FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

آمد آمد

 

 

 

               مسلم سلیم

 

 

 

انتساب

 

 

 

جن سے ہے یہ وجود، زباں ہے، کلا م ہے

ان دو عظیم روحوں کو  میرا  سلام ہے

 

 

 

 

٭ ٭ ٭

 

نیند  بھی میرے   لئے عالمِ  بیداری  ہے

عالمِ خواب میں بھی شعر کہا کرتا ہوں

میں کوئی آورد کا شاعر نہیں ہوں ۔اشعار تو مجھ پر وارد ہوتے ہیں یہاں تک کہ کئی اشعار عالمِ خواب میں بھی وارد ہوئے۔۱۹۸۳ کی بات ہے شاستری نگر والی قیام گاہ کی چھت پر سو رہا تھا کہ خواب میں چند اشعار ہوئے۔ صبح اٹھتے ہی یہ اشعار والدہ ماجدہ کو گوش گذار کئے۔فرمایا اچھے ہیں ۔میں فوراً ہی کاغذ قلم لے کر بیٹھ گیا اور خواب میں وارد ہوئے اشعار کو صفحہِ قرطاس پر اتار لیا۔ یہ ایک دو غزلہ تھا جس میں ’وجود‘ ردیف کے ساتھ چھ اشعار ’ت‘ اور    ۴  ’ط‘ قافیہ کے ہیں ۔ (دیکھئے  دو غزلہ: کہیں سے دیکھو بدلتی نہیں جہاتِ وجود۔۔۔۔)

نہیں کہتا تو مہینوں برسوں نہیں کہتا اور جب آمد کا ہجوم ہوتا ہے تو گھر ہو یا دفتر، سفر ہو یا حضر اشعار کا ورود ہوتا رہتا ہے۔ کئی غزلیں تو اسکوٹر چلاتے چلاتے وارد ہوئیں اور گھر یا دفتر پہنچ کر انھیں قلمبند کر لیا۔ مہینوں اور کبھی کبھی برسوں کے بعد دس پندرہ دن ایسے آتے ہیں جب لگتا ہے کہ ذہن میں آمد کا کوئی بٹن دب گیا ہو۔ ان دنوں مجھ پر وجد کی سی کیفیت طاری رہتی ہے اور میں جھوم جھوم کر ان نوآوردگان کا استقبال کرتا ہوں ۔ جب مجھ ایسے کم علم پر یہ اشعار گہرا تاثر چھوڑتے ہیں ، تو میں مطمئن ہو جاتا ہوں کہ اہلِ ذوق حضرات انہیں یقیناً پسند کریں گے۔

سطحی شاعر الفاظ سے خیال تک سفر کی سعی کرتا ہے۔یہ سفر عرفِ عام میں ’آورد‘ کہلاتا ہے جبکہ غیر معمولی شاعر خیال کو لفظی پیکر عطا کرتا ہے۔   ؎

جثۂ تحیر کو       لفظ   میں   جکڑتے          ہیں

شعر ہم نہیں کہتے تتلیاں پکڑتے ہیں

اس کوشش میں وہ عام طور سے سطح سے بلند ہو جاتا ہے ہرچند کہ کبھی کبھی نیچے بھی چلا جاتا ہے، لیکن سطح پر ہرگز نہیں رہتا۔وہ غوطہ زن ہوتا ہے۔ کبھی صدف پاتا ہے، کبھی خالی ہاتھ آتا ہے، لیکن وہ بحرِ سخن کے ان ہزاروں شناوروں سے قطعی مختلف ہوتا ہے جو ہند و پاک کے گلی کوچوں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ زندگی بھر بزعمِ خود شعر گوئی کرتے ہیں ۔ ناقدین سے تعارف لکھواتے ہیں ۔اخبارات و رسائل میں جوڑ توڑ سے خاطر خواہ تبصرے بھی لکھواتے ہیں ۔لیکن انجام کیا ہوتا ہے۔ ان کا ایک شعر بھی کسی کو یاد نہیں ہوتا۔یہی نہیں قاری و سامع سخت کوفت کا شکار ہو کر وقت کی بربادی کا ماتم بھی کرتے ہیں ۔در اصل ذہن سے چپک جانے والے شعر ہی کو اچھا شعر مانا جاتا ہے۔

شاعر اور قاری کا یہ رشتہ تب مضبوط ہوتا ہے جب کسی خیال، نظریہ، مشاہدہ وغیرہ پر دونوں کی Wavelength   مل جائے۔اب میں ٹھہرا  آزاد منش۔بہت گھوما، ہر قسم کے معاشرے کا تجربہ کیا، ہر طرح کے’ ادب ‘کا مطالعہ کیا۔کرکٹ سے کافی شغف رہا  جو اب بھی رننگ کمنٹری کے جنون کی شکل میں باقی ہے۔ٹی وی پر میچ آ رہا ہو تو سب کام بند۔آخری گیند تک میچ دیکھنا گویا کوئی کارِ ثواب ہو۔ اردو، ہندی اور انگریزی میں صحافی کے حیثیت سے خوب لکھا( اور لوگ کہتے ہیں )  بہت خوب لکھا۔

علی گڑھ سے سیاسیات ، نفسیات اور معاشیات کے ساتھ بی۔اے آنرس کیا تو الٰہ آباد یونی ورسٹی اس حال میں عربی میں ام۔اے امتیازی نمبروں سے پاس کیا کہ داخلہ سے پہلے ایک بھی گردان یاد نہیں تھی۔ لیکن بھلا ہو پروفیسر علامہ رفیق مرحوم کا جنہوں نے دو ماہ کے اندر اندر ساری گردانیں ازبر کرا دیں اور عربی صرف و نحو کے رموز سے بھی آشنا کرا دیا۔ یہ سب صرف زبانی ہوا کیونکہ وہ نوٹس( notes) دینے کے سخت خلاف تھے۔ مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں سے بھی الگ الگ وقت میں وابستہ رہا۔ ذہن کو جہاں سے جو کچھ اچھا لگا اخذ کر لیا اور اپنے خیالات کا ذاتی محل تعمیر کر لیا۔

میرے اشعار میں تنوع کا یہی سبب ہے۔ اب ایسے متنوع خیالات پر مبنی ایک غزل میں پروئے گئے اشعار پر ہر شخص سے تو wavelength مل نہیں سکتی اس لئے جس شخص کا تجربہ، مشاہدہ ، نظریہ کسی شعر سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے تو اس کا ذہن اسی ایک شعر پر مرتکز ہو جاتا ہے  اور باقی اشعار اس کے اوپر سے گزر جاتے ہیں ۔ میں اس نتیجہ پر اس طرح پہنچا کہ میرے الگ الگ دوستوں اور ملاقاتیوں کو میرے الگ الگ اشعار پسند ہیں ۔ اتفاق سے یہ سب گوں ناگوں طبیعتوں اور مزاج کے لوگ ہیں اس لئے قارئین سے میری درخواست ہے کہ جو اچھا لگے اسے موتی سمجھ کر چن لیں اور جو کچھ انہوں نے نظر انداز کر دیا یا کسی وجہ سے ان کے فہم سے بالا تر تھا تو یقیناً وہ کسی دوسرے کے لئے کام کی چیز ہو گی ۔

 

مسلم سلیم

 

 

 

 

 

               مسلمؔ سلیم

 

کیا بود و باش پوچھو ہو

 

 

اصل نام اور تخلص مسلم سلیم  ہے۔

والدین: والد محترم ڈاکٹر سلیم واحد سلیمؔ اپنے وقت کے خوش گو شاعر تھے اور نقوش، ادبِ لطیف و دیگر معتبر جرائد میں ۱۹۴۲ سے ۱۹۷۰ تک بکثرت اور باقاعدگی کے ساتھ شائع ہوتے رہے۔ ابھی چند برس پہلے لاہور یونی ورسٹی میں ان پر تحقیق بھی ہوئی۔ آپ مشہور اردو نقاّد اور ماہر اقبالیات و غالب خلیفہ عبدالحکیم کے بھتیجے تھے۔ علی گڑھ طبّیہ کالج کے تاسیسی پرنسپل عطاء اﷲ بٹ  والد صاحب کے پھوپھا تھے۔

والدہ محترمہ امِّ حبیبہ صاحبہ سیّد عبدالباقی صاحب کی پوتی تھیں جو  محمدن انگلو اورئینٹل کالج (اب  علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی) کے پہلے پانچ طلبہ میں شامل تھے اور فارغ التحصیل ہو کر وہیں برسر  (  bursar) کے عہدے پر تا عمر فائز رہے۔

پیدائش و تعلیم: ضلع ہردوئی کے قصبہ شاہ آباد میں تولد ہوا۔ نومبر کی پہلی تاریخ تھی اور سن تھا ۱۹۵۰۔ لیکن بچپن سے لے کر بی اے آنرز کی تعلیم تک کا عرصہ علی گڑھ ہی میں گزرا۔ پانچویں تک تعلیم  علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سٹی برانچ اسکول، دسویں تک علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سٹی ہائی اسکول اور پھر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ہی سے بی آنرز (سیاسیات) کرنے کے بعد الہٰ آباد یونی ورسٹی سے ایم اے (عربی) پاس کیا۔

کیرئر: ۱۹۷۹ میں بھاسکر گروپ آف نیوز پیپرز کے اردو اخبار آفتاب جدید بھوپال سے کیرئر کا آغاز کیا۔ ۱۹۸۶ میں اسی گروپ کے انگریزی اخبار نیشنل میل سے منسلک ہوا۔  ۲۰۰۰ء میں بھاسکر ہندی میں نیوز کوآرڈینیٹر بنا۔ ۲۰۰۳ء میں انگریزی اخبار نیوز ایکسپریس میں چیف سب ایڈیٹر کا عہدہ سنبھالا۔۲۰۰۴ سے۲۰۰۸ تک انگریزی اخبار سینٹرل کرونیکل میں بیورو چیف رہا اور فی زمانہ ہندوستان ٹائمس میں مصروفِ کار ہوں ۔ اس طرح میں نے کثیر لسانی صحافی ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

پہلی تخلیق: پہلی تخلیق ایک غزل تھی۔ یہ غزل میں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی آرٹس فیکلٹی ہال میں منعقدہ ایک مشاعرے  میں ۱۹۷۱ ء میں پڑھی جس پر خلیل الرّحمٰن اعظمی و دیگر سامعین نے بے ساختہ اور بھرپور داد دی تھی۔اگست ۲۰۱۰ ء میں آخری  بار جب میں علی گڑھ گیا تھا تو دیرینہ احباب نے مجھے دیکھتے ہی یہ اشعار مجھے سنائے۔ ان میں پروفیسر ابوالکلام قاسمی بھی شامل ہیں ۔ غزل کچھ اس طرح تھی  ۔

ہر خواہش کب کس کی پوری ہوتی ہے

ہوتی    ہے   پر تھوڑی  تھوڑی        ہوتی ہے

ان  کے میل کو ان کے گھر جا کر دیکھو

باہر  جن   کی    چادر   اجلی   ہوتی  ہے

میں بازار  سے کافی پردے لایا ہوں

اب  دیکھوں  کیسے  رسوائی  ہوتی ہے

آخر الذکر شعر حاصلِ مشاعرہ ثابت ہوا۔ پہلی غزل ماہنامہ شاعر، بمبئی کے جون۔جولائی ۱۹۷۹ء کے شمارے میں شائع ہوئی  جس کے دو اشعار پیش ہیں   ؎

جب ہم نے زندگی کی گنیں راحتیں  تمام

لمحات میں سمٹ سی گئیں مدّتیں تمام

وہ دیکھنے میں اب بھی تناور درخت ہے

حالانکہ وقت کھود چکا ہے جڑیں تمام

 

پہلا افسانہ:۱۹۷۱ ء میں پہلا افسانہ  ’ننگی سڑک پر‘  قلمبند کیا۔ اسی سال اس افسانے کو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شارٹ اسٹوری کمپٹیشن میں انعام سے نوازا گیا۔ انعامات کی تقسیم  عصمت چغتائی کے دستِ مبارک سے عمل میں آئی تھی۔بعد میں یہی افسانہ ’روشن‘  (بدایوں ) کے جولائی۔اگست ۱۹۷۱ء کے شمارہ میں شائع ہوا۔

تصنیفات و تالیفات: میرا مجموعہ کلام ’’آمد آمد‘‘ مدھیہ پردیش اردو اکادیمی نے نومبر ۲۰۱۰ کو شائع کیا ہے۔ تخلیقات ہند و پاک کے رسائل میں شائع ہو چکی ہیں ۔ ریڈیو اور ٹی وی پر بھی پڑھا ہے۔آل انڈیا ریڈیو کی اردو مجلس نے میرا افسانہ  ’سُکھ کی نیند‘ ۱۴ جولائی ۱۹۷۹ ء کو  ’کرن‘ پروگرام کے تحت نشر کیا۔ میری تخلیقات مندرجہ ذیل رسائل اور اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں ۔

۱۔ شاعر  (بمبئی)، ۲۔ نیا دور  (لکھنؤ)،۳۔ ہماری زبان (دہلی)،۴۔ روشن (بدایوں )،۵۔ روشی (میرٹھ)، ۶۔آفتاب جدید (بھوپال)، ۷۔ ایاز (بھوپال)، ۸۔ کاوش جدید (کانپور)، ۹۔اندازے (الہٰ آباد)، ۱۰۔ اردو ایکشن(بھوپال)،  ۱۱۔ندیم، ۱۲۔عصری ادب (دہلی)، ۱۳۔ شگوفہ (حیدرآباد)، ۱۴۔ مادری زبان (الٰہ آباد)،  ۱۵۔ آغاز (کراچی)، ۶۱آہنگ (گیا)۔

بی بی سی پر انٹرویو: یکم مارچ ۱۹۸۲ء  کو جناب رضا علی عابدی لندن سےبھوپال تشریف لائے۔ یہاں سیفیہ کالج میں انھوں نے میرے علاوہ پروفیسر عبدالقوی دسنوی، پروفیسر حامد جعفری، مرتضیٰ علی شاد ، محمد نعمان خاں اور جناب خالد عابدی کے انٹر ویو لئے جو بعد میں بی بی سی کی اردو سروس سے نشر کئے گئے۔

مجلّہ بھوپال: محترم افتخار جلیل شوقؔ بھوپال سے پاکستان جا بسے ہیں ۔ ۹۴ء میں بھوپال تشریف لائے اور یہاں کے تمام مشہور شعراء، ادباء اور نامور ہستیوں کی تخلیقات و تصاویر پر مبنی یہ مجلّہ کراچی سے شائع کیا۔ اس میں میری دو تصاویر کے ساتھ ساتھ صفحات ۱۵۰ اور ۱۵۱ پر غزلیں ، صفحات ۱۷۵۔۱۷۴۔۱۷۳ پر تعارف اور صفحہ ۱۸۷ پر یادِباسط طرحی مشاعرے میں اوّل انعام کا مستحق قرار پانے والی غزل  سے متعلق اخبار کا تراشہ بھی شائع کیا۔

عربی زبان و ادب کا کل ہند سیمینار: مارچ ۱۹۸۲ء کو سیفیہ کالج میں عربی زبان و ادب کا کل ہند سیمینار منعقد ہوا جس کا میں کنوینر تھا۔ اس سیمینار میں احمد سعید ندوی، پرنسپل شکور خاں ، پروفیسر عبدالحلیم ندوی (حیدرآباد)، ڈاکٹر امجد علی (علی گڑھ) اور پرفیسر محمد عقیل (بھوپال ) نے شرکت فرمائی۔

اٹل بہاری واجپئی اور قتیلؔ شفائی: ۱۹۸۳ء میں ہفتہ وار ’ایاز‘ کے دس برس مکمل ہونے پر ایک ہند و پاک مشاعرے کا انعقاد اقبال میدان پر کیا گیا۔ اس مشاعرے میں جنا ب اٹل بہاری واجپئی اور قتیلؔ شفائی کے ساتھ میں نے بھی کلام پڑھا۔ بعد میں عصرانہ پر واجپئی صاحب میرے بالکل سامنے والی کرسی پر اور قتیل شفائی ساتھ والی کرسی پر تشریف فرما تھے۔ قتیلؔ شفائی صاحب کو جب یہ پتہ چلا کہ میں ان کے دوست ڈاکٹر سلیم واحد سلیمؔ کا فرزند ہوں تو بھوپال کے قیام کے دوران انھوں نے مجھے ساتھ ساتھ رکھا اور بہت شفقت سے پیش آئے۔

ایاز ڈائری: ۱۹۸۳ء ہی میں ایاز ڈائری کا اجراء عمل میں آیا جس کی ترتیب اور اشاعت میں میرا اہم کردار رہا۔ اس ڈائری کے ہر صفحہ پر اردو اور ہندی کے کسی نہ کسی مشہور شاعر کاشعر درج ہے۔ میرے اشعار بھی ہیں ۔ اردو اشعار کا ہندی ٹرانس لٹریشن میں نے ہی کیا تھا۔

اختر سعید خاں سے ٹی وی انٹرویو: مجھے بھوپال دور درشن کے اردو پروگرام میں شانِ بھوپال اختر سعید خاں صاحب سے انٹرویو لینے کا بھی شرف حاصل ہوا۔

مجروح سلطان پوری سے انٹرویو: مجروح سلطان پوری کے قیام بھوپال کے دوران تفصیلی گفتگو ہوئی جسے انٹرویو کی شکل میں روزنامہ آفتاب جدید میں شائع کیا۔انٹرویو پر اخبار میں کئی دنوں بحث چلی جو میرے ہی مضمون کے ساتھ اختتام پر پہنچی۔

یادِ باسطؔ طرحی مشاعرے میں اوّل: یادِ باسطؔ طرحی مشاعرے کا انعقاد ۱۹۸۲ میں آچاریہ نریندر دیو ہال بھوپال میں کیا گیا تھا جس میں اس وقت کے سبھی نامور شعراء نے شرکت کی تھی۔اس میں ایک ۵ اشعار کی غزل میں نے بھی پڑھی تھی۔ اس وقت تک میری شعری صلاحیت سے کم ہی لوگ واقف تھے۔ بہر حال جب میں نے یہ شعر پڑھا   ؎

کر دی میراث وارثوں کے سپرد

زندگی   کس  کے   نام  کر     جائیں

تو سارا ہال نعرہ ہائے تحسین سے گونج اٹھا۔ اختر سعید خاں صاحب کی آواز سب سے بلند رہی۔یہی نہیں بلکہ ہر مرتبہ داد دینے پر وہ اپنی جگہ سے آگے کھسکتے جاتے تھے۔ اب جب کسی شعر پر اختر سعید خاں جیسی قد آور شخصیت جھوم جائے تو اس تخلیق کو اوّل تو ٹھہرنا ہی تھا، اور ہوا بھی یہی۔

اردو لکھنا خود سیکھئے: میں نے یہ کالم آفتاب جدید میں شروع کیا تھا جس کی کتابت بھی میں خود ہی کرتا تھا۔ یہ کافی افادی ثابت ہوا۔ بعد میں کچھ حضرات نے اسی طریقے کی بنیاد پر کتابیں بھی لکھ ڈالیں اور نام اور پیسہ کمایا۔

اعزاز: ۱۹۷۱ میں افسانہ ’ننگی سڑک پر‘ پر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں انعام و اعزاز۔

۱۹۸۳ ء میں یاد باسط طرحی مشاعرے میں اوّل انعام اور اعزاز۔

ویب سائٹ:  میں  نے جنوری ۲۰۱۰ میں  ویب سائٹ کھوج خبر نیوز ڈاٹ کام(khojkhabarnews.com) کا  آغاز کیا۔ جس میں اردو سے متعلق چار ٖڈائریکٹریز ہیں ۔  : 1. Urdu poets and writers of Madhya Pradesh, 2. Urdu poets and writers of India 3. Urdu poets and writers of world 4. Drama world of India

ان ڈائریکٹریز میں اردو شعرا و ادبا کا با تصویر تعارف اردو اور انگریزی میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ اردو دینا میں ایک نادر کارنامہ ہے۔

اس کے بعد میں نے مندرجہ ذیل بلاگس بھی شروع کئے ہیں ۔

muslimsaleem.blogspot.com

muslimsaleem.wordpress.com

saleemwahid.blogspot.com

urdunewsblog.wordpress.com

poetswritersofurdu.blogspot.com

urdupoetswriters.blogspot.com

muslimspoetry.blogspot.com

cimirror.blogspot.com

madhyanews.blogspot.com

ان بلاگس میں مندرجہ ذیل اردو ڈائریکٹریز شامل کی گئی ہیں ۔

Urdu poets and writers of Allahabad

Urdu poets and writers of West Bengal

Urdu poets and writers of Shahjahanpur

Poets and writers of Kashmir (+Jammu)

Urdu poets and writers of Aurangabad

Urdu poetesses and female writers

مسلمؔ سلیم, ۲۸۰، خانوں گاؤں ، وی آئی پی روڈ، بھوپال۔  ۴۶۲۰۰۱

موبائل : 9009217456, 9893611323         فون  : 0755-2730580

ای میل:   : muslimsaleem@rediffmail.com

 

 

 

مسلمؔ سلیم۔ہم عصر شاعری کا نقیب

 

 

مسلمؔ سلیم ایک ہمہ جہت شخصیت کا نام ہے۔ایک طرف تو وہ اردو، ہندی اور انگریزی کے نامور صحافی ہیں تو دوسری جانب ایک منفرد اور بہترین شاعرو افسانہ نگار۔میں ان کو ان دنوں سے جانتا اور مانتا ہوں جب وہ  ۱۹۸۰ میں روزنامہ آفتاب جدید میں بر سرروزگار ہوئے تھے۔تب وہ ایک انتہائی خوش  شکل، ظریف اور لاابالی جوان کی حیثیت سے زیادہ جانے جاتے تھے۔اس وقت ان کی عمر تقریباً ۳۰  برس تھی لیکن جیسے ہی وہ کسی موضوع پر بولنا شروع کرتے تھے تو سامع ان کے علم کی گہرائی اور گیرائی، مشاہدے کے تنوع اور تخیل کے اعلیٰ مدارج سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اسوقت تک وہ عربی، اردو، ہندی، فارسی اور انگریزی زبانوں پر اچھی دسترس حاصل کر چکے تھے اور علی گڑھ و الہٰ آباد  میں اپنے قیام کے دوران اردو افسانہ اور شاعری کے میدانوں میں نمایاں مقام حاصل کر چکے تھے۔ ان کی بھوپال  آمد سے پہلے سے ہی میں ادبی رسائل کے توسط سے ان سے غائبانہ واقف تھا۔ پہلی ملاقات پر وہ مجھے ایک بیفکرے، اسمارٹ اور کھلنڈرے شخص معلوم ہوئے۔لیکن صرف کچھ ماہ کی رفاقت کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ جسے میں ایک چنچل پہاڑی ندی سمجھ رہا تھا وہ تو سمندر کی طرح گہرا تھا۔سن ۲۰۱۰ تک آتے آتے عملی زندگی میں وہ کچھ سنجیدہ اور گم سم سے نظر آنے لگے ہیں جسکا سبب اداسی یا کوئی احساسِ محرومی نہیں بلکہ صوفی ازم کی طرف ان کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ لیکن اشعار میں ان کا وہی شوخ انداز برقرار ہی۔  ان  کے بالکل تازہ شعر   ؎

 

اب جو سویا تو یہ کروں گا میں

خواب کے ہونٹ چوم لوں گا میں

سے  یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کے اتنے برسوں میں ان کے انداز بیان میں اور نکھار آیا ہے۔زیرِ نظر مجموعہ میں شامل بیشتر اشعار اردو ادب میں اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ معنیٰ آفرینی، تخیل و دیگر  شعری   محاسن کے اعتبار سے وہ نادر و یکتا ہیں ۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں ۔   ؎

 

ترے خلوص کا منکر نہیں ہوں میں لیکن

ذرا ٹھہر یہ   تری   آستین   میں  کیا   ہے

 

کون    ہے  اس   شہر میں   مجھ   سے   زیادہ           با خبر

مجھ کو سارے بے وفاؤں کے پتے معلوم ہیں

 

چہار سمت ہے بس بے حسی کی چٹانیں

مری   صدا  کو  نہ ہو بازگشت کا   احساس

 

وہ دیکھنے میں اب بھی تناور درخت ہے

حالانکہ   وقت  کھود  چکا  ہے   جڑیں   تمام

 

مسلمؔ سلیم کی شاعری کے چند پہلو ایسے ہیں جو انھیں اپنے دور کے نمائندہ شعراء سے ممتاز بناتے ہیں ۔ ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ زبان کے تعلق سے وسیع اور بھرپور ہیں ۔ ان کے یہاں جس طرح  محاوروں کا رچاؤ ہے اسی طرح وہ لفظوں کی شکست و ریخت سے بھی پرہیز کرتے ہیں ۔ وہ قدیم  لفظیات سے تہی دامن نہیں بلکہ نئے  لفظی پیکروں کے بھی مزاج داں ہیں ۔ اس دعوے کی دلیل میں جو غزل میں پیش کر رہا ہوں اس میں قدیم و جدید روایات کے خوشگوار امتزاج کے ساتھ انفرادی لب و لہجہ، صوتی آہنگ اور عصری آگہی کے اشتراک سے شعری پیکر تراشے گئے ہیں ۔   ؎

 

خاموشی سے ہر رازِ نہاں کھول رہا ہے

وہ صرف تبسم کی زبان بول رہا ہے

 

وہ زیست کے پیالے میں کہیں زہر نہ بھر دے

کانوں میں جو آواز کا رس گھول رہا ہے

 

الفت بھی عجب شئے ہے، وہ خاموش ہے لیکن

ا س شوخ کا ہر عضوِ بدن بول رہا ہے

 

صیاّدو! مبارک ہو، چلو دام بچھاؤ

سینے میں پرندہ کوئی پر تول رہا ہے

 

الفاظ یہ کس کے ہیں مجھے خوب پتا ہے

یہ آپ نہیں اور کوئی بول رہا ہے

 

تہذیب کی پوشاک سے جسموں کو سجا کر

بستی میں درندوں کا  کوئی غول رہا ہے

 

جدید شاعری کا جو عنصر مجھے مسلمؔ سلیم کے یہاں سب سے زیادہ نمایاں نظر آیا وہ علامتوں کا استعمال ہے اور ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ اندھیرے میں تیر نہیں چلاتے بلکی موزوں الفاظ سے شعری پیکر تراشتے ہیں جو اسے جامعیت اور وسعت عطا کرتے ہیں   ؎

 

کس دن بساطِ زیست پلٹ جائے کیا خبر

ہر مہرہ اپنے خانے میں نا مطمئن سا ہے

 

موجودہ دور میں اپنے حالات سے عدم اطمینان ایک عالم گیر مسئلہ ہے جس کا اظہار دیگر شعراء کے یہاں بھی ملتا ہے لیکن ایک شاعر کے بیان اور قوتِ متخیلّہ کی آزمائش  وہاں ہوتی ہے جہاں وہ کسی عام بات کواس طرح کہے کہ اس کے کئی  پہلو سامنے آ جائیں ۔ مذکورہ شعر میں بساط، مہرہ اور خانہ یعنی شطرنج سے متعلق باہم مربوط تین علامتوں کا استعمال کر کے ایک طرف شعر کو نئی وسعت عطا کی گئی ہے تو دوسری جانب مصرعہ اولیٰ سے شعر کو ذو معنی اور تہہ دار بنایا گیا ہے۔ علامت کے فنکارانہ استعمال کی دوسری مثال یہ شعر ہے    ؎

 

میرے احباب جب آئیں گے ہوا کی زد پر

کچھ یہ معلوم  نہیں کون کدھر جائے گا

 

یہاں صرف ایک لفظ ’ہَوا‘ کی وجہ سے شعر کی رمزیت میں اضافہ ہو گیا ہے اور اس سے مراد آپ حالات کے رخ یا حرص و ہوس کچھ بھی لے سکتے ہیں ۔اس شعر میں ماضی کی تلخ یادوں کی بجائے مستقبل کی تیرگی کا بیان اور انسانی رشتوں کی ناپائیداری کا احساس یکساں طور پر ملتا ہے۔مسلم ؔسلیم کے اس مجموعے کا بیشتر حصّہ قاری وسامع کو دعوتِ فکر دیتا ہے۔ چند اشعار دیکھئے    ؎

 

بچوں کو ہونے دیجئے احساس دھوپ کا

نشو و نما      نہ  روکئے  سایہ  نہ   کیجئے

 

اک ذرا جب ہم اٹھا کر سر چلے

ہر طرف  سے دیر تک پتھر چلے

 

اپنی تقدیر میں چھوٹا سا ہی گھر لکّھا تھا

وہ  کوئی   جاگ  گیا  آؤ   چلو   سو جائیں

 

دیو  قامت  وہ  شجر جب   تیز   آندھی   میں گرا

ا       پستہ قد جتنے تھے پودے سب قد آور ہو گئے

 

ان اشعار کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ مسلم سلیم نہ تو قنوطیت کا علمبردار ہے نہ ابتہاجیت کا۔وہ محض زندگی کا شاعر ہے۔اس کے اشعار اس پر ایک تجربے کی صورت میں وارد ہوتے ہیں اور مسلمؔ سلیم ہم کو آج کی اس دنیا کا باشندہ نظر آنے لگتا ہے جہاں محبت ہے، محبوب کا انتظار ہے، اندیشۂ جاں ہے، رشتوں کا انقطاع ہے اور سب سے بڑھ کر انفرادیت و اختراع ہے   ؎

 

ہر بار یوں لگا کہ کوئی آئے گا مگر

کچھ دور ہی سے لوٹ گئیں آہٹیں تمام

 

پہلے مرنے کا کوئی خوف نہیں تھا مجھ کو

تم کو پایا  ہے  تو     اندیشۂ اخلاق کتنا ہے

 

تھے درج ان کتابوں میں اخلاق کس قدر

دیمک کی    نذر ہو گئے   اوراق  کس  قدر

 

ایک شاعر سائنس داں کی طرح ’’نامعلوم‘‘ کو ’’معلوم‘‘ بنانے کا کرتب نہیں دکھاتا بلکہ صرف معلوم سے معلوم تک کا سفر طے کرتا ہے۔مگر جب سے غالبؔ نے شاعری کو معنی آفرینی کا نام دیا ہے، اچھا اور برا ہر شاعر معنی کے پیچھے لگ گیا ہے۔کیسی کیسی دور کی کوڑیاں لائی گئیں لیکن معنی تو کیا ہاتھ آتے شاعری بھی گئی۔مگرمسلمؔ سلیم نے جب یہ کہا    ؎

 

وہ دیکھنے میں اب بھی تناور درخت ہے

حالانکہ  وقت  کھود چکا ہے  جڑیں تمام

 

دروازہ کھولتے ہی عجب سانحہ ہوا

منظر کی آگ سب مرے سینے میں بھر گئی

 

سمجھوتے کا قائل ہوں ، رہ رہ کے لچکتا ہوں

اتنا نہ جھکا مجھ کو میں ٹوٹ بھی سکتا ہوں

 

دھوپ میں دیوار بھی تھی کس کو تھا اس کا خیال

استفادہ سایہِ دیوار سے سب نے کیا

 

تو وہ  اپنے انداز، تجزیاتی لب و لہجہ اور ہم عصر زندگی سے قربت کی بناء پر ایک اوریجنل شاعر نظر آئے۔ ان کے یہاں مضامین میں کروٹ کروٹ ، پہلو بہ پہلو مشاہدے کی باتیں رقص کرتی نظر آئیں اور ان کے اندر چھپے ہوئے رنگوں کی وہ چھوٹ نمایاں ہو گئی جو ان کو ایک ممتاز شاعر کا درجہ دیتی ہے۔

 

عارف عزیز

 

 

 

البیلے خیال کا شاعرمسلمؔ سلیم

 

اگر یہ کہا جائے کہ قلی قطب شاہ کے زمانے سے آج تک دنیا کے تقریباً سارے مضامین قلمبند کئے جا چکے ہیں تو کم ہی لوگ اس سے اختلاف کریں گے۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہر عہد اپنے مسائل و موضوعات لے کر آتا ہے۔سچا فنکار ان موضوعات کو تلاش کرتا ہے اور انھیں باندھتا ہے۔ اس طرح ہر عہد کے ساتھ کچھ فنکار و قلمکار مخصوص ہوتے جاتے ہیں اور یہ سلسہ شاید دنیا کے آخری دن تک جاری رہے گا اور شاعری کا حسن و شباب بھی قائم رہے گا۔

فنونِ لطیفہ کے متعلق ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ جتنے نام یا چہرے آسمانِ فن پر جگمگا رہے ہوتے ہیں ، اس سے کئی زیادہ بہتر فنکار طلوع ہونے کے لئے جھٹپٹا رہے ہوتے ہیں ۔اب اس میں قصور کس کا ہے یہ بحث کا موضوع ہو سکتا ہے۔ فی الحال میرا موضوع ہے مسلمؔ سلیم اور ان کی شاعری۔

مسلمؔ سلیم  جو ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور صرف تعلق نہیں رکھتے بلکہ اپنے اسلاف کی روایت کی پاسداری بھی کر رہے ہیں اور اپنی زندگی کی جدوجہد کے ساتھ علمی سرگرمیوں کو بھی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ہر چند کہ انھوں نے صحافت کو ذریعۂ معاش بنایا ہے لیکن اس میں بھی علمی وقار کو قائم رکھا ہے۔

مسلمؔ سلیم سے میرا غائبانہ  تعارف بہت پہلے سے تھا لیکن باقاعدہ ملاقات ان سے ہندی روزنامہ نَو بھارت اور انگریزی روزنامہ سینٹرل کرانکل کے دفتر میں ہوئی (دونوں اخبارات ایک ہی ادارہ سے شائع ہوتے ہیں )۔میں نے ہندی روزنامہ نو بھارت میں رپورٹر کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا جبکہ مسلمؔ سلیم صاحب پہلے ہی سے سینٹرل کرانکل میں بیورو چیف کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس حساب سے وہ میرے سینئر بھی ہوئے۔لیکن پہلی ہی ملاقات میں ایک دوست کی طرح پیش آئے اور کہا کہ میں آپ کو جانتا ہوں ۔ اس دن سے دوستی کا یہ سلسلہ برادرانہ روئیے کے ساتھ جاری ہے۔پھر ایک روز انھوں نے مجھے اپنی شاعری کا مسودّہ اس حکم کے ساتھ دیا کہ تمہیں اس پر کچھ لکھنا ہے جبکہ میری تربیت میں اپنے بڑوں اور سینئروں کو داد دینا نا مناسب بتایا گیا ہے چہ جائے کہ تبصرہ اور تنقید۔ بہرحال لمبے عرصہ تک مسودہ میرے پاس رہا اور گاہے بگاہے ان کے شعر مجھے چونکاتے رہے۔ ان کے تیکھے پن اور بے ساختگی نے مسلمؔ سلیم کے شعری روئیے کو سمجھنے میں میری مدد کی۔ بظاہر وہ اپنے آپ میں گم رہنے والے اور دنیا سے بیزار نظر آتے ہیں لیکن ان کا شعر اس کی نفی کرتا ہے۔ وہ جس گہرائی میں گم رہتے ہیں غالباً اُسی سطح سے ایسے اشعار نکال لاتے ہیں   ؎

مجھ کو فیشن نے سکھائے ہیں جنوں کے آداب

مجھ کو مجنوں نے سکھایا نہیں عریاں ہونا

مسلمؔ سلیم کے جسم میں ایک ایسی بے چین روح اور فکر مند ذہن پوشیدہ ہے جو انہیں کسی محاذ سے سرسری نہیں گذرنے دیتا اور انہیں نئی علامتیں تخلیق کرنے پر اکساتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں     ؎

روح کے کرب کا کچھ مداوا نہ تھا۔۔۔۔                              ڈاکٹر نیند کی گولیاں لکھ گیا

تقدیر کی مجھ سے یونہی تکرار چلے  گی

میں سائے میں بیٹھوں گا تو دیوار چلے گی

چمنی سے ابلتی ہے وہ زنجیر دھوئیں کی

آزاد ہوا اب سے گرفتار چلے گی

جیب  کی  گرمی سے کہتی ہے مری بے چہرگی

جسم کے بازار، چہروں کی دکانوں میں چلیں

دھوپ میں دیوار بھی تھی کس کو تھا اس کا خیال

استفادہ  سایہ دیوار  سے سب نے کیا

ان اشعار میں ایک ہوش مند فنکار کا اضطراب صاف جھلک رہا ہے۔ زندگی کے تلخ تجربات کو خوبصورت پیکر میں ڈھالا گیا ہے جو سوکھے ہوئے درخت کی اس پینٹنگ کی مانند ہو گئے ہیں جسے دیکھتے ہی ڈرائنگ روم میں سجانے کو جی چاہتا ہے۔ مسلم ؔسلیم نے صحافی ہونے کا فائدہ تو اٹھایا لیکن تجربات کو شعر بنانے میں شعری حسن کا خاص خیال رکھا ہے

کون ہے اس شہر میں مجھ سے زیادہ با خبر

مجھ کو سارے بے وفاؤں کے پتے معلوم ہیں

تم     سے  کس    نے  کہا   تھا  کہ اتنا    ہو ا میں   دھواں  چھوڑ دو

اب چلو جنگلوں میں رہو مدتوں کے لئے بستیاں چھوڑ دو

 

اب لباسوں کا کیا ہی کہنا ہے

کچھ  نہیں پہنا    اور پہنا  ہے

 

شاعر اس وقت کامیاب سمجھا جاتا ہے کہ جب اس کا درد اور محرومی پڑھنے یا سننے والے کو اپنا محسوس ہونے لگے ۔ اس کے اشعار میں اسے اپنی صورت نظر آنے لگے۔ مسلمؔ سلیم کے یہاں ایسے اشعار کافی تعداد میں جنہیں وہ زندگی کے بہت قریب سے اٹھا کر لائے ہیں ۔   ؎

 

اپنی تقدیر میں چھوٹا سے ہی گھر لکھا تھا

وہ   کوئی جاگ  گیا آؤ    چلو    سو    جائیں

 

مجھ سے زیا دہ  وہ مری   پہچان  سے ملا

جو آیا میرے گھر مرے سامان سے ملا

 

رفتہ رفتہ ہم کو جینے کا ہنر آ ہی گیا

پتھروں میں رہتے رہتے ہم بھی پتھر ہو گئے

 

مسلمؔ سلیم کے لہجے کی کھنک ان کی اپنی ہے جسمیں ان کے مزاج اور اندازِ فکر کی جھلک نمایاں ہونے کے باوجود ان کی آواز غیر مانوس معلوم نہیں ہوتی۔ان سے مل کر جب کسی کو یہ معلوم ہو کہ وہ شعر بھی کہتے ہیں تو پہلے تاثر میں وہ یہ سمجھے گا کہ بہت فلسفیانہ انداز کی شاعری کرتے ہوں گے اور کچھ بھول بھلیوں کی سیر کراتے ہوں گے لیکن شعر سن کر اس کا خیال بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔کیونکہ وہ قاری یا سامع سے آسان طریقے سے بات کرنا جانتے ہیں   ؎

 

میری فطرت میں رچ گیا ہے خلوص

اب مسلسل یہی گناہ سہی

 

ہم کو لایا ہے تعصب نفرتوں کے دشت میں

ورنہ  کب   گمراہ انسانوں کو مذہب نے کیا

 

نیم فاقہ نیم عریانی کو اندر چھوڑ کر

گھر سے باہر جب قدم رکھا سکندر ہو گئے

 

چھوٹی سی رکاوٹ ہے دیوار نہ مانوں گا

میں ہار نہیں مانا میں ہار نہ مانوں گا

 

بظاہر آسان لگنے والے یہ اشعار کہنا کتنا مشکل ہے یہ شاعر ہی جانتا ہے، کیوں کہ آسان کہنا مشکل ہوتا ہے اور ذرا سی غفلت شعر کے حسن مجروح کر دیتی ہے۔ مگر سچا شاعر ان مراحل سے بھی پار پا لیتا ہے۔

مسلمؔ سلیم ایک طویل عرصہ سے شاعری کر رہے ہیں ۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی ہے۔ شعری سفر کا آغاز طالبِ علمی ہی کے زمانے سے ہو چکا تھا اوریونیورسٹی میں ان کے اشعار کی گونج سنی جاتی تھی۔لیکن اس کے باوجود شعری افق پر ان کو اپنا مقام حاصل کرنا ہے۔ اس کی وجہ شاید ان کی طبیعت کا لا ابالی پن بھی ہے جس کا احساس خود ان کو بھی ہے۔

 

اپنی قسمت میں ہے گردش کیا رکیں

اک ذرا ٹھہریں تو ہر منظر چلے

 

میرے بھی بخت میں ہے اندھیرا کہ میں بھی ہوں

سمجھے نہ رات خود کو اکیلا کہ میں بھی ہوں

 

لیکن اس کے باوجود وہ شہرت اور ناموری کی طرف سے شعوری لاپرواہی اختیار کرتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ شہرت اور مرتبہ خود حاصل کرنے والی چیزیں نہیں ہیں اس لئے وہ اپنے روئیے سے مطمئن بھی رہتے ہیں اور ابن الوقت لوگوں اور موقع پرستوں کے بارے میں کہتے ہیں   ؎

 

ہمیشہ جیتنے والوں کی صف میں رہنا ہے

اسی لئے   تو   وہ    پرچم بدلتے رہتے ہیں

 

نیک نامی کا صلہ گوشہ تنہائی ہے

جس کو شہرت کی تمنا ہو وہ رسوا ہو جائے

 

یہی ایک سچے فنکار کا رویہ ہے۔ اپنے فن کے بارے میں کہا ہے اور ان کی یہ بات ہر ایک شاعر پر صادق آتی ہے کہ   ؎

 

جثۂِ تحیّر کو لفظ میں جکڑتے ہیں

شعر ہم نہیں کہتے تتلیاں پکڑتے ہیں

 

مسلمؔ سلیم ماضی کی یادوں سے آج بھی اپنے رشتہ قائم رکھے ہوئے ہیں ۔ دورانِ گفتگو بھی علی گڑھ کی باتیں کرتے ہیں اور شعر میں بھی   ؎

 

کیمپس  کی یادیں سب اپنے ساتھ لاتے ہیں

لوگ جب علی گڑھ سے ہم سے ملنے آتے ہیں

 

مسلمؔ سلیم کی شاعری میں انفرادیت کے ساتھ ساتھ زبان کا حسن، خیال کا البیلا پن اور جذبے کا رچاؤ ان کے اسلوب کا مظہر ہے۔کچھ اور اشعار ملاحظہ ہوں    ؎

 

میں ایسا اس کے تصور کی راہ میں کھویا

وہ آ گیا تو مرا انتظار کرنے لگا

 

سائباں ساتھ کس کے چلے ہیں

پھر وہی دھوپ تھی، قافلہ تھا

 

کچھ دیر رک کے پوچھ گیا میری خیریت

وہ شخص بھی ہے صاحبِ اخلاق کس قدر

 

اپنی قسمت میں ہے گردش کیا رکیں

ایک ذرا ٹھہریں تو ہر منظر چلے

 

ایسے اشعار سے آراستہ یہ مجموعۂ کلام جب منظرِ عام پر آئے گا تو یہ قوی امید ہے کہ اہلِ نظر حضرات کو ضرور متوجہ کرے گا اور ان میں سے بیشتر اشعار شائقین کی ڈائریوں اور ذہنوں میں محفوظ ہو جائیں گے۔بات ختم کرنے سے پہلے شاعر کا ایک شعر اسی کی نظر کرتا ہوں   ؎

 

باطن کی ذرا آنکھ جو روشن ہو تو پھر ہم

دیکھیں گے وہ چیزیں کہ جو منظر میں نہیں ہیں

 

بدرؔ واسطی

 

 

 

نبّاضِ  عصر مسلمؔ سلیم

 

میں مسلمؔ سلیم سے گذشتہ تیس برسوں سے نہ صرف واقف ہوں بلکہ ان کا مدّاح بھی ہوں ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ شاعرو افسانہ نگار کی حیثیت سے انھوں نے ہمیشہ سماج کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھا ہے لیکن ایسا کرتے وقت انھوں نے اعلیٰ شعری و ادبی معیار کو قائم رکھا ہے۔ ان کے اشعار اور افسانوں میں کلاسکس کا رچاؤ ،  نفسیات کا عمیق مطالعہ اور گہرا مشاہدہ پایا جاتا ہے ۔مثال کے طور پر چند اشعار پیش ہیں    ؎

 

ہیں کیا فناء و بقا، جثۂِ اثر سے ڈرو

رہوں گا زندہ مری موت کی خبر سے ڈرو

 

تمام شہر کے دروازے نیچے نیچے ہیں

بہت بلند نہ ہو جائے اپنے سرسے ڈرو

 

روح کے کرب کا کچھ مداوا نہ تھا

ڈاکٹر نیند کی گولیاں لکھ گیا

 

چمنی سے ابلتی ہے وہ زنجیر دھوئیں کی

آزاد ہوا اب سے گرفتار چلے گی

 

محدود وسعتیں بھی مجھے دے گئیں شکست

صحرا بوجہِ لرزشِ پا بے کراں سا ہے

 

ٹوٹی ہے گر کے چیز کوئی بارہا مگر

سر پر محیط اب بھی وہی آسماں سا ہے

 

مسلمؔ سلیم نے اپنے نثری و شعری سرمایہ کی بنیاد ان چیزوں پر رکھی ہے جو کسی فنکار کو اپنے عہد کا نمائندہ بنانے کے لئے ناگزیر ہوتی ہیں ۔ اچھے فنکار کو اگر تنقیدی شعور بھی ہو تو اس کے فن میں چار چاند لگ جاتے ہیں ۔ وہ اس شعور کو الہ آباد سے شایع جریدہ ’اندازے‘ کے ذریعے ثابت کر چکے ہیں جس میں اسد بدایونی کے شعری مجموعہ پر ان کا سیر حاصل تنقیدی مضمون شایع ہو کر دادِ تحسین حاصل کر چکا ہے۔اسی طرح ’روشن‘ کے فانی نمبر میں شایع ان کے مضمون ’فانی۔فن اور زندگی‘ میں فانی بدایونی کے کلام پر نئی روشنی ڈالی گئی ہے۔فانی وہ  شاعر ہے جس پر زمانے والوں نے قنوطیت اور رجعت پسندی کی مہر ثبت کر رکھی ہے۔ لیکن مسلمؔ سلیم نے دلائل و تجزیات سے ثابت کیا ہے کہ فانی ایک حقیقت پسند، حوصلہ مند، حساس انسان اور انسان دوست تھے۔ اس مضمون نے فانی کے ارد گرد بنے ہوئے نام نہاد ناقدوں کے تانے بانے کو مسمار کر دیا ہے۔

مسلم سلیم کی شخصیت کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ ان کی ذات بے حد متنوع اور متضاد شعبوں میں منقسم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دوستوں کی تعداد بے شمار ہے جو قطعی مختلف المزاج ہیں اور مزے کی بات ہے کہ ہر دوست مسلمؔ صاحب کی علیٰحدہ علیٰحدہ خصوصیات سے واقف ہوتا ہے اور دیگر خوبیوں کی اسے ہوا بھی نہیں لگتی۔ جہاں تک راقم الحروف کا سوال ہے تو اس نے مسلمؔ سلیم کو تقریباً ہر رنگ میں دیکھا ہے۔ میں مسلمؔ سلیم کے جس قدر نزدیک آیا ہوں اسی قدر ان کی غیر معمولی ذہانت اور علمیت کا معترف ہوتا گیا ہوں ۔ انھیں انگریزی، عربی، فارسی، اردو اور ہندی پر دسترس ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بے پناہ تخلیقی اور تنقیدی شعور کا حامل ہونا کوئی معمولی کارنامہ نہیں کہا جا سکتا۔ آئیے مسلمؔ سلیم کو ان کے منتخب اشعار کی روشنی میں دیکھا جائے۔   ؎

 

ترے خلوص کا منکر نہیں ہوں میں لیکن

ذرا ٹھہر یہ تری آستین میں کیا ہے

 

وہ دیکھنے میں اب بھی تناور درخت ہے

حالانکہ وقت کھود چکا ہے جڑیں تمام

 

دیو قامت وہ شجر جب تیز آندھی میں گرا

پستہ قد جتنے تھے پودے سب قد آور ہو گئے

 

میں بازار سے کافی پردے لایا ہوں

اب دیکھوں کیسے رسوائی ہوتی ہے

 

دھوپ میں دیوار بھی تھی کس کو تھا اس کا خیال

استفادہ سایہِ دیوار سے سب نے کیا

 

کس دن بساطِ زیست پلٹ جائے کیا خبر

ہر مہرہ اپنے خانے میں نا مطمئن سا ہے

 

یہ تھام لیتا ہے امکانِ فتحِ نو کے قدم

شکست سے بھی برا ہے شکست کا احساس

 

اک ذرا کیا تھکے مرے بازو

حوصلے  بڑھ گئے سمندر کے!

 

یہ اس کی چیخ اچانک بتا گئی ورنہ

نہیں تھا مجھ کو خود اپنی گرفت کا احساس

 

نہیں معلوم مجھ کو اس کی منزل

ہزاروں میل تک وہ ہم سفر ہے

 

مندرجہ بالا اشعار کی تشریح کئی کئی صفحات میں کی جا سکتی ہے جو فی الحال جگہ کی قلّت کے سبب ممکن نہیں ۔  میری دعا ہے کہ مسلمؔ سلیم اسی طرح اردو زبان و ادب کو نوازتے رہیں ۔وہ چاہتے تو دیگر زبانوں میں بھی اپنی ذات کا اظہار کر سکتے تھے مگر اردو کی یہ خوش نصیبی ہے کہ ان کو اس سے والہانہ محبت ہے

 

نذیر احمد سامیؔ، الہ آباد

 

 

 

اﷲ

 

تو ہی تو ہر کہیں سبحٰن اﷲ

کوئی تجھ سا نہیں سبحٰن اﷲ

 

تو ہی تحت الثریٰ میں جلوہ فگن

تو ہی عرشِ بریں سبحٰن اﷲ

 

کرتے ہیں رات دن تری تسبیح

آسمان و زمیں سبحٰن اﷲ

 

جب بھی دل سے کیا تجھے سجدہ

بول اٹھی یہ جبیں سبحٰن اﷲ

٭٭٭

 

 

نعت

 

شکلِ نبی میں نور اتارا مولا نے

یوں انساں کا بخت سنوارا مولا نے

 

اس سے بڑھ کو فرطِ محبت کیا ہو گی

نام کبھی لے کر نہ پکارا مولا نے

 

نا گہنائے نہ ڈوبے ایسے سورج سے

ختم کیا  جگ کا اندھیارا مولا نے

 

آقا ہم سے رب کہتا ہے ہم بھی جپیں

جیسے جپا ہے نام تمہارا مولا نے

 

ان پر خود قرآن بھی واری جاتا ہے

وہ جن پر قرآن اتارا مولا نے

 

سدرہ پار نبی ﷺ نے دیکھا مولا کو

یا پھر ان کا کیا نظارا مولا نے

 

اس کو لگایا اپنے یار کی مدحت پر

خوب دیا مسلمؔ کو سہارا مولا نے

٭٭٭

 

 

 

 سرورِکونینؐ

 

 

فرش تا عرش یہ انعام بھلا کیا کم ہے

میں غلامِ شہِ بطحٰی ہوں مجھے کیا غم ہے

 

 

 

حضرت علیؑ

 

قربِ نبیؐ کا ذکر ہی کیا ہے

وہ تو خود تھے نفسِ نبیؐ

ان کا یہ رتبہ ہے مسلمؔ

ان سے نبی کی نسل چلی

اے مردانِ حق و صداقت

قریہ قریہ گلی گلی

زور سے بولو علی علی اور

جھوم کے بولو علی علی

 

ان کا چشم و چراغ جہاں میں

سب سے بڑا سردار ہوا

میں نے علی کا دامن تھاما

میرا بیڑا پار ہوا

ان کے علم کی ایک کرن سے

ذہن مرا بیدار ہوا

ان کی تیغِ دو دم کے صدقے

میرا قلم تلوار ہوا

پہلے میں در در بھٹکا تھا

اور ذلیل و خوار ہوا

ان کا خادم بنا ہوں جب سے

میں بھی عزت دار ہوا

٭٭٭

 

 

 

نذرِ بھوپال

 

 

کیسے یہ کہوں دیکھ لیا ہے بھوپال

فطرت کی قسم روز نیا ہے بھوپال

 

قدرت نے چٹانوں کے ہرے کاغذ پر

تالابوں کے پانی سے لکھا ہے بھوپال

 

اس وقت سے تاریخ کا آنگن مہکا

اوراق پہ جس دن سے کھلا ہے بھوپال

 

ہر وقت ہے مصروفِ غنا اس کی ہوا

شاید کسی مطرب کی نوا ہے بھوپال

 

پایا ہے بہت اس کے مناظر میں سحر

جانا کہ بہت ہوش ربا ہے بھوپال

 

برسوں سے ہے گہوارۂ تعلیم یہ شہر

سر چشمۂ انوار و ضیا ہے بھوپال

 

مسلمؔ کو ملا دشت نوردی کا صلہ

قدرت نے اسے بخش دیا ہے بھوپال

٭٭٭

 

 

 

اب جو سویا تو یہ کروں گا میں

خواب کے ہونٹ چوم لوں گا میں

 

بزم میں سچ بھی میں نے بولا ہے

زہر کا جام بھی پیوں گا میں

 

اے مجھے موت دینے والے سن

تو ہی مر جائے گا جیوں گا میں

 

یہ مرے دوست کی نشانی ہے

چاک دامن بھلا سیوں گا میں

 

مجھ پہ بس میری حکمرانی ہے

یوں جیا ہوں یونہی جیوں گا میں

٭٭٭

 

 

 

جب بھی جذبوں کے لئے الفاظ نشتر ہو گئے

کیسے کیسے پھول جیسے ہاتھ خنجر ہو گئے

 

دیو قامت وہ شجر جب تیز آندھی میں گرا

پستہ قد جتنے تھے پودے سب قد آور ہو گئے

 

رفتہ رفتہ ہم کو جینے کا ہنر آ ہی گیا

پتھروں میں رہتے رہتے ہم بھی پتھر ہو گئے

 

آ پڑے جس دن سے ہم دریائے جد و جہد میں

اس طرح سے جاں پہ بن آئی شناور ہو گئے

 

نیم فاقہ نیم عریانی کو اندر چھوڑ کر

گھر سے باہر جب قدم رکھا سکندر ہو گئے

 

پیکرِ ترغیب تھے سارے کھلونے دور سے

چھو لیا ہم نے تو سب یکلخت پتھر ہو گئے

 

عالمِ تخئیل میں مسلمؔ ہوا کس کا گذر

میری یادوں کے کئی لمحے معطر ہو گئے

٭٭٭

 

 

 

جب ہم نے زندگی کی گنیں راحتیں تمام

لمحات میں سمٹ سی گئیں مدتیں تمام

 

وہ دیکھنے میں اب بھی تناور درخت ہے

حالانکہ وقت کھود چکا ہے جڑیں تمام

 

ہر بار یوں لگا کہ کوئی آئے گا مگر

کچھ دور ہی سے لوٹ گئیں آہٹیں تمام

 

میں اور احتجاج کی ہمت، نہیں نہیں !

بے اختیار چیخ پڑی ہیں رگیں تمام

 

وہ خود یہ چاہتا تھا یہ محسوس تب ہوا

ہم بے خودی میں توڑ گئے جب حدیں تمام

 

آثارِ کرب سب سے چھپاتا پھرا مگر

بستر پہ نقش ہو ہی گئیں کروٹیں تمام

٭٭٭

 

 

 

سوچ رہا ہو گا شاید جڑ پائے گا یہ دوبارہ کیا

بچہ چپ چپ کیوں بیٹھا ہے پھوٹ گیا غبارہ کیا

 

دوب کے اوپر ایسے ہی بیٹھو گے لبِ فوارہ کیا

پارک یہ تم سے پوچھ رہا ہے آؤ گے پھر دوبارہ کیا

 

سب اس کی رفتار سے ہارے طائر کیا طیارہ کیا

ہم کو تری ای میل سلامت قاصد کیا ہرکارہ کیا

 

ڈال کبھی اس کافر کے اوپر بھی دہشت کا سایہ

انسانوں کو مارنے والے تو نے دل کو مارا کیا

 

مات ہے ہر معیارِ تغیر اس کے تلون کے آگے

دیکھنا ہے تو اس کو دیکھو دیکھ رہے ہو پارہ کیا

 

پہنچے پیر نظیرؔ کی ہم کو یاد آئی اک منظر پر

رہ گیا ٹھاٹ پڑا سب کا سب لاد چلا بنجارا کیا

 

خود کو شاعر کہتے بچے گھوم رہے ہیں گلی گلی

شاعر گھر میں قید پڑا ہے اور کرے بیچارہ کیا

 

کتنی دیر سجے گی محفل کب تک یہ رقص و نغمہ

گھر ہی لوٹ کے جائیں گے سب اور بھلا پھر چارہ کیا

 

سب ہیں مظاہر عشق کے مسلمؔ کعبہ، اقصیٰ، تاج محل

پیار نہ ہو تو سب پتھر ہیں مرمر اسود خارا کیا

٭٭٭

 

 

 

زندگی کس قدر ہے گراں لکھ گیا

وقت چہروں پہ مایوسیاں لکھ گیا

 

روح کے کرب کا کچھ مداوا  نہ تھا

ڈاکٹر نیند کی گولیاں لکھ گیا

 

سر درختوں کے کس نے قلم کر دئے

شہر میں دور تک بستیاں لکھ گیا

 

بے تعلق تھا اس کا تبسم مگر

میرے سارے غموں پر خزاں لکھ گیا

 

دورِ حاضر مرے جسم کے بخت میں

مختلف رنگ پرچھائیاں لکھ گیا

 

ہر رگِ تن پہ بس اک تبسم ترا

دم بدم کوندتی بجلیاں لکھ گیا

 

کتنے در میری آہٹ کے تھے منتظر

کیوں جبیں پر بس اک آستاں لکھ گیا

٭٭٭

 

 

 

زندگی کی طرح بکھر جائیں

کیوں ہم ایسے جئیں کہ مر جائیں

 

کر دی میراث وارثوں کے سپرد

زندگی کس کے نام کر جائیں

 

گھر کی لپٹیں بہت غنیمت ہیں

ہر طرف آگ ہے کدھر جائیں

 

موڑ لگنے لگے ہر اک منزل

اور ہر موڑ سے گذر جائیں

 

دب گیا ہوں میں جن میں تہہ در تہہ

یہ جو پرتیں ہیں سب اتر جائیں

٭٭٭

 

 

 

ہم پھول گلستاں میں چنیں ، خار کھائیں سب

دیکھیں جب ان کی سمت تو نظریں چرائیں سب

 

کوئی پلٹ کے آتی نہیں ، گونجتی نہیں

چٹانیں پی رہی ہیں ہماری صدائیں سب

 

کیا دینا چاہتا ہے فقط حشر میں صلہ

کیوں جمع کر رہا ہے ہماری دعائیں سب

 

مردہ ضمیر زندہ ہیں مصنوعی سانس پر

لاشیں سی چل رہی ہیں میرے دائیں بائیں سب

 

اب کچھ بھی فرقِ مغرب و مشرق میں نہیں رہا

زہریلی ہو چکی ہیں جہاں کی ہوائیں سب

٭٭٭

 

 

 

مرے بدن میں نہ جانے کیا شئے سما گئی تھی

جب اتفاقاً قریب پل بھر وہ آ گئی تھی

 

بہت مہذب بہت ہی خاموش طبع تھا میں

وہ پھر اکیلے میں کس لئے تلملا گئی تھی

 

نہ میں حسیں تھا، نہ خوش ادا تھا نہ خوش گلو تھا

مگر مری بے بسی دل اس کا لبھا گئی تھی

 

سوال جب بھی کیا مری وسعتِ نظر نے

وہ مسکراہٹ میں اپنا ماضی دبا گئی تھی

 

غضب کی ناداں تھی وہ کہ سوچا نہ کچھ بھی اس نے

خوشی خوشی وہ فریبِ تہذیب کھا گئی تھی

٭٭٭

 

 

 

نیند ٹوٹے نہ خضر ہی کی نہ رہبر جاگے

مجھ میں سویا ہوا انساں جو گھڑی بھر جاگے

 

تھی کڑی دھوپ تو کب ان کو پریشانی تھی

برف پگھلی تو بہت چونک کے پتھر جاگے

 

پر سکوں دن ہے کوئی شور نہیں  چیخ نہیں

رات ہولے تو گناہوں کا سمندر جاگے

 

کوئی فتنہ، کوئی شورش، کوئی ہنگامہ ہو

مجھ کو تڑپائے مرے جسم کے اندر جاگے

 

لوگ ٹکرا کے حقیقت سے ہراساں یوں ہیں

جس طرح طفل کوئی خواب سے ڈر کر جاگے

٭٭٭

 

 

 

 

وہ راہیں جن سے ابھی تک نہیں گذر میرا

لگا ہوا ہے انھیں راستوں کو ڈر میرا

 

نہ جانے کون تھا جس نے مجھے بچایا ہے

مجھے خبر بھی نہ تھی جل رہا تھا گھر میرا

 

نہیں ہے بوجھ مرے نام پر مناصب کا

میں آدمی ہوں تعارف ہے مختصر میرا

 

گنوا کے ذات کو لایا ہوں زندگی کی خبر

مری سنو کہ حوالہ ہے معتبر میرا

 

بھٹک رہا ہوں ابھی زندگی کے صحرا میں

خبر نہیں کہ کہاں ختم ہو سفر میرا

٭٭٭

 

 

 

شعلوں میں گھرے سب ہیں شراروں میں کھڑے ہیں

اوروں کی طرح ہم بھی حصاروں میں کھڑے ہیں

 

دیکھو گے کسی دن کہ سواروں میں کھڑے ہیں

کچھ لوگ سر راہ غباروں میں کھڑے ہیں

 

ہر سمت سے محصور خساروں میں کھڑے ہیں

بس اتنا سکوں ہے کہ سہاروں میں کھڑے ہیں

 

آزادی نے بخشی ہے غلامی کو وہ عظمت

بکنے کے لئے لوگ قطاروں میں کھڑے ہیں

 

وہ آنکھیں اور ان آنکھوں میں تصویر ہماری

لگتا ہے کہیں دور ستاروں میں کھڑے ہیں

 

نزدیک اگر تم ہو  تو کیسا بھی ہو موسم

محسوس یہ ہوتا ہے بہاروں میں کھڑے ہیں

 

یکتائی کا دعویٰ نہیں مسلمؔ ہمیں پھر بھی

پہچان لئے اپنی ہزاروں میں کھڑے ہیں

٭٭٭

 

 

 

یہ دعا ہے کہ کہیں ہوش و خرد کھو جائیں

دیکھیں کیا ہوتا ہے دیوانے اگر ہو جائیں

 

ایک ہی کام خوش اسلوبی سے پائے انجام

اب جو صحراؤں میں بھٹکیں تو وہیں کھو جائیں

 

اپنی تقدیر میں چھوٹا ہی سا گھر لکھا تھا

وہ کوئی جاگ گیا آؤ چلو سو جائیں

٭٭٭

 

 

 

اس کو کافی نہ سمجھئے کہ اندھیرا ہو جائے

اور کچھ دیر ٹھہریئے کہ یہ گہرا ہو جائے

 

ایک ہی رات میں اس کے لئے کیا کیا ہو جائے

شمع گھر کی کسی محفل کا اجالا ہو جائے

 

شب کو دیوار پہ لٹکا دے حیا کی چادر

دن میں ہنس دے جو کوئی شرم سے دوہرا ہو جائے

 

نیک نامی کا صلہ گوشۂ تنہائی ہے

جس کو شہرت کی تمنا ہو وہ رسوا ہو جائے

 

قطرے آپس میں کہاں ملتے ہیں دیکھا تو نہیں

ہاں یہ سنتے ہیں کہ مل جائیں تو دریا ہو جائے

٭٭٭

 

 

کج اداؤں ، دل رباؤں کے پتے معلوم ہیں

جسم سے اٹھتی صداؤں کے پتے معلوم ہیں

 

کون ہے اس شہر میں مجھ سے زیادہ با خبر

مجھ کو سارے بے وفاؤں کے پتے معلوم ہیں

 

سیکھ ہی پائے نہیں ہم سر جھکانے کا ہنر

ورنہ سب  باطل خداؤں کے پتے معلوم ہیں

 

لو کے جھونکے کس طرف سے آ کے برساتے ہیں آگ

مصلحت کو ان ہواؤں کے پتے معلوم ہیں

 

عیش دنیا میں کریں گے وہ بھی مسلمؔ کی طرح

وہ جنھیں ماں کی دعاؤں کے پتے معلوم ہیں

٭٭٭

 

 

 

فتنہ و شر سے سدا خود کو بچائے رکھئے

روٹھنے والوں کو پہلے سے منائے رکھئے

 

بولئے جھوٹ سراسر مگر اتنا کیجے

دھوپ کے چشمے سے آنکھوں کو چھپائے رکھئے

 

وہ بھی عاشق ہی تو ہے کام کبھی آئے گا

دل نہیں دیتے نہ دیں دوست بنائے رکھئے

 

کیجئے چڑھتے اترتے ہوئے سورج کا خیال

ہے بدن ایک مگر سینکڑوں سائے رکھئے

 

دل کہاں  جنسِ گراں مایہ کہ سودا کیجے

جسم ہے گرمیِ بازار سجائے رکھئے

٭٭٭

 

 

 

کچھ تو لازم ہے مری زیست کا عنواں ہونا

راس آئے مجھے خوابوں کا پریشاں ہونا

 

مجھ کو فیشن نے سکھائے ہیں جنوں کے آداب

مجھ کو مجنوں نے سکھایا نہیں عریاں ہونا

 

عیش کے دن مجھے ہرگز نہ بدل پائیں گے

یاد رہتا ہے مجھے بے سروساماں ہونا

 

وہ ہے کمزور تو کیا اس کو قوی کے آگے

جرم نا کردہ پہ آتا ہے پشیماں ہونا

 

لذتِ خوفِ خطا کاری کا سر چشمہ تھا

اولیں وصل پہ وہ تیرا ہراساں ہونا

٭٭٭

 

 

 

کس قدر بے دست و پا راکب کو مرکب  نے کیا

خود سے بھی بے گانہ حرصِ جاہ و منصب نے کیا

 

ہم کو لایا ہے تعصب نفرتوں کے دشت میں

ورنہ کب گمراہ انسانوں کو مذہب نے کیا

 

جب بھی شہرِ مصلحت میں وا کیا  دستِ  طلب

اک عجب انکار سا اقرار سے سب نے کیا

 

محفلِ ادراک میں توڑا سکوتِ بے حسی

جرم کتنا خوب صورت جنبشِ لب نے کیا

 

دھوپ میں دیوار بھی تھی کس کو تھا اس کا خیال

استفادہ سایہ دیوار سے سب نے کیا

٭٭٭

 

 

 

ہیں کیا بقا ؤ فنا جثۂ اثر سے ڈرو

رہوں گا زندہ مری موت کی خبر سے ڈرو

 

جہاں میں باعثِ خوف و ہراس اے لوگو

مگر یہ فرض ہے تم پر کہ اپنے گھر سے ڈرو

 

اٹھو کہ لرزہ بر اندام ہے فضا ساری

نقیبِ شورشِ فردا ہے یہ سحر سے ڈرو

 

تمام شہر کے دروازے نیچے نیچے ہیں

بہت بلند نہ ہو جائے اپنے سر سے ڈرو

٭٭٭

 

 

 

فلک پہ کون سی شئے ہے زمین میں کیا ہے

نظر نہیں تو تری خورد بین میں کیا ہے

 

ترے خلوص کا منکر نہیں ہوں میں لیکن

ذرا ٹھہر یہ تری آستین میں کیا ہے

 

نہ ساز چیز ہے کوئی نہ کوئی شئے دھن ہے

وہ دردِ دل ہے سپیرے کی بین میں کیا ہے

 

تمام عمر جہنم میں کیوں گذاریں ہم

سوائے حسن و ادا اس حسین میں کیا ہے

 

خبر بھی کچھ ہے کہ احساس اسمِ آدم ہے

جو دل نہیں ہے تو پھر اس مشین میں کیا

٭٭٭

 

 

 

 

ہوئی جو شام راستے گھروں کہ سمت چل پڑے

ہمیں مگر یہ کیا ہوا یہ ہم کدھر نکل پڑے

 

کسی کی آرزوؤں کی وہ سرد لاش ہی سہی

کسی طرح تو جسم کی حرارتوں کو کل پڑے

 

اسی کی غفلتوں پہ میری عظمتیں ہیں منحصر

خدا نہ خواستہ کہ اس کی نیند میں خلل پڑے

 

سفر طویل تھا مگر گھٹا اٹھی امید کی

کڑی تھی دھوپ دیکھیں کس پہ سایہ اجل پڑے

٭٭٭

 

 

 

اک ذرا جب ہم اٹھا کر سر چلے

ہر طرف سے دیر تک پتھر چلے

 

اپنی قسمت میں ہے گردش کیا رکیں

ہم اگر ٹھہریں تو ہر منظر چلے

 

رات کے ساتھی کو اب رخصت کرو

کچھ اسے بخشو کہ اس کا گھر چلے

 

تیزگامی ٹھوکریں کھلوائے گی

اس سے یہ کہئے کہ رک رک کر چلے

 

جی اٹھوں پھر سے کسی کی آرزو

خون بن کر جسم کے اندر چلے

٭٭٭

 

 

 

 

 

زندگی کے لبوں پہ آہ سہی

کیوں ہنسے موت میں تباہ سہی

 

وصل حالانکہ مرگِ الفت ہے

اک ملاقات گاہ گاہ سہی

 

جانے کس وقت کام پڑ جائے

اس سے تھوڑی سی رسم و راہ سہی

 

میری فطرت میں رچ گیا ہے خلوص

اب مسلسل یہی گناہ سہی

 

کون رشتوں کو توڑ پایا ہے

ایک مکروہ سا نباہ سہی

 

بحر و بر اب بھی تجھ پہ ہنستے ہیں

آسماں پر تری نگاہ سہی

٭٭٭

 

 

 

سرخرو صرف لمحہ کھڑا تھا

ہر بدن جب شکستہ پڑا تھا

 

تھک چکے تھے عقائد کے غازی

صرف پرچم ہی لہرا رہا تھا

 

آؤ اچھا تماشا رہے گا

دور سے شور سا اک اٹھا تھا

 

سج گئی بزمِ انجم یکایک

منتشر ایک نقطہ ہوا تھا

 

لوٹ آیا ہوں اے ارتقا میں

پھر وہیں  پر جہاں سے چلا تھا

 

سائباں ساتھ کس کے چلے ہیں

پھر وہی  دھوپ تھی قافلہ تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تھا جہاں انسان انساں ان ٹھکانوں میں چلیں

اے نئی تہذیب آ پچھلے زمانوں میں چلیں

 

ہیں ہمارے جاگتے لمحوں پہ حاوی پستیاں

آنکھ لگ جائے تو پھر ہم آسمانوں میں چلیں

 

پھیلتی ہی جاتی ہے ناکامیوں کی  تیز دھوپ

آئیے خوش فہمیوں کے سائبانوں میں چلیں

 

چل کہ  چٹانوں سے سیکھیں زندگی کے کچھ ہنر

آ مری جینے کی خواہش سخت جانوں میں چلیں

 

شیر کو تہذیب کی سازش سے کرنا ہے شکار

بزدلی تسلیم ہے ہم کو مچانوں میں چلیں

 

جیب کی گرمی سے کہتی ہے مری بے چہرگی

جسم کے بازار، چہروں کی دوکانوں میں چلیں

٭٭٭

 

 

 

 

کیا کم ہے یہ کہ لمحۂ بیم و رجا ہیں ہم

ویرانیوں کے شہر میں آوازِ پا ہیں ہم

 

پانی ہیں بلبلہ ہیں برستی گھٹا ہیں ہم

دریا ہیں آبِ جو ہیں سمندر ہیں کیا ہیں ہم

 

اے لشکرِ غنیم ٹھہر جا کہ جیت لیں

وہ جنگ جس میں خود سے نبرد آزما ہیں ہم

 

رشتوں کی استواری میں لازم ہے احتیاط

اس کو خبر نہیں ہے کہ اس سے خفا ہیں ہم

 

پینے لگا ہمیں بھی بہت پھونک پھونک کر

وہ دودھ کا جلا تھا نہ سمجھا کہ کیا ہیں ہم

 

اک چیخ اک کراہ اک ہنگامہ ہی سہی

سناٹے مصلحت کے ہیں لرزاں ، صدا ہیں ہم

 

بکنا پڑے گا تجھ کو ہمارے حصول میں

ہم کو خریدتا ہے تو سن بے بہا ہیں ہم

٭٭٭

 

 

 

 

اشخاص ہیں ارواح مرے گھر میں نہیں ہیں

لمحاتِ سکوں پھر بھی مقدر میں نہیں ہیں

 

باطن کی ذرا آنکھ جو روشن ہو تو پھر

دیکھیں گے وہ چیزیں کہ جو منظر میں نہیں ہیں

 

سوزش ہے محبت کی نہ جذبوں کی حرارت

پوشیدہ شرارے کسی پتھر میں نہیں ہیں

 

ہم سر سے کفن  باندھے ہوئے پھرتے ہیں لیکن

جاں لینے کو انداز ستم گر میں نہیں ہیں

 

پیتا ہوں تو کچھ اور بھی ہوتا ہے فزوں غم

خوشیوں کے خزانے مرے ساغر میں نہیں ہیں

٭٭٭

 

 

 

حساس دل تھا تابِ نظارہ بکھر گئی

پھیلی ہوئی تھی پیاس جہاں تک نظر گئی

 

دروازہ کھولتے ہی عجب سانحہ ہوا

منظر کی آگ سب مرے سینے میں بھر گئی

 

زندہ ہوں اب بھی گر ہے تنفس کا نام زیست

سینے میں کوئی چیز جو زندہ تھی مر گئی

 

اب کس کی جستجو میں زمانہ ہے غوطہ زن

پاتال میں خلوص کی کشتی اتر گئی

٭٭٭

 

 

 

تھے درج ان کتابوں میں اخلاق کس قدر

دیمک کی نذر ہو گئے اوراق کس قدر

 

تھا انتظام میری تباہی کا ورنہ اب

ٹھہری ہوئی ہے گردشِ آفاق کس قدر

 

پوچھا تو اس نے حال سر راہ ہی سہی

وہ شخص بھی ہے صاحب اخلاق کس قدر

 

جب  تک ہے سانس سینے میں تب تک یہ زندگی

خود زہر بھی ہے خود ہی ہے تریاق کس قدر

 

جب بھی ہوائے تیز چلی تیرے نام کی

لرزے کتابِ دل کے ہیں اوراق کس قدر

 

رکھے ہیں اس نے نام ہزاروں فریب کے

یہ فطرتِ بشر بھی ہے خلّاق کس قدر

٭٭٭

 

 

وہ سمجھتا تھا ہار جاؤں گا

کیا خبر تھی کہ مار جاؤں گا

 

رہ میں ہونے دو خار، جاؤں گا

ایک کیا بار بار جاؤں گا

 

یاد رکھ تو بھی ساتھ جائے گا

میں اگر سوئے دار جاؤں گا

 

ایک شب تیرے خواب میں آ کر

تیری زلفیں سنوار جاؤں گا

 

تو نہ ہو گا  تو تیرے  کوچے میں

نام تیرا پکار جاؤں گا

 

مل تو جا ایک بار، بوسوں کے

سارے قرضے اتار جاؤں گا

٭٭٭

 

 

رنج و غم کی یورشیں ہوتی ہیں جب ہنستے ہیں ہم

سب سمجھتے ہیں کہ یونہی بے سبب ہنستے ہیں ہم

 

ہیں سبھی سنجیدگی سے سازشوں میں منہمک

دیکھ کر ایسی  فضائے بوالعجب ہنستے ہیں ہم

 

بے بسی اخلاق کے پتھر پہ سر پٹکے  تو کیا

دل ہوا ہے مدفنِ غیض و غضب ہنستے ہیں ہم

 

کیا ہے تحریکِ تبسم پوچھتے رہتے ہیں سب

تیرے دم سے اے تمنائے طرب ہنستے ہیں ہم

 

توڑ کر دیوارِ آہن غم کی پل بھر کے لئے

جب خوشی دل میں لگاتی ہے نقب ہنستے ہیں ہم

 

ہم بھی پرتوَ  ہیں اسی کے جس کی وہ تصویر ہے

پوچھتا ہے جب کوئی نام و نسب ہنستے ہیں ہم

٭٭٭

 

 

 

کب بھلا ان کی سرزنش کی ہے

ہم نے زخموں کی پرورش کی ہے

 

لہلہاتی ہے غم کی پھلواری

آبیاری روش روش کی ہے

 

قرب سے اس کے ذہن کی حالت

ہو بہ ہو آبِ مرتعش کی ہے

 

وہ تو مل بھی گیا مگر دل میں

سرسراہٹ یہ کس خلش کی ہے

 

بجھ گیا گر شرار الفت کا

پھر یہ جاں کاہی یہ کس تپش کی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

مجھ کو کہاں گمان گذرتا کہ میں بھی ہوں

دیکھا تمہیں تو میں نے یہ جانا کہ میں بھی ہوں

 

میرے بھی بخت میں ہے اندھیرا کہ میں بھی ہوں

سمجھے نہ رات خود کو اکیلا کہ میں بھی ہوں

 

گھر تو بہا کے لے گیا خاشاک کی طرح

دریا نہ چھوڑ مجھ کو اکیلا کہ میں بھی ہوں

 

اے کاش چیختا، اسے آتا تو میں نظر

اس صاحبِ نظر نے نہ دیکھا کہ میں بھی ہوں

 

میں اپنی دھن میں کتنی بلندی پہ آ گیا

کوئی نہیں ہے دیکھنے والا کہ میں بھی ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

وقت نے کیسی کروٹ لی ہے سر والے سنگسار ہوئے

سر ہی نہیں تھا شانوں پہ جن کے پھر وہ سب سردار ہوئے

 

جتنے جواں تھے ان کے ارماں اتنے ہی انکار ہوئے

جب یہ سیاست حسن کی سمجھے عشق سے ہم سرشار ہوئے

 

چلئے اب تحقیق ہی کر لیں مدت گذری وار ہوئے

پشت پہ خنجر کس نے مارا کیا اپنے غدار  ہوئے

 

ڈال ہی لو تم آج کی شب سے وعدہ نبھانے کی عادت

جاگ اٹھا ہے رات کا جادو غافل پہریدار ہوئے

٭٭٭

 

 

 

تم سے کس نے کہا تھا کہ اتنا ہوا میں دھواں چھوڑ دو

اب چلو جنگلوں میں رہو مدتوں کیلئے بستیاں چھوڑ دو

 

سینہِ بحر پر اپنی جولانیوں کے نشاں چھوڑ دو

لاکھ طوفان سہی بادباں کھول دو کشتیاں چھوڑ دو

 

میرے ہمدرد، محسن انہیں تم یونہی خونچکاں چھوڑ دو

اس کی تصویر مجھ کو بنا لینے دو انگلیاں چھوڑ دو

 

کیسا آزاد ہوں سہہ تو سکتا ہوں میں بول سکتا نہیں

قید کر لو مجھے میرا سب چھین لو بس زباں چھوڑ دو

٭٭٭

 

 

 

 

رکا تو میری رگِ جاں پہ وار کرنے لگا

لہو لہو مجھے دل کا غبار کرنے لگا

 

پتہ چلا کہ بہت ہو چکا ہوں دولت مند

میں دل کے زخموں کو جب سے شمار کرنے لگا

 

میں ایسا اس کے تصور کی راہ میں کھویا

وہ آ گیا تو مرا انتظار کرنے لگا

 

کبھی تو اترے گا سر سے یہ زندگی کا نشہ

شراب پی کے میں ردِّ خمار کرنے لگا

 

اسی گھڑی کا ہی تھا انتظار قاتل کو

وہی گھڑی کہ میں جب اعتبار کرنے لگا

 

نہیں گلوں پہ، جڑوں پر نظر ہے اب اس کی

وہ اب ارادۂ قتلِ بہار کرنے لگا

 

جب اس نے کچھ نہ کہا میری بدکلامی پر

مرا ضمیر مجھے شرمسار کرنے لگا

٭٭٭

 

 

 

 

 

یقیں آیا کہ دنیا مختصر ہے

جہاں جاتا ہوں میں میرا ہی گھر ہے

 

خدایا دل کو بینائی عطا کر

نظر کی راہ میں حدِّ نظر ہے

 

نہیں معلوم مجھ کو اس کی منزل

ہزاروں میل تک وہ ہم سفر ہے

 

دیا ہے اس نے پھر آنے کا دھوکہ

ہمارے پاس پھر اک رات بھر ہے

٭٭٭

 

 

 

اس لئے زندگی سے برہم ہے

آرزوئیں بلند قد کم ہے

 

میں اگر مٹ گیا تو کیا غم ہے

زندگی تیری آنکھ کیوں نم ہے

 

وقت ہی گھاؤ بھی لگاتا ہے

وقت کے ہاتھ ہی میں مرہم ہے

 

منتظر ہوں ترے اشارے کا

عشق کم ہے نہ حوصلہ کم ہے

 

کیوں دراریں دلوں میں پڑتی ہیں

یا الٰہی یہ کیسا موسم ہے

٭٭٭

 

 

 

جُثۂ تحیر کو لفظ میں جکڑتے ہیں

شعر ہم نہیں کہتے تتلیاں پکڑتے ہیں

 

کیوں ہمارے قبضے میں کوئی جن نہیں آتا

اس چراغِ ہستی کو ہم بھی تو رگڑتے ہیں

 

برقراریِ ظاہر کتنا خوں رلاتی ہے

اپنے جسم کے اندر ہم کسی سے لڑتے ہیں

 

قابلِ عبور اتنی ہے بدن کی صف بندی

تیر جتنے چلتے ہیں روح ہی میں گڑتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

شنید و دید کی  کایا کا دھوکا ٹوٹ جاتا ہے

وہ دن جس روز یہ مٹی کا منڈوا ٹوٹ جاتا ہے

 

بہت پہلے سے ہو جاتا ہے احساسِ فنا اس کو

دہانے پر جب آتا ہے تو دریا ٹوٹ جاتا

 

ہماری سمت آتا ہے بہت شدت سے وہ اکثر

مگر ٹکرا کے ہم سے خود ہی صدمہ ٹوٹ جاتا ہے

 

یہ تارِ زندگی مسلمؔ متاعِ عنکبوتی ہے

بالآخر ایک دن مکڑی کا جالا ٹوٹ جاتا ہے

٭٭٭

 

 

 

گھوم پھر کر اسی آئینے میں دیکھا خود کو

اپنے ماحول سے انسان نے سمجھا خود کو

 

ہم کو منظور نہ تھی اپنی انا کی سبکی

ہم سمجھ بوجھ کے دیتے رہے دھوکہ خود کو

 

ذات  اپنی ہی بہر حال مقدّم ٹھری

پردۂ الفتِ اغیار میں چاہا خود کو

 

کسی صورت دلِ نادان  بہلتا ہی نہ تھا

لوریاں دے کے ترقی کی سلایا خود کو

 

مار ہی ڈالتی حق گوئی کی عادت مسلمؔ

جھڑکیاں دے کے کئی بار دبایا خود کو

٭٭٭

 

 

 

دریا ہے رواں خوں کا مرے قامت و قد میں

لے جانا لہو جب بھی کمی پاؤ رسد میں

 

کمرے میں ہوس کو تو چھپا لیتے تھے لیکن

اب عشق ہے اور عشق ٹھہرتا نہیں حد میں

 

اک میں نہیں شہر میں مجرم تو بہت تھے

بس یہ ہے کہ میں آ گیا الزام کی زد میں

 

کیا اس نے چھپا رکھا ہے ہمدردی کے پیچھے

بو گل کی تو ہرگز نہیں گل پوش مدد میں

 

سرخی سے دمکنے لگا اشعار کا چہرہ

کچھ خون کیا صرف جو اظہار کی مد میں

 

تخلیق تو خود اپنی سند ہوتی ہے مسلمؔ

نادان ہیں وہ لوگ جو الجھے ہیں سند میں

٭٭٭

 

 

 

افسانوی غزل

 

 

عصمتؔ نے جب لحاف ادب کو اوڑھا دیا

عینیؔ نے بڑھ کے آگ کا دریا بہا دیا

 

منٹوؔ میں اور میرؔ میں ہے قدرِ مشترک

دونوں نے اختصار کو جامع بنا دیا

 

بکواس لکھتے رہنے سے اچھا ہے کم لکھو

دانا تھا جس نے راز یہ ہم کو بتا دیا

 

’ننگی سڑک پہ‘ بیٹھ کے ہم نے بھی کچھ لکھا

قاری کو ×’سکھ کی نیند‘ سے واقف کرا دیا

 

ابھرا ہے اور تیز دھماکے کا ساتھ وہ

اندر کے جس ادیب کو میں نے دبا دیا

 

مسلمؔ ہے میرا نام مکمل ادیب ہوں

افسانوں کا غزل سے تعارف کرا دیا

(× ننگی سڑک پر اور سکھ کی نیند میرے افسانوں کے عنوانات ہیں ۔)

٭٭٭

 

 

 

آگ کے ساتھ ساتھ پانی ہے

جسم کی بھی عجب کہانی ہے

 

حال اس کا بیاں کروں کیسے

دل تو صدموں کی راجدھانی ہے

 

کر دیں مسمار قصرِ ہستی کو

حادثوں نے یہ جی میں ٹھانی ہے

 

پھول کی پنکھڑی مرا احساس

اور بادِ صبا روانی ہے

 

جو بھی گذرے ہیں حادثے ہم پر

سب تمہاری ہی مہربانی ہے

 

میں اٹھاتا نہیں ہوں دیواریں

دل کی بستی مجھے بسانی ہے

 

اتنی چھوٹی سی بحر میں مسلمؔ

تیرا اظہار داستانی ہے

٭٭٭

 

 

 

اب لباسوں کا کیا ہی کہنا ہے

کچھ نہیں پہنا اور پہنا ہے

 

شوق ہے اس کو خوش لباسی کا

وہ مزاجاً مگر برہنہ ہے

 

زندگی خوفناک جنگل ہے

اور سانپوں کے ساتھ رہنا ہے

 

یہ عمارت بنی ہے مٹی سے

جسم کو ایک دن تو ڈھہنا ہے

 

اب یہ عادت سی بن گئی مسلمؔ

شعر کہتے ہیں کیونکہ کہنا ہے

٭٭٭

 

 

حوائے نوَ

 

قلمکاری میں  ماہر ہو گئی ہے

غزل پروین شاکر ہو گئی ہے

 

نہاں تھے ہم سے جو عورت کے جذبے

وہ خود ان کی مصور ہو گئی ہے

 

قد اتنا بڑھ گیا ہے شاعرہ کا

کہ  ہمدوشِ اکابر ہو گئی ہے

 

نہیں ہے اب وہ مردوں کا کھلونا

سیاست کی بھی شاطر ہو گئی ہے

 

ہمارے عہد میں عورت بھی مسلمؔ

مدبر اور مفکر وہ گئی ہے

٭٭٭

 

 

 

جن پر منٹوؔ گرجے ہے عصمتؔ بیدیؔ چلّائیں ہیں

آج وہی اونچی مسند پر بیٹھے ہیں اترائیں ہیں

 

طعنے، تشنے، جھڑکی، دھکّے، کیا کیا تحفے پائیں ہیں

تیری محفل سے ہم خالی ہاتھ بھلا کب آئیں ہیں

 

تم گھٹ گھٹ کر جئے، یہ عزّت دولت شہرت پائیں ہیں

غالبؔ، میرؔ تمہارے لقمے شاعر آج چبائیں ہیں

 

بھرا ہے میرے اندر لاوا میرے مقابل مت آنا

میں شاعر ہوں ساری بلائیں لیتی مری بلائیں ہیں

 

باطل سے سمجھوتہ نہ کرنا ظلم نہ سہنا سچ کہنا

تعزیراتِ شہر میں مسلمؔ شامل اب یہ خطائیں ہیں

٭٭٭

 

 

 

مشاہدے کا ہے جمگھٹ مرے روئیے میں

اسی کی پاؤ گے کروٹ  مرے روئیے میں

 

پڑھا میں نے بہت اس لئے در آئی ہے

اساتذہ کی سی آہٹ مرے روئیے میں

 

بڑے سلیقے سے برتی ہے شاعری میں نے

ہے اصل میں تو سجاوٹ مرے روئیے میں

 

مرے سہارے سے سچّائی ہو گئی بے باک

اٹھا رہی ہے وہ گھونگھٹ مرے روئیے میں

 

قدم قدم پہ ریا اور مصلحت کوشی

نہیں ہے یار یہ جھنجھٹ مرے روئیے میں

 

بلا کا چلبلا، حاضر جواب اور فعّال

ابھی تلک ہے وہ نٹ کھٹ مرے روئیے میں

 

نہ راج کی ہے، نہ ہے بال کی، نہ تریا کی

صداقتوں کی ہے بس ہٹ مرے روئیے میں

 

یہاں پر بھرتے ہیں پانی سبھی بڑے چھوٹے

ملا ہے ان کو تو پنگھٹ مرے روئیے میں

 

ہے وہ تو گیان کی کٹیا مگر حریفوں کو

دکھائی دیتا ہے مرگھٹ مرے روئیے میں

 

کبھی ہے چاند، کبھی کہکشاں ، کبھی سورج

کبھی ستاروں کا جھرمٹ مرے روئیے میں

 

اسے تو گوڈ نے اسموتھ ہی بنایا ہے

نہیں ہے ایک بھی سلوٹ مرے روئیے میں

 

اس عمر میں بھی شگفتہ ہوں میں جواں کی طرح

نہیں ہے چڑچڑا کھوسٹ مرے روئیے میں

 

میں چپکا رہتا ہیں ’کی۔بورڈ‘ سے بہت مسلمؔ

اسی سے آ گئی کھٹ کھٹ مرے روئیے میں

٭٭٭

 

 

 

خوشا کہ ختم ہوا بود و ہست کا احساس

چبھے گا اب نہ کسی بندوبست کا احساس

 

یہ اس کی چیخ اچانک بتا گئی ورنہ

نہیں تھا  مجھ کو خود اپنی گرفت کا احساس

 

یہ تھام لیتا ہے امکانِ فتحِ نو کے قدم

شکست سے بھی برا ہے شکست کا احساس

 

چہار سمت ہیں بس بے حسی کی چٹّانیں

مری صدا کو نہ ہو بازگشت کا احساس

 

غرض ہے لطفِ سفر سے ہمارے قدموں کو

نہ فکرِ جادہ و منزل نہ سمت کا احساس

٭٭٭

 

 

 

یہ وقت وہ ہے جب طلبِ جام بہت ہے

جانکاہ تری یاد سرِ شام بہت ہے

 

اچھا ہے کہ ہم پر ہے ترے عشق کی تہمت

جینے کے لئے بس یہی الزام بہت ہے

 

اندازہ یہ ہوتا ہے کہ کل عید ہے شاید

کیوں آج یہ اک نور لبِ بام بہت ہے

 

اب آؤ چلو ہم بھی ذرا دیکھیں تماشہ

ہمسایہ کے  گھر دیر سے کہرام بہت ہے

 

اپنے وطنِ ثانی میں مسرور ہے مسلمؔ

بھوپال میں رہ کر اسے آرام بہت ہے

٭٭٭

 

 

 

زندگی بندگی ہو گئی ہے

زندگی زندگی ہو گئی ہے

 

یاد سے اس کی قلب و نظر میں

دور تک روشنی ہو گئی ہے

 

مل گیا ہے ہدف اپنی جاں کا

ختم اب بے بسی ہو گئی ہے

 

تذکرہ تھا کتابوں میں جس کا

یہ گھڑی وہ گھڑی ہو گئی ہے

 

دیکھئے ساتھ رہتا ہے کب تک

دوستی عارضی ہو گئی ہے

 

شور سینے میں کرتی تھی جو شئے

خامشی سے تری ہو گئی ہے

 

ٹھیک تھے تیرے آنے سے پہلے

بس یہ حالت ابھی ہو گئی ہے

 

چاند کیسا یہ ظلمت میں نکلا

ضو فشاں  تیرگی ہو گئی ہے

 

آج پستی بلندی پہ مسلمؔ

کیسے ہنس کر کھڑی ہو گئی ہے

٭٭٭

 

 

 

کس قدر بے خوف تھے ہم دشمنوں کے درمیاں

سازشوں میں گھر گئے ہیں دوستوں کے درمیاں

 

ہے یہ اک مٹتی ہوئی تہذیب کا اندازِ عشق

وہ جو دو آنکھیں ہیں روشن جالیوں کے درمیاں

 

مدتوں سے اک جہانِ وہم بھی آباد ہے

ہم اکیلے ہی نہیں ہیں فاصلوں کے درمیاں

 

غیر سے منسوب تھی ساری پسند و نا پسند

چند لمحے تھے بس اپنے مدتوں کے درمیاں

 

امن ہے سستی کا باعث خواب آور ہے سکوں

ذہن کھلتا ہے جہاں کا حادثوں کے درمیاں

٭٭٭

 

 

 

خاموشی سے ہر رازِ نہاں کھول رہا ہے

وہ صرف تبسم کی زباں بول رہا ہے

 

صیادو مبارک ہو چلو دام بچھاؤ

سینے میں پرندہ کوئی پر تول رہا ہے

 

وہ زیست کے پیالے میں کہیں زہر نہ بھر دے

کانوں میں جو آواز کا رس گھول رہا ہے

 

تہذیب کی پوشاک سے جسموں کو سجا کر

بستی میں درندوں کا کوئی غول رہا ہے

 

الفت بھی عجب شئے ہے، وہ خاموش ہے، لیکن

اس شوق کا ہر عضوِ بدن بول رہا ہے

 

الفاظ یہ کس کے ہیں مجھے خوب پتہ ہے

یہ آپ نہیں اور کوئی بول رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

مجھے لگا کہ کوئی بلبلہ سا پھوٹ گیا

وہ کہہ رہے ہیں کہ تارِ حیات ٹوٹ گیا

 

جنون و عقل کے گرداب سے نکل آئے

جب اپنے ہاتھ ہے دامن ہمارا چھوٹ گیا

 

تھا انحطاط کا اعلان نقطۂ آغاز

وجود پاتے ہی انسان ٹوٹ پھوٹ گیا

 

وہ کام آیا کہ سہمے ہوئے تھے جس سے ہم

گمان جس پہ نہیں تھا وہ ہم کو لوٹ گیا

 

اک عمر ہم نے گذاری کہانیاں سنتے

نہ سچ کا بول ہی بالا ہوا نہ جھوٹ گیا

٭٭٭

 

 

 

کچھ اس طرح فرارِ غم کی راہ ڈھونڈتا رہا

مرا جنوں  نئے نئے گناہ ڈھونڈتا رہا

 

تمام آرزوئیں دوزخوں کی نذر ہو گئیں

تمام عمر جنتوں کی راہ ڈھونڈتا رہا

 

مصیبتوں سے ہارنا مرا مزاج ہی نہ تھا

مسرتوں کے لمحے گاہ گاہ ڈھونڈتا رہا

 

نئے نئے کھلونے چاہتا تھا قلبِ مضطرب

زمیں تو کیا نجوم و مہر و ماہ ڈھونڈتا رہا

 

اماں ملی  ہے جب سے ہو گیا ہوں اسلحہ بکف

کہاں سکوں ملا کہ جب پناہ ڈھونڈتا رہا

٭٭٭

 

 

اپنا سبک وجود بھی ہم پر گراں سا ہے

جینے کا حوصلہ مگر اب بھی جواں سا ہے

 

ٹوٹی ہے گر کے چیز کوئی بارہا مگر

سر پر محیط اب بھی وہی آسماں سا ہے

 

کب تک یہ حفظ لاشۂ بے جاں فراعنہ!

مستقبلِ وجود بہت بے نشاں سا ہے

 

روحوں کے اختلاط میں مشکل نہیں کوئی

اس کا حسین جسم مگر درمیاں سا ہے

 

دل ہے سرشتِ آدمِ خاکی سے با خبر

بد ظن ہے سب سے خود سے بھی کچھ بدگماں سا  ہے

 

محدود وسعتیں بھی مجھے دے گئیں شکست

صحرا بوجہِ لغزشِ پا بے کراں سا ہے

٭٭٭

 

 

 

وہ ہیں خوش یا خفا سمجھنے لگے

ان کی اک اک ادا سمجھنے لگے

 

آئینے سے نہیں ہٹاتے نظر

خود کو کیا جانے کیا سمجھنے لگے

 

ان کو کیا دے دیا خدا نے کچھ

وہ تو خود کو خدا سمجھنے لگے

 

اس نے جو دے  دیا سیاست سے

ہم اسی کو دوا سمجھنے لگے

 

اس کے بے ساختہ تبسم کو

مژدۂ سلسلہ سمجھنے لگے

 

منزلِ انتہا پہ آ کر ہم

عشق ہوتا ہے کیا سمجھنے لگے

 

اپنا اقبالؔ ہو رہا ہے بلند

شرحِ بانگِ  درا سمجھنے لگے

 

میرؔ آ کر تمہارے قدموں میں

شعرِ  نشتر ہے کیا سمجھنے لگے

 

جاگو مسلمؔ کہ یہ تو صحرا ہے

تم جسے راستہ سمجھنے لگے

٭٭٭

 

 

 

سانسوں کے تانے بانے میں نا مطمئن سا ہے

دل ایسے سردخانے میں نا مطمئن سا ہے

 

کس دن بساطِ زیست پلٹ جائے کیا خبر

ہر مہرہ اپنے خانے میں نا مطمئن سا ہے

 

ہر چند مٹ چکا ہے ہمارا وجود بھی

وہ ہم کو آزمانے میں نا مطمئن سا ہے

 

ڈالے کمند کیوں نہ ستاروں پہ آدمی

قیدی ہے قید خانے میں نا مطمئن سا ہے

٭٭٭

 

 

 

سورج کو نگل جاتا ہے بدنام سمندر

ہوتا ہے خطرناک سر شام سمندر

 

انساں کی کہانی ہے کہ دریا کہ روانی

آغاز سمندر ہے اور انجام سمندر

 

ملاح کو کھینے کا سلیقہ بھی نہیں تھا

کچھ یوں بھی ہے پہلے ہی سے بدنام سمندر

 

وہ بوند کہاں ہے کہ مری پیاس بجھائے

صحرا ہے کہ بکھرا ہے  بہر گام سمندر

 

کشتی مری ساحل سے ہم آغوش ہوئی جب

سر اپنا پٹکنے لگا ناکام سمندر

٭٭٭

 

 

 

 

ختم ہو جائے گا سرمایہِ جاں کتنا ہے

اپنے ہونے کا مگر مجھ کو گماں کتنا ہے

 

استفادہ تپشِ دل سے کیا لوگوں نے

آگ دیکھی نہ یہ دیکھا کہ دھواں کتنا ہے

 

پہلے مرنے کا کوئی خوف نہیں تھا مجھ کو

تم  کو پایا ہے تو اندیشۂ جاں کتنا ہے

 

سب یہی کہتے ہیں روداد ہماری سن کر

بات مہمل ہے مگر زور بیاں کتنا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کہیں سے دیکھو بدلتی نہیں جہاتِ وجود

ہزار آئینے ہیں اور ایک ذاتِ وجود

 

نہ اختتام ہے اس کا نہ ابتدا کوئی

ازل سے جاری و ساری ہے کائناتِ وجود

 

جو ایک بار بنا پھر وہ مٹ نہیں سکتا

بدلتی رہتی ہیں اشکال و ماہیاتِ  وجود

 

کتابِ جنبش و حرکت فضا میں ہے موجود

ہر اک ورق پہ رقم ہیں نگارشاتِ وجود

 

وجود ہی سے تو آباد ہے جہانِ عدم

ہے ایک وقفہ جو ہے پردۂ مماتِ وجود

 

بقائے چشمۂ انسانیت حسین سے ہے

بفیضِ تشنہ لباں ہے رواں  فراتِ وجود

٭٭٭

 

 

 

 

نہ احتیاط و تکلف نہ انضباطِ وجود

وفورِ جذب اگر ہو تو ہے نشاطِ وجود

 

ہر ایک خلق کو بخشا گیا وجودِ محض

وہ ہم ہیں جن کو ملا کیف و انبساطِ وجود

 

جو ہے وجود وہی خالقِ وجود بھی ہے

بچھاتا رہتا ہے ہر دم نئی بساطِ وجود

 

خود اپنے آپ ہی ابنِ سبیل بھٹکا ہے

وگرنہ سیدھی تھی اور اب بھی ہے صراطِ وجود

٭٭٭

 

 

 

 

تقاضے وقت کے پیہم بدلتے رہتے ہیں

ضروریات کے موسم بدلتے رہتے ہیں

 

کبھی ہے طنز کبھی قہقہہ کبھی آنسو

ہماری یاس کے عالم بدلتے رہتے ہیں

 

کبھی سرور کبھی سیر اور ساز کبھی

ہم اپنے زخم کے مرہم  بدلتے رہتے ہیں

 

ہے راگ دل کے تقاضے ایک ہی لیکن

وہ اپنے وعدوں کی سرگم بدلتے رہتے ہیں

 

ہمیشہ جیتنے والوں کی صف میں رہنا ہے

اسی لئے تو وہ پرچم بدلتے رہتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

قربت ہمیں نہ بخشئے احسان کی طرح

منظور ہم کو پیار نہیں دان کی طرح

 

وہ کامیاب ٹھہرے تجارت میں عشق کی

جو حسن کو سمجھتے ہیں سامان کی طرح

 

یہ آخری سہارا ہے ساقی ذرا سنبھل

پیمانہ ٹوٹ جائے نہ پیمان کی طرح

 

مخلص تھے جنّتوں سے کیا سب کو ہمکنار

محروم خود ہی رہ گئے رضوان کی طرح

٭٭٭

 

 

 

 

مجھ سے زیادہ وہ مری پہچان سے ملا

جو آیا میرے گھر مرے سامان سے ملا

 

جب بھی میں اپنے وقت کے خاقان سے ملا

سر تھا بلند میرا، میں اس شان سے ملا

 

عاجز میں اپنی جان سے وہ اپنی زلف سے

اک خستہ حال ایک پریشان سے ملا

 

مدّت سے بحرِ شوق بہت پُر سکون ہے

تو اس کو اپنے جسم کے طوفان سے ملا

 

رہ کر وہاں وہ اور بھی بے باک ہو گیا

الٹا ہی کچھ سبق اسے زندان سے ملا

٭٭٭

 

 

 

 

وہ کسی شخص کی مجبوری بھی ہو سکتی ہے

لوگ جس چیز کو کردار سمجھ لیتے ہیں

 

ہے ہمارے ہی لئے خود کو سمجھنا مشکل

ہم کہ سرگوشیِ دیوار سمجھ لیتے ہیں

 

مسلے جانے سے تو بچ جاتے ہیں گل ہو کر بھی

توڑنے والے ہمیں خار سمجھ لیتے ہیں

 

مشغلہ زہرہ جبینوں کا اداکاری ہے

اور اس کھیل کو ہم پیار سمجھ لیتے ہیں

 

وار تعریف کا خالی نہیں جاتا ہے کبھی

سب منافق کو وفادار سمجھ لیتے ہیں

 

اہلِ باطن کبھی تقسیم نہیں ہو سکتے

سازشِ جبۂ و  دستار سمجھ لیتے ہیں

 

ہم گوئیے ہیں مگر اپنے ترنم کے سبب

سننے والے ہمیں فنکار سمجھ لیتے ہیں

 

جلد کھل جانے کی کوشش جو کیا کرتا ہے

سب اسے اور پراسرار سمجھ لیتے ہیں

 

جیب کی کس کو خبر سب مری خوش پوشی سے

جھک کے مل لیتے ہیں ، زر دار سمجھ لیتے ہیں

 

اور جب موج میں آتی ہے طبیعت مسلمؔ

کسی قہار کو غفار سمجھ لیتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

معمول کی حدود سے نکلا نہ کیجئے

جینے کی آرزو ہے تو سوچا نہ کیجئے

 

بچوں کو ہونے دیجئے احساس دھوپ کو

نشوونما نہ روکئے سایہ نہ کیجئے

 

ظالم پہ مہرِ عدل لگا دی عوام نے

چپ ہو کے بیٹھ رہئے تماشا نہ کیجئے

 

کھو جانے دیجئے مجھے باطن کے حسن میں

نظریں ذرا اٹھائیے پردا نہ کیجئے

 

ناقابلِ حصول کوئی شئے نہ دکھ پڑے

منظر کو دل کی آنکھ سے دیکھا نہ کیجئے

٭٭٭

 

 

 

 

خود اپنے ہی ہاتھوں سے دل میں نشتر سے چبھو کر رہتے ہیں

رشتوں کے ہار میں پھول نہیں کانٹے بھی پرو کر رہتے ہیں

 

گرداب سے لڑنا ہے آساں سیلاب سے بچنا ہے ممکن

ساحل سے جو طوفاں اٹھتے ہیں کشتی کو ڈبو کر رہتے ہیں

 

جیون کے کسی دوراہے پر تم ہم کو ملو گے کیا تھی خبر

تقدیر میں جو کچھ لکھے ہیں وہ حادثے ہو کر رہتے ہیں

 

پھر آیا ہے رم جھم کا موسم یادوں کی گھٹا گھنگھور ہوئی

یہ بادل جب بھی اٹھتے ہیں پلکوں کو بھگو کر رہتے ہیں

 

منزل پہ وہی تو پہنچیں گے ہو جن کا سفر منزل کے لئے

چلنا ہی جن کی منزل ہو وہ قافلے کھو کر رہتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

یخ ہواؤں میں تو وہ جاں سے گذر جائے گا

میرے اندر یہ جو انسان ہے مر جائے گا

 

میرے احباب جب آئیں گے ہوا کی زد پر

مجھ کو معلوم نہیں کون کدھر جائے گا

 

رہ میں تنہائی کا احساس نہ ہو گا مجھ کو

میرے ہمراہ مرا ذوقِ سفر جائے گا

 

کچھ دنوں کا ہے خدا اس کو بھلا کیا پوجیں

وہ تو چڑھتا ہوا سورج ہے اتر جائے گا

 

جمع کرتے رہو شیرازۂ اسبابِ حیات

اس کی تقدیر بکھرنا ہے بکھر جائے گا

٭٭٭

 

 

تقدیر کی مجھ سے یونہی تکرار چلے گی

میں سائے میں بیٹھوں گا تو دیوار چلے گی

 

چمنی سے ابلتی ہے وہ زنجیر دھوئیں کی

آزاد ہوا اب سے گرفتار چلے گی

 

تقدیر پہ انگلی کوئی ہرگز نہ اٹھائے

کس سمت ہوا کیا خبر اس بار چلے گی

 

سمجھوتے کی زنجیر نہ پہناؤ انا کو

ہمراہ سدا طنز کی جھنکار چلے گی

 

جب پڑ کے الٹ جائے گی دولت کی زرہ پر

مفلس ہی پہ حالات کی تلوار چلے گی

 

اے تشنہ لباں مژدہ ہے آرام سے بیٹھو

خود جوئے رواں سوئے طلبگار چلے گی

٭٭٭

 

 

 

ہر گام پہ اندیشۂ آزار بہت ہے

ہم کو بھی مگر نشّۂ کردار بہت ہے

 

چہرے کے تاثر کس یقیں کیسے کریں ہم

اس دور میں ہر شخص اداکار بہت ہے

 

انسان پہ کس درجہ حکومت ہے غرض کی

مطلب ہو تو دیوانہ بھی ہشیار بہت ہے

 

پھرتا ہے گلی کوچوں میں وہ خاک اڑاتا

آزادی کے دھوکے میں گرفتار بہت ہے

٭٭٭

 

 

 

یوں ہی جینا اگر ہے مر مر کے

دیکھئے کوئی تجربہ کر کے

 

یہ حسیں بت ہیں سنگِ مر مر کے

آخرش ہیں تو یہ بھی پتھر کے

 

ہونگے چرچے جہاں  کہیں سر کے

نام آ جائیں گے بہتّر کے

 

میں کہاں اور آپ  کس گھر کے

ہمنشیں کھیل ہیں مقدر کے

 

اک ذرا کیا تھکے مرے بازو

حوصلے  بڑھ گئے سمندر کے!

 

آج کوئی ادھر نہیں آیا

کب سے ہم منتظر ہیں پتھر کے

 

کیا زمانہ تھا پارک میں مسلمؔ

ساتھ ہوتے تھے جب گلِ تر کے

٭٭٭

 

 

 

دوست یوں جلاتے ہیں ، ایسے خوں رلاتے ہیں

محفلیں سجاتے ہیں ، ہم کو بھول جاتے ہیں

 

ان کو شرم آتی ہے ہم کو جب بلاتے ہیں

منہ سے کچھ نہیں کہتے، چوڑیاں بجاتے ہیں

 

لوگ سب تھکے ہارے وقت یوں بتاتے ہیں

داستان سنتے ہیں ، داستاں سناتے ہیں

 

کیمپس کی یادیں سب اپنے ساتھ لاتے ہیں

لوگ جب علی گڑھ سے ہم سے ملنے آتے ہیں

 

ہر طرف چلن ہے اب، جب بھی گھر سے جاتے ہیں

لوگ آستینوں میں اپنی کچھ چھپاتے ہیں

 

اپنی تو بہار آمد، اس کی آمد آمد ہے

جسم و دل کے دروازے آج ہم سجاتے ہیں

 

اب مزا ہے جینے کا اس کے رنگ میں رنگ کر

رنگ کچھ اڑاتے ہیں ، رنگ کچھ جماتے ہیں

 

فطرتی تھے کتنے ہم مسلمؔ اپنے بچپن میں

جب بزرگ ملتے ہیں ہم کو سب بتاتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

چھوٹی سی رکاوٹ ہے دیوار نہ مانوں گا

میں ہار نہیں مانا، میں ہار نہ مانوں گا

 

اخبار کے باعث ہوں ہشیار نہ مانوں گا

میں رہبرِ رہزن کو سالار نہ مانوں گا

 

دامن پہ، دہن پر کیا یہ دودھ کے دھبّے ہیں ؟

کیوں وہم ہے پھر تم کو خونخوار نہ مانوں گا

 

آزارِ زمانہ کو آزار توسمجھوں گا

جوتم نے دئے ان کو آزار نہ مانوں گا

 

اس جگہ وہ صدیوں تک محبوب سے ملتا تھا

مسلمؔ کے سوا اس پر حقدار نہ مانوں گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تمہارے حسن کی تمثیل شاعری میری

جنوں کے حکم کی تعمیل شاعری میری

 

کوئی صحیفہ نہ تنزیل شاعری میری

مگر ہے واجبِ ترتیل شاعری میری

 

ہر اک خیال کی تصویر اس میں ملتی ہے

نگار خانہِ تخئیل شاعری میری

 

ہے آبشار کبھی اور کبھی ہے جوئے رواں

بھی ہے ٹھہری ہوئی جھیل شاعری میری

 

شراب اور بھی غم کو ابھار دیتی ہے

دکھوں کو کرتی ہے تحلیل شاعری میری

 

غرض نہیں ہے زمانے کی داد سے مسلمؔ

مرے وجود کی تکمیل شاعری میری

٭٭٭

 

 

 

 

مصلحت اور برائی سے نبھانے والا

ہاں نہیں مجھ میں یہ انداز زمانے والا

 

اس کو بھی مار گیا جذبۂ ایثار و خلوص

خود بھی تیراک نہ تھا مجھ کو بچانے والا

 

اس لئے خیمۂ سفاک میں ہے جشنِ ظفر

گر گیا آج وہ گرتوں کو اٹھانے والا

 

کوئی دستک نہ کوئی شور نہ آہٹ، دل میں

یوں دبے پاؤں چلا آتا ہے آنے والا

 

داستاں خود کو کہلواتی رہے گی یونہی

ایک جائے گا اک آئے گا سنانے والا

٭٭٭

 

 

 

 

جس جانب بھی قدم نکالا دشمن ہے

ہر کوچے میں ہم نے پالا دشمن ہے

 

کچھ حکمت ہے یا پھر کوئی مجبوری

بیٹھا اس بزم میں بالا دشمن ہے

 

عرصے بعد ملا اک پنچنگ بیگ ہمیں

شکر یہ ہے کہ وہ ہمت والا دشمن ہے

 

دن ڈستا ہے رات جراحت دیتی ہے

گورا دشمن ہے اور کالا دشمن ہے

 

راہ بری کرتا ہے نکتہ چینی سے

دوست سے بڑھ کر وہ متوالا دشمن ہے

 

دوری ہم نے ان سے قائم رکھی ہے

مئے ہے اپنی دوست نہ پیالہ دشمن ہے

 

اُس سے مسلمؔ مجھے کوئی خوف نہیں

وہ تو میرا دیکھا بھالا دشمن ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کچھ اس خوبی سے ہم نے گل کھلائے

زباں چپ تھی، قلم نے گل کھلائے

 

گلستاں ہو گیا کانٹوں کا جنگل

ہمارے ہر قدم نے گل کھلائے

 

رواں تھی راہ پھر اک دن اچانک

مری قسمت کے خم نے گل کھلائے

 

ہزاروں آفتیں نازل ہوئی ہیں

یہ کیا تیرے کرم نے گل کھلائے

 

جدا ہیں شعر میرے سب سے مسلمؔ

نئے پن کی قسم نے گل کھلائے

٭٭٭

 

 

 

سمجھوتے کا قائل ہوں رہ رہ کے لچکتا ہوں

اتنا نہ جھکا مجھ کو میں ٹوٹ بھی سکتا ہوں

 

جب اونچے پہاڑوں سے ٹکرا کے پلٹتا ہوں

میدان ہی نیچا ہے میداں پہ برستا ہوں

 

کھائے ہیں فریب اتنے انسان سے ڈرتا ہوں

وحشت میں خود اپنے ہی سائے سے بھڑکتا ہوں

 

یخ بستہ ملاقاتیں رشتے بھی ہیں برفیلے

یہ آگ بھی کیسی ہے میں جس میں سلگتا ہوں

 

کچھ اور ستم اس نے ایجاد کئے ہوں گے

ظالم کے تبسم کو میں خوب سمجھتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

عزیز درّانی

 

 

 

اک درِّ نایابِ ادب، اک گوہرِ نادر و یکتا تھا

جس کی جہاں نے قدر نہ کی درّانی ایسا ہیرا تھا

 

مست قلندر، بے پروا، سرشارِ رضائے مولا تھا

غوث، ولی،ابدال،قطب، اﷲ ہی جانے وہ کیا تھا

 

حسبِ حال کوئی اک شعر وہ مجھ کو دیکھ کے پڑھتا تھا

اس کو سارا حال پتہ ہے اکثر ایسا لگتا تھا

 

اس کا ہی بس ہو جاتا تھا جو بھی اس سے ملتا تھا

نام عزیزؔ تھا اس کا بر حق ہر دل میں وہ رہتا تھا

 

ستواں ناک تھی پتلے لب تھے، جن پہ تبسم رہتا تھا

لمبے لمبے گیسو اس کے اور مخروطی چہرہ تھا

 

۷۰ کے پیٹے میں ہو کر بھی کافی پھرتیلا تھا

لمبے لمبے قدم اٹھا کر اعتماد سے چلتا تھا

 

اب بھی نظریں ڈھونڈھ رہی ہیں اپنے مخلص رہبر کو

جمِّ غفیرِ انسانی میں وہ انسان اکیلا تھا

 

داد نہیں دیتا تھا مجھ کو وہ دانائے شہرِ سخن

لیکن یہ بھی کیا کم تھا وہ شعر مرے سن لیتا تھا

 

تم کو نہیں معلوم کہ یہ اشعار لکھے میں نے کیسے

حرف حرف تھا صرفِ گریہ، لفظ لفظ پر رویا تھا

 

پی ڈبلو ڈی میں رہ کر بھی وہ بے داغ نکل آیا

اس کی دیانت اس کی ثابت قدمی کا کیا کہنا تھا

 

کون یہ کہتا ہے مسلمؔ دنیا میں نہیں ہے درّانی

اب بھی وہ میرے دل میں ہے پہلے بھی دل میں رہتا تھا

٭٭٭

 

 

منافعہ خوروں ، ذخیرہ اندوزوں اور کالے بازاریوں کا ترانہ

 

 

ہر شخص کو منٹوں میں پٹا لیتے ہیں ہم لوگ

باتوں سے جگہ دل میں بنا لیتے ہیں ہم لوگ

خاموشی سے پھر مال اڑا لیتے ہیں ہم لوگ

سرسوں کو ہتھیلی پہ جما لیتے ہیں ہم لوگ

بگڑی ہوئی ہر بات بنا لیتے ہیں ہم لوگ

 

ہم لوگوں سے سیکھے کوئی جینے کا قرینہ

بوتے نہیں بے کار میں ہم نخلِ تمنا

آتا ہے ثمر باری کا جس وقت زمانہ

اوروں کے درختوں کو گرا لیتے ہیں ہم لوگ

بگڑی ہوئی ہر بات بنا لیتے ہیں ہم لوگ

 

 

کرتے ہیں کلرکوں کی شب و روز خوشامد

ہوتی نہیں گر پھر بھی کوئی خاص درآمد

کر لیتے ہیں پھر جیب سے کچھ نوٹ برآمد

روٹھے ہوئے بابو کو منا لیتے ہیں ہم لوگ

بگڑی ہوئی ہر بات بنا لیتے ہیں ہم لوگ

 

کردار سے کچھ خاص نہیں ہم کو لگاوٹ

ہے یہ بھی گنہ کوئی کہ کرتے ہیں ملاوٹ

جس چیز کی سپلائی میں پاتے ہیں گراوٹ

اس چیز کو اس طرح بڑھا لیتے ہیں ہم لوگ

بگڑی ہوئی ہر بات بنا لیتے ہیں ہم لوگ

 

حالات سے سمجھوتے کو تیار ہیں ہر دم

ہم کو تو بہر حال فوائد ہیں مقدم

ذی جاہ و اثر جب کوئی ہو جاتا ہے برہم

اگلے ہوئے لقموں کو چبا لیتے ہیں ہم لوگ

بگڑی ہوئی ہر بات بنا لیتے ہیں ہم لوگ

 

کیا فکر ہے چلتی رہیں لوگوں کی زبانیں

وزراء کے سہارے پہ ہیں قائم یہ دکانیں

ممکن ہے بھلا درد ہمارا وہ نہ جانیں

ان کو بھی ہمدرد بنا لیتے ہیں ہم لوگ

بگڑی ہوئی ہر بات بنا لیتے ہیں ہم لوگ

 

اپنے لئے رحمت ہے تو ان کے لئے مہلک

وہ بھوک کہ ہے جس سے پریشان یہ پبلک

سہ چند ہمیں نفع عطا کرتا ہے مالک

گوداموں میں اجناس چھپا لیتے ہیں ہم لوگ

بگڑی ہوئی ہر بات بنا لیتے ہیں ہم لوگ

٭٭٭

 

 

 

بھوپال گیس حادثہ

 

سنبھال لے کوئی مجھ کو دعا  کے ہاتھوں میں

میں اک کھلونا ہوں پاگل ہوا کے ہاتھوں میں

 

پلا دیا گیا موجِ صبا کو زہر کا جام

تھما دئیے گئے خنجر ہوا کے ہاتھوں میں

 

لکھا تھا از سرِ  نو قصۂ حیات و ممات

بہت روانی تھی اس دن قضا کے ہاتھوں میں

 

وبا وہ پھیلی کہ تشخیص ہو گئی  بوڑھی

یکایک آ گیا رعشہ شفا کے ہاتھوں میں

 

وہی عزیز کہ جو جان سے بھی پیارے تھے

انھیں کو چھوڑ گئے سب فنا کے ہاتھوں میں

٭٭٭

 

 

 

بھوپال گیس حادثہ۔۔۲

 

 

لفظ جامد ہو گئے منظر ٹھہر کر رہ گیا

شعر میں  کیسے  کہوں احساس  ششدر  رہ  گیا

 

زہر گھولا تھا ہواؤں نے فضا میں اس قدر

سانس جس نے زور کی لی آہ بھر کر رہ گیا

 

خوف کے  ماحول میں اہلِ عناں تھے بے لگام

سرد کاریں بھاگ نکلیں گرم بستر رہ گیا

 

ہے یہ سچ چنگیز و نادر تو نہیں آئے یہاں

ہاں مگر اس شہر میں اک دورِ بربر رہ گیا

 

سونپ ڈالا موت کے ہاتھوں کسی نے لختِ دل

اور کسی گھر میں کوئی ماہِ منور رہ گیا

 

آڑ میں مارا گیا جو علم اور تحقیق کی

سینہ انسانیت میں بس وہ خنجر رہ گیا

٭٭٭

 

فائل کی فراہمی کے لئے مصنف کے تشکر کے ساتھ

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید