FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

حصہ اول کے لیے

 

 

فہرست مضامین

[ 10 ]

 

ادیبوں کو بڑھاپے میں شہرت کی ہوس بڑھ جاتی ہے۔ ہارے ہوئے تخلیق کار کہانی چوری کرتے ہیں اور ہوس کے شکار مدیر مسّودے۔

میرے ساتھ یہی ہوا۔ روندرکالیہ نے میری محنت پر اپنے نام کا لیبل چپکایا۔ میں کبھی ہندی میں کچھ کتابیں ترتیب دینا چاہ رہا تھا مثلااً اردو کی پریم کہانیاں، اردو افسانے کی بے وفا عورتیں، پاکستان کی اردو کہانیاں، فساد کی اردو کہانیاں۔ اردو کی نئی کہانیاں، اردو کی جدید کہانیاں وغیرہ۔ میں نے قریب سو سے زیادہ کہانیوں کا ہندی ترجمہ بھی کیا اور مسوّدہ گورکھ پور کے شیوال پرکاشن کو ارسال کیا۔ شیوال نے ہندی میں میرا ناول ’ مہاماری ‘ شائع کیا تھا۔ شیوال نے مہاماری کے فلیپ پر ان کا اشتہار شائع کر دیا۔ ۔ اشتہار پڑھ کر کالیہ نے میرے آئڈیا کی چوری کی اور گیا نودے کے بے وفائی نمبر کا اعلان کیا۔ اس دوران شیوال پر کاشن بند ہو گیایو میں نے ’اردو افسانے کی بے وفا عورتیں ‘ کا مسودہ پٹنہ کے جاگرتی پر کاشن کو دے دیا۔ اس بیچ کالیہ کا فون آیا کہ وہ گیا نو دے کا بے وفائی نمبر نکالنا چاہتے ہیں۔ کالیہ نے مجھ سے تعاون کی در خواست کی اور کہا کہ وہ میرا نام معاون مدیر کی حیثیت سے شائع کریں گے۔ لیکن مجھے شک تھا کہ وہ میرا نام دیں گے کیوں کہ وہ فون پر کہہ رہے تھے کوئی خط نہیں لکھا تھا۔ خط لکھ کر وہ کوئی تحریری ثبوت چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ کالیہ یوں بھی موقع پرست ہیں اور اپنے مفاد کا کوئی موقع ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتے۔ انہوں نے مجھ پر دباو ڈالنا شروع کیا۔ ادھر جاگرتی پرکاشن میں بھی تا خیر ہو رہی تھی۔ میں نے بہتر یہی سمجھا کہ گیا نو دے کو بھیج دوں تا کہ اردو کی کچھ کہانیاں ہندی کے بڑے فلک پر نمایاں ہو سکیں۔ ’’ اردو افسانے کی بے وفا عورتیں ‘‘ کا مسّودہ میں نے کالیہ کو ارسال کر دیا۔

گیا نو دے کا بے وفائی نمبر شائع ہوا۔ میرے نام کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔ کالیہ نے خوب دادو تحسین حا صل کی جب کہ اس نمبر کی سبھی کہانیاں میری ترتیب دی ہوئی ہیں۔ گیا نودے میں میری کئی کہانیاں شائع ہوئی ہیں۔ کالیہ نے مجھے کسی کا معاوضہ نہیں دیا۔ شروع میں رسالہ مجھے آتا تھا اب وہ بھی نہیں آتا۔

میں بے شرم کو بے شرم نہیں کہتا۔ ۔ ۔ ۔ لیکن روندر کالیہ پر مجھے رحم آتا ہے بچارے کا لیہ جی۔ ۔ ۔ ۔ !

میرے ساتھ اکثر ایسا ہوا ہے۔ کہانیاں چوری ہوئیں اور پتہ نہیں چلا۔ بگولے کی چوری کا ذکر پہلے کر چکا ہوں۔ کہانی سنگاردان بھی لوٹ لی گئی۔ اچھا لکھنا گویا عذاب ہوا۔ سنگاردان کو علی گڑھ دہلی اور ممبئی میں کئی بار اسٹیج کیا گیا اور میری اجازت نہیں لی۔ اردو اکاڈمی دہلی نے بھی اسے اسٹیج کیا۔ کہیں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ یہ ڈرامہ شموئل احمد کے افسانے سنگھاردان پر مبنی ہے۔ کردار کے نام بھی بدل دیئے گئے۔ ڈرامہ نگار نے اکاڈمی سے پیسے بھی وصول کیئے اور مجھے کوئی خبر نہیں۔ میں نے سکریٹری اردو اکاڈمی کو خط لکھا کہ نسیم جان کا سنگھاردان تو بر جمو ہن نے لوٹا شمو ئل احمد کا سنگھاردان کس نے لوٹا۔ ۔ ۔ ۔ ؟

ممبئی کے ایک پرو ڈیو سر بشیر دیسائی نے سنگھاردان پر اکیاون قسطوں میں سیریل کی تعمیر کی اور مجھ سے اجازت نہیں لی اور میرا نام بھی سیریل میں کہیں شامل نہیں کیا۔ ۔ دہلی دور درشن کا اردو چینل اسے نشر کر نے جا رہا تھا کہ مجھے خبر ہوئی۔ ۔ میں نے اردو چینل کو نوٹس بھیجی کہ کہانی میری ہے اور بغیر میری اجازت کے نشر ہوئی تو رائلٹی کا مقدمہ دائر کر وں گا۔ نشر کا کام رک گیا۔ بشیر دیسائی دوڑ کر پٹنہ آئے۔ سیریل پر اس کے چھبیس لاکھ روپے خرچ ہو چکے تھے۔ اسے دیکھتے ہی میں نے سخت سست کہنا شروع کیا کہ مجھ سے اجازت کیوں نہ طلب کی۔ وہ چیخ چیخ کر رونے لگا۔ وہ اپنے جرم پر قطعی نادم نہیں تھا اور اس بات کے لئے رو بھی نہیں رہا تھا۔ وہ رو رہا تھا کہ اس کے چھبیس لاکھ روپے ڈوب گئے۔ آنسو اس کے رخسار پر ڈھلک رہے تھے اور میرا غصّہ بڑھ رہا تھا۔ اچانک آنسووں سے تر اس کے چہرے میں مجھے کامل کا چہرہ نظر آیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کامل میرا نواسہ۔ جب گھر میں اس کو ڈانٹ پڑتی ہے تو اسی طرح چیخ چیخ کر روتا ہے اور پل بھر میں اس کا چہرہ آنسووں میں ڈوب جاتا ہے۔ اس کی آنکھیں بھی کامل کی آنکھوں کی طرح چھوٹی اور گول تھیں۔ آنسووں سے لبالب کٹوری میں کامل کا چہرہ ڈوب اور ابھر رہا تھا۔ کامل جب روتا ہوا میرے پاس آتا ہے تو اسے سینے سے لگا لیتا ہوں اور گھر میں سب کو برا بھلا کہتا ہوں کہ بچّے کو رلا یا کیوں ؟ اور ابھی میں خود اسے رلا رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ !

میں نے بشیر کو معاف کر دیا۔

بشیر نے سی ڈی بدل دی ہے اور اس میں میرا نام ڈال دیا ہے لیکن نشر ابھی بھی التوا میں ہے۔

وہاب اشرفی کہا کرتے تھے کہ ہر طرح کی برائی ادیبوں میں ہوتی ہے۔ وہ شراب پیتا ہے، عورتوں کے پیچھے بھاگتا ہے لالچی ہوتا ہے، تخلیق چوری کرتا ہے، گروپ بندی کرتا ہے اور جینوئن ادیب کو ابھرنے نہیں دیتا ہے۔ ادبی سماج میں ہر بونا اپنے کو قد آور بتاتا ہے اور دوسرے کو ٹھگنا قد سمجھتا ہے۔ اور سنجیدہ ادیب کو ذلیل کرنے کے ہتھکنڈے اپناتا ہے۔

ایک بھائی صاحب کا عجب حال دیکھا۔ ایک دن اپنے بچّے کو اسکول چھوڑنے گیا تو دیکھا وہ بھی اپنے ننھے سے بیٹے کو لے کر موجود ہے۔ معلوم ہوا نر سری میں داخلہ کرایا ہے۔ پوچھا پا ٹلی پترا میں کہاں رہتے ہو تو کہنے لگا یہ بورژوا کالونی ہے۔ یہاں کا کرایہ ادا نہیں کر سکتا، اس لئے مہندرو سے ہی آتا جاتا ہوں۔ وہ روز صبح بیٹے کو پہنچانے آتا اور گیارہ بجے بیوی لینے آتی۔ میں بہت متاثر تھا کہ بچّے کی اچھی تعلیم کے لئے یہ جوڑا کتنا جوکھم اٹھا رہا ہے باپ۔ بیس کیلو میٹر دور مہندرو سے بچّے کو اسکول پہنچاتا ہے ماں گیارہ بجے گھر لے جانے آتی ہے۔ میں نے اپنی بیوی سے ان کی تعریف کی تو اس نے مجھے گھور کر دیکھا۔

’’ آپ افسانہ کیا لکھتے ہیں۔ ‘‘

’’ کیوں ؟ ‘‘ مجھے بیوی کا لہجہ برا لگا۔

’’ آپ اپنے کو ماہر نفسیات سمجھتے ہیں اور کچھ نفسیات نہیں جانتے۔ ‘‘

’’ کیا بات ہوئی ؟ ‘‘ میں جھنجھلا گیا۔

’’ آپ معلوم کیجیئے۔ یہ لوگ یہیں رہتے ہوں گے۔ میں مان نہیں سکتی کہ یہ مہندرو سے آتے ہیں۔ ‘‘

’’ ایسا کیوں کہہ رہی ہو ؟ ‘‘

’’ ایک دن یا دو دن آ سکتے ہیں۔ روز روز نہیں آ سکتے۔ آ خر وہ عورت ہانڈی چولہا بھی کرتی ہو گی۔ کھانا بھی بناتی ہو گی۔ شوہر کو ٹفن بھی دیتی ہو گی۔ گیارہ بجے بچّے کو لینے آتی ہے نو بجے گھر سے نکلتی ہو گی اور دو بجے واپس گھر پہنچتی ہو گی۔ پھر کھانا کب بنائے گی اور بچّے کو کب کھلائے گی۔ ؟ ‘‘ میں لا جواب ہو گیا۔

صمد پاٹلی پترا میں رہتے تھے۔ وہ ان سے واقف تھے ایک دن پوچھا کہ یہ شخص کہاں رہتا ہے تو اپنی بالکونی میں لے گئے اور سامنے مکان کی طرف اشارہ کیا۔ ’’دیکھیئے۔ ۔ ۔ ۔ اس کا بچّہ کھیل رہا ہے۔ وہ اس مکان میں پچھلے تین مہینوں سے رہ رہا ہے۔ ‘‘

مجھے اپنے احمق ہونے کا احساس ہوا۔ اور یہ پہلی بار نہیں ہے۔ میں اکثر لوگوں پر یقین کر لیتا ہوں اور بیوقوف بنتا ہوں۔

محترمہ رخشندہ جلیل انگریزی میں اردو کہانیوں کا مجموعہ شائع کرنا چا ہتی تھیں۔ رخشندہ نے دو الگ الگ مجموعے کے لئے مجھ سے دو کہانیاں طلب کیں۔ میں نے سنگاردان اور بدلتے رنگ بھیج دی۔ پبلشر تھے روپا اینڈ کمپنی۔ میں نے پوچھا کہ کہانیوں کا معاوضہ کیا ملے گا تو ان کا ای میل موصول ہوا کہ اردو افسانہ نگاروں کو معاوضہ نہیں دیا جاتا ہے۔ میں نے کہانیاں واپس مانگ لیں۔

مدیر کو پیسہ ملے گا، پبلشر بھی پیسے کمائے گا لیکن اردو کا افسانہ نگار گویا کتّے کی ذات ہے۔ اسےا یڈیٹر اور پبلشر کے پیچھے دم ہلاتے رہنا چاہیئے۔ اردو تخلیق کاروں کو اپنی لڑائی خود لڑنی پڑے گی ورنہ ان کا استحصال ہوتا رہے گا۔

زبیر رضوی نے بھی یہی کیا ہندی میں۔ فساد کی اردو کہانیاں ایڈٹ کیں جسے راج کمل نے شائع کیا۔ معاوضہ تو دور کی بات ہے راج کمل نے کتاب کی اعزازی کاپی بھی عنایت نہیں کی۔

ادبی دنیا میں اپنی پہچان بنانا آسان نہیں ہے۔ دوسرے ہر وقت ٹانگیں کھینچنے میں لگے رہتے ہیں۔ خود دار تخلیق کار کو ادب کے مہنت قبول کرنا نہیں چاہتے۔ لیکن کب تک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ میرا ماننا ہے کہ اگر تخلیق خود بولتی ہے تو اس کی آواز کو ان سنی نہیں کر سکتے اور اگر خود نہیں بولتی تو دوسرے کہاں تک بو لیں گے ؟

مجھے سنت گیانیشور کی یاد آتی ہے۔ گیانیشور نے تیرہ سال کی عمر میں گیتا کی بھاشا ٹیکا لکھی جو ’’گیانیشوری ‘‘کے نام سے مشہور ہے۔ جو کتابیں میں سینے سے لگا کر رکھتا ہوں ان میں گیانیشوری بھی ہے۔ گیتا کی اب تک جتنی تشریح ہوئی ہے ان میں گیانیشوری اعلیٰ ہے۔ لیکن گیانیشور مہاراج کو بھی ان کے سمے کے پنڈتوں نے پریشان کیا اور ان کی نفی کرنے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ ایک بار ان سے کہا گیا کہ اگر تم اپنے کل کو پاک کرانا چاہتے ہو تو اس بھینس کے منھ سے وید کی ریچائیں سنواو۔ گیانیشور مہاراج نے بھینس کا سر تھپتھپایا اور اس کے منھ سے وید کی ریچائیں پھوٹ پڑیں۔

سماج آج بھی وہی ہے جو رشی منیوں کے وقت میں تھا۔ ذہنی ارتقا میں آ دمی کے ناخن نہیں بدلے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی تیز دھار۔ ۔ ۔ ۔ وہی حسد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی غصّہ۔ ۔ ۔ ۔ وہی نفرت۔ آج بھی ہم دوسرے کو آسانی سے تسلیم نہیں کرتے۔ پٹنہ کے سنجے کمار کندن ایمان دار افسر ہیں اور ایمان دار شاعر بھی۔ کندن اپنی شاعری میں اردو الفاظ کا استعمال بہت خوب صورتی سے کرتے ہیں اور ان کا تلفّظ بھی صحیح ہے۔ ان کا لہجہ بنیادی طور پر اردو لہجہ ہے۔ کندن اردو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے لیکن ان کی ہر نظم اردو نظم ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندی سماج انہیں قبول نہیں کرتا کہ یہ اردو کے شاعر ہیں اور اردو کے مہنت انہیں یہ کہہ کر ردّ کرتے ہیں کہ یہ تو اردو لکھنا پڑھنا بھی نہیں جانتے تو اردو کے شاعر کیسے۔ ۔ ۔ ۔ ؟ میں جب ان سے اس بات کا ذکر کرتا ہوں تو مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ

زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا

اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں

ان کا شعری مجموعہ راج کمل سے شائع ہوا ہے جو ہاٹ کیک کی طرح بکا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف لوگ انہیں پڑھنے کے لئے بے چین رہتے ہیں اور دوسری طرف انہیں قبول کرنا بھی نہیں چاہتے۔

آزادی کی جنگ میں اردو نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن آزادی کے بعد اردو اپنے ہی گھر میں پرائی ہو گئی۔ وجہ یہ کہ پاکستان میں اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا جس سے اردو مسلمانوں کی زبان سمجھی گئی۔ اتر پردیش میں جب اسے علاقائی زبان کی حیثیت دیے جانے کا امکان روشن ہوا تو نامور سنگھ کو باسی بھات میں خدا کا ساجھا نظر آیا۔ حیرت ہے کہ بام پنتھی سوچ بھی ایسی ہو سکتی ہے۔ لیکن جن وادی سنگٹھن نے اردو کے حق میں بیان جاری کئے۔ بیچاری اردو جس کے گیسو پنڈت رتن ناتھ سرشار نے سنوارے اور بیدی اور کرشن جس کی زلفوں کے اسیر ہوئے اپنے ہی ملک میں پرائی ہو گئی۔ شاید کچھ ایسے ہی عوامل ہیں کہ اردو معاشرہ عدم تحفظ کے احساس سے دوچار ہوا۔ اردو تخلیق کاروں کے لاشعور میں عدم تحفظ کا احساس آکاش میں شبد کی طرح نہاں ہے اور یہی ان کا تخلیقی منبع بھی ہے اور قوت اظہار بھی۔

۱۹۳۰ء کے آس پاس اردو میں رومان پسندی کا دور تھا۔ ہندی کے ادبی افق پر بھی کم و بیش یہی منظر تھا۔ سجاد ظہیر اور کچھ دوستوں نے رومان پسندی سے اپنی اکتاہٹ کا اظہار کیا اور سماج کی بد عنوانیوں کو نشانہ بناتے ہوئے نئے اسلوب کی تیکھی کہانیاں لکھیں اور انہیں ’انگارے‘ کے نام سے شائع کیا۔ ’انگارے ‘ نے انگارے کا کام کیا۔ حکومت نے اس کے نسخے ضبط کئے لیکن ترقی پسند ادب کی بنیاد پڑ گئی اور اردو میں سماجی حقیقت نگاری کا دور شروع ہوا۔

۱۹۳۶ء میں پریم چند کی صدارت میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا پہلا جلسہ منعقد ہوا اور پریم چند نے اپنی افسانہ نگاری کے آخری پڑاؤ پر ’کفن‘جیسی کہانی لکھی۔ اس سے پہلے بھونیشور نے انوکھے انداز میں کہانی ’بھیڑیے ‘ لکھی جس میں ہندی کی نئی کہانی کے امکانات پوشیدہ تھے۔ کہانی علامتی تھی۔ بھیڑیا فرنگی جبر اور استحصال کا استعارہ ہے۔ بھیڑیے سے جنگ نسل در نسل جاری رہتی ہے۔ باپ بھیڑیے کے عتاب کا شکار ہوتا ہے اور اب بیٹا اس سے نبرد آزما ہے۔ کہانیآج کے تناظر میں بھی تازگی کا احساس دلاتی ہے اور اسے پڑھتے ہوئے ندرت کا احساس ہوتا ہے۔ بھلے ہی کفن سے کہانی میں حقیقت نگاری کا دور شروع ہوا ہو لیکن نئی کہانی تو’ بھیڑیے ‘سے ہی شروع ہو تی ہے۔ بھونیشور جوانی میں ہی گزر گئے اس لئے بھی چرچے میں نہیں رہے۔

آزادی کے آس پاس اردو اور ہندی میں حقیقت نگاری کا دور شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں جو تخلیق کار ابھر کر سامنے آئے ان کی فہرست لمبی ہے۔ کچھ پہلے سے بھی لکھ رہے تھے، کچھ نے لکھنا ترک کر دیا۔ اس دور میں احمد ندیم قاسمی اور یش پال کی ’پیڑھی ‘نے سماجی بد عنوانیوں کی طرف اشارہ کیا۔ یش پال کی کہانی’دھرمیدھ‘قاسمی کی ’جوتا‘وشنو پر بھاکر کی ’دھرتی اب بھی گھوم رہی ہے ‘۔ چندر گپت ودّیالانکر کی ’واپسی‘، سہیل عظیم آبادی ’الاؤ‘، علی عباس حسینی کی ’میلہ گھومنی‘، امرت لال ناگر کی ’پڑھے لکھے براتی‘، غلام عباس کی ’آنندی‘، امرت رائے کی ’گیلی مٹّی‘، بھیرو پرساد کی ’چائے کا پیالہ ‘، حسن عسکری کی ’چائے کی پیالی‘، رانگے راگھو کی ’گدل‘، حیات اللہ انصاری کی ’آخری کوشش‘ اور بہت سی دوسری کہانیوں کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ یہاں ہندی اور اردو کہانیاں ساتھ ساتھ چلتی نظر آتی ہیں۔

جینندر اور ممتاز مفتی کی کہانیوں کا محور نفسیاتی رہا۔ جینندر تو پریم چند کے زمانے سے ہی لکھ رہے تھے۔ جینندر اور مفتی کے یہاں اسلوب کا تنوع تھا۔ دونوں نے گھریلو بندھن کی کہانیاں لکھیں اور انسانی رشتے میں جنس کی کار فرمائی کی طرف اشارہ کیا۔ جینندر کی کہانی ’پتنی‘ اور مفتی کی ’آپا‘ تو اتنی مشہور ہوئی کہ وہ ساری زندگی ’آپا‘ سے دامن نہیں چھڑا سکے۔

۱۹۵۵ء کے قریب ترقی پسند ادب کا اثر پھیکا پڑنے لگا اور جدیدیت انگڑائیاں لینے لگی۔ نامور سنگھ نے بھی ہندی میں نئی کہانی تلاش کی۔ جدیدیت میں سماج کی جگہ فرد نے لے لی۔ فرد اور فرد کی ذات، ذات کی تنہائی اور تنہائی کا کرب جدید کہانی کا مرکز بنا۔ کہانی سے کردار غائب ہونے لگے۔ واقعات کی جگہ محسوسات نے لے لی۔ اور کردار اپنی ذات کے خول میں سمٹ گئے۔ جدید افسانہ نگاروں نے اسلوبیاتی سطح پر تجربے کئے اور کہانی کو تجریدیت کی شکل عطا کی۔ جدیدیت کے دور میں اردو کہانی ہندی کہانی سے الگ کھڑی نظر آتی ہے۔ جدیدیت کا تنہا آدمی نامور سنگھ کو نرمل ورما کی کہانیوں میں نظر آیا۔ نرمل ورما کی کہانی ’پرندے ‘ سے نامور سنگھ ہندی کی نئی کہانی کی شروعات مانتے ہیں، لیکن نرمل کے یہاں آدمی کا اکیلا پن لعنت سے زیادہ نعمت ہے۔ ان کے کردار اکیلے پن کا لطف لیتے ہوئے یادوں میں جیتے ہیں اور اکیلے پن کو اکیلے پن سے ختم کرتے ہیں۔

نامور سنگھ نے نئی کہانی کی جس بحث کو جنم دیا اسے کملیشور، موہن راکیش اور راجندر یادو نے آگے بڑھایا اور حقیقت کو نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی۔ نئی کہانی کے اس’ تکون ‘ نے اپنی پچھلی پیڑھی کی نفی کی اور’ بھو گے ہوئے یتھارتھ ‘ یعنی اس حقیقت پر زور دیا جو تجربے میں آئی۔ انہوں نے صاف لفظوں میں بیان کیا کہ کہانی میں حقیقت کا تصور نہیں، حقیقت کا نجی تجربہ چاہئے۔ ہندی میں نئی کہانی کا دور سنہری دور کہا جائے گا۔ پاکستان میں انتظارحسین اور انور سجاد اور ہندوستان میں سریندر پرکاش اور مین را جدید افسانہ نگاروں میں نمایاں ہوئے۔ انتظار حسین نے داستانی اسلوب کی داغ بیل ڈالی۔ سریندر پرکاش نے تجریدیت کا سہارا لیا۔ مین را اور انور سجاد نے فوٹو تکنیک میں کہانیاں لکھیں۔ دیوندر اسّر وجودیت کے قریب بھی آ گئے۔ بلراج کومل نے ’کنواں ‘جیسی جدید کہانی لکھی لیکن اقبال مجید نے جدیدیت کا رنگ قبول نہیں کیا، پھر بھی ان کے قلم سے ’دو بھیگے ہوئے لوگ‘ جیسا شاہکار افسانہ خلق ہوا۔ غیاث احمد گدی پر شب خون کا اثر ہوا۔ غیاث نے ’تج دو تج دو‘ اور پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘جیسی کہانیاں لکھیں۔ نیّر مسعود اپنے خوبصورت ڈکشن کے ساتھ ’طاؤس چمن کی مینا‘ لے کر اردو افسانے میں داخل ہوئے۔

سریندر پرکاش اور مین را وغیرہ کی جدید کہانیوں کا ترجمہ ’ساریکا‘ میں شائع ہوا۔ ہندی کے کچھ ایک افسانہ نگاروں پر جدیدیت کا اثر دیکھا جا سکتا ہے۔ کرشن بلدیو وید کی کہانی ’اس چیز کی تلاش‘ ایک جدید کہانی ہے۔ نوین ساگر’اندھیرا پر ہسن ‘ اور دوسری کہانیوں میں سریندر پرکاش کے بہت قریب نظر آتے ہیں۔ رمیش اپادھیائے جیسے حقیقت پسند افسانہ نگار نے بھی ہوا، پانی اور مٹّی کو لے کر چار کہانیوں کی سریز داستانی اسلوب میں لکھی۔ ششانک ابھی بھی جدید ہیں۔ کملیشور پر انتظار حسین کا اثر دیکھا جا سکتا ہے۔ کملیشور ’راجہ بنسیہ‘ میں لوک کتھا کے پس منظر میں نچلے متوسط طبقے کی کہانی کہتے ہیں جس میں اسلوب کی جدّت ہے۔ کملیشور نے اپنے ناول ’کتنے پاکستان‘ میں متھ کو بھی شیلی کا حصہ بنایا ہے لیکن یہ چیز ان کے یہاں اوڑھی ہوئی لگتی ہے جب کہ انتظار حسین کے یہاں کہانی عصری آگہی لئے متھ کی گہرائیوں سے ابھرتی ہے۔

ستّر کی دہائی میں اردو کہانی جدیدیت کے چونچلے سے آزاد ہوتی نظر آتی ہے۔ جدید کہانی کا سب سے بڑا مسئلہ ترسیل کا تھا۔ کہانی قاری سے کٹ کر رہ گئی تھی ستّر کی نسل نے وقت کے تقاضے کو محسوس کیا اور کہانی کو مرکزی دھارے سے جوڑا۔ عبدالصمد، حسین، ساجد، انور، قمر، شفق، طارق، اشرف، انیس اور غضنفر وغیرہ اس دور کے اہم افسانہ نگار ہوئے۔ نیر مسعود پر اسراریت غالب رہی اور مظہر الزماں خاں انتظار حسین کے سائے سے نکلے تو رشید امجد کے قریب ہو گئے۔

ہندی کہانی میں چھوٹے موٹے آندولن ہوتے رہے ہیں۔ روندر کالیہ نے غیر کہانی کی مہم چلائی لیکن کالیہ کوئی مورچہ نہیں بنا سکے اور جلد ہی اس سے الگ ہو گئے۔ ڈاکٹر مہیپ سنگھ نے سچیتن کہانی کا جھمیلا کھڑا کیا، لیکن سچیتن کہانی میں تخلیقیت کا مسئلہ پیدا ہوا۔ نئی کہانی کے بعد کملیشور نے عام آدمی کا نعرہ اچھالا اور سمانتر کہانی کی مہم چلا ئی۔ ڈرائنگ روم میں صوفے پر دھنسے ہوئے آپ عام کے بارے میں سوچ سکتے ہیں لیکن اس کی کہانی نہیں لکھ سکتے۔ عام آدمی کی کہانی لکھنے کے لئے قالین سے باہر نکل کر عام ہونا پڑتا ہے اور پھر کہانی تو عام آدمی کی ہی ہوتی ہے۔ بھلے ہی نرمل ورما بورژوا طبقے کا دکھ بیان کرتے ہوں۔ لیکن کہانی کے محور میں عام آدمی ہمیشہ موجود رہا ہے۔ کملیشور، ’ساریکا‘سے الگ ہوئے تو سمانتر کہانی کی بحث بھی ختم ہو گئی۔ ہندی کہانی میں شایدی تھارتھ (حقیقت) کا سنکٹ ہمیشہ موجود رہا ہے۔ پریم چندی یتھارتھ ایک آدرش یتھارتھ ہے جو پریم چند سماج میں دیکھنا چاہتے تھے۔ نئی کہانی بھوگی ہوئی حقیقت پر زور دیتی ہے۔ جن وادی یتھارتھ کچھ الگ قسم کا یتھارتھ ہے جس میں مسئلے کا حل ضروری ہے، لیکن ایک حقیقت وہ بھی ہے جو نظر نہیں آتی اور نگاہوں سے ہمیشہ اوجھل رہتی ہے اردو کہانی اس حقیقت پر زور دیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہندی کہانی پریم چندی گھیرے سے باہر آنا چاہتی ہے لیکن ناقد ایسا ہونے نہیں دیتے۔ مدھوریش مانتے ہیں کہ ہندی کہانی کی مکھ دھارا جن وادی یتھارتھ وادی کہانی کی دھارا ہے جو اپنا تعلق پریم چند کی حقیقت نگاری کی روایت سے جوڑتی ہے۔ کلا واد یا اتّر آدھونکتا واد جمہوریت پسندوں کو پسند نہیں ہے۔ انہیں شکایت ہے کہ حقیقت پسندی کے خلاف کلاواد اور جن واد کے خلاف اتّر آدھونکتا واد کو کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، پھر بھی اگَے اور نرمل ورما، پریم چند کی زمینسے الگ کھڑے نظر آتے ہیں۔ نئی نسل کے اودے پرکاش نے اپنی کہانی کا مرکّب مغربی ادب سے تیّار کیا ہے۔ تاریخ کے بطون سے وہ کامیاب کہانی خلق کرنے پر قدرت رکھتے ہیں، لیکن ’ترچھ‘ میں جو شلپ گڑھا وہ ’پیلی چھتری والی لڑکی ‘ تک آتے آتے ان کے ہاتھ سے پھسل چکا ہے۔ اودے بہت گہرائی میں کہیں آرایس ایس سے متاثر نظر آتے ہیں۔ ان کی کہانی ’اور انت میں پرارتھنا‘ کا ڈاکٹر، آرایس ایس وادی ہے۔ کہانی میں سماج کی بد عنوانیوں کو نشانہ بناتے ہوئے ڈاکٹر کا مثالی کردار پیش کیا گیا ہے۔ کیوں نہیں سمجھا جائے کہ اودے آج کے نظام میں پھیلتی بیماریوں کا علاج آر ایس ایس کے طریقِ کار میں ڈھونڈ رہے ہیں ؟

اصل میں اپنی نظریاتی وابستگی کو ایک دم سے طاق پر رکھ دینا تخلیق کار کے لئے مشکل ہے۔ ہندی کہانی کی ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ کسی بھی تخلیق کو سیاسی مسلک سے پرکھنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ کمیٹڈ تخلیق کاروں کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ وہ کسی بھی فن پارے کا محاسبہ کرتے ہوئے سب سے پہلے اپنے اختلاف کا مرکز تلاش کرتے ہیں۔ کہانی اگر ان کے نظریے سے ہم آہنگ ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اسے رد کر دینا چاہئے۔ رمیش اپادھیائے کو پریمبد کی کہانی، ’ندی ہوتی لڑکی اس لئے پسند نہیں ہے کہ وہ سرخ پرچم کے نیچے کھڑی نہیں ہے۔ رمیش ’مہاماری ‘کوا یہ کہہ کر ریجکٹ کرتے ہیں کہ اس میں مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ادب میں ایسے رجحانات خطرناک ہیں۔ اس سے تخلیقیت پر ضرب پڑتی ہے۔ دیکھنا چاہئے کہ اپنے رویے میں تخلیق کار کہاں تک ایمان دار ہے اور موقف کی پیش کش میں وہ قاری کو کس حد تک قائل کر سکا ہے۔

اردو کہانی نے ہمیشہ تخلیقیت پر زور دیا ہے۔ ہندی اور اردو کہانی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ہندی کہانی کنٹینٹ پر زور دیتی ہے اور اردو کہانی فن پر۔ جن وادی کہانی کی ایک مشکل کہانی کو اوزار بنانے کی مشکل بھی ہے۔ لیکن ایک حد تک ہی ہم کہانی سے ہتھیار کا کام لے سکتے ہیں کہ کہانی ایک آرٹ بھی ہے اور اس کی اپنی حدیں بھی ہیں۔

فساد کا موضوع اردو کہانی میں اہم رجحان کی صورت غالب رہا ہے۔ ۱۹۴۷ء کا فساد پہلا حادثہ تھا جس کے ردّ عمل میں بے شمار کہانیاں لکھی گئیں۔ لیکن زیادہ تر کہانیوں میں درد کا اظہار جذباتی سطح پر ہوا ہے، تخلیقی سطح پر نہیں۔ کرشن چندر نے ’پشاور اکسپریس‘ میں سرحد کے آر پار مرنے والوں کا بیان تمام ہولناکیوں کے ساتھ کیا ہے۔ عزیز احمد ’کالی رات‘ میں فساد کا وحشت ناک منظر بیان کرتے ہیں۔ حیات اللہ انصاری نے ’شکر گزار آنکھیں ‘میں ہمدردی بٹورنے کی کوشش کی ہے۔ بھیشم ساہنی کی کہانی ’امرت سر آ گیا ہے ‘ میں عمل کے بدلے رد عمل ہے۔ کرشن کا مسئلہ ہے کہ کتنے ہندو اور مسلمان مرے۔ منٹو کا مسئلہ ہے کہ کتنے لوگ مرے ؟(کہانی سہائے کی موت)۔ کرشن اور بھیشم ساہنی نے فساد کو فرقے کی نظر سے دیکھا لیکن منٹو نے فساد کو آدمی کی نگاہ سے دیکھا۔ بیدی اور اگَے اسے انسانی روح میں رِستے ناسور کی طرح دیکھتے ہیں۔ عصمت نے اس کا حل اپنی زمین میں پیوست تہذیبی جڑوں میں ڈھونڈا ہے۔ اشفاق احمد اسے مذہبی المیے کے روپ میں دیکھتے ہیں۔

لیکن وقت کے بدلتے آئینے میں آج فساد کی نوعیت بدل گئی ہے۔ اب یہ حادثہ نہیں ہے جو رونما ہوتا۔ آج فساد ایک منصوبہ ہے جو عمل میں لایا جاتا ہے۔ اس لئے آج کہانیوں میں اظہار کے ڈھنگ بدل رہے ہیں۔ پہلے جان و مال کے لٹنے کا غم تھا۔ آج اپنی وراثت سے محروم ہونے کا خدشہ ہے۔ پہلے فساد کی وحشت ناکیوں کا ذکر ہوتا تھا، آج فساد کی سیاست اور اس سے پیدا شدہ مسائل کا بیان ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے سریندر پرکاش کی ’بالکونی‘حسین الحق کی ’نیو کی اینٹ‘ اور اودھیش پریت کی ’ہم زمین‘ قابلِ ذکر کہانیاں ہیں۔ سکھ دنگے پر پنّی سنگھ کی کہانی ’شوک‘ کانگریسی نیتا کو بے نقاب کرتی ہے۔ سوئم پرکاش کی کہانی ’کیا تم نے کبھی کوئی سردار بھکاری دیکھا ہے ‘ بیر راجہ کی ’ارتھی‘، ہر دئیش کی ’افواہ‘، مردو لاگر کی ’اگلی صبح‘ اور  تیجندر کی ’اپنا چہرہ ‘کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ فساد پر بھیشم ساہنی کی ’سلمیٰ آپا‘، ’جھٹپٹا‘، ’سردارنی‘ اور’ ظہور بخش‘ جیسی کہانیوں کی معنویت ہے کہ اس میں انسانی رویّے قائم ہیں لیکن ’امرت سر آ گیا ہے ‘ جیسی کہانی وقت کے بدلتے مزاج میں اپنی معنویت کھو چکی ہے۔ فرقہ پرستی کے موضوع پر لکھی گئی یہ کہانی آج خود فرقہ پرست ہو گئی ہے۔ اس میں ایک آدمی کا فعل دوسرے فرقے کے آدمی میں ردّ عمل پیدا کرتا ہے۔ ایسی کہانی آج فرقہ پرستی کو بڑھاوا دے گی۔ کچھ لوگ پڑھ کر خوش ہو سکتے ہیں کہ نیوٹن کا تیسرا قاعدہ ظہور پذیر ہوا ہے۔

سیکس کا موضوع اردو ادب میں ترقی پسند رجحان سمجھا گیا ہے۔ منٹو کے یہاں سیکس ایک وسیلہ ہے جس سے وہ اندر کے آدمی کو بے نقاب کرتا ہے۔ پرانی نسل کے ہندی کتھا کار یش پال، اشک اور منم ناتھ گپت کی بعض کہانیوں میں سیکس کی آمیزش دیکھی جا سکتی ہے۔ مردولا گرگ کے یہاں ایک بولڈنیس ہے۔ بلّبھ سدھارتھ، کاشی ناتھ سنگھ، پریمبد اور لولین کی کہانیوں میں بھی سیکس کا رنگ ہے۔ اردو کی نئی نسل نے اس سے دامن بچایا ہے لیکن انور قمر، طارق چھتاری مشتاق احمد نوری اور عبدالصمد کی حالیہ کہانیوں میں اس کی جھلک ملتی ہے۔ شاہد اختر کے یہاں اس کا رنگ گہرا ہے۔ لیکن جن وادی پیڑھی سیکس کو اچھوت سمجھ کر کتراتی رہی ہے۔

تانیثیت کی سطح پر ہندی اور اردو کہانیاں بہت پاس پاس نظر آتی ہیں۔ قرۃ العین حیدر، ہاجرہ مسرور، کشنا سوبتی اور ممتا کالیہ سے لے کر ذکیہ مشہدی، منیشا کلسریشٹھ اور غزال ضیغم کا قلم بھی دھار دار ہے پھر بھی نسوانی تحریک کا اثر اس طرح نظر نہیں آتا۔ ’استری ومرش‘ ان دنوں ہندی ادب میں موضوعِ بحث ہے، لیکن رمیش اپادھیائے استری آندولن کی بات کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ استری ومرش کھائے پئے نٹھلّے لوگوں کا کام ہے اور استری ومرش تو استری آندولن کے بعد آیا اور اسے بیکار کرنے کے لئے آیا۔

کسی بھی زبان میں دوسری زبان کے الفاظ چپکے چپکے دَر آتے ہیں کہ پتہ نہیں چلتا۔ یہ اس کے زندہ رہنے کی علامت ہے اور توسیع کی ضامن بھی۔ ہندی اور اردو دونوں نے ایک دوسرے کا اثر قبول کیا ہے اور خود کی توسیع کی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ناقد زبان کی سیاست کرتے ہوں، لیکن تخلیق کار نہیں کرتے۔ تخلیق کار خود اپنی دنیا کا خدا ہے اور خدا بے نیاز ہوتا ہے۔ اودے پرکاش کا اردو قاری سے زبیر رضوی نے تعارف کرایا اور حیدر جعفری سید سے اودے کی کہانیوں کے تراجم کرائے۔ گری راج کشور نے ’آکار‘ کا اردو نمبر شائع کیا۔ کملا پرشاد نے ’سویدھا‘کا اردو نمبر نکالا۔ ’کتھا دیش ‘نے بھی اردو افسانے کا خاص نمبر شائع کیا۔ ’ادبھاونا ‘نے پاکستانی ادب شائع کیا۔ ’جن مت‘ نے بھی اردو کا خاص نمبر شائع کیا اور اب ’روندر کالیہ‘ نے ’نئے گیان اودے ‘ کا اردو نمبر شائع کیا ہے۔ پاکستانی رسالہ’آج ‘نے تو جیسے خود کو ہندی کہانیوں کے لئے وقف کر دیا ہے۔ ’ایوان اردو‘ نے بھی ہندی افسانوں کا خاص نمبر شائع کیا۔ انتظار حسین کہتے ہیں کہ ان کی ایک بغل میں الف لیلیٰ ہے تو دوسری بغل میں کتھار سرت ساگر۔ بہت پہلے پرکاش پنڈت ’اردو ساہتیہ ‘ نکالتے تھے۔ آج ان کی جگہ حسن جمال نے لے لی ہے۔ ان کا رسالہ ’شیش‘ اردو فن پارے کو ہندی اسکرپٹ میں پیش کر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حسن جمال اردو کا رسم الخط دیوناگری کرنے کے حق میں ہیں کیوں کہ وہ اردو کے مشکل الفاظ کا بھی ترجمہ نہیں کرتے جسے ہندی قاری کے لئے پڑھنا مشکل ہوتا ہے۔ پر کاش پنڈت کے سا تھ یہ بات نہیں تھی۔ اردو ساہتیہ میں وہ مشکل الفاظ کا ہندی ترجمہ کر دیتے تھے۔

ایک زمانے میں شافی نے الزام لگایا تھا کہ آزادی کے بعد ہندی کہانی میں مسلم کردار نہیں ملتے۔ لیکن ستّر کی نسل نے نہ صرف یہ کہ مسلم کردار کو اپنی کہانیوں میں پیش کیا بلکہ معاشرے کو بھی کہانی کا پس منظر بنایا۔ اودھیش پریت، ہرشی کیش سلبھ۔ سوئم پرکاش، ارون پرکاش، اکھلیش، پریم کمار منی اور سنتوش دکشت وغیرہ کی بعض کہانیاں اس کی مثال ہیں۔ سنتوش دکشت کی ’مرغیاچک میں عید‘، سلبھ کی ’فجر کی نماز ‘ اودھیش کی ’ہم زمین‘ اور سوئم پرکاش کی ’پارٹیشن ‘ دل کو چھو لینے والی کہانیاں ہیں۔

ہم جس دور میں جی رہے ہیں وہ تخریب کاری کا دور ہے۔ آہستہ آہستہ سب کچھ ٹوٹ پھوٹ گیا…غریبی ہٹاؤ کے خواب بکھر گئے، سماج واد کا سپنا چور ہو گیا، تاریخ کے سینے میں فاشزم نے اپنے پنجے پیوست کئے، سیاست میں جرم دودھ میں شکر کی طرح گھُل گیا، فرقہ پرستی جنون کی حد میں داخل ہو گئی۔ ہم ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جس کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ آج ادیب پر سماجی ذمہ داری سے زیادہ سیاسی ذمہ داری آن پڑی ہے۔ اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اسے اپنی شناخت کو بچائے رکھنا ہے۔ ہندی اور اردو کی نئی پیڑھی نے اس چیلنج کو قبول کیا ہے اور اپنی کہانیوں میں پر زور احتجاج بلند کیا ہے۔ اس اعتبار سے حسین کی کہانی ’ندی کنارے دھواں ‘، عبدالصمد کی ’ہونی انہونی، ساجد کی ’مکڑی‘، سلام کی ’اک لبیہ‘، اشرف کی ’آدمی‘ طارق کی ’باغ کا دروازہ‘ غضنفر کی ’ختنہ‘ ‘، شاہد اخترکی ’برف پر ننگے پاؤں ‘، ذوقی کی ’اصل واقعے کی زیروکس کاپی ‘خورشید اکرم کی ’بلینک کال‘ قاسم خورشید کی پو سٹر، مشتاق احمد نوری کی کہیں ایسا تو نہیں، احمد صغیر کی انّا کو آ نے دو صغیر رحمانی کی گاؤں کا چاند اودے پرکاش کی ’پال گومڑا کا اسکوٹر‘، سنجیو کی ’ جو ایک ہی پد کا ارتھ لگاوے ‘، تیجندر کی ’اپنا چہرہ‘، شیو مورتی کی ’تریا چتر‘، ارون پرکاش کی ’منجدھار کنارے ‘ پردیپ پنتھ کی ’مہا مہم ‘، اصغر وجاہت کی ’میں ہندو ہوں ‘ اکھلیش کی ’چٹھی، سرنجئے کی ’کامریڈ کا کوٹ‘ قابل ذکر کہانیاں ہیں۔ اودھیش کی کہانی ’ہم زمین‘ انسان دوستی کی کہانی ہے اور عبدالصمد کی ’ہونی انہونی‘فاشسٹ قوتوں کے آگے سینہ سپر نظر آتی ہے۔ ’ہم زمین‘ میں حکومت کا عملہ فساد میں مارے گئے لوگوں کو ایک جگہ دفن کر دیتا ہے۔ ایک ہندو اور ایک مسلمان کی لاش پاس پاس دفن ہوتی ہے۔ ہندو اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں مسلمان ہونے کے دھوکے میں مارا جاتا ہے اور مسلمان بھی ایک ہندو بیوہ کی مدد کرنے کے پاداش میں اپنے لوگوں سے قتل ہوتا ہے۔ دونوں لاشیں ایک دوسرے سے ہم کلام ہیں اور اپنے دکھ کا اظہار کرتی ہیں۔ قبر اتنی تنگ ہے کہ آرام سے لیٹنا بھی دشوار ہے۔ ہندو لاش مسلمان لاش سے کہتی ہے کہ بہتر ہے کہ ہم اپنے بیچ کی دیوار گرا دیں تاکہ جگہ کی تنگی ختم ہو اور ہم آرام سے پاس پاس لیٹ سکیں۔ اودھیش اشارہ کرتے ہیں کہ جس طرح مغربی اور مشرقی جرمنی ایک ہو گئی اسی طرح ہندو پاک کی سرحدیں اگر مٹ جائیں تو ہم سکون سے ساتھ ساتھ رہ سکتے ہیں۔ عبدالصمد کی کہانی ’ہونی انہونی ‘ میں سماج کے تخریبی عناصر ایک شخص کو اس کے موروثی مکان سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں اور اسے قتل کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ لیکن وہ شخص خوف زدہ نہیں ہوتا بلکہ ان سے لوہا لینے کے لئے گھر کی پرانی چیزوں کو جمع کرتا ہے جس میں داداجی کا ڈنڈا، گھر کی پرانی اینٹ کے ٹکڑے اور طاق پر رکھی موٹی کتاب بھی شامل ہے۔ عبدالصمد کہنا چاہتے ہیں کہ فاشزم سے جنگ کرنے کے لیے ہمیں اپنی ویلوز سے کام لینا ہو گا۔ کہانی اس بات کی بھی تلقین کرتی ہے کہ ہم جن ویلوز پر یقین کر رکھتے ہیں ان کے مطابق ہمیں اپنی زندگی بھی گزارنی ہو گی۔ اصل میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد اردو اور ہندی کہانیاں ایک ہی مورچے پر آ گئی ہیں اور کندھے سے کندھا ملا کر چل رہی ہیں۔ اس کی ضرورت بھی تھی کہ فاشزم دبے پاؤں نہیں ڈنکے کی چوٹ پر بڑھتا چلا آ رہا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 [11]

 

انعامات دشمن بھی پیدا کرتے ہیں۔ مجھے سن 2012 کے لئے فروغ اردو ادب دوحہ قطر کے عالمی انعام سے نوازا گیا تو فیس بک پر گٹر کے کیڑے رینگنے لگے اور کیچڑ اچھالنے لگے۔ ۸ نومبر کو میرے ساتھ ادا کار نصیر الدّین شاہ اور پاکستان کے ادیب عطا الحق قاسمی بھی نوازے گئے۔ نصیر الدّین شاہ نے اردو افسانے کو ہندوستان اور ھندوستان سے باہر بھی اسٹیج کیا ہے اور غالب سیریل میں بھی ان کا رول بہت اہم رہا ہے۔ عطا الحق قاسمی کبھی امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے۔ جنگ میں کالم لکھتے ہیں اور اپنی شگفتہ تحریر کے لئے جانے جاتے ہیں۔ اس موقع پر ایک بین الاقوامی مشاعرے کا بھی انعقاد ہوتا ہے۔ اور مجلس فروغ اردو ایک مجلّہ بھی شائع کرتی ہے۔ مجھ سے مجلّہ کے لئے نمائندہ کہانیاں مانگی گئیں تو میں مشکل میں پڑ گیا مجلّہ پاکستان میں شائع ہوتا ہے۔ میں پاکستان میں بہت کم چھپا ہوں۔ آج کل وہاں میرے افسانوں کا بہت کریز ہے لیکن ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں میرے افسانوں کا ختنہ کر دیا جاتا تھا۔ اصل میں میں نے زیادہ تر مرد و زن کے رشتے پر لکھا ہے جس میں گلابی رنگ کچھ زیادہ ہی گاڑھا ہے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ میرے یہاں گلاب اپنے اصلی رنگ میں بہت کم کھلتا ہے۔ اس کی خوش بو میں آیوڈن کی بو بھی ملی ہوتی ہے جس سے رنگ کاسنی ہو جاتا ہے۔ جنس کا تعلّق اگر رنگوں سے ہے تو کاسنی رنگ سے ہو گا لیکن پاکستان کو صرف ہرا رنگ پسند ہے۔ پاکستانی مدیر میری تحریروں میں جگہ جگہ سیاہی پھیر دیتے تھے۔ یہاں تک کہ کراچی سے شائع ہونے والے رسالہ ’صریر‘ کے مدیر محترم فہیم اعظمی نے سنگاردان شائع کیا تو اس کے وہ جملے حذف کر دیئے۔ جو کہانی میں دھار پیدا کرتے تھے۔ دوحہ کے مجلّہ کے لئے کہانیوں کا انتخاب پریشان کن تھا۔ سنگاردان، اونٹ عنکبوت اور ظہار جیسی کہانیاں جگہ نہیں پا سکتی تھیں۔ میں نے ٹیبل، آخری سیڑھی کا مسافر اور کاغذی پیراہن کو ترجیح دی جس میں دور دور تک عورت کا سایہ بھی نظر نہیں آتا ہے۔

لیکن دوحہ میں پاکستانیوں سے مل کر لطف آیا۔ یہ ایسے دقیانوسی نہیں تھے جتنا میں سمجھ رہا تھا۔ عطا الحق قاسمی تو بہت بنداس آدمی تھے۔ میں انہیں عطا الحق بنداس کہنا پسند کروں گا۔ صبح صبح بے دھڑک میرے کمرے میں چلے آتے اور سگریٹ پھونکنا شروع کرتے۔ ہر کش پر مسکراتے اور بیٹھے بیٹھے کئی سگریٹ پھونک ڈالتے۔ کمرہ دھوئیں سے بھر جاتا۔ وہ جس محفل میں بھی جاتے دھوئیں کے مرغولے اڑاتے۔ ان کے لئے سموکنگ اور نان اسموکنگ زون میں فرق نہیں تھا۔ ان کی سگریٹ نوشی کا یہ انداز مجھے پسند آیا۔ ان کے ساتھ سگریٹ کے کش لگانے کا لطف کچھ اور ہی تھا۔ ایک دن صبح صبح انہوں نے پھلوں سے بھری ٹوکری بھی مجھے بھجوا دی۔ معلوم ہوا ان کے کسی مدّاح نے پھل بھیجے تھے۔ وہ مجھ سے یہ تحفہ شیئر کر رہے تھے۔ مجلّہ کے مدیر اسلم کولسری بھی سگریٹ نوشی میں پیچھے نہیں تھے۔ انہوں نے مجھے پاکستانی سگریٹ کے دو پیکٹ سے نوازا۔ ’’ دشمن ‘‘کی سگریٹ ہونٹوں میں دباتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ یہ سگریٹ نہیں دوستی کی طرف بڑھتے ہوئے ہاتھ ہیں۔ میں نے سگریٹ سلگائی اور ایک لمبا سا کش لگایا تو سگریٹ کے پھیلتے ہوئے دھوئیں میں مجھے دونوں ملکوں کی سر حدیں مٹتی سی نظر آئیں۔

میں ان لوگوں سے جلد ہی گھل مل گیا۔ پاکستانی شاعرہ بھی مجھے اچھی لگی۔ لیکن اس کی ایک بات چونکانے والی تھی۔ ناشتے کی میز پر جو کولڈ ڈرنک کی پیک بچ جاتی شاعرہ انہیں سمیٹ کر اپنے کمرے میں لے جاتی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ صرف اپنے حصّے کی ہی پیک نہیں دوسروں کی بھی بچی ہوئی پیک لے جاتی۔ ہو سکتا ہے یہ اس کی من پسند مشروب ہو جسے وہ اطمینان سے اپنے کمرے میں پیتی تھی۔ لیکن وہ اچھی شاعرہ تھی اور محفل میں توجہ کا مرکز بنی رہی۔ ہندوستان کی شاعرہ بھی کم خوب صورت نہیں تھی۔ دونوں کے ہونٹ ہر وقت لپ اسٹک سے رنگے رہتے تھے۔ ایسالگتا تھا ان میں مقابلہ حسن جاری ہے۔ دونوں منٹ منٹ پر لباس تبدیل کرتی تھیں اور بالوں کو نئے ڈھنگ سے سنوارتی تھیں۔ میں کبھی اس کے پاس بیٹھتا تھا کبھی اس کے پاس اور میری بیوی مجھے گھور کر دیکھتی تھی۔ ہندوستان کی شاعرہ سونے کی چوڑیاں پہن کر آئی تھی لیکن چوڑیاں اسے پرانی لگ رہی تھیں۔ وہ بار بار کہہ رہی تھی انہیں فروخت کر نگ جڑے کنگن لے گی۔ آ خر فہیم احمد جو منتظمین میں سے تھے اس کو لے کر بازار گئے۔ وہ دوحہ کے کنگن پہن کر بہت خوش ہوئی۔ وہ خاص ادا سے ہاتھوں کو لہراتی کہ نظر ان چاہے بھی کنگن پر پڑ جاتی۔ میں نے محسوس کیا کہ پاکستانی شاعرہ کے سامنے وہ کچھ زیادہ ہی ہاتھوں کو جنبش دیتی تھی۔ کنگن اس کے ہاتھ میں خوش نما بھی لگ رہے تھے۔ وہ اتنی حسین تھی کہ پیتل بھی پہن لیتی تو قطر میں سونے کا بھاؤ گر جاتا۔ میں نے اپنی بیوی کے ساتھ دونوں کی تصویر کیمرے میں قید کی اور اس عنوان کے ساتھ فیس بک پر ڈال دیا ’’ تین دیویاں۔ ۔ ۔ ۔ ایک میری والی ہے۔ ‘‘

جناب گوپی چند نارنگ نے اپنے کی نوٹس میں میری کہانی سنگھاردان کا تجزیہ پیش کیا تو نصیر الدّین شاہ چونک پڑے۔ شاہ نے اسے اسٹیج کرنے کی تجویز رکھی تو میں نے اپنے افسانوں کا مجموعہ انہیں پیش کیا۔

دوحہ میں تین دن بے حد مصروف گذرے۔ ضیافتیں خوب ہوئیں۔ بھارت کے سفیر نے بھی ہمیں مدعو کیا اور پاکستان کے سفیر نے بھی۔ میں نے دونوں کو اپنی کتا بیں تحفہ میں دیں۔ نصیر الدین شاہ کی بیگم رتنا پاٹھک نے بہت دلچسپ انداز میں اردو سے متعلّق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اپنی الجھنوں کاز کر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اردو لپی میں اتنے نقطے کیوں ہوتے ہیں کہ نیچے نقطہ ڈالو تو تلّفظ بدل جاتا ہے۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اردو اتنی نازک زبان ہے کہ نُقطے کے پھیر سے خدا جدا ہو جاتا ہے۔ جلسے کے دوسرے دن مجھے اپنا خطبہ دینا تھا۔ میں یہاں مختصر میں اس کا اقتباس پیش کرتا ہوں۔

’’ اکثر سوچتا ہوں کہ ہم ادب کیوں پڑھتے ہیں ؟ لیکن یہ سوال شاید زیادہ مشکل ہے کہ ہم ادب کیوں نہیں پڑھتے جب کہ ادب ذوق جمال کی تسکین تجربے کی تجدید اور فرط و انبساط سے عبارت ہے۔

اگر جمالیاتی تسکین کے لئے ہم ادب کی طرف مائل ہوتے ہیں تو یہ تسکین گھاس چھیلنے میں بھی ہے۔ ایک شخص اگر اس ترتیب سے گھاس کی کٹائی کرتا ہے کہ خوب صورت روش تیّّار ہوتی ہے تو اس میں بھی اس کے جمالیات کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ گھاس کا مخملی لمس بھی فرحت بخشتا ہے۔

میں نے بہت ڈھونڈا کہ ادب پڑھنے کے میرے ذاتی اسباب کیا ہیں لیکن کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔ میں پیشے سے انجینیر ہوں۔ جمالیات کی تسکین مجھے اس وقت بھی ملتی ہے جب میں کوئی اسٹرکچر یا پائپ نٹ ورک ڈیزائن کرتا ہوں۔ علم نجوم کا مطالعہ بھی مجھے سرور بخشتا ہے۔ دشت نجوم کی سیّاحی میں جب برج کواکب سے گذرتا ہوں اور ستاروں سے ہم کلام ہوتا ہوں تو کائنات کے اسرار و رموز پر حیرت ہوتی ہے۔ گر چہ یہ اسرار مجھ پر نہیں کھلتے لیکن مسرّت سے ہمکنار ضرور کرتے ہیں۔ انسانی زندگی پر ان کا اطلاق مجھے اور بھی حیرت میں ڈالتا ہے۔ مجھے صاف نظر آتا ہے کہ جناب عتیق احمد کی خندہ پیشانی میں ستارہ زہرہ کی کارفرما ئی ہے۔ جناب نارنگ کی شخصیت کا استحکام زحل کا عطیہ ہے اور جناب فہیم احمد کی آنکھوں کی چمک عطارد کی چمک جان پڑتی ہے۔

شاید حصول مسرّت کے لئے میں ادب کی طرف رجوع نہیں ہوا۔

ایسا بھی نہیں ہے کہ پیشے کی یکسانیت سے گھبرا کر میں نے ادب میں پناہ لی۔ یکسانیت کا مسلہ میرے لئے پریشان کن نہیں رہا کہ مختلف علوم انسانیہ سے میری دلچسپی رہی ہے۔ پھر کیا ہے کہ میں ادب پڑھنے پر مجبور ہوا۔ ؟ میں نہیں سمجھتا کہ ادب پڑھنے کے انجنیر یا ڈاکٹر کے الگ وجوہات ہیں۔ آدمی لاشعوری سطح پر نجات کے لئے کوشاں ہے۔ نجات اگر لمحہ موجود میں ہے تو گرفت میں نہیں آتا۔ لمحہ موجود ایک چھلاوہ ہے جو سانس کے زیر و بم کے درمیانی وقفے میں کسی حسن بے پناہ کی طرح پھیلتا ہے اور نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔

بہ طور انجنیر میں اپنی داخلیت میں پل پل مرتا رہا ہوں۔ ٹھیکے داروں کا ناجائز مطالبہ، مزدور یونین کی کھچ کھچ بیوریوکریٹس کی انانیت اور منسٹر کی من مانی نے میری داخلیت میں کئی زخم لگائے۔ میرے اقدار کا چہرہ مسخ ہوا اور میں عدم تحفّظ کے احساس سے گھر گیا۔ داخلیت کو بچانا ضروری تھا۔ مجھے ادب میں پناہ ملی کہ ادب داخلیت کی بازیافت ہے اور نجات کا راستہ داخلیت سے ہو کر گذرتا ہے۔

تخلیق کا جذبہ انسان کی سائکی میں ہے۔ لیکن اس کے محرّکات کیا ہیں ؟ خدا کے محرّکات کیا تھے کہ اس نے کائنات کی تعمیر کی شاید اس نے خود کو آشکارا کرنا چاہا یا خود اس کو اپنے وجود کے امکانات کائنات کے مظہر میں نظر آئے۔

ادیب بھی اپنی دنیا کا خدا ہے۔ وہ بھی خلق کرتا ہے۔ اس کے بھی اپنے محرّکات ہیں۔ شاید خدا اور ادیب کے تخلیقی محرّکات میں کہیں نہ کہیں کوئی جذبہ مشترک ہے۔

انسان نے خدا کو بھی اپنے طور پر آسمانی صحیفوں میں خلق کیا۔ مذہبی اصول و عقائد اور ضابطے بنائے اور ان میں اپنی نجات کی راہ ڈھونڈی۔ لیکن انسان اپنی ہی تحریر کا اسیر ہوا۔ موت جبر نہیں ہے۔ موت برحق ہے۔ جبر ہے انسان کا تحریری نظام جس کے شکنجے میں فرد بھی ہے اور خدا بھی اور نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ انسان نے پھول کم کھلائے اور ہتھیار زیادہ بنائے تہذیبی ارتقا کا راستہ میدان جنگ سے ہو کر گذرا نسلی امتیاز سیاسی استحصال فسادات دہشت گردی اور معاشرے کی بدعنوانیاں د نیا سے کبھی ختم نہیں ہوں گی۔ سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں انسانی وجود کے امکانات کیا ہیں۔ یہی میرا تجسس ہے اور یہی میرا کرب جو مجھے ادب پڑھنے پر مجبور کرتا ہے اور کسی حد تک لکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔

بہ طور انجنیر سائنس فکشن سے میری دلچسپی کم رہی ہے۔ لیکن میرے پیشے کا میری تحریر پر اثر ہو ا۔ انجنیرینگ ڈیزائن میں اشیا کی کفایت شعاری پہلی شرط ہوتی ہے۔ افسانے کی کرافٹ میں میں نے الفاظ کی اکا نامیeconomy پر زور دیا۔ ادب سے میری دلچسپی بڑھی تو نفسیات نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔ انسانی رشتے بہت پے چیدہ ہوتے ہیں۔ انہیں سمجھنا اتنا آسان نہیں ہے۔ نفسیاتی ادب پڑھنے کی میں نے تھوڑی بہت کوشش کی۔ فرائڈ، یونگ، ہیو لاک الس، اڈلر اور کرافٹ ایبنگ کے نظریات سے خود کو واقف کرانے کی سعی کی۔ روسو کی کنفیشن میں مسوچیت پسندی کے باب نے مجھے پریشان کیا۔ لیکن کرافٹ ایبنگ نے سائکو پیتھی اسیکسولس میں روسو کی مسوچیت پسندی کا تجزیہ کیا تو مجھے حیرت ہوئی اور نفسیاتی ادب کی افادیت کا احساس ہوا۔ جنس کی نفسیات سے میری دلچسپی بڑھی۔ جنس میرے لئے ٹیبو نہیں رہا۔ ادب میں مجھے جنس کے جمالیات کی تلاش رہی ہے۔ اپنے دکھ مجھے دے دو کی اندو میں مجھے مکمّل عورت نظر آئی۔ منٹو کی جانکی میں یونانی متھ کی افروڈیٹ کو دیکھا۔ میں سمجھتا ہوں ادب کی اپنی اخلاقیات ہے۔ مذہب کی اخلاقیات شاید ادب کی اخلاقیات نہیں ہے۔

ادب میں تبدیلی برحق ہے۔ آج اگر مہابیانیہ زیر زمیں چلا گیا ہے تو تخلیقی بیانیہ کا دور شروع ہو گیا ہے۔ کوئی بھی چیز جدید ہونے سے پہلے ما بعد جدید ہوتی ہے۔ ستّر کی نسل تخلیقی بیانیہ کے ساتھ جس دور میں داخل ہوئی وہ ما بعد جدیدیت کا دور ہے۔

فنکار کسی قوم کسی ملک کسی مذہب سے بندھا نہیں ہوتا۔ فنکار تنہا ہوتا ہے لیکن دوسرے کی تنہائی اس کی تنہائی ہوتی ہے۔ سارے جہاں کا درد اس کے جگر میں ہوتا ہے۔ جب کرّئے ارض پر کہیں بھی بربریت اپنے وحشی پنجے نکالتی ہے، جب عراق میں بڑی طاقتیں بموں کی کارپٹ بچھاتی ہیں، فلسطین، لبنان، افغانستان اور برّ صغیر میں بے گناہوں کا قتل عام ہوتا ہے تو وہ آنکھ جس سے آنسو کا پہلا قطرہ ٹپکتا ہے فنکار کی آنکھ ہوتی ہے سیاست داں کی نہیں۔ ادیب کی ذمہ داریاں اب بڑھ گئی ہیں۔ ادیب پر پہلے صرف سماجی ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں۔ لیکن اب سماجی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ سیاسی ذمہ داریاں بھی آن پڑی ہیں۔ ہم ایک پر آشوب دور سے گذر رہے ہیں۔ اس عالمی منظر نامے میں اردو افسانہ کو ایک نیا کردار نبھانا ہے۔ لیکن روح کی گہرائیوں میں جب تک کوئی کرب انتہا تک نہیں پہنچتا اس کا فنّی اظہار مشکل ہے۔ کہانی قدم قدم پر بکھری پڑی ہے۔ ہر آدمی کا چہرہ ایک کاغذ ہے جس پر اس کی زندگی کی کہانی لکھی ہوتی ہے۔ اس کاغذ کے بسیار رنگ ہیں۔ یہ کبھی آنسوووں سے بھیگا ہوتا ہے کبھی قہقہوں میں ڈوبا ہوتا ہے۔ کبھی روشنی یہاں ہالہ سا بنتی ہے کبھی تیرگی اپنے ناخن چبھوتی ہے۔ کبھی پھول کھلتے ہیں کبھی کانٹے اگتے ہیں۔ کہانی کار کو کوئی ایک رنگ بھاتا ہے تو کہانی ہوتی ہے کئی رنگوں کے انتخاب سے ناول کی تخلیق ہوتی ہے اور تمام رنگوں کو سمیٹنے کی کوشش مہابیانیہ کو جنم دیتی ہے۔ ایک افسانہ نگار لاکھ کچھ لکھ لے ایک کہانی اس کی زندگی میں ان دیکھی رہ جاتی ہے ان چھوئی رہ جاتی ہے۔ لا شعور کے نہاں خانے میں کسی محبوب کی طرح محو انتظار رہتی ہے۔ مسلسل دستک دیتی رہتی ہے کہ میں یہاں ہوں۔ ۔ ۔ تمہارے ارد گرد۔ ۔ ۔ میں موجود ہوں ہوا میں لمس کی طرح۔ ۔ ۔ پانی میں لہر کی طرح۔ ۔ ۔ ۔ لکڑی میں اگنی کی طرح۔ ۔ ۔ آکاش میں شبد کی طرح۔ وہ خوش قسمت ہوتے ہیں جنہیں یہ ان چھوئی کہانی نظر آ جاتی ہے۔ میں اپنی روح کی گہرائیوں میں مسلسل اس کی سرگوشیاں سن رہا ہوں لیکن مجھ میں ابھی اتنی بصیرت پیدا نہیں ہوئی کہ وہاں تک پہنچ سکوں۔ شاید محبوب تک پہنچنے کے لئے مجھے کرب لا متناہی سے گزرنا پڑے گا۔

مجھے اس گھڑی کا انتظار ہے۔ ‘‘

میں دوحہ سے ۸ نومبر کو لوٹا اور انٹر نیٹ پر بیٹھا تو فیس بک کے پنّے پر ایک کیڑا کلبلاتا نظر آیا۔ ایک نام نہاد افسانہ نگار نے نغمہ بانو کی فیک آئی ڈی بنائی ہے وہ فیس بک پر عورت بن کر سب کو لبھاتے ہیں۔ انہوں نے ایک میسج فلیش کیا۔

’’ شمو ئل احمد ایک بد چلن آدمی ہے۔ میں اس کے فلیٹ میں اپنے دو بچّوں کے ساتھ اکیلی رہتی تھی۔ میرے شوہر دبئی میں رہتے ہیں۔ ایک رات شموئل احمد شراب پی کر میرے کمرے میں گھس آیا اور میرا ریپ کیا۔ مجھے حیرت ہے کہ ایسے بد چلن آدمی کو ایک مسلم ملک نے بلا کر انعام و اکرام سے کیسے نوازا ؟ میں اپیل کرتی ہوں کہ اس سے ایوارڈ واپس لیا جائے۔ ‘‘

دیکھتے دیکھتے بہت سے کیڑے رینگنے لگے اور گندگی پھیلانے لگے۔

’’ یہ پاپی کون ہے۔ ؟ اس کو سزا ملے گی جس نے ایک پارسا عورت کے دامن کو داغ دار کیا۔ ‘‘

’’ مجھے اس کا پتہ بتایئے محترمہ۔ میں اس کو سزا دلاؤں گا۔

’’ شموئل احمد کو اللہ جہنّم رسید کرے گا۔ ‘‘

زہر کو زہر ہی کاٹتا ہے۔ میں نے جواب میں لکھا۔

’’ یہ محترمہ خود چل کر میرے پاس آئی تھیں۔ اور کہنے لگیں میں نے بہت دنوں سے سیکس نہیں کیا ہے۔ میں اکیلی رہتی ہوں۔ میرے شوہر دبئی میں رہتے ہیں۔ آپ مجھ سے دوستی کیجیئے اور میری پیاس بجھایئے۔ میں ان سے ہم بستر ہوا۔ ان کے جو دو بیٹے ہیں ان میں سے ایک میرا ہے۔ آپ حضرات سے اپیل ہے کہ میرا بیٹا مجھے دلا دیں۔ میں ڈی۔ ان۔ اے ٹیسٹ کے لئے تیّار ہوں۔ ‘‘

کیڑا ہمیشہ کے لئے اسکرین سے غائب ہو گیا۔ تہلکہ میگزین کے لئے نرالا میرا انٹر ویو لینے آئے تو میں نے ان سے اس واقعہ کا ذکر کیا۔ نرالا نے اسے جون2013 کے شمارے میں شائع کر دیا۔

ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ کوئی سیڑھیاں چڑھتا ہے تو ان کے سینے میں دھواں اٹھتا ہے۔ ایک ایسے ہی نام نہاد ادیب ہیں جو بہت پیار سے ملتے ہیں اور آستین میں کہاں سانپ رکھتے ہیں پتہ نہیں چلتا ہے۔ مجھ سے بھی بہت پیار سے ملے۔ ان دنوں میرا ناول ندی شائع ہوا تھا۔ ادیب محترم نے ندی پر مذاکرے کی تجویز رکھی اور جلسہ آرگنائز کرنے کی ذمّہ داری بھی لی۔ طے ہوا کہ اردو اکاڈمی کے ہال میں جلسہ ہو گا جس کی صدارت وہاب اشرفی کر یں گے۔ کارڈ چھپ گئے۔ کارڈ تقسیم کرنے کی ذمّہ داری بھی ادیب محترم نے لی۔ میں جب اکاڈمی پہنچا تو وہاں ایک شخص بھی نہیں تھا۔ اکاڈمی والوں نے بتایا کہ جلسے کی کوئی خبر ان لو گوں کو نہیں ہے۔ میں نے ادیب کو فون کیا تو معلوم ہوا کہ ان کے مقام خاص میں پھوڑا اگ آیا ہے، وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ سازش ہوئی ہے۔ سانپ سامنے پھنکار رہا تھا لیکن میں سانپوں سے ڈرتا نہیں ہوں۔ میں نے کچھ دوستوں کو فون کیا کہ اکاڈمی میں ندی پر مذاکرے کا انعقاد کیا گیا ہے۔ دیکھتے دیکھتے مدھو کر سنگھ، متھیلیش کماری مصرا، پریم کمار منی۔ مشتاق احمد نوری، صدّیق مجیبی اور شاہد جمیل وغیرہ پہنچ گئے۔ شاہد جمیل اور نوری نے کچھ اور دوستوں کو بھی بلا لیا۔ علیم اللہ حالی اور طلحہ رضوی برق اور قنبر علی بھی پہنچ گئے۔ جلسہ شروع ہوا جس کی نظامت نوری نے کی۔ ندی پر زور دار بحث ہوئی۔ مجیبی نے ندی کو دو کرداروں پر مبنی ایک انوکھی تخلیق بتائی۔ مجیبی نے کہا کہ ندی اپنی تخلیقی زبان کے لئے بھی جانی جائے گی۔ ندی میں کرداروں کے نام نہیں ہیں اس لئے قنبر علی نے انہیں حی اور شی سے منسوب کیا۔ علیم اللہ حالی کو اعتراض تھا کہ اس میں واقعات کی وہ تہیں نہیں ہیں جس کے لئے ناول جانا جاتا ہے۔ مدھو کر سنگھ نے اسے استری ومرش سے جوڑا۔ نوری نے کہانی کے بینا لسطور میں نہاں عورت کے لطیف احساسات کی بازیافت کی۔ طلحہ رضوی برق کو اعتراض تھا کہ شی والد محترم کے گھر کیوں بیٹھ گئی۔ ؟ میں نے تمام سوالوں کے جوابات دینے کی کوشش کی۔ حالی سے میں نے کہا کہ ناول میں تو واقعات ہی واقعات ہیں اور آخر آپ واقعہ کی کس طرح شناخت کرتے ہیں۔ مان لیجیئے گرمی سے السائی دو پہر میں ایک لڑکا اداس اپنے کمرے میں بیٹھا ہے۔ کمرے کی ایک کھڑکی باہر سڑک کی طرف کھلتی ہے۔ اچانک ایک خوب صورت سی لڑکی کھڑکی کے پاس آ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ لڑکے کو دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ کہتی ہے۔ ۔ ۔ آہستہ سے مسکراتی ہے اور پھر بھاگ جاتی ہے۔ لڑکا حیران ہے کہ کون تھی ؟ وہ بے چین ہو جاتا ہے۔ کھڑکی سے جھانکتا ہے لیکن دور تک سنّاٹا ہے۔ کتنا بڑا واقعہ ہے کہ ایک لمحے کے لئے کوئی اداس لڑکے کی تنہائی میں شریک ہوا اور اس کی داخلیت میں طوفان برپا ہو گیا۔ لیکن ایک پیشہ ور ناقد اسے واقعہ اسی وقت سمجھے گا جب وہ لڑکا کھینچ کر اس لڑکی کو کمرے میں لاتا ہے اور اس کا ریپ کرتا ہے۔

سینے کا دھواں کبھی کبھی بہت لطیف ہوتا ہے۔ آنکھوں میں تیرتا ہے لیکن نظر نہیں آتا۔ ۔ ۔ لیکن جو محبّت کرتے ہیں وہ کمال کرتے ہیں۔

ا حمد کلیم فیض پوری ان با کمال لوگوں میں ہیں جو دوستوں کی کامیابی کا جشن مناتے ہیں۔ کلیم بھساول میں رہتے ہیں۔ ان سے میری کو ئی ملاقات نہیں تھی لیکن ان کے افسانے میری نظر سے گذرے تھے۔ میں جب پونے میں تھا تو ان کا فون آیا کہ وہ میرے مدّاحوں میں ہیں اور مجھ سے ملنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ میں اسی دن پٹنہ جانے والا تھا۔ میں نے کہا کہ بھساول پلیٹ فارم پر ملاقات ہو سکتی ہے۔

میری نگاہیں جب پہلی بار انہیں پلیٹ فارم پر ڈھونڈ رہی تھیں تو مجھے ایک پل کے لئے تسنیم کی یاد آئی۔ جب میں پہلی بار اس سے ملنے ماریہ لوک گیا تھا تو بولی تھی کہ وہ مجھے میری آنکھوں سے پہچا نے گی کہ ان میں کسی کے تلاش کا تجسس ہو گا۔ میں آنکھوں میں تجسس کے تمام رنگ لئے احمد کلیم فیض پوری کو پلیٹ فارم پر تلاش رہا تھا۔ ہر آنے جانے والے پر میری نظر تھی۔ ایک درویش صفت آدمی سفید لباس میں نظر آیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک پیکٹ تھا اور چال میں ہلکی سی لنگڑاہٹ تھی۔ اس کے بال لمبے اور ادھ پکّے تھے جسے اس نے پیچھے کی طرف سمیٹ رکھا تھا۔ میں نے اسے ہاتھ کا اشارہ کیا تو اس نے مجھے چونک کر دیکھا۔ اس کی چال تیز ہو گئی اور لنگڑاہٹ کچھ بڑھ گئی۔ وہ قریب آیا تو مجھے لگا اس شخص پر ستارہ مشتری کا اثر ہے۔ آنکھیں روشن تھیں اور ہونٹوں پر مند مند سی مسکراہٹ تھی۔ وہ بہت تجسس سے ٹرین کے ڈبّے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے کہا۔

’’ کیسے ہیں کلیم صاحب ؟ ‘‘

’’ ارے۔ ۔ ۔ آپ شموئل صاحب ہیں ؟ ‘‘ اس کے لہجے میں حیرت تھی۔

’’ خاکسار کو شموئل احمد کہتے ہیں۔ ‘‘ میں مسکرایا۔

ٍٍ ’’ آپ نے مجھے پہچانا کیسے ؟ ‘‘

’’ آپ کی خوشبو مجھ تک آئی۔ ‘‘

’’ کمال ہے جناب ! ‘‘

کلیم سمجھ رہے تھے کہ میں نے ان کی تصویر کہیں دیکھی ہو گی۔ ۔ میں نے بتایا کہ ہر آدمی اپنی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے اور ان پر تو مشتری کا اثر صاف نظر آ رہا ہے ۔ جب میں نے کہا کہ میرے لئے لنچ کا پیکٹ لے کر آ رہے ہیں تو ان کو اور بھی حیرت ہوئی۔ تب میں نے مشتری کے لئے توصیفی کلمات کہے۔

’’ مشتری صادق ہے اور ستو گن کے لئے جانا جاتا ہے۔ آپ نے سوچا ہو گا کہ میں پونے سے پٹنہ اتنی دور کا سفر کر رہا ہوں تو میرے ساتھ کچھ کھانے پینے کی بھی چیز ہونی چاہیئے۔ ‘‘

’’ کمال ہے۔ ۔ ۔ آپ تو ولی معلوم ہوتے ہیں۔ ‘‘ کلیم ہنستے ہوئے بولے۔

’’ میں شیطان ہوں اور اس وقت ولی میرے چکّر میں آ گیا ہے۔ ‘‘

کلیم نے زور کا ٹھہاکہ لگایا۔ وہ ٹھہاکے اسی طرح لگاتے ہیں۔ فون پر ان کا ٹھہاکہ اور زور دار ہوتا ہے۔

ہماری ملاقاتیں پلیٹ فارم پر ہونے لگیں۔ میں جب بھی پٹنہ پونے کا سفر کرتا وہ پلیٹ فارم پر موجود ہوتے۔ بھساول کا ریلوے پلیٹ فارم ہماری عاشقی کا گواہ ہے۔ ہم چائے کی چسکیاں لیتے اور کہانیوں کا چرچہ کرتے۔ یہاں ان کی کہانی بھی سنی ہے اور تبصرہ بھی کیا ہے۔ گرچہ گاڑی کے رکنے کا وقفہ تین منٹ سے زیادہ نہیں ہے لیکن ہم جب بھی ملے گاڑی کچھ تا خیر سے ہی کھلی۔ کلیم کی کہانیوں میں مقامی رنگ کے ساتھ گہرا سماجی شعور ہے۔ زندگی کے ہر چھوٹے بڑے واقعہ پر ان کی نظر گہری ہے۔

کلیم نے اپنے افسانوں کا مجموعہ ’’ساگوان کی چھاؤں ‘‘ میرے نام معنون کی ہے اور رسم اجرا کی ادائگی بھی میرے ہاتھوں سے ہی ہوئی تھی۔ ان کا اصرار تھا کہ جلسے کے بعد بھی میں کچھ دن بھساول میں رکوں۔ لیکن بھساول کے سرکٹ ہاوس میں بات چیت کا وہ لطف نہیں تھا جو ریلوے پلیٹ فارم پر آتا تھا۔ پلیٹ فارم پر وقت کی قید تھی اور جب آپ کسی اپنے سے ملتے ہیں اور والہانہ گفتگو میں محو ہوتے ہیں اور کوئی جلّاد کھڑا رہتا ہے کہ چلو۔ ۔ ۔ چلو۔ ۔ ۔ وقت ہو گیا تو آپ عجیب سی تشنگی لئے لوٹتے ہیں۔ پلیٹ فارم کی ملاقاتوں میں تشنگی کا مزہ تھا۔

کلیم کے دوستوں نے جلگاؤں میں بھی شان دار جلسے کا انعقاد کیا جس کی صدارت عبد الکریم سالار نے کی۔ سالار مجھے جلگاؤں کے سر سیّد لگے۔ تعلیم کے شعبے میں ا ہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ جلسے کی نظامت نو جوان صحافی مشتاق کریمی نے کی۔ مشتاق نے اپنی کتاب بھی مجھے عنایت کی جس میں ان کے فکر انگیز مضامین ہیں۔ مشتاق نے سماج کے اہم مسائل پر روشنی ڈالی ہے اور ان کا حل بھی تلاشنے کی کوشش کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں مشتاق جیسے صحافیوں کی سماج میں ضرورت ہے۔

کچھ دنوں بعد معلوم ہوا کہ کلیم کو ان کے افسانوی مجموعہ کے لئے مہا راشٹر اردو اکاڈمی نے انعام سے نوازا ہے۔ میں نے مبارک باد دی اور کہا کہ انعام آپ کا اور رقم میری کہ جب بھساول آؤں گا تو اپنے طور پر خرچ کروں گا۔ میں نے یہ بات از راہ مذاق کہی تھی لیکن کلیم نے یہ رقم الگ کھاتے میں ڈال رکھی ہے اور میرے بھساول آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

میں یہاں حسن امام کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ حسن امام کی دلچسپی ادب میں نہیں ہے۔ کبھی کراٹے چیمپین ہوا کرتے تھے۔ اب پھلوں کی تجارت کرتے ہیں۔ وہ اپنی قسمت کا حال جاننے آئے تھے۔ مجھ سے بہت عقیدت سے ملے۔ ان کے رویّے میں کہیں کوئی تصنّع نہیں تھا اور مجھے حیرت ہوئی کہ آدمی اتنا سادہ لوح بھی ہو سکتا ہے۔ آتے ہی میرا ہاتھ چوما اور آنکھوں سے لگایا جیسے میں کوئی پیر ہوں۔ میں انہیں دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔ آنکھیں بہت ہنستی ہوئی تھیں جیسی کرک راشی والوں کی ہوتی ہے۔ ہونٹوں پر دلنواز مسکراہٹ رینگ رہی تھی۔ جب زہرہ اپنے ہی خانے میں مرکز میں رہ کر امل جوگ بناتا ہے تو ایسی ہی مسکراہٹ ہوتی ہے۔ حسن نے کسی نئے آدمی کے ساتھ کارو بار شروع کیا تھا اور جاننا چاہتے تھے کہ اس کا ساتھ کس حد تک سود مند رہے گا۔ میں نے کہا وہ دھوکہ دے گا۔ حسن مجھے پیسے دینا چاہتے تھے لیکن میں نے قبول نہیں کیا۔ کچھ دنوں بعد وہ پھر آئے اور ہنستے ہوئے کہنے لگے وہ ان کے بیس ہزار روپے لے کر کہیں چمپت ہو گیا۔ میں یہ سوچ کر مسکرایا کہ یہ شخص اپنی بربادی کے قصّے بھی ہنس ہنس کر سنا رہا ہے۔ اس دن وہ اور بھی عقیدت سے ملے اور میرے ہاتھوں کو دیر تک اپنی آنکھوں سے لگائے رکھا۔ ۔ میں مخمصے میں تھا۔ ان کا بھرم توڑنا ضروری تھا۔ ورنہ پیر مرشد کے تئیں ان کی جو عقیدت تھی تو کوئی پیر بن کر ان کا استحصال آسانی سے کر سکتا تھا۔ میں نے اس دن ایک بے تکی سی بات کہہ دی تا کہ یہ مجھے جھوٹا سمجھیں اور مجھ سے ان کا موہ بھنگ ہو سکے۔ میں نے کہا آج جب آپ گھر جائیں گے تو بارش ہو گی۔ بارش کا موسم نہیں تھا اور نہ ہی آسمان میں کالے بادل منڈرا رہے تھے۔ مجھے یقین تھا کہ جب حسن گھر جائیں گے اور بارش وارش کچھ نہیں ہو گی تو مجھے پاکھنڈی سمجھنے پر مجبور ہو جایں گے۔ دوسرے دن وہ صبح صبح پھلوں کی ٹوکری لئے میرے گھر آ دھمکے۔ میرے ہاتھوں کو چوما آنکھوں سے لگایا اور بہت عاجزی سے بولے۔

’’ آپ نے کہا اور بارش ہوئی۔ ‘‘

مجھے سارتر کی کہانی ’’ وال ‘‘ یاد آتی ہے۔ فوجی ایک شخص کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ وہ کہیں چھپ کر بیٹھا ہے۔ فوجی اس کے ساتھی کو پکڑ لیتے ہیں اور اس شخص کا پتہ پو چھتے ہیں۔ ساتھی کو خود نہیں پتہ کہ وہ کہاں چھپ کر بیٹھا ہے۔ لیکن اذیت کے ڈر سے ایک جھوٹ گڑھتا ہے کہ وہ قبرستان میں ایک تابوت کے اندر چھپا بیٹھا ہے۔ فوجی قبرستان جاتے ہیں اور اس شخص کو تابوت کے اندر سے بر آمد کرتے ہیں۔ انگس ولسن اسے مائنڈ کا ایکس فیکٹر بتاتا ہے۔ اس نے اپنی کتاب ’’ اہ کلٹ ‘‘ میں اس موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے۔

حسن کا آنا جانا بڑھ گیا۔ لیکن میں محتاط رہنے لگا تھا۔ میں اب کوئی پیشن گوئی نہیں کرتا تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ مجھے اپنا پیر سمجھیں اور اس طرح کا کوئی رشتہ استوار کریں۔ لیکن وہ اسی عقیدت سے ملتے اور ہمیشہ کچھ نہ کچھ لے کر آتے۔ وہ اب اپنے بارے میں کچھ پوچھتے نہیں تھے۔ ادھر ادھر کی باتیں کرتے اور چلے جاتے۔ وہ کہتے تھے ’’ آپ کو دیکھ لیا میری تسلّی ہو گئی۔ ‘‘

حسن کی ایک لڑکی ٹینس کھیلتی ہے اور اسٹیٹ لیول کی کھلاڑی ہے۔ ایک بار وہ کچھ پریشان نظر آئے۔ معلوم ہوا کہ معین الحق اسٹیڈیم میں ٹینس کا کوئی میچ تھا جس میں اس کے ساتھ بے ایمانی ہوئی اور وہ میچ ہار گئی۔ اس دن کے بعد وہ ایک دم چپ رہنے لگی تھی اور اسکول جانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ حسن کو کسی مولانا نے بتایا کہ اس پر کوئی جن عاشق ہو گیا ہے۔ وہ مولوی سے دعا تعویذ کرا رہے تھے۔ میں نے حسن سے کہا کہ ایسی حماقت نہیں کریں۔ اس لڑکی کو صدمہ پہنچا ہے وہ اپنی ہار سے شرمندہ ہے۔ میں نے سائکیٹرسٹ سے ملنے کی صلاح دی اور ڈاکٹر وینئے کو فون کیا کہ میرے ایک دوست جا رہے ہیں انہیں وقت دے دیں۔ حسن لڑکی کو لے کر وہاں گئے۔ دو چار دن کی کاونسلنگ کے بعد وہ ٹھیک ہو گئی۔

ایک بار بہار اردو اکاڈمی نے میرے اعزاز میں جلسہ کیا۔ جلسے کا اعلان اخبار میں شائع ہوا۔ میں اکاڈمی گیا تو وہاں حسن موجود تھے۔ مجھے دیکھتے ہی شکایت کی کہ انہیں خبر کیوں نہیں کی۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس بات پر رنجیدہ تھے کہ میں انہیں اپنی خوشیوں میں شریک نہیں کرتا۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ شخص مجھ سے محبّت کرتا ہے۔

جلسے میں جب مجھے شال اوڑھایا گیا تو میں نے مائک پر کہا۔

’’ میں بے حد شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے اتنی عزّت بخشی لیکن اس مجمع میں ایک ایسا شخص بھی ہے جو میرے لئے محرّک ہے اور میرے فن کو جلا بخشتا ہے۔ ان سے ملنے کے بعد میں ہمیشہ تخلیقی توانائی سے سرشار ہوتا ہوں۔ ان کا نام حسن امام ہے۔ یہ میری تخلیق کے پہلے قاری ہیں۔ مجھے جو اعزاز دیا گیا ہے وہ میں ان کے ساتھ بانٹنا چاہتا ہوں۔

میں نے حسن امام کو منچ پر بلایا اور اپنا شال انہیں اوڑھا دیا۔

میری ٹیلی فلم مرگ ترشنا کی جب شوٹنگ شروع ہوئی تو میں نے انہیں گورکن کا رول دیا جسے انہوں نے بہ خوبی نبھایا۔ لیکن مجھ سے ایک حماقت بھی سر زد ہوئی۔ میں ان کے ایک کام سے بہت خوش تھا۔ وہ مجھ سے ملنے آئے تو میں نے مذاق میں کہا ’’حسن امام صاحب ! میں آپ کا کلیجہ کھاؤں گا۔ ‘‘

حسن امام چونک کر بولے۔ ’’ کیوں ؟ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘

’’ایسا اس لئے کہہ رہا ہوں کہ آپ کا کلیجہ بہت بڑا ہے۔ میں کھاؤں گا تو میرا کلیجہ بھی بڑا ہو جائے گا۔ ‘‘

حسن چپ رہے۔ پھر کس وقت چپکے سے چلے گئے مجھے پتہ نہیں چلا۔

دوسرے دن ان کے بھائی کا فون آیا کہ میں نے حسن امام سے ایسی بات کیوں کہی ؟ انہیں بہت دکھ ہوا ہے۔ وہ بیمار پڑ گئے ہیں۔ ‘

میں سکتے میں آ گیا۔ اس دن گیا سے افسانہ نگار سیّد احمد قادری آئے ہوئے تھے۔ انہیں یہ واقعہ بتایا تو وہ سنجیدہ ہو گئے۔ اور بولے کہ میں اس سے مل کر غلط فہمی دور کروں ورنہ وہ شخص دکھ سے مر جائے گا۔ میں قادری کے ساتھ حسن امام کے گھر گیا۔ وہ گھر پر نہیں تھے۔ گھر والے بتا بھی نہیں سکے کہاں ملیں گے ؟ فون بھی ملایا تو نہیں ملا۔ مجھے فکر ہوئی کہ کہیں دکھ سے مر نہ جائے۔ میری بات کو انہوں نے دل سے لیا تھا۔ وہ میری ہر بات کو پتّھر کی لکیر سمجھتے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ میں کوئی تنتر کروں گا اور ان کا کلیجہ نکال لوں گا۔

کچھ دنوں بعد پھر فون ملایا تو مل گیا۔ میں نے معافی مانگی اور انہیں سمجھایا کہ آپ نے مذاق کو دل سے لے لیا۔ انہیں احساس ہوا کہ میں اس بات کو لے کر پریشان ہوں۔ وہ مجھ سے ملنے آئے تو میں نے انہیں سمجھایا کہ یہ تو محاورہ ہے کہ دل لے لیایا کلیجہ نکال لیا۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپریشن کیا اور کلیجہ نکال کر رکھ لیا۔ اور میں کوئی ڈائن تو نہیں کہ ایسا کروں گا ؟ مجھے غصّہ آ رہا تھا کہ یہ شخص اتنا سادہ کیوں ہے کہ میری ہر بات کو خدا کا فرمان سمجھتا ہے۔

حسن اب پہلے کی طرح آتے ہیں اور مجھے بھی سبق مل گیا کہ جو تم سے محبّت کرتے ہیں ان سے کبھی منفی مذاق مت کرو۔ یہاں میں پٹنہ کے دگھا نواب کوٹھی والے جمال سعید کا بھی ذکر کرنا چاہوں گا جو میرے دوستوں میں ہیں لیکن جنہیں میں نے کبھی دیکھا نہیں کبھی ملاقات نہیں کی۔ یہ شان دار شخصیت کے مالک ہیں۔ دبئی میں رہتے ہیں اور میرے فیس بک کے دوست ہیں۔ میں جب اوب جاتا ہوں تو انہیں فیس بک پر ڈھونڈتا ہوں۔ ان سے بے تکی باتیں ہوتی ہیں جن کی ادبی حیثیت نہیں ہے۔ لیکن یہ باتیں رس دار ہوتی ہیں ہ۔ دوستی اپنا مول الگ رکھتی ہے۔

فیس بک پر میرے چار ہزار سے زیادہ دوست ہیں جن میں زیادہ تر عورتیں ہیں۔ اصل میں مجھے کہانی کی تلاش رہتی ہے۔ میں کبھی چیٹنگ کے جنگل میں بھٹکتا تھا۔ وہاں سے کہانی نکالی ’’ عنکبوت ‘‘۔ اب فیس بک پر ناول لکھنا چاہ رہا ہوں۔ یہاں کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !

٭٭٭

 

 

 

 

[ 12 ]

 

میں نے فرقہ وارانہ فساد بہت دیکھے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جمشید پور۔ ۔ ۔ ۔ رانچی۔ ۔ ۔ ۔ ہزاری باغ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھاگلپور !

سن 1964 میں جمشید پور کا فساد میرا پہلا تجربہ تھا۔ تب میں آر آئی ٹی جمشید پور میں انجنیئرنگ کا طالب علم تھا اور کالج ہا سٹل میں رہتا تھا۔ آر آئی ٹی میں طلبا ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے تھے۔ یہاں کا ماحول کچھ الگ تھا۔ یہاں طرح طرح کے لڑکے تھے جو دن بھر ادھم مچاتے اور رات بھر پڑھتے۔ بہاری لڑکے انگریزی میں کمزور تھے لیکن میتھ میں تیز تھے۔ دلّی کے لڑکوں کی ڈرائنگ بہت اچھی تھی وہ آپس میں انگریزی میں ہی بات کرتے تھے لیکن انجنیئرنگ سبجیکٹ میں بہاری لڑکوں کے سامنے ان کی پالکی رکھاتی تھی۔ پنجابیوں کی بات جدا گانہ تھی۔ یہ ہنسوڑ اور کھلے دل کے تھے۔ خوب ٹھہاکہ لگاتے اور گالیاں بکتے۔ متھلا کے لڑکوں کا الگ گروپ تھا۔ یہ جلدی دوسروں سے مکس نہیں کرتے تھے۔ میتھل برا ہمنوں کا بیک ورڈ لڑکوں سے یارانہ نہیں تھا۔

گروور پنجابی تھا اور اپنی طرح کا انوکھا لڑکا تھا۔ وہ مجھ سے دو سال سینیئر تھا۔ اسے کسی گروپ میں نہیں دیکھا گیا۔ وہ اپنے آپ میں ایک گروپ تھا۔ اکیلا رہتا اور ایک ہی لباس پہنتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ راونڈ شرٹ اور ڈرین پائپ۔ ۔ ۔ اور سیاہ جوتا جس کی تیکھی نوک ہوتی تھی۔ سردیوں کے موسم میں بھی اس کے لباس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی تھی۔ وہ کبھی گرم کپڑوں میں نظر نہیں آیا۔ لڑکے کہتے تھے کہ جب اس کو بہت سردی محسوس ہوتی ہے تو جیب سے شراب کی بوتل نکال کر ایک دو گھونٹ بھر لیتا ہے۔ وہ پڑھائی میں اوّل تھا۔ اس زمانے میں ہر پرچے میں نو- دس سوال ہوتے تھے اور لکھا رہتا تھا انسر اینی سکس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گروور سبھی سوالوں کے جواب دیتا اور لکھتا اکزا مین اینی سکس۔ ۔ ۔ !

ایسی خود اعتمادی میں نے کم لوگوں میں دیکھی ہے۔ وہ اسٹوڈینتس ویلفیر کمیٹی کا چیر مین بھی تھا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے انتظامیہ سے بھڑ جاتا۔ ایک بار کسی وارڈن سے اس کی بحث ہو گئی۔ وہ زور زور سے بول رہا تھا تو وارڈن نے کہا۔

’’ اتنا چیخ کیوں رہے ہیں۔ ؟ ذرا آہستہ بو لئے۔ ‘‘

گروور نے اسی لہجے میں کہا۔ ’’ معاف کیجیے گا سر۔ ۔ ۔ ۔ آپ کو میری آواز اونچی لگتی ہے تو دور کھڑے ہو جایئے۔ میں اپنی آواز نیچی نہیں کر سکتا۔ اسٹوڈنٹ ولفیر کا معاملہ ہے۔ ‘‘

ایک بار تو اس نے حد کر دی۔ وہ کسی کال گرل کے ساتھ ریستوراں میں بیٹھ ہوا تھا۔ پولس کو شک ہوا تو اس سے سوال کرنے لگی۔ گروور نے کہا کہ وہ آر آئی ٹی کا اسٹوڈنٹ ہے، پرنسپل اس کی ضمانت لیں گے۔ انسپیکٹر نے پرنسپل کو فون ملایا تو اس نے ضمانت لینے سے انکار کیا بلکہ صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ اگر وہ کال گرل کے ساتھ ہے تو حاجت میں بند کر دو۔

گروور کچھ دیر حاجت میں بند رہا پھر چھوٹ کر آیا تو سیدھا پرنسپل کے چیمبر میں گیا۔ ان دنوں کالج میں یہ بات مشہور تھی کہ پرنسپل کا ورک شاپ کے سو پر ٹینڈینٹ کی بیوی کے ساتھ معاملہ چل رہا ہے۔ گروور پرنسپل کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو گیا اور بولا۔ ’’ ویل مسٹر پرنسپل ! از اٹ فیکٹ دیٹیو ٹولڈ سم تھنگ ان پار لیمنٹری اباوٹ می ٹو دی پولس انسپکٹر ؟ ‘‘

’’ وہاٹ کرائم آئی ڈو اف آئی سلپ ود اے گرل ؟ ڈڈ یو ناٹ سلپ ود اپادھیائےز وائف۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘

پرنسپل نے اسے ایک سال کے لئے سسپنڈ کر دیا۔

ہاسٹل کے آس پاس آدی باسیوں کا ٹولہ تھا۔ یہاں کی مزدور عورتوں کو ریزہ کہتے تھے۔ کچھ لڑکے ریزاؤں کے چکّر میں رہتے تھے اور انہیں چونّی پکارتے تھے۔ چار آنے میں ان سے معاملہ پٹتا تھا۔ سلیمان کی نظر بھی ریزاؤں پر رہتی تھی۔ وہ تھا بھی رنگین مزاج لیکن پڑھائی میں بھی آگے تھا۔ ایک بار کہیں سے آیا تو اس کے دونوں گھٹنے زخمی تھے۔ میں نے پوچھا کیا ہوا تو ہنس کر بولا ’’

’’ ادھر کنکریٹ کی پائپ تھی تو اسی میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

لڑکے مست رام کی کتاب بھی پڑھتے تھے۔ بھیّا رمیش چندر کا انداز نرالا تھا۔ یہ بہاری تھا اور خود کو بہت اسمارٹ سمجھتا تھا۔ سارے کپڑے اتار دیتا اور مست رام کی کتاب لے کر کرسی پر ننگ دھڑنگ بیٹھ جاتا۔ اور بہ آواز بلند پڑھنا شروع کرتا۔ اس کے روم میٹ اسے گھیر کر بیٹھے رہتے اور قہقہے لگاتے۔ رمیش چندر سب کے ساتھ چھیڑ خوانی کرتا رہتا اور ایک دن اس کی یہ عادت مہنگی پڑ گئی۔

ہاسٹل میں ایک اڑیہ لڑکا تھا اومیش۔ بھیّا رمیش نے اس کے ساتھ زیاد تی کی۔ اس کے کمرے میں گھس گیا اور اس کو لواطت کے لئے مجبور کیا۔ یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔ اومیش پرنسپل سے اپنی شکایت درج کرنا چاہتا تھا۔ بھیّا رمیش گھبرا گیا کہ پرنسپل تو ہمیشہ کے لئے کالج سے نکال دے گا۔ لڑکوں نے پنچایت کی اور رمیش کے لئے سزا تجویز کی۔ طے ہوا کہ رمیش شہر جا کر اپنے بال منڈوائے اور ہاسٹل کے لڑکوں کے سامنے اپنے منھ پر کالکھ ملے۔ رمیش کے ساتھ دو بہاری لڑکے اور تھے جو سزا کے مستحق تھے۔ ان کو ایسا کرنا پڑا۔ جس وقت رمیش اور اس کے ساتھی سر منڈا کر آئے ہم سب ہال میں جمع تھے۔ رمیش نے سب کے سامنے چہرے پر کالکھ ملی اور سسک سسک کر رونے لگا۔

مسلمان لڑکے ایسے ہنگاموں سے دور رہتے تھے۔ ایک لڑکا تھا جمیل جس پر ہر وقت مذہب سوار رہتا تھا۔ وہ میرا ہم جماعت تھا۔ وہ تبلیغی جماعت کا بھی رکن تھا۔ ہم اور سلیمان جمیل کا مذاق اڑاتے رہتے تھے۔ ایک بار جمیل جماعت کے کچھ لوگوں کو لے کر ہاسٹل آیا۔ ساتھ میں کلیم عاجز بھی تھے۔ کلیم عاجز کا نام میں نے سن رکھا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ کلیم عاجز جیسا شاعر ان کے چکّر میں کیسے آ گیا۔ اس وقت میں اور سلیمان میکانکس کا ایک پرابلم حل کر رہے تھے۔ پرابلم تھک سلنڈر کا تھا جو انکلا ئنڈ پلین پر ریسٹ کرتا تھا۔ اس کا ری ایکشن نکالنا تھا۔ پرابلم ہم سے حل نہیں ہو رہا تھا۔ اچانک جماعت کے ایک شخص نے ہمیں ٹوک دیا جس کی لمبی سی داڑھی تھی۔ وہ سفید کرتے پائے جامے میں تھا اور سر پر فر والی ملگجی رنگ کی ٹوپی تھی۔

’’ پرابلم کیا ہے ؟ ‘‘ انہوں نے پوچھا۔

’’ حضور یہ آپ کے بس کا روگ نہیں ہے ‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

وہ بھی مسکرائے اور ہنس کر بولے کہ سننے میں کوئی حرج تو نہیں ہے۔ سلیمان نے انہیں پڑھ کر سنایا تو وہ مسکراتے ہوئے بولے۔

’’ بہت آسان ہے میاں۔ آپ سارے فورسیز کو الانگ دی پلین اور ورٹکلی رزالو کر دیں۔ ریکشن نکل جائے گا۔‘‘

میں نے غور کیا تو طریقہ صحیح معلوم ہوا اور پرابلم فوراً حل ہو گیا۔ میں تو حیران تھا کہ یہ لمبی داڑھی والا مولوی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

معلوم ہوا یہیٰسین صاحب ہیں ٹسکو کے چیف ڈیزائن انجنیئر۔ ہم بے حد شرمندہ ہوئے۔ ان سے معافی مانگی اور انہوں نے تبلیغ شروع کر دی۔

’’دیکھیئے۔ ۔ ۔ ۔ ہر چیز کا ایک طریقہ ہے۔ پرابلم آپ حل کر رہے تھے۔ نہیں حل ہو رہا تھا۔ پھر آپ نے صحیح طریقہ اپنایا تو حل ہو گیا۔ اسی طرح زندگی بھی ہے۔ زندگی میں بھی پرابلمس ہیں۔ ۔ ۔ ۔ مسائل ہیں۔ انہیں حل کرنے کا طریقہ ہے قران شریف۔ آپ قران کو زندگی میں اتار لیں تو سارے پرابلمس حل ہو جائیں گے۔ شریعت کے مطابق زندگی گذاریئے تو سارے معاملات درست رہیں گے۔ ‘‘

جمیل تو ہمارے پیچھے پڑ گیا کہ نماز شروع کرو۔ جمیل کا خیال تھا کہ میں اور سلیمان اگر راستے پر آ گئے تو دین کا بہت کام ہو گا۔ لیکن شیطان ہمارے سروں پر مسلّط تھا۔ ہم جماعت والوں کا مذاق اڑاتے اور جمیل اندر ہی اندر کڑھتا رہتا۔

تبلیغی جماعت کی عالمی کانفرنس سورت میں ہونے والی تھی۔ یٰسین صاحب نے کہا دونوں لڑکوں کو لے چلو کہ ان کا راہ راست پر آنا ضروری ہے۔ مجھے ممبئی گھومنا تھا۔ میں نے جمیل سے شرط رکھی کہ سورت تک کا خرچ دو گے تو جماعت میں چلوں گا۔ جمیل راضی ہو گیا۔ مجھے اور سلیمان کو ۶۳ روپے ملے۔

جماعت کا ہر رکن اصول اور ضابطے کا پا بند تھا۔ یہ مخلص لوگ تھے اور سادگی سے رہنا جانتے تھے۔ نماز کے وقت گاڑی کسی پلیٹ فارم پر رکتی تو امیر جماعت اتر کر قطب نما دیکھتے کہ قبلہ رخ کدھر ہے۔ پھر جا ء نماز بچھ جاتی اور نماز شروع ہو جاتی۔

میں اور سلیمان جس گروپ میں تھے اس میں دو جیّد مولانا تھے جو ہر وقت دعا سکھاتے رہتے تھے۔ گھر سے نکلتے وقت یہ دعا پڑھو۔ ۔ ۔ ۔ گھر میں دا خل ہوتے وقت یہ دعا۔ ۔ ۔ ۔ صبح صبح یہ دعا۔ ۔ ۔ ۔ کسی حاکم سے ملنا ہو تو یہ دعا۔ ۔ ۔

گاڑی چکر دھر پور میں رکی تو ایک لڑکی میرے بغل میں بیٹھ گئی۔ دونوں مولوی حضرات نے لڑکی کو گھور کر دیکھا۔ میں نے پوچھا ’’ حضور اب کون سی دعا پڑھوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’ لا حول ولا قوۃ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سخت بد تمیز لڑکا ہے ! ‘‘

میری شکایت امیر کے پاس پہنچی۔ امیر نے مجھے اپنے پاس بلا لیا۔

سورت پہنچا تو وہاں آدمیوں کا سمندر تھا۔ دنیا کے کونے کونے سے جماعت آئی ہوئی تھی۔ امریکی افریقی اور انڈو نیشیا کی جماعت بھی۔ حضرت جی کو دیکھا تو دل باغ باغ ہو گیا۔ عجب نورانی شکل تھی۔ لمبی سی سرخ داڑھی اور سفید برّاق چہرہ۔ وہ قرّت کرتے تو فضا جھوم اٹھتی۔ زیادہ بھیڑ انہیں کے خیمے میں تھی۔ لیکن وہ صرف شام کے وقت ہی وعظ کرتے تھے۔

کانفرنس چار دن چلی۔ آخری دن ایک جماعتی سب سے چلّے کا وعدہ لے رہا تھا۔ میں ادھر سے گذرا تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔

’’ اس کا چلّہ لکھو۔ ۔ ۔ ۔ دو چلّہ۔ ۔ ۔ ۔ ‘

’’ میں نہیں جا سکتا۔ ۔ اگلے ماہ میرا امتحان ہے۔ ‘‘ میں نے بہانہ بنایا۔

’’ کیوں نہیں جا سکتے ؟ دنیا کے امتحان کی اتنی فکر ہے اور اللہ کے امتحان کا کوئی ڈر نہیں۔ ‘‘ اس نے آنکھیں دکھائیں۔

’’ نہیں۔ ۔ ۔ میں نہیں جا سکتا۔ ۔ ۔ ! ‘‘ میں نے ہاتھ چھڑایا اور وہاں سے بھاگا۔

کانفرنس ختم ہوئی تو سبھوں نے اپنے گھر کی راہ پکڑی۔ میں اور سلیمان بمبئی چلے آئے۔

ایسے لڑکوں کی تعداد بھی کافی تھی جن پر آر اس اس کا اثر تھا۔ کالج کے پیچھے کھلا میدان تھا جہاں آر اس اس کی شاکھا لگا کرتی تھی۔ اس میں ہاسٹل کے لڑکے بھی شریک ہوتے تھے۔

ان دنوں مشرقی پاکستان میں فرقہ وارانہ فساد ہوا تھا۔ ہندو شرنارتھی بھاگ کر بنگال آئے تھے۔ کہتے ہیں ہندوستان میں جہاں جہاں سے ان کی ٹرین گذری تھی وہاں وہاں فساد ہوا تھا۔ شرنارتھیوں کی ٹرین جمشید پور سے بھی گذری۔ یہاں آر اس اس فعال تھی۔ آدی باسیوں کے بیچ گھوم گھوم کر افواہ پھیلائی گئی کہ مشرقی پاکستان میں مسلمانوں نے آدی باسیوں کا قتل عام کیا ہے۔

جمشید پور میں فساد جگ سلائی سے شروع ہوا اور دیکھتے دیکھتے آگ ہاسٹل کے علاقے میں بھی پھیل گئی۔ ہر ہر مہا دیو کے نعرے فضا میں گونجنے لگے۔ میں اس دن ہاسٹل کی چھت پر دوسرے لڑکوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ سامنے کچھ دور میدان میں ایک آدمی کو بھاگتے ہوے دیکھا۔ اس کے پیچھے ایک آدی باسی تیر لے کر دوڑ رہا تھا۔ میں نے ایک لڑکے سے پوچھا وہاں کیا ہو رہا ہے تو اس نے ہنس کر کہا کہ میاں جی کا شکار ہو رہا ہے۔ میں فوراً نیچے اپنے کمرے میں چلا آیا۔

آر اس اس کے رہنماؤں نے کچھ سینیئر لڑکوں کے ساتھ خفیہ میٹنگ کی کہ مسلمان لڑکوں کا صفایا کر دیا جائے۔ ایک فہرست بنائی گئی کہ کس ہاسٹل کے کس روم میں کون لڑکا رہتا ہے۔ ایک لڑکے کو ہم لوگوں پر رحم آ گیا۔ اس نے پرنسپل کو آگاہ کر دیا۔ پرنسپل کو اس بات کا شبہ تھا۔ وہ فوراً کالج کی بس لے کر آئے اور مسلمان لڑکوں کو چن چن کر ہاسٹل سے باہر نکالا اور بس میں بھر دیا۔ مجھے جب روم سے لے جانے لگے تھے تو میں نے کہا تھا ’’ ایر آف ٹاٹا ول ناٹ کم ٹو آور کیمپس۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ اس پر لے جانے والے نے مجھے سخت سست کہا تھا اور مجھے گھسیٹتاہوا بس تک لے گیا تھا۔ ہم بہت بے سرو سامانی میں بس میں ٹھونسے گئے تھے۔ ۔ ۔ ۔ نہ اپنی کتا بیں لی تھیں نہ کپڑے۔ بس لڑکوں سے بھر گئی تھی اور مجھے حیرت تھی کہ مسلم لڑکے اتنی تعداد میں تھے اور پتہ نہیں تھا۔ یہاں سے ہمارا پولرا یزیشن شروع ہو گیا تھا۔

پرنسپل آگے کی سیٹ پر بیٹھ گئے اور ڈرائیور کو تاکید کی کہ بس کسی بھی حالت میں کہیں نہیں رکے گی۔ نعرے گونج رہے تھے اور آگ کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔ پرنسپل ڈرے ڈرے سے تھے کہ کہیں کوئی حادثہ نہ ہو جائے۔ بس ادتیہ پور کے تھا نے میں رکی۔ تھانے دار کوئی اچھا آدمی نہیں معلوم ہوا۔ اس نے ہمیں گھور کر دیکھا۔ اس کی آنکھیں لال اور چھوٹی تھیں اور گالوں پر جھائیاں پڑی ہوئی تھیں۔ آس پاس کے لوگ بھی بھاگ بھاگ کر پناہ لینے تھانے پہنچ رہے تھے۔ تھانے دار انہیں گھور گھور کر دیکھتا تھا۔ کچھ دیر بعد خبر ملی کہ لڑکوں نے ہاسٹل میں بلوہ کر دیا ہے۔ سب کا سامان لوٹ کر میدان میں جمع کیا اور آگ لگا دی۔ اس لوٹ میں باہر کے لوگ بھی شامل تھے۔

دوسرے دن کچھ لڑکے تھانے کے ارد گرد گشت کرتے نظر آئے۔ اور تھانے دار کا موڈ بدل گیا۔ اس نے ہمیں گھورتے ہوئے کہا۔

’’ آپ لوگ یہاں سے جایئے۔ ۔ ۔ ۔ اگر لڑکے یہاں آ گئے تو ہم ان پر گولی نہیں چلائیں گے۔ ۔ ۔ وہ ہمارے بچّے ہیں۔ ‘‘

جنید عالم بھوں بھوں رونے لگا۔ جنید مرکزی حکومت کے وزیر رفیق عالم کا چھوٹا بھائی تھا اور مجھ سے دو سال سینیر تھا۔ مجھے تھانے دار سے زیادہ جنید پر غصّہ آ یا۔ پرنسپل نے ہمیں پھر بس میں بٹھایا اور بس انجانی سمت میں چل پڑی۔ انہیں کسی مسلم محلّے کی تلاش تھی۔ ساکچی میں آئے تو شفیق صاحب کا سنیما ہال ریلیف کیمپ بنا ہوا تھا۔ وہاں تل رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔ وہاں سے آگے بڑھے تو ایک مکان میں پناہ مل گئی۔ مکان کافی بڑا تھا۔ اس میں کئی کمرے تھے۔ مکان مالک نے ہمیں چھت پر جگہ دی۔ کمبخت جنید سارے راستے روتا ہوا آیا تھا۔ چھت پر کافی جگہ تھی۔ گرمی کا موسم تھا۔ ہم یہاں محفوظ تھے اور آزاد۔ ہم آسمان میں تاروں کو نہار سکتے تھے۔ پرنسپل نے ساری ضرورت کی چیزیں مہیّا کرائیں۔ ۔ ۔ ۔ دری۔ ۔ ۔ ۔ توشک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تکیہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چادر۔ ۔ ۔ ۔ کمبل۔ ۔ ۔ ۔ پرنسپل نے راشن بھی پہنچایا۔ اب چھت پر رہنے میں مزہ آ رہا تھا۔ ہم ایک طرح کی پکنک منا رہے تھے۔

آدمی اگر جماعت میں ہے تو گروپ بننے لگتا ہے۔ آدمی اکیلا اچھا ہوتا ہے اس کی بھیڑ بری ہوتی ہے۔ سارتر نے کہا ہے دی ادر از ہیل۔ ۔ ۔

ہم میں گروپ بننے لگا تھا۔ ہم ایک دوسرے کی شکایت کرنے لگے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ ہم پرنسپل کی بھی شکایت کرتے کہ سامان گھٹیا مل رہا ہے۔ جمیل ہمیں ہنستے اور چہلیں کرتے دیکھتا تو کڑھتا تھا اور کہتا۔

’’ قوم گاجر اور مولی کی طرح کٹ رہی ہے اور آپ لوگ ٹھی ٹھی کر رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘

ہم پو چھتے کہ پھر کیا کریں تو غصّے سے جواب دیتا ’’ نماز پڑھو ! ‘‘

کچھ لڑکے جماعت میں نماز پڑھتے تھے۔ جمیل نے کونہ پکڑ لیا لیا تھا۔ دن بھر بیٹھا تسبیح پڑھتا رہتا۔

مکان مالک ہمارے آنے سے خوش تھا۔ کہتا تھا آپ لوگ آئے تو ہمیں طاقت مل گئی۔ لیکن قاسم بجنوری جو تھرڈ ایئر میکا نکل کا طالب علم تھا فکر مند تھا کہ مکان میں کوئی ہتھیار نہیں ہے۔ اگر موب آ گیا تو لڑیں گے کس طرح۔ ؟ چھت پر کچھ بانس پڑے تھے۔ اس نے مکان مالک سے ایک چاپڑ اور لوہے کی نوک دار سیخیں منگوائیں۔ بانس کو چھیل کر اس میں سیخیں فٹ کیں اور برچھی بنائی۔ کچھ لڑکوں نے ارد گرد سے اینٹیں چن کر چھت کے کونے میں جمع کیا کہ دشمن پر اینٹ برسایں گے۔ کچھ کا مشورہ تھا کہ کھولتے پانی کی دیگ رکھی جائے تا کہ موب اگر آ گیا تو اس پر سیدھا چھت سے کھولتا پانی انڈیلا جائے گا۔ ماحول کچھ ایسا ہو گیا تھا کہ مجھے بھی لگنے لگا تھا کہ حملہ کسی وقت بھی ہو سکتا ہے۔ اور اس کا اثر ایک دن جمعہ کی نماز پر پڑا۔

پاس ہی مسجد تھی۔ وہاں جمعہ کی نماز ہو رہی تھی۔ نماز میں میں بھی تھا۔ اچانک ایک آواز آئی۔ ’’ آ گیا۔ ۔ ۔ ۔ آ گیا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ نمازیوں نے سمجھا دنگائیوں کا موب آ گیا۔ ۔ ۔ کھلبلی مچ گئی۔ سب نماز چھوڑ کر اٹھ گئے اور چلّا نے لگے۔ ’’ آ گیا۔ ۔ ۔ ۔ آ گیا۔ ۔ ۔ ۔ کسی نے زوردار نعرہ لگا یا ’’ نعرۂ تکبیر۔ ۔ ۔ ۔ للہ اکبر۔ ۔ ۔ ۔ ‘ ایک مولوی اچھل کر دیوار پھاند گیا اور دوڑتا ہوا گھر میں گھسا اور اپنی بندوق لے آیا۔ وہ ہا تھ اٹھا اٹھا کر بندوق لہرا رہا تھا اور نعرے لگا رہا تھا۔ شور سن کر پاس ہی گشت لگاتی ہوئی پولس پہنچ گئی۔ پولس افسر نے اپنے پستول سے ہوائی فائر نگ کی اور سب کو خبر دار کیا۔ ۔ شانت ہو جایئے۔ ۔ ۔ ۔ شانت ہو جایئے کہیں کچھ نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ مولوی جلدی سے گھر میں گھس گیا اور بندوق رکھ کر واپس آیا۔ اس کو ڈر تھا کہ کہیں پولس اس کی بندوق ضبط نہ کر لے ؟

’’ آپ لوگ افواہ پھیلا رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ کہیں کچھ نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ! ‘‘

پولس کے جانے کے بعد نماز پھر شروع ہوئی۔

حالات آہستہ آہستہ نارمل ہونے لگے۔ ایک دن کرفیو میں شام تک کی ڈھیل ملی تو میں شہر کا رنگ ڈھنگ دیکھنے باہر نکلا۔ بازار میں ساجد صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ ساجد ٹسکو میں چارج مین تھے اور میرے شناسا تھے۔ وہ آزاد بستی میں رہتے تھے جو مسلمانوں کا محلّہ تھا ؛۔

ساجد مجھے ایک گھنٹے کے لئے اپنے گھر لے گئے۔ یہاں ایک واقعہ ہو گیا۔ ہم جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے ایک نوجوان بھاگتا ہوا آیا اور گھر میں گھسنے لگا۔ نوجوان گھبرایا ہوا تھا۔ اس نے بتایا کہ کچھ لوگ اس کی جان کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ کچھ نوجوان ہاتھ میں ہتھیار لئے ساجد کے مکان کی طرف آ رہے تھے۔ ساجد نے جلدی سے نو جوان کو گھر کے اندر چھپا دیا اور مجھے بھی اندر رہنے کے لئے کہا۔ ۔ وہ لوگ ہتھیار چمکاتے ہوئے آئے اور شور کرنے لگے

’’ ساجد بھائی۔ ۔ ۔ ایک کافر بھاگتا ہوا آپ کے گھر کی طرف آیا ہے۔ ‘‘

ساجد نے انہیں سمجھایا۔ ’’ یہاں کوئی کافر نہیں آیا ہے۔ میرا ایک رشتے دار میرے ساتھ آیا ہے۔ ‘‘

’’ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ وہ کافر ہے۔ ۔ ۔ ۔ اسے باہر نکالئے۔ ‘‘ بھیڑ شور مچانے لگی۔

’’ میں اسے باہر بلا دیتا ہوں۔ آپ خود دیکھ لیجیئے۔ ‘‘

ساجد مجھے لے کر باہر آئے۔ میں نے سب کو زوردار لہجے میں سلام ٹھوکا۔

’’ السلام علیکم حضرات ! ‘‘

’’ وعلیکم سلام ! ‘‘ بھیڑ سے آواز آئی۔

بھیڑ تو چلی گئی لیکن جاتے جاتے دھمکی دے گئی کہ وہ اس گھر پر نظر رکھیں گے۔ اگر باہر کا آدمی نظر آیا تو کھینچ لیں گے۔

اس نو جوان نے بتایا کہ وہ بی ایچ ایریا جانا چاہتا تھا لیکن بھٹک کر ادھر آ گیا۔ نوجوان کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ وہ بہت غصّے میں نظر آ رہا تھا۔ ۔ اس کا سر گھٹا ہوا تھا اور لمبی سی چٹیا تھی جو دور سے بھی نظر آتی تھی۔ چہرے پر عجیب سا روکھا پن تھا۔ اسے کچھ کھانے کے لئے دیا گیا لیکن اس نے چھوا تک نہیں۔ یہاں تک کہ پانی بھی پینے کے لئے راضی نہیں تھا۔ وہ مٹّھیاں باندھے کمرے میں ادھر سے ادھر ٹہل رہا تھا۔ ساجد کی بیوی ڈر رہی تھی کہ پتہ نہیں کیسا آدمی ہے اور کیا کر بیٹھے ؟ ساجد نے اس سے کہا کہ تمہاری چٹیا کاٹ لیتا ہوں اور تمہیں ٹوپی پہنا دیتا ہوں۔ تم مسلمان کے حلیہ میں اس محلّے سے نکل سکتے ہو۔ میں نے مشورہ دیا کہ پولیس کو بلا کر اس کی حفاظت میں دے دیا جائے۔ ساجد کے لڑکے کو شرارت سوجھ رہی تھی۔ وہ ہنس ہنس کر کہہ رہا تھا کہ محلّے والوں کو بلا کر اس کی چٹیا کاٹ لی جائے اور اس کو مسلمان بنا دیا جائے۔

مجھے اشفاق احمد کی کہانی گڈریا یاد آ رہی ہے۔ جو کہانیاں امر ہوتی ہیں ان کے کردار بھی ہر زمانے میں ہوتے ہیں۔ کہانی میں ایک تاؤ جی ہیں جو ہندو ہیں لیکن عربی اور فارسی کے عالم ہیں۔ تاؤ جی کا مسلمان دوست اپنے لڑکے کو پڑھنے کے لئے ان کے پاس بھیجتا ہے۔ تاؤ جی اس کو اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور بہت محبّت سے پڑھاتے ہیں۔ لڑکا اچھے نمبر سے میٹرک کا امتحان پاس کر لیتا ہے۔ اس بیچ ملک کا بٹوارہ ہو جاتا ہے اور فساد کی لہر ہر جگہ دوڑ جاتی ہے۔ فساد اس لڑکے کے شہر میں بھی ہوتا ہے اور ایک دن دیکھتا ہے کہ محلّے کے کچھ لڑکے ایک شخص کو گھیر کر کھڑے ہیں۔ نزدیک جا کر دیکھتا ہے کہ وہ تاؤ جی ہیں اور لڑکے مسلمان ہونے کے لئے ان پر تشدّد کر رہے ہیں۔

لڑکوں نے ان کا سر مونڈ دیا ہے اور چٹیا کاٹ لی ہے۔ ایک لڑکا کہتا ہے کہ کلمہ پڑھ تو تاؤ جی پوچھتے ہیں کون سا کلمہ ؟ لڑکوں کا مکھیا ان کو چپت لگاتے ہوئے کہتا ہے ’’ سالے کلمہ بھی کوئی پانچ سات ہوتا ہے۔ ؟ ‘‘ المیہ یہ ہے کہ جو تاؤ جی کو مسلمان بنانا چاہ رہا ہے اور کلمہ پڑھنے کے لئے تشدّد سے کام لے رہا ہے اسے خود پتہ نہیں ہے کہ کلمہ کیا ہوتا ہے مکھیا تاؤ جی کے ہاتھ میں ڈنڈا تھما کر کہتا ہے تو ہماری بھیڑیں چرا۔ آج سے تو ہمارا گڈریا ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زیادہ تر پیغمبر گڈریا ہی ہوئے ہیں۔

میری ملاقات بھی ایک گڈریا سے ہوئی ہے۔ کشمیر کے گلبرگہ میں ساہتیہ اکاڈمی کا ایک ٹرانسلیشن ورک شاپ سیمینار تھا۔ مجھے رہنے کے لئے جو ہٹ ملا تھا تو میرے ساتھ تھے ایک دھوتی دھاری جناب موہن لال آش۔ ایک دن صبح صبح آش مہاشے کچھ بد بدا رہے تھے۔ پھر کچھ پڑھ کر چارو طرف پھونکا اور منھ پر دونوں ہاتھ پھیرا۔ میں نے ان کا مذاق اڑاتے ہوے کہا ’’ کیا مہاراج جلا کر بھسم کر دیں گے کیا ؟ کون سا منتر پڑھا ؟ ’’

آش صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ وہ درود شریف پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے سورہ اخلاص بھی پڑھ کر سنایا۔ میں بہت شرمندہ ہوا اور معافی مانگی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ شری نگر میں عربی اور فارسی کے استاد تھے۔ جب وہاں سے ہندوؤں کو نکالنے کی مہم چلائی گئی تو ان کو بھی نکال دیا گیا۔ وہ بے گھر ہو گئے اور جمّوں میں آ کر پناہ لی۔ لیکن جمّوں کے سماج نے بھی ان کی کوئی قدر نہیں کی۔ جموں کے ہندو کہتے ہیں کہ ان کا کلچر مسلمانوں جیسا ہے کہ وہ عربی پڑھاتے ہیں اور مسلمان کہتے ہیں کہ یہ تو کافر ہیں۔

ہم اچھے دوست بن گئے۔ میں نے جو چند لوگوں سے پیار کیا ہے ان میں موہن لال آش بھی ہیں۔

میں ساجد کے گھر دیر تک نہیں رکا۔ لوٹ کر اپنے کیمپ آ گیا۔ ہم یہاں کوئی بیس دن رہے۔ جب شہر پر سکون ہو گیا تو پرنسپل نے ہمیں گھر جانے کے لئے ٹکٹ مہیّا کرایا۔ بیس روپے کیش دیئے۔ اور کالج کی بس سے اسٹیشن چھوڑ دیا۔

میں دو ماہ بعد لوٹ کر ہاسٹل آیا۔ لڑکے بہت اخلاق سے ملے۔ ندامت ظاہر کی اور حیرت بھی کہ انہیں کیا ہو گیا تھا جو لوٹ پاٹ میں شامل ہو گئے تھے۔ ہمارا تمام اثاثہ جلا دیا گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ کتا بیں۔ ۔ ۔ ۔ بستر۔ ۔ ۔ ۔ کپڑے۔ ۔ ۔ ۔ !

کالج میں ایک حادثہ بھی ہو گیا تھا۔ کمل کانت فساد میں مارا گیا تھا۔ کمل کانت میرا ہم جماعت تھا۔ اس کی عادت ذرا خراب تھی۔ وہ طوائفوں کے چکّر لگاتا تھا۔ اس نے اپنا ختنہ کرا رکھا تھا۔ اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ مسلمان لڑکوں کو و نرل ڈیزیز کم ہوتی ہے جب کہ ہندوؤں کو فوراً ہو جاتی ہے۔ وہ سمجھتا تھا اس کی وجہ ختنہ ہے۔ اسی ختنہ نے اس کی جان لے لی۔

دنگے کی آگ پوری طرح تھمی بھی نہیں تھی کہ ایک دن وہ ادتیہ پور چلا گیا۔ دنگائیوں نے اسے مسلمان سمجھ کر گلی میں کھینچ لیا۔ اس سے ہندو ہونے کا ثبوت مانگا گیا۔ اس نے جنؤ دکھایا لیکن دنگائیوں نے سمجھا کہ بچنے کے لئے جنؤ پہن رکھا ہے۔ ۔ ۔ اس کا پینٹ کھول کر دیکھو۔ ۔ ۔ ۔ اس کا پینٹ کھولا گیا۔ وہ بہت کہتا رہا کہ ہندو ہے لیکن کسی نے یقین نہیں کیا اور اس کا قتل ہو گیا۔

ساجد سے ملاقات ہوئی۔ شہر میں امن قائم ہوا تو لکھنو گئے تھے۔ وہاں مجرا سنا اور دل کی بھڑاس نکالی۔ مجھے ان کی یہ بات دلچسپ معلوم ہوئی۔ میری کہانی ’’ بدلتے رنگ ‘‘ اس جملے سے شروع ہوتی ہے کہ جب کہیں دنگا ہوتا سلیمان رنڈی کا کوٹھا پکڑتا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

ساجد نے لکھنو کا ایک تجربہ بھی سنایا جو کم دلچسپ نہیں ہے۔ ساجد چاہتا تھا لکھنو میں کچھ دن عیش کرے۔ وہ دنگے کی ساری کڑواہٹ بھلا دینا چاہتا تھا۔ ۔ وہ لکھنو میں چار باغ کے ایک ہوٹل میں ٹھہرا تھا۔ وہاں کچھ نیپالی لڑکیاں آئی ہوئی تھیں۔ ساجد نے ہوٹل کے مینجر سے بات کی تو اس نے ایک لڑکی اس کے کمرے میں بھیج دی۔ لڑکی کمسن تھی۔ لڑکی کی ماں نے کہا کہ وہ اس کو بیئر پلا دے۔ ۔ ۔ ۔ وہ اس کام میں نئی ہے۔ لڑکی سے بات کرنے میں ساجد کو مزہ آ رہا تھا۔ اس نے دو گلاس بیئر پی اور اس کے پیٹ پر بیٹھ گئی۔ ساجد نے کپڑے اتارے تو لڑکی ہنسنے لگی۔ اور بے تحاشہ ہنسنے لگی۔ اس کی ہنسی کسی طرح رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ ساجد اس کی ہنسی سے چڑ گیا۔ اس نے ڈپٹ کر پوچھا کہ ہنستی کیوں ہے تو بولی۔

’’ آپ کٹؤا ہیں کیا۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘

ساجد کا سارا نشہ ہرن ہو گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ ایسی ہتک پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ اس دم یہی محسوس ہوا تھا کہ وہ واقعی کٹؤا ہے۔ ۔ ۔ ۔ اپنی ذات اور فرقے سے کٹا ہوا۔ ۔ ۔ ! میں نے اپنی کہانی بدلتے رنگ کا کلائمکس اسی واقعہ سے اخذ کیا ہے۔

ساجد نے ایک اور بات بتائی جسے سن کر میں دنگ رہ گیا۔

ایک بار اچانک اس لڑکے سے اس کی ملاقات جبلی پارک میں ہو گئی تھی جس کو اس نے اپنے گھر میں پناہ دی تھی۔ لڑکے نے اس پر پستول تان لیا تھا۔ ساجد نے بتایا لڑکا بہت غصّے میں تھا۔ اس کے چہرے پر نفرت کے تمام رنگ تھے۔ اس نے بہت تلخ لہجے میں کہا تھا۔

’’ میرے لئے یہ ایک اپمان جنک بات تھی کہ مجھے اپنی جان بچانے کے لئے ایک مسلمان کے گھر میں پناہ لینی پڑی۔ آپ میری چوٹی کاٹ کر مجھے ٹوپی پہنانا چاہتے تھے۔ ایک ہندو کسی مسلمان کی ٹوپی کیسے پہن سکتا ہے۔ ہمدردی جتانے کے بہانے آپ نے ساری ہندو جاتی کا اپمان کیا ہے۔ آپ کی ہتّیا ضروری ہے۔ آپ کی ہتّیا کر اس اپمان کا بدلہ لیا جا سکتا ہے۔ ‘‘

اور اس نے گولی چلا دی۔ گولی ساجد کے بازو کو چھیدتی ہوئی نکل گئی۔ ساجد نے اپنے بازو پر مجھے زخم کا وہ نشان دکھایا۔ لیکن اس نے آگے جو بات بتائی اسے سن کر تو میں سکتے میں آ گیا۔

ان کا ایک رشتے دار بیمار تھا۔ وہ اس کو دیکھنے گئے تو وہ لڑکا بھی اسپتال میں بھرتی تھا اس کو کینسر ہو گیا تھا۔ وہ قریب المرگ تھا۔ اسے خون کی ضرورت تھی۔ ساجد نے اپنے کو ہندو بتایا اور اس کو اپنا خون دیا۔ ساجد کا کہنا ہے کہ جب اس کے بیڈ کے پاس کوئی نہیں تھا تو وہ قریب گئے اور بولے۔

’’ میں نے تمہیں اپنا خون دیا ہے۔ تم اس احساس کے ساتھ مرو گے کہ تمہاری رگوں میں اس فرقے کا خون دوڑ رہا ہے جس سے تم نے ساری زندگی نفرت کی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

میری نظر میں ساجد اس لڑکے سے زیادہ فاسسٹ نکلے۔ میں نے اس واقعہ پر کوئی کہانی نہیں لکھی۔ اس قسم کی کہانی فرقہ پرستی کو بڑھا وا دے گی۔

جمشید پور میں دوسرا فساد اپریل 1979 میں ہوا جب بابا صاحب دیو رس وہاں گئے تھے۔ اور عوام سے خطاب کیا تھا کہ آپ کے ادھیکار کیا ہیں اور ادھیکار لڑ کر لیں گے۔ ان کے جانے کے دس دن بعد جمشید پور میں پھر بلوے کی فصل اگی تھی۔

فاشسزم دبے پاوں نہیں ڈنکے کی چوٹ پر بڑھ رہا ہے۔ لیکن یہاں سیکولر طاقتیں بھی کام کرتی ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ہندوستان کا کلچر گنگا جمنی کلچر ہے۔

نئی پیڑھی میں اس کلچر کی نمائندگی پٹنہ کے اویناش امن کرتے ہیں جو عربی اور فارسی کے اسکالر ہیں۔ ایک بار ہمارے یہاں آئے اور قرآن پڑھ کر سنایا۔ قرآن کی بہت سی آیتیں انہیں یاد ہیں۔ امن اچھے شاعر ہیں اور تنقیدی مضامین بھی لکھتے ہیں۔ میں انہیں نارنگ اور موہن لال آش کی وراثت کا امین مانتا ہوں۔ ۔

اس سے پہلے کہ اوراق پارینہ سمیٹ لوں میں انسانی خمیر میں اس الوہی عنصر کے بارے میں ظہار خیال کرنا چا ہوں گا جہاں خدا ا شہہ رگ سے بھی قریب ہے۔ میری دلچسپی مذہبی رسومات میں کم رہی لیکن خدا میری فکر میں شامل رہا ہے۔ میں نے اسے ہوا میں لمس کی طرح محسوس کیا ہے۔ ایک ان دیکھی قوت پر میرا یقین ہے جو حیوان ناطق کی مدد کے لیئے ہر وقت کوشاں ہے۔ وہ بے نیاز ہے۔ اسے قطعی مطلب نہیں کہ آپ کون ہیں اور کیا ہیں۔ آپ جب اسے پکارتے ہیں تو وہ آپ کے ارد گرد موجود ہوتی ہے۔ معاشرے میں جو مذہبی اصول اور ضابطے رائج ہیں ان میں خدا کو قید کرنا لا محدود کو محدود کرنا ہے۔ ۔ روحانیت پر کسی بھی مذہب کی اجارہ داری نہیں ہو سکتی۔ ۔ ضروری نہیں ہے کہ آپ کا ہی راستہ بہتر ہے۔ ۔ یہ فرد فرد پر منحصر ہے کہ کون سا طریقہ اس کی ذات کے موا فق ہے۔ عبادت کا میرا اپنا طریقہ ہے اور میں اپنے طور پر ہی خدا کو یاد کرتا ہوں۔ ۔ میں ایک تنہا گوشے میں بیٹھ جاتا ہوں، آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔ ، حواس خمسہ کو سمیٹتا ہوں اور یکسوئی قلب حا صل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ آہستہ آ ہستہ ایک خامشی میرے ارد گرد ہالہ سا بنتی ہے۔ میں گہری خامشی میں اترنے لگتا ہوں اور دل ہی دل میں ورد کرتا ہوں ’’خدا مجھے یقین ہے کہ تو ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے بصیرت دے۔ ۔ ۔ ‘‘ اور مجھ پر کسی حد تک اسرار منکشف ہوتے ہیں ۔  آپ کہہ سکتے ہیں یہ میرا الیوژن ہے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ آپ جب نماز میں ہوتے ہیں یا مندر جاتے ہیں اور سکون محسوس کرتے ہیں تو یہ سکون بھی الیو ژن ہے۔ ہم سب کنڈیشنڈ دماغ کے لوگ ہیں۔ یہاں میں پاولو کے اس تجربے کا ذکر کرنا چا ہوں گا جو اس نے کتّے پر کیا تھا اور conditional reflex کا نظریہ پیش کیا تھا۔ وہ اپنے کتّے کو وقت معیّنہ پر کھانا د یتا تھا لیکن اس کے پہلے گھنٹی بجاتا تھا۔ یہ عمل اس نے بہت دنوں تک جاری رکھا۔ پھر ایک باراس نے گھنٹی بجائی لیکن کھانا نہیں دیا۔ گھنٹی کی آواز سنتے ہی اس کے منھ میں لاروا آ گیا جب کہ کھانا سامنے نہیں آیا تھا۔ گھنٹی کیا اواز سے اس کا دماغ اتنا کنڈیشنڈ ہو گیا ہے کہ وہ اس آواز کو ہی کھانا سمجھتا ہے ۔ کتّا گھنٹی کی آواز کو کھانے سے identify کرتا ہے۔ پاولو نے اسے conditional reflex کا نام دیا ہے۔

ہم سب کنڈیشنڈ ذہن کے لوگ ہیں۔ صدیوں سے سنتے آ رہے ہیں اور مذہبی صحیفوں کا مطالعہ کر رہے ہیں کہ خدا یہ ہے اور خدا وہ ہے۔ ہم اتنے کنڈیشنڈ ہو چکے ہیں کہ اک ذرا مذہب کی چادر اوڑھی اور روحانیت محسوس کرنے لگے۔ حقیقت کا ادراک اسی وقت ہو سکتا ہے جب ذہن کورے کاغذ جیسا ہو۔ ۔ ۔ ۔ کسی سادے سلیٹ کی طرح۔ ۔ ۔ ۔ اور ایسا ذہن کوئی امپریشن قبول کرتا ہے تو وہ حقیقی ہے۔ وہاں کسی طرح کی کنڈیشنینگ نہیں ہوتی۔ اس لیئے بچّے کا نہیں جاننا سچ ہے اور بوڑھے کا جاننا جھوٹ ہے۔

صوفیائے کرام جو روحانیت سے سرشار رہے تو شریعت کے علا وہ ان کے کچھ اپنے طریقے بھی ہیں جو صیغہ راز میں ہے۔ شریعت خالص سونے کی طرح ہے۔ سونے سے زیور بنا کر خود کو آراستہ کرنے کے لیئے آمیزش کرنی پڑتی ہے۔ لیکن خالص طریقت کو معاشرہ برداشت نہیں کرتا۔ اگر برداشت کر سکتا تو منصور کو سولی پر نہیں لٹکایا جاتا اور سرمد کا قتل بھی نہیں ہوتا۔ حضرت شمس تبریز کے بارے میں سنا کہ جب ان کا نکاح ہوا اور زوجہ سامنے لائی گئیں تو حضرت نے جلال میں آ کر کہا کہ ’’ اللہ کو زوجہ نہیں اور مجھے زوجہ۔ ۔ ۔ ؟زوجہ جل کر خاک ہو گئیں۔ ہو سکتا ہے یہ افسانہ ہو لیکن مجھے اس افسانے پر یقین ہے۔ روحانیت کے اسرار اتنے گہرے ہیں کہ اس کی پرتیں آ سانی سے نہیں کھولی جا سکتیں۔

قران مجید علم کا خزانہ ہے۔ میں اس سے وقتاًٍ فوقتاً استفادہ کرتا رہتا ہوں۔

قران مجید کے ساتھ نہج البلاغہ کی قرات بھی ضروری ہے۔ حدیث ہے کہ رسول اکرم علم کے شہر ہیں اور حضرت علی علم کے دروازہ۔

سورہ الا عراف میں ایک جگہ آ یا ہے

’’ اور اے نبی لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جب کہ تمہارے رب نے

بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے او پر

گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا ’’ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ ‘‘ انہوں

نے کہا ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گوا ہی دیتے ہیں ‘‘

یہ ہم نے اس لیئے کہا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ’’ ہم تو

اس بات سے بے خبر تھے، یا یہ نہ کہنے لگو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے

باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوئے

پھر کیا آپ ہمیں اس قصور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا۔ ‘‘

ترجمہ۔ ؛ مودودی

یہاں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ۔ پوری نسل آدم اس سے قبل بھی عرش پر پیدا کی گئی اور اس میں وحدانیت کی روح پھو نکی گئی یعنی اللہ کی ربوبیت کا اقرار انسانی فطرت میں پیوست ہے۔ مودودی کے لفظوں میں یہ نقش انسان کے تحت الشعور اور وجدان میں محفوظ ہے۔ انبیا اور کتا بیں اور داعیان حق انسان کے اندر کوئی نئی چیز پیدا نہیں کرتے بلکہ اسی چیز کو ابھارتے اور تازہ کرتے ہیں جو ان کے اندر پہلے سے موجود تھیں۔

میں اس نقش کو الوہی عنصر کہتا ہوں جہاں انسان خدا کو شہہ رگ سے بھی قریب محسوس کرتا ہے۔

مجھے اس کا تجربہ کئی بار ہوا ہے۔ ایک بار رانچی میں مجھے دو ہزار کی رقم در کار تھی۔ ضرورت کچھ ایسی تھی کہ زندگی اور موت کا سوال تھا۔ پیسے میرے پاس نہیں تھے اور کہیں سے کچھ ملنے کی امید بھی نہیں تھی۔ قرض بھی مانگا تو نہیں ملا۔ میں بہت پریشان تھا۔ بات سن ۷۳ کی ہے۔ اس وقت دو ہزار کی رقم بڑی رقم تھی۔ میں بہت ما یوس بستر پر مردے کی طرح پڑا تھا کہ میری آنکھ لگ گئی۔ میں نے دیکھا ایک شخص سامنے کھڑا تھا۔ وہ گردن سے تلوے تک سیاہ لبادے میں تھا۔ صرف چہرہ کھلا ہوا تھا اور اتنا روشن تھا کہ نگاہیں خیرہ تھیں۔ چہرے کی جگہ گویا چمکتا ہوا سورج تھا۔ آنکھیں بھی چرا غوں کی مانند تھیں اور مجھے گھور رہی تھیں۔ اس شخص نے مجھ سے پو چھا ’’ تم پریشان ہو۔ ‘‘

میں نے اثبات میں سر ہلایا تو اس نے مجھے قریب بلا یا ’’ ادھر آو۔ ‘‘

میں اس کے قریب گیا تو اس نے مجھے گلے لگایا۔ پہلے دائیں طرف پھر بائیں طرف مجھے تیز خوشبو کا احساس ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے پوچھا۔ ’’ تمہاری پریشانی دور ہو گئی۔ ۔ ۔ ۔ تم اب ٹھیک ہو۔ ‘‘

اس کا مجھے گلے لگانا اچھا معلوم ہوا اور میں واقعی سکون محسوس کر رہا تھا۔

میں نے کہا ’’ ہاں۔ ۔ ۔ اب ٹھیک ہوں۔ ‘‘

وہ شخص غائب ہو گیا اور میری نیند بھی کھل گئی۔ کمرہ خو شبو سے معطّر تھا۔

مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ وہ کون تھا اور اگر یہ محض خواب تھا تو کمرے میں خوشبو کیسی تھی۔ ۔ ۔ ؟

کچھ دیر بعد میں کمرے سے نکلا۔ میرے قدم خود بہ خود ٹریزری کی طرف بڑھ گئے۔ ٹریزری آ نے کا میرا کوئی مقصد نہیں تھا۔ میں یونہی چلا آ یا اور آ کر ٹریزری افسر کے  چیمبر میں بیٹھ گیا۔ اس افسر سے میری جان پہچان تھی۔ میں ٹریزری دفتر کے کام سے آ تا تو اکثر اس کے چیمبر میں بیٹھ جاتا تھا۔ لیکن آج مجھے کوئی کام نہیں تھا۔ مجھے خود بھی حیرت تھی کہ اس کے پاس کیوں چلا آیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ میرا کوئی ٹی۔ اے۔ بل بھی پینڈینگ ہے۔ میں نے کہا وہ سب پری آ ڈٹ میں ہو گا۔ اس وقت قانون تھا کہ اگر ٹی اے بل چھ ماہ تک پاس نہیں ہوا تو پری آ ڈٹ میں چلا جاتا تھا اور پاس کرانے کے لیئے اسے دو بارہ پیش کرنا پڑتا تھا۔ افسر نے اکا و نٹینٹ کو بلا کر میرے سارے بل منگوائے اور سب پر بیک ڈیٹ میں دستخط کیئے۔ اور اکا و نٹینٹ کو ہدایت دی کہ اسے پاس کر کیش مجھے لا کر دے۔ قریب آدھ گھنٹے کے بعد اکا و نٹینٹ نے مجھے دو ہزار کی رقم ادا کی۔ میری عجیب کیفیت تھی۔ میری آنکھوں میں آ نسو آ گئے۔ میں نے افسر کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے چیمبر سے نکلا تو مجھ پر کپکپی سی طاری تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کون تھا وہ شخص جو خواب میں آ یا اور خوشبو بکھیر کر چلا گیا۔ ۔ ۔ ۔ ؟

رانچی میں ہی ملاقات ایک عجیب و غریب ہستی سے ہو ئی۔ میں نیپال ہاوس سے گذر رہا تھا تو با ہر میدان میں چہار دیواری سے ٹیک لگائے ایک پھٹے حال شخص کو دیکھا۔ ۔ اس کا لباس بہت بوسیدہ تھا اور بال کھچڑی ہو رہے تھے۔ اس نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے قریب بلا یا۔ میں جانا نہیں چاہتا تھا لیکن اس نے دو تین بار اشارہ کیا تو کچھ جھنجھلاتا ہوا اس کی طرف بڑھا۔ اس کے جسم سے بد بوا ٓ رہی تھی۔ شاید اس نے مہینوں سے غسل نہیں کیا ہو گا۔ ۔ اس نے روٹی کباب کھانے کی فرمائش کی۔ ڈورنڈا کے ایک مسلم ہو ٹل سے میں نے روٹی اور دو سیخ کباب خرید کر اس کو دیا۔ دوسرے دن میں

یہ دیکھ کر پریشان ہوا کہ میرا پرس ایک دم خالی ہے۔ سو کا ایک نوٹ کل تک میرے پاس تھا لیکن آج ڈھونڈے نہیں مل رہا تھا۔ میں سخت حیران تھا کہ سو کا پتّہ کہاں گیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے میں نے خرچ نہیں کیا تھا۔ کل تک میرے پرس میں تھا۔ اب تو سگریٹ پینے کے بھی پیسےنہیں تھے۔ رانچی میں کسی سے قرض ملنے کی امید نہیں تھی۔ میں جھنجھلاتا ہوا کمرے سے باہر نکلا کہ پر کاش فکری سے ہی دس بیس ادھار لوں گا۔ ۔ جب نیپال ہاوس کے قریب پہنچا تو وہ شخص نظر آ یا۔ اس نے دیکھتے ہی مجھے قریب آ نے کا اشارہ کیا۔ مجھے غصّہ ا ٓ گیا۔ ۔ ۔ ۔ میں نے اشارے سے کہا نہیں آؤں گا۔

میں آگے بڑھا تو وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا اور زور زور سے ہاتھ ہلا نے لگا۔ یہاں تک کہ راہ گیر بھی رک کر دیکھنے لگے۔ میں تیز تیز قدموں سے اس کی طرف بڑھا اور جھنجھلا تے ہوئے پو چھا ’’۔ کیا ہے ؟ ‘‘

وہ مسکراتے ہوئے بولا۔ ’’ بہت الجھن میں ہو میاں۔ ‘‘

میں نے اسی طرح ترش لہجے میں جواب دیا۔ ’’ الجھن میں ہوں تو آپ کو اس سے کیا ؟ ‘‘

اس نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’ میاں کتاب کا پیٹ دیکھو۔ ‘‘

میرا غصّہ بڑھ گیا کہ واہی تباہی بک رہا ہے لیکن کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا اور آ گے بڑھ گیا۔ فکری کے یہاں گیا۔ اس سے پیسے مانگے تو بو لا

’’ چیل کے گھونسلے میں مانس کہاں ؟ ‘‘

مانس کہیں نہیں ملا۔ میں نا مراد اپنے کمرے میں واپس آ یا۔ کھانا میں نے عثمان کے میس میں کھا لیا کہ وہاں میرا کھاتہ چلتا تھا لیکن فکر لا حق تھی کہ جیبیں پھو ٹی کوڑی نہیں ہے۔ باقی اخراجات کہاں سے پو رے ہو نگے ؟ یہ سوچ کر کہ کل دفتر میں کسی سے مانگوں گا

پڑھنے کی میز پر آ یا۔ میز پر آکسفورڈ ڈکشنری پڑی ہوئی تھی۔ میں یوں ہی ڈکشنری کے پنّے الٹنے لگا۔ ۔ ۔

عجیب بات۔ ۔ ۔ ۔ بہت عجیب۔ ۔ ۔ ۔ ڈکشنری کے پیٹ میں سو کا پتّہ پڑا ہوا تھا۔ ۔ ۔ ۔

میاں کتاب کا پیٹ دیکھو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ کون تھا وہ شخص۔ ۔ ۔ ۔ ؟ میں اٹھا اور نیپال ہاوس کی طرف بھاگا۔ وہ کہیں نظر نہیں آ یا۔

میں نے مجیبی سے اس واقعہ کا ذکر کیا۔ مجیبی نے کہا وہ سرّیmystic ہے اورایسے سرّی مغرب میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اسراریت میں میری دلچسپی بڑھی میں نے کو لن ولسن کی کتاب خریدیThe Occultیہ ایک قیمتی کتاب ہے جو اسراریت پر روشنی ڈالتی ہے۔

اسمائے حسنیٰ میں بھی اسرار چھپے ہیں۔ انسانی زندگی پر ان کا اطلاق کیا جائے تو شخصیت کے دلچسپ پہلو اجاگر ہو سکتے ہیں۔ عالم شہادت میں ایسا کوئی جسم نہیں ہے جس کا عالم غیب میں کوئی اسم نہ ہو۔ ۔ ہر اسم کی عددی قیمت ہوتی ہے۔ جسے سمجھنے کے لیئے علم الاعداد کا جاننا ضروری ہے۔ فیثا غورث کو عدد کا زبردست علم حا صل تھا۔ لیکن یہ علم اس کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ اپنے شاگردوں کو تنبیہ کی تھی کہ اسے صیغہ راز میں رکھنا۔ ۔ عبرا نیوں کے پاس اس کا تھو ڑا بہت علم ہے۔ مسلمانوں کے یہاں نقش اور تعویذ کی جو روایت قائم ہو ئی وہ عبرا نیوں سے ہی آ ئی ہے۔ یہودیوں کے قبالہ میں حروف اور اعداد کے اسرار بیان ہوئے ہیں۔

حروف بھی خدا کی مخلوق ہے۔ جیسے حروف کے اسرار ہیں ایسے ہی اعداد میں اسرار ہیں

اور یہ بھی معلوم ہو کہ عالم علوی سے عالم سفلی کو مدد ملتی ہے۔ جملہ حروف اٹھائس ہیں اور اٹھائس ہی منازلِ قمر ہیں۔ اعداد میں روحانی لطیف قوۃ ہے۔ قدیم حکما فرماتے ہیں کہ حروف معجمہ کے اسرار کتاب اللہ کی پہلی اٹھائس صورتوں کے اوّل میں ہیں جن کو مخصوص اولیا اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اعداد میں قوت عقلی ہے جو علم رو حانی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اور حروف کی قوت عالم جسمانی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس کے ضمن میں حرفوں کی روحانیت جسمانی لطائف کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے ۔

م عطارد سے وابستہ ہے۔ جس حرف کے اوّل آخر ایک حرف ہو جیسے میم نون واؤ وہ اپنے اندرونی اتحاد اور سکون کی طرف اشارہ کرتا ہے اس ہیئت کے سبب جو اس کے اندر ہے اور یہ حرف حروف لوح میں سے ہے۔ میں علم الاعداد اور حروف کے اسرار پر ایک مفصّل کتاب لکھنا چاہتا ہوں لیکن میرے پاس ایک طویل کرشن منظوم ادر دو ناول ادھورے پڑے ہیں۔ انہیں مکمّل کرنے کے بعد میں ادب سے کنارہ کشی اختیار کروں گا اور خود کو علم نجوم اور اسراریت کے لیئے وقف کر دوں گا۔

بوڑھے کے پاس مستقبل نہیں ہوتا۔ اس کے پاس صرف یادیں ہوتی ہیں۔ لیکن میں نے اپنی عمر سے سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔ میری آنکھوں میں ابھی بھی خواب بستے ہیں۔ میری آنکھیں دھند میں کچھ ڈھونڈ تی رہتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاید اس سچّائی کو نہارنا چاہتی ہیں جو خود سچّائی کے پرے ہے۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید