FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

نبیﷺ کے صحابہؓ کی فضیلت کا بیان

 

کتاب: سیدنا ابو بکر صدیقؓ  کی فضیلت

باب : نبیﷺ کے قول ”مَﷺ ظَنُّکَ باثْنَیْن“ … کے متعلق۔

1621: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ  نے ان سے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے سروں پر مشرکوں کے پاؤں دیکھے اور ہم غار میں تھے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اگر ان میں سے کوئی اپنی قدموں کی طرف دیکھے گا تو ہمیں دیکھ لے گا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اے ابو بکر! اتو ان دونوں کو کیا سمجھتا ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ بھی ہے۔

باب : نبیﷺ کے فرمان”إنَّ أَمَنَّ النَّاس“ کے متعلق۔

1622: سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ اپنے منبر پر بیٹھے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ ہے جس کو اللہ نے اختیار دیا ہے کہ چاہے دنیا کی دولت لے اور چاہے اللہ تعالیٰ کے پاس رہنا اختیار کرے ، پھر اس نے اللہ کے پاس رہنا اختیار کیا۔ یہ سن کر سیدنا ابو بکرؓ  روئے (سمجھ گئے کہ آپﷺ کی وفات کا وقت قریب ہے ) اور بہت روئے۔ پھر کہا کہ ہمارے باپ دادا ہماری مائیں آپﷺ پر قربان ہوں (پھر معلوم ہوا) کہ اس بندے سے مراد خود رسول اللہﷺ تھے اور سیدنا ابو بکرؓ  ہم سب سے زیادہ علم رکھتے تھے۔ اور رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سب لوگوں سے زیادہ مجھ پر ابو بکر کا احسان ہے مال کا بھی اور صحبت کا بھی اور اگر میں کسی کو (اللہ تعالیٰ کے سوا) دوست بناتا تو ابو بکر کو دوست بناتا۔( اب خُلّت تو نہیں ہے ) لیکن اسلام کی اخوت (برادری) ہے۔ مسجد میں کسی کی کھڑکی نہ رہے (سب بند کر دی جائیں) لیکن ابو بکر کے گھر کی کھڑکی قائم رکھو۔

باب : نبیﷺ کے نزدیک سب لوگوں سے زیادہ پیارے سیدنا ابو بکرؓ  تھے۔

1623: ابو عثمان کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا عمرو بن عاصؓ  نے خبر دی کہ رسول اللہﷺ نے ان کو ذات السلاسل کے لشکر کے ساتھ بھیجا (ذات السلاسل نواحی شام میں ایک پانی کا نام ہے ، وہاں کی لڑائی جمادی الآخر میں ہوئی) پس میں آپﷺ کے پاس آیا اور میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! سب لوگوں میں آپ کو کس سے زیادہ محبت ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ عائشہ صدیقہ سے۔ میں نے کہا کہ مردوں میں سب سے زیادہ کس سے محبت ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ان کے باپ سے۔ میں نے کہا کہ پھر ان کے بعد کس سے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ عمر سے یہاں تک کہ آپﷺ نے کئی آدمیوں کا ذکر کیا۔

باب : نیکی کے سارے کام سیدنا ابو بکرؓ  میں جمع تھے اور وہ جنتی ہیں۔

اس باب کے بارے میں سیدنا ابو ہریرہؓ  کی حدیث کتاب الزکوٰۃ میں گزر چکی ہے (دیکھئے حدیث: 543)۔

باب : نبیﷺ کا فرمان کہ ”میں بھی سچ مانتا ہوں، ابو بکر اور عمر بھی سچ مانتے ہیں“۔

1624: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک شخص ایک بیل پر بوجھ لادے ہوئے اسے ہانک رہا تھا، بیل نے اس کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں اس لئے نہیں پیدا ہوا بلکہ میں تو کھیت کے لئے پیدا ہوا ہوں۔ لوگوں نے (تعجب اور ڈر سے ) کہا کہ سبحان اللہ بیل بات کرتا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں تو اس بات کو سچ جانتا ہوں اور ابو بکر اور عمر بھی سچ جانتے ہیں۔ ایک چرواہا اپنی بکریوں میں تھا، اتنے میں ایک بھیڑیا لپکا اور ایک بکری لے گیا۔ چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور بکری کو اس سے چھڑا لیا تو بھیڑئیے نے اس کی طرف دیکھا اور کہا کہ اس دن بکری کو کون بچائے گا جس دن سوائے میرے کوئی چرواہا نہ ہو گا (عید کہ جس دن جاہلیت والے کھیل کود میں مصروف رہتے اور بھیڑئیے بکریاں لے جاتے یا قیامت کے قریب آفت اور فتنہ کے دن جب لوگ مصیبت کے مارے اپنے مال کے فکر سے غافل ہو جائیں گے )۔ لوگوں نے کہا سبحان اللہ! رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں تو اس کو سچ جانتا ہوں اور ابو بکر اور عمر بھی سچ جانتے ہیں (دوسری روایت میں ہے کہ ابو بکر اور عمرؓ موجود نہ تھے اس حدیث سے ان کی بڑی فضیلت نکلی کہ آپﷺ کو ان پر ایسا بھروسہ تھا کہ جو بات آپﷺ مانتے ہیں وہ بھی ضرور مانیں گے )۔

باب : صدیق و فاروق کی رفاقت نبیﷺ کے ساتھ۔

1625: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ  (نے جب انتقال کیا اور) تابوت میں رکھے گئے تو لوگ ان کے گرد ہوئے ، دعا کرتے تھے اور تعریف کرتے تھے اور دعا کرتے تھے ان پر جنازہ اٹھائے جانے سے پہلے۔ میں بھی ان لوگوں میں تھا۔ میں نہیں ڈرا مگر ایک شخص سے جس نے میرا کندھا میرے پیچھے سے تھام لیا تھا، میں نے دیکھا تو وہ سیدنا علیؓ  تھے۔پس انہوں نے عمرؓ  کے لئے اللہ تعالیٰ سے رحمت کی دعا کی اور (ان کی طرف خطاب کر کے ) کہا کہ اے عمر! تم نے کوئی شخص ایسا نہ چھوڑا جس کے اعمال ایسے ہوں کہ ویسے اعمال پر مجھے اللہ سے ملنآپسند ہو۔ اور اللہ کی قسم میں یہ سمجھتا تھا کہ اللہ تمہیں تمہارے دونوں ساتھیوں کے ساتھ کرے گا (یعنی رسول اللہﷺ اور سیدنا ابو بکر صدیق ص) اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اکثر رسول اللہﷺ سے سنا کرتا تھا، آپﷺ فرماتے تھے کہ میں آیا اور ابو بکر اور عمر آئے اور میں اندر گیا اور ابو بکر اور عمر گئے اور میں نکلا اور ابو بکر اور عمر نکلے۔ اس لئے مجھے امید تھی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ان دونوں کے ساتھ کرے گا۔

باب : سیدنا ابو بکر صدیقؓ  کو خلیفہ بنانا۔

1626: ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سنا، ان سے پوچھا گیا کہ اگر رسول اللہﷺ خلیفہ کرتے تو کس کو کرتے ؟ (اس سے معلوم ہوا کہ آپﷺ نے کسی کو خلافت پر نص نہیں کیا بلکہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ  کی خلافت صحابہ ث کے اجماع سے ہوئی اور شیعہ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ سیدنا علیؓ  کی خلافت پر آپﷺ نے نص کیا تھا، باطل اور بے اصل ہے اور خود سیدنا علیؓ  نے ان کی تکذیب کی) انہوں نے کہا کہ سیدنا ابو بکرؓ  کو (خلیفہ) بناتے۔ پھر پوچھا گیا کہ ان کے بعد کس کو (خلیفہ) بناتے ؟ انہوں نے کہا کہ سیدنا عمرؓ  کو (خلیفہ) بناتے۔ پھر پوچھا گیا کہ ان کے بعد کس کو (خلیفہ) بناتے ؟ انہوں نے کہا کہ سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح کو۔ پھر خاموش ہو رہیں۔

1627: محمد بن جبیر بن مطعم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہﷺ سے کچھ پوچھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ پھرآنا۔ وہ بولی کہ یا رسول اللہﷺ! اگر میں آؤں اور آپﷺ کو نہ پاؤں (یعنی آپﷺ کی وفات ہو جائے تو)؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اگر تو مجھے نہ پائے تو ابو بکر کے پاس آنا۔

1628: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھے رسول اللہﷺ نے اپنی بیماری میں فرمایا کہ تو اپنے باپ ابو بکر کو اور اپنے بھائی کو بلا تاکہ میں ایک کتاب لکھ دوں، میں ڈرتا ہوں کہ کوئی (خلافت کی) آرزو کرنے والا آرزو نہ کرے اور کوئی کہنے والا یہ نہ کہے کہ میں (خلافت کا) زیادہ حقدار ہوں۔ اوراللہ تعالیٰ انکار کرتا ہے اور مسلمان بھی انکار کرتے ہیں ابو بکر کے سوا کسی اور (کی خلافت) سے۔

باب : سیدنا عمر بن خطابؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1629: سیدنا ابو سعید خدریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں نے سونے کی حالت میں دیکھا کہ لوگ میرے سامنے لائے جاتے ہیں اور وہ کُرتے پہنے ہوئے ہیں۔ بعض کے کرتے چھاتی تک ہیں اور بعض کے اس کے نیچے ، پھر عمرؓ  نکلے تو وہ اتنا نیچا کرتہ پہنے ہوئے تھے جو کہ زمین پر گھسٹتا جاتا تھا۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! اس کی تعبیر کیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ دین۔

1630: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: میں سو رہا تھا اور سوتے میں ایک پیالہ میرے سامنے لایا گیا جس میں دودھ تھا۔ میں نے اس میں سے پیا یہاں تک کہ تازگی اور سیرابی میرے ناخنوں سے نکلنے لگی۔ پھر جو بچا وہ میں نے عمر بن خطاب کو دے دیا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اس کی تعبیر کیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اس کی تعبیر علم ہے۔

1631: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ میں سویا ہوا تھا، میں نے اپنے آپ کو ایک کنوئیں پر دیکھا کہ اس پر ڈول پڑا ہوا ہے۔ پس میں نے اس ڈول سے پانی کھینچا جتنا کہ اللہ نے چاہا۔ پھر اس کو ابو قحافہ کے بیٹے یعنی صدیقِ اکبر نے لیا اور ایک یا دو ڈول نکالے اور ان کے کھینچنے میں کمزوری تھی اللہ تعالیٰ ان کو بخشے۔ پھر وہ ڈول پل یعنی بڑا ڈول ہو گیا اور اس کو عمر بن خطاب نے لیا، تو میں نے لوگوں میں ایسا سردار شہ زور نہیں دیکھا جو عمر کی طرح پانی کھینچتا ہو۔ انہوں نے اس کثرت سے پانی نکالا کہ لوگ اپنے اپنے اونٹوں کو سیراب کر کے آرام کی جگہ لے گئے۔ (علماء نے بیان کیا ہے کہ اس خواب میں آپ کے بعد ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کی تمثیل و بشارت اور حالات کی پشین گوئی ہے )۔

1632: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: میں سو رہا تھا اور میں نے اپنے آپ کو جنت میں دیکھا۔ وہاں ایک عورت ایک محل کے کونے میں وضو کر رہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے ؟ (فرشتے ) بولے کہ عمر بن خطاب کا۔ یہ سن کر مجھے اس کی غیرت کا خیال آیا اور میں پیٹھ موڑ کر لوٹ آیا۔ سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ  نے جب یہ سنا تو رو دیئے اور ہم سب رسول اللہﷺ کے ساتھ مجلس میں تھے۔ پھر سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں یا رسول اللہﷺ! کیا میں آپ پر غیرت کروں گا؟

1633: فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ  کہتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ  نے رسول اللہﷺ سے اندر آنے کی اجازت مانگی اور آپﷺ کے پاس اس وقت قریش کی عورتیں بیٹھی تھیں اور آپﷺ سے باتیں کر رہی تھیں اور بہت باتیں کر رہی تھیں اور ان کی آوازیں بلند تھیں۔ جب سیدنا عمرؓ  نے آواز دی تو اٹھ کر چھپنے کے لئے دوڑیں رسول اللہﷺ نے سیدنا عمرؓ  کو اجازت دی اور آپﷺ مسکرا رہے تھے۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپﷺ کو ہنستا رکھے یا رسول اللہﷺ! آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے ان عورتوں پر تعجب ہوا جو میرے پاس بیٹھی تھیں، تمہاری آواز سنتے ہی پردے میں بھاگ گئیں۔ سیدنا عمرؓ  نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! ان کو آپﷺ سے زیادہ ڈرنا چاہئیے پھر ان عورتوں سے کہا کہ اے اپنی جان کی دشمنو! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہﷺ سے نہیں ڈرتیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں تم رسول اللہﷺ کے بہ نسبت سخت ہو اور غصیلے ہو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ شیطان جب تمہیں کسی راہ میں چلتا ہوا ملتا ہے تو اس راہ کو جس میں تم چلتے ہو چھوڑ کر دوسری راہ میں چلا جاتا ہے۔

1634: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبیﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: تم سے پہلے اگلی امتوں میں ایسے لوگ ہوا کرتے تھے جو ”محدث“ (جن کی رائے ٹھیک ہوتی، گمان صحیح ہوتا یا فرشتے ان کو الہام کرتے ) میری امت میں اگر ایسا کوئی ہو تو عمر بن الخطاب ہوں گے۔ ابن وہب نے کہا کہ محدثون کا معنی ”الہام والے “ ہے۔

1635: سیدنا ابن عمرؓ  کہتے ہیں کہ عمرؓ  نے کہا کہ میں تین باتوں میں اپنے رب کے موافق ہوا۔ ایک مقامِ ابراہیم میں نماز پڑھنے میں (جب میں نے رائے دی کہ یا رسول اللہﷺ آپ اس جگہ کو جائے نماز بنائیے تو ویسا ہی قرآن میں اترا) اور دوسرے عورتوں کے پردے کے بارے میں اور تیسرے بدر کے قیدیوں کے بارے میں۔

1636: سیدنا ابن عمرؓ  کہتے ہیں کہ جب عبد اللہ بن ابی ابن سلول مشہور منافق مرا تو اس کا بیٹا عبد اللہؓ  بن عبد اللہ بن ابی رسو ل اللہﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ آپﷺ اپنا کرتہ میرے باپ کے کفن کے لئے دے دیجئے تو آپﷺ نے دے دیا۔ پھر اس نے کہا کہ آپﷺ اس پر نماز جنازہ پڑھا دیجئے۔ پس رسول اللہﷺ اس پر نماز پڑھنے کو کھڑے ہوئے۔ سیدنا عمرؓ  نے آپﷺ کا کپڑا تھاما اور فرمایا کہ یا رسول اللہﷺ! کیا آپﷺ اس پر نماز پڑھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو اس پر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے کہ ”تو ان کے لئے دعا کرے یا نہ کرے ، اگر ستر بار بھی دعا کرے گا تو بھی اللہ تعالیٰ ان کو نہیں بخشے گا“ (التوبہ: 80) تو میں ستر بار سے زیادہ دعا کروں گا۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ بیشک وہ منافق تھا۔ پس رسول اللہﷺ نے اس پر نماز پڑھی۔ تب یہ آیت اتری کہ ”مت نماز پڑھ کسی منافق پر جو مر جائے اور مت کھڑا ہو اس کی قبر پر“ (التوبہ: 84)۔ (تو اللہ تعالیٰ نے سیدنا عمرؓ  کی رائے کو پسند کیا)۔

باب : سیدنا عثمان بن عفانؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1637: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنے گھر میں لیٹے ہوئے تھے ، رانیں یا پنڈلیاں کھولے ہوئے تھے کہ اتنے میں سیدنا ابو بکرؓ  نے اجازت مانگی، تو آپﷺ نے اسی ؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂؂حالت میں اجازت دے دی اور باتیں کرتے رہے۔ پھر سیدنا عمرؓ  نے اجازت چاہی تو انہیں بھی اسی حالت میں اجازت دے دی اور باتیں کرتے رہے۔ پھر سیدنا عثمانؓ  نے اجازت چاہی تو رسول اللہﷺ بیٹھ گئے اور کپڑے برابر کر لئے۔ پھر وہ آئے اور باتیں کیں۔ (راوی محمد کہتا ہے کہ میں نہیں کہتا کہ تینوں کا آنا ایک ہی دن ہوا) جب وہ چلے گئے تو اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ سیدنا ابو بکرؓ  آئے تو آپﷺ نے کچھ خیال نہ کیا، پھر سیدنا عمرؓ  آئے تو بھی آپﷺ نے کچھ خیال نہ کیا، پھر سیدنا عثمانؓ  آئے تو آپﷺ بیٹھ گئے اور آپﷺ نے کپڑے درست کر لئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کیا میں اس شخص سے شرم نہ کروں جس سے فرشتے شرم کرتے ہیں؟

1638: سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ  نے خبر دی کہ انہوں نے اپنے گھر میں وضو کیا، پھر باہر نکلے۔ سیدنا ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ آج میں دن بھر رسول اللہﷺ کا ساتھ نہ چھوڑوں گا، آپﷺ کے پاس ہی رہوں گا۔ کہتے ہیں کہ پھر مسجد میں آیا تو نبیﷺ کے بارے میں پوچھا۔ لوگوں نے کہا کہ باہر اس طرف تشریف لے گئے ہیں۔ میں بھی آپﷺ کے قدموں کے نشان پر چلا اور آپﷺ کے بارے میں لوگوں سے پوچھتا جاتا تھا۔ چلتے چلتے معلوم ہوا کہ آپﷺ مقام اریس پر باغ میں گئے ہیں۔ میں دروازے کے قریب بیٹھ گیا جو کھجور کی ڈالیوں کا بنا ہوا تھا، یہاں تک کہ رسول اللہﷺ حاجت سے فارغ ہوئے اور وضو کر چکے تو میں آپﷺ کی طرف چل دیا۔ میں نے دیکھا کہ آپﷺ اریس کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھے ہیں اور دونوں پنڈلیاں کھول کر کنوئیں میں لٹکا دی ہیں۔ پس میں نے آپﷺ کو سلام کیا اور پھر لوٹ کر دروازے کے قریب بیٹھ گیا۔ میں نے (دل میں) کہا کہ میں آج نبیﷺ کا دربان /چوکیدار رہوں گا۔ اتنے میں سیدنا ابو بکرؓ  آئے اور دروازے کو دھکیلا۔ میں نے پوچھا کون ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ابو بکر ہوں، میں نے کہا ذرا ٹھہرو۔ پھر میں گیا اور کہا کہ یا رسول اللہﷺ ابو بکر اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ان کو آنے دو اور جنت کی خوشخبری دو۔ میں آیا اور سیدنا ابو بکر سے کہا کہ اندر داخل ہو، اور رسول اللہﷺ نے آپ کو جنت کی خوشخبری دی ہے۔ پس سیدنا ابو بکر داخل ہوئے اور نبیﷺ کی داہنی طرف اسی منڈیر پر دونوں پاؤں لٹکا کر پنڈلیاں کھول کر جیسے نبیﷺ بیٹھے تھے ، بیٹھ گئے۔ میں لوٹ آیا اور پھر بیٹھ گیا اور میں اپنے بھائی (عامر) کو گھر میں وضو کرتے چھوڑ آیا تھا، میں نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو فلاں (یعنی) میرے بھائی کی بھلائی منظور ہے تو اس کو یہاں لے آئے گا۔ اتنے میں (کیا دیکھتا ہوں کہ) کوئی دروازہ ہلانے لگا ہے۔ میں نے پوچھا کون ہے ؟ جواب آیا کہ عمر بن خطاب۔ میں نے کہا ٹھہر جا۔ پھر میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا، سلام کیا اور کہا کہ سیدنا عمر بن خطاب اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ فرمایا کہ انہیں اجازت دو اور جنت کی خوشخبری بھی دو۔ پس میں گیا اور کہا کہ اندر داخل ہواور رسول اللہﷺ نے تجھے جنت کی خوشخبری دی ہے۔ پس وہ بھی داخل ہوئے اور رسول اللہﷺ کے بائیں طرف اسی منڈیر پر بیٹھ گئے اور دونوں پاؤں کنوئیں میں لٹکا دئیے۔ پھر میں لوٹ آیا اور (دروازے پر) بیٹھ گیا۔ میں نے کہا کہ اگر اللہ کو فلاں آدمی (عامر) کی بھلائی منظور ہے تو اس کو بھی لے آئے گا۔ اتنے میں ایک اور آدمی نے دروازہ ہلایا۔ میں نے کہا کہ کون ہے ؟ جواب دیا کہ عثمان بن عفان۔ میں نے کہا کہ ٹھہر جا۔ پھر میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور بتایا تو آپﷺ نے فرمایا کہ انہیں اجازت دو اور جنت کی خوشخبری دو مگر وہ ایک مصیبت میں مبتلا ہوں گے۔ میں آیا اور ان سے کہا کہ داخل ہو اور رسول اللہﷺ نے تجھے جنت کی خوشخبری دی ہے مگر ایک بلا کے ساتھ جو تم پر آئے گی۔ پس وہ بھی داخل ہوئے اور دیکھا کہ منڈیر کا ایک حصہ بھر گیا ہے ، پس وہ دوسرے کنارے پر آپﷺ کے سامنے بیٹھ گئے۔ شریک نے کہا کہ سعید بن مسیب نے کہا کہ میں نے اس حدیث سے یہ نکالا کہ ان کی قبریں بھی اسی طرح ہوں گی۔ (ویسا ہی ہوا کہ سیدنا عثمانؓ  کو اس حجرہ میں جگہ نہ ملی، تو وہ آپﷺ کے سامنے بقیع میں دفن ہوئے )۔

باب : سیدنا علی بن ابی طالبؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1639: فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے غزوۂ تبوک کے موقعہ پر سیدنا علیؓ  کو (مدینہ میں) خلیفہ بنایا، تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جاتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہوتے کہ تمہارا درجہ میرے پاس ایسا ہو جیسے موسیٰؑ کے پاس ہارونؑ کا تھا، لیکن میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے۔

1640: سیدنا سہل بن سعدؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے خیبر کی لڑائی کے دن فرمایا کہ میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح دے گا اور وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت کرتا ہو گا اور اللہ اور اللہ کے رسولﷺ اس کو چاہتے ہوں گے۔ پھر رات بھر لوگ ذکر کرتے رہے کہ دیکھیں یہ شان آپﷺ کس کو دیتے ہیں۔ جب صبح ہوئی تو سب کے سب رسول اللہﷺ کے پا س یہی امید لئے آئے کہ یہ جھنڈا مجھے ملے گا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! ان کی آنکھیں دکھتی ہیں۔ پھر آپﷺ نے انہیں بلا بھیجا اور ان کی آنکھوں میں تھوک لگایا اور ان کے لئے دعا کی تو وہ بالکل اچھے ہو گئے گویا ان کو کوئی تکلیف نہ تھی۔ پھر آپﷺ نے انہیں جھنڈا دیا۔ چنانچہ سیدنا علیؓ  نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میں ان سے لڑوں گا یہاں تک کہ وہ ہماری طرح (مسلمان) ہو جائیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ آہستہ چلتا جا، یہاں تک کہ ان کے میدان میں اترے ، پھر ان کو اسلام کی طرف بلا اور ان کو بتا جو اللہ کا حق ان پر واجب ہے۔ اللہ کی قسم اگر اللہ تعالیٰ تیری وجہ سے ایک شخص کو ہدایت کرے تو وہ تیرے لئے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہے۔

1641: سیدنا سہل بن سعدؓ  کہتے ہیں کہ مدینہ میں مروان کی اولاد میں سے ایک شخص حاکم ہوا تو اس نے سیدنا سہلؓ  کو بلایا اور سیدنا علیؓ  کو گالی دینے کا حکم دیا۔ سیدنا سہلؓ  نے انکار کیا تو وہ شخص بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ کہ ابو تراب پر اللہ کی لعنت ہو۔ سیدنا سہلؓ  نے کہا کہ سیدنا علیؓ  کو ابو تراب سے زیادہ کوئی نام پسند نہ تھا اور وہ اس نام کے ساتھ پکارنے والے شخص سے خوش ہوتے تھے۔ وہ شخص بولا کہ اس کا قصہ بیان کرو کہ ان کا نام ابو تراب کیوں ہوا؟ سیدنا سہلؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے تو سیدنا علیؓ  کو گھر میں نہ پایا، آپﷺ نے پوچھا کہ تیرے چچا کا بیٹا کہاں ہے ؟ وہ بولیں کہ مجھ میں اور ان میں کچھ باتیں ہوئیں اور وہ غصہ ہو کر چلے گئے اور یہاں نہیں سوئے۔ رسول اللہﷺ نے ایک آدمی سے فرمایا کہ دیکھو وہ کہاں ہیں؟ وہ آیا اور بولا کہ یا رسول اللہﷺ! علی مسجد میں سو رہے ہیں۔ آپﷺ سیدنا علیؓ  کے پاس تشریف لے گئے ، وہ لیٹے ہوئے تھے اور چادر ان کے پہلو سے الگ ہو گئی تھی اور (ان کے بدن سے ) مٹی لگ گئی تھی، تو رسول اللہﷺ نے وہ مٹی پونچھنا شروع کی اور فرمانے لگے کہ اے ابو تراب! اٹھ۔ اے ابو تراب! اٹھ۔

باب : سیدنا طلحہ بن عبید اللہؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1642: ابو عثمان کہتے ہیں کہ ان دنوں میں جب رسول اللہﷺ (کافروں سے ) لڑتے تھے بعض دن کوئی آپﷺ کے ساتھ نہ رہا سوائے سیدنا طلحہ اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہما کے۔

باب : سیدنا زبیر بن عوامؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1643: محمد بن منکدر سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے ان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہﷺ نے خندق کے دن لوگوں کو جہاد کی ترغیب دی۔ سیدنا زبیرؓ  نے جواب دیا کہ حاضر اور مستعد ہوں۔ پھر آپﷺ نے بلایا تو سیدنا زبیر ہی نے جواب دیا۔ پھر آپﷺ نے بلایا تو سیدنا زبیر ہی نے جواب دیا۔ آخر آپﷺ نے فرمایا کہ ہر پیغمبر کا ایک خاص ساتھی ہوتا ہے اور میرا خاص ساتھی زبیر ہے۔

1644: سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ  کہتے ہیں کہ میں اور عمر بن ابی سلمہ خندق کے دن عورتوں کے ساتھ حسان بن ثابت کے قلعہ میں تھے تو کبھی وہ میرے لئے جھک جاتا اور میں دیکھتا اور کبھی میں اس کے لئے جھک جاتا اور وہ دیکھتا۔ میں نے اپنے باپ کو اس وقت پہچان لیا جب وہ گھوڑے پر ہتھیار باندھے ہوئے بنی قریظہ کی طرف نکلے۔ پھر میں نے اپنے والد سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹا تم نے مجھے دیکھا تھا؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم اس دن رسول اللہﷺ نے میرے لئے اپنے ماں باپ کو جمع کر دیا اور فرمایا کہ تجھ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔

1645: سیدنا عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ مجھے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ کی قسم تمہارے دونوں باپ (یعنی زبیر اور ابو بکر) ان لوگوں میں سے تھے جن کا ذکر اس آیت میں ہے یعنی ”جن لوگوں نے زخمی ہونے کے بعد بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی (سیدنا ابو بکر صدیقؓ عروہ کے نانا تھے اور سیدنا زبیرؓ  باپ تھے۔ لیکن نانا کو بھی باپ کہتے ہیں)۔ اور ایک روایت میں ہے ”یعنی ابو بکرؓ اور زبیرؓ“۔

باب : سیدنا طلحہؓ  اور سیدنا زبیرؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1646: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ حراء پہاڑ پر تھے۔ اس (پہاڑ) کا پتھر ہلا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تھم جا اے حراء! تیرے اوپر نہیں ہے مگر نبی یا صدیق یا شہید اور آپﷺ کے ساتھ سیدنا ابو بکر اور عمر اور علی اور عثمان اور طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم تھے۔ (نبی تو رسول اللہﷺ خود تھے اور صدیق سیدنا ابو بکرؓ  اور باقی سب شہید ہوئے ظلم سے مارے گئے ، یہاں تک کہ سیدنا طلحہ اور زبیرؓ بھی)۔

باب : سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1647: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات (کسی جنگ سے واپس آتے ہوئے ) مدینہ کے راستے میں رسول اللہﷺ کی آنکھ کھل گئی اور نیند اچاٹ ہو گئی، تو آپﷺ نے فرمایا کہ کاش میرے اصحاب میں سے کوئی نیک بخت رات بھر میری حفاظت کرے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اتنے میں ہمیں ہتھیاروں کی آواز معلوم ہوئی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کون ہے ؟ آواز آئی کہ یا رسول اللہﷺ ، سعد بن ابی وقاص ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم کیوں آئے ؟ وہ بولے کہ مجھے رسول اللہﷺ پر اپنے نفس میں ڈر ہوا تو میں آپﷺ کی حفاظت کرنے کو آیا ہوں۔ پس رسول اللہﷺ نے ان کے لئے دعا کی اور پھر سو رہے۔

1648: سیدنا عامر بن سعد اپنے والدؓ  سے روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے اُحد کے دن اپنے والدین کو ان کے لئے جمع کیا۔ سیدنا سعدؓ  نے کہا کہ مشرکوں میں سے ایک شخص تھا جس نے بہت سے مسلمانوں کو جلا دیا تھا (یعنی بہت سے مسلمانوں کو شہید کر دیا تھا)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ”اے سعد تیر چلاؤ تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں“ میں نے اس کے لئے ایک تیر نکالا جس میں پیکان نہ تھا وہ اس کی پسلی میں لگا اور وہ (مشرک) گر گیا تو اس کی شرمگاہ کھل گئی۔ رسول اللہﷺ دیکھ کر ہنسے ، یہاں تک کہ میں نے آپﷺ کے دندان مبارک کو دیکھا۔

1649: مصعب بن سعد اپنے والدؓ  سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے بارے میں قرآن کی کئی آیتیں اتریں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی ماں نے قسم کھائی تھی کہ ان سے کبھی بات نہ کرے گی جب تک وہ اپنا دین (یعنی اسلام کو) نہ چھوڑیں گے۔ اور نہ کھائے گی نہ پئے گی۔ وہ کہنے لگی کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے ماں باپ کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور میں تیری ماں ہوں اور تجھے اس بات کا حکم کرتی ہوں۔ پھر تین دن تک یوں ہی رہی کچھ کھایا نہ پیا، یہاں تک کہ اس کو غش آگیا۔ آخر اس کا ایک بیٹا جس کا نام عمارہ تھا، کھڑا ہوا اور اس کو پانی پلایا۔ پس وہ سیدنا سعد کے لئے بددعا کرنے لگی تو اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں یہ آیات اتاریں کہ ”اور ہم نے آدمی کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا“ (العنکبوت:8) لیکن اگر وہ تجھ پر اس بات کا زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کا شریک کرے جس کا تجھے علم نہیں، تو ان کی بات مت مان (یعنی شرک مت کر) اور ان کے ساتھ دنیا میں دستور کے موافق رہ“۔ (لقمان:5)۔ اور ایک بار رسول اللہﷺ کو بہت سا مالِ غنیمت ہاتھ آیا اور اس میں ایک تلوار بھی تھی, وہ میں نے لے لی اور رسول اللہﷺ کے پاس لا کر عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! یہ تلوار مجھے انعام دے دیجئے جبکہ میرا حال آپﷺ جانتے ہی ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس کو وہیں رکھ دے جہاں سے تو نے اٹھائی ہے۔ میں گیا اور میں نے قصد کیا کہ پھر اس کو مال غنیمت کے ڈھیر میں ڈال دوں، لیکن میرے دل نے مجھے ملامت کی اور میں پھر آپﷺ کے پاس لوٹا اور عرض کیا کہ یہ تلوار مجھے دے دیجئے۔ آپﷺ نے سختی سے فرمایا کہ اس کو اسی جگہ رکھ دے جہاں سے تو نے اٹھائی ہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”وہ تجھ سے مالِ غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں“ (انفال:1)۔ سیدنا سعدؓ  نے کہا کہ میں بیمار ہوا تو میں نے رسول اللہﷺ کو بلا بھیجا۔ آپﷺ تشریف لائے تو میں نے کہا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اپنا مال جس کو چاہوں بانٹ دوں۔ آپﷺ نے نہ مانا۔ میں نے کہا کہ اچھا آدھا مال بانٹ دوں؟آپﷺ نہ مانے۔ میں نے کہا کہ اچھا تہائی مال بانٹ دوں؟ آپﷺ چپ ہو رہے۔ پھر یہی حکم ہوا کہ تہائی مال بانٹنا درست ہے۔ سیدنا سعدؓ نے کہا کہ ایک بار میں انصار اور مہاجرین کے کچھ لوگوں کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ آؤ ہم تمہیں کھانا کھلائیں گے اور شراب پلائیں گے اور اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی۔میں ان کے ساتھ ایک باغ میں گیا، وہاں ایک اونٹ کے سر کا گوشت بھونا گیا تھا اور شراب کی ایک مشک رکھی تھی، میں نے ان کے ساتھ گوشت کھایا اور شراب پی۔ وہاں مہاجرین اور انصار کا ذکر آیا تو میں نے کہا کہ مہاجرین انصار سے بہتر ہیں۔ ایک شخص نے جبڑے کی ایک ہڈی لی اور مجھے مارا۔ میرے ناک میں زخم لگا تو میں نے رسول اللہﷺ سے بیان کیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے یہ آیت اتاری کہ ”شراب، جُوا، تھان اور پانسے یہ سب نجاست ہیں اور شیطان کے کام ہیں“ (المائدہ: 90)

1650: سیدنا سعدؓ  کہتے ہیں کہ ہم چھ آدمی رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے۔ مشرکوں نے کہا کہ آپ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ہانک دیجئے ، یہ ہم پر جرأت نہ کریں گے۔ ان لوگوں میں مَیں تھا، ابن مسعود تھے اور ایک شخص ہذیل کا تھا اور بلال اور دو شخص اور تھے جن کا نام میں نہیں لیتا۔ آپ کے دل جو اللہ نے چاہا وہ آیا۔ پس آپﷺ نے دل ہی دل میں باتیں کیں، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”مت بھگا ان لوگوں کو جو اپنے رب کو صبح اور شام کو پکارتے ہیں اور اس کی رضامندی چاہتے ہیں“ (الانعام: 52)۔

باب : سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح کی فضیلت کا بیان۔

1651: سیدنا حذیفہؓ  کہتے ہیں کہ نجران کے لوگ رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہﷺ! ہمارے پاس ایک امانتدار شخص کو بھیجئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں ضرور تمہارے پاس ایک امانتدار شخص کو بھیجتا ہوں بیشک وہ امانتدار ہے ، بیشک وہ امانتدار ہے۔ راوی نے کہا کہ لوگ منتظر رہے کہ آپﷺ کس کو بھیجتے ہیں تو آپﷺ نے سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح کو بھیجا۔

باب : سیدنا حسن صاور حسینؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1652: سیدنا سلمہ بن اکوعؓ  کہتے ہیں کہ میں نے اس سفید خچر کو کھینچا، جس پر رسول اللہﷺ اور سیدنا حسنؓ  اور سیدنا حسینؓ  سوار تھے ، یہاں تک کہ ان کو حجرہ نبوی تک لے گیا۔ یہ ایک صاحبزادے آپﷺ کے آگے اور یہ ایک پیچھے تھے۔

1653: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ دن کو ایک وقت میں نکلا، کہ نہ آپﷺ مجھ سے بات کرتے تھے اور نہ میں آپﷺ سے بات کرتا تھا (یعنی خاموش چلے جاتے تھے ) یہاں تک کہ بنی قینقاع کے بازار میں پہنچے۔ پھر آپﷺ لوٹے اور سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے گھر پر آئے اور پوچھا کہ بچہ ہے ؟ بچہ ہے ؟ یعنی سیدنا حسنؓ  کا پوچھ رہے تھے۔ ہم سمجھے کہ ان کی ماں نے ان کو روک رکھا ہے نہلانے دھلانے اور خوشبو کا ہار پہنانے کے لئے ، لیکن تھوڑی ہی دیر میں وہ دوڑتے ہوئے آئے اور دونوں ایک دوسرے سے گلے ملے (یعنی رسول اللہﷺ اور سیدنا حسنؓ ) پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں توبھی اس سے محبت رکھ اور اس شخص سے محبت کر جو اس سے محبت کرے۔

باب : سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا بنت محمدﷺ کی فضیلت کا بیان۔

1654: سیدنا مسور بن مخرمہؓ  سے روایت ہے کہ سیدنا علی بن ابی طالبؓ  نے ابو جہل کی بیٹی کو (نکاح کا) پیام دیا اور ان کے نکاح میں رسول اللہﷺ کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا نے یہ خبر سنی تو وہ رسول اللہﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ آپﷺ کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ آپﷺ اپنی بیٹیوں کے لئے غصہ نہیں ہوتے اور یہ علی ہیں جو ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرنے والے ہیں۔ سیدنا مسورؓ  نے کہا رسول اللہﷺ نے شہادتین کی ادائیگی کی اور پھر فرمایا کہ میں نے اپنی لڑکی (سیدہ زینب رضی اللہ عنہا) کا نکاح ابو العاص بن ربیع سے کیا اس نے جو بات مجھ سے کہی وہ سچ کہی اور فاطمہ بنت محمدﷺ میرے گوشت کا ٹکڑا ہے اور مجھے بُرا لگتا ہے کہ لوگ اس کو آزمائش میں ڈالیں (یعنی جب علی دوسرا نکاح کریں گے تو شاید فاطمہ رشک کی وجہ سے کوئی بات اپنے خاوند کے خلاف کہہ بیٹھیں یا ان کی نافرمانی کریں اور گنہگار ہوں) اور اللہ کی قسم! اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی لڑکی دونوں ایک مرد کے پاس جمع نہ ہوں گی۔ یہ سن کر سیدنا علیؓ  نے پیام چھوڑ دیا۔ (یعنی ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کا ارادہ ختم کر دیا)۔

1655: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کی سب ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہ آپﷺ کے پاس تھیں (آپﷺ کی بیماری میں)، کوئی بیوی ایسی نہ تھیں جو پاس نہ ہو کہ اتنے میں سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا آئیں اور وہ بالکل اسی طرح چلتی تھیں جس طرح رسول اللہﷺ چلتے تھے۔ آپﷺ نے جب انہیں دیکھا تو مرحبا کہا اور فرمایا کہ مرحبا میری بیٹی۔ پھر ان کو اپنے دائیں طرف یا بائیں طرف بٹھایا اور ان کے کان میں آہستہ سے کچھ فرمایا تو وہ بہت روئیں۔ جب آپﷺ نے ان کا یہ حال دیکھا تو دوبارہ ان کے کان میں کچھ فرمایا تو وہ ہنسیں۔ میں نے ان سے کہا کہ رسول اللہﷺ نے خاص تم سے راز کی باتیں کیں، پھر تم روتی ہو۔ جب آپﷺ کھڑے ہوئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ تم سے رسول اللہﷺ نے کیا فرمایا؟ انہوں نے کہا کہ میں آپﷺ کا راز فاش کرنے والی نہیں ہوں۔ جب آپﷺ کی وفات ہو گئی تو میں نے ان کو قسم دی اس حق کی جو میرا ان پر تھا اور کہا کہ مجھ سے بیان کرو جو رسول اللہﷺ نے تم سے فرمایا تھا، تو انہوں نے کہا کہ اب البتہ میں بیان کروں گی۔ پہلی مرتبہ آپﷺ نے میرے کان میں یہ فرمایا کہ جبرائیلؑ ہر سال ایک بار یا دو بار مجھ سے قرآن کا دور کرتے تھے اور اس سال انہوں نے دو بار دَور کیا، اور میں خیال کرتا ہوں کہ میرا (دنیا سے جانے کا) وقت قریب آگیا ہے ، پس اللہ سے ڈرتی رہ اور صبر کر، میں تیرا بہت اچھا منتظر ہوں۔ یہ سن کر میں رونے لگی جیسے تم نے دیکھا تھا۔ جب آپﷺ نے میرا رونا دیکھا تو دوبارہ مجھ سے سرگوشی کی اور فرمایا کہ اے فاطمہ! تو اس بات سے راضی نہیں ہے کہ تو مومنوں کی عورتوں کی یا اس امت کی عورتوں کی سردار ہو؟ یہ سن کر میں ہنسی جیسے کہ تم نے دیکھا تھا۔

باب : نبیﷺ کے اہل بیت کی فضیلت۔

1656: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ صبح کو نکلے اور آپﷺ ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے جس پر کجاووں کی صورتیں یا ہانڈیوں کی صورتیں بنی ہوئی تھیں۔ اتنے میں سیدنا حسنؓ  آئے تو آپﷺ نے ان کو اس چادر کے اندر کر لیا۔ پھر سیدنا حسینؓ  آئے تو ان کو بھی اس میں داخل کر لیا۔ پھر سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا آئیں تو ان کو بھی انہی کے ساتھ شامل کر لیا پھر سیدنا علیؓ  آئے تو ان کو بھی شامل کر کے فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے نا پاکی کو دُور کرے اور تم کو پاک کرے اے گھر والو!“ (الاحزاب: 33)۔ (اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپﷺ کی ازواج آپ کے اہل بیت نہیں جیسا کہ شیعہ کا نظریہ ہے بلکہ اصل میں اہل بیت تو ازواج ہی ہیں جو کہ آیت کا سیاق بھی بتاتا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ آپﷺ نے سیدنا علی، فاطمہ اور حسنین رضی اللہ عنہم کو بھی شامل کر لیا ہے )۔

1657: یزید بن حیان کہتے ہیں کہ میں، حصین بن سبرہ اور عمر بن مسلم سیدنا زید بن ارقمؓ  کے پاس گئے۔ جب ہم ان کے پاس بیٹھے تو حصین نے کہا کہ اے زید! تم نے تو بڑی نیکی حاصل کی۔ تم نے رسول اللہﷺ کو دیکھا، آپﷺ کی حدیث سنی، آپﷺ کے ساتھ جہاد کیا،آپﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، تم نے بہت ثواب کمایا۔ ہم سے بھی کچھ حدیث بیان کرو جو تم نے رسول اللہﷺ سے سنی ہو۔ انہوں نے کہا کہ اے میرے بھتیجے ! میری عمر بہت بڑی ہو گئی اور مدت گزری اور بعض باتیں جن کو میں رسول اللہﷺ سے یاد رکھتا تھا بھول گیا ہوں، میں جو بات بیان کروں اس کو قبول کرو اور جو میں نہ بیان کروں اس کے لئے مجھے تکلیف نہ دو۔ پھر سیدنا زیدؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ ایک دن مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع مقام ”خم“ کے پانی کے مقام پر خطبہ سنانے کو کھڑے ہوئے۔ آپﷺ نے اللہ کی حمد کی اور اس کی تعریف کو بیان کیا اور وعظ و نصیحت کی۔ پھر فرمایا کہ اس کے بعد اے لوگو! میں آدمی ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا بھیجا ہوا (موت کا فرشتہ) پیغامِ اجل لائے اور میں قبول کر لوں۔ میں تم میں دو بڑی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔پہلے تو اللہ کی کتاب ہے اور اس میں ہدایت ہے اور نور ہے۔ تو اللہ کی کتاب کو تھامے رہو اور اس کو مضبوط پکڑے رہو۔ غرض کہ آپﷺ نے اللہ کی کتاب کی طرف رغبت دلائی۔ پھر فرمایا کہ دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں۔ میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہوں، تین بار فرمایا۔ اور حصین نے کہا کہ اے زید! آپﷺ کے اہل بیت کون سے ہیں، کیا آپﷺ کی ازواجِ مطہرات اہل بیت نہیں ہیں؟ سیدنا زیدؓ  نے کہا کہ ازواجِ مطہرات بھی اہل بیت میں داخل ہیں لیکن اہل بیت وہ ہیں جن پر زکوٰۃ حرام ہے۔ حصین نے کہا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ سیدنا زیدؓ  نے کہا کہ وہ علی، عقیل، جعفر اور عباس کی اولاد ہیں۔ حصین نے کہا کہ ان سب پر صدقہ حرام ہے ؟ سیدنا زیدؓ  نے کہا کہ ہاں۔

باب : نبیﷺ کی زوجہ مطہرہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا بیان۔

1658: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں نے تجھے خواب میں تین راتوں تک دیکھا کہ ایک فرشتہ تجھے ایک سفید ریشم کے ٹکڑے میں لایا اور مجھے کہنے لگا کہ یہ آپ کی عورت ہے میں نے تمہارے چہرے سے کپڑا ہٹایا تو وہ تو ہی نکلی۔ میں نے کہا کہ اگر یہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو ایسا ہی ہو گا (یعنی یہ عورت مجھے ملے گی اگر کوئی اور اس خواب کی تعبیر نہ ہو)۔

1659: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں جان لیتا ہوں جب تو مجھ سے خوش ہوتی ہے اور جب ناخوش ہوتی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ آپﷺ کیسے جان لیتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جب تو خوش ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ نہیں محمدﷺ کے رب کی قسم، اور جب ناراض ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ نہیں قسم ہے ابراہیم (ں) کے رب کی۔ میں نے عرض کیا کہ بیشک اللہ کی قسم یا رسول اللہﷺ، میں صرف آپﷺ کا نام چھوڑ دیتی ہوں (جب آپﷺ سے ناراض ہوتی ہوں۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ غصہ اسی رشک کے باب سے ہے جو عورتوں کو معاف ہے اور وہ ظاہر میں ہوتا تھا دل میں آپ کبھی رسول اللہﷺ سے ناراض نہ ہوتیں)۔

1660: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے پاس گڑیوں سے کھیلتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ میری سہیلیاں آتیں اور رسول اللہﷺ کو دیکھ کر غائب ہو جاتیں (شرم اور ڈر سے ) تو آپﷺ ان کو میرے پاس بھیج دیتے۔

1661: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ لوگ میری باری کا انتظار کرتے تھے اور جس دن میری باری ہوتی، اس دن تحفے بھیجتے تاکہ آپﷺ خوش ہوں۔

1662: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہ نے آپﷺ کی صاحبزادی سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کو آپﷺ کے پاس بھیجا۔ انہوں نے اجازت مانگی، اور آپﷺ میرے ساتھ میری چادر میں لیٹے ہوئے تھے۔ آپﷺ نے اجازت دی تو انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! آپﷺ کی ازواجِ مطہرات نے مجھے آپﷺ کے پاس بھیجا ہے ، وہ چاہتی ہیں کہ آپﷺ ان کے ساتھ ابو قحافہ کی بیٹی میں انصاف کریں (یعنی جتنی محبت ان سے رکھتے ہیں اتنی ہی اوروں سے رکھیں۔ اور یہ امر اختیاری نہ تھا اور سب باتوں میں تو آپﷺ انصاف کرتے تھے ) اور میں خاموش تھی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اے بیٹی! کیا تو وہ نہیں چاہتی جو میں چاہوں؟ وہ بولیں کہ یا رسول اللہﷺ! میں تو وہی چاہتی ہوں جو آپﷺ چاہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تو عائشہ سے محبت رکھ۔ یہ سنتے ہی فاطمہ اٹھیں اور ازواجِ مطہرات کے پاس گئیں اور ان سے جا کر اپنا کہنا اور رسول اللہﷺ کا فرمانا بیان کیا۔ وہ کہنے لگیں کہ ہم سمجھتیں ہیں کہ تم ہمارے کچھ کام نہ آئیں، اس لئے پھر رسول اللہﷺ کے پاس جاؤ اور کہو کہ آپﷺ کی ازواج ابو قحافہ کی بیٹی کے مقدمہ میں انصاف چاہتی ہیں(ابو قحافہ سیدنا ابو بکرؓ  کے والد تھے تو عائشہ رضی اللہ عنہا کے دادا ہوئے اور دادا کی طرف نسبت دے سکتے ہیں)۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تو اب عائشہ رضی اللہ عنہا کے مقدمہ میں کبھی رسول اللہﷺ سے گفتگو نہ کروں گی۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ آخر آپﷺ کی ازواج نے اُمّ المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کو آپﷺ کے پاس بھیجا اور میرے برابر کے مرتبہ میں آپﷺ کے سامنے وہی تھیں اور میں نے کوئی عورت ان سے زیادہ دیندار، اللہ سے ڈرنے والی، سچی بات کہنے والی، ناتا جوڑنے والی اور خیرات کرنے والی نہیں دیکھی اور نہ ان سے بڑھ کر کوئی عورت اللہ تعالیٰ کے کام میں اور صدقہ میں اپنے نفس پر زور ڈالتی تھی، فقط ان میں ایک تیزی تھی (یعنی غصہ تھا) اس سے بھی وہ جلدی پھر جاتیں اور مل جاتیں اور نادم ہو جاتی تھیں۔ انہوں نے رسول اللہﷺ سے اجازت چاہی تو آپﷺ نے اسی حال میں اجازت دی کہ آپﷺ میری چادر میں تھے ، جس حال میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ ﷺکی ازواج ابو قحافہ کی بیٹی کے مقدمہ میں انصاف چاہتی ہیں۔ پھر یہ کہہ کر مجھ پر آئیں اور زبان درازی کی اور میں رسول اللہﷺ کی نگاہ کو دیکھ رہی تھی کہ آپﷺ مجھے جواب دینے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں، یہاں تک کہ مجھے معلوم ہو گیا کہ آپﷺ جواب دینے سے بُرا نہیں مانیں گے ، تب تو میں بھی ان پر آئی اور تھوڑی ہی دیر میں ان کو لاجواب کر دیا یا ان پر غالب آ گئی۔ رسول اللہﷺ مسکرائے اور فرمایا کہ یہ ابو بکرؓ کی بیٹی ہے (کسی ایسے ویسے کی لڑکی نہیں جو تم سے دب جائے )۔

1663: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ (بیماری میں) دریافت کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں آج کہاں ہوں گا، میں کل کہاں ہوں گا؟ یہ خیال کر کے کہ ابھی میری باری میں دیر ہے۔ پھر میری باری کے دن اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو بلا لیا میرے سینہ اور حلق سے (یعنی آپﷺ کا سر مبارک میرے سینہ سے لگا ہوا تھا)۔

1664: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو اپنی وفات سے پہلے فرماتے ہوئے سنا اور آپﷺ میرے سینہ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ میں نے کان لگایا تو آپﷺ فرماتے تھے کہ” اے اللہ! مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کر اور مجھے اپنے رفیقوں سے ملا دے “۔

1665: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنی تندرستی کی حالت میں فرماتے تھے کہ کوئی نبی فوت نہیں ہوا یہاں تک کہ اس نے جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ نہیں لیا اور اسے دنیا سے جانے کا اختیار نہیں ملا۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب رسول اللہﷺ کی وفات کا وقت آگیا تو آپﷺ کا سر میری ران پر تھا۔ آپﷺ ایک ساعت تک بیہوش رہے ، پھر ہوش میں آئے اور اپنی آنکھ چھت کی طرف لگائی اور فرمایا کہ اے اللہ! بلند رفیقوں کے ساتھ کر (یعنی پیغمبروں کے ساتھ جو اعلیٰ علییّن میں رہتے ہیں)۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اس وقت میں نے کہا کہ اب آپﷺ ہمیں اختیار کرنے والے نہیں اور مجھے وہ حدیث یاد آئی جو آپﷺ نے تندرستی کی حالت میں فرمائی تھی کہ کوئی نبی فوت نہیں ہوا یہاں تک کہ اس نے اپنا ٹھکانہ جنت میں نہ دیکھ لیا ہو اور اس کو (دنیا میں رہنے اور آخرت میں رہنے کا) اختیار نہ ملا ہو۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ آخری کلمہ تھا جو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ ! مجھے بلند رفیقوں کے ساتھ کر۔

1666: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب سفر کو جاتے تو اپنی ازواج پر قرعہ ڈالتے۔ ایک بار قرعہ مجھ پر اور اُمّ المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا پر آیا اور ہم دونوں آپﷺ کے ساتھ نکلیں۔ آپﷺ جب رات کو سفر کرتے تو اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ساتھ ان سے باتیں کرتے ہوئے چلتے۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آج رات تم میرے اونٹ پر سوار ہو جاؤ اور میں تمہارے اونٹ پر سوار ہوتی ہوں، تم دیکھو گی جوتم نہیں دیکھتی تھیں اور میں دیکھوں گی جو میں نہیں دیکھتی تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اچھا۔ پس وہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ پر سوار ہوئیں اور حفصہ رضی اللہ عنہا ان کے اونٹ پر۔ رات کو رسول اللہﷺ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کی طرف آئے ، جس پر حفصہ رضی اللہ عنہا سوار تھیں، آپﷺ نے سلام کیا اور ان ہی کے ساتھ ساتھ چلے ، یہاں تک کہ منزل پر اترے۔ اور اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے آپﷺ کو (رات بھر) نہ پایا تو انہیں غیرت آئی۔ جب وہ اتریں تو اپنے پاؤں اذخر (گھاس) میں ڈالتیں اور کہتیں کہ اے اللہ! مجھ پر بچھو یا سانپ مسلط کر جو مجھے ڈس لے ، وہ تو تیرے رسول ہیں، میں ان کو کچھ نہیں کہہ سکتی۔

1667: سیدنا ابو موسیٰؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مردوں میں بہت لوگ کامل ہوئے ، لیکن عورتوں میں کوئی کامل نہیں ہوئی سوائے مریم بنت عمران اور آسیہ رضی اللہ عنہا جو کہ فرعون کی بیوی تھی۔ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت دوسری عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی فضیلت دوسرے کھانوں پر ہے۔

1668: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ! یہ جبرئیلؑ ہیں تمہیں سلام کہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ و علیہ السلام و رحمۃ اللہ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آپﷺ وہ چیزیں دیکھتے تھے جو میں نہیں دیکھتی تھی۔

باب : اسی سے متعلق اور امّ زرع کی حدیث کے بیان میں۔

1669: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ گیارہ عورتیں بیٹھیں اور ان سب نے یہ اقرار اور عہد کیا کہ اپنے اپنے خاوندوں کی کوئی بات نہ چھپائیں گی۔ پہلی عورت نے کہا کہ میرا خاوند گویا دُبلے اونٹ کا گوشت ہے ، جو ایک دشوار گزار پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہو۔ نہ تو وہاں تک صاف راستہ ہے کہ کوئی چڑھ جائے اور نہ وہ گوشت موٹا ہے کہ لایا جائے۔ دوسری عورت نے کہا کہ میں اپنے خاوند کی خبر نہیں پھیلا سکتی میں ڈرتی ہوں کہ اگر بیان کروں تو پورا بیان نہ کر سکوں گی کیونکہ اس میں ظاہری و باطنی عیوب بہت زیادہ ہیں۔ (اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ میں ڈرتی ہوں کہ اگر بیان کروں گی تو اس کو چھوڑ دوں گی۔ یعنی وہ خفا ہو کر مجھے طلاق دے گا اور اس کو چھوڑ نا پڑے گا)۔ تیسری عورت نے کہا کہ میرا خاوند لمبا قد اور احمق ہے ، اگر میں اس کی بُرائی بیان کروں تو مجھے طلاق دیدے گا اور جو چپ رہوں تو اسی طرح معلق رہوں گی (یعنی نہ نکاح کے مزے اٹھاؤں گی نہ بالکل محروم رہوں گی)۔ چوتھی نے کہا کہ میرا خاوند تو ایسا ہے جیسے تہامہ (حجاز اور مکہ) کی رات۔ نہ گرم ہے نہ سرد ہے (یعنی معتدل المزاج ہے ) نہ ڈر ہے نہ رنج ہے (یہ اس کی تعریف کی یعنی اس کے اخلاق عمدہ ہیں اور نہ وہ میری صحبت سے ملول ہوتا ہے )۔ پانچویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند جب گھر میں آتا ہے تو چیتا ہے (یعنی پڑ کر سو جاتا ہے اور کسی کو نہیں ستاتا) اور جب باہر نکلتا ہے تو شیر ہے۔ اور جو مال اسباب گھر میں چھوڑ جاتا ہے اس کو نہیں پوچھتا۔ چھٹی عورت نے کہا کہ میرا خاوند اگر کھاتا ہے تو سب ختم کر دیتا ہے اور پیتا ہے تو تلچھٹ تک نہیں چھوڑتا اور لیٹتا ہے تو بدن لپیٹ لیتا ہے اور مجھ پر اپنا ہاتھ نہیں ڈالتا کہ میرا دکھ درد پہچانے (یہ بھی ہجو ہے یعنی سوا کھانے پینے کے بیل کی طرح اور کوئی کام کا نہیں، عورت کی خبر تک نہیں لیتا)۔ ساتویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند نامرد ہے یا شریر نہایت احمق ہے کہ کلام کرنا نہیں جانتا، سب دنیا بھر کے عیب اس میں موجود ہیں۔ ایسا ظالم ہے کہ تیرا سر پھوڑے یا ہاتھ توڑے یا سر اور ہاتھ دونوں مروڑے۔ آٹھویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند بو میں زرنب ہے (زرنب ایک خوشبودار گھاس ہے ) اور چھونے میں نرم جیسے خرگوش (یہ تعریف ہے یعنی اس کا ظاہر اور باطن دونوں اچھے ہیں)۔ نویں عورت نے کہا کہ میرا خاوند اونچے محل والا، لمبے پرتلے والا (یعنی قد آور) اور بڑی راکھ والا (یعنی سخی ہے ) اس کا باورچی خانہ ہمیشہ گرم رہتا ہے تو راکھ بہت نکلتی ہے ) اس کا گھر قوم کے مل بیٹھ کر مشورہ کرنے کی جگہ (ڈیرہ وغیرہ) (یعنی سردار اور صاحب الرائے ہے )۔ دسویں عورت نے کہا کہ میرے خاوند کا نام مالک ہے۔ اور مالک کیا خوب ہے۔ مالک میری اس تعریف سے افضل ہے۔ اس کے اونٹوں کے بہت سے شتر خانے ہیں اور کم تر چراگاہیں ہیں (یعنی ضیافت میں اس کے یہاں اونٹ بہت ذبح ہوا کرتے ہیں، اس سبب سے شتر خانوں سے جنگل میں کم چرنے جاتے ہیں) جب اونٹ باجے کی آواز سنتے ہیں تو اپنے ذبح ہونے کا یقین کر لیتے ہیں (ضیافت میں راگ اور باجے کا معمول تھا، اس سبب سے باجے کی آواز سن کر اونٹوں کو اپنے ذبح ہونے کا یقین ہو جاتا تھا)۔ گیارھویں عورت نے کہا کہ میرے خاوند کا نام ابو زرع ہے سو واہ کیا خوب ابو ذرع ہے۔ اس نے زیور سے میرے دونوں کان جھلائے اور چربی سے میرے دونوں بازو بھرے (یعنی مجھے موٹا کیا اور مجھے بہت خوش کیا)، سو میری جان بہت چین میں رہی مجھے اس نے بھیڑ بکری والوں میں پایا جو پہاڑ کے کنارے رہتے تھے ، پس اس نے مجھے گھوڑے ، اونٹ، کھیت اور ڈھیریوں/ خرمن کا مالک کر دیا (یعنی میں نہایت ذلیل اور محتاج تھی، اس نے مجھے با عزت اور مالدار کر دیا)۔ میں اس کی بات کرتی ہوں تو وہ مجھے بُرا نہیں کہتا۔ سوتی ہوں تو فجر کر دیتی ہوں (یعنی کچھ کام نہیں کرنا پڑتا) اور پیتی ہوں تو سیراب ہو جاتی ہوں۔ اور ابو زرع کی ماں، پس ابو زرع کی ماں بھی کیا خوب ہے۔ اس کی بڑی بڑی گٹھڑیاں اور کشادہ گھر ہیں۔ ابو زرع کا بیٹا، پس ابو زرع کا بیٹا بھی کیا خوب ہے۔ اس کی خوابگاہ جیسے تلوار کا میان (یعنی نازنین بدن ہے )، اس کو (بکری) حلوان کا ہاتھ آسودہ (سیر) کر دیتا ہے (یعنی کم خور ہے )۔ ابو زرع کی بیٹی، پس ابو زرع کی بیٹی بھی کیا خوب ہے۔ اپنے والدین کی تابعدار اور اپنے لباس کو بھرنے والی (یعنی موٹی ہے ) اور اپنی سوتن کی رشک (یعنی اپنے خاوند کی پیاری ہے ، اس لئے اس کی سوتن اس سے جلتی ہے )۔ اور ابو زرع کی لونڈی، ابو زرع کی لونڈی بھی کیا خوب ہے۔ ہماری بات ظاہر کر کے مشہور نہیں کرتی اور ہمارا کھانا اٹھا کر نہیں لے جاتی اور ہمارا گھر کچرے سے آلودہ نہیں رکھتی۔ ابو زرع باہر نکلا جب کہ مشکوں میں دودھ (گھی نکالنے کے لئے ) بلویا جا رہا تھا۔ پس وہ ایک عورت سے ملا، جس کے ساتھ اس کے دو لڑکے تھے جیسے دو چیتے اس کی گود میں دو اناروں سے کھیلتے ہوں۔ پس ابو زرع نے مجھے طلاق دی اور اس عورت سے نکاح کر لیا۔ پھر میں نے اس کے بعد ایک سردار مرد سے نکاح کیا جو ایک عمدہ گھوڑے کا سوار اور نیزہ باز ہے۔ اس نے مجھے چوپائے جانور بہت زیادہ دئیے اور اس نے مجھے ہر ایک مویشی سے جوڑا جوڑا دیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ اے اُمّ زرع! خود بھی کھا اور اپنے لوگوں کو بھی کھلا۔ پس اگر میں وہ چیزیں جمع کروں جو مجھے دوسرے شوہر نے دیں، تو وہ ابو زرع کے چھوٹے برتن کے برابر بھی نہ پہنچیں (یعنی دوسرے خاوند کا احسان پہلے خاوند کے احسان سے نہایت کم ہے )۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ میں تیرے لئے ایسا ہوں جیسے ابو زرع اُمّ زرع کے لئے تھا۔(لیکن نہ تجھے طلاق دی ہے اور نہ دوں گا)۔

باب : نبیﷺ کی زوجہ مطہر اُمّ المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کابیان۔

1670: سیدنا عبد اللہ بن جعفر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علیؓ  سے کوفہ میں سنا, وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا, آپﷺ فرماتے تھے کہ (آسمان و زمین کے اندر) جتنی عورتیں ہیں سب میں مریم بنت عمران افضل ہیں اور (آسمان اور زمین کے اندر) جتنی عورتیں ہیں سب میں خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا افضل ہیں۔ ابو کریب نے کہا کہ وکیع نے آسمان و زمین کی طرف اشارہ کیا۔

1671: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ جبرئیلؑ نبیﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ یا رسول اللہﷺ! یہ خدیجہ ایک برتن لے کر آپﷺ کے پاس آ رہی ہیں، اس میں سالن ہے یا کھانا ہے یا شربت ہے۔ پھر جب وہ آئیں تو آپ ان کو ان کے رب کی طرف سے سلام کہئے اور میری طرف سے بھی اور ان کو ایک گھر کی خوشخبری دیجئے جو جنت میں خولدار موتی کا بنا ہوا ہے ، جس میں کوئی شور ہے اور نہ کوئی تکلیف ہے۔

1672: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبیﷺ کی ازواج میں سے کسی پر رشک نہیں کیا، البتہ خدیجہ رضی اللہ عنہآپر کیا اور میں نے ان کو دیکھا نہیں۔ رسول اللہﷺ جب بکری ذبح کرتے تو فرماتے کہ اس کا گوشت خدیجہ کی سہیلیوں کو بھیجو۔ ایک دن میں نے آپﷺ کو ناراض کیا اور کہا کہ خدیجہ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ میرے دل میں اس کی محبت ڈال دی گئی ہے۔

1673: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے خدیحہ رضی اللہ عنہا  پر دوسرا نکاح نہیں کیا، یہاں تک کہ وہ فوت ہو گئیں۔

1674: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہالہ بنت خویلد نے رسول اللہﷺ کے پاس آنے کی اجازت مانگی، تو آپﷺ کو خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اجازت مانگنا یاد آگیا۔ آپﷺ خوش ہوئے اور فرمایا کہ یا اللہ ! ہالہ بنت خویلد۔ مجھے رشک آیا تو میں نے کہا کہ آپﷺ کیا قریش کی بوڑھیوں میں سے سرخ مسوڑھوں والی ایک بڑھیا کو یاد کرتے ہیں (یعنی انتہا کی بڑھیا جس کے ایک دانت بھی نہ رہا ہو نری سرخی ہی سرخی ہو، دانت کی سفیدی بالکل نہ ہو) جو مدت گزری فوت ہو چکی اور اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو اس سے بہتر عورت دی (جوان باکرہ جیسے میں ہوں)۔

باب : اُمّ المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا بیان۔

1675: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے (اپنی ازواج سے ) فرمایا کہ تم سب میں پہلے وہ مجھ سے ملے گی جس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہیں۔ پس سب ازواج مطہرات نے اپنے اپنے ہاتھ ناپے تاکہ معلوم ہو کہ کس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہیں۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہم سب میں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے ہاتھ زیادہ لمبے تھے ، اس لئے کہ وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرتیں اور صدقہ دیتی تھیں۔

باب : اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا بیان۔

1676: ابو عثمان سیدنا سلمانؓ  سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ اگر ہو سکے تو سب سے پہلے بازار میں مت جا اور نہ سب کے بعد وہاں سے نکل، کیونکہ بازار شیطان کا میدان جنگ ہے اور وہیں وہ اپنا جھنڈا گاڑتا ہے۔ انہوں نے کہا مجھے خبر دی گئی کہ جبرائیلؑ رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور آپﷺ کے پاس اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ جبرئیلؑ آپﷺ سے باتیں کرنے لگے ، پھر کھڑے ہوئے (یعنی چلے گئے ) تو رسول اللہﷺ نے ان سے پوچھا کہ یہ کون شخص تھے ؟ انہوں نے کہا کہ دحیہ کلبی تھے۔ اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم تو انہیں دحیہ کلبی ہی سمجھے ، یہاں تک کہ میں نے رسول اللہﷺ کا خطبہ سنا، آپﷺ ہماری خبر بیان کرتے تھے۔ میں (راوئ حدیث) نے کہا کہ میں نے ابو عثمان سے پوچھا کہ یہ حدیث آپ نے کس سے سنی؟ تو انہوں نے فرمایا کہ سیدنا اسامہ بن زیدؓ  سے۔

باب : سیدنا انس بن مالکؓ  کی والدہ، سیدہ اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا بیان۔

1677: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ نبیﷺ کسی عورت کے گھر میں نہیں جاتے تھے سوا اپنے ازواج کے یا اُمّ سلیم کے (جو سیدنا انسؓ  کی والدہ اور سیدنا ابو طلحہؓ  کی بیوی تھیں)۔ آپﷺ اُمّ سلیم کے پاس جایا کرتے تھے۔ لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس پر بہت رحم آتا ہے ، اس کا بھائی میرے ساتھ مارا گیا۔

1678: سیدنا انس بن مالکؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: میں جنت میں گیا، وہاں میں نے (کسی کے چلنے کی) آہٹ پائی تو میں نے پوچھا کہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ غمیصا بنت ملحان (اُمّ سلیم کا نام غمیصا یا  رمیصا تھا) انس بن مالک کی والدہ ہیں۔

باب : سیدنا اسامہ بن زید کی والدہ، سیدہ اُمّ ایمن رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا بیان۔

1679: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ سیدنا ابو بکرؓ  نے رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد سیدنا عمرؓ  سے کہا کہ ہمارے ساتھ اُمّ ایمن کی ملاقات کے لئے چلو ہم اس سے ملیں گے جیسے رسول اللہﷺ ان سے ملنے کو جایا کرتے تھے۔ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں۔ دونوں ساتھیوں نے کہا کہ تم کیوں روتی ہو؟ اللہ جل جلالہ کے پاس اپنے رسولﷺ کے لئے جو سامان ہے وہ رسول اللہﷺ کے لئے بہتر ہے۔ اُمّ ایمن رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں اس لئے نہیں روتی کہ یہ بات نہیں جانتی بلکہ اس وجہ سے روتی ہوں کہ اب آسمان سے وحی کا آنا بند ہو گیا۔ اُمّ ایمن کے اس کہنے سے سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمرؓ  کو بھی رونا آیا پس وہ بھی ان کے ساتھ رونے لگے۔

باب : سیدنا زید بن حارثہؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1680: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ ہم زید بن حارثہ کو زید بن محمدﷺ کہا کرتے تھے (اس وجہ سے کہ آپﷺ نے ان کو منہ بولا بیٹا کہا تھا)، یہاں تک کہ قرآن میں اترا کہ ”ان کو ان کے باپوں کی طرف نسبت کر کے پکارو اور یہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اچھا ہے “ (الاحزاب:5)۔

باب : سیدنا زید بن حارثہؓ  اور اسامہ بن زیدؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1681: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اور آپﷺ اس وقت منبر پر تھے کہ اگر تم اس کی امارت میں طعن کرتے ہو (اس سے مراد سیدنا اسامہ بن زیدؓ  تھے ) تو بیشک تم نے اس سے پہلے اس کے باپ (زید) کی امارت میں بھی طعن کیا تھا اور اللہ کی قسم! اس کا باپ سرداری کے لائق تھا اور سب لوگوں میں وہ میرا زیادہ پیارا تھا۔ اور اللہ کی قسم یہ (یعنی اسامہ) بھی سرداری کے لائق ہے اور اللہ کی قسم! اب اسامہ اُس کے بعد سب لوگوں میں مجھے زیادہ پیارا ہے۔ لہٰذا میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اسامہ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا (کیوں) کہ وہ تم میں نیک بخت لوگوں میں سے ایک ہے۔

باب : سیدنا ابو بکر صدیقؓ  کے غلام، سیدنا بلال بن رباحؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1682: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے بلال سے صبح کی نماز کے بعد فرمایا کہ اے بلال! مجھ سے وہ عمل بیان کر جو تو نے اسلام میں کیا ہے اور جس کے فائدے کی تجھے بہت امید ہے ، کیونکہ میں نے آج کی رات تیری جوتیوں کی آواز اپنے سامنے جنت میں سنی ہے۔ سیدنا بلالؓ  نے کہا کہ میں نے اسلام میں کوئی عمل ایسا نہیں کیا جس کے نفع کی امید بہت ہو۔ سوا اس کے کہ رات یا دن میں کسی بھی وقت جب پورا وضو کرتا ہوں تو اس وضو سے نماز پڑھتا ہوں جتنی کہ اللہ تعالیٰ نے میری قسمت میں لکھی ہوتی ہے۔

باب : سیدنا سلمان، صہیب اور بلال ث کی فضیلت کا بیان۔

1683: سیدنا عائذ بن عمروؓ  سے روایت ہے کہ سیدنا سلمان، صہیب اور بلال ث چند دوسرے لوگوں میں بیٹھے ہوئے تھے کہ سیدنا ابو سفیان ان کے پاس آئے۔ پس وہ کہنے لگے کہ اللہ کی تلواریں اللہ کے دشمن کی گردن پر اپنے موقع پر نہ پہنچیں (یعنی اللہ کا یہ دشمن نہ مارا گیا)۔ سیدنا ابو بکرؓ  نے کہا کہ تم قریش کے بوڑھے اور سردار کے حق میں ایسا کہتے ہو؟ (سیدنا ابو بکرؓ  نے مصلحت سے ایسا کہا کہ کہیں ابو سفیان ناراض ہو کر اسلام بھی قبول نہ کرے ) اور رسول اللہﷺ کے پاس آ کر اور آپﷺ سے بیان کیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے ابو بکر! شاید تم نے ان لوگوں کو ناراض کیا ہے (یعنی سلمان اور صہیب اور بلال ث کو)؟ اگر تم نے ان کو ناراض کیا۔ تو اپنے پروردگار کو ناراض کیا یہ سن کر سیدنا ابو بکرؓ  ان لوگوں کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے بھائیو! میں نے تمہیں ناراض کیا؟ وہ بولے کہ اے ہمارے بھائی! نہیں، اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے۔

باب : سیدنا انس بن مالکؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1684: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ میری ماں مجھے رسول اللہﷺ کے پاس لائی اور اپنی اوڑھنی یا دوپٹہ کو دو حصوں میں پھاڑ کر مجھے اس میں سے آدھی کا تہبند بنا دیا تھا اور آدھی اوپر کی چادر۔ اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہﷺ! یہ انس میرا چھوٹا بیٹا ہے ،اسے میں آپ کے پاس آپﷺ کی خدمت کے لئے لائی ہوں آپﷺ اس کے لئے دعا کیجئے۔ پس آپﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! اس کے مال اور اولاد میں کثرت فرما۔ سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ میرا مال بہت زیادہ ہے اور آج میرے بیٹے اور پوتے سو سے زیادہ ہیں۔ (اس میں خاندانی منصوبہ بندی کا رد ہے کیونکہ اسلام زیادہ اولاد کو اچھا سمجھتا ہے )۔

1685: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ گزر رہے تھے کہ میری ماں اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا نے آپﷺ کی آواز سنی تو کہنے لگی کہ میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں، یہ چھوٹا انس ہے۔ آپﷺ نے میرے لئے تین دعائیں کیں۔ دو تو میں دنیا میں پا چکا اور ایک کی آخرت میں امید رکھتا ہوں۔

1686: ثابت ، سیدنا انسؓ  سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں (اپنے ہم عمر) بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ رسول اللہﷺ میرے پاس تشریف لائے ، آپﷺ نے ہمیں سلام کیا اور مجھے کسی کام کے لئے بھیجا۔ میں اپنی ماں کے پاس دیر سے گیا تو میری ماں نے کہا کہ تو نے دیر کیوں کی؟ میں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے مجھے ایک کام کے لئے بھیجا تھا۔ وہ بولی کہ کیا کام تھا؟ میں نے کہا کہ وہ بھید ہے۔ میری ماں بولی کہ رسول اللہﷺ کا بھید کسی سے نہ کہنا۔ سیدنا انسؓ  نے کہا کہ اللہ کی قسم اگر وہ بھید میں کسی سے کہتا تو اے ثابت! تجھ سے کہتا۔

باب : سیدنا جعفر بن ابی طالب، اسماء بنتِ عمیس اور ان کی کشتی والوں کی فضیلت کا بیان۔

1687: سیدنا ابو موسیٰؓ  کہتے ہیں کہ ہم یمن میں تھے کہ ہمیں رسول اللہﷺ کے مکہ سے نکلنے کی خبر پہنچی۔ پس ہم بھی آپﷺ کی طرف ہجرت کر کے روانہ ہوئے۔ میں اور میرے دو بھائی ایک ابو بردہ اور دوسرے ابو رہم تھے ، میں ان سے چھوٹا تھا اور ترپن یا باون یا کہا کہ پچاس سے کچھ اوپر آدمی میری قوم میں سے ہمارے ساتھ آئے۔ سیدنا ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ ہم سب جہاز میں سوار ہوئے۔ اتفاق سے یہ جہاز ہمیں حبش کے ملک نجاشی بادشاہ کے پاس لے گیا۔وہاں ہمیں سیدنا جعفرؓ  بن ابی طالب اور ان کے ساتھی ملے۔ سیدنا جعفرؓ  نے کہا کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے یہاں بھیجا ہے اور ہمیں یہاں ٹھہرنے کا حکم کیا ہے ، پس تم بھی ہمارے ساتھ ٹھہرو۔ پس ہم نے ان کے پاس قیام کیا۔ پھر ہم سب اکٹھے روانہ ہوئے اور ہم نبیﷺ کے پاس اس وقت پہنچے جب آپﷺ خیبر فتح کر چکے تھے۔ رسول اللہﷺ نے وہاں کے مالِ غنیمت سے ہمارا حصہ لگایا اور خیبر کی لڑائی سے جو شخص غائب تھا، اس کو حصہ نہ ملا سوائے ہماری کشتی والوں کے۔ اور بعض لوگ ہمیں (یعنی اہل سفینہ سے ) کہنے لگے کہ ہجرت میں ہم لوگ تم پر سبقت لے گئے ہیں۔ اور سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا (جو ہمارے ساتھ آئی تھیں) اُمّ المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے ملنے کو گئیں اور انہوں نے بھی نجاشی کے ملک میں مہاجرین کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ سیدنا عمرؓ  اُمّ المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ان کے پاس موجود تھیں۔ سیدنا عمرؓ  نے اسماء رضی اللہ عنہا کو دیکھ کر پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ اُمّ المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ یہ اسماء بنت عمیس ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ جو حبش کے ملک میں گئی تھیں اور اب سمندر کا سفر کر کے آئی ہیں؟ اسماء رضی اللہ عنہا بولیں جی ہاں میں وہی ہوں۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ ہم ہجرت میں تم سے سبقت لے گئے ، لہٰذا رسول اللہﷺ پر تم سے زیادہ ہمارا حق ہے۔ یہ سن کر انہیں غصہ آ گیا اور کہنے لگیں ”اے عمر! اللہ کی قسم ہرگز نہیں، تم نے جھوٹ کہا۔ تم تو رسول اللہﷺ کے پاس موجود تھے ، تم میں سے بھوکے کو کھانا کھلاتے اور تمہارے جاہل کو نصیحت کرتے تھے اور ہم ایک دور دراز دشمنوں کی زمین حبشہ میں تھے ، اور ہماری یہ سب تکالیف اللہ اور اس کے رسولﷺ کی راہ میں تھیں۔ اللہ کی قسم! مجھ پر اس وقت تک کھانا پینا حرام ہے جب تک رسول اللہﷺ سے تمہاری بات کا ذکر نہ کر لوں اور ہم کو ایذا دی جاتی تھی اور ہمیں ہر وقت خوف رہتا تھا۔ عنقریب میں نبی کریمﷺ سے ذکر کروں گی، ان سے پوچھوں گی اور اللہ کی قسم نہ میں جھوٹ بولوں گی، نہ میں کجروی کروں گی اور نہ میں اس سے زیادہ کہوں گی“۔ جب نبیﷺ تشریف لائے تو سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا نبی اللہﷺ! عمرؓ  نے اس اس طرح کہا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم سے زیادہ کسی کا حق نہیں ہے۔ کیونکہ عمرؓ اور ان کے ساتھیوں کی ایک ہجرت ہے اور تم کشتی والوں کی تو دو ہجرتیں ہوئیں(ایک مکہ سے حبش کو اور دوسری حبش سے مدینہ طیبہ کو)۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے سیدنا ابو موسیٰ اور کشتی والوں کو دیکھا کہ وہ گروہ در گروہ میرے پاس آتے اور اس حدیث کو سنتے تھے۔ اور دنیا میں کوئی چیز ان کو رسول اللہﷺ کے اس فرمان سے زیادہ خوشی کی نہ تھی نہ اتنی بڑی تھی۔ سیدنا ابو بردہ نے کہا ہ سیدہ اسماء نے کہا کہ میں نے ابو موسیٰ کو دیکھا کہ وہ مجھ سے اس حدیث کو (خوشی کے لئے ) بار بار سننا چاہتے۔

باب : سیدنا عبد اللہ بن جعفرؓ  بن ابی طالب کی فضیلت کا بیان۔

1688: سیدنا عبد اللہ بن جعفرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب سفر سے تشریف لاتے تو ہم لوگوں سے ملتے۔ سیدنا عبد اللہ بن جعفر کہتے ہیں کہ ایک بار مجھ سے ملے اور حسن یا حسینؓ  سے ، تو آپﷺ نے ہم میں سے ایک کو اپنے آگے بٹھایا اور ایک کو پیچھے ، یہاں تک کہ مدینہ میں آئے۔

1688م: سیدنا عبد اللہ بن جعفرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے ایک دن اپنے پیچھے بٹھایا اور آہستہ سے ایک بات فرمائی جس کو میں کسی سے بیان نہ کروں گا۔

باب : سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1689: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ بیت الخلاء میں (قضاء حاجت کے لئے ) گئے تو میں نے آپﷺ کے لئے وضو کا پانی رکھا۔ آپﷺ جب باہر نکلے تو پوچھا کہ یہ پانی کس نے رکھا ہے ؟ لوگوں نے یا میں نے کہا کہ ابن عباس نے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! اس کو دین میں سمجھ عطا فرما۔

باب : سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1690: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی حیاتِ مبارک میں جب کوئی شخص خواب دیکھتا تو آپﷺ سے بیان کرتا۔ مجھے بھی آرزو تھی کہ میں بھی کوئی خواب دیکھوں اور آپﷺ سے بیان کروں اور میں جوان، غیر شادی شدہ لڑکا تھا، اور رسول اللہﷺ کے زمانے میں مسجد میں سویا کرتا تھا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ جیسے دو فرشتوں نے مجھے پکڑا اور جہنم کی طرف لے گئے دیکھا تو وہ پیچ در پیچ کنوئیں کی طرح گہری ہے اور اس پر دو لکڑیاں ہیں جیسے کنوئیں پر ہوتی ہیں۔ اس میں کچھ لوگ ہیں جن کو میں نے پہچانا۔ میں نے کہنا شروع کیا کہ میں جہنم سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں میں جہنم سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، تین دفعہ۔ پھر ایک اور فرشتہ ملا اور وہ بولا کہ تجھے کچھ خوف نہیں ہے۔ یہ خواب میں نے اُمّ المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا۔ پس انہوں نے رسول اللہﷺ سے بیان کیا۔ پس آپﷺ نے فرمایا کہ عبد اللہ اچھا آدمی ہے اگر رات کو تہجد پڑھا کرے۔ سالم نے کہا کہ عبد اللہ اس کے بعد رات کا کچھ حصہ ہی سوتے تھے (اور تہجد پڑھا کرتے )۔

باب : سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1691: سیدنا عبد اللہ بن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن جعفرؓ  نے سیدنا ابن زبیرؓ  سے کہا کہ تمہیں یاد ہے جب میں، تم اور ابن عباس رسول اللہﷺ سے ملے تھے ؟ تو سیدنا ابن زبیرؓ  نے کہا کہ ہاں اور آپﷺ نے ہمیں سوار کر لیا تھا اور تمہیں چھوڑ دیا تھا (اس لئے کہ سواری پر زیادہ جگہ نہ ہو گی)۔

باب : سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1692: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ ”جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ، ان پر گناہ نہیں اس کا جو کھا چکے …“ آخر تک، تو رسول اللہﷺ نے مجھ سے کہا کہ مجھے کہا گیا ہے کہ تو ان لوگوں میں سے ہے (یعنی ایمان والوں اور نیک اعمال والوں میں سے )۔

1693: سیدنا ابو موسیٰؓ  کہتے ہیں کہ میں اور میرا بھائی دونوں یمن سے آئے تو ایک زمانے تک ہم عبد اللہ بن مسعود اور ان کی والدہ کو رسول اللہﷺ کے اہل بیت میں سے سمجھتے تھے۔ کیونکہ وہ آپﷺ کے پاس بہت جاتے اور آپﷺ کے ساتھ رہتے تھے۔

1694: ابو الاحوص کہتے ہیں کہ ہم ابو موسیٰؓ  کے گھر میں تھے اور وہاں سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کے کئی ساتھی تھے اور ایک قرآن مجید دیکھ رہے تھے کہ اتنے میں سیدنا عبد اللہؓ  کھڑے ہوئے۔ابو مسعود نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ رسول اللہﷺ نے اپنے بعد قرآن کا جاننے والا اس شخص سے زیادہ کوئی چھوڑا ہو جو کھڑا ہے۔ سیدنا ابو موسیٰؓ  نے کہا کہ اگر تم یہ کہتے ہو (توصحیح ہے ) اور ان کا یہ حال تھا کہ جب ہم غائب ہوتے تو یہ حاضر رہتے اور جب ہم روکے جاتے تو ان کو (رسول اللہ کے پاس جانے کی) اجازت ملتی۔

1695: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ ”اور جو کوئی چیز چھپا رکھے گا، وہ اس کو قیامت کے دن لائے گا“(آلِ عمران:161) پھر کہا کہ تم مجھے کس شخص کی قرأت کی طرح قرآن پڑھنے کا حکم کرتے ہو؟ میں نے تو رسول اللہﷺ کے سامنے ستر سے زیادہ سورتیں پڑھیں اور رسول اللہﷺ کے اصحاب یہ جانتے ہیں کہ میں ان سب میں اللہ کی کتاب کو زیادہ جانتا ہوں اور اگر میں جانتا کہ کوئی مجھ سے زیادہ اللہ کی کتاب کو جانتا ہے تو میں اس شخص کی طرف سفر اختیار کرتا۔ شفیق نے کہا کہ میں رسول اللہﷺ کے اصحاب کے حلقوں میں بیٹھا ہوں، میں نے کسی کو سیدنا عبد اللہؓ  کی اس بات کو رد کرتے یا ان پر عیب لگاتے نہیں سنا۔

1696: مسروق کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ  کے پاس تھے کہ ہم نے سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ تم نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جس سے میں (اس وقت سے ) محبت کرتا ہوں جب سے میں نے رسول اللہﷺ سے ایک حدیث سنی ہے۔ میں نے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ تم قرآن چار آدمیوں سے سیکھو۔ ایک اُمّ عبد کے بیٹے (یعنی سیدنا عبد اللہ بن مسعود) سے اور آپﷺ نے ان ہی سے شروع کیا اور ابی بن کعب سے اور سالم مولیٰ ابو حذیفہ سے اور معاذ بن جبل ث سے۔

باب : سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن حرامؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1697: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ میرا باپ احد کے دن شہید ہوا تو میں اس کے منہ سے کپڑا اٹھاتا تھا اور روتا تھا۔ لوگ مجھے منع کرتے تھے اور رسول اللہﷺ منع نہ کرتے تھے۔ اور عمرو کی بیٹی فاطمہ (یعنی میری پھوپھی) وہ بھی اس پر رو رہی تھی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تو روئے یا نہ روئے ، تمہارے اسے اٹھانے تک فرشتے اس پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے تھے۔

باب : سیدنا عبد اللہ بن سلامؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1698: سیدنا عامر بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والدؓ  سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے کسی زندہ شخص کے لئے جو چلتا پھرتا ہو، یہ نہیں سنا کہ وہ جنت میں ہے مگر عبد اللہ بن سلامؓ  کے لئے۔ (یہ ان کی اپنی معلومات ہیں ورنہ بہت سے صحابہ کرام ث کو جنت کی خوشخبری ملی ہے مثلاً عشرہ مبشرہ وغیرہ)۔

1699: خرشہ بن حر کہتے ہیں کہ میں مدینہ کی مسجد میں ایک حلقہ میں بیٹھا ہوا تھا، ایک خوبصورت بوڑھا بھی وہاں تھا، معلوم ہوا کہ وہ عبد اللہ بن سلامؓ  ہیں۔ وہ لوگوں سے اچھی اچھی باتیں کر رہے تھے۔ جب وہ کھڑے ہوئے تو لوگوں نے کہا کہ جس کو ایک جنتی کا دیکھنا اچھا معلوم ہو، وہ اس کو دیکھے۔ میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ اللہ کی قسم میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور ان کا گھر دیکھوں گا۔ پھر میں ان کے پیچھے ہوا، وہ چلے ، یہاں تک کہ قریب ہوا کہ وہ شہر سے باہر نکل جائیں، پھر وہ اپنے مکان میں گئے تو میں نے بھی اندر آنے کی اجازت چاہی۔ انہوں نے اجازت دی، پھر پوچھا کہ اے میرے بھتیجے ! تجھے کیا کام ہے ؟ میں نے کہا کہ جب آپ کھڑے ہوئے تو میں نے لوگوں کو سنا کہ جس کو ایک جنتی کا دیکھنا اچھا لگے ، وہ ان کو دیکھے تو مجھے آپ کے ساتھ رہنا اچھا معلوم ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جنت والوں کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور میں تجھ سے لوگوں کے یہ کہنے کی وجہ بیان کرتا ہوں۔ میں ایک دفعہ سو رہا تھا کہ خواب میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ کھڑا ہو۔ پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑا، میں اس کے ساتھ چلا، مجھے بائیں طرف کچھ راہیں ملیں تو میں نے ان میں جانا چاہا تو وہ بولا کہ ان میں مت جا، یہ بائیں طرف والوں (یعنی کافروں) کی راہیں ہیں۔ پھر دائیں طرف کی راہیں ملیں تو وہ شخص بولا کہ ان راہوں میں جا۔ پس وہ مجھے ایک پہاڑ کے پاس لے آیا اور بولا کہ اس پر چڑھ۔ میں نے اوپر چڑھنا چاہاتو پیٹھ کے بل گرا۔ کئی بار میں نے چڑھنے کا قصد کیا لیکن ہر بار گرا۔ پھر وہ مجھے لے چلا، یہاں تک کہ ایک ستون ملا جس کی چوٹی آسمان میں تھی اور تہہ زمین میں، اس کے اوپر ایک حلقہ تھا۔ مجھ سے اس شخص نے کہا کہ اس ستون کے اوپر چڑھ جا۔ میں نے کہا کہ میں اس پر کیسے چڑھوں کہ اس کا سرا تو آسمان میں ہے۔ آخر اس شخص نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اچھال دیا اور میں نے دیکھا کہ میں اس حلقہ کو پکڑے ہوئے لٹک رہا ہوں۔ پھر اس شخص نے ستون کو مارا تو وہ گر پڑا اور میں صبح تک اسی حلقہ میں لٹکتا رہا (اس وجہ سے کہ اترنے کا کوئی ذریعہ نہیں رہا)۔کہتے ہیں پس میں نے رسول اللہﷺ کے پاس آ کر اپنا خواب بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ جو راہیں تو نے بائیں طرف دیکھیں، وہ بائیں طرف والوں کی راہیں ہیں اور جو راہیں دائیں طرف دیکھیں، وہ دائیں طرف والوں کی راہیں ہیں۔ اور وہ پہاڑ شہیدوں کا مقام ہے ، تو وہاں تک نہ پہنچ سکے گا اور ستون، اسلام کا ستون ہے اور حلقہ، اسلام کا حلقہ ہے اور تو مرتے دم تک اسلام پر قائم رہے گا۔ (اور جب اسلام پر خاتمہ ہو تو جنت کا یقین ہے ، اس وجہ سے لوگ مجھے جنتی کہتے ہیں)۔

باب : سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان۔

1700: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اور اس وقت سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا جنازہ سامنے رکھا تھا، کہ ان کے واسطے پروردگار کا عرش جھوم گیا۔

1701: سیدنا براءؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک ریشمی جوڑا تحفہ آیا۔ تو آپﷺ کے صحابہ اس کو چھونے لگے اور اس کی نرمی سے تعجب کرنے لگے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم اس کی نرمی سے تعجب کرتے ہو؟ البتہ سعد بن معاذؓ  کے رومال جنت میں اس سے بہتر اور اس سے زیادہ نرم ہیں۔

باب : سیدنا ابو طلحہ انصاری اور ان کی زوجہ اُمّ سلیم رضی اللہ عنہما کی فضیلت کا بیان۔

1702: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ سیدنا ابو طلحہؓ  کا ایک بیٹا جو سیدہ اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھا، فوت ہو گیا۔ انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ جب تک میں خود نہ کہوں ابو طلحہ کو ان کے بیٹے کی خبر نہ کرنا۔ آخر سیدنا ابو طلحہؓ  آئے تو سیدہ اُمّ سلیم شام کا کھانا سامنے لائیں۔ انہوں نے کھایا اور پیا پھر اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا نے ان کے لئے اچھی طرح بناؤ اور سنگھار کیا یہاں تک کہ انہوں نے ان سے جماع کیا۔ جب اُمّ سلیم نے دیکھا کہ وہ سیر ہو چکے اور ان کے ساتھ صحبت بھی کر چکے تو اس وقت انہوں نے کہا کہ اے ابو طلحہ! اگر کچھ لوگ اپنی چیز کسی گھر والوں کو مانگے پر دیں، پھر اپنی چیز مانگیں تو کیا گھر والے اس کو روک سکتے ہیں؟ سیدنا ابو طلحہؓ  نے کہا کہ نہیں روک سکتے۔ سیدہ اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اپنے بیٹے کے عوض اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھو (کیونکہ بیٹا تو فوت ہو چکا تھا)۔ یہ سن کر ابو طلحہ غصے ہوئے اور کہنے لگے کہ تم نے مجھے چھوڑے رکھا یہاں تک کہ میں تمہارے ساتھ آلودہ ہوا (یعنی جماع کیا) تو اب مجھے بیٹے کے متعلق خبر دے رہی ہو۔ وہ گئے اور رسول اللہﷺ کے پاس جا کر آپﷺ کو خبر کی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری گزری ہوئی رات میں تمہیں برکت دے۔ اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا حاملہ ہو گئیں۔ کہتے ہیں رسول اللہﷺ سفر میں تھے اُمّ سلیم بھی آپﷺ کے ساتھ تھیں اور آپﷺ جب سفر سے مدینہ میں تشریف لاتے تو رات کو مدینہ میں داخل نہ ہوتے جب لوگ مدینہ کے قریب پہنچے تو اُمّ سلیم کو دردِ زہ شروع ہوا اور ابو طلحہ ان کے پاس ٹھہرے رہے اور رسول اللہﷺ تشریف لے گئے۔ ابو طلحہ کہتے ہیں کہ اے پروردگار! تو جانتا ہے کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ جب تیرا رسولﷺ نکلے تو ساتھ میں بھی نکلوں اور جب مدینہ میں واپس داخل ہو تو میں بھی ساتھ داخل ہوں، لیکن تو جانتا ہے میں جس وجہ سے رک گیا ہوں۔ اُمّ سلیم نے کہا کہ اے ابو طلحہ! اب میرے ویسا درد نہیں ہے جیسے پہلے تھا تو چلو۔ ہم چلے جب دونوں مدینہ میں آئے تو پھر اُمّ سلیم کو درد شروع ہوا اور انہوں نے ایک لڑکے کو جنم دیا۔ میری ماں نے کہا کہ اے انس! اس کو کوئی اس وقت تک دودھ نہ پلائے جب تک تو صبح کو اس کو رسول اللہﷺ کے پاس نہ لے جائے۔ جب صبح ہوئی تو میں نے بچہ کو اٹھایا اور رسول اللہﷺ کے پاس لایا میں آپ کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ آپﷺ کے ہاتھ میں اونٹوں کے داغنے کا آلہ ہے۔ آپﷺ نے جب مجھے دیکھا تو فرمایا کہ شاید اُمّ سلیم نے لڑکے کو جنم دیا ہے ؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ آپﷺ نے وہ آلہ ہاتھ مبارک سے رکھ دیا اور میں بچہ کو لا کر آپﷺ کی گود میں بٹھا دیا۔ آپﷺ نے عجوہ کھجور مدینہ کی منگوائی اور اپنے منہ مبارک میں چبائی، جب وہ گھل گئی تو بچہ کے منہ میں ڈال دی بچہ اس کو چوسنے لگا تو آپﷺ نے فرمایا کہ دیکھو انصار کو کھجور سے کیسی محبت ہے۔ پھر آپﷺ نے اس کے منہ پر ہاتھ پھیرا اور اس کا نام عبد اللہ رکھا۔

باب : سیدنا ابی بن کعبؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1703: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں چار شخصوں نے قرآن کو جمع کیا اور وہ چاروں انصاری تھے۔ سیدنا معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت اور ابو زید ث۔ قتادہ نے کہا کہ میں نے سیدنا انسؓ  سے کہا کہ ابو زید کون ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میرے چچاؤں میں سے ایک تھے۔

باب : سیدنا ابو ذر غفاریؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1704: سیدنا عبد اللہ بن صامت کہتے ہیں کہ سیدنا ابو ذرؓ  نے کہا کہ میں، میرا بھائی انیس اور ہماری ماں تینوں اپنی قوم غفار میں سے نکلے جو حرام مہینے کو بھی حلال سمجھتے تھے۔ پس ہم اپنے ایک ماموں کے پاس اترے۔ اس نے ہماری خاطر کی اور ہمارے ساتھ نیکی کی تو اس کی قوم نے ہم سے حسد کیا اور (ہمارے ماموں سے ) کہنے لگے کہ جب تو اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے تو انیس تیری بی بی کے ساتھ زنا کرتا ہے۔ وہ ہمارے پاس آیا اور اس نے یہ بات (حماقت سے ) مشہور کر دی۔ میں نے کہا کہ تو نے ہمارے ساتھ جو احسان کیا تھا وہ بھی خراب ہو گیا ہے ، اب ہم تیرے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ آخر ہم اپنے اونٹوں کے پاس گئے اور اپنا اسباب لادا اور ہمارے ماموں نے اپنا کپڑا اوڑھ کر رونا شروع کر دیا۔ ہم چلے ، یہاں تک کہ مکہ کے سامنے اترے۔ انیس نے ہمارے اونٹوں کے ساتھ اتنے ہی اور کی شرط لگائی۔ پھر دونوں کاہن کے پاس گئے تو کاہن نے انیس کو کہا کہ یہ بہتر ہے۔ پس انیس ہمارے پاس سارے اونٹ اور اتنے ہی اور اونٹ لایا۔ ابو ذر نے کہا کہ اے میرے بھائی کے بیٹے ! میں نے رسول اللہﷺ کی ملاقات سے پہلے تین برس پہلے نماز پڑھی ہے۔ میں نے کہا کہ کس کے لئے پڑھتے تھے ؟ سیدنا ابو ذرؓ  نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے۔ میں نے کہا کہ کدھر منہ کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ ادھر منہ کرتا تھا جدھر اللہ تعالیٰ میرا منہ کر دیتا تھا۔ میں رات کے آخر حصہ میں عشاء کی نماز پڑھتا اور سورج طلوع ہونے تک کمبل کی طرح پڑ رہتا تھا۔ انیس نے کہا کہ مجھے مکہ میں کام ہے ، تم یہاں رہو میں جاتا ہوں۔ وہ گیا اور اس نے آنے میں دیر کی۔ پھر آیا تو میں نے کہا کہ تو نے کیا کیا؟ وہ بولا کہ میں مکہ میں ایک شخص سے ملا جو تیرے دین پر ہے اور وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بھیجا ہے۔ میں نے کہا کہ لوگ اسے کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا کہ لوگ اس کو شاعر، کاہن اور جادوگر کہتے ہیں۔ اور انیس خود بھی شاعر تھا۔ اس نے کہا کہ میں نے کاہنوں کی بات سنی ہے لیکن جو کلام یہ شخص پڑھتا ہے وہ کاہنوں کا کلام نہیں ہے اور میں نے اس کا کلام شعر کے تمام بحروں پر رکھا تو وہ کسی کی زبان پر میرے بعد شعر کی طرح نہ جڑے گا۔ اللہ کی قسم وہ سچا ہے اور لوگ جھوٹے ہیں۔ میں نے کہا کہ تم یہاں رہو میں اس شخص کو جا کر دیکھتا ہوں۔ پھر میں مکہ میں آیا تو میں نے ایک ناتواں شخص کو مکہ والوں میں سے چھانٹا (اس لئے کہ طاقت ور شخص شاید مجھے کوئی تکلیف پہنچائے )، اور اس سے پوچھا کہ وہ شخص کہاں ہے جس کو تم صابی (بے دین) کہتے ہو؟ اس نے میری طرف اشارہ کیا اور کہا کہ یہ صابی ہے (جب تو صابی کا پوچھتا ہے ) یہ سن کر تمام وادی والوں نے ڈھیلے اور ہڈیاں لے کر مجھ پر حملہ کر دیا، یہاں تک کہ میں بیہوش ہو کر گر پڑا۔ جب میں ہوش میں آ کر اٹھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گویا میں لال بت ہوں (یعنی سر سے پیر تک خون سے سرخ ہوں)۔ پھر میں زمزم کے پاس آیا اور میں نے سب خون دھویا اور زمزم کا پانی پیا۔ پس اے میرے بھتیجے ! میں وہاں تیس راتیں یا تیس دن رہا اور میرے پاس سوائے زمزم کے پانی کے کوئی کھانا نہ تھا (جب بھوک لگتی تو میں اسی کو پیتا)۔ پھر میں موٹا ہو گیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کی بٹیں (موٹاپے سے ) جھک گئیں اور میں نے اپنے کلیجہ میں بھوک کی ناتوانی نہیں پائی۔ ایک بار مکہ والے چاندنی رات میں سو گئے کہ اس وقت بیت اللہ کا طواف کوئی نہ کرتا تھا، صرف دو عورتیں اساف اور نائلہ کو پکار رہی تھیں (اساف اور نائلہ مکہ میں دو بت تھے اساف مرد تھا اور نائلہ عورت تھی اور کفار کا یہ اعتقاد تھا کہ ان دونوں نے وہاں زنا کیا تھا، اس وجہ سے مسخ ہو کر بت ہو گئے تھے )، وہ طواف کرتی کرتی میرے سامنے آئیں۔ میں نے کہا کہ ایک کا نکاح دوسرے سے کر دو (یعنی اساف کا نائلہ سے )۔ یہ سن کر بھی وہ اپنی بات سے باز نہ آئیں۔ پھر میں نے صاف کہہ دیا کہ ان کے فلاں میں لکڑی (یعنی یہ فخش  اساف اور نائلہ کی پرستش کی وجہ سے ) اور میں نے کنایہ نہ کیا (یعنی کنایہ اشارہ میں میں نے گالی نہیں دی بلکہ ان مردود عورتوں کو غصہ دلانے کے لئے اساف اور نائلہ کو کھلم کھلا گالی دی، جو اللہ تعالیٰ کے گھر میں اللہ کو چھوڑ کر اساف اور نائلہ کو پکارتی تھیں) یہ سن کر وہ دونوں عورتیں چلاتی اور کہتی ہوئی چلیں کہ کاش اس وقت ہمارے لوگوں میں سے کوئی ہوتا (جو اس شخص کو بے ادبی کی سزا دیتا)۔ راہ میں ان عورتوں کو رسول اللہﷺ اور سیدنا ابو بکرؓ  ملے اور وہ پہاڑ سے اتر رہے تھے۔ انہوں نے عورتوں سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ وہ بولیں کہ ایک صابی آیا ہے جو کعبہ کے پردوں میں چھپا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس صابی نے کیا کہا؟ وہ بولیں کہ ایسی بات بولا جس سے منہ بھر جاتا ہے (یعنی اس کو زبان سے نہیں نکال سکتیں)۔ اور رسول اللہﷺ تشریف لائے ، یہاں تک حجر اسود کو بوسہ دیا اور اپنے ساتھی کے ساتھ طواف کیا اور نماز پڑھی۔ جب نماز پڑھ چکے تو سیدنا ابو ذرؓ  نے کہا کہ اوّل میں نے ہی سلام کی سنت ادا کی اور کہا کہ السلام علیکم یا رسول اللہﷺ! آپﷺ نے فرمایا کہ و علیک و رحمۃ اللہ۔ پھر پوچھا کہ تو کون ہے ؟ میں نے کہا کہ غفار کا ایک شخص ہوں۔ آپﷺ نے ہاتھ جھکایا اور اپنی انگلیاں پیشانی پر رکھیں (جیسے کوئی ذکر کرتا ہے ) میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید آپﷺ کو یہ کہنا بُرا معلوم ہوا کہ میں (قبیلہ) غفار میں سے ہوں۔ میں آپﷺ کا ہاتھ پکڑنے کو لپکا لیکن آپﷺ کے ساتھی (سیدنا ابو بکر ص) نے جومجھ سے زیادہ آپﷺ کا حال جانتے تھے مجھے روکا، پھر آپﷺ نے سر اٹھایا اور فرمایا کہ تو یہاں کب آیا؟ میں نے عرض کیا میں یہاں تیس رات یا دن سے ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تجھے کھانا کون کھلاتا ہے ؟ میں نے کہا کہ کھانا وغیرہ کچھ نہیں سوائے زمزم کے پانی کے۔ پھر میں موٹا ہو گیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کے بٹ مڑ گئے اور میں اپنے کلیجہ میں بھوک کی ناتوانی نہیں پاتا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ زمزم کا پانی برکت والا ہے اور وہ کھانا بھی ہے اور کھانے کی طرح پیٹ بھر دیتا ہے۔ سیدنا ابو بکرؓ  نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! آج کی رات اس کو کھلانے کی اجازت مجھے دیجئے۔ پھر رسول اللہﷺ چلے اور سیدنا ابو بکرؓ  بھی میں بھی ان دونوں کے ساتھ چلا۔ سیدنا ابو بکرؓ  نے ایک دروازہ کھولا اور اس میں سے طائف کی سوکھی ہوئی کشمش نکالیں، یہ پہلا کھانا تھا جو میں نے مکہ میں کھایا۔ پھر میں رہا جب تک کہ رہا، اس کے بعد رسول اللہﷺ کے پاس آیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے ایک کھجور والی زمین دکھلائی گئی ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ زمین یثرب کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔(یثرب مدینہ کا نام تھا)، پس تو میری طرف سے اپنی قوم کو دین کی دعوت دے ، شاید اللہ تعالیٰ ان کو تیری وجہ سے نفع دے اور تجھے ثواب دے۔ میں انیس کے پاس آیا تو اس نے پوچھا کہ تو نے کیا کیا؟ میں نے کہا کہ میں اسلام لایا اور میں نے آپﷺ کی نبوت کی تصدیق کی۔ وہ بولا کہ تمہارے دین سے مجھے بھی نفرت نہیں ہے میں بھی اسلام لایا اور میں نے آپﷺ کی نبوت کی تصدیق کی۔ پھر ہم دونوں اپنی ماں کے پاس آئے وہ بولی کہ مجھے بھی تم دونوں کے دین سے نفرت نہیں ہے میں بھی اسلام لائی اور میں نے تصدیق کی۔ پھر ہم نے اونٹوں پر اسباب لادا، یہاں تک کہ ہم اپنی قوم غفار میں پہنچے۔ آدھی قوم تو مسلمان ہو گئی اور ان کا امام ایماء بن رحضہ غفاری تھا وہ ان کا سردار بھی تھا۔ اور آدھی قوم نے یہ کہا کہ جب رسول اللہﷺ مدینہ میں تشریف لائیں گے تو ہم مسلمان ہوں گے ، پھر رسول اللہﷺ مدینہ میں تشریف لائے اور آدھی قوم جو باقی تھی وہ بھی مسلمان ہو گئی اور (قبیلہ)اسلم کے لوگ آئے اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! ہم بھی اپنے غفاری بھائیوں کی طرح مسلمان ہوتے ہیں تو وہ بھی مسلمان ہو گئے تب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ غفار کو اللہ نے بخش دیا اور اسلم کو اللہ تعالیٰ نے (قتل اور قید سے ) بچا دیا۔

1705: سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ  کہتے ہیں کہ جب سیدنا ابو ذرؓ  کو رسول اللہﷺ کے مکہ میں مبعوث ہونے کی خبر پہنچی تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ سوار ہو کر اس وادی کو جا اور اس شخص کو دیکھ کر آ جو کہتا ہے مجھے آسمان سے خبر آتی ہے ، ان کی بات سن پھر میرے پاس آ۔ وہ روانہ ہوا، یہاں تک کہ مکہ میں آیا اور آپﷺ کا کلام سنا، پھر سیدنا ابو ذرؓ  کے پاس لوٹ کر گیا اور بولا کہ میں نے اس شخص کو دیکھا، وہ اچھی خصلتوں کا حکم کرتا ہے اور ایک کلام سناتا ہے جو شعر نہیں ہے۔ سیدنا ابو ذرؓ  نے کہا کہ مجھے اُس سے تسلی نہیں ہوئی۔ پھر انہوں نے خود زادِ راہ لیا اور پانی کی ایک مشک لی یہاں تک کہ مکہ میں آئے اور مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ وہاں رسول اللہﷺ کو ڈھونڈا اور وہ آپﷺ کو پہچانتے نہ تھے اور انہوں نے پوچھنا بھی مناسب نہ جانا، یہاں تک کہ رات ہو گئی اور وہ لیٹ رہے۔ سیدنا علیؓ  نے ان کو دیکھا اور پہچانا کہ کوئی مسافر ہے پھر ان کے پیچھے گئے لیکن کسی نے دوسرے سے بات نہیں کی یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ پھر وہ اپنا توشہ اور مشک مسجد میں اٹھا لائے اور سارا دن وہاں رہے اور رسول اللہﷺ کو شام تک نہ دیکھا۔ پھر وہ اپنے سونے کی جگہ میں چلے گئے۔ وہاں سے سیدنا علیؓ  گزرے اور کہا کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اس شخص کو اپنا ٹھکانہ معلوم ہو۔ پھر ان کو کھڑا کیا اور ان کو ساتھ لے گئے لیکن کسی نے دوسرے سے بات نہ کی۔ پھر تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا۔ اور سیدنا علیؓ  نے ان کو اپنے ساتھ کھڑا کیا، پھر کہا کہ تم مجھ سے وہ بات کیوں نہیں کہتے جس کے لئے تم اس شہر میں آئے ہو؟ سیدنا ابو ذرؓ  نے کہا کہ اگر تم مجھ سے عہد اور وعدہ کرتے ہو کہ راہ بتلاؤ گے تو میں بتاتا ہوں۔ سیدنا علیؓ  نے وعدہ کیا تو انہوں نے بتایا۔ سیدنا علیؓ  نے کہا کہ وہ شخص سچے ہیں اور وہ بیشک اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تم صبح کو میرے ساتھ چلنا، اگر میں کوئی خوف کی بات دیکھوں گا جس میں تمہاری جان کا ڈر ہو تو میں کھڑا ہو جاؤں گا جیسے کوئی پانی بہاتا ہے (یعنی پیشاب کا بہانہ کروں گا) اور اگر چلا جاؤں تو تم بھی میرے پیچھے پیچھے چلے آنا۔ جہاں میں گھسوں وہاں تم بھی گھس آنا۔ سیدنا ابو ذرؓ  نے ایسا ہی کیا اور ان کے پیچھے پیچھے چلے یہاں تک کہ سیدنا علیؓ  رسول اللہﷺ کے پاس پہنچے اور سیدنا ابو ذرؓ  بھی ان کے ساتھ پہنچے۔ پھر سیدنا ابو ذرؓ  نے آپﷺ کی باتیں سنیں اور اسی جگہ مسلمان ہوئے اور رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اپنی قوم کے پاس جا اور ان کو دین کی خبر کر یہاں تک کہ میرا حکم تجھے پہنچے۔ سیدنا ابو ذرؓ  نے کہا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں تو یہ بات (یعنی دین قبول کرنے کی) مکہ والوں کو پکار کر سنادوں گا۔ پھر سیدنا ابو ذرؓ  نکل کر مسجد میں آئے اور چلا کر بولے کہ ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے اور محمدﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں“۔ لوگوں نے ان پر حملہ کیا اور ان کو مارتے مارتے لٹا دیا۔ سیدنا عباسؓ  وہاں آئے اور سیدنا ابو ذرؓ  پر جھکے اور لوگوں سے کہا کہ تمہاری خرابی ہو، تم نہیں جانتے کہ یہ شخص (قومِ) غفار کا ہے اور تمہارا سوداگری کا راستہ شام کی طرف (قومِ) غفار کے ملک پر سے ہے (تو وہ تمہاری تجارت بند کر دیں گے )۔ پھر سیدنا ابو ذرؓ  کو ان لوگوں سے چھڑا لیا۔ سیدنا ابو ذرؓ  نے دوسرے دن پھر ویسا ہی کیا اور لوگ دوڑے اور مارا اور سیدنا عباسؓ  آئے اور انہیں چھڑا لیا۔

باب : سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1706: سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ  کہتے ہیں کہ میں نبیﷺ کے پاس تھا اور آپﷺ اس وقت مکہ اور مدینہ کے درمیان (مقامِ) جعرانہ میں تھے اور آپﷺ کے ساتھ سیدنا بلالؓ  تھے پس رسول اللہﷺ کے پاس ایک دیہاتی آیا اور کہا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ میرے ساتھ اپنا وعدہ پورا نہیں کرتے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ خوش ہو جا۔ وہ بولا کہ آپ بہت فرماتے ہیں کہ خوش ہو جا۔ پھر آپﷺ سیدنا ابو موسیٰ اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہما کی طرف غصے کی حالت میں متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اس نے خوشخبری کو رد کیا اور تم قبول کرو۔ دونوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ہم نے قبول کیا۔ پھر آپﷺ نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا اور دونوں ہاتھ اور منہ اس میں دھوئے اور اس میں لعاب دہن ڈال کر دونوں سے کہا کہ اس پانی کو پی لو اور اپنے منہ اور سینے پر ڈالو اور خوش ہو جاؤ۔ ان دونوں نے پیالہ لے کر ایسا ہی کیا۔ اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے ان کو پردہ کی آڑ سے آواز دی کہ برتن میں سے اپنی ماں کے لئے بھی کچھ پانی بچا لاؤ۔پس ان دونوں نے اس برتن میں کچھ پانی ان کے لئے بچا دیا۔

باب : سیدنا ابو موسیٰ اور ابو عامر اشعری رضی اللہ عنہما کی فضیلت کا بیان۔

1707: سیدنا ابو بردہ اپنے والد سیدنا ابو موسیٰؓ  سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ حنین کی لڑائی سے فارغ ہوئے تو سیدنا ابو عامرؓ  کو لشکر دے کر اوطاس پر بھیجا تو ان کا مقابلہ درید بن الصمہ سے ہوا۔ پس درید بن الصمہ قتل کر دیا گیا اور اس کے ساتھ والوں کو اللہ تعالیٰ نے شکست سے ہمکنار کر دیا۔ سیدنا ابو موسیٰؓ  نے کہا کہ مجھے بھی رسول اللہﷺ نے سیدنا ابو عامرؓ  کے ساتھ بھیجا تھا۔ پھر بنی جشم کے ایک شخص کا ایک تیر سیدنا ابو عامرؓ  کو گھٹنے میں لگا اور وہ ان کے گھٹنے میں جم گیا۔ میں ان کے پاس گیا اور پوچھا کہ اے چچا! تمہیں یہ تیر کس نے مارا؟ انہوں نے کہا کہ اس شخص نے مجھے قتل کیا اور اسی شخص نے مجھے تیر مارا ہے۔ سیدنا ابو موسیٰؓ  نے کہا کہ میں نے اس شخص کا پیچھا کیا اور اس سے جا ملا۔ اس نے جب مجھے دیکھا تو پیٹھ موڑ کر بھاگ کھڑا ہو۔ میں اس کے پیچھے ہوا اور میں نے کہنا شروع کیا کہ اے بے حیا! کیا تو عرب نہیں ہے ؟ ٹھہرتا نہیں ہے ؟ پس وہ رک گیا۔ پھر میرا اس کا مقابلہ ہوا، اس نے بھی وار کیا اور میں نے بھی وار کیا، آخر میں نے اس کو تلوار سے مار ڈالا۔ پھر لوٹ کر ابو عامرؓ  کے پاس آیا اور کہا کہ اللہ نے تمہارے قاتل کو قتل کروا دیا۔ ابو عامرؓ  نے کہا کہ اب یہ تیر نکال لے میں نے اس کو نکالا تو تیر کی جگہ سے پانی نکلا (خون نہ نکلا شاید وہ تیر زہر آلود تھا)۔ ابو عامر نے کہا کہ اے میرے بھتیجے ! تو رسول اللہﷺ کے پاس جا کر میری طرف سے سلام کہہ اور یہ کہنا کہ ابو عامر کی بخشش کی دعا کیجئے۔ سیدنا ابو موسیٰؓ  نے کہا کہ ابو عامرؓ  نے مجھے لوگوں کا سردار کر دیا اور وہ تھوڑی دیر زندہ رہے ، پھر فوت ہو گئے۔ جب میں لوٹ کر رسول اللہﷺ کے پاس آیا تو آپﷺ ایک کوٹھڑی میں بان کے ایک پلنگ پر تھے جس پر فرش تھا (صحیح روایت یہ ہے کہ فرش نہ تھا) اور بان کا نشان آپﷺ کی پیٹھ اور پہلوؤں پر بن گیا تھا۔ میں نے کہا کہ ابو عامر نے آپﷺ سے یہ درخواست کی تھی کہ میرے لئے دعا کیجئے۔ پس رسول اللہﷺ نے پانی منگوایا کر وضو کیا، پھر دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا کہ اے اللہ! عبیدابو عامر کو بخش دے (عبید بن سلیم ان کا نام تھا) یہاں تک کہ میں نے آپﷺ کی دونوں بغلوں کی سفیدی دیکھی۔ پھر فرمایا کہ اے اللہ! ابو عامر کو قیامت کے دن بہت سے لوگوں کا سردار کرنا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اور میرے لئے بھی بخشش کی دعا فرمائیے تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! عبد اللہ بن قیس کے گناہ بھی بخش دے اور قیامت کے دن اس کو عزت کے مکان میں لے جا۔ ابو بردہؓ  نے کہا کہ ایک دعا ابو عامر کے لئے کی اور ایک دعا ابو موسیٰ کے لئے کی۔ رضی اللہ عنہما۔

باب : سیدنا ابو ہریرہ دوسیؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1708: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کو اسلام کی طرف بلاتا تھا اور وہ مشرک تھی۔ ایک دن میں نے اس کو مسلمان ہونے کو کہا تو اس نے رسول اللہﷺ کے حق میں وہ بات سنائی جو مجھے ناگوار گزری۔ میں رسول اللہﷺ کے پاس روتا ہوا آیا اور عرض کیا کہ میں اپنی والدہ کو اسلام کی طرف بلاتا تھا وہ نہ مانتی تھی، آج اس نے آپﷺ کے حق میں مجھے وہ بات سنائی جو مجھے ناگوار ہے تو آپﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت دیدے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت کر دے۔ میں رسول اللہﷺ کی دعا سے خوش ہو کر نکلا۔ جب گھر پر آیا اور دروازہ پر پہنچا تو وہ بند تھا۔ میری ماں نے میرے پاؤں کی آواز سنی۔ اور بولی کہ ذرا ٹھہرا رہ۔ میں نے پانی کے گرنے کی آواز سنی غرض میری ماں نے غسل کیا اور اپنا کرتہ پہن کر جلدی سے اوڑھنی اوڑھی، پھر دروازہ کھولا اور بولی کہ اے ابو ہریرہ! ”میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں“۔ سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس خوشی سے روتا ہوا آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! خوش ہو جائیے اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی دعا قبول کی اور ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت کی تو آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کی تعریف اور اس کی صفت کی اور بہتر بات کہی۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اللہ عزوجل سے دعا کیجئے کہ میری اور میری ماں کی محبت مسلمانوں کے دلوں میں ڈال دے۔ اور ان کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے۔ تب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! اپنے بندوں کی یعنی ابو ہریرہ اور ان کی ماں کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں ڈال دے اور مومنوں کی محبت ان کے دلوں میں ڈال دے۔ پھر کوئی مومن ایسا پیدا نہیں ہوا جس نے مجھے سنا ہو یا دیکھا ہو مگر اس نے مجھ سے محبت رکھی۔

1709: عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ تم ابو ہریرہ پر تعجب نہیں کرتے ؟ وہ آئے اور میرے حجرے کے ایک طرف بیٹھ کر رسول اللہﷺ سے حدیث بیان کرنے لگے میں سن رہی تھی لیکن میں نفل پڑھ رہی تھی اور وہ میرے فارغ ہونے سے پہلے چل دئیے۔ﷺ گر میں ان کو پاتی تو ان کا رد کرتی، کیونکہ رسول اللہﷺ اس طرح سے جلدی جلدی باتیں نہیں کرتے تھے جیسے تم کرتے ہو۔

ابن شہاب نے ابن مسیب سے کہا کہ بیشک سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابو ہریرہ نے بہت حدیثیں بیان کیں اور اللہ تعالیٰ جانچنے والا ہے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ مہاجرین اور انصار ابو ہریرہ کی طرح حدیثیں کیوں نہیں بیان کرتے ؟ عنقریب میں تم سے اس کا سبب بیان کرتاہوں۔ میرے انصاری بھائی جو تھے وہ اپنی زمین کی خدمت میں مشغول رہتے اور جو مہاجرین تھے ، وہ بازار کے معاملوں میں اور میں اپنآپیٹ بھر کر رسول اللہﷺ کے ساتھ رہتا۔ پس میں حاضر رہتا اور وہ غائب رہتے اور میں یاد رکھتا اور وہ بھول جاتے اور رسول اللہﷺ نے ایک دن فرمایا کہ تم میں سے کو ن اپنا کپڑا بچھاتا ہے اور میری حدیث سن کر پھر اس کو اپنے سینے سے لگائے تو جو بات سنے گا وہ نہ بھولے گا؟ میں نے اپنی چادر بچھا دی یہاں تک کہ آپﷺ حدیث سے فارغ ہوئے۔ پھر میں نے اس چادر کو سینے سے لگا لیا۔ اس دن سے میں کسی بات کو جو کہ آپﷺ نے بیان کی، نہیں بھولا اور اگر یہ دو آیتیں نہ ہوتیں جو کہ قرآن مجید میں اتری ہیں تو میں کسی سے کوئی حدیث بیان نہ کرتا کہ ”جو لوگ چھپاتے ہیں جو ہم نے نشانیاں اتاریں اور ہدایت کی باتیں، توا ن پر لعنت ہے ……“ آخر تک۔

باب : سیدنا ابو دجانہ سماک بن خرشہؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1710: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اُحد کے دن تلوار پکڑی اور فرمایا کہ یہ مجھ سے کون لیتا ہے ؟ لوگوں نے ہاتھ پھیلائے اور ہر ایک کہتا تھا کہ میں لوں گا میں لوں گا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس کا حق کون ادا کرے گا؟ یہ سنتے ہی لوگ پیچھے ہٹے (کیونکہ احد کے دن کافروں کا غلبہ تھا) سیدنا سماک بن خرشہ ابو دجانہؓ  نے کہا کہ میں اس کا حق ادا کروں گا۔پھر انہوں نے اس کو لے لیا اور مشرکوں کے سر اس تلوار سے چیرے۔

باب : سیدنا ابو سفیان صخر بن حربؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1711: ابو زمیل کہتے ہیں کہ مجھ سے سیدنا ابن عباسؓ  نے بیان کیا اور کہا کہ مسلمان ابو سفیان کی طرف دھیان نہ کرتے تھے اور نہ اس کے ساتھ بیٹھتے تھے (کیونکہ ابو سفیان کئی مرتبہ نبیﷺ سے لڑا تھا اور مسلمانوں کا سخت دشمن تھا)۔ ایک بار وہ رسول اللہﷺ سے بولا کہ اے نبی اللہﷺ! تین باتیں مجھے عطا فرمائیے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اچھا۔ ابو سفیان نے کہا کہ میرے پاس وہ عورت ہے کہ تمام عربوں میں حسین اور خوبصورت ہے ، اُمّ حبیبہ میری بیٹی، میں اس کا نکاح آپﷺ سے کر دیتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا اچھا۔ دوسری یہ کہ میرے بیٹے معاویہؓ  کو اپنا منشی بنائیے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اچھا۔ تیسرے مجھ کو کافروں سے لڑنے کا حکم دیجئے (جیسے اسلام سے پہلے ) مسلمانوں سے لڑتا تھا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ اچھا۔ ابو زمیل نے کہا کہ اگر وہ ان باتوں کا سوال آپﷺ سے نہ کرتے تو آپﷺ نہ دیتے اس لئے کہ (آپﷺ کی عادت تھی) کہ جب آپ سے کوئی سوال کیا جاتا تو آپﷺ ہاں ہی کرتے تھے۔

باب : سیدنا جلیبیبؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1712: سیدنا ابو برزہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ ایک جہاد میں تھے ، اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو (فتح کے ساتھ) مال غنیمت دیا۔ آپﷺ نے اپنے لوگوں سے فرمایا کہ تم میں سے کوئی غائب تو نہیں ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہاں فلاں فلاں فلاں شخص غائب ہیں۔ پھر آپﷺ نے پوچھا کہ کوئی اور تو غائب نہیں ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ فلاں فلاں فلاں شخص غائب ہیں۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اور تو کوئی غائب نہیں ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ کوئی نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں جلیبیبؓ  کو نہیں دیکھتا۔ لوگوں نے ان کو مُردوں میں ڈھونڈا تو ان کی لاش سات لاشوں کے پاس پائی گئی جن کو سیدنا جلیبیب نے مارا تھا۔ وہ سات کو مار کر شہید ہو گئے۔ رسول اللہﷺ ان کے پاس آئے اور وہاں کھڑے ہو کر پھر فرمایا کہ اس نے سات آدمیوں کو مارا، اس کے بعد خود مارا گیا۔ یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ پھر آپﷺ نے اس کو اپنے دونوں ہاتھوں پر رکھا اور صرف آپﷺ کے ہاتھ ہی اس کی چارپائی تھے۔ اس کے بعد قبر کھدوا کر اس میں رکھ دیا۔ اور راوی نے غسل کا بیان نہیں کیا۔

باب : سیدنا حسان بن ثابتؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1713: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطابؓ  سیدنا حسانؓ  کے پاس سے گزرے اور وہ مسجد میں شعر پڑھ رہے تھے (معلوم ہوا کہ اشعار جو اسلام کی تعریف اور کافروں کی برائی یا جہاد کی ترغیب میں ہو مسجد میں پڑھنا درست ہے )۔ سیدنا عمرؓ  نے ان کی طرف (غصہ سے ) دیکھا۔ سیدنا حسانؓ  نے کہا کہ میں تو مسجد میں (اس وقت بھی) شعر پڑھتا تھا جب تم سے بہتر شخص (یعنی نبیﷺ) موجود تھے۔ پھر سیدنا ابو ہریرہؓ  کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم نے رسول اللہﷺ سے سناہے ؟ آپﷺ فرماتے تھے کہ اے حسان! میری طرف سے جواب دے ، اے اللہ اس کی روح القدس (جبریل ں) سے مدد کر۔ سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا ہاں میں نے سنا ہے یا اللہ تو جانتا ہے۔

1714: سیدنا براء بن عازبؓ  کہتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ سیدنا حسان بن ثابتؓ  سے فرماتے تھے کہ (کافروں کی) ہجو کر اور جبرئیل تیرے ساتھ ہیں۔ (کسی کی برائی بیان کرنے کو ہجو کہتے ہیں)۔

1715: مسروق کہتے ہیں کہ میں اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا تو ان کے پاس سیدنا حسان بن ثابتؓ  بیٹھے اپنی غزل میں سے ایک شعر سنا رہے تھے جو چند بیتوں کی انہوں نے کہی تھی۔ وہ شعر یہ ہے کہ: ”پاک ہیں اور عقل والی ان پہ کچھ تہمت نہیں۔ صبح کو اٹھتی ہیں بھوکی غافلوں کے گوشت سے “ (یعنی کسی کی غیبت نہیں کرتیں کیونکہ غیبت کرنا گویا اس کا گوشت کھانا ہے )۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا حسانؓ  سے کہا کہ لیکن تو ایسا نہیں ہے (یعنی تو لوگوں کی غیبت کرتا ہے )۔ مسروق نے کہا کہ میں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آپ حسانؓ  کو اپنے پاس کیوں آنے دیتی ہو حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی شان میں فرمایا ہے کہ ”وہ شخص جس نے ان میں سے بڑی بات (یعنی اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہؓ  پر تہمت لگانے ) کا بیڑا اٹھایا اس کے واسطے بڑا عذاب ہے۔ (حسان بن ثابتؓ  ان لوگوں میں شریک تھے جنہوں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی تھی۔ پھر آپﷺ نے ان کو حد لگائی) اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اس سے زیادہ عذاب کیا ہو گا کہ وہ نابینا ہو گیا ہے اور کہا کہ وہ رسول اللہﷺ کی طرف سے کافروں کی جوابدہی کرتا تھا یا ہجو کرتا تھا۔(اس لئے اس کو اپنے پاس آنے کی اجازت دیتی ہوں)۔

1716: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قریش کی ہجو کرو کیونکہ ہجو ان کو تیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ ناگوار ہے۔پھر آپﷺ نے ایک شخص کو سیدنا ابن رواحہؓ  کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ قریش کی ہجو کرو۔ انہوں نے ہجو کی لیکن آپﷺ کو پسند نہ آئی۔ پھر سیدنا کعب بن مالکؓ  کے پاس بھیجا۔ پھر سیدنا حسان بن ثابتؓ  کے پاس بھیجا۔ جب سیدنا حسان آپﷺ کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ تم پر وہ وقت آگیا کہ تم نے اس شیر کو بلا بھیجا جو اپنی دُم سے مارتا ہے (یعنی اپنی زبان سے لوگوں کو قتل کرتا ہے گویا میدانِ فصاحت اور شعر گوئی کے شیر ہیں)۔ پھر اپنی زبان باہر نکالی اور اس کو ہلانے لگے اور عرض کیا کہ قسم اس کی جس نے آپﷺ کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے میں کافروں کو اپنی زبان سے اس طرح پھاڑ ڈالوں گا جیسے چمڑے کو پھاڑ ڈالتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے حسان! جلدی مت کر! کیونکہ ابو بکرؓ  قریش کے نسب کو بخوبی جانتے ہیں اور میرا بھی نسب قریش ہی ہیں، تو وہ میرا نسب تجھے علیحدہ کر دیں گے۔ پھر حسان سیدنا ابو بکرؓ  کے پاس آئے ، پھر اس کے بعد لوٹے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! سیدنا ابو بکرؓ  نے آپﷺ کا نسب مجھ سے بیان کر دیا ہے ، قسم اس کی جس نے آپﷺ کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا، میں آپﷺ کو قریش میں سے ایسا نکال لوں گا جیسے بال آٹے میں سے نکال لیا جاتا ہے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ حسان سے فرماتے تھے کہ روح القدس ہمیشہ تیری مدد کرتے رہیں گے جب تک تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے جواب دیتا رہے گا۔ اور اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ حسان نے قریش کی ہجو کی تو مومنوں کے دلوں کو شفا دی اور کافروں کی عزتوں کو تباہ کر دیا۔ حسان نے کہا کہ #

تو نے محمدﷺ کی بُرائی کی تو میں نے اس کا جواب دیا اور اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ دے گا۔

تو نے محمدﷺ کی بُرائی کی جو نیک اور پرہیزگار ہیں، اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ ہیں اور وفاداری ان کی خصلت ہے۔

میرے باپ دادا اور میری آبرو محمدﷺ کی آبرو بچانے کے لئے قربان ہیں۔

اگر کداء (مکہ کے دروازہ پر گھاٹی ) کے دونوں جانب سے غبار اڑتا ہو نہ دیکھو تو میں اپنی جان کو کھوؤں۔

ایسی اونٹنیاں جو باگوں پر زور کریں گی اور اپنی قوت اور طاقت سے اوپر چڑھتی ہوئیں، انکے کندھوں پر وہ برچھے ہیں جو باریک ہیں یا خون کی پیاسی ہیں

اور ہمارے گھوڑے دوڑتے ہوئے آئیں گے ، انکے منہ عورتیں اپنے دوپٹوں سے پونچھتی ہیں۔

اگر تم ہم سے نہ بولو تو ہم عمرہ کر لیں گے اور فتح ہو جائے گی اور پردہ اٹھ جائے گا۔

نہیں تو اس دن کی مار کے لئے صبر کرو جس دن اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا عزت دے گا۔

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے ایک لشکر تیار کیا ہے جو انصار کا لشکر ہے ، جس کا کھیل کافروں سے مقابلہ کرنا ہے۔

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے ایک بندہ بھیجا جو سچ کہتا ہے اس کی بات میں کچھ شبہ نہیں ہے۔

ہم تو ہر روز ایک نہ ایک تیاری میں ہیں، گالی گلوچ ہے کافروں سے یا لڑائی ہے یا کافروں کی ہجو ہے۔

تم میں سے جو کوئی اللہ کے رسولﷺ کی ہجو کرے اور ان کی تعریف کرے یا مدد کرے وہ سب برابر ہیں۔

جبرائیل اللہ کے رسول ہم میں ہیں اور روح القدس جن کا کوئی مثل نہیں ہے۔

باب : سیدنا جریر بن عبد اللہ بجلیؓ  کی فضیلت کا بیان۔

1717: سیدنا جریرؓ  کہتے ہیں کہ جب سے میں مسلمان ہوا ہوں رسول اللہﷺ نے مجھے کبھیاندر آنے سے نہیں روکا، اور مجھے کبھی نہیں دیکھا مگر آپﷺ اپنے چہرے پر مسکراہٹ لئے ہوئے ہوتے تھے (یعنی خندہ روئی اور کشادہ پیشانی سے ملتے تھے )۔

1718: سیدنا جریرؓ  کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ نے فرمایا کہ اے جریر! تو مجھے ذوالخلصہ سے آرام نہیں دیتا؟ اور ذوالخلصہ (قبیلہ) خثعم کا ایک بت خانہ تھا اس کو کعبہ یمانی بھی کہتے تھے۔ سیدنا جریرؓ  نے کہا کہ میں ڈیڑھ سو سوار لے کر وہاں گیا اورمیں گھوڑے پر نہیں جمتا تھا تو میں نے رسول اللہﷺ سے یہ بیان کیا تو آپﷺ نے اپناہاتھ میرے سینے پر مارا اور فرمایا کہ اے اللہ اس کو جما دے اور اس کو راہ دکھانے والا، راہ پایا ہوا کر دے۔ پھر سیدنا جریرؓ  گئے اور ذوالخلصہ کو آگ سے جلا دیا۔ اس کے بعد ایک شخص جس کا نام ابو ارطاۃتھا خوشخبری کے لئے رسول اللہﷺ کے پاس روانہ کیا۔ وہ آپﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ہم ذوالخلصہ کو خارشی اونٹ کی طرح چھوڑ کر آئے (خارشی اونٹ پر کالا روغن ملتے ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ بھی جل کر کالا ہو گیا تھا)۔ رسول اللہﷺ نے (قبیلہ) احمس کے گھوڑوں اور مَردوں کے لئے پانچ مرتبہ برکت کی دعا کی۔

باب : اصحابِ شجرہ ث کی فضیلت کا بیان۔

1719: سیدہ اُمّ مبشر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ سے سنا، آپﷺ اُمّ المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس فرماتے تھے کہ ان شاء اللہ اصحابِ شجرہ میں سے کوئی جہنم میں نہ جائے گا۔ یعنی جن لوگوں نے درخت کے نیچے بیعت کی۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! کیوں نہ جائیں گے ؟ آپﷺ نے ان کو جھڑکا۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”کوئی تم میں سے ایسا نہیں جو جہنم پر سے نہ جائے “ (مریم: 71) پس نبیﷺ نے فرمایا کہ بیشک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”پھر ہم پرہیزگاروں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو ان کے گھٹنوں کے بل اس میں چھوڑ دیں گے “ (مریم: 72)۔

باب : شہدائے بدر کی فضیلت کا بیان۔

1720: سیدنا علیؓ  نے کہا کہ ہمیں یعنی رسول اللہﷺ نے مجھے ، سیدنا زبیر صاور سیدنا مقدادؓ  کو روضہ خاخ مقام پر بھیجا اور فرمایا کہ جاؤ اور وہاں تمہیں ایک عورت اونٹ پر سوار ملے گی، اس کے پاس ایک خط ہے وہ اس سے لے کر آؤ۔ ہم گھوڑے دوڑاتے ہوئے چلے اچانک وہ عورت ہمیں ملی تو ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔ وہ بولی کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے کہا کہ خط نکال یا اپنے کپڑے اتار۔ پس اس نے وہ خط اپنے جُوڑے سے نکالا۔ ہم وہ خط رسول اللہﷺ کے پاس لے کر آئے ، اس میں لکھا تھا حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مکہ کے بعض مشرکین کے نام (اور اس میں) رسول اللہﷺ کی بعض باتوں کا ذکر تھا (ایک روایت میں ہے کہ حاطب نے اس میں رسول اللہﷺ کی تیاری اور فوج کی آمادگی اور مکہ کی روانگی سے کافروں کو مطلع کیا تھا) آپﷺ نے فرمایا کہ اے حاطب! تو نے یہ کیا کیا؟ وہ بولے کہ یا رسول اللہﷺ! آپ جلدی نہ فرمائیے (یعنی فوراً بولے کہ مجھے سزا نہ دیجئے میرا حال سن لیجئے )، میں قریش سے ملا ہوا ایک شخص تھا یعنی ان کا حلیف تھا اور قریش میں سے نہ تھا اور آپﷺ کے مہاجرین جو ہیں ان کے رشتہ دار قریش میں بہت ہیں جن کی وجہ سےﷺ ن کے گھر بارکا بچاؤ ہوتا ہے تو میں نے یہ چاہا کہ میرا ناتاتو قریش سے نہیں ہے ، میں بھی ان کا کوئی کام ایسا کر دوں جس سے میرے اہل و عیال والوں کا بچاؤ کریں گے اور میں نے یہ کام اس وجہ سے نہیں کیا کہ میں کافر ہو گیا ہوں یا مرتد ہو گیا ہوں اور نہ مسلمان ہونے کے بعد کفر سے خوش ہو کر کیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ حاطب نے سچ کہا۔ سیدنا عمرؓ  نے کہ کہ یا رسول اللہﷺ! آپ چھوڑئیے میں اس منافق کی گردن ماروں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ تو بدر کی لڑائی میں شریک تھا اور تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے بدر والوں کو جھانکا اور فرمایا کہ تم جو اعمال چاہو کرو (بشرطیکہ کفر تک نہ پہنچیں) میں نے تمہیں بخش دیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ“۔ (الممتحنة: 1)۔

باب : قریش، انصار اور ان کے علاوہ کی فضیلت کا بیان۔

1721: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قریش، انصار، مزینہ، جہینہ، اسلم، غفار اور اشجع (سارے قبائل) دوست ہیں اور سوا اللہ تعالیٰ کے اور اس کے رسولﷺ کے ان کا کوئی حمایتی نہیں۔

باب : قریش کی عورتوں (کی فضیلت) کا بیان۔

1722: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ آپ فرماتے تھے کہ قریش کی عورتیں بہترین عورتیں ہیں جو اونٹوں پر سوار ہوئیں بچے پر سب سے زیادہ مہربان (جب وہ چھوٹا ہو) اور اپنے خاوند کے مال کی بڑی نگہبان ہیں۔ (راوی کہتے ہیں کہ) سیدنا ابو ہریرہؓ  کہا کرتے تھے کہ سیدہ مریم بنت عمران رضی اللہ عنہا کبھی اونٹ پر نہیں چڑھیں۔

باب : انصار کے فضائل کا بیان۔

1723: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ یہ آیت کہ ”جب تم میں سے دو گروہوں نے ہمت ہار دینے کا قصد کیا اور اللہ ان دونوں کا دوست ہے “ (آلِ عمران: 122) ہم لوگوں یعنی بنی سلمہ اور بنی حارثہ کے بارے میں اتری۔ اور ہم نہیں چاہتے کہ یہ آیت نہ اترتی، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”اور اللہ ان دونوں کا دوست ہے “۔

1724: سیدنا زید بن ارقمؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے اللہ! انصار کو بخش دے اور انصار کے بیٹوں کو اور پوتوں کو (بھی معاف فرما دے )۔

1725: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے بچوں اور عورتوں کو شادی سے آتے ہوئے دیکھا تو آپﷺ سامنے کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اے لوگو! تم سب لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب ہو۔ اے لوگو! تم سب لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب ہو۔ یعنی انصار کے لوگوں سے فرمایا۔

1725م: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ انصار کی ایک عورت رسول اللہﷺ کے پاس آئی تو آپﷺ نے اس سے تنہائی کی (شاید وہ محرم ہو گی جیسے اُمّ سلیم تھیں یا اُمّ حرام تھیں یا تنہائی سے مراد یہ ہے کہ اس نے علیحدہ سے کوئی بات آپﷺ سے پوچھی) اور فرمایا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم سب لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب ہو۔ تین بار یہ فرمایا۔

1726: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے انصار کی بخشش کے لئے اور انصار کی اولاد اور ان کے غلاموں کے لئے بھی بحشش کی دعا کی۔

1727: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: انصار میری انتڑیاں اور میری گٹھڑیاں ہیں (کپڑا رکھنے کی یعنی میرے خاص معتمد اور اعتباری لوگ ہیں)۔ اور لوگ بڑھتے جائیں گے اور انصار گھٹتے جائیں گے ، پس ان کی نیکی کو قبول کرو اور ان کی بُرائی سے درگزر کرو۔

باب : انصار کے گھروں میں بھلائی ہونے کا بیان۔

1728: سیدنا ابو اسید  انصاریؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: انصار میں بہتر گھر بنی نجار کا ہے ، پھر بنی عبداشہل کا پھر بنی حارث بن خزرج کا، پھر بنی ساعدہ کا اور انصار کے ہر گھر میں بہتری ہے۔ ابو سلمہ نے کہا کہ سیدنا ابو اسید نے کہا کہ کیا میں رسول اللہﷺ پر تہمت کرتا ہوں؟ اگر میں جھوٹا ہوتا تو پہلے اپنی قوم بنی ساعدہ کا نام لیتا۔ یہ خبر سیدنا سعد بن عبادہؓ  کو پہنچی تو انہیں رنج ہوا اور وہ کہنے لگے کہ ہم پیچھے چھوڑ دیئے گئے ہم چاروں کے آخر میں ہوئے ، میرے گدھے پر زین کسو کہ میں رسول اللہﷺ  کے پاس جاؤں گا۔ سیدنا سہلؓ  کے بھتیجے نے ان سے کہا کہ تم رسول اللہﷺ کے پاس ان کی بات کا رد کرنے جاتے ہو حالانکہ آپﷺ خوب جانتے ہیں؟ کیا تمہیں یہ کافی نہیں ہے کہ چار میں سے چوتھے تم ہو؟ یہ سن کر سیدنا سعد لوٹے اور فرمایا کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ خوب جانتے ہیں اور گدھے سے زین کو کھول ڈالنے کا حکم دیا۔

باب : انصار سے اچھا برتاؤ کرنے کے متعلق۔

1729: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ میں سیدنا جریر بن عبد اللہ بجلیؓ  کے ساتھ سفر میں نکلا اور وہ میری خدمت کرتے تھے۔ میں نے کہا کہ تم میری خدمت مت کرو (کیونکہ تم بڑے ہو) انہوں نے کہا کہ میں نے انصار کو رسول اللہﷺ کے ساتھ جو کام کرتے دیکھا ہے تو قسم کھائی ہے کہ جب کسی انصار کے ساتھ ہوں گا تو اس کی خدمت کروں گا (یعنی انصار نے آپ کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اور دشمن سے حفاظت کی ہے وغیرہ) اور سیدنا جریرؓ  سیدنا انسؓ  سے بڑے تھے۔

باب : اشعریین  کے فضائل کے بارے میں۔

1730: سیدنا ابو موسیٰؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کہ میں اشعریوں کی آواز قرآن پڑھنے سے پہچان لیتا ہوں جب وہ رات کو آتے ہیں اور رات کو ان کی آواز سے ان کا ٹھکانہ بھی پہچان لیتا ہوں اگرچہ دن کو ان کا ٹھکانہ نہ دیکھا ہو جب وہ دن کو اترے ہوں۔ اور انہی لوگوں میں سے ایک شخص حکیم ہے کہ جب کافروں کے سواروں سے یا دشمنوں سے ملتا ہے تو ان سے کہتا ہے ہمارے لوگ تم سے کہتے ہیں کہ ذرا ہمیں فرصت دو یا تھوڑا انتظار کرو یعنی ہم بھی تیار ہیں لڑنے کو آتے ہیں (یعنی اپنے تئیں دانائی اور حکمت سے بچا لیتا ہے کیونکہ دشمن یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اکیلا نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ اور لوگ بھی ہیں)۔

1731: سیدنا ابو موسیٰؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بیشک اشعری قبیلہ کے لوگ جب لڑائی میں محتاج ہو جاتے ہیں یا مدینہ میں ان کے بیوی بچوں کا کھانا کم ہو جاتا ہے تو جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے اس کو ایک کپڑے میں اکٹھا کرتے ہیں، پھر آپس میں برابر بانٹ لیتے ہیں۔ یہ لوگ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں (یعنی میں ان سے راضی ہوں اور ایسے اتفاق کو پسند کرتا ہوں)۔

باب : ”غفار“ اور ”اسلم“ قبائل کے لئے نبیﷺ کی دعا۔

1732: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے (قبیلہ) اسلم کو سلامت رکھا اور (قبیلہ) غفار کو بخشا اور یہ میں نہیں کہتا بلکہ اللہ عزوجل فرماتا ہے۔

1733: سیدنا خفاف بن ایماء غفاریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اپنی نماز میں فرمایا کہ اے اللہ! بنی لحیان کو لعنت کر اور رعل کو، ذکوان اور عصیہ کو جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کی اور اللہ تعالیٰ نے (قبیلہ) غفار کو بخش دیا اور (قبیلہ) اسلم کو محفوظ کر دیا۔

باب : (قبیلہ) ”مزینہ“ ، ”جہینہ“‘ اور ”غفار“ کی فضیلت کا بیان۔

1734: سیدنا ابو بکرہؓ  سے روایت ہے کہ اقرع بن حابسؓ  رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ حاجیوں کو لوٹنے والے (قبائل) اسلم، غفار، مزینہ اور جہینہ کے لوگوں نے بیعت کی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اگر (قبیلہ) اسلم، غفار، مزینہ اور جہینہ قبائل بنی تمیم، بنی عامر، اسد اور غطفان سے بہتر ہوں تو یہ لوگ (یعنی بنی تمیم وغیرہ) خسارے میں رہے اور نامراد ہوئے )؟ وہ بولا ہاں آپﷺ نے فرمایا کہ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، وہ ان سے بہتر ہے (یعنی (قبیلہ اسلم اور غفار وغیرہ قبیلہ بنی تمیم وغیرہ سے بہتر ہیں)۔

باب : جو بنو طئی کے بارے میں ذکر کیا گیا۔

1735: سیدنا عدی بن حاتمؓ  کہتے ہیں کہ میں سیدنا عمر بن خطابؓ  کے پاس آیا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ سب سے پہلا صدقہ جس نے رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے اصحاب کے چہروں کو چمکا دیا(یعنی ان کو خوش کر دیا، قبیلہ) طئی کا صدقہ تھا۔ (اور کہا کہ) وہ صدقہ تم (یعنی عدی بن حاتم) رسول اللہﷺ کے پاس لیکر آئے تھے۔

باب : قبیلہ دوس کے متعلق جو کچھ ذکر کیا گیا۔

1736: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ طفیلؓ  اور ان کے ساتھی آئے اور کہنے لگے کہ اے اللہ کے رسولﷺ ! (قبیلہ) دوس نے کفر اختیار کیا ہے اور مسلمان ہونے سے انکار کیا تو دوس کے لئے بددعاء کیجئے۔ کہا گیا کہ دوس کے لوگ تباہ ہوئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! دوس کو ہدایت کر اور ان کو میرے پاس لے کر آ۔

باب : بنی تمیم کی فضیلت کے بارے میں۔

1737: ابو زرعہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ میں ہمیشہ (قبیلہ) بنی تمیم سے تین باتوں کی وجہ سے محبت رکھتا ہوں جو میں نے رسول اللہﷺ سے سنیں ہیں۔ میں نے آپﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ وہ میری امت میں دجال پر سب سے زیادہ سخت ہیں اور ان کے صدقے آئے تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ ہماری قوم کے صدقے ہیں اور اس قبیلے کی ایک عورت اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس قیدی تھی تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کو آزاد کر دے ، یہ سیدنا اسماعیلؑ کی اولاد میں سے ہے۔

باب : نبیﷺ کے اصحاب کے بھائی چارے کے متعلق۔

1738: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا ابو عبیدہ الجراح اور سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہما میں بھائی چارہ کرا دیا۔

1739: عاصم احول کہتے ہیں کہ سیدنا انس بن مالکؓ  سے کہا گیا کہ کیا آپ نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ اسلام میں حلف نہیں ہے ؟ تو سیدنا انسؓ  نے کہا کہ بیشک رسول اللہﷺ نے قریش اور انصار کے درمیان اپنے گھر میں حلف کرایا۔

(وضاحت : حلف قسم کو کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگ کسی سے معاہدہ اور بھائی چارہ قائم کرتے تھے اور وہ ایک دوسرے کے وارث بنتے تھے لیکن اسلام نے وراثت کے اصول بتا دئیے ہیں کہ غیر آدمی کسی کا وارث نہیں بن سکتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی سے حلف یا بھائی چارہ کیا جائے اور اس میں ورثہ لینے والی بات نہ ہو تو جائز ہے اور اسلام نے ایسے حلف کو مزید مضبوط کیا ہے۔ لیکن اگر وراثت میں شرکت کا معاملہ ہو تو اسلام نے اس حلف کو ختم کر دیا ہے ﴾۔

1740: سیدنا جبیر بن مطعمؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اسلام میں حلف نہیں ہے (یعنی ایسا حلف جس میں وراثت وغیرہ تک میں شرکت ہو) اور جو قسم جاہلیت کے زمانے میں (نیک بات کے لئے ) کی ہو، وہ اسلام سے اور مضبوط ہو گئی۔

باب : نبیﷺ کا قول کہ میں اپنے صحابہ کرام ث کے لئے بچاؤ ہوں اور میرے اصحاب میری امت کے لئے بچاؤ ہیں۔

1741: سیدنا ابو بردہ اپنے والدؓ  سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا ہم نے مغرب کی نماز رسول اللہﷺ کے ساتھ پڑھی، پھر ہم نے کہا کہ اگر ہم بیٹھے رہیں یہاں تک کہ عشاء آپﷺ کے ساتھ پڑھیں تو بہتر ہو گا۔ پھر ہم بیٹھے رہے اور آپﷺ باہر تشریف لائے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم یہیں بیٹھے رہے ہو؟ ہم نے عرض کیا کہ جی ہاں یا رسول اللہﷺ! ہم نے آپﷺ کے ساتھ نماز مغرب پڑھی، پھر ہم نے کہا کہ اگر ہم بیٹھے رہیں یہاں تک کہ عشاء کی نماز بھی آپﷺ کے ساتھ پڑھیں تو بہتر ہو گا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم نے اچھا کیا یا ٹھیک کیا۔ پھر آپﷺ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور آپﷺ اکثر اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا کرتے تھے ، پھر فرمایا کہ ستارے آسمان کے بچاؤ ہیں، جب ستارے مٹ جائیں گے تو آسمان پر بھی جس بات کا وعدہ ہے وہ آ جائے گی (یعنی قیامت آ جائے گی اور آسمان بھی پھٹ کر خراب ہو جائے گا)۔ اور میں اپنے اصحاب کا بچاؤ ہوں۔ جب میں چلا جاؤں گا تو میرے اصحاب پر بھی وہ وقت آ جائے گا جس کا وعدہ ہے (یعنی فتنہ اور فساد اور لڑائیاں)۔ اور میرے اصحاب میری امت کے بچاؤ ہیں۔ جب اصحاب چلے جائیں گے تو میری امت پر وہ وقت آ جائیگا جس کا وعدہ ہے (یعنی اختلاف و انتشار وغیرہ)۔

باب : اس آدمی کے متعلق جس نے نبیﷺ کو دیکھا یا جس نے اصحاب نبیﷺ کو دیکھا یا جس نے اصحاب نبیﷺ کے دیکھنے والوں کو دیکھا۔

1742: سیدنا ابو سعید خدریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ آدمیوں کے جھنڈ جہاد کریں گے تو ان سے پوچھیں گے کہ کوئی تم میں سے وہ شخص ہے جس نے رسول اللہﷺ کو دیکھا ہو؟تو وہ لوگ کہیں گے کہ ہاں! تو ان کی فتح ہو جائے گی۔ پھر لوگوں کے گروہ جہاد کریں گے تو ان سے پوچھیں گے کہ تم میں سے کوئی وہ ہے جس نے رسول اللہﷺ کے صحابی کو دیکھا ہو (یعنی تابعین میں سے کوئی ہے ؟) لوگ کہیں کے کہ ہاں! پھر ان کی فتح ہو جائے گی۔ پھر آدمیوں کے لشکر جہاد کریں گے تو ان سے پوچھا جائے گا کہ تم میں سے کوئی وہ ہے جس نے صحابی کے دیکھنے والے کو دیکھا ہو (یعنی تبع تابعین میں سے ) ؟ تو لوگ کہیں گے کہ ہاں۔ پھر لوگوں کے گروہ جہاد کریں گے تو پوچھیں گے کہ کیا تم میں کوئی ایسا آدمی ہے جس نے اتباع تابعین کو دیکھا ہو؟

باب : بہترین زمانہ صحابہ کرامؓ  کا زمانہ ہے ، پھر وہ جو ان کے بعد والا ہے ، پھر وہ جو ان کے بعد والا ہے۔

1743: سیدنا عمران بن حصینؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم سب میں بہترین زمانہ میرا ہے۔ پھر جو ان سے نزدیک ہیں، پھر جو ان سے نزدیک ہیں پھر جو ان سے نزدیک ہیں۔ سیدنا عمرانؓ  نے کہا کہ میں ٹھیک سے نہیں جانتا کہ رسول اللہﷺ اپنے زمانہ کے بعد دو کا ذکر فرمایا یا تین کا ذکر فرمایا۔ پھر ان کے بعد وہ لوگ پیدا ہوں گے جو گواہی کے مطالبہ کے بغیر گواہی دیں گے ، خائن ہوں گے اور امانتداری نہ کریں گے ، نذر مانیں گے لیکن پوری نہ کریں گے اور ان میں موٹاپا پھیل جائے گا۔

باب : لوگوں کو مختلف کانیں پاؤ گے۔

1744: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: (جیسے بعض کان سونے کی ہے اور بعض لوہے کی ویسے ہی آدمی بھی مختلف ہیں کسی کا خاندان عمدہ ہے اصل ہے کوئی اچھا ہے کوئی بُرا ہے ) تم لوگوں کو کانوں کی طرح پاؤ گے۔ پس جو جاہلیت میں بہتر تھے وہ اسلام میں بھی بہتر ہیں جب دین میں سمجھدار ہو جائیں اور تم بہتر اس کو پاؤ گے جو مسلمان ہونے سے پہلے اسلام سے بہت نفرت رکھتا ہو (یعنی جو کفر میں مضبوط تھا وہ اسلام لانے کے بعد اسلام میں بھی ایسا ہی مضبوط ہو گا جیسے سیدنا عمر اور سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہما وغیرہ یا یہ مراد ہے کہ جو خلافت سے نفرت رکھے اسی کی خلافت عمدہ ہو گی)۔ اور تم سب سے بُرا اس کو پاؤ گے جو دو روّیہ ہو کہ ان کے پاس ایک منہ لے کر آئے اور ان کے پاس دوسرا منہ لے کر جائے۔

باب : نبیﷺ کا فرمان کہ جو چیز آج زمین پر سانس والی موجود ہے وہ سو سال تک ختم ہو جائے گی۔

1745: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اپنی آخری عمر میں ایک رات ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی۔ جب سلام پھیرا تو کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ تم نے اپنی اس رات کو دیکھا؟ اب سے سو برس کے آخر پر زمین والوں میں سے کوئی نہ رہے گا۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  نے کہا کہ لوگ جو ”سو سال تک“ والی احادیث بیان کرتے ہیں اس میں انہیں مغالطہ لگا ہے۔ بلکہ آپﷺ نے یہ فرمایا کہ آج جولوگ موجود ہیں ان میں سے کوئی نہ رہے گا یعنی یہ صدی پوری ہو جائے گی۔

باب : نبیﷺ کے اصحاب کو گالی دینے کی ممانعت اور بعد والوں پر ان کی فضیلت۔

1746: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میرے اصحاب کو بُرا مت کہو، میرے اصحاب کو بُرا مت کہو، قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر کوئی تم میں سے احد پہاڑ کے برابر سونا (اللہ کی راہ میں) خرچ کرے تو انکے مد (سیر بھر) یا آدھے مد کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔

باب : اویس قرنی (تابعی) کا ذکر اور ان کی فضیلت کا بیان۔

1747: سیدنا عمر بن خطابؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ تابعین میں ایک بہترین شخص ہے جس کو اویس کہتے ہیں، اس کی ایک ماں ہے (یعنی رشتہ داروں میں سے صرف ماں زندہ ہو گی) اور اس کو ایک سفیدی ہو گی۔ تم اس سے کہنا کہ تمہارے لئے دعا کرے۔

1748: سیدنا اسیر بن جابر کہتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطابؓ  کے پاس جب یمن سے مدد کے لوگ آتے (یعنی وہ لوگ جو ہر ملک سےﷺ سلام کے لشکر کی مدد کے لئے جہاد کرنے کو آتے ہیں) تو وہ ان سے پوچھتے کہ تم میں اویس بن عامر بھی کوئی شخص ہے ؟ یہاں تک کہ سیدنا عمرؓ  خود اویس کے پاس آئے اور پوچھا کہ تمہارا نام اویس بن عامر ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ تم مراد قبیلہ کی شاخ قرن سے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ انہوں نے پوچھا کہ تمہیں برص تھا وہ اچھا ہو گیا مگر درہم برابر باقی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ تمہاری ماں ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ تب سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ تمہارے پاس اویس بن عامر یمن والوں کی کمکی فوج کے ساتھ آئے گا، وہ قبیلہ مراد سے ہے جو قرن کی شاخ ہے۔ اس کو برص تھا وہ اچھا ہو گیا مگر درہم باقی ہے۔ اس کی ایک ماں ہے۔ اس کا یہ حال ہے کہ اگر اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کو سچا کرے۔ پھر اگر تجھ سے ہو سکے تو اس سے اپنے لئے دعا کرانا۔ تو میرے لئے دعا کرو۔ پس تم اویس نے سیدنا عمرؓ  کے لئے بخشش کی دعا کی۔ تو سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ تم کہاں جانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ کوفہ میں۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ میں تمہیں کوفہ کے حاکم کے نام ایک خط لکھ دوں؟ انہوں نے کہا کہ مجھے خاکساروں میں رہنا اچھا معلوم ہوتا ہے۔ جب دوسرا سال آیا تو ایک شخص نے کوفہ کے رئیسوں میں سے حج کیا۔ وہ سیدنا عمرؓ  سے ملا تو سیدنا عمرؓ  نے اس سے اویس کا حال پوچھا تو وہ بولا کہ میں نے اویس کو اس حال میں چھوڑا کہ ان کے گھر میں اسباب کم تھا اور (خرچ سے )تنگ تھے۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ اویس بن عامر تمہارے پاس یمن والوں کے امدادی لشکر کے ساتھ آئے گا، وہ مراد قبیلہ کی شاخ قرن میں سے ہے۔ اس کو برص تھا وہ اچھا ہو گیا صرف درہم کے برابر باقی ہے۔ اس کی ایک ماں ہے جس کے ساتھ وہ نیکی کرتا ہے۔ اگر وہ اللہ پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کو سچا کرے۔ پھر اگر تجھ سے ہو سکے کہ وہ تیرے لئے دعا کرے تو اس سے دعا کرانا۔ وہ شخص یہ سن کر اویس کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میرے لئے دعا کرو۔ اویس نے کہا کہ تو ابھی نیک سفر کر کے آ رہا ہے (یعنی حج سے ) میرے لئے دعا کر۔ پھر وہ شخص بولا کہ میرے لئے دعا کر۔ اویس نے یہی جواب دیا پھر پوچھا کہ تو سیدنا عمرؓ  سے ملا؟ وہ شخص بولا کہ ہاں ملا۔ اویس نے اس کے لئے دعا کی۔ اس وقت لوگ اویس کا درجہ سمجھے۔ وہ وہاں سے سیدھے چلے۔ اُسیر نے کہا کہ میں نے ان کو ان کا لباس ایک چادر پہنائی جب کوئی آدمی ان کو دیکھتا تو کہتا کہ اویس کے پاس یہ چادر کہاں سے آئی ہے ؟

باب : مصر اور اہلِ مصر کے بارے میں۔

1749: سیدنا ابو ذرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم ایک ملک مصر کو فتح کرو گے جہاں قیراط کا رواج ہو گا (قیراط درہم اور دینار کا ایک ٹکڑا ہے اور مصر میں اس کا بہت رواج تھا)۔ وہاں کے لوگوں سے بھلائی کرنا کیونکہ ان کا ذمہ تم پر ہے اور ان کا تم سے ناتا بھی ہے (اس لئے کہ سیدہ ہاجرہ اسماعیلؑ کی والدہ مصر کی تھیں اور وہ عرب کی ماں ہیں) }یا یہ فرمایا کہ ان کا تم پر حق ہے اور ان سے دامادی کا رشتہ بھی ہے { (اور وہ رشتہ یہ تھا کہ رسول اللہﷺ کے صاحبزادے سیدنا ابراہیم علیہ اسلام کی والدہ ماریہ مصر کی تھیں)۔ پس جب تم دو اشخاص کو وہاں ایک اینٹ کی جگہ پر لڑتے ہوئے دیکھو تو وہاں سے نکل آنا۔ پھر سیدنا ابو ذرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ عبدالرحمن بن شرحبیل بن حسنہ اور ان کے بھائی ربیعہ ایک اینٹ کی جگہ پر لڑ رہے تھے تو میں وہاں سے نکل آیا۔

باب : عمان کے بارے میں جو آیا ہی۔

1750: سیدنا ابو برزہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کو عرب کے کسی قبیلہ کی طرف بھیجا (وہاں کے ) لوگوں نے اس کو بُرا کہا اور مارا۔ وہ آپﷺ کے پاس آیا اور یہ حال بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اگر تو عمان والوں کے پاس جاتا تو وہ تجھے بُرا نہ کہتے نہ مارتے (کیونکہ وہاں کے لوگ اچھے ہیں)۔

باب : فارس (ایران) کے بارے میں جو بیان ہوا۔

1751: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ بیٹھے تھے کہ سورۃ جمعہ نازل ہوئی۔ پس جب آپﷺ نے یہ آیت پڑھی کہ ”پاک ہے وہ اللہ جس نے عرب کی طرف پیغمبر بھیجا اور اوروں کی طرف بھی جو ابھی عرب سے نہیں ملے “ (الجمعہ:3) ایک شخص نے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ! یہ لوگ کون ہیں جو عرب کے سوا ہیں؟ آپﷺ نے اس کو جواب نہ دیا یہاں تک کہ اس نے ایک، دو یا تین بار پوچھا۔ اس وقت ہم لوگوں میں سیدنا سلمان فارسیؓ  بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ پس آپﷺ نے اپنا دست مبارک ان پر رکھا اور فرمایا کہ اگر ایمان ثریا (ستارے ) پر ہوتا تو بھی انکی قوم میں سے کچھ لوگ اس تک پہنچ جاتے۔

باب : آدمیوں کی مثال ان سو اونٹوں کی طرح ہے جن میں سواری کے لائق کوئی بھی نہ ہو۔

1752: سیدنا ابن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم آدمیوں کو ایسا پاتے ہو جیسے سو اونٹ، کہ ان اونٹوں میں ایک بھی (چالاک عمدہ) سواری کے قابل نہیں ملتا (اسی طرح عمدہ، مہذب، عاقل، نیک، نیک بخت، خوش اخلاق یا صالح پرہیزگار یا موحد دیندار سو آدمیوں میں ایک آدمی بھی نہیں نظر آتا)۔

باب : بنو ثقیف میں سے جس جھوٹے اور ہلاکو کا ذکر کیا گیا ہے۔

1753: ابو نوفل کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ  کو مدینہ کی گھاٹی پر دیکھا (یعنی مکہ کا وہ ناکہ جو مدینہ کی راہ میں ہے ) کہتے ہیں کہ قریش کے لوگ ان پر سے گزرتے تھے اور دوسرے لوگ بھی (ان کو حجاج نے سولی دیکر اسی پر رہنے دیا تھا)، یہاں تک کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  بھی ان پر سے گزرے۔ وہاں کھڑے ہوئے اور کہا کہ السلام علیکم یا ابو خبیب! (ابو خبیب سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ کی کنیت ہے اور ابو بکر اور ابو بکیر بھی ان کی کنیت ہے ) اسلام علیکم یا ابو خبیب! السلام علیک یا ابو خبیب! (اس سے معلوم ہوا کہ میت کو تین بار سلام کرنا مستحب ہے ) اللہ کی قسم میں تو تمہیں اس سے منع کرتا تھا، اللہ کی قسم میں تو تمہیں اس سے منع کرتا تھا، اللہ کی قسم میں تو تمہیں اس سے منع کرتا تھا۔ (یعنی خلافت اور حکومت اختیار کرنے سے ) اللہ کی قسم جہاں تک میں جانتا ہوں تم روزہ رکھنے والے اور رات کو عبادت کرنے والے اور ناتے کو جوڑنے والے تھے۔ اللہ کی قسم وہ گروہ جس کے تم بُرے ہو وہ عمدہ گروہ ہے (یہ انہوں نے برعکس کہا بطریق طنز کے یعنی بُرا گروہ ہے اور ایک روایت میں صاف ہے کہ وہ بُرا گروہ ہے ) پھر سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  وہاں سے چلے گئے۔ پھر سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کے وہاں ٹھہرنے اور بات کرنے کی خبر حجاج تک پہنچی تو اس نے ان کو سولی پر سے اتروا لیا اور یہود کے قبرستان میں ڈلوا دیا۔ (اور حجاج یہ نہ سمجھا کہ اس سے کیا ہوتا ہے۔انسان کہیں بھی گرے لیکن اس کے اعمال اچھے ہونا ضروری ہیں)۔ پھر حجاج نے ان کی والدہ سیدہ اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما کو بلا بھیجا تو انہوں نے حجاج کے پاس آنے سے انکار کر دیا۔ حجاج نے پھر بلا بھیجا اور کہا کہ تم آتی ہو تو آؤ ورنہ میں ایسے شخص کو بھیجوں گا جو تمہارا چونڈا پکڑ کر گھسیٹ کر لائے گا۔ انہوں نے پھر بھی آنے سے انکار کیا اور کہا کہ اللہ کی قسم میں تیرے پاس نہ آؤں گی جب تک تو میرے پاس اس کو نہ بھیجے جو میرے بال کھینچتا ہوا مجھے تیرے پاس لے جائے۔آخر حجاج نے کہا کہ میری جوتیاں لاؤ اور جوتے پہن کر اکڑتا ہوا چلا، یہاں تک کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچا اور کہا کہ تم نے دیکھا کہ اللہ کی قسم میں نے اللہ تعالیٰ کے دشمن کے ساتھ کیا کیا؟ (یہ حجاج نے اپنے اعتقاد کے موافق سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ  کو کہا ورنہ وہ خود اللہ کا دشمن تھا) سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ تو نے عبد اللہ بن زبیر کی دنیا بگاڑ دی اور اس نے تیری آخرت بگاڑ دی۔ میں نے سنا ہے کہ تو عبد اللہ بن زبیر کو کہتا تھا کہ دو کمربند والی کا بیٹا ہے ؟ بیشک اللہ کی قسم میں دو کمربند والی ہوں۔ ایک کمربند میں تو میں رسول اللہﷺ اور سیدنا ابو بکر صدیقؓ  کا کھانا اٹھاتی تھی کہ جانور اس کو کھا نہ لیں اور ایک کمربند وہ تھا جو عورت کو درکار ہے (سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنے کمربند کو پھاڑ کر اس کے دو ٹکڑے کر لئے تھے ایک سے تو کمربند باندھتی تھیں اور دوسرے کا رسول اللہﷺ اور سیدنا ابو بکرؓ  کے لئے دسترخوان بنایا تھا تو یہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی فضیلت تھی جس کو حجاج عیب سمجھتا تھا اور سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ  کو ذلیل کرنے کے لئے دو کمربند والی کا بیٹا کہتا تھا)۔ تو خبردار رہ کہ رسول اللہﷺ نے ہم سے بیان کیا تھا کہ ثقیف میں ایک جھوٹا پیدا ہو گا اور ایک ہلاکو۔ تو جھوٹے کو تو ہم نے دیکھ لیا اور ہلاکو میں تیرے سوا کسی کو نہیں سمجھتی۔ یہ سن کر حجاج کھڑا ہوا اور سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کو کچھ جواب نہ دیا۔