FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

ستیہ جیت رے کی کہانیاں

 

 

انتخاب و ترجمہ: خالد جاوید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

 

 

 

تعارف

 

ستیہ جیت رے 2مئی 1921کو کلکتہ میں پیدا ہوئے تھے۔ عام طور سے انھیں ہندوستان کا سب سے بڑا فلم ساز تسلیم کیا جاتا ہے۔ ستیہ جیت رے نے اپنا سفر بطور ایک مصور (Illustrator) شروع کیا تھا۔ وہ ایک اشتہاری کمپنی کے ایڈوائزر بھی رہے۔ 1947میں انھوں نے کلکتہ فلم سوسائٹی کو قائم کرنے میں اپنا تعاون دیا۔ پاتھری پنچالی (1955)، اپرا جیتو (1956)، پارس پتھر (1958)، جلسہ گھر (1958)، اَپُر سنسار (1959)، دیوی (1960)، چارولتا(1964)، شطرنج کے کھلاڑی (1977)، سدگتی(1981) اور گھرے با ہرے (1984) ان کی چند ایسی فلموں میں سے ہیں جن کی وجہ سے ستیہ جیت رے کو عالمی شہرت نصیب ہوئی اور ان کا شمار دنیا کے عظیم فلمسازوں میں کیا جانے لگا۔

مگر ستیہ جیت رے صرف ایک فلم ساز ہی نہیں تھے بلکہ وہ ایک اعلیٰ درجے کے ادیب، مصور اور سنگیت کار بھی تھے۔ 1961میں ستیہ جیت رے نے بنگالی زبان میں شائع ہونے والے بچوں کے مشہور رسالے سندیش کو دوبارہ نکالنے کا بیڑا اٹھایا۔ اس رسالے کے بانیوں میں ان کے والد اور دادا بھی شامل رہے تھے۔ کچھ عرصے کے لیے ستیہ جیت رے نے کیمرے کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا اورسندیش کے صفحات کو اپنی مصوری اور اسکیچوں کے بہترین نمونوں سے بھر کر رکھ دیا۔ انہوں نے سندیش کے لیے بے شمار کہانیاں، نظمیں اور مضامین بھی لکھے۔ بعد میں ان کی کہانیوں کے کئی مجموعے شائع ہوئے جو بے حد مقبول ہوے۔ ان میں ’’فیلودا سیریز‘‘ کے تحت لکھی گئی جاسوسی کہانیوں کے علاوہ ’’پروفیسر شونکوسیریز‘‘ کے سائنس فکشن بھی شامل ہیں۔ ستیہ جیت رے نے بچپن کے دن اور اپو کے ساتھ میرے سال کے عنوانات سے اپنی یادداشتیں بھی تحریر کی ہیں۔

ستیہ جیت رے کا انتقال اپریل 1992کو کلکتہ میں ہوا اور ان کے ساتھ ہی گویا ایک پورے عہد کا بھی خاتمہ ہو گیا۔

ستیہ جیت رے کی فلمیں عام طور پر بنگلہ ادیبوں کی تخلیقات پر ہی مبنی ہیں۔ وہ فلم کو ایک مغربی آرٹ سمجھتے تھے مگر ان کا مقصد بنگال کے لوگوں کے لیے بھی فلم بنانا تھا۔ ان کی فلموں کو سمجھنے کے لیے ان کی کہانیوں کا مطالعہ بھی کرنا ضروری ہے۔

یہ انتخاب ستیہ جیت رے کی ان کہانیوں سے کیا گیا ہے جو پر اسرار یا فوق الفطرت کہانیوں کے زمرے میں آتی ہیں، اگرچہ سہل پسندی سے کام لیتے ہوئے صرف اتنا ہی کہہ دینا کافی نہیں ہو گا۔ یہ انتہا پسند حد تک مافوق الفطرت عناصر رکھنے والی کہانیاں نہیں ہیں۔ زیر مطالعہ کہانیاں ان کہانیوں میں سے ہیں جن میں ایک دھیما دھیما سا اسرار پوشیدہ ہے۔ ان کہانیوں کا لہجہ بہت مدھم اور نغمہ آمیز ہے۔ ان میں غصے کی کوئی لہر یا تشدد کی کوئی کیفیت نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح ان کی فلموں میں بھی غصے، برہمی یا بلند آواز میں احتجاج کی جگہ انسانی وجود کے نرم پہلوؤں کی ہی زیادہ عکاسی نظر آتی ہے۔ کہانیوں میں اگرچہ واقعہ موجود ہے، اور وہ بہت اہم بھی ہے، مگرستیہ جیت رے ’واقعے ‘ سے زیادہ تر ایک قسم کی دوری بنائے رکھتے ہیں۔ یہاں سب کچھ، سارا ماجرا، صرف ایک ’اتفاق‘ نظر آتا ہے۔ کردار جن حالات میں گھرے ہوئے ہیں، ان کو وہ خود اپنے لیے نہیں پیدا کرتے۔ ان کی فلموں کے کرداروں کی طرح ان کہانیوں کے کردار بھی زیادہ تر ان حالات سے باہر آنے کی جد و جہد کرتے ہیں ؛ خوف، بے چینی، اپنی ذات کے کرب، ناقابل یقین واقعات اور اتفاقات کے پر اسرار حصار سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی انسانی زندگی کا وقار ہے۔ اپنی خوش مزاجی اور witکے ذریعے ناقابل یقین اور پراسرارحالات کے بھیانک عناصر کو تحلیل کر دینے والے ان کرداروں کی یہ کوشش انسانی وجود کو ایک بامعنی جہت بخشتی ہے۔

بہت غور کرنے پر یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ ستیہ جیت رے کی ان کہانیوں کی زیریں سطح پر ایک قسم کی ’بیراگ‘ کی دھندلی سی کیفیت بھی پائی جاتی ہے۔ دوری، بیراگ اور ایک پُر اسرار مگر روحانی اُداسی کی کیفیت ستیہ جیت رے کو ٹیگور کے ویدانتی فلسفے کے بہت قریب لے آتی ہے۔ اس لیے ان کہانیوں کا پر اسرار ہونا محض سطحی نوعیت کا نہیں ہے۔ یہ ایک قسم کا ناقابل فہم ’روحانی اسرار‘ ہے۔ اس کائنات، زمان و مکان سے ماورا ایک بھید اور ایک رہسیہ جو حقیقت اور صداقت کے وسیع مفہوم میں ہی اپنی جھلک پیش کر سکتا ہے۔ ’اسرار‘ حقیقت کے ساتھ منسلک ہے اسے زندگی کی جاری و ساری کلیات میں ہی دیکھنا ہو گا۔ ستیہ جیت رے نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ بغیر کسی قسم کی سر رے ئلسٹک تکنیک یا اسلوب کو اختیار کیے، سیدھے سادھے، سچے اور حقیقی بیانیے کے ذریعے ہی اس اسرار کو محسوس کیا جا سکتا ہے، اور دکھایا بھی جا سکتا ہے۔ چنانچہ ستیہ جیت رے کی ان کہانیوں کو اس مذہبی فلسفیانہ فکر کی روشنی میں ہی پڑھا جا سکتا ہے جو کہ ٹیگور کے ویدانتی نظریے کا سرچشمہ ہے، جس کی رو سے انسان اور کائنات کا رشتہ بجائے خود ایک بھید یا اسرار ہے۔ یہیں سے ستیہ جیت رے کی کہانیوں میں ایک وجودی جہت بھی شامل ہو جاتی ہے۔

ان کی بیشتر کہانیوں میں خیرو شر کی کشمکش کوئی واضح شناخت بنتی نظر نہیں آتی۔ خیرو شر دونوں ہی اضافی ہیں۔ ستیہ جیت رے ان دونوں کے درمیان کوئی تناؤ یا ٹکراؤ پیدا کرنے سے بچتے ہیں۔ ان کے یہاں جو ’بھیانک پن‘ (horror)ہے وہ بھی ’شر‘ کے پورے قد تک نہیں پہنچتا، بلکہ زندگی کی تفہیم کے واسطے بس ایک دھندلی سی بصیرت کا نشان دکھا کر اوجھل ہو جاتا ہے۔ ’شر‘ یعنی شیطانی طاقت کا اظہار ہی ’بھیانک پن ‘ کی کیفیت کا نام ہوتا ہے، مگر ستیہ جیت رے ’شر‘ کو ویدانت کے اخلاقی نظریے کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ دنیا ’مایا‘ ’ا گیان‘ اور کھیل تماشے سے بڑھ کر کچھ نہیں رہ جاتی۔

مغربی افکار، فلموں اور نظریات سے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ یہ خالص ہندوستانی فلسفیانہ نقطۂ نظر نہ صرف ستیہ جیت رے کی تحریروں میں بلکہ ان کی فلموں میں بھی صاف نظر آتا ہے۔ چونکہ وہ ایک سائنسی اندازِ فکر رکھنے والے دانشور بھی تھے، اس لیے ان کے آرٹ میں انوکھے پن کا پہلو اس سائنسی فکر، جدید خیالات، کھوج بین کے مادے اور ویدانتی فلسفے کے تال میل سے پیدا ہوا ہے۔

ستیہ جیت رے ماحول کی جزئیات نگاری میں گویا قلم سے نہیں بلکہ اپنے اس انوکھے کیمرے سے کام لیتے ہیں جس سے وہ فلمیں بناتے ہیں۔ ان کہانیوں کے بیانیے میں ماضی، حال اور مستقبل ایک اسمبلاژ کی سی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ اکثر ان کے بیانیے میں بصری سچویشن، اچانک زمانۂ حال کے صیغے میں اس طرح آ کر سامنے کھڑی ہو جاتی ہے جیسے سنیما گھر کے گاڑھے اندھیرے میں سفید پردے پر کوئی جیتا جاگتا منظر۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ستیہ جیت رے کی ساری فکر اور سارا شعور ہی visualمیں تبدیل ہو گئے ہوں۔ میری رائے میں اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اگرچہ ان کا کیمرا ریئلزم (Realism) کی مکمل نمائندگی کرتا تھا مگر اس ریئلزم کے ساتھ وہ اسرار بھی ناگزیر طور پر ان کی بصیرت کا حصہ بن گیا تھا جس کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔

دوسری وجہ شاید یہ بھی ہو کہ ان کی کہانیوں میں جس قسم کا آہنگ ہے اسے ایک قسم کی موسیقی سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ جو لَے ان کہانیوں کی ہے وہ ان کی فلموں کے visualکی لَے سے ملتی جلتی ہے۔ ستیہ جیت رے مغربی کلاسیکل موسیقی کے بہت قائل تھے۔ ان کے خیال میں مغربی کلاسیکل موسیقی میں ایک ڈراما، ایک کہانی کی روایت بھی موجود رہی ہے۔ بیتھوون کی کسی سمفنی کو ایک درد بھری روح کی پکار، تقدیر کے خلاف انسان کی جد و جہد یا بین الاقوامی بھائی چارے کی شکل میں بھی مانا جا سکتا ہے۔ ہندوستانی کلاسیکل موسیقی میں یہ بات نہیں ہے۔ یہاں صرف ایک راگ ہے، پہلے سے ہی طے کیا گیا ایک موڈ اور ایک سُر جو شروع ہوتا ہے اور پھر ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے شاید ان کہانیوں میں الفاظ کے ذریعے جو داخلی موسیقی تشکیل دی گئی ہے وہ فلموں کے مناظر کی طرح ہی اپنے آپ میں اس کہانی کو پیوست کیے ہوئے ہے جسے کہا بھی جا رہا ہے۔

خالد جاوید

 

 

 

 

مداح

 

اَرُوپ بابو یعنی اروپ رتن سرکار گیارہ سال کے بعد پوری آئے ہیں۔ شہر میں تھوڑی بہت تبدیلی نظر آ رہی ہے جیسے کچھ نئے مکان، نئے سرے سے بنائی گئی کچھ سڑکیں، دو چار چھوٹے بڑے ہوٹل مگر جب وہ سمندر کے کنارے آئے تو انھیں لگا، یہ سمندر بدلنے والی چیز نہیں ہے۔ وہ ساگرِکا ہوٹل میں ٹھہرے ہیں ؛ وہاں سے سمندر حالانکہ نظر نہیں آتا، لیکن رات میں جب لوگوں کا شور غل تھم جاتا ہے تو لہروں کی آواز صاف سنائی دیتی ہے۔ اس آواز کو سن کر کل اروپ بابو باہر نکل آئے تھے۔ وہ کل ہی پوری آئے ہیں۔ دن کے وقت انھیں کچھ خرید فروخت کرنا تھی، اس لیے سمندر کے کنارے کی طرف نہیں گئے تھے۔ رات میں جا کر دیکھا، اماوس کے اندھیرے میں بھی لہروں کے جھاگ صاف صاف نظر آتے ہیں۔ اروپ بابو کو یاد آیا، بچپن میں انھوں نے کہیں پڑھا تھا کہ سمندر کے پانی میں فاسفورس رہتا ہے اور اس لیے اندھیرے میں بھی لہریں دکھائی دیتی ہیں۔ اروپ بابو کو روشنی سے جگمگاتی پُر اسرار لہروں کو دیکھنا بہت ہی اچھا لگا۔ کلکتہ میں دیکھ کر کوئی انھیں حساس طبیعت کا نہیں کہہ سکتا تو نہ کہے، اروپ بابو جانتے ہیں کہ کسی زمانے میں وہ کتنے حساس تھے۔ کام کے بوجھ تلے کہیں وہ جذبات گم نہ ہو جائیں اس لیے وہ اب بھی بیچ بیچ میں گنگا کے کنارے اور اِیڈن گارڈن میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ پیڑوں، پانی اور پھولوں کو دیکھ کر انھیں خوشی ہوتی ہے۔ پرندوں کا گیت سن کر پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کوئل کی آواز ہے یا پپیہے کی۔ اندھیرے میں بہت دیر تک سمندر کی طرف لگاتار دیکھتے رہنے کے بعد انھیں لگا، سولہ سال کی نوکری کی زندگی کی اکتاہٹ یا اداسی بہت کچھ دور ہو گئی ہے۔

آج تیسرے پہر بھی اروپ بابو سمندر کے کنارے آئے ہیں۔ کچھ دور تک پیدل چلنے کے بعد اب ان کی خواہش نہیں ہو رہی ہے کہ چہل قدمی کریں۔ ایک گیروا دھاری، سادھو بابا یا گرو جیسا شخص تیز قدموں سے ریت کے اوپر چلا آ رہا ہے۔ پیچھے پیچھے عورت مرد چیلوں چپانٹوں کا ایک غول اس کے قدموں سے قدم ملا کر ہانپتا ہوا چلا جا رہا ہے۔ اروپ بابو کو یہ منظر بہت ہی اچھا لگ رہا ہے۔ تبھی ان کی بائیں جانب سے ایک بچے کی آواز تیرتی ہوئی ان کے کانوں میں آتی ہے:

’’منّا کا سپنا کیا آپ نے ہی لکھی ہے ؟‘‘

اروپ بابو نے گردن گھما کر دیکھا۔ سات آٹھ سال کا ایک لڑکا ہے، سفید شرٹ اور نیلی پینٹ پہنے۔ ہاتھ کی کہنی تک ریت لگی ہے۔ گردن اٹھا کر حیرت سے وہ اروپ بابو کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اروپ بابو کے جواب کا انتظار نہ کر کے لڑکے نے کہا، ’’میں منّا کاسپنا پڑھ چکا ہوں۔ بابوجی نے سالگرہ پر دیا تھا مجھے …مجھے …‘‘

’’کہو کہو، اس میں شرمانے کی کیا بات ہے ؟‘‘ یہ ایک عورت کی آواز تھی۔

لڑکے کی تھوڑی ہمت بڑھی اور اس نے کہا، ’’مجھے وہ کتاب بہت اچھی لگی تھی۔ ‘‘

اروپ بابو نے اب عورت کی طرف دیکھا۔ تقریباً تیس سال عمر ہو گی، خوبصورت چہرہ۔ مسکراتی ہوئی ان کی طرف دیکھ رہی ہے اور آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہے۔

اروپ بابو نے لڑکے سے کہا، ’’نہیں مُنّا، میں نے کوئی کتاب نہیں لکھی ہے۔ تم شاید غلط فہمی کا شکار ہو۔ ‘‘

عورت لڑکے کی ماں ہے، اس میں کوئی شک نہیں ؛ دونوں کے چہروں میں صاف مشابہت نظر آتی ہے خاص طور پر ٹھوڑی کے گڈھوں میں۔

اروپ بابو کی بات سے عورت کی ہنسی کم نہیں ہوئی۔ وہ اور بھی آگے بڑھ آئی اور پہلے سے زیادہ مسکراہٹ اپنے چہرے پر بکھیر کر بولی، ’’سننے میں آیا ہے کہ آپ لوگوں سے زیادہ ملنا جلنا پسند نہیں کرتے۔ میرے ایک دیور نے ایک جلسے میں آپ کو بطور مہمان خصوصی مدعو کرنے کے لیے ایک خط لکھا تھا۔ آپ نے جواب دیا تھا کہ آپ یہ سب قطعی پسند نہیں کرتے، مگر اس بار ہم آپ کو چھوڑنے والے نہیں ہیں۔ آپ حالانکہ بچوں کے لیے لکھتے ہیں، لیکن ہم بھی آپ کی تخلیقات پڑھا کرتے ہیں۔ ‘‘

منا کا سپنا کتاب کا مصنف چاہے جو بھی ہو، مگر ماں اور بیٹا اس کے ایک جیسے مداح ہیں، یہ بات سمجھتے انھیں دیر نہ لگی۔ اس قسم کے بے ڈھب حالات کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کا انھوں نے تصور تک نہیں کیا تھا۔ انھیں یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ غلط فہمی کا شکار ہیں، مگر بے رخی سے بتایا جائے تو انھیں تکلیف ہو گی، یہ سوچ کر اروپ بابو تذبذب میں پڑ گئے۔ اصل میں اروپ بابو بہت ہی نرم دل انسان ہیں۔ ایک بار ان کے دھوبی گنگا چرن نے ایک نئے کھادی کے کرتے میں استری کا داغ لگا کر کرتے کا حلیہ بگاڑ دیا تھا۔ ان کی جگہ اور کوئی ہوتا تو اسے ضرور ہی دو چار تھپڑ جما دیتا، مگر اروپ بابو نے دھوبی کو شرمندہ اور پریشان حال دیکھ کر نرم لہجے میں صرف اتنا ہی کہا تھا، ’ ’استری ذرا ہوشیاری سے کیا کرو۔ ‘‘

اپنی اس نرم دلی کی وجہ سے ہی انھوں نے کچھ اور نہ کہہ کر اتنا ہی کہا، ’’میں منّا کاسپنا کا مصنف ہوں، آپ اتنے یقین کے ساتھ یہ بات کیسے کہہ رہی ہیں ؟‘‘

خاتون نے حیرت میں آ کر کہا، ’’واہ، اس دن  یگانتر میں تصویر چھپی تھی۔ ریڈیو سے اعلان نشر کیا گیا کہ آپ کو بنگلہ زبان میں بچوں کے بہترین ادب کے لیے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ جی ہاں، میرے خیال میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کی بات تھی۔ ہم ہی نہیں، اب بے شمار لوگ املیش مولِک کے چہرے سے واقف ہو گئے ہیں۔ ‘‘

املیش مولِک اروپ بابو نام سے واقف ہیں، مگر چہرہ نہیں دیکھا ہے۔ دونوں کے چہرے میں کیا اتنی مشابہت ہے ؟ اتنا ضرور ہے کہ آج کل کے اخبارات میں چھپے چہرے کا صاف صاف پتا نہیں چلتا ہے۔

’’آپ پوری آ رہے ہیں، یہ بات چاروں طرف پھیل گئی ہے، ‘‘ خاتون نے کہا۔ ’’ہم اس روز سی ویو ہوٹل گئے ہوئے تھے۔ میرے شوہر کے ایک دوست کل تک وہیں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ان کو ہوٹل کے منیجر نے بتایا تھا کہ آپ جمعرات کو آ رہے ہیں۔ آج ہی تو جمعرات ہے۔ آپ سی ویو میں ٹھہرے ہوئے ہیں نا؟‘‘

’’ایں ؟او… نہیں۔ میں، وہ… سنا تھا کہ وہاں لذیذ کھانا نہیں ملتا ہے۔ ‘‘

’’آپ نے ٹھیک ہی سنا ہے۔ ہم یہی سوچ رہے تھے کہ اتنے بہترین ہوٹل ہونے کے باوجود آپ وہاں کیوں ٹھہرنے جا رہے ہیں۔ آپ کہاں ٹھہرے ہیں ؟‘‘

’میں …ساگرِکا میں۔ ‘‘

’’اوہ! وہ تو نیا ہوٹل ہے۔ کس طرح کا ہے ؟‘‘

’’ٹھیک ہی کہیے، کچھ دنوں تک ٹھہرنا ہے۔ ‘‘

’’کتنے دنوں تک ٹھہریں گے ؟‘‘

’’تقریباً پانچ روز۔ ‘‘

’’پھر کسی روز ہمارے یہاں تشریف لائیے گا۔ ہم پوری ہوٹل میں ٹھہرے ہیں۔ آپ کو دیکھنے کے لیے کتنے ہی لوگ انتظار کر رہے ہیں۔ بچوں کا تو کچھ کہنا ہی نہیں۔ یہ کیا، آپ کے پیر بھیگ گئے ؟‘‘

لہر جو آگے بڑھ آئی ہے، اروپ بابو کا اس طرف دھیان ہی نہیں ہے۔ پیر ہی بھیگے ہیں، یہ کہنا غلط ہو گا؛ تیز ہوا ہونے کے باوجود اروپ بابو کا پورا بدن پسینے سے بھیگنے لگا ہے۔ حقیقت بیان کرنے کا موقع کب اور کیسے ٹل گیا، یہ ان کی سمجھ میں آیا ہی نہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ وہاں سے کھسک جائیں۔ مصیبت کہاں تک آگے بڑھ آئی ہے، تنہائی میں بیٹھ کر سوچنے پر ہی یہ بات سمجھ میں آئے گی۔

’’میں اب… چلتا ہوں …‘‘

’’ضرور ہی کچھ نئی چیز لکھ رہے ہیں۔ ‘‘

’’نہیں، ابھی… کہنے کا مطلب ہے کہ آرام کروں گا۔ ‘‘

’’پھر ملیں گے۔ اپنے شوہر سے کہوں گی۔ کل تیسرے پہر اِدھر آ رہے ہیں نا؟‘‘

سی ویو کے منیجر وِویک رائے نے ابھی اپنے گال کے اندر ایک پان ٹھونسا ہی تھا کہ اروپ بابو ان کے سامنے حاضر ہو گئے۔

’’یہاں املیش مولک آنے والے ہیں ؟‘‘

’’ہاں۔ ‘‘

’’اب تک نہیں آئے ہیں ؟‘‘

’’اوں ہوں۔ ‘‘

’’کب…آئیں گے …یہ…؟‘‘

’’منگلوار۔ ٹیلیگرام آیا ہے۔ کیوں ؟‘‘

منگلوار… آج ہے جمعرات …اروپ بابو منگل تک ہی ٹھہریں گے۔ ٹیلیگرام آنے کا مطلب ہے کہ مولک بابو نے کسی وجہ سے آنے کی تاریخ آگے بڑھا دی ہے۔

منیجر سے پوچھنے پر اروپ بابو کو پتا چلا کہ ان کا اندازہ صحیح ہے۔ املیش مولک آج ہی آنے والے تھے۔

وِویک بابو کے ’’کیوں ؟‘‘ کے جواب میں اروپ بابو نے انھیں بتایا کہ انھیں املیش بابو سے ایک ضروری کام ہے۔ وہ منگل کی دوپہر میں آ کر پتا لگائیں گے۔

اروپ بابو سی ویو ہوٹل سے سیدھے بازار کی طرف چلے گئے۔ ایک دکان سے املیش بابو کی لکھی چار کتابیں خریدیں۔ منّا کاسپنا وہاں نہیں ملا۔ خیر، کوئی حرج نہیں، چار ہی کافی ہیں۔ دو ناول ہیں، دو چھوٹی کہانیوں کے مجموعے۔

ہوٹل پہنچتے پہنچتے ساڑھے چھ بج گئے۔ سامنے کے دروازے سے داخل ہوتے ہی ایک کمرہ ہے، اس کے بائیں طرف منیجر کے بیٹھنے کی جگہ ہے، داہنے ہاتھ دس پانچ فٹ جگہ میں ایک بنچ اور دو کرسیاں بچھی ہوئی ہیں۔ کرسیوں پر دو آدمی بیٹھے ہوئے ہیں۔ بنچ پر دو لڑکے اور ایک لڑکی، جن کی عمر دس بارہ کے بیچ ہو گی۔ اروپ بابو پر نگاہ پڑتے ہی دونوں آدمیوں نے مسکراتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر انھیں نمسکار کیا اور اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ اس کے بعد بچوں کی طرف گردن ہلائی۔ بچے شرماتے ہوئے اروپ بابو کی طرف بڑھ آئے اور پیر چھوکر پرنام کیا۔ اروپ بابو منع کرنے جا رہے تھے، مگر کر نہیں سکے۔

دونوں حضرات بھی آگے بڑھ گئے۔ ان میں سے ایک نے کہا، ’’ہم پوری ہوٹل سے آ رہے ہیں۔ میرا نام سہرد سین ہے اور آپ ہیں مسٹر گانگلی۔ مسز گھوش نے بتایا کہ آج آپ سے ان کی ملاقات ہوئی ہے اور آپ یہیں ٹھہرے ہیں۔ اس لیے سوچا کہ…‘‘

شکر ہے کتابیں بانس کے کاغذ میں بندھی ہیں ورنہ اپنی ہی کتابیں خود خرید کر لا رہے ہیں، یہ دیکھ کر وہ کیا سوچتے !

اروپ بابو نے ان کی ہر بات پر گردن ہلا کر ہامی بھری۔ یہ نہیں کہ اب بھی معاملہ صاف نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ایسی کون سی بات ہے ؟ اتنا کہنا ہی کافی ہے: دیکھیے صاحب، ایک بہت بڑی غلط فہمی ہو گئی ہے۔ میں نے خود املیش مولک کی تصویر نہیں دیکھی ہے۔ مگر ہاں، یہ بات مان لیتا ہوں کہ ان کا چہرہ مجھ سے بہت کچھ ملتا جلتا ہے۔ ہو سکتا ہے، ان کی بھی مونچھیں پتلی ہیں، ان کے بال بھی گھنگھرالے ہیں، ان کی آنکھوں پر بھی میرا جیسا ہی چشمہ ہے۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ وہ پوری آنے والے ہیں۔ لیکن صاحب، میں وہ آدمی نہیں ہوں۔ میں بال ساہتیہ کا مصنف نہیں ہوں۔ میں ادب کا آدمی ہوں ہی نہیں۔ کچھ لکھتا بھی نہیں ہوں۔ انشورنس آفس میں نوکری کرتا ہوں۔ تنہائی میں چھٹیاں گزارنے آیا ہوں۔ آپ لوگ مہربانی کر کے میری جان چھوڑ دیں۔ اصلی املیش مولک منگل کو ہوٹل سی ویو میں آ رہے ہیں۔

مگر اتنا کہنے سے ہی کیا اس جھنجھٹ سے چھٹکارا مل جائے گا؟ ایک بار جب ان کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ وہی املیش مولک ہیں، اور پہلی بار انکار کرنے پر بھی جب کوئی کام نہ بنا تو پھر کیا سی ویو کے منیجر کا ٹیلیگرام دکھایا جائے تبھی ان لوگوں کی غلط فہمی دور ہو گی؟ یہ لوگ تو مان لیں گے کہ یہ بھی مولک جی کا ایک کرشمہ ہے۔ در اصل وہ فرضی نام سے ساگرِکا میں ٹھہرے ہوئے ہیں اور آنے سے پہلے سی ویو میں اپنے نام سے ایک جھوٹا ٹیلی گرام بھیج دیا ہے تاکہ انھیں لوگوں کے مجمعے سے نجات مل سکے۔ مگر شاید سب سے بڑی رکاوٹ ان تین بچوں نے ڈال دی ہے۔ وہ تینوں حیرت و عقیدت بھری نگاہوں سے اروپ بابو کو گھور رہے ہیں۔ اصل بات کہتے ہی ان تینوں بچوں کی امید، خوشی اور جوش پر ایک ہی پل میں پانی پھر جائے گا۔

’’بابُن، تم جس چیز کی معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے، املیش بابو سے پوچھ لو، ‘‘ دونوں لڑکوں میں جو بڑا ہے، اسے مخاطب کرتے ہوئے سہرد سین نے کہا۔

اروپ بابو گھبراہٹ محسوس کرنے لگے۔ اب بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ بابن اپنی گردن ٹیڑھی کر، دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں پھنسا کر سوال کرنے کے لیے تیار ہے۔

’’اچھا، منا کی آنکھوں میں جس بوڑھے نے نیند لادی تھی، وہ کیا جادو جانتا تھا؟‘‘

کشمکش کی اس گھڑی میں اروپ بابو کو اچانک پتا چلا کہ ان کا دماغ غضب کا کام کر رہا ہے۔ سامنے جھک کر بابن کے کان کے پاس اپنا منھ لے جا کر بولے، ’’تمھیں کیا لگتا ہے ؟‘‘

تینوں بچے اروپ بابو کی اس بات پر بے حد خوش ہوے۔ جاتے وقت سہردبابو اروپ بابو کو دعوت دے گئے کہ انھیں آج رات پوری ہوٹل میں آ کر کھانا کھانا ہے۔ وہاں آٹھ بنگالی خاندان آ کر ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ان کے ساتھ کچھ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جو املیش بابو کے بھگت ہیں۔ اروپ بابو نے کوئی اعتراض نہیں کیا، کیونکہ اس بیچ انھوں نے مان لیا ہے کہ کچھ وقت کے لیے انھیں املیش مولک کی اداکاری کرنا ہے۔ اس کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے، اس موضوع پر سوچنے کا ابھی وقت نہیں ہے۔ بس، ایک ہی بات انھوں نے سہرد بابو سے کہی۔

’’دیکھیے صاحب، میں شور غل پسند نہیں کرتا ہوں۔ لوگوں سے ملنے جلنے کا بھی میں عادی نہیں ہوں، اس لیے آپ لوگوں سے اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ میں یہاں ٹھہرا ہوں، یہ بات مہربانی کر کے کہیں پھیلائیں نہیں۔ ‘‘

سہرد بابو نے وعدہ کیا کہ کل کی دعوت کے بعد وہ لوگ پھر کبھی انھیں تنگ نہیں کریں گے اور وہ اس کے لیے بھی ہر ممکن کوشش کریں گے کہ اور لوگ بھی انھیں پریشان نہ کریں۔

رات میں کچھ دیر پہلے ہی کھانا کھا کر اروپ بابوبستر پر لیٹ گئے اور املیش مولک کی ’حابو کے کارنامے‘  کتاب پڑھنے لگے۔ اس کے علاوہ اور جو تین کتابیں ہیں، وہ ہیں ٹٹل کا ایڈونچر، کشتی مات اور پھولوں کی ڈلیا۔ آخری دو کہانیوں کے مجموعے ہیں۔ ادبی آدمی نہ ہونے پر بھی اروپ بابو نے نوکری پیشہ زندگی کے پہلے، خاص طور سے اسکول کی زندگی کے آخری تین سالوں کے درمیان، بچوں کی بہت سی دیسی بدیسی کہانیاں پڑھی ہیں۔ اتنے دنوں کے بعد، انتالیس سال کی عمر میں، نئے سرے سے بچوں کی کہانیاں پڑھنے پر انھیں حیرت اس بات کی ہے کہ بچپن میں پڑھی ہوئی کتنی ہی کہانیاں انھیں اب بھی یاد ہیں اور ان کہانیوں سے املیش مولک کی کہانیاں بہت کچھ ملتی جلتی ہیں۔

بڑے بڑے حروف میں چھپی سو سَوا سو اوراق کی چاروں کتابوں کو پڑھنے کے بعد، جب کمرے کی بتی بجھا کر لیٹ گئے تو اس وقت ساگرِ کا ہوٹل میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سمندر کی آواز آ رہی ہے ؟ کتنی رات گزر چکی ہے ؟ اروپ بابو نے تکیے کی بغل سے گھڑی اٹھا لی۔ یہ گھڑی ان کے والد کی تھی۔ پرانے زمانے کا ریڈیم کا ڈائل ہے۔ سمندر کے پھین کی طرح ہی اندھیرے میں چمکتا ہے۔ پون بج چکا ہے۔

ساہتیہ اکادمی سے بال ساہتیہ میں انعام حاصل کرنے والے مصنف املیش کی زبان سہل ہے، اسلوب منجھا ہوا۔ شروع کرنے پر بغیر انجام تک پڑھے رہا نہیں جاتا۔ پھر بھی مولک جی کی تخلیقات میں نئے پن کا فقدان ہے۔ کتنے ہی طرح کے آدمی، کتنی ہی طرح کے واقعات اور کتنے ہی طرح کے تجربات کی بات ہم ہمیشہ سنتے رہتے ہیں۔ ہم لوگوں کی ذاتی زندگی میں بھی طرح طرح کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ اگر تھوڑے بہت تصورات شامل کر لیے جائیں تو کہانی بن جائے۔ پھر دوسروں کی تخلیقات سے مواد لینے کی ضرورت کیوں پیش آئے ؟

اروپ بابو کے دل میں املیش مولک کے تئیں جو عزت تھی، اس میں تھوڑی بہت کمی آ گئی۔ ساتھ ہی ساتھ ان کا دل بھی ہلکا ہو گیا۔ کل سے وہ اور بھی آزادی سے مولک جی کی اداکاری کر سکیں گے۔

پوری ہوٹل کی پارٹی میں املیش مولک کے مداحوں کی عقیدت دگنی ہو گئی۔ اروپ بابو اس بیچ ایک دوسری دکان سے منا کاسپنا کتاب خرید کر پڑھ چکے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تیرہ ننھے منے بھگتوں کے تین سو تینتیس قسم کے سوالات کا جواب اپنے ڈھنگ سے دینے میں انھیں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ پارٹی ختم ہونے کے پہلے سے ہی بچوں نے انھیں ’شہد چٹا‘ بابو کہہ کر پکارنا شروع کر دیا، کیونکہ اروپ بابو نے انھیں سکھایا کہ ’مو‘ کا مطلب ہے شہد اور’ لِک‘ انگریزی لفظ ہے، جس کے معنی ہے چاٹنا۔ یہ سن کر داس گپت بابو نے اپنی رائے ظاہر کی، ’’شہد کی برسات تو آپ کر رہے ہیں اور اسے یہ بچے چاٹ رہے ہیں !‘‘ اس پر ان کی بیوی سرنگنا دیوی نے کہا، ’ ’وہی کیوں، ہم بھی چاٹ رہے ہیں !‘‘

کھانا پینا ختم ہونے کے بعد دو باتیں ہوئیں۔ ایک تو بچوں نے ضد کی کہ انھیں کم سے کم ایک کہانی سنائی جائے۔ اس پر اروپ بابو نے کہا کہ وہ زبانی کہانی سنانے میں ماہر نہیں ہیں مگر ہاں، انھوں نے اپنے بچپن کا ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ بچپن میں اروپ بابو بانچھا رام اکرودت لین میں رہتے تھے۔ جب وہ پانچ سال کے تھے تو ان کے گھر سے ایک دن ایک قیمتی کلائی گھڑی چوری ہو گئی۔ چور پکڑنے کے لیے اروپ بابو کے والد گھر پر ایک سُوپ جھاڑنے والے کو لے آئے۔ اس سوپ جھاڑنے والے نے ایک قینچی کو چمٹے کی طرح استعمال میں لا کر اس کے سہارے ایک سوپ کو خلا میں ٹکا دیا اور مٹھیوں میں چاول بھر کر اس سوپ پر ڈالنے لگا اور ساتھ ہی ساتھ منتر بھی پڑھنے لگا۔

اس طرح اس نے گھر کے نئے نوکر نٹور کو چور کی شکل میں پکڑوا دیا۔ اروپ بابو کے منجھلے چاچا نٹور کے بال پکڑ کر جب اسے مکا مارنے جا رہے تھے تو عین اسی وقت دستی گھڑی ایک بستر کی چادر کے نیچے سے باہر نکل آئی۔

تالیوں کی گڑ گڑاہٹ کے بیچ کہانی ختم کر کے جب وہ جانے کے لیے اٹھنے لگے تو چار پانچ بچے چلا اٹھے، ’’ٹھہریے، ٹھہریے، جائیے گا نہیں !‘‘ اس کے بعد وہ دوڑتے ہوئے اپنے اپنے کمروں میں گئے اور وہاں سے املیش مولک کی لکھی ہوئی سات نئی کتابیں لے آئے اور ان کے سامنے رکھ کر بولے، ’’اپنا نام لکھ دیجیے۔ ‘‘

اروپ بابو نے جواب دیا، ’’میں کتابوں پر اپنے دستخط نہیں کرتا ہوں۔ کبھی نہیں۔ میں انھیں لے جا رہا ہوں، ہر کتاب پر ایک ایک تصویر بنا دوں گا۔ تم لوگ پرسوں تیسرے پہر ساڑھے چار بجے میرے ہوٹل میں آ کر کتابیں واپس لے جانا۔ ‘‘

جن کی کتابیں تھیں انھوں نے تالیاں بجائیں دستخط کے بجائے تصویر کہیں بہتر رہے گی۔

اروپ بابو کو اسکول میں پڑھتے وقت دو بار اچھی ڈرائنگ کا انعام ملا تھا۔ اس کے بعد سے حالانکہ تصویریں بنائی نہیں ہیں مگر ایک دن اگر ذرا مشق کر لیں تو کیا کسی چیز کی تصویر نہیں بنائی جا سکتی؟

دوسرے دن، ہفتے کی صبح، اروپ بابو اپنا ڈاٹ پین اور کتابیں لے کر باہر نکل گئے۔ مچھیروں کی بستی کی طرف جانے پر انھوں نے دیکھا، وہاں تصویریں بنانے کے لیے مناسب مواد ہے۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں ہی وہ اپنے کام سے فارغ ہو گئے۔ ایک کتاب میں انھوں نے کیکڑے کی تصویر بنائی، دوسری میں تین سیپیوں کو ریت پر آس پاس پڑے دکھایا، تیسری میں دو کوّوں کی تصویر بنائی، چوتھی میں مچھلی پکڑنے کی ناؤ، پانچویں میں مچھیرے کا مکان، چھٹی میں مچھیرے کے بچے کی تصویر اور آخری کتاب کی تصویر میں چنگی دار ٹوپی پہنے ہوئے مچھیرے کو مچھلی پکڑنے کا جال بنتے ہوئے دکھایا۔

ا توار کو تیسرے پہر ٹھیک ساڑھے چار بجے جھنی، پنٹو، چھکی، شانتنو، بابن، پرسین اور نونیتہ ہوٹل میں آئے اور اپنی اپنی کتابیں لے کر کلکاریاں مارتے ہوئے واپس چلے گئے۔

اس دن بستر پر لیٹنے کے بعد اروپ بابو کی سمجھ میں اچانک یہ بات آئی کہ ان کے دل میں مسرت کے جذبے کے ساتھ ایک قسم کی فکر بھی پیدا ہو گئی ہے۔

’’میں املیش مولک ہوں، ‘‘ یہ بات حالانکہ انھوں نے کبھی کسی کے سامنے اپنے منھ سے نہیں کہی ہے، پھر بھی ان کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ وہ پچھلے تین دنوں سے جو کام کرتے چلے آ رہے ہیں، وہ دھوکے بازی کے سوا دوسرا کچھ نہیں ہے۔ پرسوں، منگل کی صبح، اصلی املیش مولک آنے والے ہیں۔ اروپ بابو کو ان تین چار دنوں کے درمیان ان بچوں اور ان کے ماں باپ، موسی، بوا سے جو عزت و احترام ملا ہے، اس کے حقدار تو وہ ہیں جو منگل کے روز تشریف لا رہے ہیں۔ وہ جب خود موجود ہوں گے اور سی ویو ہوٹل کے منیجر وویک رائے جب اس خبر کی فخر کے ساتھ تشہیر کریں گے، اس وقت کس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا! اس بات کو سوچتے ہی اروپ بابو کے ہوش اڑ گئے۔

تو کیا ایک دن پہلے ہی چلے جانا ان کے لیے عقلمندی ہو گی؟ نہیں تو پھر منگل کی صبح سے رات تک وہ کیا کریں گے ؟ اپنے آپ کو کیسے چھپائیں گے ؟ اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو یہ لوگ انھیں کیسے چھوڑ دیں گے ؟ مکار، دھوکے باز کہہ کر ان کی چمڑی نہیں ادھیڑ دیں گے ؟مولک جی کو یہ بات معلوم ہو جائے گی تو وہ کیا بغیر پٹائی کیے چھوڑ دیں گے ؟ کوئی کوئی ادیب کیاسانڈ جیسا طاقتور نہیں ہوتا؟ اور پولیس؟ پولیس کا بھی ڈر ہے۔

اس قسم کی دھوکے بازی کرنے سے جیل کی سزا دی جاتی ہے یا نہیں، یہ بات اروپ بابو کو معلوم نہیں ہے۔ اگر دی جاتی ہو تو اروپ بابو کو کوئی حیرانی نہیں ہو گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک بہت بڑا گناہ کر بیٹھے ہیں۔ فکر کی وجہ سے نیند نہیں آئے گی، یہ سوچ کر اروپ بابو نے نیند کی ایک گولی کھا لی۔

آخر کار اروپ بابو نے منگل کی رات کی ٹرین سے جانا ہی طے کیا۔ در اصل املیش مولک کو ایک بار اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کی خواہش کو وہ کس طرح روک نہ سکے۔ پیر کی صبح اپنے ہوٹل میں ہی تلاش کرنے پر یگانتر کا وہ پرچہ انھیں مل گیا جس میں املیش مولک کی تصویر چھپی تھی۔ پتلی مونچھیں، گھنگھرالے بال، موٹے فریم کا چشمہ یہ ساری چیزیں ہیں، لیکن مشابہت کی مقدار کو ٹھیک سے سمجھنے کے لیے اصل کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا ہو گا، کیونکہ تصویر صاف نہیں چھپی ہے۔ جہاں تک سمجھ میں آ رہا ہے، اس سے انھیں پہچاننے میں کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ اروپ بابو اسٹیشن جائیں گے، انھیں نہ صرف اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے، بلکہ ان سے دو چار باتیں بھی کر لیں گے، جیسے ’’آپ مسٹر مولک ہیں نا؟ آپ کی تصویر اس دن رسالے میں دیکھی تھی۔ آپ کی کہانیاں میں نے پڑھی ہیں۔ بہت ہی اچھی لگتی ہیں، ‘‘ وغیرہ۔ اس کے بعد اپنا سامان اسٹیشن پر رکھ کر اروپ بابو شہر چھوڑ کر نکل جائیں گے۔ کونارک اب تک دیکھ نہیں سکے ہیں۔ مندر دیکھ کر شام کو لوٹیں گے اور سیدھے اسٹیشن جا کر ٹرین میں بیٹھ جائیں گے۔ خود کو چھپانے کا اس سے بڑھ کر کوئی طریقہ نہیں ہے۔

منگل کے دن پوری ایکسپریس بیس منٹ دیر سے پہنچی۔ مسافر نیچے اتر رہے ہیں۔ اروپ بابو ایک کھمبے کی آڑ میں کھڑے ہو کر فرسٹ کلاس کے ارد گرد کی دونوں بو گیوں کو بغور دیکھ رہے ہیں۔ ایک دروازے سے ہاف پینٹ پہنے دو بدیسی اترے، اس کے بعد ایک لحیم شحیم مارواڑی۔ دوسرے دروازے سے ایک بوڑھی عورت اتری، جس کا ہاتھ ایک سفید پینٹ پہنے نوجوان تھامے ہوئے تھا۔ نوجوان کے بعد ایک بوڑھا، اس کے بعد … ہاں، کسی طرح کی کوئی غلطی نہیں ہو رہی ہے، یہی املیش بابو ہیں۔ اروپ بابو سے چہرہ کافی ملتا جلتا ہے۔ اتنی بات ضرور ہے کہ اگر برابر کھڑے ہو جائیں تو جڑواں بھائی سمجھ لیے جانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مولک کی اونچائی اروپ بابو سے کم از کم دو انچ کم ہے اور جسم کا رنگ دگنا کالا ہے۔ عمر بھی شاید زیادہ ہے، کیونکہ بال بہت پک گئے ہیں اروپ بابو کے بال اتنے پکے نہیں ہیں۔

سوٹ کیس ہاتھ میں سنبھال کر اترتے ہی انھوں نے قلی کو پکارا۔ اروپ بابو بھی قلی کے ساتھ ان کی طرف بڑھ گئے۔

’’آپ ہی مسٹر مولک ہیں نا؟‘‘

انھوں نے تھوڑا حیران ہو کر اروپ بابو کی طرف دیکھا اورذراساسرہلا کر کہا، ’’ہاں۔ ‘‘

قلی اپنے سر پر سوٹ کیس رکھ چکا ہے۔ اس کے علاوہ املیش بابو کے ساتھ جوسامان ہے وہ ہے کندھے پر لٹکا ہوا ایک بیگ اور تھرماس۔ تینوں لوگ گیٹ کی طرف بڑھنے لگے۔ اروپ بابو نے کہا، ’’ میں آپ کی کتابیں پڑھ چکا ہوں۔ اخبار میں آپ کو ایوارڈ ملنے کی بات پڑھ چکا ہوں اور تصویر بھی دیکھی ہے۔ ‘‘

’’اوہ!‘‘

’’آپ سی ویو میں ٹھہریں گے ؟‘‘

املیش مولک نے اور زیادہ حیران ہو کر اس بار اروپ بابو کو ذرا مشکوک نگاہوں سے دیکھا۔ اروپ بابو نے مولک جی کی حالت کا اندازہ لگاتے ہوئے کہا، ’’سی ویو کا منیجر آپ کا مداح ہے۔ اسی نے یہ خبر پھیلائی ہے۔ ‘‘

’’اوہ۔ ‘‘

’’آپ آ رہے ہیں، یہ سن کر بہت سے بچے بے چین ہیں۔ ‘‘

’’ہوں۔ ‘‘

یہ آدمی اتنا کم کیوں بولتا ہے ؟ اس کی چہل قدمی کی رفتار بھی جیسے کم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ آدمی کیاسوچ رہا ہے ؟

املیش مولک اس بار ٹھٹک کر کھڑے ہو گئے اور اروپ بابو کی طرف مڑتے ہوئے بولے، ’’کافی لوگوں کو معلوم ہو گیا ہے ؟‘‘

’’سنا تو یہی ہے۔ کیوں ؟ اس سے کیا آپ کو کوئی پریشانی ہو گی؟‘‘

’’نہیں، مطلب ہے کہ میں ذرا اکیلے رہنا پپ…پپ…پپ…‘‘

’’پسند کرتے ہیں ؟‘‘

’’ہاں۔ ‘‘

ہکلاتے ہیں۔ اروپ بابو کو یاد آیا، ایڈورڈ ہشتم نے جب اچانک تخت و تاج ٹھکرا دیا تھا تو ان کا بھائی فکر مند ہو گیا تھا، کیونکہ وہ تتلاتا تھا۔ لیکن بادشاہ اسی کو بننا تھا، اور بادشاہ بننے کے بعد تقریر کرنا بھی ضروری تھا۔

قلی سامان لے کر گیٹ کے سامنے کھڑا ہے، یہ دیکھ کر دونوں پھر سے چہل قدمی کرنے لگے۔

’’اسی کو کہتے ہیں شہرت کی ستم ظریفی۔ ‘‘

اروپ بابو نے اس بات کا تصور کرنے کی کوشش کی کہ اس ہکلانے والے ادیب سے گفتگو کرنے کے بعد جھنی، پنٹو، چمکی، شانتنو، بابن اور نونیتہ کے چہروں کی کیا حالت ہو گی۔ تصور میں انھوں نے جو کچھ دیکھا وہ انھیں ذرا بھی اچھا نہ لگا۔

’’ایک کام کریں گے ؟‘‘ گیٹ کے باہر آ کر اروپ بابو نے پوچھا۔

’’کیا؟‘‘

’’آپ کی چھٹی مداحوں کے چکر میں برباد ہو جائے، یہ سوچنے میں ذرا بھی اچھا نہیں لگتا۔ ‘‘

’’مجھے بھی نہیں۔ ‘‘

’’میرا مشورہ ہے کہ آپ سی ویو مت جائیں۔ ‘‘

’’ت…تب؟‘‘

’’سی ویو میں کھانا بھی اچھا نہیں ملتا ہے۔ میں ساگرِ کا میں ٹھہرا تھا۔ اب میرا کمرہ خالی ہے۔ آپ وہیں تشریف لے جائیں۔ ’’

’’اوہ!‘‘

’’اور آپ اپنا نام استعمال نہ کریں۔ بہتر تو یہی ہو گا کہ آپ اپنی مونچھیں صاف کرا لیں۔ ‘‘

’’موں …مونچھ؟‘‘

’’ابھی فوراً ویٹنگ روم میں چلے جائیے۔ دس منٹ کی بات ہے۔ ایسا کرنے سے کوئی آپ کی چھٹی برباد نہیں کر سکے گا۔ بلکہ میں کل کلکتہ پہنچ کر آپ کے نام سے سی ویو میں تار بھیج دوں گا کہ آپ نہیں آ رہے ہیں۔ ‘‘

املیش مولک کی پیشانی سے فکر کی لکیروں کو مٹنے میں تقریباً بیس سیکنڈ لگے۔ اس کے بعد ان کے لبوں اور آنکھوں کے دونوں طرف نئی لکیریں ابھر آئیں۔ مولک جی ہنس رہے ہیں۔

’’آپ کا کیا کہہ کر ش…ش…ش…‘‘

’’کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس آپ ان کتابوں پر اپنے دستخط کر دیجیے۔ اس نیم کے درخت کے پیچھے چلے آئیے۔ کسی کی نظر نہیں پڑے گی۔ ‘‘

پیڑ کی اوٹ میں جا کر املیش مولک اپنے مداح کی طرف دیکھتے ہوئے ایک نرم ہنسی ہنسے اور انھوں نے جیب سے ایک لال پار کر قلم باہر نکالا۔ جس دن سے ایوارڈ ملا ہے، ڈھیر سارا کاغذ اور روشنائی خرید کر انھوں نے اپنا ایک بہت خوبصورت دستخط تیار کر لیا ہے۔ پانچوں کتابوں پر انھوں نے دستخط کر دیے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کی زبان حالانکہ ہکلاتی ہے، مگر قلم نہیں ہکلائے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

بارین بھومِک کی بیماری

 

کنڈکٹر کی ہدایت کے مطابق ’ڈی‘ ڈبے میں داخل ہو کر بارین بھومک نے اپنا بڑا سوٹ کیس سیٹ کے نیچے رکھ دیا۔ اسے راستے میں کھولنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ کنگھی، برش، ٹوتھ برش، داڑھی بنانے کا سامان، ریل میں پڑھنے کے لیے ہیڈلی چیز کا ناول سب کچھ دستی بیگ میں ہے۔ اس کے علاوہ تھروٹ پلز بھی ہیں۔ ٹھنڈے ڈبے میں سردی گھسنے کی وجہ سے کہیں گلا بیٹھ جائے تو کل گانا نہیں گا سکیں گے۔ جھٹ سے ایک ٹکیہ منھ میں ڈال کر بارین بھومک نے بیگ کو کھڑکی کے سامنے میز پر رکھ دیا۔

دلی جانے والی ٹرین کے چلنے میں اب صرف سات منٹ کی دیر ہے، لیکن ان کے ڈبے میں کوئی اور مسافر کیوں نہیں ہے ؟ اتنی دور کا سفر کیا انھیں اکیلے ہی طے کرنا ہو گا؟ یہ تو ایک طرح سے عیاشی کی انتہا ہے۔ حالات کا تصور کر کے بارین بھومک کے گلے سے خود بخود ایک گانے کے بول پھوٹ پڑے۔

’’او باغ کی بلبل، پھولوں کی ڈالی پر نہیں تم جھولو!‘‘ بارین بھومک نے کھڑکی سے ہاوڑا اسٹیشن پلیٹ فارم پر کی بھیڑ کی طرف ایک نظر ڈالی۔ دو نوجوان ان کی طرف تاکتے ہوئے آپس میں کچھ گفتگو کر رہے ہیں۔ بارین بھومک کو ان لوگوں نے پہچان لیا ہے۔ بہت سے آدمی انھیں پہچانتے ہیں۔ کلکتہ ہی نہیں بلکہ بہت سے قصبوں کے لوگ نہ صرف ان کی آواز کو پہچانتے ہیں بلکہ ان کے چہرے سے واقف ہیں۔ ہر مہینے چھ سات پروگراموں میں ان کو مدعو کیا جاتا ہے۔ بارین بھومک نذرل کے نغمے اور جدید موسیقی کا پروگرام پیش کریں گے۔ شہرت اور دولت دونوں چیزیں اب بارین بھومک کی مٹھی میں ہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ ایسے حالات پچھلے پانچ سال سے ہی ہیں۔ اس سے پہلے انھیں کئی برس تک بے حد جد و جہد کرنا پڑی ہے۔ نغمے کے لیے نہیں ؛ وہ گانا گانے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر صرف گانے سے کام نہیں چلتا، اس کے ساتھ چاہیے قسمت اور بینکنگ۔ 1968میں انیس پلّی کے پوجا کے پنڈال پر بھولا دا بھولا بانڈوجیہ ان سے اگر زبردستی ’بیٹھ وزن‘ میں گانا نہ گواتے …

اسی گانے کے بدولت بارین بھومک دلی جا رہے ہیں۔ دلی کی بنگالی ایسوسی ایشن اول درجے کا کرایہ دے کر اپنی جوبلی کے موقعے پر نذرل کے گیت گانے کے لیے انھیں لے جا رہی ہے۔ ان کے ٹھہرنے کا انتظام بھی ان کی طرف سے کیا جائے گا۔ دو دن دلّی میں گزار کر آگرہ، فتح پور سیکری سے ہوتے ہوئے ٹھیک سات روز کے بعد بارین بھومک کلکتہ واپس چلے آئیں گے۔ اس کے بعد پوجا آ جائے گی اور تب انھیں فرصت ہی نہیں ملے گی۔ ہر پہر موسیقی کی محفل میں حاضری دینا ہو گی، سامعین کے کانوں میں رس برسانے کے لیے۔

’’آپ کے لنچ کا آرڈر، سر…‘‘ کنڈکٹر گارڈ آ کر کھڑا ہے۔

’’کیا کیا ملتا ہے ؟‘‘ بارین نے پوچھا۔

’’آپ نان ویجیٹیرین ہیں نا؟ دیسی کھانا کھائیے گا یا ویسٹرن اسٹائل؟‘‘

’’دیسی چاہیے تو…‘‘

اپنی پسند کے کھانے کا آرڈر دے کر بارین نے ابھی ایک تھری کیسلز سگریٹ سلگائی ہی تھی کہ اسی وقت ڈبے کے اندر ایک اور مسافر داخل ہوا اور اس کے بعد ہی گاڑی روانہ ہو گئی۔

آنے والے مسافر سے آنکھیں ملتے ہی بارین کو وہ آدمی پہچانا سا لگا اور ان کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی، مگر اجنبی کی طرف سے اس کا کوئی جواب نہ پا کر وہ مسکراہٹ ایک ہی پل میں معدوم ہو گئی۔ کیا پھر بارین سے غلطی ہو گئی؟ چھی چھی… اس طرح مسکرانے کی کیا ضرورت تھی؟ کتنے عجیب حالات سے گزرنا پڑا! یاد آیا، ایک بار گھڑ دوڑ کے میدان میں بھورے رنگ کا کرتا پہنے ایک عمر دراز آدمی کو پیچھے کی طرف سے ’ ’کیا حال ہیں تِروِدا!‘‘ کہہ کر اس کی پشت پر ایک دھول جمانے کے بعد بارین کی سمجھ میں آیا تھا کہ در اصل وہ ترودا نہیں ہیں۔ یہ شرمناک یاد بہت دنوں تک ان کے دل کو کریدتی رہی تھی۔ آدمی کو اس طرح کے مشکل حالات میں ڈالنے کے لیے چاروں طرف کتنی پریشانیاں بکھری پڑی ہیں۔

بارین بھومک نے دوبارہ اجنبی کے چہرے پر نظر ڈالی۔ موصوف چپلیں اتار کر، سیٹ پر پاؤں پھیلائے السٹریٹڈ ویکلی کی ورق گردانی کر رہے ہیں۔ کتنی حیرت کی بات ہے ! انھیں پھر محسوس ہو رہا ہے کہ یہ شخص جانا پہچانا ہے۔ یہ جان پہچان سرسری نہیں بلکہ کافی لمبی ملاقات ہے۔ مگر کب کی جان پہچان ہے ؟ کہاں ملاقات ہوئی تھی؟ گھنی بھنویں، پتلی مونچھیں، پامیڑ سے رنگے ہوئے بال، گال کے بیچوں بیچ ایک داغ اس چہرے سے وہ اچھی طرح واقف ہیں۔ ہاں، واقف ہی نہیں، وہ جب سینٹرل ٹیلیگراف میں نوکری کرتے تھے تب سے جانتے ہیں۔ کیا یہ یک طرفہ شناسائی تھی؟ بظاہر تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بارین بھومک ان کے لیے بالکل اجنبی ہیں۔

’’آپ اپنے کھانے کا آرڈر…‘‘

کنڈکٹر گارڈ دوبارہ آیا ہے۔ بہت ہی خوش مزاج اور صحتمند شخص ہے یہ۔

’’سنیے، ‘‘اجنبی نے کہا، ’کھانا تو بعد کی چیز ہے، پہلے ایک پیالی چائے مل سکتی ہے ؟‘‘

’’یقیناً۔ ‘‘

’’بس ایک کپ سے ہی کام چل جائے گا۔ میں را ٹی لیتا ہوں۔ ‘‘

بارین بھومک کو محسوس ہوا ان کے پیڑو سے ناف اور آنتیں باہر نکل آئی ہیں اور وہ جگہ بالکل خالی ہو گئی ہے۔ اس کے بعد انھیں محسوس ہوا کہ ان کے کلیجے میں ہاتھ پیر اُگ آئے ہیں اور وہ ہاتھ پیر سانس کی نلی کے پنجرے میں اچھل کود کر رہے ہیں۔ نہ صرف اس گلے کی آواز بلکہ خاص زور ڈال کر کہے گئے لفظ ’’را ٹی‘‘ (Raw Tea)نے ہی ان کے اندر ہلچل پیدا کر دی۔

بارین نے اس شخص کو نہ صرف دیکھا ہے بلکہ ان کے ساتھ بالکل اسی طرح دلّی جاتی ہوئی ٹرین کے فرسٹ کلاس کے اے سی ڈبے میں آمنے سامنے بیٹھ کر قریب قریب آٹھ گھنٹے کا سفر کیا ہے۔ وہ خود پٹنہ جا رہے تھے، اپنی ممیری بہن شپرا کی شادی میں شرکت کرنے کے لیے۔ اس کے تین دن قبل گھڑ دوڑ کے میدان میں ٹریول ٹوٹ میں ایک ہی ساتھ ساڑھے سات ہزار روپے جیت کر وہ زندگی میں پہلی بار ریل کے اول درجے میں سفر کرنے کی خواہش کو روک نہیں پائے تھے۔ اس وقت ایک گلوکار کی حیثیت سے وہ اتنے مشہور نہیں تھے۔ یہ واقعہ 1964ہے، نو سال پہلے کی بات۔ اس آدمی کے خاندانی نام کی بھی دھندلی سی یاد آ رہی ہے …چ سے اس لفظ کی شروعات ہوتی تھی… چودھری؟ چکرورتی؟ چٹرجی؟

کنڈکٹر گارڈ کھانے کا آرڈر لے کر چلا گیا۔ بارین کو لگا، اس آدمی کے سامنے بیٹھنے میں وہ گھٹن محسوس کر رہے ہیں۔ باہر کاریڈور میں جا کر کھڑے ہو گئے، دروازے کے سامنے سے پانچ ہاتھ داہنی طرف، ’چ‘ کی نظروں سے دور۔ اتفاق کے معنی کیا ہیں ؟ یہ بات بارین بھومک کو معلوم نہیں۔ لیکن وہ جانتے ہیں کہ ہر آدمی کو زندگی میں اس قسم کے واقعات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ مگر ’چ‘ نے کیا انھیں پہچان لیا ہے ؟ نہ پہچاننے کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں: ایک، ہو سکتا ہے ’چ‘ کی یادداشت کمزور ہو؛ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہو سکتا ہے ان نو برسوں کے درمیان بارین کے چہرے میں کافی تبدیلی آ گئی ہو۔ کھڑکی سے باہر کے چلتے ہوئے مناظر کی طرف دیکھتے ہوئے بارین نے سوچنے کی کوشش کی، ان کے نو برس پہلے کے چہرے اور ان کے آج کے چہرے میں کتنا فرق ہے۔

ان کا وزن کافی بڑھ گیا ہے، لہٰذا ظاہر ہے کہ ان کا چہرہ بھی پہلے سے زیادہ بھر گیا ہے۔ اور کیا ہو سکتا ہے ؟ چشمہ نہیں تھا، مگر اب ہے۔ مونچھیں ؟ کب انھوں نے مونچھیں منڈوا دی تھیں ؟ ہاں، یاد آیا، زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ ہاجرا روڈ کا وہ سیلون… ایک نیا نوجوان حجام دونوں طرف کی مونچھوں کو یکساں نہیں تراش سکا تھا۔ بارین نے خود اتنا محسوس نہیں کیا، لیکن دفتر کے اس گپّی لفٹ میں شکدیو سے لے کر باسٹھ سال کے بوڑھے خزانچی کیشو بابو نے بھی جب ان کی مونچھوں پر تبصرہ کیا تو بارین کو لاچار ہو کر اپنی پیاری مونچھیں تراشنا پڑیں۔ اس کے بعد سے انھوں نے مونچھیں رکھی ہی نہیں۔

مونچھیں ہٹ گئی ہیں، گال بھر گئے ہیں، آنکھوں پر عینک لگ گئی ہے۔ بارین بہت کچھ مطمئن ہو کر ڈبے کے اندر چلے آئے۔

بیرا ایک ٹرے میں چائے کی پیالی اور چائے لا کر ’چ ‘ کے سامنے رکھ کر چلا گیا۔ بارین بھی کسی مشروب کی طلب محسوس کر رہے تھے، چاہے ٹھنڈا ہو یا گرم۔ لیکن کہتے کہتے رک گئے۔

اگر گلے کی آواز پہچان لے ؟

اور پہچاننے کے بعد نتیجہ کیا ہو سکتا ہے، بارین اس کا تصور تک نہیں کرنا چاہتے۔ اتنا ضرور ہے کہ سب کچھ اس بات پر منحصر ہے کہ ’چ‘ کس قسم کا آدمی ہے۔ اگر وہ اینمیش دا کی طرح ہوا تو پھر بارین اطمینان کی سانس لے پائیں گے۔ ایک بار بس میں ایک آدمی اینمیش دا کی جیب ٹٹول رہا تھا۔ اس بات کا علم ہونے پر بھی شرم کے مارے وہ کچھ نہ کہہ سکے۔ بعد میں گھر آ کر کہنے لگے، ’’پبلک بس میں اتنے لوگوں کے درمیان ایک سین ہو جائے اور اس میں خاص پارٹ میرا ہی ہو ایساکیسے ہونے دوں ؟‘‘

یہ آدمی کیا اسی قسم کا ہے ؟ ایسا ہونا بہت مشکل ہے، کیونکہ اینمیش دا جیسے لوگ بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ چہرے سے بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ آدمی اس قسم کا نہیں ہے۔ یہ گھنی بھنویں، نکیلی ناک، سامنے کی طرف نکلا ہوا نتھنا۔ سب کچھ ملانے کے بعد لگتا ہے یہ شخص اگر بارین کو پہچان لے گا تو اپنے روئیں دار ہاتھ سے شرٹ کا کالر کس کر پکڑتے ہوئے کہے گا، ’’تم ہی وہ آدمی ہونا جس نے سنہ 64میں میری گھڑی چرا ئی تھی؟ اسکاؤںڈرل! نو برس سے میں تمھاری تلاش میں ہوں۔ آج میں تمھیں …‘‘

اس کے بعد بارین بھومک سوچ نہیں سکے۔ اس ٹھنڈے ڈبے میں بھی ان کی پیشانی پسینے سے تر ہو گئی۔ ریلوے کے ریکسین منڈھے تکیے پر سر رکھ کر وہ اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے اور بائیں ہاتھ سے اپنا چہرہ ڈھک لیا۔ آنکھوں کو دیکھ کر ہی انسان کو بہ آسانی پہچانا جا سکتا ہے۔

بارین نے بھی آنکھوں کو دیکھ کر ہی شروع میں اسے پہچانا تھا۔

ہر واقعہ انھیں تفصیل سے یاد آنے لگا ہے نہ صرف ’چ‘ کی گھڑی کی چوری کی کہانی، بلکہ بچپن سے ہی وہ جن لوگوں کی جو جو چیز چراتے رہے ہیں، وہ تمام منظر اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ وہ ایک معمولی ڈاٹ پین بھی ہو سکتا ہے (مکل ماما کا) یا پھر چھینی دا کے ہڈیوں کے کف لنکس، جن کی نہ تو بارین کو ضرورت تھی اور نہ وہ کسی روز انھیں اپنے استعمال میں لائے تھے۔ چوری کی وجہ یہ تھی کہ وہ چیزیں ہاتھوں کے قریب تھیں اور پرائے لوگوں کی تھیں۔ بارہ برس کی عمر سے لے کر پچیس سال تک کم از کم پچاس پرائی چیزیں بارین بھومک کسی طرح ہتھیا کر اپنے گھر لے آئے۔ اسے چوری کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے ؟ محض فرق اتنا ہی ہے کہ چور کسی مجبوری یا حالات کے تحت چوری کرتا ہے اور انھوں نے عادتاً چوری کی ہے۔ لوگوں نے کبھی ان پر شک نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ کبھی پکڑ میں نہیں آئے۔ بارین جانتے ہیں کہ اس طرح چوری کرنا ایک قسم کی بیماری ہے۔ ایک بار انھوں نے اپنے ایک ڈاکٹر دوست سے باتوں باتوں میں اس بیماری کا نام بھی جان لیا تھا، لیکن اب یاد نہیں آ رہا ہے۔

بس اتنا ضرور ہے کہ نو سال قبل ’چ‘ کی گھڑی چرانے کے بعد سے آج تک ایک بھی بار ایسا کام نہیں کیا ہے، یہاں تک کہ چوری کرنے کی وقتی مگر قوی خواہش بھی ان کے اندر ابھی تک نہیں جاگی ہے۔ بارین کو معلوم ہے کہ اس خطرناک بیماری سے چھٹکارا مل چکا ہے۔

ان کی دوسری چوریوں اور اس گھڑی کی چوری میں بس یہی فرق تھا کہ انھیں حقیقت میں اس کی ضرورت تھی۔ وہ دستی گھڑی نہیں بلکہ سوئٹزر لینڈ کی بنی ایک بہت ہی خوبصورت سفری گھڑی ہے۔ ایک نیلا چوکور بکسا ہے، اس کا ڈھکن کھولتے ہی گھڑی باہر نکل کر سیدھی کھڑی ہو جاتی ہے۔ الارم گھڑی ہے اور اس الارم گھڑی کی آواز اتنی شیریں ہے کہ نیند سے بیدار ہونے کے ساتھ ساتھ کانوں میں میٹھا سنگیت گونجنے لگتا ہے۔ ان نو برسوں کے درمیان بارین بھومک ہمیشہ اسے استعمال میں لائے ہیں۔ وہ جہاں کہیں گئے ہیں، ان کے ساتھ وہ گھڑی رہی ہے۔

آج بھی گھڑی ان کے ساتھ ہے کھڑکی کے سامنے میز پر رکھے اس بیگ کے اندر۔

’’کہاں جائیے گا؟‘‘

بارین یوں چونک پڑے جیسے ان کے بدن سے بجلی کا تار چھو گیا ہو۔ یہ آدمی ان سے مخاطب ہے، سوال پوچھ رہا ہے !

’’دلّی۔ ‘‘

’’جی؟‘‘

’’دلّی۔ ‘‘

پہلی مرتبہ بے حد احتیاط برتنے کی غرض سے بارین نے بہت ہلکی آواز میں جواب دیا تھا۔

’’آپ کا گلا کیا سردی کی وجہ سے بیٹھ گیا ہے ؟‘‘

’’نہیں۔ ‘‘

’’اکثر ایسا ہوتا ہے۔ در اصل ایرکنڈیشننگ کا صرف ایک ہی فائدہ ہے اور یہ کہ دھول سے نجات ملتی ہے، ورنہ میں فرسٹ کلاس میں ہی سفر کرتا ہوں۔ ‘‘

بارین چپ ہیں۔ اگر یہ ممکن ہوتا تو وہ ’چ‘ کی طرف دیکھتے بھی نہیں، لیکن ’چ‘ ان کی طرف دیکھ رہا ہے یا نہیں، یہ بات جاننے کی خواہش میں بار بار ان کی نظر اس کی طرف اٹھ جاتی ہے۔ لیکن ’چ‘ مطمئن اور پُرسکون نظر آ رہا ہے۔ اداکاری کر رہا ہے کیا؟ یہ بات بارین کو معلوم نہیں۔ یہ معلوم کرنے کے لیے اس آدمی کو اور زیادہ جاننا ضروری ہے۔ بارین جو کچھ جانتے ہیں، وہ معلومات پچھلی دفعہ کی ہے۔ ایک یہ کہ دودھ چینی کے بغیر چائے اور پان کی عادت۔ دوسری یہ کہ اسٹیشن آتے ہی نیچے اتر کر کھانے کی کوئی نہ کوئی چیز لے آنے کی عادت۔ نمکین چیزیں، میٹھی نہیں۔ یاد ہے، پچھلی مرتبہ ’چ‘ کی بدولت بارین بھومک کو کئی قسم کی چٹپٹی چیزیں کھانے کا موقع ملا تھا۔

اس کے علاوہ پٹنہ اسٹیشن کے نزدیک پہنچنے پر اس کے کردار کا ایک اور پہلو سامنے آیا تھا۔ اس واقعے کے ساتھ ہی اس کی گھڑی کا معاملہ بھی منسلک ہے، لہٰذا وہ قصہ بارین کو بخوبی یاد ہے۔ اس بار امرتسر میل گاڑی تھی۔ گاڑی صبح پانچ بجے پٹنہ پہنچتی تھی۔ کنڈکٹر نے آ کر ساڑھے چار بجے بارین کو جگا دیا تھا۔ ’چ‘ بھی غنودگی کی حالت میں تھا، حالانکہ وہ دلی جا رہا تھا۔ گاڑی اسٹیشن پہنچنے کے تین منٹ پہلے اچانک رک گئی۔ کیا بات ہے ؟

پٹریوں پر لیمپ اور ٹارچ کی بھاگ دوڑ دیکھ کر محسوس ہوا کہ کوئی گڑبڑ ہوئی ہے۔ آخر میں گارڈ نے آ کر خبرسنائی کہ ایک بوڑھا لائن پار کرتے وقت انجن سے کٹ گیا ہے۔ اس کی لاش ہٹنے کے بعد گاڑی روانہ ہو گی۔ یہ سنتے ہی ’چ‘ بے حد بے چین ہو کر سلیپنگ سوٹ پہنے ہی اس منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے اندھیرے میں چلا گیا۔

اسی موقعے کا فائدہ اٹھا کر بارین نے اس کے بکسے سے گھڑی نکال لی۔ اسی رات انھوں نے ’چ‘ کو گھڑی میں چابی بھرتے ہوئے دیکھا تھا۔ گھڑی دیکھ کر لالچ نہ ہوا ہو، ایسی بات نہیں ہے، لیکن یہ سوچ کر کہ موقع نہیں ملے گا، انھوں نے گھڑی کی بات دل سے نکال دی تھی۔ اس وقت اچانک موقع مل جانے سے ان کا لالچ اتنا بڑھ گیا کہ سیٹ پر ایک دوسرے مسافر کے سوئے ہونے کے باوجود انھیں خطرہ مول لینے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ چند لمحوں کے وقفے میں انھوں نے اس کام کو انجام دے دیا۔ ’چ‘ لگ بھگ پانچ منٹ کے بعد واپس آیا۔

’’بہت دکھ کی بات ہے ! گداگر تھا۔ دھڑ ایک طرف ہے تو سر دوسری طرف۔ سامنے کاؤکیچر رہنے پر بھی انسان کیسے کٹ جاتا ہے، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ اس کا کام یہی ہے کہ اگر لائن پر کوئی چیز پڑی ہو تو اسے ہٹا کر باہر پھینک دے !…‘‘

’’آپ دلّی کے باشندے ہیں یا کلکتہ کے ؟‘‘

بارین کو یاد آیا، پچھلی مرتبہ بھی اس نے طرح طرح کے سوال کیے تھے۔ زبردستی کسی سے جان پہچان کرنے کی اس قسم کی عادت کو بارین پسند نہیں کرتے۔

’’کلکتہ کا، ‘‘ بارین نے جواب دیا۔ انجانے میں ہی اس بار ان کی اصل آواز باہر نکل آئی۔ بارین نے خود کو کوسا۔ آئندہ انھیں اور زیادہ ہوشیار رہنا پڑے گا۔

لیکن یہ کیا! وہ بارین کو ایک ٹک دیکھے جا رہا ہے !ایک دم اس طرح کا تجسس ہونے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟ بارین نے محسوس کیا کہ ان کی نبض پھر تیز ہو گئی ہے۔

’’آپ کی حال میں اخبار میں کوئی تصویر چھپی ہے ؟‘‘

بارین نے سوچا، اس معاملے میں سچائی چھپانا عقلمندی کا کام نہیں ہے۔ ریل میں دوسرے بنگالی مسافر بھی موجود ہیں، وہ بھی انھیں پہچان سکتے ہیں۔ اسے اپنی صحیح پہچان بتانے میں نقصان ہی کیا ہے ؟ بلکہ اگر اسے اس بات کا علم ہو جائے کہ بارین ایک مشہور ہستی ہیں تو انھیں تو نوبرس پہلے کے گھڑی چور کی شکل میں دیکھنا ’چ‘ کے لیے نا ممکن ہو جائے گا۔

’’آپ نے تصویر کہاں دیکھی تھی؟‘‘ بارین نے پوچھا۔

’’آپ گانا گاتے ہیں ؟‘ ‘ اس نے دوبارہ سوال کیا۔

’’ہاں، تھوڑ ابہت…‘‘

’’آپ کا اسم گرامی ؟‘‘

’’باریندر ناتھ بھومک۔ ‘‘

’’اوہ، یہ کہیے نا، بارین بھومک۔ اسی لیے آپ جانے پہچانے سے لگ رہے تھے۔ آپ بیچ میں ریڈیو پربھی گاتے ہیں ؟‘‘

’’جی ہاں۔ ‘‘

’’میری بیوی آپ کی فین ہے۔ گانے کے سلسلے میں ہی کیا دلّی جا رہے ہیں ؟‘‘

’’ہاں۔ ‘‘

بارین نے سوچا کہ وہ زیادہ تفصیلی گفتگو سے پرہیز کریں گے۔ صرف ہاں یا نہیں میں ہی مختصر بات کریں گے۔

’’دلّی میں ایک اور بھومک ہیں، فنانس منسٹری میں اسکاٹش کالج میں میرے ساتھ پڑھتے تھے۔ پورا نام ہے نتیش بھومک۔ آپ سے کوئی رشتے داری وغیرہ ہے ؟‘‘

رشتے داری ہے۔ بارین کے چچیرے بھائی ہیں۔ سخت نوابی مزاج کے آدمی ہیں، اس لیے بارین کے سگے ہونے پر بھی ایک گوتر کے نہیں ہیں۔

’’جی نہیں، میں انھیں نہیں پہچانتا۔ ‘‘

یہاں جھوٹ بولنا ہی بارین نے غنیمت سمجھا۔ اب یہ آدمی باتیں کرنا بند کر دے تو اچھا رہے۔ آخر اتنی جرح کیوں کر رہا ہے ؟

خیر، کھانا آ گیا ہے۔ امید ہے کچھ دیر تک سوالات کے تیر نہیں برس سکیں گے۔

ہوا بھی یہی۔ ’چ‘ کھانے کا شوقین ہے۔ ایک بار کھانا شروع ہو جاتا ہے تو گفتگو کا سلسلہ خود بخود تھم جاتا ہے۔ بارین بھومک کا خوف حالانکہ کافی حد تک دور ہو گیا ہے، لیکن پھر بھی ایک عجیب سی بے چینی محسوس کر رہے ہیں۔ اب بھی بیس گھنٹے کاراستہ باقی ہے۔ انسان کی یادداشت بھی بڑی غضب کی شے ہے۔ کب دھکا دے کر کس زمانے کی یادوں کو جگا دے کہنا دشوار ہے۔ جیسے اسی بات کو لیجیے۔ بارین کا خیال ہے کہ اگر وہ اُس خاص لفظ کو نہ سنتے تو نو سال پہلے کے گھڑی مالک کی باتیں ان کے ذہن میں ہرگز نہ آتیں۔ اسی طرح بارین کی کوئی بھی حرکت ان کی پرانی واقفیت کو ’چ‘ کے سامنے لا کر کھڑا کر دے تو؟ ان تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد بارین نے طے کیا کہ اب وہ نہ تو گفتگو کریں گے اور نہ ہی کوئی کام۔ کھانے سے فارغ ہو کر وہ اپنے چہرے کے سامنے ہیڈلی چیز کی کتاب کھول کر اور تکیے کو اپنے سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گئے۔ پہلا ورق ختم کر کے انھوں نے ہوشیاری سے گردن گھمائی اور دیکھا کہ ’چ‘ سو گیا ہے۔ کم از کم دیکھنے سے تو ایسا ہی لگ رہا ہے۔ رسالہ ہاتھ سے فرش پر گر پڑا ہے۔ آنکھیں ہاتھ سے ڈھکی ہوئی ہیں، مگر سینے کا پھولنا پچکنا دیکھنے سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ سوئے ہوئے آدمی کی فطری اور آزاد سانسیں ہیں۔

بارین نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ میدان، پیڑ پودوں اور مکانوں کا ملا جلا بِہار کا روکھا سوکھا منظر دکھائی دے رہا ہے۔ کھڑکی کے دوہرے شیشے کو پار کر کے ریل کی آواز نہیں کے برابر سنائی دے رہی ہے، جیسے دور بہت سے مِردنگ ایک ساتھ ایک ہی بول میں بج رہے ہوں دھادھاناک… ناون ناک… دھاون ناک… ناون ناک… دھاون ناک… ناون ناک…

اس آواز میں اب ایک اور آواز شامل ہو گئی ہے: ’چ‘ کے خراٹوں کی آواز۔

بارین بھومک کو بہت اطمینان کا احساس ہوا۔ نذرل کے ایک چنے ہوئے گیت کی سطر گنگنا کر دیکھا۔ صبح کی مانند اتنا شیریں نہ ہونے پربھی انھیں برا نہ لگا۔ اب گلے کی آواز کو تیز نہ کرتے ہوے، ایک بار گلے کو کھنکھار کر انھوں نے دوبارہ اس گانے کو گانا شروع کیا۔

ایک چونکانے والی آواز نے ان کے گلے کو خشک کر دیا اور ان کا گیت گانا تھم گیا۔ وہ گھڑی کے الارم کی آواز تھی۔

ان کے بیگ میں رکھی ہوئی سوئس گھڑی کا الارم نہ جانے کیسے بج اٹھا، اور اب بھی بج رہا ہے۔ بارین بھومک کے ہاتھ پیر جیسے ان کے پیٹ کے اندر سما گئے۔ ان کا بدن لکڑی ہو گیا۔ آنکھیں سوئے ہوئے ’چ‘ پر جا کر ٹک گئیں۔

’چ‘ جیسے ہل اٹھا ہو۔ بارین مصیبت کے اندیشے سے کانپ اٹھے۔ ’چ‘ کی نیند ٹوٹ چکی ہے۔ آنکھوں پر سے اس کے ہاتھ ہٹ گئے۔

’’گلاس ہے کیا؟ اسے اتار کر رکھ دیجیے۔ وائبریٹ کر رہا ہے۔ ‘‘

بارین بھومک نے دیوار میں لگے اسٹینڈ کے اندر سے گلاس کو جیسے ہی اٹھایا، آواز تھم گئی۔ اسے میز پر رکھنے سے پیشتر انھوں نے اس کے اندر کے پانی کو پی کر اپنے گلے کو تر کر لیا اور اس سے انھیں تھوڑا آرام ملا۔ پھر بھی گانا گانے میں ابھی وقت لگے گا۔

ہزاری روڈ کے کچھ آگے چائے آئی۔ ایک ایک کر کے دو پیالی گرم چائے پینے کے بعد اور ’چ‘ کی طرف سے کسی قسم کے جرح یا شک کے نشان نہ پا کر بارین کے گلے کا روندھا پن تھوڑا اور کم ہو گیا۔ باہر تیسرے پہر کی ڈھلتی دھوپ اور دور کے ٹیلے کی طرف دیکھنے کے بعد گاڑی کے چھند سے چھند ملاتے ہوئے جب انھوں نے ایک جدید گیت کا ٹکڑا گایا تو اس مصیبت کا بچا کھچا اندیشہ بھی ان کے دل سے دور ہو گیا۔

گیا میں ’چ‘ اپنی نو سال کی عادت کے مطابق پلیٹ فارم پر اتر کر سیلوفون میں مڑے ہوئے دو پیکٹ چنا چور لے آیا اور ایک پیکٹ بارین کی طرف بڑھا دیا۔ بارین نے اسے خوب مزے سے کھایا۔ گاڑی کی روانگی کے وقت سورج غروب ہو چکا تھا۔ ڈبے کی بتیاں جلا کر ’چ‘ نے کہا:

’’ہم کیا دیر سے چل رہے ہیں ؟ آپ کی گھڑی کیا بجا رہی ہے ؟‘‘

اس وقت پہلی مرتبہ بارین کے ذہن میں یہ بات آئی کہ ’چ‘ کی کلائی میں گھڑی نہیں ہے۔ اس بات کو سوچ کر انھیں حیرانی ہوئی اور اس حیرانی کا ایک ٹکڑا شاید ان کی آنکھوں سے جھانکنے لگا۔ دوسرے ہی پل انھیں یاد آیا کہ ’چ‘ کے سوال کا جواب نہیں دیا گیا ہے۔ اپنی گھڑی کی طرف سرسری نگاہ دوڑاتے ہوئے کہا، ’ ’ سات بج کر پینتیس منٹ۔ ‘‘

’’پھر تو ہم ٹھیک وقت پر ہی جا رہے ہیں۔ ‘‘

’’ہاں۔ ‘‘

’’میری گھڑی آج صبح ہی … ایچ ایم ٹی بالکل ٹھیک وقت بتاتی تھی!… نوکر نے بستر کو چادر کو یوں کھینچا کہ گھڑی ایک دم…‘‘

بارین خاموش ہیں۔ گھڑی کا ذکر آ جانا ہی ان کے لیے اشبھ ہے۔

’’آپ کی کون سی گھڑی ہے ؟‘‘

’’ایچ ایم ٹی۔ ‘‘

’’اچھی سروس دیتی ہے ؟‘‘

’’ہوں۔ ‘‘

’’در اصل میری گھڑی کی قسمت ہی خراب ہے …‘‘

بارین نے ایک جماہی لے کر خود کو گھبراہٹ اور بے چینی سے دور کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔ ان کے اعضا کاسن پن ان کے جبڑوں تک پہنچ چکا ہے۔ سننے کی طاقت ختم ہو جاتی تو انھیں بے حد خوشی ہوتی، لیکن ایسا ہونے والا نہیں ہے۔ ’چ‘ کی آواز بخوبی ان کے کانوں میں پہنچ رہی ہے …

’’جانتے ہیں، ایک سونے کی سوئس گھڑی، ٹریولنگ کلاک، میرے ایک دوست نے جنیوا سے لا کر مجھے دی تھی۔ ایک مہینہ بھی استعمال نہیں کر سکا…ریل سے دلی جا رہا تھا، تقریباً آٹھ سال پہلے کی بات ہے … ہم اور آپ جس طرح سفر کر رہے ہیں، اسی طرح ایک ڈبے میں ہم دو آدمی میں اور ایک دوسراشخص… بنگالی…سوچیے تو کتنی خوفناک بات!

’’شاید میں باتھ روم گیا ہوں گا، یا اسٹیشن پر اترا ہوں گا یا پلیٹ فارم پر۔ بس، اسی بیچ گھڑی غائب کر دی۔ حالانکہ دیکھنے میں ایسا نہیں لگتا تھا۔ فرسٹ کلاس میں سفر کر رہا تھا، بھلا سا آدمی اور خوبرو چہرہ تھا۔ تقدیر اچھی تھی کہ اس نے قتل نہیں کیا۔ اس کے بعد سے میں ریل میں بیٹھا ہی نہیں۔ اس بار بھی ہوائی جہاز سے جاتا، لیکن پائلٹوں کی ہڑتال کے چلتے …‘‘

بارین بھومک کا گلا خشک ہو رہا ہے۔ ہونٹوں کا ہر حصہ بے بس ہو گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لبوں کو کسی نے سی دیا ہے۔ لیکن وہ اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ ان تمام باتوں کے باوجود خاموش رہنا غیر فطری لگے گا، یہاں تک کہ مشکوک بھی ہو سکتا ہے۔ جی جان سے کوشش کرنے پر، بے حد ہمت کر کے انھوں نے اپنی زبان سے چند الفاظ ادا کیے۔

’’آپ نے تلاش نہیں کی تھی؟‘‘

’’تلاش کیا کی جائے ؟ ڈھونڈنے سے کیا یہ چیزیں واپس ملتی ہیں ؟ بس اتنا ضرور ہے کہ اس شخص کے چہرے کو میں نے بہت دنوں تک یاد رکھا تھا۔ اب بھی دھندلا سا یاد ہے سانولا رنگ، مونچھیں، آپ کے برابر ہی قد ہو گا، اور ہاں، دبلا پتلا تھا۔ اگر دوبارہ اس سے ملاقات ہو جاتی تو اسے باپ کا نام یاد کرا دیتا۔ جانتے ہیں، کسی زمانے میں میں باکسنگ کیا کرتا تھا۔ لائٹ ہیوی ویٹ چیمپئن تھا۔ اس شخص کے چودہ اجداد کی قسمت اچھی ہے کہ دوبارہ اس پر نظر نہیں پڑی۔ ‘‘

اس کا نام بھی بارین کو یاد آ گیا چکرورتی، پُلک چکرورتی۔ حیرت ہے ! باکسنگ کے بارے میں گفتگو کرتے ہی اس کا نام سنیما کے ٹائٹل کی طرح بارین بھومک کی آنکھوں کے سامنے تیر گیا۔ پچھلی مرتبہ بھی باکسنگ کے بارے میں پلک چکرورتی نے بہت سی باتیں بتائی تھیں۔

مگر نام جاننے سے بھی کیا ہو گا ؟ اس نے تو کوئی جرم نہیں کیا ہے۔ مجرم تو خود بارین ہیں۔ اور اس جرم کا بوجھ انھیں بے حد مضطرب اور بے چین کر رہا ہے۔ اگر اقبال جرم کر لیں تو کیسا رہے ؟ گھڑی واپس کر دیں تو کیسا رہے ؟ ہاتھ کے پاس کے بیگ کو کھولتے ہی…

دھت!… وہ پاگل ہو گئے ہیں کیا؟ وہ اتنے فکر مند کیوں ہو رہے ہیں ؟ اپنی پہچان چور کی شکل میں کرائیں گے ؟ وہ ایک مشہور گلوکار ہیں، بغیر کہے کیوں وہ پرائی چیز لینے کی بات تسلیم کریں گے ؟ اس وجہ سے جب ان کا نام خاک میں مل جائے تو تب کیا گانا گانے کے لیے ان کو مدعو کیا جائے گا؟ ان کے مداحوں کے دل کیا کہیں گے ؟ کیا سوچیں گے وہ؟

پلک چکرورتی بار بار ان کی طرف گھور رہا ہے۔ اب دلّی پہنچنے میں سولہ گھنٹے رہ گئے ہیں۔ کسی بھی منحوس گھڑی میں پہچان لیے جانے کا خطرہ ہے۔ ارے، یہ تو وہی آدمی ہے۔ بارین نے تصور کیا، ان کی مونچھیں کھسک کر گر پڑی ہیں، گال سے گوشت جھڑ گیا ہے، آنکھوں سے چشمہ اتر گیا ہے۔ پلک چکرورتی بغور ان کے نو سال پہلے کے چہرے کو گھور رہا ہے۔ اس کی نظر آہستہ آہستہ مرکوز ہوتی جا رہی ہے، لبوں پر ایک بے درد ہنسی ابھر آئی ہے۔ ہاں ہاں، پیارے ! اب راستے پر آؤ۔ اتنے دنوں کے بعد تم پکڑ میں آئے ہو۔ مزہ تو لوٹا ہے مگر نتیجہ نہیں دیکھا ہے۔

دس بجے بارین بھومک کو کپکپی کے ساتھ بخار آ گیا۔ گارڈ کو بلا کر انھوں نے ایک اور کمبل طلب کیا۔ اس کے بعد دونوں کمبلوں کو ایک ساتھ ملا کر پاؤں سے ناک تک ڈھک کر لیٹ گئے۔ پلک چکرورتی نے ڈبے کا دروازہ بند کر کے چٹخنی لگا دی۔ بتی بجھا تے وقت بارین کی طرف مڑ کر کہنے لگا، ’’لگتا ہے آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ دوا لیجیے گا؟ میرے پاس بہترین ٹکیہ ہے، دو عدد کھالیں۔ معلوم ہوتا ہے آپ کو ایر کنڈیشننگ کی عادت نہیں ہے۔ ‘‘

بھومک نے دوا کی ٹکیہ کھا لی۔ اب صرف یہی بھروسا ہے کہ اگر پلک چکرورتی گھڑی چور کی شکل میں انھیں پہچان بھی لے تو بیماری کی حالت میں ان پر ترس کھا کر سخت سزا نہیں دے گا۔ اس بیچ انھوں نے ایک بات طے کر لی ہے۔ پلک اگر انھیں نہ پہچانے تب بھی دلی پہنچنے سے قبل ہی موقع ملتے ہی وہ سوئس گھڑی کو اصلی مالک کے بکسے میں رکھ دیں گے۔ اگر ممکن ہوا تو آدھی رات میں ہی اس کام کو انجام دے دیں گے۔ لیکن اگر بخار کم نہیں ہوتا ہے تو کمبل کے نیچے سے نکلنا دشوار ہے۔ اب بھی بیچ بیچ میں پورا جسم کانپ اٹھتا ہے۔

پلک اپنے سر کے پاس ریڈ نگ لیمپ جلائے ہوئے ہے۔ اس کے ہاتھ میں کھلی ہوئی ایک پیپر بیک کتاب ہے۔ لیکن کیا وہ واقعی مطالعہ کر رہا ہے یا کتاب کے اوراق آنکھ پر رکھے کچھ سوچ رہا ہے ؟ کتاب کو ایک ہی طرح سے کیوں تھامے ہوئے ہے ؟ ورق کیوں نہیں الٹ رہا ہے ؟ آمنے سامنے کے دو صفحے پڑھنے میں کتنا وقت لگتا ہے !

اب بارین نے غور کیا کہ پلک کی نظر کتاب کے صفحے سے ہٹتی جا رہی ہے۔ اس کا سر آہستہ آہستہ بغل کی طرف مڑ گیا۔ آنکھیں گھوم کر بارین کی طرف آ رہی ہیں۔ بارین آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ کچھ دیر تک آنکھیں بند کیے پڑے رہتے ہیں۔ اب بھی کیا پلک ان کی طرف گھور رہا ہے ؟ خوب ہوشیاری سے بارین اپنی پلکوں تھوڑا سا کھولتے ہیں، اس کے بعد پھر بند کر لیتے ہیں۔ پُلک ان کو ہی گھور رہا ہے۔ بارین کو محسوس ہوا کہ ان کی چھاتی کے اندر وہی مینڈک پھر سے کودنے لگا ہے، پسلیوں کی ہڈیوں میں پھر سے دھکا لگ رہا ہے۔

دھُک پُک… دھُک پُک… دھُک پُک…دھُک پُک… دادرے کا چھند ہے۔ ریل گاڑی کے پہیوں کے گمبھیر چھند میں گم ہوتا جا رہا ہے۔

ایک بار آہستہ سے کھچ کی آواز ہوتے ہی آنکھیں بند ہونے پر بھی بارین کی سمجھ میں یہ بات آ جاتی ہے کہ ڈبے کی آخری بتی بجھ چکی ہے۔ اب ہمت کر کے بارین آنکھیں کھول کر دیکھتے ہیں۔ دروازے کے پردے کی درار سے آتی ہوئی ہلکی روشنی نے ڈبے کے اندھیرے کو زیادہ گہرا نہیں ہونے دیا ہے۔ اسی روشنی میں وہ دیکھتے ہیں، پُلک چکرورتی نے اپنے ہاتھ کی کتاب کو بارین کے بیگ کے پاس رکھ دیا ہے، اس کے بعد کمبل کو گھٹنے تک اوڑھ کر کروٹ لی ہے اور پھر بارین کے آمنے سامنے ہو کر ایک جماہی لی ہے۔

بارین بھومک کو احساس ہوا کہ ان کی چھاتی کی دھڑکن آہستہ آہستہ بحال ہوتی جا رہی ہے۔ کل صبح… ہاں، کل صبح، پلک کے ٹریولنگ کلاک کو اپنے بیگ سے نکال کر پلک کے سوٹ کیس میں کپڑے لتوں کے نیچے رکھ دینا ہے۔ سوٹ کیس میں تالا نہیں لگا ہے۔ تھوڑی دیر پہلے ہی پلک نے سلیپنگ سوٹ نکال کر پہنا ہے۔ بارین کی کپکپی بند ہو گئی ہے۔ شاید دوا کام کر گئی ہے۔ اس نے انھیں کون سی دوا دی تھی؟ نام نہیں پوچھ سکے تھے۔ اپنی بیماری کے باعث کہیں دلی کے موسیقی کے شوقینوں کی واہ واہ سے محروم نہ ہو جائیں، اسی خوف سے انھوں نے بہت تیزی کے ساتھ پلک چکرورتی کی دی ہوئی دوا کھا لی تھی۔ لیکن اب لگتا ہے …نہیں، ان فکروں کو اب وہ ٹکنے نہیں دیں گے۔ گلاس کی ٹن ٹن کی آواز کو گھڑی کا الارم سمجھ کر ان کی کیسی حالت ہو گئی تھی۔ ان تمام باتوں کے لیے ذمے دار ہے ان کا احساسِ جرم میں ملوث بیمار دل۔ کل صبح وہ اس احساس سے نجات کا انتظام کریں گے۔ دل اگرپرسکون نہ ہوا تو گلا نہیں کھلے گا، گیت باہر نہیں نکل پائے گا… بنگالی ایسوسی ایشن …

چائے کے سامان کی کھٹ پٹ سے بارین بھومک کی نیند کھل گئی۔ بیرا ٹرے لے آیا ہے۔ چائے، روٹی، مکھن، آملیٹ لایا ہے۔ لیکن یہ سب کیا وہ کھاسکتے ہیں ؟ اب بھی بخار ہے کیا؟ شاید نہیں ہے۔ جسم ہلکا ہو گیا ہے۔ کمال کی دوا دی تھی پلک چکرورتی نے۔ اس کے تئیں بارین کے دل میں شکر گذاری کا احساس جاگ اٹھا۔

لیکن وہ کہاں چلا گیا؟ معلوم ہوتا ہے، باتھ روم میں ہے، یا پھر کاریڈور میں۔

بیرے کے چلے جانے کے بعد بارین باہر نکلے۔ کاریڈور خالی ہے۔ بھلا آدمی کب سے باتھ روم میں ہے ؟ کیا چانس لیا جا سکتا ہے ؟

بارین نے چانس لیا، لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ بیگ سے گھڑی نکال کر پلک چکرورتی کے سوٹ کیس کو کھینچ کر نکالنے کے لیے جیسے ہی جھکے، عین اسی وقت تولیہ اور داڑھی بنانے کا سامان ہاتھ میں لیے پلک ڈبے کے اندر داخل ہوا۔ بارین بھومک داہنے ہاتھ کی مٹھی باندھے سیدھے ہو کر کھڑے ہو گئے۔

’’کیسی طبیعت ہے ؟ آل رائٹ؟‘‘

’’ہاں، وہ… اِسے پہچان رہے ہیں ؟‘‘

بارین نے اپنی مٹھی کھول کر گھڑی سمیت اپنا ہاتھ پلک کے سامنے کر دیا۔ اب ان کے دل میں حیرت انگیز توانائی آ گئی ہے۔ چوری کی بیماری سے انھیں کافی پہلے نجات مل چکی ہے، لیکن یہ آنکھ مچولی بھی تو چوری ہی ہے۔ اس فطری حالت کو چھپانے کی عادت، اگر مگر کرنا، احساس جرم، یہ پیڑو کا خالی پن، گلے کی کھسکھساہٹ، کانوں کا گرم ہونا، چھاتی کا دھڑکنا یہ سب بھی تو ایک قسم کی بیماری ہی ہے۔ اسے دور کیے بغیر نجات نہیں، سکون نہیں۔

پلک چکرورتی نے اپنے ہاتھ کے تولیے کے ایک حصے کو اپنے داہنے ہاتھ کی درمیانی انگلی کے سہارے ابھی کانوں پر رکھا ہی تھا کہ تبھی بارین کے ہاتھ میں گھڑی دیکھ کر اس کا ہاتھ کان پر ہی ٹکا رہ گیا۔ بارین نے کہا، ’’وہ آدمی میں ہی ہوں۔ موٹا ہو گیا ہوں، مونچھیں صاف کر دی ہیں اور چشمہ لگ گیا ہے۔ میں پٹنہ جا رہا تھا اور آپ دلّی۔ سنہ 64کی بات ہے۔ وہاں جب ایک آدمی کٹ گیا تھا اور آپ اسے دیکھنے گئے، اسی وقت میں نے گھڑی نکال لی تھی۔ ‘‘

پُلک کی نگاہ اب گھڑی سے ہٹ کر بارین کی آنکھوں پر جا کر ٹک گئی۔ بارین نے دیکھا اس کے ماتھے کے بیچ میں دو متوازی لکیریں ہیں۔ آنکھیں غیر فطری طور پر باہر نکلی ہوئی ہیں۔

دونوں ہونٹ ایک دوسرے سے الگ ہو کر کچھ بولنا چاہتے ہیں، لیکن کہہ نہیں پا رہے ہیں۔ بارین کہنے لگے:

’’جانتے ہیں، در اصل یہ میری بیماری ہے۔ یعنی میں حقیقت میں چور نہیں ہوں۔ ڈاکٹر اس کا کچھ نام بتاتے ہیں، لیکن اس وقت مجھے یاد نہیں آ رہا ہے۔ بہر حال میں اب میں قطعی طور پر نارمل ہوں۔ اتنے دنوں تک گھڑی میرے پاس تھی، میں نے اسے استعمال بھی کیا ہے، آج بھی وہ میرے ساتھ ہے۔ آپ سے ملاقات ہو گئی، تقریباً معجزے کی طرح، اس لیے آپ کو واپس کر رہا ہوں۔ امید ہے، آپ کے دل میں کوئی میل نہیں رہے گا۔ ‘‘

پُلک چکرورتی ایک دبے دبے ’’تھینکس‘‘ کے سوا کچھ نہ کہہ سکا۔ اس کی گمشدہ گھڑی اسے واپس مل گئی ہے، حیران سے اسے ہاتھ میں لے کر کھڑا ہے۔ بارین نے اپنے بیگ سے دانت کا منجن، دانت صاف کرنے کا برش اور داڑھی بنانے کاسامان باہر نکال کر تو لیے کو ریک سے نیچے اتارا اور ڈبے کے دروازے کے باہر آ گئے۔ باتھ روم کے اندر جا کر دروازے کو بند کر لیا۔ نذرل کے ’’کتنی راتیں یونہی بیت جاتی ہیں ‘‘ گیت کی ایک سطر گانے کے بعد انھیں محسوس ہوا کہ ان کے گلے میں طاقت لوٹ آئی ہے۔

فنانس منسٹری کے این سی بھومک کو ٹیلیفون پر پانے میں لگ بھگ تین منٹ کا وقت لگا۔ آخر میں ایک مانوس اور سنجیدہ آواز سنائی دی، ’ ’ہیلو!‘‘

’’کون، نتیش دا؟ میں بھوندو بول رہا ہوں۔ ‘‘

’تو پہنچ گیا ہے ؟ آج تیری گلے بازی سننے آؤں گا۔ آخر کار تو ناگ ہی نکلا۔ تصور نہیں کیا جا سکتا! خیر، کیا حال چال ہے ؟ اچانک نتیش دا کو کیوں یاد کیا؟‘‘

’’وہ… پلک چکرورتی نام کے کسی آدمی سے آپ کی واقفیت تھی؟ آپ کے ساتھ اسکاٹش کالج میں پڑھتا تھا۔ باکسنگ کرتا تھا؟‘‘

’’تو جھاڑودار کے بارے میں بات کر رہا ہے ؟‘‘

’’جھاڑودار؟‘‘

’’وہ سارا سامان جھاڑ پونچھ لیتا تھا کسی کا قلم، لائبریری سے کتاب، کامن روم سے ٹینس کا بیٹ۔ میرا پہلا رن سن وہی اڑا کر لے گیا تھا۔ حالانکہ اسے کوئی کمی نہیں ہے، بہت امیر آدمی ہے۔ یہ ایک قسم کی بیماری ہے۔ ‘‘

’’بیماری؟‘‘

’’معلوم نہیں ہے ؟ کلپٹومینیا… کے ایل ای پی…‘‘

ٹیلیفون رکھ کر بارین بھومک نے کھلے سوٹ کیس کو دیکھا۔ ہوٹل آ کر سوٹ کیس کھولتے ہی انھیں چند چیزیں ندارد ملیں۔ ایک کارٹن تھری کیسلز سگریٹ، ایک عدد جاپانی بائناکلر، ایک ایک سو کے پانچ نوٹ سمیت منی بیگ۔

کلپٹو مینیا بارین کو یہ نام معلوم تھا، لیکن بھول گئے تھے۔ اب نہیں بھولیں گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

کھگم

 

ہم پیٹرومیکس کی روشنی میں بیٹھ کر رات کا کھانا کھا رہے تھے۔ شاید ابھی انڈے کو دانتوں سے کاٹا ہی ہو گا کہ چوکیدار لچھمن سنگھ نے آ کر پوچھا، ’’آپ لوگ املی بابا کے دیدار نہیں کریں گے ؟‘‘

لاچار ہو کر اس سے کہنا پڑا کہ املی بابا کا نام ہی ہمارے لیے بالکل نیا ہے، اس لیے دیدار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لچھمن نے کہا کہ جنگل کے محکمے کی جو جیپ ہم لوگوں کے لیے فراہم کی گئی ہے اس کے ڈرائیور کو کہنے سے وہ ہمیں بابا کے ڈیرے پر لے جائے گا۔ جنگل کے اندر ہی ان کی کٹیا ہے۔ وہاں کا ماحول بڑا ہی سندر ہے۔ اور وہ ایک پہنچے ہوئے سادھو ہیں۔ ہندوستان کے کونے کونے سے لوگ ان کے دیدار کرنے کے لیے آتے ہیں، وغیرہ۔ جس بات کو سن کر سب سے زیادہ حیرت ہوئی وہ یہ کہ بابا کے پاس ایک پالتو ناگ ہے اور وہ بابا کی کٹیا کے قریب ایک گڈھے میں رہتا ہے۔ ہر روز وہ شام کے وقت گڈھے سے نکل کر بابا کے پاس آتا ہے اور بکری کا دودھ پیتا ہے۔

سب کچھ سننے کے بعد دھُرجٹی بابو نے اپنا خیال ظاہر کیا، ’’اس ملک میں دن بدن بازیگری کا بول بالا ہو رہا ہے، خاص طور پر بہروپیے سادھو سنیاسیوں کی تعداد بے حساب بڑھتی جا رہی ہے۔ مغربی ممالک میں سائنس جتنی ترقی کر رہی ہے، ہمارا ملک اتنا ہی اندھیرے کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔ ہوپ لیس معاملہ ہے صاحب! سوچتے ہی دماغ گرما جاتا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر دھرجٹی بابو نے کانٹا چمچہ نیچے رکھ دیا اور بغل سے فلائی فلیپ یعنی مکھی مارنے والی چھڑی اٹھا کر اسے میز پر پٹکا اور ایک مچھر کا خون کر ڈالا۔ بابو کی عمر پینتالیس سے پچاس سال ہو گی۔ ناٹا قد، دبلا، گورا، چمکتا ہوا چہرہ، پیلی پیلی آنکھیں۔ بھرت پور آنے پر ہی ان سے جان پہچان ہوئی ہے۔ میں آگرہ سے آیا ہوں اور مجھے منجھلے بھیّا کے پاس جے پور جانا ہے۔ وہاں میں دو ہفتے کی چھٹیاں گزارنے جا رہا ہوں۔

یہاں آنے پر جب ڈاک بنگلے یا ٹورسٹ لاج میں جگہ نہ ملی تو آخر کافی خرچ کرنے کے بعد شہر کے باہر فارسٹ ریسٹ ہاؤس میں جگہ ملی۔ اس میں پچھتاوے کی کوئی بات نہیں ہے، کیونکہ جنگل سے گھرے ریسٹ ہاؤس میں رہنے سے ایڈونچر کا احساس ہوتا ہے۔

دھُرجٹی بابو مجھ سے ایک روز پہلے آئے ہیں۔ وہ کیوں آئے ہیں، یہ بات ابھی تک کھل کر نہیں بتائی ہے، حالانکہ سیر سپاٹے کے علاوہ کوئی دوسری وجہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ ہم دونوں ایک ہی جیپ سے سیر سپاٹا کرتے ہیں۔ کل ہم یہاں سے بائیس میل دور، دیگ نام کی ایک جگہ کے قلعے اور محلات دیکھنے گئے تھے۔ آج صبح بھرت پور کا قلعہ بھی دیکھ لیا ہے۔ تیسرے پہر کیولا داس کی جھیل کے پرندوں کا ٹھکانا دیکھنے گئے تھے۔ وہ ایک بہت ہی دلچسپ جگہ ہے۔ جھیل سات میل سے زیادہ ہی لمبی ہو گی۔ بیچ بیچ میں ٹاپو کی طرح اونچی زمین ہے اور انھیں زمین کے ٹکڑوں پر گویا تمام دنیا کے پرندے آ کر جمع ہو گئے ہیں۔ ان میں سے آدھے سے زیادہ پرندوں پر کبھی میری نظر نہیں پڑی تھی۔ میں حیران ہو کر پرندوں کو دیکھ رہا تھا اور دھُرجٹی بابو ہر پل کچھ بڑبڑاتے جاتے تھے اور اپنے ہاتھوں کو نچاتے ہوئے آس پاس کے بھنگوں کو بھگانے کی کوشش کر رہے تھے۔ بھنگا ایک قسم کا چھوٹا کیڑا ہوتا ہے۔ یہ جھنڈ بنا کر آتے ہیں اور سر کے چاروں طرف چکر کاٹ کر ناک منھ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ لیکن وہ اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ انھیں نظر انداز بھی کیا جا سکتا ہے۔ مگر دھُرجٹی بابو بار بار اُوب رہے تھے۔ اس طرح ہمت ہارنے سے کام کیسے چلے گا؟

ساڑھے آٹھ بجے کھانا کھا کر ہم سامنے کے برآمدے میں بیٹھے چاندنی رات کی خوبصورتی دیکھ رہے تھے۔ میں نے دھُرجٹی بابو سے کہا، ’’وہ جن سادھو بابا کے بارے میں کہہ رہا تھا، انھیں دیکھنے جائیں گے ؟‘‘

دھُرجٹی بابو نے اپنی سگریٹ کو یوکلپٹس کے درخت کے تنے کی طرف پھینکتے ہوئے کہا، ’’ناگ پالتو نہیں ہوتا ہے، ہو بھی نہیں سکتا۔ سانپوں کے بارے میں مجھے کافی معلومات ہے۔ بچپن میں میں جلپائی گُری میں رہتا تھا اور اپنے ہاتھوں سے ڈھیروں سانپ مار چکا ہوں۔ ناگ خطرناک اور ایک نمبری شیطان سانپ ہوتا ہے، اسے پالنا نا ممکن ہے۔ اس لیے سادھو بابا کے بارے میں جو خبر ملی ہے، اس میں کہاں تک سچائی ہے، اس پر مجھے شک ہو رہا ہے۔ ‘‘

میں نے کہا، ’’کل تیسرے پہر کوئی پروگرام بھی نہیں ہے۔ صبح بایان کا قلعہ دیکھنے کے بعد ہم فارغ ہو جائیں گے۔ ‘‘

’ ’کیا آپ سادھو سنیاسیوں کے تئیں عقیدت کا جذبہ رکھتے ہیں ؟‘‘

اس سوال کے پیچھے ایک گہرا طنز ہے، یہ بات میری سمجھ میں آ گئی۔ لیکن میں نے اس کا جواب سادگی سے ہی دیا۔

’’اس میں عقیدت کی بات کہاں آتی ہے ! کیونکہ ابھی تک مجھے کسی سادھو کی صحبت کا موقع نہیں ملا ہے۔ ہاں، تجسس ضرور ہے۔ ‘‘

’’کسی زمانے میں مجھے عقیدت تھی، لیکن ایک بار تجربہ ہوا تو پھر…‘‘

دھُرجٹی بابو کو جو تجربہ ہوا تھا، اس کا بیان کرتا ہوں … وہ بلڈ پریشر کے مریض ہیں۔ دس سال پہلے انھوں نے اپنے تاؤ جی کی باتوں میں آ کر ایک سادھو بابا کی دی ہوئی دوا کھا لی تھی جس کی وجہ سے انھیں سات روز تک سخت قسم کے پیٹ درد کا سامنا کرنا پڑا تھا اور بلڈ پریشر بھی بڑھ گیا تھا۔ اسی روز سے دھُرجٹی بابو کو یہ وہم ہو گیا ہے کہ ہندوستان کے سو میں سے نوے سادھو بہروپیے اور مکار ہیں۔

ان کا سنیاسیوں کے تئیں تعصب مجھے بہت ہی دلچسپ لگ رہا تھا، اس لیے ان کو بھڑکانے کے خیال سے میں نے کہا، ’’آپ یا ہم پالتو نہیں ہو سکتے، مگر میں نے سنا ہے کہ ہمالیہ میں سادھو اور شیر ایک ہی گپھا میں ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ ‘‘

’’سنا ہی ہے نا؟ دیکھا تو نہیں ؟‘‘

مجھے ماننا پڑا کہ میں نے دیکھا نہیں ہے۔

’’دیکھیں گے بھی نہیں۔ ہمارا ہندوستان قصے کہانی گڑھنے والا ملک ہے۔ سنیں گے بہت کچھ، مگر آنکھوں سے دیکھنا چاہیں تو دکھائی کچھ بھی نہیں دے گا۔ رامائن، مہابھارت کو ہی لیجیے نا، لوگ کہتے ہیں کہ وہ تاریخ ہے، مگر اصل میں عجیب عجیب کہانیوں کے نمونے ہیں۔ راون کے دس سر ہیں۔ ہنومان دُم میں آگ لے کر لنکا میں آگ لگا رہے ہیں۔ بھیم کی بھوک، گھٹوتکچ، ہڑمنبہ، پشپک، کمبھ کرن۔ ان سب سے بڑھ کر نان سینس اور کیا ہو سکتا ہے ؟ اور اگر سادھو سنیاسیوں کی بات کریں تو اس کی شروعات پُرانوں سے ہی ہوئی ہے۔ لیکن تمام ملک کے تعلیم یافتہ اور جاہل آدمی اتنے دنوں سے اسی بات پر یقین کرتے آ رہے ہیں۔ ‘‘

بایان کا قلعہ دیکھنے کے بعد ہم ریسٹ ہاؤس میں لوٹ آئے اور کھانا کھا کر آرام کرنے لگے۔ پھر چار بجے املی بابا کے ڈیرے پر پہنچے۔ اس بار دھُرجٹی بابو نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ ہو سکتا ہے بابا کے بارے میں ان میں تھوڑاسا تجسس جاگ رہا ہو۔ جنگل کے بیچ ایک صاف ستھری اور کھلی جگہ میں ایک بڑے سے املی کے درخت کے نیچے بابا کی کٹیا ہے۔ درخت کے نام پر ہی بابا کا نام املی بابا پڑ گیا ہے اور یہ مقامی لوگوں نے ہی دے رکھا ہے۔ بابا کا اصل نام کسی کو بھی معلوم نہیں ہے۔ کھجور کے پتے کی کٹیا میں اپنے اکلوتے شاگرد کے ساتھ بابا ریچھ کی کھال پر بیٹھے ہیں۔ شاگرد کم عمر کا ہے۔ بابا کی عمر کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ سورج غروب ہونے میں ابھی ایک ڈیڑھ گھنٹے کی دیر ہے، لیکن املی کے پتوں کی گھنی چھاؤں کی وجہ سے اسی وقت یہاں اندھیرا پھیل چکا ہے۔

کٹیا کے سامنے دھونی جل رہی ہے۔ بابا کے ہاتھ میں گانجے کی چلم ہے۔ دھونی کی روشنی میں دیکھا کہ کٹیا کے پاس ہی ایک رسی ٹنگی ہوئی ہے جس پر انگوچھے اور لنگوٹ کے علاوہ سانپوں کی تقریباً دس کینچلیاں لٹکی ہوئی ہیں۔

ہمیں دیکھ کر بابا چلم کی درار سے مسکرا دیے۔ دھُرجٹی بابو نے پھسپھسا کر کہا، ’’فضول باتیں نہ کر کے اصل بات کا ہی ذکر کیجیے۔ پوچھیے کہ دودھ کس وقت پلایا جاتا ہے۔ ‘‘

’’آپ بال کشن سے ملنا چاہتے ہیں ؟‘‘

مجھے حیرت ہوئی کہ املی بابا نے ہمارے دل کی بات کیسے جان لی۔ ناگ کا نام بال کشن ہے، یہ بات جیپ کا ڈرائیور کچھ دیر پہلے ہی ہمیں بتا چکا ہے۔ ہمیں املی بابا کو بتانا پڑا کہ ہم ان کے سانپ کے بارے میں کافی کچھ سن چکے ہیں اور پالتو سانپ کو دودھ پیتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیا ہمیں یہ شرف حاصل ہو سکے گا؟

املی بابا نے معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ بال کشن ہر روز سورج غروب ہونے کے وقت بابا کی پکار سن کر گڑھے سے نکل کر کٹیا میں آتا ہے اور دودھ پی کر چلا جاتا ہے۔ دو دن پہلے تک وہ یہاں آ چکا ہے مگر کل سے اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ آج چونکہ پورنیما ہے، اس لیے آج بھی وہ نہیں آئے گا۔ کل سے آنا شروع کرے گا۔

سانپ کی طبیعت خراب ہوتی ہے، یہ بات میرے لیے نئی تھی۔ لیکن پالتو ہونے کی وجہ سے ایسابھی ہو سکتا ہے۔ آخر گایوں، گھوڑوں اور کتوں وغیرہ کے لیے اسپتال ہوتے ہی ہیں۔

بابا کے شاگرد نے ایک اور خبر دی۔ ایک تو اس کی طبیعت خراب تھی، اس پر اس کے گڑھے میں کچھ ماٹے داخل ہو گئے تھے اور اسے پریشان کر دیا تھا۔ بابا کی بد دعا سے وہ ماٹے خاک میں مل چکے ہیں۔ یہ بات سن کر دھُرجٹی بابو نے ترچھی نگاہوں سے میری طرف دیکھا۔ میں املی بابا کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ان کے چہرے میں یوں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ ایک معمولی ساجبہ پہنے ہیں۔ سر پر جٹا ہے، مگر ایسی نہیں کہ متاثر کر سکے۔ کانوں میں لوہے کا کنڈل، گلے میں تقریباً چار چھوٹی بڑی مالائیں، داہنے ہاتھ کی کہنی کے اوپر تعویذ۔ ان میں اور دوسرے سادھوؤں میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔ پھر بھی شام کی ڈھلتی روشنی میں دھونی کے پیچھے بیٹھے اس آدمی کے چہرے پر سے میری آنکھیں دوسری طرف ہٹنا ہی نہیں چاہتی تھیں۔ ہمیں کھڑا دیکھ کر شاگرد دو چٹائیاں لے آیا اور بابا سے تقریباً دس ہاتھ کی دوری پر انھیں بچھا دیا۔ لیکن بابا کا ناگ جب آج آئے گا ہی نہیں تو بیٹھنے سے کیا فائدہ؟ واپسی میں زیادہ دیر کرنے سے رات ہو جائے گی۔

گاڑی تو ہے، مگر راستہ جنگل کے اندر سے ہو کر جاتا ہے اور آس پاس جنگلی جانوروں کی کمی نہیں۔ ہرنوں کے جھنڈ پر ہر دن نظر پڑ جاتی ہے۔ اس لیے ہم وہاں بیٹھے نہیں۔ بابا کو جب ہم نے نمسکار کیا تو چلم کو بغیر ہٹائے، آنکھوں کو بند کر کے اور ماتھے کو جھکا کر انھوں نے بھی ہمیں جواب میں نمسکار کیا۔ ہم دونوں تقریباً سو گز کی دوری پر کھڑی اپنی جیپ کی طرف روانہ ہو گئے۔ کچھ دور تک درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندوں کی آوازیں ہمارے کانوں میں آتی رہیں، اس کے بعد سناٹاچھا گیا۔

کٹیا سے نکلنے کے بعد جب ہم کچھ قدم آگے بڑھ گئے تو اچانک دھُرجٹی بابو نے کہا، ’’سانپ ہم نہیں دیکھ سکے، مگر اس کا گڈھا ایک بار دیکھنے میں کیا حرج ہے ؟‘‘

میں نے کہا، ’’اس کے لیے املی بابا کے پاس جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہمارا ڈرائیور دین دیال بتا ہی چکا ہے کہ اسے گڈھے کا پتا معلوم ہے۔ ‘‘

’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ ‘‘

گاڑی سے دین دیال کو اپنے ساتھ لے کر ہم لوٹ آئے۔ اس بار کٹیا کی طرف نہ جا کر ہم ایک بادام کے درخت کی بغل سے ہوتے ہوئے ایک پگڈنڈی سے تھوڑی دور آگے بڑھے۔ سامنے ہی کانٹوں کی جھاڑی تھی۔ آس پاس پتھر کے ٹکڑوں کو دیکھ کر لگا کہ کسی زمانے میں یہاں کوئی عمارت رہی ہو گی۔ دین دیال نے بتایا کہ جھاڑی کے پیچھے ہی سانپ کا گڈھا ہے۔ اگر اسے ہی دیکھا جائے تو کچھ بھی پتا نہیں چل سکتا، کیونکہ روشنی اور بھی پھیکی ہو گئی ہے۔ دھُرجٹی بابو نے اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی ٹارچ نکالی اور جھاڑی پر روشنی ڈالی۔ جھاڑی کے پیچھے کا گڈھا دکھائی دینے لگا۔ خیر، گڈھا تو موجود ہے، مگر سانپ؟ کیا وہ اپنی طبیعت خرابی کی حالت میں ہمارے اشتیاق اور تجسس کو ختم کرنے کے لیے گڈھے سے باہر آئے گا؟

سچ کہوں، سادھو بابا کے ہاتھ سے ناگ کو دودھ پیتے ہوئے دیکھنے کا خواہش مند ہونے کے باوجود گڈھے کے سامنے کھڑے ہو کر سانپ کو دیکھنے کی مجھے ذرا بھی خواہش نہیں تھی۔ مگر دھُرجٹی بابو کے دل میں اب مجھ سے کہیں زیادہ تجسس تھا۔ روشنی سے جب کام نہیں بنا تو انھوں نے زمین سے ڈھیلے چن چن کر جھاڑی پر پھینکنا شروع کر دیے۔

مجھے ان کی یہ زیادتی اچھی نہیں لگی۔ میں نے کہا، ’’ کیا ہوا صاحب؟ دیکھ رہا ہوں، آپ پر تو دھن سوار ہو گئی ہے۔ آپ کو تو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ سانپ ہے۔ ‘‘

اس بار انھوں نے ایک بڑا سا ڈھیلا ہاتھ میں اٹھا لیا اور بولے، ’’مجھے اب بھی یقین نہیں ہو رہا ہے۔ اس ڈھیلے سے بھی اگر کچھ نتیجہ نہ نکلا تو میں سمجھوں گا کہ بابا جی کے بارے میں جو کچھ مشہور کیا جا رہا ہے وہ سب جھوٹ ہے۔ ‘‘

ڈھیلا زور سے آواز کرتا ہوا جھاڑی پر گرا اور اس نے کانٹوں اور پتوں کو تہس نہس کر دیا۔ دھُرجٹی بابو اب بھی گڈھے پر روشنی ڈالے ہوئے تھے۔ چند پلوں تک خاموشی چھائی رہی۔ جنگل کے اندر کہیں سے صرف جھینگر کی آواز آ رہی تھی۔ اس بار اس آواز کے ساتھ ایک اور آواز سنائی دی۔ ایک پھیکی اور بے سری سِسکاری جیسی آواز۔ اس کے بعد پتوں کی کھڑکھڑاہٹ شروع ہوئی اور پھر ٹارچ کی روشنی میں کسی چیز کا کالا اور چکنا حصہ دکھائی دیا۔ وہ چیز ہل ڈل رہی ہے، زندہ ہے اور آہستہ آہستہ گڈھے کے باہر نکل رہی ہے۔ اس بار جھاڑی کے پتے ہل اٹھے اور دوسرے ہی لمحے ان کے بیچ سے سانپ کاما تھا باہر نکل آیا۔ ٹارچ کی روشنی میں ناگ کی جلتی ہوئی آنکھیں دکھائی دیں، اس کے بعد اس کی دو حصوں میں بٹی ہوئی زبان، جو بار بار منھ سے نکل کر لپلپانے لگتی تھی اور پھر اندر چلی جاتی تھی۔ دین دیال کچھ دیر پہلے سے ہی لوٹنے کی ضد کر رہا تھا۔ اس بار اس نے بھرائی ہوئی التجائیہ آواز میں کہا، ’’چھوڑ دیجیے بابو! اب تو دیکھ چکے، واپس چلیے۔ ‘‘

شاید ٹارچ کی وجہ سے ہی بال کشن اب بھی اپنا سر نکال کر ہماری طرف گھور رہا ہے اور بیچ بیچ میں زبان باہر نکال رہا ہے۔ میں ڈھیروں سانپ دیکھ چکا ہوں مگر اتنے نزدیک سے اس قسم کے ناگ کو نہیں دیکھا تھا۔ ناگ حملہ کرنے کی کوشش نہ کر کے اس طرح ہماری طرف کیوں گھور رہا ہے ؟ ایسا تو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اچانک ٹارچ کی روشنی کانپتی ہوئی وہاں سے الگ ہٹ گئی۔ اس کے بعد جو حادثہ پیش آیا اس کے لیے میں قطعی تیار نہیں تھا۔ دھُرجٹی بابو نے اچانک ایک پتھر اٹھا کر بال کشن پر زور سے پھینک دیا، اس کے بعد ایک ایک کر کے دو پتھر اور پھینکے۔ ایک بھیانک اندیشے سے گھبرا کر میں نے کہا، ’ ’آپ نے یہ کیا کیا دھُرجٹی بابو؟‘‘

دھُرجٹی بابو میری بغل میں ہانپ رہے تھے۔ انھوں نے دھیمی آواز میں مگر دبی دبی مسرت کے ساتھ کہا، ’’ون ناگ لیس!‘‘

دین دیال ہکا بکا سا جھاڑی کی طرف تاک رہا ہے۔ دھُرجٹی بابو کے ہاتھ سے ٹارچ لے کر اس بار میں نے ہی گڑھے کی طرف روشنی ڈالی۔ بال کشن کے نڈھال جسم کا تھوڑا سا حصہ نظر آ رہا ہے۔ جھاڑی کے پتوں پر سانپ کے ماتھے سے نکلا ہوا تھوڑا سا خون لگا ہوا ہے۔

اس بیچ کب املی بابا اور ان کے شاگرد ہمارے پیچھے آ کر کھڑے ہو گئے تھے، ہمیں اس بات کا علم ہی نہ ہو سکا۔ پہلے دھُرجٹی بابو ہی پیچھے کی طرف مڑے۔ اس کے بعد میں نے بھی مڑ کر دیکھا۔ بابا ہاتھ میں ایک لاٹھی تھامے ہم سے تقریباً دس قدم کی دوری پر، ایک بونے سے کھجور کے پیڑ کے پاس کھڑے ہیں اور دھُرجٹی بابو کو ایک ٹک دیکھ رہے ہیں۔ بابا اتنے لمبے ہیں، اس کا اندازہ مجھے اس وقت نہیں ہو سکا تھا جب وہ بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کی نظروں کا بیان کرنا میرے بس سے باہر ہے۔ اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ اتنے غصے، نفرت اور حیرانی سے ملی جلی نگاہ میں نے کبھی کسی کی نہیں دیکھی تھی۔ بابا کا داہنا ہاتھ سامنے کی طرف اٹھ گیا۔ وہ ہاتھ دھُرجٹی بابو کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ درمیانی انگلی سامنے کی طرف آ گئی اور اس سے اشارہ اور بھی واضح ہو گیا۔ پہلی بار میں نے دیکھا کہ بابا کی ہر انگلی کا ناخن تقریباً دو انچ لمبا ہے۔ بابا کو دیکھ کر مجھے کس کی یاد آ رہی ہے ؟ بچپن میں دیکھی ہوئی، بیڈن اسٹریٹ میں واقع اپنے ماما کے گھر کی دیوار پر روی ورما کی بنائی ہوئی تصویر مجھے یاد آ رہی ہے۔ مُنی درواسا شکنتلا کو بددعا دے رہے ہیں۔ بالکل اسی انداز میں ان کا ہاتھ اٹھا ہوا ہے۔ آنکھوں میں بھی ویساہی جلال ہے۔

مگر املی بابا نے بددعا نہیں دی۔ اپنی سنجیدہ اور ہلکی آواز میں انھوں نے ہندی میں جو کچھ کہا اس کا مطلب یہ ہے: ’’ایک بال کشن چلا گیا تو اس میں حرج ہی کیا ہے ؟ کوئی دوسرا آ جائے گا۔ بال کشن کی موت نہیں ہو سکتی۔ وہ امر ہے۔ ‘‘

دھُرجٹی بابو خاک سے سنے اپنے ہاتھوں کو پونچھ کر میری طرف مڑے اور کہا، ’’چلیے۔ ‘‘

بابا کے چیلے نے وہاں آ کر گڈھے کے منھ سے ناگ کی لاش کو باہر نکالا، شاید اس کو دفن کرنے کی غرض سے۔ سانپ کی لمبائی دیکھ کر میرے منھ سے ایک حیرت کا اظہار کرنے والا لفظ خودبخود ادا ہو گیا۔ میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ ناگ اتنا لمبا ہو سکتا ہے۔ املی بابا آہستہ آہستہ کٹیا کی طرف روانہ ہو گئے۔ ہم تینوں جیپ میں بیٹھ گئے۔

ریسٹ ہاؤس سے واپسی میں دھُرجٹی بابو کو گم سم دیکھ کر میں ان سے کچھ کہے بغیر نہ رہ سکا۔

’’سانپ جبکہ ان کا پالتو تھا اور اس نے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا، تو آپ نے اسے مارا کیوں ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

میرا خیال تھا کہ وہ سانپ اور سادھوؤں کے بارے میں کچھ تلخ باتیں کہہ کر اپنے سیاہ کارنامے کا جواز پیش کرنے کی کوشش کریں گے، مگر انھوں نے ایسا کچھ نہیں کیا، بلکہ الٹا مجھ سے ہی ایک سوال کر دیا۔

‘’کھگم کون تھا صاحب؟‘‘

کھگم؟ نام تو جانا پہچانا سا لگتا ہے، مگر یاد نہیں آ رہا ہے کہ اس کے بارے میں میں نے کہاں پڑھا یا سنا ہے۔ دھُرجٹی بابو نے دو چار مرتبہ اور ’کھگم‘ لفظ ادا کیا اور آخر میں وہ چپ ہو گئے۔ جب ہم ریسٹ ہاؤس پہنچے تو چھ بج چکے تھے۔ املی بابا کا چہرہ بار بار میری آنکھوں کے سامنے آ رہا ہے۔ دھُرجٹی بابو کی طرف آنکھیں اٹھائے، ہاتھ اٹھائے درواسا کی طرح کھڑے ہیں۔ نہ جانے کیوں دھُرجٹی بابو مت کٹ جانے کے شکار ہو گئے ہیں۔ میرا دل کہہ رہا تھا کہ ہم اس حادثے کا انجام دیکھ آئے ہیں، اس لیے اب اس بارے میں سوچنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ باباخود ہی کہہ چکے ہیں کہ بال کشن کی موت نہیں ہوئی ہے۔ بھرت پور کے جنگل میں کیا دوسرا ناگ نہیں ہو گا؟ کل ہی بابا کے چیلے ایک دوسرے ناگ کو پکڑ کر لے آئیں گے۔

ڈنر کے لیے لچھمن نے مرغے کاسالن بنایا تھا۔ اس کے ساتھ پوریاں اور ماش کی دال۔ دن بھر گھومتے پھرتے رہنے سے آدمی کی بھوک خوب کھل جاتی ہے۔ کلکتہ میں رات میں جتنا کھاتا ہوں یہاں اس کا دگنا کھا لیتا ہوں۔ پست قامت ہونے سے کیا ہوا، دھُرجٹی بابو بھی خوش خوراک ہیں۔ لیکن آج ایسا محسوس ہوا کہ انھیں بالکل بھوک نہیں ہے۔ میں نے جب ان کی طبیعت کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے کوئی جواب نہ دیا۔

میں نے کہا، ’’آپ کو کیا بال کشن کے لیے دکھ ہو رہا ہے ؟‘‘

دھُرجٹی بابو نے جواب تو ضرور دیا، مگر اسے میرے سوال کا جواب نہیں کہا جا سکتا۔ پیٹرومیکس کی طرف گھورتے ہوئے اپنی آواز کو بے حد ہلکا اور ملائم بنا کر کہا، ’’سانپ پھس پھس … پھس پھس کر رہا تھا…پھس پھس… کر رہا تھا۔ ‘‘

میں نے ہنس کر کہا، ’’پھس پھس یا پھونس پھونس؟‘‘

آنکھوں کو روشنی کی طرف سے ہٹائے بغیر انھوں نے سرہلا کر کہا، ’’نہیں، پھس پھس… سانپ کی زبان، سانپ کی سسکاری… پھس پھس پھس…‘‘

یہ کہہ کر انھوں نے اپنی زبان کی پھانک سے سانپ کی سسکاری جیسی آواز باہر نکالی۔ اس کے بعد نظم پڑھنے کے سے انداز میں سر ہلا ہلا کر کہا، ’’سانپ کی زبان، سانپ کی سسکاری، پھس پھس پھس… بال کشن کا عجیب سا زہر… پھس پھس پھس…یہ کیاچیز ہے ؟ بکری کادودھ؟‘‘

آخر کے دو جملے یقیناً نظم کے تو نہ تھے یہ انھوں نے ایک معمولی طشتری میں رکھی پڈنگ کے بارے میں کہا تھا۔

لچھمن نے ’بکری‘ نہیں، صرف ’دودھ‘ لفظ ہی سنا تھا، اس لیے کہا، ’’ہاں بابو، دودھ اور انڈا ہے۔ ‘‘

دودھ اور انڈے سے پڈنگ بنتی ہے، یہ بات کون نہیں جانتا ؟

دھُرجٹی بابو یوں بھی من موجی اور خبطی قسم کے انسان ہیں۔ مگر آج ان کا رویہ کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔

اس بات کو محسوس کر کے انھوں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا اور کہا، ’’کئی دنوں سے دھوپ میں بہت چکر کاٹنا پڑے ہیں …کل سے ذرا احتیاط برتنا ہو گی۔ ‘‘

آج کڑاکے کی سردی ہے، اس لیے کھانا کھانے کے بعد باہر بیٹھنے کے بجائے میں اپنا سوٹ کیس ٹھیک کرنے لگا۔ کل شام بھرت پور سے رخصت ہونا ہے۔ آدھی رات کو مادھوپور میں گاڑی بدلنا ہے۔ صبح پانچ بجے میں جے پور پہنچ جاؤں گا۔

میرا یہی ارادہ تھا، مگر میرا ارادہ پورا نہ ہو سکا۔ منجھلے بھیا کو تار بھیج کر خبر دے دی کہ کسی خاص وجہ سے میرے پہنچنے کی تاریخ ایک دن آگے بڑھ گئی ہے۔ ایسا کیوں ہوا، یہی بات اب آگے بتانے جا رہا ہوں۔ واقعات کو حتی الامکان واضح طور پر بتانے کی کوشش کروں گا۔ جانتا ہوں اس واقعے پر سبھی یقین نہیں کریں گے۔ جس چیز کو میں بطور ثبوت پیش کر سکتا تھا، وہ اب بھی املی بابا کی کٹیا سے پچاس ہاتھ دور پڑی ہوئی ہے۔ اس کے بارے میں سوچتے ہی میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اس چیز کو ثبوت کے طور پر اپنے ہاتھ میں اٹھا کر نہیں لا سکا۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ خیر، اب واقعہ بیان کرتا ہوں۔

سوٹ کیس سنبھال کر میں نے لالٹین کی روشنی کم کر دی اور اسے میز کی آڑ میں رکھ دیا۔ اس کے بعد رات کا لباس پہن کر جیسے ہی بستر پر لیٹنے جا رہا تھا کہ مشرق کے دروازے پر طرف دستک ہوئی۔ اس دروازے کے پیچھے کی طرف دھُرجٹی بابو کا کمرہ ہے۔

جیسے ہی دروازہ کھولا، انھوں نے آہستہ سے کہا، ’’آپ کے پاس فلٹ وغیرہ ہے ؟یا مچھر بھگانے کی کوئی دوا؟‘‘

میں نے کہا، ’’مچھر کہاں سے آ گئے ؟ آپ کے کمرے کے دروازے کھڑکیوں میں جالی نہیں لگی ہے ؟‘‘

’’ہے۔ ‘‘

’’پھر؟‘‘

’’پھر بھی کوئی چیز کاٹتی ہے۔ ‘‘

’’اس کا آپ کو پتا چلتا ہے ؟‘‘

’’ہاتھ اور منھ میں داغ ابھرتے جا رہے ہیں۔ ‘‘

دروازے کے سامنے اندھیرا تھا، اس لیے ان کا چہرہ صاف نظر نہیں آ رہا تھا۔

’ ’ اندر چلے آئیے، ‘‘ میں نے کہا۔ ’’دیکھیں کس طرح کے داغ ہیں۔ ‘‘

دھُرجٹی بابو کمرے کے اندر چلے آئے۔ ان کے سامنے لالٹین رکھتے ہی داغ دکھائی دیے چار کونوں والے کتھئی کتھئی دھبے۔

اس طرح کے داغ میں نے اس کے پہلے نہیں دیکھے تھے اور دیکھنے پر مجھے اچھا بھی بھی نہیں لگا۔

میں نے کہا، ’’عجیب ہی طرح کی بیماری ہو گئی ہے۔ الرجی سے بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ کل صبح نیند ٹوٹتے ہی ڈاکٹر کے پاس چلیں گے۔ آپ سونے کی کوشش کیجیے۔ اس کے لیے فکر مند نہ ہوں۔ یہ کیڑے کے کاٹنے سے نہیں ہوا ہے، بات کچھ اور ہی ہے۔ درد ہو رہا ہے ؟‘‘

’’اوں ہوں۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے۔ جائیے، سوجائیے۔ ‘‘

دھُرجٹی بابو چلے گئے اور میں بستر پر آ کر کمبل اوڑھ کر لیٹ گیا۔ رات میں بستر پر لیٹ کر کتاب پڑھنے میں میں ماہر ہوں، مگر یہاں لالٹین کی روشنی میں ایساممکن نہیں ہے۔ سچ کہوں تو اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ دن بھر تھک جانے کے بعد تکیے پر سر رکھتے ہی دس منٹ کے اندر آنکھوں میں نیند اتر آتی ہے۔

مگر آج ایسا نہیں ہوا۔ کسی گاڑی کی آواز سے غنودگی دور ہو گئی۔ صاحبوں کی آواز کے ساتھ ساتھ ایک اجنبی کتے کی آواز سن رہا ہوں۔ ریسٹ ہاؤس میں کچھ سیاح آئے ہیں۔ ڈانٹ سن کر کتے نے بھونکنا بند کر دیا۔ معلوم ہوتا ہے صاحب لوگ بھی شاید کمرے کے اندر آ گئے ہیں۔ پھر سناٹا ہو گیا۔ باہر سے جھینگر کی آواز آ رہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی ایک اور آواز آ رہی ہے۔ میرے مشرق کی طرف واقع کمرے کے پڑوسی ابھی تک جاگ رہے ہیں اور نہ صرف جاگ رہے ہیں بلکہ چہل قدمی کر رہے ہیں۔ ان کے قدموں کی آہٹ سنائی دے رہی ہے۔ حالانکہ دروازے کے نیچے کے سوراخ سے کچھ دیر پہلے دیکھ چکا ہوں کہ لالٹین کو یا تو بجھا دیا گیا ہے یا بغل کے غسلخانے کے اندر رکھ دیا گیا ہے۔ وہ کمرے کے اندر چہل قدمی کیوں کر رہے ہیں ؟

مجھے لگا وہ نیم پاگل ہی نہیں، بلکہ اس سے بھی بڑھ چڑھ کر کچھ ہیں۔ ان سے میری جان پہچان محض دو دنوں کی ہے۔ انھوں نے اپنے بارے میں جو کچھ بتایا ہے، اس سے زیادہ میں ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ دو گھنٹے پہلے میں نے ان میں پاگل پن کے کوئی آثار نہیں دیکھے تھے۔ دیگ اور بایان کے قلعے کو دیکھتے وقت انھوں نے جس قسم کی باتیں کی تھیں اس سے معلوم ہوا کہ تاریخ کے بارے میں انھیں اچھی خاصی معلومات ہے۔ اتنا ہی نہیں، آرٹ کے بارے میں بھی انھیں کافی علم تھا۔ اور اس کی جھلک ان کی بات چیت سے مل رہی تھی۔ راجستھان کی تعمیرات میں ہندو اور مسلمان کاریگروں کے یوگ دان کی بات انھوں نے بہت ہی جوشیلے انداز میں بتائی تھی۔ لگتا ہے کہ ان کی طبیعت خراب ہے۔

میری گھڑی کا ریڈیم ڈائل اس وقت گیارہ بجنے کی خبر دے رہا تھا۔ مشرقی دروازے پر پھر دستک ہوئی۔ اس بار بستر سے اٹھنے کے بجائے میں نے چلا کر پوچھا، ’’کیا بات ہے دھُرجٹی بابو؟‘‘

’’س…س…س…س…‘‘

’’کیا کہہ رہے ہیں ؟‘‘

’’س…س…س…س…‘‘

معلوم ہوا کہ بیچارے کی آواز بیٹھ گئی ہے۔ بہت کشمکش میں پڑ گیا۔ میں نے دوبارہ پوچھا، ’’کیا کہہ رہے ہیں ؟ ٹھیک سے کہیے۔ ‘‘

’’س…س…س… سنیے ذرا۔ ‘‘

آخر مجھے اٹھنا ہی پڑا۔ دروازہ کھولتے ہی انھوں نے اس طرح کا سوال کیا کہ مجھے اکتاہٹ ہونے لگی۔

’’اچھا، س…س…س… سانپ میں کیا ’س‘ ہوتی ہے ؟‘‘

’’جی ہاں، سانپ کا مطلب جب اسنیک ہوتا ہے تو’س‘ ہی ہوتی ہے۔ ‘‘میں نے اپنی اکتاہٹ چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ ’’آپ نے اسی بات کو جاننے کے لیے اتنی رات گئے دروازہ کھٹکھٹایا؟‘‘

’’س؟‘‘

’’جی ہاں۔ سانپ کا مطلب جب سانپ ہوتا ہے تو’س‘ ہی ہوتی ہے۔ ‘‘

’’اور’ ش‘؟‘‘

’’وہ دوسری چیز ہے … شاپ، یعنی بد دعا۔ ‘‘

’’بددعا؟‘‘

’’ہاں، ابھی شاپ … بددعا۔ ‘‘

’’شکریہ…س…س…سوئیے جا کر۔ ‘‘

ان کی حالت دیکھ کر مجھے ترس آ رہا تھا۔ میں نے کہا، ’’آپ کو نیند کی دوا دیتا ہوں۔ دوا میرے پاس ہے۔ کھائیں گے ؟‘‘

’’نہیں …س …س… سردی میں نیند آ جاتی ہے۔ س…س…س… صرف شام میں غروب آفتاب کے وقت…‘‘

میں نے انھیں ٹوکا، ’’ آپ کی زبان میں کچھ ہو گیا ہے۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘

’’بات کہیں پر اٹک سی جاتی ہے۔ ذرا اپنی ٹارچ تو دیجیے۔ ‘‘

ان کے ساتھ میں بھی ان کے کمرے کے اندر گیا۔ ٹارچ سنگھار میز پر پڑی ہوئی تھی، اسے جلا کر میں نے ان کے منھ کے سامنے کیا اور انھوں نے منھ کھول کر زبان باہر نکال دی۔ اس میں شک نہیں کہ زبان میں کچھ نہ کچھ ہوا ہے۔ ایک پتلا ساسرخ داغ زبان کے سرے سے لے کر بیچ تک چلا گیا ہے۔

’’اس میں کوئی درد نہیں ہے ؟‘‘

’’نہیں۔ ‘‘

انھیں کس بیماری نے جکڑ لیا ہے، یہ بات میری سمجھ کے باہر ہے۔

اب میری نظر ان کے پلنگ پر گئی۔ بستر کا رنگ ڈھنگ دیکھ کرسمجھ میں آیا، اب تک وہ پلنگ پر لیٹے نہیں ہیں۔ میں نے بے رخی سے کہا، ’’آپ جب لیٹ جائیے گا تبھی میں اپنے کمرے میں جاؤں گا۔ میں ہاتھ جوڑ کر التجا کرتا ہوں کہ اب دروازہ مت کھٹکھٹائیے گا۔ کل ریل میں سو نہیں پاؤں گا، اس لیے آج رات سولینا چاہتا ہوں۔ ‘‘

مگر ان میں پلنگ کی طرف جانے کی کوئی خواہش نظر نہ آئی۔ لالٹین غسلخانے میں رکھی ہوئی ہے، اس وجہ سے کمرے میں روشنی نہیں کے برابر ہے۔ باہر پونم کا چاند روشن ہے۔ شمالی کھڑکی سے چاندنی آ کر فرش پر لوٹ رہی ہے، اس کی روشنی میں دھُرجٹی بابو دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ رات کے لباس میں ہیں اور بیچ بیچ میں ہونٹوں سے سِسکاری کی طرح آواز نکال رہے ہیں۔ آتے وقت میں نے اپنے بدن پر کمبل لپیٹ لیا تھا، مگر دھُرجٹی بابو کے بدن پر ایک بھی گرم کپڑا نہیں ہے۔ کہیں دھُرجٹی بابو حقیقت میں کسی بیماری کے چکر میں پھنس جائیں تو انھیں چھوڑ کر میرا یہاں سے جانا مشکل ہے۔ پردیس میں اگر کوئی بنگالی مصیبت میں پھنس جائے تو بنگالی ہونے کے ناتے اسے چھوڑ کر جانا میرے لیے نا ممکن ہو گا۔

میں نے جب ایک بار پھر ان سے سونے کو کہا اور میرے کہنے کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تو سوچا، ہاتھ پکڑ کر زبردستی لٹا دینے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے۔ اگر وہ چھوٹا بچہ بنتے ہیں تو مجھے بھی بزرگوں کی طرح سلوک کرنا ہو گا۔

مگر ان کا ہاتھ پکڑتے ہی مجھ میں اچانک ایسا رد عمل ہوا کہ گھبرا کر میں تین قدم پیچھے ہٹ گیا۔

دھُرجٹی بابو کا بدن برف کی مانند ٹھنڈا ہے۔ ایک زندہ آدمی کا بدن اتنا ٹھنڈا ہو سکتا ہے، یہ بات میری سمجھ کے باہر ہے۔

میری حالت دیکھ کر دھُرجٹی بابو کے ہونٹوں کے گوشے میں ایک ہنسی کھیل گئی۔ اب وہ اپنی پیلی آنکھوں سے میری طرف گھورتے ہوئے مسکرا رہے ہیں۔ میں نے رندھی ہوئی آواز میں کہا، ’ ’آپ کو کیا ہوا ہے ؟ بتائیے۔ ‘‘

دھُرجٹی بابو میری طرف سے آنکھیں نہیں ہٹاتے ہیں۔ چند پل بغیر پلک جھپکے میری طرف تاکتے رہے ہیں۔ میں حیرت سے دیکھتا ہوں، ان کی پلکیں ایک بار بھی نہیں جھپکی ہیں۔ اس بیچ ان کی زبان کئی بار ہونٹوں کی پھانک سے باہر نکل چکی ہے۔ اس کے بعد انھوں نے پھسپسا کر کہا، ’’بابا بلا رہے ہیں۔ بال کشن! بال کشن!… بابا بلا رہے ہیں …‘‘

اس کے بعد ان کا گھٹنا مڑ گیا۔ پہلے وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔ اس کے بعد اپنے بدن کو آگے کی طرف پھیلا کر فرش پر منھ کے بل لیٹ گئے اور کہنی کے بل چلتے ہوئے پلنگ کے نیچے چلے گئے۔

یہ بات میری سمجھ میں آ گئی ہے کہ میرا پورا جسم پسینے سے تر بتر ہو گیا ہے، میرے ہاتھ پاؤں تھر تھر کانپ رہے ہیں۔ کھڑا رہنے کی مجھ میں سکت نہیں ہے۔ دھُرجٹی بابو کے بارے میں جو اندیشہ تھا وہ دور ہو گیا ہے، اور اب میں جو کچھ محسوس کر رہا ہوں وہ بے یقینی اور دہشت سے ملا جلا ایک خوفناک احساس ہے۔

میں اپنے کمرے میں لوٹ آیا۔

دروازہ بند کر کے میں نے چٹخنی لگا دی اور پھر سر سے پیر تک کمبل ڈھک لیا۔ اس حالت میں کچھ دیر لیٹے رہنے کے بعد میرے بدن کی کپکپی دور ہوئی اور میرے دماغ نے سوچنا شروع کیا۔ معاملہ کہاں جا چکا ہے اور اپنی آنکھوں کے سامنے جو کچھ ہوتے ہوئے دیکھ چکا ہوں، اس سے کس نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے، اس پر میں نے ایک بار سوچ کر دیکھا۔ آج تیسرے پہر دھُرجٹی بابو نے املی بابا کے پالتو ناگ کو پتھر سے مار دیا۔ اس کے بعد ہی املی بابا نے دھُرجٹی بابو کی طرف انگلی تان کر کہا تھا: ایک بال کشن چلا گیا تو اس میں حرج ہی کیا ہے ؟ اس کی جگہ دوسرا بال کشن چلا آئے گا۔ وہ دوسرا بال کشن کوئی سانپ ہو گایا آدمی؟

یا آدمی سانپ بن جائے گا؟

دھُرجٹی بابو کے سارے بدن پر چکتّے اور داغ کس چیز کے ہیں ؟ زبان پر داغ کیا چیز ہو سکتی ہے ؟

یہ کیا دو حصوں میں بٹ جانے سے پہلے کی حالت ہے ؟

ان کا بدن اتنا سرد کیوں تھا؟

وہ پلنگ پر سونے کے بجائے پلنگ کے نیچے کیوں چلے گئے ؟

اچانک بجلی کوندنے کی طرح اک بات یاد آ گئی۔ کھگم! دھُرجٹی بابو نے کھگم کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ نام جانا پہچانا سالگا تھا، مگر سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ اب یاد آیا۔ بچپن میں مہابھارت کی ایک کہانی پڑھی تھی۔ کھگم نام کے ایک سادھو یا رِشی تھے ان کے شاپ سے ان کے دوست سہسرپاد منی ڈوھنورا سانپ ہو گئے تھے۔ کھگم… سانپ… شاپ… سب میں ایک رشتہ تو ہے۔ لیکن وہ ڈوھنورا سانپ ہو گئے تھے، اور دھرجٹی بابو کیا…؟

کوئی میرے دروازے پر پھر سے دستک دے رہا ہے۔ اوپر کی بجائے نیچے کی طرف کھٹکھٹا رہا ہے۔ چوکھٹ کے ٹھیک اوپر ایک بار… دو بار… تین بار…

میں بستر سے اٹھنے کا نام نہیں لے رہا ہوں۔ میں دروازہ نہیں کھولوں گا۔ ہاں، اب نہیں کھولوں گا۔

آواز تھم جاتی ہے۔ میں سانس روکے دم بخود لیٹا ہوں۔ اب کانوں میں سسکاری آتی ہے۔ آہستہ آہستہ وہ سسکاری دروازے سے دور سرک جاتی ہے۔ اب میرے دل کی دھڑکن کے سوا کوئی دوسری آواز نہیں آ رہی ہے۔

وہ کیا ہے ؟ چیں چیں جیسی آواز… ایک کریہہ مگر مہین چیخ… چوہا ہے کیا؟ یہاں چوہا ہے۔ پہلی رات ہی اپنے کمرے میں دیکھ چکا ہوں۔ دوسرے روز جب لچھمن سے کہا تو وہ باورچی خانے سے چوہے دان میں ایک زندہ چوہا لا کر دکھا گیا تھا۔ کہا تھا، چوہے کے ساتھ ساتھ چھچھوندر بھی ہے۔

چیخ آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے اور پھر سے سکوت طاری ہو جاتا ہے۔ گھڑی دیکھتا ہوں، پون بج رہا ہے۔ معلوم نہیں، نیند کہاں گم ہو گئی ہے۔ کھڑکی سے باہر کے پیڑ پودے نظر آ رہے ہیں۔ چاند شاید بیچ آسمان میں ہے۔

دروازہ کھولنے کی آواز ہوتی ہے۔ دھُرجٹی بابو برآمدے میں جانے کے لیے بغل کے کمرے کا دروازہ کھول رہے ہیں۔ میرے کمرے میں جس طرف کھڑکی ہے، برآمدے میں جانے کا دروازہ اسی طرف ہے۔ دھُرجٹی بابو کا کمرہ بھی بالکل ایساہی ہے۔ برآمدے پر سے اتر کر بیس ہاتھ آگے جانے کے بعد ہی پیڑ پودے ملنے لگتے ہیں۔

دھُرجٹی بابو برآمدے پر نکل آئے ہیں۔ کہاں جا رہے ہیں وہ؟ ان کا ارادہ کیا ہے ؟ میں بغیر پلک جھپکے کھڑکی کی طرف تاکتا ہوں۔

سِسکاری کی آواز آتی ہے۔ آواز مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ اب آواز میری کھڑکی کے باہر سے آ رہی ہے۔ خوش قسمتی سے کھڑکی بند ہے ورنہ…

کوئی چیز کھڑکی کے نیچے سے اوپر کی طرف آ رہی ہے۔ تھوڑی دور تک اوپر آتی ہے اور پھر ٹھٹک جاتی ہے۔ کسی کا سر ہے۔ لالٹین کی دھندلی روشنی میں دو چمکتی ہوئی پیلی آنکھیں نظر آ رہی ہیں وہ آنکھیں ایک ٹک میری طرف دیکھ رہی ہیں۔

چند لمحوں تک اسی طرح رہنے کے بعد وہ سر ایک کتے کی آواز سنتے ہی نیچے اتر کر کہیں غائب ہو جاتا ہے۔

کتا بھونک رہا ہے۔ پھر اس کی سہمی ہوئی سی چیخ سنائی دیتی ہے۔ اس کے بعد کسی کی نیند سے بوجھل آواز کتے کو پھٹکارتی ہوئی سنائی دیتی ہے۔ ایک دردناک چیخ کے ساتھ کتے کی آواز تھم جاتی ہے۔ اس کے بعد کوئی آواز نہیں آتی۔ میں لگ بھگ دس منٹ تک اپنے حواس و اعصاب کو قائم رکھے لیٹا رہتا ہوں۔ کانوں میں بار بار آج کی سنی ہوئی کویتا کی سطریں چلی آ رہی ہیں:

سانپ کی زبان سانپ کی سسکاری

پھس… پھس… پھس…

بال کشن کا وشم وِش

پھس… پھس… پھس…

آہستہ آہستہ وہ کویتا بھی خلا میں گم ہو جاتی ہے۔ جسم میں جیسے جان نہ ہونے کا احساس مجھے نیند کی طرف کھینچ کر لے جا رہا ہے۔ کسی صاحب کی چلاہٹ سن کر میری آنکھ کھل گئی۔ گھڑی دیکھنے پر پتا چلا، چھ بجنے میں دس منٹ باقی ہیں۔ لگتا ہے کچھ گڑبڑ ہوئی ہے۔ جلدی جلدی بدن پر ایک گرم کپڑا ڈال کر جب باہر نکلا تو گورے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ دو امریکی لڑکے ہیں۔ نام بروس اور مائیکل۔ ان لوگوں کا پالتو کتا کل رات مر گیا۔ اپنے کمرے میں ہی کتے کو رکھ کر وہ سوئے ہوئے تھے۔ کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ سانپ یا بچھو نے اسے کاٹ لیا تھا۔

مائیکل کا خیال ہے کہ بچھو ہو گا کیونکہ سردی کے موسم میں سانپ باہر نہیں نکلتے۔ کتے کے پیچھے وقت ضائع نہ کر کے میں برآمدے کے دوسری طرف دھُرجٹی بابو کے کمرے کے سامنے پہنچا۔ دروازہ کھلا ہوا ہے مگر کمرے میں کوئی نہیں ہے۔ لچھمن ہر روز صبح ساڑھے پانچ بجے جاگ کر چولھا جلاتا ہے اور چائے کے لیے پانی گرم کرتا ہے۔ اس سے پوچھنے پر پتا چلا کہ دھُرجٹی بابو پر اس کی نظر نہیں پڑی ہے۔

دل میں طرح طرح کے خیال آ رہے ہیں۔ چاہے جیسے بھی ہو انھیں تلاش تو کرنا ہی ہے۔ پیدل چل کر وہ کتنی دور جا سکتے ہیں ؟ مگر تمام جنگل میں تلاش کرنے کے باوجود ان کا کہیں پتا نہ چلا۔

ساڑھے دس بجے جیپ آئی۔ میں نے ڈرائیور سے کہا، ’’پوسٹ آفس جا کر مجھے ٹیلی گرام کرنا ہے۔ جب تک دھُرجٹی بابوسے متعلق راز کا پردہ فاش نہیں ہو جاتا، میں بھرت پور سے نہیں جاؤں گا۔ ‘‘

منجھلے بھیا کو ٹیلی گرام کرنے کے بعد میں نے ریل کا ٹکٹ ایک روز آگے کے لیے بڑھوا لیا اور ریسٹ ہاؤس لوٹ آیا۔ وہاں آنے پر پتا چلا کہ دھُرجٹی بابو کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملی ہے۔ دونوں امریکی اس بیچ کتے کو دفنا کر، بوریا بستر سمیٹ کر وہاں سے روانہ ہو چکے تھے۔

دوپہر بھر میں ریسٹ ہاؤس کے آس پاس چکر کاٹتا رہا۔ میرے کہنے کے مطابق جیپ تیسرے پہر دوبارہ آ گئی۔ میرے دماغ میں ایک خیال آیا تھا۔ دل کہہ رہا تھا، اس سے کچھ پتا چل سکتا ہے۔ میں نے ڈرائیور سے کہا، ’’املی بابا کے پاس چلو۔ ‘‘

کل جس وقت پہنچا تھا آج بھی تقریباً اسی وقت بابا کی کٹیا میں پہنچا۔ بابا کل کی طرح دھونی رمائے بیٹھے تھے۔ آج یہاں دو شاگرد اور ہیں۔ ایک ادھیڑ آدمی اور دوسرا لڑکا سا۔

مجھ پر نگاہ پڑتے ہی بابا نے گردن ترچھی کر کے نمسکار کیا۔ کل کی بھسم کر دینے والی نگاہ اور آج کی نگاہ میں کوئی مطابقت نہیں تھی۔

وقت ضائع نہ کر کے میں نے بابا سے سیدھا سوال کیا کہ میرے ساتھ جو صاحب آئے تھے، ان کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں یا نہیں۔ بابا کے چہرے پر خوشی ابھر آئی۔ بولے، ’’بتاسکتا ہوں۔ تمھارے دوست نے میری خواہش پوری کر دی ہے، وہ میرے بال کشن کو واپس لے آیا ہے۔ ‘‘

اتنی دیر کے بعد بابا کے داہنے ہاتھ کے پاس رکھی ہوئی پتھر کی ایک کٹوری پر میری نگاہ پڑی۔ اس میں سفید رنگ کی جو پتلی چیز رکھی ہے، وہ دودھ کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی۔ مگر میں سانپ اور دودھ کی کٹوری دیکھنے کے لیے اتنی دور نہیں آیا ہوں۔ میں دھُرجٹی بابو کی تلاش میں آیا ہوں۔ وہ ہوا میں نہیں مل گئے ہوں گے۔ ان کے وجود کا اگر کوئی نشان بھی مل جاتا تو مجھے اطمینان ہو جاتا۔

یہ پہلے بھی دیکھ چکا ہوں کہ املی بابا آدمی کے دل کی بات سمجھ جاتے ہیں۔ گانجے کی چلم سے ایک لمبا کش لے کر انھوں نے چلم اپنے ادھیڑ عمر کے چیلے کو بڑھا دی اور بولے، ’ ’اپنے دوست کو تم پہلے کے جیسا واپس نہیں پا سکو گے۔ ہاں، وہ اپنی نشانی رکھ گیا ہے۔ وہ نشانی تمھیں بال کشن کے ڈیرے سے پچاس قدم داہنی طرف ملے گی۔ ہوشیاری سے جانا، راستے میں بہت سے کانٹے دار پودے ہیں۔ ‘‘

بابا کے کہنے کے مطابق میں بال کشن کے گڈھے کے پاس گیا۔ اس میں سانپ ہے یا نہیں، یہ جاننے کا مجھے اب ذرا بھی تجسس نہیں ہے۔ آسمان میں ڈوبتے ہوئے سورج کو نہارتا ہوا جنوب کی طرف بڑھتا گیا۔ پتھر کے ڈھونکے اور کانٹوں کے بیچ سے ہوتا ہوا جب میں پچاس قدم آگے بڑھا تو ارجن کے ایک درخت کے تنے کے قریب جس چیز پر نظر پڑی اس چیز کو کچھ منٹ پہلے املی بابا کی کٹیا میں رسی پر ٹنگے ہوئے دیکھ چکا ہوں۔

وہ ایک کینچلی تھی… پوری کینچلی پر چتکبرے داغ۔

یہ کیا سانپ کی کینچلی ہے ؟ نہیں نہیں، ایسا نہیں ہے۔ سانپ اتنا چوڑا کہاں ہوتا ہے ؟ سانپ کے دونوں طرف سے کیا دو ہاتھ اور نچلے حصے سے دو پیر باہر نکلتے ہیں ؟

در اصل یہ آدمی کی کینچلی ہے۔ وہ آدمی اب آدمی کی شکل میں نہیں رہ گیا ہے۔ اب وہ اس گڈھے میں کنڈلی مار کر لیٹا ہے۔ وہ اب ناگ کے روپ میں ہے اور اس کے دانتوں میں زہر ہے۔

لو، اب اس کی سِسکاری سنائی دے رہی ہے۔ سورج غروب ہو رہا ہے۔ املی بابا پکار رہے ہیں: ’’بال کشن…بال کشن… بال کشن…‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

رتن بابو اور وہ آدمی

 

ٹرین سے اترنے کے بعد جب رتن بابو نے اپنے آس پاس نگاہ ڈالی تو ان کا دل خوشیوں سے بھر گیا۔ جگہ تو اچھی لگتی ہے۔ اسٹیشن کے پیچھے کا سکھوئے کا درخت اپنا سر اونچا کیے کھڑا ہے اور اس کی ڈال میں ایک سرخ رنگ کی پتنگ اٹکی ہوئی ہے۔ لوگ بہت مصروف بھی نہیں نظر آتے۔

ہوا میں ایک قسم کی سوندھی خوشبو ہے۔ مجموعی طور پر یہاں کا ماحول بہت دلکش ہے۔

ان کے ساتھ ایک چھوٹابستر اور چمڑے کا ایک سوٹ کیس ہے۔ قلی کی ضرورت نہیں۔ رتن بابو نے ان چیزوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں اٹھا لیا اور گیٹ کی طرف بڑھ گئے۔

باہر رکشا ملنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ دھاری دار ہاف پینٹ پہنے ہوئے چھوکرے جیسے رکشا والے نے پوچھا، ’’کہاں جائیے گا بابو؟‘‘

رتن بابو نے دریافت کیا، ’’نیو مہامایا ہوٹل کہاں ہے، جانتے ہو؟‘‘

چھوکرے نے سرہلا کر ہامی بھری اور کہا، ’’بیٹھیے۔ ‘‘

گھومنا پھرنا رتن بابو کا جھکی پن ہی کہا جائے گا۔ موقع ملتے ہی وہ کلکتہ کے باہر کہیں گھومنے کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انھیں ہمیشہ یہ سنہرا موقع مل جاتا ہے، کیونکہ وہ نوکری کرتے ہیں۔ وہ کلکتہ کے زولاجیکل سروے آفس میں کرانی کا کام کرتے ہیں۔ چوبیس سال سے وہ اسی نوکری پر ہیں، اس لیے انھیں باہر جانے کا موقع سال میں ایک بار ہی ملتا ہے۔ پوجا کی چھٹی کے ساتھ ہی سال بھر میں ملنے والی چھٹی لے کر وہ ہر سال کہیں نہ کہیں سیر سپاٹے کے لیے نکل جاتے ہیں۔ سیر سپاٹے کے معاملے میں وہ کسی کو اپنے ساتھ نہیں لیتے۔ ساتھ لینے کی خواہش بھی ان کے دل میں نہیں ہوتی۔ یہ بات نہیں کہ شروع میں انھیں ساتھی کی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ایک بار برابر کی میز پر بیٹھنے والے کیشو بابو سے ان کی اس موضوع پر بات چیت بھی ہوئی تھی۔ مہالیہ کے کئی دن پہلے ہی رتن بابو چھٹی لینے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔

انھوں نے کہا تھا، ’’آپ بھی تو صاحب، اکیلے آدمی ہیں۔ چلیے نا، اس بار پوجا کی چھٹی میں کہیں گھوم پھر آئیں۔ ‘‘

کیشو بابو نے اپنا قلم کان میں لگا کر اپنے ہاتھوں کو جوڑ کر ان کی طرف دیکھا تھا اور سرہلا کر مسکراتے ہوئے کہا تھا، ’’آپ کی پسند اور میری پسند کیا ایک ہو پائے گی؟آپ ایسی ایسی عجیب جگہوں میں جائیں گے جن کا ہمیں نام بھی نہیں معلوم۔ وہاں نہ تو کوئی قابلِ دید جگہ ہو گی اور نہ ہی کھانے پینے کی کوئی آسانی۔ مجھے معاف کریں، میں ہری نا بھی اپنے برادر نسبتی کے یہاں جا رہا ہوں۔ ‘‘

آہستہ آہستہ رتن بابو کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ اپنی مرضی کے مطابق دوست ملنا بے حد مشکل ہے۔ ان کی پسند ناپسند دوسروں کی پسند ناپسند سے بالکل نہیں ملتی ہے، اس لیے دوست بنانے کی امید چھوڑ ہی دینا چاہیے۔

رتن بابو کے عادت اور مزاج واقعی مختلف تو تھے۔ مثال کے طور پر آب و ہوا کی تبدیلی کی بات کو ہی لے لیجیے۔ کیشو بابو نے غلط نہیں کہا تھا۔ لوگ عام طور سے آب و ہوا بدلنے کے خیال سے جن جگہوں پر جاتے ہیں، رتن بابو کی نگاہ اس طرف جاتی ہی نہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ارے صاحب، یہ بات تو ہر کسی کو معلوم ہے کہ پوری کے پاس ہی سمندر ہے، جگن ناتھ جی کا مندر ہے، دارجیلنگ سے کنچن جنگھا دکھائی دیتا ہے، ہزاری باغ میں پہاڑ ہیں، جنگل ہیں، رانچی کے پاس ہنڈرو فالز ہیں اور لوگوں کے منھ سے بار بار کسی چیز کا ذکر سننے کا مطلب یہ ہوا کہ اسے دیکھ لیا۔ ‘‘

رتن بابو کو جس جگہ کی تلاش رہتی ہے، وہ ہے ریلوے اسٹیشن کا کوئی چھوٹا سا شہر بس، اتنا ہی۔ ہر سال چھٹی کے پہلے ٹائم ٹیبل کھول کر وہ ایک ایسی جگہ کا نام تلاش کرتے ہیں جو زیادہ دور نہ ہو، اور پھر وہ دُرگا کا نام لے کر نکل پڑتے ہیں۔ کہاں گئے تھے، کیا کیا دیکھا، یہ سب ان سے کوئی پوچھتا نہیں، اور وہ بھی کسی کو نہیں بتاتے۔ ایسا کئی بار ہو چکا ہے کہ وہ ایسی جگہ پہنچ گئے ہیں جس کا انھوں نے کبھی نام تک نہ سنا ہو گا، اور وہ جہاں بھی گئے ہیں وہاں انھیں ایسی چیز ضرور مل گئی ہے جس کی وجہ سے ان کا دل خوشیوں سے بھر گیا ہے۔ دوسرے لوگوں کی نظروں میں یہ سب چیزیں، ہو سکتا ہے بالکل معمولی ہوں۔ جیسے رات بھات کھاوا کا ایک بوڑھا پیپل جو ایک بیر اور ناریل کے پیڑوں سے لپٹ کر کھڑا ہے، مہیش گنج کی ایک نیل کوٹھی کا کھنڈر، مئینا کی ایک مٹھائی کی دکان کی دال کی برفی…

اس بار رتن بابو جہاں آئے ہیں، اس جگہ کا نام سِنی ہے۔ یہ قصبہ ٹاٹا نگر سے پندرہ میل دوری پر ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ اس جگہ کو انھوں نے ٹائم ٹیبل سے تلاش کر کے نہیں نکالا ہے۔ آفس کے قریبی دوستوں نے اس جگہ کے بارے میں بتایا تھا۔ نیو مہامایا ہوٹل کا نام بھی انھیں سے سنا تھا۔

رتن بابو کو ہوٹل پسند آیا۔ کمرہ چھوٹا ہے، مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے ! مشرق اور جنوب دونوں طرف کھڑکیاں ہیں۔ ان کھڑکیوں سے بہت ہی خوبصورت منظر نظر آتے ہیں۔ پنچا نام کا جو نوکر ہے، وہ سیدھا سادہ ہے۔ چاہے سردی ہو یا گرمی، رتن بابو ہر موسم میں گرم پانی سے نہاتے ہیں۔ پنچا نے انھیں دلاسا دیا کہ اس کے لیے انھیں فکر مند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہوٹل کا کھانا بھی ٹھیک ہی ہے اور رتن بابو بھی یہی پسند کرتے ہیں، کیونکہ کھانے پینے کا انھیں زیادہ مراق نہیں ہے۔ ان کی طرف سے بس ایک ہی مانگ رہتی ہے بھات اور روٹی۔ یہ دو چیزیں اگر ایک ساتھ نہ ہوں تو وہ کھانا نہیں کھاسکتے۔ مچھلی کے شور بے کے ساتھ بھات اور دال سبزی کے ساتھ روٹی، یہی ان کا کھانا کھانے کا طریقہ ہے۔ ہوٹل آتے ہی انھوں نے یہ بات پنچا کو بتا دی ہے اور پنچا نے یہ خبر منیجر کو دے دی ہے۔

نئی جگہ آنے پر پہلے دن ہی جب تک وہ تیسرے پہر چہل قدمی نہیں کر آتے، انھیں سکون نہیں ملتا۔ سِنی آنے پر بھی اس معمول میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ چار بجے پنچا کی لائی ہوئی چائے پی کر رتن بابو گھومنے پھرنے نکل گئے۔ قصبے سے باہر نکلتے ہی کھلا ہوا ناہموار میدان ملتا ہے۔ اس کے بیچ سے پگڈنڈیاں نکلتی چلی گئی ہیں۔ رتن بابو ایک پگڈنڈی پر چلتے ہوئے جب ایک ڈیڑھ میل نکل گئے تو انھوں نے ایک بہت خوبصورت چیز ڈھونڈ نکالی۔ ایک چھوٹا سا ڈیرا ہے۔ اس میں کچھ کُمد کے پھول کھلے ہیں، اور ان کے چاروں طرف بیشمار پرندوں کا ہجوم لگا ہے۔ بگلا، ڈاہُک، چاہا، کوڈلآ ان پرندوں کو رتن بابو پہچانتے ہیں۔ باقی پرندوں کو انھوں نے یہاں پہلی بار دیکھا ہے۔

ہر روز تیسرے پہر اسی ڈیرے کے کنارے بیٹھ کر رتن بابو چھٹی کے باقی دن گزار سکتے ہیں۔ مگر دوسرے روز کسی دوسری چیز کی تلاش میں انھوں نے ایک نئی پگڈنڈی پکڑ کر چلنا شروع کر دیا۔ ایک آدھ میل جانے کے بعد راستے میں بکریوں کا ریوڑ ملا اور انھیں اپنی چہل قدمی کچھ دیر کے لیے روکنا پڑی۔ جب راستہ خالی ہو گیا تو وہ آگے بڑھے اور تقریباً پانچ منٹ کے بعد ان کی نگاہ لکڑی کے ایک پُل پر گئی۔ کچھ دور جانے پر انھیں پتا چلا کہ وہ ایک اوور برج ہے۔ اس کے نیچے سے ریلوے کی لائن چلی گئی ہے۔ مشرق کی طرف تھوڑے فاصلے پر اسٹیشن نظر آ رہا ہے، اور مغرب کی طرف آنکھیں جتنی دور جاتی ہیں، ریل کی پٹریاں بچھی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اچانک ابھی کوئی ریل آ کر پل کے نیچے سے نکل جائے تو کتنی عجیب بات ہو گی، یہ بات سوچتے ہی رتن بابو کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔

رتن بابو چونکہ ایک ٹک ریل گاڑی کی پٹریوں کی طرف دیکھ رہے تھے، اس لیے کب ایک دوسرا آدمی ان کی بغل میں آ کر کھڑا ہو گیا، اس کا انھیں علم ہی نہیں ہوا۔ جب انھوں نے بغل کی طرف نگاہ گھمائی تو چونک گئے۔

وہ آدمی دھوتی اور قمیص پہنے تھا۔ کندھے پر خاکی رنگ کی ایک چادر تھی، پاؤں میں کینوس کے جوتے، آنکھوں پر بائی فوکل چشمہ۔ رتن بابو کے دل میں ایک کھٹکا پیدا ہوا۔ اس آدمی کو کیا وہ اس سے پہلے دیکھ چکے ہیں ؟ جانا پہچانا سا نہیں لگتا کیا؟ درمیانی قد کا ہے، بدن کا رنگ بھی گورے کالے کے بیچ کا ہے، آنکھیں اُداس اور جذباتی ہیں۔ کتنی عمر ہو گی؟ پچاس سے زیادہ نہیں ہے۔ بال بہت ہی کم پکے ہیں کم سے کم شام کی روشنی میں تو ایسا ہی لگتا ہے۔

اجنبی نے ایک ٹھنڈی ہنسی ہنس کر رتن بابو کو نمسکار کیا۔ رتن بابو ہاتھ جوڑ کر جب اسے نمسکار کرنے لگے تو اچانک یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ان کے دل میں یہ وہم کیوں پیدا ہو رہا تھا۔ یہ آدمی جو جانا پہچانا سا لگتا ہے، اس کی کوئی دوسری وجہ نہیں ہے۔ اس ڈھانچے کے چہرے کو رتن بابو بہت بار دیکھ چکے ہیں، اور دیکھا ہے تو آئینے میں ہی۔ اس بھلے آدمی سے ان کا چہرہ ہو بہو ملتا جلتا ہے۔ چوکور چہرہ، بالوں کی مانگ، مونچھوں کی شکل، ٹھوڑی کے بیچ کا گڈھا، کان کے اوپر کا حصہ یہ سب تقریباً ایک جیسے ہیں۔ ہاں، اجنبی کے بدن کا رنگ کچھ زیادہ کالا پن لیے ہوئے ہے، بھنویں زیادہ گھنی ہیں اور سر کے پچھلے حصے کے بال کچھ زیادہ لمبے ہیں۔

اس کے بعد اجنبی کے گلے کی آواز سن کر رتن بابو اور بھی زیادہ چونک گئے۔ ایک بار محلے کے سشانت نام کے ایک لڑکے نے ان کے گلے کی آواز ٹیپ ریکارڈ میں بھر کر انھیں سنائی تھی۔ اس آواز اور اس آدمی کے گلے کی آواز میں کوئی فرق نہیں ہے۔

اجنبی نے کہا، ’’میرا نام ہے منی لال مجومدار۔ آپ نیومہامایا ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں نا؟‘‘

رتن لال… منی لال… نام بھی ملتے جلتے ہیں۔ رتن بابو نے حیرانی کے جذبے پر قابو پا کر اپنا تعارف کرایا۔

اجنبی نے کہا، ’’شاید آپ مجھے پہچان نہیں پا رہے ہیں، مگر میں اس کے پہلے بھی آپ کو دیکھ چکا ہوں۔ ‘‘

’’کہاں ؟‘‘

’’آپ پچھلی پوجا کی چھٹی میں دھلیان نہیں گئے تھے ؟‘‘

رتن بابو نے حیران ہو کر کہا، ’’آپ بھی وہاں گئے تھے ؟‘‘

’’جی ہاں، میں ہر بار پوجا کی چھٹی میں کہیں نہ کہیں جاتا ہوں۔ اکیلا آدمی ہوں، دوست احباب بھی زیادہ نہیں ہیں۔ اکیلے ہی نئی نئی جگہوں کا سیر سپاٹا کرنا بہت اچھا بھی لگتا ہے۔ سِنی کے بارے میں میرے آفس کے ایک ساتھی نے مجھے بتایا تھا۔ بہت ہی اچھی جگہ ہے۔ کہیے، ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟‘‘

رتن بابو نے تھوک نگل کر سرہلاتے ہوئے ہامی بھری۔ اب کچھ دیسی پرندے بھی وہاں جمع ہو گئے ہیں۔

’’کچھ ایسے پرندے بھی دیکھے جنھیں بنگال میں نہیں دیکھا تھا۔ آپ کا کیا خیال ہے ؟‘‘

اتنی دیر میں رتن بابو کچھ سنبھل گئے تھے۔ بولے، ’’میرا بھی یہی خیال ہے، میں بھی بہت سے پرندوں کو نہیں پہچان سکا تھا۔ ‘‘

دور سے ایک دھمک سی سنائی دے رہی ہے۔ ریل آ رہی ہے۔ مشرق کی طرف دیکھنے پر ہیڈلائٹ دکھائی دی۔ روشنی آہستہ آہستہ بڑی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ رتن بابو اور منی لال بابو پُل کی ریلنگ کے کنارے جا کر کھڑے ہو گئے۔ تیز آواز کرتی، پل کو دہلاتی ہلاتی، ریل دوسرے کنارے کی طرف چلی گئی۔ دونوں آدمی پیدل چل کر پل کی دوسری طرف بڑھ گئے اور اس وقت تک ریل کو دیکھتے رہے جب تک کہ وہ آنکھوں کے سامنے سے غائب نہ ہو گئی۔ رتن بابو کے دل میں بچوں جیسا سنسنی خیز جذبہ جاگ گیا ہے۔ منی لال بابو نے کہا، ’’حیرت ہے ! اتنی عمر ہو گئی، پھر بھی ریل گاڑی دیکھنے کا تجسس دل سے دور نہیں ہوا!‘‘

لوٹتے وقت رتن بابو کو معلوم ہوا کہ منی بابو کو سِنی آئے تین روز ہوئے ہیں اور وہ کالکا ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ کلکتہ میں ہی ان کا آبائی مکان ہے اور وہ وہیں کے ایک بزنس آفس میں کام کرتے ہیں۔ عام طور سے لوگ ایک دوسرے سے تنخواہ کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں کرتے ہیں مگر رتن بابو نہ چاہتے ہوئے بھی پوچھ ہی بیٹھے۔ جواب سن کر ان کا ما تھا پسینے سے بھیگ گیا۔ کیا یہ ممکن ہے ؟ منی لال اور رتن بابو کو بالکل ایک جتنی تنخواہ ملتی ہے دونوں میں سے ہر ایک کو چار سو پینتیس روپے۔ پوجا میں دونوں کو بونس بھی ایک جتنا ملا ہے۔

یہ آدمی پہلے سے ہی رتن بابو کے بارے میں سب کچھ پتا لگا کر ان کے ساتھ چالبازی کر رہا ہے، رتن بابو کو ایسا محسوس نہیں ہوا۔ پہلی بات تو یہ کہ ان کی روز مرہ کی زندگی کس طرح گزر رہی ہے، اس پر کبھی کسی نے غور نہیں کیا ہے۔ وہ اپنی رو میں زندگی جی رہے ہیں۔ آفس کے باہر نوکر کے علاوہ کسی دوسرے سے بات تک نہیں کرتے، کبھی کسی کے گھر جا کر اڈے بازی نہیں کرتے۔ اگر یہ مان بھی لیں کہ تنخواہ کے بارے میں باہری لوگوں کو معلوم ہے تو رات میں وہ کب سوتے ہیں، کیا کھانا پسند کرتے ہیں، کون سا اخبار پڑھتے ہیں، کون سا تھیٹر یا بنگالی سنیما ابھی حال میں انھوں نے دیکھا ہے یہ سب باتیں ان کے علاوہ کسی دوسرے کو معلوم نہیں۔ لیکن یہ ساری باتیں اس بھلے آدمی سے ہو بہو مل رہی ہیں۔ رتن بابو یہ بات منھ کھول کر منی لال بابو کو نہیں کہہ سکے۔ راستے بھر وہ صرف منی لال بابو کی باتیں سنتے رہے اور اپنے ساتھ اس کی مشابہت پا کر بار بار حیران ہوتے رہے۔ اپنے بارے میں انھوں نے کچھ نہیں بتایا۔

رتن بابو کا ہوٹل پہلے آتا ہے۔ ہوٹل کے سامنے آ کر منی لال بابو نے پوچھا، ’’آپ کے یہاں کھانا کیساملتا ہے ؟‘‘

رتن بابو نے کہا، ’ ’مچھلی کا شوربہ اچھا ہوتا ہے۔ باقی سب بس چالو کہہ لیجیے۔ ‘‘

’’میرے ہوٹل میں اچھا کھانا نہیں ملتا ہے۔ سنا ہے، یہاں جگن ناتھ مشٹھان بھنڈار میں بہت عمدہ پوریاں اور چنے کی دال ملتی ہے۔ آج رات وہیں کھانا کھایا جائے تو کیسا رہے ؟‘‘

رتن بابو نے کہا، ’’مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ آٹھ بجے چلا جائے ؟‘‘

’’ٹھیک ہے۔ میں آپ کا انتظار کروں گا۔ اس کے بعد ایک ساتھ چلیں گے۔ ‘‘

منی لال بابو کے چلے جانے کے بعد رتن بابو ہوٹل کے اندر جانے کے بجائے کچھ دیر تک راستے پر ہی چہل قدمی کرتے رہے۔ شام ڈھلنے لگی ہے۔ آسمان صاف ہے، اتنا صاف کہ تاروں کے بیچ سے گزرتی ہوئی کہکشاں بھی صاف صاف نظر آ رہی ہے۔ حیرت ہے، اتنے دنوں تک رتن بابو کو یہی دُکھ تھا کہ انھیں کوئی ایسا دوست نہ ملا جس سے ان کا دل اور خیالات ملتے ہوں ؛ لیکن سِنی آنے پر اچانک ایک ایسے آدمی سے ملاقات ہو گئی جسے ان کا ڈپلیکیٹ ہی کہا جا سکتا ہے۔ چہرے میں تھوڑا بہت فرق ہے، پھر بھی عادت، مزاج اور فطرت میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔ ایسی مماثلت جڑواں بھائیوں میں بھی ملنا مشکل ہوتی ہے۔

اس کا مطلب کیا یہ ہے کہ اتنے دنوں کے بعد دوست کی کمی پوری ہو گئی؟

رتن بابو کو اس بات کا جواب فوراً نہیں ملا۔ منی لال بابو سے تھوڑا اور ملنے جلنے سے، ہو سکتا ہے یہ بات ان کی سمجھ میں آ جائے۔ ایک چیز وہ اچھی طرح سمجھ گئے تھے، اور وہ یہ کہ ان کے اکیلے پن کی کمی دور ہو گئی ہے۔ اس دنیا میں انھیں کے جیسا ایک آدمی اتنے عرصے سے موجود تھا اور اب اس سے اچانک ملاقات ہو گئی۔

جگن ناتھ مشٹھان بھنڈار میں میز پر آمنے سامنے بیٹھ کر کھانا کھاتے ہوئے رتن بابو نے غور کیا کہ منی لال بابو بھی انھیں کی طرح چاٹ پونچھ کر کھانا پسند کرتے ہیں، انھیں کی طرح کھانا کھاتے کھاتے پانی پیتے ہیں، انھیں کی طرح کاغذی لیموں دال میں نچوڑ لیتے ہیں۔ سب کچھ کھانے کے بعد رتن بابو دہی کھاتے ہیں۔ منی لال بابو کے ساتھ بھی یہی بات ہے۔

کھانا کھاتے وقت رتن بابو کو اس لیے بے چینی محسوس ہو رہی تھی کیونکہ دوسری میزوں کے لوگ مڑ مڑ کر ان دونوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ یہ لوگ کیا ان دونوں کی مشابہت کو اتنے غور سے دیکھ رہے ہیں ؟ یہ دونوں کیا اس حد تک ایک دوسرے سے ملتے ہیں کہ لوگوں کی توجہ ان کی طرف مائل ہو جاتی ہے ؟

کھانا کھانے کے بعد رتن بابو اور منی لال بابو چاندنی رات میں کچھ دیر تک چہل قدمی کرتے رہے۔ ایک سوال رتن بابو کے دماغ میں بہت دیر سے گھوم رہا تھا، بات چیت کے دوران وہ باہر نکل آیا، ’’آپ کیا پچاس پار کر چکے ہیں ؟‘‘

منی لال بابو نے ہنس کر کہا، ’’جلد ہی پچاس سال پورے کرنے جا رہا ہوں۔ پوس کی گیارھویں تاریخ کو پچاس کمپلیٹ ہو جائے گا۔ ‘‘

رتن بابو کا دماغ چکرانے لگا۔ دونوں کی پیدائش کی تاریخ بھی ایک ہی ہے 1916کے پوس مہینے کی گیارھویں۔ آدھے گھنٹے تک چہل قدمی کرنے کے بعد وہاں سے رخصت ہوتے وقت منی لال بابو نے ہنس کر کہا، ’’آپ سے مل کر بے حد خوشی ہوئی۔ میں کسی سے گھلتا ملتا نہیں ہوں، مگر آپ کے ساتھ کچھ اور ہی بات ہے۔ لگتا ہے چھٹی مزے میں گزرے گی۔ ‘‘

رتن بابو دس بجے سے پہلے ہی سوجاتے ہیں۔ اپنے ساتھ بنگلہ زبان کے دو چار ماہوار رسالے لے کر لیٹے لیٹے جب ان کی ورق گردانی کرتے ہیں تو نیند خود بخود آ جاتی ہے۔ لیٹے لیٹے ہی ہاتھ بڑھا کر بجلی کا بٹن دبا کر بتی بجھا دیتے ہیں اور چند پلوں میں ہی ان کے خراٹے گونجنے لگتے ہیں۔ مگر آج نیند ان کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ پڑھنے کی خواہش بھی نہیں تھی۔ رسالے کو ہاتھ میں اٹھا کر پھر سے بغل کی میز پر رکھ دیا۔

منی لال مجومدار…رتن بابو نے کہاں پڑھا تھا کہ دنیا میں کروڑوں آدمی ہیں، پھر بھی کہیں ایسے دو آدمی نہیں مل سکتے جن کے چہرے ہو بہو ایک جیسے ہوں، حالانکہ سبھی کی آنکھ، کان، ناک، ہاتھ پیر وغیرہ کی تعداد برابر ہوتی ہے۔ چہرے کا ایک جیسا ہونا ہو سکتا ہے نا ممکن ہو، لیکن دولو گوں کے دل کا ایک جیسا ہونا کیا ممکن ہے ؟ دل ہی نہیں، عمر، پیشہ، گلے کی آواز، چلنے اور بیٹھنے کا انداز، آنکھوں کی عینک کا پاور وغیرہ، اور بھی بہت سے چیزیں ہو بہو ایک جیسی ہیں۔ سوچنے پر محسوس ہوتا ہے نا ممکن ہے، مگر ممکن ہو گیا ہے، اوراس کا ثبوت پچھلے چار گھنٹوں کے دوران رتن بابو کو کئی بار مل چکا ہے۔

رات بارہ بجے رتن بابو نے بستر سے اٹھ کر صراحی سے چلّو میں تھوڑا سا پانی لے کر اسے اپنے سر پر ڈالا۔ ان کا سر چکرانے لگا ہے۔ اس حالت میں نیند نہیں آئے گی۔ گیلے سر کو انگوچھے سے آہستہ سے پونچھا اور دوبارہ بستر پر لیٹ گئے۔ تکیہ بھیگ گیا۔ اچھی ہی بات ہے۔ جب تک تکیہ سوکھ نہیں جاتا ہے، ما تھا ٹھنڈا رہے گا۔

پورے محلے میں سناٹا چھایا ہوا ہے ایک الّو ڈراؤنی آواز میں چلّاتا ہوا ہوٹل کے قریب سے اڑتا ہوا چلا گیا۔ کھڑکی سے چاندنی آ کر بستر پر رینگ رہی ہے۔ نہ جانے کب رتن بابو کے دل سے فکر اپنے آپ دور ہو گئی اور ان کی پلکیں جھپک گئیں۔

رات کو دیر سے سونے کے باعث رتن بابو کی نیند صبح آٹھ بجے ٹوٹی۔ نو بجے منی لال بابو آنے والے ہیں۔ آج منگل کا دن ہے۔ یہاں سے تقریباً ڈیڑھ میل کے فاصلے پر آج ایک جگہ پر ہاٹ لگے گا۔ کل کھانا کھاتے ہوئے دونوں نے تقریباً ایک ساتھ ہی ہاٹ جانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ خریدنا کوئی خاص چیز نہیں ہے، بس یوں ہی گھوم پھر آئیں گے۔

چائے پیتے پیتے نو بج گئے۔ سامنے رکھی طشتری سے تھوڑی سی سونف اٹھا کر رتن بابو نے منھ میں ڈالی اور ہوٹل سے باہر آتے ہی دیکھا، منی لال بابو مسکراتے ہوئے چلے آ رہے ہیں۔

قریب آتے ہی منی لال بابو نے پہلی جو بات کہی وہ یہ کہ رتن بابو اور ان میں کتنی مشابہت ہے ! یہی بات سوچتے سوچتے کل رات وہ بہت دیر سے سوئے تھے۔ جب سوکر اٹھے تو آٹھ بج کر پانچ منٹ ہو چکے تھے۔ یوں وہ ٹھیک چھ بجے بستر سے اٹھ جاتے ہیں۔

رتن بابو نے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ دونوں ہاٹ کی طرف روانہ ہو گئے۔ محلے کے کچھ چھوکروں کا جمگھٹ لگا ہوا تھا۔ رتن بابو اور منی بابو ان کے سامنے سے جانے لگے تو ان میں سے ایک نے طنز کے لہجے میں کہا، ’’مانِک مُکتا کی جوڑی ہے۔ ‘‘ رتن بابو اس کی بات کو ٹالتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ تقریباً بیس منٹ میں وہ ہاٹ پہنچ گئے۔

کافی اچھا ہاٹ لگا ہے۔ پھل پھول سے لے کر ساگ سبزی، برتن، مٹی کی ہانڈی، مرغوں اور بکروں وغیرہ کی دکانیں سجی ہوئی ہیں۔ لوگوں کی بھیڑ بھی کافی ہے۔ اسی بھیڑ کے بیچ سے دکانوں پر سرسری نگاہ ڈالتے ہوئے رتن بابو اور منی لال بابو آگے بڑھتے گئے۔

وہ کون ہے ؟ پنچا؟ نہ جانے کیوں رتن بابو نے اس بھیڑ کے سامنے اپنے ہوٹل کے نوکر کو دیکھ کر اپنی آنکھیں جھکا لیں اور اپنے چہرے کو بھیڑ کی اوٹ میں چھپا لیا۔ اس چھوکرے کی ’’مانک مکتا کی جوڑی‘‘ کی بات سننے کے بعد سے ہی ان کے دل میں یہ بات گھر کر گئی ہے کہ ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر لوگ دل ہی دل میں ہنستے ہیں۔

بھیڑ کے بیچ سے گزرتے ہوئے رتن بابو کے دل میں اچانک ایک خیال آیا۔ انھیں لگا کہ وہ جب تنہا تھے تو زیادہ بہتر تھے۔ انھیں دوست کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ اور اگر دوست ہو بھی تو وہ منی لال بابو کی طرح نہ ہو۔ وہ منی لال بابو سے جتنی بار گفتگو کرتے ہیں، اتنی بار انھیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود اپنے آپ سے گفتگو کر رہے ہیں۔ سوال کرنے سے اس کا جواب کیا ملے گا، یہ بات جیسے انھیں پہلے سے ہی معلوم ہو۔ بحث کرنے کا کوئی موقع نہیں آتا، سوچ بچار کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، جھگڑے جھنجھٹ کا کوئی امکان نہیں ہے کیا یہ دوستی کی نشانی ہے ؟ ان کے دفتر کے کار تک رائے اور مکند چکرورتی میں گہری دوستی ہے۔ مگر ایسا ہونے پر بھی کیا دونوں میں بحث مباحثہ نہیں ہوتا ہے ؟ ہوتا ضرور ہے، مگر پھر بھی وہ دوست ہیں ایک دوسرے کے سچے دوست۔

ساری باتوں پر غور کرنے کے بعد انھیں بار بار یہی محسوس ہونے لگا کہ منی لال مجومدار اگر ان کی زندگی میں نہ آتے تو اچھا رہتا۔ ایک جیسے دو آدمی اگر اس دنیا میں ہوں تو ان کا ایک دوسرے کے قریب آنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ سِنی سے کلکتہ لوٹ جانے پر بھی منی لال بابو سے ملاقات ہو سکتی ہے، یہ بات سوچتے ہی رتن بابو کانپ اٹھتے۔

ایک دکان میں بانس کی لاٹھی بک رہی تھی۔ رتن بابو کی بہت دنوں سے لاٹھی خریدنے کی خواہش تھی، مگر منی لال بابو کو سودے بازی کرتے دیکھ کر زبردستی اپنی خواہش کو دل میں ہی دبا لیا۔ آخر میں دیکھنے میں یہ آیا کہ منی لال بابو نے ایک کے بجائے دو لاٹھیاں خریدیں اور ان میں سے ایک رتن بابو کو بطور تحفہ پیش کی۔ تحفہ دیتے وقت کہا، ’’امید ہے کہ یہ معمولی لاٹھی دوستی کی نشانی کے طور پر لینے سے آپ انکار نہیں کریں گے۔ ‘‘

ہاٹ سے لوٹتے وقت منی لال بابو نے بہت سی باتیں بتائیں۔ اپنے بچپن کی بات، اپنے ماں باپ کی بات، اپنے اسکول کالج کی بات سنتے وقت رتن بابو کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ان کی باتیں کوئی دھڑ لّے سے انھیں ہی سنارہا ہے۔

تیسرے پہر چائے پی کر جب وہ دونوں میدان کے بیچ پگڈنڈی سے ہو کر پل کی طرف جا رہے تھے تو رتن بابو کے دماغ میں ایک خیال آیا۔ انھیں زیادہ بولنا نہیں پڑ رہ تھا، اس لیے ان کا دماغ اچھی طرح کام کر رہا تھا۔ دوپہر سے ہی انھیں لگ رہا تھا کہ اس آدمی کو اگر دور ہٹاسکوں تو اچھا رہے، مگر دماغ میں کوئی تدبیر نہیں آ رہی تھی۔ اسی لمحے آسمان کے کالے بادلوں پر نگاہ پڑتے ہی رتن بابو کی آنکھوں کے سامنے یہ ترکیب آ گئی۔

حیرت ہے ! ایک آدمی کو قتل کرنے کی بات سوچ کر بھی رتن بابو خود کو قصور وار نہیں مان سکے۔ منی لال بابو میں اگر کوئی خصوصیت ہوتی، یہاں تک کہ ان کی عادت و اطوار رتن بابو سے اگر ذرا بھی مختلف ہوتے، تو رتن بابو ان کو قتل کرنے کی بات نہیں سوچ سکتے تھے۔ رتن بابو کو یقین ہو گیا ہے کہ ایک ہی طرح کے دو آدمیوں کا ایک ساتھ زندہ رہنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ وہ وہ ہیں اور وہی رہیں گے، یہی کافی ہے۔ منی لال بابو اگر زندہ رہ کر بھی ان سے دور رہتے، جیسے کہ کچھ دن پہلے تک تھے، تو انھیں کوئی اعتراض نہ تھا، مگر اب اس جان پہچان کے بعد ایسا ہونا نا ممکن ہے، اس لیے انھیں دور ہٹا دینا نہایت ضروری ہے۔

دونوں آدمی اوور برج پر پہنچ چکے تھے۔

’’بڑی ہی اُمس ہے، ‘‘ منی لال بابو نے کہا، ’’رات میں بارش ہو سکتی ہے۔ اور اس کا مطلب یہ کہ کل کڑاکے کی سردی پڑے گی۔ ‘‘

اس بیچ رتن بابو نے ایک بار اپنی گھڑی کی طرف نگاہ ڈالی چھ بجنے میں بارہ منٹ باقی ہیں۔ ریل ٹھیک وقت پر آتی جاتی ہے، اب دیر نہیں ہے۔ رتن بابو نے اپنی بے چینی کو چھپانے کے لیے جماہی لی اور کہا، ’ ’ابھی چار پانچ گھنٹے تک بارش ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔ ‘‘

’’سپاری کھائیں گے ؟‘‘

منی لال بابو نے جیب سے ٹین کی ایک گول ڈبیا نکالی اور اس کے ڈھکن کو کھول کر رتن بابو کی طرف بڑھائی۔ رتن بابو کی جیب میں بھی ایک ڈبیا میں سپاری تھی؛ اس ڈبیا کو جیب سے نکالے بغیر، اور اس کی بابت کچھ کہے بغیر، انھوں نے منی لال بابو کی ڈبیا سے سپاری کا ایک ٹکڑا نکال کر منھ میں ڈال لیا۔

اور عین اسی وقت ریل کی آواز سنائی دی۔

منی لال بابو نے ریلنگ کے پاس جا کر گھڑی کی طرف دیکھا اور کہا، ’’سیون منٹ بی فور ٹائم۔ ‘‘

مغرب کی طرف گھٹا چھائی ہونے کی وجہ سے آج اور دنوں کی بہ نسبت اندھیرا ہے، اس لیے ہیڈلائٹ کی روشنی زیادہ اجلی لگ رہی ہے۔ ریل اب بھی کافی دور ہے، اور ہاں، روشنی کا حجم جلدی جلدی بڑھتا جا رہا ہے۔ لگاتار دیکھا جائے تو آنکھوں میں پانی بھر آئے۔

ایک آدمی سائیکل پر سوار ہو کر سڑک سے پل کی طرف آ رہا ہے۔ بڑی مصیبت ہے یہ آدمی یہاں رکنے والا ہے کیا؟

رتن بابو کا اندیشہ غلط ثابت ہوا۔ وہ آدمی ان لوگوں کے پاس سے ہوتا ہوا، آندھی کی طرح سائیکل چلاتا ہوا، مخالف سمت کے راستے پر شام کے اندھیرے میں گم ہو گیا۔ ریل گاڑی تیز رفتار سے چلی آ رہی ہے۔ آنکھوں میں چکا چوند پیدا کرنے والی ہیڈلائٹ میں فاصلے کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ اب کچھ ہی پلوں کے بعد اوور برج کانپنے لگے گا۔ ریل کی آواز سے کان کا پردہ پھٹا جا رہا ہے۔

منی لال بابو ریلنگ پکڑ کر ریل کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ایک بار بجلی چمکی اور اس کے ساتھ ہی رتن بابو نے اپنی پوری طاقت لگا کر دونوں ہاتھوں سے منی لال بابو کی پشت پر ایک دھکا دیا۔ منی لال بابو کاجسم دو ہاتھ اونچی لکڑی کی ریلنگ کے اوپر سے ہوتا ہواسیدھا ریل کی پٹریوں کی طرف چلا گیا۔ ٹھیک اسی وقت رتن بابو کو محسوس ہوا کہ اوور برج تھرتھرانے لگا ہے۔

آج رتن بابو نے ریل گزرنے کے منظر کو دیکھنے کا انتظار نہیں کیا۔ لکڑی کے برج کی طرح ہی ان کے اندر ایک تھرتھراہٹ شروع ہو گئی ہے۔ مغرب کی طرف گھٹا بہت آگے تک چلی آئی ہے اور بیچ بیچ میں بجلی چمک رہی ہے۔

رتن بابو نے شال کو اچھی طرح لپیٹ لیا اور ہوٹل کی طرف روانہ ہو گئے۔

بارش کے پہلے جھونکے کو نظر انداز کرنے کی ناکام کوشش میں رتن بابو نے باقی راستے کو دوڑتے دوڑتے طے کیا اور ہانپتے ہوئے ہوٹل پہنچے۔

اندر جاتے ہی انھیں شک ہوا۔

وہ کہاں آ گئے ! مہامایا ہوٹل کے سامنے ایسامکان نہیں تھا۔ اس طرح کی میز، اس طرح کی کرسیوں کی سجاوٹ، دیوار پر اس طرح کی تصویر…!

اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد اچانک ان کی نگاہ لکڑی کے ایک بورڈ پر گئی۔ باپ رے، ان سے کتنی بڑی غلطی ہو گئی ہے ! وہ تو کالکا ہوٹل کے اندر آ گئے ہیں۔ یہیں منی لال بابو ٹھہرے ہوئے تھے نا؟

بارش نے انھیں بھگو دیا کیا؟

کسی آدمی نے ان سے کچھ پوچھا۔ رتن بابو نے مڑ کر دیکھا، ایک آدمی ہے جس کے گھنگھرالے بال ہیں، بدن پر ہرے رنگ کی شال ہے۔ معلوم ہوتا ہے، اسی ہوٹل کا رہنے والا ہے۔ وہ ان کی طرف منھ کیے چائے کی پیالی لیے بیٹھا ہوا ہے۔ رتن بابو کے چہرے پر نگاہ پڑنے کے بعد اس نے ذرا گھبراہٹ کے ساتھ کہا، ’’سوری! غلطی ہو گئی۔ آپ پر اچانک نگاہ پڑی تو لگا، منی لال بابو ہیں۔ ‘‘

اس سوال سے ان کے دل میں یہ شک پیدا ہوا کہ انھوں نے جو قتل کیا ہے، وہ ہر پہلو سے سوچ سمجھ کر اور پوری ہوشیاری برتتے ہوئے کیا ہے یا نہیں۔ وہ دونوں ایک ساتھ نکلے تھے، بہت سے لوگوں نے ہو سکتا ہے دیکھا ہو، مگر دیکھنا ہی کیا، غور سے دیکھنا اہم ہے۔ جنھوں نے دیکھا ہو گا، انھیں کیا یہ بات یاد ہو گی؟ اور اگر یاد ہو بھی تو کیا ان پر شک کریں گے ؟ ہاٹ سے نکلنے کے بعد جب وہ کھلے راستے پر آئے تھے انھیں کسی نے نہیں دیکھا تھا، یہ بات رتن بابو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اور اس اوور برج پر پہنچنے کے بعد … او ہ، ہاں … اس سائیکل والے نے انھیں ضرور ہی دیکھا ہو گا۔ مگر تب گہرا اندھیرا اتر آیا تھا، اس طرح تیزی سے سائیکل چلاتے ہوئے اس آدمی نے کیا ان کا چہرہ پہچان لیا ہو گا؟ اور پہچان کر یاد رکھا ہو گا؟ نا ممکن بات ہے۔

رتن بابو نے اس موضوع پر جتنا زیادہ سوچا وہ اتنا زیادہ مطمئن ہو گئے۔ منی لال بابو کی لاش ضرور ہی برآمد ہو گی۔ مگر اس کی وجہ سے رتن بابو پر شک ہو گا، معاملے پر غور کیا جائے گا، انھیں خونی مان کر پھانسی کی سزا دی جائے گی ان باتوں پر رتن بابو کو قطعی یقین نہیں ہوا۔

باہر بارش ہوتے دیکھ کر رتن بابو نے کالکا ہوٹل میں بیٹھ کر ایک پیالی چائے پی۔ ساڑھے سات بجتے بجتے بارش تھم گئی۔ رتن بابو سیدھے مہامایا چلے آئے۔ کس طرح غلطی سے وہ دوسرے ہوٹل میں چلے گئے تھے، اس پر سوچتے ہی انھیں ہنسی آنے لگی۔

رات میں پیٹ بھر کھانا کھا کر رتن بابو بستر پر لیٹ گئے اور دیش رسالہ کھول کر آسٹریلیا کی جنگلی ذاتوں کے بارے میں ایک مضمون پڑھا۔ اس کے بعد بتی بجھا کر اطمینان کے ساتھ آنکھیں بند کر لیں۔ اب پھر وہ اکیلے ہیں اور ان کی طرح کوئی دوسرا نہیں ہے۔ ان کا کوئی ساتھی نہیں ہے اور نہ اس کی کوئی ضرورت ہی ہے۔ وہ اتنے عرصے سے جس طرح زندگی گزار رہے تھے، اسی طرح زندگی گزاریں گے۔ اس سے بڑھ کر آرام اور کیا ہو سکتا ہے ؟

باہر پھر سے بارش ہونے لگی ہے۔ اس کے ساتھ بجلی کی چمک اور بادلوں کی گڑ گڑاہٹ شروع ہو گئی ہے۔ مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ رتن بابو کے خراٹے گونجنے لگے ہیں۔

دوسرے روز جب وہ چائے پی رہے تھے تو پنچا نے پوچھا، ’ ’یہ لاٹھی کل ہاٹ میں خریدی ہے کیا بابو؟‘‘

رتن بابو نے کہا، ’’ہاں۔ ‘‘

’’قیمت کتنی ہے ؟‘‘

رتن بابو نے اس کے دام بتائے۔ اس کے بعد اپنے لہجے کو عام اور فطری سا بنا کر کہا، ’ ’تم ہاٹ گئے تھے ؟‘‘

پنچا نے ہنستے ہوئے جواب دیا، ’’ہاں بابو، آپ کو بھی دیکھا تھا۔ آپ کی نگاہ مجھ پر نہیں پڑی تھی؟‘‘

’’ نہیں۔ ‘‘

اس کے بعد پنچا سے ان کی کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔

چائے پی کر وہ ہوٹل سے باہر نکلے اور پیدل چلتے ہوئے کالکا ہوٹل کے پاس آئے۔ کل کا وہی گھنگھرالے بالوں والا آدمی کچھ بنگالیوں کے ساتھ دروازے کی چوکھٹ پر کھڑا ہو کر بات چیت کر رہا تھا۔ منی لال بابو کا نام اور ’خود کشی‘ لفظ رتن بابو کو سنائی دیا۔ اچھی طرح سننے کی غرض سے وہ تھوڑا اور آگے بڑھ گئے۔ اتنا ہی نہیں، ایک سوال بھی پوچھ لیا۔

’’کس نے خود کشی کر لی صاحب؟‘‘

کل والے آدمی نے کہا، ’’کل آپ کو دیکھ کر جن آدمی کا مجھے گمان ہوا تھا، انھوں نے ہی۔ ‘‘

’’خود کشی؟‘‘

’’لگتا تو یہی ہے۔ ریل گاڑی کے پاس لاش ملی ہے۔ ایک اوور برج ہے، ٹھیک اسی کے نیچے۔ لگتا ہے اوپر سے چھلانگ مار کر کود پڑے ہیں۔ وہ یوں بھی عجیب قسم کے تھے۔ کسی سے زیادہ بات چیت نہیں کرتے تھے۔ ہم اُن پر اکثر جملے بازی کیا کرتے تھے۔ ‘‘

’’لاش کہاں ہے ؟‘‘

’’پولیس کے ذمے۔ آب و ہوا بدلنے کے خیال سے آئے تھے۔ یہاں ان کا کوئی جاننے والا نہیں تھا۔ کلکتہ سے آئے تھے۔ اس سے زیادہ کچھ معلوم نہیں ہے۔ ‘‘

رتن بابو نے ہمدردانہ انداز میں دو بار سرہلا کر ’’چچ چچ‘‘ کی آواز نکالی اور اس کے بعد پھر سے چہل قدمی شروع کر دی۔

خود کشی … یعنی قتل کی بات کسی کے دماغ میں نہیں آئی ہے۔ ان کی تقدیر کتنی اچھی ہے ! پھر قتل کرنا تو بہت ہی آسان کام ہے ! لوگ ا تنا ڈرتے کیوں ہیں ؟

رتن بابو بہت ہلکا پن محسوس کرنے لگے۔ دو دنوں کے بعد وہ آج پھر اکیلے گھومنے کے لیے باہر جا سکیں گے، یہ بات سوچ کر انھیں بہت خوشی ہوئی۔

کل منی لال بابو کو دھکا دیتے وقت رتن بابو کا ایک بٹن ٹوٹ کر گر گیا تھا۔ درزی کی دکان پر جا کر انھوں نے اسے ٹکوا لیا۔ اس کے بعد منیہاری کی دکان پر جا کر نیم کا ٹوتھ پیسٹ خریدا۔ نہیں خریدتے تو کل صبح دانت صاف نہ کر پاتے۔ ابھی جو ٹوتھ پیسٹ ان کے پاس ہے، دبتے دبتے وہ چپٹا ہو کر آخری حالت میں پہنچ چکا ہے۔

دکان سے نکل کر کچھ دور جاتے ہی انھیں ایک مکان سے کیرتن کی آواز سنائی دی۔ رتن بابو تھوڑی دیر تک رک کر کیرتن سنتے رہے۔ اس کے بعد شہر کے باہر کی ایک نئی سڑک کو پکڑ کر ایک آدھ میل کا چکر کاٹتے رہے۔ اس کے بعد گیارہ بجے ہوٹل لوٹ کر نہائے دھوئے اور کھانا کھایا۔ کھانا کھانے کے بعد قیلولہ کرنے کی کوشش کرنے لگے۔

اور دنوں کی طرح تین بجے ان کی آنکھ کھلی اور آنکھ کھلتے ہی رتن بابو کو لگا کہ ان کا دل چاہ رہا ہے کہ آج شام ایک بار پھر اوور برج کی طرف گھومنے جائیں۔ کل تووہ، ظاہر ہے کہ بہر حال ریل کے نظارے کا لطف نہ اٹھا سکے تھے۔ آسمان سے بادل چھٹے نہیں تھے مگر اس میں حرج ہی کیا ہے۔ آج بارش کی کوئی امید نہیں ہے۔ آج وہ ریل کو آنے سے لے کر جانے کے وقت تک دیکھتے رہیں گے۔

پانچ بجے رتن بابو چائے پی کر نیچے آئے۔ سامنے ہی منیجر شمبھو بابو بیٹھے ہوئے ملے۔ رتن بابو پر نظر پڑتے ہی بولے، ’’کل جس آدمی کی موت ہوئی اس سے آپ واقف تھے ؟‘‘

شروع میں بغیر کچھ بولے رتن بابو نے چونکنے کی اداکاری کرتے ہوئے شمبھو بابو کی طرف دیکھا، اس کے بعد پوچھا، ’’کیوں، بات کیا ہے ؟‘‘

’’نہیں، وہ… یعنی، پنچا نے بتایا کہ ہاٹ میں اس نے آپ دونوں کو ایک ہی ساتھ دیکھا تھا۔ ‘‘

رتن بابو نے ذرامسکرا کر پرسکون لہجے میں جواب دیا، ’’یہاں میری کسی سے واقفیت نہیں ہے۔ ہاٹ میں البتہ دو چار آدمیوں سے گفتگو ضرور ہوئی تھی، مگر کس آدمی کی موت ہوئی ہے، اس بات کا مجھے علم نہیں۔ ‘‘

’’اوہ!‘‘ شمبھو بابو ہنس پڑے۔ ’’بڑا ہی دلچسپ آدمی تھا۔ آپ کی طرح ہی آب و ہوا بدلنے کے خیال سے یہاں آیا تھا۔ کالکا ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ‘‘

’’اوہ، یہ بات ہے !‘‘

اس کے بعد رتن بابو بغیر کچھ کہے باہر نکل آئے۔ تقریباً دو میل راستہ طے کرنا ہے، اب دیر کرنے سے ریل نہیں دیکھ پائیں گے۔

راستے میں کسی نے ان پر مشکوک نگاہ نہیں ڈالی۔ کل جن چھوکروں کا جمگھٹ لگا تھا، آج ان میں سے وہاں کوئی نہیں تھا۔ ’’مانک مکتا کی جوڑی‘‘ والی بات رتن بابو کو اچھی نہیں لگی تھی۔ وہ لڑکے کہاں چلے گئے ؟ رتن بابو کو ڈھول کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ لڑکے ضرور ہی وہیں گئے ہوں گے۔ رتن بابو اطمینان کے ساتھ آگے بڑھتے گئے۔

کھلے میدان کے بیچ کے راستے پر آج وہ اکیلے ہی ہیں۔ منی لال بابو سے جان پہچان ہونے کے پہلے بھی وہ اطمینان سے رہتے تھے، لیکن آج وہ جتنا ہلکا پن محسوس کر رہے ہیں، اس کے پہلے کبھی اتنا ہلکا پن محسوس نہیں کیا تھا۔

وہ ببول کا پیڑ نظر آ رہا ہے۔ اس کو پار کرنے کے بعد کچھ منٹوں تک چلنا پڑے گا اور تب اوور برج ملے گا۔ آسمان میں چاروں طرف گھٹا چھائی ہے۔ ہاں گھٹا کا رنگ گہرا کالا نہیں، بلکہ سلیٹی ہے۔ ہوا نہیں ہے، اس لیے تمام بادل ایک جگہ ٹھہر گئے ہیں۔

اوور برج پر نگاہ پڑتے ہی رتن بابو کا دل خوشی سے ناچ اٹھا۔ وہ لمبے لمبے قدم اٹھانے لگے، کہا نہیں جا سکتا، ریل کہیں وقت سے پہلے نہ آ جائے ! سر کے اوپر سے بگلوں کا ایک غول اڑ کر چلا گیا۔ پتا نہیں بدیسی بگلے ہیں یا اسی دیس کے۔

پل پر کھڑے ہونے کے بعد رتن بابو کو شام کے سناٹے کا بھرپور احساس ہوا۔ خوب ہوشیاری سے، غور سے سننے پر ہی ڈھول کی ہلکی کی سی آواز سنائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری آواز نہیں ہے۔

رتن بابو ریلنگ کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے۔ دور سگنل دکھائی دے رہا ہے اور اس سے بھی دور اسٹیشن ریلنگ کے نچلے حصے میں لکڑی کی دراڑ میں کوئی چیز چمک رہی ہے۔ رتن بابو نے جھک کر اس چیز کو اٹھایا۔ وہ ایک گول ٹین کی ڈبیا ہے۔ اس کے اندر الائچی اور سپاری ہے۔ رتن بابو نے تھوڑا مسکرا کر اسے پل کے نیچے ریلوے لائن پر پھینک دیا۔ ٹھن سے آواز ہوئی پتا نہیں سپاری کی یہ ڈبیا وہاں کتنے دنوں تک پڑی رہے گی۔

یہ کس چیز کی روشنی ہے ؟

ریل آ رہی ہے۔ ابھی آواز نہیں سنائی دے رہی ہے، مگر روشنی آگے بڑھتی ہوئی آ رہی ہے۔

رتن بابو حیران ہو کر روشنی دیکھنے لگے۔ اچانک ہوا کا ایک تیز جھونکا آتا ہے اور ان کے شانے پر سے شال نیچے گر جاتی ہے۔ رتن بابو اسے پھر بدن سے لپیٹ لیتے ہیں۔

اب ریل کی آواز سنائی دے رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بادلوں کی گڑ گڑاہٹ۔ اب ریل کی طرف سے آنکھیں ہٹانا مشکل ہے، پھر بھی انھوں نے اپنے آس پاس نظر ڈالی۔ کہیں کوئی نہیں ہے۔ کل کے مقابلے میں آج اندھیرا کم ہے، اس لیے دیکھنے میں کوئی دقت نہیں ہو رہی ہے۔ تیز رفتار سے آتی ہوئی اس لمبی چوڑی ریل اور رتن بابو کے علاوہ ایک آدھ میل کے دائرے میں شاید اور کوئی نہیں ہے۔

ابھی ریل ایک سوگز کے بیچ ہی ہو گی۔ رتن بابو ریلنگ کی طرف تھوڑا اور بڑھ گئے۔ پہلے کے زمانے کا بھاپ کا انجن ہوتا تو اتنا آگے بڑھنا مشکل ہوتا، آنکھ اور منھ میں کوئلے کا دھواں بھر جاتا۔ یہ ڈیزل ٹرین ہے، اس لیے اس سے دھواں نہیں نکلتا۔ بس، چھاتی کو دہلا دینے والی گمبھیر سی آواز ہے اور آنکھوں میں چکا چوند پیدا کرنے والی ہیڈ لائٹ۔

اب ریل برج کے نیچے آ چکی ہے۔

رتن بابو کہنیوں کے بل سامنے کی طرف جھک گئے۔ اور ٹھیک اسی لمحے پیچھے سے دو ہاتھوں نے ان کی پشت کو زور سے ڈھکیل دیا۔

رتن بابو اس دھکے کو برداشت نہیں کر سکے، کیونکہ ریلنگ صرف دو ہاتھ ہی اونچی تھی۔

میل ٹرین آواز کرتی، پل کو ہلاتی اور دہلاتی، مغرب کی جانب، جہاں کے آسمان کا رنگ اب سُرخی مائل ہو چکا تھا، چلی گئی۔

رتن بابو اب پل پر نہیں ہیں، مگر ان کی نشانی بطور ایک چیز اب بھی ریلنگ کی لکڑی کی درار میں اٹکی ہوئی ہے اور وہ ہے سپاری اور الائچی سے بھری ہوئی المونیم کی ایک ڈبیا۔

٭٭٭

 

 

 

پروفیسر ہج بج بج

 

میرے ساتھ جو واقعہ پیش آیا ہے اس پر شاید ہی کوئی یقین کرے۔ اپنی آنکھوں سے دیکھے بنا بہتیرے آدمی بہت سی باتوں پر یقین نہیں کرتے جیسے بھوتوں پر۔ اتنا ضرور ہے کہ میں بھوت پریت کی کہانی لکھنے نہیں بیٹھا ہوں۔ سچ کہنے میں حرج ہی کیا اسے کس طرح کا واقعہ کہوں یہ میں خود ہی نہیں جانتا۔ مگر واقعہ ہوا ہے، اور ہوا ہے میری زندگی میں ہی۔ اسی لیے اس میں سچائی ہے اور اس کے بارے میں لکھنا بھی فطری ہے۔

پہلے ہی بتا دوں کہ جس کی وجہ سے یہ واقعہ ہوا تھا اس کا اصلی نام مجھے نہیں معلوم۔ اس نے بتایا تھا کہ اس کا کوئی نام ہے ہی نہیں۔ اتنا ہی نہیں، نام کے بارے میں اس نے چھوٹا موٹا ایک لیکچر بھی دے ڈالا تھا۔

’’نام سے کیا ہوتا ہے، صاحب؟ کسی زمانے میں میرا کوئی نام تھا۔ اب اس کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے اس کو میں نے ترک کر دیا ہے۔ آپ چونکہ آئے، بات چیت کی، اپنا نام بتایا، اس لیے نام کا سوال اٹھتا ہے۔ یوں یہاں کوئی نہیں آتا، اور نہ آنے کا مطلب ہے کہ مجھے کوئی نام لے کر نہیں پکارتا۔ جان پہچان کا کوئی آدمی ہے ہی نہیں، کسی سے خط و کتابت نہیں، اخباروں میں تخلیق نہیں چھپواتا ہوں، بینک کے چیک پر دستخط نہیں کرنا پڑتا لہٰذا نام کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایک نوکر ہے، مگر وہ بھی گونگا۔ گونگا نہ ہوتا تو بھی وہ میرا نام لے کر مجھے نہ پکارتا، بلکہ مجھے ’بابو‘ کہتا۔ بس بات ختم۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ مجھے کیا کہہ کر پکاریں گے آپ یہی سوچ رہے ہیں نا ؟‘‘

آخر طے ہوا کہ میں انھیں پروفیسر ہج بج بج کہہ کر پکاروں۔ ایسا کیوں ہوا، یہ بات میں بعد میں بتاؤں گا۔ پہلے ضروری ہے کہ شروع کی کچھ باتیں بتا دوں۔

واقعہ گوپال پور میں ہوا تھا۔ اڑیسہ کے گنجم ضلع کے بہرام پور اسٹیشن سے دس میل دور، سمندر کے کنارے گوپال پور نام کا ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ پچھلے تین سال سے دفتر سے چھٹی نہیں مل رہی تھی، کیونکہ کام کا بوجھ بہت زیادہ تھا۔ اس بار تین ہفتے کی چھٹی لے کر طے کیا کہ اس ان دیکھی، مگر نام سے شناسا جگہ میں جاؤں گا۔ دفتر کے کاموں کے علاوہ میں ایک اور کام کرتا ہوں اور وہ ہے ترجمے کا کام۔ آج تک میرے انگریزی سے بنگالی میں ترجمہ کیے ہوئے سات جاسوسی ناول شائع ہو چکے ہیں۔ ناشر کا کہنا ہے کہ ان ناولوں کی کھپت کافی تعداد میں ہو رہی ہے۔ بہت کچھ اسی کے دباؤ کی وجہ سے مجھے چھٹی لینا پڑی۔ ان تین ہفتوں کے بیچ ایک پوری کتاب کا ترجمہ کرنے کا بوجھ میرے سر پر ہے۔

اس کے پہلے میں کبھی گوپال پور نہیں آیا تھا۔ جگہ کا انتخاب اچھا ہوا ہے، اس کا پتا مجھے پہلے دن ہی چل گیا۔ اتنی پرسکون اور خوبصورت جگہ اس کے پہلے میں نے بہت ہی کم دیکھی ہے۔ پرسکون ہونے کی ایک دوسری وجہ بھی ہے کہ یہ اپریل کا مہینہ ہے اور اپریل سیاحوں کے آنے کا موسم نہیں ہوتا۔ آب و ہوا بدلنے کے لیے آنے والے لوگوں کا جھنڈ ابھی یہاں نہیں پہنچا ہے۔ میں جس ہوٹل میں آ کر ٹھہرا ہوں وہاں میرے علاوہ ایک اور آدمی ہے ایک آرمینین بڑے میاں۔ نام مسٹر ایراٹُن۔ وہ ہوٹل کے مغربی سرے کے ایک کمرے میں رہتے ہیں اور میں مشرقی سرے کے ایک دوسرے کمرے میں۔ ہوٹل کے لمبے برآمدے کے ٹھیک نیچے سے ہی ریتیلا میدان شروع ہو جاتا ہے۔ ایک سوگز کی دوری میں پھیلی ریت پر سمندر کی لہریں آ آ کر پچھاڑیں کھاتی رہتی ہیں۔ لال کیکڑے بیچ بیچ میں برآمدے پر چڑھ کر چہل قدمی کرتے رہتے ہیں۔ میں ڈیک چے ئر  پر بیٹھا بیٹھا منظر نگاری کرتا رہتا ہوں۔ شام کے وقت دو گھنٹے کے لیے کام کرنا بند کر دیتا ہوں اور ریت پر چہل قدمی کرنے کے لیے نکل جاتا ہوں۔

شروع میں دو دن سمندر کے کنارے سے ہوتا ہوا میں مغرب کی طرف گیا، تیسرے دن سوچا مشرق کی طرف بھی جانا ضروری ہے۔ ریت پر پرانے زمانے کے ٹوٹے پھوٹے گھر عجیب سے ہیں۔ مسٹرایراٹُن نے بتایا تھا کہ یہ گھر تین چار سو سال پرانے ہیں۔ کسی زمانے میں گوپال پور ولندیزیوں کی چوکی تھا۔ ان مکانوں میں سے زیادہ تر اسی زمانے کے ہیں۔ دیواروں کی اینٹیں چپٹی اور چھوٹی چھوٹی ہیں، دروازے اور کھڑکیوں کی جگہ پر صرف دراریں رہ گئی ہیں اور چھت کے نام پر چھاؤنی کے بجائے کھلی جگہ ہی زیادہ ہے۔ میں نے ایک گھر کے اندر داخل ہو کر دیکھا اور وہاں سناٹے کا عالم پایا۔

پورب کی طرف کچھ دور جانے پر دیکھا، ایک جگہ ریتیلا حصہ کافی چوڑا ہے۔ اس کی وجہ سے شہر سمندر سے بہت پیچھے چھوٹ گیا ہے۔ قریب قریب پوری جگہ تقریباً سو ترچھی پڑی ناؤوں سے بھری ہوئی ہے۔ سمجھ گیا کہ مچھیرے انھیں ناؤوں کو لے کر سمندر میں مچھلی پکڑنے نکلتے ہیں۔ دیکھا، مچھیرے جہاں تہاں جمع ہو کر اڈّے بازی کر رہے ہیں، ان کے بچے پانی کے پاس جا کر کیکڑے پکڑ رہے ہیں، چار پانچ سؤراِدھراُدھر چکر لگا رہے ہیں۔

اسی بیچ ایک الٹی پڑی ناؤ پر دو بنگالی حضرات بیٹھے ہوئے نظر آئے۔ ایک صاحب کی آنکھوں پر چشمہ ہے۔ وہ اپنے ہاتھ میں پکڑے اخبار کو ہوا کے جھونکے کے بیچ موڑنے میں پریشانی محسوس کر رہے ہیں۔ دوسرے صاحب اپنے ہاتھوں کو سینے کے پاس رکھ کر بغیر پلک جھپکے سمندر کی طرف دیکھتے ہوئے بیڑی کا کش لے رہے ہیں۔ میں جیسے ہی ان کے قریب پہنچا، اخبار والے صاحب نے تعارف حاصل کرنے کے انداز میں پوچھا، ’’آپ یہاں نئے نئے آئے ہیں ؟‘‘

’’ہاں … دو دن…‘‘

’’صاحبی ہوٹل میں ٹھہرے ہیں ؟‘‘

میں نے مسکرا کر کہا، ’’آپ لوگ یہیں رہتے ہیں ؟‘‘

اب وہ اخبار کو سنبھالنے میں کامیاب ہو گئے۔ بولے، ’’میں یہیں رہتا ہوں۔ چھبیس برسوں سے گوپال پور میں ہی۔ نیو بنگال میرا ہی ہوٹل ہے۔ مگر ہاں، گھنشیام بابو آپ ہی کی طرح آب و ہوا بدلنے آئے ہیں۔ ‘‘

میں نے کہا، ’’اچھا، ‘‘ اور بات چیت کا سلسلہ ختم ہونے کی طرف بڑھنے لگا، تبھی بھلا آدمی ایک دوسرا ہی سوال پوچھ بیٹھا، ’’اُدھر کہاں جا رہے ہیں ؟‘‘

’’یوں ہی، ذرا گھوموں گا، اور کیا۔ ‘‘

’’کیوں ؟‘‘

بھاری مصیبت میں پھنسا! کیوں گھومنے جا رہا ہوں، یہ بھی ان کو بتانا ہو گا!

تب تک وہ کھڑے ہو چکے تھے۔ روشنی آہستہ آہستہ پھیکی پڑتی جا رہی ہے۔ آسمان کے شمالی اور مغربی حصے میں بادل کا ایک سیاہ چکتّا آہستہ آہستہ پھیلتا جا رہا ہے۔ آندھی آئے گی کیا؟

بھلے آدمی نے کہا، ’’ایک آدھ سال پہلے کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا۔ اس وقت ایسی حالت تھی کہ جہاں مرضی ہو آدمی گھوم پھرسکتا تھا۔ پچھلے ستمبر سے مشرق کی طرف، مچھیروں کی بستی سے ایک آدھ میل دور، ایک آدمی ڈیرا ڈنڈی ڈالے بیٹھ گیا ہے۔ ان ٹوٹے پھوٹے مکانوں کو دیکھ رہے ہیں نا؟ ٹھیک ویسا ہی ایک مکان ہے۔ میں نے اس مکان کو نہیں دیکھا ہے۔ یہاں کے پوسٹ ماسٹر مہاپاترا نے بتایا کہ اس نے دیکھا ہے۔ ‘‘

میں نے کہا، ’’سادھو سنیاسی قسم کا آدمی ہے کیا؟‘‘

’’بالکل نہیں !‘‘

’’پھر؟‘‘

’’وہ کیا ہے، معلوم نہیں۔ مہاپاترا نے بتایا ہے کہ مکان کے ٹوٹے پھوٹے حصے کو ترپال سے ڈھک رکھا ہے۔ اندر کیا کرتا ہے، کسی کو بھی اس کا پتا نہیں۔ مگر ہاں، چھت کے ایک چھید سے بینگنی رنگ کا دھواں نکلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ مکان میں نے نہیں دیکھا ہے مگر اس آدمی کو دو بار دیکھ چکا ہوں۔ میں اسی جگہ بیٹھا ہوا تھا اور وہ میرے سامنے سے پیدل جا رہا تھا۔ ہرے رنگ کا کوٹ پتلون پہنے تھا۔ داڑھی مونچھ نہیں ہے، لیکن سر پر گھنے بال ہیں۔ چہل قدمی کرتا ہوا منھ ہی منھ میں کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ یہاں تک کہ ایک بار زور سے ہنستے ہوئے بھی دیکھا۔ میں نے باتیں کیں مگر اس نے جواب نہیں دیا۔ یا تو بدمزاج ہے یا پھر پاگل شاید بدمزاج اور پاگل دونوں۔ اس کے پاس ایک نوکر بھی ہے۔ وہ سویرے کے وقت بازار میں دکھائی دیتا ہے۔ اتنا ہٹا کٹا کوئی دوسرا آدمی میں نے نہیں دیکھا ہے، صاحب۔ اس کے سر کے بال چھوٹے چھوٹے ہیں، لمبا چوڑا چہرہ، بہت کچھ سؤرجیسا۔ یا تو وہ گونگا ہے یا پھر منھ بند کیے رہتا ہے۔ سامان خریدتے وقت بھی زبان سے کوئی لفظ نہیں نکالتا۔ دکاندار کو ہاتھ کے اشارے سے بتا دیتا ہے۔ مالک چاہے جیسا ہو، لیکن ویسا نوکر جس گھر میں ہے، وہاں نہ جانا کیا عقل مندی کا کام نہیں ہے ؟‘‘

گھنشیام بابو بھی تب تک اٹھ کر کھڑے ہو چکے تھے۔ بیڑی کو ریت پر پھینک کر بولے، ’’چلیے صاحب۔ ‘ ‘دونوں آدمی جب ہوٹل کی طرف روانہ ہونے لگے تو منیجر بابو نے بتایا کہ ان کا نام رادھا وِنود چٹرجی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے اپنے ہوٹل میں آنے کا اصرار بھی کیا۔

جاسوسی ناولوں کا ترجمہ کرتے کرتے پراسرار باتوں کے تئیں میرے دل میں جو ایک فطری رجحان پیدا ہو گیا ہے، یہ بات نیو بنگالی ہوٹل کے منیجر صاحب کو معلوم نہیں تھی۔ میں نے گھر لوٹنے کی بات سوچی ہی نہیں، بلکہ مشرق کی طرف ہی بڑھتا گیا۔ ابھی بھاٹے کا وقت ہے۔ سمندر کا پانی پیچھے کی طرف چلا گیا ہے۔ جوار بہت ہی کم آ رہے ہیں۔ کنارے کی جس جگہ پر لہریں جھاگ اُگل رہی ہیں، وہاں کچھ کوّے پھدک رہے ہیں۔ جھاگوں کا انبار سرسراتا ہوا آگے بڑھتا ہے اور پھر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ فوراً ہی جھاگ کے بلبلوں کو چونچ مار کر کوّے جیسے کچھ کھانے لگتے ہیں۔ مچھیروں کے گاؤں کو پار کرنے کے بعد تقریباً دس منٹ تک میں آگے کی طرف چلتا گیا۔ بھیگی ریت پر ایک چلتی ہوئی لال چادر دیکھ کر شروع میں چونک اٹھا۔ قریب جانے پر پتا چلا کہ یہ کیکڑوں کی ایک فوج ہے جو پانی ہٹ جانے کی وجہ سے جھنڈ بنا کر اپنے ٹھکانے کی طرف لوٹ رہی ہے۔ پانچ منٹ تک چلنے کے بعد اس مکان پر نگاہ پڑی۔ ترپال کے گھیرے کی بات پہلے ہی سن چکا تھا، اس لیے پہچاننے میں پریشانی نہیں ہوئی۔ لیکن قریب جانے پر دیکھا، وہاں صرف ترپال ہی نہیں ہے ؛ بانس، لکڑی کے تختے، زنگ آلود ٹین، یہاں تک کہ پیسٹ بورڈ کے ٹکڑے بھی مکان کی مرمت کے کام میں لائے گئے ہیں۔ دیکھ کر لگا، اگر چھت میں سوراخ کرتے ہوئے برسات کا پانی اندر گرتا ہے تو کسی آدمی کے لیے اس مکان میں رہنا ممکن نہیں ہے۔ مگر وہ آدمی ہے کہاں ؟

کچھ دیر تک وہاں کھڑا رہنے کے بعد مجھے لگا، وہ آدمی اگر نیم پاگل ہے اور اس کے پاس سچ مچ ہی ایک لمبا تڑنگا نوکر ہے، تو میں جس تجسس کے ساتھ اس مکان کی طرف دیکھ رہا ہوں، میرا یہ دیکھنا عقلمندی کا کام نہیں ہے۔ اس سے تو اچھا یہی ہو گا کہ یہاں سے تھوڑی دور ہٹ کر اکتائے ہوئے انداز کے ساتھ چہل قدمی کرتا رہوں۔ اتنی دور جب آ ہی چکا ہوں تو پھر اسے بغیر دیکھے کیسے چلا جاؤں ؟

میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک ایسا لگا جیسے گھر کے سامنے کے دروازے کی درار کے پیچھے تاریکی میں کوئی چیز حرکت کر رہی ہے۔ اس کے بعد ایک ناٹا آدمی باہر آیا۔ یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہی آدمی اس مکان کا مالک ہے اور یہی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر کچھ دیر سے میری نگرانی کر رہا تھا۔

’’آپ کے ہاتھ میں چھ انگلیاں دیکھ رہا ہوں ! ہی ہی!‘‘ اچانک مہین سی آواز سنائی دی۔

بات صحیح ہے میرے ہاتھ میں انگوٹھے کے پاس ایک زیادہ انگلی میری پیدائش سے ہی ہے، جس سے میں کوئی کام نہیں لیتا ہوں لیکن اس آدمی نے اتنی دور سے اسے کیسے دیکھ لیا؟

جب وہ بالکل پاس چلا آیا تو دیکھا، اس کے ہاتھ میں پرانے زمانے کی ایک آنکھ سے دیکھی جانے والی دوربین ہے اور اسی لیے وہ بے خوف میرا جائزہ لے رہا ہے۔

’’دوسری انگلی یقیناً انگوٹھا ہی ہے۔ ہے نا؟ ہی ہی!‘‘ اس آدمی کے گلے کی آواز بہت مہین ہے۔ اتنی عمر کے کسی آدمی کی آواز اس طرح کی میں نے کبھی نہیں سنی تھی۔

’’آئیے باہر کیوں کھڑے ہیں ؟‘‘

اس کی بات سن کر مجھے تعجب ہوا۔ رادھا ونود بابو کی باتوں سے اس آدمی کے بارے میں میں نے کچھ اور ہی اندازہ کیا تھا۔ لیکن اب دیکھنے میں آیا کہ بہت ہی خوش مزاج ہے اور شائستہ بھی۔

ابھی وہ مجھ سے تقریباً دس ہاتھ کی دوری پر ہے۔ شام کے دھندلکے میں اسے صاف صاف نہیں دیکھ پا رہا تھا، حالانکہ دیکھنے کا بہت اشتیاق تھا۔ لہٰذا اس کے اصرار کو ٹال نہ سکا۔

’’ذرا ہوشیاری سے ! آپ لمبے آدمی ہیں اور میرا دروازہ چھوٹا…‘‘

جھک کر اپنے سر کو بچاتے ہوئے میں اس کے گھر میں داخل ہوا۔ ایک پرانی سوندھی خوشبو کے ساتھ سمندر کی نمی سے بھری ایک خوشبو اور ایک اجنبی خوشبو مل جل کر اس پنچ میل پیوند دار مکان سے ہم آہنگ ہوتی محسوس ہوئی۔

’’بائیں طرف آئیے۔ داہنی طرف میرا…ہی ہی… کام دھندے کا کمرہ ہے۔ ‘‘

داہنی طرف سے دروازے کی درار کی طرف دیکھا، وہ لکڑی کے ایک بڑے تختے سے مضبوطی سے بند تھا۔ ہم بائیں طرف کی کوٹھری کے اندر چلے آئے۔ اسے بیٹھک کہا جا سکتا ہے۔ ایک کونے میں لکڑی کی ایک میز پر کچھ موٹی کاپیاں، تین قلم، دوات، گوند کی شیشی اور ایک قینچی پڑی ہوئی ہے۔ میز کے سامنے ایک زنگ آلود ٹین کی کرسی، ایک کنارے اُلٹ کر رکھا ہوا ایک پیکنگ کیس اور کوٹھری کے بیچوں بیچ ایک بڑی کرسی۔ اس آخری شے کو کسی راج محل کی بیٹھک میں رہنا چاہیے تھا۔ قیمتی لکڑی پر بہت ہی خوبصورت نقاشی ہے، بیٹھنے کی جگہ پر گہرے لال رنگ کی مخمل ہے جس پر بیل بوٹوں کی کشیدہ کاری ہے۔

’’آپ اس بکسے پر بیٹھ جائیے، میں کرسی پر بیٹھتا ہوں۔ ‘‘

بس یہیں سے دل میں کھٹکا پیدا ہوا۔ یہ آدمی اگر قطعی پاگل نہیں ہے تو کم سے کم بے ہودہ اور بے کار تو ضرور ہی ہے۔ ایسانہ ہو تو کہیں ایک باہری آدمی کو اپنے گھر کے اندر بلا کر پیکنگ کے بکسے پر بٹھائے اور خود تخت پر براجمان ہو جائے ؟لیکن کھڑکی کے ترپال کے سوراخ سے آتی ہوئی شام کی روشنی میں اس کی آنکھوں میں پاگل پن کی کوئی جھلک نہیں دکھ رہی ہے۔ بلکہ بچے کی سی خوشی کا ایک جذبہ تیر رہا ہے اور اس سے اس آدمی کے بے ہودگی سے بھرے اصرار کے باوجود اس کے چہرے پر مکروہ پن کی چھاپ نہیں پڑی ہے۔ میں پیکنگ کیس پر بیٹھ گیا۔

’’کہیے، ‘‘ اس نے کہا۔

کیا کہوں ؟ در اصل میں کچھ کہنے نہیں آیا ہوں، صرف دیکھنے ہی آیا ہوں، اس لیے جب اس نے جھٹ سے کہا تو میں کشمکش میں پڑ گیا۔ آخر کار جب کوئی دوسرا خیال دل میں نہیں آیا تو میں نے اپنا تعارف ہی کرا دیا۔

’’میں چھٹیوں میں کلکتہ سے آیا ہوں۔ میں، یعنی… کہنے کا مطلب ہے کہ رائٹر ہوں۔ میرا نام ہے ہمانشو چودھری۔ اس طرف گھومنے آیا تھا کہ آپ کے مکان پر نظر پڑ گئی…‘‘

’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔ مگر ہاں، میرا کوئی نام نہیں ہے۔ ‘‘

پھر پر اسرار بات! ہر آدمی کا کوئی نہ کوئی نام ہوتا ہی ہے، پھر اسے مستثنیٰ کیوں مان لیا جائے ؟ یہ پوچھتے ہی بھلے آدمی نے نام کے بارے میں تقریر کر ڈالی۔ اس کا دور جب ختم ہوا تو مجھے خاموش پا کر وہ مسکراتا ہوا بولا:

’’میری باتیں شاید آپ کو پسند نہیں آئیں۔ پھر آپ سے ایک بات کہوں، میں نے دل ہی دل میں اپنا ایک نام رکھ چھوڑا ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ یہ نام کسی کو بتایا نہیں ہے، مگر آپ کی چونکہ چھ انگلیاں ہیں، اس لیے آپ کو بتانے میں کوئی ہرج نہیں۔ ‘‘

میں اس بھلے آدمی کی طرف دیکھتا رہا۔ کمرے کی روشنی آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ نوکر کیوں نہیں دکھائی دے رہا ہے ؟ کم سے کم موم بتی یا مٹی کے تیل کی ڈبیا ہی اس وقت رکھنا ہی چاہیے تھی۔

بھلے آدمی نے اپنا سر گھما کر کہا، ’’آپ نے میرے کانوں کو غور سے دیکھا ہے ؟‘‘

اب تک میں نے غور نہیں کیا تھا، اب آنکھیں اس طرف گئیں تو چونک پڑا۔

کسی انسان کے اس طرح کے کان میں نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ اوپری حصہ گول کے بجائے نکیلا ہے ٹھیک ویسے جیسے سیار یا کتّے کے ہوا کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے ؟

کان دکھانے کے بعد وہ میری طرف گھوما اور ایک عجیب حرکت کر بیٹھا۔ اپنے سر کے بالوں کو ایک بار زور سے جھٹکا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بال کھل کر ہاتھ میں آ گئے۔ میں نے حیرت سے دیکھا، کھوپڑی اور کنپٹی کے علاوہ کہیں بالوں کا نام و نشان نہیں ہے۔ اس نئے چہرے اور جھلکتی ہوئی آنکھوں میں شرارت بھری ہنسی دیکھ کر میرے منھ سے اچانک ایک نام نکل گیا:

’’ہج بج بج!‘‘

’’درست!‘‘ بھلے آدمی نے تالیاں بجائیں اور کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ ’’آپ چاہیں تو تصویر سے ملا کر دیکھ سکتے ہیں۔ ‘‘

’’ضرورت نہیں ہے، ‘‘ میں نے کہا، ’’ہج بج بج کا چہرہ بچپن سے ہی دل میں بسا ہوا ہے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے ! آپ چاہیں تو خوشی سے اس نام کواستعمال کر سکتے ہیں۔ اگر نام سے پہلے ’پروفیسر‘ لفظ جوڑ دیں تو اور اچھا رہے۔ مگر ہاں، یہ بات کس سے بتائیے گا نہیں۔ اگر بتا دیا تو … ہی ہی …ہی ہی…!‘‘

اب پہلی بار مجھے ذرا ڈر کا احساس ہوا۔ یہ آدمی یقیناً پاگل ہے یا پھر بے ہودہ قسم کا سنکی۔ ایسے لوگوں کو برداشت کرنا مشکل ہے۔ ہر وقت یہی سوچ کر خاموش رہنا پڑتا ہے کہ کیا کروں، کیا نہ کروں، کیا بولوں، کیا نہ بولوں۔

ہم دونوں ایک ساتھ رہ کر بھی خاموش رہیں یہ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ اس لیے میں نے کہا، ’’آپ کے کان کے نکیلے حصے کا رنگ کچھ دوسری ہی طرح کا دکھائی دیتا ہے۔ ‘‘

’’ یہ تو ہو گا ہی، ‘‘ اس آدمی نے کہا، ’’وہ میرا اپنا نہیں ہے۔ پیدائش کے وقت میرے کان اس طرح کے نہیں تھے۔ ‘‘

’’پھر کیا آپ کے کان بھی آپ کے بالوں کی طرح نقلی ہیں ؟ کھینچتے ہی کھل جائیں گے ؟‘‘

بھلے آدمی نے اسی طرح کھلکھلا کر کہا، ’’بالکل نہیں۔ نہیں، نہیں، نہیں !‘‘

ہاں، یہ آدمی ضرور ہی پاگل ہے۔ ’ ’پھر وہ کیا چیز ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’ٹھہریے، پہلے اپنے نوکر سے آپ کا تعارف کرا دوں۔ اسے بھی شاید آپ پہچان لیں گے۔ ‘‘

اب تک میں نے غور نہیں کیا تھا۔ پتا نہیں کب ایک دوسرا آدمی پیچھے کے دروازے سے وہاں آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ اس کے ہاتھ میں مٹی کے تیل کی ایک ڈبیا تھی۔ یہ وہی نوکر ہے جس کے بارے میں رادھا ونود بابو نے بتایا تھا۔

بھلے آدمی نے جب تالی بجائی تو وہ کمرے کے اندر چلا آیا اور مٹی کے تیل کی ڈبیا میز پر رکھ دی۔ حقیقت میں کبھی اس طرح کا لحیم شحیم آدمی میں نے دیکھا ہو، ایسا یاد نہیں آتا۔ اس آدمی کے بدن پر ایک دھاری دار قمیص ہے اور وہ چھوٹے گھیرے کی دھوتی پہنے ہے۔ پاؤں اور ہاتھ کی ہڈیاں، کلائی کا گھیرا، سینے اور گردن کی چوڑائی دیکھ کر حیران رہ جانا پڑتا ہے۔ حالانکہ اس آدمی کی لمبائی پانچ فٹ اور دویا تین انچ سے زیادہ نہ ہو گی۔

’’میرے نوکر کو دیکھ کر آپ کو کسی کی بات یاد آ رہی ہے کیا؟‘‘ ہج بج بج نے پوچھا۔

وہ ڈبیا رکھ کر اپنے مالک کے حکم کا انتظار کر رہا ہے۔ ایک آدھ پل اس کی طرف دیکھنے کے بعد یاد آ گیا کہ یہ چہرہ کس سے ملتا تھا۔ میں نے بے چین ہو کر کہا۔ ’’ارے یہ تو ششٹھ چرن ہے ‘‘۔

’’آپ نے بالکل صحیح بات کہی!‘‘ بھلا آدمی خوشی کے مارے بیٹھے بیٹھے ہی ناچنے لگا۔ ’’اتنا ضرور ہے کہ اس کا وزن انسٹھ من نہیں، بلکہ ساڑھے تین من سے کچھ ہی زیادہ ہو گا کم سے کم 1967 میں تو اتنا ہی تھا۔ ہاتھی اٹھانے کی بات تو معلوم نہیں، مگر اتنا ضرور ہے کہ وہ روز سویرے دو بڑے بڑے سؤروں کو پکڑ کر اٹھاتا رہتا ہے۔ یہ واقعہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔ میری یہ جو کرسی ہے، اسے بھی وہ ایک ہی ہاتھ سے اٹھا کر لے آیا ہے۔ ‘‘

’’کہاں سے ؟‘‘

’’ہی ہی ہی… یہ بات مت پوچھیے۔ جاؤ ششٹھ، ہم لوگوں کے لیے دو ڈاب لے آؤ۔ ‘‘

ششٹھ تعمیل حکم کے لیے چلا گیا۔

باہر بادل گرج رہے ہیں۔ ہوا کے ایک جھونکے سے ترپال کھڑکھڑانے لگے۔ اب اگر یہاں سے اٹھ کر نہیں جاتا ہوں تو مصیبت میں پھنسناہو گا۔

’’آپ میرے کانوں کے بارے میں پوچھ رہے تھے نا؟‘‘ بھلے آدمی نے کہا، ’’اصل میں وہ اودبلاؤ کے کانوں اور اصلی کانوں کو ملا کر بنائے گئے ہیں۔ ‘‘

اس کی بات پر مجھے ہنسی آ گئی۔ میں نے پوچھا، ’’انھیں ملایا کیسے ؟‘‘

بھلے آدمی نے کہا، ’’کیوں، اس میں حیرانی کی کون سی بات ہے ؟ ایک آدمی کا دل جب دوسرے آدمی میں لگا دیا جاتا ہے، تو جانور کے آدھے کان کو آدمی کے کان کے اوپر نہیں لگایا جا سکتا؟‘‘

’’آپ شروع میں کیا ڈاکٹری کرتے تھے ؟…پلاسٹک سرجری ٹائپ کا کچھ؟‘‘

’’بات تو صحیح ہے … کرتا تھا نہیں، بلکہ اب بھی کرتا ہوں … ہی ہی…ہی ہی… مگر ہاں، وہ کوئی معمولی سرجری نہیں ہے۔ مثلاً آپ اپنے انگوٹھے کو ہی لیں۔ اگر وہ نہ ہوتا تو ضرورت پڑنے پر اسے لگا دینا میرے لیے بالکل آسان کام تھا۔ ‘‘

میں نے بہت کوشش کی کہ اس آدمی کا تصور ایک بڑے ڈاکٹر کے روپ میں کروں، مگر کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔ حالانکہ کانوں کو غور سے دیکھنے پر وہ بہت عجیب لگ رہے تھے، لیکن کس صفائی سے جوڑا گیا ہے کہ کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا۔

بھلے آدمی نے کہا، ’’ڈاکٹری اور سائنس کی کتابوں کے علاوہ میں نے صرف دو ہی چیزیں پڑھی ہیں: اوٹ پٹانگ، اور ح۔ ش۔ د۔ ل۔ 1 اور دونوں میں ہی جو چیزیں مجھے سب سے اچھی لگیں وہ ہیں اس طرح کی مخلوقات جنھیں لوگ عجیب اور بے ڈھب کہا کرتے ہیں۔ عام باتوں سے ماورا اگر کچھ ہو یا کچھ کیا اور کہا جائے تو لوگ اسے پاگل پن اور عجیب کہہ کر کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ جانتے ہیں، میں بچپن میں موم بتی چوس کر کھاتا تھا۔ کھانے میں بہت ہی اچھی لگتی ہے۔ اس کے علاوہ اتنی مکھیوں کو پکڑ پکڑ کر میں کھا چکا ہوں کہ ان کا کوئی شمار ہی نہیں۔ ‘‘

ششٹھی چرن ڈاب لے آیا، اس لیے بھلے آدمی کو کچھ پلوں تک خاموش رہنا پڑا۔ دو غلاف چڑھے گلاسوں کو میز پر رکھ کر اس نے سلسلہ وار دونوں ڈابوں کو اپنی ہتھیلیوں سے دبایا۔ وہ فوراً ٹوٹ گئے اور ان کا پانی گلاسوں کے اندر گر پڑا۔ ششٹھی چرن نے گلاس ہماری طرف بڑھا دیے۔

پانی کا گھونٹ لے کر بھلے آدمی نے کہا، ’’ڈاکٹری پڑھ کر میں نے پلاسٹک سرجری میں مہارت حاصل کر لی۔ جانتے ہیں کیوں ؟‘‘

’’کیوں ؟‘‘ میرا تجسس بڑھتا جا رہا تھا، اور وہ اس لیے کہ میں جاننا چاہتا تھا کہ اس بھلے آدمی کی تخیل کی پرواز کہاں تک ہے۔

ہج بج بج نے کہا، ’’ کیونکہ صرف تصویروں سے ہی میرے دل کو تسلی نہیں ملتی تھی۔ میں یہی سوچتا رہتا تھا کہ اس طرح کے جانور اگر حقیقت میں ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ یہ سب مخلوقات کہیں نہ کہیں ہیں، اس بات پر میرے دل میں کوئی شک نہیں تھا۔ مگر میں چاہتا تھا وہ میرے گھر پر رہیں، میرے ہاتھ کے بالکل قریب، آنکھوں کے سامنے، سمجھے ؟‘‘

میں نے کہا، ’’نہیں صاحب، بات سمجھ میں نہیں آئی۔ آپ کون سی مخلوقات کے بارے میں کہہ رہے ہیں ؟‘‘

’’یہی جیسے بگلا، گرگٹ یا ہنس۔ ‘‘

میں نے کہا، ’’سمجھ گیا، اس کے بعد ؟‘‘

’’اس کے بعد اور کیا؟ میں نے گرگٹ سے شروعات کی۔ دونوں چیزیں میرے ہاتھ کے قریب ہی تھیں۔ طوطے کا ما تھا اور گرگٹ کی دُم، ٹھیک اسی طرح جس طرح کتاب میں ہے۔ پہلی کوشش میں ہی کامیابی حاصل ہو گئی۔ ایساجوڑ دیا کہ باہر سے کچھ معلوم ہی نہ ہو سکے۔ مگر جانتے ہیں …‘‘

بھلا آدمی سنجیدہ ہو کر ایک پل خاموش بیٹھا رہا۔ اس کے بعد بولا، ’’زیادہ دن تک زندہ نہیں رہا۔ کچھ کھاتا ہی نہ تھا۔ بغیر کھائے زندہ کیسے رہے گا؟ اصل میں جو لکھا ہوا ہے، وہی ٹھیک ہے۔ بدن سے بدن ملنے پر بھی دل آپس میں نہیں مل پاتے۔ اس لیے اب دھڑ اور سر کو جوڑنا چھوڑ کر ایک دوسرا تجربہ کر رہا ہوں۔ ‘‘

وہ اچانک بے دل سا ہو گیا۔ میری تقدیر اچھی ہے کہ ڈاب کا پانی ہی پینے کے لیے دیا ہے۔ اگر چائے بسکٹ ہوتا تو منھ کے اندر رکھنے کی ہمت نہ ہوتی۔

ششٹھی چرن کہاں چلا گیا، معلوم نہیں۔ کھٹ کھٹ کھٹ کھٹ آواز ہو رہی ہے۔ یہ آواز جس طرف سے آ رہی ہے، اس سے یہی لگ رہا ہے کہ بھلے آدمی نے جسے اپنے کام دھندے کا کمرہ بتایا تھا، اسی کے دروازے کھولے جا رہے ہیں۔

باہر تیز ہوا چل رہی ہے۔ بادلوں کی گڑ گڑاہٹ اچھی نہیں لگ رہی ہے۔ اب بیٹھنا مناسب نہیں ہے۔ بھلے آدمی کا شکریہ ادا کر کے میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔

’’چل دیے ؟ آپ سے ایک بات پوچھنا تھی…‘‘

’’کہیے …‘‘

’’جانتے ہیں بات کیا ہے ؟ سارا انتظام کر چکا ہوں سیہی کا کانٹا، بکرے کا سینگ، شیر کے پیچھے کے دو پیر، بھالو کے بال لے آیا ہوں، لیکن آدمی کا تھوڑا سا حصہ باقی رہ گیا ہے، اور وہ بھی ایسا ہونا چاہیے جو تصویر سے ملتا جلتا ہو۔ ایسے آدمی پر اگر آپ کی کبھی نگاہ پڑی ہو تو بتانے کی زحمت کریں۔ ‘‘

یہ کہہ کر بھلے آدمی نے اپنی میز پر رکھی کاپیوں کے نیچے سے پرانے زمانے کا اوٹ پٹانگ کا شمارہ نکال کر ایک ورق پلٹا اور اسے میرے سامنے رکھ دیا۔ یہ تصویر میری دیکھی ہوئی ہے۔ ہاتھ میں مُدگر لیے ایک عجیب مخلوق ایک بھاگتے ہوئے آدمی کی طرف غصے بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔

’’ڈرو نہیں تم ڈرو نہیں بھئی، ماروں گا میں تمھیں نہیں

’’کشتی میں تم کو پچھاڑ دوں طاقت اتنی مجھ میں نہیں …‘‘

’’بتائیے اگر ایسا بنا سکوں تو کتنا اچھا رہے۔ کچھ بھی باقی نہیں ہے۔ توڑنا، جوڑنا جو کچھ تھاسب ہو چکا ہے، نیچے کی طرف تھوڑا سا حصہ جوڑ بھی چکا ہوں، اب صرف اسی طرح کے ایک آدمی کی ضرورت ہے۔ ‘‘

میں نے کہا، ’’اتنی گول گول آنکھیں آدمی کی کہاں ہوتی ہیں ؟‘‘

’’ہاں ہوتی ہیں !‘‘ بھلا آدمی تقریباً اچھل پڑا۔ ’’آنکھیں تو گول ہی ہوتی ہیں۔ پپوٹوں سے چونکہ گولائی کا زیادہ حصہ ڈھکا رہتا ہے اس لیے اتنی گول معلوم نہیں ہوتی ہیں۔ ‘‘

میں دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ پاگل تو ہے ہی، اس کے علاوہ جلدی چھٹکارا دینے والا انسان بھی نہیں ہے۔ الفاظ کا بھی اس کے پاس ذخیرہ ہے۔

’’ٹھیک ہے، پروفیسر ہج بج بج، کسی پر نگاہ پڑی تو بتاؤں گا۔ ‘‘

’’ ضرور بتائیے گا۔ بڑا آسان ہو گا۔ میں بھی تلاش کر رہا ہوں۔ ‘‘

’’آپ کہاں ٹھہرے ہوئے ہیں ؟‘‘

آخری سوال کو نہ سننے کا بہانہ بنا کر میں تاریکی میں چلا آیا۔ باہر آتے ہی میں دوڑنے لگا۔ بھیگنے میں مجھے پریشانی نہیں ہے، مگر آندھی میں ریت اڑ رہی ہے، اور وہ ناک اور آنکھوں میں داخل ہو کر بہت ہی پریشان کر رہی ہے۔

ہاتھوں سے منھ کو چھپائے کسی طرح آنکھوں کو بچاتے ہوئے جب ہوٹل پہنچا تو بارش شروع ہو چکی تھی۔

کمرے میں پہنچ کر جب بٹن دبایا تو بتی نہیں جلی۔ برآمدے میں جا کر بیرے کو پکارنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ بیرا موم بتی لیے میرے کمرے کی طرف آ رہا تھا۔ جب میں نے پوچھا کہ کیا بات ہے، تو اس نے بتایا زیادہ آندھی پانی میں گوپال پور میں بجلی کا جانا ایک عام بات ہے۔

آٹھ بجے کھانا کھا کر جب میں پلنگ پر بیٹھ کر ٹمٹماتی روشنی میں لکھنے بیٹھا تو دل نہیں لگا۔ دل بار بار دوڑ کر پروفیسر ہج بج بج کی طرف جانے لگا۔ تین سو سال پرانے مکان کو جیسے تیسے مرمت کرنے کے بعد (یہاں بھی اوٹ پٹانگ کی ’تھل تھل‘ کی یاد آتی ہے ) یہ آدمی وہاں کیسے رہتا ہے ؟ قطعی پاگل کے سوا ایسا کوئی کر سکتا ہے ؟ اور ششٹھی چرن؟ سانڈ جیسے اس نوکر کا اس نے کہاں سے انتظام کیا؟ واقعی کیا مشرق کی طرف کے اس بند کمرے میں وہ کچھ حیرت انگیز کام کرتا ہے ؟ اس کی باتوں میں کہاں تک سچائی ہے ؟ اس کی پوری بات کو اس کا پاگل پن کہہ کر اُڑایا جا سکتا تھا، مگر ان کانوں کو دیکھنے کے بعد گڑبڑ پیدا ہو رہی ہے۔ ان کانوں کو نہ صرف صفائی کے ساتھ جوڑا گیا ہے، بلکہ آتے وقت ڈبیا کی روشنی میں دیکھا تھا کہ ایک کان کے نکیلے حصے میں پھپھولا بھی ہے۔ اس کا مطلب تو یہ نکلتا ہے کہ وہ کان جسم کا ہی حصہ ہے اور جسم کے باقی حصوں کی طرح وہاں بھی رگیں اور اعصابی نظام ہیں۔ وہاں بھی خون کا بہاؤ ہوتا ہے۔

واقعی، جتناسوچتا ہوں، اتنا ہی دل چاہتا ہے کہ وہ کان نہ ہوتے تو میں راحت کی سانس لیتا۔

دوسرے دن صبح ساڑھے پانچ بجے اٹھ کر دیکھا، رات میں ہی بدلی چھٹ گئی ہے۔ چائے پینے بیٹھا تو ہج بج بج کی باتیں یاد آئیں اور جی چاہا کہ ہنس پڑوں۔ معمولی سی بات ہے ہلکے اندھیرے میں، ڈبیا کی روشنی میں جو کچھ دیکھا اس کا آدھا ہی حصہ دکھائی دیا تھا اور آدھے کا میں نے تصور کر لیا۔ ہوٹل میں لوٹنے پر بھی اسی طرح کا اندھیرا ملا تھا، اس لیے دل کے وہم کو دور کرنے کا موقع نہیں ملا۔ آج ریت پر صبح کی دھوپ اور خاموش سمندر کی شکل دیکھ کر مجھے لگا کہ وہ آدمی پاگل کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

پاؤں کے نیچے، ایڑی کے پاس تھوڑا درد محسوس ہو رہا تھا۔ غور سے دیکھنے پر پتا چلا کہ ایک جگہ کانٹے کا نشان ہے۔ سمجھ گیا کہ کل اندھیرے میں جب میں ریت میں دوڑتا ہوا واپس آ رہا تھا تو سیپ جیسی کوئی چیز چبھ گئی ہو گی۔ اپنے ساتھ میں ڈیٹول یا آیوڈین نہیں لایا تھا، اس لیے نو بجنے پر بازار کی طرف روانہ ہو گیا۔

نیو بنگالی ہوٹل کے سامنے سے سڑک بازار کی طرف گئی ہے۔ ہوٹل کے سامنے، برآمدے پر گھنشیام بابو کو ایک پھیری والے سے مونگا لے کر الٹتے پلٹتے دیکھا۔ میرے قدموں کی آہٹ سن کر انھوں نے سراٹھا کر میری طرف دیکھا اور ان کے چہرے پر نظر پڑتے ہی میرا کلیجا کانپ گیا۔

یہ چہرہ تو ویسا ہی ہے جیسا کہ اوٹ پٹانگ میں تھا۔ پاگل ہج بج بج اسی چہرے کی تلاش میں ہے اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسی طرح چپٹی ناک کے دونوں طرف پھیلی ہوئی لمبی پکی مونچھیں ہیں، لمبے گلے کے دونوں طرف تصویر کی طرح ہی باہر نکلی ہوئی ہیں۔ یہاں تک کہ ٹھوڑی کے نیچے کی بکری جیسی پتلی داڑھی بھی اس سے ملتی جلتی ہے۔ اصل میں کل اس آدمی کی حرکات و سکنات مجھے پسند نہیں آئی تھیں اور اسی وجہ سے میں نے اس کے چہرے کو بغور نہیں دیکھا تھا۔ آج ہم لوگوں کی آنکھیں ملیں اور میں نے نمسکار بھی کیا، مگر اس نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ بڑا ہی عجیب لگا۔

پھر بھی مجھے اس آدمی کی فکر ہوئی۔ اُس پاگل کے سپرد اسے نہیں کیا جا سکتا۔ ہج بج بج یا اس کا نوکر اگر اسے دیکھ لے تو ضرور ہی بغل میں دبا کر اس ٹوٹے مکان کے اندر لے جائے گا اور اس کے بعد اس کی کیا حالت ہو گی، یہ بھگوان ہی بہتر جانتا ہے۔

سوچا بازار سے لوٹتے وقت ایک بار رادھا ونود بابو سے ملوں گا اور ساری باتیں کھل کر کہوں گا۔ انھیں ہوشیار کر دوں گا کہ اپنے ہوٹل کے اس واحد مہمان پر نظر رکھے رہیں۔

مگر ڈیٹول خریدتے وقت یہ خیال میرے دل سے خود بخود دور ہو گیا۔ رادھا ونود بابو سے مجھے عجیب عجیب باتیں کہنا ہوں گی، اور کیا وہ ان باتوں پر یقین کریں گے ؟ ایسا لگتا نہیں۔ یہاں تک کہ ان باتوں کو سن کر مجھے پاگل قرار دیں گے۔ اس کے علاوہ ان کی بات نہ مان کر میں جو ہج بج بج کے پاس گیا تھا، یہ بات انھیں پسند نہیں آئے گی۔

لوٹتے وقت گھنشیام بابو پر جب دوبارہ نظر پڑی تو مجھے لگا، میری نظر میں جس آدمی کا چہرہ تصویر سے ملتاجلتا ہے، ہج بج بج کے خیال میں ویسا نہیں بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے ڈر کی جتنی وجہ محسوس ہو رہی ہے، ہو سکتا ہے اصل میں اتنی نہ ہو۔ اس لیے عقلمندی اسی میں ہے کہ ان لوگوں سے کچھ نہ کہوں اور پروفیسر کو بھی کچھ نہ بتاؤں۔ اب میں صرف مغرب کی طرف ہی گھومنے پھرنے جاؤں گا اور باقی وقت ہوٹل کے کمرے میں بیٹھ کر لکھنے کا کام کرتا رہوں گا۔

ہوٹل آتے ہی بیرے نے مجھے بتایا کہ ایک آدمی مجھ سے ملنے آیا تھا۔ مجھ سے ملاقات نہ ہونے پر وہ ایک خط لکھ کر رکھ گیا ہے۔

بہت ہی چھوٹے چھوٹے چیونٹی جیسے الفاظ میں یہی بات لکھی ہوئی ہے۔

پیارے شٹ انگل جی!

آج شام ضرور میرے گھر تشریف لائیے گا۔ شیر کے پچھلے حصے کے ساتھ سیہی کے کانٹے اور بھالو کے روئیں کو اچھی طرح جوڑ چکا ہوں۔ ایک بہت عمدہ مُدگر بھی تیار کر لیا ہے۔ اب تینوں سینگوں کے لیے ایک ماتھے کی ضرورت ہے۔ ماتھے اور ہاتھوں کا انتظام ہو جائے تو کام بن جائے۔ ششٹھی چرن کو ایک آدمی کا پتا چلا ہے، جس کا چہرہ اصل تصویر سے بہت کچھ ملتاجلتا ہے۔ امید ہے، آج ہی میرا تجربہ کامیاب ہو جائے گا۔ اس لیے آج شام کو ایک بار ’فرض ناشناس‘ میں آنے کی زحمت کریں تو بے حد خوشی ہو گی۔

خاکسار، ایچ بی بی۔

یاد آیا، ہج بج بج نے بتایا ہی تھا کہ ح۔ ش۔ د۔ ل کے مطابق ہی گھر کا نام ’فرض ناشناس‘ رکھا گیا ہے۔ خط پڑھنے کے بعد دل میں دوبارہ اندیشہ جاگا کیونکہ میرا دل کہہ رہا ہے کہ ششٹھی چرن نے شاید گھنشیام بابو کو ہی دیکھا ہے۔

دوپہر بھر کچھ لکھنے کا کام کیا۔ تیسرے پہر تیز ہوا چلنے لگی۔ برآمدے میں ڈیک چے ئر پر بیٹھے بیٹھے میں سمندر کی طرف دیکھتا رہا، جس سے بہت کچھ ہلکے پن کا احساس ہوا۔ شمال و مغرب سے آتی ہوئی ہوا لہروں سے ٹکرا رہی ہے، جس کی وجہ سے لہروں کے اوپر پھیلا جھاگ چور چور ہو کر ہوا کے جھونکوں سے بکھر رہا ہے۔ دیکھنے میں بہت ہی اچھا لگ رہا ہے۔

چھ بجے رادھا ونود بابو کو ریت سے ہو کر اپنے برآمدے کی طرف آتے دیکھا۔ ان کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔

’’میرے اس مہمان کو اس طرف چہل قدمی کرتے ہوئے دیکھا ہے ؟‘‘

’’کس کو؟ گھنشیام بابو کو ؟‘‘

’’ہاں صاحب، کل ہم آپ سے جس جگہ ملے تھے وہیں ٹھہرنے کی بات کی تھی۔ ابھی میں گیا تو نہیں۔ آس پاس کوئی آدمی نہیں تھا جس سے پوچھ گچھ کر سکوں۔ ادھر میرے ہوٹل میں شور و غل مچا ہوا ہے۔ میری سونے کی گھڑی چوری ہو گئی ہے۔ نوکر سے سوال جواب کرنے میں دیر ہو گئی۔ وہ کیا اس طرف سے ہو کر نہیں گئے ہیں ؟‘‘

میں کرسی چھوڑ کر کھڑا ہو گیا۔

’نہیں، اس طرف سے نہیں گئے ہیں، ‘‘ میں نے کہا، ’’مگر ہاں، میرے دل میں کچھ شک ہو رہا ہے۔ ایک جگہ جاؤں تو ہو سکتا ہے پتا چل جائے۔ آپ کے ہاتھ میں جو لاٹھی ہے، وہ کافی مضبوط ہے نا؟‘‘

رادھا ونود بابو نے چونک کر کہا، ’’لاٹھی؟ ہاں، لاٹھی تو میرے داداجی کے زمانے کی ہے … اس لیے …‘‘

میرے ساتھ اور کوئی چیز نہیں۔ جب یہاں پہلی بار آیا تھا تو آرا مچھلی کا ایک دانت خریدا تھا۔ اسے اپنے ساتھ لے لیا۔ دوسرے ہاتھ میں اپنی ٹارچ تھام لی۔

مجھے مشرق کی طرف جاتے دیکھ کر رادھا ونود بابو نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا، ’’مچھیروں کی بستی کے پار جائیں گے کیا؟‘‘

’’ہاں، لیکن زیادہ دور نہیں، ایک آدھ میل۔ ‘‘

راستے بھر رادھا ونود بابو ایک ہی بات کو تین بار دہراتے رہے، ’’کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے، صاحب!‘‘

ایک ادھیڑ آدمی کے ساتھ ڈیڑھ میل کا راستہ طے کرنے میں تقریباً ایک گھنٹے کا وقت لگ گیا۔ شام اتر چکی ہے۔ جب تک گھر کے پاس نہیں پہنچ جاتا ہوں تب تک یہ سمجھنا مشکل ہے کہ وہاں کوئی ہے یا نہیں۔ جتنا زیادہ ہم اس مکان کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں، رادھا ونود بابو کا جوش اتنا ہی ڈھیلا پڑتا جا رہا ہے۔ آخر کار جب وہ مکان دس ہاتھ دور رہ گیا تو وہ ٹھٹک کر کھڑے ہو گئے اور بولے، ’’آپ کا مطلب کیا ہے ؟‘‘

میں نے کہا، ’’جب اتنی دور آ ہی چکے تو اور دس ہاتھ چلنے میں پریشان کیوں ہو رہے ہیں ؟‘‘

آخر کار وہ میرے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ گھر کے پاس آنے پر ٹارچ روشن کرنا پڑی، کیونکہ اندر گہری تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔ کل مٹی کے تیل کی جو ڈبیا جل رہی تھی، اسے اب تک جل جانا چاہیے تھا، مگر یہاں اندھیرا ہے۔

سامنے کے دروازے سے اندر جا کر جب ٹارچ جلائی تو دیکھا، ایک آدمی چت پڑا ہے۔ وہ آدمی ابھی تک مرا نہیں ہے، کیونکہ اس کا چوڑا سینہ ابھی تک پھول پچک رہا ہے۔

’’یہ تو وہی نوکر ہے، ‘‘ رادھا ونود بابو نے بھرائی آواز میں کہا۔

’’جی ہاں ! یہ ششٹھی چرن ہے۔ ‘‘

’’آپ کو اس کا نام بھی معلوم ہے ؟‘‘

اس بات کا جواب نہ دے کر میں بیٹھک کے اندر چلا گیا۔ کمرہ خالی ہے، پروفیسر کا وہاں کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ وہاں سے نکل کر میں اس کی تجربہ گاہ کے اندر گیا۔

یہ کمرہ بھی بیٹھک کی طرح لمبا چوڑا ہے۔ میز پر ایک طرف سارے سامان کا ڈھیر لگا ہے شیشی، بوتل، کانٹا، چھری، دورا دارو وغیرہ۔ ایک تیز بو سے کمرہ بھرا ہوا ہے۔ بچپن میں چڑیا گھر میں جانوروں کے پنجرے کے سامنے کھڑا ہونے پر اسی طرح کی بو کا احساس ہوا تھا۔

’’ارے، اس آدمی کا کرتا تو یہیں پڑا ہے !‘‘ رادھا ونود بابو چیخ پڑے۔

آج صبح اس کرتے پر میری نظر بھی پڑ چکی تھی۔ تین چوتھائی آستین والا بھورے رنگ کا کرتا ہے، سینے کے پاس سفید بٹن… اس میں شک نہیں کہ یہ گھنشیام بابو کا ہی کرتا ہے۔

اور اس کرتے کی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہی ایسے خوفناک حالات میں بھی رادھا ونود بابو چونک پڑے انھیں اپنی سونے کی گھڑی مل گئی تھی۔

’’یہاں کیا کیا جاتا ہے ؟ یہ سامان یہاں کیوں ہے ؟ کرتا ہے، جیب میں گھڑی موجود ہے، مگر وہ پٹھا کہا چلا گیا؟ اس بوڑھے کا بھی پتا نہیں چل رہا ہے !‘‘

میں نے کہا، ’’یہ تو دیکھ ہی رہے ہیں کہ وہ اندر نہیں ہیں۔ باہر چلیے۔ ‘‘

ششٹھی چرن اب بھی بے ہوش پڑا ہے۔ اسے پھلانگتے ہوئے ہم گھر کے باہر ریت پر آئے۔ سمندر کی طرف تاکنے پر ہلکے اندھیرے میں ایک آدمی دکھائی دیا۔ وہ اسی طرف آ رہا ہے۔ جب وہ تھوڑا اور قریب آ گیا تو میں نے اس پر ٹارچ ڈالی پروفیسر ہج بج بج آ رہے ہیں۔

’’مشٹ انگل جی ہیں ؟‘‘

’’جی ہاں، میں ہمانشو چودھری ہوں۔ ‘‘

’’تھوڑی دیر پہلے کیوں نہیں آئے ؟‘‘ اس نے شکایتی لہجے میں کہا۔

’’کیوں ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’وہ تو چلا گیا۔ تصویر کے جیسا آدمی مل گیا تھا۔ ایک ہی گھنٹے میں میں نے جوڑ دیا۔ مزے سے گھومنے پھرنے لگا، بات چیت بھی کی۔ ششٹھی چرن ڈرنے لگا تو اس کے سر پر مُدگر دے پٹکا اور اس کے بعد سیدھا سمندر کی طرف چلا گیا۔ سوچا پکاروں مگر نام تو کچھ تھا ہی نہیں کہ پکارتا… آدمی کا سر، شیر کے پیر، سیہی کی پیٹھ، بکری کے سینگ… لیکن پانی کے اندر کیوں چلا گیا، سمجھ میں نہیں آیا…‘‘

بات کرتے کرتے وہ اپنے تاریک گھر کے اندر چلا گیا۔ اب تک میری ٹارچ کی روشنی اس پر پڑ رہی تھی، اب نیچے کی طرف روشنی پڑی تو ریت پر پیروں کے نشان دکھائی دیے، پیروں کے تازہ نشان پیر نہیں بلکہ پنجے کہنا چاہیے۔

نشانوں کے سہارے ہم آگے بڑھتے گئے۔ آہستہ آہستہ ہم بھیگی ریت کے پاس پہنچے۔ بھیگی ریت پر نشان اور بھی صاف تھے۔ کیکڑوں کے گڈھے کی بغل سے ہوتی ہوئی، ناقابل شمار سیپیوں پر سے ہوتے ہوئے پنجوں کے وہ نشان پانی کی طرف جا کر سمندر میں گم ہو گئے تھے۔

اتنی دیر کے بعد رادھا ونود بابو کے منھ سے آواز نکلی، ’’سب کچھ تو سمجھ گیا۔ وہ آدمی نرا پاگل ہے، آپ شاید نیم پاگل ہیں، مگر میرے ہوٹل کا وہ چور باشندہ کہاں چلا گیا؟‘‘

اپنے ہاتھ کے آرا مچھلی کے دانت کو پانی میں پھینک کر ہوٹل کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے میں نے کہا، ’’اس کی تحقیقات پولیس سے کرنے کو کہیے۔ کرتا جب یہاں ملا ہے تو یہیں تلاش کرنے کو کہیے۔ اور ہاں، مجھے اندیشہ اس بات کا ہے کہ راز کا پتا لگاتے لگاتے پولیس بھی کہیں میری ہی طرح نہ ہو جائے یعنی فرض ناشناس۔ ‘‘

۔۔۔۔

1 یہ دونوں بنگلہ زبان کے بچوں کے دو رسالوں کے نام ہیں۔ ’پروفیسر ہج بج بج‘، ’ششٹھی چرن‘ وغیرہ انھیں رسالوں کے مقبول افسانوی کردار ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

فرِنس

 

جینت کی طرف کچھ دیر تکتے رہنے کے بعد سوال کیے بغیر نہ رہ سکا، ’’آج تو بہت مرا مرا سا لگ رہا ہے ؟ طبیعت خراب ہے کیا؟‘‘

جینت بچے کی طرح ہنس دیا اور کہا، ’’نہ ! طبیعت خراب نہیں ہے بلکہ تازگی ہی محسوس کر رہا ہوں۔ واقعی جگہ بہت اچھی ہے۔ ‘‘

’’تیری تو جانی پہچانی جگہ ہے۔ پہلے یہ معلوم نہ تھا کہ جگہ اتنی خوبصورت ہے ؟‘‘

’’بھول ہی چکا تھا۔ ‘‘ جینت نے ایک لمبی سانس لی۔ ’’اتنے دنوں کے بعد آہستہ آہستہ سب کچھ یاد آ رہا ہے۔ بنگلہ پہلے جیسا ہی ہے۔ کمروں میں بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ فرنیچر بھی پرانے زمانے کا ہی ہے، جیسے بینت کی یہ میز اور کرسیاں۔ ‘‘

بیرا ٹرے میں چائے اور بسکٹ لے آیا۔ ابھی صرف چار ہی بجے ہیں مگر دھوپ ڈھلنے لگی ہے۔ چائے دانی سے چائے انڈیلتے ہوئے میں نے پوچھا ؟ ’’کتنے دنوں بعد یہاں آنا ہوا؟‘‘

جینت نے کہا، ’’اکتیس سال کے بعد۔ اس وقت میں چھ سال کا تھا۔ ‘‘

ہم لوگ جس جگہ بیٹھے ہیں، وہ بوندی شہر کے سرکٹ ہاؤس کا باغیچہ ہے۔ آج صبح ہم لوگ یہاں پہنچے ہیں۔ جینت میرے بچپن کا دوست ہے۔ ہم ایک ہی اسکول اور کالج میں ہم جماعت رہ چکے ہیں۔ آج کل وہ ایک اخبار میں نوکری کرتا ہے اور میں اسکول میں پڑھانے کا کام۔ ہماری نوکر پیشہ زندگی الگ ہونے کے باوجود ہماری دوستی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ہم لوگوں نے بہت پہلے ہی راجستھان گھومنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ دونوں کو ایک ساتھ چھٹی ملنے میں دقت ہو رہی تھی، آج اتنے دنوں کے بعد یہ ممکن ہوا ہے۔ عموماً لوگ جب راجستھان آتے ہیں تو شروع میں جے پور، چتّوڑ اور اُدے پور ہی دیکھتے ہیں، مگر جینت شروع سے ہی بوندی جانے پر زور دے رہا تھا۔ میں نے بھی اعتراض نہیں کیا کیونکہ بچپن میں میں نے رابندر ناتھ کی ’’بوندی کا قلعہ‘‘ نظم پڑھی تھی اور اس قلعے کو اتنے عرصے کے بعد دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ زیادہ تر لوگ بوندی نہیں آتے، لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ یہاں دیکھنے کے لائق کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو اُدے پور، جودھپور اور چتّوڑ کی اہمیت زیادہ ہے مگر خوبصورتی کے لحاظ سے بوندی کسی سے کم نہیں ہے۔

جینت نے جب بوندی کے بارے میں اتنا زور دیا تھا تو مجھے عجیب لگ رہا تھا۔ جب ٹرین سے آنے لگا تو اس کی وجہ معلوم ہوئی۔ بچپن میں ایک بار وہ بوندی آ چکا ہے، اس لیے اُن پرانی یادوں کے ساتھ نئے سرے سے ملنے کی خواہش اس کے دل میں شدت اختیار کر رہی تھی۔ جینت کے والد امیداس گپتا آثار قدیمہ میں ملازم تھے، اس لیے انھیں بیچ بیچ میں تاریخی مقامات کا معائنہ کرنا پڑتا تھا۔ اسی سلسلے میں جینت بھی بوندی ہو آیا تھا۔

سرکٹ ہاؤس واقعی بہت ہی خوبصورت ہے۔ انگریزوں کے زمانے کا ہے، سو سال سے کم پرانا نہ ہو گا۔ ایک منزلہ عمارت، ٹائلوں کی چھاؤنی کی ہوئی ڈھال اور چھت، کمرے اونچے اونچے۔ اوپر کی طرف اسکائی لائٹ ہے جسے رسی کھینچ کر حسبِ منشا کھولا یا بند کیا جا سکتا ہے۔ مشرق کی طرف برآمدہ ہے۔ اس کے سامنے وسیع احاطے کی کیاریوں میں گلاب کھلے ہوئے ہیں۔ باغیچے کے پچھلے حصے میں کئی قسم کے بڑے بڑے پیڑ ہیں، جن پر ان گنت چڑیاں بیٹھی رہتی ہیں۔ طوطے بھی ہیں۔ مور کی آواز بھی بیچ بیچ میں سنائی دیتی ہے، مگر اتنی بات ضرور ہے کہ وہ آواز احاطے کے باہر سے آتی ہے۔

ہم صبح پہنچنے کے ساتھ ہی ایک بار شہر کا چکر لگا چکے ہیں۔ پہاڑ پر بوندی کا مشہور قلعہ ہے۔ آج دور سے دیکھ رہے ہیں، کل ہم اندر جا کر دیکھیں گے۔ معلوم ہوتا ہے شہر میں بجلی کے کھمبے نہیں ہیں۔ ہم پرانے راجپوت زمانے میں چلے آئے ہیں۔ سڑکیں پتھر کی بنی ہیں، مکانوں کے سامنے دو منزلے سے ٹنگے ہوئے نقاشی کیے برآمدے ہیں۔ لکڑی کے دروازوں پربھی ماہر ہاتھوں سے نقاشی کی گئی ہے۔ دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ ہم مشینی تہذیب کے دور میں زندگی گزار رہے ہیں۔

یہاں آنے پر میں نے غور کیا کہ جینت عام طور سے جتنی باتیں کرتا ہے نسبتاً یہاں کم باتیں کر رہا ہے۔ ہو سکتا ہے بہت سی پرانی یادیں اس کے دل میں واپس آ رہی ہوں۔ بچپن کی کسی پرانی جگہ بہت دنوں کے بعد آنے سے دل اداس ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ اور جینت عام لوگوں سے کچھ زیادہ ہی جذباتی ہے، یہ بات سبھی کو معلوم ہے۔

چائے کی پیالی ہاتھ سے نیچے رکھ کر جینت نے کہا، ’’ معلوم ہے، شنکر، بہت ہی عجیب بات ہے۔ شروع میں جب یہاں آیا تھا تو ان کرسیوں پر میں پاؤں موڑ کر بابو صاحب کی طرح بیٹھا کرتا تھا۔ لگتا جیسے میں کسی تخت پر بیٹھا ہوا ہوں۔ اب دیکھ رہا ہوں، کرسیاں لمبائی چوڑائی میں بڑی نہیں ہیں اور دیکھنے میں بھی بہت معمولی ہیں۔ سامنے جو ڈرائنگ روم ہے، اس سے دگنا معلوم ہوتا تھا۔ اگر آج میں یہاں نہ آتا تو بچپن کے بہت سے مفروضے ویسے کے ویسے ہی بنے رہتے۔ ‘‘

میں نے کہا، ’’فطری بات ہے، بچپن میں ہم چھوٹے رہتے ہیں، اس کے مطابق آس پاس کی چیزیں بڑی لگتی ہیں۔ عمر کے ساتھ ساتھ ہم بڑھتے جاتے ہیں، مگر چیزیں تو بڑھتی نہیں۔ ‘‘

چائے ختم کر کے باغیچے میں چہل قدمی کرتے کرتے اچانک جینت چونک کر کھڑا ہو گیا اور بولا، ’’دیودارو…‘‘

اس کی بات سن کر حیران ہو کر میں نے اس کی طرف دیکھا۔

وہ پھر کہنے لگا، ’’دیودارو کا ایک پیڑ ادھر ہونا چاہیے تھا۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ تیزی سے پیڑ پودوں کے بیچ سے ہوتا ہوا احاطے کے کونے کی طرف بڑھ گیا۔ اچانک جینت کو دیودارو کے ایک پیڑ کی یاد کیوں آ گئی؟

چند لمحوں کے بعد جینت کی خوشی سے بھری ہوئی آواز سنائی دی، ’’ہے، اِٹس ہے ئر! جہاں تھا ٹھیک وہیں …‘‘

میں نے آگے بڑھ کر کہا، ’’اگر پیڑ رہا ہو گا تو وہ جس جگہ تھا وہیں ہو گا۔ پیڑ چہل قدمی نہیں کرتے۔ ‘‘

جینت نے ناراضگی سے سرہلاتے ہوئے کہا، ’’وہیں ہے سے میرا مطلب یہ نہیں کہ پیڑ نے اپنی جگہ نہیں بدلی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میں نے پیڑ کے جہاں ہونے کا اندازہ لگایا تھا، وہیں ہے۔ ‘‘

’’لیکن پیڑ کی بات تمھیں اچانک کیوں یاد آ گئی؟‘‘

جینت کچھ دیر تک بھنویں سکوڑ ایک ٹک پیڑ کی طرف دیکھتا رہا، اس کے بعد آہستگی سے سر ہلا کر کہا، ’’وہ بات اب یاد نہیں آ رہی ہے۔ کسی وجہ سے میں اس پیڑ کے پاس گیا تھا اور وہاں جا کر کچھ کہا تھا۔ ایک انگریز…‘‘

’’انگریز؟‘‘

’’نہ، کچھ بھی یاد نہیں آ رہا ہے۔ یادداشت کا معاملہ واقعی بہت عجیب ہے۔ ‘‘

یہاں کا باورچی کھانا اچھا پکاتا ہے۔ رات میں ڈائننگ روم میں بیضوی میز پر بیٹھ کر جینت نے کھانا کھاتے ہوئے کہا، ’’ان دنوں جو باورچی تھا، اس کا نام دلاور تھا۔ اس کے بائیں گال پر ایک نشان تھا، چھری کا نشان۔ اور اس کی آنکھیں ہمیشہ اڑھُل کے پھول کی طرح لال رہتی تھیں۔ مگر کھانا بہت عمدہ پکاتا تھا۔ ‘‘

کھانا کھانے کے بعد جینت جب صوفے پر بیٹھا تو آہستہ آہستہ اور بھی پرانی باتیں یاد آنے لگیں۔ اس کے والد کس صوفے پر بیٹھ کر تمباکو نوشی کر تے تھے، ماں کہاں بیٹھ کر سویٹر بنتی تھیں، میز پر کون کون سے رسالے رکھے رہتے تھے ساری باتیں اسے یاد آ گئیں، اور اسی طرح اسے پُتلے کی بات بھی یاد آ گئی۔ پتلے کا مطلب لڑکیوں کی گڑیا یا پُتلی نہیں۔ جینت کے ماما نے سوئٹزرلینڈ سے دس بارہ انچ لمبی سوئس لباس پہنے ایک بوڑھے کی مورتی اسے لا کر دی تھی۔ دیکھنے میں وہ ایک چھوٹے سے زندہ آدمی کی طرح لگتی تھی۔ اندر کوئی کل قبضہ نہیں تھا، مگر ہاتھ، پاؤں، انگلیاں اور کمر اس قسم کی بنی تھیں کہ حسب منشا اسے گھمایا پھرایا جا سکتا تھا۔ چہرے پر ہمیشہ ایک مسکراہٹ تیرتی رہتی تھی۔ سر پر ایک چھوٹی سی سوئس پہاڑی ٹوپی تھی جس پر پر لگے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ لباس میں بھی کوئی خامی نہیں تھی۔ بیلٹ، بٹن، پاکٹ، کالر، موزہ، یہاں تک کہ جوتے کے بکسوئے میں بھی کوئی خامی نہیں تھی۔

پہلی بار جینت جب بوندی آیا تھا تو اس کے کچھ پہلے ہی اس کے ماما ولایت سے لوٹ آئے تھے اور انھوں نے جینت کو وہ پتلا دیا تھا۔ سوئٹزرلینڈ کے کسی گاؤں میں ایک بوڑھے سے انھوں نے وہ پتلا خریدا تھا۔ بوڑھے نے کہا تھا کہ اس کا نام فرنس ہے اور اسی نام سے اسے پکارنا۔ دوسرے نام سے پکاریں گے تو جواب نہیں ملے گا۔

جینت نے کہا، ’’ بچپن میں مجھے کتنے ہی کھلونے ملے تھے۔ ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے انھوں نے کوئی کمی نہیں رہنے دی تھی۔ مگر ماما نے جب مجھے فرنس دیا تو میں اپنے تمام کھلونوں کو بھول گیا۔ رات دن اسی کو لے کر پڑا رہتا، یہاں تک کہ ایسا وقت آیا جب میں فرنس سے گھنٹوں بات چیت کرنے لگا۔ بات بے شک یک طرفہ رہتی تھی، مگر فرنس کے چہرے پر ایک ایسی ہنسی اور آنکھوں کی نظر میں ایک ایسا جذبہ رہتا تھا کہ مجھے محسوس ہوتا وہ میری بات سمجھ لیتا ہے۔ کبھی کبھی مجھے ایسا بھی محسوس ہوتا کہ اگر میں بنگلہ کے بجائے جرمن زبان میں بات چیت کر سکتا تو بات چیت کا سلسلہ یک طرفہ نہ ہو کر دو طرفہ ہوتا۔ اب سوچتا ہوں تو لگتا ہے وہ بچپنا اور پاگل پن تھا، مگر ان دنوں یہ بات میرے لیے بالکل حقیقت جیسی تھی۔ ماں اور بابو بھی منع کرتے تھے، مگر میں کسی بھی بات پر توجہ نہیں دیتا تھا۔ تب میں نے اسکول جانا شروع نہیں کیا تھا، اس لیے فرنس کو وقت نہ دے پانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ‘‘

اتنا کہہ کر جینت خاموش ہو گیا۔ گھڑی کی طرف دیکھنے پر پتا چلا کہ رات کے ساڑھے نو بج چکے ہیں۔ ہم سرکٹ ہاؤس کی بیٹھک میں لیمپ جلا کر بیٹھے تھے۔

میں نے پوچھا، ’’پُتلا کہاں چلا گیا؟‘‘ جینت اب بھی جیسے کچھ سوچ رہا تھا۔ جواب اتنی دیر کے بعد آیا کہ مجھے لگا اس نے کچھ سنا ہی نہیں۔

’’پتلے کو بوندی لے آیا تھا، یہاں آ کر ٹوٹ گیا۔ ‘‘

’’ٹوٹ گیا؟ کیسے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

جینت نے ایک لمبی سانس لی اور کہا، ’’ایک دن ہم باہر برآمدے میں بیٹھ کر چائے پی رہے تھے۔ پتلے کو بغل میں گھاس پر رکھ دیا۔ پاس ہی بہت سے کتّے جمع ہو گئے تھے۔ تب میں جس عمر کا تھا مجھے چائے نہیں پینا چاہیے تھی مگر میں نے ضد کر کے چائے لے لی اور پینے لگا۔ چائے کی پیالی اچانک ترچھی ہو گئی اور تھوڑی سی گرم چائے میری پتلون پر گر گئی۔ بنگلے کے اندر جا کر میں نے پتلون بدلی اور اس کے بعد جب باہر آیا تو پتلے کو وہاں نہیں پایا۔ تلاش کرنے پر دیکھا تو معلوم ہوا سڑک پر دو کتے میرے فرنس کو لے کر کھیل رہے ہیں۔ چونکہ وہ بہت مضبوط چیز تھی اس لیے پھٹ کر دو ٹکڑوں میں نہیں بٹی۔ لیکن اس کا چہرہ مسخ ہو گیا اور کپڑا پھٹ گیا۔ یعنی میرے لیے فرنس کا کوئی وجود ہی نہ رہا۔ ہی واز ڈیڈ۔ ‘‘

’’اس کے بعد ؟‘‘ جینت کی کہانی مجھے بے حد دلچسپ لگ رہی تھی۔

’’اس کے بعد کیا؟ رسوم کے مطابق فرنس کی تدفین کر دی گئی۔ ‘‘

’’ اس کا مطلب؟‘‘

’’اس دیودارو کے نیچے اسے دفنا دیا گیا۔ آرزو تھی، تابوت کا انتظام کروں کیونکہ ولایتی آدمی تھا نا! کوئی بکسا ہوتا تو بھی کام چل جاتا۔ بہت ڈھونڈنے اور تلاش کرنے پر بھی کچھ نہ ملا۔ اس لیے آخرکار اسی طرح دفنا دیا۔ ‘‘

اتنی دیر کے بعد دیودارو کے پیڑ کا راز میرے سامنے کھل سکا۔

دس بجے ہم سونے چلے گئے۔

ایک خاصے بڑے بیڈروم میں الگ الگ پلنگوں پر ہمارے بستر بچھے تھے۔ کلکتہ میں پیدل چلنے کی عادت نہیں تھی۔ ایک تو یوں بھی تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی اور اس پر ڈنلپ پِلو سر کے نیچے رکھتے ہی دس منٹ کے اندر نیند نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا۔

رات کافی ہو چکی تھی، معلوم نہیں کس چیز کی آواز سے نیند ٹوٹ گئی۔ بغل کی طرف مڑنے پر جینت کو بستر پر بیٹھے ہوئے دیکھا۔ اس کی بغل میں ٹیبل لیمپ جل رہا تھا۔ اس کی روشنی میں جینت کے چہرے پر گھبراہٹ نظر آ رہی تھی۔ میں نے پوچھا، ’’کیا ہوا؟ طبیعت خراب ہے کیا؟ ‘‘

اس بات کا جواب نہ دے کر جینت ایک دوسرا ہی سوال پوچھ بیٹھا، ’’سرکٹ ہاؤس میں بلی یا چوہے کے قبیل کی کوئی چیز ہے ؟‘‘

میں نے کہا، ’’اگر ہے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ مگر تم ایسا کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘

’’سینے پر چڑھ کر کوئی چیز چلی گئی اور اسی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی۔ ‘‘

میں نے کہا، ’’چوہا عام طور سے نالی سے آتا ہے۔ اس کے علاوہ مجھے یہ نہیں معلوم کہ چوہا پلنگ پر چڑھتا ہے یا نہیں۔ ‘‘

جینت نے کہا، ’ ’اس کے پہلے بھی ایک بار میری نیند ٹوٹ چکی ہے۔ تب کھڑکی سے کھچ کھچ کی سی آواز آ رہی تھی۔ ‘‘

’’اگر کھڑکی سے آواز آئی ہے تو زیادہ امکان بلی کے ہی ہو سکتے ہیں۔ ‘‘

’’مگر…‘‘

جینت کے دل سے وہم دور نہیں ہو رہا ہے۔ میں نے کہا، ’’روشنی کرنے پر کسی چیز پر نظر نہیں پڑی؟‘‘

’’نہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ آنکھ کھلتے ہی بتی نہیں جلائی تھی۔ شروع میں چونک اٹھا، سچ کہوں تو تھوڑا تھوڑا ڈر بھی لگ رہا تھا۔ روشنی جلانے کے بعد کسی چیز پر نگاہ نہیں پڑی۔ ‘‘

’’اس کا مطلب یہ کہ اگر کوئی چیز کمرے کے اندر آئی ہو گی تو وہ کمرے کے اندر ہی ہو گی، دروازہ جب کہ بند ہے …‘‘

میں فوراً بستر سے نیچے اتر آیا اور گھر کے ہر کونے میں، پلنگ کے نیچے، سوٹ کیس کے پیچھے، ہر طرف تلاش کیا۔ کہیں کچھ نہ تھا۔ باتھ روم کے کواڑ کھلے ہوئے تھے۔ میں اس کے اندر بھی تلاش کرنے گیا۔ تبھی جینت نے آہستگی سے مجھے پکارا:

’’شنکر!‘‘

میں کمرے کے اندر لوٹ آیا۔ دیکھا، جینت اپنی رضائی کے سفید غلاف کی طرف دیکھ رہا ہے۔ میں جب اس کے پاس گیا تو اس نے رضائی کے ایک حصے کو روشنی کی طرف بڑھا کر کہا، ’’دیکھو تو، یہ کیا ہے ؟‘‘

میں نے جب جھک کر کپڑے کی طرف دیکھا تو اس پر ہلکے کتھئی رنگ کے گول گول نشانات دکھائی دیے۔ میں نے کہا، ’’بلی کے پنجے کے نشان ہو سکتے ہیں۔ ‘‘

جینت کچھ نہیں بولا۔ پتا نہیں کیوں وہ بے حد فکر مند ہو گیا تھا۔ رات کے ڈھائی بج رہے تھے۔ اتنی کم نیند سے میری تھکاوٹ دور نہیں ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کل دن بھر چکر لگانا ہے۔ لہٰذا یہ کہہ کر کہ میں برابر میں ہی ہوں، ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے، اور یہ نشان پہلے کے بھی ہو سکتے ہیں، میں نے اسے دلاسا دیا اور بتی بجھا کر دوبارہ لیٹ گیا۔ مجھے اس بات کا بالکل شبہ نہیں تھا کہ جینت نے جو کچھ کہا ہے وہ حقیقت ہے ؛ شاید اس نے ایک خواب دیکھا ہے۔ بوندی آنے پر اسے پرانی باتیں یاد آ گئی ہیں اور وہ ذہنی تناؤ میں ہے۔ اسی وجہ سے بلی کے چلنے کا خواب دیکھا ہو گا۔

رات میں اگر کوئی اور واقعہ پیش آیا ہو تو اس بارے میں مجھے کوئی علم نہیں۔ جینت نے بھی صبح اٹھنے کے بعد کسی نئے تجربے کے بارے میں نہیں بتایا۔ مگر ہاں، دیکھنے سے ایسامعلوم ہوتا ہے کہ وہ رات ٹھیک سے سویا نہیں ہے۔ میں نے دل ہی دل میں طے کیا کہ میرے پاس جو نیند کی ٹکیہ ہے، آج رات سونے سے پہلے وہ جینت کو کھلا دوں گا۔

اپنے پلان کے مطابق ہم ناشتہ کر کے نو بجے بوندی کا قلعہ دیکھنے چلے گئے۔ گاڑی کا انتظام پہلے ہی کر لیا تھا۔ قلعہ پہنچتے پہنچتے ساڑھے دس بج گئے۔

یہاں آنے پر بھی جینت کو بچپن کی ساری باتیں یاد آنے لگیں۔ خوش قسمتی سے پتلے سے ان کا کوئی رشتہ نہیں تھا۔ سچ کہوں، جینت کی حرکات دیکھ کر لگ رہا تھا وہ پتلے کی بات بھول چکا ہے۔ وہ ایک ایک چیز کو دیکھتا ہے اور چلا اٹھتا ہے، ’’ گیٹ کے اوپر وہی ہاتھی ہے ! یہ وہی چاندی کا پلنگ اور تخت ہے ! دیوار پر یہ تصویر بھی بالکل وہی ہے !‘‘

مگر ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد جوش کم ہونے لگا۔ میں اتنا محو تھا کہ شروع میں اسے سمجھ نہ سکا۔ میں ایک لمبی کوٹھری میں چہل قدمی کر رہا تھا اور چھت کے جھاڑ فانوسوں کو دیکھ رہا تھا کہ تبھی مجھے خیال آیا، جینت میرے آس پاس نہیں ہے۔ وہ کہاں گیا؟

ہمارے ساتھ ایک گائیڈ تھا۔ اس نے کہا، ’’بابو باہر چھت کی طرف گئے ہیں۔ ‘‘

دربان گھر دیکھ کر جب میں باہر آیا تو جینت کو تھوڑی دور پر، چھت کی دوسری طرف، دیوار کے پاس بے چین سا کھڑا پایا۔ وہ اتنا زیادہ فکر مند تھا کہ جب میں اس کی بغل میں جا کر کھڑا ہوا تو اسے احساس تک نہ ہوا۔ آخر جب میں نے نام لے کر اسے پکارا تو وہ چونک گیا۔ میں نے پوچھا، ’’تجھے کیا ہوا ہے ؟ سچ سچ بتا۔ اتنی خوبصورت جگہ آ کر بھی تو چپ چاپ منھ سی کر پڑا رہے گا تو یہ مجھ سے برداشت نہیں ہو گا۔ ‘‘

جینت نے اتنا ہی کہا، ’’مجھے جو دیکھنا تھا دیکھ چکا ہوں، پھر اب…‘‘

میں تنہا ہوتا تو ضرور ہی کچھ دیر تک رکتا، مگر جینت کا موڈ دیکھ کر سرکٹ ہاؤس لوٹنا ہی طے کیا۔

پہاڑ پر جو راستہ بنا ہوا ہے وہ شہر کی طرف چلا گیا ہے۔ ہم دونوں چپ چاپ گاڑی کے پچھلے حصے میں بیٹھ گئے۔ جینت کو میں نے سگریٹ پیش کی مگر اس نے نہیں پی۔ اس کے اندر ایک عجیب بے چینی تھی جو اس کے ہاتھوں کی حرکت سے ظاہر ہو رہی تھی۔ کبھی وہ کھڑکی پر ہاتھ رکھتا ہے، کبھی گود میں، پھر انگلیوں کو چٹخاتا ہے یا ناخن کو دانت سے کاٹتا ہے۔ جینت ایک سنجیدہ انسان ہے۔ اسے چھٹپٹاتے ہوئے دیکھ کر میں بھی بے چینی محسوس کر رہا تھا۔

دس منٹ تک جب یہ سلسلہ جاری رہا تو میں چپ نہ رہ سکا۔ میں نے کہا، ’’اپنی پریشانی کی وجہ مجھے بتا دے تو ہو سکتا ہے تیرا کچھ بھلا ہو جائے۔ ‘‘

جینت نے سرہلا کر کہا، ’’کہنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے، کیونکہ کہوں گا تو تو یقین نہیں کرے گا۔ ‘‘

’’یقین نہ بھی ہو، مگر اس موضوع پر تجھ سے رائے مشورہ تو کر ہی سکتا ہوں۔ ‘‘

’’کل رات فرنس ہمارے کمرے میں آیا تھا۔ رضائی پر فرنس کے پیروں کے نشان تھے۔ ‘‘

اس بات پر جینت کے کندھوں کو جھنجھوڑنے کے سوامجھے کچھ دوسرا کام نہیں کرنا چاہیے تھا۔ جس کے دماغ میں ایک عجیب وہم گھر کر گیا ہے، کیا اسے کچھ کہہ کر سمجھایا جا سکتا ہے ؟ پھر بھی میں نے کہا، ’’تو نے اپنی آنکھوں سے تو کچھ نہیں دیکھا تھا؟‘‘

’’نہیں، مگر اتنی بات ضرور ہے کہ میرے سینے پر جو چیز چل رہی تھی وہ چار پیروں کی نہ ہو کر دو پیروں والی تھی، یہ بات میں صاف صاف سمجھ رہا تھا۔ ‘‘

سرکٹ ہاؤس کے پاس آ کر گاڑی سے اترتے وقت میں نے طے کیا کہ جینت کو اعصابی طاقت والے ٹانک قسم کی کوئی چیز دوں گا۔ صرف نیند کی ٹکیہ سے کام نہیں چلے گا۔ بچپن کی ایک دھندلی سی یاد سینتیس سالہ جوان کو اتنا پریشان کر دے گی، یہ کسی بھی حالت میں نہیں ہونے دینا چاہیے۔

کمرے کے اندر آنے پر میں نے جینت سے کہا، ’’بارہ بج چکے ہیں۔ اب نہا لینا چاہیے۔ ‘‘

جینت نے کہا، ’’پہلے تو نہا لے، ‘‘ اور وہ پلنگ پر لیٹ گیا۔

نہاتے ہوئے میرے دماغ میں ایک خیال آیا۔ جینت کو اصلی حالت میں لانے کا یہی طریقہ ہے۔

مجھے جو خیال آیا وہ یہ کہ اگر پتلے کو کسی خاص جگہ دفنایا گیا ہے اور اگر اسے وہ خاص جگہ معلوم ہے تو اس جگہ کی مٹی کھودنے پر پتلا چاہے پہلے جیسی حالت میں نہ ملے مگر اس کا تھوڑا بہت حصہ تو مل ہی جائے گا۔ کپڑے لتّے زمین کے نیچے تیس سال کے بعد نہیں رہ سکتے ہیں، مگر دھات کی چیزیں جیسے فرنس کے بیلٹ کا بکسوا، کوٹ کے پیتل کے بٹن اگر برقرار ہوں تو اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔ جینت کو اگر دکھایا جائے کہ اس کے لاڈلے پتلے کی صرف یہی چیزیں بچی ہوئی ہیں اور باقی سب مٹی میں سما گئی ہیں تو ممکن ہے کہ یہ واہیات خیال اس کے دل سے دور ہو جائے۔ اگر ایسانہ کیا گیا تو وہ پھر رات ایک عجیب خواب دیکھے گا اور صبح جاگنے پر کہے گا کہ فرنس میری چھاتی پر چل رہا تھا۔ اس طرح کہیں اس کا دماغ نہ خراب ہو جائے۔

یہ بات جب میں نے جینت کو بتائی تو اسے میرا خیال اچھا لگا۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا، ’’کھودے گا کون؟ کدال کہاں ملے گی؟‘‘

میں نے ہنس کر کہا، ’’جب اتنا بڑا باغیچہ ہے تو مالی بھی ضرور ہو گا ہی اور مالی رہنے کا مطلب ہے کدال بھی ہے۔ اسے ہم کچھ بخشش دیں تو وہ میدان کی تھوڑی سی مٹی کھودنے میں آناکانی نہیں کرے گا۔ ‘‘

جینت فوراً راضی ہو گیا۔ اس کے بعد میں نے بھی کچھ نہ کہا۔ ایک دو بار جب ڈانٹ پلائی تو وہ نہا دھو آیا۔ کھانے کا شوقین آدمی ہونے پربھی دوپہر میں دو عدد روٹی اور گوشت کے شوربے کے سوا اس نے کچھ نہیں کھایا۔ کھانا کھانے کے بعد ہم دونوں باغیچے کی طرف کے برآمدے کی کرسی پر بیٹھ گئے۔ ہم دونوں کے سوا سرکٹ ہاؤس میں کوئی نہیں ہے۔ دوپہر میں بھی سناٹا چھایا ہوا ہے۔ داہنی طرف روڑے بچھے راستے کے کنارے ایک گل مہر کے درخت پر کئی بندر بیٹھے ہیں۔

بیچ بیچ میں ان کی ہپ ہپ آواز سنائی دیتی ہے۔

تین بجنے پر ایک پگڑی والا آدمی ہاتھ میں جھاڑی لیے باغیچے میں آیا۔ عمر دراز آدمی ہے۔ بال، مونچھیں اور بھنویں سفید ہو چکی ہیں۔

’’تم کہو گے یا میں کہوں ؟‘‘

جینت کے سوال پر میں نے دلاسے کے انداز میں ہاتھ اٹھا کر اشارہ کیا اور کرسی چھوڑ کر سیدھا مالی کے پاس چلا گیا۔

مٹی کھودنے کی فرمائش پر مالی نے شروع میں میری طرف مشکوک نگاہوں سے دیکھا۔ میں سمجھ گیا۔ اس کے سوال ’’کا ہے بابو؟‘‘ پر میں نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر شیریں آواز میں کہا کہ وہ اگر نہ جان سکے تو حرج ہی کیا ہے ؟ ’’پانچ روپے بخشش دوں گا، جو کہہ رہا ہوں، وہ کر دو۔ ‘‘

یہ بات سن کر مالی نہ صرف راضی ہو گیا، بلکہ دانت نکال کر سلامی بھی دی اور ایسے اظہار کیا جیسے وہ ہمارا زر خرید غلام ہو۔

برآمدے میں بیٹھے جینت کو میں نے ہاتھ کے اشارے سے بلایا۔ وہ کرسی چھوڑ کر میرے پاس چلا آیا۔ قریب آنے پر دیکھا غیر فطری طور پر بجھا ہوا سا ہے۔ مجھے امید ہے کہ کھودنے کے بعد پتلے کا تھوڑا بہت حصہ ضرور ملے گا۔

اس درمیان مالی کدال لے آیا اور ہم تینوں دیودارو کے درخت کی طرف جانے لگے۔

پیڑ کے تنے کے تقریباً ڈیڑھ ہاتھ دور ایک مقام کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے جینت نے کہا، ’’یہیں۔ ‘‘

’’ٹھیک سے یاد ہے نا؟‘‘ میں نے پوچھا۔ جینت نے کہا کچھ نہیں، صرف سر کو ایک بار ہلا کر ہامی بھری۔ ’’کتنا نیچے دفنایا تھا؟ایک فٹ تو ہو گا ہی۔ ‘‘

مالی بے جھجھک اس جگہ کو کھودنے لگا۔ آدمی شوقین معلوم ہوتا ہے۔ کھودتے کھودتے پوچھنے لگا کہ زمین کے نیچے دھن اور دولت ہے یا نہیں، اور اگر ہے تو اسے حصہ ملے گایا نہیں ؟ یہ بات سن کر میں تو ہنس دیا مگر جینت کے چہرے پر ہنسی کے کوئی آثار نظر نہ آئے۔ اکتوبر میں بوندی میں گرمی نہیں پڑتی ہے مگر جینت کے کالر کا نچلا حصہ بھیگ گیا ہے۔ وہ ایک ٹک زمین کی طرف دیکھ رہا ہے۔ مالی کدال چلائے جا رہا ہے۔ پتلے کا کوئی نشان ابھی تک کیوں نہیں نظر آیا ہے ؟

ایک مور کی تیز آواز سن کر میں نے اپنا سر گھمایا۔ تبھی اسی وقت جینت کے گلے سے ایک عجیب سی آواز نکلی اوراسی پل میری آنکھ اس طرف چلی گئی۔ اس کی آنکھیں حیرت سے باہر نکل آئیں۔ دوسرے ہی لمحے اس نے اپنے کانپتے ہاتھ کو آہستہ سے بڑھا کر اپنی شہادت کی انگلی سے گڈھے کی طرف اشارہ کیا۔ اس کی انگلی بھی کانپ رہی ہے۔

اس کے بعد ایک عجیب، خشک اور خوفزدہ آواز میں اس نے کہا، ’’وہ کیا چیز ہے ؟‘‘

مالی کے ہاتھ سے کدال زمین پر گر پڑی۔ زمین کی طرف غور کرنے پر جو منظر میں نے دیکھا اس کی وجہ سے ڈر، حیرت اور بے یقینی کے عالم میں میرے چہرے پر بھی ہوائیاں اڑنے لگیں۔

دیکھا گڈھے کے اندر خاک سے بھرا ہوا دس بارہ انچ کا ایک مکمل ہڈیوں کا ڈھانچہ ہاتھ پیر پھیلائے چت پڑا ہوا ہے۔

٭٭٭

 

٭٭

بشکریہ اجمل کمال و عامر انصاری، شائع شدہ ماہنامہ ‘آج‘ کراچی

ماخذ:

http: //www.adbiduniya.com/2017/08/urdu-translations-of-satyajit-ray-stories.html

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں