FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

انتخاب غزل نما

 

 

 

 

                   جمع و ترتیب: ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، اعجاز عبید

 

 

 

حمدیہ

 

 

محمد نورالدین موج

 

ہے یہاں بھی توہے وہاں بھی تو، توہر اک جہاں میں ہے چارسو

تری شان جلالہٗ

ہے رحیم تو، ہے کریم تو، ہے فہیم تو، ہے عظیم تو

تری ذات عم نوالہ

ترانورشمس و قمر میں ہے، ترا وصف برگ  و شجر میں ہے

ہے جدھر نظر وہاں تو ہی تو

ترا نام ہے سبھی نام میں ،تری ہے جھلک در و بام میں

ہے عقیل تو، ہے فہیم تو

تراحسن شام وسحرمیں ہے، ترا جلوہ قلب و نظر میں ہے

تو قریب تر از رگِ گلو

جو کہے یہ موج تو کیا کہے تو یہاں پہ ہے کہ وہاں پہ ہے

توہے ربِ عالمِ این و او

٭٭٭

 

 

 

میم اشرف

 

اسی میں بقا ہے ، یہ سچی صدا ہے

کہ بس اک خدا ہے

جومنظوراس کو، جو اس کی رضا ہے

وہی ہو رہا ہے

اسی کوہی زیبا ہے کبر و تکبر

جو اک کبریا ہے

یہ دن کا اجالا،یہ شب کی سیاہی

اسی کی ادا ہے

یہ دوزخ ، یہ جنت ،اسی کی طرف سے

سزااور جزا ہے

شب و روز شش ندرتِ شش جہت یہ

بحکم خدا ہے

اسی نے کہا، کن، تو دیکھو یہ اشرف

سبھی ماسوا ہے

٭٭٭

 

 

 

ڈاکٹر فراز حامدی

 

اللہ سب سے ہے بڑا اونچی اس کی شان

غالب قادر مان

ویسے تو قہار ہے رکھتا ہے جبروت

پھر بھی ہے رحمن

چندا کی یہ چاندنی سورج کی یہ دھوپ

سب کچھ اس کی شان

دکھیا یہ سنسار ہے رب سے ناتا جوڑ

سکھ کی چادر تان

حیواں ہوں کہ آدمی کیڑے ہوں کہ طیر

سب کو دیتا نان

ہر جا اس کا نور ہے ہر جا وہ موجود

حاضر ناظر جان

رب کے ہاتھوں زندگی رب کے ہاتھوں موت

وہ ہی ڈالے جان

مالک خالق ہے وہی، جانے ہے مخلوق

پھر بھی ہے انجان

٭٭٭

 

 

نعتیہ

 

 

مشرف حسین محضر

 

 

ہم صاحبانِ ایماں جب بھی سفر کریں گے

منزل کوسرکریں گے

راہِ نبی پہ چل کر اپنی ہی زندگی کو

ہم معتبر کریں گے

بیمارِ مصطفیٰؐ ہوں پھر کیا علاج میرا

یہ چارہ گر کریں گے

اے اہلِ حق نہ ڈریے چھٹ جائیں گے اندھیرے

ہم رخ جدھر کریں گے

ہوں تابعِ محمدؐ رب سے میری سفارش

خیرالبشر کریں گے

طیبہ کی وادیوں کا اک دن ضرور محضر

ہم بھی سفر کریں گے

 ٭٭٭

 

 

 

 

میم اشرف

 

 

محمدؐ ،محمدؐ، محمدؐ،محمدؐ

وہ امجد،وہ سید

گئے عرش پر تو یہ ہرسو صدا تھی

خوش آمد!خوش آمد!

ہر اک زاوئے سے خدا نے بنایا

ہے ان کا بڑا قد

وہ مہر منور، وہ طیبہ نگر ہے

جہاں ان کی مسند

نہیں دم یہ نکلے کہ جب تک نہ دیکھوں

میں خضریٰ کا گنبد

خدااس سے راضی کہ رکھتا ہے دل میں

جو حبِ محمدؐ

٭٭٭

 

 

 

 

 

وقیع منظر

 

میزباں تھا خدا

آپؐ کا

آپ ؐ مہماں ہوئے

مرحبا

وجد میں تھا جہاں ،

مصطفیٰؐ

وقت بھی جس گھڑی

تھم گیا

وہ ہے معراج کا

واقعہ

پل میں لمباسفر

طے ہوا

آپؐ لوٹے تو پھر

یوں ہوا

بستر ہاشمی

گرم تھا

٭٭٭

 

 

 

شاہد جمیل

 

 

صورت کسی کی سرخ ہے چہرہ کسی کا زرد ہے

سب کاروبار درد ہے

بزمِ تعقل کیلئے کارِ تعشق اور ہے

اور دل اکیلا فرد ہے

دو چار اشکوں سے میاں جائے گی اس کی یاد کیوں

برسوں پرانی گرد ہے

لیکن دلوں کی حدتوں کافلسفہ کچھ اور ہے

ہرچندموسم سردہے

قوس قزح میں ایک رنگ اس بار باطل ہے ضرور

ساراگلستاں زرد ہے

 ٭٭٭

 

 

 

شاہد جمیل

 

تری آرزو کے عروج میں ، جو کہیں کہیں پہ زوال ہے

مری جستجوکاکمال ہے!

نہ فسوں ترا مرے عشق میں ، نہ جنوں مرا ترے کام کا

نہ لہو میں اب وہ ابال ہے!

تجھے یاد رکھتا ہوں بھول سے، تجھے بھول جاتا ہوں یاد میں

یہی روز و شب مرا حال ہے

جو گلہ تھا تیرے غیاب سے، وہ صلہ ہے میرے وجود کا

نہ تو ہجر تھا نہ وصال ہے

تری بیخودی نے غضب کیا کہ انا کے حصے میں آج کل

کوئی خواب ہے نہ خیال ہے

تجھے ڈھونڈنے کے سرور میں مرے چارسو جو یہ نور ہے

تری حیرتوں کا جمال ہے

کبھی رات آ کے ڈھلی نہیں کہ کھنڈر یہ میرے جنوں کا ہے

وہی مکڑیاں وہی جال ہے

٭٭٭

 

 

 

بیکل اتساہی بلرامپوری

 

 

یہ لفظوں کا زریں زمانہ ہے پیارے غزل نام کا اک بہانہ ہے پیارے

یہ موسم قلم کاسہانا ہے پیارے

بتا شعر کہنے کا ہے قاعدہ کیا؟کوئی زندگی کیلئے فائدہ کیا؟

مگر موڈ کا کچھ ٹھکانہ ہے پیارے

یہ ہرگانوی خوب سے خوب تر ہیں ہر اک لکھنے والے کا قلب و نظر ہیں

کہاں فکر و فن آزمانا ہے پیارے

ہے مدراس میں اک نویدی ہمارا، وہ دریا ہے بہتا ہوا بے کنارا

ہر اک صنف پر آشیانہ ہے پیارے

فراز حامدی ہے گلابی نگر میں نئے پن میں مصروف شام وسحرمیں

جی!بیکل کواس راہ جانا ہے پیارے

٭٭٭

 

 

 

قیصر شمیم

 

 

سوارہوکے روشنی کے رتھ پہ کون آ گیا

کہ شہر دل پہ چھا گیا

بجھے دیوں کا تھا نگر، رکا و ہ دو گھڑی مگر

نئے دیے جلا گیا

لبوں پہ اس کے لفظ آ کے رک گئے تورک گئے

مگر وہ کیاسنا گیا!

لگی تھی روک بادلوں پہ ،وہ رکے رہے ،مگر

شجر شجر نہا گیا

گریں نہ بجلیاں کہیں ، مگر دھواں بہت اٹھا

یہ کون گھر جلا  گیا

جو لوحِ دل پہ نقش تھا وہ زخم بن گیا کہ میں فریب تجھ سے کھا گیا

متاعِ جاں بچاتا کیا کہ خود ہی قیصر حزیں

خوشی خوشی لٹا گیا

٭٭٭

 

 

 

 

علقمہ شبلی

 

آدمی اس دور کا ہے خاک برسر، پا بہ جولاں

زندگی شعلہ بداماں

آ گئی ہے نزدساحل کشتی عمرِ گریزاں

وقت ہے یہ حشرساماں

نذرِ آتش کر چکے ہیں خود ہی جب اپناگلستاں

کس لیے ہیں پھر پشیماں

ہیں وہی امید فردا، نورسے عزم و یقیں کے

ہے جبیں جن کی درخشاں

آگ گلشن میں بگولے دوڑتے ہیں چار جانب

خواب ہے رقصِ بہاراں

بات کیا ہے، کس لیے چارہ گری وقتِ دعا ہے

کیا نہیں اب کوئی درماں

جن کی ٹھوکر میں رہا کرتے تھے تخت و تاج شبلی

اب کہاں وہ کج کلاہاں

 ٭٭٭

 

 

 

 

صابر عظیم آبادی

 

تری جلوہ گری دیکھی، ترا ذوقِ نظر دیکھا

تجھے شام وسحردیکھا

جنہیں آتا نہیں ہے،بات کرنا فیصلہ کرنا

انہیں کومعتبر دیکھا

تری تقدیر کی پھیلی ہوئی ساری لکیروں پر

ستاروں کااثر دیکھا

کبھی مندر،کبھی مسجد، کبھی گرجا میں آنکھوں نے

تجھی کو جلوہ گر دیکھا

تماشائے جنوں تھا دیدنی پر کیا کہا جائے!

بہت ہی مختصر دیکھا

قفس کے پاس جب پہنچے تو اپنے ہم نشینوں کا

بریدہ بال و پر دیکھا

شب مہتاب میں صابرلباسِ فاخرہ پہنے

کسی کو بام پر دیکھا!

 ٭٭٭

 

 

 

 

ڈاکٹر فراز حامدی

 

 

دھماکے ہوتے رہتے ہیں قیامت ہوتی رہتی ہے

سیاست ہوتی رہتی ہے

خلوص دل سے ملتے ہیں ، محبت بھی جتاتے ہیں

عداوت ہوتی رہتی ہے

نہ میں اشعار کہتا ہوں نہ دوہے گیت لکھتا ہوں

بشارت ہوتی رہتی ہے

مرا دل بھی لبھاتے ہیں گلے شکوے بھی کرتے ہیں

شرارت ہوتی رہتی ہے

عجب دستورِ دنیا ہے، جتاتے ہیں ، ہراتے ہیں

قیادت ہوتی رہتی ہے

کہیں گولے برستے ہیں کہیں چیخیں ابھرتی ہیں

حفاظت ہوتی رہتی ہے

فرازِ حامدی کہہ دو ہمیں کچھ بھی نہیں ملتا

سخاوت ہوتی رہتی ہے

٭٭٭

 

 

 

سہیل غازی پوری

 

 

ہر شعر کے مصرعے میں اک اضافی ہے

کیااس کی تلافی ہے

آئینہ مکدر ہے اور عکس نہیں دیتا

اس کیلئے صافی ہے

بے وجہ جوتوڑو گے دل جیسے خیاباں کو

کیااس کی معافی ہے

کوشش تو بہت کی تھی ہوسادہ غزل لیکن

اک مصرعہ زحافی ہے

سائے میں گل ترکے شبنم کی حقیقت کیا

بس گرمی ہی کافی ہے

آہنگ غزل مانا ہے خوب مگر دیکھو

کیا رنگِ قوافی ہے

رنگینی موسم ہے اس آنکھ کا کیا کہنا

جو آنکھ غلافی ہے

منظرجونظرآیااس نے تو وہی لکھا

کیا خوب صحافی ہے

بس مانگو سہیل اس سے وہ سب کو شفا دے گا

اللہ ہی شافی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

نذیر فتح پوری

 

 

وہ اپنے آپ کوہر دم صفِ قاتل میں رکھتا ہے

ہمیں بسمل میں رکھتا ہے

زمیں کوآسماں کرنے کی خواہش دل میں رکھتا ہے

وہ دل مشکل میں رکھتا ہے

ہے جتنی روشنی پوشیدہ اپنے دل میں رکھتا ہے

دھواں محفل میں رکھتا ہے

حقیقت کو چھپا کر دامنِ باطل میں رکھتا ہے

تو کیا حاصل میں رکھتا ہے؟

بظاہر تو ملاقاتوں کی حسرت دل میں رکھتا ہے

سنپولے بل میں رکھتا ہے

عبث ہی ڈھونڈتے ہوآستینوں میں نذیر احمد

وہ خنجر دل میں رکھتا ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

کوثر صدیقی

 

نشتردستِ گلچیں کے چلتے ہوئے

پھول کیسے ہنسے

منتظر مدتوں سے ہوں تعبیر کا

اپنے سپنے لیے

موسم گل میں کانٹوں کا قد بڑھ گیا

پھول بونے رہے

پاسباں ساتھ تھے کارواں کے، مگر

راہ رولٹ گئے

یہ زمیں آسماں مہر و مہ کہکشاں

کب ہیں میرے لیے

عمر بھر حل نہ ہو پایا یہ مسئلہ

رات کیسے کٹے

سب کنویں خشک ندیوں میں پانی نہیں

آگ کیسے بجھے

کانٹے بوئے جنہوں نے ملے ان کو گل

ہم کو کانٹے ملے

لے کے آئے ہیں وہ نسخۂ کیمیا

زخم جب بھر گئے

٭٭٭

 

رؤف خیر

 

 

ہے اپنا بھائی ہی اپنا دشمن یہاں کوئی دوسرانہیں ہے

یہ مسئلہ کچھ نیا نہیں ہے

بھلے ہی میں ان کودوست سمجھوں ، وہ مجھ کو دشمن سمجھ رہے ہیں

چلو یہ سودابرا نہیں ہے

یہ جرأت و حوصلہ تو دیکھو، اسے گلہ ہے کسوٹیوں سے

وہ جس کا سونا کھرا نہیں ہے!

ہزار دعوا انانیت کا، دماغ کیا کیا ہے علمیت کا

یہ غم ہے، وہ کیوں خدا نہیں ہے؟

وکیل بھی ،مدعی بھی، جج بھی تمہی، وہی بے گناہ ہم بھی

چلو،یہ قصہ نیا نہیں ہے!

وہ آدمی اپنے فن میں ماہر ہے، شہر بھر میں ہے منفرد بھی

بس ایک وعدہ وفا نہیں ہے

خضر نے کشتی بگاڑی، بچے کو مارا، دیوار سیدھی کر دی

کلیم صبر آزما نہیں ہے

بس ایک مصرعے میں نظم کہنا، کمال تیرا ہے خیر، لیکن

ترا کوئی ہم نوا نہیں ہے!

٭٭٭

 

 

 

ڈاکٹر سیفی سرونجی

 

ہر قدم پر جو ہمارے صرف کانٹے بو رہا ہے

اپناسب کچھ کھو رہا ہے

دیکھتے ہی دیکھتے ہم آسماں چھونے لگے ہیں

وہ زمیں پر سورہا ہے

لکھ رہا ہوں بات سچی میں قلم سے آج کل

شہر دشمن ہو رہا ہے

یہ مروت یہ مسائل یہ اداسی اور زمانہ

بوجھ کیا کیا ڈھو رہا ہے

کر دیا سارے جہاں میں ہم کورسواور اب وہ

اپنی قسمت رو رہا ہے

 ٭٭٭

 

 

 

شمیم قاسمی

 

کبھی یوں باغ سے تم جانبِ صحرا تو آ لیتے

سخنورسامزہ لیتے

نمک چہرے سے کب جھڑتا ہے ان کے اور اگر جھڑتا

تو پپنی سے اٹھا لیتے

غزل کے جو بھی ہیں الفاظ سب مانند مہماں ہیں

ذرا دل میں بٹھا لیتے

چلو اچھا ہوا کہ آئینہ سے دور رہتے ہیں

مگر کاکل سجالیتے

نہیں جمتی ہے سرسوں وہ اگر آنکھوں سے کہہ دیتے

ہتھیلی پر جما لیتے

کسی عطار کی پروہ نشیں سے مل لیے ہوتے

مریض د ل شفا لیتے

وہ اک رونی سی صورت ان دنوں اچھی سی لگتی ہے

گرہ اس پر لگا لیتے

٭٭٭

 

 

 

 

ظہیر انور

 

 

محبت کے نئے سانچے میں مجھ کو آج ڈھلنا ہے

تمہارے ساتھ چلنا ہے

ہٹو اے بادلو اب راستہ چھوڑو اجالوں کا

کہ سورج کو نکلنا ہے

کہیں معصوم بچوں کو پھٹی چادر نہیں ملتی

کہیں چندن کا پلنا ہے

جمی ہے برف جو دل پراسے سانسوں کی گرمی سے

کسی دن تو پگھلنا ہے

سبھی سمتوں سے آئے روشنی اس کیلئے ہم کو

اندھیروں کو کچلنا ہے

ہزاروں خواہشوں کو ہم نے زندہ دفن کر ڈالا

تمہیں بھی اب بدلنا ہے

ظہیرانوراسی امید پر زندہ ہے برسوں سے

کہ قسمت کوسنبھلنا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ڈاکٹر محبوب راہی

 

 

جابجاسوبہ سو، کو بہ کو،منتشر ہر طرف زندگی

جلوہ گر صف بہ صف زندگی

موت کا قافیہ تنگ ہے، ہر طرف برسرِ جنگ ہے

ہر طرف سربکف زندگی

وجہ تذلیل و توہین بھی، باعثِ عز و توقیر بھی

وجہ عز و شرف زندگی

خود مرض خود ہے اپنی شفا، زندگی زندگی کی دوا

زندگی کا ہدف زندگی

بے بہا وہ جوتھی بے بدل، ہو گئی سربسرآج کل

ایک خالی صدف زندگی

کر گئی ہرسبق سے مرا اپنے ہر اک ورق سے مرا

نام یکسرحذف زندگی

مجھ کواتناستاتی ہے کیوں ،دن بدن ہوتی جاتی ہے کیوں

اس قدر نا خلف زندگی

٭٭٭

 

 

 

 

پروفیسرمنصورعمر

 

 

کر دیا مجھ پر مسلط اس نے یہ کیساعذاب

لے گیا آنکھوں سے خواب

اس جہاں میں بھی تو اکثر دینا پڑتا ہے جناب

اپنی کرنی کاحساب

زندگی کااس کی مقصد رہ گیا رقص وسرود

اور پھر چنگ و رباب

طفل ناداں نے کہا جب، ننگا ہے یہ بادشاہ

ہو گئے سب لاجواب

در بدر پھرتے ہیں مارے وہ گلی کوچوں میں اب

کل جوتھے عزت مآب

وہ بجھائے گا مسافر کی بھلا کیسے پیاس

وہ توہے بس اک سراب

اپنی قسمت میں لکھا منصور ہم نے خود زوال

بند کر کے اک کتاب

٭٭٭

 

 

 

 

یوسف جمال  

 

 

جس سے ناواقف رہا ہے اور نہ جس کو جانتا ہے

پھر بھی اس کو مانتا ہے

آج تک اس سے تعارف ہو نہ پایا جبکہ ہر پل

اس کو وہ پہچانتا ہے

کیا گپھائیں اور کچھار،اس سے بھلا کیا کچھ چھپا ہے

دشت کو جو چھانتا ہے

کل مخالف ہو نہ جائے وہ جسے جان اور دل سے

اپنوں میں گردانتا ہے

اس کو پورا کر کے ہی وہ چین سے پھر بیٹھتا ہے

دل میں جو بھی ٹھانتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

عثمان قیصر

 

 

ہے جان یہاں سستی ہر شے پہ گرانی ہے

یہ اپنی کہانی ہے

جب گاؤں کے شہروں کے حالات ہیں اچھے تو

کیوں نقل مکانی ہے

دہشت کی علامت ہے کیا آج کایہ انساں

تخریب کابانی ہے

اس دور مذہب سے حددرجہ کہیں بہتر

تہذیب پرانی ہے

انسان کے سینے میں اخلاص کے بدلے کیوں

اب ریشہ دوانی ہے

انجام سے ڈرظالم ،کرتوبہ گناہوں سے

یہ دہر توفانی ہے

ناشاد رعایا ہے، اور شاد یہاں قیصر

راجا ہے نہ رانی ہے

 

++++

 

غزل نما

 

محبوب انور،احمدنگر

 

زندگی کو نیا رخ بدلنا ہی تھا

غم میں ڈھلنا ہی تھا

اک تری یاد میں مثلِ شمع نظر

مجھ کو جلنا ہی تھا

تم نہ آتے نہ آئے مگر مجھ کو تو

ہاتھ ملنا ہی تھا

غم ہویا ہو خوشی مجھ کو ہر حال میں

ہنستے رہنا ہی تھا

سانپ تھا ہم سفر بچ تو جاتا مگر

اس کوڈسناہی تھا

قصہ درد و غم لکھ رہا ہوں کہ اب

مجھ کو لکھنا ہی تھا

راہ پر خار سے انور خوش بیاں

بچ کے چلنا ہی تھا

٭٭٭

 

 

 

شان بھارتی

 

کھل گیا باب شعلہ اثر دھوپ میں

ہے سفر دھوپ میں

کیسے ممکن سفر ہو کہ بھولا ہوں میں

رہ گزر دھوپ میں

آئینے تیرگی میں ہیں کس کام کے

سوہنر دھوپ میں

مہرباں جب وہ ہیں کوئی کیونکر پھرے

در بدر دھوپ میں

شوق دیدار کیا جب کہ بخشی گئی

ہر نظر دھوپ میں

شان مومی لباسوں میں ملبوس ہیں

بے خطر دھوپ میں

٭٭٭

 

 

 

منیرسیفی

 

’’غزل نما کے موجد شاہد جمیل کے نام‘‘

 

جون عشق کے باعث زباں پر ان کا نام آیا

نکما یار کام آیا

جسے پرواز پر اے ہم صغیر و ناز تھا اپنی

وہی تو زیر دام آیا

زمین گلستان رنگین، فضائے آشیاں رنگیں

کوئی نازک خرام آیا

صراحی نے مبارکباد دی، میخانہ جھوم اٹھا

جہاں گردش میں جام آیا

ظہیرازی تو اکثر دوستوں پہلے ہی زینے کو

سمجھ لیتے ہیں بام آیا

ہمارے ذکرسے خالی لہو کی داستانیں ہیں

منیرایسا مقام آیا!

٭٭٭

 

 

 

قمر برتر

 

اب جو مہنگائی بڑھی اس کا جواب آنے کو ہے

انقلاب آنے کو ہے

دیکھو اب تم ہر کسی سے یوں نہ اٹھلایا کرو

اب شباب آنے کو ہے

ہے جو قرآن مبیں آخر، تو کیسے مان لیں

پھر کتاب آنے کو ہے

ٹھیک کر لیں سائباں کو، ورنہ پھربرسات بھی

اے جناب آنے کو ہے

آج کے حالات سے لگتا قمر ہے کل کا دور

اف خراب آنے کو ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

احسان ثاقب

 

 

پاپی ہے وہ ڈھونگی ہے وہ اوڑھے ہے وہ سانپ کا پھن

تو گمبھیر ہے کس کارن

کھانے والا تازہ کھائے باسی کھائے تجھ کو کیا

قابو میں رکھ اپنا من

کونے کھدرے چھپ جائیں گے کالے کھوٹے سب کرتوت

گاتا رہ ہر روز بھجن

مانگے کی جوبیساکھی ہو اس پر کیا کرنا وشواس

اپنا ہی انمول رتن

بھوکی جنتا کو کیا دے گی ٹوٹی پھوٹی یہ سرکار

یہ تو خود ہی ہے نردھن

مل جائے گی ثاقب اک دن غزل نما کو بھی پہچان

چھپے ہیں کچھ آثار فن

٭٭٭

 

 

 

 

عبیداللہ ساگر

 

 

ترے دل میں بس میں ہی ہوں ، مرے دل میں بس تو ہی توہے

اجاگر ہر اک رنگ و بو ہے

محبت تو ہے خوش نمائی، کہو کیا ہے اس میں برائی

اگر گفتگو کو بہ کو ہے

نکل جائیں جتنے ہیں غم سب ، رہیں شاد و آباد ہم سب

ہماری یہی آرزو ہے

نہیں واسطہ تشنگی سے، میں سرشار ہوں زندگی سے

مرے سامنے آب جوہے

کھلاراستہ راحتوں کا، نشاں تک نہیں ظلمتوں کا

اجالا مرے چارسوہے

زیاں سے بہت دور ہوں میں ، گماں سے بہت دور ہوں میں

حقیقت مرے رو برو ہے

یہ اعزاز کی کم ہے ساگر، کہ کہتا ہے اب ہرسخنور

تری شاعری میں نمو ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ارشد مینانگری

 

گلستاں میں ہم تم جو پھولوں کو بوتے

یہ کانٹے نہ ہوتے

ہوئے ماں سے ہم سب اگر ماں نہ ہوتی

تو ہم بھی نہ ہوتے

ہنسی بے لبوں کی اڑاتے رہے جو

اڑے ان کے طوطے!

رہی پیاس پیاسی تدبر کے اپنے

ہوئے خشک سوتے

بڑی بات ہے پہ، مجھے دیکھ کروہ

ہنسے روتے روتے

یوں ہی جی رہے ہم زمانے سے کچھ بھی

نہ پاتے نہ کھوئے

غنیمت ہے ارشد اٹھے گرتے گرتے

جگے سوتے سوتے

٭٭٭

 

 

 

 

شارق عدیل

 

میرے لبوں پر نام اس کا جب روشن ہو جاتا ہے

دل درپن ہو جاتا ہے

ہجر کی لمبی رات میں یوں ، آنکھیں برستی ہیں میری

تر دامن ہو جاتا ہے

پیارے یہ مت بھولو تم، توڑ کے مٹی سے رشتہ

پیڑ ایندھن ہو جاتا ہے

آپ کی آمد کی خوشبو جب گھر میں لہراتی ہے

گھر گلشن ہو جاتا ہے

کھوج میں روزی روٹی کی، ساجن کے جاتے ہی سکھی!

تن، نردھن ہو جاتا ہے

قحط کے عالم میں شارق ،اپنی زمیں سے شرمندہ

نیل گگن ہو جاتا ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

پروفیسر ایم اے ضیا

 

 

جسے دیکھئے وہ پریشان ہے

یہ انسان ہے

کبھی آئینہ جس نے دیکھا نہیں

وہ حیران ہے

مرے دل کو اک دن سکون آئے گا

یہ ایمان ہے

تجھے دیکھ لوں اک نظر غورسے

یہ ارمان ہے

نہیں جس کا کوئی خدااس کا ہے

یہ اعلان ہے

میں جو چاہتا ہوں وہ ملتا نہیں

تری شان ہے

ترے بن مری زندگی اے ضیا

گویا بے جان ہے

٭٭٭

 

 

 

 

تسلیم نیازی

 

 

میں غزل نما نہ کہتا، مگر امرکوہساری

ہے اسی کی پاسداری

کوئی بن گیا جمورا کوئی ہو گیا مداری

ہمی رہ گئے بہاری

مری کر کے غم گساری وہ مجھی کو دے رہا ہے

مرے نام کی سپاری

ہ سماعتیں میسر نہ بصارتیں مہیا

ہے فضول آہ و زاری

کوئی زہد پہ ہے نازاں کوئی کفر سے ہے شاداں

مرے دل کو حق شعاری

کوئی کھینچ لے نیازی کہ میں سچ نہ بول پاؤں

یہ زباں ہے وجہ خواری

٭٭٭

 

 

 

 

ڈاکٹر امام اعظم

 

 

گروہ ملے تو کیا نہیں ؟

سب کچھ حسیں

میں خاک پر اور تیرا گھر

عرش بریں

تیری ردیفیں قافیے

میری زمیں

تیری عنایت ہو تو میں

کیا کیا نہیں

آ چاند سے دل میں اتر

اے مہ جبیں

٭٭٭

 

 

 

 

شاہد نعیم

 

اس کی گلیوں سے گزرنا

بس سنورنا

اس سے ملنا باتیں کرنا

جینا مرنا

تہہ سے موتی جب نہ حاصل

کیا ابھرنا

رات کا پچھلا پہر ہے

آہیں بھرنا

اس کے غم میں خود کو بھولو

یہ نہ کرنا

٭٭٭

 

 

 

 

رفیق شاہین

 

 

ملی جن کو طاقت خدا ہو گئے ہیں

قضا ہو گئے ہیں !

وہ رنگین سپنے ، کبھی جوتھے اپنے

خفا ہو گئے ہیں

سنہرے سہانے ،وہ رنگیں زمانے

ہوا ہو گئے ہیں

عبادت تھے میری، جو چاہت تھے میری

جدا ہو گئے ہیں

جوکھائی تھیں قسمیں ، کیے تھے جو وعدے

وہ کیا ہو گئے ہیں

خوشی کے تھے ساماں ، وہی دل کے ارماں

سزا ہو گئے ہیں

نہیں وہ تو شاہین، ساون سہانے

بلا ہو گئے ہیں

 ٭٭٭

 

 

 

 

ڈاکٹر نسیم اختر

 

 

دل میں نورِ خدا ہے ، نہ ایمان ہے

کیسا انسان ہے

ہاں چراغ ہدایت جو قرآن ہے

وقف جزدان ہے

مرحبا!روح میں نورِ قرآن ہے

رب کااحسان ہے!

روضہ شاہ بطحاکو دیکھ آؤں میں

دل میں ارمان ہے

خیر، الفت ،اخوت ،صداقت ،میاں !

میری پہچان ہے!

اس کو رعیت کے سکھ دکھ سے مطلب نہیں

کیسا سلطان ہے؟

پنج وقتہ نمازیں ادا کیجئے!

رب کا فرمان ہے

٭٭٭

 

 

 

 

مشرف حسین محضر

 

 

کیا کہیں ہم غم ہجر میں زندگی اک سزا ہو گئی

رائیگاں ہر دعا ہو گئی

ہلکی پھلکی ہواؤں میں بھی جگمگاتے چراغوں سے پھر

روشنی کیوں جدا ہو گئی

قہر کیسا یہ نازل ہوا ایک دستک سے طوفان کی

ساری بستی فنا ہو گئی

ہم نے لکھے تھے جس میں کبھی اپنے حالات وہ ڈائری

دیمکوں کی غذا ہو گئی

ایک وحشی کے نیزے پہ تھا ایک معصوم بچے کاسر

ظلم کی انتہا ہو گئی

یہ حقیقت ہے جاناں ترے شہر میں آ کے ہم کیا رکے

زندگی  مسئلہ ہو گئی

گھرسے آفس کو جاتے ہوئے اک نظراس پہ محضر پڑی

پیار کی ابتدا ہو گئی

٭٭٭

 

 

 

 

پروفیسر خالد تبسم ایوبی

 

 

عجیب سی یہ بات تھی کہ تلخیوں میں زندگی بڑی حسین لگی مجھے

مگر خوشی میں یہ حزیں لگی مجھے

وہ چاہتا تو تھا مجھے، بہت مگر وفا کا کچھ صلہ مجھے نہ دے سکا

ادا یہ کچھ بھلی نہیں لگی مجھے

تمہارے شہر کو، تمہارے حسن کو جب الوداع کہہ دیا تو کہہ دیا

یہ بے رخی بڑی نہیں لگی مجھے

تھے انتظار میں سبھی کہ رحمتیں لیے نئی رت آئے گی ادھر کبھی

مگر کبھی نہ یہ قریں لگی مجھے

نہ جانے کیوں تبسم اب یہاں سب اجنبی کی طرح اکثر آج ملتے ہیں ؟

روش کچھ اچھی یہ نہیں لگی مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

رفیق شاکر

 

 

جو عشق کا خمار ہے تو دل بھی بے قرار ہے

کسی کا انتظار ہے

فضا بھی خوشگوار ہے، گلوں پہ بھی نکھار ہے

چلے بھی آ بہار ہے

دلوں میں انتشار ہے تو آنکھ اشکبار ہے

کہ روح سنگسارہے

لبوں پہ زہر خند ہو، ہمیں بھی کیوں پسندہو

تمہیں جو ناگوار ہے

زباں پہ پہر ے ہیں اگر تو چشم ترسے بات کر

نظرسے کہہ کہ پیار ہے!

بس ایک تیری آس ہے نہ ہوش ناحواس ہے

نہ دل پہ اختیار ہے

اے شاکرِ غزل سرا، غزل نما بھی کہہ ذرا

کہ شعر پر وقار ہے

٭٭٭

 

 

 

 

مظفرحسن حالی

 

 

اگر ان کی نگاہوں کے اشارے مل گئے ہوتے

سہارے مل گئے ہوتے

سمندرمیں نہ موجوں سے، نہ طوفانوں سے گھبراتا

کنارے مل گئے ہوتے

نہ یوں ہم پہ ستم ہوتے نہ ارمانوں کا خوں ہوتا

ستارے مل گئے ہوتے!

کبھی خندہ لبی ان کی جوراس آ جاتی موسم کو

نظارے مل گئے ہوتے!

نہ آپس میں کبھی تکرار ہوتی، نہ جدا ہوتے

جوسارے مل گئے ہوتے!

٭٭٭

 

 

 

 

عثمان انجم

 

 

دامن زہد پر ڈالتے وہ رہے ہر گھڑی گندگی بچ گئی میری پاکیزگی

وہ بجھاتے رہے جانے کیا سوچ کر شمع بزم خوشی

پھر بھی بڑھتی رہی روشنی

چیختے ہم رہے روشنی روشنی روشنی!!

ان کو اچھی لگی تیرگی

گھرسے صحرا تلک اور چاروں طرف آج مشہور ہے

اک مری صرف دیوانگی

عمر بھر راحت جسم و جاں کی طلب میں تڑپتا رہا

آخرش، مات کھانی پڑی

سرپہ کالی گھٹا آنکھ میں جھیل تھی پھر بھی لب پر صدا

تشنگی تشنگی تشنگی

اس نے کیا جانے کیوں آج انجم میاں مجھ کورسواکیا

جیسے تھی مجھ سے ہی دشمنی

٭٭٭

 

 

 

 

حفیظ انجم ،کراچی

 

کر دے گارسوا، تم نہ بڑھاؤ

یار کا چاؤ

مرغ مسلم خوب اڑاؤ

سود نہ کھاؤ

ترک تعلق ٹھیک نہیں ہے

بغض مٹاؤ

بھیڑ میں تنہا، تجھ کو کرے گا

تلخ سبھاؤ

پیار کی میٹھی، آنچ سے جگ میں

دال گلاؤ

قول توہے بس، مرد کا شیوہ

قول نبھاؤ

تنگ زمیں ہے، جاؤں کہاں میں

چاند پہ جاؤ

رات ہے کالی، سردہوا ہے

آگ جلاؤ!

سانس رکے تو ،ختم ہے انجم

لاگ لگاؤ

٭٭٭

 

 

 

حفیظ انجم کریم نگری، کریم نگر

 

 

دل کتاب سے اپنی، آنکھ جب لڑاتا ہے

دن بھی بھول جاتا ہے

دوست ہو کہ دشمن ہو، کام ہے یہی اس کا

تلخیاں بڑھاتا ہے

دوسروں کی تکلیفیں ،کوئی بھی نہیں سنتا!

اپنی ہی سناتا ہے

ایک چھوٹا ساکمرہ ،تھا سکون دنیا کا

کیا کوئی بھلاتا ہے

اپنی اپنی کوشش ہے اپنی اپنی راہیں ہیں

ہر کوئی کماتا ہے

٭٭٭

 

 

 

نینا جوگن

 

پانی پر کہرے کا محل ہے

پریم کا پھل ہے

چہرے بدلیں ، رشتے بدلیں

درد اٹل ہے

پچھلی سیٹ پہ ہر دم بیٹھے

نام افضل ہے

دل میں دنیا، دنیا میں دل

دل پاگل ہے

پریت کے رستے میں سب پتھر

یا دلدل ہے

٭٭٭

 

 

 

 

رمیش کنول

 

 

اے مرے ہم زباں ہم سے دوری ہے کیا

مسکرا،پاس آ،

بے وفائی کا شکوہ گلہ کیوں بھلا

شکریہ کر ادا

آندھیوں کاستم اور اس کا کرم

پریم کا یہ دیا

سرمئی شام ہے، سرخ رو جام ہے

دلربا ہے گھٹا

لب پہ لالی لگا، مسکرا،آنکھ میں

اور کاجل لگا

آپ کو بھی خوشی مجھ سے مل کر ہوئی

میں بھی خوش ہو گیا

یہ تعلق کی کھڑکی کھلی رکھ کنول

بندشیں مت لگا!

٭٭٭

 

 

 

محمد صدیق الم

 

 

کس لیے مختصر ہو گئی زندگی

یہ بھی سوچوکبھی

گھر میں داخلی ہوئی دندناتی ہوا

بجھ گئی روشنی

آج تک ڈس رہی ہے مرے گانو کو

مفلسی بے بسی

ایک خوشحال مخلص پریوار کو

کھا گئی دشمنی

اس کی نظریں اٹھیں اور مری شخصیت

آئینہ ہو گئی

زردموسم کی عالم نشانی ہے یہ

شاخ سوکھی ہوئی

٭٭٭

 

 

 

 

محمد قمر الزماں پیہم

 

 

آدمی اب الجھنوں کوجس قدر سلجھارہا ہے

اور الجھا جا رہا ہے

سب ہی کچھ ہے پاس میرے، ساتھ میرے تو نہیں تو

زندگی میں کیا رہا ہے

کائنات رنگ و بو میں منہمک تھا کل تلک جو

آج وہ پچھتا رہا ہے

اس لیے رہتا ہے یارو، پرسکوں وہ عافیت سے

غیر کا غم کھا رہا ہے

 جو شعورزیست سے خود، نابلد ہے آج مجھ کو

فلسفے سمجھارہا ہے

وقت رخصت کہہ گیا تھا، پھر ملیں گے زندگی میں

آج تک وہ آ رہا ہے

بے خبر انجام سے ہے، گیت پیہم زندگی کے

جو خوشی میں گا رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

علیم طاہر

 

نگاہوں میں میری ہیں صدیوں کے منظر

مرا دل ہے پتھر

جو شعروں میں بھر دے ادب چاشنی، کو

معظم وہ شاعر

جو قلب و نظر میں تمدن ہی رکھے

و ہ عمدہ سخنور

ترے در پہ جس نے جبیں ٹیک دی ہے

نہ بھٹکے وہ در در

ترا پھول وہ ہے جو کانٹوں میں ابھرے

بنائے مقدر

چلائے جوسب کو چلے راہ سیدھی

وہی اپنا رہبر

جو ہم چاہتے ہیں وہ ہوتا نہیں ہے

یہ ہوتا ہے اکثر

مری روح کتنا سکوں پا گئی ہے

تمہیں آج پاکر

٭٭٭

 

 

 

 

 

قدر پاروی

 

 

حال دل پہلے ان کوسنادیجیے

پھرسزا دیجیے

آپ کو اتنا غصہ مناسب نہیں

مسکرادیجیے

روشنی میں دیئے کی سنورجایئے

پھر بجھا دیجیے

ہم چلے آئیں گے قدر خود ہی وہاں

راستہ بھی بتا دیجیے

٭٭٭

 

 

 

 

آفتاب عالم ناصر

 

 

درون دل ہمارے اب تلک جتنی کہانی ہے

تمہاری ہی نشانی ہے

کسی منزل پہ رک جاؤں نہیں ممکن کہ دریا ہوں

مرے اندر روانی ہے

نہ اتراؤ ظفر مندی پہ اپنی اس قدر لوگو

کبھی تو مات کھانی ہے

معائب کو بنا کر پیش کرتا ہے محاسن تو

یہی تو گل فشانی ہے

یہ قدرت کا کرشمہ ہے کہ ادنی خار کے ذمہ

گلوں کی پاسبانی ہے

گزرتی ہے وصال یار میں جو شب مری ناصر

وہی تو بس سہانی ہے

 ٭٭٭

 

 

 

 

       

کامل جنیٹوی

 

 

دھوپ ہی دھوپ ہے ہر طرف سائباں ہے نہ کوئی شجر

سوچتاہوں کہ جاؤں کدھر

آنکھ سورج نے کھولی نہیں پھول آنگن کا مرجھا گیا

لگ گئی جانے کس کی نظر

کہہ گیا برملا رنج وافلاس کی کرب کی داستاں

بے دھواں ایک مفلس کا گھر

مسئلے اس زمیں کے نہ حل ہوسکے یہ الگ بات ہے

پہنچے سائنسداں چاند پر

تنگ و تاریک راہوں میں بھی اب چراغوں کو روشن کریں

یہ اجالوں کے پیغامبر

ایک جیسے ہی لگتے ہیں اب شہر کے راہبر راہزن

کیا کہوں کون ہے معتبر

شعر کہتا ہو جوسوچ کر کیوں نہ کامل کہیں ہم اسے

فکر و فن کا ہے وہ تاجور

٭٭٭

 

 

 

 

ڈاکٹر معظم علی

 

 

زندگی کاسفر یوں ہی کرتے رہے

جیتے مرتے رہے

وقت مرہم بنا دن گزرتے رہے

زخم بھرتے رہے

ہم اسی کاسر آستان غزل

ذکر کرتے رہے

وہ گلی راس آئی نہ ہم کو مگر

ہم گزرتے رہے

ہم تو بس ایک دریائے غم عمر بھر

پار کرتے رہے

آنکھ کھل جائے یادوں کی ایسا نہ ہو

خواب ڈرتے رہے

غم کے میدان میں آس کے کچھ ہرن

گھاس چرتے رہے

جو معظم نے دنیا میں دیکھا سنا

نظم کرتے رہے

٭٭٭

 

 

 

حکیم عمر واثق سنبھلی

 

 

دلوں کے ربط باہم سے مسرت جگمگاتی ہے

وفا کی خوشبو آتی ہے

خلوص ایثار کی تابانیاں رشتوں کی ضامن ہوں

تو الفت مسکراتی ہے

رہے ذوق سفر روشن کسی بھی عزم محکم سے

تو منزل چل کے آتی ہے

چمن کی آبرو رکھنے کو میرے دوست کی خوشبو

نسیم صبح لاتی ہے

الہی رحم کر اب تو مری تہذیب مشرق بھی

مرا ہی منہ چڑاتی ہے

تلاطم ہے خدا حافظ ،کہو واثق خدا حافظ

کہ نیا ڈگمگاتی ہے

٭٭٭

 

 

 

وقار اشہر مرادآبادی

 

 

یہ مانا ہم نے دولت ہے چراغ دل نشیں صاحب

مگر سب کچھ نہیں صاحب!

اٹھا کر دیکھ لو تاریخ دنیا کی، فقط ہم ہیں

اجالوں کے امیں صاحب!

جہاں آواز دو گے تم ہمیں فرطِ محبت سے

ملیں گے ہم وہیں صاحب !

وفا کو رشک ہو جن پر اب ایسے لوگ دنیا میں

نہیں ملتے کہیں صاحب

کھلائیں گل خلوص و مہر کے اتنے زمانے میں

مہک جائے زمیں صاحب !

چلی ہے جب بھی پروائی تو یاد آئی ہے اشہر کو

وہ چشم سرمگیں صاحب!

٭٭٭

 

 

سید عبیداللہ ہاشمی

 

 

ہاں ،ہم کو ان سے ہے گلہ، لیکن گلہ کیسے کریں

ذکرجفاکیسے کریں ؟

اس شکوہ جوروجفاسے ہم کو آتی ہے حیا

ساقط حیاکیسے کریں ؟

اس خوگر مہر و وفا کا کیش ہے صبر و رضا

ترک وفا کیسے کریں

کیا ہم ہوں ان سے بدگماں اے دل ذرا تو ہی بتا

ایسی خطاکیسے کریں

ہے تحفہ درد جگر کا شکریہ تو لازمی

پر حق اداکیسے کریں

ہم کو ہمیشہ ہاشمی پیاری رہی اپنی انا

اب التجاکیسے کریں

 ٭٭٭

 

راہی صدیقی

 

 

ہم کو سب ہے پتہ ہم کوسب ہے خبر

کس پہ تیری نظر

کام جوکھم بھرا ہے بہت ہی کٹھن

عاشقی کی ڈگر

گاؤں قصبے ہوئے اور قصبے بنے

دھیرے دھیرے نگر

دل جو کہتا ہے کر ورنہ پچھتائے گا

دیکھ تو عمر بھر

چین لٹ جائے گا نیند آتی نہیں

راہی پھر رات بھر

٭٭٭

 

 

 

مقبول منظر

 

 

چشم حیرت سے یوں دیکھتی چاند کو چاندنی رہ گئی

ہر طرف تیرگی رہ گئی

تشنہ لب کونہ ساحل پہ بھی آب لیکن میسرہوا

تشنگی دیکھتی رہ گئی

زندگی میں سفر دھوپ کا کیا کبھی ختم ہو گا نہیں

رہروی بولتی رہ گئی

پھول الفت کا ان کو دیا ہاں عقیدت سے میں نے مگر

دل میں نفرت چھپی رہ گئی

میرے جذبات کی ہو گئی اب مکمل شگفتہ غزل

پھر بھی تیری کمی رہ گئی

سوگیا کہہ کے منظر غزل تھی ادھوری مگر رات بھر

جاگتی شاعری رہ گئی

٭٭٭

 

 

 

مسرت حسین عازم

 

 

نہ رکھی کسی سے مخاصمت

ہے مری صفت

مری فکر کی ترے فکر سے

ہے مناسبت

نہ تو رنگ و بو ہے گلاب میں

نہ ملائمت

وہ ہے معتکف تو دعا کرو

کہ ہو مغفرت

نہ وہ قدر میری رہی ادھر

نہ وہ منزلت

نہ مقاتلہ مرے شہر میں

نہ معاندت

ترے دل سے قصرِ خیال تک

مری مملکت

نہ یگانگت مری خودسے ہے

نہ مغایرت

یونہی وسوسوں میں پڑا رہوں

تو نکال مت

بحضور حسن صبیح ہوں

مجھے معذرت

٭٭٭

 

 

 

 

شہزاد اشرفی

 

 

ہم چراغ محبت جلاتے رہے، گنگناتے رہے مسکراتے رہے

آئینہ آئینے کو دکھاتے رہے

کام آئی نہیں خاک بھی جس گھڑی کون کس سے کہے دل کی روداد، جی

آہ اندر ہی اندر دباتے رہے

بے خبر ہے ہوا، کس نے یہ کہہ دیا، آپ کو اس پہ کیونکر یقیں آ گیا

ہم یہی کچھ ہواکوسناتے رہے

شامیانہ ہماراجھلستا رہا، آگ اٹھتی رہی، سرپھری تھی ہوا

اور ہم شکر تیرا مناتے رہے

چاند کا اک سفر کاٹ کر رات بھر، ہو گئے بے خبر پر ہمیں دیکھ کر

آپ بیتی وہ اپنی سناتے رہے

٭٭٭

 

 

 

علیم مظہری

 

 

تری بات ہے ،ترا نام ہے

مرا کام ہے

اسے مقتدی کی خبر نہیں

جو امام ہے

تراواسطہ

مرے عشق سے

سرعام ہے

تو ہی ہر جگہ پہ ہے جلوہ گر

تو مدام ہے

وہی بوریت ،وہی ہے تھکن

وہی کام ہے

 ٭٭٭

 

 

 

جنوں اشرفی

 

 

جنوں پرور اگر موسم کبھی تیور بدلتا ہے

تو پھر منظر بدلتا ہے

یقین جس کو نہیں رہتا ہے اپنے آپ پر ہمدم وہی رہبر بدلتا ہے

پرندے پر کٹے پرواز کو ہیں منتظر کب سے

کہ کب شہپر بدلتا ہے

جسے ہم دیکھنے کے واسطے مشتاق رہتے ہیں

وہی پیکر بدلتا ہے

محبت میں ہوس شامل جو کرتا ہے وہی ہر دن

نیا دلبر بدلتا ہے

ہمیں جب موت آتی ہے جنوں اتناسمجھتے ہیں

ہمارا گھر بدلتا ہے

٭٭٭

 

 

 

محمد اسلم پرویز

 

 

جو کل تھے آخری صف میں ، انہیں کی اب امامت ہے

قیامت ہے، قیامت ہے

زمانہ کیوں مرا دشمن ہے ، جبکہ میرے دامن میں

نہ شہرت ہے نہ دولت ہے

کسی بندش میں جو رکھے مجھے ایسی روایت سے

بغاوت ہے بغاوت ہے

بڑی مدت کے بعد اس نے مجھے پیغام بھیجا ہے

چلے آؤ کہ فرصت ہے

نہیں تفریق کوئی درسگاہوں اور راہوں میں

جدھر دیکھو جہالت ہے

انہیں مجھ سے نہ جانے کیوں کوئی شکوہ نہیں اسلم

مجھے ان سے شکایت ہے

 ٭٭٭

 

 

 

سید شبیہ الحسن

 

 

ملنا جلنا اگر رسم دنیا ہے تو یارواس کو نبھانے میں کیا حرج ہے

بات اپنی سنانے میں کیا حرج ہے

مجھ کو لگتا ہے ان کی طرف دیکھ کر بے سبب مسکرانے سے کیا فائدہ

وہ بلائیں تو جانے میں کیا حرج ہے

سچ تو یہ ہے قیامت تک ان کو میاں ، شک رہے گا محبت پہ میری سدا

ہاں مگر آزمانے میں کیا حرج ہے

یہ ہوائیں تودستک دیئے جاتی ہیں اور ہنستی ہیں مجھ پر شب و روز ہی

پر دیئے کو جلانے میں کیا حرج ہے

اے حسن یہ سفر اور سفرکس لیے اب تو منزل کی خواہش ہے خوابیدہ ہی

پر امیدیں جگانے میں کیا حرج ہے

 ٭٭٭

 

 

 

ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی

 

 

عجب ہیں روز و شب میرے

پرے پرے

وہ مل گئے تو سارے گل

کھلے کھلے

دوائیں لہلہا اٹھیں

دعا پھلے

دیار دل کو کیا ہوا

دھواں اٹھے

کبھی تو ہاتھ آئے گا

پکاراسے

 ٭٭٭

 

 

 

 

نذیر فتح پوری

 

 

زیست کی اجڑی تصویر میں ایک دن اپنے جذبات کا رنگ بھر جائیں گے

ہم مصور ہیں یہ کام کر جائیں گے

بادلوں کاتصورسجا کر کبھی، پاس کی رہ گزرسے گزر جائیں گے

زندگی تیرے کوزے میں بھر جائیں گے

ختم سانسوں کاہو جائے گا جب سفر، موت آ جائے گی اور مر جائیں گے

وقت کی پالکی سے اتر جائیں گے

جن کا کردار مٹی کے تودوں سا ہے اپنی ضربوں سے خود ہی بکھر جائیں گے

اور ہواؤں پہ الزام دھر جائیں گے

جن کے چہروں پہ داغوں کی یلغار ہے آئینوں سے وہی لوگ ڈر جائیں گے

منہ چھپا کر بچارے گزر جائیں گے

فاعلن فاعلن فاعلن کے عوض ،فن میں دل کا لہو جو بھی بھر جائیں گے

شاعری میں بڑا کام کر جائیں گے

زردموسم کی پرچھائیوں کے سبب پھول مرجھائیں گے اور بکھر جائیں گے

سارے منظر کو بے رنگ کر جائیں گے

 ٭٭٭

 

 

 

 

ارمغان ساحل

 

(۱)

تیرا آنچل برسے بادل

دل پر جل تھل

گورا مکھڑا، آنکھیں چنچل

دل میں ہلچل

خنجر تیری آنکھ کا کاجل

دل ہے گھائل!

ڈھونڈوں اس کو جنگل جنگل

ساتھی اوجھل

اس کی گلی سے ساحل اب چل!

دل ہے بوجھل

٭٭٭

 

 

(۲)

جیسے جھومر تھا مرے، تیرے سرپرتاج

خواب یہ دیکھا آج

کیسے پاس آؤں ترے، جب ہے اپنے بیچ

پہرے دار سماج

رہنے بھی دے چارہ گر، پیار کا ہے یہ روگ

جس کا نہیں علاج

کیسے ہو اب شہر میں ، کھویا امن بحال

جب غنڈوں کا راج

لعنت اس نامرد پر، جس کی داروں کیلئے

پتنی بیچے لاج

 ٭٭٭

 

 

 

حفیظ انجم کریم نگری

 

 

ساری دنیا پر چلے اس کاہی ادھکار

لیلا  پارمپار

جب چاہے جس کا کرے سپناوہ ساکار

اس کا ہے سنسار

رام وہی، رحمن بھی ، الگ الگ ہیں نام

سب کا پالن ہار

انساں سارے ایک ہیں ، دھرتی ساری ایک

سپنا ہوساکار!

چور اچکے ،منتری بن بیٹھے ہیں آج

پاپی ہے سرکار

انجم کھیتے جایئے، ہمت کی ہر ناؤ

 مت بنانا لاچار!

٭٭٭

 

 

 

 

عبدالسلام مضطرنشاطی

 

 

وہ کانٹوں کی ہو چبھن یا پھولوں کی گند

دونوں میں آنند

موت سے پہلے موت کو جو رکھتا ہے یاد

وہ ہے دانشمند

تمہیں زباں سے پھر گئے تمہیں نے بدلا قول

میں تو ہوں پابند

بے مقصد کی شاعری بے مقصد کی بات

مجھ کو نہیں پسند

کتنی بھی ہوں رنجشیں نہیں کرو تا عمر

ملنا جلنا بند

آنکھیں بے شک کھولیے لیکن ہے یہ شرط

زباں کو رکھئے بند

بہت کٹھن ہے جوڑنا مضطر جو اک بار

ٹوٹ گیا سمبند

٭٭٭

 

 

 

عبدالجبار راہی

 

 

یقیناً ہیں میرے شعروسخن کی زندگی ساحب

فراز حامدی صاحب

جسے حاصل ہوئی ہے آج نظر التفات ان کی

اسے شہرت ملی صاحب

محبت ہے شعار ان کا اگر تو ان کا مشرب ہے

وفا اور مخلصی صاحب

کوئی چھوٹابڑایامفلس و نادار ہوسب سے

ہے ان کی دوستی صاحب

جدید اصناف کو ان کے قلم سے عصر حاضر میں

ملی تابندگی صاحب

انہیں کے نام ہے اب تاجداری ، شہر اردو میں وقار فکر کی صاحب

انہیں جس رخ سے بھی دیکھا، ملے ہے ان کے لفظوں میں

وفا کی چاندنی صاحب

یقیناً مجھ کو ان کی فکر کی زریں شعاعوں سے

ملی ہے روشنی صاحب

٭٭٭

 

 

 

عتیق احمدعتیق

 

 

’’مزاحف بحر میں پہلے مصرعہ کے ارکان:مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن دوسرے مصرعے کے ارکان:مفعول فعولن ؍فاعیل فعولن ۔ہرگانوی

 

اوروں کا تو کیا، خیرسے اپنا جو نہیں تھا

پیوند زمیں تھا

میرے لیے جو اپنی انا کا بھی امیں تھا

وہ قلب حزیں تھا

سچ یہ ہے کہ جو چاند ستاروں سے حسیں تھا

ایک زہرہ جبیں تھا

اتنی ہی حسیں طرز نگارش بھی تھی اس کی

 وہ جتنا حسین تھا!

لوٹ آیا جوتا عرش بھی جا کر بہ سلامت

اک خاک نشیں تھا

جاندادہ نظارہ اک انبوہ تھا جس کا

وہ گوشہ نشیں تھا

ہے آج بھی چھایا ہوا، اعصاب پہ میرے

جو زیر نگیں تھا

ہے اب بھی عتیق آپ کا معیار وہی جو

ماقبل ازیں تھا

٭٭٭

 

 

 

مہدی پرتاب گڑھی

 

 

’’مزاحف بحر میں ، فاعلاتن فاعلاتن فاعلن، تین رکن، دوسرے مصرعہ میں فاعلاتن فاعلن دور کن پہلے مصرعہ میں چار ارکان ہونے چاہئیں ۔ہرگانوی

 

زیست کی سب آگ پانی ہو گئی

گم جوانی ہو گئی

مسکراکراس نے دیکھا میری سمت

اک کہانی ہو گئی

طنز دنیا نے کیا تو میری بھی

تلخ بانی ہو گئی

پھاگن آیا، رنگ برسااور فضا

زعفرانی ہو گئی

پہنچا محبوبِ خدا کے در پہ میں

مہربانی ہو گئی

مہدی ہے جادو اثرساون، فضا

کیسی دھانی ہو گئی!

٭٭٭

 

 

 

محمد نورالدین موج

 

 

مزاحف بحر۔دو قافیہ دو ردیف

 

شب کا دیا غزل ہے تو چندا غزل نما

تارہ غزل نما

دریا کے بیچ پیاس کا صحرا غزل ہے تو

پیاسا غزل نما

معلوم ہے شرابی کو بادہ غزل ہے تو

نشہ غزل نما

پت جھڑکے موسموں میں جو برکھا غزل ہے تو

سبزہ غزل تھا

دوپہر کی جو دھوپ میں تپتا غزل ہے تو

سایہ غزل نما

برہن کے واسطے جو یہ برہا غزل ہے تو

رستہ غزل نما

اے موج گرچہ شعر کا معنیٰ غزل ہے تو

 مصرعہ غزل نما

٭٭٭

 

 

 

اصغر ویلوری

 

 

مزاحف بحر میں مفاعیلن مفاعیلن فعولن تین رکن دوسرے مصرعہ میں مفاعیلن فعولن دور کن ۔پہلے مصرعہ میں چار ارکان ہونے چائیں ۔ہرگانوی

 

ہمیں دینے جو آئے ہیں سہارے

وہ دشمن ہیں ہمارے

سمندرکی تھیں وہ سفا ک موجیں

جنہیں سمجھا کنارے

یہ پیار و عشق میں قسمیں ،یہ وعدے

یہ سب جھوٹے ہیں سارے

نہیں دنیا سے کچھ امید ہم کو

نہ ہیں دامن پسارے

کسی اک کی سنورجاتی ہے قسمت

ہیں کچھ قسمت کے مارے

جنہیں اپنے سمجھتے تھے جہاں میں

نہیں تھے وہ ہمارے

ترااصغرتقدس چھین نہ لیں

یہ دنیا کے نظارے

٭٭٭

 

 

 

ڈاکٹر اعجاز بن ضیا اوگانوی

 

 

مزاحف بحر میں ۔فاعلاتن فاعلاتن فاعلن تین رکن دوسرے مصرعہ میں فاعلاتن فاعلن دور کن ۔پہلے مصرعہ میں چار ارکان ہونے چاہئیں ۔اوگانوی

 

جسم اپنا تھا کرائے کا مکاں

روح لیکن لامکاں

زندگی اپنی تلاطم میں رہی

بے حدیث و بے اماں

گھرکو کاندھے پر لیے چلتا رہا

لمحہ لمحہ بے کراں

رات بھرروتا رہا اک شیر خوار

با تہ جدبستیاں

اے ضیا تجھ کوبھروسہ کیا نہیں

ندرتِ حق بے کراں

٭٭٭

 

 

 

خنجر بہاری

 

 

ہم اکثر لیٹ آنے کا بہانہ ڈھونڈ لیتے ہیں

حوالہ ڈھونڈ لیتے ہیں

یہاں کچھ لوگ ایسے ہیں دکھانے کیلئے دن میں ستارہ ڈھونڈ لیتے ہیں

ذرا بھی دیر وہ کرتے نہیں تہمت لگانے میں

بہانہ ڈھونڈ لیتے ہیں

انہیں جب منہ پھلانا ہو تو اپنی دال کے اندر

وہ کالا ڈھونڈ لیتے ہیں

اچانک بزم خوباں میں خسرآئیں نظر تو ہم

کنارہ ڈھونڈ لیتے ہیں

ہمیں شادی پہ جانا ہے بھرم کے واسطے خنجر

کھٹارہ  ڈھونڈ لیتے ہیں

برائی سے ہی بچنے کیلئے خنجر بڑھاپے میں

شوالہ ڈھونڈ لیتے ہیں

٭٭٭

ماخذ:

https://urduyouthforum.org/mazameen/mazameen_topics-Ghazal%20Numa.html

 

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید