FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

نجمی شفائی توانائی

 

(نجمی ہیلنگ انرجی)

   اپنی نوعیت کے لحاظ سے    دُنیا کا پہلا اسلامی رُوحانی سائنسی طریقۂ علاج

 

               ڈاکٹر سیّد شہزاد علی نجمی

 

 

 

اِنتساب

 

اپنے

اُن پُر خلوص شاگردوں کے نام

جو پُر خلوص طریقہ سے دُکھی انسانیت

کی خدمت کر رہے ہیں

 

 

 

پیش لفظ

 

 

ابتدائے آفرینش سے ہی انسان صحت و تندرستی برقرار رکھنے اور بیماری سے نجات کے حصول کے لئے نت نئے طریقے اور اصول دریافت کرتا رہا ہے جو کہ زمانۂ قدیم سے ہی مختلف تہذیبوں اور معاشروں میں رائج رہے ہیں اور اُن کی افادیت آج بھی مُسلِّمہ حقیقت ہے۔ ان طریقوں میں مادی طریقے مثلاً جڑی بوٹیوں سے علاج کے ساتھ ساتھ کچھ رُوحانی طریقے جیسے دم درود، جھاڑ پھونک، مراقبہ، یوگا اور ریکی(Reiki) وغیرہ جیسے طریقے بھی شامل رہے ہیں۔

موجودہ دور جدید میڈیکل سائنس کی ترقی کا دور کہلاتا ہے جسے فی زمانہ ایلوپیتھی یا انگریزی طریقۂ علاج کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جس نے کافی ترقی کی ہے۔ جس کی وجہ اس شعبے میں ریسرچ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس جدید مغربی طریقۂ علاج کی اتنی ترقی کے باوجود ایک ایلوپیتھک ڈاکٹر بہت سارے امراض کا مکمل علاج نہیں کر سکتا جن میں الرجی ، دمہ ، جوڑوں کا درد ، گٹھیا، فلو ، خسرہ ، ذیابطیس ، فالج ، بلڈ پریشر مرگی ، کینسراور ایڈز وغیرہ جیسے امراض شامل ہیں۔ گویا کہ اتنی سائنسی ترقی کے باوجود اب بھی ہر دوسری بیماری لا علاج نظر آتی ہے۔ شوگر اور بلڈ پریشر کے مریض کو صرف اور صرف مرض پر کنٹرول برقرار رکھنے کے لئے دوا دی جاتی ہے مگر شافی علاج نہیں ہے یعنی مرض کا خاتمہ نہیں ہوتا دوسرے ان دواؤں کا اثر وقتی طور پر ایک خاص مدّت تک رہتا ہے بعد میں یہ دوائیں جب بے اثر ہونے لگتی ہیں تو اُن کی مقدار بڑھائی جاتی ہے۔ کچھ عرصے بعد جب یہ طریقہ بھی کارگر ثابت نہیں ہوتا تو آخر کار مریض لقمۂ اجل بن جاتا ہے۔ کینسر میں مبتلا غریب شخص کم مدّت میں مر جاتا ہے جبکہ مال دار شخص کثیر دولت خرچ کر کے امریکہ اور انگلینڈ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں اپنا علاج کروانے جاتا ہے تو اکثر مردہ حالت(Dead Body) کی شکل میں واپس آتا ہے اور اگر خوش قسمتی سے واپس بھی آ گیا تو کچھ عرصے بعد اسی مرض میں دُنیا سے چلا جاتا ہے۔ غربت ہو یا امارت نتیجہ اس معاملے میں آخر کار دونوں کا ایک ہی ہے۔

اسی قسم کی مثالیں ہمیں دُنیا میں عام نظر آتی ہیں جدید مغربی طبّی ادویات جو کہ بیمار انسانوں کے لئے فائدے مند بھی ہیں وہاں اُن کے ضمنی اثرات اور ری ایکشن بھی عام سی بات ہیں۔ مثلاً پنسلین کے انجکشن سے اکثر اوقات مریض کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے ایموڈیم نامی دوا جو عام طور پر دست بند کرنے کے لئے استعمال کرائی جاتی ہے اکثر آنتوں کے نظام کو مفلوج و ناکارہ کر کے بعد میں مریض کی موت کا سبب بنتی ہے۔ فینائل بیوٹازون نامی دوا جو عام طور پر جوڑوں کے درد میں استعمال ہوتی ہے ہڈی کے گودے کو سخت نقصان پہنچا کر شدید خون کی کمی کا باعث بنتی ہے۔ درد اور بخار میں استعمال ہونے والی مشہور دوا ڈائپرون خون کے سفید خلیات میں شدید کمی کا باعث بنتی ہے جس کی وجہ سے جسم کا مدافعتی نظام کمزور ہو جاتا ہے اسی طرح ٹی بی کے مرض میں استعمال ہونے والی ادویات گردے جگر کی خرابی بہرہ پن یہاں تک کہ اندھے پن کا باعث بھی اکثر اوقات بن جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ انگریزی ادویات کے چھوٹے چھوٹے ضمنی اثرات تو بہت سارے ہیں جیسے غنودگی، چکر ، پیٹ کا درد ، دست ، الٹی ، معدے کا السر ، خارش ، دانے ، بے خوابی ، بے چینی اور گھبراہٹ وغیرہ اس کے برعکس قدرتی طریقۂ علاج مثلاً حکمت یا ہربل میڈیسن، ہومیوپیتھی، ایکو پنکچر وغیرہ میں ضمنی اثرات بہت کم ہیں اور اس کے برعکس روحانی طریقۂ علاج مثلاً دم درود ، جھاڑ پھونک، علاج بذریعہ مراقبہ، رنگ و روشنی سے علاج ، ریکی ہیلنگ، سمدا ہیلنگ اور نجمی شفائی توانائی سے علاج کے ضمنی اثرات بالکل نہیں ہیں۔ لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہر طریقۂ علاج اپنی خوبی و خامیوں کے باوجود اپنی جگہ ایک مُسلِّمہ اہمیت کا حامل ہے جس سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کر سکتا کیونکہ آج تک دُنیا میں جتنے بھی قسم کے علاج دریافت کئے گئے ہیں وہ سب انسانیت کی بھلائی کے لئے ہیں اُن کا مقصد بیمار لوگوں کو بیماری سے نجات دلانا اور تندرستی برقرار رکھتے ہوئے زندگی کو بہتر بنانا ہے اسی سوچ کو برقرار رکھتے ہوئے نجمی شفائی توانائی کے نام سے ایک رُوحانی سائنسی شفائی طریقہ متعارف کرایا جا رہا ہے جو بظاہر جاپانی طریقۂ علاج ریکی ہیلنگ جیسا نظر آتا ہے لیکن شفائی طاقت کے لحاظ سے ریکی سے بہتر ہے۔

اس کی وجہ اس کے بنیادی نظریات کا فرق ہے ریکی ہیلنگ میں صرف کائناتی طاقتوں پر یقین کیا جاتا ہے جبکہ نجمی شفائی توانائی کے علم کا تعلق اللہ تعالیٰ پر یقین سے ہے اور ا س کا تعلق اسلام سے ہے کہ جسے قرآن پاک میں دین حنیف بھی کہا گیا ہے ریکی ہیلنگ اپنے کمیونسٹ نظریات کے باوجود ایک رُوحانی طریقۂ علاج کہلاتا ہے جس کا تعلق ماورائی یا غیب کی دُنیا سے جوڑا جا تا ہے جبکہ رُوحانیت سے تو اللہ تعالیٰ کا سراغ ملتا ہے۔ اس کی ایک مثال گو تم بدھ کی ہے جو کہ بدھ مذہب کا بانی اور اپنے وقت کا بادشاہ تھا لیکن اکثر خالق کائنات کے بارے میں سوچا کرتا تھا اور ایک دن اسی بیقراری کے سبب تخت و تاج کو ٹھو کر مار کر خدا کو تلاش کرنے کے لیے جنگل میں نکل گیا۔ جب مادی طور پر خدا نہ ملا تو وہ تھک ہار کر ایک درخت کے نیچے آنکھیں بند کر کے بیٹھ گیا اور مراقبے کی حالت میں چلا گیا تب اُسے خدا کی طرف سے کچھ الہام وغیرہ ہوا تو اس طرح سے اُس نے خدا کو پا لیا اور پھر اپنے پیروکاروں کو خدا کی طرف سے توحید اور علم و حکمت پر مبنی اچھی تعلیمات دیں ، لیکن وقت اور زمانے کے ساتھ ساتھ ان پیروکاروں نے دین میں تبدیلیاں کرنی شروع کر دیں۔ اسی طرح دیگر پیغمبروں کی امتوں نے بھی ایسا ہی کیا اور شرک اور بت پرستی کی طرف چلے گئے آخر کار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی کی حیثیت سے دین اسلام لے کر آئے جس میں پہلا زور توحید پر دیا گیا۔ روایات کے مطابق اب تک دُنیا میں تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے اکرام تشریف لا چکے ہیں اور زمین کے تقریباً ہر خطے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت آ چکی ہے۔ تقریباً ہر مذہب میں رُوحانی عبادت کے ساتھ کچھ نہ کچھ جسمانی وظیفہ بھی مقرر ہوتا ہے مثلاً ہندو مذہب میں یوگا جو ایک جسمانی ورزش ہونے کے ساتھ ساتھ رُوحانی عبادت سے بھی منسلک ہے بالکل اسی طرح سے اسلام میں پانچ وقت کی نمازیں ہیں جو ایک بہترین ورزش ہونے کے ساتھ ساتھ رُوحانی عبادت سے بھی منسلک ہے۔

نماز سے پوری طرح سے وہی لوگ فیضیاب ہوتے ہیں جو اسے اپنے پورے اہتمام اخلاص اور ذہنی یکسوئی کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ نماز سے ایک خاص قسم کا ذہنی اور قلبی سکون حاصل ہوتا ہے جسکی وجہ سے انسان بہت ساری رُوحانی، نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے آج کل تقریباً اسّی فیصد80% بیماریوں کی وجہ یہی ذہنی خلفشار ہی ہے۔

جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ زمین کے ہر حصّے پر خدا کی طرف سے ہدایت اور علم و حکمت کی باتیں مختلف رُوحانی ہستیوں کے ذریعے آتی رہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ناپید ہوتی گئیں ، ہماری یہ دُنیا ماضی میں کئی بار تباہ ہوئی اور پھر سے دوبارہ آباد ہوئی جسکی وجہ سے ماضی کی علم و حکمت (سائنس)بھی پردے میں چلی گئی۔ مثلاً اہرام مصر کے اسرارورموز کے بارے میں آج تک سائنسی ماہرین پوری طرح سے واقفیت حاصل نہیں کر سکے کہ اب سے پانچ ہزار سال پہلے تین ٹن سے لے کر ایک ہزار ٹن وزنی پتھروں کو اینٹوں کی شکل میں ڈھال کر اتنی بلندی پر کس طرح پہنچایا گیا اور اُن کو اس مہارت سے لگایا گیا کہ دو پتھروں کے درمیان ایک پوسٹ کارڈ تک نہیں    جا سکتا۔ پانچ ہزار سال پہلے ایسا سیمنٹ استعمال ہو چکا ہے کہ جسکی مثال آج تک نہیں ملتی یہ اہرام اکسٹھ 61ڈگری کے زاوئیے پر بنائے گئے ہیں اور ان کی دیواریں کافی موٹی ہیں لیکن اس کے باوجود اس کی سطح ہموار اور% 0.0008 فیصد تک درست ہیں۔ ماہرین فن تعمیر کہتے ہیں کہ اہرام سے زیادہ جیومیٹری کی مضبوط شکل ممکن نہیں۔ یقیناً یہ اعلیٰ درجے کی جیومیٹری اور ریاضی کے علم کا مظہر ہیں یقیناً اُن لوگوں کے پیمانے آج سے کہیں زیادہ درست تھے۔ ریکی طریقۂ علاج بھی قدیم ترین شفائی طریقۂ علاج تھا جو ناپید ہو چکا تھا جسے ڈاکٹر میکاؤ اوسوئی نے دوبارہ دریافت کیا تھا ریکی، سمدا اور نجمی شفائی توانائی میں ایک ہی شفائی توانائی استعمال ہوتی ہے لیکن نجمی شفائی توانائی میں حقیقی شفائی نظریئے کو واضح کیا گیا ہے اور شفاء کو منجانب اللہ تعالیٰ قرار دیا گیا ہے۔

 

 

 

 

انسانی دماغ

 

رُوحانی علم کے مطابق انسان کا وجود تین پرتوں سے مل کر بنا ہے جو کہ رُوح، جسم مثالی) Aura ( اور مادی جسم کہلاتے ہیں۔ اسی مناسبت سے انسانی ذہن کے بھی تین حصّے ہیں جو کہ شعور، لاشعور اور تحتُ الشّعور کہلاتے ہیں۔

(1) شعور : شعور اُس انسانی ذہن کو کہتے ہیں کہ جس کا تعلق مادی دماغ (Brain) سے ہے اور انسان اس سے مادی دُنیا میں کام کاج لیتا ہے اور دُنیاوی علوم و فنون حاصل کرتا ہے اس کا تعلق بیداری یا جاگنے کے حواس سے ہے اور یہ زمان و مکاں (Time & Space)کی قید میں جکڑا ہوا ہوتا ہے۔

(2) لاشعور : لاشعور انسانی جسم مثالی جو کہ ہمارا روشنیوں سے بنا ہوا جسمAura بھی کہلاتا ہے اُس کا دماغ ہے اس کا تعلق نیند یا خواب کے حواس سے ہے اور یہ کششِ ثقل اور زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہے اس کی رفتار روشنی جتنی تیز ہوتی ہے اس کی فریکوئنسی اعرافی ہوتی ہے اور انسان مرنے کے بعد اسی جسم یعنی جسم مثالی کے ساتھ عالم اعراف میں زندگی گزارتا ہے۔

(3) تحتُ الشّعور : اسی طرح تحتُ الشّعور انسانی رُوح کا دماغ کہلاتا ہے۔ رُوح جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں امر ربّی قرار دیا ہے، رُوح کیونکہ زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہے اس لئے انسانی تحت الشّعور بھی زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہے انسانی تحتُ الشّعور میں ازل سے ابد تک اس کائنات میں جو کچھ ہو چکا ہے یا ہونے والا ہے اس کا مکمل ریکارڈ بطور فلم کے موجود ہے۔

اگر انسان اپنے اختیار سے تحتُ الشّعور تک رسائی حاصل کرنا چاہے تو اُسے مراقبے کی مشق کرنی پڑے گی کہ جس کا تعلق ذہنی یکسوئی سے ہے۔ امام غزالی نے ذہنی یکسوئی حاصل کرنے اور رُوحانی ترقی کے لئے فرمایا تھا کہ ایک روشن شمع کو مسلسل دیکھا جائے یہاں تک کہ شمع کو دیکھنے والا اپنے اردگرد کے ماحول اور اپنی ذات تک کو بالکل بھول جائے اُس کے بعد شمع کے تصّور کو اپنی پیشانی پر لائے اُس کے بعد دائیں جانب اور پھر بائیں جانب لائے اور پھر سر کی پشت کی جانب لے جائے۔

اسی ذہنی یکسوئی کو حاصل کرنے کے لئے بدھ مذہب میں سانس کی آمد و رفت پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے ہندو مذہب میں یوگا میں پیشانی یا ناک کی نوک پر توجہ مرکوز کرائی جاتی ہے جبکہ مسلمانوں میں قوالی میں کچھ الفاظوں کی خاص انداز میں لے اور موسیقی کے ساتھ تکرار کی جاتی ہے اور اُس پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں ایک خاص کیفیت پیدا ہوتی ہے جس کو حال کہا جاتا ہے یا ذکر اور وظیفے میں کسی لفظ کی تکرار کی جاتی ہے۔ ان تمام طریقوں پر زمانۂ قدیم سے ہی عمل کیا جا رہا ہے لیکن ماہرین علم کے مطابق آج کے مغربی سائنسی ماہرین نے ان تمام ٹیکنکس میں چھپے پوشیدہ رازوں سے کافی حد تک واقفیت حاصل کر لی ہے۔

ماہرین نفسیات نے تجربات سے یہ بات معلوم کی ہے کہ اس قسم کی خاص ارتکاز توجہ سے دماغی لہروں میں ایک خاص قسم کی تبدیلی واقع ہونے لگتی ہے عام حالات میں انسانی دماغ میں بیٹا لہریں (Beta Waves)پیدا ہوتی رہتی ہیں بیٹا لہروں میں انسانی ذہن کی حا لت اُس بندر کی مانند ہوتی ہے جو ایک شاخ سے دوسری شاخ پر لپکتا رہتا ہے اسی طرح سے انسانی ذہن بھی ایک خیال سے دوسرے خیال کی طرف لپکتا رہتا ہے یعنی خیالات کا ایک لامتناہی سلسلہ سا چلتا رہتا ہے۔

جب انسان ارتکاز توجہ کی کوئی مشق کرتا ہے جیسے مراقبہ وغیرہ تو بیٹا لہریں الفا لہروں (Alpha Waves)میں تبدیل ہونے لگتی ہیں جس سے سکون کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے اور جسم میں کیمیائی تبدیلیاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں خون میں موجود لکٹیٹ(Lactate)میں کمی واقع ہونا شروع ہو جاتی ہے جبکہ خون میں لکٹیٹ کی موجودگی سے تھکن پیدا ہوتی ہے الفا لہروں کی وجہ سے تنفس اور دل کی رفتار میں ایک حد تک کمی واقع ہوتی ہے دوران مراقبہ اور مراقبے کے بعد ذہنی اور جسمانی تھکن دور ہو جاتی ہے اسی الفا ہی کی موجودگی میں انسانی ذہن کی خفیہ صلاحیتیں بیدار ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

انسان کے دماغ کا اوپری حصّہ دو حصّوں پر مشتمل ہے دائیں حصّے کو ہم(Right Cerebral Hemisphere)کہتے ہیں جبکہ بائیں حصّے کو ہم(Left Cerebral Hemisphere) کہتے ہیں۔ دماغ کے بائیں نیم کرّہ کا کام یا تعلق گفتگو ، جسمانی حرکات کے کنٹرول اور منطقی سوچ سے ہے جبکہ دائیاں نیم کرّہ زندگی کے اعمال میں خاموش رہتا ہے ماہرین سائنس نے تحقیقات سے یہ بات معلوم کی ہے کہ ماورائے ادراک(E.S.P)مستقبل بینی، ٹیلی پیتھی، جادو اور دوسرے قسم کے ماورائی اور غیر معمولی اعمال وغیرہ دماغ کے دائیں نیم کرّہ سے صادر ہوتے ہیں۔

ماہرین علم و سائنس آج اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مغربی اقوام کے افراد دماغ کے بائیں کرّہ سے زیادہ کام لیتے ہیں جس کی وجہ سے مغربی ممالک نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں خاصی ترقی کی ہے اس کے بر عکس مشرقی ممالک کے افراد میں دماغ کا دائیاں کرّہ زیادہ استعمال ہوتا ہے اسی لئے دُنیا کے اہم مذاہب اور اعلیٰ درجہ کی شاعری اور فنون وغیرہ مشرقی اقوام کی ملکیت رہے ہیں۔

ن تمام باتوں سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ الفا لہروں کی حالت میں دماغ کا دائیاں کرّہ بھی بیدار ہونا شروع ہو جاتا ہے جب مراقبے میں گہرائی پیدا ہوتی ہے تو الفا لہریں تھیٹا لہروں (Theta Waves) میں آہستہ آہستہ تبدیل ہونا شروع ہو جاتی ہیں سائنسی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ غیر معمولی ذہین افراد(Geniuses) میں الفا لہریں عام طور پر اور تھیٹا لہریں خاص طور پر زیادہ پیدا ہوتی ہیں اور ان لوگوں کو اس پر کافی کنٹرول حاصل ہوتا ہے۔

تھیٹا لہروں کے عمل کے نتیجے میں ذہن انسانی ایسی حالت میں چلا جاتا ہے کہ شاہد اور مشہود دونوں معدوم ہو جاتے ہیں ایسی حالت کو ہندو یوگا میں ساروتی(Saroti)بدھ مذہب میں ’’نروان‘‘ اور تصوف کی زبان میں ’’فنا‘‘ کہا جاتا ہے یہ ایسی نفسی کیفیت ہے جو ہمیشہ الفاظ کی گرفت سے آزاد رہی ہے وہ تمام لوگ جو اس کیفیت سے گزر چکے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’’حقیقت اولیٰ میں اُن کی ذات ضم یا فنا ہو جاتی ہے ‘‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ حقیقت اولیٰ ہے کیا؟…. اس کے بارے میں آج تک خاموشی ہے کیونکہ یہ ذاتی تجربہ قلم زد ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔

ماہرین نفسیات اس ذاتی تجربے کو محض قوت خیال کی پیداوار قرار دیتے ہیں لیکن تخیل کی قوت انسان کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے اس بارے میں مشہور سائنسدان آئن اسٹائن نے بھی کہا تھا کہ ’’تخیل علم سے زیادہ اہم ہے۔ ‘‘

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سائنسی ماہرین کے مطابق اب تک کے انسان نے جو علم و سائنس کے میدان میں اتنی حیرت انگیز ترقی کی ہے اس میں انسان کا صرف دس فیصد10% دماغ استعمال ہوا ہے کچھ ماہرین نفسیات کا یہ بھی خیال ہے کہ انسانی دماغ کا دس فیصد10%حصّہ شعور پر مشتمل ہے اور باقی نوے فیصد90% حصّہ لاشعور پر مبنی ہے۔

الغرض یہ کہ انسان نے اب تک صرف دس فیصد دماغ ہی استعمال کیا ہے اگر ہم دین اور رُوحانی علم کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ سلام کے پتلے میں اپنی رُوح پھونکی تھی اور ساتھ ساتھ اُنہیں علم الاسماء بھی عطا کیا تھا اور تمام فرشتوں کو حضرت آدم علیہ سلام کے آگے سجدے کا حکم دیا تھا تو اُس وقت آدم کا دماغ یقیناً سو فیصد100%کام کر رہا تھا۔

کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ سلام کو اپنا نائب اور خلیفہ قرار دیا تھا اور کائناتی اِسرار و رموز کا علم، علم الاسماء کی صورت میں عطا کیا تھا کہ جس کا علم فرشتوں کو بھی نہیں تھا۔ اس بات سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت آدم علیہ سلام کا اشرف المخلوق ہونا علم الاسماء کی وجہ سے ہے۔

اس کائنات میں جتنا بھی اور جس قسم کا بھی علم موجود ہے اُس کا تعلق کسی نہ کسی طرح علم الاسماء سے ضرور ہے یہاں تک کہ دُنیاوی سائنس یا اُس کی کسی شاخ کا علم ہی کیوں نہ ہو، یہ بات ایک عام ذہن کو عجیب سی ضرور لگے گی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کیونکہ ہر ایجاد کے پیچھے موجد کا ذہنی یکسوئی کے ساتھ گہرا تفکر موجود ہوتا ہے اور گہری یکسوئی کا نام مراقبہ ہے اور مراقبے کی حالت میں انسان کا لاشعور متحرک ہو جاتا ہے اور لاشعوری دُنیا یعنی غیب سے اطلاع آنی شروع ہو جاتی ہے تو اس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ہر ایجاد کا تعلق یا دارومدار غیبی اطلاعInformation) (پر منحصر ہے۔

تمام رُوحانی لوگوں ، صوفیائے اکرام اور اولیاء اللہ حضرات میں اُن کی ریاضت اور مجاہدوں کے مطابق دس فیصد سے بھی زیادہ ذہن کام کرنے لگتا ہے مثلاً پندرہ بیس پچیس تیس وغیرہ یا اس سے بھی کہیں زیادہ تب ان حضرات سے ایسی ایسی خلاف عقل باتیں صادر ہونے لگتی ہیں کہ جنہیں ہم عرف عام میں معجزہ یا کرامت کہتے ہیں۔ ہمارے ماہرین طب و نفسیات دماغ اور ذہن کی تشریح کچھ اس طرح سے کرتے ہیں۔

 

دماغ(Brain)اور ذہن(Mind)میں فرق

 

انسان کو اشرف المخلوقات کے بلند درجے پر فائز کرنے والی خدا کی ذات ارشاد فرماتی ہے ’’لقد خلقناالانسان فی احسن تقویم‘‘ ترجمہ ’’ہم نے انسان کو بہترین شکل میں پیدا کیا۔ ‘‘

دماغ (Brain):۔ جس طرح TV کا اپنا ایک سائز بناوٹ تاریں اور کنکشن ہوتا ہے بالکل اسی طرح دماغ کا ایک خاص سائز ایک خاص بناوٹ ہے جس میں بے شمار تاریں اور کنکشن موجود ہیں۔ دماغ کا 76فیصد حصّہ زبانوں اور عقل و شعور سے متعلق نیوکورٹیکس کہلاتا ہے۔ دماغ کا بایاں حصّہ جسم کے دائیں حصّے کو کنٹرول کرتا ہے اور دائیاں حصّہ بائیں حصّے کو کنٹرول کرتا ہے۔ مردوں میں دماغ کا اوسط وزن 1380گرام اور عورتوں میں 1250گرام ہوتا ہے دماغ کی خرابیوں اور بیماریوں کے علم کو نیورولوجی میں شامل کیا جاتا ہے اور اس علم کا ماہر نیورولوجسٹ کہلاتا ہے دماغ کو چار حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

1.Frontal Lobe

  1. Parietal Lobe
  2. Occipital Lobe
  3. Temporal Lobe

ذہن (Mind):۔ ذہن TVکے پروگرام کی طرح ہوتا ہے رنگ برنگے خیالات ، احساسات، سوچیں ، خواب اور رویے یہ سب دماغ کے پروگرام ہیں جسے ذہن کہتے ہیں دماغ کا وزن کیا جا سکتا ہے مگر ذہن کا نہیں۔ دماغ کو دیکھا جا سکتا ہے مگر ذہن کو نہیں۔ عورتوں اور مردوں کے ذہنوں میں فرق پایا جاتا ہے۔

کیمرج یونیورسٹی کے پروفیسر سائمن بیرن کوہن کے مطابق عورت کا ذہن ’’ہمدردی‘‘ اور مرد کا ذہن ’’تجزیہ‘‘ ہے عورتیں دوسرے لوگوں اور ماحول سے زیادہ ربط رکھنا پسند کرتی ہیں۔ اُن کی شخصیت کا سماجی پہلو مردوں کی نسبت کہیں زیادہ مضبوط ہوتا ہے اور وہ زیادہ آسانی سے چہرے کے تاثرات کو پہچان لیتی ہیں۔

انسانی سماج میں اظہار کا سب سے اہم آلہ زبان ہے اس لئے عورتیں زبان کے معاملے میں بھی مردوں سے کہیں آگے ہوتی ہیں۔ ذہن کی خرابیوں اور بیماریوں کے علم کو سائیکاٹری(Psychiatry)میں شامل کیا جاتا ہے اور اس علم کا ماہر سائیکاٹرسٹ(Psychiatrist)کہلاتا ہے۔

ذہن کو تین حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

۱) شعور (Conscious Mind)

۲) تحتُ الشّعور (Subconscious Mind)

۳) لاشعور (Unconscious Mind)

 

 

 

 

     تعارف

 

نجمی شفائی توانائی کے علمی تعارف کے ساتھ ساتھ اس کی عملی مشقوں کا آغاز سن 2001ء میں کیا گیا تھا، شروع میں کچھ مخصوص لوگوں کو اس کی تربیت دی گئی تھی جو کچھ نہ کچھ رُوحانی علم سے دلچسپی اور واقفیت رکھتے تھے اور بعد میں اُن لوگوں سے بیمار و پریشان حال لوگوں کو غیر معمولی فائدہ پہنچا، آج اس رُوحانی علم کو باضابطہ طریقے سے عوام النّاس کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے تاکہ وہ خود بھی اس سے فائدہ اٹھائیں اور دوسروں کو بھی فیضیاب کر سکیں۔

نجمی شفائی توانائی دُنیا کا پہلا باقاعدہ اسلامی نظریاتی اور رُوحانی سائنسی طریقۂ علاج ہے جس میں رُوحانی تصّرف کے ذریعے بیمار و لا علاج لوگوں کا علاج کیا جاتا ہے اس علم کے چار درجے یا لیولز(Levels)ہیں جو کہ ناسوتی ، ملکوتی ، جبروتی اور لاہوتی کہلاتے ہیں اس علم کے اسلامی نظریاتی ہونے کے باوجود بلا امتیاز مذہب و ملّت ہر شخص باآسانی اسے سیکھ سکتا ہے اور اس کا ماسٹر کورس کر کے دوسروں کو بھی سکھا سکتا ہے۔

اس علم کی مثال ایک روشن شمع کی سی ہے جو کہ خود بھی روشنی دیتی ہے اور غیر روشن شمع کو بھی روشن کرتی ہے۔ آج کل دُنیا میں مختلف ہیلنگ ٹیکنکس سکھائی جا رہی ہیں مثلاً ریکی ہیلنگ(Reiki Healing)جو گزشتہ سو(100)سال سے رائج ہے اور سمدا ہیلنگ(Samda Healing)جو کہ آج کل مقبول ہو رہی ہے ریکی کی ترقی یافتہ شکل ہے اور ریکی سے ستّر فیصد(70%)سے اسّی فیصد(80%)گنا سے زیادہ طاقت ور بتائی جا رہی ہے۔

جبکہ نجمی ہیلنگ انرجی تمام ہیلنگ ٹیکنکس سے زیادہ طاقت ور ثابت ہو رہی ہے اس میں کامیابی کی شرح نوے فیصد90%) (سے نناوے فیصد(99%)تک ہے سو فیصد(100%)اور مکمل تو خداوند تعالیٰ کی ذات ہے نجمی ہیلنگ انرجی کے صرف چار درجے یا لیولز ہیں جو کہ سمدا ہیلنگ کے تمام درجوں کے برابر اور بہتر ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم نجمی شفائی توانائی کے درجوں (Levels)کا ذکر شروع کریں پہلے ریکی اور سمدا کا مختصر تعارف اور چند سوالات کے جوا بات دینا اشد ضروری ہیں۔

 

 

   ریکی طریقۂ علاج کا تعارف

 

ریکی ایک جاپانی لفظ ہے جو دوا لفاظ ’’رے‘‘ ‘Rei’او ’’کی‘‘ ‘Ki’سے مل کر بنا ہے رے کا مطلب ہے کائناتی اور کی کا مطلب ہے قوت حیات اس لیئے ریکی کا مطلب ہوا کائناتی قوت حیات ریکی طریقۂ علاج کا تعلق ملک جاپان سے ہے جسے اب سے تقریباً سو برس پہلے ڈاکٹر میکاؤاُوسوئی(Mikao Usui)نے دریافت کیا تھا جو کہ 15 اگست 1865ء میں جاپان کے شہر ’’کیوتو ‘‘(Kyoto)کے ایک گاؤں ’’تانیائی مورا ‘‘( Taniai-mura)میں پیدا ہوئے تھے۔

اُن کا تعلق ایک اچھے متوسط گھرانے سے تھا ابتدائی تعلیم کا آغاز اُنہوں نے ٹنڈائی بڈھسٹ مونیسٹری اسکول (Tendai Buddhist monastery school ) سے کیا وہ اپنے اساتذہ کے نزدیک بہت ذہین اور محنتی طالب علم تھے اُن کو شروع ہی سے علم طب ، علم نفسیات اور علم قسمت سے بڑا لگاؤ تھا اور بعد میں اُنہوں نے ان علوم کا مطالعہ بھی کیا ڈاکٹر میکاؤاُوسوئی عقیدے کے لحاظ سے عیسائی مذہب کے ماننے والے تھے اور وہ کرسچن بوائزاسکول کے ہیڈ ماسٹر بھی تھے اس کے ساتھ ساتھ وہ اتوار کوعیسائی مذہب کے حوالے سے واعظ بھی دیا کرتے تھے۔

ایک دن اُن کے کچھ شاگردوں نے بائبل کے مطابق حضرت عیسٰی ؑ کے وہ معجزات کہ جن کے مطابق وہ لوگوں کو شفاء دیا کرتے تھے اُن کی سائنسی توجیہہ دریافت کرنے لگے تو اُنہوں نے کہا کہ میں اس کی تحقیق کرنے کے بعد ہی اس کے بارے میں کچھ بتا سکوں گا وہ ان سوالات سے اتنے متاثر ہوئے کہ اسکول کی نو کری چھوڑ کر بیرون ملک کا سفر اختیار کیا۔

پہلے امریکہ روانہ ہوئے وہاں شکاگو یونیورسٹی میں اُنہوں نے انجیل مقدّس اور انجیل سے متعلقہ صحائف کا مطالعہ کیا اور کئی پادری صاحبان سے حضرت عیسٰی ؑ کے شفائی معجزات پر خاصی بحث بھی کی لیکن اُنہیں ہر جگہ مایوسی کا سامنا کرنا پڑا پھر اُس کے بعد ڈاکٹر میکاؤاُوسوئی نے امریکہ سے چائنا کا سفر اختیار کیا جہاں وہ تبت بھی گئے اور بدھ مذہب کے رہنماؤں سے بھی ملے۔ بدھ مذہب کے مطالعے کے لئے اُنہیں سنسکرت زبان بھی سیکھنا پڑی آخر کار اُنہیں قدیم کتابوں میں شفائی علم سے متعلق کچھ مواد مل ہی گیا، یہ کچھ سیمبول(Symbol)وغیرہ تھے مگر یہ کس طرح سے پڑھے جاتے تھے اور اس میں کس طرح سے آوازیں نکالی جاتی تھیں وہ اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ نہ لگا سکے ایک دن اُنہیں مراقبے کے دوران ماورائی آواز میں کچھ الفاظ سُنائی دیئے جس سے اُن کی خوشی کی انتہا نہ رہی کیوں کہ یہ وہی الفاظ تھے جو سیمبول کے تھے اُس کے بعد اُنہوں نے کئی تجربات کئے اور اُن آوازوں کے ساتھ اُن سیمبول کو پڑھا جس کے نتیجے میں اُنھیں کامیابی حاصل ہوئی اور بیماروں کو شفاء نصیب ہوئی۔ اس کے بعد ڈاکٹر میکاؤاُوسوئی نے پہلا ریکی طریقۂ علاج کا کلینک و اسکول اپریل سن 1922ء میں ٹوکیو جاپان میں قائم کیا جلد ہی ریکی کی شہرت جاپان میں پھیلنے لگی۔ ڈاکٹر میکاؤاُوسوئی نے اپنے بہت سے شاگرد بنائے تھے، جن میں ’’چورجیروھیاشی‘‘ کا نام قابل ذکر ہے آخرکار نو 9 مارچ 1926ء کو ڈاکٹر میکاؤ اُوسوئی صرف 61ایکسٹھ برس کی عمر میں انتقال کر گئے اُن کی آخری آرام گاہ ٹوکیو جاپان میں واقع ہے۔

اُن کی وفات کے بعد اُن کے شاگردوں نے ریکی کے فروغ کے لیئے کافی کام کیا مغربی ممالک میں ریکی کا تعارف سن 1970ء میں ہوا اور اُس کے بعد اس کی شہرت مغربی ممالک سے پوری دُنیا میں پھلی گئی ریکی میں دو طریقوں سے علاج کیا جاتا ہے پہلے طریقے میں ہاتھوں سے علاج کیا جاتا ہے جب کہ دوسرے طریقے میں دُور سے علاج کیا جاتا ہے۔

 

 

 

 

سمدا طریقۂ علاج کا تعارف

سمدا بھی ریکی کی طرح کا ایک رُوحانی سائنسی طریقۂ علاج ہے جس کا تعارف ڈاکٹر عبدالصمدمسافر نے چند برس قبل کرا یا تھا۔ ڈاکٹر عبدالصمد مسافر کا تعلق افغانستان کے صوبۂ غزنی کے علاقے رعنا خیل سے ہے اور وہ وہیں پیدا بھی ہوئے تھے بچپن غربت و افلاس محنت و مزدُوری میں گزرا اور اُنہی حالات میں تعلیم حاصل کی اور بعد میں ملک ایران بھی گئے اور پھر پاکستان آئے۔ شروع شروع میں یہاں پر بھی بڑی محنت کی اور چھوٹی چھوٹی ملازمتیں کیں بعد میں لاہور میں ایک انسٹیٹیوٹ قائم کیا جس میں سمدا کی تعلیم دینا شروع کی اور سمدا کے کافی شاگرد بنائے۔

اُس کے بعد کراچی آئے اور ایک ادارے کے تحت سمدا کی تعلیم دینا شروع کی اور سمدا کے کافی شاگرد بنائے۔ ڈاکٹر عبد الصمد مسافر کے مطابق بچپن میں جب وہ افغانستان میں تھے تو اُس وقت اُن کی دوستی دو ماورائی انسانوں سے ہو گئی جن میں ایک کا نام دُور اندیش سمدا تھا جو کہ مرد تھے دوسری خاتون تھیں جن کا نام ژیلیا تھا۔

یہ دونوں ماورائی ہستیاں ہی اُن کی رُوحانی اُستاد ہیں ڈاکٹر عبدالصمد مسافر کے مطابق اُن دونوں ہستیوں کا تعلق ژیلی قوم سے تھا جو پہلے زمین پر رہا کرتی تھی لیکن اب وہ اس دُنیا میں نہیں ہیں بلکہ کسی دوسرے سیّارے پر منتقل ہو چکی ہیں۔      ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ ژیلی مخلوق سے حاصل ہونے والا علم ژیل سائنس کہلاتا ہے سمدا ہیلنگ کا تعلق ژیل سائنس سے ہے یا سمدا ژیل سائنس کی ایک شاخ ہے وہ کہتے ہیں کہ ریکی اور سمدا میں کوئی فرق نہیں ہے۔

فرق ہے تو بس لیول یا طاقت کا فرق ہے ریکی کے دو لیول ہوتے ہیں جبکہ سمدا کے چودہ لیول ہیں ڈاکٹر میکاؤ اُوسوئی کو بھی دُور اندیش سمدا ہی نے دو لیول کی تعلیم دی تھی وہ ڈاکٹر میکاؤاُسوئی کو اس سے زیادہ تعلیم دینا چاہتے تھے مگر ڈاکٹر میکاؤ اُسوئی سے اس کی طاقت برداشت نہ ہو سکی اور وہ بیہوش ہو گئے۔

ڈاکٹر عبدالصمد مسافر کہتے ہیں کہ دُور اندیش سمدا نے کئی سالوں کی مدّت میں برداشت کے مطابق آہستہ آہستہ انہیں سمدا کے چودہ لیول تک کی تعلیم دی اور وہ اُنہی کے کہنے کے مطابق سمدا کی تعلیمات کو عام کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

 

 

 

نجمی توانائی کیسے کام کرتی ہے؟

سب سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس علم کا تعلق خدا پر یقین سے ہے جو کہ اپنی ذات میں یکتا اور واحد ہستی ہے اور اللہ تعالیٰ ہی ساری کائنات کا خالق و مالک ہے اور اُس کی قدرت کل کائنات پر محیط ہے شفاء کا تعلق بھی اُسی کی ذات سے ہے، توہم کہہ سکتے ہیں کہ اس شفائی علم کا تعلق اسلام سے ہے لیکن اس کا تعلق اسلامی شریعت یا شرعی قوانین سے براہ راست ہر گز ہر گز نہیں ہے۔

یہ وضاحت اس لیئے بھی ضروری ہے کہ ہمارے معاشرے کے چند مولوی حضرات اس شفائی علم کو دین میں بدعت قرار دیکر کہیں کوئی فتویٰ ہی نہ لگا دیں جس طرح فزکس کیمسٹری اور دوسرے سائنسی علوم مثلاً طبّی علوم جن میں ہومیوپیتھی ایلوپیتھی حکمت وغیرہ کے اپنے فلسفے و نظریات اور فارمولے ہوتے ہیں جن سے کسی بھی سائنسی ماہر یا علمی شخصیت کو اختلاف ہوسکتا ہے

اسی طرح نجمی شفائی توانائی کے علم یا اس کے کسی بھی نظرئیے سے کسی بھی صاحب علم شخص کو اختلاف ہو سکتا ہے گو کہ یہ ایک مثبت علم ہے مگر پھر بھی ہر شخص کا زاویہ نگاہ اُس کے علم ، تجربے، عمر اور عقیدے کے مطابق ہوتا ہے۔ یہاں ہم کچھ اختلافی نظریات کا تذکرہ کریں گے جو کہ اسلامی نظریات کے لحاظ سے بھی غلط ہیں مثلاً ڈارون کا نظریۂ ارتقا کہ جس میں اُس نے آج کے انسان کو بندر کی ترقی یافتہ نسل قرار دیا ہے یقیناً اُس کے اس نظرئیے سے آج کے تمام سائنسی ماہرین اور صاحب علم حضرات و مفکرین متفق نہیں ہیں اسی طرح فرائڈ جو کہ جدید نفسیات کا بانی سمجھا جاتا ہے اُس نے انسانی خواب کا تعلق براہ راست جنسی بیماریوں سے جوڑ دیا ہے جب کہ مختلف مذاہب میں خواب کوبڑی اہمیت دی گئی ہے جن میں عیسائی یہودی بدھ مت اور ہندو مذاہب شامل ہیں ، جب کہ اسلام میں تو خواب کو بہت ہی خاص اہمیت حاصل ہے سچّے خوابوں کا ذکر قرآن اور حدیث میں بھی آیا ہے قرآن پاک سے خواب کی اہمیت اور اس کی تعبیر کا علم ثابت ہے ایک حدیث میں خواب کو نبوت کا چھیالیسواں حصّہ قرار دیا گیا ہے یعنی نبوت ختم ہو چکی ہے اور وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے اور اب اللہ تعالیٰ کا پیغام یا غیب سے اطلاع صرف اور صرف سچے خوابوں کی صورت میں ہی انسانوں تک پہنچے گی۔

ماہر ین رُوحانیات اور صوفیائے اکرام تو خواب کوبڑی ہی اہمیت دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہماری ساری زندگی بیداری اور خواب میں گزرتی ہے لہٰذا خواب ہماری زندگی کا نصف حصّہ ہیں وہ بتاتے ہیں کہ خواب کی زندگی کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ انسان کے اندر ایسے حواس بھی کام کرتے ہیں کہ جن کے ذریعے انسان کے اوپر غیب کا انکشاف ہو جاتا ہے ، خواب کے حواس میں ہم ٹائم اور اسپیس کے ہاتھوں میں کھلونا نہیں رہتے بلکہ ٹائم اور اسپیس ہمارے لئے کھلونا بن جاتے ہیں۔

خواب میں چونکہ زمان و مکاں کی جکڑ بندیاں نہیں ہوتیں اس لئے ہم خواب کے حواس میں داخل ہو کر اُن حالات کا مشاہدہ کر لیتے ہیں جو زمان و مکاں سے ماورا ہیں اور اس میں کسی خاص آدمی کی تخصیص نہیں ہے کہ کوئی مخصوص انسان ہی اس خواب کے حواس سے بہرہ مند ہو سکتا ہے، ہر آدمی خواب اور بیداری کے حواسوں سے مرکب ہے خواب ، بیداری اور زمان و مکاں سے متعلق علوم کی سب سے زیادہ مستند دستاویز قرآن حکیم ہے قرآن علم الکتاب ہے اور قرآن پر غور و فکر کر کے ہم علم الکتاب حاصل کرسکتے ہیں ، جو انسان یہ فارمولے جان لیتا ہے وہ کسی چیز کو وسائل کے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی قدرت حاصل کر لیتا ہے۔

تقریباً ہر شخص نے اپنی زندگی میں دو چار یا پانچ ایسے سچّے خواب ضرور دیکھے ہوں گے کہ جس کی تعبیر بعد میں من و عن بیداری کی حالت میں شعوری طور پر سامنے آئی ہو گی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس نے خواب میں مجھے دیکھا تو مجھے ہی دیکھا کیوں کہ شیطان میری شکل میں نہیں آسکتا ، یہ تو تھیں چند مثالیں کہ جن سے خواب کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور فرائڈ کا نظریہ بھی غلط ثابت ہوتا ہے۔

ماہرین نفسیات یا نفسیاتی علم کے مطابق وہ تمام لوگ جو کہ اپنے پیغمبر یا صاحب ولایت ہونے کا دعوا کرتے ہیں وہ نفسیا تی بیماری شیزوفرینیا(schizophrenia) کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں کیونکہ نفسیاتی بیماری شیزوفرینیا (schizophrenia) کی کئی قسمیں ہیں جن میں سے ایک خبط عظمت کی قسمparanoid type) ( کہلاتی ہے جس میں مریض خود کو بہت بڑی مقدس ہستی سمجھتا ہے اور اُسے یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ وہ کسی ماورائی ہستی کے کنٹرول میں ہے اور وہی ماورائی ہستی اُس کے تمام اعمال و افعال کو کنٹرول کر رہی ہے اس حوالے سے یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اس نفسیاتی نظرئیے میں خاص اور عام انسان کا کوئی فرق نہیں ہے۔

یقیناً اس قسم کے علوم و نظریات نہ صرف اسلام کے خلاف ہیں بلکہ دوسرے مذاہب کے بھی خلاف ہیں مگر افسوس ہمارے معاشرے کے اکثر با شعور افراد اس قسم کے افکار و نظریات قبول کر کے اپنے ہی دینی اور رُوحانی نظریات کا نہ صرف مذاق اُڑاتے ہیں بلکہ رُوحانی عقائد کے خلاف دلیلیں بھی بڑھ چڑھ کر پیش کرتے ہیں۔

نجمی شفائی توانائی کے علم کا تعلق تصّوف سے ہے اس علم کے چار درجے بیان کئے گئے ہیں جو کہ ناسوتی ، ملکوتی، جبروتی اور لاہوتی کہلاتے ہیں اور جن کا تعلق روشنی، نور اور تجلّی سے ہے، تو اب اس بات کو بھی اچھّی طرح سے سمجھنا چاہیے کہ اس علم کے ماسٹریا شاگرد کے قابو میں روشنی، نور یا تجلّی ہرگز ہرگز نہیں آ جاتی بلکہ معالج ہیلنگ (مریض کے علاج ) کے دوران اپنے لاشعور کو روشنی، نور اور تجلّی کی طاقتوں سے ہم آہنگ کرتا ہے کہ جس سے معالج کو ایک خاص شفائی طاقت حاصل ہوتی ہے کہ جس کے نتیجے میں مریض کو شفاء نصیب ہو جاتی ہے۔

 

 

 

 

     نجمی شفائی توانائی کا حصول

 

رُوحانی علم کے مطابق علم کی دو قسمیں ہیں ایک علم، علم حصولی کہلاتا ہے او ر دوسرے علم کو ہم علم حضوری کہتے ہیں ہم دُنیا وی زندگی میں جو علم کتاب کاپی پنسل کی مدد سے حاصل کرتے ہیں اُسی علم کو علم حصولی کہتے ہیں اس کے برعکس علم حضوری میں کتاب وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ علم تصّرف کے ذریعے سے رُوحانی اُستاد اپنے شاگردوں میں منتقل کرتا ہے بالکل اسی طرح سے نجمی شفائی توانائی کا علم اُستاد یا ماسٹر اپنے شاگردوں میں ایک خاص تصّرف کے ذریعے منتقل کرتا ہے اور شاگرد کے ذہن کو شفائی قوتوں سے منسلک کرتا ہے۔ اسی عمل کو ہم آٹیونمنٹ (Attunement)کہتے ہیں۔ نجمی شفائی توانائی کی طاقت ریکی اور سمدا دونوں طاقتوں پر غالب ہے لہٰذا اگر کوئی شخص نجمی ہیلنگ کی آ ٹیونمنٹ لینے کے بعد ریکی یا سمدا سیکھنے کی کوشش کرے تو اُس کے اندر نجمی شفائی طاقت ہی کی صلاحیت کام کرے گی ریکی اور سمدا کی طاقت ہر گز کام نہیں کرے گی اس کی مثال ایسی ہے کہ کمپیوٹر میں جدید سافٹ ویر انسٹال کرنے کے بعد اُسی سافٹ ویر کا پرانا ورجن انسٹال کرنے کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ کمپیوٹر پرانا ورجن انسٹال کرنے سے بھی منع کر دیتا ہے اسی طرح سے اگر کسی شخص نے سمدا کی آٹیونمنٹ لی ہے تو اُسے ریکی سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

 

 

 

کیا یہ صلاحیت ختم ہو سکتی ہے؟

اگر کوئی بھی شخص خلوص دل سے نجمی شفائی توانائی کے علم کا کوئی بھی لیول یا چاروں لیول حاصل کرتا ہے تو تا دم مرگ یہ شفائی صلاحیت اُس شخص سے کبھی بھی منقطع نہیں ہو گی اور نہ ہی اُسے کوئی چھین سکتا ہے نہ ہی ختم کرسکتا ہے۔

ہاں اگر کوئی بھی شاگرد اپنے اُستاد کا احترام نہ کرے تو اس صلاحیت میں کمی ضرور آسکتی ہے لیکن ختم پھر بھی نہیں ہو گی ہاں اگر اُستاد کا صدق دل سے احترام کیا جائے تواس سے رُوحانی طور پر اضافی صلاحیت شاگرد کو حاصل ہو گی اور مزید رہنمائی حاصل ہو گی، کون شخص بھلا یہ چاہے گا کہ جو نعمت خداوندی اُسے آسانی سے حاصل ہو چکی ہے وہ اُسے آسانی سے ہی گنوا دے۔

 

 

 

نجمی شفائی توانائی کے ضمنی اثرات

جیسا کہ ہم نے گزشتہ صفحات میں ذکر کیا تھا کہ جدید مغربی طریقۂ علاج     ایلو پیتھک میڈیسن کے ضمنی اثرات ہوتے ہیں جبکہ نیچرل میڈیسن میں مثلاً ہربل میڈیسن یعنی جڑی بوٹیوں سے علاج میں ضمنی و مضر اثرات کم اور بعض طریقۂ علاج جیسے ہومیو پیتھک میڈیسن وغیرہ میں نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں جبکہ رُوحانی سائنسی طریقۂ علاج مثلاً رنگ و روشنی سے علاج ، یوگا سے علاج ، ہپناسس اور علاج بذریعہ مراقبہ میں ضمنی و مضر اثرات عام طور پ نہیں ہوتے۔

ہمارے ہاں رُوحانی علم سے متعلق رحمانی اور شیطانی دو قسم کے عقائد یا نظریات پائے جاتے ہیں رحمانی علم رُوحانیت کی وہ شاخ ہے جو اللہ تعالیٰ سے متعلق ہے جس میں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی جاتی ہے جبکہ شیطانی علم، جادو ٹونے اور سفلی یا کالے علم سے متعلق علم ہے اس علم کے یقینی مضر اثرات ہوتے ہیں سفلی یا کالے علم سے لوگوں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے اسلامی شریعت کے مطابق اس علم کو سیکھنے والا، سیکھانے والا اور استعمال کروانے والا دین اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔

قرآن پاک میں جادو یا سحر سے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اور اُن ہزلیات کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان کے عہد سلطنت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے اور سلیمان نے مطلق کفر کی بات نہیں کی بلکہ شیطان ہی کفر کیا کرتے تھے کہ لوگوں کو جادو سیکھایا کرتے تھے اور اُن باتوں کے پیچھے بھی لگ گئے جو شہر بابل میں دو فرشتوں یعنی ہاروت اور ماروت پر اُتری تھیں اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سیکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو ذریعہ آزمائش ہیں تم کفر میں نہ پڑو غرض لوگ اُن سے ایسا جادو سیکھتے جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں اور خدا کے حکم کے سواء وہ اس جادو سے کسی کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے تھے اور کچھ ایسے منتر سیکھتے جو انکو نقصان ہی پہنچاتے اور فائدہ کچھ نہ دیتے اور وہ جانتے تھے کہ جو شخص ایسی چیزوں یعنی سحر اور منتر وغیرہ کا خریدار ہو گا اُس کا آخرت میں کچھ حصّہ نہیں اور جس چیز کے عوض اُنہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا وہ بُری تھیں کاش وہ اس بات کو جانتے‘‘۔ سورہ البقرہ آیت ۱۰۲؎ اور اسی طرح قرآن پاک میں ایک اور جگہ ارشاد ہے ’’جادو گر جہاں جائے فلاح نہیں پائے گا‘‘۔ سورہ طہٰ آیت ۶۹؎ ۔

جادو کے بارے میں ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے تھوڑا سا جادو سیکھا اُس کا معاملہ اللہ سے ختم ہوا۔ (مسند احمد)

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ رُوحانی علم کے مضر اثرات نہیں ہیں تو اس کا مطلب مثبت علم سے ہوتا ہے نہ کہ منفی علم سے، اسی طرح نجمی شفائی توانائی کا علم ایک مثبت علم ہے اور اس علم کا منفی استعمال ہرگز ہرگز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ ایک رحمانی علم ہے اس علم کا معالج جب کسی مریض کا علاج کرتا ہے تو اگر اُس کو کوئی مرض ہے تو مریض کو منتقل نہیں ہوتا اور دوران علاج نہ ہی مریض کی کوئی بیماری معالج کو لگنے کا امکان ہوتا ہے۔

 

 

 

 

     درجۂ اوّل:(Level -1)

 

نجمی شفائی توانائی درجہ اوّل ناسوتی کہلاتا ہے تصّوف کی اصطلاح میں ہماری اس موجودہ مادی دُنیا کو عالم ناسوت کہتے ہیں لہٰذا اس درجے سے عام طور پر عام مادی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے لیکن اس سے کچھ نفسیاتی و رُوحانی بیماریاں بھی ٹھیک ہو جاتی ہیں اس توانائی کا تعلق کشش ثقل سے ہے نجمی ہیلنگ کی آٹیونمنٹ (Attunement) لینے کے بعد اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ شفائی طاقت انسان کی اپنی مقناطیسی طاقت(Human Magnetic Force)سے منسلک ہو جاتی ہے پھر ایسا شخص کسی مریض کے سر پر ایک یا دونوں ہاتھ رکھ کر متعلقہ رُوحانی خُفیہ کو ڈ (Spiritual Secret Code of the Najmi Healing Energy)کے ذریعے توانائی کھولتا ہے اور مریض کو دس منٹ تک انرجی دیتا ہے تو مریض کا مرض دور ہو جاتا ہے اس کے لئے معالج کو کم از کم تین دن مقررہ وقت پر علاج کرنا ضروری ہے۔

نجمی ہیلنگ کی آٹیونمنٹ(Attunement)لینے کے بعد کچھ لوگ اس شک میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ پتہ نہیں ہم شفائی انرجی سے منسلکConnected) ( ہوئے بھی یا نہیں لیکن جب وہ دوسروں کا علاج کرتے ہیں اور مریضوں کو غیر معمولی فائدہ ہونے لگتا ہے تب اُن کا یقین مستحکم ہو جاتا ہے اور پھر ایک پُر اعتماد زندگی کا آغاز ہو جاتا ہے۔

نجمی شفائی توانائی ایک مثبت توانائی ہے جس کے کوئی مضر اثرات نہیں ہیں اس انرجی سے فیضیاب ہونے کے لئے انسان کو منفی رجحانات سے بچنا چاہئے مثلاً نفرت، حسد، غصہ ، تعصب اور تنگ نظری وغیرہ دینی فرائض پورا کرنے والوں میں یہ صلاحیت اور اچھا کام کرتی ہے گو کہ پہلے درجے یا لیول سے بہت زیادہ پیچیدہ امراض کا علاج ممکن نہیں لیکن اگلے لیول میں معالج کی شفائی قوت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے پہلے درجہ میں بذریعہ انسانی مقناطیسی طاقت (H.M.F)کے علاج ہوتا ہے جس کا تعلق جسم مثالی سے ہے۔ جو کہ اپنی حدود میں بہت زیادہ طاقت ور ہے لیکن دوسرے لیول میں روشنی کی طاقت سے علاج ہوتا ہے جس کی رفتار سائنسی ماہرین کے مطابق تقریباً ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہے اس بات سے روشنی کی طاقت اور اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اوراِسی طرح تیسرے درجہ میں نور کی طاقت استعمال ہوتی ہے جس کی رفتار روشنی کی رفتار سے بہت زیادہ ہے اور چوتھے درجہ میں بذریعہ تجلّی علاج ہوتا ہے جس کی رفتار نور سے بھی بہت زیادہ ہے اور یہ سب انسانی عقل و شعور سے ماوراء ہے، اس وقت موجودہ دور میں دُنیائے عالم میں جو شفائی رُوحانی علوم یا ہیلنگ ٹیکنکس بشمول ریکی ہیلنگ سکھائی جا رہی ہیں اُن میں لادینی اور کمیونسٹ نظریات پائے جاتے ہیں مثلاً کائناتی شفائی انرجی پر تو پورا پورا یقین ہے لیکن خالق کائنات کی ذات کا کہیں کچھ پتہ نہیں ہے جبکہ نجمی ہیلنگ کا تعلق ذات باری تعالیٰ پر یقین سے ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی شفائی طاقت ہے جو کائنات میں ہر طرف موجود ہے اس علم کا تعلق اللہ تعالیٰ سے تصوف سے اور رُوحانیت سے ہے رُوحانیت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ دُنیا کی زندگی محض مفروضات پر قائم ہے ہم اکثر اس دُنیا میں جو کچھ دیکھ یا سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ در حقیقت ویسا نہیں ہوتا ہم بیماری میں جو مادی ادویات کھاتے ہیں شفاء اُن میں نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی شفائی انرجی مادی ادویات کے ساتھ مل کر یا منسلک ہو کر عمل کرتی ہے تب ہمیں شفاء ملتی ہے اگر شفاء کا انحصار صرف اور

ا ج بزصرف مادی ادویات پر ہوتا تو کوئی بھی شخص لاعلاج نہیں ہوتا اور میڈیکل سائنس اکثر نا کام نہ ہوتی، تو ثابت ہوا کہ شفاء کا تعلق اللہ تعالیٰ کی شفائی انرجی سے ہے جو کہ غیر مادی یا غیر مرئی قوت ہے۔

اب تو اکثر سائنسدا ن بھی یہ بات سمجھنے لگے ہیں کہ ہماری اس مادی دُنیا کی زندگی کا دارومدار لہروں اور روشنیوں پر ہے۔ ہمارے مادی جسم کے ساتھ ساتھ روشنیوں سے بنا ہوا ایک جسم اور بھی ہوتا ہے جسے صوفیا حضرات نے جسمِ مثالی یا نسمہ کا نام دیا تھا آج سائنسدان اسے اورا (Aura) کے نام سے جانتے ہیں سائنسی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ اورا میں مختلف رنگ کی روشنیوں کا جسمانی اعضاء کے حساب سے ایک خاص توازن ہوتا ہے اور ان روشنیوں کے بگاڑ سے ہی مادی جسم بیمار ہو جاتا ہے اس بات کو بنیاد بنا کر رنگ و روشنی سے علاج کے شفائی طریقے کی بنیاد رکھی گئی کہ جس میں بیماری کے مطابق مختلف رنگ کی شعاعوں اور شعاعوں سے تیار شدہ پانی سے علاج کیا جاتا ہے، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ اس طریقۂ علاج کو ممتاز روحانی اسکالر جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے متعارف کرایا تھا۔

اکثرسائنسدان اب یہ بات بھی اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ اصل زندگی یا اصل انسان صرف مادی جسم ہی نہیں ہے بلکہ اصل زندگی ایک خاص قسم کی روشنی لہریافریکوئنسی ہے جو کہ مادی جسم کو کنٹرول کرتی ہے۔

 

 

 

فرانز اینٹون مسمر

( 1734تا 1815)

 

فرانز اینٹون مسمرجو کہ مسمریزم کے بانی تھے اور یہ علم اُنہیں کے نام سے منسوب تھا، اُس زمانے میں لوگوں کو انسانی ذہن کے بارے میں کچھ اتنا علم نہ تھا جس کی وجہ سے لوگوں نے اُن کی تھیوری کو فراڈ قرار دے دیا اور وہ اُن کے خلاف ہو گئے یہاں تک کہ حکومت وقت بھی اُن کے خلاف ہو گئی اور مسمر کو جلا وطنی کی زندگی گزارنی پڑی لیکن اُنہیں اپنے علم اور تحقیق پر مکمل بھروسہ تھا، اسی علم اور بھروسے کی وجہ سے اُنہوں نے اپنی کوششیں جاری رکھیں ، اس علم کے ذریعے مسمر نے بے شمار لوگوں کی ایسی ایسی بیماریاں ٹھیک کیں جو ادویات کے دائرہ عمل سے باہر تھیں تب آہستہ آہستہ لوگوں کو اس کا شعور اور اہمیت کا اندازہ ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس علم پر کافی تحقیقات ہوئیں اور ماہرین نفسیات نے مسمریزم کو جدید شکل دی ڈاکٹر جیمز بریڈ نے 29جون1942ء کو اس کا نام ہپناٹزم تجویز کیا تھا لہٰذا اُس وقت کے بعد سے یہ علم ہپناٹزم کے نام سے مشہور ہوا اور آج تک زیادہ تر اسی نام سے جانا جاتا ہے اور دُنیا کی بہت سی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے ، مسمر نے ویانا یونیورسٹی سے سن1776ء میں M.D. (ڈاکٹر آف میڈیسن) کی ڈگری حاصل کی تھی، اُنہوں نے اپنے مقالے میں یہ بات لکھی تھی کہ دُور خلا کی گہرائیوں سے ایک انجانی غیر مادی قسم کی قوت آتی ہے جو ذرّے ذرّے میں سرایت کر جاتی ہے اور یہ ہی قوت تمام انسانی و حیوانی صحت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، مسمر نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر یہ بھی بتایا کہ ہر ایک زندہ شئے کے اردگرد ایک مقناطیسی ہالہ سا موجود ہوتا ہے جس کمی و بیشی پر اُس زندہ شئے کی صحت کا انحصار ہوتا ہے اس مقناطیسی قوت کو اُنہوں نے حیوانی مقناطیسیت (Animal Magnetism) کا نام دیا تھا مسمر نے ویانا میں ڈاکٹری کی پریکٹس کے ساتھ ساتھ ایک لیبارٹری بھی قائم کی تھی جس میں وہ مقناطیسی قوت کا استعمال بھی کرتے تھے۔

جس طرح ہماری مادی آنکھ جسم مثالی یا اورا کو نہیں دیکھ سکتی اسی طرح ٹی وی، ریڈیو، ریموٹ اور موبائل فون سے متعلقہ لہروں کو بھی نہیں دیکھ سکتی جبکہ ایکسریز (X-Rays)کی مدد سے جسم کے اندرونی اعضاء کو دیکھا جاتا ہے اور کر لین(Kirlian)فوٹو گرافی کی مدد سے اورا کی تصویریں لی جاتی ہیں۔

 

 

 

کر لین فوٹو گرافی کی ایجاد

 

کر لین فوٹو گرافی کی تاریخ تقریباً اب سے، تے ہتّر73 سال پرانی ہے اس کی ایجاد کا سہرا ، Samyon Davindish Kirlian نامی سائنسدان کے سر ہے جن کا تعلق روس کے شہر Krasnador سے تھا۔ مسٹر کر لین مشہور امریکی سائنسدان ایڈیسن کی طرح چار جماعتیں پڑھے تھے لیکن بلا کے ذہین تھے اور تجسُس کا مادہ تو اُن کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا تھا اُن کو بجلی کے کام سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا وہ بغیر تعلیم و تربیت کے باوجود ہر قسم کی مشین ٹھیک کر لیا کرتے تھے۔

سن1939ء میں ایک دن شہر کے ایک اسپتال میں بجلی کی ایک مشین خراب ہو گئی تو اُسے ٹھیک کرنے کے لیئے مسٹر کر لین کو ہی بلایا گیا اُس مشین کے اندر ایک ہائی فریکوئنسی کوائل Tesla Coil لگی تھی، جونہی مسٹر کر لین نے کوائل کے قریب ہاتھ کیا تو اچانک ایک چمک سی اُٹھی اور کر لین نے اپنے ہاتھ کے ارد گرد روشنیوں کا ایک عجیب و غریب ہالہ سا دیکھا اُنہیں یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی پھر اُنہوں نے کئی مرتبہ ہاتھ کوائل کے قریب کر کے دیکھا تو وہی چمک کے ساتھ عجیب سا ہالہ نظر آیا اس بات سے اُن کے اندر اس کی حقیقت جاننے کا تجسُس پیدا ہوا کہ آخر یہ کیا چیز ہے؟ اس کے لئے اُنہوں نے فوری طور پر Tesla Coilحاصل کیا اور اپنے گھر میں ہی اس پر تجربات شروع کر دیئے اُن کے ذہن میں یہ بات آئی کہ کسی طرح سے کیمرے کی مدد سے اس ہالے کی تصویریں بنوانی چاہیئے اس کے لئے اُنہوں نے اپنی بیوی Velentina سے مدد لی جو فوٹو گرافی کا شوق رکھتی تھیں آخر کار جیسے تیسے اُنہوں نے اس ہالے کی کئی تصویریں بنا ّے زہی لیں ، ایک دن جبکہ وہ کچھ بیماری کی حالت میں تھے تو اُس حالت میں جب اُنہوں نے مشین میں اپنے ہاتھ کے ہالے کو دیکھا تو وہ کچھ مختلف سا نظر آیا، وہ اس کو مشین کی خرابی سمجھے لیکن بعد میں جب وہ صحت یاب ہو گئے تب اُنہوں نے اپنے ہالے کو پہلے کی طرح سے پایا اس بات سے اُنہوں نے یہ اندازہ لگایا کہ بیماری اور صحت کی حالت میں ہالے میں فرق ہوتا ہے بعد میں اُنہوں نے اس پر کافی تجربات کئے اور ثابت کیا کہ بیماری اور صحت کے معاملے میں یہ انسانی ہالہ خاص اہمیت کا حامل ہے اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہر زندہ شے کے اردگرد ایک خاص قسم کی روشنی کا ہالہ موجود ہوتا ہے اس ہالے کو اُنہوں نے Corona کا نام دیا تھا۔ سن1939ء سے سن 1962ء تک روسی حکومت کو مسٹر کر لین کے تجر بات کا علم نہ ہوسکا اس عرصے میں وہ اپنے تجربات میں کافی آگے نکل گئے تھے اور کئی قدرت کے نادیدہ رازوں سے واقف ہو چکے تھے جب حکومت کو اُن کے تجربات کا علم ہوا تو حکومت نے اُن کے تجربات کو جاننے کے لئے سائنسدانوں کا ایک وفد کر لین کے پاس بھیجاسائنسی ماہرین اُن کے کام سے کافی متاثر ہوئے جس کے نتیجے میں اُن کے کام کو حکومتی سرپرستی میں لے لیا گیا اور اس سارے کام کو کر لین فوٹو گرافی کا نام دے دیا گیا شروع شروع میں رُوسیوں نے ان تجربات کو یورپی ممالک سے خفیہ رکھا اور سوائے روسی بلاک کے ممالک کے اس کی خبر کسی ملک کو نہ ہونے دی۔ ڈاکٹر Inshuyin جو کہ الماٹا میں روسی سائنسی اکیڈمی کے سربراہ تھے اُنہوں نے اپنی زیر نگرانی کر لین مشین میں خاصی اضافی تبدیلیاں Improvement کیں اور اسے بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کی لیکن بعد میں سن 1980ء میں بنائے جانے والے کر لین مشین کے ماڈل کی ایک خاصیت یہ بھی تھی کہ اس کے ذریعے انسانی جسم کے صرف ایک خلیے Cell) (کی فوٹو بھی لی جا سکتی تھی اس طرح سے وقت سے پہلے ہی صرف ایک ہی خلیے کی مدد سے آنے والی بیماری کا پتہ لگایا جانا ممکن ہو گیا اور قبل از وقت احتیاطی تدابیر کے ذریعے بیماری سے بچاؤ ممکن ہو گیا رُوسیوں نے زندگی کے بہت سے شعبوں میں کر لین کا استعمال کیا جس زمانے میں امریکیوں نے جھوٹ پکڑنے والی مشین پولی گراف بنائی تھی اور وہ اس کے ذریعے کامیابی سے جھوٹ پکڑتے تھے، روسی اُن کی اس ایجاد سے پہلے ہی کر لین مشین کے ذریعے کامیابی سے جھوٹ پکڑا کرتے تھے یہ وہ زمانہ تھا جب امریکہ اور رُوس کے درمیان سرد جنگ بڑی زوروں پر چل رہی تھی لیکن اس کے باوجود رُوس گندم امریکہ ہی سے لیتا تھا اُس زمانے میں روسیوں نے امریکہ سے درآمد شدہ گندم کے نمونے کر لین مشین پر چیک کرنے شروع کر دیئے تھے اس کے بعد کر لین فوٹو گرافی کو روسیوں نے طبّی مقاصد اور صنعتی شعبوں کے لئے بھی استعمال کرنا شروع کر دیا، سن0 196ء میں برازیل میں I.B.P.P. کے نام سے ایک تنظیم پیراسائیکالوجی پر تحقیقات کر رہی تھی اس دوران ایک اٹالین میگزین میں ایک مضمون جو کر لین فوٹو گرافی پر شائع ہوا تھا اُن کی نظر سے گزرا جس کے نتیجے میں بعد میں تنظیم کے انجینئروں نے اپنے طور پر کر لین مشین جیسی ایک مشین بنا لی اور پھر اُنہوں نے بھی اس سلسلے میں تجربات شروع کر دیئے اور سن1963ء میں اُنہوں نے روسیوں سے بھی پہلے رنگین تصاویر اُتارنے والی کر لین مشین تیار کر لی تھی جس سے انسانی ہالے (Aura) اور اُس کے رنگوں کو سمجھنے میں بہت زیادہ آسانی ہو گئی اور تحقیقات کی نئی راہیں کھل گئیں اسی زمانے میں رومانیہ میں جو کہ روسی بلاک کے ممالک میں آتا تھا وہاں کر لیں فوٹو گرافی پر تحقیقات بڑی تیزی سے جاری تھیں وہاں Domitrescuنام کے ایک ڈاکٹر تھے جو کر لین فوٹو گرافی پر ریسرچ کر رہے تھے ڈاکٹر صاحب ساتھ ساتھ الیکٹرونکس انجینئرنگ میں بھی ڈگری رکھتے تھے اُنہوں نے ایک نئی طرز کی کر لین مشین بنائی اور اُس میں کافی جدتیں پیدا کیں اُن کی مشین اتنی بڑی تھی کہ اس سے پورے انسانی جسم کی تصویر لی جا سکتی تھی جبکہ پہلے بنائی گئی مشین سے صرف ہاتھ کی تصویر لی جا سکتی تھی ڈاکٹر صاحب نے اس کا نام Electrography رکھا اس نئی مشین سے اُنہوں نے قدیم چینی طریقۂ علاج ایکوپنکچر میں استعمال ہونے والے پوائنٹس کی بھی تصویریں لیں۔

 

 

 

   چار بنیادی کائناتی قوتیں

 

سائنسی ماہرین کی تحقیقات کے مطابق ہماری اس کائنات میں چار بنیادی قسم کی طاقتیں پائی جاتی ہیں جن میں میگنیٹک فورس ، الیکٹرو میگنیٹک فورس، نیوکلیئر فورس اور ویک فورس شامل ہیں۔ ایک چھوٹے سے ایٹم سے لے کر کائنات میں پھیلے ہوئے تمام چھوٹے بڑے سیّاروں ، ستاروں اور ہزاروں لاکھوں کہکشاؤں میں یہی چار بنیادی قوتیں پائی جاتی ہیں آئیے اب ہم یہاں اس کی مختصر سی وضاحت کریں۔(1) میگنیٹک فورس یا کشش ثقل ؛ یہ وہ قوت ہے کہ جس کی وجہ سے ہم زمین پر چلتے پھرتے ہیں اور تمام دُنیا کی چیزیں زمین پر قائم ہیں اسی کشش ہی کی وجہ سے چاند زمین کے گرد گھومتا ہے اور ہماری یہ زمین سورج کے گرد چکّر لگاتی ہے۔

(2) الیکٹرو میگنیٹک فورس یا برقی مقناطیسی قوت ؛ ایٹم کے اندر پایا جانے والا الیکٹرون اسی طاقت کی وجہ سے اپنے نیوکلیِس کے گرد گھومتا ہے، روشنی ایکسریز وغیرہ اسی طاقت کا مظہر Manifestation) ( ہیں۔

(3) نیوکلیئر فورس ؛ یہ وہ قوت ہے کہ جس کے سبب ایٹم کا نیوکلیِس اپنی جگہ قائم(Stable) رہتا ہے آج شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جو ایٹم بم اور ایٹمی توانائی سے واقف نہ ہو اس ایجاد کی وجہ یہی قوت ہے۔

(4) ویک فورس ؛ یہ وہ قوت ہے جو صرف ایٹم تک ہی محدود رہتی ہے اس کی مثال ریڈیو ایکٹیوٹی ہے کہ جس کا عمل اسی کے سبب سے ہوتا ہے۔

شروع شروع میں سائنسدانوں کا یہ خیال تھا کہ یہ چاروں قوتیں بالکل الگ الگ ہیں اور ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے لیکن وہ اس بات کو عجیب سا محسوس کرتے تھے، اکثر سائنسدان محسوس کرتے تھے کہ ان قوتوں کا آپس میں کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے لیکن سائنس تجرباتی ثبوت مانگتی ہے۔

البرٹ آئن اسٹائن نے میگنیٹک فورس اور الیکٹرومیگنیٹک فورس کو آپس میں ملانے کی کافی کوشش کی لیکن وہ آخر تک ان دونو طاقتوں کے درمیان تعلق ثابت کرنے میں ناکام رہے، اس کے بعد پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام اور مسٹر وائن برگ نے ایک ایسی تھیوری پیش کی کہ جس کے مطابق الیکٹرو مینگنی فورس اور ویک فورس کو ملا کر صرف ایک فورس یعنی الیکٹرو ویک فورس کر دیا گیا اس تھیوری کی وجہ سے طبعیاتی سائنس میں ایک انقلاب سا آ گیا اور اسی تھیوری ہی کی وجہ سے ڈاکٹر عبدا لسلام اور مسٹر وائن برگ کو نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔

سائنس دانوں نے جنیوا کے مقام پر ایک سائنسی تجربے کی مددسے یہ بات ثابت کی تھی کہ الیکٹرومیگنیٹک فورس اور ویک فورس دراصل ایک ہی قوت ہے لہٰذا اس تجربے کی کامیابی کے بعد اب بنیادی کائناتی طاقتوں کی تعداد صرف تین ہو گئی ہیں جو اب میگنیٹک فورس، الیکٹرو ویک فورس اور نیوکلیِر فورس کہلاتی ہیں اس کے بعد سائنسدانوں نے اس بات کی کوشش شروع کر دی کہ ان تینوں قوتوں کو ملا کر کسی طرح سے ایک کر دیا جائے اس سلسلے میں بھی ڈاکٹر عبدالسلام نے ایک خاص ماڈل تیار کیا تھا اور مختلف ملکوں کے سائنسدانوں نے اس سلسلے میں تجربات بھی شروع کر دیئے تھے جو اب بھی جاری ہیں۔

 

 

 

 

   حلفیہ اقرار نامہ

 

جس طرح کسی خُفیہ و پُر اسرار رُوحانی علم کے حصول سے پہلے اپنے پیرو مرشد یا رُوحانی ماسٹر سے مخصوص خُفیہ راز عوام النّاس سے مخفی رکھنے کا عہد کرنا پڑتا ہے مثلاً ریکی ہیلنگ جو کہ اب سے تقریباً سو سال پہلے ایک جاپانی ڈاکٹر میکا اُوسوئی(Mikao Usui) نے دریافت کی تھی کو سیکھنے کے دوران کچھ سیمبول( (Symbolمنتر وغیرہ پڑھائے جاتے ہیں جن کو خُفیہ رکھنے کی سخت تاکید ہوتی ہے۔ اسی طرح نجمی شفائی توانائی کے علمی حصول کے لئے ا س کے رُوحانی خُفیہ کوڈ(Spiritual Secret Code of the Najmi Healing Energy) اوراس کے طریقۂ کار کو خُفیہ رکھنے کے لئے حلفیہ اقرار کرنا پڑتا ہے۔

ایسا اس لیئے بھی ہے کہ ہر علم کا اپنا الگ الگ نظریہ ، طریقۂ کار اور قانون ہوتا ہے ، ایسا ہی اس علم کے ساتھ بھی ہے اور دوسری یہ حکمت بھی ہے کہ شاگرد کو کسی بھی طرح کے نقصان سے محفوظ رکھا جائے کیوں کہ کسی بھی طرح کی ماورائی طاقت کہ جس سے مثبت کام لیا جاتا ہو، اُسے اگر منفی طریقے سے استعمال کیا جائے یا اس کا راز کسی پر ظاہر کیا جائے تو چاہے ماسٹر ہو یا کہ ہیلر (معالج) دونو کو رُجعت(Reaction) ہو سکتی ہے اور نقصان وغیرہ بھی ہو سکتا ہے جس میں کسی قسم کا بھی نقصان ہو سکتا ہے اس میں مریض کا مرض ہیلر میں منتقل بھی ہو سکتا ہے اور شفائی قوّت (Healing Power)بھی منقطع ہو سکتی ہے۔

رُوحانی علم کے مطابق اس کائنات میں ہر شئے اپنی مخصوص شکل و صورت اور حواس رکھتی ہے یہ بات قرآن پاک سے بھی ثابت ہے قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ہم نے بار امانت کو آسمان اور زمین پر پیش کیا تو اُنہوں نے اس کے اُٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے۔ اور انسان نے اس کو اُٹھا لیا۔ بے شک وہ ظالم اور جاہل تھا‘‘۔ سورہ الاحزاب آیت ۷۲؎۔

قرآن پاک کی اس آیت مبارکہ سے صاف صاف یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ چیزیں جنہیں ہم بے جان سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت میں وہ حواس یا شعور رکھتی ہیں ، تو بالکل اسی طرح سے نجمی شفائی توانائی بھی حواس رکھتی ہے اور جب اس کا غلط یا منفی طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے تو یہ اپنا رد عمل ظاہر کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں نقصان پہنچتا ہے۔

اکثر لوگ یہ بات سوچیں گے کہ ماسٹر بھی تو خفیہ شفائی راز (Spiritual Secret Code of the Najmi Healing Energy) شاگرد کو بتاتا ہے پھر اُسے نقصان کیوں نہیں پہنچتا ، اس کا جواب یہ ہے کہ ماسٹر شاگرد کو اپنی شاگردی میں لینے کے بعد ایک خاص عمل سے گزارتا ہے اور ایک خاص قسم کا تصّرف کرتا ہے اسی عمل کو ہم آٹیونمنٹ (Attunement)کہتے ہیں۔

 

 

 

 

طریقۂ کار درجۂ اوّل

نجمی شفائی توانائی درجہ اوّل سے علاج کا طریقۂ کار کچھ اس طرح سے ہے کہ معالج مریض کو اپنے سامنے بیٹھائے اور پہلے مریض کو آرام دہ حالت میں آنکھیں بند کر کے بیٹھنے کے لئے کہے اور پھر مریض کے سر پر ایک یا دونوں ہاتھ رکھ کر خود بھی آنکھیں بند کرے اور پھر درجۂ اوّل ناسوتی کی طاقت کھولنے کی نیت کرتے ہوئے درجہ اوّل کے رُوحانی خفیہ کوڈ کے ذریعہ توانائی کو کھو لے اور پھر دس منٹ تک مریض کو انرجی دے(ہیلنگ کرے) دس منٹ کے بعد پہلے خود آنکھیں کھولے اور بعد میں مریض سے آنکھیں کھولنے کو کہے۔ معالج مریض کا علاج کرنے سے پہلے تین، پانچ، سات یا گیارہ مرتبہ سانس کی مشق کرے اور اپنے آپ کو قدرے پرسکون کر لے۔ اگر مریض بہت زیادہ بیمار ہے اور بیٹھ نہیں سکتا تو اس صورت میں مریض کو بستر پر ہی لیٹا رہنے دے اوربستر یا بیڈ کے قریب کرسی وغیرہ رکھ لے یا جس طرح سے آسانی ہو مریض کے قریب بیٹھ کر ہیلنگ کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہیلنگ کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ مثلاً جیسے اگر مریض کی پیٹھ وغیرہ میں درد ہے تو اس کے لئے مریض کو لٹا کر یا بیٹھا کر دائیاں ہاتھ مریض کے سر پر رکھے اور بائیاں ہاتھ مریض کی پیٹھ پر رکھ کر علاج کیا جا سکتا ہے یا تکلیف دہ مقام پر ایک یا دونو ہاتھ رکھ کر بھی علاج کیا جا سکتا ہے۔

     درجۂ دوئم:(Level -2)

 

نجمی شفائی توانائی درجۂ دوئم ملکوتی کہلاتا ہے اس کا تعلق روشنی سے ہے لیکن سب سے پہلے ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ روشنی ہے کیا؟ اس کے لئے ہمیں چار عالموں کو سمجھنا ہو گا تصّوف کے علم کے مطابق کل کائنات چار دائروں یا عالموں پر محیط ہے جو بالترتیب عالم لاہوت ، عالم جبروت ، عالم ملکوت اور عالم ناسوت کہلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی تجلی جب عالم لاہوت سے تنزل کر کے عالم جبروت سے گزرتی ہے تو نور بن جاتی ہے اور پھر یہ نور عالم ملکوت سے گزرتا ہے تو روشنی میں تبدیل ہو جاتا ہے اور پھر یہ روشنی تنزل کر کے نسمہ کی شکل اختیار کرتی ہے جو کہ مختلف رنگوں اور گیسوں کا مجموعہ کہلاتا ہے اس ہی کی ترکیب سے مادی دُنیا کی تمام اشیاء تخلیق پاتی ہیں۔

روشنی جب پہلے نسمۂ مفرد کی شکل میں ہوتی ہے تو اس فارمولے کے تحت سب سے پہلے ملائکہ وجود میں آتے ہیں اور اس کے بعد عالم اعراف (برزخ) وجود میں آتا ہے پھر عالم جنّات وجود میں آتا ہے۔

پھر یہ روشنی جب لطیف سے کثیف کی طرف سفر کرتی ہے تو نسمۂ مرکب کہلانے لگتی ہے اور آہستہ آہستہ دوہری شکل اختیار کرتی جاتی ہے تو اس کی حرکت میں انتہائی سستی اور جمود پیدا ہو جاتا ہے اسی سُستی اور جمود کا نام ٹھوس حس ہے۔

نسمہ کی مخصوص حرکت یا فریکوئنسی سے مختلف اشیاء وجود میں آتی ہیں مثلاً اگر روشنی کی اس خاص حرکت یا فریکوئنسی جس سے کہ سونا(Gold) پیدا ہوتا ہے اُس کا نام اے(A) رکھ دیں تو ہمیشہ اے کی فریکوئنسی سے سونا ہی تخلیق ہو گا کوئی اور چیز پیدا نہیں ہو گی ہماری مادی دُنیا میں روشنی کی انتہائی کثیف شکل ہیرا ہے۔

پھر اگر مثبت سے منفی کی طرف جائیں تو بالترتیب مختلف دھاتیں پتھر ، نباتات ، حیوانات اسی طرح پانی بھی روشنی ہی کی لطیف شکل ہے۔ پھر مختلف قسم کی گیسیں وجود میں آتی ہیں اور پھر روشنی کی مزید لطیف شکل سے وہ روشنی وجود میں آتی ہے جو ہمیں آنکھوں سے نظر آتی ہے پھر یہ مزید لطیف ہو کر انفار ریڈ شعاعوں میں تبدیل ہو جاتی ہے جو کہ مادی آنکھ سے نظر نہیں آتی پھر ایکسرے ، الشفاء ، بیٹا ، تھیٹ، گاما اور ریڈیائی لہریں وغیرہ اس کی مثالیں ہو سکتی ہیں جن کو سائنسی ماہرین اچھی طرح سے جانتے ہیں۔

رُوحانی علم کے مطابق ہم دو طرح کے حواس کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں جس حواس میں ہم کشش ثقل اور زمان و مکاں کی قید میں رہتے ہوئے چیزوں کو دیکھتے اور سمجھتے ہیں اس کا نام شعور ہے اور جس حواس میں ہم کشش ثقل اور زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں اس کا نام لاشعور ہے ، شعور اور لاشعور دونوں حواس لہروں پر قائم ہیں شعوری حواس میں کام کرنے والی لہریں اپنی ساخت میں مثلث(Triangle) ہوتی ہیں جبکہ لاشعوری حواس میں کام کرنے والی لہریں دائرہ (Circle)ہوتی ہیں    ہماری زمین بھی شعوری اور لاشعوری حواسوں کی طرح دو رخوں پر قائم ہے ایک رخ کا نام طولانی حرکت ہے اور دوسرے رخ کا نام محوری حرکت ہے جب زمین اپنے مدار پر حرکت کرتی ہے تو وہ طولانی گردش میں ترچھی ہو کر چلتی ہے یہ طولانی گردش مثلث ہے اور محوری گردش دائرہ ہے ہماری تخلیق میں بحیثیت گوشت پوست کے مثلث غالب ہیں جبکہ جنّات میں دائرے غالب ہیں اور فرشتوں کی تخلیق میں جنّات کے مقابلے میں دائرے زیادہ غالب ہیں۔

کیونکہ انسان کے دو رُخ ہیں یعنی غالب رُخ مثلث ہے اور مغلوب رُخ دائرہ ہے اس لئے اگر کسی شخص پر مثلث کا غلبہ کم ہو جائے اور دائرہ غالب آ جائے تو ایسا شخص جنّات ، فرشتوں اور دوسری ماورائی مخلوقات سے متعارف ہو جاتا ہے اور اُن سے گفتگو بھی کرنے لگتا ہے، عالم اعراف اور عالم جنّات ہمارے عالم ناسوت(مادی دُنیا) کے ساتھ ہی ہیں الگ یا دُور دراز نہیں ہیں نسمہ کی تخلیقی ترکیب کے فرق یا فریکوئنسی کے فرق کے سبب ہم عام طور پر مرنے والے لوگوں کی رُوحوں اور جنّات کو دیکھ نہیں سکتے ہیں۔

اس کی مثال اس طرح سے ہو سکتی ہے کہ ہمارے ارد گرد بہت سے شہروں اور ملکوں کے ریڈیو اسٹیشنوں کی فریکوئنسیاں یا لہریں ہر وقت موجود رہتی ہیں اور جب ہمیں اپنا مطلوبہ اسٹیشن سننا ہوتا ہے تو ریڈیو کی سوئی کو مطلوبہ فریکوئنسی پر ٹیون کرنا یا لگانا پڑتا ہے تب ہمیں اُس اسٹیشن سے نشر ہونے والے پروگرام سنائی دیتے ہیں اور اگر   ٹی وی(TV) ہے تو اُس پر دکھائی دیتے ہیں۔

قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’خدا لوگوں کے مرنے کے وقت اُن کی رُوحیں قبض کر لیتا ہے اور جو مرے نہیں اُن کی رُوحیں سوتے میں قبض کر لیتا ہے پھر جن پر موت کا حکم کر چلتا ہے اُن کو روک رکھتا ہے اور باقی رُوحوں کو ایک مقررہ وقت تک کے لئے چھوڑ دیتا ہے جو لوگ فکر کرتے ہیں اُن کے لئے اس میں نشانیاں ہیں ‘‘۔ آیت۴۲؎ سورہ الزمر۔ اللہ تعالیٰ انسان کو ایک مقررہ مدت تک مادی دُنیا میں رکھنا چاہتا ہے لہٰذا نیند کی حالت میں سانس کی آمد و رفت جاری رہتی ہے نیند کی حالت میں انسان چلتا پھرتا محسوس کرتا ہے جسے ہم خواب کی دُنیا کہتے ہیں۔

دراصل یہ خواب کی دُنیا ہی عالم اعراف کی فریکوئنسی ہے اور جب انسان نیند سے بیدار ہوتا ہے تو واپس عالم ناسوت کی فریکوئنسی میں آ جاتا ہے مرنے کے بعد مادی جسم مٹی میں مل جاتا ہے اور انسان جسم مثالی یعنی اورا(Aura) کے ساتھ مثالی دُنیا جسے ہم اورا(Aura) کی دُنیا یا عالم اعراف کے نام سے جانتے ہیں میں منتقل ہو جاتا ہے عالم جنّات کی فریکوئنسی اعرافی اور ناسوتی فریکوئنسی کی درمیانی فریکوئنسی ہے ہم خواب کی حالت میں کبھی کبھی جنّات کی دُنیا میں بھی پہنچ جاتے ہیں جنّات فطرتاً اچھی مخلوق ہے یہ بہت ہی کم کسی کو تنگ کرتے ہیں یا نقصان پہنچاتے ہیں۔

انسان ہی انسان کا بدترین دشمن واقع ہوا ہے درندے اور موذی جانور بھی انسان کے اتنے دشمن نہیں ہیں وہ اپنے دفاع اور بچاؤ کے ڈر سے انسان پر حملہ کرتے ہیں کہ کہیں انسان ہی نہ اُنہیں نقصان پہنچا دے لیکن انسان اپنے پورے ارادے سے دوسرے انسان کو نقصان پہنچاتا ہے۔

انسانی تاریخ ظلم و بربریت سے بھری پڑی ہے موجودہ دور میں صرف ہمارے ہی معاشرے سے روزانہ قتل و غارت فتنہ وفساد اور مختلف قسم کے گھناؤنے جرائم کے درجنوں واقعات سامنے آ رہے ہیں جب ازل میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا تھا کہ میں زمین پر اپنا نائب بنانے والا ہوں تو فرشتوں نے کہا کہ یہ انسان زمین پر قتل و غارت، فتنہ و فساد کرے گا۔

تو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے یعنی فرشتوں نے انسان کی منفی خصلت کی طرف اشارہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے انسان کی مثبت خوبی کی طرف اشارہ کیا باتیں دونوں ہی درست ہیں جب انسان منفی راستے پر چلتا ہے تو حیوانات سے بھی بدتر ہو جاتا ہے اور جب مثبت راستے پر چلتا ہے تو فرشتوں سے بھی افضل و اعلیٰ ہو جاتا ہے۔

اس کی مثال انبیاء و پیغمبران اور اولیاء اللہ یا نیک لوگ ہیں جن کی رُوحیں سعید کہلاتی ہیں اور بُرے لوگوں کی رُوحیں شقی کہلاتی ہیں نیک لوگوں ، اولیاء اللہ اور پیغمبروں کی وفات کے بعد اُن کی رُوحوں سے فیوض و برکات کا سلسلہ چلتا رہتا ہے اسی طرح سے اکثر اوقات بُرے انسانوں کی ارواحِ خبیثہ سے لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے ظالم اور بدکردار مرد آسیب اور عورتیں چُڑیل کی شکل اختیار کر جاتے ہیں دُنیاوی زندگی میں بھی یہ بُرے کاموں میں لگے رہے اور مرنے کے بعد بھی تخریب کارانہ ذہنیت کے سبب یہ لوگ کمزور ذہن و عقیدہ لوگوں کو اپنا شکار بنا لیتے ہیں عالم اعراف میں دو حصّے ہیں ایک علّین یعنی اعلیٰ دوسرا سجّین یعنی اسفل مقام کہلاتے ہیں۔

علّین میں نیک لوگوں کی رُوحیں جاتی ہیں اور سجّین جو کہ اسفل مقام ہے اُس میں بُرے انسانوں کی رُوحوں کو رکھا جاتا ہے۔

موت کے وقت جب فرشتے بُرے لوگوں کی رُوحوں کو عالم اعراف میں ایک خاص معیّن مقام پر لے کر جانے لگتے ہیں تو اُن میں سے بعض بُرے لوگوں کی رُوحیں فرشتوں کو چکما دے کر فرار ہو جاتی ہیں تو پھر فرشتے بھی اُن کا تعاقب یا پیچھا نہیں کرتے کیونکہ فرشتے اچھی طرح سے یہ بات جانتے ہیں کہ بُری رُوحوں کا اس طرح سے فرار ہونا خود اُن کے اپنے ہی لیے پریشانی کا سبب بنتا ہے۔

اور پھر یہ بُری رُوحیں جگہ جگہ بھٹکتی پھرتی ہیں اور لوگوں کو پریشان کرتی ہیں جسے عرف عام میں کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص پر جن آ گیا یا اُس پر جن نے قبضہ کر لیا ان تمام مثالوں سے روشنی اور اس کے تخلیقی فارمولوں سے پیدا ہونے والے عالم اور اُن کی مخلوقات کے بارے میں اچھی طرح سے سمجھ میں آ گیا ہو گا۔

نجمی شفائی توانائی درجۂ دوئم ملکوتی کہلاتا ہے اس کا تعلق جنّات اور مثالی دُنیا یعنی عالم اعراف کی فریکوئنسی سے ہے اس سے نفسیاتی اور رُوحانی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے اس سے جسم مثالی (Aura) کو تازگی ملتی ہے اور اُس میں روشنیوں کا توازن درست ہوتا ہے جسم مثالی میں روشنیوں کے بگاڑ سے انسان رُوحانی نفسیاتی اور جسمانی طور پر بیمار ہو جاتا ہے کبھی کبھی جسم مثالی (Aura) میں روشنیوں کا بگاڑ لمبی مدت تک رہے تو جسم مثالی سے منفی شعاعیں خارج ہونے لگتی ہیں پہلے انسان ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے اوراکثرآسیب زدہ یا سحرزدہ سانظرآنے لگتا ہے۔

اس میں بلا وجہ کا غصّہ، ڈپریشن اور چڑ چڑا پن نظر آنے لگتا ہے اور بعد میں اس کے اپنے جسم مثالی (Aura)سے نکلنے والی منفی روشنیوں کے سبب ارد گرد کا ماحول بلکہ پورا گھر متاثر ہو جاتا ہے ان لوگوں کی جیب سے اکثرپیسے اور تالے میں بند رکھی دوسری چیزیں بھی پُراسرارطورپرغائب ہونے لگتی ہیں ایسا شخص جب گھر میں ہوتا ہے تو گھر کا ماحول بھاری بھاری سا محسوس ہوتا ہے اور جب وہ گھر سے باہر جاتا ہے تو گھر کا ماحول قدرے پر سکون اور بہتر ہو جاتا ہے۔

ایسے لوگ جب کسی محفل میں جاتے ہیں تو وہاں بھی لوگ اُن کی منفی روشنیوں کے سبب متاثر ہونے لگتے ہیں یعنی لوگوں کے مزاج میں ایک خاص قسم کی منفی تبدیلی واقع ہونے لگتی ہے اُن کے اندر ایک عجیب قسم کی اُداسی، مایوسی یا گھبراہٹ کی سی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے اور وہ اپنی طبیعت کو بوجھل سا محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ان باتوں سے اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ لوگ ایک دوسرے کی روشنیوں اور لہروں سے بھلا کس طرح سے متاثر ہوسکتے ہیں تو اس بات کا جواب یہ ہے کہ آپ نے اکثر محسوس کیا ہو گا کہ بعض لوگوں کے ساتھ مل کر ایک خاص خوشی کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور بعض افراد کے ساتھ مل کر سخت بوریت یا اُداسی کا سا احساس ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح سے اللہ والے نیک لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر دل کو بڑا سکون ملتا ہے اور اگر کبھی کبھی انسانوں سے بالکل الگ تھلگ ہو کر تنہائی میں بیٹھا جائے تو بڑا سکون ملتا ہے۔ بہر کیف اس قسم کے متاثرہ شخص یعنی مریض کے دُنیاوی معاملات میں بھی رکاوٹ آنے لگتی ہے اور اگر مریضہ لڑکی ہے تو اُس کی شادی کے معاملات میں بھی سخت رکاوٹ رہتی ہے۔

نجمی شفائی توانائی درجۂ دوئم کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اس سے جنّات کی تکالیف کا بھی علاج کیا جا سکتا ہے یہ بات ایک عام مادی سوچ رکھنے والے انسان کے لئے عجیب سی ضرور ہے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جنّات میں بھی انسانوں ہی کی طرح کے خواص یعنی جذبات و کیفیات وغیرہ پائے جاتے ہیں مثلاً نفرت، محبت ، حسد، غصّہ، ڈر و خوف، پریشانی ، بیماری، پیدائش، زندگی اور موت وغیرہ۔

 

 

 

طریقۂ کار درجۂ دوئم

 

نجمی شفائی توانائی درجۂ دوئم کے ذریعے علاج کرنے کا طریقۂ کار درجۂ اوّل ہی جیسا ہے۔ یعنی اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ فرق ہے، تو صرف طاقت اور اُس کی قسم کا یعنی درجۂ اوّل کی طاقت زیادہ تر مادی جسم پر اثر انداز ہوتی ہے۔ لہٰذا اس سے عام مادی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ جبکہ درجۂ دوئم کی طاقت جسم مثالی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ لہٰذا اس درجے سے زیادہ تر رُوحانی اور نفسیاتی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ درجۂ اوّل اور درجۂ دوئم یہ دونوں لیول ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ، اور زیادہ تر دونوں کو ایک ساتھ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ کیونکہ زیادہ تر جسمانی مادی بیماریاں انسانی جسم مثالی(Aura) میں روشنیوں کے بگاڑ کی وجہ سے ہی پیدا ہوتی ہیں نجمی شفائی توانائی درجۂ دوئم ملکوتی کی طاقت کو کھولنے کے لئے معالج پہلے مریض کو آنکھیں بند رکھنے کا کہہ کر اُس کے سر پر اپنا ہاتھ رکھے اور پھر اپنی آنکھیں بند کر کے درجۂ دوئم ملکوتی کی طاقت کھولنے کی نیت کرے مثلاً دل میں کہے کہ میں نجمی شفائی توانائی درجۂ دوئم ملکوتی کی طاقت کھولنے جا رہا ہوں پھر نجمی شفائی توانائی کے خفیہ کوڈ کے ذریعے توانائی کھولے اور دس منٹ تک مریض کو انرجی دے یعنی مریض کی ہیلنگ کرے پھر پہلے خود آنکھیں کھولے اور بعد میں مریض سے آنکھیں کھولنے کو کہے۔

 

 

 

 

     درجۂ سوئم:(Level -3)

 

نجمی شفائی توانائی درجۂ سوئم جبروتی کہلاتا ہے اس کا تعلق نور سے ہے جیسا کہ پچھلے لیولز(Levels) میں ذکر کیا گیا کہ جب تجلی عالم لاہوت سے تنزل کرتی ہے تو نور کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور نور کا عالم ، عالم جبروت کہلاتا ہے جو کہ نوری فرشتوں کی دُنیا ہے نور کی رفتار یا طاقت روشنی سے بھی بہت زیادہ ہے اور نور روشنی پر غالب ہے جبکہ انسانی اورا(Aura) عالم اعراف اور جن یا جنّات کی دُنیا روشنی کی دُنیا ہیں لہٰذا انسانی رُوحیں ہوں یا جنّات یا سحر و جادو ان سب کا تعلق روشنی کی رفتار سے ہے۔

انسانی نظرِ بد کی رفتار یا طاقت بھی روشنی کی رفتار ہی جتنی ہے یعنی ہم سادہ الفاظ میں کہہ سکتے ہیں کہ ہماری مادی دُنیا یا زمین پر جتنی بھی پُر اسرار مخلوقات اور طاقتیں پائی جاتی ہیں ان سب کا وجود روشنی اور نسمہ کی مختلف ترکیبوں اور فارمولوں سے ہے لہٰذا نجمی شفائی توانائی درجہ سوئم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم سحر و جادو اور نظرِ بد سے نجات حاصل کر سکتے ہیں اور مزید یہ کہ ارواحِ خبیثہ یا آسیب اور شریر جنّات سے متاثرہ انسانوں مکانوں اور دوسری جگہوں کو خالی کرا سکتے ہیں اور اُنہیں محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ ہم نے گزشتہ لیول میں ذکر کیا کہ اکثر بعض اوقات مرنے کے بعد بری عورتیں چڑیل اور برے مرد آسیب بن جاتے ہیں انہی کو عام طور پر ارواحِ خبیثہ یا بد روح کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے زیادہ تر یہ ہی انسانوں کے لئے پریشانی کا سبب بنتی ہیں شاذو نادر کچھ شریر قسم کے جنّات بھی لوگوں کی تکلیف کا باعث بن جاتے ہیں لیکن ایسا اکثر کم ہی ہوتا ہے۔

آئیے اب ہم سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لیں کہ جنّات کا وجود کیا واقعی ایک حقیقت ہے یا پھر یہ سب پیروں اور عاملوں کی پھیلائی ہوئی افسانوی اور من گھڑت قسم کی باتیں ہیں ان باتوں کے جوابات ہم قرآن پاک ، احادیث اور بزرگان دین کے حوالا جات کی روشنی میں تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔

 

 

 

   جنّا ت کی حقیقت

 

جنّات کی ایک ذی حیات و آتشی اور ایک با شعور مخلوق ہونے کی تصدیق قرآن پاک کی مختلف آیات، متعدد احادیث صحیحہ اور سنن و آثار سے یقینی طور پر ثابت ہے گزشتہ چودہ سو سال میں معتزلہ نامی گروہ کو چھوڑ کر تقریباً تمام اُمّتِ مُسلِما کے افراد جنّات کے وجود کے قائل رہے ہیں۔

اس سلسلے میں ہمارے ماضی و حال کے علماء و صوفیائے اکرام اور صاحب علم حضرات کے علمی و مشاہداتی حوالاجات سے جنّات کی ایک حقیقی و یقینی مخلوق ہونے کی بھی تصدیق ہوتی ہے۔ دُنیا کے تقریباً تمام مذاہب بالخصوص اہل کتاب میں جنّات کے وجود کو تسلیم کیا جاتا ہے یہاں تک کہ اکثر لامذہب یا کمیو نسٹ قوم کے افراد بھی عینی و یقینی شہادتوں کی بنیاد پر اسے تسلیم کرتے ہیں۔

جیوش انسائیکلوپیڈیا جلد نمبر گیارہ میں صاف صاف لکھا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ سلام کے لشکر میں جنّات بھی شامل تھے اس بات سے اہل یہود کی جانب سے جنّات سے متعلقہ اس قرآنی جُز کی بھی تصدیق ہو جاتی ہے قرآن پاک میں ا للہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ ’’سلیمان کے لئے جنوں اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے اور وہ قسم وار کئے گئے تھے‘‘ آیت نمبر ۱۷؎ سورہ النمل۔

اسی طرح اگر ہم عیسائی مذہب کے حوالے سے بات کریں تو اکثر عیسائی پادریوں نے جنّات کے حوالے سے اپنے ذاتی مشاہدات و تجربات بطور ثبوت مختلف کتابوں میں قلمبند کئے ہیں اس حوالے سے بائبل سینٹ جان کی کتاب ’’ ٹوئیسیرزان اے لیونٹائن فیملی‘‘ خاص طور پر مشہور ہے۔

غرض کہ مخلوق جنّات کے بارے میں تائیدی شواہد اس قدر یقینی اور کثرت سے موجود ہیں کہ تحقیق و تجسُس کا جذبہ اگر سچا ہو تو آسانی سے اس سلسلے میں مثبت نتیجے تک پہنچا جا سکتا ہے قرآن پاک میں جنّات کا تذکرہ صرف سورہ جن ہی میں نہیں بلکہ مختلف سورتوں کی کئی آیات میں بھی آیا ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۷۵ ؎ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’ جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ ( قیامت کے دن) اپنی قبروں سے اس طرح حواس باختہ اُٹھیں گے کہ جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو‘‘۔

اس آیت سے صرف جنّات کی حقیقت ہی واضح نہیں ہوتی بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ملتا ہے کہ جن کے چمٹ جانے یا دوسرے معنوں میں جن کا اثر ہو جانے سے مرض دیوانگی کا عارضہ بھی لاحق ہو سکتا ہے اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے جناب قاضی ثنا اللہ پانی پتی تفسیر مظہری جلد نمبر ۱؎ صفحہ نمبر ۳۹۲؎ میں تحریر فرماتے ہیں کہ جن کے چھو جانے سے مرض کا لاحق ہونا کتاب و سنت سے ثابت ہے جناب قاضی ثنا اللہ صاحب مزید امام ابو الحسن الاشعری کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اُن کے نزدیک جن کے چمٹ جانے سے جنون کا عارضہ لاحق ہونے کا عقیدہ اہلسنت و الجماعت کے عقائد میں شامل ہے۔

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے اپنے والد بزرگوار سے کہا کہ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ جن انسان کے جسم میں داخل نہیں ہو سکتا ہے تو اُس پر والد صاحب نے فرمایا کہ بیٹا وہ جھوٹ بولتے ہیں۔

ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک عورت اپنے بچے کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئی اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے بچے کو جنوں ہو گیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کے سینے کو چھوا اور فرمایا کہ اے دشمن خدا باہر نکل کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔

جنّات سے متعلق چودہ سو سال سے رائج اُمّتِ مُسلِماکے اس طے شدہ عقیدے کے برخلاف زمانہ قریب کے دو ایک حضرات جو اپنے آپ کو عظیم مفکر سمجھتے تھے جن میں ایک مغربی مفکر مسٹر کونسٹن ورجیل جو کہ رومانیہ کے وزیر خارجہ بھی رہے ہیں دوسرے غلام احمد پرویز نامی اشخاص(جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ) نے جنّات کی تشریح کچھ اس طرح سے کی ہے کہ قرآن میں جنّات سے مراد جنگلی اور وحشی یا جنگجو قبائل سے ہے اور بعض کیمونی یعنی غار والے یا پھر جن کا مادہ جنین یعنی قبر ہے یا جنین سے مُراد ماں کی پیٹ میں پوشیدہ بچے سے ہے، اسی بات کی پیروی کرتے ہوئے ہمارے آج کے دور کے ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر شفیع منصوری صاحب نے ایک کتاب’’ ہاں میں جن ہوں ‘‘ کے عنوان سے تحریر کی ہے اس میں اُنہوں نے جنّات سے متعلق غلام احمد پرویز کے نظرئیے کو درست اور اپنے نزدیک پسندیدہ قرار دیا ہے اور ساتھ ہی مغربی دانشور مسٹر کونسٹن ورجیل کے جنّاتی نظرئیے کا حوالہ بھی دیا ہے۔

ڈاکٹر صاحب غلام احمد پرویز کی کتاب ’’آدم اور ابلیس‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جنّات جنگجو قبائل کے لوگ کہلاتے تھے جو اب ناپید ہو چکے ہیں اور اسی طرح بقول مسٹر کونسٹن ورجیل ’’جن‘‘ سے مراد بیابان میں رہنے والے وہ انسان ہیں جو رات کے وقت دکھائی نہیں دیتے یا دن کے وقت اہل شہر کو نظر نہیں آتے جزیرہ عرب کے بیابانوں میں ایسا ہوتا ہے کہ دو گروہ رات کی تاریکی میں ایک مقام پر ٹھہریں اور ایک دوسرے کو دیکھ نہ پائیں ،

اُونٹ کے گلے میں بندھی گھنٹی کی آواز نہ سنائی دے اور آگ نہ جلائی جائے تو ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ دو مختلف قافلے ایک دوسرے سے صرف چند گز کے فاصلے پر پڑاؤ ڈالیں لیکن ایک دوسرے کی موجودگی کا احساس نہ کر سکیں ‘‘۔

ڈاکٹر صاحب مزید فرماتے ہیں کہ’’ عربی زبان میں ’’جن‘‘ کے لغوی معنی اُس شئے کے ہیں جو آنکھوں سے پوشیدہ ہو اور نظر نہ آئے اسی بنا پر ماں کے پیٹ میں پرورش پانے والے بچے کو بھی ’’جن‘‘ کہتے ہیں اور زیادہ تر جنین کے نام سے پکارتے ہیں اور جنین کا کلمہ بھی درحقیقت جن ہی سے ماخوذ ہے‘‘۔

اس کے علاوہ ڈاکٹر شفیع منصوری صاحب قبل مسحی دور کے مشہور زمانہ فلاسفر بقراط کے بارے میں لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے بقراط نے جنّات کے تصور کو جھٹلایا اور تمام ذہنی بے ضابطگیوں کو دماغی امراض شمار کیا۔ اوراسی طرح سے چودہ سو برس سے قائم اُمّتِ مُسلِما کے متفقہ جناتی قرآنی نظرئیے کے خلاف ایسی ایسی مضحکہ خیز دلیلیں اپنی کتاب میں دی ہیں جو کہ محض تجربات سے عاری اور صرف ایک مادی سوچ کی عکاسی کرتی ہیں۔

اس قسم کے خلاف حقیقت نظریات کو اس طرح کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں کہ دُنیاسے بالکل الگ ایک جزیرہ ہے جس پر کچھ انسان آباد ہیں جہاں علمی و سائنسی ترقی کا کوئی وجود ہی نہیں ہے لوگ قدیم انسانوں والی زندگی گزار رہے ہیں اگر اُن کے پاس یہاں سے کوئی شخص جا کر یہ کہے کہ بھائی تم ٹیلی ویژن سے واقف ہو تو اُن لوگوں کو کیا سمجھ آئے گا کہ ٹیلی ویژن کیا ہوتا ہے اور پھر کچھ لوگوں کو جو وہاں پر موجود ہیں ٹیلی ویژن چلا کر دکھا دیا جائے اور پھر وہ شخص ٹیلی ویژن وہاں سے واپس لے کر آ جائے تو اب وہ لوگ جو کہ ٹیلی ویژن کا اچھی طرح سے مشاہدہ کر چکے ہیں جزیرے پر موجود دوسرے لوگوں کو جب اس کے بارے میں بتائیں گے تو کچھ لوگ تو کسی حد تک مان ہی جائیں گے مگر بہت سے لوگ اُنہیں پاگل قرار دے دیں گے یا پھر وہ یوں کہیں گے کہ تم لوگ ہمیں بیوقوف بنا رہے ہو۔

ڈاکٹر صاحب صحیح جنّاتی نظرئیے کو محض نام نہاد مولویوں پیروں اور جالی عاملوں کا فریب قرار دیتے ہیں جو اپنی جیبیں بھرنے اور دولت بٹورنے کے لئے سادہ لوح عوام کو بیوقوف بناتے ہیں۔

الغرض ڈاکٹر صاحب کے نزدیک اس دُنیائے جہاں میں جنّات کا وجود سرے سے ہے ہی نہیں ، یہ بات بھی بلا شبہ ایک حقیقت ہے کہ زیادہ تر ذہنی بے ضابطگیوں کی وجہ سے ہی ذ ہنی اور نفسیاتی بیماریاں جنم لیتی ہیں لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ مخالفت میں صحیح اور متفقہ قرآنی نظرئیے کو ہی اُلٹ کر رکھ دیا جائے۔

آئیں اب ہم ان عظیم مذہبی و سائنسی مفکرین حضرات کے دلائل کو قرآن کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’اُس نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی مٹی سے بنایا اور جنّات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا‘‘ آیت نمبر۱۴؎ تا ۱۵؎ سورہ رحمن۔ اسی طرح قرآن میں ایک جگہ ارشاد ہے ’’اور ہم نے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لئے پیدا کئے ہیں اُن کے دل ہیں لیکن اُن سے سمجھتے نہیں اور اُن کی آنکھیں ہیں مگر اُن سے دیکھتے نہیں اور اُن کے کان ہیں پر اُن سے سنتے نہیں۔ یہ لوگ بالکل چار پایوں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے بھی بھٹکے ہوئے یہی وہ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ‘‘ آیت نمبر۱۷۹؎ سورہ الاعراف۔

قرآن کریم کی بیان کی گئی آیات اس بات کا ٹھوس ثبوت ہیں کہ جن اور انسان دو الگ الگ مخلوقات ہیں انسان کی تخلیق میں مٹی کا عنصر شامل ہے جبکہ جنّات کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے دونوں کو نیک اور بد اعمال پر سزا اور جزاء ملے گی اور یہ دونوں مخلوقات عقل و شعور کے ساتھ ساتھ جسم اور جسمانی اعضاء بھی رکھتے ہیں جیسے آنکھ کان دل وغیرہ اور ہدایت یافتہ بھی ہوتے ہیں اور بھٹکے ہوئے بھی۔

آیئے قرآن پاک کی روشنی میں چند اور حقائق سے پردہ ہٹاتے ہیں جس سے کم علم رکھنے والے افراد کے علم میں اضافہ ہو گا اور اُوپر بیان کردہ عظیم سائنسی و مذہبی مفکرین جیسے لوگوں کے لئے اس گتھی کو سلجھانے کے لئے مزید سوالات جنم لیں گے بلکہ اُن کے لئے یہ گتھی اور بھی الجھ جائے گی جس کو وہ اپنے خیال کے مطابق آسانی سے سلجھا چکے ہیں۔

قرآن پاک میں یہ اُس واقعہ کا ذکر ہے جب اللہ تعالیٰ نے تمام فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ آدم کو سجدہ کرو مگر شیطان نے اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا اُس پر   اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’ خدا نے فرمایا جب میں نے تجھ کو حکم دیا تو کس چیز نے تجھے سجدہ کرنے سے باز رکھا اُس نے کہا کہ میں افضل ہوں مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے بنایا ہے‘‘ آیت نمبر ۱۲؎ سورہ الاعراف۔

اس آیت سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو آگ سے پیدا کیا ہے اور آدم کو مٹی سے بنایا ہے لیکن سورہ رحمن کی اس آیت سے یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ جنّات کو بھی اللہ تعالیٰ نے آگ سے پیدا کیا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ شیطان کا تعلق بھی نوع جنّات سے ہے؟

جی ہاں یقیناً ایسا ہی ہے قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ ’’اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا وہ جنّات میں سے تھا تو اپنے پروردگار کے حکم سے باہر ہو گیا۔ کیا تم اس کو اور اس کی اولاد کو میرے سوا دوست بناتے ہو حالانکہ وہ تمھارے دشمن ہیں اور شیطان کی دوستی ظالموں کے لئے خدا کی دوستی کا بُرا بدل ہے‘‘ آیت نمبر ۵۰ سورہ الکہف۔

قرآن پاک کی اس آیت مبارکہ سے یہ بات بالکل صاف اور واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ ابلیس یعنی شیطان کا تعلق نوع جنّات سے ہے اور یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ جنّات کی اولاد بھی ہوتی ہے۔

اتنی واضح اور روشن قرآنی دلیلوں کے باوجود اگر کوئی شخص پھر بھی نوع جنّات کو انسانوں سے الگ ایک ذی حیات اور ذی شعور مخلوق ماننے سے انکار کر دے تو پھر بھلا اس سلسلے میں اور کیا کہا جا سکتا ہے سوائے اس کے کہ مادی سوچ رکھنے والے انسانوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے کہ ’’سو وہ اس پر ایمان نہیں لاتے اور پہلوں کی روش بھی یہی رہی ہے اور اگر ہم آسمان کا کوئی دروازہ اُن پر کھول دیں اور وہ اس میں چڑھنے بھی لگیں تو بھی یہی کہیں کہ ہماری آنکھیں مخمور ہو گئی ہیں بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے‘‘ آیت نمبر ۱۳؎ تا ۱۵؎ سورہ الحجر۔

اسی طرح کچھ ہمارے ہی معاشرے کے چند پڑھے لکھے تعلیم یافتہ حضرات اور ماہرین نفسیات و سائنسی ماہرین جو جنّات کے وجود کے سرے سے قائل ہی نہیں ہیں اس نظرئیے کے خلاف کچھ اس قسم کی دلیلیں بھی دیتے رہے ہیں کہ جب قبروں میں مُردہ انسانوں کی ہڈیاں گل سڑکر مٹی میں مل جاتی ہیں تو انسانی ہڈیوں میں موجود فاسفورس بھی مٹی میں مل جاتا ہے۔

جو کہ اندھیرے میں چمکنے کی خاصیت رکھتا ہے اور جب اندھیری راتوں میں تیز ہواؤں سے قبرستان کی یہ فاسفورس ملی مٹی ہوا میں اُڑتی ہے تو اُس سے چمک پیدا ہوتی ہے اور کمزور عقیدہ لوگ اسے جنّات کی حرکات سمجھتے اور قرار دیتے ہیں۔

اسی طرح بعض اس قسم کے لوگ اندھیری راتوں میں اُڑنے والے جگنوؤں کی چمک کو بھی جنّات کا وہم قرار دیتے ہیں۔ لیکن اس قسم کے دلائل اور حیلے بہانوں سے جنّات کے حقیقی و یقینی وجود کو ہرگز جھوٹا اور غلط ثابت نہیں کیا جا سکتا ہے۔جنّات وہ واحد مخلوق ہے جو کافی حد تک انسانوں سے ملتی جلتی ہے شکل و صورت اور زندگی کے دوسرے معاملات میں انسانوں سے بہت زیادہ مشابہت پائی جاتی ہے یہ لوگ انسانوں کی طرح کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں۔

انسانوں کی خوراک میں مٹی کا عنصر غالب ہے جبکہ جنّات کی خوراک میں فاسفورس کا عنصر غالب ہوتا ہے جنّات شادی بھی کرتے ہیں اور اُن کے ہاں اولاد بھی پیدا ہوتی ہے انسان کا بچہ نو ماہ میں پیدا ہوتا ہے جبکہ جنات کا بچہ نو سال میں پیدا ہوتا ہے اگر جنّات سے دوستی کر لی جائے تو یہ بہت اچھے دوست بھی ثابت ہوتے ہیں۔

اس ضمن میں یہاں یہ حوالہ دینا بھی مناسب رہے گا کہ سعودی عرب کے شہر مدینہ منورہ سے تقریباً پینتالیس 45 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک مقام وادیِ جن کے نام سے مشہور ہے اس بات کا تذکرہ ہم سے ہمارے محلے کے ایک بزرگ حنیف قادری نے کیا تھا جو کہ پیشے کے لحاظ سے ایک ٹھیکے دار ہیں مگر جھاڑ پھونک وغیرہ کا شوق بھی رکھتے ہیں اور اکثر رمضان کے مہینے میں عمرہ کرنے بھی جاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک بالکل ویران جگہ ہے پہاڑ اور جنگل کا علاقہ ہے وہاں نہ ہی انسانی آبادی ہے نہ تو وہ جگہ کوئی پکنک پوائنٹ ہے نہ گاڑیاں بسیں وغیرہ وہاں جاتی ہیں وہاں صرف وہ ہی لوگ جاتے ہیں کہ جن کے دلوں میں اُس علاقے کو دیکھنے کا تجسُس موجود ہے ایسے افراد اپنی پرائیوٹ گاڑیوں کے ذریعے وہاں جاتے ہیں عجیب بات یہ ہے کہ اُس علاقے سے واپسی پر گاڑی کو نیوٹرل کر کے چھوڑ دیں تو گاڑی خود بہ خود چلتی ہے اور کئی کلو میٹر تک چلتی ہے وہاں کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ واپسی میں جنّات وہاں آنے والوں کو چھوڑتے ہیں اس پر میں نے کہا کہ قادری صاحب ہو سکتا ہے کہ پہاڑی علاقہ ہو اور ڈھلان والا راستہ ہو جس کی وجہ سے گاڑی خود بہ خود چلتی ہو، تو اس پر اُنہوں نے کہا کہ نہیں ایسا بالکل نہیں ہے وہاں زمین کی سطح بالکل ہموار ہے بلکہ بعض جگہ تو ڈھلوان والی جگہ کے مخالف سمت گاڑی چلتی ہے یعنی گاڑی نیچے سے اُوپر کی جانب خود بہ خود جاتی ہے اور مزید کہا کہ پچھلی مرتبہ جب ہم گئے تھے تو جنّات نے ہماری گاڑی کو واپسی میں چھ6 کلو میٹر تک چھوڑا تھا مگر اس دفعہ جب ہم وہاں گئے تو اُنہوں نے ہماری گاڑی کو تقریباً چودہ14کلو میٹر تک چھوڑا تھا۔

جب اس قسم کی انوکھی بات میں نے حنیف قادری کی زبانی پہلی مرتبہ سنی تو اُن کی بات پر پوری طرح سے یقین نہیں آیا لیکن کچھ دنوں کے بعد ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جن کا نام جبران ہے اور وہ کافی عرصے سے ملازمت کے سلسلے میں مدینہ منورہ میں مقیم ہیں اور وہ چھٹیوں پر پاکستان آئے ہوئے تھے۔

جب میں نے اُن سے اس بارے میں دریافت کیا تو اُنہوں نے بھی وادیِ جن کے بارے میں وہ ہی کچھ بتایا جو کہ حنیف قادری نے بتایا تھا اُس کے بعد خلیل مصطفٰے نامی ایک اور صاحب سے ملاقات ہوئی جو کہ سعودی عرب سے ہو کر آئے تھے اُنہوں نے بھی وادیِ جن کے بارے میں اور اُس کے عجائبات کے بارے میں تصدیق کی اور مزید یہ بھی بتایا کہ یوٹیوب (YouTube) انٹرنیٹ پر بھی وادیِ جن کے بارے میں ویڈیوز موجود ہیں جس میں گاڑی کو اُلٹا پہاڑ پر چڑھتا ہوا دکھایا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس علاقہ میں گاڑی خود بہ خود چلتی ہے۔ ان تمام شواہد کی مختلف افراد کی زبانی تصدیق ہونے کے بعد میں نے خود بھی انٹرنیٹ پر وادیِ جن سے متعلق کئی ویڈیوز دیکھیں اور اُس کے بعد وادیِ جن کا تذکرہ کرنا کتاب میں مناسب سمجھا، وادیِ جن سے متعلق کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہاں مقناطیسی پہاڑ ہیں کہ جس کے سبب گاڑیاں خود بہ خود چلتی ہیں وادیِ جن کے بارے میں حنیف قادری کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر جو جنّات نے بیعت کی تھی اور اسلام قبول کیا تھا اُنہیں کا گروہ وہاں آباد ہے۔

رُوحانی علم کے مطابق جنّات نسمۂ مفرد یا حرکت مفرد کی مخلوق کہلاتے ہیں جبکہ انسان اور انسان کی دُنیا نسمۂ مرکب یا حرکت مرکب کی دُنیا کہلاتی ہے اس کی مثال کچھ اس طرح سے ہو سکتی ہے کہ ایک پردہ لٹکا ہوا ہے جو کہ مسلسل حرکت میں ہے جب کپڑا بُنا جاتا ہے تو کچھ دھاگوں کی لکیریں ایک سمت سے دوسری سمت جاتی ہیں اور کچھ دھاگے کی لکیریں مخالف سمت کراس (Cross)میں جاتی ہیں جس سے بہت سے خانے بن جاتے ہیں اور کپڑا تیار ہو جاتا ہے۔

ہم کپڑے کے ان دھاگوں کو جو ایک دوسرے کے مخالف سمتوں میں چلتے ہیں جو کہ تانے اور بانے بھی کہلاتے ہیں نسمہ کی لکیریں مان لیں جو کہ روشنی کی مخصوص   تنزاتی حالت ہے تو اب ہم تصور کریں گے کہ لٹکے ہوئے پردے کے اوپری حصے میں یہ لکیریں صرف اُوپر سے نیچے کی جانب اکہری ہیں جسے تانا کہتے ہیں لیکن مخالف سمت سے چلنے والی لکیریں جو کہ بانا کہلاتی ہیں موجود نہیں ہیں ، یہ اُوپر سے نیچے آنے والی سیدھی لکیریں ایک دوسرے سے الگ الگ بھی ہیں اور ایک دوسرے سے منسلک بھی ہیں اس کی ایک مثال کمپیوٹر کی ہارڈڈسک میں استعمال ہونے والی ڈیٹا کیبل سے بھی سمجھی جا سکتی ہے جس میں بہت سے تار لائنوں کی صورت میں ایک سمت سے دوسری سمت جاتے ہوئے نظر آتے ہیں جو کہ ایک دوسرے سے الگ الگ بھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے منسلک بھی ہوتے ہیں۔

اب اس پردے پر ہم انسان جیسی شکلیں بنائیں گے تو یہی نسمۂ مفرد یا حرکت مفرد یا جن اور جنّات کی دُنیا ہے اب پردے کے نچلے حصے میں اوپر سے آنے والی لکیروں کے ساتھ ساتھ مخالف سمت سے آنے والی لکیریں جو کہ بانا کہلاتی ہیں بھی ہیں اب اس پردے کے حصے پر ہم جو انسان جیسی شکلیں بنائیں گے تو یہ کہلائے گی نسمۂ مرکب یا حرکت مرکب یا انسان اور انسان کی دُنیا ، جنّات نسمۂ مفرد کی مخلوق ہونے کی وجہ سے اپنی مرضی سے جتنے چاہیں لمبے یا چھوٹے ہو سکتے ہیں ۔

انسان نسمۂ مرکب کی مخلوق ہونے کے سبب نہ اپنے اختیار سے لمبے ہو سکتے ہیں نہ چوڑے ہو سکتے ہیں روشنی جب نسمۂ مفرد کی شکل میں ہوتی ہے تو ہم اس حالت کو مادی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے اس لئے ہمیں جنّات نظر نہیں آتے اور جب روشنی نسمۂ مفرد سے نسمۂ مرکب کی طرف بڑھتی ہے تو آہستہ آہستہ خانوں کی شکل اختیار کرتی ہے یہ روشنی یا نسمہ کے خانے جو کہ تانے بانے کہلاتے ہیں انہیں کے زیادہ سے زیادہ ہجوم سے ٹھوس اشیاء وجود میں آنے لگتی ہیں۔

جو ہمیں مادی آنکھ سے نظر آتی ہیں لیکن نسمۂ مفرد کی دُنیا کو رُوح کی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کی روز مرہ کی ایک مثال خواب ہے جب ہم نیند کی حالت میں ہوتے ہیں تو اُس وقت ہماری رُوح کی آنکھ کام کر رہی ہوتی ہے اور خواب کی حالت میں ہم جس دُنیا کا مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں وہ نسمۂ مفرد کی ہی دُنیا ہوتی ہے جو عالم اعراف کہلاتی ہے۔

 

 

 

طریقۂ کار درجۂ سوئم

 

نجمی شفائی توانائی درجۂ سوئم سے ہم کسی بھی بے جان چیز مثلاً پانی دوا کھانے پینے کی چیزیں اپنے کپڑے بستر مکان دوکان وغیرہ کو انرجائز کر سکتے ہیں اور ماحول کے منفی یعنی بُرے اثرات کو دور کر کے مثبت اثرات سے بدل سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر اگر کسی انسان پر کچھ منفی ماورائی اثرات جیسے جادو، جن یا آسیب کا اثر ہو تو معالج کو چاہئے کہ متاثرہ مریض کے سر سینہ یا پیٹھ پر دونوں ہتھیلیاں اس طرح سے رکھے کہ دونوں ہاتھ کی شہادت کی انگلیوں اور انگوٹھوں کی نوکوں کو آپس میں ملا کر تکون کی شکل بن جائے پھر لیول تھرڈ کی طاقت کو کھولے اور مریض کو دس منٹ تک انرجی دے اس طرح اگر کسی عمارت میں آسیب و جنّات کا بسیرا ہو اور اُن کے شر سے نجات دلانا اور خالی کرانا مقصود ہو تو مکان کے کمرے کے بیچ میں کھڑے ہو کر یا اگر ممکن ہوسکے تو جانماز پر دو زانوں بیٹھ کر دُعا کی طرح ہاتھ اٹھائے اور آنکھیں بند کر کے درجہ سوم کی طاقت کو کھولے

پھر آنکھیں کھول کر ہتھیلیوں کی مددسے پوری چھت کو دور سے انرجی دیتا ہو ا ہاتھ پھیلاتے ہوئے سر کے پیچھے تک لے جائے اور پھر دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں اور شہادت والی انگلیوں کو آپس میں ملا کر تکون بنائے اسی حالت میں ہاتھ سرکے اوپرسے اور چہرے کے سامنے کی جانب سے نیچے لے جاتا ہوا دونوں ہتھیلیاں زمین پر رکھے اور زمین کو دو منٹ تک انرجی دے پھر کمرے کی سامنے والی دیوار تک چل کر جائے اور اسی طرح دیوار پر ہاتھ رکھ کر دو منٹ انرجی دے پھر پیچھے کی دیوار کو دو منٹ انرجی دے پھر اسی طرح سے دائیں طرف کی دیوار کو انرجائز کرے اور پھر بائیں طرف والی دیوار کو انرجائز کرے اسی طریقے کے مطابق پورا گھر انرجائز کرنا ہو گا، اگر گھر پر یا دوکان پر کسی نے جادو وغیرہ کرا دیا ہو یا نظر بد ہو تو ان سب کو کانٹے کے لئے یہ عمل اسی طرح سے کرنا ہو گا ان تمام معاملات میں یہ عمل صرف ایک دفعہ کرنا ہی کافی ہوتا ہے اور ایک مرتبہ کے اس عمل سے تمام قسم کے بد اثرات ختم ہو جاتے ہیں لیکن اگر اس عمل کو تین دن تک بلا ناغہ کیا جائے تو بہت زیادہ طاقت ور قسم کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

پانی کو انرجائز کرنے کے لئے بھری ہوئی بوتل یا گلاس کو دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کے درمیان میں پکڑ کر پانچ منٹ انرجی دیں اس طرح سے دیگر مشروبات کو انرجائز کیا جا سکتا ہے انرجائز کیا ہوا پانی جہاں بیمار انسانوں کی شفا یابی کے لئے فائدہ مند ہے وہاں اس سے بیمار جانوروں کا علاج بھی ہوتا ہے اور اگر یہ پانی پودوں میں ڈالا جائے تو پودے خوب پھلتے پھولتے ہیں۔

سیاہ دھاگے کی موٹی ڈوری کو مطلوبہ سائز میں کاٹ لیں اُس کے بعد اسے پانچ منٹ تک انرجائز کریں اُس کے بعد یہ ڈوری بیمار انسانوں جانوروں اور درختوں کی شفا یابی میں معاون ثابت ہوتی ہے اور تمام قسم کے ماورائی اثرات سے بھی محفوظ رکھتی ہے اس ڈوری کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ایسی عورتیں جن کا حمل گر جاتا ہو یا بغیر کسی نقص کے اولاد نہ ہوتی ہو تو اُن کو صاحب اولاد ہونے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے اس کے لئے مریضہ انرجائز کی ہوئی ڈوری کو اپنے کمر میں باندھے اور ہر مہینے اس ڈوری کو دوبارہ انرجائز کرائے یا ڈوری خراب ہونے کی صورت میں نئی ڈوری پہنی جا سکتی ہے مریضہ اس ڈوری کو مسلسل پہنے نہاتے وقت بھی اس ڈوری کو نہ اُتارا جائے۔

اس لیول کے آخر میں یہ مختصر وضاحت ضروری ہے کہ جن لوگوں نے نجمی شفائی توانائی درجہ سوئم کی ٹورنمنٹ لے لی ہے یا لینے جا رہے ہیں اُن کو بغیر کسی ڈر و خوف کے آسیب زدہ مکانوں یا عمارتوں میں پورے حوصلے اور اعتماد سے جانا چاہئے اُن کو ہرگز ہرگز کسی قسم کا کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں ہے نجمی شفائی توانائی کے یہ چار رُوحانی لیولز بالکل چار کمپیوٹر سافٹ وئیر کی طرح سے ہیں جنہیں عام لوگوں کے لئے اس طرح سے ترتیب دیا گیا ہے کہ اس سے کبھی بھی کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچے اس لیول کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے رُوحانی طریقے سے مریضوں کے آپریشن بھی کئے جا سکتے ہیں لیکن اس کے لئے پہلے مراقبے میں کامیابی کے ساتھ ساتھ لاشعور پر کنٹرول حاصل ہونا بہت ضروری ہے۔

 

 

 

     درجۂ چہارم:(Level -4)

نجمی شفائی توانائی درجۂ چہارم لاہوتی کہلاتا ہے اس کا تعلق تجلی سے ہے جس کی طاقت اور رفتار نور سے بھی بہت زیادہ ہے عالم لاہوت اللہ تعالیٰ کے انتہائی قرب کا مقام ہے اسی لئے تجلی سے تخلیق ہوئے فرشتے ملاءِ اعلیٰ یا ملائکہ مقربین کہلاتے ہیں جن میں سے ایک کی مثال حضرت جبرائیل ؑ کی ہے جب اللہ تعالیٰ کی تجلی سب سے پہلے حرکت میں آتی ہے تو زمان و مکاں Time and Space) ) وجود میں آتا ہے کیونکہ مخلوق کے وجود کے لئے چاہے وہ کسی بھی عالم کی ہی کیوں نہ ہو زمان و مکاں ہونا ضروری ہے۔

جبکہ خالق کائنات کی ذات زمان و مکاں سے بالکل آزاد ہے یہیں سے خالق اور مخلوق کا فرق اور عقیدۂ توحید واضح ہو جاتا ہے اگر ہم تجلی کو ایک فریکوئنسی مان لیں تو ہم کہیں گے کہ ملائکہ مقربین حضرت جبرائیلؑ اور اُن کی دُنیا یعنی عالم لاہوت تجلی کی فریکوئنسی کی دُنیا ہے۔

قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ’’ سب تعریف خدا ہی کو سزاوار ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا اور فرشتوں کو قاصد بنانے والا ہے جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار پر ہیں وہ اپنی مخلوقات میں جو چاہتا ہے بڑھاتا ہے بیشک خدا ہر چیز پر قادر ہے ‘‘ آیت۱؎سورہ فا طر ، یہاں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کا تعارف پروں کے حوالے سے کرایا ہے کہ فرشتوں کی تین قسمیں ہیں دو پر والے تین پر والے اور چار پر والے اب غور طلب بات یہ ہے کہ پروں کا تعلق تو ہوا میں اُڑنے سے ہوتا ہے جیسا کہ ہماری مادی دُنیا کے پرندے جو کہ ہوا میں اڑتے ہیں۔

ہمارے کرہ ارض یعنی زمین کے گرد ہوا کا غلاف موجود ہے جیسے جیسے ہم زمین سے اُوپر کی جانب جاتے ہیں تو ہمیں ہوا کا دباؤ کم محسوس ہوتا ہے اور ایک خاص حد تک اُوپر جا کر ہوا بالکل ختم ہو جاتی ہے اور کشش ثقل بھی ختم ہو جاتی ہے دن کے وقت ہمیں آسمان نیلا نظر آتا ہے اس کی وجہ دن کے وقت سورج کی کرنوں اور زمین کے گرد مختلف گیسوں کے ملاپ سے نیلا رنگ بن جاتا ہے لہٰذا ہمیں آسمان نیلا نظر آتا ہے اور جبکہ رات کے وقت آسمان کا رنگ کالا نظر آتا ہے جب ہم زمین کے مدار سے باہر نکلتے ہیں تو ہمیشہ آسمان کالا ہی نظر آتا ہے رات کے وقت جب ہم چاند ستاروں اور سیاروں کو دیکھتے ہیں تو یہ ہرگز غیب کی دُنیا نہیں ہے یہ ہمارے شعور کا عکس ہے ہماری مادی آنکھوں سے نظر آنے والی کہکشان دُنیا دراصل ہماری مادی دُنیا یا عالم ناسوت کا ہی حصہ ہیں سائنسدان جتنا بھی تیز رفتار راکٹ بنا لیں وہ مادی طور پر کائنات میں ہی گھومتے رہ جائیں گے کبھی اس طرح سے غیب کی دُنیا میں ہر گز داخل نہیں ہو سکیں گے اگر اُنہیں غیب کی دُنیا مثلاً اُنہیں جنّات کی دُنیا میں داخل ہونا ہے تو اپنے آپ کو جنّات کی دُنیا والی فریکوئنسی میں لے جانا ہو گا اور ایسا ہونا ممکن بھی ہے۔

ہم نے پہلے تذکرہ کیا کہ روشنی تنزل کر کے نسمۂ مفرد کی شکل اختیار کرتی ہے پھر نسمۂ مفرد نسمۂ مرکب میں تبدیل ہونے لگتا ہے یعنی روشنی اکہری سے دوہری شکل اختیار کرنے لگتی ہے تو مادی اشیاء وجود میں آنے لگتی ہیں روشنی کی اس حرکت کو کشش اور گریز کا عمل بھی کہتے ہیں۔

رُوحانی لوگوں کو جب نسمۂ مرکب سے نسمۂ مفرد میں منتقل ہونے کا علم حاصل ہو جاتا ہے تو وہ نہ صرف خود اپنے آپ کو بلکہ اپنے ساتھ دوسری مادی اشیاء کو بھی نسمۂ مفرد کی دُنیا میں مثلاً جنّات وغیرہ کی دُنیا میں لے جانے کی قدرت رکھتے ہیں اور یہ عمل اتنی تیز رفتاری سے ہوتا ہے کہ انسانی عقل اسے سمجھ نہیں سکتی اسی علم کی وجہ سے رُوحانی لوگ ایک سیکنڈسے بھی کم وقت میں ہزاروں میل دور ایک ملک سے دوسرے ملک نہ صرف خود پہنچ جاتے ہیں بلکہ اپنے ساتھ کسی بھی مادی شئے کو لے جانے کی قدرت بھی رکھتے ہیں ایسے افراد اپنے آپ کو اور اپنے ساتھ کسی بھی مادی شئے کو کشش ثقل یا زمان و مکاں کی قید سے آزاد کرنے کا علم رکھتے ہیں اور اس قسم کا علم جاننے والا شخص زمان و مکاں کے ہاتھ میں کھلونا نہیں رہتا بلکہ زمان و مکاں اُس کے ہاتھ میں کھلونا بن جاتے ہیں۔ قران پاک میں سورہ النمل کی آیت ۳۸؎ تا ۴۰؎ میں حضرت سلیمان ؑ کے واقعے میں واضح طور پر اس بات کا اشارہ موجود ہے کہ حضرت سلیمان ؑ نے اپنے دربار میں یہ اعلان فرمایا کہ کوئی ہے جو بلقیس کا تخت ہمارے سامنے لا حاضر کرے تو دربار میں موجود ایک جن نے عرض کیا کہ ہاں میں اس بات پر قدرت رکھتا ہوں اور میں امانت دار بھی ہوں جب تک آپ اپنی جگہ سے کھڑے ہوں گے میں تخت لا حاضر کروں گا ، دربار میں موجود ایک انسان نے کہا کہ میں بلقیس کا تخت اتنی دیر میں لے آؤں گا کہ جتنی دیر میں آپ کی آنکھ جھپکے گی اور یہ کہہ کر اُس نے حضرت سلیمان ؑ کے سامنے تخت حاضر کر دیا اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بھی فرمایا ہے کہ اُس شخص کو کتاب کا علم حاصل تھا۔  کبھی کبھار حادثاتی طور پر کچھ چھوٹی بڑی مادی اشیاء اور انسان نسمۂ مرکب سے آزاد ہو کر نسمۂ مفرد کی فریکوئنسی میں چلے جاتے ہیں۔

 

 

برمودا مثلث

 

امریکہ اور دُنیا کے بیشتر ممالک کے بہت سارے اخبارات و رسائل میں اس قسم کی خبریں ماضی میں شائع ہو چکی ہیں کہ امریکی ریاست فلوریڈا کے شمال مشرقی سمت میں تقریباً بارہ سو میل کے فاصلے پر بحر اوقیانوس سمندر میں جزائر برمودا کے قریب ایک مثلث نما علاقہ ہے اور یہ مثلث یعنی تکون تین علاقوں میامی، برمودا اور سین جوآن سے مل کر بنتا ہے جہاں سے گزرنے والے نہ صرف بحری جہاز بلکہ ہوائی جہاز اور ہر طرح کی مادی چیزیں غائب ہو جاتی ہیں اس کا سبب آج تک معلوم نہیں ہو سکا یہاں تک کہ سمندر کی تہہ میں بھی اُن کا نام و نشان نہیں ملا اور اس علاقے سے سفر کرنے والے ہزاروں مسافروں ملاحوں کپتانوں اور پائلٹوں نے ایسے عجیب و غریب اور ناقابل یقین قسم کے مشاہدات اور واقعات بیان کئے ہیں کہ جن کے بارے میں انسانی عقل کچھ کہنے سے قاصر ہے۔

یہاں تک کہ جدید سائنس و ٹیکنالوجی کمپیوٹر جدید ملٹری سازو سامان اورسٹیلائٹ بھی ان واقعات کا سراغ لگانے میں ناکام ثابت ہو چکے ہیں اس حیرت انگیز معمے نے پوری دُنیا کے صاحب علم حضرات اور دانشوروں اور مفکرین کو مختلف سوچوں میں مبتلا کر رکھا ہے، جب صاحب مشاہدہ افراد برمودا کے واقعات کا ذکر کرتے ہیں تو پائلٹ اور کشتی ران ، ان واقعات کو سن کر خوف زدہ سے ہو جاتے ہیں ایک اندازے کے مطابق اب تک تقریباً ان حادثات میں سو100 ہوائی جہاز اور ایک ہزار افراد لاپتہ ہو چکے ہیں ، اس قسم کے بیانات میڈیا پر بھی نشر ہو چکے ہیں برمودا مثلث کے بارے میں اب تک کافی کتابیں لکھی جاچکی ہیں جن میں امریکہ کے مشہور دانشور چارلز برلیز کی کتاب ’’برمودا مثلث‘‘ کافی مقبول عام ہوئی تھی جو کہ مؤلف کی پانچ سالہ تحقیقات کا نچوڑ تھی اور یہ کتاب سن1973ء کو منظر عام پر آئی تھی۔

برمودا مثلث کے حوالے سے بہت سارے واقعات مشہور ہیں لیکن اہم واقعات کی تعداد ایک سو پچاس150 بتائی جاتی ہے کہ جس کی تائید حکومت وقت نے بھی کی ہے۔ جزائر برمودا دراصل کوئی ایک جزیرہ نہیں ہے بلکہ یہ تقریباً 300چھوٹے بڑے جزائر کا مجموعہ ہیں ان سب کو ملا کر جزائر برمودا کہا جاتا ہے اور یہ بحر اوقیانوس کی جنت کہلاتے ہیں اس کی وجہ یہاں کے حسین اور دلفریب مناظر قدرت ہیں ، یہاں کا موسم قدرے گرم ہے لیکن آب و ہوا بہترین ہے جب نیویارک کا موسم سرد اور پت جھڑ ( خزاں ) والا ہوتا ہے تو اُس وقت نیویارک کے برعکس برمودا کا سارا علاقہ موسم بہار کی مانند رنگ برنگے پھو لوں سے ڈھک جاتا ہے اور اُس وقت برمودا سے پھول اور سبزیاں امریکہ کو برآمد کی جاتی ہیں یہاں کے تقریباً تین سو 300 جزائر میں ایک اندازے کے مطابق صرف بیس20 جزائر میں مجموعی طور پر ڈیڑھ لاکھ افراد کی آبادی ہے ان جزائر کو سن1519ء میں ایک اسپانوی سیّاح جس کا نام ’’خوان دوبرمودر‘‘ تھا اُس نے دریافت کئے تھے جب سن 1609ء میں جارج سومرس کی کشتی اس علاقے میں ٹوٹ گئی تو اس وجہ سے ان جزائر کا تعلق انگلینڈ سے جوڑ دیا گیا تھا۔ جزیرہ برمودا تقریباً 33 درجہ شمالی چوڑائی میں اور64 درجہ مغربی لمبائی میں واقع ہے اس طرح سے یہاں پر ایک مثلث نما بن جاتی ہے اس وجہ سے بھی اسے برمودا مثلث کہتے ہیں۔

امریکہ کے مشہور شہر فلوریڈا، اور پورٹریکواسی برمودا مثلث کے نواح میں واقع ہیں اور دریائے سارگارسو یہاں کا ایک اہم ترین دریا ہے اور اس کی وجہ شہرت یہ ہے کہ زیادہ تر اہم واقعات جو کہ برمودا مثلث کے حوالے سے مشہور ہیں اسی دریا کے علاقے میں پیش آئے ہیں۔

تاریخ کے اوراق میں سب سے پہلا واقعہ ’’کرسٹوفرکولمبس‘‘کے حوالے سے درج ہے جس میں لکھا ہوا ہے کہ کرسٹوفرکولمبس نامی سیّاح نے ستمبر، سن1492ء میں نئی دُنیا کا کھوج لگانے کی غرض سے سفر اختیار کیا تو اُس کی کشتی جب دریائے ساگارسو کے قریب پہنچی تو اچانک اُس کی کشتی میں لگے ہوئے قطب نما نے کام کرنا چھوڑ دیاتو اس بات سے وہ اس جانب متوجہ ہوا چنانچہ 520 سال گزرنے کے بعد بھی آج یہ مسئلہ جوں کا توں ہے یعنی اُس علاقے میں داخل ہونے کے بعد قطب نما صحیح طور پر کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ کرسٹوفرکولمبس ہی وہ پہلا انسان تھا جو سب سے پہلے اس علاقے میں موجود پُراسرار سفید اور چمکدار پانی کی طرف متوجہ ہوا وہ 11اکتوبر 1492ء کو بذات خود جہاز کے عرشے پر موجود تھا سورج غروب ہونے کے تقریباً دو گھنٹے بعد وہاں اُس نے دریائے سارگاسو کے مغرب میں بہتے ہوئے سفید اور چمکدار پانی کا مشاہدہ کیا جس کی خاص قسم کی پُراسرار چمک الگ ہی نظر آ رہی تھی یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ وہاں پیش آنے والے واقعات میں اکثر سفید پانی کا ذکر ملتا ہے اکثر اس علاقے سے گم ہو جانے والوں کی جانب سے آخری پیغام بھی یہی ملا کہ اب ہم سفید پانی پر داخل ہو گئے ہیں اُس کے بعد رابطہ منقطع ہو گیا۔ اپالو 12 کے خلا بازوں نے برمودہ مثلث کے سفید چمکتے ہوئے پانی کو زمین سے نظر آنے ولا آخری نور قرار دیا تھا، کرسٹوفرکولمبس کے حوالے سے یہ عجیب بات بھی مشہور ہے کہ اُس نے وہاں آسمان سے آگ کا بہت بڑا گولہ سمندر میں گرتا ہوا دیکھا تھا۔

یوں تو برمودا کی تاریخ سن1492ء سے بیان کی جاتی ہے لیکن باقاعدہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق پہلا بحری جہاز سن1872ء میں اسی جگہ سے غائب ہوا تھا اور اُس کے بعد سے سن1945ء کے دوران کئی پرُاسرار واقعات برمودا کے علاقے میں لوگوں کی زبانی سننے میں آنے کے بعد حکومت امریکہ نے باقاعدہ تحقیقی اقدامات کا فیصلہ کیا، لہٰذا سن1945ء میں امریکی حکومت نے پانچ 5 جدید جنگی طیاروں پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی جس میں پانچ 5 ماہر پائلٹوں کے ساتھ نو 9 افراد برمودا کے معمے پر تحقیق کرنے کے لئے برمودا کے سفر پر روانہ ہوئے اور وہ سب وہاں پہنچ کر ایک گروپ کی شکل میں غائب ہو گئے اُن کی تحقیق و تلاش میں مارٹن ماریز نامی جہاز جو اُس وقت تک نہایت مضبوط اور مستحکم بنایا گیا تھا روانہ کیا گیا لیکن بدقسمتی سے وہ بھی لاپتہ ہو گیا ان واقعات سے حکومتی اداروں اور میڈیا میں کھلبلی سی مچ گئی آخر کار اُس کے بعد حکومت امریکہ نے اپنی ناکامی کا اعتراف کر ہی لیا۔

اس کے بعد حکومت امریکہ کی جانب سے دُنیا بھر سے علمی وسائنسی ماہرین کو مدعو کیا گیا سیمینار اور کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا، برمودا پر تحقیقات کرنے والوں کو تمام امکانی امداد کے ساتھ ساتھ وسیع تر اختیارات حکومت کے جانب سے دئیے گئے لیکن آج تک کوئی بھی شخص برمودا مثلت کے اسرار و رموز سے پردہ نہ اُٹھا سکا اور ان حادثات کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ماضی قریب میں بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں سن1997ء میں جرمنی کا ایک جہاز اور یکم جون2009ء کو ایر فرانس کا ایک مسافر طیارہ A330-200فلائٹ447دو سو سولہ مسافروں اور بارہ عملے کے ارکان کے ساتھ اسی علاقے سے لا پتہ ہو چکے ہیں۔

بہت سے ماہرین علم اور دانشوروں نے برمودا میں ہونے والے واقعات کے حوالے سے اپنی اپنی رائے پیش کی لیکن دوسرے دانشوروں نے اپنے دلائل سے اُسے غلط ثابت کر دیا لہٰذا اس مسئلے میں ماہرین علم اور دانشوروں میں خاصہ اختلاف پایا جاتا رہا ہے۔

کچھ نے یہ خیال پیش کیا کہ ان واقعات کے پیچھے ہوائی جہازوں اور کشتیوں کا اپنا نقص تھاجس کے سبب وہ حادثے کا شکار ہوئے، اس پر دوسرے دانشمندوں نے کہا کہ اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ عام نوعیت کی کشتیاں اور جہاز کسی نقص کے سبب حادثے کا شکار ہوئے تو کیا جدید ایٹمی آبدوز بھی نقص کے سبب حادثے کا شکار ہوئی جبکہ ایٹمی آبدوز کے بارے میں اس قسم کا قیاس کرنا دُور کی بات ہے اسی طرح ہوائی جہازوں کا ہمیشہ ایک مخصوص مقام سے غائب ہونا فنی خرابی کا سبب نہیں ہو سکتا۔

بعض دانشوروں نے ان حادثات کو دریا میں اٹھنے والے ہوائی اور دریائی بھنور کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ اس پر سوال اٹھائے گئے کہ یہ حادثات اگر دریائی بھنور کا نتیجہ ہوتے تو وہاں حادثے کے کچھ نہ کچھ آثار تو ضرور ملتے کشتیوں اور ہوائی جہازوں کا ملبہ یا پیٹرول اور دوسرے جلنے والے مادوں کا کچھ نہ کچھ ُسراغ تو ضرور ملتا کیوں کہ اس کی وجہ سے دریائی پانی کا آلودہ ہونا لازمی امر تھا جبکہ برمودا مثلت کے حوادث کا کبھی کوئی نام و نشان تک نہ ملا۔

جونی اسپنسر اور کئی دوسرے دانشوروں کا کہنا ہے کہ برمودا مثلث کے حادثات کا تعلق اُن اُڑن طشتریوں سے ہے جو برمودا کے علاقے میں اکثر دیکھی گئی ہیں ہوسکتا ہے کہ دوسرے سیارے کی مخلوق ہماری ٹیکنالوجی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی وجہ سے ہمارے جہاز اور کشتیاں غائب کر دیتی ہوں۔

بعض مفکرین کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں کچھ ایسی معدنیات موجود ہیں جن کی تحقیق ابھی تک نہیں ہوسکی ہے شاید کوئی انجانی یا مقناطیسی طاقت ہے جو اکثر بلند ہوتی ہے اور جہازوں اور کشتیوں کو نیست و نابود کر دیتی ہے یا پھر ہو سکتا ہے کہ اس جگہ پانی کی گہرائی میں مقناطیسی پہاڑ موجود ہوں جس کی وجہ سے یہ حادثات ہوتے ہیں۔

اسی طرح ایک روسی ماہرین علم نے فرمودہ کے حادثات کی وجہ کو چاند کی کشش قرار دیا ہے۔ بہت سے دانشوروں کے خیال کے مطابق ان حادثات کا تعلق برمودا کے پُراسرار سفید چمکتے ہوئے پانی سے ہے۔ کچھ کے خیال میں برمودا کے اس علاقے میں ایک سبز نور ہے کہ جس کے اثر کی وجہ سے جہاز اور کشتیاں غائب ہو جاتیں ہیں تمام ماہرین علم ، سائنسی ماہرین اور دانشوروں کے برمودا مثلث کے بارے میں نظریاتی اختلافات لاکھ صحیح، لیکن سب کا اتفاق اس بات پر ہے کہ برمودا مثلث ایک نہایت ہی پُراسرار اور نہ سمجھ میں آنے والا علاقہ ضرور ہے۔

برمودا مثلث اس قسم کے حادثات اور واقعات کے حوالے سے یقیناً دُنیا میں ایک اہم زون یا علاقہ مانا جاتا ہے لیکن اس قسم کے دیگر واقعات دُنیا کے مختلف حصوں میں بھی پیش آ چکے ہیں ، لیکن شاید اس طرف ابھی تک کسی کا دھیان ہی نہیں گیا ماضی میں بھی ایک پاکستانی طیارہ مسافروں سمیت پُراسرار طور پر غائب ہو چکا ہے جس کا سراغ آج تک نہیں لگایا جا سکا، اکثر لوگوں کے ساتھ ایسے واقعات بھی پیش آتے ہیں کہ بند الماری میں رکھی چیزیں اور پیسے وغیرہ غائب ہو جاتے ہیں۔

اس قسم کے حادثاتی واقعات میں جب نسمۂ مرکب سے کوئی چیز نسمۂ مفرد میں منتقل ہو جاتی ہے تو دوبارہ پھر واپس نسمۂ مرکب کی حالت میں نہیں آتی اور اگر اتفاق سے کوئی چیز یا انسان جو کہ نسمۂ مرکب سے حادثاتی طور پر نسمۂ مفرد کی دُنیا یا فریکوئنسی میں چلا گیا ہو واپس آئے تو ہو سکتا ہے کہ زمان و مکاں کے فرق کی وجہ سے دُنیاوی وقت بہت آگے جا چکا ہو کافی سال یا صدیاں گزر چکی ہوں ،

لیکن اس شخص کی عمر اس حادثے کے وقت جو تھی اب بھی وہی ہو گی جبکہ اُس کے خاندان کی کافی نسلیں آگے جا چکی ہوں گی اس کی وجہ مختلف عالموں میں زمان و مکاں کا فرق ہے۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ قیامت کے روز کہ جس دن صور پھونکا جائے گا اور لوگ اکٹھے کئے جائیں گے اور آپس میں ایک دوسرے سے باتیں کریں گے کے بارے میں فرماتے ہیں ’’تو وہ آپس میں آہستہ آہستہ کہیں گے کہ تم دُنیا میں صرف دس ہی دن رہے ہو ، جو باتیں یہ کریں گے ہم خوب جانتے ہیں اُس وقت اُن میں سے اچھی راہ والا یعنی عاقل و ہوشمند کہے گا کہ نہیں بلکہ صرف ایک روز ہی ٹھہرے ہو‘‘۔ آیت۱۰۳؎ تا۱۰۴؎ سورہ طٰہٰ۔ یہ تو تھی قرآن سے مثال اسی طرح کا ایک واقعہ جو تصّوف سے متعلق مشہور کتاب ’’ تذکرہ غوثیہ ‘‘ میں بیان کیا گیا ہے پیش خدمت ہے۔

ایک مرتبہ حضرت شاہ عبد العزیز صاحبؒ کی خدمت میں ایک شخص امیرانہ لباس میں ملبوس حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضرت میری داستان بڑی عجیب ہے کوئی اس پر یقین نہیں کرتا میری عقل کام نہیں کرتی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں اور کہاں جاؤں آپ کی خدمت میں اس لئے آیا ہوں کہ جو ارشاد ہو بجا لاؤں۔

میں لکھنؤ کا باشندہ اور روزگار پیشہ آدمی تھا ایک مرتبہ بیکاری کے باعث گھر پر تنگی سے گزرنے لگی ایک روز ارادہ کیا کہ کہیں باہر نکل کر معاش تلاش کروں اور سرمایہ بھی کم رہ گیا تھا تھوڑا سا زاد راہ لے کر اودے پور کو چلا اثنائے راہ میں ریواڑی کا مقام آیااُس زمانے میں وہاں صرف ایک سرائے تھی اُس سرائے میں چند بھٹیاریاں اور دو ایک کسبیاں رہتی تھیں۔

میں سرائے میں اُترا اور گھوڑا باندھ کر خاموش و متفکر چارپائی پر جا بیٹھا کیوں کہ خرچ پاس نہ تھا۔ اتنے میں ایک کسبی آئی اور کہنے لگی کہ میاں جوان کس فکر میں بیٹھے ہو کھانے وانے کا سامان کیوں نہیں کرتے میں نے کہا کہ ابھی تھکا ہارا آیا ہوں ذرا سُستالوں تو بندوبست کروں وہ چلی گئی مگر ذرا دیر بعد پھر آئی اور بولی کہ اب کتنی دیر ہے میں نے پھر وہی جواب دیا تیسری بار پھر آئی اور بولی کیا بات ہے ناچار جو بات تھی میں نے سچ سچ کہ دی کہ کوڑی گرہ میں نہیں ہے اب اگر گھوڑا اور ہتھیار بیچتا ہوں تو نو کری کیسے کروں گا اور اگر یہ نہ کروں تو پیسے کہاں سے لاؤں وہ میری بات سُن کر چُپ چاپ چلی گئی اور کچھ روپئے لا کر میرے حوالے کئے اور کہا لو یہ روپئے میں نے چرخہ کات کر اپنے کفن دفن کے لئے جمع کئے تھے میں تم کو قرض حسنہ دیتی ہوں جب تم کو خدا دے تو ادا کر دینا۔

غرض میں وہ روپئے خرچ کرتا ہوا اُودے پور کو پہنچا وہاں جھٹ پٹ مجھے ایک راجہ کے ہاں نو کری مل گئی اور کچھ ایسا خدا کا فضل ہوا کہ پانچ ہی برس میں امیر کبیر آدمی بن گیا پھر تو حشم خدم ہاتھی گھوڑے سب ٹھاٹھ امیرانہ مہیّا تھے۔ گھر سے خط آیا کہ لڑکا جوان ہو گیا ہے لڑکی والے تقاضا کرتے ہیں کہ شادی جلدی کرنی ہے جلد گھر آ کر شادی کا سامان کرو۔

میں راجہ سے رخصت لے کر بڑے ٹھاٹھ سے چلا اور ریواڑی کی طرف روانہ ہوا جب اُسی سرائے میں اُترا تو کسبی کا حال دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ مہینے بھر سے بیمار ہے اور کچھ دم کی مہمان ہے جب اُس کے پاس پہنچا تو میرے سامنے جاں بحق ہوئی تجہیز و تکفین کی اور اپنے ہاتھ سے اُسے قبر میں اُتارا اور دفن کر کے چلا آیا۔

جب آدھی رات گزری تو خیال آیا کہ جیب میں پانچ ہزار کی ہنڈی تھی دیکھا تو نہیں تھی بڑی پریشانی ہوئی سوچتے سوچتے ذہن میں خیال آیا کہ ضرور ہنڈی اُس قبر میں گر گئی ہو گی پلنگ سے اُٹھا اور سیدھا قبرستان کی طرف روانہ ہوا وہاں پہنچ کر کسبی کی قبر کھول ڈالی، کیا دیکھتا ہوں کہ نہ وہاں میّت ہے اور نہ ہنڈی ہاں ایک طرف کو دروازہ سانظر آتا ہے اُس کے اندر چلا گیا۔

کیا دیکھتا ہوں کہ ایک پُر فضا و دلکشا باغ ہے اُس میں ایک عالیشان مکان فرش و فروش سے آراستہ ہے اور وہاں ایک عورت حسین و مہ جبین بیٹھی ہے دل میں خیال آیا کہ یہ تو کسی شہزادی کا مکان ہے ایسا نہ ہو کہ مجھے کوئی روکے ٹوکے جھجک کر قدم اٹھایا ہی تھا کہ اُس کے گِرد جو پرستار و غلام دست بستہ کھڑے تھے اُن میں سے ایک میرے پاس آیا اور مجھے بلا کر لے گیا اور شہزادی کے رُوبُرو پیش کیا۔

اب وہ شہزادی مجھ سے کہتی ہے کہ تم نے مجھے پہچانا نہیں ؟ میں نے کہا نہیں میں نہیں پہچانا وہ بولی میں وہی کسبی ہوں جس نے تمھیں بُرے وقت میں پیسے دیئے تھے آج اسی نیکی کی بدولت اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ عروج عطا فرمایا ہے لو یہ تمھاری ہنڈی بھی موجود ہے جو قبر میں گر گئی تھی اب دیر نہ کرو اور جلدی سے یہاں سے نکل جاؤ میں نے کہا کہ میں یہاں کی سیر تو ذرا کر لوں وہ بولی کہ تم قیامت تک یہاں کی سیر نہیں کر سکو گے اتنی دیر میں دُنیا میں کیا سے کیا ہو گیا ہو گابس تم جاؤ۔

خیر میں نے وہاں کچھ سیر کی اور پھر اُس کے کہنے کے موافق چلا آیا شاید کوئی تین دن کا وقت لگا ہو گا، قبر کے باہر نکل کر کیا دیکھتا ہوں کہ زمانے کا رنگ ہی کچھ اور ہے نہ وہ سرائے ہے نہ وہ آدمی نہ وہ بستی، سرائے کی جگہ پر ایک شہر آباد ہے، جس کسی سے پچھلا حال دریافت کرتا ہوں تووہ مجھے دیوانہ قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میاں خیر تو ہے کیسی سرائے اور کون امیر؟آخر ایک آدمی نے کہا چلو میں تمھیں ایک بزرگ کے پاس لے چلوں شاید اُن سے کچھ پتہ لگے۔

وہ شخص جس بزرگ کے پاس مجھے لے گیا وہ بہت ہی معمر آدمی تھے میرا تمام حال سننے کے بعد بزرگ نے بحر تفکر میں غوطہ لگایا اور بہت تامّل کے بعد فرمایا کہ ہاں کچھ کچھ مجھ کو یاد ہے میرے پردادا فرمایا کرتے تھے کہ اگلے زمانے میں یہاں صرف ایک سرائے تھی اور اُس میں ایک کسبی آباد تھی ایک امیر آ کر ٹھہرا اور اُس کسبی کا گور و کفن کیا مگر آدھی رات کو وہ بھی غائب ہو گیا تھا پھر کبھی اُس کا پتہ نہ لگا، ہم راہی رو پیٹ کر چلے گئے اس بات کو کوئی تین سو برس کا عرصہ گزر چُکا ہو گا،۔

جب میں نے حال بیان کیا کہ وہ امیر میں ہی ہوں تو لوگ میرے گرد جمع ہونے لگے اور حیرت کرنے لگے۔ اب مجھ کو خبط ساہو گیا کہ نہ گھر ہے نہ در، جاؤں تو جاؤں کہاں اور اس ہنڈی کا کیا کروں۔ یہ سن کر حضرت شاہ عبدالعزیز صاحبؒ نے فرمایا کہ بیشک وہاں کا ایک دن یہاں کی ایک صدی کے برابر ہوتا ہے اب تم بیت اللہ کو چلے جاؤ اور باقی عمر یاد الہٰی میں گزار دو چنانچہ اُس شخص کو مکّۂ معظّمہ روانہ کر دیا گیا۔

اس بات سے اصحاب کہف جن کا تذکرہ قرآن پاک میں آیا ہے اُن کی حقیقت اچھی طرح سے واضح ہو جاتی ہے۔

البرٹ آئن اسٹائن جو کہ زمانہ قریب کے ایک بہت بڑے سائنسدان مانے جاتے ہیں اُنہوں نے سن1905ء میں اپنی اسپیشل تھیوری آف رلیٹی وٹی (Special Theory of Relativity) پیش کی جس کے مطابق کسی چیز کا وجود زمان و مکاں (Time & Space)دونوں سے مل کر بنتا ہے اور کسی بھی طرح سے ٹائم کو اسپیس سے الگ نہیں کیا جا سکتا ہے۔

ہاں مگر وقت کے محسوسات مختلف حالتوں میں مختلف ہو سکتے ہیں مزید آئن اسٹائن کی تھیوری کے مطابق روشنی ، توانائی اور مادہ درحقیقت ایک ہی شئے کے تین روپ ہیں اور یہ تینوں آپس میں ایک دوسرے میں تبدیل ہونے (Interchangeable) کی خاصیت رکھتے ہیں اس تھیوری کی مشہور مساوات E=mc2 ہے جو کہ ایٹم بم کی ایجاد کا سبب بنی تھی۔

اسی مساوات کی بنیادپر آئن اسٹائن نے ایک تھیوری اور بنائی جسے اُس نے (Unified Field Theory) کا نام دیا جس کو ہم سادہ الفاظ میں یوں بیان کریں گے کہ اگر کسی جگہ کسی طریقے سے ایک خاص فریکوئنسی ڈالی جائے تو اُس جگہ کی تمام مختلف قسم کی اشیاء اسی فریکوئنسی میں تبدیل ہو جائیں گی یعنی اگر فریکوئنسی بڑھا دی جائے تو تمام اشیاء روشنی میں تبدیل ہو جائیں گی اور اگر فریکوئنسی کم کی جائے یعنی مادی سطح (Level)پر لائی جائے تو تمام اشیاء مادی حا لت میں واپس آ جائیں گی۔

آئن اسٹائن نے اپنی اسپیشل تھیوری آف رلیٹی وٹی میں جو زمان و مکاں (Time & Space) کا نظریہ پیش کیا تھا کہ ہر شے کا وجود ٹائم اینڈ اسپیس سے مل کر بنا ہے اور یہ کہ ٹائم کو اسپیس سے الگ نہیں کیا جا سکتا ہے۔

آئن اسٹائن کا نظریہ بالکل درست ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کائنات میں اصل طاقت وقت(Time)ہی ہے اور یہ وقت ہی توہے جو ہر قسم کی اور طرح طرح کی مادی و غیر مادی تخلیقات کر رہا ہے اور مادہ کو پھر فنا کر رہا ہے۔

یہ حقیقت ہمیں آخر کار تسلیم کرنی ہی پڑے گی کہ مادی زندگی کا انحصار غیر مادی دُنیا یعنی غیب کی دُنیا یا جسے ہم لاشعوری دُنیا بھی کہتے ہیں پر ہے ہم مادی زندگی میں مادی دماغ استعمال کرتے ہیں جسے ہم شعور کہتے ہیں جبکہ غیب کا دماغ لاشعور کہلاتا ہے جو کہ عام طور پر نیند یا خواب کی حالت میں کام کرتا ہے اور خاص طور پر مراقبے کی حالت میں کام کرتا ہے اسے ہم رُوح کا دماغ بھی کہتے ہیں اور رُوح زمان و مکاں سے آزاد ہے۔

آپ نے اکثر دُنیاوی زندگی میں یہ مشاہدہ ضرور کیا ہو گا کہ ایک ہی عمر کے دو افراد میں کبھی کبھی عمر کا کافی فرق نظر آ تا ہے مثلاً دو افراد کہ جن کی عمریں چالیس چالیس سال کی ہیں اُن میں ایک تو چالیس سال کا ہی نظر آتا ہے لیکن دوسرا تیس سال کا معلوم ہوتا ہے ایسا کیوں ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ وہ واقعی ابھی تیس سال کا ہی ہے جبکہ وقت چالیس سال کا گزر چکا ہے یہ فرق ان دونوں افراد کے شعور اور لاشعور کے درمیان ایک خاص قسم کے توازن (Balance)کے فرق کی وجہ سے ہے اسی طرح ہر انسان کے درمیان اسی قسم کا فرق پایا جاتا ہے اس ہی فرق کی وجہ سے ایک ہی عمر کے دو مختلف انسانوں کے درمیان نہ صرف عمر کا فرق نظر آسکتا ہے بلکہ انسانی شکل و صورت اور جسمانی خدوخال میں فرق کی وجہ بھی یہی ہے اگر انسان اپنی مرضی سے اپنی عمر پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے تو اُسے کسی رُوحانی اُستاد کی نگرانی میں مسلسل مراقبہ کرنا پڑے گا۔

ہم نے پچھلے صفحات میں چار عالموں کا تذکرہ کیا تھا عالم لاہوت، جبروت، ملکوت اور ناسوت عالم لاہوت تجلی کا مقام اور اللہ تعالیٰ کے انتہائی قرب کا مقام ہے اللہ تعالیٰ کی وہ روشنی جو کہ تجلی کہلاتی ہے کائنات میں موجود تمام عالموں کی روشنیوں پر غالب ہے اور انتہائی طاقت ور ہے اس لئے تجلی سے پیدا ہوئے فرشتے حضرت جبرائیلؑ کے بارے میں قرآن میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’’بیشک یہ قرآن فرشتہ عالی مقام کی زبان کا پیغام ہے جو صاحب قوت مالک عرش کے ہاں اونچے درجے والا سردار اور امانت دار ہے ‘‘۔ آیت ۲۰؎ تا ۲۱؎ سورۂ التکویر۔

کوئی فرشتہ اپنے عالم سے اُوپر نہیں جا سکتا لیکن نیچے اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لئے جا سکتا ہے اس لئے دوسرے عالم یعنی عالم ملکوت کے فرشتے نیچے عالم ناسوت میں جا سکتے ہیں یعنی ان کی رسائی دو عالم تک کی ہوئی، اس لئے وہ دو پروں والے فرشتے کہلائے۔ اس طرح عالم جبروت کے فرشتوں کی رسائی عالم جبروت ملکوت اور ناسوت تک ہے، لہٰذا یہ تین پر والے فرشتے کہلائے جو کہ مرتبے میں عالم ملکوت کے فرشتوں سے بڑے ہیں۔

اسی طرح حضرت جبرائیلؑ کی رسائی عالم لاہوت سے جبروت ملکوت اور ناسوت تک چار عالموں تک ہوئی تو چار پروں والے کہلائے اور اللہ تعالیٰ کے سب سے مقرب اور طاقت ور بھی کہلائے۔ لیکن حضرت جبرائیلؑ بھی لاہوت میں ایک مقام جسے سدرۃ المنتہیٰ کہتے ہیں جو کہ عالم لاہوت کا انتہائی مقام ہے اس سے آگے نہیں جا سکتے کہ جس کے آگے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گئے اور اللہ تعالیٰ کی ذات حق کا مشاہدہ کیا یہ شان صرف اور صرف انسان کے ہی حصے میں آئی جسے فی الارض خلیفہ کہا گیا تھااسی لئے صوفیاء حضرات مراقبے کے ذریعہ آہستہ آہستہ مذکورہ بالا تمام عالموں کا مشاہدہ کرتے ہوئے معرفتِ الٰہی حاصل کر لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صرف انسان کو اپنا خلیفہ بنایا اور علم الاسماء جو کہ کائناتی اسرار و رموز اور فارمولوں کا علم ہے سکھایا اور اپنے علاوہ صرف انسان کو ہی اپنی طرح کائنات میں تصرف کرنے کی طاقت بخشی یہ اختیار کسی بھی مخلوق کو حاصل نہیں ہے لیکن انسان کو یہ اختیار تب ہی حاصل ہوتا ہے جب وہ فی الارض خلیفہ کی حیثیت سے اپنے آپ کو اچھی طرح سے جان لے اور پہچان لے پھر ایسے انسان کی فرشتے بھی تعظیم کرتے ہیں اور جنّات بھی عزت کرتے ہیں اور کسی قسم کی ماورائی طاقت اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔

 

 

 

     طریقۂ کار درجۂ چہارم

 

اب ہم یہاں بذریعہ درجۂ چہارم کے علاج کے طریقۂ کار کا تذکرہ کریں گے اس درجے سے تین طرح سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔ (1) دُور سے علاج کرنا (2) اجتماعی علاج کرنا (3) منفی ماورائی طاقتوں سے نجات حاصل کرنا وغیرہ۔

(1) دُور سے علاج کرنا : اس طریقے سے مریض دُنیا میں خواہ کہیں پر بھی موجود ہو ٹیلی فون پر رابطے کے ذریعے سے اپنا علاج کروا سکتا ہے۔ اس کے لئے مریض کو اپنے معالج یعنی ہیلر سے بذریعہ فون رابطہ کر کے بتانا ہوتا ہے کہ وہ ہیلنگ کرانے کے لئے تیار ہے پھر وہ معالج کی ہدایت پر دس منٹ کے لئے آنکھیں بند کر کے آرام دہ حالت میں لیٹ جاتا ہے اس دوران معالج مریض کی ہیلنگ کر دیتا ہے بعض مریضوں کو دوران ہیلنگ اتنا سکون ملتا ہے کہ وہ نیند کی حالت میں چلے جاتے ہیں ، معالج کو چاہئے کہ جب کوئی مریض علاج کے لئے فون کرے تو اُس کو دس منٹ تک آنکھیں بند کر کے آرام دہ حالت میں لیٹنے کی ہدایت کرے پھر اگر ممکن ہو سکے تو معالج مریض کے گھر یا شہر کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر آنکھیں بند کر کے درجۂ چہارم کی طاقت کو کھولے اور پھر دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو چہرے کے سامنے اس طرح سے رکھے کہ ہتھیلیوں کے پچھلے حصے چہرے کی جانب ہوں اور پھر انگوٹھے اور شہادت کی انگلیوں کی نوکوں کو ملا کر مثلث یعنی تکون کی شکل بنائے اور پھر مریض کا تصّور کر تے ہوئے تین مرتبہ انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے بنی ہوئی تکون کے درمیان سے پھونک مار دے۔

(2) اجتماعی علاج کرنا : اس طریقے سے لوگوں کی اجتماعی ہیلنگ کی جاتی ہے ایسا اُس وقت ہوتا ہے کہ جب عوام کثرت سے آنا شروع ہو جائیں اور ایک معالج کے لئے بہت سارے لوگوں کی ہیلنگ کرنا ممکن نہ رہے تب اس طریقۂ کار کا استعمال کیا جا سکتا ہے اس میں لوگوں کو ایک مثلث کی شکل میں بیٹھایا جاتا ہے مثلاً ایک آدمی اُس کے پیچھے دو آدمی اور اُن کے پیچھے تین آدمی اور پھر اُن کے پیچھے چار آدمی، اسی طرح جگہ کے حساب سے چھوٹی یا بڑی مثلث بنائی جا سکتی ہے۔ اُس کے بعد معالج پہلے شخص کے سامنے کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر آنکھیں بند کر کے درجۂ چہارم کی طاقت کو کھولے پھر مذکورہ بالا طریقے کے مطابق ہاتھوں سے مثلث بنا کر اۃُس کے درمیان سے لوگوں کی جانب پھونک مار دے اس پورے عمل کو تین بار دوہرایا جائے اور لوگوں کو دس منٹ تک آنکھیں بند کر کے بیٹھنے کی ہدایت کرے۔

(3) منفی ماورائی طاقتوں سے نجات : اس طریقے سے آسیب زدہ، جادو زدہ اور ہر قسم کے منفی اثرات سے متاثرہ مکانوں اور دوسری جگہوں کو نجات دلائی جاتی ہے اس کے لئے متاثرہ جگہ کے درمیان میں کھڑے ہو کر آنکھیں بند کر کے درجۂ چہارم کی طاقت کھولے پھر مذکورہ طریقے پر ہاتھوں سے مثلث بنا کر گول گھومتے ہوئے چاروں طرف پھونک مار دے یہ عمل ایک مرتبہ کافی ہے لیکن اس سے پہلے درجۂ سوئم سے مذکورہ طریقے پر متاثرہ جگہ کو توانائی دینا ضروری ہے۔

 

 

 

   تجربات

 

آئیے اب ہم یہاں قارئین کی دلچسپی اور معلومات میں اضافے کے لئے ’’نجمی شفائی توانائی‘‘ کے ذریعے مریضوں کے علاج سے متعلق چند اہم واقعات کا ذکر کریں ، جیسا کہ ہم نے شروع میں ، تعارف میں ذکر کیا تھا کہ’’ نجمی شفائی توانائی‘‘ کے علمی تعارف اور عملی مشقوں کا آغاز سن2001ء میں کیا گیا تھا، اُس وقت ہم نے نارتھ کراچی میں ’’الصحت ویلفٔیر کلینک ‘‘کے نام سے ایک کلینک قائم کیا تھا، جہاں ڈاکٹری علاج کے ساتھ ساتھ بذریعہ رُوحانی ہیلنگ کے بھی مریضوں کو   شفا یاب کیا جاتا تھااُس وقت سے آج تک ہمارے پاس بیماری سے متعلق بہت سارے کیس آئے جو کامیابی سے صحیح ہوئے، اُن میں بالکل ابتداء میں نادیہ نامی ایک بچی کا کیس بھی آیا تھا جو کچھ یوں تھا۔

نادیہ کا کیس : نادیہ کی والدہ کو کسی مریض کے ذریعے سے ہمارے بارے میں پتہ چلا تھا کہ ہمارا تعلق ڈاکٹری کے ساتھ ساتھ رُوحانیت سے بھی ہے اور ہم رُوحانی ہیلنگ سے بھی علاج کرتے ہیں لہٰذا وہ ہمارے پاس آئیں اور بتایا کہ اُن کی دس سالہ بیٹی نادیہ اس وقت جناح اسپتال میں داخل ہے اور بہت سخت بیمار ہے اُس کے جگر پر کافی ورم ہے کچھ کھا پی بھی نہیں سکتی اور کافی کمزور بھی ہو چکی ہے۔ ڈاکٹر حضرات بھی مایوس نظر آتے ہیں بس کافی دنوں سے علاج چل رہا ہے لیکن کسی قسم کی بہتری نظر نہیں آتی اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ چند سال قبل نادیہ کی بڑی بہن بارہ سال کی عمر میں اسی طرح پیٹ کی بیماری میں ایک پرائیوٹ اسپتال میں وفات پاچکی ہے اُنہوں نے بڑے دُکھ کے ساتھ بتایا کہ اسپتال والوں نے مردہ بچی کے ساتھ ساتھ علاج معالجے کا لمبا چوڑا بل بھی ہمیں پکڑا دیا جو ہماری حیثیت سے بہت زیادہ تھا اور اُس غم کی حالت میں بھی کسی قسم کی رعایت اور ہمدردی ہمارے ساتھ نہیں کی گئی۔

میں نے اُن سے کہا کہ اگر آپ کو اپنی بچی کی ہیلنگ کرانی ہے تو اُسے تین دن تک ہمارے پاس لانا ہو گا، اس پر خاتون نے جواب دیا کہ ہم کل ہی اسپتال سے چھٹی لے کر نادیہ کو آپ کے سامنے ضرور حاضر کریں گے۔ دوسرے دن وہ خاتون اپنی بچی نادیہ کوساتھ لے کر ہماری کلینک آئیں۔ بچی کافی کمزور اور پیلی نظر آ رہی تھی اُس نے بتایا کہ وہ جو بھی چیز کھاتی ہے فوراً اُلٹی ہو جاتی ہے۔

بہرحال ہم نے دس منٹ بچی کی رُوحانی ہیلنگ کی اور پھر وہ اپنی والدہ کے ساتھ گھر چلی گئی۔ دوسرے دن جب وہ بچی اپنی والدہ کے ساتھ آئی تو وہ کافی بہتر بلکہ تقریباً نارمل جیسی نظر آ رہی تھی، وہ اور اُس کی والدہ کافی خوش نظر آ رہے تھے بچی کی والدہ نے بتایا کہ کل جب ہم نادیہ کی ہیلنگ کرا کے گھر گئے تو نادیہ نے گھر جا کر کچھ کھایا پیا اور کھیلنا کودنا شروع کر دیا ، ہمارے رشتے دار وغیرہ جو نادیہ کی بیماری کا سن کر ہمارے گھر عیادت کے واسطے آئے تھے نادیہ کو کھیلتا کودتا دیکھ کر حیران رہ گئے اور ہم سے کہنے لگے کہ’’ تم نے تو نادیہ کی خراب حالت کی اطلاع دے کر ہمیں بلاوجہ پریشان ہی کر دیا تھا بچی تو ماشاء اللہ سے بالکل ٹھیک ٹھاک لگ رہی ہے‘‘۔ اس خاتون نے ہم سے ہنستے ہوئے کہا کہ’’ ڈاکٹر صاحب ہم تو لوگوں کی نظروں میں جھوٹے ہی ہو گئے‘‘ اُس کے بعد اُنہوں نے اپنا ایک مسئلہ اور بھی بتایا کہ نادیہ کی ایک بڑی بہن سعدیہ بھی ہے جو کہ تیرہ برس کی ہے اُس کو اوپری اثرات کی وجہ سے اکثر عجیب اور کافی تکلیف دہ قسم کے دورے پڑتے ہیں ہم کچھ دنوں بعد اُسے بھی آپ کو دکھائیں گے، اُس کے بعد خاتون ہمارا شکریہ ادا کر کے چلی گئیں اور ہماری صرف تین دنوں کی ہیلنگ سے نادیہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بالکل صحت یاب ہو گئی تھی۔

اسامہ کا کیس : اُس وقت ہماری کلینک کے برابر والی دوکان میں بچوں کے ویڈیو گیم کی دوکان تھی جہاں بچے گیم کھیلنے آیا کرتے تھے یہ دوکان سلیم نامی ایک شخص کی تھی ، سلیم سے ہماری رفتہ رفتہ دوستی ہو گئی تھی ایک دن سلیم ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میرے بڑے بھائی کا بچہ جس کی عمر دوسال ہے سخت بیمار ہے اور اسپتال میں داخل ہے ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ اُس کی گردن میں رسولی ہے اور سوائے آپریشن کے کوئی چارہ نہیں ہے مگر بچے کی عمر اس وقت بہت کم ہے لہٰذا اگر ابھی آپریشن کیا تو بچے کی جان بھی جا سکتی ہے۔ بچہ اس وقت بہت تکلیف میں ہے اور سوکھ کر کمزور ہو گیا ہے ہم نے سلیم سے کہا کہ اس وقت تو سوائے رُوحانی ہیلنگ کے کوئی دوسرا چارہ نظر نہیں آتا، وہ ہمارے کہنے سے اسامہ کو کلینک لے آیا بچہ کافی کمزور لگ رہا تھا دوسال کی عمر میں چھ6 مہینے کا معلوم ہو رہا تھا خیر ہم نے تین دن اُس بچے کی رُوحانی ہیلنگ کی اور پھر اُس کے بعد سلیم بچے کو نہیں لایا اور ہم یہ بات بھول گئے۔

تقریباً چھ6 مہینے بعد ایک دن ہم سلیم کی دوکان پر گئے تو دیکھا کہ ایک موٹا صحت مند اور خوبصورت سا بچہ بیٹھا ہوا ہے ہم نے سلیم سے دریافت کیا کہ یہ کس کا بچہ ہے تو وہ ہماری بات سُن کر ہنسنے لگا اور بولا کہ’’ ارے ڈاکٹر صاحب کیا آپ اس بچے کو بالکل ہی بھول گئے یہ اسامہ ہے جس کی آپ نے ہیلنگ کی تھی‘‘ یہ دیکھ کر ہمیں بھی تعجب ہوا اور یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ وہی بچہ ہے کہ جس کی ہیلنگ ہم نے کی تھی، ہم نے سلیم سے پوچھا یہ اتنا صحت مند کیسے ہو گیا تو سلیم نے جواب دیا بس آپ سے ہیلنگ کرائی تھی اس کے بعد سے یہ خود ہی صحت پکڑ گیا۔

رابعہ کا کیس : نومبرسن2010ء میں موسم سرما کی ابتداء تھی ہم اپنے ایک دوست محمد علی کے ساتھ پنجاب کے شہر علی پور کے علاقے بنگلہ باڑہ، سیروتفریح کی غرض سے گئے تھے۔ وہاں اُس کا ایک دوست زکریا رہتا تھا جس کے گھر ہم گئے تھے اُن دنوں اُس کے گھر میں شادی وغیرہ بھی تھی۔ اُس موسم میں وہاں گنّے اور سرسوں کی فصل بھی تیار تھی سرسوں کے پیلے پیلے پھولوں سے بھرے کھیت نہایت ہی خوبصورت اور دلکش منظر پیش کر رہے تھے۔

میزبان کافی مہمان نواز تھے ہمارے لئے قسم قسم کے روایتی کھانے پیش کئے گئے اور اُنہوں نے ہمیں گاؤں کی سیر بھی خوب کروائی، ہمارے دوست محمد علی نے زکریا کے گھر والوں سے ہمارا تعارف رُوحانی ہیلنگ کے حوالے سے بھی کروایا تو اس پر زکریا اور ان کے گھر والوں نے ہمیں بتایا کہ ہماری برادری میں ایک صاحب ہیں جن کا نام عبداللہ ہے اُن کی بیٹی رابعہ کو تقریباً چار سال سے کینسر کا مرض لاحق ہے بہت علاج کروایا، کراچی بھی لیکر گئے اور کرن اسپتال سے بھی علاج کروایا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، اب تو ڈاکٹروں نے بھی جواب دے دیا ہے۔

رابعہ اس وقت سخت تکلیف میں ہے اور زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا اپنے گھر میں موجود ہے۔ مزید یہ بھی بتایا کہ ان چار سالوں کے عرصے میں اُن لوگوں کے تقریباً پندرہ15 لاکھ روپئے رابعہ کے علاج پر خرچ ہو چکے ہیں اُن لوگوں کی زمین تک بک گئی جس پر وہ کھیتی باڑی کرتے تھے لہٰذا اس وقت اُن کے مالی حالات بھی کافی خراب ہو چکے ہیں۔

یہ تمام باتیں سُن کر دل کو کافی رنج ہوا ہم نے رابعہ کے علاج کی حامی بھری تو اُنہوں نے عبداللہ صاحب کو بلوایا جو دیکھنے میں بوڑھے اور مولوی ٹائپ کے آدمی معلوم ہو رہے تھے اُن سے ہمارا تعارف کروایا گیا ہم نے اُن کو رُوحانی ہیلنگ سے علاج کا طریقۂ کار سمجھایاپھر یہ طے ہوا کہ ہم شام کو اُن کے گھر رابعہ کی ہیلنگ کرنے جائیں گے۔

شام کو بعد نماز عصر ہم اپنے دوست محمد علی اور دو میزبان لڑکوں کے ہمراہ عبداللہ صاحب کے گھر پہنچے وہاں پہلے ہی سے رابعہ گھر کے کشادہ صحن میں موجود چارپائی(پلنگ) پر لیٹی ہوئی تھی ساتھ ہی دو تین ، چار پائیاں اور بھی موجود تھیں جن پر گھر کی دوسری عورتیں وغیرہ بیٹھی ہوئی تھیں ایک چارپائی خالی تھی جس پر ہمارے دوست وغیرہ بیٹھ گئے رابعہ کی چارپائی کے قریب ایک کرسی ہمارے لئے موجود تھی جس پر ہم بیٹھ گئے ہم نے رابعہ سے پوچھا، کیا حال ہے تو اُس نے بتایا کہ پورے جسم میں شدید درد ہے نیند بالکل ختم ہو چکی ہے بھوک بالکل نہیں لگتی اگر کچھ کھانے کی کوشش بھی کروں تو الٹی ہو جاتی ہے کمزوری اتنی ہو گئی ہے کہ اب تو بیٹھ بھی نہیں سکتی۔

رابعہ کی والدہ نے بھی یہی بتا یا کہ یہ رات رات بھر جاگتی رہتی ہے، درد کی وجہ سے اسے نیند نہیں آتی، رابعہ کی عمر کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ تقریباً پچیس سال کی ہے۔ ہم نے رابعہ سے کہا کہ اگر ممکن ہو سکے تو بیٹھ جاؤ ہم تمھارے سر پر ہاتھ رکھ کر دس منٹ ہیلنگ کر یں گے تو اُس نے جواب دیا کہ کمزوری کے سبب اب میرا بیٹھنا ممکن نہیں ہے تب ہم نے کرسی چارپائی کے سرہانے رکھ لی اور اُس کو دس منٹ کے لئے آنکھیں بند رکھنے کا کہا اور اُس کے سر پر دائیاں ہاتھ رکھ کر دس منٹ انرجی دی ہیلنگ کے بعد ہم سب میزبانوں کے ڈیرے پر آ گئے کہ جہاں پر ہم ٹھہرے ہوئے تھے۔

دوسرے دن صبح عبداللہ صاحب ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ کی ہیلنگ کے بعد رابعہ کی حالت میں کافی فرق نظر آیا ہے وہ رات کو کافی دنوں کے بعد سکون سے سوئی اور صبح اُس نے کچھ کھایا پیا بھی ہے جو اُسے ہضم بھی ہو گیا ہے، جسمانی درد میں بھی کافی کمی ہے وہ اور ہم سب بہت خوش ہیں ، گھر چلیں اور رابعہ کی ہیلنگ کر دیں۔ ہم دوسرے دن صبح پھر ہیلنگ کے لئے گئے اور اُن لوگوں سے کہا کہ ہم شام کو بعد نماز عصر پھر ہیلنگ کرنے آئیں گے ہیلنگ کے نتیجے میں رابعہ کی حالت تیزی سے بہتر ہو رہی تھی۔

تیسرے دن جب ہم رابعہ کی ہیلنگ کرنے گئے تو اُس نے خوشی سے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب آج تو میں نے اُٹھ کر باقاعدہ نماز بھی پڑھی تھی اور جسم میں کسی قسم کا درد بھی نہیں ہے اور میں تقریباً اپنے آپ کو بالکل ٹھیک محسوس کر رہی ہوں۔ یہ سُن کر ہمیں بے انتہا خوشی ہوئی اور ہم نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ جس نے ہماری کوشش میں برکت دی اور ہماری عزّت رکھی رابعہ کے والد نے ہم سے پوچھا کہ رُوحانی ہیلنگ کے ساتھ ساتھ جو اس کا ڈاکٹری علاج اور کورس چل رہا ہے کیا اُسے بھی جاری رکھا جا سکتا ہے تو ہم نے کہا کہ ہاں بالکل ایسا ہوسکتا ہے۔

اتفاق سے ہیلنگ کے تیسرے روز شام کے وقت ہمیں کراچی کے لئے روانہ ہونا تھا کیونکہ ہمیں دوسرے دن’’ محمدی ویلفٔیر کلینک‘‘ میں ملازمت کا آغاز کرنا تھا لہٰذا ہم نے رابعہ اور اُن کے گھر والوں سے کہا کہ روزانہ ہمیں صبح شام فون کرتے رہنا ہم گھر سے بیٹھ کر ہیلنگ کر دیا کریں گے، یہ کہہ کر ہم کراچی کے لئے روانہ ہو گئے، چوتھے روز ہم نے کراچی پہنچ کر رابعہ کی ہیلنگ اپنے گھر سے کی اُس نے فون پر بتایا کہ میں چل پھر رہی ہوں اور بالکل نارمل ہوں اور کسی قسم کی کوئی تکلیف بھی محسوس نہیں ہو رہی۔

اسی طرح اُس کا فون ایک ہفتے تک آتا رہا اور ہم ہیلنگ کرتے رہے اور وہ اپنے آپ کو نارمل بتاتی رہی اُس کے بعد اُس کا فون آنا بند ہو گیا کچھ دن تک جب اُس کا فون نہیں آیا تو ہمیں بےچینی سی ہونے لگی، تب ہم نے ایک دن یہ سوچ کر خود ہی فون کیا کہ اللہ جانے اُس کا کیا حال ہے فون کیا تو رابعہ کی آواز آئی میں نے پوچھا کہ ہیلنگ کرانا کیوں بند کر دی اُس نے کہا کہ اب میں بالکل ٹھیک ہوں اور کسی قسم کی کوئی تکلیف محسوس نہیں ہو رہی ہے۔

اس پر ہم نے کہا کہ جیسی تمھاری مرضی ہیلنگ کچھ عرصے اور جاری رہتی تو اچھا ہوتا۔ پھر تقریباً ایک سال بعد ہمیں اپنے اُسی دوست محمد علی کہ جس کے ساتھ ہم علی پور گئے تھے کے ذریعے سے یہ اطلاع ملی کہ رابعہ کا انتقال ہو گیا ہے، یہ سُن کر بہت صدمہ ہوا پتہ چلا کہ کسی ڈاکٹر سے علاج چل رہا تھا اور دوا کے غلط ری ایکشن کے نتیجے میں رابعہ کومے کی حالت میں چلی گئی تھی جو اُس کی موت کی وجہ بنی تھی خیر اب کیا ہو سکتا تھا بھلا مرضی الٰہی میں کون دم مار سکتا ہے بیشک زندگی اور موت کا مالک اللہ ہی ہے۔

محمدی ویلفٔیر کلینک : جب ہم چوتھے دن علی پور سے واپس آئے تو سرجانی ٹاؤن نارتھ کراچی میں واقع محمدی ویلفٔیر کلینک میں ملازمت اختیار کی چند روز تک رابعہ کا فون ہیلنگ کے لئے رات تقریباً آٹھ ساڑھے آٹھ بجے تک آتا تھا تو ہم وہیں سے درجہ چہارم کے ذریعہ سے رابعہ کی ہیلنگ کر دیتے تھے اُس وقت کلینک کے مالک جناب محسن صاحب خود بھی تشریف فرماں ہوتے تھے اُنہوں نے اس کے بارے میں دریافت کیا تو ہم نے علی پور کا سارا ماجرہ کہہ سنایا اس پر وہ کافی حیران ہوئے اور کہنے لگے یہ تو بڑی اچھی چیز ہے کیوں نہ یہاں ڈاکٹری علاج کے ساتھ ساتھ رُوحانی ہیلنگ سے بھی علاج کا سلسلہ شروع کیا جائے۔

ہم نے کہا کہ خیال اچھا ہے اس پر اُنہوں نے ہم سے تمام تفصیلات معلوم کی کہ ہماری ہیلنگ سے کیا کیا کچھ ہو سکتا ہے اور اُس کے مطابق پرچے چھپوا کر بعد نماز جمعہ لوگوں پر تقسیم کروا دئیے۔ پرچے پڑھ پڑھ کر لوگوں نے آنا شروع کر دیا، وہاں بہت سے مریض ہیلنگ سے متعلق آئے تھے جن کو کافی فائدہ ہوا تھا اُن میں سے ہم یہاں چند واقعات کا تذکرہ کریں گے۔

حفضہ کا کیس : محمدی ویلفٔیر کلینک میں اپنے والدین کے ساتھ ایک بارہ سالہ لڑکی حفضہ نامی آئی تھی ماں باپ نے بتا یا کہ حفضہ کو کافی عرصے سے آنتوں میں زخم کی بیماری ہے اور روزانہ اسے پخانے میں خون آتا ہے پہلے عام ڈاکٹروں سے ہم نے اس کا علاج کروایا جب کسی طرح کا فائدہ نہ ہوا تو اب گزشتہ تین مہینے سے اسپیشلسٹ سے علاج چل رہا ہے لیکن معمولی سا بھی فائدہ نظر نہیں آ رہا بلکہ اسپیشلسٹ کی تجویز کردہ تیز دواؤں سے بچی کی حالت اور زیادہ خراب ہوتی جا رہی ہے اس کی بھوک بھی ختم ہو گئی ہے اور دواؤں سے بچی کو گھبراہٹ بھی ہوتی ہے ساتھ ساتھ بچی دن بہ دن کمزور بھی ہو تی جا رہی ہے۔

ہم نے اُنہیں پہلے مضر غذاؤں سے پرہیز اور پھر پابندی سے ہیلنگ کرانے کا مشورہ دیا اس کے بعد حفضہ کی دس منٹ تک رُوحانی ہیلنگ کی، بعد میں وہ لوگ گھر چلے گئے جاتے ہوئے بچی کے والد ہمارا موبائل نمبر بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ دوسرے دن صبح تقریباً دس بجے حفضہ کے والد کا فون آ یا اُنہوں نے خوشی سے بتایا کہ آج بچی کو پخانے میں خون بالکل نہیں آیا ، اس کے بعد وہ لوگ پندرہ بیس دن تک حفضہ کی ہیلنگ کراتے رہے مگر اس دوران بچی کو اس طرح سے دوبارہ خون نہیں آیا جب اُن لوگوں کی ہر طرح سے تسلی ہو گئی تو پھر اُن لوگوں نے آنا چھوڑ دیا۔

یاسمین کا کیس : محمدی ویلفٔیر کلینک کے قریب ہی ایک خاتون ادھیڑ عمر کی یاسمین نامی رہتی تھیں بچے اُن کے جوان تھے ایک دن اپنے شوہر کے ساتھ آئیں برسوں کی بیمار نظر آ رہی تھیں چہرہ مرجھایا ہوا اور کالا نظر آتا تھا اپنی بیماری کی لمبی چوڑی داستان سنانے لگیں بہر حال ہم نے اُن کی رُوحانی ہیلنگ کی تو اُن کو بڑا سکون ملا خیر وہ اُس روز اپنے گھر چلی گئیں ، ہم نے بھی دوران ہیلنگ کیفیت کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں پوچھا۔

لیکن جب وہ دوسرے دن آئیں تو اُن کا چہرہ با رونق اور گورا نظر آ رہا تھا چہرے پر کافی سکون نمایاں تھا ہمیں بھی یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی ہم نے وجہ پوچھی تو بولیں کہ ڈاکٹر صاحب میں نے تو صبح سے منہ تک نہیں دھویا یہ تو آپ کی ہیلنگ کی وجہ سے ہوا ہے محلے کی عورتیں بھی مجھے حیرت سے دیکھ رہی تھیں اور ایک دوسرے سے کہ رہی تھیں کہ یہ رات ہی رات میں یاسمین کا چہرہ اتنا اچھا کیسے ہو گیا۔

یاسمین کی ہم نے کچھ دن ہیلنگ کی جس سے اُن کی صحت میں نمایاں فرق نظر آیا تھا اور وہ ہماری ہیلنگ سے کافی خوش اور مطمئن بھی تھیں اور اپنے علاج کے دوران اپنے گھر کے کئی افراد کی بھی اُنہوں نے ہم سے ہیلنگ کروائی تھی۔

عالیہ کا کیس : یاسمین کے حوالے سے ایک لڑکی اپنی والدہ کے ساتھ آئی تھی نام تھا اُس کا عالیہ عمر کوئی سولہ سترہ برس کی ہو گی کافی دنوں سے شدید پیٹ کے درد میں مبتلا تھی اسپتال سے علاج بھی کروا چکی تھی وہاں ڈرپ اور کئی طرح کے انجکشن وغیرہ بھی لگ چکے تھے مگر کسی قسم کا کوئی افاقہ نہیں ہوا تھا جب وہ لڑکی کلینک میں آئی تو درد کی شدّت سے رو رہی تھی ہم نے اُسے تسلی دی پھر دس منٹ ہیلنگ کی تو اۃُس نے بتایا کہ اب پہلے سے کچھ بہتری آئی ہے خیر وہ چلی گئی۔

مگر جب وہ دوسرے دن آئی تو ہنس رہی تھی اور کافی خوش نظر آ رہی تھی اُس نے بتایا کہ پیٹ کا درد بالکل ختم ہو چکا ہے۔ جب وہ تیسرے دن آئی تو کہنے لگی کہ میری ڈاڑھ(پیچھے والا دانت) میں شدید درد ہو رہا ہے اُس کی والدہ نے بتایا کہ اس نے آج دن میں چھالیہ کھائی تھی جس کی وجہ سے دانت میں درد ہوا ہے اس کا ایک دانت خراب بھی ہے۔ ہم نے پھر اسی تصور کے ساتھ اُس کی ہیلنگ کی پھر جب وہ چوتھے دن آئی تو ہم نے حال پوچھا تو کہنے لگی کہ کل جب میں ہیلنگ کروا کے گھر گئی تو تقریباً آدھے گھنٹے کے اندر دانت کا درد بالکل ایسے غائب ہو چکا تھا کہ جیسے کبھی ہوا ہی نہیں تھا۔

جنّات کا کیس : محمدی ویلفٔیر کلینک میں ایک روز تین آدمی آئے جو غالباً چہرے سے آپس میں بھائی معلوم ہوتے تھے اور دیکھنے میں کافی پریشان لگ رہے تھے کہنے لگے کہ ہم لوگ کئی سالوں سے عجیب طرح کی پریشانی میں مبتلا ہیں ہمارے گھر میں جنّات کا اثر ہے ساری فیملی کے ساتھ کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے عورتیں مرد اور بچے سب ہی ڈرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ہمارے چھوٹے بھائی کہ جس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اُس کی بیوی کا انتقال بھی اسی اثر ہی کی وجہ سے ہوا تھا، وہ جب اُمید سے تھی تو اُسے خواب میں ایک چڑیل نظر آتی تھی جو اُسے ڈراتی تھی اور اُس سے کہتی تھی کہ اپنا بچہ مجھے دے دو ورنہ میں تمھیں اور تمھارے بچے کو مار دوں گی۔ اور بعد میں یہی ہوا کہ بچے کی پیدائش سے پہلے ہی اُس کا انتقال ہو گیا۔

اُن میں سے ایک نے کہا کہ ابھی ہفتے بھر پہلے کی بات ہے کہ ہم سب گھر والے رات کو شادی میں گئے ہوئے تھے وہاں سے جب ہم گھر آئے تو جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئے تو کمرے کے اندر ٹی وی (TV) زمین پر ٹوٹا ہوا پڑا تھا جیسے کسی نے اُسے زور سے پٹخ کر توڑ دیا ہو، گھر کی یہ کیفیت دیکھ کر میری بیگم تو فوراً ہی بے ہوش ہو گئیں ، اُس دن ہم سب گھر والوں نے رات ایک عزیز کے گھر گزاری اور چند روز سے ہم لوگ وہیں مقیم ہیں۔

میری بیگم کہتی ہیں کہ میں تو اب اُس گھر میں ہر گز ہرگز نہیں جاؤں گی، ہم نے اُن حضرات کی بات سن کر کہا کہ ہو سکتا ہے کہ ٹی وی کسی وجہ سے گر کر ٹوٹ گیا ہو، تو وہ بولے کہ ٹی وی کچھ پرانے انداز کا جو لکڑی کی باڈی میں اور بڑے سائز میں شروع میں آیا کرتا تھا وہ تھا اور جس میز پر رکھا ہوا تھا وہ میز بھی اُس سے زیادہ چوڑی تھی اس لئے اس کے گرنے کا کوئی امکان نہ تھا اور گھر میں کوئی چور وغیرہ بھی داخل نہیں ہوا کیوں کہ اگر ایسا ہو تا تو گھر سے کچھ نہ کچھ ضرور لے کر جاتا جبکہ گھر بھی مکمل طور پر بند تھا۔

پھر بولے کہ میری بہن کا تعلق آپ کے رُوحانی سلسلے سے ہے لہٰذا اُس نے اس سلسلے میں کاشف بھائی سے رابطہ کرنے کے لئے کہا جو پیر و مرشد کی طرف سے رُوحانی علاج کے لئے اجازت یافتہ بھی ہیں اور اُن کا مطب شادمان ٹاؤن میں ہے، ہم جب اُن کے پاس یہ مسئلہ لے کر گئے تو اُنہوں نے کچھ پڑھ کر اور آنکھیں بند کر کے کچھ دیر مراقبہ کیا پھر اُنہوں نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھولیں اور بولے کہ اُس گھر کو فوراً بالکل بند کر دو اور اُس گھر میں کوئی بھی شخص ہرگز ہرگز داخل نہ ہو۔

واقعی اُس گھر میں تو بڑا زبردست اثر ہے پھر میں نے کاشف بھائی سے کہا کہ ہمیں اس پریشانی سے چھٹکارہ تو دلائیں تو وہ کہنے لگے کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں ہے ہم اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے۔ آخر کار ہم مایوس ہہو کر واپس آ گئے پھر آپ کا پتہ کسی جاننے والے نے دیا تو آپ کے پاس آ گئے اب آپ بتائیں کہ کیا کیا جائے میری بیگم اور گھرکی دوسری عورتیں اور بچے سب کہہ رہے ہیں کہ مکان بیچ دیا جائے، ہم نے اُن کی ساری باتیں سن کر کہا کہ اگر آپ کہیں تو ہم ان تمام بلیات سے آپ کا گھر خالی کرا دیں اور اگر آپ گھر بیچنا ہی چاہتے ہیں تو گھر تو ضرور صاف کروانا پڑے گا کیوں کہ اگلا آنے والا شخص بھی تو اسی مصیبت میں مبتلا ہوسکتا ہے۔

ہماری باتیں سن کر وہ تینوں حضرات الگ جا کر بیٹھ گئے اور آپس میں صلاح و مشورہ کرنے لگے پھر ہمارے پاس آ کر کہنے لگے کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ گھر کو ان بلیات سے صاف کرا لینا ہی چاہئے ، اس کام کے لئے دوسرے دن بعد نماز مغرب کا وقت مقرر کیا گیا اور پھر دوسرے دن ہم، محسن صاحب اور اُن لوگوں کے ہمراہ اُن کے آسیب زدہ مکان میں پہنچے جو دو منزلہ تھا۔

ہمیں گھر کا معائنہ کرایا گیا اور اُس جگہ کو بھی دکھایا گیا کہ جہاں جنّات نے   ٹی وی(TV) توڑا تھا اُس کمرے میں جہاں کمرے کی دیوار کے بیچ میں ٹی وی رکھا ہوتا تھا اُس کے بائیں طرف باتھ روم بھی تھا ہمیں بتایا گیا کہ یہ باتھ روم اثرات کا خاص مرکز ہے۔ پھر اُن میں سے ایک صاحب نے ہمیں ایک خاص بات بتائی کہ ہماری جس بھابی کا انتقال اثرات کی وجہ سے ہوا تھا اُس نے صحن کی کیاری میں اپنے ہاتھوں سے فالسے کا ایک پودا لگایا تھا جو اب کافی بڑا ہو چکا ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اس وقت دسمبر کے آخری دن ہیں اور سردی کا موسم ہے مگر اس درخت میں فالسے لگے ہوئے ہیں ہم لوگوں کا تعلق پنجاب سے ہے اور ہم فصلوں کے بارے میں اچھی طرح سے جانتے ہیں۔

یہ سن کر اور دیکھ کر ہمیں بھی کافی حیرت ہوئی ، پھر اُنہوں نے ہم سے کہا کہ اگر آپ بولیں تو ہم یہ درخت کٹوا دیں ، ہم نے اُن کو ایسا کرنے سے منع کیااُس کے بعد ہم نے جانماز اُن سے مانگی اور درجہ سوئم سے ہم نے ایک ایک کمرے کو انرجائز کیا اس طرح پورے گھر کو ہم نے اسی طرح انرجائز کیا اور بعد میں ہم نے درجہ چہارم سے پورے گھر کو انرجائز کیااس کام میں ہمیں پورا ایک گھنٹا لگ گیا۔

اُس کے بعد ہم محسن صاحب کے ساتھ واپس کلینک آ گئے۔ اُس کے تقریباً ایک ہفتے کے بعد ہم نے اُنہیں فون کیا تو وہ صاحب کچھ دیر بعد کلینک آ گئے، ہم نے گھر کی کیفیت پوچھی تو اُنہوں نے بتایا کہ آپ کے اُس دن کے عمل کے بعدسے گھر میں بڑا سکون محسوس ہو رہا ہے اور پھر کوئی ایسی بات نہیں ہوئی، پھر ہم نے تقریباً ڈیڑھ مہینے بعد محسن صاحب کے ذریعہ اُنہیں فون کروایا تو اُس وقت بھی اُن لوگوں نے یہی کہا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اُس دن کے بعد سے اب تک گھر میں بڑا سکون ہے اور کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔

وردہ کا کیس : محسن صاحب کی بیگم کی بھانجی وردہ جس کی عمر تقریباً سولہ برس کی ہو گی دو تین روز سے اُن کے گھر رہنے آئی ہوئی تھی محسن صاحب کی بچیاں بھی اُسی کی ہم عمر تھیں اور اُن میں آپس میں کافی دوستی بھی تھی، ایک دن محسن صاحب ہم سے کہنے لگے کہ آپ سے وردہ کی ہیلنگ کرانی ہے ہم نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ اُس کو درد شقیقہ کا عارضہ لاحق ہے لہٰذا اُس کے سر میں دو دن سے سخت درد ہے اور بچی بہت پریشان ہے، ہم نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ اُس کو بلائیں ہم اس کی ہیلنگ کئے دیتے ہیں خیر وردہ آئی اور ہم نے دس منٹ اُس کی ہیلنگ کی پھر اُس سے کیفیت پوچھی تو وہ بولی کہ اب سر میں بالکل بھی درد محسوس نہیں ہو رہا، اُس بات پرمحسن صاحب اور دوسرے گھر والے بھی حیران ہوئے وردہ نے یہ بھی بتایا کہ اُس نے اس بیماری کے لئے ریکی(Reiki) سے بھی علاج کروایا تھا اور جتنا فائدہ ریکی سے چھ6 مہینے میں ہوا تھا اُس سے بہتر فائدہ آپ کی دس منٹ کی ہیلنگ سے ہوا ہے۔

امبرین کا کیس : جن دنوں ہم محمدی ویلفٔیر کلینک میں ملازمت کر رہے تھے تو ایک روز ہمارے پیر بھائی فاروق اپنے ایک دوست کہ جن کا نام عظیم تھا اُنہیں اپنے ساتھ لائے، عظیم نے بتایا کہ اُن کی بڑی بہن امبرین کافی طویل عرصے سے بیمار ہیں اُن کا بہت علاج کروایا گیا مگر اُن کی صحت ہے کہ دن بہ دن خراب ہی ہوتی جا رہی ہے ہر قسم کا علاج کر وایا مگرکسی معالج کو کچھ سمجھ میں نہیں آتا، فاروق نے آپ کا تذکرہ کیا تھا کہ آپ رُوحانی ہیلنگ سے بھی علاج کرتے ہیں لہٰذا جب بھی آپ کو وقت ملے ہماری بہن کو ضرور دیکھنے آئیے گا ہم نے دوسرے دن بعد نماز عصر کا وقت اُنہیں دے دیا، پھر جب ہم دوسرے دن عظیم کے گھر پہنچے تو اُن کی بہن سے ملاقات ہوئی کافی بیمار سی لگ رہی تھیں چہرہ بیماری کی وجہ سے بے رونق اور رنگ کالا نظر آ رہا تھا اُنہوں نے بتایا پرانی شوگر کی بیماری بھی ہے اور دوسرے کئی ایک مسائل بھی ہیں کافی کمزوری ہو گئی ہے چلا پھرا بھی نہیں جاتا نہ کام کاج ہوتا ہے۔ ہم نے دس منٹ اُن کی رُوحانی ہیلنگ کی اور اُنہیں تسلی دے کر چلے آئے۔

جب دوسرے دن اُن کے گھر پہنچے تو اُنہیں دیکھ کر حیران رہ گئے اُن کا رنگ صاف لگ رہا تھا اور وہ کافی بہتر نظر آ رہی تھیں ، اُنہوں نے بتایا کہ جب میں صبح سو کر اُٹھی تو کمزوری بالکل نہیں تھی اور سب گھر والے حیرت سے دیکھنے لگے اور کہنے لگے کہ یہ تمھارا رنگ گورا کیسے ہو گیا، خیر ہم نے تین دن اُن کی براہ راست ہیلنگ کی اور بعد میں چند روز بذریعہ فون کے بھی ہیلنگ کی اور وہ خدا کے فضل و کرم سے کافی صحت یاب ہو گئیں۔

اقرا کا کیس : جب ہم سن2011ء میں نیو کراچی پانچ نمبر کے ایک پرائیوٹ اسپتال میں کام کر رہے تھے تو وہاں ایک لڑکی اقرا نام کی لائی گئی تھی اُس کے ساتھ اُس کے والدین اور بھائی وغیرہ بھی تھے۔ لڑکی کی عمر سولہ سال تھی اور نویں جماعت کی طالبہ تھی اُس کے والد اُسے گود میں اُٹھا کر لائے تھے اُس کی والدہ نے ہمیں بتایا کہ اس کو دو ہفتے پہلے بخار ہوا تھا اُس کے بعد سے اس کی دونوں ٹانگیں کام نہیں کر رہی ہیں اور تب سے یہ بستر پر پڑی ہوئی ہے۔

ہم نے اُس کا معائنہ کیا اور اُن سے کہا کہ آپ لوگ اسے بڑے اسپتال لے جائیں اور کسی اسپیشلسٹ کو دکھائیں شاید وہ کچھ کرسکے۔ وہ لوگ کہنے لگے کہ ہماری حیثیت اتنی نہیں ہے ، پھر ہم نے اپنا تعارف رُوحانیت کے حوالے سے کراتے ہوے کہا کہ ہم آپ کو ایک بزرگ کا پتہ بتاتے ہیں آپ لڑکی کو وہاں لے جائیں اللہ کرم کرے گا۔

اس پر لڑکی کی والدہ رونے لگیں اور کہنے لگیں کہ جب آپ کا تعلق رُوحانی سلسلے سے ہے تو آپ کیوں نہیں کچھ کرتے ، پھر روتے ہوئے کہنے لگیں کہ میری بیٹی کا کیا بنے گا کیا اسی طرح یہ ہمیشہ بستر پر پڑی رہے گی اس کی شادی کیسے ہو گی وغیرہ وغیرہ، خاتون کی باتیں سن کر دل بھر سا آیا ہم نے کہا اچھا ہم کچھ کرتے ہیں اس کو معمولی درد کے انجکشن وغیرہ لگوا دیتے ہیں اور کچھ دوا وغیرہ بھی اسپتال سے دے دیتے ہیں اسپتال کی تھوڑی بہت جو فیس ہے آپ بھر دیجئے گا۔

ہم نے یہ کہہ کر لڑکی اور اس کے گھر والوں کو دوسرے کمرے میں بھیج دیا کچھ دیر بعد ہم معائنہ کرنے کا کہہ کر اُس کمرے میں گئے اور دس منٹ لڑکی کی ہیلنگ کی اور اُسے کندھے سے پکڑ کر سہارا دے کر کھڑا کیا ، وہ چیخی کہ میں گر جاؤں گی ہم نے کہا ڈرو مت ہمّت کرو ہم نے تمہیں پکڑا ہوا ہے تم نہیں گرو گی یہ کہہ کر ہم نے اُسے تین چار مرتبہ وہیں کمرے میں چلایا اُس کے بعد بیڈ پر لٹا دیا پھر لڑکی کے والد اُسے گود میں اُٹھا کر لے گئے۔ اۃُس اسپتال میں ایک میل نرس عارف نام کا کام کرتا تھا وہ کہنے لگا سر آپ یہ کیس نہ ہی لیں تو اچھا ہے اس لڑکی کو میں جانتا ہوں یہ ہمارے محلے میں ہی رہتی ہے اس کو تو کینسر یا ٹی بی جیسی مہلک بیماری معلوم ہوتی ہے آپ اس کو لیاقت نیشنل یا آغا خان اسپتال بھیج دیتے تو اچھا تھا۔

دوسرے دن ہم کاؤنٹر پر کھڑے اسپتال کے عملے سے کچھ بات چیت کر رہے تھے کہ ہم نے دیکھا کہ باہر اسپتال کے گیٹ پر رکشا آ کر رُکا اور اُس میں اقرا اپنے والدین اور بھائی کے ساتھ بیٹھی نظر آئی وہ دور ہی سے چہرے سے کافی پُرسکون اور بہتر نظر آ رہی تھی ہم نے کیا مشاہدہ کیا کہ وہ اپنے پیروں سے خود رکشے سے باہر اُتری اور چلتی ہوئی ہمارے پاس اپنے گھر والوں کے ساتھ آ گئی۔

ہمارے ساتھ اسپتال کا سارا عملہ حیران رہ گیا پھر ہم نے اُس کا معمول کا ڈاکٹری معائنہ کیا اور پوچھا کہ تم کب سے چلنے لگیں تو اس پر اُس نے کہا ڈاکٹر صاحب کل جب آپ نے پہلی مرتبہ ہیلنگ کی تھی تو اُس کے بعد میں گھر چلی گئی تھی اور تقریباً ایک گھنٹے بعد میں نے خود کو بہتر محسوس کرنا شروع کر دیا اور ہمت کر کے بستر سے اُٹھ کر چلنا شروع کر دیا تھا لیکن ابھی پیروں میں کمزوری اور درد محسوس ہو رہا ہے۔

ہم نے دوسرے دن بھی پہلے دن کی طرح دس منٹ ہیلنگ کی اور وہ چلی گئی۔ اُس کے جانے کے بعد میل نرس عارف شرمندگی میں ہم سے کہنے لگا کہ سر یہ لڑکی دوا سے تو اتنی جلدی ٹھیک نہیں ہو سکتی یقیناً ً یہ کچھ اور ہی چیز ہے، اس پر ہم نے ہنستے ہوئے کہا کہ ہاں یقیناً یہ کچھ اور ہی چیز ہے۔ تیسرے دن جب وہ لڑکی آئی تو مکمل طور پر نارمل اور صحت مند تھی اور بہت خوش نظر آ رہی تھی۔

سنبل کا کیس : مئی2012ء میں ہم لودھی ویلفٔیر کلینک نیو کراچی میں کام کر رہے تھے اُن دنوں ایک روز سلیم کا فون آیا جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے اُس نے بتایا کہ اس کی بیٹی سنبل تین مہینے سے بیمار ہے اور اُس کو ٹائیفائیڈ ہو گیا ہے اس عرصے میں بہت سے ڈاکٹر تبدیل کئے لیکن کسی سے بھی فائدہ نہیں ہوا یہاں تک کہ ٹائیفائیڈ کے ماہر ڈاکٹر کو بھی دکھا دیا لیکن بچی کا بخار نہیں اُترا ہم لوگ بہت پریشان ہو گئے ہیں۔

ہم نے اُسے کلینک کا پتہ سمجھایا اُس نے کہا کہ ہم شام کو بچی کو لے کر آئیں گے۔ پھر وہ شام کو کہنے کے مطابق اپنی بیگم کے ساتھ بچی کو لے کر آیا بچی کی عمر تقریباً بارہ تیرہ سال کی ہو گی کافی کمزور لگ رہی تھی ہم نے بخار چیک کیا تو 102 تھا اُس کے بعد ہم نے بچی کی دس منٹ ہیلنگ کی اُس کے بعد وہ لوگ چلے گئے۔

جب دوسرے دن آئے تو بچی کے چہرے پر تازگی اور صحت نمایاں نظر آ رہی تھی اور وہ خوش بھی نظر آ رہی تھی جب ہم نے بخار چیک کیا تو بالکل نہیں تھا سلیم کی بیگم نے کہا کہ آج ماشاء اللہ سے بچی نے دن میں کچھ کھایا پیا بھی تھا اور تین مہینے بعد آج اس کو پہلی مرتبہ سکون ملا ہے۔ ہم نے دوسرے دن بھی بچی کی دس منٹ ہیلنگ کی اور پھر وہ لوگ چلے گئے۔

جب تیسرے روز آئے تو بچی ماشاء اللہ سے ایسی نظر آ رہی تھی کہ جیسے کبھی بیمار ہی نہیں ہوئی تھی سلیم کی بیگم نے بتایا کہ آج بچی نے نہایا بھی تھا اور بچی اللہ تعالیٰ کے شکر سے بالکل ٹھیک ہے اُس کے بعد اُنہوں نے ہمارا شکریہ ادا کیا اور بڑی تعریف کی ہم نے جواب دیا کہ ساری تعریف اس ذات کے لئے ہے کہ جس نے یہ تمام کائنات بنائی اور ہم سب کو بنایا ہم تو صرف ذریعہ ہی ہیں باقی سب کچھ کرتا وہی ہے۔

سعدیہ کا کیس : جب ہم نے نارتھ کراچی میں الصحت ویلفٔیر کلینک کے نام سے کلینک شروع کیا تھا تو اُس زمانے میں ہمارے پیر بھائی ڈاکٹر مرزا سرفراز بیگ وہاں ہم سے ملنے پابندی سے آیا کرتے تھے ایک روز ہم سے کہنے لگے کہ ہمارے ایک بہت ہی اچھے دوست اقبال بھائی ہیں جو کہ ہمارے ہی رُوحانی سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں وہ آپ سے ملنے کا بہت اشتیاق رکھتے ہیں کیونکہ ہم نے اقبال بھائی کو آپ کی رُوحانی کیفیات اور واقعات کے بارے میں کافی بتایا تھاجس پر اُنہوں نے آپ سے ملنے کا اصرار کیا۔

ہم نے خوشی خوشی اُن سے ملنے کی حامی بھری دوسرے دن شام کو وہ ہم سے ملنے کلینک پر آئے ہم نے اُن کے بارے میں جیسا سُنا تھا ویسا ہی پایا بہت ہی خوش اخلاق خوش مزاج اور اچھی طبیعت کے انسان نظر آئے ، رفتہ رفتہ اُن سے ہماری اچھی دوستی ہو گئی ہمارے درمیان موضوع بحث زیادہ تر رُوحانیت ہی ہوتا تھا ہم نے اۃُن کو رُوحانی ہیلنگ کے بارے میں بھی بتایا اور اُنہیں اس کی تربیت بھی دی۔

اتفاق سے اُنہیں دنوں ہمارے پاس سعدیہ نام کی ایک لڑکی کا کیس بھی آیا ہوا تھا (یہ لڑکی نادیہ کی بڑی بہن تھی کہ جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے) لڑکی کی والدہ نے بتایا تھا کہ میری بیٹی سعدیہ تقریباً دو ڈھائی سال سے کسی جن یا آسیب کے زیر اثر ہے اور سخت تکلیف میں مبتلا ہے ہم نے پوچھا یہ اثر کیسے ہوا تو اُنہوں نے بتایا کہ ہمارا گھر اسی محلے میں ہے لیکن یہاں سے کچھ فاصلے پر دوسرے محلے میں ہمارے رشتے دار رہتے ہیں اُن کے گھر شادی کا موقعہ تھا ہم لوگوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا ایک دن ہمیں رات بارہ اور ایک بجے کے درمیان کسی کام سے رشتے داروں کے گھر سے اپنے گھر آنا پڑا اُس وقت میری بیٹی سعدیہ میرے ساتھ تھی جب ہم پیلے اسکول والے میدان سے گزرے تو اچانک سعدیہ کی طبیعت خراب ہونے لگی اور پھر گھر آ کر اس کی عجیب سی حالت ہو گئی اُس وقت سے جب بھی اُس پر اس قسم کی حالت طاری ہوتی ہے تو اُس کی آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں اور اُس کو ایسا لگتا ہے کہ اُس کے سر پر کسی نے مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی ہو آنکھوں سے پانی بہنا شروع ہو جاتا ہے سارا جسم کپکپاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے ہم نے بہت علاج کروایا کتنے ہی عاملوں کو دکھایا اور مزاروں پر بھی لے کر گئے لیکن لڑکی کو آرام نہیں آیا اُنہوں نے بتایا کہ اس وقت سعدیہ گھر میں ہے اور اُس پر وہی حالت طاری ہے ہم نے کہا کہ اگر ہو سکے تو آپ لڑکی کو ہمارے پاس لے کر آئیں تاکہ ہم بھی اُس کی اس حالت کا مشاہدہ کر سکیں۔

وہ کچھ ہی دیر میں لڑکی کو ہمارے پاس لائیں تو لڑکی کی حالت ویسی ہی نظر آئی کہ جیسی بتائی گئی تھی، اُس وقت دوپہر کا وقت تھا اور کلینک بند کرنے کا وقت بھی تھا لہٰذا ہم نے لڑکی کو اُسی حالت میں گھر بھیج دیا اور خاتون سے کہا کہ شام کو ہمارے ایک شاگرد کہ جن کو ہم نے رُوحانی ہیلنگ کی ٹریننگ بھی دی ہے وہ آپ کے گھر جا کر سعدیہ کا علاج بذریعہ رُوحانی ہیلنگ کے کریں گے ، جب شام کو اقبال بھائی آئے تو ہم نے اُن سے کہا کہ آج آپ کی ہیلنگ کا امتحان ہے ہم نے اُنہیں سارا کیس سمجھادیا کچھ دیر بعد لڑکی کے والد آئے ہم نے اقبال بھائی کو اُن کے ساتھ بھیج دیا تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ ہیلنگ کر کے واپس آئے شکل سے وہ کافی خوش اور پُر اعتماد نظر آ رہے تھے اور پھر اُنہوں نے ہمیں دوران ہیلنگ لڑکی اور اس کے گھر والوں کے تاثرات اور ہیلنگ کے ا ثرات کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔

دو تین روز بعد لڑکی کے والد صاحب کا ہمارے پاس آنا ہوا تو اُنہوں نے اقبال بھائی کی بڑی تعریف کی اور بتایا کہ جس وقت سے آپ کے دوست نے بچی کی رُوحانی ہیلنگ کی ہے، بچی کو اُس وقت سے اب تک کوئی دورا نہیں پڑا اور وہ بہت خوش ہے اُس کے بعد وہ جب بھی ملتے یہی کہتے کہ بچی بالکل ٹھیک ہے۔

پھر ایسا ہوا کہ کافی زمانے تک اُن سے ملاقات نہیں ہوئی پھر ایک دن تقریباً دو سال بعد وہ ہم سے نزلے کھانسی وغیرہ کی دوا لینے آئے ہم نے اُن سے بہت عرصے تک غائب رہنے کی وجہ دریافت کی تو اُنہوں نے بتایا کہ وہ یہاں سے نقل مکانی (شفٹ) کر گئے ہیں اور گھر یہاں سے دُور لے لیا ہے جس کی وجہ سے اب ملاقات نہیں ہو پاتی پھر ہم نے سعدیہ کا حال دریافت کیا تو اُنہوں نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اُس دن کے بعد سے آج تک بچی کو پھر کبھی بھی دورہ نہیں پڑا۔

ہم نے اپنے دوست اقبال بھائی سے متعلق رُوحانی ہیلنگ کا صرف ایک واقعہ یہاں تحریر کیا ہے جب کہ اُنہوں نے بہت سارے لوگوں کی کامیابی سے رُوحانی ہیلنگ کی اور اس سے حیرت انگیز نتائج حاصل کیئے جس پر وہ خود بھی اکثر حیران ہوتے ہیں۔

دودھ والے کا کیس : ہمارے ایک شاگرد جن کا نام غلام نبی ہے فرماتے ہیں کہ ہمارے محلے میں محسن نامی ایک دودھ والا ہے جس نے ڈیڑھ لاکھ روپئے خرچ کر کے ڈاکٹر صمد سے سمدا ہیلنگ سیکھی تھی ایک دن کہنے لگا کہ اُس کے سر میں کافی عرصے سے درد ہے دوا بھی کی اور سمدا ہیلنگ بھی کی لیکن درد ہے کہ جانے کا نام ہی نہیں لے رہا غلام نبی نے اپنا تعارف نجمی شفائی توانائی کے حوالے سے کرایا ، اس پر دودھ والے نے کہا کہ آپ بھی اپنی ہیلنگ کا تجربہ ہمیں کر کے دکھائیں ، اس پر غلام نبی نے اُس کی دس منٹ نجمی ہیلنگ کی اور صرف دس منٹ کے اندر اندر اُس کے سر کا درد غائب ہو گیا اور وہ حیران رہ گیا۔

ڈاکٹر شہزاد صاحب میری نظر میں : میں ڈاکٹر صاحب کو سن2001ء سے جانتا ہوں اُس وقت اُنہوں نے ہمارے محلے میں نیا نیا کلینک کھولا تھا اور میں اُس وقت میٹرک کا طالب علم تھا اُس زمانے میں میری والدہ اور چھوٹے بہن بھائی ڈاکٹر صاحب سے دوا لینے جایا کرتے تھے اور میں بھی اکثر والدہ کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے پاس جاتا تھا، میں وہاں کلینک میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ایک بزرگ ہستی کی تصویر لگی دیکھا کرتا تھا۔ ایک دن میں نے ڈاکٹر صاحب سے سوال کیا کہ یہ تصویر میں آپ کے ساتھ بزرگ ہستی کون ہیں ؟ تو اس پر اُنہوں نے جواب دیا کہ یہ ہمارے پیر و مرشد ہیں اس پر میں نے کہا کہ ہمارے حضرت صاحب تو تصویر کھچوانا سخت گناہ سمجھتے ہیں اس پر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اگر ہمارے بارے میں کچھ جاننا چاہتے ہو تو چھ6 مہینے ہمارے ساتھ بیٹھو جو تم چاہو گے وہی ہو گا۔ اس بات پر مجھے بڑی حیرت ہوئی میں نے کہا کہ میں کل سے آپ کی کلینک میں بحیثیت کمپاؤنڈر کے آیا کروں گا اور ساتھ ساتھ آپ سے کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملے گا۔

لہٰذا والدین کی اجازت سے دوسرے ہی دن سے میں ڈاکٹر صاحب کی کلینک میں بیٹھنے لگا چند دنوں بعد میری والدہ نے کہا کہ اگر تمھارے ڈاکٹر صاحب اتنے ہی بڑے رُوحانی انسان ہیں تو تمھاری نظر کا علاج کیوں نہیں کر دیتے اور تم اتنے سوکھے اور کمزور ہو ڈاکٹر صاحب سے موٹے ہونے کی کوئی دوا تو ذرا پوچھو، والدہ کی کہی ہوئی بات، میں ڈاکٹر صاحب سے روزانہ کہنے لگا۔ اُس وقت تک میری عینک کا نمبر (-3)تک جا پہنچا تھا اور میرا یہ حال تھا کہ رات کے وقت سائیکل چلاتا تو اکثر گِر گِر پڑتا تھا، ایک دن جب میں ڈاکٹر صاحب سے اپنی آنکھوں کے ٹھیک ہونے کے لئے ضد کر رہا تھا تو اچانک ڈاکٹر صاحب نے تنگ آ کر مجھ سے کہا کہ ’’جاؤ اپنی عینک اُتار کے پھینک دو‘‘ میں نے اسی لمحے اپنی عینک اُتار دی، اُس وقت تو مجھے کچھ سمجھ میں نہ آیا لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد مجھے اپنی آنکھیں بالکل ٹھیک محسوس ہونے لگیں پھر کیا تھا دوست یار اور محلے والے حیرت سے مجھے دیکھتے اور سوال کرتے کہ یہ اتنی موٹی عینک بھلا ایک ہی رات میں کیسے اتر گئی؟ اس کے علاوہ تقریباً تین مہینے کے اندر اندر صحت بھی بہت اچھی ہو گئی اس پر بھی لوگ تعجب کرنے لگے۔ ان چھ6 مہینوں کے درمیان میں نے ایسی ایسی کرامات دیکھی کہ اگر میں تمام باتیں کھل کر صاف صاف بیان کروں تو بہت سی باتوں پر تو کوئی یقین ہی نہیں کرے گا لہٰذا میں بہت زیادہ غیر معمولی باتیں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔

اُس زمانے میں ڈاکٹر صاحب کے ایک پیر بھائی ندیم احمد ایک دن ڈاکٹر صاحب سے ملنے آئے اور اُن سے کہنے لگے کہ میرے والد صاحب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں گھر میں کمانے والا صرف میں ہی ہوں والد صاحب بہنوں کی شادی کے لئے فکرمند ہیں وہ چاہتے ہیں کہ پہلے بڑی بہن کی شادی ہو جائے، اس پر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ چھ6 مہینے کے اندر آپ کی بہن کی شادی ہو جائے گی۔ اس بات پر ندیم احمد حیرت سے کہنے لگے کہ نہ ابھی کوئی رشتہ ہے نہ ہی جہیز کا کچھ انتظام ہے آخر اس مختصر سی مدّت میں یہ کیسے ممکن ہو سکے گا؟ اس پر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ایسا ہی ہو گا، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اُن کی بہن کا رشتہ بھی ہو گیا، اور جہیز کا سارا انتظام بھی ہو گیا اور چھ6 مہینے میں اُن کی بہن کی شادی بھی ہو گئی اُس کے بعد ندیم احمد خوشی خوشی ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کرنے کے لئے اُن کی کلینک آئے تھے۔ (رُوحانی شاگرد، محمد شہزاد)

ڈاکٹر صاحب میری نظر میں : میں ڈاکٹر شہزاد صاحب کو اُس وقت سے جانتا ہوں جب میں نارتھ کیئر اسپتال میں بطور نرسنگ اسٹاف کام کرتا تھا 25 دسمبر2007ء کو ڈاکٹر صاحب نے میرے سامنے ہی ریزیڈنٹ میڈیکل آفیسر کی حیثیت سے اسپتال کا چارج سنبھالا تھا۔ اُس وقت میں ڈاکٹر صاحب کو صرف ایک عام سا انسان ہی سمجھتا تھا لیکن اکثر ڈیوٹی کے دوران ایمرجنسی میں لائے گئے بعض مریضوں کو غیر معمولی طریقے سے صحیح ہوتے دیکھا کرتا تھا تو بڑی حیرت ہوتی تھی میرے ساتھی نرسنگ اسٹاف غلام نبی( جو کہ ایک اچھا شاعر بھی ہے) کی ڈاکٹر صاحب سے کافی گہری دوستی ہو گئی تھی کیونکہ وہ اُن کی رُوحانیت اور تصوف سے متعلق گفتگو میں خاصی دلچسپی لیتا تھا۔

اُن دنوں غلام نبی خون کا عطیہ دینے حسینی بلڈ بینک گیا تو بلڈ بینک والوں نے خون لینے کے بعد اُسے بتایا کہ اُس کے خون میں ہپاٹائٹس سی موجود ہے اور بلڈ بینک والوں نے اُسے آئندہ خون کا عطیہ دینے سے بھی منع کیا، اس بات کا صدمہ غلام نبی نے اپنے ذہن پر لے لیا تقریباً ایک ہفتے بعد میں نے ڈاکٹر صاحب سے اس بات کا تذکرہ کیا تو ڈاکٹر صاحب نے فوراً غلام نبی سے رجوع کیا اور اُس نے افسردگی کے عالم میں ساری بات تفصیل سے اُنہیں بتا دی اس پر ڈاکٹر صاحب نے اُس کو اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس ہونے سے سخت منع کیا، دو تین روز بعد ڈاکٹر صاحب نے غلام نبی سے کہا کہ آج مٹھائی کھانے کو دل چاہ رہا ہے اس پر غلام نبی نے فوراً ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ میں نہ صرف آپ کو بلکہ سارے اسپتال کو مٹھائی کھلاؤں گا اگر میرے اندر سے ہپاٹائٹس سی ختم ہو جائے تو، اس پر ڈاکٹر صاحب نے ہنستے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہے اس کے تین چار دن بعد وہ اپنے خون کی رپورٹ لینے حسینی بلڈ بینک گیا اور وہاں ڈاکٹر صاحب کو بھی اپنے ساتھ لے گیا جب رپورٹ ملی تو اُس میں ہپاٹائٹس سی موجود نہیں تھا پھر اسی خوشی میں رات کو ڈیوٹی کے دوران اُس نے سارے اسپتال میں مٹھائی تقسیم کی اس واقعے سے مجھے بھی کافی حیرت ہوئی۔

میں خود بھی ہپاٹائٹس سی کا پرانا مریض تھا پھر میں نے بھی ڈاکٹر صاحب سے عرض کیا کہ ذرا میری طرف بھی توجہ فرمائیں اس پر اُنہوں نے کہا کہ آغا خان اسپتال سے پہلے (PCR) کاٹیسٹ کرواؤ جب میں نے ٹیسٹ کروایا تو اس میں بیماری بہت زیادہ بڑھی ہوئی نظر آئی ڈیوٹی کے دوران جب ہم یعنی میں ، غلام نبی، ڈاکٹر شہزاد اور سینٔیر ڈاکٹر ، ڈاکٹر اسلم ایک ساتھ چائے کی میز پر بیٹھے تھے تو میں نے اپنی رپورٹ اپنے ایک دوست کی رپورٹ کہہ کر ڈاکٹر اسلم کو دکھائی تو اُنہوں نے رپورٹ دیکھنے کے بعد کہا کہ اپنے دوست سے کہو کہ بس اب بستر پر لیٹ جائے کیونکہ رپورٹ کافی خراب ہے، اُن کی بات سن کر میں کافی مایوس ہو گیا، ڈاکٹر اسلم کے جانے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے کہا کہ عابد اس رپورٹ کو ڈسٹ بن میں پھینک دو ہپاٹائٹس سی تمھارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ، اُس کے چند روز بعد میں نے اسپتال کی ملازمت چھوڑ دی، اور ڈاکٹر صاحب کے فرمانے کے بعد سے میری صحت دن بہ دن بہتر ہونا شروع ہو گئی اور سال بھرمیں ایسی اچھی ہو گئی کہ جب ڈاکٹر صاحب سے سال بھر بعد ملاقات ہوئی تو وہ حیرت سے کہنے لگے کہ عابد تم تو پہچاننے ہی میں نہیں آتے کہ تم وہی عابد ہو، اس پر میں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب یہ سب آپ کی مہر بانی اور دُعا ہے اس پر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ یہاں سب کچھ اللہ ہے ہم تو صرف ذریعہ ہی ہیں۔

ہمارا گھر کنڈ یارو سندھ میں ہے وہاں والد صاحب کا پُرانا کاروبار ہے جس کی وجہ سے والد صاحب اور بڑے بھائی جو کہ شادی شدہ ہیں وہیں رہتے ہیں اور میں اپنی والدہ اور چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ کراچی میں رہتا ہوں ، ہمارا کنڈیارو والا گھر پرانے وقتوں کا بنا ہوا ہے اُس میں پہلے ہندو رہتے تھے اور اُس گھر میں پہلے سے اثرات وغیرہ بھی ہیں ، ایک دن ہمارے بھائی کی تقریباً چار ماہ کی بچی مُنتشا کی اچانک حالت بگڑ گئی اُس کی آنکھیں ایک جگہ پر ٹھہر گئیں اور وہ بُری طرح سے چیخ چیخ کر رونے لگی اُس کا رونا کسی طرح سے بند نہیں ہو رہا تھا کسی کے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا آخر سب نے یہی اندازہ لگایا کہ بچی پر کچھ اُوپری اثرات وغیرہ ہو گئے ہیں سارا دن اسی پریشانی میں نکل گیا آخر رات دس10 بجے میں نے ڈاکٹر صاحب کو فون کیا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ہم ابھی تھوڑی دیر میں توجہ کرتے ہیں بچی انشاء اللہ اس بُری حالت سے باہر نکل جائے گی اس کے کچھ وقت بعد بچی اُس حالت سے باہر آ گئی اور بالکل نارمل ہو گئی۔

ایک مرتبہ میرا چھوٹا بھائی احتشام جو کہ اُس وقت تقریباً بارہ تیرہ برس کا ہو گا ایک دن گھر سے اچانک لاپتہ ہو گیا، سارا محلّہ سارا علاقہ چھان مارا مگر اُس     کا کہیں کچھ پتہ نہ چلا یہاں تک کہ شام ہو گئی اور گھر والوں کی پریشانی بہت زیادہ بڑھ گئی تب میں نے غلام نبی سے مشورہ کیا تو اُس نے ڈاکٹر صاحب سے مسئلہ بیان کرنے کے لئے کہا تب اس سلسلے میں پہلے غلام نبی نے اور پھر میں نے ڈاکٹر صاحب سے فون پر بات کی تو ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے بس بچہ ابھی گھر آنے ہی والا ہے اور اُس کے چند لمحوں بعد میرا چھوٹا بھائی احتشام گھر میں موجود تھا۔ (عابد قریشی)

نجمی صاحب میری نظر میں : جناب ڈاکٹر سیّد شہزاد علی صاحب پر کچھ لکھنے کی اجازت میں نے خود ڈاکٹر صاحب سے حاصل کی ہے جو کہ میرے لئے کسی اعزاز سے بڑھ کر ہے۔ ڈاکٹر صاحب میرے ایک بہت ہی اچھے ، مخلص اور قریبی دوست ہونے کے ساتھ ساتھ میرے رُوحانی استاد بھی ہیں ، مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں نے کسی کتاب میں رشید احمد صدیقی صاحب کا یہ قول پڑھا تھا کہ’’ سیرت کا حسن دُنیا کے تمام دوسرے حسن سے افضل ہے‘‘ اور یہ بات ڈاکٹر صاحب کی سادگی اور فقیر مزاجی پر سو فیصد صادق آتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب ماشاء اللہ سے نجیب الطرفین سیّد زادے ہیں آپ کے والدین آ پ کو نجمی کے عرف نام سے پکارا کرتے تھے آپ کا رجحان بچپن ہی سے رُوحانیت کی طرف تھا تقریباً بارہ برس کی عمر میں جب آپ چھٹی جماعت میں تھے تو ٹیوشن پڑھانے کے لئے ایک صاحب کو لگایا گیا جن کا نام سیّد اعظم علی تھا جو اُس وقت تقریباً ساٹھ یا پینسٹھ برس کے ہوں گے، فقیرانہ سے انداز کے انسان تھے۔

ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ جب وہ ہمیں ٹیوشن پڑھانے آتے تھے تو ہم جتنی بھی دیر اُن کے ساتھ رہتے تھے اتنی دیر تک ہمارے اوپر ایک خاص قسم کی قلبی و رُوحانی سکون کی سی کیفیت طاری رہتی تھی جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ رفتہ رفتہ لوگوں سے معلوم ہوا کہ اعظم صاحب تو ایک بڑی رُوحانی بزرگ ہستی ہیں اُن کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ آپ زبان سے جو فرما دیتے وہ کام ہو جاتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے ہمارے رُوحانی استاد اعظم صاحب ہی تھے اور وہ بھی ہمیں اپنا رُوحانی شاگرد تسلیم کرتے تھے اور کئی عملیات اور وظائف بھی ہمیں بخشے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا تعلق اعظم صاحب سے تقریباً ڈھائی تین سال تک رہا اُس کے بعد اعظم صاحب اپنی فیملی کے ساتھ کسی اور جگہ نقل مکانی (شفٹ) کر گئے پھر اُن سے کبھی ڈاکٹر صاحب کی ملاقات نہ ہوسکی جبکہ ڈاکٹر صاحب نے اُن کا پتہ معلوم کرنے کی بھی کافی کوشش کی تھی مگر مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، اعظم صاحب کے اس طرح سے چلے جانے سے ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں ایک خلا ٔ سا واقع ہو گیا تھا۔

اُس س کے بعد ایک دن ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ رُوحانی ڈائجسٹ لگا جو اُس وقت نیا نیا جاری ہونا شروع ہوا تھاجسے اُس وقت خانوادہ سلسلۂ عظیمیہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے خود جاری فرماتے تھے ، رُوحانی ڈائجسٹ پڑھ کر ڈاکٹر صاحب کو کافی سکون محسوس ہوا اور حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی رُوحانی شخصیت کا ایک خاص پیٹرن اُن کے ذہن میں بن گیا پھر رفتہ رفتہ خواجہ صاحب سے خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہو گیا، ایک دن خواجہ صاحب کی جانب سے خط کے جواب میں بالمشافہ ملاقات کیلئے کہا گیا اور پھر اس طرح سے ڈاکٹر صاحب کی خواجہ صاحب سے براہ راست ملاقات ہو گئی اور اب ڈاکٹر صاحب خواجہ صاحب کی زیر صدارت ہونے والی محفل مراقبہ میں ہر جمعہ کو پابندی سے شرکت کرنے لگے اور نیلی روشنی کا مراقبہ بھی کرنا شروع کر دیا جس سے اُنہیں کافی فائدہ ہوا، آخر کار ایک دن ڈاکٹر صاحب نے باقاعدہ سلسلۂ عظیمیہ میں داخلے کا فیصلہ کر لیا اور اس کے لئے 14اکتوبر 1988ء بروز جمعہ بیعت کی درخواست خواجہ صاحب کے حضور پیش کی جسے خواجہ صاحب نے قبول فرمایا، بیعت ہونے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے تصور شیخ کا مراقبہ کرنا شروع کر دیا چند روز بعد امام سلسلہ عظیمیہ حضور قلندر با با اولیا ؒسے خواب میں ملاقات ہوئی اور اُن کی زیارت کا شرف حاصل ہوا اور پھر رُوحانی فیض و برکات کا سلسلہ شروع ہو گیا اور کئی بزرگان دین اولیا اللہ سے خواب میں ملاقات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا اور ایسے ایسے اصرار و رموز ظاہر ہوئے کہ جسے ایک عام انسانی عقل تسلیم ہی نہیں کر سکتی۔ بچپن سے اب تک رُوحانی زندگی گزارنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے آخر کار یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہاں سب کچھ درحقیقت اللہ تعالیٰ ہے باقی سب مفروضہ ہے اللہ تعالیٰ جس سے جو کام لینا چاہتا ہے وہ لیتا ہے اور انسان کی تقدیر میں جو کچھ لکھا ہے وہی اس کو ملتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ کسی کو کچھ دینا چاہتا ہے تو وہ اُس کو ضرور مل کر رہتا ہے غرض کہ ڈاکٹر شہزاد صاحب سے ملاقات میری زندگی میں ایک بہترین اضافہ ثابت ہوئی، سن2007ء میں جب میں انرتھ کئیر اسپتال میں کام کرتا تھا اور حضرت صاحب اسپتال میں ایکRMOکی حیثیت سے فرائض انجام دیتے تھے تو ابتدائی دنوں کی بات ہے کہ ہم اسٹاف کے اکثر لوگ ڈاکٹر صاحب کی علمی باتوں کو سمجھنے سے قاصر تھے اکثر تو کم علمی کے سبب جناب کی باتوں کا مذاق بھی بناتے تھے ڈاکٹر صاحب کی حقیقت کسی حد تک مجھ پر تب عیاں ہوئی جب مجھے ہپاٹائٹس سی کی شکایت ہو گئی، مگر یہ آپ کا نظر کرم اور دُعاؤں کا نتیجہ تھا کہ بغیر کسی علاج کے میں حیرت انگیز طور پر ٹھیک ہو گیا، پھر میں نے ڈاکٹر صاحب سے رُوحانی تربیت حاصل کرنا شروع کر دی آپ مجھے خوب علمی باتیں بتاتے کتابیں پڑھنے کو دیتے اور مراقبہ بھی کرواتے ، مجھے ان تمام باتوں سے غیر معمولی طور پر فائدہ ہوتا اور ان معاملات میں خوب مشاہدہ بھی ہوا۔

المختصر یہ کہ وقت کے دامن میں اتنی وسعت نہیں کہ میں ناچیز آپ کی ذات پر مکمل کلام کر سکوں ، ہاں اگر موقع ملا تو آئندہ کسی تحریر میں حضرت صاحب سے متعلق تفصیل سے اپنے خیالات و تجربات کا اظہار کروں گا۔ (رُوحانی شاگرد، غلام نبی)

٭٭٭

تشکر مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید