FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

عرفان ستار کی 44 غزلیں

 

 

               جمع و ترتیب: تصنیف حیدر

نوٹ: اس مجموعے میں جو تصنیف حیدر نے ترتیب دیا ہے، کچھ وہ غزلیں بھی شامل ہیں جو برقی کتابوں میں ’سرِ لوحِ جاں‘ نام کے مجموعے میں شامل تھیں۔ ان غزلوں کو منہا کرتے ہوئے اعجاز عبید کا ترتیب شدہ نیا مجموعہ ’زوال کا پہلا پڑاؤ‘ کے نام سے دیا جا رہا ہے۔جس میں یہ غزلیں شامل نہیں ہیں۔

 

 

 

عرفان ستار کی تازہ ترین 43 غزلوں کا انتخاب آپ کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔جلد ہی ان کی غزلوں کا ایک اور انتخاب ان کے مجموعے’تکرارساعت’سے بھی اس بلاگ پر آ جائے گا۔عرفان ستاراردو شاعری میں واقعی اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ان کی غزلوں کا رنگ ڈھنگ، لہجہ سب کچھ بالکل الگ ہے۔ان کی غزلوں پر میں جلد ہی ایک طویل تنقیدی مضمون لکھنے کا بھی ارادہ رکھتا ہوں، میں یہ جان کر حیران ہوا ہوں کہ ان کے مجموعے کے بعد ان کی غزلوں کا کل سرمایہ محض یہ 43 غزلیں ہیں۔اس سے احساس ہوتا ہے کہ وہ کتنا سنبھل کر شعر کہتے ہیں۔مگر اس کا فائدہ یہ ہے کہ ان کی شناخت ان کے معاصرین میں سب سے الگ قائم ہوئی ہے۔یقیناً یہ غزلیں آپ کے ذوق کی سیرابی میں کسی طور بھی کنجوسی سے کام نہیں لیں گی، کیونکہ ان کا ہر ایک شعر، ترکیب اور اپنے اندر زبردست تخلیقی چمک رکھتا ہے۔

ت ح

 

 

 

 

-1-

 

اپنی خبر، نہ اُس کا پتہ ہے، یہ عشق ہے

جو تھا، نہیں ہے، اور نہ تھا، ہے، یہ عشق ہے

 

پہلے جو تھا، وہ صرف تمہاری تلاش تھی

لیکن جو تم سے مل کے ہُوا ہے، یہ عشق ہے

 

تشکیک ہے، نہ جنگ ہے مابینِ عقل و دل

بس یہ یقین ہے کہ خدا ہے، یہ عشق ہے

 

بے حد خوشی ہے، اور ہے بے انتہا سکون

اب درد ہے، نہ غم، نہ گلہ ہے، یہ عشق ہے

 

کیا رمز جاننی ہے تجھے اصلِ عشق کی؟

جو تجھ میں اس بدن کے سوا ہے، یہ عشق ہے

 

شہرت سے تیری خوش جو بہت ہے، یہ ہے خرد

اور یہ جو تجھ میں تجھ سے خفا ہے، یہ عشق ہے

 

زیرِ قبا جو حسن ہے، وہ حسن ہے خدا

بندِ قبا جو کھول رہا ہے، یہ عشق ہے

 

ادراک کی کمی ہے سمجھنا اسے مرض

اس کی دعا، نہ اس کی دوا ہے، یہ عشق ہے

 

شفّاف و صاف، اور لطافت میں بے مثال

سارا وجود آئینہ سا ہے، یہ عشق ہے

 

یعنی کہ کچھ بھی اُس کے سِوا سوجھتا نہیں؟

ہاں تو جناب، مسئلہ کیا ہے؟ یہ عشق ہے

 

جو عقل سے بدن کو ملی تھی، وہ تھی ہوس

جو روح کو جنوں سے ملا ہے، یہ عشق ہے

 

اس میں نہیں ہے دخل کوئی خوف و حرص کا

اس کی جزا، نہ اس کی سزا ہے، یہ عشق ہے

 

سجدے میں ہے جو محوِ دعا، وہ ہے بے دلی

یہ جو دھمال ڈال رہا ہے، یہ عشق ہے

 

ہوتا اگر کچھ اور تو ہوتا انا پرست

اِس کی رضا شکستِ انا ہے، یہ عشق ہے

 

عرفان ماننے میں تامل تجھے ہی تھا

میں نے تو یہ ہمیشہ کہا ہے، یہ عشق ہے

٭٭٭

 

 

 

 

-2-

 

 

مجلس ِ غم، نہ کوئی بزم ِ طرب، کیا کرتے

گھر ہی جا سکتے تھے آوارۂ شب، کیا کرتے

 

یہ تو اچھا کیا تنہائی کی عادت رکھّی

تب اِسے چھوڑ دیا ہوتا تو اب کیا کرتے

 

روشنی، رنگ، مہک، طائرِ خوش لحن، صبا

تُو نہ آتا جو چمن میں تو یہ سب کیا کرتے

 

دل کا غم دل میں لیے لوٹ گئے ہم چپ چاپ

کوئی سنتا ہی نہ تھا شور و شغب کیا کرتے

 

بات کرنے میں ہمیں کون سی دشواری تھی

اُس کی آنکھوں سے تخاطب تھا سو لب کیا کرتے

 

کچھ کیا ہوتا تو پھر زعم بھی اچھا لگتا

ہم زیاں کار تھے، اعلانِ نسب کیا کرتے

 

دیکھ کر تجھ کو سرہانے ترے بیمار ِ جنوں

جاں بلب تھے، سو ہوئے آہ بلب، کیا کرتے

 

تُو نے دیوانوں سے منہ موڑ لیا، ٹھیک کیا

ان کا کچھ ٹھیک نہیں تھا کہ یہ کب کیا کرتے

 

جو سخن ساز چراتے ہیں مرا طرز ِ سخن

ان کا اپنا نہ کوئی طور، نہ ڈھب، کیا کرتے

 

یہی ہونا تھا جو عرفان ترے ساتھ ہُوا

منکر ِ میر بھلا تیرا ادب کیا کرتے

٭٭٭

 

 

 

-3-

 

یہ کیسے ملبے کے نیچے دبا دیا گیا ہوں

مجھے بدن سے نکالو، میں تنگ آگیا ہوں

 

کسے دماغ ہے بے فیض صحبتوں کا میاں

خبر اڑا دو کہ میں شہر سے چلا گیا ہوں

 

مآلِ عشقِ انا گیر ہے یہ مختصراً

میں وہ درندہ ہوں جو خود کو ہی چبا گیا ہوں

 

کوئی گھڑی ہے کہ ہوتا ہوں آستین میں دفن

میں دل سے بہتا ہوا آنکھ تک تو آگیا ہوں

 

مرا تھا مرکزی کردار اس کہانی میں

بڑے سلیقے سے بے ماجرا کیا گیا ہوں

 

وہ مجھ کو دیکھ رہا ہے عجب تحیّر سے

نجانے جھونک میں کیا کچھ اُسے بتا گیا ہوں

 

مجھے بھلا نہ سکے گی یہ رہگزارِ جنوں

قدم جما نہ سکا، رنگ تو جما گیا ہوں

 

سب اہتمام سے پہنچے ہیں اُس کی بزم میں آج

میں اپنے حال میں سرمست و مبتلا گیا ہوں

 

مرے کہے سے مرے گرد و پیش کچھ بھی نہیں

سو جو دکھایا گیا ہے وہ دیکھتا گیا ہوں

 

اُسے بتایا نہیں ہجر میں جو حال ہُوا

جو بات سب سے ضروری تھی وہ چھپا گیا ہوں

 

غزل میں کھینچ کے رکھ دی ہے اپنی جاں عرفان

ہر ایک شعر میں دل کا لہو بہا گیا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

-4-

 

 

کاش اک ایسی شب آئے جب تُو ہو پہلو میں

سانسیں سانسوں میں مل جائیں، آنسو آنسو میں

 

یاد کی لَو سے آئینے کا چہرہ ہو پُر نور

نہا رہی ہو رات کی رانی خواب کی خوشبو میں

 

نیند مری لے کر چلتی ہے شام ڈھلے، اور پھر

رات الجھ کر رہ جاتی ہے اُس کے گیسو میں

 

رہے ہمارے ہونٹوں پر اک نام کا دن بھر ورد

شب بھر دل کی رحل پہ رکھا اک چہرہ چومیں

 

آپ اپنی ہی ضَو سے جگمگ کرنا ساری رات

دھڑک رہا ہو جیسے میرا دل اِس جگنو میں

 

بولتے رہنا ہنستے رہنا بے مقصد بے بات

جیسے دل آ ہی جائے گا میرے قابو میں

 

ویسے تو اکثر ہوتا تھا ہلکا، میٹھا درد

اب تو جیسے آگ بھری ہو یاد کے چاقو میں

 

ایک دعا تھی جس نے بخشی حرف کو یہ تاثیر

یہ تاثیر کہاں ہوتی ہے جادو وادو میں

 

جب مجھ کو بھی آ جائے گا چلنا وقت کے ساتھ

آ جائے گی کچھ تبدیلی میری بھی خُو میں

 

تم کیا سمجھو تم کیا جانو کون ہوں میں کیا ہوں

وہ اقلیم الگ ہے جس میں ہیں میری دھومیں

 

قحطِ سماعت کے عالم میں یہی ہے اک تدبیر

خود ہی شعر کہیں اور خود ہی پڑھ پڑھ کر جھومیں

 

لوگ ہمیں سمجھیں تو سمجھیں بے حرف و بے صوت

ہم شامل تو ہو نہیں سکتے ہیں اِس ہا ہُو میں

 

جن کے گھر ہوتے ہیں وہ گھر جاتے ہیں عرفان

آپ بھی شب بھر مت ایسے ان سڑکوں پر گھومیں

٭٭٭

 

 

 

-5-

 

دیکھ مستی وجود کی میری

تا ابد دھوم مچ گئی میری

 

تُو توجہ اِدھر کرے نہ کرے

کم نہ ہو گی سپردگی میری

 

دل مرا کب کا ہو چکا پتھر

موت تو کب کی ہو چکی میری

 

اب تو برباد کر چکے، یہ کہو

کیا اسی میں تھی بہتری میری؟

 

میرے خوش رنگ زخم دیکھتے ہو؟

یعنی پڑھتے ہو شاعری میری؟

 

اب تری گفتگو سے مجھ پہ کھُلا

کیوں طبیعت اداس تھی میری

 

دل میں اب کوئی آرزو ہی نہیں

یعنی تکمیل ہو گئی میری

 

زندگی کا مآل اتنا ہے

زندگی سے نہیں بنی میری

 

چاند حسرت زدہ سا لگتا ہے

کیا وہاں تک ہے روشنی میری؟

 

دھوپ اُس کی ہے میرے آنگن میں

اُس کی چھت پر ہے چاندنی میری

 

اک مہک روز آ کے کہتی ہے

منتظر ہے کوئی گلی میری

 

جانے کب دل سے آنکھ تک آ کر

بہہ گئی چیز قیمتی میری

 

اب میں ہر بات بھول جاتا ہوں

ایسی عادت نہ تھی، کہ تھی میری؟

 

رات بھر دل میں غُل مچاتی ہے

آرزو کوئی سرپھری میری

 

میری آنکھوں میں آ کے بیٹھ گیا

شامِ فرقت اجاڑ دی میری

 

پہلے سینے میں دل دھڑکتا تھا

اب دھڑکتی ہے بے دلی میری

 

کیا عجب وقت ہے بچھڑنے کا

دیکھ، رکتی نہیں ہنسی میری

 

خود کو میرے سپرد کر بیٹھا

بات تک بھی نہیں سنی میری

 

تیرے انکار نے کمال کیا

جان میں جان آ گئی میری

 

خوب باتیں بنا رہا تھا مگر

بات اب تک نہیں بنی میری

 

میں تو پل بھر جیا نہیں عرفان

عمر کس نے گزار دی میری؟

٭٭٭

 

 

 

-6-

 

سب پہ ظاہر ہی کہاں حالِ زبوں ہے میرا

کس قدر خستہ و خوں بستہ دروں ہے میرا

 

میرے اشعار کو تقریظ و وضاحت سمجھو

ورنہ دراصل سخن کن فیکوں ہے میرا

 

یہ جو ٹھہراؤ بظاہر ہے اذیّت ہے مری

جو تلاطم مرے اندر ہے سکوں ہے میرا

 

یہ جو صحراؤں میں اڑتی ہے یہ ہے خاک مری

اور دریاؤں میں بہتا ہے جو خوں ہے میرا

 

وہ جو اخفا میں ہے وہ اصل حقیقت ہے مری

یہ جو سب کو نظر آتا ہے، فسوں ہے میرا

 

بیچ میں کچھ بھی نہ ہو، یعنی بدن تک بھی نہیں

تجھ سے ملنے کا ارادہ ہے تو یوں ہے میرا

 

راز ِ حق اس پہ بھی ظاہر ہے ازل سے عرفان

یعنی جبریل کا ہم عصر جنوں ہے میرا

٭٭٭

 

 

 

 

-7-

 

دنیا سے دور ہو گیا، دیں کا نہیں رہا

اس آگہی سے میں تو کہیں کا نہیں رہا

 

رگ رگ میں موجزن ہے مرے خوں کے ساتھ ساتھ

اب رنج صرف قلبِ حزیں کا نہیں رہا

 

دیوار و در سے ایسے ٹپکتی ہے بے دلی

جیسے مکان اپنے مکیں کا نہیں رہا

 

تُو وہ مہک، جو اپنی فضا سے بچھڑ گئی

میں وہ شجر، جو اپنی زمیں کا نہیں رہا

 

سارا وجود محوِ عبادت ہے سر بہ سر

سجدہ مرا کبھی بھی جبیں کا نہیں رہا

 

پاسِ خرد میں چھوڑ دیا کوچۂ جنوں

یعنی جہاں کا تھا میں، وہیں کا نہیں رہا

 

وہ گرد بادِ وہم و گماں ہے کہ اب مجھے

خود اعتبار اپنے یقیں کا نہیں رہا

 

اب وہ جواز پوچھ رہا ہے گریز کا

گویا محل یہ صرف نہیں کا نہیں رہا

 

میرا خدا ازل سے ہے سینوں میں جاگزیں

وہ تو کبھی بھی عرشِ بریں کا نہیں رہا

 

ہر ذرۂ زمیں کا دھڑکتا ہے اس میں غم

دل کو مرے ملال یہیں کا نہیں رہا

 

آخر کو یہ سنا تو بڑھا لی دکانِ دل

اب مول کوئی لعل و نگیں کا نہیں رہا

 

عرفان، اب تو گھر میں بھی باہر سا شور ہے

گوشہ کوئی بھی گوشہ نشیں کا نہیں رہا

٭٭٭

 

 

 

 

-8-

 

 

کہے دیتا ہوں، گو ہے تو نہیں یہ بات کہنے کی

تری خواہش نہیں دل میں زیادہ دیر رہنے کی

 

بچا کر دل گزرتا جا رہا ہوں ہر تعلق سے

کہاں اس آبلے کو تاب ہے اب چوٹ سہنے کی

 

رگ و پے میں نہ ہنگامہ کرے تو کیا کرے آخر

اجازت جب نہیں اس رنج کو آنکھوں سے بہنے کی

 

بس اپنی اپنی ترجیحات، اپنی اپنی خواہش ہے

تجھے شہرت کمانے کی، مجھے اک شعر کہنے کی

 

جہاں کا ہوں، وہیں کی راس آئے گی فضا مجھ کو

یہ دنیا بھی بھلا کوئی جگہ ہے میرے رہنے کی؟

 

جو کل عرفان پر گزری سنا کچھ اُس کے بارے میں؟

خبر تم نے سُنی طوفان میں دریا کے بہنے کی؟

٭٭٭

 

 

 

 

–9–

 

 

٭گماں کی کھوج کا کوئ صلہ نئیں

چلو اب مان بھی جاؤ، خدا نئیں

 

وہ بن جانے سبھی کچھ کہہ گیا تھا

میں سب کچھ جانتا تھا، پر کہا نئیں

 

جدا ہونا ہی تھا، سو ہو رہے ہیں

ذرا سی بات ہے اس کو بڑھا نئیں

 

مجھے صحرا سے مت تشبیہ دینا

مری وحشت کی کوئ انتہا نئیں

میں سب کچھ جانتا ہوں، دیکھتا ہوں

میں خوابیدہ سہی، سویا ہوا نئیں

نہ آتا تو نہ ہر گز ہم بلاتے

یہاں آ ہی گیا ہے اب، تو جا نئیں

 

محبت میں بدن شامل نہ ہوتا

یہ ہم بھی چاہتے تھے، پر ہوا نئیں

مجھے دیکھو، تو کیا میں واقعی ہوں

مجھے سمجھو، تو کیا میں جا بجا نئیں

ملے کیا کیا نہ چہرے دل گلی میں

میں جس کو ڈھونڈتا تھا، وہ ملا نئیں

ہمیں مت ڈھونڈ، پر خواہش کیا کر

ہمیں مت یاد کر، لیکن بھلا نئیں

 

ہماری خواہشوں میں کوئی خواہش

رہینِ بخششِ بندِ قبا نئیں

 

میں ایسا ہوں، مگر ایسا نہیں ہوں

میں ویسا تھا، مگر ویسا میں تھا نئیں

 

عظیم المرتبت شاعر بہت ہیں

مگر ہاں، جون سا شاعر ہوا نئیں

 

کہیں سبحان اللہ جون جس پر

وہی عرفان نے اب تک کہا نئیں

٭٭٭

 

 

 

 

-10-

 

 

عجب ہے رنگِ چمن، جا بجا اُداسی ہے

مہک اُداسی ہے، باد ِ صبا اُداسی ہے

 

نہیں نہیں، یہ بھلا کس نے کہہ دیا تم سے؟

میں ٹھیک ٹھاک ہوں، ہاں بس ذرا اُداسی ہے

 

میں مبتلا کبھی ہوتا نہیں اُداسی میں

میں وہ ہوں جس میں کہ خود مبتلا اُداسی ہے

 

طبیب نے کوئی تفصیل تو بتائی نہیں

بہت جو پوچھا تو اتنا کہا، اُداسی ہے

 

گداز ِ قلب خوشی سے بھلا کسی کو ملا؟

عظیم وصف ہی انسان کا اداسی ہے

 

شدید درد کی رو ہے رواں رگِ جاں میں

بلا کا رنج ہے، بے انتہا اُداسی ہے

 

فراق میں بھی اُداسی بڑے کمال کی تھی

پسِ وصال تو اُس سے سِوا اداسی ہے

 

تمہیں ملے جو خزانے، تمہیں مبارک ہوں

مری کمائی تو یہ بے بہا اُداسی ہے

 

چھپا رہی ہو مگر چھپ نہیں رہی مری جاں

جھلک رہی ہے جو زیر ِ قبا اُداسی ہے

 

مجھے مسائلِ کون و مکاں سے کیا مطلب

مرا تو سب سے بڑا مسئلہ اُداسی ہے

 

فلک ہے سر پہ اُداسی کی طرح پھیلا ہُوا

زمیں نہیں ہے مرے زیر ِ پا، اُداسی ہے

 

غزل کے بھیس میں آئی ہے آج محرمِ درد

سخن کی اوڑھے ہوئے ہے ردا، اُداسی ہے

 

عجیب طرح کی حالت ہے میری بے احوال

عجیب طرح کی بے ماجرا اُداسی ہے

 

وہ کیفِ ہجر میں اب غالباً شریک نہیں

کئی دنوں سے بہت بے مزا اُداسی ہے

 

وہ کہہ رہے تھے کہ شاعر غضب کا ہے عرفان

ہر ایک شعر میں کیا غم ہے، کیا اُداسی ہے

٭٭٭

 

 

 

-11-

 

راکھ کے ڈھیر پہ کیا شعلہ بیانی کرتے

ایک قصے کی بھلا کتنی کہانی کرتے

 

حسن اتنا تھا کہ ممکن ہی نہ تھی خود نگری

ایک امکان کی کب تک نگرانی کرتے

 

شعلہ جاں کو بجھاتے یونہی قطرہ قطرہ

خود کو ہم آگ بناتے تجھے پانی کرتے

 

پھول سا تجھ کو مہکتا ہوا رکھتے شب بھر

اپنے سانسوں سے تجھے رات کی رانی کرتے

 

ندیاں دیکھیں تو بس شرم سے پانی ہو جائیں

چشمِ خوں بستہ سے پیدا وہ روانی کرتے

 

سب سے کہتے کہ یہ قصہ ہے پرانا صاحب

آہ کی آنچ سے تصویر پرانی کرتے

 

در و دیوار بدلنے میں کہاں کی مشکل

گھر جو ہوتا تو بھلا نقل مکانی کرتے؟

 

کوئی آ جاتا کبھی یونہی اگر دل کے قریب

ہم ترا ذکر پئے یاد دہانی کرتے

 

سچ تو یہ ہے کہ ترے ہجر کا اب رنج نہیں

کیا دکھاوے کے لیے اشک فشانی کرتے؟

 

دل کو ہر لحظہ ہی دی عقل پہ ہم نے ترجیح

یارِ جانی کو کہاں دشمنِ جانی کرتے

 

شب اسی طرح بسر ہوتی ہے میری عرفان

حرفِ خوش رنگ کو اندوہِ معانی کرتے

٭٭٭

 

 

 

 

-12-

 

خواب میں کوئی مجھ کو آس دلانے بیٹھا تھا

جاگا تو میں خود اپنے ہی سرہانے بیٹھا تھا

 

یونہی رکا تھا دم لینے کو، تم نے کیا سمجھا؟

ہار نہیں مانی تھی بس سستانے بیٹھا تھا

خود بھی لہو لہان ہُوا دل، مجھے بھی زخم دیئے

میں بھی کیسے وحشی کو سمجھانے بیٹھا تھا

 

لاکھ جتن کرنے پر بھی کم ہُوا نہ دل کا بوجھ

کیسا بھاری پتھر میں سرکانے بیٹھا تھا

 

تارے کرنوں کی رتھ پر لائے تھے اُس کی یاد

چاند بھی خوابوں کا چندن مہکانے بیٹھا تھا

 

نئے برس کی خوشیوں میں مشغول تھے سب، اور میں

گئے برس کی چوٹوں کو سہلانے بیٹھا تھا

 

وہ تو کل جھنکار سے پرکھ لیا اُس گیانی نے

میں تو پیتل کے سکے چمکانے بیٹھا تھا

 

دشمن جتنے آئے ان کے خطا ہوئے سب تیر

لیکن اپنوں کا ہر تیر نشانے بیٹھا تھا

 

قصوں کو سچ ماننے والے، دیکھ لیا انجام؟

پاگل جھوٹ کی طاقت سے ٹکرانے بیٹھا تھا

 

مت پوچھو کتنی شدت سے یاد آئی تھی ماں

آج میں جب چٹنی سے روٹی کھانے بیٹھا تھا

 

اپنا قصور سمجھ نہیں آیا جتنا غور کیا

میں تو سچے دل سے ہی پچھتانے بیٹھا تھا

 

عین اُسی دم ختم ہوئی تھی مہلت جب عرفان

خود کو توڑ چکا تھا اور بنانے بیٹھا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

-13-

 

 

ایک تاریک خلا، اُس میں چمکتا ہُوا میں

یہ کہاں آگیا ہستی سے سرکتا ہُوا میں

 

شعلۂ جاں سے فنا ہوتا ہوں قطرہ قطرہ

اپنی آنکھوں سے لہو بن کے ٹپکتا ہُوا میں

 

آگہی نے مجھے بخشی ہے یہ نار ِ خود سوز

اک جہنّم کی طرح خود میں بھڑکتا ہُوا میں

 

منتظر ہوں کہ کوئی آ کے مکمل کر دے

چاک پر گھومتا، بل کھاتا، درکتا ہُوا میں

 

مجمعِ اہلِ حرم نقش بدیوار اُدھر

اور اِدھر شور مچاتا ہُوا، بکتا ہُوا میں

 

میرے ہی دم سے ملی ساعتِ امکان اِسے

وقت کے جسم میں دل بن کے دھڑکتا ہوا میں

 

بے نیازی سے مری آتے ہوئے تنگ یہ لوگ

اور لوگوں کی توجّہ سے بدکتا ہُوا میں

 

رات کی رات نکل جاتا ہوں خود سے باہر

اپنے خوابوں کے تعاقب میں ہمکتا ہُوا میں

 

ایسی یکجائی، کہ مٹ جائے تمیز ِ من و تُو

مجھ میں کھِلتا ہُوا تُو، تجھ میں مہکتا ہُوا میں

 

اک تو وہ حسنِ جنوں خیز ہے عالم میں شہود

اور اک حسن ِ جنوں خیز کو تکتا ہُوا میں

 

ایک آواز پڑی تھی کہ کوئی سائل ِ ہجر؟

آن کی آن میں پہنچا تھا لپکتا ہُوا میں

 

ہے کشیدِ سخنِ خاص ودیعت مجھ کو

گھومتا پھرتا ہوں یہ عطر چھڑکتا ہوا میں

 

راز ِ حق فاش ہُوا مجھ پہ بھی ہوتے ہوتے

خود تک آ ہی گیا عرفان بھٹکتا ہُوا میں

٭٭٭

 

 

 

 

-14-

 

ہو کر وداع سب سے، سبک بار ہو کے رہ

جانا ہے کب خبر نہیں، تیّار ہو کے رہ

 

یہ لمحہ بھر بھی دھیان ہٹانے کی جا نہیں

دنیا ہے تیری تاک میں، ہشیار ہو کے رہ

 

خطرہ شبِ وجود کو مہر ِ عدم سے ہے

سب بے خبر ہیں، تُو ہی خبردار ہو کے رہ

 

شاید اتر ہی آئے خنک رنگ روشنی

چل آج رات خواب میں بیدار ہو کے رہ

 

کس انگ سے وہ لمس کُھلے گا، کسے خبر

تُو بس ہمہ وجود طلبگار ہو کے رہ

 

تُو اب سراپا عشق ہُوا ہے، تو لے دعا

جا سر بسر اذیّت و آزار ہو کے رہ

 

شاید کبھی اِسی سے اٹھے پھر ترا خمیر

بنیادِ خوابِ ناز میں مسمار ہو کے رہ

 

کچھ دیر ہے سراب کی نظّارگی مزید

کچھ دیر اور روح کا زنگار ہو کے رہ

 

اب آسمانِ حرف ہُوا تا اُفق سیاہ

اب طمطراق سے تُو نمودار ہو کے رہ

 

بس اک نگاہ دُور ہے خوابِ سپردگی

تُو لاکھ اپنے آپ میں انکار ہو کے رہ

 

وہ زمزمے تھے بزم ِ گماں کے، سو اب کہاں

یہ مجلسِ یقیں ہے، عزا دار ہو کے رہ

 

اندر کی اونچ نیچ کو اخفا میں رکھ میاں

احوالِ ظاہری میں تو ہموار ہو کے رہ

 

کیسے بھلا تُو بارِ مروّت اٹھائے گا

محفل ہے دوستوں کی، سو عیّار ہو کے رہ

 

بے قیمتی کے رنج سے خود کو بچا کے چل

بازار ِ دلبری میں خریدار ہو کے رہ

 

فرمانروائے عقل کے حامی ہیں سب یہاں

شاہِ جنوں کا تُو بھی وفادار ہو کے رہ

 

تُو ہجر کی فضیلتیں خود پر دراز رکھ

خود اپنی راہِ شوق میں دیوار ہوکے رہ

 

لوگوں پہ اپنا آپ سہولت سے وا نہ کر

عرفان، میری مان لے، دشوار ہو کے رہ

٭٭٭

 

 

 

-15-

 

پیارے جدا ہوئے ہیں، چھوٹا ہے گھر ہمارا

کیا حال کہہ سکے گی، یہ چشمِ تر ہمارا

 

بس گاہ گاہ لے آ، خاکِ وطن کی خوشبو

اے بادِ صبح گاہی، یہ کام کر ہمارا

 

ہیں بزمِ عاشقاں میں، بے وقعتی کے موجب

سینے میں دم ہمارے، شانوں پہ سر ہمارا

 

ہم اور ہی جہاں کے، یعنی کہ لامکاں کے

ہے صرف اتفاقاً ، آنا اِدھر ہمارا

 

اتمام ِ دل خراشی، اسلوبِ سینہ چاکی

اظہار ِ کرب ناکی، بس یہ ہنر ہمارا

 

اک سعیِ بے مسافت، بے رنگ و بے لطافت

مت پوچھیئے کہ کیسے، گزرا سفر ہمارا

 

پہلے سے اور ابتر، گویا جنوں سراسر

بس یہ بتاؤ پوچھے، کوئی اگر ہمارا

 

دم سادھنے سے پہلے، چپ سادھ لی گئی ہے

اظہار ہو چکا ہے، امکان بھر ہمارا

 

ایسے نہ آس توڑو، سب کچھ خدا پہ چھوڑو

اس مشورے سے پہلے، سمجھو تو ڈر ہمارا

٭٭٭

 

 

 

-16-

 

یہ خبر ہے، مجھ میں کچھ میرے سِوا موجود ہے

اب تو بس معلوم کرنا ہے کہ کیا موجود ہے

 

ایک میں ہوں، جس کا ہونا ہو کے بھی ثابت نہیں

ایک وہ ہے جو نہ ہو کر جا بجا موجود ہے

ہاں خدا ہے، اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں

اس سے تم یہ مت سمجھ لینا خدا موجود ہے

 

حل کبھی ہوتا نہیں یہ جسم سے چھوٹے بغیر

میں ابھی زندہ ہوں سو یہ مسئلہ موجود ہے

 

تاب آنکھیں لا سکیں اُس حسن کی، ممکن نہیں

میں تو حیراں ہوں کہ اب تک آئینہ موجود ہے

 

رات کٹتی ہے مزے میں چین سے ہوتی ہے صبح

چاندنی موجود ہے بادِ صبا موجود ہے

 

روشنی سی آ رہی ہے اِس طرف چھنتی ہوئی

اور وہ حدت بھی جو زیرِ قبا موجود ہے

 

ایک پل فرصت کہاں دیتے ہیں مجھ کو میرے غم

ایک کو بہلا دیا تو دوسرا موجود ہے

 

درد کی شدت میں بھی چلتی ہے میرے دل کے ساتھ

اک دھڑکتی روشنی جو ہر جگہ موجود ہے

 

معتبر تو قیس کا قصہ بھی ہے اس ضمن میں

اس حوالے سے مرا بھی واقعہ موجود ہے

 

خواب میں اک زخم دیکھا تھا بدن پر جس جگہ

صبح دیکھا تو وہاں اک داغ سا موجود ہے

 

ایک ہی شعلہ سے جلتے آرہے ہیں یہ چراغ

میر سے مجھ تک وہی اک سلسلہ موجود ہے

 

یوں تو ہے عرفان ہر احساس ہی محدود سا

اک کسک سی ہے کہ جو بے انتہا موجود ہے

٭٭٭

 

 

 

 

-17-

 

ایک ملال تو ہونے کا ہے ایک نہ ہونے کا غم ہے

شہرِ وجود سے بابِ عدم تک ایک سا ہُو کا عالم ہے

 

کب تک راہ تکیں گے اُس کی کب تک اُس کو پکاریں گے

آنکھوں میں اب کتنا نم ہے سینے میں کتنا دم ہے

اُس کے ہوتے روز ہی آ کر مجھے جگایا کرتی تھی

میری طرف اب بادِ صبا کا آنا جانا کم کم ہے

 

اب تعبیر نجانے کیا ہو خواب میں اتنا دیکھا تھا

ایک جلوس چلا جاتا ہے آگے خونیں پرچم ہے

 

تم لوگوں کی عادت ٹھہری جھوٹ کا شربت پینے کی

میرے پیالے سے مت پینا میرے پیالے میں سم ہے

 

ہاں ویسے تو حجرۂ جاں میں بے ترتیبی ٹھیک نہیں

لیکن کیا ترتیب سے رکھوں سب کچھ درہم برہم ہے

 

درد کی پردہ پوشی ہے سب، کھل جائے گر غور کرو

آہوں کی تکرار ہیں سانسیں دل کی دھڑکن ماتم ہے

 

خوشبو کے پہلو میں بیٹھا رنگ سے ہم آغوش ہُوا

جب سے اُس کا قرب ملا ہے ہر احساس مجسم ہے

 

اب اظہار میں کوتاہی کی، کوئی دلیل نہیں صائب

آنکھوں کو ہے خون مہیّا دل کو درد فراہم ہے

 

شہرِ سخن کے ہنگامے میں کون سنے تیری عرفان

ایک تو باتیں الجھی الجھی پھر لہجہ بھی مدھم ہے

٭٭٭

 

 

 

-18-

 

احباب کا کرم ہے کہ خود پر کھلا ہوں میں

مجھ کو کہاں خبر تھی کہ اتنا برا ہوں میں

 

خود سے مجھے جو ہے وہ گلہ کس سے میں کروں

مجھ کو منائے کون کہ خود سے خفا ہوں میں

اٹھے جو اس طرف وہ نظر ہی کہیں نہیں

اک شہرِ کم نگاہ میں کھویا ہُوا ہوں میں

تجھ سے نہیں کہوں گا تو کس سے کہوں گا یار؟

پہلے سمجھ تو جاؤں کہ کیا چاہتا ہوں میں؟

کیا اور چاہتے ہیں یہ دیدہ ورانِ عصر؟

عادی منافقت کا تو ہو ہی گیا ہوں میں

مل جائیں گے بہت سے تجھے مصلحت پسند

مجھ سے نہ سر کھپا کہ بہت سر پھرا ہوں میں

اب آئینہ بھی پوچھ رہا ہے، تو کیا کہوں

حسرت بھری نگاہ سے کیا دیکھتا ہوں میں

باہر ہے زندگی کی ضرورت میں زندگی

اندر سے ایک عمر ہوئی مر چکا ہوں میں

رہتا ہے اک ہجوم یہاں گوش بر غزل

سنتا ہے کون درد سے جب چیختا ہوں میں

ہاں حل طلب تو مسئلے کچھ اور بھی مگر

اپنے لیے تو سب سے بڑا مسئلہ ہوں میں

میں نے ہی تجھ جمال کو تجھ پر عیاں کیا

اے حسنِ خود پرست، ترا آئینہ ہوں میں

 

جب تک میں اپنے ساتھ رہا تھا، ترا نہ تھا

اب تیرے ساتھ یوں ہوں کہ خود سے جدا ہوں میں

 

پہلے میں بولتا تھا بہت، سوچتا تھا کم

اب سوچتا زیادہ ہوں، کم بولتا ہوں میں

 

عرفان کیا تجھے یہ خبر ہے کہ ان دنوں

ہر دم فنا کے باب میں کیوں سوچتا ہوں میں؟

٭٭٭

 

 

 

-19-

 

سخن کے شوق میں توہین حرف کی نہیں کی

کہ ہم نے داد کی خواہش میں شاعری نہیں کی

 

جو خود پسند تھے ان سے سخن کیا کم کم

جو کج کلاہ تھے اُن سے تو بات بھی نہیں کی

 

کبھی بھی ہم نے نہ کی کوئی بات مصلحتاً

منافقت کی حمایت، نہیں، کبھی نہیں کی

 

دکھائی دیتا کہاں پھر الگ سے اپنا وجود

سو ہم نے ذات کی تفہیمِ آخری نہیں کی

 

اُسے بتایا نہیں ہے کہ میں بدن میں نہیں

جو بات سب سے ضروری ہے وہ ابھی نہیں کی

 

بنامِ خوش نفسی ہم تو آہ بھرتے رہے

کہ صرف رنج کیا ہم نے، زندگی نہیں کی

 

ہمیشہ دل کو میّسر رہی ہے دولتِ ہجر

جنوں کے رزق میں اُس نے کبھی کمی نہیں کی

 

بصد خلوص اٹھاتا رہا سبھی کے یہ ناز

ہمارے دل نے ہماری ہی دلبری نہیں کی

 

جسے وطیرہ بنائے رہی وہ چشمِ غزال

وہ بے رخی کی سہولت ہمیں بھی تھی، نہیں کی

 

ہے ایک عمر سے معمول روز کا عرفان

دعائے ردِّ انا ہم نے آج ہی نہیں کی

٭٭٭

 

 

 

-20-

 

 

کس عجب ساعتِ نایاب میں آیا ہُوا ہوں

تجھ سے ملنے میں ترے خواب میں آیا ہُوا ہوں

 

پھر وہی میں ہوں، وہی ہجر کا دریائے عمیق

کوئی دم عکسِ سرِ آب میں آیا ہُوا ہوں

کیسے آئینے کے مانند چمکتا ہُوا میں

عشق کے شہرِ ابد تاب میں آیا ہُوا ہوں

میری ہر تان ہے از روزِ ازل تا بہ ابد

ایک سُر کے لیے مضراب میں آیا ہُوا ہوں

 

کوئی پرچھائیں کبھی جسم سے کرتی ہے کلام؟

بے سبب سایۂ مہتاب میں آیا ہُوا ہوں

ہر گزرتے ہوئے لمحے میں تپکتا ہُوا میں

درد ہوں، وقت کے اعصاب میں آیا ہُوا ہوں

 

کیسی گہرائی سے نکلا ہوں عدم کی عرفان

کیسے پایاب سے تالاب میں آیا ہُوا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

-21-

 

ہمیں نہیں آتے یہ کرتب نئے زمانے والے

ہم تو سیدھے لوگ ہیں یارو، وہی پرانے والے

 

ان کے ہوتے کوئی کمی ہے راتوں کی رونق میں؟

یادیں خواب دکھانے والی، خواب سہانے والے

کہاں گئیں رنگین پتنگیں، لٹو، کانچ کے بنٹے؟

اب تو کھیل بھی بچوں کے ہیں دل دہلانے والے

وہ آنچل سے خوشبو کی لپٹیں بکھراتے پیکر

وہ چلمن کی اوٹ سے چہرے چھب دکھلانے والے

بام پہ جانے والے جانیں اس محفل کی باتیں

ہم تو ٹھہرے اس کوچے میں خاک اڑانے والے

جب گزرو گے ان رستوں سے تپنی دھوپ میں تنہا

تمہیں بہت یاد آئیں گے ہم سائے بنانے والے

تم تک شاید دیر سے پہنچے مرا مہذب لہجہ

پہلے ذرا خاموش تو ہوں یہ شور مچانے والے

 

ہم جو کہیں سو کہنے دینا، سنجیدہ مت ہونا

ہم تو ہیں ہی شاعر بات سے بات بنانے والے

اچھا؟ پہلی بار کسی کو میری فکر ہوئی ہے؟

میں نے بہت دیکھے ہیں تم جیسے سمجھانے والے

ایسے لبالب کب بھرتا ہے ہر امید کا کاسہ؟

مجھ کو حسرت سے تکتے ہیں آنے جانے والے

سفاکی میں ایک سے ہیں سب، جن کے ساتھ بھی جاؤ

کعبے والے اِس جانب ہیں، وہ بت خانے والے

 

میرے شہر میں مانگ ہے اب تو بس ان لوگوں کی ہے

کفن بنانے والے یا مردے نہلانے والے

 

گیت سجیلے بول رسیلے کہاں سنو گے اب تم

اب تو کہتا ہے عرفان بھی شعر رلانے والے

٭٭٭

 

 

 

-22-

 

چپ ہے آغاز میں، پھر شورِ اجل پڑتا ہے

اور کہیں بیچ میں امکان کا پل پڑتا ہے

 

ایک وحشت ہے کہ ہوتی ہے اچانک طاری

ایک غم ہے کہ یکایک ہی ابل پڑتا ہے

 

یاد کا پھول مہکتے ہی نواحِ شب میں

کوئی خوشبو سے ملاقات کو چل پڑتا ہے

حجرۂ ذات میں سنّاٹا ہی ایسا ہے کہ دل

دھیان میں گونجتی آہٹ پہ اچھل پڑتا ہے

 

روک لیتا ہے ابد وقت کے اُس پار کی راہ

دوسری سمت سے جاؤں تو ازل پڑتا ہے

 

ساعتوں کی یہی تکرار ہے جاری ہر دم

میری دنیا میں کوئی آج، نہ کل پڑتا ہے

 

تابِ یک لحظہ کہاں حسنِ جنوں خیز کے پیش

سانس لینے سے توجّہ میں خلل پڑتا ہے

 

مجھ میں پھیلی ہوئی تاریکی سے گھبرا کے کوئی

روشنی دیکھ کے مجھ میں سے نکل پڑتا ہے

 

جب بھی لگتا ہے سخن کی نہ کوئی لوَ ہے نہ رَو

دفعتاً حرف کوئی خوں میں مچل پڑتا ہے

 

غم چھپائے نہیں چھپتا ہے کروں کیا عرفان

نام لوں اُس کا تو آواز میں بل پڑتا ہے

٭٭٭

 

 

 

-23-

کوئی ملا، تو کسی اور کی کمی ہوئی ہے

سو دل نے بے طلبی اختیار کی ہوئی ہے

 

جہاں سے دل کی طرف زندگی اُترتی تھی

نگاہ اب بھی اُسی بام پر جمی ہوئی ہے

 

ہے انتظار اِسے بھی تمہاری خوشبو کا؟

ہوا گلی میں بہت دیر سے رُکی ہوئی ہے

 

تم آ گئے ہو، تو اب آئینہ بھی دیکھیں گے

ابھی ابھی تو نگاہوں میں روشنی ہوئی ہے

 

ہمارا علم تو مرہُون لوح دل ہے میاں

کتاب عقل تو بس طاق پر دھری ہوئی ہے

 

بناؤ سائے، حرارت بدن میں جذب کرو

کہ دھوپ صحن میں کب سے یونہی پڑی ہوئی ہے

 

نہیں نہیں، میں بہت خوش رہا ہوں تیرے بغیر

یقین کر کہ یہ حالت ابھی ابھی ہوئی ہے

 

وہ گفتگو جو مری صرف اپنے آپ سے تھی

تری نگاہ کو پہنچی، تو شاعری ہوئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

-24-

 

 

غموں میں کچھ کمی یا کچھ اضافہ کر رہے ہیں

سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ہم کیا کر رہے ہیں

 

جو آتا ہے نظر میں اُس کو لے آتے ہیں دل میں

نئی ترکیب سے ہم خود کو تنہا کر رہے ہیں

 

نظر کرتے ہیں یوں جیسے بچھڑنے کی گھڑی ہو

سخن کرتے ہیں ایسے جیسے گریہ کر رہے ہیں

تمہارے ہی تعلق سے تو ہم ہیں اس بدن میں

تمہارے ہی لیے تو یہ تماشا کر رہے ہیں

زوال آمادگی اب گونجتی ہے دھڑکنوں میں

سو دل سے خواہشوں کا بوجھ ہلکا کر رہے ہیں

سخن تم سے ہو یا احباب سے یا اپنے دل سے

یہی لگتا ہے ہم ہر بات بے جا کر رہے ہیں

تمہاری آرزو ہونے سے پہلے بھی تو ہم تھے

سو جیسے بن پڑے اب بھی گزارا کر رہے ہیں

ذرا پوچھے کوئی معدوم ہوتے ان دکھوں سے

ہمیں کس کے بھروسے پر اکیلا کر رہے ہیں

ہمیں روکے ہوئے ہے پاسِ ناموسِ محبت

یہ مت سمجھو کہ ہم دنیا کی پروا کر رہے ہیں

بجز سینہ خراشی کچھ نہیں آتا ہے لیکن

ذرا دیکھو تو ہم یہ کام کیسا کر رہے ہیں

ہمیں اس کام کی مشکل کا اندازہ ہے صاحب

بڑے عرصے سے ہم بھی ترکِ دنیا کر رہے ہیں

جو ہو گی صبح تو تقسیم ہو جائیں گے پھر ہم

ڈھلی ہے شام تو خود کو اکھٹا کر رہے ہیں

جنوں سے اتنا دیرینہ تعلق توڑ دیں گے؟

ارے توبہ کریں عرفان، یہ کیا کر رہے ہیں؟

٭٭٭

 

 

 

-25-

 

 

امکان دیکھنے کو رکا تھا میں جست کا

اعلان کر دیا گیا میری شکست کا

 

سائے سے اپنے قد کا لگاتا ہے تُو حساب

اندازہ ہو گیا ہے ترے ذہنِ پست کا

 

تجھ کو بدن کی حد سے نکلنا کہاں نصیب

سمجھے گا کیسے روح کو آلودہ ہست کا

 

تُو ہے کہ کل کی بات کا رکھتا نہیں ہے پاس

میں ہوں کہ پاسدار ہوں عہدِ الست کا

 

جس سے گروہِ بادہ فروشاں حسد کرے

طاری ہے مجھ پہ نشّہ اُسی چشمِ مست کا

 

جا شہرِ کم نگاہ میں شہرت سمیٹ لے

یہ کام ہے بھی تجھ سے ہی موقع پرست کا

 

شاہِ جنوں کا تخت بچھا ہے بہ اہتمام

پہلو میں انتظام ہے میری نشست کا

 

وسعت ملی ہے ضبط کو میرے بقدرِ درد

بولو کوئی جواب ہے اس بندوبست کا؟
عرفان تیری لاج بھی اللہ کے سپرد

ستّار ہے وہی تو ہر اک تنگ دست کا

٭٭٭

 

 

 

-26-

 

 

تیرے لہجے میں ترا جہلِ دروں بولتا ہے

بات کرنا نہیں آتی ہے تو کیوں بولتا ہے؟

 

پھونک دی جاتی ہے اس طرح مرے شعر میں روح

جیسے سانسوں میں کوئی کن فیکوں بولتا ہے

سننے والوں پہ مرا حال عیاں ہو کیسے

عشق ہوتا ہے تو وحشت میں سکوں بولتا ہے

تیرا اندازِ تخاطب، ترا لہجہ، ترے لفظ

وہ جسے خوفِ خدا ہوتا ہے، یوں بولتا ہے؟

عقل اس باب میں خاموش ہی رہتی ہے جناب

جب ہو موضوع حقیقت تو جنوں بولتا ہے

گفتگو کیا ہو کہ جب گویا ہوں آنکھیں تیری

چپ سی لگ جاتی ہے جب ان کا فسوں بولتا ہے

کوئی عرفان کو سمجھائے، یہ آشفتہ مزاج

جاں کا خطرہ ہو تو پہلے سے فزوں بولتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

-27-

 

اُداس بس عادتاً ہوں، کچھ بھی ہُوا نہیں ہے

یقین مانو، کسی سے کوئی گلہ نہیں ہے

 

ادھیڑ کر سی رہا ہوں برسوں سے اپنی پرتیں

نتیجتاً ڈھونڈنے کو اب کچھ بچا نہیں ہے

ذرا یہ دل کی امید دیکھو، یقین دیکھو

میں ایسے معصوم سے یہ کہہ دوں خدا نہیں ہے؟

میں اپنی مٹی سے اپنے لوگوں سے کٹ گیا ہوں

یقیناً اس سے بڑا کوئی سانحہ نہیں ہے

تو کیا کبھی مل سکیں گے یا بات ہو سکے گی؟

نہیں نہیں جاؤ تم کوئی مسئلہ نہیں ہے

وہ راز سینے میں رکھ کے بھیجا گیا تھا مجھ کو

وہی جو اک راز مجھ پہ اب تک کھُلا نہیں ہے

میں بغض، نفرت، حسد، محبت کے ساتھ رکھوں؟

نہیں میاں میرے دل میں اتنی جگہ نہیں ہے

چہار جانب یہ بے یقینی کا گھپ اندھیرا

یہ میری وحشت کا انخلا ہے، خلا نہیں ہے

اسی کی خوشبو سے آج تک میں مہک رہا ہوں

وہ مجھ سے بچھڑا ہُوا ہے لیکن جدا نہیں ہے

لکھا ہوا ہے تمہارے چہرہ پہ غم تمہارا

ہماری حالت بھی ایسی بے ماجرا نہیں ہے

 

یہ تازہ کاری ہے طرز ِ احساس کا کرشمہ

مرے لغت میں تو لفظ کوئی نیا نہیں ہے

نیا ہنر سیکھ، فی زمانہ ہو جس کی وقعت

سخن کی نسبت سے اب کوئی پوچھتا نہیں ہے

جسے ہو عرفانِ ذات وہ کیا تری سنے گا؟

او ناصحا، چھوڑ دے، کوئی فائدہ نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

-28-

 

 

تمہارا نام سرِ لوحِ جاں لکھا ہُوا ہے

لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے

 

لہو سے تر ہے ورق در ورق بیاضِ سخن

حسابِ دل زدگاں سب یہاں لکھا ہوا ہے

نشاں بتائیں تمہیں قاتلوں کے شہر کا ہم؟

فصیلِ شہر پہ شہرِ اماں لکھا ہُوا ہے

ملی ہے اہلِ جنوں کو جہاں بشارتِ اجر

وہیں تو اہلِ خرد کا زیاں لکھا ہوا ہے

زمیں بھی تنگ ہوئی، رزق بھی، طبیعت بھی

مرے نصیب میں کیا آسماں لکھا ہوا ہے؟

 

یہ کیسی خام امیدوں پہ جی رہے ہو میاں؟

پڑھو تو، لوحِ یقیں پر گماں لکھا ہوا ہے

 

تو کیا یہ ساری تباہی خدا کے حکم سے ہے؟

ذرا ہمیں بھی دکھاؤ، کہاں لکھا ہوا ہے؟

 

یہ کائنات سراسر ہے شرحِ رازِ ازل

کلامِ حق تو سرِ کہکشاں لکھا ہوا ہے

 

میں سوچتا ہوں تو کیا کچھ نہیں عطائے وجود

میں دیکھتا ہوں تو بس رائگاں لکھا ہوا ہے

 

جو چاہتا تھا میں جس وقت، وہ کبھی نہ ہُوا

کتابِ عمر میں سب ناگہاں لکھا ہُوا ہے

لکھا ہوا نہیں کچھ بھی بنامِ خوابِ وجود

نبود و بود کے سب درمیاں لکھا ہوا ہے

 

عدو سے کوئی شکایت نہیں ہمیں عرفان

حسابِ رنج پئے دوستاں لکھا ہوا ہے

٭٭٭

 

 

 

-29-

 

کبھی کسی سے نہ ہم نے کوئی گلہ رکھا

ہزار زخم سہے، اور دل بڑا رکھا

 

چراغ یوں تو سر ِ طاقِ دل کئی تھے مگر

تمہاری لَو کو ہمیشہ ذرا جدا رکھا

خرد سے پوچھا، جنوں کا معاملہ کیا ہے؟

جنوں کے آگے خرد کا معاملہ رکھا

ہزار شکر ترا، اے مرے خدائے جنوں

کہ مجھ کو راہِ خرد سے گریز پا رکھا

خیال روح کے آرام سے ہٹایا نہیں

جو خاک تھا سو اُسے خاک میں ملا رکھا

 

چھپا ہُوا نہیں تجھ سے دلِ تباہ کا حال

یہ کم نہیں کہ ترے رنج کو بچا رکھا

وہ ایک زلف کہ لپٹی رہی رگِ جاں سے

وہ اک نظر کہ ہمیں جس نے مبتلا رکھا

بس ایک آن میں گزرا میں کس تغیّر سے

کسی نے سر پہ توجّہ سے ہاتھ کیا رکھا

سنائی اپنی کہانی بڑے قرینے سے

کہیں کہیں پہ فسانے میں واقعہ رکھا

سنا جو شور کہ وہ شیشہ گر کمال کا ہے

تو ہم لپک کے گئے اور قلب جا رکھا

میں جانتا تھا کہ دنیا جو ہے، وہ ہے ہی نہیں

سو خود کو خواہشِ دنیا سے ماورا رکھا

مرے جنوں نے کیے رد وجود اور عدم

الگ ہی طرح سے ہونے کا سلسلہ رکھا

خوشی سی کس نے ہمیشہ ملال میں رکھی؟

خوشی میں کس نے ہمیشہ ملال سا رکھا؟

 

یہ ٹھیک ہے کہ جو مجھ پاس تھا، وہ نذر کیا

مگر یہ دل کہ جو سینے میں رہ گیا رکھا؟

کبھی نہ ہونے دیا طاقِ غم کو بے رونق

چراغ ایک بجھا، اور دوسرا رکھا

نگاہ دار مرا تھا مرے سِوا نہ کوئی

سو اپنی ذات پہ پہرا بہت کڑا رکھا

تُو پاس تھا، تو رہے محو دیکھنے میں تجھے

وصال کو بھی ترے ہجر پر اٹھا رکھا

ترا جمال تو تجھ پر کبھی کھلے گا نہیں

ہمارے بعد بتا آئنے میں کیا رکھا؟

ہر ایک شب تھا یہی تیرے خوش گمان کا حال

دیا بجھایا نہیں اور در کھلا رکھا

 

ہمی پہ فاش کیے راز ہائے حرف و سخن

تو پھر ہمیں ہی تماشا سا کیوں بنا رکھا؟

 

ملا تھا ایک یہی دل ہمیں بھی آپ کو بھی

سو ہم نے عشق رکھا، آپ نے خدا رکھا

 

خزاں تھی، اور خزاں سی خزاں، خدا کی پناہ

ترا خیال تھا جس نے ہرا بھرا رکھا

 

جو ناگہاں کبھی اذنِ سفر ملا عرفان

تو فکر کیسی کہ سامان ہے بندھا رکھا

٭٭٭

 

 

 

 

-30-

 

 

پوچھتے کیا ہو دل کی حالت کا؟

درد ہے، درد بھی قیامت کا

 

یار، نشتر تو سب کے ہاتھ میں ہے

کوئی ماہر بھی ہے جراحت کا؟

اک نظر کیا اٹھی، کہ اس دل پر

آج تک بوجھ ہے مروّت کا

 

دل نے کیا سوچ کر کیا آخر

فیصلہ عقل کی حمایت کا

کوئی مجھ سے مکالمہ بھی کرے

میں بھی کردار ہوں حکایت کا

آپ سے نبھ نہیں رہی اِس کی؟

قتل کر دیجیئے روایت کا

نہیں کُھلتا یہ رشتۂ باہم

گفتگو کا ہے یا وضاحت کا؟

تیری ہر بات مان لیتا ہوں

یہ بھی انداز ہے شکایت کا

 

دیر مت کیجیئے جناب، کہ وقت

اب زیادہ نہیں عیادت کا

بے سخن ساتھ کیا نباہتے ہم؟

شکریہ ہجر کی سہولت کا

کسر ِ نفسی سے کام مت لیجے

بھائی یہ دور ہے رعونت کا

مسئلہ میری زندگی کا نہیں

مسئلہ ہے مری طبیعت کا

درد اشعار میں ڈھلا ہی نہیں

فائدہ کیا ہوا ریاضت کا؟

آپ مجھ کو معاف ہی رکھیئے

میں کھلاڑی نہیں سیاست کا

رات بھی دن کو سوچتے گزری

کیا بنا خواب کی رعایت کا؟

رشک جس پر سلیقہ مند کریں

دیکھ احوال میری وحشت کا

صبح سے شام تک دراز ہے اب

سلسلہ رنجِ بے نہایت کا

وہ نہیں قابلِ معافی، مگر

کیا کروں میں بھی اپنی عادت کا

اہلِ آسودگی کہاں جانیں

مرتبہ درد کی فضیلت کا

اُس کا دامن کہیں سے ہاتھ آئے

آنکھ پر بار ہے امانت کا

اک تماشا ہے دیکھنے والا

آئینے سے مری رقابت کا

دل میں ہر درد کی ہے گنجائش

میں بھی مالک ہوں کیسی دولت کا

ایک تو جبر اختیار کا ہے

اور اک جبر ہے مشیّت کا

پھیلتا جا رہا ہے ابر ِ سیاہ

خود نمائی کی اِس نحوست کا

جز تری یاد کوئی کام نہیں

کام ویسے بھی تھا یہ فرصت کا

سانحہ زندگی کا سب سے شدید

واقعہ تھا بس ایک ساعت کا

ایک دھوکہ ہے زندگی عرفان

مت گماں اِس پہ کر حقیقت کا

٭٭٭

 

 

 

-31-

 

 

تیری نسبت سے زمانے پہ عیاں تھے ہم بھی

تُو جو موجود نہ ہوتا، تو کہاں تھے ہم بھی

 

حرمتِ حرف نہیں ہے سو یہ ارزانی ہے

ورنہ وہ دن بھی تھے جب خوابِ گراں تھے ہم بھی

 

ہم بھی حیراں ہیں بہت خود سے بچھڑ جانے پر

مستقل اپنی ہی جانب نگراں تھے ہم بھی

 

اب کہیں کیا، کہ وہ سب قصۂ پارینہ ہُوا

رونقِ محفلِ شیریں سخناں تھے ہم بھی

 

وقت کا جبر ہی ایسا ہے کہ خاموش ہیں اب

ورنہ تردیدِ صفِ کج کلہاں تھے ہم بھی

 

رنج مت کر، کہ تجھے ضبط کا یارا نہ رہا

کس قدر واقفِ آدابِ فغاں تھے ہم بھی

 

تُو بھی کردار کہانی سے الگ تھا کوئی

اپنے قصے میں حدیثِ دگراں تھے ہم بھی

 

کیسی حیرت، جو کہیں ذکر بھی باقی نہ رہا

تُو بھی تحریر نہ تھا، حرفِ بیاں تھے ہم بھی

 

ہم کہ رکھتے تھے یقیں اپنی حقیقت سے سِوا

اب گماں کرنے لگے ہیں کہ گماں تھے ہم بھی

 

رائگاں ہوتا رہا تُو بھی پئے کم نظراں

ناشناسوں کے سبب اپنا زیاں تھے ہم بھی

 

تُو بھی کس کس کے لیے گوش بر آواز رہا

ہم کو سنتا تو سہی، نغمۂ جاں تھے ہم بھی

 

ہم نہیں ہیں، تو یہاں کس نے یہ محسوس کیا؟

ہم یہاں تھے بھی تو ایسے، کہ یہاں تھے ہم بھی

٭٭٭

 

 

 

 

-32-

 

 

رفیع رضا کی نذر ایک غزل

 

ترے جمال سے ہم رُو نما نہیں ہوئے ہیں

چمک رہے ہیں، مگر آئینہ نہیں ہوئے ہیں

 

دھڑک رہا ہے تو اک اِسم کی ہے یہ برَ کت

وگرنہ واقعے اِس دل میں کیا نہیں ہوئے ہیں

 

بتا نہ پائیں، تو خود تم سمجھ ہی جاؤ کہ ہم

بلا جواز تو بے ماجرا نہیں ہوئے ہیں

 

ترا کمال، کہ آنکھوں میں کچھ، زبان پہ کچھ

ہمیں تو معجزے ایسے عطا نہیں ہوئے ہیں

 

یہ مت سمجھ، کہ کوئی تجھ سے منحرف ہی نہیں

ابھی ہم اہل جُنوں لب کُشا نہیں ہوئے ہیں

 

بنام ذوق سخن خود نمائی آپ کریں

ہم اِس مرض میں ابھی مبتلا نہیں ہوئے ہیں

 

ہمی وہ، جن کا سفر ماورائے وقتو وجود

ہمی وہ، خود سے کبھی جو رہا نہیں ہوئے ہیں

 

خود آگہی بھی کھڑی مانگتی ہے اپنا حساب

جُنوں کے قرض بھی اب تک ادا نہیں ہوئے ہیں

 

کسی نے دل جو دکھایا کبھی، تو ہم عرفان

اُداس ہو گئے، لیکن خفا نہیں ہوئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

-33-

 

ہر ایک شکل میں صورت نئی ملال کی ہے

ہمارے چاروں طرف روشنی ملال کی ہے

 

ہم اپنے ہجر میں تیرا وصال دیکھتے ہیں

یہی خوشی کی ہے ساعت، یہی ملال کی ہے

 

ہمارے خانۂ دل میں نہیں ہے کیا کیا کچھ

یہ اور بات کہ ہر شے اُسی ملال کی ہے

 

ابھی سے شوق کی آزردگی کا رنج نہ کر

کہ دل کو تاب خوشی کی نہ تھی، ملال کی ہے

 

کسی کا رنج ہو، اپنا سمجھنے لگتے ہیں

وبال جاں یہ کشادہ دلی ملال کی ہے

 

نہیں ہے خواہش آسودگیِ وصل ہمیں

جواز عشق تو بس تشنگی ملال کی ہے

 

گزشتہ رات کئی بار دل نے ہم سے کہا

کہ ہو نہ ہو یہ گھٹن آخری ملال کی ہے

 

رگوں میں چیختا پھرتا ہے ایک سیل جنوں

اگرچہ لہجے میں شائستگی ملال کی ہے

 

عجیب ہوتا ہے احساس کا تلون بھی

ابھی خوشی کی خوشی تھی، ابھی ملال کی ہے

 

یہ کس امید پہ چلنے لگی ہے باد مُراد؟

خبر نہیں ہے اِسے، یہ گھڑی ملال کی ہے

 

دعا کرو کہ رہے درمیاں یہ بے سخنی

کہ گفتگو میں تو بے پردگی ملال کی ہے

 

تری غزل میں عجب کیف ہے مگر عرفان

درُون رمزو کنایہ کمی ملال کی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

-34-

 

بزعم عقل یہ کیسا گناہ میں نے کیا

اک آئینہ تھا، اُسی کو سیاہ میں نے کیا

 

یہ شہر کم نظراں، یہ دیار بے ہنراں

کسے یہ اپنے ہنر کا گواہ میں نے کیا

 

حریم دل کو جلانے لگا تھا ایک خیال

سو گُل اُسے بھی بیک سرد آہ میں نے کیا

 

وہی یقین رہا ہے جواز ہم سفری

جو گاہ اُس نے کیا اور گاہ میں نے کیا

 

بس ایک دل ہی تو ہے واقف رموز حیات

سو شہر جاں کا اِسے سربراہ میں نے کیا

 

ہر ایک رنج اُسی باب میں کیا ہے رقم

ذرا سا غم تھا جسے بے پناہ میں نے کیا

 

یہ راہ عشق بہت سہل ہو گئ جب سے

حصار ذات کو پیوند راہ میں نے کیا

 

یہ عمر کی ہے بسر کچھ عجب توازن سے

ترا ہُوا، نہ ہی خود سے نباہ میں نے کیا

 

خرد نے دل سے کہا، تُو جنوں صفت ہی سہی

نہ پوچھ اُس کی کہ جس کو تباہ میں نے کیا

٭٭٭

 

 

 

-35-

 

 

زندگی کا سفر ایک دن، وقت کے شور سے، ایک پُر خواب ساعت کے بیدار ہوتے ہی بس یک بیک ناگہاں ختم ہو جائے گا

تم کہانی کے کس باب پر، اُس کے انجام سے کتنی دُوری پہ ہو اِس سے قطعِ نظر، دفعتاً یہ تمہارا بیاں ختم ہو جائے گا

 

بند ہوتے ہی آنکھوں کے سب، واہموں وسوسوں کے وجود و عدم کے کٹھن مسئلے، ہاتھ باندھے ہوئے، صف بہ صف روبرو آئیں گے

سارے پوشیدہ اسرار ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے، سب وہم مر جائیں گے، بد گماں بے یقینی کا سارا دھواں ختم ہو جائے گا

 

بے دماغوں کے اِس اہلِ کذب و ریا سے بھرے شہر میں، ہم سوالوں سے پُر، اور جوابوں سے خالی کٹورا لیے بے طلب ہو گئے

چند ہی روز باقی ہیں بس، جمع و تفریق کے اِن اصولوں کے تبدیل ہوتے ہی جب، یہ ہمارا مسلسل زیاں ختم ہو جائے گا

 

بادشاہوں کے قصوں میں یا راہبوں کے فقیروں کے احوال میں دیکھ لو، وقت سا بے غرض کوئی تھا، اور نہ ہے، اور نہ ہو گا کبھی

تم کہاں کس تگ و دو میں ہو وقت کو اِس سے کیا، یہ تو وہ ہے جہاں حکم آیا کہ اب ختم ہونا ہے، یہ بس وہاں ختم ہو جائے گا

 

کوئی حد بھی تو ہو ظلم کی، تم سمجھتے ہو شاید تمہیں زندگی یہ زمیں اِس لیے دی گئی ہے، کہ تم جیسے چاہو برت لو اِسے

تم یہ شاید نہیں جانتے، اِس زمیں کو تو عادت ہے دکھ جھیلنے کی مگر جلد ہی، یہ زمیں ہو نہ ہو، آسماں ختم ہو جائے گا

٭٭٭

 

 

 

 

-36-

 

 

ترے جمال سے ہم رُو نما نہیں ہوئے ہیں

چمک رہے ہیں، مگر آئنہ نہیں ہوئے ہیں

 

دھڑک رہا ہے تو اک اِسم کی ہے یہ برَ کت

وگرنہ واقعے اِس دل میں کیا نہیں ہوئے ہیں

بتا نہ پائیں، تو خود تم سمجھ ہی جاؤ کہ ہم

بلا جواز تو بے ماجرا نہیں ہوئے ہیں

ترا کمال، کہ آنکھوں میں کچھ، زبان پہ کچھ

ہمیں تو معجزے ایسے عطا نہیں ہوئے ہیں

 

یہ مت سمجھ، کہ کوئی تجھ سے منحرف ہی نہیں

ابھی ہم اہلِ جُنوں لب کُشا نہیں ہوئے ہیں

بنامِ ذوقِ سخن خود نمائی آپ کریں

ہم اِس مرض میں ابھی مبتلا نہیں ہوئے ہیں

 

ہمی وہ، جن کا سفر ماورائے وقت و وجود

ہمی وہ، خود سے کبھی جو رہا نہیں ہوئے ہیں

خود آگہی بھی کھڑی مانگتی ہے اپنا حساب

جُنوں کے قرض بھی اب تک ادا نہیں ہوئے ہیں

کسی نے دل جو دکھایا کبھی، تو ہم عرفان

اُداس ہو گئے، لیکن خفا نہیں ہوئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

-37-

 

سبھی یہ پوچھتے رہتے ہیں کیا گُم ہو گیا ہے

بتا دوں؟ مجھ سے خود اپنا پتہ گُم ہو گیا ہے

 

تمہارے دن میں اک رُوداد تھی جو کھو گئی ہے

ہماری رات میں اک خواب تھا، گُم ہو گیا ہے

 

وہ جس کے پیچ و خم میں داستاں لپٹی ہوئی تھی

کہانی میں کہیں وہ ماجرا گُم ہو گیا ہے

 

ذرا اہل جُنوں آؤ، ہمیں رستہ سُجھاؤ

یہاں ہم عقل والوں کا خدا گُم ہو گیا ہے

 

نظر باقی ہے لیکن تاب نظّارا نہیں اب

سخن باقی ہے لیکن مدّعا گُم ہو گیا ہے

 

مجھے دکھ ہے، کہ زخمو رنج کے اِس جمگھٹے میں

تمہارا اور میرا واقعہ گُم ہو گیا ہے

 

یہ شدّت درد کی اُس کے نہ ہونے سے نہ ہوتی

یقیناً اور کچھ اُس کے سِوا گُم ہو گیا ہے

 

وہ جس کو کھینچنے سے ذات کی پرتیں کھُلیں گی

ہماری زندگی کا وہ سِرا گُم ہو گیا ہے

 

وہ در وا ہو نہ ہو، آزادو خود بیں ہم کہاں کے

پلٹ آئیں تو سمجھو راستہ گُم ہو گیا ہے

٭٭٭

 

 

 

-38-

 

 

 

نہیں ہے جو، وہی موجود و بے کراں ہے یہاں

عجب یقین پسِ پردہ ءِ گماں ہے یہاں

 

نہ ہو اداس، زمیں شق نہیں ہوئی ہے ابھی

خوشی سے جھوم، ابھی سر پہ آسماں ہے یہاں

 

یہاں سخن جو فسانہ طراز ہو، وہ کرے

جو بات سچ ہے وہ ناقابلِ بیاں ہے یہاں

نہ رنج کر، کہ یہاں رفتنی ہیں سارے ملال

نہ کر ملال، کہ ہر رنج رائیگاں ہے یہاں

 

زمیں پلٹ تو نہیں دی گئی ہے محور پر؟

نمو پذیر فقط عہدِ رفتگاں ہے یہاں

 

یہ کارزارِ نفس ہے، یہاں دوام کسے

یہ زندگی ہے مری جاں، کسے اماں ہے یہاں

ہم اور وصل کی ساعت کا انتظار کریں؟

مگر وجود کی دیوار درمیاں ہے یہاں

 

چلے جو یوں ہی ابد تک، تو اِس میں حیرت کیا؟

ازل سے جب یہی بے ربط داستاں ہے یہاں

 

جو ہے وجود میں، اُس کو گماں کی نذر نہ کر

یہ مان لے کہ حقیقت ہی جسم و جاں ہے یہاں

 

کہا گیا ہے جو وہ مان لو، بلا تحقیق

کہ اشتباہ کی قیمت تو نقدِ جاں ہے یہاں

٭٭٭

 

 

 

-39-

 

 

شگفتگی سے گئے، دل گرفتگی سے گئے

ہم آج خلوتِ جاں میں بھی بے دلی سے گئے

 

گلہ کریں بھی تو کس سے وہ نامرادِ جنوں

جو خود زوال کی جانب بڑی خوشی سے گئے

سنا ہے اہلِ خرد کا ہے دور ِ آئندہ

یہ بات ہے تو سمجھ لو کہ ہم ابھی سے گئے

خدا کرے نہ کبھی مل سکے دوام ِ وصال

جئیں گے خاک اگر تیرے خواب ہی سے گئے

ہے یہ بھی خوف ہمیں بے توجہی سے سِوا

کہ جس نظر سے توقع ہے گر اُسی سے گئے؟

 

مقام کس کا کہاں ہے، بلند کس سے ہے کون؟

میاں یہ فکر کرو گے تو شاعری سے گئے

ہر ایک در پہ جبیں ٹیکتے یہ سجدہ گزار

خدا کی کھوج میں نکلے تھے اور خودی سے گئے

 

سمجھتے کیوں نہیں یہ شاعر ِ کرخت نوا

سخن کہاں کا جو لہجے کی دلکشی سے گئے؟

گلی تھی صحن کا حصہ ہمارے بچپن میں

مکاں بڑے ہوئے لیکن کشادگی سے گئے

برائے اہل ِ جہاں لاکھ کجکلاہ تھے ہم

گئے حریم ِ سخن میں تو عاجزی سے گئے

 

یہ تیز روشنی راتوں کا حسن کھا گئی ہے

تمہارے شہر میں ہم اپنی چاندنی سے گئے

 

فقیہِ شہر کی ہر بات مان لو چپ چاپ

اگر سوال اٹھایا، تو زندگی سے گئے

 

نہ پوچھیئے کہ وہ کس کرب سے گزرتے ہیں

جو آگہی کے سبب عیشِ بندگی سے گئے

 

اٹھاؤ رختِ سفر، آؤ اب چلو عرفان

حسیں یہاں کے تو سب خوئے دلبری سے گئے

٭٭٭

 

 

 

-40-

 

 

کیا بتاؤں کہ جو ہنگامہ بپا ہے مجھ میں

ان دنوں کوئی بہت سخت خفا ہے مجھ میں

 

اُس کی خوشبو کہیں اطراف میں پھیلی ہوئی ہے

صبح سے رقص کناں بادِ صبا ہے مجھ میں

تیری صورت میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں میں بھی

غالباً تُو بھی مجھے ڈھونڈ رہا ہے مجھ میں

ایک ہی سمت ہر اک خواب چلا جاتا ہے

یاد ہے، یا کوئی نقشِ کفِ پا ہے مجھ میں؟

میری بے راہ روی اس لیے سرشار سی ہے

میرے حق میں کوئی مصروفِ دعا ہے مجھ میں

اپنی سانسوں کی کثافت سے گماں ہوتا ہے

کوئی امکان ابھی خاک ہُوا ہے مجھ میں

اک چبھن ہے کہ جو بے چین کیے رہتی ہے

ایسا لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں

 

یا تو میں خود ہی رہائی کے لیے ہوں بے تاب

یا گرفتار کوئی میرے سِوا ہے مجھ میں

آئنہ اِس کی گواہی نہیں دیتا، تو نہ دے

وہ یہ کہتا ہے کوئی خاص ادا ہے مجھ میں

 

ہو گئی دل سے تری یاد بھی رخصت شاید

آہ و زاری کا ابھی شور اٹھا ہے مجھ میں

 

مجھ میں آباد ہیں اک ساتھ عدم اور وجود

ہست سے برسر ِ پیکار فنا ہے مجھ میں

 

مجلسِ شامِ غریباں ہے بپا چار پہر

مستقل بس یہی ماحولِ عزا ہے مجھ میں

 

ہو گئی شق تو بالآخر یہ انا کی دیوار

اپنی جانب کوئی دروازہ کھلا ہے مجھ میں

خوں بہاتا ہُوا، زنجیر زنی کرتا ہُوا

کوئی پاگل ہے جو بے حال ہُوا ہے مجھ میں

 

اُس کی خوشبو سے معطر ہے مرا سارا وجود

تیرے چھونے سے جو اک پھول کِھلا ہے مجھ میں

 

تیرے جانے سے یہاں کچھ نہیں بدلا، مثلاً

تیرا بخشا ہوا ہر زخم ہرا ہے مجھ میں

کیسے مل جاتی ہے آواز ِ اذاں سے ہر صبح

رات بھر گونجنے والی جو صدا ہے مجھ میں

 

کتنی صدیوں سے اُسے ڈھونڈ رہے ہو بے سُود

آؤ اب میری طرف آؤ، خدا ہے مجھ میں

 

مجھ میں جنّت بھی مِری، اور جہنّم بھی مِرا

جاری و ساری جزا اور سزا ہے مجھ میں

 

روشنی ایسے دھڑکتے تو نہ دیکھی تھی کبھی

یہ جو رہ رہ کے چمکتا ہے، یہ کیا ہے مجھ میں؟

٭٭٭

 

 

 

-41-

 

 

اک خواب نیند کا تھا سبب، جو نہیں رہا

اُس کا قلق ہے ایسا کہ میں سو نہیں رہا

 

وہ ہو رہا ہے جو میں نہیں چاہتا کہ ہو

اور جو میں چاہتا ہوں وہی ہو نہیں رہا

 

نم دیدہ ہوں، کہ تیری خوشی پر ہوں خوش بہت

چل چھوڑ، تجھ سے کہہ جو دیا، رو نہیں رہا

 

یہ زخم جس کو وقت کا مرہم بھی کچھ نہیں

یہ داغ، سیلِ گریہ جسے دھو نہیں رہا

 

اب بھی ہے رنج، رنج بھی خاصا شدید ہے

وہ دل کو چیرتا ہوا غم گو نہیں رہا

 

آباد مجھ میں تیرے سِوا اور کون ہے؟

تجھ سے بچھڑ رہا ہوں تجھے کھو نہیں رہا

 

کیا بے حسی کا دور ہے لوگو کہ اب خیال

اپنے سِوا کسی کا کسی کو نہیں رہا

٭٭٭

 

 

 

 

-42-

 

 

رگوں میں رقص کناں موجۂ طرب کیا ہے؟

اگر خوشی ہے تو کس بات کی، سبب کیا ہے؟

 

ہے میری اصل اگر ماورائے وقت تو پھر

مرے لیے یہ تماشائے روز و شب کیا ہے؟

 

مرے کہے سے مرے گرد و پیش کچھ بھی نہیں

میں صرف دیکھنے بیٹھا ہُوا ہوں، کب کیا ہے؟

 

نجانے کیا ہے نظر کی تلاشِ لا موجود

نجانے دل کی تمنّائے بے طلب کیا ہے؟

 

یہ جستجو، یہ طلب، یہ جنون و دربدری

مآلِ عمر عدم ہے تو پھر یہ سب کیا ہے؟

 

ہے گفتگو میں وہ پیچیدگی کہ سوچتا ہوں

خیال کیا تھا، کہا کیا ہے، زیرِ لب کیا ہے

 

میں جانتا ہوں جو منظر گنوائے بیٹھا ہوں

تجھے کہاں یہ خبر تیری تاب و تب کیا ہے

 

پسِ زیاں جو درِ دل پہ میں نے دستک دی

‘‘کسی نے چیخ کے مجھ سے کہا، کہ ’’اب کیا ہے؟

٭٭٭

 

 

 

-43-

اب آ بھی جاؤ، بہت دن ہوئے مِلے ہوئے بھی

بھُلا ہی دیں گے اگر دل میں کچھ گِلے ہوئے بھی

 

ہماری راہ الگ ہے، ہمارے خواب جُدا

ہم اُن کے ساتھ نہ ہوں گے، جو قافلے ہوئے بھی

 

ہجومِ شہرِ خرد میں بھی ہم سے اہلِ جنوں

الگ دِکھیں گے، گریباں جو ہوں سِلے ہوئے بھی

 

ہمیں نہ یاد دلاؤ ہمارے خوابِ سخن

کہ ایک عُمر ہوئے ہونٹ تک ہِلے ہوئے بھی

 

نظر کی، اور مناظر کی بات اپنی جگہ

ہمارے دل کے کہاں اب، جو سلسلے ہوئے بھی

 

یہاں ہے چاکِ قفس سے اُدھر اک اور قفس

سو ہم کو کیا، جو چمن میں ہوں گُل کھِلے ہوئے بھی

 

ہمیں تو اپنے اُصولوں کی جنگ جیتنی ہے

کسے غرض، جو کوئی فتح کے صِلے ہوئے بھی

٭٭٭

 

 

 

-44-

 

جو بے رخی کا رنگ بہُت تیز مجھ میں ہے

یہ یادگارِ یارِ کم آمیز مجھ میں ہے

 

سیراب، کُنجِ ذات کو رکھتی ہے مستقِل

بہتی ہوئی جو رنج کی کاریز مجھ میں ہے

 

کاسہ ہے ایک فکر سے مجھ میں بھرا ہُوا

اور اک پیالہ درد سے لب ریز مجھ میں ہے

 

یہ کربِ رائگانیِ اِمکاں بھی ہے، مگر

تیرا بھی اک خیالِ دل آویز مجھ میں ہے

تازہ کِھلے ہوئے ہیں یہ گل ہائے زخم رنگ

ہر آن ایک موسِمِ خوں ریز مجھ میں ہے

 

رکھتی ہے میری طبع رَواں، بابِ حرف میں

یہ مستقِل جو درد کی مہمیز مجھ میں ہے

 

اب تک ہرا بھرا ہے کسی یاد کا شجر

عرفان ! ایک خطّۂ زرخیز مجھ میں ہے

٭٭٭

ماخذ:

http://adbiiduniya.blogspot.in/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید