FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

               فرحت عباس شاہ

 

               طویل نظم

 

خیال سو رہے تم

خیال سو رہے تم

ذرا اٹھو

کہ دل سے اٹھنے والی ہوک

آنکھ کے دریچہ مکان تک پہنچ گئی

کہ جیسے چمنیوں کی کوکھ سے دھواں فضا کی وسعتوں کے درمیان تک

ملول سی صدا کوئی

اداس اور مضمحل ہوا کوئی

جہان برف پوش سے

تہہ نشیب آرزو رواں ہے ایک جوش سے

لہو کی گردشوں کی لہر لہر میں

چھپے ہوئے عذاب کسمسائے ہیں

سنپولیے کسی کمین گاہ میں مداخلت ہوئی تو کلبلائے ہیں

یہ خوف ہے

کہ گر کہیں کوئی خراش بہتے بہتے روح کو نکل گئی

تو اس میں سو طرح کے انتشار کا جواز ہے

جو راز ہے ہمارے دل کے صبر کا

ابھی سنبھالنا بھی ہے

ابھی تو ڈھالنا بھی ہے اسے پناہ میں

خیال سو رہے تم

اٹھو کہ صوت

بے زبانیوں کی قبر میں پڑی پکارتی ہے وہم سے

پکار کے دراز سائے اس قدر مہیب ہیں

کہ خوفناک رات بھی دبک گئی ہے سہم کے

اٹھو

کہ لفظ معنوی جمال سے تہی کھڑے غریب ہیں

عجیب ہیں

یہ بے حسی کے سال بھی

یہ بے کنار درد بھی یہ ان گنت ملال بھی

خیال سو رہے ہو تم

سوال ہیں کہ جاگتے کہیں نہیں

یا

کال ہیں کہ بھاگتے کہیں نہیں

خیال اپنے بادبان کیوں ڈبو رہے ہو تم

خیال سو رہے تم

شجر شجر پہ جال ہے بہار کا

نظر نظر پہ دھند ہے غبار کی

ہر ایک سمت سحر کی طاری ہو گیا ہے

پھر کسی حسار کا

کہ جیسے پانیوں میں عکس دور تک ہو بادلوں کی ڈار کا

اور ایسے وقت میں

کہیں پہ گھات میں چھپی ہوئی

ہواؤں کے سروں پہ ایک خبط ہے شکار کا

اٹھو یہ جال کاٹ دو

غبار کو اڑا کے

یہ حصار کا طلسم چیر پھاڑ دو

ہجوم کی طرح تمام راہگزر لتاڑ دو

ہواؤں کو منع کرو

کہو کہ اب ہر ایک شے تو خود ہی ہست کا شکار ہو چکی ہے

ایک عمر سے

جسے بھی دیکھ لو ہر ایک اپنا آپ مارنے پہ تُل گیا ہے

رُل گیا ہے ریت کی طرح خود اپنے دشت میں

کسی کا دھڑ اجل کے کارزار میں شکستگی کی انتہاؤں پر پڑ ا ہے اور کسی کا

سر دمکتی زندگی کے طشت میں

خیال سو رہے ہو تم

تو کوئی بولتا نہیں

تمھارے بد نصیب سے

مرے حبیب لگ تو یہ رہا ہے پوری کائنات سو گئی ہو جیسے لمبی تان کے

یہ ٹھان کے

کہ اب کسی بھی طور جاگنا نہیں

تمھیں خبر ہے ؟

کوئی کھل رہا ہے در مہیب سے مقدروں کے درمیاں

کہیں کسی صلیب سے

ذرا اٹھو

ذرا جگا سکو

بتا سکو

دکھا سکو

کہ کچھ عجیب سے خراب خواب ہیں فضاؤں میں

کہ جس طرح کہیں سلگتی دھوپ کے نشان چھاؤں میں

گزر رہے ہیں جو ہمارے اس قدر قریب کہ سوجھتا کوئی نہیں

مگر یہ کیا کہ بُوجھتا کوئی نہیں

خیال سو رہے ہو تم

اٹھو کہ شہر موت کے حصار میں گھرا ہوا ہے

اور کوئی در نہیں

تمام شعبدہ گروں کے غول مل کے

اپنے اپنے جنگلوں میں

اپنی اپنی ذات کے مفاد میں

جسے بلانے کے لیے گئے ہیں وہ بھی گھر نہیں

اگرچہ ایسے درد ناک وقت کے غبار میں

تمھیں تو کوئی ڈر نہیں

خیال سو رہے ہو تم

مگر تمھاری نیند بھی صحیح نہیں

غرور ہے

اٹھو

کہ چُپ زدہ فضا کا جبر ہم نے توڑنا ضرور ہے

خیال سو رہے ہو تم

اٹھو

کہ لوگ اپنی اپنی روح کے

عقیدہ ہائے دین کے فشار کا شکار ہیں

یہ زندگی کے اضطرار میں پلے بڑھے ہوئے

یہ بزدلی کار دار نیک لوگ

روگ ہیں زمین پر

عذاب سے ڈر ے ہوئے شریف ہیں

وگرنہ خود

خدا کے سب سے اولیں حریف ہیں

انھیں جھنجھوڑ دے پکڑ کے دامن یقین سے

نہیں تو چھوڑ دے سکون

توڑ دے سہولتوں کی صورتیں

ہرے بھرے تمام زخم

پھوڑ دے

خیال سو رہے ہو تم

اور اعتماد کی جڑو میں شک اتر گیا ہے یوں کہ جیسے دن کے آخری

پلوں میں سیاہ تیرگی

پلک جھپکتے ہی وفا کی سب چمک دمک گئی

خلوص کو

ہماری نیتوں کا میل ڈھک گیا

خیال سو رہے ہو تم

زمین کی تہوں میں دفن

حرص کی دبائیں جیسے پک گئیں

سسک کے رہ گئیں مروّتیں سبھی

دعائیں جانے کون کون سے جہاں تک گئیں

مساعئی فروخت غرض تعلقات بے ثمر ہوئیں

تو تھک گئیں

تمام تر ثقافتوں تمدنوں کی عفتوں سے بھاگ کر

پلٹ کے پھر جبلتوں کے پنجروں میں

قید ہو رہے ہو تم

خیال سو رہے ہو تم

شکستہ ہو رہی ہیں سب عمارتیں

امانتیں غریب ہو رہی ہیں ٹوٹ ٹوٹ کر

مسافتیں گرفت میں نہیں رہیں

بدن کا عضو، عضو مضمحل ہے

تار تار مضطرب ہے

اور سماعتیں چیخ رہی ہیں

گنگ ہیں بصارتیں

تجارتیں عروج پر ہیں موت کی

نصف ہے

اور رواں دواں زیاں کا

ایک بحر بے کنار ہے

تمہاری غفلتوں کا کیا شمار ہے

کہ اس طرح کے عالم شدید میں بھی

دشمنوں کے ساتھ مل کے

خیال سن رہے ہو تم

ہر سفینۂ رجا کی جان کے خلاف

اپنی سازشوں کے جال بن رہے ہو تم

خیال سن رہے ہو تم

سن رہے ہو تم

اب تو آسماں بھی کہہ چکا ہے

اور زمیں بھی چیخ چیخ کر بتا رہی ہے

جاگ اٹھو

وگرنہ اس جہان بے اماں کے ہر نشان کو

یہ بے زباں نیند چاٹ جائے گی

جہاں جہاں بھی شہ رگ حیات کسمسائے گی

یہ نیند اس کو صرف لمحہ بھر میں کاٹ جائے گی

خیال

سن رہے ہو یا ابھی تلک

ملامتوں کا بوجھ ڈھو رہے ہو تم

خیال سو رہے ہو تم

اور ہم سے تو ہمارا اپنا آپ

اتنا دور ہوتا جا رہا ہے

غیر ارادی طور پر

کہ روکنا محال ہے

نڈھال ہے مزاحمتیں شعور کی

یہ خود سے اجنبیوں کا دور

کتنا دکھ بھرا سوال ہے

ہمیں ملال ہے کہ ایسا وقت دیکھنا پڑا

اچھالنی پڑی ہیں اپنی بگڑیاں زمین پر

بگاڑنے پڑے ہیں اپنے آئینے

خیال سو رہے ہو تم

کمال ہے

خیال سو رہے ہو تم

اٹھو ذرا

کہ چاندنی کی راکھ ا ڑ رہی ہے

سارے شہر میں

اداس ہو رہے ہیں ہم

اداس ہو رہے ہیں ہم

ہمیں اپنے اپنے یاد آ رہے ہیں

جو یہیں کہیں بچھڑ گئے

اجڑ گئے جو رابطے اذیتوں کی بھیڑ میں

اذیتوں کی بھیڑ

جو محبتوں پر برف بن کر گر رہی ہے آج بھی

سماج میں

تمھارے بن

صدائے احتجاج کے مزاج کا رواج ہی نہیں رہا

خیال

ماضیوں کی سب رفاقتوں کی

بازگشت تو تمھارے دم سے

چاہتوں کے موسم کا رنگ تھا

تمہی سے تھی

کلی کلی کی آنکھ میں شگفتگی

تمھارے بن

تمھارے بن تو زندگی کے

ہر طرح کے رنج کا مزا بھی کرکرا ہوا

فقط تمھاری نیند کے سبب

خیال سو رہے ہو تم

ہم اپنی کائنات سے علیحدہ ہو گئے

وہ کائنات بھی

کہ جو گزر گئی

وہ اجتماع لاشعور

اور شعور مستقل ہزار ہا صدی کے ہست و بود کا

وہ اک یقین منضبط

ہر ایک شے کی قلب کا وجود کا

لرز رہا ظلمتو ں کے خوف سے

تمھیں یہ علم ہے کہ اس طرح ضمیر وقت میں

بہت بڑا گناہ بو رہے ہو تم

خیال سو رہے ہو تم

خیال

اب تو سانس میں

وہ کچی پکی مٹیوں کی لذتیں نہیں رہیں

وہ کچی پکی مٹیاں

جو ماؤں کی طرح سے لازوال ہیں

وہ کچی پکی مٹیاں

جو دیس کی سہاگنوں کا روپ ہیں

جو اوپلوں میں کھیل کے جوان ہوتی دھوپ میں

جو لہلہاتے کھیت ہیں

جو ساحلوں کی گنگناتی ریت ہیں

جو خوش نما و خوش خصال آنچلوں کا رنگ ہیں

جو چھنچھاتی پایلوں کا انگ ہیں

جو جنگلوں میں کھلکھلاتے ساونوں کا ڈھنگ ہیں

وہ کچی پکی مٹیاں بھی

خیال سو رہے ہو تم

اصل کھو رہی ہیں اپنے آپ میں

اثر نہیں رہا کسی الاپ میں

سفر نہیں رہا کسی کی چاپ میں

مگن پڑے ہوئے ہو اپنے پاپ میں

اٹھو

کہ خطرۂ سکوت

بج رہا ہے طبل دل کی تھاپ میں

غم و الم کئی سیاہ نم علم کنار سینہ قدم قدم پہ گاڑ کے

کچل رہے ہیں اپنی آہ و زاریاں

دنوں کے سنگ رسموں کی ٹاپ میں

خیال سو رہے ہو تم

ہوس بدن پہ چھاتی جا رہی ہے پھیل پھیل کر اکاش بیل کی طرح

محبتوں کا لوچ بھی نہیں رہا ہے

عشق میں عبادتوں کی سوچ بھی نہیں رہی

دلوں میں درد کی جگہ

نجانے کیسا بوجھ آ کے بس گیا ہے

ڈس گیا ہے

آنکھ کے تلے کہیں

نگاہ حسین سچ کے آس پاس

کوئی دیکھتا نہیں

کسی کو غور سے کہ اس کی جستجو سمجھ سکے

کسی کو اتنا ہوش ہی نہیں

کہ ساری گفتگو سمجھ سکے

فقط

بدن کی بھوک کا اسیر ہے

خیال سو رہے ہو تم

کبیر جرم جرم ہی نہیں رہا

بدن کی کچھ کثافتوں کے زہر کا خروج ہے

حقیر ہے

خیال سو رہے ہو تم

مجھے پتہ ہے منہ چھپا چھپا کے رو رہے ہو تم

خیال سو رہے ہو تم

یہاں تو پورے اجتماع کی نظر کو باندھ کر

نہ جانے کس طرف کو ہانکا جا رہا ہے

ایک بے مثال بے حسی کے ساتھ

زندگی کے نام بے نمود پر

درندگی چھپا چھپا کے

جنگ ہو رہی ہے اقتدار کی

یہ رنگ و نسل و ذات و پات کی گروہ بندیاں

یہ حرف و لفظ و بات بات کی گروہ بندیاں

یہ شام شام رات رات کی گروہ بندیاں

یہ ملک کا غرور آتشیں

تباہیوں کے جس کڑے مقام تک پہنچ گیا ہے

اب وہاں سے

واپسی بھی ممکنات میں نہیں

اگر کبھی

یہاں سے واپسی ہوئی

تو ہو گی سیل آب نوح کی طرح کے

ایک سیل خون سے

بڑے کٹھور ہو

کوئی بڑے ستم ظریف ہو

خیال سو رہے ہو تم

پڑے ہوئے کس قدر سکون سے

بھلا بتاؤ تو سہی

یہ اپنے ذہن کی کثیف روح خور دلدلوں میں

کیا بلو رہے ہو تم

خیال سو رہے ہو تم

تو جاگنے لگی ہے کتنی نفرتیں دبی ہوئی

اٹی ہوئی

منافقت کے روگ میں

مخاصمت کی آگ میں جلی ہوئی

پکی ہوئی

کٹی ہوئی معاشرت کے سوگ میں

خیال سو رہے ہو تم

تو جاگنے لگی ہیں

کتنی اشتہائیں

دل میں انتظام بے بسی لیے

اسی لیے

کہ لمحہ کرم کا دم نواز تو قہار کا

گذار چشم نم چبھو رہے ہو تم

خیال سو رہے ہو تم

خیال سو رہے ہو تم

دھوئیں سے اٹ گیا ہے سارا آسماں

سیاہ بادلوں میں آگ بھر گئی

ہوا بجھی ہوئی ہے سرخ زہر میں

زمین پھٹ چکی ہے

بٹ چکے ہیں کتنے راستے

خیال سو رہے ہو تم

تڑپ تڑپ کے کٹ چکے ہیں تار دل

ہے اعتبار بندگی سمٹ چکا

رتوں کی کچھ رفاقتوں پہ

خوش گمانیوں کے جو نقاب تھے

الٹ چکے

مسافتوں کی ہمرہی میں

رہروان شوق بھی پلٹ چکے

خلا

فضا کے ساتھ ساتھ

روح کے جہان میں بھی ڈٹ چکے

خیال سو رہے ہو تم

اور اس طرح

خود اپنے زخم میں

نہ جانے کون کون سا ستم سمو رہے ہو تم

خیال

تم تو نوجوان ہو ابھی

کسی کا مان ہو ابھی

مرے ہوئے کھنڈر نہیں ہو تم کہ بے نشاں رہو

کوئی جہان ہو ابھی

خیال تم تو سائبان ہو ابھی

ضعیف یا ادھیڑ عمر چیز کوئی سو بھی لے

تو خیر ہے

شباب اور نیند کا تو پیر ہے

خیال

اسطرح کی گونگی بستیوں میں

خیال سو رہے ہو تم

تم تو خود زبان ہو

ابھی

صدا و حرف و لفظ کی

سنہری دولتوں سے سیر ہو

ذرا اٹھو

کہ جو جہاں جہاں بھی سو رہا ہے

اس کو کون آ کے اس طرح جگائے گا

کہ جیسے صبح کی دھوپ

یا بشارت جہاد کوئی خواب میں

یا انکشاف حق

بدی کے مستقل سراب میں

اٹھو

کہ آنے والی نسل کی کوئی خطا نہیں

ہے اس کا کیا قصور جو ہوا نہیں

اٹھو

کہ آنے والی نسل کے لہو کو

سینچنا ہے تم کو

اپنے جاگتے خمیر سے

اٹھو کہ ان کو رفعتوں پہ ٹانکنا ہے

نور کے ضمیر سے

تلاشنے ہیں اور کتنے راستے

بلندیوں کی آخری لکیر سے بھی اسطرف

یہ کائنات تو بہت بڑی ہے دور دور تک

کسی بڑے فقیر سے بھی اس طرف

جسے ہمیں تلاش کر کے

خیال سو رہے ہو تم

سنوارنا نکھارنا ہے

آنے والوں کے لیے

سجا کے اپنا آپ

اپنے گھر

گلی گلی نگر

پکارنا ہے جوش سے

مگر خیال

ہوش سے

پیمبروں، ولایتوں کی آگہی کے دوش سے

خیال سو رہے ہو یا

لباس سے سیاہیوں کے داغ دھو رہے ہو تم

خیال اپنے عارضوں کو

کیوں بھگو رہے ہو تم

خواب سو رہے ہو تم

تمھیں خبر نہیں کہ کتنا کچھ یہاں بنا ہوا تھا

جس کو کھو رہے ہو تم

٭٭٭

شاعر کی اجازت سے

ٹائپنگ: صغیر ، تدوین اور ای بک: اعجاز عبی