FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

کلیاتِ میر

 

دیوانِ اول ۔ حصہ دوم

 

 

                میر تقی میرؔ

 

 

 

 (۲۳۴)

 

مجھ کو پوچھا بھی نہ یہ کون ہے غم ناک ہنوز

ہو چکے حشر میں پھرتا ہوں جگر چاک ہنوز

اشک کی لغزش مستانہ پہ مت کیجو نظر

دامن دیدۂ گریاں ہے مرا پاک ہنوز

ایک بھی تار گریبان کفن بیچ نہیں

جم ہوئی بیٹھی ہے چھاتی پہ مری خاک ہنوز

بھر نظر دیکھنے پاتا نہیں میں نزع میں بھی

منھ کے تیں پھیرے ہی لیتا ہے وہ بیباک ہنوز

بعد مرنے کے بھی آرام نہیں میرؔ مجھے

اس کے کوچے میں ہے پامال مری خاک ہنوز

۱۶۶۵

(۲۳۵)

 

ہو چکا خون جگر رونا نہیں کچھ کم ہنوز

ہیں مژہ دستور سابق ہی یہ میری نم ہنوز

دل جلوں پر روتے ہیں جن کو ہے کچھ سوز جگر

شمع رکھتی ہے ہماری گور پر ماتم ہنوز

وضع یکساں اس زمانے میں نہیں رہتی کہیں

قد ترا چوگاں رہا ہے کس طرح سے خم ہنوز

آ رہا ہے جی مرا آنکھوں میں اک پل اور ہوں

پر نہیں جاتا کسی کے دیکھنے کا غم ہنوز

وہ جو عالم اس کے اوپر تھا سو خط نے کھو دیا

مبتلا ہے  اس بلا میں میرؔ اک عالم ہنوز

۱۶۷۰

                ردیف س

 

 

(۲۳۶)

 

اے ابر تر تو اور کسی سمت کو برس

اس ملک میں ہماری ہے یہ چشم تر ہی بس

حرماں تو دیکھ پھول بکھیرے تھی کل صبا

اک برگ گل گرا نہ جہاں تھا مرا قفس

مژگاں بھی بہ گئیں مرے رونے سے چشم کی

سیلاب موج مارے تو ٹھہرے ہے کوئی خس

مجنوں کا دل ہوں محمل لیلیٰ سے ہوں جدا

تنہا پھروں ہوں دشت میں جوں نالۂ جرس

اے گریہ اس کے دل میں اثر خوب ہی کیا

روتا ہوں جب میں سامنے اس کے تودے ہے ہنس

۱۶۷۵

اس کی زباں کے عہدے سے کیونکر نکل سکوں

کہتا ہوں ایک میں تو سناتا ہے مجھ کو دس

حیراں ہوں میرؔ نزع میں اب کیا کروں بھلا

احوال دل بہت ہے مجھے فرصت اک نفس

 

(۲۳۷)

 

کیونکے نکلا جائے بحر غم سے مجھ بے دل کے پاس

آ کے ڈوبی جاتی ہے کشتی مری ساحل کے پاس

ہے پریشاں دشت میں کس کا غبار ناتواں

گرد کچھ گستاخ آتی ہے چلی محمل کے پاس

گرم ہو گا حشر کو ہنگامۂ دعویٰ بہت

کاشکے مجھ کو نہ لے جاویں مرے قاتل کے پاس

۱۶۸۰

دور اس سے جوں ہوا دل پر بلا ہے مضطرب

اس طرح تڑپا نہیں جاتا کسو بسمل کے پاس

بوئے خوں آتی ہے باد صبح گاہی سے مجھے

نکلی ہے بے درد شاید ہو کسو گھائل کے پاس

آہ نالے مت کیا کر اس قدر بیتاب ہو

اے ستم کش میرؔ ظالم ہے جگر بھی دل کے پاس

 

(۲۳۸)

 

مر گیا میں ملا نہ یار افسوس

آہ افسوس صد ہزار افسوس

ہم تو ملتے تھے جب اہا ہاہا

نہ رہا وو ہی روزگار افسوس

۱۶۸۵

یوں گنواتا ہے دل کوئی مجھ کو

یہی آتا ہے بار بار افسوس

قتل کر تو ہمیں کرے گا خوشی

یہ توقع تھی تجھ سے یار افسوس

رخصت سیر باغ تک نہ ہوئی

یوں ہی جاتی رہی بہار افسوس

خوب بد عہد تو نہ مل لیکن

میرے تیرے تھا یہ قرار افسوس

خاک پر میرؔ تیری ہوتا ولے

نہ ہوا اتنا اقتدار افسوس

۱۶۹۰

 

                ردیف ش

 

 

(۲۳۹)

 

ہر جزر و مد سے دست و بغل اٹھتے ہیں خروش

کس کا ہے راز بحر میں یارب کہ یہ ہیں جوش

ابروئے کج ہے موج کوئی چشم ہے حباب

موتی کسی کی بات ہے سیپی کسی کا گوش

ان مغبچوں کے کوچے ہی سے میں کیا سلام

کیا مجھ کو طوف کعبہ سے میں رند درد نوش

حیرت سے ہووے پرتو مہ نور آئینہ

تو چاندنی میں نکلے اگر ہو سفید پوش

ق

کل ہم نے سیر باغ میں دل ہاتھ سے دیا

اک سادہ گل فروش کا آ کر سبد بدوش

۱۶۹۵

جاتا رہا نگاہ سے جوں موسم بہار

آج اس بغیر داغ جگر ہیں سیاہ پوش

ق

شب اس دل گرفتہ کو وا کر بزور مے

بیٹھے تھے شیرہ خانے میں ہم کتنے ہرزہ کوش

آئی صدا کہ یاد کرو دور رفتہ کو

عبرت بھی ہے ضرور ٹک  اے جمع تیز ہوش

جمشید جس نے وضع کیا جام کیا ہوا

وے صحبتیں کہاں گئیں کیدھر وے نا و نوش

جز لالہ اس کے جام سے پاتے نہیں نشاں

ہے کوکنار اس کی جگہ اب سبوبدوش

۱۷۰۰

جھومے ہے بید جائے جوانان مے گسار

بالائے خم ہے خشت سر پیر مے فروش

میرؔ اس غزل کو خوب کہا تھا ضمیرؔ نے

پر  اے زباں دراز بہت ہو چکی خموش

 

 (۲۴۰)

 

دل تو افگار ہے جگر ہے ریش

اک مصیبت ہے میرے تیں درپیش

پان تو لیتا جا فقیروں کے

برگ سبز است تحفۂ درویش

ایک دم مہر برسوں تک کینہ

یوں ہی گذری ہے اپنی اس کی ہمیش

۱۷۰۵

فکر کر زاد آخرت کا بھی

میرؔ اگر تو ہے عاقبت اندیش

 

                ردیف ص

 

 

(۲۴۱)

 

شیخ ہو دشمن زن رقاص

کیوں نہ القاص لایحب القاص

 

                ردیف ض

 

 

(۲۴۲)

 

سال میں ابر بہاری تجھ سے اک باری ہے فیض

چشم نم دیدہ سے عاشق کی سدا جاری ہے فیض

 

                ردیف ط

 

 

(۲۴۳)

 

 

سب سے آئینہ نمط رکھتے ہیں خوباں اختلاط

ہوتے ہیں یہ لوگ بھی کتنے پریشاں اختلاط

تنگ آیا ہوں میں رشک تنگ پوشی سے تری

اس تن نازک سے یہ جامے کو چسپاں اختلاط

۱۷۱۰

 

                ردیف ظ

 

 

(۲۴۴)

 

غیر مجھ کو جو کہتے ہیں محظوظ

تجھ سے ملتے ہیں رہتے ہیں محظوظ

 

                ردیف ع

 

 

(۲۴۵)

 

سب پہ روشن ہے کہ شب مجلس میں جب آتی ہے شمع

اس بھبھوکے سے کو بیٹھا دیکھ جل جاتی ہے شمع

 

(۲۴۶)

 

یوں جلا ڈالا کہ کچھ روشن نہ ہوئی تقریر شمع

واہ وا رے آتش جاں سوز پھر تاثیر شمع

 

                ردیف غ

 

 

(۲۴۷)

 

ہم اور تیری گلی سے سفر دروغ دروغ

کہاں دماغ ہمیں اس قدر دروغ دروغ

تم اور ہم سے محبت تمھیں خلاف خلاف

ہم اور الفت خوب دگر دروغ دروغ

۱۷۱۵

غلط غلط کہ رہیں تم سے ہم تنک غافل

تم اور پوچھو ہماری خبر دروغ دروغ

فروغ کچھ نہیں دعوے کو صبح صادق کے

شب فراق کو کب ہے سحر دروغ دروغ

کسو کے کہنے سے مت بدگماں ہو میرؔ سے تو

وہ اور اس کو کسو پر نظر دروغ دروغ

 

 (۲۴۸)

 

شیخ سچ خوب ہے بہشت کا باغ

جائیں گے گر وفا کرے گا دماغ

 

                ردیف ف

 

 

(۲۴۹)

 

آج کل کاہے کو بتلاتے ہو گستاخی معاف

راستی یہ ہے کہ وعدے ہیں تمھارے سب خلاف

۱۷۲۰

آہ برچھی سی لگی تھی تیر سی دل کی طپش

ہجر کی شب مجھ پہ گذری غیرت روز مصاف

ایک دن میں نے لکھا تھا اس کو اپنا درد دل

آج تک جاتا نہیں سینے سے خامے کے شگاف

پاؤں پر سے اپنے میرا سر اٹھانے مت جھکو

تیغ باندھی ہے میاں تم نے کمر میں خوش غلاف

صف الٹ جا عاشقوں کی گر ترے ابرو ہلیں

ایک دم تلوار کے چلنے میں ہووے ملک صاف

شیخ مت روکش ہو مستوں کا تو اس جبے اپر

لیتے استنجے کو ڈھیلا تیری ٹل جاتی ہے ناف

۱۷۲۵

عشق کے بازار میں سودا نہ کیجو تو تو میرؔ

سر کو جب واں بیچ چکتے ہیں تو یہ ہے دست لاف

 

 (۲۵۰)

 

غالب ہے تیرے عہد میں بیداد کی طرف

ہر خوں گرفتہ جائے ہے جلاد کی طرف

کن نے لیا ہے تم سے مچلکا کہ داد دو

ٹک کان ہی رکھا کرو فریاد کی طرف

ہر تار زلف قیمت فردوس ہے ترا

کرتا ہے کون طرۂ شمشاد کی طرف

ہم نے تو پر فشانی نہ جانی کہ ایک بار

پرواز کی چمن سے سو صیاد کی طرف

۱۷۳۰

حیران کار عشق ہے شیریں کا نقش میرؔ

کچھ یوں ہی دیکھتا نہیں فرہاد کی طرف

 

 (۲۵۱)

 

جو دیکھو مرے شعر تر کی طرف

تو مائل نہ ہو پھر گہر کی طرف

کوئی داد دل آہ کس سے کرے

ہر اک ہے سو اس فتنہ گر کی طرف

محبت نے شاید کہ دی دل کو آگ

دھواں سا ہے کچھ اس نگر کی طرف

لگیں ہیں ہزاروں ہی آنکھیں ادھر

اک آشوب ہے اس کے گھر کی طرف

۱۷۳۵

بہت رنگ ملتا ہے دیکھو کبھو

ہماری طرف سے سحر کی طرف

بخود کس کو اس تاب رخ نے رکھا

کرے کون شمس و قمر کی طرف

نہ سمجھا گیا ابر کیا دیکھ کر

ہوا تھا مری چشم تر کی طرف

ٹپکتا ہے پلکوں سے خوں متصل

نہیں دیکھتے ہم جگر کی طرف

مناسب نہیں حال عاشق سے صبر

رکھے ہے یہ دارو ضرر کی طرف

۱۷۴۰

کسے منزل دلکش دہر میں

نہیں میل خاطر سفر کی طرف

رگ جاں کب آتی ہے آنکھوں میں میرؔ

گئے ہیں مزاج اس کمر کی طرف

 

                ردیف ق

 

(۲۵۲)

 

درد ہی خود ہے خود دوا ہے عشق

شیخ کیا جانے تو کہ کیا ہے عشق

تو نہ ہووے تو نظم کل اٹھ جائے

سچے ہیں شاعراں خدا ہے عشق

 

                ردیف ک

 

 

(۲۵۳)

 

بے چین مجھ کو چاہتا ہر دم ہے زیر خاک

چھاتی پہ بعد مرگ بھی دل جم ہے زیر خاک

۱۷۴۵

آسودگی جو چاہے تو مرنے پہ دل کو رکھ

آشفتگی طبع بہت کم ہے زیر خاک

تنہا تو اپنی گور میں رہنے پہ بعد مرگ

مت اضطراب کریو کہ عالم ہے زیر خاک

مجنوں نہ تھا کہ جس کے تئیں سونپ کر مروں

آشفتگی کا مجھ کو نپٹ غم ہے زیر خاک

رویا تھا نزع میں میں اسے یاد کر بہت

اب تک مری ہر ایک مژہ نم ہے زیر خاک

کیا آسماں پہ کھینچے کوئی میرؔ آپ کو

جانا جہاں سے سب کو مسلم ہے زیر خاک

۱۷۵۰

 (۲۵۴)

 

اب وہ نہیں کہ شورش رہتی تھی آسماں تک

آشوب نالہ اب تو پہنچا ہے لامکاں تک

بہ بھی گیا بدن کا سب ہوکے گوشت پانی

اب کارد  اے عزیزاں پہنچی ہے استخواں تک

تصویر کی سی شمعیں خاموش جلتے ہیں ہم

سوز دروں ہمارا آتا نہیں زباں تک

روتے پھرے ہیں لوہو یک عمر اس گلی میں

باغ و بہار ہی ہے جاوے نظر جہاں تک

آنکھیں جو روتے روتے جاتی رہیں بجا ہے

انصاف کر کہ کوئی دیکھے ستم کہاں تک

۱۷۵۵

بے لطف تیرے کیونکر تجھ تک پہنچ سکیں ہم

ہیں سنگ راہ اپنی کتنے یہاں سے واں تک

ہم بے نصیب سر کو پتھر سے کیوں نہ پھوڑیں

پہنچا کبھو نہ جبہ اس سنگ آستاں تک

مانند طیر نو پر اٹھے جہاں گئے ہم

دشوار ہے ہمارا آنا پھر آشیاں تک

تن کام میں ہمارے دیتا نہیں وہی کچھ

حاضر ہیں میرؔ ہم تو اپنی طرف سے جاں تک

 

(۲۵۵)

 

ہیں بعد مرے مرگ کے آثار سے اب تک

سوکھا نہیں لوہو در و دیوار سے اب تک

۱۷۶۰

رنگینی عشق اس کے ملے پر ہوئی معلوم

صحبت نہ ہوئی تھی کسی خونخوار سے اب تک

کب سے متحمل ہے جفاؤں کا دل زار

زنہار وفا ہو نہ سکی یار سے اب تک

ابرو ہی کی جنبش نے یہ ستھراؤ کیے ہیں

مارا نہیں ان نے کوئی تلوار سے اب تک

وعدہ بھی قیامت کا بھلا کوئی ہے وعدہ

پر دل نہیں خالی غم دیدار سے اب تک

مدت ہوئی گھٹ گھٹ کے ہمیں شہر میں مرتے

واقف نہ ہوا کوئی اس اسرار سے اب تک

۱۷۶۵

برسوں ہوئے دل سوختہ بلبل کو موئے لیک

اک دود سا اٹھتا ہے چمن زار سے اب تک

کیا جانیے ہوتے ہیں سخن لطف کے کیسے

پوچھا نہیں ان نے تو ہمیں پیار سے اب تک

اس باغ میں اغلب ہے کہ سرزد نہ ہوا ہو

یوں نالہ کسو مرغ گرفتار سے اب تک

خط آئے پہ بھی دن ہے سیہ تم سے ہمارا

جاتا نہیں اندھیر یہ سرکار سے اب تک

نکلا تھا کہیں وہ گل نازک شب مہ میں

سو کوفت نہیں جاتی ہے رخسار سے اب تک

۱۷۷۰

دیکھا تھا کہیں سایہ ترے قد کا چمن میں

ہیں میرؔ جی آوارہ پری دار سے اب تک

 

(۲۵۶)

 

میرؔ گم کردہ چمن زمزمہ پرداز ہے ایک

جس کی لے دام سے تا گوش گل آواز ہے ایک

کچھ ہو  اے مرغ قفس لطف نہ جاوے اس سے

نوحہ یا نالہ ہر اک بات کا انداز ہے ایک

ناتوانی سے نہیں بال فشانی کا دماغ

ورنہ تا باغ قفس سے مری پرواز ہے ایک

گوش کو ہوش کے ٹک کھول کے سن شور جہاں

سب کی آواز کے پردے میں سخن ساز ہے ایک

۱۷۷۵

چاہے جس شکل سے تمثال صفت اس میں در آ

عالم آئینے کے مانند در باز ہے ایک

 

 (۲۵۷)

 

بالیں پہ میری آوے گا تو گھر سے جب تلک

کر جاؤں گا سفر ہی میں دنیا سے تب تلک

اتنا دن اور دل سے طپش کر لے کاوشیں

یہ مجہلہ تمام ہی ہے آج شب تلک

نقاش کیونکے کھینچ چکا تو شبیہ یار

کھینچوں ہوں ایک ناز ہی اس کا میں اب تلک

شب کوتہ اور قصہ مری جان کا دراز

القصہ اب کہا کروں تجھ سے میں کب تلک

۱۷۸۰

باقی یہ داستان ہے اور کل کی رات ہے

گر جان میری میرؔ نہ آ پہنچے لب تلک

 

 (۲۵۸)

 

شوق ہے تو ہے اس کا گھر نزدیک

دوری رہ ہے راہ بر نزدیک

آہ کرنے میں دم کو سادھے رہ

کہتے ہیں دل سے ہے جگر نزدیک

دور والوں کو بھی نہ پہنچے ہم

یہی نہ تم سے ہیں مگر نزدیک

ڈوبیں دریا و کوہ و شہر و دشت

تجھ سے سب کچھ ہے چشم تر نزدیک

۱۷۸۵

حرف دوری ہے گرچہ انشا لیک

دیجو خط جا کے نامہ بر نزدیک

دور اب بیٹھتے ہیں مجلس میں

ہم جو تم سے تھے بیشتر نزدیک

خبر آتی ہے سو بھی دور سے یاں

آؤ یک بار بے خبر نزدیک

توشۂ آخرت کا فکر رہے

جی سے جانے کا ہے سفر نزدیک

دور پھرنے کا ہم سے وقت گیا

پوچھ کچھ حال بیٹھ کر نزدیک

۱۷۹۰

مر بھی رہ میرؔ شب بہت رویا

ہے مری جان اب سحر نزدیک

 

(۲۵۹)

 

کہیں پہنچو بھی مجھ بے پا و سر تک

کہ پہنچا شمع ساں داغ اب جگر تک

کچھ اپنی آنکھ میں یاں کا نہ آیا

خزف سے لے کے دیکھا در تر تک

جسے شب آگ سا دیکھا سلگتے

اسے پھر خاک ہی پایا سحر تک

ترا منھ چاند سا دیکھا ہے شاید

کہ انجم رہتے ہیں ہر شب ادھر تک

۱۷۹۵

جب آیا آہ تب اپنے ہی سر پر

گیا یہ ہاتھ کب اس کی کمر تک

ہم آوازوں کو سیر اب کی مبارک

پر و بال اپنے بھی ایسے تھے پر تک

کھنچی کیا کیا خرابی زیر دیوار

ولے آیا نہ وہ ٹک گھر سے در تک

گلی تک تیری لایا تھا ہمیں شوق

کہاں طاقت کہ اب پھر جائیں گھر تک

ق

یہی درد جدائی ہے جو اس شب

تو آتا ہے جگر مژگان تر تک

۱۸۰۰

دکھائی دیں گے ہم میت کے رنگوں

اگر رہ جائیں گے جیتے سحر تک

کہاں پھر شور شیون جب گیا میرؔ

یہ ہنگامہ ہے اس ہی نوحہ گر تک

 

(۲۶۰)

 

دست و پا مارے وقت بسمل تک

ہاتھ پہنچا نہ پائے قاتل تک

کعبہ پہنچا تو کیا ہوا  اے شیخ

سعی کر ٹک پہنچ کسی دل تک

در پئے محمل اس کے جیسے جرس

میں بھی نالاں ہوں ساتھ منزل تک

۱۸۰۵

بجھ گئے ہم چراغ سے باہر

کہیو  اے باد شمع محفل تک

نہ گیا میرؔ اپنی کشتی سے

ایک بھی تختہ پارہ ساحل تک

 

 (۲۶۱)

 

جاتے ہیں لے خرابی کو سیل آسماں تلک

طوفاں ہے میرے اشک ندامت سے یاں تلک

شاید کہ دیوے رخصت گلشن ہوں بے قرار

میرے قفس کو لے تو چلو باغباں تلک

قید قفس سے چھوٹ کے دیکھا جلا ہوا

پہنچے نہ ہوتے کاشکے ہم آشیاں تلک

۱۸۱۰

اتنا ہوں ناتواں کہ در دل سے اب گلہ

آتا ہے ایک عمر میں میری زباں تلک

میں ترک عشق کر کے ہوا گوشہ گیر میرؔ

ہوتا پھروں خراب جہاں میں کہاں تلک

 

 (۲۶۲)

 

کب دسترس ہے لعل کو تیرے سخن تلک

رسوائیاں گئی ہیں عقیق یمن تلک

آزادگی یہ چھوڑ قفس ہم نہ جاسکے

حسن سلوک ضعف سے صحن چمن تلک

تردستیاں ہوں دست و گریبان ہاتھ کی

زیر زمیں بھی پہنچیں گی چاک کفن تلک

۱۸۱۵

روتا ہوں آہوؤں میں تری چشم یاد کر

طوفاں کیے ہیں سینکڑوں دشت ختن تلک

مارا گیا خرام بتاں پر سفر میں میرؔ

اے کبک کہتا جائیو اس کے وطن تلک

 

                ردیف گ

 

 

(۲۶۳)

 

 

جب سے خط ہے سیاہ خال کی تھانگ

تب سے لٹتی ہے ہند چاروں دانگ

بات امل کی چلی ہی جاتی ہے

ہے مگر عوج بن عنق کی ٹانگ

بن جو کچھ بن سکے جوانی میں

رات تو تھوڑی ہے بہت ہے سانگ

۱۸۲۰

عشق کا شور کوئی چھپتا ہے

نالۂ عندلیب ہے گل بانگ

اس ذقن میں بھی سبزی ہے خط کی

دیکھو جیدھر کنوئیں پڑی ہے بھانگ

کس طرح ان سے کوئی گرم ملے

سیم تن پگھلے جاتے ہیں جوں رانگ

چلی جاتی ہے حسب قدر بلند

دور تک اس پہاڑ کی ہے ڈانگ

تفرہ باطل تھا طور پر اپنے

ورنہ جاتے یہ دوڑ ہم بھی پھلانگ

۱۸۲۵

میں نے کیا اس غزل کو سہل کیا

قافیے ہی تھے اس کے اوٹ پٹانگ

میرؔ بندوں سے کام کب نکلا

مانگنا ہے جو کچھ خدا سے مانگ

 

                ردیف ل

 

 

(۲۶۴)

 

فصل خزاں میں سیر جو کی ہم نے جائے گل

چھانی چمن کی خاک نہ تھا نقش پائے گل

اللہ رے عندلیب کی آواز دل خراش

جی ہی نکل گیا جو کہا ان نے ہائے گل

مقدور تک شراب سے رکھ انکھڑیوں میں رنگ

یہ چشمک پیالہ ہے ساقی ہوائے گل

۱۸۳۰

یہ دیکھ سینہ داغ سے رشک چمن ہے یاں

بلبل ستم ہوا نہ جو تو نے بھی کھائے گل

بلبل ہزار جی سے خریدار اس کی ہے

اے گل فروش کریو سمجھ کر بہائے گل

نکلا ہے ایسی خاک سے کس سادہ رو کی یہ

قابل درود بھیجنے کے ہے صفائے گل

بارے سرشک سرخ کے داغوں سے رات کو

بستر پر اپنے سوتے تھے ہم بھی بچھائے گل

آ عندلیب صلح کریں جنگ ہو چکی

لے  اے زباں دراز تو سب کچھ سوائے گل

۱۸۳۵

گل چیں سمجھ کے چنیو کہ گلشن میں میرؔ کے

لخت جگر پڑے ہیں نہیں برگ ہائے گل

 

(۲۶۵)

 

گل کی جفا بھی جانی دیکھی وفائے بلبل

یک مشت پر پڑے ہیں گلشن میں جائے بلبل

کر سیر جذب الفت گل چیں نے کل چمن میں

توڑا تھا شاخ گل کو نکلی صدائے بلبل

کھٹکے ہیں خار ہو کر ہر شب دل چمن میں

اتنے لب و دہن پر یہ نالہائے بلبل

یک رنگیوں کی راہیں طے کر کے مر گیا ہے

گل میں رگیں نہیں یہ ہیں نقش پائے بلبل

۱۸۴۰

آئی بہار و گلشن گل سے بھرا ہے لیکن

ہر گوشۂ چمن میں خالی ہے جائے بلبل

پیغام بے غرض بھی سنتے نہیں ہیں خوباں

پہنچی نہ گوش گل تک آخر دعائے بلبل

یہ دل خراش نالے ہر شب کے میرؔ تیرے

کر دیں گے بے نمک ہی شور نوائے بلبل

 

(۲۶۶)

 

کیسا چمن اسیری میں کس کو ادھر خیال

پرواز خواب ہو گئی ہے بال و پر خیال

مشکل ہے مٹ گئے ہوئے نقشوں کی پھر نمود

جو صورتیں بگڑ گئیں ان کا نہ کر خیال

۱۸۴۵

مو کو عبث ہے تاب کلی یوں ہی تنگ ہے

اس کا دہن ہے وہم و گمان و کمر خیال

رخسار پر ہمارے ڈھلکنے کو اشک کے

دیکھے ہے جو کوئی سو کرے ہے گہر خیال

کس کو دماغ شعر و سخن ضعف میں کہ میرؔ

اپنا رہے ہے اب تو ہمیں بیشتر خیال

 

 (۲۶۷)

 

سیر کر عندلیب کا احوال

ہیں پریشاں چمن میں کچھ پر و بال

تب غم تو گئی طبیب ولے

پھر نہ آیا کبھو مزاج بحال

۱۸۵۰

سبزہ نورستہ رہگذار کا ہوں

سر اٹھایا کہ ہو گیا پامال

کیوں نہ دیکھوں چمن کو حسرت سے

آشیاں تھا مرا بھی یاں پرسال

سرد مہری کی بسکہ گل رو نے

اوڑھی ابر بہار نے بھی شال

ہجر کی شب کو یاں تئیں تڑپا

کہ ہوا صبح ہوتے میرا وصال

ہم تو سہ گذرے کج روی تیری

نہ نبھے گی پر  اے فلک یہ چال

۱۸۵۵

دیدۂ تر پہ شب رکھا تھا میرؔ

لکۂ ابر ہے مرا رومال

 

 (۲۶۸)

 

جانیں ہیں فرش رہ تری مت حال حال چل

اے رشک حور آدمیوں کی سی چال چل

اک آن میں بدلتی ہے صورت جہان کی

جلد اس نگار خانے سے کر انتقال چل

سالک بہر طریق بدن ہے وبال جاں

یہ بوجھ تیرے ساتھ جو ہے اس کو ڈال چل

آوارہ میرے ہونے کا باعث وہ زلف ہے

کافر ہوں اس میں ہووے اگر ایک بال چل

۱۸۶۰

دنیا ہے میرؔ حادثہ گاہ مقرری

یاں سے تو اپنا پاؤں شتابی نکال چل

 

(۲۶۹)

 

شرط یہ ابر میں ہم میں ہے کہ روویں گے کل

صبح گہ اٹھتے ہی عالم کو ڈبوویں گے کل

آج آوارہ ہو  اے بال اسیران قفس

یہ گل و باغ و خیابان نہ ہوویں گے کل

وعدۂ وصل رہا ہے شب آئندہ پہ میرؔ

بخت خوابیدہ جو ٹک جاگتے سوویں گے کل

 

(۲۷۰)

 

مندا ہے اختلاط کا بازار آج کل

لگتا نہیں ہے دل کا خریدار آج کل

۱۸۶۵

اس مہلت دو روزہ میں خطرے ہزار ہیں

اچھا ہے رہ سکو جو خبردار آج کل

اوباشوں ہی کے گھر تجھے پانے لگے ہیں روز

مارا پڑے گا کوئی طلبگار آج کل

ملنے کی رات داخل ایام کیا نہیں

برسوں ہوئے کہاں تئیں  اے یار آج کل

گلزار ہو رہے ہے مرے دم سے کوئے یار

اک رنگ پر ہے دیدۂ خوں بار آج کل

تا شام اپنا کام کھنچے کیونکے دیکھیے

پڑتی نہیں ہے جی کو جفا کار آج کل

۱۸۷۰

کعبے تلک تو سنتے ہیں ویرانہ و خراب

آباد ہے سو خانۂ خمار آج کل

ٹھوکر دلوں کو لگنے لگی ہے خرام میں

لاوے گی اک بلا تری رفتار آج کل

ایسا ہی مغبچوں میں جو آنا ہے شیخ جی

تو جا رہے ہیں جبہ و دستار آج کل

حیران میں ہی حال کی تدبیر میں نہیں

ہر اک کو شہر میں ہے یہ آزار آج کل

اچھا نہیں ہے میرؔ کا احوال ان دنوں

غالب کہ ہو چکے گا یہ بیمار آج کل

۱۸۷۵

 (۲۷۱)

 

کرو تم یاد گر ہم کو رہے تم میں بھی اکثر دل

مثل مشہور ہے یہ تو کہ ہے دنیا میں دلبر دل

بھلا تم نقد دل لے کر ہمیں دشمن گنو اب تو

کبھو کچھ ہم بھی کر لیں گے حساب دوستاں در دل

 

 (۲۷۲)

 

رہتا نہیں ہے کوئی گھڑی اب تو یار دل

آزردہ دل ستم زدہ دل بے قرار دل

 (۲۷۳)

 

تو گل باغ پر نہ بلبل پھول

وہ بھی ہے گا گلاب کا سا پھول

 

(۲۷۴)

 

لٹ گئی اس کو دیکھ گل کی فصل

سارے گلبن تھے تو کہے بے اصل

۱۸۸۰

 

                ردیف م

 

 

(۲۷۵)

 

کیا کہوں کیا رکھتے تھے تجھ سے ترے بیمار چشم

تجھ کو بالیں پر نہ دیکھا کھولی سو سو بار چشم

ہجر میں پاتا نہیں گریے کے سر رشتے کو میں

ہر سحر اٹھ باندھ دے ہے آنسوؤں کا تار چشم

گوئیا ناسور زخم دل تھی یہ  اے ہم نشیں

پیش ازیں کیا کیا سمیں دکھلاتی تھی خوں بار چشم

سینکڑوں ہوں کشتنی تو لاویں کچھ تاب نگاہ

ایک دو کا کام کب ہے اس سے ہونا چار چشم

جرم کیا غیروں کا طالع چشم پوشی کرتے ہیں

دیکھ کر احوال میرا موند لے ہے یار چشم

۱۸۸۵

روز و شب وا رہنے سے پیدا ہے میرؔ آثار شوق

ہے کسو نظارگی کا رخنۂ دیوار چشم

 

 (۲۷۶)

 

کیا بلبل اسیر ہے بے بال و پر کہ ہم

گل کب رکھے ہے ٹکڑے جگر اس قدر کہ ہم

خورشید صبح نکلے ہے اس نور سے کہ تو

شبنم گرہ میں رکھتی ہے یہ چشم تر کہ ہم

جیتے ہیں تو دکھا دیں گے دعوائے عندلیب

گل بن خزاں میں اب کے وہ رہتی ہے مر کہ ہم

یہ تیغ ہے یہ طشت ہے یہ ہم ہیں کشتنی

کھیلے ہے کون ایسی طرح جان پر کہ ہم

۱۸۹۰

تلواریں تم لگاتے ہو ہم ہیں گے دم بخود

دنیا میں یہ کرے ہے کوئی درگذر کہ ہم

اس جستجو میں اور خرابی تو کیا کہیں

اتنی نہیں ہوئی ہے صبا در بہ در کہ ہم

جب جا پھنسا کہیں تو ہمیں یاں ہوئی خبر

رکھتا ہے کون دل تری اتنی خبر کہ ہم

جیتے ہیں اور روتے ہیں لخت جگر ہے میرؔ

کرتے سنا ہے یوں کوئی قیمہ جگر کہ ہم

 

(۲۷۷)

 

آئے تو ہو طبیباں تدبیر گر کرو تم

ایسا نہ ہو کہ میرے جی کا ضرر کرو تم

۱۸۹۵

رنگ شکستہ میرا بے لطف بھی نہیں ہے

ایک آدھ رات کو تو یاں بھی سحر کرو تم

تھی چشم داشت مجھ کو  اے دلبراں یہ تم سے

دل کو مرے اڑا کر آنکھوں میں گھر کرو تم

اس بزم خوش کے محرم ناآشنا ہیں سارے

کس کو کہوں کہ واں تک میری خبر کرو تم

ہے پیچ دار از بس راہ وصال و ہجراں

ان دو ہی منزلوں میں برسوں سفر کرو تم

یہ ظلم ہے تو ہم بھی اس زندگی سے گذرے

سوگند ہے تمھیں اب جو درگذر کرو تم

۱۹۰۰

روئے سخن کہاں تک غیروں کی اور آخر

ہم بھی تو آدمی ہیں ٹک منھ ادھر کرو تم

ق

ہو عاشقوں میں اس کے تو آؤ میرؔ صاحب

گردن کو اپنی مو سے باریک تر کرو تم

کیا لطف ہے وگرنہ جس دم وہ تیغ کھینچے

سینہ سپر کریں ہم قطع نظر کرو تم

 

 (۲۷۸)

 

جانا کہ شغل رکھتے ہو تیر و کماں سے تم

پر مل چلا کرو بھی کسو خستہ جاں  سے تم

ہم اپنی چاک جیب کو سی رہتے یا نہیں

پھاٹے میں پاؤں دینے کو آئے کہاں سے تم

۱۹۰۵

اب دیکھتے ہیں خوب تو وہ بات ہی نہیں

کیا کیا وگرنہ کہتے تھے اپنی زباں سے تم

تنکے بھی تم ٹھہرتے کہیں دیکھے ہیں تنک

چشم وفا رکھو نہ خسان جہاں سے تم

جاؤ نہ دل سے منظر تن میں ہے جا یہی

پچھتاؤ گے اٹھو گے اگر اس مکاں سے تم

قصہ مرا سنو گے تو جاتی رہے گی نیند

آرام چشم مت رکھو اس داستاں سے تم

کھل جائیں گی پھر آنکھیں جو مر جائے گا کوئی

آتے نہیں ہو باز مرے امتحاں سے تم

۱۹۱۰

جتنے تھے کل تم آج نہیں پاتے اتنا ہم

ہر دم چلے ہی جاتے ہو آب رواں سے تم

رہتے نہیں ہو بن گئے میرؔ اس گلی میں رات

کچھ راہ بھی نکالو سگ و پاسباں سے تم

 

(۲۷۹)

 

کرتے نہیں ہیں دوری سے اب اس کی باک ہم

نزدیک اپنے کب کے ہوئے ہیں ہلاک ہم

بیٹھے ہم اپنے طور پہ مستوں میں جب اٹھے

جوں ابر تر لیے اٹھے دامن کو پاک ہم

آہستہ  اے نسیم کہ اطراف باغ کے

مشتاق پر فشانی ہیں اک مشت خاک ہم

۱۹۱۵

شمع و چراغ و شعلہ و آتش شرار و برق

رکھتے ہیں دل جلے یہ بہم سب تپاک ہم

مستی میں ہم کو ہوش نہیں نشأتین کا

گلشن میں اینڈتے ہیں پڑے زیر تاک ہم

جوں برق تیرے کوچے سے ہنستے نہیں گئے

مانند ابر جب اٹھے تب گریہ ناک ہم

مدت ہوئی کہ چاک قفس ہی سے اب تو میرؔ

دکھلا رہے ہیں گل کو دل چاک چاک ہم

 

 (۲۸۰)

 

نہ پھر رکھیں گے تیری رہ میں پا ہم

گئے گذرے ہیں آخر ایسے کیا ہم

۱۹۲۰

کھنچے گی کب وہ تیغ ناز یارب

رہے ہیں دیر سے سر کو جھکا ہم

نہ جانا یہ کہ کہتے ہیں کسے پیار

رہیں بے لطفیاں ہی یاں تو باہم

بنے کیا خال و زلف و خط سے دیکھیں

ہوئے ہیں کتنے یہ کافر فراہم

مرض ہی عشق کا بے ڈول ہے کچھ

بہت کرتے ہیں اپنی سی دوا ہم

کہیں پیوند ہوں یارب زمیں کے

پھریں گے اس سے یوں کب تک جدا ہم

۱۹۲۵

ہوس تھی عشق کرنے میں ولیکن

بہت نادم ہوئے دل کو لگا ہم

کب آگے کوئی مرتا تھا کسی پر

جہاں میں کر گئے رسم وفا ہم

تعارف کیا رہا اہل چمن سے

ہوئے اک عمر کے پیچھے رہا ہم

موا جس کے لئے اس کو نہ دیکھا

نہ سمجھے میرؔ کا کچھ مدعا ہم

 

(۲۸۱)

 

اگر راہ میں اس کی رکھا ہے گام

گئے گذرے خضر علیہ السلام

۱۹۳۰

دہن یار کا دیکھ چپ لگ گئی

سخن یاں ہوا ختم حاصل کلام

مجھے دیکھ منھ پر پریشاں کی زلف

غرض یہ کہ جا تو ہوئی اب تو شام

سر شام سے رہتی ہیں کاہشیں

ہمیں شوق اس ماہ کا ہے تمام

ق

قیامت ہی یاں چشم و دل سے رہی

چلے بس تو واں جا کے کریے قیام

نہ دیکھے جہاں کوئی آنکھوں کی اور

نہ لیوے کوئی جس جگہ دل کا نام

۱۹۳۵

جہاں میرؔ زیر و زبر ہو گیا

خراماں ہوا تھا وہ محشر خرام

 

 (۲۸۲)

 

گرچہ آوارہ جوں صبا ہیں ہم

لیک لگ چلنے میں بلا ہیں ہم

کام کیا آتے ہیں گے معلومات

یہ تو سمجھے ہی نہ کہ کیا ہیں ہم

تم ہی بیگانگی کرو نہ کرو

دلبرو وے ہی آشنا ہیں ہم

اے بتاں اس قدر جفا ہم پر

عاقبت بندۂ خدا ہیں ہم

۱۹۴۰

سرمہ آلودہ مت رکھا کر چشم

دیکھ اس وضع سے خفا ہیں ہم

ہے نمک سود سب تن مجروح

تیرے کشتوں میں میرزا ہیں ہم

تیرے کوچے میں تا بہ مرگ رکھا

کشتۂ منت وفا ہیں ہم

خوف ہم کو نہیں جنوں سے کچھ

یوں تو مجنوں کے بھی چچا ہیں ہم

آستاں پر ترے ہی گذری عمر

اسی دروازے کے گدا ہیں ہم

۱۹۴۵

ڈرتے ہیں تیری بے دماغی سے

کیونکہ پھر یار جی بلا ہیں ہم

کوئی خواہاں نہیں ہمارا میرؔ

گوئیا جنس ناروا ہیں ہم

 

 (۲۸۳)

 

حذر کہ آہ جگر تفتگاں بلا ہے گرم

ہمیشہ آگ ہی برسے ہے یاں ہوا ہے گرم

ہزار حیف کہ درگیر صحبت اس سے نہیں

جگر کی آگ نے ہنگامہ کر رکھا ہے گرم

کہاں ہے تیغ و سپر آفتاب کی بارے

وہ سرد مہر ہمارا بھی اب ہوا ہے گرم

۱۹۵۰

نہ اتنی دارو پی ظالم کہ اس خمار میں ہوں

مزاج گرم ہے پھر اور یہ دوا ہے گرم

گیا جہان سے خورشید ساں اگرچہ میرؔ

ولیک مجلس دنیا میں اس کی جا ہے گرم

 

 (۲۸۴)

 

کرتے ہیں گفتگو سحر اٹھ کر صبا سے ہم

لڑنے لگے ہیں ہجر میں اس کے ہوا سے ہم

ہوتا نہ دل کا تا یہ سرانجام عشق میں

لگتے ہی جی کے مر گئے ہوتے بلا سے ہم

چھوٹا نہ اس کا دیکھنا ہم سے کسو طرح

پایان کار مارے گئے اس ادا سے ہم

۱۹۵۵

داغوں ہی سے بھری رہی چھاتی تمام عمر

یہ پھول گل چنا کیے باغ وفا سے ہم

غافل نہ اپنی دیدہ درائی سے ہم کو جان

سب دیکھتے ہیں پر نہیں کہتے حیا سے ہم

دو چار دن تو اور بھی آ تو کراہتہً

اب ہو چکے ہیں روز کی تیری جفا سے ہم

آئینے کی مثال پس از صد شکست میرؔ

کھینچا بغل میں یار کو دست دعا سے ہم

 

                ردیف ن

 

 

(۲۸۵)

 

بے کلی بے خودی کچھ آج نہیں

ایک مدت سے وہ مزاج نہیں

۱۹۶۰

درد اگر یہ ہے تو مجھے بس ہے

اب دوا کی کچھ احتیاج نہیں

ہم نے اپنی سی کی بہت لیکن

مرض عشق کا علاج نہیں

شہر خوبی کو خوب دیکھا میرؔ

جنس دل کا کہیں رواج نہیں

 

(۲۸۶)

 

وحشت میں ہوں بلا گر وادی پر اپنی آؤں

مجنوں کی محنتیں سب میں خاک میں ملاؤں

ہنس کر کبھو بلایا تو برسوں تک رلایا

اس کی ستم ظریفی کس کے تئیں دکھاؤں

۱۹۶۵

فریادی ہوں تو ٹپکے لوہو مری زباں سے

نالے کو بلبلوں کے خاطر میں بھی نہ لاؤں

پوچھو نہ دل کے غم کو ایسا نہ ہووے یاراں

مانند روضہ خواں کے مجلس کے تیں رلاؤں

لگتی ہے آگ تن میں دیکھے سے داغ اس کے

اس دل جلے ہوئے پہ کتنا ہی جی جلاؤں

اک دم تو چونک بھی پڑ شور و فغاں سے میرے

اے بخت خفتہ کب تک تیرے تئیں جگاؤں

از خویش رفتہ ہر دم فکر وصال میں ہوں

کتنا میں کھویا جاؤں یارب کہ تجھ کو پاؤں

۱۹۷۰

عریاں تنی کی شوخی وحشت میں کیا بلا تھی

تہ گرد کی نہ بیٹھی تا تن کے تیں چھپاؤں

اگلے خطوں نے میرے مطلق اثر نہ بخشا

قاصد کے بدلے اب کے جادو مگر چلاؤں

دل تفتگی نے مارا مجھ کو کہاں مژہ دے

اک قطرہ آب تا میں اس آگ کو بجھاؤں

آسودگی تو معلوم  اے میرؔ جیتے جی یاں

آرام تب ہی پاؤں جب جی سے ہاتھ اٹھاؤں

 

(۲۸۷)

 

سوزش دل سے مفت گلتے ہیں

داغ جیسے چراغ جلتے ہیں

۱۹۷۵

اس طرح دل گیا کہ اب تک ہم

بیٹھے روتے ہیں ہاتھ ملتے ہیں

بھری آتی ہیں آج یوں آنکھیں

جیسے دریا کہیں ابلتے ہیں

دم آخر ہے بیٹھ جا مت جا

صبر کر ٹک کہ ہم بھی چلتے ہیں

تیرے بے خود جو ہیں سو کیا چیتیں

ایسے ڈوبے کہیں اچھلتے ہیں

فتنہ درسر بتان حشر خرام

ہائے رے کس ٹھسک سے چلتے ہیں

۱۹۸۰

نظر اٹھتی نہیں کہ جب خوباں

سوتے سے اٹھ کے آنکھ ملتے ہیں

اس سر زلف کا خیال نہ چھوڑ

سانپ کے سر ہی یاں کچلتے ہیں

تھے جو اغیار سنگ سینے کے

اب تو کچھ ہم کو دیکھ ٹلتے ہیں

شمع رو موم کے بنے ہیں مگر

گرم ٹک ملیے تو پگھلتے ہیں

میرؔ صاحب کو دیکھیے جو بنے

اب بہت گھر سے کم نکلتے ہیں

۱۹۸۵

(۲۸۸)

 

آیا کمال نقص مرے دل کی تاب میں

جاتا ہے جی چلا ہی مرا اضطراب میں

دوزخ کیا ہے سینہ مرا سوز عشق سے

اس دل جلے ہوئے کے سبب ہوں عذاب میں

مت کر نگاہ خشم یہی موت ہے مری

ساقی نہ زہر دے تو مجھے تو شراب میں

بیدار شور حشر نے سب کو کیا ولے

ہیں خون خفتہ اس کے شہیدوں کے خواب میں

دل لے کے رو بھی ٹک نہیں دیتے کہیں گے کیا

خوبان بد معاملہ یوم الحساب میں

۱۹۹۰

جا کر در طبیب پہ بھی میں گرا ولے

جز آہ ان نے کچھ نہ کیا میرے باب میں

ق

عیش و خوشی ہے شیب میں ہو گو پہ وہ کہاں

لذت جو ہے جوانی کے رنج و عتاب میں

دیں عمر خضر موسم پیری میں تو نہ لے

مرنا ہی اس سے خوب ہے عہد شباب میں

ق

آ نکلے تھے جو حضرت میرؔ اس طرف کہیں

میں نے کیا سوال یہ ان کی جناب میں

حضرت سنو تو میں بھی تعلق کروں کہیں

فرمانے لاگے روکے یہ اس کے جواب میں

۱۹۹۵

تو جان لیک تجھ سے بھی آئے جو کل تھے یاں

ہیں آج صرف خاک جہان خراب میں

 

(۲۸۹)

 

بے روئے و زلف یار ہے رونے سے کام یاں

دامن ہے منھ پہ ابر نمط صبح و شام یاں

آوازہ ہی جہاں میں ہمارا سنا کرو

عنقا کے طور زیست ہے اپنی بنام یاں

وصف دہن سے اس کے نہ آگے قلم چلے

یعنی کیا ہے خامے نے ختم کلام یاں

غالب یہ ہے کہ موسم خط واں قریب ہے

آنے لگا ہے متصل اس کا پیام یاں

۲۰۰۰

مت کھا فریب عجز عزیزان حال کا

پنہاں کیے ہیں خاک میں یاروں نے دام یاں

کوئی ہوا نہ دست بسر شہر حسن میں

شاید نہیں ہے رسم جواب سلام یاں

ناکام رہنے ہی کا تمھیں غم ہے آج میرؔ

بہتوں کے کام ہو گئے ہیں کل تمام یاں

 

(۲۹۰)

 

نہ گیا خیال زلف سیہ جفا شعاراں

نہ ہوا کہ صبح ہووے شب تیرہ روزگاراں

نہ کہا تھا  اے رفوگر ترے ٹانکے ہوں گے ڈھیلے

نہ سیا گیا یہ آخر دل چاک بے قراراں

۲۰۰۵

ہوئی عید سب نے پہنے طرب و خوشی کے جامے

نہ ہوا کہ ہم بھی بدلیں یہ لباس سوگواراں

خطر عظیم میں ہیں مری آہ و اشک سے سب

کہ جہان رہ چکا پھر جو یہی ہے باد و باراں

کہیں خاک کو کو اس کی تو صبا نہ دیجو جنبش

کہ بھرے ہیں اس زمیں میں جگر جگر فگاراں

رکھے تاج زر کو سر پر چمن زمانہ میں گل

نہ شگفتہ ہو تو اتنا کہ خزاں ہے یہ بہاراں

نہیں تجھ کو چشم عبرت یہ نمود میں ہے ورنہ

کہ گئے ہیں خاک میں مل کئی تجھ سے تاجداراں

۲۰۱۰

تو جہاں سے دل اٹھا یاں نہیں رسم دردمندی

کسی نے بھی یوں نہ پوچھا ہوئے خاک یاں ہزاراں

یہ اجل سے جی چھپانا مرا آشکار ہے گا

کہ خراب ہو گا مجھ بن غم عشق گل عذاراں

یہ سنا تھا میرؔ ہم نے کہ فسانہ خواب لا ہے

تری سرگذشت سن کر گئے اور خواب یاراں

 

(۲۹۱)

 

اس کے کوچے سے جو اٹھ اہل وفا جاتے ہیں

تا نظر کام کرے رو بقفا جاتے ہیں

متصل روتے ہی رہیے تو بجھے آتش دل

ایک دو آنسو تو اور آگ لگا جاتے ہیں

۲۰۱۵

وقت خوش ان کا جو ہم بزم ہیں تیرے ہم تو

در و دیوار کو احوال سنا جاتے ہیں

جائے گی طاقت پا آہ تو کریے گا کیا

اب تو ہم حال کبھو تم کو دکھا جاتے ہیں

ایک بیمار جدائی ہوں میں آپھی تس پر

پوچھنے والے جدا جان کو کھا جاتے ہیں

غیر کی تیغ زباں سے تری مجلس میں تو ہم

آ کے روز ایک نیا زخم اٹھا جاتے ہیں

عرض وحشت نہ دیا کر تو بگولے اتنی

اپنی وادی پہ کبھو یار بھی آ جاتے ہیں

۲۰۲۰

میرؔ صاحب بھی ترے کوچے میں شب آتے ہیں لیک

جیسے دریوزہ گری کرنے گدا جاتے ہیں

 

(۲۹۲)

 

کہیو قاصد جو وہ پوچھے ہمیں کیا کرتے ہیں

جان و ایمان و محبت کو دعا کرتے ہیں

عشق آتش بھی جو دیوے تو نہ دم ماریں ہم

شمع تصویر ہیں خاموش جلا کرتے ہیں

جائے ہی نہ مرض دل تو نہیں اس کا علاج

اپنے مقدور تلک ہم تو دوا کرتے ہیں

اس کے کوچے میں نہ کر شور قیامت کا ذکر

شیخ یاں ایسے تو ہنگامے ہوا کرتے ہیں

۲۰۲۵

بے بسی سے تو تری بزم میں ہم بہرے بنے

نیک و بد کوئی کہے بیٹھے سنا کرتے ہیں

رخصت جنبش لب عشق کی حیرت سے نہیں

مدتیں گذریں کہ ہم چپ ہی رہا کرتے ہیں

تو پری شیشے سے نازک ہے نہ کر دعوی مہر

دل ہیں پتھر کے انھوں کے جو وفا کرتے ہیں

تجھ سے لگ جا کے یہ یوں جاتے رہیں مجھ سے حیف

دیدہ و دل نے نہ جانا کہ دغا کرتے ہیں

فرصت خواب نہیں ذکر بتاں میں ہم کو

رات دن رام کہانی سی کہا کرتے ہیں

۲۰۳۰

مجلس حال میں موزوں حرکت شیخ کی دیکھ

حیز شرعی بھی دم رقص مزہ کرتے ہیں

یہ زمانہ نہیں ایسا کہ کوئی زیست کرے

چاہتے ہیں جو برا اپنا بھلا کرتے ہیں

محض ناکارہ بھی مت جان ہمیں تو کہ کہیں

ایسے ناکام بھی بیکار پھرا کرتے ہیں

تجھ بن اس جان مصیبت زدہ غم دیدہ پہ ہم

کچھ نہیں کرتے تو افسوس کیا کرتے ہیں

کیا کہیں میرؔ جی ہم تم سے معاش اپنی غرض

غم کو کھایا کریں ہیں لوہو پیا کرتے ہیں

۲۰۳۵

(۲۹۳)

 

مستوجب ظلم و ستم و جور و جفا ہوں

ہر چند کہ جلتا ہوں پہ سرگرم وفا ہوں

آتے ہیں مجھے خوب سے دونوں ہنر عشق

رونے کے تئیں آندھی ہوں کڑھنے کو بلا ہوں

اس گلشن دنیا میں شگفتہ نہ ہوا میں

ہوں غنچۂ افسردہ کہ مردود صبا ہوں

ہم چشم ہے ہر آبلۂ پا کا مرا اشک

از بس کہ تری راہ میں آنکھوں سے چلا ہوں

آیا کوئی بھی طرح مرے چین کی ہو گی

آزردہ ہوں جینے سے میں مرنے سے خفا ہوں

۲۰۴۰

دامن نہ جھٹک ہاتھ سے میرے کہ ستم گر

ہوں خاک سر راہ کوئی دم میں ہوا ہوں

دل خواہ جلا اب تو مجھے  اے شب ہجراں

میں سوختہ بھی منتظر روز جزا ہوں

گو طاقت و آرام و خورو خواب گئے سب

بارے یہ غنیمت ہے کہ جیتا تو رہا ہوں

اتنا ہی مجھے علم ہے کچھ میں ہوں بہر چیز

معلوم نہیں خوب مجھے بھی کہ میں کیا ہوں

بہتر ہے غرض خامشی ہی کہنے سے یاراں

مت پوچھو کچھ احوال کہ مر مر کے جیا ہوں

۲۰۴۵

تب گرم سخن کہنے لگا ہوں میں کہ اک عمر

جوں شمع سر شام سے تا صبح جلا ہوں

سینہ تو کیا فضل الٰہی سے سبھی چاک

ہے وقت دعا میرؔ کہ اب دل کو لگا ہوں

 

(۲۹۴)

 

جنس گراں کو تجھ سے جو لوگ چاہتے ہیں

وے روگ اپنے جی کو ناحق بساہتے ہیں

اس میکدے میں ہم بھی مدت سے ہیں ولیکن

خمیازہ کھینچتے ہیں ہر دم جماہتے ہیں

ناموس دوستی سے گردن بندھی ہے اپنی

جیتے ہیں جب تلک ہم تب تک نباہتے ہیں

۲۰۵۰

سہل اس قدر نہیں ہے مشکل پسندی میری

جو تجھ کو دیکھتے ہیں مجھ کو سراہتے ہیں

وے دن گئے کہ راتیں نالوں سے کاٹتے تھے

بے ڈول میرؔ صاحب اب کچھ کراہتے ہیں

 

(۲۹۵)

 

یہ ترک ہوکے خشن کج اگر کلاہ کریں

تو بوالہوس نہ کبھو چشم کو سیاہ کریں

تمھیں بھی چاہیے ہے کچھ تو پاس چاہت کا

ہم اپنی اور سے یوں کب تلک نباہ کریں

رکھا ہے اپنے تئیں روک روک کر ورنہ

سیاہ کر دیں زمانے کو ہم جو آہ کریں

۲۰۵۵

جو اس کی اور کو جانا ملے تو ہم بھی ضعیف

ہزار سجدے ہر اک گام سربراہ کریں

ہوائے میکدہ یہ ہے تو فوت وقت ہے ظلم

نماز چھوڑ دیں اب کوئی دن گناہ کریں

ہمیشہ کون تکلف ہے خوب رویوں کا

گذار ناز سے ایدھر بھی گاہ گاہ کریں

اگر اٹھیں گے اسی حال سے تو کہیو تو

جو روز حشر تجھی کو نہ عذر خواہ کریں

بری بلا ہیں ستم کشتۂ محبت ہم

جو تیغ برسے تو سر کو نہ کچھ پناہ کریں

۲۰۶۰

اگرچہ سہل ہیں پر دیدنی ہیں ہم بھی میرؔ

ادھر کو یار تامل سے گر نگاہ کریں

 

(۲۹۶)

 

راضی ہوں گو کہ بعد از صد سال و ماہ دیکھوں

اکثر نہیں تو تجھ کو میں گاہ گاہ دیکھوں

جی انتظار کش ہے آنکھوں میں رہگذر پر

آ جا نظر کہ کب تک میں تیری راہ دیکھوں

آنکھیں جو کھل رہی ہیں مرنے کے بعد میری

حسرت یہ تھی کہ اس کو میں اک نگاہ دیکھوں

یہ دل وہ جا ہے جس میں دیکھا تھا تجھ کو بستے

کن آنکھوں سے اب اجڑا اس گھر کو آہ دیکھوں

۲۰۶۵

دیکھوں تو چاند اب کا گذرے ہے مجھ کو کیسا

دل ہے کہ تیرے منھ پر بے مہر ماہ دیکھوں

بخت سیہ تو اپنے رہتے ہیں خواب ہی میں

اے رشک یوسف مصر پھر کس کو چاہ دیکھوں

چشم و دل و جگر یہ سارے ہوئے پریشاں

کس کس کی تیرے غم میں حالت تباہ دیکھوں

آنکھیں تو تو نے دی ہیں  اے جرم بخش عالم

کیا تیری رحمت آگے اپنے گناہ دیکھوں

تاریک ہو چلا ہے آنکھوں میں میری عالم

ہوتا ہے کیونکے دل بن میرا تباہ دیکھوں

۲۰۷۰

مرنا ہے یا تماشا ہر اک کی ہے زباں پر

اس مجہلے کو چل کر میں خوانخواہ دیکھوں

دیکھوں ہوں آنکھ اٹھا کر جس کو تو یہ کہے ہے

ہوتا ہے قتل کیونکر یہ بے گناہ دیکھوں

ہوں میں نگاہ بسمل گو اک مژہ تھی فرصت

تا میرؔ روئے قاتل تا قتل گاہ دیکھوں

 

(۲۹۷)

 

مشہور ہیں دنوں کی مرے بے قراریاں

جاتی ہیں لامکاں کو دل شب کی زاریاں

چہرے پہ جیسے زخم ہے ناخن کا ہر خراش

اب دیدنی ہوئی ہیں مری دستکاریاں

۲۰۷۵

سو بار ہم نے گل کے گئے پر چمن کے بیچ

بھر دی ہیں آب چشم سے راتوں کو کیاریاں

کشتے کی اس کے خاک بھرے جسم زار پر

خالی نہیں ہیں لطف سے لوہو کی دھاریاں

تربت سے عاشقوں کے نہ اٹھا کبھو غبار

جی سے گئے ولے نہ گئیں راز داریاں

اب کس کس اپنی خواہش مردہ کو رویئے

تھیں ہم کو اس سے سینکڑوں امیدواریاں

پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ

مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں

۲۰۸۰

کیا جانتے تھے ایسے دن آ جائیں گے شتاب

روتے گذرتیاں ہیں ہمیں راتیں ساریاں

گل نے ہزار رنگ سخن سر کیا ولے

دل سے گئیں نہ باتیں تری پیاری پیاریاں

جاؤ گے بھول عہد کو فرہاد و قیس کے

گر پہنچیں ہم شکستہ دلوں کی بھی باریاں

بچ جاتا ایک رات جو کٹ جاتی اور میرؔ

کاٹیں تھیں کوہکن نے بہت راتیں بھاریاں

 

(۲۹۸)

 

گر کچھ ہو درد آئینہ یوں چرخ زشت میں

ان صورتوں کو صرف کرے خاک و خشت میں

۲۰۸۵

رکھتا ہے سوز عشق سے دوزخ میں روز و شب

لے جائے گا یہ سوختہ دل کیا بہشت میں

آسودہ کیونکے ہوں میں کہ مانند گردباد

آوارگی تمام ہے میری سرشت میں

کب تک خراب سعی طواف حرم رہوں

دل کو اٹھا کے بیٹھ رہوں گا کنشت میں

ماتم کے ہوں زمین پہ خرمن تو کیا عجب

ہوتا ہے نیل چرخ کی اس سبز کشت میں

سرمست ہم ہیں آنکھوں کے دیکھے سے یار کی

کب یہ نشہ ہے دختر رز تجھ پلشت میں

۲۰۹۰

رندوں کے تیں ہمیشہ ملامت کرے ہے تو

آ جائیو نہ شیخ کہیں ہشت بھشت میں

نامے کو چاک کر کے کرے نامہ بر کو قتل

کیا یہ لکھا تھا میرؔ مری سرنوشت میں

 

(۲۹۹)

 

درد و اندوہ میں ٹھہرا جو رہا میں ہی ہوں

رنگ رو جس کے کبھو منھ نہ چڑھا میں ہی ہوں

جس پہ کرتے ہو سدا جور و جفا میں ہی ہوں

پھر بھی جس کو ہے گماں تم سے وفا میں ہی ہوں

بد کہا میں نے رقیبوں کو تو تقصیر ہوئی

کیوں ہے بخشو بھی بھلا سب میں برا میں ہی ہوں

۲۰۹۵

اپنے کوچے میں فغاں جس کی سنو ہو ہر رات

وہ جگر سوختہ و سینہ جلا میں ہی ہوں

خار کو جن نے لڑی موتی کی کر دکھلایا

اس بیابان میں وہ آبلہ پا میں ہی ہوں

لطف آنے کا ہے کیا بس نہیں اب تاب جفا

اتنا عالم ہے بھرا جاؤ نہ کیا میں ہی ہوں

رک کے جی ایک جہاں دوسرے عالم کو گیا

تن تنہا نہ ترے غم میں ہوا میں ہی ہوں

ق

اس ادا کو تو ٹک اک سیر کر انصاف کرو

وہ برا ہے گا بھلا دوستو یا میں ہی ہوں

۲۱۰۰

میں یہ کہتا تھا کہ دل جن نے لیا کون ہے وہ

یک بیک بول اٹھا اس طرف آ میں ہی ہوں

جب کہا میں نے کہ تو ہی ہے تو پھر کہنے لگا

کیا کرے گا تو مرا دیکھوں تو جا میں ہی ہوں

سنتے ہی ہنس کے ٹک اک سوچیو کیا تو ہی تھا

جن نے شب رو کے سب احوال کہا میں ہی ہوں

میرؔ آوارۂ عالم جو سنا ہے تو نے

خاک آلودہ وہ  اے باد صبا میں ہی ہوں

کاسۂ سر کو لیے مانگتا دیدار پھرے

میرؔ وہ جان سے بیزار گدا میں ہی ہوں

۲۱۰۵

(۳۰۰)

 

نکلے ہے جنس حسن کسی کاروان میں

یہ وہ نہیں متاع کہ ہو ہر دکان میں

جاتا ہے اک ہجوم غم عشق جی کے ساتھ

ہنگامہ لے چلے ہیں ہم اس بھی جہان میں

یارب کوئی تو واسطہ سرگشتگی کا ہے

یک عشق بھر رہا ہے تمام آسمان میں

ہم اس سے آہ سوز دل اپنا نہ کہہ سکے

تھے آتش دروں سے پھپھولے زبان میں

ق

غم کھینچنے کو کچھ تو توانائی چاہیے

سویاں نہ دل میں تاب نہ طاقت ہے جان میں

۲۱۱۰

غافل نہ رہیو ہم سے کہ ہم وے نہیں رہے

ہوتا ہے اب تو حال عجب ایک آن میں

وے دن گئے کہ آتش غم دل میں تھی نہاں

سوزش رہے ہے اب تو ہر اک استخوان میں

دل نذر و دیدہ پیش کش  اے باعث حیات

سچ کہہ کہ جی لگے ہے ترا کس مکان میں

کھینچا نہ کر تو تیغ کہ اک دن نہیں ہیں ہم

ظالم قباحتیں ہیں بہت امتحان میں

پھاڑا ہزار جا سے گریبان صبر میرؔ

کیا کہہ گئی نسیم سحر گل کے کان میں

۲۱۱۵

(۳۰۱)

 

زباں رکھ غنچہ ساں اپنے دہن میں

بندھی مٹھی چلا جا اس چمن میں

نہ کھول  اے یار میرا گور میں منھ

کہ حسرت ہے مری جاگہ کفن میں

رکھا کر ہاتھ دل پر آہ کرتے

نہیں رہتا چراغ ایسی پون میں

جلے دل کی مصیبت اپنے سن کر

لگی ہے آگ سارے تن بدن میں

نہ تجھ بن ہوش میں ہم آئے ساقی

مسافر ہی رہے اکثر وطن میں

۲۱۲۰

خرد مندی ہوئی زنجیر ورنہ

گذرتی خوب تھی دیوانہ پن میں

کہاں کے شمع و پروانے گئے مر

بہت آتش بجاں تھے اس چمن میں

کہاں عاجز سخن قادر سخن ہوں

ہمیں ہے شبہ یاروں کے سخن میں

گداز عشق میں بہ بھی گیا میرؔ

یہی دھوکا سا ہے اب پیرہن میں

 

(۳۰۲)

 

جن کے لیے اپنے تو یوں جان نکلتے ہیں

اس راہ میں وے جیسے انجان نکلتے ہیں

۲۱۲۵

کیا تیر ستم اس کے سینے میں بھی ٹوٹے تھے

جس زخم کو چیروں ہوں پیکان نکلتے ہیں

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں

تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

کس کا ہے قماش ایسا گودڑ بھرے ہیں سارے

دیکھو نہ جو لوگوں کے دیوان نکلتے ہیں

ق

گہ لوہو ٹپکتا ہے گہ لخت دل آنکھوں سے

یا ٹکڑے جگر ہی کے ہر آن نکلتے ہیں

کریے تو گلہ کس سے جیسی تھی ہمیں خواہش

اب ویسے ہی یہ اپنے ارمان نکلتے ہیں

۲۱۳۰

ق

جاگہ سے بھی جاتے ہو منھ سے بھی خشن ہو کر

وے حرف نہیں ہیں جو شایان نکلتے ہیں

سو کاہے کو اپنی تو جوگی کی سی پھیری ہے

برسوں میں کبھو ایدھر ہم آن نکلتے ہیں

ان آئینہ رویوں کے کیا میرؔ بھی عاشق ہیں

جب گھر سے نکلتے ہیں حیران نکلتے ہیں

 

(۳۰۳)

 

 

تو گلی میں اس کی جا آ ولے  اے صبا نہ چنداں

کہ گڑے ہوئے پھر اکھڑیں دل چاک درد منداں

ترے تیر ناز کے جو یہ ہدف ہوئے ہیں ظالم

مگر آہنی توے ہیں جگر نیاز منداں

۲۱۳۵

کبھو زلف سے بتاں کی نہ ہوا رہا میں ہرگز

یہی ہیں شکار خستہ یہی عنبریں کمنداں

تبھی کوند کوند اتنا تو زمیں سے جائے مل مل

نہیں دیکھے برق تو نے دم خندہ اس کے دنداں

میں صفا کیا دل اتنا کہ دکھائی دیوے منھ بھی

ولے مفت اس آئینے کو نہیں لیتے خود پسنداں

کھلیں آنکھیں میں جو دیکھا سو غم اور چشم گریاں

کسے کہتے ہیں نہ جانا دل شاد و روئے خنداں

تو زبوں شکار تو تھا ولے میرؔ قتل گہ میں

ترے خوں سے ہیں حنائی کف پائے صید بنداں

۲۱۴۰

(۳۰۴)

 

کوئی نہیں جہاں میں جو اندوہگیں نہیں

اس غم کدے میں آہ دل خوش کہیں نہیں

کرتا ہے ابر دعوی دریا دلی عبث

دامن نہیں مرا تو مری آستیں نہیں

آگے تو لعل نو خط خوباں کے دم نہ مار

ہر چند  اے مسیح وے باتیں رہیں نہیں

یہ درد اس کے کیونکے کروں دل نشیں کہ آہ

کہتا ہوں جس طرح سے کہے ہے نہیں نہیں

ماتھا کیا ہے صرف سجود در بتاں

مانند ماہ نو کے مری اب جبیں نہیں

۲۱۴۵

کہتا ہوں حال دل تو کہے ہے کہ مت بکے

کیوں نئیں تری تو بات مرے دل نشیں نہیں

گھر گھر ہے ملک عشق میں دوزخ کی تاب و تب

بھڑکا نہ ہم کو شیخ یہ آتش یوہیں نہیں

ضائع کیا میں اپنے تئیں تو نے کی خوشی

بے مہر کیونکے جانیے تجھ میں کہ کیں نہیں

فکر بلند سے میں کیا آسماں اسے

ہر یک سے میرؔ خوب ہو یہ وہ زمیں نہیں

 

(۳۰۵)

 

دعوے کو یار آگے معیوب کر چکے ہیں

اس ریختے کو ورنہ ہم خوب کر چکے ہیں

۲۱۵۰

مرنے سے تم ہمارے خاطر نچنت رکھیو

اس کام کا بھی ہم کچھ اسلوب کر چکے ہیں

حسن کلام کھینچے کیونکر نہ دامن دل

اس کام کو ہم آخر محبوب کر چکے ہیں

ہنگامۂ قیامت تازہ نہیں جو ہو گا

ہم اس طرح کے کتنے آشوب کر چکے ہیں

رنگ پریدہ قاصد بادسحر کبوتر

کس کس کے ہم حوالے مکتوب کر چکے ہیں

تنکا نہیں رہا ہے کیا اب نثار کریے

آگے ہی ہم تو گھر کو جاروب کر چکے ہیں

۲۱۵۵

ہر لحظہ ہے تزاید رنج و غم و الم کا

غالب کہ طبع دل کو مغلوب کر چکے ہیں

کیا جانیے کہ کیا ہے  اے میرؔ وجہ ضد کی

سو بار ہم تو اس کو محجوب کر چکے ہیں

 

(۳۰۶)

 

جو حیدری نہیں اسے ایمان ہی نہیں

ہو گر شریف مکہ مسلمان ہی نہیں

وہ ترک صید پیشہ مرا قصد کیا کرے

دبلے پنے سے تن میں مرے جان ہی نہیں

خال و خط ایسے فتنے نگاہیں یہ آفتیں

کچھ اک بلا وہ زلف پریشان ہی نہیں

۲۱۶۰

ہیں جزو خاک ہم تو غبار ضعیف سے

سر کھینچنے کا ہم کنے سامان ہی نہیں

دیکھی ہو جس نے صورت دلکش وہ ایک آن

پھر صبر اس سے ہو سکے امکان ہی نہیں

خورشید و ماہ و گل سبھی اودھر رہے ہیں دیکھ

اس چہرے کا اک آئینہ حیران ہی نہیں

یکساں ہے تیرے آگے جو دل اور آرسی

کیا خوب و زشت کی تجھے پہچان ہی نہیں

سجدہ اس آستاں کا نہ جس کے ہوا نصیب

وہ اپنے اعتقاد میں انسان ہی نہیں

۲۱۶۵

کیا تجھ کو بھی جنوں تھا کہ جامے میں تیرے میرؔ

سب کچھ بجا ہے ایک گریبان ہی نہیں

 

 (۳۰۷)

 

ہم آپ ہی کو اپنا مقصود جانتے ہیں

اپنے سوائے کس کو موجود جانتے ہیں

عجز و نیاز اپنا اپنی طرف ہے سارا

اس مشت خاک کو ہم مسجود جانتے ہیں

صورت پذیر ہم بن ہرگز نہیں وے معنی

اہل نظر ہمیں کو معبود جانتے ہیں

عشق ان کی عقل کو ہے جو ماسوا ہمارے

ناچیز جانتے ہیں نابود جانتے ہیں

۲۱۷۰

اپنی ہی سیر کرنے ہم جلوہ گر ہوئے تھے

اس رمز کو ولیکن معدود جانتے ہیں

یارب کسے ہے ناقہ ہر غنچہ اس چمن کا

راہ وفا کو ہم تو مسدود جانتے ہیں

یہ ظلم بے نہایت دشوار تر کہ خوباں

بد وضعیوں کو اپنی محمود جانتے ہیں

کیا جانے داب صحبت از خویش رفتگاں کا

مجلس میں شیخ صاحب کچھ کود جانتے ہیں

مر کر بھی ہاتھ آوے تو میرؔ مفت ہے وہ

جی کے زیان کو بھی ہم سود جانتے ہیں

۲۱۷۵

(۳۰۸)

 

تلوار غرق خوں ہے آنکھیں گلابیاں ہیں

دیکھیں تو تیری کب تک یہ بد شرابیاں ہیں

جب لے نقاب منھ پر تب دید کر کہ کیا کیا

در پردہ شوخیاں ہیں پھر بے حجابیاں ہیں

چاہے ہے آج ہوں میں ہفت آسماں کے اوپر

دل کے مزاج میں بھی کتنی شتابیاں ہیں

جی بکھرے دل ڈھہے ہے سر بھی گرا پڑے ہے

خانہ خراب تجھ بن کیا کیا خرابیاں ہیں

مہمان میرؔ مت ہو خوان فلک پہ ہرگز

خالی یہ مہر و مہ کی دونوں رکابیاں ہیں

۲۱۸۰

 

 (۳۰۹)

 

سن گوش دل سے اب تو سمجھ بے خبر کہیں

مذکور ہو چکا ہے مرا حال ہر کہیں

اب فائدہ سراغ سے بلبل کے باغباں

اطراف باغ ہوں گے پڑے مشت پر کہیں

خطرے سے ہونٹ سوکھ ہی جاتے تھے دیکھ کر

آتا نظر ہمیں جو کوئی چشم تر کہیں

عاشق ترے ہوئے تو ستم کچھ نہ ہو گیا

مرنا پڑا ہے ہم کو خدا سے تو ڈر کہیں

ق

کچھ کچھ کہوں گا روز یہ کہتا تھا دل میں میں

آشفتہ طبع میرؔ کو پایا اگر کہیں

۲۱۸۵

سو کل ملا مجھے وہ بیاباں کی سمت کو

جاتا تھا اضطراب زدہ سا ادھر کہیں

لگ چل کے میں برنگ صبا یہ اسے کہا

ک اے خانماں خراب ترا بھی ہے گھر کہیں

آشفتہ جا بہ جا جو پھرے ہے تو دشت میں

جاگہ نہیں ہے شہر میں تجھ کو مگر کہیں

خوں بستہ اپنی کھول مژہ پوچھتا بھی گر

رکھ ٹک تو اپنے حال کو مد نظر کہیں

آسودگی سی جنس کو کرتا ہے کون سوخت

جانے ہے نفع کوئی بھی جی کا ضرر کہیں

۲۱۹۰

موتی سے تیرے اشک ہیں غلطاں کسو طرف

یاقوت کے سے ٹکڑے ہیں لخت جگر کہیں

تاکے یہ دشت گردی و کب تک یہ خستگی

اس زندگی سے کچھ تجھے حاصل بھی مر کہیں

کہنے لگا وہ ہو کے پر آشفتہ یک بیک

مسکن کرے ہے دہر میں مجھ سا بشر کہیں

آوارگوں کا ننگ ہے سننا نصیحتیں

مت کہیو ایسی بات تو بار دگر کہیں

ق

تعئین جا کو بھول گیا ہوں پہ یہ ہے یاد

کہتا تھا ایک روز یہ اہل نظر کہیں

۲۱۹۵

بیٹھے اگرچہ نقش ترا تو بھی دل اٹھا

کرتا ہے جائے باش کوئی رہگذر کہیں

کتنے ہی آئے لے کے سر پر خیال پر

ایسے گئے کہ کچھ نہیں ان کا اثر کہیں

 

 (۳۱۰)

 

اب کچھ ہمارے حال پہ تم کو نظر نہیں

یعنی تمھاری ہم سے وے آنکھیں نہیں رہیں

اس بزم کے چراغ بجھے تھے جو یار میرؔ

ان کے فروغ باغ میں گل ہیں کہیں کہیں

 

(۳۱۱)

 

پلکوں سے ترے شائق ہم سر جو پٹکتے ہیں

ہر دم جگروں میں کچھ کانٹے سے کھٹکتے ہیں

۲۲۰۰

میں پھاڑ گریباں کو درویش ہوا آخر

وے ہاتھ سے دامن کو اب تک بھی جھٹکتے ہیں

یاد آوے ہے جب شب کو وہ چہرۂ مہتابی

آنسو مری پلکوں سے تارے سے چھٹکتے ہیں

کی راہبری میری صحرائے محبت میں

یاں حضرت خضر آپھی مدت سے بھٹکتے ہیں

جاتے نہ کوئی دیکھا اس تیغ کے منھ اوپر

واں میان سے وہ لے ہے یاں یار سٹکتے ہیں

کیا تم کو اچنبھا ہے سختی کا محبت میں

دشوار ہی ہوتا ہے دل جن کے اٹکتے ہیں

۲۲۰۵

تو طرۂ جاناں سے چاہے ہے ابھی مقصد

برسوں سے پڑے ہم تو  اے میرؔ لٹکتے ہیں

 

 (۳۱۲)

 

سب خوبیاں ہیں شیخ مشیخت پناہ میں

پر ایک حیلہ سازی ہے اس دست گاہ میں

مانند شمع ہم نے حضور اپنے یار کے

کار وفا تمام کیا ایک آہ میں

میں صید جو ہوا تو ندامت اسے ہوئی

یک قطرہ خون بھی نہ گرا صید گاہ میں

پہنچے نہیں کہیں کہ نہیں واں سے اٹھ چلے

القصہ ایک عمر سے ہم ہیں گے راہ میں

۲۲۱۰

نکلا تھا آستین سے کل مغبچے کا ہاتھ

بہتوں کے خرقے چاک ہوئے خانقاہ میں

بخت سیہ تو دیکھ کہ ہم خاک میں ملے

سرمے کی جائے ہو تری چشم سیاہ میں

بیٹھے تھے میرؔ یار کے دیدار کو سو ہم

اپنا یہ حال کر کے اٹھے یک نگاہ میں

 

 (۳۱۳)

 

کیا جو عرض کہ دل سا شکار لایا ہوں

کہا کہ ایسے تو میں مفت مار لایا ہوں

کہے تو نخل صنوبر ہوں اس چمن میں میں

کہ سر سے پاؤں تلک دل ہی بار لایا ہوں

۲۲۱۵

جہاں میں گریہ نہ پہنچا بہم مجھے دلخواہ

پہ نوحؑ کے سے تو طوفاں ہزار لایا ہوں

نہ تنگ کر اسے  اے فکر روزگار کہ میں

دل اس سے دم کے لیے مستعار لایا ہوں

کسی سے مانگا ہے میں آج تک کہ جی لیوے

یہ احتیاج تجھی تک  اے یار لایا ہوں

پھر اختیار ہے آگے ترا یہ ہے مجبور

کہ دل کو تجھ تئیں بے اختیار لایا ہوں

یہ جی جو میرے گلے کا ہے ہار تو ہی لے

ترے گلے کے لیے میں یہ ہار لایا ہوں

۲۲۲۰

چلا نہ اٹھ کے وہیں چپکے چپکے پھر تو میرؔ

ابھی تو اس کی گلی سے پکار لایا ہوں

 

 (۳۱۴)

 

جفائیں دیکھ لیاں بیوفائیاں دیکھیں

بھلا ہوا کہ تری سب برائیاں دیکھیں

تری گلی سے سدا  اے کشندۂ عالم

ہزاروں آتی ہوئی چارپائیاں دیکھیں

گیا نظر سے جو وہ گرم طفل آتش باز

ہم اپنے چہرے پہ اڑتی ہوائیاں دیکھیں

ترے وصال کے ہم شوق میں ہو آوارہ

عزیز دوست سبھوں کی جدائیاں دیکھیں

۲۲۲۵

ہمیشہ مائل آئینہ ہی تجھے پایا

جو دیکھیں ہم نے یہی خود نمائیاں دیکھیں

شہاں کہ کحل جواہر تھی خاک پا جن کی

انھیں کی آنکھوں میں پھرتے سلائیاں دیکھیں

بنی نہ اپنی تو اس جنگ جو سے ہرگز میرؔ

لڑائیں جب سے ہم آنکھیں لڑائیاں دیکھیں

 

 (۳۱۵)

 

خوش قداں جب سوار ہوتے ہیں

سرو و قمری شکار ہوتے ہیں

تیرے بالوں کے وصف میں میرے

شعر سب پیچ دار ہوتے ہیں

۲۲۳۰

آؤ یاد بتاں پہ بھول نہ جاؤ

یہ تغافل شعار ہوتے ہیں

دیکھ لیویں گے غیر کو تجھ پاس

صحبتوں میں بھی یار ہوتے ہیں

صدقے ہو لیویں ایک دم تیرے

پھر تو تجھ پر نثار ہوتے ہیں

تو کرے ہے قرار ملنے کا

ہم ابھی بے قرار ہوتے ہیں

ہفت اقلیم ہر گلی ہے کہیں

دلی سے بھی دیار ہوتے ہیں

۲۲۳۵

رفتہ رفتہ یہ طفل خوش ظاہر

فتنۂ روزگار ہوتے ہیں

اس کے نزدیک کچھ نہیں عزت

میرؔ جی یوں ہی خوار ہوتے ہیں

 

(۳۱۶)

 

وے جو حسن و جمال رکھتے ہیں

سارے تیرا خیال رکھتے ہیں

شب جو وہ مہ کبھو رہے ہے یاں

مدتوں یاد سال رکھتے ہیں

ان لبوں کا جواب دہ ہے لعل

ہم تجھی سے سوال رکھتے ہیں

۲۲۴۰

گل ترے روزگار خوبی میں

منھ طمانچوں سے لال رکھتے ہیں

دہن تنگ کے ترے مشتاق

آرزوئے محال رکھتے ہیں

خاک آدم ہی ہے تمام زمیں

پاؤں کو ہم سنبھال رکھتے ہیں

یہ جو سر کھینچے تو قیامت ہے

دل کو ہم پائمال رکھتے ہیں

اہل دل چشم سب تری جانب

آئینے کی مثال رکھتے ہیں

۲۲۴۵

گفتگو ناقصوں سے ہے ورنہ

میرؔ جی بھی کمال رکھتے ہیں

 

(۳۱۷)

 

صبر و طاقت کو کڑھوں یا خوش دلی کا غم کروں

اس میں حیراں ہوں بہت کس کس کا میں ماتم کروں

موسم حیرت ہے دل بھر کر تو رونا مل چکا

اتنے بھی آنسو بہم پہنچیں کہ مژگاں نم کروں

ہوں سیہ مست سر زلف صنم معذور رکھ

شیخ اگر کعبے سے آوے گفتگو درہم کروں

ریزۂ الماس یا مشت نمک ہے کیا برا

جو میں اپنے ایسے زخم سینہ کو مرہم کروں

۲۲۵۰

گرچہ کس گنتی میں ہوں پر ایک دم مجھ تک تو آ

یا ادھر ہوں یا ادھر کب تک شمار دم کروں

بس بہت رسوا ہوا میں اب نہیں مقدور کچھ

وہ طرح ڈھونڈوں ہوں جس میں ربط تجھ سے کم کروں

گو دھواں اٹھنے لگا دل سے مرے پر پیچ و تاب

میرؔ اس پر قطع ربط زلف خم در خم کروں

 

 (۳۱۸)

 

کیا میں نے رو کر فشار گریباں

رگ ابر تھا تار تار گریباں

کہیں دست چالاک ناخن نہ لاگے

کہ سینہ ہے قرب و جوار گریباں

۲۲۵۵

نشاں اشک خونیں کے اڑتے چلے ہیں

خزاں ہو چلی ہے بہار گریباں

جنوں تیری منت ہے مجھ پر کہ تو نے

نہ رکھا مرے سر پہ بار گریباں

زیارت کروں دل سے خستہ جگر کی

کہاں ہو گی یارب مزار گریباں

ق

کہیں جائے یہ دور دامن بھی جلدی

کہ آخر ہوا روزگار گریباں

پھروں میرؔ عریاں نہ دامن کا غم ہو

نہ باقی رہے خار خار گریباں

۲۲۶۰

 (۳۱۹)

 

بارہا وعدوں کی راتیں آئیاں

طالعوں نے صبح کر دکھلائیاں

عشق میں ایذائیں سب سے پائیاں

رہ گئے آنسو تو آنکھیں آئیاں

ظل حق ہم کو بھی ووہیں چاہیے

جوں ہماری ہوتی ہیں پرچھائیاں

اس مژہ برہم زدہ نے بارہا

عاشقوں میں برچھیاں چلوائیاں

نونہال آگے ترے ہیں جیسی ہوں

ڈالیاں ٹوٹی ہوئیں مرجھائیاں

۲۲۶۵

ایک بھی چشمک نہ اس مہ کی سی کی

آنکھیں تاروں نے بہت جھمکائیاں

ایک نے صورت نہ پکڑی پیش یار

دل میں شکلیں سینکڑوں ٹھہرائیاں

رویت اپنی اس گلی میں کم نہیں

ہر جگہ ہر بار ماریں کھائیاں

بوسہ لینے کا کیا جس دم سوال

ان نے باتیں ہی ہمیں بتلائیاں

روکشی کو اس کی منھ بھی چاہیے

ماہ کے چہرے پہ ہیں سب جھائیاں

۲۲۷۰

مضطرب ہو کر کیا سب میں سبک

دل نے آخر خفتیں دلوائیاں

چل چمن میں یہ بھی ہے کوئی روش

ناز تاکے چند بے پروائیاں

شوق قامت میں ترے  اے نونہال

گل کی شاخیں لیتی ہیں انگڑائیاں

پاس مجھ کو بھی نہیں ہے میرؔ اب

دور پہنچی ہیں مری رسوائیاں

 

 (۳۲۰)

 

دیکھیں تو تیری کب تک یہ کج ادائیاں ہیں

اب ہم نے بھی کسو سے آنکھیں لڑائیاں ہیں

۲۲۷۵

ٹک سن کہ سو برس کی ناموس خامشی کھو

دو چار دل کی باتیں اب منھ پر آئیاں ہیں

ہم وے ہیں خوں گرفتہ ظالم جنھوں نے تیری

ابرو کی جنبش اوپر تلواریں کھائیاں ہیں

آئینہ ہو کہ صورت معنی سے ہے لبالب

راز نہان حق میں کیا خود نمائیاں ہیں

کیا چہرہ تجھ سے ہو گا  اے آفتاب طلعت

منھ چاند کا جو ہم نے دیکھا تو جھائیاں ہیں

کعبے میں میرؔ ہم پر یا سرگراں ہے زاہد

یا بتکدے میں ہم نے دھولیں لگائیاں ہیں

۲۲۸۰

 

(۳۲۱)

 

میں کون ہوں  اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں

اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں

لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر

میں ورنہ وہی خلوتی راز نہاں ہوں

جلوہ ہے مجھی سے لب دریائے سخن پر

صد رنگ مری موج ہے میں طبع رواں ہوں

پنجہ ہے مرا پنجۂ خورشید میں ہر صبح

میں شانہ صفت سایہ رو زلف بتاں ہوں

دیکھا ہے مجھے جن نے سو دیوانہ ہے میرا

میں باعث آشفتگی طبع جہاں ہوں

۲۲۸۵

تکلیف نہ کر آہ مجھے جنبش لب کی

میں صد سخن آغشتہ بہ خوں زیر زباں ہوں

ہوں زرد غم تازہ نہالان چمن سے

اس باغ خزاں دیدہ میں میں برگ خزاں ہوں

رکھتی ہے مجھے خواہش دل بسکہ پریشاں

درپے نہ ہو اس وقت خدا جانے کہاں ہوں

اک وہم نہیں بیش مری ہستی موہوم

اس پر بھی تری خاطر نازک پہ گراں ہوں

خوش باشی و تنزیہ و تقدس تھے مجھے میرؔ

اسباب پڑے یوں کہ کئی روز سے یاں ہوں

۲۲۹۰

 

(۳۲۲)

 

اب آنکھوں میں خوں دم بہ دم دیکھتے ہیں

نہ پوچھو جو کچھ رنگ ہم دیکھتے ہیں

جو بے اختیاری یہی ہے تو قاصد

ہمیں آ کے اس کے قدم دیکھتے ہیں

گہے داغ رہتا ہے دل گہ جگر خوں

ان آنکھوں سے کیا کیا ستم دیکھتے ہیں

اگر جان آنکھوں میں اس بن ہے تو ہم

ابھی اور بھی کوئی دم دیکھتے ہیں

لکھیں حال کیا اس کو حیرت سے ہم تو

گہے کاغذ و گہ قلم دیکھتے ہیں

۲۲۹۵

وفا پیشگی قیس تک تھی بھی کچھ کچھ

اب اس طور کے لوگ کم دیکھتے ہیں

کہاں تک بھلا روؤ گے میرؔ صاحب

اب آنکھوں کے گرد اک ورم دیکھتے ہیں

 

(۳۲۳)

 

بہت ہی اپنے تئیں ہم تو خوار پاتے ہیں

وہ کوئی اور ہیں جو اعتبار پاتے ہیں

تری گلی میں میں رویا تھا دل جلا یک شب

ہنوز واں سے دل داغدار پاتے ہیں

نہ ہوویں شیفتہ کیوں اضطراب پر عاشق

کہ جی کو کھو کے دل بے قرار پاتے ہیں

۲۳۰۰

گلہ عبث ہے تری آستانہ بوسی کا

مسیح و خضر بھی واں کم ہی بار پاتے ہیں

ق

تڑپ ہے قیس کے دل میں تہ زمیں اس سے

غزال دشت نشان مزار پاتے ہیں

وگرنہ خاک ہوئے کتنے ہی محبت میں

کسی کا بھی کہیں مشت غبار پاتے ہیں

شتابی آوے اجل میرؔ جاوے یہ رونا

کہ میرے شور سے تصدیع یار پاتے ہیں

 

(۳۲۴)

 

عام حکم شراب کرتا ہوں

محتسب کو کباب کرتا ہوں

۲۳۰۵

ٹک تو رہ  اے بنائے ہستی تو

تجھ کو کیسا خراب کرتا ہوں

بحث کرتا ہوں ہو کے ابجد خواں

کس قدر بے حساب کرتا ہوں

کوئی بجھتی ہے یہ بھڑک میں عبث

تشنگی پر عتاب کرتا ہوں

سر تلک آب تیغ میں ہوں غرق

اب تئیں آب آب کرتا ہوں

جی میں پھرتا ہے میرؔ وہ میرے

جاگتا ہوں کہ خواب کرتا ہوں

۲۳۱۰

 

(۳۲۵)

 

ہم تو مطرب پسرکے جاتے ہیں

گو رقیباں کچھ اور گاتے ہیں

خاک میں لوٹتے تھے کل تجھ بن

آج لوہو میں ہم نہاتے ہیں

اے عدم ہونے والو تم تو چلو

ہم بھی اب کوئی دم میں آتے ہیں

ایک کہتا ہوں میں تو منھ پہ رقیب

تیری پشتی سے سو سناتے ہیں

ق

دیدہ و دل کا کیا کیا تھا میں

روز آفت جو مجھ پہ لاتے ہیں

۲۳۱۵

کوئی رووے ہے کوئی تڑپے ہے

کیا کروں میرے گھر سے آتے ہیں

ورنہ میں میرؔ ہوں مرے آگے

دشت غم بھی نہ ٹکنے پاتے ہیں

کھود گاڑوں زمیں میں دونوں کو

گرچہ یہ آسماں پہ جاتے ہیں

دیدہ و دل شتاب گم ہوں میرؔ

سر پہ آفت ہمیشہ لاتے ہیں

 

(۳۲۶)

 

آتا ہے دل میں حال بد اپنا بھلا کہوں

پھر آپھی آپ سوچ کے کہتا ہوں کیا کہوں

۲۳۲۰

پروانہ پھر نہ شمع کی خاطر جلا کرے

گر بزم میں یہ اپنا ترا ماجرا کہوں

مت کر خرام سر پہ اٹھا لے گا خلق کو

بیٹھا اگر گلی میں ترا نقش پا کہوں

دل اور دیدہ باعث ایذا و نور عین

کس کے تئیں برا کہوں کس کو بھلا کہوں

آوے سموم جائے صبا باغ سے سدا

گر شمہ اپنے سوز جگر کا میں جا کہوں

جاتا ہوں میرؔ دشت جنوں کو میں اب یہ کہہ

مجنوں کہیں ملے تو تری بھی دعا کہوں

۲۳۲۵

 (۳۲۷)

 

مرے آگے نہ شاعر نام پاویں

قیامت کو مگر عرصے میں آویں

پری سمجھے تجھے وہم و گماں سے

کہاں تک اور ہم اب دل چلاویں

ترے عاشق ترے رسوا کہائے

ترے ہو کر کہہ اب کس کے کہاویں

مزاج اپنا غیور ازبس پڑا ہے

ترے غم میں کسے خاطر میں لاویں

پھرے ہے شیخ مجلس ہی میں رقصاں

ادھر آ نکلے تو ہم بھی نچاویں

۲۳۳۰

نظر  اے ابر اب مت آ مبادا

کہیں میری بھی آنکھیں ڈبڈباویں

قدم بوسی تلک مختار ہیں غیر

زیادہ لگ چلیں تو سر میں کھاویں

ق

نہ آیا وہ تو کیا ہم نیم جاں  بھی

بغیر اس کے ملے دنیا سے جاویں

چلی ہے تو تو  اے جان الم ناک

ٹک اک رہ جا کہ ہم رخصت ہو آویں

چلا مقدور سے غم میرؔ آگے

زمیں پھٹ جائے یارب ہم سماویں

۲۳۳۵

(۳۲۸)

 

مثال سایہ محبت میں جال اپنا ہوں

تمھارے ساتھ گرفتار حال اپنا ہوں

سرشک سرخ کو جاتا ہوں جو پیے ہر دم

لہو کا پیاسا علی الاتصال اپنا ہوں

اگرچہ نشہ ہوں سب میں خم جہاں میں لیک

برنگ  مے عرق انفعال اپنا ہوں

مری نمود نے مجھ کو کیا برابر خاک

میں نقش پا کی طرح پائمال اپنا ہوں

ہوئی ہے زندگی دشوار مشکل آساں کر

پھروں چلوں تو ہوں پر میں وبال اپنا ہوں

۲۳۴۰

ترا ہے وہم کہ یہ ناتواں ہے جامے میں

وگرنہ میں نہیں اب اک خیال اپنا ہوں

بلا ہوئی ہے مری گو کہ طبع روشن میرؔ

ہوں آفتاب ولیکن زوال اپنا ہوں

 

(۳۲۹)

 

کھوویں ہیں نیند میری مصیبت بیانیاں

تم بھی تو ایک رات سنو یہ کہانیاں

کیا آگ دے کے طور کو کی ترک سرکشی

اس شعلے کی وہی ہیں شرارت کی بانیاں

صحبت رکھا کیا وہ سفیہ و ضلال سے

دل ہی میں خوں ہوا کیں مری نکتہ دانیاں

۲۳۴۵

ہم سے تو کینے ہی کی ادائیں چلی گئیں

بے لطفیاں  یہی   یہی  نامہربانیاں

تلوار کے تلے ہی گیا عہد انبساط

مر مر کے ہم نے کاٹی ہیں اپنی جوانیاں

گالی سوائے مجھ سے سخن مت کیا کرو

اچھی لگے ہیں مجھ کو تری بد زبانیاں

غیروں ہی کے سخن کی طرف گوش یار تھے

اس حرف نا شنو نے ہماری نہ مانیاں

یہ بے قراریاں نہ کبھو ان نے دیکھیاں

جاں کاہیاں ہماری بہت سہل جانیاں

۲۳۵۰

مارا مجھے بھی سان کے غیروں میں ان نے میرؔ

کیا خاک میں ملائیں مری جاں فشانیاں

 

 (۳۳۰)

 

تا پھونکیے نہ خرقۂ طامات کے تئیں

حسن قبول کیا ہو مناجات کے تئیں

کیفیتیں اٹھے ہیں یہ کب خانقاہ میں

بدنام کر رکھا ہے خرابات کے تئیں

ڈریے خرام ناز سے خوباں کے ہمنشیں

ٹھوکر سے یہ اٹھاتے ہیں آفات کے تئیں

ہم جانتے ہیں یا کہ دل آشنا زدہ

کہیے سو کس سے عشق کے حالات کے تئیں

۲۳۵۵

خوبی کو اس کے ساعد سیمیں کی دیکھ کر

صورت گروں نے کھینچ رکھا ہات کے تئیں

اتنی بھی حرف ناشنوی غیر کے لیے

رکھ کان ٹک سنا بھی کرو بات کے تئیں

سید ہو یا چمار ہو اس جا وفا ہے شرط

کب عاشقی میں پوچھتے ہیں ذات کے تئیں

آخر کے یہ سلوک ہم اب تیرے دیکھ کر

کرتے ہیں یاد پہلی ملاقات کے تئیں

آنکھوں نے  میرؔ صاحب و قبلہ ورم کیا

حضرت بکا کیا نہ کرو رات کے تئیں

۲۳۶۰

(۳۳۱)

 

نہ اک یعقوبؑ رویا اس الم میں

کنواں اندھا ہوا یوسفؑ کے غم میں

کہوں کب تک دم آنکھوں میں ہے میری

نظر آوے ہی گا اب کوئی دم میں

دیا عاشق نے جی تو عیب کیا ہے

یہی میرؔ اک ہنر ہوتا ہے ہم میں

 

(۳۳۲)

 

چاہتے ہیں یہ بتاں ہم پہ کہ بیداد کریں

کس کے ہوں کس سے کہیں کس کنے فریاد کریں

ایک دم پر ہے بنا تیری سو آیا کہ نہیں

وہ کچھ اس زندگی میں کر کہ تجھے یاد کریں

۲۳۶۵

کعبہ ہوتا ہے دوانوں کا مری گور سے دشت

مجھ سے دو اور گڑیں یاں تو سب آباد کریں

ہم تو راہب نہیں ہیں واقف رسم سجدہ

ہیں کدھر شیخ حرم کچھ ہمیں ارشاد کریں

ریختہ خوب ہی کہتا ہے جو انصاف کرو

چاہیے اہل سخن میرؔ کو استاد کریں

 

(۳۳۳)

 

ہجراں کی کوفت کھینچے بے دم سے ہو چلے ہیں

سر مار مار یعنی اب ہم بھی سو چلے ہیں

جوئیں رہیں گی جاری گلشن میں ایک مدت

سائے میں ہر شجر کے ہم زور رو چلے ہیں

۲۳۷۰

لبریز اشک آنکھیں ہر بات میں رہا کیں

رو رو کے کام اپنے سب ہم ڈبو چلے ہیں

پچھتائیے نہ کیونکر جی اس طرح سے دے کر

یہ گوہر گرامی ہم مفت کھو چلے ہیں

قطع طریق مشکل ہے عشق کا نہایت

وے میرؔ جانتے ہیں اس راہ جو چلے ہیں

 

 (۳۳۴)

 

جب درد دل کا کہنا میں دل میں ٹھانتا ہوں

کہتا ہے بن سنے ہی میں خوب جانتا ہوں

شاید نکل بھی آوے دل گم جو ہو گیا ہے

اس کی گلی میں بیٹھا میں خاک چھانتا ہوں

۲۳۷۵

اس دردسر کا لٹکا سر سے لگا ہے میرے

سو سرکا ہووے صندل میں میرؔ مانتا ہوں

 

 (۳۳۵)

 

ملنے لگے ہو دیر دیر دیکھیے کیا ہے کیا نہیں

تم تو کرو ہو صاحبی بندے میں کچھ رہا نہیں

بوئے گل اور رنگ گل دونوں ہیں دلکش  اے نسیم

لیک بقدر یک نگاہ دیکھیے تو وفا نہیں

شکوہ کروں ہوں بخت کا اتنے غضب نہ ہو بتاں

مجھ کو خدا نخواستہ تم سے تو کچھ گلہ نہیں

نالے کیا نہ کر سنا نوحے مرے پہ عندلیب

بات میں بات عیب ہے میں نے تجھے کہا نہیں

۲۳۸۰

خواب خوش سحر سے شوخ تجھ کو صبا جگا گئی

مجھ پہ عبث ہے بے دماغ میں نے تو کچھ کہا نہیں

چشم سفید و اشک سرخ آہ دل حزیں ہے یاں

شیشہ نہیں ہے مے نہیں ابر نہیں ہوا نہیں

ایک فقط ہے سادگی تس پہ بلائے جاں ہے تو

عشوہ کرشمہ کچھ نہیں آن نہیں ادا نہیں

آب و ہوائے ملک عشق تجربہ کی ہے میں بہت

کر کے دوائے درد دل کوئی بھی پھر جیا نہیں

ہووے زمانہ کچھ سے کچھ چھوٹے ہے دل لگا مرا

شوخ کسی ہی آن میں تجھ سے تو میں جدا نہیں

۲۳۸۵

ناز بتاں اٹھا چکا دیر کو میرؔ ترک کر

کعبے میں جا کے بیٹھ میاں تیرے مگر خدا نہیں

 

(۳۳۶)

 

خوبرو سب کی جان ہوتے ہیں

آرزوئے جہان ہوتے ہیں

گوش دیوار تک تو جا نالے

اس میں گل کو بھی کان ہوتے ہیں

کبھو آتے ہیں آپ میں تجھ بن

گھر میں ہم میہمان ہوتے ہیں

دشت کے پھوٹے مقبروں پہ نہ جا

روضے سب گلستان ہوتے ہیں

۲۳۹۰

حرف تلخ ان کے کیا کہوں میں غرض

خوبرو بد زبان ہوتے ہیں

غمزۂ چشم خوش قدان زمیں

فتنۂ آسمان ہوتے ہیں

ق

کیا رہا ہے مشاعرے میں اب

لوگ کچھ جمع آن ہوتے ہیں

میرؔ و مرزا رفیع و خواجہ میر

کتنے اک یہ جوان ہوتے ہیں

 

(۳۳۷)

 

تجھ عشق میں تو مرنے کو تیار بہت ہیں

یہ جرم ہے تو ایسے گنہگار بہت ہیں

۲۳۹۵

اک زخم کو میں ریزۂ الماس سے چیرا

دل پر ابھی جراحت نو کار بہت ہیں

 

 (۳۳۸)

کچھ انکھڑیاں ہی اس کی نہیں اک بلا کہ بس

دل زینہار دیکھ خبردار بہت ہیں

بیگانہ خو رقیب سے وسواس کچھ نہ کر

فرماوے ٹک زباں سے تو پھر یار بہت ہیں

کوئی تو زمزمہ کرے میرا سا دل خراش

یوں تو قفس میں اور گرفتار بہت ہیں

 

(۳۳۹)

 

جنوں میرے کی باتیں دشت اور گلشن میں جب چلیاں

نہ چوب گل نے دم مارا نہ چھڑیاں بید کی ہلیاں

۲۴۰۰

گریباں شور محشر کا اڑایا دھجیاں کر کر

فغاں پر ناز کرتا ہوں کہ بل بے تیری ہتھ بلیاں

تفاوت کچھ نہیں شیرین و شکر اور یوسف میں

سبھی معشوق اگر پوچھے کوئی مصری کی ہیں ڈلیاں

ترے غمزے نے جو رو ظلم سے آنکھیں غزالوں کی

بیاباں میں دکھا مجنوں کو پاؤں کے تلے ملیاں

چمن کو آج مارا ہے یہاں تک رشک گل رو نے

کہ بلبل سر پٹکتی ہے نہیں منھ کھولتیں کلیاں

مری آہ سحر کی برچھیاں سختی کی تڑپوں پر

نگاہیں کر کے گر پڑتی ہیں بجلی کی بھی اچپلیاں

۲۴۰۵

صنم کی زلف میں کوچہ ہے سربستہ ہر اک مو پر

نہ دیکھی ہوں گی تو نے خضر یہ ظلمات میں گلیاں

دوانہ ہو گیا تو میرؔ آخر ریختے کہہ کہہ

نہ کہتا تھا میں  اے ظالم کہ یہ باتیں نہیں بھلیاں

 

 (۳۴۰)

 

ایسے محروم گئے ہم تو گرفتار چمن

کہ موئے قید میں دیوار بہ دیوار چمن

سینے پر داغ کا احوال میں پوچھوں ہوں نسیم

یہ بھی تختہ کبھو ہووے گا سزاوار چمن

باغباں باغ اجارے ہی اگر دینا تھا

تھے زر داغ سے ہم بھی تو خریدار چمن

۲۴۱۰

وے گنہگار ہمیں ہیں کہ جنھیں کہتے ہیں

عاشق زار چمن مرغ گرفتار چمن

خون ٹپکے ہے پڑا نوک سے ہر یک کی ہنوز

کس ستم دیدہ کی مژگاں ہیں تہ خار چمن

باغباں ہم سے خشونت سے نہ پیش آیا کر

عاقبت نالہ کشاں بھی تو ہیں درکار چمن

کم نہیں ہے دل پر داغ بھی  اے مرغ اسیر

گل میں کیا ہے جو ہوا ہے تو طلبگار چمن

گل پر ایسی تو پڑی اوس خزاں میں کہ نسیم

سرد ہی ہو گئی واں گرمی بازار چمن

۲۴۱۵

کیا جزا ٹھہرتی ہے دیکھیے کل حشر کو میرؔ

داغ ہر ایک مرے دل پہ ہے خوں دار چمن

 

(۳۴۱)

 

بزم میں جو ترا ظہور نہیں

شمع روشن کے منھ پہ نور نہیں

کتنی باتیں بنا کے لاؤں ایک

یاد رہتی ترے حضور نہیں

خوب پہچانتا ہوں تیرے تئیں

اتنا بھی تو میں بے شعور نہیں

قتل ہی کر کہ اس میں راحت ہے

لازم اس کام میں مرور نہیں

۲۴۲۰

ق

فکر مت کر ہمارے جینے کا

تیرے نزدیک کچھ یہ دور نہیں

پھر جئیں گے جو تجھ سا ہے جاں بخش

ایسا جینا ہمیں ضرور نہیں

عام ہے یار کی تجلی میرؔ

خاص موسیٰ و کوہ طور نہیں

 

 (۳۴۲)

 

دامن پہ تیرے گرد کا کیونکر اثر نہیں

ہم دل جلوں کی خاک جہاں میں کدھر نہیں

اتنا رقیب خانہ بر انداز سے سلوک

جب آ نکلتے ہیں تو سنے ہیں کہ گھر نہیں

۲۴۲۵

خون جگر تو کچھ نہ رہا تو ہی سب ہوا

بس  اے سرشک آنکھیں تری کیا مگر نہیں

دامان و جیب و دیدہ و مژگان و آستیں

اب کون سا رہا ہے کہ ان میں سے تر نہیں

ہر نقش پا ہے شوخ ترا رشک یاسمن

کم گوشۂ چمن سے ترا رہگذر نہیں

کیوں الاماں کرے ہے دل شب گھڑی گھڑی

برچھی لگاتی آہ ہماری اگر نہیں

آتا ہی تیرے کوچے میں ہوتا جو میرؔ یاں

کیا جانیے کدھر کو گیا کچھ خبر نہیں

۲۴۳۰

 

 (۳۴۳)

 

ساقی کی باغ پر جو کچھ کم نگاہیاں ہیں

مانند جام خالی گل سب جماہیاں ہیں

تیغ جفائے خوباں بے آب تھی کہ ہمدم

زخم بدن ہمارے تفسیدہ ماہیاں ہیں

مسجد سے میکدے پر کاش ابر روز برسے

واں رو سفیدیاں ہیں یاں روسیاہیاں ہیں

جس کی نظر پڑی ہیں ان نے مجھے بھی دیکھا

جب سے وہ شوخ آنکھیں میں نے سراہیاں ہیں

غالب تو یہ ہے زاہد رحمت سے دور ہووے

درکار واں گنہ ہیں یاں بے گناہیاں ہیں

۲۴۳۵

یہ ناز و سرگرانی اللہ رے کہ ہر دم

نازک مزاجیاں ہیں یا کج کلاہیاں ہیں

شاہد لوں میرؔ کس کو اہل محلہ سے میں

محضر پہ خوں کے میرے سب کی گواہیاں ہیں

 

 (۳۴۴)

 

تجھے بھی یار اپنا یوں تو ہم ہر بار کہتے ہیں

ولے کم ہیں بہت وے لوگ جن کو یار کہتے ہیں

جہاں کے مصطبے میں مست طافح ہی نظر آئے

نہ تھا اس دور میں آیا جسے ہشیار کہتے ہیں

سمجھ کر ذکر کر آسودگی کا مجھ سے  اے ناصح

وہ میں ہی ہوں کہ جس کو عافیت بیزار کہتے ہیں

۲۴۴۰

مسافر ہووے جی اس کا خراماں دیکھ کر تجھ کو

جسے میرے وطن میں کبک خوش رفتار کہتے ہیں

ق

معاذ اللہ دخل کفر ہو اسلام میں کیوں ہی

غلط اور پوچ نامعقول بعضے یار کہتے ہیں

علم کو کب ہے وجہ تسمیہ لازم سمجھ دیکھو

سلیمانی میں کیا زنار ہے زنار کہتے ہیں

تری آنکھوں کو آؤں دیکھنے میں تو عجب مت کر

کہ بہتر ہے عیادت اور انھیں بیمار کہتے ہیں

عجب ہوتے ہیں شاعر بھی میں اس فرقے کا عاشق ہوں

کہ بے دھڑکے بھری مجلس میں یہ اسرار کہتے ہیں

۲۴۴۵

مزے ان کے اڑا لیکن نہ یہ سمجھیں تو بہتر ہے

کہ خوباں بھی بہت اپنے تئیں عیار کہتے ہیں

سگ کو میرؔ میں اس شیر حق کا ہوں کہ جس کو سب

نبیؐ کا خویش و بھائی حیدر کرار کہتے ہیں

 

(۳۴۵)

 

ایک پرواز کو بھی رخصت صیاد نہیں

ورنہ یہ کنج قفس بیضۂ فولاد نہیں

شیخ عزلت تو تہ خاک بھی پہنچے گی بہم

مفت ہے سیر کہ یہ عالم ایجاد نہیں

داد لے چھوڑوں میں صیاد سے اپنی لیکن

ضعف سے میرے تئیں طاقت فریاد نہیں

۲۴۵۰

کیوں ہی معذور بھی رکھ یوں تو سمجھ دل میں شیخ

یہ قدح خوار مرے قابل ارشاد نہیں

بے ستوں بھی ہے وہی اور وہی جوئے شیر

تھا نمک شہرت شیریں کا سو فرہاد نہیں

کیا کہوں میرؔ فراموش کیا ان نے تجھے

میں تو تقریب بھی کی پر تو اسے یاد نہیں

 

(۳۴۶)

 

آ جائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں

مہلت ہمیں بسان شرر کم بہت ہے یاں

یک لحظہ سینہ کوبی سے فرصت ہمیں نہیں

یعنی کہ دل کے جانے کا ماتم بہت ہے یاں

۲۴۵۵

حاصل ہے کیا سوائے ترائی کے دہر میں

اٹھ آسماں تلے سے کہ شبنم بہت ہے یاں

مائل بہ غیر ہونا تجھ ابرو کا عیب ہے

تھی زور یہ کماں ولے خم چم بہت ہے یاں

ہم رہروان راہ فنا دیر رہ چکے

وقفہ بسان صبح کوئی دم بہت ہے یاں

اس بت کدے میں معنی کا کس سے کریں سوال

آدم نہیں ہے صورت آدم بہت ہے یاں

عالم میں لوگ ملنے کی گوں اب نہیں رہے

ہر چند ایسا ویسا تو عالم بہت ہے یاں

۲۴۶۰

ویسا چمن سے سادہ نکلتا نہیں کوئی

رنگینی ایک اور خم و چم بہت ہے یاں

اعجاز عیسوی سے نہیں بحث عشق میں

تیری ہی بات جان مجسم بہت ہے یاں

میرے ہلاک کرنے کا غم ہے عبث تمھیں

تم شاد زندگانی کرو غم بہت ہے یاں

دل مت لگا رخ عرق آلود یار سے

آئینے کو اٹھا کہ زمیں نم بہت ہے یاں

شاید کہ کام صبح تک اپنا کھنچے نہ میرؔ

احوال آج شام سے درہم بہت ہے یاں

۲۴۶۵

(۳۴۷)

 

آہ وہ عاشق ستم ترک جفا کرتا نہیں

اور مطلق اب دماغ اپنا وفا کرتا نہیں

بات میں غیروں کو چپ کر دوں ولیکن کیا کروں

وہ سخن نشنو تنک میرا کہا کرتا نہیں

روز بدتر جیسے بیمار اجل ہے دل کا حال

یہ سمجھ کر ہم نشیں اب میں دوا کرتا نہیں

گوئیا باب اجابت ہجر میں تیغا ہوا

ورنہ کس شب آپ کو میں بددعا کرتا نہیں

بیکسان عشق اس کے آہ کس کے پاس جائیں

گور بن کوئی صلا میں لب کو وا کرتا نہیں

۲۴۷۰

چھوٹنا ممکن نہیں اپنا قفس کی قید سے

مرغ سیر آہنگ کو کوئی رہا کرتا نہیں

چرخ کی بھی کج ادائی ہم ہی پر جاتی ہے پیش

ناز کو اس سے تو اک دم بھی جدا کرتا نہیں

دیکھ اسے بے دید ہو آنکھوں نے کیا دیکھا بھلا

دل بھی بد کرتا ہے مجھ سے تو بھلا کرتا نہیں

کیونکے دیکھی جائے یہ بیگانہ وضعی مجھ سے شوخ

تو تو ایدھر یک نگاہ آشنا کرتا نہیں

کیا کہوں پہنچا کہاں تک میرؔ اپنا کار شوق

یاں سے کس دن اک نیا قاصد چلا کرتا نہیں

۲۴۷۵

(۳۴۸)

 

لیتے ہیں سانس یوں ہم جوں تار کھینچتے ہیں

اب دل گرفتگی سے آزار کھینچتے ہیں

سینہ سپر کیا تھا جن کے لیے بلا کا

وے بات بات میں اب تلوار کھینچتے ہیں

مجلس میں تیری ہم کو کب غیر خوش لگے ہے

ہم بیچ اپنے اس کے دیوار کھینچتے ہیں

بے طاقتی نے ہم کو چاروں طرف سے کھویا

تصدیع گھر میں بیٹھے ناچار کھینچتے ہیں

منصور کی حقیقت تم نے سنی ہی ہو گی

حق جو کہے ہے اس کو یاں دار کھینچتے ہیں

۲۴۸۰

شکوہ کروں تو کس سے کیا شیخ کیا برہمن

ناز اس بلائے جاں کے سب یار کھینچتے ہیں

ناوک سے میرؔ اس کے دل بستگی تھی مجھ کو

پیکاں جگر سے میرے دشوار کھینچتے ہیں

 

 

۳۴۹)

 

 

سمجھا تنک نہ اپنے تو سود و زیاں کو میں

مانا کیا خدا کی طرح ان بتاں کو میں

لاویں اسے بھی بعد مرے میری لاش پر

یہ کہہ رکھا ہے اپنے ہر اک مہرباں کو میں

گردش فلک کی کیا ہے جو دور قدح میں ہے

دیتا رہوں گا چرخ مدام آسماں کو میں

۲۴۸۵

جی جاوے تو قبول ترا غم نہ جائیو

رکھتا نپٹ عزیز ہوں اس میہماں کو میں

عاشق ہے یا مریض ہے پوچھو تو میرؔ سے

پاتا ہوں زرد روز بروز اس جواں کو میں

 

(۳۵۰)

 

کر نالہ کشی کب تئیں اوقات گذاریں

فریاد کریں کس سے کہاں جا کے پکاریں

ہر دم کا بگڑنا تو کچھ اب چھوٹا ہے ان سے

شاید کسی ناکام کا بھی کام سنواریں

دل میں جو کبھو جوش غم اٹھتا ہے تو تا دیر

آنکھوں سے چلی جاتی ہیں دریا کی سی دھاریں

۲۴۹۰

کیا ظلم ہے اس خونی عالم کی گلی میں

جب ہم گئے دوچار نئی دیکھیں مزاریں

جس جا کہ خس و خار کے اب ڈھیر لگے ہیں

یاں ہم نے انھیں آنکھوں سے دیکھیں ہیں بہاریں

کیونکر کے رہے شرم مری شہر میں جب آہ

ناموس کہاں اتریں جو دریا پہ ازاریں

وے ہونٹ کہ ہے شور مسیحائی کا جن کی

دم لیویں نہ دوچار کو تا جی سے نہ ماریں

منظور ہے کب سے سرشوریدہ کا دینا

چڑھ جائے نظر کوئی تو یہ بوجھ اتاریں

۲۴۹۵

بالیں پہ سر اک عمر سے ہے دست طلب کا

جو ہے سو گدا کس کنے جا ہاتھ پساریں

ان لوگوں کے تو گرد نہ پھر سب ہیں لباسی

سوگز بھی جو یہ پھاڑیں تو اک گز بھی نہ واریں

ناچار ہو رخصت جو منگا بھیجی تو بولا

میں کیا کروں جو میرؔ جی جاتے ہیں سدھاریں

 

(۳۵۱)

 

یوں ہی حیران و خفا جوں غنچۂ تصویر ہوں

عمر گذری پر نہ جانا میں کہ کیوں دل گیر ہوں

اتنی باتیں مت بنا مجھ شیفتے سے ناصحا

پند کے لائق نہیں میں قابل زنجیر ہوں

۲۵۰۰

سرخ رہتی ہیں مری آنکھیں لہو رونے سے شیخ

مے اگر ثابت ہو مجھ پر واجب التعزیر ہوں

نے فلک پر راہ مجھ کو نے زمیں پر رو مجھے

ایسے کس محروم کا میں شور بے تاثیر ہوں

جوں کماں گرچہ خمیدہ ہوں پہ چھوٹا اور وہیں

اس کے کوچے کی طرف چلنے کو یارو تیر ہوں

جو مرے حصے میں آوے تیغ جمدھر سیل و کارد

یہ فضولی ہے کہ میں ہی کشتۂ شمشیر ہوں

کھول کر دیوان میرا دیکھ قدرت مدعی

گرچہ ہوں میں نوجواں پر شاعروں کا پیر ہوں

۲۵۰۵

یوں سعادت ایک جمدھر مجھ کو بھی گذرانیے

منصفی کیجے تو میں تو محض بے تقصیر ہوں

اس قدر بے ننگ خبطوں کو نصیحت شیخ جی

باز آؤ ورنہ اپنے نام کو میں میرؔ ہوں

 

(۳۵۲)

 

کہے ہے کوہکن کر فکر میری خستہ حالی میں

الٰہی شکر کرتا ہوں تری درگاہ عالی میں

میں وہ پژمردہ سبزہ ہوں کہ ہو کر خاک سے سرزد

یکایک آ گیا اس آسماں کی پائمالی میں

تو سچ کہہ رنگ پاں ہے یہ کہ خون عشق بازاں ہے

سخن رکھتے ہیں کتنے شخص تیرے لب کی لالی میں

۲۵۱۰

برا کہنا بھی میرا خوش نہ آیا اس کو تو ورنہ

تسلی یہ دل ناشاد ہوتا ایک گالی میں

مرے استاد کو فردوس اعلیٰ میں ملے جاگہ

پڑھایا کچھ نہ غیر از عشق مجھ کو خورد سالی میں

خرابی عشق سے رہتی ہے دل پر اور نہیں رہتا

نہایت عیب ہے یہ اس دیار غم کے والی میں

نگاہ چشم پر خشم بتاں پر مت نظر رکھنا

ملا ہے زہر  اے دل اس شراب پرتگالی میں

شراب خون بن تڑپوں سے دل لبریز رہتا ہے

بھرے ہیں سنگ ریزے میں نے اس مینائے خالی میں

۲۵۱۵

خلاف ان اور خوباں کے سدا یہ جی میں رہتا ہے

یہی تو میرؔ اک خوبی ہے معشوق خیالی میں

 

(۳۵۳)

 

آہ اور اشک ہی سدا ہے یاں

روز برسات کی ہوا ہے یاں

جس جگہ ہو زمین تفتہ سمجھ

کہ کوئی دل جلا گڑا ہے یاں

گو کدورت سے وہ نہ دیوے رو

آرسی کی طرح صفا ہے یاں

ہر گھڑی دیکھتے جو ہو ایدھر

ایسا کہ تم نے آ نکلا ہے یاں

۲۵۲۰

رند مفلس جگر میں آہ نہیں

جان محزوں ہے اور کیا ہے یاں

کیسے کیسے مکان ہیں ستھرے

ق

اک ازاں جملہ کربلا ہے یاں

اک سسکتا ہے ایک مرتا ہے

ہر طرف ظلم ہو رہا ہے یاں

صد تمنا شہید ہیں یک جا

سینہ کوبی ہے تعزیہ ہے یاں

دیدنی ہے غرض یہ صحبت شوخ

روز و شب طرفہ ماجرا ہے یاں

۲۵۲۵

خانۂ عاشقاں ہے جائے خوب

جائے رونے کی جا بہ جا ہے یاں

ق

کوہ و صحرا بھی کر نہ جائے باش

آج تک کوئی بھی رہا ہے یاں

ہے خبر شرط میرؔ سنتا ہے

تجھ سے آگے یہ کچھ ہوا ہے یاں

موت مجنوں کو بھی یہیں آئی

کوہکن کل ہی مر گیا ہے یاں

 

(۳۵۴)

جہاں اب خار زاریں ہو گئی ہیں

یہیں آگے بہاریں ہو گئی ہیں

۲۵۳۰

جنوں میں خشک ہو رگ ہائے گردن

گریباں کی سی تاریں ہو گئی ہیں

سنا جاتا ہے شہر عشق کے گرد

مزاریں ہی مزاریں ہو گئی ہیں

اسی دریائے خوبی کا ہے یہ شوق

کہ موجیں سب کناریں ہو گئی ہیں

انھیں گلیوں میں جب روتے تھے ہم میرؔ

کئی دریا کی دھاریں ہو گئی ہیں

 

 (۳۵۵)

 

خوش نہ آئی تمھاری چال ہمیں

یوں نہ کرنا تھا پائمال ہمیں

۲۵۳۵

حال کیا پوچھ پوچھ جاتے ہو

کبھو پاتے بھی ہو بحال ہمیں

وہ دہاں وہ کمر ہی ہے مقصود

اور کچھ اب نہیں خیال ہمیں

اس مہ چار دہ کی دوری نے

دس ہی دن میں کیا ہلال ہمیں

نظر آتے ہیں ہوتے جی کے وبال

حلقہ حلقہ تمھارے بال ہمیں

تنگی اس جا کی نقل کیا کریے

یاں سے واجب ہے انتقال ہمیں

۲۵۴۰

صرف للہ خم کے خم کرتے

نہ کیا چرخ نے کلال ہمیں

مغ بچے مال مست ہم درویش

کون کرتا ہے مشت مال ہمیں

کب تک اس تنگنا میں کھینچئے رنج

یاں سے یارب تو ہی نکال ہمیں

ترک سبزان شہر کریے اب

بس بہت کر چکے نہال ہمیں

وجہ کیا ہے کہ میرؔ منھ پہ ترے

نظر آتا ہے کچھ ملال ہمیں

۲۵۴۵

(۳۵۶)

 

 

نہ کیونکے شیخ توکل کو اختیار کریں

زمانہ ہووے مساعد تو روزگار کریں

گیا وہ زمزمۂ صبح فصل گل بلبل

دعا نہ پہنچے چمن تک ہم اب ہزار کریں

تمام صید سر تیر جمع ہیں لیکن

نصیب اس کے کہ جس کو ترا شکار کریں

تسلی تو ہو دل بے قرار خوباں سے

یہ کاش ملنے نہ ملنے کا کچھ قرار کریں

ہمیں تو نزع میں شرمندہ آ کے ان نے کیا

رہا ہے ایک رمق جی سو کیا نثار کریں

۲۵۵۰

رہی سہی بھی گئی عمر تیرے پیچھے یار

یہ کہہ کہ آہ ترا کب تک انتظار کریں

کریں ہیں حادثے ہر روز وار آخر تو

سنان آہ دل شب کے ہم بھی پار کریں

یہ قتل غیر ہے کیا کام ہم نشیناں آج

جو دشمنی نہ کرے وہ تو اس کو یار کریں

ہوا ہوں خاک رہ اس واسطے کہ خوباں میرؔ

گذار گور پہ میری بھی ایک بار کریں

 (۳۵۷)

 

 

یہ غلط کہ میں پیا ہوں قدح شراب تجھ بن

نہ گلے سے میرے اترا کبھو قطرہ آب تجھ بن

۲۵۵۵

یہی بستی عاشقوں کی کبھو سیر کرنے چل تو

کہ محلے کے محلے پڑے ہیں خراب تجھ بن

میں لہو پیوں ہوں غم میں عوض شراب ساقی

شب میغ ہو گئی ہے شب ماہتاب تجھ بن

گئی عمر میری ساری جیسے شمع باؤ کے بیچ

یہی رونا جلنا گلنا یہی اضطراب تجھ بن

سبھی آتشیں ہیں نالے سبھی زمہریری آہیں

مری جان پر رہا ہے غرض اک عذاب تجھ بن

ترے غم کا شکر نعمت کروں کیا  اے مغبچے میں

نہ ہوا کہ میں نہ کھایا جگر کباب تجھ بن

۲۵۶۰

نہیں جیتے جی تو ممکن ہمیں تجھ بغیر سونا

مگر آنکہ مر کے کیجے تہ خاک خواب تجھ بن

برے حال ہوکے مرتا جو درنگ میرؔ کرتا

یہ بھلا ہوا ستمگر کہ موا شتاب تجھ بن

 

(۳۵۸)

 

تکلیف باغ کن نے کی تجھ خوش دہاں کے تیں

دیتا ہے آگ رنگ ترا گلستاں کے تیں

تنکا بھی اب رہا نہیں شرمندگی ہے جو

گر پڑ کے برق پاوے مرے آشیاں کے تیں

آئے عدم سے ہستی میں تس پر نہیں قرار

ہے ان مسافروں کا ارادہ کہاں کے تیں

۲۵۶۵

سناہٹے سے باغ سے کچھ اٹھتے ہیں نسیم

مرغ چمن نے خوب متھا ہے فغاں کے تیں

بے رحم ٹک تو پاؤں تو چھاتی پہ رکھے رہ

مارا بھی ہے کبھی تیں کسی خستہ جاں کے تیں

اک گردش  اے فلک کہ ہو اثنائے راہ سے

کنعاں کی اور راہ غلط کارواں کے تیں

تو اک زباں پہ چپکی نہیں رہتی عندلیب

رکھتا ہے منھ میں غنچۂ گل سو زباں کے تیں

دیکھے کہاں ہیں زلف تری مردمان شہر

سودا ہوا ہے کہنے لگے اس جواں کے تیں

۲۵۷۰

ہم تو ہوئے تھے میرؔ سے اس دن ہی ناامید

جس دن سنا کہ ان نے دیا دل بتاں کے تیں

 

 (۳۵۹)

 

موئے سہتے سہتے جفا کاریاں

کوئی ہم سے سیکھے وفاداریاں

ہماری تو گذری اسی طور عمر

یہی نالہ کرنا یہی زاریاں

فرشتہ جہاں کام کرتا نہ تھا

مری آہ نے برچھیاں ماریاں

گیا جان سے اک جہاں لیک شوخ

نہ تجھ سے گئیں یہ دل آزاریاں

۲۵۷۵

کہاں تک یہ تکلیف مالا یطاق

ہوئیں مدتوں ناز برداریاں

خط و کاکل و زلف و انداز و ناز

ہوئیں دام رہ صد گرفتاریاں

کیا درد و غم نے مجھے ناامید

کہ مجنوں کو یہ ہی تھیں بیماریاں

تری آشنائی سے ہی حد ہوئی

بہت کی تھیں دنیا میں ہم یاریاں

نہ بھائی ہماری تو قدرت نہیں

کھنچیں میرؔ تجھ سے ہی یہ خواریاں

۲۵۸۰

 

(۳۶۰)

 

دن نہیں رات نہیں صبح نہیں شام نہیں

وقت ملنے کا مگر داخل ایام نہیں

مثل عنقا مجھے تم دور سے سن لو ورنہ

ننگ ہستی ہوں مری جائے بجز نام نہیں

خطر راہ وفا بلکہ بہت دور کھنچا

عمر گذری کہ بہم نامہ و پیغام نہیں

راز پوشی محبت کے تئیں چاہیے ضبط

سو تو بیتابی دل بن مجھے آرام نہیں

بے قراری جو کوئی دیکھے ہے سو کہتا ہے

کچھ تو ہے میرؔ کہ اک دم تجھے آرام نہیں

۲۵۸۵

 

(۳۶۱)

 

کیا ظلم کیا تعدی کیا جور کیا جفائیں

اس چرخ نے کیاں ہیں ہم سے بہت ادائیں

دیکھا کہاں وہ نسخہ اک روگ میں بساہا

جی بھر کبھو نہ پنپا بہتیری کیں دوائیں

اک رنگ گل نے رہنا یاں یوں نہیں کیا ہے

اس گلشن جہاں میں ہیں مختلف ہوائیں

ہے فرش عرش تک بھی قلب حزیں کا اپنے

اس تنگ گھر میں ہم نے دیکھی ہیں کیا فضائیں

چہرے کے زخم ناخن کے سے کہاں کہ گویا

گھر سے نکلتے ہی ہم تلواریں منھ پہ کھائیں

۲۵۹۰

شب نالہ آسماں تک جی سخت کر کے پہنچا

تھیں نیم کشتۂ یاس اکثر مری دعائیں

روکش تو ہو ترا پر آئینے میں کہاں یہ

رعنائیاں ادائیں رنگینیاں صفائیں

ہے امر سہل چاہت لیکن نباہ مشکل

پتھر کرے جگر کو تب تو کرے وفائیں

ناز بتان سادہ ہے اللہ اللہ  اے میرؔ

ہم خط سے مٹ گئے پر ان کے نہیں ہے بھائیں

 

(۳۶۲)

 

آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں

تو بھی ہم دل کو مار رکھتے ہیں

۲۵۹۵

برق کم حوصلہ ہے ہم بھی تو

دلک بے قرار رکھتے ہیں

غیر ہی مورد عنایت ہے

ہم بھی تو تم سے پیار رکھتے ہیں

نہ نگہ نے پیام نے وعدہ

نام کو ہم بھی یار رکھتے ہیں

ہم سے خوش زمزمہ کہاں یوں تو

لب و لہجہ ہزار رکھتے ہیں

ق

چوٹٹے دل کے ہیں بتاں مشہور

بس یہی اعتبار رکھتے ہیں

۲۶۰۰

پھر بھی کرتے ہیں میرؔ صاحب عشق

ہیں جواں اختیار رکھتے ہیں

 

 (۳۶۳)

 

گذر جان سے اور ڈر کچھ نہیں

رہ عشق میں پھر خطر کچھ نہیں

ہے اب کام دل جس پہ موقوف تو

وہ نالہ کہ جس میں اثر کچھ نہیں

ہوا مائل اس سرو کا دل مرا

بجز جور جس سے ثمر کچھ نہیں

نہ کر اپنے محووں کا ہرگز سراغ

گئے گذرے بس اب خبر کچھ نہیں

۲۶۰۵

تری ہو چکی خشک مژگاں کی سب

لہو اب جگر میں مگر کچھ نہیں

حیا سے نہیں پشت پا پر وہ چشم

مرا حال مد نظر کچھ نہیں

کروں کیونکے انکار عشق آہ میں

یہ رونا بھلا کیا ہے گر کچھ نہیں

کمر اس کی رشک رگ جاں ہے میرؔ

غرض اس سے باریک تر کچھ نہیں

 

(۳۶۴)

 

نالۂ قید قفس سے چھوٹ اب اک دم نہیں

گوش گل سے لگتے تھے جا کے سو وہ موسم نہیں

۲۶۱۰

ہم پہ کھینچی تیغ تو غیروں کو ٹک لگنے نہ دے

وے اگر ہوویں گے اس کے درمیاں تو ہم نہیں

بت برہمن کوئی نامحرم نہیں اللہ کا

ہے حرم میں شیخ لیکن میرؔ وہ محرم نہیں

 

 (۳۶۵)

 

تری ابرو و تیغ تیز تو ہم دم ہیں یہ دونوں

ہوئے ہیں دل جگر بھی سامنے رستم ہیں یہ دونوں

نہ کچھ کاغذ میں ہے تہ نے قلم کو درد نالوں کا

لکھوں کیا عشق کے حالات نامحرم ہیں یہ دونوں

لہو آنکھوں سے بہتے وقت رکھ لیتا ہوں ہاتھوں کو

جراحت ہیں اگر وے دونوں تو مرہم ہیں یہ دونوں

۲۶۱۵

کسو چشمے پہ دریا کے دیا اوپر نظر رکھیے

ہمارے دیدۂ نم دیدہ کیا کچھ کم ہیں یہ دونوں

لب جاں بخش اس کے مار ہی رکھتے ہیں عاشق کو

اگرچہ آب حیواں ہیں ولیکن سم ہیں یہ دونوں

نہیں ابرو ہی مائل جھک رہی ہے تیغ بھی ایدھر

ہمارے کشت و خوں میں متفق باہم ہیں یہ دونوں

کھلے سینے کے داغوں پر ٹھہر رہتے ہیں کچھ آنسو

چمن میں مہر ورزی کے گل و شبنم ہیں یہ دونوں

کبھو دل رکنے لگتا ہے جگر گاہے تڑپتا ہے

غم ہجراں میں چھاتی کے ہماری جم ہیں یہ دونوں

۲۶۲۰

خدا جانے کہ دنیا میں ملیں اس سے کہ عقبیٰ میں

مکاں تو میرؔ صاحب شہرۂ عالم ہیں یہ دونوں

 

 (۳۶۶)

 

لب ترے لعل ناب ہیں دونوں

پر تمامی عتاب ہیں دونوں

رونا آنکھوں کا رویئے کب تک

پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں

ہے تکلف نقاب وے رخسار

کیا چھپیں آفتاب ہیں دونوں

تن کے معمورے میں یہی دل و چشم

گھر تھے دو سو خراب ہیں دونوں

۲۶۲۵

کچھ نہ پوچھو کہ آتش غم سے

جگر و دل کباب ہیں دونوں

سو جگہ اس کی آنکھیں پڑتی ہیں

جیسے مست شراب ہیں دونوں

پاؤں میں وہ نشہ طلب کا نہیں

اب تو سرمست خواب ہیں دونوں

ایک سب آگ ایک سب پانی

دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں

بحث کاہے کو لعل و مرجاں سے

اس کے لب ہی جواب ہیں دونوں

۲۶۳۰

آگے دریا تھے دیدۂ تر میرؔ

اب جو دیکھو سراب ہیں دونوں

 

(۳۶۷)

 

مجھ کو مارا بھلا کیا تو نیں

پر وفا کا برا کیا تو نیں

حسرتیں اس کی سر پٹکتی ہیں

مرگ فرہاد کیا کیا تو نیں

اس کے جور و جفا کی کیا تقصیر

جو کیا سو وفا کیا تو نیں

یہ چمن ہے قفس سے پر  اے ضعف

مجھ کو بے دست و پا کیا تو نیں

۲۶۳۵

کل ہی پڑتی نہیں ہے تجھ  بن آج

میرؔ کو کیا بلا کیا تو نیں

وہ جو کہتا تھا تو ہی کریو قتل

میرؔ کا سو کہا کیا تو نیں

 

(۳۶۸)

 

ہمیشہ دل  میں کہتا ہوں یہاں جاؤں وہاں جاؤں

ترے غم کو اکیلا چھوڑ کر پیارے کہاں جاؤں

لگی آتی ہے واں تک تیرے دامن کی ہوا اڑ کے

میں یہ مشت غبار اپنا چھپانے کو جہاں جاؤں

ادھر صحرائے بیتابی ادھر مشہد ہے  اے قاتل

جو فرماوے تو واں جاؤں جو فرماوے تو یاں جاؤں

۲۶۴۰

اگر جیتا رہا  اے زلف تو میں میرؔ ہوں سنیو

بلائے ناگہانی کے سر اوپر ناگہاں جاؤں

 

(۳۶۹)

 

 

عشق کرنے کو جگر چاہیے آسان نہیں

سب کو دعویٰ ہے ولے ایک میں یہ جان نہیں

غارت دیں میں نگہ خصمی ایماں میں ادا

تجھ کو کافر نہ کہے جو وہ مسلمان نہیں

سرسری ملیے بتوں سے جو نہ ہو تاب جفا

عشق کا ذائقہ کچھ داخل ایمان نہیں

ایک بے درد تجھے پاس نہیں عاشق کا

ورنہ عالم میں کسے خاطر مہمان نہیں

۲۶۴۵

کیونکے غم سرزدہ ہر لحظہ نہ آوے دل میں

گھر ہے درویش کا یاں در نہیں دربان نہیں

ہم نشیں آہ نہ تکلیف شکیبائی کر

عشق میں صبر و تحمل ہو یہ امکان نہیں

کس طرح منزل مقصود پہ پہنچیں گے میرؔ

سفر دور ہے اور ہم کنے سامان نہیں

 

 (۳۷۰)

 

تری زلف سیہ کی یاد میں آنسو جھمکتے ہیں

اندھیری رات ہے برسات ہے جگنو چمکتے ہیں

 

(۳۷۱)

 

فردوس سے کچھ اس کی گلی میں کمی نہیں

پر ساکنوں میں واں کے کوئی آدمی نہیں

۲۶۵۰

(۳۷۲)

 

نہ سنے گا فغاں مری پھر تو

میں ترے کان کھول رکھتا ہوں

 

 (۳۷۳)

 

جو ترے لب سے کام رکھتے ہیں

یمنی کو وے نام رکھتے ہیں

 

 (۳۷۴)

 

کر نظر اک دور سے مجھ داغ میں

آنکھیں نیچی کر گیا گل باغ میں

 

 (۳۷۵)

 

کیسہ پر زر ہو تو جفا جویاں

تم سے کتنے ہماری جیب میں ہیں

 

 (۳۷۶)

 

کر صرف دید عمر پھرے ہے تو یاں کہاں

ہے سیر مفت میرؔ تجھے پھر جہاں کہاں

۲۶۵۵

                ردیف و

 

 

(۳۷۷)

 

فلک نے گر کیا رخصت مجھے سیر بیاباں کو

نکالا سر سے میرے جائے مو خار مغیلاں کو

وہ ظالم بھی تو سمجھے کہہ رکھا ہے ہم نے یاراں کو

کہ گورستان سے گاڑیں جدا ہم اہل ہجراں کو

نہیں یہ بید مجنوں گردش گردون گرداں نے

بنایا ہے شجر کیا جانیے کس مو پریشاں کو

ہوئے تھے جیسے مر جاتے پر اب تو سخت حسرت ہے

کیا دشوار نادانی سے ہم نے کار آساں کو

کہیں نسل آدمی کی اٹھ نہ جاوے اس زمانے میں

کہ موتی آب حیواں جانتے ہیں آب انساں کو

۲۶۶۰

تجھے گر چشم عبرت ہے تو آندھی اور بگولے سے

تماشا کر غبار افشانی خاک عزیزاں کو

لباس مرد میداں جوہر ذاتی کفایت ہے

نہیں پروائے پوشش معرکے میں تیغ عریاں کو

ہوائے ابر میں گرمی نہیں جو تو نہ ہو ساقی

دم افسردہ کر دے منجمد رشحات باراں کو

جلیں ہیں کب کی مژگاں آنسوؤں کی گرم جوشی سے

اس آب چشم کی جوشش نے آتش دی نیستاں کو

وہ کافر عشق کا ہے دل کہ میری بھی رگ جاں تک

سدا زنار ہی تسبیح ہے اس نامسلماں کو

۲۶۶۵

غرور ناز سے آنکھیں نہ کھولیں اس جفا جونے

ملا پاؤں تلے جب تک نہ چشم صد غزالاں کو

نہ سی چشم طمع خوان فلک پر خام دستی سے

کہ جام خون دے ہے ہر سحر یہ اپنے مہماں کو

زبس صرف جنوں میرے ہوا آہن عجب مت کر

نہ ہو گر حلقۂ در خانۂ زنجیر سازاں کو

بنے ناواقف شادی اگر ہم بزم عشرت میں

دہان زخم دل سمجھے جو دیکھا روئے خنداں کو

نہیں ریگ رواں مجنوں کے دل کی بے قراری نے

کیا ہے مضطرب ہر ذرۂ گرد بیاباں کو

۲۶۷۰

کسی کے واسطے رسوائے عالم ہو پہ جی میں رکھ

کہ مارا جائے جو ظاہر کرے اس راز پنہاں کو

گری پڑتی ہے بجلی ہی تبھی سے خرمن گل پر

ٹک اک ہنس میرے رونے پر کہ دیکھے تیرے دنداں کو

غرور ناز قاتل کو لیے جا ہے کوئی پوچھے

چلا تو سونپ کر کس کے تئیں اس صید بے جاں کو

وہ تخم سوختہ تھے ہم کہ سرسبزی نہ کی حاصل

ملایا خاک میں دانہ نمط حسرت سے دہقاں کو

ہوا ہوں غنچۂ پژمردہ آخر فصل کا تجھ بن

نہ دے برباد حسرت کشتۂ سردرگریباں کو

۲۶۷۵

غم و اندوہ و بیتابی الم بے طاقتی حرماں

کہوں  اے ہم نشیں تا چند غم ہائے فراواں کو

گل وسرو وسمن گر جائیں گے مت سیرگلشن کر

ملا مت خاک میں ان باغ کے رعنا جواناں کو

بہت روئے جو ہم  یہ آستیں رکھ منھ پہ  اے بجلی

نہ چشم کم سے دیکھ اس یادگار چشم گریاں کو

مزاج اس وقت ہے اک مطلع تازہ پہ کچھ مائل

کہ بے فکرسخن بنتی نہیں ہرگز سخنداں کو

 

 (۳۷۸)

 

نسیم مصر کب آئی سواد شہر کنعاں کو

کہ بھر جھولی نہ یاں سے لے گئی گل ہائے حرماں کو

۲۶۸۰

زبان نوحہ گر ہوں میں قضا نے کیا ملایا تھا

مری طینت میں یارب سودۂ دل ہائے نالاں کو

کوئی کانٹا سررہ کا ہماری خاک پر بس ہے

گل گلزار کیا درکار ہے گور غریباں کو

یہ کیا جانوں ہوا سینے میں کیا اس دل کو اب ناصح

سحر خوں بستہ تو دیکھا تھا میں نے اپنی مژگاں کو

گل و سنبل ہیں نیرنگ قضا مت سرسری گذرے

کہ بگڑے زلف و رخ کیا کیا بناتے اس گلستاں کو

صدائے آہ جیسے تیر جی کے پار ہوتی ہے

کسو بیدرد نے کھینچا کسو کے دل سے پیکاں کو

۲۶۸۵

کریں بال ملک فرش رہ اس ساعت کہ محشر میں

لہو ڈوبا کفن لاویں شہید ناز خوباں کو

کیا سیر اس خرابے کا بہت اب چل کے سو رہیے

کسو دیوار کے سائے میں منھ پر لے کے داماں کو

بہائے سہل پر دیتے ہیں کس محبوب کو کف سے

قلم اس جرم پر کرنا ہے دست گل فروشاں کو

تری ہی جستجو میں گم ہوا ہے کہہ کہاں کھویا

جگر خوں گشتہ دل آزردہ میرؔ اس خانہ ویراں کو

 

(۳۷۹)

 

قد کھینچے ہے جس وقت تو ہے طرفہ بلا تو

کہتا ہے ترا سایہ پری سے کہ ہے کیا تو

۲۶۹۰

گر اپنی روش راہ چلا یار تو  اے کبک

رہ جائے گا دیوار گلستاں سے لگا تو

بے گل نہیں بلبل تجھے بھی چین پہ دیکھیں

مر رہتے ہیں ہم ایک طرف باغ میں یا تو

خوش رو ہے بہت  اے گل تر تو بھی ولیکن

انصاف ہے منھ تیرے ہی ویسا ہے بھلا تو

کیا جانیے  اے گوہر مقصد تو کہاں ہے

ہم خاک میں بھی مل گئے لیکن نہ ملا تو

اس جینے سے اب دل کو اٹھا بیٹھیں گے ہم بھی

ہے تجھ کو قسم ظلم سے مت ہاتھ اٹھا تو

۲۶۹۵

منظر میں بدن کے بھی یہ اک طرفہ مکاں تھا

افسوس کہ ٹک دل میں ہمارے نہ رہا تو

تھے چاک گریبان گلستاں میں گلوں کے

نکلا ہے مگر کھولے ہوئے بند قبا تو

بے ہوشی سی آتی ہے تجھے اس کی گلی میں

گر ہوسکے  اے میرؔ تو اس راہ نہ جا تو

 

(۳۸۰)

 

خط لکھ کے کوئی سادہ نہ اس کو ملول ہو

ہم تو ہوں بدگمان جو قاصد رسول ہو

چاہوں تو بھرکے کولی اٹھا لوں ابھی تمھیں

کیسے ہی بھاری ہو مرے آگے تو پھول ہو

۲۷۰۰

سرمہ جو نور بخشے ہے آنکھوں کو خلق کی

شاید کہ راہ یار کی ہی خاک دھول ہو

جاویں نثار ہونے کو ہم کس بساط پر

اک نیم جاں رکھیں ہیں سو وہ جب قبول ہو

ہم ان دنوں میں لگ نہیں پڑتے ہیں صبح و شام

ورنہ دعا کریں تو جو چاہیں حصول ہو

دل لے کے لونڈے دلی کے کب کا پچا گئے

اب ان سے کھائی پی ہوئی شے کیا وصول ہو

ناکام اس لیے ہو کہ چاہو ہو سب کچھ آج

تم بھی تو میرؔ صاحب و قبلہ عجول ہو

۲۷۰۵

(۳۸۱)

 

کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو

ہاں کہو اعتماد ہے ہم کو

شوق ہی شوق ہے نہیں معلوم

اس سے کیا دل نہاد ہے ہم کو

خط سے نکلے ہے بے وفائی حسن

اس قدر تو سواد ہے ہم کو

آہ کس ڈھب سے رویئے کم کم

شوق حد سے زیاد ہے ہم کو

شیخ و پیر مغاں کی خدمت میں

دل سے اک اعتقاد ہے ہم کو

۲۷۱۰

سادگی دیکھ عشق میں اس کے

خواہش جان شاد ہے ہم کو

بدگمانی ہے جس سے تس سے آہ

قصد شور و فساد ہے ہم کو

دوستی ایک سے بھی تجھ کو نہیں

اور سب سے عناد ہے ہم کو

نامرادانہ زیست کرتا تھا

میرؔ کا طور یاد ہے ہم کو

 

(۳۸۲)

 

مباد کینے پہ اس بت کی طبع آئی ہو

پھر ایک بس ہے وہی گو ادھر خدائی ہو

۲۷۱۵

مدد نہ اتنی بھی کی بخت ناموافق نے

کہ مدعی سے اسے ایک دن لڑائی ہو

ہنوز طفل ہے وہ ظلم پیشہ کیا جانے

لگاوے تیغ سلیقے سے جو لگائی ہو

لبوں سے تیرے تھا آگے ہی لعل سرخ و زرد

قسم ہے میں نے اگر بات بھی چلائی ہو

خدا کرے کہ نصیب اپنے ہو نہ آزادی

کدھر کے ہو جے جو بے بال و پر رہائی ہو

مزے کو عشق کی ذلت کے جانتا ہے وہی

کسو کی جن نے کبھو لات مکی کھائی ہو

۲۷۲۰

اس آفتاب سے تو فیض سب کو پہنچے ہے

یقین ہے کہ کچھ اپنی ہی نارسائی ہو

کبھو ہے چھیڑ کبھو گالی ہے کبھو چشمک

بیان کریے جو ایک اس کی بے ادائی ہو

دیار حسن میں غالب کہ خستہ جانوں نے

دوا کے واسطے بھی مہر ٹک نہ پائی ہو

ہزار مرتبہ بہتر ہے بادشاہی سے

اگر نصیب ترے کوچے کی گدائی ہو

جو کوئی دم ہو تو لوہو سا پی کے رہ جاؤں

غموں کی دل میں بھلا کب تلک سمائی ہو

۲۷۲۵

مغاں سے راہ تو ہو جائے رفتہ رفتہ شیخ

ترا بھی قصد اگر ترک پارسائی ہو

کہیں تو ہیں کہ عبث میرؔ نے دیا جی کو

خدا ہی جانے کہ کیا جی میں اس کے آئی ہو

 

(۳۸۳)

 

اے چرخ مت حریف اندوہ بے کساں ہو

کیا جانے منھ سے نکلے نالے کے کیا سماں ہو

کب تک گرہ رہے گا سینے میں دل کے مانند

اے اشک شوق اک دم رخسار پر رواں ہو

ہم دور ماندگاں کی منزل رساں مگر اب

یا ہو صدا جرس کی یا گرد کارواں ہو

۲۷۳۰

مسند نشین ہو گر عرصہ ہے تنگ اس پر

آسودہ وہ کسو کا جو خاک آستاں ہو

تا چند کوچہ گردی جیسے صبا زمیں پر

اے آہ صبح گاہی آشوب آسماں ہو

گر ذوق سیر ہے تو آوارہ اس چمن میں

مانند عندلیب گم کردہ آشیاں ہو

یہ جان تو کہ ہے اک آوارہ دست بر دل

خاک چمن کے اوپر برگ خزاں جہاں ہو

کیا ہے حباب ساں یاں آ دیکھ اپنی آنکھوں

گر پیرہن میں میرے میرا تجھے گماں ہو

۲۷۳۵

از خویش رفتہ ہر دم رہتے ہیں ہم جو اس بن

کہتے ہیں لوگ اکثر اس وقت تم کہاں ہو

پتھر سے توڑ ڈالوں آئینے کو ابھی میں

گر روئے خوبصورت تیرا نہ درمیاں ہو

اس تیغ زن سے کہیو قاصد مری طرف سے

اب تک بھی نیم جاں ہوں گر قصد امتحاں ہو

کل بت کدے میں ہم نے دھولیں لگائیاں ہیں

کعبے میں آج زاہد گو ہم پہ سرگراں ہو

ہمسایہ اس چمن کے کتنے شکستہ پر ہیں

اتنے لیے کہ شاید اک باؤ گل فشاں ہو

۲۷۴۰

میرؔ اس کو جان کر تو بے شبہ ملیو رہ پر

صحرا میں جو نمد مو بیٹھا کوئی جواں ہو

 

(۳۸۴)

 

گرچہ کب دیکھتے ہو پر دیکھو

آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو

عشق کیا کیا ہمیں دکھاتا ہے

آہ تم بھی تو اک نظر دیکھو

یوں عرق جلوہ گر ہے اس منھ پر

جس طرح اوس پھول پر دیکھو

ہر خراش جبیں جراحت ہے

ناخن شوق کا ہنر دیکھو

۲۷۴۵

تھی ہمیں آرزو لب خنداں

سو عوض اس کے چشم تر دیکھو

رنگ رفتہ بھی دل کو کھینچے ہے

ایک شب اور یاں سحر دیکھو

دل ہوا ہے طرف محبت کا

خون کے قطرے کا جگر دیکھو

پہنچے ہیں ہم قریب مرنے کے

یعنی جاتے ہیں دور اگر دیکھو

لطف مجھ میں بھی ہیں ہزاروں میرؔ

دیدنی ہوں جو سوچ کر دیکھو

۲۷۵۰

(۳۸۵)

 

آرام ہو چکا مرے جسم نزار کو

رکھے خدا جہاں میں دل بے قرار کو

پانی پہ جیسے غنچۂ لالہ پھرے بہا

دیکھا میں آنسوؤں میں دل داغدار کو

برسا تو میرے دیدۂ خوں بار کے حضور

پر اب تک انفعال ہے ابر بہار کو

ہنستا ہی میں پھروں جو مرا کچھ ہو اختیار

پر کیا کروں میں دیدۂ بے اختیار کو

آیا جہاں میں دوست بھی ہوتے ہیں یک دگر

مجھ سے جو دشمنی ہی رہی میرے یار کو

۲۷۵۵

سو بار یوں تو غیروں سے کرتے ہو ہنس کے بات

کچھ منھ بنا رہو ہو ہماری ہی بار کو

سر گشتگی سوائے نہ دیکھا جہاں میں کچھ

اک عمر خضر سیر کیا اس دیار کو

کس کس کی خاک اب کی ملانی ہے خاک میں

جاتی ہے پھر نسیم اسی رہگذار کو

اے وہ کوئی جو آج پیے ہے شراب عیش

خاطر میں رکھیو کل کے بھی رنج و خمار کو

خوباں کا کیا جگر جو کریں مجھ کو اپنا صید

پہچانتا ہے سب کوئی تیرے شکار کو

۲۷۶۰

ق

جیتے جی فکر خوب ہے ورنہ یہ بد بلا

رکھے گا حشر تک تہ و بالا مزار کو

گر ساتھ لے گڑا تو دل مضطرب تو میرؔ

آرام ہو چکا ترے مشت غبار کو

 

(۳۸۶)

 

اچھی لگے ہے تجھ بن گل گشت باغ کس کو

صحبت رکھے گلوں سے اتنا دماغ کس کو

بے سوز داغ دل پر گر جی جلے بجا ہے

اچھا لگے ہے اپنا گھر بے چراغ کس کو

صد چشم داغ وا ہیں دل پر مرے میں وہ ہوں

دکھلا رہا ہے لالہ تو اپنا داغ کس کو

۲۷۶۵

گل چین عیش ہوتے ہم بھی چمن میں جا کر

آہ و فغاں سے اپنی لیکن فراغ کس کو

کر شکر چشم پر خوں  اے مست درد الفت

دیتے ہیں سرخ مے سے بھر کر ایاغ کس کو

اس کی بلا سے جو ہم  اے میرؔ گم بھی ہوویں

ہم سے غریب کا ہو فکر سراغ کس کو

 

(۳۸۷)

 

دن گذرتا ہے مجھے فکر ہی میں تا کیا ہو

رات جاتی ہے اسی غم میں کہ فردا کیا ہو

سب ہیں دیدار کے مشتاق پر اس سے غافل

حشر برپا ہو کہ فتنہ اٹھے آیا کیا ہو

۲۷۷۰

خاک حسرت زدگاں پر تو گذر بے وسواس

ان ستم کشتوں سے اب عرض تمنا کیا ہو

گر بہشت آوے تو آنکھوں میں مری پھیکی لگے

جن نے دیکھا ہو تجھے محو تماشا کیا ہو

شوق جاتا ہے ہمیں یار کے کوچے کو لیے

جاکے معلوم ہو کیا جانیے اس جا کیا ہو

ایک رونا ہی نہیں آہ و غم و نالہ و درد

ہجر میں زندگی کرنے کے تئیں کیا کیا ہو

خاک میں لوٹوں کہ لوہو میں نہاؤں میں میرؔ

یار مستغنی ہے اس کو مری پروا کیا ہو

۲۷۷۵

(۳۸۸)

 

ویسا کہاں ہے ہم سے جیسا کہ آگے تھا تو

اوروں سے مل کے پیارے کچھ اور ہو گیا تو

چالیں تمام بے ڈھب باتیں فریب ہیں سب

حاصل کہ  اے شکر لب اب وہ نہیں رہا تو

جاتے نہیں اٹھائے یہ شور ہرسحر کے

یا اب چمن میں بلبل ہم ہی رہیں گے یا تو

آ ابر ایک دو دم آپس میں رکھیں صحبت

کڑھنے کو ہوں میں آندھی رونے کو ہے بلا تو

تقریب پر بھی تو تو پہلو تہی کرے ہے

دس بار عید آئی کب کب گلے ملا تو

۲۷۸۰

تیرے دہن سے اس کو نسبت ہو کچھ تو کہیے

گل گو کرے ہے دعویٰ خاطر میں کچھ نہ لا تو

دل کیونکے راست آوے دعوائے آشنائی

دریائے حسن وہ مہ کشتی بہ کف گدا تو

ہر فرد یاس ابھی سے دفتر ہے تجھ گلے کا

ہے قہر جب کہ ہو گا حرفوں سے آشنا تو

عالم ہے شوق کشتہ خلقت ہے تیری رفتہ

جانوں کی آرزو تو آنکھوں کا مدعا تو

منھ کریے جس طرف کو سو ہی تری طرف ہے

پر کچھ نہیں ہے پیدا کیدھر ہے  اے خدا تو

۲۷۸۵

آتی بخود نہیں ہے باد بہار اب تک

دو گام تھا چمن میں ٹک ناز سے چلا تو

کم میری اور آنا کم آنکھ کا ملانا

کرنے سے یہ ادائیں ہے مدعا کہ جا تو

گفت و شنود اکثر میرے ترے رہے ہے

ظالم معاف رکھیو میرا کہا سنا تو

کہہ سانجھ کے موئے کو  اے میرؔ روئیں کب تک

جیسے چراغ مفلس اک دم میں جل بجھا تو

 

(۳۸۹)

 

خوبی یہی نہیں ہے کہ انداز و ناز ہو

معشوق کا ہے حسن اگر دل نواز ہو

۲۷۹۰

سجدے کا کیا مضائقہ محراب تیغ میں

پر یہ تو ہو کہ نعش پہ میری نماز ہو

اک دم تو ہم میں تیغ کو تو بے دریغ کھینچ

تا عشق میں ہوس میں تنک امتیاز ہو

نزدیک سوز سینہ سے رکھ اپنے قلب کو

وہ دل ہی کیمیا ہے جو گرم گداز ہو

ہے فرق ہی میں خیر نہ کر آرزوئے وصل

مل بیٹھیے جو اس سے تو شکوہ دراز ہو

جوں توں کے اس کی چاہ کا پردہ کیا ہے میں

اے چشم گریہ ناک نہ افشائے راز ہو

۲۷۹۵

جوں چشم بسملی نہ مندی آوے گی نظر

جو آنکھ میرے خونی کے  چہرے پہ باز ہو

ہم سے تو غیر عجز کبھو کچھ بنا نہ میرؔ

خوش حال وہ فقیر کہ جو بے نیاز ہو

 

(۳۹۰)

 

نالہ مرا اگر سبب شور و شر نہ ہو

پھر مر بھی جایئے تو کسو کو خبر نہ ہو

دل پر ہوا سو آہ کے صدمے سے ہو چکا

ڈرتا ہوں یہ کہ اب کہیں ٹکڑے جگر نہ ہو

برچھی سی پار عرش کے گذری نہ عاقبت

آہ سحر میں میری کہاں تک اثر نہ ہو

۲۸۰۰

سمجھا ہوں تیری آنکھ چھپانے سے خوش نگاہ

مد نظر یہ ہے کہ کسی کی نظر نہ ہو

ق

کھینچے ہے دل کو زلف سے گاہے نگہ سے گاہ

حیراں نہ ہووے کوئی تو اس طرز پر نہ ہو

سو دل سے بھی نہ کام چلے اس کے عشق میں

اک دل رکھوں ہوں میں تو کدھر ہو کدھر نہ ہو

ق

جس راہ ہو کے آج میں پہنچا ہوں تجھ تلک

کافر کا بھی گذار الٰہی ادھر نہ ہو

یک جا نہ دیکھی آنکھوں سے ایسی تمام راہ

جس میں بجائے نقش قدم چشم تر نہ ہو

۲۸۰۵

ہر یک قدم پہ لوگ ڈرانے لگے مجھے

ہاں یاں کسو شہید محبت کا سر نہ ہو

چلیو سنبھل کے سب یہ شہیدان عشق ہیں

تیرا گذار تاکہ کسو نعش پر نہ ہو

دامن کشاں ہی جا کہ طپش پر طپش ہے دفن

زنہار کوئی صدمے سے زیر و زبر نہ ہو

مضطر ہو اختیار کی وہ شکل دل میں میں

اس راہ ہو کے جاؤں یہ صورت جدھر نہ ہو

لیکن عبث نگاہ جہاں کریے اس طرف

امکان کیا کہ خون مرے تا کمر نہ ہو

۲۸۱۰

حیراں ہوں میں کہ ایسی یہ مشہد ہے کون سی

مجھ سے خراب حال کو جس کی خبر نہ ہو

آتا ہے یہ قیاس میں اب تجھ کو دیکھ کر

ظالم جفا شعار ترا رہگذر نہ ہو

اٹھ جائے رسم نالہ و آہ و  فغان سب

اس تیرہ روزگار میں تو میرؔ اگر نہ ہو

 

 (۳۹۱)

 

ہم سے تو تم کو ضد سی پڑی ہے خواہ نخواہ رلاتے ہو

آنکھ اٹھا کر جب دیکھے ہیں اوروں میں ہنستے جاتے ہو

جب ملنے کا سوال کروں ہوں زلف و رخ دکھلاتے ہو

برسوں مجھ کو یوں ہی گذرے صبح و شام بتاتے ہو

۲۸۱۵

بکھری رہیں ہیں منھ پر زلفیں آنکھ نہیں کھل سکتی ہے

کیونکے چھپے مے خواری شب جب ایسے رات کے ماتے ہو

سرو تہ و بالا ہوتا ہے درہم برہم شاخ گل

ناز سے قد کش ہوکے چمن میں ایک بلا تم لاتے ہو

صبح سے یاں پھر جان و دل پر روز قیامت رہتی ہے

رات کبھو آ رہتے ہو تو یہ دن ہم کو دکھلاتے ہو

جن نے تم کو نہ دیکھا ہووے اس سے آنکھیں مارو تم

ایک نگاہ مفتن کر تم سو سو فتنے اٹھاتے ہو

چشم تو ہے اک دید کی جا پر کب تکلیف کے لائق ہے

دل جو ہے دلچسپ مکاں تم اس میں کب کب آتے ہو

۲۸۲۰

راحت پہنچی ٹک تم سے تو رنج اٹھایا برسوں تک

سر سہلاتے ہو جو کبھو تو بھیجا بھی کھا جاتے ہو

ہو کے گدائے کوئے محبت زور صدا یہ نکالی ہے

اب تو میرؔ جی راتوں کو تم ہر در پر چلاتے ہو

 

(۳۹۲)

 

 

وہی جانے جو حیا کشتہ وفا رکھتا ہو

اور رسوائی کا اندیشہ جدا رکھتا ہو

کام لے یار سے جو جذب رسا رکھتا ہو

یا کوئی آئینہ ساں دست دعا رکھتا ہو

عشق کو نفع نہ بیتابی کرے ہے نہ شکیب

کریے تدبیر جو یہ درد دوا رکھتا ہو

۲۸۲۵

میں نے آئینہ صفت در نہ کیا بند غرض

اس کو مشکل ہے جو آنکھوں میں حیا رکھتا ہو

ہائے اس زخمی شمشیر محبت کا جگر

درد کو اپنے جو ناچار چھپا رکھتا ہو

اس سے تشبیہ تو دیتے ہیں یہ نا شاعر لیک

سیب کچھ اس ذقن آگے جو مزہ رکھتا ہو

آوے ہے پہلے قدم سر ہی کا جانا درپیش

دیکھتا ہو جو رہ عشق میں پا رکھتا ہو

ایسے تو حال کے کہنے سے بھلی خاموشی

کہیے اس سے جو کوئی اپنا کہا رکھتا ہو

۲۸۳۰

کیا کرے وصل سے مایوس دل آزردہ جو

زخم ہی یار کا چھاتی سے لگا رکھتا ہو

ق

کب تلک اس کے اسیران بلا خانہ خراب

ظلم کی تازہ جو ہر روز بنا رکھتا ہو

ایک دم کھول کے زلفوں کی کمندوں کے تئیں

مدتوں تک دل عاشق کو لگا رکھتا ہو

گل ہو مہتاب ہو آئینہ ہو خورشید ہو میرؔ

اپنا محبوب وہی ہے جو ادا رکھتا ہو

 

(۳۹۳)

 

مت پوچھو کچھ اپنی باتیں کہیے تو تم کو ندامت ہو

قد قامت یہ کچھ ہے تمھارا لیکن قہر قیامت ہو

۲۸۳۵

ربط اخلاص  اے دیدہ و دل بھی دنیا میں ایک سے ہوتا ہے

لگ پڑتے ہو جس سے تس سے تم بھی کوئی ملامت ہو

آج سحر ہوتے ہی کچھ خورشید ترے منھ آن چڑھا

روک سکے ہے کون اسے سر جس کے ایسی شامت ہو

چاہ کا دعویٰ سب کرتے ہیں مانیے کیونکر بے آثار

اشک کی سرخی زردی منھ کی عشق کی کچھ تو علامت ہو

سرو و گل اچھے ہیں دونوں رونق ہیں گلزار کی ایک

چاہیے رو اس کا سا رو ہو قامت ویسا قامت ہو

مل بیٹھے اس نائی کے سے کوئی گھڑی جو زاہد تو

جتنے بال ہیں سارے سر میں ویسی ہی اس کی حجامت ہو

۲۸۴۰

ہو جو ارادہ یاں رہنے کا رہ سکیے تو رہیے آپ

ہم تو چلے جاتے ہیں ہر دم کس کو قصد اقامت ہو

کس مدت سے دوری میں تیری خاک رہ سے برابر ہوں

کریے رنجہ قدم ٹک مجھ تک جو کچھ پاس قدامت ہو

منھ پر اس کی تیغ ستم کے سیدھا جانا ٹھہرا ہے

جینا پھر کج دار و مریز اس طور میں ہو ٹک یا مت ہو

شور و شغب کو راتوں کے ہمسائے تمھارے کیا روویں

ایسے فتنے کتنے اٹھیں گے میرؔ جی تم جو سلامت ہو

 

(۳۹۴)

 

 

شیخ جی آؤ مصلیٰ گرو جام کرو

جنس تقویٰ کے تئیں صرف مئے خام کرو

۲۸۴۵

فرش مستاں کرو سجادۂ بے تہ کے تئیں

مے کی تعظیم کرو شیشے کا اکرام کرو

دامن پاک کو آلودہ رکھو بادے سے

آپ کو مغبچوں کے قابل دشنام کرو

نیک نامی و تقاوت کو دعا جلد کہو

دین و دل پیش کش سادۂ خود کام کرو

ننگ و ناموس سے اب گذرو جوانوں کی طرح

پر فشانی کرو اور ساقی سے ابرام کرو

خوب اگر جرعۂ مے نوش نہیں کرسکتے

خاطر جمع مے آشام سے یہ کام کرو

۲۸۵۰

اٹھ کھڑے ہو جو جھکے گردن مینائے شراب

خدمت بادہ گساراں ہی سر انجام کرو

مطرب آ کر جو کرے چنگ نوازی تو تم

پیرہن مستوں کی تقلید سے انعام کرو

خنکی اتنی بھی تو لازم نہیں اس موسم میں

پاس جوش گل و دل گرمی ایام کرو

سایۂ گل میں لب جو پہ گلابی رکھو

ہاتھ میں جام کو لو آپ کو بدنام کرو

آہ تا چند رہو خانقہ و مسجد میں

ایک تو صبح گلستان میں بھی شام کرو

۲۸۵۵

رات تو ساری گئی سنتے پریشاں گوئی

میرؔ جی کوئی گھڑی تم بھی تو آرام کرو

 

(۳۹۵)

 

 

کون کہتا ہے نہ غیروں پہ تم امداد کرو

ہم فراموش ہوؤں کو بھی کبھو یاد کرو

ہیں کہاں مجھ سے وفا پیشہ نہ بیداد کرو

نہ کرو ایسا کہ پھر میرے تئیں یاد کرو

ایسے ہم پیشہ کہاں ہوتے ہیں  اے غم زدگاں

مرگ مجنوں پہ کڑھو ماتم فرہاد کرو

اے اسیران تہ دام نہ تڑپو اتنا

تا نہ بدنام کہیں چنگل صیاد کرو

۲۸۶۰

گو کہ حیرانی دیدار ہے  اے آہ و سرشک

کوئی روشن کرو آنکھیں کوئی دل شاد کرو

زاہداں دیتے نشاں ان بتوں کا ڈرتا ہوں

توڑ کر کعبہ کہیں دیر نہ آباد کرو

کیا ہوا ہے ابھی تو ہستی ہی کو بھولے ہو

آخرکار محبت کو ٹک اک یاد کرو

اول عشق ہی میں میرؔ جی تم رونے لگے

خاک ابھی منھ کو ملو نالہ و فریاد کرو

 

(۳۹۶)

 

دل صاف ہو تو جلوہ گہ یار کیوں نہ ہو

آئینہ ہو تو قابل دیدار کیوں نہ ہو

۲۸۶۵

عالم تمام اس کا گرفتار کیوں نہ ہو

وہ ناز پیشہ ایک ہے عیار کیوں نہ ہو

مستغنیانہ تو جو کرے پہلے ہی سلوک

عاشق کو فکر عاقبت کار کیوں نہ ہو

رحمت غضب میں نسبت برق و سحاب ہے

جس کو شعور ہو تو گنہگار کیوں نہ ہو

دشمن تو اک طرف کہ سبب رشک کا ہے یاں

در کا شگاف و رخنۂ دیوار کیوں نہ ہو

آیات حق ہیں سارے یہ ذرات کائنات

انکار تجھ کو ہووے سو اقرار کیوں نہ ہو

۲۸۷۰

ہر دم کی تازہ مرگ جدائی سے تنگ ہوں

ہونا جو کچھ ہے آہ سو یک بار کیوں نہ ہو

موئے سفید ہم کو کہے ہے کہ غافلیاں

اب صبح ہونے آئی ہے بیدار کیوں نہ ہو

نزدیک اپنے ہم نے تو سب کر رکھا ہے سہل

پھر میرؔ اس میں مردن دشوار کیوں نہ ہو

 

(۳۹۷)

 

عاشق ہوئے تو گو غم بسیار کیوں نہ ہو

ناسور چشم ہو مژہ خوں بار کیوں نہ ہو

کامل ہو اشتیاق تو اتنا نہیں ہے دور

حشر دگر پہ وعدۂ دیدار کیوں نہ ہو

۲۸۷۵

گل گشت کا بھی لطف دل خوش سے ہے نسیم

پیش نظر وگرنہ چمن زار کیوں نہ ہو

مخصوص دل ہے کیا مرض عشق جاں گداز

اے کاش اس کو اور کچھ آزار کیوں نہ ہو

آوے جو کوئی آئینہ بازار دہر میں

بارے متاع دل کا خریدار کیوں نہ ہو

مقصود درد دل ہے نہ اسلام ہے نہ کفر

پھر ہر گلے میں سجہ و زنار کیوں نہ ہو

شاید کہ آوے پرسش احوال کو کبھو

عاشق بھلا سا ہووے تو بیمار کیوں نہ ہو

۲۸۸۰

تلوار کے تلے بھی ہیں آنکھیں تری ادھر

تو اس ستم کا میرؔ سزاوار کیوں نہ ہو

 

(۳۹۸)

 

ایسا ہے ماہ گو کہ وہ سب نور کیوں نہ ہو

ویسا ہے پھول  فرض کیا حور کیوں نہ ہو

کھویا ہمارے ہاتھ سے آئینے نے اسے

ایسا جو پاوے آپ کو مغرور کیوں نہ ہو

حق برطرف ہے منکر دیدار یار کے

جو شخص ہووے آنکھوں سے معذور کیوں نہ ہو

گیسوے مشک بو کو اسے ضد ہے کھولنا

پھر زخم دل فگاروں کا ناسور کیوں نہ ہو

۲۸۸۵

صورت تو تیری صفحۂ خاطر پہ نقش ہے

ظاہر میں اب ہزار تو مستور کیوں نہ ہو

صافی شست سے ہے غرض مشق تیر سے

سینہ کسو کا خانۂ زنبور کیوں نہ ہو

مجنوں جو دشت گرد تھا ہم شہر گرد ہیں

آوارگی ہماری بھی مذکور کیوں نہ ہو

تلوار کھینچتا ہے وہ اکثر نشے کے بیچ

زخمی جو اس کے ہاتھ کا ہو چور کیوں نہ ہو

خالی نہیں بغل کوئی دیوان سے مرے

افسانہ عشق کا ہے یہ مشہور کیوں نہ ہو

۲۸۹۰

مجھ کو تو یہ قبول ہوا عشق میں کہ میرؔ

پاس اس کے جب گیا تو کہا دور کیوں نہ ہو

 

(۳۹۹)

 

ہر دم وہ شوخ دست بہ شمشیر کیوں نہ ہو

کچھ ہم نے کی ہے ایسی ہی تقصیر کیوں نہ ہو

اب تو جگر کو ہم نے بلا کا ہدف کیا

انداز اس نگاہ کا پھر تیر کیوں نہ ہو

جاتا تو ہے کہیں کو تو  اے کاروان مصر

کنعاں ہی کی طرف کو یہ شب گیر کیوں نہ ہو

حیراں ہیں اس قدر کہ اگر اب کے جایئے

پھر منھ ترا نہ دیکھیے تصویر کیوں نہ ہو

۲۸۹۵

تو نے تو رفتہ رفتہ کیا ہم کو ننگ خلق

وحشت دلا کہاں تئیں زنجیر کیوں نہ ہو

جوں گل کسو شگفتہ طبیعت کا ہے نشاں

غنچہ بھی کوئی خاطر دل گیر کیوں نہ ہو

ہووے ہزار وحشت اسے تو بھی یار ہے

اغیار تیرے ساتھ جو ہوں میرؔ کیوں نہ ہو

 

 (۴۰۰)

 

دیکھتا ہوں دھوپ ہی میں جلنے کے آثار کو

لے گئی ہیں دور تڑپیں سایۂ دیوار کو

باب صحت ہے وگرنہ کون کہتا ہے طبیب

جلد اٹھاؤ میرے دروازے سے اس بیمار کو

۲۹۰۰

حشر پہ موقوف تھا سو تو نظر آیا نہ یاں

کیا بلا درپیش آئی وعدۂ دیدار کو

وے جو مست بے خودی ہیں عیش کرتے ہیں مدام

میکدے میں دہر کے مشکل ہے ٹک ہشیار کو

نقش شیریں یادگار کوہکن ہے اس میں خوب

ورنہ کیا ہے بے ستوں دیکھا ہے میں کہسار کو

کس قدر الجھیں ہیں میرے تار دامن کے کہ اب

پاؤں میں گڑ کر نہیں چبھنے کی فرصت خار کو

ہے غبار میرؔ اس کے رہگذر میں یک طرف

کیا ہوا دامن کشاں آتے بھی یاں تک یار کو

۲۹۰۵

(۴۰۱)

 

جو میں نہ ہوں تو کرو ترک ناز کرنے کو

کوئی تو چاہیے جی بھی نیاز کرنے کو

نہ دیکھو غنچۂ نرگس کی اور کھلتے میں

جو دیکھو اس کی مژہ نیم باز کرنے کو

نہ سوئے نیند بھر اس تنگنا میں تا نہ موئے

کہ آہ جا نہ تھی پا کے دراز کرنے کو

جو بے دماغی یہی ہے تو بن چکی اپنی

دماغ چاہیے ہر اک سے ساز کرنے کو

وہ گرم ناز ہو تو خلق پر ترحم کر

پکارے آپ اجل احتراز کرنے کو

۲۹۱۰

جو آنسو آویں تو پی جا کہ تا رہے پردہ

بلا ہے چشم تر افشائے راز کرنے کو

سمند ناز سے تیرے بہت ہے عرصہ تنگ

تنک تو ترک کر اس ترک تاز کرنے کو

بسان زر ہے مرا جسم زار سارا زرد

اثر تمام ہے دل کے گداز کرنے کو

ہنوز لڑکے ہو تم قدر میری کیا جانو

شعور چاہیے ہے امتیاز کرنے کو

اگرچہ گل بھی نمود اس کے رنگ کرتا ہے

ولیک چاہیے ہے منھ بھی ناز کرنے کو

۲۹۱۵

زیادہ حد سے تھی تابوت میرؔ پر کثرت

ہوا نہ وقت مساعد نماز کرنے کو

 

(۴۰۲)

 

کرتے بیاں جو ہوتے خریدار ایک دو

دیکھا کریں  ہیں ساتھ ترے یار ایک دو

قید حیات قید کوئی سخت ہے کہ روز

مر رہتے ہیں گے اس کے گرفتار ایک دو

کس کس پہ اس کو ہووے نظر یاں ہر ایک شب

جی دیں ہیں اس کی چشم کے بیمار ایک دو

تو تو دوچار ہوکے گیا کب کا یاں ہنوز

گذریں ہیں اپنی جان سے ناچار ایک دو

۲۹۲۰

ابروئے تیغ زن کی تمھارے تو کیا چلی

کر دے ہے جس کا لاگتے ہی وار ایک دو

ٹک چشم میں بھی سرمے کا دنبالہ کھینچیے

اس مست کے بھی ہاتھ میں تلوار ایک دو

کیا کیا عزیز دوست ملے میرؔ خاک میں

کچھ اس گلی میں ہم ہی نہیں خوار ایک دو

 

(۴۰۳)

 

حال دل میرؔ کا  اے اہل وفا مت پوچھو

اس ستم کشتہ پہ جو گذری جفا مت پوچھو

صبح سے اور بھی پاتا ہوں اسے شام کو تند

کام کرتی ہے جو کچھ میری دعا مت پوچھو

۲۹۲۵

استخواں توڑے مرے اس کی گلی کے سگ نے

جس خرابی سے میں واں رات رہا مت پوچھو

ہوش و صبر و خرد و دین و حواس و دل و تاب

اس کے ایک آنے میں کیا کیا نہ گیا مت پوچھو

اشتعالک کی محبت نے کہ دربست پھنکا

شہر دل کیا کہوں کس طور جلا مت پوچھو

وقت قتل آرزوئے دل جو لگے پوچھنے لوگ

میں اشارت کی ادھر ان نے کہا مت پوچھو

خواہ مارا انھیں نے میرؔ کو خواہ آپ موا

جانے دو یارو جو ہونا تھا ہوا مت پوچھو

۲۹۳۰

 

(۴۰۴)

 

نالۂ شب نے کیا ہے جو اثر مت پوچھو

ٹکڑے ٹکڑے ہوا جاتا ہے جگر مت پوچھو

پوچھتے کیا ہو مرے دل کا تم احوال کہ ہے

جیسے بیمار اجل روز بتر مت پوچھو

مرنے میں بند زباں ہونا اشارت ہے ندیم

یعنی ہے دور کا درپیش سفر مت پوچھو

کیا پھرے وہ وطن آوارہ گیا اب سو گیا

دل گم کردہ کی کچھ خیر خبر مت پوچھو

لذت زہر غم فرقت دلداراں سے

ہووے منھ میں جنھوں کے شہد و شکر مت پوچھو

۲۹۳۵

دل خراشی و جگر چاکی و سینہ کاوی

اپنے ناحق میں ہیں سب اور ہنر مت پوچھو

جوں توں کر حال دل اک بار تو میں عرض کیا

میرؔ صاحب جی بس اب بار دگر مت پوچھو

 

 (۴۰۵)

 

اس کی طرز نگاہ مت پوچھو

جی ہی جانے ہے آہ مت پوچھو

کہیں پہنچو گے بے رہی میں بھی

گمرہاں یوں یہ راہ مت پوچھو

نوگرفتار دام زلف اس کا

ہے یہی رو سیاہ مت پوچھو

۲۹۴۰

ہیں گی برگشتہ وے صف مژگاں

پھر گئی ہے سپاہ مت پوچھو

ق

تھا کرم پر اسی کے شرب مدام

میرے اعمال آہ مت پوچھو

تم بھی  اے مالکان روز جزا

بخش دو اب گناہ مت پوچھو

میرؔ عاشق کو کچھ کہے ہی بنے

خواہ وہ پوچھو خواہ مت پوچھو

 

 (۴۰۶)

 

محرماں بے دمی کا میری سبب مت پوچھو

ایک دم چھوڑ دو یوں ہی مجھے اب مت پوچھو

۲۹۴۵

گریۂ شمع کا  اے ہم نفساں میں تھا حریف

گذری ہے رات کی صحبت بھی عجب مت پوچھو

سر پر شور سے میرے نہ کرو کوئی سوال

حشر تھے داخل خدام ادب مت پوچھو

لب پہ شیون مژہ پر خون و نگہ میں اک یاس

دن گیا ہجر کا جس ڈھنگ سے شب مت پوچھو

میرؔ صاحب نئی یہ طرز ہو اس کی تو کہوں

موجب آزردگی کا وجہ غضب مت پوچھو

 

 (۴۰۷)

 

فرصت نہیں تنک بھی کہیں اضطراب کو

کیا آفت آ گئی مرے اس دل کی تاب کو

۲۹۵۰

میری ہی چشم تر کی کرامات ہے یہ سب

پھرتا تھا ورنہ ابر تو محتاج آب کو

گذری ہے شب خیال میں خوباں کے جاگتے

آنکھیں لگا کے اس سے میں ترسوں ہوں خواب کو

خط آ گیا پر اس کا تغافل نہ کم ہوا

قاصد مرا خراب پھرے ہے جواب کو

تیور میں جب سے دیکھے ہیں ساقی خمار کے

پیتا ہوں رکھ کے آنکھوں پہ جام شراب کو

اب تو نقاب منھ پہ لے ظالم کہ شب ہوئی

شرمندہ سارے دن تو کیا آفتاب کو

۲۹۵۵

کہنے سے میرؔ اور بھی ہوتا ہے مضطرب

سمجھاؤں کب تک اس دل خانہ خراب کو

 

(۴۰۸)

 

کیا ہے گر بدنامی و حالت تباہی بھی نہ ہو

عشق کیسا جس میں اتنی روسیاہی بھی نہ ہو

لطف کیا آزردہ ہو کر آپ سے ملنے کے بیچ

ٹک تری جانب سے جب تک عذر خواہی بھی نہ ہو

چاہتا ہے جی کہ ہم تو ایک جا تنہا ملیں

ناز بے جا بھی نہ ہووے کم نگاہی بھی نہ ہو

مجمع ترکاں ہے کوئی دیکھیو جا کر کہیں

جس کا میں کشتہ ہوں اس میں وہ سپاہی بھی نہ ہو

۲۹۶۰

مجھ کو آوارہ جو رکھتا ہے مگر چاہے ہے چرخ

ماتم آسائش غفراں پناہی بھی نہ ہو

ناز برداری تری کرتے تھے اک امید پر

راستی ہم سے نہیں تو کج کلاہی بھی نہ ہو

یہ دعا کی تھی تجھے کن نے کہ بہر قتل میرؔ

محضر خونیں پہ تیرے اک گواہی بھی نہ ہو

 

 (۴۰۹)

 

اجرت میں نامہ کی ہم دیتے ہیں جاں تلک تو

اب کار شوق اپنا پہنچا ہے یاں تلک تو

آغشتہ میرے خوں سے  اے کاش جا کے پہنچے

کوئی پر شکستہ ٹک گلستاں تلک تو

۲۹۶۵

واماندگی نے مارا اثنائے رہ میں ہم کو

معلوم ہے پہنچنا اب کارواں تلک تو

افسانہ غم کا لب تک آیا ہے مدتوں میں

سو جائیو نہ پیارے اس داستاں تلک تو

آوارہ خاک میری ہو کس قدر الٰہی

پہنچوں غبار ہو کر میں آسماں تلک تو

آنکھوں میں اشک حسرت اور لب پہ شیون آیا

اے حرف شوق تو بھی آیا زباں تلک تو

اے کاش خاک ہی ہم رہتے کہ میرؔ اس میں

ہوتی ہمیں رسائی اس آستاں تلک تو

۲۹۷۰

 (۴۱۰)

 

آنکھوں سے دل تلک ہیں چنے خوان آرزو

نومیدیاں ہیں کتنی ہی مہمان آرزو

یک چشم اس طرف بھی تو کافر کہ تو ہی ہے

دین نگاہ حسرت و ایمان آرزو

آیا تو اور رنگ رخ یاس چل بسا

جانے لگا تو چلنے لگی جان آرزو

اس مجہلے کو سیر کروں کب تلک کہ ہے

دست ہزار حسرت و دامان آرزو

پامال یاس آہ کہاں تک رہوں گا میرؔ

سرمشق کیوں کیا تھا میں دیوان آرزو

۲۹۷۵

 (۴۱۱)

 

 

وہی مجھ پہ غصہ وہی یاں سے جاتو

وہی دور ہو تو وہی پھر نہ آ تو

مرے اس کے وعدہ ملاقات کا ہے

کوئی روز  اے عمر کیجو وفا تو

بہت پوچھیو دل کو میری طرف سے

اگر جائے اس کی گلی میں صبا تو

سفینہ مرا ورطۂ غم سے نکلے

جو ٹک ناخدائی کرے  اے خدا تو

سب اسباب ہجراں میں مرنے ہی کے تھے

بھلا میرؔ کیونکر کے جیتا رہا تو

۲۹۸۰

 

(۴۱۲)

 

نہ آ دام میں مرغ فریاد کیجو

ٹک اک خاطر خواب صیاد کیجو

یہ تہمت بڑی ہے کہ مر گئی ہے شیریں

تحمل ٹک  اے مرگ فرہاد کیجو

غم گل میں مرتا ہوں  اے ہم صفیرو

چمن میں جو جاؤ مجھے یاد کیجو

رہائی مری مدعی ضعف سے ہے

تو صیاد مجھ کو نہ آزاد کیجو

مرے روبرو آئینہ لے کے ظالم

دم واپسیں میں تو تو شاد کیجو

۲۹۸۵

جدا تن سے کرتے ہی پامال کرنا

یہ احساں مرے سر پہ جلاد کیجو

 

(۴۱۳)

 

 

اس بے گنہ کے قتل میں اب دیر مت کرو

جو کچھ کہ تم سے ہوسکے تقصیر مت کرو

ایفائے عہد قتل تو تم کر کے سچے ہو

اتنے بھی خلف وعدہ سے دلگیر مت کرو

 

(۴۱۴)

 

فاتحہ کو نہ آیا بعد از مرگ

میرؔ کے یار کی طرح دیکھو

 

 (۴۱۵)

 

نور نظر کو کھو کے میں سوؤں گا دیکھیو

دل بھر رہا ہے خوب ہی روؤں گا دیکھیو

۲۹۹۰

 

 (۴۱۶)

 

جیسے نسیم ہر سحر تیری کروں ہوں جستجو

خانہ بہ خانہ در بہ در شہر بہ شہر کو بہ کو

 

 (۴۱۷)

 

لائق نہیں تمھارے مژگان خوش نگاہاں

مجروح دل کو میرے کانٹوں میں مت گھسیٹو

 

 (۴۱۸)

 

عشق میں مرگ ابتدا لے تو

جو نہ مانو تو انتہا لے تو

 

                ردیف ہ

 

 

(۴۱۹)

 

سو ظلم کے رہتے ہیں سزاوار ہمیشہ

ہم بے گنہ اس کے ہیں گنہگار ہمیشہ

ایک آن گذر جائے تو کہنے میں کچھ آوے

درپیش ہے یاں مردن دشوار ہمیشہ

۲۹۹۵

دشمن کو نہ کیوں شرب مدام آوے میسر

رہتی ہے ادھر ہی نگہ یار ہمیشہ

یوسف سے کئی آن کے تیرے سر بازار

بک جاتے ہیں باتوں میں خریدار ہمیشہ

ہے دامن گل چین چمن جیب ہمارا

دنیا میں رہے دیدۂ خوں بار ہمیشہ

جو بن ترے دیکھے موا دوزخ میں ہے یعنی

رہتی ہے اسے حسرت دیدار ہمیشہ

جینا ہے تو بے طاقتی و بے خودی ہے میرؔ

مردہ ہے غرض عشق کا بیمار ہمیشہ

۳۰۰۰

 

 (۴۲۰)

 

جگر لوہو کو ترسے ہے میں سچ کہتا ہوں دل خستہ

دلیل اس کی نمایاں ہے مری آنکھیں ہیں خوں بستہ

چمن میں دل خراش آواز آتی ہے چلی شاید

پس دیوار گلشن نالہ کش ہے کوئی پر بستہ

جگر سوزاں و دل بریاں برہنہ پا و سرقرباں

تجاوز کیا کروں اس سے کہ ان ہی کا ہوں وابستہ

ترے کوچے میں یکسر عاشقوں کے خار مژگاں ہیں

جو تو گھر سے کبھو نکلے تو رکھیو پاؤں آہستہ

مرے آگے نہیں ہنستا تو آ اک صلح کرتا ہوں

بھلا میں روؤں دو دریا تبسم کر تو یک پستہ

۳۰۰۵

تعجب ہے مجھے یہ سرو کو آزاد کہتے ہیں

سراپا دل کی صورت جس کی ہو وہ کیا ہو وارستہ

تری گل گشت کی خاطر بنا ہے باغ داغوں سے

پرطاؤس سینہ ہے تمامی دست گلدستہ

بجا ہے گر فلک پر فخر سے پھینکے کلاہ اپنی

کہے جو اس زمیں میں میرؔ یک مصراع برجستہ

 

(۴۲۱)

 

ہم ہیں مجروح ماجرا ہے یہ

وہ نمک چھڑکے ہے مزہ ہے یہ

آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم

اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ

۳۰۱۰

بود آدم نمود شبنم ہے

ایک دو دم میں پھر ہوا ہے یہ

شکر اس کی جفا کا ہو نہ سکا

دل سے اپنے ہمیں گلہ ہے یہ

شور سے اپنے حشر ہے پردہ

یوں نہیں جانتا کہ کیا ہے یہ

بس ہوا ناز ہو چکا اغماض

ہر گھڑی ہم سے کیا ادا ہے یہ

نعشیں اٹھتی ہیں آج یاروں کی

آن بیٹھو تو خوش نما ہے یہ

۳۰۱۵

دیکھ بے دم مجھے لگا کہنے

ہے تو مردہ سا پر بلا ہے یہ

میں تو چپ ہوں وہ ہونٹ چاٹے ہے

کیا کہوں ریجھنے کی جا ہے یہ

ہے رے بیگانگی کبھو ان نے

نہ کہا یہ کہ آشنا ہے یہ

تیغ پر ہاتھ دم بہ دم کب تک

اک لگا چک کہ مدعا ہے یہ

میرؔ کو کیوں نہ مغتنم جانے

اگلے لوگوں میں اک رہا ہے یہ

۳۰۲۰

 

(۴۲۲)

 

دل پر خوں ہے یہاں تجھ کو گماں ہے شیشہ

شیخ کیوں مست ہوا ہے تو کہاں ہے شیشہ

شیشہ بازی تو تنک دیکھنے آ آنکھوں کی

ہر پلک پر مرے اشکوں سے رواں ہے شیشہ

روسفیدی ہے نقاب رخ شور مستی

ریش قاضی کے سبب پنبہ دہاں ہے شیشہ

منزل مستی کو پہنچے ہے انھیں سے عالم

نشۂ مے بلد و سنگ نشاں ہے شیشہ

درمیاں حلقۂ مستاں کے شب اس کی جا تھی

دور ساغر میں مگر پیر مغاں ہے شیشہ

۳۰۲۵

ق

جا کے پوچھا جو میں یہ کار گہ مینا میں

دل کی صورت کا بھی  اے شیشہ گراں ہے شیشہ

کہنے لاگے کہ کدھر پھرتا ہے بہکا  اے مست

ہر طرح کا جو تو دیکھے ہے کہ یاں ہے شیشہ

دل ہی سارے تھے پہ اک وقت میں جو کر کے گداز

شکل شیشے کی بنائے ہیں کہاں ہے شیشہ

جھک گیا دیکھ کے میں میرؔ اسے مجلس میں

چشم بد دور طرحدار جواں ہے شیشہ

 

 (۴۲۳)

 

جی چاہے مل کسو سے یا سب سے تو جدا رہ

پر ہوسکے تو پیارے ٹک دل کا آشنا رہ

۳۰۳۰

کل بے تکلفی میں لطف اس بدن کا دیکھا

نکلا نہ کر قبا سے  اے گل بس اب ڈھپا رہ

عاشق غیور جی دے اور اس طرف نہ دیکھے

وہ آنکھ جو چھپاوے تو تو بھی ٹک کھنچا رہ

پہنچیں گے آگے دیکھیں کس درجہ کو ابھی تو

اس ماہ چار دہ کا سن دس ہے یا کہ بارہ

کھینچا کرے ہے ہر دم کیا تیغ بوالہوس پر

اس ناسزائے خوں کے اتنا نہ سر چڑھا رہ

مستظہر محبت تھا کوہکن وگرنہ

یہ بوجھ کس سے اٹھتا ایک اور ایک گیارہ

۳۰۳۵

ہر مشت خاک یاں کی چاہے ہے اک تامل

بن سوچے راہ مت چل ہر گام پر کھڑا رہ

شاید کہ سربلندی ہووے نصیب تیرے

جوں گرد راہ سب کے پاؤں سے تو لگا رہ

اس خط سبز نے کچھ رویت نہ رکھی تیری

کیا ایسی زندگانی جا خضر زہر کھا رہ

حد سے زیادہ واعظ یہ کودنا اچھلنا

کاہے کو جاتے ہیں ہم  اے خرس اب بندھا رہ

میں تو ہیں وہم دونوں کیا ہے خیال تجھ کو

جھاڑ آستین مجھ سے ہاتھ آپ سے اٹھا رہ

۳۰۴۰

جیسے خیال مفلس جاتا ہے سو جگہ تو

مجھ بے نوا کے بھی گھر ایک آدھ رات آ رہ

دوڑے بہت ولیکن مطلب کو کون پہنچا

آئندہ تو بھی ہم سا ہو کر شکستہ پا رہ

جب ہوش میں تو آیا اودھر ہی جاتے پایا

اس سے تو میرؔ چندے اس کوچے ہی میں جا رہ

 

(۴۲۴)

 

اب حال اپنا اس کے ہے دل خواہ

کیا پوچھتے ہو الحمدللہ

مر جاؤ کوئی پروا نہیں ہے

کتنا ہے مغرور اللہ اللہ

۳۰۴۵

پیر مغاں سے بے اعتقادی

استغفر اللہ استغفر اللہ

کہتے ہیں اس کے تو منھ لگے گا

ہو یوں ہی یارب جوں ہے یہ افواہ

حضرت سے اس کی جانا کہاں ہے

اب مر رہے گا یاں بندہ درگاہ

سب عقل کھوئے ہے راہ محبت

ہو خضر دل میں کیسا ہی گمراہ

مجرم ہوئے ہم دل دے کے ورنہ

کس کو کسو سے ہوتی نہیں چاہ

۳۰۵۰

کیا کیا نہ ریجھیں تم نے پچائیں

اچھا رجھایا  اے مہرباں آہ

گذرے ہے دیکھیں کیونکر ہماری

اس بے وفا سے نے رسم نے راہ

ق

تھی خواہش دل رکھنا حمائل

گردن میں اس کی ہر گاہ و بیگاہ

اس پر کہ تھا وہ شہ رگ سے اقرب

ہرگز نہ پہنچا یہ دست کوتاہ

ق

ہے ماسوا کیا جو میرؔ کہیے

آگاہ سارے اس سے ہیں آگاہ

۳۰۵۵

جلوے ہیں اس کے شانیں ہیں اس کی

کیا روز کیا خور کیا رات کیا ماہ

ظاہر کہ باطن اول کہ آخر

اللہ اللہ اللہ اللہ

 

 (۴۲۵)

 

جو ہوشیار ہو سو آج ہو شراب زدہ

زمین میکدہ یک دست ہے گی آب زدہ

بنے یہ کیونکے ملے تو ہی یا ہمیں سمجھیں

ہم اضطراب زدہ اور تو حجاب زدہ

کرے ہے جس کو ملامت جہاں وہ میں ہی ہوں

اجل رسیدہ جفا دیدہ اضطراب زدہ

۳۰۶۰

جدا ہو رخ سے تری زلف میں نہ کیوں دل جائے

پناہ لیتے ہیں سائے کی آفتاب زدہ

لگا نہ ایک بھی میرؔ اس کی بیت ابرو کو

اگرچہ شعر تھے سب میرے انتخاب زدہ

 

 (۴۲۶)

 

جز جرم عشق کوئی بھی ثابت کیا گناہ

ناحق ہماری جان لی اچھے ہو واہ واہ

اب کیسا چاک چاک ہو دل اس کے ہجر میں

گتھواں تو لخت دل سے نکلتی ہے میری آہ

شام شب وصال ہوئی یاں کہ اس طرف

ہونے لگا طلوع ہی خورشید رو سیاہ

۳۰۶۵

گذرا میں اس سلوک سے دیکھا نہ کر مجھے

برچھی سی لاگ جا ہے جگر میں تری نگاہ

دامان و جیب چاک خرابی و خستگی

ان سے ترے فراق میں ہم نے کیا نباہ

بیتابیوں کو سونپ نہ دینا کہیں مجھے

اے صبر میں نے آن کے لی ہے تری پناہ

خوں بستہ بارے رہنے لگی اب تو یہ مژہ

آنسو کی بوند جس سے ٹپکتی تھی گاہ گاہ

گل سے شگفتہ داغ دکھاتا ہوں تیرے تیں

گر موافقت کرے ہے تنک مجھ سے سال و ماہ

۳۰۷۰

گر منع مجھ کو کرتے ہیں تیری گلی سے لوگ

کیونکر نہ جاؤں مجھ کو تو مرنا ہے خوامخواہ

ناحق الجھ پڑا ہے یہ مجھ سے طریق عشق

جاتا تھا میرؔ میں تو چلا اپنی راہ راہ

 

(۴۲۷)

 

کہتے ہیں اڑ بھی گئے جل کے پر پروانہ

کچھ سنی سوختگاں تم خبر پروانہ

سعی اتنی یہ ضروری ہے اٹھے بزم سلگ

اے  جگر تفتگی  بے  اثر  پروانہ

کس گنہ کا ہے پس از مرگ یہ عذر جاں سوز

پاؤں پر شمع کے پاتے ہیں سر پروانہ

۳۰۷۵

آ پڑا آگ میں  اے شمع یہیں سے تو سمجھ

کس قدر داغ ہوا تھا جگر پروانہ

بزم دنیا کی تو دل سوزی سنی ہو گی میرؔ

کس طرح شام ہوئی یاں سحر پروانہ

 

 (۴۲۸)

 

ہم سے کچھ آگے زمانے میں ہوا کیا کیا کچھ

تو بھی ہم غافلوں نے آ کے کیا کیا کیا کچھ

دل جگر جان یہ بھسمنت ہوئے سینے میں

گھر کو آتش دی محبت نے جلا کیا کیا کچھ

کیا کہوں تجھ سے کہ کیا دیکھا ہے تجھ میں میں نے

عشوہ و غمزہ و انداز و ادا کیا کیا کچھ

۳۰۸۰

دل گیا ہوش گیا صبر گیا جی بھی گیا

شغل میں غم کے ترے ہم سے گیا کیا کیا کچھ

آہ مت پوچھ ستمگار کہ تجھ سے تھی ہمیں

چشم لطف و کرم و مہر و وفا کیا کیا کچھ

نام ہیں خستہ و آوارہ و بدنام مرے

ق

ایک عالم نے غرض مجھ کو کہا کیا کیا کچھ

طرفہ صحبت ہے کہ سنتا نہیں تو ایک مری

واسطے تیرے سنا میں نے سنا کیا کیا کچھ

حسرت وصل و غم ہجر و خیال رخ دوست

مر گیا میں پہ مرے جی میں رہا کیا کیا کچھ

۳۰۸۵

درد دل زخم جگر کلفت غم داغ فراق

آہ عالم سے مرے ساتھ چلا کیا کیا کچھ

چشم نمناک و دل پر جگر صد پارہ

دولت عشق سے ہم پاس بھی تھا کیا کیا کچھ

تجھ کو کیا بننے بگڑنے سے زمانے کے کہ یاں

خاک کن کن کی ہوئی صرف بنا کیا کیا کچھ

ق

قبلہ و کعبہ خداوند و ملاذ و مشفق

مضطرب ہو کے اسے میں نے لکھا کیا کیا کچھ

پر کہوں کیا رقم شوق کی اپنے تاثیر

ہر سر حرف پہ وہ کہنے لگا کیا کیا کچھ

۳۰۹۰

ایک محروم چلے میرؔ ہمیں عالم سے

ورنہ عالم کو زمانے نے دیا کیا کیا کچھ

 

(۴۲۹)

 

کیا موافق ہو دوا عشق کے بیمار کے ساتھ

جی ہی جاتے نظر آئے ہیں اس آزار کے ساتھ

رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے

جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ

مر گئے پر بھی کھلی رہ گئیں آنکھیں اپنی

کون اس طرح موا حسرت دیدار کے ساتھ

شوق کا کام کھنچا دور کہ اب مہر مثال

چشم مشتاق لگی جائے ہے طومار کے ساتھ

۳۰۹۵

راہ اس شوخ کی عاشق سے نہیں رک سکتی

جان جاتی ہے چلی خوبی رفتار کے ساتھ

وے دن اب سالتے ہیں راتوں کو برسوں گذرے

جن دنوں دیر رہا کرتے تھے ہم یار کے ساتھ

ذکر گل کیا ہے صبا اب کہ خزاں میں ہم نے

دل کو ناچار لگایا ہے خس و خار کے ساتھ

کس کو ہر دم ہے لہو رونے کا ہجراں میں دماغ

دل کو اک ربط سا ہے دیدۂ خونبار کے ساتھ

میری اس شوخ سے صحبت ہے بعینہ ویسی

جیسے بن جائے کسو سادے کو عیار کے ساتھ

۳۱۰۰

دیکھیے کس کو شہادت سے سر افراز کریں

لاگ تو سب کو ہے اس شوخ کی تلوار کے ساتھ

بے کلی اس کی نہ ظاہر تھی جو تو  اے بلبل

دم کش میرؔ ہوئی اس لب و گفتار کے ساتھ

 

(۴۳۰)

 

دل سمجھتا ہی نئیں ہمارا آہ

زلف اس کی ہے ایک مار سیاہ

 

                ردیف ی

 

 

(۴۳۱)

 

دل کو تسکین نہیں اشک دما دم سے بھی

اس زمانے میں گئی ہے برکت غم سے بھی

ہم نشیں کیا کہوں اس رشک مہ تاباں بن

صبح عید اپنی ہے بدتر شب ماتم سے بھی

۳۱۰۵

کاش  اے جان المناک نکل جاوے تو

اب تو دیکھا نہیں جاتا یہ ستم ہم سے بھی

آخرکار محبت میں نہ نکلا کچھ کام

سینہ چاک و دل پژمردہ مژہ نم سے بھی

آہ ہر غیر سے تا چند کہوں جی کی بات

عشق کا راز تو کہتے نہیں محرم سے بھی

دوری کوچہ میں  اے غیرت فردوس تری

کام گذرا ہے مرا گریۂ آدم سے بھی

ہمت اپنی ہی تھی یہ میرؔ کہ جوں مرغ خیال

اک پر افشانی میں گذرے سرعالم سے بھی

۳۱۱۰

 

(۴۳۲)

 

تاب دل صرف جدائی ہو چکی

یعنی طاقت آزمائی ہو چکی

چھوٹتا کب ہے اسیر خوش زباں

جیتے جی اپنی رہائی ہو چکی

آگے ہو مسجد کے نکلی اس کی راہ

شیخ سے اب پارسائی ہو چکی

درمیاں ایسا نہیں اب آئینہ

میرے اس کے اب صفائی ہو چکی

ایک بوسہ مانگتے لڑنے لگے

اتنے ہی میں آشنائی ہو چکی

۳۱۱۵

بیچ میں ہم ہی نہ ہوں تو لطف کیا

رحم کر اب بے وفائی ہو چکی

آج پھر تھا بے حمیت میرؔ واں

کل لڑائی سی لڑائی ہو چکی

 

(۴۳۳)

 

آخر ہماری خاک بھی برباد ہو گئی

اس کی ہوا میں ہم پہ تو بیداد ہو گئی

مدت ہوئی نہ خط ہے نہ پیغام ہے مگر

اک رسم تھی وفا کی پر افتاد ہو گئی

دل کس قدر شگفتہ ہوا تھا کہ رات میرؔ

آئی جو بات لب پہ سو فریاد ہو گئی

۳۱۲۰

 (۴۳۴)

 

یہ چشم آئینہ دار رو تھی کسو کی

نظر اس طرف بھی کبھو تھی کسو کی

سحر پائے گل بے خودی ہم کو آئی

کہ اس سست پیماں میں بو تھی کسو کی

یہ سرگشتہ جب تک رہا اس چمن میں

برنگ صبا جستجو تھی کسو کی

نہ ٹھہری ٹک اک جان بر لب رسیدہ

ہمیں مدعا گفتگو تھی کسو کی

جلایا شب اک شعلۂ دل نے ہم کو

کہ اس تند سرکش میں خو تھی کسو کی

۳۱۲۵

نہ تھے تجھ سے نازک میانان گلشن

بہت تو کمر جیسے مو تھی کسو کی

دم مرگ دشوار دی جان ان نے

مگر میرؔ کو آرزو تھی کسو کی

 

(۴۳۵)

 

ہے غزل میرؔ یہ شفائیؔ کی

ہم نے بھی طبع آزمائی کی

اس کے ایفائے عہد تک نہ جیے

عمر نے ہم سے بے وفائی کی

وصل کے دن کی آرزو ہی رہی

شب نہ آخر ہوئی جدائی کی

۳۱۳۰

اسی تقریب اس گلی میں رہے

منتیں ہیں شکستہ پائی کی

دل میں اس شوخ کے نہ کی تاثیر

آہ نے آہ نارسائی کی

کاسۂ چشم لے کے جوں نرگس

ہم نے دیدار کی گدائی کی

زور و زر کچھ نہ تھا تو بارے میرؔ

کس بھروسے پر آشنائی کی

 

(۴۳۶)

 

 

آہ میری زبان پر آئی

یہ بلا آسمان پر آئی

۳۱۳۵

عالم جاں سے تو نہیں آیا

ایک آفت جہان پر آئی

پیری آفت ہے پھر نہ تھا گویا

یہ بلا جس جوان پر آئی

ہم بھی حاضر ہیں کھینچیے شمشیر

طبع گر امتحان پر آئی

تب ٹھکانے لگی ہماری خاک

جب ترے آستان پر آئی

آتش رنگ گل سے کیا کہیے

برق تھی آشیان پر آئی

۳۱۴۰

طاقت دل برنگ نکہت گل

پھیر اپنے مکان پر آئی

ہو جہاں میرؔ اور غم اس کا

جس سے عالم کی جان پر آئی

 

 (۴۳۷)

 

بات شکوے کی ہم نے گاہ نہ کی

بلکہ دی جان اور آہ نہ کی

گل و آئینہ ماہ و خور کن نے

چشم اس چہرے پر سیاہ نہ کی

کعبے سو بار وہ گیا تو کیا

جس نے یاں ایک دل میں راہ نہ کی

۳۱۴۵

واہ  اے عشق اس ستمگر نے

جاں فشانی پہ میری واہ نہ کی

جس سے تھی چشم ہم کو کیا کیا میرؔ

اس طرف ان نے اک نگاہ نہ کی

 

 (۴۳۸)

 

کل میرؔ نے کیا کیا کی مے کے لیے بیتابی

آخر کو گرو رکھا سجادۂ محرابی

جاگا ہے کہیں وہ بھی شب مرتکب مے ہو

یہ بات سجھاتی ہے ان آنکھوں کی بے خوابی

کیا شہر میں گنجائش مجھ بے سر و پا کو ہو

اب بڑھ گئے ہیں میرے اسباب کم اسبابی

۳۱۵۰

دن رات مری چھاتی جلتی ہے محبت میں

کیا اور نہ تھی جاگہ یہ آگ جو یاں دابی

سو ملک پھرا لیکن پائی نہ وفا اک جا

جی کھا گئی ہے میرا اس جنس کی نایابی

خوں بستہ نہ کیوں پلکیں ہر لحظہ رہیں میری

جاتے نہیں آنکھوں سے لب یار کے عنابی

جنگل ہی ہرے تنہا رونے سے نہیں میرے

کوہوں کی کمر تک بھی جا پہنچی ہے سیرابی

تھے ماہ وشاں کل جو ان کوٹھوں پہ جلوے میں

ہے خاک سے آج ان کی ہر صحن میں مہتابی

۳۱۵۵

کل میرؔ جو یاں آیا طور اس کا بہت بھایا

وہ خشک لبی تس پر جامہ گلے میں آبی

 

(۴۳۹)

 

ہمیں آمد میرؔ کل بھا گئی

طرح اس میں مجنوں کی سب پا گئی

کہاں کا غبار آہ دل میں یہ تھا

مری خاک بدلی سی سب چھا گئی

کیا پاس بلبل خزاں نے نہ کچھ

گل و برگ بے درد پھیلا گئی

ہوئی سامنے یوں تو ایک ایک کے

ہمیں سے وہ کچھ آنکھ شرما گئی

۳۱۶۰

جگر منھ تک آتے نہیں بولتے

غرض ہم بھی کرتے ہیں کیا کیا گئی

نہ ہم رہ کوئی ناکسی سے گیا

مری لاش تا گور تنہا گئی

گھٹا شمع ساں کیوں نہ جاؤں چلا

تب غم جگر کو مرے کھا گئی

کوئی رہنے والی ہے جان عزیز

گئی گر نہ امروز فردا گئی

کیے دست و پا گم جو میرؔ آ گیا

وفا پیشہ مجلس اسے پا گئی

۳۱۶۵

(۴۴۰)

 

یکسو کشادہ روئی پرچیں نہیں جبیں بھی

ہم چھوڑی مہر اس کی کاش اس کو ہووے کیں بھی

آنسو تو تیرے دامن پونچھے ہے وقت گریہ

ہم نے نہ رکھی منھ پر  اے ابر آستیں بھی

کرتا نہیں عبث تو پارہ گلو فغاں سے

گذرے ہے پار دل کے اک نالۂ حزیں بھی

ہوں احتضار میں میں آئینہ رو شتاب آ

جاتا ہے ورنہ غافل پھر دم تو واپسیں بھی

سینے سے تیر اس کا جی کو تو لیتا نکلا

پر ساتھوں ساتھ اس کے نکلی اک آفریں بھی

۳۱۷۰

ہر شب تری گلی میں عالم کی جان جا ہے

آگے ہوا ہے اب تک ایسا ستم کہیں بھی

شوخی جلوہ اس کی تسکین کیونکے بخشے

آئینوں میں دلوں کے جو ہے بھی پھر نہیں بھی

گیسو ہی کچھ نہیں ہے سنبل کی آفت اس کا

ہیں برق خرمن گل رخسار آتشیں بھی

تکلیف نالہ مت کر  اے درد دل کہ ہوں گے

رنجیدہ راہ چلتے آزردہ ہم نشیں بھی

کس کس کا داغ دیکھیں یارب غم بتاں میں

رخصت طلب ہے جاں بھی ایمان اور دیں بھی

۳۱۷۵

زیر فلک جہاں ٹک آسودہ میرؔ ہوتے

ایسا نظر نہ آیا اک قطعۂ زمیں بھی

 

(۴۴۱)

 

گئی چھاؤں اس تیغ کی سر سے جب کی

جلے دھوپ میں یاں تلک ہم کہ تب کی

پڑی خرمن گل پہ بجلی سی آخر

مرے خوش نگہ کی نگاہ اک غضب کی

کوئی بات نکلے ہے دشوار منھ سے

ٹک اک تو بھی تو سن کسی جاں بلب کی

تو شملہ جو رکھتا ہے خر ہے وگرنہ

ضرورت ہے کیا شیخ دم اک وجب کی

۳۱۸۰

یکایک بھی آ سر پہ واماندگاں کے

بہت دیکھتے ہیں تری راہ کب کی

دماغ و جگر دل مخالف ہوئے ہیں

ہوئی متفق اب ادھر رائے سب کی

تجھے کیونکے ڈھونڈوں کہ سوتے ہی گذری

تری راہ میں اپنے پائے طلب کی

دل عرش سے گذرے ہے ضعف میں بھی

یہ زور آوری دیکھو زاری شب کی

عجب کچھ ہے گر میرؔ آوے میسر

گلابی شراب اور غزل اپنے ڈھب کی

۳۱۸۵

(۴۴۲)

 

کیسے قدم سے اس کی گلی میں صبا گئی

یوں پھونک کر کے خاک مری سب اڑا گئی

کچھ تھی طپش جگر کی تو بارے مزاج داں

پر دل کی بے قراری مری جان کھا گئی

کس پاس جا کے بیٹھوں خرابے میں اب میں ہائے

مجنوں کو موت کیسی شتابی سے آ گئی

کون اس ہوا میں زخمی نہیں میری آہ کا

بجلی رہی تھی سو بھی تو سینہ دکھا گئی

سودا جو اس کے سر سے گیا زلف یار کا

تو تو بڑی ہی میرؔ کے سر سے بلا گئی

۳۱۹۰

 

(۴۴۳)

 

خبر نہ تھی تجھے کیا میرے دل کی طاقت کی

نگاہ چشم ادھر تو نے کی قیامت کی

انھوں میں جو کہ ترے محو سجدہ رہتے ہیں

نہیں ہے قدر ہزاروں برس کی طاعت کی

اٹھائی ننگ سمجھ تم نے بات کے کہتے

وفا و مہر جو تھی رسم ایک مدت کی

رکھیں امید رہائی اسیر کاکل و زلف

مری تو باتیں ہیں زنجیر صرف الفت کی

رہے ہے کوئی خرابات چھوڑ مسجد میں

ہوا منائی اگر شیخ نے کرامت کی

۳۱۹۵

سوال میں نے جو انجام زندگی سے کیا

قد خمیدہ نے سوے زمیں اشارت کی

نہ میری قدر کی اس سنگ دل نے میرؔ کبھو

ہزار حیف کہ پتھر سے میں محبت کی

 

(۴۴۴)

 

فکر ہے ماہ کے جو شہر بدر کرنے کی

ہے سزا تجھ پہ یہ گستاخ نظر کرنے کی

کہہ حدیث آنے کی اس کے جو کیا شادی مرگ

نامہ بر کیا چلی تھی ہم کو خبر کرنے کی

کیا جلی جاتی ہے خوبی ہی میں اپنی  اے شمع

کہہ پتنگے کے بھی کچھ شام و سحر کرنے کی

۳۲۰۰

اب کے برسات ہی کے ذمے تھا عالم کا وبال

میں تو کھائی تھی قسم چشم کے تر کرنے کی

پھول کچھ لیتے نہ نکلے تھے دل صد پارہ

طرز سیکھی ہے مرے ٹکڑے جگر کرنے کی

ان دنوں نکلے ہے آغشتہ بہ خوں راتوں کو

دھن ہے نالے کو کسو دل میں اثر کرنے کی

عشق میں تیرے گذرتی نہیں بن سر پٹکے

صورت اک یہ رہی ہے عمر بسر کرنے کی

کاروانی ہے جہاں عمر عزیز اپنی میرؔ

رہ ہے درپیش سدا اس کو سفر کرنے کی

۳۲۰۵

 (۴۴۵)

 

خرابی کچھ نہ پوچھو ملکت دل کی عمارت کی

غموں نے آج کل سنیو وہ آبادی ہی غارت کی

نگاہ مست سے جب چشم نے اس کی اشارت کی

حلاوت مے کی اور بنیاد میخانے کی غارت کی

سحرگہ میں نے پوچھا گل سے حال زار بلبل کا

پڑے تھے باغ میں یک مشت پر اودھر اشارت کی

جلایا جس تجلی جلوہ گر نے طور کو ہم دم

اسی آتش کے پر کالے نے ہم سے بھی شرارت کی

نزاکت کیا کہوں خورشید رو کی کل شب مہ میں

گیا تھا سائے سائے باغ تک تس پر حرارت کی

۳۲۱۰

نظر سے جس کی یوسف سا گیا پھر اس کو کیا سوجھے

حقیقت کچھ نہ پوچھو پیر کنعاں کی بصارت کی

ترے کوچے کے شوق طوف میں جیسے بگولا تھا

بیاباں میں غبار میرؔ کی ہم نے زیارت کی

 

 (۴۴۶)

 

میں نے جو بیکسانہ مجلس میں جان کھوئی

سر پر مرے کھڑی ہو شب شمع زور روئی

آتی ہے شمع شب کو آگے ترے یہ کہہ کر

منھ کی گئی جو لوئی تو کیا کرے گا کوئی

بے طاقتی سے آگے کچھ پوچھتا بھی تھا سو

رونے نے ہر گھڑی کے وہ بات ہی ڈبوئی

۳۲۱۵

بلبل کی بے کلی نے شب بے دماغ رکھا

سونے دیا نہ ہم کو ظالم نہ آپ سوئی

اس ظلم پیشہ کی یہ رسم قدیم ہے گی

غیروں پہ مہربانی یاروں سے کینہ جوئی

نوبت جو ہم سے گاہے آتی ہے گفتگو کی

منھ میں زباں نہیں ہے اس بد زباں کے گوئی

اس مہ کے جلوے سے کچھ تا میرؔ یاد دیوے

اب کے گھروں میں ہم نے سب چاندنی ہے بوئی

 

 (۴۴۷)

 

الم سے یاں تئیں میں مشق ناتوانی کی

کہ میری جان نے تن پر مرے گرانی کی

۳۲۲۰

چمن کا نام سنا تھا ولے نہ دیکھا ہائے

جہاں میں ہم نے قفس ہی میں زندگانی کی

ملائی خوب مری خوں میں خاک بسمل گاہ

یہ تھوڑی منتیں ہیں مجھ پہ سخت جانی کی

بتنگ ہوں میں ترے اختلاط سے پیری

قسم ہے اپنی مجھے اس گئی جوانی کی

چلا ہے کھینچنے تصویر میرے بت کی آج

خدا کے واسطے صورت تو دیکھو مانی کی

تری گلی کے ہر اک سگ نے استخواں توڑے

ہماری لاش کی شب خوب پاسبانی کی

۳۲۲۵

رکھے ہیں میرؔ ترے منھ سے بے وفا خاطر

تری جفا کی تغافل کی بدگمانی کی

 

 (۴۴۸)

لا علاجی سے جو رہتی ہے مجھے آوارگی

کیجیے کیا میرؔ صاحب بندگی بے چارگی

کیسی کیسی صحبتیں آنکھوں کے آگے سے گئیں

دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہو گیا یکبارگی

روئے گل پر روز و شب کس شوق سے رہتا ہے باز

رخنۂ دیوار ہے یا دیدۂ نظارگی

اشک خونیں آنکھ میں بھر لا کے پی جاتا ہوں میں

محتسب رکھتا ہے مجھ پر تہمت مے خوارگی

۳۲۳۰

مت فریب سادگی کھا ان سیہ چشموں کا میرؔ

ان کی آنکھوں سے ٹپکتی ہے بڑی عیارگی

 

(۴۴۹)

 

گیسو سے اس کے میں نے کیوں آنکھ جا لگائی

جو اپنے اچھے جی کو ایسی بلا لگائی

تھا دل جو پکا پھوڑا بسیاری الم سے

دکھتا گیا دو چنداں جوں جوں دوا لگائی

ذوق جراحت اس کا کس کو نہیں ہے لیکن

بخت اس کے جس کے ان نے تیغ جفا لگائی

دم بھی نہ لینے پایا پانی بھی پھر نہ مانگا

جس تشنہ لب کو ان نے تلوار آ لگائی

۳۲۳۵

تھا صید ناتواں میں لیکن لہو سے میرے

پاؤں پہ ان نے اپنے بھر کر حنا لگائی

بالعکس آج اس کے سارے سلوک دیکھے

کیا جانوں دشمنوں نے کل اس سے کیا لگائی

جو آنسو پی گیا میں آخر کو میرؔ ان نے

چھاتی جلا جگر میں اک آگ جا لگائی

 

 (۴۵۰)

 

دو دن سے کچھ بنی تھی سو پھر شب بگڑ گئی

صحبت ہماری یار سے بے ڈھب بگڑ گئی

وا شد کچھ آگے آہ سے ہوتی تھی دل کے تیں

اقلیم عاشقی کی ہوا اب بگڑ گئی

۳۲۴۰

گرمی نے دل کی ہجر میں اس کے جلا دیا

شاید کہ احتیاط سے یہ تب بگڑ گئی

خط نے نکل کے نقش دلوں کے اٹھا دیے

صورت بتوں کی اچھی جو تھی سب بگڑ گئی

باہم سلوک تھا تو اٹھاتے تھے نرم گرم

کاہے کو میرؔ کوئی دبے جب بگڑ گئی

 

(۴۵۱)

 

کچھ موج ہوا پیچاں  اے میرؔ نظر آئی

شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی

دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے

جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی

۳۲۴۵

مغرور بہت تھے ہم آنسو کی سرایت پر

سو صبح کے ہونے کو تاثیر نظر آئی

گل بار کرے ہے گا اسباب سفر شاید

غنچے کی طرح بلبل دلگیر نظر آئی

اس کی تو دل آزاری بے ہیچ ہی تھی یارو

کچھ تم کو ہماری بھی تقصیر نظر آئی

 

 (۴۵۲)

 

ہو گئی شہر شہر رسوائی

اے مری موت تو بھلی آئی

یک بیاباں برنگ صوت جرس

مجھ پہ ہے بیکسی و تنہائی

۳۲۵۰

نہ کھنچے تجھ سے ایک جا نقاش

اس کی تصویر وہ ہے ہرجائی

سر رکھوں اس کے پاؤں پر لیکن

دست قدرت یہ میں کہاں پائی

میرؔ جب سے گیا ہے دل تب سے

میں تو کچھ ہو گیا ہوں سودائی

 

(۴۵۳)

 

تو گلے ملتا نہیں ہم سے تو کیسی خرمی

عید آئی یاں ہمارے بر میں جامہ ماتمی

جی بھرا رہتا ہے اب آٹھوں پہر مانند ابر

سینکڑوں طوفاں بغل میں ہے یہ مژگاں ماتمی

۳۲۵۵

حشر کو زیر و زبر ہو گا جہاں سچ ہے ولے

ہے قیامت شیخ جی اس کار گہ کی برہمی

تجھ سوا محبوب آتش طبع  اے ساقی نہیں

ہو پرستاروں میں تیرے گر پری ہو آدمی

سامنے ہو جائیں  اے ظالم تو دونوں ہیں برے

وہ دم شمشیر تیرا یہ ہماری بے دمی

اس قیامت جلوہ سے بہتیرے ہم سے جی اٹھیں

مر گئے تو مر گئے ہم اس کی کیا ہو گی کمی

کچھ پریشانی سی ہے سنبل کی جو الجھے ہے میرؔ

یک جہاں برہم کرے زلفوں کی اس کی درہمی

۳۲۶۰

(۴۵۴)

 

اب ضعف سے ڈھہتا ہے بیتابی شتابی کی

اس دل کے تڑپنے نے کیا خانہ خرابی کی

ان درس گہوں میں وہ آیا نہ نظر ہم کو

کیا نقل کروں خوبی اس چہرہ کتابی کی

بھنتے ہیں دل اک جانب سکتے ہیں جگر یک سو

ہے مجلس مشتاقاں دکان کبابی کی

تلخ اس لب مے گوں سے سب سنتے ہیں کس خاطر

تہ دار نہیں ہوتی گفتار شرابی کی

یک بو کشی بلبل ہے موجب صد مستی

پر زور ہے کیا دارو غنچے کی گلابی کی

۳۲۶۵

اب سوز محبت سے سارے جو پھپھولے ہیں

ہے شکل مرے دل کی سب شیشہ حبابی کی

نشمردہ مرے منھ سے یاں حرف نہیں نکلا

جو بات کہ میں نے کی سو میرؔ حسابی کی

 

 (۴۵۵)

 

مجھ سا بیتاب ہووے جب کوئی

بے قراری کو جانے تب کوئی

ہاں خدا مغفرت کرے اس کو

صبر مرحوم تھا عجب کوئی

جان دے گو مسیح پر اس سے

بات کہتے ہیں تیرے لب کوئی

۳۲۷۰

بعد میرے ہی ہو گیا سنسان

سونے پایا تھا ورنہ کب کوئی

اس کے کوچے میں حشر تھے مجھ تک

آہ و نالہ کرے نہ اب کوئی

ایک غم میں ہوں میں ہی عالم میں

یوں تو شاداں ہے اور سب کوئی

ناسمجھ یوں خفا بھی ہوتا ہے

مجھ سے مخلص سے بے سبب کوئی

ق

اور محزوں بھی ہم سنے تھے ولے

میرؔ سا ہوسکے ہے کب کوئی

۳۲۷۵

کہ تلفظ طرب کا سن کے کہے

شخص ہو گا کہیں طرب کوئی

 

 (۴۵۶)

 

آگے ہمارے عہد سے وحشت کو جا نہ تھی

دیوانگی کسو کی بھی زنجیر پا نہ تھی

بیگانہ سا لگے ہے چمن اب خزاں میں ہائے

ایسی گئی بہار مگر آشنا نہ تھی

کب تھا یہ شور نوحہ ترا عشق جب نہ تھا

دل تھا ہمارا آگے تو ماتم سرا نہ تھی

وہ اور کوئی ہو گی سحر جب ہوئی قبول

شرمندۂ اثر تو ہماری دعا نہ تھی

۳۲۸۰

آگے بھی تیرے عشق سے کھینچے تھے درد و رنج

لیکن ہماری جان پر ایسی بلا نہ تھی

دیکھے دیار حسن کے میں کارواں بہت

لیکن کسو کے پاس متاع وفا نہ تھی

آئی پری سی پردۂ مینا سے جام تک

آنکھوں میں تیری دختر رز کیا حیا نہ تھی

اس وقت سے کیا ہے مجھے تو چراغ وقف

مخلوق جب جہاں میں نسیم و صبا نہ تھی

پژمردہ اس قدر ہیں کہ ہے شبہ ہم کو میرؔ

تن میں ہمارے جان کبھو تھی بھی یا نہ تھی

۳۲۸۵

(۴۵۷)

 

چھن گیا سینہ بھی کلیجا بھی

یار کے تیر جان لے جا بھی

کیوں تری موت آئی ہے گی عزیز

سامنے سے مرے ارے جا بھی

حال کہہ چپ رہا جو میں بولا

کس کا قصہ تھا ہاں کہے جا بھی

ق

میں کہا میرؔ جاں بلب ہے شوخ

تو نے کوئی خبر کو بھیجا بھی

کہنے لاگا نہ واہی بک اتنا

کیوں ہوا ہے سڑی ابے جا بھی

۳۲۹۰

 

(۴۵۸)

 

گرم ہیں شور سے تجھ حسن کے بازار کئی

رشک سے جلتے ہیں یوسف کے خریدار کئی

کب تلک داغ دکھاوے گی اسیری مجھ کو

مر گئے ساتھ کے میرے تو گرفتار کئی

وے ہی چالاکیاں ہاتھوں کی ہیں جو اول تھیں

اب گریباں میں مرے رہ گئے ہیں تار کئی

خوف تنہائی نہیں کر تو جہاں سے تو سفر

ہر جگہ راہ عدم میں ملیں گے یار کئی

اضطراب و قلق و ضعف میں کس طور جیوں

جان واحد ہے مری اور ہیں آزار کئی

۳۲۹۵

کیوں نہ ہوں خستہ بھلا میں کہ ستم کے تیرے

تیر ہیں پار کئی وار ہیں سوفار کئی

اپنے کوچے میں نکلیو تو سنبھالے دامن

یادگار مژۂ میرؔ ہیں واں خار کئی

 

 (۴۵۹)

 

میری پرسش پہ تری طبع اگر آوے گی

صورت حال تجھے آپھی نظر آوے گی

محو اس کا نہیں ایسا کہ جو چیتے گا شتاب

اس کے بے خود کی بہت دیر خبر آوے گی

کتنے پیغام چمن کو ہیں سو دل میں ہیں گرہ

کسو دن ہم تئیں بھی باد سحر آوے گی

۳۳۰۰

ابر مت گور غریباں پہ برس غافل آہ

ان دل آزردوں کے جی میں بھی لہر آوے گی

میرؔ میں جیتوں میں آؤں گا اسی دن جس دن

دل نہ تڑپے گا مرا چشم نہ بھر آوے گی

 

 (۴۶۰)

 

کیا کروں شرح خستہ جانی کی

میں نے مر مر کے زندگانی کی

حال بد گفتنی نہیں میرا

تم نے پوچھا تو مہربانی کی

سب کو جانا ہے یوں تو پر  اے صبر

آتی ہے اک تری جوانی کی

۳۳۰۵

تشنہ لب مر گئے ترے عاشق

نہ ملی ایک بوند پانی کی

بیت بحثی سمجھ کے کر بلبل

دھوم ہے میری خوش زبانی کی

جس سے کھوئی تھی نیند میرؔ نے کل

ابتدا پھر وہی کہانی کی

 

 (۴۶۱)

 

ہے یہ بازار جنوں منڈی ہے دیوانوں کی

یاں دکانیں ہیں کئی چاک گریبانوں کی

کیونکے کہیے کہ اثر گریۂ مجنوں کو نہ تھا

گرد نمناک ہے اب تک بھی بیابانوں کی

۳۳۱۰

یہ بگولہ تو نہیں دشت محبت میں سے

جمع ہو خاک اڑی کتنے پریشانوں کی

خانقہ کا تو نہ کر قصد ٹک  اے خانہ خراب

یہی اک رہ گئی ہے بستی مسلمانوں کی

سیل اشکوں سے بہے صر صر آہوں سے اڑے

مجھ سے کیا کیا نہ خرابی ہوئی ویرانوں کی

دل و دیں کیسے کہ اس رہزن دلہا سے اب

یہ پڑی ہے کہ خدا خیر کرے جانوں کی

کتنے دل سوختہ ہم جمع ہیں  اے غیرت شمع

کر قدم رنجہ کہ مجلس ہے یہ پروانوں کی

۳۳۱۵

سرگذشتیں نہ مری سن کہ اچٹتی ہے نیند

خاصیت یہ ہے مری جان ان افسانوں کی

میکدے سے تو ابھی آیا ہے مسجد میں میرؔ

ہو نہ لغزش کہیں مجلس ہے یہ بیگانوں کی

 

 (۴۶۲)

 

ملا غیر سے جا جفا کیا نکالی

اکت لے کے آخر ادا کیا نکالی

طبیبوں نے تجویز کی مرگ عاشق

مناسب مرض کے دوا کیا نکالی

نہیں اس گذر گہ سے آتی ادھر اب

نئی راہ کوئی صبا کیا نکالی

۳۳۲۰

دلا اس کے گیسو سے کیوں لگ چلا تو

یہ اک اپنے جی کی بلا کیا نکالی

رجھا ہی دیا واہ رے قدردانی

وفا کی ہماری جزا کیا نکالی

دم صبح جوں آفتاب آج ظالم

نکلتے ہی تیغ جفا کیا نکالی

لگے در بدر میرؔ چلاتے پھرنے

گدا تو ہوئے پر صدا کیا نکالی

 

 (۴۶۳)

 

 

رہی نگفتہ مرے دل میں داستاں میری

نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری

۳۳۲۵

برنگ صوت جرس تجھ سے دور ہوں تنہا

خبر نہیں ہے تجھے آہ کارواں میری

ترے نہ آج کے آنے میں صبح کے مجھ پاس

ہزار جائے گئی طبع بدگماں میری

وہ نقش پائے ہوں میں مٹ گیا ہو جو رہ میں

نہ کچھ خبر ہے نہ سدھ ہے گی رہرواں میری

شب اس کے کوچے میں جاتا ہوں اس توقع پر

کہ ایک دوست ہے واں خواب پاسباں میری

اسی سے دور رہا اصل مدعا جو تھا

گئی یہ عمر عزیز آہ رائیگاں میری

۳۳۳۰

ترے فراق میں جیسے خیال مفلس کا

گئی ہے فکر پریشاں کہاں کہاں میری

نہیں ہے تاب و تواں کی جدائی کا اندوہ

کہ ناتوانی بہت ہے مزاج داں میری

رہا میں در پس دیوار باغ مدت لیک

گئی گلوں کے نہ کانوں تلک فغاں میری

ہوا ہوں گریۂ خونیں کا جب سے دامن گیر

نہ آستین ہوئی پاک دوستاں میری

دیا دکھائی مجھے تو اسی کا جلوہ میرؔ

پڑی جہان میں جا کر نظر جہاں میری

۳۳۳۵

 (۴۶۴)

 

اب کے بھی سیر باغ کی جی میں ہوس رہی

اپنی جگہ بہار میں کنج قفس رہی

میں پا شکستہ جا نہ سکا قافلے تلک

آتی اگرچہ دیر صدائے جرس رہی

لطف قبائے تنگ پہ گل کا بجا ہے ناز

دیکھی نہیں ہے ان نے تری چولی چس رہی

دن رات میری آنکھوں سے آنسو چلے گئے

برسات اب کے شہر میں سارے برس رہی

خالی شگفتگی سے جراحت نہیں کوئی

ہر زخم یاں ہے جیسے کلی ہو بکس رہی

۳۳۴۰

دیوانگی کہاں کہ گریباں سے تنگ ہوں

گردن مری ہے طوق میں گویا کہ پھنس رہی

جوں صبح اس چمن میں نہ ہم کھل کے ہنس سکے

فرصت رہی جو میرؔ بھی سو یک نفس رہی

 

 (۴۶۵)

آج کل بے قرار ہیں ہم بھی

بیٹھ جا چلنے ہار ہیں ہم بھی

آن میں کچھ ہیں آن میں کچھ ہیں

تحفۂ روزگار ہیں ہم بھی

منع گریہ نہ کر تو  اے ناصح

اس میں بے اختیار ہیں ہم بھی

۳۳۴۵

در پئے جان ہے قراول مرگ

کسو کے تو شکار ہیں ہم بھی

نالے کریو سمجھ کے  اے بلبل

باغ میں یک کنار ہیں ہم بھی

مدعی کو شراب ہم کو زہر

عاقبت دوست دار ہیں ہم بھی

مضطرب گریہ ناک ہے یہ گل

برق ابر  بہار ہیں ہم بھی

گر زخود رفتہ ہیں ترے نزدیک

اپنے تو یادگار ہیں ہم بھی

۳۳۵۰

میرؔ نام اک جواں سنا ہو گا

اسی عاشق کے یار ہیں ہم بھی

 

 (۴۶۶)

 

غفلت میں گئی آہ مری ساری جوانی

اے عمر گذشتہ میں تری قدر نہ جانی

تھی آبلۂ دل سے ہمیں تشنگی میں چشم

پھوٹا تو نہ آیا نظر اک بوند بھی پانی

مدت سے ہیں اک مشت پر آوارہ چمن میں

نکلی ہے یہ کس کی ہوس بال فشانی

بھاتی ہے مجھے اک طلب بوسہ میں یہ آن

لکنت سے الجھ جا کے اسے بات نہ آنی

۳۳۵۵

ق

کیا جانیے کیا کیا میں لکھوں شوق میں قاصد

پڑھنا نہ کرے خط کا کہیں اس پہ گرانی

تکلیف نہ کر نامہ کے لکھنے کی تو مجھ کو

آ جائے جو کچھ جی میں ترے کہیو زبانی

یہ جان اگر بید مولہ کہیں دیکھے

باقی ہے کسو موئے پریشاں کی نشانی

دیکھیں تو سہی کب تئیں نبھتی ہے یہ صحبت

ہم جی سے ترے دوست ہیں تو دشمن جانی

مجنوں بھی نہ رسوائے جہاں ہوتا نہ وہ آپ

مکتب میں جو کم آتی پہ لیلیٰ تھی دوانی

۳۳۶۰

ق

اک شخص مجھی سا تھا کہ وہ تجھ پہ تھا عاشق

وہ اس کی وفا پیشگی وہ اس کی جوانی

یہ کہہ کے جو رویا تو لگا کہنے نہ کہہ میرؔ

سنتا نہیں میں ظلم رسیدوں کی کہانی

 

(۴۶۷)

 

کل بارے ہم سے اس سے ملاقات ہو گئی

دو دو بچن کے ہونے میں اک بات ہو گئی

کن کن مصیبتوں سے ہوئی صبح شام ہجر

سو زلفیں ہی بناتے اسے رات ہو گئی

گردش نگاہ مست کی موقوف ساقیا

مسجد تو شیخ جی کی خرابات ہو گئی

۳۳۶۵

ڈر ظلم سے کہ اس کی جزا بس شتاب ہے

آیا عمل میں یاں کہ مکافات ہو گئی

خورشید سا پیالۂ مے بے طلب دیا

پیر مغاں سے رات کرامات ہو گئی

کتنا خلاف وعدہ ہوا ہو گا وہ کہ یاں

نومیدی و امید مساوات ہو گئی

آ شیخ گفتگوئے پریشاں پہ تو نہ جا

مستی میں اب تو قبلۂ حاجات ہو گئی

ٹک شہر سے نکل کے مرا گریہ سیر کر

گویا کہ کوہ و دشت پہ برسات ہو گئی

۳۳۷۰

دیدار کی گرسنگی اپنی یہیں سے دیکھ

اک ہی نگاہ یاروں کی اوقات ہو گئی

اپنے تو ہونٹ بھی نہ ہلے اس کے روبرو

رنجش کی وجہ میرؔ وہ کیا بات ہو گئی

 

(۴۶۸)

 

بغیر دل کہ یہ قیمت ہے سارے عالم کی

کسو سے کام نہیں رکھتی جنس آدم کی

کوئی ہو محرم شوخی ترا تو میں پوچھوں

کہ بزم عیش جہاں کیا سمجھ کے برہم کی

ہمیں تو باغ کی تکلیف سے معاف رکھو

کہ سیر و گشت نہیں رسم اہل ماتم کی

۳۳۷۵

تنک تو لطف سے کچھ کہہ کہ جاں بلب ہوں میں

رہی ہے بات مری جان اب کوئی دم کی

گذرنے کو تو کج و واکج اپنی گذرے ہے

جفا جو ان نے بہت کی تو کچھ وفا کم کی

گھرے ہیں درد و الم میں فراق کے ایسے

کہ صبح عید بھی یاں شام ہے محرم کی

قفس میں میرؔ نہیں جوش داغ سینے پر

ہوس نکالی ہے ہم نے بھی گل کے موسم کی

 

(۴۶۹)

 

غم سے یہ راہ میں نے نکالی نجات کی

سجدہ اس آستاں کا کیا پھر وفات کی

۳۳۸۰

نسبت تو دیتے ہیں ترے لب سے پر ایک دن

ناموس یوں ہی جائے گی آب حیات کی

صد حرف زیر خاک تہ دل چلے گئے

مہلت نہ دی اجل نے ہمیں ایک بات کی

ہم تو ہی اس زمانے میں حیرت سے چپ نہیں

اب بات جاچکی ہے سبھی کائنات کی

پژمردہ اس کلی کے تئیں وا شدن سے کیا

آہ سحر نے دل پہ عبث التفات کی

حور و پری فرشتہ بشر مار ہی رکھا

دزدیدہ تیرے دیکھنے نے جس پہ گھات کی

۳۳۸۵

اس لب شکر کے ہیں گے جہاں ذائقہ شناس

اس جا دعا پہنچتی نہیں ہے نبات کی

عرصہ ہے تنگ چال نکلتی نہیں ہے اور

جو چال پڑتی ہے سو وہ بازی کی مات کی

برقع اٹھا تھا یار کے منھ کا سو میرؔ کل

سنتے ہیں آفتاب نے جوں توں کے رات کی

 

(۴۷۰)

 

اب دل کو آہ کرنی ہی صبح و مسا لگی

پژمردہ اس کلی کے تئیں بھی ہوا لگی

کیونکر بجھاؤں آتش سوزان عشق کو

اب تو یہ آگ دل سے جگر کو بھی جا لگی

۳۳۹۰

دل کو گئے ہی یاں سے بنے اب کہ ہر سحر

کوچے میں تیری زلف کے آنے صبا لگی

زلف سیاہ یار کی رہتی ہے چت چڑھی

یہ تازہ میرے جی کو کہاں کی بلا لگی

بیتابی و شکیب و سفر حاصل کلام

اس دل مریض غم کو نہ کوئی دوا لگی

ڈر مجھ نفس سے غیر کہ پھر جی ہی سے گیا

جس کو کسو ستم زدہ کی بد دعا لگی

لگ جائے چپ نہ تجھ کو تو تو کہیو عندلیب

گر بے کلی نے کی ہمیں تکلیف نالگی

۳۳۹۵

تھا صید ناتواں میں ولے میرے خون سے

پاؤں میں صید بندوں کے بھر کر حنا لگی

کشتے کا اس کے زخم نہ ظاہر ہوا کہ میرؔ

کس جائے اس شہید کے تیغ جفا لگی

 

(۴۷۱)

 

کس حسن سے کہوں میں اس کی خوش اختری کی

اس ماہرو کے آگے کیا تاب مشتری کی

رکھنا نہ تھا قدم یاں جوں باد بے تامل

سیر اس جہاں کی رہرو پر تو نے سرسری کی

شبہا بحال سگ میں اک عمر صرف کی ہے

مت پوچھ ان نے مجھ سے جو آدمی گری کی

۳۴۰۰

پائے گل اس چمن میں چھوڑا گیا نہ ہم سے

سر پر ہمارے اب کے منت ہے بے پری کی

پیشہ تو ایک ہی تھا اس کا ہمارا لیکن

مجنوں کے طالعوں نے شہرت میں یاوری کی

گریے سے داغ سینہ تازہ ہوئے ہیں سارے

یہ کشت خشک تو نے  اے چشم پھر ہری کی

یہ دور تو موافق ہوتا نہیں مگر اب

رکھیے بنائے تازہ اس چرخ چنبری کی

خوباں تمھاری خوبی تا چند نقل کریے

ہم رنجہ خاطروں کی کیا خوب دلبری کی

۳۴۰۵

ہم سے جو میرؔ اڑ کر افلاک چرخ میں ہیں

ان خاک میں ملوں کی کاہے کو ہمسری کی

 

 (۴۷۲)

 

دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے

یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک

شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے

خانۂ دل سے زینہار نہ جا

کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے

نالہ سر کھینچتا ہے جب میرا

شور اک آسماں سے اٹھتا ہے

۳۴۱۰

لڑتی ہے اس کی چشم شوخ جہاں

ایک آشوب واں سے اٹھتا ہے

سدھ لے گھر کی بھی شعلۂ آواز

دود کچھ آشیاں سے اٹھتا ہے

بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو

جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے

یوں اٹھے آہ اس گلی سے ہم

جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے

عشق اک میرؔ بھاری پتھر ہے

کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے

۳۴۱۵

 (۴۷۳)

 

کلی کہتے ہیں اس کا سا دہن ہے

سنا کریے کہ یہ بھی اک سخن ہے

ٹپکتے درد ہیں آنسو کی جاگہ

الٰہی چشم یا زخم کہن ہے

خبر لے پیر کنعاں کی کہ کچھ آج

نپٹ آوارہ بوئے پیرہن ہے

نہیں دامن میں لالہ بے ستوں کے

کوئی دل داغ خون کوہکن ہے

شہادت گاہ ہے باغ زمانہ

کہ ہر گل اس میں اک خونیں کفن ہے

۳۴۲۰

کروں کیا حسرت گل کو وگرنہ

دل پر داغ بھی اپنا چمن ہے

جو دے آرام ٹک آوارگی میرؔ

تو شام غربت اک صبح وطن ہے

 

 (۴۷۴)

 

گل گشت کی ہوس تھی سو تو بگیر آئے

آئے جو ہم چمن میں ہو کر اسیر آئے

فرصت میں یک نفس کی کیا درد دل سنو گے

آئے تو تم ولیکن وقت اخیر آئے

دلی میں اب کے آ کر ان یاروں کو نہ دیکھا

کچھ وے گئے شتابی کچھ ہم بھی دیر آئے

۳۴۲۵

کیا خوبی اس چمن کی موقوف ہے کسو پر

گل گر گئے عدم کو مکھڑے نظیر آئے

شکوہ نہیں جو اس کو پروا نہ ہو ہماری

دروازے جس کے ہم سے کتنے فقیر آئے

عمر دراز کیونکر مختار خضر ہے یاں

ایک آدھ دن میں ہم تو جینے سے سیر آئے

نزدیک تھی قفس میں پرواز روح اپنی

غنچے ہو گلبنوں پر جب ہم صفیر آئے

یوں بیٹھے بیٹھے ناگہ گردن لگے ہلانے

سر شیخ جی کے گویا مجلس میں پیر آئے

۳۴۳۰

قامت خمیدہ اپنی جیسے کماں تھی لیکن

قرباں گہ وفا میں مانند تیر آئے

بن جی دیے نہیں ہے امکان یاں سے جانا

بسمل گہ جہاں میں اب ہم تو میرؔ آئے

 

(۴۷۵)

 

کب سے نظر لگی تھی دروازۂ حرم سے

پردہ اٹھا تو لڑیاں آنکھیں ہماری ہم سے

صورت گر اجل کا کیا ہاتھ تھا کہے تو

کھینچی وہ تیغ ابرو فولاد کے قلم سے

سوزش گئی نہ دل کی رونے سے روز و شب کے

جلتا ہوں اور دریا بہتے ہیں چشم نم سے

۳۴۳۵

طاعت کا وقت گذرا مستی میں آب رز کی

اب چشم داشت اس کے یاں ہے فقط کرم سے

کڑھیے نہ رویئے تو اوقات کیونکے گذرے

رہتا ہے مشغلہ سا بارے غم و الم سے

مشہور ہے سماجت میری کہ تیغ برسی

پر میں نہ سر اٹھایا ہرگز ترے قدم سے

بات احتیاط سے کر ضائع نہ کر نفس کو

بالیدگی دل ہے مانند شیشہ دم سے

کیا کیا تعب اٹھائے کیا کیا عذاب دیکھے

تب دل ہوا ہے اتنا خوگر ترے ستم سے

۳۴۴۰

ہستی میں ہم نے آ کر آسودگی نہ دیکھی

کھلتیں نہ کاش آنکھیں خواب خوش عدم سے

پامال کر کے ہم کو پچھتاؤ گے بہت تم

کمیاب ہیں جہاں میں سر دینے والے ہم سے

دل دو ہو میرؔ صاحب اس بدمعاش کو تم

خاطر تو جمع کر لو ٹک قول سے قسم سے

 

(۴۷۶)

 

گئے جی سے چھوٹے بتوں کی جفا سے

یہی بات ہم چاہتے تھے خدا سے

وہ اپنی ہی خوبی پہ رہتا ہے نازاں

مرو یا جیو کوئی اس کی بلا سے

۳۴۴۵

کوئی ہم سے کھلتے ہیں بند اس قبا کے

یہ عقدے کھلیں گے کسو کی دعا سے

پشیمان توبہ سے ہو گا عدم میں

کہ غافل چلا شیخ لطف ہوا سے

نہ رکھی مری خاک بھی اس گلی میں

کدورت مجھے ہے نہایت صبا سے

جگر سوے مژگاں کھنچا جائے ہے کچھ

مگر دیدۂ تر ہیں لوہو کے پیاسے

اگر چشم ہے تو وہی عین حق ہے

تعصب تجھے ہے عجب ماسوا سے

۳۴۵۰

طبیب سبک عقل ہرگز نہ سمجھا

ہوا درد عشق آہ دونا دوا سے

ٹک  اے مدعی چشم انصاف وا کر

کہ بیٹھے ہیں یہ قافیے کس ادا سے

نہ شکوہ شکایت نہ حرف و حکایت

کہو میرؔ جی آج کیوں ہو خفا سے

 

(۴۷۷)

 

رہا ہونا نہیں امکان ان ترکیب والوں سے

کہ بل دے باندھتے ہیں پیچ پگڑی کے بھی بالوں سے

تجھے نسبت جو دیتے ہیں شرار و برق و شعلے سے

تسلی کرتے ہیں ناچار شاعر ان مثالوں سے

۳۴۵۵

بلا کا شکر کر  اے دل کہ اب معلوم ہوتی ہے

حقیقت عافیت کی اس گلی کے رہنے والوں سے

نہیں  اے ہم نفس اب جی میں طاقت دوری گل کی

جگر ٹکڑے ہوا جاتا ہے آخر شب کے نالوں سے

نہیں خالی اثر سے تصفیہ دل کا محبت میں

کہ آئینے کو ربط خاص ہے صاحب جمالوں سے

کہاں یہ قامت دلکش کہاں پاکیزگی ایسی

ملے ہیں ہم بہت گلزار کے نازک نہالوں سے

ہدف اس کا ہوئے مدت ہوئی سینے کو پر اب تک

گتھا نکلے ہے لخت دل مرا تیروں کے بھالوں سے

۳۴۶۰

ہوا پیرانہ سر عاشق ہو زاہد مضحکہ سب کا

کہن سالی میں ملتا ہے کوئی بھی خورد سالوں سے

رگ گل کوئی کہتا ہے کوئی  اے میرؔ مو اس کو

کمر اس شوخ کی بندھتی نہیں ان خوش خیالوں سے

 

(۴۷۸)

 

کبکوں نے تیری چال جو دیکھی ٹھٹھک گئے

دل ساکنان باغ کے تجھ سے اٹک گئے

اندوہ وصل و ہجر نے عالم کھپا دیا

ان دو ہی منزلوں میں بہت یار تھک گئے

مطلق اثر نہ اس کے دل نرم میں کیا

ہر چند نالہ ہائے حزیں عرش تک گئے

۳۴۶۵

افراط گریہ سے ہوئیں آبادیاں خراب

سیلاب میرے اشک کے اژدر بھی بھک گئے

وے مے گسار ظرف جنھیں خم کشی کے تھے

بھر کر نگاہ تو نے جو کی ووہیں چھک گئے

چند  اے سپہر چھاتی ہماری جلا کرے

اب داغ کھاتے کھاتے کلیجے تو پک گئے

عشاق پر جو وے صف مژگاں پھریں تو میرؔ

جوں اشک کتنے چو گئے کتنے ٹپک گئے

 

(۴۷۹)

 

زندگی ہوتی ہے اپنی غم کے مارے دیکھیے

موند لیں آنکھیں ادھر سے تم نے پیارے دیکھیے

۳۴۷۰

لخت دل کب تک الٰہی چشم سے ٹپکا کریں

خاک میں تا چند ایسے لعل پارے دیکھیے

ہو چکا روز جزا اب  اے شہیدان وفا

چونکتے ہیں خون خفتہ کب تمھارے دیکھیے

راہ دور عشق میں اب تو رکھا ہم نے قدم

رفتہ رفتہ پیش کیا آتا ہے بارے دیکھیے

سینۂ مجروح بھی قابل ہوا ہے سیر کے

ایک دن تو آن کر یہ زخم سارے دیکھیے

خنجر بیداد کو کیا دیکھتے ہو دمبدم

چشم سے انصاف کی سینے ہمارے دیکھیے

۳۴۷۵

ایک خوں ہو بہ گیا دو روتے ہی روتے گئے

دیدہ و دل ہو گئے ہیں سب کنارے دیکھیے

شست و شو کا اس کی پانی جمع ہو کر مہ بنا

اور منھ دھونے کے چھینٹوں سے ستارے دیکھیے

رہ گئے سوتے کے سوتے کارواں جاتا رہا

ہم تو میرؔ اس رہ کے خوابیدہ ہیں ہارے دیکھیے

 

(۴۸۰)

 

کس طور ہمیں کوئی فریبندہ لبھا لے

آخر ہیں تری آنکھوں کے ہم دیکھنے والے

سو ظلم اٹھائے تو کبھو دور سے دیکھا

ہرگز نہ ہوا یہ کہ ہمیں پاس بلا لے

۳۴۸۰

اس شوخ کی سرتیز پلک ہیں کہ وہ کانٹا

گڑ جائے اگر آنکھ میں سر دل سے نکالے

عشق ان کو ہے جو یار کو اپنے دم رفتن

کرتے نہیں غیرت سے خدا کے بھی حوالے

وے دن گئے جو ضبط کی طاقت تھی ہمیں بھی

اب دیدۂ خوں بار نہیں جاتے سنبھالے

احوال بہت تنگ ہے  اے کاش محبت

اب دست تلطف کو مرے سر سے اٹھا لے

دعوائے قیامت کا مرے خوف اسے کیا

اک لطف میں وہ مجھ سے تنک رو کو منا لے

۳۴۸۵

کہتے ہیں حجاب رخ دلدار ہے ہستی

دیکھیں گے اگر یوں ہے بھلا جان بھی جا لے

میرؔ اس سے نہ مل آہ کہ ڈرتے ہیں مبادا

بیباک ہے وہ شوخ کہیں مار نہ ڈالے

 

(۴۸۱)

 

برنگ بوئے گل اس باغ کے ہم آشنا ہوتے

کہ ہمراہ صبا ٹک سیر کرتے پھر ہوا ہوتے

سراپا آرزو ہونے نے بندہ کر دیا ہم کو

وگرنہ ہم خدا تھے گر دل بے مدعا ہوتے

فلک  اے کاش ہم کو خاک ہی رکھتا کہ اس میں ہم

غبار راہ ہوتے یا کسو کی خاک پا ہوتے

۳۴۹۰

الٰہی کیسے ہوتے ہیں جنھیں ہے بندگی خواہش

ہمیں تو شرم دامن گیر ہوتی ہے خدا ہوتے

تو ہے کس ناحیے سے  اے دیار عشق کیا جانوں

ترے باشندگاں ہم کاش سارے بے وفا ہوتے

اب ایسے ہیں کہ صانع کے مزاج اوپر بہم پہنچے

جو خاطر خواہ اپنے ہم ہوئے ہوتے تو کیا ہوتے

کہیں جو کچھ ملامت گر بجا ہے میرؔ کیا جانیں

انھیں معلوم تب ہوتا کہ ویسے سے جدا ہوتے

 

 (۴۸۲)

 

چمن یار تیرا ہوا خواہ ہے

گل اک دل ہے جس میں تری چاہ ہے

۳۴۹۵

سراپا میں اس کے نظر کر کے تم

جہاں دیکھو اللہ اللہ ہے

تری آہ کس سے خبر پایئے

وہی بے خبر ہے جو آگاہ ہے

مرے لب پہ رکھ کان آواز سن

کہ اب تک بھی یک ناتواں آہ ہے

گذر سر سے تب عشق کی راہ چل

کہ ہر گام یاں اک خطر گاہ ہے

کبھو وادی عشق دکھلایئے

بہت خضر بھی دل میں گمراہ ہے

۳۵۰۰

جہاں سے تو رخت اقامت کو باندھ

یہ منزل نہیں بے خبر راہ ہے

نہ شرمندہ کر اپنے منھ سے مجھے

کہا میں نے کب یہ کہ تو ماہ ہے

یہ وہ کارواں گاہ دلکش ہے میرؔ

کہ پھر یاں سے حسرت ہی ہمراہ ہے

 

(۴۸۳)

 

ڈھب ہیں تیرے سے باغ میں گل کے

بو گئی کچھ دماغ میں گل کے

جائے روغن دیا کرے ہے عشق

خون بلبل چراغ میں گل کے

۳۵۰۵

دل تسلی نہیں صبا ورنہ

جلوے سب ہیں گے داغ میں گل کے

اس حدیقے کے عیش پر مت جا

مے نہیں ہے ایاغ میں گل کے

سیر کر میرؔ اس چمن کی شتاب

ہے خزاں بھی سراغ میں گل کے

 

(۴۸۴)

 

عشق میں نے خوف و خطر چاہیے

جان کے دینے کو جگر چاہیے

قابل آغوش ستم دیدگاں

اشک سا پاکیزہ گہر چاہیے

۳۵۱۰

حال یہ پہنچا ہے کہ اب ضعف سے

اٹھتے پلک ایک پہر چاہیے

کم ہے شناس اے زر داغ دل

اس کے پرکھنے کو نظر چاہیے

سینکڑوں مرتے ہیں سدا پھر بھی یاں

واقعہ اک شام و سحر چاہیے

عشق کے آثار ہیں  اے بوالہوس

داغ بہ دل دست بسر چاہیے

شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں

عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے

۳۵۱۵

جیسے جرس پارہ گلو کیا کروں

نالہ و افغاں میں اثر چاہیے

خوف قیامت کا یہی ہے کہ میرؔ

ہم کو جیا بار دگر چاہیے

 

(۴۸۵)

 

ہستی اپنی حباب کی سی ہے

یہ نمائش سراب کی سی ہے

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

چشم دل کھول اس بھی عالم پر

یاں کی اوقات خواب کی سی ہے

۳۵۲۰

بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں

حالت اب اضطراب کی سی ہے

نقطۂ خال سے ترا ابرو

بیت اک انتخاب کی سی ہے

میں جو بولا کہا کہ یہ آواز

اسی خانہ خراب کی سی ہے

آتش غم میں دل بھنا شاید

دیر سے بو کباب کی سی ہے

دیکھیے ابر کی طرح اب کے

میری چشم پر آب کی سی ہے

۳۵۲۵

میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں

ساری مستی شراب کی سی ہے

 

(۴۸۶)

 

شمع صفت جب کبھو مر جائیں گے

ساتھ لیے داغ جگر جائیں گے

تند نہ ہو ہم تو موئے پھرتے ہیں

کیا تری ان باتوں سے ڈر جائیں گے

کھل گئے رخسار اگر یار کے

شمس و قمر جی سے اتر جائیں گے

خالی نہ چھوڑیں گے ہم اپنی جگہ

گر یہی رونا ہے تو بھر جائیں گے

۳۵۳۰

راہ دم تیغ پہ ہو کیوں نہ میرؔ

جی پہ رکھیں گے تو گذر جائیں گے

 

 (۴۸۷)

 

اب جو اک حسرت جوانی ہے

عمر رفتہ کی یہ نشانی ہے

رشک یوسف ہے آہ وقت عزیز

عمر اک بار کاروانی ہے

گریہ ہر وقت کا نہیں بے ہیچ

دل میں کوئی غم نہانی ہے

ہم قفس زاد قیدی ہیں ورنہ

تا چمن ایک پر فشانی ہے

۳۵۳۵

اس کی شمشیر تیز سے ہمدم

مر رہیں گے جو زندگانی ہے

غم و رنج و الم نکویاں سے

سب تمھاری ہی مہربانی ہے

خاک تھی موجزن جہاں میں اور

ہم کو دھوکا یہ تھا کہ پانی ہے

یاں ہوئے میرؔ تم برابر خاک

واں وہی ناز و سرگرانی ہے

 

(۴۸۸)

 

قیامت ہیں یہ چسپاں جامے والے

گلوں نے جن کی خاطر خرقے ڈالے

۳۵۴۰

وہ کالا چور ہے خال رخ یار

کہ سو آنکھوں میں دل ہو تو چرا لے

نہیں اٹھتا دل محزوں کا ماتم

خدا ہی اس مصیبت سے نکالے

کہاں تک دور بیٹھے بیٹھے کہیے

کبھو تو پاس ہم کو بھی بلا لے

دلا بازی نہ کر ان گیسوؤں سے

نہیں آساں کھلانے سانپ کالے

طپش نے دل جگر کی مار ڈالا

بغل میں دشمن اپنے ہم نے پالے

۳۵۴۵

نہ مہکے بوئے گل  اے کاش یک چند

ابھی زخم جگر سارے ہیں آلے

کسے قید قفس میں یاد گل کی

پڑے ہیں اب تو جینے ہی کے لالے

ستایا میرؔ غم کش کو کنھوں نے

کہ پھر اب عرش تک جاتے ہیں نالے

 

(۴۸۹)

 

اب ظلم ہے اس خاطر تا غیر بھلا مانے

پس ہم نہ برا مانیں تو کون برا مانے

سرمایۂ صد آفت دیدار کی خواہش ہے

دل کی تو سمجھ لیجے گر چشم کہا مانے

۳۵۵۰

مسدود ہی  اے قاصد بہتر ہے رہ نامہ

کیا کیا نہ لکھیں ہم تو جو یار لکھا مانے

ٹک حال شکستہ کی سننے ہی میں سب کچھ ہے

پر وہ تو سخن رس ہے اس بات کو کیا مانے

بے طاقتی دل نے سائل بھی کیا ہم کو

پر میرؔ فقیروں کی یاں کون صدا مانے

 

 

(۴۹۰)

 

 

دل کے معمورے کی مت کر فکر فرصت چاہیے

ایسے ویرانے کے اب بسنے کو مدت چاہیے

عشق و مے خواری نبھے ہے کوئی درویشی کے بیچ

اس طرح کے خرج لاحاصل کو دولت چاہیے

۳۵۵۵

عاقبت فرہاد مر کر کام اپنا کر گیا

آدمی ہووے کسی پیشے میں جرأت چاہیے

ہو طرف مجھ پہلواں شاعر کا کب عاجز سخن

سامنے ہونے کو صاحب فن کے قدرت چاہیے

عشق میں وصل و جدائی سے نہیں کچھ گفتگو

قرب و بعد اس جا برابر ہے محبت چاہیے

نازکی کو عشق میں کیا دخل ہے  اے بوالہوس

یاں صعوبت کھینچنے کو جی میں طاقت چاہیے

تنگ مت ہو ابتدائے عاشقی میں اس قدر

خیریت ہے میرؔ صاحب دل سلامت چاہیے

۳۵۶۰

(۴۹۱)

 

بے یار شہر دل کا ویران ہو رہا ہے

دکھلائی دے جہاں تک میدان ہو رہا ہے

اس منزل جہاں کے باشندے رفتنی ہیں

ہر اک کے ہاں سفر کا سامان ہو رہا ہے

اچھا لگا ہے شاید آنکھوں میں یار اپنی

آئینہ دیکھ کر کچھ حیران ہو رہا ہے

ٹک زیر طاق نیلی وسواس سے رہا کر

مدت سے گرنے پر یہ ایوان ہو رہا ہے

گل دیکھ کر چمن میں تجھ کو کھلا ہی جا ہے

یعنی ہزار جی سے قربان ہو رہا ہے

۳۵۶۵

حال زبون اپنا پوشیدہ کچھ نہ تھا تو

سنتا نہ تھا کہ یہ صید بے جان ہو رہا ہے

ظالم ادھر کی سدھ لے جوں شمع صبح گاہی

ایک آدھ دم کا عاشق مہمان ہو رہا ہے

قرباں گہ محبت وہ جا ہے جس میں ہر سو

دشوار جان دینا آسان ہو رہا ہے

ہر شب گلی میں اس کی روتے تو رہتے ہو تم

اک روز میرؔ صاحب طوفان ہو رہا ہے

 

(۴۹۲)

 

تیری گلی سے جب ہم عزم سفر کریں گے

ہر ہر قدم کے اوپر پتھر جگر کریں گے

۳۵۷۰

آزردہ خاطروں سے کیا فائدہ سخن کا

تم حرف سر کرو گے ہم گریہ سر کریں گے

عذر گناہ خوباں بدتر گنہ سے ہو گا

کرتے ہوئے تلافی بے لطف تر کریں گے

سر جائے گا ولیکن آنکھیں ادھر ہی ہوں گی

کیا تیری تیغ سے ہم قطع نظر کریں گے

اپنی خبر بھی ہم کو اب دیر پہنچتی ہے

کیا جانے یار اس کو کب تک خبر کریں گے

گر دل کی تاب و طاقت یہ ہے تو ہم نشیں ہم

شام غم جدائی کیونکر سحر کریں گے

۳۵۷۵

یہ ظلم بے نہایت دیکھو تو خوبرویاں

کہتے ہیں جو ستم ہے ہم تجھ ہی پر کریں گے

اپنے بھی جی ہے آخر انصاف کر کہ کب تک

تو یہ ستم کرے گا ہم درگذر کریں گے

صناع طرفہ ہیں ہم عالم میں ریختے کے

جو میرؔ جی لگے گا تو سب ہنر کریں گے

 

(۴۹۳)

 

آنکھیں لڑا لڑا کر کب تک لگا رکھیں گے

اس پردے ہی میں خوباں ہم کو سلا رکھیں گے

فکر دہن میں اس کی کچھ بن نہ آئی آخر

اب یہ خیال ہم بھی دل سے اٹھا رکھیں گے

۳۵۸۰

مشت نمک کو میں نے بیکار کم رکھا ہے

چھاتی کے زخم میرے مدت مزہ رکھیں گے

سبزان شہر اکثر درپے ہیں آبرو کے

اب زہر پاس اپنے ہم بھی منگا رکھیں گے

آنکھوں میں دلبروں کی مطلق نہیں مروت

یہ پاس آشنائی منظور کیا رکھیں گے

جیتے ہیں جب تلک ہم آنکھیں بھی لڑتیاں ہیں

دیکھیں تو جور خوباں کب تک روا رکھیں گے

اب چاند بھی لگا ہے تیرے سے جلوے کرنے

شبہ اے ماہ چندے تجھ کو چھپا رکھیں گے

۳۵۸۵

مژگان و چشم و ابرو سب ہیں ستم کے مائل

ان آفتوں سے دل ہم کیونکر بچا رکھیں گے

دیوان میرؔ صاحب ہر اک کی ہے بغل میں

دو چار شعر ان کے ہم بھی لکھا رکھیں گے

 

(۴۹۴)

 

تجھ سے دوچار ہو گا جو کوئی راہ جاتے

پھر عمر چاہیے گی اس کو بحال آتے

گر دل کی بے قراری ہوتی یہی جو اب ہے

تو ہم ستم رسیدہ کاہے کو جینے پاتے

وے دن گئے کہ اٹھ کر جاتے تھے اس گلی میں

اب سعی چاہیے ہے بالیں سے سر اٹھاتے

۳۵۹۰

کب تھی ہمیں تمنا  اے ضعف یہ کہ تڑپیں

پر زیر تیغ اس کی ہم ٹک تو سر ہلاتے

گر جانتے کہ یوں ہی برباد جائیں گے تو

کاہے کو خاک میں ہم اپنے تئیں ملاتے

شاید کہ خون دل کا پہنچا ہے وقت آخر

تھم جاتے ہیں کچھ آنسو راتوں کو آتے آتے

اس سمت کو پلٹتی تیری نگہ تو ساقی

حال خراب مجلس ہم شیخ کو دکھاتے

جی دینا دل دہی سے بہتر تھا صد مراتب

اے کاش جان دیتے ہم بھی نہ دل لگاتے

۳۵۹۵

شب کوتہ اور قصہ ان کا دراز ورنہ

احوال میرؔ صاحب ہم تجھ کو سب سناتے

 

(۴۹۵)

 

ہو عاجز کہ جسم اس قدر زور سے

نہ نکلا کبھو عہدۂ مور سے

بہت دور کوئی رہا ہے مگر

کہ فریاد میں ہے جرس شور سے

مری خاک تفتہ پر  اے ابر تر

قسم ہے تجھے ٹک برس زور سے

ترے دل جلے کو رکھا جس گھڑی

دھواں سا اٹھا کچھ لب گور سے

۳۶۰۰

نہ پوچھو کہ بے اعتباری سے میں

ہوا اس گلی میں بتر چور سے

نہیں سوجھتا کچھ جو اس بن ہمیں

بغیر اس کے رہتے ہیں ہم کور سے

جو ہو میرؔ بھی اس گلی میں صبا

بہت پوچھیو تو مری اور سے

 

(۴۹۶)

 

مت ہو مغرور  اے کہ تجھ میں زور ہے

یاں سلیماں کے مقابل مور ہے

مر گئے پر بھی ہے صولت فقر کی

چشم شیر اپنا چراغ گور ہے

۳۶۰۵

جب سے کاغذ باد کا ہے شوق اسے

ایک عالم اس کے اوپر ڈور ہے

رہنمائی شیخ سے مت چشم رکھ

وائے وہ جس کا عصا کش کور ہے

لے ہی جاتی ہے زر گل کو اڑا

صبح کی بھی باؤ بادی چور ہے

دل کھنچے جاتے ہیں سارے اس طرف

کیونکے کہیے حق ہماری اور ہے

تھا بلا ہنگامہ آرا میرؔ بھی

اب تلک گلیوں میں اس کا شور ہے

۳۶۱۰

 

(۴۹۷)

 

غیر سے اب یار ہوا چاہیے

ملتجی ناچار ہوا چاہیے

جس کے تئیں ڈھونڈوں ہوں وہ سب میں ہے

کس کا طلبگار ہوا چاہیے

تاکہ وہ ٹک آن کے پوچھے کبھو

اس لیے بیمار ہوا چاہیے

زلف کسو کی ہو کہ ہو خال و خط

دل کو گرفتار ہوا چاہیے

تیغ بلند اس کی ہوئی بوالہوس

مرنے کو تیار ہوا چاہیے

۳۶۱۵

مصطبۂ بے خودی ہے یہ جہاں

جلد خبردار ہوا چاہیے

مول ہے بازار کا ہستی کے یہ

دل کے خریدار ہوا چاہیے

کچھ نہیں خورشید صفت سرکشی

سایۂ دیوار ہوا چاہیے

کر نہ تعلق کہ یہ منزل نہیں

آہ سبک بار ہوا چاہیے

گو  سفری اب نہیں ظاہر میں میرؔ

عاقبت کار ہوا چاہیے

۳۶۲۰

 

(۴۹۸)

 

یاں سرکشاں جو صاحب تاج و لوا ہوئے

پامال ہو گئے تو نہ جانا کہ کیا ہوئے

دیکھی نہ ایک چشمک گل بھی چمن میں آہ

ہم آخر بہار قفس سے رہا ہوئے

پچھتاؤ گے بہت جو گئے ہم جہان سے

آدم کی قدر ہوتی ہے ظاہر جدا ہوئے

تجھ بن دماغ صحبت اہل چمن نہ تھا

گل وا ہوئے ہزار ولے ہم نہ وا ہوئے

سر دے کے میرؔ ہم نے فراغت کی عشق میں

ذمے ہمارے بوجھ تھا بارے ادا ہوئے

۳۶۲۵

(۴۹۹)

 

اس اسیری کے نہ کوئی  اے صبا پالے پڑے

اک نظر گل دیکھنے کے بھی ہمیں لالے پڑے

حسن کو بھی عشق نے آخر کیا حلقہ بگوش

رفتہ رفتہ دلبروں کے کان میں بالے پڑے

مت نگاہ مست کو تکلیف کر ساقی زیاد

ہر طرف تو ہیں گلی کوچوں میں متوالے پڑے

کیونکے طے ہو دشت شوق آخر کو مانند سر شک

میرے پاؤں میں تو پہلے ہی قدم چھالے پڑے

جوش مارا اشک خونیں نے مرے دل سے زبس

گھر میں ہمسایوں کے شب لوہو کے پرنالے پڑے

۳۶۳۰

ہیں بعینہ ویسے جوں پردہ کرے ہے عنکبوت

روتے روتے بسکہ میری آنکھوں میں جالے پڑے

گرمجوشی سے مرے گریے کی شب آنکھوں کی راہ

گوشۂ دامن میں میرؔ آتش کے پرکالے پڑے

 

(۵۰۰)

 

رنج کھینچے تھے داغ کھائے تھے

دل نے صدمے بڑے اٹھائے تھے

پاس ناموس عشق تھا ورنہ

کتنے آنسو پلک تک آئے تھے

وہی سمجھا نہ ورنہ ہم نے تو

زخم چھاتی کے سب دکھائے تھے

۳۶۳۵

اب جہاں آفتاب میں ہم ہیں

یاں کبھو سرو و گل کے سائے تھے

کچھ نہ سمجھے کہ تجھ سے یاروں نے

کس توقع پہ دل لگائے تھے

فرصت زندگی سے مت پوچھو

سانس بھی ہم نہ لینے پائے تھے

میرؔ صاحب رلا گئے سب کو

کل وے تشریف یاں بھی لائے تھے

 

(۵۰۱)

 

گرے بحر بلا مژگان  تر سے

نگاہیں اٹھ گئیں طوفان پر سے

۳۶۴۰

 (۵۰۲)

 

ہمیں غش آ گیا تھا وہ بدن دیکھ

بڑی کلول ٹلی ہے جان پر سے

لیا دل اس مخطط رو نے میرا

اٹھا لوں میں اسے قرآن پر سے

کہاں ہیں آدمی عالم میں پیدا

خدائی صدقے کی انسان پر سے

تفنگ اس کی چلی آواز پر لیک

گئی ہے میرؔ گولی کان پر سے

 

(۵۰۳)

 

خوب ہے  اے ابر اک شب آؤ باہم رویئے

پر نہ اتنا بھی کہ ڈوبے شہر کم کم رویئے

۳۶۴۵

وقت خوش دیکھا نہ اک دم سے زیادہ دہر میں

خندۂ صبح چمن پر مثل شبنم رویئے

شادی و غم میں جہاں کی ایک سے دس کا ہے فرق

عید کے دن ہنسیے تو دس دن محرم رویئے

دیکھا ماتم خانۂ عالم کو ہم مانند ابر

ہر جگہ پر جی میں یوں آیا دمادم رویئے

ہو جدا فردوس سے یعنی گلی سے یار کی

مدتوں تک کیجیے غم مثل آدم رویئے

اب سے یوں کریے مقرر اٹھیے جب کہسار سے

وادی مجنوں پہ بھی  اے ابر اک دم رویئے

۳۶۵۰

عشق میں تقریب گریہ گو نہیں درکار میرؔ

ایک مدت صبر ہی کا رکھیے ماتم رویئے

 

 (۵۰۴)

 

نیلا نہیں سپہر تجھے اشتباہ ہے

دود جگر سے میرے یہ چھت سب سیاہ ہے

ابر و بہار و بادہ سبھوں میں ہے اتفاق

ساقی جو تو بھی مل چلے تو واہ واہ ہے

سرمے سے ایسی آنکھیں تمھاری نہیں لگیں

احوال پر ہمارے تمھیں کب نگاہ ہے

کس کس طرح سے ہاتھ نچاتا ہے وعظ میں

دیکھا جو شیخ شہر عجب دستگاہ ہے

۳۶۵۵

ہے روے عجز میرؔ تری خاک راہ پر

یعنی کہ کام اس کا کچھ اب رو براہ ہے

 

 

(۵۰۵)

 

نہیں وہ قید الفت میں گرفتاری کو کیا جانے

تکلف برطرف بے مہر ہے یاری کو کیا جانے

وہی اک مندرس نالہ مبارک مرغ گلشن کو

وہ اس ترکیب نو کی نالہ و زاری کو کیا جانے

پڑے آسودگان خاک چونکو شور محشر سے

مرا جو کوئی بے خود ہے وہ ہشیاری کو کیا جانے

ستم ہے تیری خوے خشمگیں پر ٹک بھی دلجوئی

دل آزاری کی باتیں کر تو دلداری کو کیا جانے

۳۶۶۰

گلہ اپنی جفا کا سن کے مت آزردہ ہو ظالم

نہیں تہمت ہے تجھ پر تو جفا کاری کو کیا جانے

پریشاں فوج فوج لخت دل نکلے ہے آنکھوں سے

نپٹ ناداں ہے………………

ترا ابرام اس کی سادگی پر میرؔ میں مانا

بھلا ایسا جو ناداں ہو وہ عیاری کو کیا جانے

 

(۵۰۶)

 

جوش دل آئے بہم دیدۂ گریان ہوئے

کتنے اک اشک ہوئے جمع کہ طوفان ہوئے

کیا چھپیں شہر محبت میں ترے خانہ خراب

گھر کے گھر ان کے ہیں اس بستی میں ویران ہوئے

۳۶۶۵

کس نے لی رخصت پرواز پس از مرگ نسیم

مشت پر باغ میں آتے ہی پریشان ہوئے

سبزہ و لالہ و گل ابر و ہوا ہے مے دے

ساقی ہم توبہ کے کرنے سے پشیمان ہوئے

دیکھتے پھرتے ہیں منھ سب کا سحر آئینے

جلوہ گر ہو کہ یہ تجھ بن بہت حیران ہوئے

دعوی خوش دہنی گرچہ اسے تھا لیکن

دیکھ کر منھ کو ترے گل کے تئیں کان ہوئے

جام خوں بن نہیں ملتا ہے ہمیں صبح کو آب

جب سے اس چرخ سیہ کاسہ کے مہمان ہوئے

۳۶۷۰

اپنے جی ہی نے نہ چاہا کہ پئیں آب حیات

یوں تو ہم میرؔ اسی چشمے پہ بے جان ہوئے

 

 (۵۰۷)

 

یارب کوئی ہو عشق کا بیمار نہ ہووے

مر جائے ولے اس کو یہ آزار نہ ہووے

زنداں میں پھنسے طوق پڑے قید میں مر جائے

پر دام محبت میں گرفتار نہ ہووے

اس واسطے کانپوں ہوں کہ ہے آہ نپٹ سرد

یہ باؤ کلیجے کے کہیں پار نہ ہووے

صد نالۂ جانکاہ ہیں وابستہ چمن سے

کوئی بال شکستہ پس دیوار نہ ہووے

۳۶۷۵

پژمردہ بہت ہے گل گلزار ہمارا

شرمندۂ یک گوشۂ دستار نہ ہووے

مانگے ہے دعا خلق تجھے دیکھ کے ظالم

یارب کسو کو اس سے سروکار نہ ہووے

کس شکل سے احوال کہوں اب میں الٰہی

صورت سے مری جس میں وہ بیزار نہ ہووے

ق

ہوں دوست جو کہتا ہوں سن  اے جان کے دشمن

بہتر تو تجھے ترک ہے تا خوار نہ ہووے

خوباں برے ہوتے ہیں اگرچہ ہیں نکورو

بے جرم کہیں ان کا گنہگار نہ ہووے

۳۶۸۰

باندھے نہ پھرے خون پر اپنی تو کمر کو

یہ جان سبک تن پہ ترے بار نہ ہووے

چلتا ہے رہ عشق ہی اس پر بھی چلے تو

پر ایک قدم چل کہیں زنہار نہ ہووے

صحرائے محبت ہے قدم دیکھ کے رکھ میرؔ

یہ سیر سر کوچہ و بازار نہ ہووے

(۵۰۸)

برقعے کو اٹھا چہرے سے وہ بت اگر آوے

اللہ کی قدرت کا تماشا نظر آوے

اے ناقۂ لیلیٰ دو قدم راہ غلط کر

مجنون زخود رفتہ کبھو راہ پر آوے

۳۶۸۵

ٹک بعد مرے میرے طرف داروں کنے تو

کوئی بھیجیو ظالم کہ تسلی تو کر آوے

کیا ظرف ہے گردون تنک حوصلہ کا جو

آشوب فغاں کے مرے عہدے سے بر آوے

ممکن نہیں آرام دے بیتابی جگر کی

جب تک نہ پلک پر کوئی ٹکڑا نظر آوے

مت ممتحن باغ ہو  اے غیرت گلزار

گل کیا کہ جسے آگے ترے بات کر آوے

کھلنے میں ترے منھ کے کلی پھاڑے گریباں

ہلنے میں ترے ہونٹوں کے گل برگ تر آوے

۳۶۹۰

ہم آپ سے جاتے رہے ہیں ذوق خبر میں

اے جان بلب آمدہ رہ تا خبر آوے

کہتے ہیں ترے کوچے سے میرؔ آنے کہے ہے

جب جانیے وہ خانہ خراب اپنے گھر آوے

ہے جی میں غزل در غزل  اے طبع یہ کہیے

شاید کہ نظیرؔی کے بھی عہدے سے بر آوے

(۵۰۹)

 

جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے

اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے

تلوار کا بھی مارا خدا رکھے ہے ظالم

یہ تو ہو کوئی گور غریباں میں در آوے

۳۶۹۵

میخانہ وہ منظر ہے کہ ہر صبح جہاں شیخ

دیوار پہ خورشید کا مستی سے سر آوے

کیا جانیں وے مرغان گرفتار چمن کو

جن تک کہ بصد ناز نسیم سحر آوے

تو صبح قدم رنجہ کرے ٹک تو ہے ورنہ

کس واسطے عاشق کی شب غم بسر آوے

ہر سو سر تسلیم رکھے صید حرم ہیں

وہ صید فگن تیغ بکف تا کدھر آوے

دیواروں سے سر مارتے پھرنے کا گیا وقت

اب تو ہی مگر آپ کبھو در سے در آوے

۳۷۰۰

واعظ نہیں کیفیت میخانہ سے آگاہ

یک جرعہ بدل ورنہ یہ مندیل دھر آوے

صناع ہیں سب خوار ازاں جملہ ہوں میں بھی

ہے عیب بڑا اس میں جسے کچھ ہنر آوے

ق

اے وہ کہ تو بیٹھا ہے سر راہ پہ زنہار

کہیو جو کبھو میرؔ بلا کش ادھر آوے

مت دشت محبت میں قدم رکھ کہ خضر کو

ہر گام پہ اس رہ میں سفر سے حذر آوے

 

(۵۱۰)

 

لگوائے پتھرے اور برا بھی کہا کیے

تم نے حقوق دوستی کے سب ادا کیے

۳۷۰۵

کھینچا تھا آہ شعلہ فشاں نے جگر سے سر

برسوں تئیں پڑے ہوئے جنگل جلا کیے

غنچے نے ساری طرز ہماری ہی اخذ کی

ہم جو چمن میں برسوں گرفتہ رہا کیے

تدبیر عشق میں بھی نہ کرتے قصور یار

جو اس مرض میں ہوتے بھلے ہم دوا کیے

جوں نے نہ تیرے کشتے کے لب سے رہی فغاں

ہر چند بند بند بھی اس کے جدا کیے

کیا حرف دل نشیں ہو مرا جیسے خط مدام

اغیار روسیاہ ترے منھ لگا کیے

۳۷۱۰

پھر شام آشنا نہ کبھو نکلے گل رخاں

ہر صبح ان سے برسوں تئیں ہم ملا کیے

بے عیب ذات ہے گی خدا ہی کی  اے بتاں

تم لوگ خوبرو جو کیے بے وفا کیے

اک خاک سی اڑے ہے منھ اوپر وگرنہ میرؔ

اس چشم گریہ ناک سے دریا بہا کیے

 

(۵۱۱)

 

کروں جو آہ زمین و زمان جل جاوے

سپہر نیلی کا یہ سائبان جل جاوے

دی آگ دل کو محبت نے جب سے پھرتا ہوں

میں جس طرح کسو کا خانمان جل جاوے

۳۷۱۵

دوا پذیر نہیں  اے طبیب تپ غم کی

بدن میں ٹک رہے تو استخوان جل جاوے

نہ آوے سوز جگر منھ پہ شمع ساں  اے کاش

بیان کرنے سے آگے زبان جل جاوے

ہمارے نالے بھی آتش ہی کے ہیں پرکالے

سنے تو بلبل نالاں کی جان جل جاوے

ہزار حیف کہ دل خار و خس سے باندھے کوئی

خزاں میں برق گرے آشیان جل جاوے

متاع سینہ سب آتش ہے فائدہ کس کا

خیال یہ ہے مبادا دکان جل جاوے

۳۷۲۰

نہ پوچھ کچھ لب ترسا بچے کی کیفیت

کہوں تو دختر رز کی فلان جل جاوے

نہ بول میرؔ سے مظلوم عشق ہے وہ غریب

مبادا آہ کرے سب جہان جل جاوے

 

(۵۱۲)

 

گذار خوش نگاہاں جس میں ہے میرا بیاباں ہے

سواد بر مجنوں تو چراگاہ غزالاں ہے

کرے ہے خندۂ دنداں نما تو میں بھی روؤں گا

چمکتی زور ہے بجلی مقرر آج باراں ہے

چمن پر نوحہ و زاری سے کس گل کا یہ ماتم ہے

جو شبنم ہے تو گریاں ہے جو بلبل ہے تو نالاں ہے

۳۷۲۵

ہر اک مژگاں پہ میری اشک کے قطرے جھمکتے ہیں

تماشا مفت خوباں ہے لب دریا چراغاں ہے

کیا تھا جابجا رنگیں لہو تجھ ہجر میں رو کر

گریباں میرؔ کا دیکھا مگر گلچیں کا داماں ہے

 

(۵۱۳)

 

اپنا شعار پوچھو تو مہرباں وفا ہے

پر اس کے جی میں ہم سے کیا جانیے کہ کیا ہے

مت پوچھ میری اس کی شام و سحر کی صحبت

اس طرف سے ہے گالی اس طرف سے دعا ہے

بالیں پہ میری آ کر ٹک دیکھ شوق دیدار

سارے بدن کا جی اب آنکھوں میں آ رہا ہے

۳۷۳۰

بے اس کے رک کے مرتے گرمی عشق میں تو

کرتے ہیں آہ جب تک تب تک ہی کچھ ہوا ہے

شکوہ ہے رونے کا یہ بے گانگی سے تیری

مژگان تر وگرنہ آنکھوں میں آشنا ہے

مت کر زمین دل میں تخم امید ضائع

بوٹا جو یاں اگا ہے سو اگتے ہی جلا ہے

شرمندہ ہوتے ہیں گے خورشید و ماہ دونوں

خوبی نے تیرے منھ کی ظالم قراں کیا ہے

اے شمع بزم عاشق روشن ہے یہ کہ تجھ بن

آنکھوں میں میری عالم تاریک ہو گیا ہے

۳۷۳۵

جیتے ہی جی تلک ہیں سارے علاقے سو تو

عاشق ترا مجرد فارغ ہی ہو چکا ہے

آزردگی عبث کیوں تشہیر و قتل و ایذا

فرمایئے تو وہ کچھ جو کچھ کہ مدعا ہے

صد سحر و یک رقیمہ خط میرؔ جی کا دیکھا

قاصد نہیں چلا ہے جادو مگر چلا ہے

 

(۵۱۴)

حرم کو جایئے یا دیر میں بسر کریے

تری تلاش میں اک دل کدھر کدھر کریے

کٹے ہے دیکھیے یوں عمر کب تلک اپنی

کہ سنیے نام ترا اور چشم تر کریے

۳۷۴۰

وہ مست ناز تو مچلا ہے کیا جتایئے حال

جو بے خبر ہو بھلا اس کے تیں خبر کریے

ہوا ہے دن تو جدائی کا سو تعب سے شام

شب فراق کس امید پر سحر کریے

جہاں کا دید بجز ماتم نظارہ نہیں

کہ دیدنی ہی نہیں جس پہ یاں نظر کریے

جیوں سے جاتے ہیں ناچار آہ کیا کیا لوگ

کبھو تو جانب عشاق بھی گذر کریے

ستم اٹھانے کی طاقت نہیں ہے اب اس کو

جو دل میں آوے تو ٹک رحم میرؔ پر کریے

۳۷۴۵

(۵۱۵)

 

مشہور چمن میں تری گل پیرہنی ہے

قرباں ترے ہر عضو پہ نازک بدنی ہے

عریانی آشفتہ کہاں جائے پس از مرگ

کشتہ ہے ترا اور یہی بے کفنی ہے

سمجھے ہے نہ پروانہ نہ تھامے ہے زباں شمع

وہ سوختنی ہے تو یہ گردن زدنی ہے

لیتا ہی نکلتا ہے مرا لخت جگر اشک

آنسو نہیں گویا کہ یہ ہیرے کی کنی ہے

بلبل کی کف خاک بھی اب ہو گی پریشاں

جامے کا ترے رنگ ستمگر چمنی ہے

۳۷۵۰

کچھ تو ابھر  اے صورت شیریں کہ دکھاؤں

فرہاد کے ذمے بھی عجب کوہ کنی ہے

ہوں گرم سفر شام غریباں سے خوشی ہوں

اے صبح وطن تو تو مجھے بے وطنی ہے

ہر چند گدا ہوں میں ترے عشق میں لیکن

ق

ان بوالہوسوں میں کوئی مجھ سا بھی غنی ہے

ہر اشک مرا ہے در شہوار سے بہتر

ہر لخت جگر رشک عقیق یمنی ہے

بگڑی ہے نپٹ میرؔ طپش اور جگر میں

شاید کہ مرے جی ہی پر اب آن بنی ہے

۳۷۵۵

(۵۱۶)

اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے

پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے

زنہار اگر خستہ دلاں بے ستوں جاؤ

ٹک پاس ہنرمندی فرہاد کرو گے

غیروں پہ اگر کھینچو گے شمشیر تو خوباں

اک اور مری جان پہ بیداد کرو گے

جاگہ نہیں یاں رویئے جس پر نہ کھڑے ہو

کچھ شور ہی شر پر تو مجھے یاد کرو گے

اس دشت میں  اے راہرواں ہر قدم اوپر

مانند جرس نالہ و فریاد کرو گے

۳۷۶۰

گر دیکھو گے تم طرز کلام اس کی نظر کر

اے اہل سخن میرؔ کو استاد کرو گے

 

(۵۱۷)

خوش سر انجام تھے وے جلد جو ہشیار ہوئے

ہم تو  اے ہم نفساں دیر خبردار ہوئے

بے قراری سے دل زار کی آزار ہوئے

خواہش اس حد کو کھنچی آہ کہ بیمار ہوئے

جنس دل دونوں جہاں جس کی بہا تھی اس کا

یک نگہ مول ہوا تم نہ خریدار ہوئے

عشق وہ ہے کہ جو تھے خلوتی منزل قدس

وے بھی رسوائے سر کوچہ و بازار ہوئے

۳۷۶۵

سیر گلزار مبارک ہو صبا کو ہم تو

ایک پرواز نہ کی تھی کہ گرفتار ہوئے

اس ستمگار کے کوچے کے ہوا داروں میں

نام فردوس کا ہم لے کے گنہگار ہوئے

وعدۂ حشر تو موہوم نہ سمجھے ہم آہ

کس توقع پہ ترے طالب دیدار ہوئے

سستی بخت تو ٹک دیکھ کہ اس چاہت پر

معتمد غیر ہوئے ہم نہ وفادار ہوئے

میرؔ صاحب سے خدا جانے ہوئی کیا تقصیر

جس سے اس ظلم نمایاں کے سزاوار ہوئے

۳۷۷۰

 

(۵۱۸)

 

ترا  اے ناتوانی جو کوئی عالم میں رسوا ہے

توانائی کا منھ دیکھا نہیں ان نے کہ کیسا ہے

نیاز ناتواں کیا ناز سرو قد سے بر آوے

مثل مشہور ہے یہ تو کہ دست زور بالا ہے

ابھی اک عمر رونا ہے نہ کھوؤ اشک آنکھو تم

کرو کچھ سوجھتا اپنا تو بہتر ہے کہ دنیا ہے

کیا  اے سایۂ دیوار تو نے مجھ سے رو پنہاں

مرے اب دھوپ میں جلنے ہی کا آثار پیدا ہے

بھلے کو اپنے سب دوڑے ہیں یہ اپنا برا چاہے

چلن اس دل کا تم دیکھو تو دنیا سے نرالا ہے

۳۷۷۵

رہو ٹک دور ہی پھرنے دو کوچوں میں مجھے لڑکو

کرو گے تنگ اسے تم اور تو نزدیک صحرا ہے

گلہ سن پیچش کاکل کا مجھ سے یوں لگا کہنے

تو اپنی فصد کر جلدی کہ تجھ کو میرؔ سودا ہے

 

(۵۱۹)

 

گذار ابر اب بھی جب کبھو ایدھر کو ہوتا ہے

ہماری بیکسی پر زار باراں دیر روتا ہے

ہوا مذکور نام اس کا کہ آنسو بہ چلے منھ پر

ہمارے کام سارے دیدۂ تر ہی ڈبوتا ہے

بجا ہے سینہ کوبی سنگ سے دل خون ہوتے ہیں

جو ہمدم ایسے جاتے ہیں تو ماتم سخت ہوتا ہے

۳۷۸۰

نہ کی نشوونما کامل نہ کام اپنا کیا حاصل

فلک کوئی بھی دل سے تخم کو بے وقت بوتا ہے

ہلانا ابروؤں کا لے ہے زیر تیغ عاشق کو

پلک کا مارنا برچھی کلیجے میں چبھوتا ہے

کہاں  اے رشک آب زندگی ہے تو کہ یاں تجھ بن

ہر اک پاکیزہ گوہر جی سے اپنے ہاتھ دھوتا ہے

لگا مردے کو میرے دیکھ کر وہ ناسمجھ کہنے

جوانی کی ہے نیند اس کو کہ اس غفلت سے سوتا ہے

پریشاں گرد سا گاہے جو مل جاتا ہے صحرا میں

اسی کی جستجو میں خضر بھی اوقات کھوتا ہے

۳۷۸۵

نہ رکھو کان نظم شاعران حال پر اتنے

چلو ٹک میرؔ کو سننے کہ موتی سے پروتا ہے

 

(۵۲۰)

 

ہم تو اس کے ظلم سے ہمدم چلے

رہ سکے ہے تو تو رہ یاں ہم چلے

ٹوٹے جوں لالہ ستاں سے ایک پھول

ہم لے یاں سے داغ یک عالم چلے

جبنش ابرو تو واں رہتی نہیں

کب تلک تلوار یاں ہر دم چلے

نم جگر کے آیا آخر ہو گئے

اشک خونیں کچھ مژہ پر جم چلے

۳۷۹۰

دیکھیے بخت زبوں کیا کیا دکھائے

تم تو خوباں ہم سے ہو برہم چلے

بھاگنے پر بیٹھے تھے گویا غزال

تیری آنکھیں دیکھتے ہی رم چلے

مجھ سے ناشائستہ کیا دیکھا کہ میرؔ

آتے آتے کچھ جو آنسو تھم چلے

 

(۵۲۱)

 

غیر نے ہم کو ذبح کیا نے طاقت ہے نے یارا ہے

اس کتے نے کر کے دلیری صید حرم کو مارا ہے

باغ کو تجھ بن اپنے بھائیں آتش دی ہے بہاراں نے

ہر غنچہ اخگر ہے ہم کو ہر گل ایک انگارا ہے

۳۷۹۵

جب تجھ بن لگتا ہے تڑپنے جائے ہے نکلا ہاتھوں سے

ہے جو گرہ سینے میں اس کو دل کہیے یا پارہ ہے

راہ حدیث جو ٹک بھی نکلے کون سکھائے ہم کو پھر

روئے سخن پر کس کو دے وہ شوخ بڑا عیارہ ہے

کام اس کا ہے خوں افشانی ہر دم تیری فرقت میں

چشم کو میری آ کر دیکھ اب لوہو کا فوارہ ہے

بال کھلے وہ شب کو شاید بستر ناز پہ سوتا تھا

آئی نسیم صبح جو ایدھر پھیلا عنبر سارا ہے

کس دن دامن کھینچ کے ان نے یار سے اپنا کام لیا

مدت گذری دیکھتے ہم کو میرؔ بھی اک ناکارہ ہے

۳۸۰۰

 

(۵۲۲)

 

بند قبا کو خوباں جس وقت وا کریں گے

خمیازہ کش جو ہوں گے ملنے کے کیا کریں گے

رونا یہی ہے مجھ کو تیری جفا سے ہر دم

یہ دل دماغ دونوں کب تک وفا کریں گے

ہے دین سر کا دینا گردن پہ اپنی خوباں

جیتے ہیں تو تمھارا یہ قرض ادا کریں گے

درویش ہیں ہم آخر دو اک نگہ کی رخصت

گوشے میں بیٹھے پیارے تم کو دعا کریں گے

آخر تو روزے آئے دو چار روز ہم بھی

ترسابچوں میں جا کر دارو پیا کریں گے

۳۸۰۵

کچھ تو کہے گا ہم کو خاموش دیکھ کر وہ

اس بات کے لیے اب چپ ہی رہا کریں گے

عالم مرے ہے تجھ پر آئی اگر قیامت

تیری گلی کے ہر سو محشر ہوا کریں گے

دامان دشت سوکھا ابروں کی بے تہی سے

جنگل میں رونے کو اب ہم بھی چلا کریں گے

لائی تری گلی تک آوارگی ہماری

ذلت کی اپنی اب ہم عزت کیا کریں گے

احوال میرؔ کیونکر آخر ہو ایک شب میں

اک عمر ہم یہ قصہ تم سے کہا کریں گے

۳۸۱۰

 

(۵۲۳)

 

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے

اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

جن کی خاطر کی استخواں شکنی

سو ہم ان کے نشان تیر ہوئے

نہیں آتے کسو کی آنکھوں میں

ہو کے عاشق بہت حقیر ہوئے

آگے یہ بے ادائیاں کب تھیں

ان دنوں تم بہت شریر ہوئے

اپنے روتے ہی روتے صحرا کے

گوشے گوشے میں آب گیر ہوئے

۳۸۱۵

ق

ایسی ہستی عدم میں داخل ہے

نے جواں ہم نہ طفل شیر ہوئے

ایک دم تھی نمود بود اپنی

یا سفیدی کی یا اخیر ہوئے

یعنی مانند صبح دنیا میں

ہم جو پیدا ہوئے سو پیر ہوئے

مت مل اہل دول کے لڑکوں سے

میرؔ جی ان سے مل فقیر ہوئے

 

(۵۲۴)

توجہ تیری  اے حیرت مری آنکھوں پہ کیا کم ہے

جو میں ہر اک مژہ دیکھوں کہ یہ تر ہے کہ یہ نم ہے

۳۸۲۰

کرے ہے مو پریشاں غم وفا تو تعزیہ تو لے

حیا کر حق صحبت کی کہ اس بیکس کا ماتم ہے

دورنگی دہر کی پیدا ہے یاں سے دل اٹھا اپنا

کسو کے گھر میں شادی ہے کہیں ہنگامۂ غم ہے

کہیں آشفتگاں سے میرؔ مقصد ہووے ہے حاصل

جو زلفیں اس کی درہم ہیں مرا بھی کام برہم ہے

 

(۵۲۵)

 

جب کہ پہلو سے یار اٹھتا ہے

درد بے اختیار اٹھتا ہے

اب تلک بھی مزار مجنوں سے

ناتواں اک غبار اٹھتا ہے

۳۸۲۵

ہے بگولا غبار کس کا میرؔ

کہ جو ہو بے قرار اٹھتا ہے

 

(۵۲۶)

کیا مرے سرورواں کا کوئی مائل ایک ہے

ّسینکڑوں ہم خوں گرفتہ ہیں وہ قاتل ایک ہے

راہ سب کو ہے خدا سے جان اگر پہنچا ہے تو

ہوں طریقے مختلف کتنے ہی منزل ایک ہے

اس مرے بت نے سبھوں کو حق سے توڑ اپنا کیا

کام میں اپنے بھی وہ معبود باطل ایک ہے

کیا عرب میں کیا عجم میں ایک لیلیٰ کا ہے شور

مختلف ہوں گو عبارات ان کا محمل ایک ہے

۳۸۳۰

ایک سے ہے خرمن غم دانۂ اشک ایک سے

دیدہ و دل الغرض دونوں کا حاصل ایک ہے

اس شکار افگن کے کوچے سے نہیں جاتا ہے ظلم

ایک اگر جی سے گیا تو نیم بسمل ایک ہے

چشم و ابرو ناز و خوبی زلف و کاکل خال و خط

دیکھیے کیا ہو بلائیں اتنی ہیں دل ایک ہے

کام کچھ دنیا کی آسانی میں ہو تو میرؔ کر

مردن دشوار بھی درپیش منزل ایک ہے

 

(۵۲۷)

جب تک کڑی اٹھائی گئی ہم کڑے رہے

ایک ایک سخت بات پہ برسوں اڑے رہے

۳۸۳۵

اب کیا کریں نہ صبر ہے دل کو نہ جی میں تاب

کل اس گلی میں آٹھ پہر غش پڑے رہے

وہ گل کو خوب کہتی تھی میں اس کے رو کے تیں

بلبل سے آج باغ میں جھگڑے بڑے رہے

فرہاد و قیس ساتھ کے سب کب کے چل بسے

دیکھیں نباہ کیونکے ہو اب ہم چھڑے رہے

کس کے تئیں نصیب گل فاتحہ ہوئے

ہم سے ہزاروں اس کی گلی میں گڑے رہے

برسوں تلک نہ آنکھ ملی ہم سے یار کی

پھر گو کہ ہم بصورت ظاہر اڑے رہے

۳۸۴۰

یعنی کہ اپنے عشق کے حیران کار میرؔ

دیوار کے سے نقش در اوپر کھڑے رہے

 

(۵۲۸)

 

شش جہت سے اس میں ظالم بوئے خوں کی راہ ہے

تیرا کوچہ ہم سے تو کہہ کس کی بسمل گاہ ہے

ایک نبھنے کا نہیں مژگاں تلک بوجھل ہیں سب

کاروان لخت دل ہر اشک کے ہمراہ ہے

ہم جوانوں کو نہ چھوڑا اس سے سب پکڑے گئے

یہ دوسالہ دختر رز کس قدر شتاہ ہے

پابرہنہ خاک سر میں موپریشاں سینہ چاک

حال میرا دیکھنے آ تیرے ہی دلخواہ ہے

۳۸۴۵

اس جنوں پر میرؔ کوئی بھی پھرے ہے شہر میں

جادۂ صحرا سے کر سازش جو تجھ سے راہ ہے

 

(۵۲۹)

 

مشکل ہے ہونا روکش رخسار کی جھلک کے

ہم تو بشر ہیں اس جا پر جلتے ہیں ملک کے

مرتا ہے کیوں تو ناحق یاری برادری پر

دنیا کے سارے ناتے ہیں جیتے جی تلک کے

کہتے ہیں گور میں بھی ہیں تین روز بھاری

جاویں کدھر الٰہی مارے ہوئے فلک کے

لاتے نہیں نظر میں غلطانی گہر کو

ہم معتقد ہیں اپنے آنسو ہی کی ڈھلک کے

۳۸۵۰

کل اک مژہ نچوڑے طوفان نوح آیا

فکر فشار میں ہوں میرؔ آج ہر پلک کے

 

(۵۳۰)

 

تاچند ترے غم میں یوں زار رہا کیجے

امید عیادت پر بیمار رہا کیجے

نے اب ہے جگرکاوی نے سینہ خراشی ہے

کچھ جی میں یہ آئے ہے بیکار رہا کیجے

کیفیت چشماں اب معلوم ہوئی اس کی

یہ مست ہیں وہ خونی ہشیار رہا کیجے

دل جاؤ تو اب جاؤ ہو خوں تو جگر ہووے

اک جان ہے کس کس کے غمخوار رہا کیجے

۳۸۵۵

ہے زیست کوئی یہ بھی جو میرؔ کرے ہے تو

ہر آن میں مرنے کو تیار رہا کیجے

 

(۵۳۱)

 

طاقت نہیں ہے جی میں نے اب جگر رہا ہے

پھر دل ستم رسیدہ اک ظلم کر رہا ہے

مارا ہے کس کو ظالم اس بے سلیقگی سے

دامن تمام تیرا لوہو میں بھر رہا ہے

پہنچا تھا تیغ کھینچے مجھ تک جو بولے دشمن

کیا مارتا ہے اس کو یہ آپھی مر رہا ہے

آنے کہا ہے میرے خوش قد نے رات گذرے

ہنگامۂ قیامت اب صبح پر رہا ہے

۳۸۶۰

چل ہم نشیں کہ دیکھیں آوارہ میرؔ کو ٹک

خانہ خراب وہ بھی آج اپنے گھر رہا ہے

 

(۵۳۲)

 

قرار دل کا یہ کاہے کو ڈھنگ تھا آگے

ہمارے چہرے کے اوپر بھی رنگ تھا آگے

اٹھائیں تیرے لیے بد زبانیاں ان کی

جنھوں کی ہم کو خوشامد سے ننگ تھا آگے

ہماری آہوں سے سینے پہ ہو گیا بازار

ہر ایک زخم کا کوچہ جو تنگ تھا آگے

رہا تھا شمع سے مجلس میں دوش کتنا فرق

کہ جل بجھے تھے یہ ہم پر پتنگ تھا آگے

۳۸۶۵

کیا خراب تغافل نے اس کے ورنہ میرؔ

ہر ایک بات پہ دشنام و سنگ تھا آگے

 

(۵۳۳)

 

تجھ بن خراب و خستہ زبوں خوار ہو گئے

کیا آرزو تھی ہم کو کہ بیمار ہو گئے

خوبی بخت دیکھ کہ خوبان بے وفا

بے ہیچ میرے درپئے آزار ہو گئے

ہم نے بھی سیر کی تھی چمن کی پر  اے نسیم

اٹھتے ہی آشیاں سے گرفتار ہو گئے

وہ تو گلے لگا ہوا سوتا تھا خواب میں

بخت اپنے سو گئے کہ جو بیدار ہو گئے

۳۸۷۰

اپنی یگانگی ہی کیا کرتے ہیں بیاں

اغیار رو سیاہ بہت یار ہو گئے

لائی تھی شیخوں پر بھی خرابی تری نگاہ

بے طالعی سے اپنی وے ہشیار ہو گئے

کیسے ہیں وے کہ جیتے ہیں صد سال ہم تو میرؔ

اس چار دن کی زیست میں بیزار ہو گئے

 

(۵۳۴)

تنگ آئے ہیں دل اس جی سے اٹھا بیٹھیں گے

بھوکوں مرتے ہیں کچھ اب یار بھی کھا بیٹھیں گے

اب کے بگڑے گی اگر ان سے تو اس شہر سے جا

کسو ویرانے میں تکیہ ہی بنا بیٹھیں گے

۳۸۷۵

معرکہ گرم تو ٹک ہونے دو خونریزی کا

پہلے تلوار کے نیچے ہمیں جا بیٹھیں گے

ہو گا ایسا بھی کوئی روز کہ مجلس سے کبھو

ہم تو ایک آدھ گھڑی اٹھ کے جدا بیٹھیں گے

جا نہ اظہار محبت پہ ہوسناکوں کی

وقت کے وقت یہ سب منھ کو چھپا بیٹھیں گے

دیکھیں وہ غیرت خورشید کہاں جاتا ہے

اب سر راہ دم صبح سے آ بیٹھیں گے

بھیڑ ٹلتی ہی نہیں آگے سے اس ظالم کے

گردنیں یار کسی روز کٹا بیٹھیں گے

۳۸۸۰

کب تلک گلیوں میں سودائی سے پھرتے رہیے

دل کو اس زلف مسلسل سے لگا بیٹھیں گے

شعلہ افشاں اگر ایسی ہی رہی آہ تو میرؔ

گھر کو ہم اپنے کسو رات جلا بیٹھیں گے

 

(۵۳۵)

 

نالہ تا آسمان جاتا ہے

شور سے جیسے بان جاتا ہے

دل عجب جائے ہے ولیکن مفت

ہاتھ سے یہ مکان جاتا ہے

گاہے آتا ہوں آپ میں سو بھی

جیسے کوئی میہمان جاتا ہے

۳۸۸۵

کیا خرابی ہے میکدے کی سہل

محتسب اک جہان جاتا ہے

جب سرراہ آوے ہے وہ شوخ

ایک عالم کا جان جاتا ہے

اس سخن ناشنو سے کیا کہیے

غیر کی بات مان جاتا ہے

عشق کے داغ کا عبث ہے علاج

کوئی اب یہ نشان جاتا ہے

گو وہ ہرجائی آئے اپنی اور

سو طرف ہی گمان جاتا ہے

۳۸۹۰

میرؔ تو عمر طبعی کو پہنچا

عشق میں جوں جوان جاتا ہے

 

(۵۳۶)

مر ہی جاویں گے بہت ہجر میں ناشاد رہے

بھول تو ہم کو گئے ہو یہ تمھیں یاد رہے

ہم سے دیوانے رہیں شہر میں سبحان اللہ

دشت میں قیس رہے کوہ میں فرہاد رہے

کچھ بھی نسبت نہ تھی جب دیر سے تب کیا تھا شیخ

ہم حرم میں بھی رہے تو ترے داماد رہے

دور اتنی تو نہیں شام اجل دوری میں

تا سحر ایسی ہی جو زاری و فریاد رہے

۳۸۹۵

سر تو کٹوا ہی چکے میرؔ تڑپ سے تو بچیں

جو ٹک اک پاؤں رکھے چھاتی پہ جلاد رہے

 

(۵۳۷)

جب رونے بیٹھتا ہوں تب کیا کسر رہے ہے

رومال دو دو دن تک جوں ابرتر رہے ہے

آہ سحر کی میری برچھی کے وسوسے سے

خورشید کے منھ اوپر اکثر سپر رہے ہے

آگہ تو رہیے اس کی طرز رہ و روش سے

آنے میں اس کے لیکن کس کو خبر رہے ہے

ان روزوں اتنی غفلت اچھی نہیں ادھر سے

اب اضطراب ہم کو دو دو پہر رہے ہے

۳۹۰۰

آب حیات کی سی ساری روش ہے اس کی

پر جب وہ اٹھ چلے ہے ایک آدھ مر رہے ہے

تلوار اب لگا ہے بے ڈول پاس رکھنے

خون آج کل کسو کا وہ شوخ کر رہے ہے

در سے کبھو جو آتے دیکھا ہے میں نے اس کو

تب سے ادھر ہی اکثر میری نظر رہے ہے

آخر کہاں تلک ہم اک روز ہو چکیں گے

برسوں سے وعدۂ شب ہر صبح پر رہے ہے

میرؔ اب بہار آئی صحرا میں چل جنوں کر

کوئی بھی فصل گل میں نادان گھر رہے ہے

۳۹۰۵

(۵۳۸)

 

نالے کا آج دل سے پھر لب تلک گذر ہے

ٹک گوش رکھیو ایدھر ساتھ اس کے کچھ خبر ہے

اے حب جاہ والو جو آج تاجور ہے

کل اس کو دیکھیو تم نے تاج ہے نہ سر ہے

اب کی ہوائے گل میں سیرابی ہے نہایت

جوئے چمن پہ سبزہ مژگان چشم تر ہے

اے ہم صفیر بے گل کس کو دماغ نالہ

مدت ہوئی ہماری منقار زیر پر ہے

شمع اخیر شب ہوں سن سرگذشت میری

پھر صبح ہوتے تک تو قصہ ہی مختصر ہے

۳۹۱۰

اب رحم پر اسی کے موقوف ہے کہ یاں تو

نے اشک میں سرایت نے آہ میں اثر ہے

تو ہی زمام اپنی ناقے تڑا کہ مجنوں

مدت سے نقش پا کے مانند راہ پر ہے

ہم مست عشق واعظ بے ہیچ بھی نہیں ہیں

غافل جو بے خبر ہیں کچھ ان کو بھی خبر ہے

اب پھر ہمارا اس کا محشر میں ماجرا ہے

دیکھیں تو اس جگہ کیا انصاف دادگر ہے

آفت رسیدہ ہم کیا سر کھینچیں اس چمن میں

جوں نخل خشک ہم کو نے سایہ نے ثمر ہے

۳۹۱۵

کر میرؔ اس زمیں میں اور اک غزل تو موزوں

ہے حرف زن قلم بھی اب طبع بھی ادھر ہے

 

(۵۳۹)

 

ڈھونڈا نہ پایئے جو اس وقت میں سو زر ہے

پھر چاہ جس کی مطلق ہے ہی نہیں ہنر ہے

ہر دم قدم کو اپنے رکھ احتیاط سے یاں

یہ کار گاہ ساری دکان شیشہ گر ہے

ڈھاہا جنوں نے اس کو ان پر خرابی آئی

جانا گیا اسی سے دل بھی کسو کا گھر ہے

تجھ بن شکیب کب تک بے فائدہ ہوں نالاں

مجھ نالہ کش کے تو  اے فریادرس کدھر ہے

۳۹۲۰

صید افگنو ہمارے دل کو جگر کو دیکھو

اک تیر کا ہدف ہے اک تیغ کا سپر ہے

اہل زمانہ رہتے اک طور پر نہیں ہیں

ہر آن مرتبے سے اپنے انھیں سفر ہے

کافی ہے مہر قاتل محضر پہ خوں کے میرے

پھر جس جگہ یہ جاوے اس جا ہی معتبر ہے

تیری گلی سے بچ کر کیوں مہر و مہ نہ نکلیں

ہر کوئی جانتا ہے اس راہ میں خطر ہے

وے دن گئے کہ آنسو روتے تھے میرؔ اب تو

آنکھوں میں لخت دل ہے یا پارۂ جگر ہے                  ۳۹۲۵

(۵۴۰)

 

شب شمع پر پتنگ کے آنے کو عشق ہے

اس دل جلے کے تاب کے لانے کو عشق ہے

سر مار مار سنگ سے مردانہ جی دیا

فرہاد کے جہان سے جانے کو عشق ہے

اٹھیو سمجھ کے جا سے کہ مانند گردباد

آوارگی سے تیری زمانے کو عشق ہے

بس  اے سپہر سعی سے تیری تو روز و شب

یاں غم ستانے کو ہے جلانے کو عشق ہے

بیٹھی جو تیغ یار تو سب تجھ کو کھا گئی

اے سینے تیرے زخم اٹھانے کو عشق ہے

۳۹۳۰

اک دم میں تو نے پھونک دیا دو جہاں کے تیں

اے عشق تیرے آگ لگانے کو عشق ہے

سودا ہو تب ہو میرؔ کو تو کریے کچھ علاج

اس تیرے دیکھنے کے دوانے کو عشق ہے

 

(۵۴۱)

 

جب سے اس بے وفا نے بال رکھے

صید بندوں نے جال ڈال رکھے

ہاتھ کیا آوے وہ کمر ہے ہیچ

یوں کوئی جی میں کچھ خیال رکھے

رہرو راہ خوفناک عشق

چاہیے پاؤں کو سنبھال رکھے

۳۹۳۵

پہنچے ہر اک نہ درد کو میرے

وہ ہی جانے جو ایسا حال رکھے

ایسے زر  دوست ہو تو خیر ہے اب

ملیے اس سے جو کوئی مال رکھے

بحث ہے ناقصوں سے کاش فلک

مجھ کو اس زمرے سے نکال رکھے

سمجھے انداز شعر کو میرے

میرؔ کا سا اگر کمال رکھے

 

(۵۴۲)

 

یاں جو وہ نونہال آتا ہے

جی میں کیا کیا خیال آتا ہے

۳۹۴۰

اس کے چلنے کی آن کا بے حال

مدتوں میں بحال آتا ہے

پر تو گذرا قفس ہی میں دیکھیں

اب کے کیسا یہ سال آتا ہے

شیخ کی تو نماز پر مت جا

بوجھ سر کا سا ڈال آتا ہے

آرسی کے بھی گھر میں شرم سے میرؔ

کم ہی وہ بے مثال آتا ہے

 

(۵۴۳)

 

پیری میں کیا جوانی کے موسم کو رویئے

اب صبح ہونے آئی ہے اک دم تو سویئے

۳۹۴۵

رخسار اس کے ہائے رے جب دیکھتے ہیں ہم

آتا ہے جی میں آنکھوں کو ان میں گڑویئے

اخلاص دل سے چاہیے سجدہ نماز میں

بے فائدہ ہے ورنہ جو یوں وقت کھویئے

کس طور آنسوؤں میں نہاتے ہیں غم کشاں

اس آب گرم میں تو نہ انگلی ڈبویئے

مطلب کو تو پہنچتے نہیں اندھے کے سے طور

ہم مارتے پھرے ہیں یو نہیں ٹپّے ٹویئے

اب جان جسم خاکی سے تنگ آ گئی بہت

کب تک اس ایک ٹوکری مٹی کو ڈھویئے

۳۹۵۰

آلودہ اس گلی کی جو ہوں خاک سے تو میرؔ

آب حیات سے بھی نہ وے پاؤں دھویئے

 

(۵۴۴)

 

شب گئے تھے باغ میں ہم ظلم کے مارے ہوئے

جان کو اپنی گل مہتاب انگارے ہوئے

گور پر میری پس از مدت قدم رنجہ کیا

خاک میں مجھ کو ملا کر مہرباں بارے ہوئے

آستینیں رکھتے رکھتے دیدۂ خونبار پر

حلق بسمل کی طرح لوہو کے فوارے ہوئے

وعدے ہیں سارے خلافی حرف ہیں یکسر فریب

تم لڑکپن میں کہاں سے ایسے عیارے ہوئے

۳۹۵۵

پھرتے پھرتے عاقبت آنکھیں ہماری مند گئیں

سو گئے بیہوش تھے ہم راہ کے ہارے ہوئے

پیار کرنے کا جو خوباں ہم پہ رکھتے ہیں گناہ

ان سے بھی تو پوچھتے تم اتنے کیوں پیارے ہوئے

تم جو ہم سے مل چلے ٹک رشک سب کرنے لگے

مہرباں جتنے تھے اپنے مدعی سارے ہوئے

آج میرے خون پر اصرار ہر دم ہے تمھیں

آئے ہو کیا جانیے تم کس کے سنکارے ہوئے

لیتے کروٹ ہل گئے جو کان کے موتی ترے

شرم سے سر در گریباں صبح کے تارے ہوئے

۳۹۶۰

استخواں ہی رہ گئے تھے یاں دم خوں ریز میرؔ

دانتے پڑ کر نیمچے اس شوخ کے آرے ہوئے

 

(۵۴۵)

 

کرے کیا کہ دل بھی تو مجبور ہے

زمیں سخت ہے آسماں دور ہے

جرس راہ میں جملہ تن شور ہے

مگر قافلے سے کوئی دور ہے

تمنائے دل کے لیے جان دی

سلیقہ ہمارا تو مشہور ہے

نہ ہو کس طرح فکر انجام کار

بھروسا ہے جس پر سو مغرور ہے

۳۹۶۵

پلک کی سیاہی میں ہے وہ نگاہ

کسو کا مگر خون منظور ہے

دل اپنا نہایت ہے نازک مزاج

گرا گر یہ شیشہ تو پھر چور ہے

کہیں جو تسلی ہوا ہو یہ دل

وہی بے قراری بدستور ہے

نہ دیکھا کہ لوہو تھنبا ہو کبھو

مگر چشم خونبار ناسور ہے

تنک گرم تو سنگ ریزے کو دیکھ

نہاں اس میں بھی شعلۂ طور ہے

۳۹۷۰

بہت سعی کریے تو مر رہیے میرؔ

بس اپنا تو اتنا ہی مقدور ہے

 

(۵۴۶)

اب میرؔ جی تو اچھے زندیق ہی بن بیٹھے

پیشانی پہ دے قشقہ زنار پہن بیٹھے

آزردہ دل الفت ہم چپکے ہی بہتر ہیں

سب رو اٹھے گی مجلس جو کر کے سخن بیٹھے

عریان پھریں کب تک  اے کاش کہیں آ کر

تہ گرد بیاباں کی بالائے بدن بیٹھے

پیکان خدنگ اس کا یوں سینے کے اودھر ہے

جوں مار  سیہ کوئی کاڑھے ہوئے پھن بیٹھے

۳۹۷۵

جز خط کے خیال اس کے کچھ کام نہیں ہم کو

سبزی پیے ہم اکثر رہتے ہیں مگن بیٹھے

شمشیر ستم اس کی اب گوکہ چلے ہر دم

شوریدہ سر اپنے سے ہم باندھ کفن بیٹھے

بس ہو تو ادھر اودھر یوں پھرنے نہ دیں تجھ کو

ناچار ترے ہم یہ دیکھیں ہیں چلن بیٹھے

 

(۵۴۷)

نہ تنہا داغ نو سینے پہ میرے اک چمن نکلے

ہر اک لخت جگر کے ساتھ سو زخم کہن نکلے

گماں کب تھا یہ پروانے پر اتنا شمع روئے گی

کہ مجلس میں سے جس کے اشک کے بھر بھر لگن نکلے

۳۹۸۰

کہاں تک نازبرداری کروں شام غریباں کی

کہیں گرد سفر سے جلد بھی صبح وطن نکلے

جنوں ان شورشوں پر ہاتھ کی چالاکیاں ایسی

میں ضامن ہوں اگر ثابت بدن سے پیرہن نکلے

حرم میں میرؔ جتنا بت پرستی پر ہے تو مائل

خدا ہی ہو تو اتنا بتکدے میں برہمن نکلے

 

(۵۴۸)

 

قصد گر امتحان ہے پیارے

اب تلک نیم جان ہے پیارے

سجدہ کرنے میں سر کٹیں ہیں جہاں

سو ترا آستان ہے پیارے

۳۹۸۵

گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر

یہ ہماری زبان ہے پیارے

کام میں قتل کے مرے تن دے

اب تلک مجھ میں جان ہے پیارے

یاری لڑکوں سے مت کرے ان کا

عشق…ن ہے پیارے

چھوڑ جاتے ہیں دل کو تیرے پاس

یہ ہمارا نشان ہے پیارے

شکلیں کیا کیا کیاں ہیں جن نے خاک

یہ وہی آسمان ہے پیارے

۳۹۹۰

جا چکا دل تو یہ یقینی ہے

ق

کیا اب اس کا بیان ہے پیارے

پر تبسم کے کرنے سے تیرے

کنج لب پر گمان ہے پیارے

میرؔ عمداً بھی کوئی مرتا ہے

جان ہے تو جہان ہے پیارے

 

(۵۴۹)

 

کل وعدہ گاہ میں سے جوں توں کے ہم کو لائے

ہونٹوں پہ جان آئی پر آہ وے نہ آئے

زخموں پہ زخم جھیلے داغوں پہ داغ کھائے

یک قطرہ خون دل نے کیا کیا ستم اٹھائے

۳۹۹۵

اس کی طرف کو ہم نے جب نامہ بر چلائے

ان کا نشاں نہ پایا خط راہ میں سے پائے

خوں بستہ جب تلک تھیں در یا رکے کھڑے تھے

آنسو گرے کروڑوں پلکوں کے ٹک ہلائے

اس جنگ جو کے زخمی اچھے نہ ہوتے دیکھے

گل جب چمن میں آئے وے زخم سب دکھائے

بڑھتیں نہیں پلک سے تا ہم تلک بھی پہنچیں

پھرتی ہیں وے نگاہیں پلکوں کے سائے سائے

پر کی بہار میں جو محبوب جلوہ گر تھے

سو گردش فلک نے سب خاک میں ملائے

۴۰۰۰

ہر قطعۂ چمن پر ٹک گاڑ کر نظر کر

بگڑیں ہزار شکلیں تب پھول یہ بنائے

یک حرف کی بھی مہلت ہم کو نہ دی اجل نے

تھا جی میں آہ کیا کیا پر کچھ نہ کہنے پائے

چھاتی سراہ ان کی پائیز میں جنھوں نے

خار و خس چمن سے ناچار دل لگائے

آگے بھی تجھ سے تھا یاں تصویر کا سا عالم

بے دردی فلک نے وے نقش سب مٹائے

مدت ہوئی تھی بیٹھے جوش و خروش دل کو

ٹھوکر نے اس نگہ کی آشوب پھر اٹھائے

۴۰۰۵

اعجاز عشق ہی سے جیتے رہے وگرنہ

کیا حوصلہ کہ جس میں آزار یہ سمائے

ق

دل گر میاں انھوں کی غیروں سے جب نہ تب تھیں

مجلس میں جب گئے ہم غیرت نے جی جلائے

جیتے تو میرؔ ہر شب اس طرز عمر گذری

پھر گور پر ہماری لے شمع گو کہ آئے

 

(۵۵۰)

 

قبر عاشق پر مقرر روز آنا کیجیے

جو گیا ہو جان سے اس کو بھی جانا کیجیے

رات دارو پیجیے غیروں میں بے لیت و لعل

یاں سحر سر دکھنے کا ہم سے بہانہ کیجیے

۴۰۱۰

ٹک تمھارے ہونٹ کے ہلنے سے یاں ہوتا ہے کام

اتنی اتنی بات جو ہووے تو مانا کیجیے

گوشۂ چشم بتاں یا کنج لب اس وقت میں

جا کہیں ہو تو دل اپنے کا ٹھکانا کیجیے

سیکھیے غیروں کے ہاں چھپ چھپ کے علم تیر پھر

سارے عالم میں ہمارے تیں نشانہ کیجیے

رفتہ رفتہ قاصدوں کو رفتگی اس سے ہوئی

جی میں ہے اب کے مقرر اپنا جانا کیجیے

نکلے ہے آنکھوں سے تو گرد کدورت جائے اشک

تا کجا تیری گلی میں خاک چھانا کیجیے

۴۰۱۵

آبشار آنے لگے آنسو کے پلکوں سے تو میرؔ

کب تلک یہ آب چادر منھ پہ تانا کیجیے

 

(۵۵۱)

 

مہوشاں پوچھیں نہ ٹک ہجراں میں گر مر جایئے

اب کہو اس شہر نا پرساں سے کیدھر جایئے

کام دل کا کچھ ٹھکانا ہی نہیں کیونکر بنے

آیئے تاچند ناامید پھر کر جایئے

مضطرب اس آستاں سے اٹھ کے کچھ پایا نہ رو

منھ رہا ہے کیا جو پھر اب اس کے در پر جایئے

بعد طوف قیس ہو جے زائر فرہاد بھی

دشت سے اٹھے تو کوہوں میں مقرر جایئے

۴۰۲۰

شوق تھا جو یار کے کوچے ہمیں لایا تھا میرؔ

پاؤں میں طاقت کہاں اتنی کہ اب گھر جایئے

 

(۵۵۲)

 

غالب کہ یہ دل خستہ شب ہجر میں مرجائے

یہ رات نہیں وہ جو کہانی میں گذر جائے

ہے طرفہ مفتن نگہ اس آئینہ رو کی

اک پل میں کرے سینکڑوں خوں اور مکر جائے

نے بتکدہ ہے منزل مقصود نہ کعبہ

جو کوئی تلاشی ہو ترا آہ کدھر جائے

ہر صبح تو خورشید ترے منھ پہ چڑھے ہے

ایسا نہ ہو یہ سادہ کہیں جی سے اتر جائے

۴۰۲۵

یاقوت کوئی ان کو کہے ہے کوئی گل برگ

ٹک ہونٹ ہلا تو بھی کہ اک بات ٹھہر جائے

ہم تازہ شہیدوں کو نہ آ دیکھنے نازاں

دامن کی تری زہ کہیں لوہو میں نہ بھر جائے

گریے کو مرے دیکھ ٹک اک شہر کے باہر

اک سطح ہے پانی کا جہاں تک کہ نظر جائے

مت بیٹھ بہت عشق کے آزردہ دلوں میں

نالہ کسو مظلوم کا تاثیر نہ کر جائے

اس ورطے سے تختہ جو کوئی پہنچے کنارے

تو میرؔ وطن میرے بھی شاید یہ خبر جائے

۴۰۳۰

 

(۵۵۳)

 

ہم نے جانا تھا سخن ہوں گے زباں پر کتنے

پر قلم ہاتھ جو آئی لکھے دفتر کتنے

میں نے اس قطعۂ صناع سے سر کھینچا ہے

کہ ہر اک کوچے میں جس کے تھے ہنر ور کتنے

کشور عشق کو آباد نہ دیکھا ہم نے

ہر گلی کوچے میں اوجڑ پڑے تھے گھر کتنے

آہ نکلی ہے یہ کس کی ہوس سیر بہار

آتے ہیں باغ میں آوارہ ہوئے پر کتنے

دیکھیو پنجۂ مژگاں کی ٹک آتش دستی

ہر سحر خاک میں ملتے ہیں در تر کتنے

۴۰۳۵

کب تلک یہ دل صد پارہ نظر میں رکھیے

اس پر آنکھیں ہی سیے رہتے ہیں دلبر کتنے

عمر گذری کہ نہیں دودۂ آدم سے کوئی

جس طرف دیکھیے عرصے میں ہیں اب خر کتنے

تو ہے بیچارہ گدا میرؔ ترا کیا مذکور

مل گئے خاک میں یاں صاحب افسر کتنے

 

(۵۵۴)

آہ جس وقت سر اٹھاتی ہے

عرش پر برچھیاں چلاتی ہے

ناز بردار لب ہے جاں جب سے

تیرے خط کی خبر کو پاتی ہے

۴۰۴۰

اے شب ہجر راست کہہ تجھ کو

بات کچھ صبح کی بھی آتی ہے

چشم بد دور چشم تر  اے میرؔ

آنکھیں طوفان کو دکھاتی ہے

 

(۵۵۵)

 

طاقت نہیں ہے دل میں نے جی بجا رہا ہے

کیا ناز کر رہے ہو اب ہم میں کیا رہا ہے

جیب اور آستیں سے رونے کا کام گذرا

سارا نچوڑ اب تو دامن پر آ رہا ہے

اب چیت گر نہیں کچھ تازہ ہوا ہوں بیکل

آیا ہوں جب بخود میں جی اس میں جا رہا ہے

۴۰۴۵

کاہے کا پاس اب تو رسوائی دور پہنچی

راز محبت اپنا کس سے چھپا رہا ہے

گرد رہ اس کی یارب کس اور سے اٹھے گی

سو سو غزال ہر سو آنکھیں لگا رہا ہے

بندے تو طرحدارو ہیں طرح کش تمھارے

پھر چاہتے ہو کیا تم اب اک خدا رہا ہے

دیکھ اس دہن کو ہر دم  اے آرسی کہ یوں ہی

خوبی کا در کسو کے منھ پر بھی وا رہا ہے

وے لطف کی نگاہیں پہلے فریب ہیں سب

کس سے وہ بے مروت پھر آشنا رہا ہے

۴۰۵۰

اتنا خزاں کرے ہے کب زرد رنگ پر یاں

تو بھی کسو نگہ سے  اے گل جدا رہا ہے

رہتے ہیں داغ اکثر نان و نمک کی خاطر

جینے کا اس سمیں میں اب کیا مزہ رہا ہے

اب چاہتا نہیں ہے بوسہ جو تیرے لب سے

جینے سے میرؔ شاید کچھ دل اٹھا رہا ہے

 

(۵۵۶)

تڑپنا بھی دیکھا نہ بسمل کا اپنے

میں کشتہ ہوں انداز قاتل کا اپنے

نہ پوچھو کہ احوال ناگفتہ بہ ہے

مصیبت کے مارے ہوئے دل کا اپنے

۴۰۵۵

دل زخم خوردہ کے اور اک لگائی

مداوا کیا خوب گھائل کا اپنے

جو خوشہ تھا صد خرمن برق تھا یاں

جلایا ہوا ہوں میں حاصل کا اپنے

ٹک ابرو کو میری طرف کیجے مائل

کبھو دل بھی رکھ لیجے مائل کا اپنے

ہوا دفتر قیس آخر ابھی یاں

سخن ہے جنوں کے اوائل کا اپنے

بنائیں رکھیں میں نے عالم میں کیا کیا

ہوں بندہ خیالات باطل کا اپنے

۴۰۶۰

مقام فنا واقعے میں جو دیکھا

اثر بھی نہ تھا گور منزل کا اپنے

 

(۵۵۷)

جب تک کہ ترا گذر نہ ہووے

جلوہ مری گور پر نہ ہووے

لے تیغ و سپر کو تو جدھر ہو

خورشید کا منھ ادھر نہ ہووے

گھر دود جگر سے بھر گیا آہ

کب تک مری چشم تر نہ ہووے

رونے کی ہے جاگہ آہ کریے

پھر دل میں ترے اثر نہ ہووے

۴۰۶۵

بیمار رہے ہیں اس کی آنکھیں

دیکھو کسو کی نظر نہ ہووے

رکتی نہیں تیغ نالہ ہرگز

جب تک کہ جگر سپر نہ ہووے

کر بے خبر اک نگہ سے ساقی

لیکن کسو کو خبر نہ ہووے

خستے ترے موئے عنبریں کے

کیونکر جئیں صبر گر نہ ہووے

رکھ دیکھ کے راہ عشق میں پائے

یاں میرؔ کسو کا سر نہ ہووے

۴۰۷۰

(۵۵۸)

 

رات گذرے ہے مجھے نزع میں روتے روتے

آنکھیں پھر جائیں گی اب صبح کے ہوتے ہوتے

کھول کر آنکھ اڑا دید جہاں کا غافل

خواب ہو جائے گا پھر جاگنا سوتے سوتے

داغ اگتے رہے دل میں مری نومیدی سے

ہارا میں تخم تمنا کو بھی بوتے بوتے

جی چلا تھا کہ ترے ہونٹ مجھے یاد آئے

لعل پائیں ہیں میں اس جی ہی کے کھوتے کھوتے

جم گیا خوں کف قاتل پہ ترا میرؔ زبس

ان نے رو رو دیا کل ہاتھ کو دھوتے دھوتے

۴۰۷۵

(۵۵۹)

 

یعقوبؑ کے نہ کلبۂ احزاں تلک گئے

سو کاروان مصر سے کنعاں تلک گئے

بارے نسیم ضعف سے کل ہم اسیر بھی

سناہٹے میں جی کے گلستاں تلک گئے

رہنے نہ دیں گے دشت میں مجنوں کو چین سے

گر ہم جنوں کے مارے بیاباں تلک گئے

کو موسم شباب کہاں گل کسے دماغ

بلبل وہ چہچہے انھیں یاراں تلک گئے

کچھ آبلے دیے تھے رہ آورد عشق نے

سو رفتہ رفتہ خار مغیلاں تلک گئے

۴۰۸۰

پھاڑا تھا جیب پی کے مئے شوق میں نے میرؔ

مستانہ چاک لوٹتے داماں تلک گئے

 

(۵۶۰)

 

جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مر گئے

اکثر ہمارے ساتھ کے بیمار مر گئے

ہوتا نہیں ہے اس لب نو خط پہ کوئی سبز

عیسیٰ و خضر کیا سبھی یک بار مر گئے

یوں کانوں کان گل نے نہ جانا چمن میں آہ

سر کو پٹک کے ہم پس دیوار مر گئے

صد کارواں وفا ہے کوئی پوچھتا نہیں

گویا متاع دل کے خریدار مر گئے

۴۰۸۵

مجنوں نہ دشت میں ہے نہ فرہاد کوہ میں

تھا جن سے لطف زندگی وے یار مر گئے

گر زندگی یہی ہے جو کرتے ہیں ہم اسیر

تو وے ہی جی گئے جو گرفتار مر گئے

افسوس وے شہید کہ جو قتل گاہ میں

لگتے ہی اس کے ہاتھ کی تلوار مر گئے

تجھ سے دو چار ہونے کی حسرت کے مبتلا

جب جی ہوئے وبال تو ناچار مر گئے

گھبرا نہ میرؔ عشق میں اس سہل زیست پر

جب بس چلا نہ کچھ تو مرے یار مر گئے

۴۰۹۰

 

(۵۶۱)

 

تمام اس کے قد میں سناں کی طرح ہے

رنگیلی نپٹ اس جواں کی طرح ہے

برے ہونا احوال کو سن کے میرے

بھلا تو ہی کہہ یہ کہاں کی طرح ہے

ق

اڑے خاک گاہے رہے گاہ ویراں

خراب و پریشاں یہاں کی طرح ہے

تعلق کرو میرؔ اس پر جو چاہو

مری جان یہ کچھ جہاں کی طرح ہے

 

(۵۶۲)

 

محمل کے ساتھ اس کے بہت شور میں کیے

نالوں نے میرے ہوش جرس کے اڑا دیے

۴۰۹۵

فصاد خوں فساد پہ ہے مجھ سے ان دنوں

نشتر نہ تو لگاوے تو میرا لہو پیے

عشق بتاں سے نبض مری دیکھ کر حکیم

کہنے لگا خدا ہی ہو اب تو تو یہ جیے

صوت جرس کی طرز بیاباں میں ہائے میرؔ

تنہا چلا ہوں میں دل پر شور کو لیے

 

(۵۶۳)

 

کہاں تک غیر جاسوسی کے لینے کو لگا آوے

الٰہی اس بلائے ناگہاں پر بھی بلا آوے

رکا جاتا ہے جی اندر ہی اندر آج گرمی سے

بلا سے چاک ہی ہو جاوے سینہ ٹک ہوا آوے

۴۱۰۰

ترا آنا ہی اب مرکوز ہے ہم کو دم آخر

یہ جی صدقے کیا تھا پھر نہ آوے تن میں یا آوے

یہ رسم آمد و رفت دیار عشق تازہ ہے

ہنسی وہ جائے میری اور رونا یوں چلا آوے

اسیری نے چمن سے میری دل گرمی کو دھو ڈالا

وگرنہ برق جا کر آشیاں میرا جلا آوے

امید رحم ان سے سخت نافہمی ہے عاشق کی

یہ بت سنگیں دلی اپنی نہ چھوڑیں گر خدا آوے

یہ فن عشق ہے آوے اسے طینت میں جس کی ہو

تو زاہد پیر نابالغ ہے بے تہ تجھ کو کیا آوے

۴۱۰۵

ہمارے دل میں آنے سے تکلف غم کو بیجا ہے

یہ دولت خانہ ہے اس کا وہ جب چاہے چلا آوے

برنگ بوئے غنچہ عمر اک ہی رنگ میں گذرے

میسر میرؔ صاحب گر دل بے مدعا آوے

 

(۵۶۴)

گو ننگ اس کو آوے ہے عاشق کے نام سے

ہے میرؔ کام میرے تئیں اپنے کام سے

درد صفر ہی خوب پئیں جس میں صاف مے

کیا میکشوں کو اول ماہ صیام سے

صیاد عرض حال کروں اور تجھ سے کیا

ظاہر ہے اضطراب مرا زیر دام سے

۴۱۱۰

پڑھتے نہیں نماز جنازے پر اس کے میرؔ

دل میں غبار جس کے ہو خاک امام سے

 

(۵۶۵)

 

اچنبھا ہے اگر چپکا رہوں مجھ پر عتاب آوے

وگر قصہ کہوں اپنا تو سنتے اس کو خواب آوے

بھرا ہے دل مرا جام لبالب کی طرح ساقی

گلے لگ خوب روؤں میں جو مینائے شراب آوے

بغل پروردۂ طوفاں ہوں میں یہ موج ہے میری

بیاباں میں اگر روؤں تو شہروں میں بھی آب آوے

لپیٹا ہے دل سوزاں کو اپنے میرؔ نے خط میں

الٰہی نامہ بر کو اس کے لے جانے کی تاب آوے

۴۱۱۵

(۵۶۶)

 

حصول کام کا دلخواہ یاں ہوا بھی ہے

سماجت اتنی بھی سب سے کوئی خدا بھی ہے

موئے ہی جاتے ہیں ہم درد عشق سے یارو

کسو کے پاس اس آزار کی دوا بھی ہے

اداسیاں تھیں مری خانقہ میں قابل سیر

صنم کدے میں تو ٹک آکے دل لگا بھی ہے

یہ کہیے کیونکے کہ خوباں سے کچھ نہیں مطلب

لگے جو پھرتے ہیں ہم کچھ تو مدعا بھی ہے

ترا ہے وہم کہ میں اپنے پیرہن میں ہوں

نگاہ غور سے کر مجھ میں کچھ رہا بھی ہے

۴۱۲۰

جو کھولوں سینۂ مجروح تو نمک چھڑکے

جراحت اس کو دکھانے کا کچھ مزہ بھی ہے

کہاں تلک شب و روز آہ درد دل کہیے

ہر ایک بات کو آخر کچھ انتہا بھی ہے

ہوس تو دل میں ہمارے جگہ کرے لیکن

کہیں ہجوم سے اندوہ غم کے جا بھی ہے

غم فراق ہے دنبالہ گرد عیش وصال

فقط مزہ ہی نہیں عشق میں بلا بھی ہے

قبول کریے تری رہ میں جی کو کھو دینا

جو کچھ بھی پایئے تجھ کو تو آشنا بھی ہے

۴۱۲۵

جگر میں سوزن مژگاں کے تیں کڈھب نہ گڑو

کسو کے زخم کو تو نے کبھو سیا بھی ہے

گذار شہر وفا میں سمجھ کے کر مجنوں

کہ اس دیار میں میرؔ شکستہ پا بھی ہے

 

(۵۶۷)

بسکہ دیوانگی حال میں چالاک ہوئے

سو گریبان مرے ہاتھ سے یاں چاک ہوئے

سر رگڑ پاؤں پہ قاتل کے کٹائی گردن

اپنے ذمے سے تو صد شکر کہ ہم پاک ہوئے

پائمالی سے فراغت ہی نہیں میرؔ ہمیں

کوئے دلبر میں عبث آن کے ہم خاک ہوئے

۴۱۳۰

 

(۵۶۸)

 

صید افگنوں سے ملنے کی تدبیر کریں گے

اس دل کے تئیں پیش کش تیر کریں گے

فریاد اسیران محبت نہیں بے ہیچ

یہ نالے کسو دل میں بھی تاثیر کریں گے

دیوانگی کی شورشیں دکھلائیں گے بلبل

آتی ہے بہار اب ہمیں زنجیر کریں گے

وا اس سے سرحرف تو ہو گوکہ یہ سر جائے

ہم حلق بریدہ ہی سے تقریر کریں گے

رسوائی عاشق سے تسلی نہیں خوباں

مر جاوے گا تو نعش کو تشہیر کریں گے

۴۱۳۵

یارب وہ بھی دن ہوئے گا جو مصر سے چل کر

کنعاں کی طرف قافلے شب گیر کریں گے

ہر چند کہ ان ترکوں میں ہو جلد مزاجی

پر کام میں ملنے کے یہ تاخیر کریں گے

شب دیکھی ہے زلف اس کی بجز دام اسیری

کیا یار اب اس خواب کی تعبیر کریں گے

غصے میں تو ہووے گی توجہ تری ایدھر

ہر کام میں ہم جان کے تقصیر کریں گے

نکلا نہ مناجاتیوں سے کام کچھ اپنا

اب کوئی خراباتی جواں پیر کریں گے

۴۱۴۰

مکھڑے کے ترے دیکھنے والوں کے مقابل

لاوے گا کوئی مہ کو تو تعزیر کریں گے

شیخوں کے نہ جا سبحہ و سجادہ پہ ہرگز

مقدور تلک اپنے یہ تزویر کریں گے

بازیچہ نہیں میرؔ کے احوال کا لکھنا

اس قصے کو ہم کرتے ہی تحریر کریں گے

 

(۵۶۹)

 

دل کی طرف کچھ آہ سے دل کا لگاؤ ہے

ٹک آپ بھی تو آیئے یاں زور باؤ ہے

اٹھتا نہیں ہے ہاتھ ترا تیغ جور سے

ناحق کشی کہاں تئیں یہ کیا سبھاؤ ہے

۴۱۴۵

باغ نظر ہے چشم کے منظر کا سب جہاں

ٹک ٹھہرو یاں تو جانو کہ کیسا دکھاؤ ہے

تقریب ہم نے ڈالی ہے اس سے جوئے کی اب

جو بن پڑے ہے ٹک تو ہمارا ہی داؤ ہے

ٹپکا کرے ہے آنکھ سے لوہو ہی روز و شب

چہرے پہ میرے چشم ہے یا کوئی گھاؤ ہے

ضبط سرشک خونیں سے جی کیونکے شاد ہو

اب دل کی طرف لوہو کا سارا بہاؤ ہے

اب سب کے روزگار کی صورت بگڑ گئی

لاکھوں میں ایک دو کا کہیں کچھ بناؤ ہے

۴۱۵۰

چھاتی کے میری سارے نمودار ہیں یہ زخم

پردہ رہا ہے کون سا اب کیا چھپاؤ ہے

عاشق کہیں جو ہو گے تو جانو گے قدر میرؔ

اب تو کسی کے چاہنے کا تم کو چاؤ ہے

 

(۵۷۰)

 

جہاں میں روز ہے آشوب اس کی قامت سے

اٹھے ہے فتنہ ہر اک شوخ تر قیامت سے

موا ہوں ہو کے دل افسردہ رنج کلفت سے

اگے ہے سبزۂ پژمردہ میری تربت سے

جہاں ملے تہاں کافر ہی ہونا پڑتا ہے

خدا پناہ میں رکھے بتوں کی صحبت سے

۴۱۵۵

تسلی ان نے نہ کی ایک دو سخن سے کبھو

جو کوئی بات کہی بھی تو آدھی لکنت سے

پلک کے مارتے ہم تو نظر نہیں آتے

سخن کرو ہو عبث تم ہماری فرصت سے

امیرزادوں سے دلی کے مل نہ تا مقدور

کہ ہم فقیر ہوئے ہیں انھیں کی دولت سے

یہ جہل دیکھ کہ ان سمجھے میں اٹھا لایا

گراں وہ بار جو تھا بیش اپنی طاقت سے

رہا نہ ہو گا بخود صانع ازل بھی تب

بنایا ہو گا جب اس منھ کو دست قدرت سے

۴۱۶۰

وہ آنکھیں پھیرے ہی لیتا ہے دیکھتے کیا ہو

معاملت ہے ہمیں دل کی بے مروت سے

جو سوچے ٹک تو وہ مطلوب ہم ہی نکلے میرؔ

خراب پھرتے تھے جس کی طلب میں مدت سے

 

(۵۷۱)

 

رمق ایک جان وبال ہے کوئی دم جو ہے تو عذاب ہے

دل داغ گشتہ کباب ہے جگر گداختہ آب ہے

مری خلق محو کلام سب مجھے چھوڑتے ہیں خموش کب

مرا حرف رشک کتاب ہے مری بات لکھنے کا باب ہے

جو وہ لکھتا کچھ بھی تو نامہ بر کوئی رہتی منھ میں ترے نہاں

تری خامشی سے یہ نکلے ہے کہ جواب خط کا جواب ہے

۴۱۶۵

رہے حال دل کا جو ایک سا تو رجوع کرتے کہیں بھلا

سو تو یہ کبھو ہمہ داغ ہے کبھو نیم سوز کباب ہے

کہیں گے کہو تمھیں لوگ کیا یہی آرسی یہی تم سدا

نہ کسو کی تم کو ہے ٹک حیا نہ ہمارے منھ سے حجاب ہے

چلو میکدے میں بسر کریں کہ رہی ہے کچھ برکت وہیں

لب ناں تو واں کا کباب ہے دم آب واں کا شراب ہے

نہیں کھلتیں آنکھیں تمھاری ٹک کہ مآل پر بھی نظر کرو

یہ جو وہم کی سی نمود ہے اسے خوب دیکھو تو خواب ہے

گئے وقت آتے ہیں ہاتھ کب ہوئے ہیں گنوا کے خراب سب

تجھے کرنا ہو وے سو کر تو اب کہ یہ عمر برق شتاب ہے

۴۱۷۰

کبھو لطف سے نہ سخن کیا کبھو بات کہہ نہ لگا لیا

یہی لحظہ لحظہ خطاب ہے وہی لمحہ لمحہ عتاب ہے

تو جہاں کے بحر عمیق میں سرپرہوا نہ بلند کر

کہ یہ پنج روزہ جو بود ہے کسو موج پر کا حباب ہے

رکھو آرزو مئے خام کی کرو گفتگو خط جام کی

کہ سیاہ کاروں سے حشر میں نہ حساب ہے نہ کتاب ہے

مرا شور سن کے جو لوگوں نے کیا پوچھنا تو کہے ہے کیا

جسے میرؔ کہتے ہیں صاحبو یہ وہی تو خانہ خراب ہے

 

(۵۷۲)

 

سینہ ہے چاک جگر پارہ ہے دل سب خوں ہے

تس پہ یہ جان بلب آمدہ بھی محزوں ہے

۴۱۷۵

اس سے آنکھوں کو ملا جی میں رہے کیونکر تاب

چشم اعجاز مژہ سحر نگہ افسوں ہے

آہ یہ رسم وفا ہووے برافتاد کہیں

اس ستم پر بھی مرا دل اسی کا ممنوں ہے

کبھو اس دشت سے اٹھتا ہے جو ایک ابر تنک

گرد نمناک پریشاں شدۂ مجنوں ہے

کیونکے بے بادہ لب جو پہ چمن میں رہیے

عکس گل آب میں تکلیف مئے گلگوں ہے

پار بھی ہو نہ کلیجے کے تو پھر کیا بلبل

مصرع نالہ جگر کاوی ہے گو موزوں ہے

۴۱۸۰

شہر کتنا جو کوئی ان میں سرشک افشاں ہو

روکش گریۂ غم حوصلۂ ہاموں ہے

خون ہر یک رقم شوق سے ٹپکے تھا ولے

وہ نہ سمجھا کہ مرے نامے کا کیا مضموں ہے

میرؔ کی بات پہ ہر وقت یہ جھنجھلایا نہ کر

سڑی ہے خبطی ہے وہ شیفتہ ہے مجنوں ہے

 

(۵۷۳)

 

کہنا ترے منھ پر تو نپٹ بے ادبی ہے

زاہد جو صفت تجھ میں ہے سو زن جلبی ہے

اس دشت میں  اے سیل سنبھل ہی کے قدم رکھ

ہر سمت کو یاں دفن مری تشنہ لبی ہے

۴۱۸۵

ہر اک سے کہا نیند میں پر کوئی نہ سمجھا

شاید کہ مرے حال کا قصہ عربی ہے

عزلت سے نکل شیخ کہ تیرے لیے تیار

کوئی ہفت گزی میخ کوئی دہ وجبی ہے

اے چرخ نہ تو روز سیہ میرؔ پہ لانا

بیچارہ وہ اک نعرہ زن نیم شبی ہے

 

(۵۷۴)

دو سونپ دود دل کو میرا کوئی نشاں ہے

ہوں میں چراغ کشتہ باد سحر کہاں ہے

بیٹھا جگر سے اپنے کھینچوں ہوں اس کے پیکاں

جینے کی اور سے تو خاطر مری نشاں ہے

۴۱۹۰

روشن ہے جل کے مرنا پروانے کا ولیکن

اے شمع کچھ تو کہہ تو تیرے بھی تو زباں ہے

بھڑکے ہے آتش گل  اے ابر تر ترحم

گوشے میں گلستاں کے میرا بھی آشیاں ہے

ہم زمزمہ تو ہو کے مجھ نالہ کش سے چپ رہ

اے عندلیب گلشن تیرا لب و دہاں ہے

کس دور میں اٹھایا مجھ سینہ سوختہ کو

پیوند ہو زمیں کا جیسا یہ آسماں ہے

کتنی ہی جی نے تجھ سے لی خاک گر اڑائی

وابستگی کر اس سے پر وہی جہاں ہے

۴۱۹۵

ہے قتل گاہ کس کی کوچہ ترا ستمگر

یک عمر خضر ہو گئی خوں متصل رواں ہے

پیر مغاں سعادت تیری جو ایسا آوے

یہ میرؔ مے کشوں میں اک طرز کا جواں ہے

 

(۵۷۵)

 

ہمسایۂ چمن یہ نپٹ زار کون ہے

نالان و مضطرب پس دیوار کون ہے

مژگاں بھی پھر گئیں تری بیمار چشم دیکھ

دکھ درد میں سوائے خدا یار کون ہے

نالے جو آج سنتے ہیں سو ہیں جگر خراش

کیا جانیے قفس میں گرفتار کون ہے

۴۲۰۰

آیا نہ آشیانۂ بلبل میں کام بھی

مجھ سا تو خار باغ میں بیکار کون ہے

کیا فکر ملک گیری میں ہے تھے جو پیش ازیں

ان میں سے تو ہی دیکھ جہاندار کون ہے

بازار دہر میں ہے عبث میرؔ عرض مہر

یاں ایسی جنس کا تو خریدار کون ہے

 

(۵۷۶)

مجھ سوز بعد مرگ سے آگاہ کون ہے

شمع مزار میرؔ بجز آہ کون ہے

بیکس ہوں مضطرب ہوں مسافر ہوں بے وطن

دوری راہ بن مرے ہمراہ کون ہے

۴۲۰۵

لبریز جس کے حسن سے مسجد ہے اور دیر

ایسا بتوں کے بیچ وہ اللہ کون ہے

رکھیو قدم سنبھل کے کہ تو جانتا نہیں

مانند نقش پا یہ سر راہ کون ہے

ایسا اسیر خستہ جگر میں سنا نہیں

ہر آہ میرؔ جس کی ہے جانکاہ کون ہے

 

(۵۷۷)

 

دیکھا کروں تجھی کو منظور ہے تو یہ ہے

آنکھیں نہ کھولوں تجھ بن مقدور ہے تو یہ ہے

نزدیک تجھ سے سب ہے کیا قتل کیا جلانا

ہم غمزدوں سے ملنا اک دور ہے تو یہ ہے

۴۲۱۰

رونے میں دن کٹیں ہیں آہ و فغاں سے راتیں

گر شغل ہے تو یہ ہے مذکور ہے تو یہ ہے

چاک جگر کو میرے برجا ہے جو کہو تم

گر زخم ہے تو یہ ہے ناسور ہے تو یہ ہے

اٹھتے ہی صبح کے تیں عاشق کو قتل کرنا

خوباں کی سلطنت میں دستور ہے تو یہ ہے

کہتا ہے کوئی عاشق کوئی کہے ہے خبطی

دنیا سے بھی نرالا رنجور ہے تو یہ ہے

کیا جانوں کیا کسل ہے واقع میں میرؔ کے تیں

دو چار روز سے جو مشہور ہے تو یہ ہے

۴۲۱۵

(۵۷۸)

 

کوئی ہوا نہ روکش ٹک میری چشم تر سے

کیا کیا نہ ابر آ کر یاں زور زور برسے

وحشت سے میری یارو خاطر نہ جمع رکھیو

پھر آوے یا نہ آوے نو پر اٹھا جو گھر سے

اب جوں سر شک ان سے پھرنے کی چشم مت رکھ

جو خاک میں ملے ہیں گر کر تری نظر سے

دیدار خواہ اس کے کم ہوں تو شور کم ہو

ہر صبح اک قیامت اٹھتی ہے اس کے در سے

داغ ایک ہو جلا بھی خوں ایک ہو بہا بھی

اب بحث کیا ہے دل سے کیا گفتگو جگر سے

۴۲۲۰

دل کس طرح نہ کھینچیں اشعار ریختے کے

بہتر کیا ہے میں نے اس عیب کو ہنر سے

انجام کار بلبل دیکھا ہم اپنی آنکھوں

آوارہ تھے چمن میں دو چار ٹوٹے پر سے

بے طاقتی نے دل کی آخر کو مار رکھا

آفت ہمارے جی کی آئی ہمارے گھر سے

دلکش یہ منزل آخر دیکھا تو آہ نکلی

سب یار جاچکے تھے آئے جو ہم سفر سے

آوارہ میرؔ شاید واں خاک ہو گیا ہے

یک گرد اٹھ چلے ہے گاہ اس کی رہگذر سے

۴۲۲۵

(۵۷۹)

 

وعدہ وعید پیارے کچھ تو قرار ہووے

دل کی معاملت ہے کیا کوئی خوار ہووے

فتراک سے نہ باندھے دیکھے نہ تو تڑپنا

کس آرزو پہ کوئی تیرا شکار ہووے

از بس لہو پیا ہے میں تیرے غم میں گل رو

تربت سے میری شاید حشر بہار ہووے

مرنا بھلا ہے ظالم اس زندگی بد سے

یوں چاہیے کہ کوئی تجھ سے نہ یار ہووے

میں مست مرگیا ہوں کرنا عجب نہ ساقی

گر سنگ شیشہ میرا سنگ مزار ہووے

۴۲۳۰

وابست آسماں کا ملتا ہے خاک ہی میں

اس بے مدار اوپر کس کا مدار ہووے

اے غیر میرؔ تجھ کو گر جوتیاں نہ مارے

سید نہ ہووے پھر تو کوئی چمار ہووے

 

(۵۸۰)

 

رہی نہ پختگی عالم میں دور خامی ہے

ہزار حیف کمینوں کا چرخ حامی ہے

نہ اٹھ تو گھر سے اگر چاہتا ہے ہوں مشہور

نگیں جو بیٹھا ہے گڑ کر تو کیسا نامی ہے

ہوئی ہیں فکریں پریشان میرؔ یاروں کی

حواس خمسہ کرے جمع سو نظامی ہے

 

(۵۸۱)

 

انجام دل غم کش کوئی عشق میں کیا جانے

کیا جانیے کیا ہو گا آخر کو خدا جانے

۴۲۳۵

واں آرسی ہے وہ ہے یاں سنگ ہے چھاتی ہے

گذرے ہے جو کچھ ہم پر سو اس کی بلا جانے

ناصح کو خبر کیا ہے لذت سے غم دل کی

ہے حق بہ طرف اس کے چکھے تو مزہ جانے

میں خط جبیں اپنا یارو کسے دکھلاؤں

قسمت کے لکھے کے تیں یاں کون مٹا جانے

بے طاقتی دل نے ہم کو نہ کیا رسوا

ہے عشق سزا اس کو جو کوئی چھپا جانے

۴۲۴۰

اس مرتبہ ناسازی نبھتی ہے دلا کوئی

کچھ خُلق بھی پیدا کر تا خلق بھلا جانے

لے جایئے میرؔ اس کے دروازے کی مٹی بھی

اس درد محبت کی جو کوئی دوا جانے

 

(۵۸۲)

 

ہنستے ہو روتے دیکھ کر غم سے

چھیڑ رکھی ہے تم نے کیا ہم سے

مند گئی آنکھ ہے اندھیرا پاک

روشنی ہے سو یاں مرے دم سے

تم جو دلخواہ خلق ہو ہم کو

دشمنی ہے تمام عالم سے

۴۲۴۵

درہمی آ گئی مزاجوں میں

آخر ان گیسوان درہم سے

سب نے جانا کہیں یہ عاشق ہے

بہ گئے اشک دیدۂ نم سے

مفت یوں ہاتھ سے نہ کھو ہم کو

کہیں پیدا بھی ہوتے ہیں ہم سے

ق

اکثر آلات جور اس سے ہوئے

آفتیں آئیں اس کے مقدم سے

دیکھ وے پلکیں برچھیاں چلیاں

تیغ نکلی اس ابروئے خم سے

۴۲۵۰

ق

کوئی بیگانہ گر نہیں موجود

منھ چھپانا یہ کیا ہے پھر ہم سے

وجہ پردے کی پوچھیے بارے

ملیے اس کے کسو جو محرم سے

درپ ئے خون میرؔ ہی نہ رہو

ہو بھی جاتا ہے جرم آدم سے

 

(۵۸۳)

 

نالۂ عجز نقص الفت ہے

رنج و محنت کمال راحت ہے

عشق ہی گریۂ ندامت ہے

ورنہ عاشق کو چشم خفت ہے

۴۲۵۵

تا دم مرگ غم خوشی کا نہیں

دل آزردہ گر سلامت ہے

دل میں ناسور پھر جدھر چاہے

ہر طرف کوچۂ جراحت ہے

رونا آتا ہے دم بدم شاید

کسو حسرت کی دل سے رخصت ہے

فتنے رہتے ہیں اس کے سائے میں

قد و قامت ترا قیامت ہے

نہ تجھے رحم نے اسے ٹک صبر

دل پہ میرے عجب مصیبت ہے

۴۲۶۰

ق

تو تو نادان ہے نپٹ ناصح

کب موثر تری نصیحت ہے

دل پہ جب میرے آ کے یہ ٹھہرا

کہ مجھے خوش دلی اذیت ہے

رنج و محنت سے باز کیونکے رہوں

وقت جاتا رہے تو حسرت ہے

کیا ہے پھر کوئی دم کو کیا جانو

دم غنیمت میاں جو فرصت ہے

ق

تیرا شکوہ مجھے نہ میرا تجھے

چاہیے یوں جو فی الحقیقت ہے

۴۲۶۵

تجھ کو مسجد ہے مجھ کو میخانہ

واعظا اپنی اپنی قسمت ہے

ایسے ہنس مکھ کو شمع سے تشبیہ

شمع مجلس کی رونی صورت ہے

باطل السحر دیکھ باطل تھے

تیری آنکھوں کا سحر آفت ہے

ابرتر کے حضور پھوٹ بہا

دیدۂ تر کو میرے رحمت ہے

گاہ نالاں طپاں گہے بے دم

دل کی میرے عجب ہی حالت ہے

۴۲۷۰

کیا ہوا گر غزل قصیدہ ہوئی

عاقبت قصۂ محبت ہے

ق

تربت میرؔ پر ہیں اہل سخن

ہر طرف حرف ہے حکایت ہے

تو بھی تقریب فاتحہ سے چل

بخدا واجب الزیارت ہے

 

(۵۸۴)

پھر اس سے طرح کچھ جو دعوے کی سی ڈالی ہے

کیا تازہ کوئی گل نے اب شاخ نکالی ہے

سچ پوچھو تو کب ہے گا اس کا سا دہن غنچہ

تسکیں کے لیے ہم نے اک بات بنا لی ہے

۴۲۷۵

دیہی کو نہ کچھ پوچھو اک بھرت کا ہے گڑوا

ترکیب سے کیا کہیے سانچے میں کی ڈھالی ہے

ہم قد  خمیدہ سے آغوش ہوئے سارے

پر فائدہ تجھ سے تو آغوش وہ خالی ہے

عزت کی کوئی صورت دکھلائی نہیں دیتی

چپ رہیے تو چشمک ہے کچھ کہیے تو گالی ہے

دو گام کے چلنے میں پامال ہوا عالم

کچھ ساری خدائی سے وہ چال نرالی ہے

ہے گی تو دو سالہ پر ہے دختر رز آفت

کیا پیر مغاں نے بھی اک چھوکری پالی ہے

۴۲۸۰

خونریزی میں ہم سوں کی جو خاک برابر ہیں

کب سر تو فرو لایا ہمت تری عالی ہے

جب سر چڑھے ہوں ایسے تب عشق کریں سو بھی

جوں توں یہ بلا سر سے فرہاد نے ٹالی ہے

ان مغبچوں میں زاہد پھر سرزدہ مت آنا

مندیل تری اب کے ہم نے تو بچالی ہے

کیا میرؔ تو روتا ہے پامالی دل ہی کو

ان لونڈوں نے تو دلی سب سر پہ اٹھا لی ہے

 

(۵۸۵)

 

نازچمن وہی ہے بلبل سے گو خزاں ہے

ٹہنی جو زرد بھی ہے سو شاخ زعفراں ہے

۴۲۸۵

گر اس چمن میں وہ بھی اک ہی لب ودہاں ہے

لیکن سخن کا تجھ سے غنچے کو منھ کہاں ہے

ہنگام جلوہ اس کے مشکل ہے ٹھہرے رہنا

چتون ہے دل کی آفت چشمک بلائے جاں ہے

پتھر سے توڑنے کے قابل ہے آرسی تو

پر کیا کریں کہ پیارے منھ تیرا درمیاں ہے

باغ و بہار ہے وہ میں کشت زعفراں ہوں

جو لطف اک ادھر ہے تو یاں بھی اک سماں ہے

ہر چند ضبط کریے چھپتا ہے عشق کوئی

گذرے ہے دل پہ جو کچھ چہرے ہی سے عیاں ہے

۴۲۹۰

اس فن میں کوئی بے تہ کیا ہو مرا معارض

اول تو میں سند ہوں پھر یہ مری زباں ہے

عالم میں آب و گل کا ٹھہراؤ کس طرح ہو

گر خاک ہے اڑے ہے ور آب ہے رواں ہے

چرچا رہے گا اس کا تا حشر مے کشاں میں

خونریزی کی ہماری رنگین داستاں ہے

از خویش رفتہ اس بن رہتا ہے میرؔ اکثر

کرتے ہو بات کس سے وہ آپ میں کہاں ہے

 

(۵۸۶)

تیرا خرام دیکھے تو جا سے نہ ہل سکے

کیا جی تدرو کا جو ترے آگے چل سکے

۴۲۹۵

اس دل جلے کی تاب کے لانے کو عشق ہے

فانوس کی سی شمع جو پردے میں جل سکے

کہتا ہے کون تجھ کو کہ  اے سینہ رک نہ جا

اتنا تو ہو کہ آہ جگر سے نکل سکے

گر دوپہر کو اس کو نکلنے دے نازکی

حیرت سے آفتاب کی پھر دن نہ ڈھل سکے

کیا اس غریب کو ہو سرسایۂ ہما

جو اپنی بے دماغی سے مکھی نہ جھل سکے

ہے جائے حیف بزم جہاں مل لے  اے پتنگ

اپنے اپر جو کوئی گھڑی ہاتھ مل سکے

۴۳۰۰

ہے وہ بلائے عشق کہ آئے سو آئے ہے

کلول نہیں ہے ایسی محبت کہ ٹل سکے

کس کو ہے آرزوئے افاقت فراق میں

ایسا تو ہو کہ کوئی گھڑی جی سنبھل سکے

مت ابر چشم کم سے مری چشم تر کو دیکھ

چشمہ ہے یہ وہ جس سے کہ دریا ابل سکے

کہتا ہے وہ تو ایک کی دس میرؔ کم سخن

اس کی زباں کے عہدے سے کیونکر نکل سکے

تغئیرقافیہ سے یہ طرحی غزل کہوں

تا جس میں زور کچھ تو طبیعت کا چل سکے

۴۳۰۵

(۵۸۷)

خورشید تیرے چہرے کے آگو نہ آسکے

اس کو جگر بھی شرط ہے جو تاب لا سکے

ہم گرم رو ہیں راہ فنا کے شرر صفت

ایسے نہ جائیں گے کہ کوئی کھوج پا سکے

غافل نہ رہیو آہ ضعیفوں سے سرکشاں

طاقت ہے اس کو یہ کہ جہاں کو جلا سکے

میرا جو بس چلے تو منادی کیا کروں

تا اب سے دل نہ کوئی کسو سے لگا سکے

تدبیر جیب پارہ نہیں کرتی فائدہ

ناصح جگر کا چاک سلا جو سلا سکے

۴۳۱۰

اس کا کمال چرخ پہ سر کھینچتا نہیں

اپنے تئیں جو خاک میں کوئی ملا سکے

یہ تیغ ہے یہ طشت ہے یہ تو ہے بوالہوس

کھانا تجھے حرام ہے جو زخم کھا سکے

اس رشک آفتاب کو دیکھے تو شرم سے

ماہ فلک نہ شہر میں منھ کو دکھا سکے

ق

کیا دل فریب جائے ہے آفاق ہم نشیں

دو دن کو یاں جو آئے سو برسوں نہ جا سکے

مشعر ہے اس پہ مردن دشوار رفتگاں

یعنی جہاں سے دل کو نہ آساں اٹھا سکے

۴۳۱۵

بدلوں گا اس غزل کے بھی میں قافیے کو میرؔ

پھر فکر گو نہ عہدے سے اس کے بر آسکے

 

(۵۸۸)

 

کیا غم میں ویسے خاک فتادہ سے ہوسکے

دامن پکڑ کے یار کا جو ٹک نہ رو سکے

ہم ساری ساری رات رہے گریہ ناک لیک

مانند شمع داغ جگر کا نہ دھو سکے

رونا تو ابر کا سا نہیں یار جانتے

اتنا تو رویئے کہ جہاں کو ڈبو سکے

تیغ برہنہ کف میں وہ بیدادگر ہے آج

ہے مفت وقت اس کو جو کوئی جان کھو سکے

۴۳۲۰

برسوں ہی منتظر سر رہ پر ہمیں ہوئے

اس قسم کا تو صبر کسو سے نہ ہوسکے

رہتی ہے ساری رات مرے دم سے چہل میرؔ

نالہ رہے تو کوئی محلے میں سو سکے

 

(۵۸۹)

 

آتش کے شعلے سر سے ہمارے گذر گئے

بس  اے تب فراق کہ گرمی میں مر گئے

منزل نہ کر جہاں کو کہ ہم نے سفر سے آہ

جن کا کیا سراغ سنا وے گذر گئے

مشت نمک سے بھی تو کبھو یاد کر ہمیں

اب داغ کھاتے کھاتے فلک جی تو بھر گئے

۴۳۲۵

ناصح نہ روویں کیونکے محبت کے جی کو ہم

اے خانماں خراب ہمارے تو گھر گئے

تلوار آپ کھینچیے حاضر ہے یاں بھی سر

بس عاشقی کی ہم نے جو مرنے سے ڈر گئے

کر دیں گے آسمان و زمیں ایک حشر کو

اس معرکے میں یار جی ہم بھی اگر گئے

ق

یہ راہ و رسم دل شدگاں گفتنی نہیں

جانے دے میرؔ صاحب و قبلہ جدھر گئے

روز وداع اس کی گلی تک تھے ہم بھی ساتھ

جب دردمند ہم کو وے معلوم کر گئے

۴۳۳۰

کر یک نگاہ یاس کی ٹپ دے سے رو دیا

پھر ہم ادھر کو آئے میاں وے ادھر گئے

 

(۵۹۰)

 

دن کو نہیں ہے چین نہ ہے خواب شب مجھے

مرنا پڑا ضرور ترے غم میں اب مجھے

ہنگامہ میری نعش پہ تیری گلی میں ہے

لے جائیں گے جنازہ کشاں یاں سے کب مجھے

ٹک داد میری اہل محلہ سے چاہیو

تجھ بن خراب کرتے رہے ہیں یہ سب مجھے

طوفاں بجائے اشک ٹپکتے تھے چشم سے

اے ابر تر دماغ تھا رونے کا جب مجھے

۴۳۳۵

دو حرف اس کے منھ کے تو لکھ بھیجیو شتاب

قاصد چلا ہے چھوڑ کے تو جاں بلب مجھے

کچھ ہے جواب جو میں کروں حشر کو سوال

مارا تھا تو نے جان سے کہہ کس سبب مجھے

غیراز خموش رہنے کہ ہونٹوں کے سوکھنے

لیکن نہیں ہے یار جھگڑنے کا ڈھب مجھے

پوچھا تھا راہ جاتے کہیں ان نے میرؔ کو

آتا ہے اس کی بات کا اب تک عجب مجھے

 

(۵۹۱)

 

کاتب کہاں دماغ جو اب شکوہ ٹھانیے

بس ہے یہ ایک حرف کہ مشتاق جانیے

۴۳۴۰

غیروں کا ساتھ موجب صد وہم ہے بتاں

اس امر میں خدا بھی کہے تو نہ مانیے

شب خواب کا لباس ہے عریاں تنی میں یہ

جب سویئے تو چادر مہتاب تانیے

ق

اپنا یہ اعتقاد ہے تجھ جستجو میں یار

لے اس سرے سے اس سرے تک خاک چھانیے

پھر یا نصیب یہ بھی ہے طالع کی یاوری

مر جائیں ہم تو اس پہ بھی ہم کو نہ جانیے

لوٹے ہے خاک و خون میں غیروں کے ساتھ میرؔ

ایسے تو نیم کشتہ کو ان میں نہ سانیے

۴۳۴۵

(۵۹۲)

 

مرے اس رک کے مر جانے سے وہ غافل ہے کیا جانے

گذرنا جان سے آساں بہت مشکل ہے کیا جانے

کوئی سر سنگ سے مارو کسی کا واپسیں دم ہو

وہ آئینے میں اپنے ناز پر مائل ہے کیا جانے

نظر مطلق نہیں ہجراں میں اس کو حال پر میرے

مرا دل اس کے غم میں گویا اس کا دل ہے کیا جانے

جنونی خبطی دیوانہ سڑا کوئی عشق کو سمجھے

فلاطوں سے نہیں یاں بحث وہ عاقل ہے کیا جانے

تڑپنا نقش پائے ناقہ پر جانے ہے اک مجنوں

بیاباں میں وہ لیلیٰ کا کدھر محمل ہے کیا جانے

۴۳۵۰

پڑھایا اس کو بہتیرا کہ مت لا راز دل منھ پر

پہ طفل اشک کو دیکھا تو ناقابل ہے کیا جانے

طرف ہونا مرا مشکل ہے میرؔ اس شعر کے فن میں

یوہیں سوداؔ کبھو ہوتا ہے سو جاہل ہے کیا جانے

 

(۵۹۳)

 

کب تلک جی رکے خفا ہووے

آہ کریے کہ ٹک ہوا ہووے

جی ٹھہر جائے یا ہوا ہووے

دیکھیے ہوتے ہوتے کیا ہووے

کر نمک سود سینۂ مجروح

جی میں گر ہے کہ کچھ مزہ ہووے

۴۳۵۵

کاہش دل کی کیجیے تدبیر

جان میں کچھ بھی جو رہا ہووے

چپ کا باعث ہے بے تمنائی

کہیے کچھ بھی تو مدعا ہووے

بے کلی مارے ڈالتی ہے نسیم

دیکھیے اب کے سال کیا ہووے

مر گئے ہم تو مر گئے تو جی

دل گرفتہ تری بلا ہووے

عشق کیا ہے درست  اے ناصح

جانے وہ جس کا دل لگا ہووے

۴۳۶۰

پھر نہ شیطاں سجود آدم سے

شاید اس پردے میں خدا ہووے

نہ سنا رات ہم نے اک نالہ

غالباً میرؔ مر رہا ہووے

 

(۵۹۴)

کچھ تو کہہ وصل کی پھر رات چلی جاتی ہے

دن گذر جائیں ہیں پر بات چلی جاتی ہے

رہ گئے گاہ تبسم پہ گہے بات ہی پر

بارے  اے ہم نشیں اوقات چلی جاتی ہے

ٹک تو وقفہ بھی کر  اے گردش دوراں کہ یہ جان

عمر کے حیف ہی کیا سات چلی جاتی ہے

۴۳۶۵

یاں تو آتی نہیں شطرنج زمانہ کی چال

اور واں بازی ہوئی مات چلی جاتی ہے

روز آنے پہ نہیں نسبت عشقی موقوف

عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے

شیخ بے نفس کو نزلہ نہیں ہے ناک کی راہ

یہ ہے جریان منی دھات چلی جاتی ہے

ق

خرقہ مندیل و ردا مست لیے جاتے ہیں

شیخ کی ساری کرامات چلی جاتی ہے

ہے موذن جو بڑا مرغ مصلی اس کی

مستوں سے نوک ہی کی بات چلی جاتی ہے

۴۳۷۰

پاؤں رکتا نہیں مسجد سے دم آخر بھی

مرنے پر آیا ہے پر لات چلی جاتی ہے

ہر سحر در پئے آرام مے آشاماں ہے

مکر و طامات کی اک گھات چلی جاتی ہے

ایک ہم ہی سے تفاوت ہے سلوکوں میں میرؔ

یوں تو اوروں کی مدارات چلی جاتی ہے

 

(۵۹۵)

 

منصف جو تو ہے کب تئیں یہ دکھ اٹھایئے

کیا کیجے میری جان اگر مر نہ جایئے

اظہار راز عشق کیے بن رہے نہ اشک

اس طفل ناسمجھ کو کہاں تک پڑھایئے

۴۳۷۵

تم نے جو اپنے دل سے بھلایا ہمیں تو کیا

اپنے تئیں تو دل سے ہمارے بھلایئے

فکر معاش یعنی غم زیست تا بہ کے

مر جایئے کہیں کہ ٹک آرام پایئے

جاتے ہیں کیسی کیسی لیے دل میں حسرتیں

ٹک دیکھنے کو جاں بلبوں کے بھی آیئے

؂لوٹوں ہوں جیسے خاک چمن پر میں  اے سپہر

گل کو بھی میری خاک پہ ووہیں لٹایئے

ہوتا نہیں ہوں حضرت ناصح میں بے دماغ

کر کر کے پوچ گوئی مری جان کھایئے

۴۳۸۰

پہنچا تو ہو گا سمع مبارک میں حال میرؔ

اس پر بھی جی میں آوے تو دل کو لگایئے

 

(۵۹۶)

نہیں وسواس جی گنوانے کے

ہائے رے ذوق دل لگانے کے

میرے تغئیر حال پر مت جا

اتفاقات ہیں زمانے کے

دم آخر ہی کیا نہ آنا تھا

اور بھی وقت تھے بہانے کے

اس کدورت کو ہم سمجھتے ہیں

ڈھب ہیں یہ خاک میں ملانے کے

۴۳۸۵

بس ہیں دو برگ گل قفس میں صبا

نہیں بھوکے ہم آب و دانے کے

مرنے پر بیٹھے ہیں سنو صاحب

بندے ہیں اپنے جی چلانے کے

اب گریباں کہاں کہ  اے ناصح

چڑھ گیا ہاتھ اس دوانے کے

چشم نجم سپہر جھپکے ہے

صدقے اس انکھڑیاں لڑانے کے

دل و دیں ہوش و صبر سب ہی گئے

آگے آگے تمھارے آنے کے

کب تو سوتا تھا گھر مرے آ کر

جاگے طالع غریب خانے کے

۴۳۹۰

ق

مژہ ابرو نگہ سے اس کی میرؔ

کشتہ ہیں اپنے دل لگانے کے

تیر و تلوار و سیل یک جا ہیں

سارے اسباب مار جانے کے

 

(۵۹۷)

کم فرصتی گل جو کہیں کوئی نہ مانے

ایسے گئے ایام بہاراں کہ نہ جانے

تھے شہر میں  اے رشک پری جتنے سیانے

سب ہو گئے ہیں شور ترا سن کے دوانے

۴۳۹۵

ہمراہ جوانی گئے ہنگامے اٹھانے

اب ہم بھی نہیں وے رہے نے وے ہیں زمانے

پیری میں جو باقی نہیں جامے میں تو کیا دور

پھٹنے لگے ہیں کپڑے جو ہوتے ہیں پرانے

مرتے ہی سنے ہم نے کسل مند محبت

اس درد میں کس کس کو کیا نفع دوا نے

ہے کس کو میسر تری زلفوں کی اسیری

شانے کے نصیبوں میں تھے یوں ہاتھ بندھانے

ٹک آنکھ بھی کھولی نہ زخود رفتہ نے اس کے

ہرچند کیا شور قیامت نے سرہانے

۴۴۰۰

لوہے کے توے ہیں جگر اہل محبت

رہتے ہیں ترے تیرستم ہی کے نشانے

کاہے کو یہ انداز تھا اعراض بتاں کا

ظاہر ہے کہ منھ پھر لیا ہم سے خدا نے

ان ہی چمنوں میں کہ جنھوں میں نہیں اب چھاؤں

کن کن روشوں ہم کو پھرایا ہے ہوا نے

کب کب مری عزت کے لیے بیٹھے ہو ٹک پاس

آئے بھی جو ہو تو مجھے مجلس سے اٹھانے

پایا ہے نہ ہم نے دل گم گشتہ کو اپنے

خاک اس کی سرراہ کی کوئی کب تئیں چھانے

۴۴۰۵

کچھ تم کو ہمارے جگروں پر بھی نظر ہے

آتے جو ہو ہر شام و سحر تیر لگانے

مجروح بدن سنگ سے طفلاں کے نہ ہوتے

کم جاتے جو اس کوچے میں پر ہم تھے دوانے

آنے میں تعلل ہی کیا عاقبت کار

ہم جی سے گئے پر نہ گئے اس کے بہانے

گلیوں میں بہت ہم تو پریشاں سے پھرے ہیں

اوباش کسو روز لگا دیں گے ٹھکانے

 

(۵۹۸)

 

تن ہجر میں اس یار کے رنجور ہوا ہے

بے طاقتی دل کو بھی مقدور ہوا ہے

۴۴۱۰

پہنچا نہیں کیا سمع مبارک میں مرا حال

یہ قصہ تو اس شہر میں مشہور ہوا ہے

بے خوابی تری آنکھوں پہ دیکھوں ہوں مگر رات

افسانہ مرے حال کا مذکور ہوا ہے

کل صبح ہی مستی میں سرراہ نہ آیا

یاں آج مرا شیشۂ دل چور ہوا ہے

کیا سوجھے اسے جس کے ہو یوسف ہی نظر میں

یعقوب بجا آنکھوں سے معذور ہوا ہے

پر شور سے ہے عشق مغنی پسراں کے

یہ کاسۂ سر کاسۂ طنبور ہوا ہے

۴۴۱۵

تلوار لیے پھرنا تو اب اس کا سنا میں

نزدیک مرے کب کا یہ سر دور ہوا ہے

خورشید کی محشر میں طپش ہو گی کہاں تک

کیا ساتھ مرے داغوں کے محشور ہوا ہے

اے رشک سحر بزم میں لے منھ پہ نقاب اب

اک شمع کا چہرہ ہے سو بے نور ہوا ہے

اس شوق کو ٹک دیکھ کہ چشم نگراں ہے

جو زخم جگر کا مرے ناسور ہوا ہے

 

(۵۹۹)

 

چل قلم غم کی رقم کوئی حکایت کیجے

ہر سرحرف پہ فریاد نہایت کیجے

۴۴۲۰

گوکہ سر خاک قدم پر ترے لوٹے اس میں

اپنا شیوہ ہی نہیں یہ کہ شکایت کیجے

ہم جگر سوختوں کے جی میں جو آوے تو ابھی

دود دل ہوکے فلک تجھ میں سرایت کیجے

عشق میں آپ کے گذری نہ ہماری تو مگر

عوض جور و جفا ہم پہ عنایت کیجے

مت چلا عشق کی رہ کی کہ کہے ہے یاں خضر

آپھی گمراہ ہیں ہم کس کو ہدایت کیجے

کس کے کہنے کی ہے تاثیر کہ اک میرؔ ہی سے

رمز و ایما و اشارات و کنایت کیجے

۴۴۲۵

(۶۰۰)

 

دل جو پر بے قرار رہتا ہے

آج کل مجھ کو مار رہتا ہے

تیرے بن دیکھے میں مکدر ہوں

آنکھوں پر اب غبار رہتا ہے

جبر یہ ہے کہ تیری خاطر دل

روز بے اختیار رہتا ہے

دل کو مت بھول جانا میرے بعد

مجھ سے یہ یادگار رہتا ہے

دور میں چشم مست کے تیری

فتنہ بھی ہوشیار رہتا ہے

۴۴۳۰

بسکہ تیرا ہوا بلا گرداں

سر کو میرے دوار رہتا ہے

ہر گھڑی رنجش ایسی باتوں میں

کوئی اخلاص و پیار رہتا ہے

تجھ بن آئے ہیں تنگ جینے سے

مرنے کا انتظار رہتا ہے

دل کو گو ہاتھ میں رکھو اب تم

کوئی یہ بے قرار رہتا ہے

غیر مت کھا فریب خلق اس کا

کوئی دم میں وہ مار رہتا ہے

۴۴۳۵

ق

پی نہ ہرگز شراب جیسا چاہ

اس کے نشے کا تار رہتا ہے

پر ہو پیمانہ عمر کا جب تک

تب تلک یہ خمار رہتا ہے

دلبرو دل چراتے ہو ہر دم

یوں کہیں اعتبار رہتا ہے

کیوں نہ ہووے عزیز دلہا میرؔ

کس کے کوچے میں خوار رہتا ہے

 

(۶۰۱)

 

دہر بھی میر طرفہ مقتل ہے

جو ہے سو کوئی دم کو فیصل ہے

۴۴۴۰

کثرت غم سے دل لگا رکنے

حضرت دل میں آج دنگل ہے

روز کہتے ہیں چلنے کو خوباں

لیکن اب تک تو روز اول ہے

چھوڑ مت نقد وقت نسیہ پر

آج جو کچھ ہے سو کہاں کل ہے

بند ہو تجھ سے یہ کھلا نہ کبھو

دل ہے یا خانۂ مقفل ہے

سینہ چاکی بھی کام رکھتی ہے

یہی کر جب تلک معطل ہے

۴۴۴۵

اب کے ہاتھوں میں شوق کے تیرے

دامن بادیہ کا آنچل ہے

ٹک گریباں میں سر کو ڈال کے دیکھ

دل بھی کیا لق و دق جنگل ہے

ہجر باعث ہے بدگمانی کا

غیرت عشق ہے تو کب کل ہے

مر گیا کوہکن اسی غم میں

آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ہے

 

(۶۰۲)

 

جاں گداز اتنی کہاں آوازعود و چنگ ہے

دل کے سے نالوں کا ان پردوں میں کچھ آہنگ ہے

۴۴۵۰

رو و خال و زلف ہی ہیں سنبل و سبزہ و گل

آنکھیں ہوں تو یہ چمن آئینۂ نیرنگ ہے

بے ستوں کھودے سے کیا آخر ہوئے سب کار عشق

بعد ازاں  اے کوہکن سر ہے ترا اور سنگ ہے

آہ ان خوش قامتوں کو کیونکے بر میں لایئے

جن کے ہاتھوں سے قیامت پر بھی عرصہ تنگ ہے

عشق میں وہ گھر ہے اپنا جس میں سے مجنوں یہ ایک

ناخلف سارے قبیلے کا ہمارے ننگ ہے

چشم کم سے دیکھ مت قمری تو اس خوش قد کو ٹک

آہ بھی سرو گلستان شکست رنگ ہے

۴۴۵۵

ہم سے تو جایا نہیں جاتا کہ یکسر دل میں واں

دو قدم اس کی گلی کی راہ سو فرسنگ ہے

ایک بوسے پر تو کی ہے صلح پر  اے زود رنج

تجھ کو مجھ کو اتنی اتنی بات اوپر جنگ ہے

پاؤں میں چوٹ آنے کے پیارے بہانے جانے دے

پیش رفت آگے ہمارے کب یہ عذر لنگ ہے

ق

فکر کو نازک خیالوں کے کہاں پہنچے ہیں یار

ورنہ ہر مصرع یہاں معشوق شوخ و شنگ ہے

سرسری کچھ سن لیا پھر واہ وا کر اٹھ گئے

شعر یہ کم فہم سمجھے ہیں خیال بنگ ہے

۴۴۶۰

صبر بھی کریے بلا پر میرؔ صاحب جی کبھو

جب نہ تب رونا ہی کڑھنا یہ بھی کوئی ڈھنگ ہے

 

(۶۰۳)

 

خنجر بہ کف وہ جب سے سفاک ہو گیا ہے

ملک ان ستم زدوں کا سب پاک ہو گیا ہے

جس سے اسے لگاؤں روکھا ہی ہو ملے ہے

سینے میں جل کر ازبس دل خاک ہو گیا ہے

کیا جانوں لذت درد اس کی جراحتوں کی

یہ جانوں ہوں کہ سینہ سب چاک ہو گیا ہے

صحبت سے اس جہاں کی کوئی خلاص ہو گا

اس فاحشہ پہ سب کو امساک ہو گیا ہے

۴۴۶۵

دیوار کہنہ ہے یہ مت بیٹھ اس کے سائے

اٹھ چل کہ آسماں تو کا واک ہو گیا ہے

شرم و حیا کہاں کی ہر بات پر ہے شمشیر

اب تو بہت وہ ہم سے بے باک ہو گیا ہے

ہر حرف بسکہ رویا ہے حال پر ہمارے

قاصد کے ہاتھ میں خط نمناک ہو گیا ہے

زیر فلک بھلا تو رووے ہے آپ کو میرؔ

کس کس طرح کا عالم یاں خاک ہو گیا ہے

 

(۶۰۴)

ساقی گھر چاروں اور آیا ہے

دے بھی مے ابر زور آیا ہے

۴۴۷۰

ذوق تیرے وصال کا میرے

ننگے سر تا بہ گور آیا ہے

بوجھ اٹھاتا ہوں ضعف کا شاید

ہاتھ پاؤں میں زور آیا ہے

غارت دل کرے ہے ابرسیاہ

بے طرح گھر میں چور آیا ہے

آج تیری گلی سے ظالم میرؔ

لوہو میں شور بور آیا ہے

 

(۶۰۵)

فقیرانہ آئے صدا کر چلے

کہ میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے

۴۴۷۵

جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم

سو اس عہد کو اب وفا کر چلے

شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی

کہ مقدور تک تو دوا کر چلے

پڑے ایسے اسباب پایان کار

کہ ناچار یوں جی جلا کر چلے

وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لیے

ہر اک چیز سے دل اٹھا کر چلے

کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ

سو تم ہم سے منھ بھی چھپا کر چلے

۴۴۸۰

بہت آرزو تھی گلی کی تری

سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے

دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا

ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے

جبیں سجدے کرتے ہی کرتے گئی

حق بندگی ہم ادا کر چلے

پرستش کی یاں تک کہ  اے بت تجھے

نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے

جھڑے پھول جس رنگ گلبن سے یوں

چمن میں جہاں کے ہم آ کر چلے

۴۴۸۵

نہ دیکھا غم دوستاں شکر ہے

ہمیں داغ اپنا دکھا کر چلے

گئی عمر در بند فکر غزل

سو اس فن کو ایسا بڑا کر چلے

کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میرؔ

جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے

 

(۶۰۶)

 

اپنا سر شوریدہ تو وقف خم چوگان ہے

آ بوالہوس گر ذوق ہے یہ گو ہے یہ میدان ہے

عالم مری تقلید سے خواہش تری کرنے لگا

میں تو پشیماں ہو چکا لوگوں کو اب ارمان ہے

۴۴۹۰

ہر چند بیش از بیش ہے دعویٰ تو رونے کا تجھے

پر دیدۂ نمناک بھی  اے ابر تر طوفان ہے

اس بے دمی میں بھی کبھو دل بھر اٹھے ہے دم ترا

آ ٹک شتابی بے وفا اب تک تو مجھ میں جان ہے

ہر لحظہ خنجر درمیاں ہر دم زباں زیر زباں

وہ طور وہ اسلوب ہے یہ عہد یہ پیمان ہے

اس آرزوئے وصل نے مشکل کیا جینا مرا

ورنہ گذرنا جان سے اتنا نہیں آسان ہے

بس بے وقاری ہو چکی گلیوں میں خواری ہو چکی

اب پاس کر ٹک میرؔ کا دو چار دن مہمان ہے

۴۴۹۵

(۶۰۷)

خوب تھے وے دن کہ ہم تیرے گرفتاروں میں تھے

غمزدوں اندوہ گینوں ظلم کے ماروں میں تھے

دشمنی جانی ہے اب تو ہم سے غیروں کے لیے

اک سماں سا ہو گیا وہ بھی کہ ہم یاروں میں تھے

مت تبختر سے گذر قمری ہماری خاک پر

ہم بھی اک سرو رواں کے ناز برداروں میں تھے

مر گئے لیکن نہ دیکھا تو نے اودھر آنکھ اٹھا

آہ کیا کیا لوگ ظالم تیرے بیماروں میں تھے

شیخ جی مندیل کچھ بگڑی سی ہے کیا آپ بھی

رندوں بانکوں میکشوں آشفتہ دستاروں میں تھے

۴۵۰۰

گرچہ جرم عشق غیروں پر بھی ثابت تھا ولے

قتل کرنا تھا ہمیں ہم ہی گنہگاروں میں تھے

اک رہا مژگاں کی صف میں ایک کے ٹکڑے ہوئے

دل جگر جو میرؔ دونوں اپنے غم خواروں میں تھے

 

(۶۰۸)

 

جس جگہ دور جام ہوتا ہے

واں یہ عاجز مدام ہوتا ہے

ہم تو اک حرف کے نہیں ممنون

کیسا خط و پیام ہوتا ہے

تیغ ناکاموں پر نہ ہر دم کھینچ

اک کرشمے میں کام ہوتا ہے

پوچھ مت آہ عاشقوں کی معاش

روز ان کا بھی شام ہوتا ہے

۴۵۰۵

زخم بن غم بن اور غصہ بن

اپنا کھانا حرام ہوتا ہے

شیخ کی سی ہی شکل ہے شیطان

جس پہ شب احتلام ہوتا ہے

قتل کو میں کہا تو اٹھ بولا

آج کل صبح و شام ہوتا ہے

آخر آؤں گا نعش پر اب آ

کہ یہ عاشق تمام ہوتا ہے

۴۵۱۰

میرؔ صاحب بھی اس کے ہاں تھے پر

جیسے کوئی غلام ہوتا ہے

 

(۶۰۹)

 

بیتابیوں میں تنگ ہم آئے ہیں جان سے

وقت شکیب خوش کہ گیا درمیان سے

داغ فراق و حسرت وصل آرزوئے دید

کیا کیا لیے گئے ترے عاشق جہان سے

ہم خامشوں کا ذکر تھا شب اس کی بزم میں

نکلا نہ حرف خیر کسو کی زبان سے

آب خضر سے بھی نہ گئی سوزش جگر

کیا جانیے یہ آگ ہے کس دودمان سے

۴۵۱۵

جز عشق جنگ دہر سے مت پڑھ کہ خوش ہیں ہم

اس قصے کی کتاب میں اس داستان سے

آنے کا اس چمن میں سبب بے کلی ہوئی

جوں برق ہم تڑپ کے گرے آشیان سے

اب چھیڑ یہ رکھی ہے کہ عاشق ہے تو کہیں

القصہ خوش گذرتی ہے اس بدگمان سے

کینے کی میرے تجھ سے نہ چاہے گا کوئی داد

میں کہہ مروں گا اپنے ہر اک مہربان سے

داغوں سے ہے چمن جگر میرؔ دہر میں

ان نے بھی گل چنے بہت اس گلستان سے

۴۵۲۰

 

(۶۱۰)

 

چاک پر چاک ہوا جوں جوں سلایا ہم نے

اس گریباں ہی سے اب ہاتھ اٹھایا ہم نے

حسرت لطف عزیزان چمن جی میں رہی

سر پہ دیکھا نہ گل و سرو کا سایہ ہم نے

جی میں تھا عرش پہ جا باندھیے تکیہ لیکن

بسترا خاک ہی میں اب تو بچھایا ہم نے

بعدیک عمر کہیں تم کو جو تنہا پایا

ڈرتے ڈرتے ہی کچھ احوال سنایا ہم نے

یاں فقط ریختہ ہی کہنے نہ آئے تھے ہم

چار دن یہ بھی تماشا سا دکھایا ہم نے

۴۵۲۵

بارے کل باغ میں جا مرغ چمن سے مل کر

خوبی گل کا مزہ خوب اڑایا ہم نے

تازگی داغ کی ہر شام کو بے ہیچ نہیں

آہ کیا جانے دیا کس کا بجھایا ہم نے

دشت و کہسار میں سر مار کے چندے تجھ بن

قیس و فرہاد کو پھر یاد دلایا ہم نے

بے کلی سے دل بیتاب کی مر گذرے تھے

سو تہ خاک بھی آرام نہ پایا ہم نے

یہ ستم تازہ ہوا اور کہ پائیز میں میرؔ

دل خس و خار سے ناچار لگایا ہم نے

۴۵۳۰

 

(۶۱۱)

 

ظالم کہیں تو مل کبھو دارو پیے ہوئے

پھرتے ہیں ہم بھی ہاتھ میں سر کو لیے ہوئے

آؤ گے ہوش میں تو ٹک اک سدھ بھی لیجیو

اب تو نشے میں جاتے ہو زخمی کیے ہوئے

جی ڈوبتا ہے اس گہرتر کی یاد میں

پایان کار عشق میں ہم مرجیے ہوئے

سی چاک دل کہ چشم سے ناصح لہو تھمے

ہوتا ہے کیا ہمارے گریباں سیے ہوئے

کافر ہوئے بتوں کی محبت میں میرؔ جی

مسجد میں آج آئے تھے قشقہ دیے ہوئے

۴۵۳۵

 

(۶۱۲)

 

کرو توکل کہ عاشقی میں نہ یوں کرو گے تو کیا کرو گے

الم جو یہ ہے تو دردمندو کہاں تلک تم دوا کرو گے

جگر میں طاقت کہاں ہے اتنی کہ درد ہجراں سے مرتے رہیے

ہزاروں وعدے وصال کے تھے کوئی بھی جیتے وفا کرو گے

جہاں کی مسلخ تمام حسرت نہیں ہے تس پر نگہ کی فرصت

نظر پڑے گی بسان بسمل کبھو جو مژگاں کو وا کرو گے

اخیر الفت یہی نہیں ہے کہ جل کے آخر ہوئے پتنگے

ہوا جو یاں کی یہ ہے تو یارو غبار ہو کر اڑا کرو گے

بلا ہے ایسا طپیدن دل کہ صبر اس پر ہے سخت مشکل

دماغ اتنا کہاں رہے گا کہ دست بر دل رہا کرو گے

۴۵۴۰

عدم میں ہم کو یہ غم رہے گا کہ اوروں پر اب ستم رہے گا

تمھیں تو لت ہے ستانے ہی کی کسو پر آخر جفا کرو گے

اگرچہ اب تو خفا ہو لیکن موئے گئے پر کبھو ہمارے

جو یاد ہم کو کرو گے پیارے تو ہاتھ اپنے ملا کرو گے

سحر کو محراب تیغ قاتل کبھو جو یارو ادھر ہو مائل

تو ایک سجدہ بسان بسمل مری طرف سے ادا کرو گے

غم محبت سے میرؔ صاحب بتنگ ہوں میں فقیر ہو تم

جو وقت ہو گا کبھو مساعد تو میرے حق میں دعا کرو گے

 

(۶۱۳)

 

بو کہ ہو سوئے باغ نکلے ہے

باؤ سے اک دماغ نکلے ہے

۴۵۴۵

ہے جو اندھیر شہر میں خورشید

دن کو لے کر چراغ نکلے ہے

چوبکاری ہی سے رہے گا شیخ

اب تو لے کر چماغ نکلے ہے

دے ہے جنبش جو واں کی خاک کو باؤ

جگر داغ داغ نکلے ہے

ہر سحر حادثہ مری خاطر

بھر کے خوں کا ایاغ نکلے ہے

اس گلی کی زمین تفتہ سے

دل جلوں کا سراغ نکلے ہے

۴۵۵۰

شاید اس زلف سے لگی ہے میرؔ

باؤ میں اک دماغ نکلے ہے

 

(۶۱۴)

ہے خاک جیسے ریگ رواں سب نہ آب ہے

دریائے موج خیز جہاں کا سراب ہے

روز شمار میں بھی محاسب ہے گر کوئی

تو بے حساب کچھ نہ کر آخر حساب ہے

اس شہر دل کو تو بھی جو دیکھے تو اب کہے

کیا جانیے کہ بستی یہ کب کی خراب ہے

منھ پر لیے نقاب تو  اے ماہ کیا چھپے

آشوب شہر حسن ترا آفتاب ہے

۴۵۵۵

کس رشک گل کی باغ میں زلف سیہ کھلی

موج ہوا میں آج نپٹ پیچ و تاب ہے

کیا دل مجھے بہشت میں لے جائے گا بھلا

جس کے سبب یہ جان پہ میری عذاب ہے

سن کان کھول کر کہ تنک جلد آنکھ کھول

غافل یہ زندگانی فسانہ ہے خواب ہے

رہ آشنائے لطف حقیقت کے بحر کا

ہے رشک زلف و چشم جو موج حباب ہے

آتش ہے سوز سینہ ہمارا مگر کہ میرؔ

نامے سے عاشقوں کے کبوتر کباب ہے

۴۵۶۰

(۶۱۵)

کیا کیا بیٹھے بگڑ بگڑ تم پر ہم تم سے بنائے گئے

چپکے باتیں اٹھائے گئے سر گاڑے ووہیں آئے گئے

اٹھے نقاب جہان سے یارب جس سے تکلف بیچ میں ہے

جب نکلے اس راہ سے ہو کر منھ تم ہم سے چھپائے گئے

کب کب تم نے سچ نہیں مانیں جھوٹی باتیں غیروں کی

تم ہم کو یوں ہی جلائے گئے وے تم کو ووہیں لگائے گئے

صبح وہ آفت اٹھ بیٹھا تھا تم نے نہ دیکھا صد افسوس

کیا کیا فتنے سرجوڑے پلکوں کے سائے سائے گئے

اللہ رے یہ دیدہ درائی ہوں نہ مکدر کیونکے ہم

آنکھیں ہم سے ملائے گئے پھر خاک میں ہم کو ملائے گئے

۴۵۶۵

آگ میں غم کی ہو کے گدازاں جسم ہوا سب پانی سا

یعنی بن ان شعلہ رخوں کے خوب ہی ہم بھی تائے گئے

ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی بھی حد ایک آخر ہوتی ہے

کشتے اس کی تیغ ستم کے گور تئیں کب لائے گئے

خضر جو مل جاتا ہے گاہے آپ کو بھولا خوب نہیں

کھوئے گئے اس راہ کے ورنہ کاہے کو پھر پائے گئے

مرنے سے کیا میرؔ جی صاحب ہم کو ہوش تھے کیا کریے

جی سے ہاتھ اٹھائے گئے پر اس سے دل نہ اٹھائے گئے

 

(۶۱۶)

 

ادھر سے ابر اٹھ کر جو گیا ہے

ہماری خاک پر بھی رو گیا ہے

۴۵۷۰

مصائب اور تھے پر دل کا جانا

عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے

مقامر خانۂ آفاق وہ ہے

کہ جو آیا ہے یاں کچھ کھو گیا ہے

کچھ آؤ زلف کے کوچے میں درپیش

مزاج اپنا ادھر اب تو گیا ہے

سرہانے میرؔ کے کوئی نہ بولو

ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

 

(۶۱۷)

عمر بھر ہم رہے شرابی سے

دل پر خوں کی اک گلابی سے

۴۵۷۵

جی ڈھہا جائے ہے سحر سے آہ

رات گذرے گی کس خرابی سے

کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے

اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے

برقع اٹھتے ہی چاند سا نکلا

داغ ہوں اس کی بے حجابی سے

کام تھے عشق میں بہت پر میرؔ

ہم ہیں فارغ ہوئے شتابی سے

 

(۶۱۸)

 

دن دوری چمن میں جو ہم شام کریں گے

تا صبح دوصد نالہ سر انجام کریں گے

۴۵۸۰

ہو گا ستم و جور سے تیرے ہی کنایہ

دوشخص جہاں شکوۂ ایام کریں گے

آمیزش بے جا ہے تجھے جن سے ہمیشہ

وے لوگ ہی آخر تجھے بدنام کریں گے

نالوں سے مرے رات کے غافل نہ رہا کر

اک روز یہی دل میں ترے کام کریں گے

گر دل ہے یہی مضطرب الحال تو  اے میرؔ

ہم زیر زمیں بھی بہت آرام کریں گے

 

(۶۱۹)

 

رشک گلشن اگر تو ناز کرے

رنگ رو کو چمن نیاز کرے

۴۵۸۵

تیری ابرو جدھر کو مائل ہے

ایک عالم ادھر نماز کرے

 

(۶۲۰)

 

نہ رہ دنیا میں دلجمعی سے  اے انساں جو دانا ہے

سفر کا بھی رہے خطرہ کہ اس منزل سے جانا ہے

چلے آتے تھے جو آناً فآناً دیکھ حسرت کو

وے آنسو بھی لگے آنکھیں چرانے کیا زمانہ ہے

 

(۶۲۱)

 

صبح سے بن علاج تو خوش ہے

تیرا بیمار آج تو خوش ہے

میرؔ پھر کہیو سرگذشت اپنی

بارے یہ کہہ مزاج تو خوش ہے

۴۵۹۰

 

(۶۲۲)

 

مرے درد دل کا تو یہ جوش ہے

کہ عالم جوان سیہ پوش ہے

کیا روبرو اس کے کیوں آئینہ

کہ بے ہوشی اس کا دم اور ہوش ہے

کبھو تیر سا اس کماں میں بھی آ

کہ خمیازہ کش میری آغوش ہے

بلاؤں میں اس دور بد کی تو نئیں

جہاں میں خوشا حال مے نوش ہے

 

(۶۲۳)

 

سوائے سنگ دلی اور کچھ ہنر بھی ہے

بتاں دلوں میں تمھارے خدا کا ڈر بھی ہے

۴۵۹۵

ترے فراق میں کچھ کھا کے سو رہا ہوں میں

تو کس خیال میں ہے تجھ کو کچھ خبر بھی ہے

 

(۶۲۴)

سن کے صفت ہم سے خرابات کی

عقل گئی زاہد بدذات کی

جی میں ہمارے بھی تھا پیویں شراب

پیرمغاں تو نے کرامات کی

کوئی رمق جان تھی تن میں مرے

سو بھی ترے غم کی مدارات کی

یاد میں تجھ زلف کی گریہ سے شوخ

روز مرا رات ہے برسات کی

۴۶۰۰

 

(۶۲۵)

ہنس دے ہے دیکھتے ہی کیا خوب آدمی ہے

معشوق بھی ہمارا محبوب آدمی ہے

انسان ہو جو کچھ ہے ادراک سرلولاک

ناداں زمیں زماں سے مطلوب آدمی ہے

 

(۶۲۶)

 

ہم جنوں میں جو خاک اڑا ویں گے

دشت میں آندھیاں چلا ویں گے

میرے دامن کے تار خاروں کو

دشت میں پگڑیاں بندھاویں گے

 

(۶۲۷)

وصل کی جب سے گئی ہے چھوڑ دلداری مجھے

ہجر کی کرنی پڑی ہے ناز برداری مجھے

۴۶۰۵

میں گریباں پھاڑتا ہوں وہ سلا دیتا ہے میرؔ

خوش نہیں آتی نصیحت گر کی غم خواری مجھے

 

(۶۲۸)

 

جوں جوں ساقی تو جام بھرتا ہے

میری توبہ کا جان ڈرتا ہے

سیر کر عاشقوں کی جانبازی

کوئی سسکتا ہے کوئی مرتا ہے

میرؔ ازبسکہ ناتواں ہوں میں

جی مرا سائیں سائیں کرتا ہے

 

(۶۲۹)

 

کیوں گردن ہلال ابھی سے ڈھلک چلی

ابرو تو یک طرف پلک اس کی نہیں ہلی

۴۶۱۰

ہمت دے بادتند کو ایسی کہ بعد مرگ

مشت غبار میرؔ نجف پہنچے یاعلی

 

(۶۳۰)

 

اڑا برگ گل کو دکھاتی ہے وادی

کہو کس طرح نئیں صبا چور بادی

میں لبریز تجھ نام سے جوں نگیں تھا

رہی لوح تربت مری کیونکے سادی

ترے غم میں ہے زیست اور موت یکساں

نہ مرنے کا ماتم نہ جینے کی شادی

میں ہوں بے نوا میرؔ ایسا کہ شب کو

فغاں سے کہوں ٹک کھڑے رہیو ہادی

۴۶۱۵

(۶۳۱)

 

سبھوں کے خط لیے پوشیدہ قاصد آج جاتا ہے

چلا ہے یار کے کوچے کو اور مجھ سے چھپاتا ہے

تو خاطر جمع رکھ دامن کہ اب شہر گریباں سے

تری خاطر ہزاروں چاک تحفہ ہاتھ لاتا ہے

بتاں کے ہجر میں روتا ہوں شب کو اور سحر ہر دم

ہنسے ہے دور سے مجھ پر خدا یہ دن دکھاتا ہے

 

(۶۳۲)

 

شوخ عاشق قد کو تیرے سرو یا طوبیٰ کہے

کچھ ٹھہرتی ہی نہیں کوئی کہے تو کیا کہے

کیا تفاوت ہے بڑے چھوٹے میں گر سمجھے کوئی

کیا عجب ہے مشک کو سقا اگر دریا کہے

۴۶۲۰

 

(۶۳۳)

 

مرے رنگ شکستہ پہ ہنسے ہیں مردماں سارے

ہوا ہوں زعفراں کا کھیت تیرے عشق میں پیارے

عرق گرتا ہے تیری زلف سے اور دل سہمتا ہے

کہ شب تاریک ہے اور ٹوٹتے ہیں دم بدم تارے

 

(۶۳۴)

راہ آنسو کی کب تلک تکیے

خون دل ہی کا اب مزہ چکھیے

آتش غم میں جل رہے ہیں ہما

چشم مجھ استخواں پہ مت رکھیے

سو گیا وہ سمجھ کے افسانہ

درد دل اب کہاں تلک بکیے

۴۶۲۵

بید سا کانپتا تھا مرتے وقت

میرؔ کو رکھیو مجنوں کے تکیے

 

(۶۳۵)

چلی جاتی ہی نکلی جان ہے تدبیر کیا کریے

مداوا سے مرض گذرا کہو اب میرؔ کیا کریے

نہ رکھا کر کے زنجیری پریشاں دل ہمارے کو

ہوئی یہ اب تو تیری زلف سے تقصیر کیا کریے

کریں استادگی آیا تھا جی پہ قتل ہونے میں

یہ اپنا کام ہے قاتل یہ اس کو دیر کیا کریے

نہیں آتا ہے کوئی ڈھب ہمیں آسودہ ہونے میں

بھلا تو ہی بتا  اے خاطر دلگیر کیا کریے

۴۶۳۰

 

(۶۳۶)

 

اس ستم دیدہ کی صحبت سے جگر لوہو ہے

آب ہو جائے کہ یہ دل خلۂ پہلو ہے

خون ہوتا نظر آتا ہے کسی کا مجھ کو

ہر نگہ ساتھ ترے مصلحت ابرو ہے

 

(۶۳۷)

عمر گذری کہ ترے کوچے کے آنے سے گئے

دور سے ایک نظر دیکھ کے جانے سے گئے

 

(۶۳۸)

 

حیران اس بھبھوکے پہ سب دوش ہو گئے

شمع و چراغ بزم میں خاموش ہو گئے

 

(۶۳۹)

 

جو سیل سرشک کا چلے ہے

دریا کے بھی ہونٹ جا سلے ہے

۴۶۳۵

(۶۴۰)

 

آنے کے وقت تم تو کہیں کے کہیں رہے

اب آئے تم تو فائدہ ہم ہی نہیں رہے

 

(۶۴۱)

 

ناچار ہم تو تجھ بن جی مار کر رہیں گے

پر اس روش کو تیری یہ لوگ کیا کہیں گے

 

(۶۴۲)

 

وعدے ہر روز رہے اور تم آتے ہی رہے

ہم کو دیکھو کہ لگے چلنے تو جاتے ہی رہے

 

(۶۴۳)

 

مہیا جس کنے اسباب ملکی اور مالی تھے

وہ اسکندر گیا یاں سے تو دونوں ہاتھ خالی تھے

کلاہ کج سے ہر غنچے کی پیدا ہے گلستاں میں

کہ کیا کیا اس چمن میں دلبروں کے لا ابالی تھے

۴۶۴۰

 

(۶۴۴)

 

مدت ہوئی کہ تاب و تواں جی چھپا گئے

بیتاب کر کے خاک میں ہم کو ملا گئے

وے دن گئے کہ آٹھ پہر اس کے پاس تھے

اب آ گئے تو دور سے کچھ غم سنا گئے

 

(۶۴۵)

کیا کہوں کچھ بھی اس سے چھوٹا ہے

ملک دل ان نے صاف لوٹا ہے

خاک سے میرؔ کیوں نہ یکساں ہوں

مجھ پہ تو آسمان ٹوٹا ہے

 

(۶۴۶)

 

ہم رو رو کے درد دل دیوانہ کہیں گے

جی میں ہے کبھو حال غریبانہ کہیں گے

۴۶۴۵

موقوف غم میرؔ کی شب ہو چکی ہمدم

کل رات کو پھر باقی یہ افسانہ کہیں گے

 

(۶۴۷)

یک دم میں خوں تو سوکھا مژگاں پہ ہوکے جاری

کر  اے طپش جگر کی اب تو ہی آبیاری

 

(۶۴۸)

 

نسبت مہ ہے دور اس گل سے

وہ شگفتہ ہے یہ گرفتہ ہے

 

(۶۴۹)

 

کس رو سے اس کے ہو گا تو نقطے سے مقابل

اے آفتاب تیرا منھ تو طباق سا ہے

 

(۶۵۰)

 

مصرع زلف کا نہ پایا پیچ

شاعروں نے بھی فکر کر دیکھے

۴۶۵۰

(۶۵۱)

 

کوچۂ یار سے نہ جاویں گے

کیسے ہی ہوں گے ہم گئے گذرے

 

(۶۵۲)

 

پیر کنعاں سے گیا کب درد عشق

گو مثل ہو آنکھ پھوٹی پیر گئی

 

(۶۵۳)

 

وابستہ دلبروں کے خاموش ہیں ہمیشہ

ان ساحروں نے ایسے منھ عاشقوں کے باندھے

 

(۶۵۴)

آرسی آرسی وہ ہے وہ ہے

یہ نہ منھ دیکھے کی سی میں نے کہی

 

(۶۵۵)

 

غم میں دل صبر و ہوش  اے پیارے

ہاتھ کانوں پہ رکھ گئے سارے

۴۶۵۵

(۶۵۶)

 

ان نے دیکھا جو اٹھ کے سوتے سے

اڑ گئے آئینے کے توتے سے

 

(۶۵۷)

دیکھتا ہوں تو کام میرا میرؔ

اول  عشق ہی میں آخر ہے

 

(۶۵۸)

 

چشم ہر گل پہ اس کی جا دیکھی

اسی کی باغ میں ہوا دیکھی

 

(۶۵۹)

 

تری ہم چشم نرگس کیا صنم ہے

لکھا ہے گر کہیں سہوالقلم ہے

 

(۶۶۰)

 

نقد دل چھوڑتے نہیں خوباں

اس پہ گویا کہ قرض کھایا ہے

۴۶۶۰

 

(۶۶۱)

 

مایوس وصل اس کا چتون میں مت کہو تم

جو ہو شمار دم میں اس کی امید کیا ہے

 

(۶۶۲)

 

خضر رہ عشق میں نہ ڈھونڈ کہ یاں

راہ کی بات کھوئے دیتی ہے

 

(۶۶۳)

غالب ہے کوئی دن کو ڈھونڈو تو پھر نہ پاؤ

دل رفتہ رفتہ غم میں آدھا نہیں رہا ہے

٭٭٭

تشکر: تصنیف حیدر جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید