FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

آم نامہ

بچوں کی نظمیں

               شاہین اقبال اثرؔ

 

جذبۂ عشاق، کام آنے کو ہے

پھر لذیذ و شیریں جام آنے کو ہے

موسمِ سرما کی آمد مرحبا

کیونکہ اس موسم میں آم آنے کو ہے

ختم ہونے کو ہے وقتِ انتظار

انتخابِ خاص و عام آنے کو ہے

دھیرے دھیرے چلتا، لنگڑاتا ہوا

خوش ادا و خوش خرام آنے کو ہے

مقتدی تیار ہوں صف باندھ کر

سب پھلوں کا اب امام آنے کو ہے

قربتوں کا ہو گا اب آغاز پھر

فرقتوں کا اختتام آنے کو ہے

آتے ہی جانے کی تیاری کرے

وہ سوارِ تیز گام آنے کو ہے

وجد میں یوں گنگناتا ہے اثرؔ

آم آنے کو ہے ، آم آنے کو ہے

٭٭٭

 

مرا جذبۂ شوق کام آ رہا ہے

کہ بازار میں دیکھوں آم آ رہا ہے

غریب و امیر اس کے شیدائی یکساں

پسندیدۂ خاص و عام آ رہا ہے

کسی مقتدی کو خریدوں میں کیونکر

کہ جب خود پھلوں کا امام آ رہا ہے

سب ہاتھوں کو پھیلائیں آنکھیں بچھائیں

پھلوں میں وہ عالی مقام آ رہا ہے

وہ چوسا، سرولی، وہ سندھڑی وہ فضلی

وہ آموں کا اک اژدہام آ رہا ہے

ہے لنگڑا پہ لنگڑاتے لنگڑاتے دیکھو

وہ محبوبِ مَن خوش خرام آ رہا ہے

مجھے ہے خوشی جو ہیں دیوانے اس کے

اثرؔ ان میں میرا بھی نام آ رہا ہے

٭٭٭

ہو رہا ہے ذکر پیہم آم کا

آ رہا ہے پھر سے موسم آم کا

نظم لکھ کر اس کے استقبال میں

کر رہا ہوں خیرمقدم آم کا

ان سے ہم رکھیں زیادہ ربط کیوں

شوق جو رکھتے ہیں کم کم آم کا

تب کہیں آتا ہے میرے دم میں دم

نام جب لیتا ہوں ہمدم آم کا

شوق سے پڑھتے ہیں اس کو خاصو عام

جب قصیدہ لکھتے ہیں ہم آم کا

کیا کہوں اثمار کی فہرست میں

نام ہے سب سے مقدّم آم کا

اک فقط میں ہی نہیں شیدا اثرؔ

شیدا ہے عالم کا عالم آم کا

٭٭٭

وہ خواب بھی کیا خوب تھا، تا حدِ نظر آم

یاں آم تھا واں آم، اِدھر آم اُدھر آم

وہ شب بھی کئی روز سے روشن تھی زیادہ

شب بھر مجھے دکھتا ہی رہا تابہ سحر آم

وہ موسمِ گرما وہ شجر قابلِ تحسین

جس موسمِ گرما میں کہ لاتے ہیں شجر آم

ہے موسمِ سرما بھی بہت خوب، بہت خوب

ملتا ہی نہیں موسمِ سرما میں مگر آم

اٹھتے ہی نہیں دوسری جانب کو قدم اب

چلتا ہوں اسی سمت کو، ملتا ہے جدھر آم

چونسا ہو کہ لنگڑا ہو، سرولی ہو کہ فضلی

ہے لذت و شیرینی سموئے ہوئے ہر آم

پاتے ہیں اسے کھا کے نئی فکر نیا ذوق

مرغوب جبھی رکھتے سب اہلِ نظر آم

رک جائیں وہیں پاؤں ، ٹھہر جائے وہیں جسم

چپکے سے کوئی کان میں کہہ دے جو اثرؔ آم

٭٭٭

آم ہی مرغوبِ خاص و عام ہے

آم ہی مرغوبِ خاص و عام ہے

آم ہی اہلِ نظر کا جام ہے

دوسرے ثمرات کچھ بھاتے نہیں

شوق سے اکثر اسے کھاتے نہیں

وجہ اس کی اب بتا دیتا ہوں میں

راز سے پردہ اٹھا دیتا ہوں میں

اس لئے الفت نہیں انگور سے

وزن اس کا ملتا ہے لنگور سے

اس لئے شائق نہیں امرود کا

وہ کہ ہے ہم قافیہ نمرود کا

خوف کھاؤں کیوں نہ آخر سیب سے

ہے مشابہ جب کہ وہ آسیب سے

پھل اگرچہ کم ہیں چیکو کی مثال

مثل آلو کے ہے اس کی چال ڈھال

پھل نہیں ہے گرچہ کیلے کی طرح

اس کا چھلکا ہے جھمیلے کی طرح

جب نظر پڑتا آڑو دفعۃً

ذہن میں آتا ہے جھاڑو دفعۃً

مستفید ہوتے ہیں جب تربوز سے

ہونے لگتے ہیں نہایت لوز سے

اس لئے مرغوب اب گنا نہیں

ہم کو شوگر مِل تو اب بننا نہیں

نام سے گرما کے گرمی لگتی ہے

ذکر سے سردا کے سردی لگتی ہے

کس طرح مرغوب ہو آخر انار

وہ الف ہٹتے ہی ہو جاتا ہے نار

ناشپاتی اور نکہ کیا کہوں

وہ ہیں نادر مثلِ یکہ کیا کہوں

کھائیں کیوں املوک کو ہم لوگ جب

ملتا ہے اس کا ٹماٹر سے نسب

فالسے سے اس لئے رغبت نہیں

فاصلے رکھنے کی اب عادت نہیں

کس طرح آلو بخارا کھاؤں یار

نام ہی میں اس کے شامل ہے بخار

 

الغرض حاصل یہی ٹھہرا جناب

سب سے اعلیٰ ہے اثرؔ کا انتخاب

آم ہی مرغوبِ خاص و عام ہے

آم ہی اہلِ نظر کا جام ہے

٭٭٭

آیا آم کا موسم آیا

جون نے جوں ہی جلوہ دکھایا

دل نے خوشی کا نغمہ گایا

آیا آم کا موسم آیا

ہم نے گرمی کی چھٹی میں

میٹھے آم کا لطف اٹھایا

آیا آم کا موسم آیا

شدت جب گرمی کی بڑھی تو

میرے رب نے مینہ برسایا

آیا آم کا موسم آیا

پہلے اس کو فریج میں رکھا

بطن میں اس کے بعد بٹھایا

آیا آم کا موسم آیا

کچھ بھی نہ چھوڑا جز چھلکوں کے

گٹھلی چوسی گودا کھایا

آیا آم کا موسم آیا

چونسے کا رس چوسا ہم نے

سندھڑی کا پھر شیک بنایا

آیا آم کا موسم آیا

خود وہ کتنا میٹھا ہو گا

جس نے شیریں آم بنایا

آیا آم کا موسم آیا

٭٭٭

آم ہے اور آم ہے

چھٹیاں ہیں ، میں ہوں ، میٹھا آم ہے

اور اب میرا بھلا کیا کام ہے

مینگو کھانا و پینا مِلک شیک

شغل اب اپنا یہ صبح و شام ہے

گرمیاں ہیں گرمیاں ہیں گرمیاں

آم ہے ، اور آم ہے اور آم ہے

ناشتہ، کھانا، ڈنر، یا لنچ ہو

آم کے موسم میں نذرِ آم ہے

میں نہیں چھوڑوں گا اب لنگڑے کی ٹانگ

چوس لوں گا چوسا ایسا آم ہے

آم کہتا ہے جسے سارا جہاں

غالباً جنت کے پھل کا نام ہے

اس کی قوت کا بھلا کیا پوچھنا

فوقِ صدہا پستہ و بادام ہے

شوق جس کو آم کھانے کا نہیں

ذوق میں وہ ہم سرِ اَنعام ہے

سب پھلوں کا جب تقابل ہو اثرؔ

آم ہی بس قابلِ اِنعام ہے

٭٭٭

آم کا خاندان ہے

گرمیاں اس طرح مناتا ہوں

شیک پیتا ہوں  آم کھاتا ہوں

جام پینا پلانا لاحاصل

آم کھاتا ہوں اور کھلاتا ہوں

آم کا خاندان ہے گھر میں

اس کے ہر فرد کو بلاتا ہوں

لنگڑا آتا ہے جب کہ لنگڑاتا

اس کو میں پیٹ میں بٹھاتا ہوں

جب کہ کرتا ہوں چوسے کو چوائس

گٹھلی تک چوس چوس جاتا ہوں

ہے سرولی کہ سر ولی ہے وہ

سیر ہو کر اسے میں کھاتا ہوں

جس کو انور رٹول کہتے ہیں

اس کے انوار خوب پاتا ہوں

فضلی کی بھی عجب فضیلت ہے

فیض اس کا میں خوب اٹھاتا ہوں

اور طوطا پری ہے جس کا نام

اس کو لمحوں میں میں اڑاتا ہوں

ساری دنیا کی نعمتیں کھا کر

اپنے مولیٰ کے گیت گاتا ہوں

٭٭٭

آم کا تحفہ

آپ نے بھیجا آم کا تحفہ

ہے یہی سب سے کام کا تحفہ

حیدرآباد سے کراچی کو

آ گیا شیریں جام کا تحفہ

ایک ناچیز مقتدی کے لئے

ہے پھلوں کے امام کا تحفہ

واجب الاحترام ہے آخر

واجب الاحترام کا تحفہ

عہدِ غالبؔ تا اکبرؔو اقبالؔ

ہے یہی خاص و عام کا تحفہ

عاشقِ آم کے لئے ہے آم

صبح کا توشہ شام کا تحفہ

اصل تحفہ ہے آم ہی کا اثرؔ

ورنہ تحفہ ہے نام کا تحفہ

٭٭٭

مینگو

آتا ہے جوں ہی جون تو آتا ہے مینگو

جاتا ہے جب جولائی تو جاتا ہے مینگو

رہتے ہیں تشنہ طالبِ دیدارِ آم سب

یوں مختصر سا جلوہ دکھاتا ہے مینگو

کرتا نہیں ہے اسٹے زیادہ دنوں تلک

یوں اپنی ویلیو کو بڑھاتا ہے مینگو

پیتے ہی جس کو ہوتے ہیں اجسام کولڈ کولڈ

گرمی میں ایسا جوس پلاتا ہے مینگو

کرتے ہیں اس کے ٹیسٹ کو لائک گریٹ مین

دل اہلِ دل کا خوب لبھاتا ہے مینگو

جو مینگو کا فین ہے آپ اس سے پوچھئے

ملتان سے کراچی منگاتا ہے مینگو

میں سوچتا ہوں کتنی سوئٹ ہو گی اس کی ذات

آخر زمین سے جو اگاتا ہے مینگو

دراصل اس فروٹ سے ہوتا نہیں ڈیفکٹ

جب ہی افیکٹ (اثرؔ) شوق سے کھاتا ہے مینگو

٭٭٭

آم ہی آم ہے

جدھر دیکھتا ہوں ادھر آم ہے

ارے آم کیا ہے سرِ عام ہے

جو پھیکا ہے کھٹا ہے کب آم ہے

کہ وہ آم پر ایک الزام ہے

اسے لوگ کہتے ہیں کیری ہے یہ

جو بچہ ہے کچا ہے اور خام ہے

مجھے گرمیاں ہیں جبھی تو پسند

کہ اس میں فقط آم ہی آم ہے

سرولی ہے چوسا ہے طوطا پری

کہ لنگڑے کا بھی تو بڑا نام ہے

اسے لوگ کہتے ہیں جنت کا پھل

یہ بندوں پہ مولیٰ کا انعام ہے

خریدوں میں کس طرح پھل دوسرے

کہ موجود بازار میں آم ہے

٭٭٭

آم رخصت ہو گیا

آہ صد افسوس ہے پھر آم رخصت ہو گیا

جس کو کھاتا تھا میں صبحو شام رخصت ہو گیا

کیوں نہ اس غم پر پڑھوں میں ’’اناللہ‘‘ دوستو

درحقیقت رب کا اک انعام رخصت ہو گیا

حوصلہ رکھ منتظر رہ موسمِ گرما کا پھر

بین مت کر اب دلِ ناکام، رخصت ہو گیا

دیکھنے سے جس کے ہوتی تھیں نگاہیں شاد باد

جس سے پاتا تھا یہ دل آرام رخصت ہو گیا

روکنا چاہا بہت لیکن وہ نکلا بے وفا

آخرش محبوبِ خاص و عام رخصت ہو گیا

 

پھیکی لگتی ہے مجھے تو زندگی اس کے بغیر

کیف و لذت کا وہ شیریں جام رخصت ہو گیا

سیر کیا ہوتی طبیعت، بطن ہے خالی ابھی

چھوڑ کر وہ، مجھ کو تشنہ کام رخصت ہو گیا

اب کسی کے جال میں یہ قید ہو سکتا نہیں

تھا اثرؔ جس کا اسیرِ دام رخصت ہو گیا

٭٭٭

وہ پوچھتے ہیں کس لئے چہرہ اتر گیا

سنئے ! خدانخواستہ کیا کوئی مر گیا

کیا کھو گیا ہے آپ کا بٹوہ جنابِ من

یا جیب کترا، جیب کہیں صاف کر گیا

کیا چوری ہو گئی ہے کہیں بھینس آپ کی

یا بیل راہِ راست سے ہٹ کر ٹکر گیا

کیا دشمنوں کی آج طبیعت خراب ہے

یا دل کسی چڑیل کے سائے سے ڈر گیا

دل ہی تو ہے یہ، سنگ یا آہن تو ہے نہیں

اصرارِ تعزیت پہ بالآخر بپھر گیا

رو کر کہا کہ آپ کو اس کی خبر نہیں ؟

مہمان آیا، آتے ہی واپس وہ گھر گیا

اب تو سمجھ گئے ، کہ ہوں مغموم کس لئے

محبوب دوست ’’آم‘‘  کا موسم گزر گیا

٭٭٭

آم کا مقام

آم صد رشکِ قند ہے بھائی

آم ہی من پسند ہے بھائی

آم کا عشق جس کے دل میں ہے

وہ بڑا عقل مند ہے بھائی

آم کو عام پھل سمجھنا مت

اس کا رتبہ بلند ہے بھائی

سب پھلوں کے عوض ملے گر آم

سودا یہ سودمند ہے بھائی

اس پہ کیا آم کا مقام کھلے

آنکھ ہی جس کی بند ہے بھائی

تم نے جو آم کی برائی کی

مجھ کو پہنچی گزند ہے بھائی

اس میں ملتا ہے آم کھانے کو

جب ہی گرمی پسند ہے بھائی

٭٭٭

پھر آم کی آمد آمد ہے

پھر دل میں خوشی یوں بے حد ہے

پھر آم کی آمد آمد ہے

ہر رنگ ہی آم کا ہے پیارا

گو احمر ہے یا اسود ہے

پر آم سے ہاتھ نہیں رکتا

گو توند مثالِ گنبد ہے

یہ بطن نہیں ہے سچ پوچھو

یہ میٹے آم کا مرقد ہے

پر آم کہاں سے لائے وہ

گو پیڑ بڑا تو برگد ہے

آموں کا نسب کیا پوچھتے ہو

ہر پھل کا جدِ امجد ہے

ہے دوست مقامِ آم وہاں

جو سب سے اونچی مسند ہے

ہر خرچ میں ہے محتاط اثرؔ

پر آم کی ایک الگ مَد ہے

٭٭٭

آم کے موسم میں جو انگور لاتے ہیں اثرؔ

میں سمجھتا ہوں کہ وہ مجھ کو تپاتے ہیں اثرؔ

کس لئے پھر دوسرے پھل لوگ لاتے ہیں اثرؔ

جب انہیں معلوم بھی ہے ، آم کھاتے ہیں اثرؔ

آم کی خوشبو بتا دیتی ہے خود اپنا وجود

دور ہی سے آم کا پیغام پاتے ہیں اثرؔ

آم ہی ہے بادشاہِ محترم اثمار کا

بے سبب کیا آم سے الفت جتاتے ہیں اثرؔ

کس لئے جلتے ہیں حبِ آم سے کچھ خاص لوگ

کس لئے وہ دل جلے کا دل جلاتے ہیں اثرؔ

آم کی فرقت کی کلفت سہتے ہیں سردی میں اور

گرمیوں میں آم کی لذت اٹھاتے ہیں اثرؔ

٭٭٭

آج محبوب سرِ بام نظر آیا ہے

یعنی ٹھیلے پہ مجھے آم نظر آیا ہے

کیوں گزرتا نہ میں بازار سے سرشار کہ جب

آم ہی آم بہر گام نظر آیا ہے

کہیں چونسا کہیں لنگڑا کہیں سندھڑی موجود

آم کا فیض بہت عام نظر آیا ہے

آم کھانے کا نہیں شوق ہے جن کے دل میں

ذوق ایسوں کا مجھے خام نظر آیا ہے

خالقِ آم کی شیرینی بھلا کیا ہو گی

آم میں مخفی یہ پیغام نظر آیا ہے

گو وہ محجوب رہا آٹھ مہینے لیکن

صبح کا بھولا سرِ شام نظر آیا ہے

کیوں نہ میں نوش کروں اس کو بصد شوق اثرؔ

کیف و لذت کا حسیں جام نظر آیا ہے

٭٭٭

بے کل ہے روح دل ہے حزیں آم کے بغیر

گرمی میں کوئی لطف نہیں آم کے بغیر

آتا ہے صرف آم کے دیدار میں مزہ

منظر نہیں ہے کوئی حسیں آم کے بغیر

وہ خاص ہو کہ عام ہو، موسم میں آم کے

آئے نہ کوئی میرے قریں آم کے بغیر

ہلچل نہیں ہے قلب میں جل تھل نہیں ہے چشم

بنجر ہے گویا دل کی زمیں آم کے بغیر

میری طرف سے پیشگی ہو معذرت قبول

دعوت جو منعقد ہو کہیں آم کے بغیر

مشہور خوش مزاج ہے یاروں میں وہ مگر

ہے پر شکن اثرؔ کی جبیں آم کے بغیر

ان میں کوئی مٹھاس نہیں ذائقہ نہیں

نظمیں اثرؔ جو تم نے کہیں آم کے بغیر

٭٭٭

آم سے ایسی محبت قلب میں پاتا ہوں میں

آم بھاتا ہے مجھے اور آم کو بھاتا ہوں میں

آم سے اپنی محبت ایسے جتلاتا ہوں میں

آم کے موسم میں دیگر پھل نہیں کھاتا ہوں میں

دوسرے اثمار کی جانب نہیں کرتا نظر

اپنی آنکھوں کو جھکائے ہی گزر جاتا ہوں میں

موسمِ سرما میں یعنی آم کے جانے کے بعد

آم کے اشعار سے بھی بزم گرماتا ہوں میں

اپنے محبوبِ مجازی کی زیارت کے لئے

آم کے بازار میں جاتا ہوں میں آتا ہوں میں

آم کوئی عام پھل، اے دوستو ہرگز نہیں

آم کی جب ہی تو یوں توصیف فرماتا ہوں میں

اک کراچی ہی کی منڈی سے نہیں کرتا رجوع

اے اثرؔ ملتان سے بھی آم منگواتا ہوں میں

٭٭٭

شب کا ہوتا ہے مرے گھر میں گزر آم کے بعد

کِیا کرتا ہوں میں آغازِ سحر آم کے بعد

سیب، انگور یا جامن یا کوئی بھی پھل ہو

سب ہی اپنی جگہ اچھے ہیں مگر آم کے بعد

آم کے جام کی توہین سمجھتا ہوں اسے

چکھ لوں بھولے سے کوئی چیز اگر آم کے بعد

کوئی کچھ بھی کہے پر یہ مری کمزوری ہے

مجھ کو جچتا ہی نہیں کوئی ثمر آم کے بعد

آم کھانے سے تو میں باز نہیں آ سکتا

شوٹ کرنا ہے تو کر جائے شوگر آم کے بعد

عام لوگوں کو بھلا اس کا کہاں اندازہ

زخمِ فرقت سے جو چھلنی ہے جگر آم کے بعد

جیسے کھو جائے کسی شخص کی پیاری بکری

ایسے غمگین سے لگتے ہیں اثرؔ آم کے بعد

٭٭٭

کیا آپ کا یہ تبصرۂ خام نہیں ہے

آموں کو شوق کس نے کہا عام نہیں ہے

آتا ہے صرف موسمِ گرما میں یہ ثمر

گرمی کے سوا اس کا کہیں نام نہیں ہے

تربوز ہو انگور ہو جامن کہ پپیتا

ہمسر تو کجا، خاکِ درِ آم نہیں ہے

اثمارِ دِگر کے ہیں مراکز بھی بہت شاذ

آموں کی طرح کوئی سرِ عام نہیں ہے

خالق تو ہر اک شے کا ہے اللہ تعالیٰ

محبوبیت ہر اک کی مگر عام نہیں ہے

لذت کے حسیں جام سے گر بیر ہے ان کو

کچھ ہستیِ احباب پہ الزام نہیں ہے

مشہورِ زمانہ ہے یہ غالبؔ کا مقولہ

اس واقعے میں کوئی بھی ابہام نہیں ہے

جب اک نے کہا، آم گدھے بھی نہیں کھاتے

بولے کہ ہاں گدھوں کو پسند آم نہیں ہے

کرتا ہی نہیں قدر جو اِنعامِ خدا کی

کیا ذوق میں وہ ہم سرِ اَنعام نہیں ہے

ہیں اکبرؔ و اقبال بھی آموں کے پرستار

کہیئے یہ اہلِ ذوق کا پیغام نہیں ہے

یہ اختلافِ ذوقِ بشر کے ہیں کرشمے

یہ بحث کوئی جنگِ سرِ عام نہیں ہے

٭٭٭

 

آم کو ہم نے جو موضوع بنا رکھا ہے

ناقدِ آم نے کیوں شور مچا رکھا ہے

ذوق مل جائے جو اعلیٰ تو پتہ چل جائے

آم میں رب نے کوئی خاص مزہ رکھا ہے

خاص لوگوں کے لئے کب کیا مخصوص اسے

آم کو رب نے سرِ عام سجا رکھا ہے

گر یہ ابھرا تو جہاں بھر میں مچے گی ہلچل

آم کا شوق ابھی ہم نے دبا رکھا ہے

خوشبوئے آم چھپاؤ گے کہاں تک ہم سے

تم نے جو آم کی پیٹی کو چھپا رکھا ہے

غیر محفوظ جو پایا اسے ہم نے باہر

توند کو آم کا گودام بنا رکھا ہے

آم کے نام سے بدنام ہے دنیا میں اثرؔ

طعن و الزام نے الفت کو بڑھا رکھا ہے

٭٭٭

موسمِ گرما کا تحفہ آم ہے

سب پھلوں میں سب سے اچھا آم ہے

پیار کرتے ہیں اسے اہلِ نظر

کتنا عمدہ کتنا پیارا آم ہے

جیتے جی بھی کھا رہا ہوں مینگو

خواب میں بھی میں نے دیکھا آم ہے

تیز رفتاری سے بکتا ہے مگر

لاکھ وہ کہنے کو لنگڑا آم ہے

چوس کر چوَسے کا رس دل نے کہا

واقعی بے مثل چوسا آم ہے

دوستوں سے خاص الفت ہو گئی

دوستوں نے جب سے بھیجا آم ہے

آم جیسا ہے ہمارے ملک میں

ساری دنیا میں کب ایسا آم ہے

ترش اور پھیکا بھلا ہے آم کب

آم تو دراصل میٹھا آم ہے

گرمیاں تو گرمیاں ہیں ، دل مرا

سردیوں میں بھی پکارا آم ہے

آم کی مدحت میں ایسا مٹ گیا

خود اثرؔ بھی اب سراپا آم ہے

٭٭٭

نسبتِ خاصہ رکھتا ہے اثرؔ آم کے ساتھ

اب مرا نام بھی آئے گا ترے نام کے ساتھ

الفتِ آم پہ ہے مجھ پہ ملامت کیسی

میں تو مسرور ہوں اس جرم کے الزام کے ساتھ

اس طرح آم کے ہمراہ کئی پھل آئیں

جیسے مخدوم چلے آتے ہیں خدام کے ساتھ

کاٹ کر چھیل کر اور قاشیں بنا کر کچھ لوگ

آم کھاتے ہیں بڑے شوق سے آرام کے ساتھ

ہر قبیلے کا ہر اک قوم کا مرغوب ہے یہ

اس کو گلفام بھی کھاتے ہیں سیہ فام کے ساتھ

ہے یہ اللہ کے ولیوں کا پسندیدہ پھل

یعنی نسبت ہے اسے مذہبِ اسلام کے ساتھ

اس کے عشاق سے پوچھے کوئی اس کی قیمت

پھل یہ ارزاں ہے مرے دوست گراں دام کے ساتھ

٭٭٭

آم جب سے آ گیا بازار میں

آم ہر سو چھا گیا بازار میں

آم آغوشِ اثرؔ میں آ گئے

جونپوری کیا گیا بازار میں

اور آگے کس لئے جاتا بھلا

اپنا مقصد پا گیا بازار میں

دوسرے اثمار واپس ہو گئے

آم ہی بکتا گیا بازار میں

آم ہی کھایا گیا گرما میں اور

آم ہی دیکھا گیا بازار میں

مینگو ٹو مارکیٹ فار مینگو

شور یہ سنتا گیا بازار میں

اہلِ خانہ منتظر تھے اور اثرؔ

آم لے کر کھا گیا بازار میں

٭٭٭

آم کی واپسی پر مرثیہ

اتنی مشکل سے تو آیا تھا وہ آتے آتے

مڑ کے دیکھا بھی نہیں آم نے جاتے جاتے

اس نے سامانِ سفر باندھ لیا آخرکار

سیر ہونے بھی نہیں پائے تھے کھاتے کھاتے

لذتِ وصل میں ہم بھول گئے ہجر کا غم

کھو دیا کھو دیا محبوب کو پاتے پاتے

ہم نے سمجھا تھا کہ ٹھہرے گا مہینوں مینگو

بھاگ نکلا وہ مگر بھائیوں بھاتے بھاتے

غم کے صحرا میں اکیلے ہی رہے عاشقِ آم

وہ گیا ریت کی دیوار کو ڈھاتے ڈھاتے

آم کو با دِلِ ناخواستہ کر ڈالا وِداع

نغمۂ آم بڑے سوز سے گاتے گاتے

ہضم رستے ہی میں کر ڈالا اثرؔ نے آخر

ٹوکرے آم کے ملتان سے لاتے لاتے

٭٭٭

آم کے جام سے پھر کیوں نہ ہو الفت میری

آم کے نام سے جب عام ہے شہرت میری

آم کے دام پہ ہوتا ہے بجٹ میرا تمام

صِرف یوں صَرف ہوا کرتی ہے دولت میری

آم کا جام ہے مرغوب سبھی شعرا کو

آم کے جام سے بیجا نہیں رغبت میری

پیٹیاں آم کی لکھ دیجئے نسخے میں مرے

چارہ گر چاہتے ہیں آپ جو صحت میری

جو بھی چاہے وہ لئے آم مرے گھر آئے

موسمِ آم میں یہ عام ہے دعوت میری

آم کے جام سے منسوب سخن ہے میرا

آم کے نام سے موسوم ریاست میری

آم آتے ہی اثرؔ رہتا ہے جانے کو مُصِر

آم سے ایک ہی رہتی ہے شکایت میری

٭٭٭

آیا ہے روزِ عید مگر آم کے بغیر

ہے دوستوں کی دید مگر آم کے بغیر

وہ میرے روٹھے یار کو لوٹا دے کیا بعید

پڑھتا ہو یا مُعید مگر آم کے بغیر

گرمی کا لطف کوئی اٹھائے تو کس طرح

گرمی تو ہے شدید مگر آم کے بغیر

میں عشرۂ اخیر کی شب ہائے نور سے

ہوتا ہوں مستفید مگر آم کے بغیر

پھر اس کو ’’پِیرِ خاص‘‘ سے پہنچے گا فیض کیا

حاضر ہے اک مرید مگر آم کے بغیر

انگور، کیلے ، سیب اور خربوزہ ہمرکاب

اثمار ہیں جدید مگر آم کے بغیر

کھانا نہیں ملے تو نہیں آئے گی اجل

ہو جاؤں گا شہید مگر آم کے بغیر

بدذوق سامعین کا اصرار ہے اثرؔ

اشعار ہوں مزید، مگر آم کے بغیر

٭٭٭

اس لئے تجھ سے پیار جامن ہے

آم کا یار غار جامن ہے

تو جو آئے تو آم بھی آئے

یوں ترا انتظار جامن ہے

آم جائے تو جائے جامن بھی

آم کا جانثار جامن ہے

صحبتِ آم کا ہے یہ فیضان

لذتِ بے شمار جامن ہے

کیوں کنارے لگائیں جامن کو

آم سے ہمکنار جامن ہے

ہمسرِ آم ہو نہیں سکتا

اہلِ لذت ہزار جامن ہے

کیوں اثرؔ اس قدر ترے سر پر

آج آخر سوار جامن ہے

٭٭٭

ماخذ:

http://www.bazm.org/category/bachoonkinazmain

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید