FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

خالی بوتلیں خالی ڈبے

 

 

 

 

سعادت حسن منٹو

 

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

 

کتاب کا خلاصہ

 

 

 

 

سردیوں میں انور ممٹی پر پتنگ اڑا رہا تھا۔ اس کا چھوٹا بھانجا اس کے ساتھ تھا۔ چونکہ انور کے والد کہیں باہر گئے ہوئے تھے اور وہ دیر سے واپس آنے والے تھے اس لیے وہ پوری آزادی اور بڑی بے پروائی سے پتنگ بازی میں مشغول تھا۔ پیچ ڈھیل کا تھا۔ انور بڑے زوروں سے اپنی مانگ پائی پتنگ کو ڈور پلا رہا تھا۔ اس کے بھانجے نے جس کا چھوٹا سا دل دھک دھک کر رہا تھا اور جس کی آنکھیں آسمان پر جمی ہوئی تھیں انور سے کہا۔ ’’ماموں جان کھینچ کے پیٹ کاٹ لیجیے۔‘‘ مگر وہ دھڑا دھڑ ڈور پلاتا رہا۔

نیچے کھلے کوٹھے پر انور کی بہن سہیلیوں کے ساتھ دھوپ سینک رہی تھی۔ سب کشیدہ کاری میں مصروف تھیں۔ ساتھ ساتھ باتیں بھی کرتی جاتی تھیں۔ انور کی بہن شمیم انور سے دو برس بڑی تھی۔ کشیدہ کاری اور سینے پرونے کے کام میں ماہر۔ اسی لیے گلی کی اکثر لڑکیاں اس کے پاس آتی تھیں اور گھنٹوں بیٹھی کام سیکھتی رہتی تھیں۔ ایک ہندو لڑکی جس کا نام بملا تھا بہت دور سے آتی تھی۔ اس کا گھر قریباً دو میل پرے تھا۔ لیکن وہ ہر روز بڑی باقاعدگی سے آتی اور بڑے انہماک سے کشیدہ کاری کے نئے نئے ڈیزائن سیکھا کرتی تھی۔

بملا کا باپ اسکول ماسٹر تھا۔ بملا ابھی چھوٹی بچی ہی تھی کہ اس کی ماں کا دیہانت ہو گیا۔ بملا کا باپ لالہ ہری چرن چاہتا تو بڑی آسانی سے دوسری شادی کر سکتا تھا مگر اس کو بملا کا خیال تھا، چنانچہ وہ رنڈوا ہی رہا اور بڑے پیار محبت سے اپنی بچی کو پال پوس کر بڑا کیا۔ اب بملا سولہ برس کی تھی۔ سانولے رنگ کی دبلی پتلی لڑکی۔ خاموش خاموش بہت کم باتیں کرنے والی۔ بڑی شرمیلی۔ صبح دس بجے آتی۔ آپا شمیم کو پرنام کرتی اور اپنا تھیلا کھول کر کام میں مشغول ہو جاتی۔

انور اٹھارہ برس کا تھا۔ اس کو تمام لڑکیوں میں سے صرف سعیدہ سے ہلکی سی دلچسپی تھی، لیکن یہ ہلکی سی دلچسپی کوئی اور صورت اختیار نہیں کر سکی تھی اس لیے کہ اس کی بہن اس کو لڑکیوں میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ اگر وہ کبھی ایک لحظے کے لیے ان کے پاس آ بیٹھتا تو آپا شمیم فوراً ہی اس کو حکم دیتیں، ’’انور اٹھو، تمہارا یہاں کوئی کام نہیں‘‘ اور انور کو اس حکم کی فوری تعمیل کرنی پڑتی۔

بملا البتہ کبھی کبھی انور کو بلاتی تھی، ناول لینے کے لیے۔ اس نے شمیم سے کہا تھا۔ ’’گھر میں میرا جی نہیں لگتا۔ پتا جی باہر شطرنج کھیلنے چلے جاتے ہیں۔ میں اکیلی پڑی رہتی ہوں۔ انور بھائی سے کہئے، مجھے ناول دے دیا کریں پڑھنے کے لیے۔‘‘

پہلے تو بملا، شمیم کے ذریعے سے ناول لیتی رہی پھر کچھ عرصے کے بعد اس نے براہ راست انور سے مانگنے شروع کر دیے۔ انور کو بملا بڑی عجیب و غریب لڑکی لگتی تھی۔ یعنی ایسی جو بڑے غور سے دیکھنے پر دکھائی دیتی تھی۔ لڑکیوں کے جھرمٹ میں تو وہ بالکل غائب ہو جاتی تھی۔ بیٹھک میں جب وہ انور سے نیا ناول مانگنے آتی تو اس کو اس کی آمد کا اس وقت پتا چلتا جب وہ اس کے پاس آ کر دھیمی آواز میں کہتی۔ ’’انور صاحب۔۔۔ یہ لیجئے اپنا ناول۔۔۔  شکریہ۔‘‘

انور اس کی طرف دیکھتا۔ اس کے دماغ میں عجیب و غریب تشبیہہ پھُدک اٹھتی۔ ’’یہ لڑکی تو ایسی ہے جیسے کتاب کا خلاصہ۔‘‘

بملا اور کوئی بات نہ کرتی۔ پرانا ناول واپس کر کے نیا ناول لیتی اور نمستے کر کے چلی جاتی۔ انور اس کے متعلق چند لمحات سوچتا، اس کے بعد وہ اس کے دماغ سے نکل جاتی۔ لیکن انور نے ایک بات ضرورمحسوس کی تھی کہ بملا نے ایک دو بار اس سے کچھ کہنا چاہا تھا مگر کہتے کہتے رک گئی تھی۔ انور سوچتا۔ ’’کیا کہنا چاہتی تھی مجھ سے؟‘‘ اس کا جواب اس کا دماغ یوں دیتا۔ ’’کچھ بھی نہیں۔۔۔ مجھ سے وہ کیا کہنا چاہتی ہو گی بھلا؟‘‘

انور ممٹی پر پتنگ اڑا رہا تھا۔ پیچ ڈھیل کا تھا، خوب ڈور پلا رہا تھا۔ دفعتہً اس کی بہن شمیم کی گھبرائی ہوئی آواز۔ ’’انور۔۔۔  انور۔۔۔  ابا جی آ گئے!‘‘

انور کو اور کچھ نہ سوجھا۔ ہاتھ سے ڈور توڑی اور ممٹی پر سے نیچے کود پڑا۔ وہ کاٹا، وہ کاٹا کا شور بلند ہوا۔ انور کا گھٹنا بڑے زوروں سے چھل گیا تھا۔ ایک اس کو اس کا دکھ تھا اس پر اُس کے حریف فاتحانہ نعرے لگا رہے تھے۔ لنگڑاتا لنگڑاتا چارپائی پر بیٹھ گیا۔ گھٹنے کو دیکھا تو اس میں سے خون بہہ رہا تھا۔ بملا سامنے بیٹھی تھی۔ اس نے اپنا دوپٹہ اتارا، کنارے پر سے تھوڑا سا پھاڑا اور پٹی بنا کر انور کے گھٹنے پر باندھ دیا۔ انور اس وقت اپنے پتنگ کے متعلق سوچ رہا تھا۔ اس کو یقین تھا کہ میدان اس کے ہاتھ رہے گا۔ لیکن اس کے باپ کی بے وقت آمد نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اتنے بڑھے ہوئے پتنگ کا خاتمہ کر دے۔ حریفوں کے نعرے ابھی تک گونج رہے تھے۔ اس نے غصہ آمیز آواز میں اپنی بہن سے کہا۔ ’’ابا جی کو بھی اسی وقت آنا تھا۔‘‘

شمیم مسکرائی۔ ’’وہ کب آئے ہیں۔‘‘

انور چلایا۔ ’’کیا کہا؟‘‘

شمیم ہنسی۔ ’’میں نے تم سے مذاق کیا تھا۔‘‘

انور برس پڑا۔ ’’میرا بیڑا غرق کرا کے آپ ہنس رہی ہیں۔۔۔ اچھا مذاق ہے۔ ایک میرا اتنا بڑھا ہوا پتنگ غارت ہوا۔ لوگوں کی آوازے سنے۔۔۔  اور گھٹنا الگ زخمی ہوا۔‘‘

یہ کہہ کر انور نے اپنے گھٹنے کی طرف دیکھا۔ سفید ململ کی پٹی بندھی تھی۔ اب اس کو یہ یاد آیا کہ یہ پٹی بملا نے اپنا دوپٹہ پھاڑ کر اس کے باندھی تھی۔ اس نے شکر گزار آنکھوں سے بملا کو دیکھا اور اس کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ اس کے زخم کے درد کو محسوس کر رہی ہے۔

بملا، شمیم سے مخاطب ہو۔ ’’آپا آپ نے بہت ظلم کیا۔۔۔ زیادہ چوٹ آ جاتی تو۔۔۔ ‘‘ وہ کچھ اور کہتے کہتے رک گئی اور کشیدہ کاڑھنے میں مصروف ہو گئی۔

انور کی نگاہ بملا سے ہٹ کر سعیدہ پر پڑی۔ سفید پل اوور میں وہ اسے بہت بھلی معلوم ہوئی۔ انور اس سے مخاطب ہوا۔ ’’سعیدہ تم ہی بتاؤ یہ مذاق اچھا تھا۔۔۔ ہنسی میں پھنسی ہو جاتی تو؟‘‘

شمیم نے اسے ڈانٹ دیا۔ ’’جاؤ انور تمہارا یہاں کوئی کام نہیں۔‘‘

انور نے ایک نگاہ سعیدہ پر ڈالی۔ بہت اچھا۔ کہہ کر اٹھا اور لنگڑاتا لنگڑاتا پھر ممٹی پر چڑھ گیا۔ تھوڑی دیر پتنگ اڑائے۔ غصے میں کھینچ کے ہاتھ مار کر قریباً ایک درجن پتنگ کاٹے اور نیچے اتر آیا۔ گھٹنے میں درد تھا۔ بیٹھک میں صوفے پر لیٹ گیا اور اوپر کمبل ڈال لیا۔ تھوڑی دیر اپنی فتوحات کے متعلق سوچا اور سو گیا۔

تقریباً ایک گھنٹے کے بعد اس کو آواز سنائی دی جیسے کوئی اسے بلا رہا ہے۔ اس نے آنکھیں کھولیں، دیکھا سامنے بملا کھڑی تھی۔ مرجھائی ہوئی۔ کچھ سمٹی ہوئی۔ انور نے لیٹے لیٹے پوچھا ’’کیا ہے بملا؟‘‘

’’جی، میں آپ سے کچھ۔۔۔ ‘‘ بملا رک گئی۔ ’’جی میں آپ سے کوئی۔۔۔ کوئی نئی کتاب دیجیے۔‘‘

انور نے کہا۔ ’’میرے گھٹنے میں زوروں کا درد ہے۔۔۔ وہ جو سامنے الماری ہے اسے کھول کر جو کتاب تمہیں پسند ہو لے لو۔‘‘

بملا چند لمحات کھڑی رہی، پھر چونکی ’’جی؟‘‘

انور نے اس کو غور سے دیکھا۔ اس دوپٹے کے پیچھے جس میں سے بملا نے پٹی پھاڑی تھی، بڑی مریل قسم کی چھاتیاں دھڑک رہی تھیں۔ انور کو اس پر ترس آیا۔ اس کی شکل و صورت، اس کے خد و خال ہی کچھ اس قسم کے تھے کہ اس کو دیکھ کر انور کے دل و دماغ میں ہمیشہ رحم کے جذبات پیدا ہوتے تھے۔ اس کو اور تو کچھ نہ سوجھا۔ یہ کہا۔ ’’پٹی باندھنے کا شکریہ!‘‘

بملا نے کچھ کہے بغیر الماری کا رخ کیا اور اسے کھول کر کتابیں دیکھنے لگی۔ انور کے دماغ میں وہ تشبیہہ پھر پھدکی ’’یہ کتاب نہیں، کتاب کا خلاصہ ہے۔۔۔ بہت ہی ردی کاغذوں پر چھپا ہوا!‘‘

بملا نے ایک بار انور کو کنکھیوں سے دیکھا مگر جب اسے متوجہ پایا تو اس کی طرف پیٹھ کر لی۔ کچھ دیر کتابیں دیکھیں۔ ایک منتخب کی، الماری کو بند کیا، انور کے پاس آئی اور ’’میں یہ لے چلی ہوں‘‘ کہہ کر چلی گئی۔

انور نے بملا کے بارے میں سوچنے کی کوشش کی مگر اس کو سعیدہ کے سفید پُل اوور کا خیال آتا رہا۔۔۔۔۔۔’’پل اوور پہننے سے جسم کے خط کتنے واضح ہو جاتے ہیں۔۔۔ سعیدہ کا سینہ اور اس بملا کی مریل چھاتیاں۔۔۔ جیسے ان کا دودھ الگ کر کے صرف پانی رہنے دیا گیا ہے۔۔۔ سعیدہ کے گھنگھریالے بال۔۔۔ کم بخت نے اپنے ماتھے کے زخم کے نشان کو چھپانے کا کیا ڈھنگ نکالا ہے۔۔۔ بل کھاتی ہوئی ایک لٹ چھوڑ دیتی ہے اس پر۔۔۔ اور بملا۔۔۔ جانے کیا تکلیف ہے اسے۔۔۔ آج بھی کچھ کہتے کہتے رک گئی تھی۔ مگر مجھ سے کیا کہنا چاہتی ہے۔۔۔ شاید اس کا انداز ہی کچھ اس قسم کا ہو۔۔۔ ہمیشہ کتاب اسی طرح مانگتی ہے جیسے کوئی مدد مانگ رہی ہے۔ کوئی سہارا ڈھونڈ رہی ہے۔۔۔ سعیدہ ماشاء اللہ آج سفید پل اوور میں قیامت ڈھا رہی تھی۔۔۔ یہ قیامت ڈھانا کیا بکواس ہے۔۔۔ قیامت تو ہر چیز کا خاتمہ ہے اور سعیدہ تو ابھی میری زندگی میں شروع ہوئی ہے۔ بملا۔۔۔  بملا۔۔۔  بھئی میری سمجھ میں نہیں آئی یہ لڑکی۔۔۔  باپ تو اس کو بہت پیار کرتا ہے۔ اسی کی خاطر اس نے دوسری شادی نہ کی۔۔۔  شاید ان کو کوئی مالی تکلیف ہو۔۔۔  لیکن گھر تو خاصا اچھا تھا۔۔۔ ایک ہی پلنگ تھا لیکن بڑا شاندار۔۔۔ صوفہ سیٹ بھی برا نہیں تھا۔ اور جو کھانا میں نے کھایا تھا اس میں کوئی برائی نہیں تھی۔۔۔ سعیدہ کا گھر تو بہت ہی امیرانہ ہے۔ بڑے رئیس کی لڑکی ہے۔۔۔ اس ریاست کی ایسی تیسی۔۔۔ یہی تو بہت بڑی مصیبت ہے ورنہ۔۔۔ لیکن چھوڑو جی۔۔۔ سعیدہ جوان ہے، کل کلاں بیاہ دی جائے گی۔۔۔ مجھے خدا معلوم کتنے برس لگیں گے۔ پوری تعلیم حاصل کرنے میں۔۔۔  بی اے۔۔۔ بی اے کے بعد ولایت۔۔۔  میم؟۔۔۔  دیکھیں!۔۔۔  لیکن سفید پل اوور خوب تھا!‘‘

انور کے دماغ میں اسی قسم کے مخلوط خیالات آتے رہے، اس کے بعد وہ دوسرے کاموں میں مشغول ہو گیا۔

دوسرے روز بملا نہ آئی مگر انور نے اس کی غیر حاضری کو کچھ زیادہ محسوس نہ کیا، بس صرف اتنا دیکھا کہ وہ لڑکیوں کے جھرمٹ میں نہیں ہے۔۔۔ شاید ہو، لیکن اگلے روز جب بملا آئی تو لڑکیوں نے اس سے پوچھا۔ ’’بملا تم کل کیوں نہ آئیں۔‘‘

بملا اور زیادہ مرجھائی ہوئی تھی، اور زیادہ مختصر ہو گئی تھی جیسے کسی نے رندہ پھیر کر اس کو ہر طرف سے چھوٹا اور پتلا کر دیا ہے۔ اس کا سانولا رنگ عجب قسم کی دردناک زردی اختیار کر گیا تھا۔ لڑکیوں کا سوال سن کر اس نے انور کی طرف دیکھا جو گملوں میں پانی دے رہا تھا اور تھیلا کھول کر چارپائی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’کل پتا جی۔۔۔ کل پتا جی بیمار تھے۔‘‘

شمیم نے افسوس ظاہر کیا اور پوچھا۔ ’’کیا تکلیف تھی انھیں؟‘‘

بملا نے انور کی طرف دیکھا۔ چونکہ وہ اس کو دیکھ رہا تھا۔ اس لیے نگاہیں دوسری طرف کر لیں اور کہا ’’تکلیف۔۔۔ معلوم نہیں کیا تکلیف تھی‘‘ پھر تھیلے میں ہاتھ ڈال کر اپنی چیزیں نکالیں۔ ’’میں تو نہیں سمجھتی۔‘‘

انور نے لوٹا منڈیر پر رکھا اور بملا سے مخاطب ہوا ’’کسی ڈاکٹر سے مشورہ لیا ہوتا۔‘‘

بملا نے انور کو بڑی تیز نگاہوں سے دیکھا۔ ’’ان کا روگ ڈاکٹروں کی سمجھ میں نہیں آئے گا۔‘‘

انور کو ایسا محسوس ہوا کہ بملا نے اس سے یہ کہا ہے۔ ’’ان کا روگ تم سمجھ سکتے ہو۔‘‘ وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ سعیدہ کی آواز اس کے کانوں میں آئی۔ وہ بملا سے کہہ رہی تھی۔ ’’خالو جان کے پاس جائیں وہ بہت بڑے ڈاکٹر ہیں۔ یوں چٹکیوں میں سب کچھ بتا دیں گے۔‘‘

سعیدہ نے چٹکی بجائی تھی مگر بجی نہیں تھی۔ انور نے اس سے کہا ’’سعیدہ تم سے چٹکی کبھی نہیں بجے گی۔ فضول کوشش نہ کیا کرو۔‘‘

سعیدہ شرما گئی، آج کا پل اوور سیاہ تھا۔ انور نے سوچا۔ ’’کم بخت پر ہر رنگ کھِلتا ہے۔۔۔ لیکن کتنے پُل اوور ہیں اس کے پاس؟۔۔۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی بنتی ہی رہتی ہے۔ سویٹروں اور پل اووروں کا خبط ہے۔۔۔ اس سے میری شادی ہو جائے تو مزے آ جائیں، پل اوور ہی پل اوور۔۔۔ دوست یار خوب جلیں۔۔۔ لیکن یہ بملا کیوں آج راکھ کی ڈھیر سی لگتی ہے۔۔۔ سعیدہ شرما گئی تھی۔۔۔ یہ شرمانا مجھے اچھا نہیں لگتا۔۔۔ چٹکی بجانا سیکھ لے مجھ سے۔۔۔ مجھ سے نہیں تو کسی اور سے۔۔۔ لیکن بہترین چٹکی بجانے والا ہوں۔‘‘

یہ سب کچھ اس نے ایک سیکنڈ کے عرصے میں سوچا۔ سعیدہ نے کوئی جواب نہ دیا تھا۔ انور نے اس سے کہا۔ ’’دیکھئے چٹکی یوں بجایا کرتے ہیں۔‘‘ اور اس نے بڑے زور سے چٹکی بجائی۔ اتفاقاً اس کی نگاہ بملا پر پڑی۔ اس کے چہرے پر مایوسی کی مردنی طاری تھی۔ انور کے دل میں ہمدردی کے جذبات ابھر آئے۔ ’’بملا تم پتا جی سے کہو کہ وہ کسی اچھے ڈاکٹر سے ضرور مشورہ لیں۔۔۔ ان کے سوا تمہارا اور کون ہے؟‘‘

یہ سن کر بملا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ زور سے دونوں ہونٹ بھینچے اور انتہائی ضبط کے باوجود زار و قطار روتی، برساتی کی طرف دوڑ گئی۔ ساری لڑکیاں کام چھوڑ کر اس کی طرف بھاگیں انور نے برساتی میں جانا مناسب نہ سمجھا اور نیچے بیٹھک میں چلا گیا۔ بملا کے بارے میں اس نے سوچنے کی کوشش کی مگر اس کے دماغ نے اس کی رہبری نہ کی۔ وہ بملا کے دکھ درد کا صحیح تجزیہ نہ کر سکا وہ صرف اتنا سوچ سکا کہ اس کو صرف اس بات کا غم ہے کہ اس کی ماں زندہ نہیں۔

شام کو انور نے اپنی بہن سے بملا کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا۔ ’’معلوم نہیں کیا دکھ ہے بیچاری کو۔۔۔ اپنے باپ کا بار بار ذکر کرتی تھی کہ ان کو جانے کیا روگ ہے اور بس!‘‘

سعیدہ پاس کھڑی تھی۔ سیاہ پل اوور پہنے۔ اس کی جیتی جاگتی چھاتیاں آبنوسی گولوں کی صورت میں اس کے سفید ننون کے دوپٹے کی پیچھے بڑا دلکش تضاد پیدا کر رہی تھیں۔ ایسا لگا تھا جیسے سایہ بٹوں پر ان کی چمک چھپانے کے لیے کسی مکڑی نے مہین سا جالا بن دیا ہے۔ انور بملا کو بھول گیا اور سعیدہ سے باتیں کرنے لگا۔ سعیدہ نے اس سے کوئی دلچسپی نہ لی اور آپا شمیم کو سلام کر کے چلی گئی۔

انور بیٹھک میں کالج کا کام کرنے بیٹھا تو اسے بملا کا خیال آیا۔ ’’کیسی لڑکی ہے؟۔۔۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔ میرے پٹی باندھی۔۔۔ اپنا دوپٹہ پھاڑ کر۔۔۔ آج میں نے کہا، پتا جی کے سوا تمہارا کون ہے تو اس لیے زار و قطار رونا شروع کر دیا۔۔۔ اور جب میں گملوں میں پانی دے رہا تھا تو بملا کی اس بات سے کہ ان کا روگ ڈاکٹروں کی سمجھ میں نہیں آئے گا اس نے کیوں یہ محسوس کیا تھا کہ بملا نے اس کے بجائے اس سے یہ کہا ہے، ان کا روگ تم سمجھ سکتے ہو۔۔۔ لیکن میں کیسے سمجھ سکتا ہوں۔۔۔ کیا سمجھ سکتا ہوں۔۔۔ وہ مجھے ٹھیک طور پر سمجھاتی کیوں نہیں، یعنی اگر وہ کچھ سمجھانا ہی چاہتی ہے۔۔۔ میری سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں آتا۔۔۔ جب اس نے میری طرف دیکھا تھا تو اس کی نگاہوں میں اتنی تیزی کیوں تھی۔۔۔ اب خیال کرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے جیسے وہ میری ذہانت و فراست پر لعنت بھیج رہی تھی۔۔۔ لیکن کیوں؟۔۔۔ ہٹاؤ جی۔۔۔ سعیدہ۔۔۔ ہاں وہ سیاہ پل اوور۔۔۔ سفید ننوں کا ہوائی دوپٹہ۔۔۔  اور۔۔۔ لیکن مجھے ایسا نہیں سوچنا چاہیے۔۔۔ جانے کس کا مال ہے۔۔۔ خیر کچھ بھی ہو۔ خوبصورت لڑکی ہے۔ مگر اس پر خوبصورتی ختم تو نہیں ہو گئی۔‘‘

اگلے روز بملا نہ آئی۔ انور کے گھر میں سب متفکر تھے۔ دعائیں کرتے تھے کہ خدا اس کے باپ کو اس کے سر پر سلامت رکھے۔ شمیم کو بملا بے حد پسند تھی۔ اس لیے کہ وہ خاموشی پسند اور ذہین تھی۔ باریک سے باریک بات فوراً سمجھ جاتی تھی، چنانچہ وہ سارا دن وقفوں کے بعد اس کو یاد کرتی رہی۔ انور کی ماں نے تو انور سے کہا کہ وہ سائیکل پر جائے اور بملا کے باپ کی خیریت دریافت کر کے آئے۔

انور گیا۔۔۔ بملا ساگوان کے چوڑے پلنگ پر اوندھی لیٹی تھی۔ سانس کا اتار چڑھاؤ تیز تھا۔ انور نے ہولے سے پکارا تو کوئی رد عمل نہ ہوا۔ ذرا بلند آواز میں کہا۔ ’’بملا۔‘‘ تو وہ چونکی کروٹ بدل کر اس نے انور کو دیکھا۔ انور نے نمستے کی۔ بملا نے ہاتھ جوڑ کر اس کا جواب دیا۔ انور نے دیکھا کہ بملا کی آنکھیں میلی تھیں، جیسے وہ روتی رہی تھی اور اس نے اپنے آنسو خشک نہیں کیے تھے۔

پلنگ پر سے اٹھ کر اس نے انور کو کرسی پیش کی اور خود فرش پر بچھی ہوئی دری پر بیٹھ گئی۔ انور نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ’’وہاں سب کو بہت فکر تھی۔۔۔ پتا جی کہاں ہیں؟‘‘

بملا کے مرجھائے ہوئے ہونٹ کھلے اور اس نے کھوکھلی آواز میں صرف اتنا کہا ’’پتا۔۔۔ !‘‘

انور نے پوچھا۔ ’’طبیعت کیسی ہے ان کی۔‘‘

’’اچھی ہے۔‘‘ بملا کی آواز اس کی آواز نہیں تھی۔

’’تم آج نہیں آئیں تو سب کو بڑی تشویش ہوئی۔۔۔  امی جان نے مجھ سے کہا، سائیکل پر جاؤ اور پتہ لے کر آؤ۔۔۔ لالہ جی کہاں ہیں؟‘‘

’’شطرنج کھیلنے گئے ہیں۔‘‘

’’تم آج کیوں نہیں آئیں؟‘‘

’’میں؟‘‘ یہ کہہ کر بملا رک گئی۔ تھوڑے وقفے کے بعد بولی ’’میں اب نہیں آ سکوں گی،۔۔۔ مجھے۔۔۔ مجھے ایک کام مل گیا ہے۔‘‘

انور نے پوچھا۔ ’’کیسا کام؟‘‘

بملا نے ایک آہ بھری ’’کل ہی معلوم ہوا ہے۔۔۔ جانے کیا ہے۔‘‘

یہ کہتے ہوئے کانپی۔ ’’ٹھیک ہے، جو کچھ بھی ہے ٹھیک ہے۔‘‘ پھر وہ جیسے اپنے اندر ڈوب گئی۔

کچھ دیر خاموشی رہی۔ پھر انور نے اکتا کر پوچھا۔ ’’میں ان سے کیا کہوں؟‘‘

’’بملا چونکی، کیا؟‘‘

انور نے اپنے الفاظ دہرائے۔ ’’میں ان سے کیا کہوں؟‘‘

’’اور کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔۔۔ سب کو نمستے!‘‘

انور کرسی پر سے اٹھا۔ ہاتھ جوڑ کر بملا کو نمستے کی۔ بملا نے اس کا جواب دیا مگر انور کھڑا رہا۔ بملا، خلا میں دیکھ رہی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد انور اس سے مخاطب ہوا۔ ’’بملا۔۔۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ۔۔۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ تم نے مجھ سے کئی بار کچھ کہنے کی کوشش کی۔ مگر کہہ نہ سکیں۔۔۔ میں پوچھ سکتا ہوں۔‘‘

بملا کے ہونٹوں پر ایک زخم خوردہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ انور اپنی بات مکمل نہ کر سکا، بملا اٹھی۔ کھڑکی کے ساتھ لگ کر اس نے نیچے بڑی بدرو کی طرف دیکھا اور انور سے کہا۔ ’’جو میں کہہ نہ سکی، تم سمجھ نہ سکے، اب کہنے اور سمجھنے سے بہت پرے چلا گیا ہے۔۔۔ تم جاؤ، میں سونا چاہتی ہوں۔‘‘

انور چلا گیا۔۔۔ بملا پھر نہ آئی۔

قریباً دس مہینے بعد اخباروں میں یہ سنسنی پھیلانے والی خبر شائع ہوئی کہ بی سڑک کی بدرو میں ایک نوزائیدہ بچہ مرا ہوا پایا گیا۔ تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ بچہ لالہ ہری چرن اسکول ماسٹر کی لڑکی بملا کا تھا اور بچے کا باپ خود لالہ ہری چرن تھا۔۔۔ سب پر سکتہ چھا گیا۔

انور نے سوچا ’’تو ساری کتاب کا خلاصہ یہ تھا۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

حامد کا بچہ

 

 

لاہورسے بابو ہرگوپال آئے تو حامد گھر کا رہا نہ گھاٹ کا۔ انھوں نے آتے ہی حامد سے کہا۔ ’’لو بھئی فوراً ایک ٹیکسی کا بندوبست کرو۔‘‘

حامد نے کہا۔ ’’آپ ذرا تو آرام کر لیجئے۔ اتنا لمبا سفر طے کر کے یہاں آئے ہیں۔ تھکاوٹ ہو گی۔‘‘

بابو ہرگوپال اپنی دھن کے پکے تھے۔ نہیں بھائی مجھے تھکاوٹ وکاوٹ کچھ نہیں۔ میں یہاں سیر کی غرض سے آیا ہوں۔ آرام کرنے نہیں آیا۔ بڑی مشکل سے دس دن نکالے ہیں۔ یہ دس دن تم میرے ہو۔ جو میں کہوں گا تمہیں ماننا ہو گا میں اب کے عیاشی کی انتہا کر دینا چاہتا ہوں۔۔۔ سوڈا منگواؤ۔‘‘

حامد نے بہت منع کیا کہ دیکھئے بابو ہرگوپال صبح سویرے مت شروع کیجیے مگر وہ نہ مانے۔ بکس کھو کر جونی واکر کی بوتل نکالی اور اسے کھولنا شروع کر دیا۔

’’سوڈا نہیں منگواتے تو لاؤ تھوڑا سا پانی لاؤ۔۔۔ کیا پانی بھی نہیں دو گے۔‘‘

بابو ہرگوپال، حامد سے عمر میں بڑے تھے۔ حامد تیس کا تھا تو وہ چالیس کے تھے۔ حامد ان کی عزت کرتا تھا اس لیے کہ اس کے مرحوم باپ سے بابو صاحب کے مراسم تھے۔ اس نے فوراً سوڈا منگوایا اور بڑی لجاجت سے کہا۔ ’’دیکھئے مجھے مجبور نہ کیجیے گا۔ آپ جانتے ہیں کہ میری بیوی بڑی سخت گیر ہے۔‘‘

مگر بابو ہرگوپال کے سامنے اس کی کوئی پیش نہ چلی اوراسے ساتھ دینا ہی پڑا۔

جیسی کہ امید تھی، چار پیگ پینے کے بعد بابو ہرگوپال نے حامد سے کہا۔ ’’لو بھئی اب چلیں گھومنے۔ مگر دیکھو کوئی ایسی ٹیکسی پکڑنا جو ذرا شاندار ہو۔ پرائیویٹ ٹیکسی ہو تو بہت اچھا ہے۔ مجھے ان میٹروں سے نفرت ہے۔‘‘

حامد نے پرائیویٹ ٹیکسی کا بندوبست کر دیا۔ نئی فورڈ تھی۔ ڈرائیور بھی بہت اچھا تھا۔۔۔ بابو ہرگوپال بہت خوش ہوئے ٹیکسی میں بیٹھ کر اپنا چوڑا بٹوا نکالا کھول کر دیکھا۔ سو سو کے کئی نوٹ تھے اور اطمینان کا سانس لیا اور اپنے آپ سے کہا۔ ’’کافی ہیں۔۔۔ لو بھئی ڈرائیور اب چلو۔‘‘

ڈرائیور نے اپنے سر پر ٹوپی کو ترچھا کیا اور پوچھا۔ ’’کہاں سیٹھ۔‘‘

بابو ہرگوپال حامد سے مخاطب ہوئے ’’بولو بھئی تم۔‘‘

حامد نے کچھ دیر سوچ کر ایک ٹھکانہ بتایا۔ ٹیکسی نے ادھر کا رخ کیا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد بمبئی کا سب سے بڑا دلال ان کے ساتھ تھا۔ اس نے مختلف مقامات سے مختلف لڑکیاں نکال نکال کر پیش کیں مگر حامد کو کوئی پسند نہ آئی وہ نفاست پسند تھا۔ صفائی کا شیدا تھا۔ یہ لڑکیاں سرخی پاؤڈر کے باوجود اس کو گندی دکھائی دیں۔ اس کے علاوہ ان کے چہروں پر کسبیت کی مہر تھی۔ یہ اسے بہت گھناؤنی معلوم ہوتی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ عورت کو کسبی ہونے پر بھی عورت ہی رہنا چاہیے۔ اپنے عورت پن کو اپنے پیشے کے نیچے دبا نہیں دینا چاہیے۔ اس کے برعکس بابو ہرگوپال غلاظت پسند تھا۔ لاکھوں میں کھیلتا تھا۔ چاہتا تو بمبئی کا پورا شہر صابن پانی سے دھلوا دیتا مگر اپنی ذاتی صفائی کا اسے کچھ خیال نہیں تھا۔ نہاتا تھا تو بہت ہی تھوڑے پانی سے۔ کئی کئی دن شیو نہیں کرتا تھا۔ گلاس چاہے میلا چکٹ ہو، اٹھا کر اس میں فرسٹ کلاس وسکی انڈیل دیتا تھا۔ غلیظ بھکارن کو سینے کے ساتھ چمٹا کر سو جاتا تھا اور کہتا تھا ’’لطف آ گیا۔۔۔ کیا چیز تھی۔‘‘

حامد کو حیرت ہوتی تھی کہ یہ بابو کس قسم کا انسان ہے۔ اوپر نہایت ہی قیمتی شیروانی ہے نیچے ایسی بنیان ہے کہ اس کو دیکھنے سے ابکائیاں آنی شروع ہو جاتی ہیں۔ رو مال پاس ہے لیکن کرتے کے دامن سے ناک کا بہتا ہوا رینٹھ صاف کر رہا ہے۔ غلیظ پلیٹ میں چاٹ کھا کر خوش ہو رہا ہے۔ تکیے کے غلاف میلے ہو کر بدبو چھوڑ رہے ہیں مگر اسے ان کو بدلوانے کا خیال تک نہیں آتا۔۔۔ حامد نے اس کے متعلق بہت غور کیا تھا مگر کسی نتیجے پر نہ پہنچا۔ اس نے کئی مرتبہ بابو ہرگوپال سے کہا۔ ’’بابو جی آپ کو غلاظت سے گھن کیوں نہیں آتی۔‘‘

یہ سن کر بابو ہرگوپال مسکرا دیتے۔ ’’کیوں نہیں آتی۔۔۔ لیکن تمہیں تو ہر جگہ غلاظت ہی غلاظت نظر آتی ہے۔ اب اس کا کیا علاج ہے۔‘‘

حامد خاموش ہو جاتا اور دل ہی دل میں بابو ہرگوپال کی غلاظت پسندی پر کڑھتا رہتا۔

ٹیکسی دیر تک اِدھر اُدھر گھومتی رہی۔ دلال نے جب دیکھا کہ حامد انتخاب کے معاملے میں بہت کڑا ہے تو اس نے دل میں کچھ سوچا اور ڈرائیور سے کہا۔ ’’شیوا جی پارک کی طرف دباؤ۔۔۔ وہ بھی پسند نہ آئی تو قسم خدا کی بھڑوا گیری چھوڑ دوں گا۔‘‘

ٹیکسی شوا جی پارک کی ایک بنگلہ نما بلڈنگ کے پاس رکی۔ دلال اوپر چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا اور بابو ہرگوپال اور حامد کو اپنے ساتھ لے گیا۔

بڑا صاف ستھرا کمرہ تھا۔ فرش کی ٹائلیں چمک رہی تھیں۔ فرنیچر پر گرد کا ذرہ تک نہیں تھا۔ ادھر دیوار پر سوامی وویکا نند کی تصویر لٹک رہی تھی۔ سامنے گاندھی جی کی تصویر سبھاش کا فوٹو بھی تھا۔ میز پر مرہٹی کی کتابیں پڑی تھیں۔

دلال نے ان کو بیٹھنے کے لیے کہا۔ دونوں صوفے پر بیٹھ گئے۔ حامد گھر کی صفائی سے بہت متاثر ہوا۔ چیزیں مختصر تھیں مگر قرینے سے رکھی گئی تھیں۔ فضا بڑی سنجیدہ تھی اس میں کسبیوں کا وہ بے شرم تیکھا پن نہیں تھا۔

حامد بڑی بے صبری سے لڑکی کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔ دوسرے کمرے سے ایک مرد نمودار ہوا۔ اس نے ہولے ہولے سرگوشیوں میں دلال سے باتیں کیں۔ بابو ہرگوپال اور حامد کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’ابھی آتی ہے۔۔۔ نہا رہی تھی، کپڑے پہن رہی ہے۔‘‘

یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔

حامد نے غور سے کمرے کی چیزیں دیکھنا شروع کی۔ میز کے پاس کونے میں بڑی خوبصورت رنگین چٹائی پڑی تھی۔ میز پر کتابوں کے ساتھ دس پندرہ رسالے تھے۔ نیچے بڑے نازک چپل چمکیلے فرش پر پڑے تھے۔ کچھ اس انداز سے کہ ابھی ابھی ان سے پاؤں نکل کر گئے ہیں۔ سامنے شیشوں والی الماری میں قطار در قطار کتابیں تھیں۔

بابو ہرگوپال نے فرش پر جب اپنے سگرٹ کا آخری حصہ اپنی گرگابی کے نیچے دبایا تو حامد کو بہت غصہ آیا۔ سوچ ہی رہا تھا کہ اسے اٹھا کر باہر پھینک دے کہ دوسرے کمرے کے دروازے سے اس کے کانوں میں ریشمیں سرسراہٹ پہنچی۔ اس نے زاویہ بدل کر دیکھا۔ ایک گوری چٹی لڑکی، بالکل نئے کاشٹے میں ملبوس ننگے پیر آ رہی تھی۔

۔۔۔  کاشٹے کا پلو اس کے سر سے کھسکا۔ سیدھی مانگ تھی۔ جب قریب آ کر اس نے ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا تو اس کے چمکیلے جوڑے میں حامد نے ایک پتا اڑسا ہوا دیکھا۔ پتے کا رنگ سفیدی مائل تھا۔ موٹے جوڑے میں جو بڑی صفائی سے کیا گیا تھا یہ پتا بہت خوبصورت دکھائی دیتا تھا۔ حامد نے پرنام کا جواب اٹھ کر دیا۔ لڑکی شرماتی لجاتی ان کے پاس کرسی پر بیٹھ گئی۔

اس کی عمر حامد کے اندازے کے مطابق سترہ برس سے اوپر نہیں تھی۔ قد درمیانہ، رنگ گورا جس میں ہلکی ہلکی پیاری جھلک تھی۔ جس طرح اس کی ساڑھی نئی تھی اسی طرح وہ خود نئی معلوم ہوتی تھی۔ کرسی پر بیٹھ کر اس نے بڑی بڑی سیاہ آنکھیں جھکا لیں۔ حامد کو ایسا محسوس ہونے لگا کہ وہ آہستہ آہستہ اس کے وجود میں سرایت کر رہی ہے۔ لڑکی بڑی صاف ستھری، بڑی اجلی تھی۔

بابو ہرگوپال نے حامد سے کچھ کہا تو وہ چونک پڑا جیسے اس کو کسی نے جھنجھوڑ کر جگا دیا ہے ’’کیا کہا بابو ہرگوپال؟‘‘

بابو ہرگوپال نے کہا۔ ’’بات کرو بھئی۔‘‘ پھر آواز دھیمی کر دی۔ ’’مجھے تو کوئی خاص پسند نہیں۔‘‘

حامد کباب ہو گیا۔ اس نے لڑکی کی طرف دیکھا۔ دھلا ہوا شباب اس کے سامنے بیٹھا تھا۔ نکھری ہوئی بے دماغ جوانی۔ ریشم میں لپٹی ہوئی اس کی نظروں کے سامنے تھی جس کو وہ حاصل کر سکتا تھا۔ ایک رات کے لیے نہیں، کئی راتوں کے لیے، کیونکہ وہ قیمت ادا کر کے اپنائی جا سکتی تھی، لیکن حامد نے جب یہ سوچا تو اسے دکھ ہوا کہ ایسا کیوں ہے۔ یہ لڑکی بکاؤ مال ہرگز نہیں ہونی چاہیے تھی۔ پھر اسے خیال کہ آیا اگر ایسا ہوتا تو اس کو حاصل کیسے کرتا۔

بابو ہرگوپال نے بڑے بھونڈے انداز میں پوچھا۔ ’’کیا خیال ہے بھئی۔‘‘

’’خیال؟‘‘ حامد پھر چونکا۔ آپ کو تو پسند نہیں، لیکن میں۔۔۔‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔

بابو ہرگوپال بڑے دوست نواز تھے۔ اٹھے اور دلال سے کاروباری انداز میں پوچھا۔ ’’کیوں بھئی کیا دینا پڑے گا؟‘‘

دلال نے جواب دیا۔ ’’چھوکری دیکھ لیجئے۔ ابھی تازہ تازہ دھندا شروع کیا ہے۔‘‘

بابو ہرگوپال نے اس کی بات کاٹی۔ ’’تم اسے چھوڑو۔ معاملے کی بات کرو۔‘‘

دلال نے بیڑی سلگائی، سو روپے ہوں گے۔ پورا دن رکھئے یا پوری رات رکھئے۔ ایک ڈیڑھیا کم نہیں ہو گا۔‘‘

بابو ہرگوپال حامد سے مخاطب ہوئے۔ ’’کیوں بھئی۔‘‘

حامد کو بابو ہرگوپال اور دلال کی گفتگو بہت ناگوار گزر رہی تھی۔ اس کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس لڑکی کی توہین ہو رہی ہے۔۔۔ سو روپے میں یہ دھڑکتا ہوا شباب یہ دہکتی ہوئی جوانی۔۔۔ اس کو یہ سن کر بہت کوفت ہوئی کہ مرہٹی حسن کا جو یہ نادر نمونہ اس کے سامنے سانس لے رہا تھا اس کی قیمت صرف سو روپے ہے۔۔۔ مگر اس کوفت کے ساتھ ہی اس خیال نے اس کے دل میں چٹکی لی کہ سو روپے دے کر آدمی اس کو حاصل تو کر سکتا ہے۔ ایک دن یا ایک رات کے لیے لیکن پھر اس نے سوچا۔ ’’صرف ایک دن یا ایک رات کیلیے۔۔۔ اس کے ساتھ تو آدمی کو اپنی ساری عمر بتا دینی چاہیے۔ اس کی ہستی میں اپنی ہستی مدغم کر دینی چاہیے۔‘‘

بابو ہرگوپال نے پھر پوچھا۔ ’’کیوں بھئی کیا خیال ہے؟‘‘

حامد اپنا خیال ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ بابو ہرگوپال مسکرایا۔ جیب سے بٹوہ نکالا اور سو کا ایک نوٹ دلال کو دے دیا۔ ’’ایک ڈیڑھیا کم نہ ایک ڈیڑھیا زیادہ۔ پھر وہ حامد سے مخاطب ہوا۔ ’’چلو بھئی۔۔۔ معاملہ طے ہو گیا۔‘‘

حامد خاموش ہو گیا۔ دونوں نیچے اتر کر ٹیکسی میں بیٹھے۔ دلال لڑکی لے کر آ گیا۔ وہ شرماتی لجاتی ان کے ساتھ بیٹھ گئی۔۔۔ ہوٹل میں ایک کمرے کا بندوبست کر کے بابو ہرگوپال اپنے لیے کوئی لڑکی تلاش کرنے چلا گیا۔

لڑکی پلنگ پر آنکھیں جھکائے بیٹھی تھی۔ حامد کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ بابو ہرگوپال وسکی کی بوتل چھوڑ گیا تھا۔ آدھی کے قریب باقی تھی۔ حامد نے سوڈا منگوا کر ایک بہت بڑا پیگ لگایا۔ اس سے اس میں کچھ جرأت پیدا ہوئی۔ اس نے لڑکی کے پاس بیٹھ کر پوچھ۔ ’’آپ کا نام؟‘‘

لڑکی نے نگاہیں اٹھا کر جواب دیا۔ ’’لتا منگلاؤنکر۔‘‘

بڑی پیاری آواز تھی۔ حامد نے ایک بڑا پیگ اپنے اندر انڈیلا اور لتا کے سر سے کاشٹے کا پلو ہٹا کر اس کے چمکیلے بالوں پر ہاتھ پھیرا۔ لتا نے بڑی بڑی سیاہ آنکھیں جھپکائیں۔ حامد نے ساڑھی کا پلو بالکل نیچے گرا دیا۔ چست چولی کے کھلے گریبان سے اس کو لتا کے سینے کی ابھار کی ننھی سی دھڑکتی ہوئی جھلک دکھائی دی۔ حامد کا سارا وجود تھرا گیا۔ اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ چولی بن کر لتا کے ساتھ چمٹ جائے۔ اس کی میٹھی میٹھی گرمی محسوس کرے اور سو جائے۔

لتا ہندوستانی نہیں جانتی تھی۔ اس کو منگلاؤں سے آئے صرف دو مہینے ہوئے تھے۔ مرہٹی بولتی تھی۔ بڑی کرخت زبان ہے لیکن اس کے منہ میں یہ بڑی ملائم ہو گئی تھی۔ وہ ٹوٹی پھوٹی ہندوستانی میں حامد کی باتوں کا جواب دیتی تو وہ اس سے کہتا ’’نہیں لتا، تم مرہٹی میں بات کرو۔ مجھے بہت چانگلی لگتی۔‘‘

لفظ ’’چانگلی‘‘ سن کر لتا ہنس پڑتی اور صحیح تلفظ اس کو بتاتی، لیکن حامد چے اور سے کی درمیانی آواز پیدا نہ کر سکتا۔ اس پر دونوں کھلکھلا کر ہنسنے لگتے۔ حامد اس کی باتیں نہ سمجھتا لیکن اسے نہ سمجھنے میں اس کو لطف آتا تھا۔ کبھی کبھی وہ اس کے ہونٹ چوم لیتا اور اس سے کہتا۔ ’’یہ پیارے پیارے بول جو تم اپنے منہ سے نکال رہی ہو میرے منہ میں ڈال دو۔ میں انھیں پینا چاہتا ہوں۔‘‘

وہ کچھ نہ سمجھتی اور ہنس دیتی۔ حامد اسے اپنے سینے کے ساتھ لگا لیتا۔ لتا کی بانہیں بڑی سڈول اور گوری گوری تھیں ان پر چولی کی چھوٹی چھوٹی آستینیں پھنسی ہوئی تھیں۔ حامد نے ان کو بھی کئی بار چوما لتا کا ہر عضو حامد کو پیارا لگتا تھا۔

رات کو نو بجے حامد نے لتا کو اس کے گھر چھوڑا تو اپنے اندر ایک خلا سا محسوس کیا۔ اس کے ملائم جسم کا لمس جیسے ایک دم چھال کی طرح اتر کر اس سے جدا ہو گیا۔ ساری رات کروٹیں بدلتا رہا۔ صبح بابو ہرگوپال آئے۔ انھوں نے تخلیے میں اس سے پوچھا ’’کیوں کیسی رہی؟‘‘

حامد نے صرف اتنا کہا۔ ’’ٹھیک تھی۔‘‘

’’چلتے ہو پھر؟‘‘

’’نہیں مجھے ایک ضروری کام ہے۔‘‘

’’بکواس نہ کرو۔۔۔ میں نے تم سے آتے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ دس دن تم میرے ہو۔‘‘

حامد نے بابو ہرگوپال کو یقین دلایا کہ اسے واقعی بہت ضروری کام ہے۔ پونے جا رہا ہوں۔ وہاں اس کو ایک آدمی سے مل کر اپنا کام کرانا ہے۔ بابو ہرگوپال انجام کار مان گئے اور اکیلے عیاشی کرنے چلے گئے۔

حامد نے ٹیکسی لی۔ بینک سے روپے نکلوائے اور سیدھا لتا کے ہاں پہنچا۔ وہ اندر نہا رہی تھی۔ کمرے میں ایک مرد بیٹھا تھا، وہی جس نے پہلے دن کہا تھا۔ ’’ابھی آتی ہے۔۔۔ نہا رہی تھی، کپڑے بدل رہی ہے۔‘‘ حامد نے اس سے کچھ دیر باتیں کیں اور سو کا ایک نوٹ اس کے حوالے کر دیا۔ لتا آئی پہلے سے بھی زیادہ صاف ستھری اور نکھری ہوئی۔ ہاتھ جوڑ کر اس نے پرنام کیا۔ حامد اٹھا اور اس مرد سے مخاطب ہوا۔ ’’میں چلتا ہوں۔ تم لے آؤ انھیں۔۔۔ وقت پر چھوڑ جاؤں گا۔‘‘

یہ کہہ کر وہ نیچے اتر گیا، لتا آئی اور حامد کے پاس بیٹھ گئی۔ اس کا لمس محسوس کر کے حامد کو بڑی راحت ہوئی۔ وہ اس کو وہیں ٹیکسی میں اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیتا مگر لتا نے ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا۔

شام کے ساڑھے سات بجے تک وہ اس کے ساتھ رہی۔۔۔ جب اس کے گھر چھوڑا تو ایسا محسوس کیا کہ اس کے دل کی راحت اس سے جدا ہو گئی ہے۔ رات بھر وہ بے چین رہا۔ حامد شادی شدہ تھا۔ چھوٹے چھوٹے دو بچوں کا باپ تھا۔ اس نے سوچا کہ وہ سخت حماقت کر رہا ہے۔ اگر اس کی بیوی کو پتہ چل گیا تو آفت برپا ہو جائے گی۔ ایک بار سلسلہ ہو گیا ٹھیک ہے، مگر یہ سلسلہ تو اب دراز ہونے کی طرف مائل تھا۔ اس نے عہد کر لیا کہ اب شوا جی پارک کا رخ نہیں کریگا۔ مگر صبح دس بجے وہ پھر لتا کے ساتھ ہوٹل میں لیٹا تھا۔

پندرہ روز تک حامد بلا ناغہ لتا کے ہاں جاتا رہا۔۔۔ اس کے بینک کے اکاؤنٹ میں سے دو ہزار روپے اڑ چکے تھے۔ کاروبار الگ اس کی غیر موجودگی کے باعث نقصان اٹھا رہا تھا۔ حامد کو اس کا کامل احساس تھا مگر لتا اس کے دل و دماغ پر بری طرح چھا چکی تھی۔ لیکن حامد نے ہمت سے کام لیا اور ایک دن یہ سلسلہ منقطع کر دیا۔

اس دوران میں بابو ہرگوپال اپنی میلی اور غلیظ عیاشیاں ختم کر کے لاہور واپس  جا چکا تھا۔ حامد نے خود کو زبردستی اپنے کاروباری کاموں میں مصروف کر دیا اور لتا کو بھولنے کی کوشش کی۔

چار مہینے گزر گئے۔ حامد ثابت قدم رہا۔ لیکن ایک دن اتفاق سے اس کا گزر شیوا جی پارک سے ہوا۔ حامد نے غیر ارادی طور پر ٹیکسی والے سے کہا۔ ’’روک لو یہاں۔‘‘ ٹیکسی رکی۔ حامد سوچنے لگا۔ ’’نہیں یہ ٹھیک نہیں۔۔۔ ٹیکسی والے سے کہو چلے!‘‘ مگر دروازہ کھول کر وہ باہر نکلا اور اوپر چلا گیا۔

لتا آئی تو حامد نے دیکھا کہ وہ پہلے سے موٹی ہے۔ چھاتیاں زیادہ بڑھی ہیں۔ چہرے پر گوشت بڑھ گیا ہے۔ حامد نے سو روپے دیے اور اس کو ہوٹل میں لے گیا۔ یہاں اس کو جب معلوم ہوا کہ لتا حاملہ ہے تو اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ سارا نشہ ہرن ہو گیا۔ گھبرا کر اس نے پوچھا۔ ’’یہ۔۔۔ یہ حمل کس کا ہے۔؟‘‘

لتا کچھ نہ سمجھی۔ حامد نے اس کو بڑی مشکل سے سمجھایا تو اس نے سر ہلا کر کہا۔ ’’ہم کو مالوم نہیں۔‘‘

حامد پسینہ پسینہ ہو گیا۔ ’’تمہیں بالکل معلوم نہیں۔‘‘

لتا نے سر ہلایا۔ ’’نہیں۔‘‘

حامد نے تھوک نگل کر پوچھا۔ ’’کہیں۔۔۔ میرا تو نہیں؟‘‘

’’مالوم نہیں۔‘‘

حامد نے مزید استفسار کیا۔ بہت ہی باتیں کیں تو اسے معلوم ہوا کہ لتا کے لواحقین نے حمل گروانے کی بہت کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئے۔ کوئی دوا اثر نہیں کرتی تھی۔ ایک دوا نے تو اسے بیمار کر دیا چنانچہ ایک مہینہ وہ بستر پر پڑی رہی۔ حامد نے بہت سوچا۔ ایک ہی بات اس کی سمجھ میں آئی کہ کسی اچھے ڈاکٹر سے مشورہ کرے اور بہت جلدی کرے کیونکہ بچے کی خاطر لتا کو گاؤں بھیجا جا رہا تھا۔

حامد نے اس کو گھر چھوڑا اور ایک ڈاکٹر کے پاس گیا جو اس کا دوست تھا اس نے حامد سے کہا۔ ’’دیکھو یہ معاملہ بڑا خطرناک ہے۔ زندگی اور موت کا سوال درپیش ہوتا ہے۔‘‘

حامد نے اس سے کہا۔ ’’یہاں میری زندگی اور موت کا سوال ہے۔ نطفہ یقیناً میرا ہے۔ میں نے اچھی طرح حساب لگایا ہے۔ اس سے بھی اچھی طرح دریافت کیا ہے۔ خدا کے لیے آپ سوچئے میری پوزیشن کیا ہے۔۔۔ میری اولاد۔۔۔ میں تو یہ سوچتے ہی کانپ کانپ جاتا ہوں۔ آپ میری مدد نہیں کریں گے تو سوچتا سوچتا پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘

ڈاکٹر نے اس کو دوا دے دی۔ حامد نے لتا کو پہنچا دی مگر کوئی اثر نہ ہوا۔ حامد خوشخبری سننے کے لیے بے قرار تھا مگر لتا نے اس سے کہا کہ اس پر پہلے بھی کسی دوا نے اثر نہیں کیا تھا۔ حامد بڑی مشکلوں سے ایک اور دوا لایا مگر یہ بھی کارگر ثابت نہ ہوئی۔ اب لتا کا پیٹ صاف نمایاں تھا۔ اس کے لواحقین اسے گاؤں بھیجنا چاہتے تھے۔ لیکن حامد نے ان سے کہا۔ ’’نہیں ابھی ٹھہر جاؤ۔۔۔ میں کچھ اور بندوبست کرتا ہوں۔‘‘

بندوبست کچھ بھی نہ ہوا۔ سوچ سوچ کر حامد کا دماغ عاجز آ گیا۔ کیا کرے کیا نہ کرے۔ کچھ اس کی سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔ بابو ہرگوپال پر سو لعنتیں بھیجتا تھا۔ اپنے آپ کو کوستا تھا کہ کیوں اس نے حماقت کی۔ یہ سوچتا تو لرز جاتا کہ اگر لڑکی پیدا ہوئی تو وہ بھی اپنی ماں کی طرح پیشہ کرے گی۔ ڈوب مرنے کی بات ہے۔

اس کو لتا سے نفرت ہو گئی۔ اس کا حسن اس کے دل میں اب پہلے سے جذبات پیدا نہ کرتا۔ غلطی سے اس کا ہاتھ لتا سے چھو جاتا تو اس کو ایسا محسوس ہوتا کہ اس نے انگاروں میں ہاتھ جھونک دیا ہے۔ اس کو اب لتا کی کوئی ادا پسند نہیں تھی۔ اس کی زبردست خواہش تھی کہ وہ اس کا بچہ جننے سے پہلے پہلے مر جائے۔ وہ اور مردوں کے پاس بھی جاتی رہی تھی، کیا اسے حامد ہی کا نطفہ قبول کرنا تھا؟

حامد کے جی میں آیا کہ وہ اس کے سوجھے ہوئے پیٹ میں چھرا بھونک دے یا کوئی ایسا حیلہ کرے کہ اس کا بچہ پیٹ ہی میں مر جائے۔ لتا بھی کافی فکر مند تھی۔ اس کی کبھی خواہش نہیں تھی کہ بچہ ہو۔ اس کے علاوہ اس کو بہت بوجھ محسوس ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو اس کو الٹیوں نے نڈھال کر دیا تھا۔ اب ہر وقت اس کے پیٹ میں اینٹھن سی رہتی تھی۔ مگر حامد سمجھتا تھا کہ وہ فکر مند نہیں ہے۔ ’’اور کچھ نہیں تو کم بخت میری حالت دیکھ کر ہی ترس کھا کر بچہ قے کر دے۔‘‘

دوائیں چھوڑ کر ٹونے ٹوٹکے بھی کیے مگر بچہ اتنا ہٹ دھرم تھا اپنی جگہ پر قائم رہا۔۔۔ تھک ہار کر حامد نے لتا کو گاؤں جانے کی اجازت دے دی لیکن خود وہاں جا کر مکان دیکھ آیا۔ حساب کے مطابق بچہ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں پیدا ہونا تھا۔ حامد نے سوچ لیا تھا کہ وہ اسے کسی نہ کسی طرح مروا ڈالے گا، چنانچہ اس غرض سے اس نے بمبئی سے ایک بہت بڑے دادا سے راہ و رسم پیدا کی، اس کو خوب کھلاتا پلاتا رہا۔ اس پراس کا کافی روپیہ خرچ ہوا۔ مگر حامد نے کوئی خیال نہ کیا۔‘‘

وقت آیا تو اس نے اپنی ساری اسکیم دادا کریم کو بتا دی۔ ایک ہزار روپے طے ہوئے۔ حامد نے فوراً دے دیے۔ دادا کریم نے کہا۔ ’’اتنا چھوٹا بچہ مجھ سے نہیں مارا جائے گا۔ میں لا کر تمہارے حوالے کر دوں گا۔ آگے تم جانو اور تمہارا کام۔ ویسے یہ راز میرے سینے میں دفن رہے گا۔ اس کی تم کچھ فکر نہ کرو۔‘‘

حامد مان گیا۔ اس نے سوچا کہ وہ بچے کو گاڑی کی پٹڑی پر رکھ دے گا۔ اپنے آپ کچلا جائے گا یا کسی اور ترکیب سے اس کا خاتمہ کر دے گا۔۔۔ دادا کریم کو ساتھ لے کر وہ لتا کے گاؤں آ پہنچا۔ دادا کریم نے بتایا کہ بچہ پندرہ روز ہوئے پیدا ہو چکا ہے۔ حامد کے دل میں وہ جذبہ پیدا ہوا جو اپنے پہلے لڑکے کی پیدائش پر اس کو محسوس ہوا تھا مگر اس نے اس کو وہیں دبا دیا اور کریم سے کہا۔ ’’دیکھو آج رات یہ کام ہو جائے۔‘‘

رات کے بارہ بجے ایک اجاڑ جگہ پر حامد کھڑا انتظار کر رہا تھا۔ اس کے دل و دماغ میں ایک عجیب طوفان برپا تھا۔ وہ خود کو بڑی مشکلوں سے قاتل میں تبدیل کر چکا تھا۔ وہ پتھر جو اس کے سامنے پڑا تھا۔ بچے کا سر کچلنے کے لیے کافی تھا۔ کئی بار اسے اٹھا کر وہ اس کے وزن کا اندازہ کر چکا تھا۔

ساڑھے بارہ ہوئے تو حامد کو قدموں کی آواز آئی۔ حامد کا دل اس زور سے دھڑکنے لگا جیسے سینے سے باہر آ جائے گا۔ دادا کریم اندھیرے میں نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھوں میں کپڑے کی ایک چھوٹی سی گٹھڑی تھی۔ پاس آ کر اس نے حامد کے کانپتے ہوئے ہاتھوں میں دے دی اور کہا۔ ’’میرا کام ختم ہوا۔۔۔ میں چلا۔‘‘

یہ کہہ وہ چلا گیا۔ حامد بہت بری طرح کانپ رہا تھا۔ بچہ کپڑے کے اندر ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ حامد نے اسے زمین پر رکھ دیا۔ تھوڑی دیر اپنے لرزے پر قابو پانے کی کوشش کی۔ جب یہ کچھ کم ہوا تو اس نے وزنی پتھر اٹھایا۔ ٹٹول کر سر دیکھا۔ پتھر زور سے پٹکنے ہی والا تھا کہ اس نے سوچا، بچے کو ایک نظر دیکھ تو لوں۔ پتھر ایک طرف رکھ کر اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے دیا سلائی نکالی اور ایک تیلی سلگائی۔ یہ اس کی انگلیوں ہی میں جل گئی۔ اس کی ہمت نہ پڑی۔ کچھ دیر سوچا۔ دل مضبوط کیا۔ دیا سلائی کی تیلی جلائی۔ کپڑا ہٹایا۔ پہلے سرسری نظر سے پھر ایک دم غور سے دیکھا۔ تیلی بجھ گئی۔۔۔ یہ کس کی شکل تھی؟۔۔۔ اس نے کہیں دیکھی تھی۔ کہاں؟۔۔۔ کب؟

حامد نے جلدی جلدی ایک تیلی جلائی اور بچے کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ ایک دم اس کی آنکھوں کے سامنے اس مرد کا چہرہ آ گیا جس کے ساتھ لتا شیوا جی پارک میں رہتی تھی۔۔۔ ہٹ تیری ایسی کی تیسی۔۔۔ ہو بہو وہی شکل۔۔۔ وہی ناک نقشہ!

حامد نے بچے کو وہیں چھوڑا اور قہقہے لگاتا چلا گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

مجید کا ماضی

 

مجید کی ماہانہ آمدنی ڈھائی ہزار روپے تھی۔ موٹر تھی۔ ایک عالیشان کوٹھی تھی۔ بیوی تھی۔ اس کے علاوہ دس پندرہ عورتوں سے میل جول تھا۔ مگر جب کبھی وہ وسکی کے تین چار پیگ پیتا تو اسے اپنا ماضی یاد آ جاتا۔ وہ سوچتا کہ اب وہ اتنا خوش نہیں جتنا کہ پندرہ برس پہلے تھا۔ جب اس کے پاس رہنے کو کوٹھی تھی، نہ سواری کے لیے موٹر۔ بیوی تھی نہ کسی عورت سے اس کی شناسائی تھی۔ ڈھائی ہزار روپے تو ایک اچھی خاصی رقم ہے۔ ان دنوں اس کی آمدنی صرف ساٹھ روپے ماہوار تھی۔ ساٹھ روپے جو اسے بڑی مشکل سے ملتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ خوش تھا۔ اس کی زندگی افتان و خیزاں حالات کے ہوتے ہوئے بھی ہموار تھی۔

اب اسے بے شمار تفکرات تھے۔ کوٹھی کے۔ بیوی کے۔ بچوں کے۔ ان عورتوں کے جن سے ان کا میل جول تھا۔ انکم ٹیکس کا ٹنٹا الگ تھا۔ سیلز ٹیکس کا جھگڑا جدا۔ اس کے علاوہ اور بہت سی الجھنیں تھیں جن سے مجید کو کبھی نجات ہی نہیں ملتی تھی۔ چنانچہ اب وہ اس زمانے کو اکثر یاد کرتا تھا جب اس کی زندگی ایسے تفکرات اور ایسی الجھنوں سے آزاد تھی۔ وہ ایک بڑی غریبی کی لیکن بڑی خوشگوار زندگی بسر کرتا تھا۔

انکم ٹیکس زیادہ لگ گیا ہے۔ ماہروں سے مشورہ کرو۔ آفیسروں سے ملو۔ ان کو رشوت دو۔ سیلز ٹیکس کا جھگڑا چکاؤ۔ بلیک مارکیٹ کرو۔ یہاں سے جو کماؤ اس کو وائٹ کرو۔ جھوٹی رسیدیں بناؤ۔ مقدموں کی تاریخیں بھگتو۔ بیوی کی فرمائشیں پوری کرو۔ بچوں کی نگہداشت کرو۔ یوں تو مجید کام بڑی مستعدی سے کرتا تھا اور وہ اپنی اس نئی ہنگامہ خیز زندگی میں رچ مچ گیا تھا لیکن اس کے باوجود ناخوش تھا۔ یہ ناخوشی اسے کاروباری اوقات میں محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اس کا احساس اس کو صرف اس وقت ہوتا تھا جب وہ فرصت کے اوقات میں آرام سے بیٹھ کر وسکی کے تین چار پیگ پیتا تھا۔ اس وقت بیتا ہوا زمانہ اس کے دل و دماغ میں ایک دم انگڑائیاں لیتا ہوا بیدار ہو جاتا اور وہ بڑا سکون محسوس کرتا۔ لیکن جب اس بیتے ہوئے زمانے کی تصویر اس کے دل و دماغ میں محو ہو جاتی تو وہ بہت مضطرب ہو جاتا، پر یہ اضطراب دیر پا نہیں ہوتا تھا کیونکہ مجید فوراً ہی اپنی کاروباری الجھنوں میں گرفتار ہو جاتا تھا۔

مجید نے جو کچھ بنایا تھا، اپنی محنت و مشقت سے بنایا تھا۔ کوٹھی، اس کا ساز و سامان، موٹر غرضیکہ ہر چیز اس کے گاڑھے پسینے کی کمائی تھی۔ اس کو اس بات کا بہت مان تھا کہ آسائش کے جتنے سامان ہیں، سب اس نے خود بنائے ہیں۔ اس نے کسی سے مدد نہیں لی، لیکن تفکرات اب زیادہ ہو گئے تھے۔

وہ جو دس پندرہ عورتیں اس کے لیے وبال جان بن گئی تھیں۔ ایک سے ملو تو دوسری ناراض ہوتی تھی۔ ٹیلی فون پہ ٹیلی فون آ رہے ہیں۔ بیوی کا ڈر الگ، کاروبار کی فکر جدا۔ عجب جھنجھٹ تھا۔ مگر وہ دن بھی تھے جب مجید کو صرف دو روپے روزانہ ملتے تھے۔ ساٹھ روپے ماہوار جو اسے بڑی مشکل سے ملے تھے مگر دن عجیب انداز میں گزرتے تھے۔ بڑے دلچسپ تھے وہ دن۔ بڑی دلچسپ تھیں وہ راتیں جو لکڑی کے ایک بنچ پر گزرتی تھیں جس میں ہزار ہا کھٹمل تھے، خدا معلوم کتنے عمر رسیدہ۔ کیونکہ وہ بنچ بہت پرانی تھی۔ اس کے مالک نے دس برس پہلے اس کو ایک دکاندار سے لیا تھا جو اپنا کاروبار سمیٹ رہا تھا۔ اس دکاندار نے گیارہ برس پہلے اس کا سودا ایک کباڑی سے کیا تھا۔

مجید کو جو مزا، جو لطف اس کھٹملوں سے بھری ہوئی بنچ پر سونے میں آیا تھا اب اسے اپنے پر تکلف سپرنگوں والے پلنگ پر سونے میں نہیں آتا تھا۔ اب اسے ہزاروں کی فکر ہوتی تھی۔ اس وقت صرف دو روپے روزانہ کی۔ ان دنوں جب بنچ پر سویا کرتا تھا۔۔۔ ہر چیز اس کو اپنی محسوس ہوتی تھی مگر اب اپنے بھی پرائے لگتے تھے۔ سینکڑوں حریف تھے کاروبار میں، عشق بازیوں میں، ہر جگہ، ہر مقام پر اس کا کوئی نہ کوئی حریف موجود ہوتا تھا۔

وہ زندگی عجیب و غریب تھی۔ یہ زندگی بھی عجیب و غریب تھی مگر دونوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ وہ تفکر سے آزاد تھی، یہ تفکر سے پُر۔ چھوٹی سے چھوٹی خوشی اس کے دل و دماغ میں ایک عرصے تک موجود رہتی۔ ایک عرصے تک اس کو شاداں و فرحاں رکھتی۔ چھ آنے دے کر ایک میل ٹیکسی میں بیٹھے تو یہ ایک بہت بڑی عیاشی تھی۔ بھکاری کو ایک پیسہ دیا تو بڑی روحانی مسرت محسوس کی۔ اب وہ سیکڑوں کی خیرات کرتا تھا اور کوئی روحانی مسرت محسوس نہیں کرتا تھا اس لیے کہ یہ محض نمائش کی خاطر ہوتی۔

اس زمانے میں اس کی عیاشیاں بڑی چھوٹی چھوٹی مگر بڑی دلچسپ ہوتی تھیں۔ خود کو خوش کرنے کے لیے وہ بڑے نرالے طریقے ایجاد کر لیتا تھا۔

الیکٹرک ٹرین میں بیٹھے اور کسی گاؤں میں جا کر تاڑی پینے لگے۔

پتنگ لیا اور چوپاٹی پر بچوں کے ساتھ اڑانے لگے۔ دادر اسٹیشن پر صبح سویرے چلے گئے اور اسکول جانے والی لڑکیاں تاڑتے رہے۔۔۔ پل کے نیچے کھڑے ہو گئے۔ اینگلو انڈین لڑکیاں اسکرٹ پہنے اوپر چڑھتیں تو ان کی ننگی ٹانگیں نظر آتیں۔ اس نظارے سے اس کو بڑی طفلانہ سی مسرت محسوس ہوتی۔

کبھی کبھی طویل فاصلے پیدل طے کرتا۔ گھر پہنچتا تو اسے خوشی ہوتی کہ اس نے اکنی یا دونی بچا لی ہے۔ یہ اکنی یا دونی وہ کسی ایسی چیز پر خرچ کرتا جو اس کے روزانہ پروگرام میں نہیں ہوتی تھی۔

کسی لڑکی کو محبت بھرا خط لکھا اور جو پتا دماغ میں آیا لکھ کر پوسٹ کر دیا اور اس حماقت پر دل ہی دل میں خوب ہنسے۔

ایک انگلی کا ناخن بڑھا لیا اور کسی دکان سے ٹسٹ کرنے کے بہانے اس پر کیوٹکس لگا لیا۔

ایک دن صرف دوسروں سے مانگ مانگ کے سگریٹ پیے اور بے حد شرارت بھری خوشی محسوس کی۔

دفتر میں بنچ کے کھٹملوں نے زیادہ تنگ کیا تو ساری رات بازاروں میں گھومتے رہے اور بجائے کوفت کے راحت محسوس کی۔

جیب میں پیسے کم ہوئے تو دوپہر کا کھانا گول کر دیا اور یہ محسوس کیا کہ وہ کھا چکا ہے۔

اب یہ باتیں نہیں تھی۔ دفتر سے اس نے روپے کمانے کے ڈھنگ سیکھے۔ دولت آنے لگی تو یہ سب باتیں آہستہ آہستہ غائب ہو گئیں۔ اس کی یہ ننھی ننھی مسرتیں سب سونے اور چاندی کے نیچے دب گئیں۔

اب رقص و سرور کی محفلیں جمتی تھیں۔ مگر ان سے وہ لطف حاصل نہیں ہوتا تھا۔ جو پل کے نیچے کھڑے ہو کر ایک خاص زاویے سے ننگی محرک ٹانگیں دیکھنے میں محسوس ہوتا تھا۔ اس کی راتیں پہلے بالکل تنہا گزرتی تھیں۔ اب کوئی نہ کوئی عورت اس کی آغوش میں ہوتی مگر وہ سکون غائب تھا۔ وہ کنوارا سکون جس میں وہ رات بھر ملفوف رہتا تھا۔ اب اسے یہ فکر دامن گیر ہوتی تھی کہ کہیں اس کی بیوی کو پتہ نہ چل جائے۔ کہیں یہ عورت حاملہ نہ ہو جائے۔ کہیں اس کو بیماری نہ لگ جائے۔ کہیں اس عورت کا خاوند نہ آن دھمکے۔ پہلے ایسے تفکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

اب اس کے پاس ہر قسم کی شراب موجود رہتی تھی مگر وہ مزا، وہ سرورجو اسے پہلے ہر روز شام کو جاپان کی بنی ہوئی ’’اب ہی بیئر‘‘ پینے میں آتا تھا بالکل غائب ہی ہو گیا تھا۔

اس کا معمول تھا کہ دفتر سے فارغ ہو کر چوپائی یا اپولو بندر کی سیر کی۔ خوب گھومے پھرے۔ نظاروں کا مزا لیا، آٹھ بجے تو گھر کا رخ کیا۔ کسی نل سے منہ دھویا اور بائی کلہ پل کے پاس والی بار میں داخل ہو گئے۔ پارسی سیٹھ کی جو بہت ہی موٹا اور اس کی ناک بڑی بے ہنگم تھی، صاحب جی کہا ’’کیم سیٹھ سوں حال چھے؟‘‘

اس کو بس صرف اتنی گجراتی آتی تھی، مگر جب وہ کہتا تو اسے بڑی خوشی ہوتی کہ وہ اتنے الفاظ بول سکتا ہے۔ سیٹھ مسکراتا اور کہتا۔ ’’سارو چھے، سارو چھے‘‘

پھر وہ پارسی سیٹھ سے کاؤنٹر کے پاس کھڑے ہو کر جنگ کی باتیں چھیڑ دیتا۔ تھوڑی دیر کے بعد یہاں سے ہٹ کر وہ کونے والی میز کے پاس بیٹھ جاتا۔ یہ اس کی محبوب میز تھی۔ اس کے اوپر کا حصہ سنگ مرمر کا تھا۔ بیرا اسے گیلے کپڑے سے صاف کرتا اور مجید سے کہتا۔ ’’بولو سیٹھ۔‘‘

یہ سن کر مجید خود کو واقعی سیٹھ سمجھتا۔ اس وقت اس کی جیب میں ایک روپے چار آنے ہوتے۔ وہ بیرے کی طرف دیکھ کر بڑی شان سے مسکراتا اور کہتا۔ ’’ہر روز تم مجھ سے پوچھتے ہو سب جانتے ہو۔۔۔ لے آؤ جو پیا کرتا ہوں۔‘‘

بیرا اپنی عادت کے مطابق جانے سے پہلے گیلے کپڑے سے میز صاف کرتا۔ پونچھ کر ایک گلاس رکھتا۔ ایک پلیٹ میں کابلی چنے، دوسری میں کھاری سینگ یعنی نمک لگی مونگ پھلی لاتا۔ مجید اس سے کہتا۔ ’’پاپڑ لانا تم ہمیشہ بھول جاتے ہو۔‘‘

یہ چیزیں گزک کے طور پر بیئر کے ساتھ مفت ملتی تھیں۔ مجید نے یہ طریقہ ایجاد کیا تھا کہ بیرے سے کابلی چنوں کی ایک اور پلیٹ منگوا لیتا تھا۔ چنے کافی بڑے بڑے ہوتے تھے۔ نمک اور کالی مرچ سے بہت مزیدار بن جاتے تھے۔ مونگ پھلی کی پلیٹ ہوتی تھی۔ یہ سب مل ملا کر مجید کا رات کا کھانا بن جاتے تھے۔

بیئر آتی تو وہ بڑے پر سکون انداز میں اس کو گلاس میں انڈیلتا۔ آہستہ آہستہ گھونٹ بھرتا۔ ٹھنڈی یخ بیئر اس کے حلق سے اترتی تو ایک بڑی عجیب فرحت اس کو محسوس ہوتی۔ اس کو ایسا لگتا کہ ساری دنیا کی ٹھنڈک اس کے دل و دماغ میں جمع ہو گئی ہے۔۔۔ وہ موٹے پارسی کی طرف دیکھتا اور سوچتا۔ یہ پارسیوں کی ناک کیوں اتنی موٹی ہوتی ہے۔ اس قوم نے کیا قصور کیا ہے کہ خدا ان کی ناکوں سے بالکل غافل ہے۔۔۔ پرسوں ٹریم میں جو پارسن بیٹھی تھی۔ بڑا سڈول بدن خوبصورت آنکھیں۔ ابھرا ہوا سینہ بے داغ سفید رنگ۔ ماتھا کشادہ۔ پتلے پتلے ہونٹ، لیکن یہ بڑی طوطے ایسی ناک اس کو دیکھ کر مجید کو بہت ترس آیا تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ آیا ایسی کوئی ترکیب نہیں ہو سکتی کہ اس کی ناک ٹھیک ہو جائے۔۔۔ پھر اس کے دماغ میں مختلف اوقات پر دیکھی ہوئی خوبصورت اور جوان لڑکیاں تیرنے لگتی تھیں۔ اس کو ایسا لگتا تھا کہ وہ ان کا شباب بیئر میں گھول کر پی رہا ہے۔

دیر تک وہاں بیٹھا وہ اپنی زندگی کے حسین لمحات دہراتا رہتا۔

پندرہ دن ہوئے اپولو بندر پر جب تیز ہوا میں ایک یہودن لڑکی کا ریشمی اسکرٹ اٹھا تھا تو کتنی متناسب اور حسین ٹانگوں کی جھلک دکھائی دی تھی۔

پچھلے اتوار ایرانی کے ہوٹل میں پائے کا شوربہ کتنا لذیذ تھا۔ کیسے چٹخارے لے لے کر اس نے اس میں گرم گرم نان بھگو کر کھایا تھا۔

رنگین فلم کتنا اچھا تھا۔ رقص کتنا دلفریب تھا ان عورتوں کا۔

آج صبح ناشتے کے بعد سگرٹ پی کر لطف آ گیا۔ ایسا لطف ہر روز آیا کرے تو مزے آ جائیں۔

وہ میاں بیوی جو اس نے دادر اسٹیشن پر دیکھے تھے، آپس میں کتنے خوش تھے کبوتر اور کبوتری کی طرح گٹک رہے تھے۔

کیکی مستری بڑا آدمی ہے۔ کل میں نے اسپرو مانگی تو اس نے مفت دے دی کہنے لگا۔ ’’اس کے دام کیا لوں گا آپ سے‘‘ پچھلے ماہ اس نے وقت پر میری مدد بھی کی تھی۔ پانچ روپے اندھار مانگے۔ فوراً دے دیے اور کبھی تقاضا نہ کیا۔

ٹریم میں جب میں نے اس روز مرہٹی لڑکی کو اپنی سیٹ دی تو اس نے کتنی پیاری شکر گزاری سے کہا تھا۔ ’’تھینک یو۔‘‘

پھر وہ موٹے پارسی کی طرف دیکھتا۔ اس کے چہرے پر یہ بڑی ناک اس کو نظر آتی۔ مجید پھر سوچتا ’’یہ کیا بات ہے، ان پارسیوں کی ناکوں کے ساتھ اتنا برا سلوک کیا گیا ہے۔۔۔ کتنی کوفت ہو رہی ہے اس ناک سے۔‘‘ فوراً ہی اسے خیال آتا کہ یہ پارسی بڑا نیک آدمی ہے کیونکہ وہ اس کو ادھار دے دیتا تھا۔ جب اس کی جیب میں پیسے نہ ہوتے تو وہ کاؤنٹر کے پاس جاتا اور اس سے کہتا ’’سیٹھ آج مال پانی نہیں۔۔۔  کل!‘‘

سیٹھ مسکراتا۔ ’’کوئی واندہ نہیں۔‘‘ یعنی کوئی حرج نہیں۔ پھر آ جائیں گے۔

بیئر کی بوتل چودہ آنے میں آتی تھی۔ اس کو خالی کر کے اور پلیٹیں صاف کر کے وہ ہاتھ کے بڑے خوبصورت اشارے سے بیرے کو بل لانے کے لیے کہتا۔ بیرا بل لاتا تو وہ اسے ایک روپیہ دیتا اور بڑی شان سے کہا۔ ’’باقی دو آنے تم اپنے پاس رکھو۔‘‘

بیرا سلام کرتا۔ مجید بے حد مسرور اور شادماں اٹھتا اور پارسی سیٹھ کو ’’صاحب‘‘ کہہ کر دفتر کی طرف روانہ ہوتا۔ وہاں پہنچتے ہی اس کے قدم رک گئے۔ پڑوس کی گلی میں ایک چھوٹی سی تاریک کھولی میں مس لینا رہتی تھی۔ کسی زمانے میں بڑی مشہور ڈانسر تھی مگر اب بوڑھی ہو چکی تھی۔ یہودن تھی۔ اس کی دو لڑکیاں تھیں۔ ایستھر اور ہیلن۔ ایستھر سولہ برس کی تھی اور ہیلن تیرہ برس کی۔ دونوں رات کو اپنی ماں کے پاس ایک لمبا کرتہ پہنے لیٹی ہوتی تھیں۔ صرف ایک پلنگ تھا۔ مس لینا فرش پر چٹائی بچھا کر سوتی تھی۔

رات کو بیئر پی کر مس لینا کے ہاں جانا مجید کا معمول بن گیا۔ وہ باہر ہوٹل والے کو تین چائے کا آرڈر دے کر گلی میں داخل ہوتا اور مس لینا کی کھولی میں پہنچ جاتا۔ اندر ٹین کی کپی جل رہی ہوتی۔ ایستھر اور ہیلن قریب قریب نیم برہنہ ہوتیں۔ مجید پہنچتا تو زور سے پکارتا ’’السلام علیکم۔‘‘

ماں بیٹیاں ٹھیٹ عربی لہجے میں وعلیکم السلام کہتیں اور وہ لوہے کی کرسی پر بیٹھ جاتا اور مس لینا سے کہتا ’’چائے کا آرڈر دے آیا ہوں۔‘‘

ایستھر باربک آواز کہتی ’’تھینک یو‘‘۔ چھوٹی بستر پر لوٹیں لگانا شروع کر دیتی۔ مجید کو اس کی آڑو آڑو جتنی چھاتیوں اور ننگی ٹانگوں کی کئی جھلکیاں دکھائی دیتیں جو اس کے مسرور و مخمور دماغ کو بڑی فرحت بخشتیں۔

باہر والا چائے لے کر آتا تو ماں بیٹیاں پینا شروع کر دیتیں۔ مجید خاموش بیٹھا رہتا اس تنگ و تار ماحول میں ایک عجیب و غریب سکون اس کو محسوس ہوتا۔ وہ چاہتا کہ ان تینوں کا شکریہ ادا کرے۔ اس دھواں دینے والی کپی کا بھی شکریہ ادا کرے جو دھیمی دھیمی روشنی پھیلا رہی تھی۔ وہ لوہے کی اس کرسی کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا جس نے اس کو نشست پیش کی ہوئی تھی۔

تھوڑی دیر وہ ماں بیٹیوں کے پاس بیٹھتا۔ دونوں لڑکیاں خوبصورت تھیں۔ ان کی خوبصورتی مجید کی آنکھوں میں بڑی پیاری نیند لے آتی۔ رخصت لے کر وہ اٹھتا اور جھومتا جھامتا اپنے دفتر میں پہنچ جاتا اور کپڑے بدل کر بینچ پر لیٹتا اور لیٹتے ہی خوشگوار اور پرسکون نیند کی گہرائیوں میں اتر جاتا۔

فرصت کے اوقات میں وسکی کے تین چار پیگ پی کر جب مجید اس زمانے کو یاد کرتا تو کچھ عرصے کے لیے سب کچھ بھول کر اس میں محو ہو جاتا، نشہ کم ہوتا تو وہ بلیک مارکیٹ کے متعلق سوچنے لگتا۔ روپیہ کمانے کے نئے ڈھنگ تخلیق کرتا۔ ان عورتوں کے متعلق غور کرتا جن سے وہ جنسی رشتہ قائم کرنا چاہتا تھا۔

مجید کا ماضی جنگ سے پہلے کی فضا میں گم ہو چکا تھا۔۔۔  ایک مدھم لکیر سی رہ گئی تھی جس کو مجید اب دولت سے پیٹ رہا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

دو قومیں

 

 

مختار نے شاردا کو پہلی مرتبہ جھرنوں میں سے دیکھا۔ وہ اوپر کوٹھے پر کٹا ہوا پتنگ لینے گیا تو اسے جھرنوں میں سے ایک جھلک دکھائی دی۔ سامنے والے مکان کی بالائی منزل کی کھڑکی کھلی تھی۔ ایک لڑکی ڈونگا ہاتھ میں لیے نہا رہی تھی۔ مختار کو بڑا تعجب ہوا کہ یہ لڑکی کہاں سے آ گئی، کیونکہ سامنے والے مکان میں کوئی لڑکی نہیں تھی۔ جو تھیں، بیاہی  جا چکی تھیں۔ صرف روپ کور تھی۔ اس کا پلپلا خاوند کالو مل تھا۔ اس کے تین لڑکے تھے اور بس۔

مختار نے پتنگ اٹھایا اور ٹھٹھک کے رہ گیا۔۔۔ لڑکی بہت خوبصورت تھی اس کے ننگے بدن پر سنہرے روئیں تھے۔ ان میں پھنسی ہوئی پانی کی ننھی ننھی بوندنیاں چمک رہی تھیں۔ اس کا رنگ ہلکا سانولا تھا، سانولا بھی نہیں۔ تانبے کے رنگ جیسا، پانی کی ننھی ننھی بوندنیاں ایسی لگتی تھیں جیسے اس کا بدن پگھل کر قطرے قطرے بن کر گر رہا ہے۔

مختار نے جھرنے کے سوراخوں کے ساتھ اپنی آنکھیں جما دیں اور اس لڑکی کے جو ڈونگا ہاتھ میں لیے نہا رہی تھی، دلچسپی اور غور سے دیکھنا شروع کر دیا۔ اس کی عمر زیادہ سے زیادہ سولہ برس کی تھی گیلے سینے پر اس کی چھوٹی چھوٹی گول چھاتیاں جن پر پانی کے قطرے پھسل رہے تھے بڑی دلفریب تھیں۔ اس کو دیکھ کر مختار کے دل و دماغ میں سفلی جذبات پیدا نہ ہوئے۔ ایک جوان، خوبصورت، اور بالکل ننگی لڑکی اس کی نگاہوں کے سامنے تھی۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ مختار کے اندر شہوانی ہیجان برپا ہو جاتا، مگر وہ بڑے ٹھنڈے انہماک سے اسے دیکھ رہا تھا، جیسے کسی مصور کی تصویر دیکھ رہا ہے۔

لڑکی کے نچلے ہونٹ کے اختتامی کونے پر بڑا سا تل تھا۔۔۔ بے حد متین، بے حد سنجیدہ، جیسے وہ اپنے وجود سے بے خبر ہے، لیکن دوسرے اس کے وجود سے آگاہ ہیں، صرف اس حد تک کہ اسے وہیں ہونا چاہیے تھا جہاں کہ وہ تھا۔

بانہوں پر سنہرے روئیں پانی کی بوندوں کے ساتھ لپٹے ہوئے چمک رہے تھے اس کے سر کے بال سنہرے نہیں، بھوسلے تھے جنہوں نے شاید سنہرے ہونے سے انکار کر دیا جسم سڈول اور گدرایا ہوا تھا لیکن اس کو دیکھنے سے اشتعال پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مختار دیر تک جھرنے کے ساتھ آنکھیں جمائے رہا۔

لڑکی نے بدن پر صابن ملا۔ مختار تک اس کی خوشبو پہنچی۔ سلونے، تانبے جیسے رنگ والے بدن پر سفید سفید جھاگ بڑے سہانے معلوم ہوتے تھے۔ پھر جب یہ جھاگ پانی کے بہاؤ سے پھسلے تو مختار نے محسوس کیا جیسے اس لڑکی نے اپنا بلبلوں کا لباس بڑے اطمینان سے اتار کر ایک طرف رکھ دیا ہے۔

غسل سے فارغ ہو کر لڑکی نے تولیے سے اپنا بدن پونچھا۔ بڑے سکون اور اطمینان سے آہستہ آہستہ کپڑے پہنے۔ کھڑکی کے ڈنڈے پر دونوں ہاتھ رکھے اور سامنے دیکھا۔ ایک دم اس کی آنکھیں شرماہٹ کی جھیلوں میں غرق ہو گئیں اس نے کھڑکی بند کر دی۔ مختار بے اختیار ہنس پڑا۔

لڑکی نے فوراً کھڑکی کے پٹ کھولے اور بڑے غصے میں جھرنے کی طرف دیکھا۔ مختار نے کہا ’’میں قصور وار بالکل نہیں۔۔۔ آپ کیوں کھڑکی کھول کر نہا رہی تھیں۔‘‘

لڑکی نے کچھ نہ کہا۔ غیض آلود نگاہوں سے جھرنے کو دیکھا اور کھڑکی بند کر لی۔

چوتھے دن روپ کور آئی۔ اس کے ساتھ یہی لڑکی تھی۔ مختار کی ماں اور بہن دونوں سلائی اور کروشیے کے کام کی ماہر تھیں، گلی کی اکثر لڑکیاں ان سے یہ کام سیکھنے کیلیے آیا کرتی تھیں۔ روپ کور بھی اس لڑکی کو اسی غرض سے لائی تھی کیونکہ اس کو کروشیے کے کام کا بہت شوق تھا۔ مختار اپنے کمرے سے نکل کر صحن میں آیا تو اس نے روپ کور کو پرنام کیا۔ لڑکی پر اس کی نگاہ پڑی تو وہ سمٹ سی گئی۔ مختار مسکرا کر وہاں سے چلا گیا۔

لڑکی روزانہ آنے لگی۔ مختار کو دیکھتی تو سمٹ جاتی۔ آہستہ آہستہ اس کا یہ رد عمل دور ہوا اور اس کے دماغ سے یہ خیال کسی قدر محو ہوا کہ مختار نے اسے نہاتے دیکھا تھا۔

مختار کو معلوم ہوا کہ اس کا نام شاردا ہے۔ روپ کور کے چچا کی لڑکی ہے یتیم ہے۔ چیچو کی ملیاں میں ایک غریب رشتہ دار کے ساتھ رہتی تھی۔ روپ کور نے اس کو اپنے پاس بلا لیا۔ انٹرنس پاس ہے۔ بڑی ذہین ہے، کیونکہ اس نے کروشیے کا مشکل سے مشکل کام یوں چٹکیوں میں سیکھ لیا تھا۔

دن گزرتے تھے۔ اس دوران میں مختار نے محسوس کیا کہ وہ شاردا کی محبت میں گرفتار ہو گیا ہے۔ یہ سب کچھ دھیرے دھیرے ہوا۔ جب مختار نے اس کو پہلی بار جھرنے میں سے دیکھا تھا تو اس وقت اس کے سامنے ایک نظارہ تھا بڑا فرحت ناک نظارہ۔ لیکن اب شاردا آہستہ آہستہ اس کے دل میں بیٹھ گئی تھی، مختار نے کئی دفعہ سوچا تھا کہ یہ محبت کا معاملہ بالکل غلط ہے، اس لیے کہ شاردا ہندو ہے۔ مسلمان کیسے ایک ہندو لڑکی سے محبت کرنے کی جرأت کر سکتا ہے۔ مختار نے اپنے آپ کو بہت سمجھایا لیکن وہ اپنے محبت کے جذبے کو مٹا نہ سکا۔

شاردا اب اس سے باتیں کرنے لگی تھی مگر کھل کے نہیں اس کے دماغ میں مختار کو دیکھتے ہی یہ احساس بیدار ہو جاتا تھا کہ وہ ننگی نہا رہی تھی اور مختار جھرنے میں سے اسے دیکھ رہا تھا۔

ایک روز گھر میں کوئی نہیں تھا۔ مختار کی ماں اور بہن دونوں کسی عزیز کے چالیسویں پر گئی ہوئی تھیں۔ شاردا حسب معمول اپنا تھیلا اٹھائے صبح دس بجے آئی۔ مختار صحن میں چارپائی پر لیٹا اخبار پڑھ رہا تھا۔ شاردا نے اس سے پوچھا۔ ’’بہن جی کہاں ہیں۔‘‘

مختار کے ہاتھ کانپنے لگے۔ ’’وہ۔۔۔ وہ کہیں باہر گئی ہے۔‘‘

شاردا نے پوچھا۔ ’’ماتا جی؟‘‘

مختار اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ’’وہ۔۔۔ وہ بھی اس کے ساتھ ہی گئی ہیں۔‘‘

’’اچھا!‘ یہ کہہ کر شاردا نے کسی قدر گھبرائی ہوئی نگاہوں سے مختار کو دیکھا اور نمستے کر کے چلنے لگی۔ مختار نے اس کو روکا ’’ٹھہرو شاردا!‘‘

شاردا کو جیسے بجلی کے کرنٹ نے چھو لیا۔ چونک کر رک گئی۔ ’’جی؟‘‘

مختار چارپائی پر سے اٹھا ’’بیٹھ جاؤ۔۔۔ وہ لوگ ابھی آ جائیں گے!‘‘

’’جی نہیں۔۔۔ میں جاتی ہوں‘‘ یہ کہہ کر بھی شاردا کھڑی رہی۔

مختار نے بڑی جرات سے کام لیا۔ آگے بڑھا۔ اس کی ایک کلائی پکڑی اور کھینچ کر اس کے ہونٹوں کو چوم لیا۔ یہ سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ مختار اور شاردا دونوں کو ایک لحظے کے لیے بالکل پتا نہ چلا کہ کیا ہوا ہے۔۔۔ اس کے بعد دونوں لرزنے لگے۔ مختار نے صرف اتنا کہا۔ ’’مجھے معاف کر دینا!‘‘

شاردا خاموش کھڑی رہی۔ اس کا تانبے جیسا رنگ سرخی مائل ہو گیا۔ ہونٹوں میں خفیف سی کپکپاہٹ تھی جیسے وہ چھیڑے جانے پر شکایت کر رہے ہیں۔ مختار اپنی حرکت اور اس کے نتائج بھول گیا۔ اس نے ایک بار پھر شاردا کو اپنی طرف کھینچا اور سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔۔۔ شاردا نے مزاحمت نہ کی۔ وہ صرف مجسمہ حیرت بنی ہوئی تھی۔ وہ ایک سوال بن گئی تھی۔۔۔ ایک ایسا سوال جو اپنے آپ سے کیا گیا ہو۔ وہ شاید خود سے پوچھ رہی تھی یہ کیا ہوا ہے۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟۔۔۔  کیا اسے ہونا چاہیے تھا۔۔۔  کیا ایسا کسی اور سے بھی ہوا ہے؟

مختار نے اسے چارپائی پر بٹھا لیا اور پوچھا ’’تم بولتی کیوں نہیں ہو شادرا؟‘‘

شادرا کے دوپٹے کے پیچھے اس کا سینہ دھڑک رہا تھا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ مختار کو اس کا یہ سکوت بہت پریشان کن محسوس ہوا۔ ’’بولو شاردا۔۔۔ اگر تمہیں میری یہ حرکت بری لگی ہے تو کہہ دو۔۔۔ خدا کی قسم میں معافی مانگ لوں گا۔۔۔  تمہاری طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھوں گا میں نے کبھی ایسی جرات نہ کی ہوتی، لیکن جانے مجھے کیا ہو گیا ہے۔۔۔ در اصل۔۔۔ در اصل مجھے تم سے محبت ہے۔‘‘

شاردا کے ہونٹ ہلے جیسے انھوں نے لفظ ’’محبت‘‘ ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مختار نے بڑی گرمجوشی سے کہنا شروع کیا۔ ’’مجھے معلوم نہیں تم محبت کا مطلب سمجھتی ہو کہ نہیں۔۔۔ میں خود اس کے متعلق زیادہ واقفیت نہیں رکھتا، صرف اتنا جانتا ہوں کہ تمہیں چاہتا ہوں۔۔۔ تمہاری ساری ہستی کو اپنی اس مٹھی میں لے لینا چاہتا ہوں۔ اگر تم چاہو تو میں اپنی ساری زندگی تمہارے حوالے کر دوں گا۔۔۔  شاردا تم بولتی کیوں نہیں ہو؟‘‘

شاردا کی آنکھیں خواب گو ہو گئیں۔ مختار نے پھر بولنا شروع کر دیا۔ ’’میں نے اس روز جھرنے میں سے تمہیں دیکھا۔۔۔  نہیں۔ تم مجھے خود دکھائی دیں۔۔۔  وہ ایک ایسا نظارہ تھا جو میں تا قیامت نہیں بھول سکتا۔۔۔ تم شرماتی کیوں ہو۔۔۔ میری نگاہوں نے تمہاری خوبصورتی چرائی تو نہیں۔۔۔  میری آنکھوں میں صرف اس نظارے کی تصویر ہے۔۔۔  تم اسے زندہ کر دو تو میں تمہارے پاؤں چوم لوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر مختار نے شاردا کا ایک پاؤں چوم لیا۔

وہ کانپ گئی۔ چارپائی پر سے ایک دم اٹھ کر اس نے لرزاں آواز میں کہا۔ ’’یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟۔۔۔  ہمارے دھرم میں۔۔۔ ‘‘

مختار خوشی سے اچھل پڑا۔ ’’دھرم ورم کو چھوڑے۔۔۔  پریم کے دھرم میں سب ٹھیک ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے شاردا کو چومنا چاہا۔ مگر وہ تڑپ کر ایک طرف ہٹی اور بڑے شرمیلے انداز میں مسکراتی بھاگ گئی۔ مختار نے چاہا کہ وہ اڑ کر ممٹی پر پہنچ جائے۔ وہاں سے نیچے صحن میں کودے اور ناچنا شروع کر دے۔

مختار کی والدہ اور بہن آ گئیں تو شاردا آئی۔ مختار کو دیکھ کر اس نے فوراً نگاہیں نیچی کر لیں۔ مختار وہاں سے کھسک گیا کہ راز افشا نہ ہو۔

دوسرے روز اوپر کوٹھے پر چڑھا۔ جھرنے میں سے جھانکا تو دیکھا کہ شاردا کھڑکی کے پاس کھڑی بالوں میں کنگھی کر رہی ہے۔ مختار نے اس کو آواز دی۔ ’’شاردا۔‘‘

شاردا چونکی۔ کنگھی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گلی میں جا گری۔ مختار ہنسا۔ شاردرا کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ مختار نے اس سے کہا ’’کتنی ڈرپوک ہو تم۔۔۔ ہولے سے آواز دی اور تمہاری کنگھی چھوٹ گئی۔‘‘

شاردا نے کہا۔ ’’اب لا کے دیجیے نئی کنگھی مجھے۔۔۔ یہ تو موری میں جا گری ہے۔‘‘

مختار نے جواب دیا۔ ’’ابھی لاؤں۔‘‘

شاردا نے فوراً کہا۔ ’’نہیں نہیں۔۔۔  میں نے تو مذاق کیا ہے۔‘‘

’’میں نے بھی مذاق کیا تھا۔ تمہیں چھوڑ کر میں میں کنگھی لینے جاتا؟۔۔۔ کبھی نہیں!‘‘

شاردا مسکرائی۔ ’’میں بال کیسے بناؤں۔‘‘

مختار نے جھرنے کے سوراخوں میں اپنی انگلیاں ڈالیں۔ ’’یہ میری انگلیاں لے لو!‘‘

شاردا ہنسی۔۔۔  مختار کا جی چاہا کہ وہ اپنی ساری عمر اس ہنسی کی چھاؤں میں گزار دے۔ ’’شاردا، خدا کی قسم، تم ہنسی ہو، میرا رؤاں رؤاں شادماں ہو گیا ہے۔۔۔  تم کیوں اتنی پیاری ہو؟۔۔۔ کیا دنیا میں کوئی اور لڑکی بھی تم جتنی پیاری ہو گی۔۔۔ یہ کم بخت جھرنے۔۔۔ یہ مٹی کے ذلیل پردے۔ جی چاہتا ہے ان کو توڑ پھوڑ دوں۔‘‘

شاردا پھر ہنسی۔ مختار نے کہا۔ ’’یہ ہنسی کوئی اور نہ دیکھے، کوئی اور نہ سنے۔ شاردا صرف میرے سامنے ہنسنا۔۔۔ اور اگر کبھی ہنسنا ہو تو مجھے بلا لیا کرو۔ میں اس کے اردگرد اپنے ہونٹوں کی دیواریں کھڑی کر دوں گا۔‘‘

شاردا نے کہا۔ ’’آپ باتیں بڑی اچھی کرتے ہیں۔‘‘

’’تو مجھے انعام دو۔۔۔  محبت کی ایک ہلکی سی نگاہ ان جھرنوں سے میری طرف پھینک دو۔۔۔ میں اسے اپنی پلکوں سے اٹھا کر اپنی آنکھوں میں چھپا لوں گا۔‘‘ مختار نے شاردا کے عقب میں دور ایک سایہ سا دیکھا اور فوراً جھرنے سے ہٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو کھڑکی خالی تھی۔ شاردا  جا چکی تھی۔

آہستہ آہستہ مختار اور شاردا دونوں شیر و شکر ہو گئے۔ تنہائی کا موقعہ ملتا تو دیر تک پیار محبت کی باتیں کرتے رہتے۔۔۔ ایک دن روپ کور اور اس کا خاوند لالہ کالو مل کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ مختار گلی میں سے گزر رہا تھا کہ اس کو ایک کنکر لگا۔ اس نے اوپر دیکھا شاردا تھی۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بلایا۔

مختار اس کے پاس پہنچ گیا۔ پورا تخلیہ تھا۔ خوب گھل مل کے باتیں ہوئیں۔

مختار نے اس سے کہا۔ ’’اس روز مجھ سے گستاخی ہوئی تھی اور میں نے معافی مانگ لی تھی۔ آج پھر گستاخی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، لیکن معافی نہیں مانگوں گا‘‘ اور اپنے ہونٹ شاردا کے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں پر رکھ دیے۔

شاردا نے شرمیلی شرارت سے کہا۔ ’’اب معافی مانگئے۔‘‘

’’جی نہیں۔۔۔ اب یہ ہونٹ آپ کے نہیں۔۔۔ میرے ہیں۔۔۔ کیا میں جھوٹ کہتا ہوں۔‘‘

شاردا نے نگاہیں نیچی کر کے کہا۔ ’’یہ ہونٹ کیا۔ میں ہی آپ کی ہوں۔‘‘

مختار ایک دم سنجیدہ ہو گیا۔ ’’دیکھو شاردا۔ ہم اس وقت ایک آتش فشاں پہاڑ پر کھڑے ہیں تم سوچ لو، سمجھ لو۔۔۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں۔ خدا کی قسم کھا کر کہتا کہ تمہارے سوا میری زندگی میں اور کوئی عورت نہیں آئے گی۔۔۔ میں قسم کھاتا ہوں کہ زندگی بھر میں تمہارا رہوں گا۔ میری محبت ثابت قدم رہے گی۔۔۔  کیا تم بھی اس کا عہد کرتی ہو!‘‘

شاردا نے اپنی نگاہیں اٹھا کر مختار کی طرف دیکھا۔ ’’میرا پریم سچا ہے۔‘‘

مختار نے اس کو سینے کے ساتھ بھینچ لیا اور کہا۔ ’’زندہ رہو۔۔۔  صرف میرے لیے، میری محبت کے لیے وقف رہو۔۔۔  خدا کی قسم شاردا۔ اگر تمہارا التفات مجھے نہ ملتا تو میں یقیناً خود کشی کر لیتا۔۔۔  تم میری آغوش میں ہو۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ساری دنیا کی خوشیوں سے میری جھولی بھری ہوئی ہے۔ میں بہت خوش نصیب ہوں۔‘‘

شاردا نے اپنا سر مختار کے کندھے پر گرا دیا۔ ’’آپ باتیں کرنا جانتے ہیں۔۔۔  مجھ سے اپنے دل کی بات نہیں کہی جاتی۔‘‘

دیر تک دونوں ایک دوسرے میں مدغم رہے۔ جب مختار وہاں سے گیا تو اس کی روح ایک نئی اور سہانی لذت سے معمور تھی۔ ساری رات وہ سوچتا رہا دوسرے دن کلکتے چلا گیا جہاں اس کا باپ کاروبار کرتا تھا۔ آٹھ دن کے بعد واپس آیا۔ شاردا حسبِ معمول کروشیے کا کام سیکھنے مقررہ وقت پر آئی۔ اس کی نگاہوں نے اس سے کئی باتیں کیں۔ کہاں غائب رہے اتنے دن؟۔۔۔  مجھ سے کچھ نہ کہا اور کلکتے چلے گئے؟۔۔۔  محبت کے بڑے دعوے کرتے تھے؟۔۔۔  میں نہیں بولوں گی تم سے۔۔۔  میری طرف کیا دیکھتے ہو، کیا کہنا چاہتے ہو مجھ سے؟۔

مختار بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر تنہائی نہیں تھی۔ وہ کافی طویل گفتگو اس سے کرنا چاہتا تھا۔ دو دن گزر گئے، موقعہ نہ ملا۔ نگاہوں ہی نگاہوں میں گونگی باتیں ہوتی رہیں۔ آخر تیسرے روز شاردا نے اسے بلایا۔ مختار بہت خوش ہوا۔ روپ کور اور اس کا خاوند لالہ کالہ مل گھر میں نہیں تھے۔

شاردا سیڑھیوں میں ملی۔ مختار نے وہیں اس کو اپنے سینے کے ساتھ لگانا چاہا، وہ تڑپ کر اوپر چلی گئی۔ ناراض تھی۔ مختار نے اس سے کہا۔ ’’دیکھ میری جان، میرے پاس بیٹھو، میں تم سے بہت ضروری باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ ایسی باتیں جن کا ہماری زندگی سے بڑا گہرا تعلق ہے۔‘‘

شاردا اس کے پاس پلنگ پر بیٹھ گئی۔ ’’تم بات ٹالو نہیں۔۔۔ بتاؤ مجھے بتائے بغیر کلکتے کیوں گئے۔۔۔ سچ میں بہت روئی۔‘‘

مختار نے بڑھ کر اس کی آنکھیں چومیں۔ ’’اس روز میں جب سے گیا تو ساری رات سوچتا رہا۔۔۔ جو کچھ اس روز ہوا اس کے بعد یہ سوچ بچار لازمی تھی۔ ہماری حیثیت میاں بیوی کی تھی۔ میں نے غلطی کی۔ تم نے کچھ نہ سوچا۔ ہم نے ایک ہی جست میں کئی منزلیں طے کر لیں اور یہ غور ہی نہ کیا کہ ہمیں جانا کس طرف ہے۔۔۔ سمجھ رہی ہو نا شاردا۔‘‘

شاردا نے آنکھیں جھکا لیں۔ ’’جی ہاں۔‘‘

’’میں کلکتے اس لیے گیا تھا کہ ابا جی سے مشورہ کروں۔ تمہیں سن کر خوشی ہو گی میں نے ان کو راضی کر لیا ہے۔’’ مختار کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ شاردا کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اس نے کہا۔ ’’میرے دل کا سارا بوجھ ہلکا ہو گیا ہے۔۔۔ میں اب تم سے شادی کر سکتا ہوں۔‘‘

شاردا نے ہولے سے کہا۔ ’’شادی۔‘‘

’’ہاں شادی۔‘‘

شاردا نے پوچھا۔ ’’کیسے ہو سکتی ہے ہماری شادی؟‘‘

مختار مسکرایا۔ ’’اس میں مشکل ہی کیا ہے۔۔۔ تم مسلمان ہو جانا!‘‘

شاردا ایک دم چونکی۔ ’’مسلمان۔‘‘

مختار نے بڑے اطمینان سے کہا۔ ’’ہاں ہاں۔۔۔ اس کے علاوہ اور ہو ہی کیا سکتا ہے۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ تمہارے گھر والے بڑا ہنگامہ مچائیں گے لیکن میں نے اس کا انتظام کر لیا ہے۔ ہم دونوں یہاں سے غائب ہو جائیں گے سیدھے کلکتے چلیں گے۔ باقی کام ابا جی کے سپرد ہے جس روز وہاں پہنچیں گے اسی روز مولوی بلا کر تمہیں مسلمان بنا دیں گے۔ شادی بھی اسی وقت ہو جائے گی۔‘‘

شاردا کے ہونٹ جیسے کسی نے سی دیے۔ مختار نے اس کی طرف دیکھا۔ ’’خاموش کیوں ہو گئیں۔‘‘

شاردا نہ بولی۔ مختار کو بڑی الجھن ہوئی۔ ’’بتاؤ شاردا کیا بات ہے؟‘‘

شاردا نے بہ مشکل اتنا کہا۔ ’’تم ہندو ہو جاؤ۔‘‘

’’میں ہندو ہو جاؤں؟‘‘ مختار کے لہجے میں حیرت تھی۔ وہ ہنسا ’’میں ہندو کیسے ہو سکتا ہوں۔‘‘

’’میں کیسے مسلمان ہو سکتی ہوں۔‘‘ شاردا کی آوار مدھم تھی۔

’’تم کیوں مسلمان نہیں ہو سکتیں۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ۔۔۔  تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔ اس کے علاوہ اسلام سب سے اچھا مذہب ہے۔۔۔ ہندو مذہب بھی کوئی مذہب ہے۔ گائے کا پیشاب پیتے ہیں۔ بت پوجتے ہیں۔۔۔  میرا مطلب ہے کہ ٹھیک ہے اپنی جگہ یہ مذہب بھی۔ مگر اسلام کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ’’مختار کے خیالات پریشان تھے۔‘‘ تم مسلمان ہو جاؤ گی تو بس۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

شاردا کے چہرے کا تانبے جیسا زرد رنگ زرد پڑ گیا۔ ’’آپ ہندو نہیں ہوں گے؟‘‘

مختار ہنسا۔ ’’پاگل ہو تم؟‘‘

شاردا کا رنگ اور زرد پڑ گیا۔ ’’آپ جائیے۔۔۔ وہ لوگ آنے والے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پلنگ پر سے اٹھی۔

مختار متحیر ہو گیا۔‘‘ لیکن شاردا۔۔۔ ‘‘

’’نہیں نہیں جائیے آپ۔۔۔ جلدی جائیے۔۔۔ وہ آ جائیں گے۔‘‘ شاردا کے لہجے میں بے اعتنائی کی سردی تھی۔

مختار نے اپنے خشک حلق سے بہ مشکل یہ الفاظ نکالے ’’ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ شاردا تم ناراض کیوں ہو گئیں؟‘‘

’’جاؤ۔۔۔ چلے جاؤ۔۔۔ ہمارا ہندو مذہب بہت برا ہے۔۔۔ تم مسلمان بہت اچھے ہو۔’’ شاردا کے لہجے میں نفرت تھی۔ وہ دوسرے کمرے میں چلی گئی اور دروازہ بند کر دیا۔ مختار اپنا اسلام سینے میں دبائے وہاں سے چلا گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

خالد میاں

 

 

ممتاز نے صبح سویرے اٹھ کر حسب معمول تینوں کمرے میں جھاڑو دی۔ کونے کھدروں سے سگرٹوں کے ٹکڑے، ماچس کی جلی ہوئی تیلیاں اور اسی طرح کی اور چیزیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالیں۔ جب تینوں کمرے اچھی طرح صاف ہو گئے تو اس نے اطمینان کا سانس لیا۔

اس کی بیوی باہر صحن میں سو رہی تھی۔ بچہ پنگوڑے میں تھا۔ ممتاز ہر صبح سویرے اٹھ کر صرف اس لیے خود تینوں کمروں میں جھاڑو دیتا تھا کہ اس کا لڑکا خالد اب چلتا پھرتا تھا اور عام بچوں کے مانند، ہر چیز جو اس کے سامنے آئے، اٹھا کر منہ میں ڈال لیتا تھا۔

ممتاز ہر روز تینوں کمرے بڑے احتیاط سے صاف کرتا مگر اس کو حیرت ہوتی جب خالد فرش پر اسے اپنے چھوٹے چھوٹے ناخنوں کی مدد سے کوئی نہ کوئی چیز اٹھا لیتا۔ فرش کا پلستر کئی جگہ اکھڑا ہوا تھا۔ جہاں کوڑے کرکٹ کے چھوٹے چھوٹے ذرے پھنس جاتے تھے۔ ممتاز اپنی طرف سے پوری صفائی کرتا مگر کچھ نہ کچھ باقی رہ جاتا جو اس کا پلوٹھی کا بیٹا خالد جس کی عمر ابھی ایک برس کی نہیں ہوئی تھی اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لیتا۔

ممتاز کو صفائی کا خبط ہو گیا تھا۔ اگر وہ خالد کو کوئی چیز فرش پر سے اٹھا کر اپنے منہ میں ڈالتے دیکھتا تو وہ خود کو اس کا ملزم سمجھتا۔ اپنے آپ کو دل ہی دل میں کوستا کہ اس نے کیوں بد احتیاطی کی۔ خالد سے اس کو پیار ہی نہیں عشق تھا، لیکن عجیب بات ہے کہ جوں جوں خالد کی پہلی سالگرہ کا دن نزدیک آتا تھا اس کا یہ وہم یقین کی صورت اختیار کرتا جاتا تھا کہ اس کا بیٹا ایک سال کا ہونے سے پہلے پہلے مر جائے گا۔

اپنے اس خوفناک وہم کا ذکر ممتاز اپنی بیوی سے بھی کر چکا تھا۔ ممتاز کے متعلق یہ مشہور تھا کہ وہ اوہام کا بالکل قائل نہیں۔ اس کی بیوی نے جب پہلی بار اس کے منہ سے ایسی بات سنی تو کہا۔ ’’آپ اور ایسے وہم۔۔۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہمارا بیٹا سو سال زندہ رہے گا۔۔۔ میں نے اس کی پہلی سالگرہ کے لیے ایسا اہتمام کیا ہے کہ آپ دنگ رہ جائیں گے۔‘‘

یہ سن کر ممتاز کے دل کو ایک دھکا سا لگا تھا۔ وہ کب چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا زندہ نہ رہے لیکن اس کے وہم کا کیا علاج تھا۔۔۔ خالد بڑا تندرست بچہ تھا۔ سردیوں میں جب نوکر ایک دفعہ اس کو باہر سیر کے لیے لے گیا تو واپس آ کر اس نے ممتاز کی بیوی سے کہا۔ ’’بیگم صاحب، آپ خالد میاں کے گالوں پر سرخی نہ لگایا کریں۔۔۔ کسی کی نظر لگ جائے گی۔‘‘

یہ سن کر اس کی بیوی بہت ہنسی تھی ’’بے وقوف مجھے کیا ضرورت ہے سرخی لگانے کی۔ ماشاء اللہ اس کے گال ہی قدرتی لال ہیں۔‘‘

سردیوں میں خالد کے گال بہت سرخ رہتے تھے مگر اب گرمیوں میں کچھ زردی مائل ہو گئے تھے اس کو پانی کا بہت شوق تھا۔ چنانچہ وہ انگڑائی لے کر اٹھتا اور دودھ کی بوتل پی لیتا تو دفتر جانے سے پہلے ممتاز اس کو پانی کی بالٹی میں کھڑا کر دیتا۔ دیر تک وہ پانی کے چھینٹے اڑا اڑا کر کھیلتا رہتا۔ ممتاز اور اس کی بیوی خالد کو دیکھتے اور بہت خوش ہوتے۔ لیکن ممتاز کی خوشی میں غم ایک برقی دھکا سا ضرور ہوتا۔ وہ سوچتا ’’خدا میری بیوی کی زبان مبارک کرے، لیکن یہ کیا یہ کہ مجھے اس کی موت کا کھٹکا رہتا ہے۔۔۔ یہ وہم کیوں میرے دل و دماغ میں بیٹھ گیا ہے کہ یہ مر جائے گا۔۔۔  کیوں مرے گا؟۔۔۔  اچھا بھلا صحت مند ہے۔ اپنی عمر کے بچوں سے کہیں زیادہ صحت مند۔۔۔  میں یقیناً پاگل ہوں۔ اس سے میری حد سے زیادہ بڑھی ہوئی محبت در اصل اس وہم کا باعث ہے۔۔۔  لیکن مجھے اس سے اتنی زیادہ محبت کیوں ہے؟۔۔۔ کیا سارے باپ اسی طرح بچوں سے پیار کرتے ہیں۔۔۔  کیا ہر بات کو اپنی اولاد کی موت کا کھٹکا لگا رہتا ہے؟۔۔۔ مجھے آخر ہو کیا گیا ہے۔؟

ممتاز نے جب حسب معمول تینوں کمرے اچھی طرح صاف کر دیے تو وہ فرش پر چٹائی بچھا کر لیٹ گیا۔ یہ اس کی عادت تھی۔ صبح اٹھ کر، جھاڑو وغیرہ دے کر وہ گرمیوں میں ضرور آدھے گھنٹے کے لیے چٹائی پر لیٹا کرتا تھا۔ بغیر تکیے کے اس طرح اس کو لطف محسوس ہوتا تھا۔

لیٹ کر وہ سوچنے لگا۔ ’’پرسوں میرے بچے کی پہلی سالگرہ ہے۔۔۔ اگر یہ بخیر و عافیت گزر جائے تو میرے دل کا سارا بوجھ ہلکا ہو جائے گا۔ یہ میرا وہم بالکل دور ہو جائے گا۔۔۔ اللہ میاں یہ سب تیرے ہاتھ میں ہے۔‘‘

اس کی آنکھیں بند تھیں۔ دفعتہً اس نے اپنے ننگے سینے پر بوجھ سا محسوس کیا۔ آنکھیں کھولیں تو دیکھا خالد ہے۔ اس کی بیوی پاس کھڑی تھی۔ اس نے کہا ’’ساری رات بے چین سا رہا ہے سوتے میں جیسے ڈر ڈر کے کانپتا رہا ہے۔‘‘

خالد، ممتاز کے سینے پر زور سے کانپا۔ ممتاز نے اس پر ہاتھ رکھا اور کہا۔ ’’خدا میرے بیٹے کا محافظ ہو!‘‘

ممتاز کی بیوی نے خفگی آمیز لہجے میں کہا۔ ’’توبہ، آپ کو بس وہموں نے گھیر رکھا ہے۔ ہلکا سا بخار ہے، انشاء اللہ دور ہو جائے گا۔‘‘

یہ کہہ کر ممتاز کی بیوی کمرے سے چلی گئی۔

ممتاز نے ہولے ہولے بڑے پیار سے خالد کو تھپکنا شروع کیا جو اس کی چھاتی پر اوندھا لیٹا تھا اور سوتے میں کبھی کبھی کانپ اٹھتا تھا۔ تھپکنے سے وہ جاگ پڑا۔ آہستہ آہستہ اس نے اپنی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں کھولیں اور باپ کو دیکھ کر مسکرایا۔ ممتاز نے اس کا منہ چوما۔ ’’کیوں میاں خالد کیا بات ہے۔۔۔ آپ کانپتے کیوں تھے۔‘‘

خالد نے مسکرا کر اپنا اٹھا ہوا سر باپ کی چھاتی پر گرا دیا۔ ممتاز نے پھر اس کو تھپکانا شروع کر دیا۔ دل میں وہ دعائیں مانگ رہا تھا کہ اس کے بیٹے کی عمر دراز ہو۔ اس کی بیوی نے خالد کی پہلی سالگرہ کے لیے بڑا اہتمام کیا تھا۔ اپنی ساری سہیلیوں سے کہا تھا کہ وہ اس تقریب پر ضرور آئیں۔ درزی سے خاص طور پر اس کی سالگرہ کے کپڑے سلوائے تھے۔ دعوت پر کیا کیا چیز ہو گی، یہ سب سوچ لیا تھا۔۔۔ ممتاز کو یہ ٹھاٹ پسند نہیں تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی کو خبر نہ ہو اور سالگرہ گزر جائے۔ خود اس کو بھی پتا نہ چلے اور اس کا بیٹا ایک برس کا ہو جائے۔ اس کو اس بات کا علم صرف اس وقت ہو جب خالد ایک برس اور کچھ دنوں کا ہو گیا ہو۔

خالد اپنے باپ کی چھاتی پر سے اٹھا۔ ممتاز نے اس سے محبت میں ڈوبے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’خالد بیٹا، سلام نہیں کرو گے ابا جی کو۔‘‘

خالد نے مسکرا کر ہاتھ اٹھایا اور اپنے سر پر رکھ دیا۔ ممتاز نے اس کو دعا دی ’’جیتے رہو۔‘‘ لیکن یہ کہتے ہی اس کے دل پر اس کے وہم کی ضرب لگی اور وہ غم و فکر کے سمندر میں غرق ہو گیا۔

خالد سلام کر کے کمرے سے باہر نکل گیا۔ دفتر جانے میں ابھی کافی وقت تھا۔ ممتاز چٹائی پر لیٹا رہا اور اپنے وہم کو دل و دماغ سے محو کرنے کی کوشش کرتارہا۔ اتنے میں باہر صحن سے اس کی بیوی کی آواز آئی۔ ’’ممتاز صاحب، ممتاز صاحب۔۔۔ اِدھر آئیے۔‘‘

آواز میں شدید گھبراہٹ تھی۔ ممتاز چونک کر اٹھا۔ دوڑ کر باہر گیا۔ دیکھا کہ اس کی بیوی خالد کو غسل خانے کے باہر گود میں لیے کھڑی ہے اور وہ اس کی گود میں بل پہ بل کھا رہا ہے۔۔۔ ممتاز نے اس کو اپنی بانہوں میں لے لیا اور بیوی سے جو کانپ رہی تھی پوچھا ’’کیا ہوا؟‘‘

اس کی بیوی نے خوفزدہ لہجے میں کہا۔ ’’معلوم نہیں۔۔۔ پانی سے کھیل رہا تھا۔۔۔ میں نے ناک صاف کی تو دوہرا ہو گیا۔‘‘

ممتاز کی بانہوں میں خالد ایسے بل کھا رہا تھا، جیسے کوئی اسے کپڑے کی طرح نچوڑ رہا ہے۔ سامنے چارپائی پڑی تھی۔ ممتاز نے اس کو وہاں لٹا دیا۔ میاں بیوی سخت پریشان تھے۔ وہ پڑا بل پہ بل کھا رہا تھا اور ان دونوں کے اوسان خطا تھے کہ وہ کیا کریں۔ تھپکایا، چوما، پانی کے چھپنٹے مارے مگر اس کا تشنج دور نہ ہوا۔ تھوڑی دیر کے بعد خود بخود دورہ آہستہ آہستہ ختم ہو گیا اور خالد پر بے ہوشی سی طاری ہو گئی۔ ممتاز نے سمجھا، مر گیا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی بیوی سے کہا۔ ’’ختم ہو گیا۔‘‘

وہ چلائی۔ ’’لا حول ولا۔۔۔ کیسی باتیں منہ سے نکالتے ہیں۔ کنولشن تھی۔ ختم ہو گئی۔ ابھی ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

خالد نے اپنی مرجھائی ہوئی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں کھولیں اور اپنے باپ کی طرف دیکھا۔ ممتاز کی ساری دنیا زندہ ہو گئی۔ بڑے ہی درد بھرے پیار سے اس نے خالد سے کہا۔ ’’کیوں خالد بیٹا۔۔۔ یہ کیا ہوا آپ کو؟‘‘

خالد کے ہونٹوں پر تشنج زدہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ممتاز نے اس کو گود میں اٹھا لیا اور اندر کمرے میں لے گیا۔ لٹانے ہی والا تھا کہ دوسری کنولشن آئی۔ خالد پھر بل کھانے لگا۔ جس طرح مرگی کا دورہ ہوتا ہے، یہ تشنج بھی اسی قسم کا تھا۔ ممتاز کو ایسا محسوس ہوتا کہ خالد نہیں بلکہ وہ اس اذیت کے شکنجے میں کسا جا رہا ہے۔

دوسرا دورہ ختم ہوا تو خالد اور زیادہ مرجھا گیا۔ اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں دھنس گئیں۔ ممتاز اس سے باتیں کرنے لگا۔

’’خالد بیٹے، یہ کیا ہوتا ہے آپ کو؟‘‘

’’خالد میاں، اٹھو نا۔۔۔ چلو پھرو‘‘

’’خالدی۔۔۔ مکھن کھائیں گے آپ؟‘‘

خالد کو مکھن بہت پسند تھا مگر اس نے یہ سن کر اپنا سر ہلا کر ہاں نہ کی، لیکن جب ممتاز نے کہا۔ ’’بیٹے، گلو کھائیں گے آپ؟‘‘ تو اس نے بڑے نحیف انداز میں نہیں کے طور پر اپنا سر ہلایا۔ ممتاز مسکرایا اور خالد کو اپنے گلے سے لگا لیا پھر اس کو اپنی بیوی کے حوالے کیا اور اس سے کہا۔ ’’تم اس کا دھیان رکھو میں ڈاکٹر لے کر آتا ہوں۔‘‘

ڈاکٹر ساتھ لے کر آیا تو ممتاز کی بیوی کے ہوش اڑے ہوئے تھے۔ اس کی غیر حاضری میں خالد پر تشنج کے تین اور دورے پڑ چکے تھے۔ ان کے باعث وہ بیجان ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر نے اسے دیکھا اور کہا۔ ’’تردد کی کوئی بات نہیں۔ ایسی کنولشن بچوں کو عموماً آیا کرتی ہے۔۔۔ اس کی وجہ دانت ہیں۔ معدے میں کرم وغیرہ ہوں تو وہ بھی اس کا باعث ہو سکتے ہیں۔۔۔ میں دوا لکھ دیتا ہوں۔ آرام آ جائے گا۔ بخار تیز نہیں ہے، آپ کوئی فکر نہ کریں۔‘‘

ممتاز نے دفتر سے چھٹی لے لی اور سارا دن خالد کے پاس بیٹھا رہا۔ ڈاکٹر کے جانے کے بعد اس کو دو مرتبہ اور دورے پڑے۔ اس کے بعد وہ نڈھال لیٹا رہا۔ شام ہو گئی تو ممتاز نے سوچا۔ ’’شاید اب اللہ کا فضل ہو گیا ہے۔۔۔ اتنے عرصے میں کوئی کنولشن نہیں آئی۔۔۔ خدا کرے رات اسی طرح کٹ جائے۔‘‘

ممتاز کی بیوی بھی خوش تھی۔ ’’اللہ تعالیٰ نے چاہا تو کل میرا خالد دوڑتا پھرے گا۔‘‘

رات کو چونکہ مقر رہ اوقات پر دوا دینی تھی، اس لیے ممتاز چارپائی پر نہ لیٹا کہ شاید سو جائے۔ خالد کے پنگوڑے کے پاس آرام کرسی رکھ کر وہ بیٹھ گیا اور ساری رات جاگتا رہا، کیونکہ خالد بے چین تھا۔ کانپ کانپ کر بار بار جاگتا تھا۔ حرارت بھی تیز تھی۔

صبح سات بجے کے قریب ممتاز نے تھرمامیٹر لگا کے دیکھا تو ایک سو چار ڈگری بخار تھا۔ ڈاکٹر بلایا۔ اس نے کہا ’’تردد کی کوئی بات نہیں، برونکائٹس ہے میں نسخہ لکھ دیتا ہوں۔ تین چار روز میں آرام آ جائے گا۔‘‘

ڈاکٹر نسخہ لکھ کر چلا گیا۔ ممتاز دوا بنوا لایا۔ خالد کو ایک خوراک پلائی مگر اس کو تسکین نہ ہوئی۔ دس بجے کے قریب وہ ایک بڑا ڈاکٹر لایا۔ اس نے اچھی طرح خالد کو دیکھا اور تسلی دی، گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

سب ٹھیک نہ ہوا۔ بڑے ڈاکٹر کی دوا نے کوئی اثر نہ کیا۔ بخار تیز ہوتا گیا۔

ممتاز کے نوکر نے کہا۔ ’’صاحب، بیماری وغیرہ کوئی نہیں۔۔۔ خالد میاں کو نظر لگ گئی ہے میں ایک تعویذ لکھوا کر لایا ہوں۔ اللہ کے حکم سے یوں چٹکیوں میں اثر کرے گا۔‘‘

سات کنوؤں کا پانی اکھٹا کیا گیا۔ اس میں یہ تعویذ گھول کر خالد کو پلایا گیا۔ کوئی اثر نہ ہوا۔ ہمسائی آئی۔ وہ ایک یونانی دوا تجویز کر گئی۔ ممتاز یہ دوا لے آیا مگر اس نے خالد کو نہ دی۔ شام کو ممتاز کا ایک رشتے دار آیا۔ ساتھ اس کے ایک ڈاکٹر تھا۔ اس نے خالد کو دیکھا اور کہا۔ ’’ملیریا ہے۔۔۔ اتنا بخار ملیریا ہی میں ہوتا ہے۔ آپ اس میں برف کا پانی ڈالیے۔ میں کونین کا انجکشن دیتا ہوں۔‘‘

برف کا پانی ڈالا گیا۔ بخار ایک دم کم ہو گیا۔ درجہ حرارت اٹھانوے ڈگری تک آ گیا۔ ممتاز اور اس کی بیوی کی جان میں جان آئی۔ لیکن تھوڑے ہی عرصے میں بخار بہت ہی تیز ہو گیا۔ ممتاز نے تھرما میٹر لگا کر دیکھا۔ درجہ حرارت ایک سو چھ تک پہنچ گیا تھا۔

ہمسائی آئی۔ اس نے خالد کو مایوس نظروں سے دیکھا اور ممتاز کی بیوی سے کہا ’’بچے کی گردن کا منکا ٹوٹ گیا ہے۔‘‘

ممتاز اور اس کی بیوی کے دل بیٹھ گئے۔ ممتاز نے نیچے کارخانے سے ہسپتال فون کیا۔ ہسپتال والوں نے کہا مریض لے آؤ۔ ممتاز نے فوراً ٹانگہ منگوایا۔ خالد کو گود میں لیا۔ بیوی کو ساتھ بٹھایا اور ہسپتال کا رخ کیا۔ سارا دن وہ پانی پیتا رہا تھا۔ مگر پیاس تھی کہ بجھتی ہی نہیں تھی۔ ہسپتال جاتے ہوئے راستے میں اس کا حلق بے حد خشک ہو گیا۔ اس نے سوچا اتر کر کسی دکان سے ایک گلاس پانی پی لے، لیکن خدا معلوم کہاں سے یہ وہم ایک دم اس کے دماغ میں آن ٹپکا، دیکھو اگر تم نے پانی پیا تو تمہارا خالد مر جائے گا۔‘‘

ممتاز کا حلق سوکھ کے لکڑی ہو گیا مگر اس نے پانی نہ پیا۔ ہسپتال کے قریب ٹانگہ پہنچا تو اس نے سگریٹ سلگایا۔ وہی کش لیے تھے تو اس نے ایک دم سگریٹ پھینک دیا۔ اس کے دماغ میں یہ وہم گونجا تھا ’’ممتاز سگریٹ نہ پیو تمہارا بچہ مر جائے گا۔‘‘

ممتاز نے ٹانگہ ٹھہرایا۔ اس نے سوچا۔ ’’یہ کیا حماقت ہے۔۔۔ یہ وہم سب فضول ہے۔ سگریٹ پینے سے بچے پر کیا آفت آ سکتی ہے۔‘‘

ٹانگے سے اتر کر اس نے سڑک پر سے سگریٹ اٹھایا۔ واپس ٹانگے میں بیٹھ کر جب اس نے کش لینا چاہا تو کسی نامعلوم طاقت نے اس کو روکا۔ ’’نہیں ممتاز، ایسا نہ کرو۔ خالد مر جائے گا۔‘‘

ممتاز نے سگریٹ زور سے پھینک دیا۔۔۔ ٹانگے والے نے گھُور کے اس کو دیکھا۔ ممتاز نے محسوس کیا کہ جیسے اس کو اس کی دماغی کیفیت کا علم ہے اور وہ اس کا مذاق اڑا رہا ہے۔ اپنی خفت دور کرنے کی خاطر نے ٹانگے والے سے کہا۔ ’’خراب ہو گیا تھا سگریٹ‘‘ یہ کہہ اس نے جیب سے ایک نیا سگرٹ نکالا۔ سلگانا چاہا مگر ڈر گیا۔ اس کے دل و دماغ میں ہلچل سی مچ گئی۔ ادر اک کہتا تھا کہ یہ اوہام سب فضول ہیں مگر کوئی ایسی آواز تھی۔ کوئی ایسی طاقت تھی جو اس کے منطق اس کے استدلال، اس کے ادراک پر غالب آ جاتی تھی۔

ٹانگہ ہسپتال کے پھاٹک میں داخل ہوا تو اس نے سگریٹ انگلیوں میں مسل کر پھینک دیا۔ اس کو اپنے اوپر بہت ترس آیا کہ اوہام کا غلام بن گیا ہے۔

ہسپتال والوں نے فوراً ہی خالد کو داخل کر لیا۔ ڈاکٹر نے دیکھا اور کہا۔ ’’برونگو نمونیا ہے۔ حالت مخدوش ہے۔‘‘

خالد بے ہوش تھا۔ ماں اس کے سرہانے بیٹھی ویران نگاہوں سے اس کو دیکھ رہی تھی۔ کمرے کے ساتھ غسل خانہ تھا۔ ممتاز کو سخت پیاس لگ رہی تھی۔ نل کھول کر اوک سے پانی پینے لگا تو پھر وہی وہم اس کے دماغ میں گونجا ’’ممتاز، یہ کیا کر رہے ہو تم۔ مت پانی پیو۔۔۔  تمہارا خالد مر جائے گا۔‘‘

ممتاز نے دل میں اس وہم کو گالی دی اور انتقاماً اتنا پانی پیا کہ اس کا پیٹ اپھر گیا۔ پانی پی کر غسل خانے سے باہر آیا تو اس کا خالد اسی طرح مرجھایا ہوا بے ہوش ہسپتال کے آہنی پلنگ پر پڑا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کہیں بھاگ جائے۔۔۔ اس کے ہوش و حواس غائب ہو جائیں۔۔۔ خالد اچھا ہو جائے اور وہ اس کے بدلے نمونیا میں گرفتار ہو جائے۔

ممتاز نے محسوس کیا کہ خالد اب پہلے سے زیادہ زرد ہے۔ اس نے سوچا، یہ سب اس کے پانی پی لینے کا باعث ہے۔۔۔  اگر وہ پانی نہ پیتا تو ضرور خالد کی حالت بہتر ہو جاتی۔ اس کو بہت دکھ ہوا۔ اس نے خود کو بہت لعنت ملامت کی مگر پھر اس کو خیال آیا کہ جس نے یہ بات سوچی تھی کہ وہ ممتاز نہیں کوئی اور تھا۔۔۔ اور کون تھا؟۔۔۔ کیوں اس کے دماغ میں ایسے وہم پیدا ہوتے تھے۔ پیاس لگتی تھی، پانی پی لیا۔ اس سے خالد پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔۔۔ خالد ضرور اچھا ہو جائے گا۔۔۔ پرسوں اس کی سالگرہ ہے۔ انشاء اللہ خوب ٹھاٹ سے منائی جائے گی۔

لیکن فوراً ہی اس کا دل بیٹھ جاتا۔ کوئی آواز اس سے کہتی ’’خالد ایک برس کا ہونے ہی نہیں پائے گا‘‘۔۔۔ ممتاز کا جی چاہتا کہ وہ اس آواز کی زبان پکڑ لے اور اسے گدی سے نکال دے مگر یہ آواز تو خود اس کے دماغ میں پیدا ہوتی تھی خدا معلوم کیسے ہوتی تھی۔۔۔  کیوں ہوتی تھی۔

ممتاز اس قدر تنگ آ گیا کہ اس نے دل ہی دل میں اپنے اوہام سے گڑگڑا کر کہا۔ ’’خدا کے لیے مجھ پر رحم کرو۔۔۔ کیوں تم مجھ غریب کے پیچھے پڑ گئے ہو!‘‘

شام ہو چکی تھی۔ کئی ڈاکٹر خالد کو دیکھ چکے تھے۔ دوا دی جا رہی تھی۔ کئی انجکشن بھی لگ چکے تھے مگر خالد ابھی تک بے ہوش تھا۔ دفعتہً ممتاز کے دماغ میں یہ آواز گونجی ’’تم یہاں سے چلے جاؤ۔۔۔ فوراً چلے جاؤ، ورنہ خالد مر جائے گا۔‘‘

ممتاز کمرے سے باہر چلا گیا۔ ہسپتال سے باہر چلا گیا۔ اس کے دماغ میں آوازیں گونجتی رہیں۔ اس نے اپنے آپ کو ان آوازوں کے حوالے کر دیا۔ اپنی ہر جنبش، اپنی ہر حرکت ان کے حکم کے سپرد کر دی۔۔۔  یہ اسے ایک ہوٹل میں لے گئیں۔ انھوں نے اس کو شراب پینے کے لیے کہا۔ شراب آئی تو اسے پھینک دینے کا حکم دیا۔ ممتاز نے ہاتھ سے گلاس پھینک دیا تو اور منگوانے کیلیے کہا۔ دوسرا گلاس آیا تو اسے بھی پھینک دینے کے لیے کہا۔

شراب اور ٹوٹے ہوئے گلاسوں کے بل ادا کر کے ممتاز باہر نکلا۔ اس کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ چاروں طرف خاموشی ہی خاموشی ہے۔۔۔  صرف اس کا دماغ ہے جہاں شور برپا ہے۔ چلتا چلتا وہ ہسپتال پہنچ گیا۔ خالد کے کمرے کا رخ کیا تو اسے حکم ہوا؟ ’’مت جاؤ ادھر۔۔۔ تمہارا خالد مر جائے گا۔‘‘

وہ لوٹ آیا۔۔۔ گھاس کا میدان تھا۔ وہاں ایک بنچ پڑی تھی۔ اس پر لیٹ گیا۔۔۔ رات کے دس بج چکے تھے۔ میدان میں اندھیرا تھا۔ چاروں طرف خاموشی تھی۔ کبھی کبھی کسی موٹر کے ہارن کی آواز اس خاموشی میں خراش پیدا کرتی ہوئی گزر جاتی۔ سامنے اونچی دیوار میں ہسپتال کا روشن کلاک تھا۔۔۔ ممتاز، خالد کے متعلق سوچ رہا۔ ’’کیا وہ بچ جائے گا۔۔۔ یہ بچے کیوں پیدا ہوتے ہیں جنھیں مرنا ہوتا ہے۔۔۔ وہ زندگی کیوں پیدا ہوتی ہے جسے اتنی جلدی موت کے منہ میں جانا ہوتا ہے۔۔۔ خالد ضرور۔۔۔ ‘‘

ایک دم اس کے دماغ میں ایک وہم پھوٹا۔ بنچ پر سے اتر کر وہ سجدے میں گر گیا۔ حکم تھا اسی طرح پڑے رہو جب تک خالد ٹھیک نہ ہو جائے۔ ممتاز سجدے میں پڑا رہا۔ وہ دعا مانگنا چاہتا تھا مگر حکم تھا کہ مت مانگو۔ ممتاز کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ خالد کے لیے نہیں، اپنے لیے دعا مانگنے لگا۔ ’’خدایا مجھے اس اذیت سے نجات دے۔۔۔ تجھے اگر خالد کو مارنا ہے تو مار دے، یہ میرا کیا حشر کر رہا ہے تو‘‘

دفعتاً اسے آوازیں سنائی دیں۔ اس سے کچھ دور دور آدمی کرسیوں پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اور آپس میں باتیں کر رہے تھے۔‘‘

’’بچہ بڑا خوبصورت ہے۔‘‘

’’ماں کا حال مجھ سے تو دیکھا نہیں گیا۔‘‘

’’بیچاری ہر ڈاکٹر کے پاؤں پڑ رہی تھی۔‘‘

’’ہم نے اپنی طرف سے تو ہر ممکن کوشش کی۔‘‘

’’بچنا محال ہے۔‘‘

’’میں نے یہی کہا تھا ماں سے کہ دعا کرو بہن!‘‘

ایک ڈاکٹر نے ممتاز کی طرف دیکھا جو سجدے میں پڑا تھا۔ اس کو زور سے آواز دی۔ ’’اے، کیا کر رہا ہے تو۔۔۔ اِدھر آ‘‘

ممتاز اٹھ کر دونوں ڈاکٹروں کے پاس گیا۔ ایک نے اس سے پوچھا۔ ’’کون ہو تم؟‘‘

ممتاز نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر جواب دیا۔ ’’میں ایک مریض۔۔۔‘‘

ڈاکٹر نے سختی سے کہا۔ ’’مریض ہو تو اندر جاؤ۔۔۔ یہاں میدان میں ڈنڑ کیوں پیلتے ہو؟‘‘

ممتاز نے کہا۔ ’’جی، میرا بچہ ہے۔۔۔ اُدھر اس وارڈ میں۔‘‘

’’وہ تمہارا بچہ ہے جو۔۔۔‘‘

’’جی ہاں۔۔۔  شاید آپ اسی کی باتیں کر رہے تھے۔۔۔  وہ میرا بچہ ہے۔۔۔  خالد‘‘

’’آپ اس کے باپ ہیں؟‘‘

ممتاز نے اپنا غم و اندوہ سے بھرا ہوا سر ہلایا۔ ’’جی ہاں میں اس کا باپ ہوں۔‘‘

ڈاکٹر نے کہا۔ ’’آپ یہاں بیٹھے ہیں۔ جائیے آپ کی وائف بہت پریشان ہیں۔‘‘

جی اچھا۔ کہہ کر ممتاز وارڈ کی طرف روانہ ہوا۔ سیڑھیاں طے کر کے جب اوپر پہنچا تو کمرے کے باہر اس کا نوکر رو رہا تھا۔ ممتاز کو دیکھ کر اور زیادہ رونے لگا۔ ’’صاحب خالد میاں فوت ہو گئے۔‘‘

ممتاز اندر کمرے میں گیا۔ اس کی بیوی بے ہوش پڑی تھی۔ ایک ڈاکٹر اور نرس اس کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ممتاز پلنگ کے پاس کھڑا ہو گیا۔ خالد آنکھیں بند کیے پڑا تھا۔ اس کے چہرے پر موت کا سکون تھا۔ ممتاز نے اس کے ریشمیں بالوں پر ہاتھ پھیرا اور دل چیر دینے والے لہجے میں اس سے پوچھا۔ ’’خالد میاں۔۔۔ گگو کھائیں گے آپ؟‘‘

خالد کا سر نفی میں نہ ہلا۔ ممتاز نے پھر درخواست بھرے لہجے میں کہا۔ ‘‘خالد میاں۔۔۔ میرے وہم لے جائیں گے اپنے ساتھ؟‘‘

ممتاز کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے خالد نے سر ہلا کر ہاں کی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

شانتی

 

دونوں پیرے ژین ڈیری کے باہر بڑے دھاریوں والے چھاتے کے نیچے کرسیوں پر بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ ادھر سمندر تھا جس کی لہروں کی گنگناہٹ سنائی دے رہی تھی۔ چائے بہت گرم تھی۔ اس لیے دونوں آہستہ آہستہ گھونٹ بھر رہے تھے موٹی بھوروں والی یہودن کی جانی پہچانی صورت تھی۔ یہ بڑا گول مٹول چہرہ، تیکھی ناک۔ موٹے موٹے بہت ہی زیادہ سرخی لگے ہونٹ۔ شام کو ہمیشہ درمیان والے دروازے کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھی دکھائی دیتی تھی۔ مقبول نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور بلراج سے کہا۔ ’’بیٹھی ہے جال پھینکنے۔‘‘

بلراج موٹی بھوؤں کی طرف دیکھے بغیر بولا۔ ’’پھنس جائے گی کوئی نہ کوئی مچھلی۔‘‘

مقبول نے ایک پیسٹری منہ میں ڈالی۔ ’’یہ کاروبار بھی عجیب کاروبار ہے۔ کوئی دکان کھول کر بیٹھتی ہے۔ کوئی چل پھر کے سودا بیچتی ہے۔ کوئی اس طرح ریستورانوں میں گاہک کے انتظار میں بیٹھی رہتی ہے۔۔۔ جسم بیچنا بھی ایک آرٹ ہے، اور میرا خیال ہے بہت مشکل آرٹ ہے۔۔۔ یہ موٹی بھوؤں والی کیسے گاہک کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ کیسے کسی مرد کو یہ بتاتی ہو گی کہ وہ بکاؤ ہے۔‘‘

بلراج مسکرایا۔ ’’کسی روز وقت نکالو کہ کچھ دیر یہاں بیٹھو۔ تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ نگاہوں ہی نگاہوں میں کیوں کر سودے ہوتے ہیں اس جنس کا بھاؤ کیسے چُکتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ایک مقبول کا ہاتھ پکڑا۔ ’’اُدھر دیکھو، اُدھر۔‘‘

مقبول نے موٹی یہودن کی طرف دیکھا۔ بلراج نے اس کا ہاتھ دبایا۔ ’’نہیں یار۔۔۔ اُدھر کونے کے چھاتے کے نیچے دیکھو۔‘‘

مقبول نے ادھر دیکھا۔ ایک دبلی پتلی، گوری چٹی لڑکی کرسی پر بیٹھ رہی تھی۔ بال کٹے ہوئے تھے۔ ناک نقشہ ٹھیک تھا۔ ہلکے زرد رنگ کی جارجٹ کی ساڑھی میں ملبوس تھی۔ مقبول نے بلراج سے پوچھا۔ ’’کون ہے یہ لڑکی؟‘‘

بلراج نے اس لڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ ’’اماں وہی ہے جس کے بارے میں تم سے کہا تھا کہ بڑی عجیب و غریب ہے۔‘‘

مقبول نے کچھ دیر سوچا پھر کہا۔ ’’کون سی یار تم، تم تو جس لڑکی سے بھی ملتے ہو عجیب وغریب ہی ہوتی ہے۔‘‘

بلراج مسکرایا۔ ’’یہ بڑی خاص الخاص ہے۔۔۔ ذرا غور سے دیکھو۔‘‘

مقبول نے غور سے دیکھا۔ بریدہ بالوں کا رنگ بھوسلا تھا۔ ہلکے بسنتی رنگ کی ساڑھی کے نیچے چھوٹی آستینوں والا بلاؤز۔ پتلی پتلی بہت ہی گوری بانہیں۔ لڑکی نے اپنی گردن موڑی تو مقبول نے دیکھا کہ اس کے باریک ہونٹوں پر سرخی پھیلی ہوئی سی تھی۔ ’’میں اور تو کچھ نہیں کہہ سکتا مگر تمہاری اس عجیب و غریب لڑکی کو سرخی استعمال کرنے کا سلیقہ نہیں ہے۔۔۔ اب اور غور سے دیکھا ہے تو ساڑھی کی پہناوٹ میں بھی خامیاں نظر آئی ہیں۔ بال سنوارنے کا انداز بھی ستھرا نہیں۔‘‘

بلراج ہنسا۔ ’’تم صرف خامیاں ہی دیکھتے ہو۔ اچھائیوں پر تمہاری نگاہ کبھی نہیں پڑتی۔‘‘

مقبول نے کہا۔ ’’جو اچھائیاں ہیں وہ اب بیان فرما دیجیے، لیکن پہلے یہ بتا دیجیے کہ آپ اس لڑکی کو ذاتی طور پر جانتے ہیں یا۔۔۔‘‘

لڑکی نے جب بلراج کو دیکھا تو مسکرائی۔ مقبول رک گیا۔ ’’مجھے جواب مل گیا۔ اب آپ محترمہ کی خوبیاں بتا دیجیے۔‘‘

سب سے پہلی خوبی اس لڑکی میں یہ ہے کہ بہت صاف گو ہے۔ کبھی جھوٹ نہیں بولتی۔ جو اس اس نے اپنے لیے بنا رکھے ہیں ان پر بڑی پابندی سے عمل کرتی ہے۔ پرسنل ہائی جین کا بہت خیال رکھتی ہے۔ محبت و حبت کی بالکل قائل نہیں۔ اس معاملے میں دل اس کا برف ہے۔‘‘

بلراج نے چائے کا آخری گھونٹ پیا ’’کہیے کیا خیال ہے؟‘‘

مقبول نے لڑکی کو ایک نظر دیکھا۔ ’’جو خوبیاں تم نے بتائی ہیں ایک ایسی عورت میں نہیں ہونی چاہئیں۔ جس کے پاس مرد صرف اس خیال سے جاتے ہیں کہ وہ ان سے اصلی نہیں تو مصنوعی محبت ضرور کرے گی۔۔۔ خود فریبی ہیں اگر یہ لڑکی کسی مرد کی مدد نہیں کرتی تو میں سمجھتا ہوں بڑی بے وقوف ہے۔‘‘

’’یہی میں نے سوچا تھا۔۔۔ میں تم سے کیا بیان کروں، روکھے پن کی حد تک صاف گو ہے۔ اس سے باتیں کرو تو کئی بار دھکے سے لگتے ہیں۔۔۔ ایک گھنٹہ ہو گیا۔ تم نے کھلی کوئی کام کی بات نہیں کی۔۔۔ میں چلی، اور یہ جا وہ جا۔۔۔ تمہارے منہ سے شراب کی بو آتی ہے۔ جاؤ چلے جاؤ۔۔۔ ساڑھی کو ہاتھ مت لگاؤ میلی ہو جائے گی‘‘ یہ کہہ کر بلراج نے سگریٹ سلگایا۔ ’’عجیب و غریب لڑکی ہے۔ پہلی دفعہ جب اس سے ملاقات ہوئی تو میں بائی گوڈ چکرا گیا۔ چھوٹتے ہی مجھ سے کہا۔ ففٹی سے ایک پیسہ کم نہیں ہو گا۔ جیب میں ہیں تو چلو ورنہ مجھے اور کام ہیں۔‘‘

مقبول نے پوچھا۔ ’’نام کیا ہے اس کا۔‘‘

’’شانتی بتایا اس نے۔۔۔ کشمیرن ہے‘‘

مقبول کشمیری تھا۔ چونک پڑا ’’کشمیرن!‘‘

’’تمہاری ہم وطن۔‘‘

مقبول نے لڑکی کی طرف دیکھا۔ ناک نقشہ صاف کشمیریوں کا تھا۔ ’’یہاں کیسے آئی؟‘‘

’’معلوم نہیں!‘‘

’’کوئی رشتے دار ہے اس کا؟‘‘ مقبول لڑکی میں دلچسپی لینے لگا۔

’’وہاں کشمیر میں کوئی ہو تو میں کہہ نہیں سکتا۔ یہاں بمبئی میں اکیلی رہتی ہے۔‘‘ بلراج نے سگریٹ ایش ٹرے میں دبایا ’’ہاربنی روڈ یر ایک ہوٹل ہے، وہاں اس نے ایک کمرہ کرائے پر لے رکھا ہے۔۔۔ یہ مجھے ایک روز اتفاقاً معلوم ہو گیا ورنہ یہ اپنے ٹھکانے کا پتا کسی کو نہیں دیتی۔ جس کو ملنا ہوتا ہے یہاں پیرے ژین ڈیری میں چلا آتا ہے۔ شام کو پورے پانچ بجے آتی ہے یہاں!‘‘

مقبول کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر بیرے کو اشارے سے بلایا اور اس سے بل لانے کے لیے کہا۔ اس دوران میں ایک خوش پوش نوجوان آیا اور اس لڑکی کے پاس والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ دونوں باتیں کرنے لگے۔ مقبول بلراج سے مخاطب ہوا۔ ’’اس سے کبھی ملاقات کرنی چاہیے۔‘‘

بلراج مسکرایا۔ ’’ضرور ضرور۔۔۔ لیکن اس وقت نہیں۔ مصروف ہے۔ کبھی آ جانا یہاں شام کو۔۔۔ اور ساتھ بیٹھ جانا۔‘‘

مقبول نے بل ادا کیا۔ دونوں دوست اٹھ کر چلے گئے۔

دوسرے روز مقبول اکیلا آیا اور چائے کا آرڈر دے کر بیٹھ گیا۔ ٹھیک پانچ بجے وہ لڑکی بس سے اتری اور پرس ہاتھ میں لٹکائے مقبول کے پاس سے گزری۔ چال بھدی تھی۔ جب وہ کچھ دور، کرسی پر بیٹھ گئی تو مقبول نے سوچا۔ ’’اس میں جنسی کشش تو نام کو بھی نہیں۔ حیرت ہے کہ اس کا کاروبار کیونکر چلتا ہے۔۔۔ لپ اسٹک کیسے بے ہودہ طریقے سے استعمال کی ہے اس نے۔۔۔ ساڑھی کی پہناوٹ آج بھی خامیوں سے بھری ہے۔

پھر اس نے سوچا کہ اس سے کیسے ملے۔ اس کی چائے میز پر آ چکی تھی ورنہ اٹھ کر وہ اس لڑکی کے پاس جا بیٹھتا۔ اس نے چائے پینا شروع کر دی۔ اس دوران میں اس نے ایک ہلکا سا اشارہ کیا۔ لڑکی نے دیکھا کچھ توقف کے بعد اٹھی اور مقبول کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ مقبول پہلے تو کچھ گھبرایا لیکن فوراً ہی سنبھل کر لڑکی سے مخاطب ہوا۔ ’’چائے شوق فرمائیں گی آپ۔‘‘

’’نہیں۔‘‘

اس کے جوابوں کے اس اختصار میں روکھا پن تھا۔ مقبول نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا۔ ’’کشمیریوں کو تو چائے کا بڑا شوق ہوتا ہے۔‘‘

لڑکی نے بڑے بے ہنگم انداز میں پوچھا۔ ’’تم چلنا چاہتے ہو میرے ساتھ۔‘‘

مقبول کو جیسے کسی نے اوندھے منہ گرا دیا۔ گھبراہٹ میں وہ صرف اس قدر کہہ سکا۔ ’’ہا۔۔۔ ‘‘

لڑکی نے کہا۔ ’’ففٹی روپیز۔۔۔ یس اور نو؟‘‘

یہ دوسرا ریلا تھا مگر مقبول نے اپنے قدم جما لیے ’’چلیے!‘‘

مقبول نے چائے کا بل ادا کیا۔ دونوں اٹھ کر ٹیکسی اسٹینڈ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں اس نے کوئی بات نہ کی۔ لڑکی بھی خاموش رہی۔ ٹیکسی میں بیٹھے تو اس نے مقبول سے پوچھا۔ ’’کہاں جائے گا تم؟‘‘

مقبول نے جواب دیا۔ ’’جہاں تم لے جاؤ گی۔‘‘

’’ہم کچھ نہیں جانتا۔۔۔ تم بولو کدھر جائے گا؟‘‘

مقبول کو کوئی اور جواب نہ سوجھا تو کہا۔ ’’ہم کچھ نہیں جانتا!‘‘

لڑکی نے ٹیکسی کا دروازہ کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ ’’تم کیسا آدمی ہے۔۔۔ خالی پیلی جوک کرتا ہے۔‘‘

مقبول نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ’’میں مذاق نہیں کرتا۔۔۔ مجھے تم سے صرف باتیں کرنی ہیں۔‘‘

وہ بگڑ کر بولی ’’کیا۔۔۔ تم تو بولا تھا ففٹی روپیز یس!‘‘

مقبول نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور دس دس کے پانچ نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیے۔ ’’یہ لو گھبراتی کیوں ہو۔‘‘

اس نے نوٹ لے لیے۔ ’’تم جائے گا کہاں۔‘‘

مقبول نے کہا۔ ’’تمہارے گھر۔‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’کیوں نہیں۔‘‘

’’تم کو بولا ہے نہیں۔۔۔ ادھر ایسی بات نہیں ہو گی۔‘‘

مقبول مسکرایا۔ ’’ٹھیک ہے۔ ایسی بات ادھر نہیں ہو گی۔‘‘

وہ کچھ متحیر سی ہوئی۔ ’’تم کیسا آدمی ہے۔‘‘

’’جیسا میں ہوں۔ تم نے بولا ففٹی روپیز یس کہ نو۔۔۔ میں نے کہا یس اور نوٹ تمہارے حوالے کر دیے۔ تم نے بولا اُدھر ایسی بات نہیں ہو گی۔ میں نے کہا بالکل نہیں ہو گی۔۔۔ اب اور کیا کہتی ہو۔‘‘

لڑکی سوچنے لگی۔ مقبول مسکرایا۔ ’’دیکھو شانتی، بات یہ ہے۔ کل تم کو دیکھا۔ ایک دوست نے تمہاری کچھ باتیں سنائیں جو مجھے دلچسپ معلوم ہوئیں۔ آج میں نے تمہیں پکڑ لیا۔ اب تمہارے گھر چلتے ہیں۔ وہاں کچھ دیر تم سے باتیں کروں گا اور چلا جاؤں گا۔۔۔ کیا تمہیں یہ منظور نہیں۔‘‘

’’نہیں۔۔۔ یہ لو اپنے ففٹی روپیز۔‘‘ لڑکی کے چہرے پر جھنجلاہٹ تھی۔

’’تمہیں بس ففٹی روپیز کی پڑی ہے۔۔۔ روپے کے علاوہ بھی دنیا میں اور بہت سی چیزیں ہیں۔۔۔  چلو، ڈرائیور کو اپنا اڈریس بتاؤ۔۔۔ میں شریف آدمی ہوں۔ تمہارے ساتھ کوئی دھوکا نہیں کروں گا۔‘‘ مقبول کے انداز گفتگو میں صداقت تھی۔ لڑکی متاثر ہوئی۔ اس نے کچھ دیر سوچا پھر کہا۔ ’’چلو۔۔۔ ڈرائیور، ہاربنی روڈ!‘‘

ٹیکسی چلی تو اس نے نوٹ مقبول کی جیب میں ڈال دیے۔ ’’یہ میں نہیں لوں گی۔‘‘

مقبول نے اصرار نہ کیا۔ ’’تمہاری مرضی!‘‘

ٹیکسی ایک پانچ منزلہ بلڈنگ کے پاس رکی۔ پہلی اور دوسری منزل پر مساج خانے تھے۔ تیسری، چوتھی اور پانچویں منزل ہوٹل کے لیے مخصوص تھی۔ بڑی تنگ و تار جگہ تھی۔ چوتھی منزل پر سیڑھیوں کے سامنے والا کمرہ شانتی کا تھا۔ اس نے پرس سے چابی نکال کر دروازہ کھولا۔ بہت مختصر سامان تھا۔ لوہے کا ایک پلنگ جس پر اجلی چادر بچھی تھی۔ کونے میں ڈرسنگ ٹیبل۔ ایک اسٹول، اس پر ٹیبل فین۔ چار ٹرنک تھے وہ پلنگ کے نیچے دھرے تھے۔

مقبول کمرے کی صفائی سے بہت متاثر ہوا۔ ہر چیز صاف ستھری تھی۔ تکیے کے غلاف عام طور پر میلے ہوتے ہیں مگر اس کے دونوں تکیے بے داغ غلافوں میں ملفوف تھے۔ مقبول پلنگ پر بیٹھنے لگا تو شانتی نے اسے روکا۔ ’’نہیں۔۔۔ ادھر بیٹھنے کا اجازت نہیں۔۔۔  ہم کسی کو اپنے بستر پر نہیں بیٹھنے دیتا۔ کرسی پر بیٹھو یہ کہہ کروہ خود پلنگ پر بیٹھ گئی۔ مقبول مسکرا کر کرسی پر ٹک گیا۔

شانتی نے اپنا پرس تکیے کے نیچے رکھا اور مقبول سے پوچھا۔ ’’بولو۔۔۔ کیا باتیں کرنا چاہتے ہو؟‘‘

مقبول نے شانتی کی طرف غور سے دیکھا۔ ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ تمہیں ہونٹوں پر لپ اسٹک لگانی بالکل نہیں آتی۔‘‘

شانتی نے برا نہ مانا۔ صرف اتنا کہا۔ ’’مجھے مالوم ہے۔‘‘

’’اٹھو۔ مجھے لپ اسٹک دو میں تمہیں سکھاتا ہوں‘‘ یہ کہہ کر مقبول نے اپنا رو مال نکالا۔

شانتی نے اس سے کہا۔ ’’ڈرسنگ ٹیبل پر پڑا ہے، اٹھا لو۔‘‘

مقبول نے لپ اسٹک اٹھائی۔ اسے کھول کر دیکھا۔ ’’ادھر آؤ، میں تمہارے ہونٹ پونچھوں۔‘‘

’’تمہارے رو مال سے نہیں۔۔۔ میرا لو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ٹرنک کھولا اور ایک دھلا ہوا رو مال مقبول کو دیا۔ مقبول نے اس کے ہونٹ پونچھے۔ بڑی نفاست سے نئی سرخی ان پر لگائی۔ پھر کنگھی سے اس کے بال ٹھیک کیے اور کہا۔ ’’لو اب آئینہ دیکھو۔‘‘

شانتی اٹھ کر ڈرسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ بڑے غور سے اس نے اپنے ہونٹوں اور بالوں کا معائنہ کیا۔ پسندیدہ نظروں سے تبدیلی محسوس کی اور پلٹ کر مقبول سے صرف اتنا کہا۔ ’’اب ٹھیک ہے‘‘ پھر پلنگ پر بیٹھ کر پوچھا۔ ’’تمہارا کوئی بیوی ہے؟‘‘

مقبول نے جواب دیا۔ ’’نہیں۔‘‘

کچھ دیر خاموشی رہی۔ مقبول چاہتا تھا باتیں ہوں چنانچہ اس نے سلسلہ کلام شروع کیا۔

’’اتنا تو مجھے معلوم ہے کہ تم کشمیر کی رہنے والی ہو۔ تمہارا نام شانتی ہے۔ یہاں رہتی ہو۔۔۔  یہ بتاؤ تم نے ففٹی روپیز کا معاملہ کیوں شروع کیا؟‘‘

شانتی نے یہ بے تکلف جواب دیا۔ ’’میرا فادر سری نگر میں ڈاکٹر ہے۔۔۔  میں وہاں ہوسپیٹل میں نرس تھا۔ ایک لڑکے نے مجھ کو خراب کر دیا۔۔۔ میں بھاگ کر ادھر کو آ گئی۔ یہاں ہم کو ایک آدمی ملا۔ وہ ہم کو ففٹی روپیز دیا۔۔۔ بولا ہمارے ساتھ چلو۔ ہم گیا۔ بس کام چالو ہو گیا۔۔۔  ہم یہاں ہوٹل میں آ گیا۔۔۔  پر ہم ادھر کسی سے بات نہیں کرتی۔۔۔  سب رنڈی لوگ ہے۔۔۔  کسی کو یہاں نہیں آنے دیتی۔‘‘

مقبول نے کرید کرید کر تمام واقعات معلوم کرنا مناسب خیال نہ کیا۔ کچھ اور باتیں ہوئیں جن سے اسے پتا چلا کہ شانتی کو جنسی معاملے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ جب اس کا ذکر آیا تو اس نے برا سا منہ بنا کر کہا۔ ’’آئی ڈونٹ لائک۔ یِٹ از بیڈ۔‘‘

اس کے نزدیک ففٹی روپیز کا معاملہ ایک کاروباری معاملہ تھا۔ سرینگر کے ہسپتال میں جب کسی لڑکے نے اس کو خراب کیا تو جاتے وقت دس روپے دینا چاہے۔ شانتی کو بہت غصہ آیا۔ نوٹ پھاڑ دیا۔ اس واقعے کا اس کے دماغ پر یہ اثر ہوا کہ اس نے باقاعدہ کاروبار شروع کر دیا۔ پچاس روپے فیس خود بخود مقرر ہو گئی۔ اب لذت کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا تھا۔۔۔ چونکہ نرس رہ چکی تھی اس لیے بڑی محتاط رہتی تھی۔

ایک برس ہو گیا تھا اسے بمبئی میں آئے ہوئے۔ اس دوران میں اس نے دس ہزار روپے بچائے ہوتے مگر اس کو ریس کھیلنے کی لت پڑ گئی۔ پچھلی ریسوں پر اس کے پانچ ہزار اڑ گئے لیکن اس کو یقین تھا کہ وہ نئی ریسوں پر ضرور جیتے گی۔ ’’ہم اپنا لوس پورا کر لے گا۔‘‘

اس کے پاس کوڑی کڑوی کا حساب موجود تھا۔ سو روپے روزانہ کما لیتی تھی جو فوراً بنک میں جمع کرا دیے جاتے تھے۔ سو سے زیادہ وہ نہیں کمانا چاہتی تھی۔ اس کو اپنی صحت کا بہت خیال تھا۔

دو گھنٹے گزر گئے تو اس نے پانی گھڑی دیکھی اور مقبول سے کہا۔ ’’تم اب جاؤ۔۔۔  ہم کھانا کھائے گا اور سو جائے گا۔‘‘ مقبول اٹھ کر جانے لگا تو اس نے کہا۔ ’’باتیں کرنے آؤ تو صبح کے ٹائم آؤ۔ شام کے ٹائم ہمارا نقصان ہوتی ہے۔‘‘

مقبول نے ’’اچھا‘‘ کہا اور چل دیا۔

دوسرے روز صبح دس بجے کے قریب مقبول شانتی کے پاس پہنچا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اس کی آمد پسند نہیں کرے گی مگر اس نے کوئی ناگواری ظاہر نہ کی۔ مقبول دیر تک اس کے پاس بیٹھا رہا۔ اس دوران میں شانتی کو صحیح طریقے پر ساڑھی پہننی سکھائی۔ لڑکی ذہین تھی۔ جلدی سیکھ گئی۔

کپڑے اس کے پاس کافی تعداد میں اور اچھے تھے۔ یہ سب کے سب اس نے مقبول کو دکھائے۔ اس میں بچپنا تھا نہ بڑھاپا۔ شباب بھی نہیں تھا۔ وہ جیسے کچھ بنتے بنتے ایک دم رک گئی تھی، ایک ایسے مقام پر ٹھہر گئی تھی جس کے موسم کا تعین نہیں ہو سکتا۔ وہ خوبصورت تھی نہ بدصورت، عورت تھی نہ لڑکی۔ وہ پھول تھی نہ کلی۔ شاخ تھی نہ تنا۔ اس کو دیکھ کر بعض اوقات مقبول کو بہت الجھن ہوتی تھی۔ وہ اس میں وہ نقطہ دیکھنا چاہتا تھا۔ جہاں اس نے غلط ملط ہونا شروع کیا تھا۔

شانتی کے متعلق اور زیادہ جاننے کے لیے مقبول نے اس سے ہر دوسرے تیسرے روز ملنا شروع کر دیا۔ وہ اس کی کوئی خاطر مدارت نہیں کرتی تھی۔ لیکن اب اس نے اس کو اپنے صاف ستھرے بستر پر بیٹھنے کی اجازت دے دی تھی۔ ایک دن مقبول کو بہت تعجب ہوا جب شانتی نے اس سے کہا۔ ’’تم کوئی لڑکی مانگتا؟‘‘

مقبول لیٹا ہوا تھا چونک کر اٹھا۔ ’’کیا کہا؟‘‘

شانتی نے کہا۔ ’’ہم پوچھتی، تم کوئی لڑکی مانگتا تو ہم لا کر دیتا۔‘‘

مقبول نے اس سے دریافت کیا کہ یہ بیٹھے بیٹھے اسے کیا خیال آیا۔ کیوں اس نے یہ سوال کیا تو وہ خاموش ہو گئی۔ مقبول نے اصرار کیا تو شانتی نے بتایا کہ مقبول اسے ایک بیکار عورت سمجھتا ہے۔ اس کو حیرت ہے کہ مرد اس کے پاس کیوں آتے ہیں جبکہ وہ اتنی ٹھنڈی ہے۔ مقبول اس سے صرف باتیں کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ وہ اسے کھلونا سمجھتا ہے۔ آج اس نے سوچا، مجھ جیسی ساری عورتیں تو نہیں مقبول کو عورت کی ضرورت ہے، کیوں نہ وہ اسے ایک منگا دے۔

مقبول نے پہلی بار شانتی کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔ ایک دم وہ اٹھی اور چلانے لگی ’’ہم کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔ جاؤ چلے جاؤ۔۔۔ ہمارے پاس کیوں آتا ہے تم۔۔۔ جاؤ۔‘‘

مقبول نے کچھ نہ کہا۔ ’’خاموشی سے اٹھا اور چلا گیا۔‘‘

متواتر ایک ہفتہ دوپیرے ژین ڈیری جاتا رہا۔ مگر شانتی دکھائی نہ دی۔ آخر ایک صبح اس نے اس کے ہوٹل کا رخ کیا۔ شانتی نے دروازہ کھول دیا مگر کوئی بات نہ کی۔ مقبول کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔ شانتی کے ہونٹوں پر سرخی پرانے بھدے طریقے پر لگی تھی۔ بالوں کا حال بھی پرانا تھا۔ ساڑھی کی پہناوٹ تو اور زیادہ بد زیب تھی۔ مقبول اس سے مخاطب ہوا۔ ’’مجھ سے ناراض ہو تم؟‘‘

شانتی نے جواب نہ دیا اور پلنگ پر بیٹھ گئی۔ مقبول نے تند لہجے میں پوچھا۔ ’’بھول گئیں جو میں نے سکھایا تھا؟‘‘

شانتی خاموش رہی۔ مقبول نے غصے میں کہا۔ ’’جواب دو ورنہ یاد رکھو ماروں گا۔‘‘

شانتی نے صرف اتنا کہا۔ ’’مارو۔‘‘

مقبول نے اٹھ کر ایک زور کا چانٹا اس کے منہ پر جڑ دیا۔۔۔ شانتی بلبلا اٹھی۔ اس کی حیرت زدہ آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ مقبول نے جیب سے اپنا رو مال نکالا۔ غصے میں اس کے ہونٹوں کی بھدی سرخی پونچھی۔ اس نے مزاحمت کی لیکن مقبول اپنا کام کرتا رہا۔ لپ اسٹک اٹھا کر نئی سرخی لگائی۔ کنگھے سے اس کے بال سنوارے، پھر اس نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔ ’’ساڑھی ٹھیک کرو اپنی۔‘‘

شانتی اٹھی اور ساڑھی ٹھیک کرنے لگی مگر ایک دم اس نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا اور روتی روتی خود کو بستر پر گرا دیا۔ مقبول تھوڑی دیر خاموش رہا۔ جب شانتی کے رونے کی شدت کچھ کم ہوئی تو اس کے پاس جا کر کہا۔ ’’شانتی اٹھو۔۔۔ میں جا رہا ہوں۔‘‘

شانتی نے تڑپ کر کروٹ بدلی اور چلائی۔ ’’نہیں نہیں۔۔۔ تم نہیں جا سکتے۔‘‘ اور دونوں بازو پھیلا کر دروازے کے درمیان میں کھڑی ہو گئی۔ ’’تم گیا تو مار ڈالوں گی۔‘‘

وہ ہانپ رہی تھی۔ اس کا سینہ جس کے متعلق مقبول نے کبھی غور ہی نہیں کیا تھا جیسے گہری نیند سے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مقبول کی حیرت زدہ آنکھوں کے سامنے شانتی نے تلے اوپر بڑی سرعت سے کئی رنگ بدلے۔ اس کی نمناک آنکھیں چمک رہی تھیں۔ سرخی لگے باریک ہونٹ ہولے ہولے لرز رہے تھے۔ ایک دم آگے بڑھ کر مقبول نے اس کو اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔

دونوں پلنگ پر بیٹھے تو شانتی نے اپنا سر نیوڑھا کر مقبول کی گود میں ڈال دیا۔ اس کے آنسو بند ہونے ہی میں نہ آتے تھے۔ مقبول نے اس کو پیار کیا۔ رونا بند کرنے کے لیے کہا تو وہ آنسوؤں میں اٹک اٹک کر بولی ’’ادھر سرینگر میں۔۔۔ ایک آدمی نے۔۔۔ ہم کو مار دیا تھا۔۔۔ ادھر ایک آدمی نے۔۔۔ ہم کو زندہ کر دیا۔‘‘

دو گھنٹے کے بعد جب مقبول جانے لگا تو اس نے جیب سے پچاس روپے نکال کر شانتی کے پلنگ پر رکھے اور مسکرا کہا۔ ’’یہ لو اپنے ففٹی روپیز!‘‘

شانتی نے بڑے غصے اور بڑی نفرت سے نوٹ اٹھائے اور پھینک دیے۔

پھر اس نے تیزی سے اپنی ڈرسنگ ٹیبل کا ایک دروازہ کھولا اور مقبول سے کہا۔ ’’ادھر آؤ۔۔۔ دیکھو یہ کیا ہے؟‘‘

مقبول نے دیکھا۔ دراز میں سو سو کے کئی نوٹوں کے ٹکڑے پڑے تھے۔ مٹی بھر کے شانتی نے اٹھائے اور ہوا میں اچھالے۔ ’’ہم اب یہ نہیں مانگتا!‘‘

مقبول مسکرایا۔ ہولے سے اس نے شانتی کے گال پر چھوٹی سی چپت لگائی اور پوچھا: ’’اب تم کیا مانگتا ہے!‘‘

شانتی نے جواب دیا۔ ’’تم کو‘‘ یہ کہہ کر وہ مقبول کے ساتھ چمٹ گئی اور رونا شروع کر دیا۔

مقبول نے اس کے بال سنوارتے ہوئے بڑے پیار سے کہا۔ ’’روؤ نہیں۔۔۔ تم نے جو مانگا ہے وہ تمہیں مل گیا ہے۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

ننگی آوازیں

 

 

بھولو اور گاما دو بھائی تھے۔ بے حد محنتی۔ بھولو قلعی گر تھا۔ صبح دھونکنی سر پر رکھ کر نکلتا اور دن بھر شہر کی گلیوں میں ’’بھانڈے قلعی کرالو‘‘ کی صدائیں لگاتا رہتا۔ شام کو گھر لوٹتا تو اس کے تہہ بند کے ڈب میں تین چار روپے کا کریانہ ضرور ہوتا۔

گاما خوانچہ فروش تھا۔ اس کو بھی دن بھر چھابڑی سر پر اٹھائے گھومنا پڑتا تھا۔ تین چار روپے یہ بھی کما لیتا تھا۔ مگر اس کو شراب کی لت تھی۔ شام کو دینے کے بھٹیار خانے سے کھانا کھانے سے پہلے ایک پاؤ شراب اسے ضرور چاہیے تھی۔ پینے کے بعد وہ خوب چہکتا۔ دینے کے بھٹیار خانے میں رونق لگ جاتی۔ سب کو معلوم تھا کہ وہ پیتا ہے اور اسی کے سہارے جیتا ہے۔

بھولو نے گاما سے جو کہ اس سے دو سال بڑا تھا بہت سمجھایا کہ دیکھو یہ شراب کی لت بہت بری ہے۔ شادی شدہ ہو، بیکار پیسہ برباد کرتے ہو۔ یہی جو تم ہر روز ایک پاؤ شراب پر خرچ کرتے ہو بچا کر رکھو تو بھابھی ٹھاٹ سے رہا کرے۔ ننگی بُچی اچھی لگتی ہے تمہیں اپنی گھر والی۔ گاما نے اس کان سنا۔ اس کان سے نکال دیا۔ بھولو جب تھک ہار گیا تو اس نے کہنا سننا ہی چھوڑ دیا۔

دونوں مہاجر تھے۔ ایک بڑی بلڈنگ کے ساتھ سرونٹ کوارٹر تھے۔ ان پر جہاں اوروں نے قبضہ جما رکھا تھا، وہاں ان دونوں بھائیوں نے بھی ایک کوارٹر کو جو کہ دوسری منزل پر تھا اپنی رہائش کے لیے محفوظ کر لیا تھا۔

سردیاں آرام سے گزر گئیں۔ گرمیاں آئیں تو گاما کو بہت تکلیف ہوئی۔ بھولو تو اوپر کوٹھے پر کھاٹ بچھا کر سو جاتا تھا۔ گاما کیا کرتا۔ بیوی تھی۔ اور اوپر پردے کا کوئی بندوبست ہی نہیں تھا۔ ایک گاما ہی کو یہ تکلیف نہیں تھی۔ کوارٹروں میں جو بھی شادی شدہ تھا اسی مصیبت میں گرفتار تھا۔

کلّن کو ایک بات سوجھی۔ اس نے کوٹھے پر کونے میں اپنی اور اپنی بیوی کی چار پائی کے اردگرد ٹاٹ تان دیا۔ اس طرح پردے کا انتظام ہو گیا۔ کلّن کی دیکھا دیکھی دوسروں نے بھی اس ترکیب سے کام لیا۔ بھولو نے بھائی کی مدد کی اور چند دنوں ہی میں بانس وغیرہ گاڑ کر ٹاٹ اور کمبل جوڑ کر پردے کا انتظام کر دیا۔ یوں ہوا تو رک جاتی تھی مگر نیچے کوارٹر کے دوزخ سے ہر حالت میں یہ جگہ بہتر تھی۔

اوپر کوٹھے پر سونے سے بھولو کی طبیعت میں ایک عجیب انقلاب ہو گیا۔ وہ شادی بیاہ کا بالکل قائل نہیں تھا۔ اس نے دل میں عہد کر رکھا تھا کہ یہ جنجال کبھی نہیں پالے گا۔ جب گاما کبھی اس کے بیاہ کی بات چھیڑتا تو وہ کہا کرتا نہ بھائی۔ میں اپنے نردئے پنڈے پر جونکیں نہیں لگوانا چاہتا۔ لیکن جب گرمیاں آئیں اور اس نے اوپر کھاٹ بچھا کر سونا شروع کیا تو دس پندرہ دن ہی میں اس کے خیالات بدل گئے۔ ایک شام کو دینے کے بھٹیار خانے میں اس نے اپنے بھائی سے کہا۔ ’’میری شادی کر دو، نہیں تو میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘

گاما نے جب یہ سنا تو اس نے کہا۔ ’’یہ کیا مذاق سوجھا ہے تمہیں۔‘‘

بھولو بہت سنجیدہ ہو گیا۔ ’’تمہیں نہیں معلوم۔۔۔ پندرہ راتیں ہو گئی ہیں مجھے جاگتے ہوئے۔‘‘

گاما نے پوچھا۔ ’’کیوں کیا ہوا؟‘‘

’’کچھ نہیں یار۔۔۔ دائیں بائیں جدھر نظر ڈالو کچھ نہ کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔۔۔ عجیب عجیب آوازیں آتی ہیں۔ نیند کیا آئے گی خاک!‘‘

گاما زور سے اپنی گھنی مونچھوں میں ہنسا۔ بھولو شرما گیا۔ ’’وہ جو کلن ہے، اس نے تو حد ہی کر دی ہے۔۔۔ سالا رات بھر بکواس کرتا رہتا ہے۔ اس کی بیوی سالی کی زبان بھی تالو سے نہیں لگتی۔۔۔ بچے پڑے رو رہے ہیں مگر وہ۔۔۔ ‘‘

گاما حسبِ معمول نشے میں تھا۔ بھولو گیا تو اس نے دینے کے بھٹیار خانے میں اپنے سب واقف کاروں کو خوب چہک چہک کر بتایا کہ اس کے بھائی کو آج کل نیند نہیں آتی۔ اس کا باعث جب اس نے اپنے مخصوص انداز میں بیان کیا تو سننے والوں کے پیٹ میں ہنس ہنس کر بل پڑ گئے۔ جب یہ لوگ بھولو سے ملے تو اس کا خوب مذاق اڑایا۔ کوئی اس سے پوچھتا۔ ’’ہاں بھئی، کلن اپنی بیوی سے کیا باتیں کرتا ہے۔‘‘ کوئی کہتا۔ ’’میاں مفت میں مزے لیتے ہو۔۔۔ ساری رات فلمیں دیکھتے رہتے ہو۔۔۔ سو فیصدی گالی بولتی۔‘‘

بعض نے گندے گندے مذاق کیے۔ بھولو چڑ گیا۔ گاما صوفی حالت میں تھا تو اس نے اس سے کہا۔ ’’تم نے تو یار میرا مذاق بنا دیا ہے۔۔۔ دیکھو جو کچھ میں نے تم سے کہا یہ جھوٹ نہیں۔ میں انسان ہوں۔ خدا کی قسم مجھے نیند نہیں آتی۔ آج بیس دن ہو گئے ہیں جاگتے ہوئے۔۔۔ تم میری شادی کا بندوبست کر دو، ورنہ قسم پنجتن پاک کی میرا خانہ خراب ہو جائے گا۔۔۔ بھابھی کے پاس میرا پانسو روپیہ جمع ہے۔۔۔ جلدی کر دو بندوبست!‘‘

گاما نے مونچھ مروڑ کر پہلے کچھ سوچا پھر کہا۔ ’’اچھا ہو جائے گا بندوبست۔ تمہاری بھابھی سے آج ہی بات کرتا ہوں کہ وہ اپنی ملنے والیوں سے پوچھ گچھ کرے۔‘‘

ڈیڑھ مہینے کے اندر اندر بات پکی ہو گئی۔ صمد قلعی گر کی لڑکی عائشہ گاما کی بیوی کو بہت پسند آئی۔ خوبصورت تھی۔ گھر کا کام کاج جانتی تھی۔ ویسے صمد بھی شریف تھا۔ محلے والے اس کی عزت کرتے تھے۔ بھولو محنتی تھی۔ تندرست تھا۔ جون کے وسط میں شادی کی تاریخ مقرر ہو گئی۔ صمد نے بہت کہا کہ وہ لڑکی اتنی گرمیوں میں نہیں بیا ہے گا مگر بھولو نے جب زور دیا تو وہ مان گیا۔

شادی سے چار دن پہلے بھولو نے اپنی دہن کے لیے اوپر کوٹھے پر ٹاٹ کے پردے کا بندوبست کیا۔ بانس بڑی مضبوطی سے فرش میں گاڑے۔ ٹاٹ خوب کر کس کر لگایا۔ چارپائیوں پر نئے کھیس بچھائے۔ نئی صراحی منڈیر پر رکھی۔ شیشے کا گلاس بازار سے خریدا۔ سب کام اس نے بڑے اہتمام سے کیے۔

رات کو جب وہ ٹاٹ کے پردے میں گھر کر سویا تو اس کو عجیب سا لگا وہ کھلی ہوا میں سونے کا عادی تھا مگر اب اس کو عادت ڈالنی تھی۔ یہی وجہ یہ کہ شادی سے چار دن پہلے ہی اس نے یوں سونا شروع کر دیا۔ پہلی رات جب وہ لیٹا اور اس نے اپنی بیوی کے بارے میں سوچا تو وہ پسینے میں تر بتر ہو گیا۔ اس کے کانوں میں وہ آوازیں گونجنے لگیں جو اسے سونے نہیں دیتی تھیں اور اس کے دماغ میں طرح طرح کے پریشان خیالات دوڑاتی تھیں۔

کیا وہ بھی ایسی ہی آوازیں پیدا کرے گا؟۔۔۔ کیا آپ پاس کے لوگ یہ آوازیں سنیں گے۔ کیا وہ بھی اسی کے مانند راتیں جاگ جاگ کر کاٹیں گے۔ کسی نے اگر جھانک کر دیکھ لیا تو کیا ہو گا؟

بھولو پہلے سے بھی زیادہ پریشان ہو گیا۔ ہر وقت اس کو یہی بات ستاتی رہتی کہ ٹاٹ کا پردہ بھی کوئی پردہ ہے، پھر چاروں طرف لوگ بکھرے پڑے ہیں۔ رات کی خاموشی میں ہلکی سی سرگوشی بھی دوسرے کانوں تک پہنچ جاتی ہے۔۔۔ لوگ کیسے یہ ننگی زندگی بسر کرتے ہیں۔۔۔ ایک کوٹھا ہے۔ اس چارپائی پر بیوی لیٹی ہے۔ اس چارپائی پر خاوند پڑا ہے۔ سینکڑوں آنکھیں، سینکڑوں کان آس پاس کھلے ہیں۔ نظر نہ آنے پر بھی آدمی سب کچھ دیکھ لیتا ہے۔ ہلکی سی آہٹ پوری تصویر بن کر سامنے آ جاتی ہے۔۔۔ یہ ٹاٹ کا پردہ کیا ہے۔ سورج نکلتا ہے تو اس کی روشنی ساری چیزیں بے نقاب کر دیتی ہے۔ وہ سامنے کلّن اپنی بیوی کی چھاتیاں دبا رہا ہے۔ وہ کونے میں اس کا بھائی گاما لیٹا ہے۔ تہہ بند کھل کر ایک طرف پڑا ہے۔ ادھر عبدو حلوائی کی کنواری بیٹی شاماں کا پیٹ چھدرے ٹاٹ سے جھانک جھانک کر دیکھ رہا ہے۔

شادی کا دن آیا تو بھولو کا جی چاہا کہ وہ کہیں بھاگ جائے مگر کہاں جاتا۔ اب تو وہ جکڑا  جا چکا تھا۔ غائب ہو جاتا تو صمد ضرور خود کشی کر لیتا۔ اس کی لڑکی پر جانے کیا گزرتی۔ جو طوفان مچتا وہ الگ۔

’’اچھا جو ہوتا ہے ہونے دو۔۔۔ میرے ساتھی اور بھی تو ہیں۔ آہستہ آہستہ عادت ہو جائے گی۔ مجھے بھی‘‘۔۔۔ بھولو نے خود کو ڈھارس دی اور اپنی نئی نویلی دلہن کی ڈولی گھر لے آیا۔

کوارٹروں میں چہل پہل پیدا ہو گئی۔ لوگوں نے بھولو اور گاما کو خوب مبارکبادیں دیں۔ بھولو کے جو خاص دوست تھے، انھوں نے اس کو چھیڑا اور پہلی رات کے لیے کئی کامیاب گُر بتائے۔ بھولو خاموشی سے سنتا رہا۔ اس کی بھابھی نے اوپر کوٹھے پر ٹاٹ کے پردوں کے نیچے بستر کا بندوبست کر دیا۔ گاما نے چار موتیے کے بڑے بڑے ہار تکیے کے پاس رکھ دیے۔ ایک دوست اس کے لیے جلیبیوں والا دودھ لے آیا۔

دیر تک وہ نیچے کوارٹر میں اپنی دلہن کے پاس بیٹھا رہا۔ وہ بے چاری شرم کی ماری سر نیوڑھائے، گھونگٹ کاڑھے سمٹی ہوئی تھی۔ سخت گرمی تھی۔ بھولو کا نیا کرتا اس کے جسم کے ساتھ چپکا ہوا تھا۔ پنکھا جھل رہا تھا مگر ہوا جیسے بالکل غائب ہی ہو گئی تھی۔ بھولو نے پہلے سوچا تھا کہ وہ اوپر کوٹھے پر نہیں جائے گا۔ نیچے کوارٹر ہی میں رات کاٹے گا۔ مگر جب گرمی انتہا کو پنچ گئی تو وہ اٹھا اور دولھن سے چلنے کو کہا۔

رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ تمام کوارٹر خاموشی میں لپٹے ہوئے تھے۔ بھولو کو اس بات کی تسکین تھی کہ سب سو رہے ہوں گے۔ کوئی اس کو نہیں دیکھے گا۔ چپ چاپ دبے قدموں سے وہ اپنے ٹاٹ کے پردے کے پیچھے اپنی دولہن سمیت داخل ہو جائے گا اور صبح منہ اندھیرے نیچے اتر جائے گا۔

جب وہ کوٹھے پر پہنچا تو بالکل خاموش تھی۔ دولہن نے شرمائے ہوئے قدم اٹھائے تو پازیب کے نقرئی گھنگھرو بجنے لگے۔ ایک دم بھولو نے محسوس کیا کہ چاروں طرف جو نیند بکھری ہوئی تھی چونک کر جاگ پڑی ہے۔ چارپائیوں پر لوگ کروٹیں بدلنے لگے، کھانسنے، کھنکارنے کی آوازیں اِدھر اُدھر ابھریں۔ دبی دبی سرگوشیاں اس تپی ہوئی فضا میں تیرنے لگیں۔ بھولو نے گھبرا کر اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑا اور تیزی سے ٹاٹ کی اوٹ میں چلا گیا۔ دبی دبی ہنسی کی آواز اس کے کانوں کے ساتھ ٹکرائی۔ اس کی گھبراہٹ میں اضافہ ہو گیا۔ بیوی سے بات کی تو پاس ہی کھُسر پھُسر شروع ہو گئی۔ دور کونے میں جہاں کلن کی جگہ تھی۔ وہاں چارپائی کی چرچوں چرچوں ہونے لگی۔ ’’یہ دھیمی پڑی تو گاما کی لوہے کی چارپائی بولنے لگی۔۔۔ عیدد حلوائی کی کنواری لڑکی شاداں نے دو تین بار اٹھ کر پانی پیا۔ گھڑے کے ساتھ اس کا گلاس ٹکراتا تو ایک چھنا کا سا پیدا ہوتا۔ خیرے قصائی کے لڑکے کی چارپائی سے بار بار ماچس جلانے کی آواز آتی تھی۔

بھولو اپنی دلہن سے کوئی بات نہ کر سکا۔ اسے ڈر تھا کہ آس پاس کے کھلے ہوئے کان فوراً اس کی بات نگل جائیں گے۔ اور ساری چارپائیاں چرچوں چرچوں کرنے لگیں گی۔ دم سادھے وہ خاموش لیٹا رہا۔ کبھی کبھی سہمی ہوئی نگاہ سے اپنی بیوی کی طرف دیکھ لیتا جو گٹھڑی سی بنی دوسری چارپائی پر لیٹی تھی۔ کچھ دیر جاگتی رہی، پھر سو گئی۔

بھولو نے چاہا کہ وہ بھی سو جائے مگر اس کو نیند نہ آئی۔ تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد اس کے کانوں میں آوازیں آتی تھیں۔۔۔ آوازیں جو فوراً تصویر بن کر اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزر جاتی تھیں۔

اس کے دل میں بڑے ولولے تھے۔ بڑا جوش تھا۔ جب اس نے شادی کا ارادہ کیا تھا تو وہ تمام لذتیں جن سے وہ نا آشنا تھا اس کے دل و دماغ میں چکر لگاتی رہتی تھیں۔ اس کو گرمی محسوس ہوتی تھی۔ بڑی راحت بخش گرمی، مگر اب جیسے پہلی رات سے کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔ اس نے رات میں کئی بار یہ دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش کی مگر آوازیں۔۔۔ وہ تصویریں کھینچنے والی آوازیں سب کچھ درہم برہم کر دیتیں۔ وہ خود کو ننگا محسوس کرتا۔ الف ننگا جس کو چاروں طرف سے لوگ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے ہیں اور ہنس رہے ہیں۔

صبح چار بجے کے قریب وہ اٹھا، باہر نکل کر اس نے ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس پیا۔ کچھ سوچا۔ وہ جھجک جو اس کے دل میں بیٹھ گئی تھی اس کو کسی قدر دور کیا۔ اب ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی جو کافی تیز تھی۔۔۔ بھولو کی نگاہیں کونے کی طرف مڑیں۔ کلّن کا گھسا ہوا ٹاٹ ہل رہا تھا۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ بالکل ننگ دھڑنگ لیٹا تھا۔ بھولو کو بڑی گھن آئی۔ ساتھ ہی غصہ بھی آیا کہ ہوا ایسے کوٹھوں پر کیوں چلتی ہے چلتی ہے تو ٹاٹوں کو کیوں چھیڑتی ہے۔ اس کے جی میں آئی کہ کوٹھے پر جتنے ٹاٹ ہیں، سب نوچ ڈالے اور ننگا ہو کے ناچنے لگے۔

بھولو نیچے اتر گیا۔ جب کام پر نکلا تو کئی دوست ملے۔ سب نے اس سے پہلی رات کی سرگزشت پوچھی۔ پھوجے درزی نے اس کو دور ہی سے آواز دی، ’’کیوں استاد بھولو، کیسے رہے، کہیں ہمارے نام پر بٹہ تو نہیں لگا دیا تم نے۔‘‘

چھاگے ٹین ساز نے اس سے بڑے راز دارانہ لہجے میں کہا۔ ’’دیکھو اگر کوئی گڑبڑ ہے تو بتا دو۔ ایک بڑا اچھا نسخہ میرے پاس موجود ہے۔‘‘

بالے نے اس کے کاندھے پر زور سے دھپا مارا۔ ’’کیوں پہلوان، کیسا رہا دنگل؟‘‘

بھولو تو خاموش رہا۔

صبح اس کی بیوی میکے چلی گئی۔ پانچ چھ روز کے بعد واپس آئی تو بھولو کو پھر اسی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔ کوٹھے پر سونے والے جیسے اس کی بیوی کی آمد کے منتظر تھے۔ چند راتیں خاموش رہی تھی لیکن جب وہ اوپر سوئے تو وہی کھسر پھسر وہی چرچوں چرچوں، وہی کھانسنا کھنکارنا۔۔۔  وہی گھڑے کے ساتھ گلاس کے ٹکرانے کے چھناکے۔۔۔ کروٹوں پر کروٹیں، دبی دبی ہنسی۔۔۔  بھولو ساری رات اپنی چارپائی پر لیٹا آسمان کی طرف دیکھتا رہا۔ کبھی کبھی ایک ٹھنڈی آہ بھر کر اپنی دولہن کو دیکھ لیتا اور دل میں کڑھتا، مجھے کیا ہو گیا ہے۔۔۔  یہ مجھے کیا ہو گیا ہے۔۔۔ یہ مجھے کیا ہو گیا ہے۔‘‘

سات راتوں تک یہی ہوتا رہا، آخر تنگ آ کر بھولو نے اپنی دولہن کو میکے بھیج دیا۔ بیس پچیس دن گزر گئے تو گاما نے بھولو سے کہا۔ ’’یار تم بڑے عجیب و غریب آدمی ہو نئی نئی شادی اور بیوی کو میکے بھیج دیا۔ اتنے دن ہو گئے ہیں اسے گئے ہوئے۔ تم اکیلے سوتے کیسے ہو۔‘‘

بھولو نے صرف اتنا کہا۔ ’’ٹھیک ہے؟‘‘

گاما نے پوچھا۔ ’’ٹھیک کیا ہے۔۔۔ جو بات ہے بتاؤ۔ کیا تمہیں پسند نہیں آئی عائشہ؟‘‘

’’یہ بات نہیں ہے۔‘‘

’’یہ بات نہیں ہے تو اور کیا ہے؟‘‘

بھولو بات گول کر گیا تھوڑے ہی دنوں کے بعد اس کے بھائی نے پھر بات چھیڑی۔ بھولو اٹھ کر کوارٹر کے باہر چلا گیا۔ چارپائی پڑی تھی اس پر بیٹھ گیا۔ اندر سے اس کو اپنی بھابھی کی آواز سنائی دی۔ وہ گاما سے کہہ رہی تھی۔ ’’تم جو کہتے ہو نا کہ بھولو کو عائشہ پسند نہیں، یہ غلط ہے۔‘‘

گاما کی آواز آئی ’’تو اور کیا بات ہے۔۔۔ بھولو کو اس سے کوئی دلچسپی ہی نہیں۔‘‘

’’دلچسپی کیا ہو۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

گاما کی بیوی کا جواب بھولو نہ سن سکا مگر اس کے باوجود اس کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کی ساری ہستی کسی نے ہاون میں ڈال کر کوٹ دی ہے۔ ایک دم گاما اونچی آواز میں بولا۔ ’’نہیں نہیں۔۔۔ یہ تم سے کس نے کہا۔‘‘

گاما کی بیوی بولی۔ ’’عائشہ نے اپنی کسی سہیلی سے ذکر کیا۔۔۔ بات اڑتی اڑتی مجھ تک پہنچ گئی۔‘‘

بڑی صدمہ زدہ آواز میں گاما نے کہا۔ ’’یہ تو بہت بُرا ہوا!‘‘

بھولو کے دل میں چھری سی پیوست ہو گئی۔ اس کا دماغی توازن بگڑ گیا۔ اٹھا اور کوٹھے پر چڑھ کر جتنے ٹاٹ گئے تھے اکھیڑنے شروع کر دیے۔ کھٹ کھٹ پھٹ پھٹ سن کر لوگ جمع ہو گئے۔ انھوں نے اس کو روکنے کی کوشش کی تو وہ لڑنے لگا۔ بات بڑھ گئی۔ کلن نے بانس، اٹھا کر اس کے سر پر دے مارا۔ بھولو چکرا کر گِرا اور بے ہوش ہو گیا۔ جب ہوش آیا تو اس کا دماغ چل چکا تھا۔

اور وہ الف ننگا بازاروں میں گھومتا پھرتا ہے کہیں ٹاٹ لٹکا دیکھتا ہے تو اس کو اتار کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

بسم اللہ

 

 

فلم بنانے کے سلسلے میں ظہیر سے سعید کی ملاقات ہوئی۔ سعید بہت متاثر ہوا۔ بمبئی میں اس نے ظہیر کو سنٹرل اسٹوڈیوز میں ایک دو مرتبہ دیکھا تھا اور شاید چند باتیں بھی کی تھیں مگر مفصل ملاقات پہلی مرتبہ لاہور میں ہوئی۔

لاہور میں یوں تو بے شمار فلم کمپنیاں تھیں مگر سعید کو اس تلخ حقیقت کا علم تھا کہ ان میں سے اکثر کا وجود صرف ان کے نام کے بورڈوں تک ہی محدود ہے۔ ظہیر نے جب اس کو اکرم کی معرفت بلایا تو اس کو سو فیصدی یقین تھا کہ ظہیر بھی دوسرے فلم پروڈیوسروں کی طرح کھوکھلا ہے جو لاکھوں کی باتیں کرتے ہیں۔ آفس قائم کرتے ہیں۔ کرائے پر فرنیچر لاتے ہیں اور آخر میں آس پاس کے ہوٹلوں کے بل مار کر بھاگ جاتے ہیں۔

ظہیر نے بڑی سادگی سے سعید کو بتایا کہ وہ کم سے کم سرمائے سے فلم بنانا چاہتا ہے۔ بمبئی میں وہ اسٹنٹ فلم بنانے والے ڈائریکٹر کا اسسٹنٹ تھا۔ پانچ برس تک وہ اس کے ماتحت کام کرتا رہا۔ اس کو خود فلم بنانے کا موقعہ ملنے ہی والا تھا کہ ہندوستان تقسیم ہو گیا اور اسے پاکستان آنا پڑا۔ یہاں وہ تقریباً ڈھائی سال بیکار رہا مگر اس دوران میں اس نے چند آدمی ایسے تیار کر لیے جو روپیہ لگانے کے لیے تیار ہیں۔ اس نے سعید سے کہا ’’دیکھیے جناب میں کوئی فرسٹ کلاس فلم بنانا نہیں چاہتا۔ کم فلم آدمی ہوں۔ اسٹنٹ فلم بنا سکتا ہوں اور انشاء اللہ اچھا اسٹنٹ فلم بناؤں گا۔ پچاس ہزار روپوں کے اندر اندر سو فیصدی نفع تو یقینی ہے۔۔۔ آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘

سعید نے کچھ دیر سوچ کر جواب دیا۔ ’’ہاں، اتنا نفع تو ہونا چاہیے۔‘‘

ظہیر نے کہا ’’جو آدمی روپیہ لگانے کے لیے تیار ہیں۔ میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ حساب کتاب سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہو گا۔ یہ آپ کا کام ہے۔۔۔ باقی سب چیزیں میں سنبھال لوں گا۔‘‘

سعید نے پوچھا ’’مجھ سے آپ کیا خدمت چاہتے ہیں؟‘‘

ظہیر نے بڑی سادگی سے کہا۔ ’’پاکستان کے تقریباً تمام ڈسٹری بیوٹر آپ کو جانتے ہیں۔ میری یہاں ان لوگوں سے واقفیت نہیں۔ بڑی نوازش ہو گی اگر آپ میری فلم کی ڈسٹری بیوشن کا بندوبست کر دیں۔‘‘

سعید نے کہا۔ ’’آپ فلم تیار کر لیں۔ انشاء اللہ ہو جائے گا۔‘‘

’’آپ کی بڑی مہربانی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر ظہیر نے میز پر پڑے ہوئے پیڈ پر پنسل سے ایک پھول سا بنایا ’’سعید صاحب، مجھے سو فیصدی یقین ہے کہ میں کامیاب رہوں گا۔۔۔ ہیروئن میری بیوی ہو گی۔‘‘

سعید نے پوچھا۔ ’’آپ کی بیوی؟‘‘

’’جی ہاں!‘‘

’’پہلے کسی فلم میں کام کر چکی ہیں؟‘‘

’’جی نہیں۔‘‘ ظہیر نے پیڈ پر پھول کے ساتھ شاخ بناتے ہوئے کہا۔ ’’میں نے شادی یہاں لاہور میں آ کر کی ہے۔۔۔ میرا ارادہ تو نہیں تھا کہ اسے فلم لائن میں لاؤں مگر اس کو شوق ہے۔۔۔ بہت شوق ہے۔ ہر روز ایک فلم دیکھتی ہے۔۔۔ میں آپ کو اس کا فوٹو دکھاتا ہوں۔‘‘

ظہیر نے میز کا دروازہ کھول کر ایک لفافہ نکالا اور اس میں سے اپنی بیوی کا فوٹو سرکا کر سعید کی طرف بڑھا دیا۔

سعید نے فوٹو دیکھا۔ معمولی خد و خال کی جوان عورت تھی۔ تنگ ما تھا۔ باریک ناک موٹے موٹے ہونٹ۔ آنکھیں بڑی بڑی اور اداس۔

یہ آنکھیں ہی تھیں جو اس کے چہرے کے دوسرے خطوط کے مقابلے میں سب سے نمایاں تھیں۔ سعید نے غور سے ان کو دیکھنا چاہا مگر معیوب سمجھا اور فوٹو میز پر رکھ دیا۔

ظہیر نے پوچھا۔ ’’کیا خیال ہے آپ کا؟‘‘

سعید کے پاس اس سوال کا جواب تیار نہیں تھا۔ اس کے دل و دماغ پر در اصل وہ آنکھیں چھائی ہوئی تھیں۔ بڑی بڑی اداس آنکھیں۔ غیر ارادی طور پر اس نے میز پر سے فوٹو اٹھایا اور ایک نظر دیکھ کر پھر وہیں رکھ دیا۔ اور کہا ’’آپ زیادہ بہتر جانتے ہیں۔‘‘

ظہیر نے پیڈ پر ایک اور پھول بنانا شروع کیا۔ ’’یہ فوٹو اچھی نہیں۔۔۔ ذرا سی ہلی ہوئی ہے۔‘‘

اتنے میں پچھلے دروازے کا پردہ ہلا اور ظہیر کی بیوی داخل ہوئی۔۔۔ وہی بڑی بڑی اداس آنکھیں۔ ظہیر اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ ’’عجیب و غریب نام ہے اس کا۔۔۔ بسم اللہ!‘‘ پھر سعید کی طرف اشارہ کیا۔ ’’یہ میرے دوست سعید صاحب۔‘‘

بسم نے کہا۔ ’’آداب عرض۔‘‘

سعید نے اس کا جواب اٹھ کر دیا۔ ’’تشریف رکھیے۔‘‘

بسم اللہ دوپٹہ ٹھیک کرتی سعید کے پاس والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ ہلکے پیازی رنگ کے کلف لگے ململ کے مہین دوپٹے کے پیچھے اس کے سینے کا ابھار چغلیاں کھا رہا تھا۔ سعید نے اپنی نگاہیں دوسری طرف پھیر لیں۔

ظہیر نے فوٹو واپس لفافے میں رکھا اور سعید سے کہا۔ ’’مجھے سو فیصدی یقین ہے کہ بسم اللہ پہلے ہی فلم میں کامیاب ثابت ہو گی۔ لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کا فلمی نام کیا رکھوں۔ بسم اللہ ٹھیک معلوم نہیں ہوتا۔ کیا خیال ہے آپ کا؟‘‘

سعید نے بسم اللہ کی طرف دیکھا۔ اس کی بڑی بڑی اداس آنکھوں میں وہ ایک لحظے کے لیے جیسے ڈوب سا گیا۔ فوراً ہی نگاہ اس طرف سے ہٹا کر اس نے ظہیر سے کہا۔ ’’جی ہاں۔۔۔ بسم اللہ ٹھیک نہیں ہے۔ کوئی اور نام ہونا چاہیے۔‘‘

تھوڑی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ بسم اللہ خاموش تھی۔ اس کی بڑی بڑی اداس آنکھیں بھی خاموش تھیں۔ سعید نے اس دوران میں ان آنکھوں کے اندر کئی بار ڈبکیاں لگائیں۔ ظہیر اور وہ دونوں باتیں کرتے رہے۔ بسم اللہ خاموش بیٹھی اپنی بڑی بڑی اداس آنکھوں پر چھائی ہوئی سیاہ پلکیں جھپکاکی۔ اس کے ہلکے پیازی رنگ کے کلف لگے ململ کے مہین دوپٹے کے پیچھے اس کے سینے کا ابھار برابر چغلیاں کھاتا رہا۔ سعید ادھر دیکھتا تو ایک دھکے کے ساتھ اس کی نظریں  ۔دوسری طرف پلٹ جاتیں۔

بسم اللہ کا رنگ گہرا سانولا تھا۔ فوٹو میں اس رنگت کا پتا نہیں چلتا تھا۔ اس گہرے سانولے رنگ پر اس کی بڑی بڑی کالی آنکھیں اور بھی زیادہ اداس ہو گئی تھیں۔ سعید نے کئی مرتبہ سوچا کہ اس اداسی کا باعث کیا ہے؟۔۔۔ اس کی ساخت ہی کچھ ایسی ہے کہ اداس دکھائی دیتی ہیں یا کوئی اور وجہ ہے۔ کوئی معقول بات سعید کے ذہن میں نہ آئی۔

ظہیر بمبئی کی باتیں شروع کرنے والا تھا کہ بسم اللہ اٹھی اور چلی گئی۔ اس کی چال میں بے ڈھنگا پن تھا، جیسے اس نے اونچی ایڑھی کے چپل نئے نئے استعمال کرنے شروع کیے۔ غرارے کی نشست بھی ٹھیک نہیں تھی۔ سلوٹوں کا گراؤ بھدا تھا۔ اس کے علاوہ سعید نے یہ بھی محسوس کیا کہ ادب آداب سے بسم اللہ محض کوری ہے۔۔۔ لیکن اس کے گہرے سانولے چہرے پر دو بڑی بڑی سیاہ آنکھیں، اداس ہونے کے باوجود کس قدر جذبات انگیز تھیں!

چند ہی ملاقاتوں میں ظہیر سے سعید کے تعلقات بہت گہرے ہو گئے۔ ظہیر بے حد سادہ دل تھا۔ اس خاص چیز سے سعید بہت متاثر ہوا تھا۔ اس کی کسی بھی بات میں بناوٹ نہیں ہوتی تھی۔ خیال جس شکل میں پیدا ہوتا تھا سادہ الفاظ میں تبدیل ہو کر اس کی زبان پر آ جاتا تھا۔ کھانے پینے اور رہنے سہنے کے معاملے میں بھی وہ سادگی پسند تھا۔

جب بھی سعید اس کے یہاں جاتا۔ ظہیر اس کی خاطر تواضع کرتا۔ سعید نے اس سے کئی بار کہا کہ تم یہ تکلیف نہ کیا کرو مگر وہ نہ مانا۔ وہ اکثر کہا کرتا ’’اس میں کیا تکلیف ہے، آپ کا اپنا گھر ہے۔‘‘

سعید نے جب تقریباً ہر روز ظہیر کے ہاں جانا شروع کیا تو اس نے سوچا کہ یہ بہت بُری بات ہے۔ وہ میری اتنی عزت کرتا ہے۔ مجھے اپنا دوست سمجھتا ہے اورمیں اس سے صرف اس لیے ملتا ہوں کہ مجھے اس کی بیوی سے دلچسپی پیدا ہو گئی ہے۔ یہ بہت بُری بات ہے۔

اس کے ضمیر نے کئی دفعہ اسے ٹوکا مگر وہ برابر ظہیر کے ہاں جاتا رہا۔

بسم اللہ اکثر آ جاتی تھی۔ شروع شروع میں وہ خاموش بیٹھی رہتی۔ پھر آہستہ آہستہ اس نے باتوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ لیکن گفتگو کے لحاظ سے وہ خام تھی۔ سعید کو دکھ ہوتا تھا کہ وہ اچھی اچھی باتیں کرنا کیوں نہیں جانتی۔

کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ ظہیر گھر سے باہر تھا۔ سعید نے آواز دی تو بسم اللہ بولی۔ ’’باہر گئے ہوئے ہیں۔‘‘ یہ سن کر سعید کچھ دیر کھڑا رہا کہ شاید وہ اس سے کہے، اندر آ جائیے۔ ابھی آتے ہیں۔ مگر ایسا نہ ہوا۔

ظہیر کے فلمکا چکر چل رہا تھا۔ اس کا ذکر قریب قریب ہر روز ہوتا۔ ظہیر کہتا مجھے اتنی جلدی نہیں ہے۔ ہر ایک چیز آرام سے ہو گی۔ اور اپنے وقت پر ہو گی۔

سعید کو ظہیر کے فلم سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کو اگر دلچسپی تھی تو بسم اللہ سے جس کی بڑی بڑی اداس آنکھوں میں وہ کئی بار غوطے لگا چکا تھا۔ اور اس کی یہ دلچسپی دن بدن بڑھتی جا رہی تھی۔ جس کا احساس اس کے لیے بہت تکلیف دہ تھا کیونکہ یہ کھلی ہوئی بات تھی کہ وہ اپنے دوست ظہیر کی بیوی سے جسمانی رشتہ پیدا کرنے کا خواہاں تھا۔

دن گزرتے گئے۔ ظہیر کے فلم کا کام وہیں کا وہیں تھا۔ سعید ایک دن اس سے ملنے گیا تو وہ کہیں باہر گیا ہوا تھا۔ چلنے ہی والا تھا کہ بسم اللہ نے کہا۔ ’’اندر آ جائیے وہ کہیں دور نہیں گئے۔‘‘

سعید کا دل دھڑکنے لگا۔ کچھ توقف کے بعد وہ کمرے میں داخل ہوا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔ بسم اللہ میز کے پاس کھڑی تھی۔ سعید نے جرأت سے کام لے کر اس سے کہا۔ ’’بیٹھئے۔‘‘

بسم اللہ اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر خاموش رہی اس کے بعد سعید نے اس کی آنکھوں کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’ظہیر آئے نہیں ابھی تک؟‘‘

بسم اللہ نے مختصر جواب دیا۔ ’’آ جائیں گے۔‘‘

تھوڑی دیر پھر خاموش رہی۔ اس دوران میں کئی مرتبہ سعید نے بسم اللہ کی آنکھوں کی طرف دیکھا۔ اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اٹھ کر ان کو چومنا شروع کر دے۔ اس قدر چومے کہ ان کی ساری اداسی دھل جائے مگر سعید نے اس خواہش پر قابو پا کر اس سے کہا۔ ’’آپ کو فلم میں کام کرنے کا بہت شوق ہے؟‘‘

بسم اللہ نے ایک جمائی لی اور جواب۔ ’’ہے تو سہی۔‘‘

سعید ناصح بن گیا۔ ’’یہ لائن اچھی نہیں۔ میرا مطلب ہے بڑی بدنام ہے۔‘‘ اس کے بعد اس نے فلم لائن کی تمام برائیاں بیان کرنا شروع کر دیں۔ ظہیر کا خیال آیا تو اس نے رخ بدل لیا۔ ’’آپ کو شوق ہے تو خیر دوسری بات ہے۔ کیریکٹر مضبوط ہو تو آدمی کسی بھی لائن میں ثابت قدم رہ سکتا ہے۔ پھر ظہیر خود اپنا فلم بنا رہا ہے لیکن آپ کسی دوسرے کے فلم میں کام ہرگز نہ کیجیے گا۔‘‘

بسم اللہ خاموش رہی۔ سعید کو اس کی یہ خاموشی بہت بری معلوم ہوئی۔ پہلی مرتبہ اس کو تنہائی میں اس سے ملنے کا موقعہ ملا تھا مگر وہ بولتی ہی نہیں تھی۔ سعید نے ایک دو مرتبہ ڈرتے ڈرتے ٹوہ لینے والی نگاہوں سے اسے دیکھا مگر کوئی رد عمل پیدا نہ ہوا۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ اس سے مخاطب ہوا۔ ’’اچھا تو پان ہی کھلائیے۔‘‘

بسم اللہ اٹھی۔ ریشمی قمیض کے پیچھے اس کے سینے کا نمایاں ابھار ہلا۔ سعید کی نگاہوں کو دھکا سا لگا۔ بسم اللہ دوسرے کمرے میں گئی تو وہ ڈر ڈر کے تیکھی تیکھی باتیں سوچنے لگا۔

تھوڑی دیر کے بعد وہ پان لے کر آئی اور سعید کے پاس کھڑی ہو گئی۔ ’’لیجئے۔‘‘

سعید نے شکریہ کہہ کر پان لیا تو اس کی انگلیاں بسم اللہ کی انگلیوں سے چھوئیں اس کے سارے بدن میں برقی لہر دوڑ گئی۔ اس کے ساتھ ہی ضمیر کا کانٹا اس کے دل میں چُبھا۔

بسم اللہ سامنے کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس کے گہرے سانولے چہرے سے سعید کو کچھ پتہ نہیں چلتا تھا۔ سعید نے سوچا ’’کوئی اور عورت ہوتی تو فوراً سمجھ جاتی کہ میں اسے کن آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ لیکن یہ شاید سمجھ گئی ہو۔ شاید نہ بھی سمجھی ہو کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘

سعید کا دماغ بے حد مضطرب تھا۔ ایک طرف بسم اللہ کا ستانے والا وجود تھا۔ اس کی بڑی بڑی اداس آنکھیں۔ اس کے سینے کا نمایاں ابھار۔ دوسری طرف ظہیر کا خیال، اس کے ضمیر کا کانٹا۔ سعید عجب الجھن میں پھنس گیا تھا۔ بسم اللہ کی طرف سے کوئی اشارہ نہیں ملا تھا۔ اس کا مطلب صاف تھا کہ جو چیز سعید سوچ رہا ہے نا ممکن ہے۔ مگر وہ پھر اس کو انہی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔

تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ اس سے مخاطب ہوا۔ ’’ظہیر نہیں آئے میرا خیال ہے۔ میں چلتا ہوں۔‘‘

بسم اللہ نے خلافِ توقع کہا۔ ’’نہیں نہیں بیٹھئے۔‘‘

’’آپ تو کوئی بات ہی نہیں کرتیں۔‘‘ یہ کہہ کرسعید اٹھا۔

بسم اللہ نے پوچھا۔ ’’چلے؟‘‘

سعید نے اس کی طرف ٹوہ لینے والی نگاہوں سے دیکھا۔ ’’جی نہیں، بیٹھتا ہوں۔ آپ کو اگر کوئی اعتراض نہ ہو۔‘‘

بسم اللہ نے ایک جمائی لی۔ ’’مجھے کیا اعتراض ہو گا۔‘‘

بسم اللہ کی آنکھوں میں خمار سا پیدا ہو گیا۔ سعید نے کہا۔ ’’آپ کو شاید نیند آ رہی ہے۔‘‘

’’جی ہاں رات جاگتی رہی۔‘‘

سعید نے ذرا بے تکلفی سے پوچھا۔ ’’کیوں!‘‘

بسم اللہ نے ایک اور جمائی لی۔ ’’کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔‘‘

سعید بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد بسم اللہ سو گئی۔ اس کے سینے کا نمایاں ابھار ریشمی قمیض کے پیچھے سانس کے زیر و بم سے ہولے ہولے ہل رہا تھا۔ بڑی بڑی اداس آنکھیں اب بند تھیں۔ دایاں بازو ایک طرف ڈھک گیا تھا۔ آستین اوپر کو اٹھ گئی تھی۔ سعید نے دیکھا گہرے سانولے رنگ کی کلائی پر ہندی کے حروف کھدے ہوئے تھے۔ اتنے میں ظہیر آ گیا۔

سعید اس کی آمد پر سٹپٹا سا گیا۔ ظہیر نے اس سے ہاتھ ملایا۔ اپنی بیوی بسم اللہ کی طرف دکھا۔ ’’ارے سو رہی ہے۔‘‘

سعید نے کہا۔ ’’میں جا رہا تھا۔ کہنے لگیں ظہیر صاحب ابھی آ جائیں گے۔ آپ بیٹھئے۔ میں بیٹھا تو آپ سو گئیں۔‘‘

ظہیر ہنسا۔ سعید بھی ہنسنے لگا۔

’’بھئی واہ، اٹھو اٹھو۔‘‘ ظہیر نے بسم اللہ کے سر پر ہاتھ پھیرا۔

بسم اللہ نے ایک لمبی آہ بھری اور اپنی بڑی بڑی اداس آنکھیں کھول دیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اب ان میں ویرانی سی بھی تھی۔

’’چلو چلو، اٹھو۔ ایک ضروری کام پر جانا ہے۔‘‘ بسم اللہ سے یہ کہہ کر ظہیر سعید سے مخاطب ہوا۔ ’’معاف کیجیے گا سعید صاحب، میں ایک کام سے جا رہا ہوں۔ انشاء اللہ کل ملاقات ہو گی۔‘‘

سعید چلا گیا۔ دوسرے روز اس نے ظہیر کے ہاں جانے سے پہلے یہ دعا مانگی کہ وہ گھر پر نہ ہو۔ وہاں پہنچا تو باہر کئی آدمی جمع تھے۔ سعید کو ان سے معلوم ہوا کہ بسم اللہ ظہیر کی بیوی نہیں تھیں۔ وہ ایک ہندو لڑکی تھی جو فسادوں میں یہاں رہ گئی تھی۔ ظہیر اس سے پیشہ کراتا تھا۔ پولیس ابھی ابھی اسے برآمد کر کے لے گئی ہے۔

وہ بڑی بڑی سیاہ اور اداس آنکھیں اب سعید کا پیچھا کرتی رہتی ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

رام کھلاون

 

کھٹمل مارنے کے بعد میں ٹرنک میں پرانے کاغذات دیکھ رہا تھا کہ سعید بھائی جان کی تصویر مل گئی۔ میز پر ایک خالی فریم پڑا تھا۔۔۔ میں نے اس تصویر سے اس کو پُر کر دیا اور کرسی پر بیٹھ کر دھوبی کا انتظار کرنے لگا۔

ہر اتوار کو مجھے اسی طرح انتظار کرنا پڑتا تھا کیونکہ ہفتے کی شام کو میرے دھلے ہوئے کپڑوں کا اسٹاک ختم ہو جاتا تھا۔۔۔ مجھے اسٹاک تو نہیں کہنا چاہیے اس لیے کہ مفلسی کے اس زمانے میں میرے صرف اتنے کپڑے تھے جو بمشکل چھ سات دن تک میری وضعداری قائم رکھ سکتے تھے۔

میری شادی کی بات چیت ہو رہی تھی اور اس سلسلے میں پچھلے دو تین اتواروں سے میں ماہم جا رہا ہے۔ دھوبی شریف آدمی تھا۔ یعنی دھلائی نہ ملنے کے باوجود ہر اتوار کو باقاعدگی کے ساتھ پورے دس بجے میری کپڑے لے آتا تھا، لیکن پھر پھر بھی مجھے کھٹکا تھا کہ ایسا نہ ہو میری نادہندگی سے تنگ آ کر کسی روز میرے کپڑے چور بازار میں فروخت کر دے اور مجھے اپنی شادی کی بات چیت میں بغیر کپڑوں کے حصہ لینا پڑے جو کہ ظاہر ہے بہت ہی معیوب بات ہوتی۔

کھولی میں مرے ہوئے کھٹملوں کی نہایت ہی مکروہ بُو پھیلی ہوئی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اسے کس طرح دباؤں کہ دھوبی آ گیا۔ ’’ساب سلام۔‘‘ کر کے اس نے اپنی گٹھڑی کھولی اور میرے گنتی کے کپڑے میز پر رکھ دیے۔ ایسا کرتے ہوئے اس کی نظر سعید بھائی جان کی تصویر پر پڑی۔ ایک دم چونک کر اس نے اس کو غور سے دیکھنا شروع کر دیا۔ اور ایک عجیب اور غریب آواز حلق سے نکالی۔ ’’ہے ہے ہے ہیں؟‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔ ’’کیا بات ہے دھوبی؟‘‘

دھوبی کی نظریں اس تصویر پر جمی رہیں۔ ’’یہ تو ساعید شالیم بالشٹر ہے؟‘‘

’’کون؟‘‘

دھوبی نے میری طرف دیکھا اور بڑے وثوق سے کہا۔ ’’ساعید شالیم بالشٹر۔‘‘

’’تم جانتے ہو انھیں؟‘‘

دھوبی نے زور سے سر ہلایا۔ ’’ہاں۔۔۔ دو بھائی ہوتا۔۔۔ ادھر کولابا میں ان کا کوٹھی ہوتا۔۔۔ ساعید شالیم بالشٹر۔۔۔ میں ان کا کپڑا دھوتا ہوتا۔‘‘

میں نے سوچا یہ دو برس پہلے کی بات ہو گی کیونکہ سعید حسن اور محمد حسن بھائی جان نے فجی آئی لینڈ جانے سے پہلے تقریباً ایک بمبے میں پریکٹس کی تھی۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا۔ ’’دو برس پہلے کی بات کرتے ہوتم۔‘‘

دھوبی نے زور سے سرہلایا۔ ’’ہاں۔۔۔ ساعید شالیم بالشٹر جب گیا تو ہم کو ایک پگڑی دیا۔۔۔ ایک دھوتی دیا۔۔۔  ایک کرتہ دیا۔۔۔  نیا۔۔۔  بہت اچھا لوگ ہوتا۔۔۔  ایک کا داڑھی ہوتا۔۔۔  یہ بڑا۔‘‘ اس نے ہاتھ سے داڑھی کی لمبائی بتائی اور سعید بھائی جان کی تصویر کی طرف اشارہ کر کے کہا: ’’یہ چھوٹا ہوتا۔۔۔ اس کا تین بلوا لوگ ہوتا۔۔۔  دو لڑکا، ایک لڑکی۔۔۔  ہمارے سنگ بہت کھیلتا ہوتا۔۔۔  کولابے میں کوٹھی ہوتا۔۔۔  بہت بڑا۔۔۔ ‘‘

میں نے کہا۔ ’’دھوبی یہ میرے بھائی ہیں۔‘‘

دھوبی نے حلق سے عجیب و غریب آواز نکالی۔ ’’ہے ہے ہے ہیں؟۔۔۔  ساعید شالیم بالشٹر؟؟‘‘

میں نے اس کی حیرت دور کرنے کی کوشش کی اور کہا۔ ’’یہ تصویر سعید حسن بھائی جان کی ہے۔۔۔  داڑھی والے محمد حسن ہیں۔۔۔  ہم سب سے بڑے۔‘‘

دھوبی نے میری طرف گھور کے دیکھا، پھر میری کھولی کی غلاظت کا جائزہ لیا۔۔۔  ایک چھوٹی سی کوٹھڑی تھی بجلی لائٹ سے محروم۔ ایک میز تھا۔ ایک کرسی اور ایک ٹاٹ کی کوٹ جس میں ہزارہا کھٹمل تھے۔ دھوبی کو یقین نہیں آتا تھا کہ میں ساعید شالیم بالشٹر کا بھائی ہوں۔ لیکن جب میں نے اس کو ان کی بہت سی باتیں بتائیں تو اس نے سر کو عجیب طریقے سے جنبش دی اور کہا۔ ’’ساعید شالیم بالشٹر کولابے میں رہتا اور تم اس کھولی میں!‘‘

میں نے بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا۔ ’’دنیا کے یہی رنگ ہیں دھوبی۔۔۔ کہیں دھوپ کہیں چھاؤں۔۔۔  پانچ انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔‘‘

’’ہاں ساب۔۔۔ تم بروبر کہتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر دھوبی نے گٹھڑی اٹھائی اور باہر جانے لگا۔ مجھے اس کے حساب کا خیال آیا۔ جیب میں صرف آٹھ آنے تھے جو شادی کی بات چیت کے سلسلے میں ماہم تک آنے جانے کے لیے بمشکل کافی تھے۔ صرف یہ بتانے کے لیے میری نیت صاف ہے میں نے اسے ٹھہرایا اور کہا۔ ’’دھوبی۔۔۔ کپڑوں کا حساب یاد رکھنا۔۔۔ خدا معلوم کتنی دھلائیاں ہو چکی ہیں۔‘‘

دھوبی نے اپنی دھوتی کا لانگ درست کیا اور کہا۔ ’’ساب ہم حساب نہیں رکھتے۔۔۔ ساعید شالیم بالشٹر کا ایک برس کام کیا۔۔۔ جو دے دیا، لے لیا۔۔۔ ہم حساب جانتے ہی نا ہیں۔‘‘

یہ کہہ وہ چلا گیا اور میں شادی کی بات چیت کے سلسلے میں ماہم جانے کے لیے تیار ہونے لگا۔

بات چیت کامیاب رہی۔۔۔ میری شادی ہو گئی۔ حالات بھی بہتر ہو گئے اور میں سکینڈ پیر خان اسٹریٹ کی کھولی سے جس کا کرایہ نو روپے ماہوار تھا کلیئر روڈ کے ایک فلیٹ میں جس کا کرایہ پینتیس روپے ماہوار تھا، اٹھ آیا اور دھوبی کو ماہ بماہ باقاعدگی سے اس کی دھلائیوں کے دام ملنے لگے۔

دھوبی خوش تھا کہ میرے حالات پہلے کی بہ نسبت بہتر ہیں چنانچہ اس نے میری بیوی سے کہا۔ ’’بیگم ساب۔۔۔ ساب کا بھائی ساعید شالیم بالشٹر بہت بڑا آدمی ہوتا۔۔۔ ادھر کولابہ میں رہتا ہوتا۔۔۔ جب گیا تو ہم کو ایک پگڑی، ایک دھوتی، ایک کرتا دیا ہوتا۔۔۔ تمہارا ساب بھی ایک دن بڑا آدمی بنتا ہوا۔‘‘

میں اپنی بیوی کو تصویر والا قصہ سنا چکا تھا اور اس کو یہ بھی بتا چکا تھا کہ مفلسی کے زمانے میں کتنی دریا دلی سے دھوبی نے میرا ساتھ دیا تھا۔۔۔ جب دے دیا، جو دے دیا۔ اس نے کبھی شکایت کی ہی نہ تھی۔۔۔ لیکن میری بیوی کو تھوڑے عرصے کے بعد ہی اس سے یہ شکایت پیدا ہو گئی کہ وہ حساب نہیں کرتا۔ میں نے اس سے کہا۔ ’’چار برس میرا کام کرتا رہا۔۔۔ اس نے کبھی حساب نہیں کیا۔‘‘

جواب یہ ملا۔ ’’حساب کیوں کرتا۔۔۔ ویسے دوگنے چوکنے وصول کر لیتا ہو گا۔‘‘

’’وہ کیسے؟‘‘

’’آپ نہیں جانتے۔۔۔  جن کے گھروں میں بیویاں نہیں ہوتیں ان کو ایسے لوگ بے وقوف بنانا جانتے ہیں۔‘‘

قریب قریب ہر مہینے دھوبی سے میری بیوی کی چخ چخ ہوتی تھی کہ وہ کپڑوں کا حساب الگ اپنے پاس کیوں نہیں رکھتا۔ وہ بڑی سادگی سے صرف اتنا کہہ دیتا۔ ’’بیگم ساب۔۔۔ ہم حساب جانت ناہیں۔ تم جھوٹ ناہیں بولتے گا۔۔۔ ساعید شالیم بالشٹر جو تمہارے ساب کا بھائی ہوتا۔۔۔ ہم ایک برس اس کا کام کیا ہوتا۔۔۔ بیگم ساب بولتا دھوبی تمہارا اتنا پیسہ ہوا۔۔۔ ہم بولتا، ٹھیک ہے!‘‘

ایک مہینے ڈھائی سو کپڑے دھلائی میں گئے۔ میری بیوی نے آزمانے کے لیے اس سے کہا۔ ’’دھوبی اس مہینے ساٹھ کپڑے ہوئے۔‘‘

اس نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔۔۔ بیگم ساب، تم جھوٹ ناہیں بولے گا۔‘‘

میری بوی نے ساٹھ کپڑوں کے حساب سے جب اس کو دام دیے تو اس نے ماتھے کے ساتھ روپے چھوا کر سلام کیا اور چلا گیا۔

شادی کے دو برس بعد میں دلی چلا گیا۔ ڈیڑھ سال وہاں رہا، پھر واپس بمبئی آ گیا اور ماہم میں رہنے لگا۔ تین مہینے کے دوران میں ہم نے چار دھوبی تبدیل کیے کیونکہ بے حد ایمان اور جھگڑالو تھے۔ ہر دھلائی پر جھگڑا کھڑا ہو جاتا تھا۔ کبھی کپڑے کم نکلتے تھے، کبھی دلائی نہایت ذلیل ہوتی تھی۔ ہمیں اپنا پرانی دھوبی یاد آنے لگا۔ ایک روز جب کہ ہم بالکل بغیر دھوبی کے رہ گئے تھے وہ اچانک آ گیا اور کہنے لگا۔ ساب کو ہم نے تک دن بس میں دیکھا۔۔۔  ہم بولا، ایسا کیسا۔۔۔ ساب تو دلی چلا گیا تھا۔۔۔ ہم نے ادھر بائی کلہ میں تپاس کیا۔ چھاپہ والا بولا، اُدھر ماہم میں تپاس کرو۔۔۔ باجو والی چالی میں ساب کا دوست ہوتا۔۔۔ اس سے پوچھا اور آ گیا۔‘‘

ہم بہت خوش ہوئے اور ہمارے کپڑوں کے دن ہنسی خوشی گزرنے لگے۔

کانگرس برسر اقتدار آئی تو امتناعِ شراب کا حکم نافذ ہو گیا۔ انگریزی شراب ملتی تھی لیکن دیسی شراب کی کشید اور فروخت بالکل بند ہو گئی۔ ننانوے فی صدی دھوبی شراب کے عادی تھے۔۔۔  دن بھر پانی میں رہنے کے بعد شام کو پاؤ آدھ پاؤ شراب ان کی زندگی کا جزو بن چکی تھی۔۔۔ ہمارا دھوبی بیمار ہو گیا۔ اس بیماری کا علاج اس نے اس زہریلی شراب سے کیا جو ناجائز طور پر کشید کر کے چھپے چوری بکتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے معدے میں خطرناک گڑ بڑ پیدا ہو گئی جس نے اس کو موت کے دروازے تک پہنچا دیا۔

میں بے حد مصروف تھا۔ صبح چھ بجے گھر سے نکلتا تھا اور رات کو دس ساڑھے دس بجے لوٹتا تھا۔ میری بیوی کو جب اس کی خطرناک بیماری کا علم ہوا تو وہ ٹیکسی لے کر اس کے گھر گئی۔ نوکر اور شوفر کی مدد سے اس کو گاڑی میں بٹھایا اور ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ ڈاکٹر بہت متاثر ہوا چنانچہ اس نے فیس لینے سے انکار کر دیا۔ لیکن میری بیوی نے کہا۔ ’’ڈاکٹر صاحب، آپ سارا ثواب حاصل نہیں کر سکتے۔‘‘

ڈاکٹر مسکرایا۔ ’’تو آدھا آدھا کر لیجیے۔‘‘

ڈاکٹر نے آدھی فیس قبول کر لی۔

دھوبی کا باقاعدہ علاج ہوا۔ معدے کی تکلیف چند انجکشنوں ہی سے دور ہو گئی۔ نقاہت تھی، وہ آہستہ آہستہ مقوی دواؤں کے استعمال سے ختم ہو گئی۔ چند مہینوں کے بعد وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھا اور اٹھتے بیٹھتے ہمیں دعائیں دیتا تھا۔ بھگوان ساب کو ساعید شالیم بالشٹر بنائے۔۔۔ ادھر کولابے میں ساب رہنے کو جائے۔۔۔ باوا لوگ ہیں۔۔۔  بہت بہت پیسہ ہو۔۔۔  بیگم ساب دھوبی کو لینے آیا۔۔۔  موٹر میں۔۔۔  ادھر کِلے (قلعے ) میں بہت بڑے ڈاکٹر کے پاس لے گیا جس کے پاس میم ہوتا۔۔۔ بھگوان بیگم ساب کو خُس رکھے۔۔۔ ‘‘

کئی برس گزر گئے۔ اس دوران میں کئی سیاسی انقلاب آئے۔ دھوبی بلاناغہ اتوار کو آتا رہا۔ اس کی صحت اب بہت اچھی تھی۔ اتنا عرصہ گزرنے پر بھی وہ ہمارا سلوک نہیں بھولا تھا۔ ہمیشہ دعائیں دیتا تھا۔ شراب قطعی طور پر چھوٹ چکی تھی۔ شروع میں وہ کبھی کبھی اسے یاد کیا کرتا تھا۔ پر اب نام تک نہ لیتا تھا۔ سارا دن پانی میں رہنے کے بعد تھکن دور کرنے کے لیے اب اسے دارو کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔

حالات بہت زیادہ بگڑ گئے تھے۔ بٹوارہ ہوا تو ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے۔ ہندوؤں کے علاقوں میں مسلمان اور مسلمانوں کے علاقوں میں ہندو دن کی روشنی اور رات کی تاریکی میں ہلاک کیے جانے لگے۔ میری بیوی لاہور چلی گئی۔

جب حالات اور زیادہ خراب ہوئے تو میں نے دھوبی سے کہا۔ ’’دیکھو دھوبی اب تم کام بند کر دو۔۔۔ یہ مسلمانوں کا محلّہ ہے، ایسا نہ ہو کوئی تمہیں مار ڈالے۔‘‘

دھوبی مسکرایا۔ ’’ساب اپن کو کوئی نہیں مارتا۔‘‘

ہمارے محلے میں کئی وارداتیں ہوئیں مگر دھوبی برابر آتا رہا۔

ایک اتوار میں گھر میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ کھیلوں کے صفحے پر کرکٹ کے میچوں کا اسکور درج تھا اور پہلے صفحات پر فسادات کے شکار ہندوؤں اور مسلمانوں کے اعداد و شمار۔۔۔ میں ان دونوں کی خوفناک مماثلت پر غور کر رہا تھا کہ دھوبی آ گیا۔ کاپی نکال کر میں نے کپڑوں کی پڑتال شروع کر دی تو دھوبی نے ہنس ہنس کے باتیں شروع کر دیں۔ ساعید شالیم بالشٹر بہت اچھا آدمی ہوتا۔۔۔ یہاں سے جاتا تو ہم کو ایک پگڑی، ایک دھوتی، ایک کرتہ دیا ہوتا۔۔۔ تمہارا بیگم ساب بھی ایک دم اچھا آدمی ہوتا۔۔۔ باہر گام گیا ہے نا؟۔۔۔ اپنے ملک میں؟۔۔۔ ادھر کاگج لکھو تو ہمارا سلام بولو۔۔۔ موٹر لے کر آیا ہماری کھولی میں۔۔۔ ہم کو اتنا جلاب آنا ہوتا۔۔۔  ڈاکٹر نے سوئی لگایا۔۔۔ ایک دم ٹھیک ہو گیا۔۔۔ ادھر کاگج لکھو تو ہمارا سلام بولو۔۔۔ بولو رام کھلاون بولتا ہے، ہم کو بھی کاگج لکھو۔۔۔ ‘‘

میں نے اس کی بات کاٹ کر ذرا تیزی سے کہا۔ ’’دھوبی۔۔۔ دارو شروع کر دی؟‘‘

دھوبی ہنسا ’’دارو؟۔۔۔ دارو کہاں سے ملتی ہے ساب؟‘‘

میں نے اور کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔ اس نے میلے کپڑوں کی گٹھڑی بنائی اور سلام کر کے چلا گیا۔

چند دنوں میں حالات بہت ہی زیادہ خراب ہو گئے۔ لاہور سے تار پر تار آنے لگے کہ سب کچھ چھوڑو اور جلدی چلے آؤ۔ میں نے ہفتے کے روز ارادہ کر لیا کہ اتوار کو چل دوں گا۔ لیکن مجھے صبح سویرے نکل جانا تھا۔ کپڑے دھوبی کے پاس تھے۔ میں نے سوچا کرفیو سے پہلے پہلے اس کے ہاں جا کر لے آؤں، چنانچہ شام کو وکٹوریہ لے کر مہاکشمی روانہ ہو گیا۔

کرفیو کے وقت میں بھی ایک گھنٹہ باقی تھا۔ اس لیے آمدورفت جاری تھیں۔ ٹریمیں چل رہی تھیں۔ میری وکٹوریہ پل کے پاس پہنچی تو ایک دم شور برپا ہوا۔ لوگ اندھا دھند بھاگنے لگے۔ ایسا معلوم ہوا جیسے سانڈوں کی لڑائی ہو رہی ہے۔۔۔ ہجوم چھدرا ہوا تو دیکھا، دو بھینسوں کے پاس بہت سے دھوبی لاٹھیاں ہاتھ میں لیے ناچ رہے ہیں اور طرح طرح کی آوازیں نکال رہے ہیں۔ مجھے ادھر ہی جانا تھا مگر وکٹوریہ والے نے انکار کر دیا۔ میں نے اس کو کرایہ ادا کیا اور پیدل چل پڑا۔۔۔ جب دھوبیوں کے پاس پہنچا تو وہ مجھے دیکھ کر خاموش ہو گئے۔

میں نے آگے بڑھ کر ایک دھوبی سے پوچھا۔ ’’رام کھلاون کہاں رہتا ہے؟‘‘

ایک دھوبی جس کے ہاتھ میں لاٹھی تھی جھومتا ہوا اس دھوبی کے پاس آیا جس سے میں نے سوال کیا۔ ’’کیا پوچھت ہے؟‘‘

’’پوچھت ہے رام کھلاون کہاں رہتا ہے؟‘‘

شراب سے دھت دھوبی نے قریب قریب میرے اوپر چڑھ کر پوچھا۔ ’’تم کون ہے؟‘‘

’’میں؟۔۔۔ ر ام کھلاون میرا دھوبی ہے۔‘‘

’’رام کھلاون تہار دھوبی ہے۔۔۔ تو کس دھوبی کا بچہ ہے۔‘‘

ایک چلایا۔ ’’ہندو دھوبی یا مسلمین دھوبی کا۔‘‘

تمام دھوبی جو شراب کے نشے میں چور تھے مکے تانتے اور لاٹھیاں گھماتے میرے اردگرد جمع ہو گئے۔ مجھے ان کے صرف ایک سوال کا جواب دینا تھا۔ مسلمان ہوں یا ہندو؟۔۔۔ میں بے حد خوفزدہ ہو گیا۔ بھاگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ میں ان میں گھرا ہوا تھا۔ نزدیک کوئی پولیس والا بھی نہیں تھا۔ جس کو مدد کیلیے پکارتا۔۔۔ اور کچھ سمجھ میں نہ آیا تو بے جوڑ الفاظ میں ان سے گفتگو شروع کر دی۔ رام کھلاون ہندو ہے۔۔۔ ہم پوچھتا ہے وہ کدھر رہتا ہے۔۔۔ اس کی کھولی کہاں ہے۔۔۔ دس برس سے وہ ہمارا دھوبی ہے۔۔۔ بہت بیمار تھا۔۔۔  ہم نے اس کا علاج کرایا تھا۔۔۔  ہماری بیگم۔۔۔ ہماری میم صاحب یہاں موٹر لے کر آئی تھی۔۔۔ یہاں تک میں نے کہا کہ تو مجھے اپنے اوپر بہت ترس آیا۔ دل ہی دل میں بہت خفیف ہوا کہ انسان اپنی جان بچانے کے لیے کتنی نیچی سطح پر اتر آتا ہے اس احساس نے جرأت پیدا کر دی چنانچہ میں نے ان سے کہا ’’میں مسلمین ہوں۔‘‘

’’مار ڈالو۔۔۔ مار ڈالو‘‘ کا شور بلند ہوا۔

دھوبی جو کہ شراب کے نشے میں دھت تھا ایک طرف دیکھ کر چلایا۔ ’’ٹھہرو۔۔۔ اسے رام کھلاون مارے گا۔‘‘

میں نے پلٹ کر دیکھا۔ رام کھلاون موٹا ڈنڈا ہاتھ میں لیے لڑکھڑا رہا تھا۔ اس نے میری طرف دیکھا اور مسلمانوں کو اپنی زبان میں گالیاں دینا شروع کر دیں۔ ڈنڈا سر تک اٹھا کر گالیاں دیتا ہوا وہ میری طرف بڑھا۔ میں نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔ ’’رام کھلاون۔‘‘

رام کھلاون دہاڑا۔ ’’چپ کر بے رام کھلاون کے۔۔۔‘‘

میری آخری امید بھی ڈوب گئی۔ جب وہ میرے قریب آ پہنچا تو میں نے خشک گلے سے ہولے سے کہا۔ ’’مجھے پہچانتے نہیں رام کھلاون؟‘‘

رام کھلاون نے وار کرنے کے لیے ڈنڈا اٹھایا۔۔۔  ایک دم اس کی آنکھیں سکڑیں، پھر پھیلیں، پھر سکڑیں۔ ڈنڈا ہاتھ سے گرا کر اس نے قریب آ کر مجھے غور سے دیکھا اور پکارا۔ ’’ساب!‘‘ پھر وہ اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا ’’یہ مسلمین نہیں۔۔۔  ساب ہے۔۔۔ بیگم ساب کا ساب۔۔۔ وہ موٹر لے کر آیا تھا۔۔۔ ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا۔۔۔  نے میرا جلاب ٹھیک کیا تھا۔‘‘

رام کھلاون نے اپنے ساتھیوں کو بہت سمجھایا مگر وہ نہ مانے۔۔۔ سب شرابی تھے۔ تُوتُو میں میں شرع ہو گئی۔ کچھ دھوبی رام کھلاون کی طرف ہو گئے اور ہا تھا پائی پر نوبت آ گئی۔ میں نے موقع غنیمت سمجھا اور وہاں سے کھسک گیا۔

دوسرے روز صبح نو بجے کے قریب میرا سامان تیار تھا۔ صرف جہاز کے ٹکٹوں کا انتظار تھا جو ایک دوست بلیک مارکیٹ سے حاصل کرنے گیا تھا۔

میں بہت بے قرار تھا۔ دل میں طرح طرح کے جذبات ابل رہے تھے۔ جی چاہتا تھا کہ جلدی ٹکٹ آ جائیں اور میں بندرگاہ کی طرف چل دوں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اگر دیر ہو گئی تو میرا فلیٹ مجھے اپنے اندر قید کر لے گا۔

دروازہ پر دستک ہوئی۔ میں نے سوچا ٹکٹ آ گئے۔ دروازہ کھولا تو باہر دھوبی کھڑا تھا۔

’’ساب سلام!‘‘

’’سلام‘‘

’’میں اندر آ جاؤں؟‘‘

’’آؤ‘‘

وہ خاموشی سے اندر داخل ہوا۔ گٹھڑی کھول کر اس نے کپڑے نکال پلنگ پر رکھے۔ دھوتی سے اپنی آنکھیں پونچھیں اور گلو گیر آواز میں کہا۔ ’’آپ جا رہے ہیں ساب؟‘‘

’’ہاں‘‘

اس نے رونا شروع کر دیا۔ ساب، مجھے ماف کر دو۔۔۔ یہ سب دارو کا قصور تھا۔۔۔ اور دارو۔۔۔ دارو آج کل مفت ملتی ہے۔۔۔ سیٹھ لوگ بانٹتا ہے کہ پی کر مسلمین کو مارو۔۔۔ مفت کی دارو کون چھوڑتا ہے ساب۔۔۔ ہم کو ماف کر دو۔۔۔  ہم پئے لا تھا۔۔۔ ساعید شالیم بالشٹر ہمارا بہت مہربان ہوتا۔۔۔  ہم کو ایک پگڑی، ایک دھوتی، ایک کرتا دیا ہوتا۔۔۔ تمہارا بیگم ساب ہمارا جان بچایا ہوتا۔۔۔  جلاب سے ہم مرتا ہوتا۔۔۔  وہ موٹر لے کر آتا۔ ڈاکٹر کے پاس لے جاتا۔ اتنا پیسہ خرچ کرتا۔۔۔  ملک ملک جاتا۔۔۔  بیگم صاب سے مت بولنا۔ رام کھلاون۔۔۔ ‘‘

اس کی آواز گلے میں رُندھ گئی۔ گٹھڑی کی چادر کاندھے پر ڈال کر چلنے لگا تو میں نے روکا ’’ٹھہرو رام کھلاون۔‘‘

لیکن وہ دھوتی کا لانگ سنبھالتا تیزی سے باہر نکل گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

ٹُوٹُو

 

میں سوچ رہا تھا۔

دنیا کی سب سے پہلی عورت جب ماں بنی تو کائنات کا رد عمل کیا تھا؟

دنیا کے سب سے پہلے مرد نے کیا آسمانوں کی طرف تمتماتی آنکھوں سے دیکھ کر دنیا کی سب سے پہلی زبان میں بڑے فخر کے ساتھ یہ نہیں کہا تھا۔ ’’میں بھی خالق ہوں۔‘‘

ٹیلی فون کی گھنٹی بجنا شروع ہوئی۔ میرے آوارہ خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ بالکنی سے اٹھ کر میں اندر کمرے میں آیا۔ ٹیلی فون ضدی بچے کی طرح چلائے جا رہا تھا۔

ٹیلی فون بڑی مفید چیز ہے، مگر مجھے اس سے نفرت ہے۔ اس لیے کہ یہ وقت بے وقت بجے لگنا ہے۔۔۔ چنانچہ بہت ہی بد دلی سے میں نے ریسیور اٹھایا اور نمبر بتایا ’’فور فور فائیو سیون۔‘‘

دوسرے سرے سے ہیلو ہیلو شروع ہوئی۔ میں جھنجھلا گیا۔ ’’کون ہے‘‘

جواب ملا۔ ’’آیا۔‘‘

میں نے آیاؤں کے طرز گفتگو میں پوچھا۔ ’’کس کو مانگتا ہے؟‘‘

’’میم صاحب ہے۔‘‘

’’ہے۔۔۔ ٹھہرو۔‘‘

ٹیلی فون کا ریسیور ایک طرف رکھ کر میں نے اپنی بیوی کو جو غالباً اندر سو رہی تھی، آواز دی ’’میم صاحب۔۔۔ میم صاحب۔‘‘

آواز سن کر میری بیوی اٹھی اور جمائیاں لیتی ہوئی آئی۔ ’’یہ کیا مذاق ہے۔۔۔  میم صاحب، میم صاحب!‘‘

میں نے مسکرا کہا۔ ’’میم صاحب ٹھیک ہے۔۔۔ یاد ہے، تم نے اپنی پہلی آیا سے کہا تھا کہ مجھے میم صاحب کے بدلے بیگم صاحبہ کہا کرو تو اس نے بیگم صاحبہ کو بینگن صاحبہ بنا دیا تھا!‘‘

ایک مسکراتی ہوئی جمائی لے کر میری بیوی نے پوچھا۔ ’’کون ہے۔‘‘

’’دریافت کر لو۔‘‘

میری بیوی نے ٹیلی فون اٹھایا اور ہیلو ہیلو شروع کر دیا۔۔۔ میں باہر بالکنی میں چلا گیا۔۔۔ عورتیں ٹیلی فون کے معاملے میں بہت لمبی ہوتی ہیں۔ چنانچہ پندرہ بیس منٹ تک ہیلو ہیلو ہوتا رہا۔

میں سوچ رہا تھا۔

ٹیلی فون ہر دو تین الفاظ کے بعد ہیلو کیوں کہا جاتا ہے؟

کیا اس ہلو ہلو کے عقب میں احساس کمتری تو نہیں؟۔۔۔ بار بار ہلو صرف اسے کرنی چاہیے جسے اس بات کا اندیشہ ہو کہ اس کی مہمل گفتگو سے تنگ آ کر سننے والا ٹیلی فون چھوڑ دے گا۔۔۔ یا ہو سکتا ہے یہ محض عادت ہو۔

دفعتاً میری بیوی گھبرائی ہوئی آئی۔ ’’سعادت صاحب، اس دفعہ معاملہ بہت ہی سیریس معلوم ہوتا ہے۔‘‘

’’کون سا معاملہ۔‘‘

معاملے کی نوعیت بتائے بغیر میری بیوی نے کہنا شروع کر دیا۔ ’’بات بڑھتے بڑھتے طلاق تک پہنچ گئی ہے۔۔۔ پاگل پن کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔۔۔  میں شرط لگانے کے لیے تیار ہوں کہ بات کچھ بھی نہیں ہو گی۔ بس پھُسری کا بھگندر بنا ہو گا۔۔۔  دونوں سر پھرے ہیں۔‘‘

’’اجی حضرت کون؟‘‘

’’میں نے بتایا نہیں آپ کو؟۔۔۔ اوہ۔۔۔ ٹیلی فون، طاہرہ کا تھا!‘‘

’’طاہرہ۔۔۔ کون طاہرہ؟‘‘

’’مسز یزدانی۔‘‘

’’اوہ!‘‘ میں سارا معاملہ سمجھ گیا ’’کوئی نیا جھگڑا ہوا ہے؟‘‘

’’نیا اور بہت بڑا۔۔۔ جائیے یزدانی آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔

’’مجھ سے کیا بات کرنا چاہتا ہے؟‘‘

’’معلوم نہیں۔۔۔ طاہرہ سے ٹیلی فون چھین کر مجھ سے فقط یہ کہا۔ بھابی جان، ذرا منٹو صاحب کو بلائیے!‘‘

’’خواہ مخواہ میرا مغز چاٹے گا‘‘۔ یہ کہہ کر میں اٹھا اور ٹیلی فون پر یزدانی سے مخاطب ہوا۔

اس نے صرف اتنا کہا ’’معاملہ بے حد نازک ہو گیا ہے۔۔۔ تم اور بھابی جان ٹیکسی میں فوراً یہاں آ جاؤ۔‘‘

میں اور میری بیوی جلدی کپڑے تبدیل کر کے یزدانی کی طرف روانہ ہو گئے۔۔۔ راستے میں ہم دونوں نے یزدانی اور طاہرہ کے متعلق بے شمار باتیں کیں۔

طاہرہ ایک مشہور عشق پیشہ موسیقار کی خوبصورت لڑکی تھی۔ عطا یزدانی ایک پٹھان آڑھتی کا لڑکا تھا۔ پہلے شاعری شروع کی، پھر ڈرامہ نگاری، اس کے بعد آہستہ آہستہ فلمی کہانیاں لکھنے لگا۔۔۔ طاہرہ کا باپ اپنے آٹھویں عشق میں مشغول تھا اور عطا یزدانی علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک کے لیے ’’بیچلہ‘‘ نامی ڈرامہ لکھنے میں۔۔۔

ایک شام پریڈ کرتے ہوئے عطا یزدانی کی آنکھیں طاہرہ کی آنکھوں سے چار ہوئیں۔ ساری رات جاگ کر اس نے ایک خط لکھا اور طاہرہ تک پہنچا دیا۔۔۔ چند ماہ تک دونوں میں نامہ و پیام جاری رہا اور آخر کار دونوں کی شادی بغیر کسی حیل حجت ہو گئی۔ عطا یزدانی کو اس بات کا افسوس تھا کہ ان کا عشق ڈرامے سے محروم رہا۔

طاہرہ بھی طبعاً ڈرامہ پسند تھی۔۔۔ عشق اور شادی سے پہلے سہیلیوں کے ساتھ باہر شوپنگ کو جاتی تو ان کے لیے مصیبت بن جاتی۔۔۔  گنجے آدمی کو دیکھتے ہی اس کے ہاتھوں میں کھجلی شروع ہو جاتی ’’میں اس کے سر پر ایک دھول تو ضرور جماؤں گی، چاہے تم کچھ ہی کرو۔‘‘

ذہین تھی۔۔۔ ایک دفعہ اس کے پاس کوئی پیٹی کوٹ نہیں تھا۔ اس نے کمر کے گرد ازار بند باندھا اور اس میں ساڑھی اڑس کر سہیلیوں کے ساتھ چل دی۔

کیا طاہرہ واقعی عطا یزدانی کے عشق میں مبتلا ہوئی تھی؟ اس کے متعلق وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا۔ یزدانی کا پہلا عشقیہ خط ملنے پر اس کا رد عمل غالباً یہ تھا کہ کھیل دلچسپ ہے کیا ہرج ہے، کھیل لیا جائے۔ شادی پر بھی اس کا رد عمل کچھ اسی قسم کا تھا۔ یوں تو مضبوط کردار کی لڑکی تھی، یعنی جہاں تک با عصمت ہونے کا تعلق ہے، لیکن تھی کھلنڈری۔ اور یہ جو آئے دن اس کا اپنے شوہر کے ساتھ لڑائی جھگڑا ہوتا تھا، میں سمجھتا ہوں ایک کھیل ہی تھا۔ لیکن جب ہم وہاں پہنچے اور حالات دیکھے تو معلوم ہوا کہ یہ کھیل بڑی خطرناک صورت اختیار کر گیا تھا۔

ہمارے داخل ہوتے ہی وہ شور برپا ہوا کہ کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ طاہرہ اور یزدانی دونوں اونچے اونچے سروں میں بولنے لگے۔ گلے، شکوے، طعنے مہنے ۔۔۔ پرانے مردوں پر نئی لاشیں، نئی لاشوں پر پرانے مردے۔۔۔ جب دونوں تھک گئے تو آہستہ آہستہ لڑائی کی نوک پلک نکلنے لگی۔

طاہرہ کو شکایت تھی کہ عطا اسٹوڈیو کی ایک واہیات ایکٹرس کو ٹیکسیوں میں لیے لیے پھرتا ہے۔

یزدانی کا بیان تھا کہ یہ سراسر بہتان ہے۔

طاہرہ قرآن اٹھانے کے لیے تیار تھی عطا کا اس ایکٹرس سے ناجائز تعلق ہے۔ جب وہ صاف انکاری ہوا تو طاہرہ نے بڑی تیزی کے ساتھ کہا۔ ’’کتنے پارسا بنتے ہو۔۔۔ یہ آیا جو کھڑی ہے۔ کیا تم نے اسے چومنے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔۔  وہ تو میں اوپر سے آ گئی۔۔۔ ‘‘

یزدانی گرجا ’’بکواس بند کرو۔‘‘

اس کے بعد پھر وہی شور برپا ہو گیا۔

میں نے سمجھایا۔ میری بیوی نے سمجھایا مگر کوئی اثر نہ ہوا۔ عطا کو تومیں نے ڈانٹا بھی ’’زیادتی سراسر تمہاری ہے۔۔۔ معافی مانگو اور یہ قصہ ختم کرو۔‘‘

عطا نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ میری طرف دیکھا ’’سعادت، یہ قصہ یوں ختم نہیں ہو گا۔۔۔ میرے متعلق یہ عورت بہت کچھ کہہ چکی ہے، لیکن میں نے اس کے متعلق ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا۔۔۔ عنایت کو جانتے ہو تم؟‘‘

’’عنایت؟‘‘

’’پلے بیک سنگر۔۔۔ اس کے باپ کا شاگرد!‘‘

’’ہاں ہاں‘‘

’’اول درجے کا چھٹا ہوا بدمعاش ہے۔۔۔ مگر یہ عورت ہر روز اسے یہاں بلاتی ہے۔۔۔ بہانہ یہ ہے کہ۔۔۔‘‘

طاہرہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ ’’بہانہ وہانہ کچھ نہیں۔۔۔ بولو، تم کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘

عطا نے انتہائی نفرت کے ساتھ کہا۔ ’’کچھ نہیں۔‘‘

طاہرہ نے اپنے ماتھے پر بالوں کی جھالر ایک طرف ہٹائی۔ ’’عنایت میرا چاہنے والا ہے۔۔۔ بس!‘‘

عطا نے گالی دی۔۔۔ عنایت کو موٹی اور طاہرہ کو چھوٹی۔۔۔ پھر شور برپا ہو گیا۔

ایک بار پھر وہی کچھ دہرایا گیا۔ جو پہلے کئی بار کہا  جا چکا تھا۔۔۔ میں نے اور میری بیوی نے بہت ثالثی کی مگر نتیجہ وہی صفر۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے عطا اور طاہرہ دونوں اپنے جھگڑے سے مطمئن نہیں۔ لڑائی کے شعلے ایک دم بھڑکتے تھے اور کوئی مرئی نتیجہ کیے بغیر ٹھنڈے ہو جاتے تھے۔ پھر بھڑکائے جاتے تھے، لیکن ہوتا ہواتا کچھ نہیں تھا۔

میں بہت دیر تک سوچتا رہا کہ عطا اور طاہرہ چاہتے کیا ہیں مگر کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔۔۔ مجھے بڑی الجھن ہو رہی تھی۔ دو گھنٹے سے بک بک اور جھک جھک جاری تھی۔ لیکن انجام خدا معلوم کہاں بھٹک رہا تھا۔ تنگ آ کر میں نے کہا ’’بھئی، اگر تم دونوں کی آپس میں نہیں نبھ سکتی تو بہتر یہی ہے کہ علیحدہ ہو جاؤ۔‘‘

طاہرہ خاموش رہی، لیکن عطا نے چند لمحات غور کرنے کے بعد کہا۔ ’’علیحدگی نہیں۔۔۔  طلاق!‘‘

طاہرہ چلائی ’’طلاق، طلاق، طلاق۔۔۔ دیتے کیوں نہیں طلاق۔۔۔ میں کب تمہارے پاؤں پڑی ہوں کہ طلاق نہ دو۔‘‘

عطا نے بڑی مضبوط لہجے میں کہا۔ ’’دے دوں گا اور بہت جلد۔‘‘

طاہرہ نے اپنے ماتھے پر سے بالوں کی جھالر ایک طرف ہٹائی۔ ’’آج ہی دو۔‘‘

عطا اٹھ کر ٹیلی فون کی طرف بڑھا۔ ’’میں قاضی سے بات کرتا ہوں۔‘‘

جب میں نے دیکھا کہ معاملہ بگڑ رہا ہے تو اٹھ کر عطا کو روکا ’’بے وقوف نہ بنو۔۔۔ بیٹھو آرام سے!‘‘

طاہرہ نے کہا۔ ’’نہیں بھائی جان، آپ مت روکیے۔‘‘

میری بیوی نے طاہرہ کو ڈانٹا۔ ’’بکواس بند کرو۔‘‘

’’یہ بکواس صرف طلاق ہی سے بند ہو گی۔‘‘ یہ کہہ کر طاہرہ ٹانگ ہلانے لگی۔

’’سن لیا تم نے‘‘ عطا مجھ سے مخاطب ہو کر پھر ٹیلی فون کی طرف بڑھا، لیکن میں درمیان میں کھڑا ہو گیا۔

طاہرہ میری بیوی سے مخاطب ہوئی ’’مجھے طلاق دے کر اس چڈد ایکٹرس سے بیاہ رچائے گا۔‘‘

عطا نے طاہرہ سے پوچھا۔ ’’اور تو؟‘‘

طاہرہ نے ماتھے پر بالوں کے پسینے میں بھیگی ہوئی جھالر ہاتھ سے اوپر کی۔ ’’میں۔۔۔ تمہارے اس یوسفِ ثانی عنایت خان سے!‘‘

’’بس اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔۔۔ حد ہو گئی ہے۔۔۔  تم ہٹ جاؤ ایک طرف‘‘ عطا نے ڈائرکٹری اٹھائی اور نمبر دیکھنے لگا۔ جب وہ ٹیلی فون کرنے لگا تو میں نے اسے روکنا مناسب نہ سمجھا۔ اس نے ایک دو مرتبہ ڈائل کیا۔ لیکن نمبر نہ ملا۔ مجھے موقعہ ملا تو میں نے اسے پر زور الفاظ میں کہا کہ اپنے ارادے سے باز رہے۔ میری بیوی نے بھی اس سے درخواست کی مگر وہ نہ مانا۔ اس پر طاہرہ نے کہا۔ ’’صفیہ۔ تم کچھ نہ کہو۔۔۔ اس آدمی کے پہلو میں دل نہیں پتھر ہے۔۔۔ میں تمہیں وہ خط دکھاؤں گی جو شادی سے پہلے اس نے مجھے لکھے تھے۔۔۔ اس وقت میں اس کے دل کا فرار اس کی آنکھوں کا نور تھی۔ میری زبان سے نکلا ہوا صرف ایک لفظ اس کے تِن مردہ میں جان ڈالنے کے لیے کافی تھا۔۔۔ میرے چہرے کی صرف ایک جھلک دیکھ کر یہ بخوشی مرنے کے لیے تیار تھا۔۔۔ لیکن آج اسے میری ذرہ برابر پروا نہیں۔‘‘

عطا نے ایک بار پھر نمبر ملانے کی کوشش کی۔

طاہرہ بولتی رہی ’’میرے باپ کی موسیقی سے بھی اسے عشق تھا۔۔۔ اس کو فخر تھا کہ اتنا بڑا آرٹسٹ مجھے اپنی دامادی میں قبول کر رہا ہے۔۔۔  شادی کی منظوری حاصل کرنے کے لیے اس نے ان کے پاؤں تک دابے، پر آج اسے ان کا کوئی خیال نہیں۔‘‘

عطا ڈائل گھماتا رہا۔

طاہرہ مجھ سے مخاطب ہو۔ ’’آپ کو یہ بھائی کہتا ہے، آپ کی عزت کرتا ہے۔۔۔  کہتا تھا جو کچھ بھائی جان کہیں گے میں مانوں گا۔۔۔ لیکن آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔۔۔  ٹیلی فون کر رہا ہے قاضی کو۔۔۔ مجھے طلاق دینے کے لیے۔‘‘

میں نے ٹیلی فون ایک طرف ہٹا دیا۔ ’’عطا، اب چھوڑو بھی۔‘‘

’’نہیں‘‘ یہ کہہ کر اس نے ٹیلی فون اپنی طرف گھسیٹ لیا۔

طاہرہ بولی ’’جانے دیجیے بھائی جان۔۔۔ اس کے دل میں میرا کیا، ٹُوٹُو کا بھی کچھ خیال نہیں!‘‘

عطا تیزی سے پلٹا۔ ’’نام نہ لو ٹُوٹُو کا!‘‘

طاہرہ نے نتھنے پھلا کرکہا۔ ’’کیوں نام نہ لوں اس کا۔‘‘

عطا نے ریسیور رکھ دیا۔ ’’وہ میرا ہے!‘‘

طاہرہ اٹھی کھڑی ہوئی۔ ’’جب میں تمہاری نہیں ہوں تو وہ کیسے تمہارا ہو سکتا ہے۔۔۔ تم تو اس کا نام بھی نہیں لے سکتے۔‘‘

عطا نے کچھ دیر سوچا۔ ’’میں سب بندوبست کر لوں گا۔‘‘

طاہرہ کے چہرے پر ایک دم زردی چھا گئی۔ ’’ٹُوٹُو کو چھین لو گے مجھ سے؟‘‘

عطا نے بڑے مضبوط لہجے میں جواب دیا۔ ’’ہاں۔‘‘

’’ظالم۔‘‘

طاہرہ کے منہ سے ایک چیخ نکلی۔ بے ہوش کر گرنے والی ہی تھی کہ میری بیوی نے اسے تھام لیا۔۔۔ عطا پریشان ہو گیا۔ پانی کے چھینٹے۔ یوڈی کلون۔ سملنگ سالٹ۔ ڈاکٹروں کو ٹیلی فون۔۔۔ اپنے بال نوچ ڈالے، قمیض پھاڑ ڈالی۔۔۔ طاہرہ ہوش میں آئی تو وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر تھپکنے لگا۔ ’’جانم ٹوٹو تمہارا ہے۔۔۔ ٹوٹو تمہارا ہے۔‘‘

طاہرہ نے رونا شروع کر دیا۔ ’’نہیں وہ تمہارا ہے۔‘‘

عطا نے طاہرہ کی آنسوؤں بھری آنکھوں کو چومنا شروع کر دیا۔ ’’میں تمہارا ہوں۔ تم میری ہو۔۔۔ ٹوٹو تمہارا بھی ہے، میرا بھی ہے!‘‘

میں نے اپنی بیوی سے اشارہ کیا۔ وہ باہر نکلی تو میں بھی تھوڑی دیر کے بعد چل دیا۔۔۔  ٹیکسی کھڑی تھی، ہم دونوں بیٹھ گئے۔ میری بیوی مسکرا رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا ’’یہ ٹوٹو کون ہے؟‘‘

میری بیوی کھکھلا کر ہنس پڑی۔ ’’ان کا لڑکا‘‘

میں نے حیرت سے پوچھا۔ ’’لڑکا؟‘‘

میری بیوی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

میں نے اور زیادہ حیرت سے پوچھا ’’کب پیدا ہوا تھا۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔

’’ابھی پیدا نہیں ہوا۔۔۔ چوتھے مہینے میں ہے۔‘‘

چوتھے مہینے، یعنی اس واقعے کے چار مہینے بعد، میں باہر بالکنی میں بالکل خالی الذہن بیٹھا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجنا شروع ہوئی۔ بڑی بے دلی سے اٹھنے والا تھا کہ آواز بند ہو گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد میری بیوی آئی۔ میں نے اس سے پوچھا۔ ’’کون تھا۔‘‘

’’یزدانی صاحب۔‘‘

’’کوئی نئی لڑائی تھی؟‘‘

’’نہیں۔۔۔ طاہرہ کے لڑکی ہوئی ہے۔۔۔ مری ہوئی‘‘ یہ کہہ کر وہ روتی ہوئی اندر چلی گئی۔

میں سوچنے لگا۔ ’’اگر اب طاہرہ اور عطا کا جھگڑا ہوا تو اسے کون ٹُوٹُو چکائے گا۔؟‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

خالی بوتلیں، خالی ڈبے

 

یہ حیرت مجھے اب بھی ہے کہ خاص طور پر خالی بوتلوں اور ڈبوں سے مجرد مردوں کو اتنی دلچسپی کیوں ہوتی ہے؟۔۔۔ مجرد مردوں سے میری مراد ان مردوں سے ہے جن کو عام طور پر شادی سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔

یوں تو اس قسم کے مرد عموماً سنکی اور عجیب و غریب عادات کے مالک ہوتے ہیں، لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ انھیں خالی بوتلوں اور ڈبوں سے کیوں اتنا پیار ہوتا ہے؟۔۔۔ پرندے اور جانور اکثر ان لوگوں کے پالتو ہوتے ہیں۔ یہ میلان سمجھ میں آ سکتا ہے کہ تنہائی میں ان کا کوئی تو مونس ہونا چاہیے، لیکن خالی بوتلیں اور خالی ڈبے ان کی کیا غمگساری کر سکتے ہیں؟

سنک اور عجیب و غریب عادات کا جواز ڈھونڈنا کوئی مشکل نہیں کہ فطرت کی خلاف ورزی ایسے بگاڑ پیدا کر سکتی ہے، لیکن اس کی نفسیاتی باریکیوں میں جانا البتہ بہت مشکل ہے۔

میرے ایک عزیز ہیں۔ عمر آپ کی اس وقت پچاس کے قریب قریب ہے آپ کو کبوتر اور کتے پالنے کا شوق ہے اور اس میں کوئی عجیب و غریب پن نہیں لیکن آپ کو یہ مرض ہے کہ بازار سے ہر روز دودھ کی بالائی خرید کر لاتے ہیں۔ چولھے پر رکھ کر اس کا روغن نکالتے ہیں اور اس روغن میں اپنے لیے علیحدہ سالن تیار کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح خالص گھی تیار ہوتا ہے۔

پانی پینے کے لیے اپنا گھڑا الگ رکھتے ہیں۔ اس کے منہ پر ہمیشہ ململ کا ٹکڑا بندھا رہتا ہے۔ تاکہ کوئی کیڑا مکوڑا اندر نہ چلا جائے، مگر ہوا برابر داخل ہوتی رہے۔ پاخانے جاتے وقت سب کپڑے اتار کر ایک چھوٹا سا تولیہ باندھ لیتے ہیں اور لکڑی کی کھڑاؤں پہن لیتے ہیں۔۔۔  اب کون ان کی بالائی کے روغن، ؍ گھڑے کی ململ، انگ کے تولیے اور لکڑی کی کھڑاؤں کے نفسیاتی عقدے کو حل کرنے بیٹھے!

میرے ایک مجرد دوست ہیں۔ بظاہر بڑے ہی نورمل انسان۔ ہائی کورٹ میں ریڈر ہیں۔ آپ کو ہر جگہ سے ہر وقت بدبو آتی رہتی ہے۔ چنانچہ ان کا رو مال سدا ان کی ناک سے چپکا رہتا ہے۔۔۔ آپ کو خرگوش پالنے کا شوق ہے۔

ایک اور مجرد ہیں۔ آپ کو جب موقعہ ملے تو نماز پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود آپ کا دماغ بالکل صحیح ہے۔ سیاسیاتِ عالم پر آپ کی نظر بہت وسیع ہے۔ طوطوں کو باتیں سکھانے میں مہارت تامہ رکھتے ہیں۔

ملٹری کے ایک میجر ہیں۔ سن رسیدہ اور دولت مند۔ آپ کو حُقّے جمع کرنے کا شوق ہے۔ گڑگڑیاں، پیچواں، چموڑے، غرضیکہ ہر قسم کا حقہ ان کے پاس موجود ہے۔ آپ کئی مکانوں کے مالک ہیں، مگر ہوٹل میں ایک کمرہ کرائے پر لے کر رہتے ہیں۔ بٹیریں آپ کی جان ہیں۔

ایک کرنل صاحب ہیں۔ ریٹائرڈ۔ بہت بڑی کوٹھی میں۔ اکیلے دس بارہ چھوٹے بڑے کتوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ ہر برانڈ کی وسکی ان کے یہاں موجود رہتی ہے۔ ہر روز شام کو چار پیگ پیتے ہیں اور اپنے ساتھ کسی نہ کسی لاڈلے کتے کو بھی پلاتے ہیں۔

میں نے اب تک جتنے مجردوں کا ذکر کیا ہے، ان سب کو حسبِ توفیق خالی بوتلوں اور ڈبوں سے دلچسپی ہے۔ میرے، دودھ کی بالائی سے خالص گھی تیار کرنے والے عزیز، گھر میں جب بھی کوئی خالی بوتل دیکھیں تو اسے دھو دھا کر اپنی الماری میں سجا دیتے ہیں کہ ضرورت کے وقت کام آئے گی۔ ہائی کورٹ کے ریڈر جن کو ہر جگہ سے ہر وقت بدبو آتی رہتی ہے صرف ایسی بوتلیں اور ڈبے جمع کرتے ہیں، جن کے متعلق وہ اپنا پورا اطمینان کر لیں کہ اب ان سے بدبو آنے کا کوئی احتمال نہیں رہا۔ جب موقعہ ملے، نماز پڑھنے والے، خالی بوتلیں آب دست کے لیے اور ٹین کے خالی ڈبے وضو کے لیے درجنوں کی تعداد میں جمع رکھتے ہیں۔ ان کے خیال کے مطابق یہ دونوں چیزیں سستی اور پاکیزہ رہتی ہیں۔۔۔ قسم قسم کے حقے جمع کرنے والے میجر صاحب کو خالی بوتلیں اور خالی ڈبے جمع کر کے ان کو بیچنے کا شوق ہے اور ریٹائرڈ کرنل صاحب کو صرف وسکی کی بوتلیں جمع کرنے کا۔

آپ کرنل صاحب کے ہاں جائیں تو ایک چھوٹے، صاف ستھرے کمرے میں کئی شیشے کی الماریوں میں آپ کو وسکی کی خالی بوتلیں سجی ہوئی نظر آئیں گی۔ پرانے سے پرانے برانڈ کی وسکی کی خالی بوتل بھی آپ کو ان کے اس نادر مجموعے میں مل جائے گی۔ جس طرح لوگوں کو ٹکٹ اور سکے جمع کرنے کا شوق ہوتا ہے، اسی طرح ان کو وسکی کی خالی بوتلیں جمع کرنے اور ان کی نمائش کرنے کا شوق بلکہ خبط ہے۔

کرنل صاحب کا کوئی عزیز، رشتہ دار نہیں۔ کوئی ہے تو اس کا مجھے علم نہیں۔ دنیا میں تن تہا ہیں۔ لیکن وہ تنہائی بالکل محسوس نہیں کرتے۔۔۔ دس بارہ کتے ہیں ان کی دیکھ بھال وہ اس طرح کرتے ہیں جس طرح شفیق باپ اپنی اولاد کی کرتے ہیں۔ سارا دن ان کا ان پالتو حیوانوں کے ساتھ گزر جاتا ہے۔ فرصت کے وقت وہ الماریوں میں اپنی چہیتی بوتلیں سنوارتے رہتے ہیں۔

آپ پوچھیں گے، خالی بوتلیں تو ہوئیں۔ یہ تم نے خالی ڈبے کیوں ساتھ لگا دیے۔۔۔ کیا یہ ضروری ہے کہ تجرد پسند مردوں کو خالی بوتلوں کے ساتھ ساتھ خالی ڈبوں کے ساتھ بھی دلچسپی ہو؟۔۔۔ اور پھر ڈبے اور بوتلیں، صرف خالی کیوں؟ بھری ہوئی کیوں نہیں؟۔۔۔ میں آپ سے شاید پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ مجھے خود اس بات کی حیرت ہے۔ یہ اور اسی قسم کے اور بہت سے سوال اکثر میرے دماغ میں پیدا ہو چکے ہیں۔ باوجود کوشش کے میں ان کا جواب حاصل نہیں کر سکتا۔

خالی بوتلیں اور خالی ڈبے، خلا کا نشان ہیں اور خلا کا کوئی منطقی جوڑ تجرد پسند مردوں سے غالباً یہی ہو سکتا ہے کہ خود ان کی زندگی میں ایک خلا ہوتا ہے، لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ کیا وہ اس خلا کو ایک اور خلا سے پُر کرتے ہیں؟۔۔۔ کتوں بلیوں خرگوشوں اور بندروں کے متعلق آدمی سمجھ سکتا ہے کہ وہ خالی خولی زندگی کی کمی ایک حد تک پوری کر سکتے ہیں کہ وہ بدل بہلا سکتے ہیں، ناز نخرے کر سکتے ہیں۔ دل چسپ حرکات کے موجب ہو سکتے ہیں، پیار کا جواب بھی دے سکتے ہیں۔ لیکن خالی بوتلیں اور ڈبے دلچسپی کا کیا سامان بہم پہنچاتے ہیں؟

بہت ممکن ہے آپ کو ذیل کے واقعات میں ان سوالوں کا جواب مل جائے۔

دس برس پہلے میں جب بمبئی گیا تو وہاں ایک مشہور فلم کمپنی کا ایک فلم تقریباً بیس ہفتوں سے چل رہا تھا۔۔۔ ہیروئن پرانی تھی، لیکن ہیرو نیا تھا جو اشتہاروں میں چھپی ہوئی تصویروں میں نوخیز دکھائی دیتا تھا۔۔۔ اخباروں میں اس کی کردار نگاری کی تعریف پڑھی تو میں نے یہ فلم دیکھا۔ اچھا خاصا تھا۔ کہانی جاذب توجہ تھی اور اس نئے ہیرو کا کام بھی اس لحاظ سے قابل تعریف تھا کہ اس نے پہلی مرتبہ کیمرے کا سامنا کیا تھا۔

پردے پر کسی ایکٹر یا ایکٹرس کی عمر کا اندازہ لگانا عام طور پر مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ میک اپ جوان کو بوڑھا اور بوڑھے کو جوان بنا دیتا ہے، مگر یہ نیا ہیرو بلاشبہ نوخیز تھا۔۔۔ کالج کے طالب علم کی طرح تر و تازہ اور چاق و چوبند۔۔۔ خوبصورت تو نہیں تھا مگر اس کے گٹھے ہوئے جسم کا ہر عضو اپنی جگہ پر مناسب و موزوں تھا۔

اس فلم کے بعد اس ایکٹر کے میں نے اور کئی فلم دیکھے۔۔۔ اب وہ منجھ گیا تھا۔ چہرے کے خط و خال کی طفلانہ نرمائش، عمر اور تجربے کی سختی میں تبدیل ہو چکی تھی۔ اس کا شمار اب چوٹی کے اداکاروں میں ہونے لگا تھا۔

فلمی دنیا میں اسکینڈل عام ہوتے ہیں۔ آئے دن سننے میں آتا ہے کہ فلاں ایکٹر کا فلاں ایکٹرس سے تعلق ہو گیا ہے۔ فلاں ایکٹرس، فلاں ایکٹر کو چھوڑ کر فلاں ڈائریکٹر کے پہلو میں چلی گئی ہے۔ قریب قریب ہر ایکٹر اور ہر ایکٹرس کے ساتھ کوئی نہ کوئی رومان جلد یا بدیر وابستہ ہو جاتا ہے، لیکن اس نئے ہیرو کی زندگی جس کا میں ذکر کر رہا ہوں ان بکھیڑوں سے پاک تھی، مگر اخباروں میں اس کا چرچا نہیں تھا۔ کسی نے بھولے سے حیرت کا بھی اظہار نہیں کیا تھا کہ فلمی دنیا میں رہ کر رام سروپ کی زندگی جنسی آلائشوں سے پاک ہے۔

میں نے سچ پوچھئے تو اس بارے میں کبھی غور ہی نہیں کیا تھا۔ اس لیے کہ مجھے ایکٹروں اور ایکٹرسوں کی نجی زندگی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ فلم دیکھا۔ اس کے متعلق اچھی یا بری رائے قائم کی اور بس۔۔۔ لیکن جب رام سروپ سے میری ملاقات ہوئی تو مجھے اس کے متعلق بہت سی دلچسپ باتیں معلوم ہوئیں۔۔۔ یہ ملاقات اس کا پہلا فلم دیکھنے کے تقریباً آٹھ برس بعد ہوئی۔

شروع شروع میں تو وہ بمبئے سے بہت دور ایک گاؤں میں رہتا تھا، مگر اب فلمی سرگرمیاں بڑھ جانے کے باعث اس نے شیواجی پارک میں سمندر کے کنارے ایک متوسط درجے کا فلیٹ لے رکھا تھا۔ اس سے میری ملاقات اسی فلیٹ میں ہوئی جس کے چار کمرے تھے، باورچی خانے سمیت۔

اس فلیٹ میں جو کنبہ رہتا تھا۔ اس کے آٹھ افراد تھے۔ خود رام سروپ۔ اس کا نوکر جو باورچی بھی تھا۔ تین کتے۔ دو بندر اور ایک بلی۔ رام سروپ اور اس کا نوکر مجرد تھے۔ تین کتوں اور ایک بلی کے مقابلے میں ان کی مخالف جنس نہیں تھی، ایک بندر تھا اور ایک بندریا۔ دونوں اکثر اوقات ایک جالی دار پنجرے میں بند رہتے تھے۔

ان نصف درجن حیوانوں کے ساتھ رام سروپ کو والہانہ محبت تھی۔ نوکر کے ساتھ بھی اس کا سلوک بہت اچھا تھا مگر اس میں جذبات کا دخل بہت کم تھا۔ بندھے کام تھے جو مقررہ وقت پر مشین کی سی بے روح باقاعدگی کے ساتھ گویا خود بخود ہو جاتے تھے۔ اس کے علاوہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ رام سروپ نے اپنے نوکر کو اپنی زندگی کے تمام قواعد و ضوابط ایک پرچے پر لکھ کر دے دیے تھے جو اس نے حفظ کر لیے تھے۔

اگر رام سروپ کپڑے اتار کر، نیکر پہننے لگے تو اس کا نوکر فوراً تین چار سوڈے اور برف کی فلاسک شیشے والی تپائی پر رکھ دیتا تھا۔۔۔ اس کا یہ مطلب تھا کہ صاحب رَم پی کر اپنے کتوں کے ساتھ کھیلیں گے اور جب کسی کا ٹیلی فون آئے گا تو کہہ دیا جائے گا کہ صاحب گھر پر نہیں ہیں۔

رم کی بوتل یا سگریٹ کا ڈبہ جب خالی ہو گا تو اسے پھینکا یا بیچا نہیں جائے گا، بلکہ احتیاط سے اس کمرے میں رکھ دیا جائے گا جہاں خالی بوتلوں اور ڈبوں کے انبار لگے ہیں۔

کوئی عورت ملنے کے لیے آئے گی تو اسے دروازے ہی سے یہ کہہ کر واپس کر دیا جائے گا کہ رات صاحب کی شوٹنگ تھی، اس لیے سو رہے ہیں۔ ملاقات کرنے والی شام کو یا رات کو آئے تو اس سے یہ کہا جاتا تھا کہ صاحب شوٹنگ پر گئے ہیں۔

رام سروپ کا گھر تقریباً ویسا ہی تھا جیسا کہ عام طور پر اکیلے رہنے والے مجرد مردوں کا ہوتا ہے، یعنی وہ سلیقہ، قرینہ اور رکھ رکھاؤ غائب تھا جو نسائی لمس کا خاصا ہوتا ہے۔ صفائی تھی مگر اس میں کھُرا پن تھا۔۔۔  پہلی مرتبہ جب میں اس کے فلیٹ میں داخل ہوا تو مجھے بہت شدت سے محسوس ہوا کہ میں چڑیا گھر کے اس حصے میں داخل ہو گیا ہوں۔ جو شیر، چیتے اور دوسرے حیوانوں کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ کیونکہ ویسی ہی بو آ رہی تھی۔

ایک کمرا سونے کا تھا، دوسرا بیٹھنے کا، تیسرا خالی بوتلوں اور ڈبوں کا۔ اس میں رَم کی وہ تمام بوتلیں اور سگریٹ کے وہ تمام ڈبے موجود تھے جو رام سروپ نے پی کر خالی کیے تھے۔ کوئی اہتمام نہیں تھا۔ بوتلوں پر ڈبے اور ڈبوں پر بوتلیں اوندھی سیدھی پڑی ہیں۔ ایک کونے میں قطار لگی ہے تو دوسرے کونے میں انباہ گرد جمی ہوئی ہے، اور باسی تمباکو اور باسی رَم کی ملی جلی تیز بو آ رہی ہے۔

میں نے جب پہلی مرتبہ یہ کمرہ دیکھا تو بہت حیران ہوا۔ ان گنت بوتلیں اور ڈبے تھے۔۔۔ سب خالی ہیں۔ میں نے رام سروپ سے پوچھا۔ ’’کیوں بھئی، یہ کیا سلسلہ ہے؟‘‘

اس نے پوچھا۔ ’’کیسا سلسلہ؟‘‘

میں نے کہا۔ ’’یہ۔۔۔  یہ کباڑ خانہ؟‘‘

اس نے صرف اتنا کہا۔ ’’جمع ہو گیا ہے!‘‘

یہ سن کر میں نے بولتے ہوئے سوچا۔ ’’اتنا!۔۔۔ اتنا کوڑا جمع ہونے میں کم از کم سات آٹھ برس چاہئیں۔‘‘

میرا اندازہ غلط نکلا۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اس کا یہ ذخیرہ پورے دس برس کا تھا۔ جب وہ شیوا جی پارک رہنے آیا تھا تو وہ تمام بوتلیں اور ڈبے اٹھوا کے اپنے ساتھ لے آیا تھا جو اس کے پرانے مکان میں جمع ہو چکے تھے۔ ایک بار میں نے اس سے کہا۔ ’’سروپ، تم یہ بوتلیں اور ڈبے بیچ کیوں نہیں دیتے؟ ۔۔۔ میرا مطلب ہے، اول تو ساتھ ساتھ بیچتے رہنا چاہئیں۔۔۔  پر اب کہ اتنا انبار جمع ہو چکا ہے اور جنگ کے باعث دام بھی اچھے مل سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں تمہیں یہ کباڑ خانہ اٹھوا دینا چاہیے!‘‘

اس نے جواب میں صرف اتنا کہا۔ ’’ہٹاؤ یار۔۔۔ کون اتنی بک بک کرے!‘‘

اس جواب سے تو یہی ظاہر ہوتا تھا کہ اسے خالی بوتلوں اور ڈبوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ لیکن مجھے نوکر سے معلوم ہوا کہ اگر اس کمرے میں کوئی بوتل یا ڈبہ اِدھر کا اُدھر ہو جائے تو رام سروپ قیامت برپا کر دیتا تھا۔

عورت سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میری، اس کی بہت بے تکلفی ہو گئی تھی۔ باتوں باتوں میں مَیں نے کئی بار اس سے دریافت کیا۔ ’’کیوں بھئی شادی کب کرو گے؟‘‘

اور ہر بار اس قسم کا جواب ملا۔ ’’شادی کر کے کیا کروں گا؟‘‘

میں نے سوچا، واقعی رام سروپ شادی کر کے کیا کرے گا؟۔۔۔ کیا وہ اپنی بیوی کو خالی بوتلوں اور ڈبوں والے کمرے میں بند کر دے گا؟۔۔۔ یا سب کپڑے اتار، نیکر پہن کر رم پیتے اس کے ساتھ کھیلا کرے گا؟۔۔۔ میں اس سے شادی بیاہ کا ذکر تو اکثر کرتا تھا مگر تصور پر زور دینے کے باوجود اسے کسی عورت سے منسلک نہ دیکھ سکتا۔

رام سروپ سے ملتے ملتے کئی برس گزر گئے۔ اس دوران میں کئی مرتبہ میں نے اڑتی اڑتی سنی کہ اسے ایک ایکٹرس سے جس کا نام شیلا تھا، عشق ہو گیا ہے۔ مجھے اس افواہ کا بالکل یقین نہ آیا۔ اول تو رام سروپ سے اس کی توقع ہی نہیں تھی۔ دوسرے شیلا سے کسی بھی ہوش مند نوجوان کو عشق نہیں ہو سکتا تھا، کیونکہ وہ اس قدر بیجان تھی کہ دق کی مریض معلوم ہوتی تھی۔۔۔ شروع شروع میں جب وہ ایک دو فلموں میں آئی تھی تو کسی قدر گوارا تھی مگر بعد میں تو وہ بالکل ہی بے کیف اور بے رنگ ہو گئی تھی اور صرف تیسرے درجے کے فلموں کے لیے مخصوص ہو کر رہ گئی تھی۔

میں نے صرف ایک مرتبہ اس شیلا کے بارے میں رام سروپ سے دریافت کیا تو اس نے مسکرا کر کہا۔ ’’میرے لیے کیا یہی رہ گئی تھی!‘‘

اس دوران میں اس کا سب سے پیارا کتا اسٹالن نمونیہ میں گرفتار ہو گیا۔ رام سروپ نے دن رات بڑی جانفشانی سے اس کا علاج کیا مگر وہ جانبر نہ ہوا۔ اس کی موت سے اسے بہت صدمہ ہوا۔ کئی دن اس کی آنکھیں اشک آلود رہیں، اور جب اس نے ایک روز باقی کتے کسی دوست کو دے دیے تو میں نے خیال کہ اس نے اسٹالن کی موت کے صدمے کے باعث ایسا کیا ہے، ورنہ وہ ان کی جدائی کبھی برداشت نہ کرتا۔

کچھ عرصے کے بعد جب اس نے بندر اور بندریا کو بھی رخصت کر دیا تو مجھے کسی قدر حیرت ہوئی، لیکن میں نے سوچا کہ اس کا دل اب اور کسی کی موت کا صدمہ برداشت نہیں کرنا چاہتا۔ اب وہ نیکر پہن کر رم پیتے ہوئے صرف اپنی بلی نرگس سے کھیلتا تھا۔ وہ بھی اس سے بہت پیار کرنے لگی تھی، کیونکہ رام سروپ کا سارا دن التفات اب اسی کے لیے موقوف ہو گیا تھا۔

اب اس کے گھر سے شیر، چیتوں کی بو نہیں آتی تھی۔ صفائی میں کسی قدر نظر آ جانے والا سلیقہ اور قرینہ بھی پیدا ہو چلا تھا، اس کے اپنے چہرے پر ہلکا سا نکھار آ گیا تھا مگر یہ سب کچھ اس قدر آہستہ آہستہ ہوا تھا کہ اس کے نقطہ آغا کا پتا چلانا بہت مشکل تھا۔

دن گزرتے گئے۔ رام سروپ کا تازہ فلم ریلیز ہوا تو میں نے اس کی کردار نگاری میں ایک نئی تازگی دیکھی۔ میں نے اسے مبارک باد دی تو وہ مسکرا دیا ’’لو، وسکی پیو!‘‘

میں نے تعجب سے پوچھا۔ ’’وسکی؟‘‘ اس لیے کہ وہ صرف رَم پینے کا عادی تھا۔

پہلی مسکراہٹ کو ہونٹوں میں ذرا سکیڑتے ہوئے اس نے جواب دیا۔ ’’رم پی پی کر تنگ آ گیا ہوں۔‘‘

میں نے اس سے اور کچھ نہ پوچھا۔

آٹھویں روز جب اس کے ہاں شام کو گیا تو وہ قمیض پائجامہ پہنے، رم۔۔۔  نہیں، وسکی پی رہا تھا۔۔۔  دیر تک ہم تاش کھیلتے اور وسکی پیتے رہے۔ اس دوران میں مَیں نے نوٹ کیا کہ وسکی کا ذائقہ اس کی زبان اور تالو پر ٹھیک نہیں بیٹھ رہا، کیونکہ گھونٹ بھرنے کے بعد وہ کچھ اس طرح منہ بناتا تھا جیسے کسی ان چکھی چیز سے اس کا واسطہ پڑا ہوا ہے۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا ’’تمہاری طبیعت قبول نہیں کر رہی وسکی کو؟‘‘

اس نے مسکرا کر جواب دیا۔ ’’آہستہ آہستہ قبول کر لے گی۔‘‘

رام سروپ کا فلیٹ دوسری منزل پر تھا۔ ایک روز میں ادھر سے گزر رہا تھا کہ دیکھا، نیچے گراج کے پاس خالی بوتلوں اور ڈبوں کے انبار کے انبار پڑے ہیں۔ سڑک پر دو چھکڑے کھڑے ہیں جن میں تین چار کباڑیئے ان کو لاد رہے ہیں، میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی، کیونکہ یہ خزانہ رام سروپ کے علاوہ اور کس کا ہو سکتا تھا۔۔۔ آپ یقین جانئے۔ اس کو جدا ہوتے دیکھ کر میں نے اپنے دل میں ایک عجیب قسم کا درد محسوس کیا۔۔۔ دوڑا اوپر گیا۔ گھنٹی بجائی۔ دروازہ کھلا میں نے اندر داخل ہونا چاہا تو نوکر نے خلافِ معمول راستہ روکتے ہوئے کہا۔ ’’صاحب، رات شوٹنگ پر گئے تھے۔ اس وقت سو رہے ہیں۔‘‘

میں حیرت سے اور غصے سے بوکھلا گیا۔۔۔ کچھ بڑبڑایا اور چل دیا۔

اسی روز شام کو رام سروپ میرے ہاں آیا۔۔۔ اس کے ساتھ شیلا تھی، نئی بنارسی ساڑھی میں ملبوس۔۔۔  رام سروپ نے اس کی طرف اشارہ کر کے مجھ سے کہا۔ ’’میری دھرم پتنی سے ملو۔‘‘

اگر میں نے وسکی کے چار پیگ نہ پئے ہوئے تو یقیناً یہ سن کر بے ہوش ہو گیا ہوتا۔

رام سروپ اور شیلا صرف تھوڑی دیر بیٹھے اور چلے گئے۔۔۔  میں دیر تک سوچتا رہا کہ بنارسی ساڑھی میں شیلا کس سے مشابہ تھی۔۔۔  دبلے پتلے بدن ہلکے بادامی رنگ کی کاغذی سی ساڑھی۔ کسی جگہ پھولی ہوئی، کسی جگہ دبی ہوئی۔۔۔  ایک دم میری آنکھوں کے سامنے ایک خالی بوتل آ گئی، باریک کاغذ میں لپٹی ہوئی۔

شیلا عورت تھی۔۔۔ بالکل خالی، لیکن ہو سکتا ہے ایک خلا نے دوسرے خلا کو پر کر دیا ہو۔

٭٭٭

 

 

 

لائیسنس

 

 

 

ابو کوچوان بڑا چھیل چھبیلا تھا۔ اس کا تانگہ گھوڑا بھی شہر میں نمبر ون تھا۔ کبھی معمولی سواری نہیں بٹھاتا تھا۔ اس کے لگے بندھے گاہک تھے، جن سے اس کو روزانہ دس پندرہ روپئے وصول ہو جاتے تھے، جو ابو کے لئے کافی تھے۔ دوسرے کوچوانوں کی طرح نشہ پانی کی اسے عادت نہیں تھی۔ لیکن صاف ستھرے کپڑے پہننے اور ہر وقت بانکا بنے رہنے کا اسے بیحد شوق تھا۔

جب اس کا تانگہ کسی سڑک پر سے گھنگھرو بجاتا گزرتا تو لوگوں کی آنکھیں خود بخود اس کی طرف جاتیں۔

’’وہ بانکا ابو جا رہا ہے ۔۔۔ دیکھو تو کس ٹھاٹ سے بیٹھا ہے۔ ذرا پگڑی دیکھو کیسی ترچھی بندھی ہے۔‘‘

ابو، لوگوں کی نگاہوں سے یہ باتیں سنتا تو اس کی گردن میں ایک بڑا بانکا خم پیدا ہو جاتا اور اس کے گھوڑے کی چال اور زیادہ پر کشش ہو جاتی۔ ابو کے ہاتھوں نے گھوڑے کی باگیں کچھ اس انداز سے پکڑی ہوتی تھیں، جیسے ان کو اسے پکڑنے کی ضرورت نہیں۔ ایسا لگتا تھا کہ گھوڑا اشاروں کے بغیر چلا جا رہا ہے۔ اس کو اپنے مالک کے حکم کی ضرورت نہیں۔ بعض وقت تو ایسا محسوس ہوتا کہ ابو اور اس کا گھوڑا چنی دونوں ایک ہیں، بلکہ سارا ٹانگا ایک ہستی ہے اور وہ ہستی ابو کے سوا اور کون ہو سکتی تھی۔

وہ سواریاں جن کو ابو قبول نہیں کرتا تھا، دل ہی دل میں اس کو گالیاں دیتی تھیں۔ بعض بد دعا بھی دیتی تھیں، ’’خدا کرے اس کا گھمنڈ ٹوٹے۔۔۔  اس کا ٹانگا گھوڑا کسی دریا میں جا گرے۔‘‘

ابو کے ہونٹوں پر، جو ہلکی ہلکی مونچھوں کی چھاؤں میں رہتے تھے، خود اعتماد سی مسکراہٹ ناچتی رہتی تھی۔ اس کو دیکھ کر کئی کوچوان جل بھن جاتے تھے۔ ابو کی دیکھا دیکھی چند کوچوانوں نے ادھر ادھر سے قرض لے کرتا نگے بنوائے۔ ان کو پیتل کے ساز و سامان سے سجایا مگر پھر بھی ابو کی سی شان پیدا نہ ہو سکی۔ ان کو وہ گاہک نصیب نہ ہو سکے جو ابو کے اور اس کے ٹانگے گھوڑے کے شیدا تھے۔

ایک دن دوپہر کو ابو درخت کی چھاؤں میں ٹانگے پر بیٹھا اونگھ رہا تھا کہ ایک آواز اس کے کانوں میں بھنبھنائی۔ ابو نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ ایک عورت ٹانگے کے بمب کے پاس کھڑی تھی۔ ابو نے اسے بمشکل ایک نظر دیکھا، مگر اس کی تیکھی جوانی ایک دم اس کے دل میں کھب گئی۔ وہ عورت نہیں جوان لڑکی تھی۔ سولہ سترہ برس کی۔ دبلی پتلی لیکن مضبوط۔ رنگ سانولا مگر چمکیلا۔ کانوں میں چاندی کی چھوٹی چھوٹی بالیاں۔ سیدھی مانگ ستواں ناک۔ اس کی پھننگ پر ایک چھوٹا سا چمکیلا تل، لمبا کرتا اور نیلا لاچا۔ سر پر چدریا۔

لڑکی نے کنواری آواز میں ابو سے پوچھا۔ ’’ویرا، ٹیشن کا کیا لو گے؟“

ابو کے ہونٹوں کی مسکراہٹ شرارت اختیار کر گئی، ’’کچھ نہیں۔‘‘

لڑکی کے چہرے کی سنولاہٹ سرخی مائل ہو گئی، ’’کیا لو گے ٹیشن کا۔‘‘

ابو نے اس کو اپنی نظروں میں سموتے ہوئے کہا۔ ’’تجھ سے کیا لینا ہے بھاگ بھریئے چل آ بیٹھ ٹانگے میں۔‘‘

لڑکی نے گھبراتے ہوئے ہاتھوں سے اپنے مضبوط سینے کو ڈھانکا حالانکہ وہ ڈھکا ہوا تھا۔ ’’کیسی باتیں کرتے ہو تم۔‘‘

ابو مسکرایا۔ ’’چل آ، اب بیٹھ بھی جا۔۔۔ لے لیں گے جو تو دے دے گی۔‘‘

لڑکی نے کچھ دیر سوچا، پھر پائدان پر پاؤں رکھ کر ٹانگے میں بیٹھ گئی ‘‘جلدی لے چل ٹیشن۔‘‘

ابو نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ ’’بڑی جلدی ہے تجھے سوہنئے۔‘‘

’’ہائے ہائے، تو تو ۔۔۔ “ لڑکی کچھ اور کہتے کہتے رک گئی۔

ٹانگا چل پڑا۔۔۔   اور چلتا رہا ۔۔۔ کئی سڑکیں گھوڑے کے سموں کے نیچے سے نکل گئیں۔ لڑکی سہمی بیٹھی تھی۔ ابو کے ہونٹوں پر شرارت بھری مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔ جب بہت دیر ہو گئی تو لڑکی نے ڈری ہوئی آواز میں پوچھا۔ ’’ٹیشن نہیں آیا ابھی تک؟“

ابو نے معنی خیز انداز میں جواب دیا۔ ’’آ جائے گا ۔۔۔ تیرا میرا ٹیشن ایک ہی ہے۔‘‘

’’کیا مطلب۔؟‘‘

ابو نے پلٹ کر لڑکی کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’الہڑی۔۔۔   کیا تو اتنا بھی نہیں سمجھتی۔ تیرا میرا ٹیشن ایک ہی ہے۔ اس وقت ایک ہو گیا تھا جب ابو نے تیری طرف دیکھا تھا۔۔۔   تیری جان کی قسم تیرا غلام جھوٹ نہیں بولتا۔‘‘

لڑکی نے سر پر پلو ٹھیک کیا۔ اس کی آنکھیں صاف بتا رہی تھیں کہ وہ ابو کا مطلب سمجھ چکی ہے۔ اس کے چہرے سے اس بات کا بھی پتہ چلتا تھا کہ اس نے ابو کی بات کا برا نہیں مانا۔ لیکن وہ اس کشمکش میں تھی کہ دونوں کا ٹیشن ایک ہو یا نہ ہو۔ ابو بانکا سجیلا تو ہے لیکن کیا وفا دار بھی ہے۔ کیا وہ اپنا ٹیشن چھوڑ دے۔ جہاں اس کی گاڑی پتہ نہیں کب کی  جا چکی تھی۔

ابو کی آواز نے اس کو چونکا دیا۔ ’’کیا سوچ رہی ہے بھاگ بھریئے۔ ’’

گھوڑا مست خرامی سے دلکی چل رہا تھا۔ ہوا خنک تھی۔ سڑک کے دو رویا اگے ہوئے درخت بھاگ رہے تھے۔ ان کی ٹہنیاں جھوم رہی تھیں۔ گھنگھروؤں کی یک آہنگ جھنجھناہٹ کے سوا اور کوئی آواز نہیں تھی۔ ابو گردن موڑے لڑکی کے سانولے حسن کو دل ہی دل میں چوم رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر کے بعد اس نے گھوڑے کی باگیں جنگلے کی سلاخ کے ساتھ باندھ دیں اور لپک کر پچھلی سیٹ پر لڑکی کے ساتھ بیٹھ گیا۔ وہ خاموش رہی۔ ابو نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ لئے۔ ’’دے دے اپنی باگیں میرے ہاتھ میں۔‘‘

لڑکی نے صرف اتنا کہا۔ ’’چھوڑ بھی دے۔‘‘ لیکن وہ فوراً ہی ابو کے بازوؤں میں تھی۔ اس کے بعد اس نے مزاحمت نہ کی۔ اس کا دل البتہ زور زور سے پھڑپھڑا رہا تھا جیسے خود کو چھڑا کر اڑ جانا چاہتا ہے۔

ابو ہولے ہولے پیار بھرے لہجے میں اسے کہنے لگا۔ ’’یہ ٹانگا گھوڑا مجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز تھا، لیکن قسم گیارہویں والے پیر کی یہ بیچ دوں گا اور تیرے لئے سونے کے کڑے بنواؤں گا ۔۔۔ اب پھٹے پرانے کپڑے پہنوں گا، لیکن تجھے شہزادی بنا کر رکھوں گا۔ قسم وحدہٗ و لا شریک کی، زندگی میں یہ میرا پہلا پیار ہے۔۔۔   تم میری نہ بنیں تو میں تیرے سامنے گلا کاٹ لوں گا اپنا۔‘‘ پھر اس نے لڑکی کو اپنے سے علیحدہ کر دیا۔ ’’جانے کیا ہو گیا ہے مجھے۔۔۔  چلو تمہیں ٹیشن چھوڑ آؤں۔‘‘

لڑکی نے ہولے سے کہا۔ ’’نہیں۔۔۔  اب تم مجھے ہاتھ لگا چکے ہو۔‘‘

ابو کی گردن جھک گئی۔ ’’مجھے معاف کر دو۔ مجھ سے غلطی ہوئی۔‘‘

’’نبھا لو گے اس غلطی کو؟“

لڑکی کے لہجے میں چیلنج تھا، جیسے کسی نے ابو سے کہا ہو۔ ’’لے جاؤ گے اپنا ٹانگا اس ٹانگے سے آگے نکال کے۔‘‘ اس کا جھکا ہوا سر اٹھا۔ آنکھیں چمک اٹھیں۔۔۔ بھاگ بھرئیے۔۔۔۔۔۔“ یہ کہہ کر اس نے اپنے مضبوط سینے پر ہاتھ رکھا۔ ’’ابو اپنی جان دے دے گا۔‘‘

لڑکی نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ ’’تو یہ ہے میرا ہاتھ۔‘‘

ابو نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔ ’’قسم اپنی جوانی کی۔ ابو تیرا غلام ہے۔‘‘

دوسرے روز ابو اور اس لڑکی کا نکاح ہو گیا۔ وہ ضلع گجرات کی موچن تھی نام اس کا عنایت یعنی نیتی تھا۔ اپنے رشتے داروں کے ساتھ آئی تھی۔ وہ اسٹیشن پر اس کا انتظار کر رہے تھے کہ ابو اور اس کی مڈ بھیڑ ہو گئی جو فوراً ہی محبت کی ساری منزلیں طے کر گئی۔ دونوں بہت خوش تھے۔ ابو نے ٹانگا گھوڑا بیچ کر تو نیتی کے لئے سونے کے کڑے نہیں بنوائے تھے، لیکن اپنے جمع کئے پیسوں سے اس کو سونے کی بالیاں خرید دی تھیں۔ کئی ریشمی کپڑے بھی بنوا دیئے تھے۔

لس لس کرتے ہوئے ریشمی لاچے میں جب نیتی، ابو کے سامنے آتی تو اس کا دل ناچنے لگتا۔ ’’قسم پنجتن پاک کی، دنیا میں تجھ جیسا سندر اور کوئی نہیں۔‘‘ اور یہ کہہ وہ اس کو اپنے سینے کے ساتھ لگا لیتا۔ ’’تو میرے دل کی رانی ہے۔‘‘

دونوں جوانی کی مستیوں میں غرق تھے۔ گاتے تھے، ہنستے تھے، سیریں کرتے تھے، ایک دوسرے کی بلائیں لیتے تھے۔ ایک مہینہ اسی طرح گزر گیا کہ دفعتاً ایک روز پولیس نے ابو کو گرفتار کر لیا۔ نیتی بھی پکڑی گئی۔ ابو پر اغوا کا مقدمہ چلا۔ نیتی ثابت قدم رہی لیکن پھر بھی ابو کو دو برس کی سزا ہو گئی۔ جب عدالت نے حکم سنایا تو نیتی ابو کے ساتھ لپٹ گئی۔ روتے ہوئے اس نے صرف اتنا کہا۔ ’’میں اپنے ماں باپ کے پاس کبھی نہیں جاؤں گی۔۔۔  گھر بیٹھ کر تیرا انتظار کروں گی۔‘‘

ابو نے اس کی پیٹھ پر تھپکی دی۔ ’’جیتی رہ۔۔۔   ٹانگا گھوڑا میں نے دینے کے سپرد کیا ہوا ہے۔۔۔  اس سے کرایہ وصول کرتی رہنا۔‘‘

نیتی کے ماں باپ نے بہت زور لگایا مگر وہ ان کے ساتھ نہ گئی۔ تھک ہار کر انہوں نے اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ نیتی اکیلی رہنے لگی۔ دینا اسے شام کو پانچ روپئے دے جاتا تھا جو اس کے خرچ کے لئے کافی تھے۔ اس کے علاوہ مقدمے کے دوران میں روزانہ پانچ روپئے کے حساب سے جو کچھ جمع ہوا تھا وہ بھی اس کے پاس تھا۔

ہفتے میں ایک بار نیتی اور ابو کی ملاقات جیل میں ہوتی تھی جو کہ ان دونوں کے لئے بہت ہی مختصر تھی۔ نیتی کے پاس جتنی جمع پونجی تھی وہ ابو کو آسائشیں پہچانے میں صرف ہو گئی۔ ایک ملاقات میں ابو نے نیتی کے بچے کانوں کی طرف دیکھا اور پوچھا۔ ’’بالیاں کہاں گئی نیتی؟“

نیتی مسکرا دی اور سنتری کی طرف دیکھ کر ابو سے کہا ‘‘گم ہو گئیں کہیں۔‘‘

ابو نے قدرے غصے ہو کر کہا۔ ’’تم میرا اتنا خیال رکھا نہ کرو۔۔۔  جیسا بھی ہوں ٹھیک ہوں۔‘‘

نیتی نے کچھ نہ کہا۔ وقت پورا ہو چکا تھا۔ مسکراتی ہوئی وہاں سے چل دی۔ مگر گھر جا کر بہت روئی۔ گھنٹوں آنسو بہائے۔ کیونکہ ابو کی صحت بہت گر رہی تھی۔ اس ملاقات میں تو وہ اسے پہچان نہیں سکی تھی۔ گرانڈیل ابو اب گھل گھل کر آدھا ہو گیا تھا۔ نیتی سوچتی تھی کہ اس کو اس کا غم کھا رہا ہے۔ اس کی جدائی نے ابو کی یہ حالت کر دی ہے۔ لیکن اس کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ دق کا مریض ہے اور یہ مرض اسے ورثے میں ملا ہے۔ ابو کا باپ ابو سے کہیں زیادہ گرانڈیل تھا۔ لیکن دق نے اسے چند دنوں ہی میں قبر کے اندر پہنچا دیا۔ ابو کا بڑا بھائی کڑیل جوان تھا مگر عین جوانی میں اس مرض نے اسے دبوچ لیا تھا۔ خود ابو اس حقیقت سے غافل تھا چنانچہ جیل کے ہسپتال میں جب وہ آخری سانس لے رہا تھا، اس نے افسوس بھرے لہجے میں نیتی سے کہا۔ ’’مجھے معلوم ہوتا کہ میں اتنی جلدی مر جاؤں گا تو قسم وحدہٗ و لا شریک کی تجھے کبھی اپنی بیوی نہ بناتا۔۔۔   میں نے تیرے ساتھ بہت ظلم کیا۔۔۔ مجھے معاف کر دے ۔۔۔ اور دیکھ میری ایک نشانی ہے، میرا ٹانگا گھوڑا۔۔۔   اس کا خیال رکھنا۔۔۔  اور چنی بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہنا۔ ابو نے تجھے پیار بھیجا ہے۔‘‘

ابو مر گیا۔۔۔  نیتی کا سب کچھ مر گیا۔ مگر وہ حوصلے والی عورت تھی۔ اس صدمے کو اس نے برداشت کر ہی لیا۔ گھر میں تن تنہا پڑی رہتی تھی۔ شام کو دینا آتا تھا اور اسے دم دلاسا دیتا تھا اور کہتا تھا۔ ’’کچھ فکر نہ کرو بھابھی۔ اللہ میاں کے آگے کسی کی پیش نہیں چلتی۔۔۔  ابو میرا بھائی تھا ۔۔۔ مجھ سے جو ہو سکتا ہے خدا کے حکم سے کروں گا۔‘‘

شروع شروع میں تو نیتی نہ سمجھی پر جب اس کے عدت کے دن پورے ہوئے تو دینے نے صاف لفظوں میں کہا کہ وہ اس سے شادی کر لے۔ یہ سن کر نیتی کے جی میں آئی کہ وہ اس کو دھکا دے کر باہر نکال دے مگر اس نے صرف اتنا کہا۔ ’’بھائی مجھے شادی نہیں کرنی۔‘‘

اس دن سے دینے کے رویئے میں فرق آ گیا۔ پہلے شام کو بلا ناغہ پانچ روپئے ادا کرتا تھا۔ اب کبھی چار دینے لگا۔ کبھی تین۔ بہانہ یہ کہ بہت مندا ہے۔ پھر دو دو تین تین دن غائب رہنے لگا۔ بہانہ یہ کہ بیمار تھا یا ٹانگے کا کوئی کل پرزہ خراب ہو گیا تھا۔ اس لئے جو نہ سکا۔ جب پانی سر سے نکل گیا تو نیتی نے دینے سے کہا۔ ’’بھائی دینے اب تم تکلیف نہ کرو۔ ٹانگا گھوڑا میرے حوالے کر دو۔‘‘

بڑی لیت و لعل کے بعد بالآخر دینے نے بادل ناخواستہ ٹانگا گھوڑا نیتی کی تحویل میں دے دیا۔ اس نے ماجھے کے سپرد کر دیا جو ابو کا دوست تھا۔ اس نے بھی کچھ دنوں کے بعد شادی کی درخواست کی۔ نیتی نے انکار کیا تو اس کی آنکھیں بدل گئیں۔ ہمدردی وغیرہ سب ہوا ہو گئی۔ نیتی نے اس سے ٹانگا گھوڑا واپس لیا اور ایک انجانے کوچوان کے حوالے کر دیا۔ اس نے تو حد ہی کر دی۔ ایک شام پیسے دینے آیا تو شراب میں دھت تھا۔ ڈیوڑھی میں قدم رکھتے ہی نیتی پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی۔ نیتی نے اس کو خوب سنائیں۔ اور کام سے ہٹا دیا۔

آٹھ دس روز ٹانگا گھوڑا بیکار طویلے میں پڑا رہا۔ گھاس دانے کا خرچ علاحدہ۔ طویلے کا کرایہ علیحدہ۔ نیتی عجیب الجھن میں گرفتار تھی۔ کوئی شادی کی درخواست کرتا تھا، کوئی اس کی عصمت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتا تھا۔ کوئی پیسے مار لیتا تھا۔ باہر نکلتی تو لوگ بری نگاہوں سے گھورتے تھے۔ ایک رات اس کا ہمسایہ دیوار پھاند کے آ گیا اور دراز دستی کرنے لگا۔ نیتی سوچ سوچ کر پاگل ہو گئی کہ کیا کرے۔

ایک دن بیٹھے بیٹھے اسے خیال آیا۔ ’’کیوں نہ ٹانگا میں آپ ہی جوتوں۔ آپ ہی چلاؤں ۔۔۔ “ ابو کے ساتھ جب وہ سیر کو جایا کرتی تھی تو ٹانگا خود ہی چلایا کرتی تھی۔ شہر کے راستوں سے بھی واقف تھی۔ لیکن پھر اس نے سوچا۔ ’’لوگ کیا کہیں گے۔؟ ۔۔۔ اس کے جواب میں اس کے دماغ نے کئی دلیلیں دیں۔ ’’کیا ہرج ہے ۔۔۔ کیا عورتیں محنت مزدوری نہیں کرتیں۔۔۔ یہ کوئلے والیاں۔۔۔  یہ دفتروں میں جانے والی عورتیں ۔۔۔ گھر میں بیٹھ کر کام کرنے والیاں تو ہزاروں ہوں گی۔۔۔ پیٹ کسی حیلے سے پالنا ہی ہے۔‘‘

نیتی نے کچھ دن سوچ بچار کیا۔ آخر میں فیصلہ کر لیا کہ وہ ٹانگا خود چلائے گی۔ اس کو خود پر پورا اعتماد تھا، چنانچہ اللہ کا نام لے کر وہ طویلے پہنچ گئی۔۔۔ ٹانگا جوتنے لگی تو سارے کوچوان ہکا بکا رہ گئے۔ بعض مذاق سمجھ کر خوب ہنسے۔

جو بزرگ تھے انہوں نے نیتی کو سمجھایا کہ۔ ’’دیکھو ایسا نہ کرو۔ یہ مناسب نہیں۔‘‘ مگر نیتی نہ مانی۔ ٹانگا ٹھیک ٹھاک کیا۔ پیتل کا ساز و سامان اچھی طرح چمکایا۔ گھوڑے کو خوب پیار کیا اور ابو سے دل ہی دل میں پیار کی باتیں کرتی طویلے سے باہر نکل گئی۔ کوچوان حیرت زدہ تھے، کیونکہ نیتی کے ہاتھ رواں تھے جیسے وہ ٹانگا چلانے کے فن پر حاوی ہے۔

شہر میں ایک تہلکہ برپا ہو گیا کہ ایک خوبصورت عورت ٹانگا چلا رہی ہے۔ ہر جگہ اسی بات کا چرچا تھا۔ لوگ سنتے تھے تو اس وقت کا انتظار کرتے تھے جب وہ ان کی سڑک پر سے گزرے گا۔

شروع شروع میں تو مرد سواریاں جھجکتی تھیں، مگر یہ جھجک تھوڑی دیر میں دور ہو گئی اور خوب آمدن ہونے لگی۔ ایک منٹ کے لئے بھی نیتی کا ٹانگا بیکار نہ رہتا تھا۔ ادھر سواری اتری ادھر بیٹھی۔ آپس میں کبھی کبھی سواریوں کی لڑائی بھی ہو جاتی تھی۔ اس بات پر نیتی کو پہلے کس نے بلایا تھا۔

جب کام زیادہ ہو گیا تو نیتی نے ٹانگا جوتنے کے اوقات مقرر کر دئیے صبح سات بجے سے بارہ بجے، دوپہر دو سے چھ بجے تک ۔۔۔ ۔ یہ سلسلہ بڑا آرام دہ ثابت ہوا۔ چنی بھی خوش تھا مگر نیتی محسوس کر رہی تھی کہ اکثر لوگ صرف اس کی قربت حاصل کرنے کے لئے اس کے ٹانگے میں بیٹھتے۔ بے مطلب بے مقصد اسے ادھر ادھر پھراتے تھے۔ آپس میں گندے گندے مذاق بھی کرتے تھے۔ صرف اس کو سنانے کے لئے باتیں کرتے تھے۔ اس کو ایسا لگا تھا کہ وہ تو خود کو نہیں بیچتی۔ لیکن لوگ چپکے چپکے اسے خرید رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ شہر کے سارے کوچوان اس کو برا سمجھتے ہیں۔ ان تمام احساسات کے باوجود مضطرب نہیں تھی۔ اپنی خود اعتمادی کے باعث وہ پر سکون تھی۔

ایک دن کمیٹی والوں نے نیتی کو بلایا اور اس کا لائیسنس ضبط کر لیا۔ وجہ یہ بتائی کہ عورت ٹانگا نہیں چلا سکتی۔ نیتی نے پوچھا۔ ’’جناب، عورت ٹانگا کیوں نہیں چلا سکتی۔‘‘

جواب ملا۔ ’’بس، نہیں چلا سکتی۔ تمہارا لائیسنس ضبط ہے۔‘‘

نیتی نے کہا۔ ’’حضور، آپ گھوڑا ٹانگا بھی ضبط کر لیں، پر مجھے یہ تو بتائیں کہ عورت کیوں ٹانگا نہیں جوت سکتی، عورتیں چرخہ چلا کر اپنا پیٹ پال سکتی ہیں۔ عورتیں ٹوکری ڈھو کر روزی کما سکتی ہیں۔ عورتیں لینوں پر کوئلے چن چن کر اپنی روٹی پیدا کر سکتی ہیں ۔۔۔ میں ٹانگا کیوں نہیں چلا سکتی۔ مجھے اور کچھ آتا ہی نہیں ۔۔۔  ٹانگا گھوڑا میرے خاوند کا ہے ۔۔۔ میں اسے کیوں نہیں چلا سکتی۔ میں اپنا گزارا کیسے کروں؟۔۔۔ حضور آپ رحم کریں۔ محنت مزدوری سے کیوں روکتے ہیں مجھے؟۔۔۔ میں کیا کروں، بتائیے نہ مجھے۔‘‘

افسر نے جواب دیا۔ ’’جاؤ بازار میں جا کر بیٹھو ۔۔۔ وہاں زیادہ کمائی ہے۔‘‘

یہ سن کر نیتی کے اندر جو اصل نیتی تھی جل کر راکھ ہو گئی۔۔۔ ہولے سے۔ ’’اچھا جی۔‘‘ کہہ کر وہ چلی گئی۔ اونے پونے داموں ٹانگا گھوڑا بیچا اور سیدھی ابو کی قبر پر گئی۔ ایک لحظے کے لئے خاموش کھڑی رہی۔ اس کی آنکھیں بالکل خشک تھیں، جیسے بارش کے بعد چلچلاتی دھوپ نے زمین کی ساری نمی چوس لی تھی۔ اس کے بھنچے ہوئے ہونٹ وا ہوئے اور وہ قبر سے مخاطب ہوئی۔ ’’ابو ۔۔۔ تیری نیتی آج کمیٹی کے دفتر میں مر گئی۔‘‘

یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔ دوسرے دن عرضی دی۔۔۔ اس کو اپنا جسم بیچنے کا لائیسنس مل گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

سہائے

 

 

’’یہ مت کہو کہ ایک لاکھ ہندو اور ایک لاکھ مسلمان مرے ہیں۔۔۔ یہ کہو کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں۔۔۔ اور یہ اتنی بڑی ٹریجڈی نہیں کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں، ٹریجڈی اصل میں یہ ہے کہ مارنے اور مرنے والے کسی بھی کھاتے میں نہیں گئے۔ ایک لاکھ ہندو مار کر مسلمانوں نے یہ سمجھا ہو گا کہ ہندو مذہب مر گیا ہے، لیکن وہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ اسی طرح ایک لاکھ مسلمان قتل کر کے ہندوؤں نے بغلیں بجائی ہوں گی کہ اسلام ختم ہو گیا ہے، مگر حقیقت آپ کے سامنے ہے کہ اسلام پر ایک ہلکی سی خراش بھی نہیں آئی۔۔۔ وہ لوگ بے وقوف ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بندوقوں سے مذہب شکار کیے جا سکتے ہیں۔۔۔  مذہب، دین، ایمان، دھرم، یقین، عقیدت۔۔۔  یہ جو کچھ بھی ہے ہمارے جسم میں نہیں، روح میں ہوتا ہے۔۔۔  چھرے، چاقو اور گولی سے یہ کیسے فنا ہو سکتا ہے؟‘‘

ممتاز اس روز بہت ہی پر جوش تھا۔ ہم صرف تین تھے جو اسے جہاز پر چھوڑنے کے لیے آئے تھے۔۔۔ وہ ایک غیر متعین عرصے کے لیے ہم سے جدا ہو کر پاکستان جا رہا تھا۔۔۔ پاکستان، جس کے وجود کے متعلق ہم میں سے کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا۔

ہم تینوں ہندو تھے۔ مغربی پنجاب میں ہمارے رشتہ داروں کو بہت مالی اور جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ ممتاز ہم سے جدا ہو رہا تھا۔ جگل کو لاہور سے خط ملا کہ فسادات میں اس کا چچا مارا گیا ہے تو اس کو بہت صدمہ ہوا۔ چنانچہ اسی صدمے کے زیر اثر باتوں باتوں میں ایک دن اس نے ممتاز سے کہا۔ ’’میں سوچ رہا ہوں اگر ہمارے محلے میں فساد شروع ہو جائے تو میں کیا کروں گا۔‘‘

ممتاز نے اس سے پوچھا۔ ’’کیا کرو گے؟‘‘

جگل نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا۔ ’’میں سوچ رہا ہوں۔ بہت ممکن ہے میں تمہیں مار ڈالوں۔‘‘

’’یہ سن کر ممتاز بالکل خاموش ہو گیا اور اس کی یہ خاموش تقریباً آٹھ روز تک قائم رہی اور اس وقت ٹوٹی جب اس نے اچانک ہمیں بتایا کہ وہ پونے چار بجے سمندری جہاز سے کراچی جا رہا ہے۔‘‘

ہم تینوں میں سے کسی نے اس کے اس ارادے کے متعلق بات چیت نہ کی۔ جگل کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ ممتاز کی روانگی کا باعث اس کا یہ جملہ ہے۔ ’’میں سوچ رہا ہوں۔ بہت ممکن ہے، میں تمہیں مار ڈالوں‘‘ غالباً وہ اب تک یہی سوچ رہا تھا کہ وہ مشتعل ہو کر ممتاز کو مار سکتا ہے یا نہیں۔۔۔  ممتاز کو جو کہ اس کا جگری دوست تھا۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہم تینوں میں سب سے زیادہ خاموش تھا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ ممتاز غیر معمولی طور پر باتونی ہو گیا تھا۔۔۔ خاص طور پر روانگی سے چند گھنٹے پہلے۔

صبح اٹھتے ہی اس نے پینا شروع کر دی۔ اسباب وغیرہ کچھ اس انداز سے باندھا اور بندھوایا جیسے وہ کہیں سیر و تفریح کے لیے جا رہا ہے۔۔۔ خود ہی بات کرتا تھا اور خود ہی ہنستا تھا۔ کوئی اور دیکھتا تو سمجھتا کہ وہ بمبئی چھوڑنے میں ناقابلِ بیان مسرت محسوس کر رہا ہے، لیکن ہم تینوں اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ صرف اپنے جذبات چھپانے کیلیے ہمیں اور اپنے آپ کو دھوکا دینے کی کوشش کر رہا ہے۔

میں نے بہت چاہا کہ اس سے اس کی یک لخت روانگی کے متعلق بات کروں۔ اشارۃً میں نے جگل سے بھی کہا کہ وہ بات چھیڑے مگر ممتاز نے ہمیں کوئی موقعہ ہی نہ دیا۔

جگل تین چار پگ پی کر اور بھی زیادہ خاموش ہو گیا اور دوسرے کمرے میں لیٹ گیا۔ میں اور برج موہن اس کے ساتھ رہے۔ اسے کئی بل ادا کرنے تھے۔ ڈاکٹروں کی فیسیں دینی تھیں۔ لانڈری سے کپڑے لانے تھے۔۔۔ یہ سب کام اس نے ہنستے کھیلتے کیے، لیکن جب اس نے ناکے کے ہوٹل کے بازو والی دکان سے ایک پان لیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ برج موہن کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر وہاں سے چلتے ہوئے اس نے ہولے سے کہا۔ ’’یاد ہے برج۔۔۔  آج سے دس برس پہلے جب ہمارا حال بہت پتلا تھا، گوبند نے ہمیں ایک روپیہ ادھار دیا تھا۔‘‘

راستے میں ممتاز خاموش رہا۔ مگر گھر پہنچتے ہی اس نے پھر باتوں کا لا متناہی سلسلہ شروع کر دیا، ایسی باتوں کا جن کا سر تھا نہ پیر، لیکن وہ کچھ ایسی پر خلوص تھیں کہ میں اور برج موہن برابر ان میں حصہ لیتے رہے۔ جب روانگی کا وقت قریب آیا تو جگل بھی شامل ہو گیا، لیکن جب ٹیکسی بندرگاہ کی طرف چلی تو سب خاموش ہو گئے۔

ممتاز کی نظریں بمبئی کے وسیع اور کشادہ بازاروں کو الوداع کہتی رہتیں۔ حتیٰ کہ ٹیکسی اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ گئی۔ بے حد بھیڑ تھی۔ ہزار ہا ریفیوجی جا رہے تھے۔ خوشحال بہت کم اور بدحال بہت زیادہ۔۔۔ بے پناہ ہجوم تھا لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اکیلا ممتاز جا رہا ہے۔ ہمیں چھوڑ کر ایسی جگہ جا رہا ہے جو اس کی دیکھی بھالی نہیں۔ جواس کے مانوس بنانے پر بھی اجنبی رہے گی۔ لیکن یہ میرا اپنا خیال تھا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ ممتاز کیا سوچ رہا تھا۔

جب کیبن میں سارا سامان چلا گیا تو ممتاز ہمیں عرشے پر لے گیا۔۔۔ ادھر جہاں آسمان اور سمندر آپس میں مل رہے تھے، ممتاز دیر تک دیکھتا رہا، پھر اس نے جگل کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا۔ یہ محض فریبِ نظر ہے۔۔۔ آسمان اور سمندر کا آپس میں ملنا۔۔۔  لیکن یہ فریبِ نظر کس قدر دلکش ہے۔۔۔ یہ ملاپ!‘‘

جگل خاموش رہا۔ غالباً اس وقت بھی اس کے دل و دماغ میں اس کی یہ کہی ہوئی بات چٹکیاں لے رہی تھی۔ ’’میں سوچ رہا ہوں۔ بہت ممکن ہے میں تمہیں مار ڈالوں۔‘‘

ممتاز نے جہاز کی بار سے برانڈی منگوائی، کیونکہ وہ صبح سے یہی پی رہا تھا۔۔۔ ہم چاروں گلاس ہاتھ میں لیے جنگلے کے ساتھ کھڑے تھے۔ ریفیوجی دھڑا دھڑ جہاز میں سوار ہو رہے تھے اور قریب قریب ساکن سمندر پر آبی پرندے منڈلا رہے تھے۔

جگل نے دفعتاً ایک ہی جرعے میں اپنا گلاس ختم کیا اور نہایت ہی بھونڈے انداز میں ممتاز سے کہا۔ ’’مجھے معاف کر دینا ممتاز۔۔۔ میرا خیال ہے میں نے اس روز تمہیں دکھ پہنچایا تھا۔‘‘

ممتاز نے تھوڑے توقف کے بعد جگل سے سوال کیا۔ ’’جب تم نے کہا تھا میں سوچ رہا ہوں۔۔۔ بہت ممکن ہے میں تمہیں مار ڈالوں۔۔۔ کیا اس وقت واقعی تم نے یہی سوچا تھا۔۔۔ نیک دلی سے اسی نتیجے پر پہنچے تھے۔‘‘

جگل نے اثبات میں سر ہلایا ’’۔۔۔ لیکن مجھے افسوس ہے‘‘

’’تم مجھے مار ڈالتے تو تمہیں زیادہ افسوس ہوتا۔‘‘ ممتاز نے بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا۔ ’’لیکن صرف اس صورت میں اگر تم نے غور کیا ہوتا کہ تم نے ممتاز کو۔۔۔ ایک مسلمان کو۔۔۔ ایک دوست کو نہیں بلکہ ایک انسان کو مارا ہے۔۔۔ وہ اگر حرامزادہ تھا تو تم نے اس کی حرامزدگی کو نہیں بلکہ خود اس کو مار ڈالا ہے۔۔۔ وہ اگر مسلمان تھا تو تم نے اس کی مسلمانی کو نہیں اس کی ہستی کو ختم کیا ہے۔۔۔ اگر اس کی لاش مسلمانوں کے ہاتھ آتی تو قبرستان میں ایک قبر کا اضافہ ہو جاتا۔ لیکن دنیا میں ایک انسان کم ہو جاتا۔‘‘

تھوڑی دیر خاموش رہنے اور کچھ سوچنے کے بعد اس نے پھر بولنا شر وع کیا۔ ’’ہو سکتا ہے، میرے ہم مذہب مجھے شہید کہتے، لیکن خدا کی قسم اگر ممکن ہوتا تو میں قبر پھاڑ کر چلانا شروع کر دیتا۔ مجھے شہادت کا یہ رتبہ قبول نہیں۔۔۔ مجھے یہ ڈگری نہیں چاہیے جس کا امتحان میں نے دیا ہی نہیں۔۔۔  لاہور میں تمہارے چچا کو ایک مسلمان نے مار ڈالا۔۔۔ تم نے یہ خبر بمبئی میں سنی اور مجھے قتل کر دیا۔۔۔ بتاؤ، تم اور میں کس تمغے کے مستحق ہیں؟۔۔۔ اور لاہور میں تمہارا چچا اور اس کا قاتل کس خلعت کا حقدار ہے۔۔۔ میں تو یہ کہوں گا، مرنے والے کتے کی موت مرے اور مارنے والوں نے بیکار۔۔۔ بالکل بیکار اپنے ہاتھ خون سے رنگے۔۔۔ ‘‘

باتیں کرتے کرتے ممتاز بہت جذباتی ہو گیا۔ لیکن اس زیادتی میں خلوص برابر کا تھا۔ میرے دل پر خصوصاً اس کی اس بات کا بہت اثر ہوا کہ مذہب، دین، ایمان، یقین، دھرم، عقیدت۔۔۔ یہ جو کچھ بھی ہے ہمارے جسم کے بجائے روح میں ہوتا ہے۔ جو چھرے، چاقو اور گولی سے فنا نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ میں نے اس سے کہا ’’تم بالکل ٹھیک کہتے ہو۔‘‘

یہ سن کر ممتاز نے اپنے خیالات کا جائزہ لیا اور قدرے بے چینی سے کہا۔ ’’نہیں بالکل ٹھیک نہیں۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ یہ سب ٹھیک تو ہے۔ لیکن شاید میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں، اچھی طرح ادا نہیں کر سکا۔۔۔ مذہب سے میری مراد، یہ مذہب نہیں، یہ دھرم نہیں، جس میں ہم میں سے ننانوے فی صدی مبتلا ہیں۔۔۔ میری مراد اس خاص چیز سے ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان کے مقابلے میں جداگانہ حیثیت بخشتی ہے۔۔۔ وہ چیز جو انسان کو حقیقت میں انسان ثابت کرتی ہے۔۔۔ لیکن یہ چیز کیا ہے؟۔۔۔  افسوس ہے کہ میں اسے ہتھیلی پر رکھ کر نہیں دکھا سکتا‘‘ یہ کہتے کہتے ایک دم اس کی آنکھوں میں چمک سی پیدا ہوئی اور اس نے جیسے خود سے پوچھنا شروع کیا ’’لیکن اس میں وہ کون سی خاص بات تھی؟۔۔۔  کٹر ہندو تھا۔۔۔  پیشہ نہایت ہی ذلیل لیکن اس کے باوجود اس کی روح کس قدر روشن تھی؟‘‘

میں نے پوچھا۔ ’’کس کی؟‘‘

’’ایک بھڑوے کی۔‘‘

ہم تینوں چونک پڑے۔ ممتاز کے لہجے میں کوئی تکلف نہیں تھا، اس لیے میں نے سنجیدگی سے پوچھا۔ ’’ایک بھڑوے کی؟‘‘

ممتاز نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’مجھے حیرت ہے کہ وہ کیسا انسان تھا اور زیادہ حیرت اس بات کی ہے کہ وہ عرفِ عام میں ایک بھڑوا تھا۔۔۔ عورتوں کا دلال۔۔۔  لیکن اس کا ضمیر بہت صاف تھا۔‘‘

ممتاز تھوڑی دیر کے لیے رک گیا، جیسے وہ پرانے واقعات اپنے دماغ میں تازہ کر رہا ہے۔۔۔ چند لمحات کے بعد اس نے پھر بولنا شروع کیا ’’اس کا پورا نام مجھے یاد نہیں۔۔۔  کچھ سہائے تھا۔۔۔  بنارس کا رہنے والا۔ بہت ہی صفائی پسند۔ وہ جگہ جہاں وہ رہتا تھا گو بہت ہی چھوٹی تھی مگر اس نے بڑے سلیقے سے اسے مختلف خانوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔۔۔ پردے کا معقول انتظام تھا۔ چارپائیاں اور پلنگ نہیں تھے۔ لیکن گدیلے اور گاؤ تکیے موجود تھے۔ چادریں اور غلاف وغیرہ ہمیشہ اجلے رہتے تھے۔ نوکر موجود تھا مگر صفائی وہ خود اپنے ہاتھ سے کرتا تھا۔۔۔ صرف صفائی ہی نہیں، ہر کام۔۔۔  اور وہ سر سے بلا کبھی نہیں ٹالتا تھا۔ دھوکا اور فریب نہیں کرتا تھا۔۔۔  رات زیادہ گزر گئی ہے اور آس پاس سے پانی ملی شراب ملتی ہے تو وہ صاف کہہ دیتا تھا کہ صاحب اپنے پیسے ضائع نہ کیجیے۔۔۔  اگر کسی لڑکے متعلق اسے شک ہے تو وہ چھپاتا نہیں تھا۔۔۔  اور تو اور اس نے مجھے یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہ تین برس کے عرصے میں بیس ہزار روپے کما چکا ہے۔۔۔ ہر دس میں سے ڈھائی کمیشن کے لے لے کر۔۔۔ اسے صرف دس ہزار اور بنانے تھے۔۔۔  معلوم نہیں صرف دس ہزار اور کیوں، زیادہ کیوں نہیں۔۔۔ اس نے مجھ سے کہا تھا کہ تیس ہزار روپے پورے کر کے وہ واپس بنارس چلا جائے گا اور بزازی کی دکان کھولے گا۔۔۔ میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ صرف بزازی ہی کی دکان کھولنے کا آرزو مند کیوں تھا۔‘‘

میں یہاں تک سن چکا تو میرے منہ سے نکلا ’’عجیب و غریب آدمی تھا۔‘‘

ممتاز نے اپنی گفتگو جاری رکھی ’’۔۔۔ میرا خیال تھا کہ وہ سر تا پا بناوٹ ہے۔۔۔  ایک بہت بڑا فراڈ ہے۔ کون یقین کر سکتا ہے کہ وہ ان تمام لڑکیوں کو جو اس کے دھندے میں شریک تھیں۔ اپنی بیٹیاں سمجھتا تھا۔ یہ بھی اس وقت میرے لیے بعید از وہم تھا کہ اس نے ہر لڑکی کے نام پر پوسٹ آفس میں سیونگ اکاؤنٹس کھول رکھا تھا اور ہر مہینے کل آمدنی وہاں جمع کراتا تھا۔ اور یہ بات تو بالکل ناقابل یقین تھی کہ وہ دس بارہ لڑکیوں کے کھانے پینے کا خرچ اپنی جیب سے ادا کرتا ہے۔۔۔ اس کی ہر بات مجھے ضرورت سے زیادہ بناوٹی معلوم ہوتی تھی۔۔۔ ایک دن میں اس کے یہاں گیا تو اس نے مجھ سے کہا، مینہ اور سکینہ دونوں چھٹی پر ہیں۔۔۔ میں ہر ہفتے ان دونوں کو چھٹی دے دیتا ہوں تاکہ باہر جا کر کسی ہوٹل میں ماس وغیرہ کھا سکیں۔۔۔ یہاں تو آپ جانتے ہیں سب ویشنو ہیں۔۔۔ میں یہ سن کر دل ہی دل میں مسکرایا کہ مجھے بنا رہا ہے۔۔۔ ایک دن اس نے مجھے بتایا کہ احمد آباد کی اس ہندو لڑکی نے جس کی شادی اس نے ایک مسلمان گاہک سے کرا دی تھی، لاہور سے خط لکھا ہے کہ داتا صاحب کے دربار میں اس نے ایک منت مانی تھی جو پوری ہوئی۔ اب اس نے سہائے کے لیے منت مانی ہے کہ جلدی جلدی اس کے تیس ہزار روپے پورے ہوں اور وہ بنارس جا کر بزازی کی دکان کھول سکے۔ یہ سن کر تو میں ہنس پڑا۔ میں نے سوچا، چونکہ میں مسلمان ہوں۔ اس لیے مجھے خوش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘

میں نے ممتاز سے پوچھا۔ ’’تمہارا خیال غلط تھا؟‘‘

’’بالکل۔۔۔ اس کے قول و فعل میں کوئی بعد نہیں تھا۔۔۔  ہو سکتا ہے اس میں کوئی خامی ہو، بہت ممکن ہے اس سے اپنی زندگی میں کئی لغزشیں سرزد ہوئی ہوں۔۔۔  مگر وہ ایک بہت ہی عمدہ انسان تھا۔‘‘

جگل نے سوال کیا۔ ’’یہ تمہیں کیسے معلوم ہوا!‘‘

’’اس کی موت پر‘‘ یہ کہہ کر ممتاز کچھ عرصے کے لیے خاموش ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے ادھر دیکھنا شروع کیا جہاں آسمان اور سمندر ایک دھندلی سی آغوش میں سمٹے ہوئے تھے۔ ’’فسادات شروع ہو چکے تھے۔۔۔ میں علی الصبح اٹھ کر بھنڈی بازار سے گزر رہا تھا۔۔۔ کرفیو کے باعث بازار میں آمد و رفت بہت ہی کم تھی۔ ٹریم بھی نہیں چلی رہی تھی۔۔۔  ٹیکسی کی تلاش میں چلتے چلتے جب میں جے جے ہسپتال کے پاس پہنچا، تو فٹ پاتھ پر ایک آدمی کو میں نے بڑے سے ٹوکرے کے پاس گٹھڑی سی بنے ہوئے دیکھا۔ میں نے سوچا کوئی پاٹی والا (مزدور) سو رہا ہے۔۔۔  لیکن جب میں نے پتھر کے ٹکڑوں پر خون کے لوتھڑے دیکھے تو رک گیا۔۔۔  واردات قتل کی تھی، میں نے سوچا اپنا راستہ لوں، مگر لاش میں حرکت پیدا ہوئی۔۔۔  میں پھر رک گیا آس پاس کوئی نہ تھا۔ میں نے جھک کر اس کی طرف دیکھا۔ مجھے سہائے کا جانا پہچانا چہرہ نظر آیا، مگر خون کے دھبوں سے بھرا ہوا۔ میں اس کے پاس فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا اور غور سے دیکھا۔۔۔ اس کی ٹول کی سفید قمیض جو ہمیشہ بے داغ ہوا کرتی تھی لہو سے لتھڑی ہوئی تھی۔۔۔  زخم شاید پسلیوں کے پاس تھا۔ اس نے ہولے ہولے کراہنا شروع کر دیا تو میں نے احتیاط سے اس کا کندھا پکڑ کر ہلایا جیسے کسی سوتے کو جگایا جاتا ہے۔ ایک دو بار میں نے اس کو نامکمل نام سے بھی پکارا۔۔۔ میں اٹھ کر جانے ہی والا تھا کہ اس نے اپنی آنکھیں کھولیں۔۔۔ دیر تک وہ ان ادھ کھلی آنکھوں سے ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھتا رہا۔۔۔ پھر ایک دم اس کے سارے بدن میں تشنج کی سی کیفیت پیدا ہوئی اور اس نے مجھے پہچان کر کہا۔ ’’آپ؟۔۔۔  آپ؟‘‘

میں نے اس سے تلے اوپر بہت سی باتیں پوچھنا شروع کر دی۔ وہ کیسے ادھر آیا۔ کس نے اس کو زخمی کیا۔ کب سے وہ فٹ پاتھ پر پڑا ہے۔۔۔ سامنے ہسپتال ہے، کیا میں وہاں اطلاع دوں؟

’’اس میں بولنے کی طاقت نہیں تھی۔ جب میں نے سارے سوال کر ڈالے تو کراہتے ہوئے اس نے بڑی مشکل سے یہ الفاظ کہے۔ میرے دن پورے ہو چکے تھے۔۔۔ بھگوان کو یہی منظور تھا!‘‘

بھگوان کو جانے کیا منظور تھا، لیکن مجھے یہ منظور نہیں تھا کہ میں مسلمان ہو کر، مسلمانوں کے علاقے میں ایک آدمی کو جس کے متعلق میں جانتا تھا کہ ہندو ہے، اس احساس کے ساتھ مرتے دیکھوں کہ اس کو مارنے والا مسلمان تھا اور آخری وقت میں اس کی موت کے سرہانے جو آدمی کھڑا تھا، وہ بھی مسلمان تھا۔۔۔ میں ڈرپوک تو نہیں، لیکن اس وقت میری حالت ڈرپوکوں سے بدتر تھی۔ ایک طرف یہ خوف دامن گیر تھا، ممکن ہے میں ہی پکڑا جاؤں، دوسری طرف یہ ڈر تھا کہ پکڑا نہ گیا تو پوچھ پاچھ کے لیے دھر لیا جاؤں گا۔۔۔ ایک بار خیال آیا، اگر میں اسے ہسپتال لے گیا تو کیا پتا ہے اپنا بدلہ لینے کی خاطر مجھے پھنسا دے۔ سوچے، مرنا تو ہے، کیوں نہ اسے ساتھ لے کر مروں۔۔۔ اسی قسم کی باتیں سوچ کر میں چلنے ہی والا تھا۔۔۔ بلکہ یوں کہئے کہ بھاگنے والا تھا کہ سہائے نے مجھے پکارا۔۔۔ میں ٹھہر گیا۔۔۔ نہ ٹھہرنے کے ارادے کے باوجود میرے قدم رک گئے۔۔۔ میں نے اس کی طرف اس انداز سے دیکھا، گویا اس سے کہہ رہا ہوں، جلدی کرو میاں مجھے جانا ہے۔۔۔ اس نے درد کی تکلیف سے دوہرا ہوتے ہوئے بڑی مشکلوں سے اپنی قمیض کے بٹن کھولے اور اندر ہاتھ ڈالا، مگر جب کچھ اور کرنے کی اس میں ہمت نہ رہی تو مجھ سے کہا ’’۔۔۔ نیچے بنڈی ہے۔۔۔ ادھر کی جیب میں کچھ زیور اور بارہ سو روپے ہیں۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ سلطانہ کا مال ہے۔۔۔ میں نے۔۔۔ میں نے ایک دوست کے پاس رکھا ہوا تھا۔۔۔ آج اسے۔۔۔ آج اسے بھیجنے والا تھا۔۔۔ کیونکہ۔۔۔ کیونکہ آپ جانتے ہیں خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔۔۔ آپ اسے دے دیجیے گا اور۔۔۔ کہئے گا فوراً چلی جائے۔۔۔ لیک۔۔۔ اپنا خیال رکھیے گا!‘‘

ممتاز خاموش ہو گیا، لیکن مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس کی آواز، سہائے کی آواز میں جو جے جے ہسپتال کے فٹ پاتھ پر ابھری تھی، دور، اُدھر جہاں آسمان اور سمندر ایک دھندلی سی آغوش میں مدغم تھے، حل ہو رہی ہے۔

جہاز نے وسل دیا تو ممتاز نے کہا۔ ’’میں سلطانہ سے ملا۔۔۔ اس کو زیور اور روپیہ دیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔‘‘

جب ہم ممتاز سے رخصت ہو کر نیچے اترے تو وہ عرشے پر جنگلے کے ساتھ کھڑا تھا۔۔۔ اس کا داہنا ہاتھ ہِل رہا تھا۔۔۔ میں جگل سے مخاطب ہوا۔ ’’کیا تمہیں ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ ممتاز، سہائے کی روح کو بلا رہا ہے۔۔۔ ہم سفر بنانے کے لیے؟‘‘

جگل نے صرف اتنا کہا۔ ’’کاش، میں سہائے کی روح ہوتا!‘‘

٭٭٭ٹڑو

تشکر: عامر صدیقی، جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل