FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فہرست مضامین

اکیسویں صدی کی ضرورت: قرآن اور سیرت

 

 

غوث سیوانی

 

 

 

 

 

یہاں محض نصف کتاب مطالعے کے لیے دستیاب ہے، مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

ورڈ فائل 

 

ای پب فائل 

 

کنڈل فائل 

 

 

انتساب

 

لا مذہبیت اور جدیدیت کے اندھیروں میں نورِ ہدایت کی متلاشی روحوں کے نام

 

مجھے سہل ہو گئیں منزلیں وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے

تِرا ہاتھ ہاتھ میں آ گیا تو چراغ راہ میں جل گئے

 

 

 

 

 

 

تقدیر منزلوں کی جگاتے چلے چلو

اے رہ روانِ راہِ محبت بڑھے چلو

اے رہروانِ عشق ہے جام فنا میں بھی

وہ نشۂ حیات کہ بس جھومتے چلو

فراقؔ

 

 

اکیسویں صدی کی ضرورت: قرآن اور سیرت

 

اللہ اس دنیا کا خالق ہے اور اسی نے انسان کو پیدا فرمایا۔ انسان کی زندگی کا دستور کیا ہو، اسے خالق سے بہتر اور کون بتا سکتا ہے؟ یہی سبب ہے کہ اس نے رہنمائی کے لئے ایک کتاب ہدایت نازل فرمائی جسے قرآن کہا جاتا ہے اور اس پر عمل کا طریقہ بتانے کے لئے اس نے اپنا ایک نمائندہ بھیجا جسے نبی و رسول کہا جاتا ہے۔ قرآن سے قبل بھی اللہ نے اپنے صحیفے نازل فرمائے اور اپنے نمائندوں کو دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجا مگر تب سماج کی ضرورتیں محدود تھیں اور مسائل بھی کم تھے لہٰذا انھیں محدود ضرورتوں کے پیش نظر انبیاء کی بعثت ہوتی رہی۔ سبھی خدائی صحیفوں میں اس عہد کے مسائل کا حل موجود تھا مگر قرآن کریم قیامت تک انسانوں کی رہنمائی کے لئے اتارا گیا ہے لہٰذا اس میں رہتی دنیا تک کے تمام مسائل کا حل بھی ہے۔ رسول اکرمﷺ کی سیرت ساری کائنات کے لئے نمونہ عمل ہے اور آج اگر دوسرے انبیاء بھی ہوتے تو نبی آخر الزماںﷺ کے نقش قدم کی پیروی ان پر بھی لازم ہوتی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب اس دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے، تو وہ بھی قرآن اور سیرت نبویﷺ پر ہی عمل پیرا ہوں گے۔ جس طرح رات کے اندھیرے میں چراغ کی ضرورت ہوتی ہے مگر سورج کی روشنی میں تمام چراغ ماند پڑ جاتے ہیں وہی مثال ہے دیگر مذاہب اور اسلام کی۔ جب تک قرآن اور سیرت مصطفوی کا سورج طلوع نہیں ہوا تھا، تب تک آسمانی صحائف سے انسانی رہنمائی کا کام لیا جا سکتا تھا، مگر جب اسلام کا سورج طلوع ہو چکا ہے، قرآن اور سیرت کا اجالا ہدایت کے لئے موجود ہے تو پھر کسی اور چراغ کی روشنی کی ضرورت ہی کیا رہی؟ اسے اللہ کے پیارے رسولﷺ نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں بھی فرمایا: ’’تمہارے اندر وہ چیز چھوڑی ہے کہ اگر اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا تو کبھی گمراہ نہ ہو گے اور وہ کھلی ہوئی چیز ہے کتاب اللہ اور میری سنت۔ (سیرۃ النبی ابن ہشام جلد۲، و دیگر کتب احادیث)

محمد مصطفی کے نام نے طوفاں کا رخ پھیرا

ذرا سا فاصلہ تھا دل کی کشتی ڈوب جانے میں

اسلام اللہ کا آخری پیغام ہے۔ یہ اس وقت تک باقی رہے گا جب تک اس دھرتی پر انسان موجود رہے گا اور تب تک یہ انسانیت کی رہنمائی کے لئے کافی ہو گا۔ دنیا میں لاکھ تبدیلیاں آ جائیں، انقلابات برپا ہو جائیں مگر اللہ کے کلمات میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی اور یہ ہمیشہ ہدایت کا کام کرتا رہے گا۔ یہ وقت اور زمانے کے ساتھ اپنی معنویت نہیں کھو سکتا کیونکہ یہ قانون فطرت ہے۔

قرآن و سیرت سے کل بھی انسانوں نے ہدایت پائی اور آج بھی حاصل کر رہے ہیں۔ خاندانی مسلمان اس کی اہمیت سے واقف ہوں یا نہ ہوں مگر جنھوں نے اپنی جستجو کے ذریعے اس تک رسائی پائی ہے وہ اس کی قدر و قیمت کو خوب سمجھتے ہیں۔ عہد حاضر میں اس کی ضرورت اور اہمیت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے، کیونکہ آج کی دنیا مسائل سے گھری ہوئی ہے اور اس کے سامنے ان کا کوئی حل نہیں ہے۔ آج مغرب کے تعلیم یافتہ اور با شعور لوگ اس کی اہمیت کو خاص طور پر سمجھ رہے ہیں لہٰذا اس آفاقی پیغام کو قبول بھی کر رہے ہیں۔ ان کے سامنے عیش و آرام اور دولت و ثروت کا انبار ہے مگر اب دل کو سکون کی ضرورت ہے جو انھیں اسلام کے دامن رحمت میں مل رہا ہے کیونکہ فرمانِ الٰہی ہے:

’’بے شک اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ (القرآن)

زیر مطالعہ کتاب ’’اکیسویں صدی کی ضرورت، قرآن اور سیرت۔ میں ہماری کوشش ہے کہ قرآن اور سیرت کی معنویت کو عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق پیش کیا جائے۔ آج کے روحانی اور مادّی مسائل کا حل اس میں تلاش کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ آج جو لوگ مشرق و مغرب میں اسلام قبول کر رہے ہیں انھیں اپنے مسائل کا حل اسلام میں نظر آ رہا ہے، تب ہی وہ ایسا کر رہے ہیں۔ اس وقت اسلام دنیا کا سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے اور یہ اس کی حقانیت کی ایک بڑی دلیل بھی ہے۔ آج جب کہ ایک طرف مسلمان شدید خطرات سے گھرے ہوئے ہیں اور مسلم اکثریتی ملکوں میں دشمنانِ اسلام کی ریشہ دوانیاں جاری ہیں ایسے میں اسلام کے دائرے میں لوگوں کا آنا ظاہر کرتا ہے کہ یہ آج بھی ایک اثر انگیز دین ہے۔ اس کی کچھ مثالیں اس کتاب میں پیش کی گئی ہیں۔

’’اکیسویں صدی کی ضرورت، قرآن اور سیرت۔ میں جو مضامین شامل کئے گئے ہیں ان میں سے اکثر مضامین مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہو چکے ہیں اور بعض ناگزیر اسباب کے تحت میرے نام کے بغیر شائع ہوئے ہیں۔ اب انھیں ایڈٹ اور نظر ثانی کے بعد اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے تاکہ قارئین ان سے مستفید ہو سکیں۔ کتاب کی اشاعت کے لئے جناب محمد احمد نظامی کا مشکور ہوں جو خصوصی اہتمام کے ساتھ اس کتاب کو شائع کر رہے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ میری اس کوشش کو قبول فرمائے اور اشاعت کے لئے نظامی صاحب کو جزا عطا فرمائے جو اسے آپ تک پہچانے کا وسیلہ بن رہے ہیں۔

غوث سیوانی، نئی دہلی

 

 

 

صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا

صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا

بارہویں کے چاند کا مجرا ہے سجدہ نور کا

مست بو ہیں بلبلیں پڑھتی ہیں کلمہ نور کا

(رضا بریلوی)

 

 

 

 

 

حضرت محمد مصطفیﷺ کی ولادت با سعادت تاریخ و سیرت کی روشنی میں

 

دنیا میں جب کوئی بڑا قدرتی واقعہ رونما ہونے والا ہوتا ہے، تو اس سے قبل کچھ غیر معمولی واقعات بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ رسول گرامی وقار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت باسعادت اس دنیا کے لئے واقعہ عظیم کی حیثیت رکھتی ہے، لہٰذا آپ کی دنیا میں تشریف آوری سے قبل اس دنیا میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک بہت سے انبیاء کرام تشریف لائے۔ ان سبھی انبیاء کے آنے کا مقصد اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہچانا تھا۔ مگر ان انبیاء کرام نے آخری زمانے میں مبعوث ہونے والے نبی کی بشارت بھی دی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر توریت و انجیل اور دیگر آسمانی صحائف میں موجود تھا۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا کہ اہل کتاب آپ کو اس طرح پہچانتے ہیں، جس طرح اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں۔ ہندوستان کے قدیم مذہبی گرنتھوں میں بھی رسول اللہ صلی اللہ صلی و سلم کا تذکرہ موجود ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی تشریف آوری دنیا کے لئے اہم ترین واقعے کی حیثیت رکھتی ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت باسعادت ربیع الاول کی بارہویں تاریخ صبح صادق کے وقت ہوئی۔ مورخین اور سیرت نگاروں کا اس تاریخ میں اختلاف ہے، مگر بیشتر نے اسے درست مانا ہے۔ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم پر لکھی گئی پہلی کتاب سیرت النبی (مرتبہ ابن ہشام) میں یہی تاریخ درج ہے، مگر بہت سے سیرت نگاروں نے 9 ربیع الاول لکھا ہے۔ یہ پیر کا دن تھا۔ آپ کی ولادت سے قبل عرب کے نجومیوں میں کسی بڑی شخصیت کی ولادت کا ذکر جاری تھا اور اہل کتاب بھی اپنی کتاب میں جس آخری نبی کی آمد کے متعلق پڑھتے آئے تھے، انہیں احساس ہو گیا تھا کہ اس نبی کی آمد کا وقت قریب آ چکا ہے۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ جو عرب کے نامور شاعر تھے اور مدحت رسولﷺ میں آج تک شہرت رکھتے ہیں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ وہ سات سال کے تھے اور مدینہ منورہ (اس وقت یثرب نام تھا) میں رہتے تھے کہ ایک یہودی کو بلند مقام پر چیختے ہوئے سنا وہ کہہ رہا تھا، ’’ اے یہودیو!۔ جب اس کی آواز سن کر لوگ اس کے اردگرد جمع ہو گئے اور پوچھا کہ اے کم بخت۔ تجھے کیا ہو گیا ہے کہ چیخ رہا ہے؟ اس نے کہا آج رات احمد کا ستارہ طلوع ہو چکا ہے، جس میں وہ پیدا ہو گا۔ واقعہ کے راوی محمد بن اسحاق نے حضرت حسان بن ثابت کے بیٹے حضرت عبد الرحمان بن حسان سے دریافت فرمایا کہ ہجرت نبوی کے وقت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی عمر کیا تھی؟ تو انہوں نے بتایا ساٹھ سال۔ گویارسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت کے وقت ان کی عمر سات آٹھ سال رہی ہو گی۔ کیونکہ ہجرت کے وقت خود اللہ کے رسولﷺ کی عمر مبارک ترپن برس تھی۔ سیرۃ النبی میں درج یہ واقعہ ایک مثال ہے۔ اس طرح کے بہت سے واقعات تاریخ وسیرت کی کتابوں میں ملتے ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ولایت نبوی سے قبل ہی لوگوں کو احساس ہو چکا تھا کہ آپ کی تشریف آوری کا وقت ہو چکا ہے۔ بہت سے سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ جب آپ کی ولادت ہوئی۔ تو ایران کے شاہی محل میں زلزلہ آیا اور محل کے کنگورے ٹوٹ کر زمین پر گر پڑے۔ کعبہ میں رکھے ہوئے بت منہ کے بل زمین پر گر پڑے۔ یہ گویا اس جانب اشارہ تھا کہ اب دنیاوی جاہ و حشمت کے جھوٹے محل زمیں بوس ہونے والے ہیں اور خود ساختہ خداؤں کی عظمت ملیامیٹ ہونے والی ہے۔ اب وہ وقت آ گیا ہے، جب حق کا پرچم بلند ہو گا، صداقت کا ستارہ طلوع ہو گا۔ باطل کی ظلمت دور ہو گی اور حق کی سحر دنیا پر چھا جائے گی۔

جہاں تاریک تھا، ظلمت کدہ تھا۔ سخت کالا تھا

کوئی پردے سے کیا نکلا کہ گھر گھر میں اجالا تھا

رسول رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کے والد محترم حضرت عبد اللہ آپ کی ولادت سے قبل ہی انتقال کر چکے تھے۔ آپ کے دادا عبد المطلب نے جب پوتے کی ولادت کی خبر سنی۔ تو کعبہ میں جا کر سجدہ ریز ہو گئے اور اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ بیوہ ماں نے جب اپنے شوہر کی نشانی کو دیکھا۔ تو آنکھیں بھر آئیں۔ چچا ابو لہب نے جب بھتیجے کی پیدائش کی خبر سنی۔ تو دل باغ باغ ہو گیا اور خبر سنانے والی باندی ثویبہ کو آزاد کرتے ہوئے کہا کہ جا تو میرے بھتیجے کو دودھ پلا۔

رضاعت

مکہ کے شریفوں میں یہ دستورچلا آ رہا تھا کہ بچوں کی پرورش کے لئے آس پاس کے دیہاتوں میں بھیج دیا کرتے تھے تاکہ بچے وہاں کی صاف ستھری ہوا میں پرورش پا کر تندرست و توانا ہو جائیں۔ نیز وہاں وہ خالص عربی زبان سیکھ جائیں۔ اصل میں مکہ ایک مرکزی شہر تھا۔ جہاں ہر خطے کے لوگ آتے جاتے رہتے تھے، جن کے اختلاط سے زبان بھی خالص نہیں رہ پاتی تھی۔ عرب میں پڑھنے لکھنے کا رواج بہت کم تھا۔ مگر وہ زبان پر خاص توجہ دیتے تھے۔ یہاں شاعری اور سخنوری کا چرچا رہتا تھا اور گاؤں والوں کی زبان زیادہ مستند سمجھتی جاتی تھی۔ اسی غرض سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی پرورش کے لئے ایک صحرائی خاتون حضرت حلیمہ سعدیہ کے حوالے کیا گیا۔ جن کا تعلق قبیلہ بنی سعد سے تھا۔ حضرت حلیمہ سعدیہ ان عورتوں میں شامل تھیں، جو مکہ معظمہ، شرفاء کے بچے پرورش کے لئے حاصل کرنے کی غرض سے آئی تھیں۔ سیرۃ النبی کے مطابق یہ واقعہ خود حضرت حلیمہ نے یوں بیان کیا ہے کہ میں اپنے قبیلہ کی کچھ عورتوں کے ساتھ دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں نکلی۔ یہ زمانہ قحط کا تھا اور ہمارے پاس کچھ نہ تھا۔ ایک بھورے رنگ کی گدھی پر سوار ہو کر نکلی اور ایک اونٹنی بھی ساتھ تھی۔ جس سے دودھ کا ایک قطرہ بھی نہ نکلتا تھا۔ ہمارا شیر خوار بچہ بھوک کے سبب ساری ساری رات روتا تھا اور ہم سونہ سکتے تھے۔ میری چھاتی میں اتنا دودھ نہ تھا کہ اپنے بچے کو پلاؤں اور نہ ہی ہماری اونٹنی کے پاس کچھ تھا۔ میں جس گدھی پر نکلی۔ وہ تھک گئی اور میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ گئی اور سب کے بعد مکہ پہنچی۔

حضرت حلیمہ سعدیہ کا بیان ہے کہ کوئی عورت ایسی نہ تھی۔ جس پر ننھے محمد صلی اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو پیش نہ کیا گیا ہو۔ مگر کسی نے بھی آپؐ کو نہ لیا۔ کیونکہ ہمیں لڑکے کے باپ سے بھلائی کی امید رہتی تھی اور اسی سے انعام کی توقع رکھتے تھے۔ جب باپ نہ ہو تو دادا اور ماں سے کیا امید؟ حضرت حلیمہ کا بیان ہے کہ جب کوئی بچہ نہ ملا۔ تو مجبوراً آپ کو لے لیا۔

رسول اللہﷺ کی برکتیں

حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی برکت سے مجھے بار بار فیضیاب ہونے کا موقع ملا۔ جب میں آپ کو گود میں لے کر اپنی سواری پر بیٹھی۔ تو میری حیرت کا ٹھکانہ نہ رہا کہ میرے پستان دودھ سے بھر گئے اور آپ نے خوب سیر ہو کر دودھ پیا۔ اسی کے ساتھ آپ کے رضاعی بھائی نے بھی خوب خوب دودھ پیا اور پھر دونوں سوگئے۔ میرے شوہر بوڑھی اونٹنی کی طرف گئے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس کے تھن بھی دودھ سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہم دونوں میاں بیوی نے خوب جی بھر کر اونٹنی کا دودھ پیا اور رات بھر آرام سے سوئے۔ صبح کے وقت میرے شوہر نے کہا کہ حلیمہ! خدا کی قسم خوب سمجھ لے کہ تو نے ایک مبارک ذات کو پایا ہے۔ میں نے جواب دیا۔ خدا کی قسم مجھے یہی امید تھی۔

حضرت حلیمہ کا بیان ہے کہ جب ہم مکہ سے اپنے گاؤں کی طرف گدھی پر سوار ہو کر واپس جا رہے تھے، تو اس میں اتنی طاقت آ گئی کہ پورے قافلے سے آگے نکل گئی۔ ساتھی عورتیں پوچھنے لگیں کہ حلیمہ! کیا یہ تیری وہ گدھی نہیں، جو مکہ آتے ہوئے تھی؟ آخر اسے کیا ہو گیا کہ اتنی تیز چلنے لگی؟ حضرت حلیمہ کے مطابق ان کا گاؤں بہت زیادہ قحط زدہ تھا۔ مگر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے ساتھ لائیں، تو یہاں حالات ہی بدل گئے۔ وہ کہتی ہیں میری بکریاں چرنے جاتیں، تو خوب چر کر آتیں اور خوب دودھ دیتیں۔ حالانکہ دوسروں کی بکریوں کے تھنوں سے قحط کے سبب ایک قطرہ دودھ نہ نکلتا۔ پڑوسی اپنے چرواہوں سے کہتے کہ جہاں حلیمہ کی بکریاں چرتی ہیں، وہیں تم بھی اپنی بکریوں کو چراؤ۔ حضرت حلیمہ کے مطابق وہ دوسال تک یونہی آپ کی برکات سے مالا مال ہوتی رہیں اور آپ تندرست و توانا ہو گئے۔ دوسرے بچے اس قدر تندرست نہ تھے۔ دو سال کے بعد آپ کو واپس مکہ لے کر آئیں، تو والدہ ماجدہ حضرت آمنہ نے اپنی حیثیت کے مطابق انعام و اکرام سے حضرت حلیمہ کو نوازا۔ حضرت حلیمہ آپ کی برکات کو چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں لہٰذا دوبارہ اپنے ساتھ واپس لیتی آئیں۔

رسول محترم صلی اللہ علیہ و سلم نے خود اپنی ولادت کا ذکر بیان کرتے ہوئے کہا:

’’اچھا (سنو) میں اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں۔ جب میں اپنی ماں کے شکم میں آیا۔ تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے اندر سے ایک نور نکلا۔ جس سے سرزمین شام کے محل ان پر روشن ہو گئے۔ بنی سعد بن بکر کے قبیلے میں دودھ پی کر میں نے پرورش پائی۔

(سیرت النبی مرتبہ ابن ہشام)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے بے مثل و بے مثال بنایا۔ جس طرح آپ کی نبوت اور بعثت بے مثال ہے، اسی طرح آپ کی ولادت بھی بے مثال ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب ربیع الاول کا موسم بہار آتا ہے، تو اہل عشق کے دل خوشیوں سے جھوم اٹھتے ہیں اور من کے گلشن میں عشق و عرفان کے پھول کھلنے لگتے ہیں۔

ڈالیاں جھومتی ہیں رقص خوشی جوش پہ ہے

بلبلیں جھولتی ہیں گاتی ہیں سہرا تیرا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کہیں کھل رہی ہیں کلیاں، کہیں ہنس رہے ہیں تارے

یہ ترے حسیں تبسم کے ہیں دلنشیں اشارے

ہوئی راہ کہکشاں بھی تری خاکِ پا سے روشن

وہی خاک کیا عجب ہے مرے بخت کو نکھارے

(بیکلؔ)

 

 

 

حشر تک ڈالیں گے ہم پیدائش مولیٰ کی دھوم

 

جشن عید میلاد النبیﷺ تاریخ کے آئینے میں

 

نزول شان حقیقت مرے حضور سے ہے

بشر کی عظمت و عزت مرے حضور سے ہے

انعام و اکرام کا دن ہمیشہ یادگار دن ہوتا ہے اور جس دن عالم انسانیت پر اللہ کا سب سے بڑا انعام ہوا ہو، اس سے بڑھ کر یادگار دن کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ قرآن کے فرمان کے مطابق اللہ کے رسول کی بعثت اس کا سب سے بڑا احسان ہے۔ فرمایا گیا کہ ’’اللہ نے مومنین پر احسان کیا کہ ان کے درمیان اپنے رسول کو بھیجا۔ اہل ایمان ہر دور میں اپنے اپنے ڈھنگ سے بعثت نبوی کا جشن مناتے رہے ہیں۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم کا جشن کوئی نئی بات نہیں ہے، بس زمانے کے لحاظ سے طریقے میں فرق آتا رہا ہے۔ انبیاء سابقین کی محفلوں میں بنی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و سلم کی دنیا میں تشریف آوری کا ذکر ہوتا رہا ہے اور پرانی امتیں بھی اس موضوع پر بحث کرتی رہیں ہیں لہذا انہیں محفلوں کو ذکر میلاد پاک کی ابتدائی محفلیں سمجھنا چاہئے۔ میلاد نبوی کی خوشیاں سب سے پہلے مکہ میں بنو ہاشم نے منائیں۔ حضرت عبد المطلب اور جنابِ آمنہ نے آپ کی ولادت پر خوشی کا اظہار کیا۔ تاریخ وسیرت کی بہت سی روایتوں کے مطابق حضرت آمنہ نے ایک خواب کی بنیاد پر آپ کا نام احمد رکھا اور جناب عبد المطلب نے آپ کا نام محمد (ﷺ) رکھا۔ حالانکہ عرب میں اس قسم کے ناموں کا رواج نہ تھا۔ جب لوگوں نے وجہ پوچھی تو آپ کے دادا جان نے جواب میں فرمایا ’’اس لئے کہ میرا پوتا دنیا بھر کی ستائش و تعریف کے شایان قرار پائے۔‘‘ (تاریخ اسلام، مرتبہ مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی) گویا ہر وہ محفل جہاں نام پاک محمد و احمد لیا جائے وہ ذکرو مدح نبوی کی محفل ہے۔ آپ کا نام ہی اللہ نے ایسا منتخب فرمایا کہ آپ کی تعریف ہو جائے۔

لب پہ آ جاتا ہے جب نامِ جناب

منہ میں گھل جاتا ہے شہد نایاب

وجد میں آ کے ہم اے جاں بیتاب

اپنے لب چوم لیا کرتے ہیں

اور مرزا غالبؔ کی زباں میں یوں کہہ سکتے ہیں:

زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا

کہ میرے نطق نے بوسے میری زباں کے لئے

عہد نبوی میں ذکر میلاد

صحابہ بھی اپنی محفلوں میں نبی محترم صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر کیا کرتے تھے۔ آپ کی آمد کا ذکر۔ آپ کی رحلت کا تذکرہ۔ آپ کی شخصیت۔ فضیلت۔ نعمت۔ قدرت ہر پہلو کا بیان۔ یہی کچھ تو احادیث کی کتابوں میں محدثین نے جمع کیا ہے۔ ظاہر ہے یہ تمام محفلیں ذکر رسول کی محفلیں ہی ہوئیں، خواہ ان کا انعقاد ربیع الاول کی بارہویں تاریخ کو ہو یا سال کے کسی اور دن۔ مگر خاص بارہویں تاریخ کا لحاظ کر کے بھی ذکر رسول کی محفلوں کی کمی نہیں جن میں خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی پیدائش کے تذکرے فرمائے۔ مشکوٰۃ المصابیح، باب فضائل سید المرسلین، فصل ثانی میں ایک روایت حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ شاید آپ تک خبر پہنچی تھی کہ بعض لوگ ہمارے نسب میں طعن کرتے ہیں، تو آپ منبر پر کھڑے ہوئے اور پوچھا میں کون ہوں؟ سب نے عرض کیا آپ اللہ کے رسول ہیں۔ فرمایا میں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہوں۔ اللہ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو ہم کو بہترین مخلوق میں سے کیا۔ پھر ان کے دو حصے کئے عرب اور عجم۔ ہم کو ان میں سے بہتر یعنی عرب میں سے کیا۔ پھر عرب کے چند قبیلے فرمائے، ہم کو ان کے بہتر یعنی قریش سے کہا۔ پھر قریش کے چند خاندان بنائے، ہم کو ان میں سے سب سے بہتر خاندان بنو ہاشم میں پیدا کیا۔

عہد وسطیٰ میں جشن میلاد

محفل میلاد رسول کا انعقاد خاص ربیع الاول کے ماہ میلاد میں صدیوں پرانی روایت ہے۔ یہی سبب ہے کہ عہد وسطیٰ کے علماء نے بھی اس پر اظہار رائے فرمایا ہے۔ سیرت نبویہ مصری میں لکھا ہے کہ اس روایت کی شروعات سلطان مظفر ابو سعید اربل کے دور میں ہوئی۔ اس عالم۔ عاقل اور بہادر بادشاہ نے اپنے دربار کے نامور عالم دین حضرت حافظ ابن وحید سے ذکر میلا رسول پر مبنی ایک کتاب لکھوائی۔ کتاب کا نام تھا ’’التنویر فی مولد البشیر النذیر۔ بادشاہ نے مصنف کو کتاب کی تصنیف پر ایک ہزار اشرفیاں بطور انعام دیں۔ اس کے بارے میں لکھا ہے کہ ماہ ربیع النور باعث سرور میں ذکر میلاد کی محفلیں منعقد کرتا تھا۔ علامہ ابن جوزی کا بیان ہے کہ سلطان مظفر کی مجلس میں شریک ہونے والے ایک شخص نے بیان کیا کہ میں نے پانچ ہزار بکریوں اور دس ہزار مرغ کو اہتمام محفل کے لئے ذبح کرتے دیکھا۔ اور اس شاہانہ دربار میں نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے ذکر میلاد کی نورانی مجلس میں علماء و صوفیۂ زمانہ حاضر ہوتے تھے اور سلطان ایک محفل میں تین لاکھ اشرفیاں خرچ کرتا۔ (سیرت نبویہ مصری)

تفسیر روح البیان پارہ ۲۶ میں محمد رسول اللہ آیت کی تفسیر کے تحت لکھا ہے کہ محفل میلاد شریف کرنا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی تعظیم ہے جبکہ وہ بری باتوں سے خالی ہو۔ امام سیوطی فرماتے ہیں کہ ہم کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت پر شکر کا اظہار کرنا مستحب ہے۔

اس عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام سیوطی کے زمانے میں محفل میلاد کا رواج تھا اور ربیع الاول کی بارہویں تاریخ کو لوگ خصوصی اہتمام کیا کرتے تھے۔ امام ابن جوزی فرماتے ہیں کہ محفل میلاد کی تاثیر یہ ہے کہ اس سے سال بھر امن رہتا ہے۔ ان کا یہ قول اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کے دور میں یہ سلسلہ رواج پا چکا تھا۔ امام ابن حجر ہیتمی نے اسے بدعت حسنہ قرار دیا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ آٹھویں صدی عیسوی میں خلیفہ ہارون رشید کی ماں نے پہلی بار مکہ میں محفل میلاد منعقد کیا تھا۔

بر صغیر میں جشن میلاد کی تاریخ

بر صغیر میں جشن میلاد کی تاریخ کب سے شروع ہوتی ہے، پتہ نہیں، البتہ تاریخی کتابوں میں اس سلسلے میں گجرات کے ایک بادشاہ کا ذکر ملتا ہے۔ یہ تھا سلطان محمود شاہ ثانی۔ صوفیہ میں شاہ عبد الرحیم محدث دہلوی علیہ الرحمۃ اس کا اہتمام کیا کرتے تھے اور بعد کے زمانے کے بزرگوں میں مولانا اشرف علی تھانوی کے پیر و مرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اس کے اہتمام کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔ تاریخ کی معروف کتاب مراۃ سکندری (صفحہ 300) کے مطابق بادشاہ گجرات سلطان محمود شاہ ثانی جشن میلاد کا خاص اہتمام کرتا تھا۔ شہر کے علماء۔ مشائخ اور صلحاء جمع ہوتے اور بخاری شریف پڑھی جاتی۔ تمام لوگ بیٹھ کر سنتے تھے۔ اس موقع پر قسم قسم کے لذیذ کھانے پکائے جاتے۔ علماء و مشائخ کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی تقسیم ہوتے۔ بارہویں تاریخ کو خود سلطان تیار ہو کر آتا اور اپنے ہاتھوں سے پانی گرا کر حاضرین کے ہاتھ دھلاتا۔ بڑے بڑے شاہی امراء طشت میں کھانا لے کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے۔ بادشاہ ننگے پیر اخیر تک کھڑا رہتا اور محفل کے اختتام پر علماء اور مشائخ کی خدمت میں اس قدر نذرانہ پیش کرتا کہ ان کے پورے سال کے اخراجات کے لئے کافی ہوتا۔

سلطان محمود شاہ ثانی کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ اس کے لباس کے لئے سال بھر کے کپڑے حیدر آباد سے منگوائے جاتے اور انہیں دسترخوان کے طور پر استعمال کیا جاتا پھر سال بھر بادشاہ انہیں کپڑوں کو پہنتا۔ وہ دور تھا جب بر صغیر میں جشن میلاد کا رواج عام ہو چکا تھا۔

صوفیاء کرام میں جشن میلاد کے اہتمام کا رواج رہا ہے اور اس معاملے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ کے والد شاہ عبد الرحیم کا نام لیا جا سکتا ہے۔ شاہ ولی اللہ اپنی کتاب الدرا الشمین فی مبشرات النبی الامین میں لکھتے ہیں کہ ان کے والد ہر سال محفل میلاد کا اہتمام کیا کرتے تھے اور اس موقع پر کھانے پکوا کر لوگوں میں تقسیم کرایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کچھ میسر نہ تھا تو بھنے ہوئے چنے ہی محفل مولود میں تقسیم کر دئیے گئے۔ اس رات والد نے خواب میں دیکھا کہ وہ چنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ خوش نظر آ رہے ہیں۔

جلوس محمدی

جشن عید میلاد النبی کے موقع پر جلوس نکالنے کا رواج بھی لگ بھگ پوری دنیا میں ہے۔ اس کی ابتدا کب ہوئی پتہ نہیں مگر بر صغیر میں یہ بہت عام ہے۔ ایک تاریخی جلوس عید میلاد النبی کا ذکر مولانا شوکت علی اور محمد علی جوہر کے واقعات میں ملتا ہے، جنہوں نے تحریک خلافت کے دوران ممبئی میں نکالا تھا۔ فی الحال ممبئی۔ دلی۔ کولکاتہ۔ حیدر آباد جیسے بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ ملک کے چھوٹے چھوٹے شہروں یہاں تک کہ قصبات اور دیہاتوں میں بھی یہ عام ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

زمیں تا عرش بریں فرشتے، ہر اِک نفس کو پکار آئے

گناہگارو مناؤ خوشیاں، شفیعِ روز شمار آئے

چمن نے کی آبرو نچھاور، گلوں نے سجدے کئے قدم پر

نقاب الٹے گہر لٹائے، وہ جب سوئے لالہ زار آئے

(بیکلؔ)

 

 

 

عالم اسلام میں جشن عید میلاد النبیﷺ کی تقریبات کہاں اور کیسے؟

 

جشن میلاد النبیﷺ کا اہتمام ساری دنیا میں بہت جوش و خروش کے ساتھ ہوتا ہے۔ اہل محبت مسلمان تقریباً پوری دنیا میں جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم کا اہتمام اپنے اپنے طریقے سے کرتے ہیں۔ مسلمانانِ عالم میں اس دن کو منانے کے طریقے بھی عموماً یکساں ہیں۔ یعنی جلوس محمدی نکلتے ہیں، ذکر میلاد النبی کے جلسے ہوتے ہیں، نعت خوانی کی محفلیں ہوتی ہیں۔ مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔ کہیں کہیں دوسرے قسم کے لذیذ کھانے اور پھل بھی تقسیم کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح ربیع الاول کی بارہویں تاریخ کو لگ بھگ تمام مسلم ملکوں میں سرکاری چھٹی رہتی ہے اور تمام لوگ عید میلاد کی تقریبات میں شریک ہوتے ہیں۔ مسلم ملکوں کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی جہاں مسلمانوں کی آبادی اچھی خاصی ہے، وہاں بھی اس پُرمسرت موقع پر چھٹی رہتی ہے اور دوسرے لوگ مسلمانوں کے جذبات کا لحاظ رکھتے ہیں۔ ہندوستان بھی ان ملکوں میں سے ایک ہے، جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، مگر باوجود اس کے یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم پر چھٹی رہتی ہے۔

مغربی بنگال میں جشن میلاد کا اہتمام

مغربی بنگال میں جشن میلاد پر خصوصی اہتمام کا سلسلہ پرانے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ سبھی مسلم محلوں میں چراغاں کیا جاتا ہے۔ یہاں دیکھا جاتا ہے کہ گاؤں گاؤں میں مسلمان فاتحہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ فاتحہ کے لئے عام طور پر میٹھا پلاؤ۔ کھیر یا کوئی دوسری میٹھی چیز پکائی جاتی ہے۔ جن گھروں میں پکانا ممکن نہیں ہوتا۔ وہاں دکانوں سے خرید کر مٹھائیاں آتی ہیں۔ کلکتہ اور اس کے مضافات میں مسلم محلوں میں مٹھائیوں کی دکانوں کو اس دن خاص طور پر سجادیا جاتا ہے اور اس دن خوب مٹھائیاں فروخت ہوتی ہیں۔ عام طور پر دکانوں کے سامنے تخت بچھا کر کسی شخص کو بٹھا دیا جاتا ہے، جو مٹھائیوں پر فاتحہ پڑھتا رہتا ہے۔ یہاں ہر علاقے میں مسجدوں اور مدرسوں کی طرف سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے جلوس نکلتے ہیں۔ ایک بڑا جلوس مختلف شاہراہوں سے گذرتا ہوا شہر کے مرکزی مقام دھرم تلہ پہنچتا ہے، جہاں شہید مینار کے پاس میلاد النبی کے جلسے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس جلسے میں مسلمانوں کا جم غفیر جمع ہوتا ہے۔ شہر کا سب سے بڑا جلوس مسلم اکثریتی علاقے مٹیا برج سے مولانا قاسم علوی کی قیادت میں نکلتا ہے، جس میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ شریک ہوتے ہیں۔ اس کے انتظام و انصرام کے لئے بڑی تعداد میں پولس تعینات کی جاتی ہے، مگر کبھی بد انتظامی نہیں دیکھی گئی۔ راستے میں شربت اور مٹھائیوں کی تقسیم ہوتی ہے جو اظہار خوشی کا ایک طریقہ ہے۔

مہاراشٹر میں جشن عید میلاد

ہندوستان کے جن شہروں میں یوم میلاد النبیﷺ زیادہ جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، ان میں عروس البلاد ممبئی بھی شامل ہے۔ ممبئی میں بڑے بڑے جلوس نکلتے ہیں اور جلسوں کا اہتمام ہوتا ہے۔ بعض مقامات پر بارہ بارہ دن تک ذکر رسول کی محفلیں ہوتی ہیں اور ملک کے دور دراز خطوں سے علماء کو تقریر کے لئے دعوت دی جاتی ہے۔ ممبئی میں بھی اس دن خصوصی فاتحہ خوانی ہوتی ہے اور مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔ مہاراشٹر کے دوسرے شہروں جیسے ناگپور، مالیگاؤں، ناسک وغیرہ میں بھی عید میلاد النبی کا جشن دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔

دہلی میں جشن کا سماں

راجدھانی دلی میں بھی عید میلاد النبیﷺ کے کئی خصوصی پروگرام ہوتے ہیں۔ گو یہاں کولکاتا اور ممبئی کے مقابلے جشن ذرا پھیکا ہوتا ہے مگر پھر بھی جو ہوتا ہے وہ محبت رسول کے جذبات کا عکاس ہوتا ہے۔ پرانی دہلی جسے قدیم تہذیب کا گہوارہ کہا جاتا ہے، اس تعلق سے مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ یہاں سے جلوس محمدی نکلتے ہیں اور جلسے ہوتے ہیں۔ ان جلسوں میں جامع مسجد کے امام مولانا سید احمد بخاری اور فتح پوری مسجد کے امام مفتی مکرم احمد کی بھی شمولیت ہوتی ہے۔ دہلی کے تقریباً تمام مسلم محلوں میں کوئی نہ کوئی جلوس محمدی ضرور گشت کرتا ہے۔ کثیر مسلم آبادی والے جامعہ نگر کے ذاکر نگر سے جلوس نکلتا ہے، اسی طرح شاہین باغ کی مسجد عمر فاروق سے بھی ایک شاندار جلوس برآمد ہوتا ہے، جس میں کثیر تعداد میں لوگ شریک ہوتے ہیں۔ جعفرآباد، ویلکم، سیلم پور، سنگم وہار، تغلق آباد میں جلسے اور جلوس ہوتے ہیں۔ دہلی کے مضافات میں نوئیڈا، غازی آباد اور ہریانہ کے فرید آباد و گُڑ گاؤں میں بھی ایسے جلسوں اور جلوسوں کا اہتمام ہوتا ہے جو مسلمانوں کے جذبۂ محبت رسول کی عکاسی کرتے ہیں، یہاں تک کہ ان جھونپڑ پٹیوں میں بھی جشن کا سماں رہتا ہے جہاں بے حد غریب طبقے کے مسلمان رہتے ہیں۔

شہر شہر، گاؤں گاؤں جشن

ملک کے ان تینوں بڑے شہروں کے علاوہ احمد آباد۔ سورت۔ حیدرآباد۔ بنگلور۔ گلبرگہ۔ پٹنہ۔ بنارس۔ لکھنؤ۔ کانپور، بریلی، پیلی بھیت، بہرائچ، اعظم گڑھ۔ جمشید پور۔ رانچی، جے پور، اجمیر شریف میں بھی زبردست طریقے سے جشن میلاد منایا جاتا ہے۔ ان سبھی شہروں سے بڑے بڑے جلوس برآمد ہوتے ہیں اور جلسے منعقد کئے جاتے ہیں، مگر سب سے بڑا اہتمام کشمیر میں ہوتا ہے، جہاں مسجدوں اور خانقاہوں کو سجایا جاتا ہے۔ ہر رات ذکر میلاد کی محفلیں ہوتی ہیں اور بارہویں رات کو حضرت بل کی مسجد میں شاندار اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہاں اس موقع پر موئے مبارک کی زیارت کرائی جاتی ہے، جس کے لئے لوگوں کی بھیڑ امڈ آتی ہے۔

پاکستان میں تقریبات عید میلاد

پاکستان، ہندوستان کا پڑوسی ملک ہے، جہاں عید میلاد النبی کی تقریبات سرکاری طور پر منائی جاتی ہیں۔ اس دن سرکاری چھٹی رہتی ہے اور پرچم لہرایا جاتا ہے۔ یہاں بھی ہر طرف جلوسوں اور جلسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، جن میں فضائل وسیرت نبوی کا بیان ہوتا ہے۔ ملک کے سبھی حصوں میں دھوم دھام سے عید میلاد کی تقریبات ہوتی ہیں۔ لاہور میں مینار پاکستان پر عوام کا بہت بڑا مجمع ہوتا ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ یہ ساری دنیا میں اس دن کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس روز اسلام آباد میں 21 توپوں کی سلامی بھی دی جاتی ہے۔ چونکہ پاکستان دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مسلم ملک ہے، لہٰذا یہاں عید میلاد کی تقریبات کا اہتمام بھی بڑے پیمانے پر ہوتا ہے۔ یہاں بھی ہندوستان کے انداز میں جشن منایا جاتا ہے۔

جنوب ایشیا کے ممالک میں جشن

نیپال اور بنگلہ دیش بھی جنوب ایشیاء کے اہم ممالک ہیں۔ نیپال میں مسلمان بہت کم تعداد میں ہیں، اس لئے یہاں صرف انہی علاقوں میں عید میلاد کی تقریبات ہوتی ہیں، جہاں ان کی آبادی ہے۔ ہندوستان کی سرحد سے متصل قصبوں اور گاوؤں میں جہاں مسلمان آباد ہیں اور وہاں مساجد ومدارس بھی ہیں، عام طور پر تقریبات ہوتی ہیں۔ بنگلہ دیش کی راجدھانی ڈھاکہ میں بڑے پیمانے پر اس دن تقریبات ہوتی ہیں اور انہیں سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہوتی ہے۔ یہاں وہ طبقہ زیادہ دلچسپی لیتا ہے، جس کا تعلق خانقاہوں سے ہے اور صوفیاء سے عقیدت رکھتا ہے۔

عرب ملکوں میں خصوصی اہتمام

عرب ملکوں میں ہر طرف اس دن مسرت کا ماحول رہتا ہے اور عوام جلوس کا اہتمام کرتے ہیں۔ عراق میں دیگر مقامات کے ساتھ ساتھ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ کے پاس بڑا جلسہ ہوتا ہے اور عقیدت مند درگاہ پر جمع ہو کر درودو تلاوت کرتے ہیں۔ مصر میں اس روز تقریبات کا اہتمام صدیوں سے ہوتا آ رہا ہے اور اس بڑے پیمانے پر ہوتا ہے کہ دوسرے ملکوں سے لوگ یہاں عید میلاد النبی منانے چلے آتے ہیں۔ یہاں ہر طرف چراغاں کیا جاتا ہے اور ذکر و تلاوت کی محفلیں ہوتی ہیں۔ لبنان اور مراقش نیز لیبیا میں بھی مسلمان دھوم دھام سے جشن عید میلاد مناتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی منظر شام میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ شام میں بھی سرکار اس کی سرپرستی کرتی ہے۔ ان سبھی ملکوں میں ربیع الاول کا چاند ہوتے ہی چراغاں شروع ہو جاتا ہے اور لوگ اپنے اپنے مکانات کو برقی قمقموں اور رنگ برنگی لائٹوں سے سجانے لگتے ہیں۔

افریقی ملکوں میں جشن

افریقی ملکوں میں غربت وافلاس کے باوجود جشن عید میلاد النبیﷺ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جلوس نکلتے ہیں اور جلسوں میں علماء کرام تقریریں کرتے ہیں۔ کینیا کے لامو اور مالندی کے مقامات پر عوام کا کثیر مجمع ہوتا ہے، جو اس جشن کو منانے کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ یہاں اس تقریب کو مولیدی کہتے ہیں۔ اسی طرح تنزانیہ میں بھی بڑی بڑی تقریبات ہوتی ہیں، مگر سب سے بڑا مجمع جزیرہ زنزبیر میں ہوتا ہے۔ پورے براعظم افریقہ میں جشن عید میلاد کی تقریبات کا جوش و خروش سے اہتمام ہوتا ہے۔

سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں

روس۔ ترکی اور چین کے مسلم علاقوں میں یوم عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ ترکی کے سیکولر قانون میں اس کی سرپرستی کی حکومت کو اجازت نہیں، مگر اس کے باوجود عوامی سطح پر اس کا اہتمام ہوتا ہے۔ چین نے بھی مذہبی تقریبات پر پابندی لگا رکھی ہے، مگر پھر بھی مسلمان اسے جذبۂ ایمانی کے ساتھ کرتے ہیں۔

انڈونیشیا اور ملیشیا میں مسلمانوں کی کثیر آبادی ہے اور مسلمان تقریبات میلاد کا بڑے پیمانے پر اہتمام کرتے ہیں۔ یہاں بھی ذکر و اذکار کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں۔ یہاں کئی صوفی سلسلے رائج ہیں اور خانقاہیں اس کے انعقاد میں زیادہ جوش و خروش دکھاتی ہیں مگر عوام میں بھی دلچسپی پائی جاتی ہے۔

ترینداد و ٹوبیگو اور سری نام لاطینی امریکی ممالک ہیں، ان ملکوں میں ہند نژاد لوگوں کی خاصی آبادی ہے۔ ان کے آباء و اجداد انگریزوں کے ذریعہ لائے گئے تھے۔ ان ملکوں میں آج بھی ہندوستانی رسوم کے تحت میلاد کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں۔ یہ سلسلہ سال بھر چلتا ہے، مگر ربیع الاول میں اس کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ انجمن سنت والجماعت اور کچھ دیگر تنظیموں کے ماتحت یہ تقریبات ہوتی ہیں، جن کی قیادت مفتی غلام احمد چشتی کرتے ہیں۔

برطانیہ میں بڑے پیمانے پر جشن میلاد کی تقریبات ہوتی ہیں۔ یوں تو جہاں بھی مسلمان ہیں، وہ اس کا اہتمام کرتے ہیں، مگر خاص طور پر جن شہروں میں زیادہ جوش و خروش دکھائی دیتا ہے، وہ لندن۔ گلاسکو۔ بلیک برن۔ ہائی فیکس۔ لیڈس۔ لیسپسٹر۔ نیلسن۔ ولڈہام اور شیفیلیڈ ہیں۔ ان تقریبات کے اہتمام میں مولانا قمر الزماں خاں اعظمی۔ مولانا فروغ القادری اور پیر عبد القادر پیش پیش ہوتے ہیں۔ برطانیہ کی طرح یوروپ کے دوسرے ممالک اور امریکا میں بھی اس دن اہتمام ہوتا ہے۔ جلوس اور جلسے ہوتے ہیں۔ بچے اور بڑے رنگ برنگی جھنڈیاں ہاتھوں میں لے کر لہراتے ہیں۔ اس دن کئی ملکوں کے سربراہانِ مملکت کی طرف سے مبارکبادی کے پیغامات جاری ہوتے ہیں۔

دنیا کے عام مسلمانوں کے برعکس شیعہ حضرات بارہویں کے بجائے سترہویں ربیع الاول کو جشن عید میلاد مناتے ہیں۔ لہٰذا ایران و عراق میں زیادہ اہتمام سترہویں ربیع الاول کو دیکھنے کو ملتا ہے۔ شیعہ روایتوں کے مطابق یہی یوم میلاد ہے، یعنی اس دن رسول اللہﷺ کی ولادت با سعادت ہوئی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

مراسفینہ تلاطم میں بحر عشق کے ہے

مزا تو جب ہے خدا آئے ناخدا ہو کر

نثار کیوں نہ کریں جان اس پر اے آسیؔ

فلک سے جا کے لگے جس کی خاک پا ہو کر

(آسیؔ)

 

 

 

عہد حاضر میں جشن عید میلاد النبیﷺ کی اہمیت و ضرورت

 

صحن جہاں میں بکھری جو رعنائیاں سی ہیں

بے سایہ جسم پاک کی پرچھائیاں سی ہیں

ربیع الاول کی بارہویں تاریخ عالم انسانیت کے لئے وہ یادگار دن ہے، جب اللہ کا پیغامبر اور قاصد اس کا پیغام لے کر اس کائنات گیتی پر جلوہ افروز ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ محبوب کی ہر شے محبوب ہوتی ہے، اس لئے ہم اپنے عزیز بچوں کا جنم دن کبھی نہیں بھولتے۔ اپنے ملک کی آزادی کا دن کبھی نہیں فراموش کرتے۔ وہ تاریخی دن کبھی نہیں بھولتے، جب ہمیں جمہوری اختیارات ملے تھے۔ پھر اس دن کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے، جب اللہ کا محبوب رسول ہمارے درمیان جلوہ گر ہوا۔ اس دن کو کیسے بھولا جا سکتا ہے۔ جس دن عالم انسانیت کی ڈوبتی کشتی کو ساحل مراد تک پہچانے والا آیا۔ اس یادگار دن کو کیسے ذہن سے محو کیا جا سکتا ہے، جب جہنم کے عذاب الیم سے نجات دلانے والا اس دنیا میں آیا۔

وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے

غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا

محبوب کی آمد کا دن ہمیشہ یاد گار رہتا ہے اور جب تمام محبوبوں کا محبوب، بلکہ خدا کا محبوب اس دنیا میں آیا ہو۔ وہ دن یادگارکیسے نہیں ہو سکتا؟ اس لئے تو ربیع الاول کا مہینہ اہم ہے اور اس کی بارہویں تاریخ اور بھی اہمیت کی حامل ہے۔ اسی یادگار لمحے کا ذکر قرآن میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ کبھی کہا گیا کہ ’’تمہارے پاس تمہارے رب کے پاس سے برہان آ گیا۔ تو کبھی فرمایا گیا ’’ہم نے آپ کو سارے عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔ کبھی ارشاد ربانی ہوا کہ ہم نے آپؐ کو بشیر و نذیر بنا کر بھیجا، تو کہیں حکم ربانی ہوا کہ ہم نے آپ کو شاہد مبشر اور نذیر بنا کر کائنات میں بھیجا۔ وہ آمدکس قدر اہمیت کی حامل ہو گی۔ جس تعلق سے کتاب اللہ میں بار بار ذکر کیا جاتا ہے۔ مرحبا وہ صبح کتنی دل افزا ہو گی۔ جب جان کائنات نے کائنات میں قدم رکھا۔

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے

یادگار دن

دنیا کی سبھی اقوام کے لئے کوئی نہ کوئی یادگار دن ہوتا ہے۔ دنیا کے سبھی ممالک کسی نہ کسی دن کو قومی دن کے طور پر مناتے ہیں۔ کیا اہل ایمان کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی دن ہو سکتا ہے، جس دن، ان کے جان ایمان کی آمد ہوئی؟ یہی سبب ہے کہ پورے عالم اسلام میں اس دن کو یادگار دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن جشن کا سماں رہتا ہے۔ حمد و نعت کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ ذکر و تلاوت کی صدائیں آتی ہیں۔ جلسوں اور جلوسوں کا انعقاد ہوتا ہے، گھروں اور مسجدوں میں چراغاں کیا جاتا ہے۔ یقیناً یہ طریقے اظہار محبت کا ذریعہ ہیں اور تحدیث نعمت کے وسیلے۔ فرمان خداوندی بھی ہے کہ ’’ اللہ کی نعمت کا خوب خوب چرچا کرو۔ کیا نبی پاک کی ذات با برکات سے بڑھ کر کوئی دوسری نعمت ہو سکتی ہے؟ یہی تو وہ نعمت ہے، جس پر اللہ نے بھی اظہار احسان فرمایا ’’ اللہ نے مومنین پر احسان فرمایا کہ ان کے اندر اپنے رسول کو مبعوث فرمایا۔

کس کے جلوہ کی جھلک ہے یہ اجالا کیا ہے

ہر طرف دیدۂ حیرت زدہ تکتا کیا ہے

دنیا میں پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ و سلم سے قبل بہت سے انبیاء کرام تشریف لائے۔ یقیناً وہ بھی پیغام توحید لے کر آئے تھے اور ان کی آمد کا مقصد بھی یہی تھا کہ کائنات کے بسنے والے اپنے خالق حقیقی کے غلام بن جائیں اور اس کے احکام کے پابند ہو جائیں، مگر یہ عجیب و غریب صورت حال دیکھنے میں آئی کہ ان میں سے بعض امتوں نے اپنے نبیوں کو ہی خدا کا درجہ دے ڈالا اور انہیں پوجنے لگے۔ ان قوموں نے اپنے نبی کے لائے ہوئے پیغام کے ٹھیک الٹ کیا اور جس جرم کو گناہ عظیم بتایا گیا تھا۔ اسی کا ارتکاب شروع کر دیا۔ کسی نے کہا کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں، تو کسی نے عیسیٰ روح اللہ کو اس کا بیٹا اور شریک خدائی ٹھہرا دیا۔ کسی قوم نے بت شکن ابراہیم کی مورتیاں بنا کر کعبے کو بت کدہ بنا ڈالا۔ تو کسی امت نے کسی اور بزرگ کو مقام خداوندی تک پہنچا ڈالا۔ قرآن عظیم نے واضح الفاظ میں بیان فرما دیا کہ ’’اللہ ایک ہے۔ مزید بتایا گیا کہ ’’وہ نہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ ہی اس سے کوئی پیدا ہوا۔‘‘ دوسرے الفاظ میں نہ وہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ باپ۔ گویا جو پیدا ہو یا جس کے ذریعے کوئی پیدا ہوا وہ بندۂ خدا ہو سکتا ہے، محبوب خدا ہو سکتا ہے، مگر خدا نہیں ہو سکتا۔ میلاد النبی کا مطلب ہوتا ہے، نبی کی پیدائش۔ جب ہرسال مسلمان نبی کی پیدائش کا ذکر کرتے رہیں گے اور یہ بات ذہن میں تازہ کرتے رہیں گے کہ آپ کی پیدائش فلاں دن۔ فلاں مہینے کو ہوئی۔ آپ کے والدین فلاں لوگ تھے۔ آپ کے اعزہ۔ اقرباء اور رشتے دار فلاں فلاں تھے تو وہ کبھی آپ کو خدا کا درجہ نہیں دے سکتے۔ نبی کی ولادت کا تذکرہ۔ آپ کے والدین اور اولاد کا ذکر دنیا کو بتاتا رہے گا کہ آپ خدا نہیں، محبوب خدا ہیں۔

تعلیمات نبوی کو یاد کریں

ہرسال عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اہتمام کا مقصد ایک رسم کی ادائیگی ہرگز نہیں ہونا چاہئے، بلکہ یہ دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات کو عام کرنے کا دن ہونا چاہئے۔ اس دن عام طور پر جلسوں اور جلوسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں حضرت رسالت مآب کی دنیا میں تشریف آوری کا ذکر کیا جاتا ہے۔ حمد و نعت کی محفلیں سجتی ہیں۔ محلے محلے بچوں کی حوصلہ افزائی کے لئے قرأت قرآن اور نعت خوانی کے مسابقتی مقابلے ہوتے ہیں، جو یقیناً اس دن کو یادگار بنانے کے اپنے اپنے طریقے ہیں۔ ظاہر ہے اس طریقے سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے اور تعلیمات وسنت کو عام کرنے میں مدد ملتی ہے۔ جو مسلمان سنتے ہیں وہ اس قصہ پارینہ کی یاد تازہ کرتے ہیں، اور کیا ہی خوب ہو کہ پیغمبر اسلام کی تعلیمات کو اس دن خاص طور پر غیر مسلم بھائیوں تک پہچانے کی کوشش کی جائے۔

پورے عالم اسلام میں عموماً اس دن عام تعطیل ہوتی ہے۔ ہندوستان میں تقریباً تمام اہم ملکی شخصیات کی پیدائش کے دنوں پر چھٹیاں رہتی ہیں۔ مسلمانوں کے دیرینہ مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت نے یوم میلاد النبی پر بھی عام چھٹی کا اعلان کر دیا ہے۔ یقیناً اس دن چھٹی کرنے سے پورے ملک کے عوام کی توجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف جاتی ہے۔ کیا ہی خوب ہو کہ اس دن مسلمان غیر مسلموں کو اپنے نبی کی زندگی اور تعلیمات سے آگاہ کریں۔ پورے ملک میں عموماً مسلمان جلوس کا اہتمام کرتے ہیں اور ملک کے تقریباً تمام چھوٹے بڑے شہروں میں جلوس نکالے جاتے ہیں، جو دیکھنے والوں کی توجہ اپنی طرف کھینچتے ہیں اور غیر مسلم بھی یہ سوال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ یہ جلوس کیوں نکلا ہے؟ ظاہر ہے یہ بہت اچھا موقع ہوتا ہے جب مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں۔ اس کیلئے تعلیمات پر مبنی کتابچے یا ہینڈ بل تقسیم کئے جا سکتے ہیں۔ خاص طور پر موجودہ دور کے بڑے مسائل جیسے دہشت گردی۔ تشدد، خواتین کے خلاف جرائم، حقوق انسانی کی خلاف ورزی، انسان بیزاری۔ شراب نوشی اور دیگر اخلاقی وسماجی برائیوں کے خلاف اقوال رسولﷺ کو ایک ہینڈ بل کی شکل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس سے اسلام کے تعلق سے دنیا کی غلط فہمی بھی دور ہو گی۔

بعض مسلم تنظیموں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ اس موقع پر بچوں میں مٹھائیاں تقسیم کرتی ہیں اور اسپتالوں میں جا کر مریضوں کو پھل اور کھانے پینے کے سامان تقسیم کرتی ہیں نیز غریبوں کی بستیوں میں جا کر ان کے درمیان ضروریات زندگی کی اشیاء بانٹنے کا اہتمام کرتی ہیں۔ یہ اس دن کو منانے کا بہترین طریقہ ہے۔ یقیناً قول سے زیادہ عمل کا اثر ہوتا ہے۔ نبی پاکﷺ کی سیرت ہمیں انسانیت کے ساتھ ہمدردی اور غم خواری سکھاتی ہے اور اس پیغام کو دوسروں تک پہچانے کا بہترین طریقہ ہے۔

انٹرنیٹ پر جشن میلاد منائیے

انٹرنیٹ انسان کے ذہن کی وہ قابل تحسین اختراع ہے، جو اپنے دامن میں بے انتہا خوبیاں سمیٹے ہوئے ہیں۔ اس کا استعمال دشمنان اسلام، اسلام کے خلاف بھرپور طور پر کر رہے ہیں، مگر اسے استعمال کر کے مسلمان اپنے نبی کی تعلیمات دنیا میں عام کر سکتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ یوم میلاد النبیﷺ کے موقع پر فیس بک۔ ٹوئٹر اور دیگر نیٹ ورکنگ سائٹس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات کو خوب خوب نشر کیا جائے۔ یہ صرف اردو میں نہ ہوں، بلکہ ہندی۔ انگلش اور دیگر زبانوں میں بھی ہوں، تاکہ ساری دنیا کے انسان اسے پڑھ اور سمجھ سکیں۔ ممکن ہے ہمارا یہ چھوٹا سا عمل کسی انسان کے اندر مزید جاننے کی دلچسپی پیدا کر دے اور وہ سیرت نبوی اور قرآن عظیم کی تعلیمات تک پہنچ جائے۔

موبائل پر پیغام

موبائل پر مبارکبادیوں کے SMS آج کل خوب آتے جاتے رہتے ہیں۔ وہ تیج تیوہار کے مواقع ہوں یا کسی کا برتھ ڈے، بہت آسانی سے ہم اپنا پیغام کم خرچ میں ایس ایم ایس کے ذریعے دوسروں تک پہنچا دیتے ہیں۔ یوم میلاد النبی پر ہم مبارکبادیوں کا تبادلہ کر کے اپنے مسلمان اور غیر مسلم بھائیوں کی توجہ اس دن کی اہمیت کی طرف پھیر سکتے ہیں۔ اسی کے ساتھ اگر ایس ایم ایس میں کوئی قول رسول یا حدیث نبوی بھی شامل کریں، تو ہمارا ایک پیغام دوسروں تک پہنچ جائے گا اور دوسرے بھی رسول اللہﷺ کے ایک قول سے واقف ہو جائیں گے۔

لطف ان کا عام ہوہی جائے گا

شاد ہر ناکام ہوہی جائے گا

٭٭٭

 

 

 

 

نہ میرے دل، نہ جگر پر، نہ دیدۂ تر پر

کرم کرے وہ نشانِ قدم تو پتھر پر

تمہارے حسن کی تصویر کوئی کیا کھینچے

نظر ٹھہرتی نہیں عارضِ منور پر

(آسیؔ)

سراپائے رسولﷺ

 جس کے آگے چاند بھی شرمندہ تھا

 

’’رسول اللہ کا نور پست و بالا کو منور کرتا تھا۔ یہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے ایک مصرعہ کا ترجمہ ہے، جسے سیرت النبی (ابن ہشام) کے اخیر میں درج کیا گیا ہے، لیکن یہ صرف ایک شاعر کا پرواز تخیل نہیں، بلکہ حقیقت ہے، کیونکہ نبی رحمتﷺ کا تربیت یافتہ ایک صحابی شاعری کے شوق میں حقیقت کو فراموش نہیں کر سکتا۔ آپ کا مقدس سراپا ایساحسین و جمیل تھا کہ اس سے بڑھ کر حسین و خوبرو اس دنیا میں نہیں آیا۔ اس حسن کا کیا کہنا کہ جس کے صدقے بہاروں کو دلکشی ملی، پھولوں کو تازگی ملی۔ سبزہ زاروں کو رعنائی ملی اور ہواؤں کو خرام ناز سے چلنے کا انداز ملا۔

خرام ناز سے چلنے کا دلنشیں انداز

نسیمِ صبح کو رفتارِ مصطفیٰ سے ملا

بہ الفاظِ دگر

حسن یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشت زناں

سر کٹاتے ہیں ترے نام پہ مردانِ عرب

سراپائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا بیان احادیث اور سیرت کی کتابوں میں بہت تفصیل سے ملتا ہے۔ ایک محتاط مصنف و مؤرخ نے یوں بیان کیا ہے:

’’آپ نہ بہت طویل القامت تھے، نہ پستہ قد۔ مگر دوسرے لوگوں کے مجمع میں سب سے بالا معلوم ہوتے تھے۔ رنگ گندمی۔ پر ملاحت۔ سرخی مائل تھا۔ سر مبارک بڑا۔ داڑھی خوب بھری ہوئی۔ بال سیاہ اور قدرے پیچیدہ۔ آنکھیں گول۔ بڑی، سیاہ، پر رونق۔ سر کے بال سیدھے، اکثر کان کی لو تک اور کبھی کندھوں تک اور کبھی کان کی لو سے اوپر رہتے تھے۔ بھویں باہم پیوستہ ایک باریک سی رگ درمیان میں فاصل تھی کہ غصہ کے وقت ظاہر ہوتی تھی۔ آنکھوں کی سفیدی میں سرخ ڈورے بھی تھے۔ رخسار نرم اور پر گوشت تھے۔ سرمیں تیل ڈالتے تھے اور آنکھوں میں سرمہ لگاتے تھے۔ دانت مثل مروارید سفید و چمکدار تھے۔ تبسم کے سوا کبھی کھلکھلا کر نہ ہنستے تھے۔ آپ نہایت خندہ رو۔ شیریں کلام۔ فصیح شجاع اور جامع جمیع کمالات انسانیہ تھے۔ آپ کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی۔

(تاریخ اسلام (مرتبہ مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی) جلد اول۔ صفحہ: 229)

دیکھ کر حیران ہے دنیا جمالِ مصطفیٰ

وہ مصور کیسا ہو گا جس کی یہ تصویر ہے

دنیا میں جتنے بھی انبیاء کرام تشریف لائے، وہ جسمانی اور اخلاقی حسن کی دولت سے مالا مال تھے، کیونکہ وہ کائنات کے لئے ’’ماڈل‘‘ تھے اور ان کی باتوں کو سننا۔ اس پر عمل کرنا لازم تھا۔ اس میں اللہ کی حکمت یہ بھی تھی کہ ان کی پرکشش شخصیت دنیا والوں کو ان کی طرف کھینچ لائے اور وہ نبیوں کی زبان سے پیغام الٰہی سنیں، مگر جب سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کو دنیا میں بھیجا۔ تو ان کے اندر تمام انبیاء کرام کی خصوصیات کو اللہ نے جمع فرما دیا۔ قرآن کریم کے تیسرے پارے کی ابتدائی آیت میں فرمایا گیا ’’یہ رسول ہیں، جنہیں ہم نے ایک دوسرے پر فضیلت و برتری بخشی۔ ان میں سے کسی سے اللہ نے کلام فرمایا اور کسی کو درجوں بلند فرمایا۔ مفسرین کے مطابق جسے درجوں بلند فرمایا۔ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات با برکات ہے۔

وہی لا مکاں کے مکیں ہوئے، سرِ عرش تخت نشیں ہوئے

وہ نبی ہیں جس کے ہیں یہ مکاں، وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں

رسول رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کے سراپائے نور کا مشاہدہ صحابہ کرام نے کیا اور اسی شرف نے انہیں مقام صحابیت پر بلند کیا۔ نبی کے سراپے کی جو تصویر انہوں نے پیش کی ہے، وہ بے مثل و بے مثال ہے۔ بارگاہ رسالت مآب کے خادم خاص حضرت انس کی بیان کردہ روایت صحیح البخاری ومسلم میں یوں ہے:

’’آنحضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم انتہائی خوبرو۔ خوش وضع اور خوش رنگ تھے۔ پسینہ کی بوندیں موتیوں جیسی آبدار تھیں۔ میں نے کبھی کوئی ریشمی کپڑا آپ کی ہتھیلی مبارک سے زیادہ نرم نہ پایا اور کسی قسم کا مشک و عنبر آپ کے پسینے سے زیادہ دل پذیر خوشبو والا میں نے کبھی نہ سونگھا۔

عنبر زمین، عبیر ہوا، مشک تر غبار

ادنیٰ سی یہ شناخت تری رہ گذر کی ہے

اسی طرح ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت موجود ہے کہ میں نے حسن و رعنائی کے ہزارہا جلوے دیکھے ہیں، پر رسول گرامی وقار صلی اللہ علیہ و سلم کے زلف ورخسار کی جلوہ سامانی کسی دوسرے مقام پر نظر نہ آئی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا۔ گویا رخ انور پر آفتاب چمک رہا ہو۔

چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے

مرا دل بھی چمکا دے چمکانے والے

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے تن نورانی اور چہرۂ مبارک کی جلوہ سامانی کے تذکرے متعدد احادیث میں ملتے ہیں۔ دیکھنے والوں نے بار بار گواہی دی کہ ایسا حسین نہ عالم نے دیکھا اور نہ خالق نے دوسرا بنایا۔ اس حسن بے نقص کا دیدار ایک مرتبہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے پونم کی رات میں کیا اور بے خود ہو کر دیکھتے رہے۔ اس وقت چودہویں رات کا چاند اپنے جوبن پر تھا۔ ہر طرف چاندنی کی برسات ہو رہی تھی۔ پیڑوں کی پتیاں اور ریت کے ذرات سفید روشنی میں نہائے ہوئے تھے۔ حیرت کی لہروں میں ڈوبتے، نکلتے ہوئے مد ہوشی کے عالم میں حسن جہاں آراء کو دیکھتے رہے۔ کبھی چاند پر نظر ڈالتے، تو کبھی چہرۂ رسول کا نظارہ کرتے، آخر کار دل نے فیصلہ کیا کہ آپ کے انوار رخ کے سامنے چاند کی چمک بھی شرمندہ ہے۔ (دارمی)

ضو سے اس خورشید کے اختر مرا تابندہ ہے

چاندنی جس کے غبارِ راہ سے شرمندہ ہے

رسول محترم صلی اللہ علیہ و سلم کی مقدس شخصیت میں ایسی جذب و کشش تھی کہ جو ایک بار آپ سے وابستہ ہو جاتا۔ کبھی جدا ہونا پسند نہ کرتا تھا۔ وہ حضرات ابو بکر و عمر ہوں یا عثمان و علی۔ وہ صہیب و بلال ہوں یا زید واسامہ۔ وہ ابو ہریرہ ہوں یا حسان بن ثابت۔ وہ مہاجرین مکہ ہوں یا انصار مدینہ، سبھی آپ کے جمال جہاں آراء کے متوالے تھے۔ مشہور صحابی رسول حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی آپ کے دربار سے وابستگی کا یہ عالم تھا کہ ایک لمحے کے لئے بھی آپ سے دوری پسند نہ کرتے تھے، ہر وقت ادب و احترام کے ساتھ ہمہ تن گوش ہو کر بیٹھتے اور آپ کے روئے تاباں و جمال جاناں کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہتے۔ ایک بار عقیدت سے سرشار ہو کر عرض کرنے لگے یا رسول اللہ آپ کا دیدار پر انوار روح کے لئے سرمایۂ حیات ہے اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ بارگاہ رسالت میں حاضر باشوں کا یہ طریقہ تھا کہ بالکل خاموشی کے ساتھ بغیر جسم کو جنبش دئیے بیٹھے رہتے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں اور جنبش سے اڑ جائیں گے۔ عقیدت و محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ سے منسوب چیزوں کا بھی احترام کیا جاتا۔ وضو فرماتے، تو پانی کے قطرے زمین پر گرنے سے پہلے ہی صحابہ کرام اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیتے، کلی کرتے، تو قطرۂ آب نیچے گرنے سے قبل صحابہ بطور تبرک اچک لیتے اور اپنے سروں اور چہروں پر مل لیتے تھے۔ حج کے موقع پر سر مبارک کے بال منڈوایا۔ تو صحابہ نے ان مقدس بالوں کو اپنے درمیان تقسیم کر لیا۔ جو آج تک مختلف گھرانوں میں بطور تبرک چلے آ رہے ہیں۔ جس بات نے ایک دنیا کو آپ کا والہ و شیدا بنا یا۔ وہ آپ کے ظاہری حسن و باطنی جمال کے ساتھ ساتھ اخلاق و کردار کی بلندی تھی۔ سچ کہا ہے کہنے والے نے کہ:

وہ کمالِ حسنِ حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں

یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں

آپ کے حسن کی محبوبیت کو دوسرے الفاظ میں یوں بیان کر سکتے ہیں:

حسینوں میں حسیں ایسے کہ محبوب خدا ٹھہرے

رسولوں میں رسول ایسے کہ ختم الانبیاء ٹھہرے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اکسیر شفا کہیے ہاں دافع غم کہیے

نعتِ شہِ طیبہ کو تریاقِ الم کہئے

نعتِ شہِ والا سے رشتہ نہ کبھی ٹوٹے

جب تک تنِ خاکی میں شبنمؔ رہے دم کہئے

شبنم کمالی

 

 

 

 

نگاہِ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر

 

ازل کے روز سے جاری ہے افسانہ محمد کا

رہے گا تا ابد اعزاز شاہانہ محمد کا

’’نعت۔ کے لغوی معنی ہیں تعریف و توصیف کے، مگر شاعری کی اصطلاح میں نعت اس منظوم کلام کو کہتے ہیں، جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف و توصیف بیان کی گئی ہو۔ ظاہر ہے کہ پہلا نعت خوان نبی خود اللہ تبارک و تعالیٰ ہے، جس نے قرآن کریم اور دیگر آسمانی صحیفوں میں نبی کی مدح خوانی فرمائی۔ گویا جب کائنات کا وجود نہ تھا۔ چرند و پرند کی تخلیق نہیں ہوئی تھی۔ زمین کا فرش نہیں بچھا تھا اور آسمان کے شامیانے نہیں لگے تھے، جنت و دوزخ۔ حور و غلماں، لوح و قلم اور عرش و کرسی۔ کسی کا وجود نہ تھا۔ تب بھی نعت بنی موجود تھی۔ کیونکہ نعت خواں کا وجود تھا۔

نگاہ عشق ومستی میں وہی اول۔ وہی آخر

وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں وہی طہ

دنیا میں آنے والے تمام انبیاء۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد کی خوشخبری لے کر آئے۔ انہوں نے آپ کی تعریف و توصیف فرمائی اور دل میں آپ کی تقلید کی تمنا لے کر دنیا سے رخصت ہوئے، گویا اللہ نے انسانوں میں پہلا اعزاز نعت خوانی اپنے برگزیدہ نبیوں کو عطا فرمایا۔

ثنائے سرکار ہے وظیفہ۔ قبول سرکار ہے تمنا

نہ شاعری کی ہوس، نہ پروا روی تھی کیا کیسے قافیے تھے

عرب میں نعت خوانی کا رواج

بعض روایتوں کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دادا جان جناب عبد المطلب آپ سے بے حد پیار کرتے تھے اور آپ کو کعبے کے سایے میں بٹھا کر آپ کی تعریف و توصیف بیان کیا کرتے تھے۔ دعائیں کرتے تھے اور بارش ہوتی تھی۔ اسی طرح آپ کے چچا جان حضرت عباس بھی آپ کی تعریف میں اشعار کہا کرتے تھے، گویا یہ عرب میں منظوم نعت گوئی کی ابتدا تھی۔ مگر نعت خوان رسول کے طور پر شہرت حضرت حسان بن ثابت کو ملی۔ جن کے لئے نبی پاکﷺ نے منبر بنوائے اور اپنی چادر عنایت فرمائی۔ سیرت و تاریخ کی روایتوں کے مطابق جب دشمنان اسلام کی ہرزہ سرائیاں بڑھتی جا رہی تھیں اور مخالفین۔ شان نبوت میں اشعار کے ذریعے گستاخیاں کر رہے تھے، تو رسول رحمت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم لوگوں نے میری تلوار کے ذریعے مدد کی ہے۔ کوئی ایسا ہے، جو زبان سے میری مدد کرے۔ اس پر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ اس خدمت کے لئے غلام حاضر ہے، اور پھر اس شان کے ساتھ انہوں نے نعت گوئی کا فریضہ ادا کیا کہ شاعر دربار نبوی کا اعزاز حاصل کر لیا۔ کہتے ہیں۔

ما ان مدحت محمداً بمقالتی

لکن مدحت مقالتی بحمد

یعنی میں نے اپنے کلام سے محمد صلی اللہ صلی علیہ و سلم کی تعریف نہیں کی۔ بلکہ ان کے ذکر سے اپنے کلام کو قابل تعریف بنایا۔ عربی زبان میں صحابہ ’تابعین اور بعد کے شعراء نے بہت سی نعتیں کہیں اور قصیدے لکھے، جنہیں عالمی شہرت حاصل ہوئی۔ ایسے ہی منظوم کلام میں ایک قصیدہ بردہ بھی ہے۔ جسے خیر و برکت کے لئے پڑھنے کا رواج رہا ہے۔ حضرت امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے منظوم کردہ اس کلام کو صوفیہ کے حلقوں میں خاصی مقبولیت رہی۔ حالانکہ صحابہ کرام میں جن لوگوں کی تحریر کردہ نعتیں دستیاب ہیں، ان میں اہم ترین نام ہیں عبد اللہ بن رواحہ۔ کعب بن زہیر۔ چاروں خلفاء راشدین۔ ام المومنین عائشہ۔ سیدۃ النسا فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہم اجمعین وغیرہ۔

فارسی میں نعت گوئی

شاید دنیا کی کوئی ترقی یافتہ زبان ایسی نہ ہو۔ جس میں نعتیں موجود نہ ہوں، مگر عربی کے بعد نعت گوئی کا رواج سب سے زیادہ فارسی زبان میں ہوا۔ فارس یا ایران وہ خطہ تھا۔ جہاں عرب سے نکل کر اسلام پہلی بار غیر عرب خطے میں پہنچا۔ چونکہ فارس پہلے ہی سے بے حد ترقی یافتہ، مہذب اور فنون لطیفہ میں دلچسپی رکھنے والا خطہ تھا۔ لہٰذا یہاں نعت کی صنف میں نئے نئے تجربات ہوئے۔ بڑے بڑے اہل فن پیدا ہوئے۔ فارسی شعراء کی شہرت الگ الگ اصناف سخن میں ہے، مگر جو بات ان میں مشترک ہے، وہ یہ کہ سبھوں نے کسی نہ کسی مقام پر نعتیں ضرور کہی ہیں۔ سعدیؔ۔ حافظؔ۔ خیامؔ۔ رومیؔ، جامیؔ اور ہندوستان کے فارسی گو شعراء میں خسروؔ، بیدلؔ۔ اقبال وغیرہ۔ فارسی میں نعت گوئی کی ہزار سال سے زیادہ لمبی تاریخ ہے۔ ان میں شیخ سعدی کو گلستاں، بوستاں اور کریما کے لئے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ تو حافظ کے دیوان کو خواص سے عوام تک نے سراہا۔ خیام نے رباعی کے میدان میں نام کمایا۔ تو رومی کو مثنوی معنوی اور جامی کو خاص نعت گوئی کے لئے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ سنائی۔ خاقانی۔ انوری۔ عطارؔ اور عراقی بھی بین الاقوامی شہرت کے حامل شاعر ہیں۔ ان سبھوں نے خواہ کسی صنف شاعری میں نام پیدا کیا ہو۔ مگر کسی نہ کسی مرحلے پر نعتیں ضرور کہی ہیں۔ فارسی میں نعت گوئی کا کیا معیار تھا۔ اس کا اندازہ درج ذیل شعر سے لگایا جا سکتا ہے۔

ہزار بار بشویم دہن زِمشک و گلاب

ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی ست

یعنی ہزار بار اگر مشک و گلاب سے اپنے منہ دھوؤں، تو بھی آپ کا نام نامی لینا۔ انتہائی گستاخی ہے۔

اردو میں نعت گوئی

اردو زبان کی ابتدا ہی چونکہ صوفیہ کے آستانوں سے ہوئی، لہٰذا اس کے خمیر میں عشق رسول کا عنصر شامل ہو گیا۔ اردو کے جو ابتدائی نمونے ملے ہیں، ان میں نعتیہ عناصر بھی شامل ہیں۔ اردو کے پہلے شاعر محمد قلی قطب شاہ سے لے کر اولین غزل گو صاحب دیوان شاعر ولی دکنی تک ہر جگہ نعتیں ملتی ہیں۔ میرؔ۔ نظیرؔ۔ غالبؔ۔ ذوقؔ۔ مومنؔ سبھی نے نعت کے کچھ اشعار ضرور کہے ہیں۔

زباں پہ بارِ خدایا، یہ کس کا نام آیا

کہ میرے نطق نے بوسے میری زباں کے لئے

اردو میں جن شعراء کو نعت گو کے طور پر شہرت ملی۔ ان میں سب سے پہلا نام اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی کا آتا ہے، جنہیں اردو نعتیہ شاعری میں امام کا مقام حاصل ہے۔ ان کا نعتیہ دیوان حدائق بخشش۔ ایسے اشعار سے بھرا ہوا ہے، جن کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ وہ عوامی مقبولیت کے لحاظ سے بھی سب سے بڑے نعت گو شاعر مانے جا سکتے ہیں۔ ان کا تحریر کردہ سلام آج گلی گلی پڑھا جاتا ہے اور بچے بچے کی زبان پر ہے۔ بر صغیر میں شاید ہی کوئی ایسا سیرت کا جلسہ ہو جس میں ان کی نعتیں نہ پڑھی جاتی ہوں اور ان کے سلام سے دلوں کو نہ گرمایا جاتا ہو:

مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام

شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام

ان کی انگنت مقبول ترین نعتیں ہیں جن میں سے چند کے مطلعے یوں ہیں:

چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے

میرا دل بھی چمکا دے چمکانے والے

گذرے جس راہ سے وہ سید والا ہو کر

رہ گئی ساری زمیں عنبر سارا ہو کر

وصف رخ ان کیا کیا کرتے ہیں،

شرح والشمس و ضحی کرتے ہیں

ان کی ہم مدح و ثنا کرتے ہیں، جن کو محمود کہا کرتے ہیں

اردو کے جن نعت گو شعراء کو زیادہ مقبولیت ملی۔ ان میں مولانا حسن رضا بریلوی۔ مولانا مصطفی رضا نوری بریلوی، علامہ اقبال۔ بیدم وارثی۔ آسی غازی پوری۔ بہزاد لکھنوی کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ حال کے زمانے میں جو شعراء نعتیہ مشاعروں میں یا دینی جلسوں میں شریک ہو کر اپنے کلام پیش کرتے رہے ہیں یا جن کے نعتیہ مجموعے شائع ہوتے رہے ہیں، ان کے نام ہیں، بیکل اتساہی۔ اجمل سلطانپوری۔ راہی بستوی۔ انجم کمالی۔ شبنم کمالی۔ ترنم فیضی۔ اسرائیل فیضی وغیرہ۔ اردو شاعری کا عام مزاج رہا ہے کہ شاعر کے کلیات کی ابتداء نعتیہ کلام سے ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے نوّے فیصد شعراء کسی نہ کسی موقع پر نعت ضرور کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ غیر مسلم شعراء بھی اس صنف میں طبع آزمائی کرتے رہے ہیں مگر رضا بریلوی اس میدان میں بے مثل و بے مثال ہیں، جنھوں نے اردو کے ساتھ ساتھ فارسی اور عربی میں بھی نعتیں لکھی ہیں۔

کچھ سنا دے عشق کے بولوں میں اے رضاؔ

مشتاق طبع لذت سوز جگر کی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کونین کی دولت ہیں محمد میرے

سرتاجِ رسالت ہیں محمد میرے

توحید پہ ایمان نہ لاؤں کیسے

وحدت کی شہادت ہیں محمد میرے

(ظفر کمالی)

 

 

 

 

رہبر انسانیتﷺ کی حیات طیبہ: آج کی دنیا کے لئے مشعل راہ

 

جس جگہ کئی انسان ایک ساتھ رہتے سہتے ہیں، اسے معاشرہ کہا جا سکتا ہے۔ معاشرہ میں ہر قسم کے لوگ رہتے ہیں اور اس کے لئے کچھ اصول و ضوابط کی ضرورت پڑتی ہے، جسے قانون کہا جاتا ہے۔ انسان کا پیدا کرنے والا اللہ ہے اور اسی نے انسان کواس دھرتی پر بسایا۔ اس کے لئے زندگی گذارنے کے ذرائع پیدا فرمائے۔ انسانوں کی بڑھتی آبادی نے گاؤں، محلے، شہر اور ملک کی بنیاد رکھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا انسان اور اس دنیا کے بنانے والے نے انسان کو بغیر کسی ضابطے کے چھوڑ دیا؟ کیا خالق نے اس دنیا کے لئے کچھ ضابطے نہیں بنائے؟ یقیناً ایسانہیں ہو سکتا۔ کیونکہ جب ایک چھوٹی سی مشین بنانے والا انجینئر بھی اس مشین کے کچھ ضابطے بناتا ہے اور ان ضابطوں کے بغیر مشین ٹوٹ پھوٹ کی شکار ہو جاتی ہے، تو کیسے ممکن ہے کہ دنیا کی سب سے پیچیدہ خلقت کو پیدا فرمانے والا مالک اس کے لئے کوئی ضابطہ اور قانون نہ بنائے۔ یقیناً اس نے قانونی ضابطے بنائے اور انہیں ضابطوں کو بتانے کے لئے اس دنیا میں انبیاء کرام کی تشریف آوری ہوئی۔ اس سلسلے کی ابتدائی کڑی حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور آخری کڑی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔

اللہ کا آخری پیغام

جب دنیا کی آبادی اور ضرورتیں محدود تھیں، تو اس کے مطابق اللہ کے فرمودات لے کر انبیاء کرام آتے رہے، مگر جب دنیا کی ضرورتوں کی کوئی انتہا نہ رہی، تو اللہ نے اپنے آخری نبی کو دنیا میں بھیجا۔ نبی کے ساتھ اللہ کا ہدایت نامہ بھی آیا۔ جسے قرآن کہا جاتا ہے۔ قرآن اور نبیﷺ کی سیرت میں وہ سب کچھ موجود ہے، جس کی انسان کو ضرورت ہے۔ ہر ہدایت نامہ سماج کے مخصوص طبقے اور مخصوص زمانے کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے، مگر قرآن اور سیرت نبوی کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کسی طبقے اور زمانے کے ساتھ محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا فیضان عام ہے اور یہ قیامت تک آنے والی تمام نسلوں کے لئے کافی ہے۔ اس میں کسی ترمیم و تنسیخ کی ضرورت نہیں۔ یہی سبب ہے کہ قرآن اور سیرت نبوی سے چودہ سو سال قبل۔ جس طرح لوگ فیضیاب ہوتے تھے، آج کے انسان کے لئے بھی یہ اسی طرح سرچشمہ حیات ہے۔

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا

وہ اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا

نبوی طریقے کے اثرات

نبی محترم صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ اس قدر دلکش اور پرکشش ہے کہ اس نے عرب کے جاہل معاشرے میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔ عرب کا سماج مختلف قسم کی برائیوں اور اخلاقی خرابیوں سے بھرا ہوا تھا۔ مگر اس طریقے نے مکمل طور پر اسے بدل کر رکھ دیا۔ اس وقت کئی قسم کی برائیاں لوگوں میں موجود تھیں، جن میں سے بعض یہ ہیں، شرک، جنگ و جدال۔ تکبر۔ شراب نوشی۔ زنا کاری، چغل خوری۔ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا۔ سود خوری وغیرہ وغیرہ۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے جب عرب معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ تو بہت تیزی کے ساتھ اس پسماندہ ترین قوم کے اندر تبدیلیاں آنے لگیں۔ انہوں نے برائیوں سے کنارہ کشی اختیار کی اور تمام اخلاقی خرابیوں سے پاک ہو کر دنیا کی پاکیزہ ترین قوم بن گئے۔

خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے

کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کر دیا

عہد حاضر میں قرآن وسیرت کی معنویت

آج انسان اکیسویں صدی میں قدم رکھ چکا ہے۔ وہ کائنات کو تسخیر کر چکا ہے۔ چاند پر قدم رکھ چکا ہے اور مریخ پر کمندیں ڈال رہا ہے۔ علم و فن میں وہ اعلیٰ مقام پر فائز ہے اور کائنات کی ہر شے کی حقیقت اس کی نگاہوں کے سامنے ظاہر ہو چکی ہے، مگر باوجود اس کے وہ اخلاقی طور پر آج بھی ذلالت کی گہری کھائی میں نظر آ رہا ہے۔ وہ تمام برائیاں جو کل کے پسماندہ اور جاہل سماج کا حصہ تھیں، موجودہ معاشرے میں بھی کسی نہ کسی روپ میں موجود ہیں، بلکہ سچ کہا جائے، تو آج یہ زیادہ بھیانک روپ میں ہمارے سماج کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔ آج نبیﷺ کے طریقے کو اپنانے کی زیادہ ضرورت ہے۔ آج کی دنیا کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی لائی ہوئی کتاب اور سیرت زیادہ بامعنی اور با مقصد ہو گئی ہیں۔

بخاری ومسلم کی حدیث ہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’ سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو۔ لوگوں نے کہا۔ یا رسول اللہ۔ وہ کیا ہیں؟ حضورﷺ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔ جادو کرنا۔ کسی بھی جان کو جسے اللہ نے حرام کیا ناحق قتل کرنا۔ سود کھانا۔ یتیموں کا مال کھانا۔ جہاد کے دن لڑائی سے پیٹھ پھیرنا اور مومن غافل عورت پر زنا کی تہمت لگانا۔

اس حدیث میں آپ نے جو باتیں کہی ہیں وہ مختلف حدیثوں میں کہی گئی ہیں اور ہم غور کریں، تو ان میں سے بیشتر برائیاں ہمارے سماج میں انتہائی بھیانک روپ میں موجود ہیں۔ آپ نے شرک یعنی ایک اللہ کے علاوہ کسی غیر کی پوجا سے منع فرمایا۔ شرک کے کچھ فطری نقصانات ہیں، جن میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ انسان کو بے حد کمزور بنا دیتا ہے۔ انسان جسے خالق نے تمام مخلوقات میں سب سے افضل اور اشرف بنایا ہے، جب دوسری مخلوقات کے سامنے اپنے سرنیاز کو خم کرنے لگتا ہے، تو وہ اعتقادی طور پر کمزور ہونے کے سبب اشرف سے ارزل بن جاتا ہے۔ توحید انسان کو ساری دنیا سے بے نیاز کر کے ایک خالق کا نیاز مند بنا دیتا ہے اور وہ ساری دنیا سے بے خوف ہو کر زیادہ ہمت و حوصلہ کا مالک ہو جاتا ہے۔

اخلاقی خرابیوں سے اجتناب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اوپر کی حدیث میں ناحق قتل سے منع فرمایا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ سماج میں کس قدر خونریزی کا ماحول ہے اور انسان خود انسان کے خون کا کس طرح پیاسا ہو رہا ہے۔ ہر ملک میں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو ہے، جو ریکارڈ جمع رکھتا ہے کہ ہر سال کتنے انسانوں کو ناحق قتل کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں جو انسان سرحدوں پر مارے جاتے ہیں اور مختلف ملکوں کے حملوں میں مارے جاتے ہیں، وہ الگ ہیں۔ انہوں نے جس دنیا کو امن و امان کی جگہ بنایا تھا۔ اسے انسان نے دہشت اور خونریزی کی جگہ بنا دیا ہے۔ اب ایسے ماحول میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے درس انسانیت کو عام کرنے کی کتنی ضرورت ہے، سمجھا جا سکتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ صلی و سلم نے اس حدیث میں سود خوری کو بھی ہلاک کرنے والی برائی بتایا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ برائی آج کل اس قدر عام ہے کہ شاید ہی دنیا کا کوئی انسانا س سے محفوظ ہو۔ اس وقت ہماری معیشت کی بنیاد ہی سود پر رکھی گئی ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

’’صلہ رحمی کو منقطع کرنے والا۔ جواری۔ احسان جتانے والا اور شراب پینے والا جنت میں نہیں داخل ہو گا۔ (مشکوٰۃ )

آپ نے فرمایا:

’’ جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ پیدا کرے، اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے۔ (ترمذی)

آپ کا ارشاد ہے:

’’لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے والا اور جس کے لئے دفن کیا جائے، دوزخ میں جائیں گے۔ (ابوداؤد۔ ترمذی)

فرمان نبوی ہے:

’’ دوزخ میں وہ شخص داخل نہ ہو گا جس کے دل میں رائی برابر ایمان ہو اور جنت میں وہ داخل نہ ہو گا۔ جس کے دل میں رائی برابر تکبر ہو۔ ( مسلم)

ذرا غور تو کیجئے اوپر کی احادیث میں، جن برائیوں سے منع فرمایا گیا ہے، وہ ہمارے معاشرے میں کس پیمانے پر موجود ہیں۔ شراب۔ زنا۔ جوا جیسی بیماریوں نے نہ جانے کتنے گھروں کو برباد کیا ہے اور اس کے اثرات نے پورے سماج کو اور نسل آدم کو نقصان پہنچایا ہے۔

اچھے اخلاق

جہاں ایک طرف اللہ کے رسولﷺ نے برائیوں سے منع فرمایا۔ وہیں دوسری طرف آپ نے اچھے کاموں کی اپنے قول و عمل سے تاکید فرمائی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھوں سے نہیں مارا۔ نہ بیوی کو۔ نہ خادم کو۔ البتہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے تھے۔ اگر حضور اکرمﷺ کوکسی سے کوئی چیز پہنچتی تھی۔ جو تکلیف کا باعث ہو۔ تو آپ اس سے بدلہ نہیں لیتے تھے۔ ہاں اگر کوئی اللہ کی حرام کی ہوئی باتوں کی خلاف ورزی کرتا۔ تو اللہ کے لئے اس سے انتقام لیتے تھے (مسلم)

یہ ہے اخلاق رسول جس نے ایک دنیا کو اپنا گرویدہ بنایا اور ساری دنیا میں اخلاقی برائیوں کو مٹا کر خوبیوں کو عام کیا۔ آج پھر ضرورت اس بات کی ہے کہ نبی پاک کے طریقے کو اپنایا جائے۔ یہ وہی ضابطہ ہے، جسے خالق کائنات نے انسانوں کی بھلائی کے لئے دنیا میں بھیجا۔ یہی قانون فطرت ہے۔ یہی آسمانی دین ہے اور اسی میں انسانیت کی بھلائی پنہاں ہے۔

محمد یعنی وہ نقش نخستیں کلک فطرت کا

کیا جس نے مکمل نسخۂ اخلاق انسانی

٭٭٭

 

 

 

چراغِ طور ہے، مہر مبیں ہے، ماہ پارا ہے

رسول اللہ کی سیرت کا جو گوشہ ہے پیارا ہے

ہے ایمان و یقیں کی قلبِ مومن میں شمع روشن

کرم اے نور رب العالمیں بے شک تمہارا ہے

شبنم کمالی

 

 

 

 

تعمیرِ سیرت میں سنتِ نبوی کی اہمیت

 

خاک جب خاکسار ہوتی ہے

کس قدر با وقار ہوتی ہے

انسان کس بنیاد پر بڑا ہوتا ہے؟ دولت؟ رتبے؟ اعلیٰ تعلیمی ڈگری؟ شہرت، کے سبب یاکسی اور وجہ سے؟ عام طور پر دنیا میں انسان کی بلندی کا معیار اس کی دولت یا شہرت و اعلیٰ مرتبے کو مانا جاتا ہے مگر انسان کی بلندی کا ایک الگ ہی معیار رسول اکرمﷺ نے قائم فرمایا۔ یہ بلندی مذکورہ اسباب میں سے کسی سبب سے نہیں تھی بلکہ اخلاق و کردار، انسانی ہمدردی و غمخواری اور خوفِ خدا کی بنیاد پر تھی۔ آپ نے خود ایک سادہ زندگی بسر کی اور اپنے بجائے دنیا کے دوسرے لوگوں کے آرام کا خیال کیا اور اسی کی آپ نے دنیا کو دعوت بھی دی۔ چنانچہ آپ کے اصحاب و اولاد نے بھی اسی اخلاقی تعلیم کے مطابق اپنی زندگیاں بسرکیں۔

خوراک میں سادگی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کی اصلاح کا کام مکہ معظمہ سے شروع کیا اور مدینہ منورہ تک جاری رہا۔ مکہ میں آپ کے سامنے بہت سی رکاوٹیں آئیں، جن کا آپ سامنا کرتے رہے، مگر جب مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو یہاں کے لوگوں نے آپ کو اپنا سردار تسلیم کر لیا۔ گویا آپ ان کے حکمراں ہو گئے اور دنیا کی اس پہلی اسلامی ریاست کے سربراہ بن گئے۔ اب ملک کی دولت۔ معیشت معاشرت اور انصاف وسیکوریٹی کے تمام معاملات آپ کے ماتحت تھے۔ صحابہ کرام آپ کے ایک اشارے پر اپنی زندگیاں قربان کرنے کو تیار تھے۔ دھیرے دھیرے پورا عرب آپ کے ماتحت آ گیا تھا اور اس وقت کی عظیم شہنشاہیوں کے دروازوں پر آپ کے غلام دستک دینے لگے تھے مگر اس کے باوجود آپ ایک عام آدمی کی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ بلکہ ایک عام آدمی سے بھی کم وسائل آپ کے پاس ہوتے تھے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ کئی بار ہمارے گھر میں ایک ایک مہینہ تک چولہا نہیں جلتا کیونکہ ہمارے پاس کچھ کھانے کے لئے نہ ہوتا۔ اکثر جو کی روٹی تناول فرماتے، کبھی سالن سے اور کبھی سالن نہیں ہوتا۔ تو بغیر سالن کے ہی کھا لیا کرتے تھے۔ اسی حالت میں آپ کے اہل و عیال آپ کے ساتھ رہتے تھے۔ ام المومنین کا بیان ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے رحلت فرمایا۔ تو ہمارے گھر میں تھوڑے سے جوکے آٹے کے سوا کچھ بھی نہ تھا، لیکن یہ سب باوجود اس کے ہوتا کہ آپ کی خدمت میں کئی بار مال و دولت کے انبار آتے، مگر شام ہونے تک انہیں ضرورت مندوں میں تقسیم فرما دیتے۔ کبھی اپنے گھر کے لئے کچھ بچا کر نہیں رکھتے۔

لباس میں سادگی

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا لباس بھی بہت معمولی ہوا کرتا تھا۔ جو لباس بھی زیب تن فرماتے، وہ تواضع اور انکساری کا نمونہ ہوتا۔ کبھی قیمتی اور زیب و زینت والا لباس نہیں پہنتے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ چاہتے تھے کہ جمعہ۔ عیدین اور سفیروں کی آمد پر شاندار کپڑے پہنیں مگر آپ نے ایسا کبھی نہیں کیا۔ ایک بار راستے میں ریشمی کپڑا بک رہا تھا۔ حضرت عمر نے خرید لینے کی گذارش کی تاکہ خاص خاص مواقع پر اسے پہنیں، مگر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:

’’وہ پہنے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔

بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک پیوند لگی ہوئی چادر اور ایک موٹا تہبند نکال کر لوگوں کو دکھایا اور بتایا کہ انہیں کپڑوں میں آپ کا انتقال ہوا تھا۔ کپڑوں کی طرح آپ کا بستر بھی بہت سادہ ہوتا تھا۔ کبھی کھردری ٹاٹ۔ تو کبھی کمبل اور کبھی کھجور کی چھال بھرے ہوئے گدے پر سو رہتے تھے، مگر اس سادگی کے باوجود آپ صفائی کا خاص خیال رکھتے تھے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ صفائی آدھا ایمان ہے۔ آپ کے جسم اقدس سے مشک و عنبر کی خوشبو آتی تھی اور آپ کا پسینہ مبارک بھی قدرتی طور پر خوشبو دار ہوا کرتا تھا۔ پھٹے ہوئے کپڑے کبھی نہیں پہنتے اور اس سے منع فرمایا کرتے۔ ایسے کپڑے کو سل لیتے یا پیوند لگا کر درست کر لیتے تھے۔

انسانی زندگی میں بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ وہی انسان حساس سمجھا جاتا ہے جو ہر چھوٹی بات کا بھی خیال رکھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں کچھ ایسے ہی اصول نظر آتے ہیں کیونکہ آپ کے اخلاق و کردار میں ہر خوبی موجود تھی اور ہر خرابی سے آپ پاک تھے۔

سب سے اعلیٰ و اولیٰ ہمارا نبی

سب سے بالا و والا ہمارا نبی

مسکراتے رہئے

انسان کے چہرے کی مسکراہٹ اس کی خوش مزاجی کا پتہ دیتی ہے ور موجودہ دور میں تو مسکراہٹ کو بھی کامیابی کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔ اسی لئے کئی قسم کے کاروبار میں مسکرانے کے گر بھی سکھائے جاتے ہیں۔ ریسپشنس پر بیٹھنے والوں، مارکیٹنگ کا کام کرنے والوں اور شوبزنس سے متعلق لوگوں کو مسکراتے رہنے کی خاص تاکید ہوتی ہے، مگر مسکرانا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی فطری عادت تھی۔ جو شخص بھی آپ کے مبارک چہرے کو دیکھتا۔ اس مسکراہٹ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ حضرت عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ مسکرانے والا شخص نہیں دیکھا۔ (ترمذی)

جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں

اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام

چست اور تندرست رہئے

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سستی کاہلی کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ آپ خود چست وتندرست رہتے تھے اور کاہلی سے بچنے کی دعا فرمایا کرتے تھے۔ آپ کا ارشاد ہے کہ ’’سیدھے سادے رہو۔ میانہ روی اختیار کرو اور ہشاش باش رہو۔ ( مشکوٰۃ ) آپ میانہ رو تھے اور کسی کام میں تکلف کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک شخص کو دیکھا کہ دو بیٹوں کے سہارے گھسٹتا ہوا جا رہا ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ اسے کیا ہوا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ اس نے منت مانی ہے کہ کعبہ تک پیدل جائے گا۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ اس سے بے نیاز ہے کہ یہ بوڑھا خود کو عذاب میں مبتلا کرے اور اس بوڑھے کو حکم دیا کہ سوارہو کر اپنا سفر پورا کرو۔

تری رہ گذر کا ذرہ سرِ تاجِ کہکشاں ہے

’تری سادگی کے صدقے ترا شہر گلستاں ہے،

جسم و منہ کی صفائی

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اصول صحت کا بے حد خیال رکھتے تھے اور اسی لئے آپ اکثر مسواک کرتے تھے۔ منہ کی صفائی کئی بیماریوں کو شروع ہونے سے پہلے ہی روک دیتی ہے اور آدمی کو صحت مند رکھتی ہے۔ آپ جب بھی سوکر اٹھتے تو مسواک کرتے اور پانچوں وقت وضو سے پہلے مسواک ضرور کرتے۔ ایک بار آپ سے ملنے کے لئے کچھ لوگ آئے جن کے دانت پیلے پیلے تھے۔ آپ کی نظر پڑی تو فرمایا تمہارے دانت پیلے پیلے کیوں ہو رہے ہیں۔ مسواک کیا کرو (مسند امام احمد) اسی طرح آپ جسمانی صفائی کی بھی تاکید کیا کرتے تھے۔ ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ ہر مسلمان پر اللہ کا یہ حق ہے کہ ہر ہفتہ میں ایک دن غسل کیا کرے اور اپنے سر و بدن کو دھویا کرے (بخاری)

دوسروں سے محبت

انسان اپنے گھر والے، والدین۔ اولاد اور عزیزوں سے محبت کرتا ہے، مگر یہ محبت محدود رکھنے کی چیز نہیں بلکہ اسے عام کرنا چاہئے۔ اللہ کے رسول نے انسانوں سے محبت اور اخلاق و مروت کی تعلیم دی۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ مومن سراپا الفت و محبت ہے اور اس آدمی میں کوئی خیر و خوبی نہیں ہے جو نہ دوسروں سے محبت کرے اور نہ دوسرے ہی اس سے محبت کریں۔ (مشکوٰۃ ) ایک اور جگہ آپ نے سب کو مل جل کر رہنے کی تاکید فرمائی خواہ اس کے سبب کوئی پریشانی ہی کیوں نہ ہو۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جو مسلمان لوگوں سے مل جل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف کو برداشت کرتا ہے وہ کہیں بہتر ہے اس شخص سے جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے اور ان سے پہنچنے والی تکلیفوں پر دل برداشتہ ہوتا ہے (ترمذی)

آدمیت، جذبۂ ایثار ہونا چاہئے

آدمی کو آدمی سے پیار ہونا چاہئے

خندہ پیشانی سے گفتگو کرو

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ہر شخص کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے اور پوری توجہ سے اس کی گفتگو سنتے تھے۔ آپ کے پاس آنے والے کسی قبیلے کے سردار یا سفیر ہوں یا پھر کوئی غریب ومسکین شخص ہو، آپ سب کی طرف توجہ رکھتے اور سب کی باتوں کو دھیان سے سنتے تھے۔ صحابی رسول حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اس توجہ اور خلوص کے ساتھ مجھ سے مخاطب ہوتے اور اتنا خیال رکھتے کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ شاید میں اپنی قوم کا سب سے بہتر آدمی ہوں۔

مزاج کی نرمی انسان کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے اور اسے مقبول بناتی ہے۔ اسی طرح اس کی مسکان اس کے دل کی کیفیت کا پتہ دیتی ہے۔ سخت مزاج انسان کو لوگ پسند نہیں کرتے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں اس آدمی کا پتہ بتاؤں، جس پر جہنم کی آگ حرام ہے اور جو آگ پر حرام ہے، یہ وہ آدمی ہے جو نرم مزاج ہو۔ نرم طبیعت ہو اور نرم خو ہو۔ (ترمذی) اور ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ اپنے بھائی کو دیکھ کر مسکرا دینا بھی صدقہ ہے (ترمذی)

٭٭٭

 

 

 

 

نظر کی روشنی دل کا سرور تجھ سے ہے

مِرا خزینۂ عقل وسرور تجھ سے ہے

یہ مہر و مہ، یہ ستارے ترے ہی پرتو ہیں

فرازِ ارض پہ ہر سمت نور تجھ سے ہے

ہیرا نند سوزؔ

 

 

 

 

سنت نبویﷺ پر عمل صحت مند زندگی کی ضمانت

 

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت ایک گنوار اور بدو قوم کے اندر ہوئی۔ یہ قوم علوم و فنون اور تہذیب و تمدن سے کوسوں دور تھی۔ مگر آپ نے انہیں ایک تھوڑی سی مدت کے اندر علم و فن اور تہذیب و کلچر سے آشنا فرما دیا۔ آپ کا طریقہ ایسا تھا۔ جو نہ صرف سادہ اور تکلف سے بے نیاز تھا۔ بلکہ اپنے دامن میں بے شمار حکمتیں بھی لئے ہوئے تھا۔ عہد حاضر میں ہر شے کو ماڈرن سائنس کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر ہم سنت نبوی کو بھی اسی ڈھنگ سے دیکھیں، تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے کی اہمیت مزید واضح ہو کر سامنے آتی ہے۔ آپ کا ہر عمل۔ آپ کا ہر طریقہ عین اصول فطرت کے مطابق تھا۔ کیونکہ اسے رہتی دنیا تک انسانوں کے لئے نمونہ عمل بنایا گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایک ایک سنت میں بے شمار فائدے رکھے گئے ہیں۔ انہیں اگر انسان زندگی کے اصول سمجھ کر اپنائے، تو بہت سے طبی فائدے حاصل ہوتے ہیں اور سنت کے طور پر عمل کرے، تو اخروی جزا کا حقدار ہوتا ہے۔

کھانے کا نبوی طریقہ

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کھانا کھانے سے قبل ہاتھ ضرور دھوتے تھے اور صحابہ کرام کو بھی اس کی تاکید فرمایا کرتے تھے۔ اس تعلق سے آپ کے بہت سے اقوال ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ، جو شخص کھانے سے قبل ہاتھ دھو لیتا ہے وہ فقر و فاقے سے محفوظ رہتا ہے۔ ہاتھ صاف کر کے کھانے کی عادت کے فائدے آج جدید سائنس کی روشنی میں واضح ہو چکے ہیں۔ ہمارے ہاتھ جہاں تہاں لگتے ہیں۔ مختلف چیزوں کو چھوتے ہیں۔ اس طرح یہ جراثیم زدہ ہوتے ہیں۔ اگر بغیر ہاتھ دھوئے کھانا کھائیں تو یہ جراثیم کھانے کے ساتھ ہمارے جسم کے اندر داخل ہو جاتے ہیں اور کئی قسم کی بیماریوں میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ ایک بے احتیاطی انسانی صحت کے لئے دس پریشانیاں کھڑی کرتی ہے، لہٰذا ہاتھ دھوکر کھانا میڈیکل سائنس کی نظر میں بھی ایک صحت مند عادت ہے۔ آج کل ٹی وی چینلوں پر صابن اور محلول صابن کے اشتہارات میں بار بار اس بات کا پرچار کیا جاتا ہے کہ صابن سے اچھی طرح ہاتھ دھوئیں۔ اس طرح کہ صابن ہاتھ کے ہر حصے میں پہنچ جائے۔ اس سے جراثیم دور ہو جائیں گے اور کھانے میں شامل نہیں ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ آج میڈیکل سائنس جو بات کہہ رہی ہے، وہ سنت نبوی میں چودہ سوسال قبل کہی جا چکی ہے۔

آدمی کتنا کھائے؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔ آج کی میڈیکل سائنس نے مانا ہے کہ زیادہ کھانے سے بدہضمی ہوتی ہے، جسم کے اجزاء اپنی حدوں کے اندر نہیں رہتے، جس کے سبب جسم موٹا ہو جاتا ہے اور چربی کی وجہ سے بدن بھدا ہو جاتا ہے۔ آج کی اس تحقیق کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے طریقے کے ذریعے بہت پہلے دنیا کے سامنے پیش کر دیا تھا۔ آپ نے فرمایا ’’آدمی کے پیٹ میں تین حصے ہوتے ہیں۔ ایک تہائی کھانے کے لئے، ایک پانی کے لئے اور تیسراسانس لینے کے لئے، گویا انسان کو کھانا تین حصوں میں سے صرف ایک حصہ میں کھانا چاہئے دوسرا حصہ پانی سے بھرنا چاہئے اور تیسرا حصہ خالی رکھنا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ اس قول میں بہت سی طبی حکمتیں ہیں۔ اگر اس پر عمل کیا جائے، تو آدمی بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ بھر پیٹ کھانا بہت سے امراض کی جڑ ہے۔

کھانا ہمیشہ ایسا ہو کہ اس کی گرمی تکلیف دہ نہ ہو۔ یعنی بہت گرم کھانا جہاں منہ اور زبان کے لئے تکلیف دہ ہوتا ہے، وہیں پیٹ کے اندر کے اعضاء کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ گلے میں جلن ہو سکتی ہے اور کھانے والا اس کے ذائقے سے لطف اندوز بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ نقصانات موجودہ ترقی یافتہ میڈیکل سائنس نے ثابت کر دئیے ہیں، مگر اس کی ممانعت بہت پہلے سنت نبوی میں کر دی گئی تھی اور پابند سنت لوگوں کی عادت میں یہ طریقہ شامل ہو چکا تھا۔ حدیث کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم گرم کھانا پسند نہیں کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ گرم کھانے میں برکت نہیں ہوتی۔ کھانا ٹھنڈا کر کے کھایا کرو۔ اللہ تعالیٰ آگ کی گرمی میں کھانا پسند نہیں کرتا۔

جراثیم مختلف قسم کے ہوتے ہیں اور مختلف جگہوں پر پائے جاتے ہیں۔ کچھ جراثیم ہمارے جسم کے اندر بھی ہوتے ہیں، جو ہمارے تھوک۔ خون گوشت اور دیگر حصوں میں پائے جاتے ہیں۔ جسم کے اندرونی حصے کے جراثیم پر ہماری زندگی کا انحصار ہوتا ہے۔ ہماری سانسوں اور پھونکوں کے ذریعے یہ باہر بھی آتے ہیں اور صحت بخش جراثیم سانسوں کے ذریعے جسم کے اندر بھی داخل ہوتے ہیں، مگر یہ جراثیم اگر پھونک یا سانسوں کے ذریعے باہر آئیں اور کھانے پینے کی چیزوں میں شامل ہو کر دوبارہ جسم میں داخل ہوں، تو یہ صحت کے لئے نقصاندہ ہوتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ماہرینِ صحت کھانے پینے کی چیزوں میں پھونک مارنے سے منع کرتے ہیں۔ کئی لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ بچوں کو کھلاتے پلاتے وقت گرم اشیاء کو پھونک مار کر ٹھنڈا کرتے ہیں، پھر کھلاتے ہیں، حالانکہ یہ طریقہ صحت کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پھونکنے والے کے اندر کے جراثیم کچھ بیماریاں لے کر باہر آئیں اور کھانے میں شامل ہو کر کھانے والے کے اندر بیماریاں پہنچا دیں۔ اس غیر صحت بخش عادت سے رسول محترم صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا۔ حدیث میں ہے کہ آپ کھانے پینے کی چیزوں میں پھونک نہیں مارتے تھے۔ اسی طرح اگر دودھ گرم ہوتا تو اس میں پھونک نہیں مارتے اور برتن میں منہ لگائے لگائے سانس بھی نہیں لیتے تھے۔ منہ کو برتن سے جدا کر کے سانس لیتے اور جب کوئی چیز پیتے، تو تین گھونٹ اور تین سا نسوں میں پیتے۔ اگر پینے کی چیز تھوڑی ہوتی۔ تو ایک ہی سانس میں پیتے۔ جب کھانے کا برتن منہ کے قریب لاتے، توبسم اللہ پڑھتے اور جب کھا پی لیتے، تو برتن ہٹا کر خدا کا شکر ادا کرتے۔

دودھ اور شہد کے فوائد

دودھ اور شہد ایسی غذائی چیزیں ہیں، جنہیں ملٹی وٹامن کہا جا سکتا ہے، یعنی ان میں ہر قسم کے حیا تین کے اجزاء پائے جاتے ہیں۔ یہ غذائیت سے بھرپور ہیں اور ان کی اہمیت ہر دور میں مسلم رہی ہے۔ دودھ کا استعمال ہر زمانے میں کھانا اور پانی دونوں کی جگہ پر ہوتا ہے۔ یہ انسان کی غذا میں اس دورسے شامل رہا ہے، جب اس نے متمدن زندگی کی ابتدا بھی نہ کی تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو غذائی چیزوں میں دودھ اور شہد بے حد پسند تھے۔ اکثر کھانے کے اخیر میں دودھ پیا کرتے اور فرماتے، یہ میری آخری چیز ہے، یعنی آپ کے کھانے کا آخری جز دودھ ہوا کرتا تھا۔ کبھی آپ خالص دودھ نوش فرماتے اور کبھی اس میں ٹھنڈا پانی ملا کر پیتے۔ جب آپ کی خدمت میں دودھ پیش کیا جاتا۔ تو فرماتے یہ بڑی بابرکت چیز ہے۔ بسا اوقات آپ دودھ اور کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے، یہ دونوں پاکیزہ اور عمدہ ترین چیزیں ہیں۔ کبھی مکھن سے بھی آپ کھجوریں تناول فرماتے۔ واضح ہو کہ دودھ اور شہد کی طرح کھجوریں بھی وٹامن سے پُر ہوتی ہیں۔

لوکی۔ گوشت کے فوائد

گوشت کو کھانوں کا راجہ کہا جاتا ہے، جن علاقوں میں کاشت کاری کے لائق زمینیں نہیں ہوتیں، وہاں انسانی زندگی کا انحصار اسی پر ہوتا ہے۔ اسی طرح برفیلے علاقوں میں رہنے والے غذا کے طور پر گوشت کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق گوشت پروٹین سے بھرا ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ یہ دنیا کی بیشتر قوموں کی خوراک کا حصہ ہے، مگر کسی بھی چیز کی معمول سے زیادتی نقصاندہ ہوتی ہے۔ پھر گوشت کا زیادہ استعمال اور اس کے بعد جسمانی محنت میں کمی یا اس میں مسالوں کی بہت زیادہ شمولیت نقصان کا سبب بنتی ہے۔ حالانکہ گوشت اپنے آپ میں ایک صحت بخش غذا ہے اور جب انسان جنگلوں میں ایک فطری زندگی گذارتا تھا۔ تب بھی اس کی زندگی کا انحصار جنگلی پھلوں اور شکار کے گوشت پر ہوتا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم غذا میں گوشت کو پسند فرماتے تھے اور ارشاد فرمایا کہ اس سے سننے کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح آپ کو گوشت کے ساتھ کدو کا شامل کرنا بھی پسند تھا۔ احادیث کے مطابق آپ کو کئی بار گوشت اور کدو کے سالن میں کدو ڈھونڈتے ہوئے دیکھا گیا۔ آپ نے ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ ہانڈی پکاتے ہوئے اس میں کدو زیادہ ڈال دیا کرو۔ کیونکہ کدو دل کو تقویت دیتا ہے۔ صحابی رسول حضرت جابر بن طارق کا بیان ہے کہ ایک روز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پہنچا۔ تو دیکھا کہ کدو کاٹ رہے ہیں۔ میں نے پوچھا۔ یہ کیا ہے، تو فرمایا کہ ہم اس کے ذریعے اپنے سالن اور کھانے میں اضافہ کرتے ہیں۔ اسی طرح حضرت انس بن مالک کا بیان ہے کہ ایک درزی نے حضور کو کھانے پر بلایا۔ ہم بھی آپ کے ساتھ تھے۔ اس نے جو کی روٹی۔ کدو کا شوربہ اور خشک گوشت کے ٹکڑے آپ کے سامنے رکھ دئیے۔ میں نے دیکھا کہ آپ کدو کے ٹکڑے تلاش کر رہے ہیں۔

اصل میں گوشت کی فطرت گرم ہے اور کدو کی سرد۔ کدو کی سرد طبیعت گوشت کی گرمی کو کم کر دیتی ہے اور کھانے میں اعتدال آ جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ آپ دونوں کا مشترکہ سالن پسند فرماتے تھے۔

یہاں اوپر صرف چند مثالیں دی گئیں اور بتایا گیا کہ سنت نبوی عین سائنس کے مطابق ہے۔ اگر غور کیا جائے، تو نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے میں بے پناہ حکمتیں ہیں۔ غسل۔ وضو۔ طہارت۔ مسواک اور زندگی کے دیگر معمولات اب جدید سائنس کی نظر میں بھی انتہائی صحت بخش ہیں اور آپ کی دیگر عادتیں بھی اپنے اندر حکمت کے بے پناہ خزانے رکھتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں اپنی روز مرہ زندگی کے معمولات میں شامل کیا جائے۔

٭٭٭

 

 

 

 

معجزاتِ قرآن کریم جنھوں نے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا

 

قرآن کریم ایک کتابِ ہدایت ہے جس میں انسانوں کی رہنمائی کا پیغام ہے۔ یہ کوئی سائنسی کتاب نہیں مگر ضمنی طور پر سائنسی بیانات بھی اس میں ہیں اور کچھ ایسے سائنسی عجائبات اس میں بیان کئے گئے ہیں جنھیں جان کر آج کے سائنس داں بھی محو حیرت ہیں۔ آج تحقیق کے جدید طریقوں نے جن باتوں کو ثابت کیا ہے اور سائنسدانوں کی ایک طویل جد و جہد نے جن حقائق کا انکشاف کیا ہے، ان کا بیان قرآن کریم نے تقریباً چودہ سو سال قبل کر دیا تھا۔ تب ریسرچ کے جدید ذرائع نہیں تھے، اور سائنس نے آج کی طرح ترقی بھی نہیں کی تھی کہ انسانی ذہن ان باتوں کو سمجھ پاتا۔ عرب کا وہ خطہ جو علم و آگہی کی روشنی سے قطعی نابلد تھا اس میں کسی ایسے شخص کی زبان سے ان باتوں کا ادا ہونا اور بھی حیرت میں ڈال دینے والی بات تھی، جس نے کبھی کسی اسکول کالج کا دروازہ نہیں دیکھا، کبھی کسی مدرسے میں نہیں گیا اور کسی استاد سے تعلیم نہیں پائی۔ یہ باتیں قرآن کریم کے خدائی کتاب ہونے کی دلیل ہیں اور اس کی سچائی کا ناقابل تردید ثبوت بھی۔

سمندر میں آبی دیوار

موجودہ دور میں ہر موضوع پر ریسرچ کا کام ہو رہا ہے اور محققین نے کسی بھی میدان کو اس سے الگ نہیں رکھا ہے۔ پہاڑوں کی بلند و بالا چوٹیاں ہوں یا سمندری کی گہری تہیں ہر جگہ آج انسان کے قدم پہنچ چکے ہیں اور حقائق کی کھوج بین جاری ہے۔ ان معاملات کو اب کیمرے کی آنکھ سے ایک عام آدمی بھی اپنے گھر میں بیٹھے دیکھ سکتا ہے۔ ڈسکوری، نیشنل جیوگرافک، انیمل پلانیٹ اور ہسٹری جیسے ٹی وی چینل آج ہر مقام کی تصویریں آپ کے بیڈ روم تک پہنچا رہے ہیں۔ ان میں سمندر کی تہوں میں آباد دنیا کی تصویریں بھی شامل ہیں۔ یہاں ہم طرح طرح کے جاندار دیکھ سکتے ہیں اور ان کی زندگی کے معمولات سے واقفیت حاصل کر سکتے ہیں۔ حالانکہ آج جن مقامات کو ہم ٹی وی چینلوں پر دیکھتے ہیں اور ان کی تفصیلات سے آگاہی حاصل کرتے ہیں، ان کا بیان قرآن کریم نے صدیوں قبل کر دیا تھا۔ مثال کے طور پر اسپین میں جبل الطارق (جبرالٹر) کے دوسمتوں میں واقع سمندر کی تہوں میں ایک انوکھی کائنات آباد ہے۔ یہاں خوبصورت پھول اور پتیاں ہیں، آبی جنگل اور درخت ہیں، انوکھے جاندار ہیں۔ اس سمندری دنیا کی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ یہاں جس مقام پر دو سمندر ملتے ہیں وہاں پانی ایک دوسرے سے نہیں ملتا، بلکہ دور دور تک اس کی لہریں ایک دوسرے سے الگ رہتی ہیں۔ پانی کا مزاج تو یہی ہوتا ہے کہ وہ مختلف قسم کا ہونے کے باوجود ایک دوسرے میں مل جاتا ہے مگر یہ عجیب و غریب حقیقت ہے کہ یہاں دو سمندر ملتے ہیں اور ان کا پانی ایک دوسرے سے الگ رہتا ہے۔ دونوں کے پانی کی خصوصیات بھی الگ الگ ہیں اور سمندر کی تہہ میں پائے جانے والے نباتات، جمادات اور حیوانات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اس راز کا انکشاف سب سے پہلے جس سائنسدان نے کیا، اس کا نام جیک وی کوسٹو تھا، جو فرانس کا رہنے والا تھا۔ اس نے ثابت کیا کہ بحیرۂ روم (Mediterranean Sea) اور بحیرۂ اوقیانوس (Atlantic Sea) کیمیاوی اور حیاتیاتی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ حالانکہ دونوں سمندر ایک دوسرے میں خلط ملط نہیں ہوتے ہیں۔ یہ راز دنیا کے لئے حیرت انگیز تھا مگر دنیا کو حیرت میں ڈال دینے والے کوسٹو کو تب حیرت ہوئی جب اس کے سامنے قرآن کریم کے سورہ رحمٰن کی کچھ آیات پیش کی گئیں۔ یہ تھیں:

’’دو سمندروں کو اس نے چھوڑ رکھا ہے کہ مل جائیں، پھر بھی ان کے درمیان پردہ حائل ہے، جس سے وہ آگے نہیں بڑھتے۔

(آیت ۲۰۔ ۱۹)

آیاتِ قرآنیہ کو دیکھ کر اس کی حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ اس نے قرآن کی عظمت کے اعتراف میں اپنا سر ہی نہیں دل بھی جھکا دیا اور کلمہ پڑھ کر حلقہ بگوشِ اسلام ہو گیا۔

آپ قرآن کریم کی مذکورہ آیات کو ایک بار پھر پڑھیں اور دونوں سمندروں کی اب تک کی تحقیقات کا جائزہ لیں تو آپ کو احساس ہو گا کہ قرآن کریم نے کس حقیقت کا بیان کیا ہے اور اس کی کیا اہمیت ہے؟ یقیناً یہ قرآن کے معجزات میں سے ایک جیتا جاگتا معجزہ ہے۔

 ’’بگ بینگ‘‘ کا نظریہ

کائنات کی تخلیق کیسے ہوئی؟ اس سلسلے میں ابھی تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ ۱۹۸۰ء میں پہلی بار کچھ سائنسدانون نے ’’بگ بینگ‘‘ کا نظریہ پیش کیا۔ اس کی بنیاد آئن اسٹائن کا وہ نظریہ تھا جس کے تحت اس نے کہا تھا کہ کائنات کو لازمی طور پر بڑھنا اور وسعت اختیار کرنا ہے۔ اس نظریے کی کچھ سائنس دانوں کی طرف سے مخالفت بھی ہوئی مگر پھر دنیا نے اسی لائن پر تحقیق کا سلسلہ شروع کر دیا۔ آج جو ’’گاڈ پارٹیکل۔ پر ریسرچ ہو رہا ہے وہ بھی اسی نظریے کی دین ہے۔ اس نظریے کی بھی بنیاد کتاب اللہ میں موجود ہے۔ ذرا ان آیات کا مطالعہ کیجئے:

’’کہو، میں پناہ مانگتا ہوں فلق کے رب کی۔ ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے۔ (سورہ فلق، آیات۲۔ ۱)

’’فلق۔ کا مطلب ہے پھٹنا۔ پھٹنا کئی طرح کا ہوتا ہے۔ جیسے صبح پو پھٹتی ہے اور سورج نمودار ہوتا ہے۔ جیسے بیج پھٹتا ہے اور پودا نمودار ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس کا مطلب ایک شدید دھماکے کے ساتھ دنیا کا وجود میں آنا نہیں ہو سکتا؟ اگر یہ مفہوم مراد لیا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ ایک دھماکے کے ساتھ دنیا کا وجود میں آنے کا نظریہ ثابت ہوتا ہے جس کی تصدیق آج کی سائنس بھی کرتی ہے۔ یہ توضیح زیادہ سائنٹفک توضیح ہو گی۔ یہی ’’بگ بینگ‘‘ کا نظریہ ہے۔ یہ بات بھی اب ثابت ہو گئی ہے کہ دنیا وسعت پذیر ہے اور اس میں لگاتار پھیلاؤ ہو رہا ہے۔ یہ کسی غبارے کی طرح پھیل رہی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق شدت کے ساتھ ہونے والا دھماکہ ہی کائنات کی بنیاد تھا اور اسی سے زمین و کہکشاں وجود میں آئے۔ اس کا پہلا مرحلہ ایک سکنڈ کے ایک ہزارویں حصہ کے اندر ہی پورا ہو چکا تھا۔ اسے قرآن کی زبان میں سمجھیں تو ’’کُن فیکون۔ کہا گیا ہے یعنی اللہ نے کہا کہ ’’ہو جا، تو ہو گیا۔ اصل میں ان دو آیات کے اندر اللہ کی صفت تخلیق اور ربوبیت دونوں کی حکمت بیان کر دی گئی ہے۔ اس کی مزید تشریح ایک دوسری آیت میں ہوتی جو کچھ اس طرح ہے:

’’کیا وہ لوگ جنھوں نے (نبی کی بات کا) انکار کیا، غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انھیں جدا کیا اور پانی کے ذریعے ہر زندہ چیز پیدا کی، پھر بھی وہ ایمان نہیں لائیں گے؟ (الانبیاء، آیت۳۱۔ ۳۰)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تخلیق کی وہ حکمت بیان کی ہے جسے حل کرنے کے لئے ساری دنیا کے سائنسداں مصروف عمل ہیں۔ اب تک کی تحقیق یہ ثابت کر چکی ہے کہ کائنات کا وجود ایک زبردست دھماکے کے نتیجے میں عمل میں آیا۔ اسی سبب یہ زمین اور باقی ستارے و سیارے ایک دوسرے سے الگ ہوئے۔ اسی لئے اوپر کی آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ زمین و آسمان باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انھیں جدا کیا۔

زندگی اور موت کی سائنس

زندگی اور موت دونوں حقیقت ہیں۔ اس کائنات کا نظام ہی اسی پر منحصر ہے۔ جن چیزوں کو زندگی ملتی ہے، انھیں موت بھی آئے گی۔ اس دنیا میں سائنس نے بہت سی چیزیں ایجاد کر لی ہیں مگر آج تک زندگی دینا اس کے بس میں نہیں ہے اور موت بھی اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ زندگی اور موت کی سائنس پر بھی تحقیق کا سلسلہ جاری ہے مگر قرآن کریم نے اسے خاص اللہ کی قدرت کاملہ کا حصہ قرار دیا ہے اور اس کے ذریعے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جس طرح اس نے عدم سے ہمیں وجود بخشا ہے اسی طرح وہ وجود کو ختم کرنے کے بعد بھی دوبارہ وجود میں لائے گا۔ ذرا قرآنی آیات کے مفہوم پر غور کریں:

’’وہ زندہ کو مردے سے نکالتا ہے، اور مردے کو زندہ میں سے نکال لاتا ہے، اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے۔ اسی طرح تم لوگ بھی (حالتِ موت سے) نکال لئے جاؤ گے۔ (سورہ روم، آیت ۱۹)

اس آیت کی تشریح سائنس اور علم حیاتیات کے رو سے بہت طویل ہو سکتی ہے۔ اس دنیا میں ایسے جانداروں کی کمی نہیں جو بچہ جننے یا انڈہ دینے کی حالت میں ہی مر جاتے ہیں۔ مچھلیوں کی کئی اقسام ایسی ہوتی ہیں کہ وہ انڈہ دینے کے لئے ہزاروں کیلو میٹر کا سفر کرتی ہیں اور اپنے مقام پر پہنچ کر مر جاتی ہیں مگر ان کی موت کے ساتھ ہی ہزاروں زندگیوں کی شروعات ہوتی ہے۔ مکڑیوں اور تتلیوں میں بھی بعض ایسی ہوتی ہیں جو انڈہ دینے سے قبل ہی مر جاتی ہیں اور ان کی موت کے بعد ان کے پیٹ سے انڈہ باہر آتا ہے اور پھر اس میں سے بچہ نکلتا ہے۔ یونہی کچھ کیڑے ایسے ہوتے ہیں جن میں ہمبستری کے دوران ہی مادہ اپنے نر کو مار ڈالتی ہے اور پھر اس کے مادہ منویہ سے استفادہ کرتی ہے اور نئی نسل کی بنیاد ڈالتی ہے۔ آج ہم جانوروں کے ان حقائق کو ٹی وی چینلوں کے ذریعے اپنے گھر میں بیٹھے دیکھتے ہیں مگر قرآن نے اس حقیقت کا بیان صدیوں قبل کر دیا تھا جب سائنس اس مقام تک نہیں پہنچی تھی جہاں وہ آج ہے۔ یونہی بنجر زمین پر پانی برسانا اور اسے سر سبز کرنا اسی کا کام ہے۔ بعض پیڑ پودے ایسے ہوتے ہیں جو شدید گرمی اور دھوپ کے سبب سوکھ جاتے ہیں اور بے جان ہو جاتے ہیں مگر جیسے ہی انھیں مناسب ماحول ملتا ہے ان کے اندر دوبارہ زندگی کی رمق پیدا ہو جاتی ہے اور ہرے بھرے ہو جاتے ہیں۔ افریقہ کے صحرا میں ایک ایسا پودا پایا جاتا ہے جو گرمی کی شدت نہیں جھیل پاتا اور سوکھ جاتا ہے مگر اپنی موت کے سو سال بعد بھی اگر اسے پانی میسر آ جائے تو وہ دوبارہ سرسبز و شاداب ہو اٹھتا ہے۔

یہاں صرف چند مثالیں پیش کی گئیں جن سے احساس ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی آیات میں جو سائنسی حقائق بیان کئے گئے ہیں وہ راز ہائے سربستہ کا انکشاف ہیں۔ جن علوم تک انسان آج پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے اس کا بیان پہلے سے قرآن کریم میں موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب آج کی جدید سائنس کے لئے بھی عجائبات ہیں۔ ان کی موجودگی میں بھی اگر کسی کا دل قرآن کی حقانیت کو تسلیم نہ کرے تو یہ بھی کسی عجوبے سے کم نہیں۔ یہی سبب ہے کہ آج کی دنیا اگر قرآن کا مطالعہ کر رہی ہے تو وہ اس سے متاثر بھی ہو رہی ہے۔ آج سب سے تیزی سے اسلام مغرب میں پھیل رہا ہے اور وہ لوگ قبول کر رہے ہیں جو دنیاوی و سائنسی علوم سے بہرہ ور ہیں۔ ایساس لئے ہو رہا ہے کہ وہ قرآن کے عجائبات سے متاثر ہو رہے ہیں اور جو جتنا بڑا علم والا ہو گا اس کے لئے قرآن کا معانی کو سمجھنا اسی قدر آسان ہو گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

قرآن کریم سائنس کے لئے چیلنج نہیں، مشعل راہ

 

انسان کے اپنے بنائے ہوئے دھرم اور اللہ کے اتارے ہوئے مذہب میں یہ فرق ہے کہ اول سائنس اور عقل کا مخالف ہے، وہ دونوں کو ایک دوسرے کا ضد مانتا ہے تو دوسرا عین سائنس و عقل کے مطابق ہے۔ وہ غور و فکر کو چیلنج نہیں کرتا بلکہ اس کی دعوت دیتا ہے اور ہر بات کے لئے اس کے پاس دلیل ہوتی ہے۔ قرآن کریم خدائی کتاب ہے اور علم و دانائی کا سرچشمہ ہے۔ یہ انسانی ہدایت کے لئے اترا ہے لہذا قرآن کریم انسان کو اللہ کی ذات و صفات کا قائل کرنے کے لئے بار بار غور و فکر پر ابھارتا ہے۔ اس کے مطابق کائنات اور اس کی تخلیق میں غور و فکر انسان کو اللہ کے عرفان تک پہچانے کا ذریعہ ہے۔ جمادات، نباتات اور حیوانات کی جسمانی بناوٹ میں اللہ کی سینکڑوں حکمتیں پوشیدہ ہیں جن پر غور کیا جائے تو عقل حیران رہ جاتی ہے۔ ان تمام باتوں کو چھوڑ کر آدمی صرف اپنے بدن کی بنیاد یعنی ڈی این اے پر ہی غور کر لے تو اسے سمجھ میں آ جائے گا کہ اس کی جسمانی ساخت میں کس قدر حکمت و دانائی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اس کی تفصیلات کو اگر کاغذ کے صفحے پر لایا جائے تو لاکھوں صفحات سیاہ ہو جائیں مگراس کی تفصیل تو کیا اجمال بھی نہ آ سکیں۔ حالانکہ اس کا ابھی تین فیصد ہی سمجھ پانا ممکن ہوا ہے اور جب سائنس اور آگے بڑھے گی تو پتہ چلے گا کہ وہ جسے تین فیصد مان رہی ہے وہ ۱ ء ۰ فیصد بھی نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ ایسا دانشمندانہ کام سب سے بڑا دانشمند اور حکیم ہی کر سکتا ہے کہ کسی کی زندگی اور شخصیت کی تمام تفصیلات ایک ایسے چھوٹے سے ذرے میں داخل کر دے۔ جو اتنا چھوٹا ہو کہ آنکھ بھی دیکھنے سے قاصر ہو۔ سائنس تو اللہ کی تخلیق میں غور و فکر کاہی نام ہے اور قرآن اس کی دعوت دیتا ہے لہٰذا وہ سائنس کا مخالف نہیں بلکہ اس کا رہنما ہے۔ قرآن میں جتنے مقامات پر ’’غور کرو، فکر کرو، تدبر کرو، سوچو۔ جیسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں دنیا کی کسی دوسری مذہبی کتاب میں نہیں کئے گئے ہیں۔ قرآن میں تقریباً ۷۵۰ مقامات پرسائنس کی جانب انسان کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پیغمبر اسلام محمدرسول اللہﷺ کی پوری زندگی پر نظر ڈالیں تواحساس ہو گا کہ آپ نے بھی ہمیشہ تدبر اور فکر پر ہی زور دیا۔ قرآن اور صاحب قرآن کا یہ انداز اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ قرآن کریم سائنس کے لئے چیلنج نہیں ہے بلکہ مشعل راہ ہے۔ جو سائنسی حقائق اب سامنے آ رہے ہیں ان کا بیان کتاب اللہ میں چودہ سو سال قبل کیا جا چکا ہے اور آج دنیا سر دھن رہ رہی ہے کہ اسے اس حقیقت کا پتہ پہلے کیوں نہیں چلا؟

 اسلام اور سائنس کی مشترکہ بنیادیں

قرآن، انسان کو موجودات میں فکر و نظر کی دعوت دیتا ہے اور سائنس اسی کا نام ہے۔ موجودہ دور میں مسلمان کا علم سے رابطہ کم ہوا ہے اور حقیقی علم یعنی قرآنی علوم سے تو وہ بالکل بے بہرہ ہو گیا ہے۔ ایک چھوٹا سا طبقہ دینی علم کے لئے مدرسوں میں جاتا ہے جہاں کا نصاب تعلیم ایسا فرسودہ ہے کہ وہ نہ اسلام کی ترجمانی کرتا ہے اور نہ عصر حاضر کی۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو دینی علوم حاصل کر کے نکلتے ہیں وہ اگر بعد میں عصری تعلیمی ادارے یا یونیورسیٹیوں کا رخ نہ کریں تو دنیا سے واقف نہیں رہ پاتے۔ آج خود مسلمان بھی کچھ مدرسوں کے نصاب تعلیم کو دیکھ کر یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ اسلام اور سائنس دو مختلف چیزیں ہیں، لہٰذا وہ دین کے نام پر گھر میں بچوں کو قرآن مجید ناظرہ پڑھا دیتے ہیں اور نماز کا طریقہ سکھا دیتے ہیں۔ باقی تعلیم ان کی اسکولوں اور کالجوں میں ہو جاتی ہے۔ وہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ قرآن کریم ہی سائنس کا اصل منبع و سرچشمہ ہے اور وہ کائنات کے ایسے سربستہ رازوں کا افشا کرتا ہے جہاں تک پہنچنا سائنس دانوں کے لئے مشکل ہوتا ہے۔ در اصل اسلام اور سائنس کی مشترکہ بنیادیں ہیں اور یہی مومن کا وہ گمشدہ خزانہ ہے جسے حاصل کرنے کے لئے کبھی سب پر علم کے حصول کے فرضیت کی بات کہی گئی تو کبھی چین جیسے دور دراز ملک کا دشوار گذار سفر کرنے کو کہا گیا۔ اکیسویں صدی علم و ہنر کی صدی ہے اور اسی کے ساتھ قبولیت حق کی صدی بھی ہے۔ اس لئے کہ جب انسان علم و ہنر سے آراستہ ہوتا ہے تو اس کے دل پر حقائق کی روشنی ظاہر ہوتی ہے اور اسی اجالے میں وہ حق و باطل کی پہچان کرتا ہے۔

اکیسویں صدی سائنس اور قرآن کی صدی

آج کا انسان فرسودہ روایات کے سامنے سرجھکانے کو تیار نہیں۔ اسے ہر معاملے میں دلیل و ثبوت کی مضبوط بنیاد چاہئے۔ وہ ہر ایسی بات کو مسترد کر دیتا ہے جس کے لئے دلیل موجود نہ ہو۔ دوسرے الفاظ میں کہیں تو جن چیزوں کی سائنسی بنیادیں نہ ہوں وہ انسانی عقل کو اپیل نہیں کرتی ہیں۔ ایسے میں وہ مذہب جس کی سائنسی بنیادیں ہیں وہ صرف اور صرف اسلام ہے۔ یہاں کوئی بات بغیر دلیل نہیں کہی جاتی اور وہ کتاب جو بار بار تدبر و تفکر کی دعوت دیتی ہے وہ قرآن کریم ہے۔ نئے دور میں آپ دیکھیں گے کہ تمام ایسے نظریات، جن کی علمی اور سائنسی بنیادیں نہیں ہوں گی خواہ ان کا تعلق مذہب سے ہو یا سماج سے دم توڑ دیں گے۔ یہاں ایسے مذہب کا سکہ چلے گا جو علمی بنیاد پر استوار ہو گا اور وہ صرف قرآنی مذہب ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ انسان کے عقل کی اختراع نہیں ہے بلکہ اللہ کا بھیجا ہوا پیغام ہے جو دلیل و ثبوت کی سے لیس ہے اور جس کی عقلی بنیاد ہے۔ آج اگر قرآن دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے اور اسلام سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ اس میں نئے دور کے ساتھ چلنے کی قوت موجود ہے۔ سائنس جس مذہب کی برتری کو تسلیم کرے گی وہی انسانیت کا مذہب ہو گا اور یہ صلاحیت اسلام میں موجود ہے۔ ہمارے اس دعوے کی کچھ دلیلیں اس مضمون میں بھی آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

تخلیقِ کائنات کے راز اور قرآن

تخلیق کائنات کے سربستہ راز اور اس کی وسعت ابھی تحقیق کا موضوع ہیں مگر اس کی پیدائش میں جو حکمت و دانائی ہے اور جو تناسب ہے وہ عقل کو حیران کرنے والا ہے۔ جب ایک معمولی سی چیز بغیر اپنے صانع اور خالق کی مرضی کے متناسب نہیں بن سکتی تو اتنی بڑی کائنات اور اس کی مخلوقات کی تخلیق بغیر کسی حکمت و دانائی کے کیسے ہو سکتی ہے؟ وہی صاحبِ حکمت خالق اور پالنہار، اللہ ہے، جس کے عرفان کی قرآن دعوت دیتا ہے اور اس کی ذات و صفات اور عبادت میں کسی اور کو شریک کرنے سے روکتا ہے۔ اسی مالک کے بارے میں بتانے کے لئے لاکھوں انبیاء، اولیاء، صلحاء اس دنیا میں تشریف لائے۔ ماڈرن سائنس ہر مذہبی نظریے سے اوپر اٹھ کر کائنات اور تخلیق کی حکمتوں میں غور کر رہی ہے۔ آج جو بھی سائنسداں ہیں ان میں برائے نام ہی مسلمان ہیں لہٰذا یہ کہنا کہ وہ قرآنی تعلیمات سے متاثر ہو کر کسی موضوع پر غور و فکر کرتے ہیں اور تحقیق کا کام کرتے ہیں بالکل غلط ہو گا۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جدید سائنس کی تحقیقات قرآن کے بیانات کو درست ثابت کرتی ہیں۔ گویا سائنس اور قرآن دونوں ایک دوسرے کی ضد نہیں بلکہ ایک دوسرے کے معاون و مدد گار ہیں۔ قرآن میں جو کچھ بھی بیان ہوا ہے، سائنس اس کی تصدیق کرتی ہے اور اگر کوئی بات ایسی ہے جسے سائنس داں سائنس کی رائے سے الگ مانتے ہیں تو اس کے بارے میں ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ مستقبل قریب میں جب سائنس اور آگے بڑھے گی تو اس کی بھی تصدیق کرے گی اور قرآن کے آگے اسے سرجھکانا پڑے گا، کیونکہ سائنس دانوں کا دماغ محدود ہے اور قرآن اس خالق کی کتاب ہے جو حکیمِ مطلق ہے اور حکمت و دانائی کا خالق ہے۔ وہ سب کو عقل و شعور بخشتا ہے اور علم ہنر کی روشنی بھی اسی کی پیدا کردہ ہے لہٰذا اس کی دانائی کا محدود ہے۔

عبادت کا نفسیاتی پہلو

قرآن کی آیات، ماڈرن سائنس اور عقل و وجدان کے معیار پر بار بار کھری اتری ہیں۔ یہاں جو باتیں چودہ سو سال قبل بیان کی گئی تھیں آج ان کی تصدیق سائنس اور علم و عقل کے ذریعے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ دیکھیں کہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ ’’دلوں کو اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے قرآن بار بار عبادت کی طرف راغب کرتا ہے۔ یہاں عبادت کا تصور صرف نماز، روزہ، حج و زکوٰۃ تک محدود نہیں ہے بلکہ خدمت خلق، پڑسیوں کے ساتھ اچھے برتاؤ، انسانوں کے ساتھ حسن سلوک، سبھی مخلوقات پر رحم، غریبوں اور یتیموں کے ساتھ نرم خوئی بھی عبادت کا ہی حصہ مانا جاتا ہے اور اس میں سکونِ قلب ملنے کی بات کہی گئی۔ ظاہر ہے کہ آج کے ماہرین نفسیات بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انسان کو جو سکون کسی اور کام میں نہیں ملتا وہ اسے عبادت میں ملتا ہے۔

قرآن اور سائنس کی مطابقت

طہارت کو قرآن میں نماز کے لئے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بغیر نماز نہیں ہو سکتی۔ طہارت کا مطلب ہے پاکیزگی، جس کے لئے کبھی غسل کا حکم ہے اور کہیں وضو کا۔ وضو بہ ظاہر ایک ایسا عمل ہے جس میں ہاتھ، منہ دھویا جاتا ہے، سر کا مسح کیا جاتا ہے اور پیر دھوئے جاتے ہیں مگر اسی کے ساتھ جسم کی صفائی ہو جاتی ہے، جو انسان کو بہت سی بیماریوں سے دور رکھتی ہے۔ قرآن کے اس حکم کی افادیت کو آج کی میڈیکل سائنس بھی مسترد نہیں کر سکتی۔ یونہی قرآن میں ایک مہینے کا روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، جس میں آدمی صبح صادق سے شام تک بھوکا اور پیاسا رہتا ہے۔ بھوک اور پیاس ایک طرف تو انسان کو فکر و نظر پر مجبور کرتے ہیں تو دوسری طرف اسے دوسروں کی بھوک اور پیاس کا احساس دلاتے ہیں۔ ویسے جدید سائنس کی تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ کم کھانے والے لوگ زیادہ دن زندہ رہتے ہیں۔ گویا کم کھانا صحت مند زندگی جینے کے لئے ضروری ہے۔ قرآن مجید نے شراب، مردار، سور کا گوشت، جوا، سود جیسی چیزوں کو حرام قرار دیا ہے اور عقل و تجربہ کی روشنی میں بھی یہ تمام باتیں مہلک اور انسانیت کی دشمن ثابت ہو چکی ہیں۔ قرآن میں صرف آسٹرو سائنس، بایولوجی اور میڈیکل سائنس ہی نہیں بلکہ سماجی علوم بھی ہیں۔ حالانکہ قرآن کا مقصد سائنس کا بیان نہیں ہے کیونکہ یہ کتاب ہدایت ہے جس کا مقصد انسان کو بہتر زندگی جینے اور دنیا کا نظام چلانے کے لئے گائیڈ کرنا ہے مگر اسی کے ساتھ سائنس کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ انسان کی فکری رہنمائی اس کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ جب تک کائنات اور اس کی اشیاء کی ماہیت پر غور نہیں کرتا وہ اللہ کی حکمت کے راز نہیں پا سکتا۔ اسلام میں جو صوفیہ کا طبقہ پیدا ہوا وہ اسی لئے کہ یہ حضرات اللہ کی ذات و صفات پر غور کرتے تھے اور اس کا عرفان حاصل کرتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنھیں غور و فکر کے بعد اللہ کا عرفان حاصل ہوتا تھا۔ گویا یہ وہ سائنسداں تھے جن کا مقصد مادیت کا حصول نہیں بلکہ حقیقت تک پہنچنا مقصود تھا۔ جابر بن حیان جنھیں ساری دنیا میں ماہر کیمیا کے طور پر جانا جاتا ہے، ایسے پہلے شخص تھے جو ’’صوفی۔ کے لقب سے پکارے گئے۔ حاصل کلام کہ انسان جب تک سائنس کو نہیں سمجھ پاتا وہ صحیح معنوں میں اللہ کا عرفان نہیں پا سکتا اور نہ ہی صحت مند زندگی جی سکتا۔ اس لئے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ قرآن اور سائنس ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ معاون ہیں۔ ٭٭٭

 

 

 

 

دنیا کو تباہی سے بچانے کے لئے قرآن کا پیغام

 

انسانیت کی بنیاد پر متحد ہو جاؤ

یہ دنیا تنوع سے بھری ہوئی ہے۔ یہاں مختلف فکر و خیال کے لوگ رہتے ہیں، جن کے مذاہب الگ ہیں۔ جو الگ الگ زبانیں بولتے ہیں اور الگ الگ طرز زندگی کے حامل ہیں۔ ان کے اندر رنگ و نسل کے اختلافات ہیں اور وہ ایک دوسرے سے مختلف نظریات رکھتے ہیں۔ ان اختلافات نے دنیا میں بڑی بڑی جنگیں برپا کی ہیں اور خونریز معرکے ہوئے ہیں۔ کبھی مذہب کے نام پر انسان نے انسان کا خون بہایا ہے تو کبھی زبان کے نام پر انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ کبھی علاقے اور رنگ ونسل کے اختلافات کے سبب آدمی نے آدمی کو غلامی کی زنجیریں پہنائی ہیں اور نوع انسانی کی اس فطری آزادی کا گلا گھونٹا ہے جو اس کا پیدائشی حق ہے۔ طاقت ور نے کمزور کو دبایا اور دولت مندوں نے غریبوں کے حقوق دبائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں کوئی ایسا نظام نہیں ہو سکتا جو سبھی کو ان کے حقوق دینے کی بات کرے؟ جہاں کوئی کمزور نہ ہو اور کسی کو طاقت کی بنیاد پر کسی کے ساتھ نا انصافی کرنے کی اجازت نہ ہو؟ جہاں چھوٹے اور بڑے کا فرق مٹ جائے اور رنگ و نسل کی تفریق سے اوپر اٹھ کر لوگ ایک دوسرے کے حقوق اور آزادی کا احترام کریں؟ ان سوالوں کا بس ایک جواب ہے کہ ایسا تب ہی ممکن ہے جب انسان اپنے خالق و مالک کے قانون کو تسلیم کر لے اور اس کے حکم کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنا شروع کر دے۔ جو ہمارا پیدا کرنے والا ہے اس نے تمام انسانوں کو برابر بنایا ہے اور سب کے حقوق بھی برابر رکھے ہیں۔ اس نے کسی کو زیادہ اور کسی کو کم حقوق نہیں دیئے۔ یہ تو انسان ہے جو دوسرے انسان کے حق دبانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ وہ دوسروں کے حق مار کر اپنا حصہ زیادہ سے زیادہ کرنے کی تاک میں لگا رہتا ہے۔ اگر خدائی احکام کی بات کریں تو اس میں سب کے حقوق برابر ہیں اور سب کو انسانیت کی بنیاد پر متحد ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔

وحدت انسانی کی دعوت

اللہ کے احکام کو مجموعہ ہے قرآن کریم جس میں اللہ نے بنی نوع انسان کے لئے اپنے احکام اتارے ہیں۔ وہ اپنے بندوں سے بے حد پیار کرتا ہے اور ان پر رحم و کرم فرماتا ہے لہٰذا اس کے احکام بھی اسی نوعیت کے ہیں۔ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف پہنچا کر خوش ہوتا ہے، ایک دوسرے کا حق مار کر وہ مسرت کا احساس کرتے ہیں مگر اللہ کو یہ باتیں پسند نہیں کیونکہ اس کی نظر میں اس کی تمام مخلوق برابر ہے اور کسی ایک کی تکلیف اس کے لئے بھی تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ وہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اور اس قدر کہ کوئی ماں بھی اُتنی محبت نہیں کر سکتی۔ اس کی نظر میں اس کی مخلوقات برابر ہیں لہٰذا اس نے انھیں انسانیت کی بنیاد پر متحد ہونے کی دعوت بھی دی ہے۔ قرآن کریم کی سورہ انبیاء میں ہے:

’’اے لوگو! یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے، اور میں تمہارا پالنہار ہوں، تو میری ہی عبادت کرو۔

دوسری جگہ سورہ مومنون میں بھی ایک لفظ کے فرق کے ساتھ یہی حکم دہرایا گیا ہے:

’’بیشک یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں، تو مجھ سے ڈرو۔

انبیاء سابقین کسی ایک خطے، ملک، قبیلے یا قوم میں مبعوث کئے جاتے تھے مگر نبی اکرمﷺ تمام انسانوں کے لئے رسول بن کر تشریف لائے لہٰذا اللہ نے قرآن میں آپ کو حکم دیا:

’’کہہ دیجئے، اے لوگو! میں تم سارے انسانوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔

نبی کریمﷺ ساری کائنات کے لئے نبی بن کر آئے اور آپ کے لائے ہوئے احکام سب کے لئے ہیں۔ اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے۔ قرآن انسانی بنیاد پر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیتا ہے جس میں مختلف مذاہب، الگ الگ رنگ ونسل اور طبقے کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ میل، محبت سے رہ سکیں۔ اسی لئے قرآن کا پیغام ہے کہ:

’’اے لوگو! ہم نے تمہیں نر اور مادہ میں پیدا کیا ہے اور خاندان و قبیلے بنائے ہیں۔ صرف اس لئے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، ورنہ اصل بات یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز وہ ہے، جو زیادہ پرہیز گار ہے۔

قرآن کریم کی یہ آیت وحدت انسانی کی بہترین مثال ہے۔ دنیا میں بسنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اور یہ لوگ خواہ خود کو ایک دوسرے سے برتر ظاہر کرتے ہوں مگر خود ان کے خالق کا فرمان ہے کہ انسان ہونے کی حیثیت سے وہ برابر ہیں اور ان میں سے نہ کوئی بڑا ہے اور نہ مرتبے کے لحاظ سے چھوٹا۔ اگر کسی کو برتری حاصل ہے تو صرف تقویٰ اور خوف خداوندی کی بنیاد پر۔ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اکرمﷺ نے جو خطبہ دیا تھا اس میں بھی آپ نے مسلمانوں کے ایک بڑے مجمع کے سامنے اس بات کا اعلان کیا کہ کسی کو کسی پر فضیلت و برتری حاصل نہیں ہے۔ سب لوگ برابر ہیں اور ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ اللہ اور رسول نے اپنے احکام میں یہ بات واضح کر دی ہے کہ حاکم و محکوم، عربی و عجمی، سیاہ و سفید، کمزور و طاقت ور، مومن و کافرانسان ہونے کی حیثیت سے یکساں ہیں۔ وہ قانون کی نظر میں بھی برابر ہیں لہٰذا کسی کے ساتھ مذہب، ذات، رنگ و نسل یا علاقے کی بنیاد پر کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا جا سکتا۔ گویا:

بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے

تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

اسی تعلیم کا اثر تھا کہ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی سیاہ فام بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو سیدی کہہ کر خطاب کیا کرتے تھے۔ وہ بلال جن کے حقوق سے مکہ نے غلام ہونے کے سبب انکار کیا۔ جو ایک کمزور مسلمان ہونے کی وجہ سے اذیتیں برداشت کرنے پر مجبور ہوئے۔ وہی بلال ایک قرآن تعلیم کے سبب تاریخ اسلام کی محترم ترین ہستی بن گئے۔

غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک

قرآن کریم نے کسی مسلمان کو اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ کسی غیر مسلم کے ساتھ برا سلوک روا رکھے یا اس کے ساتھ نا انصافی کرے۔ یعنی قرآن نے مذہبی عصبیت کی بنیاد ہی کھود ڈالی۔ کیونکہ کوئی بھی انسان کسی مذہب کا عامل ہو سکتا ہے مگر اسی کے ساتھ وہ انسان بھی ہے اور اس کا حق ہے کہ اس کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا:

’’تو اگر (غیر مسلم) تمہارے پاس کسی فیصلے کے لئے آئیں تو ان سے اعراض کر لو اور اگر فیصلہ کرو تو انصاف کرو، کیونکہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

جس طرح سے مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ غیر مسلم اپنے مذہب پر قائم رہیں۔ انھیں اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ اسلام قبول کرتے ہیں تو یہ رضاکارانہ طور پر ہونا چاہئے نہ کہ اجباری طور پر۔ قرآن میں اس تعلق سے بھی فرمایا گیا کہ:

’’مذہب کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔

دوسرے مقام پر فرمایا گیا کہ:

’’تمہارے لئے تمہارا دھرم ہے اور ہمارے لئے ہمارا دین۔

علاقہ و نسل پرستی کی مخالفت

اسی طرح قرآنی مذہب کی نظر میں علاقائیت کے نام پر کسی تفرقہ پردازی کی اجازت نہیں اور نہ ہی اس کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی بھید بھاؤ کیا جا سکتا ہے۔ عرب میں یہ فخر و غرور عام بات تھی کہ اہل عرب باقی دنیا کو اپنے سے کمتر سمجھتے تھے اور حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے حالانکہ اسلام کی نظر میں یہ کوئی برتری کی بات نہیں تھی۔ افریقہ کے لوگ سیاہ فام ہوتے ہیں جو غلام کے طور پر عرب لائے جاتے تھے لہٰذا ان کے ساتھ بھی بھید بھاؤ کا سلسلہ جاری تھا۔ اسی لئے رسول اکرمﷺ نے حجۃ الوداع کے خطبے میں فرمایا تھا کہ ’’کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر فوقیت حاصل نہیں۔ ایسا ہی ایک دوسرا واقعہ بھی سیرت کی کتابوں میں ملتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک مجلس میں سلمان فارسی، صہیب رومی اور بلال حبشی بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ تینوں غیر عرب تھے۔ قیس بن مطاطیہ نامی ایک منافق نے دیکھا تو کہنے لگا کہ اوس و خزرج نے اگر پیغمبر اسلام کی حمایت کی تو حیرت کی بات نہیں لیکن یہ حمایت کرنے والے لوگ ان کے کیا لگتے ہیں؟ مطلب یہ کہ ان فارسیوں، رومیوں اور حبشیوں کا تو رسول اللہ کی قومیت سے کوئی تعلق نہیں۔ حضرت معاذ بن جبل نے جب یہ بات سنی تو اس کا گریبان پکڑ لیا اور بارگاہ رسالت مآبﷺ میں لے کر آئے اور واقعہ بیان کیا، جسے سن کر رسول اللہﷺ بہت غضبناک ہوئے اور لوگوں کو مسجد میں جمع کر کے فرمایا:

’’اے لوگو! تمہارا پروردگار ایک ہے۔ باپ بھی ایک ہے۔ دین بھی ایک ہے۔ عربیت تم میں سے کسی کی ماں ہے نہ باپ۔ وہ ایک زبان ہے جو شخص اسے بولتا ہے وہ عرب ہے۔

یونہی ایک مرتبہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو حبش زادہ کہہ دیا تو آپ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے اندر ابھی بھی جاہلیت کا اثر باقی ہے۔ ان دونوں واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے انسان کو انسان بنایا تھا اور انھیں الگ الگ خانوں میں بانٹنے سے منع کیا تھا۔ کیونکہ وہ خواہ کسی بھی خطے کے ہوں اور ان کی قومیت جو بھی ہے لیکن وہ بہرحال ایک ہی خالق کی مخلوق ہیں اور ایک ہی انسان کی اولاد ہیں۔ اس نسبت سے ان کے اندر اتحاد ہونا چاہئے۔ فارسی کے ایک مشہور صوفی شاعر شیخ سعدی شیرازی کہا ہے کہ:

بنی آدم اعضائے یکدگرند

کہ در آفرینش زِ یک جوہرند

چو عضوے بہ درد آورد روزگار

دگر عضو ہارا نماند قرار

یعنی آدم کی اولاد ایک جسم کے مختلف اعضا کی طرح ہیں، کیونکہ ان کی پیدائش ایک ہی گوہر سے ہوئی ہے۔ جب جسم کے کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرے عضو کو بھی چین و سکون نہیں ملتا۔

قرآن بار بار یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے خالق کو پہچانے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے، اسی کے احکام کے مطابق زندگی گذارے مگر اسی کے ساتھ وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ انسان اپنی فطرت کے مطابق الگ الگ سوچ کے ہیں لہٰذا اس دنیا میں وحدت دین نہیں ہو سکتا لہٰذا کوئی بھی انسان اپنے مذہب پر عمل کرنے کے لئے آزاد ہے البتہ اسے یہ مان لینا چاہئے کہ وہ انسان ہے اور انسانی بنیاد پر تمام انسانوں کا اتحاد ممکن ہے۔ وہ قومی، لسانی، اور نسلی بنیاد پر لوگوں کو ساتھ آنے کی دعوت نہیں دیتا کیونکہ یہ وہ بت ہیں جو اتحاد سے زیادہ اختلاف کا سبب بنتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

مسلمانانِ عالم قرآن کی بنیاد پر متحد کیوں نہیں ہوتے؟

 

اس وقت مسلم دنیا طرح طرح کے مسائل سے دوچار ہے جن میں سب سے اصل مسئلہ مسلمانوں کے باہمی اختلافات ہیں۔ اسی کے نتیجے میں مسلم ملکوں میں خانہ جنگی ہو رہی ہے اور وہ برادر کشی میں مصروف ہیں۔ اختلاف امت یقیناً رحمت ہوتا اگر وہ تعمیری ہوتا مگر یہاں معاملہ ایسا نہیں ہے۔ مسلمانوں کے باہمی اختلافات خود ان کے لئے عذاب بن چکے ہیں۔ دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جہاں مسلمان منفی اختلافات کے شکار نہ ہوں۔ پاکستان، افغانستان، عراق، شام، لیبیا اور مصر جیسے ممالک میں تو حالات زیادہ دھماکہ خیز ہیں اور یہاں کوئی شخص کسی حال میں محفوظ نہیں ہے۔ کب، کہاں، کیا ہو جائے؟ شہریوں کے لئے سمجھ پانا مشکل ہے۔ اس لئے ہر لمحہ وہ خوف و دہشت کے سایے میں جی رہے ہیں۔ اس کے لئے ان کی برادر کشی ذمہ دار ہے۔ مسلم اکثریتی ملکوں میں کہیں بھی امن و امان نہیں ہے۔ حالانکہ مسلمان اس کے لئے امریکہ، اسرائیل اور دیگر اسلام دشمن طاقتوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ سازش خواہ غیر کریں مگر لڑنے والے تمام کے تمام اپنے ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہم نہ لڑیں تو غیر ہمیں کیسے لڑا سکتے ہیں۔ کہیں مسلمان مسلک کے نام پر لڑتے ہیں تو کہیں علاقائیت کے نام پر، کہیں رنگ و نسل کے نام پر تو کہیں کچھ اور بہانہ بنا کر۔ عراق ایسا ملک ہے جہاں شیعوں اور سنیوں کے بیچ رشتہ داری عام ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہاں ۶۰ فیصد تک بین مسلکی شادیاں ہوتی ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی مساجد میں نماز بھی ادا کرتے ہیں مگر اس کے باوجود یہاں بعض دہشت گرد تنظیمیں برادر کشی میں مصروف ہیں۔ یقیناً امریکہ، یوروپی ممالک اور اسرائیل کی مداخلت کی وجہ سے یہاں کے حالات خراب ہوئے ہیں اور دانستہ طور پر مسلمانوں کو لڑانے کی کوششیں ہوتی ہیں تاکہ اہل عراق متحد ہو کر غیر ملکی مداخلت کے خلاف نہ لڑیں مگر اسی کے ساتھ یہ بھی سچائی ہے کہ لڑنے والے اور مرنے والے دونوں ہی ہمارے اپنے بھائی ہیں۔ یہ بھی سوال ہے کہ آخر کیا سبب ہے کہ وہ دشمنان اسلام کے آلۂ کار بنتے ہیں؟

مسلمانوں کے باہمی اختلافات کی نوعیت

مسلمانوں کے شدید اختلافات صرف مسلم ملکوں تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں آباد مسلمانوں میں بھی اختلافات ہیں۔ ان کی نوعیت مذہبی و مسلکی قسم کی ہے، جو فطری ہیں اور اس میں کوئی خرابی نہیں ہونی چاہئے تھی مگر ان میں بھی اس قدر شدت ہے کہ وہ ایک دوسرے کو مسلمان ماننے کو تیار نہیں۔ ایسے لٹریچر کی کوئی کمی نہیں جس میں مسلمان ہی مسلمان کو مشرک، کافر، فاسق، بدعتی اور گمراہ قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ ایک اللہ، ایک کتاب اللہ، ایک رسول کے ماننے والے ہیں اور ایک قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرنے والے ہیں، لیکن وہ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں میں نہیں جا سکتے، ایک امام کی اقتدا میں نماز نہیں پڑھ سکتے اور قرآنی آیات کی بھی تشریح الگ الگ طریقے سے کرتے ہیں۔ مسجدیں جو خالص اللہ کی عبادت کے لئے ہیں اور نمازیوں کو متحد ہونے کی دعوت دیتی ہیں، اب اختلافات کا مرکز بن چکی ہیں۔ مسلمانوں کے تنازعے عبادت گاہ سے شروع ہوتے ہیں۔ بھارت کے مسلمانوں میں تو ہندوؤں کی طرح باقاعدہ ذات پات بھی موجود ہے اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ رشتے ناطے میں بھی اس کا لحاظ رکھتے ہیں۔ مسلمانوں میں اس قدر اختلافات کیوں ہیں؟ وہ ایک دوسرے کے خلاف شمشیر برہنہ کیوں بنے رہتے ہیں؟ وہ اپنے علاوہ کسی کو بہتر مسلمان ماننے کو تیار کیوں نہیں ہوتے؟ یہ تمام سوالات ہیں اور ان کے اسباب و وجوہات پر غور و فکر کی ضرورت ہے، مگر اسی کے ساتھ اس پہلو پر بھی سوچنا ضروری ہے کہ ان کے بیچ کس بنیاد پر اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے؟

اختلاف رحمت ہے

اختلافات کا ہونا فطری بات ہے۔ جب دنیا میں صرف دو انسان تھے تب بھی ان کے بیچ اختلاف رائے موجود تھی۔ اللہ کی بنائی ہوئی یہ خوبصورت کائنات، اس کی نعمتیں، اس دنیا میں انبیاء، اولیاء اور صلحاء کی آمد بھی اسی اختلاف کی برکت سے ہوئی۔ اگر آدم و حوا کا شجر ممنوعہ کے تعلق سے اختلاف نہ ہوا ہوتا اور دونوں نے نہ کھانے پر اتفاق کر لیا ہوتا تو پھر وہ کیسے جنت سے نکالے جاتے، کیسے یہ دنیا آباد ہوتی اور انسانوں کی پیدائش کا سلسلہ شروع ہوتا، کس طرح یہاں انبیاء اور اللہ کے نیک بندوں کے قدم پڑتے؟ یقیناً وہ اختلاف باعث برکت تھا۔ اختلافات تو عہد رسالت میں بھی تھے اور صحابہ کرام کے بیچ بھی موجود تھے مگر کبھی کسی صحابی نے اس کے سبب دوسرے کو کافر، مشرک اور بدعتی نہیں کہا۔ کسی نے دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے جاری نہیں کئے۔ کسی تابعی اور تبع تابعی نے یہ نہیں کہا کہ میں اور میرا ہم مسلک مسلمان ہے اور باقی دنیا کے کلمہ گو مسلمان ہی نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ جب معتزلہ نام کا ایک فرقہ وجود میں آیا جو عام مسلمانوں سے کچھ مختلف عقیدے رکھتا تھا اسے بھی علماء نے کافر اور خارج اسلام نہیں کہا۔ مسلمان جہان ایک طرف شیعہ۔ سنی اور چار فقہی مسالک میں تقسیم ہوئے سو تو ہوئے، وہ اسلام کے بعض بنیادی عقائد میں بھی ایک دوسرے سے الگ سوچ رکھتے تھے اور اشعری و ماتریدی کے دو گروہ میں تقسیم ہو گئے۔ یہ اختلاف کوئی فقہی اور فروعی اختلاف نہ تھا بلکہ اعتقادی اختلاف تھا باوجود اس کے دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کو مومن اور موحد ہی مانا۔ آج کل جس قسم کے اختلافات مسلمانوں کے بیچ پائے جاتے ہیں اور جس طرح سے ہمارے علماء اپنی بات پر مصر رہتے ہیں اور کٹھ حجتی کرتے ہیں، ایسا ہی معاملہ کبھی عیسائیوں میں بھی تھا۔ ان کے اندر بھی یہ گروہ بندیاں تھیں۔ عہد قدیم میں ہی ان میں ۸۸ فرقے پیدا ہو چکے تھے اور کوئی بھی فرقہ اپنی خانقاہوں میں دوسرے کو داخل نہ ہونے دیتا تھا۔ علماء عیسائیت معمولی معمولی باتوں کو بہانہ بنا کر اپنی قوم میں اختلافات پیدا کرتے تھے اور اپنی قوم کو تختۂ مشق بناتے تھے۔ اس عہد میں ہر سطح پر مسلمان غالب تھے اور عیسائی عموماً مغلوب ہوتے تھے۔ آج بالکل یہی حالت مسلمانوں کی ہے کہ وہ غیر ضروری اختلافات میں الجھے ہوئے ہیں اور عیسائی و یہودی دنیا مسلم ملکوں پر قابض ہے اور ساری دنیا پر غالب ہے۔

مسلمانوں کے مسائل کا حل

مسلمان اگر اپنے اختلافات دور کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لئے سب سے اہم ذریعہ خود قرآن کریم ہے۔ یہ اتحاد کی دعوت دیتا ہے اور تفرقہ پردازی سے روکتا ہے مگر خود مسلمان قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور اس کی تعلیمات سے نا آشنا رہنا پسند کرتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو قرآن کریم صرف ناظرہ پڑھاتے ہیں اور سمجھا کر نہیں پڑھاتے۔ جنھیں تھوڑی سی دین سے رغبت ہے وہ اللہ کا کلام سیدھے طور پر سمجھنے کے بجائے علماء کی تقریروں پر انحصار کرتے ہیں۔ اگر مسلمان خود کو اللہ کے احکام پر عمل پیرا کرنے کے لئے تیار کر لیں تو ان کے مذہبی مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ قرآن کریم انھیں منفی اختلافات اور فرقہ بندی سے روکتا ہے:

’’تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور آپس میں فرقہ بندی نہ کرو۔ (آل عمران، ۱۰۳)

قرآن کریم کے نزول کو چودہ صدیاں گزر چکی ہیں مگر جو اختلاف حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے شروع ہوا تھا اب تک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ جب کہ اللہ کا حکم بہت واضح ہے کہ تفرقہ بازی نہ کرو۔ اس آیت میں رسی (حبل) سے مراد خود قرآن کریم ہے۔ یعنی قرآن کو اگر مسلمان اپنا رہنما بنا لیں تو وہ تفرقہ بازی سے بچ سکتے ہیں مگر افسوس کہ اختلاف کی صورت میں وہ اسے اپنا منصف اور حَکم نہیں بناتے۔

قرآن کریم کا کہنا ہے کہ انسان کو اللہ نے ابتدائی طور پر ایک بنایا تھا اور اسے ایک امت کیا تھا مگر پھر لوگوں میں اختلافات پیدا ہونے لگے اور انھوں نے بہت سے مذاہب بنا ڈالے۔ قرآن کریم میں ہے:

’’سب لوگوں کا دین ایک تھا، تب اللہ نے ان کے درمیان اپنے پیغمبروں کو بھیجا جو خوشخبری دینے والے اور (اللہ کے عذاب سے) ڈرانے والے تھے، اور ان کو کتاب برحق عطا کی تاکہ لوگوں کے اختلافی امور میں فیصلہ کر دے۔ ان ہی لوگوں نے جن کو کتاب دی گئی تھی، محض باہم ضد کی خاطر اِس میں اختلاف پیدا کیا، جب کہ ان کے پاس حق کے واضح دلائل آ چکے تھے۔‘‘ (البقرہ، ۲۱۳)

پرانی امتوں کے علماء کا یہ حال تھا کہ اللہ کی کتاب اور واضح دلیلوں کے َکیں اور تفرقہ پردازیاں کیں مگر مسلمانوں میں بھی کچھ ایسے ہی حالات ہیں۔ وہ بھی قرآن کریم کی موجودگی میں اختلافات کا شکار ہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے تنازعات کے تصفیہ کے لئے قرآن کی طرف رجوع نہیں کرتے۔ قرآن کریم نے اس سلسلے میں تنبیہ بھی کی ہے:

’’ان لوگوں کی طرح نہ بنو جنھوں نے حق کے واضح دلائل آنے کے بعد تفرقہ اور اختلاف پیدا کیا۔‘‘ (آل عمران، آیت ۱۰۵)

’’بیشک جن لوگوں نے دین میں تفرقہ ڈالا اور فرقہ فرقہ ہو گئے ان سے تمہارا کوئی سرو کار نہیں ہونا چاہئے، ان کا معاملہ اللہ کے ذمہ ہے، پھر انھیں بتائے گا جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں۔‘‘ (انعام، آیت۱۶)

انسانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکام ایک ہیں اور واضح ہیں۔ اللہ کے کلمات میں تبدیلی اور ترمیم کی گنجائش بھی نہیں ہے۔ انسانوں کے جزوی اختلافات فطری ہیں اور قابل برداشت ہیں۔ انھیں اس قدر سنگین نہیں ماننا چاہئے کہ کسی کے خلاف سخت ترین فتوے صادر کر دیئے جائیں۔ لوگوں کے دل کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دل کی حالت کسی کو نہیں معلوم۔ ایسے حالات میں کسی کے خلاف سخت ترین احکام جاری کرنا مناسب بات نہیں ہے۔ ہمارے علماء کے اختلافات کا یہ عالم ہے کہ جو بحث ٹی وی کے جواز اور عدم جوازسے شروع ہوتی ہے وہ ایک دوسرے کے ایمان و کفر تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ غیر ضروری اختلافات ہیں جن کے ابھرنے کا سبب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ اختلافات کا حل احکام قرآنی کے مطابق نہیں ڈھونڈا جاتا اور ذاتی دینی احکام میں بھی ذاتی بغض و عناد راہ پا جاتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

جمہور و مساوات کا پیغمبر ہے

آئینۂ حالات کا پیغمبر ہے

اے خطہ بطحیٰ و عرب کے باشی

تو کشف و کرامات کا پیغمبر ہے

جگن ناتھ کمالؔ

 

 

 

 

حقیقی جمہوریت کے لئے تعلیمات نبوی کی ضرورت

 

اسلام سے قبل دنیا کے کسی بھی خطے میں جمہوری اور آزاد عوامی حکومت کے تعلق سے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ حکومت کا عام طریقہ یہ تھا کہ جس کسی شخص کے پاس مادی اور فوجی قوت ہوتی وہ شہر یا ملک پر حملہ آور ہو کر قبضہ کر لیتا۔ اس کے بعد اسے حق حاصل ہوتا کہ ملک، عوام اور ان کی ملکیت کے ساتھ جیسا چاہے برتاؤ کرے۔ قانون وہی ہوتا۔ جواس کی زبان سے نکل جاتا اور انصاف وہی ہوتا۔ جو وہ کہہ دیتا۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے نظام حکومت کے تعلق سے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ حکمراں کو اختیار ہوتا تھا کہ وہ کسی بے گناہ کی جان لے لے یا کسی خطاکار کو معاف کر دے۔ کسی پر ٹیکس لگا دے یاکسی کو انعام و اکرام سے نوازے۔ شہریوں کے عزت و آبرو پر اسے پورا پورا اختیار ہوتا تھا۔ اسلامی جمہوریت سے قبل یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ دنیا میں جمہوری نظام کا تصور کیا جائے۔

اولین جمہوری نظام

پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اس تعلق سے اولیت حاصل ہے کہ آپ نے سب سے پہلے انسان کو ایک جمہوری حکومت کے تعلق سے بتایا اور اس کا تصور پیش کیا۔ شہنشاہیت کے دور میں جمہوریت کا خیال ہی حیرت انگیز تھا اور ایک ایسے شخص سے جس نے کبھی کسی مدرسے یا اسکول کا منہ نہ دیکھا ہو۔ کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہ کیا ہو اور ایران و روم کی شہنشاہیت سے ہمیشہ دور رہا ہو۔ جس کی پوری زندگی عرب کے ریگستان میں ناخواندہ عربوں کے درمیان گذری ہو۔ اس کی طرف سے ایک جمہوری حکومت کا خیال پیش کرنا ایک انتہائی حیرت انگیز بات تھی۔

حقیقی جمہوریت

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ صرف جمہوری حکومت کا مقصد پیش کیا۔ بلکہ اسے عملی شکل میں بھی دنیا کو دکھایا۔ دنیا کی پہلی جمہوری ریاست کی تجربہ گاہ مدینہ منورہ بنا۔ تاریخ وسیرت کی کتابوں میں اس ریاست کا جو خاکہ پیش کیا گیا ہے، وہ یوں تھا کہ جب آپ کا قیام مدینہ منورہ میں ہوا۔ تو یہاں کے دونوں بڑے قبیلے اوس اور خزرج نے آپ کو اپنا سردارمنتخب کر لیا۔ یہ دونوں قبیلے اسلام قبول کر چکے تھے۔ اسلام قبول کرنے کا مطلب تھا آپ کو اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کا مالک تسلیم کر لینا۔ ظاہر ہے کہ سردار قبول کرنا اس کے مقابلے میں معمولی بات تھی۔ ایک جمہوری ریاست کے سربراہ کے لئے پہلی شرط یہی قرار پائی کہ عوام خود اس کا انتخاب کریں۔ کوئی شخص ان کی مرضی کے بغیر ان پر حکومت نہیں کر سکتا تھا۔ عوام کو پہلی مرتبہ اسلام نے یہ اختیار دیا کہ وہ اپنا سردار یا امیر منتخب کریں۔ یہ شخص ان کا سردار ہو گانہ کہ ان کا بادشاہ۔ یہ سلسلہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے شروع کیا اور بعد میں صحابہ کرام نے جاری رکھا۔ آپ کے انتقال کے بعد اسلامی ریاست کے سربراہ کا انتخاب عام لوگوں نے بیعت (زبانی ووٹ) کے ذریعے کیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پیغمبر اسلام کے خلیفہ اور اسلامی ریاست کے سربراہ منتخب ہوئے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد لوگوں نے عام رائے سے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو امیر المومنین منتخب کیا۔ ان کے بعد حضرت عثمان غنی اور پھر علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہما یکے بعد دیگرے اس عہدے کے لئے منتخب ہوتے رہے۔ بدقسمتی سے خلافت کا نبوی سلسلہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد صرف تیس برس تک ہی چلا۔ اس کے بعد اس کی جگہ بادشاہت آ گئی۔

 اسلامی جمہوریت کی برکت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم نے جمہوریت کی بنیاد ڈالی تھی۔ جس کی پہلی کڑی یہ تھی کہ حکمراں کا انتخاب عوامی ووٹ کے ذریعے ہو، اور اس سے باز پرس کا اختیار بھی عوام کو ہونا چاہئے۔ چنانچہ جب تک نبوی طریقے کے مطابق یہ سلسلہ چلا۔ اس کی برکت بھی دنیا نے دیکھی۔ ایک عام آدمی کو اختیار حاصل تھا کہ وہ خلیفہ سے کسی بھی وقت اپنے حقوق کا مطالبہ کر سکے اور خلیفہ کا طریقہ اسے نبوی طریقے سے الگ لگے، تو اسے ٹوک سکے۔ خلیفہ کے لئے کوئی محل۔ دربان اور باڈی گارڈز وغیرہ نہیں ہوتے تھے۔ وہ عام آدمی کی طرح ہوتا تھا۔ پنچ وقتہ نماز کی امامت کرتا تھا۔ لوگوں کے معاملات سے باخبر رہتا تھا۔ عام شہریوں کے درمیان انہیں کے طریقے سے رہتا تھا کیونکہ بانی جمہوریت پیغمبر اسلام کا یہی طریقہ تھا۔ اسی جمہوریت کی برکت تھی کہ ایک عام آدمی کھڑے ہو کر خلیفہ سے سوال کرتا ہے ’’عمر! سب مسلمانوں کے حصے میں کپڑے کے ایک ایک ٹکڑے آئے اور تمہارے حصے میں دو ٹکڑے کیسے آ گئے؟ ۔ اس سوال پر عمر نہ تو ناراض ہوئے اور نہ ہی تیوریوں پر بل آئے۔ جس عمر کے نام سے قیصروکسریٰ کانپ اٹھتے تھے انتہائی تحمل کے ساتھ اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’ایک ٹکڑا میرے حصے کا ہے اور دوسرامیرے بیٹے کے حصے کا ہے۔ اس نے مجھے اپنا حصہ دے دیا ہے۔ (تاریخِ اسلام)

جمہوریت نبوی کے رہنما اصولوں میں سے یہ بات ہے کہ سربراہ مملکت بادشاہ نہیں، بلکہ عوام کا خادم ہو گا۔ یہ بات صرف ایک شاعرانہ تخیل نہیں تھی۔ بلکہ اس جمہوری مملکت کا حصہ تھی۔ خلفاء کا یہ معمول تھا کہ وہ رات رات بھر عوام کی بستیوں میں گھوم گھوم کران کے حالات کا جائزہ لیتے تھے اور ان کی حفاظت کرتے تھے۔ آج عوام چین کی نیند نہیں سو سکتے، کیونکہ حکمراں اپنے محلوں میں خواب خرگوش کے مزے لیتے ہیں۔ کاش انھیں بھی تھوڑا سا حصہ اسلامی جمہوریت سے حاصل ہو جائے۔

وی آئی پی کلچر سے پاک جمہوریت

دنیا کی پہلی جمہوریت کا بنیادی اصول تھا کہ ہر شہری برابر ہے۔ کوئی اگر صدر مملکت کا رشتہ دار ہے، تو اس رشتہ داری کے سبب اسے خصوصی درجہ (VIP) نہیں مل سکتا۔ جس طرح ایک عام غریب شہری ہے، اسی طرح صدر مملکت کا رشتہ دار بھی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

’’لوگو! سن لو۔ تمہارا رب ایک ہے۔ عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں۔ نہ کالے کو گورے پر یا گورے کو کالے پر کوئی فضیلت ہے، سوائے تقویٰ کے۔ (بیہقی)

ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:

’’مومنوں کے خون ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ وہ دوسروں کے مقابلے میں ایک ہیں اور ان کا ایک ادنیٰ آدمی بھی ان کی طرف سے ذمہ لے سکتا ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حکمراں کو جوابدہ بتایا ہے، آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ:

’’دیکھو تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور ہر ایک اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے اور مسلمانوں کا سب سے بڑا سردار جو سب پر حکمراں ہو وہ بھی راعی ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔

آپ نے ارشاد فرمایا:

’’کوئی حکمراں جو مسلمانوں میں سے کسی رعیت کے معاملات کا سربراہ ہو۔ اگر اس حالت میں مرے کہ وہ ان کے ساتھ دھوکہ اور خیانت کرنے والا ہو۔ تو اللہ اس پر جنت حرام کر دے گا۔ (بخاری)

’’کوئی حاکم جو مسلمانوں کی حکومت کا کوئی منصب سنبھالے، پھر اس کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے جان نہ لڑائے اور خلوص کے ساتھ کام نہ کرے، وہ مسلمانوں کے ساتھ جنت میں داخل نہ ہو گا۔ (مسلم)

حکمران اور احساس ذمہ داری

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اسی تربیت کا اثر تھا کہ صحابۂ کرام خوف الٰہی سے لرزہ بر اندام رہتے تھے، جس نے جو ذمہ داری لی۔ اسے جی جان لڑا کر نبھایا۔ خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جب مسلمانوں کے خلیفہ بنائے گئے، تو بھی آپ کپڑوں کا ایک گٹھر لے کر فروخت کرنے کے لئے نکل پڑے۔ لوگوں نے جب یہ حالت دیکھی۔ تو کہا کہ آپ کپڑے فروخت کریں گے، تو کاروبار حکومت کون دیکھے گا؟ آپ نے کہا۔ کیا کروں، میرے سر پر اپنے بچوں کی بھی ذمہ داریاں ہیں۔ آخر کار لوگوں نے مل بیٹھ کر مشورہ کیا اور آپ کے لئے بیت المال سے کچھ رقم وظیفے کے طور پر مقرر کر دی۔ یہ رقم آپ کو ملتی رہی۔ مگر انتقال کے بعد آپ کی وصیت کے مطابق اسے آپ کے ترکے سے بیت المال کو واپس کر دیا گیا۔ یہی حالت حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی تھی۔ آپ کے احساس ذمہ داری کا یہ عالم تھا کہ فرماتے ہیں:

’’دریائے فرات کے کنارے بکری کا ایک بچہ بھی ضائع ہو جائے، تو میں ڈرتا ہوں کہ اللہ مجھ سے باز پرس کرے گا۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے جس جمہوری ریاست کا تصور پیش کیا ہے اس میں حاکم کی اطاعت اسی وقت تک لازم ہے، جب تک وہ بھلائی کا حکم دیتا رہے۔ اگر اس نے اللہ ورسول کے احکام کے خلاف عمل کیا۔ تو اس کی مخالفت بھی ضروری ہے۔ جیسا کہ نواسۂ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔

’’جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کے ہاتھ نہ پکڑیں، تو دور نہیں کہ اللہ ان پر عام عذاب بھیج دے۔

حقیقی جمہوریت سے دوری

عہد حاضر میں ہم جمہوریت کے نام پر جس قسم کی سرکاریں دیکھ رہے ہیں، یہ حقیقت میں جمہوریت کا غلط استعمال ہے۔ آخر یہ کیسی جمہوریت ہے کہ عوام خود اپنے لئے ایک ظالم۔ غیر منصف حکمراں منتخب کریں، جو ایسے اختیارات رکھتا ہو۔ جو کسی دوسرے کو حاصل نہ ہوں۔ عوام کو ٹوٹی جھونپڑی میسر نہ ہو اور وہ محلوں میں رہے۔ ملک کے لوگ بھکمری کے شکار ہوں اور اس کے بچے عیش کرتے ہوں۔ جس ملک میں انسانوں کی بھیڑ ریلوں اور پبلک بسوں میں جانوروں کی طرح سفر کرتی ہے، وہاں حکمرانوں کا چارٹرڈ جہازوں کو صرف چپل منگوانے کے لئے بھیجنا کتنی شرمناک بات ہے۔ جس دنیا میں لاکھوں لوگوں کو سر چھپانے کے لئے سائبان میسر نہ ہو وہیں کتوں کے لئے فائیواسٹار ہوٹلوں میں کمرے بک کرانا اور ان کی دیکھ بھال کے لئے نوکروں کی فوج رکھنا جمہوریت ہی نہیں انسانیت کی بھی توہین ہے۔ سچ پوچھو تو یہ سچی جمہوریت نہیں، جسے آج ہم دیکھ رہے ہیں، سچی اور حقیقی جمہوریت تو وہی ہے، جس کا تصور پیغمبر اسلامﷺ نے پیش کیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

رہنما اس کا ہر نقش پا ہو گیا

وہ جدھر چل دیا راستہ ہو گیا

اُس نے روشن کیا اِک دیا راہ میں

دور تک پھر یہی سلسلہ ہو گیا

سریندر شجرؔ

 

 

 

 

دہشت گردی سے پاک معاشرے کے لئے سیرت نبوی کی ضرورت

 

تمہارے شہر میں اب کون کس سے پیار کرے

جہاں زمانہ محبت کو سنگسار کرے

 

دہشت گردی کی اصطلاح 9/11 کے حملوں کے بعد زیادہ تیزی سے رائج ہوئی۔ اس کے بعد ساری دنیا میں امریکا کی دادا گیری کے خلاف لڑنے والوں کو دہشت گرد کہا جانے لگا۔ حالانکہ جو ملک یا فرد عام لوگوں کو خوف زدہ کرتا ہے، وہ دہشت گرد ہے۔ جو بے قصوروں کی جانیں لیتا ہے، وہ دہشت گرد ہے۔ جو شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کرتا ہے، وہ دہشت گرد ہے۔ دہشت گردی یوں تو ہر دور میں کسی نہ کسی روپ میں موجود رہی ہے، مگر حال کے زمانے میں بڑے پیمانے پر سامنے آئی ہے۔ بیسویں صدی میں انگلینڈ نے دنیا کے بہت سے ملکوں پر قبضہ کر رکھا تھا۔ ان ملکوں کے وسائل کو اپنے استعمال میں لاتا تھا اور یہاں کے لوگوں کو غلام بنا رکھا تھا۔ ظاہر ہے یہ ایک قسم کی دہشت گردی تھی۔ مگر موجودہ دور میں یہی کام ایک دوسرے انداز میں امریکا اور اس کے حلیف انجام دے رہے ہیں۔ وہ کسی ملک پر ڈائریکٹ قبضہ کرنے کے بجائے وہاں اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کر دیتے ہیں۔ ان کا اپنا آدمی بیٹھا امریکی و یوروپی مفادات کی نگہبانی کرتا رہتا ہے۔ اس کی مثال افغانستان، عراق افریقہ اور بیشتر خلیجی ملکوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ظاہر ہے اس طریقے سے بھی ان ملکوں کے عوام کے حقوق پر شبخون مارے جاتے ہیں اور یقینی طور پر یہ دہشت گردی ہے۔

دہشت گردی کا ایک بھیانک روپ دنیا کے کئی ملکوں میں دیکھنے کو ملا۔ جب امریکا اور اس کے مغربی حلیفوں نے پاکستان۔ افغانستان۔ عراق وغیرہ میں حملے کر کے عام شہریوں کا جینا محال کر دیا۔ یہاں اب تک لاکھوں شہری موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے خوفناک حملوں کی تاب نہ لا کر دم توڑ گئے، جو زندہ بچے وہ مختلف جسمانی اعضاء سے محروم ہو گئے ہیں۔ ان حملوں کے چلتے عام لوگوں کی زندگی موت سے بدتر ہو گئی ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ اس لڑائی کو دہشت گردی سے جنگ کا نام دیا گیا ہے۔ انہیں ملکوں کی شہ پر فلسطین میں بھی دہشت کا بازار گرم ہے اور اسرائیل جو کہ دہشت گردی کی جڑ ہے، اس کے تحفظ کے نام پر عورتوں، مردوں، بچوں اور بوڑھوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ الغرض موجودہ دنیا کا ایک بڑامسئلہ دہشت گردی بن چکا ہے۔ دہشت گردی کی سماجی شکلیں بھی ہم اپنے معاشرے میں دیکھتے رہتے ہیں، مثلاً ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی کو پریشان کرنا، راستہ چلتے دو لوگوں کا آپس میں لڑ پڑنا۔ طاقتور افراد کا کمزوروں پر ظلم۔ پولس کا عوام پر ظلم وغیرہ وغیرہ۔

بڑی دہشت گردی ابھی باقی ہے

دہشت گردوں نے اب تک لاکھوں افراد کی جانیں لی ہیں، مگر مستقبل میں دہشت گردی کی جو صورت حال دنیا کے سامنے آنے والی ہے، اس کے مقابلے میں یہ شاید چھوٹی دہشت گردی ہو۔ دنیا کے کئی ملکوں نے خوفناک ایٹمی ہتھیار تیار کر رکھے ہیں۔ اب تک صرف ایک بار دنیا میں ایٹم بم کا استعمال ہوا ہے اور وہ بھی کمزور قسم کا ایٹم بم۔ امریکا نے جاپان کے ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر جو بم گرائے تھے، ان سے لاکھوں انسان مارے گئے تھے اور ان کے اثرات آج بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ خدا نخواستہ اگر کسی ملک نے آج کا ترقی یافتہ ایٹم بم استعمال کر لیا۔ تو کیا ہو گا؟

ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت امریکا، اسرائیل انڈیا پاکستان، نارتھ کوریا۔ چین۔ فرانس۔ برطانیہ اور سابق سوویت یونین کے ملکوں کے پاس ہزاروں ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ یہ ہتھیار دنیا کو کئی بار تباہ کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اگر کبھی ان کا استعمال ہو گیا۔ تو دنیا میں وہ تباہی آئے گی۔ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

شاید خدا، بنائے گا، کوئی نیا جہاں

دنیا کو یوں مٹائے گی اکیسویں صدی

اتنے ہلاکت خیز ہتھیاروں کے باوجود ابھی شوق ہلاکت کی تکمیل نہیں ہوئی ہے اور دنیا کے سبھی ممالک کے سائنسداں کچھ ایسے ہتھیار بنانے کی کوشش میں ہیں، جو ایٹم بموں سے زیادہ مہلک ہوں۔

دہشت گردی کا علاج

موجودہ عہد میں دہشت گردی کا صرف اور صرف ایک علاج ہے پیغام نبوی کی پیروی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی اور آپ کی تعلیمات کو اگر دنیا اپنا لے، تو اس سے ہر قسم کی دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے بار بار حکم فرمایا کہ انسانی جانوں کا احترام کرو۔ ظاہر ہے انسان اللہ کی عزیز ترین مخلوق ہے۔ اس نے دنیا کی ہر چیز کو ’’کن۔ کہہ کر پیدا فرمایا۔ مگر جب انسان کی تخلیق مقصود ہوئی۔ تو اس بے پناہ طاقت رکھنے والے خالق نے اسے ایک لفظ کہہ کر وجود نہیں بخشا۔ بلکہ پہلے فرشتوں کے سامنے اپنی منشاء کا اظہار کیا۔ فرشتوں نے مزید جاننا چاہا تو فرمایا ’’ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ اس کے بعد دنیا کے مختلف خطوں سے مٹی کے نمونے جمع کئے گئے، پھر انہیں باہم ملایا گیا پھر انتہائی محبت سے اللہ نے اپنی قدرت کے ہاتھوں سے آدم علیہ السلام کا پتلا بنایا اور اس میں ’’امر ربی۔ کے ذریعے روح پھونکی۔ جب انسان اول وجود میں آ گیا۔ تو اسے اللہ نے زیور علم سے آراستہ کیا۔ پھر اس کے دل کے قریب سے اس کی راحتِ جان بیوی کو پیدا فرمایا۔ ظاہر ہے یہ اہتمام بلاوجہ تو نہیں کیا گیا؟ یقیناً اللہ کو اپنی اس تخلیق سے خصوصی لگاؤ ہو گا۔ تبھی تو اس نے انسان کی تخلیق میں اس قدر اہتمام کیا۔ اس کے بعد فرشتوں سے آدم کو سجدہ کروا کر رب العزت نے ظاہر کر دیا کہ اس نے آدم کو عزت و شرافت کا وہ تاج پہنایا ہے، جو نہ پہلے کسی کو پہنایا گیا اور نہ ہی بعد میں کسی کو بخشا جائے گا۔ اللہ اپنی جس مخلوق کو اس قدر عزت سے نوازے، اس قدر محبت کا اظہار فرمائے، اسے کسی دہشت گردی کے ذریعے تباہ کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتا۔

کعبہ سے افضل انسان

دنیا کی تمام عبادت گاہوں میں سب سے افضل کعبہ ہے۔ یہ دنیا کی مرکزی عبادت گاہ ہے۔ یہ دنیا میں اللہ کی عبادت کے لئے بنائی گئی پہلی مسجد ہے، مگر اللہ کے رسول نے انسان کو اس سے بھی افضل بتایا اور انسانی جان کا احترام کعبہ سے بھی افضل فرمایا ہے۔ ابن ماجہ کی حدیث ہے کہ اللہ کے رسول نے کعبہ کو مخاطب کر کے فرمایا:

’’کتنا پاکیزہ ہے تو اور کیسی خوشگوار ہے تیری فضا۔ کتنا عظیم ہے تو اور کتنا محترم ہے تیرا مقام، مگراس خدا کی قسم جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے، ایک مسلمان کی جان و مال اور خون کا احترام اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے۔

اللہ اکبر ذرا غور کریں انسانی جان کا۔ اس سے بڑھ کر کیا احترام ہو سکتا ہے کعبہ تو اللہ کی عبادت کی جگہ ہے، مگر انسان کا دل اللہ کی محبت کی جگہ۔ عبادت سے افضل محبت ہے۔ اوپر کی حدیث میں مسلم یا مومن کہا گیا ہے۔ یہ خاص موقع کی مناسبت سے کہا گیا۔ ورنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے انسانی جان کا احترام سکھایا ہے۔ اس میں مذہب کی کوئی قید نہیں۔ چنانچہ نسائی کی حدیث ہے کہ رسول محترم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔

’’جس نے کسی غیر مسلم (ذمی) کو قتل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی۔

جنگ کے دوران خون انسانی کا احترام

جنگوں کے دوران ایک ملک کا دوسرے ملک کے عوام پر حملہ عام بات ہے۔ ان حملوں میں بچے، بوڑھے، کمزور۔ مریض اور عورتیں ماری جاتی ہیں۔ ان کی کوئی کھوج خبر لینے والا نہیں ہوتا۔ جنگ کے بعد بھی کسی بین الاقوامی قانون کے تحت حملہ آور کو سزا نہیں دی جاتی۔ مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان طبقات پر کسی قسم کے حملے سے منع فرمایا۔ سب سے پہلے آپ نے جنگ و جدال سے ہی دور رہنے کی تاکید فرمائی۔ مگر ناگزیر حالات میں اگر جنگ کی نوبت آ جائے، تو اپنے دفاع کے لئے ایسا کر سکتے ہیں۔ ایک مرتبہ دوران جنگ کچھ غیر مسلم بچے زد میں آ گئے اور مارے گئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو معلوم ہوا۔ توسخت رنج ہوا اور پریشان ہو اٹھے۔ کسی نے کہا کہ وہ تو مشرکین کے بچے تھے کیا ہوا مارے گئے، تو یہ بات سن کر آپ نے فرمایا۔

’’خبردار بچوں کو قتل نہ کرو۔ خبر دار بچوں کو قتل نہ کرو۔ ہر جان خدا ہی کی فطرت پر پیدا ہوئی ہے (مسند امام احمد)

اللہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو قرآن پاک میں رحمت للعالمین کے لقب سے نوازا ہے۔ یعنی تمام جہانوں کے لئے رحمت۔ ظاہر ہے اس دنیا میں صرف مومن ہی نہیں رہتے، دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی رہتے ہیں اور اللہ کے رسول سب کے لئے باعثِ رحمت بن کر دنیا میں تشریف لائے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کی رحمت صرف مسلمانوں تک محدود کر دی جائے۔ آج ضرورت ہے کہ اس رحمت بھری تعلیم کو دنیا میں عام کیا جائے اور دہشت گردی کو ختم کیا جائے۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

ورڈ فائل 

 

ای پب فائل 

 

کنڈل فائل