FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ساعتِ  امکاں

(نامکمل شعری مجموعہ)

 

  عرفان ستّار

 

 

اُداس بس عادتاً ہوں، کچھ بھی ہُوا نہیں ہے

یقین مانو، کسی سے کوئی گلہ نہیں ہے

ادھیڑ کر سی رہا ہوں برسوں سے اپنی پرتیں

نتیجتاً ڈھونڈنے کو اب کچھ بچا نہیں ہے

ذرا یہ دل کی امید دیکھو، یقین دیکھو

میں ایسے معصوم سے یہ کہہ دوں خدا نہیں ہے؟

میں اپنی مٹی سے اپنے لوگوں سے کٹ گیا ہوں

یقیناً اس سے بڑا کوئی سانحہ نہیں ہے

تو کیا کبھی مل سکیں گے یا بات ہو سکے گی؟

نہیں نہیں جاؤ تم کوئی مسئلہ نہیں ہے

وہ راز سینے میں رکھ کے بھیجا گیا تھا مجھ کو

وہی جو اک راز مجھ پہ اب تک کھُلا نہیں ہے

میں بغض، نفرت، حسد، محبت کے ساتھ رکھوں؟

نہیں میاں میرے دل میں اتنی جگہ نہیں ہے

چہار جانب یہ بے یقینی کا گھپ اندھیرا

یہ میری وحشت کا انخلا ہے، خلا نہیں ہے

اسی کی خوشبو سے آج تک میں مہک رہا ہوں

وہ مجھ سے بچھڑا ہُوا ہے لیکن جدا نہیں ہے

لکھا ہوا ہے تمہارے چہرہ پہ غم تمہارا

ہماری حالت بھی ایسی بے ماجرا نہیں ہے

یہ تازہ کاری ہے طرز ِ  احساس کا کرشمہ

مرے لغت میں تو لفظ کوئی نیا نہیں ہے

نیا ہنر سیکھ، فی زمانہ ہو جس کی وقعت

سخن کی نسبت سے اب کوئی پوچھتا نہیں ہے

جسے ہو عرفانِ  ذات وہ کیا تری سنے گا؟

او ناصحا، چھوڑ دے، کوئی فائدہ نہیں ہے

٭٭٭

 

سب پہ ظاہر ہی کہاں حالِ  زبوں ہے میرا

کس قدر خستہ و خوں بستہ دروں ہے میرا

میرے اشعار کو تقریظ و وضاحت سمجھو

ورنہ دراصل سخن کن فیکوں ہے میرا

یہ جو ٹھہراؤ بظاہر ہے اذیّت ہے مری

جو تلاطم مرے اندر ہے سکوں ہے میرا

یہ جو صحراؤں میں اڑتی ہے یہ ہے خاک مری

اور دریاؤں میں بہتا ہے جو خوں ہے میرا

وہ جو اخفا میں ہے وہ اصل حقیقت ہے مری

یہ جو سب کو نظر آتا ہے، فسوں ہے میرا

بیچ میں کچھ بھی نہ ہو، یعنی بدن تک بھی نہیں

تجھ سے ملنے کا ارادہ ہے تو یوں ہے میرا

راز ِ  حق اس پہ بھی ظاہر ہے ازل سے عرفان

یعنی جبریل کا ہم عصر جنوں ہے میرا

٭٭٭

 

چپ ہے آغاز میں، پھر شورِ  اجل پڑتا ہے

اور کہیں بیچ میں امکان کا پل پڑتا ہے

ایک وحشت ہے کہ ہوتی ہے اچانک طاری

ایک غم ہے کہ یکایک ہی ابل پڑتا ہے

یاد کا پھول مہکتے ہی نواحِ  شب میں

کوئی خوشبو سے ملاقات کو چل پڑتا ہے

حجرۂ ذات میں سنّاٹا ہی ایسا ہے کہ دل

دھیان میں گونجتی آہٹ پہ اچھل پڑتا ہے

روک لیتا ہے ابد وقت کے اُس پار کی راہ

دوسری سمت سے جاؤں تو ازل پڑتا ہے

ساعتوں کی یہی تکرار ہے جاری پر دم

میری دنیا میں کوئی آج، نہ کل پڑتا ہے

تابِ  یک لحظہ کہاں حسنِ  جنوں خیز کے پیش

سانس لینے سے توجّہ میں خلل پڑتا ہے

مجھ میں پھیلی ہوئی تاریکی سے گھبرا کے کوئی

روشنی دیکھ کے مجھ میں سے نکل پڑتا ہے

جب بھی لگتا ہے سخن کی نہ کوئی لوَ ہے نہ رَو

دفعتاً حرف کوئی خوں میں مچل پڑتا ہے

کیا خرد کیسا جنوں، حالتِ  بے حال میں ہوں

چین ہی کب مرے دل کو کسی کل پڑتا ہے

غم چھپائے نہیں چھپتا ہے کروں کیا عرفان

نام لوں اُس کا تو آواز میں بل پڑتا ہے

٭٭٭

 

ایک تاریک خلا، اُس میں چمکتا ہُوا میں

یہ کہاں آگیا ہستی سے سرکتا ہُوا میں

شعلۂ جاں سے فنا ہوتا ہوں قطرہ قطرہ

اپنی آنکھوں سے لہو بن کے ٹپکتا ہُوا میں

آگہی نے مجھے بخشی ہے یہ نار ِ  خود سوز

اک جہنّم کی طرح خود میں بھڑکتا ہُوا میں

منتظر ہوں کہ کوئی آ کے مکمل کر دے

چاک پر گھومتا، بل کھاتا، درکتا ہُوا میں

مجمعِ  اہلِ  حرم نقش بدیوار اُدھر

اور اِدھر شور مچاتا ہُوا، بکتا ہُوا میں

میرے ہی دم سے ملی ساعتِ  امکان اِسے

وقت کے جسم میں دل بن کے دھڑکتا ہوا میں

بے نیازی سے مری آتے ہوئے تنگ یہ لوگ

اور لوگوں کی توجّہ سے بدکتا ہُوا میں

رات کی رات نکل جاتا ہوں خود سے باہر

اپنے خوابوں کے تعاقب میں ہمکتا ہُوا میں

ایسی یکجائی، کہ مٹ جائے تمیز ِ  من و تُو

مجھ میں کھِلتا ہُوا تُو، تجھ میں مہکتا ہُوا میں

اک تو وہ حسنِ  جنوں خیز ہے عالم میں شہود

اور اک حسن ِ  جنوں خیز کو تکتا ہُوا میں

ایک آواز پڑی تھی کہ کوئی سائل ِ  ہجر؟

آن کی آن میں پہنچا تھا لپکتا ہُوا میں

ہے کشیدِ  سخنِ  خاص ودیعت مجھ کو

گھومتا پھرتا ہوں یہ عطر چھڑکتا ہوا میں

راز ِ  حق فاش ہُوا مجھ پہ بھی ہوتے ہوتے

خود تک آ ہی گیا عرفان بھٹکتا ہُوا میں

٭٭٭

 

تمہارا نام سرِ  لوحِ  جاں لکھا ہُوا ہے

لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے

لہو سے تر ہے ورق در ورق بیاضِ  سخن

حسابِ  دل زدگاں سب یہاں لکھا ہوا ہے

نشاں بتائیں تمہیں قاتلوں کے شہر کا ہم؟

فصیلِ  شہر پہ شہرِ  اماں لکھا ہُوا ہے

ملی ہے اہلِ  جنوں کو جہاں بشارتِ  اجر

وہیں تو اہلِ خرد کا زیاں لکھا ہوا ہے

زمیں بھی تنگ ہوئی، رزق بھی، طبیعت بھی

مرے نصیب میں کیا آسماں لکھا ہوا ہے؟

یہ کیسی خام امیدوں پہ جی رہے ہو میاں؟

پڑھو تو، لوحِ  یقیں پر گماں لکھا ہوا ہے

تو کیا یہ ساری تباہی خدا کے حکم سے ہے؟

ذرا ہمیں بھی دکھاؤ، کہاں لکھا ہوا ہے؟

جنابِ  شیخ، یہاں تو نہیں ہے آپ کا ذکر

ہمارے نسخے میں پیرِ  مغاں لکھا ہوا ہے

یہ کائنات سراسر ہے شرحِ  رازِ  ازل

کلامِ  حق تو سرِ  کہکشاں لکھا ہوا ہے

میں سوچتا ہوں تو کیا کچھ نہیں عطائے وجود

میں دیکھتا ہوں تو بس رائگاں لکھا ہوا ہے

جو چاہتا تھا میں جس وقت، وہ کبھی نہ ہُوا

کتابِ  عمر میں سب ناگہاں لکھا ہُوا ہے

لکھا ہوا نہیں کچھ بھی بنامِ  خوابِ  وجود

نبود و بود کے سب درمیاں لکھا ہوا ہے

عدو سے کوئی شکایت نہیں ہمیں عرفان

حسابِ  رنج پئے دوستاں لکھا ہوا ہے

٭٭٭

 

دیکھ مستی وجود کی میری

تا ابد دھوم مچ گئی میری

تُو توجہ اِدھر کرے نہ کرے

کم نہ ہو گی سپردگی میری

دل مرا کب کا ہو چکا پتھر

موت تو کب کی ہو چکی میری

اب تو برباد کر چکے، یہ کہو

کیا اسی میں تھی بہتری میری؟

میرے خوش رنگ زخم دیکھتے ہو؟

یعنی پڑھتے ہو شاعری میری؟

اب تری گفتگو سے مجھ پہ کھُلا

کیوں طبیعت اداس تھی میری

دل میں اب کوئی آرزو ہی نہیں

یعنی تکمیل ہو گئی میری

زندگی کا مآل اتنا ہے

زندگی سے نہیں بنی میری

چاند حسرت زدہ سا لگتا ہے

کیا وہاں تک ہے روشنی میری؟

دھوپ اُس کی ہے میرے آنگن میں

اُس کی چھت پر ہے چاندنی میری

اک مہک روز آکے کہتی ہے

منتظر ہے کوئی گلی میری

جانے کب دل سے آنکھ تک آ کر

بہہ گئی چیز قیمتی میری

اب میں ہر بات بھول جاتا ہوں

ایسی عادت نہ تھی، کہ تھی میری؟

رات بھر دل میں غُل مچاتی ہے

آرزو کوئی سرپھری میری

میری آنکھوں میں آکے بیٹھ گیا

شامِ  فرقت اجاڑ دی میری

پہلے سینے میں دل دھڑکتا تھا

اب دھڑکتی ہے بے دلی میری

کیا عجب وقت ہے بچھڑنے کا

دیکھ، رکتی نہیں ہنسی میری

خود کو میرے سپرد کر بیٹھا

بات تک بھی نہیں سنی میری

تیرے انکار نے کمال کیا

جان میں جان آ گئی میری

خوب باتیں بنا رہا تھا مگر

بات اب تک نہیں بنی میری

میں تو پل بھر جیا نہیں عرفان

عمر کس نے گزار دی میری؟

٭٭٭

 

کبھی کسی سے نہ ہم نے کوئی گلہ رکھا

ہزار زخم سہے، اور دل بڑا رکھا

چراغ یوں تو سر ِ  طاقِ  دل کئی تھے مگر

تمہاری لَو کو ہمیشہ ذرا جدا رکھا

خرد سے پوچھا، جنوں کا معاملہ کیا ہے؟

جنوں کے آگے خرد کا معاملہ رکھا

ہزار شکر ترا، اے مرے خدائے جنوں

کہ مجھ کو راہِ  خرد سے گریز پا رکھا

خیال روح کے آرام سے ہٹایا نہیں

جو خاک تھا سو اُسے خاک میں ملا رکھا

چھپا ہُوا نہیں تجھ سے دلِ  تباہ کا حال

یہ کم نہیں کہ ترے رنج کو بچا رکھا

وہ ایک زلف کہ لپٹی رہی رگِ  جاں سے

وہ اک نظر کہ ہمیں جس نے مبتلا رکھا

بس ایک آن میں گزرا میں کس تغیّر سے

کسی نے سر پہ توجّہ سے ہاتھ کیا رکھا

سنائی اپنی کہانی بڑے قرینے سے

کہیں کہیں پہ فسانے میں واقعہ رکھا

سنا جو شور کہ وہ شیشہ گر کمال کا ہے

تو ہم لپک کے گئے اور قلب جا رکھا

میں جانتا تھا کہ دنیا جو ہے، وہ ہے ہی نہیں

سو خود کو خواہشِ  دنیا سے ماورا رکھا

مرے جنوں نے کیے رد وجود اور عدم

الگ ہی طرح سے ہونے کا سلسلہ رکھا

خوشی سی کس نے ہمیشہ ملال میں رکھی؟

خوشی میں کس نے ہمیشہ ملال سا رکھا؟

یہ ٹھیک ہے کہ جو مجھ پاس تھا، وہ نذر کیا

مگر یہ دل کہ جو سینے میں رہ گیا رکھا؟

کبھی نہ ہونے دیا طاقِ  غم کو بے رونق

چراغ ایک بجھا، اور دوسرا رکھا

نگاہ دار مرا تھا مرے سِوا نہ کوئی

سو اپنی ذات پہ پہرا بہت کڑا رکھا

تُو پاس تھا، تو رہے  محو دیکھنے میں تجھے

وصال کو بھی ترے ہجر پر اٹھا رکھا

ترا جمال تو تجھ پر کبھی کھلے گا نہیں

ہمارے بعد بتا آئینے میں کیا رکھا؟

ہر ایک شب تھا یہی تیرے خوش گمان کا حال

دیا بجھایا نہیں اور در کھلا رکھا

ہمی پہ فاش کیے راز ہائے حرف و سخن

تو پھر ہمیں ہی تماشا سا کیوں بنا رکھا؟

ملا تھا ایک یہی دل ہمیں بھی آپ کو بھی

سو ہم نے عشق رکھا، آپ نے خدا رکھا

خزاں تھی، اور خزاں سی خزاں، خدا کی پناہ

ترا خیال تھا جس نے ہرا بھرا رکھا

جو ناگہاں کبھی اذنِ  سفر ملا عرفان

تو فکر کیسی کہ سامان ہے بندھا رکھا

٭٭٭

 

پوچھتے کیا ہو دل کی حالت کا؟

درد ہے، درد بھی قیامت کا

یار، نشتر تو سب کے ہاتھ میں ہے

کوئی ماہر بھی ہے جراحت کا؟

اک نظر کیا اٹھی، کہ اس دل پر

آج تک بوجھ ہے مروّت کا

دل نے کیا سوچ کر کیا آخر

فیصلہ عقل کی حمایت کا

کوئی مجھ سے مکالمہ بھی کرے

میں بھی کردار ہوں حکایت کا

آپ سے نبھ نہیں رہی اِس کی؟

قتل کر دیجیئے روایت کا

نہیں کھُلتا یہ رشتۂ باہم

گفتگو کا ہے یا وضاحت کا؟

تیری ہر بات مان لیتا ہوں

یہ بھی انداز ہے شکایت کا

دیر مت کیجیئے جناب، کہ وقت

اب زیادہ نہیں عیادت کا

بے سخن ساتھ کیا نباہتے ہم؟

شکریہ ہجر کی سہولت کا

کسر ِ  نفسی سے کام مت لیجے

بھائی یہ دور ہے رعونت کا

مسئلہ میری زندگی کا نہیں

مسئلہ ہے مری طبیعت کا

درد اشعار میں ڈھلا ہی نہیں

فائدہ کیا ہوا ریاضت کا؟

آپ مجھ کو معاف ہی رکھیئے

میں کھلاڑی نہیں سیاست کا

رات بھی دن کو سوچتے گزری

کیا بنا خواب کی رعایت کا؟

رشک جس پر سلیقہ مند کریں

دیکھ احوال میری وحشت کا

صبح سے شام تک دراز ہے اب

سلسلہ رنجِ  بے نہایت کا

وہ نہیں قابلِ  معافی، مگر

کیا کروں میں بھی اپنی عادت کا

اہلِ  آسودگی کہاں جانیں

مرتبہ درد کی فضیلت کا

اُس کا دامن کہیں سے ہاتھ آئے

آنکھ پر بار ہے امانت کا

اک تماشا ہے دیکھنے والا

آئینے سے مری رقابت کا

دل میں ہر درد کی ہے گنجائش

میں بھی مالک ہوں کیسی دولت کا

ایک تو جبر اختیار کا ہے

اور اک جبر ہے مشیّت کا

پھیلتا جا رہا ہے ابر ِ  سیاہ

خود نمائی کی اِس نحوست کا

جز تری یاد کوئی کام نہیں

کام ویسے بھی تھا یہ فرصت کا

سانحہ زندگی کا سب سے شدید

واقعہ تھا بس ایک ساعت کا

ایک دھوکہ ہے زندگی عرفان

مت گماں اِس پہ کر حقیقت کا

٭٭٭

 

ہو کر وداع سب سے، سبک بار ہو کے رہ

جانا ہے کب خبر نہیں، تیّار ہو کے رہ

یہ لمحہ بھر بھی دھیان ہٹانے کی جا نہیں

دنیا ہے تیری تاک میں، ہشیار ہو کے رہ

خطرہ شبِ  وجود کو مہر ِ  عدم سے ہے

سب بے خبر ہیں، تُو ہی خبردار ہو کے رہ

شاید اتر ہی آئے خنک رنگ روشنی

چل آج رات خواب میں بیدار ہو کے رہ

کس انگ سے وہ لمس کھُلے گا، کسے خبر

تُو بس ہمہ وجود طلبگار ہو کے رہ

تُو اب سراپا عشق ہُوا ہے، تو لے دعا

جا سر بسر اذیّت و آزار ہو کے رہ

شاید کبھی اِسی سے اٹھے پھر ترا خمیر

بنیادِ  خوابِ  ناز میں مسمار ہو کے رہ

کچھ دیر ہے سراب کی نظّارگی مزید

کچھ دیر اور روح کا زنگار ہو کے رہ

اب آسمانِ  حرف ہُوا تا اُفق سیاہ

اب طمطراق سے تُو نمودار ہو کے رہ

بس اک نگاہ دُور ہے خوابِ  سپردگی

تُو لاکھ اپنے آپ میں انکار ہو کے رہ

وہ زمزمے تھے بزم ِ  گماں کے، سو اب کہاں

یہ مجلسِ  یقیں ہے، عزا دار ہو کے رہ

اندر کی اونچ نیچ کو اخفا میں رکھ میاں

احوالِ  ظاہری میں تو ہموار ہو کے رہ

کیسے بھلا تُو بارِ  مروّت اٹھائے گا

محفل ہے دوستوں کی، سو عیّار ہو کے رہ

بے قیمتی کے رنج سے خود کو بچا کے چل

بازار ِ  دلبری میں خریدار ہو کے رہ

فرمانروائے عقل کے حامی ہیں سب یہاں

شاہِ  جنوں کا تُو بھی وفادار ہو کے رہ

تُو ہجر کی فضیلتیں خود پر دراز رکھ

خود اپنی راہِ  شوق میں دیوار ہوکے رہ

لوگوں پہ اپنا آپ سہولت سے وا نہ کر

عرفان، میری مان لے، دشوار ہو کے رہ

٭٭٭

 

شگفتگی سے گئے، دل گرفتگی سے گئے

ہم آج خلوتِ  جاں میں بھی بے دلی سے گئے

گلہ کریں بھی تو کس سے وہ نامرادِ  جنوں

جو خود زوال کی جانب بڑی خوشی سے گئے

سنا ہے اہلِ  خرد کا ہے دور ِ  آئندہ

یہ بات ہے تو سمجھ لو کہ ہم ابھی سے گئے

خدا کرے نہ کبھی مل سکے دوام ِ  وصال

جیئں گے خاک اگر تیرے خواب ہی سے گئے

ہے یہ بھی خوف ہمیں بے توجہی سے سِوا

کہ جس نظر سے توقع ہے گر اُسی سے گئے؟

مقام کس کا کہاں ہے، بلند کس سے ہے کون؟

میاں یہ فکر کرو گے تو شاعری سے گئے

ہر ایک در پہ جبیں ٹیکتے یہ سجدہ گزار

خدا کی کھوج میں نکلے تھے اور خودی سے گئے

سمجھتے کیوں نہیں یہ شاعر ِ  کرخت نوا

سخن کہاں کا جو لہجے کی دلکشی سے گئے؟

گلی تھی صحن کا حصہ ہمارے بچپن میں

مکاں بڑے ہوئے لیکن کشادگی سے گئے

برائے اہل ِ  جہاں لاکھ  کجکلاہ  تھے  ہم

گئے حریم ِ  سخن میں تو  عاجزی سے گئے

یہ تیز روشنی راتوں کا حسن کھا گئی ہے

تمہارے شہر میں ہم اپنی چاندنی سے گئے

فقیہِ  شہر کی ہر بات مان لو چپ چاپ

اگر سوال اٹھایا، تو زندگی سے گئے

نہ پوچھیئے کہ وہ کس کرب سے گزرتے ہیں

جو آگہی کے سبب عیشِ  بندگی سے گئے

اٹھاؤ رختِ  سفر، آؤ اب چلو عرفان

حسیں یہاں کے تو سب خوئے دلبری سے گئے

٭٭٭

 

کیا بتاؤں کہ جو ہنگامہ بپا ہے مجھ میں

ان دنوں کوئی بہت سخت خفا ہے مجھ میں

اُس کی خوشبو کہیں اطراف میں پھیلی ہوئی ہے

صبح سے رقص کناں بادِ  صبا ہے مجھ میں

تیری صورت میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں میں بھی

غالباً تُو بھی مجھے ڈھونڈ رہا ہے مجھ میں

ایک ہی سمت ہر اک خواب چلا جاتا ہے

یاد ہے، یا کوئی نقشِ  کفِ  پا ہے مجھ میں؟

میری بے راہ روی اس لیے سرشار سی ہے

میرے حق میں کوئی مصروفِ  دعا ہے مجھ میں

اپنی سانسوں کی کثافت سے گماں ہوتا ہے

کوئی امکان ابھی خاک ہُوا ہے مجھ میں

اک چبھن ہے کہ جو بے چین کیے رہتی ہے

ایسا لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں

یا تو میں خود ہی رہائی کے لیے ہوں بے تاب

یا گرفتار کوئی میرے سِوا ہے مجھ میں

آئینہ اِس کی گواہی نہیں دیتا، تو نہ دے

وہ یہ کہتا ہے کوئی خاص ادا ہے مجھ میں

ہو گئی دل سے تری یاد بھی رخصت شاید

آہ و زاری کا ابھی شور اٹھا ہے مجھ میں

مجھ میں آباد ہیں اک ساتھ عدم اور وجود

ہست سے برسر ِ  پیکار فنا ہے مجھ میں

مجلسِ  شامِ  غریباں ہے بپا چار پہر

مستقل بس یہی ماحولِ عزا ہے مجھ میں

ہو گئی شق تو بالآخر یہ انا کی دیوار

اپنی جانب کوئی دروازہ کھلا ہے مجھ میں

خوں بہاتا ہُوا، زنجیر زنی کرتا ہُوا

کوئی پاگل ہے جو بے حال ہُوا ہے مجھ میں

اُس کی خوشبو سے معطر ہے مرا سارا وجود

تیرے چھونے سے جو اک پھول کھِلا ہے مجھ میں

مجھ سا بے مایہ کہاں، اور کہاں زعم ِ  کلام

اے مرے ربِّ  سخن، تیری عطا ہے مجھ میں

تیرے جانے سے یہاں کچھ نہیں بدلا، مثلاً

تیرا بخشا ہوا ہر زخم ہرا ہے مجھ میں

کیسے مل جاتی ہے آواز ِ  اذاں سے ہر صبح

رات بھر گونجنے والی جو صدا ہے مجھ میں

کتنی صدیوں سے اُسے ڈھونڈ رہے ہو بے سُود

آؤ اب میری طرف آؤ، خدا ہے مجھ میں

مجھ میں جنّت بھی مِری، اور جہنّم بھی مِرا

جاری و ساری جزا اور سزا ہے مجھ میں

روشنی ایسے دھڑکتے تو نہ دیکھی تھی کبھی

یہ جو رہ رہ کے چمکتا ہے، یہ کیا ہے مجھ میں؟

٭٭٭

 

بزعمِ  عقل یہ کیسا گناہ میں نے کیا

اک آئینہ تھا، اُسی کو سیاہ میں نے کیا

یہ شہرِ  کم نظراں، یہ دیارِ  بے ہنراں

کسے یہ اپنے ہنر کا گواہ میں نے کیا

حریمِ  دل کو جلانے لگا تھا ایک خیال

سو گُل اُسے بھی بیک سرد آہ میں نے کیا

وہی یقین رہا ہے جوازِ  ہم سفری

جو گاہ اُس نے کیا اور گاہ میں نے کیا

بس ایک دل ہی تو ہے واقفِ  رموزِ  حیات

سو شہرِ  جاں کا اِسے سربراہ میں نے کیا

ہر ایک رنج اُسی باب میں کیا ہے رقم

ذرا سا غم تھا جسے بے پناہ میں نے کیا

یہ راہِ  عشق بہت سہل ہو گئ جب سے

حصارِ  ذات کو پیوندِ  راہ میں نے کیا

یہ عمر کی ہے بسر کچھ عجب توازن سے

ترا ہُوا، نہ ہی خود سے نباہ میں نے کیا

خرد نے دل سے کہا، تُو جنوں صفت ہی سہی

نہ پوچھ اُس کی کہ جس کو تباہ میں نے کیا

٭٭٭

 

تیری نسبت سے زمانے پہ عیاں تھے ہم بھی

تُو جو موجود نہ ہوتا، تو کہاں تھے ہم بھی

حرمتِ  حرف نہیں ہے سو یہ ارزانی ہے

ورنہ وہ دن بھی تھے جب خوابِ  گراں تھے ہم بھی

ہم بھی حیراں ہیں بہت خود سے بچھڑ جانے پر

مستقل اپنی ہی جانب نگراں تھے ہم بھی

اب کہیں کیا، کہ وہ سب قصۂ پارینہ ہُوا

رونقِ  محفلِ  شیریں سخناں تھے ہم بھی

وقت کا جبر ہی ایسا ہے کہ خاموش ہیں اب

ورنہ تردیدِ  صفِ  کجکلہاں تھے ہم بھی

رنج مت کر، کہ تجھے ضبط کا یارا نہ رہا

کس قدر واقفِ  آدابِ  فغاں تھے ہم بھی

تُو بھی کردار کہانی سے الگ تھا کوئی

اپنے قصے میں حدیثِ  دگراں تھے ہم بھی

کیسی حیرت، جو کہیں ذکر بھی باقی نہ رہا

تُو بھی تحریر نہ تھا، حرفِ  بیاں تھے ہم بھی

ہم کہ رکھتے تھے یقیں اپنی حقیقت سے سِوا

اب گماں کرنے لگے ہیں کہ گماں تھے ہم بھی

رائگاں ہوتا رہا تُو بھی پئے کم نظراں

ناشناسوں کے سبب اپنا زیاں تھے ہم بھی

تُو بھی کس کس کے لیے گوش بر آواز رہا

ہم کو سنتا تو سہی، نغمۂ جاں تھے ہم بھی

ہم نہیں ہیں، تو یہاں کس نے یہ محسوس کیا؟

ہم یہاں تھے بھی تو ایسے، کہ یہاں تھے ہم بھی

٭٭٭

 

بام پر جمع ہوا، ابر ، ستارے ہوئے ہیں

یعنی وہ سب جو ترا ہجر گزارے ہوئے ہیں

زندگی، ہم سے ہی روشن ہے یہ آئینہ ترا

ہم جو مشاطۂ وحشت کے سنوارے ہوئے ہیں

حوصلہ دینے جو آتے ہیں، بتائیں انھیں کیا؟

ہم تو ہمت ہی نہیں، خواب بھی ہارے ہوئے ہیں

شوقِ  واماندہ کو درکار تھی کوئی تو پناہ

سو تمہیں خلق کیا، اور تمہارے ہوئے ہیں

خود شناسی کے، محبت کے، کمالِ  فن کے

سارے امکان اُسی رنج پہ وارے ہوئے ہیں

روزنِ  چشم تک آ پہنچا ہے اب شعلہ ءِ دل

اشک پلکوں سے چھلکتے ہی شرارے ہوئے ہیں

ڈر کے رہ جاتے ہیں کوتاہیِ اظہار سے چُپ

ہم جو یک رنگیِ  احساس کے مارے ہوئے ہیں

ہم کہاں ہیں، سرِ  دیوارِ  عدم، نقشِ  وجود

اُن نگاہوں کی توجہ نے اُبھارے ہوئے ہیں

بڑھ کے آغوش میں بھر لے ہمیں اے رُوحِ  وصال

آج ہم پیرہنِ  خاک اُتارے ہوئے ہیں

٭٭٭

 

ہر ایک شکل میں صورت نئی ملال کی ہے

ہمارے چاروں طرف روشنی ملال کی ہے

ہم اپنے ہجر میں تیرا وصال دیکھتے ہیں

یہی خوشی کی ہے ساعت، یہی ملال کی ہے

ہمارے خانۂ دل میں نہیں ہے کیا کیا کچھ

یہ اور بات کہ ہر شے اُسی ملال کی ہے

ابھی سے شوق کی آزردگی کا رنج نہ کر

کہ دل کو تاب خوشی کی نہ تھی، ملال کی ہے

کسی کا رنج ہو، اپنا سمجھنے لگتے ہیں

وبالِ  جاں یہ کشادہ دلی ملال کی ہے

نہیں ہے خواہشِ  آسودگیءِ وصل ہمیں

جوازِ  عشق تو بس تشنگی ملال کی ہے

گزشتہ رات کئی بار دل نے ہم سے کہا

کہ ہو نہ ہو یہ گھٹن آخری ملال کی ہے

رگوں میں چیختا پھرتا ہے ایک سیلِ  جنوں

اگرچہ لہجے میں شائستگی ملال کی ہے

عجیب ہوتا ہے احساس کا تلون بھی

ابھی خوشی کی خوشی تھی، ابھی ملال کی ہے

یہ کس امید پہ چلنے لگی ہے بادِ  مُراد؟

خبر نہیں ہے اِسے، یہ گھڑی ملال کی ہے

دعا کرو کہ رہے درمیاں یہ بے سخنی

کہ گفتگو میں تو بے پردگی ملال کی ہے

تری غزل میں عجب کیف ہے مگر عرفان

درُونِ  رمز و کنایہ کمی ملال کی ہے

٭٭٭

 

کوئی ملا، تو کسی اور کی کمی ہوئی ہے

سو دل نے بے طلبی اختیار کی ہوئی ہے

جہاں سے دل کی طرف زندگی اُترتی تھی

نگاہ اب بھی اُسی بام پر جمی ہوئی ہے

ہے انتظار اِسے بھی تمہاری خوشبو کا؟

ہوا گلی میں بہت دیر سے رُکی ہوئی ہے

تم آگئے ہو، تو اب آئینہ بھی دیکھیں گے

ابھی ابھی تو نگاہوں میں روشنی ہوئی ہے

ہمارا علم تو مرہُونِ  لوحِ  دل ہے میاں

کتابِ  عقل تو بس طاق پر دھری ہوئی ہے

بناؤ سائے، حرارت بدن میں جذب کرو

کہ دھوپ صحن میں کب سے یونہی پڑی ہوئی ہے

نہیں نہیں، میں بہت خوش رہا ہوں تیرے بغیر

یقین کر کہ یہ حالت ابھی ابھی ہوئی ہے

وہ گفتگو جو مری صرف اپنے آپ سے تھی

تری نگاہ کو پہنچی، تو شاعری ہوئی ہے

٭٭٭

 

ترے جمال سے ہم رُو نما نہیں ہوئے ہیں

چمک رہے ہیں، مگر آئینہ نہیں ہوئے ہیں

دھڑک رہا ہے تو اک اِسم کی ہے یہ برَ کت

وگرنہ واقعے اِس دل میں کیا نہیں ہوئے ہیں

بتا نہ پائیں، تو خود تم سمجھ ہی جاؤ کہ ہم

بلا جواز تو بے ماجرا نہیں ہوئے ہیں

ترا کمال، کہ آنکھوں میں کچھ، زبان پہ کچھ

ہمیں تو معجزے ایسے عطا نہیں ہوئے ہیں

یہ مت سمجھ، کہ کوئی تجھ سے منحرف ہی نہیں

ابھی ہم اہلِ  جُنوں لب کُشا نہیں ہوئے ہیں

بنامِ  ذوقِ  سخن خود نمائی آپ کریں

ہم اِس مرض میں ابھی مبتلا نہیں ہوئے ہیں

ہمی وہ، جن کا سفر ماورائے وقت و وجود

ہمی وہ، خود سے کبھی جو رہا نہیں ہوئے ہیں

خود آگہی بھی کھڑی مانگتی ہے اپنا حساب

جُنوں کے قرض بھی اب تک ادا نہیں ہوئے ہیں

کسی نے دل جو دکھایا کبھی، تو ہم عرفان

اُداس ہو گئے، لیکن خفا نہیں ہوئے ہیں

٭٭٭

 

سبھی یہ پوچھتے رہتے ہیں کیا گُم ہو گیا ہے

بتا دوں؟ مجھ سے خود اپنا پتہ گُم ہو گیا ہے

تمہارے دن میں اک رُوداد تھی جو کھو گئی ہے

ہماری رات میں اک خواب تھا، گُم ہو گیا ہے

وہ جس کے پیچ و خم میں داستاں لپٹی ہوئی تھی

کہانی میں کہیں وہ ماجرا گُم ہو گیا ہے

ذرا اہلِ  جُنوں آؤ، ہمیں رستہ سُجھاؤ

یہاں ہم عقل والوں کا خدا گُم ہو گیا ہے

نظر باقی ہے لیکن تابِ  نظّارہ نہیں اب

سخن باقی ہے لیکن مدّعا گُم ہو گیا ہے

مجھے دکھ ہے، کہ زخم و رنج کے اِس جمگھٹے میں

تمہارا اور میرا واقعہ گُم ہو گیا ہے

یہ شدّت درد کی اُس کے نہ ہونے سے نہ ہوتی

یقیناً اور کچھ اُس کے سِوا گُم ہو گیا ہے

وہ جس کو کھینچنے سے ذات کی پرتیں کھُلیں گی

ہماری زندگی کا وہ سِرا گُم ہو گیا ہے

وہ در وا ہو نہ ہو، آزاد و خود بیں ہم کہاں کے

پلٹ آئیں تو سمجھو راستہ گُم ہو گیا ہے

٭٭٭

 

نہیں ہے جو، وہی موجود و بے کراں ہے یہاں

عجب یقین پسِ  پردہ ءِ گماں ہے یہاں

نہ ہو اداس، زمیں شق نہیں ہوئی ہے ابھی

خوشی سے جھوم، ابھی سر پہ آسماں ہے یہاں

یہاں سخن جو فسانہ طراز ہو، وہ کرے

جو بات سچ ہے وہ ناقابلِ  بیاں ہے یہاں

نہ رنج کر، کہ یہاں رفتنی ہیں سارے ملال

نہ کر ملال، کہ ہر رنج رائیگاں ہے یہاں

زمیں پلٹ تو نہیں دی گئی ہے محور پر؟

نمو پذیر فقط عہدِ  رفتگاں ہے یہاں

یہ کارزارِ  نفس ہے، یہاں دوام کسے

یہ زندگی ہے مری جاں، کسے اماں ہے یہاں

ہم اور وصل کی ساعت کا انتظار کریں؟

مگر وجود کی دیوار درمیاں ہے یہاں

چلے جو یوں ہی ابد تک، تو اِس میں حیرت کیا؟

ازل سے جب یہی بے ربط داستاں ہے یہاں

جو ہے وجود میں، اُس کو گماں کی نذر نہ کر

یہ مان لے کہ حقیقت ہی جسم و جاں ہے یہاں

کہا گیا ہے جو وہ مان لو، بلا تحقیق

کہ اشتباہ کی قیمت تو نقدِ جاں ہے یہاں

٭٭٭

 

نذرِ  جون ایلیا

گماں کی کھوج کا کوئی صلہ نئیں

چلو اب مان بھی جاؤ، خدا نئیں

وہ بن جانے سبھی کچھ کہہ گیا تھا

میں سب کچھ جانتا تھا، پر کہا نئیں

جدا ہونا ہی تھا، سو ہو رہے ہیں

ذرا سی بات ہے اس کو بڑھا نئیں

مجھے صحرا سے مت تشبیہ دینا

مری وحشت کی کوئی انتہا نئیں

 میں سب کچھ جانتا ہوں، دیکھتا ہوں

میں خوابیدہ سہی، سویا ہوا نئیں

نہ آتا تو نہ ہر گز ہم بلاتے

یہاں آ ہی گیا ہے اب، تو جا نئیں

محبت میں بدن شامل نہ ہوتا

یہ ہم بھی چاہتے تھے، پر ہوا نئیں

مجھے دیکھو، تو کیا میں واقعی ہوں

مجھے سمجھو، تو کیا میں جا بجا نئیں

ملے کیا کیا نہ چہرے دل گلی میں

میں جس کو ڈھونڈتا تھا، وہ ملا نئیں

ہمیں مت ڈھونڈ، پر خواہش کیا کر

ہمیں مت یاد کر، لیکن بھلا نئیں

ہماری خواہشوں میں کوئ خواہش

رہینِ  بخششِ  بندِ  قبا نئیں

میں ایسا ہوں، مگر ایسا نہیں ہوں

میں ویسا تھا، مگر ویسا میں تھا نئیں

عظیم المرتبت شاعر بہت ہیں

مگر ہاں، جون سا شاعر ہوا نہیں

کہیں سبحان اللہ جون جس پر

وہی عرفان نے اب تک کہا نہیں

٭٭٭

 

کس عجب ساعتِ  نایاب میں آیا ہُوا ہوں

تجھ سے ملنے میں ترے خواب میں آیا ہُوا ہوں

پھر وہی میں ہوں، وہی ذات کا دریائے عمیق

کوئی دم عکسِ  سر ِ  آب میں آیا ہُوا ہوں

کیسے آئینے کے مانند چمکتا ہُوا میں

عشق کے شہر ِ  ابدتاب میں آیا ہُوا ہوں

میری ہر تان ہے از روز ِ  ازل تا بہ ابد

ایک سُر کے لیے مضراب میں آیا ہُوا ہوں

کوئی پرچھائیں کبھی جسم سے کرتی ہے کلام؟

بے سبب سایہِ  مہتاب میں آیا ہُوا ہوں

ہر گزرتے ہوئے لمحے میں تپکتا ہُوا میں

درد ہوں، وقت کے اعصاب میں آیا ہُوا ہوں

کیسی گہرائی سے نکلا ہوں عدم کی عرفان

اور کس اتھلے سے تالاب میں آیا ہُوا ہوں

٭٭٭

 

زندگی کا سفر ایک دن، وقت کے شور سے، ایک پُر خواب ساعت کے بیدار ہوتے ہی بس یک بیک ناگہاں ختم ہو جائے گا

تم کہانی کے کس باب پر، اُس کے انجام سے کتنی دُوری پہ ہو اِس سے قطعِ  نظر، دفعتاً یہ تمہارا بیاں ختم ہو جائے گا

بند ہوتے ہی آنکھوں کے سب، واہموں وسوسوں کے وجود و عدم کے کٹھن مسئلے، ہاتھ باندھے ہوئے، صف بہ صف روبرو آئیں گے

سارے پوشیدہ اسرار ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے، سب وہم مر جائیں گے، بد گماں بے یقینی کا سارا دھواں ختم ہو جائے گا

بے دماغوں کے اِس اہلِ  کذب و ریا سے بھرے شہر میں، ہم سوالوں سے پُر، اور جوابوں سے خالی کٹورا لیے بے طلب ہو گئے

چند ہی روز باقی ہیں بس، جمع و تفریق کے اِن اصولوں کے تبدیل ہوتے ہی جب، یہ ہمارا مسلسل زیاں ختم ہو جائے گا

بادشاہوں کے قصوں میں یا راہبوں کے فقیروں کے احوال میں دیکھ لو، وقت سا بے غرض کوئی تھا، اور نہ ہے، اور نہ ہو گا کبھی

تم کہاں کس تگ و دو میں ہو وقت کو اِس سے کیا، یہ تو وہ ہے جہاں حکم آیا کہ اب ختم ہونا ہے، یہ بس وہاں ختم ہو جائے گا

کوئی حد بھی تو ہو ظلم کی، تم سمجھتے ہو شاید تمہیں زندگی یہ زمیں اِس لیے دی گئی ہے، کہ تم جیسے چاہو برت لو اِسے

تم یہ شاید نہیں جانتے، اِس زمیں کو تو عادت ہے دکھ جھیلنے کی مگر جلد ہی، یہ زمیں ہو نہ ہو، آسماں ختم ہو جائے گا

٭٭٭

تشکر: شاعر جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید