FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

تعبیر شرح نحو میر (اردو سوال و جواب)

 

 

                مصنف : ابو طلحہ عبدالباسط لاڑکانوی

                نظر ثانی: مولانا شمشاد علی جونیجو


 

 

 

پیش لفظ

 

نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم امابعد!

بندہ نے درس نظامی کی تعلیم بفضلہ تعالیٰ درجہ اعدادیہ سے موقوف علیہ تک مادر علمی جامعہ اسلامیہ اشاعت القرآن والحدیث دودائی روڈ لاڑکانہ سندھ میں اپنے پیارے نانا جان شیخ الصرف والنحو حضرت مولانا علی محمد حقانی  ؒ کے زیر سایہ حاصل کی۔ اس کے بعد طاہروالی پنجاب سے تکمیل کرنے کے بعد۔ دورہ حدیث شریف کی سعادت عالم اسلام کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ دارالعلوم کورنگی کراچی سے حاصل کی اور سنَد فراغت پانے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مشغلہ تدریس سے منسلک ہوا اللہم  لک الحمد ولک الشکر۔

بحمداللہ  و فضلہ ۱۹ شوال ۱۴۲۶ء میں بندہ  کو  جامعہ اسلامیہ لاڑکانہ میں دورانِ تدریس علم نحو کی مشہور کتاب "نحومیر” پڑھانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ طلباء کی آسانی کے لیے "نحو میر” کتاب کو سوال و جواب کی صورت میں پڑھایا۔ اس کا بہت اچھا نتیجہ ظاہر ہوا طلباء کو خاطر خواہ فائدہ ہوا۔

پھر اساتذہ اور احباب کے مشورہ سے "نحو میر” کو مزید واضح اور آسان کرنے کے لیے باقاعدہ شرح کی صورت میں ایک کتاب ترتیب دینے پر اتفاق ہوا۔ اور یوں تقریباً گیارہ سال کی طویل مدت میں یہ کتاب بنام "تعبیر شرح نحو میر” شایع ہو کر آپ حضرات کے ہاتھوں میں ہے جو کہ علم نحو سے متعلق عربی، اردو، فارسی اور سندھی  کے تقریباً ۶۰ کتب سے ماخوذ ہے فَلِلہ الْحَمْد والمنۃ۔

امید ہے کہ اگر طلباء آپس میں روزانہ متعلقہ درس کے حصہ کا اس کتاب سے مذاکرہ کریں گے  تو مسائل نحو اچھی طرح یاد ہو جائیں گے نیز نحو کی اہم جزئیات و نکات بھی حل ہو جائیں گے۔

اس تحریر کی تکمیل پر اپنے مخلص ساتھیوں کا نہایت شکر گذار ہے جن کی توجہ، دعاؤں، مفید مشوروں اور تعاون سے یہ علمی سرمایہ اہل علم کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ یعنی برادرم مولانا علی اکبر تونیہ  صاحب اور خالی محترم مولانا مسعود احمد صاحب سومرو  مدرسین جامعہ اسلامیہ دودائی روڈ لاڑکانہ جنہوں نے  میری املاء شدہ کاپی کو مستقل کتابی صورت میں لانے کا قیمتی مشورہ دیا۔

ماشاء اللہ عزیزی منیر احمد چنڑ سلمہ کے ساتھ ساتھ مولوی عبدالباسط گھوٹوی اور مولوی سید عرفان علی شاہ صاحب کے ابتدائی تعاون سے خوب ہمت بڑھی اور مولانا عبدالسلام تونیہ صاحب اور مولانا عطاء اللہ بن ابی بکر عباسی صاحب کابھی  پروف ریڈنگ میں بڑا ساتھ رہا۔  لیکن برادر حقیقی قاری عبدالمالک آرائیں صاحب کا تو کہنا ہی کیا جو کئی سال پہلے ہی طباعت  کی مد میں تعاون کر چکے ہیں۔ یہ سب کچھ دین عالی کی خدمت کے لیئے ہے۔ اللہ تعالی سب کو اپنی شان کے مطابق دنیا و آخرت میں جزاء خیر نصیب فرمائے آمین۔

 

ابو طلحہ عبدالباسط لاڑکانوی

 

 

 

 

انتساب

 

بندہ اپنی اس علمی کاوش کو اپنے والدین مکرمین اور اپنے محبوب اساتذہ کے نام منسوب کر کے اپنی سعادت سمجھتا ہے خصوصاً۔

٭بابا سائیں استاد العلماء حضرت مولانا علی محمد  حقانیؒ، بانی جامعہ اسلامیہ دودائی روڈ لاڑکانہ٭شہیدِ اسلام حضرت مولانا  ڈاکٹر خالد محمود سومرو نوراللہ  مرقدہ ٭ استاد  ابو الخلیل قاری امیرالدین انورؒ  گھوٹکی٭حضرت مولانا مفتی غلام الرسول عباسی زید مجدہٗ ٭ مناظر اسلام حضرت مولانا امان اللہ جمالی زید مجدہٗ، سکھر٭ حضرت مولانا محمد امین ؒ ٹھیڑہی سندھ ٭ جامع المعقول والمنقول حضرت مولانا منظور احمد نعمانی ؒ طاہر والی پنجاب ٭ بقیۃ السلف حضرت مولانا استاد حاجی احمد صاحب زید مجدہٗ، طاہر والی٭ حضرت مولانا استاد قاری اللہ بخش ؒ طاہر والی ٭ شیخ التفسیر والحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر  ؒ، گوجرانوالہ ٭ شیخ الحدیث حضرت مولانا سبحان محمود ؒشیخ الحدیث و ناظم تعلیمات دارالعلوم کراچی ٭ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد رفیع عثمانی صاحب زید مجدہٗ کراچی ٭شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہٗ، کراچی٭حضرت مولانا مفتی محمود اشرف عثمانی صاحب زید مجدہٗ کراچی ٭ استاد حضرت مولانا شمس الحق  ؒ خان صاحب ناظم تعلیمات جامعہ دارالعلوم کورنگی کراچی ٭ حضرت مولانا عزیز  الرحمٰن صاحب زید مجدہٗ، مدیر مسؤل ماہنامہ البلاغ کراچی ٭حضرت مولانا استاد افتخار احمد صاحب اعظمی  زید مجدہ، استاد دارالعلوم کراچی۔

ابو طلحہ عبدالباسط لاڑکانوی

 

 

 

 

تقریظات و تصدیقات علماء کرام

 

شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر محمد ادریس سومرو صاحب

رکن اسلامی نظریاتی کون سل پاکستان، انچارج قاسمیہ لائبرری کنڈیارو، سندھ)

 

برصغیر کے مدارس میں رائج درس نظامی کے مؤلفین کی فہرست میں دو نام ایسے ہیں، جن کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان کی تألیفات کی بڑی تعداد پڑھائی یا مطالعہ کی جاتی ہیں اور انہوں نے درسی کتب پر حواشی بھی لکھے ہیں۔

٭ علامہ سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی (۷۲۲۔۷۹۲ھ) جن کی مندرجہ ذیل کتب درس نظامی میں داخل ہیں۔

      تہذیب المنطق (جو شرح تہذیب للیزدی کے ساتھ متن کے طور پر پڑھائی جاتی ہے )

      مختصر المعانی

      مطول

      شرح العقائد النسفیہ

      تلویح شرح توضیح

اس کے ساتھ ساتھ زنجانی او رقطبی پر ان کے حواشی ہیں، جو مطالعہ میں رکھے جاتے ہیں۔

٭ علامہ میر سید شریف علی بن محمد جرجانی(۷۴۰۔۸۱۶ھ) جن کی مندرجہ ذیل کتب

درس نظامی میں داخل ہیں:

      نحو میر

      صر ف میر

      میرایسا غوجی

      میر قطبی

      صغریٰ

      کبریٰ

      اوسط

      شرح المواقف

      شریفیہ(جو اپنی شرح: رشیدیہ کے ساتھ پڑھائی جاتی ہے )

      تعریفات الاشیاء (حصہ منطق) (جس پر علامہ غلام مصطفی قاسمی رحمۃ اللہ علیہ (ت:۲۰۰۳م/۱۴۲۴ھ)نے مفید الطلباء کے نام سے ایک حاشیہ تحریر فرمایا تھا، اور وہ سب سے پہلے دیوبند میں شایع ہوا)۔

اس کے ساتھ ساتھ سراجی پر ان کی شرح ’’شریفیہ‘‘ اور کافیہ پر ان کی شرح فارسی(جس کا نام بھی شریفیہ ہے ) مطالعہ کی جاتی ہیں۔

اگر اس سلسلہ میں دونوں بزرگوں کے درمیان تقابل کیا جائے تو میر سید شریف کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے ، جن کی دس کتب، درس نظامی میں داخل نصاب رہی ہیں، جن میں سر فہرست ’’نحو میر‘‘ ہے۔

فارسی زبان میں عربی نحو کے لیے تیار کردہ یہ مختصر رسالہ، جس کے مقدمہ میں مؤلف نے اپنا نام بھی تحریر نہیں فرمایا، ایسا مقبول ہوا کہ بر صغیر کے مدارس عربیہ میں عربی نحو سمجھانے کے لیے پہلا رسالہ یہ ہی پڑھایا جاتا ہے۔ لاکھوں طلباء نے اسے حرز جان بنایا، ہزاروں طلباء نے بر زبان یاد کیا، سینکڑوں کی تعداد میں شروح و حواشی لکھے گئے۔ دنیا کی کافی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا، آج تک اس کی مقبولیت کم نہیں ہوئی، بلکہ روز بروز افزون تر ہے ، ’’ضرب زید عمرا‘‘ طرز کی پہلی تمرینات و ترکیبات اسی کتاب میں کی جاتی ہیں۔

میر سید شریف کے ساتھ قلبی محبت طالب العلمی کے دور سے ہی رہی ہے ، یہ ہی محبت مجھے کھینچ کر شیراز (ایران) لے گئی، جہاں راقم الحروف ان کی مزار پُر انوار کی زیارت سے مشرف ہوا۔ اور بہت خوش ہوا کہ جس کی کتاب بچپن میں پڑھی تھی، آج ان کے سامنے با ادب کھڑا ہوں۔ جیسا کہ میں نے ذکر کیا، نحو میر پر سینکڑوں کی تعداد میں شروح و حواشی لکھے گئے ہیں اور لکھے جا رہے ہیں، سندھ کے کافی علماء نے نحو میر پر کام کیا ہے۔ بعض نے سندھی تراجم کیے ، بعض نے سندھی میں شروح لکھیں اور بعض نے اردو میں۔جن میں مندرجہ ذیل علماء کرام سر دست میرے ذہن میں آتے ہیں:

۱۔ مولانا شبیر احمد بھٹو صاحب، پریالو، خیر پورمیرس                 (تیسیر النحو)

۲۔ مولانا جمیل احمد انڈھڑ صاحب، سکھر                          (التنویر)

۳۔ مولانا غلام حسین ولیدائی صاحب، لاڑکانہ (ت:۱۹۶۸)

۴۔ مولانا احمد الدین کھوسوصاحب، نواب شاہ

۵۔ مولانا محمد معروف متعلوی صاحب، مٹیاری(ت:۱۹۸۱م)

۶۔ قاضی فتح محمد نظامانی صاحب، ٹنڈو قیصر، حیدرآباد

۷۔ مولانا عبدالقادر براہوی صاحب، خضدار

۸۔ مولانا نظر محمد مصطفوی صاحب، کھڑا شریف

۹۔ مولانا محب اللہ مری بلوچ صاحب، سیدو باغ، کنڈیارو

۱۰۔ مولانامفتی غلام قادرصاحب، دارا لہدی ٹھیڑھی، خیرپورمیرس   (القول الظہیر)

۱۱۔ حافظ عبدالرزاق مہران سکندری، سانگھڑ                (مہران منیر)

سندھ کے نوجوان عالم اور بہترین مدرس (کہ تدریس ہی ان کا اوڑھنا اور بچھونا ہے )

مولانا عبدالباسط لاڑکانوی نے بھی ’’تعبیر‘‘ کے نام سے نحو میر کی ایک شرح لکھی ہے ، جو میرے سامنے ہے ، اور وہ سوال و جواب کے طرز پر ہے۔ ماشاء اللہ انداز نرالا ہے۔

وللناس فیما یعشقون مذاہب

امید واثق ہے کہ اس شرح سے طلباء کرام کے ساتھ ساتھ، اساتذہ کرام بھی مستفیدہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دست بدعا ہوں کہ اس شرح کو زیادہ سے زیادہ سود مند اور مفید بنائے۔آمین۔

 

 

 

    محمد ادریس سومرو

۱۹ ذوالحجہ ۱۴۳۵ھ

۱۵ اکتوبر ۲۰۱۴م

قاسمیہ لائبریری کنڈیارو،        ممبراسلامی نظریاتی کون سل پاکستان

 

مفسرِ قرآن، محققِ دوران شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی  عبد الوہاب چاچڑ

زید مجدہ جامعہ عربیہ دارالعلوم الشرعیہ روہڑی سندھ

نحمد اللہ العظیم و نصلی علیٰ رسول الکریم

ام ابعد! سندھ میں لاڑکانہ خطہ کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ کہ یہ خطہ ارض رجال کار پیدا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ مولانا عبدالباسط بھی اسی خطہ سے تعلق رکھنے والے ہیں بلکہ امام الصرف و النحو حضرت مولانا علی محمد حقانی کے نواسے ہیں۔

نحومیر کی شرح پر بہت سارے علماء کرام کی تصنیفات ہیں لیکن  سوال جواب کی طرز پر یہ منفرد شرح ہے۔ تعبیر شرح  نحو میر کا میں نے کافی حد تک مطالعہ کیا ہے۔ سلیس اردو میں عمدہ شرح ہے۔  مولانا عبدالباسط نوجوان عالم دین ہے۔ اس کے منصوبوں میں کافی کام رکھا ہوا ہے انشاء اللہ تعالیٰ وہ سب وقت پر منظر عام پر آ جائے گا۔ بہرحال یہ کتاب نحومیر کے سہل بنانے میں اچھا مددگار بنے گا۔ اللہ تعالیٰ اس شرح کو مفید عام اور مقبول عام بنائے۔ آمین! آمین! آمین !

 

والسلام

عبدالوہاب چاچڑ

صدر المدرسین، شیخ الحدیث

جامعہ عربیہ دار العلوم الشرعیہ روہڑی

و مدیر اعلیٰ ماہوار شریعت

۲7 رجب المرجب ۱۴۳6ھ

۱7 مئی ۲0۱5

 

الشیخ المقری عوض احمد حجازی

معلم القرآن الکریم جمھوریہ مصر العربیہ

 

 

الحمدللہ الذی جعل اللسان العربی خیر لسان واختارہ لغتہ للقرآن وجعلہ نورالکل بیانٍ وفیہ جعل وصف فصاحۃ للَّسانِ۔

وھذا کتاب ”تعبیر النحو” باللّغتہ الاردیتہ لتعلیم راغبی اللغته العربیة "لّلشیخ” عبدالباسط لارکانوی اسال اللہ الذی خلق الانسان علمہ البیان ان   یجعلہ فتح باب للمعرفہ صحیح اللسان حتیٰ تظھر لغتہ القرآن وجعلہ صونا للسان من الانحراف والخطأ فی القرآن  واَثابہ ربہ عنہ خیر الجنان انہ ھوا لرحیم المَنَّان۔

 

 

عوض احمد حجازی

معلم القرآن الکریم، جمھوریہ مصر العربیہ

 

شیخ التفسیر  والحدیث بقیۃ السلف حضرت مولانا منظور احمد نعمانی

زید مجدہ مہتمم مدرسہ احیاء العلوم ظاہر پیر ضلع رحیم یار خان

 

مُوَضِّحْ مُشَرِّحِ نحو میر ہست

کتابے مُسَمیٰ بہ تعبیر ہست

اصول و فروع شد مکمل بیاں

تراکیب مغلق ازو شد عیاں

مُفِیْضان عُلَّام راشد مفید

طلبگار غوّاص زو مستفید

مُولِفّ ایں عبد باسط فقیہ

محقق مدرس شریف و وجیہ

خدا یا ایں تالیف منظور کن

دل وجان طُلاّب مسرور کن

 

 

حضرت مولانا ارشاد احمد زید مجدہ

 دارالعلوم کبیر والا خانیوال پنجاب

 

نحمدہٗ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم

 

اما بعد !برادرم حضرت مولانا عبدالباسط صاحب سلمہٗ اللّٰہ کی مرتب کردہ تعبیر شرح النحو میر مختلف مقامات سے دیکھنے کا اتفاق ہوا موصوف نے بہت محنت فرمائی ایک علمی خزانہ علماء و ذو الاستعداد طلبہ کیلئے جمع فرمایا اگر چہ نحو میر کے طلبہ کی  استعداد سے تو بلند ہے شاید کم استعداد والے اس سے کامل نفع حاصل نہ کر سکیں مگر نحوی ذوق رکھنے والے علماء و طلبہ کے لئے بڑا خزانہ ہے حق تعالیٰ شانہٗ موصوف کو اس عظیم محنت پر اپنے شان کے مطابق دنیا آخرت میں بہتر سے بہتر بدلہ نصیب فرمائیں۔

 

احقر

ارشاد احمد عفی عنہ

دار العلوم عید گاہ کبیر والا خانیوال

۱۸شعبان ۱۴۳۵ھ

 

حضرت مولانا عبدالقیوم حقانی دامت برکاتہم العالیہ 

مصنف  کتب کثیرہ شیخ الحدیث جامعہ ابو ہریرہ ، خالق آباد نوشہرہ سرحد

 

نحومیر کی سوالات و جوابات کی صورت میں توضیح و تشریح اور اپنے طرز کی پہلی آسان "سلیس” مفصل اور تفہیم میں موثر اور جامع شرح مولانا عبدالباسط مدظلہ کو لکھنے کی توفیق مل رہی ہے۔ جہاں سے کھولی پڑھتا ہی چلا گیا، وہی درسی باتیں جو اساتذہ پڑھاتے ہیں آسان مگر نئے اور جدید انداز میں دلچسپ نافع اور زود حفظ بن گئی ہیں۔

میری دلی دعا ہے کہ باری تعالیٰ مولانا عبدالباسط کی اس  پہلی علمی اور قلمی کاوش کو قبول فرماوے ابھی تو یہ موصوف کے سلسلہ تحریر کا نقش اول ہے جب آغاز کا یہ عالم ہے تو انجام یقیناً مبارک روشن اور ہر لحاظ سے کامل و مکمل ہو گا۔  و صلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ محمد وعلیٰ آلہ و صحبہ اجمعین۔

 

عبدالقیوم حقانی خادم جامعہ ابو ہریرہ ؓ

خالق آباد نوشہرہ سرحد

۱۳ شعبان ۱۴۲۶ھ

 

 

فاضل عالم مفسرِ قرآن حضرت مولانا

محمد رمضان پھلپوٹو

زید مجدہ مصنف تصانیف کثیرہ

 

سبحانک لاعلم لنا الا ماعلمتنا انک انت العلیم الحکیم

الحمدللہ، سندھ کے نوجوان عالم دین حضرت مولانا عبدالباسط صاحب کی "تعبیر شرح نحومیر” اردو زبان میں مختلف مقامات سے پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ میری ناقص معلومات کے مطابق یہ شرح اب تک نحومیر کی  شروحات میں سے ممتاز اور منفرد حیثیت کی حامل ہے اس لیئے کہ اس میں تلامذہ کے لئے اجراء کا بندوبست کیا گیا ہے۔ سوال و جواب کی طرز  اوقع فی الذہن ہوا کرتی ہے۔

الحمدللہ یہ شرح حضرت مولانا کی شب و روز کی محنتوں کا نچوڑ و خلاصہ ہے اگر اساتذہ کرام بھی غور و فکر سے ملاحظہ فرمائیں گے تو فیض و فائدہ سے جھولیاں بھریں گے۔ وماذ لک علی اللہ بعزیز۔

اللہ تعالیٰ سے بصمیم قلب عاجزانہ دعا ہے کہ اس کتاب کے ذریعہ ضیوف النبی ﷺ (طلباء کرام) اور ورثۃ الانبیاء (اساتذہ کرام) کو فیض و فائدہ پہنچائے اور مولانا عبدالباسط صاحب کے لئے صدقہ جاریہ بنائے۔ اللّٰھم آمین!

احقرالعباد

محمد رمضان عفاعنہ الرحمٰن

استاد مدرسہ عربیہ مظہر العلوم حمادیہ کھڑا

ضلع خیرپور میرس-سندھ

غرہ ربیع الثانی ۱۴۲۸ھ

 

 

 

 

نحو میر ایک نظر میں

 

مصنفؒ نے اپنے کتاب کی ترتیب کچھ اس طرح رکھی ہے کہ ابتداء میں چند فصل لائے ہیں۔

۱۔ لفظ کی تقسیم ۲۔ جملہ خبریہ و انشائیہ ۳۔ مرکب غیر مفید اور اس کے اقسام ۴۔ دستور مطالعہ  ۵۔علامات اسم و فعل ۶۔ معرب و مبنی ۷۔ مبنی کے اقسام ۸۔ اسم غیر متمکن کے اقسام ۹۔ اعراب اسم ۱۰۔ اعراب فعل مضارع۔

اس کے بعد تین باب:

پہلا باب:حروف عاملہ، جس میں دو فصل ہیں۔ فصل اول میں پانچ قسم ہیں ۱۔ حروف جر  ۲۔ حروف ناصبہ ۳۔ ما ولا مشبھتان بلیس ۴۔ لائے نفی جنس ۵۔ حروف ندا۔

فصل دوم میں بھی دو قسم ہیں ۱۔ فعل مضارع کے حروف ناصبہ ۲۔ فعل  مضارع کے حروف جازمہ

دوسرا باب: افعال کا عمل، اس میں سات فصل ہیں ۱۔ فاعل ۲۔ فاعل کے اقسام اسم ظاہر و ضمیر

۳۔ فعل متعدی کے اقسام ۴۔ افعال ناقصہ ۵۔ افعال مقاربہ ۶۔ افعال مدح و ذم ۷۔ افعال تعجب۔

تیسرا باب: اسمائے عاملہ، اس میں گیارہ قسم ہیں ۱۔ اسمائے شرطیہ ۲۔ اسمائے افعال بمعنیٰ ماضی

۳۔ اسمائے افعال بمعنیٰ امر حاضر ۴۔ اسم فاعل کا عمل ۵۔ اسم مفعول کا عمل ۶۔ صفت مشبہ کا عمل ۷۔ اسم تفضیل کا استعمال و عمل ۸۔ اسم مصدر کا عمل ۹۔ اسم مضاف کا عمل ۱۰۔ اسم تام کا عمل ۱۱۔اسمائے کنایات۔

اس کے بعد خاتمہ جس میں تین فصل ہیں

پہلا فصل: توابع میں اور اس میں پانچ قسم ہیں صفت، تاکید، بدل، عطف بحرف، عطف بیان۔

دوسرا فصل:منصرف اور غیر منصرف۔

تیسرا فصل: حروف غیر عاملہ جو سولہ قسم ہیں اور آخر میں بطور فائدہ مستثنیٰ کا بحث ذکر کیا ہے۔

 

مقدمۃ العلم۱

 

ہر فن کو شروع کرنے سے پہلے چند باتوں کا جاننا ضروری ہے۔

تعریف۔ موضوع۔ غرض۔ واضع۔ شرف۔ حکم۔ وجہ التسمیہ۔ تدوین علم

لفظ نحو کی تحقیق

نحو کی دو تعریفیں ہیں۔ ۱۔ لغوی ۲۔ اصطلاحی

لغوی تعریف:واضح رہے کہ "نحو” کی لغت(۲) میں کئی معنیٰ ہیں، راستہ، نوع، مثل، ارادہ، جہت، فصاحت، پھرانا، قبیلہ، قسم۔ یہ معانی اس شعر میں موجود ہیں

نحونا، نحو، نحوک، یا حبیبی   نحونا، نحو، الف، من رقیبی

وجدناھم مراضا نحو قلبی   تمنوا منک نحوا من زبیبی

اصطلاحی تعریف: النَّحْوُ عِلْمٌ بِاُصُوْلٍ یُّعْرَفُ بِھا اَحْوالُ اَوَاخِرِالْکَلِمِ الثَّلٰثِ مِنْ حَیثُ الْاِعْرَابِ والبِناء۔ نحو ایک قانونی علم ہے ، جس کے حاصل کرنے سے تینوں کلموں / اسم فعل و حرف کے آخر کے احوال معلوم ہوتے ہیں، بَاِعْتبار مُعْرَب اور مَبْنی کے ، اور کلموں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کا طریق جانا جاتا ہے اور واضح رہے کہ علم النحو کا دوسرا نام علم الاعراب  بھی ہے۔

۔۔۔۔۔

(۱)نوٹ: مقدمۃ العلم: وہ چند بنیادی باتیں ہیں جو علم میں بصیرت پیدا کرنے کیلئے اس فن کے ابتدا میں بیان کی جاتی ہیں جیسے رؤس ثمانیہ ۱۔غرض علم ۲۔ منفعت ۳۔تسمیہ ۴۔ مؤلف ۵۔ مرتبہ علم ۶۔ جنس علم ۷۔ قسمت ۸۔ اقسام تعلیم۔

مقدمۃ الکتاب: وہ تمہیدی باتیں ہیں جو کتاب شروع کرنے سے پہلے کتاب سے مناسبت پیدا کرنے کیلئے کتاب کے مقدمہ میں بیان کی جاتی ہیں، جیسے وجہ تصنیف کتاب۔ وجہ تعیین فن۔ وجہ کیفیت مصنفہ اور شرح ہو تو تعیین متن (مرقات).

(۲)لغت: کسی قوم کی زبان اور بولی کو کہتے ہیں۔ اصطلاحاً: اتفاق قوم مخصوص علیٰ امر مخصوص۔

 

سوال:موضوع تو ایک ہی ہوتا ہے لیکن یہاں دو کیوں ہیں۔

جواب: موضوع تو ایک ہی ہے اور وہ ہے لفظ مُسْتَعْمَل۔ البتہ کلمہ اور کلام اس کے قسم ہیں۔

نوٹ:واضح رہے کہ یہ علم النحو کا موضوع خاص تھا، اور دوسرا موضوع مطلق ہوتا ہے۔

موضوع مطلق: مَا یُبْحَثُ فِیہ عَنْ عَوَارِضِہِ الذَّاتِیَّۃِ۔ یعنی جس چیز کے عوارِض ذاتی جس علم میں بیان کئے جائیں تو اس چیز کو اسم علم کے لیے موضوع کہا جاتا ہے ، جس طرح انسان کے بدن کے عوارض ذاتی علم طب میں بیان کئے جاتے ہیں تو بدن انسانی کو علم طب کیلئے موضوع کہا جاتا ہے۔

غرض و غایت: صِیَانَۃُ الذِّھنِ عَنِ الخَطَأِ اللَّفظِیِّ فِی کَلَامِ العَربِ۔علم نحو کی غرض ہے ذہن کو عربی زبان پڑھنے بولنے سمجھنے اور لکھنے میں غلطی سے بچانا اور حفاظت کرنا۔

واضِع: حضرت علی المرتضیٰ ؓ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے حضرت ابو الاسود دؤلی ؒ   کو یہ تین اصول سکھائے الفاعل مرفوع والمفعول منصوب والمضاف الیہ مجرور۔

وجہ التسمیہ: جب ابو الاسود دؤلی ؒ  (۱) نے ان قوانین کے ساتھ چند ابواب عطف، نعت، تعجب اور باب اِنَّ کا اضافہ کر کے ان کو حضرت علیؓ کی خدمت میں پیش کیا تو حضرت علیؓ نے فرمایا لٰکِنَّ کو بھی ان میں داخل کرو، پھر اس پر فرمایا: ما اَحْسَنَ ھٰذا النحوالذی نحوتَ۔ اس لیے اس فن کا نام علم النَحو ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔

(۱) احد کبار التابعین وھو شیخ الحسنین ؓ و اسمہ ظالم بن عمرو۔

 

شرف و فضیلت: ۱۔ علم نحو کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہے کہ یہ قرآن و حدیث سمجھنے کا ذریعہ ہے۔

۲۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے کہ علم نحو کو اسی طرح سیکھو جس طرح تم فرائض اور سُنَن کو سیکھتے ہو۔ (البیان والتبیین للجاحظ ؒ  )

۳۔ علم نحو تمام علوم کا باپ ہے اور کیا ہی خوب کہا گیا ہے کہ علم النحو کلام میں اسی طرح ہے جیسے کھانے میں نمک کا درجہ ہوتا ہے۔

۴۔ النَّحْوُ فی العلوم کالبَدْرِ بَیْنَ النُّجُومِ یعنی علم النحو تمام علوم میں اسی طرح ہے جیسے ستاروں میں چودھویں رات کا چاند۔

علم النحو کا حکم: اس سلسلہ میں مفتاح السعادۃ میں لکھا ہے کہ علم النحو کا حاصل کرنا فرض کفایہ ہے کیونکہ کتاب اﷲ و سنت رسول ؐ سے استدلال کرنے میں اس کی ضرورت پیش آتی ہے۔

تدوین علم النحو: علم النحو کی تدوین کے بارے میں چند اقوال ہیں۔

۱۔ حضرت علیؓ نے جب دیکھا کہ عجمیوں کی وجہ سے کلام عرب بگڑ گیا ہے تو اس کے اِزالہ کیلئے ابوالاسود کو ایک رقعہ عنایت فرمایا کہ اس کے مطابق قواعد جمع کرو اور مزید کچھ فوائد بھی اس میں شامل کرو۔ وہ کہتے ہیں میں نے جب رقعہ کو دیکھا تو اس میں یہ مضمون تھا۔ الکلامُ کُلُّہٗ اسمٌ وَ فعلٌ وَحرفٌ۔

۲۔ ایک قول کے مطابق خلیفہ راشد حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں ایک شخص نے کسی اعرابی کو سورہ توبہ کی آیت اِنَّ اللہَ بَریءٌ مِّنَ المشرکین و رَسُولِہٖ پڑھائی۔ لفظ رسول کو جر کے ساتھ جس کا مطلب نکلتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مشرکین اور اپنے رسول سے بیزار ہے۔ تو اعرابی نے کہا جب اﷲ اپنی رسول سے بَری اور بیزار ہے تو میں بھی اس سے بیزار ہوں۔ جب حضرت عمرؓ   کو معلوم ہوا تو اعرابی کو بُلا کر کہا کہ رسولُہٗ پر ضمّہ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول مشرکین سے بَری ہیں۔ اس کے بعد آپؓ نے ابوالاسود دئلوی ؒ  کو نحو بنانے کا حکم دیا اس کے بعد ابوالاسود ؒ نے نحو کے قواعد جمع کئے۔

مشہور علماء نحو اور نحوی مراکز: علم النحو کی ابتداء عراق کے شہر بصرہ سے ہوئی جہاں ابوالاسود ؒ نے حضرت علیؓ کے ان اصولوں کی روشنی میں چند ابواب مرتب کیے اور اس علم کی داغ بیل ڈالی پھر آگے چل کر اس کے ۵ مراکز، بَصرہ، کوفہ، بغداد، اندلس اور مصر وجود میں آئے اور مختلف مقامات کے علماء ان مراکز سے وابستہ ہوئے اور اپنے اپنے انداز سے اس فن کو ترقی دی۔ ان مراکز کے مشہور علماء نحو کے نام یہ ہیں۔

۱۔ مرکز بصرہ: ابو الاسود دئلوی ؒ، م  ۶۹ ھ۔ الخلیل بن احمد، م۱۶۰ھ۔ عمرو بن عثمان سِیبوَیہ، م۱۶۱ھ۔ سعید بن مَسْعَدَہ الْاََخْفَش، م ۲۱۵ھ۔

ابو عثمان بکر بن محمد المازنی، م ۲۴۹ھ۔ محمد بن یزید المُبَرَّد، م ۲۸۵ھ۔ ابراہیم بن السِرّی  الزجَّاج، م۳۱۶ ھ۔

۲۔ مرکز کوفہ: علی بن حمزہ الکِسَائی، م ۱۸۹ھ۔ یحیٰ بن زیاد الفراء،  م۲۰۷ھ۔

۳۔ مرکز بغداد: محمود بن عمر الزمخشری، م ۵۳۸ھ۔ عثمان بن جنی الموصلی،

م۳۹۲ھ۔

۴۔ مرکز اندلس: محمد بن عبداﷲ بن عبداﷲ بن مالک الطائی، م ۶۷۲ھ۔

۵۔ مرکز مصر: ابن حاجب عثمان بن عمر بن ابی بکر، م۶۴۶ھ۔ عبدالرحمٰن بن ابی بکر السیوطی۔ ابن خالویہ، م۳۷۰ ھ۔

 

 

 

مقدمۃ الکتاب

 

اس میں دو باتیں ہوتی ہیں۔ ۱۔ حالات مصنف کتاب، ۲۔ متعلقات کتاب۔

حالات مصنف کتاب: علی بن محمد بن علی حنفی المشہور بمیر سید / سید الشریف الجرجانی۔

آپ کا نام ہے علی بن محمد بن علی۔ کنیہ۔ ابوالحسن۔ لقب ہے میر سیدالشریف اور میر سید السَند، وطن کی نِسبت سے جُرجانی مشہور ہیں۔ بچپن ہی سے آپ کو علوم عربیہ کی طرف فطری رجحان تھا، چنانچہ وافیہ شرح کافیہ کا حاشیہ آپ کے زمانہ طفولیت ہی کی تصنیف ہے۔ جرجان میں ۲۲ شعبان ۷۴۰ھ کو ولادت ہوئی۔ اور شیراز میں ۸۱۶ھ کو وفات ہوئی۔

سید شریف کو اس بات کا شوق تھا کہ کتاب خود اس کے مؤلف سے پڑھی جائے۔ انہوں نے دوران تعلیم شرح مطالع بار بار پڑھی تھی مگر خود مصنف سے پڑھنے کا شوق انہیں مؤلف کتاب قطب الدین الرازی/ تحتانی کے پاس ہرات لے گیا اس زمانے میں قطب الدین ضعیف ہوچکے تھے اور بصارت زائل ہونے کی وجہ سے تدریس چھوڑ چکے تھے تاہم انہوں نے اپنے عزیز شاگرد مبارک شاہ کے نام رقعہ لکھ دیا اور سید شریف کو مصر جانے کا مشورہ دیا، تحصیل علم کا شوق انہیں خراماں خراماں مصر لے گیا۔ مبارک شاہ مصر میں مدرس تھے انہوں نے استاد کے سفارشی رقعہ پر سید شریف کو وقت دے دیا اور شرح مطالع کا درس شروع ہو گیا۔ مبارک شاہ اپنے شاگرد کی ذہانت اور دقیقہ سنجی سے بے حد متاثر ہوئے اور سید شریف کو اپنے خاص شاگردوں میں شامل کر دیا۔ اور مصر ہی میں آپ نے علم فقہ صاحب عنایہ سے حاصل کیا۔ اسی طرح میر سید کے صاحبزادے محمد بن علی بھی ایک اچھے مصنف تھے۔ انہوں نے صغریٰ، کبریٰ کی تعریب کی تھی اور اپنے و الد کے بعض کتب کی تکمیل بھی کی۔(ظفر المحصلین)۔

تصانیف:علمی دنیا میں آپ نے کافی قیمتی تصنیفات چھوڑی ہیں۔ جیسے ترجمہ قرآن فارسی۔ صرف میر۔ میر قطبی۔ تعریفات الاشیاء۔ صغریٰ۔ کبریٰ۔ شریفیہ فی المناظرہ۔ شریفیہ شرح الفرائض السراجیہ، شریفیہ شرح الکافیہ فارسی۔ حاشیہ بیضاوی۔ حاشیہ مشکواۃ۔ حاشیہ مطول، حاشیہ ھدایہ۔ شرح مواقف اور نحو میر وغیرہ۔ ان میں سے چند کتابیں درس نظامی میں داخل نصاب ہیں۔ خصوصًا آخر الذکر کتاب طلبہ کے حق میں زیادہ نافع و مفید ہے۔

علم باطن: آپ ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ باطنی علوم سے بھی آراستہ تھے اور اس کے لئے خواجہ بہاؤالدین نقشبند کے اجل خلیفہ علاء الدین العطار البخاری ؒ کا دامن پکڑا اور فرمایا کرتے تھے ، ہم نے خدا تعالیٰ کو کما ینبغی اس وقت تک نہیں پہچانا جب تک کہ ہم خواجہ عطار ؒ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوئے (فوائد بھیہ)۔

متعلقات کتاب: اس کتاب کا نام ہے۔ نحو میر میر سید کے نحو کی کتاب۔ مصنف کی غرض  ۱۔مبتدیوں کو نفس مسائل سے آگہی دینا ہے ۲۔ دلائل اور باقی نحاۃ کے مسائل سے تعرض نہیں کی گئی ۳۔ تقریباً نحو کے اتفاقی مسائل کو ذکر کیا گیا ہے۔ زمانہ  تالیف متعین  طور سے معلوم نہ ہو سکا کہ مصنف  اس تصنیف سے کس سن میں فارغ ہوئے۔

خصوصیت کتاب: سید سند کے اس کتاب کی  ایک خصوصیت یہ ہے کے یہ علم نحو میں متن کی حیثیت رکھتا ہے ، اور آج تک درس نظامی میں داخل نصاب ہے۔

 

شروح و تراجم

 

اس کتاب کے مختلف زبانوں عربی، اردو، سندھی وغیرہ میں تراجم اور شروحات لکھے گئے ہیں۔جو  اکثر مطبوع ہیں۔  چند شروحات یہ ہیں۔

۱۔ المصباح المنیر اردو، مولانا سید حسن بن امام النحومولانا  نبیہ حسن، مدرس دارالعلوم دیوبند۔

۲۔ اسعاد النحو اردو، مولانا اسعد اللہ، مظاہر  العلوم سہارنپور۔

۳۔  ھدیہ صغیر، مولانا اصغر  علی، قدیمی کتب خانہ کراچی۔

۴۔  التنویر فی شرح النحو میر، مولانا عبداللہ مظاہری۔

۵۔ بدر منیر، مولانا عبدالرب میرٹھی، مکتبہ شرکۃ علمیہ ملتان

۶۔ تیسیر النحو  (سندھی) مولانا شبیر احمد بھٹوؒ پریالو خیر پور سندھ۔

۷۔ النحو الیسیر تسہیل نحو میر عربی، مولانا فاروق حسن زئی۔

۸۔ اقناع الضمیر(عربی) مولانا ملک عبدالوحید بن عبدالحق

۹۔ نصر الخبیر، مولانا حسین قاسم، مکتبہ نعمانیہ کراچی۔

۱۰۔ جہد قصیر، مولانا ابوالفتح محمد یوسف  مدظلہ العالیہ مکتبہ عثمانیہ رحیم یار خان۔

۱۱۔ القول الظہیر فی تسہیل النحو علیٰ ترتیب نحو میر مفتی غلام قادرؒ ٹھیڑھی ضلع خیرپور-سندھ

۱۲۔ نحو میر مترجم اردو، مولوی محمد عمران عثمان کراچی۔

۱۳۔ تنویر شرح نحو میر، مولانا عطا الرحمٰن ملتانی گوجرانوالہ۔

۱۴۔  حدیقۃ النحو فارسی، مولانا محب اللہ ہروی مطبوعہ ایران۔

۱۵۔ مرقات النحو، مولانا محمد عباس تھریؒ، عزیز کتاب گھر ماتلی سندھ۔

۱۶۔ بدایۃ النحو مولانا نذیر احمد عثمانی، دارالعلوم عثمانیہ سکھر۔

۱۷۔ تحفہ نحو، مولانا حبیب اللہ اچکزئی، مکتبہ طیبہ بنوری ٹاؤن کراچی۔

۱۸۔ تہذیب نحو، مولانا عبدالحمید، کنڈو واہن سکھر، سندھ۔

۱۹۔ جہد قصیر شرح اردو (غیر مطبوعہ) استاد العلماء حضرت مولانا علی محمد حقانیؒ  لاڑکانہ سندھ

۲۰۔ مفقود النظیر حضرت مولانا عبیداللہ خضداری صاحب  زید مجدوہ۔

 

 

 

 

 

 

الحمدللہ رب العالمین والعاقبۃ لِلْمُتَّقِین والصلوٰۃ والسلام علیٰ سیدنا محمد وعلیٰ آلہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْن۔یہاں تین باتیں ہیں:

پہلی بات (ابتداء)

سوال:جب کتاب علم النحو میں ہے ، کتاب کی ابتداء بھی کسی نحوی بحث سے ہوتی، بسم اﷲ سے ابتداء  کیوں کی گئی ہے۔

جواب: مصنف ؒ نے اپنی کتاب کی ابتداء بسم اﷲ سے کر کے تین چیزوں کی تابعداری کی ہے ، قرآن شریف، حدیث شریف اور سلف صالحین۔

۱۔ قرآن شریف کی اس طرح کہ قرآن شریف کی ابتداء بھی بسم اللہ سے ہوئی ہے۔

۲۔ حدیث شریف کی اس طرح کہ حدیث شریف میں آیا ہے۔

کل امر ذی بال لم یبدأ ببسم اللہ فھو اقطع۔ (ابو داؤد)۔ ہر ذی شان کام جو اﷲ تعالیٰ کے نام (بسم اللہ) سے شروع نہ کیا جائے تو وہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے خالی ہوتا ہے۔

۳۔ سلف صالحین، کی اس طرح کہ یہ حضرات بھی ہر اہم کام بسم اللہ سے شروع کرتے ہیں۔

سوال: جب کتاب کی ابتداء بسم اللہ سے ہو چکی تو پھر الحمد للہ ذکر کرنے کا کیا مقصد۔

جواب:اسی طرح بسم  اللہ کے بعد الحمدللہ سے شروعات کرنے میں بھی تین چیزوں کی اتباع کی گئی ہے۔ قرآن شریف، حدیث شریف، اور سلف صالحین کی۔

۱۔ قرآن شریف کی اس طرح کہ قرآن شریف کی ابتداء بھی بسم اللہ کے بعد الحمدللہ سے ہوئی ہے۔

۲۔ حدیث شریف کی اس طرح کہ حدیث شریف میں آیا ہے۔

کل امر ذی بال لم یبدأ بحمداللہ فھو اقطع۔ (ابو داؤد)

یعنی ہر اہم کام جو اﷲ تعالیٰ کے حمد کے بغیر شروع کیا جائے وہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے خالی ہوتا ہے۔

۳۔ سلف صالحین کی اس طرح کہ یہ حضرات بھی ہر اہم  کام  تسمیہ (بسم اللہ) کے بعد حمد (الحمدللہ) سے شروع کرتے ہیں۔

سوال: تسمیہ والی حدیث بتا رہی ہے کہ ابتداء مجھ سے کرو اور حمد والی حدیث بتا رہی ہے کہ ابتداء مجھ سے کرو، حالانکہ ابتداء تو ایک چیز سے ہوتی ہے !

جواب:ابتداء تین قسم ہے ، ۱۔ابتداء حقیقی ۲۔ عُرفی ۳۔ اضافی۔

ابتداء کی قسمیں

سوال:ابتداء حقیقی، ابتداء عُرفی اور ابتداء اضافی کسے کہتے ہیں۔

جواب:ابتداء حقیقی جو مقصد اور غیر مقصد سب سے پہلے ہو۔

ابتداء عُرفی، جو مقصد سے پہلے ہو، خواہ اس سے پہلے کوئی شے ہو یا نہ ہو۔

ابتداء اضافی، وہ ہے جو کبھی مقصد سے پہلے ہو تو کبھی غیر مقصد سے پہلے ہو۔

سوال: تسمیہ اور تحمید والی حدیث میں ابتداء کون سی مراد ہے۔

جواب: بسم اللہ والی حدیث شریف سے مراد ابتداء حقیقی ہے ، اور حمد والی حدیث سے مراد ابتداء عرفی یا اضافی ہے۔

سوال:اس کے برعکس کیوں نہیں کرتے۔ کہ بسم اللہ والی حدیث سے مراد ابتداء عُرفی یا اضافی لیں اور حمد والی حدیث سے مراد ابتداء حقیقی لیں۔

جواب:اس لئے نہیں ہو سکتا کہ بسم اﷲ میں اﷲ تعالیٰ کی ذات کا ذکر ہے اور حمد میں اﷲ تعالیٰ کے وصف کا اور ذات مقدم ہوتی ہے وصف پر۔

 

دوسری بات (باء کا متعلق)

 

سوال: بسم اللہ  میں با حرف جارہ کا تعلق کس سے ہے۔

جواب:باء کا تعلق ہے فعل اشرع مؤخر مقدر سے۔ فعل سے تعلق اس لئے کہ فعل عمل میں اصل ہے اور مؤخر اس لئے تاکہ حصر کا فائدہ دے۔ کیونکہ قانون ہے : تاخیرُ ماحقُّہٗ التَّقدِیمُ یُفِیدُالحَصرَ۔یعنی کسی  چیز کی  نسبت پہلے ہو اس کو بعد میں لایا جائے تو حصر کا فائدہ ہوتا ہے جیسے ﷽۔ میں تو جار کا حق ہے آخر میں آنا اس کو مقدم کر کے لانا حصر کا فائدہ دیتا ہے۔ پھر معنیٰ ہو گی میرا شروع کرنا خاص اﷲ تعالیٰ کے نام میں بند ہے۔

اس طرح قانون ہے۔ تَقدِیمُ مَاحقُّہٗ التَّاخِیرُ یُفِیدُالحَصرَ۔یعنی جس چیز کا حق پیچھے ہو اس کو پہلے لایا جائے تو حصر کا فائدہ ہوتا ہے۔ جیسے ”اِیَّاکَ نَعْبُد واِیَّاکَ نَستعین“ میں اِیَّاکَ مفعول ہے اور مفعول کا درجہ پیچھے ہوتا ہے ، یہاں پہلے لایا گیا ہے ، اس لئے معنیٰ ہو گا، ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور خاص تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔

 

تیسری بات (الف لام)

 

سوال: الف لام کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے۔ ۱۔ الف لام اسمی ۲۔ الف لام حرفی۔

سوال: الف لام اسمی کسے کہتے ہیں۔

جواب: اس الف لام کو کہتے ہیں جو اسم فاعل اور اسم مفعول پر داخل ہو اور بمعنیٰ الذی ہو یعنی:

الضَّارب بمعنیٰ الذی ضَرَبَ۔ الضَّاربان بمعنیٰ اللَّذانِ ضَرَبَا۔

الضَّاربون بمعنیٰ الّذِینَ ضربُوْا۔ الضَّاربۃ بمعنی الَّتی ضَربتْ۔

المضروب بمعنیٰ الَّذی ضُرِبَ۔ المضروبانِ بمعنیٰ اللَّذانِ ضُرِبَا۔

المضروبون بمعنیٰ الَّذِین ضُرِبُوْا۔ المضروبۃ بمعنیٰ الَّتی ضُرِبَت۔

جیسے الضَّارب زیدًابمعنیٰ الَّذی ضرب زیدًا۔المضروب غلامُہٗ بمعنیٰ الَّذی ضُرِبَ غلامُہٗ۔

سوال:  ضاربٌ کو بمعنیٰ ضَرَبَ اور مضروبٌ کو بمعنیٰ ضُرِبَ کیوں کیا گیا۔

جواب:اس لیے کہ الذی موصولہ ہے اور اس کا صلہ جملہ ہوتا ہے۔ اسم فاعل اپنے فاعل سے اور اسم مفعول اپنے نائب فاعل سے مل کر جملہ نہیں بنتا۔ اس لئے ضاربٌ کو بمعنیٰ ضَرَبَ اور مضروب کو بمعنی ضُرِبَ کیا گیا۔

سوال:   اسم فاعل اپنے فاعل سے اور اسم مفعول اپنے نائب فاعل سے مل کر جملہ کیوں نہیں بنتے۔

جواب:اس لیے کہ ان کی مشابہت ہے اسم جامد سے جس طرح اسم جامد جملہ نہیں بنتا۔ اسی طرح اسم فاعل اور اسم مفعول بھی جملہ نہیں بنتے۔جیسے :

انا ضاربٌ۔ ھو ضاربٌ۔ انت ضاربٌ

انا رجلٌ۔ ھو رجلٌ۔ انت رجلٌ

 

الف لام اسمی کے دخول کے مواقع

 

سوال:الف لام اسمی کہاں داخل ہوتا ہے ، کہاں داخل نہیں ہوتا۔

جواب:الف لام اسمی صفت مُشَبّہ اور اسم تفضیل پر داخل نہیں ہوتا۔ ۱۔ مگر شعروں میں ۲۔ظرف ۳۔ جملہ اسمیہ ۴۔ فعل مضارع پر داخل ہوتا ہے قلیلاً ۵۔ اور علامہ اَخفَش و ابن مالک ؒ کے نزدیک نثر میں بھی فعل مضارع پر اس کا دخول جائز ہے۔(فصول اکبری ص ۲۰۳) ۶۔اسی طرح اعلام /ناموں پر بھی الف لام داخل نہیں ہوتا، مگر اعلام علمیت سے وصفیت کی طرف منتقل کئے گئے ہوں تو ان پر الف لام کا دخول جائز ہے ، جیسے الحسن والحسین، الحارث والعباس۔ (فرائد منثورہ)

 

الف لام حرفی

 

سوال:  الف لام حرفی کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس الف لام کو کہتے ہیں جو اسم فاعل اور اسم مفعول پر داخل نہ ہو۔

الف لام زائدہ اور غیر زائدہ

سوال:  الف لام حرفی کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے۔ ۱۔ زائدہ جس کا معنیٰ نہ ہو، محض تحسین کلام کے لئے لایا جائے ، جیسے اَلحسن وَالْحُسین ۲۔ غیر زائدہ۔ جس کا معنیٰ ہو۔

سوال: الف لام زائدہ کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے۔لازمی ۲۔ غیر لازمی

 

الف لام عوضی اور غیر عوضی

 

سوال:  الف لام لازمی کتنے قسم  ہے۔

جواب:دو قسم ہے ۱۔ عوضی جو کسی کے عوض میں آئے ۲۔ غیر عوضی، جو کسی کے عوض میں نہ آئے۔

۱۔ لازمی عوضی کی مثال جیسے اللہ۔ دراصل اِلٰہٌ۔

۲۔ لازمی غیر عوضی کی مثال جیسے اَلنَّجْمُ۔ الصَّعْقُ۔ الثُّرَیا۔

۳۔ غیر لازمی عوضی کی مثال جیسے النَّاسُ، دراصل اُناسٌ۔

۴۔ غیر لازمی غیر عوضی کی مثال جیسے اَلغُلامُ دراصل غلامٌ۔

 

الف لام جنسی، استغراقی اور عہدی

 

سوال:الف لام غیر زائدہ کتنے قسم ہے۔

جواب:تین قسم ہے ۱۔ جنسی ۲۔ استغراقی ۳۔ عہدی

سوال: الف لام جنسی کسے کہتے ہیں۔

جواب:جنسی(۱) وہ ہے کہ جس میں الف لام کا اشارہ ہو اپنے مدخول کے جنس کے طرف جیسے الرَّجُلُ خَیرٌ مِنَ المَرأَۃِ۔ (۲) مرد کی جنس عورت کی جنس سے بہتر ہے۔

سوال:الف لام استغراقی کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس الف لام کو کہتے ہیں جس کا اشارہ ہو، اپنے مدخول کے ہر فرد کے طرف جیسے وَالعَصرِ اِنَّ الاِنسَانَ لَفِی خُسرٍ۔(۳) قسم ہے زمانہ کی تحقیق سب انسان خسارے میں ہیں۔

سوال:الف لام عہدی کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس الف لام کو کہتے ہیں جو مُعَیَّن چیز پر دلالت کرے۔

سوال: (معنیٰ کے لحاظ سے ) الف لام عہدی (۴) کتنے قسم ہے۔

جواب:تین قسم ہے خارجی۔ ذہنی۔ حضوری۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الف لام الجنس والماہیۃ۔

(۲) اسمیں الرجل والمرأۃ والاالف لام جنسی ہے۔

(۳) اسمیں الانسان والا الف لام استغراقی ہے۔

(۴)الف لام العھد والتعریف

 

الف لام خارجی

 

سوال:الف لام خارجی کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس الف لام کو کہتے ہیں جس کا اشارہ ہو  اپنے مدخول کے ایک فرد معین کے طرف خارج میں جیسے فَعَصَیٰ فِرعَونُ الرَّسُولَ۔ نافرمانی کی فرعون نے اس رسول (موسیٰ علیہ السلام) کی۔

 

الف لام ذہنی

 

سوال:الف لام ذہنی کسے کہتے ہیں۔

جواب:جس میں الف لام کا اشارہ ہو، اپنے مدخول کے ایک غیر معین فرد کے طرف ذہن میں جیسے وَاَخَافُ اَن یَّأَ کُلَہٗ الذِّئبُ۔ مجھے ڈر ہے کہ اس (یوسف علیہ السلام) کو کوئی بھیڑیا نہ کھاڈالے۔

 

جنسی اور استغراقی میں فرق

 

سوال:عہد ذہنی، جنسی اور استغراقی میں کون سا فرق ہے۔

جواب:جنسی اور استغراقی اپنے مدخول کو معرفہ کرتے ہیں اور عہد ذہنی معرفہ نہیں کرتا، بلکہ اس کا مدخول نکرہ ہی رہتا ہے۔

 

الف لام حضوری

 

سوال:الف لام حضوری کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس الف لام کو کہتے ہیں جس کا اشارہ ہو اپنے مدخول کے ایک فرد خاص/ شئے حاضر اور شئے مشاہد کی طرف جیسے اَلیَومَ اَکمَلتُ لَکُم دِینَکُم۔ اَی اَلیَومُ الحَاضِرُ وَ ھُوَ یَومُ عَرَفَۃَ۔ آج کے دن میں نے کامل کر دیا تمہارے لئے تمہارے دین کو اور جائَنِی ہٰذا الرَّجُلُ، ایُّھا الرَّجُلُ۔

سوال:الحمدللہ میں الف لام کون سا ہے۔

جواب:اس تشریح سے معلوم ہوا کہ الحمدللہ میں الف لام اسمی نہیں ہے کیونکہ اس کا مدخول اسم فاعل اور اسم مفعول نہیں ہے ، اور حرفی میں زائدہ بھی نہیں کیونکہ الف لام کا معنیٰ ہو رہا ہے۔

البتہ غیر زائدہ میں جنسی ہو گا یا اِسْتِغْراقی۔ جنسی ہو گا تو معنیٰ ہو گا جِنْس تعریف کی ثابت ہے اﷲ تعالیٰ کیلئے۔ استغراقی ہو گا تو معنیٰ ہو گا تمام تعریفیں ثابت ہیں اﷲ تعالیٰ کیلئے یعنی ہر حمد ہر حامد سے ہر زمانہ میں اﷲ تعالیٰ کیلئے ہے۔

سوال:ان تین معانی میں سے الف لام کس معنیٰ میں حقیقۃً اور کس معنیٰ میں مجازًا  استعمال ہوتا ہے۔

جواب:حقیقۃً تو عہدی معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے ، البتہ جنسی اور استغراقی معنیٰ میں مجازًا استعمال ہوتا ہے۔

سوال:عالَم کی معنیٰ ہے ماسوی اﷲِ (یعنی اﷲ تعالیٰ کے سوائے تمام چیزیں)، جمع والا معنیٰ مفرد سے حاصل ہے ، پہر عالمین جمع کیوں لایا گیا ہے۔

جواب:۱۔ عالمین سجع کی رعایت کی وجہ سے لایا گیا ہے۔۲۔ نیز عالَم کے مختلف انواع و اقسام ہیں جیسا کہ انسانوں چرندوں اور پرندوں وغیرہ کے الگ الگ عالَم ہیں اس لئے جمع لایا گیا ہے۔

سوال:واو نون اور یاء نون سے تو جمع آتی ہے ذوی العقول کیلئے عالَم میں تو ذوی العقول بھی ہیں اور غیر ذوی العقول بھی۔

جواب:یہاں تغلیب کی گئی ہے یعنی ذوی العقول کو غیر ذوی العقول پر غلبہ دے کر یا ء نون سے جمع لایا گیا ہے ، جیسے سورج اور چاند دونوں کو "قَمَرَینِ” کہتے ہیں یعنی چاند کو سورج پر غلبہ دیا گیا ہے ، اسی طرح دونوں کو "شَمسَینِ” بھی کہتے ہیں، یہاں پر سورج کو چاند پر غلبہ دیا گیا ہے۔

اما بعد! بداں ارشدک اللہ

سوال:اَمّا بعد بداں: مقدمۃ الکتاب میں مصنفؒ کس چیز کو بیان فرما رہے ہیں۔

جواب:اپنی کتاب کی طرف ترغیب دیتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ جو شخص ان تین چیزوں کو جان کر یہ کتاب پڑھے گا اس کو انشاء اﷲ تین فائدے حاصل ہوں گے۔

۱۔ حفظ مفردات لغت یعنی صیغہ / لفظ کو پہچاننا کہ واحد ہے یا تثنیہ، جمع۔ غائب ہے ، یا حاضر، متکلم۲۔ معرفت اشتقاق یعنی صیغہ کا اصل سمجھنا کہ پہلے کیا تھا پھر کیا ہوا، اس کی تعلیل کیا ہے۔ ۳۔ ضبط مہمات الصرف، یعنی علم الصرف کی اہم باتوں کو جاننا۔

وہ تین فائدے یہ ہیں:

۱۔ عربی کلمات کی ترکیب آسان ہو جائے گی۔

۲۔ معرب مبنی کی خبر ہو گی، اور وجہ اعراب معلوم ہو گا، جو کہ علم النحو کا مقصود ہے۔

۳۔ عربی عبارت پڑھنے کا ملکہ اور استعداد پیدا ہو گا۔

 

فصل

 

سوال: فصل کس کو کہتے ہیں۔

جواب:فصل کی لغوی معنیٰ ہے جدا کرنا اور اصطلاح میں فصل اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ یہاں پہلا مضمون ختم ہوا اور دوسرا مضمون شروع ہوا۔

 

لفظ کی لغوی اور اصطلاحی معنیٰ

 

سوال:لفظ کی لغوی اور اصطلاحی معنیٰ کیا ہے۔

جواب:لفظ کی لغوی معنیٰ ہے "اَلرَّمْی”یعنی پھینکنا۔ پھر پھینکنا دو طرح کا ہوتا ہے ایک منہ سے ، دوسرا غیر منہ سے ، اور منہ سے پھینکنا بھی دو طرح کا ہوتا ہے یا پھینکا ہوا لفظ ہو گا جیسے زیدٌ عالِمٌ یا غیر لفظ ہو گا جیسے اَکَلْتُ التَّمْرَۃَ وَلَفَظْتُ النُّوَاۃَ۔ میں نے کھجور کھائی اور گھٹلی پھینک دی۔ غیر منہ کی مثال جیسے لَفَظَتِ الرَّحَیٰ الدَّقِیْقَ۔ چکی نے آٹے کو پھینکا۔

اصطلاحی تعریف ہے۔ مَایتلَفَّظ بہ الاِنسان حقیقۃً کانَ او حکمًا مفردًا کانَ او مرکبًا موضوعًا کانَ او مُھْمَلًا۔ لفظ وہ ہے جس چیز کو انسان بول سکے خواہ وہ چیز حقیقۃً ہو جسے زید یا حکمًا ہو جیسے ضَرَبَ میں ھُوَ یا مفرد ہو جیسے زید یا مرکب ہو جیسے زیدٌ قائمٌ یا موضوع ہو جیسے قلم یا مُھمَل ہو جیسے (قلم) سَلم۔

 

لفظ موضوع اور مہمل

 

سوال: لفظ کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے ۱۔ مُستعمل جس کو موضوع بھی کہتے ہیں یعنی جس کی معنیٰ ہوتی ہو جیسے کتاب۲۔ غیر مُستعمل جس کو مہمَل (چھوڑا ہوا، بیکار کیا ہوا)بھی کہتے ہیں یعنی جس کا کوئی معنیٰ مطلب نہ ہو جیسے (کتاب) ستاب وغیرہ۔

 

مفرد اور مرکب

 

سوال: لفظ مُستَعمل کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے۔۱۔مفرد ۲۔مرکب

سوال:مفرد کسے کہتے ہیں۔

جواب:مفرد کی لغوی معنیٰ ہے اکیلا کیا ہوا، اور اصطلاح میں اس لفظ کو کہتے ہیں کہ اکیلا لفظ اکیلی معنیٰ پر دلالت کرے ، اور مفرد کا دوسرا نام ہے کلمہ جیسے زید۔ اس سے خارج ہوئے ضَربَ۔ بَعْلَبَک وغیرہ کیوں کہ یہ مرکب ہیں۔

 کلمہ اور اس کے اقسام

 

سوال: مفرد اور کلمہ کتنے قسم ہے۔

جواب:تین قسم ہے ۱۔اسم ۲۔فعل ۳۔حرف۔جیسے زید، ضرب، ھل وغیرہ جن کی تعریف علم الصرف میں گذر چکی ہے۔

 

اسم کی تین قسمیں

 

سوال:اسم کتنے قسم ہے۔

جواب:تین قسم ہے۔ ۱۔ جامد ۲۔ مصدر ۳۔ مشتق۔

اسم جامد: اس اسم کو کہتے ہیں جو فعل کیلئے نہ مأخذ ہو اور نہ خودکسی سے بنا ہو صرف ذات پر دلالت کرے جیسے رَجُلٌ، فَرَسٌ۔

اسم مصدر: اس اسم کو کہتے ہیں جو فعل کیلئے مأخذ ہو اور صرف حدث پر دلالت کرے جیسے ضَرْبٌ۔

اسم مشتق: اس اسم کو کہتے ہیں جو مصدر سے بنے بِالوَاسِطہ یا بلاواسطہ اور ذات مع الوصف پر دلالت کرے جیسے ضَارِبٌ۔ شَرِیْفٌ۔

سوال: مرکب کسے کہتے ہیں۔

جواب:مرکب کی لغوی معنیٰ ہے ملا ہوا، جڑا ہوا، اور اصطلاح میں اس لفظ کو کہتے ہیں جو دو یا دو سے زیادہ کلموں سے مل کر بنے ، جیسے غلامُ زیدٍ، زید کا غلام۔

سوال: مرکب کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے ۱۔ مرکب مفید ۲۔ مرکب غیر مفید۔

 

           مرکب مفید

 

سوال:مرکب مفید کسے کہتے ہیں۔

جواب:مفید کا لغوی معنیٰ ہے فائدہ والا اور اصطلاح میں اس مرکب کو کہتے ہیں کہ جب بات کرنے والا بات کر کے خاموش ہو جائے تو سننے والے کو پورا پورا فائدہ حاصل ہو(۱) جیسے زیدٌ قائمٌ، زید کھڑا ہے۔ ذَھَبْتُ اِلیٰ الْمَسْجِدِ۔ قُمْ اَنْتَ۔

سوال:پورا پورا فائدہ کب حاصل ہوتا ہے۔

جواب:پورا فائدہ اور پوری بات تب حاصل ہوتی ہے جب دو چیزیں ہوں، ایک وہ چیز جس کے متعلق بات بتلانی مقصود ہو۔ اس کو مسند الیہ کہتے ہیں۔ دوسری وہ چیز جو بات بتلانی مقصود ہو اس کو مسند کہتے ہیں۔

سوال:مرکب مفید کے دوسرے نام کتنے اور کون سے ہیں۔

جواب:اس کے دوسرے چار نام ہیں ۱۔ جملہ ۲۔ کلام ۳۔ مرکب تام ۴۔ مرکب اسنادی۔

۔۔۔۔۔۔

(۱) یعنی گذشتہ واقعہ کی خبر یا کسی چیز کی طلب معلوم ہو کہ کہنے والے کو مزید کہنے کی ضرورت نہ پڑے۔

 

جملہ و  کلام

 

سوال:جملہ کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس مرکب کو کہتے ہیں کہ جب بات کہنے والا بات کہہ دے تو سننے والے کو پورا پورا فائدہ حاصل ہو جائے۔

سوال:کلام، مرکب تام اور مرکب اسنادی کی تعریف کیا ہے۔

جواب:ان کی تعریف بھی یہی جملہ والی ہے یعنی کلام اور مرکب تام اس مرکب مفید کو کہتے ہیں جس سے سننے والے کو پورا پورا فائدہ حاصل ہو۔

 

جملہ اور کلام میں فرق

 

سوال:جملہ اور کلام میں کون سا فرق ہے۔

جواب:اس میں کئی مذاہب ہیں۔

۱۔ جمہور علماء، علامہ  زمخشری اور علامہ سید سند ؒ کہتے ہیں کہ ان میں نسبت ترادف ہے۔

۲۔ باقی نُحاۃ کے نزدیک جملہ عام ہے چاہے اس میں اسناد اور افادہ ہو یا نہ ہو۔ اور کلام خاص ہے کہ اس میں نسبت مقصودی شرط ہے ، الکلامُ ھوالقولُ المُفِیدُ بالقصد۔ کلام وہ لفظ مرکب ہے ، جو مفید بالقصد ہو جیسے جَائَنِی رَجُلٌ قَامَ اَبُوْہُ میں قَامَ اَبُوہ جملہ تو ہے کلام نہیں، کہ خود مقصود نہیں، البتہ جَائَنِی رَجُلٌ جملہ بھی ہے کلام بھی ہے۔

۳۔ بعض علماء کلام کو جملہ سے عام کہتے ہیں، جملہ کو خاص کہتے ہیں۔

 

فصل

 

سوال: جملہ (۱) باعتبار معنیٰ کے کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے۔ ۱۔ جملہ خبریہ ۲۔ جملہ انشائیہ۔

 

جملہ خبریہ

 

سوال: جملہ خبر یہ کسے کہتے ہیں۔

جواب:خبریہ کی لغوی معنیٰ ہے خبر دینا، اور اصطلاح میں اس جملہ کو کہتے ہیں جس کے کہنے والے کو  (۲) سچا یا جھوٹا کہا جا سکے (۳)۔

سوال: خبر یہ کو خبریہ کیوں کہتے ہیں / اس کا وجہ تسمیہ کیا ہے۔

جواب:خبریہ معنیٰ خبر دینا اور جملہ خبریہ سے بھی  متکلم، مخاطب کو خبر دیتے ہیں اس لئے اسے خبریہ کہتے ہیں۔

سوال: جملہ خبریہ باعتبار ذات کے کتنے قسم ہے۔

جواب:چار قسم ہے ۱۔ جملہ اسمیہ ۲۔ جملہ فعلیہ ۳۔ جملہ شرطیہ ۴۔ جملہ ظرفیہ۔

۔۔۔۔۔

(۱) مرکب مفید

(۲) ایک ہی وقت میں

(٣) باعتبار الفاظ کے ، قطع نظر خارج کے ،پھر السماء تحتنا، السماء فوقنا، الارض تحتنا ، الارض فوقنا وغیرہ بھی جملہ خبریہ ہوں گے۔

 

جملہ اسمیہ

 

سوال: جملہ اسمیہ کس کو کہتے ہیں۔

جواب:اس جملہ  کو کہتے ہیں جس کے دو حصوں میں سے پہلا حصہ اسم ہو، دوسرا حصہ خواہ اسم ہو، جیسے زیدٌ قائمٌ یا فعل ہو جیسے زیدٌ قامَ، زید کھڑا ہے۔

سوال: جملہ اسمیہ کی معنیٰ کیسے کی جاتی ہے۔

جواب:جملہ اسمیہ کے اردو معنیٰ کے آخر میں ’’ہے ‘‘۔ ’’ہوں‘‘۔’’ہو‘‘ وغیرہ آتا ہے جیسے زیدٌ قائمٌ۔ زید کھڑا ہونے والا ہے۔

سوال: جملہ اسمیہ کے اجزاء  کے خاص (۱) نام کون سے ہیں۔

جواب:پہلے حصے کا خاص نام مبتدا اور دوسرے حصے کا خاص نام خبر ہے۔

 

مبتدا اور خبر

 

سوال: مبتدا اور خبر کسے کہتے ہیں۔

جواب:مبتدا لغت میں اسم مفعول کا صیغہ ہے ، باب افتعال سے معنیٰ جس سے ابتداء کی جائے اور اصطلاح میں جملہ اسمیہ کے پہلے حصہ کو مبتدا اور دوسرے حصہ کو خبر کہتے ہیں یا مبتدا اس اسم مسندالیہ کو کہتے ہیں جو عامل لفظی سے خالی ہو اور خبر اس اسم مسند کو کہتے ہیں جو عامل لفظی سے خالی ہو۔ جیسے زیدٌ قائمٌ۔

سوال: جملہ اسمیہ کے پہلے اور دوسرے حصے کے عام نام کون سے ہیں۔

جواب:پہلے حصے کے عام نام چار ہیں۔ ۱۔ مسندالیہ۲۔ محکوم علیہ۳۔ مخبر عنہ

۴۔ مثبت لَہٗ(۲)۔ اور دوسرے حصے کے بھی عام نام چار ہیں ۱۔ مسند(۳) ۲۔ مسندبہ

۳۔ محکوم بہ۴۔ مخبربہ(۴)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) ترکیبی

(۲)موضوع عندالمنطقیین

(۳)حکم،  اس کو محکوم بھی کہتے ہیں۔

(۴) مثبت، محمول عندالمنطقیین۔ اس کو مخبر بھی کہتے ہیں۔

 

مسند اور مسندالیہ

 

سوال: مسند اور مسندالیہ کس کو کہتے ہیں۔

جواب:مسند اس حکم کو کہتے ہیں جس کی کسی کی طرف نسبت ہو۔

مسندالیہ اس اسم کو کہتے ہیں جس پر حکم لگایا جائے (۱) جیسے ضَرَبَ زَیدٌ، زَیدٌ قائمٌ، پہلی مثال میں ضرب مسنداور  زید مسندالیہ ہے ، دوسرے مثال میں زید مسندالیہ اور قائمٌ مسند ہے۔

سوال: کیا اسم، مسند اور مسندالیہ ہوتا ہے۔

جواب:جی ہاں اسم، مسند اور مسندالیہ ہوتا ہے جیسے زَیدٌ قائمٌ۔

سوال: کیا فعل مسند اور مسندالیہ ہوتا ہے۔

جواب:فعل مسند تو ہوتا ہے مگر مسندالیہ نہیں ہوتا جیسے قامَ زیدٌ۔ البتہ تاویل کے بعد فعل بھی مسندالیہ ہوتا ہے جیسے تَسْمَعُ بِالمُعِیْدِیْ خَیرٌ اَنْ تَراہُ۔

ترجمہ: معیدی (ڈاکو کا نام) کا نام سننا اس کے دیکھنے سے بہتر ہے یہاں تَسْمَعُ، سِمَاعُکَ کے تاویل میں ہو کر مبتدا واقع ہوا ہے۔

سوال: کیا حرف، مسند اور مسندالیہ ہوتا ہے۔

جواب:حرف نہ مسند ہوتا ہے ، نہ مسندالیہ، البتہ تاویل کے بعد حرف مسند اور مسندالیہ ہوسکتا ہے جیسے مِن حرفٌ۔ ھِیَ مِنْ۔

۔۔۔۔۔

(۱) یعنی جس کی طرف کسی کی نسبت ہو۔۔

 

مسند اور مسند الیہ کے مواقع

 

سوال: کون سی چیز یں مسندالیہ اور کون سی مسند واقع ہوتی ہیں۔

جواب:چند چیزیں مسندالیہ واقع ہوتی ہیں۔ ۱۔فاعل ۲۔ نائب فاعل ۳۔مبتدا

۴۔حروف مشبہ بالفعل کا اسم ۵۔ حروف مشبہ بلیس کا اسم ۶۔ افعال ناقصہ کا اسم

۷۔ لانفی جنس کا اسم۔ چند چیزیں مسند واقع ہوتی ہیں۔ ۱۔ فعل ۲۔ اسم الفعل

۳۔ خبرالمبتدأ ۴۔ حروف مشبہ بالفعل کی خبر ۵۔ حروف مشبہ بلیس کی خبر ۶۔ افعال ناقصہ کی خبر۷۔ لا نفی جنس کی خبر۔

سوال:  جملہ اسمیہ و فعلیہ میں کون سی چیزیں مسندالیہ اور مسند واقع ہوتی ہیں۔

جواب:مسندالیہ، جملہ اسمیہ میں مبتدا واقع ہوتا ہے اور جملہ فعلیہ میں فاعل ہوتا ہے ، اور مسند، جملہ اسمیہ میں خبر اور فعلیہ  میں فعل واقع ہوتا ہے  اور مفعول نہ مسند ہوتا ہے اور نہ مسندالیہ۔

 

مبتدا و خبر کا اعراب

 

سوال: مبتدا اور خبر کا کون سا اعراب  ہوتا ہے۔

جواب:دونوں مرفوع ہوتے ہیں جیسے زیدٌ قائمٌ۔

سوال: کیا مبتدا اور خبر کا رفعہ ہمیشہ ضمہ سے پڑھا جاتا ہے۔

جواب:رفعہ کی چند علامتیں ہیں، ۱۔ کبھی رفعہ ضمہ لفظی سے پڑھا جاتا ہے جیسے زیدٌ ۲۔کبھی ضمہ تقدیری سے جیسے عصیٰ ۳۔کبھی الف نون سے جیسے عالمانِ ۴۔کبھی واو نون سے جیسے مسلمونَ۔

 

مبتدا کے احکام

 

سوال: مبتدا کا حکم کیا ہے۔

جواب:بعض احکام یہ ہیں ۱۔مرفوع ہو ۲۔ معرفہ ہو ۳۔ ذات ہو، وصف محض نہ ہو۔

 

مبتدا و خبر دونوں معرفہ

 

سوال: جب مبتدا، خبر دونوں معرفہ ہوں تو مبتدا کس کو بنایا جائے۔

جواب:اس صورت میں جس کو بھی مبتدا بنایا جائے جائز ہے ، جیسے اللہُ الٰہُنا۔ آدمُ ابونا۔ انتَ انتَ۔ ورنہ معرفہ کو مبتدا  بنانا واجب ہے جیسے زیدٌ قائمٌ۔

 

مبتدا کے نکرہ ہونے کی صورتیں

 

سوال: کیا مبتدا نکرہ ہوسکتا ہے۔

جواب:عموماً مبتدا، معرفہ اور خبر نکرہ ہوتا ہے ، البتہ قرینہ کی وجہ سے کبھی کبھار نکرہ بھی مبتدا واقع ہوتا ہے جیسے فِی الدَّار رَجُلٌ، اَمَامَ المَدَرسَۃِ دُکَّانٌ۔

سوال:کتنی صورتوں میں نکرہ مبتدا واقع ہوتا ہے۔

جواب:جب نکرہ میں تخصیص ہو گی تب مبتدا ہوسکتا ہے ، اور تخصیص کی چند صورتیں ہیں۔

 ۱۔ جب نکرہ کی اضافت کی گئی ہو، جیسے حَقِیبَۃُ طَالِبٍ مَفقُودَۃٌ۔

۲۔ نکرہ کی صفت لائی گئی ہو جیسے وَردَۃٌ حَمرَاءُ مُفَتَّحَۃٌ، سرخ گلاب کِھلا ہے۔

۳۔ نکرہ میں حرف نفی کے ذریعے عموم پیدا ہو گیا ہو جیسے مَامُدَّرِسٌ حَاضِرٌ فِی المَدَرسَۃِ۔

۴۔ نکرہ پر حروف استفہام داخل ہو، جیسے أَجَاھِلٌ نَجَحَ، کیا کوئی جاہل کامیاب ہوا۔ ھَل مُجِدٌّ رَاسِبٌ۔

۵۔ جب نکرہ تقسیم کے معنیٰ پر دلالت کرے جیسے فَرِیقٌ فِی الجَنَّۃِ وَ فَرِیقٌ فِی السَّعِیرِ۔

۶۔ جب نکرہ ایسا کلمہ ہو جو خود عموم پر دلالت کرتا ہو، جیسے کُلٌّ لَّہٗ قَانِتُونَ۔

۷۔ نکرہ دعا کیلئے ہو جیسے سَلامٌ عَلَیکَ ۸۔نکرہ بددعا کے لئے ہو جیسے وَیلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃٍ۔

۸۔ یا خبر جار مجرور ہو، جیسے فِیکَ خَیرٌ۔ فِیکَ شُجَاعَۃٌ۔

۹۔ یا خبر ظرف مقدم ہو جیسے عِندَکَ فَضلٌ۔ عِنْدِی حِصَانٌ۔

 

مبتدا صریح و مؤوّل

 

سوال: مبتدا باعتبار لفظ کے کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے۔ ۱۔ اسم صریح جیسے  زیدٌ قائمٌ۔ ۲۔ اسم مؤوَّل جیسے و اَنْ تَصُوْمُوا خَیرٌ  لَّکُم ای صَوْمُکُمْ خَیْرٌلکُم۔

 

مبتدا و خبر کی مطابقت

 

سوال: کیا مبتدا اور خبر کی آپس میں واحد تثنیہ جمع اور تذکیر و تانیث میں مطابقت ضروری ہے۔

جواب:جی ہاں! جب خبر اسم مشق یا منسوب ہو تو مذکورہ چیزوں میں مطابقت ضروری ہے ، خبر مفرد کی مثال الرَّجُلُ قَائِمٌ، خبر تثنیہ مذکر جیسے الرَّجُلانِ قَائِمَانِ، خبر جمع مذکر جیسے الرِّجَالُ قَائِمُوْنَ، خبر واحد مؤنث جیسے المَرأَۃُ قَائِمَۃٌ۔ خبر تثنیہ مؤنث جیسے المَرئَتَانِ قَائِمَتَانِ، خبر جمع مؤنث جیسے النِّسَاءُ قَائِمَاتٌ۔

سوال: آپ نے کہا کہ مبتدا و خبر کی تذکیر اور تانیث میں مطابقت ضروری ہے تو قُطُوفُھَا دَانِیَۃٌ (سورۃ الحاقہ) ترجمہ: اس جنت کے میوے جھکے ہوں گے۔ میں مطابقت کیوں نہیں۔

جواب:مطابقت ضروری ہے ، لیکن جب مبتدا جمع مکسر ہو اور وہ جماعۃ کی معنیٰ میں ہو گا تو اس کی خبر واحد مؤنث آنا درست ہو گا، جیسے المجالسُ ثابتۃٌ۔

 

مبتدا اور خبر کے مطابقت کے شرائط

 

سوال: مبتدا اور خبر کی مطابقت کے لئے کون سے شرائط ہیں۔

جواب:چند شرائط ہیں جب کوئی شرط مفقود ہو گی تو مطابقت بھی نہیں ہو گی۔

۱۔ خبر مشتق یا منسوب ہو، خارج ہو گا اَلکَلِمَۃُ لَفظٌ کیونکہ خبر لفظ مشتق نہیں بلکہ مصدر ہے۔ لیکن مصدر جب مبتدا ہو تو اس کی خبر مذکر و مؤنث دونوں ہو سکتی ہے ، جیسے فَحَدُّ الِاسمِ کَلِمَۃٌ۔

۲۔ مبتدا اور خبر دونوں اسم ظاہر ہوں، خارج ہوا، ھِی اِسمٌ وَ فِعلٌ وَ حرفٌ۔

۳۔ خبر ایسی صفت (بر وزن فعیل) نہ ہو جس میں مذکر و مؤنث برابر ہوں، خارج ہوا اَلمَرأَۃُ جَرِیحٌ (زخمی)۔

۴۔ خبر مؤنث کی صفت خاصہ نہ ہو، خارج ہوا  اَلمَرأَۃُ حَائِضٌ۔

۵۔ خبر اسماء متوغلہ فی الابھام نہ ہو (جو اسماء باوجود اِضَافَۃ الی المعرفہ ہونے کہ معرفہ نہ ہوسکتے ہوں) جیسے لفظ مِثل، غیر، شِبہ، قبل، بعد۔

۶۔ خبر مبالغہ کا صیغہ نہ ہو۔ اتفاقی مثال زیدٌ قائمٌ۔

 

مبتدا کی صورتیں

 

سوال: کیا مبتدا ہمیشہ مفرد ہوتا ہے۔

جواب:جی نہیں، کبھی مفرد ہوتا ہے ، کبھی مرکب ناقص، کبھی مرکب اضافی جیسے سَاعَۃُ خَالدٍ ثمینۃٌ۔ مرکب توصیفی جیسے التِّلمِیذُ المُجتَھِدُنَاجِحٌ، مرکب اشاری جیسے ھٰذا القَلَمُ جَمِیلٌ۔

مبتدا کی وجوبی تقدیم

سوال: کتنی صورتوں میں مبتدا کی تقدیم واجب ہے۔

جواب:چار مقامات پر مبتدا وجوبًا مقدم ہوتا ہے۔

۱۔ جب مبتدا ایسا کلمہ ہو جو ابتدا جملہ میں آتا ہو، جیسے اسماء استفہام و شرط جیسے مَنْ اَبُوکَ، کم خبریہ، ماتعجبیَّہ، ضمیر شان اور ایسا اسم جس پر لام ابتداء داخل ہو۔ جیسے لَمِصرُمَولِدُ الاُ دَبَاءِ۔

 ۲۔ جب مبتدا کی خبر جملہ فعلیہ ہو اور فاعل ضمیر مستتر ہو جو مبتدا کی طرف لوٹتا ہو جیسے زیدٌ خَرَجَ۔ ۳۔ جب مبتدا و خبر دونوں معرفہ ہوں تاکہ اشتباہ اور التباس لازم نہ آئے  جیسے حامدٌ صَدِیقِی۔۴۔ جب خبر میں اِلّا یا انّما کے ذریعہ حصر کے معنیٰ پیدا کئے گئے ہوں جیسے اِنّما الجریرُ شاعرٌ، جریر محض شاعر ہے۔

 

مبتدا مؤخر

 

سوال: کیا مبتدا ہمیشہ مقدم اور خبر ہمیشہ مؤخر ہوتا ہے۔

جواب:عموماً ایسا ہی ہوتا ہے لیکن کبھی خبر، مبتدا سے مقدم بھی ہوتا ہے۔

۱۔ خبر جار مجرور ہو جیسے فِی الدَّارِ زَیدٌ

۲۔ خبر ظرف ہو جیسے عِندی مَالٌ، ان مثالوں میں خبر مقدم اور مبتدا مؤخر ہے۔

صدارت کلام کو چاہنے والی اشیاء

سوال: جو اشیاء صدارت کلام کو چاہتی ہیں، وہ کتنی ہیں۔

جواب:وہ چھ ہیں اور اس شعر میں موجود ہیں۔

شش چیز بود مقتضیٰ صدر کلام۔ در فصیحاں شد ایں نظم تمام

شرط و قسم و تعجب و استفہام۔ نفی آمد ولام ابتدا گشت تمام

 

مبتدا کا محذوف ہونا

 

سوال: کیا مبتدا کبھی حذف ہوتا ہے۔

جواب:جی ہاں قرینہ کے وقت مبتدا کا حذف کرنا جائز ہے ، جیسے اَلْھِلَالُ وَاللہِ دراصل ھٰذَا الھِلَالُ وَاللہِ۔اور چند صورتوں میں مبتدا کا حذف وجوبی ہوتا ہے۔

۱۔ مخصوص بالمدح والذم سے پہلے مبتدا محذوف ہوتا ہے ، جیسے نِعمَ الرَّجُلُ عَلِیٌّ دراصل ہُوَ عَلِیٌّ۔

۲۔ جب مبتدا کی خبر ایسی مصدر ہو جو فعل کے قائم مقام ہو، جیسے سمعٌ و طاعۃٌ۔ دراصل حالی سَمعٌ وَ طَاعَۃٌ، میرا حال سننا اور اطاعت کرنا ہے۔

۳۔ اجمال کی تفصیل میں جیسے ھِی ثَلٰثَۃُ اَقسَامٍ  اسمٌ و فعلٌ و حرفٌ اَی اَحَدُھَا اِسمٌ و ثَانِیھَا فِعلٌ۔

۴۔ استفہام کے جواب میں جیسے وَمَا اَدرَاکَ مَا الحُطمَۃِ نَارُ اللہِ المُوقَدَۃُ اَی ھِیَ نَارُ اللہِ۔

۵۔ قال کے مقولہ میں جیسے قَالَ اَسَاطِیرُ الاَوَلِّینَ اَی ھِی اَسَاطِیرُ۔

۶۔ فاجزائیہ کے بعد جیسے کُن فَیَکُون اَی فَھُوَیَکُون۔

سوال: وہ معانی بتائیں جن میں مبتدا کا مفہوم اور معنیٰ ہوتا ہے۔

جواب:۱۔جس مبتدا میں شرط کا معنیٰ ہو جیسے مَنْ شرطیہ اس وقت خبر پر فا لائی جائے گی جیسے مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہٖ۔

۲۔ لَولَا کے بعد بھی مبتدا ہوتا ہے جیسے لَولَا المَطْرُلَھَلَکَ الزَّرْعُ۔ نوٹ: اسی طرح مبتدا و خبر دونوں بھی محذوف ہوتے ہیں جیسے سَافَرَ اَخی الیٰ ماوراء البحارِ ای ماھو کائنٌ وراء البحار۔

 

مبتدا قسم ثانی

 

سوال: مبتدا قسم ثانی کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس صیغہ صفاتی کو کہتے ہیں، جو نفی یا استفہام کے بعد ہو اور اسم ظاہر کو  رفعہ دے جیسے مَا قَائِمُ    الزَّیدَانِ۔ ما قَائِمُ     الزَّیدُونَ۔ أَ قَائِمُ    الزَّیدُونَ۔ أَ قَائِمُ     الزَّیدانِ۔ خارج ہوا۔ مَا قَائِمٌ زَیدٌ۔

 

خبر کے احکام

 

سوال: خبر کا کیا حکم ہے۔

جواب:کچھ احکام یہ ہیں ۱۔ وہ مرفوع ہو ۲۔ نکرہ ہو ۳۔محض وصف ہو یا ذات مع الوصف ہو۔ محض ذات نہ ہو، جیسے زَیدٌ قَائِمٌ۔

 

خبر کی وجوبی تقدیم

 

سوال: کتنی صورتوں میں خبر کی تقدیم واجب ہوتی ہے۔

جواب:چار مواقع میں تقدیم خبر واجب ہوتی ہے ،

۱۔ جب خبر اسماء استفہام میں سے ہو، جو شروع جملہ میں آتے ہیں، جیسے اَینَ الطَّائِرُ۔ کَمْ عُمرُکَ۔کَیفَ الْحَالُ۔

۲۔ جب خبر ظرف یا جار مجرور ہو اور مبتدا نکرہ غیر مخصوصہ ہو، جیسے عِنْدِی سَیَّارَۃٌ۔

فِی الدَّارِ رَجُلٌ۔

۳۔ جب مبتدا میں ایسا ضمیر ہو جو خبر کے طرف لوٹتا ہو جیسے لِلْعَامِلِ جَزاءُ عَمَلِہٖ۔ عَلیٰ التَّمْرَۃِ مِثْلُھَا زَبَدًا۔ 

۴۔ جب مبتدا میں اِنَّمَا یَا اِلَّا کے ذریعہ حصر کی معنیٰ پیدا کی گئی ہو جیسے اِنَّمَا الشَّاعِرُ اِقبَالٌ۔ شاعر تو اقبال ہی ہے۔

 

خبر کا مجرور ہونا

 

سوال: آپ نے کہا کہ خبر مرفوع ہوتی ہے ، لیکن جَزَاءُ سَیِّئَۃٍ بِمِثلِھَا میں بِمِثلِھَا خبر مجرور ہے۔

جواب:خبر مرفوع ہی ہوتی ہے اور یہاں باء زائدہ ہے ، لہٰذا بِمِثلِھَا مجرور لفظًا، مرفوع معنًی، خبر ہے۔

 

ایک مبتدا۔ خبریں کئی

 

سوال: کیا مبتدا کی ہمیشہ ایک ہی خبر ہوتی ہے۔

جواب:ایک مبتدا کی کبھی کبھار کئی خبریں آتی ہیں، کیونکہ محکوم علیہ پر متعدد حکم لگائے جا سکتے ہیں۔ حرف عطف کے ساتھ جیسے زیدٌ فقیہٌ و کاتبٌ یا بغیر حرف عطف کے جیسے  اللھُ قَدیرٌ حَکِیمٌ عَلِیمٌ۔ نیز اسمیں احتمال عقلی چار ہوسکتے ہیں۔(۱) تعدد المبتدأ مع تعدد الخبر یہ صورت بکثرت پائی جاتی ہے۔(۲) توحّد المبتدأ مع توحد الخبر (۳) تعدد المبتدأ مع توحدالخبر یہ محض احتمال عقلی ہے۔(۴) توحد المبتدأ مع تعدد الخبر۔

 

خبر، مفرد، مرکب، جملہ اور شبہ جملہ

 

سوال: کیا خبر ہمیشہ مفرد ہوتی ہے۔

جواب:خبر عام ہے مفرد، کبھی مرکب، کبھی جملہ کبھی شبہ جملہ اور کبھی مرکب اضافی ہوتی ہے۔ جیسے زیدٌ سَیِّدُ القَومِ، کبھی مرکب تو صیفی بھی ہوتی ہے ، جیسے خَالِقُنَا الرَّحَمٰنُ الرَّحِیمُ۔

 

خبر کا عائد

 

سوال: کیا خبر میں مبتدا کے لیے عائد کا ہونا ضروری ہے۔

جواب:جی ہاں، جب خبر جملہ یا شبہ جملہ ہو گا تو اس میں عائد کا ہونا ضروری ہے جو مبتدا کی طرف لوٹتا ہو، جیسے زیدٌ ابوہ قائمٌ۔ زیدٌ قامَ اَبُوہُ۔ زیدٌ اِن جائَنِی فَاَکرَ متُہٗ

 

خبر معرفہ

 

سوال: کیا خبر کبھی معرفہ ہوتی ہے۔

جواب:جی ہاں ۱۔ جب کسی موصوف کی صفت نہ بنتی ہو جیسے اَنَایُوسِفُ۲۔ یا مبتدا اور خبر کے درمیان ضمیر فصل لایا جائے جیسے الوَلَدُ ھُوَ القَائِمُ

 

خبر کا محذوف ہونا

 

سوال: کیا خبر کا حذف کرنا جائز ہے۔

جواب:جی ہاں قرینہ کی وجہ سے خبر کا حذف کرنا جائز ہے۔

۱۔جب مبتدا مقسم بہ ہو اور اس کی خبر قسم ہو۔ جیسے لَعمرُک لَاَ فعَلَنَّ کَذا۔ یہ دراصل ہے لَعَمرُکَ قَسمِی لَاَفعَلَنَّ کَذَا۔ یعنی آپ کی عمر اور بقا میری قسم ہے۔

۲۔ جب جار مجرور اور ظرف مبتدا کے بعد آ ئیں جیسے زَیدٌ فِی الدَّارِ اَی ثَابِتٌ فِی الدَّارِ۔

۳۔ لَو لا اور لَو مَا کے بعد جیسے لَولَا عَلِیٌّ لَھَلَکَ عُمَرُ اَی لَو لَا عَلِیٌّ مَوجُودٌ۔

سوال: کیا  جملہ انشائیہ خبر بن سکتا ہے۔

جواب:انشائیہ خبر نہیں بن سکتا، مگر یہ کہ تاویل کی جائے مَقُولٌ فِی حَقِّہٖ سے تو خبر ہو گا۔

سوال: کیا مبتدا اور خبر منسوخ بھی ہوتے ہیں۔

جواب:جی ہاں بعض کلمات ایسے ہیں جو مبتدا اور خبر کے لئیے نواسخ ہیں جیسے۔

۱۔ افعال ناقصہ و مقاربہ ۲۔ افعال ناقصہ کے مشتقات۳۔ حروف مشبہ بالفعل۴۔ ماولا المشبھتین بلیس۔ ۵۔ لا نفی جنس۔

 

جملہ فعلیہ

 

سوال: جملہ فعلیہ کسے کہتے ہیں۔

جواب:وہ جملہ جس کے دو (۱) حصوں میں سے پہلا حصہ فعل اور دوسرا حصہ اسم (فاعل) ہو جیسے عَلِمَ زیدٌ، سَمِعَ بکرٌ۔

۔۔۔۔۔

(۱) مقصودی

 

سوال: جملہ فعلیہ کے پہلے اور دوسرے حصہ کے خاص نام کون سے ہیں۔

جواب:پہلے حصہ کا خاص نام ہے فعل اور دوسرے حصہ کا خاص نام ہے فاعل۔

سوال:  جملہ فعلیہ کے پہلے اور دوسرے حصہ کے عام نام کون سے ہیں۔

جواب:پہلے حصے کے عام نام ہیں۔ ۱ مسند (حکم)۔ (محمول عند المنطقیین)۔ ۲۔ محکوم بہ۔

۳۔ مخبر بہ۔ ۴۔ مسند بہ۔

اور دوسرے حصہ کے عام نام ہیں ۱۔ مسند الیہ (موضوع عند المنطقیین) ۲۔ محکوم علیہ

 ۳۔ مخبر عنہ ۴۔ مثبت لہ

سوال۔ جملہ فعلیہ میں فاعل کے بعد کس چیز کا ذکر ہوتا ہے۔

جواب:عموماً  فاعل کے بعد مفعول کا ذکر ہوتا ہے اور دونوں اسم ہوا کرتے ہیں۔ جیسے ضَرَبَ زَیدٌ بَکرًا۔

 

فاعل

 

سوال: فاعل کس کو کہتے ہیں۔

جواب:فاعل وہ اسم ہے جو اپنے فعل یا شبہ فعل کے بعد آئے جو اس کی ذات سے وجود میں آیا ہو، جیسے ضَرَبَ زیدٌ۔ماتَ خالدٌ۔

سوال: فاعل کی کیا علامت ہے۔

جواب: اس کی معنوی علامت یہ ہے کہ جس میں  کام کرنے کی صلاحیت ہو۔ جیسے اَکَلَ الکمثریٰ یحییٰ یہاں فاعل یحییٰ ہے نہ کہ  کمثریٰ (امرود) کیوں کہ  کمثریٰ میں فاعل بننے کی صلاحیت نہیں ہے۔

سوال: کیا فاعل ہمیشہ مفرد ہو تا ہے۔

جواب: فاعل عام ہے کبھی اسم ظاہر، ضمیر، مذکر، مؤنث، واحد، تثنیہ اور جمع بھی ہوتا ہے۔

سوال: آپ نے کہا کہ فاعل مرفوع ہوتا ہے ، حالانکہ کَفٰی بِاللہِ اور مَاجَائَنَا مِن بَشیرِِ وَلا نَذِیرِِ و غیرہ میں تو فاعل مجرور ہے۔

جواب: کبھی کبھار حروف زائدہ فاعل پر داخل ہوتے ہیں لہٰذا باللہ مجرور لفظًا، مرفوع معنًی فاعل ہے۔اسی طرح دوسری مثال میں من بَشیرِِ مجرور لفظًا، مرفوع معنیً فاعل ہے۔

 

فاعل اور مفعول کا اعراب

 

سوال: فاعل اور مفعول کو کون سا اعراب ہوتا ہے۔

جواب: فاعل ہمیشہ مرفوع اور مفعول ہمیشہ منصوب ہوتا ہے۔

 

فاعل کی تقدیم

 

سوال: فاعل اور مفعول، فعل سے مقدم ہوتے ہیں یا نہیں۔

جواب: مفعول کبھی ضرورۃً  فاعل یا فعل سے پہلے بھی آتا ہے ، جیسے اِیَّاکَ نَعبُدُ، لیکن فاعل فعل سے مقدم نہیں ہوتا، اگر بظاہر مقدم نظر آئے تو اس کو مبتدا ہی سمجھنا چاہئے جیسے زیدٌ قامَ میں زید کو مبتدا کہیں گے۔ فاعل نہیں کہیں گے۔قامَ اپنے ضمیر فاعل سے مل کر پورا جملہ، خبر بنے گا مبتدا کی۔

فعل اور فاعل کا حذف 

سوال: کیا فعل اور فاعل کا حذف کرنا جائز ہے۔

جواب: چند مقامات میں حذف جائز ہے ، ۱۔ سوال کا جواب نَعَم یا بَلیٰ سے ہو جیسے أَقَامَ زَیدٌ۔ جواب نَعَم (ای نَعَم قام زیدٌ) ۲۔ قسم میں جیسے بِاللہ لَاَقرَئَنَّ دَرسِی، یہاں اُقسِمُ مقدر ہے۔  ۳۔ اختصاص میں   جیسے نحنُ طُلّابُ الصَّفِّ سَنقومُ بِرِحلَۃٍ۔ یہاں طُلّاب سے پہلے اَعنِی یا اخُصُّ محذوف ہے۔  اس کو مَا اضمر عاملہٗ علىٰ شریطۃ التفسیر بھی کہتے ہیں۔

۴۔ الا غِرَّاء یعنی ابھارنا جیسے الصِّدقَ الصِّدقَ۔ یہاں اِلزَم محذوف ہے۔

۵۔  تحذیر یعنی ڈرانا جیسے النَّارَ النَّارَ یہاں اِحذَر یا اُحَذِّرُ محذوف ہے۔ ۶۔ اشتغال(۱) جس میں فعل اپنے سے مقدم  مفعول بہٖ کو چھوڑ کر اس ضمیر کے ساتھ مشغول ہو جاتا ہو جو اس مقدم مفعول بہٖ کی طرف لوٹتی ہو، جیسے اَخَاکَ عَرَفتُہٗ یہاں اَخَاکَ سے پہلے عرفتُ محذوف ہے۔

 ۷۔ شرط کے بعد جیسے اِذِ الطَّالِبُ اِجتَھَدَ نَجَحَ، یہاں الطالبُ سے پہلے اِجتَھَدَ محذوف ہے۔

۸۔ اسم موصول کے بعد جیسے اَلکِتَابُ الَّذِی اِستَعَرَّ عِندَکَ جَیِّدٌ۔

 ۹۔ندا جیسے یازیدُ اَی اَدعُو  زیدًا۔

۱۰۔ استغاثہ جیسے یالَزَیدٍ اَی  یازیدُ اَستَغِیثُکَ۔

۱۱۔ ندبہ  جیسے وَاحُزنَاہُ  اَی یَاحُزنُ  اُحضُرنی حَتَّىٰ اَتَعَجّب۔

۔۔۔۔۔

(۱)جس کو ما اضمر عاملہ علیٰ شریطۃ التفسیر بھی کہتے ہیں۔

 

فاعل کا عامل

 

سوال: کیا فاعل کا عامل فعل ہی ہوتا ہے۔

جواب۔١۔ فعل کی طرح کبھی فاعل کا عامل اسم فعل بھی ہوتا ہے جیسے ھَیھَاتَ السَّفَرُ ای بَعُدَ السَّفَرُ۔

۲۔ کبھی عامل اسم مشتق کا صیغہ ہوتا ہے جیسے  ھٰذا ھُوَ النَّاجِحُ اَخُوہُ۔

 

جملہ شرطیہ

 

سوال: جملہ شرطیہ کسے کہتے ہیں۔

جواب۔ وہ جملہ جو شرط و جزا سے مرکب ہو، جیسے اِن تُکرِ منِی اُکرِ مکَ، اگر تو میرا اکرام کرے گا تو میں تیرا اکرام کروں گا(۱)۔

سوال: کیا جملہ شرطیہ میں حرف شرط کا ہونا ضروری ہے۔

جواب: ضروری نہیں  کبھی محذوف بھی ہوتا ہے جیسے اَکرَمتَنِی اَکرَمتُکَ.

۔۔۔۔۔۔۔

(١) شرط،دو معانی کے درمیاں ایسے رابطہ کو کہتے ہیں کہ دوسرا معنیٰ پہلے پر موقوف ہو۔

 

جملہ ظرفیہ

 

سوال: جملہ ظرفیہ  کس کو کہتے ہیں۔

جواب: وہ جملہ جس کا پہلا حصہ ظرف یا جار مجرور ہو اور دوسرا اسم مرفوع ہو جیسے خَلفَکَ بَحرٌ۔ فِی الدَّارِ زَیدٌ۔

سوال: ظرف مبتدا واقع ہوتا ہے یا نہیں۔

جواب۔ ظرف خبر ہوتا ہے ، مبتدا نہیں ہوسکتا۔ اگر کسی جملہ میں ایک اسم، دوسرا ظرف ہو تو اسم ہمیشہ مبتدا اور ظرف ثَابِتٌیا ثَبَتَ سے متعلق ہو کر  خبر ہو گی، جیسے عِندِی مَالٌ۔

 

جملہ صفاتی

 

سوال: جملہ باعتبار صفت کے کتنے قسم ہے۔

جواب: یہ نو قسم ہے۔اور یہ سارے غیر معربہ جملے ہیں جن کا کوئی محلی اعراب نہیں ہوتا۔

۱۔ جملہ مُبَیِّنَہ، اس جملے کو کہتے ہیں جو پہلے جملہ کو کھول کر بیان کرے  اس کو جملہ مفسّر ہ و تفسیریہ بھی کہتے ہیں۔ جیسے اَلکَلِمَۃُ عَلیٰ ثَلٰثَۃِ اَقسَامٍ ھِیَ اِسمٌ وَ فِعلٌ و حرفٌ۔ یہاں پہلا جملہ واضح نہیں۔ دوسرے جملہ ھِیَ اِسمٌ وَ فِعلٌ نے اس کو واضح کر دیا، اور یہی دوسرا جملہ مبینہ کہلاتا ہے۔

۲۔ جملہ مُعَلِّلَہ، اس جملے کو کہتے ہیں جو پہلے جملہ کا سبب اور علت بیان کرے ، جیسے حدیث شریف میں ہے۔ لَاتَصُومُوا فِی ھٰذہٖ الاَیَّامِ فَاِنَّھَا اَیَّامُ اَکلٍ وَّ شُربٍ وَّ بِعَالٍ۔(کنز العمال) یہاں دوسرا جملہ فَاِنَّھَا اَیَّامُ اَکلٍ والا مُعَلِّلَہ ہے کیوں کہ اس میں پہلے جملہ کی علت بیان کی گئی ہے۔

۳۔ جملہ مُعتَرِضَہ، اس جملے کو کہتے ہیں جو دو جملوں کے درمیان بے جوڑ و بلاربط واقع ہو یعنی وہ جملہ جو دو متلازم چیزوں کے درمیاں آئے  جیسے قسم و جواب قسم، صلہ و موصولہ، مبتدا و خبر کے درمیان میں۔جیسے قَالَ اَبُو حَنِیفَۃَ رَحِمَہُ اللہُ اَلنِّیَّۃُ فِی الوُضُوءِ لَیسَت بِشَرطٍ۔ یہاں رَحِمَہُ اللہُ جملہ معترضہ ہے اس کا ما قبل و مابعد سے ترکیبی جوڑ نہیں ہے۔

۴۔ جملہ ابتدائیّہ، وہ جملہ ہے جس سے نیا کلام شروع کیا جائے جیسے اَلکَلِمَۃُ عَلیٰ ثَلٰثَۃِ اَقسَامٍ۔

۵۔ جملہ حالیّہ، اس جملہ کو کہتے ہیں جو حال واقع ہو جیسے جَاءَ زَیدٌ وَھُوَ رَاکِبٌ میں وَھُوَ رَاکِبٌ، جملہ حالیہ ہے۔

۶۔ جملہ معطوفہ، اس جملہ کو کہتے ہیں جو پہلے جملہ پر عطف کیا جائے جیسے جَاءَ زیدٌ وَذَھبَ عَمروٌ میں ذَھَبَ عَمروٌ جملہ معطوفہ ہے۔

۷۔ جملہ نتیجِیَّہ اس جملہ کو کہتے ہیں جو بطور نتیجہ کے سابق کلام سے پیدا ہوتا ہو، جیسے اَلجَزمُ مُختَصٌّ بِالاَفعالِ وَ الخَفضُ مُختَصٌّ بِالاَسماءِ فَلَیسَ بِالاَفعَالِ خَفضٌ وَلا فِی الاَسماءِ جَزمٌ میں فَلَیسَ بِالاَفعَالِ خَفضٌ وَلَا فِی الاَسماءِ جَزمٌ یہ جملہ نتیجیہ ہے۔

۸۔ جملہ مقطوعہ، اس جملہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز سے ربط و تعلق کے بغیر، گنتی کے ساتھ واقع ہوتا ہو، جیسے اَلبَابُ الثَّانِی فِی العَوامِلِ اللَّفظِیَّۃِ القِیَاسِیَّۃِ۔

۹۔ جملہ مستانفہ، اس جملہ کو کہتے ہیں جو سائل کے سوال کو بیان کرے  جیسے

لِمَ رَفَعتَ زیدًا لِاَنَّہٗ فَاعِلٌ میں لِاَنَّہٗ فَاعِلٌ جملہ مستانفہ ہے۔

 

جملہ انشائیہ

 

سوال: جملہ انشائیہ کسے کہتے ہیں۔

جواب: انشائیہ کی لغوی معنیٰ ہے طلب کرنے والا(۱) اور اصطلاح میں اس جملہ کو کہتے ہیں جس کے کہنے والے کو سچا یا جھوٹا نہ کہا جا سکے بلکہ کسی حکم یا طلب پر دلالت کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔

(١)نئی چیز ایجاد کرنے والا۔

 

انشائیہ کا وجہ التسمیہ

 

سوال: جملہ انشائیہ کو انشائیہ کیوں کہتے ہیں۔

جواب: انشائیہ کی معنیٰ ہے کسی کام کو پیدا کرنا اور یہ جملہ بھی کسی چیز کے پیدا کرنے کو بتاتا ہے کہ بات کرنے والا کلام کو خود پیدا کرتا ہے ، کسی واقعہ کی خبر نہیں دیتا، اسی وجہ سے اسے انشائیہ کہتے ہیں۔

 

انشائیہ کے اقسام

 

سوال: جملہ انشائیہ کتنے قسم ہے۔

جواب: انشائیہ بارہ قسم ہے جبکہ انشائیہ ابتداءً دو قسم ہے :

طلبی (جس میں طلب والا معنیٰ پایا جائے )

غیر طلبی (جس میں طلب والا معنیٰ نہ  پایا جائے )

طلبی بھی دو قسم ہے صریح (جس میں طلب والا معنیٰ ظاہر ہو)

غیر صریح(جس میں طلب والا معنیٰ ظاہر نہ ہو)

طلبی صریح چار قسم ہے ، امر، نھی، دعا، استفہام۔

طلبی غیر صریح تین قسم ہے ، عرض، تمنی، ترجی۔

اور غیر طلبی چار قسم ہے۔ قسم، تعجُّب، عقود۔ ندا۔

 

                امر

 

سوال: امر کسے کہتے ہیں۔

جواب: امر کی لغوی معنیٰ ہے حکم کرنا، اور اصطلاح میں اس جملہ کو کہتے ہیں جس میں(۱) کسی فاعل کے ذریعہ(۲) کوئی کام طلب کیا جائے جیسے اِضرِب(مارتو)یہ ہوا جملہ انشائیہ فعلیہ امریہ۔

سوال: فعل امر کتنے قسم ہے۔

جواب: اس کی دو قسمیں ہیں، ایک امر حاضر دوسرا امر غائب۔

سوال: امر متکلم کومستقل شمار کیوں نہیں کرتے۔

جواب: چونکہ اس کے دو ہی صیغے ہوتے ہیں اس لئے اسے امر غائب ہی کے ماتحت کر دیا جاتا ہے۔

۔۔۔۔

(١)اپنے آپ کو  بڑا سمجھ کر اور حقیقت میں وہ بڑا ہو یا نہ ہو۔

(٢)آئندہ زمانے میں۔

 

                نہی

 

سوال: نہی کسے کہتے ہیں۔

جواب:نہی کی لغوی معنیٰ ہے منع کرنا، روکنا اور اصطلاح میں اس جملہ کو کہتے ہیں جس سے (۱) ترک فعل کی طلب کی جائے جسے لَاتَضرِب، مت مار یہ ہوا جملہ انشائیہ فعلیہ نَہِیَّہ۔

سوال: نہی کتنے قسم ہے۔

جواب:امر کی طرح نہی کی بھی دو قسمیں ہیں، حاضر اور غائب۔

۔۔۔۔

(۱)اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر۔

 

استفہام

 

سوال: استفہام کسے کہتے ہیں۔

جواب:استفہام کی لغوی معنیٰ ہے پوچھنا/سوال کرنا اور اصطلاح میں اس جملہ کو کہتے ہیں جس میں نا واقف متکلم، واقف کار مخاطب سے کسی چیز کا سوال کرے ، چاہے حرف استفہام لفظًا ہو یا نہ ہو جیسے تَضرِبُ زیدًا اور لفظ استفہام بھی عام ہے کہ وہ حرف ہو۔

جیسے متیٰ تذھَب یا اسم ہو، جیسے ھَل ضَرَبَ زیدٌ، کیا زید نے مارا۔ یہ ہوا جملہ انشائیہ فعلیہ استفہامیہ۔

 

استفہام کے مختلف معانی

 

سوال: کیا استفہام ہمیشہ نا واقفیت کی وجہ سے ہوتا ہے۔

جواب:نہیں بلکہ جب متکلم کو خود علم ہو تو وہاں استفہام دوسرے معانی مثلاً اِخبار، اِطلاع، تاکید اور تقریر وغیرہ کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے ، جیسے قرآن مجید میں استفہام، عموماً اخبار کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے ، جیسے ھَل یَستَوِی الَّذِینَ یَعلَمُونَ وَالَّذِینَ لَا یَعلَمُونَ۔

 

دعا

 

سوال: دعا کسے کہتے ہیں۔

جواب:دعا کی لغوی معنیٰ ہے پکارنا اور اصطلاح میں اس  جملہ انشائیہ کو کہتے ہیں جس سے کسی کو دعا دی جائے جیسے جَزَاکُمُ اللہُ اَحسَنَ الجَزاءِ۔ اللہ تعالیٰ تم کو بہترین اجر دے ، یہ ہوا جملہ انشائیہ فعلیہ دعائیہ۔

 

عرض

 

سوال: عرض کسے کہتے ہیں۔

جواب:عرض کی  لغوی معنیٰ ہے عاجزی کرنا/پیش کرنا/ درخواست کرنا۔اور اصطلاح میں اس  جملہ کو کہتے ہیں جس میں نرمی سے کسی چیز کی درخواست کی جائے جیسے اَلَا تَنزِلُ بِنَا فَتُصِیبَ خَیرًا۔ کیوں نہیں آتا ہمارے پاس تاکہ پہنچے تو بھلائی کو۔یہ ہوا جملہ انشائیہ فعلیہ عرضیہ۔

 

امر، دعا اور عرض میں فرق

 

سوال۔ امر دعا اور عرض میں کیا فرق ہے۔

جواب:اگر بڑا چھوٹے کو کوئی حکم کرے تو اس کو امر کہتے ہیں، اور اگر چھوٹا بڑے سے کوئی درخواست کرے تو اس کو دعا کہتے ہیں، اور اگر مساوی درجہ کا  آدمی اپنے جیسے کو کوئی کام کہے تو اس کو التماس اور عرض کہتے ہیں۔

 

تمنی

 

سوال:تمنی کسے کہتے ہیں۔

جواب:تَمَنِّی تفعل کے باب کا مصدر ہے ، اس کی لغوی معنیٰ ہے تمنا یا خواہش کرنا، اور اصطلاح میں اس جملہ کو کہتے ہیں جس سے کسی پسندیدہ چیز کی تمنا(۱) یا  آرزو کی جائے جیسے لَیتَ زیدًاحاضِرٌ۔ کاش زید حاضر ہو۔ یہ ہوا جملہ انشائیہ اسمیہ تمنیہ۔

۔۔۔۔۔

(١)تمنا یعنی کسی پسندیدہ چیز سے محبت کرنا۔

 

ترجی

 

سوال: تَرَجّی کسے کہتے ہیں۔

جواب: تَرَجّی بھی تفعل کے باب کا مصدر ہے ، اس کی لغوی معنیٰ ہے امید کرنا، اور اصطلاح میں اس جملہ کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کی امید ظاہر کی جائے جیسے لَعَلَّ عَمروًا غَائبٌ۔ امید ہے کہ عمرو غائب ہو۔

 

تمنی اور ترجی میں فرق

 

سوال: تمنی اور ترجی میں کیا فرق ہے۔

جواب:۱۔تمنی (آرزو) ممکن اور ممتنع دونوں کی ہوسکتی ہے ، جیسے لَیتَ زیدًا حاضِرٌ۔ اور لَیتَ الشَّبَابَ یَعُودُ (کاش کہ جوانی لوٹ آئے )۔ حالانکہ جوانی کا اعادہ عادۃً محال ہے اور ترجی / امید صرف ممکن کی ہوسکتی ہے ، ممتنع کی نہیں ہوسکتی جیسے لَعَلَّ السلطانَ یُکرِمنی کہنا صحیح ہے۔ البتہ لَعَلَّ الشَّبَابَ یَعُودُ (امید ہے کہ جوانی لوٹ آئے )نہیں کہہ سکتے کہ عموماً جوانی بڑھاپے کے بعد نہیں لوٹتی۔

٢۔اسی طرح تمنی کا استعمال فقط محبوب اشیاء میں ہوتا ہے ، جب کہ ترجی عام ہے کہ اشیاء محبوبہ اور مبغوضہ دونوں میں استعمال ہوتا ہے۔

 

قسم

 

سوال: قسم کسے کہتے ہیں۔

جواب: قسم کا لغوی معنیٰ ہے پکا کرنا /قسم اٹھانا۔ اور اصطلاح میں اس  جملہ کو کہتے ہیں جس کے ذریعے اپنی بات پکی کرنے کے لئے کسی چیز کی قسم اٹھائی جائے جیسے وَاللہِ  لَاَضرِبَنَّ زیدًا۔ اللہ کی قسم میں زید کو ضرور بضرور ماروں گا۔ یہ ہوا جملہ انشائیہ فعلیہ قسمیہ۔

 

جملہ قسمیہ

 

سوال: کیا قسم کے لئے حرف قسم ضروری ہے۔

جواب: ۱۔ضروری نہیں ہے بلکہ عام ہے کہ حرف قسم اور لفظ  قسم دونوں مذکور ہوں، جیسے اُقسِمُ بِاللہِ لَاَفعَلَنَّ کَذَا ۲۔ یا دونوں مذکور نہ ہوں جیسے اَم لَکُم اَیمَانٌ عَلَینَا بَالِغَۃٌ اِلیٰ یَومِ القِیَامَۃِ اَنَّ لَکُم لَمَا تَحکُمُونَ(۱)۔

۳۔ یا صرف لفظ قسم مذکور ہو اور حرف قسم مذکور نہ ہو۔ جیسے لَا اُقسِمُ بِھٰذَا لبَلَدِ۔

۴۔ یا حرف قسم مذکور ہو، لیکن لفظ قسم مذکور نہ ہو، جیسے وَالقُرآنِ الحَکِیمِ اِنَّکَ لَمِنَ المُرسَلِینَ۔

۔۔۔۔۔۔۔

(١)ترجمہ: کیا ہمارے ذمہ کچھ قسمیں چڑھی ہوئی ہیں جو تمہاری خاطر سے کھائی گئی ہوں۔

 

 

قسم و جواب قسم

 

سوال: قسم میں کتنی چیزیں ہوتی ہیں۔

جواب:عموماً چار چیزیں ہوتی ہیں۔ ۱۔ حرف قسم ۲۔ مُقسَم بہٖ جس ذات کا نام لیکر قسم اٹھائی جائے ۳۔ جواب قسم جس مقصد کے لئیے قسم اٹھائی جائے ۴۔مُقسِم، قسم اٹھانے والا  جیسے وَاللہِ لَاَضرِبَنَّ زیدًا میں واو حرف قسم ہے ، اللہ مقسم بہٖ ہے۔ لَاَضرِبَنَّ زیدًا جواب قسم ہے اور عمر و مُقسِم ہے۔

 

حروف قسم

 

سوال۔حروف قسم کون سے ہیں۔

جواب:پانچ ہیں۔ با، واو، تا، لام، مِن۔ لیکن آخری حرف قلیل الا ستعمال ہے۔

سوال: کیا جملہ قسمیہ خبریہ بھی ہوتا ہے۔

جواب: نہیں،  جملہ قسمیہ انشائیہ ہی ہوتا ہے ، البتہ جواب قسم خبریہ اور انشائیہ دونوں ہوتا ہے۔

سوال: کیا حروف قسم صرف یہی ہیں۔

جواب:جی نہیں کچھ اور بھی ہیں جیسے  ایم۔ایمن یہ بھی قسم کی جگہ استعمال ہوتے ہیں مثلًا وَاَیمُ اللہِ لَاُسَافِرَنَّ۔

 

تعجب

 

سوال: تعجب کسے کہتے ہیں۔

جواب: تعجب، تفعل کے باب کا مصدر ہے اور اس کی معنیٰ ہے عجب کرنا۔

 اصطلاح میں اس جملہ کو کہتے ہیں جس سے کسی پر تعجب ظاہر کیا جائے۔

سوال: فعل تعجب کی ترکیب کس طرح ہوتی ہے۔

جواب: ۱۔مَا اَفعَلَھٗ یعنی مَا اَحسَنَہٗ اَی اَیُّ شَیءٍ اَحسَنَ زیدًا، کس چیز نے  زید کو حسن والا کر دیا (با محاورہ )کیا ہی وہ خوبصورت ہے۔ اس کی تین ترکیبیں ہیں۔ امام فراء کے نزدیک یہاں اَیُّ شَیءٍ مُبتدا اور اَحسَنَ زیدًا خبر ہے ، یہ ہوا جملہ انشائیہ اسمیہ تَعَجُّبِیَّہ۔

۲۔اَفعِل بِہٖ یعنی اَحسِن بہٖ اَی مَا اَحسَنَ بزیدٍ۔یہاں امر، ماضی کے معنیٰ میں ہے ، با زائدہ ہے اور زید فاعل ہے۔ یہ ہوا جملہ انشائیہ فعلیہ تعجّبیّہ۔

سوال: علم الصرف میں تو تعجب کے تین صیغے ہیں نحو میں فقط دو کیوں۔

جواب: تعجب کے صیغے تو تین ہیں لیکن یہاں نحو میں جو کثیرالاستعمال ہیں صرف ان کو ذکر کیا گیا ہے۔ فَعُلَ کو ذکر نہیں کیا گیا۔

نوٹ: مَا اَحسَنَہٗ اور اَحسِن بِہٖمیں  ہ ٖضمیر کی جگہ پر جسکے حسن وغیرہ پر تعجب کرنا ہو اس کا نام لگانا چاہئے۔

 

عقود

 

سوال:عقود کسے کہتے ہیں۔

جواب:عقود جمع ہے ، عقد کی اور عقد کہتے ہیں گرہ باندھنے /معاہدہ کرنے کو اور اصطلاح میں اس جملہ کو کہتے ہیں جس سے کوئی معاملہ طئے کیا جائے۔ جیسے بِعتُ وَاشتَرَیتُ وَتَزَوَّجتُ۔ میں نے بیچا اور خریدا اور نکاح کیا۔ یہ ہوا جملہ انشائیہ فعلیہ عقودیہ۔

نوٹ: واضح رہے کہ اگر یہ جملہ خرید و فروخت اور کسی معاملہ کے طئے ہونے کے وقت استعمال ہو گا تو جملہ انشائیہ ہو گا، اور معاملہ کے بغیر بولا جائے تو جملہ خبریہ ہو گا۔

 

ندا

 

سوال: ندا کسے کہتے ہیں۔

جواب: ندا کی معنیٰ ہے بلانا /پکارنا۔ اور اصطلاح میں اس جملے کو کہتے ہیں۔جس کے ذریعہ کسی کو اپنی طرف متوجہ کیا جائے اور اس کے شروع میں حرف ندا ملفوظ ہو، جیسے  یَا اللہُ۔

اے اللہ/ پکارتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کو۔ یا محذوف ہو، جیسے اِغفِرلَنَا ذُنُوبَنَا۔ اے اللہ ہمارے گناہوں کو معاف فرما۔

 

جملہ ندائیہ

 

سوال: جملہ ندائیہ میں کتنی چیزیں ہوتی ہیں۔

جواب:چار چیزیں ہوتی ہیں ۱۔حرف ندا ۲۔مُنادِی، بلانے والا ۳۔مُنادَیٰ، جس کو بلایا جائے /متوجہ کیا جائے اور اسی پر حرف ندا داخل ہوتا ہے اور یہ ترکیب میں مفعول بہٖ بنتا ہے۔ ۴۔منادیٰ لہ، (جواب ندا اور مقصود  بالنداء)جس مقصد کیلئے بلایا جائے ، اور عموماً یہ محذوف ہوتا ہے۔ جیسے یا اللہُ اِغفِرلِی، یہاں یا حرف ندا ہے۔ جو دراصل ادعو فعل محذوف کے قائم مقام ہوتا ہے۔ لفظ اللہ منادیٰ ہے ، اور اِغفِرلِی جواب ندا ہے۔

سوال: کیا جواب ندا، منادیٰ سے مقدم بھی ہوتا ہے۔

جواب: جی ہاں قرینہ کی وجہ سے جواب ندا، منادیٰ پر مقدم بھی ہوتا ہے ، جوازًاجیسے اِغفِرلِی یا اللہُ۔

سوال: جس طرح مبتدا کیلئے خبر ضروری ہے اسی طرح جملہ انشائیہ امر، نھی، نفی، استفہام، تمنی، عرض، قسم اور ندا کیلئے بھی دوسری چیز کا ہونا ضروری ہے یا نہیں۔

جواب: جی ہاں، مذکورہ چیزوں کیلئے جواب، جواب قسم، جواب ندا وغیرہ  کا ہونا ضروری ہے عرض کی مثال۔ اَلَا تَنزِلُ بِنَا فَتُصِیبَ خَیرًا میں فَتُصِیبَ خَیرًا جواب عرض ہے۔

سوال: مذکورہ جملوں کے علاوہ بھی کچھ چیزیں انشائیہ میں داخل ہیں یا نہیں۔

جواب: جی ہاں افعال مدح و ذم بھی جملہ انشائیہ میں داخل ہیں۔

 

جملہ انشائیہ اور خبریہ کی علامت

 

سوال: جملہ خبریہ اور انشائیہ کی علامت کون سی ہے۔

جواب:انشائیہ کے ان ۱۳ قسموں میں سے کوئی ہو گا تو وہ جملہ انشائیہ ہو گا ورنہ جملہ خبریہ ہو گا۔

 

                فصل: مرکب غیر مفید

 

سوال: مرکب غیر مفید  کسے کہتے ہیں۔

جواب: غیر مفید کی معنیٰ ہے بغیر فائدہ والا اور اصطلاح میں اس جملہ کو کہتے ہیں کہ بولنے والا بول کر خاموش ہو جائے تو سننے والے کو پورا فائدہ حاصل نہ ہو(۱) جیسے غُلامُ زیدٍ۔ اور مرکب غیر مفید کو مرکب ناقص بھی کہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔

(١)یعنی کوئی فائدہ خبر یا طلب حاصل نہ ہو۔

 

مرکب غیر مفید کے اقسام

 

سوال: مرکب غیر مفید کتنے قسم ہے۔

جواب:پانچ قسم ہے ، وجہ حصر اس طرح ہے کہ غیر مفید میں دیکھیں گے کہ دوسراجزء پہلے کیلئے قید ہے یا نہیں، قید نہیں ہے تو وہ مرکب غیر تقییدی ہے ، اگر قید ہے تو وہ مرکب تقییدی ہے۔

ابتداءً مرکب غیر مفید دو قسم ہے ، مرکب تقییدی، مرکب غیر تقییدی، پھر مرکب تقییدی دو قسم پر  ہے ۱۔ مرکب اضافی ۲۔ مرکب توصیفی۔

اور مرکب غیر تقییدی تین قسم ہے ۱۔ مرکب بنائی ۲۔ مرکب منع صرف

۳۔ مرکب صوتی۔ شعر۔

بود ترکیب  نزد نحویاں شش۔  بیادش گیر گرخائف زفوتی

اضافی داں و تعدادی و مزجی۔ چوں اسنادی و  توصیفی و صوتی

 

مرکب تقییدی

 

سوال:  مرکب تقییدی کس کو کہتے ہیں۔

جواب:ایسا مرکب جس کا دوسرا جزء پہلے جزء کیلئے قید ہو(۱)

 

مرکب اضافی اور اس کی علامت

 

سوال: مرکب اضافی کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس مرکب کو کہتے ہیں جس میں ایک چیز کی دوسری چیز کی طرف نسبت ہو۔ تو اس میں پہلے کو مضاف اور دوسرے کو مضاف الیہ کہتے ہیں، جیسے غُلامُ زیدٍ”زید کا غلام”۔ پہلے غلام عام تھا، زید کے ملانے کے بعد خاص ہوا اس کی علامت یہ ہے کہ اردو ترجمہ کریں تو درمیاں میں "کا، کی، کے ، ری، رے "وغیرہ نکلیں(۲)۔

سوال۔ کیا مضاف الیہ کا حذف جائز ہے۔

جواب:جی ہاں کبھی مضاف الیہ کو حذف کر کے اس کے عوض مضاف کے آخر میں تنوین لاتے ہیں جیسے یَومَئِذٍ اور کبھی مضاف کو مبنی بر ضمہ کر دیتے ہیں۔ جیسے لِلہِ الاَمرُ مِن قَبلُ وَمِن بَعدُ اَی مِن قَبلِ کُلِّ شیءٍ وَ مِن بَعدِکُلِّ شیءٍ۔

۔۔۔۔۔۔۔

(۱)لیکن ضمائر کی طرف اضافت ہو تو ضمیر غائب کیلئے اس کا۔ ضمیر مخاطب کیلئے تیرا۔ اور ضمیر متکلم کیلئے میرا اور اپنا سے ترجمہ کیا جاتا ہے۔

(۲)یعنی جس میں جزء اول عام ہو اور جزء ثانی خاص ہو۔

 

مرکب اضافی کا اعراب

 

سوال: مضاف اور مضاف الیہ کو کون سا اعراب ہوتا ہے۔

جواب:مضاف الیہ ہمیشہ مجرور ہوتا ہے ، اور مضاف کو اعراب عامل کے مطابق ہوتا ہے ، کبھی رفعہ، کبھی نصب، کبھی جر، جیسے جَاءَ غُلامُ زَیدٍ، رَئیتُ غُلامَ زَیدٍ، مَرَرتُ بِغُلامِ زَیدٍ۔

 

مضاف الیہ کا حکم

 

سوال: مضاف الیہ  کا حکم کیا ہے۔

جواب: مضاف  الیہ کا حکم یہ ہے کہ ۱۔اس پر تنوین اور الف لام داخل ہوتا ہے ۲۔اور وہ اکثر اسم معرفہ اور کبھی نکرہ بھی ہوتا ہے۔ ۳۔ نیز اضافت سے اسم میں تخصیص اور تعیین کی معنیٰ پیدا ہو جاتی ہے جیسے بَیتُ خَالِدٍ۔ ۴۔ اور یہ مجرور ہوتا ہے۔

سوال: جملہ میں مضاف ایک ہوتا ہے یا کئی ہوتے ہیں۔

جواب:کبھی ایک ہی ترکیب میں کئی مضاف الیہ بھی ہوتے ہیں، مگر درمیانی مضاف الیہ چونکہ مابعد کے طرف مضاف ہوتا ہے اس لئے اس کو جرتو ہو گا مگر تنوین اور الف لام نہیں آئے گا۔

 

مرکب توصیفی

 

سوال: مرکب توصیفی کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس مرکب کو کہتے ہیں جس میں آخری جزء پہلے جزء کیلئے بیان بنے اور اس کی علامت یہ ہے کہ اردو ترجمہ کے وقت "وہ جو” کا معنیٰ نکلے اور اس میں پہلے  کو موصوف اور آخری کو صفت کہتے ہیں، جیسے رَجُلٌ عَالِمٌ آدمی وہ جو عالم (پہلے رَجُلٌ عام تھا، عَالِمٌ کو ملانے کے بعد رَجُلٌ میں خصوصیت آ گئی)۔

 

مرکب توصیفی کا اعراب

 

سوال: موصوف اور صفت کو کون سا اعراب ہوتا ہے۔

جواب:صفت کو موصوف والا اعراب ہوتا ہے اور موصوف کو موافق عامل کے۔

نوٹ:موصوف ہمیشہ اسم ذات اور صفت عموماً  اسم صفت ہوا کرتا ہے۔

 

مرکب توصیفی اور جملہ اسمیہ میں فرق

 

سوال:مرکب توصیفی (موصوف صفت )اور جملہ اسمیہ (مبتدا، خبر) میں کون سا فرق ہے۔

جواب:مبتدا عموماً معرفہ اور خبر عموماً نکرہ ہوا کرتی ہے ، بخلاف موصوف و صفت کے ان میں دونوں جزء معرفہ یا دونوں جزء نکرہ ہوا کرتے ہیں۔

 

اسم اور صفت میں فرق

 

سوال۔اسم اور صفت میں کون سا فرق ہے۔

جواب:اسم صرف ذات پر دلالت کرتا ہے بغیر وصف پر دلالت کرنے کے اور صفت ذات مع الوصف پر دلالت کرتی ہے۔

 

مرکب غیر تقییدی

 

سوال: مرکب غیر تقییدی کسے کہتے ہیں۔

جواب۔ اس مرکب کو کہتے ہیں جس کا دوسرا جزء پہلے جزء کیلئے قید نہ ہو۔

سوال: مرکب غیر تقییدی کتنے قسم ہے۔

جواب۔ تین قسم ہے ۱۔ مرکب بنائی/تعدادی ۲۔ مرکب منع صرف/مزجی، امتزاجی۳۔ مرکب صوتی۔

 

مرکب بنائی

 

سوال: مرکب بنائی کسے کہتے ہیں۔

جواب۔ اس مرکب کو کہتے ہیں جو ایسے دو اسموں سے مل کر بنے کہ دوسرا اسم کسی حرف کو اپنے اندر لیتا ہو(۱) ، جیسے اَحَدَ عَشَرَ (بمعنیٰ گیارہ) جو دراصل اَحَدٌ وَّ عَشرٌ تھا۔

سوال: اعداد میں سے کون سے عدد مرکب بنائی میں داخل ہیں۔

جواب:اَحَدَ عَشَرَ سے تسعۃ عشر تک تمام اعداد مرکب بنائی ہیں، جیسے اَحَدَ عَشَرَ، اثنیٰ عشرَ، ثلٰثۃَ عشرَ، اربعۃَ عشرَ، خمسۃ َعشرَ، سِتَّۃَ عشرَ، سبعۃَ عشرَ، ثمانیۃ َعشرَ، تِسعۃَ عشرَ۔ ان میں لفظا واو محذوف ہے لیکن معنیٰ میں اس کا اعتبار ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔

(۱) لیکن دونوں میں کوئی نسبت اضافی یا اسنادی نہ ہو۔ 

۔۔۔۔۔۔

 

 

مرکب بنائی کا اعراب

 

سوال: مرکب بنائی کے اعراب کون سے ہیں۔

جواب:اس کے دونوں جزء مبنی بر فتح ہوتے ہیں، جیسے جائنی احدَ عشرَ رجلًا۔

سوال: مرکب بنائی کے دونوں حصے مبنی بر فتح   کیوں ہوتے ہیں۔

جواب:اس لئے کہ فتح اخف الحرکات ہے اور پہلا جزء مبنی اس لئے ہے کہ درمیان میں ہے اور درمیان میں اعراب نہیں آتا اور دوسرا جزء مبنی اس لئے ہے کہ وہ حرف کو متضمِّن/ اپنے اندر لینے والا ہے اور حرف مبنی ہے اور جو مبنی کو ضِمنِ میں لے گا تو وہ بھی مبنی ہو گا(۱)۔

 

اثنا عشر کا اعراب

 

سوال: کیا مرکب بنائی کی تمام صورتوں میں دونوں جزء مبنی بر فتح ہوتے ہیں۔

جواب:باقی تمام مبنی بر فتح ہوتے ہیں سوائے اثنا عشر کے کیوں کہ یہ اصل میں اثنان تھا جو کہ لفظًا و معنیً تثنیہ کے مشابہ ہے اس کے دونوں جز ء مبنی نہیں ہوتے بلکہ

جزء اول معرب ہے کہ  بدلتا رہتا ہے ، اور جزء ثانی مبنی برفتح ہے ، کیونکہ اس کی مشابہت ہے اضافت سے (۲) اور اضافت خاصہ ہے اسم کا اور اسم میں اصل اعراب ہے اس لئے اس کا جزء اول معرب ہو گا۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)جس طرح جو کوئی چور کو گھر میں رہائے گا تو خود بھی چور شمار ہوگا۔

 (۲)یعنی جیسے ضاربازید میں نون گرگیا ہے، اسی طرح اثنا عشر میں بھی نون گرگیا ہے۔

۔۔۔۔

 

اثنا عشر کے الف کا حکم

 

سوال: کیا اثنا عشر کا الف ہر حالت میں برقرار رہتا ہے۔

جواب:اس کا الف حالت رفع میں برقرار رہتا ہے ، جیسے جائنی اِثنَا عشَرَ رجُلاً، البتہ نصب اور جر کی حالت میں یا ءسے تبدیل ہو جاتا ہے ، جیسے رئیتُ اِثنیٰ عشَرَ رجُلاً۔ اور مَررتُ بِاثنیٰ عشَرَ رجُلاً۔

 

مرکب منع صرف

 

سوال: مرکب منع صرف کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس مرکب کو کہتے ہیں جس میں دو اسموں کو ملا کر ایک کیا جائے ، اور دوسرا اسم کسی حرف کو متضمن / اپنے اندر لینے والا نہ ہو، جیسے بَعلَبَکَ دراصل بعل ایک بت کا نام تھا اور بَک ایک بادشاہ، بانی شہر کا نام تھا دونوں کو ملا کر ملک شام کے ایک شہر کا نام رکھا گیا اور

حَضرَمَوتَ یہ جدا جدا شہروں کے نام ہیں اور ایک دوسرے کے قریب ہونے کی وجہ سے دونوں کا نام حَضرَمَوتَ رکھا گیا۔

 

مرکب منع صرف کا اعراب

 

سوال: مرکب منع صرف  کو کون سے اعراب ہوتے ہیں۔

جواب:اس کا پہلا جزء مبنی بر فتح ہوتا ہے ، اور جزء ثانی میں اختلاف ہے ، اکثر علماء کے نزدیک جزء ثانی معرب ہے ، غیر منصرف کے اعراب کی طرح(۱) جیسے جَاءَ بَعلَبَکَ، رَئَیتُ بَعلَبَکَ، مَرَرتُ بِبَعلَبَکَ۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)یعنی جیسے غیر منصرف پر تنوین اور جرنہیں آتے اسی طرح اس پر بھی تنوین اور جر نہیں آتے ۔

۔۔۔۔۔۔۔

مرکب صوتی

 

سوال:مرکب صوتی کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس مرکب کو کہتے ہیں جو دو اسموں سے مل کر بنے اور دوسرا اسم صوت/آواز ہو، جیسے سِیبَوَیہِ، نِفطَوَیہِ وغیرہ اس میں سِیبَ جدا کلمہ ہے اور وَیہِ جدا کلمہ ہے دونوں کو ملا کر ایک کلمہ کیا گیا ہے۔

 

مرکب صوتی کا اعراب

 

سوال: مرکب صوتی کا اعراب کون سا ہے۔

جواب:اس کا پہلا جزء مبنی بر فتح ہوتا ہے اور دوسرا جزء مبنی بر کسرہ ہوتا ہے۔

 

مرکب غیر مفید کا حکم

 

سوال: مرکب غیر مفید، جملہ میں کیا واقع ہوتا ہے۔

جواب:یہ مرکب اپنے تمام قسموں کے ساتھ ہمیشہ جملہ کا جزء(۱) مسند یا مسند الیہ واقع ہوتا ہے ۱۔جیسے غلامُ زیدٍ قائمٌ یہاں مرکب اضافی کے ساتھ قائمٌ ملنے سے پورا جملہ بنا ہے ۲۔ عِندی اَحَدَ عَشَرَ دِرھمًا یہاں مرکب بنائی کے ساتھ عندی ملنے سے جملہ بنا ہے ۳۔اور جَاءَ بَعلَبَک یہاں مرکب منع صرف کے ساتھ جاءَ ملنے سے جملہ بنا ہے۔

 

                فصل: کلمات جملہ

 

سوال: جملہ میں کم از کم کتنے کلمات ہوتے ہیں۔

جواب:جملہ دو کلموں سے کم نہیں بنتا یعنی ہر جملہ میں خواہ خبریہ ہو یا انشائیہ کم سے کم دو کلمہ مسند اور مسند الیہ ضرور ہوتے ہیں، لفظًا دو کلمے جیسے زیدٌ قائمٌ۔ضربَ زیدٌ یا تقدیرًا دو کلمے جیسے یا زیدُ۔اِضرِب یہاں ایک کلمہ اِضرِب ہے اور دوسرا کلمہ اَنتَ اس میں مستتر ہے ، البتہ دو کلموں کے سوائے جملہ کے اور بھی کچھ متعلقات مفعول وغیرہ ہوتے ہیں۔

سوال: تقدیر کس کو کہتے ہیں۔

جواب:تقدیر معنیٰ اندازہ کرنا، اصطلاح میں اس کو کہتے ہیں کہ کسی لفظ کو کسی جگہ پر ذکر کرنے کے سوائے اس کا اعتبار کیا جائے۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)یعنی، جب تک اس کے ساتھ دوسرا کلمہ نہ ملے اس وقت تک یہ جملہ نہیں بنتا۔

۔۔۔۔۔

جملہ مفردہ اور مرکبہ

 

سوال: جملہ باعتبار استعمال کے کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے ۱۔ جملہ مفردہ جیسے زیدٌ قائمٌ ۲۔ جملہ مرکبہ یعنی جملہ معطوفہ جس میں ایک جملہ کا دوسرے جملہ پر عطف کیا گیا ہو جیسے قَرَءَ التِّلمِیذُ الدَّرسَ وَ کَتَبَہٗ عَلیٰ کُرّاسَتِہٖ۔

سوال: جملہ میں زیادہ سے زیادہ کتنے کلمات ہوتے ہیں۔

جواب:زیادہ کی کوئی حد نہیں کبھی تین کلمہ، کبھی چار، پانچ، چھ، سات، آٹھ کلمات بھی ہوتے ہیں، جیسے ۱۔ ضَرَبَ زیدٌ عمرًوا ۲۔ ضَرَبَ زیدٌ عَمرًوا ضَربًا ۳۔ ضَرَبَ زیدٌ عمروًا ضَربًا شَدِیدًا ۴۔ ضَرَبَ زیدٌ عمروًا ضَربًا شَدِیدًا تَأدِیبًا ۵۔ ضَرَبَ زیدٌ عمروًا ضَربًا شَدِیدًا تَأدِیبًا وَ الخَشبَۃَ۔ ۶۔ ضَرَبَ زیدٌ عمروًا ضَربًا شَدِیدًا تَأدِیبًا وَ الخَشبَۃَ اَمَامَ الاَمِیرِ۔

 

کلام کی حقیقت

 

سوال: کلام کے دونوں حصے اسم ہوتے ہیں یا فعل۔

جواب:ہر کلام کیلئے مسند اور مسند الیہ ہونا ضروری ہے اور حقیقت میں کلام کے مرکب ہونے میں احتمال عقلی چھ ہیں:

اسم اسم و فعل فعل و حرف حرف

اسم فعل و فعل حرف و اسم حرف

البتہ حقیقت میں کلام مرکب ہوتا ہے اسم اسم یا اسم فعل سے کیونکہ مسند اور مسند الیہ اکٹھے صرف ان دو قسموں میں ہوتے ہیں جیسے زیدٌ قائمٌ۔قامَ زیدٌ۔

 

حل عبارت /مطالعہ کا طریقہ

 

سوال: مطالعہ کا طریقہ کون سا ہے۔

جواب:علماء نحو کے نزدیک جو شخص آٹھ چیزوں کو معلوم کر کے مطالعہ کرے گا تو اس کا مطالعہ صحیح ہو گا اور اس کو یہ دو فائدے حاصل ہوں گے۔

۱۔ عربی عبارت پڑھنا آئے گی۲۔ اور جملہ کی صحیح معنیٰ اور ترکیب بھی آئے گی۔

وہ آٹھ چیزیں یہ ہیں۱۔ اسم فعل اور حرف ۲۔ معرب اور مبنی ۳۔ معرفہ اور نکرہ ۴۔ مذکر اور مؤنث ۵۔ واحد تثنیہ و جمع ۴۔ اسم متمکن اور فعل مضارع کے اعراب کے اقسام اور اعراب کی جگہوں اور وجہ اعراب کو پہچاننا کہ رفع ہے تو کیوں ہے ، اس لئے مرفوعات منصوبات اور مجرورات کو بھی خوب یاد کرنا ۷۔ عامل اور معمول ۸۔ کلموں کا ایک دوسرے سے ربط و تعلق پہچاننا کہ کون سا ہے ، فعل فاعل والا ہے یا مبتدا و  خبر والا ہے یا حال اور ذو الحال والا ہے یا موصوف اور صفت والا ہے۔

 

 

 

                فصل: اسم، فعل و حرف

 

سوال: اسم فعل اور حرف کی وضاحت کریں۔

جواب:ان کی پوری وضاحت علم الصرف میں ہو چکی ہے تاہم دونوں کی کچھ علامات ذکر کی جاتی ہیں۔

 

اسم کی علامات

 

۱۔ کلمہ کی ابتدا میں الف لام ہو جیسے اَلحَمدُ ۲۔ حرف جر جیسے بِزیدٍ ۳۔ تنوین جیسے زیدٌ ۴۔ علم یعنی کسی چیز یا آدمی کا نام ہو جیسے زید، مسجد۵۔مسند الیہ جیسے زیدٌ قائمٌ ۶۔مضاف الیہ جیسے غلامُ زیدٍ ۷۔تصغیر جیسے قُرَیشٌ۸۔ ابتدا میں حرف ندا جیسے یَا زیدُ ۹۔یائی نسبت جیسے بغدادِیٌّ ۱۰۔تثنیہ جیسے رجلانِ ۱۱۔جمع جیسے رِجَال، ضَارِبُونَ(۱) ۱۲۔موصوف جیسے رجلٌ عالمٌ ۱۳۔تاء چھوٹی حرکت والی جیسے ضَارِبَۃٌ ۱۴۔ضمائر جیسے ھُوَ، ھُمَا، ھُم وغیرہ۱۵۔ اسماء اشارہ جیسے ذَا، ذَانِ ۱۶۔ اسماء موصولہ جیسے  اَلَّذِی وغیرہ ۱٧۔حروف ناصبہ جیسے اِنَّ اللہَ سَریعُ الحِسَابِ ۱۸۔ الف مقصورہ۱۹۔ الف ممدودہ ۲۰۔ ابتداء میں میم زائدہ جیسے مضروبٌ۔ معلوم ہوا کہ اسم کی بعض علامات لفظی ہیں، بعض معنوی۔

۔۔۔۔۔

(۱) فعل ہمیشہ مفرد ہوتا ہے، فعل کو تثنیہ و جمع فاعل کے اعتبار سے کہا جاتا ہے، حقیقۃً ضمیر فاعل جو اسم ہے وہ تثنیہ و جمع ہے، یہی وجہ ہے کہ ضربا کی معنیٰ ہے دو آدمیوں نے مارا- ضربوا کی معنیٰ ہے بہت آدمیوں نے مارا تو یہ تثنیہ و جمع مارنے والےہیں جو فعل کے فاعل ہیں فعل ایک ہے ضرب۔

۔۔۔۔۔

 

فعل کی علامات

 

سوال: فعل کی کون سی علامات ہیں۔

جواب:۱۔ کلمہ کی ابتدا میں حرف اتین زائدہ ہو، جیسے یَضرِبُ، تَضرِبُ، اَضرِبُ، نَضرِبُ ۲۔ابتدا میں قد جیسے قَد ضَرَبَ ۳۔ ابتدا میں سین جیسے سَیَضرِبُ۴۔ ابتدا میں سوف  جیسے سَوفَ یَضرِبُ ۵۔ حرف جازمہ جیسے لَم یَضرِب ۶۔ حرف ناصبہ جیسے لَن یَّضرِبَ ۷۔ضمیر مرفوع متصل جیسے ضَرَبتَ۸۔آخر میں تاء ساکن جیسے ضَرَبَت ۹۔ امر جیسے اِضرِب ۱۰۔ نہی جیسے لَاتَضرِب ۱۱۔ لانافیہ جیسے لَایَضرِبُ ۱۲۔ نون  ثقیلہ ۱۳۔نون خفیفہ جیسے اِضرِبَنَّ، اِضرِبَن۱۴۔ الف ضمیر ۱۵۔ نون ضمیر ۱۶۔ نا ضمیر ۱۷۔ تم ضمیر ۱۸۔ واو ضمیر ۱۹۔ تُنَّ ضمیر ۲۰۔ ماضی۔

 

حرف کی علامات

 

سوال: حرف کی کون سی علامات ہیں۔

جواب:جو کلمہ اسم و فعل کی علامات سے خالی ہو وہ حرف ہو گا یعنی تَجَرُّد عَن عَلامَاتِ الاِسمِ وَالفِعلِ حرف کی علامت ہے۔

 

 

 

                فصل:  معرب و مبنی

 

سوال:  (اعراب(۱) کے لحاظ سے )کلمہ کتنے قسم ہے۔

جواب:کلمہ دو قسم ہے ۱۔ معرب ۲۔ مبنی۔

سوال: معرب کی لغوی اور اصطلاحی تعریف کیا ہے۔

جواب:معرب مأخوذ ہے اعراب سے اور اعراب معنیٰ اظہار  (ظاہر کرنا) یا ازالہ فساد اور اصطلاح میں معرب اس کلمہ کو کہتے ہیں جو اپنے عامل سے مرکب ہو کر مبنی اصل سے مشابہ نہ ہو جیسے جَائَنِی زَیدٌ۔

۔۔۔۔۔

(۱)باعتبار تبدیلی کے ۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

معرب کا حکم

 

سوال:معرب کا کیا حکم ہے۔

جواب:عامل کے اختلاف سے اس کی آخر برقرار نہ رہے جیسے قَامَ زَیدٌ۔ رَئَیتُ زَیدًا۔مَرَرتُ بِزَیدٍ۔ پہلی مثال میں قامَ عامل ہے ، زید معرب ہے ، ضمہ اعراب ہے ، دال محل اعراب ہے۔

معرب آں باشد کہ گر دد باربار

مبنی آں باشد کہ   ماند   برقرار

 

معرب کے اقسام

 

سوال: معرب کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے ۱۔ اسم متمکن جب ترکیب میں واقع ہو ۲۔ افعال میں فعل مضارع جبکہ نون جمع مؤنث اور نون تاکید سے خالی ہو(۱)۔

سوال: اسم کی کتنی تقسیمیں ہیں۔

جواب:چھ تقسیمات ہیں ۱۔ باعتبار اعراب و بناء ۲۔ باعتبار تعریف و تنکیر ۳۔باعتبار وحدت و عدم وحدت ٤۔باعتبار تذکیر و تانیث ۵۔باعتبار محض اعراب ۶۔اور باعتبار عمل کے۔

۔۔۔۔۔۔

(۱) یعنی یضربنَ اور تضربنَ کے علاوہ باقی ۱۲ صیغے معرب ہیں۔

۔۔۔۔۔۔

 

اسم متمکن

 

سوال: اسم پہلی تقسیم کے اعتبار سے کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے ۱۔ اسم متمکن ۲۔ اسم غیر متمکن۔

سوال: اسم متمکن کسے کہتے ہیں۔

جواب:متمکن مأخوذ ہے تمکن سے ، یعنی برقرار رکھنا، جگہ لینا/دینا، اور اسم بھی اعراب کو جہھ دیتا ہے اس لئے اسے متمکن کہتے ہیں اور اصطلاح میں اس معرب کو کہتے ہیں جو مبنی اصل کے مشابہ نہ ہو جیسے جَاءَ زیدٌ میں زیدٌمعرب ہے۔

 

اسم غیر متمکن

 

سوال: اسم غیر متمکن کسے کہتے ہیں۔

جواب:وہ اسم جو مبنی اصل کے مشابہ ہو۔

 

مبنی اصل اور اس کا حکم

 

سوال: اصل اور غیر اصل کے اعتبار سے مبنی کتنے قسم ہے

جواب:دو قسم ہے ۱۔ مبنی اصل۲۔ مبنی غیر اصل۔

مبنی اصل: وہ ہے جو اصل وضع میں مبنی ہو۔

مبنی غیر  اصل: وہ ہے جو اصل وضع میں مبنی نہ ہو، کسی مشابہت کی وجہ سے مبنی ہو۔

سوال: مبنی اصل کتنی چیزیں ہیں۔

جواب:تین ہیں ۱۔فعل ماضی ۲۔ امر حاضر ۳۔ تمام حروف جیسے مِن، اِلٰی، ضَرَبَ،  اِضرِب۔

سوال: مبنی اصل کا حکم کیا ہے۔

جواب:وہ اعراب کو قبول نہیں کرتا  نہ لفظًا  نہ تقدیرًا  نہ محلًا۔

 

مبنی اور اس کا حکم

 

سوال: مبنی کسے کہتے ہیں۔

جواب:مبنی یہ مَرمِیٌّ کے وزن پر اسم مفعول کا صیغہ ہے مأخوذ ہے بِنا ءسے اصطلاح میں اس کلمہ کو کہتے ہیں جو مرکب ہی نہ ہو یا مرکب ہو تو مبنی اصل سے مشابہت رکھتا ہو جیسے (تنھا) زید۔قامَ ھٰؤلاءِ میں ھٰؤلاءِ۔

سوال: مبنی کا حکم کیا ہے۔

جواب:عامل کے اختلاف سے جس کا آخر تبدیل نہ ہوتا ہو(۱) جیسے قَامَ ھٰؤلاءِ، رَئَیتُ ھٰؤلاءِ، مَرَرتُ بِھٰؤُلَاءِ۔

 

 

 

                فصل: مبنی کے اقسام

 

سوال: مبنی کتنے قسم ہے۔

جواب:چھ قسم ہے ۱۔ تمام حروف(۲)  ۲۔ فعل ماضی(۳)  ۳۔ امر حاضر معلوم ۴۔ فعل مضارع، نون جمع مؤنث اور نون تاکید کے ساتھ جیسے یضرِبَنَّ، یضرِبَن، لِیَضرِبَنَّ، لِیَضرِبَن ۵۔اسم غیر متمکن ٦۔اسم متمکن جب ترکیب میں واقع نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔

(۱)یعنی عامل کے مختلف ہونے سے اس کی آخر برقرار رہے۔

(۲)چاہے وہ عامل ہوں یا غیر عامل ۔

(۳)معلوم اور مجہول۔

۔۔۔۔۔۔

 

مبنی غیر اصل اور اس کا حکم

 

سوال: مبنی غیر اصل کتنی چیزیں ہیں۔

جواب:تین ہیں۱۔ اسم متمکن جب کہ ترکیب میں واقع نہ ہو جیسے زَید۲۔ فعل مضارع نون جمع مؤنث اور نون تاکید سے خالی ہو جیسے یَضرِبُ۔ ۳۔ اسم غیر متمکن کے تمام اقسام۔

سوال: مبنی غیر اصل کا حکم کیا ہے۔

جواب:اس کی آخر عوامل کے اختلاف سے مختلف نہ ہو۔

سوال: مبنی مضاف ہوتا ہے یا نہیں۔

جواب:غالب اسماء مبنیہ میں یہ ہے کے وہ مضاف نہیں ہوتے لیکن کچھ مضاف ہوتے ہیں جیسے حَیثُ، کَم خبریہ، اِذ،    اِذَا۔

 

 

 

                فصل: اسم غیر متمکن کے اقسام

 

سوال: اسم غیر متمکن کتنے قسم ہے۔

جواب:آٹھ قسم ہے ۱۔ مضمرات ۲۔ اسماء اشارات ۳۔ اسماء موصولات ٤۔اسماء افعال ۵۔اسماء اصوات ۶۔اسماء ظروف ۷۔اسماء کنایات ۸۔مرکب بنائی۔

 

ضمیر

 

سوال: مضمرات/ضمیر کسے کہتے ہیں۔

جواب:مضمرات جمع ہے مُضمرَ کی، مُضمرَ اور ضمیر ایک ہی چیز ہے۔

ضمیر کی لغوی معنیٰ ہے پوشیدہ/ چھپا ہوا۔ اور اصطلاح میں ضمیر کی تعریف کی جاتی ہے ، مَا وُضِعَ لِمُتَکَلِّمٍ اَو مُخَاطَبٍ اَوغَائِبٍ تَقَدَّمَ ذِکرُہٗ لَفظًا  اَو مَعنیً اَو حُکمًا۔

ضمیراس اسم کو کہتے ہیں جو متکلم یا مخاطب یا ایسے غائب کیلئے مقر ر کیا گیا ہو جس کا ذکر لفظًا یا معنیً یا حکماً پہلے ہوچکا ہو۔ لفظًا جیسے زیدًا ضَرَبتُہٗ۔ مَعنیً جیسے اِعدِلُوا ھُوَ اَقرَبُ لِلتَّقوَیٰ۔ حکمًا جیسے قُل ھُوَاللہُ اَحَدٌ اور ضمیر قصہ و شان اور  ضمیر افعال مدح و ذم جیسے نِعمَ الرَّجُلُ زَیدٌ۔

 

مرجع کی قسمیں

 

سوال: ضمیر کا مرجع کتنے قسم ہے۔

جواب:تین قسم ہے ۱۔ مرجع لفظی ۲۔ مرجع معنوی ۳۔ مرجع حکمی۔

مرجع لفظی: جو ماقبل میں صراحۃً ذکر ہو۔

مرجع معنوی: جو ما قبل میں صراحۃً مذکور نہ ہو۔

 

مرجع معنوی کی صورتیں

 

مرجع معنوی کی تین صورتیں ہیں ۱۔ مفرد جمع کے ضِمن /پیٹ میں  موجود ہو جیسے اَلمَرفُوعَاتُ ھُوَ مَا اشتَمَلَ عَلیٰ عَلَمِ الفَاعِلِیَّۃِ میں ھُوَ کی ضمیر مرفوع کی طرف لوٹ رہی ہے جو مرفوعات کے ضمن میں موجود ہے ۲۔ مشتق منہ، مشتق کے ضمن میں موجود ہو جیسے اِعدِلُوا ھُوَ اَقرَبُ لِلتَّقوَیٰ اسمیں ھُوَ عدل کی طرف لوٹ رہی ہے جو اِعدِلُوا / مشتق کے ضمن میں چھپا ہوا ہے۔

۳۔ ضمیر کا مرجع سیاق کلام / کلام کے چلانے سے سمجھا جائے جیسے وَلِاَبَوَیہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِنھُمُ السُّدُسُ اس میں اَبَوَیہِ کی ضمیر کا مرجع مَیِّت ہے جو راندش کلام سے سمجھا جا رہا ہے۔

مرجع حکمی  جو معھود فی الذھن، ذہن کے اندر موجود ہو اور اس کے دو قسم ہیں ۱۔ ضمیر شان ۲۔ ضمیر قصہ۔

سوال۔ کیا ضمیر غائب بغیر مرجع کے استعمال ہوتا ہے۔

جواب:بغیر مرجع کے ضمیر غائب کا آنا یہ اضمار قبل الذکر کہلاتا ہے جو کلام عرب میں ناجائز ہے جیسے ضَرَبتُہٗ میں نے اس کی پٹائی کی یہاں پتہ نہیں کس کی پٹائی ہوئی۔ البتہ زیدًا ضَرَبتُہٗ میں نے زید کی پٹائی کی یہ مثال جائز ہے۔

سوال: ضمیر کی اپنی مرجع سے مطابقت ہوتی ہے یا نہیں۔

جواب:جی ہاں پانچ چیزوں میں مطابقت ہوتی ہیں واحد، تثنیہ جمع اور مذکر و مؤنث میں۔

 

ضمیرالشان والقصۃ

 

سوال: ضمیر شان اور ضمیر قصہ کسے کہتے ہیں۔

جواب:جو ضمیر مذکر غائب کی بغیر مرجع کے جملہ سے پہلے آئے اور جملہ اس کی تفسیر کرے ایسی ضمیر کو ضمیر شان کہتے ہیں اس لیئے کے یہ ضمیر معھود فی الذھن کی طرف جو شان یا قصہ ہوتا ہے لوٹتی ہے جیسے ھُوَاللہُ اَحَدٌ(شان یہ ہے کہ)اللہ ایک ہے۔

اگر ضمیر مؤنث غائب کی جملہ سے پہلے آئے اور جملہ اس کی تفسیر کرے تو اس کو ضمیر قصہ کہتے ہیں جیسے اِنَّھَا زَینَبُ قَائِمَۃٌ۔ اور ترجمہ میں اس کی معنیٰ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور اگر کی جائے تو یہ کہہ سکتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ زینب کھڑی ہے۔

 

ضمیر مبہم

 

سوال:ضمیر مبہم کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس ضمیر کو کہتے ہیں جس کا مرجع متعین اور معلوم نہ ہو۔

 

ضمیر مرفوع، منصوب اور مجرور

 

سوال: ضمیر کتنے قسم ہے۔

جواب:تمام ضمیر۷۰ ہیں، ابتداءً ضمیر باعتبار اعراب کے تین قسم ہے۔

۱۔مرفوع، جو حقیقۃًیا  حکمًا رفعہ کی حالت میں ہو ۲۔ منصوب، جو حقیقۃً یا حکمًا نصبی حالت میں ہو ۳۔ مجرور، جو مضاف الیہ ہو یا جس پر حرف جر داخل ہو۔

 

ضمیر، متصل و منفصل

 

سوال: ضمیر باعتبار ما قبل/لفظی صورت کے کتنے قسم ہے۔

جواب:مرفوع، منصوب میں سے ہر ایک دو دو قسم ہے سوائے مجرور کے وہ ایک قسم ہے ۱۔ متصل۔۲۔ منفصل۔

۱۔مرفوع متصل۲۔ مرفوع منفصل ۳۔ منصوب متصل ۴۔ منصوب منفصل  ۵۔ مجرور متصل اور ان میں سے ہر ایک چودھ قسم ہے (۵x۱۴=۷۰) کل ستر قسم ہوئے۔

سوال: ضمیر متصل اور منفصل کسے کہتے ہیں۔

جواب: ضمیر متصل، (مل کر آنے والی ضمیر) وہ ہے جس کا مستقل تلفظ نہ ہوسکتاہو بلکہ کسی اسم یا فعل یا حرف کے ساتھ مل کر بولی جاتی  ہو۔  جیسے کِتابِی، کِتَابُنَا، اور ضمیر منفصل وہ ہے جو تلفظ میں ایک مستقل لفظ جیسی ہو جیسے اَنَا، اَنتَ وغیرہ۔

 

ضمیر، مرفوع متصل

 

سوال: ضمیر مرفوع متصل کسے کہتے ہیں۔

جواب:مرفوع کا معنیٰ ہے بلند کیا ہوا، متصل کا معنیٰ ہے ملا ہوا۔ اصطلاح میں اس ضمیر کو کہتے ہیں جو اپنے عامل/ فعل کے ساتھ ملا ہوا ہو جیسے ضَرَبتُ۔

سوال: ضمیر مرفوع متصل کتنے ہیں۔

جواب: وہ ۱۴  ہیں۔ تُ: میں ایک مرد یا ایک عورت۔  نا : ہم سب مرد یا عورتیں۔

تَ : تو ایک مرد۔ تِ: تو ایک عورت۔

 

ضمیر، مرفوع متصل (۱۴)

 

ضَرَبتُ تُ، ضمیر بارز صیغہ واحد متکلم مشترک      مارا میں ایک مرد یا ایک عورت نے

ضَرَبنَا   نَا، ضمیر بارز صیغہ جمع متکلم مشترک مارا  ہم دو مردوں یا دو عورتوں نے یا سب مردوں یا سب عورتوں نے

ضَرَبتَ تَ، ضمیر بارز صیغہ واحد مذکر مخاطب       مارا تو ایک مرد نے

ضَرَبتُمَا   تُمَا، ضمیر بارز صیغہ تثنیہ مذکر مخاطب       مارا تم دو مردوں نے

ضَرَبتُم  تُم، ضمیر بارز صیغہ جمع مذکر مخاطب  مارا تم سب مردوں نے

ضَرَبتِ تِ، ضمیر بارز صیغہ واحد مؤنث مخاطب     مارا تو ایک عورت نے

ضَرَبتُمَا   تُمَا،  ضمیر بارز صیغہ تثنیہ مؤنث مخاطب     مارا تم دو عورتوں نے

ضَرَبتُنَّ تُنَّ،  ضمیر بارز صیغہ جمع مؤنث مخاطب      مارا تم سب عورتوں نے

ضَرَبَ  ھُوَ، ضمیر مستتر صیغہ واحد مذکر غائب مارا اس ایک مرد نے

ضَرَبَا   الف، ضمیر بارز صیغہ تثنیہ مذکر غائب      مارا ان دو مردوں نے

ضَرَبُوا   واو، ضمیر بارز صیغہ جمع مذکر غائب  مارا ان سب مردوں نے

ضَرَبَت ھِیَ، ضمیر مستتر صیغہ واحد مؤنث غائب     مارا اس ایک عورت نے

ضرَبَتَا   الف،  ضمیر بارز صیغہ تثنیہ مؤنث غائب     مارا ان دو عورتوں نے

ضَرَبنَ  نون، ضمیر بارزصیغہ جمع مؤنث غائب       مارا ان سب عورتوں نے

 

ضمیر متکلم، مخاطب اور غائب

 

سوال: ضمیر باعتبار ذات کتنے قسم ہے۔

جواب: وہ تین  قسم ہے ۱۔ متکلم ۲۔ مخاطب ۳۔ غائب، لیکن صرفی حضرات پہلے اعتبار کرتے ہیں غائب کا، پھر مخاطب اور پھر متکلم کا جیسے ضَرَبَ، ضَرَبَا اور نحوی حضرات پہلے اعتبار کرتے ہیں متکلم کا، پھر مخاطب کا، پھر غائب کا جیسے ضَرَبتُ، ضَرَبنَا۔

 

ضمیر مرفوع متصل کا حکم

 

سوال: ضمیر مرفوع متصل ترکیب میں کیا واقع ہوتا ہے۔

جواب:۱۔فعل کا فاعل ہوتا ہے جیسے ضَرَبتُ۲۔ اگرفعل مجہول ہو تو نائب فاعل ہوتا ہے ، جیسے ضُرِبتُ۔

 

ضمیر مرفوع منفصل اور اس کا حکم

 

سوال: ضمیر مرفوع منفصل کسے کہتے ہیں۔

جواب:منفصل کی معنیٰ ہے جدا ہونے والا (الگ آنے والی ضمیر )یعنی وہ ضمیر جو اپنے عامل کے ساتھ ملا ہوا نہ ہو بلکہ جدا ہو جیسے اَنَا ضَارِبٌ۔

سوال: ضمیر مرفوع منفصل کتنے ہیں۔

جواب: وہ چودہ ہیں۔

 

ضمیر، مرفوع منفصل

 

اَنَا      میں ایک مرد یا ایک عورت واحد متکلم  مشترک کے لئے

نَحنُ    ہم سب مرد یا سب عورتیں/دو مرد یا دو عورتیں      جمع متکلم مشترک کے لئے

اَنتَ   تو ایک مرد      واحد مذکر مخاطب کے لئے

اَنتُمَا     تم دو مرد        تثنیہ مذکر مخاطب کے لئے

اَنتُم    تم سب مرد     جمع مذکر مخاطب کے لئے

اَنتِ   تو ایک عورت   واحد مؤنث مخاطب کے لئے

اَنتُمَا     تم دو عورتیں    تثنیہ مؤنث مخاطب کے لئے

اَنتُنَّ    تم سب عورتیں  جمع مؤنث مخاطب کے لئے

ھُوَ     وہ ایک مرد      واحد مذکر غائب  کے لئے

ھُمَا     وہ دو مرد تثنیہ مذکر غائب کے لئے

ھُم     وہ سب مرد     جمع  مذکر غائب کے لئے

ھِیَ    وہ ایک عورت   واحد مؤنث غائب کے لئے

ھُمَا     وہ دو عورتیں    تثنیہ مؤنث غائب کے لئے

ھُنَّ    وہ سب عورتیں  جمع مؤنث غائب کے لئے

سوال: ضمیر مرفوع منفصل ترکیب میں کیا واقع ہوتا ہے۔

جواب:یہ ترکیب میں کئی چیزیں بنتا ہے ۱۔مبتدا واقع ہوتا ہے جیسے اَنَا زَیدٌ۲۔ خبر جبکہ آخر میں آئے  جیسے زَیدٌ اَنَا۔ ۳۔ فاعل جبکہ اِلَّا کے بعد آئے جیسے مَا ضَرَبَ اِلَّا اَنَا ۴۔ فاعل کا تاکید جبکہ ضمیر مرفوع متصل کے بعد آئے جیسے ضَرَبتُ اَنَا  ۵۔نائب فاعل ۶۔ تاکید نائب فاعل۔ نیز یہ مرفوعات میں سے کوئی بھی قسم بن سکتے ہیں۔

 

ضمیر منصوب متصل کی تعریف اور حکم

 

سوال: ضمیر منصوب متصل کسے کہتے ہیں اور وہ ترکیب میں کیا واقع ہوتا ہے۔

جواب:منصوب معنیٰ نصب دیا ہوا اور اصطلاح میں اس ضمیر کو کہتے ہیں جو اپنے عامل ناصب کے ساتھ ملا ہوا ہو۔

۱۔یہ ترکیب میں مفعول بہ واقع ہوتا ہے ، جیسے ضَرَبَنِی، اَکرَمَنِی، ۲۔حروف مشبہ بالفعل کا اسم جیسے اِنَّنِی وغیرہ۔

سوال: ضمیر منصوب کتنی چیزوں سے متصل ہوتا ہے۔

جواب:دو چیزوں سے متصل ہوتا ہے ۱۔ فعل کے ساتھ جیسے ضَرَبَنِی ۲۔ حرف کے ساتھ جیسے اِنَّنِی وغیرہ۔

سوال:  ضمیر منصوب متصل کتنے ہیں۔

جواب:وہ چودہ  ہیں:

 

ضمیر، منصوب متصل

 

ضَرَبَنِی ی، واحد متکلم مشترک کے لیئے      مارا  اس ایک مرد نے مجھ ایک مرد یا ایک عورت کو

ضَرَبَنَا   نَا، جمع متکلم مشترک کے لیئے       مارا اس ایک مرد نے ہم سب مردوں  یا سب عورتوں یا دو مردوں یا دو عورتوں کو

ضَرَبَکَ کَ واحد مذکر مخاطب کے لیئے     مارا اس ایک مرد نے تجھ ایک مرد کو

ضَرَبَکُمَا  کُمَا، تثنیہ مذکر مخاطب کے لیئے      مارا اس ایک مرد نے تم دو مردوں کو

ضَرَبَکُم  کُم، جمع مذکر مخاطب کے لیئے       مارا اس ایک مرد نے تم سب مردوں کو

ضَرَبَکِ کِ، واحد مؤنث مخاطب کے لیئے   مارا اس ایک مرد نے تجھ ایک عورت کو

ضَرَبَکُمَا  کُمَا، تثنیہ مذکر مخاطب کے لیئے      مارا اس ایک مرد نے تم دو مردوں کو

ضَرَبَکُنَّ کُنَّ، جمع مؤنث مخاطب کے لیئے     مارا اس ایک مرد نے تم سب عورتوں کو

ضَرَبَہٗ   ہٗ،  واحد مذکر غائب کے لیئے         مارا اس ایک مرد نے اس ایک مرد کو

ضَرَبَھُمَا ھُمَا، تثنیہ مذکر غائب کے لیئے       مارا اس ایک مرد نے ان دو مردوں کو

ضَرَبَھُم ھُم، جمع مذکر غائب کے لیئے        مارا  اس ایک مرد نے ان سب مردوں کو

ضَرَبَھَا  ھَا، واحد مؤنث غائب کے لیئے      مارا اس ایک مرد نے اس ایک عورت کو

ضَرَبَھُمَا ھُمَا، تثنیہ مؤنث غائب کے لیئے     مارا اس ایک مرد نے ان دو عورتوں کو

ضَرَبَھُنَّ        ھُنَّ، جمع  مؤنث غائب کے لیئے     مارا اس ایک مرد نے ان سب عورتوں کو۔

سوال: ضمیر منصوب متصل میں ہٗ کا  ضمہ کس طرح پڑھا جاتا ہے۔

جواب:حرف مفتوح و مضموم کے بعد اشباع ہو کر "و "معروف کی طرح پڑھا جاتا ہے جیسے ضَرَبَہٗ اور حرف ساکن کے بعد صرف ضمہ کی آواز دیتا ہے جیسے اِضرِبہُ۔

 

نون الوقایہ

 

سوال: ضَرَبَنِی میں ی تو ضمیر ہے لیکن نون کس چیز کا ہے۔

جواب۔ یہ نون الوقایہ ہے معنیٰ بچاؤ اور حفاظت کا نون جو فعل کے آخر کو بچانے کے لئے "ی” متکلم سے پہلے لایا جاتا ہے۔ اس سے ہر ایک صیغے کا آخر تغیر سے محفوظ رہ جاتا ہے۔

 

نون الوقایہ  کے مواقع

 

سوال: نون وقایہ کون سے مقامات پر لایا جاتا ہے۔

جواب:چند مواقع میں ما قبل کی حفاظت کیلئے یہ نون بڑھایا جاتا ہے ۱۔ ماضی ۲۔ مضارع ۳۔امر کے کسی بھی صیغہ کے آخر میں جب یائے متکلم کی ضرورت پڑے تو پہلے یہ نون اس ی پر لگا دینا چاہئے ، جیسے عَلَّمَنِی، عَلَّمُونِی، عَلَّمَتنِی وغیرہ ۴۔ یہ نون بعض حروف کے ساتھ بھی آتا ہے ، جیسے مِن، عَن، اِنَّ وَاَخَواتِھَا کے ساتھ جیسے مِنِّی اِنَّنِی، کَاَنَّنِی، لَیتَنِی، لٰکِنَّنِی، اور اختصارًا لٰکِنِّی بھی کہا جاتا ہے۔

 

ضمیر منصوب منفصل کی تعریف اور حکم

 

سوال: ضمیر منصوب منفصل کسے کہتے ہیں اور وہ ترکیب میں کیا  واقع ہوتا ہے۔

جواب:وہ ضمیر جو اپنے عامل فعل کے ساتھ ملا ہوا نہ ہو بلکہ جدا ہو، اور اس کو ضمیر اضافی بھی کہتے ہیں۔

۱۔ وہ ترکیب میں مفعول بہ مقدم بنتا ہے جبکہ فعل سے پہلے آئے جیسے اِیَّاکَ نَعبُدُ ۲۔ یا حروف مشبہ بالفعل کے اسم کی تاکید بنتا ہے جبکہ اس کے اسم کے بعد آئے جیسے اِنَّنِی اور اِیَّایَ۔ ۳۔ اسی طرح ضمیر منصوب، مفعول کے علاوہ باقی منصوبات کے لئے بھی آتا ہے۔

سوال: ضمیر منصوب منفصل کتنے ہیں۔

جواب:وہ چودہ ہیں۔

 

ضمیر منصوب منفصل

 

اِیَّایَ    خاص مجھ ایک مرد یا ایک عورت کو  واحد متکلم  مشترک کے لئے

ایَّانَا     خاص ہم سب مردوں یا سب عورتوں یا دو مردوں یا دو عورتوں کو       جمع متکلم مشترک کے لئے

ایَّاکَ   خاص تجھ ایک مرد کو      واحد مذکر مخاطب کے لئے

اِیَّا کُمَا    خاص تم دو مردوں کو     تثنیہ مذکر مخاطب کے لئے

اِیَّاکُم    خاص تم سب مردوں کو   جمع مذکر مخاطب کے لئے

اِیَّاکِ   خاص تجھ ایک عورت کو   واحد مؤنث مخاطب کے لئے

اِیَّا کُمَا    خاص تم دو عورتوں کو     تثنیہ مؤنث مخاطب کے لئے

اِیَّاکُنَّ   خاص تم سب عورتوں کو   جمع مؤنث مخاطب کے لئے

اِیَّاہُ     خاص اس ایک مرد کو     واحد مذکر غائب کے لئے

اِیَّاھُمَا    خاص ان دو مردوں کو     تثنیہ مذکر غائب کے لئے

اِیَّاھُم   خاص ان سب مردوں کو  جمع مذکر غائب کے لئے

ایَّا ھَا    خاص اس ایک عورت کو   واحد  مؤنث غائب کے لئے

اِیَّاھُمَا    خاص ان دو عورتوں کو    تثنیہ مؤنث غائب کے لئے

اِیَّا ھُنَّ  خاص ان سب عورتوں کو  جمع مؤنث غائب کے لئے

 

ضمیر مجرور متصل کی تعریف اور حکم

 

سوال: ضمیر مجرور متصل کسے کہتے ہیں اور وہ ترکیب میں کیا واقع ہوتا ہے۔

جواب:اس ضمیر کو کہتے ہیں جو حرف جارہ یا مضاف کے ساتھ متصل ہو اور وہ ترکیب میں دو چیزیں واقع ہوتا ہے ۱۔ مجرور ہوتا ہے حرف جارہ کی وجہ سے جیسے لِی، لَنَا پھر وہ کبھی لفظًا مجرور ہوتا ہے ، جیسے بِزَیدٍ کبھی مَحَلًّا جیسے لَکَ وغیرہ۔ ۲۔مضاف الیہ جیسے غُلاَمِی، غُلَامُہٗ۔

نوٹ: واضح رہے کہ ضمیر مجرور متصل، بعینہ ضمیر منصوب متصل ہی ہیں فرق صرف استعمال کا ہے۔ جب فعل کے بعد آئیں یا حروف مشبہ بالفعل کے بعد آئیں تو یہ منصوب ہوتے ہیں اور جب اسم کے بعد یا حروف جارہ کے بعد آئیں تو یہ مجرور ہوتے ہیں۔

سوال: ضمیر مجرور متصل میں ہٗکس طرح پڑھاجاتا ہے۔

جواب: ۱۔ ہٗ کا ضمہ حرف مفتوح و مضموم کے بعد مجرور متصل میں مثل منصوب متصل کے اِشباع کے ساتھ پڑھا جاتا ہے ، جیسے لَہٗ ۲۔اگر ماقبل میں حرف مکسور ہو تو کسره اشباع ہو کر  ی معروف کی مانند پڑھا جائے گا جیسے بِہٖ ۳۔اگر ماقبل میں ی ساکن ہو تو اس پر صرف کسرہ پڑہیں گے ، جیسے عَلَیہِ – فِیہِ۔

سوال: ضمیرمجرور پر کون سے حروف جارہ داخل ہوتے ہیں۔

جواب:عموماً یہ حروف داخل ہوتے ہیں۔ بَا۔لام۔مِن۔فی۔علیٰ۔اِلیٰ۔رُبّ۔عَدا۔

سوال: ضمیر مجرور کتنے ہیں۔

جواب:وہ چودہ ہیں۔

 

ضمیر مجرور متصل

 

لِی     ی،  مجھ ایک مرد یا ایک عورت کیلئے   واحد متکلم مشترک کے لئے

لَنَا     نَا، ہم سب مردوں یا  سب عورتوں یا دو مردوں یا دو عورتوں کے لئے      جمع متکلم مشترک کے لئے

لَکَ    کَ۔ تجھ ایک مرد کے لئے واحد مذکر مخاطب کے لئے

لَکُمَا     کُمَا، تم دو مردوں کے لئے   تثنیہ مذکر مخاطب کے لئے

لَکُم     کُم، تم سب مردوں کے لئے        جمع مذکر مخاطب کے لئے

لَکِ    کِ، تجھ ایک عورت کے لئے       واحد مؤنث مخاطب کے لئے

لَکُمَا     کُمَا، تم دو عورتوں کے لئے   تثنیہ مؤنث مخاطب کے لئے

لَکُنَّ    کُنَّ، تم سب عورتوں کے لئے       جمع مؤنث مخاطب کے لئے

لَہٗ      ہٗ، اس ایک مرد کے لئے    واحد مذکر غائب کے لئے

لَھُمَا    ھُمَا،  ان دو مردوں کے لئے تثنیہ مذکر غائب کے لئے

لَھُم    ھُم، ان سب مردوں کے لئے       جمع مذکر غائب کے لئے

لَھَا     ھَا، اس ایک عورت کے لئے        واحد  مؤنث غائب کے لئے

لَھُمَا    ھُمَا، ان دو عورتوں کے لئے تثنیہ مؤنث غائب کے لئے

لَھُنَّ   ھُنَّ، ان سب عورتوں کے لئے     جمع مؤنث غائب کے لئے

 

میر فصل

 

سوال: ضمیر فصل کسے کہتے ہیں۔

جواب:وہ ضمیر جو مبتدا اور خبر کے درمیان آئے جبکہ دونوں معرفہ ہوں جیسے زَیدٌھُوَالکَاتِبُ اوریہ خبر اور صفت میں فرق کیلئے آتا ہے۔

 

ضمیر بارز و مستتر

 

سوال: ضمیر مرفوع متصل، ظہور اور عدم ظہور کے اعتبار سے کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے ۱۔ بَارِز معنیٰ ظاہر جو لفظوں میں پڑھا جائے جیسے ضَرَبُوا میں واو ۲۔ مُستَتَر معنیٰ چھپا ہوا، جو لکھنے اور پڑھنے میں نہ آئے فقط سمجھا جاتا ہو، جیسے ضَرَبَ میں ھُوَ۔ضَرَبَت میں ھِیَ۔

سوال: مذکورہ ان ضمیروں کو مرفوع کیوں کہا گیا ہے ، حالانکہ ضَرَبتَ، ضَرَبتِ، میں رفعہ نہیں ہے۔

جواب:چونکہ یہ ضمائر، فاعل ہیں اس لئے انہیں مرفوع کہا جاتا ہے ، نیز یہ مرفوع محلًا ہوتے ہیں، لفظًا نہیں، کیونکہ یہ مبنی ہیں۔

 

ضمیر عارضی و دائمی

 

سوال: ضمیر مستتر کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے عارضی اور دائمی۔

۱۔ عارضی(۱) /جائز الاستتار اس وقت ہوتا ہے جب فعل یا شبہ فعل کا فاعل اسم ظاہر نہ ہو جیسے   ضَرَبَ میں ھُوَ، ضَرَبَت میں ھِیَ۔

 

ضمیر مستتر عارضی کا حکم

 

سوال: ضمیر مستتر عارضی کا حکم کیا ہے۔

جواب:جب فاعل اسم ظاہر ہو تو ضمیر لانے کی ضرورت نہیں ہوتی جیسے ضَرَبَ زَیدٌ لیکن جب فاعل اسم ظاہر نہ ہو گا تو ضمیر لانے کی ضرورت ہو گی، جیسے زَیدٌ ضَرَبَ، اس میں ھُوَ ضمیر نکالا جائے گا۔

۲۔ضمیر مستتر دائمی/واجب الاستتار وہ ہے جو ہمیشہ فعل میں چھپا ہوا ہو کبھی ظاہر نہ ہو جیسے اَضرِبُ میں اَنَا۔

 

ماضی معلوم میں ضمائر مرفوعه مستتر جائز الاستتار

 

سوال: فعل ماضی معلوم کے کتنے صیغوں میں ضمیر مستتر ہوتا ہے۔

جواب:دو صیغوں میں ضمیر مستتر عارضی ہوتا ہے (۱) ۱۔ فَعَلَ واحد مذکر غائب میں ھُوَ

۲۔ فَعَلَتْ واحد مؤنث غائب میں ھِیَ۔

سوال: ماضی معلوم کے کتنے صیغوں میں ضمیر بارز ہوتا ہے۔

جواب: بارہ صیغوں کا فاعل مُتَعَیَّن/ ضمیر بارز ہوتا ہے ، جیسے فَعَلَا میں الف، فَعَلُوا میں واو، فَعَلَتَا میں الف۔  فَعَلنَ میں نون، فَعَلتَ میں تَاء مفتوحہ، فَعَلتُمَا میں تُمَا، فَعَلتُم میں(۲) تُم،  فَعَلتِ میں تاء مکسورہ، فَعَلتُما میں تُمَا، فَعَلتُنَّ میں تُنَّ، فَعَلتُ میں تاء مضمومہ۔ فَعَلنَا میں نَا۔

نوٹ: یہ سب ضمیریں بارز ہیں، آنکھوں سے نظر آ رہی ہیں، مرفوع کیوں ہیں۔ فاعل کی علامت ہیں۔ متصل کیوں۔ ملی ہوئی ہیں۔بارز کیوں۔ بغیر عینک کے بھی نظر آتی ہیں۔

سوال: کیا فعل ماضی مجہول میں بھی ضمائر بارز اور مستتر ہوتے ہیں۔

جواب:ماضی مجہول کے صیغوں میں بھی اسی طرح ضمائر نکالے جائیں گے ، لیکن وہ فاعل نہیں، نائب فاعل بنیں گے جیسے فُعِلَا میں الف ضمیر نائب فاعل ہے۔

۔۔۔۔۔

(۱)یعنی دو صیغوں کا فاعل غیر معین ہے۔

(۲)اس میں دراصل فاعل واو جمع ہے، جو ثقالت کی وجہ سے محذوف ہے اور تُمۡ کو فاعل بنادیا گیا ہے، اور کبھی واو کے ساتھ بھی اظہار کردیتے ہیں جیسے اِن اَطَعتُمُوہُ۔

۔۔۔۔۔

مضارع میں ضمائر  بارزہ  اور مستترہ

 

سوال: فعل مضارع کے کتنے صیغوں میں ضمیر مستتر ہوتا ہے۔

جواب:دو صیغوں میں ضمیر مستترعارضی ہوتا ہے

۱۔ یَفعَلُ واحد مذکر غائب میں ھُوَ ۲۔تَفعَلُ واحد مؤنث غائب میں ھِیَ۔

اور تین صیغوں میں ضمیر مستتر دائمی ہوتا ہے۔

۱۔تَفعَلُ واحد مذکر مخاطب میں اَنتَ، ۲۔اَفعَلُ واحد متکلم میں اَنَا

۳۔ نَفعَلُ جمع متکلم میں نَحنُ۔

سوال: مضارع کے کتنے صیغوں میں ضمیر مرفوع متصل بارز ہوتا ہے۔

جواب:۹صیغوں میں ضمیر بارز ہوتا ہے ، چار ان میں سے تثنیہ ہیں۔

یعنی  یَفعَلَانِ تثنیہ مذکر غائب میں  الف۔ یَفعَلُونَ جمع مذکر غائب میں واو

تَفعَلَانِ تثنیہ مؤنث غائب میں الف۔ یَفعَلنَ جمع مؤنث غائب میں نون

تَفعَلَانِ تثنیہ مذکر مخاطب میں الف۔تَفعَلُونَ جمع مذکر مخاطب میں واو

تَفعَلَانِ تثنیہ مؤنث مخاطب میں الف۔ تَفعَلنَ جمع مؤنث  میں نون

تَفعَلِینَ واحد مؤنث مخاطب میں اختلاف ہے ، عند الجمھور یاء ضمیر بارز ہوتا ہے اور بعض حضرات کے نزدیک اس میں اَنتِ ضمیر مستتر دائمی ہوتا ہے۔

سوال: کیا مضارع مجہول میں بھی ضمائر بارز و مستتر ہوتے ہیں۔

جواب:جی ہاں مضارع مجہول میں بھی مضارع معلوم کی طرح ضمائر نکالے جاتے ہیں لیکن وہ فاعل نہیں، نا ئب فاعل ہوتے ہیں، جیسے یُفعَلَانِ میں الف ضمیر نائب فاعل ہے۔

 

فعل امر اور نہی میں ضمائر

 

سوال: فعل امر اور نہی حاضر میں ضمیر بارز ہوتا ہے یا مستتر۔

جواب:امر، نہی اور فعل جحد اور  مضارع مؤکد بلن ناصبہ کو مضارع پر قیاس کر لینا چاہئے یعنی امر مخاطب کے فقط ایک صیغہ واحد مذکر میں ضمیر مستتر ہوتا ہے ، جیسے اِفعَل میں اَنتَ۔باقی صیغوں میں ضمیر بارز ہوتا ہے ، جیسے اِفعَلَا میں الف ضمیر بارز۔اِفعَلُوا میں واو ضمیر بارز۔اِفعَلِی میں اختلاف ہے۔ عند الاکثر یاء ضمیر بارز ہوتا ہے۔ وعند البعض اَنتِ ضمیر مستتر دائمی ہوتا ہے۔ اِفعَلَا میں الف ضمیر بارز۔ اِفعَلنَ میں ن ضمیر بارز، اور لَاتَضرِب میں اَنتَ۔ لَم یَضرِب میں ھُوَ۔ لَن یَّضرِبَ میں ھُوَ۔

امر غائب میں ضمیر بارز و مستتر

سوال: امر غائب میں کون سے ضمائر بارز ہوتے ہیں اور کون سے مستتر۔

جواب:چار صیغوں میں ضمیر مستتر ہوتا ہے ۱۔واحد مذکر غائب، لِیَضرِب میں ھُوَ

۲۔واحدمؤنث غائب، لِتَضرِب میں ھِیَ ۳۔واحد متکلم، لِاَضرِب میں اَنَا ۴۔جمع متکلم، لِنَضرِب میں نَحنُ۔

اور چار میں ضمیر بارز ہوتا ہے۔

۱۔تثنیہ مذکر غائب، لِیَضرِبَا میں الف ۲۔جمع مذکر غائب، لِیَضرِبُوا میں واو۳۔تثنیہ مؤنث غائب، لِتَضرِبَا میں الف ۴۔جمع مؤنث غائب، لِیَضرِبنَمیں ن۔

اسماء مشتقہ میں ضمائر بارز و مستتر

سوال: اسماء مشتقہ میں ضمائر بارز ہوتے ہیں یا مستتر۔

جواب:۱۔ مشتقات میں سے اسم فعل بمعنیٰ امر۲۔ اسم التفضیل ۳۔ فعل التعجب ۴۔اسم آلہ میں ضمیر غائب مستتر دائمی ہوتا ہے اور ان میں تذکیر تانیث کا لحاظ نہیں ہوتا۔

۱۔البتہ اسم فاعل ۲۔ اسم مفعول ۳۔صفت مشبہ ۴۔ اسم فعل بمعنیٰ ماضی۵۔ مبالغہ کے تمام صیغوں میں ضمیر مستتر عارضی ہوتا ہے یعنی ان کے شروع میں جیسا ضمیر ہو گا ویسا ہی ضمیر مستتر ان میں نکالا جائے گا۔

اور یہ ضمیریں تکلم خطاب اور غیبت میں ما قبل کے تابع ہوتی ہیں۔ مثلاً اَنتُم اٰکِلُونَ طَعَامًا میں اٰٰکِلُونَ کا ضمیر مستتر، اَنتُم ہو گا، نہ کہ ھُماور نَحنُ اٰکِلُونَ طَعَامًا  میں نَحنُ ضمیر مستتر ہو گا، ان میں الف واو، فقط علامت تثنیہ و جمع ہیں، فاعل نہیں۔ جیسے ھُوَ ضَارِبٌ۔ھُوَ مَضرُوبٌ، ھُوَ حَسَنٌ وغیرہ، البتہ اگر صیغہ صفاتی کے شروع میں اسم ظاہر ہو تو وہاں ہمیشہ ضمیر غائب نکالا جائے گا جیسے زیدٌ ضَارِبٌ۔زَیدٌ ضَرَّابٌ۔ یہاں ضَارِبٌ اور ضَرَّابٌ میں ھُوَ مستتر ہے۔ البتہ مصدر، اسم ظرف اور اسم اٰلہ میں ضمائر نہیں ہوتے۔

 

اسم فاعل میں ضمائر

 

اسم فاعل میں ضمائر بصورت غائب

ضَارِبٌ ضَارِبَانِ ضَارِبُونَ        ضَارِبَۃٌ  ضَارِبَتَانِ       ضَارِبَاتٌ       ضَوَارِبُ        ضُوَیرِبٌ        ضُوَیرِبَۃٌ

ھُوَ     ھُمَا     ھُم     ھِیَ    ھُمَا     ھُنَّ    ھُنَّ    ھُوَ     ھِیَ

ضمائر بصورت خطاب وتکلم

اَنتَ   اَنتُمَا     اَنتُم    اَنتِ   اَنتُمَا     اَنتُنَّ    اَنتُنَّ    اَنتُنَّ    اَنتُنَّ

اَنَا      نَحنُ    نَحنُ    اَنَا      نَحنُ    نَحنُ    نَحنُ    نَحنُ    نَحنُ

 

سوال: ضمائر مبنی اصل تو نہیں پھر ان کی مبنی اصل سے کس چیز میں مشابہت ہے۔

جواب:مشابہت/مناسبت مؤثرہ کی کئی صورتیں ہیں ١۔شِبہ وضعی۲۔شبہ اِفتقاری۳۔شِبہ اِستعمالی ۴۔شِبہ اِہمالی 5۔شِبہ نِیابتی ومعنوی، لیکن ضمائر کی مبنی اصل میں سے حروف کے ساتھ مشابہت، (شِبہ )و ضعی ہے وہ یہ ہے کہ جس میں اسم کا وزن حرف کے وزن کے مشابہ ہو(۱)  جیسے ضَرَبتُ میں تُ، تا وباء حرف جارہ سے مشابہ ہے اور قُمنَا میں نَا دو حرفی ہے جو قَد اوربَل سے مشابہ ہے ، نیز اکثر ضمیروں کی وضع بھی ایک یا دو حرف پر ہے ، البتہ زائد حروف والے ضمائر طَردًا  لِّلبَابِ، باب کی مناسبت کی وجہ سے مبنی ہیں۔

۔۔۔۔

(۱) یعنی اسم کی وضع ایک حرف یا دو حرف پر ہو تو مضمرات حروف کے ساتھ احتیاج میں مناسبت کی وجہ سے اسم غیر متمکن ہیں۔

۔۔۔۔۔۔

 

اسم اشارہ

 

سوال: اسماء اشارہ کسے کہتے ہیں۔

جواب:اشارہ کی لغوی معنی ہے اشارہ کرنا، دینا اور اصطلاح میں مَادَلَّ عَلیٰ مُشَار اِلیہ، اشارہ وہ اسم ہے جس کو مشار الیہ کی تعیین کے لئے وضع کیا گیا ہو جیسے ھٰذَا زَیدٌ۔ یہ زید ہے۔ ھٰذھٖ ھِندٌ۔ یہ ھندہ ہے۔

سوال: اسم اشارہ میں کتنی چیزیں ہوتی ہیں۔

جواب:چار چیزیں ہوتی ہیں۔

۱۔اسم اشارہ، جس لفظ سے اشارہ کیا جائے ۲۔ مُشِیر، اشارہ کرنے والا۔

۲۔ مشارٌالیہ، جس کی طرف اشارہ کیا جائے ۴۔ مخاطب، جس کو اشارہ کیا جائے۔

سوال: اشارہ کون سی چیز کی طرف کیا جاتا ہے۔

جواب:اسماء اشارہ سے اشارہ، حِسِّییعنی ظاہری چیزوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے (۱) جیسے ھٰذا رَجُلٌ (یہ مرد)۔

سوال: کیا مشار الیہ محذوف بھی ہوتا ہے۔

جواب:جی ہاں مشار الیہ کلام میں اکثر  محذوف ہوتا ہے ، قرینہ سے اس کو نکالا جاتا ہے جیسی ھٰؤُلَاءِ اَصحَابِی اَی ھٰؤلَاءِ الرِّجَالُ اَصحَابِی۔

سوال: کیا مشار الیہ مقدم بھی ہوتا ہے۔

جواب:جی ہاں مشار الیہ اگر مرکب اضافی ہو تو اسم اشارہ کو مؤخر اور مشار الیہ کو مقدم کر دیا جاتا ہے جیسے قرآن مجید میں ہے اِذھَب بِّکِتَابِی ھٰذَا۔ کِتَابِی ھٰذَا۔غُلَامِی ھٰذَا۔أِمرَأَتِی ھٰذہٖ۔ ورنہ مُشَار اِلَیہ "ھٰذاکتابی” مؤخر کرنے سے بعض اوقات مشکل ہو جاتی ہے کہ یہ مشار الیہ ہے یا خبر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔

(۲)یعنی محسوس یا  کالمحسوس چیز کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ پس جہاں اشارہ حسیہ نہ ہوگاوہ مجاز پر محمول ہوگا جیسے ذالکم اللہ ربکم یہ ہے اللہ جو تمہارا پالنے والا ہے، اس لیئے کہ اللہ تعالیٰ اشارہ حسیہ سے منزہ ہے۔ (روایۃ النحو)۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

سوال: اسماء اشارہ کتنے ہیں۔

جواب:یہ چودہ الفاظ ہیں، ذَا، ذَانِ، ذَینِ، تَا، تَانِ، تَینِ، تِی، تِہ، تِھِی، ذِی، ذِہ،  ذِھِی، اُولَاءِ، اُولیٰ۔

اسم اشارہ با معنی و استعمال

ذَا      یہ ایک مرد      صيغہ واحد مذکر کیلئے       رفعہ کی حالت میں

ذَانِ    یہ دو مرد        صيغہ تثنیہ مذکر کیلئے       رفعہ کی حالت میں

ذَینِ    یہ دو مرد        صيغہ تثنیہ مذکر کیلئے       نصبی اور جری حالت میں

تَا، تِی، تِہ، تِھِی، ذِی، ذِہ، ذِھِی       یہ ایک عورت   صيغہ واحد مؤنث کیلئے     رفعہ کی حالت میں

تَانِ    یہ دو عورتیں    صيغہ تثنیہ مؤنث کیلئے     رفعہ کی حالت میں

تَینِ    یہ دو عورتیں    صيغہ تثنیہ مؤنث کیلئے     نصبی اور جری حالت میں

اُولَاءِ،۔اُولیٰ      یہ سب مرد یا عورتیں     صيغہ جمع مذکر اور جمع مؤنث مشترک کیلئے     ہر حالت میں

سوال: اسماء اشارہ  یہی ہیں یا اور بھی ہیں۔

جواب:کچھ اور بھی اشارے استعمال ہوتے ہیں ۱۔ ثَمَّ، اس سے دور کی جگہ کی طرف اشارہ کیا جاتا  ہے۔اور یہ ظرف مکان میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ثَمَّ وَلَدٌ یَلعَبُ وہاں ایک بچہ کھیل رہا  ہے۔ ۲۔ اسی طرح مکان  قریب کیلیے ھِنَا۔ ۳۔مکان بعید کے لیے ھُنَاکَ  ۴۔ ھُنَالِکَ استعمال ہوتے ہیں۔

 

اسم اشارہ، قریب، بعید و متوسطہ

 

سوال: اسماء اشارہ باعتبار مشار الیہ کے کتنے قسم ہے۔

جواب:تین قسم ہے ، قریب، متوسط، بعید۔

۱۔ مشار الیہ قریب کیلئے شروع میں "ھا” تنبیہ بڑھائی جاتی ہے جیسے ھٰذَا، ھٰذَینِ، ھٰتَا، ھٰتَانِ، ھٰتِی وغیرہ۔

۲۔ مشارالیہ متوسط کیلئے آخر میں کاف خطاب بڑھایا جاتا ہے ، (۱) جیسے :

ذَاکَ، ذَاکُمَا، ذَاکُم، تَاکَ، تَیکُمَا، ذَاکُم

تَاکَ، تَاکُمَا، تَاکُم، تَاکِ، تَاکُمَا، تَاکُنَّ

اُولَاکَ، اُولَاکُمَا، اُولاَکُم، اُولَاکِ، اُولَاکُمَا، اُولَاکُنَّ

ذَینِکَ، ذَینِکُمَا، ذَینِکُم، ذَینِکِ، ذَینِکُمَا، ذَینِکُنَّ

۳۔ مشارالیہ بعید کیلئے کاف اور لام کو  بڑھا يا جاتا ہے ، جیسے ذَالِکَ (وہ ایک) ذَالِکُمَا(وہ دو) ذَالِکُم(وہ سب) ذَالِکِ، ذَالِکُمَا، ذَالِکُنَّ۔ البتہ تَانِ. ذَانِ میں کاف لگانے کے بعد لام کو لایاجائے گا تو لام اپنی اصلی صورت پر نہیں رہے گا، بلکہ نون ہو کر نون میں مدغم ہو جائے گا، جیسے ذَانِّکَ، ذَانِّکُمَا، ذَانِّکُم، ذَانِّکِ، ذَانِّکُمَا، ذَانِّکُنَّ۔ یہی حال تَانِّکَ کا ہے۔

سوال: قرآن مجید میں ہے ذَالِکَ الکِتَابُ یہ اسم اشارہ بعید کے لیے ہے حالانکہ کتاب (قرآن مجید ) تو قریب ہے۔

جواب:۱۔ یہ اشارہ اس کتاب کی طرف ہے جو لوح محفوظ میں موجود ہے ۲۔ مشار الیہ کا بُعد دو قسم ہے حِسِّی۔ رُتَبِی، یہاں کتاب اللہ میں بُعد رُتَبِی  مراد  ہے۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)بشرطیکہ اول میں ھا تنبیہ نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔

 

اشارہ میں ھا کا مقصد

 

سوال: اسماء اشارہ میں "ھا” تنبیہ کس مقصد کے لیے  ہوتی ہے۔

جواب:یہ مخاطب کو  مشار الیہ پر بیدار کرنے کیلئے آتی ہے تاکہ مخاطب مقصود سے غافل نہ ہو، جیسے ھٰذَا، ھٰذَانِ، ھٰذِہٖ، ھٰؤُلَاءِ وغیرہ۔

 

اشاره میں لام کا مقصد

 

سوال: اسماء اشاره میں "لام” کس مقصد کیلئے ہوتا ہے۔

جواب: یہ مشار الیہ کے بُعد پر دلالت کرتا ہے۔یہی مطلب ہے اس عبارت۔

وَیُقَالُ ذَالِلقَرِیبِ وَذَالِکَ لِلبَعِیدِ وَ ذَاکَ لِلمُتَوَسِّط کا۔

 

کاف کا مقصد

 

سوال: اسم اشارہ میں لاحق ہونے والا  "کاف” کس مقصد کے لیے ہوتا ہے۔

جواب:یہ ضمیر نہیں، بلکہ یہ کاف خطاب حرفی ہوتا ہے ، جو مخاطب کی حالت بتاتا ہے کہ مخاطب مفرد ہے یا تثنیہ جمع، مذکر ہے یا مؤنث۔

سوال: اسماء اشارہ میں لام کون سے صیغوں پر آتا ہے۔

جواب:یہ تمام صیغوں میں نہیں آتا بلکہ مفرد مذکر و مؤنث میں آتا ہے۔ جیسے ذَالِکَ، تِلکَ اور جمع میں جیسے اُولیٰسے اُولائِکَ، لیکن تثنیہ مذکر و مؤنث اور اُولَاءِ میں نہیں آتا۔

اقسام، مشار الیہ  جبکہ مخاطب

واحد مذکر       جبکہ مخاطب

تثنیہ مذکر و مؤنث       جبکہ مخاطب

جمع مذکر جبکہ مخاطب

واحد مؤنث     جبکہ مخاطب

جمع مؤنث

جبکہ مشار الیہ واحد مذکر ہو ذَاکَ   ذَاکُمَا    ذَاکُم    ذَاکِ   ذَاکُنَّ

جبکہ مشار الیہ تثنیہ مذکر ہو ذَانِکَ   ذَانِکُمَا   ذَانِکُم    ذَانِکِ   ذَانِکُنَّ

جبکہ مشار الیہ واحد مؤنث ہو       تَاکَ   تَاکُمَا    تَاکُم    تَاکِ   تَاکُنَّ

جبکہ مشار الیہ تثنیہ مؤنث ہو       تَانِکَ   تَانِکُمَا    تَانِکُم    تَانِکِ   تَانِکُنَّ

جبکہ مشار الیہ جمع مذکر  ومؤنث ہو   اُولَائِکَ اُولَائِکُمَا  اُولَائِکُمْ  اُولَائِکَ اُولَائِکُنَّ

 

اسم اشارہ کی ترکیب

 

سوال: اسم اشارہ ترکیب میں کیا واقع ہوتا ہے۔

جواب:اشارہ،  مشار الیہ سے مل کر سات چیزیں بنتا ہے ۱۔ مبتدا  ۲۔ خبر ۳۔ فاعل  ۴۔ نائب فاعل ۵۔ مضاف الیہ ۶۔ مجرور جارکا ۷۔ مفعول بہ۔  یعنی اسم اشارہ کے بعد نکرہ ہو تو عموماً اشارہ، مبتدا اور ما بعد خبر ہوتا ہے۔ جیسے ھٰذٰ ذِکرٌ مُبَارَکٌ اور اگر مشار الیہ مذکور ہے اور معرفہ ہے تو اس کی کئی ترکیبیں ہوتی ہیں۔

۱۔ موصوف، صفت ۲۔ عطف بیان۳۔ مبدل منہ اور بدل جیسے ذَالِکَ الکِتَابُ لَارَیبَ فِیہِ ۴۔ اسم اشارہ، مشار  الیہ سے مل کر فاعل، کبھی مفعول مَالَم یُسَمَّ فَاعِلُہ بھی واقع ہوتا ہے۔ جیسے ضُرِبَ ھٰؤُلاءِ دراصل ضَرَبَ ھٰؤُلاءِ الرِّجَالُ۔

سوال: اسماء اشارہ پر جب ھاتنبیہ، لام اور کاف داخل ہو تو معنیٰ کیا ہوتا ہے۔

جواب:ان چیزوں کو معنیٰ میں کوئی دخل نہیں ہوتا، معنیٰ میں صرف اسماء اشارہ کے الفاظ کو دخل ہوتا ہے ، جس قسم کا اشارہ ہو گا، معنیٰ وہی ہو گا، مثلاً ذَالِکُم میں ذَا اشارہ واحد مذکر کیلئے ہے ، کُم مخاطب پر دلالت کرتا ہے ، معنیٰ صرف ذَاکی، کی جائے گی (وہ ایک مذکر) لام اور کاف کی وجہ سے اصل معنیٰ میں کوئی فرق نہیں آتا، البتہ ان کے اپنے فوائد ہوتے ہیں۔

اسی طرح ذَاکُنَّ میں مُشَار اِلَیہ واحد مذکر قریب کیلئے ہے ، اور مخاطب جمع مؤنث ہے ، اور ذَالِکُنَّ بعید کیلئے استعمال ہوتا ہے۔

سوال: اسم اشارہ افراد تثنیہ جمع میں مشارٌ الیہ کے موافق آتا ہے یا مخاطب کے موافق آتا ہے۔

جواب:مذکورہ امور میں اشارہ، مخاطب کے موافق ہوتا ہے۔یعنی مشار الیہ مفرد تو اسم اشارہ بھی مفرد، تثنیہ تو اشارہ بھی تثنیہ، جمع تو اشارہ بھی جمع، اگر مخاطب واحد تو کاف خطاب بھی واحد، اگر تثنیہ تو کاف خطاب بھی تثنیہ، اگر جمع تو کاف خطاب بھی جمع۔جیسے

یَا اَیُّھَا الوَلَدُ ذَاکَ القَلمُ جَیِّدٌ

یَا اَیُّھَا الاَولَادُ ذَالِکُمُ القَلَمُ جَیِّدٌ

یَا اَیُّھَا الاَولَادُ ذَالِکُمُ القَلَمُ جَیِّدٌ

یَا اَیُّھَا الوَلَدَانِ ذَالِکُمَا القَلَمُ جَیِّدٌ

یَا اَیَّتُھَا البِنتُ ذَالِکَ القَلَمُ جَیِّدٌ

یَا اَیَّتُھَا البِنتُ ذَالِکَ القَلَمُ جَیِّدٌ

یَا ایَّتُھَا البَنَاتُ ذَالِکُنَّ القَلمُ جَیِّدٌ

سوال: آپ نے کہا کہ اسماء اشارہ مبنی ہیں، حالانکہ ذَانِ، ذَینِ، اور تَانِ، تَینِ کی آخر تبدیل ہوتی ہے ، تویہ معرب ہونے چاہئیں۔

جواب:یہ تبدیلی عامل کی تبدیلی سے نہیں بلکہ یہ وضعی اور اصلی تبدیلی ہے کہ واضع نے حالت رفعی کے لیے ذَانِ، تَانِاور حالت نصبی اور جری کیلئے ذَینِ، تَینِ کو وضع کیا ہے۔

سوال: اسماء اشارہ کی مبنی اصل سے کس چیز میں مشابہت ہے۔

جواب:ان میں مبنی اصل میں سے حروف کے ساتھ مشابہت، شبہ افتقاری ہے اور شبہ افتقاری یہ ہے کہ جس میں حرف جیسی احتیاجی پائی جائے جیسے اشارات اور موصولات جس طرح حرف اپنی پوری معنیٰ دینے میں دوسرے (اسم یا فعل) کا محتاج ہوتا ہے اسی طرح اشارہ اور موصولہ بھی مشار الیہ اور صلہ کے محتاج ہوتے ہیں۔

 

اسماء موصولہ

 

سوال: اسماء موصولہ کسے کہتے ہیں۔

جواب:موصولہ کی لغوی  معنیٰ ہے (پیوستہ شدن) ملا ہوا / صلہ والا، اصطلاحًا۔ مَالَا یَتِمُّ جُزءًا تامًّا اِلَّا بِصِلَۃٍ وَعَائِدٍ وَعَائِدُہٗ ضَمِیرٌفَقَط وَ صِلَتُہٗ جُملَۃٌ خَبرِیَّۃٌ۔

موصولہ اس اسم(۱) کو کہتے ہیں جو جملہ کا جزء تام بننے میں جملہ خبریہ اور ضمیر عائد کا محتاج ہو جیسے جَاءَکَ الَّذِی ضَرَبَکَ (وہ آیا جس نے تجھے مارا)۔ یہاں اَلَّذِی اسم موصولہ ہے ، اور ضَرَبَکَ اس کا صلہ ہے اور اس میں ھُوَ ضمیر عائد ہے (۲)۔

۔۔۔۔۔۔۔

(۱) نا تمام اور نا معلوم۔

(۲)معلوم ہوا کہ اسماء موصولہ میں چار چیزیں ہوتی ہیں، ۱۔ موصولہ ۲۔ صلہ ۳۔ صلہ میں ضمیر/عائد ۴۔ وہ ضمیر غائب ہو۔

۔۔۔۔۔

 

جزء تام

 

سوال: جزء تام کسے  کہتے ہیں۔

جواب:اس جز ءکو کہتے ہیں جو جملہ کے دو جزؤوں میں سے ایک جزء بنے (۱) یعنی فاعل یا نائب فاعل یا مبتدا، خبر۔

۔۔۔۔۔

(۱) مسند یا مسند الیہ ہونا۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

عائد اور  موصولہ کی مطابقت

 

سوال: کیا ضمیر عائد کی اسم موصولہ سے مطابقت ہوتی ہے۔

جواب:جی ہاں واحد تثنیہ، جمع اور تذکیر و تانیث میں مطابقت ضروری ہے۔  جیسا اسم موصول ہو گا اسی کے مطابق ضمیر لایا جائے گا۔

جیسے :

اَکرِمِ الَّذِی عَلَّمَکَ۔ وَالَّتِی عَلَّمَتکَ

اَکرِمِ اللَّذَینِ عَلَّمَاکَ۔ وَاللَّتَینِ عَلَّمَتَاکَ

اَکرِمِ الَّذِینَ عَلّمُوکَ۔ وَاللَّوَاتِی عَلَّمنَکَ

 

عائد کا حذف

 

سوال: عائد کا حذف جائز ہے یا نہیں۔

جواب: جی ہاں مَن اور مَا کے بعد عائد کو حذف کرنا جائز ہے جبکہ و ہ مفعول ہوں، جیسے ھٰذَا مَارَئَیتُ اَی مَارَئَیتُہٗ (یہ وہ ہے جو میں نے دیکھا)اور اَلَّذِی ضَرَبتُ اَی ضَرَبتُہٗ یہاں فضلہ ہونے کی وجہ سے عائد محذوف ہے۔

 

موصولہ کے اقسام

 

سوال: مطابقت کے لحاظ سے اسماء موصولہ کتنے قسم ہیں۔

جواب:دو قسم ہیں۔ ۱۔ موصولہ خاصہ جیسے اَلَّذِی، اَللَّذَانِ وغیرہ اس میں عائد سے مطابقت واجب ہے ۲۔ موصولہ مشترکہ جو لفظ واحد و جمع کے لیے آتا ہو اس میں واحد تثنیہ جمع، مذکر و مؤنث شریک ہوتے ہیں، جیسے  مَن، مَا، اَیٌّ، ذُو، الف لام بمعنیٰ الَّذی، اس میں دو  وجہ یعنی لفظ اور معنی کی رعایت کرنا جائز ہے ، جیسے وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُولُ  اٰمَنَّا بِاللہ وَبِالیَومِ الاٰخِرِ وَمَاھُم بِمُؤمِنِینَ، یہاں مَنْ یَّقُولُ میں لفظ کی رعایت سے دونوں مفرد ہیں، اور وَمَا ھُم میں معنیٰ کی رعایت سے عائد/ضمیر جمع لایا گیا ہے۔

 

صلہ اور صدر صلہ

 

سوال: صلہ اور صدر صلہ کس کو کہتے ہیں۔

جواب:موصولہ کے بعد والے جملہ کو صِلہکہتے ہیں اور صلہ والے جملہ کے پہلے جزء کو صدر  صلہ کہتے ہیں، جیسے اَیُّھُم ھُوَ قَائِمٌ میں ھُوَ قَائِمٌ صِلہ ہے اور ھُوَ صدر صلہ ہے ، نیز صلہ بننے والا جملہ کبھی صراحۃ جملہ ہوتا ہے کبھی تاویلًا جملہ ہوتا ہے۔

سوال: صلہ، موصولہ پر مقدم ہوتا ہے یا نہیں۔

جواب:صلہ ہمیشہ موصول سے   مؤخر اور متصل ہوتا ہے ، نہ صلہ اور نہ ہی صلہ کا کوئی حصہ موصول پر مقدم  ہوسکتا ہے۔

سوال: صلہ کا حذف جائز ہے یا نہیں۔

جواب:صلہ کا حذف جائز ہے جیسے مَن رَّئَیتَہٗکے  جواب میں زَیدٌ الَّذِی (رَئَیتُہٗ)۔

موصولہ کی ترکیب

سوال: موصولہ ترکیب میں کیا واقع ہوتا ہے۔

جواب:موصولہ اپنے صلہ سے مل کر جملہ کے جزء کی حیثیت سے نو چیزیں بنتا ہے مبتدا، خبر، فاعل، نائب فاعل، مفعول بہ، مجرور، مضاف الیہ، صفت، مشار الیہ وغیرہ  بنتا ہے۔ بغیر صلہ کے موصول نہ مبتدا ہوسکتا ہے ، نہ خبر نہ فاعل نہ مفعول۔ موصولہ کے مبتدا واقع ہونے کی مثال جیسے مَن عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفسِہٖ میں مَن عَمِلَ مبتدا ہے ، فلِنفسہٖ خبر ہے۔

سوال: اسماء موصولہ کون سے ہیں۔

جواب:مشہور اسماء موصولہ یہ ہیں:

 

اسماء موصولہ کا معنیٰ اور حالت اعرابی

 

اسماء موصولہ    معنیٰ    استعمال حالت اعرابی

اَلَّذِی (۱)      وہ ایک  مرد       واحد مذکر کیلئے    ہر حالت میں

اَللَّذَانِ  وہ دو مرد تثنیہ مذکر کیلئے    رفعہ کی حالت میں

اَلَّذَینِ  وہ  دو مرد تثنیہ مذکر کیلئے    نصبی اور جری حالت میں

اَلَّذِینَ  وہ سب مرد     جمع مذکر کیلئے     ہر حالت میں

اَلَّتِی    وہ ایک عورت   واحد مؤنث کیلئے ہر حالت میں

اَللَّتَانِ  وہ دو عورتیں    تثنیہ مؤنث کیلئے رفعہ کی حالت میں

اَللَّتَینِ  وہ دو عورتیں    تثنیہ مؤنث کیلئے نصبی اور جری حالت میں

اَللَّاتِی، اَللَّوَاتِی، اَللَّائی، اَللَّاءِ   وہ سب عورتیں  جمع مؤنث کیلئے   ہر حالت میں

مابمعنیٰ الّذی

غیر ذوی العقول کے لئے   وہ، وہ چیز، مذکر مؤنث میں برابر     واحد، تثنیہ و جمع کیلئے     ہر حالت میں

مَن بمعنیٰ الّذی ذوی العقول کے لئے (۲)    جو، وہ شخص، مذکر مؤنث میں برابر   واحد تثنیہ و جمع کیلئے       یہ دونوں کبھی ایک دوسرے کی جگہ پربھی استعمال ہوتے ہیں

اَیٌّ     وہ  مرد،

کون سا، جونسا    واحد مذکر کیلئے    جیسے اَیُّ رَجُلٍ زوجُکِ

کون سا مرد تیرا شوہر ہے

اَیَّۃٌ (۳)        وہ عورت، کون سی/ جونسی       واحد مؤنث کیلئے جیسے اَیَّۃُ اِمرأۃٍ زوجَتُکَ

کون سی عورت تیری بیوی ہے۔

(ال) الف لام بمعنیٰ الَّذِی

اسم فاعل و اسم مفعول پر   مذکر مؤنث میں برابر

وہ (ایک مرد) وہ دو مرد، و ہ سب مرد، وہ ایک عورت، وہ دو عورتیں،

وہ سب عورتیں  واحد، تثنیہ وجمع کیلئے      ہر حالت میں جیسے اَلضَّارِبُ بمعنیٰ اَلَّذِی ضَرَبَ (۴)   ، وہ مرد جس نے مارا  َالمَضرُوبُ بمعنیٰ اَلَّذِی ضُرِبَ۔

وہ مرد جو مارا گیا

ذُو(۵) (بمعنیٰ اَلَّذِی اور اَلَّتِی)     وہ (مذکر مؤنث میں برابر) واحد، تثنیہ و جمع کیلئے      ہر حالت میں جیسے جَائَنِی ذُو ضَرَبَکَ اَی اَلَّذِی ضَرَبَکَ۔

آیا میرے پاس وہ شخص جس نے تجھے مارا۔

۔۔۔۔۔

(۱)واحد کی حالت میں اس کو صرف ایک لام  سے لکھا جاتا ہے باقی سب حالتوں میں دو لام لکھے جاتے ہیں۔ان اسماء  کا ترجمہ جو، جس، جو شخص، جس چیز وغیرہ سے کیا جاتا ہے۔( الذی کا معنیٰ ،وہ ایک شخص جس نے)

(۲) یعنی مَنْ اور ما یہ لفظًا مفرد ہیں اور معنیً مفرد، تثنیہ، جمع ،مذکر ،مؤنث سب میں استعمال ہوتے ہیں۔

(۳)مذکورہ الفاظ مَنْ، ما، ایّ، ایۃ اسماء استفھام میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔

(۴)البتہ مدار اس کا اسم فاعل و اسم مفعول کے صیغہ پر ہوتا ہے، جیساصیغہ ہوگا اس کے مطابق الف لام کو بمعنیٰ الذی اللذان الذین وغیرہ کے لیا جائیگا۔ الف لام بمعنیٰ الذی میں شرط ہے ۱۔ الف لام  عہدی نہ ہو ۲۔ دوام والا معنیٰ نہ ہو۔

(۵) اس صورت میں وہ مبنی علی الواو الساکنۃ ہوگا جیسے جائنی ذو قام

۔۔۔۔۔۔

 

سوال: ایٌّ اور اَیَّۃٌ تو معرب ہیں ان کو مبنی کی بحث میں کیوں ذکر کیا گیا ہے۔

جواب:ان کی چار حالتیں ہیں، پہلی تین حالتوں میں معرب اور آخری حالت میں مبنی ہیں، اس لئے ان کو مبنی  کی بحث میں ذکر کیا جاتا ہے۔

سوال: ایٌّ اور اَیَّۃٌکی چار حالتیں کون سی ہیں۔

جواب:۱۔ ایٌّ اور اَیَّۃٌدونوں مضاف نہ ہوں، لیکن صدر  صلہ(۱) مذکور ہو جیسے اَیٌّ ھُوَ قَائِمٌ۔

۲۔ دونوں نہ مضاف ہوں نہ صدر صلہ مذکور ہو جیسے جَائَنِی اَیٌّ قَائِمٌ۔

۳۔ دونوںمضاف بھی ہوں اور صدر صلہ بھی مذکور ہو، جیسے جَائَنِی اَیُّھُم ھُوَ قَائِمٌ۔

۴۔ دونوں مضاف ہوں، لیکن، صدر صلہ مذکور نہ ہو، جیسے جَائَنِی اَیُّھُم قَائِمٌ (۲)۔

یہاں پہلے تین صورتوں میں اَیٌّ معرب ہے اور آخری صورت میں مبنی ہے۔

 

تفصیلی مثالیں

 

صورت اول     جَائَنِی اَیٌّ ھُوَ قَائِمٌ۔ رَئَیتُ اَیًّا ھُوَ قَائِمٌ۔ مَرَرتُ بِاَیٍّ ھُوَ قَائِمٌ

صورت ثانیہ    جَائَنِی اَیٌّ قَائِمٌ۔رَئَیتُ اَیًّا قَائِمٌ۔ مَرَرتُ بِاَیٍّ قَائِمٌ

صورت ثالثہ    جَائَنِی اَیُّھُم ھُوَ قَائِمٌ، رَئَیتُ اَیَّھُم ھُوَ قَائِمٌ، مَرَرتُ بِاَیِّھِم ھُوَ قَائِمٌ

صورت رابعہ    جَائَنِی اَیُّھُم قَائِمٌ، رَئَیتُ اَیَّھُم قَائِمٌ، مَرَرتُ بِاَیِّھِم قَائِمٌ

سوال: اسماء موصولہ کی مبنی اصل سے کس چیز میں مشابہت ہے۔

جواب:ان  کی مبنی اصل میں سے حروف کے ساتھ مشابہت، شبہ افتقاری ہے کہ حرف کی طرح یہ بھی صلہ کے محتاج ہوتے ہیں۔

 

اسماء افعال

 

سوال: اسماء افعال کسے کہتے ہیں۔

جواب:ان اسماء کو کہتے ہیں جن میں(۳) فعل کی معنیٰ پائی جائے یعنی وہ اسم جو معنیٰ اور استعمال میں فعل کے قائم مقام ہو جیسے ھَیھَاتَ بمَعنیٰ بَعُدَ دور ہوا۔

سوال: اسماء افعال کی وجہ تسمیہ کیا ہے۔

جواب:یہ ذات کے اعتبار سے اسم ہیں، اور معنیٰ کے اعتبار سے فعل ہیں، اس لیے ان کو اسم الفعل کہتے ہیں۔

سوال: اسماء افعال کا معنیٰ فعل جیسا ہی ہے تو پھر انہیں فعل کیوں نہیں کہا جاتا۔

جواب:کیونکہ یہ الفاظ عربی میں ایسی جگہ ہی استعمال ہوتے ہیں جو جگہ صرف اسم کے لیے خاص ہے جیسے اَمھِلھُم رُوَیدًا میں رُوَیدًا مفعول مطلق واقع ہوا ہے اور مفعول مطلق اسم ہی ہوتا ہے نیز ان الفاظ میں فعل کی کوئی علامت نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی علامت کو قبول کرتے ہیں، اس لئے ان کو فعل نہیں کہتے۔

سوال: اسماء افعال کتنے قسم ہیں۔

جواب:دو قسم ہیں۱۔ بمعنیٰ فعل ماضی معلوم ۲۔ بمعنیٰ فعل امر حاضر معلوم۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)یعنی صلہ کا پہلا لفظ

(۲)اسی طرح ایُّھم اشدّ علیٰ الرحمٰن عتیّا اصل میں تھا ایّھم ھو اشدّ علیٰ الرحمٰن عتیّا۔

(۱)مبالغہ کے ساتھ

۔۔۔۔۔

 

اسماء افعال بمعنی ماضی کاعمل

 

سوال: اسماء افعال بمعنیٰ فعل ماضی معلوم کون سے ہیں اور ان کا عمل کیا ہے۔

جواب:مشہور اسماء افعال بمعنیٰ فعل ماضی یہ ہیں۔  ھَیھَاتَ بمَعنیٰ بَعُدَ دور ہوا شَتَّانَبمعنیٰ اِفتَرَقَ، جدا ہوا۔ سَرعَانَبمعنیٰ سَرُعَ جلدی کی۔ بَطَّانَبمعنیٰ بَطُؤَ، دیر کی(۱)۔شَکَّانَبمعنیٰ اَسرَعَ، جلدی  کی(۲)۔ ان کا عمل یہ ہے کہ یہ مابعد والے اسم کو فاعلیت کی وجہ سے رفعہ دیتے ہیں جیسے ھَیھَاتَ زَیدٌ ای بَعُدَزیدٌ زید دور ہو گیا۔

۔۔۔۔۔

(۱)جیسے بطّان الطّلاب للقراءۃ، شاگردوں نے پڑھائی میں دیر کی۔

(۲)جیسے شکّان ماتغیّر الانسان  ۔

۔۔۔۔

 

اسماء افعال بمعنیٰ امر کا عمل

 

سوال: اسماء افعال بمعنیٰ امر حاضر کون سے ہیں اور ان کا عمل کیا ہے۔

جواب:مشہور اسماء افعال بمعنیٰ امر حاضر یہ ہیں رُوَیدَ بمعنیٰ اَمھِل، مھلت دے (۱)۔ بَلہَ بمعنیٰ دَعَ چھوڑ۔ حَیَّھَل بمعنیٰ اِیتِ تو آ جا۔ ھَلُمَّ بمعنیٰ تَعَالَ، آؤ۔ دُو نَکَ بمعنیٰ خُذ، لو۔  مَہ بمعنیٰ اُکفُف، رکو۔ اٰ مِّینَ بمعنیٰ اِستَجِب، قبول کر۔ ان کا عمل یہ ہے کہ یہ ما بعد والے اسموں کو مفعولیت کی وجہ سے نصب دیتے ہیں(۲)۔ جیسے رُوَیدَ زَیدًا ای اَمھِلہُ، زید کو مہلت دیدے۔

۔۔۔۔۔

(۱)ڈھیل دے (ٹھرو) ۔

(۲) کیوں کہ ان میں فاعل ، ضمیرمستتر دائمی ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔

 

اسماء افعال کے معمول کی تقدیم

 

سوال: اسماء افعال کا معمول ان سے مقدم ہوتا ہے یا نہیں۔

جواب:ان کا معمول ان سے مقدم نہیں ہوتا۔

سوال: جب اسماء افعال بمعنیٰ فعل مضارع بھی آتے ہیں تو ان کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا جیسے اُفِّ بمعنیٰ اَتَضَجَّرُ میں تنگی اور بے قراری محسوس کرتا ہوں۔ اَوہ بمعنیٰ اَتَوَجَّعُ۔ مجھے درد ہو رہا ہے ، وَی بمعنیٰ اَعجَبُ۔وَاھا بمعنیٰ اَتَاَسّفُ، اَتَعَجّبُ۔آہِ بمعنیٰ اَتَوَجَّعُ۔زِہ بمعنیٰ اِستَحسِن۔

جواب:یہ قلیل الاستعمال ہیں اس لیے ان کا ذکر نہیں کیا جاتا۔

سوال: اسماء افعال بمعنیٰ امر کتنے قسم ہیں۔

جواب:دو قسم ہیں۱۔ سماعی۲۔ قیاسی

۱۔ سماعی، یہ بکثرت ہیں جیسے حَیَّبمعنیٰ اَسرِع جیسے حیَّ علیٰ الصَّلواۃِ۔ھَیتَ بمعنیٰ اَسرِع۔صَہ بمعنیٰ اُسکت۔ھَیَا بمعنیٰ اَسرِع۔ عَلَیکَ بمعنیٰ اِلزَم۔ اِلَیکَ بمعنیٰ تَبَاعَد۔ ھَلُمَّ بمعنیٰ تَعَالَ۔ اِیہِ بمعنیٰ زِد. دُونَکَ بمعنیٰ خُذْ. اَمَامَکَ بمعنیٰ تَقَدَّم۔ ھا بمعنیٰ  خُذْ۔

۲۔ قیاسی، یہ ہر فعل ثلاثی سے فَعَال کے وزن پر بنائے جاتے ہیں جیسے  نَزَال  بمعنیٰ اَنزِل۔ ثَبَات بمعنیٰ اُثْبُت۔ ذَھاب بمعنیٰ اِذھَب۔ سَکَات بمعنیٰ اُسْکُت۔ حَذَار بمعنیٰ اِحذَر۔

سوال: اسماء افعال کے وضع کا کیا مقصد ہے۔

جواب:مقاصد میں ایک مقصد ۱۔ اختصار حاصل کرنا  ہے ۲۔دوام و استمرار کا معنیٰ حاصل کرنا  ۳۔استعجاب جیسے ھَیھَاتَ ھَیھَاتَ لِمَاتُو عَدُونَ۔ بہت ہی بعید اور بہت ہی بعید ہے جو بات تم سے کہی جاتی ہے۔

سوال: اسماء افعال کو کون سا اعراب ہوتا ہے۔

جواب:۔ یہ اسماء لامحلّ لھا مِنَ الاعراب کے قبیل سے ہیں۔

سوال: اسماء افعال کی مبنی اصل سے کس چیز میں مشابہت ہوتی ہے۔

جواب:ان میں شبہ استعمالی ہے ، وہ یہ ہے کہ اسم استعمال میں حرف عامل کے مشابہ ہو  یعنی جو عامل  بنے لیکن معمول نہ بنے جیسے اسماء افعال ھَیھَاتَ اورلَیتَ، لَعَلَّ وغیرہ اور ان میں تضمنی مشابہت بھی ہو سکتی ہے کہ  بمعنیٰ  ماضی، ماضی کے معنیٰ کو  اور بمعنیٰ امر، امر  کے معنیٰ کو متضمن ہوتے ہیں۔

سوال: اسماء افعال بمعنیٰ امر اور بمعنیٰ  ماضی میں کیا فرق ہے۔

جواب:ان میں چند اعتبار سے فرق ہے ۱۔ بمعنیٰ امر حاضر میں فاعل ضمیر مستتر ہوتا ہے اور بمعنیٰ ماضی میں فاعل اسم ظاہر ہوتا ہے ۲۔بمعنیٰ امر کے بعد والا اسم ظاہر

مفعول بہ کی بناء پر منصوب ہوتا ہے۔ اور بمعنیٰ ماضی کے بعد والا اسم فاعلیت کی بناء پر مرفوع ہوتا ہے۔ ۳۔بمعنیٰ امر حاضر وہ متعدی ہوتا ہے اور بمعنیٰ ماضی وہ لازم ہوتا ہے۔

 

اسماء اصوات

 

سوال: اسماء اصوات کسے کہتے ہیں۔

جواب:اصوات جمع ہے صوت کی اور صوت لغۃً آواز کو کہتے ہیں اور اصطلاحًا کُلُّ لَفظٍ حُکِیَ بِہٖ صَوتٌ اَو صُوِّتَ بِہٖ البَھائِمُ۔ صوت اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے کسی آواز کو نقل کیا جائے یا کسی چوپائے جانور کو(۲) اس سے آواز دی جائے۔

 

اسماء اصوات کی قسمیں

 

سوال: اسماء اصوات کی کتنی قسمیں ہیں۔

جواب:یہ تین قسم ہیں۱۔ وہ اسماء جو طبعی عارضے (۱) کی وجہ سے زبان پر جاری ہوں جیسے اُح اُح کہ یہ کھانسی کی آواز ہے ، اُف یہ درد اور غم دکھ کی آواز ہے ، بَخّ بَخّ یہ خوشی کی آواز ہے ، جس کی معنیٰ ہے  خوب خوب جیسا کہ آپ ﷺنے فرمایا بَخّ بَخّ یا ابا ہریرۃ۔

وا ہ واہ اے ابو ہریرۃ ؓ۔

۲۔  وہ اسماء جن سے کسی(۲) کی آواز نقل کی جائے جیسے غاق، یہ کوّے کی آواز ہے یا مثلاً بلی کی آوازمیاؤں میاؤں کو نقل کرنا۔ ۳۔ وہ اسماء جن سے کسی جانور کو بلانے یا بٹھانے کیلئے آواز دی جائے  جیسے نَخّ نَخّ یہ اونٹ کے بٹھانے کی آواز ہے۔

سوال: اسماء اصوات کی مبنی اصل سے کس چیز میں مشابہت ہے۔

جواب:ان میں شبہ اھمالی ہے ، وہ یہ ہے کہ اسم حرف کی طرح مھمل واقع ہو یعنی نہ عامل بنے نہ معمول جیسے اسماء اصوات، اُح اُح وغیرہ۔

 

اسماء ظروف

 

سوال: اسماء ظروف کسے کہتے ہیں۔

جواب:ظروف جمع ہے ظرف کی اور لغت میں ظرف کہتے ہیں جو کسی چیز /برتن(۱) کو بھر دے۔اصطلاح میں ظرف اس اسم کو کہتے ہیں جو زمان (۲) یا مکان(۳)  پر دلالت کرے ، یعنی جس میں کوئی چیز ڈالی جائے اور ظروف کو غایات بھی کہتے ہیں۔

سوال۔ اسماء ظروف کتنے قسم ہیں۔

جواب:دو قسم ہیں ۱۔ ظرف زمان یعنی جس میں زمانہ، وقت، دن، رات یا ان کے کسی جزء کی معنیٰ ہو۔ ۲۔  ظرف مکان یعنی جس میں مکان(۴) کی معنیٰ ہو جیسے مسجد، مدرسہ وغیرہ۔

۔۔۔۔۔۔

(۱ّ) اور جو چیز برتن میں ہو اسے مظروف کہتے ہیں ۔

(۲)وقت۔

(۳) جگہ ۔

(۴)یعنی جس میں جسم اور جثہ والی چیز آسکے ۔

۔۔۔۔۔۔

 

ظرف زمان

 

سوال:ظروف زمان کون سے ہیں۔

جواب:مشہور ظرف زمان یہ ہیں  اِذْ، اِذَا، مَتٰی، کَیفَ، اَیَّانَ، اَمسِ، مُذ، مُنذُ، قَطُّ، عَوضُ، قَبلُ، بَعدُ۔

 

اذ کا معنی اور حکم

 

سوال: اِذ   کا معنیٰ اور حکم کیا ہے۔

جواب:اس کا معنیٰ ہوتا ہے جب/جس وقت، یہ زمانہ ماضی کے لئے آتا ہے اور اگر مضارع پر داخل ہو تو اس کی معنیٰ ماضی والی ہو جائے گی۔اوراس کے بعد جملہ  اسمیہ یا فعلیہ ہوتا ہے۔

اس کا حکم یہ ہے کہ یہ ترکیب میں مفعول فیہ بنتا ہے۔ جیسے جِئتُکَ اِذ طَلَعَتِ الشَّمسُ، میں تیرے پاس آیا جس وقت کہ سورج نکلا۔

سوال: اِذ کا استعمال کس طرح ہوتا ہے۔

جواب:اس کا استعمال کئی طرح سے ہوتا ہے۔ ۱۔ بمعنیٰ حین جیسے فَقَد نَصَرَہُ اللہُ اِذ اَخرَجَہُ الَّذِینَ کَفَرُوا ۲۔مفعول بہ جیسے وَاذکُرُوا اللہَ اِذ کُنتُمْ قَلِیلًا فَکَثَّرَکُم۔

۳۔ مفعول بہ کا بدل جیسے وَاذکُر فِی الکِتَابِ مَریَمَ اِذِ انتَبَذَت مِن اَھلِھا۔

۴۔ مضاف الیہ جیسے بَعدَ اِذ ھَدَیتَنَا، جب تم کو ہدایت کرچکا۔

سوال: کیا اِذ ہمیشہ مفعول فیہ بنتا ہے۔

جواب:جی نہیں بلکہ یہ کئی طرح استعمال ہوتا ہے ۱۔یہ جب زمانے کا معنی ٰدے تو اسم اشارہ ہوتا ہے۔ ۲۔ظرف زمان(۱) ۳۔مفعول بہ ۴۔ جس وقت تعلیل اور مفاجاۃ کا معنیٰ دے تو یہ حرف ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔

(۱) یعنی مفعول فیہ۔

۔۔۔۔۔

 

اذا کا معنی اور حکم

 

سوال: اِذَا کا معنیٰ اور حکم کیا ہے۔

جواب:اس کا معنیٰ ہوتا ہے جب، جس وقت، جب کہ، اچانک، اس کا حکم یہ ہے کہ یہ زمانہ مستقبل کیلئے آتا ہے ، اور ماضی کو بھی مستقبل کے معنیٰ میں کر دیتا  ہے اور اس کے بعد لفظًا یا تقدیرًافعل کا آنا لازم ہے۔ جیسے اِذا جَاءَ نَصرُاللہ ِجب آئے گی اللہ کی مدد۔

سوال: اِذَا کا استعمال کس طرح ہوتا ہے۔

جواب:اس کا استعمال کئی طرح ہوتا  ہے ۱۔ ظرفیہ شرطیہ ہوتا ہے اور اس وقت غیر جازمہ ہوتا ہے ، جیسے اٰتِیکَ اِذا الشَّمسُ طَالِعَۃٌ، میں تیرے پاس آؤں گا جب سورج طلوع ہو گا۔۲۔ اِذَا مُفَاجَات کے لیے یعنی کسی چیز کا ناگہانی اور اچانک رونما ہو جانا، پھر اس کے بعد صرف جملہ اسمیہ آتا ہے ، جیسے خَرَجتُ فَاِذَا المَطرُ ھَاطِلٌ، میں نکلا تو اچانک موسلا دھار بارش ہونے لگی۳۔ اِذَا کے بعد ما آ جائے تو ما زائدہ ہوتا ہے جیسے اِذَا ما۔

 

متیٰ کا معنیٰ اور حکم

 

سوال: متیٰ  کا معنیٰ اور حکم کیا ہے۔

جواب:اس کا معنیٰ ہوتا ہے کس وقت اور کب، یہ زمانہ ماضی، اور مستقبل دونوں کے لیے آتا ہے چاہے استفہام (۱) ہو یا شرط۔

استفہام کے وقت معنیٰ ہو گا”کب” جیسے متٰی تُسَافِر تو کب سفر کرے گا۔

شرط کے وقت معنیٰ ہو گا "جب” جیسے مَتٰی تَصُم اَصُم جس وقت تو روزہ رکھے گا اس وقت میں روزہ رکھوں گا۔

۔۔۔۔۔

(۱)یعنی یہ کسی چیز کے زمانہ کے سوال کیلئے آتا ہے، جیسے متیٰ العطلۃ ، یہ یہاں مرفوع محلا مبتدا ہے۔

۔۔۔۔۔

 

کیف کا معنیٰ اور حکم

 

سوال: کَیفَ کا معنیٰ اور حکم کیا ہے۔

جواب: اس کا معنیٰ ہوتا ہے  کیسے ، کیا حال ہے۔ یہ کسی چیز کا حال دریافت کرنے کیلئے آتا ہے ، جیسے کَیفَ اَنتَ۱۔یہ ظرف ہے ۲۔اور اسماء استفہام میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

سوال: کَیفَ ترکیب میں کیا واقع ہوتا ہے۔

جواب:اس کی کئی حیثیتیں ہیں ۱۔ خبر جیسے کَیفَ اَنتَ میں کَیفَ خبر ہے۔

۲۔ مفعول مطلق جیسے کَیفَ نِمتَ۔۳۔ حال جیسے کَیفَ جِئتَ۔

 

اَیّان کا معنیٰ اور حکم

 

سوال: اَیّان کا معنیٰ اور حکم کیا ہے۔

جواب: اس کا معنیٰ ہوتا ہے کب۔ ۱۔یہ وقت دریافت کرنے کیلئے آتا ہے ، اور زمانہ استقبال کے ساتھ خاص ہوتا ہے۔ جیسے اَیّانَ یَومُ الّدِینِمعنیٰ، جزا کا دن کس  وقت ہے یہاں اَیّانَظرف زمان متعلق ہے خبر محذوف سے اور  یَومُ الّدِینِ مبتدا ہے۔ ۲۔یہ کبھی شرطیہ جازمہ بھی استعمال ہوتا ہے جیسے اَیّانَ تَعُد تَجِدنِی۔

 

امس کا معنیٰ اور حکم

 

سوال: اَمسِ کا معنیٰ اور حکم بیان کریں۔

جواب:یہ ظرفیت کیلئے آتا ہے اور مفعول فیہ بنتا ہے بمعنیٰ گذشتہ دن جیسے جَاءَ زَیدٌ اَمسِ، زید آیا گذشتہ کل۔

 

مذ، منذ کا معنیٰ اور حکم

 

سوال: مُذْ، مُنْذُ کا معنیٰ اور حکم کیا ہے۔

جواب:اس کا معنیٰ آتا ہے "فلاں زمانہ کے شروع سے "یہ کبھی اول مدت کیلئے اور کبھی جمیع مدت کیلئے آتے ہیں جیسے مَارَئَیتُہٗ مُذیَومَانِ، نہیں دیکھا میں نے اس کو دودنوں سے اور مَارَئَیتُہٗ  مُذیَومِ الجُمعَۃِ، نہیں دیکھا میں نے اس کو جمعہ کے دن  سے۔

سوال: مذ، منذ ترکیب میں کیا واقع ہوتے ہیں۔

جواب:ان کی کئی حیثیتیں ہیں ۱۔عمومًایہ مبنی ۲۔مبتدا ۳۔خبر۴۔ظرف واقع ہوتے ہیں ۵۔یہ اگر اپنے بعد والے اسم کو جر دیں تو  حرف جر ہوتے ہیں جیسے مَارَئَیتُہٗ مُذ شَھرِنا وَ مُنذُ یَومِنَا۔  اگر جملہ سے پہلے آئیں تو ظرف زمان ہوتے ہیں اور بعد والے جملہ کی طرف مضاف ہوتے ہیں جیسے مَا اَکَلتُ شَیئًا مُنذُ طَلَعَ الفَجرُ۔ اگر یہ اسم ہوں تو مبتدا ہوں گے بمعنیٰ اول المدۃ جیسے مَارَئَیتُہٗ مُذیَومِ الجُمعَۃِیہاں مُذمبتدا اور یَومِ الجُمعَۃِخبر ہے ، اور عند البعض برعکس، یا بمعنیٰ جمیع المدۃ جیسے مَارَئَیتُہٗ مُذیَومَانِ اس میں بھی مُذمبتدا۔ یَومَانِ خبر ہے۔

 

قط کا معنیٰ اور حکم

 

سوال: قَطّ کا معنیٰ اور حکم کیا ہے۔

جواب:یہ ظرف زمان ہوتا ہے اور ماضی منفی کی تاکید کے استغراق کیلئے آتا ہے اور مبنی علیٰ الضم ہوتا ہے۔بمعنیٰ کبھی جیسے مَارَئَیتُہٗ قَطُّ میں نے اس کو کبھی نہیں دیکھا۔

 

عوض کا معنیٰ اور حکم

 

سوال۔ عَوضُ کا معنیٰ اور حکم کیا ہے۔

جواب:یہ ظرف زمان ہوتا ہے اورمستقبل منفی کے استغراق  کے (تاکید) کیلئے آتا ہے ، بمعنیٰ ہرگز۔ لیکن عَوضُ اور قَطُّ میں شرط یہ ہے کہ ان میں پہلے نفی ہو اور یہ بھی مبنی علیٰ الضم ہوتا ہے۔جیسے لَا اَضرِبُہٗ عَوضُ میں اس کو کبھی نہیں ماروں گا۔

 

قبل اور بعد کا معنیٰ اور حکم

 

سوال: قبلُاور بعدُ کا معنیٰ اور حکم کیا ہے۔

جواب:قبلُبمعنیٰ آگے ، پہلے بعدُ بمعنیٰ پیچھے ، بعد میں، یہ دونوں لازم الاضافت ہیں۔

سوال: قبلُاور بعدُ کے مبنی ہونے کیلئے کتنے شرائط ہیں۔

جواب:تین شرائط ہیں۱۔مضاف ہوں۲۔ مضاف الیہ محذوف ہو۳۔ منوی یعنی مضاف الیہ نیت اور ارادہ میں باقی ہو جیسے لِلہِ الاَمرُ مِن قَبلُ وَ مِن بَعدُ یعنی مِن قَبلِ کُلِّ شَیءٍ وَمِن بَعدِ کُلِّ شَیءٍ معنیٰ اللہ تعالیٰ کو ہی اختیار ہے ہر چیز سے پہلے اور ہر چیز کے بعد۔ اور اَنَا حَاضِرٌمِن قَبلُ یعنی مِن قَبلِکَ۔

 

قبل و بعد کی صورتیں

 

سوال: کیا قبل اور بعد ہر حالت میں مبنی ہوتے ہیں۔

جواب:ان کی تین حالتیں ہوتی ہیں، ایک حالت میں مبنی اور دو حالتوں میں معرب ہوتے ہیں۱۔قبل اور بعد کا مضاف الیہ مذکور ہو تو معرب ہوں گے جیسے قَبلَ ھٰذا، بَعدَ ھٰذا۔

۲۔ جب ان کا مضاف الیہ محذوف نسیًا مَنسِیًّا ہو یعنی مضاف الیہ بالکل معدوم ہو تو بھی معرب ہوں گے (۱)  جیسے رُبَّ بَعدٍ کَانَ خَیرٌ مِن قَبلٍ کئی بعد والے پہلے والوں سے بہتر ہیں۔ ۳۔اگر ان کا مضاف الیہ محذوف منوی ہو تو مبنی علیٰ الضم ہوتے ہیں، جیسے امّا بَعدُ دراصل بَعدَ الحَمدِ وَالصَّلوٰۃِ۔ اس لئے امّا بَعدُ کی معنیٰ ہو گی، حمد و صلوٰۃ کے بعد۔

سوال: محذوف نسیًا مَنسِیًّا اور محذوف معنوی میں کون سا فرق ہے۔

جواب:نسیًا مَنسِیًّا جو نہ ذہن میں ہو، نہ کتاب اور کلام میں۔ محذوف معنوی وہ ہے جو ذہن میں ہو لیکن کتاب اور کلام میں نہ ہو۔

سوال: ظرف زمان ترکیب میں کیا واقع ہوتے ہیں۔

جواب:ان کی کئی حیثیتیں ہیں ۱۔کبھی مفعول فیہ بنتے ہیں ۲۔ کبھی مفعول مطلق ۳۔ کبھی مفعول بہ ۴۔کبھی مضاف الیہ ۵۔کبھی مبتدا۔ ۶۔کبھی خبر٧۔کبھی حال ٨۔ کبھی معرب ٩۔کبھی مبنی وغیرہ۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)یعنی عوامل کے مطابق ان پر اعراب داخل ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔

 

ظرف مکان

 

سوال:  ظروف مکان کون سے ہیں۔

جواب:مشہور ظروف مکان یہ ہیں۔ حیثُ، قُدَّامُ، خَلفُ، تَحتُ، فَوقُ، عِندَ، اَینَ، اَنّٰی، لَدَیٰ، لَدُن۔

 

حیث کا معنیٰ اور حکم

 

سوال: حیث کا استعمال کیسے ہوتا ہے۔

جواب:یہ اکثر جملہ کی طرف مضاف ہو کر استعمال ہوتا ہے نیز یہ "جگہ، جس جگہ” کا معنیٰ دیتا ہے اور مبنی علیٰ الضم ہوتا ہے جیسے اِجلِس حَیثُ زیدٌ جَالِسٌ تو بیٹھ جہاں زید بیٹھنے والا ہے۔

 

قدام کا معنیٰ اور استعمال

 

سوال: قُدَّام کا معنیٰ اور استعمال کیسے ہوتا ہے۔

جواب: قُدَّامبمعنیٰ آگے کی جگہ جیسے قامَ النَّاسُ قُدَّامَ لوگ اس کے آگے کھڑے ہوئے۔

 

خلف تحت، فوق کا استعمال

 

سوال: خلف پیچھے ، تحت نیچے ، فوق اوپر، کا معنیٰ اور استعمال کیا ہے۔

جواب: ان اسماء ثلٰثہ کی بھی قبل اور بعد کی طرح تین حالتیں ہوتی ہیں۔

۱۔ خلف وغیرہ کا مضاف الیہ مذکور ہو تو معرب ہوں گے جیسے الطِّفلُ یَلعَبُ تَحتَ السَّمَاءِ وَفَوقَ الاَرضِ۔

۲۔ ان کا مضاف الیہ محذوفنسیًا مَنسِیًّاہو تو بھی معرب جیسے اِحمِل ھٰذِہِ السُّلتَ مِن تَحتٍ وَمِن فَوقٍ اور  راشِدٌ یأکُلُ مِن قُدَّامٍ راشد کھا رہا ہے آگے سے۔

۳۔ البتہ یہ مضاف ہوں اور مضاف الیہ منوی ہو تو مبنی علیٰ الضم ہوں گے  جیسے الھواءُ جَارٍ مِن اَمَامُ وَ خَلفُ وَ تَحتُ وَ فَوقُ ہوا آگے پیچھے اور اوپر نیچے سے  چل رہی ہے۔

 

عند  اور لدی، لدن میں فرق

 

سوال: عند  اور لدیٰ، لدن کیسے استعمال ہوتے ہیں۔

جواب:یہ تینوں ظرف مکان کے لئے استعمال ہوتے ہیں جیسے اَلمَالُ عِندَ زَیدٍ ۱۔فرق یہ ہے کہ عند میں شیء کا موجود ہونا شرط نہیں ہے اس لیئے جس شخص کے پاس مال موجود نہیں ہے بلکہ کسی دوسرے شہر یا دوسری جگہ میں موجود ہے ، تو اس صورت میں عِندَ شَخصٍ مَالٌ کہنا  بھی صحیح ہے۔ لیکن لَدَیٰ شَخصٍ مالٌ کہنا صحیح نہیں ہے۔

بخلاف لدیٰ (بمعنیٰ پاس) کے یہ اگرچہ عِندَ کے معنیٰ میں ہے لیکن اس میں شیء کا اپنے پاس موجود ہونا ضروری ہے۔ جیسے اَلمَالُ لَدَیٰ زَیدٍ یہ اس وقت کہا جائے گا جب زید کے پاس مال تکلم کے وقت موجود اور حاضر ہو۔ ۲۔ اسی طرح عند ضمیر اور غیر ضمیر دونوں کی طرف مضاف ہوتا ہے۔جب کہ لدیٰ ضمیر کی طرف مضاف نہیں ہوتا۔

سوال: ظروف مکان ترکیب میں کیا واقع ہوتے ہیں۔

جواب:یہ مختلف طریقوں سے استعمال ہوتے ہیں یعنی معرب، مبنی، مضاف اور مفعول فیہ وغیرہ۔

سوال:  مذکورہ ظروف کے علاوہ اور کون سے مشہور ظروف مکان ہیں۔

جواب:کچھ یہ ہیں ۱۔ حقّا ظروف مکان میں شمار ہوتا ہے ۲۔ دُونَ اور دُونَما، قبل کے معنیٰ میں ظرف مکان اور ظرف زمان میں شمار ہوتے ہیں، جیسے جَلَستُ دُونَ النَّافِذَۃِ میں کھڑکی سے پہلے بیٹھ گیا ۳۔ اسی طرح ھُنَا، ھُنَاکَ، ھُنَالِکَ یہ اسم اشارہ ہیں لیکن ان کے ذریعے مکان کی طرف اشارہ کیا جائے تو ظرف مکان ہوں گے اور اگر زمان کی طرف اشارہ کیا جائے تو ظرف زمان ہوں گے۔ (المنھاج)

سوال:اسماء ظروف کی مبنی اصل سے کس چیز میں مشابہت ہے۔

جواب:ظروف میں تینوں قسم کی مشابہت پائی جاتی ہے۔ تضمنی، استعمالی اور وضعی اور قبل وبعد میں شبہ افتقاری ہے کہ یہ مضاف الیہ کے محتاج ہوتے ہیں۔

حیث میں بھی شبہ افتقاری ہے کہ جملہ کی طرف محتاج ہوتا ہے۔ قدّام، تحت، فوق، میں بھی شبہ افتقاری ہے کہ مضاف الیہ کی طرف محتاج ہوتے ہیں۔

 

اسماء کنایات

 

سوال: اسماء کنایات کسے کہتے ہیں۔

جواب:کنایات جمع ہے کنایہ کی اور کنایہ کی لغوی معنیٰ ہے پوشیدہ جس سے اپنے راز کو چھپایا جائے  اور اصطلاح میں اس اسم کو کہتے ہیں جو عدد مبہم(۱) یا کلام مبہم پر دلالت کرے (۲)۔

سوال: اسماء کنایات کتنے قسم ہیں۔

جواب:دو ہیں ۱۔ کنایہ حدیث ۲۔ کنایہ عدد۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)غیر واضح  ۔

(۲)یعنی جس کے ذریعہ کسی عدد اور بات کو چھپا کر بولا جائے۔ کسی متعین شئے  پر صراحۃً  دلالت نہ کرے۔

۔۔۔۔۔

 

کنایہ حدیث

 

سوال: حدیث /کسی مبہم  بات کے لیئے کون سے اسماء کنایات ہیں۔

جواب:دو  ہیں کیتَ اور ذیتَ، یہ واو کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے سَمِعتُ کَیتَ وَکَیتَ میں نے ایسا ایسا سنا۔ قُلتُ ذَیتَ وَ ذَیتَ کہا میں نے ایسا ایسا۔

نوٹ: کیتَ اور ذیتَ میں چھ لغات ہیں۔ کیتَ ذیتَ۔ کَیتِ ذَیتِ۔ کَیتُ ذَیتُ۔ کَیَّتَ ذَیَّتَ۔ کَیَّتِ ذَیَّتِ۔کَیَّتُ ذَیَّتُ۔

 

کنایہ عدد

 

سوال: کنا یہ عدد کیلئے کتنے الفاظ ہیں۔

جواب:دو لفظ ہیں کَم۔ کَذا۔

سوال: کم کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے۔ ۱۔ کم استفہامیہ ۲۔ خبریہ

 

کم استفہامیہ اور اس کا حکم

 

سوال: کم استفہامیہ کسے کہتے ہیں اور اس کی تمیز کا کیا حکم ہے۔

جواب:کم استفہامیہ اسے کہتے ہیں جس سے کسی عدد(۱) کے بارے میں سوال کیا جائے اور اس کا حکم یہ ہے کہ اس کی تمیز مفرد منصوب ہوتی ہے ، جیسے کَم رَجُلًا عِندَکَ تیرے پاس کتنے لوگ ہیں۔

۔۔۔۔۔۔

(۱) کسی انجان چیز۔

۔۔۔۔۔

 

کم خبریہ اور اس کی تمیز

 

سوال: کم خبریہ کسے کہتے ہیں اور اس کی تمیز کا کیا حکم ہے۔

جواب:اس کمکو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کے عدد کی خبر دی جائے اور یہ تکثیر کے معنیٰ کا فائدہ دیتا ہے۔اس کی تمیز  کا حکم یہ ہے کہ اس کی دو صورتیں ہیں ۱۔ مفرد مجرور جیسے کَم مَالٍ اَنفَقتُ کتنا ہی/بہت مال میں  نے خرچ کیا ۲۔جمع مجرور جیسے کَم رِجَالٍ عِندِی۔ لیکن دونوں صورتوں میں مطلب  ایک ہی ہوتا ہے۔ کثرت بیان کرنا۔

 

 

کذا اور اس کا حکم

 

سوال: کذا کتنے قسم ہے۔

جواب:تین قسم ہے ۱۔ جار مجرور جیسے کَذَا ۲۔ کنایہ ازغیر عدد، اس وقت یہ مضاف الیہ بن کر آتا ہے اور(۱) اس کو  تمیز  کی ضرورت نہیں ہوتی جیسے جَلَستُ فِی مَکانِ کَذَا۔ میں فلان جگہ بیٹھا  اور اَتَذکُرُ یَومًا کَذَاوَ کَذَا وَ فَعَلتَ کَذَا وَ کَذَا (حدیث شریف)۔

۳۔ کنایہ از عدد، یہ صرف خبری ہوتا ہے اور لامحدود عدد سے کنایہ ہوتا ہے ، اور اس کی(۲) تمیز مفرد منصوب ہوتی ہے ، جیسے قَبَضتُ کَذَاوَ کَذَا دِرھَمًا  (۳) میں نے اتنے اتنے درھم قبض کیئے اورعِندِی کَذَا وَ کَذَا دِرھَمًا میرے پاس اتنے درھم ہیں۔

۔۔۔۔۔

(۱)لہٰذا اسماء اصوات کوئی مستقل اسماء نہیں ہیں بلکہ ان کے اصوات بعض معانی پر دلالت کرتے ہیں۔

(۲)بیماری خوشی غمی اور تعجب کے وقت۔

(۳) پرندہ چرندہ یا بچہ یا مجنون وغیرہ۔

۔۔۔۔۔

 

اسماء کنایات کی مبنی اصل سے مشابہت

 

سوال: اسماء کنایہ کی مبنی اصل سے کس چیز میں مشابہت ہے۔

جواب:یہ کَیتَ ذَیتَ جملہ کے قائم مقام ہونے کی وجہ سے مبنی ہیں، چونکہ جملہ باعتبار ذات مبنی ہے ، اس لئے یہ بھی مبنی ہیں، اور کَم میں شبہ وضعی ہے اور حرف استفہام کو بھی متضمن ہے۔ کَذا باعتبار اصل کے مبنی ہے ، کیونکہ مرکب ہے ، کاف اور ذا اسم اشارہ سے اور یہ دونوں مبنی ہیں۔

 

مرکب بنائی

 

سوال: مرکب بنائی کی تعریف اور اس کا حکم ذکر کریں۔

جواب:اس کی تفصیل مرکب غیر مفید کے بحث میں ہو چکی ہے جیسے اَحَدَ عَشَرَ درہمًا۔

سوال: مرکب بنائی کی مبنی اصل سے کس چیز میں مشابہت ہے۔

جواب:اس میں مشابہت تضمنی ہے۔

 

 

 

                فصل۔ معرفہ و نکرہ

 

سوال: اسم عموم و خصوص کے اعتبار سے کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے ، معرفہ اور نکرہ۔

سوال: معرفہ اور نکرہ کس کو کہتے ہیں۔

جواب:معرفہ وہ اسم ہے جو معین چیز کے لئے مقرر کیا گیا ہو، جیسے زید اور الکتاب، معنیٰ (کوئی خاص )کتاب۔

اور نکرہ کا لغوی معنیٰ ہے غیر معروف اور اصطلاحًاوہ اسم ہے جو کسی غیر معین چیز کے لئے مقرر کیا گیا ہو، جیسے رَجُلٌ وَ فرسٌ کوئی آدمی، کوئی گھوڑا۔

سوال: معرفہ اور نکرہ کا ترجمہ کیسے کیا جاتا ہے۔

جواب:نکرہ میں ترجمہ عام طور پر لفظ کوئی۔ کوئی ایک۔ چند اور کچھ سے کیا جاتا ہے ، جیسے فرسمعنیٰ کوئی گھوڑا، رَجُلٌمعنیٰ کوئی آدمی، اور معرفہ میں کوئی لفظ خاص یا مخصوص لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

سوال: اسم میں اصل نکارت ہے یا معرفۃ۔

جواب:اصل نکارت ہے ، معرفہ ہونا فرع ہے کیونکہ نکرہ اپنی معنیٰ پر بغیر قرینہ کے دلالت کرتا ہے ، مگر معرفہ، قرینہ کا محتاج ہوتا ہے اور جو محتاج ہوتا ہے وہ فرع ہوتا ہے۔

سوال: معرفہ کتنے قسم ہے۔

جواب:سات قسم ہے۔

معاریف     پنج      اندنے     بیش   و   کم

مضاف و مضمر و ذواللام مبہم است علم

۱۔ مضمرات۔ ۲۔ اَعلَام۳۔ اَسماءِ اشارات ۴۔ اسماء موصولات (ان دو قسموں کو مبہمات بھی کہتے ہیں) ۵۔ معرفہ باللام جیسے الرجل ۶۔معرفہ بالنداء جیسے یا غلامُ ۷۔ وہ اسم نکرہ جو معرفہ بالنداءکے علاوہ باقی پانچ قسموں کی طرف مضاف ہو جیسے غُلامُہٗ۔ غُلامُ زَیدٍ۔غُلامُ رَجُلٍ۔ غلامُ ھٰذا۔غُلامُ الَّذِی عِندی، یہاں پہلے مثال میں نکرہ کی اضافت ہے ضمیر کی طرف، دوسرے میں علم کی طرف، تیسرے میں معرفہ باللام کی طرف(۱)۔ چوتھے میں اسم اشارہ کی طرف اور پانچویں میں اسم موصولہ کی طرف۔

سوال: نکرہ مضاف الیٰ المعرفہ کے کیا شرائط ہیں۔

جواب:مشہور شرائط یہ ہیں ۱۔ اضافت معنوی ہو، لفظی نہ ہو۔ ۲۔ مضاف الیہ معرفہ ہو۔ ۳۔ مضاف غالی فی الابھام نہ ہو، خارج ہوا لفظ غَیرُ اور مِثلُ کہ یہ غالی فی الابھام ہیں۔لہٰذامندرجہ ذیل الفاظ اگر معرفہ کی طرف مضاف ہوں تب بھی نکرہ ہوں گے جیسے نحو۔ نظیر۔ شِبہ۔ وحد۔غیر۔مِثل۔ لھٰذا غَیرَ زَیدٍ میں غیر کبھی معرفہ نہ ہو گا مگر یہ کہ زید کا غیر صرف ایک ہو یا وہ غیر مشہور ہو۔

سوال: معرفہ کے تمام اقسام معلوم ہیں لیکن علم سے کیا مراد ہے۔

جواب:علم سے مراد وہ اسم ہے جو کسی معین چیز کے لئے وضع کیا  گیا ہو، اور اسی وضع سے کسی اور پر دلالت نہ کرے۔

سوال: علم کتنے قسم ہے۔

جواب:تین قسم ہے اس طرح کہ انسان تین چیزوں سے مشہور ہوتا ہے۔ ۱۔ اسم (نام) جیسے زید و مکۃ۔ ۲۔ کنیہ یعنی جسکی شروعات اب یا ابن یا ام وغیرہ الفاظ سے ہو جیسے ابوبکر و ام کلثوم و ابن عمر۔ ۳۔ لقب جس سے مدح یا ذم کی طرف اشارہ ہو جیسے زین العابدین اور انف الناقہ (نکو، بھونڈی ناک والا) معلوم ہوا کہ معرفہ کے قِسم عَلم میں نام، خطاب، لقب، کنیہ، عرفیت اور تخلص سب شامل ہیں۔

 

تذکیر و تانیث

 

سوال: جنس کے باعتبار اسم کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے مذکر اور مؤنث۔

سوال: مذکر کس کو کہتے ہیں۔

جواب:اس اسم کو کہتے ہیں جس میں کوئی علامت تانیث لفظی یا تقدیری نہ ہو، جیسے رجلٌ وَ فرسٌ۔

سوال: مؤنث کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس اسم کو کہتے ہیں جس میں کوئی علامت تانیث(۲) موجود ہو جیسے أمرﺃۃٌ، فاطمۃ، زینبُ۔

 

علامات تانیث

 

 

سوال: اسم کی علامات تانیث کتنی ہیں۔

جواب:چار ہیں ۱۔ تاء  لفظًا (۱) جیسے طلحۃُ (۲) یا حکمًا جیسے عقربُ۔

۲۔ تاء مُقَدّرہ (۱) جیسے اَرضٌ جو اصل میں اُرَیضَۃٌ تھا۔

۳۔ الف مقصورہ تانیثی جیسے حُبلیٰ، حاملہ عورت۔

۴۔ الف ممدودہ تانیثی جیسے حَمرَاءُ، سرخ عورت۔

 

مؤنث سماعی و قیاسی

 

سوال: علامت کے اعتبار سے مؤنث کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم  ہے ، ۱۔ مؤنث سماعی۔ ۲۔ مؤنث قیاسی۔ مؤنث سماعی وہ اسم ہے جس میں علامت تانیث مُقَدّر ہو، جیسے عَقرَبُ یا حکمًا ہو، جیسے ارضٌ، شمسٌجو اصل میں اُرَیضَۃٌ اور شُمَیسَۃٌ تھے۔

سوال:  ارض کی اصل اُرَیضۃٌ کس طرح معلوم ہوئی۔

جواب:تصغیرکی دلیل سے معلوم ہوا کہ اس کی اصلاُرَیضَۃٌ ہے ، کیونکہ تصغیر سے چیزوں کی اصلی حالت ظاہر ہوتی ہے ، لِاَنَّ التَّصغِیرَ یَرُدُّالاَشیَاءَ اِلیٰ اَصلِھَا۔

سوال: مؤنث سماعی کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے ۱۔ واجب التانیث جیسے نفسٌ، کلٌّ ۲۔ جائز التانیث جیسے اَلسَّمَاءُ اور قرآن مجید میں اِذَا السَّمَاءُ انشَقَّت اور السَّمَاءُ مُنفَطِرٌ بِہٖ، دونوں طرح آیا ہے۔

 

تانیث لفظی اور معنوی میں فرق

 

سوال: تانیث لفظی اور معنوی میں کون سا فرق ہے۔

جواب:تانیث لفظی میں لفظ کا کوئی اعتبار نہیں بلکہ اس میں مصداق کا اعتبار کیا جاتا ہے یعنی مصداق مؤنث ہو تو فعل کو مؤنث ہی لانا ہو گا، مذکر لانا جائز نہ ہو گا، اگر مصداق مذکر ہو تو فعل بھی مذکر ہی لانا ہو گا، مؤنث لانا  جائز نہ ہو گا اس لئے قامت طلحۃ و حمزۃ کہنا ناجائز ہو گا بلکہ قام طلحۃ و حمزۃ ہی کہنا  جائز ہو گا۔ (مآرِبُ الطلبہ)

 

مؤنث قیاسی

 

سوال: مؤنث قیاسی کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس اسم کو کہتے ہیں جس میں علامت تانیث حقیقۃ  موجود ہو جیسے طلحۃ

 

مؤنث حقیقی

 

سوال:مؤنث باعتبار ذات  کے کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے۔ ۱۔ مؤنث حقیقی  ۲۔  مؤنث لفظی۔

سوال: مؤنث حقیقی کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس اسم کو کہتے ہیں جس کے مقابلہ میں حیوان مذکر (۱) ہو، جیسے المرأۃ اس کے مقابلے میں رجلٌ ہے۔ اَتَان (گدھی) اس کے مقابلے میں حِمارہے۔ناقۃٌ اس کے مقابلہ میں جَمَلٌ ہے۔

 

مؤنث لفظی

 

سوال: مؤنث لفظی کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس اسم کو کہتے ہیں جس کے مقابلہ میں حیوان مذکر نہ ہو، جیسے ظُلمَۃٌ (تاریکی) اس کے مقابلہ میں نورٌ(روشنی) ہے ، کیونکہ نورٌ مذکر تو ہے لیکن حیوان نہیں اور قُوّۃٌ بمعنیٰ طاقت اس کے مقابلہ میں ضُعفٌ ہے (بمعنیٰ کمزوری) مذکر موجود ہے لیکن جاندار نہیں۔

سوال: کیا کچھ الفاظ بغیر علامت کے بھی مؤنث ہوتے ہیں۔

جواب:جی ہاں وہ اسماء جو اصل کے اعتبار سے مؤنث ہوں وہ مؤنث ہی ہیں جیسے اُمٌّ، عَرُوسٌ، ھِندٌ، مَریَمُ یا جو صفات عورتوں کے لیئے خاص ہوں جیسے حائض۔

سوال: کیا کچھ الفاظ مؤنث اور مذکر دونوں میں استعمال ہوتے ہیں۔

جواب:جی ہاں جیسے ۱۔ بعض شہروں کے نام۔لیکن شہروں اور ملکوں کے نام موضع کی تاویل میں مذکر اور بلدۃ کی تاویل میں مؤنث استعمال ہوتے ہیں۲۔ حروف ہجاء میں سے بعض حروف اور اسم جمع۔یہ تذکیر تانیث میں برابر ہوتے ہیں۔

 

مشہور مؤنث سماعی

 

سوال: مؤنث سماعی یہی  ہیں یا کچھ اور بھی ہیں۔

جواب:جی ہاں کچھ اور بھی آتے ہیں ۱۔ انسان کے مکرر اعضاء جو دو دو ہیں جیسے عَینٌ، آنکھ۔اُذنٌ، کان۔یَدٌ، ہاتھ۔رِجلٌ، پاؤں۔سِنٌّ، دانت اور اِصبَعٌ، انگلی(۱)۔ لیکن مِرفَقٌ، خَدٌّ، حَاجِبٌ، صَدعٌ اور  اَللُّحیٰ یہ مذکر ہیں۔

۲۔ اسماء جہنّم، دوزخ کے تمام نام جیسے جھنّم، سَعِیرٌ، جَحِیمٌ، سَقَرٌ وغیرہ۔

۳۔ اسماء الخمر، شراب کے تمام نام جیسے خمر ۴۔ اسماء الریح ہواؤں کے نام جیسے صَبا، قَبول، دَبور، حَرور، سَموم وغیرہ  ۵۔ اسماء الشمس ٦۔اسماء الحرب۔ ۷۔حیوانوں کے نام جیسے فرس، عَقرب، ثَعلب، اَرنب، اَفعیٰ، عَنکبوت ۸۔حروف التھجی مثلاً  ا ب ت ث وغیرہ  ۹۔حروف عاملہ جیسے مِن، الیٰ  ۱۰۔ملکوں، شہروں ۱۱۔قبیلوں  ۱۲۔جماعتوں کے خاص نام جیسے مصر، الھند، الشام، دہلی، لکھنؤ، قریش وغیرہ۔

۱۳۔صنعت اور کاریگری سے بنائی ہوئی چیزیں جیسے دارٌ،  دلوٌ، قوسٌ،  دِرعٌ،  سرابیلُ وغیرہ۔

 

مفرد، تثنیہ، جمع

 

سوال: تعدد کے اعتبار سے اسم کتنے قسم ہے۔

جواب:تین قسم ہے مفرد، تثنیہ، جمع

سوال: مفرد کس کو کہتے ہیں۔

جواب:مفرد(۲) اس اسم کو کہتے ہیں جو ایک چیز پر دلالت کرے ، جیسے رَجُلٌ، ایک آدمی۔

واحد حقیقی، صُوری اور معنوی میں فرق

سوال: واحد حقیقی، صُوری، اور معنوی میں کون سا فرق ہے۔

جواب:واحد حقیقی وہ ہے جو لفظًا و معنًی واحد ہو جیسے رَجُلٌاس کی جمع ہے رِجَالٌ

اور واحد صوری وہ ہے جو لفظًا واحد ہو،  نہ معنًی جیسے قومٌاور واحد معنوی وہ ہے جو صرف معنًی واحد ہو لفظًا واحد نہ ہو۔جیسے عشرون یہ لفظًاجمع ہے کیوں کہ اس میں جمع کی علامت  واو اور  نون موجود ہے۔

 

تثنیہ اور اس کی علامت

 

سوال: تثنیہ کسے کہتے ہیں اور اس کی کیا علامت ہے۔

جواب: اس اسم کو کہتے ہیں جو دو چیزوں پر دلالت کرے اور اس کا مفرد بھی ہو

اس کو تثنیہ حقیقی بھی کہتے ہیں، اور اس کی علامت یہ ہے کہ واحد کے آخر میں الف

ماقبل مفتوح یا یاء  ماقبل مفتوح اور نون مکسور بڑھایا جائے جیسے رَجُلَانِ،  رَجُلَینِ۔

 

ملحق بالتثنیہ معنی

 

سوال: جس اسم میں صرف تثنیہ کی معنیٰ ہو اس کو کیا کہیں گے۔

جواب:جس میں تثنیہ کی معنیٰ ہو، لیکن علامت نہ ہو اس کو ملحق بالتثنیہ معنًی اور تثنیہ معنوی کہتے ہیں، اس کا حکم بھی تثنیہ حقیقی جیسا ہے جیسے کِلَا، کِلتَا ان کی معنیٰ ہے دو،  دو،  نہ ان کا مفرد ہے نہ ہی ان میں علامت تثنیہ ہے۔

 

ملحق بالتثنیہ لفظًا

 

سوال: جس اسم میں علامت تثنیہ کی ہو مگر اس کا  مفرد نہ ہو اس کو کیا کہیں گے۔

جواب:جس میں تثنیہ کی علامت اور معنیٰ ہو لیکن اس کا مفرد نہ ہو اس کو ملحق بالتثنیہ لفظًا اور تثنیہ صوری بھی کہا جاتا ہے جیسے اِثنَانِ، اِثنَینِ معنیٰ دو ، دو۔

 

جمع اور اس کی علامت

 

سوال: جمع کسے کہتے ہیں اور اس کی علامت کیا ہے۔

جواب:اس اسم کو کہتے ہیں جو دو سے زیادہ  چیزوں پر دلالت کرے ، اس کو جمع حقیقی کہتے ہیں اور اس کی علامت یہ ہے کہ اس کے واحد میں کوئی تغیر کیا گیا ہو، تغیر لفظًا ہو جیسے رِجَالٌ یا تقدیرًاہو جیسے فُلُکٌ، کشتیاں اس کا واحد بھی فُلُکٌ(ایک کشتی)ہے بروزن قُفلٌ ایک تالا، اور  جمع بھی فُلُکٌہے بروزن اُسُدٌ کئی شیر۔

سوال: تغیر تقدیری کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس تغیر کو کہتے ہیں کہ واحد و جمع پڑہنے و لکھنے میں ایک جیسے ہوں فرق صرف اعتباری ہو جیسے فُلُکٌ بمعنیٰ کشتی یہ واحد و جمع کے لیے فُلُکٌ ہی آتا ہے ، لیکن فُلُکٌ واحد کو قُفلٌ کے وزن پر اور فُلُکٌ جمع کو اُسدٌ کے وزن پر مانا جاتا ہے۔

 

ملحق بالجمع لفظًا

 

سوال: جس اسم میں جمع کی علامت ہو، مفرد نہ ہو تو اس کو کیا کہا جائے گا۔

جواب:اس کو ملحق بالجمع لفظًا  اور جمع صوری بھی کہا جاتا ہے۔ جیسے عِشرُونَ وغیرہ اس کاواحد ہی نہیں۔

 

ملحق بالجمع معنًی

 

سوال: جس اسم میں جمع والی معنیٰ ہو لیکن جمع کی صورت نہ ہو اس کو کیا کہیں گے۔

جواب:اس کو ملحق بالجمع معنیً اور جمع معنوی بھی کہا جاتا ہے ، جیسے اُولُو جمع ذُو، اُولُو مالٍ، مالدار لوگ۔

سوال: جمع کیلئے واحد میں تغیر اور تبدیلی کس طرح کیا جاتا ہے اور وہ کتنے قسم ہے۔

جواب:تغیر عام ہے ۱۔ یا مفرد میں زیادتی کی گئی ہو جیسے صِنوانٌ جمع صِنوٌ۔ ۲۔ یا مفرد  میں کمی کی گئی ہو جیسے غنمٌ جمع غنمۃٌ۔ ۳۔ یا مفرد میں حقیقۃ کوئی کمی زیادتی نہ کی گئی ہو جیسے اُسُدٌ(۱) جمع اَسَدٌ۔۴۔ یا مفرد کی صورت میں تغیر کیا جائے کہ جمع میں حرف بڑھائے جائیں جیسے رِجَالٌ جمع رجلٌ۔ ۵۔ یا مفرد کی صورت میں نُقص کیا جائے جیسے رُسُلٌ جمع رَسُولٌ۔ ۶۔ یا مفرد میں کمی بیشی اور صورت میں بھی تبدیلی کی گئی ہو جیسے غِلمَانٌ جمع غلامٌ۔

 

جمع مکسر اور اس کی علامت

 

سوال: جمع باعتبار لفظ  کے کتنے قسم ہے۔

جواب: دو قسم ہے ۱۔ جمع مکسر ۲۔ جمع سالم

سوال: جمع مکسر کسے کہتے ہیں۔

جواب: اس جمع کو کہتے ہیں جس میں واحد کا لفظ سلامت نہ ہو، بلکہ جمع میں آکر ٹوٹ جائے جیسے رِجَالٌ جمع رَجُلٌاور اس کو جمع تکسیر بھی کہتے ہیں۔

سوال: ثلاثی اور رباعی میں جمع مکسر کا تعلق سماع سے ہے یا قیاس سے۔

جواب:ثلاثی میں تو اس کا تعلق سماع (۱) سے ہے ، قیاس اور قانون کی اس میں کوئی گنجائش نہیں ہے ، البتہ رباعی اور خماسی میں قیاس کا دخل ہے ، اس طرح کہ ان میں جمع تکسیر فَعَالِلُ(۱) کے وزن پر آتا ہے جیسے جَعفَرُ سے جَعَافِرُ اور جَحمَرِشٌ سے جَحَامِرُ۔

 

جمع سالم اور اس کی علامت

 

سوال: جمع سالم کس کو کہتے ہیں۔

جواب: اس جمع کو کہتے ہیں جس میں واحد کا وزن باقی اور سلامت ہو، جیسے مسلمونَ جمع مسلمٌ، اس کو جمع تصحیح بھی کہتے ہیں۔

 

جمع مذکر سالم اور اس کی علامت

 

سوال: جمع  سالم کتنے قسم ہے۔

جواب: دو قسم ہے ۱۔ جمع مذکر سالم۔ ۲۔ جمع مؤنث سالم۔

سوال: جمع مذکر سالم کس کو کہتے ہیں اور  اس کی کون سی علامت ہے۔

جواب:  اس جمع کو کہتے ہیں جس میں واحد کے الفاظ بعینہ موجود ہوں اور اس کے آخر میں واو ماقبل مضموم یا یائ ما قبل مکسور اور نون مفتوح ہو جیسے مسلمونَ، مسلمینَ اور یہ جمع صرف مردوں کے نام اور ان کی صفات کیلئے آتی ہے۔

جمع مؤنث سالم اور اس کی علامت

 

سوال: جمع مؤنث سالم کس کو کہتے ہیں اور اس کی کون سی علامت ہے۔

جواب: اس جمع کو کہتے ہیں جس میں واحد کے بعینہ الفاظ موجود ہوں اور اس کے آخر میں الف اور تاء مبسوط ہو، اور یہ جمع عاقل وغیر عاقل سب کیلئے آتی ہے جیسے ضارِباتٌ، مسلماتٌ، صافِناتٌ۔

 

جمع قلت اور اس کے اوزان

 

سوال: جمع، معنیٰ کے اعتبار سے کتنے قسم ہے۔

جواب: دو قسم ہے ۱۔ جمع قلت  ۲۔ جمع کثرت

سوال: جمع قلت کسے کہتے ہیں اور اس کے وزن کون سے ہیں۔

جواب: اس جمع کو کہتے ہیں جو دس سے کم عدد پر بولا جائے (۱) اور اس کے چار وزن آتے ہیں۔ شعر۔

جمع قلت راچہا ر است ابنیہ

افعُل     افعَال          فِعلۃ        اَفعِلَۃ

۱۔ افعُلٌ جیسے اکلُبٌ، کَلبٌ کی جمع ہے معنیٰ کتا ۲۔ اَفعالٌ جیسے اَقوالٌ، قولٌ کی جمع، معنیٰ سخن، بات ۳۔ فِعلَۃٌ جیسے غِلمَۃٌ۔ غُلَامٌ کی جمع، معنیٰ غلام، خادم۴۔ اَفعِلَۃٌ جیسے اَرغِفَۃٌ، رَغِیفٌ کی جمع، معنیٰ روٹی۵۔ جمع مذکر سالم ۵۔جمع مؤنث سالم کے وزن بغیر الف لام کے دونوں جمع قلت میں داخل ہیں جیسے عالمونَ عالماتٌ۔ مثلًا اگر کوئی شخص یوں کہے عِندِی اَکلبٌ، میرے پاس کتے ہیں۔ تو مطلب یہ ہو گا کہ اس کے پاس دس سے کم، تین سے زائد کتے ہیں۔

۔۔۔۔

(۱) یعنی تین سے لے کر نو تک بولا جائے۔

۔۔۔۔۔

 

جمع کثرت اور اس کے اوزان

 

سوال: جمع کثرت کسے کہتے ہیں اور اس کے وزن کون سے ہیں۔

جواب:اس جمع  کو کہتے ہیں جو دس(۱) سے زیادہ عدد پر بولا جائے ، اور اس کے اوزان بہت ہیں، مشہور یہ ہیں۔ ۱۔ فِعالٌ جیسے عِبادٌ ۲۔ فُعَلاءُ جیسے عُلَماءُ ۳۔ اَفعِلاءُ جیسے اَنبِیَاءُ ۴۔ فُعَّالٌ جیسے خُدّامٌ ۵۔ فَعلیٰ جیسے مَرضیٰ ۶۔ فَعَلَۃٌ جیسے طَلَبَۃٌ ۷۔ فُعُلٌ جیسے رُسُلٌ ۸۔فُعُولٌ جیسے نُجُومٌ ۹۔ فِعَلٌ جیسے فِرَقٌ ۱۰۔ فِعلاَنٌ جیسے غِلمَانٌ ۱۱۔ جمع مذکر سالم ۱۲۔جمع مؤنث سالم الف لام کے ساتھ جیسے المسلمونَ، المسلماتُ۔

سوال: کیا جمع قلت اور جمع کثرت کے اوزان ایک دوسرے کی جگہ پر استعمال ہوتے ہیں۔

جواب: جی ہاں مجازًا  ایک دوسرے کی جگہ پر استعمال ہوتے ہیں جیسے ثَلٰثۃَ قُروءٍ

(تین حیض) میں قروء جمع کثرت کا وزن ہے لیکن جمع قلت میں استعمال ہوا ہے۔

۔۔۔۔

(۱) یعنی جو نو سے لے کر مالا نھایۃ پر دلالت کرے ۔

۔۔۔۔

 

جمع من غیر لفظہ

 

سوال: کیا ہمیشہ جمع اپنے واحد کے الفاظ سے آتا ہے۔

جواب: اکثر ایسا ہوتا ہے لیکن خلاف قیاس بعض جمع، واحد کے علاوہ دوسرے الفاظ  سے بھی آتے ہیں، جیسے أِمرءۃ جمع نساء۔ ذُو جمع اُولو، اس کو جمع من غیر لفظہٖ کہتے ہیں۔

 

اسم جمع

 

سوال: جو لفظ مفرد، جمع کی معنیٰ دیتا ہو تو اس کو کیا کہتے ہیں۔

جواب:اس کو اسم جمع کہتے ہیں جیسے قومٌ، رَھطٌ۔

 

جمع اقصیٰ

 

سوال: واحد کی جمع تو آتی ہے ، کیا جمع کی بھی جمع آتی ہے۔

جواب: جی ہاں، جمع کی بھی جمع آتی ہے ، اس کو جمع اقصیٰ اور منتھی الجموع کہتے ہیں، یعنی جس جمع کی دوبارہ جمع نہ آتی ہو جیسے شیخٌ سے مشائِخُ اور مشائِخُکی جمع آتی ہے مشائِخِینَ، اور کَلبٌسے اَکلُبٌ، اور اَکلُبٌکی جمع ہے اکالیب، اب مشائِخینَاور اَکَالِیب جمع الجمع ہیں۔ نیز جمع اقصیٰ کے تمام اوزان جمع کثرت میں شامل ہوتے ہیں۔

 

جمع اور اسم جمع  میں فرق

 

سوال: جمع اور اسم جمع میں کون سا فرق ہے۔

جواب: ۱۔جمع وہ ہے جو دو سے زیادہ چیزوں پر دلالت کرے ، اور اس کا واحد بھی ہو، اور اسم جمع وہ ہے جس کا نہ واحد ہو، نہ صورت جمع کی ہو۔جیسے قوم، رھط، اٰل ۲۔اور واضح رہے کہ اسم جمع، خلاف قیاس ہوتا ہے اور جمع حقیقی قیاس کے مواقف ہوتا ہے۔

 

جمع خلاف قیاس

 

سوال: کیا جمع کے صرف یہی ضابطے ہیں۔

جواب: جی ہاں، بعض الفاظ کا جمع خلاف قیاس بھی آتا ہے ، جیسے امٌّسے امَّھاتٌ، فَمٌ سے اَفواہ،  ماءٌ سے مِیاہٌ، انسانٌ سے اُناسٌ، شاۃٌ سے شِیاہٌ۔

 

منصرف

 

سوال:  اسم معرب کتنے قسم ہے۔

جواب: دو قسم ہے ، منصرف اور غیر منصرف۔

سوال: منصرف کسے کہتے ہیں۔

جواب: منصرف کی لغوی معنیٰ ہے پھرنے والا(۱) اصطلاح میں اس اسم معرب کو کہتے ہیں جس میں منع صرف کے نو اسباب میں سے دو سبب یا ایک ایسا سبب نہ پایا جائے جو دو سببوں کے قائم مقام ہو جیسے زید۔

سوال: اسم میں اصل انصراف ہے یاعدم انصراف۔

جواب:اسم میں اصل انصراف (پھرنا) ہے کیوں کہ اس پر تنوین پھرتی رہتی ہے۔

۔۔۔۔

(۱) یہ الصرف سے مأخوذ ہے۔

۔۔۔۔

 

غیر منصرف

 

سوال: غیر منصرف کس کو کہتے ہیں۔

جواب: غیر منصرف کی لغوی معنیٰ ہے نہ پھرنے والا، اور اصطلاح میں اس اسم معرب کو کہتے ہیں جس میں منع صرف کے نو اسباب میں سے دو سبب یا ایک ایسا سبب پایا جائے جو دو سببوں کے قائم مقام ہو جیسے احمد(۱)۔

سوال: کون سے اسباب دو سببوں کے قائم مقام ہوتے ہیں۔

جواب: وہ تین ہیں۱۔ الف مقصورہ تانیثی جیسے حُبلیٰ ۲۔الف ممدودہ تانیثی جیسے حَمرَاءُ ۳۔ جمع منتھی الجموع جیسے مَصَابِیحُ۔

۔۔۔۔۔

(۱) اس میں ایک سبب علم اور  دوسرا وزن فعل ہے۔

۔۔۔۔

 

منصرف و غیر منصرف کا حکم

 

سوال: منصرف اور غیر منصرف کا حکم کیا ہے۔

جواب: منصرف پر تنوین اور تینوں حرکتیں آتی ہیں اور غیر منصرف پر تنوین اور تینوں حرکتیں نہیں آتیں۔

سوال: غیر منصرف پر تنوین اور کسرہ کیوں نہیں داخل ہوتا۔

جواب:کیونکہ وہ فعل کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے جس طرح فعل زمانہ اور فاعل کا محتاج ہوتا ہے ، اسی طرح غیر منصرف بھی دو چیزوں (منع صرف کے دو سببوں)کا محتاج ہوتا ہے پھر جس طرح فعل پر تنوین اور کسرہ داخل نہیں ہوتا اسی طرح غیر منصرف پر بھی فعل کی مشابہت کی وجہ سے تنوین اور کسرہ داخل نہیں ہوتا۔

 

منع صرف

 

سوال: منع صرف کس کو کہتے ہیں۔

جواب:ایسے سبب یا علت کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے اسم کے آخر میں تنوین اور کسرہ نہ آسکے۔

 

اسباب منع صرف

 

سوال: منع صرف کے جو اسباب اسم کو منصرف ہونے سے روکتے ہیں وہ کون سے ہیں۔

جواب:وہ نو اسباب ہیں۱۔ عدل ۲۔ وصف ۳۔ تانیث ۴۔ معرفہ ۵۔ عجمہ ۶۔ جمع ۷۔ ترکیب ۶۔ وزن فعل ۹۔  الف نون زائدہ۔

 

عدل

 

سوال: عدل کس کو کہتے ہیں۔

جواب:اس کا لغوی معنیٰ ہے آگے بڑھ جانا اور اصطلاح میں اس اسم کو کہتے ہیں جو اپنی اصلی صورت چھوڑ کر دوسری صورت اختیار کرے ، بغیر کسی قانون صرفی کے جیسے عُمَرُ دراصل عَامِرٌ(۱) جس پہلی صورت کو چھوڑا اسے معدول عنہ اور جس دوسری صورت  کو اختیار کیا ہے اسے معدول کہتے ہیں۔

سوال: عدل، غیر منصرف کا سبب کب بنتا ہے۔

جواب:۱۔جب اس کے ساتھ علم جمع ہو، جیسے زُفَرُ، عُمَرُاس میں ایک سبب علم ہے دوسرا سبب عدل ہے کہ اس کو معدول مان لیا گیا ہے عامرٌ سے ۲۔یا وصف جمع ہو جیسے رُبَاعُ، مُخَمَّسُ، مُرَبَّعُ۔ ثُلاثُ، مَثلَثُہر ایک کا معنیٰ ہے تین تین، یہ اصل میں تھے  ثَلَاثَۃٌ ثَلَاثَۃٌ۔

نوٹ: زیادہ تر فُعَلُ کے وزن پر آنے والے سماعی اعلام ہوتے ہیں جیسے زُفَرُ، مُضَرُ، زُحَلُ، جُمَحُ، قُزَحُ، عُصَمُ، زُمَرُ، ھُبَلُ وغیرہ۔

۔۔۔۔۔

(۱(     اس میں ایک سبب عدل، دوسرا علم ہے۔

۔۔۔۔۔۔

 

وصف

 

سوال: وصف کس کو کہتے ہیں۔

جواب:وصف کا لغوی معنیٰ ہے بیان کرنا، تعریف کرنا اور اصطلاح میں اس اسم کو کہتے ہیں جو ایسی ذات مبہم پر دلالت کرے جس میں صفت کا لحاظ کیا گیا ہو جیسے احمر، سرخ رنگ والی چیز، (مرد )۔اس میں ایک سبب وصف، دوسرا وزن فعل ہے۔

نوٹ:اور وصف عام ہے اَفعَلُ کے وزن پر ہو جیسے احمر یافَعلاَنُ کے وزن پر ہو اور اس کا مؤنث ہی  نہ ہو  جیسے رَحمَانُیا اس کے آخر میں ۃ کا آنا مشہور نہ ہو۔ جیسے عطشان  و سکران کہ ان کا مؤنث عطشىٰو سکرىٰ آتا ہے۔

سوال: وصف غیر منصرف کا سبب کب بنتا ہے۔

جواب: اس کے ساتھ ۱۔عدل ۲۔یا الف نون زائدہ ۳۔یا وزن فعل جمع ہو جیسے اُخَرُ، جُوعَانُ، اَبیَضُ۔

سوال:غیر منصرف میں  وصف اصلی معتبر ہوتی ہے یا عارضی۔

جواب:اس میں وصف اصلی معتبر ہے جیسے اسود (سیاہ سانپ) ارقم (چت کبڑا سانپ) وصف عارضی ہو گی تو منصرف ہی رہے گا جیسے مَرَرتُ بِنِسوَۃِِ اَربَعٍ یہاں اَربَعٍ میں وصف کا معنیٰ عارضی ہے۔ کیوں کہ یہ اصل میں چار عدد کے لیئے وضع کیا گیا ہے۔

 

تانیث

 

سوال: تانیث کسے کہتے ہیں۔

جواب: تانیث معنیٰ اسم کا مؤنث ہونا، پھر تانیث عام ہے لفظی ہو جیسے طلحۃ یا معنوی ہو جیسے زینب۔

سوال: تانیث غیر منصرف کا سبب کب بنتی ہے۔

جواب: تانیث کی کئی قسمیں ہیں

۱۔ تانیث بالتاء، یہ غیر منصرف کا سبب تب بنے گی جب اس کے ساتھ علم جمع ہو، جیسے مکَّۃ، فاطمۃ، عائشۃ ۲۔تانیث بالف المقصورۃ والممدودۃ یہ خود سبب قوی ہے بغیر کسی دوسرے سبب ملنے کے غیر منصرف ہوتا ہے ، جیسے حُبلیٰ، حاملہ عورت، ذِکریٰ، مَرضیٰ، سُکاریٰ، صَحراء، عَاشُوراء، نُفَسَاء ۳۔ تانیث معنوی، اس میں شرط ہے۔

۱۔کہ وہ تین حروف سے زائد ہو جیسے زینب ۲۔ یا اس کا درمیانی حرف متحرک ہو جیسے سَقَرُ (دوزخ کا ایک طبقہ )لیکن وہ سہ حرفی ہے تو شرط ہے کہ عجمہ ہو جیسے ماہ وجُورَ یہ دو شہروں کے نام ہیں۔ لیکن تانیث معنوی کے ساتھ جب علم ہو اور ثلاثی ساکن الاوسط ہو تو دونوں صورتیں (غیر منصرف اور منصرف) جائز ہیں، جیسے ھِندٌ وَ ھِندُ، دُعدٌ وَ دُعدُ۔

 

معرفہ

 

سوال: معرفہ سے کیا مراد ہے۔

جواب: معرفہ کی لغوی معنیٰ ہے پہچاننا اور اس کے کئی اقسام ہیں، لیکن یہاں مراد ہے علم(۱) چاہے مذکر کا ہو یا مؤنث کا  جیسے ابراھیمُ، اسماعیلُ، زینبُ۔

سوال: معرفہ (یعنی علم) غیر منصرف کا سبب کب  بنتا ہے۔

جواب: جب اس کے ساتھ چند چیزوں میں سے کوئی ایک جمع ہو۔  ۱۔ تانیث۲۔ یاترکیب ۳۔ یا عجمہ۴۔ یا عدل ۵۔ یا الف نون زائدہ ۶۔ یا وزن فعل جیسے ۱۔طلحۃ ۲۔معدیکرب ۳۔ابراھیم۴۔عمر ۵۔عثمان ۶۔احمد وغیرہ۔

۔۔۔۔۔۔

(۱( چاہے علم، شخص خاص کا ہو یا مکان خاص کا ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

عجمہ

 

سوال: عجمہ کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس کی لغوی معنیٰ ہے لُکنَت کُند(۱) زبان ہونا۔اور اصطلاح میں اس اسم کو کہتے ہیں جس کو غیر عرب نے وضع کیا ہو جیسے ابراھیم۔ اس میں ایک سبب عجمہ، دوسر ا علم ہے۔

سوال: عجمہ، غیر منصرف کا سبب کب بنتا ہے۔

جواب: ۱۔جب یہ علم کے ساتھ جمع ہو یعنی عجمی زبان میں علم ہو ۲۔اور غیر ثلاثی ہو ۳۔یاسہ حرفی ہے تو ثلاثی متحرک الاوسط ہو۔ جیسے ابراھیم، اسماعیل، یعقوب۔ شَتَرُ، نام قلعہ۔

۔۔۔۔۔

(۲)یعنی عربی زبان کا لفظ نہ ہو۔

۔۔۔۔

 

انبیاء کے منصرف و غیر منصرف نام

 

سوال: کون سے انبیاء کرام کے نام منصرف اور کون سے غیر منصرف ہیں۔

جواب:اس شعرسے معلوم ہوتا ہے کہ آٹھ انبیاء ﷨کے نام منصرف ہیں، باقی غیر منصرف ہیں۔

گرہمی خواہی که دانی نام ہر پیغمبرے

تاکدام ست اے برادر نزد نحوی منصرف

صالح وہود و محمد باشعیب و نوح و لوط

منصرف دان و دگر باقی ہمہ لاینصرف

ہم عزیر و شیث داں باقی ہمہ لا ینصرف

 

یعنی: نوح، لوط، شیث، ہود علیہم السلام عجمی اور منصرف ہیں، اور صالحؑ، ھودؑ، محمدؐ، شعیبؑ عربی منصرف ہیں۔ باقی تمام عجمی غیر منصرف ہیں اس لیئے کہ یہ عرب سے پہلے ہوئے ہیں۔

ملائکہ کے منصرف و غیر منصرف نام

سوال: ملائکہ کے نام منصرف ہیں یا غیر منصرف۔

جواب:ملائکہ میں چار ناموں کے علاوہ سب عجمی غیر منصرف ہیں اورچار عربی ہیں، جن میں سے رضوان، عربی غیر منصرف اور مُنکَر نَکِیر، مَالِک یہ عربی منصرف ہیں۔

 

اسلامی مہینوں کے منصرف و غیر منصرف نام

 

سوال: اسلامی مہینوں کے نام منصرف ہیں یا غیر منصرف۔

جواب:ان میں چھ منصرف اور چھ غیر منصرف ہیں، غیر منصرف یہ ہیں۔

صفر، جُمَادَی الاولٰی۔ جُمَادَ ی الاٰخَر، رجَب۔ شعبان۔رمضان، باقی چھ منصرف ہیں۔

 

جمع

 

سوال: جمع سے کیا مراد ہے۔

جواب:یہاں جمع سے مراد ہے جمع منتھی الجموع (جمعوں کی انتھا) اور اس میں علم شرط ہے جس کے مشہور اوزان یہ ہیں۔ مَفَاعِلُ۔ مَفَاعِیلُ۔ فَعَالِلُ۔ فَعَالِیلُ۔

سوال: جمع منتھی الجموع، غیر منصرف کا سبب کب بنتا ہے۔

جواب:یہ خود سبب قوی ہے بغیر کسی دوسرے سبب کے ملنے سے غیر منصرف کا سبب بنتا ہے ، بشرطیکہ اس کے آخر میں ایسی تاء نہ ہو جو وقف میں ہ ہو جاتی ہے۔ جیسے مَساجدُ، عساکِرُ، مصابیحُ۔ خارج ہوئے صَیاقِلَۃ۔ فرازنۃٌ جمع فِرزانٌ (شطرنج جو وزیر ہوتا ہے )۔

 

ترکیب

 

سوال: ترکیب سے کیا مراد ہے۔

جواب:اس سے یہاں مراد ہے مرکب منع صرف /مرکب مزجی جیسے معدیکربَ(۱) نام مرد، بعلبکَ، حضرموتَ۔

سوال: مرکب منع صرف، غیر منصرف کا سبب کب بنتا ہے۔

جواب:جب اس کے ساتھ علم جمع ہو بغیر وَیہ والا جیسے بُختَنَصرَ۔

 

وزن فعل

 

سوال: وزن فعل سے کیا مراد ہے۔

جواب:اس سے مراد یہ ہے کہ ۱۔کوئی اسم، فعل کے وزن پر ہو(۲) جیسے  شَمَّرَ(۳) یہ گھوڑے کا نام ہے۔ ۲۔یا ابتدا میں حرف اتین ہو جیسے احمدُ۔

سوال: اگر کوئی وزن، اسم و فعل میں مشترک ہو تو اس کا کیا حکم ہے۔

جواب:اس کے غیر منصرف ہونے کے لیے ضروری ہے کہ شروع میں حرف اتین میں سے کوئی حرف ہو اور یہ وزن آخر میں تاء کو قبول نہ کرے جیسے احمدُ مرد کا نام، تَغلِبُ، قبیلہ کا نام یَشکُر، قبیلہ کا نام۔

سوال: وزن فعل، غیر منصرف کا سبب کب بنتا ہے۔

جواب:۱۔جب اس کے ساتھ علم جمع ہو جیسے یزیدُ، یَشکُرُ ۲۔یا ایسی وصف جمع ہو جس کے مؤنث میں تاء نہ آتی ہو جیسے اَحمَرُ، اَبیَضُ، اَسوَدُ، اَعرَجُ۔ خارج ہوا  یَعمَلُ یہ منصرف ہے کیونکہ یہ تاء کو قبول کرتا ہے ، کہا جاتا ہے  نَاقَۃٌ یَعمَلَۃٌ اوٹنی جو چلنے میں قوی ہو۔

۔۔۔۔

(۱)یہاں ایک سبب ترکیب، دوسرا علم ہے۔

(۱)یعنی وہ وزن خاص اسم میں نہ پایا جاتا ہو مگر فعل سے اسم کی طرف نقل کرکے استعمال ہو یعنی فعل کے لئے مخصوص یا راجح اوزان میں سے کوئی وزن ہو جیسے تُبَشِّرُ ۔پرندہ کا نام ہے۔

(۲)یہ تشمیر سے مشق ہے معنیٰ دامن اوپر اٹھانا ،پھر نقل کر کے ایک گھوڑے کا نام رکھا گیا ۔

۔۔۔۔

 

وزن کی قسمیں

 

سوال: وزن کتنے قسم  ہے۔

جواب:دس قسم ہے ۱۔ ثلاثی مجرد معلوم۲۔ ثلاثی مجرد مجہول ۳۔ ثلاثی مزید معلوم ۴۔ ثلاثی مزید مجہول ۵۔ رباعی مجرد معلوم۶۔ رباعی مجرد مجہول ۷۔ رباعی مزید معلوم ۸۔رباعی مزید مجہول ۹۔ خماسی مجرد ۱۰۔ خماسی مزید۔

آخری دو وزن اسم کے ساتھ خاص ہیں، اور دو وزن اسم و فعل دونوں میں مشترک ہیں ۱۔ ثلاثی مجرد معلوم ۲۔ رباعی مجرد معلوم، باقی وزن فعل کے ساتھ خاص ہیں۔

 

الف نون زائدہ

 

سوال:  الف نون زائدہ سے کیا مراد ہے۔

جواب:ان سے وہ الف نون مراد ہے جو فا، عین، لام، کلمہ کے مقابلہ میں نہ ہو، پھر یہ اسم میں ہوں گے ، جیسے عثمانُ یا صفت میں، جیسے  سَکرَانُ۔ نَدمَانُ (پشیمان)۔

سوال: الف نون زائدہ، غیر منصرف کا سبب کب بنتا ہے۔

جواب:۱۔جب یہ اسم میں ہوں تو شرط ہے کہ ان  کے ساتھ علم جمع ہو جیسے سفیان، عمران، سلمان ۲۔اور اگر صفت میں ہوں تو شرط ہے کہ ایسی وصف جمع ہو جس کے مؤنث میں تاء نہ آتی ہو، جیسے شعبان، جُوعان، ایّان، سکران (نشے والا) اس کا مؤنث سکریٰ آتا ہے۔خارج ہوا ندمانُ بمعنیٰ ہم نشین اس کا مؤنث نَدمَانَۃٌ آتا ہے۔

سوال: غیر منصرف کے کتنے اسباب میں علمیت شرط ہے۔

جواب:چار اسباب میں علمیت شرط ہے ۱۔ تانیث ۲۔ عجمہ ۳۔ ترکیب ۴۔ الف نون زائدہ جب کہ اسم میں ہوں، صیغہ صفاتی نہ ہوں۵۔ اسی طرح علم اور وزن فعل میں بھی علمیت جمع ہوتی ہے ، لیکن بطور شرط کے نہیں، بطور محض سبب کے ان کے اخیر میں اگر علم نہ ہو تو ایک سبب ہو گا، اگر علمیت کے علاوہ کوئی اور سبب ہو گا تو ان کو غیر منصرف پڑھا جائے گا جیسے ثُلٰثُ۔مَثلَثُ۔اَحمَرُ۔

سوال: کیا غیر منصرف کا منصرف بننا ممکن ہے۔

جواب:جی ہاں دو صورتوں میں اس پر کسرہ اور تنوین داخل ہو سکتی ہے ، البتہ منصرف بننے میں اختلاف ہے۔ ۱۔ جب اس پر الف لام داخل ہو جیسے وَزّعتُ عَلیٰ المَسَاکِینِ ۲۔ یا اس کی اضافت کر دی جائے جیسے لَقِیتُ بِاَحسَنِ العُلَمَاءِ اور

اَعِد     ذِکرَ     نُعمَانٍ     لَّنَا  اَنَّ    ذِکرَہٗ

ھُوَالمِسکُ مَا کَرَّرتَہٗ یَتَضَوَّعٗ

 

 

 

                فصل، اعراب

 

سوال: اعراب کا لغوی اور اصطلاحی معنیٰ کیا ہے۔

جواب:اعراب کا لغوی معنیٰ ہے ظاہر کرنا اور اصطلاح میں مابہٖ یختلف اٰخر المعرب کَالضَّمَّۃ والفتحۃِ والکسرۃِ والواوِ والالفِ والیاءِ۔ اعراب ایسے حرف یا حرکت کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے معرب کی آخری حالت(۱) میں تبدیلی آئے

(یعنی وہ حالت جو عامل سے پیدا ہو(۲) ) جیسے جائنی زیدٌ۔ رئیتُ زیدًا۔ مررت بزیدٍ۔

۔۔۔۔۔

(۱)اسم و فعل

(۲)گویا اعراب اس حرف یا حرکت کو کہتے ہیں جو فاعل یا ملحق بالفاعل (مبتدا خبر) ہونے پر دلالت کرے یا مفعول یا ملحق بالمفعول (انَ کا اسم، کان َکی خبر) ہونے پر دلالت کرے یا مضاف الیہ یا مجرور بحرف جر ہونے پر دلالت کرے۔

۔۔۔۔۔۔

 

معرب اور مبنی کے اعراب میں فرق

 

سوال: معرب اور مبنی کے حرکات و سکنات میں کیا فرق ہے۔

جواب: اسم مبنی کے اعراب تین ہیں ضمہ، فتحہ، کسرہ اور معرب کے اعراب ہیں، رفعہ نصب جر  البتہ ضمہ فتحہ کسرہ معرب اور مبنی میں مشترک ہوتے ہیں اور فعل کے اعراب تین ہیں ۱۔ رفعہ ۲۔ نصب ۳۔ جر۔

 

اعراب لفظی، تقدیری اور محلی

 

سوال: اعراب ابتداءً کتنے قسم ہے۔

جواب:تین قسم ہے ۱۔ اعراب لفظی ۲۔ تقدیری ۳۔ محلی۔

۱۔اعراب لفظی وہ ہے ، جس کو لفظوں میں بولا جائے (۱) ، جیسے جاءَزیدٌ۔

۲۔اعراب تقدیری وہ ہے ، جس کو لفظوں میں نہ بولا جائے (۲) بلکہ چھپا ہوا ہو اور اسے عامل کے اعتبار سے پہچانا جاتا ہے ، جیسے جاء القاضی، میں ی پر ضمہ ہے ، فاعل ہونے کی وجہ سے کیوں کہ فاعل مرفوع ہوتا ہے۔

۳۔اعراب محلی یعنی مبنی کا ایسی جگہ پر ہونا جہاں اگر معرب ہوتا تو اس پر لفظًا یا تقدیرًا کوئی اعراب دیا جاتا جیسے جاءَ ھٰؤلاءِ۔

۔۔۔۔۔

(۱)جو پڑھنے میں آئے۔

(۲)جو پڑھنے میں نہ آئے۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

مبنی کا اعراب

 

سوال: کون سا اعراب معرب سے خاص ہے اور کون سا مبنی سے۔

جواب:اعراب لفظی اور تقدیری معرب سے خاص ہیں جبکہ تیسرا قسم اعراب محلی مبنی کے ساتھ خاص ہے۔

 

اعراب کہاں ہوتا ہے

 

سوال: اعراب کی جگہ کہاں ہے۔

جواب:حقیقۃً اعراب کی جگہ لفظ کا آخری حرف ہے ، لفظ کے ابتدائی اور درمیانی حرف کو جو حرکات و سکنات ہوتی ہیں انہیں مجازًا اعراب کہتے ہیں۔

 

اسم کا اعراب

 

سوال: اسم کے اعراب کتنے ہیں۔

جواب:تین ہیں۔ ۱۔ رفعہ۲۔ نصب ۳۔ جر یعنی جزم اسم پر نہیں آتا۔

سوال: رفعہ، نصب اور جرکس کو کہتے ہیں۔

جواب:رفعہ وہ حالت ہے جو عامل رافع سے پیدا ہو۔  نصب وہ حالت ہے جو عامل ناصب سے پیدا ہو۔ جر وہ حالت ہے جو عامل جار سے پیدا ہو۔

 

رفعہ کی صورتیں

 

سوال: رفعہ کتنی چیزوں سے پڑھا جاتا ہے۔

جواب:چھ چیزوں سے ۱۔ رفعہ ضمہ لفظی سے ۲۔ ضمہ تقدیری سے ۳۔ الف لفظی سے ٤۔ الف تقدیری سے ۵۔ واو لفظی سے ٦۔ واو تقدیری سے۔

 

نصب کی صورتیں

 

سوال: نصب کتنی چیزوں سے پڑھا جاتا ہے۔

جواب:آٹھ چیزوں سے پڑھا جاتا ہے ۱۔ فتح لفظی سے ۲۔ فتح تقدیری سے ۳۔ الف لفظی سے ۴۔ الف تقدیری سے ۵۔ یاء لفظی سے ۶۔ یاء تقدیری سے ۷۔ کسرہ لفظی سے ۸۔ کسرہ تقدیری سے۔

 

جر، کی صورتیں

 

سوال: جر کتنی چیزوں سے پڑھا جاتا ہے۔

جواب:چھ چیزوں سے پڑھا جاتا ہے ۱۔ کسرہ لفظی سے ۲۔ کسرہ تقدیری سے ۳۔ یاء لفظی سے ۴۔ یاء تقدیری سے ۵۔ فتح لفظی سے ۶۔ فتح تقدیری سے۔

سوال: اعراب اور مواقع اعراب کل کتنے قسم ہیں۔

جواب:اعراب دس قسم اور اسم متمکن کے مواقع اعراب سولہ  قسم ہیں۔ دس قسم کی تفصیل یہ کہ ابتداءً اعراب دو قسم ہے ۱۔ اعراب حرکاتی، جو حرکتوں سے پڑھا جائے جیسے رفعہ، پیش۔ نصب، زبر۔ جر، زیر۲۔  اعراب حروفی، جو حرفوں سے پڑھا جائے یعنی واو، الف، یاء۔

 

اعراب حرکاتی

 

سوال: اعراب حرکاتی کتنے قسم ہے۔

جواب:تین قسم ہے ، حرکاتی  لفظی، حرکاتی تقدیری، حرکاتی مشترک۔ یعنی جو حرکتیں کبھی پڑھنے میں آئیں، کبھی پڑھنے میں نہ آئیں اور  ہر ایک دو  دو قسم ہیں لفظی تبعی، لفظی غیر تبعی اور تقدیری تبعی اور تقدیری غیر تبعی اور مشترک ایک قسم ہے۔

سوال: اعراب حرکاتی لفظی کسے کہتے ہیں۔

جواب:جس کا اعراب حرکتوں سے پڑھا جائے اور وہ حرکتیں پڑھنے میں آئیں۔

 

اعراب تبعی اور غیر تبعی

 

سوال: اعراب حرکاتی لفظی اور حرکاتی تقدیری کتنے قسم ہے۔

جواب:ہر ایک دودو قسم ہے ۱۔ لفظی تبعی یعنی جس میں ایک حالت دوسری حالت کے تابع ہوکہ دونوں حالتوں میں ایک ہی اعراب پڑھا جائے ۲۔ لفظی غیر تبعی، یعنی جس میں کوئی حالت کسی کے تابع نہ ہو، بلکہ ہر حالت کیلئے جدا جدا اعراب ہو۳۔ تقدیری تبعی ۴۔ تقدیری غیر تبعی ۵۔ مشترک یہ ایک ہی قسم ہے۔

 

اعراب حرکاتی لفظی غیر تبعی

 

سوال: اعراب حرکاتی لفظی غیر تبعی کون سا ہے۔

جواب:وہ ہے رفعہ ضمہ لفظی سے ، نصب فتح لفظی سے ، جر کسرہ لفظی سے۔

سوال: اعراب حرکاتی لفظی غیر تبعی اسم متمکن کے کتنے قسموں پر پڑھا جاتا ہے۔

جواب:یہ تین قسموں پر پڑھا جاتا ہے ۱۔ اسم مفرد منصرف صحیح جیسے زیدٌ۲۔ مفرد منصرف جاری مجریٰ صحیح جیسے دلوٌ، ڈول، ظبیٌ ہرن ۳۔ جمع مکسر منصرف صحیح جیسے رجالٌ۔

سوال: صحیح کسے کہتے ہیں۔

جواب:نحویوں کے نزدیک صحیح اس کلمہ کو کہتے ہیں جس کے لام کلمہ کے مقابلہ میں حرف علت نہ ہو(۱)۔

سوال:جاری مجریٰ (۲) صحیح کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس اسم کو کہتے ہیں جس کے لام کلمہ کے مقابلہ میں حرف علت اور ماقبل ساکن ہو جیسے دلوٌ، ظبیٌ وغیرہ مثلاً جائنی زیدٌ وَ ظبیٌ وَ دلوٌ وَ رجالٌ۔ رئیتُ زیدًا وَ دلوًا وَ ظبیًا وَرجالاً۔ مررتُ بزیدٍ وَ دلوٍ و ظبیٍ وَ رجالٍ۔

۔۔۔۔۔

(۱)پھر یہ حضرات مثال اور اجوف کو بھی صحیح کہتے ہیں۔

(۲)قائم مقام صحیح

۔۔۔۔۔

 

اعراب حرکاتی لفظی تبعی

 

سوال: اعراب حرکاتی لفظی تبعی کتنے قسموں پر پڑھا جاتا ہے۔

جواب:یہ اعراب اسم متمکن کے دو قسموں پر پڑھا جاتا ہے ۱۔ جمع مؤنث سالم۔ ۲۔ غیر منصرف(۱)۔

سوال: جمع مؤنث(۲) سالم کا اعراب کون سا ہے۔

جواب:وہ ہے رفعہ ضمہ لفظی سے نصب اور جرکسرہ لفظی سے جیسے ھُنَّ مُسلِمَاتٌ۔ رَئیتُ مسلمات}(۳) مررتُ بمسلمات}۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)بشرطیکہ اسم مقصورہ  نہ ہو کیونکہ اس کا اعراب تقدیری تبعی ہے جیسے موسیٰ۔

(۲)اس سے مراد جمع اصطلاحی ہے جس کے آخر میں الف تاء ہو خواہ وہ جمع مؤنث ہو یا نہ ہو جیسے مرفوعات، منصوبات، اور خواہ وہ جمع ہو یا نہ ہو، جیسے عرفات۔

(۳)  یہاں نصب جر کے تابع ہے۔

۔۔۔۔۔

 

غیر منصرف کا اعراب

 

سوال: غیر منصرف کا اعراب کون سا ہے۔

جواب:وہ ہے رفعہ ضمہ لفظی سے ، نصب اور جر فتح لفظی سے جیسے جاء عمرُ، رئیتُ عمرَ، مررتُ بِعمرَ۔

اعراب حرکاتی تقدیری غیر تبعی

سوال: اعراب حرکاتی تقدیری غیر تبعی کون ساہے۔

جواب:وہ ہے رفعہ ضمہ تقدیری سے ، نصب فتح تقدیری سے ، جر کسرہ تقدیری سے۔

 

اسم مقصورہ منصرف کا اعراب

 

سوال: اعراب حرکاتی تقدیری غیر تبعی کتنے قسموں پر پڑھا جاتا ہے۔

جواب:یہ اعراب اسم متمکن کے تین قسموں پر پڑھا جاتا ہے ۱۔ اسم مقصورہ منصرف جیسے عصىٰ۲۔غیر جمع مذکر سالم مضاف بطرف یاء متکلم جیسے غلامی۳۔کِلاکِلتا مضاف بطرف اسم ظاہر جیسے کِلا الرجلین، جیسے جائنی عصیٰ وَ غلامی وَ کِلا الرجلین۔ رئیتُ عصیٰ وَغلامی وَ کِلا الرجلین۔ مررتُ بِعَصیٰ وَ غلامی وَ کِلا الرجلین۔

 

اعراب حرکاتی تقدیری تبعی

 

سوال: اعراب حرکاتی تقدیری کسے کہتے ہیں۔

جواب:جو اعراب حرکتوں سے پڑھی جائے اور وہ حرکتیں پڑھنے میں نہ آئیں۔

سوال: اعراب حرکاتی تقدیری کتنے قسموں پر پڑھا جاتا ہے۔

جواب:دو قسموں پر پڑھا جاتا ہے ۱۔ اسم مقصورہ غیر منصرف ۲۔جمع مؤنث سالم مضاف بطرف یاء متکلم۔

سوال: اسم مقصورہ غیر منصرف کا اعراب کون سا ہے۔

جواب:وہ ہے رفعہ ضمہ تقدیری سے ، نصب اور جر، فتح تقدیری سے (۱) ، جیسے حُبلیٰ،  موسیٰ وغیرہ، یعنی جائنی حبلیٰ وَ موسیٰ، رئیتُ حبلیٰ وَ موسیٰ، مررتُ بحبلیٰ وَ موسیٰ۔

سوال: جمع مؤنث سالم مضاف بطرف یاء متکلم کا اعراب کون سا ہے۔

جواب:وہ ہے رفعہ ضمہ تقدیری سے ، نصب اور جر کسرہ تقدیری سے (۲) جیسے جائت مسلماتی، رئیتُ مسلماتی، مررتُ بِمسلماتی۔

۔۔۔۔۔

(۱)یہاں جر نصب کے تابع ہے تقدیرًا۔

(۲)یہاں نصب جر کے تابع ہے تقدیرًا۔

۔۔۔۔۔

 

اعراب حرکاتی مشترک

 

سوال:اعراب حرکاتی مشترک کون سا ہے۔

جواب:وہ ہے رفعہ ضمہ تقدیری سے نصب فتح لفظی سے ، جر کسرہ تقدیری سے۔

سوال: اعراب حرکاتی مشترک کون سے قسم پر پڑھا جاتا ہے۔

جواب:یہ اسم منقوص پر پڑھا جاتا ہے ، جیسے جاء القاضی رئیتُ القاضِیَ، مررتُ بِالقاضی۔

 

اسم منقوص و اسم منسوب میں فرق

 

سوال: اسم منقوص کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس اسم کو کہتے ہیں جس کے آخر میں یاء ساکن اور ماقبل مکسور ہو(۱) جیسے قاضِی۔

سوال: اسم منقوص اور اسم منسوب میں کیا فرق ہے۔

جواب:ان میں کئی فرق ہیں۱۔اسم منقوص کے آخر میں یاء اور ماقبل مکسور ہوتا ہے اور اسم منسوب کے آخر میں یاء نسبت ہوتی ہے جیسے بغدادیٌّ۲۔ اسم منقوص کی یاء اصلی ہوتی ہے اور اسم منسوب کی یاء زائدہ ہوتی ہے ، جیسے قُریشِیٌّ بروزن فُعیلِیٌّ ۳۔اسم منقوص کا رفعہ اور جر تقدیری ہوتے ہیں اور نصب لفظی ہوتی ہے لیکن اسم منسوب کے تینوں اعراب لفظی ہوتے ہیں جیسے جاء بغدادیٌّ، رئیتُ بغدادیًّا۔ مررتُ  بِبَغدادىّ}۔

سوال: کیا اسم منقوص اور اسم منسوب کا اعراب تقدیری بھی ہوتا ہے۔

جواب:جی ہاں، جب یہ  یاء متکلم کی طرف مضاف ہوں تو دونوں کے تینوں اعراب تقدیری ہوں گے ، جیسے جاء قاضِیَّ وبَغدادِیَّ۔ رئیتُ قاضِیَّ وَبَغدادِیَّ۔مررتُ بِقاضِیَّ و بِبغدادِیَّ۔

۔۔۔۔۔

(۱)   اور وہ یاء نفس کلمہ کی ہو۔

۔۔۔۔۔

 

اعراب حروفی

 

 

سوال: اعراب حروفی کتنے قسم ہے۔

جواب:تین قسم ہے ۱۔ حروفی لفظی ۲۔ حروفی تقدیری ۳۔ حروفی مشترک۔

سوال: اعراب حروفی میں سے ہر ایک کتنے قسم ہے۔

جواب:ہر ایک دو، دو قسم ہے ۱۔ حروفی لفظی تبعی ۲۔ حروفی لفظی غیر تبعی ۳۔ حروفی تقدیری تبعی ۴۔ حروفی تقدیری غیر تبعی ۵۔ حروفی مشترک در تثنیہ و جمع۔

 

اعراب حروفی لفظی غیر تبعی

 

اعراب حروفی لفظی وہ ہے جو حروف سے پڑھی جائے اور سارے حروف پڑھنے میں آئیں اور اعراب حروفی لفظی تقدیری وہ  ہے جو حروف سے پڑھی جائے اور کچھ حروف پڑھنے میں آئیں کچھ حروف پڑھنے میں نہ آئیں۔

سوال: اعراب حروفی لفظی غیر تبعی کون سا ہے۔

جواب:وہ ہے رفعہ واو لفظی سے ، نصب الف لفظی سے ، جر یاء لفظی سے۔

سوال: اعراب حروفی لفظی غیر تبعی کتنے قسموں پر پڑھا جاتا ہے۔

جواب:یہ اسم متمکن کے ایک قسم اسماء سِتَّہ پر پڑھا جاتا ہے ، وہ یہ ہیں۔

۱۔ اب (باپ) ۲۔ اخ(بھائی) ۳۔حم(دیور، خسر) ۴۔ھَنٌ(شرمگاہ)۵۔فَمٌ(منہ)

۶۔ ذو مالٍ(۱) (مال والا)  جیسے جاء ابوکَ، رئیت اباکَ، مررت بِاَبِیکَ۔

سوال:  ذُو، کا استعمال کیسے ہوتا ہے۔

جواب:یہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے ، اور ضمیر کی طرف مضاف نہیں ہوتا جیسے ذومالٍ۔

۔۔۔۔

(۱) ذو بمعنیٰ صاحب، مالک۔

۔۔۔۔۔

 

اسماء ستہ کے اعراب کے شرائط

 

سوال: اسماء ستہ کے اعراب کے لئے کون سے شرائط ہیں۔

جواب:ان کے اعراب کیلئے پانچ شرائط ہیں ۱۔ اسماء ستہ مفرد ہوں، اگر تثنیہ اور جمع ہوں گے تو اعراب تثنیہ و جمع والا پڑھا جائے گا، جیسے جاءَ اَبوَانِ، رئیتُ اَبوَینِ، مررتُ بِاَبَوَینِ ۲۔مکبَّرہ ہوں، اگر مصغّر ہوں گے تو اعراب حرکاتی لفظی غیر تبعی(۱) پڑھا جائے گا، جیسے جاءَ اُبَیٌّ، رئیتُ اُبَیًّا، مررت بِاُبَیّ}۳۔ مضاف ہوں، اگر مضاف نہ ہوں گے تو اعراب حرکاتی لفظی غیر تبعی پڑھا جائے گا، جیسے جاءَ اَبٌ، رَئیتُ ابًا، مررتُ بِاَب} ۴۔ یَاء متکلم کے غیرکی طرف مضاف ہوں، اگر یاء متکلم کے طرف مضاف ہوں گے تو اعراب حرکاتی تقدیری غیر تبعی (۲) پڑھاجائے گا جیسے  جاء  اَبِی۔رئیت اَبِی۔ مررتُ بِاَبِی۔ ۵۔  معرف باللام کی طرف مضاف نہ ہوں، اگر معرف باللامکے طرف مضاف ہوں گے تو اعراب حروفی تقدیری غیر تبعی پڑھا جائے گا، جیسے جاءَ ابُوالقاسمِ۔ رئیتُ اَبَا القَاسمِ، مررتُ بِاَبی القاسمِ۔

۔۔۔۔۔

(۱) یعنی مفرد منصرف صحیح والا۔

(۲)یعنی اسم منقوص والا اعراب۔

۔۔۔۔۔

 

اسماء ستہ کی چند صورتیں

 

سوال:اسماء ستہ، یاء متکلم کے سوا کسی اور کی طرف مضاف ہوں تو ان کی کتنی صورتیں ہیں۔

جواب:اس کی تقریباً چار صورتیں آتی ہیں ۱۔ضمیر جمع متکلم کی طرف مضاف ہوں، جیسے اَبُونا، اَبَانَا، اَبِینَا ۲۔ضمیر مخاطب کی طرف مضاف ہوں جیسے اَبُوکَ، اَبَاکَ، اَبِیکَ ۳۔ضمیر غائب کی طرف مضاف ہوں جیسے اَبُوہ، اَبَاہ، اَبِیہ ۴۔اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوں جیسے اَبُوبَکر}، اَبَابَکر}، اَبی بکر}۔

 

اعراب حروفی لفظی تبعی

 

سوال: اعراب حروفی لفظی تبعی اسم متمکن کے کتنے قسموں پر پڑھا جاتا ہے۔

جواب:یہ اعراب دو قسموں پر پڑھا جاتا ہے ۱۔ تثنیہ ۲۔ جمع۔

 

تثنیہ حقیقی کا اعراب

 

سوال: تثنیہ پر کون سا اعراب پڑھا جاتا ہے۔

جواب:وہ ہے رفعہ الف لفظی سے نصب اور جر یا ء ماقبل مفتوح لفظًا پھر تثنیہ کے تینوں قسموں کا اعراب یہی ہے ۱۔ تثنیہ حقیقی جیسے رَجُلَانِ ۲۔ ملحق بالتثنیہ لفظی جیسے اثنانِ اِثنتانِ، اس کو تثنیہ صُوَری بھی کہتے ہیں ۳۔ملحق بالتثنیہ معنًی جیسے کِلاھا کِلتاھما، اس کو تثنیہ معنوی بھی کہتے ہیں، جیسے جاءَ رجلانِ وَاثنانِ وَ کِلاھما، رئیتُ رجلینِ وَ اثنینِ وَ کِلیھما۔ مررتُ بِرَجُلینِ وَاثنینِ، وَکِلَیھِمَا۔

سوال: کیا کِلا اور کِلتَا کا ہمیشہ یہی اعراب ہوتا ہے۔

جواب:یہ اعراب اس وقت ہے جب کِلا کِلتَا اسم ظاہر کے طرف مضاف نہ ہوں ورنہ یہ اعراب نہیں ہو گا بلکہ تقدیری اعراب ہو گا۔

 

جمع مذکر سالم کا اعراب

 

سوال: جمع مذکر سالم کا اعراب کیا ہے۔

جواب:اس کا اعراب ہے رفعہ واو ما قبل مضموم لفظًا، نصب اور جر یاء ماقبل مکسور لفظًا، پھر جمع کے تینوں قسموں کا اعراب یہی ہے ۱۔ جمع حقیقی بشرطیکہ یاء متکلم اور معرَّف باللّام کی طرف مضاف نہ ہو، جیسے مسلمون ۲۔ ملحق یا جمع لفظًا جیسے عشرون سے تسعون تک(۱) ، اس کو جمع صوری بھی کہتے ہیں ۳۔ ملحق یا جمع معنًی جیسے اُولو (یہ جمع ہے ذُو کا خلاف قیاس کے ) اس کو جمع معنوی بھی کہتے ہیں، جیسے جاءَ مسلمونَ وَ عِشرونَ رَجلًا وَ اُولو مالٍ، رئیتُ مسلمینَ وَ عشرینَ رجلًا وَ اُولی مال}، مررتُ بِمُسلمینَ وَ عشرینَ رجلًا وَ اُولی مالٍ۔

سوال: عقود بھی جمع ہیں لھٰذا جمع سے جدا کرنے کا کیا فائدہ۔

جواب:یہ حقیقۃً جمع نہیں ہیں، بلکہ ملحق بالجمع ہیں اس لیئے ان کو علٰحدہ شمار کیا گیا ہے۔  کیونکہ عشرون کا واحد عشرٌ نہیں ہے ، ورنہ عشرون تیس کو کہا جاتا۔ (یہی سوال اثنان میں بھی چل سکتا ہے )۔

۔۔۔۔۔

(۱) ان کو عقود بھی کہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔

 

اعراب حروفی تقدیری غیر تبعی

 

سوال:اعراب  حروفی تقدیری غیر تبعی کون سا ہے۔

جواب:وہ ہے رفعہ واو تقدیری سے ، نصب الف تقدیری سے ، جریاء تقدیری سے۔

سوال: اعراب حروفی تقدیری غیر تبعی کون سے قسم پر پڑھا جاتا ہے۔

جواب:یہ اعراب اسم متمکن کے ایک قسم اسماء ستہ پر پڑھا جاتا ہے ، بشرطیکہ یہ  مضاف ہوں معرف باللام کے طرف جیسے جائنی اَبُوالقاسم، رئیتُ اَبَا القاسم، مررتُ بِاَبِی القاسم۔

 

اعراب حروفی تقدیری تبعی

 

سوال:  اعراب حروفی تقدیری تبعی کون سا ہے۔

جواب:وہ ہے رفعہ واو تقدیری سے ، نصب اورجریاء تقدیری سے ماقبل مکسور۔

سوال: اعراب حروفی تقدیری تبعی کون سے قسم پر پڑھا جاتا ہے۔

جواب:اسم متمکن کے ایک قسم جمع مذکر سالم پر پڑھا جاتا ہے ، بشرطیکہ وہ مضاف ہو، معرف باللام کے طرف سے جیسے جاءَ مُسلِمُوالقومِ، رئیتُ مُسلِمِی القومِ، مررتُ بِمُسلِمِی القوم۔

 

اعراب حروفی مشترک

 

سوال: اعراب حروفی مشترک کون سے قسموں پر پڑھا جاتا ہے۔

جواب:دو قسموں پر پڑھا جاتا ہے۔ ۱۔ تثنیہ ۲۔ جمع مذکر سالم۔

سوال: تثنیہ مضاف بطرف معرف باللام کا اعراب کون سا ہے۔

جواب:وہ ہے رفعہ الف تقدیری سے ، نصب اور جریاء ماقبل مفتوح لفظًا جیسے جاءَ غلامَا القومِ، رئیتُ غلامَیِ القومِ، مررتُ بِغلامَیِ القومِ۔

سوال: جمع مذکر سالم مضاف بطرف ياء متکلم کا اعراب کون ساہے۔

جواب:وہ ہے رفعہ واو تقدیری سے ، نصب اور جریاء ماقبل مکسور لفظًا جیسے مُسلِمِیَّ (دراصل مسلمونَ) اس کی اضافت کی گئی یاء متکلم کی طرف تو مسلمونَ یَ ہو گیا، اس کے بعد نون جمع کا اضافت کی وجہ سے گرگیا واو اور یاء جمع ہو گئے ، پھر واو کو یاء کیا اور یاء کو یاء میں ادغام کیا گیا تو مُسلِمُیَّ ہوا، پھر میم کے ضمہ کو کسرہ سے تبدیل کیا گیا تو مُسلِمِیَّ ہو گیا، جیسے جاءَ مُسلِمِیَّ، رَئیتُ مُسلِمِیَّ، مررتُ بِمُسلِمِیَّ۔

سوال: اعراب مفرد پر آتا ہے یا جملہ پر

جواب:اصل اعراب تو مفردپر ہوتا ہے لیکن جملہ، مفرد کی جگہ پر ہو گا تو وہ اعراب تأویلا اور محلا جملہ پر بھی شمار ہوتا ہے ،  ۱۔یعنی جملہ  خبریہ، مبتدا کی خبر ہو گا تو وہ جملہ محلا مرفوع ہو گا ۲۔ اور حال جملہ ہو گا تو وہ محلا منصوب ہو گا۔ ۳۔ اور جملہ مفعول بہ واقع ہو گا تو وہ محلا منصوب ہو گا۴۔ یا مضاف الیہ جملہ ہو گا تو وہ بھی مجرور محلا ہو گا۔

 

 

 

 

                فصل: فعل مضارع کا اعراب

 

سوال: فعل مضارع کا اعراب کون سا ہے۔

جواب:فعل ماضی اور امرتو مبنی ہیں، صرف فعل مضارع معرب ہے ، اور اس کا اعراب تین قسم ہے ۱۔ رفعہ ۲۔نصب ۳۔ جزم(۱)۔

سوال: فعل مضارع کا رفعہ کتنی چیزوں سے پڑھا جاتا ہے۔

جواب:تین چیزوں سے پڑھا جاتا ہے ۱۔ ضمہ لفظی۲۔ ضمہ تقدیری ۳۔ حذف نون  سے۔

سوال: فعل مضارع کا نصب کتنی چیزوں سے پڑھاجاتا ہے۔

جواب:تین چیزوں سے پڑھا جاتا ہے ۱۔ فتح لفظی ۲۔ فتح تقدیری ۳۔ حذف نون سے۔

سوال: فعل مضارع کا جزم کتنی چیزوں سے پڑھا جاتا ہے۔

جواب:تین چیزوں سے پڑھا جاتا ہے ۱۔سکون(۲) لام ۲۔حذف لام ۳۔ حذف نون سے۔

سوال: اعراب کے اعتبار سے مضارع کی کتنی قسمیں ہیں۔

جواب:واضح رہے کہ مضارع کے چودھ  صیغوں میں سے دو مبنی(۳) ہیں اور بارہ  معرب ہیں، پھر اعراب کے لحاظ سے مضارع کی چار قسمیں ہیں۔

۱۔ مضارع مفرد صحیح، نون اعرابی اور ضمائر سے خالی۔

۲۔ مضارع مفرد معتَلّ واوی یا یائی، نون اعرابی اور ضمائر سے خالی۔

۳۔ مضارع مفرد معتَلّ الفی، ضمائر وغیرہ سے خالی۔

۴۔ مضارع غیر مفرد (تثنیہ و جمع) صحیح و معتَلّ، ضمائر اور نون اعرابی والا۔

۔۔۔۔۔

(۱) معلوم ہوا کہ جر، فعل مضارع پر نہیں آتا اور جزم، حرکت کے نہ ہونے کو کہتے ہیں۔

(۲) یعنی حذف حرکت۔

(۳) جن کا اعراب محلی ہوتا ہے ایک جمع مؤنث غائب  دوسرا جمع مؤنث حاضر۔

۔۔۔۔۔

 

معتَلّ واوی، یائی کا اعراب

 

سوال: معتَلّ واوی، یائی اور الفی کسے کہتے ہیں۔

جواب:معتَلّ معنیٰ جس صیغہ میں تعلیل شدہ ہو

معتَلّ واوی وہ ہے جس کے لام کلمہ کے مقابلہ میں حرف علت واو ہو، جیسے یدعُو۔

معتَلّ یائی وہ ہے جس کے لام کلمہ کے مقابلہ میں یاء حرف علت ہو جیسے یَرمِی۔

معتَلّ الفی وہ ہے جس کے لام کلمہ کے مقابلہ میں الف حرف علت ہو، جیسے یرضَیٰ۔

سوال: مضارع معرب کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے ۱۔ مضارع(۱) نون اعرابی اور ضمیر بارز سے خالی، وہ پانچ صیغے ہیں یضربُ، تضربُ تضربُ، اَضرِبُ، نضربُ ۲۔ مضارع نون اعرابی اور ضمیر بارز کے ساتھ  وہ سات صیغے ہیں، تثنیہ مذکر غائب۔ جمع مذکر غائب۔ تثنیہ مؤنث غائب۔ تثنیہ مذکر مخاطب۔ جمع مذکر مخاطب۔ تثنیہ مؤنث مخاطب۔ واحد مؤنث مخاطب۔ جیسے یضربانِ، یضربُونَ، تضرِبانِ، تضرِبانِ، تضربُونَ، تضرِبانِ، تضربِینَ۔

سوال: مضارع کی پہلی قسم صحیح، خالی از ضمائر وغیرہ کا اعراب کون ساہے۔

جواب:وہ ہے رفعہ ضمہ لفظی سے ، نصب فتح لفظی سے ، جزم سکون لام سے (۲) ، جیسے ھُوَ یضربُ، لن یضربَ، لم یضرب۔

سوال: مضارع کی دوسری قسم معتل واوی اور معتل یائی، خالی از ضمائر وغیرہ کا اعراب کون سا ہے۔

جواب:وہ ہے رفعہ ضمہ تقدیری سے ، نصب فتح لفظی سے ، جزم حذف لام سے ، جیسے

ھُوَ یغزو   وَ یرمی، لن یغزوَ، ولن یرمیَ، لم یغزُ، ولم یَرمِ(۳)۔

سوال: مضارع کی تیسری قسم معتل الفی، خالی از ضمائر وغیرہ کا اعراب کون سا ہے۔

جواب:وہ ہے رفعہ ضمہ تقدیری سے ، نصب فتح تقدیری سے ، جزم حذف لام سے جیسے ھویرضیٰ، لن یرضیٰ،  لم یرضَ۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)یعنی واحد مذکر غائب، واحد مؤنث غائب، واحد مذکر مخاطب، واحد متکلم مشترک، جمع متکلم مشترک۔

(۲)یعنی حذف حرکت۔

(۳)یغزو ،غزوا ًسے ہے معنیٰ جنگ کرنا۔ یرمی، رمیًا سے ہے معنیٰ تیر پھینکنا ۔ یرضیٰ ،رضوان سے ہے معنیٰ راضی ہونا ۔ یأزد ، ازدًا سے مونڈنا ، یفر،  فرارًا سے بھاگنا، یلی، ولایتہً سے ولی ہونا، کسی کا کام اپنے اوپر ڈالنا، اور قریب ہونا۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

مضارع کے تثنیہ و جمع کا اعراب

 

سوال: مضارع کا چوتھا قسم مضارع صحیح اور معتل جب ضمائر مذکورہ (۱) اور نون اعرابی کے ساتھ ہو تو اس کا اعراب کون سا ہے۔

جواب:وہ ہے رفعہ اثبات نون سے ، نصب اور جزم، حذف نون سے۔

تثنیہ کی  مثالیں: حالت رفعی میں: ھما یضربانِ وَ یَغزُوَانِ وَ یَرمِیَانِ وَ یَرضَیَانِ

حالت نصبی میں: لن یضرِبا وَ لن یغزوا وَ لن یَرمِیَا وَ لن یَرضَیَا

حالت جزمی میں: لم یضرِبا وَ لم یغزُوا وَ لم یَرمِیَا وَ لم یَرضَیَا

جمع کی مثالیں: حالت رفعی میں:ھم یَضرِبُونَ وَ یَغزُونَ وَ یَرمُونَ وَ یَرضَونَ

حالت نصبی میں: لن یَضرِبُوا وَ لن یَغزُو وَ لن یَرمُو وَ لن یَرضَوا

حالت جزمی میں: لَم یَضرِبُوا وَ لم یَغزُوا وَ لم یَرمُوا وَ لم یَرضَوا

واحد مؤنث کی مثالیں: حالت رفعی میں: اَنتِ تَضرِبِینَ وَ تَغزِینَ وَ تَرمِینَ وَ تَرضَینَ

حالت نصبی میں: لَن تَضرِبِی وَ لَن تَغزِی وَلَن تَرمِیَ وَ لَن تَرضَیٰ

حالت جزمی میں: لَم تَضرِبِی وَلَم تَغزِی وَلَم تَرمِی وَلَم تَرضَی

مثال، اجوف، لفیف، مضاف اور مہموز کے مضارع کا اعراب

سوال: صحیح اور معتل کے علاوہ فعل مضارع کا کون سا اعراب ہے۔

جواب:غیر صحیح یعنی مہموز، مضاف، مثال، اجوف اور لفیف کے مضارع کا اعراب بھی بعینہ، صحیح کے اعراب جیسا ہے / ان کے مضارع مفرد کا رفعہ، ضمہ لفظی سے۔نصب، فتح لفظی سے۔جزم، سکون لام سے ہوتا ہے۔ جیسے ھو یأزِدُ، یَفِرُّ، یَعِدُ، یَقُولُ، یَلِی۔

اور ان کے ضمائر مذکورہ کے مضارع کا رفعہ اثبات نون سے۔ نصب اور جزم، حذف نون سے پڑھا جاتا گا۔

حالت رفعی میں:ھما یَأزِدانِ، یَفِرَّانِ، یَعِدَانِ، یَقُولاَنِ، یَلِیَانِ۔ ھم یَأزِدُونَ، ھم یَغزُونَ۔ اَنتِ تَأزِدِینَ، اَنتِ تَفِرِّینَ۔

حالت نصبی میں:لن یَّأزِدَا، لن یَّفِرَّا، لن یَّعِدَا، لن یَّقُولَا، لن یَّلِیَا۔ لن یَأزِدُوا، لن یَّفِرُّوا۔ لَن تَأزِدِی، لَن تَفِرِّی۔

حالت جزمی میں:لَم یَأزِدا، لَم یَفِرَّا، لَم یَعِدَا، لَم یَقُولَا، لَم یَلِیا۔ لَم یَأزِدُوا، لَم یَفِرُّوا۔ لَم تَأزِدِی، لَم تَفِرِّی وغیرہ۔

۔۔۔۔۔

(۱)  یعنی تثنیہ و جمع کے صیغے۔

۔۔۔

وقف، جزم اور سکون میں فرق

 

 

سوال: وقف جزم اور سکون میں کون سافرق ہے۔

جواب:اس میں دو مذہب ہیں

۱۔ سب کی ایک ہی معنیٰ ہے ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔

۲۔ ایک فرق یہ ہے کہ جزم اس سکون کا نام  ہے جس میں کسی عامل اور مؤثر کا اثر ہو جیسے لَم یَضرِب اور وقف اس سکون کا نام ہے جس میں کسی عامل اور مؤثر کا اثر نہ ہو۔ جیسے عَمر۔بَکر۔

۳۔ فرق یہ ہے کہ جزم معرب کے ساتھ خاص ہے اور وقف مبنی کے ساتھ اور سکون عام ہے۔‌

 

عوامل

 

 پہلا   باب – حروف عاملہ، فصل اول

 

اسم کے حروف عاملہ اور وہ پانچ قسم ہیں۔اعراب کے بعد سبب اعراب یعنی عامل کا بحث شروع ہو رہا ہے ۔

سوال: عامل کسے کہتے ہیں۔

جواب:عامل کا لغوی معنیٰ ہے کام کرنے /اثر والا اور اصطلاح میں العاملُ مابہٖ رفعٌ او نصبٌ او جرٌّ او جزمٌ، عامل اس کلمہ کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے اعراب /رفعہ نصب، جر اور جزم آئے۔

 

عامل اور معمول

 

سوال: معمول کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس کلمہ کو کہتے ہیں جس کی آخر تبدیل ہو سکے ، رفعہ یا نصب یا جریا جزم کی وجہ سے۔

سوال: عامل کتنے قسم ہے۔

جواب:درحقیقت عوامل ایک سو ہیں اس طرح کہ ابتداءً عامل دو قسم ہے۔

ا۔ لفظی۔۲۔ معنوی۔

 

عامل لفظی

 

سوال: عامل لفظی کسے کہتے ہیں۔

جواب: اس عامل کو کہتے ہیں جس کا بذات خود تلفظ ہوسکے (۱)۔

 

عامل معنوی

 

سوال: عامل معنوی کسے کہتے ہیں۔

جواب: اس عامل کو کہتے ہیں جس کا زبان سے تلفظ نہ ہو سکے (۲)۔ پھر عامل معنوی دو ہیں  اور ۹۸ عامل لفظی ہیں۔عوامل لفظیہ میں سے ۹۱ سماعی ہیں اور ۷ قیاسی ہیں۔

۔۔۔۔۔

(۱) یعنی جو ظاہر ہو ۔

(۲)  یعنی جو چھپا ہوا ہو،صرف دل میں جانا جاتا ہو۔

۔۔۔۔۔

 

عامل سماعی اور قیاسی

 

سوال: عامل سماعی اور قیاسی کسے کہتے ہیں۔

جواب:سماعی وہ ہے جس کے افراد وجزئیات گنے جا سکیں جیسے حروف جارہ وغیرہ  وہ  سترہ ہیں۔

قیاسی وہ ہے جس کے افراد نہ گنے جا سکیں۔البتہ قائدہ کلیہ کے ساتھ پہچانا جا سکے۔جیسے اسم فاعل، اسم مفعول وغیرہ۔

 

عامل لفظی کی قسمیں

 

سوال: عوامل لفظی کتنے قسم ہیں۔

جوا ب: تین قسم ہیں ۱۔ حرف ۲۔ فعل(۱) ۳۔ اسم، اسیلئے اس کتاب میں بھی تین ابواب ہیں اور ہر ایک میں ایک، ایک عامل کا بحث ہو گا۔

۔۔۔۔

(۲) لیکن ان  میں سے عمل میں اصل فعل ہے، باقی حرف اور اسم فرع ہیں فعل کے۔

۔۔۔۔۔

 

حروف المبانی والمعانی

 

سوال: حروف کتنے قسم ہیں۔

جواب:دو قسم ہیں: حروف المعانی، حروف المبانی(۱) ۱۔ حروف المعانی ان حروف کو کہتے ہیں جو معنیٰ دار حرف ہوں، یہ سب مبنی ہوتے ہیں۔جنکی تعداد ۸۰سے زیادہ ہے۔

۲۔حروف المبانی  جن کو حروف الھجاء بھی کہتے ہیں ان حروف کو کہتے ہیں جن سے کلمات بنائے جاتے ہوں وہ خود کلمہ نہ ہوں جیسے ا ب ت۔ اور یہ نہ معرب ہوتے ہیں نہ مبنی۔

سوال: حروف المعانی کتنے قسم ہیں۔

جواب:دو قسم ہیں ۱۔حروف عاملہ ۲۔ حروف غیر عاملہ۔حروف المعانی میں سے جن حروف کو اعراب میں دخل ہو، ان کو حروف عاملہ کہتے ہیں۔ اور وہ چند اقسام ہیں۔

اور جن حروف کو اعراب میں دخل نہ ہو، ان کو حروف غیر عاملہ کہتے ہیں۔ یہ عمل کرتے ہیں فعل کی مشابہت کی وجہ سے یا سماع کی وجہ سے (الشمہ)۔

سوال: حروف عامل کتنے ہیں۔

جواب:دو ہیں ۱۔ حروف عاملہ اسم کے ۲۔ حروف عاملہ فعل مضارع کے۔

سوال: حروف عاملہ اسم کے کتنے ہیں۔

جواب:وہ پانچ قسم ہیں ۱۔ حروف جارہ ۲۔ حروف مُشبّہ بالفعل ۳۔ مَاوَلَا مشَبّھَتان بلیس ۴۔لانفی جنس  ۵۔ حروف ندا۔

۱۔حروف جارہ

سوال: حروف جارہ کسے کہتے ہیں۔

جواب:ان حروف کو کہتے ہیں جو فعل یا شبہ فعل کی معنیٰ کو اپنے مدخول تک پہچانے کے لیے مقرر کئے گئے ہوں جیسے مَرَرتُ بِزَیدٍ میرا گذر ہوا زید کے ساتھ، یہاں با حرف جارہ نے مرورکو زید کے ساتھ ملایا ہے اور ان حروف کو حروف الاضافت، حروف الربط اور حرو ف المعانی بھی کہتے ہیں (الشمہ)۔

۔۔۔۔

(۳)بنیادی حروف۔

۔۔۔۔۔

 

حروف جارہ کا عمل

 

 

سوال: حروف جارہ کتنے ہیں اور کون سا عمل کرتے ہیں۔

جواب:وہ سترہ ہیں اور اسم پر داخل ہو کر اس کے آخر کو جر دیتے ہیں اور جس کو جر دیتے ہیں اس کو مجرور کہتے ہیں۔

 

ظرف لَغو اور مُستقِر

 

سوال: جار مجرور جس کلمہ سے تعلق پکڑیں ان کو کیا کہا جاتا ہے۔

جواب:انکو متعلَّق اور ظرف کہتے ہیں اور ان حروف کو متعلِّقکہتے ہیں۔

سوال: ظرف کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے۔ ۱۔ ظرف حقیقی : یہ ظرف زمان کو کہتے ہیں

۲۔ ظرف مجازی:  یہ ظرف مکان اور جار مجرور کو کہتے ہیں۔

سوال: ظرف لغو اور ظرف مستقر کسے کہتے ہیں۔

جواب:ظرف لغو اس کو کہتے ہیں کہ جار مجرور کا متعلَّق(۱) مذکور ہو جیسے مَررتُ بِزَیدٍ۔ اور ظرف مستقر اس کو کہتے ہیں کہ جار مجرور کا متعلق مذکور نہ ہو جیسے فِی الدَّارِ زیدٌ ای استَقَرَّ زیدٌ فِی الدار۔

سوال: ظرف لغو اور مستقر کی وجہ تسمیہ کیا ہے۔

جواب: مستقر یہ مشتق ہے استقرار سے معنیٰ آرام پکڑنا  اور ظرف مستقر بھی اپنے عامل کی جگہ آرام پکڑا ہوا ہے۔ متعلق مذکور نہیں بلکہ کوئی ثابت مانا جائے گا اور لغو یہ  مشتق ہے الغاء سے ، رہائی پانا اور ظرف لغو بھی اپنے عامل کی جگہ سے رہائی پائی ہوئی ہے کسی زائد چیز نکالنے کی ضرور نہیں ہوتی۔

سوال: ظرف  لغو اور مستقر ترکیب میں مسند ہوتے ہیں یا مسند الیہ۔

جواب:ظرف مستقر مسند ہوتا ہے ، مسند الیہ نہیں ہوتا۔ اور  ظرف لغو نہ مسند ہوتا ہے نہ مسند الیہ۔

سوال: ظرف  مستقر کتنی صورتوں میں واقع ہوتا ہے۔

جواب:چار مواقع پر ۱۔ خبرکی جگہ پر جیسے زید فی الدار ۲۔ حال کی جگہ پر جیسے فاللفظیۃ علیٰ نوعین۔ ۳۔ صلہ کی جگہ پر جیسے لہ مافی السمٰوٰت و مافی الارض ۴۔ صفت کی جگہ پر جیسے علیٰ غضب من  ربکم۔

۔۔۔۔

(۱)یعنی عامل

۔۔۔۔

 

متعلق کے اقسام

 

سوال: حروف جارہ کا تعلق کس سے ہوتا ہے۔

جواب:۱۔ جارہ کا تعلق کبھی فعل سے ہوتا ہے جیسے مررتُ بِزیدٍ۲۔کبھی شبہ فعل سے جیسے زیدٌ فی الدار قائمٌ اور خبیرٌ بِما تعملونَ ۳۔ کبھی مؤوَّل(۱) شبہ فعل سے جیسے ھُوَ الّذی فی السّماءِ اِلٰہٌ، یہاں اِلٰہٌ معبود کے معنیٰ میں ہے۔ ۴۔کبھی معنیٰ فعل سے جیسے مَالَکَ ای ما تصنَعُ لَکَ۔

۔۔۔۔۔

(۱)۔ یعنی ایسا جامد جو مشتق کے معنیٰ میں نہ ہو۔

۔۔۔۔

 

شبہ فعل

 

سوال: شبہ فعل کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس اسم کو کہتے ہیں جو عمل میں فعل سے مشابہت رکھتا ہو۔وہ کئی قسم ہیں۔

۱۔ اسم فاعل۲۔ اسم مفعول ۳۔ صفت مشبہ ۴۔ اسم تفضیل۵۔ اسم مصدر  ۶۔ اسم مبالغہ ۷۔ اسم منصوب ۸۔ظرف ۹۔ اسم فعل۔

 

حروف جا رہ کا متعلق

 

سوال: اگر حروف جارہ کا متعلَّق مذکور نہ ہو تو کون سا متعلَّق نکالا جائے گا۔

جواب:معنیٰ اور مناسبت کے اعتبار سے کوئی متعلَّق نکالا جائے گا، لیکن اگر کوئی مناسب نہ نکل سکے تو پھر بصریین کے ہاں افعال عامہ میں سے کوئی فعل نکالا جائے گا، اور کوفیین کے ہاں کوئی اسم اور افعال عامہ یہ ہیں:

افعال عامہ چہار اندر نزدارباب عقول

کون است وحصول است ثبوت است و وجود

 

متعلق سے مستغنی حروف جارہ

 

سوال: کیا ہر ایک حروف جارہ کیلئے متعلَّق ہوتا ہے۔

جواب: حروف جارہ سب متعلَّقکا تقاضا کرتے ہیں۔ لیکن چند حروف جارہ متعلَّقکے محتاج نہیں ہوتے ، جب کہ زائدہ ہوں جیسے رُبَّ لاتَ، لَولا، لَعَلَّ، حَاشا، خَلا، عَدَا۔

پنج حرف جربداں مستغنی از متعلق اند

رُبَّ حاشا حروف زائد ہم خلا دیگر عدا

 

رُبّ اور باقی حروف میں فرق

 

سوال: رُبَّ اور باقی حروف جارہ میں کون سا فرق ہے۔

جواب:دو طرح کا فرق ہے رُبَّ کے بعد والا اسم دو حال سے خالی نہیں ۱۔ یا مبتدا ہو گا جیسے رُبَّ فاعلِ خیرٍ مذمومٌ، یہاں فاعل کا لفظ مجرور لفظًا، مرفوع محلا ً، مبتدا ہے اور مذموم خبر ہے ۲۔ یا مفعول بہ مقدم ہو گا جیسے رُبَّ درسٍ طویلٍ حفِظتُ۔

سوال: کیا رُبَّ کا عمل باطل  بھی ہوتا ہے۔

جواب:جی ہاں جب رُبَّ کے ساتھ ما کافّہ مل جائے تو وہ اسے عمل سے روک دیتا ہے اور اس وقت وہ افعال پر بھی داخل ہو جاتا ہے جیسے رُبَّمَا قَرَأتُ فِی کُلِّ لَیلَۃٍ کئی دفعہ میں نے تمام رات پڑھا۔

سوال: کیا رُبَّ کا حذف کرنا صحیح ہے۔

جواب:جی ہاں کبھی رُبَّ کا حذف جائز ہوتا ہے جبکہ اس کا عمل باقی رہتا ہے اور اکثر اس کا حذف واو کے بعد ہوتا ہے جس کو واو رُبَّ کہتے ہیں جیسے وَبلدۃٍ لیسَ بھا انیسٌ ای ربَّ بلدۃٍ۔

 

حروف جارہ کے معانی

 

 

سوال: حروف جارہ کن معانی کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔

جواب:یہ رابطہ اور صلہ کا کام دیتے ہیں اور متعدد و مختلف معانی میں مستعمل ہوتے ہیں لیکن یہ اپنی معانی پر اس وقت دلالت کرتے ہیں جب اسم یا فعل سے متصل ہوں۔

 

با/ساتھ

 

سوال: با کون سے معانی کے لیئے آتا ہے۔

جواب:یہ کئی معانی کیلئے آتا ہے ۱۔ الصاق، اتصال۲۔استعانت ۳۔ علت والسبب، ۴۔قَسم، ۵۔عوض ۶۔زائدہ جیسے ۱۔مررتُ بزیدٍ۲۔کتبتُ بالقلم ۳۔مات الکلبُ بالعطش۴۔باللہ انّکم ظالمونَ ۵۔اشتریتُ القلمَ بعشرین روبیۃً ۶۔کَفیٰ باللہ شھیدًا۔

 

تا

 

سوال: تا، کون سے معنیٰ کے لیئے استعمال ہوتا ہے۔

جواب:یہ قسم کیلئے آتا ہے اور لفظ اللہ کیلئے مخصوص ہے جیسے تَاللہِ لَاَکِیدَنَّ اصنامَکم۔

 

کاف/ جیسے ، جس طرح

 

سوال: کاف کن معانی کے لیئے آتا ہے۔

جواب:یہ چند معانی کے لیئے آتا ہے ۱۔ تشبیہ جیسے عَلِیٌّ کَا لاَسَدِ ۲۔زائدہ جیسے لیسَ کَمِثلِہٖ شیءٌ  ۳۔ تعلیل  جیسے اذکروہ کما ھداکم ای بسبب ھدایتکم۔

 

لام/ لیئے ، واسطے

 

سوال: لام کون سے معانی کیلئے استعمال ہوتا ہے۔

جواب:یہ چند معانی کیلئے آتا ہے ۱۔ ملکیت جیسے ھٰذا القلمُ لِنَاصِرٍ ۲۔اختصاص جیسے ھٰذا الثّمرُ لِھٰذہ الشّجرۃِ ۳۔ استعانت جیسے یَا لِلّطبیبِ لِلمریضِ ۴۔ علت اور سبب جیسے تصدّقتُ لِحصولِ الثَّوابِ ۵۔ اظھار تعجب جیسے لِلہِ دَرُّہٗ ۶۔ زائدہ  جیسے لا اَبَ لک ۷۔ قسم کیلئے بھی آتا ہے  جیسے لِلہِ لا یؤخّر الاَجَلُ۔

 

واو/ اور

 

سوال: واو کون سے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔

جواب:یہ ۱۔قسم کے لیئے ہے جیسے وَاللہِ اَنَّ النَّبِیَّ لَصَادِقٌ ۲۔ کبھی بمعنیٰ رُبَّ بھی آتا ہے جیسے رُبَّہٗ رَجُلاً جوادًا۔

 

من/سے

 

سوال: مِنْ کون سی معانی کے لیئے استعمال ہوتا ہے۔

جواب:یہ بھی چند معانی کے لیئے آتا ہے۔

۱۔ ابتدا غایت جیسے خَرَجتُ مِنَ البَیتِ اِلیٰ المسجد ۲۔تبعیض جیسے خُذْ مِنَ الدراھمِ۔ ۳۔تبیین جیسے خَلقَ اللہُ جَمِیعَ النَّاسِ مِن قَوِیٍّ وَ ضَعِیفٍ۴۔ بدلیت کے لیئے جیسے اَرَضِیتُم بِالحَیاۃِ الدُنیا مِن الاٰخرۃ ۵۔ تعلیل۔ جیسے انّکم  ظلمتم انفسکم باتخاذکم العجل۔

 

مذمنذ

 

سوال: مذ، منذ کس معنیٰ کے لیئے آتے ہیں۔

جواب:یہ دو معنیٰ کیلئے آتے ہیں۱۔ ابتداء غایت(۱) کیلئے جیسے مَارَئیتُہٗ مُنذُیَومِ الجُمعۃ ِ۲۔جمیع مدت کیلئے جیسے مَارَئیتُہٗ مُنذُ یَومٍ۔

۔۔۔۔۔

(۱)ابتداء غایت یعنی جہاں سےعمل کی شروعات ہو زمان ہو یا مکان۔

۔۔۔۔۔

 

حاشا، خلا، عدا، سویٰ/ سوا، علاوہ

 

سوال: حاشا، خلا، عدا، سویٰ، کس معنی کے لیئے آتے ہیں۔

جواب:یہ استثناءکیلئے آتے ہیں۔ جیسے خرجَ الاَولادُ خَلاَ رَاشِدٍ۔

 

فی/میں، اندر

 

سوال: فی کس معنیٰ کے لیئے آتا ہے۔

جواب:یہ  کئی معانی کے لیئے آتا ہے ۱۔ اکثر ظرفیت کیلئے آتا ہے جیسے الرَّجلُ فی المسجدِ ۲۔زائدہ  ۳۔ علت والسبب کیلئے بھی آتا ہے جیسے الحُبُّ فِی اللہِ وَالبُغضُ فِی اللہِ۔

 

ربّ/کئی، بہت

 

سوال: رُبَّ کس معنیٰ کے لئے آتا ہے۔

جواب:یہ دو معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے ۱۔تقلیل جسے رُبَّ رجلٍ کریمٍ لقیتُ ۲۔تکثیر جیسے رُبَّ کَا سِیۃٍ عَارِیَۃٌ۔

 

 عن/سے

 

سوال:  عَنْ کس معنیٰ کے لیئے آتا ہے۔

جواب: یہ کئی معانی کے لیئے آتا ہے ۱۔ بُعد اور تجاوز جیسے سِرتُ عَنِ القَریَۃِ ۲۔بدلیت اور تعلیل جیسے لَاتَجزِی نَفسٌ عَن نَّفسٍ شَیئًا ۳۔ بمعنیٰ با جیسے مَا یَنطِقُ عنِ الہَوَیٰ۔

 

علیٰ/پر، اوپر

 

سوال: علیٰ کس معنیٰ کے لیے آتا ہے۔

جواب:یہ بھی کئی معانی کے لیئے آتا ہے ۱۔ استعلاء جیسے زید علی السطح ۲۔تعلیل  جیسے اشکر المحسنَ علیٰ احسانہ ای لِاِحسانہٖ ۳۔معیّت اور وجوب  جیسے وَ علیہ دَینٌ۔

 

حتیٰ/ یہاں تک

 

سوال: حتیٰ کس معنیٰ کے لیے آتا ہے۔

جواب: ۱۔انتھا غایت(۱) کیلئے جیسے سَلاَمٌ ھِی حتّیٰ مَطلَعِ الفَجرِ ۲۔مصاحبت جیسے قرأتُ وِردی حتیٰ الدعاءِ ای مع الدعاء۔

۔۔۔۔

(۱)یعنی وقت اور  مسافت کی انتہا۔

۔۔۔۔۔۔

 

الیٰ/ تک، طرف

 

سوال: الیٰ کس معنیٰ کے لیے آتا ہے۔

جواب:یہ بھی کئی معانی کے لیئے آتا ہے ۱۔ انتھا غایت جیسے سِرتُ اِلیٰ الکُوفَۃِ۔

۲۔ مَعِیّۃ اورمصاحبت جیسے مَن اَنصاری اِلی اللہِ ای مع اللہ۳۔ ظَرفِیّت  جیسے اذا نُودی للصلوٰۃ مِن یوم الجمعۃ۔

سوال:لام جارہ کا استعمال کس طرح ہوتا ہے۔

جواب: ۱۔ لام جارہ، اسم مظھر پر داخل ہو تو مکسور ہوتا ہے جیسے لِزَیدٍ ۲۔ اور ضمیر مجرور واحد متکلم پر آئے تو بھی مکسور ہوتا ہے جیسے لِی ۳۔استغاثہ میں مفتوح ہوتا ہے۔ جیسے یالَزِیدٍ ۴۔ مضمر پر داخل ہو تو  بھی مفتوح ہوتا ہے۔ جیسے لَہٗ، لَکَ وغیرہ۔

سوال: کیا حروف جارہ ہمیشہ حرف ہی واقع ہوتے ہیں۔

جواب:یہ تین قسم ہیں۱۔  بعض فقط حرف ہی استعمال ہوتے ہیں جیسے مِنْ، اِلیٰ، حتیٰ، فِی، با، لام، رُبَّ، واو قسم، تا قسم ۲۔پانچ کبھی حروف، کبھی اسم استعمال ہوتے ہیں جیسے عَن، عَلیٰ، کاف، مُذ، مُنذُ ۳۔بعض کبھی حروف، کبھی فعل واقع ہوتے ہیں جیسے خلا، عدا، حاشا۔ (الشمہ)

 

                ۲۔حرو ف مشبہ بالفعل

 

سوال: حروف مشبہ بالفعل کسے کہتے ہیں اور وہ کتنے ہیں۔

جواب:ان حروف کو کہتے ہیں جو فعل کے ساتھ مشابہت رکھتے ہوں، اوروہ چھ ہیں۔

اِنَّ، اَنَّ، کَاَنَّ، لَیتَ، لٰکِنَّ، لَعَلَّ۔

 

نواسخ جملہ

 

سوال: حروف مشبہ بالفعل  کا دوسرا نام کون سا ہے۔

جواب:ان کو نواسخ المبتدأ والخبر بھی کہتے ہیں۔ نسخ معنیٰ تبدیل کرنا، زائل کرنا اور یہ حروف بھی مبتدا اور خبر کا اعراب تبدیل کر دیتے ہیں اسلئے ان کو نواسخ جملہ (جملہ کو منسوخ کرنے والے )کہتے ہیں۔

سوال: نواسخ جملہ کتنے ہیں۔

جواب:وہ چار ہیں ۱۔ حروف مشبہ بالفعل ۲۔ افعال ناقصہ ۳۔ ماولا مشبھتان بلیس

۴۔ لانفی جنس۔

سوال: نواسخ کی خبر اپنے اسم سے موافق ہوتی ہے یا نہیں۔

جواب: جی ہاں ان کے خبر کی اپنے اسم سے موافقت  ہوتی ہے ، افراد، تثنیہ، جمع اور جملہ اسمیہ  میں جس طرح خبر کو مفرد، جملہ، شبہ جملہ لا سکتے ہیں اسی طرح نواسخ کی خبر بھی مفرد، جملہ اور شبہ جملہ ہر طرح آتی ہے جیسے اِنَّ اللہَ یَرزُقُ العِبَادَ۔

سوال:حروف مشبہ بالفعل، فعل سے کس چیز میں مشابہت رکھتے ہیں۔

جواب:ان کی فعل سے تین چیزوں میں مشابہت ہے لفظًا، معنیً اورعملًا اس لیے انکو حروف مشبہ بالفعل کہتے ہیں۔

لفظًا: جس طرح فعل، ثلاثی ورباعی یعنی سہ حرفی، چہار حرفی، ہوتا ہے اسی طرح یہ بھی جیسے اِنَّ، فِرَّ کی طرح۔ اَنَّ، مَدَّ کی طرح۔کَاَنَّ، ضَرَبنَ کی طرح۔لَیْتَ، لَیْسَ کی طرح۔ لٰکِنَّ، ضَارِبنَ کی طرح۔ اور  لَعَلَّ ضَرَبنَ کی طرح ہے۔

معنیً: اس طرح کہ اِنَّ اَنَّ بمعنیٰ حَقَّقتُ(۱) کَاَنَّ بمعنیٰ تَشَبَّھتُ(۲) لٰکِنَّ بمعنیٰ اِستَدرَکتُ(۳) لَیْتَ بمعنیٰ تَمَنَّیْتُ(۴) لَعَلَّ بمعنیٰ تَرَجَّیْتُ(۵)۔

عملاً:اس طرح کہ جیسے فعل متعدی دو اسموں کا تقاضا کرتا ہے ، اس طرح یہ حروف بھی دو اسموں پر داخل ہوتے ہیں البتہ فعل عمل میں اصل ہے اور یہ عمل میں فرع ہیں۔

سوال: جب ان حروف کی معنیٰ، فعل کی معنیٰ جیسی ہے تو انکو حروف الافعال کیوں نہیں کہا جاتا جیسے اسماء الافعال کو فعل کی معنی ٰ کی وجہ سے اسماء الافعال کہا جاتا ہے۔

جواب:ان دونوں میں فرق ہے کیوں کہ اسماء افعال میں فعل کی معنیٰ انکو لازم ہے باعتبار وضع کے اور حروف مشبہ بالفعل کو یہ معانی باعتبا روضع کے لازم نہیں بلکہ یہ معانی مضمون اور سیاق کلام سے سمجھی جاتی ہیں۔(الشمہ)

۔۔۔۔۔۔

(۱)یعنی جملہ میں تاکید وتحقیق کے معنیٰ پیدا کرتے ہیں ۔ بیشک/ یقیناً۔

(۲)یہ تشبیہ کا معنیٰ دیتا ہے ۔ جیسے /گویا۔ جبکہ کَاَنَّ کی خبر جامد ہو ورنہ ظن کا فائدہ دیگا جیسے کاَنّ زیدا قائم۔

(۳)یہ ما قبل والے شبہ اور وھم کو دور کرنے کے لیے آتا ہے ۔ لیکن

(۴)یہ تمنا اور آرزو کیلئے آتا ہے۔ معنیٰ کاش

(۵)یعنی بمعنیٰ امید اور شاید۔ نوٹ اسی طرح لعل اشفاق کیلئے یعنی خوف یا خدشے کے اظہار کے لیے بھی آتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔

 

حروف مُشَبہ بالفعل کا عمل

 

سوال: حروف مشبہ بالفعل کون سا عمل کرتے ہیں۔

جواب:یہ اسم منصوب اور خبر مرفوع کا تقاضا کرتے ہیں(۱)۔

جیسے اِنَّ زَیدًا قَائمٌ۔کَاَنَّ زَیدًا اَسَدٌ۔ لَیتَ ھِندًا عِندَنَا۔ مَاجَائَنِی القَومُ لٰکِنَّ عمرًواجَاءَ۔ لَعَلَّ السّاعَۃَ قَریبٌ۔

سوال: حروف مشبہ بالفعل کی خبر، اسم پر مقدم ہوتی ہے یا نہیں۔

جواب:ان کی خبر، اسم پر مقدم نہیں ہوتی لیکن اگر خبرظرف یا جار مجرور ہو تو تقدیم جائز ہے جیسے اِنَّ عِندَاللہِ الثَّوابَ – لٰکِنَّ فِی الصَّومِ صِحَّۃَ البَدَنِ۔

سوال: حروف مشبہ بالفعل کے اسماء کا حذف کرنا جائز ہے یا نہیں۔

جواب: جی ہاں، ان کے اسم کا حذف جائز جیسے اَنْ لا الٰہ الّا انتَ سبحانک جو اصل میں اَنَّہٗ تھا۔

سوال: حروف مشبہ بالفعل کی خبر کا کیا حکم ہے۔

جواب:ایک حکم یہ ہے کہ وہ مسنداور مرفوع ہو۔

سوال: کیا حروف مشبہ بالفعل کی خبر ہمیشہ مفرد ہوتی ہے۔

جواب:ان کی خبر مبتدا کی خبر کی طرح ١۔ مفر د ٢۔ جملہ اسمیہ ۳۔فعلیہ، ماضیہ اور مضارعیہ  بھی آتی ہے ٤۔یا ایسا محذوف بن کر بھی آتی ہے کہ جار مجرور یا ظرف جس کے متعلق ہوں۔

سوال: حروف مشبہ بالفعل ہمیشہ عمل کرتے ہیں یا ان کا عمل باطل بھی ہوتا ہے۔

جواب:چند صورتوں میں ان کا عمل باطل ہوتا ہے جب مازائدہ کافہ ١۔رُبَّ ۲۔ یا حروف مشبہ بالفعل کے ساتھ ملے جیسے رُبَّمَا، کَاَنَّمَا، طَالَمَا، قَلَّمَا، کَثُرَمَا، اِنَّمَا زَیدٌ قَائمٌ، اِنَّمَا اللہُ وَاحِدٌ، کَاَنَّمَا زَیدٌ قَائمٌ ۳۔ یا جب اِنَّ اَنَّ کَاَنَّ اور لٰکِنَّ میں نون کی تخفیف ہو جائے تو بھی اکثر اوقات ان کا عمل باطل ہو جاتا ہے۔ البتہ ما موصولہ یا موصوفہ ہو تو انکاعمل باقی رہتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)یعنی جملہ اسمیہ پر داخل ہوکر مبتدا کو نصب دے کر اپنا اسم بناتے ہیں اور اس کی خبر کو اپنی خبر بناتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔

 

اَنَّ مفتوحہ اور مکسورہ میں فرق

 

 

سوال:  اِنَّ اور اَنَّ میں کیا فرق ہے۔

جواب:یہ دونوں تاکید اور تحقیق کیلئے آتے ہیں کہ خبر، اسم کیلئے یقیناًثابت ہے اس میں ترددنہ کیا جائے۔ لیکن اِنَّ جملہ کو اپنی حالت پر برقرار رکھتی ہے یعنی اپنے مدخول کو مستقل طور پر بتانا چاہتی ہے۔

اور اَنَّ بالفتح جملہ کو مفرد کے حکم میں بنا دیتی ہے اور وہ دوسرے جملہ کا جزء بن جاتا ہے۔ اسلئے جملہ کی جگہ  اِنَّ بالکسراستعمال ہوتا ہے ، اور مفرد کے موقعہ پر اَنَّ استعمال ہوتا ہے یعنی فاعل، مفعول اور مجرور کے موقعہ پر اَنَّ ہی پڑھا جاتا ہے۔ جیسے بَلَغَنِی اَنَّ زَیدًا قَائمٌ، کَرہِتُ اَنَّکَ قَائِمٌ، عَجِبتُ مِنْ اَنَّ بَکرًا قَائِمٌ۔

 

اَنَّ  کے مواقع

 

سوال: کون سی صورتوں میں اِنَّ اور کون سی صورتوں میں اَنَّ پڑھا جاتا ہے۔

جواب:ویسے تو ان کی کئی صورتیں ہیں لیکن پانچ مشہور مقامات پر اِنَّ اور چار مقامات پر اَنَّ پڑھا جا تا ہے۔

اَنَّ رادر پنج جا مفتوح خواں۔ بعد علم وبعد ظنّ و درمیاں

بعد لولا بعد  لو تحقیق داں۔  تانیفتی  ہیچ  جا در  فکر  آں

خبر کی مثال: ا۔علم یعلم کے باب کے بعد جیسے واعلَمُو ا اَنَّ اللہَ شَدِیدُ العِقَابِ ۲۔ظنّ یظنّ کے باب کے بعد جیسے وظنُّوا اَنَّھم مانِعَتُھُم حُصُو نُھُم ۳۔ درمیان کلام میں۔جیسے شَھِدَ اللہُ اَنَّہٗ لا اِلٰہَ اِلّا ھُو ۴۔ لولا کے بعد جیسے فلولا اَنَّہٗ کانَ مِنَ المُسَبِّحِینَ ۵۔لو کے بعد جیسے لَو اَنَّ عِندَنا ذِکرًا مِّنَ الاَوّلِینَ۔

 

اِنّ کے مواقع

 

اِنَّ رادر چہار جا مکسور خواں۔ چوں در آید در خبر او لام نیز

ابتداؤ بعد قول وقسم داں۔ دائما مکسور خوانی اے عزیز

مثالیں: ا۔خبر جیسے وَالعصرِاِنَّ الاِنسانَ لَفِی خسرٍ ۲۔ابتدا کلام میں جیسے اِنَّ اللہَ عَلی کُلِّ شیءٍ قَدِیرٌ  ۳۔قال یقول کے باب کے بعد جیسے قال اِنَّہٗ یقولُ اِنَّھا بَقَرَۃ ۴۔قسم کے موقعہ پر جیسے اِنَّ اللہَ لَذُو فَضلٍ علی النَّاسِ۔

نوٹ: کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں دونوں وجہ جائز ہیں مثلاً ۱۔ اذا مفا جاتیہ کے بعد ۲۔فاجزائیہ کے بعد ۳۔لاجرمَ کے بعد۔

سوال: کیا انَّ وغيرہ کو مخفف بھی کیا جا سکتا ہے۔

جواب: جی ہاں کبھی ایک نون حدف کر کے اس کو مخفف کر لیا جاتا ہے ، اس وقت اس میں اِعمال واِہمال دونوں جائز ہوتے ہیں، لیکن اھمال کی صورت میں خبر پر و جوبًا لام ابتدا داخل ہوتا ہے جیسے اِن جَرِیرٌ لَشاعِرٌ۔

سوال: کیا انَّ وغیرہ ہمیشہ اسم ہی پر داخل ہوتے ہیں۔

جواب:یہ تخفیف کے بعد فعل پر بھی داخل ہو سکتے ہیں جیسے : اِن کَانَت لَکَبِیرۃً۔ اِن نَظُنُّکَ لَمِنَ الکافِرِین۔لیکن اس وقت فعل مضارع پر سین یا سوف اور ماضی پر قد لگایا جاتا ہے تاکہ اَن ناصبہ سے ممتاز ہو جائے جیسے عَلِمَ اَن سَیَکُونُ مِنکُم مَرْضَیٰ – لِیَلَمَ اَن قَد اَبلَغُوا رِسَالاتِ رَبِّھِم۔

سوال: حروف مشبہ بالفعل کے مخفف ہونے کی صورت میں انکاعمل باطل ہوتا ہے یا نہیں۔

جواب:جی ہاں لٰکِنَّ، مخفف ہونے پر اس کا عمل باطل ہو جاتا ہے جیسے اَلاَ اِنَّھُم ھُمُ المُفسِدُونَ وَ لٰکِن لَّاتَشعُرونَ۔اور انَّ مخفف ہونے پر اس کاعمل باقی رہتا ہے۔ اور کَاَنّ بھی مخفف ہوتا ہے ، اس وقت اکثر فعل منفی بلم پر داخل ہوتا ہے جیسے کَاَن لَم یَرَہٗ اَحَدٌ۔

سوال: آپ نے کہا کہ اِنَّ کا اسم منصوب خبر مرفوع ہوتا ہے لیکن اَنَّ زیدٌ کَرِیمٍ میں دونوں باتیں نہیں پائی جار ہیں۔

جواب:یہ ایک نحوی معمّٰی (پھیلی) ہے در اصل اَنَّ یہاں حرف نہیں بلکہ مَدَّ کی طرح فعل ماضی ہے معنیٰ آواز نکالنا۔ زیدٌ، اس کا فاعل ہے۔کَرِیمٍ میں ک، حرف جر ہے اور رِیمٍ (ہرن ) مجرور ہے معنیٰ ہوئے۔ زید نے ہرن کی مانند آواز نکالی۔

 

                ۳۔ مَاوَلَا مُشَبَّھتانِ بِلیس

 

سوال: ماولا مشبھتان بِلیس کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس ماولا کو کہتے ہے جو  فعل، لیس کے ساتھ مشابہ ہو۔

سوال: حروف مشبہ بلیس کتنے ہیں۔

جواب:یہ چار حروف ہیں ما، لا، لاتَ، اِن۔

سوال: ماولامشبھتان بلیس کی فعل کے ساتھ کس چیز میں مشابہت ہے۔

جواب:ان کی فعل لیس کے ساتھ مشابہت ہے عمل اور معنیٰ میں، یہ عمل بھی لیس والا کرتے ہیں(۱) اور معنیٰ بھی ان کی نفی والی ہے جس طرح لیس کی معنیٰ نفی والی ہے یعنی نہ، نہیں۔ فرق یہ ہے کہ لیس نفی حال کیلئے آتا ہے اور ماولا مطلق نفی کیلئے آتے  ہیں۔

سوال: حروف مشبہ بلیس کون سا عمل کرتے ہیں۔

جواب:یہ اسم مرفوع، خبر منصوب کا تقاضا کرتے ہیں اور لیس کی طرح ان کی خبر پر بھی بازائدہ آتی ہے جیسے مامحمودٌ بِخطیبٍ محمود مقرر نہیں ہے۔

سوال: کیا ماولا میں کوئی فرق بھی ہے۔

جواب:۱۔ جی ہاں ما عام ہے معرفہ اور نکرہ دونوں پر داخل ہوتی ہے جیسے ماھٰذا بشرًا۔ مازیدٌ قائمًا۔ مارجلٌ حاضرًا اور لا صرف نکرہ پر داخل ہوتی ہے جیسے لارجلٌ قائمًا اور معرفہ میں اس کا عمل باطل ہوتا ہے جیسے لا زیدٌ عالمٌ وَلابکرٌ۔

نوٹ: اسی طرح لاتَ لفظ معنیً وعملاً لیس کی طرح ہے جیسے وَلَاتَ حِینَ مَناصٍ (اور وقت نہ رہا خلاصی کا ) اس کے عمل کے لیئے ۱۔ شرط ہے اسم وخبر ظرف زمان ہو۲۔ کوئی ایک حذف ہو  (اور اکثر اسم حذف ہوتا ہے ) یہاں لات کا اسم محذوف ہے جوکہ حین ہے اور حِینَ موجودٍ، لات کی خبر ہے (المنھاج) اس طرح کبھی لاپر۔ ت بڑھاکر لاتَ بولتے ہیں اس کا عمل بھی وہی ہوتا ہے۔ جیسے لاتَ حِینَ مَنَاصٍ اس کا اسم محذوف ہے اور حین خبر ہے۔ دراصل لات الحِینُ حِینَ مناصٍیہ وقت چھٹکارے کا وقت نہیں ہے۔

سوال: حروف مشبھتان بلیس کے اسم کے عمل کے لیے کو نسے شرائط ہیں۔

جواب:۱۔ان کا اسم مقدم ہو، موخر نہ ہو ۲۔ ان کی نفی کو اِلّا کے ذریعہ ختم نہ کیا جائے۔

سوال: ماولا کے اسم کو پہچاننے کی کیا علامت ہے۔

جواب:اس کی علامت یہ ہے کہ ان کا اسم مسندالیہ ہو اور اسپر مایا لا داخل ہو۔

سوال: ماولا کا خبر اسم پر مقدم ہوتا ہے یا نہیں۔

جواب:ان کے خبر کی اسم پر تقدیم جائز نہیں۔

سوال: کیا  ما، کی خبر ہمیشہ منصوب ہوتی ہے۔

جواب:اکثر منصوب ہوتی ہے۔ لیکن جب ما، کی خبر پر باء زائدہ داخل ہو گا تو وہ مجرور ہو گا جیسے وَمَارَبُّک بِظَلّامٍ۔

سوال: کیا ماولا کا عمل کبھی باطل ہوتا ہے۔

جواب:تین صورتوں میں ما کا عمل لغو/ باطل ہو جاتا ہے اور لا تو بطریق اولی ۱۔ ما کے بعد اِن زائدہ ہو جیسے ما اِن زیدٌ قائمٌ۲۔ ماکے اسم اور خبر کے درمیاں اِلّا آ جائے جیسے مَازیدٌ اِلّا قائمٌ۔ مَا اَنَا اِلّا بشرٌ۳۔ ما، کی خبر اسم پر مقدم ہو جیسے ما قائمٌ زیدٌ- ماعندی قَلَمُکَ۔ لا حاضرٌرَجلٌ۔ لارجلٌ اِلّا حاضرٌ۔

قال قائل۔۔۔۔۔

ممتنع نَصبش اگر بر اسم تقديمش بود

یا برو اِلّا ست یا زائد شود اِن بعد ما

سوال: کیا ماولا میں تخفیف کی گنجائش ہے۔

جواب:جی ہاں حرف ما میں گنجائش ہے کہ اکثر عرب مانا فیہ کی جگہ مافِیشِ بولتے ہیں جو مافیہِ شیءٌ کا مخفف ہے اور اس سے صرف ”نہیں“ کے معنیٰ لیتے ہیں جیسے عندی ما فِیشِ کتابٌ میرے پاس کتاب نہیں ہے۔

اسی طرح مَا علیہِ شیءٌ کو مخفف کر کے ما عَلَیشَ بولتے ہیں یعنی کوئی مضائقہ نہیں اور تخفیفا مالَشْ بھی کہتے ہیں۔

سوال: اِنْ نافیہ کا کیا حکم ہے۔

جواب:اِنْ بھی مانافیہ کی طرح ہے عمل اور شرائط میں جیسے اِنِ الحیا‌‌ةُ دائمۃً اگر اس کی خبراسم پر مقدم  ہو گی تو عمل باطل ہو جائے گا جیسے اِن عندی کتابٌ۔ اِن ھُوَ اِلّا کاتبٌ۔

۔۔۔۔۔

(۱)کہ مابعد انکا مرفوع اور منصوب ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔

 

                ۴۔ لا نفی جنس

(۱)کہ مابعد انکا مرفوع اور منصوب ہوتا ہے۔

سوال: لانفی جنس کا کیا مطلب ہے۔

جواب:(یہ نواسخ جملہ میں سے تیسرا قسم ہے ) اس سے مراد وہ لا ہے جو(۱) جنس کے حکم کی نفی کرے (۲) جیسے لارجلٌ حاضرًا کوئی آدمی حاضر نہیں ہے (۳)۔

سوال: لانفی جنس کو نسا عمل کرتی ہے۔

جواب:اس لاکی خبر ہمیشہ مرفوع ہوتی ہے البتہ اس کے اسم کی کئی صورتیں ہیں۔

ابتداءً لا نافیہ دو اسموں پر داخل ہونے والی دو قسم ہے ۱۔ عاملہ ۲۔ غیر عاملہ۔

غیر عاملہ کیلئے دوشرط ہیں ۱۔لا کا اسم معرفہ ہو ۲۔دوسری لا دوسرے معرفہ سے تکرار ہو کر آئے جیسے لا زیدٌ عندی وَلا عمرٌو یہ ترکیب میں مبتدا، خبر ہوتے ہیں۔

سوال: لا عاملہ کتنے قسم ہے۔

جواب : دوقسم ہے ۱۔ ظاہر نفی جنس کیلئے اور یہ لیسَکے مشابہ ہے ، عمل بھی لیسَ والا کرتی ہے جیسے لارجلٌ حاضرًا۔لاأمرۃٌ حاضرۃً۔ ولامسلماتٌ حاضراتٍ۔  ۲۔ نص نفی جنس کیلئے اور یہ لیسَکے مشابہ ہے اور چار قسم ہے۔  ۱۔ اسم مفتوح(۴) خبر منصوب ۲۔اسم منصوب خبر مرفوع(۵) ۳۔ ملغانی عمل(۶) ۴۔ پانچ وجہ پڑھنے جائز۔

۱۔پہلی قسم کے لیے شرط ہے کہ اس لا کا اسم متصل مفرد نکرہ، غیر مکرر ہو جیسے لاَ رَجُلَ فِی الدَّارِ(۷)

۲۔دوسری قسم کیلئے شرط ہے۔ ۱۔کہ لا کا اسم نکرہ مضاف ہو جیسے لا غلامَ رجلٍ ظریفٌ فی الدار۲۔یا  شبہ مضاف ہو جیسے لا عشرینَ درھما لک۔

۳۔تیسری قسم،  ملغانی عمل: اس کے شرائط گذر چکے ہیں جیسے لا زیدٌ عندی ولا عمروٌ۔

۴۔ چوتھی قسم کے لیئے شرط ہے کہ لا کا اسم نکرہ، غیر مضاف، مکرر ہو جیسے

لاَحَولَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہِ(۸) کوئی طاقت ہے نہ کوئی قوت ہے مگر اللہ کی مدد سے۔ اس صورت میں پانچ وجوہ پڑھنے جائز ہیں ۱۔ دونوں معرب مرفوع جیسے لاَحولٌ وَلَا قُوَّۃٌ اِلاَّ بِاللہِ ۲۔ دونوں مبنی بر فتح جیسے لاَحولَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہِ ۳۔ پہلا مبنی برفتح دوسرا معرب مرفو ع برتنوین جیسے لاَحولَ وَلَا قُوَّۃٌ اِلاَّ بِاللہِ ۴۔ پہلا معرب تنوین مرفوع  پر، دوسرا مبنی بر فتح جیسے لاَحولٌ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہِ ۵۔ پہلا مبنی برفتح، دوسرے پر تنوین منصوب(۹) جیسے لاَحَولَ وَلَا قُوَّۃً اِلاَّ بِاللہِ۔

۔۔۔۔۔

(۱)اپنے اسم سے ۔

(۲)یعنی جو تمام شی کے انکار کے لیے ہو ۔

(۳)اسم میں حضور کی نفی ہے ۔

(۴) مبنی بر فتح

(۵)یعنی لا کا اسم معرب منصوب ہو

(۶) عمل سے خالی

(۷)یہاں اسم کو نصب وجوبی لفظی ہے ۔

(۸)یہاں اسم کو نصب وجوبی محلی ہے ۔

(۹) معرب منصوب

۔۔۔۔۔

 

لاحول ولا قوۃ  کی صورتیں

 

سوال: ان پانچوں صورتوں کی ترکیب کیسے ہو گی۔

جواب:۱۔ لاَحولٌ وَلَا قُوَّۃٌ اِلاَّ بِاللہِ اس پہلی صورت میں لانفی جنس ملغیٰ عن العمل ہے۔ حَولٌ معطوف علیہ اپنے معطوف قُوَّۃٌ سے مل کر ہوا مرفوع لفظًا مبتدا اور دوسرا لا زائدہ ثابتان خبر محذوف ہے اور اس صورت میں ترکیب میں دو احتمال ہوں گے ۱۔عطف المفرد علیٰ المفرد  ۲۔ عطف الجملۃ علیٰ الجملۃ۔

۲۔لاَحولَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہ ِاس دوسری صورت میں لانفی جنس ہے۔ حول معطوف علیہ، اپنے معطوف قوۃ سے مل کر ہوا سم لاکا۔ ثابِتَتانِ خبر محذوف ہے الّا باللہ اس سے متعلق ہے۔

۳۔ لاَحولَ وَلَا قُوَّۃٌ اِلاَّ بِاللہِ تیسری صورت میں پہلا لا نفی جنس کا ہے۔ حولَ مبنی برفتح منصوب محلا اسم ہے لا  کا، دوسرا  لا زائدہ، قوۃٌ، مرفوع لفظًا اس کا عطف ہے۔ حول کے محل بعید پر(۱) ، کیونکہ اصل میں حول مرفوع ہے مبتدا کی وجہ سے۔ اس صورت میں عطف الجملۃ علیٰ الجملۃ ہو گا اور دونوں کی خبر علٰحدہ ہو گی۔ تقدیر عبارت ہو گی لاَحولَ عَنِ المَعصِیۃِ مَوجُودٌ لِاَحَدٍ اِلّا باللہِ۔

۴۔ لاَحولَ وَلَا قُوَّۃً اِلاَّ بِاللہِ اس چوتھی صورت میں پہلا لا نفی جنس کا ہے ، حولَ اسم، منصوب محلا مبنی برفتح۔ دوسرا  لا زائدہ، قوۃً منصوب لفظًا، حول کے محل قریب پر اس کا عطف ہے ، حول منصوب محلا ہے۔ کیونکہلا کا اسم ہے۔ اور ترکیب میں دواحتمال ہوں گے۔ ۱۔ عطف المفرد علی المفرد(۲) ۲۔ عطف الجملتہ علی الجملۃ(۳)۔

٥۔لاَحولَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللہِ اس پانچویں صورت میں پہلا لا نفی جنس کا ہے۔  حول اسم مبنی بر فتح منصوب محلا، دوسرا لازائدہ، قوۃ منصوب لفظا حول کے محل قریب پر اس کا عطف ہے اور ترکیب میں دو احتمال ہیں عطف المفرد علی المفرد، عطف الجملۃ علی الجملۃ۔

سوال: لانفی جنس اور لا مشبہ بلیس میں کیا فرق ہے۔

جواب: ان میں دوفرق ہیں لفظی، معنوی۔لفظی فرق یہ کہ لانفی جنس کا اسم منصوب اور خبر مرفوع ہوتا ہے اور معنوی فرق ۱۔یہ ہے کہ لانفی جنس میں نفی کا استغراق ہوتا ہے۔ اور لامشبہ بلیس میں استغراق نہیں ہوتا بلکہ صرف ایک فرد سے نفی ہوتی ہے۔ اسیلئے لارجلَ فی الدار کہنے کے بعد بل رجلانِ کہنا غلط ہے اور لارجلٌ فی الدار کہنے کے بعد بل رجلانِ کہنا درست ہے۔ ۲۔دوسرا فرق یہ ہے کہ لامشبھ بلیس کے معنیٰ میں دو احتمال ہوتے ہیں ایک یہ کہ خبر کی نفی اسم کے صرف ایک فرد سے ہو جیسے  لَارَجُلٌ قَائِمًا ایک آدمی کهڑا نہیں ہے (ہوسکتا ہے کہ دوکھڑے ہوں)۔

نوٹ: اسی طرح لا سِیَّمَا میں بھی لا، نفی جنس کیلئے ہے اور یہ اپنے ماقبل کے مقابلے میں ما بعد کی خصوصیت بتانے کے لیئے آتا ہے جیسے اُحِبُّ الاَصدِ قاءَ ولاسِیَّمَا الصدیقُ العاقلُ، اس میں لانفی جنس کا ہے سِیّیبمعنیٰ مثل، اس کا اسم ہے اور خبر موجود محذوف ہے الصدیقُ العاقلُ اور اگر لاسِیّ کا ما بعد نکرہ ہو تو اس کو مرفوع منصوب اور مجرور بھی پڑھا جا سکتا ہے۔

دوسرا یہ کہ  خبر کی نفی جنس اسم سے ہو پھر مثال مذکورہ میں یہ بھی احتمال ہے کہ جنس مرد قائم نہیں (ایک نہ دو)اور لانفی جنس میں صرف ایک احتمال ہوتا ہے کہ اس میں خبر کی نفی جنس اسم سے ہوتی ہے جیسے لارجلَ فی الدارِ کوئی آدمی گھر میں نہیں (خواہ ایک ہویا زیادہ )۔

سوال: کیا لانفی جنس کا اسم ہمیشہ مفرد ہوتا ہے۔

جواب:عام ہے کبھی مفرد، تثنیہ اور جمع بھی آتا ہے۔ پس حالت نصبی میں ہو گالا مُتَّحِدَینِ مَغلُوبَانِ  کوئی دوباھم اتحاد رکھنے والے مغلوب نہیں ہوتے اورلا مُختلفَینِ مَنصُورُونَ کوئی دو باھم اختلاف رکھنے والے فتحمند نہیں ہوتے۔

سوال: کیا لانفی جنس کی خبرمحذوف ہوتی ہے۔

جواب:جی ہاں جب اس کی خبر معلوم ہو تو خبر کا حذف جائز ہے جیسے ولو تریٰ اذ فَزِعُوافَلافَوتَ ای فلافوتَ لھم۔ اسی طرح لاشکَّ، لا خیرَ، لا بُدَّ، لابَأسَ میں بھی خبر محذوف ہے۔ (المنهاج)

سوال: لانفی جنس کی خبر پہنچاننے کی کیا علامت ہے۔

جواب: علامت یہ ہے کہ اس کی خبر مسند ہو اور اسپر لا داخل ہو۔

۔۔۔۔۔۔

(۲)یہ مذہب ہے سیبویہ ؒ کا۔

(۱)تقدیر عبارت یوں ہوگی لاَحولَ وَلَا قُوَّۃً موجود انِ لِاَحدٍاِلّا باللھ۔

(۲)تقدیر عبارت ہوگی لاَحولَ عنِ المَعصیۃِ موجودٌ لِاَحَدٍ  اِلّا بِاللہ

۔۔۔۔

 

جنس اور اسم جنس

 

سوال: جنس اور اسم جنس کسے کہتے  ہیں۔

جواب:جنس اسے کہتے ہیں جس کا اطلاق قلیل اور کثیر پر ہو جیسے الماءُ پانی، تھوڑا بھی پانی زیادہ بھی پانی، قطرہ ہو یا دریا اور اسم جنس اسے کہتے ہیں جس کا اطلاق قلیل پر ہوا اور کثیر پر درجہ بدرجہ ہو جیسے رجلٌ ایک آدمی، اگر زیادہ ہوں گے تو ایک ایک آدمی کو بھی رجلٌ رجلٌ کہا جائے گا، سب کو رجل نہیں کہیں گے بلکہ رجال کہیں گے۔

 

                ۵۔حروف ندا

 

حروف ندا  سے مراد وہ حروف ہیں جن سے مخاطب کو اپنی طرف متوجہ کیا جائے ایسے حرف کے ذریعہ جو ادعو کے قائم مقام ہو۔

 

حروف ندا اور ان کا عمل

 

سوال: حروف ندا کتنے ہیں اور کون سا عمل کرتے ہیں۔

جواب:یہ پانچ حروف ہیں یا، اَیا، ھَیَا، اَی، أَ۔ یاندا قریب اور بعید میں استعمال ہوتا ہے اَیَا، ھَیَا دونوں ندا بعید کے لئے ہیں۔اَیْ اور أَ دونوں ندا قریب کے لئے استعمال ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھار ایک دوسرے کی جگہ پر بھی استعمال ہوتے ہیں۔

 

منادیٰ اور حرف ندا کا حذف

 

سوال: کیا منادی ٰاور حرف ندا کا حذف جائز ہے۔

جواب:جی ہا ں کسی قرینہ یا اختصار کی وجہ سے حذف جائز ہے جیسے یوسفُ اَعرِض عن ھذا سے پہلے حرف ندا  (یا) محذوف ہے اور اَلّا یسجدوا میں منادیٰ محذوف ہے اصل میں تھا اَلَا یا قومِ اسجُدُوا۔

 

منادیٰ کا اعراب

 

سوال: منادیٰ کا اعراب کتنے قسم ہے۔

جواب:چار قسم ہے ۱۔ مرفوع۲۔ منصوب۳۔ مفتوح۴۔ مجرور۔

 

منادیٰ مرفوع

 

سوال: منادیٰ مرفوع کب ہوتا ہے۔

جواب:منادیٰ مفرد، معرفہ ہو تواس کو رفع پڑھنا واجب ہے خواہ قبل ندا معرفہ ہو جیسے یازیدُ یا بعد ندا معرفہ ہو جیسے یارجلُ، یازیدانِ، یازیدونَ، یا مسلمونَ، یا قاضِی۔

فائدہ: مفرد چار چیزوں کے مقابلے میں آتا ہے ا۔ مفرد ہو یعنی تثنیہ، جمع نہ ہو ۲۔مفرد ہو یعنی جملہ نہ ہو ۳۔مفرد ہو یعنی مضاف، شبہ مضاف نہ ہو۴۔ مفرد ہو یعنی مرکب نہ ہو اوریہاں مفرد، مضاف کے مقابلہ میں ہے کہ مضاف اور شبہ مضاف نہ ہو(اس کا اعراب آگے آر ہا ہے )۔

 

منادیٰ منصوب

 

سوال: منادیٰ، منصوب کب ہوتا ہے۔

جواب:تین صورتوں میں منادیٰ منصوب ہوتا ہے۔ یعنی جس حالت میں منادیٰ کا رفعہ ہو گا اس حالت پر اس کو مبنی پڑھا جائے گا۔  ۱۔منادیٰ مضاف ہو(۱) جیسے یا عبدَاللہِ اے خدا کے بندے ۲۔ منادیٰ شبہ مضاف ہو جیسے یا طالعًا جبلًا(۲) اے پہاڑ کے چڑھنے والے  ۳۔منادیٰ نکرہ غیر معین ہو۔

۔۔۔۔۔

(۱)خواہ واحد ہو یا تثنیہ جمع جیسے یا ساکنَ الھند، یا ساکنَی مکۃ ، یا ساکنِی المدینۃِ ۔

(۲)جبلا یہ طالعا کا مفعول ہے۔

۔۔۔۔۔۔

 

شبہ مضاف

 

سوال: شبہ مضاف کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس اسم کو کہتے ہیں جس کی دوسرے کلمہ کے ملائے بغیر معنیٰ پوری نہ ہوتی ہو، یہاں بھی جبلاً کے سوائے طالعًا کی معنیٰ پوری نہیں ہو پاتی۔

 

نکرہ معین اور غیر معین

 

سوال: نکرہ معیّن اور غیر معیّن کسے کہتے ہیں۔

جواب۔جب کسی غیر متعین اجنبی کو پکارا جائے تو اس کو نکرہ غیر معیّن کہیں گے ، جیسے نابینا بغیر آہٹ سنے کہے یارجلاً خُذْ بِیَدِی اے کوئی  آدمی میرا ہاتھ پکڑ/تھام لے۔ اور جب معین اجنبی کو پکارا جائے تو وہ نکرہ معین ہو گا جیسے کوئی نابینا آہٹ وغیرہ سنے اور کہے یا رجلاً خُذ بِیدِی۔

 

منادیٰ مجرور

 

سوال: منادیٰ مجرور کب ہوتا ہے۔

جواب:منادیٰ، لام استغاثہ داخل ہونے سے مجرور ہوتا ہے (۱)   جیسے یا لَزیدٍ۔

۔۔۔۔۔

(۱)یعنی منادیٰ مستغاث لامی ہو ۔

۔۔۔۔۔

 

مستغاث اور مستغیث

 

سوال: مستغاث کسے کہتے ہیں۔

جواب: جس کو مدد طلب کرنے /فریاد رسی کیلئے اپنے طرف متوجہ کیا جائے اور جو فریاد کرے اس کو مستغیث اور جس کے لیئے فریاد کی جائے اسے مستغاث لہ کہتے ہیں۔

 

منادیٰ مفتوح

 

سوال: منادیٰ مفتوح کب ہوتا ہے۔

جواب: جب منادیٰ کے آخر میں الف استغاثہ داخل ہو (۲) جیسے یَا زَیدَاھُ(۱)۔

سوال: جب منادیٰ "ی” متکلم کی طرف مضاف ہو اور صحیح الاٰخر ہو تو اس کا کیا حکم ہے۔

جواب: اس میں چھ وجوہ پڑھنے جائز ہیں جیسے ۱۔ یَاسَیِّدِی ۲۔ یَاسَیِّدِ ۳۔ یَا سَیِّدَ ۴۔یَاسَیِّدَا ۵۔ یَاسَیِّدِیَّ ۶۔ یَاسَیِّدِیَا۔ لیکن اگر منادیٰ لفظ اب یا ام ہو تو مزید یَا اَبَتَ، یَا اَبَتَا، یَا اَبَتِی بھی پڑھا جا سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔

(۱)یعنی منادیٰ مستغاث الفی ہو۔

۔۔۔۔۔

 

منادیٰ کا ناصب

 

سوال: منادیٰ، مفعول بہٖ کی وجہ سے منصوب ہوتا ہے ، لیکن اس کا ناصب کون ہے۔

جواب: اس میں اختلاف ہے جمہور نحات کے نزدیک اس کا ناصب فعل مقدر ہے جیسے یَازیدُ اصل میں ہے ادعُو زیدًا، لیکن مبرد ؒ  اور مصنف نحومیر ؒ کے نزدیک حرف ندا فعل کے قائم مقام ہونے کی وجہ سے خود ہی ناصب ہے ، فعل مقدر کو اس میں دخل نہیں، ایں حروف منادیٰ مضاف رانصب کنند سے یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ (بدر منیر)

 

 

 

 

                فصل دوم۔ فعل کے حروف عاملہ

 

۱۔فعل مضارع کے حروف ناصبہ

 

سوال: جو حروف فعل مضارع کے عامل ہیں وہ کتنے قسم ہیں۔

جواب: دو قسم ہیں ۱۔ حروف ناصبہ ۲۔ حروف جازمہ۔

سوال: فعل مضارع کے حروف ناصبہ کتنے ہیں اور کیا عمل کرتے ہیں۔

جواب: وہ چار ہیں اَن، لَن، کَی، اِذَن۔ یہ  لفظًا اور معنیً مضارع میں عمل کرتے ہیں۔

اَن۔کہ، یہ کہ۔ لَن۔ ہرگز نہیں۔ کَی۔تاکہ۔ لِکَی۔ تاکہ۔ اِذَن۔ تب۔ تو اسوقت (۱)

۔۔۔۔۔

(۱) اسی طرح اَلَّا  مخفف اَنْ لا (یہ کہ نہ)۔ لِاَنْ ( اسلئے کہ) ۔ لِئَلّا مخفف لِاَنْ لا (اسلئے کہ نہ) بھی حروف ناصبہ میں شمار ہوتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔

 

اَن کا عمل

 

سوال: اَن فعل مضارع میں کیا عمل کرتا ہے۔

جواب: یہ لفظًا، فعل مضارع مفرد کو نصب دیتا ہے (۱) ، جیسے لن یّضرِبَ، لن تضرِبَ وغیرہ اور سات صیغوں میں نون اعرابی کو حذف کر دیتا ہے ، جیسے لن یّضرِبوا۔ اور دو صیغوں میں مبنی ہونے کی وجہ سے کوئی تبدیلی نہیں آتی، جیسے لن یّضرِبنَ، لن تضرِبْنَ۔

معنیً یہ عمل کرتا ہے کہ فعل مضارع کو مصدر کے معنیٰ /تاویل میں کر دیتا ہے جیسے اُرِیدُ اَن تَقُومَ اَی اُرِیدُ قِیَامَکَ / میں تیرے اٹھنے کا ارادہ کرتا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔

(۲)اس طرح کہ پانچ صیغوں میں فتح ظاہر ہوگا۔   واحد مذکر غائب، واحد مؤنث غائب، واحد  مذکر مخاطب، واحد متکلم، جمع متکلم۔

۔۔۔۔۔۔

اَن مصدریہ

 

سوال: اَن ناصبہ کا دوسرا نام کون سا ہے۔

جواب: اس کا  دوسرا نام اَن مَصدَرِیّہ بھی ہے۔ کیونکہ یہ فعل مضارع کو مصدر کے معنیٰ میں کر دیتا ہے اور یہی اَن مصدریہ کا وجہ تسمیہ ہے۔

 

اَن مخَففہ کا حکم

 

سوال: آپ نے کہا کہ اَن مضارع کو نصب دیتا ہے تو عَلِمَ اَن سَیَکُونُ میں اَن نے نصب کیوں نہیں دی۔

جواب:  یہ اَن مُخَفَّف عَنِ المُثَقّلہ ہے اصل میں اَنّہٗ تھا، پھر اَن ہو گیا، یہ ناصبہ نہیں ہے۔

 

اَنْ غیر ناصبہ

 

سوال: کیا اَن ہمیشہ ناصبہ ہوتا ہے یا غیر ناصبہ بھی ہوتا ہے۔

جواب: جی ہاں، جب اَن زائدہ امر اور ماضی پر داخل ہو تو غیر ناصبہ ہوتا ہے ، جیسے اَنِ اضْرِبْاور اَن قالَ۔

 

حروف ناصبہ میں فرق

 

سوال: معمول کی تقدیم کے باعتبار اَن اور باقی حروف ناصبہ میں کیا فرق ہے۔

جواب: اَن کا معمول اس پرمقدم ہو سکتا ہے جیسے یَضرِبَ اَن زیدًا۔ بخلاف باقی نواصب کے اس لیئے یَضرِبَ لَن زَیدًا کہنا درست نہیں۔

 

لَن کا عمل

 

سوال: لَنْ، فعل مضارع میں کیا عمل کرتا ہے۔

جواب: یہ بھی فعل مضارع مفرد کو لفظًا نصب دیتا ہے اور تثنیہ و جمع کے نون کو گرادیتا ہے ، سوائے جمع مؤنث کے ، اور معنیً، نفی کی تاکید کے لئے آتا ہے (۱)  جیسے لَن یَّخْرُجَ زیدٌ، زیدہرگز نہیں نکلے گا۔

۔۔۔۔۔

(۱)یعنی مضارع مثبت کو مستقبل منفی مؤکد کے معنیٰ میں کردیتا ہے۔

۔۔۔۔۔

 

کَی کا عمل

 

سوال: کَی، فعل مضارع میں کیا عمل کرتا ہے۔

جواب: یہ بھی لفظًا، مضارع مفرد کو نصب دیتا ہے ، اور تثنیہ و جمع کے نون کو گرادیتا ہے ، اور معنیً سببیت کیلئے آتا ہے (۱)  جیسے اسلمتُ کَی ادخُلَ الجنّۃَ میں نے اسلام قبول کیا تاکہ جنت میں داخل ہو جاؤں(یہاں اسلام لانا دخول جنت کا سبب ہے )۔

نوٹ۔ کَی ناصبہ عمل اور معنیٰ میں اَن مصدریہ کے مترادف ہوتا ہے ، جیسے لِکَیلَا تأسَوا  تا کہ تم مایوس نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔

(۱) یعنی اس کا ما قبل ما بعد کے لیئے سبب  (علت یا نتیجہ) ہوتا ہے اور ما بعد مسَبَّب۔

۔۔۔۔۔۔

 

اذن  کا عمل

 

 

سوال: اِذَن مضارع میں کون سا عمل کرتا ہے۔

جواب:  اس کا عمل تین طرح سے ہے ۱۔ یہ لفظًا، مضارع مفرد کو نصب دیتا ہے ۲۔تثنیہ و جمع کے نون کو سوائے جمع مؤنث کے گرادیتا ہے ۳۔معنیً جواب اور جزا کیلئے آتا ہے جیسے کوئی کہے۔ اَنَا اٰتِیکَ غدًا میں تیرے پاس کل آؤں گا۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا۔اِذَن اُکرِ مَکَ اس وقت  میں تیرا  اکرام کروں گا۔

 

اَنْ مقدرہ  کے مقامات

 

سوال: اَن ناصبہ ہمیشہ ظاہر ہوتا ہے یا کبھی مقدربھی ہوتا ہے۔

جواب: یہ چھ مقامات پر مقدر(۱) ہو کر مضارع کو وجوبًا، نصب دیتا ہے ۱۔ حتّٰی کے بعد جیسے مررتُ حتّٰی ادخُلَ البلدَ میں گذرا تا کہ شہر میں داخل ہو جاؤں۔ ۲۔ لام جحد کے بعد جیسے مَا کانَ اللہُ لِیُعذِّبَھم وَانتَ فیھم اللہ انکو عذاب نہیں دے گا جب تک آپ   ان میں ہیں۔

۔۔۔۔۔

(۱) پوشیدہ۔

۔۔۔۔۔

لام جحد

 

سوال: لام جحد کسے کہتے ہیں۔

جواب: اس لام کو کہتے ہیں جو کان منفی کی خبر پرنفی کو پختہ کرنیکے لئے داخل ہو جیسے لَم یَکُنِ اللہُ لِیَغْفِرَلَھم۔ ماکانَ اللہُ لِیُعَذِّبَھُم، البتہ اللہ ان کو عذاب نہیں کرے گا۔

فائدہ۔لام کی کئی قسمیں ہیں۔ ۱۔لام تاکید۔۲۔ لام کَیْ۔ ۳۔لام تعلیلیہ۔ ۴۔ لام زائدہ۔ ۵۔ لام امر۔ ۶۔ لام ابتدائیہ٧۔ لام قسم ٨۔ لام اختصاص

۳۔ تقدیر اَنْ کی تیسری جگہ۔ اس اَو کے بعد جو الیٰ یا اِلّا کے معنیٰ میں ہو جیسے لَاَلْزِمَنَکَّ اَو تُعطِیَنِی حَقِّی، پس جب او بمعنیٰ الیٰ ہو گا تو معنیٰ ہو گا البتہ لازم پکڑوں گا میں تجھ کو یہاں تک کہ تو میرا حق دیدے۔ اگر اِلّا کے معنیٰ میں ہو تو معنیٰ ہو گا، البتہ پکڑوں گا میں تجھ کو مگر یہ کہ تو میرا حق دیدے۔

۴۔ تقدیر اَنْ کی چوتھی جگہ۔لام کَی(۱) کے بعد جیسے اسلمتُ لِاَدخُلَ الجنّۃَ۔ لیکن اگر کَی سے پہلے لام ہو گا تو کَی کا مابعد مجرور ہو گا۔

۔۔۔۔۔

(۱)  لام سببیّت۔

۔۔۔۔۔

 

لام کَی اور لام جحد میں فرق

 

سوال: لام کَی کسے کہتے ہیں۔

جواب:لام کَی اس لام جر کو کہتے ہیں جو کَی کی طرح سببیت کی معنیٰ دیتا ہو اور اس کو لام التعلیل بھی کہتے ہیں۔

سوال:  لام کَی اور لام جحد میں کون سا فرق ہے۔

جواب: ١۔لفظی فرق یہ ہے کہ لام جحد ہمیشہ کانَ منفی ماضی کے بعد آتا ہے۔بخلاف لام کَی کہ یہ صرف نفی کی تاکید کرتا ہے  ۲۔معنوی فرق یہ ہے کہ لام کَی تقلیل کے لیئے آتا ہے ٣۔ تیسرا فرق یہ ہے کہ لام کَی کو حذف کرنے سے معنیٰ میں خلل ہو جاتا ہے بخلاف لام جحد کے اس کے حذف سے معنی میں خلل نہیں ہوتاکیونکہ وہ صرف نفی کی تاکید کے لئے آتا ہے۔

٥۔اس فاجزائیہ کے بعد بھی اَن مقدر ہوتا ہے ۱۔جس میں ماقبل مابعد کیلئے  سبب ہو ۲۔اور جو چھ چیزوں میں سے کسی ایک کے جواب میں واقع ہوتا ہو جو درج ذیل ہیں۔

چھ مقامات میں فا، کا لانا ضروری ہے

۱۔ امر کے بعد جیسے زُرنِی فَاُکرِمَکَ۔تومیری زیارت کر تا کہ میں تیری عزت کروں۔

۲۔نہی کے بعد جیسے لَاتَشتِمنِی فَاَضرِبَکَ۔ مجھے برا بھلا مت کہو تاکہ تمہیں تکلیف دوں۔

۳۔ نفی کے بعد جیسے مَاتَأتِینَا فَتُحَدِّثَنَا(۱)  نہیں آتے آپ ہمارے پاس تا کہ بات چیت کرتے ہم سے۔

۴۔  استفہام کے بعد جیسے ھَل عِندَکَ مَاءٌ فَاَشرَبَہٗ۔ کیا آپ کے پاس پانی ہے تا کہ پیوں میں اس کو۔

۵۔ تمنّی کے بعد جیسے لَیتَ لِی مَالًا فَاُنفِقَ مِنہُ۔ کاش میرے لیے مال ہوتا تا کہ میں اس کو خرچ کرتا۔

۶۔عرض کے بعد جیسے اَلَا تَنزِلُ بِنَا فَتُصِیبَ خَیرًا۔ کیوں نہیں آتے ہو ہمارے پاس تاکہ حاصل کرو بھلائی کو۔

(۶)تقدیر اَنْ کی چھٹی جگہ: واو الصرف کے بعد بھی اَنْ مقدر ہوتا ہے جیسے زُرنِی وَاُکرِمَکَ میری زیارت کرو تاکہ میں تمہارا اکرام کروں۔

۔۔۔۔۔

(۱)  چونکہ نفی بھی انشائیہ کے حکم میں ہے اس لیئے انشائیہ کے طرح نفی بھی جواب کو چاہتی ہے(بدر منیر)۔

۔۔۔۔۔

 

واوالصرف

 

 

سوال: واوالصرف کسے کہتے ہیں۔

جواب: اس واو کو کہتے ہیں جومعطوف کو معطوف علیہ والے حکم سے پھیردے (۱) ، جیسے لَاتَأکُلِ السَّمَکَ وَ تَشرَبَ اللَّبَنَ۔نہ کھاؤ مچھلی کو اور پیو دودھ کو۔ لیکن در حقیقت یہ واو عطف ہے ، جس کو واو جمع بھی کہتے ہیں، اس کے بعد اَن مقدر ہونے کیلئے دو شرائط ہیں۱۔ اس کے ما قبل اور مابعد والے فعل کا زمانہ ایک ہو  ۲۔اور یہ واو آئندہ چھ چیزوں کے بعد واقع ہو۔ ۱۔ امر ۲۔ نہی ۳۔ نفی ۴۔ استفہام ۵۔ تمنی ۶۔ عرض۔ ان کی مثالیں وہی فا والی ہیں۔صرف فاء کی جگہ واو لایا جائے گا جیسے زُرنِی وَاُکرِمَکَ، لَاتَشْتِمْنِی وَاَضْرِبَکَ وغیرہ۔

۲۔فعل مضارع کے حروف جازمہ

سوال: فعل مضارع کے حروف جازمہ کتنے ہیں اور کون سا عمل کرتے ہیں۔

جواب۔ وہ پانچ ہیں ۱۔ اِن ۲۔ لَم ۳۔ لَمَّا ۴۔ لاَم اَمر ۵۔ لاَ نَھِی۔ جیسے لَم یَنصُر، لَمَّا یَنصُر، لِیَنصُر، لاَ تَنصُر، اِن تَنصُر اَنصُر۔ان کا عمل دو طرح ہوتا ہے ، لفظًا و معنیً۔

یہ لفظًا فعل مضارع مفرد کو جزم  دیتے ہیں(۲)۔

۔۔۔۔۔

(۱)  یعنی جو دو حکموں کو آپس میں نہ ملائے بلکہ جدا  کرے۔

(۲)  اور علامت جزمی کی وجہ سے کہیں مضارع سے حرکات گر پڑتی ہیں، کبھی نون اعرابی گر پڑتے ہیں اور کبھی حروف علت گر پڑتے ہیں۔

۔۔۔۔۔

 

اِن شرطیہ

 

سوال: اِنْ شرطیہ کیا عمل کرتا ہے۔

جواب:یہ لفظًا فعل مضارع کو نصب دیتا ہے اورمعنیً استقبال کیلئے ہے اگر چہ ماضی پر داخل ہو۔

سوال: اِنْ اور باقی حروف جازمہ میں کون سا فرق ہے۔

جواب: باقی حروف ایک جملہ پر داخل ہوتے ہیں اور اِنْ دو جملوں پر داخل ہوتا ہے۔ اس طرح  کہ پہلا دوسرے کیلئے سبب ہوتا ہے اس میں پہلے کو شرط، دوسرے کو جزا کہتے ہیں۔ پہر شرط جملہ فعلیہ ہوتا ہے اور جزا کبھی فعل توکبھی اسم۔

اس کی چار صورتیں ہیں ۱۔ اگر شرط اور جزا دونوں مضارع ہوں تو دونوں پر جزم واجب ہو گی جیسے اِن تضرِب اَضرِب اگر تو مارے گا تو میں ماروں گا۔

۲۔ اگر صرف شرط مضارع ہو تو بھی جزم  واجب ہو گی جیسے اِن تضرِب ضرَبتُ۔

۳۔  اگر صرف جزا  مضارع ہو تو جزم جائز ہو گی(۱) جیسے اِن ضرَبْتَنِی اَضرِبک/ اضرِبُک۔

۴۔ اسی طرح اگر شرط وجزا دونوں ماضی ہوں تو جزم تقدیرًاہو گی جیسے  اِن ضربتَ  ضربتُ۔ یہاں جزم تقدیری ہے کیوں کہ ماضی معرب نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)  یعنی رفع اور جزم دووجہ، لیکن جزم کثیر الاستعمال ہے۔

۔۔۔۔۔۔

 

جزا پر فاء کا لا نا وجوبی

 

 

سوال: جزا کی  کتنی صورتوں میں فاء کا لانا واجب ہے۔

جواب:وہ چند صورتیں ہیں:

۱۔ جزا جملہ اسمیہ ہو جیسے اِن تَأتِنِی فَاَنتَ مُکرَمٌ۔

۲۔جزا جملہ انشائیہ ہوچا ہے امر ہو جیسے اِن رَئیتَ زیدًا فَاَکرِمہُ۔

۳۔ دعا ہو جیسے اِن اَکرَ متَنِی فَجَزا کَ اللہُ خَیرًا۔

۴۔ جزا ماضی منفی ہو جیسے اِن تَأتِنِی فَلَا ضَرَبتُکَ۔

۵۔ جزا ماضی مثبت مع قد ہو جیسے قَالُوا  ِان یَّسرِق فَقَد سَرَقَ اَخٌ لَّہٗ مِن قَبلُ۔

۶۔ جزا مضارع مثبت ہو جیسے وَاِن تَعَا سَرتُم فَسَتُرضِعُ لَہٗ اُخرَیٰ۔

۷۔ جزا مضارع بلَن ہو جیسے وَمَن یَّبتَغِ غَیرَ الاِسلَامِ دِینًا فَلَن یُّقبَلَ مِنہُ۔

 

جزا پر فا ء کا لانا جوازی

 

 

سوال: کتنی صورتوں میں جزا پر دخول فا جائز ہے۔

جواب:دوصورتوں میں۱۔ جزا مضارع مثبت بدوں سین سوف وغیرہ ہو جیسے وَمَن  عَادَ فیَنتَقِمِ اللہُ مِنہُ میں فاء ہے  اور اِن یَّکُن مِنّکُم عِشرُونَ صَابِرُونَ یَغلِبُو مِأَتَینِ میں بغیر فاہے۔ ۲۔ جزا مضارع منفی بلا ہو جیسے فَمَن یُّؤمِنْ بِرَبِّہٖ فَلا یَخَافُ بَخسًا وّلَا رَھَقًا میں فاء ہے  اور اِن تَدعُوھُم لَایَسمَعُوا دُعَائَکُم میں بغیر فاء  ہے۔

 

دخول فا ء کی ممنوع صورتیں

 

سوال: جزا  کے کتنی صورتوں میں فاکا  دخول ممتنع ہے۔

جواب:دوصورتوں میں۱۔ جزا لفظًاماضی(۱) مثبت بدوں قد ہو جیسے وَمَن دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا۔

۲۔ جزا معنیً ماضی مثبت بدوں قد ہو جیسے اِن خَرَجتَ لَم اَخرُج۔

۔۔۔۔

(۱)  متصرف یعنی انشائیہ نہ ہو ۔

۔۔۔۔۔۔

 

اِن مقدرہ کے مواقع

 

سوال: اَنْ ناصبہ کی طرح اِنْ جازمہ بھی مقدر ہوتا ہے یا نہیں۔

جواب:دوشرطوں سے اِنْجازمہ بھی مقدر ہوتا ہے ۱۔سات چیزوں کے جواب میں سوائے نہی کے واقع ہو ۲۔ مضارع پر فاء داخل نہ ہو۔  قال قائل

نیز تقدیرش گہے بافعل بے فادر جواب

جاءَ آں  اشیاء  سبعہ غیر نفی  آمد روا

(القول الظھیر)

 

اِن اور لَئِن میں فرق

 

سوال: اِنْ اور لَئِنْ میں کون سا فرق ہے۔

جواب:اِنْ پر ہی لام بڑھاکر لَئِنْ لکھا کرتے ہیں معنی وہی رہتے  ہیں البتہ معنی میں کچھ زور پیدا ہو جاتا ہے۔

لم اور لما کا عمل

سوال: لَم اور لَمَّا کون سا عمل کرتے ہیں۔

جواب:یہ  مضارع مثبت کو ماضی منفی کے معنیٰ میں کر دیتے ہیں جیسے لمْ یضرِب اس نے نہیں مارا-  لَمَّا یَضْربْ اس نے ابھی تک نہیں  مارا۔

 

 

لم اور  لما میں فرق

 

سوال: لَم اور لَمَّامیں کون سا فرق ہے۔

جواب:١۔معنوی فرق یہ ہے کہ لَمَّا میں ماضی منفی کا استغراق ہوتا ہے (۱) جیسے لَمَّا یَضرِب ابھی تک نہیں مارا بخلاف لَم کے کہ اس میں مطلق زمانہ کی نفی ہوتی ہے۔

جیسے لَم یَضرِب اس نے نہیں مارا۔

۲۔ لفظی یا ظاہری فرق ۱۔یہ ہے کہ لَمَّا کامدخول فعل محذوف بھی ہوتا ہے۔ جیسے نَدِمَ زیدٌ وَلَمَّا اَی لَمَّا یَنفَعہُ النَّدَمُ پشیمان ہوا  زید لیکن نہیں نفع دیا اس کو پشیمانی نے۔بخلاف لَم کے اس کا فعل حذف نہیں ہوتا۔

۳۔ اسی طرح حروف شرط لَم پر داخل ہوتے ہیں اورلَمَّا پر داخل نہیں ہوتے جیسے اِن لَّم تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رِسَالَتَہٗ۔

۴۔ ایک فرق یہ ہے کہ لَمَّا میں اگر چہ ماضی منفی کا استغراق ہوتا ہے لیکن آئند ہ کیلئے اثبات کی امید ہوتی ہے اور لَمْ میں یہ بات نہیں ہوتی۔

۔۔۔۔۔۔

(۱) یعنی بولنے کے زمانہ تک نفی ہوتی ہے۔

۔۔۔۔۔

 

شرط و جزا کا عامل

 

 

سوال:  شرط وجزامیں عامل کون اور معمول کون ہوتا ہے۔

جواب: اس میں کئی اقوال ہیں١۔ علامہ سیرافیکے نزدیک دونوں میں عامل حرف شرط ہے۔ ٢۔ خلیل نحوی کے ہاں شرط میں عامل اِنْ شرطیہ ہے  اور جزا میں عامل اِنْ اور شرط ہوتا ہے۔

٣۔ کوفیین کامذھب یہ ہے کہ  شرط میں عامل حرف شرط ہے اور جزا، مجاورت کی وجہ سے مجزوم ہوتا ہے۔ ٤۔ راجح قول یہ ہے کہ شرط وجزا دونوں معنیً ہوتے  ہیں۔

 

لمَا کے ھم معنی الفاظ

 

سوال: کیا لَمَّا کے ہم معنیٰ اور بھی کوئی لفظ آتا ہے۔

جواب:جی ہاں جب لَمْ مضارع پر داخل ہو اور اس کے بعد لفظ بعدُ یا اِلی الان ہو تو وہ بھی لَمَّاکا معنی دیتا ہے۔ جیسے لَم یَذھَب بعدُ وہ اب تک نہیں گیا  لَم یَذھَب اِلیٰ الانَ وہ اب تک نہیں گیا۔

سوال : کیا لَمَّا کسی اور معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

جواب:جی ہاں لَمَّا، حِینِیَّہ ظرفِیَّہ بھی ہوتا ہے اور یہ اسم شرط غیر جازمہ ہے جیسے لَمَّا ھَطَلَ المَطَرُ جَرَ یٰ السَّیلُ جب بارش برستی ہے تو نالے بَھ پڑتے ہیں۔

 

لام امر

 

سوال: لام امر سے کیا مراد ہے اوروہ کیا عمل کرتا ہے۔

جواب:اس سے مراد وہ لام ہے جس سے وجود فعل کی طلب کی جائے۔ اور یہ بھی لفظًا ًفعل مضارع مفرد کو جزم دیتا ہے سوائے نون جمع مؤنث کے جیسے لِیَنصُر چاہئے کہ وہ مدد کرے اور تثنیہ وجمع کا نون گرادیتا ہے (۱) جیسے لِیَنصُرَا، لِیَنصُروا۔ اور معنی ًیہ فعل مضارع کو امر کے معنی میں کر دیتا ہے۔

۔۔۔۔

(۱)اور یہ لام امر مکسور ہوتا ہے لیکن واواورفاء کے بعد ساکن بھی ہو جاتا ہےجیسے فَلۡیَسۡتَجِیۡبُولِی- وَلۡیُؤۡ مِنُوبِی۔

۔۔۔۔۔۔

 

لام امر اور لام تاکید

 

سوال: لام امر اور لام تاکید میں کیا فرق ہے۔

جواب:دونوں مضارع پر داخل ہوتے ہیں١۔لیکن  لام امر عوامل کے قبیل سے ہے ، بخلاف لام تاکید کے  کہ وہ عوامل کے قبیل سے نہیں ۲۔اسی طرح لام امر کو لفظًا حذف کرنے سے معنی میں خلل پیدا ہوتا ہے ، بخلاف لام تاکید کے  کہ اس کو لفظًا  حذف کرنے سے معنیٰ میں خلل نہیں ہوتا۔

 

لانہی اور اس کا عمل

 

سوال: لانہی سے کیا مراد ہے اور وہ کون سا عمل کرتا ہے۔

جواب:اس سے وہ لا مراد ہے جس سے ترک(۱) فعل کی طلب کی جائے اور یہ بھی لفظًا مضارع مفرد کو جزم دیتا ہے اور تثنیہ وجمع کے نون کو گرا دیتا ہے اور معنیً، مضارع مثبت کونہی کے معنی میں کرد یتا ہے۔ جیسے لا تَنصُر تو مت مدد کر۔

سوال: کیا فعل مضارع صرف ان پانچ حروف سے مجزوم ہوتا ہے۔

جواب:فعل مضارع چند حالتوں میں مجزوم ہوتا ہے ۱۔ حروف جازمہ کے داخل ہونے سے

۲۔ جب مضارع کسی جزم والے شرط کے بعد ہو ۳۔ جب کسی” طلب“ کے جواب میں ہو۔ ۴۔ یا کسی مجزوم فعل پر عطف ہو۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)اور یہ لام امر مکسور ہوتا ہے لیکن واواورفاء کے بعد ساکن بھی ہو جاتا ہےجیسے فَلۡیَسۡتَجِیۡبُولِی- وَلۡیُؤۡ مِنُوبِی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

دوسرا باب۔ افعال عاملہ

 

اس میں سات فصل ہیں

 

                فعل کے اقسام

 

سوال: فعل کتنے قسم ہے۔

جواب:آٹھ  قسم ہے  ۱۔ فعل تام ۲۔ فعل ناقص ۳۔ فعل متصرف ۴۔ فعل غیر متصرف ۵۔فعل لازمی  ۶۔ فعل متعدی ۷۔ فعل معلوم  ۸۔فعل مجہول۔

 

فعل متصرف کے اقسام

 

فعل تام: وہ ہے جو اسم  پر پوراہو، خبر کا تقاضانہ کرے جیسے کَانَ مَطرٌ۔

فعل ناقص: وہ  ہے جو اسم پر پورانہ ہو، خبر کا بھی تقاضا کرے جیسے کانَ زَیدٌ عالمًا۔

سوال: فعل متصرف کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے ۱۔ فعل تام ۲۔فعل ناقص۔

فعل متصرف: وہ ہے جس کے تمام گردان آتے ہوں جیسے ضَرَبَ۔

فعل غیر متصرف: وہ ہے جس کے تمام  گردان نہ آتے ہوں جیسے نِعمَ،  سَاءَ۔

سوال: فعل تام کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے ١۔ فعل لازمی  ٢۔ فعل متعدی۔

فعل لازمی: وہ ہے جو فاعل کاتقاضا کرے اور مفعول بہ(۱) کو نہ چا ہے (۲) جیسے قَامَ زَیدٌ زیدکھڑا ہوا۔

فعل متعدی:  وہ ہے جو فعل کے ساتھ مفعول(۳) بہ کا بھی تقاضا کرے جیسے ضَرَبَ زَیدٌ عَمرًوا زیدنے عمرو کو مار ا۔

۔۔۔۔۔

(۱)معنیٰ کے لحاظ سے۔

(۲)یعنی  جس میں صرف فاعل سے مل کر پوری بات بن جائے جیسے کَرُمَ زَیدٌ، زید بزرگ ہوا ۔

(۳)جو فاعل اور مفعول دونوں سے ملے بغیر پوری بات نہ بنے جیسے اَکَلَ زَیدٌ خُبۡزًا  زید نے روٹی کھائی۔

۔۔۔۔۔

 

فعل متعدی کے اقسام

 

سوال : فعل متعدی کتنے قسم ہے۔

جواب:چار قسم ہے   ۱۔ متعدی  بیک مفعول ۲۔ متعدی بدومفعول ۳۔ متعدی بسہ مفعول (تین مفعول کی طرف ) ۴۔متعدی بسہ مفعول اقتصار بر یک ناجائز۔

سوال :متعدی باعتبار فاعل کے کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے معروف اور مجہول۔

فعل معروف/معلوم: وہ ہے جس کا  فاعل معلوم ہو جیسے ضرب زیدٌ زیدنے مارا، اس میں مارنے والا معلوم ہے اور وہ زید ہے۔

فعل مجہول /فعل نا معلوم: وہ ہے جس کا فاعل معلوم نہ ہو(۱)۔ جیسے ضُرِبَ زیدٌ زید مارا گیا، اس میں معلوم نہیں کہ زید کو کس نے مارا۔

۔۔۔۔

(۱)بلکہ اس کی  نسبت نائب فاعل کی طرف ہو۔

۔۔۔۔۔

 

فعل غیر متصرف کے اقسام

 

سوال: فعل غیر متصرف کتنے قسم ہے۔

جواب:وہ تین قسم  ہے ۱۔ افعال مقاربہ۲۔ افعال مدح وذم ۳۔ افعال تعجب۔

سوال: کون سے فعل عامل اور کون سے  غیر عامل  ہوتے ہیں۔

جواب:فعل کی تمام قسمیں عامل ہیں، کوئی بھی فعل غیر عامل نہیں(۱)۔

سوال: فعل لازمی اور متعدی کی وجہ التسمیہ کیا ہے۔

جواب:لازمی: ماخوذ ہے  لازم سے اور لازمٌ اسم فاعل ہے معنی لپٹنے /چمٹنے والا چونکہ یہ فعل بھی فاعل کے ساتھ لپٹارہتا ہے مفعول بہ کو نہیں چاہتا اس لیئے اس کو لازمی کہا جاتا ہے۔

متعدی: یہ باب تفعُّل سے اسم فاعل ہے بمعنی تجاوز کرنے والا، چونکہ اس فعل کا اثر فاعل سے تجاوز کر کے مفعول بہ تک پہنچتا ہے اس لیے اس کو متعدی کہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔

(۴)بلکہ اس کی  نسبت نائب فاعل کی طرف ہو۔

۔۔۔۔۔

 

فعل غیر عامل

 

سوال: فعل غیر عامل کب ہوتا ہے۔

جواب:جب فعل کے بعد ما کافّہ آ جائے  تو فعل غیر عامل ہو جاتا ہے۔

جیسے طالَ۔قَلَّ۔کَثُرَ سے طالَمَا۔قَلَّمَا۔ کَثُرَما

 

فعل معروف کا عمل

 

سوال: فعل معروف کون سا عمل کرتا ہے۔

جواب:یہ فاعل کو رفعہ اور چھ اسموں کو نصب دیتا ہے جیسے قام زیدٌ۔ضرب عمرٌ و۔ وہ چھ اسم یہ ہیں ۱۔مفعول مطلق جیسے قامَ زیدٌ قیامًا۔۲۔ مفعول فیہ جیسے صُمتُ یومَ الجمعۃِ ۳۔ مفعول معہٗ جیسے جَاءَ البَر دُوَالجُبَّاتِ ۴۔ مفعول لہٗ جیسے قُمتُ اِکرَ امًا لِّزیدٍ ۵۔حال جیسے جَاءَ زیدٌ راکِبًا ۶۔تمیز جیسے طَابَ زیدٌ عِلمًا ٧۔مفعول بہٖ(۱) جیسے ضَرَبَ زَیدٌ عمروًا۔

۔۔۔۔۔

(۱)اسی طرح مستثنیٰ کو بھی نصب دیتا ہے جیسے جَائَنِی الۡقَومُ اِلّازَیدًا

۔۔۔۔۔۔

 

فعل لازمی و متعدی میں فرق

 

سوال: فعل لازمی اور متعدی کے عمل میں کون سا فرق ہے۔

جواب:۱۔فعل متعدی لفظاً فاعل کو رفعہ اور مفعول بہ کو نصب دیتا ہے۔ اور فعل لازمی میں مفعول بہ ہوتا ہی نہیں وہ صرف فاعل کو رفعہ دیتا ہے ۲۔ اور معنیً فعل لازمی کے پائے جانے کیلئے ایک آدمی یا ایک چیز کا ہونا بھی کافی ہوتا ہے۔ جیسے جاء زید اور متعدی کے لیئے کم از کم دو آدمیوں کا یا دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے جیسے قتلوغیرہ۔

 

معمولات

 

سوال: اسماء معمولات کتنے ہیں۔

جواب:وہ تین قسم ہیں ١۔ مرفوعات  ٢۔ منصوبات ٣۔ مجرورات

 

مرفوعات

 

سوال: مرفوعات کتنے قسم ہیں۔

جواب:آٹھ ہیں ۱۔ مبتدا  ۲۔ خبر ۳۔ فاعل ۴۔ نائب فاعل ۵۔ اِنَّ وغیرہ کی خبر ۶۔ ماولا  کا اسم

۷۔ کَانَ وغیرہ کا اسم ۸۔ لانفی جنس کی خبر

 

 

 

                فصل۔ فاعل

 

نوٹ: واضح رہے کہ مرفوعات میں سے مبتدا، خبر، اِنّ کی خبر، ماولا کا اسم، حروف مشبہ بلیس کا اسم۔ لانفی جنس کی خبر وغیرہ کی تفصیل پہلے ہوچکی ہے۔ البتہ فاعل، نائب فاعل کی بحث اس فصل میں ہے۔

سوال: فاعل کسے کہتے ہیں۔

جواب:فاعل لغت میں کام کر نے والے کو کہتے ہیں۔ اصطلاح میں اس اسم کو کہتے ہیں جس میں چار شرائط پائے جائیں۱۔ اسم ہو ۲۔ فعل یاشبہ فعل کے بعد ہو ۳۔ فعل یا شبہ کی نسبت ہو(۱)  اس اسم کی طرف ۴۔ فعل یا شبہ فعل کی اس اسم (فاعل) کے ساتھ نسبت قیامِیَّہ ہو، وُقُوعِیَّہ نہ ہو(۲) جیسے ضَربَ زَیدٌ۔ضَارِبٌ زَیدٌ میں زید فاعل ہے۔ خارج ہوا ضُرِبَ زَیدٌ (۳)

۔۔۔۔۔۔

(۱) خارج ہوئے توابع جیسے جائنی  زیدٌ وعمرٌو۔

(۲)یعنی صیغہ معلوم کا ہو، مجہول کا نہ ہو۔

(۳)یعنی فاعل وہ اسم ہے جو اپنے فعل یا شبہ فعل کے بعد آئے جو اس کی ذات سے وجود میں آیا ہو جیسے ضَرَبَ زَیدٌ -ماتَ خالدٌ

۔۔۔۔۔۔۔

 

فاعل اور اسم فاعل میں فرق

 

سوال: فاعل اور اسم فاعل میں کون سا فرق ہے۔

جواب:ان میں کئی فرق ہیں ۱۔ اسم فاعل ہمیشہ مشتق ہوتا ہے۔ جیسے ضَارِبٌ۔ناصِرٌ وغیرہ اور فاعل کیلئے مشتق ہونا ضروری نہیں بلکہ اکثر فاعل جامد ہی ہوتا ہے جیسے ضَرَبَ زَیدٌ۔

۲۔ فاعل ہمیشہ معمول ہوتا ہے جیسے ضَرَبَ زَیدٌ اور اسم فاعل عامل ہوتا ہے جیسے ضَارِبُ زَیدٍ عمرًوا۔ ۳۔اسم فاعل وہ اسم ہے جس میں ذات اور صفت موجود ہوں جیسے ضَارِبٌ۔ عالمٌ اور فاعل اس ذات کو کہتے ہیں جس سے صرف فعل کا صدور ہو جیسے ضَرَبَ زَیدٌ عمرًوا۔

سوال: جب دواسموں کے فاعل ہونے میں التباس ہو تو فاعل کس کو بنایا جائے۔

جواب:التباس کے وقت اول اسم کو فاعل بنانا چاہیے جیسے ضَرَبَ موسیٰ عیسیٰ۔

سوال: فاعل کے احکام کون سے ہیں۔

جواب:چند یہ ہیں١۔فاعل اپنے عامل پر مقدم نہیں ہوتا  ٢۔ فاعل اسم ہی ہوتا  ہے ۳۔مرفوع ہوتا ہے۔ ۴۔ فاعل کے فعل میں تاءتانیث لاحق ہوتی ہے جب کہ فاعل مؤنث حقیقی ہو یا فاعل ضمیر ہو مؤنث حقیقی کی طرف لوٹنے والا ٤۔ فاعل حذف نہیں ہوتا سوائے چند مقامات کے۔

 

نائب فاعل

 

سوال: نائب فاعل /فاعل کا جا نشین کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس مفعول بہ کو کہتے ہیں جس کو فعل مجہول فاعل کی جگہ پر رفعہ دے جیسے ضُرِبَ زَیدٌ یہ اصل میں ضَرَبَ عمرٌو زَیدًا تھا۔

سوال: کیا صرف یہی آٹھ اسم مرفوع ہوتے ہیں۔

جواب:جی نہیں، اسی طرح ان مرفوعات کے توابع بھی مرفوع ہوتے ہیں مثلاً صفت، تاکید، عطف اور بدل وغیرہ۔ جیسے جائنی  زیدٌ وعمرٌو۔

نوٹ: کبھی کبھار نائب فاعل مجرور بھی ہوتا ہے جیسے وَلَمَّا سُقِطَ فِی اَیدِیھِم۔نُظِرَفِی الاَمرِ جبکہ حرف جر تعلیل کے لئے نہ ہو۔

 

نائب فاعل کے احکام

 

سوال : نائب فاعل کے احکام کون سے ہیں۔

جواب:نائب فاعل کے احکام بھی فاعل کے احکام کی طرح ہیں چند یہ ہیں۔ ١۔وہ اسم ہی ہوتا ہے ٢۔مرفوع ہوتا ہے ۳۔ فعل مجہول کی تذکیرو تانیث اور تثنیہ و جمع کے لئے نائب فاعل کا ایسا لحاظ کیا جاتا ہے جس طرح فعل معروف میں فاعل حقیقی کا لحاظ کیا جاتا ہے۔

سوال: کیا نائب فاعل ہمیشہ اسم ظاہر ہی ہوتا ہے۔

جواب:اس  کی کئ صورتیں ہیں ١۔کبھی اسم صریح ہوتا ہے جیسے ضُرِبَ زَیدٌ ۲۔ کبھی ضمیر مرفوع متصل جیسے سُرِرتُ فِی النُّزھَۃِ میں سیر کر نے سے خوش ہوا۔ ۳۔کبھی ضمیر مستتر جیسے البابُ فُتِحَ ۴۔ کبھی مصدر مؤول  جیسے عُلِمَ اَنَّکَ مُسافرٌ ۵۔  کبھی جملہ جیسے قِیلَ اِنطَلِقُوا اِلی المَدَرسۃِ ۶۔کبھی جار مجرور جیسے قُبِضَ عَلی اللِّصِ چور کو پکڑا گیا  ۷۔کبھی ظرف جیسے صِیمَ یَومُ الجُمعۃِ جمعہ کے دن کا روزہ رکھا گیا ۸۔کبھی مصدر جیسے قِیلَ قَولٌ جمیلٌ اچھی بات کہی گئی۔ (المنہاج)

 

منصوبات

 

سوال: منصوبات کتنے ہیں۔

جواب:بارہ ہیں ۱۔ مفعول مطلق ۲۔ مفعول بہ ۳۔ مفعول فیہ ۴۔ مفعول لہٗ  ۵۔مفعول معہ ۶۔ حال ۷۔ تمیز  ۸۔ مستثنیٰ ۹۔ کان کی خبر ۰۱۔ اِنَّ کا اسم ۱۱۔ لانفی جنس کا اسم ۱۲۔ ماولا کی خبر۔

 

مفاعیل

 

سوال: مفعول کتنے قسم ہیں۔

جواب:پانچ قسم  ہیں۱۔مفعول مطلق۲۔مفعول لہ۳۔مفعول فیہ ۴۔ مفعول معہ ۵۔مفعول بہ جیسے :

حَمِدتُّ، حَمدًا، حَامِدًا، وَّحَمِیدًا

رِعَایَۃَ شُکرِہٖ دَھرًا مَّدِیدًا

میں نے حامد کی تعریف کی حمید کے ساتھ اس کے شکر کا لحاظ کرتے ہوئے ایک طویل زمانہ تک۔ اس میں حمدا مفعول مطلق ہے۔ حامدً امفعول بہ۔ حمید مفعول معہ۔رِعایۃ

مفعول لھ اور دھرًا مفعول فیہ ہے۔

 

مفعول مطلق

 

سوال: مفعول مطلق کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس مصدر کوکہتے ہیں جو اپنے فعل کے بعدآئے (۱) اور اس کے پہچاننے کیلئے چار شرائط ہیں۱۔اسم ہو۲۔مصدر ہو۔۳۔فعل یا شبہ فعل کے بعد ہو۴۔وہ مصدر اس فعل کے ہم معنیٰ ہو۔

۱۔ عام ہے کہ دونوں کا باب اور مادہ بھی ایک ہو جیسے ضَرَبتُ ضربًا، مارامیں نے مارنا اور ضاربٌ ضربًا اس کو مفعول مطلق من لفظہ کہتے ہیں۲۔ یا دونوں کا باب ایک ہو اور مادہ جدا ہو جیسے قَعَدتُّ جُلوسًا، بیٹھا میں بیٹھنا۳۔ یا دونوں کا مادہ ایک ہو اور باب جدا ہوں جیسے اَنبَتَہُ اللہُ نَبَاتًا اگایا اس کو اللہ نے اگانا۔ آخری دو قسموں کو مفعول مطلق من غیر لفظہ کہتے ہیں۔

سوال: مفعول مطلق من غیر لفظہ کسے کہتے ہیں۔

جواب: اس مفعو ل  مطلق کو کہتے ہیں کہ فعل اور اس مصدر کا معنی ایک ہو لیکن ظاہر میں الفاظ دوسرے ہوں۔ اور مفعول مطلق من لفظہ اس کو کہتے ہیں کہ فعل اور مصدر کے الفاظ بھی ایک جیسے ہوں جیسے ضَرَبتُ ضَربًا۔

۔۔۔۔۔

(۱)تاکید کیلئے یا فعل کی نوعیت یا گنتی بتلانے کے لئے ۔

۔۔۔۔۔۔

 

مفعول مطلق اور مصدر میں فرق

 

سوال : مفعول مطلق اور مصدر میں کیا فرق ہے۔

جواب:مصدر میں حدثی معنی کے ساتھ ساتھ اس سے فعل کا نکلنا شرط ہے جیسے الضّرب لیکن مفعول مطلق ایسا مصدر ہوتا ہے جس سے فعل کا نکلناشرط نہیں ہے یعنی ہر مصدر مفعول مطلق ہو سکتا ہے۔لیکن ہر مفعول مطلق مصدر نہیں ہو سکتا جیسے  ویحۃً، ویلۃً یہ مفعول مطلق ہیں۔ مصدر نہیں ہیں کیونکہ ان سے کوئی فعل نہیں آتا۔(ماٰرب الطلبہ)

 

مفعول مطلق تاکیدی

 

سوال: مفعول مطلق کتنے قسم ہے۔

جواب:تین قسم ہے تاکیدی۔نوعی۔ عددی۔

سوال: مفعو ل مطلق تاکیدی کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس مفعول کو کہتے ہیں کہ اس کا اور اس کے فعل کا مدلول (معنیٰ) ایک ہو (۱) جیسے ضربتُ ضربًا۔ میں نے اس کو بہت مارا۔

۔۔۔۔۔۔۔

(۱)صرف اپنے سے پہلے فعل کے معنی کی تاکید کیلئے ہو ۔

۔۔۔۔

 

مفعول مطلق نوعی

 

 

سوال: مفعول مطلق نوعی کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس مفعول کو کہتے ہیں جس کا مدلول فعل کے انواع میں سے  کوئی نوع ہو جیسے ضربتُ ضربَ الاَمِیرِ۔ جلستُ جِلسۃَ القارِی بیٹھا  میں قاری  کے بیٹھنے کے طرح۔

 

مفعول مطلق عددی

 

سوال: مفعول مطلق عددی کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس مفعول کو کہتے ہیں جس کا مدلول عدد ہو جیسے ضربتُ ضربتَینِ۔ جلستُ جلستَینِ میں دو دفعہ بیٹھا۔ جلستُ جلسۃً میں بیٹھا ایک مرتبہ بیٹھنا۔

سوال:کیا کچھ کلمات ایسے بھی ہیں جو صرف مفعول مطلق بن کر استعمال ہوتے ہوں۔

جواب: جی ہاں ان میں سے کچھ کلمات یہ ہیں، جیسے سبحانَ اللہِ، معاذَ اللہِ، لَبَّیکَ  وَ سَعدَیکَ،  ان کلمات سے پہلے یہ فعل محذوف ہوتے ہیں اُسَبِّحُ۔ اَعُوذُ بِاللہِ۔ اُلَبِّیکَ تَلبِیَۃً  بَعدَ تَلبِیَۃٍ۔ اُسعِدُکَ  سَعَادۃً بعدَ سَعَادۃٍ۔

سوال : مفعول مطلق نوعی اور عددی میں کیا فرق ہے۔

جواب:نوعی فِعلۃٌ کے وزن پر اور عددی فَعلۃٌکے وزن پر آتا ہے جیسے کہا جاتا ہے الفِعلۃُلِلّنوع وَالفَعلۃُ لِلعدد وَالمِفعلُ لِلاٰ لۃ۔

 

مفعول فیہ

 

سوال: مفعول فیہ کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس زمان ومکان کو کہتے ہیں جس میں فعل(۱) مذکورواقع /کیا گیا ہو(۲)۔

سوال: مفعول فیہ کتنے قسم ہے۔

جواب:دوقسم ہے ۱۔زمانی جیسے صُمتُ یَومَ الجمعۃِ  میں نے جمعہ کے دن روزہ رکھا

۲۔مکانی جیسے جلستُ عندَکَ  میں تیرے  پاس بیٹھا۔

۔۔۔۔

(۱) یعنی فاعل کا فعل ، اگر فعل مذکور واقع نہ ہوتو اس کو مفعول فیہ نہیں کہیں گے جیسے یَومُ الجمعۃِ یَومٌ طَیِّبٌ۔

(۲) یعنی جو فعل( کام) کے واقع ہونے کا وقت یا جگہ بتائے۔

۔۔۔۔۔

 

ظرف زماں مبہم ومحدود

 

 

سوال: ظرف زمان ومکان کتنے قسم ہیں۔

جواب:دو، دوقسم ہیں ۱۔ مبہم:جس کی حد مقرر نہ ہو ۲۔ محدود: جس کی حد و نہایت مقرر ہو۔ ۱۔ زمان مبہم: جیسے سِرتُ حینًا ۲۔ زمان محدود: جیسے سِرتُ یَومًا  ۳۔ مکان مبہم: جیسے جَلستُ خَلفَ المَسجدِ ۴۔ مکان محدود:جیسے صَلَّیتُ فی المَسجدِ۔

 

مفعول فیہ میں فی کا مقدر ہونا

 

سوال: مفعول فیہ  تو منصوب ہوتا ہے صَلَّیتُ فی المَسجدِ میں مسجد منصوب کیوں نہیں۔

جواب:اس میں تفصیل ہے  بعض میں فی ظاہر ہوتا ہے ، بعض میں ظاہر نہیں ہوتا۔

۱۔ظرف زمان مبہم: اس میں فعل عمل کرتا ہے بلاواسطہ فی کے کیوں کہ یہ فعل کا جزء ہے اور فعل اپنے جزء(۲)  میں بلاواسطہ عمل کرتا ہے۔ اور اس کومنصوب پڑھا جاتا ہے جیسے صمتُ دھرًا دراصل صمتُ فی دھرٍ۔

۲۔ظرف زمان محدود: اس میں بھی فعل عمل کرتا ہے بلاواسطہ فی کیوں کہ یہ فعل کا جزء نہیں لیکن جزء سے ذات میں شریک ہے جیسے سِرتُ یَوما

۳۔ ظرف مکان مبہم: اس میں بھی فی مقدر ہوتا ہے کیوں کہ یہ نہ فعل کا جزء ہے نہ جزء سے ذات سے میں شریک ہے بلکہ جزء سے وصف (ابھام) میں شریک ہے۔ جیسے جَلَستُ قُدَّامَکَ دراصل فی قُدَّامَکَ۔

۴۔ ظرف مکان محدود: البتہ اس میں فی کو مقدر کرنا جائز نہیں اس میں فی کا ذکر ضرور ی ہے کیوں کہ یہ نہ فعل کا جزء ہے نہ جزء سے ذات یا وصف میں شریک ہے۔ جیسے جلستُ فی الدارِ۔ قائل قائل۔

ظرف زمان مبہم ومحدود دان، ہست دراں نصب بتقدیر فی

لیک مکانیکہ معین شود، نیست دراں چارہ زِ اظھار فی

 

مفعول معہ

 

سوال: مفعول معہ کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس اسم کو کہتے ہیں جس میں تین شرائط پائے جائیں ۱۔ اسم ہو ۲۔وا وبمعنیٰ مع کے بعد واقع ہو ۳۔اسم کی فعل کے معمول سے مصاحبت (تعلق) ہو، چاہے معمول فاعل ہو جیسے جاءَ البردُ وَالجُبَّاتِ آئی سردی جبوں کے ساتھ یا معمول مفعول ہو جیسے کفاکَ وَزیدًا دِرھمٌ کافی ہے تجھ کو مع زید کے ایک درھم اور اس مفعول کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ فعل کے حکم میں شریک نہیں ہوتا جیسے سِرتُ وَالنَّھرَ میں ندی کے ساتھ چلا۔

 

مفعول معہ کی تقدیم

 

سوال: مفعول معہ  اپنے عامل سے مقدم ہو تا ہے یا نہیں۔

جواب:جی ہاں اپنے عامل سے مقدم ہوتا ہے۔

فائدہ : واو کی کئی قسمیں ہیں۱۔ واو بمعنی مع ۲۔واو عاطفہ  ۳۔ واو قسم۴۔ واو بمعنی ٰ رُبَّ ۵۔واو جمع، جس کو واوالصرف بھی کہتے ہیں۶۔واو حالیہ۷۔ واو استینافیہ

 

                                            مفعول لہ/ لِاجلہ

 

سوال: مفعول لہٗ کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس اسم کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے فعل واقع ہو(۱)  اور اس کے لئے چار شرائط ہیں ۱۔اسم ہو۲۔مصدر ہو۳۔فعل یا شبہ فعل کے بعد ہو ۴۔ وہ اسم فعل مذکور کے لیے سبب ہو جیسے قمتُ اِکرامًا لِّزیدٍ میں زیدکی تعظیم اور اکرام کے لیے اٹھا۔  ضربتُہٗ تادیبًا میں نے اس کو  مارا ادب سکھانے کیلئے۔

۔۔۔۔

(۱)یعنی جو مصدر کسی فعل کا سبب بتلانے کے لئے بغیر حرف جر کے مستعمل ہو اگر ضربتُہٗ لِلتأْدیبِ کہیں گے تو مطلب وہی ہوگا، مگر ترکیب میں اسے مفعول لہ نہیں کہیں گے بلکہ مجرور کہیں گے

۔۔۔۔۔

 

مفعول لہ عدمی اور وجودی

 

سوال: مفعول لہ باعتبار معنیٰ کے کتنے قسم ہے۔

جواب:دوقسم ہے عدمی، وجودی ۱۔  عدمی وہ ہے جس کے تحصیل کے خاطر فعل کیا جاتا ہو جیسے ضربتُ زیدً اتادیبًا ۲۔وجودی وہ ہے  جس کی وجہ سے فعل خود بخود ہو جاتا ہو اور مفعول لہ فعل کا اثر ہوتا ہے اور فعل پر مرتب ہوتا ہے۔ جیسے قَعَدتُّ عَنِ الحَربِ جُبنًا یہاں جبن کے موجود ہونے کی وجہ سے بیٹھنے  والا فعل ہو ا ہے۔

سوال: مفعول لہ عدمی اور وجودی میں کیا فرق ہے۔

جواب:ایک فرق یہ ہے کہ مفعول لہ عدمی تصوُّرًامقدم ہوتا ہے اور تحقُّقًا و جود فعل کے بعد ہوتا ہے۔ اور مفعول لہ وجودی تصورً ا خواہ وجودًا فعل سے مقدم ہوتا ہے . اس لیے عدمی کو علت ذھنی اور وجودی کو علت خارجی کہتے ہیں۔ (القول الظھیر )

سوال :مفعول لہ کا استعمال کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے ۱۔نکرہ مفرد جیسے اَحْتَرِمُ القانونَ دفعًا لِلّضررِ ۲۔اضافت کے ساتھ جیسے لایخرجُ فی اللَّیلِ مخافۃَ الحادِثِ۔

 

علت سبب اور شرط

 

سوال: علت سبب، شرط اور علامت میں کون سا فرق ہے۔

جواب:علت: اس کو کہتے ہیں جس کی طرف وجوب حکم کی نسبت بلا واسطہ کی جائے یعنی جسکے ہونے کے وقت حکم واجب ہوتا ہے۔

سبب: اس کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے حکم کا وجود ہو، نہ کہ وجوب۔

شرط: اس کو کہتے ہیں جو نہ موجَب ہو، نہ موجِد بلکہ حکم کے مانع کو زائل کرے۔

علامت: اس کو  کہتے ہیں جو حکم کے وجود پر دلیل ہو۔ یعنی موجَب علت ہوتا ہے۔ موجدُ سبب ہوتا ہے۔ مزیل، مانع شرط ہوتا ہے اور دلیل علامت ہوتا ہے۔ (مرقات النحو)

 

                                      مفعول بہ

 

سوال: مفعول بہ کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس اسم کو کہتے ہیں جس پر فاعل کا فعل واقع ہو جیسے ضربتُ زیدًا میں زید مفعول بہ ہے۔

 

مفعول بہ کی چند صورتیں

 

سوال: کیا مفعول بہ صرف مفرد ہی ہوتا ہے۔

جواب:مفعول بہ عام ہے کبھی اسم ظاہر، کبھی ضمیر، کبھی متصل، کبھی منفصل، کبھی مذکر، مؤنث اور تثنیہ وجمع، کبھی مصدر مؤول، تو کبھی جملہ بھی ہوتا ہے جیسے قالَ اِنّی عَبدُاللہِ  میں پورا جملہ مفعول بہ ہے۔

 

مفعول بہ کی تقدیم

 

سوال: مفعول بہ کا فاعل پر مقدم ہو ناکب واجب ہوتا ہے۔

جواب:جب مفعول بہ ضمیر متصل اور فاعل غیر متصل  ہو جیسے ما اَکرَ مَنِی  اِلَّا زیدٌ۔

 

مفعول بہ کے عامل کاحذف

 

 

سوال: مفعول بہ کے فعل کا حذف جائز ہے یا نہیں۔

جواب:اس کے فعل کا  حذف جائز ہے لیکن چند مقامات پر حذف واجب ہوتا ہے ۱۔تحذیر جیسے الاَسدَ الاَسدَ دراصل اِحذَرِ الاَسدَ ۲۔ منادیٰ جیسے یا عَبدَاللہِ ای ادعو عبدَاللہ  ۳۔ما اُضمِرَعامِلُہٗ علی شریطَۃِ التَّفسِیرِ  جیسے زیدًا ضَربتُہٗ۔

سوال: مفعول بہ کی وجہ سے فعل میں کوئی تغیر ہوتا ہے یا نہیں۔

جواب:اس سے فعل میں کوئی تغیر نہیں ہوتا جیسے یُکرِمُ زیدٌاُمَّہٗ وَ اَبَاہُ وَاَخَوَیہِ وَعَمَّاتِہٖ وَالاَ قرَبِینَ۔

 

مفعول کامجرورہونا

 

 

سوال: آپ نے کہا کہ مفعول منصوب ہوتے ہیں حالانک لاتُلقُوا بِاَیدِیکُم میں مفعول مجرور ہے۔

جواب:کبھی حرف جارہ زائدہ مرفوعات اور منصوبات پر داخل ہوتے ہیں لہذا بِاَیدِیکُم مجرور لفظًا، منصوب معنیً مفعول ہے لا تلقُوا کا۔

 

حال

 

سوال: حال کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس اسم کو کہتے ہیں جس میں چار شرائط پائے جائیں۱۔ اسم ہو ۲۔ نکرہ ہو

۳۔ حالت بیان کرے (۱) ۴۔فاعل کی یا مفعول کی یا دونوں کی جیسے جائَنِی زیدٌ راکبًا، آیا میرے پاس زید سوار ہونے کی حالت میں۔ ضَرَبتُ زَیدًا مَشدُودًا، مارامیں نے زید کو درآنحالیکہ سخت باندھ کر۔ لَقِیتُ زَیدًاراکِبَینِ ملاقات کی میں نے زید سے در آنحالیکہ ہم دونوں سوار تھے۔

سوال: حال کا وجہ تسمیہ کیا ہے۔

جواب: حال لغۃً کہتے ہیں برگشتن، پھرنے کو اور حال اصطلاحی میں بھی اکثر اوقات انقلاب اور تغیر ہوتا رہتا ہے اس لیئے حال کو حال کو کہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔

(۱) فعل واقع ہونے کے وقت۔

۔۔۔۔۔

 

ذوالحال

 

سوال: ذوالحال کسے کہتے ہیں۔

جواب: اس اسم کو کہتے ہیں جس کی حالت بیان کی جائے یعنی فاعل اور مفعول کو ذوالحال کہتے ہیں۔

 

ذوالحال نکرہ

 

سوال: حال تو نکرہ ہوتا ہے ، لیکن ذوالحال نکرہ ہوتا ہے یا نہیں۔

جواب:ذوالحال اکثر معرفہ ہوتا ہے لیکن نکرہ ہو گاتو حال کو اس سے مقدم کیا جائے گا تاکہ نصب کی حالت میں صفت سے حال کا التباس نہ ہو جائے جیسے ضَرَبتُ راکِبًا رَجُلًا  جو اصل میں ضَرَبتُ رَجُلًا راکِبًا تھا اور  جائنی راکِبًا رَجُلٌ  ان مثالوں میں حال ذوالحال پر مقدم ہے۔

 

ذوالحال کی چند صورتیں

 

سوال : کیا حال صرف فاعل اور مفعول سے ہوتا ہے۔

جواب:چند چیزیں اور بھی ہیں جن سے حال واقع ہوتا ہے ۱۔ مبتدا جیسے زَیدٌ راکِبًا حَسَنٌ۲۔ مفعول معہ جیسے جِئتُکَ وَزَیدًا راکِبًا۳۔مفعول مطلق جیسے ضَرَبتُ الضَربَ شَدِیدًا، ۴۔ مجرور بالحرف جیسے مَرَرتُ بِھِندٍ جَالِسۃً ۵۔ مَجرُور بِالاِضافَۃِ بشر طیکہ مضاف مضاف الیہ کا جزء ہو جیسے اَیُحِبُّ  اَحَدُکُم اَن یَّأ کُلَ لَحمَ اَخِیہِ مَیتًا  ۶۔یا جہاں مضاف الیہ کی جگہ مضاف کو ٹہرانا درست ہو جیسے واتَّبِع مِلَّۃَ اِبراھیمَ حنِیفًا۔ یہاں واتَّبِع مِلَّۃَ حنِیفًا کہنا بھی درست ہے۔

 

حال کی علامات

 

سوال: حال کے پہنچاننے کی علامات کو نسی ہیں۔

جواب:معنو ی علامت یہ ہے کہ اکثر حال ”کس طرح“یا ”کس حالت میں“ کے جواب میں بولا جاتا ہے۔لفظی علامت یہ ہے کہ فعل کے بعد اسم فاعل اور اسم مفعول کا صیغہ منصوب ہو کر آئے تو وہ  اکثر حال ہی ہوتا ہے۔ اسم فاعل کی مثال جیسے اِنَّا اَرسَلنٰکَ شَاھِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیرًا۔اُدعُ اللہَ مُخلِصِینَ لَہٗ الدِّینَ۔

اسم مفعول کی مثال جیسے وَاَنزَلَ اِلَیکُمُ الکِتابَ مُفَصَّلًا ١۔بشر طیکہ اسم فاعل اور اسم مفعول کا صیغہ افعال ناقصہ کے بعد نہ ہو، اگر ہو گا تو وہ خبر ہو گا افعال ناقصہ کی، خارج ہوا وَکانَ اللہُ شاکِرًا عَلِیمًا، ۲۔ افعال قلوب کے بعد بھی نہ ہو، ورنہ مفعول بہ ہو گا، خارج ہوا عَلِمتُ زَیدًا فاضِلًا ٣۔اسم فاعل کا صیغہ، فعل متعدی کا مفعول بہ بھی نہ ہو، خارج ہوا لَم یَبقَ اللہُ عَالمًا۔

 

حال اور ذوالحال میں مطابقت

 

سوال: کیا حال اور ذوالحال میں مطابقت ضروری ہے۔

جواب:جی یہاں تذکیر تانیث، افراد تثنیہ اور جمع میں حال، ذوالحال کے مطابق ہوتا ہے جیسے جاءَ الرَّجُلُ مَاشِیًا۔جاءَ الرَّجُلَانِ مَاشِیَینِ۔ جاء َالرِّجَالُ مَاشِیِینَ۔ جائَتِ المَرأةُ مَاشِیَۃً۔ جائَتِ المَرأَتَانِ مَاشِیَتَینِ۔ جائَتِ النِّسَاءُ مَاشِیَاتٍ۔

 

حال کا عامل

 

سوال: حال کا عامل کون سا ہوتا ہے۔

جواب: حال کا عامل فعل یا شبہ فعل یا معنیٰ فعل ہوتا ہے۔ اور معنیٰ فعل سے مراد نو چیزیں ہیں ۱۔ اسم الفعل ۲۔ اسم الاشارہ ۳۔ ادوات تشبیہ ۴۔ ادوات التمنی والترجی ٥۔ادوات استفہام۶۔حروف التنبیہ ۷۔ جار مجرور ۸۔ظرف۹۔حروف النداء۔

سوال: حال کا عامل کتنے قسم ہے۔

جواب: دو قسم ہے ۱۔ لفطی ۲۔ معنوی۔ لفظی وہ ہے جو لفظوں میں ذکر کیا گیا ہو۔ حقیقۃً جیسے ضَرَبتُ زَیدًا رَاکِبًا یا حکمًا جیسے زیدٌ فی الدار قائمًا ای زید استقر فی الدار قائمًا۔ اور حال معنوی وہ ہے  کہ فاعلیت و مفعولیت لفظ کلام سے سمجھی جاتی ہو۔ جیسے ھٰذا زیدٌ قائمًا ای اُشِیرُ الیٰ زیدٍ وَ اُنَبِّہُ اِلیٰ زید حالَ کونہ قائمًا۔اس میں اُشِیرُ وَ اُنَبِّہُ والی معنیٰ اشارہ و تنبیہ کے مفھوم سے سمجھی جا رہی ہے۔

 

ایک ذوالحال، کئی حال

 

سوال: ایک ذوالحال کے کئی حال آسکتے ہیں یا نہیں۔

جواب:جی ہاں کبھی کبھار ایک ذوالحال کے کئی حال آتے ہیں جیسے ھَبَطَ الطَّیَّارُھادِیًا مُبتَھِجًا مُطمَئِنًّا ہوا باز اترا  پرسکون خوش و خرم اطمینان سے۔

 

حال، جملہ

 

سوال: کیا حال ہمیشہ مفرد ہوتا ہے۔

جواب:اکثر مفرد ہوتا ہے لیکن کبھی پورا جملہ بھی حال واقع ہوتا ہے اور جب حال جملہ ہو تو ضروری ہے کہ ۱۔خبر یہ ہو ۲۔ سین سوف، لن وغیرہ سے خالی ہو ۳۔ ذوالحال اور حال کے درمیاں کوئی رابطہ بھی ہو۔ رابطہ کبھی واو کبھی ضمیر(۱) ، کبھی قَدْ ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔

(۱)یعنی واو  حالیہ کے بعد ایک ضمیر لایا جاتا ہے ذوالحال کی  طرف لوٹنے کیلئے ۔

۔۔۔۔۔

 

حال میں رابطہ

 

سوال: حال جملہ ہو تو رابطہ کی کیا ترتیب ہے واو کہاں، ضمیر اور قد کہاں لایا جاتا ہے۔

جواب:اس میں تفصیل ہے ۱۔اگر حال جملہ اسمیہ ہو گا تو واو کسی ضمیر کے ساتھ ہو گا جیسے رَئَیتُ الاَمِیرَ وَھُوَ راکِبٌ٢۔ اگر جملہ فعلیہ مضارعیہ ہو گا تو کبھی واو کے ساتھ، کبھی بغیر واو کے ہو گا جیسے جَائَنِی زَیدٌ یَسعیٰ۔ وَیَسعٰی بھی جائز ہے۔

۳۔ اگر ماضی ہو تو واو اور قد لگایا جائے گا، اور کبھی بغیر قد اور بغیر واو کے بھی آتا ہے جیسے جائَنِی زَیدٌ قَد خَرَجَ غُلامُہٗ۔

اسمیہ گر حال باشد  با ضمیر  و واو داں

یا  بواو یا  ضمیر و لیک  این  با ضعف  خواں

فعلیہ گر حال باشد دان بتفصیل تمام

گر مضارع مثبت ست بے واو باشد در کلام

ماسوائے ہر دو راگوئیم بشنو اے  فتیٰ

گہ  بواو گہ  ضمیر،  گہ  بھر دو  بے  خطا

 

حال کا معرفہ ہونا

 

سوال: حال کے لیے نکرہ ہونا شرط ہے لیکن اس مثال میں حال معرفہ واقع ہو اہے جیسے مَن رَّءَیٰ ھِلالَ رَمضانَ وَحدَہٗ صَامَ میں وحدہٗ حال ہے اور معرفہ ہے۔

جواب:حال تو نکرہ ہوتا ہے لیکن کہیں معرفہ ہو گا تو وہ نکرہ کے تاویل میں ہو گا لہٰذا وحدہ بتاویل منفردًا حال ہو گا یا فعل محذوف وحدتُّ کیلئے مفعول مطلق ہو گا۔ اسی طرح اَرسَلَھَا العِرَاکَ بھی بتاویل مُعتَرِ کًا حال ہو گا (اس حمار وحش نے اپنی مادنیوں کو ایک ساتھ چھوڑدیا)۔

 

حال کے عامل کا حذف ہونا

 

سوال: کیا حال کے عامل کا حذف جائز ہے۔

جواب : جی ہاں جب کوئی قرینہ موجود ہو تو عامل کا حذف جائز ہے ۱۔خواہ قرینہ حالیہ ہو جیسے سفر پر جانے والے کیلئے کہا جائے راشدًا مَّھدِیًّا یعنی سِر راشدًا، جا در آنحالیکہ رشد اور ہدایت پائے ہوئے ۲۔یا قرینہ مقالیہ ہو جیسے کسی نے تم سے پوچھا کَیفَ جِئتَ۔ کیسے آئے ہو، آپ نے جواب دیا رَاکِبًا یعنی جِئتُ رَاکِبًا سوار ہو کر آیا ہوں۔

 

اسم جامد اور حال

 

 

سوال: کیا حال ہمیشہ اسم مشق ہی ہوا کرتا ہے۔

جواب:اصل یہی ہے لیکن اسم جامد بھی کبھی حال واقع ہوتا ہے ۱۔ جبکہ وہ تشبیہ پر دلالت کرے جیسے کَرَّ عَلِیٌّ اَسدًا ۲۔ ترتیب پر دلالت کرے جیسے اُدخُلُوا رَجُلاً رَجُلاً ۳۔ اسم عدد ہو جیسے جَاؤُا مَثنَیٰ وَ ثُلاَثَ وَرُبَاعَ ۴۔ موصوف ہو جیسے اِنَّا اَنزَلنَاہ قُراٰنًا عَرَبِیًّا۔

 

حال کے اقسام

 

۱۔ حال مؤکّدہ:اس حال کو کہتے ہیں جو اپنے ذوالحال سے اکثر جدا نہ ہو بلکہ جزء جملہ کی تاکید کرے جیسے زَیدٌ اَبُوکَ عَطُوفًا۔

۲۔حال منتقلہ: اس حال کو کہتے ہیں جو اپنے ذوالحال سے اکثر جداہو جیسے جائنی زیدٌ راکبًا۔

۳۔حال مقدّرہ :اس حال کو کہتے ہیں جو ذوالحال کیلئے آئندہ زمانے میں ثابت ہوفی الحال اس کا تصور کیا جائے جیسے فَاد خُلُوھَا خَالِدِینَ۔

۴۔حال دَائِمہ:وہ ہے جس میں ذُوالحَال علی الدوام ہو جیسے کان اللہُ قادرًا۔

۵۔حال محقّقہ: اس حال کو کہتے ہیں جو اپنے ذوالحال کے لیے فی الحال ثابت ہو جیسے جائنی زیدٌ راکبًا۔

۶۔ حال مترادفہ: اس حال کو کہتے ہیں کہ ایک ذوالحال سے دوحال ہوں جیسے جائنی زیدٌ راکبًا ضاحکًا۔

۷۔حال متداخلہ: اس حال کو کہتے ہیں جو اپنے ما قبل کے ضمیر سے حال واقع ہو جیسے جائنی زیدٌ راکبًا۔

سوال:حال متداخلہ اور مترا دفہ میں کون سا فرق ہے۔

جواب:حال متداخلہ میں دونوں حالوں کے ذوالحال الگ الگ ہوتے ہیں اور مترادفہ میں ذوالحال ایک ہوتا ہے۔

 

تمیز

 

سوال: تمیز (۱) کسے کہتے ہیں۔

جواب:تمیز کا لغوی معنیٰ ہے جدا کرنا اور اصطلاح میں اس اسم نکرہ کو کہتے ہیں جو ماقبل سے ابہام (پوشیدگی) کو ختم کرے (۲) اور تمیز میں بحیثیت یا لحاظ یا ازروئے کا معنیٰ کیا جاتا ہے جیسے طَابَ زَیدٌ نفسًا۔عِلمًا خوش ہوا زید ازروئے نفس کے یا از روئے علم کے۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)یہ اصل میں تمییز تھا ، خلاف قیاس کے ایک یاء حذف ہوئی تو ہوا تمیز ۔

(۱)شبہ کو دور کرے اور ذات مبھم کو معین اور محدود کرے ۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

تمیز کے اقسام

 

سوال: تمیز کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے ۱۔ تمیز الذات جبکہ ا بھام کسی ذات میں ہو ۲۔ تمیز النسبتہ جبکہ ابھام کسی نسبت میں ہو(۱)۔

سوال: تمیز میں عامل کو نسا ہوتا ہے۔

جواب:١۔ فعل اور شبہ فعل ٢۔ اسم تام، پھر دیکھیں گے ابھام غیر نسبت میں ہے یا غیر ذات (نسبت) میں، اگر ابہام غیر ذات (نسبت) میں ہے تو اس وقت عامل، فعل یا شبہ فعل ہو گا جیسے طَابَ زَیدٌ نَفسًا۔ خوش ہوا زید نفس پر/ ازروئے نفس کے۔

اگر ابہام غیر نسبت (ذات) میں ہے تو اس وقت عامل اسم تام ہو گا جیسے عِندِی اَحدَ عَشَرَ دِرھَمًا۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)یعنی جس میں فاعل ،مفعول ، مبتدا  یا خبر کی طرف کی جانے والے نسبت سے ابھام ختم کیا جائے

۔۔۔۔۔

 

اسم تام

 

سوال: اسم تام کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس اسم مبہم کو کہتے ہیں جو اس خاص حالت سے دوسرے اسم کی طرف مضاف نہ ہو سکے۔

 

اسم تام کی علامات

 

سوال: اسم، تام کتنی چیزوں سے ہوتا ہے۔

جواب:تقریبًا چھ صورتوں سے اسم، تام ہوتا ہے ۱۔ تنوین ظاہر سے جیسے ضاربٌ ۲۔ تنوین مقدر جیسے اَضرَبُ۳۔ نون تثنیہ جیسے قَفِیزَانِ ۴۔ نون جمع جیسے مُسلِمُونَ۵۔ نون مشابہ جمع جیسے عِشرُونَ۶۔ ایک اسم  کی دوسرے اسم کے طرف اضافت ہو جیسے غُلامُ زَیدٍ۔

سوال: جب ابہام ذات میں ہو تو اس کی کتنی قسمیں ہیں۔

جواب:اس کی  دو قسم ہیں۱۔ مقدار۲۔ غیر مقدار۔

 

مقدار کی قسمیں

 

سوال: مقدار کتنے قسم ہے۔

جواب:پانچ قسم ہے ۱۔عدد۲۔کیل۳۔وزن۴۔مساحت۵۔مقیاس۔

عدد جیسے عِندِی اَحَدَ عَشَرَ دِرھَمًا میرے پاس گیارہ درھم ہیں۔

کیل یعنی ناپ۔ جیسے عِندِی قَفِیزَانِ بُرًّا۔ میرے پاس دوبوریاں گندم کی ہیں۔ مساحت یعنی پیمائش جیسے مَافِی السَّمَاءِ قَدرُ رَاحَۃٍ سَحَابًا، آسمان میں ہتھیلی کے برابر بھی بادل نہیں۔

مقیاس: یعنی جس سے اندازہ کیا جائے جیسے علیٰ التَّمَرَۃِ مِثلُھَا زَبَدًا۔

وزن:جیسے عندی رِطلٌ زیتًا میرے پاس ازروئے زیتون ایک رطل ہے۔

( رطل ایک وزن ہے جو تیس تولہ ڈیڑھ ماشہ کا ہوتا ہے )۔

سوال: اسم تام تمیز کو نصب کیوں دیتا ہے۔

جواب:کیونکہ اس کی فعل کے ساتھ مشابہت ہے جیسے فعل فاعل سے تام ہو کر مفعول کو نصب دیتا ہے اس طرح یہ اسم بھی ان اشیاء کے ساتھ تمام ہو کر شبہ مفعول یعنی تمیز کو نصب دیتا ہے۔

 

تمیز غیر مقدار

 

سوال: غیر مقدار کتنے قسم ہے۔

جواب:ایک ہی قسم ہے اور اسمیں اکثر جرّ ہوتی ہے جیسے  ھذاخاتمٌ حدیدًا/خاتمُ حدیدٍ یہ لوہے کی انگھوٹی ہے۔ ھٰذا سِوارٌ ذھبًا / سِوارُ ذھبٍ۔

 

حال اور تمیز میں فرق

 

سوال: حال اور تمیز میں کون سا فرق ہے۔

جواب:١۔دونوں نکرہ فضلہ ہوتے ہیں لیکن حال عموماً مشتق ہوتا ہے اور تمیز عموماً جامد ہوتا ہے ٢۔اسی طرح حال  اپنے ذوالحال کے ہیئت کی وضاحت کرتا ہے اور تمیز ذات یا نسبت کی ۳۔ اسی طرح حال جملہ، ظرف وجار مجرور بھی ہوتا ہے جبکہ تمیز صرف مفرد ہوتی ہے۔ ٤۔تمیز میں مِنْ مقدر ہوتا ہے ، جیسے عندی احدَ عشرَ درھمًا ای مِن درھم ۵۔اورحال میں فی مقدر ہوتا ہے جیسے جائنی زید راکبا بمعنی جائَنِی زید فی زمان رکوبہ۔ ۵۔حال کبھی اپنے عامل سے مقدم بھی ہوتا ہے ، نہ تمیز علی الاصح۔ (مأرب الطلبہ)

 

تمیز کی علامت

 

سوال: تمیز کی شناخت اور علامت کیا ہے۔

جواب:تمیز اکثر ” کیا چیز“یا” کس چیزمیں سے “ یا” کس حیثیت سے “ کے جواب میں واقع ہوتا ہے۔

 

جملہ کے اصل ارکان

 

سوال: جملہ کے اصل ارکان کتنے ہیں۔

جواب:ا صل ارکان تو دوہیں۱۔مسند ۲۔ مسند الیہ۔باقی مفاعیل، حال، تمیز وغیرہ یہ جملہ کے پورے ہونے کے بعد آتے ہیں، جملہ میں ان کاکوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس لیے کہتے ہیں المنصوبُ فُضلۃٌ  تمام منصوبات ضرورت سے زائد ہوتے ہیں۔

نوٹ: تمام تمیزیں منصوب ہوتی ہیں لیکن اسماء عدد کی بعض تمیزیں مجرور ہوتی ہیں۔

 

منصوب بنزع الخافض

 

 

سوال: منصوبات صرف یہی ہیں یا اور بھی ہیں۔

جواب:جی ہاں ایک اور صورت بھی ہے اسم منصوب بنزع الخافض یعنی حرف جر کو حذف کر کے اس کے مد خول کو نصب پڑھنا اور یہ سماعی ہے ، قیاسی نہیں۔ ایسے اسم منصوب کو منصوب بنزع الخافض کہتے ہیں جیسے واختارَ موسیٰ قومَہٗ ای عَنْ قومِہٗ یہاں قومَہ منصوب بنزع الخافض ہے۔

 

 

 

                فصل: فاعل کے مسائل واحکام

 

فاعل اسم ظاہر وضمیر

 

سوال: فاعل کتنے قسم ہے۔

جواب:مشہور دوقسم ہے ۱۔ اسم ظاہر جیسے ضربَ زیدٌ۲۔ اسم ضمیر جیسے ضربتُ میں ت

پھر ضمیر بارز ہوتا ہے یا مستتر۔تیسراقسم ہے اسم مؤول جیسے یُغضِبُنی اَن تَسُبَّ احدًا۔

 

فعل کی وحدت وجمعیت

 

سوال: کس صورت میں فاعل کا فعل واحد ہوتا ہے اور کس  صورت میں تثنیہ وجمع ہوتا ہے۔

جواب:اس کی دو صورتیں ہیں ١۔ اگر فاعل اسم ظاہر(۱) ہے تو فعل ہمیشہ واحد ہو گا۔ اس کے لیئے قانون ہے وُحِّدَ الفعلُ ابدًا جیسے ضربَ زیدٌ، ضربَ زیدانِ، ضربَ زیدُونَ، ضربَت ھندٌ، ضربَت ھندانِ، ضربَت ھنداتٌ۲۔ اگر فاعل اسم ضمیر ہے تو فعل ضمیر کے مطابق آئے گا یعنی واحد کیلئے فعل واحد، تثنیہ کیلئے تثنیہ، جمع کیلئے جمع، جیسے زیدٌ ضربَ، الزیدانِ ضربَا، الزیدُونَ ضربُوا۔ المَرأۃُ  قامت، المَرئَتانِ قَامَتَا، النِّساءُ قُمنَ۔

سوال: آپ نے کہا کہ فاعل اسم ظاہر ہو گا تو فعل ہمیشہ واحد ہو گا لیکن قرآن مجید کی آیت واَسَرُّو النَّجوَیٰ الّذِینَ ظَلَمُوا میں الّذِینَ فاعل ہے جو جمع ہے۔

جواب:الّذِینَ فاعل نہیں، فاعل اصل میں ضمیر مستتر ہے ، الّذِینَ فاعل سے بدل ہے۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)چاہے فاعل مذکر ہویا مؤنث ، واحد ہویا تثنیہ یا جمع ۔

۔۔۔۔۔

 

                فعل کی تذکیر وتانیث

 

تانیث    وجوبی

 

سوال: کتنی صورتوں میں فعل کو مؤنث کرنا واجب ہے اور کتنی صورتوں میں تذکیر و تانیث کا اختیار ہے۔

جواب:تین صورتوں میں فعل کو مؤنث کرنا واجب ہے ۱۔ فعل کا فاعل ظاہر مؤنث حقیقی ہو اور فعل اور فاعل کے درمیان فاصلہ نہ ہو جیسے ضَرَبَتْ ھِندٌ۔

۲۔ فعل کا فاعل ضمیر ہو راجع ہو مؤنث حقیقی کی طرف جیسے ھِندٌ قَامَت ۳۔فعل کا فاعل ضمیر ہو راجع ہو مؤنث غیر حقیقی کی طرف جیسے الشَّمسُ طَلَعَت۔

 

تانیث اختیاری

 

اور تین صورتوں میں اختیار ہے کہ فعل کو مؤنث لائیں یا نہ لائیں۔

۱۔ فعل کا فاعل ظاہر مؤنث حقیقی ہو لیکن فعل اور فاعل کے درمیان فاصلہ ہو تو وہاں دو وجہ پڑھنے جائز ہیں جیسے ضَرَبَ الیَومَ ھِندٌ اور ضَرَبَتِ الیَومَ ھِندٌ۔

۲۔ فعل کا فاعل ظاہر مؤنث غیر حقیقی ہو جیسے طَلَعَ الشَّمسُ اور طَلَعَتِ الشَّمسُ۔

۳۔فعل کا فاعل ظاہر جمع مکسر ہو جیسے قَامَ الرِّجالُ، قَامَتِ الرِّجالُ یا جمع مؤنث سالم ہو جیسے قَامَ الھِندَاتُ، قَامَتِ الھِندَاتُ اور جَاءَ المُسلِمَاتُ، جَائَتِ المُسلِمَاتُ۔

اسی طرح فاعل اسم جمع کی ضمیر ہو تو اس میں بھی تین صورتیں ہوتی ہیں۔

١۔فعل کوواحد مذکر لانا جیسے القَومُ جَاءَ۔٢۔فعل کو واحد مؤنث لانا جیسے القَومُ جَائَت۔٣۔ جمع مذکر لانا جیسے القَومُ جَاؤُا۔

اور فاعل جمع مکسر مذکر غیرذوی العقول کی ضمیر ہو یا جمع مکسر مؤنث کی ضمیر ہو تو دو صورتیں جائز ہیں تذکیر وتانیث کا اختیار جیسے الاَیَّامُ مَضَت۔ الایَّامُ مَضَینَ اور اَلنِّسوَۃُ قَالَت۔ النِّسوَۃُ قُلنَ۔

اسی طرح فاعل جمع مکسر مذکر ذوی العقول کی ضمیر ہو تو بھی دونوں صورتیں جائز ہیں جیسے الرِّجَالُ قَامَت۔ الرِّجَالُ قَامُوا۔

سوال: آپ نے کہا کہ فعل کا فاعل اسم ظاہر ہو تو فعل ہمیشہ واحدہو گا حالانکہ عرب کا مقولہ ہے  اَکَلُونِی البَراغِیثُ کھا گئے مجھے پسو، اس میں اس کے خلاف ہے کہ فعل کو بھی جمع لایا گیا ہے۔

جواب:یہاں اَکَلُونِی کا فاعل واو ضمیر ہے اور بَراغِیثُاس ضمیر فاعل سے بدل ہے۔

 

فعل مجہول

 

سوال: فعل مجہول کون ساعمل کرتا ہے۔

جواب:یہ فاعل کے بجاء مفعول بہ کو رفع دیتا ہے (۱) اور باقی مفاعیل کو نصب دیتا ہے۔ جیسے ضُرِبَ زَیدٌ یَومَ الجُمعَۃِ اَمَامَ الاَمِیرِ ضَربًا شَدِیدًا فِی دَارِہٖ تَأدِیبًا وَالخَشبَۃَ، مارآ گیا زید جمعہ کے دن امیر کے سامنے سخت مارنا اس کے گھر میں ادب سکھانے کے لیے لکڑی کے ساتھ۔

۔۔۔۔۔

(۱) یعنی فعل مجہول متعدی ہوتا ہے، لازمی نہیں ہوتا ۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

                فصل۔ فعل متعدی کے اقسام

 

سوال : فعل متعدی باعتبار مفعول کے کتنے قسم ہے۔

جواب:اکثر متعدی افعال میں تو ایک ہی مفعول کی ضرورت پڑتی ہے۔

لیکن بعض افعال میں دو مفعول کی بھی ضروت ہوتی ہے جیسے کہا جائے حَسِبَ زَیدٌ بَکرًا زیدنے بکر کو گمان کیا۔ توبات ادھوری رہ جاتی ہے کہ بکر کو کیا گمان کیا۔ جب کہیں گے غَنِیًّا یعنی تو نگر گمان کیا۔ توبات پوری ہو جاتی ہے۔ اور عَلِمَ حَامِدٌ خَالِدًا صَالِحًا، حامدنے خالد کو نیک جانا۔

لہٰذافعل متعدی چار قسم ہے ۱۔ متعدی بیک مفعول ۲۔ متعدی بدومفعول عدم اقتصار والا ‎٣۔متعدی بدومفعول اقتصار  والا ۴۔ متعدی بسہ مفعول(۱)۔

۱۔ متعدی بیک مفعول: یہ جوا رح واعضا ءیا زخم اور تاثیر والے افعال میں ہوتا ہے اوریہ افعال غیر محدود ہیں جیسے ضَرَبَ زَیدٌ عَمرًوا مارا زید نے عمر وکو۔ ان کا حکم یہ ہے کہ ان کے مفعول کو قرینہ کے وقت حذف کرنا جائز ہے۔

۲۔ متعدی بدو مفعول: یہ ان افعال میں ہوتا ہے جو اَعطَیتُ کے معنیٰ میں(۲) ہوں۔ یہ افعال غیر محدود ہیں۔ ان کا حکم یہ ہے کہ ان کے (۳) کسی ایک مفعول کو حذف کر کے دوسرے مفعول پر اقتصار کرنا جائز ہے جیسے اَعطَیتُ زَیدًا دِرھَمًا، میں نے زید کو درھم دیا، اس میں اَعطَیتُ زَیدًا اور اَعطَیتُ دِرھَمًا کہنا بھی جائز ہے (۴)۔

۳۔ متعدی بد و مفعول:لیکن کسی ایک پر اقتصار جائز نہ ہو۔یہ افعال قلوب(۵) میں ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)اور ان چاروں صورتوں میں جو مفعول ہیں وہ مفعول بہ ہوتے ہیں ۔

(۲) یعنی جن میں ثانی اول کا عین نہ ہو ۔

(۳) ان دونوں مفعولوں میں تغایر ذاتی ہونے کی وجہ سے اورکسی ایک کے ذکر سے اور دوسرے کے حذف سے کوئی خرابی لازم نہیں آتی ۔

(۴) اسی طرح اٰتَیۡتُ زَیدًا دِرۡھَمًااور کَسَوتُ زَیدًا قَمِیۡصًا کا حکم بھی اَعۡطَیۡتُ جیسا ہے۔یعنی دونوں حذف کرنا بھی جائز جیسے اَعۡطَیۡتُ اور دونوں کا ذکر کرنا بھی جائز جیسے اَعۡطَیۡتُ / اٰتَیۡتُ زَیدًا دِرۡھَمًا۔

(۵) جن کا تعلق دل سے ہوتا ہے اور یہ یقین واعتقاد کے معنیٰ دیتے ہیں۔

۔۔۔۔۔

 

افعال قلوب کا حکم

 

سوال: افعال قلوب کو نسے ہیں۔

جواب:وہ سات ہیں جنکو افعال یقین وشک بھی کہتے ہیں جیسے عَلِمتُ، رَئَیتُ، وَجَدتُّ، ظَنَنتُ، حَسِبتُ،  خِلتُ، زَعَمتُ۔

پہلے تین بمعنیٰ یقین کے ہیں جیسے عَلِمتُ زَیدً ا اَمِینًا میں نے زید کو امانت دار یقین کیا۔

رئیتُ زیدًا فاضلًا میں نے زید کو فاضل یقین کیا۔ وجدتُّ زیدً ا فاضلًا میں نے زید کو فاضل یقین کیا۔

دوسرے تین بمعنیٰ شک وگمان کے ہیں جیسے ظَنَنتُ زَیدًاعَالِمًا میں نے زید کو عالم گمان کیا۔ حَسِبتُ زَیدً اکَاتِبًا میں نے زید کو لکھنے والا گمان کیا۔خِلتُ زَیدًانَائِمًا میں نے زید کو سونے والا گمان کیا۔ زَعَمتُ، یقین اور ظن میں مشترک ہے۔ جیسے زَعَمتُ الشَّیطَانَ شَکُورًا شک کیا میں نے شیطان میں کہ وہ شکرکرنے والا ہے۔ زَعَمتُ اللہَ رَحِیمًا میں نے اللہ تعالیٰ کو رحیم یقین کیا۔ ان کا حکم یہ ہے کہ افعال قلوب کے مفعولوں میں تغایر نہ ہونے کی وجہ سے وہ بمنزلہ اسم واحد کے ہوتے ہیں گویاکہ مفعول ثانی عین اول ہوتا ہے اس لیے ایک کا حذف جائز نہیں کیونکہ کسی ایک کو حذف کرنے سے کلمہ کے بعض اجزاء کا حذف لازم آئے گا جو ناجائز ہے (۱)۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)۔ خلاصہ یہ کہ یہاں دو صورتیں جائز ہیں۱۔ دونوں مفعولوں کو ذکر کرنا ۲۔ دونوں کو حذف کرنا اور تیسری صورت یعنی ایک مفعول کو ذکر کرنا اور ایک کو حذف کرنا جائز نہیں

۔۔۔۔۔

 

افعال قلوب کے مفعول کا حذف

 

سوال: آپ نے کہا کہ افعال قلوب کے مفعولوں میں سے ایک کا حذف جائز نہیں حالانکہ قرآن مجید میں تو ایک مفعول محذوف استعمال ہوا ہے جیسے لَا یَحسَبَنَّ الَّذِینَ یَبخَلُونَ بِمَا اٰتَاھُمُ اللہُ ھُوَخَیرًا لَّھُم اس میں صرف ایک مفعول خیرًا مذکور ہے۔ باقی دوسرا مفعول جو بُخلُھُم ہے وہ مذکور نہیں ہے۔

جواب:ایک ہے اقتصار، دوسرا ہے اختصار۔ اقتصار ایک پر جائز نہیں ہے لیکن اختصار ایک مفعول پر جائز ہے۔ اور دونوں میں فرق ہے۔

اقتصار کہتے ہیں کسی چیز کو حذف کرنا بلا قرینہ کے۔ اور اختصار کہتے ہیں کسی چیز کو حذف کرنا قرینہ اور دلیل سے۔ اور آیت مذکورہ میں اختصار ہے کیونکہ قرینہ ہے کہ ھُوَ ضمیر فصل ہے جو مبتدا ا ورخبر کے درمیان قبل العوامل یا بعد العوامل داخل ہوتا ہے لہذا کہنا پڑے گا کہ یہاں خیرًاکا مبتدا جوقرینہ مقامی بتارہا ہے کہ بُخلُھُم ہے اور محذوف ہے۔(القول الظہیر)

 

افعال قلوب کے عمل کا بطلان

 

سوال: افعال قلوب کا عمل ہمیشہ رہتا ہے یا باطل بھی ہوتا ہے۔

جواب:چند صورتوں میں ان کا عمل باطل ہو جاتا ہے ۱۔ جب افعال قلوب دو مفعول کے بعد ۲۔یا درمیاں میں آ جائیں تو انکو مُلغَیٰ عَنِ العَمَل کرنا جائز ہے۔اگر ان کے بعد استفہام یا نفی یا لام ابتدا میں سے کوئی ایک آ جائے تو انکو عمل سے معلَّق کریں گے جیسے عَلِمتُ أَزَیدٌ عِندَکَ اَم عَمروٌ۔

 

الغاء اور تعلیق

 

سوال: الغاء اور تعلیق میں کیا فرق ہے۔

جواب:الغاء:لفظ اور معنیٰ دونوں میں عمل باطل کرنے کا نام ہے۔

تعلیق: صرف لفظ میں عمل باطل کرنے کا نام ہے (۱)۔

۲۔ الغاء جائز ہے اور تعلیق واجب ہے۔ جیسے رَئَیتُ زَیدًا فَاضِلًا میں نے زید کو فاضل یقین کیا۔ وَجَدتُّ زَیدًا فَاضِلًا میں نے زید کو فاضل یقین کیا۔

۴۔ متعدی بسہ مفعول یہ سات افعال ہیں اور ان کا استعمال نہایت کم ہوتا ہے وہ یہ ہیں اَعلَمَ، اَریٰ، اَنْبَأَ، اَخبَرَ، خَبَّرَ، نَبَّأَ، حَدَّثَ، ان سب کے معنیٰ ہیں خبر دلوانا جیسے اَعَلَمَ اللہُ زیدًا عَمرًا فاضلًا معلوم کرایا اللہ نے زید کو کہ عمرو فاضل ہے (۱)۔اریٰ زیدٌ عمرًوا خالدًا عالمًا زیدنے عمرو کو یقین دلایا کہ خالد عالم ہے۔

۔۔۔۔۔۔

(۱) یعنی لفظًا عمل باطل ہو لیکن معنیً عمل باقی ہو (مرقات النحو)

(۲) یعنی اللہ تعالی نے زید کو عمرو کی فضیلت کا یقین کروایا۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

فعل متعدی بسہ مفعول کا حکم

 

سوال: متعدی بسہ مفعول کا  کيا حکم ہے۔

جواب: ۱۔ان تینوں مفعولوں کو ثابت رکھنا بھی جائز ہے۔ ۲۔ اول کو حذف کر کے آخری دونوں مفعولوں کو ثابت رکھنا بھی جائز ہے۔ ۳۔اسی طرح آخری دونوں کو حذف کر کے اول کو ثابت رکھنا بھی جائز۔ ۴۔باقی آخری دونوں میں سے کسی ایک کو حذف کرنا  ناجائز ہے لہٰذا اَعلَمَ اللہُ عمرًوا فاضلًا کہنا درست ہے۔

 

افعال تصییر

 

سوال: اور کو نسے افعال دو مفعول کا تقاضا کرتے ہیں۔

جواب:افعال تصییر بھی دو مفعول چاہتے ہیں یعنی وہ افعال جو کسی چیز کو صفت کے ساتھ موصوف کریں وہ یہ ہیں جَعَلَ، رَدَّ، تَرَکَ، اِتَّخَذَ، تَخَذَ، صَبَرَ، وَھَبَ جیسے اِتَّخَذَ اللہُ ابراھیمَ خلیلًا۔

 

فعل لازمی کو متعدی بنانے کی صورتیں

 

 

سوال: فعل لازمی کو متعدی کیسے بنایا جاتا ہے۔

جواب:عموماً چارچیزوں میں سے کسی ایک کے ساتھ متعدی کیا جاتا ہے۔

۱۔ باب لازمی کو باب اِفعال کی طرف نقل کرنے سے جیسے کَرُمَ سے اَکرَمَ ۲۔ تفعیل کی طرف نقل کر نے سے جیسے عَظُمَ سے عَظَّمَ ۳۔ بواسطہ حرف جر جیسے  اَعرِض عَنِ الرَّذِیلَۃِ وَتَمَسَّک بِالفَضِیلَۃِ ۴۔  باب مفاعلتہ سے جیسے جَھَدَ سے جَاھَدَ۔

سوال: جن افعال کے دو مفعول ہوتے ہیں کیا ان کا نائب فاعل ایک ہی ہوتا ہے۔

جواب:ایسے افعال کے نائب فاعل بھی دو ہوتے ہیں لیکن دونوں مرفوع نہیں ہوتے بلکہ دوسرے کو منصوب پڑھا جاتا ہے جیسے عُلِمَ خالدٌ صالحًا، خالد کو نیک جانا گیا۔

 

نائب فاعل بننے والے مفاعیل

 

سوال: مفعولوں میں سے کون سا مفعول ترکیب میں نائب فاعل بن سکتا ہے اور کون سا نہیں بن سکتا۔

جواب:چار مفعول نائب فاعل نہیں بن سکتے  وہ یہ ہیں۱۔ مفعول لہ(۱) ۲۔مفعول معہ۳۔ باب علمتُ کا دوسرا مفعول(۲) ۴۔ باب اعلمتُ کا تیسرا مفعول۔ اسی طرح حال اور تمیز بھی نائب فاعل نہیں بن سکتے ، باقی دوسروں کا نائب فاعل بننا جائز ہے۔مفعول فیہ کی مثال جیسے سِیرَ  یَومُ الجُمعۃِ۔

سوال:اعطیتُ کے دونوں مفعول نائب فاعل تو بنتے ہیں لیکن اولی کون سا ہے۔

جواب:اول کو نائب فاعل بنانا اولیٰ اور ا فضل ہے (۳)۔

۔۔۔۔۔

(۱)سببیت کے ختم ہونیکی وجہ سے اسلئے ضَربتُ تادیبًا میں ضُرِبَ تَاۡدِیۡبٌ کہنا جائز نہیں۔

(۲) کیونکہ ایک چیز ایک وقت میں مسند بھی ہو اور مسند الیہ بھی ہو یہ ٹھیک نہیں۔

(۳)کیونکہ اس میں ا خذ (لینے والے)کی معنیٰ ہے جو فاعليت کی معنیٰ ہے اسیلے اَعۡطَیۡتُ زیدًا کہنا زیادہ بہتر ہے ۔

۔۔۔۔۔۔

 

نائب فاعل کی چند صورتیں

 

 

سوال: کیا کوئی دوسری چیز بھی نائب فاعل بن سکتی ہے۔

جواب:جی ہاں ۱۔ کبھی ظرف نائب فاعل بنتا ہے جیسے سُھِرَتِ اللَّیلَۃُ ۲۔ کبھی مصدر جیسے کُتِبَت کِتَابَۃٌ حَسَنَۃٌ ۳۔ کبھی جار مجرور جیسے نُظِرَ فِی الاَمرِ۔

 

 

 

                فصل: افعال ناقصہ

 

 نواسخ جملہ کی دوسری قسم

 

سوال: معنیٰ کے لحاظ سے فعل کتنے قسم ہے۔

جواب:دوقسم ہے ۱۔فعل تام ۲۔فعل ناقص۔

فعل تام :وہ ہے جو اپنے فاعل کیلئے صرف مصدر والی صفت کو ثابت کرے جیسے ضربَ زیدٌ جس میں زید کیلئے صِرف ضرب  کو ثابت کیا گیا ہے۔

فعل ناقص: وہ ہے جس میں فاعل کیلئے مصدر کے علاوہ دوسری صفت کو بھی ثابت کیا گیا ہو جیسے کا نَ زیدٌ عالمًا اس میں زید کیلئے مصدری معنیٰ "کون” کے علاوہ صفت علم کو بھی ثابت کیا گیا ہے۔

 

افعال ناقصہ کا معنیٰ

 

سوال: افعال ناقصہ کون سے ہیں اور ان کا کیا معنیٰ ہے۔

جواب:وہ سترہ ہیں کانَ(۱) ، صارَ(۲) ، ظلَّ(۳) ، باتَ(۴) ، اَصبَحَ(۵) ، اَضحَیٰ(۶) ، اَمسَیٰ(۷) ، عادَ، اٰضَ، غَدَا، رَاحَ مَازالَ، ما انفَکَّ، مابَرِحَ، مافَتِیءَ، مادامَ، لَیسَ(۸)۔

ان میں سے پانچ  ظلَّ، باتَ، اَصبَحَ، اَضحَیٰ، اَمسَیٰ، توقیت کا فائدہ دیتے ہیں مخصوص زمان یا حالت کے ساتھ۔

مادام وغیرہ، توقیت بحالہ یعنی استمرار اور دوام کا فائدہ دیتا ہے۔ صارَ تحویل، تبدیلی حالت کا فائدہ دیتا ہے ، جیسے صارَ الرَّجُلُ غَنِیًّا وہ آدمی مالدار ہو گیا۔

عادَ، اٰضَ،  غَدا، راحَ یہ چاروں جب افعال ناقصہ ہوں گے تو، صارَ کے معنیٰ میں ہوں گے جیسے عاد زیدٌ غنِیًّا زید مالدار ہو گیا ای صار زیدٌ غنیًّا زید مالدار ہو گیا اور جب تامہ ہوتے ہیں تو عاد اٰض بمعنیٰ رجعَ اور غَدا بمعنیٰ صبح کے وقت چلا اور راحَ بمعنیٰ شام کے وقت چلا، کے معنیٰ میں ہوتے ہیں۔  مازال، (نہیں زائل ہوا) ما انفک،   (نہیں جدا ہوا) مابرح، مافتیٰ یہ چاروں بمعنیٰ مادام ہوتے ہیں یعنی ہمیشہ رہا، جب تک۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)ہے، ہوا، تھا

(۲)ہوگیا

(۳)۔تمام دن رہا، دن گذارا

(۴)تمام رات رہا، رات گذاری

(۵)صبح کے وقت میں ہوگیا، صبح کیا

(۶) چاشت کے وقت میں ہوگیا، چاشت کی

(۷) شام کے وقت میں ہوگیا ، شام کی

(۸) یہ اصل میں لَیِسَ تھا تخَفِیفًا یاء کے کسرہ کو حذف کیا گیا

۔۔۔۔۔۔

 

افعال ناقصہ کی وجہ تسمیہ

 

سوال: افعال ناقصہ کی وجہ تسمیہ بتائیں کہ انکو ناقصہ کیوں کہتے ہیں۔

جواب:اس لیے کہ ناقصہ نقص سے مشتق ہے اور ان افعال میں بھی نقصان ہے کیونکہ یہ اکیلے فاعل سے تام نہیں ہوتے ، خبر کے محتاج ہوتے ہیں۔

 

افعال ناقصہ کا عمل

 

سوال: افعال ناقصہ کون سا عمل کرتے ہیں۔

جواب:یہ اسم مرفوع اور خبر منصوب کا تقاضا کرتے ہیں یعنی جملہ اسمیہ پر داخل ہو کر مبتدا کو رفعہ دے کر اپنا اسم بناتے ہیں اور خبر کو نصب دے کر اپنی خبر بناتے ہیں جیسے کانَ زیدٌ قائمًا۔ صارَ زیدٌ غنیًّا۔

 

افعال ناقصہ کے عمل کے شرائط

 

سوال:افعال ناقصہ کے عمل کے لیے کون سے شرائط ہیں۔

جواب: ۱۔کان، صار، ظلّ، بات، اصبح، امسیٰ، اضحیٰ ۲۔ لیس یہ مطلقا بغیر کسی شرط کے عمل کرتے ہیں۳۔ فَتِیءَ ، برِحَ، زالَ کے لئے شرط ہے کہ ان پر نفی داخل ہو۔ ۴۔دام کیلئے یہ شرط ہے کہ اسپر ما مصدر یہ ظرفیہ داخل ہو۔

 

کان کا معنیٰ و مطلب

 

سوال: کان کس مقصد کیلئے ہوتا ہے۔

جواب:یہ دلالت کرتا ہے کہ مبتدا کو جس خبر سے متصف کیا جار رہا ہے اس کا تعلق زمانہ ماضی سے ہے جیسے کانَ الحَرُّ شدیدًاگرمی بہت سخت تھی۔

 

کان کے اسم کی علامت

 

سوال: کان کے اسم کو پہچاننے کی کیا علامت ہے۔

جواب:  اسم ہو مسند الیہ اور اس پرکانَ داخل ہو۔

 

افعال ناقصہ کے اسم کی تقدیم

 

سوال: افعال ناقصہ کے اسماء کا اپنے افعال سے مقدم ہونا جائز ہے یا نہیں۔

جواب:ان کا اسم اپنے افعال پر مقدم نہیں ہوسکتا، کیونکہ یہ فاعل ہوتے ہیں اور فاعل فعل سے مقدم نہیں ہو سکتا۔

سوال: کانَ کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے  ۱۔ کان زائدہ ۲۔کان غیر زائدہ. غیر زائدہ دو قسم ہے ناقصہ، تامہ

 

کان ناقصہ

 

سوال: کانَ ناقصہ کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس کانَ کو کہتے ہیں جو اسم سے تام نہ ہو، خبر کی طلب کرے اور وہ طلب عارضی ہو جیسے کانَ زیدٌ قائمًا یا دائمی ہو جیسے کانَ اللہُ عَلیمًا حَکیمًا اس میں ثبوت وطلب دائمی(۱) ہے۔

۔۔۔۔

(۱)اور یہ بمعنی صارَ بھی آتا ہے جیسے کانَ زَیدٌ غنیًا۔

۔۔۔۔۔۔

 

کان تامہ

 

سوال: کانتامہ کسے کہتے ہیں۔

جواب:جو کان اسم سے تام  ہو(۱) ، خبر کی طلب نہ کرے جیسے کانَ مَطرٌ بمعنی حَصَلَ مَطرٌ بارش ہو گئی۔کُن فَیکُونُ۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)اور  حصل کے معنیٰ میں ہو اور تنہا فاعل کے ساتھ معنیٰ مقصودی پوری ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

کان زائدہ

 

 

سوال: کان زائدہ کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس کان کو  کہتے ہیں کہ (۱) اگر عبارت سے اس کو نکا لا جائے تو معنیٰ مطلب میں فرق نہ آئے (۲) جیسے ما کانَ اَصَحُّ عِلمُ مَن تَقَدَّمَ کیا ہی صحیح تھا علم پہلے لوگوں کا۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)اور یہ وہ کانَ ہے جو ماتعجبیہ اور فعل تعجب کے درمیان واقع ہوتا ہے ۔

(۲) وہ اس وقت اسم اور خبر کا تقاضا نہیں کرتا۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

کان غیر زائدہ

 

سوال: کان غیر زائد کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس کان کو کہتے ہیں کہ اگر اس کو لفظ اور عبارت سے حذف کیا جائے تو معنیٰ مقصودی میں خلل واقع ہو۔

نوٹ: واضح رہے کے نحویوں کے ہاں کان مضارع پر استمرار کے لیئے آتا ہے لیکن محققین اصولیین کے ہاں کان سے دوام، استمرار اور تکرار لازم نہیں آتا۔ بلکہ یہ فعل ماضی ہے جو وقوع مرۃً پر دلالت کرتا ہے ، ہاں قرینہ کے وقت دوام ثابت ہو گا ورنہ اصل وضع کے اعتبار سے دوام کا تقاضا نہیں کرتا۔(نووی شرح مسلم جلد اول)

 

مشتقات افعال ناقصہ

 

سوال: افعال ناقصہ کے مشتقات کا کیا حکم ہے۔

جواب:ہروہ صیغہ جو ان افعال (کان وغیرہ) سے مشتق ہو وہ بھی ان افعال والا ہی عمل کرتا ہے جیسے یَکُونُ، تَکُونُ، کُن، کَائِنٌ، وغیرھم۔ اسی طرح کان َ کا مصدر بھی کان َوالا عمل کرتا ہے جیسے کونٌ۔

سوال: کیا صرف کانَ تامہ ہوتا ہے یا دو سرے افعال ناقصہ بھی تامہ ہوتے ہیں۔

جواب:مافتی، مازال، اور لَیسکے سوا سارے ہی افعال ناقصہ، تامہ بھی استعمال ہوتے ہیں یعنی صرف فاعل سے مل کر جملہ پورا ہوتا ہے خبر کی ضرورت نہیں ہوتی۔

 

صار کا معنیٰ مطلب

 

سوال: صار کس مقصد کیلئے آتا ہے۔

جواب:یہ  دو معنی کے لیے آتا ہے۔ ١۔انتقال صفت کیلئے (۱) جیسے صار زَیدٌ غنیًا زید مالدار ہو گیا ٢۔ انتقال حقیقت کیلئے جیسے صارَ الطِّینُ خَزفًا۔ مٹی ٹھیکری ہو گئی۔

۔۔۔۔

(۱)کہ میرا اسم میری خبر کے ساتھ موصوف ہوگیا ہے۔

۔۔۔۔۔

 

ظل بات کا معنیٰ مطلب

 

سوال: ظلَّ اور باتَ کس مقصد کیلئے آتے ہیں۔

جواب:۱۔یہ دونوں جملہ کو اپنے اوقات کے ساتھ ملاتے ہیں، جیسے ظل زید کاتبا ای حصل کتابتہ فی النہار۔  باتَ زَیدٌ نائِمًا  ای حصل نومہ فی اللیل ۲۔اور یہ صار کے معنیٰ میں بھی آتے ہیں۔ جیسے ظل الصبی بالغا۔ بات الشباب شیخا۔

 

اصبح امسی اضحی کا معنیٰ مطلب

 

سوال: اصبح، امسیٰ، اضحیٰ، کس مقصد کیلئے آتے ہیں۔

جواب:یہ  بھی دو معنیٰ کے لیے آتے ہیں١۔ تینوں مضمون جملہ کو اپنے ان اوقات کے ساتھ ملانے کیلئے آتے ہیں جن پر ان کا مادہ دلالت کرتا ہے جیسے اصبحَ زَیدٌ غنِیًّا زید صبح کے وقت غنی ہو گیا۔ اضحیٰ زیدٌ امیرًا  زید چاشت کے وقت امیر ہو گیا۔ امسیٰ زیدٌ شاعرًا  زید شام کے وقت شاعر ہو گیا۔٢۔ یہ تینوں کبھی صارَ کے معنیٰ میں بھی آتے ہیں جیسے اصبحَ زَیدٌ غنیًّا ای صارَ زَیدٌ غنیًّا  ما برح زید صائما۔ ما انفک زید شاکرا۔ ما فتی عمرو فاضلا۔

 

مازال مابرح کا معنیٰ، مطلب

 

سوال: مَازال، مابَرِحَ، مَا انفکَّ، مافتیء کس مقصد کیلئے آتے ہیں۔

جواب:ان کا معنیٰ ہے "ہمیشہ رہا”  ان میں نفی پر نفی ہو تو اثبات اور استمرار کا فائدہ دیتے ہیں یعنی خبر کا اسم کیلئے ثابت ہونے کے بعد خبر کا ثبوت اسم کے لیے دائمی ہوتا ہے جیسے مَازالَ زَیدٌ غنیًّا زید ہمیشہ غنی رہا۔

 

مادام کا معنیٰ، مطلب

 

سوال: مادامَ کس مقصد کیلئے آتا ہے۔

جواب: اس میں ما مصدر یہ ظرفیہ ہے (۱) بمعنیٰ جب تک اور یہ شی کا وقت بیان کرنے کیلئے آتا ہے جب تک اس کی خبر اس کے اسم کے لیے ثابت ہے جیسے اِجلِس مادامَ زَیدٌ جالسًا تو بیٹھ جب تک زید بیٹھا ہے۔

سوال: ما دامَ کی ترکیب کیسے ہوتی ہے۔

جواب:اس میں ما مصدر یہ ظرفیہ ہے مادام اپنے اسم وخبر کے ساتھ مل کر بتاویل مصدر ہے اور اس سے پہلے لفظ زمان یا لفظ مدت مقدر ہے اصل عبارت ہو گی اقوم زمانَ دوامِ جلوسِ زید} پھر زمان یا مدت اپنے مضاف الیہ سے مل کر مفعول فیہ ہو گا ماقبل والے فعل (اجلس وغیرہ) کا۔

۔۔۔۔

(۱)یعنی بعد والے فعل کو مصدر کے معنیٰ میں کرتا ہےاور یہ ہمیشہ درمیان میں آتا ہے۔

۔۔۔۔۔

 

لیس کا معنیٰ، مطلب

 

سوال: لیسَ کس مقصد کیلئے آتا ہے۔

جواب:اس کا معنیٰ ہے "نہ، نہیں "۔یہ اسم سے خبر کی نفی کرنے کیلئے آتا ہے زمانہ حال میں جیسے لَیسَ زَیدٌ قائمًا زید کھڑا نہیں ہے۔ کبھی اس کی خبر پر بازائدہ داخل ہوتا ہے جیسے لَیسَ الرَّجُلُ بِغَنِیٍّ۔

سوال: لَیسَ اور باقی افعال ناقصہ میں کو نسا فرق ہے۔

جواب:۱۔کَانَ، صَارَ، اَصبَح، اَمسیٰ، اَضحیٰ، ظَلَّ، بَاتَ ان ساتوں افعال کے تمام گردان، ماضی مضارع، امر وغیرہ آتے ہیں ۲۔مَازَالَ، مابَرِحَ، مَافَتِیءَ، مَا انفَکَّ کا امر نہیں آتا، البتہ ماضی اور مضارع آتا ہے ۳۔مَادَامَ اور لَیسَ کا فقط ماضی آتا ہے کیوں کہ یہ فعل غیر متصرف ہیں۔

 

کان کا حذف

 

سوال: کَانَ کا حذف جائز ہے یا نہیں۔

جواب:جی ہاں قرینہ کی وجہ سے کَانَ کاحذف جائز ہے جیسے اَمَا اَنتَ جَالسًا جَلَستُ دراصل جَلَستُ لِاَن کُنتَ جَالِسًا اور کبھی کان اسم کے ساتھ بھی حذف ہوتا ہے جیسے اِلتَمِس وَلَو خَاتَمًا مِن حَدِیدٍ دراصل وَلَو کَانَ ذَالِکَ خَاتَمًا مِن حَدِیدٍ۔

 

افعال ناقصہ کے خبر کی صورتیں

 

سوال: کیا افعال ناقصہ کی خبر ہمیشہ مفرد ہوتی ہے۔

جواب:حروف مشبہ بالفعل کی خبر کی طرح کبھی مفرد، جملہ، شبہ جملہ سب آتے ہیں۔ جیسے کانَ محَمُودٌ یَکتُبُ اِلٰی اَبِیہِ محمود اپنے والد کو خط لکھ رہا تھا۔ صَارَالصَّیفُ حَرُّہٗ شَدِیدٌ، صَارَ التِّلمِیذُ یَقرَءُ، بَاتَ الرَّجُلُ فِی الغَارِ۔

سوال: افعال ناقصہ کے خبر کی اسم سے مطابقت ہوتی ہے یا نہیں۔

جواب:جی ہاں افراد تثنیہ جمع میں مطابقت ضروری ہے جیسے کَانَ الرَّجُلُ وَاقِفًا، کَانَ الرَّجُلانِ وَاقِفَینِ۔کَانَ الرِّجَالُ وَاقِفِینَ۔

 

افعال ناقصہ کے خبر کی تقدیم

 

سوال: افعال ناقصہ کی خبر اسم پر مقدم ہوتی ہے یا نہیں۔

جواب:ان کی خبر اسم پر مقدم ہوسکتی ہے کیونکہ افعال میں منصوب، مرفوع پر مقدم ہوتے رہتے ہیں جیسے کَانَ قَائِمًا زَیدٌ۔

سوال: افعال ناقصہ کی خبر خود ان افعال پر بھی مقدم ہوتی ہے یا نہیں۔

جواب:اس میں تفصیل ہے ۱۔ جن فعلوں کے اوائل میں ما نہیں ہے ، ان پر خبریں مقدم ہوسکتی ہیں۲۔ سوائے لَیسَ کے باقی فعلوں پر تقدیم جائز ہے۔ لَیسَ میں بعض قائل ہیں تقدیم کے اور سِیبَوَیہِ رح قائل نہیں ہیں ۳۔ جن فعلوں میں ماہے خواہ نافیہ یا مصدریہ ان پر خبر مقدم نہیں ہوسکتی لہٰذا  قَائِمًا مَازَالَ زَیدٌکہناناجائزہو گا۔

 

افعال غیر متصرف

 

سوال: افعال غیر متصرفہ کون  سے ہیں۔

جواب:زیادہ مشہور یہ ہیں ۱۔ افعال مقاربہ(۱) ۲۔ افعال مدح وذم(۲) ۳۔ افعال تعجب(۳)

۔۔۔۔۔۔۔

(۱)انکی صرف ماضی مستعمل ہوتی ہے ۔

(۲)انکے ماضی معلوم کے علاوہ کوئی صیغہ مستعمل نہیں۔

(۳)یعنی بعد والے فعل کو مصدر کے معنیٰ میں کرتا ہےاور یہ ہمیشہ درمیان میں آتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔

 

مجرورات

سوال: مجرورات کتنے قسم ہیں۔

جواب:دو ہیں۱۔ مَجرُور بِالاِضافَۃ یعنی مضاف کی وجہ سے اسم کا مجرور ہونا جیسے غُلامُ زَیِدٍ۲۔ مجرور بحرف الجر جیسے بِزَیدٍ۔

سوال: کیا مجرورات صرف دو ہیں۔

جواب:جی نہیں کبھی جر، جوار (پڑوس) کی وجہ سے بھی ہوتی ہے ، ایسی جر کو جَرّ جَوار کہتے ہیں جیسے مَن مَّلَکَ ذَارَحمٍ مَحرَ مٍ میں مَحرَم کو جر، جوار کی وجہ سے ہے۔

قَال عبدالرسول:

گاہ  اسمی  می شود مجرور از بہر  جوار

ھم ازینجا نزد عامہ(۱) جر ارجل  شدروا

۔۔۔۔۔۔۔

(۱) عبدالرسول کے بعض نسخوں میں یہ لفظ اعمٰی ہمزہ سے لکھا ہے جو غلط ہے شیعہ کی اصطلاح ہے کہ وہ اپنے گروہ کو خاصہ اور سُنیوں کو عامہ کہتے ہیں۔ (خزائن السنن)

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

 

                فصل۔ افعال مقاربہ

 

سوال: افعال مقاربہ کسے کہتے ہیں۔

جواب: یہ درحقیقت افعال ناقصہ ہی کی ایک قسم ہے او ر افعال مقاربہ ان افعال کو کہتے ہیں جن میں قرب اور نزدیکی کا معنیٰ ہو اور خبر کا حصول اسم کیلئے قریب ہونے والا ہو جیسے عَسیٰ زَیدٌ یَخرُجُ زید کا نکلنا قریب ہے۔

سوال: افعال مقاربہ کتنے ہیں۔

جواب: یہ با عتبار معنیٰ تین قسم ہیں۔

۱۔مُقارَبۃ اور یقین کے معنیٰ والے وہ یہ ہیں۔ کَادَ یَکَادُ۔کَرُبَ یَکرَبُ ٰ-اَوشَک(۱) یہ سب قَرُبَ کے معنیٰ میں ہیں یعنی قریب ہے۔ جیسے کَادَ زَیدٌ اَن یَّخرُجَ معنیٰ زید یقینًا عنقریب نکلنے والا ہے۔  اَوشَک(۲) بمعنیٰ سَرُعَ کے ہے۔ اس میں متکلم خبر دیتا ہے کہ خبر کا حصول فاعل کیلئے یقینًاقریب ہے۔

۔۔۔۔۔

(۱)۱ن چاروں سے ماضی اور مضارع آتا ہے۔ امر استعمال نہیں ہوتا ۔

(۲)اس میں متکلم فاعل کیلئے حصول خبر کے قریب ہونے کی خبر دیتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔

 

افعال الرجاء

 

۲۔ رَجَا یعنی امید کے معنیٰ والے (۱) وہ ہیں اِخلَولَقَ۔حَرَیٰ۔عَسَیٰ۔جیسے عَسَیٰ زَیدٌ اَن یَّخرُجَ امید ہے کہ زید عنقریب نکلے گا۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)اس میں متکلم کو اس بات کی امید ہوتی ہے کہ خبر عنقریب فاعل کیلئے حاصل ہوگی۔

۔۔۔۔۔

 

افعال الشروع

 

۳۔شروع اور ابتدا کے معنیٰ والے جیسے شَرَعَ۔ طَفِقَ۔اَخَذَ۔جَعَلَ۔اَنشَأَ۔ھَلھَلَ۔قَامَ۔ وَھَبَ۔اَقبَلَ۔جیسے کَرُبَ زَیدٌ یَخرُجُ معنیٰ زیدنے یقینًانکلنا شروع کر دیا ہے۔

 

عسیٰ تامہ

 

سوال: کَانَ کی طرح عَسیٰ تامہ بھی ہوتا ہے یا نہیں۔

جواب:جی ہاں عَسیٰ اور تمام افعال مقاربہ تامہ بھی ہوتے ہیں جب فعل مضارع اَن  کے ساتھ عسیٰکا فاعل ہو اور خبر کا محتاج نہ ہو جیسے عسیٰ اَن یَّخرُجَ زَیدٌ یہاں اَن یَّخرُجَ زَیدٌ مصدر کے معنیٰ میں ہو کر مرفوع محلا فاعل ہے عسیٰکا یعنی عسیٰ خُرُوجُ زَیدٍ۔

سوال: افعال مقاربہ کی خبر مفرد اور جملہ ہوتی ہے یا نہیں۔

جواب:ا۔ان کی خبر نہ مفرد ہوتی ہے  نہ شبہ جملہ، نہ جملہ اسمیہ، اور نہ جملہ فعلیہ ماضیہ ۲۔بلکہ خبر صرف جملہ فعلیہ مضارعیہ ہوتی ہے۔

سوال: افعال مقاربہ کون سا عمل کرتے ہیں۔

جواب:اسم مرفوع خبر منصوب کا تقاضا کرتے ہیں/ جملہ اسمیہ پر داخل ہو کر مبتدا کو اپنا اسم بناتے ہیں اور خبر کو نصب دے کر اپنی خبر بناتے ہیں۔

 

افعال مقاربہ اور ناقصہ میں فرق

 

سوال: افعال مقاربہ اور افعال ناقصہ میں کو نسا فرق ہے۔

جواب:افعال مقاربہ کی خبر فعل مضارع ہوتی ہے کبھی اَن کبھی بغیر اَنکے لیکن افعال ناقصہ کی خبر مفرد اور جملہ دونوں آتی ہیں۔فعل مضارع نہیں آتی جیسے عَسیٰ زَیدٌ یَخرُجُ۔عَسیٰ زَیدٌ اَن یَّخرُجَ امید ہے کہ زید گھر سے نکلے /عنقریب نکلے گا۔

 

افعال مقاربہ کے خبر کی تقدیم

 

سوال: افعال مقاربہ کی خبر اسم پر مقدم ہو تی ہے یا نہیں۔

جواب:۱۔جی ہاں ان کے خبر کا اسم پر مقدم ہونا جائز ہے جیسے عسیٰ اَن یَّخرُجَ زَیدٌ اسوقت عَسیٰتامہ ہو گا۲۔ دوسری توجیہ یہ ہو گی کہ ا َن یَّخرُجَ خبر مقدم اور زیدٌ اسم مؤخر ہو گا ۳۔تیسری توجیہ یہ ہے کہ عسیٰ اور ا َن یَّخرُجَ کا زید میں تنازع مانا جائے۔  پھر کو فیین کا مسلک اختیار کر کے زید کو عسیٰ کا اسم کیا جائے اور ا َن یَّخرُجَ میں ضمیر مان کر خبر کہا جائے۔ یا بصر یین کا مسلک اختیار کر کے عسیٰ کا اسم اس میں ضمیر راجع بسوئے زید مانا جائے اور ا َن یَّخرُجَ زیدٌ سارا جملہ خبر مانا جائے۔

 

خبر کان اور خبر عسیٰ میں فرق

 

سوال: خبر کان اور خبر عسیٰ میں کون سا فرق ہے۔

جواب: ۱۔ کَان کی خبر اسم اور فعل دونوں ہو سکتے ہیں بخلاف خبر عسیٰ کے کہ وہ فعل ہی ہوتا ہے ۲۔ کان کی خبر اگر فعل ہو تو عام ہے چاہے ماضی ہویا مضارع، مگر عسیٰ کی خبر فعل مضارع متعین ہے ۳۔ کان کی خبر کان کے واسطے سے جملہ خبر یہ کی خبر ہے جب کہ خبر عسیٰ کہ وہ بواسطہ عسیٰ جملہ انشائیہ کی خبر ہوتا ہے۔

 

افعال مقاربہ کے خبر کی تقدیم

 

سوال: افعال مقاربہ کے خبر کی تقدیم خود افعال مقاربہ  پر جائز ہے یا نہیں۔

جواب:جی ہاں ان کی خبر کا ان افعال پر مقدم کرنا بھی جائز ہے۔

 

افعال مقاربہ کی خبر پر اَنْ مصدریہ

 

 

سوال: افعال مقاربہ میں کون سے افعال کی خبر پر اَن مَصدَریہ لائی جاتی ہے اورکون سے افعال میں نہیں لائی جاتی۔

جواب:١۔کاد اور کرب میں عموماً اَنْ نہیں لایا جاتا مگر لانا بهی صحیح ہے۔۲۔ اوشک اور عسیٰ میں عموماً اَنْ لایا جاتا ہے۔ مگر نہ لانا بھی صحیح ہے۔۳۔ حریٰ اور اوشک  میں اَنْ کا لانا ضروری ہے۔ ۴۔ تمام افعال الشروع میں اَنْ کا نہ لانا ضروری ہے۔

سوال: افعال مقاربہ جملہ خبر یہ میں داخل ہیں یا جملہ انشائیہ میں۔

جواب:یہ جملہ انشائیہ میں داخل ہیں کیونکہ ان افعال (عسیٰ) میں لَعَلَّ کے مثل امید کا انشاء پایا جاتا ہے لہذا جملہ انشائیہ ہوں گے (بدرمنیر)۔

 

 

 

 

                فصل۔ افعال مدح وذم

 

سوال: افعال مدح وذم کسے کہتے ہیں۔

جواب:ان افعال کو کہتے ہیں جو کسی کی تعریف یا برائی بیان کرنے کیلئے وضع/ مقرر کیے گئے ہوں۔

سوال: افعال مدح وذم کتنے ہیں۔

جواب:چار ہیں دو مدح کیلئے نِعمَ، حَبَّذَا اچھا ہے وہ(۱) اور دو ذم کیلئے بِئسَ، سَاءَ براہے وہ (۲)۔

۔۔۔۔۔

(۱)یہ تعریف کیلئے ہیں خواہ وہ ممدوح تعریف کے لائق ہویا نہ ہو ۔

(۲) خواہ وہ مذمت کے لائق ہویا نہ ہو۔ ساءَ براہونا۔ برالگنا، بگاڑنا۔

۔۔۔۔۔

 

مخصوص بالمدح والذم

 

سوال: مخصوص بالمدح اور مخصوص بالذم کسے کہتے ہیں۔

جواب:جس چیز کی مدح کی جائے یعنی افعال مدح کے فاعل کے بعد والے اسم کو مخصوص بالمدح کہتے ہیں جیسے نِعمَ الرَّجُلُ زَیدٌ زید اچھا آدمی ہے۔ حَبّذَا بَکرٌخوش ہے وہ بکر۔ اس میں زید مخصوص بالمدح ہے۔اس طرح جس چیز کی برائی بیان کی جائے یعنی افعال ذم کے فاعل کے بعد والے اسم کو مخصوص بالذم کہتے ہیں۔ جیسے ساءَ الرَّجُلُ عَمرٌو عمروبرا آدمی ہے۔ اس میں عمرو مخصوص بالذم ہے۔بِئسَتِ المَرأَۃُ ھِندٌ  ھندہ بری عورت ہے۔

 

افعال مدح وذم کے فاعل کے شرائط

 

سوال: حَبَّذَا کے علاوہ باقی افعال مدح وذم کے فاعل کیلئے کون سے شرائط ہیں۔

جواب:ان کے فاعل کیلئے چند شرائط ہیں ۱۔ فاعل معرف باللام ہو جیسے نِعمَ الرَّجُلُ زیدٌ  زید مرد ہونے کے اعتبار سے اچھا ہے۔ ساءَ الرَّجُلُ زیدٌ۔ بِئسَ الرَّجُلُ زیدٌ  زید برا آدمی ہے۔

۲۔یا فاعل مضاف ہو معرف باللام کے طرف جیسے نِعمَ صَاحِبُ القَومِ زَیدٌ زید قوم کے ساتھی ہونے کے اعتبار سے اچھا ہے۔ سَاءَ غُلامُ الرَّجُلِ زَیدٌ۔بِئسَ غُلامُ الرَّجُلِ زَیدٌ۔

۳۔ یا فاعل ضمیر مستتر مبہم ہو جسکی تمیز اسم نکرہ منصوب آئے جیسے نِعمَ رَجُلاً زَیدٌ، زید مرد ہونے کے اعتبار سے اچھا ہے۔اس میں نِعْمَ کا فاعل ھُوَ ضمیر مستتر ہے اور رَجُلًا منصوب ہے تمیز کی وجہ سے کیونکہ ھُوَ مبہم ہے – سَاءَ شَرَابًا الخَمرُ ۴۔ یا فاعل ما موصولہ ہو جیسے نِعمَ مَا یَتَّصِفُ بِہٖ الاِنسَانُ الجُودُ۔بِئسَ مَا یَتَّصِفُ بِہٖ الاِنسَانُ الاِسرَافُ۔ (نحو میسر)

فائدہ: کبھی نِعمَ کے آخر میں مَانکرہ بھی لاحق ہوتی ہے جو بمعنیٰ اَیُّ شَیءٍ ہوتی ہے جیسے نِعِمَّا ھِیَ اَی نِعمَ مَا یعنی نِعمَ رَجُلاً اَی نِعمَ شَیئًا ھِیَ۔

 

نِعِمّا کی ترکیب

 

سوال: نِعِمَّا کی ترکیب کیا ہے۔

جواب:یہ نِعمَ اور مَا سے مرکب ہے اس میں مَا فاعل کا کام دیتا ہے۔ اور اس کا مخصوص اس کے بعد واقع ہوتا ہے جیسے نِعِمَّا ھِیَ وہ عورت اچھی ہے۔

 

حبّذا کا فاعل

 

سوال: حَبَّذَا کے فاعل کیلئے کیا شرط ہے۔

جواب: حَبَّذَا کا فاعل ہمیشہ ذا ہوتا ہے (۱)۔اس کے فاعل کے لیے کوئی شرط نہیں اس میں حَبَّ فعل مدح ہے ذَا فاعل ہے اور زید مخصوص بالمدح ہے۔ اور حَبَّذَا میں فاعل کے بعد  کبھی پہلے حال آتا ہے کبھی تمیز اور وہ حال یا تمیز ذا سے ہوتے ہیں۔

تمیز کے مثال: جیسے ۱۔حَبَّذَا رَجُلاً زَیدٌ۔ حَبَّذَا زَیدٌ رَجُلًا۔

۲۔حال کے مثال: حَبَّذَا رَاکِبًا زَیدٌ۔حَبَّذَا زَیدٌ رَاکِبًا۔ (القول الظھیر)

سوال: نِعمَ اور حَبَّذَا ایک دوسرے کی جگہ پر استعمال ہوتے ہیں یا نہیں۔

جواب:جی ہاں حَبَّذَا کو نِعمَ کے معنیٰ میں اور لا حَبَّذَا اورساءَ کو بِئسَ کے معنیٰ میں بھی استعمال کرتے ہیں جیسے حَبَّذَا الاِتِّفَاقُ وَلاَ حَبَّذَا یا (ساءَ) الاِختَلاَفُ اتفاق اچھا ہے اور اختلاف برا ہے۔

سوال: مخصوص بالمدح والذم اپنے فعل و فاعل سے مقدم ہوتے ہیں یا نہیں۔

جواب:حَبَّذَا کے علاوہ باقیوں میں مخصوص مقدم ہوتا ہے جیسے اَبُوبَکر} نِعمَ الرَّجُلُ۔زَیدٌ نِعمَ الرَّجُلُ اس صورت میں مخصوص مبتدا ہو گا اور پورا جملہ خبر ہو گا۔

سوال: مخصوص بالمدح یا ذم تثنیہ وجمع ہوتے ہیں یا نہیں۔

جواب:جی ہاں یہ فاعل کے مطابق واحد تثنیہ جمع، مذکر اور مؤنث بنتے ہیں۔

جیسے نِعمَ الرَّجُلُ زَیدٌ۔ جیسے نِعمَ الرَّجُلانِ الزَّیدَانِ۔ نِعمَتِ المَرأَۃُ ھِندٌ۔نِعمَتِ المَرئَتَانِ الھِندَانِ۔نِعمَتِ النِّسَاءُ الھِندَاتُ۔ البتہ حَبَّذَا کا فاعل ہمیشہ ذا ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔

(۱)یعنی واحد مذکر  ہوتا ہے البتہ نعم وغیرہ کا فاعل واحد تثنیہ جمع مذکر مؤنث ہوتا رہتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔

 

افعال مدح و ذم کی ترکیب

 

سوال: افعال مدح وذم کی کتنی ترکیبیں ہوتی ہیں۔

جواب:ان کی کئی ترکیبیں ہوتی ہیں۔

۱۔ مثلا نِعمَ الرَّجُلُ زَیدٌ اس میں نِعمَ فعل الرَّجُلُ فاعل۔فعل فاعل سے مل کر خبر مقدم اور زید مخصوص بالمدح مبتدا مؤخر۔مبتدا خبر مل کر ہوا جملہ انشائیہ اسمیہ۔

۲۔ دوسری ترکیب: فعل فاعل سے مل کر جملہ انشائیہ فعلیہ ہوا، اور زید مخصوص بالمدح خبر ہے مبتدا محذوف ھُوَ کی، مبتدا محذوف اپنی خبر سے مل کرہوا جملہ خبر یہ اسمیہ۔ پہلی ترکیب کے مطابق ایک جملہ اور دوسری ترکیب کے مطابق دو جملے ہوں گے۔

۳۔تیسری ترکیب:نعم فعل مدح، الرجل، مبیَّن، زید مخصوص بالمدح، عطف بیان مبیِّن۔عطف بیان اپنے مبیَّن سے مل کر فاعل ہوا فعل مدح کا۔

۴۔چوتھی ترکیب: یہ بھی آتی ہے کہ نِعمَ الرَّجُلُ ہوا جملہ انشائیہ فعلیہ۔ زید مخصوص بالمدح مبتدا اور اس کی خبر محذوف ہے ممدوحٌ۔

سوال: افعال مدح وذم افعال متصرف ہیں یا غیر متصرف۔

جواب:یہ افعال غیر متصرف ہیں ان میں حبذا کے علاوہ بقیہ تینوں افعال سے صرف ماضی کے صیغے آتے ہیں، جبکہ حبذا سے اور کوئی صیغہ نہیں آتا جیسے حبذا ھندٌ اور باقی افعال میں بھی تاء تانیث کے لاحق کرنے کے سوا اور کوئی گردان نہیں آتا جیسے نِعمَت، سَائَت، بِئْسَت وغیرہ(۱)۔

سوال: فاعل کی طرح مخصوص بالمدح والذم حذف بھی ہوتا ہے یا نہیں۔

جواب:قرینہ کی وجہ سے مخصوص کا حذف کرنا جائز ہے جیسے اِنَّا وَجَد نَاہُ صَابِرًا نِعمَ العَبدُ اِنَّہٗ اَوّابُ اَی اَیُّوبُ، ایوب علیہ السلام اچھا بند ہ ہے۔ نِعمَ المَولیٰ وَنِعمَ النَّصِیرُ اَی اللہُ۔ اللہ اچھا آقا اور اچھا مددگار ہے۔

سوال: افعال مدح وذم جملہ خبریہ ہیں یا انشائیہ۔

جواب:یہ جملہ انشائیہ میں داخل ہیں کیونکہ ان میں گویاکہ متکلم لفظ نِعمَ کے ساتھ انشاء مدح کر رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)فوائد رفیقیہ علی شرح مأۃ عامل منظوم۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

                فصل: افعال تعجب

 

سوال: یہاں فعل التعجب سے کیا مراد ہے۔

جواب:اس سے مراد وہ فعل ہے جو تعجب پیدا کرنے کیلئے وضع / مقرر کیا گیا ہو۔ ۱۔پہر تعجب کا اطلاق ایسی نادر اور عجیب چیز کے معلوم کرنے پر ہوتا ہے جس کا سبب مخفی ہو ۲۔اسی طرح اس کیفیت پر بھی اطلاق ہوتا ہے جو ایسی چیز کے معلوم ہونے کے بعد پیدا ہو۔

 

فعل التعجب کے شرائط

 

سوال: فعل التعجب بنانے کیلئے کون سے شرائط ہیں۔

جواب:چند شرائط یہ ہیں ۱۔ ثلاثی مجرد کا باب ہو ۲۔ اس میں رنگ وعیب والا معنیٰ نہ ہو ۳۔فعل متصرف ہو، ۴۔فعل تام ہو ۵۔ مثبت ہو،  مجہول نہ ہو ۶۔ تعجب اور حیرت ظاہر  کرنا مقصود ہو جیسے ما اَضرَبَہٗ، کیا ہی مارا اس شخص نے۔

 

فعل التعجب کے صیغے

 

سوال: فعل التعجب کے کتنے صیغے استعال ہوتے ہیں۔

جواب:اس کے کئی صیغے آتے ہیں لیکن کثیر الاستعمال دو  ہیں(۱)

۱۔ ما اَفعَلَہٗ جیسے ما اَحسَنَ زَیدًا (مَا اَحسَنَ بِزَید} )اس کا لفظی ترجمہ ہو گا کس چیزنے زید کو حسن والا کر دیا. بامحاورہ ترجمہ ہو گا زید کیا ہی خوبصورت ہے۔

۲۔ اَفعِل بِہٖ جیسے اَحسِن بِزَید}لفظی ترجمہ ہو گا زید حسن والا ہو گیا با محاورہ ترجمہ ہو گا زید کیا ہی خوبصورت ہے۔

ممنوع صورت سے فعل التعجب

سوال: غیر ثلاثی مجرد (ثلاثی مزید یا رباعی مجرد) یالون وعیب والے فعل سے تعجب کی معنیٰ ادا کرنے کا کیا طریقہ ہے۔

جواب:اس قسم کے جس فعل سے صیغہ تعجب بنانا مقصود ہو تو پہلی صورت

(اول صیغہ )میں اس باب کی مصدر منصوب سے پہلے اَشَدُّ(۲) ، اَشدِد، اَعظَمُ، اَعظِم، اَحسَنُ، اَقبَحُ جیسا فعل لایا جائے اور وہ مصدر(۳) بطو ر تمیز کے منصوب ہو گا تو تعجب کا معنیٰ بن جائے گا جیسے :

ما  اَشَدُّ اِحمِرارًا اس کا سرخ ہونا کیا ہی سخت ہے

مَا اَشَدُّ اِمتِحانُہٗ۔اَشدِد بِاِمتِحانِہٖ، آزمائش کیسی سخت یا بڑی چیز ہے (۴)۔

ما اَعظَمَ حُمرَۃَ وَجنَۃِ الاِبنَۃِ لڑکی کا  رخسار کیا ہی سرخ ہے

ما اَشَدُّ اِستِخرا جًاکس چیزنے صاحب شدت کیا۔ با محاورہ ترجمہ ہو گا اس کا نکالنا کیا ہی سخت ہے۔

مَا اَشدَّ اِخضِرارَہٗ اس کی سبزی کیا ہی اچھی ہے۔

اَشدِد بِاِ خضِرارِہٖ بہت زیادہ ہے اس کی سبزی، بامحاورہ ترجمہ ہو گا۔ کس چیزنے صاحب شدت کیا اس کی سبزی کو۔

فعل التعجب پر متعجب منہ کی تقدیم

سوال: فعل تعجب پر متعجب منہ کو مقدم کرنا جائز ہے یا نہیں۔

جواب:نہ تقدیم جائز ہے ، نہ ہی تذکیر وتانیث اورنہ ہی تثنیہ جمع کے لیے ان میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)لیکن فی الحقیقۃ تعجب کے دو تین صیغے نہیں، بہت ہیں، مثلاً کیف تحکمون با للہ و کنتم امواتا۔ سبحان اللہ انّ المؤمن لا ینجس۔ للہ درّہ فارسا، واھًالہ، یاللماء، ان الفاظ میں تعجب کی معنیٰ ہے، تعجب کے لئے وضع نہیں کیے گئے۔

(۲)یعنی ان جیسا اسم تفضیل کا صیغہ شروع میں لایا جائے۔

(۳) یا بطور مفعول کے منصوب ہوگا اور دوسری صورت (دوسرے صیغے )میں مصدر کو باء جارہ کا مجرور بنایا جائے ۔

(۳)جیسے اَشدِد بِاِس تِخرَاجِہٖ ترجمہ اس کا نکالنا کیا ہی سخت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

فعل التعجب اور تثنیہ وجمع

 

 

سوال: ما اَحسَنَہٗ، وَاَحسِن بہٖ (وہ کیا ہی خوبصورت ہے ) میں باقی ضمائر وغیرہ استعمال ہوتے ہیں یا نہیں۔

جواب:ان میں ہٗ  اور ہٖ کی جگہ بقیہ تمام ضمیریں اور ہر قسم کا اسم ظاہر مذکر مؤنث واحد تثنیہ یا جمع لگا سکتے ہیں اور اصل میں ان صیغوں میں ما بعد کے اثر سے کوئی تغیر نہیں ہوتا جیسے :

مَا اَحسَنَ رَشیدًا رشید کیا ہی خوبصورت ہے۔

اَحسِن بِرَشید}، رشید کیا ہی خوبصورت ہے۔

مَا اَطوَلَ الرَّجُلَینِ، دومردکتنے لمبے ہیں۔

اَقصِر بِالنِّساءِ، عورتیں کتنی کوتاہ  ہیں۔

ما اَحسَنَ زَیدًا، زید کیا ہی اچھا ہے۔

اَحسِن بِزَید}، زید کیا ہی خوبصورت ہے۔

 

ما احسن زیدًا کی ترکیب

 

سوال: فعل التعجب کے پہلے صیغہ ما اَحسَنَ زَیدً ا کی ترکیب کیا ہے۔

جواب:اس کی تین  ترکیبیں ہوتی ہیں اس طرح کہ ما میں تین مذہب ہیں۔

۱۔ امام اخفش ؒکے نزدیک ما موصولہ ہے اور اَحسَنَ اپنے فاعل ضمیر مستتر ھو اور زَیدً ا مفعول سے مل کر پورا جملہ فعلیہ،  صلہ بنے گا موصولہ کا، موصولہ اپنے صلہ سے مل کر مبتدا ہو گا۔ خبر محذوف شیءٌ عظیمٌ کی۔ پھر مبتدا خبر مل کر جملہ خبر یہ اسمیہ ہوا۔ پورا جملہ ہو گا الَّذی اَحسَنَ زَیدًا شیءٌ عظیمٌ وہ چیز جس نے زیدکو خوبصورت بنایا کوئی بڑی چیز ہے۔

۲۔ امام سیبویہؒ کے نزدیک ما موصوفہ ہے اور بعد والا جملہ صفت ہو گا، موصوف اپنی صفت سے مل کر مبتدا ہوا۔ شیءٌ عظیمٌ خبر محذوف۔ مبتدا خبر مل کر جملہ خبر یہ اسمیہ۔ پورا جملہ ہو گا شیءٌ عظیمٌ اَحسَنَ زَیدًا، کسی بڑی چیزنے زید کو حسن والا کر دیا۔

۳۔ امام فراءؒ  کا کہنا ہے کہ ما استفہامیہ ہے اور بمعنیٰ ای شیء کے ہو کر ہو گا۔ مبتدا اور بعد والا جملہ  ہو گا خبر۔ مبتدا خبر مل کر ہو گا جملہ انشائیہ اسمیہ تعجبیہ۔ ترجمہ ہو گا کس چیزنے زید کو حسن والا کر دیا۔مصنفؒ نے یہی مذھب اختیار کیا ہے۔

 

احسنِ بزید کی ترکیب

 

سوال: (تعجب کے دوسرے صیغہ) اَفْعِل بہ کی ترکیب کیا ہے۔

جواب:اَفعِل بِہٖ ای اَحسِن بِزَیدٍ اس میں اَحسِن بمعنیٰ اَحسَنَ  زَیدٌ ہے یعنی امر، ماضی کے معنیٰ میں ہے۔ باء زائدہ اور ہمزھصیرورت کا ہے۔ اور زید فاعل ہے ای اَحسَنَ زَیدٌ بمعنیٰ صارَذا حُسنٍ زید صاحب حسن ہو گیا۔

سوال: صیرورت کسے کہتے ہیں۔

جواب: صیرورت کہتے ہیں کے فاعل کو صاحب مأخذ بنایا جائے جیسے اَلْبَنَتِ النَّاقۃُ اونٹنی دود ھ والی ہو گئی۔

سوال:فعل التعجب کا معمول اس سے مقدم ہوتا ہے یا نہیں۔

جواب:اس کے معمول میں شرط ہے کہ وہ مؤخر اورمتصل ہو لہذا معمول کی تقدیم ناجائز ہے خارج ہوا بِزَیدٍ اَحسِن۔

 

 

 

تیسرا باب۔ اسماء عاملہ

 

سوال: اسماء عاملہ کتنے قسم ہیں۔

جواب:یہ گیارہ قسم ہیں ۱۔ اسماء شرط، اسما ء افعال بمعنیٰ ماضی، اسماء افعال بمعنیٰ امر حاضر، اسم فاعل، اسم مفعول، صفت مشبہ، اسم تفضیل، اسم  مصدر،  اسم مضاف، اسم تام، اسماء کنایہ ازعدد۔

 

۱۔اسماء شرط

 

سوال: اسماء شرط کون سے ہیں اور ان کے دوسرے کو نسے نام ہیں۔

جواب:ان کے دونام اور بھی ہیں ۱۔ کلم المجازات(۱) ۲۔کلم الشرط والجزاء۔ اوریہ نو ہیں ۱۔ مَن ۲۔ ما ۳۔ اَینَ ۴۔ مَتیٰ۵۔ اَیٌّ ۶۔ اَنّٰی ۷۔ اِذمَا  ٨۔حَیثُما  ٩۔مَھمَا۔

۔۔۔۔۔۔

(۱) جزا اور بدلہ دینا۔

۔۔۔۔۔۔

 

اسماء شرطیہ کی وجہ التسمیہ

 

سوال: اسماء شرطیہ کی وجہ تسمیہ بتائیں کہ انکو اسماء شرط کیوں کہتے ہیں۔

جواب:اس لیے کہ یہ اسماء اِن شرطیہ کے معنیٰ کو متضمن ہوتے ہیں۔

 

اسماء شرطیہ کا عمل

 

سوال: اسماء شرطیہ کون سا عمل کرتے ہیں۔

جواب:یہ مضارع کے آخر میں جزم کرتے ہیں(۱) اور دو جملوں پر داخل ہو کر پہلے کو شرط اور دوسرے کو جزا بناتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔

(۲)پہرعام ہے  جزم لام کلمہ کے سکون سے ہو یا لام کلمہ کے حذف کرنے سے۔

۔۔۔۔۔۔

 

اسماء شرطیہ کے اقسام

 

سوال: اسماء شرطیہ باعتبار استعمال کے کتنے قسم ہیں۔

جواب:تین قسم ہیں ۱۔ ظرفیت سے خالی ۲۔ بمعنیٰ ظرف زمان ۳۔ بمعنیٰ ظرف مکان۔

ان کی تین صورتیں ہیں:

۱۔ جن میں ما کا الحاق جائز نہیں جیسے مَن وَمَا وَمَھمَا وَانّٰی ۲۔جن  میں الحاق ما ضروری ہے جیسے حَیثُ وَاِذ۔ ۳۔ جن میں دونوں صورتیں جائز  ہوں وہ چار ہیں اَیٌّ، مَتٰی، اَینَ، اَیَّانَ اور اِن شرطیہ کا بھی یہی حکم ہے الحاق ما اور عکس اس کا جائز ہے۔

سوال: اگر ان اسماء میں شرط کی معنیٰ نہ پائی جائے تو اس وقت مضارع کو جزم دیں گے یا نہیں۔

جواب:اسوقت جازم نہیں ہوں گے جیسے مَن جبکہ استفہام کیلئے ہو جیسے مَن تَضرِبُ، توکس کو مارے گا۔

 

اسماء شرطیہ ظرفیت سے خالی

 

سوال: اسماء شرطیہ ظرفیت سے خالی کتنے ہیں۔

جواب:ظرفیت کی معنیٰ سے خالی یہ تین اسم ہیں ۱۔ مَن ۲۔ مَا ۳۔ اَیٌّ۔

مَن: جو، جو شخص، جوکوئی . یہ ذوی العقول کیلئے آتا ہے جیسے مَن تَضرِب اَضرِب جس شخص کو تو مارے گا میں ماروں گا۔

ما : جو، جو چیز، جو کچھ، یہ غیر ذوی العقول کیلئے آتا ہے جیسے مَا تَفعَل اَفعَل جو  کچھ تو کرے گا میں کروں گا۔

اَیٌّ: جو کچھ، یہ بھی ذوی العقول کے لیے آتا ہے جیسے اَیَّ شیءٍ تَاکُل  اٰکُلجو چیز تو کھائے گا میں کھاؤں گا۔

اسماء شرطیہ بمعنیٰ ظرف زمان

سوال:اسماء شرطیہ بمعنیٰ ظرف زمان کون سے ہیں۔

جواب: یہ تین اسم ہیں اِذمَا، مَتَیٰ (مَتٰما) مَھمَا۔

اِذْما: جس وقت جیسے اِذمَا تُسَافِر اُسَافِر جس وقت توسفر کرے گا میں کروں گا۔

مَتَیٰ، مَتٰما: جب، جس وقت جیسے مَتی ٰ تَقُم اَقُم جس وقت تو اٹھے گا میں اٹھوں گا۔

مَھمَا: جہاں، جو کچھ، جتنا کچھ جیسے مَھمَا تَقعُد اَقعُد جس وقت تو بیٹھے گا  میں بیٹھوں گا۔

سوال: اگر قسم اور شرط جمع ہوں تو کیا دونوں کا جواب ضروری ہے۔

جواب:اس صورت میں آخری کا جواب محذوف ہو گا بشرطیکہ شرط مقدم نہ ہو، خارج ہوا اِ ن تَأْتِنِی فَوَ اللہِ اَنتَ مُکرَمٌ۔

 

اسماء شرطیہ بمعنیٰ ظرف مکان

 

سوال: اسماء شرطیہ بمعنیٰ ظرف مکان کون سے ہیں۔

جواب: یہ بھی تین اسم ہیں اَینَ (اَینَمَا) اَنّیٰ، حَیثُمَا۔

اَینَ: جس جگہ، جہاں جیسے اَینَ تَجلِس اَجلِس، جس جگہ تو بیٹھے گا میں بیٹھوں گا۔

اَنّیٰ: جہاں، جہاں کہیں جیسے اَنّیٰ تَکتُب اَکتُب جس جگہ تولکھے گا میں لکھوں گا۔

حَیثُ، (حَیثُمَا) جہاں کہیں جیسے حَیثُ تَقصِد اَقصِد جس جگہ کا تو ارادہ کرے گا میں ارادہ کروں گا۔ حَیثُمَا تَقصِد اَقصِدجس جگہ کا تو ارادہ کرے گا میں کروں گا۔

 

انّیٰ بمعنیٰ کیف

 

سوال: کیا اَنّیٰکسی دوسرے معنیٰ میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

جواب:جی ہاں یہ کئی معانی کے لیے آتا ہے۔

١۔١سکے بعد اگر فعل ہو گا تو یہ کَیف کے معنیٰ میں ہو گا  جیسے فَأْتُوا حَرثَکُم اَنَّیٰ شِئتُم۔

اپنی کھیتی کو آؤ جس طرح چاہو۔

٢۔ اگر اسم ہو گا تو نصب کے محل میں اینَ کے معنیٰ میں ظرف مکان ہو گا۔

٣۔ اَنَّیٰ اسم استفہام بن کر بھی آتا ہے بمعنیٰ مِن اَینَجیسے اَنَّیٰ لَکِ ھَذَا۔

٤۔ مَتیٰ کے معنیٰ میں بھی آتا ہے جیسے اَنَّیٰ جِئتَ۔

 

اسما شرطیہ ظرفیہ کی ترکیب

 

سوال: جن اسماء شرطیہ میں ظرفیت کی معنیٰ ہو وہ ترکیب میں کیا واقع ہوتے ہیں۔

جواب:ان کی دو حالتیں ہیں ۱۔ منصوب محلا مفعول فیہ مقدم جیسے مَتیٰ تَقُم اَقُم میں مَتیٰ مفعول فیہ ہے ۲۔ مجرور محلا باعتبار حرف جرکے جیسے مِن اَینَ تَقرَأ  اَقرَأ جس جگہ تو پڑھے گا میں پڑھوں گا۔

 

اسماء شرطیہ غیر ظرفیہ کی ترکیب

 

سوال: اسماء شرطیہ خالی عن الظرفیتہ (مَن، مَا، اَیٌّ) ترکیب میں کیا واقع ہوتے ہیں۔

جواب:ان کی تین حالتیں ہیں ۱۔ مرفوع محلا مبتدا جیسے مَن یَّأْتِنِی فَھُوَ مُکرَمٌ، مگر اَیٌّخبر بھی ہوتا ہے ۲۔ منصوب محلا مفعول بہ مقدم جیسے مَن تَضرِب اَضرِب ۳۔ مجرور محلا باعتبار اضافت کے جیسے غُلامَ مَن تَضرِب اَضرِب یا مجرور بحرف جر جیسے بِمَن تَمُرُّاَمُرُّ۔

 

اسماء شرطیہ غیر مجزومہ

 

سوال: کیا اسماء شرط ایسے بھی ہیں جو فعل کو جزم نہ کرتے ہوں۔

جواب:جی ہاں سات ایسے اسماء شروط ہیں جو جزم نہیں دیتے جیسے لو، لولا، لوما، اَمّا، اِذا، لَمَّا، کُلَمَّا بمعنیٰ حِینَ(۱)۔

۔۔۔۔۔

(۱)ثمرات الجنیہ۔

۔۔۔۔۔۔

 

                ۲، ۳۔ اسماء افعال

 

یہ دو قسم ہیں اور ان کا تفصیل پہلے ہوچکا ہے۔

سوال: اسم فعل اور فعل میں کون سا فرق ہے۔

جواب:١۔ایک یہ کہ اسم فعل حذف نہیں ہوتا ۲۔ اسی طرح یہ اپنے معمول سے موخر نہیں ہوتا۔ ۳۔اسی طرح اس کا ضمیر بارز نہیں ہوتا، بخلاف فعل کے اس میں یہ ساری چیزیں واقع ہوتی ہیں۔

 

اسماء افعال کے معمول کی تقدیم

 

سوال: اسماء افعال کے معمول کی تقدیم جائز ہے یا نہیں۔

جواب:ان کے معمول کی تقدیم جائز نہیں اگر مقدم ہو گا تو تاویل کی جائے گی جیسے کِتَابَ اللہِ عَلَیکُم یہ عَلَیکُم کا معمول نہیں ہے بلکہ اس کا عامل ہے۔اس سے پہلے عَلَیکُم مقدر ہے۔ اسی طرح یہ علامت تذکیر تانیث اورتثنیہ وجمع کو قبول نہیں کرتے۔ ان کی باقی تفصیل اسم غیر متمکن کے بحث میں گذر چکی ہے۔

 

عوامل قیاسی

 

                ۴۔اسم فاعل

 

سوال: اسم فاعل کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس اسم مشتق کو کہتے ہیں جس کے ساتھ معنیٰ مصدری بطور حدوث کے قائم ہو جیسے ضاربٌ، مارنے والا۔

 

اسم فاعل کا عمل

 

سوال: اسم فاعل کون سا عمل کرتا ہے۔

جواب:اپنے فعل معروف والا عمل کرتا ہے اگر فعل لازمی سے ہے تو فاعل کو رفعہ اور چھ اسماء کو نصب دیتا ہے اگر متعدی سے ہے تو فاعل کو رفعہ اور سات چیزوں کو نصب دیتا ہے۔ واضح رہے کہ جو عمل قَامَ اور ضَرَبَ کرتے ہیں قَائِمٌ اور ضَارِبٌ بھی  وہی عمل کرتے ہیں۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ ۱۔یہ فاعل ضمیر میں بلاشرط عمل کرتا ہے۔ جیسے زَیدٌ قَائِمٌ یہاں قَائِمٌ کا فاعل ضمیر مستتر ھُوَہے ۲۔ اور فاعل ظاہر میں بشرط اعتماد عمل کرتا ہے خواہ زمانہ جو بھی ہو جیسے زَیدٌ قَائِمٌ غُلامُہٗ اَلاٰنَ اَوغَدًا اَو اَمسِ ۳۔ اور مفعول میں بشرط زمان حال یا استقبال عمل کرتا ہے جیسے زَیدٌ ضَارِبٌ اَبُوہُ عَمرًوا  اَلاٰنَ اَوغَدًا۔

 

اسم فاعل کے عمل کے شرائط

 

سوال: اسم فاعل کے عمل کیلئے کون سے شرائط ہیں۔

جواب:اسم فاعل منکر کیلئے دو شرط ہیں ١۔اسم فاعل حال یا ا ستقبال کے معنیٰ میں ہو(۱)۔

۲۔ چھ چیزوں میں سے کسی ایک پر اعتماد پکڑ رہا ہو(۲)۔ وہ چھ چیزیں یہ ہیں۔

مبتدا، موصوف، موصول، ذوالحال، ھمزہ استفہام، حرف نفی۔

۱۔ماقبل میں مبتدا ہو : تو اسم فاعل اس کی خبر بنے گا۔ اسم فاعل لازمی کی  مثال۔جیسے زَیدٌ قَائِمٌ اَبُوہُ زیداس کا باپ کھڑا ہے۔ اور اسم فاعل متعدی کی مثال جیسے زَیدٌ ضَارِبٌ اَبُوہُ عَمروًا زید اس کا باپ عمرو کو مارنے والا ہے۔

۲۔ ماقبل میں موصوف ہو: تو اسم فاعل اس کی صفت بنے گا جیسے مَرَرتُ بِرَجُلٍ ضاربٍ ابُوہُ بَکرًا میں ایک ایسے مرد سے گذرا کہ جسکا باپ بکر کو مارنے والا ہے۔

۳۔ ما قبل میں موصول ہو:  تو اسم فاعل اس کا صلہ بنے گا جیسے جَائَنِی القَائِمُ اَبُوہُ   میرے پاس وہ شخص آیا جس کا باپ کھڑا ہونے والا ہے۔ جَائَنِی الضَّارِبُ اَبُوہُ عمروًا، میرے پاس وہ شخص آیا جس کا باپ عمرو کو مارنے والا ہے .

۴۔ ما قبل میں ذوالحال ہو:  تو اسم فاعل اس کا حال بنے گا جیسے جَائَنِی زَیدٌ راکِبًا غُلامُہٗ فَرَسًا میرے پاس زید آیا اس حال میں  کہ اس کا غلام گھوڑے پر سوار ہے۔

۵۔ ما قبل میں ہمزہ استفہام ہو:  جیسے أَضارِبٌ  زیدٌ عمروًا کیا زید عمرو کو مارنے والا ہے۔ ۶۔ ما قبل میں حرف نفی ہو: جیسے ما قائِمٌ زیدٌ زید کھڑ ا ہونے والا نہیں ہے (آخری دو صورتوں میں اسم فاعل مبتدا کا قسم ثانی بنے گا )۔

سوال: آخری دوصورتوں کی ترکیب کیسے ہو گی۔

جواب:ان کی ترکیب مبتدا کی قسم ثانی کی طرح ہو گی پھر اس کی دو صورتیں ہوتی ہیں مثلًا اَضَارِبٌ زَیدٌ عمروًا میں ۱۔ ضارب مبتدا،  زید فاعل ہے ، قائم مقام خبر کے ۲۔ضارب خبر مقدم اور زَیدٌ۔مبتدا مؤخر ہے۔ اسی طرح مَاقَامَ زَیدٌ کی بھی دو ترکبیں ہوتی ہیں۔

۔۔۔۔۔

(۱)  یعنی اسم فاعل چھ چیزوں میں سے کسی ایک چیزکے بعد واقع ہو ۔اسی طرح یہ بھی شرط ہے کہ اسم فاعل نہ مصغر ہو اور  نہ موصوف ہو ۔

(۲)یعنی ماضی کے معنیٰ میں نہ ہو۔

۔۔۔۔۔

 

اسم فاعل کے معمول کی تقدیم

 

سوال: اسم فاعل کا معمول اس سے مقدم ہوتا ہے یا نہیں۔

جواب:اس کے معمول کی تقدیم جائز ہے جیسے زیدًا اَنَا مُصَاحِبٌ  لیکن جب اس پر الف لام داخل ہو یا اضافت کی وجہ سے مجرور ہو(۱) تو تقدیم جائز نہ ہو گی جیسے ھٰذا المُکرِمُ حَامِدًا۔ ھٰذا وَلَدُ مُکرِمِ حَامِدٍ۔

سوال : اسم فاعل، اسم مفعول کا فاعل اسم ظاہر ہوتا ہے یا ضمیر۔

جواب:ان کا فاعل اسم ظاھر بھی ہوتا ہے جیسے  زَیدٌ  ضارِبٌ اَبُوہُ عمروًا،۔ اور ضمیر مستتر عارضی بھی ہوتا ہے لیکن اس کا ماقبل کے موافق ہونا ضروری ہے۔

غائب کی مثال : جیسے زَیدٌ  ضارِبٌ عمروًا  یہاں ضارب کا فاعل ھو ضمیر مستتر ہے۔

مخاطب کی مثال: جیسے اِن اَطَعتُمُوھُم اِنَّکُم لَمُشرِکُونَ میں مشرکون کا فاعل انتم ہے اور وَلا اَنتُم عَابِدُونَ مَا اَعبُدُ میں عَابِدُو نَ کا فاعل اَنتُم ہے۔

متکلم کی مثال:  جیسے نَحنُ مُسلِمُونَ، میں مُسلِمُونَ کا فاعل نَحنُ ہے۔اسی طرح وَلا اَنَا عَابِدٌ، میں عابد کا فاعل اَنَا ہے۔

۔۔۔۔۔

(۱)یا مجرور بحرف غیر زائدہ ہو ۔

۔۔۔۔۔۔

 

اسم فاعل معرف باللام کا عمل

 

سوال: اسم فاعل معرف باللام  ہو تو اس کے عمل کیلئے کون سا شرط ہے۔

جواب:اس وقت حال یا استقبال کا شرط نہیں، ہر حال میں عمل کرتا ہے۔ جیسے زَیدُ الضّارِبُ اَبُوہُ عمروًا الاٰنَ اوغدًا او اَمسِ(۱)۔ فاعل ظاہر کی مثا ل جیسے زَیدُ   القَائِمُ اَبُوہُ فاعل ضمیر جیسے زَیدُنِ القَائِمُ۔مفعول کی مثال جیسے زَیدُنِ الضّارِبُ اَبُوہُ عمروًا۔

سوال: کیا اسم فاعل صرف حالت مفرد میں عمل کرتا ہے۔

جواب:یہ واحد تثنیہ وجمع ہر حال میں عمل کرتا ہے البتہ اضافت کی صورت میں نون تثنیہ وجمع گر جاتے ہیں جیسے ھُمَا ضارِبانِ زَیدًاسے ھُمَا ضَارِبَا زَیدٍ۔

۔۔۔۔۔

(۱) زید جس کا باپ عمرو کو مارنے والا ہے آج یا کل آئندہ یا کل گذشتہ۔

۔۔۔۔۔

 

                ۵۔اسم مفعول

 

سوال: اسم مفعول کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس اسم مشتق کو کہتے ہیں جو ايسی ذات پردلالت کرے جس پر فعل(۱) واقع ہو ا ہو جیسے مضروبٌ مارا گیا وہ ایک مرد۔

۔۔۔۔۔

(۱)مصدری معنیٰ واقع ہو۔

۔۔۔۔۔۔

 

اسم مفعول کا عمل

 

 

سوال: اسم مفعول کون سا عمل کرتا ہے۔

جواب:اپنے فعل مجہول(۱) والا عمل کرتا ہے یعنی  نائب فاعل کو رفع اور باقی معمولات کو نصب ديتا ہے جیسے زَیدٌ مضروبٌ غُلامُہٗ الاٰنَ اوغَدًا او اَمسِ زید مارا گیا اس کا غلام آج یا کل آئندہ یا کل گذشتہ۔

۔۔۔۔۔۔

(۳)اسم مفعول فعل متعدی سے آتا ہے اور عمل بھی فعل متعدی والا کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔

 

اسم مفعول کے عمل کے شرائط

 

سوال: اسم مفعول کے عمل کیلئے کون سے شرائط ہیں۔

جواب: اگر معرف باللام ہو گا تو بلا شرط عمل کرے گا اور اگر اسم مفعول غیر معرف باللام ہے تو وہی دوشرط ہیں اسم فاعل والے۔ ۱۔ اسم مفعول حال یا استقبال کے معنیٰ میں ہو ۲۔ چھ چیزوں میں سے کسی ایک چیز پر اعتماد کرے۔

۱۔ مبتدا پر اعتماد ہو جیسے زَیدٌ مَضرُوبٌ اَبُوہُ زید کا باپ مارا  گیا۔

۲۔ موصوف پر اعتماد ہو جیسے مَرَرتُ بِرَ جُلٍ مَضروبٍ اَبُوہُ

۳۔ موصول پر اعتماد ہو جیسے جَائَنِی المَضرُوبُ اَبُوہُ

۴۔ ذوالحال پر اعتماد ہو جیسے جَائَنِی  زَیدٌ  مَضروبًا اَبُوہُ

۵۔ ھمزہ استفہام پر اعتماد ہو جیسے أَمَضرُوبٌ زَیدٌ

۶۔حرف نفی پر اعتماد ہو جیسے ما مَضرُوبٌ زَیدٌ

 

اسم مفعول کے اقسام

 

 

سوال: اسم مفعول (فعل متعدی کے باعتبار )کتنے قسم ہے۔

جواب:وہ چار قسم ہے ، کیونکہ فعل متعدی کی بھی چار قسمیں ہیں، ہر ایک قسم کا چھ چیزوں میں سے کسی ایک پر اعتماد ہو گا تو کل ٢٤ صورتیں ہوں گی۔

۱۔ اسم مفعول مشتق ہو متعدی بیک مفعول والے فعل سے جیسے زَیدٌ مَضرُوبٌ اَبُوہُ زید کا باپ مارا جاتا ہے یا مارا جائے گا۔

۲۔ متعدی بدو مفعول والے فعل سے مشتق ہو جسکے ایک مفعول پر اقتصار جائز ہے جیسے عَمرٌو مُعطیً غُلَامُہٗ  دِرھَمًا عمرو کے غلام  کو درھم دیا جاتا ہے یا دیا جائے گا۔

۳۔ متعدی بدو مفعول والے فعل سے مشتق ہو جسکے ایک مفعو ل پر اقتصار ناجائز ہو جیسے بَکرًا مَعلُومُنِ ابنُہٗ فَاضِلًا بکر کا بیٹا فاضل یقین کیا جاتا ہے یا کیا جائے گا۔

۴۔ متعدی بسہ مفعول والے فعل سے مشتق ہو جیسے خَالِدٌ مُخبَرُنِ ابنُہٗ عَمرًوا فَاضِلًا  خالد کے بیٹے کو عمرو کے فاضل ہونے کی خبر دی جا رہی ہے یا خبر دی جائے گی۔ واضح رہے کہ جو عمل ضُرِبَ، اُعطِیَ، عُلِمَ اور اُخبِرَ کرتے ہیں وہی عمل مَضرُوبٌ، مُعطیً، مَعلُومٌ اور مُخبَرٌ کرتے ہیں۔

 

اسم مفعول کے استعمال کا طریقہ

 

سوال: اسم مفعول کے استعمال کا کیا طریقہ ہے۔

جواب:اس کا استعمال تین  طریقوں سے ہوتا ہے ١۔ الف لام کے ساتھ  ٢۔اضافت کے ساتھ٣۔ ان دونوں سے خالی جیسے یَفُوزُ المُھَندِسُ المَحمُودُ خُلُقُہٗ، قابل تعریف اخلاق کا انجنیئر کا میاب ہو گا۔ ھٰذٰا عَالِمٌ مَعرُوفٌ کَرَمُہٗ۔

 

اسم مفعول اور مفعول میں فرق

 

سوال: اسم مفعول اور مفعول میں کون سا فرق ہے۔

جواب:اسم مفعول میں ذات و صفت دونوں موجود ہوتے ہیں جیسے مَنصُورٌ، مَضرُوبٌ اور مفعول اس ذات کو کہتے ہیں جس پر کوئی فعل واقع ہو جیسے ضَرَبَ زَیدٌ عَمرًوا، اس میں عمرو پر فعل ضرب واقع ہوا ہے۔

 

                ۶۔ صفت مشبہ

 

سوال: صفت مشبہ کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس اسم کو کہتے ہیں جو مصدر لازمی سے مشتق اور اس کے ساتھ معنیٰ مصدری بطور ثبوت کے قائم ہو(۱) جیسے اَحمَرُ، شَرِیفٌ، حَسَنٌ (وہ شخص جس میں حسن ہمیشہ پایا جاتا ہو)۔

نوٹ: ثلاثی سے اس کے اوزان سماعی ہیں جیسے حسن، کریم، سہل، رؤف وغیرہ اور ثلاثی مجرد کے علاوہ دوسرے ابواب سے اس فاعل کے وزن پر آتا ہے۔ جیسے مطمئن، مستقیم۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)یعنی حَسَنٌ اس ذات کو کہتے ہیں جس میں حسن بطور ثبوت یعنی پائیداری کے ساتھ پایا جاتا ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفت مشبہ کا عمل

 

سوال: صفت مشبہ کون سا عمل کرتا ہے۔

جواب:یہ فعل لازمی کی طرح فاعل کو رفعہ اور چھ اسموں کو نصب دیتا ہے (۱)۔

۔۔۔۔۔

(۱) کیونکہ یہ فعل لازمی سے بنتا ہے متعدی سے نہیں بنتا۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

صفت مشبہ کا وجہ التسمیہ

 

سوال: صفت مشبہ کا وجہ تسمیہ کیا ہے اوراس کی کس چیز سے مشابہت ہے۔

جواب:اس کی اسم فاعل سے مشابہت ہے تذکیر، تانیث اور افراد تثنیہ و جمع میں اس لیئے اس کوصفت مشبہ کہتے ہیں۔

 

صفت مشبہ کے عمل کے شرائط

 

 

سوال: صفت مشبہ کے عمل کے لیئے کون سے شرائط ہیں۔

جواب:دوشرط ہیں(۱) اسم فاعل والے ١۔ اس میں دوام یا استمرار کا معنیٰ ہو۔

۲۔ موصولہ (الف لام) کے علاوہ پانچ چیزوں پر اعتماد پکڑے۔

۱۔ ما قبل میں مبتدا ہو جیسے زَیدٌ حَسَنٌ غُلَامُہٗ ۲۔ ماقبل میں موصوف  جیسے جَائَنِی رَجُلٌ حَسَنٌ غُلَامُہٗ۳۔ ما قبل میں ذوالحال جیسے جَائَنِی زَیدٌ حَسَنًا غُلَامُہٗ۴۔ ما قبل میں استفہام جیسے أَ حَسَنٌ زَیدٌ، کیا زید خوبصورت ہے۔۵۔ ما قبل میں حرف نفی جیسے مَا حَسَنٌ زَیدٌ۔ واضح رہے کہ جو عمل حَسُنَ کرتا ہے وہی عمل حَسَنٌ  کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔

(۳)اسی طرح شرط ہے کہ وہ نہ مصغرہو، نہ موصوف  ہو اور اس میں حال واستقبال کی بھی شرط نہیں ہے۔ کیونکہ صفت مشبہ میں خود دوام واستمرار والا معنیٰ ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔

 

صفت مشبہ کے معمول کا اعراب

 

 

سوال: صفت مشبہ کے معمول میں کتنے وجوہ پڑھے جاتے ہیں۔

جواب:تین وجہ پڑھنے جائز ہیں ۱۔ رفعہ، فاعلیت کی وجہ سے جیسے جَاءَ الحَسَنُ وَجھُہٗ ۲۔نصب، مفعول سے مشابہت کی وجہ سے جیسے جَاءَ الحَسَنُ وَجہَ الاَبِ یا تمیز کی وجہ سے جیسے اَنتَ الحَسَنُ وَجھَہٗ ۳۔ جر، اضافت کی وجہ سے جیسے اَنتَ الحَسَنُ الوَجہِ.

نوٹ: صفت مشبہ کے استعمال کی اٹھارہ صورتیں ھدایۃ النحو میں دیکھیں۔

 

صفت مشبہ کے معمول کی تقدیم

 

 

سوال: صفت مشبہ کا معمول اس پرمقدم ہوتا ہے یا نہیں۔

جواب:اسم کا معمول مقدم نہیں ہوتا ہمیشہ مؤخر ہوتا ہے جیسے عَلِیٌّ حَسَنٌ خُلُقُہٗ۔

 

صفت مشبہ اور اسم فاعل میں فرق

 

سوال: صفت مشبہ اور اسم فاعل میں کون سا فرق ہے۔

جواب:ان میں کئی فرق ہیں لفظًا، معنیً اور عملاً۔ ١۔معنیً اس طرح کہ اسم فاعل بمعنیٰ حدوث یعنی اس میں صفت عارضی ہوتی ہے جیسے ضاربٌ، قاتلٌ(۱) اور صفت مشبہ بمعنیٰ ثبوت یعنی اسمیں صفت دائمی ہوتی ہے جیسے حَسَنٌ وہ شخص جس میں صفت حسن ہمیشہ پائی جاتی ہو۲۔ لفظًا، اس طرح کہ صفت مشبہ لازمی ہی ہوتا ہے (۲) اور اسم فاعل لازمی ومتعدی دونوں طرح آتا ہے۔۳۔ اسم فاعل کے اوزان قیاسی اور صفت مشبہ کے اوزان سماعی ہوتے ہیں جیسے حَسَنٌ، صَعبٌ، شَدِیدٌوغیرہ۔ ۴۔ اور عملاً اس طرح کہ صفت مشبہ کا معمول اس پر مقدم نہیں ہوتا، لیکن اسم فاعل کے معمول کا اس سے مقدم ہونا جائز ہے۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)البتہ اسم فاعل کے چندصیغے معنیٰ حدوثی سے مستثنیٰ ہوکر معنیٰ ثبوت پر دلالت کرتے ہیں جیسے مؤمنٌ، کافرٌ، صاحبٌ، مالکٌ، قادرٌ وغیرہ (مأرب الطلبہ)۔

(۱) ہاں اگر متعدی سے آئے گا تو وہاں تمام صیغے لازمی کی تاویل میں ہوں گے جیسے عَلَّامٌ، رَحِیۡمٌ (تفسیر بیضاوی)

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

فرق باعتبار اشتقاق

 

سوال: باعتبار اشتقاق کے اسم فاعل، اسم مفعول اور صفت میں کیا فرق ہے۔

جواب:۱۔صفت مشبہ صرف فعل لازم سے مشتق ہوتی ہے اور اسم مفعول فعل متعدی سے مشتق ہوتا اور اسم فاعل دونوں سے مشتق ہوتا ہے۔ ۲۔اسی طرح صفت مشبہ اور اسم فاعل دونوں کام کرنے والے پر دلالت کرتے ہیں اور اسم مفعول جس پر فعل (کام )واقع ہو ا س پر دلالت کرتا ہے۔

 

حزن اور فرحت کے معنیٰ والا صفت مشبہ

 

سوال: صفت مشبہ حُزن اور فرحت پر دلالت کرنے والا کس وزن پر آتا ہے۔

جواب:ایسا صفت مشبہ فَعِلٌکے وزن پر اور اس کا مؤنث فَعِلَۃٌ کے وزن پر آتا ہے جیسے رَجُلٌ حَزِنٌ، أِمرأَۃٌحَزِنَۃٌ۔رَجُلٌ فَرِحٌ۔أِمرأَۃٌ فَرِحَۃٌ۔

 

عیب، حلیہ، لون کے معنیٰ والا صفت مشبہ

 

سوال: عیب، حلیہ اور لون پر دلالت کرنے والا صفت مشبہ کس وزن پر آتا ہے۔

جواب:ایسا صفت مشبہ اَفعَلُ کے وزن پر اور اس کا مؤنث فَعلاءُ کے وزن پر آتا ہے مثلاً، اَبیَضُ، اَعوَرُ، اَعمَیٰ۔جیسے رَجُلٌ اَعْرَجُ، أِمرَأَۃٌ عَرجَاءُ، وَلَدٌ اَسمَنُ، بِنتٌ سَمنَاءُ، ثَورٌ اَسوَدُ، بَقرَۃٌ سَودَاءُ۔

 

فعلان اور فعلیٰ کے وزن والا صفت مشبہ

 

سوال: خُلُوّ اور اِمتِلاء پر دلالت کرنے والا صفت مشبہ کس وزن پر آتا ہے۔

جواب:وہ فَعلَانٌ اور فَعلیٰ کے وزن پر آتا ہے مثلاً جُوعَان، جیسے شَاۃٌ جُوعیٰ۔اَسَدٌ شَبعَانٌ۔ لَبُؤَۃٌ شَبعَیٰ، شکم سیر شیرنی

 

                ۷۔اسم تفضیل

 

سوال: اسم تفضیل کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس اسم مشتق کو کہتے ہیں جس میں مصدری معنیٰ دوسروں کے بنسبت زیادہ پائی جائی جیسے زَیدٌ اَفضَلُ مِن عَمرٍو، زید عمر سے زیادہ فضیلت والا ہے۔

سوال: اسم تفضیل کس فعل سے بنتا ہے۔

جواب: ۱۔ہر اس مصدر ثلاثی مجرد سے بنتا ہے جو رنگ اور عیب ظاہری کے معنیٰ سے خالی ہو۔۲۔اسی طرح شرط ہے کہ وہ ثلاثی ہو۔۳۔فعل تام ہو۔۴۔مثبت ہو۔۵۔فعل معروف ہو۔۶۔فعل متصرف ہو مگر نادرًا لون وعیب سے بھی آتا ہے جیسے اَحمَرُ سرخ مرد۔اَعرَجُ لنگڑا۔

 

اسم تفصیل کا عمل

 

سوال:ا سم تفضیل کیا عمل کرتا ہے اور اس کے لیئے کون سا شرط ہے۔

جواب:اس کا عمل فاعل ضمیر مستتر میں ہو گا یا ا سم ظاہر میں۔ اگر فاعل مستتر عارضی ہے تو اس میں مطلقًا عمل ہوتا ہے اور مفعول میں عمل نہیں کرتا(۱)۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)چاہے مفعول بہٖ ہویا مفعول مطلق ، یا مفعول لہٗ یا مفعول معہٗ۔  ہاں، حال اورتمیز اور ظرف میں عمل کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

اسم تفضیل کی موصوف سے مطابقت

 

سوال: اسم تفضیل کی اپنے موصوف سے مطابقت ضروری ہے یا نہیں۔

جواب:اس میں تفصیل ہے ۱۔ اگر اسم تفضیل معرف باللام ہے تو موصوف سے موافق ہو گا افراد تثنیہ جمع، تذکیر وتانیث میں جیسے جَائَنِی زَیدُنِ الاَفضَلُ۔الزَّیدَانِ الاَفضَلَانِ۔ الزَّیدُونَ الافضَلُونَ۔

۲۔ اسم تفضیل مضاف الی النکرۃ ہے یا مستعمل بمِنْ، غیر معرف باللام ہے تو اسم تفضیل کو مفرد مذکر ہی لانا واجب ہے۔ اگر چہ موصوف کیسا بھی ہو جیسے زَیدٌ اَفضَلُ مِن عَمرٍو۔ الزَّیدَانِ اَفضَلُ مِن عَمرٍو۔ الزَّیدُونَ اَفضَلُ مِن رِّجَالٍ۔

۳۔ اسم تفضیل مضاف الیٰ المعرفہ ہے تو اسم تفضیل کو مفرد مذکر اور موصوف کے موافق دونوں طرح سے لانا جائز ہے۔

جیسے جَاءَ زَیدٌ اَفضَلُ القَومِ۔ الزَّیدُونَ اَفضَلُ القَومِ۔الزَّیدُونَ اَفضَلُوا القَومِ۔ عَائِشَۃُ اَفضَلُ النِّسَاءِ۔ فُضلَی النِّسَاءِ (۱) اور اسم تفضیل کے عمل کیلئے ما قبل پر اعتماد کا ہونا شرط ہے یعنی مبتدا یا موصوف یا ذوالحال پر اعتماد ہو جیسے زَیدٌ اَفضَلُ مِن عَمرٍو اس میں زید مبتدا، افضل،  اسم تفضیل واحد مذکر، اس میں فاعل ضمیر مستتر ھو ہے۔ افضل اپنے فاعل اور متعلق سے مل کر خبر ہوا مبتدا کا، باقی فاعل اسم ظاہر میں عمل کیلئے شرائط بڑی کتابوں میں ہیں اور یہ صرف ایک مسألۃ الکحل  میں ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔

(۱)لیکن جب اسم تفضیل نکرہ کی صفت ہو تو وہ ہمیشہ مفرد  مذکر ہوگا۔ اگر چہ موصوف تثنیہ یا جمع ،مذکر یا مؤنث ہوجیسے ھُنَّ بَنَاتٌ اَکۡرَمَ فَتَیَاتٍ اور اسم تفضیل معرفہ کی صفت بنے گاتو موصوف کے مطابق ہوگا جیسے الرِّجَالُ الاَکۡرَمُونَ-النِّسَاءُ الۡکَرَمُ (نحومیسر)۔

۔۔۔۔۔۔

 

اسم تفضیل اپنے معنیٰ سے خالی

 

سوال: کیا اسم تفضیل ہمیشہ تفضیلی معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔

جواب:جی نہیں کبھی کبھار اس معنیٰ سے خالی بھی ہوتا ہے جیسے رَبُّکُم اَعلَمُ بِکُم۔

سوال: اسم تفضیل میں زیادتی کس اعتبار سے ہوتی ہے۔

جواب:اس میں زیادتی اکثر فاعل کے اعتبار سے ہوتی ہے جیسے اَضرَبُ زیادہ مارنے والا اور کبھی مفعول کے اعتبار سے بھی ہوتی ہے جیسے زَیدٌ اَشھَرُ زید زیادہ مشہور ہے۔اَعرَفُ زیادہ معروف، اَشغَلُ زیادہ کام میں لگا ہوا۔ (مشغول)

 

مفضّل اور مفضّل علیہ

 

سوال: مفضّل اور مفضّل علیہ کسے کہتے ہے۔

جواب:جس اسم میں صفت کی زیادتی ہو (۱) اس کو مفضّل اور جس کے (۲) مقابلے میں زیادتی ہو اس اسم کو مفضل علیہ کہتے ہیں جیسے زَیدٌ اَفضَلُ مِن خَالِدٍ اس میں زید مفضل اور خالد مفضّل علیہ ہے۔

سوال: مفضّل علیہ کا حذف جائز ہے یا نہیں۔

جواب:کبھی قرینہ(۳) کی وجہ سے مِن اور مفضل علیہ دونوں کو حذف کیا جاتا ہے جیسے اَللہُ اَکبَرُ در اصل اَکبَرُ مِن کُلِّ شَیءٍ۔وَالاٰخِرَۃُ خَیرٌ وَّاَبقَیٰ۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)یعنی اسم تفضیل کے فاعل کو ۔

(۲)یعنی مِنۡ کے مدخول کو ۔

(۳)بوجہ معلوم ومعین ہونے مفضل علیہ کے۔

۔۔۔۔۔

 

اسم تفضیل کا استعمال

 

سوال: اسم تفضیل کتنے طریقوں سے استعمال ہوتا ہے۔

جواب:تین طریقوں سے ۱۔ مِن سے ، اس صورت میں اسم تفضیل مفرد مذکر رہے گا جیسے زَیدٌ اَفضَلُ مِن عَمرٍو۔الزَّیدَانِ اَفضَلُ مِن عَمرٍو ۲۔ الف لام سے ، اس صورت میں یہ اپنے موصوف کے مطابق ہو گا جیسے جَاءَ زَیدُنِ الاَفضَلُ۔الزَّیدُونَ الاَفضَلُونَ ۳۔ اضافت سے ، اس صورت میں اگر اضافت معرفہ کی طرف ہے تو مطابقت واجب ہے جیسے زَیدٌ اَفضَلُ القَومِ اور اگر اضافت نکرہ کی طرف ہے تویہ ہمیشہ مفرد مذکر ہو گا جیسے الزَّیدانِ اَفضَلُ رَجُلَینِ۔الزَّیدُونَ اَفضَلُ رِجَالٍ۔ھِندٌ اَفضَلُ أمرأَۃٍ۔

نوٹ: اگر کہیں اسم تفضیل ان طریقوں سے مستعمل نہ ہو تو وہاں مِن محذوف سمجھا جائے گا جیسے اَللہُ اَکبَرُ در اصل اَللہُ اَکبَرُ مِن کُلِّ شَیءٍ۔

سوال: اسم تفضیل میں مِن کہاں محذوف ہوتا ہے۔

جواب:اسم تفضیل خبر ہو تو اکثر مِن حذف ہوتا ہے اور اگر حال ہو تو مِن قَلِیلًا حذف ہوتا ہے۔(تنویر)

 

اسم تفضیل واسم فاعل میں فرق

 

سوال: اسم تفضیل اور اسم فاعل میں کون سا فرق ہے۔

جواب:ان میں کئی وجوہ سے فرق ہے ۱۔ اسم تفضیل فاعلیت کے معنیٰ کی زیادتی پر دلالت کرتا ہے اور اسم فاعل صرف فاعلیت کے معنیٰ پر دلالت کرتا ہے ۲۔ اسم فاعل کا عمل فاعل کے علاوہ مفعول بہ وغیرہ میں بھی پایا جاتا ہے جب کہ اسم تفضیل کا عمل فاعل میں محدود ہے ۳۔اسم تفضیل غیر منصرف ہوتا ہے اور اسم فاعل اس طرح نہیں ۴۔ اسم تفضیل کے طریقہ استعال میں تین چیزوں سے کسی ایک کا ہونا شرط ہے اور  اسم فاعل میں یہ شرط نہیں۔

 

ممنوع صورت اور اسم تفضیل

 

سوال: غیر ثلاثی مجرد یا لون وعیب والے افعال سے اسم تفضیل بنانے کا کیا طریقہ ہے۔

جواب:وہی طریقہ ہے فعل التعجب والا کہ ان کی مصدر پر لفظ اَشَدُّ یا اَکثَرُ لگا نے سے اسم تفضیل بن جائے گا جیسے :

اَسوَدُ سَوَدًا زیادہ سیاہ۔ اَشَدُّ حُمرَۃً زیادہ سرخ۔

ھُوَ اَشَدُّمِنہ اِستِخراجًا، وہ زیادہ سخت ہے اس سے ازروئے نکالنے کے۔

ھُوَ اَقوَیٰ مِنہ حُمرَۃً وہ زیادہ قوی ہے  اس سے از رو ئے سرخ ہونے میں۔

ھُوَ اَقبَحُ مِنہ عَرَجًا وہ زیادہ قبیح ہے اس سے ازروئے لنگڑا ہونے کے۔

 

اسم مبالغہ

 

سوال:اسم مبالغہ کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس اسم مشتق کو کہتے ہیں جو مبالغہ کے ساتھ معنیٰ مصدری اور اس کے کرنے والے پر دلالت کرے جیسے المُؤمِنُ شَکُورٌ رَبَّہٗ،  مومن اپنے رب کا بہت شکر گذار ہوتا ہے۔

 

اسم مبالغہ کا عمل

 

سوال: اسم مبالغہ کون سا عمل کرتا ہے۔

جواب:یہ اسم فاعل کی طرح انہیں شرائط سے عمل کرتا ہے۔ ١۔اگر غیر معرف باللام ہو  تو شرط ہے کہ بمعنیٰ حال یا استقبال کے ہو اور نفی یا استفہام پر اعتماد پکڑتا ہو جیسے مَا اَنَا ضَرَّابٌ زَیدًا  اَلآنَ اَوغَدًا۔اِنَّہٗ ضَرُوبٌ زَیدًا۔وَاِنَّہٗ کَرِیمٌ زَیدًا۔  ٢۔ اگر معرف باللام ہو تو مطلقًا بغیر کسی شرط کے عمل کرے گا جیسے جَاءَ الضَّرَّابُ زَیدًا اَلآنَ اَوغَدًا اَو اَمسِ لیکن واضح رہے کہ مبالغہ میں سے  فَعَّالٌ، فَعُولٌ، مِفَعالٌ کا عمل کثیر ہے اور فَعِیلٌ وَ فِعَلٌ کا عمل قلیل ہے۔

 

مبالغہ اور اسم تفضیل میں فرق

 

سوال: اسم تفضیل اور مبالغہ میں کون سا فرق ہے۔

جواب:۱۔مبالغہ میں زیادتی ذاتی ہوتی ہے جیسے رَجُلٌ طَلُوبٌ بہت طلب کرنے والا مرد۔ زَیدٌ ضَرَّابٌ زید بہت مارنے والا اور اسم تفضیل میں زیادتی دوسرے کے اعتبار سے ہوتی ہے جیسے زیدٌ اَضربُ الناس۔۲۔ اسم تفضیل میں مذکر اور مؤنث کے اوزان مقرر ہیں بخلاف مبالغہ کے کہ اسمیں مذکر اور مؤنث کے اوزان مقرر نہیں۔۳۔ اسم تفضیل کے اوزان قیاسی ہیں، بخلاف مبالغہ کے اس کے اوزان سماعی ہیں۔

سوال: فعل کے مشتقات میں فعل کی طرح غائب مخاطب اور متکلم کا لحاظ ہوتا ہے یا نہیں۔

جواب: اسم فاعل، اسم مفعول، صفت مشبہ اور مبالغہ اور ظرف و اسم اٰلہ میں غائب مخاطب اور متکلم کا لحاظ نہیں ہوتا بلکہ یہ سب میں برابر استعمال  ہوتے ہیں۔

 

                ۸۔مصدر

 

سوال: مصدر کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس اسم کو کہتے ہیں جو فعل کیلئے مأخذ اور مشتق منہ ہو(۱) جیسے الضَّرْبُ  مارنا، اس کی علامت یہ ہے کہ فارسی میں اس کے معنیٰ میں "دن یا تن” آتا ہے اور اردو میں "نا”۔

۔۔۔۔۔

(۱)اور صرف حدث پر دلالت کرے۔

۔۔۔۔۔

 

مصدر لازمی کا استعمال

 

سوال: مصدر کا معنیٰ کون سا ہوتا ہے۔

جواب:۱۔اس کا معنیٰ معروف بھی ہوتا ہے اور مجہول بھی ۲۔بعض اوقات دونوں ہوتے ہیں جیسے قَتلٌ مارنا اور مارا جانا ۳۔بعض اوقات یہ معنیٰ محض مجہول ہی ہوتا ہے جیسے وُجُودٌ پایا جانا یعنی موجودگی ۴۔اگر یہ معروف ہو گا تو صرف وِجدان کے معنیٰ میں ہو گا یعنی پانا۔

 

مصدر کا عمل

 

سوال: مصدر کون سا عمل کرتا ہے۔

جواب:یہ اپنے فعل جیسا عمل کرتا ہے بلا شرط زمانہ  پہر مصدر لازمی ہے تو فاعل کو رفعہ اور چھ اسموں کو نصب دے گا جیسے اَعجَبَنِی قِیَامٌ زَیدٌ مجھ کو زید کے کھڑے ہونے نے تعجب میں ڈالا۔ اَعجَبَنِی ضَربٌ زَیدٌ عَمرًوا   زید کے عمرو کو مارنے نے مجھ کو تعجب میں ڈالا۔

سوال: مصدر معرف باللام میں عمل کرتا ہے یا نہیں۔

جواب:جی ہاں کبھی کبھار معرف باللام میں عمل کرتا ہے۔

 

مصدر کے عمل کے شرائط

 

سوال: مصدر کے عمل کیلئے کون سے شرائط ہیں۔

جواب:چند شرائط یہ ہیں ۱۔ مصدر مفعول مطلق نہ ہو۲۔ مصدر مفرد ہو، تثنیہ جمع نہ ہو ۳۔مصدر موصوف نہ ہو ۴۔ مصدر معرف باللام نہ  ہو۵۔ مصدر مصغر نہ ہو ۶۔معمول مصدر سے مقدم  نہ ہو ۷۔مصدر محذوف نہ ہو  ۸۔فاصلہ نہ ہو  ۹۔ضمیر نہ ہو ۱۰۔ خبر نہ ہو۔ ۱۱۔مصدر میں تاء وحدت بھی نہ ہو، خارج ہو ا رَحمَۃٌ۔

سوال: مصدر کا فاعل محذوف ہوتا ہے یا نہیں۔

جواب:اس کے فاعل کا حذف جائز ہے ، لیکن فاعل کا مستتر ہونا جائز نہیں۔

 

مصدر مضاف کی صورتیں

 

سوال: مصدر مضاف ہوتا ہے یا نہیں۔

جواب:جی ہاں مصدر فاعل کی طرف مضاف ہوتا ہے جیسے اَعجَبَنِی قِیَامُ زَیدٍ اس وقت فاعل مجرور لفظًا، مرفوع معنیً ہو گا۔

 

مصدر متعدی کا استعمال

 

اس کی پانچ صورتیں ہیں، اگر مصدر متعدی ہے تو فاعل کو رفعہ اور سات چیزوں کو نصب دے گا ١۔مصدر بغیر اضافت کے ہو جیسے ضَربٌ زَیدٌ عَمرًوا۔ ۲۔ مصدر مضاف ہو فاعل کے طرف اور مفعول بہ مذکور ہو جیسے ضَربُ زَیدٍ عَمرًوا۔  ۳۔ مصدر مضاف ہو فاعل کے طرف اور مفعول بہ محذوف ہو جیسے عَجِبتُ مِن ضَربِ زَیدٍ ۴۔مصدر مضاف ہو بطرف مفعول اور فاعل مذکور ہو جیسے ضَربُ زَیدٍ عَمرٌو۔ عَجِبتُ مِن ضَربِ الِّلصِّ الجَلَادُ جلاد کے چور کو مارنے نے مجھ کو تعجب میں ڈالا ۵۔مصدر مضاف ہو بطرف مفعول اور فاعل محذوف ہو جیسے ضَربُ عَمْرٍو۔لاَ یَسأَمُ الاِنسَانُ مِن دُعَاءِ الخَیرِ اَی مِن دُعائِہِ الخَیرِ۔

پہر مصدر لازمی ظرف کے طرف مضاف ہوتی ہے ، جیسے قِیَامُ اللَّیلِ یا فاعل کی طرف جیسے قُعُودُ زَیدٍ۔ اسی طرح مفعول کو فاعل پر مقدم کرنا بھی جائز ہے۔

 

مصدر کی کثیر الاستعمال صورتیں

 

سوال: مصدر کی کون سی صورت کثیر الاستعمال ہوتی ہے۔

جواب:١۔مصدر بالاضافتہ اکثر ہے جیسے لَولَا دَفعُ اللہِ النَّاسَ ٢۔مصدر مُنَوَّن ہو کر عمل کرنا اور مضاف نہ ہونا قیاسی اور اولیٰ ہے۔ جیسے اَوْاِطعَامٌ فِی یَومٍ ذِی مَسغَبَۃٍ یَّتِیمًا ٣۔مصدر مع اللام شاذہے جیسے وَکَیفَ التَّوَقِّی ظَھرَ مَا اَنتَ رَاکِبُہٗ۔

 

مصدر میمی اور اس کا عمل

 

سوال: مصدر میمی کسے کہتے ہیں اور وہ کیا عمل کرتا ہے۔

جواب:اس مصدر کو کہتے ہیں جسکے شروع میں میم زائدہ ہو اور وہ مصدری معنیٰ دے اور وہ زیادہ طور مفعول مطلق بنتا ہے جیسے نَطَقَ مَنطِقًا۔

 

                ۹۔اسم مضاف

 

سوال: مضاف اور اضافت کسے کہتے ہیں۔

جواب:مضاف باب افعال سے اسم مفعول ہے ، اور اضافت اس کی مصدر ہے ، لغت میں بمعنیٰ ایک چیز کو دوسری چیز کی طرف مائل کرنا اور اصطلاح میں اس نسبت اور تعلق کو کہتے ہیں جو دو اسموں کے درمیاں ہو پہلے اسم کو مضاف بمعنیٰ (اضافت کیا گیا) اور دوسرے کو مضاف الیہ (جسکی طرف اضافت کی گئی )کہتے ہیں۔

 

مضاف کا عمل

 

سوال: اسم مضاف کیا عمل کرتا ہے۔

جواب:یہ مضاف الیہ کو جر دیتا ہے جیسے جَائَنِی غُلَامُ زَیدٍ۔

 

مضاف کا حکم

 

سوال: مضاف کا کیا حکم ہے۔

جواب:مضاف پر تنوین، نون تثنیہ و جمع اور الف لام داخل نہیں ہوتا لیکن چند صورتوں میں الف لام آ سکتا ہے ۱۔جب مضاف صیغہ صفاتی ہو اور مضاف الیہ ضمیر ہو جیسے الضَّارِبُکَ ۲۔ جب مضاف صیغہ صفاتی ہو اور مضاف الیہ معرف باللام ہو جیسے الضَّارِبُ الرَّجُلِ۔ یا مضاف تثنیہ یا جمع ہو جیسے الضَارِبا زیدٍ، الضاربو زیدٍ (القول الظھیر)

 

اضافت لفظی و معنوی

 

سوال: اضافت کتنے قسم ہے۔

جواب:دوقسم ہے اضافت لفظی۔اضافت معنوی۔

سوال: اضافت لفظی کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس اضافت کو کہتے ہیں جس میں صیغہ صفاتی یا مصدر اپنے معمول کے طرف مضاف ہو جیسے ضَارِبُ زَیدٍ۔

سوال: اضافت معنوی کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس اضافت کو کہتے ہیں کہ صیغہ صفاتی یا مصدر اپنے معمول کے طرف مضاف نہ ہو بلکہ صیغہ صفاتی کا غیر اپنے معمول کے طرف مضاف ہو۔ پھر اس کی تین صورتیں ہیں ۱۔ نہ صیغہ صفاتی ہو، نہ اپنے معمول کے طرف مضاف ہو جیسے غُلامُ زَیدٍ ٢۔صیغہ صفاتی ہو لیکن اپنے معمول کے طرف مضاف نہ ہو جیسے کَرِیمُ البَلَدِ ٣۔صیغہ صفاتی نہ ہو  لیکن معمول کی طرف مضاف ہو جیسے ضَربُ زَیدٍ۔

 

صیغہ صفاتی

 

سوال: صیغہ صفاتی سے کیا مراد ہے۔

جواب:اس سے مراد ہیں اسم الفاعل۔اسم المفعول۔صفت مشبہ، اسم تفضیل اور معمول سے مراد ہے فاعل اور مفعول بہ۔

 

اضافت معنوی کے اقسام

 

سوال: اضافت معنوی کتنے قسم ہے۔

جواب:تین قسم ہے ١۔اضافت لامی/لِمِّی٢۔اضافت مِنِّی ٣۔اضافت فی /فِیوی۔

سوال: اضافت معنوی  کسے کہتے ہیں۔

جواب: اس اضافت کو کہتے ہیں کہ جس میں مضاف الیہ نہ مضاف کی جنس ہو، نہ مضاف کیلئے ظرف ہو۔ اور اس میں مضاف اور مضاف الیہ کے درمیان لام جارہ مقدر ہوتا ہے جیسے غُلامُ زَیدٍ دراصل غُلامٌ لِزَیدٍ(۱)۔

سوال: اضافت منی(۲) کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس اضافت کو کہتے ہیں جس میں مضاف الیہ، مضاف کا اصل اور اس کا جنس ہو اور اس میں مِن جارہ مقدر ہوتا ہے جیسے خَاتَمُ فِضَّۃٍ دراصل خَاتَمٌ مِن فِضَّۃٍ چاندی کی انگوٹھی۔

سوال: اضافت فیوی(۳) کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس اضافت کو کہتے ہیں جس میں مضاف الیہ مضاف کیلئے ظرف ہو اور اس  کے درمیاں فِی جَارہ مقدر ہو جیسے صَلَوٰۃُ اللَّیلِ، ضَربُ الیَومِ دراصل ضَربٌ فِی الیَومِ، دن کی مار۔

۔۔۔۔۔

(۱)اور اس میں مضاف اور مضاف الیہ کے درمیاں تغایر ہوتا ہے ۔

(۲)ااس کو اضافت بیانی بھی کہتے ہیں۔

(۱)ااس کو اضافت ظرفیہ بھی کہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔

 

اضافت لفظی و معنوی کا فائدہ

 

سوال: اضافت لفظی اور معنوی کس چیز کا فائدہ دیتی ہے۔

جواب:اضافت لفظی تخفیف کا فائدہ دیتی ہے (۱) اور معنوی تعریف کا فائدہ دیتی ہے ، جب اضافت معرفہ کے طرف  ہو جیسے غلامُ زیدٍ اور اگر اضافت ہو نکرہ کے طرف تو تخفیف کا فائدہ دیتی ہے جیسے غلامُ رجلٍ۔

۔۔۔۔۔۔

(۲)یعنی  تخفیف اور تخصیص کا فائدہ نہیں دیتی ۔اور تخفیف کا فائدہ دونوں اضافتیں دیتی ہیں اور اضافت لفظی میں مضاف پر الف لام داخل ہوتا ہے جیسے الضّاربُ الرَّجُلِ ۔

۔۔۔۔۔۔

 

اضافت میں تخفیف

 

سوال:  اضافت میں تخفیف کی کتنی صورتیں ہوتی ہیں۔

جواب:تین صورتیں ہوتی ہیں ۱۔تخفیف صرف مضاف میں ہو ۲۔مضاف الیہ میں ہو۳۔مضاف اور مضاف الیہ دونوں میں ہو۔

سوال:  مضاف میں تخفیف کا کیا مطلب ہے۔

جواب:اس کا مطلب یہ ہے کہ نون تنوین یا اس کے قائم مقام (یعنی نون تثنیہ و جمع)کو حذف کر دیا جائے جیسے ضاربُ زیدٍ۔ضارِبا زیدٍ، ضاربُو زیدٍ، دراصل ضاربان -ضاربون۔

سوال:مضاف الیہ میں  تخفیف کا کیا مطلب ہے۔

جواب:مضاف الیہ میں تخفیف کا مطلب یہ ہے کہ مضاف الیہ سے ضمیر کو حذف کر کے مضاف میں مستتر کیا جائے جیسے القائمُ الغلامِ دراصل القائمُ غلامُہٗ۔ زَیدٌ قائمُ الغُلامِ یہاں مضاف سے تنوین  ساقط کی گئی ہے اور مضاف الیہ سے تعریف۔اور ضمیر کو حذف کر کے قائمٌ میں پوشیدہ کیا گیا ہے دراصل زَیدٌ قائمٌ غُلامُہٗ(۱)۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)ااس کو اضافت ظرفیہ بھی کہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔

 

بعض اسماء واجب الاضافۃ

 

سوال: کون سے اسماء کی اضافت جائز ہے اور کون  سے اسماء کی اضافت واجب ہے۔

جواب:اس کی کئی قسمیں ہیں ١۔وہ اسماء جن میں اضافت اور عدم اضافت دونوں درست ہیں اور یہ اسماء کثیرہ ہیں جیسے غلام، ثوب وغیرھم ۲۔ ممتنع الاضافۃ جن  کی اضافت واقع نہیں ہوتی جیسے مُضمرات، اشارات، موصولات، اسماء شرط اور  استفہام،  ماسویٰ ایٌّ کے ۳۔ لازم الاضافۃ اس کی تین قسمیں ہیں جیسے کُلّ اور بعض، یہ لازم الاضافت الیٰ المفرد ہیں، لیکن ان کے مضاف الیہ کا حذف کرنا جائز ہے جیسے کُلٌّ فی فَلَکٍ یسبَحُونَ ۴۔ اور بعض اسماء لازم الاضافت ہیں ان کے مضاف الیہ کا حذف جائز نہیں جیسے اسم ظاہر اور ضمیر کی طرف مضاف  جیسے کِلا کِلتا، عِند، لَعُمری  یا جو فقط اسم ظاہر کی طرف مضاف ہو جیسے اولی، اولات، ذی، ذات یا جو ضمیر کے ساتھ خاص ہو جیسے وحد مثلاً اذا دُعِیَ اللہُ وَحدَہٗ ۵۔ بعض اسماء لازم الاضافت الیٰ الجملہ ہوتے ہیں جیسے اِذ، حیثُ مثلاً واذ کرُوا اِذ اَنتُم قَلِیلًا۔ جَلَستُ حَیثُ جَلَسَ زَیدٌ ۶۔ اور اسی طرح کوئی اسم اپنے مرادف کے طرف مضاف نہیں ہوتا لہذا لَیثُ اَسدٍ کہنا غلط ہے۔ (تنوير)

سوال: کیا مضاف کا حذف کرنا جائز ہے۔

جواب:قرینہ کے وقت مضاف کو  حذف کر کے اور  مضاف الیہ کو اس کی جگہ رکھنا جائز ہے جیسے جاءَ رَبُّکَ ای اَمْرُرَبِّکَ۔

اضافۃ الموصوف الی الصفۃ

سوال: موصوف کی اپنے صفت کی طرف اضافت ہوتی ہے یا نہیں۔

جواب:نہ موصوف، صفت کی طرف مضاف ہوتا ہے اور نہ صفت، موصوف کی طرف لہذا رَجُلُ فَاضِلٍ اور فَاضِلُ رَجُلٍ کہنا غلط ہو گا۔البتہ کبھی صفت کی اضافت موصوف کی طرف ہوتی ہے۔جب مضاف اور مضاف الیہ کے درمیان "مِن” محذوف ہو جیسے کرام الناس ای الکرام من الناس۔اسی طرح موصوف کی اضافت بھی جائز ہے جب مضاف الیہ  محذوف ہو جیسے صلوٰۃ الاولی ای صلوٰۃ الساعۃ الاولیٰ۔ (جامع الدروس العربیہ ج۲ ص ۲۱۳)

 

                ۱۰۔اسم تام

 

اس کا بحث تمیز کے تحت ہو چکا ہے۔

 

                ۱۱۔عدد، معدود

 

سوال: عدد کس کو کہتے ہیں۔

جواب:عدد کالغوی معنیٰ ہے گننا، شمار کرنا۔ اصطلاح میں عدد ذاتی ان رموز کو کہتے ہیں جن سے اشیاء  کے افراد کی کمیت وتعداد بتائی جائے جیسے ۲۔۴۔ ١٠ و غیرہ اور جس کی تعداد بتائی جائے اسے معدود کہتے ہیں۔

سوال: اعداد کے بحث میں کتنی چیزیں اہم ہوتی ہیں۔

جواب:١۔ (تمیز) معدود کی وحدت وجمعیت ۲۔ معدود (تمیز) کا اعراب۳۔اعداد کی  تذکیر وتانیث۔

 

عدد اقل و اکثر

 

سوال: اسماء عدد باعتبار تمیز کے کتنے قسم ہیں۔

جواب:تین قسم ہیں ۱۔ عدداقل تین سے لے کر دس تک اس کو عدد اقل کہتے ہیں ۲۔عدد اوسط گیارہ سے لے کر ننانوے تک یہ مرکب ہوتا ہے اس کو عدد اوسط کہتے ہیں ۳۔عدد اکثر سوسے لے کر مالانھایۃ(۱)  تک اس کو عدد اکثر کہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔

(۱)یعنی غیر متعین عدد۔

۔۔۔۔۔۔

 

تمیز جمع مجرور اور مفرد منصوب

 

سوال اسماء عدد کے تمیز کا کون سا طریقہ ہے۔

جواب:واضح رہے کہ ایک دو (واحد، اثنان) کی تمیز نہیں آتی کیونکہ ایک دو کا معنیٰ خود بخود ان کے تمیز / معدودسے  حاصل ہو جاتا ہے جیسے رجلٌ ایک مرد، رجلانِ دومرد کتابٌ وکتابان۔

عدد اقل: تین سے دس تک کا معدود /تمیز ہمیشہ مجرور آتا ہے ، خلاف قیاس کے ، یعنی تمیز مذکر ہے تو عدد کو مؤنث لائیں گے اور اگر تمیز مؤنث ہے تو عدد کو مذکر لائیں گے جیسے ثلاثۃُ رجال}۔ ثلاثُ نسوۃ }۔

عدد اوسط: اس کا تمیز /معدود مفرد منصوب آتا ہے یعنی ١١۔١٢ میں قیاس کے موافق، تمیز /معدود مذکر تو عدد کے دونوں جزء مذکر ہوں گے۔اگر تمیز مؤنث ہو گا تو عدد/معدود کے دونوں جزء مؤنث ہوں گے جیسے احدَ عشرَ رجُلًا، احدیٰ عشرۃَ امراۃً یعنی ایک، دو اپنے تمیز کے ساتھ ذکر نہیں ہوتے ۲۔ بشرطیکہ عدد اقل کا تمیز خودمِأَۃ کا لفظ نہ ہو، اگر ہو گا توتمیز  مفرد مجرور ہو گا جیسے ثلٰثُ مِأَۃٍ، اثناعشرَ کتابًا۔

اور  ۱۳سے لے کر ۱9تک

۲۳ سے ۲9     ۴۳ سے ۴9     6۳ سے 69    8۳ سے 89

۳۳ سے ۳9     5۳ سے 59    7۳ سے 79    9۳ سے 99

ان کی تمیز خلاف قیاس ہو گی۔اگر تمیز مؤنث ہو تو عدد کے دو جزؤوں میں سے پہلا جز ء مذکر ہو گا۔اور  اگر تمیز مذکر ہو تو عدد کا پہلا جز ءمونث ہو گا جیسے ثلٰثۃَ عشرَ رجلاً۔

ثلٰثَ عشرۃَ  أمرأۃً۔ قرآنی مثال اَحَدَ عشرَ کوکبًا۔

عدد  اکثر : مأۃ و الف (یعنی سو، ہزار )اور  اس سے زیادہ کا تمیز مفرد مجرور آتا ہے جیسے مِأَۃُ رجلٍ، الفُ سَنَۃٍ۔ مِئَتَی دِرھمٍ  اور اگرسؤ کے ساتھ چھوٹا عدد بھی آ جائے تو تمیز چھوٹے عدد کے تابع ہو گا جیسے مِأَۃٌ وَّعِشْرُونَ کُتُبٍ۔

البتہ  آٹھ عقود اکیلے استعما ل ہوں یاکسی عدد کے ساتھ مل کر استعمال ہوں ہمیشہ ایک ہی حال پر رہیں گے ، خواہ ان کی تمیز مذکر ہویا مؤنث جیسے عشرونَ، ثلٰثونَ، اربعونَ، خمسُونَ، سِتُّونَ، سبعونَ، ثمانونَ۔ تسعون

اور اس کے بعد ٣ سے ٩تک کا عدد مؤنث تمیز کے ساتھ مذکر استعمال ہو گاجیسے عشرونَ رجلًا۔ عشرونَ أمرأۃً، ثلاثٌ وَّعشرون ساعۃً(۱)۔

سوال:ممیز  اور تمیز کا ترجمہ کیسے ہوتا ہے۔

جواب:ممیز اور تمیز میں ترجمہ ممیز سے شروع ہوتا ہے۔ جیسے احدَ عشرَ کو کبًا، معنیٰ گیارہ  ستارے۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)اسی طرح الف وملیون کے بعد تمیز مفرد ومجرور آتی ہےاور  مذکر و مؤنث اس میں برابر ہیں، اگر ان کے ساتھ چھوٹا عدد بھی ہوتو تمیز اس کے تابع ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔

 

ممیز اور تمیز کا حکم

 

سوال: ممیز اور تمیز مل کر پورا جملہ ہوتے ہیں یا جملہ کا جزء۔

جواب:یہ جملہ کا جزء ہوتے ہیں جیسے عِندِی احدَ عشرَ کِتَابًا اس میں ممیز اور تمیز مل کر مبتدا بنے ہیں خبر کے۔

 

عدد کے پڑھنے کا طریقہ

 

سوال:اعداد پڑھنے کا کون سا طریقہ ہے۔

جواب:فصیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے چھوٹی پھر بڑی گنتیاں پڑھی جائیں جیسے ١٢٥ مردوں کے لیئے خَمسَۃٌ وَّعِشرُونَ وَمِأَۃُ رَجُلٍ کہا جائے گا لیکن اس کے برعکس پڑھنا بھی جائز ہے جیسے مِأَۃٌ وَّ خَمسَۃٌ وَّعِشرُونَ رَجُلاً۔

 

عدد وصفی

 

سوال: کیا عدد کسی اور معنیٰ میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

جواب:جی ہاں عدد صفت کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی جس سے افراد کے ترتیب کا فائدہ حاصل ہو جیسے ثانی، ثالث، رابع -دوسرا، تیسرا، چوتھا اور اس  کی کئی صورتیں ہیں۔

ا۔ایک سے دس تک  (واحد سے عاشر )فاعِلٌ کی وزن پر آتا ہے اور وہ تذکیر تانیث، تعریف تنکیر میں اپنے موصوف کے مطابق ہوتا ہے جیسے الیومُ الثانی۔السَّنَۃُ العَاشِرَۃُ۔

٢۔گیارہ سے انیس (حادی عشر سے تاسع عشر) تک اس کا جزء اول فاعلٌ کے وزن پر اور جزءثانی اپنے حال پر ہوتا ہے اور وہ مبنی پرفتح ہوتا ہے اورا پنے موصوف کے مطابق ہوتا ہے تذکیر تانیث اور تعریف تنکیر میں جیسے الیَومُ الثَّالِثَ عَشَرَ۔السَّنَۃَ التَّاسِعَۃَ عَشَرَۃَ۔

۳۔ اکیس سے ننانوے (۱) (واحد والعشرین سے تاسع والتسعین) تک میں جزء اول  مذکر کیلئے فاعِلٌ اور مؤنث کیلئے فاعلۃٌ کے وزن پر استعمال ہوتا ہے اور جزء ثانی اپنے حال پر ہوتا ہے۔ لیکن دونوں جز ءموصوف کے مطابق ہوتے ہیں تعریف تنکیر، رفع نصب اورجر میں جیسے الیَومُ الثَّالِثُ وَالعِشرُونَ۔ السَّنَۃُ التَّاسِعَۃُ وَالعِشرُونَ۔

۔۔۔۔۔

(۱)یعنی ۲۱ سے ۱۹ ، ۳۱ سے ۳۹،  ۴۱ سے ۴۹، ۵۱ سے ۵۹، ۶۱ سے ۶۹، ۷۱ سے ۷۹، ۸۱ سے ۸۹، ۹۱ سے ۹۹۔

۔۔۔۔۔

 

                ۱۱۔اسماء کنایہ

 

کنایہ کی تعریف اور اقسام پہلے گذر چکے ہیں۔

 

کذا کا عمل

 

سوال: کذا (۱) کون سا عمل کرتا ہے۔

جواب:یہ صرف خبریہ ہوتا ہے  اور تمیز کو نصب دیتا ہے جیسے عِندی کَذَا دِرْھَمًا میرے پاس اتنے درھم ہیں، اور اس کی تمیز مفرد منصوب ہوتی ہے۔

۔۔۔۔۔

(۱)ان الفاظ کنائیہ میں بھی ابھام ہوتا ہے جسکو دور کرنے کیلئے ممیز کی ضرورت ہوتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔

کم اور کذا میں فرق

 

 

سوال: کَمْ او رکذا میں کون سا فرق ہے۔

جواب:کذا کی تمیز منصوب ہوتی ہے ، اور واحد جمع دونوں طرح آتی ہے اور تکثیر میں یہ کَمْ کی طرح ہے جیسے قَبَضتُ کَذَا وَ کَذَا دِرَھمًا۔اِصطَدتُّ کَذَا وَکَذَا عَصَافِیرَ میں نے اتنے اتنے پرندوں کا شکار کیا۔

سوال: کیا  کَمْ کی تمیز حذف بھی ہوتی ہے۔

جواب:۱۔ جی ہاں کبھی کبھار اس کی تمیز حذف ہوتی ہے جیسے کَم اَولَادُ کَ۔ دراصل کَم وَلَدًا اَولاَدُکَ۔

 

کم استفہامیہ اور خبر یہ میں فرق

 

سوال: کَمْ استفہامیہ اور خبر یہ میں کون سا فرق ہے۔

جواب:۱۔یہ دونوں ابتدا کلام کو چاہتے ہیں لیکن  کم استفہامیہ کی تمیز مفرد  منصوب اور جمع مجرور ہوتی ہے۔خبر یہ کی مفرد مجرور ۲۔ خبر یہ ماضی کے ساتھ خاص ہے اور استفہامیہ عام ہے ۳۔ کم خبر یہ میں مخاطب سے جواب مطلوب نہیں ہوتا، بخلاف استفہامیہ کے ۴۔ خبر یہ میں صدق وکذب کا احتمال ہوتا ہے ، بخلاف استفہامیہ کے ۵۔خبر یہ کی تمیز میں بوقت ضرورت فاصلہ جائز ہے ، اور استفہامیہ میں بغیر ضرورت کے بھی جائز ہے۔

 

کم کی ترکیب

 

سوال: کَمْ ترکیب میں کیا واقع ہوتا ہے۔

جواب:یہ اپنے تمیز کے ساتھ مل کر جملہ کا جز ءبنتا ہے اور تینوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ مرفوع محلا، منصوب محلا، مجرور محلا۔پھر دیکھیں گے ۱۔اگر کَمْ کے بعد عمل سے اعراض کرنے والا فعل ہے تو کَمْ منصوب ہو گا مفعول بہ کی وجہ سے جیسے کَمْ رَجُلًا ضربتُ یا منصوب ہو گا مطلق ہونے کے وجہ سے جیسے کم ضَرَبَۃً ضَرَبْتُ یا مفعول فیہ ہونے کی وجہ سے جیسے کَمْ یومًا سِرتُ۔ کَمْ یومٍ صُمتُ۔

۲۔اور کَمْ سے پہلے حرف جارہ یا مضاف ہو گا تو کَمْمجرور ہو گا جیسے بِکَم رَجُلاً مَرَرتُ-غُلاَمَ کَم رَجُلًا ضَرَبتُ۔مَالَ کَم رَجُلٍ سَلَبتُ۔

۳۔اگر منصوب اور مجرور والے شرائط نہ ہوں تو کَمْ مرفوع ہو گا۔ پھر اگر ظرف ہے تو خبر بنے گا جیسے کَم یَومٍ سَفَرُکَ۔کَم شَھرٍ صَومِی۔اور اگر ظرف نہیں ہے تو مبتدا ہو گا جیسے کَم رَجُلاً اَخُوکَ۔کَم رَجُلٍ ضَرَبتُہٗ۔

نوٹ: کبھی مِن جارہ کَم خبر یہ کی تمیز پر داخل ہوتا ہے جیسے کَم مِّن مَّلَکٍ فِی السَّمٰوٰاتِ  آسمان میں بہت ہی فرشتے ہیں۔

سوال: کَمْ اور کَأَیِّنْ میں کیا فرق ہے۔

جواب:کَأَیِّنْ یہ بمنزل کَمْ خبر یہ کے ہے اور اس کی تمیز مجرور اور منصوب دونوں طرح آتی ہے جیسے کَأَیِّنْ لَّنَا فَضلًا۔ کَاَیِّنْ مِّن دَابَّۃٍ لَا تَحمِلُ رِزقَھَا۔

 

۲۔عوامل معنوی

 

سوال: عوامل معنوی کتنے ہیں۔

جواب:دو ہیں ۱۔ مبتدا خبر میں(۱) ۲۔ فعل مضارع میں۔

۔۔۔۔۔

(۱) اور مبتدا کی قسم ثانی میں جیسے أَقائمٌ زیدٌ ۔

۔۔۔۔۔

 

مبتدا خبر کا عامل

 

سوال: مبتدا خبر میں کون سا عامل معنوی ہے اور  وہ کیا عمل کرتا ہے۔

جواب:مبتدا میں عامل معنوی ہے ابتدا، یہ مبتدا خبر دونوں کو رفعہ کرتا ہے جیسے زیدٌ قائمٌ۔

 

ابتدا

 

سوال: عامل معنوی ابتدا کسے کہتے ہیں۔

جواب:ابتدا کہتے ہیں خالی ہونا اسم کا عوامل لفظیہ سے۔

 

مبتدا خبر کا عامل لفظی، معنوی

 

سوال: مبتدا خبر دونوں میں عامل معنوی ہے یا کسی میں عامل لفظی بھی ہے۔

جواب:اس میں تین مذاہب ہیں ا۔ مبتدا خبر دونوں میں عامل معنوی(۱) ابتدا ہے۔

۲۔مبتدا میں عامل معنوی ہے ابتدا اور خبر میں عامل لفظی ہے مبتدا، یہ مذہب امام سیبویہ ؒ  کا ہے ٣۔مبتدا میں عامل لفظی ہے خبر اور خبر میں بھی عامل لفظی ہے مبتدا، یہ کوفیین کا  مذہب ہے۔

۔۔۔۔۔۔

(۱) یہ مذہب بصریین اور علامہ زمخشری رحہ کا ہے اور یہی مختار مذہب ہے۔

۔۔۔۔۔

 

فعل مضارع میں عامل معنوی

 

سوال: فعل مضارع میں کون سا عامل معنوی ہے اور وہ کیا عمل کرتا ہے۔

جواب:اس میں عامل معنوی ہے تَجَرُّد عَنِ العَوَامِلِ النَّوَاصِبِ وَالجَوَازِمِ یعنی خالی ہونا فعل مضارع کا عوامل ناصب اور جازم سے۔یہ فعل مضارع کو رفعہ دیتا ہے جیسے یضربُ زیدٌ یہاں یضربُ عامل معنوی کی وجہ سے مرفوع ہے۔

 

خاتمہ۔ فوائد متفرقہ

 

اس میں تین فصل ہیں

فصل اول۔ توابع

واضح رہے کہ جو مرفوعات منصوبات مجرورات ہم نے پڑھے ہیں ان کی اعراب بالاَصالۃ تھی، لیکن بعض کلمات تابع ہونے کی حیثیت سے ثانوی درجہ میں بھی آتے ہیں اب ان کا ذکر ہو گا۔

 

تابع اور اس کے شرائط

 

سوال: تابع کسے کہتے ہیں۔

جواب:تابع کا لغوی معنیٰ ہے پیچھے لگنا، پیچھے آنا، پیروی کرنا اور اصطلاح میں تابع(۱) وہ کلمہ ہے جس میں چار شرائط پائے جائیں۱۔ وہ کلمہ جو دوسری جگہ پر واقع ہو، اس سے مبتدا خارج ہوا۔ ۲۔ پہلے لفظ کے اعتبار سے ، دوسری جگہ پر واقع ہو۳۔ پہلے لفظ کے اعراب جیسا اعراب رکھتا ہو، اس سے انَّ وغیرہ کی خبر خارج ہو گئی ۴۔ دونوں کا اعراب ایک جہت سے ہو، اس سے مبتدا کی خبر خارج ہو گئی۔ اتفافی مثال جیسے جائنی رجلٌ عالمٌ یہاں دونوں کو فاعلیت کی وجہ سے رفعہ ہے اور تابع میں پہلے لفظ کو متبوع، (پیروی کیا ہوا )اور دوسرے کو تابع کہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)تابع سے مراد وہ لفظ ہے جو حالت اور اعراب میں اپنے سابق کا پیرو ہو ۔

۔۔۔۔۔

 

تابع کا اعراب

 

سوال: تابع کو کون سا اعراب ہوتا ہے۔

جواب: تابع کو اپنے متبوع والا اعراب ہوتا ہے یعنی صفت کو موصوف والا، بدل کو مبدل منہ والا اور معطوف کو معطوف علیہ والا اعراب ہوتا ہے۔

 

تابع کے اقسام

 

سوال: تابع کتنے قسم ہے۔

جواب:پانچ قسم ہے۔صفت، تاکید، بدل، عطف بحرف، عطف بیان۔

 

توابع کا وجہ حصر

 

سوال: توابع کا وجہ حصر کیا ہے۔

جواب : تابع دو حال سے خالی نہیں مُقَوِّی حکم ہو گا یا نہیں، اگر مقوِّی حکم ہے تو وہ تاکید ہے ، اگر نہیں تو مبیّن ہو گا یا نہیں، اگر مبیّن ہے اور مشتق ہے تو وہ صفت ہے ، اگر مشتق نہیں تو وہ عطف بیان ہو گا۔اور اگر مبیّن نہیں مگر درمیاں میں حرف عطف ہے تو یہ عطف بالحرف ہو گا اور اگر حرف عطف نہیں ہے تو وہ بدل ہو گا۔

 

                ۱۔صفت

 

سوال: صفت کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس تابع(۱)  کو کہتے ہیں جو اپنے موصوف کی وضاحت(۲)  کرے۔

۔۔۔۔۔

(۱)مشتق کو۔

(۲)یا تخصیص کرے ۔

۔۔۔۔۔۔

 

موصوف اور صفت کی علامات

 

سوال: موصوف اور صفت کی علامات کون سی ہیں۔

جواب:بظاہر اس کی کئی علامات ہیں ۱۔ دو اسم ہوں اور دونوں پر الف لام ہو۲۔ یا دونوں پر تنوین ہو ۳۔ اسی طرح تین چار یا پانچ اسموں پر الف لام آ جائے تو پہلا موصوف اور باقی صفات ہوں گی۔ ۴۔ نکرہ کے بعد فعل آ جائے تو یہ عام طور پر موصوف صفت بنتے ہیں بشرطیکہ وہ فعل جزا کے قائم مقام نہ ہو جیسے حُرُوفٌ تَجُرُّ الاِسمَ فَقَط  ٥۔اسم موصول سے پہلے معرف باللام آ جائے تو بھی یہ موصوف صفت بنتے ہیں جیسے ھُدًی لِّلمُتَّقِینَ الَّذِینَ یُؤمِنُونَ بِالغَیبِ ۶۔ایک اسم مضاف ہو ضمیر کے طرف اس کے بعد اسم موصول آ جائے تو بھی یہ موصوف صفت بنتے ہیں جیسے اُمَّھَاتُکُمُ الّٰتِی اَرضَعنَکُم ۷۔اسی طرح نکرہ کے بعد اسم مجرور آ جائے تو بھی یہ موصوف صفت بنتے ہیں جیسے ضَرَبتُ غُلَامًا لَّکَ۔

 

صفت حقیقی و سببی

 

سوال: صفت باعتبار ذات کتنے قسم ہے۔

جواب:دو قسم ہے ۱۔ صفت بحالہ۲۔ صفت بحال متعلقہ۔

صفت بحالہ، اس تابع کو کہتے ہیں جو ایسی معنیٰ پر دلالت کرے جو اس کے متبوع (موصوف) میں ہوا سکو صفت حقیقی بھی کہتے ہیں جیسے جَائَنِی رَجُلٌ عَالِمٌ، آیا میرے پاس ایسا آدمی جو عالم  ہے۔

صفت بحال متعلقہ: اس تابع کو کہتے ہیں جو ایسی معنیٰ پر دلالت کرے جو متبوع کے متعلق میں ہو، اس کو صفت سببی کہتے ہیں جیسے جَائَنِی رَجُلٌ حَسَنٌ غُلامہٗ میرے پاس ایک آدمی آیا جسکا غلام حسین ہے ، یہاں حُسن رجل کے متعلق غلام میں پایا جاتا ہے۔ اور اس میں تابع کو نعت، صفت اور مبتوع کو موصوف اور منعوت کہتے ہیں۔

 

صفت بحالہ کا حکم

 

سوال: صفت بحالہ اپنے موصوف سے کتنی چیزوں میں موافق ہوتی ہے۔

جواب:یہ دس چیزوں میں مطابق ہوتی ہے اور بیک وقت چار کا پایا جانا ضروری ہے ، وہ دس چیزیں یہ ہیں ۱۔معرفہ۲۔نکرہ۳۔مذکر۴۔مؤنث۵۔افراد۶۔تثنیہ ۷۔جمع ۸۔رفعہ ٩۔نصب ١٠۔جرجیسے عِندِی رَجُلٌ عَالِمٌ، وَرَجُلانِ عَالِمَانِ، وَرِجَالٌ عَالِمُونَ، وَأِمرَأَۃٌ عَالِمَۃٌ، أِمرَأَتَانِ عَالِمتَانِ، نِسوَۃٌ عَالِمَاتٌ۔

 

صفت بحال متعلقہ کا حکم

 

سوال: صفت بحال متعلقہ کتنی چیزوں میں موصوف سے موافق ہوتی ہے۔

جواب:یہ پانچ چیزوں میں  سے تین میں موصوف سے  موافق ہوتی ہے ، وہ پانچ چیزیں یہ ہیں ۱۔ رفعہ ۲۔نصب۳۔جر۴۔معرفہ ۵۔نکرہ۔

پس رفعہ، نصب جر میں سے کسی ایک میں۔ اورمعرفہ و نکرہ میں سے بھی کسی ایک میں موافقت ہو گی جیسے جَاءَ رَجُلٌ حَسَنٌ غُلامہٗالبتہ موصوف اگر کسی غیر عاقل کی جمع ہو تو صفت عمومًاواحد مؤنث ہی آتی ہے جیسے الشَّجَرَاتُ الطَّوِیلَۃُ اورکبھی مطابقت کیلئے الطویلات بھی کہتے ہیں۔

سوال: کیا صفت ہمیشہ مفرد ہوتی ہے۔

جواب:یہ عام ہے مفرد اور کبھی جملہ بھی ہوتی ہے جیسے وَاتَّقُوْایَومًا تُرجَعُونَ فِیہ اِلی اللہِ۔

 

صفت کے چند اقسام

 

سوال: صفت باعتبار نفع و فائدہ کے کتنے قسم ہے۔

جواب:وہ کئی قسم ہے ۱۔ صفت مادحہ جیسے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۲۔ صفت ذامّہ جیسے اعوذُ باللہ مِنَ الشیطٰن الرَّجیم ۳۔ صفت تاکید یہ جیسے نَفحَۃٌ وَاحِدَۃٌ ۴۔ صفت

کاشفہ جیسے الجسمُ الطویلُ العریضُ العمیقُ ۵۔ صفت موضحہ جیسے جَائَنِی زَیدُنِ العَالِمُ ٦۔ صفت مخصصہ(۱) جیسے جَائَنِی رَجُلٌ عَالِمٌ۔

۔۔۔۔

(۱)یعنی نکرہ کی صفت تخصیص کا فائدہ دیتی ہے اور معرفہ کی صفت توضیح کا فائدہ دیتی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔

صفت بحال متعلقہ کی فاعل سے موافقت

 

سوال: صفت بحال متعلقہ میں پانچ چیزوں (تذکیر تانیث، افراد، تثنیہ جمع)کا کیاحکم ہے۔

جواب:وہ ان چیزوں میں مثل فعل کے ہے یعنی اس میں صفت فاعل کے موافق ہوتی ہے متبوع کا اعتبار نہیں کیا جاتا  ۱۔اس طرح کہ صفت بحال متعلقہ کا فاعل مذکر ہو یا مؤنث تو صفت بحال متعلقہ کو بھی مذکر یا مؤنث لایا جائے گا ۲۔اور اگر فاعل ظاہر ہو تو صفت بحال متعلقہ کو ہمیشہ واحد لایا جائے گا خواہ فاعل تثنیہ ہو یا جمع جیسے مَرَرتُ بِرَجُلٍ قَاعِدٍ غُلَامُہٗ۔ مَرَرتُ بِرَجُلَینِ قَاعِدٍ غُلَامَا ھُمَا۔ مَرَرتُ بِرِجَالٍ قَاعِدٍ غِلمَانُھُم۔ مَرَرتُ بأِمرَأَۃٍ قَائِمٍ اَبُوھَا۔ مَرَرتُ بِرَجُلٍ قَائِمَۃٍ جَارِیَتُہٗ۔(شرح الجامی)

 

صفت میں عائد

 

سوال: جب صفت جملہ ہو تو اس کے لیے کون سا شرط ہے۔

جواب:نکرہ کی صفت جملہ خبر یہ ہو تو اس وقت جملہ میں ضمیر رابطہ کا ہونا لازمی ہے۔ جو موصوف کے طرف لوٹے جیسے جَائَنِی رَجُلٌ عَالِمٌ اَبُوہُ اور اگر موصوف کی صفت جملہ ہو تو اسم موصول کا معرفہ سے مطابق ہونا ضروری ہے جیسے الرَّجُلُ الَّذِی یَجلِسُ فِی المَسجِدِ عَالِمٌ۔ جَاءَ الوَلَدُ الَّذِی یَرکَبُ عَلَی الَّدَرَّاجَۃِ۔

 

صفت بحال متعلقہ کی صورتیں

 

سوال: صفت بحال متعلقہ کی کتنی صورتیں بنتی ہیں۔

جواب:اس کی کئی صورتیں ہوتی ہیں ۱۔ یہ کبھی فعل کا صیغہ ہو گا ٢۔ اسم فاعل ۳۔یا اسم مفعول ۴۔یا صفت مشبہ کا صیغہ ہو گا اورعموماً اس کا فاعل یا نائب فاعل ظاہر ہوتا ہے جیسے جَائَنِی رَجُلٌ اَکرَ مَنِی اَخُوہُ۔ جَائَنِی رَجُلٌ صَالِحٌ اَبُوہُ۔ جَائَنِی رَجُلٌ مَضرُوبٌ غُلَامُہٗ، جَائَنِی رَجُلٌ کَرِیمٌ اَبُوہُ۔

سوال: صفت ایک ہوتی ہے یا زیادہ۔

جواب:ایک موصوف کی ایک سے زائد صفات ہو سکتی ہیں، لیکن صفت کی صفت نہیں ہو سکتی اور ایک موصوف سے زیادہ موصوف نہیں ہو سکتے۔

 

صفت بننے والی چیزیں

 

سوال: کون سی چیزیں عمومًاصفت بنتی ہیں۔

جواب:وہ کئی چیزیں ہیں ۱۔ اسم مشتق جیسے ضاربٌ، مضروبٌ، حَسَنٌ ۲۔ اسم جامد جو معنیٰ میں اسم مشتق کے مشابہ ہو، اس کی چند صورتیں ہیں ۱۔اسم اشارہ جیسے مَرَرتُ بِزَیدٍ ھٰذا۔او بِہٰذا العَالِمِ ٢۔اسم موصول جیسے جَاءَ الرَّجُلُ الَّذِی اَکرَمَکَ۳۔اسم عدد جیسے جَاءَ رِجَالٌ اَربَعَۃٌ ۴۔ اسم منسوب جیسے رَجُلٌ دِمَشقِیٌّ ٥۔وہ اسم جو تشبیہ پر دال ہو جیسے رَئَیتُ رَجُلًا اَسَدًا۔۶۔ کُلٌّ اور اَیٌّ کے الفاظ جیسے اَنتَ الرَّجُلُ کُلُّ الرَّجُلِ اَی کَامِلٌ فِی الرَّجُولِیَّۃِ۔

 

خبر، حال، صلہ کے اقسام

 

سوال: صفت بحالہ اور بحال متعلقہ یہ فقط صفت سے خاص ہیں یا کسی اور  چیز  میں بھی آتی ہیں۔

جواب:جی ہاں اسی طرح خبر، حال اور صلہ کی بھی یہ دوقسمیں ہوتی ہیں ١۔خبر بحال نفسہ، جیسے زیدٌ قَامَ، خبر بحال متعلقہ جیسے زیدٌ قامَ ابوہُ۔ زیدٌ قائمٌ، زیدٌ قائمٌ ابوہُ ۲۔حال بحال نفسہ ومتعلقہ جیسے جَاءَ زیدٌ راکبًا۔جَاءَ زیدٌ راکبًا غُلاَمُہُ۔ ۳۔صلہ بحال نفسہ و متعلقہ، جیسے جَاءَ الَّذِی قَامَ۔جَاءَ الَّذِی قَامَ اَبُوہُ۔ (القول الظھیر)

 

                ۲۔ تاکید لغۃً و اصطلاحًا

 

سوال: تاکید کسے کہتے ہیں۔

جواب:تاکید کا لغوی معنیٰ ہے پختہ کرنا، مضبوط کرنا، اصطلاح میں اس تابع کو کہتے ہیں جو اپنے متبوع کی حالت کو نسبت(۱) یا شمول میں مضبوط /ثابت کرے تاکہ سننے والے کو کوئی شک وشبہ نہ رہے (۲) اور تاکید میں متبوع کو مؤکد کہتے ہیں جیسے زیدٌ زیدٌ قائمٌ۔

۱۔ نسبت کی مثال جس میں مسند الیہ کو پختہ کیا گیا ہو جیسے جاءَ زیدٌ زیدٌ۔ زیدٌ زیدٌ قائمٌ ۲۔مسند کو پختہ کرنے کی مثال جیسے ضربَ ضربَ زیدٌ  ۳۔شمول کی مثال(۳) جیسے جاءَ الطُّلَبَاءُ کُلُّھُم یہاں آنے کے حکم میں طلباء کے تمام افراد شامل ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔

(۱)  یعنی مسند اور مسند الیہ کی طرف جو نسبت ہے۔

(۲)مجاز وسھووغفلت کا احتمال نہ رہے۔

(۳)تاکہ متبوع میں جتنے افراد ہوں تاکید ان سب پر شامل ہو جائے

۔۔۔۔۔

 

تاکید کے اقسام

 

سوال:تاکید کتنے قسم ہے۔

جواب:دوقسم ہے ۱۔ تاکید لفظی۲۔ تاکید معنوی ( معنیٰ والا)۔

 

تاکید لفظی

 

سوال: تاکید لفظی کسے کہتے ہیں۔

جواب: اس تابع کو کہتے ہیں جس میں پہلے لفظ کا تکرار(۱) ہو خواہ وہ لفظ اسم ہو جیسے زیدٌ زیدٌ قائمٌ یا فعل ہو جیسے ضربَ ضربَ زیدٌ یا حرف ہو جیسے اِنَّ اِنَّ زیدً ا قائِمٌ یا جملہ ہو جیسے کَلَّا سَیَعلَمُونَ ثُمَّ کَلَّا سَیَعلَمُونَ۔ اللہَ اللہَ فِی اَصحَابِی۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)یعنی جس میں ایک لفظ بار بار دہرا یا جائے۔

۔۔۔۔۔۔

 

تاکید معنوی

 

سوال: تاکید معنوی کسے کہتے ہیں۔

جواب: اس تابع کو کہتے ہیں جو آٹھ الفاظ میں سے کسی ایک لفظ کے ساتھ ہو۔وہ آٹھ الفاظ یہ ہیں نَفْسٌ، عَیْنٌ، کِلَا کِلتَا، کُّلٌّ، اَجمَعُ، اَکتَعُ، اَبتَعُ، اَبصَعُ(۱) جیسے جَائَنِی زیدٌ نَفسُہٗ میرے پاس زید آیا یعنی نفس اس کا (بذات خود آیا)۔

۔۔۔۔۔۔

(۱) اسی طرح جمیع اور عامَّۃٌ یہ دونوں بمعنیٰ ذات  تاکید معنوی میں استعمال ہوتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

تاکید معنوی کے الفاظ کا فرق

 

سوال: ان آٹھ الفاظ کا استعمال ایک طرح کا ہے یا کچھ فرق ہے۔

جواب:یہ تمام کلمات اکثر مؤکَّد کی ضمیر کی طرف مضاف ہو کر استعمال ہوتے ہیں۔ البتہ کچھ فرق  ہے  جو مندرجہ ذیل ہے۔

سوال: نفس عین، کا استعمال کس طرح ہوتا ہے۔

جواب: ان سے مفرد تثنیہ جمع اور مذکر مؤنث سب کی تاکید کی جاتی ہے جیسا صیغہ ہو گا ویسا ضمیر نکالا جائے گا(۱) جیسے جَائَنِی الزَّیدَانِ اَنفُسُھُمَا(۲) یعنی میرے پاس دونوں زید بذات خود آئے۔ الزَّیدُونَ اَنفُسُھُم۔ جَائَتنِی أِمرأَۃٌ نَفسُھَا۔ جَائَتنِی أِمرَئَتَانِ اَنفُسُھُمَا۔  جَائَتنِی النِّسَاءُ اَنفُسُھُنَّ۔ جَائَنِی زَیدٌعَینُہٗ۔

سوال: کِلاکِلتا کا استعمال کس طرح ہوتا ہے۔

جواب: یہ دونوں تثنیہ کے ساتھ خاص ہیں کِلَا تثنیہ مذکر کیلئے کِلْتَا تثنیہ مؤنث کیلئے آتا ہے۔جیسے جَائَنِی الزَّیدَانِ کِلَاھُمَا۔ جَائَتنِی الھِندَانِ کِلتَا ھُمَا۔

سوال: کُلٌّ کا استعمال کس طرح ہوتا ہے۔

جواب: یہ افراد کے (۳) استغراق کیلئے آتا ہے اور اس سے واحد اور جمع کی تاکید کی جاتی ہے تثنیہ کی تاکید نہیں کی جاتی اوراس کے صیغہ میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔ البتہ ان کے ساتھ جو ضمیر مضاف الیہ ہوتا ہے یہ اپنے مرجع کے اعتبار سے تبدیل ہوتا ہے ، مفرد کیلئے ضمیر مفرد جیسے قَرَئتُ الْکِتَابَ کُلَّہٗ میں نے پوری کتاب پڑھی۔قَرَئتُ الصَّحِیفَۃَ کُلَّھَا میں نے تمام صحیفہ کو پڑھا۔

اور جمع کیلئے ضمیر جمع جیسے اِشتَرَیتُ العَبِیدَ کُلَّھُم  میں نے تمام غلاموں کو خریدا اس میں خریداری کے اعتبار سے اجزاء ہو سکتے ہیں لیکن جاءَ العبدُ کلُّہٗ کہنا درست نہیں ہے کیونکہ آنے کے اعتبار سے غلام میں اجزاء نہیں ہو سکتے۔  طَلَّقتُ النِّسَاءَ کُلَّھُنَّ میں نے تمام عورتوں کو طلاق دے دی۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)یعنی صیغہ واحد تو ضمیر بھی واحد، صیغہ تثنیہ تو ضمیر بھی تثنیہ، مطلب کہ انکے ساتھ جو ضمیر ہے انکی مطابقت مرجع کی ساتھ ضروری ہے۔

(۲)نوٹ: تثنیہ کی دو علامات جمع ہوں تو اس میں کراہت سے بچنے کےلیے ایک تثنیہ کو جمع سے بدل کر انفسھما کہا جاتا ہے۔

(۳) یعنی ذو اجزاء کے تاکید کیلئے آتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔

لفظ کل کی صورتیں

 

سوال: لفظ کلٌّ میں کس معنیٰ کا اعتبار ہوتا ہے۔

جواب:اس کی تین صورتیں ہیں ۱۔ کلٌّ کی اضافت نکرہ کے طرف ہو تو مضاف الیہ کے معنیٰ کا اعتبار کرنا واجب ہے جیسے کُلُّ رَجُلٍ اَبُوکَ۔ کُلُّ أِمرَأَۃٍ اَتَتکَ ۲۔ اگر معرفہ کی طرف مضاف ہو تو لفظ کلٌّ کا اعتبار کرنا بھی جائز ہے اور یہی کثیر الاستعمال ہے جیسے کُلُّھُم یَقُومُ۔ کُلُّھُمْ یَقُومُونَ ۳۔ اور اگر مقطوع عن الاضافتہ ہو تو بھی دونوں جائز ہیں جیسے قُل کُلٌّ یَّعمَلُ عَلی ٰ شَاکِلَتِہٖ۔وَکُلٌّ کَانُوا ظٰلِمِینَ۔

سوال:اجمع، اکتع، ابتع، ابصع کا معنیٰ اور استعمال کس طرح ہے۔

جواب:ان کی معنیٰ ہے سب، سب کا سب، تمام، سب کی سب، اور ان سے واحد اور جمع کا تاکید کیا جاتا ہے۔نیز ان میں صرف صیغہ کا اختلاف ہوتا ہے۔

۱۔واحد مذکر کی تاکید کیلئے یہی صیغے اَفعَلُ کے وزن پر آتے ہیں جیسے جائَنی زیدٌ اَجْمَعُ، اَکْتَعُ، اَبْتَعُ، اَبْصَعُ ۲۔اور واحد مؤنث  کے تاکید کے لیئے فَعْلَاءُ کا وزن آتا ہے جیسے جائتنی  أِمرَأۃ جَمعَاءُ، کَتعَاءُ، بَصعَاءُ، بَتعَاءُ ۳۔اور جمع مذکر عاقل کیلئے آتے ہیں جائنی القوم اَجمَعُونَ، اَکتَعُونَ، اَبتَعُونَ، اَبصَعُونَ۔

۴۔اسی طرح جمع مؤنث عاقل اور غیر عاقل کیلئے آتے ہیں جیسے جائتنی نسوۃٌ جُمَعُ، کُتَعُ، بُتَعُ، بُصَعُ۔ اور یہ سارے اجمع کے تابع ہیں(۱) جیسے اِشتَرَیتُ الغُلَامَ اَجمَعَ اَکتَعَ اَبتَعَ اَبصَعَ میں نے پورے کے پورے غلام کو خریدا۔ البتہ جَائَنِی العَبدُ کُلُّہٗ کہنا غلط ہے کہ آنے کے اعتبار سے عبد کے اجزاء نہیں ہوسکتے (۲)۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)اجمع کے علاوہ بھی نہیں آتے اور اس سے مقدم بھی نہیں ہوتے ۔

(۲) اسی طرح ذات کا لفظ بھی اپنے پہلے والے اسم کے لیے تاکید ہوتا ہے جیسے جَاءَ خَالِدٌ ذَاتُہٗ اور ظرف زمان کا نائب بھی ہوتا ہے جیسے خَرَجۡتُ مِنَ الۡبَیۡتِ ذَاتَ لَیۡلَۃٍ ، میں ایک رات گھر سے نکلا ۔

۔۔۔۔۔۔

 

الفاظ تاکید کا دوسرا استعمال

 

سوال: کیا تاکید معنوی کے کلمات بغیر تاکید کے بھی استعمال ہوتے ہیں۔

جواب:جی ہاں ۱۔جب یہ بغیر اضافت کے ہوں تو بجاء تاکید کے حال واقع ہوتے ہیں جیسے حَضَرَ الطُّلَّابُ جَمِیعًا، سبھی طلباء حاضر ہوئے ۲۔ اسم ظاہر کے طرف مضاف ہوں تو ان پر تاکید کے احکام نافذ نہیں ہوتے ، اس وقت ان کا اعراب عامل کے موافق ہو گا(۱) جیسے حَضَرَ جَمِیعُ الاَسَاتِذَۃِ۔اَکرَمتُ کُلَّ زُمَلاَئی۔ اَدرُسُ فِی نَفسِ المَدَرسَۃ۔

نوٹ: اگر ضمیر مرفوع متصل کا تاکید نفسٌ اور عینٌ سے کیا جائے تو اس کا ضمیر مرفوع منفصل سے تاکید لانا ضروری ہے جیسے زَیدٌ ضَرَبَ ھُوَ نَفسُہٗ۔

۔۔۔۔۔

(۱)اور یہ عامل کے موافق فاعل ، مفعول ، مبتدا یا خبر وغیرہ واقع ہوتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔

 

ضمائر میں عطف کا طریقہ

 

سوال: ضمیر متصل اور منفصل اور ضمیر مرفوع متصل میں عطف کا کیا طریقہ ہے۔

جواب: ۱۔اسم ظاہر اور ضمیر منفصل اور ضمیر متصل پر بغیر کسی شرط کے عطف ڈالنا صحیح ہے جیسے قَامَ زَیدُونَ وَعُمَرُ۔ اِیَّاکَ وَالاَسَدَ۔ جَمَعنٰکُم وَالاَوَّلِینَ۔

۲۔لیکن ضمیر مرفوع متصل بارز یا مستتر پر عطف کے لیے شرط یہ  ہے ۱۔کہ اس کا تاکید ضمیر منفصل کے ساتھ ہو جیسے لَقَد کُنتُم اَنتُم وَاٰبآئُکُم ۲۔یا فاصلہ آ جائے جیسے یَدخُلُونَھَا وَمَن صَلَحَ (القران) مَا اَشرَکنَا وَلا اٰبٰائُنَا۔ مَا تَعلَمُوا اَنتُم وَلا آبٰائُکُم۔

۳۔اگر ضمیر منفصل سے تاکید نہ کی جائے گی تو وہاں واوعطف نہیں سمجھا جائے گابلکہ

وَاو مَعِیّۃ سمجھا جائے گا اور اس کے بعد والے اسم کو نصب پڑھا جائے گا جیسے اُسکُن وَزَوجُکَ الجَنَّۃَ۔

 

                ۳۔ بدل اور مبدل منہ

 

سوال: بدل کسے کہتے ہیں۔

جواب:بدل لغت میں عوض کو کہتے ہیں، اصطلاح میں اس تابع(۱) کو کہتے ہیں جس میں مقصود نسبت میں خود بدل ہی ہو(۲)۔ بخلاف دیگر تو ابع کے کہ ان میں متبوع اصل مقصود ہوتا ہے۔ اور بدل میں متبوع کو مبدل منہ کہا جاتا ہے

اس کی علامت یہ ہے کہ بدل میں عموماً اردو ترجمہ میں ”یعنی“  کا معنیٰ  کیا جاتا ہے۔ جیسے جَائَنِی زَیدٌ اَخُوْکَ آیا میرے پاس زید یعنی تمہارا بھائی۔

۔۔۔۔۔۔

(۱) بلا واسطہ ۔

(۲) مبدل منہ کو بطور تمھید کے ذکر کیا گیا ہو۔

۔۔۔۔۔

 

بدل بنانے کا طریقہ

 

سوال: بدل بنانے کا کون سا طریقہ ہے۔

جواب:اصل یہ ہے کہ اسم سے اسم کو بدل بنایا جائے ، فعل سے فعل کو اور جملہ سے جملہ کو بدل بنایا جائے ، جملہ کی مثال جیسے اَمَدَّکُم بِمَا تَعلَمُونَ اَمَدَّکُم بِاَنعَامٍ وَّبَنِینَ لیکن کبھی مفرد سے بھی جملہ بدل واقع ہوتا ہے۔

 

اسم ظاہر اور ضمیر سے بدل کی صورتیں

 

سوال: بدل اسم ظاہر ہوتا ہے یا ضمیر۔

جواب:اسم ظاہر اور ضمیر دونوں بدل ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس کی عقلاً چار صورتیں بنتی ہیں ۱۔اسم ظاہر بدل واقع ہو اسم ظاہر سے ۲۔ ضمیر بدل واقع ہو اسم ضمیر سے ۳۔ضمیر بدل واقع ہو اسم ظاہر سے ۴۔ اسم ظاہر بدل واقع ہو ضمیر سے جیسے تَکُونُ لَنَا عِیدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا۔ ان میں دوسری اور تیسری صورت نا جائز ہے ، پہلے اور چوتھی صورت جائز ہے۔

 

بدل کے اقسام

 

سوال :بدل کتنے قسم ہے۔

جواب:چار قسم ہے ، بدل الکل۔بدل الاشتمال۔ بدل البعض۔ بدل الغلط۔

 

بدل الکل

 

سوال: بدل الکل کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس تابع کو کہتے ہیں جس میں بدل اور مبدل منہ کی مصداق/ مقصدبعینہ ایک(۱)  ہو جیسے جَائَنِی زَیدٌ اَخُوکَ آیا میرے پاس تیرا بھائی زید، اس کو بدل مطابق بھی کہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)یعنی بدل اور مبدل منہ دونوں ایک ذات یا ایک چیز پر صادق آئیں، مفہوم اگر چہ مختلف کیوں نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

بدل الاشتمال

 

سوال: بدل الاشتمال کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس تابع کو کہتے ہیں جس میں بدل کا مصداق مبدل منہ کا (۱) متعلق ہو جیسے سُلِبَ زَیدٌ ثَوبُہٗ چھینا گیا زید یعنی کپڑا اس کا۔ اس میں بدل مبدل منہ کو شامل ہے۔اَعجَبَنِی زَیدٌ عِلمُہٗ اَو حُسنُہ۔

۔۔۔۔۔

(۱) مبدل منہ سے تعلق رکھتا ہو، تعلق کل جزء والا نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔

 

بدل البعض

 

سوال: بدل البعض کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس تابع کو کہتے ہیں جس میں بدل کا مصداق(۱)  مبدل منہ کا جزء ہو، پھر عام ہے کہ جز ءقلیل ہویا مساوی ہو یا اکثر جیسے ضُرِبَ زَیدٌ رَأسُہٗ مارآ گیا زید یعنی اس کا سر (پیٹا گیا) اَکَلتُ الرَّغِیفَ ثُلثَہٗ اَو نِصفَہٗ اَو ثُلثَیہِ۔

۔۔۔۔

(۱)معنیٰ۔

۔۔۔۔۔

 

بدل الغلط

سوال: بدل الغلط کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس تابع کو کہتے ہیں جو مبدل منہ کے غلطی سے نکلنے کے بعد دوسرے لفظ (بدل) سے اس کا تدارک کیا جائے (۱)۔جیسے مَرَرتُ بِرَجُلٍ حِمَارٍ گذرا میں آدمی سے نہیں نہیں گدھے سے ، اس مثال میں حمار بدل الغلط ہے۔اس کو بدل مباین بھی کہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)یعنی جو غلطی کے بعد صحیح لفظ بولاجائے ۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

                بدل کی علامات

 

سوال: بدل اور مبدل منہ پہچاننے کی علامت کیا ہے۔

جواب:اس کی کئی علامات ہے ١۔بظاہر لقب کے بعد نام ذکر ہو تو عام طور پر بدل مبدل منہ بنتے ہیں جیسے قال الشّیخُ الامامُ الاَجَلُّ الزاھدُ ابو الحسنِ احمدُ۔

۲۔ اسی طرح کسی چیز کے تعداد ذکر کرنے کے بعد اس کی تفصیل ہو تو تفصیل میں ہر ایک ما قبل سے بدل بن سکتا ہے جیسے مِأَۃُ عَامِلٍ لَفظِیَّۃٍ وَّ مَعنَوِیّۃٍ۔

۳۔ ھذا اسم اشارہ کے بعد معرف باللام ہو تو وہ صفت کی طرح بدل اور عطف بیان بھی ہو سکتا ہے جیسے رَبِّ یَسِّر ھٰذَا الکِتَابَ عَلَیَّ۔

فائدہ: بدل اگر نکرہ اور مبدل منہ معرفہ ہو تو اس وقت بدل کی صفت لانا واجب ہے۔ جیسے بِالنَّاصِیَۃِ نَاصِیَۃٍ کَاذِبَۃٍ یہاں نَاصِیَۃ بدل ہے جس کی صفت کَاذِبَۃٍ لائی گئی ہے۔

 

بدل کا اعراب

 

سوال: بدل کو کون سا اعراب ہوتا ہے۔

جواب:بدل کو تمام صورتوں میں مبدل منہ والا اعراب ہوتا ہے۔

 

بدل الکل اور عطف بیان میں فرق

 

سوال: بدل اور عطف بیان میں کون سا فرق ہے۔

جواب:١۔عطف بیان میں متبوع مقصود ہے ، نہ کہ تابع جیسے عبدُاللہِ ابنُ عمرَ بخلاف بدل کے کہ اس میں تابع مقصود ہے جیسے جائنی زیدٌ اَخُوکَ اس میں مقصود اخوک ہے۔ ۲۔عطف بیان کا علم ہونا ضروری ہے بخلاف بدل کے کہ وہ غیر علم بھی ہوسکتا ہے جیسے جائنی زیدٌ اَخُوکَ ۳۔ عطف بیان کا اسم ظاہر ہونا ضروری ہے بخلاف بدل کے۔

 

                ۴۔عطف بحرف

 

سوال: عطف بحرف کسے کہتے ہیں۔

جواب:عطف کا لغوی معنیٰ ہے نرم کرنا، مائل کرنا(۱) اور اصطلاح میں عطف بحرف اس تابع کو کہتے ہیں جو حرف عطف کے بعد آئے تابع اور متبوع دونوں نسبت میں مقصود ہوں اور عطف بالحرف میں متبوع کو معطوف علیہ اور تابع کو معطوف کہتے ہیں جیسے جائنی زیدٌ وَعمرٌو، یہاں عمرو عطف بالحرف ہے۔

۔۔۔۔۔

(۱) اور یہ بھی معطوف کو حکم اور اعراب میں معطوف علیہ کے طرف مائل کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔

 

عطف نسق

 

سوال: عطف بحرف کا دوسرا نام کون سا ہے۔

جواب:اس کو عطف نسق بھی کہتے ہیں، نسق معنیٰ ترتیب اور حروف عاطفہ میں بھی بعض جگہوں میں ترتیب ہوتی ہے جیسے جائنی زیدٌ فَعَمرٌو ثُمَّ بکرٌ آیا میرے پاس زید پھر متصل عمرو اور کافی دیر کے بعد بکر۔

 

معطوف و معطوف علیہ کی علامات

 

سوال: معطوف اور معطوف علیہ کے پہچان کی کیا علامت ہے۔

جواب:معطوف کی پہچان آسان ہے کہ وہ حرف عطف کے بعد ہوتا ہے ، البتہ معطوف علیہ کی پہچان ذرا مشکل ہے۔ اس کی علامت یہ ہے کہ اگر معطوف کو معطوف علیہ کی جگہ پر رکھ دیا جائے تو معنیٰ میں کسی قسم کا فساد نہ آئے تو یہ عطف صحیح ہو گا اور اس چیز کا معطوف علیہ بننا صحیح ہو گا جیسے جائنی زیدٌ وَعمرٌو اس میں عمرٌو وَزیدٌ کہنا بھی صحیح ہے۔

ف: بعض عبارات میں آپ کو عطف کی نشانیاں یوں لکھی ہوئی ملیں گی ﻋ ﻋ۔

ع ع۔ عط عط۔ عف عف۔ عل علہ، یہ نشانیاں عطف کا مخفف ہیں۔

 

ایک معطوف علیہ کئی معطوف

 

سوال:ایک معطوف علیہ کے کئی معطوف ہو سکتے ہیں یا نہیں۔

جواب:جی ہاں، جس طرح ایک مبتدا کی کئی خبریں آسکتی ہیں، موصوف کی کئی صفتیں آسکتی ہیں، اسی طرح ایک معطوف علیہ کے کئی معطوف آسکتے ہیں جیسے جَائَنی زَیْدٌ وَعَمْرٌو ثُمَّ خَالِدٌ فَبَکرٌ۔ ١۔نیز کلام میں دو یا زیادہ فعلوں یا اسموں کے درمیاں واو آ جائے تو بھی دوسرے فعلوں کا پہلے فعلوں پر عطف ہو گا۔

٢۔اسی طرح کلام کے اندر اسم موصول مکرر ہو اور درمیان میں واو وغیرہ آ جائے تو دوسرے اسم موصول کا عطف ہو گا پہلے اسم موصول پر۔

٣۔اسی طرح اسم اشارہ مکرر ہو اور درمیان میں واو آ جائے تو دوسرے اسم اشارہ کا عطف ہو گا پہلے اسم اشارہ پر جیسے اُولٰئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّن رَّبِّھِم وَاُو لٰئِکَ ھُمُ المُفلِحُونَ۔

 

حروف عاطفہ

 

سوال: حروف عاطفہ کتنے ہیں۔

جواب:دس ہیں واو، فا، ثُمَّ، حَتّٰی، اِمّا، او، اَم لَا، بَل، لٰکِن، ان حروف کا تفصیل حروف عاملہ میں آ رہا ہے۔

 

عطف کا ضابطہ

 

سوال: عطف صرف اسم ظاہر پر ہوتا ہے یا کسی ضمیر پر بھی ہوتا ہے۔

جواب:عطف میں اصل ہے یہ ہے کہ عطف مفرد کا مفرد پر ہو اور فعل کا فعل پر جیسے یَقدُمُ قَومَہٗ یَومَ القِیٰمَۃِ فَاَورَ دَھُمُ النَّارَ۔ ۲۔اور اسم کا اسم پر، حرف کا حرف پر، جملہ کا جملہ پر عطف ہو اور عامل کا عامل پر، معمول کا معمول پر۳۔فعل کا اسم پر جبکہ مشابہ فی المعنیٰ ہو تو بھی عطف جائز ہے جیسے فَالمُغِیرَاتِ صُبحًا فَاَثَرنَ بِہٖ نَقعًا اور اسی کا عکس بھی جائز ہے جیسے یَخرُجُ الحیَّ مِنَ المَیِّتِ وَیَخرُجُ المَیِّتَ مِنَ الحَیِّ۔ ۴۔لیکن خبر کا انشاء پر اور اس کا عکس جمہور کے نزدیک ناجائز ہے۔ اگر کہیں اس طرح ہو گا تو تاویل کی جائے گی۔ ۵۔اسی طرح ضمیر پر بھی عطف جائز ہے ۶۔لیکن جب ضمیر مرفوع متصل پر عطف کرنا ہو تو  اس میں ضمیر متصل کا فاصلہ کرنا ضروری ہو گا جیسے قُمْ اَنتَ وَزیدٌ۔ قُمتُم اَنتُم وَالزَّیدُونَ۔

 

یکساں اعراب والی چیزیں

 

سوال: کون سی چیزوں کا اعراب یکساں ہوتا ہے۔

جواب:چھ اشیاء کا اعراب یکساں ہوتا ہے ۱۔ موصوف صفت۔ ٢۔معطوف معطوف علیہ ٣۔ بدل مبدل منہ ٤۔ مؤکدتاکید ٥۔مُبَیَّن مُبَیِّن(عطف بیان) ٦۔مفسَّر مفسِّر جیسے جَائَنِی  رجلٌ ای زیدٌ۔

 

                ۵۔عطف بیان

 

سوال: عطف بیان کسے کہتے ہیں۔

جواب:اس تابع کو کہتے ہیں جو صفت کے علاوہ اپنے متبوع کو واضح اور روشن کرے (۱) ، اس میں متبوع کو مبیَّن اور تابع کو مبیِّن کہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔

(۱)صفت نہ ہونے کے باوجود۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

                عطف بیان  اور متبوع کی صورتیں

 

سوال: عطف بیان میں متبوع کی کتنی قسم ہیں۔

جواب:دوقسم ہیں کنیت اور علم (نام)۔

سوال: نام اور کنیت میں سے کون سا عطف بیان بنتا ہے۔

جواب:نام اور کنیت میں سے جو غیر مشہور ہو وہ پہلے ہوتا ہے اور مشہور کوہی عطف بیان بنا کر بعد میں ذکر کیا جاتا ہے۔ علم کی مثال جاءَ زیدٌ اَبُوعمرٍو، یہاں ابو عمرو کنیت اور عطف بیان ہے کیونکہ علم سے زیادہ مشہور ہے۔

کُنیہ کی مثال: شعر

اَقسَمَ بِاللہِ اَبُو حَفْصٍ عُمَرُ۔مَامَسَّہٗ مِن نَّصَبٍ وَلادَبَر

اِغفِرلَہٗ  اَللّٰھُمَّ اِن  کَانَ فَجَر۔ اَللّٰھُمَّ صَدِّق صَدِّق

ترجمہ: قسم کھائی اللہ کی ابوحفص نے جو کہ عمر ہیں، کہ نہ اس کے پاؤں میں سوراخ ہیں اور نہ پيٹھ میں زخم ہیں، اے اللہ اگر اس نے جھوٹی قسم کھائی ہے تو اس کو معاف کر، اے اللہ اس کو سچا کر سچا کر۔ اس مثال میں عُمَر عَلَم اور عطف بیان ہے۔

سوال: اس شعر کا پس منظر کیا ہے۔

جواب:یہ شعر ایک اعرابی کا ہے جو حضرت عمرؓ کے پاس حاضر ہو کر کہنے لگے کہ میرا مکان دور ہے میری اونٹنی کمزور ہو گئی ہے اس کی پیٹھ زخمی ہے پاؤں میں سوراخ ہیں اسلئے مجھے ایک اونٹنی عنایت فرمائیں تو مہربانی ہو گی۔ حضرت عمر ؓنے اس کے جواب میں قسم کھا کر فرمایا کہ تم جھوٹے ہو اور اسے اونٹنی دینے سے انکار کر دیا۔

اعرابی نے یہ جواب سُن کر پتھر یلی زمین پر اپنی اونٹنی کے پیچھے چلتے چلتے یہ شعر پڑھے۔ اتفاق سے عمر رضی اللہ عنہ نے یہ شعر سن لیا اور فرمایا یا اَللّٰھُمَّ صَدِّق صدِّق اے اللہ اس اعرابی کو سچا کر۔ پس اس کی اونٹنی کو دیکھا تو اعرابی کو سچا پایا  تواس کو اونٹ اور زاد راہ وغیرہ دے کر رخصت فرمایا۔

 

لقب اور علم کی ترکیب

 

سوال: القاب کے بعد اگر عَلم آ جائے تو ترکیب کیسے ہو گی۔

جواب:اس صورت میں دو ترکیبیں ہوتی ہیں۔۱۔ علم، لقب سے بدل الکل واقع ہو گا۔۲۔علم لقب سے عطف بیان واقع ہو گا جیسے وَالصَّلوٰۃُ عَلٰی سَیِّدِ الاَنبِیَاءِ مُحَمَّدٍ یعنی محمد، سید الانبیاء سے بدل ہے یا عطف بیان۔

 

عطف بیان کی متبوع سے مطابقت

 

سوال: عطف بیان کی اپنے متبوع سے کتنی چیزوں میں موافقت ہوتی ہے۔

جواب:صفت کی طرح اس کی بھی اپنے متبوع سے دس چیزوں میں سے چار چیزوں میں موافقت ہوتی ہے۔

 

عطف بیان اور باقی توابع میں فرق

 

سوال: عطف بیان اور باقی توابع میں کون سا فرق ہے۔

جواب:عطف بیان اور صفت کیلئے اسم ہونا ضروری ہے ، لیکن دوسرے توابع کیلئے یہ ضروری نہیں۔

سوال: اگر کہیں ان اسماء خمسہ(۱) میں سے دو سے زیادہ جمع ہوں تو ترکیب کیسے ہو گی۔

جواب:اس صورت میں اول مبیَّن ہو گا اور باقی توابع عطف بیان ہوں گے جیسے

قالَ اَبُو القَاسمِ محمّدُ بنُ عبدِ اللہِ الرَّسولُ الاُمِّیُّ الھا شمیُّ صلی اللہ علیہ وسلم۔

۔۔۔۔۔۔۔

(۱)یعنی صفت ،بدل ،عطف بحرف وغیرہ۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

                فصل دوسرا: منصرف اور غیر منصرف

 

ان کا  بیان  اعراب کے بحث میں ہو چکا ہے۔

 

                فصل تیسرا: حروف غیر عاملہ

 

سوال: حروف غیر عاملہ کسے کہتے ہیں اور وہ کتنے قسم ہیں۔

جواب:ان حروف کو کہتے ہیں جو معنیً عمل کریں لیکن لفظًا(۱)  عمل نہ کریں، وہ سولہ قسم ہیں اور ان کے جملہ حروف ۵۲ہیں۔

۱۔حروف تنبیہ۲۔حروف  ایجاب۳۔حروف تفسیر۴۔ حروف مصدریہ ۵۔حروف تحضیض ۶۔حروف تو قع ٧۔حروف استفہام ۸۔حروف ردع ۹۔ تنوین ۱۰۔نون تاکید ۱۱۔حروف زیادت/ زائدہ ۱۲۔حروف شرط ۱۳۔ لولا ۱۴۔ لام مفتوح۱۵۔ ما بمعنیٰ مادام ۱۶۔ حروف عطف۔

۔۔۔۔۔۔۔

(۱)یعنی رفع نصب جر یا جزم کا عمل۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

                ۱۔حروف تنبیہ

 

سوال: حروف تنبیہ کسے کہتے ہیں۔

جواب:تنبیہ بروزن تفعیل مصدر ہے ، اس کا لغوی معنیٰ ہے کسی کو بیدار کرنا، جگانا، واقف کرنا، خبردار کرنا۔ اصطلاحًا ان حروف کو کہتے ہیں جو مخاطب کو آ گاہ کرنے اور ہوشیار کرنے کیلئے آتے ہوں کہ خبر دار !غافل نہ رہ۔

اور حروف تنبیہ تین ہیں جن کو حروف استفتاح بھی کہا جاتا ہے اَلَا(۱)۔اَمَا(ٍ۲)۔ ھَا۔ معنیٰ خبردار، سنو۔

سوال: حروف تنبیہ کون سے جملے پر داخل ہوتے ہیں۔

جواب:یہ شروع جملہ پر داخل ہوتے ہیں چاہے جملہ اسمیہ ہویا فعلیہ جیسے اَلَا زیدٌ قائمٌ آگاہ ہو زید کھڑا ہے۔ اَمَا لَا تَفعَل خبردار یہ کام مت کر۔ ھازَیدٌ قائمٌ وہ زید کھڑا ہے۔ ھَا زیدٌ عالمٌ سنو زید عالم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔

(۱)ااس کو ھلَّا بھی پڑھتے ہیں ۔

(۲)اور ااس کو ھَمَا، عمَا بھی پڑھا جاتا ہے، یہ اکثر قسموں سے پہلے آتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

حروف تنبیہ میں فرق

 

سوال: حروف  تنبیہ کا آپس میں کون سا فرق ہے۔

جواب:اَلَا، اَمَاصرف جملہ پر داخل ہوتے ہیں، مفرد پر نہیں آتے ، البتہ ھَا یہ جملہ اسمیہ اور مفرد دونوں پر آتا ہے لیکن یہ ہر مفرد پر نہیں آتا ۱۔بلکہ اسم اشارہ کے شروع میں آتا ہے جیسے ھٰذا، ھٰذانِ ۲۔یا منادیٰ معرف باللام کے شروع میں آتا ہے  جیسے یٰا َیُّھَا الرَّجُلُ ۳۔یا ضمیر مرفوع منفصل کے شروع میں  آتا ہے جیسے ھٰا اَنتُم اُولاءِ۔

سوال: کیا اَلَا فقط تنبیہ کے لیے آتا ہے۔

جواب:یہ تنبیہ کے علاوہ بھی چند معانی کیلئے آتا ہے جیسے تمنی، تو بیخ، استفہام انکاری، عرض اور تحضیض وغیرہ۔

 

                ۲۔حروف ایجاب

 

سوال: حروف ایجاب کسے کہتے ہیں اور وہ کون سے ہیں۔

جواب: اِیجاب باب افعال کا مصدر ہے جس کا معنیٰ ہے کسی چیز کو ثابت کرنا اور اصطلاح میں  ان حروف کو کہتے ہیں جن میں ایجاب وثبوت کا معنیٰ ہو۔حروف ایجاب /حروف جواب اور تصدیق کے ، یہ چھ ہیں نَعَم، بَلیٰ، اِنَّ، اَجَل، جَیر، اِیْ۔

 

نعم  کا معنی مطلب

 

سوال: نَعَم کس مقصد کیلئے آتا ہے۔

جواب:اس کا معنیٰ ہے ہاں، جی ہاں یہ حرف جواب ہے چاہے استفہام میں ہو یا خبر میں  اور یہ متکلم کے کلام کی تصدیق کیلئے آتا ہے یعنی کلام سابق کو ثابت کرنے کیلئے ، مثبت کا مثال جیسے قَامَ زَیْدٌ کے جواب میں کہا جائے گا نَعَمْ ہاں زید کھڑا ہے۔ أَجَاءَ زَیدٌ کے جواب میں کہا جائے نَعَمْ۔ اور منفی کی مثال جیسے مَا قَامَ زَیْدٌ کے جواب میں کہا جائے گا نَعَمْ ہاں زید نہیں کھڑا۔

 

بلی کا معنیٰ اور مطلب

 

سوال: بلیٰ کس مقصد کیلئے آتا ہے اور  اس کا معنیٰ کون سا ہے۔

جواب: بلیٰ کا معنیٰ ہے ہاں کیوں نہیں۔ یہ نفی اور ابطال کیلئے آتا ہے یعنی کلام منفی کو مثبت کرتا ہے۔ ۱۔خواہ وہ نفی بغیر استفہام کے ہو جیسے مَا قَامَ زَیدٌ کے جواب میں کیا جائے  بلیٰ، معنیٰ ہو گا کہ بلیٰ قَامَ زَیدٌ ۲۔یا نفی استفہام کے ساتھ ہو۔ جیسے قرآن مجید میں ہے اَلَستُ بِرَبِّکُم قَالُو ابَلَیٰ (اَنتَ رَبُّنَا)  کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں، اس کا جواب ہے بلیٰ ہاں (کیوں نہیں تو ہی ہمارا رب ہے )۔

 

نعم اور بلیٰ میں فرق

 

سوال: نَعَمْ اور بلیٰ میں کون سا فرق ہے۔

جواب:ان میں فرق  یہ ہے کہ نَعَمْ اور اَجَلْ ما قبل کے کلام کو ثابت کرتے ہیں۔

بخلاف بلیٰ کے یہ منفی سے مثبت بنا دیتا ہے۔ نَعَمْ عموماً استفہام کے جواب میں آتا ہے اور اجل عمومًاخبر کے جواب میں آتا ہے۔

 

ای کا  معنیٰ مطلب

 

سوال: اِیْ کا  معنیٰ مطلب کیا ہے۔

جواب:اس کا معنیٰ ہے "ہاں”یہ استفہام کے بعد  اثبات کے لیے آتا ہے اور قسم کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے اور فعل قسم ہمیشہ محذوف ہوتا ہے جیسے أَقَامَ زَیْدٌ کے جواب میں کہا جائے گا اِی وَاللہِ یعنی ہاں اللہ کی قسم زید کھڑا ہے۔ أَجَاءَ زیدٌ کے جواب اِی وَاللہِہاں اللہ کی قسم  زید آیا ہے۔

 

اجل جیر اور ان کا استعمال

 

سوال: اجل، جِیر اور اِنَّ کس مقصد کیلئے آتے ہیں اور ان کی معنیٰ کیا ہے۔

جواب: یہ تینوں نعم کی طرح ہیں اکثر خبر کے بعد  اس کی تصدیق کے لیے آتے ہیں مگر انکو قسم ضروری نہیں ہوتا، ۱۔خواہ خبر مثبت ہو جیسے قد جاء زید کے جواب میں اجل یا جیر یا اِنَّ کہا جائے گا یعنی ہاں زید آیا ہے۔ ۲۔خبر منفی ہو جیسے لم یاتک زید کے جواب میں کہا جائے اجل، جیر، اِنَّ، تو مطلب ہو گا کہ ہاں زید نہیں آیا اور اِنَّ کا استعمال کم ہوتا ہے (۱)۔

سوال: کیا اور بھی کچھ حروف ایجاب ہیں۔

جواب: جی ہاں لا بھی ان حروف میں استعمال ہوتا ہے اور اس کے بعد اکثر جملہ محذوف ہوتا ہے جیسے ھل جاء خالد کے جواب میں کہا جاتا ہے لا۔اس طرح بَجِلَ بھی نعم کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)معلوم ہواکہ جب اِنَّ، نعم کے معنیٰ میں ہوگا تو غیر عامل ہوگا جیسے اِنَّ زیدٌقائمٌ۔اسی طرح بولا جاتا ہے اِی وَرَبِّی ہاں قسم ہے میرے رب کی اور اِی وَاللہِ زیادہ مستعمل ہے ااس کا اختصار ہے اِیْوَ جوآج کل کی بول چال میں بہت آتا ہے ۔

 

۔۔۔۔۔۔۔

 

                ۳۔حروف تفسیر

سوال: حروف تفسیر سے کیا مراد ہے اور وہ کون سے ہیں۔

جواب:تفسیر کا لغوی معنی ہے کھولنا، وضاحت کرنا، تشریح کرنا اصطلاحًا اس سے وہ حروف مراد ہیں جو مبہم چیز کی وضاحت کریں یہ شروع کلام میں آتے ہیں اور وہ دو ہیں اَی اَنْ، ان حروف کے ما قبل کو مفسَّر اور ما بعد کو مفسِّر کہتے ہیں۔

اور تفسیر عام ہے ۱۔خواہ وہ مبہم مفرد ہو جیسے جائنی زید ای ابو عبداللہ میرے پاس زید آیا یعنی ابو عبداللہ۔

۲۔خواہ جملہ ہو جیسے قُطِعَ رِزْقُہٗ ای مات اس کا رزق منقطع ہو گیا یعنی مرگیا۔

 

نعم اور ای میں فرق

 

سوال: نعم اور ای میں کیا فرق ہے۔

جواب: ۱۔ای حرف استفہام کے جواب میں آتا ہے اور نعم خبر اور استفہام دونوں کے جواب میں آتا ہے ۲۔اسی طرح ای کے ساتھ قسم ضرور استعمال ہوتا ہے اور نعم کے ساتھ ضروری نہیں۔

 

ای اور ان میں فرق

 

سوال: اَی اور اَن میں کون سا فرق ہے۔

جواب:۱۔ زیادہ تر تفسیر اَی سے ہوتا ہے اور اَنْ کا استعمال کم ہوتا ہے۔ ۲۔ای سے مفرد اور جملہ دونوں کا تفسیر کیا جاتا ہے (۱) لیکن اَنْ ایسے فعل کا تفسیر کرتا ہے جو قول کے معنیٰ ہو جیسے نٰادَینٰہُ اَن یَّا اِبرَاھِیمُ ہم نے اسے پکارا یعنی کہا اے ابراہیم! یہاں مفعول لفظ مقدر ہے جو نادینٰہ کا مفعول بہ غیر صریح ہے اَنْ نے اس کی تفسیر یا ابراھیم سے کی ہے۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)اور اس کا ما بعد ترکیب میں عطف بیان یا بدل واقع ہوتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

ای اور یعنی میں فرق

 

سوال:ای اور یعنی میں کیا فرق ہے۔

جواب: بعض حضرات یہ فرق کرتے ہیں کی ای بیان اور وضاحت کے لیے ہوتا ہے اور یعنیسوال کو دفع کرنے اور شک و شبہ کو دور کرنے کیلئے ہوتا ہے ، یہ فرق اکثری اور ایک  اصطلاح ہے۔

 

                ۴۔حروف مصدر یہ  اور ان میں فرق

 

سوال: حروف مصدر یہ  سے کیا مراد ہے اور وہ کون سے ہیں۔

جواب:ان سے وہ حروف مراد ہیں جو اپنے مدخول کو مصدری معنیٰ میں تبدیل کریں اور وہ تین ہیں مَا، اَن، اَنَّ۔

سوال: حروف مصدریہ میں کیا فرق ہے۔

جواب:۱۔ان میں سے مَا اور اَن جملہ فعليہ پر داخل ہوتے ہیں جیسے وَضَاقَت عَلَیھِمُ الاَرضُ بِمَارَحُبَتْ بمعنیٰ بِرُحبِھَا زمین ان پر تنگ ہو گئی کشادہ ہونے کے باوجود، اَعجَبَنِی اَن تَقُومَ بمعنیٰ قَیَامُکَ مجھے عجب میں ڈالا تیرے کھڑے ہونے نے۔

۲۔اور اَنَّ جملہ اسمیہ پر داخل ہوتا ہے جیسے عَلِمتُ اَنَّکَ قَائِمٌ اَی قِیامُکَ میں نے تیرے کھڑے ہونے کو معلوم کیا اور اس وقت فعل یا جملہ اسمیہ ان حروف سے مل کر مصدر مؤوَّل (تاویل کیا ہوا مصدر )کہلاتے ہیں۔

سوال: اَن اور اَنَّ کس وقت عامل اور کس وقت غیر عامل ہوتے ہیں۔

جواب: ۱۔اَن جب فعل ماضی پر داخل ہو تو وہ غیر عامل ہوتا ہے ۲۔اور فعل مضارع پر داخل ہو تو وہ عامل ہوتا ہے ۳۔اسی طرح اَنْ کے ساتھ جب ما کافّہ لاحق ہو تو وہ غیر عامل ہوتا ہے ورنہ عامل ہوتا ہے۔ اور اَنَّ اسم پر عامل اور فعل پر غیر عامل ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ ما استفہامیہ اسمیہ ہے حروف میں شمار کرنا مسامحت ہے۔

 

                ۵۔حروف تحضیض

 

سوال:حروف تحضیض کسے کہتے ہیں اور وہ کتنے ہیں۔

جواب: تحضیض کا لغوی معنی ہے ابھارنا، آمادہ کرنا ۱۔یہ حروف بھی کسی فعل کے کرنے پر آمادہ کرتے ہیں ۲۔یا کسی گذرے ہوئے کام پر ملامت یا توبیخ کیلئے ۳۔ یا آنے والی بات پر ترغیب اور شوق دلانے کیلئے شروع کلام میں آتے ہیں ان کا دوسرا نام ہے حروف تندیم اور یہ چار ہیں الَّا۔ھَلَّا۔لولاَ۔لومَا ان سب کا معنیٰ ہے "کیوں نہیں”۔

سوال: یہ حروف اسم پر داخل ہوتے ہیں یا فعل پر؟

جواب: یہ چاروں ہمیشہ فعل پر داخل ہوتے ہیں ۱۔لیکن جب مضارع پر داخل ہوں گے تو حقیقۃً تحضیض، ترغیب کے لیئے ہوں گے۔ جیسے ھَلَّا تَضرِبُ زَیدًا زید کو کیوں نہیں مارتا۔ ۲۔ جب ماضی پر داخل ہوں گے تو ملامت تندیم /شرمندہ کرنے کے معنی میں ہوں گے جیسے ھَلَّا اَکرَمتَ زَیدًا تونے زید کا اکرام کیوں نہیں کیا۔ اور کبھی ان کا فعل پوشیدہ بھی ہوتا ہے۔

حرف تحضیض ای برادر چار اند

الا ھلا لولا، لوما جملہ اند

در مضارع بھر تحضیض ند چوں ھلا تقول

بھر تندیم ند درماضی چوں ھلا قُلتَھا

 

                ۶۔حروف توقع

 

سوال: حرف توقع کس کو کہتے ہیں اور وہ کون ساہے۔

جواب: توقع کا لغوی معنی ہے امید رکھنا اس کے لئے ایک حرف ہے قَدْ  جو تحقیق کیلئے آتا ہے ، یہ ماضی اور مضارع دونوں پر داخل ہوتا ہے۔

سوال: قَد مضارع پر کون  سے معنیٰ کے لیئے آتا ہے۔

جواب:۱۔مضارع پر تقلیل(۱)  کیلئے آتا ہے جیسے اِنَّ الکَذُوبَ قَد یَصدُقُ جھوٹا شخص کبھی سچ بولتا ہے ٢۔ اور مضمون جملہ کی تحقیق کیلئے بهی آتا ہے جیسے قَد یَعلَمُ اللہُ یقینًا/تحقیق اللہ جانتا ہے۔

سوال: قَد  ماضی پر کتنے معنیٰ کے لیئے آتا ہے۔

جواب: یہ ماضی پر تین معانی کیلئے آتا ہے ١۔ مضمون جملہ کی تحقیق کیلئے ٢۔ تقریب کیلئے یعنی ماضی کو حال سے قریب کرنے کیلئے (۲) جیسے قَدرَکِبَ الاَمِیرُ بیشک امیر ابھی سوار ہو گیا  ٣۔ امید اور توقع کیلئے۔

۔۔۔۔۔۔۔

(۱)یعنی اس بات کو بتانے کے لئے کہ یہ کام کبھی کبھار ہوتا ہے۔

(۲)یعنی ماضی مطلق کو ماضی قریب کے معنیٰ میں کردیتا ہے جیسے قد ضرب بیشک زید نے قریب ہی زمانے میں مارا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

                ۷۔ حروف استفہام اور ان میں فرق

 

سوال: حروف استفہام سے کیا مراد ہے اور وہ کتنے ہیں۔

جواب: ان سے وہ حروف مراد ہیں جو کسی بات کے پوچھنے کیلئے شروع جملہ میں آئیں یہ تین حروف ہیں مَا (ھَمزہ) أَ،  ھَل۔

سوال: حروف استفہام میں کیا فرق ہے۔

جواب:۱۔ھمزھ کا استعمال بنسبت ھَل کے زیادہ ہوتا ہے ، اس طرح کہ ھمزہاسم فعل اور حروف سب پر داخل ہوتا ہے اور ھَل، حرف پر داخل نہیں ہوتا جیسے مَاتِلکَ بِیَمِینِکَ یَامُوسیٰ کیا ہے تمہارے ہاتھ میں اے موسیٰ۔ أَزَیدٌ قَائِمٌ کیا زید کھڑا ہے۔ ھَل ضَرَبَ زَیدٌ کیا زید نے مارا۔  ۲۔نیز ھمزہ اور ھَلْ سے نفس مضمون  جملہ کے متعلق سوال ہوتا ہے جیسے أَاَکَلتَ الطَّعَامَ۔ ھَل أَکَلتَ الطَعَامَ کیا تو نے کھانا کهایا ہے ؟ جواب ہو گا نعم یا لا ۳۔اور ھمزہ کبھی دوچیزوں میں ایک کی تعیین کے لئے بھی آتا ہے جیسے أَزَیدٌ جاء ام محمود؟ اور ان حروف استفہام کے آنے سے وہ جملہ انشائیہ بن جاتا ہے جیسے أَزَیدٌ قَائِمٌ، أَجَاءَ زَیدٌ اب یہ جملے انشائیہ ہو گئے۔

 

                ۸۔ حروف ردع

 

سوال:حروف ردع سے کیا مراد ہے اور وہ کون سا ہے ؟

جواب: ردع کا لغوی معنی ہے ڈانٹنا، جھڑکنا، روکنا، انکار کرنا اور یہ بھی سامع کو آئندہ کام، کلام سے روکتے اور دھمکاتے ہیں اور حرف ردع ایک ہے کَلَّا ہرگز نہیں، بیشک۔

سوال:کَلَّا  کا استعمال کس طرح ہوتا ہے ؟

جواب: یہ ابتدا کلام میں ہوتا ہے جیسے کَلَّا وَالقَمَرِ ۱۔کبھی خبر کے بعد جیسے کوئی تجھے کہے کہ فُلَانٌ  یُبغِضُکَ اس کے جواب میں توکہے گا کَلَّا ہرگز ایسا نہیں  ۲۔امر کے بعد جیسے اِضرِب زَیدًا کے جواب میں توکہے کَلَّا اَی لَا اَفعَلُ کَذَا ہرگز نہیں میں کبھی اس طرح نہیں کروں گا۔ ۳۔اور کَلَّا کبھی حَقَّا کے معنی میں بھی آتا ہے یعنی مضمون جملہ کی تحقیق کیلئے جیسے کَلَّا سَوفَ تَعلَمُونَ تحقیق عنقریب تم جان لو گے۔

 

                ۹۔تنوین اور اس کے اقسام

 

سوال: تنوین کسے کہتے ہیں۔

جواب: تنوین کا لغوی معنیٰ ہے نون ادا کرنا، نون داخل کرنا اور اصطلاح میں تنوین اس نون ساکن کو کہتے ہیں جو کلمہ کے آخری حرف کے حرکت کے پیچھے لگے ، تاکید کیلئے نہو جیسے ضاربٌ، خارج ہوا  اِضرِبَن کہ اس میں نون تاکید کیلئے ہے۔اور یہ جو دوزبر، دوزیر اور دوپیش کو تنوین کہتے ہیں یہ بطور علامت کے کہا جاتا ہے۔

سوال: تنوین کتنے قسم ہے۔

جواب: پانچ قسم ہے تمکن، تنکیر، عوض، مقابلہ، ترنم۔

 

تنوین تمکن

 

سوال: تنوین تمکن کسے کہتے ہیں اور یہ کس پر داخل ہوتا ہے۔

جواب:تمکن کا معنی ہے کسی جگہ پر پختہ ہونا، قرار پکڑنا، یہ تنوین بھی بتاتی ہے کہ اسم اسمیت میں اچھی طرح مضبوط اور پختہ ہے نہ حرف کی مشابہت کی وجہ سے مبنی ہوا ہے اور نہ اسباب منع صرف سے غیر منصرف ہوا ہے۔اور تنوین تمکن وہ ہے جو اسم متمکن / معرب کو معرفہ ظاہر کرنے کیلئے آئے جیسے زَیدٌ۔اِبرَاھِیمُ ایک معرفہ، دوسرا غیر معرفہ ہے۔

 

تنوین تنکیر

 

سوال: تنوین تنکیر  کسے کہتے ہیں اور یہ کس پر داخل ہوتا ہے ؟

جواب: تنکیر اس تنوین کو کہتے ہیں جس میں نکرہ والا معنیٰ ہو یعنی جو اسماء مبنیہ پر معرفہ اور نکرہ میں فرق بیان کرنے کیلئے لاحق ہو اور یہ تنوین بھی اسم کے نکرہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں ۱۔ تنوین کے ساتھ جیسے صَہٍ یہ اسم فعل ہے پس اگر تنوین (تنکیر) ہو گی تو معنیٰ نکرہ والا ہو گا اَی اُسکُتْ سُکُوتًا مَّافِی وَقتٍ مَّا کسی نہ کسی وقت خاموش ہو جا ۲۔ اور صَہْ بغیر تنوین کے تو معنیٰ ہو گا معرفہ والا یعنی اُسکُت سُکُوتًا اَلآنَ ابھی خاموش ہو جاؤ، گو یا اس میں وقت متعین ہوتا ہے ، یہ عموماً اسماء، افعال اور اسماء اصوات کے آخر میں سماعًا آتا ہے۔

 

تنوین عوض

 

سوال: تنوین عوض کسے کہتے ہیں اور یہ کس پر داخل ہوتا ہے۔

جواب: اس تنوین کو کہتے ہیں ۱۔ جو مضاف الیہ ۲۔مفرد ۳۔یا جملہ ۴۔یا کسی اسم کے بدلہ اور عوض میں آئے جیسے حِینَئِذٍ جو اصل میں حِینَ اِذَا کَانَ کَذَا تھا۔کُلٌّ قَائِمٌ جو اصل میں کُلُّ اِنسَانٍ قَائِمٌ تھا۔ سَا عَتَئِذٍ، یَومَئِذٍ  ۵۔یا جو حرف محذوف کے بدلہ میں آئے جیسے جَوَارٍ، غَوَاشٍ جیسے کلمات کی تنوین۔

 

تنوین مقابلہ

 

سوال: تنوین مقابلہ کسے کہتے ہیں۔

جواب: اس تنوین کو کہتے ہیں جو کسی کے مقابلہ میں آئے جیسے مسلماتٍ جمع مونث سالم میں تنوین جمع مذکر سالم مسلونَ کے واونون کے مقابلہ میں آئی ہے۔

 

تنوین ترنم

 

سوال: تنوین ترنم کسے کہتے ہیں اور یہ کس پر داخل ہوتا ہے۔

جواب: ترنم کا لغوی معنی ہے نغمہ، گانا، سریلی آواز کرنا اور اصطلاح میں اس تنوین کو کہتے ہیں جو آواز کو خوبصورت بنانے کیلئے اشعار اور  مصرعوں کے آخر میں آئے جیسے :

اَقِلِّی اللَّومَ عَاذِلَ، وَالعِتَابَن

وَقُولِی اِن اَصَبتُ لَقَد اَصَابَن

ترجمہ:

کم کر ملامت اور طعنہ کو اے ملامت کرنے والی محبوبہ/ عاذلہ

اگر میں صحیح کام کروں تو کہہ کہ بیشک اس نے صحیح کیا

یہ اصل میں عتابًا اور اصاب تھے تنوین کو نون خفیفہ کی صورت میں لکھا گیا ہے۔ اور العتابن اور اصابن میں تنوین ترنم ہے ، پہلے مصرعہ میں عتاب اسم معرف باللام پر تنوین آئی ہے۔ دوسرے مصرعہ میں اصاب فعل پر تنوین آئی ہے۔

سوال: ان پانچوں تنوین میں کیا فرق ہے۔

جواب: چار پہلی صرف اسم کے آخر میں آتی ہیں البتہ تنوین ترنم اسم فعل اور حرف کے آخر میں اور معرف باللام پر بھی آتی ہے۔

فائدہ: تنوین درحقیقت نون ساکن ہوتا ہے ، اسلیے اس کے بعد اگر کوئی ساکن ہو گا تو اس نون تنوین کو حرکت دے کر اگلے ساکن سے ملا دیتے ہیں جیسے خَیرُنِ الوَصِیَّۃُ۔

 

                ۱۰۔نون تاکید

 

سوال: نون تاکید سے کون سا،  نون مراد ہے اور وہ کس چیز پر داخل ہوتا ہے۔

جواب: اس سے وہ نون مراد ہے جو کسی چیز کی تاکید اور مضبوطی پر دلالت کرے اور یہ نون دو طرح کا ہوتا ہے خفیفہ، ثقیلہ لیکن ثقیلہ میں تاکید زیادہ ہوتا ہے جیسے اِضرِبَنَّ، اِضرِبَنْ اور یہ نون تاکید مضارع، امر، نھی، استفہام، تمنی اور عرض کے آخر میں آتا ہے جیسے لَاتَضرِبَنَّ، لیکن  ماضی پر نہیں آتا۔

 

                ۱۱۔حروف زائدہ اور ان کا استعمال

 

سوال: حروف زائدہ سے کیا مراد ہے اور وہ کون سے ہیں۔

جواب: یہ آٹھ حروف ہیں اِن اَن۔مَا۔لَا۔مِن۔کَاف۔بَا۔ لَام۔ زائدہ ہونے کا مطلب یہ ہے کی اگر ان کو کلام سے حذف کر دیا جائے تو اصل کلام کے معنی میں کوئی خلل نہ آئے۔ اور یہ چند مواقع میں زائدہ ہوتے ہیں تمام اوقات میں نہیں۔

سوال: حروف زائدہ کے لانے کاکیا فائدہ ہے۔

جواب: ان حروف کا لانا محض بے فائدہ نہیں کیونکہ کلام عرب میں ان کے بہت سے لفظی ومعنوی فوائد ہوتے ہیں مثلا لفظ کی تزیین وتحسین اور وزن شعری کی استقامت سجع بندی کا درست کرنا اور تاکید وغیرہ کے لیئے آتے ہیں۔

سوال:یہ حروف کب زائدہ ہوتے ہیں۔

جواب: واضح رہے کہ ۱۔اِنْ ما نافیہ اور لَمَّا اور مَا مصدریہ کے ساتھ اکثر زائدہ ہوتا ہیں جیسے لَمَّا اِن رَئَیتَ زَیدًا۔اِنتَظِر مَا اِن جَلَسَ القَاضِی اَی مُدَّۃَ جُلُوسِہٖ ۲۔ اَن اکثر لَمَّا شرطیہ کے ساتھ  زائدہ ہوتا  ہے۔ جیسے فَلَمَّا اَن جَاءَ البَشِیرُ جب آیا خوشخبری دینے والا۔

۳۔ ما زائدہ ہوتا ہے تین چیزوں کے ساتھ۔ اذا کے ساتھ جیسے اِذَا مَا تَخرُج اَخرُج۔

اِن کے ساتھ جیسے اِن مَّا تَرَیِنَّ مِنَ البَشَرِ اَحَدًا۔اَیّ کے ساتھ جیسے اَیَّمَا الاَجَلَینِ۔

مَتٰی اور اَینَ کے ساتھ بھی زائدہ ہوتا ہے جیسے مَتٰی مَا تَقُم اَقُم۔ اَینَمَا تَجِلِس اَجلِس۔

۴۔لَا  یہ بھی چند صورتوں میں زائدہ ہوتا ہے۔ ۱۔ واوعا طفہ کے ساتھ جیسے مَا جَائَنِی زَیدٌ وَلَا عَمرٌو ۲۔اَنْ مصدریہ کے ساتھ جیسے مَا مَنَعَکَ اَن لَّا تَسجُدَ اَی اَن تَسجُدَ ۳۔ قسم سے پہلے جیسے لَا اُقسِمُ بِیَومِ القِیٰمَۃِ قسم ہے مجھے قیامت کے دن  کی ۵۔مِن یہ کم خبر یہ کی تمیز پر زائدہ ہو کر آتا ہے جیسے وَکَم مِّن مَّلَکٍ فِی السَّمٰواتِ ۶۔بَاء جیسے کَفٰی بِاللہِ شَھِیدً ا۔

۷۔مِن ۸۔کاف ۹۔با ۱۰۔لام، یہ چاروں زائدہ ہونے کی صورت میں بھی اپنے مدخول کو جر دیتے ہیں جیسے لَیسَ کَمِثلِہٖ شَیءٌ نہیں ہے اس اللہ کے مثل کوئی چیز۔ زَیدٌ لَیسَ بِقَائِمٍ زید نہیں کھڑا۔

نوٹ: واضح رہے کہ جب یہ حروف جر زائدہ ہو کر استعمال ہوں تو متعلق کے محتاج نہیں ہوتے جیسے کَفٰی بِاللہِ شَھِیدً ا یہاں ترکیب میں با زائدہ ہے۔ اللہ مجرور لفظًا، مرفوع معنیً فاعل ہے کَفٰی کا۔ بِاللہ، کَفٰی کا متعلق نہیں ہے۔ اور شَھِیدً ا یہ تمیز ہے یا حال ہے۔

 

                ۱۲۔حرف شرط

 

 

سوال: حروف شرط کون سے ہیں اور کس مقصد کیلئے آتے ہیں؟

جواب: یہ دو ہیں اَمَّا  اور لو۔ اَمَّا مگر، مگر رہی یہ بات۔ یہ مجمل کلام کے تفسیر کیلئے آتے ہیں ان سے پہلے اجمال ہوتا ہے۔اور ان کے بعد جزا لازمی ہوتا ہے نیز یہ صدارت کلام کو چاہتے ہیں۔

سوال: اَمَّا  کس مقصد کیلئے آتا ہے۔

جواب: یہ مختلف اغراض کیلئے آتا ہے۔ ۱۔حرف  شرط اور تفصیل کے لیئے  اس کے جواب میں فا کا لانا ضروری ہے۔  جیسے اللہ تعالیٰ کا قول فَمِنھُم شَقِیٌّ وَّسَعِیدٌ فَاَمَّا الَّذِینَ شَقُوا فَفِی النَّارِ وَاَمَّا الَّذِینَ سُعِدُوا فَفِی الجَنَّۃِ پس  کچھ انسانوں میں سے بدبخت ہیں اور کچھ نیک بخت لیکن جو بدبخت ہیں پس وہ آگ میں ہوں گے اور لیکن جو نیک بخت ہیں وہ جنت میں ہوں گے۔ اس مثال میں شقی اور سعید مجملًا تھے۔ شقی کی تفسیر اَمّا الذین شقوا سے اور سعید کی تفسیر اَمّا الذین سعد وا سے کی گئی ہے اور اَمّا کے بعد فا لائی گئی ہے۔ لیکن کبھی کبھار فاء کو حذف  بھی کیا جاتا ہے۔ ۲۔اَمَّا استینا فیہ بھی ہوتا ہے جبکہ اس سے پہلے کوئی اجمال نہ ہو جیسے کتابوں کے شروع میں آتا ہے اَمَّا بَعْدُ فَھٰذِہٖ۔ ۳۔محض تاکید کیلئے جیسے زَیدٌ ذَاھِبٌ کو اَمَّازَیدٌ فَذَاھِبٌ بھی پڑھا جاتا ہے۔

نوٹ:اَمَّا کو، مَھمَا اور اس کے شرط کے قائم مقام ذکر کیا جاتا ہے۔ جیسے اَمَّازَیدٌ فَذَاھِبٌ یہ مَھمَا یَکُن مِن شَئٍ فَزَیدٌ ذَاھِبٌ کے قائم مقام ہے۔

 

                ۱۳۔لو

 

سوال: لو (اگر )کس مقصد کیلئے آتا ہے۔

جواب: یہ بھی حرف شرط ہے اور  ماضی کے لیئے آتا ہے۔ اگر چہ مضارع پر داخل ہو جیسے لَو ضَرَبتَ ضَرَبتُ۔  لو  کا معنیٰ ہے انتفاع الثانی  بسبب انتفاع الاول دوسری چیز کا نہ ہونا پہلی چیز کے نہ ہونے کے سبب سے۔  لو کہتا ہے کہ دوسرا فعل وجود میں نہیں آیا اس لیئے کے پہلا فعل نہیں پایا گیا۔اور یہ دو جملوں پر داخل ہوتا ہے پہلے جملہ کے منتفی نہ ہونے کی وجہ سے ثانی کی نفی کرتا ہے یعنی لو کہتا ہے کہ میری جزا اس لیئے نہیں ہے کہ میرا شرط نہیں ہے جیسے لوکان فیھما اٰلِھَۃٌ اِلّا اللہُ لَفَسَدَتَا، اگر زمین اورآسمان میں اللہ تعالی کے علاوہ کئی معبود ہوتے تو زمین آسمان دونوں کا نظام فاسد ہو جاتا ہے۔ علوی وسلفی نظام درھم برھم ہو جاتا حالانکہ فساد نہیں ہے کیونکہ دوسرے معبودان باطلہ نہیں ہیں، (یہاں جزاموجو د نہیں ہے کیونکہ شرط نہیں ہے ) یہاں پہلی چیز معبود ہے اور دوسری چیز فساد ہے۔

سوال: لَو اور وَلَو میں کیا فرق ہے۔

جواب: لَو حرف شرط ہے ، اور ولَو، نہ یہ حرف شرط ہے اور نہ ہی اس کے بعد جوابی  جملہ ہوتا ہے۔ اس کا معنیٰ ہے اگرچہ۔

سوال: کیا لو صرف ایک معنیٰ کے لیئے آتا ہے۔

جواب: جی نہیں یہ کئی معانی کیلئے آتا ہے۔۱۔ تقلیل کے لیئے جیسے  تَصَدَّقُوا وَلَو بِظِلفٍ ۲۔تَمَنِّی کیلئے جیسے وَلَو اَنَّ لَنَا کَرَّۃً ۳۔عرض کیلئے  ۴۔لو مصدریہ۔

 

لولا

 

سوال: لولا، (اگر نہ ہو، اگر نہ ہوتا) کس مقصد کیلئے آتا ہے۔

جواب: یہ بھی کئی معانی کیلئے آتا ہے۔۱۔حرف شرط کے لیئے یہ دو جملوں پر داخل ہوتا ہے اور ثانی جملہ کی نفی کرتا ہے پہلے جملہ کے موجود ہونے کی وجہ سے اور لولا کا معنیٰ ہے انتفاع الثانی بسبب وجود الاول دوسری چیز کا نہ ہونا پہلی چیز کے موجود ہونے کی وجہ سے۔یعنی لولا کہتا ہے کہ میرے شرط کے موجود ہونے کی وجہ سے میری جزا موجود نہیں ہوتی جیسے لَولَا عَلِیٌّ لَھَلَکَ عُمَرُ اگر علیؓ نہ ہوتے تو عمرؓ ہلاک ہوتے۔ حضرت عمر ؓہلاک نہیں ہوئے  اسلیئے کہ حضرت علیؓ موجود تھے۔ (سنن ابی داؤد باب رجم المجنون)

سوال: اس مقولہ کا پس منظر کیا ہے۔

جواب:اس کا قصہ یہ ہے ایک عورت کو زنا کی وجہ سے حمل ہو گیا اور حضرت عمر ؓکے پاس آئی تو آپ نے اس کے سنگسار کرنے کا حکم دیا، اتنے میں حضرت علی ؓ آ گئے اور کہا کہ میرا مشورہ یہ ہے کہ حمل کے حالت میں سنگسار نہ کرائیں، بچہ پیدا ہونے کے بعد سزادیں کیونکہ اب دو جانیں جاتی رہیں گی، یہ بات حضرت عمر ؓ  کو پسند  آئی اور سنتے ہی فرمایا لولا علی لَھلک عمر یہ دراصل ہے لولا علیّ موجود لھلک عمربہرحال حضرت علیؓ کی وجہ سے حضرت عمر ؓ ھلاکت سے بچ گئے۔۲۔ لو لا تحضیضیہ بھی ہوتا ہے۔

 

                ۱۴۔لام مفتوح

 

سوال: لام مفتوح کس مقصد کیلئے آتا ہے اور یہ کس چیز پر داخل ہوتا ہے۔

جواب: ۱۔یہ جملہ کی تاکید کے لیئے آتا ہے اور اسم وفعل دونوں پر داخل ہوتا ہے۔اور  اس کو لام ابتدائیہ بھی کہتے ہیں، اسم کی مثال لَزَیدٌ اَفضَلُ مِن عَمرٍو البتہ زید عمرو سے افضل ہے۔

فعل کی مثال جیسے اِنَّ رَبَّکَ لَیَحکُمُ بَینَھُم، بیشک تمہارا رب البتہ فیصلہ کرے گا ان کے درمیان۔

۲۔اسی طرح تاکید کیلئے مضارع کی ابتدا میں لام مفتوح اور آخر میں نون تاکید ثقیلہ یا خفیفہ بھی آتا ہے جیسے لَاَضرِبَنَّ – لَاَضْرِبَنْ۔

 

                ۱۵۔ما بمعنی ما دام

 

سوال:مادام میں ما سے کیا مراد ہے  اور وہ ترکیب میں کیا ہوتا ہے۔

جواب: اس کا معنی ہے جب تک، ہمیشہ، اور اس ما کے دونام ہیں ۱۔حینیہ مصدر یہ ۲۔ظرفیہ مصدر یہ، جیسے اقوم ما جلس الامیر میں کھڑا رہوں گا جب تک کہ امیر بیٹھا رہے۔اس میں ما اپنے صلہ سے مل کر بتاویل  مصدر، مضاف الیہ ہو گا، وقت مضاف محذوف کا پھر مل کر ہو گا  مفعول فیہ یعنی اَقُومُ وَقتَ دَوَامِ جُلُوسِ الاَمِیرِ کھڑا رہا میں جب تک بیٹھا رہا امیر۔

 

                ۱۶۔حروف عاطفہ

 

سوال: حروف عطف کتنے ہیں اور ان کاکیا حکم ہے۔

جواب: یہ دس حروف ہیں واو، فا، ثُمَّ، حَتّیٰ اِمَّا، اَو، اَم، لَا، بَل، لٰکِن۔ یہ اپنے ما بعد کو ماقبل کے ساتھ صرف لفظی یا لفظی اور معنوی دونوں حکموں میں جمع کرتے ہیں۔

اور یہ معطوف کو معطوف علیہ کے حکم اور اعراب میں شریک کرنے کیلئے آتے ہیں۔

 

واو

 

سوال: حروف عطف میں  سے واو کس معنیٰ کے لیئے آتا ہے۔

جواب: اس کا معنیٰ ہے اور۔یہ  مطلق جمع کیلئے آتا ہے بغیر ترتیب اور مہلت(۱) کے جیسے جائنی  زیدٌ وَ عمرٌو، زید اورعمرو دونوں آئے ، (خواہ اکھٹے آئے ہوں یا یکے بعد دیگرے )۔

سوال: کیا واو صرف عاطفہ ہوتا ہے۔

جواب: اس کی کئی قسمیں ہیں حقیقۃً تو عطف کے لیئے آتا ہے اور مجازًاکئی معانی کے لیئے آتا ہے۔ مثلًا ۱۔ واو استینافیہ ۲۔تفسیر یہ ۳۔ حالیہ وغیرہ۔پھر اگر  واوشروع کلمہ میں ہو تو استینافیہ ہو گا۔ اگر درمیاں کلمہ میں ہے اور ما قبل وما بعد میں مغایرت ہے تو عاطفہ ہو گا،  مغایرت نہیں ہے تو واو تفسیر یہ ہو گا۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)یعنی واو کا ما قبل اور ما بعد  مذکورہ فعل میں جمع و شریک ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

فا

 

سوال: فاء کس معنیٰ مقصد کے لیئے آتا ہے۔

جواب: اس کا معنیٰ ہے پھر، پس ۱۔یہ ترتیب اور تعقیب بلا فصل پر دلالت کرتا ہے اور یعنی فا میں اتصال ہوتا ہے۔ جیسے جائنی زیدٌ فعمرٌو زید کے بعد فورًا عمرو آیا ۲۔اسی طرح فاء سببیہ بھی ہوتا ہے۔

 

ثم

 

سوال: ثُمَّ کس معنیٰ کیلئے آتا ہے۔

جواب: اس کا معنیٰ ہے پھر۔یہ ترتیب مع الفصل یعنی تراخی کیلئے آتا ہے ۱۔اور اس کے ذریعہ مفرد کا مفرد پر عطف ہوتا ہے۔ جیسے جائنی زید ثُمَّ عمرو، زید آیا پھر عمرو آیا (یعنی زید کے کافی دیر بعد عمرو آیا ) ۲۔ جملہ پر بھی عطف ہوتا ہے۔

 

حتیٰ

 

سوال: حتیٰ کس معنیٰ کیلئے آتا ہے۔

جواب: اس کا معنیٰ ہے یہاں تک۔ یہ فعل کے انتھا کیلئے آتا ہے اور اسمیں بھی ثُمَّ کی طرح ترتیب اور مھلت ہوتی ہے جیسے قَدِمَ القَافِلَۃُ حَتّٰی المُشَاۃُ قافلہ آ گیا پیدل چلنے والے تک آ گئے۔

سوال: حتیٰ کے عطف کیلئے کون سے شرائط ہیں۔

جواب: تین شرائط ہیں ۱۔معطوف اسم ظاہر ہو ۲۔معطوف، معطوف علیہ کا جزء ہو ۳۔حتیٰ غایت کیلئے ہو جیسے اَکَلتُ السَّمَکَۃَ حَتیٰ رَأسَھَا۔

 

اِمَّا، اَو

 

سوال: اِمَّا، اَو، اَم کس معنیٰ کیلئے آتے ہیں۔

جواب: اِمَّا کئی معانی  کیلئے آتا ہے۔ ۱۔حرف تفصیل ۲۔تقسیم ۳۔ تخییر ۳۔ابھام و شک کیلئے بھی آتا ہے۔ نیز یہ عام طور پر  دو مرتبہ آتا ہے جیسے الکلمۃ ُاِمَّا اسمٌ واِمَّا فعلٌ واِمَّاحرفٌ۔ تخییر کی مثال جیسے خُذمِن مَّالِی اِمَّا دِرھَمًا وَاِمَّا دِینَا رًا۔

سوال: اِمَّا اور اَمَّا کا ضابطہ کیا ہے۔

جواب: اگر ابتداء میں ہو تو  اَمَّا شرطیہ ہو گا، اگر درمیان میں ہو یا اِمَّا کے بعد اِمَّا یا او، ہو تو یہ اِمَّا عاطفہ ہوتا ہے۔

سوال: تخییر اور اباحت میں کون سا فرق ہے۔

جواب: تخییر میں معطوف علیہ اور معطوف میں سے ایک کو اختیار کیا جاتا ہے جمع نہیں کیا جا سکتا اور اباحت میں دونوں کو جمع بھی کیا جا سکتا ہے۔

سوال: اَو کس معنیٰ کیلئے آتا ہے۔

جواب:۱۔یہ  احد الامرین۔ دو میں سے ایک چیز بتانے کیلئے آتا ہے یعنی غیر معین طور پر کسی ایک چیز کو ثابت کرتا ہے۔ اَو بھی کئی معانی  کے لیے آتا ہے۔ ۱۔احد الامرین کے لیے ۲۔شک  ۳۔اباحت ۴۔ابھام ۵۔تفصیل ۶۔اور تقسیم کیلئے بھی آتا ہے۔ ۷۔البتہ تخییر میں زیادہ استعمال ہوتا ہے جیسے تَزَوَّج زَینَبَ اَو اُختَھَا، زینب یا اس کی بہن جس سے تو چاہے شادی کر۔ ۸۔ اسی طرح اَو واو کے معنیٰ میں بھی آتا ہے۔

 

ام

 

سوال: اَمْ کتنے قسم ہے۔

جواب: ام کا معنیٰ ہے یا، یہ دو قسم ہے ۱۔مُتَّصلہ ۲۔منقطعہ۔

ام متصلہ، یہ تسویۃ کیلئے آتا ہے یعنی احد الامرین کے تعین کیلئے جیسے أَزَیدٌ عِندَکَ اَم عَمرٌو اور اس کی علامت یہ ہے کہ اس سے پہلے ھمزہ تسویۃ ہو یا اس کے ہم معنیٰ کوئی چیز۔

ام منقطعہ، یہ ماقبل سے اعراض اور ما بعد  میں شک کیلئے آتا ہے جیسے اِنَّھَا لَاِبلٌ کے بعد کوئی کہے اَم ھِیَ شَاۃٌ کیا یہ بکری ہے اس کی علامت یہ ہے کی اسی سے پہلے نہ ھمزہ تسویہ ہونہ ھمزہ بمعنی اَی۔

 

لا

 

 

سوال: لَا، کس معنیٰ کیلئے آتا ہے۔

جواب: یہ کئی معانی کیلئے آتا ہے ۱۔نفی کیلئے اور اس کے ذریعہ عطف کی کئی صورتیں ہیں کبھی امر کے بعد جیسے اِضرِب زَیدًا لَا عَمرًوا، مار زید کو، نہ عمروکو۔کبھی اثبات کے بعد جیسے جَاءَ زَیدٌ لَا عَمرٌو ۲۔اسی طرح اضراب کیلئے بھی آتا ہے۔یعنی بمعنیٰ بل /معطوف علیہ سے ہٹ کر معطوف پر حکم لگانے کیلئے۔

 

بل

 

سوال: بَلْ، کس معنیٰ کیلئے آتا ہے ؟

جواب: بَل/ بلکہ۔ یہ معطوف علیہ سے اعراض کر کے معطوف کیلئے حکم ثابت کرتا ہے جیسے جَائَنِی زَیدٌ بَل عَمرٌو یہاں آنے کا حکم عمرو کیلئے ثابت  کیا گیا ہے۔

۱۔ پس اگر اس کے بعد جملہ ہو گا تو یہ استینافیہ ہو گا۔

۲۔ اگر اس کے بعد مفرد ہو گا تو یہ عاطفہ ہو گا جیسے قَد اَفلَحَ  مَن تَزَکَّیٰ وَ ذَکَرَ اسمَ رَبِّہٖ فَصَلَّیٰ بَل تُؤثِرُونَ الحَیٰوۃَ الدُّنیَا۔

۳۔ پھر کبھی نفی یا نہی کے بعد بَلْ سے عطف کیا جاتا ہے جیسے مَاقَامَ زَیدٌ بَل عَمرٌو نہیں کھڑا ہے زید بلکہ عمرو۔ یہاں بل کے ماقبل کے حکم کی تقریر کر کے اس کے نقیض کو مابعد کے لیئے ثابت کیا گیا ہے۔ لَا تَضرِب زَیدًا بَل عَمرًوا زید کو نہ مار بلکہ عمر کو مار۔

۴۔ کبھی خبر مثبت کے بعد عطف کیا جاتا ہے جیسے قَامَ زَیدٌ بَل عَمرٌو کھڑا ہوا زید بلکہ عمرو، یہاں معطوف علیہ گویا مسکوت عنہ کے حکم میں ہے۔ صرف ما بعد کے لئے حکم ثابت کیا گیا ہے اور زید کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں ہے۔اِضرِب زَیدًا بَل عَمرًوا یہاں بھی زید کے متعلق گویا سکوت ہے اور عمرو کے مارنے کا حکم ہے۔

 

لکن

 

سوال: لٰکن کس معنیٰ  کیلئے آتا ہے۔

جواب: یہ عاطفہ  ہے اور استدراک کیلئے آتا ہے یعنی پہلے کلام میں جو وھم ہوتا ہے اس کو دور کرنے کیلئے آتا ہے پھر لکن کے ذریعہ عطف نفی یا نہی کے بعد کیا جاتا ہے۔

نفی کی مثال: جیسے مَا ضَرَبتُ زَیدًا لٰکِن عَمرًوا نہیں مارا میں نے زید کو بلکہ عمرو کو مارا۔

نہی کی مثال، جیسے لَا تَضرِبْ زَیدًا لٰکِن عَمرًوا نہ مار تو زید کو بلکہ عمر وکو مار۔ البتہ اثبات کیلئے لٰکِن سے عطف کرنا درست نہیں  اس لیئے جَائَنِی زَیدٌ لٰکِن عَمرٌو کہنا غلط ہے۔

 

مستثنیٰ

 

سوال: مستثنیٰ کسے کہتے ہیں۔

جواب:  مستثنیٰ اسم مفعول کا صیغہ ہے۔ معنی باہر نکالا ہوا۔ یہ مشتق ہے استثنَاء  سے۔ اس کا لغوی معنی ہے خارج کرنا، باہر نکالنا۔ اصطلاح میں مستثنیٰ اس لفظ کو کہتے ہیں جسکو اِلّا یا اس کے اخوات کے ذریعہ ماقبل کے حکم سے باہر نکلا جائے تاکہ ظاہر ہوکہ  جس حکم کی نسبت اِلّا کے ماقبل کے طرف ہے اس حکم کی نسبت اِلّا کے مابعد کے طرف نہیں۔

یعنی مستثنیٰ اس اسم کو کہتے ہیں جس کو حرف استثناء کے ذریعے ماقبل کے حکم سے نکالا جائے جیسے ضربتُ القومَ اِلّا زیدًا میں نے پوری قوم کو مارا سواء زید کے۔

سوال: مستثنیٰ منہ کسے کہتے ہیں۔

جواب: جس چیز میں سے کوئی حکم خارج کیا گیا ہو وہ مستثنیٰ منہ اور جس چیز کے حکم کو خارج کیا جائے اس کومستثنیٰ کہتے ہیں جیسے جائنی القومُ اِلّا زیدا لوگ آئے مگر زید (نہیں آیا )اس میں قوم مستثنی ٰ منہ اور زید مستثنی ٰ ہے۔

 

حروف استثناء

 

سوال:الا ّکے اخوات /حروف استثناء کون سے ہیں۔

جواب: وہ گیا رہ ہیں اِلّا۔ غیر۔ سِویٰ۔ سَواء۔ حاشا(۱)۔ خلا۔ عدا۔ماخلا۔ ماعدا۔ لیسَ۔ لایکون۔

نوٹ: اسی طرح بید بھی استثناء ٰ میں استعمال ہوتا ہے اور یہ ہمیشہ اَنَّ سے پہلے آتا ہے جیسے ھُوَ کَثِیرُ الْمَالِ بَیْدَاَنّہٗ بَخِیلٌ۔

سوال: مستثنیٰ باعتبار ذات کتنے قسم ہے۔

جواب: دو قسم ہے : مستثنی ٰ متصل۔مستثنیٰ منقطع اور اس کا استعمال بہت کم ہوتا ہے۔ مستثنیٰ متصل(۲) اس اسم کو کہتے ہیں کہ مستثنی۔مستثنی منہ میں  داخل ہو اور اس کو ما قبل کے حکم سے نکالا گیا ہو جیسے جائنی القومُ اِلّازیدًا میرے پاس قوم آئی مگر زید نہیں آیا۔

متثنیٰ منقطع(۳) : اس کو کہتے ہیں جو اِلّا یا  اِلّاکے اخوات کے بعد واقع ہو اورمستثنیٰ کو مستثنیٰ منہ سے نہ نکالا گیا ہو کیونکہ مستثنیٰ۔ مستثنیٰ منہ میں داخل نہیں ہوتا جیسے جائنی القومُ اِلّاحمارًا آئی میرے پاس قوم مگر گدھا نہیں آیا (گدھا قوم میں داخل ہی نہ تھا)۔

فائدہ :واضح رہے کہ سیبویہ ؒ   مستثنیٰ منقطع میں اِلّا کو بمعنیٰ لٰکِنْ لیتے ہیں۔ (الکتاب ص۴۳۰)

۔۔۔۔۔۔۔

(۱)البتہ حاش برأت کے معنیٰ میں اسم ہے جو مبنی بر فتح ہے اور نصب کی محل میں مفعول  مطلق ہوتا ہے جیسے حاش للہ ما ھٰذا بشرا (القرآن)۔

(۲)یعنی جس میں مستثنی ٰ، مستثنی ٰمنہ کے جنس سے ہو۔

(۳)یعنی جس میں مستثنی ٰ، مستثنی ٰ منہ کے جنس سے نہ  ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

مستثنیٰ کا اعراب

 

سوال: مستثنیٰ کا اعراب کتنے قسم ہے۔

جواب: چار قسم ہے ۱۔ مستثنیٰ منصوب ۲۔ مستثنیٰ ما قبل سے بدل اور نصب ۳۔عامل کے موافق  ۴۔ مستثنیٰ مجرور۔

 

مستثنی ٰ منصوب

 

سوال: مستثنی ٰٰ منصوب کتنی صورتیں میں ہوتا ہے۔

جواب: چار صورتوں میں مستثنیٰ وجوبا منصوب ہوتا ہے۔ وہ چار صورتیں یہ ہیں۔

۱۔ مستثنیٰ اِلّا کے بعد کلام موجب میں واقع ہو جیسے جائنی القومُ اِلّا زیدًا۔

۲۔ مستثنیٰ۔ مستثنیٰ منہ سے مقدم ہو۔ کلام موجب ہو یا غیر موجب۔ مستثنیٰ متصل ہو چاہے منقطع جیسے ماجائنی اِلّا زیدًا اَحدٌ۔

۳۔ مستثنیٰ منقطع ہو، خواہ کلام موجب ہو جیسے جائَنِی القومُ اِلّا حِمارًا یا کلام غیر موجب ہو جیسے ماجائَنِی القومُ اِلّا حمارًا۔

۴۔ مستثنیٰ خَلا اور عَدَا کے بعد واقع ہو تو اکثر علماء کے نزدیک منصوب ہوتا ہے جیسے جائنی القومُ خَلاَزَیْدًا، عَدَا زیدًا۔

 

حاشا خلا کی ترکیب

 

سوال: حَاشَا خَلا، عَدَا، ترکیب میں کیا واقع ہوتے ہیں۔

جواب: جب ان کے بعد والا اسم منصوب ہو گا تو حاشا خَلا، عَدَا فعل ماضی ہوں گے مابعد ان کا مفعول ہو گا اور جب بعد والا اسم منصوب نہ  ہو تو یہ حرف جر ہونے کی وجہ سے اپنے مابعد کو جر دیں گے (۱) جیسے جائَنِی القومُ خَلاَزَیْدٍ۔

اسی طرح مستثنیٰ ما خَلا، ماعَدا، لَیْسَ، لایکونُ کے بعد واقع ہو تو بھی منصوب ہو گا جیسے جائنی القومُ ماخلا زیدًا۔ ما عدا زیدًا۔ جائنی القومُ لیس زیدًا۔ جائَنِی القومُ لا یکونُ زیدًا۔

۔۔۔۔۔۔۔

(۱)بہر صورت معنیٰ استثنا  والا ہوگا ۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

کلام موجب، غیر موجب

 

سوال: کلام موجب اور غیر موجب کسے کہتے ہیں۔

جواب: کلام موجب اسے کہتے ہیں، جس میں حرف نفی، نہی اور استفہام نہ ہو جیسے جائَنِی القومُ اِلّا زیدًا۔

کلام غیر موجب اسے کہتے ہیں جس میں حرف نفی نہی یا استفہام ہو جیسے جیسے ماجائَنِی اِلّا زیدًا اَحَدٌ در اصل ماجائَنِی اَحَدٌ اِلّا زیدًا۔

سوال: جائنی القومُ لیسَ زیدًا اور جائنی القومُ لایکونُ زیدًا میں زیدًا منصوب کیوں ہے۔

جواب: لَیسَ اور لایکونُ  کے بعدمستثنیٰ کو منصوب پڑھاجاتا ہے خبر ہونے کی وجہ سے ، کیونکہ لَیْسَ اور لایکون فعل ناقص ہیں۔نیز ترکیب میں القوم ذوالحال ہے اور لَیْسَ اپنے اسم وغیرہ سے مل کر پورا جملہ حال ہو گا، پھر حال، ذوالحال مل کر ہو گا فاعل، فعل جَاءَ کا۔ اسی طرح ترکیب ہو گی لایکون کی۔

سوال: جائنی القومُ مَاخَلا زیدًا  اور جَائِنَی القومُ لایکونُ زیدًا  کی ترکیب کیسے ہو گی

جواب: ماخلا اور ما عدا میں ما مصدریہ ہے باقی ترکیب و ہی خلا کی طرح ہو گی۔

سوال: جائنی القومُ لیس زیدًا اور جائنی القومُ لایکون زیدًا کی ترکیب کیسے ہو گی۔

جواب: ان مثالوں میں لَیْسَ اور لایکون، فعل ناقص ہیں۔ القوم، ذوالحال۔ لَیْسَ میں فاعل (اسم) ضمیر مُستَتر ھُوَ ہے اور زیدًا، خبر ہے لَیْسَ کی۔ لَیْسَ اپنے اسم اور خبر سے مل کر ہوا حال، ذوالحال اپنے حال سے مل کر فاعل ہوا فعل کا۔ فعل اپنے فاعل اور مفعول بہ سے مل کر ہوا جملہ خبر یہ فعلیہ۔ اور جَائَنِی القومُ لایکونُ زیدًا کی ترکیب بھی اسی طرح ہو گی۔

 

اعراب کا دوسرا قسم دو وجہ بدل اور نصب

 

سوال: مستثنیٰ میں دو وجہ کس وقت پڑھے جاتے ہیں۔

جواب: جب مستثنیٰ متصل اِلّا کے بعد کلام غیر موجب میں واقع ہو اور مستثنیٰ مِنہ بھی مذکور ہو تو اس میں دو وجہ پڑھنے جائز ہیں۔

۱۔ یا تو مستثنیٰ، استثناء کی وجہ سے منصوب ہو گا جیسے مَاجَائَنِی اَحدٌ اِلّا زیدًا۔

۲۔ یا ماقبل سے بدل البعض ہو گا(۱)  جیسے مَاجَائَنِی اَحَدٌ اِلّازیدٌ۔

سوال: مَاجَائَنِی اَحَدٌ اِلّا زیدًا  وَ اِلّازیدٌ کی ترکیب کیا ہے۔

جواب:یہاں مستثنیٰ میں دو وجہ پڑھنے جائز ہیں ۱۔ نصب بدل(۲) کی وجہ سے  ۲۔مستثنیٰ کو بدل والا اعراب۔یعنی اَحَدٌ، مبدل مِنہ۔ اِلّا حرف استثناء۔زید، بدل، مبدل منہ اپنے بدل سے مل کر ہوا فاعل فعل کا۔

۔۔۔۔۔۔۔

(۱)اور اعراب ماقبل والا ہوگا ۔

(۲)استشناء کی وجہ سے ۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

مستثنیٰ کے اعراب کا تیسرا قسم

 

سوال: مستثنیٰ کا اعراب عامل کے موافق کب  ہوتا ہے۔

جواب: ۱۔ جب مستثنیٰ مفرغ ہو یعنی مستثنیٰ مِنہ مذکور نہ ہو ۲۔ اور کلام غیر موجب ہو تو اعراب، عامل کے مطابق ہو گا(۱) جیسے مَاجَائنی اِلّا زیدٌ یہاں  زید کو رفعہ فاعل ہونے کی وجہ سے ہے۔ مارئیت اِلّا زیدًا یہاں زید کو نصب مفعول بہ کی وجہ سے ہے۔  مامررتُ اِلّا بِزیدِ، یہاں جار مجرور مل کر متعلق ہو گا فعل سے۔

۔۔۔۔۔۔

(۱)اور اس صورت میں اِلاّ استشناء کے لیے نہیں ، بلکہ محض حصر کیئے ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

مستثنیٰ کے اعراب کا چوتھا قسم

 

سوال: مستثنیٰ مجرور کب ہوتا ہے ؟

جواب:  دو صورتوں میں مستثنیٰ مجرور ہوتا ہے ، ۱۔ جب مستثنیٰ لفظ غیر، سِوَیٰ، سَواء کے بعد واقع ہو تو مجرور ہو گا جیسے جَائَنِی القومُ غیرَ زیدٍ، سِوَیٰ زیدٍ، سواءَ زیدٍ ۲۔ اسی طرح حَاشَا کے بعد بھی مستثنیٰ اکثر علماء کے نزدیک مجرور ہو تا ہے۔ جیسے جائنی القومُ حَاشازیدٍ، اس صورت میں حَاشَا کو حرف جر شمار کیا جاتا ہے۔ اور بعض کے نزدیک نصب بھی جائز ہے جیسے قَامَ الطُّلاَّبُ حَاشَا خَالدًاہے اس صورت میں حاشَا کو فعل شمار کیا گیا ہے۔

سوال: جائنی القومُ غیرَزیدٍ، سوَیٰ زیدٍ، سَواءَ زیدٍکی ترکیب کیسے ہو گی؟

جواب: ان مثالوں میں مستثنیٰ، مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے مجرور ہے اور القوم، ذوالحال، غیرَ، سِوَیٰ، سواءَ اپنے مضاف الیہ سے مل کر حال ہو گا، آگے ترکیب پہلے کی طرح ہو گی۔

 

لفظ غیر کا اعراب

 

سوال: لفظ غیر کو کون سا اعراب ہوتا ہے۔

جواب: لفظ غیر کو مستثنیٰ بِاِلّا والا اعراب ہوتا ہے یعنی مستثنیٰ باِلّا کی جس صورت میں اِلّا کے جگہ پر لفظ غیر آئے گا تو مستثنیٰ والا اعراب غیر پر آئے گا اور لفظ غیر مضاف ہو گا اپنے مابعد کی طرف اور اس کی کئی صورتیں ہیں۔

۱۔ مستثنیٰ کلام موجب کا مثال جیسے جَائَنِی القومُ غَیرَ زیدٍ ۲۔ مستثنیٰ منقطع کا مثال جیسے جَائَنی القومُ غیرَ حِمارٍ۔

۳۔ مستثنیٰ مقدم کا مثال: جیسے مَاجَائنی غَیرَ زَیدِنِ القَومُ ۴۔ مستثنیٰ مفَرَّغ کا مثال جس میں دووجہ پڑھنے جائز  ہیں جیسے  ماجائنی احدٌغَیرَزیدٍ یا غیرُ زیدٍ۔

۵۔ مستثنیٰ مفرغ کا مثال جس میں مستثنیٰ مِنہ مذکور نہ ہو  جیسے ماجائنی غَیرَزیدٍ۔ مارئیتُ غیرَزیدٍ یا غیرُ زیدٍ، مَامَرَرْتُ بِغیرِ زَیْدٍ۔

سوال: مستثنیٰ مفرغ کسے  کہتے ہیں۔

جواب: اس مستثنیٰ کو کہتے ہیں جسکا مستثنیٰ منہ مذ کور نہ ہو۔

سوال:  ماجائنی غیرَ زَیدِنِ القومُ کی ترکیب کیسے ہو گی۔

جواب: یہاں مستثنیٰ، مستثنیٰ منہ سے مقدم ہے اور غَیر زیدٍ، حَال مقدم ہے ، القوم، ذوالحال مؤخر ہے۔

 

غیر اور اِلّا کی وضع

 

سوال: لفظ غیر اور اِلّا کی وضع اصل میں کس معنیٰ کیلئے ہے۔

جواب: لفظ غیر اصل میں صفت کیلئے وضع کیا گیا ہے جیسی مررتُ بِرجلٍ غیرِزیدٍ، لیکن کبھی مجازًا استثناء، کیلئے بھی آتا ہے جیسے جائَنِی القومُ غیرَ اصحابِک۔ جس طرح اِلّا اصل میں استثناء کیلئے وضع کیا گیا ہے  یعنی اس میںنفیًا یا اثباتًا ماقبل اور ما بعد کا تٖغایر ہوتا ہے جیسے جائنی القومُ اِلّا زیدًا۔ لیکن کبھی کبھار صفت میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے  لو کان فِیھما اٰلِھَۃٌ اِلّا اللہُ لَفَسَدَ تَا اَیْ غیرُ اللہِ اگر آسمان اور زمین میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبود ہوتے تو نظام علوی اور سفلی درھم برھم ہو جاتا، یہاں اِلّا بمعنیٰ غیر ہے ، اور صفت ہے اٰلِھَۃٌ کی۔

نوٹ: کبھی کبھار غیر کو اعراب باعتبار عامل کے بھی ہوتا ہے جیسے ماجائنی غیرُ زیدٍ۔  مارئیتُ غیرَزیدٍ۔ مامررتُ بغیرِ زیدٍ۔

سوال:لوکان فیھما اٰلِھَۃٌ اِلّا اللہُ، کس صورت کی مثال ہے اور اس کی کیا ترکیب ہے ؟

جواب: یہ مثال اس اِلّا کی ہے جو صفت کیلئے استعمال ہوئی ہے اور بمعنیٰ غیر ہے۔ اور فیھما، اپنے متعلق سے مل کر ہوئی خبر مقدم کان کی۔اٰلِھَۃٌ، موصوف۔ اِلّابمعنیٰ غیر، مضاف۔ اللّٰہ مضاف الیہ۔ مضاف اپنے ، مضاف الیہ سے مل کر صفت ہوا موصوف کا۔ موصوف اپنے صفت سے مل کر اسم مؤخر ہو گا  کانَ کا۔ کانَ اپنے اسم و خبر سے مل کر ہوا شرط۔ لَفَسَدَتا ہوئی جزا۔ شرط اپنی جزاء سے مل کر جملہ شرطیہ فعلیہ ہوا۔

سوال: لوکا ن فیھما اٰلھۃٌ اِلّا اللّٰہُ لَفَسَد تا میں لفظ اللہمرفوع کیوں ہے۔

جواب: یہاں اٰلِھَۃ، موصوف ہے اور اِلّا صفت ہے اٰلِہۃٌ کی بمعنیٰ غیر، حرف ہونے کی وجہ سے اِلّا  کا اعراب بعد والے اسم پر آ گیا۔ اس صورت میں موصوف اور صفت دونوں میں اعراب لفظی ہے۔

 

چند   اعتراضات کی حقیقت

 

سوال: یہاں اٰلِھَۃٌ (موصوف )اور غیرُ اللہِ (صفت) میں مطابقت نہیں ہے ، کیونکہ اٰلِھَۃٌ، نکرہ ہے اور غیرُ اللہ، معرفہ ہے۔

جواب: در حقیقت دونوں نکرہ ہیں کیونکہ نحو میں دو لفظ۔ غیر۔ مِثل، مُتَوَغَّل فی الابھام ہیں کہ  اضافت کے باوجود معرفہ نہیں بنتے بلکہ نکرہ ہی رہتے ہیں۔

سوال: اٰلِہۃٌ، جمع کا صیغہ ہے اور غیرَ واحد ہے پھر بھی تو موصوف، صفت میں مطابقت نہیں رہی۔

جواب: غیر ایسا لفظ ہے جو واحد اور جمع دونوں میں استعمال ہوتا ہے۔

سوال: اٰلِہۃٌ تو مؤنث ہے۔ اور غیر اللہ مذکر ہے پھر بھی تو موصوف صفت میں موافقت نہیں رہی۔

جواب: اٰلِھَۃٌ، میں جو تاء ہے وہ تانیث کی نہیں ہے۔ اٰلِھَۃٌ۔ فاعِلَۃٌ کے وزن پر جمع کا صیغہ ہے اب موافقت ہو گئی۔

سوال: (کلمہ طیبہ) لا اِلٰہَ اِلّا اللہُ میں لفظ اللہ مرفوع کیوں ہے۔

جواب: اس میں لفظ اللّٰہُ، لَا، کے اسم کے محل سے بدل ہے کیونکہ محل اِلٰہ کی رفع ہے مبتدا کی وجہ سے۔ البتہ اِلٰہکے لفظ سے بدل صحیح نہیں ہو گا کیونکہ پھر لَا، معرفہ (اللہ) پر داخل ہو جائے گا حالانکہ معرفہ میں عمل نہیں کرتا۔

مستثنیٰ کا حذف

سوال: مستثنیٰ کا حذف جائز ہے یہ نہیں۔

جواب: مستثنیٰ کا حذف جائز ہے ، ۱۔ اِلّا یا غیر کہ بعد واقع ہو  ۲۔ اور یہ دونوں مسبوق بہ لیس ہوں جیسے قبضت عشرۃ لیسَ الّا یا لیسَ غیرَ یعنی لیسَ المقبوض اِلّا ایّاھا او لیسَ المقبوض غیرَ ھا۔

سوال: حرف استثنیٰ / الّا کا حذف جائز ہے یا نہیں۔

جواب:جائز ہے ، جیسے ماقعَدَ وَ قامَ اِلّا زیدٌ در اصل ما قَعَدَ اِلّا زیدٌ۔

سوال: کیا کوئی اورکلمہ بھی استثناء کے لیئے آتا ہے۔

جواب: جی ہاں کبھی کبھار حتیٰ بھی استثناء  کا معنی دیتا ہے جیسے : شعر

لیسَ العطاءُ من الفضول سماحۃ

حتیٰ تجودُ وَلَدیک قلیلٌ

(الکلمۃ العلیا فے الثنیا)

 

ترکیب کلمہ طیبہ

 

سوال: لاَ الٰہَ اِلّا اللہ کس صورت کی مثال ہے اور اس کی ترکیب کیا ہے ؟

جواب:یہ مثال  بھی اس اِلّا کی ہے جو بمعنیٰ غیر صفت ہے۔ اسمیں لاَ نفی جنس ہے۔ اِلٰہ، موصوف، اِلّا اللہ بمعنیٰ غَیرُ اللّٰہِ۔ مضاف۔ مضاف، مضاف الیہ سے مل کر اسم ہوا لانفی جنس کا۔ اس کی خبر محذوف ہو گی مَوجُودٌ، لانفی جنس، اسم اور خبر سے مل کر جملہ خبر یہ اسمیہ ہوا۔

سوال: کلمہ طیبہ کے دوسرے جزء مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہِ کی ترکیب کیسے ہو گی؟

جواب: اس میں مُحَمّدٌ، مبتدا۔ رسول، مضاف، اللّٰہِ مضاف الیہ  ہے۔ مضاف اپنے مضاف الیہ سے مل کر ہوئی خبر مبتدا کی۔ مبتدا اپنے خبر سے مل کر جملہ خبریہ اسمیہ ہوا۔

اللّٰھُم لک الحمد و لک الشکر اولًا و اٰخرًا لا احصی ثناءً علیک کما اثنیت علیٰ نفسک فَصَلِّ و سلم علیٰ نَبِیک و حبیبک محمد و علیٰ الہ و اصحابہ اجمعین۔

خدایا  بیامرز  این  ہر سہ  را

مصنف نوسیندہ خوانندہ را

٭٭٭

 

 

 

 

مراجع و مصادر

 

فوائد رفیقیہ شرح مأة  عامل منظوم    مولانا رفیق احمد خوشنویس

ہدایتہ النحو                       الشیخ سراج الدین عثمان چشتی نظامی

روایتہ النحوشرح ہدایتہ النحو  مولانا عبدالرب میرٹھی

مصباح النحوشرح ہدایتہ النحو         مکتبہ شرکت علمیہ ملتان

الثمرات الجنیہ                  الشیخ محمد جمال بن محمد الامیر بن حسین مفتی السادۃ المالکیۃ

سعیدیہ شرح کافیہ               مولانا محمد حیات صاحب سنبھلی

ایضاح المطالب شرح الکافیہ        مولانا مشیت اللہ دیوبندی

شرح الجامی                     الشیخ عبدالرحمٰن بن احمد الجامی

علم النحو سندھی                  مولانا علی محمد بھٹی، حیدر آباد

علم النحو اردو                    مولانا مشتاق احمد چرتھالوی

الشمہ فی النحو                     مکتبہ ماجدیہ کوئٹہ

ماٰرب الطلبہ                     مولانا شبیر احمد ارکانی

خلاصتہ الجامی شرح اردو شرح ملا جامی  مفتی محب اللہ محب کاکڑ

علامات نحویہ                   مولانا محمد حسن صاحب زید مجدہ، ادارہ محمدیہ لاہور

مصباح العوامل                   مولانا سید حامد میاں

المنہاج                        محمد الأنطاکی۔ قدیمی کتب خانہ کراچی

تیسیر النحو شرح ہدایتہ النحو          علامہ محمد حسن  صاحب دارالعلوم دیوبند

مصباح اللغات                  مولانا عبدالحفیظ صاحب بلیاوی

معلم الانشاء عربی                مولانا سید ابو الحسن علی ندوی

النحوالواضح                     علی الجارم ومصطفیٰ امین

ترغیب الاخوان فی ترکیب القرآن  مولانا منظور احمد نعمانی ظاہر پیر

ظفر المحصلین                  مولانا محمد حنیف گنگوہی

درس نظامی کے مصنفین          پروفیسر اختر راہی

فیض النحو                      مولانا شیر افگن ندوی

مسائل النحو والصرف             مولانا محمد نور حسین قاسمی

النحو المیسر                     مولانا سید عنایت اللہ ندوی

ضوابط نحویہ                    مفتی عطاء الرحمٰن گوجرانوالہ

رفۃ العوامل                     =

المنجد عربی                     لویس معلوف

الفوائد البھیہ فی تراجم الحنفیہ        مولانا ابو الحسنات محمد عبدالحی اللکنوی

فرائد منثورہ                      مولانا ارشاد اللہ صاحب پٹوا کھالوی

الکلمۃالعلیافی الثنیا        مولانا ابو الفتح محمد یوسف صاحب رحیم یارخان

جامع الدروس العربیہ            الشیخ مصطفیٰ الغلا یینی ، انتشارات ناصر خسرو

٭٭٭

نوٹ: اس کتاب کی سپیل چیکنگ درست نہیں ہو سکی ہے۔ کسی قسم کے جمع الفاظ  پروجیکٹ کے لئے اسے استعمال نہ کیا جائے۔

تشکر:  جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید