FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

بڑوں نے لکھا بچوں کے لئے ۔۔۔ ۱۱

بچوں کی واجدہ تبسم

جمع و ترتیب

اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…. مکمل کتاب پڑھیں

بچوں کی واجدہ تبسم

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

امن کانفرنس

جب میز کے آزو بازو چار دن کرسیاں جمائی جا چکیں ، تو رازی میاں بڑے اطمینان اور بزرگی والے انداز میں مڑ کر بولے۔

’’جناب راشد۔۔ مسٹر ٹلو۔۔۔ اور آپ محترمی پپّو!۔۔ آئیے اب یہاں تشریف رکھئے اور اپنی کانفرنس کا افتتاح کیجئے۔‘‘

سب چاروں کرسیوں پر آ بیٹھے، اور اتفاق رائے سے رازی میاں کو صدر منتخب کیا گیا۔۔چنانچہ جناب صدر کھنکارتے ہوئے بولے۔

’’جیسا کہ آپ جانتے ہیں۔ یہ شکریہ وکریہ بالکل رسمی سی چیز ہے اس لئے میں معافی چاہوں گا۔۔۔ اب ہمیں یہ ہے کرنا ہے کہ گھر میں امن کس طرح قائم کیا جائے۔۔ جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں ، ہمارا یہ گھر۔۔۔ گھر کاہے کو ہے بوچڑ خانہ ہے ، مچھلی بازار ہے، بلکہ اس قبیل کا کوئی اور لفظ ہو تو وہ بھی آپ یاد دلا دیں۔۔۔ ہاں تو آپ جانتے ہیں کہ اس شور پکار میں پڑھنا۔۔ میرا مطلب ہے اسٹڈی کرنا اس قدر مشکل کام ہے کہ جب کتابیں کھولتے ہیں تو حروف کی بجائے جیسے الفاظ بولتے ہیں۔‘‘

’’ایں، ایں۔۔ میرا لٹّو پٹّو لے کر بھاگ گیا۔۔‘‘

’’ابے نامعقول میری گیند کس نے چھپا دی؟‘‘

’’توبہ میرے لفافے کے اسٹامپ کس نے نوچ ڈالے۔‘‘

تو جناب سامعین!۔۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اس شور شرابے میں نہ صرف چھوٹے بلکہ کسی حد تک بڑے بھی شامل ہیں۔ اس لئے کوئی ایسا ٹھوس اقدام کیا جائے، ایسا ریزولیشن پاس کیا جائے کہ بس۔۔۔‘‘ بات پوری ہونے سے پہلے ہی داد ملنے لگی۔

’’او۔۔ یس( Oh Yes)‘‘پپو نے کانونٹ زون شان ماری۔

’’بالکل ٹھیک ہے۔‘‘ راشد منمناہٹ سے بولے۔

’’ہم سب چاہتے ہیں کہ گھر میں ایک ایسی پر امن فضا قائم ہو جائے کہ پرندہ پر نہ مارے۔۔ یہ دوات جو اس میز پر دھری ہے ، ایسا نہ ہو کہ ہمارے ادھر ادھر ہوتے ہی گل کاری کرنے لگے۔۔ رات کے اندھیرے میں بھی ٹٹولیں ، تو ہر چیز اپنی جگہ پر رکھی ہوئی ملے۔۔۔ اسکیل بچوں کے لئے گھوڑا گاڑی کا کام نہ دینے لگے‘‘

پپو اس تقریر سے ذرا بور ہونے لگے تھے اور بار بار چھوٹی میز پر دھری مٹھائی اور نمکین کھاجے کی پلیٹ کو گھورتے جاتے تھے ، جو کانفرنس کے سلسلے میں مہمانوں کی خاطر مدارات کے لئے سجائی گئی تھیں۔ معزز صدر نے چوٹ کی۔

’’اور ہر چند کہ یہ کانفرنس کا ایک حصہ نہیں ہے کہ لوگوں کا سدھار کیا جائے کہ وہ بھکاری پن چھوڑ دیں۔ تاہم یہ بھی ہمیں کو سوچنا ہے۔‘‘

پپو نے ہڑ بڑا کر مٹھائی پر سے نگاہیں ہٹا لیں۔

راشد مسلسل اودی، نیلی لال لال پنسل کی تیز نوک کو تاکے جا رہے تھے۔ معزز صدر کی نگاہیں بھی کافی تیز تھیں۔ تقریر جاری رہی۔

’’اور یہ چیز انتہائی خطرناک ہے ، کہ بستوں میں سے نئی پنسلیں ، نئی کوری کاپیاں اور کتابیں غائب ہو جائیں اور چور کا پتہ ہی نہ چلے۔‘‘ (تالیاں)

’’اخلاق سکھانا بھی ہمارا ہی فرض ہے یہ نہیں کہ گرمی کی وجہ سے ہمارے بزرگوں نے اگر بچوں کے سر منڈوا دئیے ہوں، تو ان بچوں کے سر پر چاند ماری کی مشق کی جائے۔‘‘

ٹلو بری طرح سراسیمہ ہو گئے، کیونکہ وہ ان گنوں کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔

’’ اور ہمیں یہ بھی چاہئے کہ آپس میں بھی اخلاق سے رہیں۔ لڑائی دنگے اور جھگڑوں سے بچیں۔ فضول گالی گلوج نہ کریں، دوسرے الفاظ میں اس طرح مل جل کر رہیں کہ واقعی امن پسند شہری۔۔‘‘

ذرا رک کر صاحب صدر بولے۔’’یہ ترکیب غلط ہو گئی ، اس لئے ہم شہر کے لئے امن کانفرنس نہیں کر رہے۔ گھر کے اپنے مکان کے لئے کر رہے ہیں، تو ہمیں چاہئے کہ واقعی صحیح معنوں میں ’امن پسند مکانی‘ بن کر دکھا دیں۔ جو ذرا بھی احکام کی خلاف ورزی کرے ، اس کی ایسی خیر لی جائے کہ حضرت کی نانی مر جائے۔۔۔۔‘‘  صاحب صدر کی بات منہ میں ہی تھی کہ ٹلّو ذرا چڑ کر بولے:

’’جناب صدر نے بڑی غلط زبانی سے کام لیا ہے۔۔ یہ اگر پوری نہیں تو آدھی گالی ضرور ہے۔‘‘

راشد بھی خفا ہو کر بولے۔ ’’اس صورت میں جب کہ ہماری نانی جان بقید حیات ہیں۔ یہ بات واقعی آپ نے غلط کہی ہے۔‘‘

پپو موقع پاکر مٹھائی کو گھورتے ہوئے بولے۔ ’’چراغ تلے ہی اندھیرا ہوتا ہے۔‘‘

’’مگر جناب۔۔ ‘‘صاحب صدر اپنے بچاؤ میں بولے۔ ’’یہ تو محض ایک ترکیب ہے، گالی نہیں اور اسے تو اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار پریم چند نے بھی اپنے ناول میں استعمال کیا ہے۔‘‘

پپو مسلسل مٹھائی کو گھورتے ہوئے بولے۔ ’’یقیناً ان کی نانی کا انتقال پہلے ہی ہو چکا ہوگا۔۔۔‘‘ اور تائید کے لئے راشد کی طرف دیکھا۔

راشد تاؤ کھا کر بولے۔ ’’جناب صدر صاحب یہ ترکیب نہیں کوسنا ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ میری نانی مر جائیں۔ وہ ہم سے اتنی محبت کرتی ہیں۔۔ راتوں کو کہانیاں سناتی ہیں، دن کو مٹھائیاں کھلاتی ہیں ‘‘

 پپو نے سینے پر ہاتھ مارا۔۔۔’’ہائے مٹھائی‘‘

’’اور آپ ا نکے یوں لتّے لے رہے ہیں۔۔۔‘‘

راشد نے بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے منبر پر زور سے ہاتھ مارا اور جملہ حاضرین کی نظر بچا کر لال، اودی پنسل اٹھا کر نیکر کی جیب میں ڈال لی۔ راشد کو تو مطلوبہ چیز مل گئی ، مگر پپو کو مٹھائی۔۔۔۔؟؟ اف! یہ کیسی بات ہوئی۔۔۔۔؟ پپو، راشد سے بھی زیادہ تاؤ کھا کر اٹھے اور مٹھائی کی پلیٹ لا کر بڑی میز پر پٹخ کر بولے۔

’’دنیا کی نانیاں مر گئیں ، تو ایسی مٹھائیاں کون کھلائے گا۔۔۔‘‘ اور انہوں نے احسانوں کا اعتراف کرنے کی خاطر ایک رس گلا منہ میں ڈال لیا۔

ٹلو نے دیدے پٹ پٹا کر دیکھا۔ اور رازی، جناب صدر تو اس حادثے سے اس قدر برافروختہ ہوئے کہ بیک وقت تین گلاب جامنیں منہ میں ٹھونس کر بق بق کرتے ہوئے بولے۔

’’کس کم بخت نے نانی کو کوسا ہے۔ وہ تو ایک ترکیب محض تھی جناب!‘‘

ٹلّو نے بھر ہاتھ مٹھائی اٹھا کر صفا پیٹ میں انڈیل لی اور چبانے کی بھی ضرورت نہ سمجھی۔

راشد نے جب یہ گڑ بڑ دیکھی تو باقاعدہ الجھ کر بولے۔ ’’صاحب صدر! ابھی بھی آپ اخلاق پر درس دے رہے تھے ، یہ اخلاق ہے کہ آپ بیک وقت دس دس رس گلے ایک منہ میں ڈال لیں۔۔؟‘‘

رازی کو جھوٹ سے سدا چڑ تھی، چڑ کر بولے۔ ’’میں نے دس کھائے؟‘‘

’’اور کیا ایک کھایا۔۔۔؟‘‘

’’تمہیں کس نے منع کیا تھا؟‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔

’’یہ بات۔۔۔۔؟‘‘

’’یہ بات۔۔۔۔!‘‘

پہلے اسکیل اٹھی۔۔ پھر دوات نے گلکاری کی پھر فریقین آپس میں الجھ پڑے۔ میز گری تو سارا سامان بھی گرا۔ کرسی گری تو صاحب کرسی بھی چاروں خانے چت۔۔ ایک وحشت، ایک ہنگامہ بپا ہو گیا۔۔ ساتھ ساتھ برا بھلا ، مار دھاڑ ، دھول دھپا بھی جاری تھا۔۔۔ گالیوں اور کوسوں کا وہ طوفان تھا کہ نانیوں کو چھوڑ کر نانیاں، سگڑ نانیاں تک بھی مار دی گئیں۔

چیخ و پکار سن کر بازو کے کمرے سے ابا دوڑتے آئے۔۔۔۔ہائیں ہائیں کر کے سب کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا اور قیامت سے پہلے قیامت دیکھ کر بولے۔

’’یہ کیا سلسلہ تھا بھئی۔۔۔کاہے کی گڑ بڑ تھی۔۔۔یہ؟؟‘‘

رازی سر کھجا کر، چبا چبا کر بس اتنا ہی بول سکے۔۔۔

’’جی۔۔ جی۔۔ وہ ہم ذرا امن کانفرنس کر رہے تھے کہ گھر میں امن کیسے قائم رہے۔!‘‘

٭٭٭

بارش

جاڑوں کے دن تھے۔۔۔ چنو میاں چھٹیوں کے ایک نہ دو پورے پندرہ دن خالہ بیگم کے ہاں گزار کر آئے تو بس پوچھئے نہیں کیا حالت تھی۔ ہر بات میں خالہ بیگم کے گاؤں کا ذکر۔

’’اجی جناب۔۔۔ آپ نے دیکھا ہی کیا ہے۔ گاؤں میں تو ہم نے وہ دیکھا جو آپ عمر بھر کہیں نہ دیکھ سکیں۔‘‘

بات پیچھے کان کا یہی کہنا تھا بس۔۔۔ قسم اللہ کی طبیعت بیزار ہو گئی ان کی شیخی سے۔ مگر ہم بھی کسی سے کیا کم تھے؟ ان کی ہر بات کو اس مزے سے کاٹ دیئے کہ بس وہ بے چارے مونہہ تکتے کہی رہ جاتے۔ ہم دل ہی میں خوب ہنستے کے اچھا الو بنایا۔

مگر ایک دن بڑی مصیبت ہو گئی۔۔۔ چنو بھائی ایک سال گاؤں میں کھائے ہوئے کھانوں کے ذکر خیر پر تل گئے۔۔۔ طرح طرح کے کھانوں کے نام لئے جا رہے تھے اور ہم بڑی بےچارگی سے بیٹھے سنے جا رہے تھے ایک دم کبے بی نے مجھے ٹھوکا دیا۔

’’تو بولتی کیوں نہیں ری۔۔۔ تجھے تو ایک سے ایک بڑھیا کھانے پکانے آتے ہیں نا۔۔۔‘‘

یہ بات تو سچ تھی کہ مجھے ایک سے ایک بڑھیا کھانے پکانے آتے تھے، مگر چنو بھائی اپنی ریل گاڑی (میرا مطلب ہے باتوں اور گپوں کی ریل گاڑی) روکتے تب ہی کہتی نا۔۔۔؟ مگر وہ تو فل اسپیڈ پر چلے جا رہے تھے۔

’’اور جی سنا آپ نے خالہ بیگم کے ہاں ہم نے بوٹ پلاؤ بھی کھایا۔۔۔ اس مزے کا کہ بس پوچھئے نا۔۔۔‘‘

بے بی نے اور میں نے ذرا حیران ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر بھی ذرا جل کر بولی۔

’’کیا کھایا تھا۔۔۔؟‘‘

’’بوٹ پلاؤ۔۔۔ بوٹ پلاؤ۔۔۔ سمجھیں۔۔۔؟ اور کبھی تم نے کھایا بھی ہے۔۔۔ ارے صاحب بوٹ پلاؤ تو بس کچھ یاسمین کو ہی پکانا آتا ہے۔ آپ کیا جھک ماریں گی بھلا۔‘‘

میں سر سے پاؤں تک پوری کی پوری جل گئی۔۔۔ ’’ای۔ ای ‘‘ کر کے زبان چڑا کر بولی ’’مونہہ بڑے آئے یاسمین کے سگے۔ ایک سالن تو ڈھنگ کا نہیں پکاتی۔ خواہ مخواہ تعریف کر رہے ہیں کہ ہم جلیں۔ مگر یاد رکھئے ہم نہیں جلنے والے۔ ہم کون اس سے کم ہیں!‘‘

چنو بھائی سنجیدہ ہو کر بولے ’’اللہ قسم بھئی ایسے بڑھیا کھانے پکانے لگی ہے کہ تم کھاؤ تو بس انگلیاں چاٹتی رہ جاؤ۔۔۔ اور قسم ہے وہ بوٹ پلاؤ تو ایسا لذیذ تھا کہ آج بھی یاد آتا ہے تو جی چاہتا ہے کہ اڑ کر گاؤں پہنچ جاؤں۔ میں چڑ کر بولی۔ ’’موئے نا اصل پلاؤ کے لئے مکھیوں کی طرح اڑنا چاہ رہے ہو۔۔۔چھی۔۔۔!‘‘

اس بات پر چنو بھائی بری طرح جل گئے۔۔۔ بولے۔

’’ایسی ہی بڑی پکانے والی بی بی ہے تو پھر مجھے کھلاتی کیوں نہیں؟‘‘

اب تو مجھے بھی تاؤ آ گیا بھیک کر بولی  ’’اور کیا سمجھتے ہیں آپ۔۔۔ لیجئے آج شام کو ہی کھائیے۔‘‘

’’ہاں۔‘‘ وہ خوش ہو کر بولے۔ ’’آج کل بوٹ کا سیزن بھی تو ہے۔‘‘

میں نے ان کی طرف کچھ حیرت سے دیکھا۔ ’’ہونہہ۔ بوٹ کا سیزن! بوٹ کا سیزن کیا بات ہوئی بھلا؟ سارا سال ہی بوٹ پہنے جاتے ہیں۔ کچھ ایسا تو ہے نہیں کہ لوگ جاڑوں میں بوٹ پہنتے ہوں اور گرمیوں میں اٹھا کر رکھ دیتے ہوں پاگل ہیں چنو بھائی بھی‘‘ اور جناب میں نے کل بالکل طے کر لیا کہ بس اب شام کی تیاری ابھی سے شروع!! چنو بھائی جاتے جاتے بول گئے۔

’’مگر دیکھو بھئی ہرا بوٹ ہونا چاہئے۔۔۔ پیلے اور سوکھے مارے بوٹ کا پلاؤ اچھا نہیں بن سکتا۔‘‘

اے لو۔ یہ نئی مصیبت سر تھوپ گئے۔ اب ہم برا بوٹ کس کا ڈھونڈتے پھریں۔۔۔؟ پہلی بات تو بوٹ چرا کر پلاؤ پکانا ہی خطرے سے خالی نہ تھا، اوپر سے بوٹ بھی ہرا۔۔۔! ہونہہ۔۔۔ خیر صاحب۔ وہاں سے اٹھے تو ایک ایک کے کمروں میں گھومتے پھرے۔ بھائی کے بوٹ تو بہت بڑے بڑے تھے۔ اتنے بڑے بوٹ کا پلاؤ تو ساری برات کو کافی ہو جاتا، ہمیں تو ذرا پکانا تھا بس۔ ابا جان کے بوٹ تو اس سے بھی کچھ سوا تھے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کریں تو کیا کریں۔ دو تو بج ہی چکے تھے اور پھر چنو بھائی ندیدے تو شام کے سات بجے ہی کھانے پر پل پڑتے تھے۔۔۔ بھئی پانچ گھنٹے میں آخر کیا ہو سکتا تھا۔۔۔؟ جلدی جلدی تلاش شروع کر دی اور جناب منزل تک پہونچ ہی گئے۔

بقرعید میں بہت کم دن رہ گئے تھے نا۔۔۔ اس لئے ابا جان سبھوں کے لئے جوتے لے آئے تھے۔ ببلو کے کمرے میں ایک بہت خوبصورت مخملیں ہرا بوٹ رکھا ہوا تھا۔ نرم نرم اور بہت اچھا یقیناً اس کا پلاؤ بے حد لذیذ بنے گا۔۔۔اور جناب ہم سب کچھ طے کر کے وہ بوٹ اپنے کمرے میں اٹھا لائے۔ پہلے تو اتنا پیارا بوٹ کاٹتے ہوئے بہت دل دکھا، مگر پھر سوال یاسمین کا تھا۔ ورنہ چنو بھائی تو صاف کہہ جاتے کہ ’’ہونہہ پکانا ہی نہ آتا ہوگا، چپ بہانے تھے کہ بوٹ کاٹنے کو جی نہ چاہا۔‘‘

لیجئے بسم اللہ کہہ کر کاٹ ہی دیا۔ بھائی صاحب کے شیونگ بکس سے تیز ریزر تو پہلے ہی حاصل کر لیا تھا، جلدی جلدی دونوں بوٹ کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔۔۔!

نصیبن بوا کو آتے ہی مرچ مصالحہ تیار رکھنے کو کہہ دیا تھا۔ وہ کب کا سارا سامان رکھ کر اپنے گھر جا چکی تھیں۔۔۔ باورچی خانے میں ہو کا عالم تھا۔ بس اپنا ہی راج تھا۔ میں، بے بی، افروز، شہنو، سب کے سب باورچی خانے پر پل پڑے۔۔۔تھوڑی ہی دیر میں وہاں بڑی گہماگہمی نظر آنے لگی۔ افروز چاول دھونے بیٹھ گئی۔۔۔ شہنو گھی، تیل مصالحے لا لا کر مجھے دینے لگی۔۔۔ پلاؤ بڑے زور شور سے پکنے لگا۔

بھئی ایمان کی بات تو یہ ہے کہ گھر پر بھی اور اسکول میں بھی، بارہا ہم نے پکوان پکائے تھے، مگر جہاں تک بوٹ کا پلاؤ پکانے کی بات تھی، وہ ہم آج پہلی دفعہ ہی پکار ہے تھے، اس لئے ذرا گھبراہٹ بھی طاری تھی اور ستم یہ کہ ابھی ابھی نامراد چنو بھائی کہہ گئے تھے کہ چوں کہ بوٹ پلاؤ بار بار نہیں پکتا اور کھانے لائق چیز بھی ہے، اس لئے انہوں نے اپنے دو چار دوستوں کو بھی بلوا لیا ہے۔!!

’’ہے ہے مر گئے۔‘‘ میں جگر تھام کر چلائی۔

’’ہوا کیا؟‘‘ سب دوڑی دوڑی آئیں۔

’’بھئی اللہ ہم نے تو بس ایک سیر چاول لئے تھے۔ انہوں نے تو اپنے چٹورے دوستوں کو دعوت دے ڈالی ہے۔ وہ تو سارا کا سارا پلاؤ پار کر جائیں گے اور پھر بوٹ تو ایک ہی کاٹا تھا ہم نے!!‘‘

بڑی دیر بعد فیصلہ ہوا کہ ہرا بوٹ نہیں تو نہ سہی، پیلا یا سوکھا مارا ہی کسی کا اٹھا لے آئیں۔ پھر سے جناب ہم سب لڑکیاں کمروں کی طرف دوڑیں۔ ایک سے ایک سٹریل بوٹ دیکھنے میں آ رہا تھا۔۔۔ کسی کے تلے گھسے ہوئے۔ کسی کا اوپر کا حصہ غائب۔۔۔ کسی کی ایڑی ہی سرے سے ندارد تھی تو کوئی عین مین پھاڑ کر جمائی لیتا نظر آ رہا تھا۔۔۔بڑی دیر کی تلاش کے بعد چنو بھائی کا ہی ایک بوٹ چنا گیا۔ اچھا نیا نیا بوٹ تھا بدنصیب۔۔۔اور غالباً وہ بھی عید کی تیاری میں خریدا گیا تھا۔

بڑی مشکل سے اس کے ٹکڑے کئے گئے اور پوری پلٹن پھر سے باورچی خانے میں داخل ہو گئی۔ میں چونکہ سب میں بڑی تھی۔ (بڑی بھی تھی تو یہی ساڑھے سات آٹھ سال کی!) اس لئے سارے کام میری نگرانی اور میری ذمہ داری پر طے ہو رہے تھے۔۔۔ اور اپنے اس اعزاز پانے پر میں بے حد خوش تھی اور خواہ مخواہ ہر ایک کو ڈانٹ ڈپٹ کر رہی تھی۔

بہر حال جناب میں نے بوٹ کے ٹکڑے ایک برتن میں صاف پانی لے کر خوب دھوئے اور پہلے انہیں الگ سے تل۔ اب بار دیکھتی ہوں کم بخت ذرا بھی گلتے۔۔۔ خیر ہم نے سمجھ لیا کہ چاولوں کو جب دم پر رکھیں گے تب بھاپ میں یہ بھی گل جائیں گے۔۔۔ ایک بار ایسے ہی تو سبزی پلاؤ پکاتے میں گاجریں ذرا کچی رہ گئی تھیں، کہ پھر چاولوں کے ساتھ بھاپ میں گل گئی تھیں۔۔۔!

بوٹ پلاؤ کے ساتھ کھانے کو میں نے دہی کا اہتمام بھی کر لیا۔ کیوں کہ آپ جانیں پلاؤ تو بغیر دہی کے بالکل ہی بے مزہ اور بے کار چیز بن جاتا ہے۔ اب جناب ایک بڑے سے کٹورے میں گھی، لونگ، سیاہ مرچ اور الائچی ڈال کر چاول بگھار دیئے۔۔۔ مصالحہ بھی جھونک دیا اور جب چاول گلنے پر آ گئے اور دم پہ رکھنے کی نوبت آ گئی تو بوٹ کے تلے ہوئے ٹکڑے بھی اس میں ڈال دیئے۔!

’’واہ وا باجی۔‘‘ زینو دور سے ہی خوشبو سن کر دوڑی آئی ’’کیا خوشبودار پلاؤ پکایا ہے کہ قسم اللہ میری تو طبیعت ابھی سے کھانے کو چاہنے لگی۔

چنو بھائی ادھر سے گزرے تو انہوں نے بھی یہی بات دہرائی اب جناب ہماری خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔۔۔ چوں کہ سارے کام ہماری ’لیڈر شپ‘‘ میں ہو رہے تھے اس لئے دسترخوان بچھوانے کا اہتمام بھی ہم نے کروایا۔ ہمارے سگھڑاپے پر چوں کہ میٹھا  نہ ہونے سے حرف آتا تھا، اس لئے ہم نے جھٹ پٹ نعمت خانے کا رخ کیا اور پنکی کے پینے کے لئے جو دن بھر کا دودھ رکھا تھا، اس کو اٹھا کر کھیر بنا دی۔!

اصولاً کھانا سات بجے تیار ملنا چاہئے تھا، مگر پھر بھی ہم ذرا ناسمجھ لوگ تھے اور کام بہت بڑا تھا، اس لئے اچھے خاصے آٹھ ساڑھے آٹھ بج گئے اور ایک سرے سے سارے گھر والے ہی بھوک بھوک چلانے لگے۔ چلئے بھئی ہم نے کسی نہ کسی طرح جلدی دسترخوان لگایا۔۔۔ بڑے سلیقے سے کھانا چنا اور سب مہمانوں کو کھانے کے کمرے میں چلنے کی ’’دعوت دی‘‘

اس وقت خواہ مخواہ اپنی بڑائی کا احساس ہو رہا تھا کہ اتنے سارے لوگوں کا کھانا مجھ اکیلی نے پکایا ہے اور میں اس امیں میں سب کے سامنے کھڑی تھی کہ جیسے ہی نوالے مونہہ میں پڑیں اک دم تعریف کا شور مچ جائے۔ چنو بھائی اپنے دوستوں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے فرما رہے تھے۔

’’بھئی آج ہماری بہن نے خاص طور سے ہمارے لئے بوٹ پلاؤ پکایا ہے۔‘‘

 ’’تب تو ٹھاٹ ہیں اپنے۔‘‘ ان کے ندیدے دوست کورس میں بولے اور سب ہاتھ دھوکر دسترخوان کھول کر بیٹھ گئے۔ مگر ابھی چنو بھائی نے پلیٹ میں پلاؤ لے کر پہلا نوالہ مونہہ میں ڈالا ہی تھا کہ وہ جھک کر غور سے پلیٹ کو دیکھنے لگے۔

’’یہ کیا پکا دیا ہے۔۔۔‘‘ وہ ذرا الجھ کر بولے۔ میں خوشی خوشی ذرا آگے بڑھ کر بولی ’’بوٹ پلاؤ۔۔۔ کیوں اچھا ہے نا۔‘‘

وہ ذرا شرمندگی سے اپنے دوستوں کو دیکھتے ہوئے بولے۔

’’تھو تھو۔۔۔ ایسا لگ رہا ہے مجھے مرا ہوا چوہا کھا رہا ہوں۔‘‘

مجھے تن تنا کر غصہ آ گیا ’’کتنی بار آپ نے مرے ہوئے چوہے کھائے تھے جو ان کا مزہ بھی معلوم ہے؟ اتنی محنت سے تو سارا دن لگا کر بوٹ پکایا اور ذرا دل نہیں رکھنا جانتے۔‘‘

اب تک سب اپنی اپنی پلیٹوں میں پلاؤ لے چکے تھے اور ہر شخص ’’ریسرچ‘‘ کرتا نظر آ رہا تھا، یعنی ہر ایک کی نگاہیں اپنی اپنی پلیٹ پر جمی ہوئی تھیں۔

’’یہ ہرا ہرا کیا چمک رہا ہے بھئی اس میں‘‘ کوئی بدتمیز دوست بولا۔

میرا پارہ چڑ گیا۔ ’’چنو بھائی نے تو کہا تھا کہ بوٹ ہرا ہونا چاہئے۔۔۔ اسی لئے تو میں نے خاص طور سے ببلو کا ہرا بوٹ کاٹ کر پلاؤ پکایا ہے۔‘‘

’’ببلو کا ہرا بوٹ۔۔۔‘‘ چنو بھائی زور سے چلائے۔۔۔!

’’اس میں اتنا چلانے کی کیا بات ہے۔۔۔؟ ہاں کمی آنے لگی تو آپ کا بوٹ بھی ڈال دیا۔۔۔ آپ کے دوست آ رہے تھے نا۔۔۔؟‘‘

’’میرا بوٹ۔۔۔ ارے باپ رے مر گیا۔ پورے سولہ روپے آٹھ آنے کا اپنی جیب خرچ میں سے خریدا تھا، رے اللہ۔۔۔‘‘ ایسا کہہ کر چنو بھائی دیوانہ وار اپنے کمرے کو بھاگے اور تھوڑی ہی دیر میں واپس آ گئے ان کا مونہہ تو لٹکا ہوا تھا پھر میرا چہرہ دیکھ کر مجھ سے انہوں نے بدلہ لینے کی ٹھان لی ہو۔

’’سنئے حضرات۔۔۔ میری بےوقوف بہن کا، اپنے بھائی کو اپنے ہاتھوں پکایا پکوان کھلانے کو جی چاہا تو جوتوں کا پلاؤ پکا کر رکھ دیا۔‘‘

’’کیا مطلب۔۔۔؟ کیا مطلب۔۔۔؟ کیا مطلب۔۔۔؟‘‘

بس ہر طرف سے یہی ایک آواز آ رہی تھی۔۔۔ اور چنو بھائی ہنسی کے مارے لوٹتے پوٹتے سنائے جا رہے تھے کہ کس طرح یاسمین کے بونٹ پلاؤ نے ان محترمہ کو بھی بونٹ پلاؤ پکانے کی ترغیب دی اور۔۔۔

تھوڑی ہی دیر میں یہ عالم تھا کہ میں جس کی طرف دیکھتی تھی، اسی کا مونہہ ایک فٹ پھٹا ہوا نظر آتا تھا۔۔۔ ہی ہی، ہا ہا، ہو ہو، کھی کھی، کھا کھا۔ کھو کھو۔۔۔ ایسے عجیب و غریب قہقہے میں نے اپنی عمر میں نہ سنے تھے، طرح طرح کے سر اور راگ سب کے گلوں سے نکل رہے تھے اور میں قہقہوں کی اس بارش میں بھیگ کر جیسے چڑیا بنی جا رہی تھی۔

بھئی اب۔۔۔ اتنے دن گذر جانے پر میں یہ سمجھتی ہو کہ اس میں ہمارا کیا قصور کہ اچھے بھلے ہرے چنے کو بونٹ کہا جائے۔۔۔؟ اور سچ بھی تو ہے کہ بوٹ کے معنی سوائے جوتے کے اور کیا سمجھے جا سکتے تھے۔

قصور تو چنو بھائی کا تھا، کیا ہوتا اگر ہری بھری یا پھر ہرا چنا کہہ دیتے۔۔۔؟؟ مگر نہیں صاحب انہیں تو ہمیں رسوا کرنا تھا۔

بہت دن بیت گئے ہیں مگر آج بھی ان قہقہوں کی زوردار بارش کا خیال آتا ہے تو جسم میں کپکپی پیدا ہونے لگی ہے!

٭٭٭

میں کیوں روئی

کوئی بیس برس پہلے کی بات ہے۔

میری اور نیلو کی دوستی سب کے لئے قابل حیرت تھی۔ بات تھی بھی حیرت کی۔ وہ لمبی سی چمکتی ہوئی کار میں اسکول آتی تھی۔ وہ روز ایک نئی فراک پہن کر آتی تھی۔ اس کے جوتے ہمیشہ فراکوں سے میل کھاتے اس کی چوریاں، اس کے رنگ برنگی ربن، اس کی آیا۔۔۔ جو چیز دیکھو ایسی چم چماتی ہوئی اور بھڑکیلی جیسے وہ کوئی شہزادی ہو۔۔۔ اور میں ایک غریب سی ننھی لڑکی، جس کے پاس لے دے کے ایک ہی فراک تھی، جسے امی دھو کر سکھانے ڈالتیں تو اتنی دیر کے لئے میں بھیا کی قمیض پہنے رہتی۔

یہ دوستی کیسے ہوئی، اس کا علم نہ مجھے تھا، نہ کسی اور کو، نہ خود نیلو کو۔ بس پہلی بار ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، وہ مسکرائی تو میں بھی ہنس دی۔۔۔ ننھی منی معصوم کلیوں کی سی پاکیزہ ہنسی نے جیسے ہم دنوں کو پیار کے دھاگے میں باندھ دیا۔ نہ میں نے کبھی اس کی کسی اچھی چیز کی طرف للچائی نظروں سے دیکھا، نہ کبھی یہ ظاہر کیا کہ میں نے دوستی کا ہاتھ اس کی دول سے مرعوب ہو کر بڑھایا تھا۔ نہ کبھی نیلو ہی نے اپنی امارت کا رعب مجھ پر ڈالا۔ ہم دونوں ایک ہی سطح پر رکھ کر سوچتی تھیں۔ بس ہم میں یہی ایک احساس مشترک تھا کہ ہم دونوں چھوٹی چھوٹی لڑکیاں ہیں اور سہیلیاں ہیں نیلو کی دوستی نے کبھی مجھے احساس کمتری میں مبتلا نہیں کیا اور نہ کبھی میں روتی۔

ہماری دوستی اتنی بڑھی کہ سب ہمیں ایک دوسرے کا سایہ کہنے لگے۔۔۔ ہمیں کتنوں ہی نے لڑانے کی کوشش کی، لیکن ہماری محبت اتنی گہری تھی کہ ہم کبھی لڑنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔

لیکن ایک دن ہماری لڑائی ہوتے ہوتے رہ گئی۔

ہماری دوستی ہوئے کوئی سال بھر ہونے کو آیا تھا کہ نیلو کی سالگرہ کا دن آ پہنچا۔ اس سالگرہ کی تفصیل میں کیا بیان کروں؟ میری ننھی سی عمر کا وہ پہلا ایسا ہنگامہ تھا جسے میں نے خوابوں اور پریوں کے دیس کا سا کوئی واقعہ سمجھا۔ یہاں سے وہاں تک رنگین بلب۔۔۔ پس منظر میں ہلکی ہلکی موسیقی۔ بہت سارے خوبصورت بچے، بچیاں۔۔۔ بےحد حسین چمکدار بھڑکیلے کپڑے پہنے ہوئے۔ ایک طرف بینڈ بج رہا تھا۔ میں وہاں کیسے پہنچ گئی تھی۔ ظاہر ہے میری سہیلی کی سالگرہ جو تھی اور عید پر جو میری فراک بنی تھی وہی اس دن کام آئی۔۔۔ بس ایک غم تھا کہ میں ساتھ کوئی تحفہ نہ لے جا سکی۔۔۔ میں بھلا کیا لے جاتی؟ میرے پاس پیسے ہی کہاں تھے؟ لیکن نیلو نے اس قدر اصرار سے بلایا تھا کہ ناممکن تھا کہ میں نہ جاتی۔

ایک بڑی سی میز پر کھانے پینے کا اتنا سامان رکھا تھا کہ حد نہیں اور دوسری میز جو اس سے کہیں بڑی تھی، تحفوں سے لدی ہوئی تھی۔ شرم کے مارے میرا برا حال تھا۔۔۔ سب ہی سوچیں گے کہ میں نے کیا دیا۔ اسی دم ایک عجیب و غریب کارروائی شروع ہو گئی۔ ایک چھوٹی سی تپائی پر نیلو چڑھ کر کھڑی ہو گئی اور ہر ایک کے تحفے کا اعلان کرنا شروع کر دیا۔ میرا سر چکرا رہا تھا کانوں میں سائیں سائیں سی ہو رہی تھی، دل دھڑ دھڑ کر رہا تھا۔ جی چاہ رہا تھا کہ اس محفل سے نکل بھاگوں۔ کوئی سوچے نہ سوچے، میں خود اس قدر نادم تھی کہ کسی طرح اس جگہ سے چھٹکارا پانا چاہ رہی تھی۔ اسی لمحے نیلو نے برے پیار سے اعلان کیا۔۔۔

’’اور آج کا سب سے پیارا تحفہ میری سب سے پیاری سہیلی سبو نے دیا ہے۔‘‘ اس نے ہاتھوں میں اوپر اٹھا کر سب کو ایک تاج محل دکھایا، جس میں چھوٹے چھوٹے بلب لگے ہوئے تھے۔۔۔ سنگ مرمر کا حسین و جمیل تاج محل۔۔۔ مارے جگمگاہٹ کے کسی کی اُس پر نظر نہیں ٹھہر رہی تھی۔

میں نے گھبرا کر نیلو کو دیکھا۔ نیلو نے بھی مجھے دیکھا اور پیار سے ہنس دی اور یوں سالگرہ کی خوشی والے دن جب کہ آنسو برا شگون سمجھے جاتے ہیں۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ جب ایک ایک کر کے سب مہمان چلے گئے تو نیلو میرے پاس آئی۔ بےحد محبت سے مجھے لگے لگا کر بولی: ’’میری اچھی سبّو۔۔۔ میں سب کے سامنے تجھے شرمندہ ہونے کا موقع کیسے دے سکتی تھی؟ تو نے برا تو نہیں مانا؟‘‘

بس وہی ایک لمحہ تھا جب ہماری لڑائی ہوتے ہوتے رہ گئی۔ لیکن میں لڑی جھگڑی نہیں۔ بس روئے گئی، روئے گئی۔

اور اب اتنے سال گزرنے پر میں سوچتی ہوں کہ میں بھی کیسی پاگل تھی جو اس دن رونے بیٹھ گئی تھی۔ یہ تو خوشی کی اور ہنسنے کی بات تھی نا؟ سچی دوستی وہی تو ہوتی ہے کہ ایک سہیلی دوسری سہیلی کا درد اپنا لے۔ آج میں اُس دن کے بارے میں کبھی اس انداز سے نہیں سوچتی کہ میں کیوں روئی تھی۔

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

OOOOO

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل