سرگزشت

 

میری بوڑھی آنکھوں نے اسّی بہاریں اور اسّی پت جھڑ دیکھے ہیں۔ بہار تو خیر نام کے لیے آتی تھی ورنہ جن دنوں میں چھوٹا تھا میں نے کہیں چمن میں گل کھلتے دیکھے ہی نہیں۔ ہر طرف سیلاب، سوکھا، قحط، بھوک مری، غلامی اور بے روزگاری نظر آتی تھی۔ ملک پر فرنگیوں کا قبضہ تھا جو ہمیں غلامی کی زنجیروں میں ہمیشہ جکڑ کر رکھنا چاہتے تھے۔ ان کا قول تھا کہ ہندستانیوں کو اپنا ملک چلانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ اِدھر میں زندگی کے زینے چڑھتا گیا، اُدھر ملک کروٹیں لیتا رہا۔ کہیں عدم تشدد کا صور پھونکا جا رہا تھا اور کہیں تشدد لہو کی لکیریں کھینچ رہا تھا۔ کسی کے ہاتھ میں چرکھے والا ترنگا نظر آ رہا تھا اور کسی کے ہاتھ میں درانتی ہتھوڑے والا سرخ پرچم۔

جوانی میں انقلاب، بغاوت اور جدلیات کی باتیں اچھی لگتی ہیں۔ ابلتا خون رگ رگ میں دوڑنے لگتا ہے۔ سو میں نے بھی اپنی آنکھوں میں نئے عزم اور انقلاب کے خواب سنجوئے۔ مارکس، اینگلز اور لینن کو اپنا رہنما بنایا، پشکن، گورکی، دوستوفیسکی اور چیخوف کا مطالعہ کیا، ترقی پسند تحریک کا حصہ بن گیا اور احمری رہنماؤں کی خوش الحانی سے محظوظ ہوتا رہا۔ میں اس بات کا قائل ہو گیا کہ قوم کی تعمیر انفرادی ضرورتوں سے زیادہ اہم ہے۔

افسوس کہ آزادی کا سورج طلوع ہوتے ہی میرے خواب ریزہ ریزہ ہو گئے۔ فرنگی حکمرانوں نے انتہا پسندوں کی جگہ اعتدال پسندوں سے سمجھوتا کر لیا تاکہ خود انگریز منتقمانہ خونریزی سے بچ جائیں، ان کا بنایا ہوا راشی نظام بدستور چلتا رہے اور فرنگی کمپنیوں کا دبدبہ یوں ہی قائم رہے۔ اِدھرکمیونسٹ پارٹی بھی انتشار میں مبتلا ہو گئی، کئی قائدین پاکستان جا کر بس گئے، ہندستان میں پارٹی کے ٹکڑے ہو گئے، کوئی مارکسی بن کر الگ ہو گیا اور کوئی نکسلی بن کر جنگلوں میں سرگرم ہو گیا۔ ہر روز ایک نیا مسیحا سامنے آتا رہا۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ان میں سے غریبوں کا حقیقی مسیحا کون ہے۔ ایک صدی کی تگ و تاز کے باوجود ہم دو تین ریاستوں سے آگے اپنا اثرو رسوخ نہیں بڑھا پائے۔

بنگال، ترپورا اور کیریلا میں میرے رفیقوں نے کرسیاں سنبھالیں۔ اب وہ جدلیاتی مادیت کو بھول کر انتخابات، سوشلزم اور مساوات کی باتیں کرنے لگے۔ جس ہندستان کے سپنے ہم نے مل کر دیکھے تھے اس میں نہ غربت کے لیے کوئی جگہ تھی، نہ استحصال کے لیے، نہ مذہب کے لیے اور نہ ہی ذات پات کے لیے۔ اس کے برعکس ہم نے تخریبی نظام کو ترجیح دی۔ ہندستان کچھ اور ہی بنتا جا رہا تھا۔ ہڑتالیں۔۔ ۔ چکا جام۔۔ ۔۔ ملیں بند۔۔ ۔ دفتر بند۔۔ ۔ کام ٹھپ۔۔ ۔ !ہمارے رہنماؤں نے غریب رعایا کو برس ہا برس اپنے لیے قبریں کھودنے میں مصروف رکھا۔ روز بروز جاہلوں اور بے روزگاروں کی فوج بڑھتی رہی جبکہ رہنما اپنے منشور چاٹتے رہے۔ کوئی کسی کو ٹوکنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اب تو عوام کے بدلے ووٹ بنک کی باتیں  ہو رہی تھیں۔ مانا سیلاب، خشک سالی اور بھوک مری قدرت کی دین ہیں مگر آبادی تو روک سکتے تھے، ماحول کی حفاظت تو کر سکتے تھے، جنگلوں کی بے دریغ کٹائی تو روک سکتے تھے۔ نہیں ایسا نہیں ہوا۔ کیونکہ میرے رفیقوں کو اس بات کا احساس ہوا کہ جب تک اس ملک میں بھوک اور بیکاری ہے، ان کی تاجداری قائم ہے۔ اس لیے وہ غریبوں کی جھولیوں میں سبسڈیاں ڈال کر رجھاتے رہے۔ ہر الیکشن سے پہلے نئی فلاحی سکیموں کا اعلان کرتے رہے۔ ان سکیموں پر زمین پر کم اور کاغذ پر زیادہ عمل کرتے رہے اور ہر وہ موقع ڈھونڈتے رہے جسے ذاتی مالی منفعت بہم پہنچ سکے۔ دونوں سیاست داں اور افسر شاہی غیر ملکی کھاتوں میں اپنی بڑھتی بنک بیلنسوں کو دیکھ کر بغلیں بجاتے رہے۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ آزادی کے بعد کمیونسٹ، جو لا مذہبیت کا دعویٰ کرتے ہیں، مذہبی بولیاں بولنے لگے۔ ہر سال کروڑوں روپے درگا پوجا پنڈالوں پر خرچ کرتے رہے۔ اقتصادی پسماندگی کو دور کرنے کی بجائے ذات پات اور مذہبی الجھیڑوں میں دلچسپی لینے لگے۔ سچ پوچھو تو آزادی کے بعد مذہبی رہنماؤں، سیاسی لیڈروں اور ان کے گرگوں کی تگڑی ہمارے ملک پر حاوی ہو گئی۔

جب میں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا، اپنے گھر کا ماحول قدامت پرست اور مذہبی پایا۔ میں چوری چھپے فیض ؔ، مخدوم ؔ، سردارؔ، مجروحؔ اور ساحرؔ کی شاعری سے فیض یاب ہوتا رہا۔ ان کی شاعری سے تحریک پا کر میری رگوں میں گرم لہو گردش کرنے لگا۔ اس لیے میں خود بھی میدان عمل میں کود پڑا۔ ابتدا میں تک بندی کرتا تھا لیکن بعد میں باضابطہ شاعری کرنے لگا۔ ترقی پسند شاعروں کی مجلسوں اور مشاعروں میں جانا میرا معمول بن گیا۔ میرے نام کی تقلیب ہوئی اور میں وحید الدین چودھری سے وحیدؔ بھارتی بن گیا۔

ایک روز مشاعرے کے اختتام پر صاعقہ نُصیری ہال کے باہر میرا انتظار کر رہی تھی۔ جونہی میں باہر نکلا تو وہ کسی ہچکچاہٹ کے بغیر مجھ سے مخاطب ہوئی۔ ’’ وحیدؔ بھارتی صاحب، میں آپ کی بہت بڑی فین ہوں۔ کیا آپ مجھے اس کتاب پر اپنا آٹوگراف دے سکتے ہیں ؟ ‘‘اس نے کتاب میرے ہاتھ میں تھما دی۔

کتاب کو دیکھ کر میں اچنبھے میں پڑ گیا۔ میری شاعری کا پہلا مجموعہ ’ آزاد لبوں سے پرے ‘ تھا۔ میں نے اپنے تاثرات لکھ کر دستخط کر دیے۔ ’’صاعقہ نُصیری کے نام۔۔ ۔۔ ۔ بولنا ہی کافی نہیں، اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ ڈھیر ساری محبتوں کے ساتھ۔ وحیدؔ بھارتی‘۔

اس روز کے بعد صاعقہ سائے کی طرح میرے ساتھ رہنے لگی۔ بہت ہی جذباتی اور نڈر لڑکی تھی۔ گریجویشن کر کے ایم اے پولیٹکل سائنس میں داخلہ لیا تھا۔ کمیونزم نے اس کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ البتہ میں نے اسے ابتدا ہی میں آگاہ کیا کہ ’’ میری زندگی غریبوں اور مفلوک الحال لوگوں کی خدمت کے لیے وقف ہو چکی ہے اور شاید زندگی میں مجھے کبھی استحکام نصیب نہیں ہو گا۔ اس لیے مجھ سے کوئی امید رکھنا بیوقوفی ہو گی ‘‘۔ لیکن اس پرتو عشق کا بھوت سوار ہو چکا تھا۔ میری ہزار کوشش کے باوجود وہ مجھ سے دور رہنے کو تیار نہ تھی۔ در اصل جوانی میں جوکھم اور رومانس انسان کو دیوانہ بنا دیتے ہیں۔ عاشق کی عقل پر تالے پڑ جاتے ہیں۔

صاعقہ کے قرب نے میری شخصیت میں ایک عجیب سا ٹھہراؤ پیدا کر لیا۔ پس آزادی اکثر رفیقوں کو اپنا گھربساتے دیکھ کر مجھے بارہا خیال آیا کہ کیوں نہ میں بھی ازدواج میں بندھ جاؤں۔ اپنے سے زیادہ مجھے صاعقہ کی فکر ستارہی تھی کیونکہ وہ عسکری تحریک سے وابستہ ہونے لگی تھی اور مجھے خدشہ تھا کہ کہیں وہ کوئی انتہا پسند قدم نہ اٹھا لے۔ وہ رفتہ رفتہ عید کا چاند ہونے لگی تھی۔

بہت عرصے کے بعد وہ مجھ سے ملنے آئی۔ میں نے موقع غنیمت جان کر اپنے دل میں ٹھان لی کہ آج تو میں اپنی بات کہہ کر رہوں گا۔ مگر وہ اس دن بہت ہی طیش میں تھی۔ بیٹھتے ہی گویا ہوئی: ’’وحید، میں نے نکسلی تحریک کے ساتھ جڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ‘‘

مجھے معلوم تھا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے۔ وہ تو کب سے اس تحریک کے ساتھ جڑ چکی تھی۔ شاید میرا دل رکھنے کے لیے گوش گزار کرنا چاہتی تھی۔ در اصل وہ ضرورت سے زیادہ جذباتی، بغاوت پسند اور اشتعال پسند تھی۔ نہ جانے کس کے زیر اثر وہ طبقاتی جد و جہد کا اہم رکن بن گئی اور نکسلی مہم کے ساتھ جڑ گئی۔ اور وہ بھی زندگی کے اس موڑ پر جب میں اپنے خوابوں کی نئی تعبیریں سوچ رہا تھا۔ میرے دل میں نکسلیوں کے خلاف عجیب سی نفرت پیدا ہو گئی۔

’’ تم پاگل ہو گئی ہو صاعقہ۔ ہمارا ملک آزاد ہو چکا ہے۔ تین ریاستوں میں مارکسی کمیونسٹوں نے اقتدار سنبھالا ہے۔ جمہوری ملک ہے، بدلنے میں وقت تو لگ ہی جائے گا۔ ‘‘ وہ بپھر کر بولی۔ ’’ خاک بدل جائے گا۔ مساوات، آزادی اور اخوت کے حسین خواب۔۔ ۔۔ ۔۔ ! سب کافور ہو چکے ہیں۔ گلی سڑی پیپ کی طرح بہہ رہے ہیں۔ اب تو انھیں نکاسی کے لیے کوئی راستہ بھی نہیں مل رہا ہے۔ سارا معاشرہ متعفن ہو چکا ہے۔ جن کمیونسٹوں پر تمھیں ناز ہے۔۔ ۔ جو تمھارے رفیق کار ہیں۔۔ ۔ وہ خود سرمایہ داری کی چکا چوند میں کھو چکے ہیں۔ ان کے بچے امریکا، جرمنی اور جاپان میں جا کر بس چکے ہیں اور جو یہاں ہیں وہ صنعت کار بن چکے ہیں۔ لاچار غریب بچے کیڑے مکوڑوں کی طرح کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں میں اپنی زیست تلاش رہے ہیں یا پھر چوراہوں پر لال بتی ہونے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ موٹر کاروں میں سفر کرنے والے ان کے پھیلے ہوئے ہاتھوں پر چند سکّے ڈال سکیں۔ یہ ملک صارفی آکٹوپس کے پنجوں میں پھنس گیا ہے۔ اب کسانوں کو ہر سال کمپنیوں سے بیج خریدنے پڑتے ہیں۔ فصلوں پر دوسری کمپنیوں میں بنی ہوئی زہریلی کرم کش دواؤں کا بے تحاشہ چھڑکاؤ کرنا پڑتا ہے۔ یہ زہر کچھ ان کی رگوں میں اور کچھ صارفین کی رگوں میں پھیلتا جاتا ہے۔ پھر بیماریاں پھیل جاتی ہیں جن کے لیے کچھ اور کمپنیوں کی بنائی ہوئی ادویات کی ضرورت پڑتی ہے۔ شیطان کی آنت کی طرح ایک لمبا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے یہ۔ زمین سے نل اکھڑتے جا رہے ہیں۔ ان کی جگہ پانی کی بوتلیں اُگ رہی ہیں۔ پانی قدرت مہیا کرتی ہے مگر ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے لیبل چڑھا کر اسے بیچتی ہیں۔ جو قیمت ادا نہیں کر پاتا اسے آرسینک ملے زہریلے پانی پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی ہڈیاں پگھلتی رہتی ہیں۔ پھر بھی ہماری سوشلسٹ حکومتیں غریب نواز ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ ‘‘

’’ مگر صاعقہ تم سمجھتی کیوں نہیں یہ جمہوریت کا تقاضا ہے۔ جمہوریت میں لوگوں کی مرضی چلتی ہے۔ وہ جو چاہتے ہیں وہی ہوتا ہے۔ بنگال ہو یا کیریلا، بہار ہو یا گجرات، حکومتیں تو لوگ چنتے ہیں۔ ‘‘

’’لوگوں کو بدنام نہ کرو، نئے طفیلی حکمرانوں کی بات کرو۔ چھ دہائیوں تک سوشلزم کے نام پر دیش کو لوٹتے رہے اور جب ملک کنگال ہوا تو نئے راگ الاپنے لگے۔ پہلے سوشلزم اور قومیانے کے نعرے بلند کر کے رعایا کو بیوقوف بناتے رہے اور اب کھلے بازار، سرمایہ کاری اور پیداواریت کی باتیں کر رہے ہیں۔ قدرتی وسائل سے جتنا نچوڑا جا سکتا تھا اتنا امیٹھ لیا۔ انسانی وسائل کی باتیں کرنے والے اب مشینوں اور کمپیوٹروں کی باتیں کر رہے ہیں۔ کسی کو اس بات کی فکر نہیں کہ آخر کب تک یہ دھرتی ہمارا بوجھ اٹھاتی رہے گی۔ کہاں تک ہماری معیشت قرضے کا اتنا بوجھ برداشت کر تی رہے گی۔ غور سے دیکھو چہرے وہی ہیں صرف چارٹر بدل گئے ہیں۔ ‘‘

صاعقہ نُصیری بولتی چلی جا رہی تھی۔ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ ’’ وحید، اب تو زمینوں پر فصلوں کی نہیں بلکہ بلند و بالا مکانوں کی کھیتی  ہو رہی ہے۔ شہروں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی، انسان مٹھی بھر دھوپ کے لیے ترستا ہے، موریاں زمین دوز ہو گئی ہیں، برسات میں شہر کے شہر ڈوب جاتے ہیں، گندے پانی کی نکاسی نہیں ہوتی، ہر طرف جوہڑ، تالاب اور ان میں پلتے مچھر دکھائی دیتے ہیں۔ جدھر دیکھو پلاسٹک اور پولی تھین کے پہاڑ جمع  ہو رہے ہیں۔ کرم کش دوائیاں اب اثر نہیں کرتیں۔ ہر سال نئی نئی بیماریوں کے نام سننے میں آتے ہیں۔ ملیریا، ڈینگو، چکن گونیا، ایچ ون این ون، ایڈس، ہپاٹائٹس۔۔ ۔ اس پر ہسپتالوں کی بد نظامی۔۔ ۔ اور مرتے ہوئے لوگوں کے ٹھٹ۔ دھرتی پانی کے بدلے زہر اگل رہی ہے اور ہوا آکسیجن کے بدلے دمّے کی بیماری پھیلا رہی ہے۔ پھر رات کے مناظر بھی کچھ الگ نہیں ہیں وحید۔ اگلے زمانے میں طوائفیں ہوتی تھیں، بالاخانے ہوتے تھے، اب ہوٹل، ڈسکو، پارلر اور لاج ہیں۔ کالج ہیں، اسکول ہیں، یونیورسٹیاں ہیں، ہوسٹل ہیں۔ اب تو یہ منظر بھی پرانا ہو گیا ہے۔ آج کل انٹرنیٹ پر سب کچھ دستیاب ہے۔ ایسکارٹ، لڑکے، لڑکیاں، پورن اور دیگر من بہلاوے اب گھروں میں گھس آئے ہیں۔ اور اس تناظر میں مجبور اور لاچارانسان کرے تو کیا کرے ؟ ہم اس کو ترقی سمجھ بیٹھے ہیں !

صاعقہ کے تیور دیکھ کر میں نے چپ رہنا ہی مناسب سمجھا۔ کچھ بھی نہ بولا۔ دل کی بات دل ہی میں رہ گئی۔ بس اس کے ہونٹوں پر ایک لمبا سا بوسہ دے کر الوداع کہہ دیا۔

پھر اکیلے میں فکر مند ہوا۔ ’’ ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے صاعقہ۔ آزادی کے بعد کچھ بھی تو نہ بدلا۔ صرف حکمران بدل گئے۔ پہلے بدیشی تھے اور اب سو دیشی ہیں۔ سوشلزم، کمیونزم، مساوات، عوام شاہی، طبقاتی جد و جہد- کھوکھلے نعرے ہوا میں تحلیل ہوتے رہے۔ سرمایہ داری ہماری رگ رگ میں بس گئی ہے جبکہ ہم ان کھوکھلے نعروں سے اپنا دل بہلا رہے ہیں اور بیوقوف بنتے جا رہے ہیں۔

انسانی جذبات اور اذیتوں کی کہانی بھی عجیب سی ہے۔ جب نکاس کے لیے جگہ نہیں ملتی تو انقلابی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ پھر نظر آتے ہیں جنتر منتر، رام لیلا میدان اور تحریر سکوائر۔ ‘‘

مجھے احساس ہوا کہ میری رگوں میں اب خون سرد پڑ چکا ہے تاہم میں نے ہمت نہیں ہاری۔ میں بدستور غریبوں کی بستیوں میں جا کر ان کی باز آباد کاری کے لیے کام کرتا رہا۔ ان گندی بستیوں میں آج بھی زندگی ویسی ہی ہے جیسی انگریزوں کے زمانے میں ہوا کرتی تھی۔ ایک بار مجھے اپنے این جی او کی خاطر امداد حاصل کرنے کے لیے دہلی جانا پڑا۔ بیس سال پہلے میں اس شہر میں پہلی بار وارد ہوا تھا۔ ان دنوں جگہ جگہ غریبوں کے لیے ڈھابے ہوتے تھے، کاونٹر کے پیچھے مالک کھڑا ہوتا تھا، ساتھ ہی دو چار پیتل کے بڑے بڑے پتیلے سجے ہوتے تھے جن میں دال، سبزی، راجما اور چاول ہوتے تھے۔ نزدیک ہی تندور میں روٹیاں سینکی جاتی تھیں۔ پوری تھالی کی قیمت ڈیڑھ روپے ہوتی تھی۔ دال اور پیاز مفت مل جاتے تھے۔ غریب سے غریب آدمی بھی شکم سیر ہو کر باہر نکلتا تھا۔ ان بیس برسوں میں نہ جانے کیا ہوا۔ ڈھابے اڑ گئے، غریبوں کی دکانیں اڑ گئیں، ان کی جگہ اونچے اونچے مال بن گئے جن کے اندر غریب لوگ قدم رکھنے سے بھی ڈر جاتے ہیں۔ اندر میک ڈونلڈ ہے، پیزا ہٹ ہے، بر جر کنگ ہے اور بھی نہ جانے کس کس ملک کے طعام ہیں مگر سستی دال روٹی نہیں ملتی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری نئی نسل دیسی طعام کا مزہ ہی بھول چکی ہے۔ عام لوگوں کے لیے باہر ریڑھیوں پر پاؤ باجی، چھولے کلچے، سبزی پوری اور اڈلی ڈوسا ملتا ہے جن میں ملاوٹی مصالحوں کے علاوہ سڑکوں کی دھول ملی ہوتی ہے۔ ان برسوں میں دہلی کتنی بدل چکی تھی۔ مجبور ہو کر میں بھی ایک ریڑھی والے کے سامنے کھڑا ہو گیا اور چھولے کلچے کھا کر پیٹ کی آگ بجھاتا رہا۔

رات کا ڈنر لاجپت نگر میں ایک دوست صابر محمود کے گھر میں کر لیا جو میری ہی طرح انقلابی تھا مگر زمیندار باپ کی وجہ سے جلد راہ راست پر آ گیا اور ایم اے، پی ایچ ڈی کر کے یونیورسٹی میں لکچرر ہو گیا۔ در اصل جوانی میں کئی رئیس زادے سوشلزم کی باتیں کرنے میں جوش و ہیجان سا محسوس کرتے ہیں۔ حالانکہ صابر محمود آج بھی دوسرے انٹلکچول لوگوں کی طرح سوشلزم پر لمبے لمبے لکچر دیتا ہے مگر اس کے گھر میں جاگیر داری کی ٹھاٹ اب بھی باقی ہے۔ ڈنر کھاتے وقت مسز صابر نے اپنے شوہر سے پوچھا۔ ’’ آپ آج جنید کے نئے سکول گئے تھے ؟‘‘

’’ ہاں فارم لے کر آیا ہوں۔ انھوں نے ایڈمشن فیس میں اضافہ کر لیا ہے۔ اب ڈیڑھ لاکھ دینا پڑے گا اور ماہانہ فیس بیس ہزار الگ۔ ‘ ‘

’’ اس میں تو کوئی چارہ نہیں ہے۔ بچے کو اچھی تعلیم دینی ہے اتنا تو کرنا ہی پڑے گا۔ آج کل ہر جگہ یہی ریٹ چل رہی ہے۔ ‘‘

میں خاموشی سے ان کی گفتگو سن رہا تھا اور فکر و تردد کے اتھاہ سمندر میں غوطے کھا رہا تھا۔ ڈیڑھ لاکھ داخلے کے لیے اور ماہانہ بیس ہزار! ہمارے زمانے میں سرکاری سکولوں سے کتنے ہی ڈاکٹر انجینئر، سائنس دان اور دانشور نکلتے تھے اور اپنے ملک کا نام روشن کرتے تھے۔ ان سکولوں میں فیس برائے نام ہوتی تھی۔ پھر یہ سب کیا ہوا؟ یہ کونسی ترقی کر لی ہم نے ؟ میری سمجھ میں کچھ بھی نہ آ رہا تھا۔

خیر وقت کی رفتار کسی کے لیے نہیں رکتی۔ صاعقہ اور میں ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے۔ وہ بارہا انڈر گراونڈ ہو جاتی اور مہینوں اس کا کوئی اتا پتا نہیں ملتا تھا۔ کہاں ہے، کیسی ہے، زندہ ہے یا مر گئی، کوئی بتا نہیں سکتا تھا۔ اس بار وہ کئی مہینوں تک غائب رہی۔ نہ جانے کہاں کہاں گھومتی رہی اور پھر ایک روز آدھی رات کے قریب دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے اندر سے پوچھا۔ ’’کون؟‘‘

’’صاعقہ ‘‘ دروازے کے باہر سے آواز آئی۔ میں نے جھٹ سے دروازہ کھول کر اسے اندر کھینچ لیا اور خاموش رہنے کے لیے کہا۔ ان دنوں حکومت نکسلیوں کی دھر پکڑ میں زور و شور سے مصروف تھی۔ میں نے اس کو باز رکھنے کی بہت کوشش کی تھی، کئی بار سمجھایا بھی تھا لیکن صاعقہ کے سر پر جو بھوت سوار ہو چکا تھا وہ نہ اترنا تھا اور نہ اترا۔

میں نے کمرے کی ساری کھڑکیاں بند کر لیں اور ان پر پردے ڈال دیے۔ پھر دوسرے کمرے کی بتی جلائی تاکہ ہمارے کمرے میں زیادہ اجالا نہ ہو۔ میں صاعقہ سے رازدارانہ لہجے میں مخاطب ہوا۔ ’’صاعقہ یہاں تم کو ڈھونڈنے کے لیے کئی بار پولیس آ چکی ہے۔ تم کوئی غلط کام تو نہیں کر رہی ہو۔ مجھے تمھاری سخت فکر لگی رہتی ہے۔ ‘‘

’’ کم آن، کس بات کی فکر؟ میں تو سر پر کفن باندھ کر نکلی ہوں۔ اب کیسا واپس مڑنا۔ ہمیں یہ متعفن نظام بدلنا ہے۔ بندوق کے بغیر یہ کبھی نہیں بدل سکتا۔ بنگال اور ترپورا میں تمہارے دہریہ کمیونسٹ رفیق ہر سال پوجا پنڈالوں پر کروڑوں روپے پھونکتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ ہندستانیوں کے لیے کمیونزم کا مطلب صرف روٹی کپڑا اور مکان ہے اور کچھ نہیں۔ وہ اس دنیا کی بجائے دوسری دنیا میں سکون کے متمنی ہیں۔ مندر مسجد وہ چھوڑ نہیں سکتے۔ صبح اٹھ کر اذان بھی سننا چاہتے ہیں اور مندروں کی گھنٹیاں بھی بجانا چاہتے ہیں۔ ہندو کمیونسٹوں نے مارکس کو قشقہ لگایا ہے اور مسلمان کمیونسٹوں نے اس کا ختنہ کر دیا ہے۔ مرنے کے بعد بھی پرمپراؤں کا خیال رکھا جاتا ہیں۔ ہندو لاش کو جلا کر ہی مکتی مل جاتی ہے اور مسلمان لاش کو قبر ہی میں آرام مل جاتا ہے گو پوری عمر وہ الحاد کا حامی رہا ہو۔ تم سمجھتے ہو کہ تمھارے دوست ثقافتی انقلاب لائیں گے۔ کبھی نہیں۔ وہ کرسیوں پر بیٹھ کر سرشار  ہو رہے ہیں۔ ‘‘

اس رات بہت دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ صبح پو پھٹنے سے پہلے میں نے اس کو خفیہ راستے سے بستی سے دور پہنچا دیا۔

پھر کچھ مہینے بعد کسی نے خبر دی کہ صاعقہ نے کسی اورسے دوستی کر لی ہے۔ دونوں جنگلوں میں مارے مارے پھرتے رہتے ہیں۔ حکومت نے اس کے دوست شاہ نواز اور اس کے سر پر پچاس پچاس ہزار کا انعام رکھا ہے۔ پولیس کو میری اور صاعقہ کی دوستی کی خبر مل چکی ہے اس لیے میرے گھر پر چوبیس گھنٹے پہرہ لگا رہتا ہے۔ لیکن وہ میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ میں ان حرکتوں میں کبھی شامل ہوا ہی نہیں۔ اس کے باوجود پولیس نے مجھے کئی بار تفتیش کے لیے تھانے پر بلایا اور صاعقہ کے بارے میں پوچھ گچھ کی مگر میں کیا بتاتا، مجھے تو اس سے ملے ہوئے بہت عرصہ ہو چکا تھا۔ وہ مجھ سے پوچھ پوچھ کے تھک گئے۔

دھیرے دھیرے پانی میرے سر سے اونچا ہو گیا۔ پولیس کی یاتنائیں بڑھتی گئیں۔ میں بہت پریشان ہو گیا۔ پیشیاں، سوالات، ایذا رسانی۔۔ ۔۔ ۔ ! کئی بار میرے ساتھ زیادتیاں بھی کی گئیں۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میرا قصور کیا ہے۔۔ ۔ ؟ کیوں بار بار مجھے تھانے پر بلایا جا رہا ہے۔۔ ۔ ؟اب تو اپنے پرائے کو بھی مجھ پر شک ہونے لگا تھا۔ کوئی نکسلی سمجھتا تھا اور کوئی دیش دروہی۔ کوئی سلام کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھتا تھا اور کوئی دیکھ کر کنی کاٹ لیتا۔ میں اندر ہی اندر گھلتا جا رہا تھا مگر چہرے سے کبھی ظاہر نہ ہونے دیا۔

ایک روز ایک قریبی دوست سومناتھ بسواس نے مجھ سے کہا۔ ’’ شاعر بابو، تم کیا سمجھتے ہو کہ اپنے نام کے ساتھ’ بھا رتی‘ جوڑنے سے تم بھارت واسی ہو گئے۔ تم نے بہت بڑی غلطی کر لی۔ تقسیم کے وقت پاکستان چلے گئے ہوتے، اس وقت نہ جانے کس بڑے عہدے پر فائز ہوتے۔ یہ لوگ تو تمھیں شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ آتنک وادی سمجھ بیٹھے ہیں۔ وحید بھارتی جی، یہ دھرتی اب تم لوگوں کو قبول نہیں کرتی۔ کمیونسٹ ہو تو کیا ہوا۔ ہو تو مسلمان ہی۔ ‘‘

مجھے سومناتھ کی باتیں سن کر ایسے لگاجیسے کسی نے میرے ذہن پر کوڑے برسائے ہوں۔ ان دنوں ہمارے علاقے میں زبردست فرقہ وارانہ فساد رونما ہوا تھا۔ پولیس کئی لوگوں کو آئی ایس آئی ایجنٹ بتا کر حراست میں لے گئی تھی۔ میں سومناتھ بسواس کو کیا جواب دیتا۔ کیسے بتاتا کہ میرے خاندان نے ہندستان کی آزادی کے لیے کتنی قربانیاں دی تھیں۔ خود میں نے حرص وہوس کو کبھی آگے پھٹکنے نہیں دیا۔ میں نے کسی عہدے کے لیے جد و جہد نہیں کی تھی۔ میں نے تقسیم وطن کو نامنظور کیا تھا۔ میرا یہ ارادہ تھا کہ جس دھرتی پر پیدا ہوا ہوں اسی پر آخری سانس لوں گا۔ بہر حال میری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا کہ چند ہی دہائیوں میں ہوا کیسے بدل گئی۔ یہ سب کیا ہوا، کیسے ہوا؟ سب کچھ میری سمجھ سے باہر تھا۔ میرے ارد گرد دنیا بدل چکی تھی اور میری حیثیت اب تماشائی سے کچھ زیادہ نہ تھی۔ جیسے شاہ مار خزانے کے اوپر کنڈلی مار کر بیٹھا رہتا ہے ویسے ہی میں اپنے اصولوں پر کنڈلی مار کر بیٹھا رہا۔ پھر یہ سومناتھ بسواس کیا کہہ گیا ؟میری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا۔

سب کچھ بدل گیا اور میں محض تماشائی بنا رہا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے۔ ان سب تبدیلیوں کی شروعات کب ہوئی اور کیوں ہوئی۔ صارفی دنیا۔۔ ۔ کھلا مارکیٹ۔۔ ۔ عالمی گاؤں۔۔ ۔ انسانیت کو دھوکا دینے کے لیے ایک مکروہ جال۔ آج کل سوشلزم اور کمیونزم کی بات کرنا گناہ ہے۔ لوگ ہنستے ہیں ان الفاظ پر۔ شکر ہے کہ میں نے بہت پہلے خاموشی اختیار کر لی ورنہ لوگوں کے مضحکے کا نشانہ بن جاتا۔

صاعقہ اور اس کے نکسلی دوست شاہ نواز کو ہفتہ بھر پہلے سیکورٹی فورسز نے پکڑ لیا۔ دو دن تفتیش کی گئی۔ دونوں کے بدن پر جلے سگریٹ مروڑے گئے۔ ہزار وولٹ برقی رو کے کرنٹ دے کر ان سے راز اگلوانے کی کوشش کی گئی۔ یخ کی سلوں پر سلایا گیا۔ صاعقہ کی چھاتیوں کو نارنگیوں کی طرح نچوڑا گیا۔ شرم گاہ میں گرم سلاخیں ڈالی گئیں۔ اس کے باوجود پولیس کے ہاتھ کچھ بھی نہ لگا۔ تین روز بعد دونوں کی مسخ شدہ لاشیں دور جنگل میں پائی گئیں۔ پولیس کا انکاونٹر اخباروں اور ٹیلی ویژن چینلوں پر تب سے چھایا ہوا ہے۔ کوئی جائز ٹھہرا رہا ہے اور کوئی ناجائز۔

مجھے نہ جانے کیوں ایک موہوم سی امید تھی کہ صاعقہ ضرور واپس آئے گی اور ہم دونوں اپنا چھوٹا سا گھر بسائیں گے۔ مگر وہ خواب چکنا چور ہو گیا۔ اب آنکھوں میں کوئی اور خواب باقی نہیں رہا۔ آنکھیں خالی خالی سی ہیں۔ ذہن بھی خالی خالی سا ہے۔ دل بھی خالی خالی سا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

دودھ کا قرض

 

ساری بستی شعلوں میں لپٹی ہوئی تھی۔

آگ کی لپٹوں اور دھوئیں کی اوٹ میں سے نہ جانے کہاں سے ایک چھوٹا سا لڑکا برآمد ہوا اور سنسان سڑک پر سر پٹ دوڑ نے لگا۔ عمر کوئی دس گیارہ برس کی تھی۔ رات بھر وہ اندھیرے کو اوڑھ کر خود کو چھپاتا رہا، پھر صبح کاذب نے اس کی امیدیں جگائیں اور وہ خود کو بچانے کی کوشش کرنے لگا۔ اسے معلوم تھا کہ صبح صادق اب دور نہیں۔ وہ مرنا نہیں چاہتا تھا۔ زندگی اور موت کی اصلی ماہیت سے وہ چند ہی گھنٹے پہلے آشنا ہو چکا تھا۔ ایک حسین خواب تھا اور دوسرا ڈراونا کابوس۔۔ ۔ !

اس کمسن لڑکے کو کہاں جانا تھا، اسے معلوم نہ تھا۔ فقط دوڑے جا رہا تھا۔ مہیب اندھیروں کو پیچھے چھوڑ کر وہ روشنی کی تلاش میں بھاگ رہا تھا۔ دل میں پہلے کی مانند ہی پھر سے سانس لینے کی آرزو لیے ہوئے ! لڑکے نے ہانپتے کانپتے قریباً ایک میل کا فاصلہ طے کر لیا۔ وہ دوڑتا، تھک جاتا، کچھ دیر دم لیتا، پھر اسے کچھ یاد آتا اور دوبارہ دوڑنا شروع کر دیتا۔ کچھ دیر بعد ایک نئی بستی شروع ہو گئی مگر وہ اسے نظر انداز کرتا ہوا صرف بھاگتا رہا۔ پھر ناگاہ نہ جانے کیا ہوا۔ وہ سڑک پر اوندھے منہ گر پڑا اور بے ہوش ہو گیا۔

اُدھر نئی بستی میں رحمتی نیند سے جاگ کر اپنے مکان کی دوسری منزل کی کھڑکی کھول رہی تھی۔ اس کی اچٹتی نگاہ باہر سڑک پر پڑ گئی جو ابھی بھی کہرے میں ملفوف تھی۔ جونہی اس کی نظر لڑکھڑاتے ہوئے اس ننھے لڑکے پر پڑی اس کی ممتا نے کروٹ لی اور وہ کچن سے پانی کا لوٹا اٹھا کرکو دتی پھاندتی نیچے سڑک پر پہنچ گئی۔ اس نے لڑکے کے منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارے۔ چند ثانیوں میں وہ ہوش میں آیا۔ رحمتی نے اس کو لوٹے سے پانی پلایا اور پھر سہارا دے کر اپنے گھر کی طرف لے گئی۔

لڑکے نے عورت کی گرفت سے خود کو چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا۔ وہ ہانپ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا دریا بہنے لگا۔

’’ مجھے چھوڑ دو، مجھے چھوڑ دو۔۔ ۔۔ ‘‘ وہ برابر التجا کرتا رہا اور ساتھ ہی روتا بھی رہا۔ اس کے من میں نہ جانے کیسے کیسے اندیشے پیدا ہوتے رہے۔

’’گھبراؤ نہیں بیٹے، تجھے کچھ نہیں ہو گا۔ تم مجھ پر بھروسہ رکھو۔ ‘‘ ممتا کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور وہ ترّحم اور دردمندانہ نگاہوں سے واماندہ بچے کو دیکھنے لگی۔

لڑکا چُپ چاپ رحمتی کو دیکھتا رہا۔

’’تمھارا کیا نام ہے، بیٹے ؟‘‘رحمتی نے پیار بھری نظروں سے دیکھ کر سوال کیا۔

کچھ وقفے کے لیے لڑکے کی خاموشی برقرار رہی۔ وہ من ہی من میں سوچتا رہا کہ کیا نام بتاؤں ؟لیکن پھر دل نے گواہی دی کہ یہ عورت تو سراپا ممتا کی مورت معلوم  ہو رہی ہے، مجھے کوئی زک نہیں دے گی۔ یہ سوچ کر اس کے منہ سے ایکا ایکی نکل پڑا۔ ’’ میرا نام اقبال ریشی ہے۔ ‘‘

’’مسلمان ہو کیا؟ ‘‘

’’ نہیں آنٹی، ریشی تو میری عرفیت ہے۔ پنڈتوں میں بھی ریشی ہوتے ہیں۔ پاپا اردو کے ٹیچر تھے اور علامہ اقبالؔ کو بہت پسند کرتے تھے، اس لیے انھوں نے میرا نام اقبال رکھ لیا۔ ‘‘ لڑکے نے جونہی اپنے باپ کا ذکر کیا تو اس کے سارے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔

’’ کیوں تمھارے ابّا نہیں ہیں ؟ ‘‘رحمتی نے اس کا ہاتھ دوبارہ پکڑ لیا اور اسے گھر کے اندر لے گئی۔

اقبال تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اس کا ما تھا پسینے پسینے  ہو رہا تھا۔ اندر گھستے ہی وہ پھر سے بے ہوش ہو گیا اور فرش پر دھڑام سے گر گیا۔ بدن میں کپکپاہٹ بدستور جاری تھی۔ رحمتی جلدی سے ٹھنڈے پانی کا ایک اور لوٹا لے آئی اور اس پر چھڑکنے لگی۔ چند ہی لمحوں میں وہ سنبھل گیا۔ رحمتی نے لوٹے سے گلاس میں پانی انڈیل کر اس کو اپنے ہاتھوں سے پلایا جیسے اس کی ماں کبھی کبھار پلاتی تھی۔ وہ اجنبی عورت کے چہرے کو گھورنے لگا۔ دہشت کے ماحول میں اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ اس کو اپنی ماں کی باتیں یاد آنے لگیں۔ ایک روز اس کی ماں کی رفیق کار رابعہ ان کے گھر آئی تھی جو بالکل رحمتی کی شکل و صورت کی تھی۔ گو اس کی پوشاک ماں سے کچھ مختلف تھی مگر بول چال اور رویے میں کوئی فرق نظر نہیں آ رہا تھا۔ پوچھنے پر اس کی ماں نے کہا تھا۔

’’بیٹا، رابعہ میرے ساتھ سکول میں پڑھاتی ہے۔ گو ہمارے رہن سہن میں زیادہ فرق نہیں تاہم پوشاک سے ہم پہچان سکتے ہیں کہ یہ مسلمان ہے یا ہندو؟ اب تو مغربی کلچر کے سبب وہ امتیاز بھی مٹتا جا رہا ہے۔ ہاں اتنا ہے کہ ہم مندروں میں جاتے ہیں اور یہ مسجدوں میں۔ علی الصباح ان کی عبادت گاہوں سے اذانیں گونجتی ہیں اور ہماری عبادت گاہوں سے آرتی کے میٹھے سُر سنائی دیتے ہیں۔ بیٹے، بھگوان تو ایک ہی ہے، بس پوجنے کے طریقے انیک ہیں۔ ‘‘

لیکن کل رات جو کچھ ہوا اس سے اقبال کی فکر و سوچ بدل گئی تھی اوراس کے دل میں عجیب سا ڈر بیٹھ گیا تھا۔ اس کے دل میں انسان کے لیے نفرت پیدا ہو گئی تھی اور انسانیت ہی سے اعتبار اٹھ گیا تھا۔

’’ تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا بیٹے۔ کیا تمھارے ابّا نہیں ہیں ؟‘‘

اقبال یکبارگی دھاڑیں مار کر رونے لگا۔ رحمتی احساس گناہ سے پشیماں ہو گئی۔ اسے احساس ہوا کہ اس کی پوچھ تاچھ کے باعث لڑکا پریشان  ہو رہا ہے۔ سو اس نے مزید کریدنا بند کر دیا۔ مگر کچھ وقفے کے بعد اقبال خود ہی بول اٹھا۔

’’آنٹی، انھوں نے میرے ماں باپ کو مار ڈالا۔ کل آدھی رات کے قریب چارمسلح افراد ہمارے گھر میں گھس آئے۔ ان میں سے کوئی بھی کشمیری نہیں بولتا تھا۔ ایک آدمی نے پتاجی سے کہا کہ ہم رات بھر یہیں رہیں گے۔ میرے پتا جی، پریم ناتھ پریمؔ نے بِناکسی پس و پیش کے ایک کمرہ خالی کر وایا اور انھیں آرام سے رہنے کو کہا۔ ماتا جی نے کھانا بنا کر پروس دیا۔ خود پتاجی، ماں اور میں دوسرے کمرے میں خوف سے سمٹ کر رہ گئے اور آنکھوں آنکھوں میں رات گزاری۔ اِدھر ایک دو گھنٹوں کے بعد ہر طرف سے پولیس گاڑیوں کے چلنے کی آوازیں، سائرن اور پھر گولیوں کی آوازیں آنے لگیں۔ دوسرے کمرے میں چاروں افراد جل بن مچھلی کی طرح تڑپنے لگے۔ انھیں اندیشہ ہوا کہ پولیس نے ان کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہو گا۔ بچنے کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی تھی۔ اس لیے انھوں نے اجالا ہونے سے پہلے بھاگنے کا پلان بنایا، میرے والدین کو انسانی ڈھال بنا کر اپنے آگے آگے چلنے کو کہا کیونکہ انھیں یقین تھا کہ پولیس ان پر گولی نہیں چلائے گی۔ میں پریشان حال اوپر جا کر دوچھتی میں چھپ گیا۔ باہر رات بھر گولیاں چلتی رہیں۔ کبھی رک رک کر اور کبھی مسلسل۔ دریں اثنا چاروں طرف شور مچ گیا۔ ’’آگ۔۔ ۔ آگ۔۔ ۔ آگ۔۔ ! ‘‘ ساری بستی آگ کی نذر  ہو رہی تھی۔ آگ سے بچنے کے لیے میں نیچے اتر آیا اور جا کر بھیڑ میں ملا۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ پولیس نے مجاہدوں کو باہر نکالنے کے واسطے آگ لگائی جبکہ پولیس کہہ رہی تھی کہ دہشت گردوں نے دھوئیں کی ٹٹی بنانی چاہی تاکہ پولیس سے بچ نکلیں۔ صبح تک سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا۔ پولیس نے دس لاشیں گاڑی میں بھر دیں جن میں وہ چار بندوق بردار اور میرے والدین بھی تھے۔ میں لاچار چھپتا چھپاتا دور سے خاموش دیکھتا رہا۔ جب ہلکی ہلکی روشنی ہونے لگی تو میں گھبرا گیا۔ سوچا کوئی پہچان نہ لے اس لیے وہاں سے بھاگ نکلا۔ ‘‘

یہ سارا سانحہ معصوم اقبال کے وجود کا حصہ بن چکا تھا۔ اس کے من میں نہ صرف عسکریت پسندوں بلکہ ان کے ہم مذہبوں کے لیے عجیب سی نفرت پیدا ہو گئی تھی۔ وہ اپنے مکان سے بھاگ تو نکلا مگر یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کہاں جائے ؟ بِن ماں باپ کا بچہ اور وہ بھی ایسے حالات میں۔۔ ۔ !ا س کے وجود میں عجیب سی اتھل پتھل مچ گئی۔ ماں کی کہی ہوئی ساری باتیں دماغ میں بازگشت کرتی رہیں۔ ’’ بیٹے ہم سب انسان ہیں اور ہم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سب کا بھگوان ایک ہے، صرف پوجا کرنے کے طریقے الگ الگ ہیں۔ ہمیں سب سے محبت کرنی چاہیے۔ حاجت مندوں کی حاجت رفع کرنی چاہیے۔ کیا معلوم کس کی صورت میں بھگوان مل جائے ؟‘‘ مگر رات بھر کے واقعات نے ان سب باتوں کو جھٹلا دیا تھا۔ وہ رحمتی کو ٹکر ٹکر دیکھتا رہا۔ اب اسے ایک نئے تجربے سے گزرنا پڑ رہا تھا۔ رحمتی اس کی ماں کی رفیق کار اور سہیلی رابعہ کی کاربن کاپی لگ رہی تھی اور اس کا گھر بالکل اس کے اپنے گھر جیسا لگ رہا تھا۔ رحمتی کی ممتا نے اس کے وجود کو دوبارہ سان پر چڑھایا۔

کچھ وقفے کے بعد اس نے ہمت جٹائی اور رحمتی سے کہنے لگا۔ ’’ آنٹی، اگر میں چھپ نہ جاتا وہ مجھے بھی مار دیتے۔ ‘‘

’’ بیٹے، بھول جاؤ ان باتوں کو۔ یہ کچھ سر پھرے ہیں جو اس بات کو نہیں سمجھتے کہ روز قیامت کے دن ان کی جواب دہی ہو گی اور اس وقت ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہو گا۔ کسی دین میں معصوموں کا قتل واجب نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔ ان تخریبی کار روائیوں سے بہتر تھا کہ تعمیری کاموں میں لگ جاتے۔ اپنے قوم اور ہم وطنوں کی بہبودی کا کام کرتے۔ مگر انھیں کون سمجھائے ؟ ہوا ہی کچھ الٹی چلی ہے۔ زیادہ تر لوگ سرحد پار سے آئے ہیں۔ اپنے ملک کو تو جہنم بنا ہی چکے ہیں اب یہاں بھی ویسے ہی حالات پیدا کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ہاں تم سوچتے ہو گے کہ لوگ ان کے ساتھ ہیں۔ غلط۔۔ ۔ ! اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ جواب جاہلاں باشد خموشی۔ اس لیے وہ بے عمل ہو چکے ہیں۔ ‘‘کچھ توقف کے بعد وہ پھر گویا ہوئی۔ ’’رہتے کہاں ہو؟‘‘

’’ آنٹی اس سڑک پر بہت آگے ایک چھوٹا سا پُل ہے اس کو پار کر کے ہماری نئی بستی بنی ہوئی تھی۔ ‘‘

’’ تمھارا کوئی رشتے دار تو ہو گا؟‘‘رحمتی نے اقبال کو دلاسہ دیتے ہوئے اس کے رشتے داروں کے بارے میں پوچھ لیا۔

’’ ہاں آنٹی، جنرل پوسٹ آفس سرینگر میں میرا ماما کام کرتا ہے۔ وہاں سیکورٹی کا پورا انتظام ہے اس لیے وہ جگہ محفوظ ہے۔ میری ایک بڑی بہن بھی ہے جس کی شادی پانچ سال پہلے چنڈی گڑھ میں ہوئی تھی۔ ‘‘

’’ بیٹے تم فکر مت کرو۔ میرا بیٹا تمھیں تمھارے ماما کے پاس چھوڑ دے گا۔ وہاں سے تم اپنی بہن کے پاس چلے جانا۔ نہیں تو اگر چاہو تو ہم تمھیں چنڈی گڑھ پہچانے کا انتظام کروا سکتے ہیں۔ ‘‘

’’ نہیں آنٹی۔ بس ماما کے پاس کوئی لے جائے، کافی ہے۔ ‘‘

’’ ٹھیک ہے میں ابھی انتظام کرتی ہوں۔ تم مطمئن رہو۔ ‘‘

رحمتی نے اپنے بیٹے سجاد کو آواز دی اور کہا، ’’ ہیا سجادا (اوئے سجاد)!، اس بچے کے والدین کل رات مڈبھیڑ میں مارے گئے ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ تم اس کو آج ہی۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔۔ ابھی۔۔ ۔ اسی وقت اپنے ماما کے پاس چھوڑ آؤ۔ ورنہ یہ ننھا منا معصوم بچہ سوچتے سوچتے کُملا جائے گا۔ پھر ہم خدا کے پاس کیا جواب دیں گے۔ ‘‘

’’ممّی، پہلے نہا دھو لوں اور ناشتہ کر لوں، پھر اسے اپنے سکوٹر پر لے جا کر جی پی او میں چھوڑ دوں گا۔ ‘‘

’’نار لگے تیرے نہانے اور ناشتے کو۔ دیکھ نہیں رہا کہ یہ چھوٹا سا بچہ جب سے آیا ہے، آدھا ہو کر رہ گیا ہے۔ چلو جلدی تیار ہو جاؤ اور اسے لے جاؤ۔ ‘‘

سجاد مزید کسی مزاحمت کے بغیر اپنے کمرے میں کپڑے بدلنے کے لیے چلا گیا۔ اتنی دیر میں رحمتی کا شوہر مسجد سے نماز پڑھ کر آ گیا۔ اس کے ہاتھ میں دودھ کے چار لفافے اور آدھا درجن باقر خانیاں تھیں۔ رحمتی جلدی سے اُٹھی، دودھ گرم کیا، اس میں کافی ساری چینی ملائی، بادام، چھوٹی الائچی اور زعفران ڈال دیے، پھر قلعی کیے بڑے سے تانبے کے گلاس میں انڈیل دیا اور اس کے بعد اقبال کے سامنے رکھ دیا۔ ساتھ میں دو باقر خانیاں بھی رکھ دیں۔ سجاد اور اس کے والد کے سامنے دو باقر خانیاں اور چائے رکھ دی۔ وہ اقبال سے مخاطب ہوئی۔

’’ چومیانہ لالہ(پیو میرے لال)، ماں کے ہاتھ کا دودھ پی کر جاؤ۔ خدا تمھیں لمبی عمر اور روشن مستقبل سے نوازے۔ میں تمھارے لیے ہر دم دعائیں کرتی رہوں گی۔ ‘‘

اقبال آنسوملا دودھ چپ چاپ پیتا رہا حالانکہ اس کو کچھ بھی کھانے پینے کو جی نہیں کر رہا تھا۔ ناشتہ کر کے وہ رحمتی اور اس کے شوہر کے گلے ملا اور سجاد کے سکوٹر پر بیٹھ کر جی پی او پہنچ گیا۔ وہاں پر اقبال نے جونہی اپنے ماما کو دیکھ لیا، اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات شروع ہو گئی۔ کچھ دیر بعد اس نے ہچکیاں لیتے ہوئے ماما کو اپنی ساری رام کہانی سنا ئی۔ ماما نے اسے دوسرے روز جموں بھجوا دیا جہاں سے وہ چنڈی گڑھ اپنی بہن کے پاس چلا گیا۔ وہاں پر وہ بہن کے بچوں کے ساتھ ہی پلتا رہا۔

کشمیری پنڈت مہاجروں کی ایک خصوصیت یہ رہی کہ انھوں نے غیر مساعد حالات میں بھی ہمت نہ ہاری۔ یہ سچ ہے کہ ایک پوری نسل تباہ و برباد ہو گئی جیسے پکی ہوئی فصل پر ٹڈی دل نے حملہ کیا ہو۔ مگر انھوں نے آنے والی نسل کی پرورش کے لیے اپنا خون پسینہ بہایا۔ خود جھلستی گرمی میں پھٹے ٹاٹ کے خیموں میں زندگی بسر کرتے رہے، ذیابیطس اور امراض قلب سے جوجھتے رہے لیکن اپنے بچوں کو پڑھایا، لکھایا اور اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا۔ بہن نے نہ صرف اپنے بچوں بلکہ اپنے بھائی کی تعلیم میں خوب دلچسپی لی۔ اقبال نے بھی خوب محنت کر کے اس کی ریاضت کو چار چاند لگائے۔ بارہویں پاس کر کے گورنمنٹ میڈیکل کالج چنڈی گڑھ سے امتیازی نمبرات کے ساتھ ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کر لی۔ چھ سال بعد پی جی آئی ایم ای آر چنڈی گڑھ میں ایم ایس کی پڑھائی مکمل کر لی اور کچھ برس بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکہ چلا گیا۔ وہاں تقریباً چھ برس قیام کیا جس دوران میں اس نے سرطان کے مرض کے بارے میں سپیشلائزیشن کر لی۔ اس کے بعد وطن کی یاد ستانے لگی، اس لیے لوٹ کر دہلی کینسر سپر سپیشلٹی اسپتال میں بطور ماہر سرطان جوائن کر لیا۔

ڈاکٹر اقبال ریشی اپنے پیشے کو عبادت سمجھتا ہے۔ وہ اب بہت ہی مصروف رہتا ہے۔ اس کی چاروں جانب مریض ہی مریض نظر آتے ہیں اور وہ ان کو صحتیاب کرنے کی پوری پوری کوشش کرتا ہے۔ ماں باپ تو بچپن ہی میں چھوٹ گئے تھے مگر اس کو ہر سِن رسیدہ مریض میں اپنے والدین کی شبیہ نظر آتی ہے۔ اس کی دردمندی اور غمخواری نے اس کی شہرت چہار سوپھیلا دی۔

ایک روز ڈاکٹر اقبال کے ایک جونئیر نے اس کو ایمرجنسی وارڈ میں شتابی آنے کی درخواست کی جہاں ایک بوڑھی عورت بیڈ پر کراہ رہی تھی۔ ڈاکٹر نے جونہی مریضہ کو دیکھا تو اسے اپنی ماں یاد آ گئی۔ ماں کی دی ہوئی نصیحت اس کے کانوں میں بازگشت کرنے لگی۔

’’ بیٹے ہم سب انسان ہیں اور ہم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سب کا بھگوان ایک ہے، صرف پوجا کرنے کے طریقے الگ الگ ہیں۔ ہمیں سب سے محبت کرنی چاہیے۔ حاجت مندوں کی حاجت رفع کرنی چاہیے۔ کیا معلوم کس کی صورت میں بھگوان مل جائے ؟‘‘

ڈاکٹر مریضہ کے قریب سٹول پر بیٹھ گیا اور اس کے نرم و ملائم ہاتھوں کے لمس سے فیض یاب ہوتا رہا۔ مریضہ کو بھی ایسا محسوس  ہو رہا تھا جیسے کوئی مسیحا عرش سے اتر کر اس کی عیادت کے لیے آیا ہے۔ ڈاکٹر اقبال نے مریضہ کا بغور معائنہ کیا، کئی ٹیسٹ کروائے اور پھر اس کوآپریشن کروانے کی صلاح دی۔ مریضہ کے بیٹے نے ہسپتال آفس سے رجوع کر کے خرچ کا تخمینہ مانگ لیا۔ اسے بتایا گیا کہ ہسپتال میں طعام و قیام اور ادویات کا خرچہ اندازاً دو لاکھ پڑے گا اور ڈاکٹر کی فیس الگ سے تین لاکھ کے قریب ہو گی۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ بیٹے اور باپ نے آپس میں مشورہ کیا، روپئے کا انتظام کروایا اور آپریشن کروانے کے لیے راضی ہو گئے۔ انھوں نے سنا تھا کہ ڈاکٹر اقبال کے ہاتھوں کو خدا نے شفا عطا کی ہے اور اس کے آپریشن اکثر کامیاب رہتے ہیں۔

دو روز کے بعد مریضہ کو آپریشن تھیٹر میں لے جایا گیا اور ڈاکٹر اقبال نے تقریباً تین گھنٹے آپریشن کر کے مریضہ کے سرطان کی رسولی نکال دی۔ آپریشن کی کامیابی کے باعث مریضہ کا شوہر اور اس کا بیٹا خوشی سے پھولے نہ سمارہے تھے۔ انھوں نے کئی بار ڈاکٹر کا شکریہ ادا کیا حالانکہ دونوں کو اس بات کا احساس تھا کہ ابھی اصلی جھٹکا باقی ہے۔ وہ بل کا انتظار بے صبری سے کرتے رہے۔ گو انھیں تخمینہ مل چکا تھا مگر کیا معلوم اور کون کون سی چیزیں شامل کی گئی ہوں اور بل کی رقم کتنی بڑھ گئی ہو؟

پورے ایک ہفتے مریضہ ہسپتال کی میزبانی برداشت کرتی رہی اور صحتیابی کی اور قدم بڑھاتی رہی یہاں تک کہ وہ خود سے اب چلنے پھرنے لگی تھی۔ ادھر اس کے لواحقین کو خرچے کی فکر ستا رہی تھی اور وہ ہر روز ڈاکٹر سے اس کے ڈسچارج کے بارے میں پوچھتے رہے مگر ڈاکٹر تھا کہ مسکرا کر بنا کچھ کہے چل دیتا۔ آخر کارجس روز مریضہ کے ڈسچارج کا حکم ملا، دونوں باپ بیٹے دل تھام کے بیٹھ گئے۔

ہسپتال کا ایک ملازم مریضہ کے بیڈ کے پاس آیا اور اس کے شوہر کو بِل تھما دیا۔ شوہر کی ایسی حالت تھی کہ وہ بِل کو دیکھنے سے گھبرا رہا تھا، اس لیے بنا پڑھے جلدی سے اپنے بیٹے کو بِل پکڑا دیا۔ بیٹے نے جب بل کا معائنہ کیا تو وہاں پر صرف دو لاکھ روپے واجب الادا تھے۔ اس نے بِل کو الٹا پلٹا اور بار بار اس کو پڑھا کہ کہیں کوئی غلطی تو نہیں ہوئی ہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی کلرک کی غلطی کی وجہ سے اس کی ماں کا ڈسچارج سستے میں ہو جائے اور پھر کلرک کو وہ سارا روپیہ اپنی جیب سے بھرنا پڑے۔ وہ حیراں بھی تھا اور پریشاں بھی۔ اس لیے ریسپشن پر جا کر معلوم کیا کہ کیا بات ہے ؟ وہ ریسپشن کلرک سے مخاطب ہوا، ’’ میڈم، عجیب بات ہے، پوری بِل ایک ساتھ کیوں نہیں دی جا رہی ہے ؟ ہمیں مریضہ کو آج ہی گھر لے جانا ہے، اب ہمارے پاس وقت نہیں ہے، شام کی فلائٹ سے ٹکٹیں بُک ہیں۔ ‘‘

ریسپشن کلرک کو تعجب ہوا کہ عام طور پر لوگ کہتے ہیں کہ بل بہت زیادہ ہے، ہم نے فلاں چیزیں استعمال نہیں کیں یا پھر فلاں چیزیں ہسپتال کو لوٹا دیں مگر یہ پہلا صارف ہے جو کہہ رہا ہے کہ بل کم کیوں ہے ؟ وہ مخمصے میں پڑ گئی اورسامنے کھڑے آدمی کو مشورہ دیا کہ اندر دفتر میں جا کر منیجر سے رجوع کر لے کیونکہ انھیں ان باتوں کا سارا علم رہتا ہے۔ مریضہ کا بیٹا جلدی سے دفتر کے اندر چلا گیا اور منیجر سے جا ملا، وہاں اس نے اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ منیجر نے اس کا استقبال ہلکی سی مسکراہٹ سے کیا۔ پھر مریضہ کی پوری فائل الماری سے نکالی اور اس کے سامنے رکھ دی۔ فائل میں سارے کاغذات موجود تھے اور سب سے اوپر ڈاکٹر کا تین لاکھ کا بِل نتھی کر کے رکھا ہوا تھا۔ اس بل پر ڈاکٹر نے اپنے ہاتھ سے مندرجہ ذیل عبارت رقم کی تھی۔

’’ ہسپتال اور ادویات کا جو بھی خرچہ ہو، وہ مریضہ سے وصول کر لیا جائے۔ جہاں تک ڈاکٹر کی فیس کی رقم کا تعلق ہے وہ پینتیس سال پہلے ایک دودھ کے گلاس کی شکل میں وصول ہو چکی ہے۔ میں رحمتی کی صحتیابی کی دعا کرتا ہوں۔ ڈاکٹر اقبال ریشی‘‘

رحمتی کا بیٹا سجاد ہکا بکا رہ گیا۔ وہ دم بخود منیجر اور بِل کو دیکھتا رہا۔ اس کو اس صبح کا منظر یاد آیا جب وہ ایک چھوٹے سے لڑکے کو سکوٹر پر جی پی او تک چھوڑ آیا تھا۔

پھر دل نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کرنا تو فرض بنتا ہے، اس لیے منیجر سے پوچھ بیٹھا۔ ’’ ڈاکٹر صاحب کہاں ملیں گے ؟‘‘

منیجر صاحب نے لاتعلقی سے جواب دیا۔ ’’ڈاکٹر صاحب کچھ گھنٹے پہلے کسی ضروری کام سے امریکہ روانہ ہو چکے ہیں۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

ہرکارہ

 

تپتی ہوئی سرمئی سڑک پر وہ اپنی سائیکل گھسیٹے جا رہا تھا مگر ٹانگیں ساتھ نہیں دے رہی تھیں۔ سارا بدن جلتا ہوا سا محسوس  ہو رہا تھا۔ سانس بھی پھول چکی تھی۔ پھر بھی وہ منزل تک پہنچنے کی لگاتار کوشش کر رہا تھا۔ آسمان سے شعلے برس رہے تھے۔ لوگ کئی دنوں سے مون سون کا انتظار کر رہے تھے مگر بادلوں کا کہیں دور دور تک نام و نشان بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ جون کا مہینہ ختم ہونے کو آیا تھا۔ بارش کی ایک بوند بھی کہیں گری نہ تھی۔ جدھر نظر ڈالو وہاں سوکھا پڑا تھا۔ اُدھر محکمہ موسمیات سے مایوس کن خبریں سننے کو مل رہی تھیں کہ مون سون آنے میں ابھی دیر ہے۔

اسے گاؤں کی فکر ستارہی تھی۔ وہاں اس کی بوڑھی ماں، ایک بہن اور دو بھائی تھے۔ ایک بھائی عمر میں اسے بڑا اور شادی شدہ تھا۔ بہن کی شادی کی چنتا سب کو لگی ہوئی تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ نہ جانے گھر کا کیا حال ہوا ہو گا۔ ابھی تو پچھلے سال کا قرض بھی نہیں اترا کہ یہ نئی مصیبت آن پڑی۔ فصلیں تباہ ہو چکی ہوں گی۔ ڈھور ڈنگر پانی کے لیے ترس رہے ہوں گے۔ ان کے لیے چارہ بھی نہیں ملتا ہو گا۔ اسے کئی برس پہلے پڑا ہوا سوکھا یاد آیا جب زمین پر ہر سو دراڑیں ہی دراڑیں نظر آ رہی تھیں اور کہیں کوئی گھاس کا پتّا بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ دہقان اپنے کھیتوں کو دیکھ کر تلملا رہے تھے۔ ایک طرف قرض داروں کا تقاضا اور دوسری طرف پاپڑ بنے ہوئے کھیت۔ کئی کسانوں کی خود کشی کے سبب سارے گاؤں میں صف ماتم بچھ گئی تھی۔

گوسائیں داس نے دسویں تک تعلیم حاصل کی تھی اور پھر اپنے ہی گھر میں بر انچ پوسٹ ماسٹر کا کام سنبھالا تھا۔ وہ ڈاک ٹکٹیں، لفافے، پوسٹ کارڈ وغیرہ بیچا کرتا اور کبھی کبھار رجسٹری اور منی آرڈر بک کر لیتا۔ گاؤں کے لوگ بچت بنک سے روپے نکالنے یا جمع کرنے کے لیے اس کے پاس چلے آتے۔ یہ سب کام وہ آسانی سے کر لیتا اور وہ بھی اپنے ہی چھت کے نیچے۔ گوسائیں داس اپنی مرضی کا مالک تھا پھر بھی وہ دن نہیں بھول پا رہا تھا جب اس کے ماموں نے ڈاک خانے کے انسپکٹر سے اس کی ملازمت کی بات کی تھی اوربیس ہزار کی رقم دینے کا وعدہ کیا تھا۔ انسپکٹر نے گاؤں میں ڈاک خانہ کھولنے کی تجویز پیش کی،ا س کی منظوری کے لیے تگ و تاز کی اور پھر گوسائیں داس کو غیر محکمانہ برانچ پوسٹ ماسٹر لگا دیا۔ ساتھ میں ایک اور آدمی کو تین ملحق گاؤں میں ڈاک تقسیم کرنے کے واسطے ڈیلوری ایجنٹ مقرر کر دیا۔ ملازمت حاصل کرنے کے لیے اس کے والد کو بیس ہزار کا قرض اٹھانا پڑا تھا۔ ایک دُودھیل گائے تھی اسے بیچ کر کچھ قرضہ اتار دیا مگر شومیِ قسمت اُسی سال سوکھا پڑ گیا۔ گھر میں بدحالی نے ڈیرا ڈال دیا۔ گھر کی خستہ حالت دیکھ کر اور سامنے بیٹی کی اٹھتی جوانی دیکھ کر والد کی ہمت ٹوٹ گئی اور اس نے خود کشی کر لی۔

حیرت کی بات یہ تھی کہ اتنی ساری رقم دے کر بھی نوکری سرکاری نہ تھی بلکہ غیر سرکاری تھی۔ اس وقت تو خیر تنخواہ کچھ حد تک معقول تھی ورنہ دو عشرے پہلے صرف ایک سو دس روپے ماہوار مل جاتے تھے کیونکہ ڈاک خانے کا یہ کام فاضل وسیلۂ روزگار مانا جاتا تھا، بنیادی نہیں۔ بہر حال محنت کش بی پی ایم بچت بنک میں جمع کی گئی رقم سے بطور کمیشن خاصی کمائی کر لیتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک اور امید کی کرن تھی۔ اور وہ تھی کہ اگر بندہ مستقبل میں کبھی محکمے کا امتحان پاس کر لیتا تو سرکاری ملازمت پا سکتا تھا۔ وہ چاہے پوسٹ میں کی نوکری ہو یا پھر گروپ ڈی کی۔ اس طرح معقول تنخواہ مل سکتی تھی، بونس مل سکتا تھا اور سبکدوشی پر پنشن بھی مل سکتی تھی۔ علاوہ ازیں سرکاری چھٹیاں، میڈیکل اخراجات، ایل ٹی سی اور ڈھیر ساری مراعات حاصل ہو سکتی تھیں۔ یہی ایک امید ہے جو ہزاروں لاکھوں غریب دیہی نوجوانوں کو ڈاک خانے سے جوڑ لیتی ہے اور وہ عمر بھراس کی آس لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ چند ایک کامیاب ہو کر اپنا مستقبل سنوار لیتے ہیں جبکہ اکثر و بیشتر پوری عمر اکسٹرا کا لیبل لگائے اس دنیا سے کوچ کرتے ہیں۔ نہ امتحان میں کامیابی ملتی ہے اور نہ ہی سینیارٹی کے بل بوتے پر تقرری ہوتی ہے۔ امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے محض سند یافتہ ہونا یا پھر اچھی کار کردگی کا مظاہرہ کرنا کافی نہیں ہوتا۔ کیرئیر کے رتھ کو آگے بڑھانے کے لیے ہر مرحلے پر روپے کے پہیئے لگانے پڑتے ہیں۔ گوسائیں داس نے دس سال کی نوکری میں اتنا تو سیکھ لیا تھا۔ اس کے نصیب نے اس کا ساتھ دیا۔ ایک بار دہلی سے یونین کا جنرل سیکریٹری اس کے گاؤں آیا۔ اس نے لیڈر کی خوب خاطر مدارات کی۔ دستر خوان جام اور مرغ سے سج گیا۔ نتیجتاً اس نے یونین لیڈر کا دل جیت لیا۔ اس کے توسل سے کامیابی کے راستے کھل گئے، سرکل آفس کے افسروں کی جیبیں گرم ہو گئیں اور ایک بار پھر بیس ہزار کی دکھشِنا دے کرگوسائیں داس ہرکارہ بن گیا۔

گوسائیں داس کو گماں بھی نہ تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ بیس ہزار کی چپت تو لگ چکی تھی مگر اصلی جھٹکا تب لگا جب اس کو شہر میں تعیناتی کا حکم مل گیا کیونکہ گاؤں میں پوسٹ میں کی تقرری ممکن نہ تھی۔ انجام کار گھر چھوٹ گیا، ماں بھائی بہن سب چھوٹ گئے، اور اب شہر میں ایک حبس زدہ کمرے میں دن گزارنے کی نوبت آئی۔ کئی بار جی میں آئی کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس چلا جائے مگر پھر چالیس ہزار اور اس گائے کی یاد آتی جس کو بیچ کر یہ نوکری نصیب ہوئی تھی۔ یہ سوچ کر دل میں اٹھا طوفان تھم جاتا۔ دو چار مہینوں کے بعد گھر جانے کی فرصت ملتی مگر وہاں کی پراگندگی دیکھ کر دل مایوس ہو جاتا۔ گاؤں والوں کا کیا انھیں تو گوسائیں داس کسی بڑے بابو سے کم نہیں لگتا تھا۔ اس کی جھلک پاتے ہی سب لوگ گھروں سے باہر نکل آتے اور اس کو گھیر لیتے۔ ماں، بھائی بندھو سب اس کو دیکھ کر خوش ہو جاتے اور اس سے تحائف کا تقاضا کرتے۔ وہ کسی کو نہیں بھولتا تھا۔ سب کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور لے آتا۔

شہر میں صبح سویرے جب وہ دفتر کے لیے نکل جاتا ایک خوبصورت لڑکی اس کا راستہ کاٹ لیتی تھی۔ کوئی کالی بلّی تو تھی نہیں کہ سائیکل پر سے اتر کر تھوڑی دیر رک جاتا اور پھر سفر جاری رکھتا۔ وہ پہلے پہل اسے نظر انداز کرنے لگا مگر ایسا کہاں تک ممکن تھا۔ آخر کار ایک روز اس لڑکی نے شرارت بھرے لہجے میں پکارا۔ ’’ بابو، میری چھٹی پتری تو نہیں آئی ہے۔ کب سے کوئی پتر ہی نہیں ملا۔ ‘‘

گوسائیں داس نے مڑ کر لڑکی کو دیکھا اور گویا ہوا۔ ’’ کس کی چھٹی کا انتظار ہے ؟ کوئی رشتے دار کہیں باہر گام گیا ہے کیا؟‘‘

’’ ہاں یوں ہی سمجھ لو بابو۔ کب سے انتظار میں بیٹھی ہوں۔ ‘‘ لڑکی نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے جواب دیا۔

’’ تو پھر اور تھوڑا انتظار کر لو۔ شاید آ جائے۔ اپنا نام بتا دو، آگے سے خیال رکھوں گا۔ ‘‘

’’ ہرکارہ بابو، دیکھ لینا، کوئی خط برکھا رانی کے نام آ جائے تو دے دینا۔ ‘‘ اس نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا۔

گوسائیں داس پھر بھی اس کا مطلب سمجھ نہیں پایا لیکن من میں چاہت کی چنگاری پیدا ہو گئی۔ سوچنے لگا کہ کون ہو سکتا ہے جس کے خط کا انتظار برکھا رانی کو ہے ؟گاؤں میں ایسا کون ہے جس کے ساتھ اس کی آشنائی ہو سکتی ہے ؟ سنا ہے کہ ڈاکیے خط کو دیکھ کر ہی اس کا مضمون بھانپ لیتے ہیں۔ بنا کھولے بتا سکتے ہیں کہ اندر کیا لکھا ہے، خوشخبری ہے یا کوئی منحوس پیغام !مگر یہاں تو الٹا ہی معاملہ تھا۔ یہاں تو قیافہ شناسی کا امتحان لیا جا رہا تھا۔

دوسرے روز برکھا رانی نے پھر اس کا راستہ روک لیا۔ دیکھتے ہی بولی۔ ’’ کیوں رے، بابو، کوئی خط آیا یا نہیں۔ ‘‘ اور پھر کئی روز یوں ہی گزر تے رہے۔ نہ خط آیا نہ برکھا کے من کی پیاس بجھی۔ لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔ ہر روز وہی سوال کرتی اور وہی جواب پاتی۔ گوسائیں داس کو چڑ سی ہونے لگی۔ ایک روز تنگ آ کر جواب دیا۔ ’’ اری برکھا، میں کیا کروں، تمھیں کوئی خط لکھتا ہی نہیں ہے تو اس میں میرا کیا قصور۔ جب خط آئے گا تو خود ہی دے دوں گا۔ یہ روز روز کیوں پوچھتی ہو۔ ‘‘

برکھا رانی آج بہت ہی شاداں و فرحاں لگ رہی تھی۔ مسخرے پن سے بولی۔ ’’ بابو، کوئی نہیں لکھتا تو کیا ہوا، تم ہی لکھ دو۔ ‘‘ اس کے ساتھ ہی وہ کھلکھلا کر ہنسنے لگی اور دوڑتے ہوئے گلی میں غائب ہو گئی۔

آج پہلی بار گوسائیں داس کو کچھ کچھ سمجھ میں آیا۔ گھر جاتے ہی اس نے مکان مالکن سے، جس کو وہ اماں کہتا تھا، اس بارے میں پوچھ لیا۔ اماں سن کر ہنس دی اور کہنے لگی۔ ’’ مورکھ ابھی تک نہیں سمجھے۔ وہ تمھیں چاہتی ہے۔ اس کو کسی کے خط کا انتظار نہیں ہے۔ وہ تو بس تمھارے ساتھ پریم کرنے لگی ہے۔ کل جب ملو گے تو ہاں یا ناں میں جواب دے دینا۔ ‘‘

بوڑھی اماں کا تجربہ کام کر گیا۔ گوسائیں نے اپنے من کی بات کہہ دی اور برکھا رانی کو ایسا لگا جیسے اس کے سوکھے وجود پر ابر دریا بار چھا گیا۔ وہ پھولی نہ سمائی۔ اور پھر یہ سلسلہ آگے ہی آگے بڑھتا گیا۔ دونوں کبھی آم کے باغوں کی سیر اور کبھی دریا کے کنارے گھنٹوں ٹہلتے رہتے۔ برکھا رانی کے نشے میں گوسائیں گاؤں کو بھول ہی گیا۔ شہر میں خرچہ اتنا بڑھ گیا کہ گاؤں روپے بھیجنا بند کر دیا۔ وہاں سے مسلسل تقاضا ہوتا رہا اور یہاں سے طویل خاموشی چھا گئی۔ ماں پریشان، بھائی پریشان، بہن پریشان، خط پر خط لکھے جا رہے ہیں لیکن گوسائیں کسی کا جواب نہیں دے رہا تھا۔ بڑے بھائی نے سب کام چھوڑ چھاڑ کر شہر کی راہ لی اور یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ گوسائیں داس بھلا چنگا ہے مگر اس کا رویہ کچھ بدلا بدلا سا ہے۔ بہت پوچھنے پر بھی کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ آخر کار اماں نے راز فاش کر دیا اور بڑے بھائی کے ذہن میں یہ بات ڈال دی کہ گوسائیں کسی لڑکی کے قابو میں آ گیا ہے اور تب سے عجیب عجیب سی حرکتیں کر رہا ہے۔ اب نہ اس کے دن کا پتا چلتا ہے اور نہ رات کا۔ بہتر ہو گا کہ ان دونوں کی شادی کی جائے۔ اتنا سننا تھا کہ بڑے بھائی نے رات کو ڈنر کے وقت گوسائیں داس سے سب کچھ پوچھ لیا اور اگلے ہی روز لڑکی کے گھر پہنچ گیا۔ اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ لڑکی کے گھر جا کر اسے بے عزتی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بیٹھتے ہی اس کی ذات پوچھی گئی اور جب اس نے اپنی ذات کے بارے میں بتایا تو جواب ملا۔ ’’ آپ کو معلوم ہے کہ ہم کھشتری ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مالی حالت خراب ہونے کی وجہ سے ہمارا حال آج کل کچھ پتلا سا ہے مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہم اپنی لڑکی کسی بھی ایرے غیرے نتھو خیرے کو دیں گے۔ ہماری ڈیوڑھی پر ایک زمانے میں ہن برستا تھا۔ دادا جی گاؤں کے مکھیا تھے۔ جوئے اور شراب میں ساری جائیداد گروی رکھ دی اور ہمیں سڑک پر لا کر چھوڑ دیا۔ مگر کہتے ہیں نا کہ ہاتھی ہزار لٹے تو بھی سوا لاکھ ٹکے کا۔ ہماری لڑکی تو بڑے گھر ہی بیاہی جائے گی۔ ہمیں سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ آپ نے یہاں آنے کی ہمت کیسے کی۔ ‘‘

واپس آ کر بڑے بھائی نے گوسائیں داس کو لاکھ سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ نہ سمجھا۔ وہ کسی اور جگہ شادی کرنے کے لیے تیار نہ ہوا۔ نصیب اچھا تھا کہ اس کی پٹائی نہیں ہوئی اور نہ ہی اس کے نام کی سپاری دی گئی ورنہ ان لوگوں کی رگوں میں ٹھاکروں کا خون دوڑ رہا تھا اور وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے۔ گوسائیں اور برکھا دونوں تڑپ کر رہ گئے۔ برکھا پر تو اب پہرے لگ چکے تھے۔ ملنے کی کوئی سبیل نہیں بن رہی تھی۔

اِدھرگوسائیں کی صحت گرتی چلی گئی۔ کئی بار بیمار ہوا۔ ڈاکٹر نے جانچ کی مگر معلوم ہوا صرف ذہنی پریشانی اور جسمانی کمزوری ہے۔ ڈیوٹی تو خیر کرنا ہی پڑتی ہے۔ وہ چاہے جھلستی گرمی ہو، ٹھٹھرتی سردی ہو، موسلا دار بارش ہو، بازار میں پتھراؤ ہو، بستی میں بم پھٹ رہے ہوں یا پھر سڑک پر لاٹھی چارج ہو رہا ہو۔ ڈاک تقسیم کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ اب صبح سویرے برکھا کے بدلے بِلّی راستہ کاٹ کر جاتی ہے۔ دن بھر منحوسیت کا عالم رہتا ہے۔

آج گوسائیں کو کئی محلوں میں ڈاک تقسیم کرنے جانا تھا۔ ڈاک کا بڑا سا تھیلا اٹھا کر اس نے سائیکل کے پیچھے کیرئیر میں باندھ لیا اور رام کا نام لے کر دن کے سفر پر چل پڑا۔ اس کا دائرۂ گشت ڈاک خانے سے کافی دور تھا۔ راستے میں ایک ڈیڑھ کلو میٹر کا خالی میدان پڑتا تھا۔ دائیں بائیں ایستادہ سبھی درخت سڑک بناتے وقت کاٹے گئے تھے اور اب خال خال ہی کہیں سایہ دار شجر دکھائی دیتا تھا۔ مسافر کہیں دم لینا بھی چاہتا تو کوئی ایسی جگہ نظر نہیں آتی تھی جہاں پر وہ تھوڑی دیر بیٹھ کر سستاتا۔ سڑک کے اختتام پر گوسائیں کو برساتی نالے پر بنا ہوا پُل پار کرنا پڑتا۔ تب وہ کہیں جا کر دوسری طرف بسے گاوں میں پہنچ جاتا اور وہاں دکانوں اور گھروں میں ڈاک تقسیم کر لیتا۔ شد ید گرمی کی وجہ سے اس کا سر چکرانے لگا۔ وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ یہ سب کیا  ہو رہا ہے۔ آس پاس کہیں پانی کی بوند بھی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ اس کی حالت ایسی تھی کہ اگر نالے میں اس وقت پانی ہوتا تو وہ اسے ہی پی لیتا۔ اس کے سوکھے حلق میں کانٹے سے پڑ رہے تھے۔ بدن پسینے پسینے ہو رہا تھا۔ سارا جسم تپ رہا تھا۔ وہ کہیں چھاؤں میں آرام کرنا چاہتا تھا۔ اس کی ٹانگوں میں سائیکل چلانے کی قوت باقی نہیں بچی تھی۔ پھر بھی وہ سائیکل کو اس امید کے ساتھ گھسیٹے جا رہا تھا کہ آگے کہیں نہ کہیں بستی ملے گی اور وہ اپنی پیاس بجھا سکے گا۔ جیسے تیسے اس نے پُل پار کر لیا اور سامنے بستی نظر آنے لگی۔ دیکھ کر تھوڑا بہت اطمینان تو ہوا لیکن اسے ابھی بھی یقین نہ تھا کہ وہ منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہو گا۔

آخر کار وہ ایک دکان کے پاس پہنچ گیا اور اس کے ہاتھ سے سائیکل چھوٹ کر زمین پر گر گئی۔ اس نے دکان دار کی جانب دیکھ کر کہا۔ ’’بھیا، ذرا مجھے پانی پلا دو۔ ‘‘ اس کے ساتھ ہی وہ نڈھال ہو کر دکان کے تھڑے پر گر پڑا۔ دکان دار اسے دیکھ کر بہت پریشان ہو گیا۔ جلدی سے تھوڑی سی مٹھائی اور پانی لے کر آیا اور اسے پلا دیا۔ پھرگوسائیں کو بانہوں میں اٹھا کر دکان کے اندر لایا۔ تب تک اور بھی کئی لوگ جمع ہو گئے تھے۔ گوسائیں کا بدن تپ رہا تھا۔ پانی پلانے کے باوجود اسے ہوش نہیں آ رہا تھا۔ دکان دار نے سب کچھ یونہی چھوڑ چھاڑ کر اپنا رائیل این فیلڈ سٹارٹ کیا۔ ایک اور آدمی نے گوسائیں کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر اسے زور سے پکڑ لیا۔ اور موٹر سائیکل فراٹے بھرتی ہوئی ہسپتال پہنچ گئی۔

سائیکل اور ڈاک کی طرف کسی کا دھیان ہی نہ گیا۔ جاتا بھی کیسے۔ یہاں گوسائیں کی جان پر بن آئی تھی پھر ان چیزوں کی طرف کون دھیان دیتا۔ سبھی لوگ اس کو بچانے کی کوشش میں جٹے ہوئے تھے اوراس کے آگے پیچھے منڈلا رہے تھے۔

اُدھر تین چار گھنٹے بعد پوسٹ ماسٹر کو اس حادثے کی خبر مل گئی۔ اس نے میل اوؤر سیر کو سائیکل اور غیر تقسیم شدہ ڈاک واپس لانے کا حکم دیا۔ سائیکل تو ملی مگر وہ تھیلا جس میں ڈاک تھی کتوں نے اس کی تکا بوٹی کر دی تھی اور ساری چٹھیاں وہیں زمین پر بکھیر دی تھیں۔ کچھ ثابت تھیں اور کچھ پھٹی ہوئیں۔

گوسائیں داس کو ہوش آنے میں کافی وقت لگا۔ آخر کار جب آنکھیں کھلیں تو اسے تعجب ہوا کہ وہ ہسپتال کیسے پہنچ گیا۔ اس کے گھر والوں کو بھی خبر چلی گئی تھی اور وہ سورج غروب ہونے سے پہلے ہی ہسپتال پہنچ چکے تھے۔ گھر والوں کو دیکھ کر گوسائیں داس اور بھی زیادہ پریشاں ہو گیا۔

اس رات موسم بھی بدل گیا۔ باہر جم کر برسات ہونے لگی۔ کب سے گاؤں والے برکھا کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کی مراد یں پوری ہو گئی مگر گوسائیں کی تشنگی پھر بھی برقرار تھی۔ اس کی برکھا اب تک نہیں آئی تھی۔ وہ من ہی من میں سوچنے لگا کہ نہ جانے اسے خبر ملی بھی ہو گی یا نہیں۔

کئی دن یوں ہی بیت گئے۔ گوسائیں داس نے دوبارہ دفتر جانا شروع کر دیا۔ دفتر میں داخل ہوتے ہی اس کی پیشی لگ گئی۔ پوسٹ ماسٹر نے اپنے پاس بلایا اور کہنے لگا۔ ’’ تم کو اپنی ڈیوٹی کا ذرا بھر بھی خیال نہیں رہتا ہے۔ معلوم ہے اس روز تمھاری ڈاک میں سے ایک انشورڈ آرٹیکل اور ایک رجسٹری گم ہو چکی ہے۔ اس بارے میں شکایت بھی درج ہو چکی ہے۔ شاید محکمے کو ہرجانہ ادا کرنا پڑے گا اور اس کی بھرپائی تمھاری تنخواہ سے ہو گی۔ ‘‘

’’ صاحب جی، اس میں میرا کیا قصور ہے۔ میں نے تو سبھی چیزیں بڑے احتیاط سے سائیکل پر رکھی تھیں۔ گرمی کے سبب میری بہت بری حالت ہو گئی تھی اور میں بے ہوش ہو کر گر گیا تھا۔ ‘‘

’’ تمھیں محکمے کے قاعدے قانون کا ذرا بھی احساس نہیں ہے۔ تقسیم کے لیے دی گئی ڈاک کی رکھوالی کرنا تمھاری ڈیوٹی ہے۔ تمھارا فرض تھا کہ ان چیزوں کی جان سے بھی زیادہ رکھوالی کرتے۔ انھیں پہلے کسی کے حوالے کرنا چاہیے تھا اور تب ہسپتال جانا چاہیے تھا۔ میں اس بارے میں کچھ بھی نہیں سننا چاہتا۔ ‘‘

چند ہی روز کے بعد اس کے ہاتھ میں سپراِنٹنڈنٹ صاحب کا جاری کردہ چارج شیٹ تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

اب میں وہاں نہیں رہتا

 

ڈاکیہ تین بار اس ایڈرس پر مجھے ڈھونڈنے گیا تھا لیکن تینوں بار مایوس ہو کر لوٹ آیا۔

اس نے دروازے پر کئی بار دستک دی تھی، بلند آواز میں میرا نام پکارا تھا اور پھر دائیں بائیں دیکھ لیا تھا کہ شاید کوئی پڑوسی آواز سن کر گھر سے باہر نکل آئے اور اسے بتلا دے کہ میں گھر میں موجود ہوں یا نہیں اور اگر نہیں ہوں تو کہاں مل سکتا ہوں۔ مگر کوئی پڑوسی نہ گھر سے باہر نکلا اور نہ ہی کسی نے کھڑکی کے باہر جھانکا۔

شاید اڑوس پڑوس کے سبھی گھر خالی تھے۔ سارا محلہ قبرستان کی مانند سنسان پڑا تھا۔ کہاں تو ہر نُکڑ پر بے شمار کُتے مل جاتے تھے جو گھروں سے پھینکے ہوئے ٹکڑوں پر پلتے تھے اور کہاں یہ منظر کہ کہیں کوئی کتّا بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ جیسے سبھی کو سانپ سونگھ گیا ہو۔

میرے مکان سے ٹپکتی ہوئی غمزدہ خاموشی دیکھ کر وہ ہر بار بوجھل قدموں سے واپس مڑ جاتا۔ ایک زمانہ تھا کہ سردی اور گرمی کی چھٹیوں میں بس صدر دروازے پر دستک دینے کی ضرورت تھی کہ دروازے کے دونوں پٹ کھل جاتے اور وہ مجھے اپنا منتظر پاتا۔ اس کو میرا نام لینے کی ضرورت بھی نہ پڑتی۔ دستک سن کر ہی میں سمجھ جاتا کہ ڈاکیہ آیا ہو گا۔ پھر دونوں برآمدے میں بید کی کرسیوں پر بیٹھ کر سگریٹ کے کش لگاتے اور بہت دیر تک باتیں کرتے۔ وہ طرح طرح کی کہانیاں سناتا-عطر چھڑکے لفافوں کی، خون سے لکھے ایڈریسوں کی، منی آرڈر پاتی بیواؤں کی، برسوں بعد لکھے بیٹے کے خطوں کی اور خدا کے نام لکھی گئی چھٹیوں کی۔ ایک عجیب بے نام سا رشتہ تھا ہم دونوں کے درمیان۔ باقی دنوں میں کالج جانے کے سبب گھر پر نہیں ملتا پھر بھی نہ جانے کیوں اس کی آنکھیں مجھ کو ڈھونڈتی رہتیں۔ میرے خاندان کا کوئی فرد صدر دروازہ کھول کر کہہ دیتا۔ ’’وہ آج یہاں پر نہیں ہے۔ کالج چلا گیا ہے۔ آپ اس کی چٹھیاں مجھے دے دیجیے۔ ‘‘ مانگنے والا اگر گھر میں آیا کوئی مہمان ہوتا تو ہم دونوں کے بیچ کا رشتہ بھی بتلا دیتا۔ در اصل ڈاکیہ میرے رشتے داروں سے مانوس ہو چکا تھا اور ان کو میری ڈاک سونپنے میں سنکوچ نہیں کرتا تھا لیکن غیر شناسا چہرہ سامنے پا کر کچھ ہچکچاہٹ ضرور ہو تی۔ یہ میری ہی ہدایت کا اثر تھا کہ وہ میری ڈاک کسی ایرے غیرے کو نہیں دیتا تھا۔ بہت ایمان دار اور فرض شناس ڈاکیہ تھا۔ یوں بھی دیانت داری اور بھروسے کے اعتبار سے ڈاکیے بے نظیر ہوتے ہیں۔ خط کو دیکھتے ہی مضمون کا اندازہ لگاتے ہیں۔ عطر بیز خط کو مسکراہٹ کے ساتھ تھما دیتے ہیں جبکہ بری خبر والے خط کو انگارے کی مانند اپنے ہاتھ سے جھٹک دیتے ہیں۔

مگر اب۔۔ ۔۔ ۔ ! اب تو میں وہاں نہیں رہتا۔ میں کہاں رہتا ہوں مجھے خود بھی نہیں معلوم۔ میرے اپنے جہاں لے جاتے ہیں، چلا جاتا ہوں۔ نئی جگہیں، نئے شہر، نئے ممالک۔۔ ۔۔ ! طالب علمی کے زمانے میں ان جگہوں کے نام سنا کرتا تھا مگر وہاں جانے کا کبھی سوچا بھی نہ تھا۔

چار منزلہ لکھوری اینٹوں کا میرا ڈھنڈار مکان، جس کے در و دیوار سے سوندھی سوندھی مٹی اور دیودار کی خوشبو آتی تھی، خاموشی سے ڈاکیے کو تکتا مگر کوئی جواب نہیں دے پاتا۔ دیتا بھی کیسے ؟ اسے کیا معلوم تھا کہ میں کہاں رہتا ہوں ؟جس وقت میں اس کو چھوڑ کر گیا تھا سارا مکان اندھیروں میں ملفوف تھا۔ اندھیرا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ گھٹا ٹوپ اندھیرا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ! ایک ہاتھ کو دوسرا ہاتھ نہیں سوجھتا تھا۔ پھراس کو میرے جانے کی خبر کیسے ہوتی ؟ خود اندھیروں میں گھرا ہوا دوسروں کی خبر گیری کیسے کر سکتا ہے ؟اس روز میں ڈرا سہما، پر اسرار خاموشی میں ڈوبا ہوا گھر کا سارا سامان ٹرک میں لاد کر نم آنکھوں سے اپنے مکان سے رخصت ہوا تھا۔ ویسے ہی جیسے گہری نیند میں سورہے آدمی کی روح پرواز کر جائے۔ مجھے معلوم تھا کہ یہ میری اور اس کی آخری ملاقات ہے۔ اس دن کے بعد گھر کا ذرّہ ذرّہ مجھے ڈھونڈ تا رہا۔

کتنا سَمے بیت گیا ہو گا۔ مجھے کچھ بھی یاد نہیں۔ میرے لیے تو وقت اسی لمحے تھم چکا تھا جب میں نے اپنی جائے پیدائش کو خیر باد کہا تھا اور پھر در بدر پھرنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ وقت بھی کتنا ظالم ہوتا ہے، اپنی رفتار سے چلتا رہتا ہے۔ کبھی کسی کی فکر نہیں کرتا۔ کون مرتا ہے اور کون جیتا ہے، کسی سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ البتہ مجھے ان لوگوں پر ترس آتا ہے جو انسانوں کو بے گھر کر کے یہ سوچتے ہیں کہ یہ خدا کی خوشنودی کے لیے کیا جا رہا ہے۔ مجھے اس خدا کو دیکھنے کا بڑا ارمان ہے جو خود ہی تخلیق کیے ہوئے انسان کو تباہ و برباد، بے گھر و بے بس کرنے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ کتنا بڑا ایذا رساں ہو گا وہ خدا جو ہزاروں لاکھوں انسانوں کی تکلیف و درد سے محظوظ ہوتا ہو گا۔

یہ الگ بات ہے کہ میری زندگی کی گھڑی بند ہو چکی ہے یا پھر مجھے اس کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ پھر بھی کہیں کچھ احساس ابھی باقی ہے جو مجھے ہر روز تاکید کرتا ہے کہ ’’تم زندہ ہو‘‘۔ میرے ساتھ جو لوگ رہتے تھے وہ سب بکھر چکے ہیں۔ ہم ایک دو روز میں کہیں نہ کہیں مل ہی جایا کرتے تھے مگر اب تو برس ہا برس تک ہم مل نہیں پاتے۔ کوئی دنیا کے ایک کونے میں جا بسا ہے اور کوئی دوسرے کونے میں۔ بہت برس ہو گئے میں نے کسی کو اپنا ہم راز نہیں بنایا۔ سبھی نے اپنی زندگی کے خالی پن کو دور کرنے کے لیے نئے وضع قطع اپنائے ہیں۔ پھرن کے اندر کانگڑی اٹھائے برف سے ڈھکی سڑکوں کو ناپنے کے بجائے اب وہ ٹی شرٹ اور جینز میں سمندری ساحلوں پر گھومتے پھرتے ہیں۔ امریکا میں مجسمۂ آزادی کے نیچے، فرانس میں آئی فل ٹاور کے اندر یا پھر مصر کے اہرام کے پاس سیلفی لیتے نظر آتے ہیں اور دوسرے روز فیس بُک پر پوسٹ کرتے ہیں۔ دیکھنے والے حسرت اور جلن سے سوچتے ہیں کہ کتنے خوش نصیب لوگ ہیں جو دنیا کے خوبصورت مقامات کی سیر کر رہے ہیں۔ کہاں تو کنویں کے مینڈک بنے پھرتے تھے، شہر سے باہر کی دنیا سے نا بلد تھے اور کہاں تو یہ بے فکر و بے مدام سیاحت، نہ اپنی خبر اور نہ دنیا و مافیہا کی۔ البتہ کسی کو کیا معلوم کہ فیس بُک پر چڑھائی گئی یہ تصویریں جھوٹ بول رہی ہیں۔ یہ سبھی پراگندہ زندگی کو بھولنے کی ناکام کوششیں ہیں۔ تصویریں دیکھنے والے اندر کے گھاؤ کہاں دیکھ پاتے ہیں۔ کوئی کسی کے زخم کرید کر تھوڑی ہی دیکھتا ہے۔ میں ان تصویروں کے اندر پل رہی بے بسی، تڑپ اور تنہائی کو محسوس کر سکتا ہوں۔

مصنوعی چہرے، مصنوعی ہنسی اور مصنوعی ٹھاٹ۔ اجنبی ساحل، اجنبی دھرتی اور اجنبی ممالک۔۔ ۔۔ ۔ !

گھر میں تھے تو فرصت ہی نہیں ملتی تھی۔ کبھی راشن گھاٹ سے راشن لانا، کبھی گھاسلیٹ کی خاطر قطار باندھے گھنٹوں کھڑے رہنا، کبھی دکانوں کی بھیڑ سے جوجھنا۔ نانبائی کی دکان، قصائی کی دکان، کنجڑے کی دکان، ادویات کی دکان، غرض ضروریات زندگی کی لمبی چوڑی فہرست اور اتنی ہی دکانیں۔ ہر جگہ قطاریں ہی قطاریں۔ طلب ہی طلب اور رسد کہیں نظر ہی نہیں آتی تھی۔

اب تو فراوانی ہے سب چیزوں کی مگر چین نہیں ہے۔ کوئی بے چینی دل کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی ہے۔ سب کچھ دستیاب ہے اور وہ بھی گھر بیٹھے۔ ہوم ڈیلوری۔ کبھی امیزون، کبھی فلپ کارٹ اور کبھی سنیپ ڈیل۔ بس آرڈر کرنے کی دیر ہے کہ سامان گھر پر کوریئر دے کر جاتا ہے۔ کوریئر۔۔ ۔۔ ! نہ وردی اور نہ وقت پر دستک۔ وقت بے وقت کبھی بھی چلا آتا ہے اور سامان دے کر چلا جاتا ہے۔ موبائل بل، گیس بل، کتابوں کاپارسل، گفٹ پارسل۔ اور بھی بہت کچھ۔ مگر خط نہیں۔۔ ۔ !

اب خط نہیں آتے۔ وہ خون کو سیاہی بنا کر لکھے گئے خط، وہ ٹوٹے ہوئے دلوں کے خط، وہ آہوں اور اشکوں سے بھرے خط، وہ محبتوں اور نفرتوں بھرے خط، وہ برہ کے گیتوں سے بھرے خط، وہ انتظار کے خط، وہ وصل یار کے خط۔ وہ خط اب نہیں آتے۔ نہ میرے پاس اور نہ ہی میرے بال بچوں کے پاس۔

آئیں گے بھی کیونکر؟ عشق فرمانے کے لیے موبائیل جو ہیں۔ خط کے بدلے ای میل جو ہیں۔ تصویریں بھیجنے کے لیے وہاٹزاَپ جو ہے۔ پھر خط کے لیے کون انتظار کرے۔

اور مجھے اب خط لکھے گا بھی کون؟ یہ سچ ہے کہ ہماری نسل کو اب بھی خط ملنے کی آرزو رہتی ہے۔ خط پڑھنے میں جو مزہ آتا ہے وہ ای میل میں کہاں۔ مگر اب تو سب کو معلوم ہو گیا ہے کہ اب میں وہاں نہیں رہتا۔ اور پھر میں نے انھیں اپنا نیا ایڈریس بھی تو نہیں بتایا ہے ؟

کیسے بتاؤں کہ میں کہاں رہتا ہوں ؟مجھے میرے بال بچوں نے بانٹ لیا ہے۔ کبھی بڑے بیٹے کے پاس تین چار مہینے گزار لیتا ہوں، کبھی منجھلے بیٹے کے پاس اور کبھی چھوٹے کے پاس۔ ایک عجیب سا ان کہا سمجھوتا ہو گیا ہے ان کے درمیان۔ یہی تین چار مہینے کا! کبھی کبھار بیٹی اپنے پاس بلاتی ہے جب اس کے ساس سسر اپنی بیٹی کے ہاں کچھ مہینے کے لیے چلے جاتے ہیں۔ بچپن میں میں نے زندگی اور موت کے درمیان تناسخ کے بارے میں سنا تھا لیکن اب اس دنیاوی آواگون کا تجربہ بھی ہو گیا۔ شاید فطرت کے اصول کے عین مطابق ہے یہ۔ موسم بھی تین مہینوں میں بدل جاتے ہیں۔ یکسانیت ہوتی تو کتنی اکتاہٹ ہو جاتی۔ زندگی میں رنگ بھرنے کے لیے تغیر بہت ضروری ہے۔ یک رنگی تو کھانے کو دوڑتی ہے۔

گذشتہ سال میں نے طے کر لیا کہ میں کچھ دنوں کے لیے اپنے آبائی وطن جاؤں گا اور مرنے سے پہلے اپنے چھوڑے ہوئے مکان کو نظر بھر دیکھ لوں گا۔ سو میں نے بیٹے سے درخواست کی اور ہم سب چلے گئے۔

شہر میں سب لوگ ہمیں ٹورسٹ سمجھنے لگے ہیں۔ کسی کو یقین ہی نہیں آتا کہ ہم وہاں کے بسکین ہیں، سیاح نہیں۔ کوئی ہمیں پہچانتا بھی نہیں۔ پچیس سالوں میں ایک پوری نسل بدل چکی ہے۔ شاید ہمارے وقت کے لوگ اب نہ رہے ہوں یا پھر بڑھاپے کے باعث گھر کی چار دیواری سے باہر نہیں نکلتے ہوں۔

اسی لمحے جب میں اپنے پرانے مکان کے پاس چہل قدمی کر رہا تھا، پیچھے سے کوئی مانوس سی آواز آئی۔ ’’ صاحب۔۔ ۔۔ صاحب۔۔ ۔۔ ارے صاحب آپ یہاں کیسے ؟‘‘

میں اس کو خالی خالی نظروں سے دیکھنے لگا۔ اس کے مرجھائے ہوئے چہرے پر خضاب لگی ڈاڑھی تھی۔ آنکھوں پر موٹی فریم کا چشمہ لگا ہوا تھا۔ بال سفید ہو چکے تھے جن کو ڈھکنے کے لیے بھیڑ کی کھال کی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ کینسر کے آپریشن کے سبب چہرہ بالکل مسخ ہو چکا تھا مگر پھر بھی کچھ کچھ مانوس سا لگ رہا تھا۔ میں اس کو پہچان نہیں پایا اور بلا جھجھک اعتراف کیا۔ ’’ بھائی صاحب، معاف کرنا، میں آپ کو پہچان نہیں پایا۔ ‘‘

’’ وہ ہلکی سی ہنسی ہنس کر میری بات ٹال گیا اور پھر کہنے لگا۔ ’’ صاحب کیسے پہچانو گے تم۔ بہت عرصہ جو ہوا۔ میں آپ کا ڈاکیہ ہوا کرتا تھا۔ محلے میں ایک آپ ہی تھے جس کی ڈاک کم و بیش روزانہ آیا کرتی تھی اور آپ چھٹیوں کے دنوں میں روزانہ میرا انتظار کرتے تھے۔ ‘‘

’’ اوہ تم۔۔ ۔۔ ۔۔ ! میرے ذہن نے اس کے چہرے کی از سر نو تخلیق کرنے کی کوشش کی۔ اس کی صورت کو دوبارہ جوڑ کر اکٹھا کرنے لگا اور کچھ ہی ثانیوں میں وہی پرانی شبیہ میری آنکھوں کے سامنے ابھر آئی۔

’’ بھائی، سچ مانو تو میں تمھیں پہچان ہی نہ پایا۔ تمھاری تو شکل و صورت ہی بدل چکی ہے۔ ‘‘

’’ صاحب، کیسے پہچانتے۔ اب تو میں بوڑھا ہو چکا ہوں اور ریٹائر بھی۔ اس سے بھی بڑھ کر میرے گلے میں کینسر ہو چکا تھا جس کے سبب آپریشن کرنا پڑا۔ تب سے میرا حلیہ ہی بگڑ گیا ہے۔ اور پھر وقفہ بھی تو بہت ہو چکا ہے۔ خیر یہ بتائیے کہ آپ کہاں رہتے ہیں آج کل؟

’’بھائی تم سے کیا چھپانا۔ اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں ہے۔ میں کہیں بھی نہیں رہتا۔ خانہ بدوش بن چکا ہوں۔ اپنی زمین جب ٹھکراتی ہے اور مسکن جب کھو جاتا ہے تو آدمی خانہ بدوش ہو جاتا ہے۔ وہ پھر کہیں کا نہیں کہلاتا۔ ‘‘

’’ اتنے برسوں کے بعد یہاں آنے کی کیسے سوجھی صاحب ؟‘‘

’’ بس یاد ستانے لگی۔ اپنی جڑوں کی یاد۔۔ ۔ ! سوچا چلو اپنی جڑوں کی کھوج میں نکل جاؤں۔ مگر یہاں مایوسی ہاتھ لگی۔ جڑیں تو سب کی سب اکھڑ چکی ہیں۔ ‘‘

’’ صاحب، آپ کے جانے کے بعد میں کئی روز آپ کی ڈاک لے کر آپ کے گھر پر جاتا رہا۔ وہی ریڈرس ڈائجسٹ، بیسویں صدی، تحریک، کتاب۔۔ ۔ اور بھی نہ جانے کون کون سے میگزین ہوتے تھے۔۔ ۔۔ ۔۔ مگر دیتا کس کو ؟ مکان میں تو تالا لگا ہوا تھا۔ کوئی یہ بھی نہیں بتا پا رہا تھا کہ آپ کا نیا ایڈریس کیا ہے ورنہ وہیں ری ڈائریکٹ کر کے بھجوا دیتا کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کو وہ میگزین جان سے بھی پیارے تھے۔ آپ انھیں پڑھتے نہیں بلکہ چاٹ جاتے تھے۔ ‘‘

’’ بھئی، کن میگزینوں کی بات کر رہے ہو۔ تم نے جتنے بھی نام لیے وہ سب کے سب نابود ہو چکے ہیں۔ وہ بھی وقت کے تھپیڑوں کا مقابلہ نہ کر سکے اور ایک ایک کر کے بند ہو گئے۔ اب تو وہ نام سننے کو بھی نہیں ملتے۔ اب ان کی جگہ نئے رسالے نکلتے ہیں لیکن وہ بات کہاں۔ رہی بات میرے ایڈریس کی، میں تمھیں اپنا ایڈریس کیسے بتا دیتا۔ کوئی موقع ہی نہ ملا۔ سرکاری کرفیو۔۔ ۔ سول کرفیو۔۔ ۔۔ بند۔۔ ۔۔ ۔ ہڑتال۔۔ ۔۔ اور پھر مجھے تو رات کے اندھیرے میں غائب ہونا پڑا تھا۔ ‘‘

’’ پوسٹ ماسٹر کے نام ہی کوئی خط لکھا ہوتا تو ہم آپ کے نئے ایڈریس پر بھجوا دیتے۔ بہت دنوں تک آپ کے کئی دوستوں کے خط آتے رہے۔ اور وہ۔۔ ۔۔ عطر میں ڈوبے ہوئے خط بھی دو تین آئے تھے۔۔ ۔۔ ۔ !میں نے سبھی ڈاک خانے میں جمع کروا دیے اور وہاں سے وہ ریٹرن لیٹر آفس چلے گئے۔ ‘‘

’’وہ میرا ماضی تھا بھائی ! بھول چکا ہوں میں اپنے ماضی کو۔ وقت کسی کا ساتھ نہیں دیتا۔ کون کہاں لڑھک جائے کسی کو پتا نہیں۔ ‘‘

’’ صاحب، آپ کا وہ ایک دوست تھا نا جو آپ کے ساتھ اکثر دکھائی دیتا تھا۔ وہ۔۔ ۔ کیا نام تھا اس کا۔۔ ۔۔ ۔۔ ؟میں تو بھول ہی گیا۔ خیر کوئی بات نہیں۔ وہی پروفیسر صاحب۔ معلوم ہے وہ بہت عرصہ پہلے مرگیا۔ صاحب اس کا جواں بیٹا چوک میں مارا گیا۔ ‘‘

’’ پروفیسر کا بیٹا مر گیا! مجھے تو معلوم ہی نہیں۔ وہ کیسے ؟‘‘

’’اس روزکسی لیڈر نے ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔ لوگوں نے موبائیل سے ایک دوسرے سے رابطہ قائم کر لیا اور نوہٹہ میں جمع ہونے کی تلقین کی۔ شہر کی تمام دکانیں بند رہیں۔ پھر شہر کے پائیں علاقے سے جلوس نکلا جو رفتہ رفتہ لال چوک تک پہنچ گیا۔ جلوس میں اکثر و بیشتر نوجوان تھے۔ ہاتھوں میں طرح طرح کے جھنڈے لیے ہوئے۔ فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے۔ سامنے سے پولیس آئی اور جلوس کو آگے بڑھنے سے روک لیا۔ دونوں فریق ایک دوسرے پر پہلے غرائے، پھر محاذ آرائی پر اتر آئے۔ ہجوم میں جس کو جہاں کوئی پتھر یا اینٹ مل گئی پولیس پر پھینک دی۔ پولیس اپنے بچاؤ کے لیے حفاظتی ساز و سامان سے لیس تھی۔ تاہم برستے پتھر دیکھ کر ان کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا، انھوں نے جواب میں لاٹھی چارج کیا اور بھیڑ پر آنسو گیس کے گولے داغ دیے۔ ہر طرف آنسو رلانے والی گیس پھیل گئی اور مجمع تتر بتر ہوتا گیا لیکن ساتھ ہی مشتعل بھی ہو گیا۔ بھیڑ میں کسی نے موقعے کا فائدہ اٹھا کر پولیس کی جانب ہینڈ گرنیڈ پھینک دیا۔ پھر کیا تھا۔ جوابی کار روائی میں پولیس نے بندوقیں سنبھالیں اور دھڑا دھڑ گولیاں برسائیں۔ ‘ ‘

’’گولیاں ! یہ تو زیادتی ہے۔ انھیں پہلے ہوا میں فائر کرنا چاہیے تھا۔ ‘‘

’’ صاحب جب حالات بے قابو ہو جاتے ہیں اور معاملہ برداشت سے باہر ہو جاتا ہے تو قاعدے قانون دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ پولیس نے براہ راست احتجاج کر رہے نوجوانوں کو نشانہ بنا لیا۔ چار پانچ تو وہیں پر ڈھیر ہو گئے جبکہ پندرہ بیس زخمی ہو کر ہسپتال پہنچائے گئے۔ انھی میں پروفیسر صاحب کا اکلوتا بیٹا بھی تھا۔ اس نے تو سڑک پر ہی دم توڑ دیا۔ پروفیسر صاحب لاش کو دیکھ کر پاگل ہو گیا۔ اس دن کے بعد کھانا پینا سب کچھ ترک کر دیا۔ رات دن بس عبادت میں جٹا رہا۔ مہینے بھر کے بعد بیوی اور تین لڑکیوں کو چھوڑ کر رحمت حق ہو گیا۔ اس روز مجھے آپ کی بہت یاد آئی۔ پروفیسر صاحب آپ کو دیکھنے کے لیے ترستا تھا۔ میں نے کئی بار اس کو آپ کے مکان کے سامنے کھڑا پایا۔ وہ مکان کو یونہی ٹکر ٹکر دیکھتا رہتا تھا۔ چونکہ اس کی گویائی چلی گئی تھی اس لیے مجھے دیکھ کر صرف گھورتا رہتا، جیسے کہہ رہا ہو، ’’بھائی کس لیے اس گھر کا طواف کر رہے ہو۔ اب وہ یہاں نہیں رہتا۔ وہ اب واپس کبھی نہیں آئے گا۔ اب تو ہماری ملاقات اوپر ہی ہو گی۔ ‘‘

پھر ڈاکیہ ہاتھ ملا کر چلا گیا اور نہ جانے کن گلیوں میں کھو گیا۔ میں اکیلا اس مانوس اجنبی سڑک پر اس کو دیر تک دیکھتا رہا۔ تبھی میرے بیٹے نے پکارا۔ ’’ پاپا، دیر ہو رہی ہے۔ ہوٹل جانا ہے، سامان پیک کرنا ہے اور پھر ائیر پورٹ بھی پہنچنا ہے۔ تین بجے کی فلائیٹ سے واپس جانا ہے۔ ‘‘

میں تو بھول ہی گیا تھا کہ مجھے واپس بھی جانا ہے کیونکہ یہ گلی کوچے، یہ بازار، یہ دُکانیں، فضا میں تحلیل یہ بوٗ اور یہ شور شرابہ سب کچھ اپنا سا لگ رہا تھا۔ میں پل بھر ہی میں ان میں کھو سا گیا تھا اور وقت کا احساس ہی نہیں رہا۔ مجھے اس بات کا خیال ہی نہ رہا کہ مجھے واپس سفر کرنا ہے اور اجنبی دیس میں باقی ماندہ سانسیں گننی ہیں۔ بس اسی طرح جیسے اس رنگ و بو کی دنیا میں انسان کھو کر واپسی کے سفر کی سدھ بُدھ کھو بیٹھتا ہے۔ اسے بھی خیال نہیں رہتا کہ اس کو کبھی واپس جانا ہے۔

کچھ دیر میں ہم دونوں واپس ہوٹل اور پھر ائیر پورٹ پہنچ گئے۔ وہاں ہوائی جہاز ایک گھنٹہ لیٹ تھا۔

اور میں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ نہیں ہم سب اس وقت کا انتظار کرتے رہے جب واپس جانے کے لیے اڑان بھری جائے گی۔ واپسی کا سفر اتنا تکلیف دہ نہیں تھا جتنا کہ اس سفر کا انتظار!

٭٭٭

 

 

 

 

ایک معصوم کی المناک موت

 

بہت پرانا واقعہ ہے جو میرے ذہن پر اس دن سے سوار ہے جس دن یہ وقوع پذیر ہوا تھا۔ کئی بار اس سانحہ نے میرے ذہن پر دستک دی۔ ’’تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ مجھے قرطاس پر ضرور اتارو گے پھر بھی اب تک ٹال مٹول کر تے رہے۔ ‘‘

البتہ حقیقت یہ ہے کہ میں نے اس حادثے کو کئی بار قلم بند کرنے کی شعوری کوشش کی مگر جب بھی ہاتھ میں قلم اٹھاتا ہوں سارا وجود لرز جاتا ہے۔ کچھ مہیب سے سائے میرے دل و دماغ کا احاطہ کرتے ہیں۔ آنکھیں یکایک بند ہو جاتی ہیں اور ایک ننھی منی پیاری سی بچی بانہیں پھیلا کر میرے سامنے ظاہر ہو جاتی ہے۔ وہ مدد کے لیے چیختی ہے، چلّاتی ہے اور پھر بے بس ہو کر خاموش ہو جاتی ہے۔ وہ زبان سے کچھ بولنے کی مسلسل کوشش کرتی ہے مگر خوف و وحشت کے باعث بول نہیں پاتی۔ میری آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب امڈ آتا ہے اور انگلیاں کانپنے لگتی ہیں۔ قلم آگے بڑھنے سے انکار کرتا ہے اور خود بخود رک جاتا ہے۔ میں قلم کو اپنی جگہ پر رکھنے کے لیے مجبور ہو جاتا ہوں اور پھر خیالوں میں گم ہو جاتا ہوں۔

میرے ساتھ کئی بار ایسا ہوا ہے۔ کئی بار ہی کیوں، بیسیوں بار ہوا ہے۔ دن میں، رات میں، جاگتے ہوئے، سوتے ہوئے۔۔ ۔۔ کوئی میرے ذہن پر دستک دے کر مجھے پکارتا ہے، ’’ اٹھو کہانی لکھو۔۔ ۔ اٹھو۔۔ ۔ بہت دیر ہو گئی۔۔ ۔ اب تو لکھ ڈالو۔ ‘‘

ٍ     میں اٹھتا ہوں، ہاتھ میں قلم اور کاغذ اٹھاتا ہوں۔ لیکن یکایک وہی کنپن۔۔ ۔ وہی لرزش۔۔ ۔ وہی تھرتھراہٹ محسوس کرتا ہوں اور پھر قلم میز پر رکھ دیتا ہوں۔ اب تک میں نے ایک سو سے زائد کہانیاں رقم کی ہیں لیکن ایسی کیفیت سے کبھی دوچار نہیں ہوا۔

اس وقت رات کے دو بجے ہیں۔ میری آنکھیں کھل چکی ہیں۔ مجھے وہ واردات پھر یاد آئی ہے جو مجھے بار بار تڑپاتی ہے۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ اس کو قلمبند کر کے ہی دم لوں گا، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ نیند آہستہ آہستہ آنکھوں سے غائب ہو تی جا رہی ہے۔ میں بستر ہی میں اٹھ بیٹھا ہوں اور کہانی لکھنے لگا ہوں۔

اس کو شاید کہانی کہنا غلط ہو گا۔ یہ ایک سچّا واقعہ ہے جو برسوں پہلے پیش آ یا تھا۔ میں ان دنوں بریلی میں تعینات تھا۔ میری بیوی ایک مقامی سکول میں پڑھاتی تھی۔ صبح سویرے اخبار پڑھنے لگا تو ایک نہایت ہی دل خراش خبر پر آنکھ ٹھہر گئی۔ میرا دل دھک سے رہ گیا۔ بیوی کو آواز دی اوراس خبر کے بارے میں پوچھ لیا مگر اسے کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ البتہ اس روز وہ سکول سے جلدی واپس آئی اور جونہی میں آفس سے لوٹا تو ایسے مخاطب ہوئی جیسے میرا ہی انتظار کر رہی ہو۔ ’’ آپ نے صبح جس خبر کے بارے میں پوچھا تھا، سکول میں دن بھر صرف اسی کا چرچا ہوتا رہا۔ پرنسپل نے آدھی چھٹی کے بعد ہی سکول بند کرنے کا حکم دیا۔ ‘‘

پھر اس نے سارا واقعہ بیان کیا۔ کچھ معلومات تو مجھے پہلے ہی اخبار سے معلوم ہو چکی تھیں۔ اس لیے دونوں بیانات کا موازنہ اور تقابل کر کے سارے ماجرے کا تصوراتی خاکہ کھینچ لیا۔

میری آنکھوں کے سامنے بلیو بیلزسیکنڈری سکول کی چوتھی جماعت کا بڑا سا کمرہ نمودار ہوا۔ ڈیسکوں کے پیچھے چھوٹی چھوٹی کرسیوں پر سفید بلاؤز اور نیلی سکرٹ میں ملبوس پریوں ایسی نرم و نازک لڑکیاں براجمان تھیں۔ چوٹیاں بندھی ہوئیں، کسی کی دو اور کسی کی ایک، ہنستی کھیلتی معصوم بچّیاں، بالکل گلاب کی کلیوں جیسی، خوبصورت اور بے ریا۔ سبھی لڑکیاں چڑیوں کی مانند چہچہا رہی تھیں۔ شور و غل اتنا ہو رہا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ پھر ایک دم ہر طرف خاموشی سی چھا گئی۔ لڑکیوں کے لب سل گئے اور وہ اپنی وردی کو ٹھیک ٹھاک کر کے کرسیوں پر تن کر بیٹھ گئیں۔

سامنے دروازے سے ایک فربہ اندام، رعب دار چہرے مہرے والی، ساڑی میں ملبوس، بال جوڑے میں گندھے ہوئے، آنکھوں پر ایک بڑی سی عینک چڑھائے، ہونٹوں پر ہلکی گلابی لپ اسٹک لگائے، ایک ہاتھ میں پرس اور دوسرے ہاتھ میں چند کاپیاں لیے، تیس پینتیس سال کی عورت اندر آئی۔ یکایک جماعت کی ساری لڑکیاں کھڑی ہو گئیں اور پھر آرڈر ملتے ہی واپس اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئیں۔ استانی کا نام مالتی تومر تھا اور وہ ایک نو دولتیے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ بی اے بی ایڈ پاس کر کے والدین نے مقابلے کانو دولتیا گھر ڈھونڈ کر اس کی شادی کر لی تھی۔ سسرال میں ساس سسر اور نند دیور تھے۔ سبھی نے اس کو آنکھوں پر بٹھا د یا تھا۔ گھر میں ایک کے بدلے دو نوکر تھے اور ڈرائیور الگ۔ نوکر گھر کا کام کر لیتا اور نوکرانی دو بچوں کو سنبھال لیتی۔ پھر ساس بھی تو تھی جس نے گھر کا سارا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے رکھا تھا۔ ا س پر طرّہ یہ کہ مالتی کو بچوں کے بڑھنے کا احساس ہوا نہ تجربہ۔ چند مہینے دودھ پلایا پھر اشرافی ماؤں کی طرح وہی لیکٹوجِن اور سیری لیک ڈِبّے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔

کچھ برس گزرنے کے بعد مالتی کے بدن میں ٹیسیں اٹھنے لگیں۔ وہ بوریت سی محسوس کرنے لگی۔ شام کو کٹی پارٹیوں میں جایا تو کر تی تھی مگر وہاں سبھی سہیلیوں سے یہی سننے کو ملتا تھا کہ عورت کو گھر میں قید نہیں ہونا چاہیے، دن میں کوئی کام کرنا چاہیے۔ موجودہ زمانے میں عورت کسی کی غلام نہیں ہے، اسے اپنے ڈھنگ سے جینے کا پورا پورا حق ہے۔ پانی کی بوند بوند گرنے سے تو پتھر پر بھی نشان پڑ جاتا ہے۔ آخر کار مالتی نے فیصلہ کر لیا کہ تفریح کے لیے ہی سہی، وہ کسی سکول میں ضرور نوکری کر لے گی۔ اثر ورسوخ تو تھا ہی، اِدھر دماغ میں خیال آیا، اُدھر بلیو بیل سکول کے انتظامیہ نے جوائن کرنے کی دعوت دی۔ سکول میں بھی وہ اپنی ہی دنیا میں مست رہتی تھی۔ بچے تو بس اس کے لیے کھلونے تھے، ان کے ساتھ کچھ گھنٹے کھیل لیتی اور پھر واپس اپنے گھر۔

اس دن کا وہ آخری پیریڈ تھا۔ دوسرے روزسے چار دن کے لیے سکول بند ہونے والا تھا۔ سنیچر،ا توار اور دو چھٹیاں !چھٹیوں کا کیا، ہندستان میں ہر روز کوئی نہ کوئی تیوہار منایا جاتا ہے۔ مالتی نے طالبات کے ماہانہ ٹیسٹ کی کاپیاں لوٹا دیں اور جن طالبات کے بہت کم نمبر آئے تھے ان کی سر زنش کی۔ نیہا نے تو کمال ہی کر دیا تھا۔ نوٹ بُک پر کچھ لکھا ہی نہ تھا۔ مالتی اس سے بہت ناراض ہو گئی۔ پہلے کھڑے ہونے کو کہا۔ نیہا کھڑی ہو گئی۔ پھر اسے سوال پوچھا۔ ’’نالج کے سپیلنگ بتاؤ؟ ‘‘

نیہا چپ چاپ کھڑی رہی اور کچھ بھی نہ بولی۔ اس نے آج بھی سبق یاد نہیں کیا تھا۔ کرتی بھی کیسے ؟ ٹیسٹ سے ایک روز پہلے دادی گھر پر باتھ روم میں نہاتے نہاتے گر پڑی تھی اور اس کی داہنی ٹانگ ٹوٹ گئی تھا۔ وہ کراہ رہی تھی۔ والدین اسے فوراً اسپتال لے گئے جب کہ پریشان نیہا اکیلی ہمسائے کے گھر میں پڑی رہی۔ کچھ پڑھ ہی نہیں پائی۔ پھر سکول کا کام کرنے میں ماں اس کی رہنمائی کرتی تھی مگر وہ تو رات بھر اسپتال میں رہی۔ دادی اب بھی پلستر باندھے ہسپتال میں پڑی ہوئی ہے۔

ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی نیہا۔ بڑے نازوں میں پلی ہوئی۔ والدین نے کتنے خواب سنجوئے تھے اپنی بیٹی کے لیے۔ حالانکہ متوسط طبقے کی اڑانیں محدود ہوتی ہیں۔ بیٹی اچھی تعلیم پائے، اچھی نوکری کرے اور پھر اچھے گھر میں بیاہ کر کے چلی جائے۔ اس سے آگے تو وہ کبھی سوچتے بھی نہیں۔ انھی خوابوں کی تعبیر کے لیے انھوں نے بڑے جتن کر کے اس کو شہر کے اس نامور سکول میں داخل کروایا تھا۔ داخلے کے وقت وہ محض پانچ سال کی بچی تھی۔ انٹرویو ہوا۔ اسے اپنا اور والدین کا نام پوچھا گیا اور اس نے توتلی زبان میں پھٹ سے جواب دیا تھا۔ والدین سے بھی کئی سوالات پوچھے گئے جیسے ان کا ہی داخلہ ہونے والا ہو۔ بے چاروں نے جوں توں کر کے سوالوں کے جواب دیے۔ پھر فیس اور تعمیری فنڈ کی طلب ہوئی۔ کُل ملا کرتیس ہزار آفس میں جمع کیے۔ کچھ دنوں کے بعد نیہا کا ایڈمشن ہوا اور والدین کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ نیہا کو سکول بھیجنے میں جو خرچہ برداشت کرنا پڑ رہ تھا اس کے لیے والدین کو اپنا پیٹ کاٹنا پڑا۔ سب ضروری اور غیر ضروری اخراجات میں کٹوتی ہونے لگی۔ یہ سلسلہ چار سال تک یونہی چلتا رہا اور نیہا چوتھی جماعت تک پہنچ گئی۔ روپیہ پانی کی طرح بہہ تو رہا تھا لیکن تسلی اس بات کی تھی کہ سال کی اخیر میں سند مل جاتی تھی جس میں لکھا ہوتا تھا کہ نیہا امتحان میں امتیاز کے ساتھ کامیاب ہوئی ہے۔

’’ اچھا، ٹیچر کے سپیلنگ بتاؤ۔ ‘‘ معلمہ نے اپنی آواز کو اور زیادہ بھاری اور کرخت بنا کر پوچھ لیا۔

نیہا پھر بھی خاموش اپنی ٹیچر کو دیکھتی رہی اور اس کے منہ سے کوئی لفظ بھی نکل نہیں پا رہا تھا۔

مالتی تومر کا پارہ سا تویں آسمان پر چڑھ گیا۔ ویسے ہی جھلائی ہوئی تھی۔ صبح گھر سے نکلتے وقت اس نے اپنے پتی کو سکول سے گھر لے جانے کے لیے کہا تھا مگر اس نے منع کیا۔ شام کو ریل گاڑی سے ڈیرہ دون جانا تھا۔ ٹکٹیں بُک ہو چکی تھیں۔ وہاں سے مسوری جانے کا پروگرام بن چکا تھا۔ ابھی اسے گھر جانا تھا، پیکنگ کرنی تھی، بچوں کو تیار کرنا تھا اور پھر شام کو چھ بجے ریلوے سٹیشن پہنچنا تھا۔ ویسے بھی آخری پیریڈ تھا اور اسے گھر جانے کی ہمیشہ جلدی پڑی رہتی تھی۔ نیہا کی مسلسل چپُّی نے اس کے ذہن کو مختل کر دیا۔ مالتی نے اس معصوم بچی کو پھٹکارتے ہوئے کہا۔ ’’لاسٹ رو میں چلی جاؤ اور دیوار کی طرف منہ کر کے وہاں بینچ پر کھڑی ہو جاؤ۔ جب تک میں نہ کہوں گی، نیچے نہیں اترنا۔ ‘‘

نیہا کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر امڈ آیا۔ مارے خوف کے وہ کچھ بھی نہ کہہ پائی۔ چپ چاپ اپنی قطار سے باہر نکل کر آخری بینچ پر چڑھ کر کھڑی ہو گئی اور دیوار کی طرف اپنا منہ کر لیا۔

مالتی تومر نیا سبق پڑھانے میں منہمک ہو گئی۔ قریب تیس منٹ کے بعد سکول کی آخری گھنٹی بج گئی اور ساری لڑکیاں کمرے سے یوں دوڑتی ہوئی باہر نکل گئیں جیسے کسی جیل خانے سے قیدی چھوٹ گئے ہوں۔ مالتی کو ان سے بھی زیادہ تعجیل تھی۔ اس نے جلدی سے اپنا پرس اٹھا یا اور طالبات سے پہلے کمرے سے باہر چلی گئی۔ کسی نے مڑ کر بھی نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی کو نیہا کی طرف دھیان گیا۔

دیکھتے ہی دیکھتے سارا سکول خالی ہو گیا۔ نیہا کلاس کے آخری بنچ پر دیوار کی طرف منہ کر کے خاموش ایسے کھڑی رہی جیسے ڈوروتھی براؤن ہیمانز کی نظم میں کسابلانکاجلتے ہوئے عرشۂ جہاز پر کھڑا رہا تھا۔ اس کو اتنا تو احساس ہو رہا تھا کہ سارا کلاس خالی ہوتا جا رہا ہے مگر وہ مڑنے یا بینچ سے اترنے سے ڈر رہی تھی کہ کہیں ٹیچر اور ناراض نہ ہو جائے اور سزا بڑھا دے۔

کچھ دیر کے بعد سکول کا چوکیدار کمروں کے دروازے بند کرنے کے لیے گشت لگانے لگا۔ چنانچہ کمروں کی کھڑکیاں رات بھر کھلی رہتی تھیں اس لیے اس کو کمرے کے اندر جانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ بس کمرے کے دروازے پر پہنچ جاتا، دونوں پٹ بند کر دیتا اور پھر باہر سے کنڈی لگا دیتا۔ صرف پرنسپل کے کمرے اور سائنس لیبارٹری کی پوری طرح سے چیکنگ کر لیتا۔ چوکیدار اس کمرے کے پاس پہنچ گیا جہاں نیہا سزا بھگت رہی تھی۔ چنانچہ اندر سے کوئی آواز نہیں آ رہی تھی اس لیے اس نے دروازہ بھیڑ کر باہر سے کنڈی لگا دی۔

آہستہ آہستہ کلاس روم میں اندھیرا بڑھتا گیا اور نیہا گھبرانے لگی۔ تھوڑی بہت چاندنی کی روشنی چھن چھن کر کمرے میں اب بھی آ رہی تھی۔ اسے ڈر لگنے لگا۔ بہت کوشش کے باوجود وہ زیادہ دیر بنچ پر کھڑی نہ رہ سکی۔ وہ رونے لگی۔ زار و قطار رونے لگی۔ مگر وہاں سننے والا کون تھا۔ سارا سکول خالی ہو چکا تھا۔ چوکیدار ہاتھ میں ڈنڈا لیے نیچے بہت دور میں گیٹ پر سٹول پر بیٹھا ہوا تھا۔ اگلے چار دن سکول بند تھا۔

معصوم نیہا نے ہاتھ میں چاک اٹھا یا اور کرسی پر چڑھ کر بلیک بورڈ پر ہندی میں لکھنے لگی۔

’’ممی۔۔ ۔ ممی۔۔ ۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے !‘‘

’’پاپا۔۔ ۔ پاپا۔۔ ۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے !‘‘

’’سوری میڈم۔۔ ۔ سوری میڈم۔۔ ۔ اب میں پاٹھ یاد کر کے آیا کروں گی۔۔ ۔ میڈم مجھے معاف کر دو۔۔ ۔ سوری میڈم۔۔ ۔ سوری میڈم۔۔ ۔ میں کل سے کبھی بنا پاٹھ یاد کیے نہیں آؤں گی۔۔ ۔ سوری میڈم۔۔ ۔ سوری میڈم۔۔ ۔ سوری میڈم۔۔ ۔۔ مجھے گھر جانے دو۔۔ ۔ میڈم مجھے گھر جانا ہے۔۔ ۔ میڈم مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔ ۔۔ سوری میڈم۔۔ ۔ سوری میڈم۔۔ ۔۔ ۔ ! ‘‘

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس چھوٹی سی بچی کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے اور اس کے بدن میں جھر جھری دوڑنے لگی۔ اس کی آنکھوں سے بدستور آنسوؤں کی برسات ہو رہی تھی۔

’’ممی مجھے بچاؤ۔۔ ۔۔ پاپا مجھے یہاں سے لے جاؤ۔ ‘‘

’’ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے پاپا۔ آپ کہاں ہو؟‘‘

’’ پاپا، جلدی آ جاؤ۔۔ ۔۔ !‘‘

وہ بلیک بورڈ پر تب تک لکھتی رہی جب تک پورا بلیک بورڈ اس کی لکھی ہوئی عبارت سے بھر نہ گیا۔ اب بلیک بورڈ پر کہیں کچھ بھی لکھنے کے لیے جگہ نہ تھی۔

کچھ دیر بعد اس کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے۔ نیہا تھک ہار کر وہیں فرش پر گر کر بے ہوش ہو گئی۔

اُدھر گھر میں ماں باپ دونوں پریشان ہوئے کہ نیہا سکول سے واپس کیوں نہیں آئی؟ جس رکشا پر وہ گھر لوٹتی تھی اس سے رابطہ کیا مگر رکشا والے نے بتایا کہ بٹیا تو میرے ساتھ واپس گھر نہیں آئی۔ میں نے بہت دیر تک اس کا انتظار کیا۔ پھر میں نے سوچاشاید آپ لوگ خود ہی اس کو گھر لے گئے ہوں۔ سکول میں دریافت کرنے گئے تو چوکیدار نے بتایا کہ سارے بچے کب کے چلے گئے۔ پرنسپل سے رابطہ کیا تو اس نے بھی کورا ساجواب دیا کہ سارے بچے چھٹی ہونے کے ساتھ ہی چلے جاتے ہیں۔ کوئی سکول میں کیسے رہ سکتا ہے اور پھر رہے گا بھی کیوں ؟ کسی کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ وہ معصوم بچی سکول میں سزا کاٹ رہی ہے۔

جس معلمہ نے سزا سنائی تھی وہ خود مسوری کے لیے روانہ ہو چکی تھی۔ والدین کو سزا کے بارے میں کسی نے بتایا بھی نہیں۔ ان کی پریشانی کی کوئی حد نہ رہی۔ مایوس ہو کر والدین نے پولیس میں رپورٹ درج کرائی۔ انھوں نے آشواسن دیا کہ وہ جلدی ہی بچی کا پتا لگائیں گے۔ تھانے دار نے ماں باپ سے طرح طرح کے سوالات پوچھے تاکہ کوئی سراغ مل جائے مگر وہاں نہ ملنا تھا اور نہ ملا۔ پھر کہنے لگے آپ گھبرائے نہیں ہم ایک دو روز میں اسے ڈھونڈ نکالیں گے۔ بہت ممکن ہے کسی نے کچھ لالچ دے کر اغوا کر لیا ہو۔ علاوہ ازیں انھوں نے والدین کو خبر دار رہنے کو کہا کہ اگر کسی کا فون آتا ہے یا فروتی کی مانگ ہوتی ہے تو پولیس کو ضرور خبر کر دیں۔

والدین گھر جا کر ٹیلی فون کے پاس یوں بیٹھ گئے جیسے ابھی گھنٹی بجنے والی ہو۔ کبھی کبھار ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی تو دونوں چیتے کی طرح اس پر لپکتے۔ پھر نراش ہو کر واپس اپنی جگہ بیٹھ جاتے۔

اُدھر نیہا بے ہوش ہو کر فرش پر کیا گر پڑی کہ پھر کبھی نہیں اٹھی۔ چار روز پڑے پڑے اس کا بدن اینٹھ گیا تھا۔ سارے جسم کا رنگ کچھ عجیب خاکستری ساہو گیا تھا۔ اس کی بند مٹھی میں وہی چاک کا ٹکڑا تھا جسے اس نے سیاہ تختے پر لکھ لکھ کر اپنی جان گنوائی تھی۔

ماں باپ نے ایک ایک لمحہ، ایک ایک گھڑی اور ایک ایک دن کیسے گزارے اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ البتہ انھیں موہوم سی امید تھی کہ کوئی نہ کوئی نیہا کی خبر ضرور لے کر آئے گا۔ وہ اپنی ساری جائیداد اغوا کرنے والے کو سونپنے کے لیے تیار تھے اگر وہ ان کی نیہا لوٹا دیتا۔ مگر کہیں سے کوئی فون نہیں آیا۔ نیہا کے پتا جی ہر گھنٹے پولیس سٹیشن فون کر کے پوچھ لیتے اور دن میں ایک دو بار خود بھی پولیس سٹیشن چلے جاتے۔ وہ پولیس کے اعلیٰ افسروں سے بھی ملے لیکن ناکام رہے۔

بدھوار کی صبح حسب معمول سکول کھولا گیا اور صفائی کرمچاری کمروں کی صفائی میں جٹ گئے۔ ہاتھ میں جھاڑو لیے جونہی ایک صفائی کرمچاری نے چوتھی جماعت کے کمرے میں قدم رکھا، اندر سے سڑاند کے بھبھکے نے اس کا استقبال کیا۔ دفعتاً اس کی نظریں سامنے بلیک بورڈ کے پاس فرش پر پڑی ہوئی ایک چھوٹی سی لڑکی کی لاش پر پڑی۔ وہ گھبرا گیا اور دوڑتا بھاگتا چوکیدار اور دوسرے صفائی کرمچاریوں کو بلا کر لے آیا۔ پھر پرنسپل، پولیس اور نیہا کے والدین کو خبر کر دی گئی۔ کمرے کے اندر جاتے ہی سب کی نظریں فرش پر پڑی ہوئی معصوم نیہا پر پڑیں جو ابدی نیند سو رہی تھی۔ پھر ان کی نظر یں بلیک بورڈ پر پڑیں جس پر اس معصومہ نے بار بار ایک ہی بات دہرائی تھی۔

’’ممی۔۔ ۔ ممی۔۔ ۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے !۔۔ ۔ پاپا۔۔ ۔ پاپا۔۔ ۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے !۔۔ ۔۔ سوری میڈم۔۔ ۔ سوری میڈم۔۔ ۔ اب میں پاٹھ یاد کر کے آیا کروں گی۔۔ ۔ میڈم مجھے معاف کر دو۔۔ ۔ سوری میڈم۔۔ ۔ سوری میڈم۔۔ ۔ میں کل سے کبھی بنا پاٹھ یاد کیے نہیں آؤں گی۔۔ ۔ سوری میڈم۔۔ ۔ سوری میڈم۔۔ ۔ سوری میڈم۔۔ ۔۔ مجھے گھر جانے دو۔۔ ۔ میڈم مجھے گھر جانا ہے۔۔ ۔ میڈم مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔ ۔۔ سوری میڈم۔۔ ۔ سوری میڈم۔۔ ۔۔ ۔ !۔۔ ۔ ممی مجھے بچاؤ۔۔ ۔۔ پاپا مجھے یہاں سے لے جاؤ۔۔ ۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے پاپا۔۔ ۔ آپ کہاں ہو؟۔۔ ۔ پاپا، جلدی آ جاؤ۔۔ ۔۔ !‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

آگ کا دریا

 

میری پہلی پوسٹنگ تھی۔ تجربے کی کمی ہونے کے سبب فائیلوں پر فیصلے دینے میں ہچکچاہٹ محسوس  ہو رہی تھی۔ مگر مرتا کیا نہ کرتا۔ فائلیں تو نپٹانی تھیں۔ آخر تنخواہ کس بات کی لے رہا تھا۔ ماتحتوں پر بھروسہ کر کے کام چلانا پڑتا تھا۔ میرا مسئلہ یہ تھا کہ میں دیانت داری کا دامن نہیں چھوڑنا چاہتا تھا اور میری یہ نیک نامی آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔

دفتر میں میرے تحت ایک ایماندار ڈپٹی سپرانٹنڈنٹ، ڈاک خانہ جات کام کرتا تھا۔ نام تھا اومکار ناتھ۔ میں من ہی من میں خوش تھا کہ چلو ماتحت کا اخلاق اور کردار بے داغ ہے اس لیے اس سے صلاح مشورہ لیا جا سکتا ہے۔ اس بارے میں دفتر کے کمپلینٹ انسپکٹر، جس کو میں ذاتی طور پر جانتا تھا، سے پوچھ لیا۔ ’’ میں نے سنا ہے کہ آفس کا ڈی ایس پی جب بھی کہیں گاؤں کے ڈاکخانوں کا معائنہ کرنے جاتا ہے، اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان لے کر جاتا ہے۔ کسی برانچ پوسٹ ماسٹر کے گھر میں چائے تک نہیں پیتا، سگریٹ، پان بیڑی کا تو سوال ہی نہیں۔ اتنا ایمان دار ہے تو کسی ہوٹل میں کیوں نہیں ٹھہرتا اور وہاں پر کھانا کیوں نہیں کھا تا ؟حکومت تو ہمیں باضابطہ سفری بھتّہ دیتی ہے۔‘‘

جواب ملا۔ ’’ سر آپ کو ابھی اندازہ نہیں ہے کہ انسپکٹر طبقے کو دور دراز علاقوں میں کن صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ گاؤں میں دن میں ایک ہی بار بس چلتی ہے جب کہ کئی دوسرے گاؤں میں دو تین روز میں ایک بار بس چلتی ہے۔ کبھی کبھار تو میلوں پیدل چلنا پڑتا ہے – پہاڑوں کو عبور کر کے، جنگلوں سے گزر کر یا پھر گھٹنے تک برف میں خود کوگھسیٹ کر۔ گاؤں میں ہوٹل کہاں ہوتے ہیں سر۔ برانچ پوسٹ ماسٹر کے گھر میں ٹھہرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں اس کی میزبانی قبول نہ کریں تو پھر کہاں جائیں ؟ ‘‘

’’ ہاں یہ بات تو ہے مگر آپ قاعدے قانون بالائے طاق نہیں رکھ سکتے ہیں۔ محکمے کے ہدایت ناموں میں صاف طور پر درج ہے کہ معائنے کے دوران ہمیں اپنے ماتحتوں کی خاطر تواضع منظور نہیں کرنی چاہیے۔ ‘‘

’’سر یہ تو نا ممکن ہے۔ ڈی ایس پی صاحب کو ہی لیجیے، انھیں کتنی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔ ۔۔ یا تو کھانا اپنے ساتھ لینا پڑتا ہے یا پھر بھنے ہوئے چنّے پوٹلی میں بھر کر ساتھ رکھتے ہیں۔ بی پی ایم کے گھر میں رہتے تو ہیں مگر ان سے پانی کے علاوہ کچھ بھی نہیں لیتے۔ ان کا بس چلتا تو وہ پانی بھی نہ مانگتے۔ ‘‘

’’پھر گورنمنٹ ایسے قانون بناتی ہی کیوں ہیں جن پر عمل کرنا ممکن نہ ہو؟‘‘

’’ سر، انگریزی کا ایک مقولہ ہے، قانون بنتے ہی ہیں توڑنے کے لیے۔ (Rules are made but to be broken)۔ آپ کو معلوم ہی ہو گا کہ قانون وہ لوگ بناتے ہیں جن کو فیلڈ کا تجربہ نہیں ہوتا۔ انھیں کیا معلوم کہ فیلڈ سٹاف کو کہاں کس مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ‘‘

یونینیں اس ایماندار افسر کے خلاف آئے دن شکایتیں کرتی تھیں۔ کسی کا میڈیکل بل منظور نہیں ہوتا تھا، کسی کا ٹی اے بل پاس نہیں ہوتا تھا، کسی کے اوؤر ٹائم الاونس بل میں میں میکھ نکالی جاتی تھی اور کوئی جعلی ایل ٹی سی بل بھرنے کی پاداش میں پکڑا جاتا تھا۔ یہ سارے بِل ڈی ایس پی صاحب کی میز پر آ کر رک جاتے تھے کیونکہ ان کی پارکھی نظر جعلی بلوں کو ایک دم تاڑ جاتی تھی۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں جعلی بل بنانے کی باضابطہ دکانیں کھل چکی ہیں اور افسر شاہی کی ذہنیت ایسی ہے کہ فرسودہ قانون بنا کر غریب ملازموں کو مکر و فریب کا سہارا لینے پر مجبور کرتی ہے۔ غریب جنتا کو چھوڑیے یہاں تو ایوانوں میں بیٹھے ہمارے معزز نمائندے بھی اکثر ایسی گھنونی حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔

اومکار ناتھ کو ان باتوں سے کوئی غرض نہ تھی۔ وہ اپنی دھن میں مست چلا جا رہا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ میرے کندھے پر بندوق رکھ کر گولی چلاتا تھا مگر یہ سچ ہے کہ اپنے افسروں اور یونینوں کے سامنے مجھے جواب دہ ہونا پڑتا تھا۔ اومکار ناتھ کی فطرت ایسی تھی کہ وہ اگر میری جگہ ہوتا تب بھی و ہی کرتا جو اب کر رہا تھا۔ اس کے بارے میں سنا ہے کہ جب وہ اننت ناگ ہیڈ پوسٹ آفس میں بحیثیت پوسٹ ماسٹر تعینات تھا ہر کوئی اس کی ایمانداری سے تنگ آ چکا تھا۔ نہ خود کھاتا تھا اور نہ دوسروں کو کھانے دیتا تھا۔ نہ جھوٹے اوور ٹائم بل بنانے کی اجازت تھی اور نہ ہی پوسٹ میں پارسل اٹھانے کے جھوٹے بل بناسکتے تھے، نہ جھوٹے میڈیکل بلوں پر کاونٹر سائن ہوتے تھے اور نہ ہی جھوٹے ایل ٹی سی بل پاس ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ نیشنل سیونگس ایجنٹوں پر بھی، جنھوں نے ڈاک خانے کے ماحول کو کثیف بنا دیا ہے، لگام لگا دی گئی تھی۔ اِدھر ملازم بے چین تھے، اُدھر سیونگ ایجنٹ پریشاں تھے۔ انگریزی کا مقولہ ہے کہ گلشن میں ایک ابابیل آنے سے بہار نہیں آتی(One swallow doesn’t make a summer)۔ سارا ماحول اومکار ناتھ کے خلاف تھا اور وہ اکیلا ان سازشوں سے جوجھ رہا تھا۔ پبلک کی جانب سے دھڑا دھڑ شکایتیں بھیجی جا رہی تھیں۔ یونینیں روزانہ مظاہرے کر رہے تھے، پہلے ہیڈ آفس میں، پھر ڈویژنل آفس میں اور آخر کار سرکل آفس میں۔ جو افسر ان شکایتوں کی تفتیش کے لیے بھیجے جاتے وہ خود اومکار ناتھ سے خار کھائے بیٹھے تھے کیونکہ ان کی سفارشیں کام نہیں کرتی تھیں اور ان کی بالائی یافت بند ہو چکی تھی۔ انھوں نے شکایتوں کی تائید کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تین ہی مہینوں میں اومکار ناتھ کو واپس سرکل آفس ٹرانسفر کیا گیا جہاں وہ صبح و شام فائیلوں میں کیڑے نکالتا رہا۔

سرکل آفس میں اس نے تین سال بڑے آرام سے نکالے۔ نہ کسی سے دوستی اور نہ کسی سے بیر، صرف اپنے کام سے مطلب۔ یہیں پر اس کی پرموشن ہوئی اور اس کو میرے آفس میں بطور ڈپٹی سپرانٹنڈنٹ تعینات کیا گیا۔ بڑا خوش تھا کہ چلو افسر بھی اپنے ہی مزاج کا ملا، کچھ دن مزے سے گزر جائیں گے۔ اِدھر میں بھی خوش ہوا کہ میرا ماتحت دیانت دار ہے اور چنانچہ میری پہلی پوسٹنگ ہے، اس لیے ایسا ڈپٹی ملنا خوش نصیبی ہے۔ میں من ہی من میں اس کی بہت عزت کرتا تھا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نے میری زندگی اجیرن کر دی تھی۔ جو فائیل سامنے آتی تھی اس پر کچھ نہ کچھ منفی نوٹ لکھ دیتا تھا۔ کام بہت رکا پڑا تھا۔ کوئی بل پاس نہیں  ہو رہا تھا۔ اکثر میڈیکل یا ایل ٹی سی بل جانچ کے لیے بھیج دیتا تھا جس کے سبب دو تین مہینے کی دیر ہو جاتی تھی۔ اُدھر مالی سال ختم ہو جاتا، اِدھر فنڈس بنا خرچے واپس چلے جاتے اور ہمیں دوسرے مالی سال کا انتظار کرنا پڑتا۔ مجھے ہر ماہ یونین میٹنگوں میں یہی سننا پڑتا تھا کہ بل پاس نہیں  ہو رہے ہیں۔ ڈپٹی صاحب کام نہیں کرتے ہیں۔ صرف میں میکھ نکالتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود میں اسے برداشت کر لیتا تھا۔ کئی بار اس کو سمجھایا کہ سبھی بل جانچ کے لیے مت بھیجا کرو، ہاں جو ملازم جھوٹے بل پیش کرنے کے عادی ہوں، ان کے بل جانچ کے لیے بھیجا کرو۔ لیکن وہ مائی کا لال کہاں سننے والا تھا، بل میں کو ئی نقص دیکھا نہیں کہ بل چلا جانچ کی خاطر۔

فروری کا مہینہ تھا۔ سوپور سے ایک انسپکٹر میرے آفس آ یا اور نو ہزار آٹھ سو کے بل سامنے رکھ کر کہنے لگا۔ ’’ صاحب جی، حال ہی میں پی ایم جی صاحبہ نے بانڈی پور گریز لائن کا معائنہ کیا اور وہاں کی ڈاک سرائے (رَنر ہٹس ) کی خستہ حالت دیکھ کر بہت ناراض ہو گئیں۔ انھوں نے مجھے حکم دیا کہ تین میں سے ایک بیچ والی سرائے کی مرمت مقامی ذرائع سے فوراً کروا لوں کیونکہ سوِّل وِنگ نے سبھی سرائیوں کو مرمت کرنے کے لیے بیس لاکھ کا تخمینہ بھیجا ہے جو بہت زیادہ ہے۔ انھوں نے مجھ سے مرمت کا تخمینہ پوچھا۔ میں نے ایک سرائے کے لیے نو ہزار نو سو کا حساب بنا کر دے دیا۔ اس پر میڈم نے فی الحال ایک سرائے کی مرمت کروانے کا حکم دیا۔ اس لیے میں نے اس کی مرمت کروا دی اور یہ بِل لے کر آپ کے پاس آیا ہوں۔ سات ہزار کی لکڑی آئی، ایک ہزار پانچ سو بطور اجرت کے دینا پڑے اور ایک ہزار تین سو بطور دیگر اخراجات خرچ ہوئے۔ ‘‘

میں نے بِل دیکھ لیے، پھر ڈپٹی کو بلا یا اور اسے کہا۔ ’’ ڈپٹی صاحب، کستوری لال کچھ بِل لے کر آیا ہے۔ انھیں فائیل میں ایک نوٹ چڑھا کر منظوری کے لیے پیش کر لیں۔ ‘‘

ڈپٹی خشمگیں نظروں سے انسپکٹر کو دیکھنے لگا جیسے کہہ رہا ہو ’’ بھئی آج کون سا نیا گُل کھلانے آئے ہو۔ ‘‘ کستوری لال بد دیانتی کے لیے خاصا بدنام تھا۔ وہ کہتے ہیں ناکہ بد اچھا بدنام بُرا۔ اس کی صورت دیکھ کر ہی لگتا تھا کہ کچھ نہ کچھ مصیبت لے کر ضرور آیا ہو گا۔ ڈپٹی اونچے سروں میں پوچھنے لگا۔ ’’ ہاں بھئی، کیا ہے یہ۔ اس بارے میں پی ایم جی کا کوئی تحریری آرڈر ہے تمھارے پاس؟ اور پھر کچھ ٹینڈر وغیرہ تو کیے ہوں گے ؟‘‘ ان دنوں پانچ ہزار کے اوپر ٹینڈر کرنا ضروری تھا۔

’’ جناب، پی ایم جی صاحبہ وہاں آئی تھیں اور ان کا حکم تھا کہ ایک ہفتے میں اس ہَٹ کی مرمت ہونی چاہیے اور جتنا سامان ضرورت ہو وہ مقامی بازار سے خرید لو۔ انھوں نے خود زبانی آرڈر دیا تھا اور پھر اتنے قلیل وقت میں ٹینڈر کہاں سے نکل سکتا تھا۔ ‘‘

’’تمھیں ڈویژنل آفس سے رابطہ کرنا چاہیے تھا۔ ہم ان سے تصدیق کروا لیتے اور پھر یہیں سے قلیل مدتی ٹینڈر ایشوع کر لیتے ؟‘‘

’’ سر، پی ایم جی صاحبہ کا حکم تھا، میں کیسے ٹال سکتا تھا۔ ہفتے بھر میں سب کام مکمل کرنا تھا۔ وہ تو انتباہ کر کے چلی گئی تھیں۔ ‘‘

’’ تو پھر جا کر انھی سے پاس کراؤ، یہاں کیوں آ گئے۔ ‘‘ ڈپٹی نے کرخت لہجے میں جواب دیا۔

’’ سر، وہاں کیسے جاؤں۔ بل تو ڈویژنل آفس ہی پاس کر لے گا۔ ‘‘

’’ پہلے سرکل آفس سے تحریری آرڈر لے کر آ جاؤ۔ بِل ایسے پاس نہیں ہوتے۔ ‘‘

میں نے مصلحتاً کستوری لال کو کچھ دیر کے لیے کمرے سے باہر جانے کے لیے کہہ دیا۔ اس کے بعد ڈپٹی صاحب پر اعتماد جتاتے ہوئے راز داری کے ساتھ اس سے ہمکلام ہوا۔ ’’ ڈپٹی صاحب، آپ کو معلوم ہو گا کہ میری اور پی ایم جی صاحبہ کی نہیں بنتی ہے۔ کئی باتوں پر ہمارا مت بھید رہا ہے۔ اگلے مہینے وہ میرا سالانہ خفیہ رپورٹ لکھیں گی۔ اس لیے اس وقت مزید جھگڑا مول لینا اچھا نہیں ہو گا۔ بات کاٹ لو اور جیسے تیسے بِلیں پاس کر لو۔ ‘‘ بات در اصل یوں تھی کہ کئی مہینوں سے ہمارے درمیان رسہ کشی چل رہی تھی۔ میں اب یہ کوشش کر رہا تھا کہ کم سے کم سال کے آخری مہینے میں باس کا غصہ ٹھنڈا کر لوں اور ناراض ہونے کا پھر کوئی موقع نہ دوں۔

’’ نو سر، ایسا نہیں ہو سکتا۔ ‘‘ اس کی آواز قدرے بلند ہو گئی۔ ’’ میں ان بِلوں پرکار روائی نہیں کر سکتا۔ آرڈر نہ تصدیق اور نہ یہ معلوم کہ زمینی حقیقت کیا ہے۔ یہ کام ہوا بھی یا نہیں، کسے معلوم ؟ہو سکتا ہے ہوا ہی نہ ہو یا پھر غیر معیاری ہوا ہو۔ در اصل ہمارے محکمے کے ساتھ فراڈ کھیلا جا رہا ہے اور سارا روپیہ لوٹا جا رہا ہے۔ ‘‘

میں نے پھر نرم لہجے میں کہا۔ ’’ اچھا ایسا کر لو، آپ فائیل میں ایک نوٹ ٹائپ کروا کے چڑھاؤ اور دستخط کرنے کے بغیر ہی مجھے بھیج دو۔ میں خود ہی اس پر دستخط کر لوں گا۔ ‘‘

’’ سر، ایسا ممکن نہیں ہے۔ میں اس لوٹ میں شریک نہیں ہو سکتا۔ میں نہ تو فائیل بناؤں گا اور نہ ہی اس پر نوٹ لکھواؤں گا۔ یہ کام سراسر غلط  ہو رہا ہے۔ ‘‘ وہ اونچی آواز میں بدستور بول رہا تھا۔ ’’چاہے آپ ناراض ہوں یا خفا ہوں، چاہے مجھے معطل کر لیں یا پھر فرد جرم ایشوع کر لیں، میں یہ کام کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہوں اور نہ ہی اس کام کے ساتھ کسی بھی طرح وابستہ ہونا چاہتا ہوں۔ ‘‘

میرے سامنے میرا ماتحت کھلم کھلا عدول حکمی کر رہا تھا۔ جی میں آئی کہ اسی وقت اس پر تادیبی کار روائی کر لوں اور اس کا تبادلہ کروا لوں۔ لیکن میں نے اپنا آپا نہیں کھویا۔ صرف اس کو کمرے سے باہر جانے کے لیے کہہ دیا۔ پھر کستوری لال کو واپس بلاکر اسے دوسرے دن آنے کا حکم دیا۔

رات بھر میں فکر و تردّد میں ڈوبا رہا۔ ’’ کیا میرا ڈپٹی بغاوت کر رہا ہے یا پھر اپنے اصولوں سے ہٹنے کو تیار نہیں ہے ؟ اس میں اتنی سخت مزاجی کیوں ہے ؟ نوکری میں تھوڑا بہت ایڈ جسٹ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ ان بلوں پر کار روائی کرنے میں اس کا کیا جاتا، ہم تو صرف اوپر والے افسر کے حکم کی تعمیل کر رہے ہیں۔ ‘‘

پھر کہیں اندر۔۔ ۔ بہت اندر سے آواز آئی۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی تھی۔ ’’ یہ وہ بندہ ہے جس نے آج تک کسی بی پی ایم کے گھر میں چائے کا قطرہ بھی نہیں پیا ہے۔ جو گھر سے دفتر سائیکل پر آتا ہے۔ جس نے کبھی کسی سے دس روپے کی رشوت نہیں مانگی ہے۔ پھر وہ ان بلوں کو پاس کرنے کی سفارش کیسے کر سکتا ہے۔ وہ ایسے افعال پر ہمیشہ لعنت بھیجتا رہا ہے۔ میری سنو، تمھیں بھی اس سے کچھ سیکھ لینا چاہیے۔ ایمانداری صرف نمائشی نہیں ہوتی بلکہ فکر و عمل سے جھلکنی چاہیے۔ ‘‘

صبح سویرے میں دفتر پہنچ گیا۔ کستوری لال میرا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے اس کو کمرے میں بلایا اور کہا۔ ’’ دیکھو، پی ایم جی صاحبہ نے یہ زبانی آرڈر تم کو دیا تھا اس لیے تم یہ کیس اپنے آفس میں بنا کر میرے پاس پوری تفصیل کے ساتھ بھیج دو۔ اس نے ویسا ہی کر لیا اور ہمارے آفس نے منظوری دینے کی سفارش کی۔ خوش قسمتی یہ تھی کہ اس روز ڈپٹی سپرانٹنڈنٹ غیر حاضر تھے۔ میں نے فائیل پر اپنے دستخط ثبت کر لیے اور احتیاط کے طور پر آرڈر کی کاپی مع تفصیل کے پی ایم جی آفس برائے تصدیق بھیج دی۔ وہاں سے نہ کوئی جواب ملا اور نہ کوئی تفتیش ہوئی۔ اللہ اللہ خیر سلا۔

بہت عرصہ بعد میں پوسٹل سٹاف کالج میں نئے بھرتی ہوئے افسروں کو سی سی ایس کنڈکٹ رولز یعنی افسروں کے چال چلن کے قواعد پڑھا رہا تھا۔ اعلیٰ افسروں کے حکم سے متعلق میری نظر ایک وضاحتی نوٹ پر پڑی۔ لکھا تھا کہ جب کوئی اعلیٰ افسر زبانی حکم صادر کرے تو اس صورت میں اس حکم پر عمل آوری کر کے فوراً اس کی کاپی اعلیٰ افسر کو تصدیق کے لیے بھیج دینی چاہیے۔ یا تو وہ اس کی تصدیق کرے گا یا پھر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کرے گا۔ دونوں صورتوں میں آرڈر ایشوع کرنے کی بات قبول مانی جائے گی۔ مجھے سولہ سال پرانا وہ واقعہ یاد آ رہا تھا اور دل میں خوشی  ہو رہی تھی کہ ایک دیانت دار ماتحت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے مجھے ایمان داری پر کاربند رہنے کا پہلا اور سب سے بڑا سبق ملا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 اپنے اپنے زاویے

 

دیکھتے ہی دیکھتے دو فرقوں کے درمیان ایسا گھمسان کا رَن چھڑ گیا کہ کشتوں کے پُشتے لگ گئے۔

بستیاں سڑک کے دو کناروں پر آباد تھیں۔ دائیں کنارے پر ہندو رہتے تھے اور بائیں کنارے پر مسلمان۔ درمیان میں سڑک شاہ رگ کا کام کرتی تھی۔ صدیوں سے ان بستیوں کے آپسی بھائی چارے کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ مسلمان سبزی فروش روز صبح سویرے اپنی ریڑھیاں کھینچتے ہوئے ہندو بستی میں ہانک مارتے اور سبزیاں فروخت کر کے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے۔ گوالے سائیکلوں پر بڑے بڑے ڈول لٹکا کر دودھ تقسیم کر لیتے۔ کئی کاریگروں جیسے درزی، موچی، سائیکل اورسکوٹر مرمت کرنے والوں نے ہندو بستی میں مستقل طور پر دکانیں کھول رکھی تھیں۔ دو ایک قصائیوں نے بھی کرائے پر کھوکھے لیے تھے جن میں حلال بکرے و مرغے کا گوشت اور انڈے فروخت ہوتے تھے۔

اُدھردوسری بستی میں زیادہ تر کاروباری اور ملازم پیشہ لوگ رہتے تھے۔ ملازم پیشہ لوگ سرکاری اور غیر سرکاری دفتروں میں چھوٹی بڑی نوکریاں کرتے تھے اور زندگی بڑی ٹھاٹ سے گزارتے تھے۔ جو لوگ تاجر پیشہ تھے انھوں نے اپنی بستی کے علاوہ سڑک کے اس پار کپڑے، ہوزری، منیاری اور ادویات کی دکانیں کھول رکھی تھیں۔ صبح سویرے دکان پر پہنچ کر لکشمی کی آرتی اتارتے، لوبان جلا کر ساری دکان کو سوگندھت کرتے اور تب جا کر کاروبار کا شری گنیش ہوتا۔ البتہ کچھ ایک کا پشتینی پیشہ ساہوکاری تھا۔ چنانچہ بنکوں کا جال بچھ جانے کے باوجود غریبوں کو وقتِ ضرورت آسانی سے قرضہ نہیں ملتا تھا اس لیے موقعے کا فائدہ اٹھا کر یہ ساہوکار حاجت مندوں کو بھاری شرح سود پر سرمایہ مہیا کرنے کا دھندا کرتے۔ ان ساہوکاروں نے کئی گرگے پال رکھے تھے جو ڈرا دھمکا کر مقروضوں سے بقایا رقمیں وصول کرتے اور اگر سیدھی انگلی سے گھی نہیں چڑھتا تھا تو قانونی چارہ جوئی کا سہارا لیتے۔ یا تو کھڑی فصلوں پر حق جتاتے یا پھر جائیداد ہڑپ لیتے۔ خیر اس پیشے کا تقاضہ ہی کچھ ایسا تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں کا پانی ڈھل جاتا۔

کچھ روز پہلے نہ جانے کیا ہوا۔ اچانک دونوں بستیوں سے ایک ہی وقت پر آگ کی لپٹیں نمودار ہو گئیں۔ لوگ گھروں سے باہر نکل کر غصے سے پاگل ہو رہے تھے۔ ایک طرف ہاتھوں میں ننگی تلواریں تھیں اور فلک شگاف تکبیر کے نعرے لگ رہے تھے اور دوسری طرف ترشول اور خنجر تھے اور جے شری رام کے نعرے بلند ہو رہے تھے۔ کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ آخر یہ آگ کیسے لگی، کس نے لگا ئی اور کیوں لگائی ؟ تعجب کی بات یہ تھی کہ دونوں بستیوں میں ایک ہی وقت پر آگ نمودار ہوئی۔ فریقین ایک دوسرے کو دوش دے رہے تھے۔ افواہوں کا بازار لمحہ بہ لمحہ گرم  ہو رہا تھا۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ رات کو مندر کے احاطے میں گائے کا سر کاٹ کر رکھ دیا گیا تھا۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ مسجد کے احاطے میں کسی نے سُوَر کا گوشت پھینکا تھا۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ کسی مسلم نوجوان نے لَو جہاد کے لیے غریب معصوم ہندو لڑکی کو زبردستی اٹھا لیا تھا جبکہ کوئی اور کہہ رہا تھا کہ کسی ہندو نوجوان نے مسلم لڑکی سے چھیڑ چھاڑ کی تھی۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ سچ تو یہ ہے کہ کوئی چشم دید نہ تھا۔ سب سنی سنائی باتیں تھیں۔ آگ کس نے لگائی کوئی بتا نہیں پا رہا تھا۔ اس پر طرّہ یہ کہ آج کل ایسی افواہیں سوشل میڈیا اور ایس ایم ایس کے ذریعے پلیگ کی طرح پھیلتی ہیں۔ میرا خیال تھا کہ سائنس کی ترویج و ترقی کے ساتھ ساتھ انسان کی سوجھ بوجھ، معقولیت اور تحلیلی صلاحیت نشو و نما پائے گی مگر یہاں تو الٹا ہی معاملہ ہو رہا ہے۔ بے لگام ذرائع ابلاغ خاص کر ٹیلی ویژن چینلیں اور سوشل میڈیا آئے دن جلتی آگ میں تیل ڈالتے ہیں اور انسان کی بہیمی جبلت کو مشتعل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔

دیکھتے ہی دیکھتے سیکڑوں مکانات خاکستر ہو گئے۔ فسادات کے سبب جو لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوئے وہ تھے کسان، مزدور، کاریگر اور طلبہ۔ گھر جلے، گھروں کا سامان خاک ہو گیا، کپڑے لتے اور کتابیں راکھ ہو گئیں۔ سیکڑوں لوگ بے گھر ہو کر کھلے میدانوں میں کینواس، پولی تھین اور ٹاٹ کے عارضی خیموں تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔ نہ پینے کا پانی، نہ بجلی، نہ رہنے کی جگہ، نہ حشرات الارض سے بچنے کی کوئی سبیل۔

دوسرے روز سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی مختلف فرقوں کے مذہبی رہنما وارد ہوئے۔ زرق برق شیروانی پہن کر، سر پر بیش قیمتی قراقل سجا کر، ڈاڑھی میں خضاب لگا کر، آنکھوں میں سرمہ لگا کر اور بدن پر عطر مل کر یا پھر گیروے لباس پہن کر، ماتھے پر لمبا سا کیسری تلک لگا کر، انگلیوں میں قیمتی جواہرات کی انگوٹھیاں لگا کر اور گلے میں ردراکش کی مالا ڈال کر۔ ان کے تعاقب میں سیاست دان بھی آ پہنچے جو اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں کے لباس اور ٹوپیوں میں ملبوس تھے۔ ان رہنماؤں نے غریب لوگوں کے جذبات بھڑکا نے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور لا چار غریب لوگ چپ چاپ سنتے رہے۔ عورتیں اپنے بھوکے بلکتے بچوں کی خاطر صرف اس تلاش میں نکل آتی تھیں کہ کہیں کوئی ترس کھا کر آٹا چاول بطور ریلیف دے دے تو وہ آنچل میں سمیٹ کر گھر لے جاتیں مگر راشن کہیں نظر ہی نہیں آ رہا تھا، وہاں تو صرف بھاشن ہی بھاشن برس رہے تھے۔ بستیوں میں جتنے بھی خوش حال لوگ تھے انھوں نے اپنے گھروں میں تالے لگا کر دور اپنے رشتے داروں یا دوستوں کے ہاں پناہ لی۔ ان میں سے یہاں کوئی نظر ہی نہ آ رہا تھا۔

حکومت کو جاگنے میں دو تین روز لگ گئے۔ فوڈ کارپوریشن کے بوسیدہ گوداموں میں سڑ رہا راشن لے کر ریلیف گاڑیاں دونوں کیمپوں میں نظر آنے لگیں جنھیں دیکھتے ہی لوگ چھینا جھپٹی پر اتر آتے۔ پانی کے ٹینکر جہاں کھڑے ہو جاتے وہاں تشنگی کم ہونے کے بجائے کیچڑ زیادہ ہو جاتی۔ افسر شاہی کی تو پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں۔ وہ ہمیشہ ایسی عرشی و فرشی آفتوں کے انتظار میں رہتے ہیں۔ بڑی لوٹ کے یہی موقعے ہوتے ہیں اور ایسے موقعے وہ کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ دوسری جانب سیاسی لیڈر اس کوشش میں تھے کہ ریلیف کی نیک نامی اور شہرت انھیں مل جائے، اس لیے وہ بار بار یہ کہنے سے نہیں چوکتے تھے کہ یہ ریلیف صرف ان کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ غنڈے، بدمعاش اور دلال سب شکار کی ٹوہ میں گھات لگائے بیٹھے تھے جیسے اوپر والے نے ان کی دعائیں قبول کر لی ہوں۔ پولیس یوں ظاہر کر رہی تھی کہ بندوبست کرنے میں وہ اتنے مصروف ہیں کہ ان لوگوں پر قابو نہیں پا سکتی۔

چہار سو خون میں ابال پیدا کرنے والے نعرے لگ رہے تھے۔ نہتے لوگ تہ تیغ  ہو رہے تھے اور معصوم کمسن دوشیزائیں انسانی ہوس کا شکار ہو رہی تھیں۔ اشرف المخلوقات پھر ایک بار بہیمیت کا پیکر بن چکا تھا۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندے وارداتوں کی خبر یں لانے میں چاروں اور پھیلتے چلے گئے – اخباروں کے نمائندے، میگزینوں کے نمائندے، ٹیلی ویژن چینلوں کے رپورٹر اور کیمرہ میں۔ ٹی وی چینلوں پر یہ خبریں چوبیس گھنٹے نشر  ہو رہی تھیں۔

اس فرقہ وارانہ فساد کو بے نقاب کرنے کے لیے دہلی کے دو قومی اخباروں نے اپنے دو نمائندے بھیج دیے۔ دونوں نے جرنلزم کا کورس ایک ساتھ ایک ہی کالج سے کیا تھا اور تب سے دوستی نباہ رہے تھے۔ نام تھے – جہانگیر خان اور جسونت سنگھ۔ دونوں ساتھ ساتھ جائے واردات پر پہنچ گئے مگر گاڑی میں سے اترنے سے پہلے ان کے سامنے بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہوا۔ دونوں رہیں گے کہاں ؟ نہ ہوٹل اور نہ گیسٹ ہاؤس۔ پھر ایک ساتھ رہنا بھی تو مشکل تھا۔ سڑک کے ایک کنارے ہندو تھے اور دوسرے کنارے مسلمان۔ ان میں سے ایک ہندو تھا اور دوسرا مسلمان۔

کل تک جو سڑک شاہ رگ کا کام کرتی تھی اب وہ سرحد بن چکی تھی۔ دونوں طرف چوکسی بڑھ چکی تھی۔ لوگ ہر متحرک پرچھائیں کو شک کی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ دونوں دوستوں نے فیصلہ کیا کہ وہ الگ الگ اپنے فرقے کے لوگوں کے ساتھ رہیں گے۔ یہ ان کی مجبوری تھی حالانکہ انھوں نے پہلے کبھی اس ڈھنگ سے سوچا نہ تھا۔ جب انسان کو جینے کے لالے پڑ جاتے ہیں اسے انسانیت مخالف قوتوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے ہی پڑتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے رخصت ہو کر الگ الگ بستیوں میں چلے گئے۔

جسونت سنگھ نے ایک چائے کی دکان میں ڈیرا ڈال دیا اور پھر اپنے کام میں جُٹ گیا۔ سب سے پہلے اسے ایک سرغنہ کا سامنا ہوا جس کو نہ جانے کہاں سے یہ بھنک پڑی کہ چائے کی دُکان پر ایک جرنلسٹ نے پناہ لی ہے۔ اس نے آنکھ جھپکتے ہی بہت سارے لوگ جمع کر لیے جو ہاتھوں میں ترشول اٹھائے ہوئے تھے اور ’جے شری رام‘، ’رام جنم بھومی ہماری ہے ‘ اور ’رام مندر بن کے رہے گا‘ کے نعرے بلند کر رہے تھے۔

جسونت سنگھ نے ایک نوجوان سے پوچھا۔ ’’ بھائی کیا بات ہے ؟یہاں دنگا کس بات پر ہوا؟‘‘

’’ ارے کیا بتائیں صاحب۔ اس پار والوں نے گؤ ماتا کی ہتھیا کر کے مندر کے پھاٹک کے سامنے مانس ڈال دیا۔ یہ بابر کی سنتانیں ہیں۔ ہمارے ملک پر پھر سے قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔ ‘‘

’’ آپ کو پتا چلا کہ یہ کام کس نے کیا ہے ؟ ‘‘

’’ ارے صاحب معلوم ہوتا تو کیا ہم اس کو زندہ چھوڑ دیتے۔ مگر اتنا تو طے ہے کہ یہ کام ان کے بغیر کوئی کر ہی نہیں سکتا ہے۔ ‘‘بھیڑ میں سے کوئی اور آدمی بول پڑا۔

’’ میں نے سنا ہے کہ دونوں بستیوں میں بہت دنوں سے تناؤ چل رہا تھا۔ نہ اِس طرف مسلمان آتے تھے اور نہ اس طرف ہندو جاتے تھے۔ ہر طرف چوکسی بڑھ چکی تھی۔ پھر اُس بستی کا آدمی یہاں کیسے آ سکتا ہے ؟ کوئی اپنی جان پر کیوں کھیلے گا۔ ‘‘

’’کیسی باتیں کرتے ہو صاحب۔ رات کے اندھیرے میں کوئی آیا ہو گا۔ ان کے مذہب میں تو یہی کچھ سکھایا جاتا ہے۔ جہاد! جنت اور حوریں ! یہ لوگ آرام سے بیٹھ ہی نہیں سکتے ہیں۔ ‘‘

’’ چلو آپ کی ہی بات مان لیں۔ جو ہوا سو ہوا۔ اب اس مار دھاڑ سے کیا فائدہ ملے گا؟ ‘‘

’’ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ! ان کو سبق تو سکھانا ہی پڑے گا۔ پچھلے کئی دنوں سے انھوں نے ہمارے تین آدمیوں کو مار دیا ہے۔ اس کا بدلہ تو لینا ہی پڑے گا۔ اس کے علاوہ ہم چاہتے ہیں کہ بھارت کی نکمی سرکار اکثریت کی طاقت سمجھ لے۔ وہ اقلیتوں کو سر چڑھا رہی ہے۔ سرکار کو رام جنم بھومی پر رام مندر بنانے کی اجازت جلد از جلد دینی چاہیے۔ ‘‘

’’ یہ رام جنم بھومی کہاں ہے، آپ کو معلوم ہے ؟ ‘‘

بھیڑ میں کچھ لمحوں کے لیے خاموشی چھا گئی۔ وہ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ یہ رام جنم بھومی کہاں ہے، تمھیں تو معلوم ہو گا؟

پھر ایک آدمی جس نے ٹیلی ویژن پر اس بارے میں سنا تھا، کہنے لگا۔ ’’ ارے صاحب آپ کو اتنا بھی نہیں معلوم۔ اتر پردیش میں ہے۔ ہم نے دیکھی تو نہیں ہے مگر اتنا معلوم ہے کہ رام جی کا جنم ایودھیا میں ہوا تھا اور مندر کو گرا کر بابر نے مسجد بنوائی تھی۔ ‘‘

اس گفتگو کے بعد بھی جسونت سنگھ کئی لوگوں سے ملتا رہا۔ سبھی نے اس واردات کے بارے میں لاعلمی ظاہر کی۔ سب ایک سُر میں بولتے رہے کہ صدیوں سے دونوں بستیوں میں امن و چین تھا مگر حال ہی میں نہ جانے کن شر پسندوں نے آگ لگائی۔ یہ پوچھنے پر کہ اس شرارت میں پہل کس نے کی تو ہر کوئی دوسری بستی والوں کو دوشی قرار دے رہا تھا۔

اُدھر سڑک کے اُس پار جہانگیر خان نے بھی ایک چھوٹے موٹے چائے خانے میں پناہ لی جو بعضے مسافر خانہ کا کام بھی دیتا تھا۔ چائے خانہ کے مالک کو جب اس کی اصلیت معلوم ہوئی تو اس نے پر تپاک انداز میں کہا۔ ’’ جناب، آپ تو مسلمان ہیں۔ معلوم ہی ہے کہ ہم پر کتنا ظلم  ہو رہا ہے۔ ہماری تو کوئی بات ہی نہیں سنتا۔ آئے دن پولیس تنگ کرتی رہتی ہے۔ یہ میرا چھوٹا موٹا چائے خانہ ہے۔ کوئی آ کر رات بھر رہ جاتا ہے مگر دوسرے ہی دن پولیس آ کر چھاپہ مارتی ہے اور پوچھتی ہے کہ وہ کون تھا۔۔ ۔ کہاں سے آیا تھا۔۔ ۔ کس لیے آیا تھا۔۔ ۔ اکیلا تھا یا اس کے ساتھ اور بھی کوئی تھا؟ جناب، یہ دھندہ بھی سر درد بن چکا ہے۔ بھلا آپ ہی بتائیے کہ اگر میں گاہک سے اس کی پہچان اور اس کے مدعا کے بارے میں پوچھتا پھروں تو کیا کوئی یہاں قیام کرنے کے لیے رُکے گا ؟پولیس کو ہر وہ شخص جو یہاں آتا ہے دہشت گرد نظر آتا ہے۔ اس سے بہتر تو انگریزوں کا زمانہ تھا۔ ‘‘

جہانگیر خان جب وہاں سے باہر نکلا تو سڑک پر بھیڑ جمع تھی۔ ’ نعرۂ تکبیر، اللہ و اکبر‘، ’بابری مسجد کے ملزموں کو پھانسی دو‘، ’بابری مسجد ہماری ہے، وہاں پر مسجد ہی بنے گی‘ کے نعرے گونج رہے تھے۔ کئی لوگوں کے ہاتھوں میں ننگی تلواریں ناچ رہی تھیں۔ جہانگیر خان نے ایک نوجوان کو الگ لے جا کر اسے پوچھا۔ ’’ بھئی، یہ کیا معاملہ ہے۔ کیوں اتنا سارا ہنگامہ  ہو رہا ہے ؟‘‘

’’ ہندوؤں نے کچھ روز پہلے ہماری مسجد کے احاطے میں خنزیر ڈال کر اسے نا پاک کر دیا اور پھر رات کو بستی میں آگ لگا دی۔ ‘‘

’’ تم لوگوں نے کسی کو ڈالتے ہوئے دیکھ لیا کیا؟‘‘

’’ جناب، رات کا وقت تھا۔ ہم سب سوئے ہوئے تھے۔ کیا معلوم کون تھا۔ ‘‘

’’ کیا ہندو اس طرف آتے ہیں ؟‘‘

’’ پہلے جب امن و امان تھا تو بنا جھجھک چلے آتے تھے لیکن جب سے تناؤ بڑھ گیا ہے، اب نہیں آتے۔ ‘‘

’’ پھر تم کیسے کہتے ہو کہ یہ کام ہندو نے ہی کیا ہے ؟‘‘

’’ کیسی پاگلوں والی باتیں کرتے ہیں جناب۔ اور کون کرے گا؟ کیا مسلمان اپنی ہی مسجد کو ناپاک کرے گا۔ ‘‘

’’ خیر معاملہ تو مقامی نوعیت کا ہے پھر یہ بابری مسجد کے نعرے کیوں ؟‘‘

’’مسئلہ اس جگہ کا ہی نہیں ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ چاروں اور ظلم  ہو رہا ہے۔ سب سے بڑا ظلم تو بابری مسجد کی شہادت کا تھا۔ ‘‘

’’ آپ نے بابری مسجد دیکھی ہے کیا؟ ‘‘

’’ نہیں، البتہ سنا ہے کہ بابر اللہ کا بھیجا ہوا غازی تھا۔ اس نے ہندستان میں مسلمانوں کی سلطنت قائم کرتے وقت اس مسجد کو بنایا تھا۔ یہ تو ہندوؤں کا جبر و استبداد ہے کہ ہماری مسجدوں کو مسمار کر رہے ہیں۔ ‘‘

رات بھر دونوں رپورٹر مواد جمع کرتے رہے البتہ تجربات مختلف تھے۔ اسی رات سرکار نے بھی ذرائع ابلاغ کے ذریعے کچھ آنکڑے نشر کیے۔ تین تین اموات دونوں بستیوں میں، زخمی ہوئے لوگوں کی گنتی قریباً ایک جیسی تھی یعنی تیس اور بتیس، ایک طرف چالیس مکان جل چکے تھے اور دوسری طرف پینتالیس کیونکہ اُس طرف آبادی بہت گھنی تھی۔ مختصر یہ کہ دونوں فرقوں کو تقریباً ایک جیسا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔

دوسرے روز جسونت اور جہانگیر دہلی پہنچے اور انھوں نے اپنی اپنی رپورٹیں داخل کر لیں۔ پھر اگلے دن دونوں رپورٹیں ان کے اخباروں کی جلی سرخیاں بن گئیں۔

جسونت کے اخبار کی چند خبریں: ’’ پاکستانی آئی ایس آئی نے ملک میں اپنا جال پھیلا دیا۔ ایک اور علاقہ دہشت گردی کی لپیٹ میں۔ گؤ ماتا کی ہتھیا! بیس ہندو مارے گئے اور سو سے زیادہ زخمی۔ رات بھر ہندوؤں کے گھر جلتے رہے اور ان کی جان و مال کو خطرہ لاحق۔ انتظامیہ پر جوں تک نہیں رینگتی!‘‘

جہانگیر کے اخبار کی چند خبریں: ’’ آر ایس ایس اور بجرنگ دل مسلمانوں کے قتل عام پر تلی ہوئی۔ رات کے وقت ترشول بانٹے گئے اور مسجد کو ناپاک کیا گیا۔ تیس مسلمان شہید اور ڈیڑھ سو سے زیادہ زخمی ہو کر ہسپتال میں۔ مسلمانوں کا اظہار تشویش۔ ‘‘

دیکھتے ہی دیکھتے سارے ملک میں احتجاج شروع ہوا۔ ٹی وی چینلوں پر گرما گرم بحث و مباحث ہونے لگے۔ جگت استاد عالم، جن سے اگر ان بستیوں کی جائے وقوع پوچھی جائے تو شاید ہی بتا پائیں، مسلسل اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگے۔ کچھ ایک فرقے کی طرف داری کرنے لگے اور کچھ دوسرے فرقے کی۔ کئی روز بال کی کھال اتاری گئی اور چینلوں پر ہنگامہ ہوتا رہا۔ پھر کوئی اور ہنگامہ وجود میں آیا اور اس واردات کے بارے میں لوگ بھول گئے۔ کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ آخر کار ان دو بستیوں کا کیا حشر ہوا۔

ٹی وی چینلوں کے انتظامیہ اپنے ٹی آر پی کو مسلسل ناپتے رہے۔۔ ۔ !

کچھ ویکلی اخبارات جیسے ’آوازِ ملت‘، قومی آئینہ، ہندو انڈیا، کیسری درپن‘ ککرمتوں کی مانند پھوٹ پڑے۔

مکانوں، دکانوں اور عبادت گاہوں پر ہرے اور کیسری رنگ کے جھنڈے اب آٹھوں پہر نظر آنے لگے۔

البتہ جہانگیر اور جسونت کی دوستی میں کوئی فرق نہ آیا۔ وہ ہر روز معمول کی طرح دفتر سے نکل کر کافی ہاؤس میں کافی پیتے رہے اور بارہا پارٹیوں میں اکٹھے شراب پیتے رہے۔ لیکن دونوں نے اس بارے میں کبھی ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال نہیں کیا۔

بہر حال یہ حقیقت ہے کہ دو بستیوں میں وہ آپسی اعتماد دوبارہ قائم نہ ہو سکا۔ ایک دوسرے پر شک و شبہ کرنا فطری بن گیا۔ مال کا تبادلہ اب سڑک پر ہوتا ہے اور دوسری بستی والے تاجر ان اشیا پر مزید نفع لاد کر اپنی بستی میں فروخت کرتے ہیں۔ قرض دینے کی روایت برقرار ہے مگر ساہوکاروں نے الگ الگ بستیوں میں اسی فرقے کے گُرگے بھرتی کر لیے ہیں۔ دونوں بسیتوں میں کام کاج پھر معمول کی طرح چل رہا ہے۔

کئی روز کے بعد حکومت نے واردات کی سی بی آئی جانچ کرانے کا اعلان کر لیا مگر آج تک کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ مسجد اور مندر میں گوشت کے لتھڑے ڈالنے والا کون تھا اور بستیوں میں کس نے آگ لگائی تھی؟ان فسادات کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں بستیوں کے ووٹ اب بستیوں کے خیر خواہوں کے لیے نہیں بلکہ جذبات کو انگیز کرنے والے طفیلی رہنماؤں کے لیے مختص ہو گئے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

میری کہانی کا کردار

 

’’ آپ مجھے اپنی کہانی کا کردار کب بنائیں گے ؟‘‘ اس نے دوبارہ پوچھ لیا اور میں نے پھر سنی ان سنی کر دی۔

مجھے نہیں معلوم کہ اس کو اتنی شدت سے میری کہانی کا کردار بننے کی خواہش کیوں کر ہوئی۔ اس نے مجھ سے یہ سوال کئی بار پوچھا مگر میں ہر بار ٹالتا رہا۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ میں کس کی بات کر رہا ہوں۔ ایک پڑھی لکھی ناکتخدا لڑکی ہے جس کو شادی کے نام ہی سے چڑ ہے۔ ایسا تو نہیں ہے کہ وہ لزبین ہے اور شادی سے نفرت کرتی ہے۔ نہیں، ایسا بالکل نہیں ہے۔ تیس پار کر چکی ہے مگر شباب نے ابھی تک ساتھ نہیں چھوڑا۔ گیہواں رنگ، بھرا بھرا جسم، لمبے کالے بال، شوخ دیدہ اور رسیلے ہونٹ۔ قیامت اور کیسی ہوتی ہو گی؟ اس کے بدن کا سب سے دلکش حصہ اس کی ابھری ابھری، گداز چھاتیاں ہیں جن پر ایک بار نظر پڑ جائے تو ہٹنے کا نام نہیں لیتی۔

ہماری ملاقات ایک ہندی اردو کوی سمیلن میں ہوئی تھی جس میں ہم دونوں نے شرکت کی تھی۔ یہی کوئی چھ سات مہینے پہلے کی بات ہے۔ چائے کے وقفے پر ایک دوسرے سے تعارف ہوا۔ باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ کومل نے ہندی میں ڈاکٹریٹ کی سند لی ہے اور اردو بھی کچھ حد تک پڑھ سکتی ہے۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے اس نے ہندی کے ایک مشہور افسانہ نگار پر مقالہ لکھا تھا۔ بعد میں جب ہمارے درمیان نزدیکیاں بڑھ گئیں تو پتا چلا کہ یہ مقالہ اس نے محض اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا دم چھلا جوڑنے اور اچھی سی نوکری پانے کے لیے لکھا تھا ورنہ اس کو ان چیزوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ آج کل کے سند یافتہ ڈاکٹروں کی طرح انگوٹھا چھاپ تھی بلکہ اس نے چار سال کڑی محنت کر کے ریسرچ کی ڈگری حاصل کی تھی جس کا احساس مجھے تب ہوا جب میں نے اس کا مقالہ پڑھ لیا اور کئی نکتوں پر اسے بحث بھی کر لی۔

میری دیرینہ خواہش تھی کہ میرے افسانے ہندی میں شائع ہوں تاکہ ہندی قارئین بھی ان کو پڑھ سکیں۔ پریم چند، سدرشن یا اشک کی طرح مجھے ہندی رائٹر بننے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ بہت سوچ بچار کر کے میں نے کومل سے درخواست کرنے کی ٹھان لی کیونکہ وہ ہندی کے علاوہ اردو بھی پڑھ لیتی تھی۔ آخر کار میں نے ایک روز جسارت کر ہی لی۔ ’’ کومل جی، کیا آپ میرا ایک چھوٹا سا کام کر سکتی ہیں ؟‘‘

’’ ہاں کیوں نہیں۔ آپ کام تو بتا دیں۔ ‘‘اس نے کام کی نوعیت جانے بنا ہی ہامی بھر لی۔

’’ میرے افسانوں کا ایک مجموعہ حال ہی میں شائع ہو چکا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ مجموعہ ہندی میں بھی دستیاب ہو۔ در اصل میری کہانیوں کے ماحول اور کرداروں کے ساتھ ہندی پاٹھک زیادہ اپنائیت محسوس کر سکتے ہیں اور وہ میری کہانیوں کی زیادہ قدر کر سکتے ہیں۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو اس کا ہندی میں ترجمہ کر لیں۔ سولہ کہانیاں ہیں۔ آپ اطمینان سے ترجمہ کر سکتی ہیں۔ مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔ ‘‘

چنانچہ اس وقت تک ہم ایک دوسرے کے اچھے دوست بن چکے تھے اس لیے میں نے معاوضے کی بات کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ سوچا جب موقع مل جائے گا تو بات کر لوں گا یا پھر اختتام پر کوئی اچھا سا تحفہ دے دوں گا۔

’’ یہ تو کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ مجھے یہ کام کرنے میں خوشی ہو گی۔ ‘‘ اس نے کسی پس و پیش کے بغیر میری درخواست منظور کر لی۔

’’تو پھر میں اپنی کتاب کل تک آپ کے پاس پہنچا دوں گا۔ آپ ایک ایک کہانی کا ترجمہ کر لیں اور مجھے دے دیا کریں تاکہ میں اس کو پڑھ لوں اور کہیں کوئی تبدیلی کی ضرورت ہو تو بتا دوں گا۔ ‘‘

’’ ایسے تو بہت ٹائم لگے گا کیونکہ میں اردو روانی سے نہیں پڑھ پاتی اور سیکھے ہوئے بھی زمانہ ہو گیا ہے۔ اس کے بعد کوئی واسطہ بھی تو نہ رہا۔

’’ پھر کہیں دونوں بیٹھ کر یہ کام کر سکتے ہیں۔ میں پڑھا کروں گا اور آپ ہندی میں ترجمہ کر کے لکھا کریں۔ ‘‘

’’ یہ ٹھیک ہے۔ آپ کا گیسٹ ہاؤس تو نزدیک ہی ہے۔ میں ہر روز گھنٹے بھر کے لیے آیا کروں گی اور آپ ڈکٹیشن دیا کریں۔ ‘‘

’’ بہت اچھا، آپ نے تو میری مشکل حل کر دی۔ مگر ایک پرابلم ہے۔۔ ۔۔ !‘‘

’’وہ کیا؟‘‘

’’ میری اکثر کہانیاں جنسی نوعیت کی ہیں۔ آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہو گا؟‘‘

’’ اس میں کونسی عذر کی بات ہے۔ لٹریچر میں تو سبھی طرح کے موضوعات ہوتے ہیں۔ میں نے نہ جانے کتنی جنسی کہانیاں پڑھ لی ہوں گی۔ آپ فیصلہ کر لیجیے کہ کس طرح یہ کام آسانی سے رو بہ عمل لایا جا سکتا ہے، میں ترجمہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ ‘‘

ان دنوں میں نرائن پور میں سرکاری گیسٹ ہاؤس میں اکیلا رہتا تھا کیونکہ کورٹ میں میری طلاق کا کیس چل رہا تھا۔ دونوں بچے ہوسٹلوں میں رہتے تھے۔ کومل آدھا پون کلومیٹر دور ایک کرائے کے مکان میں رہتی تھی۔ اس لیے فیصلہ یہ ہوا کہ دفتر بند ہونے کے بعد وہ ایک گھنٹے کے لیے گیسٹ ہاؤس آیا کرے گی اور میں کہانی پڑھتا رہوں گا اور وہ ترجمہ کرتی رہے گی۔

انتظام اچھا تھا۔ میں کہانیاں پڑھتا گیا اور وہ ترجمہ کرتی گئی۔ ہندی، اردو اور انگریزی کے چار پانچ لغات بھی دستیاب تھے۔ کبھی کبھار کسی ٹھیٹ اردو لفظ کا متبادل لفظ نہیں ملتا تھا یا پھر کسی متبادل لفظ پر ہماری سہمتی نہیں بن پاتی تھی، اس وقت ان لغات کی ضرورت پڑتی تھی۔ کبھی کبھی کسی لفظ کا لغوی معنی میرے من کو نہیں بھاتا تھا، اس لیے ان لغات کی مدد سے مترادف الفاظ ڈھونڈ کر ایسا لفظ چننے کی کوشش کی جاتی جو میرے خیال کا صحیح ترجمان ہوتا۔ ترجمے کا یہ مرحلہ بہت کٹھن تھا۔ کہاں تو میں نے سوچا تھا کہ سولہ کہانیاں سولہ دنوں میں ختم ہو جائیں گی اور کہاں ایک ایک کہانی کا ترجمہ کرنے میں پورا ہفتہ لگ رہا تھا۔ مجھے کومل کی لگن اور اس کی دیانت داری نے بہت متاثر کیا کیونکہ اس نے کبھی تھکن یا بوریت ظاہر نہیں کی اور انہماک سے ترجمہ کرتی رہی۔

کہانیاں ترجمہ کرتے وقت وہ میری کہانیوں کے کرداروں سے اپنے وجود کی تطبیق کرنے لگی۔ اسے کہانیوں کے کئی کرداروں نے بہت متاثر کیا۔ ان کرداروں میں اسے کچھ اپنائیت سی محسوس  ہو رہی تھی۔ وقتاً فوقتاً میں چائے بنا کر لے آتا اور دونوں تھکاوٹ دور کرنے کے لیے چائے نوش فرماتے۔ اس دوران وہ مجھ سے کسی کردار کے بارے میں کئی سوال کرتی جیسے وہ مخصوص کردار مجھے زندگی کے کس موڑ پر ملا تھا، دونوں ایک دوسرے کو کس حد تک جاننے لگے تھے اور پھر اس رشتے اور کردار کا کیا حشر ہوا؟ میں بھی بغیر کسی لاگ لپٹ کے اس کردار سے ہوئی ملاقات اور رشتے کے بارے میں ساری روداد سناتا۔ اس طرح کومل کو اتنا تو معلوم ہوا کہ میں شفاف شخصیت کا مالک ہوں اور میری کہانیوں کے اکثر کردار میری زندگی کے اہم جزو رہے ہیں اور پھر بچھڑ کر میرے افسانوں میں امر ہو چکے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ اس کے من میں خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ وہ بھی ان کرداروں کی طرح ہی قرطاس پر پھیل کر امر ہو جائے۔ وہ خود کو میری کہانیوں کے کردار کے روپ میں دیکھنا چاہتی تھی اور اس حوالے سے کئی بار سوال بھی کیے۔

’’ آپ مجھے کہانی کے کردار میں کب ڈھالیں گے ؟‘‘

’’ میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا۔ ‘‘

’’ میرا مطلب ہے کہ آپ کی زندگی میں جو بھی لڑکی آئی، آپ کی کہانی کا حصہ بن گئی۔ ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ میں بھی کبھی اس داستاں کا حصہ بن جاؤں گی۔ ہماری دوستی میں بھی تو بہت عرصہ گزر گیا۔ ‘‘

’’میں نے اس طرف کبھی کوئی دھیان نہیں دیا۔ ہاں یہ سچ ہے کہ آپ کے ساتھ میرے بہت اچھے تعلقات رہے ہیں۔ آپ بہت اچھی ہیں اور آپ نے یہ کام منظور کر کے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے مگر میں نے اس بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں۔ کبھی آپ کا مشاہدہ بہ دل و جان کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ ‘‘

’’ کیا میری شخصیت میں اتنی جاذبیت نہیں ہے کہ آپ متوجہ نہ ہو سکے ؟لگتا ہے آپ نے مجھے اس قابل نہیں سمجھا کہ میں آپ کی کہانیوں کا کردار بن سکوں۔ ‘‘ اس نے سیدھا سپاٹ سا سوال کیا۔

’’ آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔ در اصل میری کہانیوں میں آپ کو جو بھی کردار ملیں گے وہ میرے بہت قریب رہے ہیں۔ وہ میرے ساتھ بہت مدت تک وابستہ رہے، اٹھتے بیٹھتے رہے، گفتگو کرتے رہے اور۔۔ ۔۔ ! میں نے ان کی شخصیت کو جانچا ہے، پرکھا ہے اور پھر اپنے افسانوں میں ڈھالا ہے۔ آپ میری اچھی دوست ہیں اوردوستی کی مقدس لکشمن ریکھا میں نے کبھی پھلانگنے کی کوشش نہیں کی۔ ‘‘

اس روز کے بعد وہ معمول کی طرح آتی رہی اور اپنا کام کر کے چلی جاتی۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اس میں وہ والہانہ پن غائب ہو گیا تھا جو پہلے نظر آتا تھا۔ اس کے باوجود کومل نے کنایتاً کئی بار اپنی آرزو کا مکرر اظہار کیا مگر میں نے ہر بارا س کے سوال کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ انسان سماجی شعور کے باعث کبھی غیر ارادی طور پر کچھ حد بندیوں میں جکڑ جاتا ہے اور پھراس میں سے نکل نہیں پاتا۔

ایک روز وہ نہیں آئی۔ میں بہت دیر تک انتظار کرتا رہا۔ جب انتظار کی گھڑیاں برداشت سے زیادہ بڑھ گئیں تو میرے دل کو وسوسوں نے گھیر لیا۔ میں سوچنے لگا۔ ’’ہو سکتا ہے بیمار پڑ گئی ہو۔ یوں بھی خواتین کو دو تین دن پریشانی کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ مگر لگتا ہے کہ کچھ زیادہ پرابلم ہے ورنہ ضرور ٹیلیفون پر اطلاع دیتی۔ پھر اکیلی بھی تو ہے۔ کوئی دیکھ بھال کرنے والا بھی نہیں ہے۔ ‘‘

میں خود ہی اس کے گھر چلا گیا۔ میرا اندیشہ صحیح نکلا۔ وہ پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی۔ سر میں دوپٹہ باندھ رکھا تھا۔ مجھے دیکھ کر حیران ہو گئی۔ جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔

’’ آپ کیسے آئے ؟‘‘

’’ آپ آج آئی نہیں، مجھے فکر ستانے لگی۔ سوچا پتا کر لوں کہ کوئی پریشانی تو نہیں ہے۔ آپ اکیلی ہیں۔ بیمار بھی تو پڑ سکتی ہیں۔ پھر یہاں آپ کی دیکھ بھال کرنے کے لیے کوئی بھی تو نہیں ہے۔ ‘‘

’’ ایسا کچھ نہیں ہے۔ دفتر سے واپسی پر سر میں کچھ درد سا ہونے لگا اس لیے میں نے لیٹنا ہی مناسب سمجھ لیا۔ ‘‘

’’ کچھ دوائی شوائی لے لی ہوتی؟‘‘

’’ نہیں۔ ابھی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ ‘‘

’’ کم سے کم وِکس مل لیا ہوتا۔ کچھ راحت محسوس ہو جاتی۔ اگر گھر میں نہیں ہے تو میں بازار سے لے آؤں۔ ‘‘

’’ ہاں یہ ٹھیک مشورہ ہے۔ آپ ذرا میری الماری کھول کر وِکس کی شیشی نکال لیں۔ شاید کچھ افاقہ ہو۔ ‘‘

میں نے الماری کھولی اور وِکس کی شیشی نکالی اور پھر اس سے مخاطب ہوا۔ ’’ آپ لیٹ جاؤ، میں لگاتا ہوں۔ ‘‘

میں اس کے پلنگ پر چڑھ کر دو زانو بیٹھ گیا اور اس کا سر اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا۔ بائیں ہاتھ سے اس کی ٹھوڑی پکڑ لی اور دائیں ہاتھ سے بام نکال کر اس کے ماتھے پر بڑی ملائمت سے ملنے لگا۔ ساتھ ہی ساتھ اس کا سر بھی دباتا رہا۔ وہ آنکھیں بند کر کے یک گونہ راحت سی محسوس کر رہی تھی۔ شاید اس کو کچھ اپنائیت کا احساس  ہو رہا تھا۔ اس نے بلا ارادہ میرے بائیں ہاتھ کو زور سے پکڑ لیا۔ مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ بہت دیر تک میں اس کے ماتھے اور سر کو دباتا رہا اور پھر نہ جانے کیسے میرا بائیاں ہاتھ سرک کر اس کی چھاتی تک پہنچ گیا۔ وہ کچھ بھی نہ بولی۔ میرا ہاتھ بدستور تھامے رہی۔ شاید وادیوں کی اس کھوج میں اسے بھی لذت محسوس  ہو رہی تھی۔ وہ آنکھیں بند کر کے سپنوں کی دنیا میں کھو گئی۔ دونوں کے لب خاموش تھے۔ کوئی کچھ بھی نہیں بول رہا تھا۔ وقت کیسے بیت گیا کچھ پتا ہی نہ چلا۔ اچانک میری نظر دیوار پر ٹنگی ہوئی گھڑی پر پڑی۔ رات کے دس بج چکے تھے۔ مجھے احساس ہوا کہ اس نے ابھی تک کچھ کھایا ہی نہیں ہے۔ اس لیے بول اٹھا۔

’’ ڈنر کے لیے کیا انتظام ہے ؟‘‘

’’ ڈنر کھانے کو جی نہیں کرتا۔ اگر آپ کھائیں گے تو ہوم ڈیلوری سے منگواؤں گی۔ ‘‘

میں نے ہامی بھر لی۔ اور اس نے جلدی سے ٹیلی فون کر کے ہوم ڈیلوری سے کھانا منگوایا۔ آج نہ جانے کیوں ڈنر کھانے میں عجیب سا لطف آ رہا تھا۔ بہت دنوں بعد کسی کے ساتھ ایسی یگانگت سے بیٹھ کر کھانے کا مزہ کچھ اور ہی لگ رہا تھا۔ پھر ڈنر ختم ہوتے ہی میں نے اجازت لے لی۔ وہ بستر سے اتر کر نیچے صدر دروازے تک مجھے چھوڑنے آئی اور میرے قریب کھڑے ہو کر مجھے پیاسی آنکھوں سے گھورنے لگی۔ اس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ بدن سے ایک عجیب سی شعاع ریزی  ہو رہی تھی۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے آگے بڑھ کر اس کی کمر میں اپنے بازو حمائل کر دیے اور اس کے لب چوم لیے۔ وہ بہت دیر تک میرے ساتھ جنگلی چھپکلی کی طرح چمٹ کر کھڑی رہی۔ کچھ دیر بعد میں پیچھے ہٹ گیا اور پھر بوجھل قدموں سے گیٹ کے باہر نکل گیا۔ وہ مجھے تب تک دیکھتی رہی جب تک میں آنکھوں سے اوجھل نہ ہوا۔

ہماری نزدیکیاں روزبروز بڑھتی گئیں اور ترجمہ کاری کی رفتار سست ہوتی رہی۔ ترجمہ کرتے کرتے اکثر میری آنکھیں اِدھر اُدھر بھٹکنے لگتیں۔ اور الفاظ حلق میں یوں اٹکنے لگتے جیسے زبان کسی خاردار جھاڑی میں پھنس گئی ہو۔ متن میں سے اس کا وجود ابھر آتا اور کانوں میں اس کی سانسوں کا زیر و بم سنائی دیتا۔ وہ دھک دھک کرتا ہوا سینہ، وہ خمار بھری آنکھیں، وہ رس بھرے ہونٹ میرا تعاقب کرتے اور کتاب کو میز پر الٹا رکھ کر میں اس کو بھینچنے کے لیے پریشاں ہو جاتا۔ شاید اس کا بھی یہی حال تھا۔ اس کی آنکھیں غلافی ہو جاتیں، چہرہ تمتما اٹھتا اور انگلیوں میں ارتعاش پیدا ہوتا۔

اب تو میرا اس کے گھر آنا جانا معمول بن چکا تھا۔ وہ ہرا توار کو میرا انتظار کرتی اور میں دن بھراسی کے پاس بیٹھا رہتا۔ کوئی ترجمہ نہیں، کوئی لٹریچر نہیں۔ بس صرف باتیں۔ اِدھر اُدھر کی باتیں۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ ہم کیا باتیں کر رہے ہیں۔ اپنی زندگی کے اوراق الٹ پلٹ کرتے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کتنا بڑا خزانہ تھا جو ہم ایک دوسرے کے ساتھ ساجھا کرتے۔ اور پھر لنچ یا ڈنر۔ کبھی اس کے ہاتھ کا بنا ہوا اور کبھی ہوم ڈیلوری کا۔ اور پھر چائے یا کوفی اور ساتھ میں بسکٹ۔ دن بھی نہ جانے کیسے بھاپ بن کر اڑ جاتا۔ ایک دوسرے کی بانہوں میں جھول کر وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوتا۔

مجھے اتنا تو یقین تھا کہ یہ لڑکی کچھ سنکی سی ہے۔ میرے علاوہ بھی اس کے کئی دوست تھے مگر کس سے کیا رشتہ تھا میں نے کبھی جاننے کی کوشش نہیں کی۔ البتہ اس کے خیالات سے اس کی شخصیت کا اندازہ کرنا مشکل نہ تھا۔ وہ آزاد پنچھی کی طرح اڑان بھرنے کی عادی ہو چکی تھی۔ اسے اپنی آزادی بہت پیاری تھی۔ اپنے دوستوں سے جب بھی وہ ٹیلی فون پر بات کرتی تھی یوں لگتا کہ وہ ان سے دل لگی کر رہی ہے، ان کو غیر ضروری ملحقات سمجھتی ہے جیسے وہ کھلونے ہوں، کھیل کر دور پھینک دینے یا پھر اپنی الماری میں مستقبل کے لیے اٹھا کر رکھنے کے لیے۔ دوستوں کے ٹیلی فون آتے تو کبھی فوراً اٹھا لیتی اور کبھی اٹھاتی ہی نہ تھی جب تک وہ بے چارہ تھک کر خود ہی اس کی تلاش بند کر دیتا۔ مجھے اس کی یہ عادت انوکھی لگتی۔ اس لیے جب کبھی میں اس کو ٹیلیفون کرتا، اگر گھنٹی دو تین بار بجتی اور وہ ریسیور نہیں اٹھاتی، میں خود ہی سمجھ لیتا تھا کہ اس کو بات کرنے کا موڈ نہیں ہے یا وہ کسی دوسرے دوست کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہے۔ اس لیے چپ چاپ ٹیلی فون رکھ دیتا۔

انھی دنوں عدالت نے میری طلاق منظور کر لی۔ اس لیے میں کسی اور شریک حیات کی تلاش میں تھا۔ میں نے سوچا کہ میرا فرض بنتا ہے کہ میں کومل کے سامنے شادی کی تجویز رکھ لوں حالانکہ متوقع جواب سے بھی باخبر تھا۔ تاہم میں موقع پا کر اس سے مخاطب ہوا۔

’’ کومل، میری طلاق منظور ہو چکی ہے۔ تم اگر مناسب سمجھ لو تو ہم دونوں شادی کر سکتے ہیں۔‘‘

کمرے میں اس کا قہقہہ گونجا۔ پھر اس کی آواز سنائی دی۔ ’’ شادی۔۔ ۔۔ ! لگتا ہے آج کچھ بھنگ پی کر آئے ہو۔ ‘‘

’’ کیوں کبھی تو تمھیں شادی کرنی ہی پڑے گی۔ عمر بھی بہت ہو چکی ہے۔ پھر کب کرو گی۔ ‘‘ مجھے اپنی اور اس کی عمر کے تفاوت کا احساس تھا مگر چنانچہ ہم دونوں کافی گھل مل گئے تھے اس لیے میں نے سوچا کہ شاید وہ راضی ہو جائے۔

’’میں نے کبھی شادی کرنے کے بارے میں سوچا ہی نہیں۔ ‘‘ وہ بولی۔

’’ شادی تو ایک نہ ایک روز کرو گی ہی۔ عورت ہو۔ کسی کے سہارے کی ضرورت تو پڑے گی۔ آخر یہ جوانی تو ہمیشہ ساتھ دینے سے رہی۔ پھر اس وقت کہاں جاؤ گی۔ کوئی تو ساتھ ہونا چاہیے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رہے ہیں اور ایک دوسرے کی اچھائیوں اور برائیوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ ‘‘

’’ تم نے بھی تو شادی کی تھی۔ کہاں ہے وہ تمھاری رفیقۂ حیات ؟ اس نے بھی تو یہی سوچ کر شادی کی ہو گی کہ بڑھاپے کا سہارا مل جائے گا۔ اب طلاق کے بعد کون اس کا ساتھ دے گا۔ اور پھر تم بھی تو اکیلے پڑ گئے۔ تمھارے بڑھاپے میں کون تمھارا ساتھی ہو گا؟ جیسے تم جیو گے ویسے ہی میں بھی جیوں گی۔ اور پھر مان لو میں کسی سے شادی کر بھی لوں اور وہ چند سال کے بعد مر جائے، پھر اس وقت میرا کیا ہو گا؟‘‘

’’ تب تک تمھارے بچے ہوں گے۔ وہ تمھارا سہارا بنیں گے۔ ‘‘

’’ کیا ضروری ہے کہ میرے بچے ہوں گے۔ اور اگر ہوں گے بھی تو کیا ضروری ہے کہ وہ میرے ساتھ ہی رہیں گے۔ کتنی مثالیں دے سکتی ہوں جہاں اولاد نے بوڑھے ماں باپ کو چھوڑ دیا اور وہ تنہا رہ گئے۔ پھر کیوں میں ان چند ساعتوں کے عدم تحفظ کی خاطر اپنی جوانی کی طویل گھڑیاں قید و بند میں ضائع کر لوں۔ ‘‘

’’ تمھارے خیالات انوکھے ہیں۔ نارمل لگتے ہی نہیں۔ ‘‘

’’ نارمل ہوتی تو تم میرے ساتھ اس وقت یہاں نہیں ہوتے۔ میں کسی کے کچن میں بھاڑ جھونک رہی ہوتی۔ ایک بات کہوں۔ حیران تو نہیں ہو گے۔ ‘‘

’’ نہیں ایسی کوئی بات نہیں، کہہ دو۔ ‘‘

’’ میں اپنے بیڈ روم میں کسی دوسرے شخص کا تصور کر ہی نہیں سکتی۔ میں کسی کو اپنی پرائیویسی کا شریک بنانے کی سوچ بھی نہیں سکتی۔ مجھے ایسالگے گا کہ کوئی جیلر دن رات میری رکھوالی کر رہا ہے۔ میں اپنی آزادی کھونا نہیں چاہتی۔ ‘‘

میں اپنی حماقت پر پشیمان ہو گیا۔ ماحول میں عجیب سے مایوسی چھا گئی۔ دل میں پچھتانے لگا کہ میں نے یہ پروپوزل رکھا ہی کیوں۔ خیر اب تو کمان سے تیر نکل چکا تھا۔ اب اس کا کوئی مداوا نہیں تھا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ وہ خفا ہوئی ہو گی اور اب جانے میں ہی میری خیریت ہے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس نے معمول کی طرح ہوم ڈیلوری سے کھانا منگوایا اور پھر ہم دونوں نے اسے نوش فرمایا۔ حالانکہ آج مجھے کچھ ہچکچاہٹ سی  ہو رہی تھی مگر اس کے وتیرے میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیا۔ وہ پہلے جیسی ہی تیز طرار، زندہ دل، اور خوش طبع نظر آ رہی تھی۔

ہماری دوستی پرانی ڈگر پر اسی رفتار کے ساتھ چلتی رہی جب تک اس کا ٹرانسفر آرڈر آ گیا۔ اس کو ترقی مل گئی اور نہ صرف وہ بلکہ میں بھی بہت خوش ہوا۔ پھر اس کے جانے کا دن آ گیا۔ دن کیا، جانے کی ساعت آ گئی۔ کمرے میں سارا سامان پیک کر کے بکھرا پڑا تھا۔ فرنیچر، کچن کا سامان، کتابیں، ٹی وی، میوزک کا سامان وغیرہ۔ اس کو رخصت کرنے کے لیے اس کے سارے دوست ریلوے سٹیشن پر انتظار کر رہے تھے جن میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی۔ لیکن میں اس کے گھر پہنچ گیا۔ میرے بعد اس کا ایک اور دوست چلا آیا جس کو اس نے ٹرک میں سامان بھجوانے کی ذمے داری سونپی تھی۔ اس کو دیکھتے ہی وہ تلملا اٹھی۔ وہ یہ چند لمحے گنوانا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے کچھ بہانا بنا کر اس دوست کو دوبارہ کسی کام سے مارکیٹ بھیج دیا۔ اس کے جاتے ہی وہ جلدی جلدی کمرے کے اندر آ گئی اور مجھ سے لپٹ گئی۔ وہ مجھ پر محبتوں کی برسات کرنے لگی۔ کمرے کا سماں دیکھ کر مجھے اس کی اس وحشت پر حیرت ہو رہی تھی۔ مگر وہ تھی کہ اس گھڑی کو یادگار بنانے پر تلی ہوئی تھی۔

تھوڑی دیر بعد اس کا دوست لوٹ آیا اور ہم تینوں اسی کی کار میں ریلوے سٹیشن پہنچ گئے۔ وہاں دوستوں کے سبب ہمارے بیچ کوئی مزید بات نہیں ہو سکی۔ صرف گاڑی کے چلتے ہوئے میں بے دلی سے اپنا ہاتھ ہلاتا رہا۔

شاید اس کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہے یا پھر اگر کبھی کبھار مل بھی گئے تو وہ پہلی سی بات نہیں بنے گی کیونکہ اب تک اس کو میرے کردار کی واقفیت پوری طرح ہو چکی تھی۔ البتہ اسے اب یہ یقین ہو چلا تھا کہ اس کا کردار میری کہانی میں ایک نہ ایک دن ضرور نقش ہو جائے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

جاگتی آنکھوں کے خواب

 

آرزوؤں کی اُڑان کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ وہ نہ مالی حالت دیکھتی ہے اور نہ سماجی رتبہ۔ شعبان ڈار کی دِلی آرزو تھی کہ اس کے دونوں بیٹے، خالد اور اشتیاق ڈاکٹر بن جائیں۔ در اصل ان دنوں اکثر والدین اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر ڈاکٹر یا انجینئر بنانا چاہتے تھے۔ ان پیشوں کے علاوہ کچھ سوجھتا بھی نہ تھا۔ خود شعبان ڈار سونم پورہ ہائر سیکنڈری سکول میں بیالوجی ٹیچر تھے۔ اس کے تحت تعلیم پائے ہوئے کئی طلبہ ڈاکٹر بن چکے تھے۔ ان سے کبھی کبھار اتفاقاً سامنا ہو جاتا تو شعبان ڈار کی چھاتی گز بھر کی ہو جاتی۔ استاد کی فطرت ہی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ اپنے طالب علم کو ترقی کرتا دیکھ کر پھولا نہیں سماتا ہے۔ شعبان ڈار اپنے بچوں کے لیے بھی دعائیں کرتا کہ دونوں ڈاکٹر بن کر اس کا نام روشن کر لیں۔ آخر کار خدا نے اس کی سن لی۔ دونوں لڑکے پانچ سال کی وقفے سے ایک کے بعد ایک میڈیکل کالج میں داخلہ لینے میں کامیاب ہو گئے۔ شعبان ڈار شکم سیر ہوا اور اب اسے مزید کچھ مانگنے کی ضرورت نہ تھی۔ روزانہ صبح و شام خدا کا شکر بجا لاتا۔

بڑا لڑکا خالد محمود بہت ہی ذہین تھا۔ اپنی محنت اور لگن کے بل بوتے پر ایم بی بی ایس میں امتیازی نمبر حاصل کر کے چند مہینے گورنمنٹ ہسپتال میں ملازم ہو گیا۔ وہاں جتنی دیر رہا، آتش زیر پا رہا۔ پھر بنک سے تعلیمی قرضہ لے کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکا چلا گیا۔ تعلیم مکمل کرتے ہی وہاں اچھی نوکری ملی اس لیے امریکا کو ہی مستقر بنا لیا۔ سال میں ایک بار چھٹی مل جاتی تو والدین کی خیر خبر لینے چلا آتا اور وقتاً فوقتاً مالی اعانت کرنا اپنا فرض سمجھ لیتا۔ لیکن کچھ مدّت کے بعد حالات نے عجیب سی کروٹ لے لی۔ اس نے امریکا ہی میں شادی کر لی اور اپنی بیوی کے ہمراہ چھٹیاں منانے کے لیے کشمیر چلا آیا۔ ابتدا میں خالد کی یہ کوشش رہی کہ بیوی گھر کے ماحول میں ڈھل جائے مگر جب اسے احساس ہوا کہ اس کی بیوی کو وہاں کی ہوا راس نہیں آئی تو گرینڈ پیلس ہوٹل میں منتقل ہوا۔ دونوں کے شب و روز زیادہ تر دور دراز صحت افزا مقامات جیسے پہلگام، گلمرگ، سونمرگ، کوکر ناگ، یوس مرگ وغیرہ ہی میں گزرنے لگے تاکہ والدین سے کوئی تعامل نہ رہے۔ البتہ جاتے وقت والدین کے پاس حاضری دی اور انھیں کچھ روپے دینے کی کوشش کی مگر والد نے صاف انکار کر دیا۔ خالد کو یہ بھی معلوم ہوا کہ ماضی میں جو رقوم اس نے اپنے والد کو دی تھیں وہ سب تعلیمی قرضے کو اتارنے کے لیے اسی کے بنک کھاتے میں جمع ہو چکی ہیں۔ الوداع کہتے وقت سوزش دل کے سبب ماں کی آنکھوں میں کہرا اٹھتا رہا پھر بھی اس نے ضبط کا دامن نہیں چھوڑا۔

اِدھر چھوٹے بھائی، اشتیاق احمد نے بھی ڈاکٹری کا امتحان پاس کر لیا اور ان ہاؤس ٹریننگ کرنے کے بعد سرکاری ہسپتال ہی میں تعینات ہوا۔ بڑے بھائی کے چلے جانے کے بعد گھر کی دیکھ ریکھ کی ذمے داری اس کے سر پر آن پڑی تھی اور وہ اسے بخوبی نبھا تا رہا۔ کم سے کم اسے اس بات کی تسلی تھی کہ کالج میں جس لڑکی کو دل دے بیٹھا تھا وہ کشمیری ہے۔ شاہینہ ملکۂ حسن تھی۔ اسے دیکھ کر گل لالہ بھی شرما جاتا۔ گوری، سڈول، خم دار، نازک خرام اور خوش گفتار۔ بڑے نازوں کی پلّی تھی۔ راج باغ میں اس کے والدین کا تین کنال زمین پر ایک خوبصورت بنگلہ تھا۔ بنگلے کے سامنے رنگا رنگ پھولوں اور پھل دار درختوں سے مزّین بہت بڑا باغ تھا۔ اشتیاق خود کو بہت ہی قسمت والا سمجھ رہا تھا۔ عشق ایسی چیز ہے جو آدمی کی آنکھوں پر پردہ ڈالتی ہے۔ اس کے سوچنے کی قوت سلب ہو جاتی ہے۔ اشتیاق کو اپنی معشوقہ کے سوا دنیا میں اور کوئی چیز اچھی نہیں لگتی تھی۔

شادی بڑے دھوم دھام سے ہوئی۔ چنانچہ شاہینہ والدین کی اکلوتی بیٹی تھی اس لیے والد نے روپیہ پانی کی طرح بہا دیا۔ لیکن شادی کے فوراً بعد دونوں گھروں کے درمیان کی خلیج سامنے آئی۔ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی۔ شادی کے کچھ ہی مہینے بعد شاہینہ اس بات پر مصر تھی کہ دونوں اس کے میکے کے مکان میں شفٹ ہو جائیں۔ اشتیاق کے پوچھنے پر کہ ابّا اور امّی کا کیا ہو گا اس نے جواب دیا۔ ’’ وہ بھی ہمارے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ وہاں ان کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہو گی۔ ‘‘

شعبان ڈار اور نسیمہ نے اپنے بیٹے اور بہو کی تجویز یک لخت ٹھکرائی۔ ایک تو یہ کہ جس مکان میں وہ رہ رہے تھے، اس کو بیس برس پہلے انھوں نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے از سر نو تعمیر کیا تھا۔ وہ ان کی محبت کا شیش محل تھا۔ دوسرے یہ کہ شعبان ڈار انانیت پسند اور خوددار آدمی تھا۔ اس نے پوری زندگی قناعت سے گزاری تھی اور کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا تھا۔ اسے بچوں کی اس تجویز میں اپنی انّا کی تحقیر نظر آ رہی تھی۔ دو ٹوک جواب دیا۔

’’ اشتیاق، جب تک ہم زندہ ہیں، اس آبائی جگہ کو نہیں چھوڑیں گے۔ یہاں ہمارے پُرکھوں کی اساس ہے۔ یہ ہمارے لیے متبرک ہے۔ تمھارا بڑا بھائی فرنگن کے ساتھ امریکا میں جا بسا، ہم نے کبھی کوئی سوال نہیں پوچھا۔ تم نے اپنی مرضی سے شادی کی، ہم نے تمھاری بات بھی مان لی کیونکہ وہ تمھاری نجی زندگی کا فیصلہ تھا۔ مگر میری یہ درخواست ہے کہ ہماری زندگی میں دخل دینے کی کوشش نہ کرو۔ ہم اپنا بُرا بھلا جانتے ہیں۔ ہم سے ہماری آزادی مت چھین لو۔ ‘‘

جواب سن کر اشتیاق اور شاہینہ گھر چھوڑ کر راج باغ منتقل ہو گئے اور وہیں گراونڈ فلور میں تین بیڈ کا نرسنگ ہوم کھول دیا۔ مہینے کے آخر میں اشتیاق خیریت پوچھنے اور کچھ روپے دینے کے لیے اپنے والد کے سامنے حاضر ہوا۔ والد نے پھر اسی ترشی سے اسے ٹھکرا دیا۔

’’ بیٹے، میں نے تمھارے بڑے بھائی کو بھی منع کر لیا اور تمھیں بھی کرتا ہوں۔ میں اور نسیمہ دونوں معقول پنشن پاتے ہیں جو دو نفوٗس کے لیے ضرورت سے زیادہ ہے۔ خدا ہم پر ہمیشہ مہربان رہا ہے۔ خدانخواستہ کبھی ہم پر کوئی مصیبت آ جائے اور ہم دوسروں کے رحم و کرم کے محتاج ہو جائیں۔ پھر بھی اگر ایسا ہوا تو اپنے بچوں سے نہ مانگیں گے تو کس کے پاس ہاتھ پھیلائیں گے۔ تم اطمینان رکھو۔ ‘‘

جواب سن کر اشتیاق کھسیاناہو گیا۔ روپے واپس کوٹ کی جیب میں ڈال دیے اور اپنا سا منہ لے کر لوٹ گیا۔ اس روز کے بعد اس کا چہرہ خال خال ہی نظر آنے لگا۔ یہ وہی دن تھے جب کشمیر میں دہشت کے بادل منڈلانے لگے تھے۔ ہر طرف شور و غل، آہ و زاری اور نالہ و فریاد سنائی دے رہی تھی۔ فضا میں بارود کی بو بس گئی تھی۔ کبھی سرکار کی طرف سے کرفیو یا جامہ تلاشی کا اعلان ہوتا اور کبھی حریت پسند تنظیمیں سول کرفیو، ہڑتال یا پھر بندھ کا اعلان کرتیں۔ بیچ میں عوام پس کر رہ جاتی۔ غریب لوگوں کا کیا، وہ جس طرف پلڑا بھاری دیکھتے ہیں اسی طرف رخ کرتے ہیں۔ وہ نہ سرکار کے منہ لگنے کی قابلیت رکھتے ہیں اور نہ ہی دہشت پسندوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ انھیں اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ جان بچی تو لاکھوں پائے۔

ہر روز کہیں بم پھٹنے کی خبریں ملتیں، کہیں گولیاں چلتیں اور کہیں ٹیئر گیس کے گولے داغے جاتے۔ درجنوں لوگ زخمی ہو جاتے اور ان میں سے چند ایک دم توڑ دیتے۔ ملی ٹنٹوں کی حکمت عملی یہ رہتی کہ کسی گلی کوچے سے نکل کر لوگوں کی بھیڑ میں گھس جاتے اور فوجی بنکروں پر یا تو ہتھ گولے پھینک دیتے یا پھر گولیاں برساتے۔ جب تک مکافاتی کار روائی ہوتی، وہ منظر سے غائب ہو جاتے۔ فوجی کار روائی میں جو گولیاں چلتیں ان سے عموماً معصوم شہری مر جاتے اور اس بات کو حریت پسند تنظیمیں انسانی حقوق کے تحت اچھالنے میں کامیاب ہو جاتے۔ دہشت گردی کے ابتدائی دور میں انتظامیہ ٹھپ ہو گیا اور نظام کا کچھ حصہ ان تنظیموں کے قبضے میں آ گیا۔ انھیں یقین ہو گیا کہ سیکورٹی فورسز کو پسپا کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی اور اب آزادی بہت دور نہیں۔ اِدھر دہشت گردوں کی وارداتیں بڑھتی گئیں، اُدھر سیکورٹی فورسز کے پِکٹوں اور بنکروں کی تعداد بڑھتی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ساری وادی فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہو گئی۔ ناکہ بندی، جامہ تلاشیاں اور حراستیں معمول بن گئیں۔ ان غیر یقینی حالات کو دیکھ کر طبقۂ اشرافیہ وادی چھوڑ کر باہر چلا گیا۔ تجارت پیشہ لوگوں نے دہلی، ممبئی، کولکتہ اور خلیجی ممالک میں اپنی دکانیں کھول دیں جبکہ پیشہ ور لوگوں، خاص کر ڈاکٹروں، نے یورپی ممالک اور امریکا کا رخ کر لیا۔ وادی میں بس نام کے ڈاکٹر رہ گئے۔ جن ڈاکٹروں کو پہلے کوئی گھاس تک نہیں ڈالتا تھا وہ سپیشلسٹ کہلانے لگے۔ تنظیمی سربرا ہوں کی خوشنودی کے لیے انھوں نے ہفتہ میں ایک دن غریبوں کو مفت علاج کرنے کے لیے مختص کر لیا۔ مریضوں کے نسخوں پر ٹیسٹ اور ادویات کے نام لکھتے لکھتے کہیں کوئی جگہ نہیں بچ پاتی۔ دس بارہ دوائیاں اور دو تین ٹیسٹ لکھ دیے اور تین چار سو بطور کمیشن کما لیے۔ پھر مشورے کی فیس لینے کی کیا ضرورت تھی۔

اشتیاق اور شاہینہ کو یہ سب راس نہ آیا۔ خالد سے رابطہ کر کے وہ بھی امریکا جا کر نوکری کرنے لگے۔ یہاں وادی کے حالات روز بروز بگڑتے چلے گئے جس کی خبریں پڑھ کر دونوں بھائیوں نے چھٹی کے ایام میں کشمیر آنا ترک کر لیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شعبان ڈار اور نسیمہ کی صحت گرنے لگی تاہم دونوں خدا کی عبادت میں اپنا بیشتر وقت صرف کرتے رہے۔ شعبان ڈار مسجد میں اور نسیمہ گھر پر ہی پنجگانہ نماز ادا کرتی۔ عبادت کے دوران ان کی آنکھیں خود بہ خود نم ہو جاتیں۔ اب نہ تو ان کے چہرے پر وہ پہلی سی رونق نظر آتی تھی اور نہ ہی وہ بشاشت۔

کبھی کبھی نسیمہ کے پیٹ میں درد اٹھتا مگر وہ برداشت کرتی اور اسے ظاہر نہ ہونے دیتی تاکہ اس کا ہراساں شوہر مزید پریشاں نہ ہو۔ البتہ یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چل سکا۔ ایک روز نسیمہ شدت درد سے تڑپنے لگی اور اس کے منہ سے چیخیں نکلنے لگیں۔ شعبان ڈار نے جلدی سے پانی پلایا اور پھر ٹیکسی منگوا کر اس کو شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ، صورہ لے کر گیا۔ ڈاکٹروں نے دیکھتے ہی تاسف کا اظہار کیا۔ تاہم وہ تب تک کوئی فیصلہ نہیں دینا چاہتے تھے جب تک سبھی ٹیسٹوں کے رپورٹ نہ آ جاتے۔ دو تین روز میں رپورٹ آ گئے اور یہ طے پایا کہ نسیمہ کو رحم کا سرطان ہے اور وہ بھی ایڈوانسڈ سٹیج پر۔ ایک ڈاکٹر نے شعبان ڈار کو ایک طرف لے جا کر کہا۔ ’’ ڈار صاحب، اس سے پہلے آپ مریض کو کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں لے گئے تھے ؟ آپ نے تو بہت دیر کر دی ہے۔ ‘‘

شعبان ڈار جیسے آسمان سے گر پڑا۔ ’’ کیوں کیا بات ہے ڈاکٹر صاحب ؟نسیمہ نے تو اس سے پہلے کبھی کوئی شکایت نہیں کی۔ بس کبھی کبھار کہتی تھی کہ پیٹ میں معمولی سا درد ہو رہا ہے۔ خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘

’’خبر کچھ اچھی نہیں ہے۔ اس کو وومب کا کینسر ہے۔ اور اب اوپر والا ہی بچا سکتا ہے۔ ‘‘

شعبان ڈار کے جیسے لب سِل گئے۔ کچھ بول نہیں پا رہا تھا۔ آنکھوں میں آنسو امڈتے چلے آئے۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کی رفیقِ حیات اس طرح دغا دے جائے گی۔ وہ سوچنے لگا کہ کہیں اس نے اشتیاق کی بات نہ مان کر غلطی تو نہیں کی تھی۔ اسے اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا تھا۔ نسیمہ تو اس کا سایہ بن کر رہتی تھی۔ کبھی بھی اس کو تنہا محسوس نہ ہونے دیا۔ اور خود وہ بھی تو اسے بہت پیار کرتا تھا۔ اپنی جان سے بھی زیادہ۔ ایسی جوڑیاں تو دنیا میں بہت کم نظر آتی ہیں۔

ڈاکٹر صاحب اس کی خاموشی کو دیکھ کر پھر گویا ہوا۔ ’’ ہم بہت کوشش کر رہے ہیں۔ ان کو ریڈیشن تھیریپی یا کیموتھریپی دینے پر غور کیا جا رہا ہے۔ دیکھتے ہیں کیا کارگر ہو سکتا ہے۔ ‘‘

دس پندرہ روز یوں ہی گزر گئے۔ نسیمہ پنجر بنتی جا رہی تھی۔ اس کے دل میں بس ایک آخری آرزو تھی کہ مرنے سے پہلے کاش وہ ایک بار، صرف ایک بار، اپنے بچوں کو دیکھ پاتی۔ نہ جانے کہاں ہوں گے ؟مگر وہ اس خواہش کا اظہار کرنے سے گھبرا رہی تھی۔ یہاں تک کہ ایک روز خالد کا ٹیلی فون آیا مگر شعبان ڈار نے اپنی بیوی کے مرض کی بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ ہوں ہاں کر کے موبائیل کا سوئچ آف کر دیا۔ نسیمہ چپ چاپ اپنے آنسو پیتی رہی۔

اب تونسیمہ کی الٹی گنتی شروع ہو گئی تھی۔ سبھی ڈاکٹروں نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ نرس کو یہ سب کچھ معلوم تھا۔ اس نیک اور پارسا عورت کو دیکھ کر اسے نسیمہ پر ترس آیا۔ شوہر کی غیر موجودگی میں نرس نے اسے پوچھ لیا۔ ’’ نسیمہ بی بی، یہاں صرف آپ کے شوہر آتے ہیں۔ کیا آپ کے گھر میں اور کوئی نہیں ہے ؟‘‘

نسیمہ کی آنکھیں ڈبڈبائیں۔ نرس کو یوں لگا جیسے اس سے کوئی گناہ سر زد ہوا ہو۔ اس نے مریضہ کو ڈھارس بندھانے کی کوشش کی۔ کچھ دیر کے بعد نسیمہ بول پڑی۔ ’’ بیٹی، ہے کیوں نہیں۔ دو دو بیٹے ہیں۔ دونوں امریکا میں ہیں۔ ایک نامور آ نکولوجسٹ(ماہر سرطان ) ہے اور دوسرا سرجن سپیشلسٹ ہے۔ بہویں بھی ڈاکٹر ہیں۔ مگر حالات دیکھ کر دونوں یہاں سے بھاگ گئے۔ وہ اس جہنم میں نہیں رہنا چاہتے تھے۔ میرے شوہر نے انھیں روکا بھی نہیں۔ وہ تو مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیار کرتے ہیں۔ انھوں نے مجھے کبھی بھی بچوں کی غیر موجودگی کا احساس نہ ہونے دیا۔ ‘‘

’’ ان کو معلوم ہے کیا؟‘‘

’’ نہیں سسٹر ہم نہیں چاہتے کہ وہ پریشاں ہوں۔ دنیا میں آنا جانا تو لگا ہی رہتا ہے۔ میرا تو کیا۔ دو چار روز کی مہمان ہوں۔ ‘‘

’’ نہیں بہن، ایسے ہمت نہیں ہارنا چاہیے۔ آپ کے پاس ان کا نمبر تو ہو گا۔ میں خود بات کر لوں گی۔ ‘‘

’’ نہیں سسٹر، ڈار صاحب بہت ناراض ہو جائیں گے۔ ‘‘

’’ آپ اطمینان رکھیں۔ میں ایسے اطلاع دوں گی کہ ڈار صاحب کو بالکل شک نہ ہو گا۔ ‘‘

’’ ٹھیک ہے سسٹر۔ وہ دراز ہے نا۔ اس میں میری ڈائری ہے۔ اسی میں نوٹ کر لیا ہے۔ مگر دیکھو سسٹر، ہوشیاری سے بات کرنا۔ اس کو پتا نہ چلے کہ میں نے تمھیں ٹیلیفون کرنے کو کہا ہے۔ اور میرے خاوند کو بھی اس بات کی بھنک نہیں پڑنی چاہیے۔ ‘‘

سسٹر نے اپنے موبائیل سے ڈاکٹر خالد محمود، کینسر سپیشلسٹ کا موبائیل نمبر ملایا اور اس کو بڑی ہوشیاری سے خبر دی کہ اس کی ماں کینسر سے مر رہی ہے اور زیادہ دن نہیں بچ پائے گی۔ خالد محمود کے پاؤں تلے زمین کھسک گئی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ وہ سوچنے لگا کہ ابو نے اتنی بڑی بات اسے کیسے چھپائی۔ خیر اس نے جلدی سے اشتیاق کو بھی خبر کر دی اور دونوں دوسرے دن دہلی کے لیے روانہ ہو گئے اور وہاں سے کشمیر بذریعہ طیارہ پہنچ گئے۔

اِدھر نسیمہ اس تذبذب میں تھی کہ اس نے صحیح قدم اٹھایا یا نہیں ؟ تین دن اسی اضطراب میں گزر گئے اور اس کی آنکھیں دروازے کی جانب لگی رہیں۔ اُدھر ہوائی اڈّے پر پہنچ کر دونوں بیٹے براہ راست صورہ ہسپتال کی طرف روانہ ہو گئے۔ ہسپتال پہنچ کر انھوں نے ریسیپشن سے نسیمہ کا روم نمبر معلوم کر لیا اور وہاں کی طرف چل دیے۔

کمرے میں داخل ہوتے ہی ان کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ ان کی والدہ کو سفید چادر میں لپیٹا گیا تھا اور ہسپتال کے کرمچاری اس کی لاش کو سٹریچر پر ٹرانسفر کرنے میں منہمک تھے۔ شعبان ڈار مبہوت کھڑا اپنی محبوبہ کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا تھا۔ اسے یقین نہیں  ہو رہا تھا کہ نسیمہ اس کو چھوڑ کر چلی گئی۔

اسی روزنسیمہ کو سپرد خاک کر کے باپ بیٹے واپس گھر پہونچے۔ شعبان ڈار کو ایسا لگ رہا تھا کہ گھر میں سے روح غائب ہو چکی ہے۔ سبھی دیواریں اس کو کھانے کو دوڑ رہی تھیں۔ دوسری صبح بیٹوں نے اپنے والد سے ضد چھوڑنے کی درخواست کی اور ان کے ہمراہ چلنے کی تاکید کی۔ انھوں نے بہت سمجھایا۔ ’’ابو جان، ابھی تک تو چلو آپ کی رفیقِ حیات زندہ تھی اور آپ کی دیکھ بھال کرتی تھی مگر اب آپ اکیلے ہیں، اس لیے بہتر یہ رہے گا کہ آپ ہمارے ساتھ چلیں۔ زندگی کی اونچ نیچ کا کیا بھروسہ!‘‘

شعبان ڈار چند لمحوں کے لیے چُپ رہا اور پھر کچھ سوچ کر جواب دیا۔ ’’ نہیں بیٹے، اب تو بالکل بھی نہیں۔ وہ ہوتی تو شاید میں غور بھی کر لیتا مگر اب میں پردیس میں جا کر مرنا نہیں چاہتا۔ میں مرنے کے بعد نسیمہ کی قبر کی بغل میں ابدی نیند سونا چاہتا ہوں۔ اس کی رفاقت نے مجھے آج تک زندہ رکھا، آگے بھی کوئی سبیل نکل ہی جائے گی۔ شاید خدا کو یہی منظور تھا۔ ‘‘

آج پہلی بار بیٹوں کے سامنے اس کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

ڈاک بابو

 

انگریزوں کے قاعدے قانون آج بھی ہمارے ملک میں رائج ہیں۔ دیوانی قانون۔۔ ۔ فوجداری قانون۔۔ ۔۔ تعزیراتِ ہند۔۔ ۔۔ ! ہندستان ہی کیا پورے برِصغیر کی یہی حالت ہے۔ انگریزوں نے ہمارے نظام کو اتنا مسخ کر دیا کہ اب یوں لگتا ہے کہ ان سے پہلے ہندستان میں حکومتوں کا وجود ہی نہ تھا اور اگر تھا بھی تو سب کچھ من مرضی سے ہوتا رہا ہو گا کیونکہ قوانین تو بس انگریزوں نے ہی رقم کیے ہیں۔ اس پر سوچتا ہوں تو حیرت میں پڑ جاتا ہوں۔

خیر جو بھی ہو۔ ڈاک خانے کے بارے میں مجھے کوئی شک نہیں کہ یہ انگریزوں کی ہی ایجاد ہے۔ ڈاک خانے کے نظام کو چلانے کے لیے انگریزوں نے بیگ بند کرنے اور اس پر سُتلی باندھنے سے لے کر ڈاک خانے کی عمارتوں تک کے قواعد و ضوابط کتابوں میں قلم بند کیے ہیں۔ ایک درجن کے قریب دستور العمل ہیں جو کئی انگریزافسروں نے نہایت ہی فرصت سے لکھے ہیں اور اب تک جاری و ساری ہیں۔ اس پر طرّہ یہ کہ آزادی کے بعد جب بھی ان قواعد و ضوابط کو تبدیل کرنے یا ان کی ترمیم کرنے کی کوشش کی گئی، نیا حکم پرانے حکم سے بدتر ثابت ہوا۔ حکم صادر ہونے سے پہلے اس کی درستگی کے لیے درجنوں ترمیمات ایشوع کی جاتی ہیں۔ مقامی اختراع پسندی اور زیرکی کی ایک مثال پیش کروں تو زیادہ موزوں رہے گا۔ بہت برسوں کی ما تھا پچی کے بعد یہ طے ہوا کہ معائنے کے سوالنامے کو، جو چار سو سوالات پر مشتمل تھا، کم کرنا چاہیے۔ غرض یہ تھی کہ یو پی ایس سی کے ذریعے پاس ہوئے اعلیٰ افسروں کو بہت دیر تک گندے اور حبس زدہ ڈاک خانوں میں بیٹھنا نہ پڑے حالانکہ سوالنامے کا بیشتر حصہ انسپکٹر کے حوالے کیا جاتا تھا۔ صدر ڈاک خانے میں بیٹھ کر چار سو سوالوں کا جواب لکھنا وہ اپنے شایان شان نہیں سمجھتے تھے۔ انجام کار نیا سوالنامہ تیار کیا گیا جس میں صرف ایک سو سوالات تھے۔ آپ پوچھیں گے یہ کیسے ممکن ہو سکا؟ گھبرائیے نہیں۔ سمجھا رہا ہوں۔ مثلاً پہلے چار سوال لے لیجیے۔ ڈاک خانے کا کیش گن کر چیک کریں اور اسے اکاونٹ بک اور اپنے رَف نوٹس میں نوٹ کر لیں۔ ٹکٹوں کو گن کر دیکھ لیں، پھر گذشتہ دورانیے میں آئی ہوئی ٹکٹوں کا اندراج دیکھ لیں اور سٹاک بُک سے ملا کر نوٹ کر لیں۔ منی آرڈر کا سٹاک بُک چیک کر لیں اور ہیڈ آفس سے اس کی تصدیق کروا لیں۔ ڈاک خانے کی سیونگ سرٹیفکیٹس چیک کریں، پھر آمد اور روانگی کا حساب دیکھ لیں اور سٹاک رجسٹر سے ملا لیں۔ اس کے بعد پوری لسٹ ہیڈ آفس کو بھیج دیں۔ ان چار سوالوں کو ایک ہی دھاگے میں یوں پرویا گیا۔ آفس کا کیش، ٹکٹیں، منی آرڈر اور سیونگ سرٹیفکیٹ چیک کر لیں اور دیکھیں کہ ان کی تعداد صحیح ہے یا نہیں، پھر اپنے تاثرات درج کر کے لسٹ جانچ پڑتال کے لیے اکاونٹ آفس کو بھیج دیں۔ دیکھا آپ نے زیرک افسروں کا کمال۔ چار کا ایک کیسے کر دیا۔ اس طرح چار سو کا سوال نامہ ایک سو کے سوالنامے میں سمٹ کر رہ گیا۔ ماضی میں اگر کہیں معائنے کے بعد کسی فراڈ کا انکشاف ہوتا تھا تو معائنہ کرنے والے افسر پر بھی ذمے داری ڈال دی جاتی تھی مگر روز روز کی ان ترمیموں نے افسروں کو ایسی ذمے داری سے بری کر دیا اور ڈاک خانوں میں غبن اور خیانت کی وارداتیں بڑھتی چلی گئیں۔ یہ بات تو ماننی پڑے گی کہ ایسے چمتکار تو ہمارے افسر ہی کر سکتے ہیں جو، چاہے وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتے ہوں، خود کو وی آئی پی سمجھتے ہیں۔

میں بھی اسی گروہ کا رکن تھا۔ ان دنوں انسپکٹری کی تربیت پا رہا تھا۔ ایک روز مقامی انسپکٹرکے ہمراہ لکھنٔو شہر سے دس پندرہ کلو میٹر دور ایک گاؤں کے ڈاک خانے کا معائنہ کرنے چلا گیا۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ ٹرین میں بیٹھا تو گرم ہوا کے تھپیڑے بدن کو ٹکور نے لگے۔ دور دور تک کسی پرند و چرند کا نام و نشان بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ جدھر آنکھ پڑتی تھی پیڑ پودے مرجھائے نظر آ رہے تھے۔ کہیں بھولا بھٹکا کوئی آدمی دکھائی بھی دیتا، بے چارا قسمت کو کوستا ہوا چلا جا رہا تھا۔ کرتا بھی کیا؟ روزی روٹی جو کمانا تھی۔ ہم ٹرین سے اترے اورسٹیشن سے باہر نکل آئے۔ سامنے ایک میل اوؤر سیر دو سائیکل لے کر کھڑا ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ وہ انسپکٹر سے مخاطب ہوا۔ ’’ سر، اس گرمی میں یہاں سے پیدل جانا تو ممکن نہیں ہے۔ دو کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ میں برانچ پوسٹ ماسٹر (بی پی ایم) اور ایکسٹرا ڈیپارٹمنٹل ڈیلوری ایجنٹ( ای ڈی ڈی اے ) کے دو سائیکل لے کر آیا ہوں، آپ ان پر گاؤں پہنچ جائیے، وہاں پوسٹ ماسٹر انتظار کر رہا ہے۔ میں بھی تھوڑی دیر میں پہنچ جاؤں گا۔ ‘‘

میں نے ایک نظر انسپکٹر کے چہرے پر ڈال دی جو مجھے راستے میں اخلاق اور دیانت داری کے اصول سمجھا رہا تھا۔ وہ میرا ردِ ّ عمل سمجھ کر فوراً گویا ہوا۔ ’’ سر لے لیجیے ایک سائیکل، یہاں تو اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں۔ یہاں آپ کو کوئی سواری نہیں ملے گی۔ ‘‘

میں ایک سائیکل لے کر اس پر سوار ہو گیا۔ طالب علمی کے دن یاد آ گئے۔ ایسا محسوس  ہو رہا تھا کہ پھر سے میں آزاد ہواؤں میں اپنی دھن میں آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا ہوں۔ ان دنوں نہ تو اخلاق کی فکر ہوتی تھی اور نہ ہی ضابطوں کی۔ نہ کمانے کی چنتا ہوتی تھی اور نہ ہی پس انداز رکھنے کی۔ بس لمحے بھر کے لیے جینے کی آرزو ہوتی تھی۔ جیسے تیسے دو کلو میٹر کا فاصلہ طے ہوا۔ راستے میں انسپکٹر سے کوئی بات نہیں ہوئی کیونکہ میں دوبارہ پائی ہوئی وہ کھلنڈری کھونا نہیں چاہتا تھا۔

جونہی ہم گاؤں کے اندر داخل ہوئے، برانچ پوسٹ ماسٹر، سر پر ڈھاٹا باندھے ہوئے، ایک بڑے سے نیم کے پیڑ کے نیچے کھڑا ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ کافی عمر تھی اس کی۔ مجھے تو وہ ستر پچھتر سال کا لگ رہا تھا۔ ان دنوں ڈاک خانے میں عمر کی کوئی پوچھ تاچھ نہیں ہوتی تھی۔ کہیں پر ان کے کوائف درج کر کے انھیں سنبھال کر رکھنے کا رواج نہ تھا۔ برانچ پوسٹ ماسٹری کا دھندہ در اصل ضمنی کمائی کا ذریعہ ہوتا تھا، اصل پیشہ تجارت، کھیتی باڑی یا ٹیلرنگ وغیرہ ہوتا تھا۔ انگریزوں کے زمانے میں استادوں کو یہ کام سونپا جاتا تھا کیونکہ وہ پڑھے لکھے ہوتے تھے مگر آزادی کے بعد گورنمنٹ نے استادوں کو زائد ذریعۂ آمدنی اختیار کرنے پر پابندی لگائی۔ بہت ہی قلیل مشاہرہ دیا جاتا تھا۔ البتہ بچت کھاتوں پر کچھ رقم بطور کمیشن مل جاتی تھی اور یہ بی پی ایم پر منحصر ہوتا تھا کہ وہ کتنی رقم اپنے ڈاک خانے میں جمع کروا سکتا تھا۔

عمر رسیدہ ہونے کے باوجود بی پی ایم میں پھرتی اور ذہنی چوکنّا پن نظر آتا تھا۔ ہم تینوں اس کے گھر کی طرف پیدل ہی چلنے لگے۔ ڈاک خانے میں کام کر رہے ڈیلوری ایجنٹوں نے سائیکل اور بیگ لے کر ہمارا بوجھ ہلکا کر دیا۔

راہ میں چلتے چلتے ایک آدمی ملا جو برانچ پوسٹ ماسٹر سے مخاطب ہوا۔ ’’ بابو جی، ڈاک خانے جا رہے ہو کیا؟‘‘

بابو جی نے اسے پہلو تہی کرنے کی بہت کوشش کی مگر ان پڑھ دہقان کچھ سمجھ نہیں پایا۔ اس لیے پوسٹ ماسٹر جواب دینے پر مجبور ہو گیا۔ ’’ ہاں بہاری وہیں جا رہا ہوں۔ ‘‘

’’ تو میرا کام کر لو بابو جی۔ ‘‘ اس نے اپنی صدری میں سے ایک پاس بُک نکالا اور پھر دوسری جیب سے سو سو کے دس نوٹ نکال کر پوسٹ ماسٹر کو یہ کہتے ہوئے تھما دیے۔ ’’ بابو جی میرے کھاتے میں یہ روپیہ ڈال دینا۔ اب کا ہے کو میں اس گرمی میں تمھارے ساتھ اتنی دور چلا جاؤں۔ بعد میں چوپڑی لے لوں گا۔ ‘‘

انسپکٹر میری توجہ بٹانے کے لیے گاؤں کی تاریخ کے بارے میں اِدھر اُدھر کی ہانکنے لگا۔ وہ چاہتا تھا کہ میں ان کے درمیان  ہو رہی باتوں پر کوئی دھیان نہ دوں۔ مگر میں نے جو نوٹ کرنا تھا وہ کر لیا البتہ اس کو الجھن سے بچانے کے لیے اس وقت کوئی سوال نہیں پوچھا۔

گاؤں میں ڈاک خانے عموماً بی پی ایم کے گھر ہی میں ہوتے ہیں۔ بالکل گھر جیسا ماحول تھا۔ پوسٹ ماسٹر کی بیوی نہیں تھی مگر تین شادی شدہ لڑکے اور دو بیٹیاں تھیں جو بیاہی جا چکی تھیں۔ گھر میں ننھے بچے ہلڑ مچا رہے تھے اور مائیں ان کو مختلف طریقوں سے چپ کرانے میں منہمک تھیں۔ جس کمرے میں ڈاک خانے کا کام ہوتا تھا وہاں ایک کھاٹ بچھی ہوئی تھی جس پر ایک گدا بچھا یا گیا تھا۔ او پر ہاتھ سے کڑھائی کی ہوئی چادر بچھی ہوئی تھی اور اسی ڈائزئین کے تکیے بھی رکھے ہوئے تھے۔ کمرے میں کھڑکی کے ساتھ ایک لکڑی کی ٹوٹی پھوٹی کرسی اور میز تھی جس پر بیٹھ کر پوسٹ ماسٹر ڈاک خانے کا کام انجام دیتا تھا۔ بغل میں لکڑی کا ایک بکس تھاجس میں ڈاک خانے کی سٹیشنری جیسے پوسٹ کارڈ، اَنتر دیشی، لفافے، رجسٹرڈ لفافے، منی آرڈر، مہریں، کالا اِنک پیڈ، اکاونٹ کی کتابیں، رسیدیں اور دیگر سامان رکھا ہوا تھا۔ کمرے کے دروازے کے اندر ایک پرانا ڈاک کا تھیلا بطور ڈور میٹ بچھا ہوا تھا جو بعد میں چپکے سے انسپکٹر نے ای ڈی ڈی اے سے اٹھوا کر غائب کر دیا تاکہ میری نظر اس پر نہ پڑے۔

پوسٹ ماسٹر کی چھوٹی بہو جلدی سے ٹرے میں مٹکے کا ٹھنڈا پانی اور مٹھائی لے کر آئی اور سب کو پیش کرنے لگی۔ بہت ہی خوبصورت تھی۔ معلوم ہوا دو سال پہلے ہی شادی ہوئی تھی اور ابھی کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا تھا۔ سسر سامنے ہونے کے سبب گھونگھٹ کچھ زیادہ ہی نیچے کر کے چل رہی تھی۔ اس کے لمبے کالے بال نیم شفاف ساڑی کے اندر چندن کے پیڑ سے لپٹے ہوئے سانپ کی مانند لگ رہے تھے۔ ایڑیوں میں پائل لگی ہوئی تھی جس کی جھنکار نے فضا میں صوتی آہنگ پیدا کر دیا۔ وہ شرماتی لجاتی آئی اور مجھے پانی اور مٹھائی پیش کی۔ میں اس کی چوڑیوں سے بھری ہوئی گوری کلائی کو دیکھتا رہ گیا۔ شاید اس کو بھی میرے اس رد عمل کا احساس ہو گیا۔ اس لیے مجھے پانی اور مٹھائی تھما دی اور آنچل کے نیچے سے مسکرا نے لگی۔ پھر جلدی سے گھوم کر واپس اندر چلی گئی۔ واپسی میں اس کی چال میں غزالوں کی سی پھرتی آ گئی۔

برانچ آفس کا انسپکشن کرنے میں ایک دو گھنٹے لگ گئے۔ انسپکٹر نے مجھے اس کی باریکیاں سمجھائیں۔ اس درمیان چائے وغیرہ بھی پی لی۔ چائے پیتے وقت بی پی ایم اندر چلے گئے اور میں نے موقع غنیمت سمجھ کر انسپکٹر سے پوچھا: ’’ جب ہم تھوڑی دیر پہلے یہاں آ رہے تھے تو ایک گاؤں والے نے پوسٹ ماسٹر کو ایک ہزار روپے تھما دیے۔ نہ کو ئی رسید اور نہ کوئی ٹھپّا۔ یہ تو قواعد و ضوابط کے خلاف ہے۔ ‘‘

’’ ارے سر، کتابوں میں لکھے پر یہ دنیا تھوڑی ہی چلتی ہے۔ گاؤں میں پوسٹ ماسٹر کی حیثیت ایک امین کی ہوتی ہے۔ اس پر ہر کوئی اعتبار کرتا ہے۔ وہ تو کسی کی امانت کو خرد برد کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔ ‘‘

’’مگر قواعد و ضوابط کا کچھ تو خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ‘‘

’’ سر گاؤں کی پرمپرا ہی ایسی ہوتی ہے کہ لوگ قواعد و ضوابط کی بہ نسبت اپنی روایتوں سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ ان کے لیے تو پوسٹ ماسٹرامانت داری کا علامیہ ہوتا ہے۔ ہم کتنی بھی کوشش کریں کہ لوگ باضابطہ طور پر روپیوں کا لین دین کریں اور رسید لینے پر اصرار کریں مگر کوئی نہیں مانے گا۔ ابھی ہمارے گاؤں شہری بدعتوں سے بچے ہوئے ہیں البتہ جہاں پر بھی شہری زندگی کا اثر پڑ تا ہے وہ گاؤں گاؤں نہیں رہتا۔

اس کے بعد ہم دونوں وہاں سے چل دیے۔ پوسٹ آفس کا ڈیلوری سٹاف ہمارے لیے سائیکل لے کر ڈاک خانے کے باہر کھڑا تھا۔ تب تک گاؤں والوں کو پتا لگ چکا تھا کہ ڈاک خانے کے بڑے افسر ڈاک بابو کے گھر آ چکے ہیں۔ جس وقت ہم کوچ کرنے کے لیے باہر نکلے، وہاں گاؤں کے بیشتر لوگ -بچے، جوان، بوڑھے، مرد، عورتیں – ہمیں دیکھنے کے لیے جمع ہو چکے تھے۔ ویسے ہی جیسے کسی نئی بیاہی چھوری کی رخصتی کے سمئے سارا گاؤں امڈ پڑتا ہے۔ میں نے ہاتھ جوڑ کر سب کو الوداع کہہ دیا۔ پھر ہم دونوں سائیکل پر سوار ہو گئے اور پیڈل مارتے ہوئے کچی سڑک پر آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے اور وہ گاؤں جس نے ایک ہی دن میں میرا من موہ لیا تھا پیچھے چھوٹ گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

لہو کے گِرداب

 

کئی گھنٹوں سے وہ اپنے ہم سفر کا انتظار کر رہی تھی مگر وہ واپس آیا نہ کہیں دکھائی دیا۔ ہر لمحہ اس کے لیے امتحان بنتا جا رہا تھا۔ وہ سوچنے لگی۔ ’’ یہ ریل گاڑی جب منزل مقصود پر پہنچ جائے گی تو میں کہاں جاؤں گی؟وہاں میرا کوئی بھی نہیں ہے۔ اجنبی شہر۔۔ ۔۔ ۔۔ اجنبی راستے۔۔ ۔۔ ۔ اجنبی لوگ۔۔ ۔۔ ! ‘‘ اس کا اپنا ملک بہت پیچھے چھوٹ گیا تھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آ رہا تھا۔

رنگ پور سے عذرا ایک دلال کے ساتھ چلی تھی جس نے اسے ممبئی میں کام دلانے کا جھانسہ دیا تھا۔ اس نے عذرا کو بنگالی زبان میں سمجھایا تھا۔ ’’عذرا، میری بات سنو۔ تمھاری دو سہیلیاں، رئیسہ اور کومل، ممبئی میں مزے سے جی رہی ہیں۔ میں نے انھیں کام دلوایا ہے۔ مہینے کے پندرہ بیس ہزار کماتی ہیں۔ سب کچھ ہے ان کے پاس۔ کھانا پینا، کپڑے لتے، رہنے کی جگہ اور پھر ہر ماہ اپنے گھر روپے بھیج دیتی ہیں۔ تم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہو گا کہ ان کے گھروں کی حالت کتنی بدل چکی ہے۔ ‘‘

دلال رہنے والا تو مغربی بنگال کا تھا مگر ممبئی میں کئی برسوں سے اقامت پذیر تھا۔ وہ بہت بڑے کبوتر باز کے لیے کام کرتا تھا۔ کام تھا بنگلا دیش سے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو پھانس کر سرحد پار کرا لینا اور پھر انھیں ممبئی تک پہنچا کر مالک کے حوالے کر دینا۔ ایک پھیرے میں ایک دو کبوتر ٹھکانے تک پہنچ جاتے تھے اور وہ ایک ڈیڑھ لاکھ روپے کما لیتا تھا۔ یہ سب مال اکیلے اس کی جیب میں نہیں جاتا تھا کیونکہ ہر موڑ پر کبوتروں کو چیلوں سے سابقہ پڑتا تھا۔ بارڈر سیکورٹی، ریلوے پولیس، ممبئی پولیس، سی آئی ڈی، ریلوے چیکنگ سٹاف۔۔ ۔۔ ! مالک ان لوگوں کو گھریلو کام کاج کے لیے ضرورت مندوں کے پاس بھیج دیتا اور ہر مہینے ان کی تنخواہ کا بیس فیصد حصہ اس کے سامنے خود بخود پہنچ جاتا۔ ‘‘

ممبئی میں ایسی ہزاروں لڑکیاں ہیں جو ناجائز طور پر گندی بستیوں میں رہتی ہیں اور متوسط گھرانوں میں کام کاج کرتی ہیں۔ جھاڑو پونچھا، کپڑے برتن اور کہیں کہیں رسوئی کا کام بھی کرتی ہیں۔ اگر یہ لوگ نہ ہوں تو ممبئی کے متوسط طبقے کی زندگی اجیرن ہو جائے گی۔ میاں بیوی دونوں صبح سویرے نکل جاتے ہیں اور رات کو تھکے ماندے لوٹ آتے ہیں۔ پھر کون برتن مانجھتا پھرے اور کون کپڑے دھوتا پھرے۔ روٹی پکانا اور کھانا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔ اکثر ناشتے میں دو منٹ میگی سے پیٹ بھر لیتے ہیں اور رات گئے باہر سے وڑا پاؤ خرید کر گزارا کر لیتے ہیں۔

عذرا نے دلال کی بات سن کر بنگالی میں بے ساختہ جواب دیا۔ ’’ ہاں، میں بھی سوچوں کہ ان کے گھر والوں کے پاس اتنا سارا مال کہاں سے آ گیا۔ ‘‘ پھر وہ رک گئی اور کچھ وقفے کے بعد بولی۔ ’’ میں تمھاری بات پر وِچار کر لوں گی۔ پرسوں جواب دوں گی۔ ‘‘

اس کے بعد وہ سوچ و فکر کے سمندر میں ڈوب گئی۔ ’’ اس میں ہرج ہی کیا ہے۔ والدین سے بچے پالے نہیں جاتے۔ تین لڑکے تھے، ایک ایک کر کے گھر سے بھاگ گئے۔ مڑ کر بھی نہ دیکھا کہ ہم زندہ ہیں یا مر گئیں۔ پانچ لڑکیاں تھیں، دو جو مجھ سے بڑی تھیں نہ جانے کن لڑکوں کے ساتھ بھاگ گئیں۔ پھر ان کا اتا پتا بھی معلوم نہ ہو سکا۔ چھوٹی دو اور ہیں۔ ابھی کمسن ہیں۔ ابو اب کمانے کے لائق نہیں رہے۔ بے چاری ماں ہی کما کر لاتی ہے اور ہم سب کا پیٹ بھر تی ہے۔ کیا کام کرتی ہے، میری سمجھ میں نہیں آتا۔ ‘‘

یہ اس کے دل کی آواز تھی جو اس کو دلال کی طرف کھینچتی چلی گئی اور وہ چوتھے ہی روز اس کے ساتھ سرحد پار کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ سرحد پار کرنے میں کوئی زیادہ جوکھم نہیں اٹھانا پڑا۔ چار ہزار کلومیٹر لمبی چھلنی جیسی سرحد جو ہندستان کی کئی ریاستوں – ترپورا، آسام اور میگھالیہ- سے سٹی ہوئی ہے اور جس کے درمیان دو  سو کے قریب ’چت محل‘ ہیں جن کا فیصلہ برسوں سے نہیں  ہو رہا ہے۔ دونوں آسام کے راستے ہندستان پہنچے اور پھر ریل گاڑی میں سوار ہو کر ممبئی کی جانب روانہ ہوئے۔ سفر کے دوران دلال نے اسے عام استعمال کے بہت سارے ہندی الفاظ سکھائے اور ہدایت دی کہ اگر کوئی نام پوچھے تو کومل کہہ دینا اور اگر گھر کے بارے میں پوچھے تو مالدہ بنگال کہہ دینا۔ اس نے عذرا کو بھروسہ دلایا کہ دو تین مہینے تک وہ ہندی اور مراٹھی سیکھ جائے گی۔ عذرا کو اطمینان ہو گیا کہ اب مستقبل کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دن کا سفر باتوں باتوں میں گزر گیا۔ شام ڈھلتے ہی دلال کھانا لانے کے لیے ریل گاڑی سے نیچے اترا۔ وہ ابھی دکاندار سے بحث کر ہی رہا تھا کہ پولیس نے شک کی بنا پر اسے دھر دبوچ لیا اور پوچھ تاچھ کرنے لگی۔ اس نے پولیس کی مٹھی گرم کر کے اپنی جان چھڑا تو لی مگر تب تک ٹرین چھوٹ گئی اور وہ سانس روک کر رینگتی ہوئی ریل گاڑی کو دیکھتا رہ گیا جب تک وہ آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔ پل بھر میں اس کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا۔

رات بھر عذرا کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اس کا نگہبان کہاں چلا گیا۔ سترہ اٹھارہ برس کی لڑکی پہلی بار گھر سے باہر نکلی تھی اور پرائے دیش میں انجان منزل کی طرف بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ اندر ہی اندر وہ گھلنے لگی۔ بہت پشیمان تھی کہ دلال کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر کیوں خود کو مصیبت میں ڈال دیا۔ وسوسوں اور اندیشوں نے اس کو گھیر لیا۔ پھر خود ہی حجّت کرتی۔ ’’ پر آتی کیوں نہیں۔ میرے پاس کوئی چارہ بھی تو نہ تھا۔ گھر میں والدین پر بوجھ بنی ہوئی تھی۔ بڑی دو بہنوں کی کوئی خبر نہیں کہ کہاں ہیں۔ جن کے ساتھ چلی گئیں، کیا معلوم وہ کون تھے۔ ہو سکتا ہے مزدوری کر کے کہیں پیٹ پال رہے ہوں یا پھر انھوں نے میری بہنوں کو بیچ کھایا ہو۔ اب لگ رہا ہے میرے ساتھ بھی ویسا ہی کچھ ہونے والا ہے۔ بندو نے شادی کی بات کی نہ جسم بیچنے کی۔ کہتا تھا جھاڑو پونچھا کا کام دلوا دوں گا۔ مہینے کی پندرہ ہزار کمائی ہو گی مگر ہر مہینے کی تنخواہ میں سے بیس فیصد کمیشن دینا پڑے گا۔ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ وہ کہاں گیا۔ شکل سے بھلا مانس لگ رہا تھا۔ اس پر کچھ بپتا ضرور آئی ہو گی یا پھر ہو سکتا ہے وہ بھی مجھے بیچنے کے چکر میں نکلا ہو ؟ ‘‘

پھر خود ہی اپنے سوال کا جواب دینے لگی۔ ’’اگر ایسا ہوتا تو میرے ساتھ اتنی ہمدردی سے پیش نہ آتا۔ مجھے اس طرح دنیا کی اونچ نیچ نہ سمجھاتا۔ بیچنے کے لیے لایا ہوتا تو راستے میں غائب کیوں ہو جاتا، بیچ کر ہی دم لیتا۔ ‘‘ دو دن اور دو راتیں اس نے بھوکی پیاسی کاٹ لیں۔ آنکھوں میں آنسو تھے جنھیں وہ چپکے سے پونچھ لیتی تاکہ کسی کو اس کی مصیبت کی خبر نہ ہو۔

ممبئی میں ٹرین رک گئی۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ سارے مسافر ایک کے بعد ایک اتر تے چلے جا رہے ہیں اور ریل گاڑی خالی ہوتی جا رہی ہے۔ بوجھل قدموں سے وہ بھی ٹرین سے اتری اور اپنے چاروں اور دیکھنے لگی۔ کہیں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ پھر سامنے ایک بنچ کے پاس زمین پر بیٹھ گئی۔ بہت دیر تک وہ اس کا انتظار کرتی رہی۔ مگر وہ کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس کو زمین کھا گئی یا آسمان، عذرا کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آ رہا تھا۔ سورج ڈھلتے ہی ایک پولیس والا گشت کرتا ہوا ادھر آ نکلا۔ اس کو گٹھڑی سی بنی ہوئی اس لڑکی پر شک ہوا۔ وہ دو چار بار عذرا کے پاس سے گزر گیا اور اسے گھورتا رہا۔ عذرا پریشان ہو گئی اور چپکے سے وہاں سے کھسک کر ریلوے سٹیشن سے بھاگنے میں کامیاب ہوئی۔ پھر بھی پولیس کی نظروں سے کہاں بچ پاتی۔

اندر پلیٹ فارم پر ایک محدود سی دنیا تھی۔ اب وہ ایک ایسی دنیا میں داخل ہو چکی تھی جس کی کوئی سیما نہ تھی۔ یہاں بھی ہر طرف وہی خاکی وردی والے نظر آ رہے تھے جن کا نام لیتے ہی بدن میں جھرجھریاں دوڑنے لگتی ہیں۔ ہوس اور حرص کے سوداگر۔ ان کی کار کردگی سے گھن آتی ہے۔ سٹیشن سے باہر نکل کر عذرا چلتی رہی۔ ہاتھ میں ایک جھولی تھی جس میں روزمرہ کے چند کپڑے تھے۔ اس کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں جا رہی ہے۔ سڑک پر کچھ دور جا کر وہ ایک حوالدار سے ٹکرا ئی۔ نام تھا گوپال شندے۔ وہ جوں جوں آگے بڑھتی رہی شندے سایہ بن کر اس کا پیچھا کرتا رہا۔ وہ خوفزدہ ہو گئی۔ حوالدار کی نظروں سے بچنا بہت مشکل تھا۔ اس نے بہت دور تک اس کا پیچھا کر لیا مگر وہ خود کو گھسیٹتی ہوئی وہاں سے آگے ہی آگے چلتی رہی۔ نہ کوئی ٹھکانہ تھا اور نہ ہی کوئی منزل۔ بہت دور جا کراس کی نظر یں کچھ لوگوں پر پڑیں جو فٹ پاتھ پر سو رہے تھے۔ سو اس نے بھی رات وہیں پر گزارنے کی ٹھان لی۔ جھولی نیچے رکھ لی اور اس پر سر رکھ کر لیٹنے کی کوشش کی۔ ابھی وہ پاؤں پسارنے ہی لگی تھی کہ دور سے ایک کرخت آواز نے اس کو جھنجھوڑ دیا۔ ’’ اے لڑکی، وہاں کیا کر رہی ہو۔ یہ تمھارے سونے کی جگہ نہیں ہے۔ کیا نام ہے تمھارا؟‘‘

عذرا اسے ٹکر ٹکر دیکھنے لگی۔ اسے دلال کی بات یاد آ گئی کہ بنگلا دیشی ہونے کی وجہ سے پولیس والوں سے بچ کر رہنا۔ کبھی اپنا اصلی نام یا پتا نہیں بتانا۔ کوئی نام پوچھے تو ہندو نام بتا دینا جیسے کومل یا رتنا اور جگہ پوچھے تو مالدہ کہہ دینا۔ وہ اپنی ہمت بٹور نے لگی۔

دریں اثنا حوالدار اس کے پاس آ پہنچا اور سیدھے جا کر اس کی بانہہ پکڑ لی۔ پھر رعب دار آواز میں پوچھنے لگا۔ ’’ کیوں بے لڑکی۔ کون ہو تم؟ کہاں سے آئی ہو؟‘‘

لڑکی رونے لگی۔ اس کی گھگھی بندھ گئی۔ حلق سے کوئی لفظ بھی نکل نہیں رہا تھا۔

پولیس والے نے پھر استفسار کیا۔ ’’ نام بتاؤ گی یا پولیس تھانے لے چلوں۔ ‘‘

وہ زار و قطار رو نے لگی۔ بنگالی میں کہنے لگی۔ ’’کچھ سمجھ نہیں آتا۔ ‘‘

حوالدار نے سوچا کہ زیادہ کچھ کہوں تو وہ چیخنے چلانے لگے گی اور فٹ پاتھ کے لوگ جاگ جائیں گے اور میری بنی بنائی سکیم فیل ہو جائے گی۔ اس لیے اس کی بانہہ چھوڑ کر اس نے نرم لہجے میں پوچھ لیا۔ ’’ دیکھو میں تمھاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔ تم میرے سوالوں کا جواب دو تاکہ میں تم کو تمھارے گھر والوں سے ملوا دوں۔ ‘‘

نہ اس کو گوپال شندے کی زبان سمجھ آ رہی تھی اور نہ ہی وہ کچھ بول پا رہی تھی۔ وہ صرف بنگالی جانتی تھی اور کچھ بھی نہیں۔ اس کے منہ سے کوئی آواز بھی نکل نہیں پا رہی تھی۔ تاہم کچھ الفاظ کے معنی وہ ہندی اور بنگالی کی مماثلت کے سبب یا پھر حوالدار کے اشاروں سے سمجھنے لگی۔ حوالدار اس کو ایک جھاڑی کے پیچھے لے کر گیا اور اس کی بانہہ مروڑ کر پوچھنے لگا۔ ’’ کیا نام ہے تمھارا؟‘‘

’’عذرا‘‘ وہ بولی۔ ہڑبڑاہٹ میں اسے دلال کا دیا ہوا نام یاد ہی نہیں آیا۔

’’ گھر کہاں ہے تمھارا؟‘‘

وہ دلال کی بتائی ہوئی جگہ کا نام بھی بھول گئی، بولی۔ ’’رنگ پور، بنگلا دیش۔ ‘‘

’’ تو تم بنگلا دیشی ہو؟‘‘

’’ ہاں ‘‘

’’ پھر تو تمھیں جیل لے جانا پڑے گا۔ چلو میرے ساتھ۔ ‘‘

وہ رونے اور بلبلانے لگی لیکن گوپال اس کی بانہہ کو مضبوطی سے تھامے اسے اپنے ساتھ لے جا رہا تھا۔ عذرا دوسرے ہاتھ سے اپنی پوٹلی کو سینے کے ساتھ دبائے ہوئے کسی مزاحمت کے بغیر اس کے ساتھ چلتی رہی۔ اس کے لیے وہ پوٹلی ہی سب کچھ تھی گو اس میں صرف دو چار کپڑے تھے۔ راستے میں سب کچھ چھوٹ چکا تھا صرف اس پوٹلی کے بغیر۔

’’ چلو چھوڑو تم کو میں پولیس سٹیشن نہیں لے جاؤں گا۔ اپنے گھر میں رکھوں گا۔ میں اکیلا ہوں۔ تم میرے گھر کا کام کرتی رہنا۔ اس طرح تمھارے بارے میں کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی اور تم جیل جانے سے بچ جاؤ گی۔ ‘‘شندے ایسے بول رہا تھا جیسے عذرا سب کچھ سمجھ رہی ہو۔

ردِ عمل میں وہ کچھ نہ بولی۔ بولتی کیا؟ اسے ہندی سمجھ آتی تھی نہ بولنی آتی تھی۔ بس کبھی کبھی اشارے سمجھ لیتی تھی۔ گوپال شندے اس کو سیدھے اپنے گھر لے گیا۔ گھر کیا تھا بھیڑ بھاڑ والی ایک بستی میں دوسری منزل پر ایک چھوٹی سے چال تھی جس میں دو کمرے تھے۔ جگہ جگہ دیواروں کا پلستر اکھڑا ہوا تھا۔ جدھر نظر ڈالو وہاں سامان بکھرا پڑا تھا۔ کہیں پر وردی، کہیں قمیص، کہیں پتلون، کہیں بنیان، کہیں کچھّے، کہیں موزے اور کہیں جوتے۔ کچن میں چار پانچ ایلمونیم کے برتن اور گیس کا چولہا تھا۔ کچن شیلف کے نیچے شراب کی بے شمار خالی بوتلیں پڑی ہوئی تھیں۔ عذرا یہ دیکھ کر سہم گئی۔ اسے اپنے مستقبل کا کچھ کچھ اندازہ ہونے لگا۔ البتہ اتنی تسلی تھی کہ جان بچ گئی۔ وہ چپ چاپ ایک کونے میں جا کر دبک گئی۔

شندے کو گھڑی پر نظر پڑی تو رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ وہ جلدی سے کھانا لانے کے لیے بازار چلا گیا۔ جاتے وقت اس نے صدر دروازے پر تالا لگا دیا۔ کئی بار عذرا کے جی میں آئی کہ کھڑکی سے چھلانگ لگا کر بھاگ جائے۔ پھر سوچا دوسری منزل ہے، ہڈی پسلی ٹوٹ جائے گی اور جیل الگ سے جانا پڑے گا۔ اس لیے خاموش وہیں بیٹھی رہی۔ کچھ دیر میں گوپال شندے اندر داخل ہوا۔ ایک اخبار کھول کر زمین پر بچھا دیا اور اسی پر روٹی، چاول اور سبزی کے پتّل رکھ دیے۔ پھر جیب سے پوّا نکال کر گلاس میں انڈیل دیا اور اسے پینے لگا۔ جب نشہ چڑھ گیا تو لگاتار ہنستا رہا اور بولتا بھی رہا۔

’’ میری بیوی پانچ سال پہلے مر گئی۔ نہ جانے کیا ہو گیا اسے۔ گربھ وتی تھی۔ بچہ جننے کے لیے ہسپتال میں بھرتی کروا دیا۔ وہاں سے ماں بیٹے کی لاشیں واپس مل گئیں۔ بھگوان بھی کتنا ظالم ہے۔ تیس سال کی عمر میں رنڈوا بنا دیا۔ ‘‘اس نے زوردار قہقہہ مارا۔

عذرا خالی خالی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ اس کے نشے میں ہونے اور زور زور سے باتیں کرنے سے گھبرا رہی تھی مگر کچھ بھی نہ بولی۔ خاموشی سے سب کچھ برداشت کرتی رہی۔ آخر کار بھات سبزی زہر مار کر کے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔ گوپال شندے کو سمجھ آیا کہ وہ سونے کے لیے جگہ تلاش رہی ہے۔ جلدی سے اٹھا اور اس کے لیے فرش پر ایک دری بچھا ئی اور ساتھ ہی اوڑھنے کے لیے ایک چادر دے دی۔ خود دوسرے کمرے میں منجھی پر لیٹ گیا۔ عذرا بے چاری آدھی رات تک کروٹیں بدلتی رہی اور پھر اسے یہ بھی معلوم نہ ہوا کہ وہ کب نیند کی آغوش میں چلی گئی۔ صبح آنکھ کھلی تو اس نے خود کو منجھی پر سویا ہوا پایا۔ گوپال اس کے لیے ناشتہ رکھ کر دفتر چلا گیا تھا۔ باہر دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔

دن بھر وہ روتی رہی، تڑپتی رہی، چلاتی رہی مگر وہاں سننے والا کون تھا۔ کوئی سن بھی لیتا تو کیا کر سکتا تھا۔ بھلا پولیس حوالدار سے کون دشمنی مول لیتا۔ سب پڑوسی اپنے اپنے کاموں میں منہمک تھے۔ عذرا بھانپ گئی کہ یہاں وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی ہے۔ اس لیے اس نے قسمت کے لکھے کو ہی تسلیم کر لیا۔ وہ اپنے آپ کو حالات کے مطابق ڈھالنے لگی۔ گوپال شندے صبح سویرے چلا جاتا اور دیر رات لوٹ آتا۔ عذرا نے چند ہی روز میں گھر کی ہیئت بدل ڈالی۔ سب کچھ صاف ستھرا لگ رہا تھا۔ کچن، بیڈ روم، اور بیٹھک۔ اب اندر کمرے میں دوسری منجھی ڈالی گئی جس پر وہ سوتی تھی۔ اس کے حسن اہتمام سے گوپال اتنا خوش ہوا کہ اس نے چال میں تالا لگانا ترک کر دیا۔

گوپال شندے کو اب وہ جان سے بھی عزیز لگنے لگی۔ اس کو عذرا میں ایسی اپنائیت نظر آنے لگی جس کا وہ کئی برسوں سے متلاشی تھا۔ اس لیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے عذرا کے کہیں آنے جانے پر سے پابندیاں ہٹا لیں۔ گوپال نے اسے آہستہ آہستہ ہندی اور مراٹھی بھی سکھائی۔ اب عذرا پڑوسیوں کے ساتھ اٹھتی بیٹھتی اور ان کے دکھ سکھ میں برابر کی شریک ہو جاتی۔ پڑوسیوں کو معلوم تھا کہ بیوی کی رحلت کے سبب شندے نے اپنے گھر میں اس عورت کو ڈال رکھا ہے۔ پانچ چھ مہینوں کے بعد وہ دو تین گھروں میں کام کرنے کے لیے بھی جانے لگی۔ چنانچہ سب اس کو گوپال شندے کی رکھیل مانتے تھے، اس نے اپنا نام بدل کر کومل رکھ دیا۔ شندے بھی اسے کومل ہی کہتا تھا۔ وہ بنگالی تو لگتی تھی مگر کسی کو یہ شک نہ ہونے دیا کہ وہ بنگلہ دیشی مسلمان ہے۔

گوپال شندے سوچنے لگا کہ ابھی تو آگے طویل عمر پڑی ہے۔ تنہا زندگی بسر کرنا نا ممکن ہے۔ کوئی نہ کوئی سہارا تو چاہیے۔ کیوں نہ اسی لڑکی سے شادی رچا لوں۔ آخر کیا کمی ہے اس میں۔ دوسری شادی کے بارے میں وہ کئی برسوں سے سوچ رہا تھا۔ مگر لڑکی ڈھونڈنے کی فرصت نہیں ملتی تھی۔ اب تو بھگوان نے چھپر پھاڑ کر لڑکی دی تھی۔ پھر دونوں ایک دوسرے کوا با چھی طرح جانتے بھی تھے، سمجھتے بھی تھے۔ کسی کو کیا عذر ہو سکتا تھا؟

بات تو صحیح تھی۔ لڑکی بھی بالغ تھی۔ اپنا برا بھلا سمجھ سکتی تھی۔ اسے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ آخر کار ایک روز اس نے عذرا سے بات کر ہی لی۔ ’’ کومل، اب تو ہم ایک قالب دو جان ہو چکے ہیں۔ ہمارے درمیان کوئی اجنبیت نہیں رہی۔ تم اور میں ایک دوسرے کو اتنے قریب سے جانتے ہیں۔ پھر کیوں نہ ہم دونوں شادی کر لیں۔ ‘‘

شادی کا نام سنتے ہی عذرا کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اس کے درد کی ٹیسیں دوبارہ ابھر آئیں۔ اسے وہ کالی منحوس رات یاد آئی جب حوالدار گوپال شندے نے اس کو قید کر لیا تھا اور اس کی زندگی تباہ کر لی تھی۔ ظاہری طور پر وہ خوش و خرم دکھائی دیتی تھی مگر یہ چنگاری اس کے وجود میں تب سے سلگتی رہی تھی۔ وہ من ہی من میں سوچنے لگی۔ ’’ تم نے شادی کے لیے چھوڑا ہی کیا جو تم مجھ سے شادی کر لو گے۔ بدن نوچ لیا، روح نوچ لی، سانسیں نوچ لیں اور میرے خواب نوچ لیے۔ تم نے میری روح کا بلاتکار اسی روز کر لیا تھا جب مجھے پکڑ کر گھر لے آئے تھے اور اس چار دیواری میں مقفل کر دیا تھا۔ ‘‘

’’ حوالدار صاحب، میں تو بنگلہ دیشی ہوں۔ آپ میرے ساتھ شادی کیسے کر سکتے ہیں ؟ کسی کو اصلیت معلوم ہو گئی تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ ‘‘اس نے جس لہجے میں جواب دیا اس میں طنز بھی تھا اور شرارت بھی۔

تلخی کے باوجود عذرا نے خود پر قابو پا لیا کیونکہ آج گوپال شندے کا جنم دن تھا اور اس نے گھر میں اپنی ہونے والی بیوی کے ساتھ جنم دن منانے کا فیصلہ کیا تھا۔ عذرا نے بھی کوئی کمی نہیں کی تھی۔ کھانے کی اچھی اچھی چیزیں بنائی تھیں۔ دارو کے ساتھ کھانے کے لیے مچھلی کے پکوڑے اور تکے بنائے تھے جو اس نے شندے کے سامنے رکھ دیے۔ اس کے علاوہ بنگالی ہونے کے ناتے میٹھے میٹھے رس گلے بنائے تھے۔ شندے نے بوتل کھولی اور دارو پینے میں مست ہو گیا۔ عذرا نے کوکا کولا کی بوتل کھول کر اس کا ساتھ دیا۔

’’ چیئرس، سالگرہ مبارک ہو۔۔ ۔۔ ۔۔ میرے محسن۔ ‘‘

’’چیئرس، کومل۔۔ ۔۔ ۔ میری جان۔۔ ۔ چیئرس!‘‘

جب پوری بوتل ختم ہو گئی تو عذرا نے اٹھ کر الماری سے ایک اور بوتل نکال کر سامنے رکھ دی۔

’’ یہ تمھاری سالگرہ پر میری طرف سے تحفہ، میرے آقا۔ یوں تو میں ہمیشہ تمھیں روکتی ہوں مگر آج تمھاری سالگرہ ہے اس لیے اجازت دیتی ہوں۔ تمھارا ایک رفیق کار ایک روز دے کر گیا تھا اور میں نے ایسے ہی موقعے کے لیے اٹھا رکھی تھی۔ ‘‘

عذرا نے خود ہی بوتل کا ڈھکن کھول کر گوپال کے گلاس میں شراب انڈیل دی اور اس کو گاہے بہ گاہے اپنے ہاتھوں سے مونگ پھلی، مچھلی کے پکوڑے اور تِکے کھلاتی رہی۔ آج عذرا کچھ زیادہ ہی مہربان لگ رہی تھی۔ بغل میں بیٹھ کر میٹھی میٹھی باتیں کر تی رہی۔ اس کے چہرے پر عجیب سی تمازت نظر آ رہی تھی۔ گوپال شندے اپنے آپ کو بہت ہی خوش نصیب سمجھ رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے دوسری بوتل بھی ختم کر دی۔ پھر اس کی گویائی میں لکنت سی آ گئی۔ اب ہاتھ سے گلاس تھامنا مشکل  ہو رہا تھا۔ اتنا سارا کھانا جو سامنے سجا ہوا تھا اس کا منہ تکتا رہ گیا۔ گوپال ایک نوالہ بھی نہ کھا سکا۔ اٹھنے کی کوشش کی تو اٹھا بھی نہ جا رہا تھا۔ عذرا نے اٹھ کر اس کو سہارا دیا اور منجھی تک لے جا کر اس پر لٹا دیا۔ چند لمحوں ہی میں وہ خوابوں کی دنیا میں کھو گیا۔

اِدھر ذرا جھوٹے برتن، پتّل اور دیگر چیزیں سمیٹنے میں مشغول ہو گئی، اُدھر شندے خراٹے مارتا ہوا بے سدھ پڑا رہا۔ عذرا نے اس کی بانہہ ہلائی مگر وہ ایسا سویا پڑا تھا کہ دنیا و مافیہا کی خبر ہی نہ تھی۔ بستر پراس کو شندے نہیں بلکہ وہ حوالدار نظر آ رہا تھا جس نے ایک روز ڈرا دھمکا کر اس کو قید کر لیا تھا، اس کی معصومیت کا مذاق اڑایا تھا، اس کی عزت لوٹی تھی اور اس کے کنوارے خون سے اپنی سفید چادر پر لال دھبے ڈال دیے تھے۔ وہ روتی رہی تھی، سسکتی رہی تھی مگر نہ کسی نے اس کے رونے کی آواز سنی اور نہ ہی اس کی سسکیاں۔

اب اس کی باری تھی۔ حوالدار بے سدھ سو رہا تھا۔ اور عذرا کے بدن میں مہاکالی کا روپ سما گیا۔ وہ جلدی جلدی کچن میں چلی گئی جہاں اس نے بازار سے کلہاڑی خرید کر چھپا رکھی تھی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے کلہاڑی پکڑ لی، دوڑ کر واپس منجھی کے پاس آ گئی، پھر اپنی بانہیں اوپر اٹھا لیں اور ’یا علی ‘ کہہ کر زور سے حوالدار کی گردن پر دے ماری۔

حوالدار گوپال شندے کے منہ سے چیخ نکل پڑی۔ اس کے گلے سے خون کے پھوارے چھوٹ گئے۔ سارا بدن لرزنے لگا۔ بانہیں پھڑپھڑا نے لگیں۔ اس کا سر دھڑ سے الگ ہو چکا تھا۔ آج پھر بستر پر پڑی سفید چادر لال خون سے رنگ گئی۔ عذرا اطمینان سے اس کے تڑپتے جسم کو دیکھتی رہی جو جل بِن مچھلی کی طرح تڑپ رہا تھا۔ اسے یہ تماشا دیکھنے میں راحت محسوس  ہو رہی تھی۔ اس کے چہرے پر کہیں ترحم یا ہمدردی کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ اس کے برعکس وہاں خشم اور انتقام کے ملے جلے تاثرات دکھائی دے رہے تھے۔ اسے اپنے کیے پر فخر محسوس  ہو رہا تھا۔ اس نے یہ ناسور اتنے دن اپنے ذہن کے اندر پال رکھا تھا اور آج جا کر اس سے رہائی پانے کا موقع ملا۔

عذرا کہیں بھی نہ گئی۔ بس اُدھر ہی بیٹھی رہی۔ رات یونہی بیت گئی اور صبح ہوتے ہی یہ بات آگ کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی۔ لیکن آج اس کے چہرے پر نہ کہیں کو ئی ڈر تھا اور نہ ہی خوف۔ وہ اتنے برسوں سے حوالدار کے ذاتی جیل خانے میں بند تھی۔ اب گورنمنٹ کے جیل خانے میں منتقل  ہو رہی تھی۔ بس چار دیواریاں بدل رہی تھیں، باقی سب کچھ پہلے جیسا ہی تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 طالبِ بہشت

 

وہ دن ہی کچھ منحوس سا تھا۔ معمول کی طرح سکول میں صبح کی مجلس کا انعقاد ہوا۔ بچے خوش و خرم، چہچہاتے ہوئے اور ہنسی مذاق کرتے ہوئے گراونڈ میں جمع ہوئے۔ ان کے سامنے اساتذہ تھے جو ان کو قطاروں میں کھڑے رہنے کی ہدایت دے رہے تھے۔ کچھ طلبہ ایسے بھی تھے جنھوں نے پہلی بار سکول میں داخلہ لیا تھا اور اجنبی ماحول سے دست و گریبان تھے۔ جغرافیہ اور کیمسٹری کی استانیوں نے کچھ ہی دن قبل نوکری جوائن کر لی تھی۔ بہت کوشش کر کے انھوں نے اپنے مجازی خداؤں کو باور کرایا تھا کہ معلمی ایک نیک و صالح پیشہ ہے اور ملک کو اچھے اور مخلص اساتذہ کی سخت ضرورت ہے۔ پھر گھر میں زیادہ آمدنی آنے کی وجہ سے ان کے بچے اچھے سکولوں میں تعلیم بھی تو حاصل کر سکتے ہیں۔

کچھ لمحوں بعد پرنسپل صاحبہ وارد ہوئی۔ اس کا چہرہ رعب داب کا اشتہار بنا ہوا تھا۔ یکایک ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ اس کے بعد علامہ اقبال ؔ کی دعا فضا میں گونجنے لگی:

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنّا میری

زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے

ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے

میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو

نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو

دعا کے اختتام پر پرنسپل صاحبہ نے معمول کی طرح طلبہ کو چند نصیحتیں دے ڈالیں اور سکول میں ڈسپلن قائم رکھنے پر زور دیا۔ ویسے بھی سکول میں سخت نظم و ضبط کی فضا بنی ہوئی تھی۔ لیکن سیکورٹی کے بارے میں کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں کیونکہ ایک تو آرمی پبلک سکول تھا اور وہ بھی فوجی چھاونی کے بیچوں بیچ۔ دعائیہ مجلس کے فوراً بعد سبھی طلبہ اپنے اپنے کلاس روم میں چلے گئے۔ طلبہ کے پیچھے پیچھے ان کے استاد بھی چلے گئے۔ ایک اور تھکا دینے والا دن ان کے سر پر تھا۔

قریب ساڑھے دس بجے پورے سکول میں سراسیمگی پھیل گئی۔ فرنٹیر کور کی وردی پہنے کئی خودکار بندوق بردار قبرستان سے ملحق عقبی دیوار پھاند کر اندر آ گئے۔ بعد میں پتا چلا کہ ان کی تعداد سات تھی اور وہ تحریک طالبان پارٹی کے رکن تھے۔ ان میں تین عربی، ایک چیچین اور دو افغانی تھے۔ سنا ہے کہ انھوں نے اس کار روائی سے پہلے کئی بار اس جگہ کا گشتی معائنہ کیا تھا تاکہ واردات انجام دینے میں کوئی چوک نہ ہو۔ تبھی تو وہ دوڑتے ہوئے سیدھے مرکزی آڈیٹوریم تک پہنچ گئے جہاں بہت سارے طلبہ تربیت پانے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ راستے میں وہ اندھا دھند فائرنگ کرتے چلے گئے۔ آڈیٹوریم کے دروازے پر ایک معلمہ نے ان کو بہت دیر تک روکے رکھنے کی کوشش کی تاکہ طلبہ کو بھاگنے کا زیادہ سے زیادہ وقت مل جائے۔ گولیوں کی آواز سنتے ہی بچوں میں دہشت پھیل گئی۔ انھیں جہاں کہیں بھی دروازہ یا کھڑکی دکھائی دی، وہیں سے بھاگنے لگے۔ اس کے باوجود کئی بچوں کے معصوم، بے ریا اور بے خطا جسم گولیوں سے چھلنی ہو گئے اور بہت سارے زخموں سے تڑپتے رہے۔ معلمہ کے سینے میں بھی کئی گولیاں اتر گئیں پھر بھی اس نے حتی الامکان کوشش کی کہ دہشت گرد آگے نہ بڑھ سکیں۔ وہ تب تک بچوں کو بچانے کی کوشش کر تی رہی جب تک خون میں لت پت اس کا جسم بے حس و حرکت زمین پر نہ گر پڑا۔

میمونہ کئی سالوں سے سکول میں کام کرتی تھی۔ البتہ اس کی پھولوں کی سیج ابھی تک سوکھی نہ تھی۔ ڈیوٹی کو فریضہ سمجھ کر وہ شادی کے چوتھے ہی دن سکول میں حاضر ہوئی تھی۔ آج اس نے سیکڑوں ماؤں کی کوکھ بھری پری رکھنے کے لیے اپنی کوکھ قربان کر دی۔

کبھی کبھی لگتا ہے کہ بنی نوع انسان جنت کی طلب میں اپنی خوبصورت زمین کو جہنم بنا نے پر تلا ہوا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تعمیر و تخریب دونوں انسان کی سرشت کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ جبلی خصلتیں اور غیر فطری عقیدے انسان کوایسے کام کرنے پر اکساتے ہیں جنھیں معقول انسان دائرۂ تہذیب سے خارج سمجھتا ہے۔ اورسچ بھی یہی ہے کہ اگر انسان صرف اپنی بہیمی جبلتوں کے تابع رہے تو وہ تخریبی کار روائی سے باز نہیں رہ سکتا۔ ایک جانب دنیا کی آبادی کا بیشتر حصہ ناخواندہ ہے۔ وہ برے بھلے کی تمیز نہیں کر پاتا۔ دوسری جانب چند طاقت ور لوگ زندگی کی آسائشوں وسہولتوں کی مسلسل فراہمی کے لیے غریب نہتے عوام کو دامے درمے و  قلمے اپنی گرفت میں لیتے ہیں اور ان کے توسل سے اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ اپنا منصب پانے کے لیے وہ اکثر مذہب، نسل، قومیت اور طبقاتی کشمکش کا سہارا لیتے ہیں۔ وہ کہاں چاہیں گے کہ غریبوں کی اولادیں پڑھیں، لکھیں اور تعلیم یافتہ بن جائیں۔ انھیں معلوم ہے کہ تعلیم کا پھیلاؤ ان کے اقتدار کا خاتمہ ہے۔ سکول، کالج اور یونیورسٹیاں ان کے استبداد کے لیے براہ راست چنوتیاں ہیں۔ پاکستان ہو یا ہندستان، افغانستان ہو یا عراق، سوڈان ہو یا نائجیریا، ہر جگہ تعلیمی ادارے ان خود ساختہ عاملِ اخلاق کے نشانے پر رہتے ہیں۔ سکولوں اور کالجوں کو آئے روز نذر آتش کیا جاتا ہے۔ نرینہ جبریت لڑکیوں کے لیے سکول کے دروازے بند کر دیتی ہے۔ لڑکیوں کو گھر میں قید کرنے کے فرمان جاری ہوتے ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ایسے لوگ ظاہراً دور قدیم کو تہذیب کا سنہری دور مانتے ہیں جب انسان تیر و تفنگ لے کر میدان جنگ میں اترتا تھا، اکثر مائیں زچگی میں راہ عدم اختیار کرتی تھیں اور بچے جنم لیتے ہی خدا کو پیارے ہو جاتے تھے۔ مگر دیکھا جائے تو یہ لوگ خود موڈرن تکنالوجی کی ایجادات و اختراعات سے فائدہ اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ جدیدہسپتال، دوائیاں، موبائل فون، ہوائی جہاز اور ٹیلی ویژن سب ان کو دستیاب رہتے ہیں۔ جدید ترین گاڑیوں میں براجمان، بدن پر بُلٹ پروف جیکٹ، کندھوں پر ترقی یافتہ ملکوں میں بنائے گئے راکٹ لانچر اور ہاتھوں میں مشین گن، کلاشنکوف اور گولی بارود لے کر یہ لوگ دنیا بھر میں دہشت کا راج قائم کرنے کے خواہاں ہیں۔ کاش کوئی ان سے صرف اتنا پوچھے کہ جن ہتھیاروں سے تم لیس ہو ان میں سے کتنے تم نے ایجاد کیے ہیں اور کتنے تمھارے ملک میں بنتے ہیں ؟پھر بھی نہ جانے کیوں یہ لوگ ملک کی ترقی کو روکنے میں ہی خوش ہیں۔

میمونہ فوج کے افسر کی بیٹی تھی۔ اس نے بچپن ہی سے ہمت و حوصلے کو اپنا شعار بنایا تھا۔ وہ ایک کوکھ کیا ہزاروں کوکھیں اپنے مادر وطن کے نونہالوں کے لیے قربان کرنے کو تیار تھی۔ کچھ جیالے ایسے بھی ہوتے ہیں جو نقیبانِ تاریکی سے مرغوب نہیں ہوتے۔ لہو کے بہتے دریاؤں، خون سے رنگی وردیوں، لال چھینٹوں سے گلکاری کی ہوئی عبادت گاہوں سے مرعوب نہ ہو کر وہ امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ انھیں یقین ہوتا ہے کہ ان کی امنگوں کا سورج کبھی نہ کبھی ضرور طلوع ہو گا۔ اسی نئی صبح کی آرزو میں کروڑوں بچے ہر صبح اندھیروں کو مٹانے کے لیے اجالے کی دعائیں کرتے ہیں۔

پرنسپل صاحبہ گولیوں کی آوازیں اور شور و غل سن کر فوراً پولیس، ہسپتال اور کچھ نزدیکی والدین کو اطلاع دینے کی کوشش کرتی رہی۔ کچھ ہی وقفے میں سکول کو پاکستانی سپیشل سیکورٹی گارڈز نے گھیر لیا۔ انھوں نے دہشت گردوں کی ناکہ بندی کر کے ان کے بھاگنے کے تمام راستے بند کر لیے۔ تاہم مزید قتل و غارت روکنے کے لیے صبر و تحمل سے کام لیتے رہے۔ دہشت گرد کمرہ بہ کمرہ جا کر بچوں کو ڈھونڈ رہے تھے اور پھر کچھ ہی لمحوں میں پرنسپل کے کمرے تک جا پہنچے جہاں کئی بچوں نے پناہ لی تھی۔ وہ کونوں چھدروں میں دبک کر چھپ گئے تھے یہاں تک کہ اپنی سانسیں بھی روک رکھی تھیں۔ دو دہشت گردوں نے دروازے سے اندر آتے ہی پرنسپل کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنا لیا اور وہ خون سے لت پت اپنی کرسی پر ہی ڈھیر ہو گئی۔ معصوم بچے اپنی آنکھوں سے یہ مکروہ نظارہ دیکھ رہے تھے اور ان کی آنکھوں سے خون کے آنسو بہہ رہے تھے۔ دریں اثنا سیکورٹی فورسز کے جوان بھی اندر آئے اور انھوں نے دونوں دہشت گردوں کو مار گرایا مگر پرنسپل کو بچا نہ سکے۔

اُدھر ایک افغانی دہشت گرد نویں کے کلاس روم میں گھس گیا جہاں فوزیہ بچوں کو مرغی کی طرح اپنی حفاظت میں لیے بیٹھی تھی۔ اس کے چہرے پر خوف و ڈر کے آثار بالکل نہ تھے۔ وہ بچوں کو با ہمت اور خاموش رہنے کی ہدایت دے رہی تھی۔ بہت برس پہلے وہ خود بھی افغانستان سے رفیوجی بن کر آئی تھی۔ پشاور میں اس نے پوسٹ گریجویشن اور بی ٹی کی ڈگریاں امتیاز کے ساتھ حاصل کی تھیں اور پھر اس سکول میں استانی بن گئی تھی۔ پھر بھی وہ اپنے ماضی کو بھلا نہیں پائی۔ اسے یاد تھا کہ کیسے اس کے والد کو سر بازار گولیوں سے بھون دیا گیا تھا اور اس کی ماں اور وہ گھاس سے لدی ہوئے ٹرک میں سرحد پار کرنے میں کامیاب ہوئی تھیں۔ اس کے باپ کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ لڑکیوں کا سکول چلاتا تھا اور ان کو علم کے زیور سے آراستہ کر رہا تھا۔ کئی بار دھمکیاں ملنے کے باوجود اس نے سکول کو بند نہیں کیا۔ فوزیہ اسی مجاہد کی بیٹی تھی۔ اسی دن اس نے قصد کیا تھا کہ وہ معلمی کو ہی اپنا پیشہ بنائے گی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اس کے محبوب جابر خان نے بھی اسلحہ اٹھائے تھے۔ فوزیہ نے کئی بار اس کو سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ یہ راستہ اجالے کے بدلے اندھیرے کی طرف جاتا ہے مگر جابر پر تو تطہیر معاشرہ کا بھوت سوار ہو چکا تھا وہ کہاں مانتا۔ اس کے سامنے عورت کی کیا وقعت تھی کہ وہ اس کی بات مان لیتا۔ عسکری صحرا میں وہ بہت دور چلا گیا اور فوزیہ صرف اس کو پکارتی رہ گئی۔ پہلے والد کے جانے کا غم اور پھر محبوب کے بچھڑنے کا غم! کتنے صدمے برداشت کر کے فوزیہ نے اپنی مٹی، اپنی دھرتی کو الوداع کہا تھا اور گھاس کی ٹرک میں چھپ کر ماں کے ساتھ یہاں پہنچ گئی تھی۔

’’ فوزیہ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ! تم۔۔ ۔۔ ؟ ‘‘ہاتھ میں کلاشنکوف لیے اور چہرے پر کالا ڈھاٹا باندھے دہشت گرد نے سوال کیا۔

فوزیہ حیران ہو گئی کہ یہ آواز کس کی تھی ؟اس نقاب پوش کو میرا نام کیسے معلوم ہے ؟ آواز تو کچھ جانی پہچانی سی لگ رہی ہے۔ وہ پھر بھی خاموشی سے اس مداخلت کار کی حرکتوں کو دیکھتی رہی۔

’’ فوزیہ، مجھے نہیں پہچانا۔ میں ہوں جابر۔۔ ۔۔ ۔ تمہارا جابر!‘‘ نقاب پوش نے اپنا ماسک چہرے سے ہٹا لیا۔

’’جابر۔۔ ۔۔ !وہ تو اسی روز مر گیا جب اس نے میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود اپنے ہاتھوں میں کلاشنکوف اٹھا لیا۔ میرا جابر تو کب کا مر چکا ہے۔ تم تو بس ایک دہشت گرد ہو اور کچھ بھی نہیں۔ تمھارے ہاتھوں میں نہ جانے کتنے معصوم بچوں کا خون لگا ہوا ہے۔ ‘‘ فوزیہ نے دو ٹوک جواب دیا۔

’’ نہیں فوزیہ، تم غلط سمجھ رہی ہو۔ میں خدا کی بھیجی ہوئی تعلیمات پر گامزن ہوں۔ ‘‘

’’ جھوٹ بولتے ہو تم۔ ہم دونوں بچپن میں ایک ہی مدرسے میں قرآن کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ مجھے بتاؤ کس دن مولوی صاحب نے قتل و غارت اور معصوموں کو تہ تیغ کرنے کا سبق دیا تھا؟ یہ تو تمھاری بھول ہے۔ تم غلط لوگوں کے ساتھ ہولیے۔ اپنے ذہن کے بدلے اپنے آقاؤں کے ذہن سے سوچنے لگے۔ جو کچھ تم کر رہے ہو، یہ خدا کا فرمان نہیں ہے۔ خدا کا فرمان ہے کہ علم حاصل کرنے کے لیے تمھیں چین بھی جانا پڑے تو چلے جاؤ۔ علم ہی نور ہے اور علم ہی بصیرت عطا کرتی ہے۔ تم اندھیروں میں بھٹک رہے ہو۔ ‘‘

’’ مگر تم سمجھتی کیوں نہیں۔ ان فوجیوں نے بھی تو ہمارے بال بچوں کو مار ڈالا۔ ‘‘

’’ کیوں مار ڈالا؟ ملک میں اتنی آبادی ہے ان پر بمباری کیوں نہیں کرتے ؟ یہ کبھی سوچا ہے۔ در اصل اپنے بال بچوں کو تم نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ ان کی موت کے ذمے دار تم لوگ ہو جنھوں نے ان کو ڈھال بنا رکھا ہے۔ فوج تو ملک کی حفاظت کر رہی ہے اور اس کو پراگندہ ہونے سے بچا رہی ہے۔ ‘‘

فوزیہ کی شخصیت سے مرغوب ہو کر وہ کچھ دیر کے لیے گولیاں چلانا بھول گیا۔ بڑی مدت کے بعد اسے اپنی محبوبہ کا سامنا ہوا اور وہ بھی ایسی جگہ جہاں کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کچھ ساعتوں کے لیے اس کا کلاشنکوف خاموش ہو گیا۔

اُدھرسیکورٹی فورسزنے اس کے سبھی ساتھیوں کو ایک ایک کر کے مار ڈالا اور یرغمالی بچوں کو چھڑوا دیا۔ تقریباً ڈیڑھ سو کے قریب بچے اور اساتذہ مارے گئے جبکہ تین سو سے زیادہ بچے زخمی ہو گئے۔ یہ اعداد و شمار حکومت کی طرف سے جاری ہوئے تھے مگر جیساکہ عام طور پر ہوتا ہے، مرے ہوئے اور یرغمال شدہ افراد کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔

’’ جابر، میں بھی افغان ہوں، مجھے بھی یہ کھلونے چلانے آتے ہیں اور شاید تم سے زیادہ طاقت ور اور بہادر بھی ہوں۔ ‘‘ اتنا کہہ کر جونہی جابر کا دھیان بٹ گیا فوزیہ نے جھپٹ کر اس کے ہاتھ سے بندوق چھین لی، اس کو پٹک کر زمین پر گرا دیا اور بندوق کی نلی جابر کے سینے پر رکھ دی۔

جابر سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کبھی اس کو یہ منظر بھی دیکھنا پڑے گا۔ ’’ فوزیہ، یہ تم کیا کر رہی ہو۔ اپنے جابر کو مارو گی کیا؟‘‘

’’اپنا جابر۔۔ ۔۔ ۔ ؟ کہاں ہے وہ۔۔ ۔۔ ۔ ؟ میرے سامنے تو کوئی اور ہے جس کے ساتھیوں نے میرے والد کو مار ڈالا۔۔ ۔۔ ۔۔ جس کے آقاؤں نے مجھے اور میری والدہ کو گھر سے بے گھر کر دیا۔۔ ۔۔ ۔ جس نے میری دھرتی کو قبرستان بنا دیا۔۔ ۔۔ ۔۔ جس نے میرے وطن میں علم کی شمع بجھا دی۔ یہ وہ جابر خان نہیں ہے جو کبھی میرا محبوب ہوا کرتا تھا۔ وہ تو کب کا مر چکا ہے۔ یہ تو انسانیت کا دشمن ہے۔ ‘‘

دریں اثنا فوزیہ نے بچوں کو باہر جانے کا اشارہ کر دیا اور وہ سبھی بچے، ڈرے سہمے ہوئے، کلاس روم چھوڑ کر بھاگ گئے۔

’’فوزیہ تم گولی نہیں چلانا۔ میرے جسم پر خود کش بم لگا ہوا ہے۔ دھماکہ ہو جائے گا اور تم مر جاؤ گی۔ میں تمھیں مرتا نہیں دیکھ سکتا۔ ‘‘

’’ خود کش بم۔۔ ۔ !ہا ہا ہا۔۔ ۔ !جنت جانے کی پوری تیاری کر کے آئے ہو۔ پھر تو تمھیں وہاں تک پہچانا کار ثواب ہے۔ ‘‘

’’ فوزیہ، کچھ اپنا بھی سوچ لو۔ تم خود بھی مر جاؤ گی۔ ‘‘

’’موت سے بزدل ڈرتے ہیں جابر خان۔ میں اس باپ کی بیٹی ہوں جس نے ہنستے ہنستے جان دے دی مگر سکول بند نہیں کیا۔ مجھے ان کھلونوں سے ڈر نہیں لگتا۔ موت تو یوں بھی تمھارے سر پر ناچ رہی ہے۔ ‘‘ اور فوزیہ نے کلاشنکوف کی لبلبی دبا دی۔

اس کے ساتھ ہی زور دار دھماکہ ہوا۔ جابر کا وجود آگ کی شعلوں کی نذر ہو گیا۔ وہ تب تک تڑپتا رہا جب تک اس کا جسم جل کر راکھ ہو گیا۔

فوزیہ بھی لقمۂ اجل ہو گئی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اس نے ہمت و حوصلے کا مظاہرہ کیا تھا اور تیس کے قریب بچوں کی جانیں بچائی تھیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک بے کار آدمی کی کہانی

 

اس نے خود کو کبھی بے کار نہیں سمجھا۔ نہ اُس وقت، جب وہ گرلز کالج کے گیٹ کے باہر سفید خوبصورت کبوتریوں کی آمد و رفت سے اپنی آنکھوں کو طراوت پہنچاتا تھا اور نہ اب جب وہ گھر میں بیٹھا بیوی کے لوٹ آنے کا انتظار کرتا ہے۔ لڑکپن میں والدین نے خوب سمجھایا کہ تعلیم سے تقدیر بدل جاتی ہے مگر اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ تقدیر میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔ ایک سیدھی سادی، حسین اور پیار کی بھوکی لڑکی نرغے میں پھنس گئی۔ لڑکا جوان، خوبرو، ہنس مُکھ اور خوش لباس تو تھا ہی، اپنی پُر کشش شخصیت کو بطور پریم بان استعمال کیا اور لڑکی کو اپنے دام میں پھنسایا۔۔ اس کے بعد شیاما خود کو کبھی آزاد نہ کر پائی۔

اجودھیا ناتھ کتنی بار بی اے کے امتحان میں شریک ہوا تھا اسے یاد بھی نہیں۔ ہر سال والدین کو یقین دلاتا کہ اب کی بار میں ضرور پاس ہو جاؤں گا مگر قسمت نے کبھی ساتھ نہ دیا۔ بھولے بھالے اور سریع الاعتقاد والدین کے پاس اس پر اعتبار کرنے کے بغیر چارہ بھی تو نہ تھا۔ اس کا دوست، جو کچھ برس پہلے اس کا ہم جماعت تھا، انجینئرنگ مکمل کر کے نوکری بھی لگ گیا مگر وہ ابھی بھی امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔ ماں نے تھک ہار کر ایک روزاس کے انجینئر دوست سے پوچھا، ’’بیٹے کچھ اپنے دوست کو بھی سمجھایا کرو، کچھ پڑھے لکھے، محنت کرے اور انسان بنے۔ وہ تو کئی برسوں سے بی اے میں اٹک گیا ہے۔ ‘‘

دوست نے جواب دیا۔ ’’آنٹی، وہ کیا خاک پڑھے گا، صبح کالج کے لیے نکلتا ہے اور جا کر گرلز کالج کے گیٹ پر لڑکیوں کو دیکھتا رہتا ہے اور ان پر پھبتیاں کستا ہے۔ ‘‘

ماں ہنس دی۔ ’’ ارے بیٹا، کیا کروں، اس کو لڑکیاں بہت پسند ہیں۔ جاتا ہو گا دل بہلا ئی کے لیے۔ ‘‘

دوست کے جی میں آئی کہ کہہ دے ’’ آنٹی، میں کوئی نامرد ہوں کیا کہ مجھے لڑکیاں پسند نہیں آتیں۔ آدمی کو زندگی میں کچھ تو ترجیحات ہونی چاہئیں۔ ‘‘ مگر عمر کا لحاظ کر کے وہ کچھ بھی نہ بول پایا اور چپ چاپ اپنے گھر چلا گیا۔

ایک روز ماں کو معلوم ہوا کہ پھر سے نتیجے آنے والے ہیں۔ بہت پریشان ہوئی کہ نہ جانے کیا ہو گا۔ اس نے کئی بار اپنے بیٹے کے منہ سے سنا تھا کہ اب کی بار اگر وہ پاس نہیں ہوا تو خود کشی کر لے گا۔ اسے فکر لگی کہ نہ جانے اس کا بیٹا کہاں ہو گا کیونکہ اس نے دھمکی دی تھی کہ اگر وہ اس بار فیل ہوا تو زہر کھا لے گا۔ ماں نے اس کے ایک اور قریبی دوست کو بلوایا اور اس سے گذارش کی۔ ’’ بیٹے، نہ جانے اجودھیا کہاں ہو گا۔ سنا ہے اس کا رزلٹ نکل چکا ہے اور وہ دوبارہ فیل ہو چکا ہے۔ کہیں سن کے کچھ کر نہ بیٹھے۔ اس لیے اس ماں کی لاج رکھو اور جا کراسے ڈھونڈ لاؤ۔ وہاں پر اسے رزلٹ کے بارے میں کچھ نہ بتانا۔ ‘‘

دوست کو معلوم تھا کہ ملا کی دوڑ مسجد تک۔ وہ سیدھا خیبر سینما پہنچا جہاں کا گیٹ کیپر جان پہچان کا آدمی تھا۔ اس کو ساری بات سمجھائی اور اجودھیا ناتھ کو باہر بلوایا۔ دوست گویا ہوا۔ ’’ بھئی جلدی گھر چلو۔ تمھاری ماں بہت پریشاں ہے۔ تمھارے رزلٹ کا اعلان ہو چکا ہے۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ اس کو بلاکر لے آؤ تاکہ رزلٹ معلوم کرنے جائے۔ ‘‘

ا جودھیا نے پھیکی سی ہنسی ہنس دی اور پھر دوست سے مخاطب ہوا۔ ’’ ارے بھائی، وہاں کیا دیکھنا ہے۔ مجھے تو اپنا رزلٹ معلوم ہی ہوتا ہے۔ تم تو میرے دوست ہو، میرے لیے ایک کام کر لو، گھر جا کر ماں سے کہہ دو کہ بہت کوشش کے باوجود اجودھیا کہیں نہیں ملا۔ نیا فلم ہے اور ہیرو بھی میرا پسندیدہ ہے۔ بلیک میں ٹکٹ خرید لی ہے۔ مجھے یہ فلم پورا دیکھنے دو۔ ختم ہوتے ہی گھر پہنچ جاؤں گا۔ تب تک تم کیسے بھی مورچہ سنبھالو۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ دوڑتا ہوا سینماہال کے اندر چلا گیا۔

دوست کو پہلے ہی سے اس جواب کی توقع تھی پھر بھی ماں کا دل رکھنے کے لیے چلا گیا۔ دو گھنٹے کے بعد صاحب زادہ غمگین سا چہرہ بنا کر چلا آیا اور ماں سے لپٹ کر بولا۔ ’’ مجھے گھر آتے وقت ایک ہم جماعتی نے نتیجے کے بارے میں آگاہ کیا۔ معلوم نہیں ان یونیور سٹی والوں کو میرے ساتھ کیا بیر ہے کہ پاس ہی نہیں کرتے۔ ‘‘

ماں زار و قطار رو تی رہی اور بیٹا رونی صورت بنا کر سامنے بیٹھا رہا۔

کئی برس یوں ہی گزر گئے۔ پھر تھک ہار کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ گیا۔ کرتا بھی کیا اور کوئی چارہ بھی تو نہ تھا۔ والدین نے اپنا بوجھ کم کرنے کے لیے شیاما کو قربانی کا بکرا بنا لیا۔ تقدیر اچھی تھی کہ شیاما کو سرکاری ادارے میں نوکری مل گئی جس کے سبب گھر کے اخراجات پورے ہوتے رہے۔ اجودھیا بدستور آوارہ دوستوں کی منڈلیوں میں گپیں ہانکتا رہا۔ گاہے دُکانوں کے تھڑوں پر، گاہے سرکاری پارکوں میں اور گاہے سڑکوں پر بے سمت چل کر۔ شام کو آتے ہی تھکی ماندی بیوی کی آغوش میں پناہ لیتا۔ طفیلی زندگی کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو سکتی ہے۔ دنیا میں بہت سے لوگ ہیں جو دوسروں پر اپنا بوجھ لادتے ہیں اور خود بے نیل و مرام جیتے ہیں۔

بہر حال ایسا کب تک چل سکتا تھا۔ والدین اس فکر میں تھے کہ بیٹے کو کہیں کوئی چھوٹی موٹی نوکری مل جائے۔ مندروں آستانوں میں حاضری دی۔ پیر فقیروں کے در پر سجدے کیے۔ گنڈے تعویذ باندھے۔ آخر کار ماں کا سونا بیچ کر تیس ہزار اکٹھے ہوئے اور انھیں نذرانہ دے کر ایک سرکاری محکمے میں عارضی طور پر ملازمت مل گئی۔ امید یہ تھی کہ دو تین برسوں میں مستقلی ہو جائے گی۔ ہوا بھی یہی ساڑھے تین سال بعد سبھی عارضی ملازموں نے مورچہ لگایا، ہڑتالیں کیں اور کام روکو تحریک چلائی۔ بڑے بڑے یونین لیڈروں نے ان کو اپنا سمرتھن دیا۔ خوش نصیبی یہ رہی کہ الیکشن سر پر تھا اس لیے سرکار ان کی مانگیں ماننے کے لیے مجبور ہو گئی۔

در اصل گورنمنٹ دفتروں میں یہ ایک نئی وبا پھیلی ہے۔ سرکاری خرچے کو کم کرنے کے لیے دکھاوے کے لیے تقرریوں پر روک لگائی جاتی ہے جبکہ دوسری جانب ہنگامی صورت میں احتیاج کے تحت ایسے نا اہل لوگوں کو عارضی طور نوکری پر رکھا جاتا ہے جو یا تو ان کے قریبی ہوتے ہیں یا پھر جنھوں نے مٹھی گرم کی ہوتی ہے۔ بعد میں عارضی کو مستقل کرنے کے لیے نئے نئے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ انھیں اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت کسی عارضی ملازم کو تین سال نوکری کرنے کے بعد نکالا نہیں جا سکتا ہے۔ ہندوستانی افسر شاہی کی کارستانیاں۔۔ ۔۔ ۔ ! جیب بھی گرم ہوئے، سیاسی آقا بھی خوش ہوئے، نہ سرکاری حکم کی ان دیکھی ہوئی اور نہ کورٹ کی توہین ہوئی۔ دوسری جانب تعلیم یافتہ، قابل اور میرٹ والے امیدوار اپنی قسمت اور سرکاری نظام کو کوستے رہ جاتے ہیں۔

خیر آمد بر سر مطلب۔ تیس ہزار کی رقم کام کر گئی۔ اب تو ٹھاٹ تھی۔ سرکاری ملازمت۔۔ ۔ بالائی آمدنی۔۔ ۔ نئے سوٹ۔۔ ۔ نئے جوتے۔۔ ۔ کبھی کبھار کوئی انڈیا کنگس سگریٹوں کا پیکٹ دے جاتا اور کوئی ہیورڈس کی بوتل پکڑا دیتا۔ کایا پلٹ ہو گئی۔ سچ پوچھو تو گھر پھر بھی شیاما کی تنخواہ پر ہی چلتا تھا۔ اس کی تنخواہ کے مقابلے میں شوہر کی تنخواہ عُشرِ عشیر تھی۔ پھر بالائی آمدنی تو جنس میں ملتی تھی جیسے سگریٹ، بوتل یا فارین سینٹ۔ ان سے کنبے کا کیا فائدہ ہو سکتا تھا۔

کئی برس بعد زندگی نے ایسی کروٹ لی کہ سب کچھ تہس نہس ہو گیا۔ وادی کے چپے چپے پر بارود بچھ گئی۔ سڑکوں پر لہو بہنے لگا۔ رات کی تاریکی میں فرمان اور دھمکیاں جاری ہوئیں۔ اجودھیا، شیاما اور ان کے دو بچوں کو وادی چھوڑ کر جموں میں پناہ لینی پڑی۔ شیاما چونکہ مرکزی محکمے میں ملازم تھی، اس لیے کچھ عرصے بعد اس کو لکھنٔو میں تعینات کیا گیا۔ سارا کنبہ لکھنٔو منتقل ہو گیا اور آہستہ آہستہ نئے ماحول اور نئی چنوتیوں کا مقابلہ کرنے میں منہمک ہو گیا۔

کرائے پر سستا فلیٹ پندرہ کلو میٹر دور مل گیا۔ شیاما صبح سے لے کر آدھی رات تک پہلے دفتر اور پھر گھر کے جھمیلے سلجھاتی رہی۔ ادھر بچوں کے اخراجات بڑھتے گئے۔ سکول کی فیس، کپڑا لتا، جیب خرچ اور پھر ٹیوشن کا خرچہ ! اجودھیا چونکہ ریاستی سرکار میں ملازم تھا اس لیے گھر بیٹھے تنخواہ ملنے لگی مگر اب بالائی آمدنی بند ہو چکی تھی۔ سگریٹ وغیرہ کے لیے جیب سے خرچ کرنا پڑتا تھا مگر وہ ٹھاٹ اب کہاں !

وہ من ہی من میں بہت خوش تھا کہ گھر بیٹھے ہر مہینے تنخواہ مل رہی ہے اور کوئی جوکھم بھی اٹھانی نہیں پڑتی۔ جب مرضی جاگو، جب مرضی کھاؤ اور جب مرضی آرام فرماؤ، کوئی بندش نہ تھی۔ ہاں جہاں کہیں کشمیری مہاجروں کی کانفرنس ہوتی، یگیہ ہوتا یا پھر کسی سنت سادھو کی آمد ہو تی، فوراً پہنچ جاتا اور کشمیری پنڈتوں کے مستقبل پر بحث و مباحثے میں حصہ لیتا۔ اچھا فورم تھا جہاں برادری کی خوب ساری خبریں مل جاتیں جن کو وہ آل انڈیا ریڈیو کی مانند نشر کرتا۔ کس کا بیٹا ایم بی کر کے امریکا چلا گیا، کس کی بیٹی انجینئرنگ کر کے جرمنی میں بیاہی گئی، کس کی لڑکی کس کے ساتھ بھاگ گئی، کس جوڑے کا حال ہی میں جھگڑا ہوا اور کس نے زہر کھا کر جان دی، اجودھیا ناتھ ان سب خبروں کا پٹارا تھا۔ مگر گھر پہنچتے ہی یہ بیماری اور وہ بیماری۔ کام کرنے کی سکت ہی نہ رہتی تھی۔

چند قریبی رشتے داروں نے بہت کوشش کی کہ اجودھیا ناتھ گھر کا ایک فرض شناس رکن بن جائے۔ کوئی پرائیویٹ ملازمت کر کے مزید آمدنی گھر لائے جو مستقبل میں بچوں کے کام آ سکے۔ یہاں تک کہ ایک بارسوخ رشتے دار نے اچھی خاصی نوکری دلوا دی۔ مگر پرائیویٹ نوکری میں محنت کرنی پڑتی۔ نہ وہ سرکاری نوکری کی ٹھاٹ باٹ تھی اور نہ ہی بالائی آمدنی۔ نہ فلٹر سگریٹ تھے اور نہ تکے کباب۔ دن بھر پسینے بہانے والا معاملہ تھا گو پرانی نوکری کے مقابلے میں پانچ گنا تنخواہ ملنے والی تھی۔ بیچارے نے دس بارہ روز حاضری دی پھر بیمار پڑ گیا اور بہت دنوں تک بستر پر پڑا رہا۔ اس طرح نوکری سے جان چھوٹ گئی اور وہ اندر ہی اندر خوش ہوا۔

صحتیاب ہونے کے بعد شیاما نے پھرکسی کی منت سماجت کر کے پاس ہی ایک این جی او میں نوکری کا انتظام کروایا۔ زیادہ محنت کا کام نہیں تھا۔ دس سے پانچ تک کی نوکری تھی اور وہ بھی آمدنی اور خرچے کا حساب رکھنا تھا۔ تنخواہ البتہ پہلے جیسی نہ تھی مگر معقول تھی۔ بچنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آئی۔ بے چارا نوکری کرنے ایسے جاتا جیسے سوئے دار جا رہا ہو۔ آخر کب تک۔ پہلے مہینے کی تنخواہ۔۔ ۔۔ دوسرے مہینے کی تنخواہ۔۔ ۔۔ پھر دل میں گھبراہٹ ہونے لگی، ایک روز دفتر سے لوٹتے وقت غش آ گیا اور ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑا۔ انجام کار اس نوکری سے بھی چھٹکارا مل گیا۔

ایسے ہی ایک دو تجربے اور ہوئے مگر صحت کی ناسازی اور سر میں چکر آنے کے بہانے جان چھوٹتی رہی۔ ایک روز بڑا بھائی کولکتہ سے آیا اور بات بات میں نصیحت کرنے لگا۔ ’’ اجودھیا، دن بھر یوں ہی پڑا رہتا ہے۔ کچھ کام شام کیا کرو، صحت بھی اچھی رہے گی اور وقت بھی گزر جایا کرے گا۔ ساتھ ہی گھر کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو گا۔ ‘‘

اجودھیا نے جواب دینے میں زیادہ دیر نہ لگائی۔ ’’ میں کیا گھاس کاٹتا رہتا ہوں۔ ہر مہینے سرکار تنخواہ دیتی ہے۔ پھر اور نوکری کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟‘‘

شکر ہے کہ نصیحت دینے والا کوئی اور نہیں بلکہ اس کا اپنا بڑا بھائی تھا۔ ورنہ بات نہ جانے کہاں تک بڑھ جاتی۔

ادھر اخراجات روز بروز بڑھ رہے تھے۔ اجودھیا ناتھ، جو تب تک’ شیر آیا شیر آیا‘ کی رٹ لگائے ہوئے تھا اب سچ مچ شیر کی گرفت میں آ گیا۔ ذیابیطس اور قلب کی بیماری نے مستقل طور پر دبوچ لیا۔ اب تو محفلیں بھی چھوٹ گئیں۔ ہجرت کے بعد کشمیری پنڈتوں میں دو چیزیں بہت عام ہو گئیں۔ ایک بسر اوقات کے لیے آشرموں کے چکر لگانا اور دوسرے ذیابیطس کی بیماری جو جونک کی طرح اکثر لوگوں کے ساتھ چمٹ گئی ہے۔ اجودھیا ناتھ کو بھی دونوں نے جکڑ لیا۔ مندر اور آشرم کی لت ایسی پڑی کہ گھنٹوں بیت جاتے گھر کا خیال ہی نہ رہتا۔ اُدھر ذیابیطس نے اندر ہی اندر گھن کی طرح چاٹ لیا اور حرکتِ قلب نے کئی بار بند ہونے کی دستک دی۔

کچھ لوگوں کے لیے بیمار ہونا بھی افتخار کی علامت ہوتی ہے۔ اجودھیا ناتھ جہاں جاتاسب سے پہلے اپنی بیماری کا بکھان کرتا کہ ’’خون میں شکر بہت بڑھ گیا ہے، اس کے لیے ڈاکٹر نے چار دوائیاں دی ہیں۔ پھر فشار خون کی وجہ سے دل پر اثر پڑا ہے اور دو جگہ آپریشن کر کے خون کے بہاؤ کو نارمل کیا گیا۔ اس بیماری سے بچنے کے لیے روزانہ پانچ دوائیاں کھانی پڑتی ہیں۔ کھانے میں سب کچھ بند۔ نمک، چینی، مرچ، مصالحے، آلو اور چاول۔ معلوم نہیں پھر کیسے جئیں گے۔ میں تو آج کل ہوا پر جی رہا ہوں۔ ‘‘

اور سچ بھی یہی ہے کہ اجودھیا ناتھ نے کبھی اپنے جینے کے ڈھنگ پر غور ہی نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ ہوا پر جیتا رہا۔ کبھی والد کی کمائی نے سہارا دیا، کبھی بیوی کی کمائی نے اور کبھی مفت مل رہی تنخواہ نے۔ کہیں پر بھی اس کو محنت کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ وہ جیتا رہا، زندگی کے سفر کے سنگ میل طے کرتا رہا اور اب منزل بھی زیادہ دور نہیں رہی۔ طفیلی زندگی نے اسے ایک ہی سبق سکھایا کہ جینے سے مطلب رکھو، اس کی پرواہ نہ کرو کہ کیسے جینا ہے۔ ان بھول بھلیوں میں جھانکنے کی کوشش کرو گے تو زندگی کا سکھ چین کھو دو گے۔

اور اجودھیا ناتھ نے یہ سبق ازبر کر لیا ہے۔

٭٭٭

 

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل