FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

آدمی دائروں میں رہتا ہے

 

 

 

                صغیر ملال

ماخذ: ’آج‘ کتاب ۱، مدیر: اجمل کمال

 

 

 

 

 

 

وہ حقیقت میں ایک لمحہ تھا

جس کا دورانیہ زمانہ تھا

 

میری نظروں سے گر پڑی ہے زمیں

کیوں بلندی سے اس کو دیکھا تھا

 

کیسی پیوند کار ہے فطرت

منتشر ہو کے بھی میں یکجا تھا

 

روشنی ہے کسی کے ہونے سے

ورنہ بنیاد تو اندھیرا تھا

 

جب بھی دیکھا نیا لگا مجھ کو

کیا تماشا جہانِ کہنہ تھا

 

اس نے محدود کر دیا ہم کو

کوئی ہم سے یہاں زیادہ تھا

 

جب کہ سورج تھا پالنے والا

چاند سے کیا لہو کا رشتہ تھا

 

مر گیا جو بھی اُس کے بارے میں

دھیان پڑتا نہیں کہ زندہ تھا

 

یہیں پیدا یہیں جوان ہوا

اس کے لب پر کہاں کا قصہ تھا

 

کوئی گنجان تھا کوئی ویراں

کوئی جنگل کسی میں صحرا تھا

 

عمر ساری وہ نیند میں بولا

چند لمحوں کو کوئی جاگا تھا

 

کہیں جانے کی سب نے باتیں کیں

کیسے آتے ہیں کون بولا تھا

 

ساری الجھن اسی سے پیدا ہوئی

وہ جو واحد ہے بے تحاشا تھا

 

دوڑتے پھر رہے تھے سارے لوگ

جبکہ ان کو یہیں پہ رہنا تھا

 

تجھ کو لانا حصار میں اپنے

میرا ادنیٰ سا اک کرشمہ تھا

 

فرق گہرائی اور پستی میں

کس بلندی سے دیکھ پایا تھا

 

اس کی تفصیل میں تھا سرگرداں

ذہن میں مختصر سا خاکہ تھا

 

پاس آ کر اسے ہوا معلوم

میں اکیلا نہیں تھا تنہا تھا

 

کتنے فیصد تھے جاگنے والے

کتنے لوگوں کو ہوش آیا تھا

 

کس کو ابن السبیل کہتے ملال

نئے رستوں کا کون بیٹا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

پھر اس کے بعد راستہ ہموار ہو گیا

جب خاک سے خیال نمودار ہو گیا

 

اک داستان گو ہوا ایسا کہ اپنے بعد

ساری کہانیوں کا وہ کردار ہو گیا

 

سایہ نہ دے سکا جسے دیوار کا وجود

اس کا وجود نقش بہ دیوار ہو گیا

 

آنکھیں بلند ہوتے ہی محدود ہو گئیں

نظریں جھکا کے دیکھا تو دیدار ہو گیا

 

وہ دوسرے دیار کی باتوں سے آشنا

وہ اجنبی قبیلے کا سردار ہو گیا

 

سوئے ہوئے کریں گے ملال اس کا تجزیہ

اس خواب گاہ میں کوئی بیدار ہو گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

خود سے نکلوں تو الگ ایک سماں ہوتا ہے

اور گہرائی میں اتروں تو دھواں ہوتا ہے

 

اتنی پیچیدگی نکلی ہے یہاں ہونے میں

اب کوئی چیز نہ ہونے کا گمان ہوتا ہے

 

اک تسلسل کی روایت ہے ہوا سے منسوب

خاک پر اس کا امیں آبِ رواں ہوتا ہے

 

سب سوالوں کے جواب ایک سے ہو سکتے ہیں

ہو تو سکتے ہیں مگر ایسا کہاں ہوتا ہے

 

ساتھ رہ کر بھی یہ اک دوسرے سے ڈرتے ہیں

ایک بستی میں الگ سب کا مکاں ہوتا ہے

 

کیا عجب راز ہے ہوتا ہے وہ خاموش ملال

جس پہ ہونے کا کوئی راز عیاں ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

جب سامنے کی بات ہی الجھی ہوئی ملے

پھر دور دیکھتی ہوئی آنکھوں سے بھی ہو کیا

 

ہاتھوں سے چھو کے پہلے اُجالا کریں تلاش

جب روشنی نہ ہو تو نگاہوں سے بھی ہو کیا

 

حیرت زدہ سے رہتے ہیں اپنے مدار پر

اس کے علاوہ چاند ستاروں سے بھی ہو کیا

 

پاگل نہ ہو تو اور یہ پانی بھی کیا کرے

وحشی نہ ہوں تو اور ہواؤں سے بھی ہو کیا

 

جب دیکھنے لگے کوئی چیزوں کے اُس طرف

آنکھیں بھی تیری کیا کریں باتوں سے بھی ہو کیا

 

یوں تو مجھے بھی شکوہ ہے ان سے مگر ملال

حالات اس طرح کے ہیں لوگوں سے بھی ہو کیا

٭٭٭

 

 

فقط زمین سے رشتے کو استوار کیا

پھر اس کے بعد سفر سب ستارہ وار کیا

 

بس اتنی دیر میں اعداد ہو گئے تبدیل

کہ جتنی دیر میں ہم نے انھیں شمار کیا

 

کبھی کبھی لگی ایسی زمین کی حالت

کہ جیسے اس کو زمانے نے سنگسار کیا

 

جہانِ کہنہ ازل سے تھا یوں تو گرد آلود

کچھ ہم نے خاک اڑا کر یہاں غبار کیا

 

بشر بگاڑے گا ماحول وہ جو اس کے لیے

نہ جانے کتنے زمانوں نے سازگار کیا

 

تمام وہم و گماں ہے تو ہم بھی دھوکا ہیں

اسی خیال سے دنیا کو میں نے پیار کیا

 

نہ سانس لے سکا گہرائیوں میں جب وہ ملال

تو اس کو اپنے جزیرے سے ہمکنار کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

نکل گئے تھے جو صحرا میں اپنے اتنی دور

وہ لوگ کون سے سورج میں جل رہے ہوں گے

 

عدم کی نیند میں سوئے ہوئے کہاں ہیں وہ اب

جو کل وجود کی آنکھوں کو مل رہے ہوں گے

 

ملے نہ ہم کو جواب اپنے جن سوالوں کے

کسی زمانے میں ان کے بھی حل رہے ہوں گے

 

بس اس خیال سے دیکھا تمام لوگوں کو

جو آج ایسے ہیں کیسے وہ کل رہے ہوں گے

 

پھر ابتدا کی طرف ہو گا انتہا کا رخ

ہم ایک دن یہاں شکلیں بدل رہے ہوں گے

 

ملال ایسے کئی لوگ ہوں گے رستے میں

جو تم سے تیز یا آہستہ چل رہے ہوں گے

٭٭٭

 

 

 

 

ایک رہنے سے یہاں وہ ماورا کیسے ہوا

سب سے پہلا آدمی خود سے جدا کیسے ہوا

 

تیرے بارے میں اگر خاموش ہوں میں آج تک

پھر ترے حق میں کسی کا فیصلہ کیسے ہوا

 

ابتدا میں کیسے صحرا کی صدا سمجھی گئی

آخرش سارا زمانہ ہم نوا کیسے ہوا

 

چند ہی تھے لوگ جن کے سامنے کی بات تھی

میں نے ان لوگوں سے خود جا کر سنا کیسے ہوا

 

جبکہ ثابت ہو چکا نقصان ہونے کا ملال

فائدہ کیا سوچنے سے کیوں ہوا کیسے ہوا

٭٭٭

 

 

برائے نام سہی سائباں ضروری ہے

زمین کے لیے اک آسماں ضروری ہے

 

تعجب ان کو ہے کیوں میری خود کلامی پر

ہر آدمی کا کوئی راز داں ضروری ہے

 

ضرورت اس کی ہمیں ہے مگر یہ دھیان رہے

کہاں وہ غیر ضروری کہاں ضروری ہے

 

کہیں پہ نام ہی پہچان کے لیے ہے بہت

کہیں پہ یوں ہے کہ کوئی نشاں ضروری ہے

 

کہانیوں سے ملال ان کو نیند آنے لگی

یہاں پہ اس لیے وہ داستاں ضروری ہے

٭٭٭

 

 

 

الگ ہیں ہم کہ جدا اپنی رہ گزر میں ہیں

وگرنہ لوگ تو سارے اسی سفر میں ہیں

 

ہماری جست نے معزول کر دیا ہم کو

ہم اپنی وسعتوں میں اپنے بام و در میں ہیں

 

یہاں سے ان کے گزرنے کا ایک موسم ہے

یہ لوگ رہتے مگر کون سے نگر میں ہیں

 

جو دربدر ہو وہ کیسے سنبھال سکتا ہے

تری امانتیں جتنی ہیں میرے گھر میں ہیں

 

عجیب طرح کا رشتہ ہے پانیوں سے ملال

جدا جدا سہی سب ایک ہی بھنور میں ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

خاک میں ملتی ہیں کیسے بستیاں معلوم ہو

آنے والوں کو ہماری داستاں معلوم ہو

 

جو اِدھر کا اب نہیں ہے وہ کدھر کا ہو گیا

جو یہاں معدوم ہو جائے کہاں معلوم ہو

 

مرحلہ تسخیر کرنے کا اسے آسان ہے

گر تجھے اپنا بدن سارا جہاں معلوم ہو

 

جو الگ ہو کر چلے سب گھومتے ہیں اس کے گرد

یوں جدا ہو کر گزر کہ درمیاں معلوم ہو

 

کتنی مجبوری ہے لامحدود اور محدود کی

بیکراں جب ہو سکیں تب بیکراں معلوم ہو

 

ایک دم ہو روشنی تو کیا نظر آئے ملال

کیا سمجھ پاؤں جو سب کچھ ناگہاں معلوم ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

کسی انسان کو اپنا نہیں رہنے دیتے

شہر ایسے ہیں کہ تنہا نہیں رہنے دیتے

 

دائرے چند ہیں گردش میں ازل سے جو یہاں

کوئی بھی چیز ہمیشہ نہیں رہنے دیتے

 

کبھی ناکام بھی ہو جاتے ہیں وہ لوگ کہ جو

واپسی کا کوئی رستہ نہیں رہنے دیتے

 

ان سے بچنا کہ بچھاتے ہیں پناہیں پہلے

پھر یہی لوگ کہیں کا نہیں رہنے دیتے

 

پہلے دیتے ہیں دلاسا کہ بہت ہے سب کچھ

اور پھر ہاتھ میں کاسہ نہیں رہنے دیتے

 

جس کو احساس ہو افلاک کی تنہائی کا

دیر تک اس کو اکیلا نہیں رہنے دیتے

 

واقعی نور لیے پھرتے ہیں سر پہ کوئی

اپنے اطراف جو سایہ نہیں رہنے دیتے

 

زندگی پیاری ہے لوگوں کو اگر اتنی ملال

کیوں مسیحاؤں کو زندہ نہیں رہنے دیتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جس کو طے کر نہ سکے آدمی صحرا ہے وہی

اور آخر مرے رستے میں بھی آیا ہے وہی

 

یہ الگ بات کہ ہم رات کو ہی دیکھ سکیں

ورنہ دن کو بھی ستاروں کا تماشا ہے وہی

 

اپنے موسم میں پسند آیا ہے کوئی چہرہ

ورنہ موسم تو بدلتے رہے چہرہ ہے وہی

 

ایک لمحے میں زمانہ ہوا تخلیق ملال

وہی لمحہ ہے یہاں اور زمانہ ہے وہی

٭٭٭

 

 

 

 

 

رات اندر اتر کے دیکھا ہے

کتنا حیران کن تماشا ہے

 

ایک لمحے کو سوچنے والا

ایک عرصے کے بعد بولا ہے

 

میرے بارے میں جو سنا تو نے

میری باتوں کا ایک حصہ ہے

 

شہر والوں کو کیا خبر کہ کوئی

کون سے موسموں میں زندہ ہے

 

جا بسی دور بھائی کی اولاد

اب وہی دوسرا قبیلہ ہے

 

بانٹ لیں گے نئے گھروں والے

اس حویلی کا جو اثاثہ ہے

 

کیوں نہ دنیا میں اپنی ہو وہ مگن

اس نے کب آسمان دیکھا ہے

آخری تجزیہ یہی ہے ملال

آدمی دائروں میں رہتا ہے

٭٭٭

ماخذ: ادبی دنیا ڈاٹ کام

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید