FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

کلام اقبال تاریخی ادوار کے آئینہ میں

               محمود الحق

 

انسانی زندگی کے ادوار قوس و قزح کے رنگوں کی مانند ترتیب میں ایک کے بعد ایک دوسرا رنگ دکھاتا ہے ۔زندگی کی ترتیب بھی قوس و قزح کے رنگو ں کی طرح بدلتی نہیں ۔ بچپن ، لڑکپن ، ادھیڑ پن اور بڑھاپا۔ ہر انسان میں زندگی کے ادوار اسی ترتیب میں ہیں ۔ ہر رنگ کی اپنی جاذبیت اور خوبصورتی رکھتا ۔ بڑھاپا جوانی میں اچھا نہیں لگتا ۔ تو جوانی میں بچپنا بھی اچھا نہیں لگتا ۔ وقت سے پہلے شعور کا ادراک بے باک پن دیتا ہے ۔کھانا دیگوں میں تیار ، پلیٹ میں کھایا تو پانی سے بہایا جاتا ہے ۔دودھ کے دانت ٹوٹ جائیں تو نئے طاقت بھر لاتے ہیں ۔اگر طاقت کے ٹوٹ جائیں تو کمزوری میں چھپاتے ہیں ۔ زندگی میں رنگ رلیاں ہیں مگر رنگ رلیوں میں زندگی کے رنگ نہیں ۔انسان کے ادوار سوچ کی تبدیلی کی صورت میں نمایا ں ہوتے ہیں ۔ جو اس کی زندگی کو الگ زاوئے سے دکھاتے ہیں ۔زندگی میں سوچ میں پیدا ہوتے کیونکر کے سوال رفتہ رفتہ بدلتے جاتے ہیں ۔ جو ں جوں حالات بدلتے ہیں ایک نیا کیونکر پھر سامنے آ کھڑا ہوتا ہے ۔سالوں ایک سوال کے جواب پانے میں گزر جاتے ہیں ۔

علامہ محمد اقبال کی زندگی کے ادوار ان کی شاعری کے ادوار سے منسلک نظر آتے ہیں

۔سیاسی اور معاشرتی ادوار میں تغیر و تبدل سے ان کے افکار میں بھی یہ رنگ نمایاں طور پر نظر آتا ہے ۔

شاعری کا پہلا دور 1905 تک

ان کی شاعری کا پہلا دور 1905 تک بیان کردہ کلام پر مبنی ہے جب کہ ہندوستان میں 1857 کی جنگ آزادی کی ناکامی اور آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی رنگون نظر بندی کے بعد ہندوستان کی سیاسی فضا قدرے غیر سیاسی رہی ۔محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس مسلمانوں کی تعلیمی تحریک کا شعور بیدار کرنے میں عملی لحاظ سے فعال تھی ۔ یہاں علامہ صاحب کی شاعری کا روائتی انداز بھی کچھ یوں تھا ۔

تو شناسائے خراش عقدئہ مشکل نہيں

اے گل رنگيں ترے پہلو ميں شايد دل نہيں

زيب محفل ہے ، شريک شورش محفل نہيں

يہ فراغت بزم ہستی ميں مجھے حاصل نہيں

عہد طفلی کو بھی اشعار میں قلمبند کر دیا ۔

تھے ديار نو زمين و آسماں ميرے ليے

وسعت آغوش مادر اک جہاں ميرے ليے

تھی ہر اک جنبش نشان لطف جاں ميرے ليے

حرف بے مطلب تھی خود ميری زباں ميرے ليے

علامہ صاحب سے پہلے اردو شاعری کا انداز شاہانہ تھا ۔ شاہی محلوں میں شاعروں کی سرپرستی کی جاتی ۔تعریف و تحسین سے پزیرائی کی جاتی اور واہ واہ سے داد دی جاتی ۔ مگراردو شاعری قوم کی تربیت کے عنصر سے محروم تھی ۔صرف ایک شاعر مرزا اسد اللہ غالب اس زبوں حالی کو اپنے اشعار میں بیان کر گیا ۔ جن کے بارے میں علامہ صاحب نے ایک اچھوتے انداز بیان میں خراج تحسین پیش کیا کہ لطف گویائی میں غالب کی ہمسری ممکن نہیں ۔

فکر انساں پر تری ہستی سے يہ روشن ہوا

ہے پر مرغ تخيل کی رسائی تا کجا

تھا سراپا روح تو ، بزم سخن پيکر ترا

زيب محفل بھی رہا محفل سے پنہاں بھی رہا

نطق کو سو ناز ہيں تيرے لب اعجاز پر

محو حيرت ہے ثريا رفعت پرواز پر

لطف گويائی ميں تيری ہمسری ممکن نہيں

ہو تخيل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشيں

اس زمانہ میں انہوں نے بچوں کے لئے بھی بہت سی نظمیں لکھی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مکالماتی بیان مثلاً مکڑا اور مکھی ، پہاڑ اور گلہری ، گائے اور بکری کو بھی نہایت خوبصورت پیرائے میں تخیل کا جز بنا دیا ۔کبھی بچے کی دعا کہہ گئے۔جو ہر سکول کے بچے کی زبان پر ہے ۔

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا ميری

زندگی شمع کی صورت ہو خدايا ميری

کبھی ماں کا خواب بیان کر گئے ۔پرندے کی فریاد تو کبھی شمع اور پروانہ کی کہانی ان کے قلم سے بیان ہوتی رہی ۔انسان اور بزم قدرت کو انہوں نے اپنی تخیل فکر سے شاعری میں ڈھال دیا ۔

صبح خورشيد درخشاں کو جو ديکھا ميں نے

بزم معمورہ ہستی سے يہ پوچھا ميں نے

صبح اک گيت سراپا ہے تری سطوت کا

زير خورشيد نشاں تک بھی نہيں ظلمت کا

ميں بھی آباد ہوں اس نور کی بستی ميں مگر

جل گيا پھر مری تقدير کا اختر کيونکر؟

نور سے دور ہوں ظلمت ميں گرفتار ہوں ميں

کيوں سيہ روز ، سيہ بخت ، سيہ کار ہوں ميں؟

شاعری کا یہ دور علامہ صاحب کی قدرت سے وابستگی کا نقطہ آغاز تھا ۔رخصت اے بزم جہاں ، چاند ، سرگزشتہ آدم ، نالاں ء فراق اور تصویر درد کا اظہار خوبصورت انداز میں کیا ۔اسی انسانیت کے ناطے ترانہء ہندی لکھا ۔ جو آج بھی ہندوستان کی فضاؤں میں گونجتا ہے ۔

ہم بلبلیں ہیں اس کی وہ گلستان ہمارا

اپنی شاعری کے بالکل ابتدائی زمانہ میں اقبال کی توجہ غزل گوئی کی جانب تھی اور ان غزلوں میں رسمی اور روایتی مضامین ہی باندھے جاتے تھے۔علامہ صاحب کا یہی دور ہے جب انہوں نے مخصوص روائتی شاعرانہ انداز میں غزلیات لکھیں ۔

مانا کہ تيری ديد کے قابل نہيں ہوں ميں

تو ميرا شوق ديکھ، مرا انتظار ديکھ

اس دور کی یادگار کے طور وہ مشہور غزل بھی ہے جس کے چند اشعار یہ ہیں۔

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی

مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیاتھی

تمہارے پیامی نے سب راز کھولا

خطا اس میں بندے کی سرکار کیاتھی

لیکن وہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی جستجو تلاش میں سرگرداں تھے ۔اور دل کی اصل کیفیت کی طرف رغبت بار بار جا رہی تھی۔اس لئے تو لکھتے ہیں ۔

جنھيں ميں ڈھونڈتا تھا آسمانوں ميں زمينوں ميں

وہ نکلے ميرے ظلمت خانہ دل کے مکينوں ميں

حقيقت اپنی آنکھوں پر نماياں جب ہوئی اپنی

مکاں نکلا ہمارے خانہ دل کے مکينوں ميں

تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقيروں کی

نہيں ملتا يہ گوہر بادشاہوں کے خزينوں ميں

شاعری کا دوسرا دور 1905 سے 1908 تک

ان کی شاعری کا دوسرا دور 1905 سے 1908 تک ہے ۔ جو انہوں نے یورپ میں اعلی تعلیم کے حصول کی خاطر گزارا ۔اور مغربی دنیا کو گہری مطالعاتی نظر سے کریدا ۔ اس دور کی شاعری میں یورپ کے مشاہدات کا عکس واضح نظر آتا ہےاور دوسری طرف ہندوستان سیاسی و معاشرتی لحاظ سے کن راہوں پر چل رہا تھا کا مطالعہ بھی بہت ضروری ہے ۔ 1905 میں تقسیم بنگال ہوئی ۔ کانگریس اور ہندوؤں کا مخالفانہ رد عمل جس کے نتیجہ میں 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام اور مسلمانوں میں سیاسی تحفظ کے شعور کی بیداری کا دور دیکھنے میں آتا ہے ۔مسلمانوں کی تحریک میں مطالبات حقوق میں شدت اور تقاضا سے اجتناب برتا گیا ۔بلکہ مفاہمتی انداز اپنایا گیا ۔ضد کی بنیا د پر سیاسی تنظیم کی تشکیل نو نہیں کی گئی ۔اور علامہ صاحب کی شاعری کا یہ دور بھی مسلمانوں کے اندر اس تحریک کو پیدا کرنے کے لئے شدت کا اظہار نہیں کرتا ۔ لیکن وہ ملک کی نجات مشرقی افکار و نظریات میں پاتے تھے ۔ ہم کلامی میں علامہ صاحب میں رومانیت کاپہلو بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ یہی وہ دور ہے جب ان کا زاویہ نگاہ تبدیل ہوا اور ان کی شاعری میں پیغامیہ رنگ دیکھنے میں آتا ہے ۔مغربی تہذیب بےزاری کا اظہار و اشگاف الفاظ میں کرتے ہیں۔

دیار ِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے

کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ زر اب کم عیار ہوگا

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی

جو شاخ نازک پر بنے گا آشیانہ ناپا ئیدار ہوگا

مغربی معاشرے پر کچھ ایسے بھی روشنی ڈالی ۔

عروس شب کی زلفيں تھيں ابھی نا آشنا خم سے

ستارے آسماں کے بے خبر تھے لذت رم سے

تڑپ بجلی سے پائی ، حور سے پاکيزگی پائی

حرارت لی نفسہائے مسيح ابن مريم سے

ان کے اظہار خیال کا یہ انداز بھی نرالا ہے ۔

کہيں سامان مسرت، کہيں ساز غم ہے

کہيں گوہر ہے ، کہيں اشک ، کہيں شبنم ہے

لیکن رومانیت کے اظہار میں ان کی عشق بیان کی صفت اسی روش پرتھی جو دل کی کیفیت پر بھاری تھی ۔ پیام عشق میں یوں کلام کرتےہیں ۔

سن اے طلب گار درد پہلو! ميں ناز ہوں ، تو نياز ہو جا

ميں غزنوی سومنات دل کا ، تو سراپا اياز ہو جا

نہيں ہے وابستہ زير گردوں کمال شان سکندری سے

تمام ساماں ہے تيرے سينے ميں ، تو بھی آئينہ ساز ہو جا

غرض ہے پيکار زندگی سے کمال پائے ہلال تيرا

جہاں کا فرض قديم ہے تو ، ادا مثال نماز ہو جا

زمانہ دیکھے گا میں ان کا رنگ جدا نظر آتا ہے ۔دل کی کیفیت میں طوفان ہیں جس کی نشاندہی وہ اپنی خموشی سے کرتے ہیں ۔

زمانہ ديکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا

مری خموشی نہيں ہے ، گويا مزار ہے حرف آرزو کا

کوئی دل ايسا نظر نہ آيا نہ جس ميں خوابيدہ ہو تمنا

الہی تيرا جہان کيا ہے نگار خانہ ہے آرزو کا

مغربی تہذیب کی ناپائیداری کے ادراک کے بعداقبال اسلامی نظریہ فکر کی جانب راغب ہوئے۔اسی تغیر فکر نے ان کے اندر ملتِ اسلامیہ کی خدمت کا جذبہ بیدار کیا۔ اس جذبے کی عکاسی ان کی نظم ”شیخ عبدالقادر کے نام “ میں ہوتی ہے۔ جہاں وہ لکھتے ہیں۔

اُٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق ِ خاور پر

بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کردیں

شمع کی طرح جئیں بزم گہ عالم میں

خود جلیں دیدہ اغیار کو بینا کر دیں

شاعری کا تیسرا دور 1908 تا 1923

علامہ صاحب کے شاعری کے تیسرے دور میں گورا راج نے 1911 میں ہندوؤں کی مخالفت کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے تقسیم بنگال کو منسوخ کر دیا ۔ پھر 1913 میں مسجد شہید گنج کانپور کا واقعہ بہت اہمیت کا حامل تھا ۔ جس نے مسلمانوں کو اپنے حقوق کے تحفظ کی تحریک میں بنیادی اور کلیدی کردار ادا کرنے کی طرف پہلا قدم بنا دیا ۔ اور 1914 میں پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا ۔ جس میں ملت اسلامیہ کے مرکز خلافت عثمانیہ ترکی نے جرمنی اور جاپان کے ساتھ شامل ہوکر دنیا کی اتحادے ممالک کے خلاف صف آرا ہوا ۔برطانوی حکومت کے زیر اثر ہندوستان بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ سلطنت عثمانیہ ترکی کے خلاف جنگ میں شامل ہوا ۔ مسلمان جسے اپنا اسلامی مرکز سمجھتے تھے وہ اس سے پہلے ہی یورپ کے مرد بیمار کا مقام پا چکا تھا ۔اس جنگ کی وجہ سے آخری سانسوں پہ چلا گیا ۔مسلمان ترکی سے دلی وابستگی

رکھتے تھے ۔اور اس جنگ میں ترکی کا کردار اتنا اہم نہیں تھا مگر انجام بہت اہم تھا ۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر جس طرح ترکی کے حصے بخرے کر کے بندر بانٹ کی گئی ۔ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے درد اور اذیت کا باعث تھی ۔اور اس جنگ کے خاتمے کے بعد ہی ہندوستان کے اندر انتہا پسند تنظیموں کا اثر ورسوخ بڑھتا چلا گیا ۔جو مسلمانوں سے مفاہمت کی بجائے مخاصمت کی روش پر عمل پیرا تھیں ۔سیاسی جماعتیں سیاسی داؤ پیچ سے اس مسئلے کے حل میں کوشاں تھیں ۔

علامہ اقبال اپنی اس فکر کو اشعار کی زبان میں مجلسوں میں بیان کرتے ۔ اور قوم کے اندر نئی و ولولہ کو پیدا کرنے کی تحریک بنے ۔ ۔شعور کی بیداری اور تحریکوں کے آغاز نے قوم میں جو نئی روح پھونکی ۔ تو قومیں اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے آواز بلند کرتی چلی گئیں ۔ جوں جوں منزل قریب آتی گئی فاصلے بڑھتے چلے گئے اور راستے جدا ہوتے چلے گئے ۔

علامہ صاحب کی شاعری میں وہ تمام اثرات جو ان کی دلی کیفیت کے غماز تھے نمایاں نظر آتے ہیں ۔

بلاد اسلامیہ علامہ اقبال کی وہ نظم ہے کہ جس میں انہوں نے نہایت خوبصورت پیرائے میں پرچم اسلامی کی سر بلندی کی داستان بیان کر دی اور ان کا مکہ معظمہ و مدینہ منورہ سمیت اسلام سے عقیدت عشق کا اظہار پڑھنے کے لائق ہے۔

سرزميں دلی کی مسجود دل غم ديدہ ہے

ذرے ذرے ميں لہو اسلاف کا خوابيدہ ہے

پاک اس اجڑے گلستاں کی نہ ہو کيونکر زميں

خانقاہ عظمت اسلام ہے يہ سرزميں

ہے زمين قرطبہ بھی ديدہء مسلم کا نور

ظلمت مغرب ميں جو روشن تھی مثل شمع طور

مسلم ثقافت و تہذیب کی بدولت عالم دنیا میں عَلم اسلام کی سر بلندی کا ذکر بار بار کرتے ہیں اور گورستان شاہی میں بادشاہت کے متعلق ان کا انداز کلام کیا خوب ہے۔

خواب گہ شاہوں کی ہے يہ منزل حسرت فزا

ديدہء عبرت! خراج اشک گلگوں کر ادا

ہے ہزاروں قافلوں سے آشنا يہ رہ گزر

چشم کوہ نور نے ديکھے ہيں کتنے تاجور

اس نشاط آباد ميں گو عيش بے اندازہ ہے

ايک غم ، يعنی غم ملت ہميشہ تازہ ہے

دہر کو ديتے ہيں موتی ديدہء گرياں کے ہم

آخری بادل ہيں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم

ہيں ابھی صد ہا گہر اس ابر کی آغوش ميں

برق ابھی باقی ہے اس کے سينہء خاموش ميں

علامہ اقبال نے اپنی ابتدائی شاعری میں ترانہء ہندی لکھا تھا مگر برصغیر کی بدلتی سیاسی صورتحال میں ان کی شاعری میں مسلم قومیت کا رنگ نمایاں ہوتا چلا گیا ۔ جب وہ 1908 میں یورپ سے لوٹے تو ہندوستان میں تقسیم بنگال کو لے کر ہندوؤں نے واویلہ مچارکھا تھا کیونکہ مسلم اکثریتی مشرقی بنگال ( موجودہ :بنگلہ دیش) صوبہ بننے سے مسلم ترقی اور اکثریتی صوبہ ہندو سے برداشت نہیں ہو رہاتھا ۔ اور آخر کار گورا حکومت نے ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے اور 1911 میں تنسیخ تقسیم بنگال ہو گئی ۔ پھر ان کا رحجان شاعری میں ہندوستان کے ساتھ مسلمان کی طرف بہت نمایاں نظر آتا ہے ۔ جیسے ان کا یہ ترانہ ملی ملاحظہ فرمائیں ۔

چين و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا

مسلم ہيں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا

توحيد کی امانت سينوں ميں ہے ہمارے

آساں نہيں مٹانا نام و نشاں ہمارا

یہ وہ دور ہے جب ان کی شاعری میں انسانیت ناطے اشعار کے کہنے کا مزاج بدل چکا تھا ۔ہندوستان کومسلم اسلاف کا امین قرار دیتے تھے ۔ان کے نزدیک بادشاہت کے خاتمے سے ہندوستان فتح ہوا تھا مسلمان نہیں ۔ اسی فکر کو انہوں نے جگانے کی کوشش کی ۔ جو بار بار اشعار کی صورت میں مسلم قوم میں اس جزبہ کو پیدا کرنے کا سبب ہو ئی۔مثلا ان کے کلام وطنيت (يعنی وطن بحيثيت ايک سياسی تصور کے( میں ان کا اسلوب بیان قومیت کی تعریف یوں کرتا ہے ۔

گفتار سياست ميں وطن اور ہی کچھ ہے

ارشاد نبوت ميں وطن اور ہی کچھ ہے

اقوام جہاں ميں ہے رقابت تو اسی سے

تسخير ہے مقصود تجارت تو اسی سے

خالی ہے صداقت سے سياست تو اسی سے

کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے

اقوام ميں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے

قوميت اسلام کے جڑ کٹتی ہے اس سے

مسلمان قوم جس مشکل کا شکار تھی ۔طاقت کا توازن بگڑنے سے حاکم محکومی کے اس مقام پر جا پہنچے جہاں انہیں معاشی ومعاشرتی نا ہموار سماج کے ساتھ ساتھ غم روزگار کے بھی لالے تھے ۔ کئی دہاہیوں سے انہیں انگریزی تعلیم کے حصول کی طرف راغب کیا جارہا تھا ۔ انگریز بہادر کے ساتھ ساتھ ہندو صدیاں محکومی کا بدلہ انگریز کے کندھوں پر چڑھ کر مسلمانو ں سے لینا چاہتے تھے ۔ علامہ اقبال کا شکوہ بھی آرزدہ دل مسلمان کی پکار تھی ۔

کيوں زياں کار بنوں ، سود فراموش رہوں

فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں

نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں

ہم نوا ميں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں

ہے بجا شيوہء تسليم ميں مشہور ہيں ہم

قصہ درد سناتے ہيں کہ مجبور ہيں ہم

اے خدا! شکوہء ارباب وفا بھی سن لے

خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھی سن لے

تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات قديم

پھول تھا زيب چمن پر نہ پريشاں تھی شميم

جسٹس جاوید اقبال اپنی کتاب میں والد محترم کے متعلق لکھتے ہیں کہ علامہ صاحب جب واپس لوٹے تو انہیں ابتدا میں یورپ میں گزارے گئے اپنے دن یاد آتے رہے ۔جدید تعلیم سے آراستہ شاعری میں کہنہ مشق اقبال اس وقت کی سیاست کے لئے انتہائی موضوع اوصاف کے مالک تھے ۔مگر پرواز کی رغبت نہیں تھی تو خود کو کچھ اس انداز میں نصيحت فرماتے ہیں ۔

ميں نے اقبال سے از راہ نصيحت يہ کہا

عامل روزہ ہے تو اور نہ پابند نماز

تو بھی ہے شيوہ ارباب ريا ميں کامل

دل ميں لندن کی ہوس ، لب پہ ترے ذکر حجاز

جتنے اوصاف ہيں ليڈر کے ، وہ ہيں تجھ ميں سبھی

تجھ کو لازم ہے کہ ہو اٹھ کے شريک تگ و تاز

غم صياد نہيں ، اور پر و بال بھی ہيں

پھر سبب کيا ہے ، نہيں تجھ کو دماغ پرواز

مسلمان نوجوان جس دور سے گزر رہے تھے وہ انہیں جدید دنیا سے روشناس کرانے میں ایک اہم سمت چل رہا تھا ۔مشینی ترقی سے معاشرتی قدریں اکثر کمزور پڑ جاتی ہیں ۔اور یہی اس دور کا خاصہ تھا کہ نوجوانوں میں حقوق آزادی کی اُمنگ کی بجائے عیش ترنگ کی کیفیت طاری تھی ۔ جسے جنجھوڑنے کی ضرورت تھی ۔ علامہ صاحب نے خطاب بہ جوانان اسلام میں اسی پیغام کو باور کروایا ۔

کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کيا تو نے

وہ کيا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت ميں

کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں ميں تاج سر دارا

تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہيں سکتی

کہ تو گفتار وہ کردار ، تو ثابت وہ سےارا

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے ميراث پائی تھی

ثريا سے زميں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

اس کے باوجود کہ حالات مسلمانوں کے حق میں بہتر نہیں تھے وہ مسلمانوں کے استقلال و نیت خلوص پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے کلام مسلم (جون1912ء( میں ایسے اظہار کیا ۔

آشکارا ہيں مری آنکھوں پہ اسرار حيات

کہہ نہيں سکتے مجھے نوميد پيکار حيات

کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے

ہے بھروسا اپنی ملت کے مقدر پر مجھے

شکوہ لکھنے پر انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے جواب شکوہ لکھ کر تمام نقادوں ، معترضین کو لا جواب کر دیا کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے ۔

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہيں’ طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

ہم تو مائل بہ کرم ہيں’ کوئی سائل ہی نہيں

راہ دکھلائيں کسے’ رہر و منزل ہی نہيں

تربيت عام تو ہے’ جوہر قابل ہی نہيں

جس سے تعمير ہو آدم کی’ يہ وہ گل ہی نہيں

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی ديتے ہيں

ڈھونڈنے والوں کو دنيا بھی نئی ديتے ہيں

1911 میں تنسیخ بنگال نے مسلمانوں میں انتہائی مایوسی پیدا کر دی تھی ۔ انہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا تھا ۔ ایک طاقت کا شاہسوار تو ایک کوڑا تھا ۔ مسلمان بیچارگی کی تصویر بنا اچھے مستقبل کی امید بھی کھوتا جا رہا تھا ۔ایسے میں علامہ صاحب کا یہ کلام نوید صبح (1912ء) حوصلہ و ہمت بندھانے کی نوید تھا ۔

آتی ہے مشرق سے جب ہنگامہ در دامن سحر

منزل ہستی سے کر جاتی ہے خاموشی سفر

محفل قدرت کا آخر ٹوٹ جاتا ہے سکوت

ديتی ہے ہر چيز اپنی زندگانی کا ثبوت

چہچاتے ہيں پرندے پا کے پيغام حيات

باندھتے ہيں پھول بھی گلشن ميں احرام حيات

مسلم خوابيدہ اٹھ ، ہنگامہ آرا تو بھی ہو

وہ چمک اٹھا افق ، گرم تقاضا تو بھی ہو

صرف قوم کوخوابیدگی سے اُ ٹھانے پر ہی اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے لئے دعا بھی نکلتی ان کے دل سے ۔

يا رب! دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے

جو قلب کو گرما دے ، جو روح کو تڑپا دے

پھر وادي فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دے

پھر شوق تماشا دے، پھر ذوق تقاضا دے

مغربی دنیا کے زیر اثرنوجوان مسلمان اپنی ثقافت و تہذیب بھی بھولتے جارہے تھے۔ قوم کی قسمت کا فیصلہ نئی نسل کے ہاتھ میں تھا جنہوں نے قیادت کی ذمہ داری کندھوں پر اُٹھانی تھی اور وہی نئی تہذیب کی رعنائی کے دلدادہ ہوتے جارہے تھے وہ اپنے کلام تہذيب حاضر میں اسی نقطہ کو واضح کرتے ہیں ۔

نئے انداز پائے نوجوانوں کی طبيعت نے

يہ رعنائی، يہ بيداری ، يہ آزادی ، يہ بے باکی

تغير آگيا ايسا تدبر ميں، تخيل ميں

ہنسی سمجھی گئی گلشن ميں غنچوں کی جگر چاکی

علامہ اقبال مسلمانوں کو ان کے مذہب پر کاربند رہنے کو ان کی بحیثیت ملی تشخص قائم رکھنے کی بندش سمجھتے تھے ۔ مسلمانوں کا طرز حیات جدا ہے اور اسے چھوڑنے سے سارے ناطے رشتے مذہب کادھاگہ کھلنے سے ملت کےموتی بکھرنے کی مثل ہو جاتا ہے ۔ اسی پیغام کو انہوں نے اپنے کلام مذہب میں یوں بیان کیا ۔

اپنی ملت پر قياس اقوام مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکيب ميں قوم رسول ہاشمی

دامن ديں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعيت کہاں

اور جمعيت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی

اور پھر انہیں اس امید کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ اگر وہ مذہب سے بیگانہ نہ ہوں تو ابھی بھی وقت ہاتھ سے نہیں چھوٹا ۔اس کے باوجود کہ قوم اپنا ماضی کھو چکی ہے۔لیکن انہیں اس بات سے غرض نہیں ہونی چاہیئے کہ انہوں نے زوال کا تاریک دور دیکھا ۔ بلکہ انہیں ملت میں پرو کر رہنا ہو گا ۔اور نئی زندگی کی صبح کا انتظار کرنا ہو گا ۔

ہے لازوال عہد خزاں اس کے واسطے

کچھ واسطہ نہيں ہے اسے برگ و بار سے

ملت کے ساتھ رابطہء استوار رکھ

پيوستہ رہ شجر سے ، اميد بہار رکھ!

علامہ صاحب کا یہ شعر!

نالہ ہے بلبل شوريدہ ترا خام ابھی

اپنے سينے ميں اسے اور ذرا تھام ابھی

کبھی کبھار ایسے موقع پر پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے جہاں کسی کو یہ باور کروانا ہو کہ جناب ابھی صبر رکھیں ۔ آپ اس قابل نہیں کہ پرواز کر سکیں ابھی آپ میں مقابلہ کا دم نہیں ۔ لیکن جب میں نے اس شعر کو پورے مفہوم کے ساتھ پڑھا تو علامہ صاحب کا عشق حقیقی ابھر کر آنکھوں کے سامنے آ گیا ۔ایسے ہی نقادوں کے لئے یہ اگلا شعر!

پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت انديش ہو عقل

عشق ہو مصلحت انديش تو ہے خام ابھی

کہیں پھر کوئی نقاد نہ آ دھمکے کہ چیلنج ہو گیا اور علامہ صاحب کو جو میں خراج تحسین پیش کر رہا ہوں وہ بحث میں بدل جائے تو واپس موضوع کی طرف آتے ہیں اور ان اشعار کو پڑھتے ہیں ۔

نالہ ہے بلبل شوريدہ ترا خام ابھی

اپنے سينے ميں اسے اور ذرا تھام ابھی

پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت انديش ہو عقل

عشق ہو مصلحت انديش تو ہے خام ابھی

بے خطر کود پڑا آتش نمردو ميں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

اسی طرح علامہ صاحب کا یہ شعر بھی زبان زد عام ہے اور کسی پر طنز کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔خاص کر اگر کبھی کوئی اچھا کام کی نیت کرے تو کہا جاتا ہے ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کيا ملے گا نماز ميں

لیکن اگر پڑھتے جائیں تو انسان خود پڑھنے پڑ جاتا ہے کہ علامہ صاحب بہت بڑی بات کتنی آسانی سے کیسے کہہ گئے ۔ کہ پڑھتے جائیں تو مفہوم کیا سے کیا ہو جاتا ہے ۔

کبھی اے حقيقت منتظر نظر لباس مجاز ميں

کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہيں مری جبين نياز ميں

نہ کہيں جہاں ميں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی

مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز ميں

نہ وہ عشق ميں رہيں گرمياں،نہ وہ حسن ميں رہيں شوخياں

نہ وہ غزنوی ميں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف اياز ميں

جو ميں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زميں سے آنے لگی صدا

ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کيا ملے گا نماز ميں

عقل میں تعبیر و تنقید تو دل سے عشق کا معاملہ قرار دیا جاتا ہے لیکن عشق حقیقی میں اظہار سے زیادہ اعمال کی بنیاد پر روح عمل سے آبیاری کی ضرورت ہوتی ہے جسے علامہ صاحب کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں ۔

گرچہ تو زندانی اسباب ہے

قلب کو ليکن ذرا آزاد رکھ

عقل کو تنقيد سے فرصت نہيں

عشق پر اعمال کی بنياد رکھ

٭٭٭

ماخذ:

http://mahmoodulhaq.blogspot.in/2010/03/blog-post_13.html