FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

اردو ادب میں حمد و مناجات

قرطاس ناگپور کے حمد و مناجات نمبر کے مضامین

حصہ دوم: مقامی و شخصی

 

               مدیر : محمد   امین الدین

ڈاکٹر شرف الدین ساحل

حیدری روڈ، مومن پورہ، ناگپور ۴۴۰۰۱۸(مہاراشٹر)

ناگپور میں  حمد و مناجات کی روایت

حمد و مناجات کا تعلق مذہبی جذبات و احساسات سے  ہے۔ جس شاعر کے  دل میں  یہ جذبہ و احساس جاگزیں  ہوتا ہے  وہی اللہ کی حمد و ثنا کرتا ہے۔ اس کے  سامنے  دست سوال دراز کر کے  دعا مانگتا ہے۔ اسی کے  آگے  اپنی پریشان حالی کا تذکرہ کر کے  اس سے  رحم و کرم کی درخواست کرتا ہے۔ یہ ایک روشن حقیقت ہے  کہ ہمارے  بیشتر شعرا کے  دل اس جذبے  سے  لبریز رہے  ہیں۔ یہی وجہ ہے  کہ ہماری شاعر ی میں  حمد و مناجات کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ ہر دور کے  خدا شناس شعرا نے  دل کی گہرائیوں  سے  حمد و مناجات کہی ہیں۔ انھوں  نے  ان میں  خدا کی توحید کوبڑی خوبی سے  ظاہر کیا ہے  اور اس کے  حضور دونوں  ہاتھ پھیلا کر اپنے  دل کی بات عاجزی و انکساری سے  کہی ہے۔ اس صف میں  ناگپور کے  شعرا بھی شامل ہیں۔

ناگپور کے  پہلے  شاعر لالہ پیم چند ہیں  جنھوں  نے  فردوسی کے  شاہنامے  کا پانچ سال کی مشقت کے  بعد ۱۲۰۷ھ(۱۷۹۲ء) میں  اردو میں  منظوم ترجمہ مکمل کیا تھا۔ اس کتاب کا ایک قلمی نسخہ سنٹرل لائبریری، حیدرآباد میں  محفوظ ہے۔ انھوں  نے  کتاب کی ابتدا جن حمدیہ اشعار سے  کی ہے  وہ بہت معنی خیز ہیں۔ یہ خدا کی توحید اور اس کی قدرت کاملہ کو خوبصورتی سے  واضح کرتے  ہیں۔ چند شعر دیکھئے :

خدا تجھ کو شاہی سزا وار ہے

صفت کو تری کچھ نہ آکار ہے

ترا نام روشن زباں  پر دھرے

تو باہر و بھیتر اجالا کرے

جو صادق ترے  نام پر ہے  مدام

تو ہے  اس کنے  رات دن، صبح و شام

مقرر ہے  درپن کا خاصہ تجھے

جو جس طور دیکھے  اسے  تیوں  سجھے

تو نے  جگ دکھایا، بے  تونا دکھے

جیوں  آنکھوں  سے  سب دکھ، نہ انکھی دکھے

تو ہے  مشک نافہ، مثل تن منے

ہرن جھول کر کھوجتی بن منے

کرے  تو مدد تو ہے  آساں  سبھی

دہی کو متھے  پر نکلتا ہے  گھی

بے  شک اللہ ہی مالک الملک اور وحدہ لاشریک ہے۔ جو دل کی گہرائیوں  سے  اس پر یقین کامل رکھتا ہے  وہ رات دن اور صبح و شام اس کے  قریب ہوتا ہے۔ اسی کی مدد سے  ہر کام آسان ہوتا ہے۔ اس حمد و ستائش کے  بعد پیم چند نے  اپنی ذات پر اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں  کا ذکر کیا ہے۔ شکم مادر میں  پرورش پانے  سے  لے  کر ایام پیری تک کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کے  بعد اس کی صناعی کو اس طرح نمایاں  کیا ہے :

یہ دریا کو تو اپنی قدرت سے  کر

زمیں  کو بچھایا ہے  پانی اُپر

بنا کر رکھا اس پہ قدرت کا بھار

سما کو کیا بے  ستوں  استوار

چراغاں  اسی میں  لگایا تُہیں

چندر اور سورج بنایا تُہیں

پیم چند اسی طرح خدا کی حمد و ثنا بیان کرتے  چلے  گئے  ہیں۔ ان کی حمد صاف ستھری اور حقائق پر مبنی ہے۔ ان کے  معاصرین میں ایک شاعر عاصی بھی تھے  جو ناگپور کے  راجہ بہرام شاہ کے  دربار سے  تعلق رکھتے  تھے۔ ان کی ایک ضخیم مثنوی صفات الانبیا کا قلمی نسخہ احم دآباد کی درگاہ حضرت پیر محمد  شاہ کے  کتب خانے  میں محفوظ ہے۔ یہ ۱۲۱۲ھ(۱۷۹۷ء) میں  مکمل ہوئی ہے۔ عاصی نے  بھی اس کی ابتدا حمد الٰہی سے  کی ہے  اور اس کے  تحت بیس اشعار کہے  ہیں۔ وہ کہتے  ہیں  کہ اللہ کی صفات کو بیان کرنا ممکن نہیں  ہے۔ وہی ہر چیز کا صانع ہے۔ وہی جن و انس کا خالق ہے۔ اسی نے  سورج، چاند اور ستارے  بنائے۔ عرش، کرسی، جنت اور دوزخ بنائی اور دن کورات پر غالب کیا۔ اس کے  بعد وہ اپنے  عجز کا اس طرح اعتراف کرتے  ہیں :

سب درختوں  کی بنا ویں  گر قلم

وصف پورا ہو سکے  نہ یک رقم

جب کریں  تعریف ربِ ذوالجلال

ہوتی تا دریا میں  یک قطرہ مثال

اور آخر میں  خدا سے  یہ درخواست بھی کرتے  ہیں :

شاعر ی کرنے  کا مجھ کو دے  کے  ذوق

رکھ مرے  دل میں  تری الفت کا شوق

بخش دے  سارے  گنہ میرے  رحیم

فضل کر دکھلا صراط المستقیم

دل سے  تجھ در کی نگہبانی کروں

عاجزی سوں  خاک پیشانی کروں

بس یہی عاصی کو ہے  تجھ سے  امید

کر سیاہ نامہ مرا دھوکر سفید

لالہ پیم چند اور عاصی فکری اعتبار سے  اٹھارویں  صدی عیسوی سے  تعلق رکھتے  ہیں۔ انیسویں  صدی میں  ناگپور میں جو شعرا تھے  ان میں  مولانا غلام رسول غمگین، فیض محمد  فیض، سید عباس علی شہرت اور سید محمد  عبدالعلی عادل نمایاں  حیثیت رکھتے  ہیں۔ یہ بنیادی طور پر فارسی کے  شاعر تھے  لیکن ان میں  عادل نے  اردو میں  بھی اپنی جولانی طبع کے  خوب جوہر دکھائے  ہیں  اور اس میں  ایک دیوان اور دو مجموعہ کلام:خزائن الاشعار اور جیش المضامین اپنی یادگار چھوڑے  ہیں۔ راقم الحروف نے  ان سب کی مدد سے  تقریباً دو سو صفحات پر مشتمل عادلؔ کا ایک کلیات ترتیب دیا ہے  جو شائع ہو چکا ہے۔ عادل نے  اپنے  دیوان کی ابتدا حمد باری تعالیٰ سے  کی ہے۔ جو مضمون آفرینی اور معنی آفرینی سے  پر ہے۔ وہ اپنے  عجز کا اعتراف کرنے  کے  بعد کہتے  ہیں  کہ خدا نے  حسینانِ بوستاں  کو پند و نصیحت کرنے  کے  لیے  بلبل کو منبر گل  پر خطیب کا منصب عطا کیا ہے۔ وہی گنا ہوں  کا بخشنے  والا اور راستے  کی دشواریوں  کو آسان کرنے  والا ہے۔ دیکھئے :

کیا مجھ سے  وصف ہو وے  جناب رقیب کا

برہاں  ہے  اس پہ عجز خود اس کے  حبیب کا

بلبل کو بہرِ پندِ حسینانِ بوستاں

بخشا ہے  رتبہ منبرِ گل پر خطیب کا

ہے  پا فتادگوں  کو کرم اس کا دستگیر

غفار ہی وہی گنہ پر معیب کا

آ جائے  اس کا قلزم رحمت جو جوش پر

مخطی کو ہو حصول مراتب مصیب کا

ہے  نغمہ سنج حمد میں  اس کی ہی ہر سحر

بے  وجہ گل پہ شور نہیں  عندلیب کا

عادل نے  اس حمد میں  چند مناجاتی اشعار بھی کہے  ہیں  جن میں  خدا کے  حضور میں  یہ التماس کی ہے :

بارِ گنہ سے  میرا الٰہی جھکا ہے  سر

جز تیرے  سر فراز نہ مجھ سے  کبیب کا

شیطان کھینچتا ہے  مجھے  سوئے  سیّأت

 اور یونہی حال ہے  میرے  نفسِ رغیب کا

توفیقِ نیک ہمرہ دل میرے  رکھ مدام

لازم ہے  جیسے  طفل پہ رہنا ادیب کا

آہ پگاہی سے  مرے  باطن کو دے  جگا

اس فوج کو وہ گویا ہے  نعرہ نقیب کا

مجھ روسیہ کے  شعر مبیض پہ رحم کر

ایامِ شاب گزرے  اب عالم ہے  شیب کا

نقشِ دوئی سے  لوحۂ خاطر کو صاف رکھ

عادلؔ کو عشق دے  تو رسولِ حبیب کا

عادل نے  اپنے  مجموعہ کلام خزائن الاشعار کے  منظوم دیباچہ میں  بھی حمد و مناجات لکھی ہے  جو مثنوی کے  فارم میں  ہے۔ اس میں  بلا کی روانی، گہرائی اور گیرائی ہے۔ خدا کی قدرت، حکمت اور صناعی کو ظاہر کرنے  کے  لیے  جو مثالیں  دی گئی ہیں  وہ جامع اور دل کو متاثر کرنے  والی ہیں۔ چند شعر :

لائق حمد ذاتِ د اور ہے

جس کی توصیف میں  زباں  تر ہے

بادشاہی جملہ کون و مکاں

ہے  اسی ذات پاک کو شایاں

فیضیاب اس سے  جزو تاکل ہے

حسن گل ہے، تو عشق بلبل ہے

اس کو گنجِ ادا و ناز دیا

اس کو سرمایۂ نیاز دیا

فیض سے  اس کے  بہرور ہے  تمام

کیا گدا، کیا امیر اوج مقام

یم کو بخشی جو آبروئے  بہیں

تو صدف کو دیا ہے  درِّ ثمیں

چرخ کو رتبہ رتبہ اوج دیا

ارض کو بحر بحر موج دیا

اس کو زینت دیا ستاروں  سے

اس کو محبوب گل عذاروں  سے

سب پہ انساں  کو اس نے  فضل دیا

اشرف الخلق نام اس کا کیا

ظاہرا صورتِ صغیر ہے  یہ

باطنا عالم کبیر ہے  یہ

اس کے  بعد مناجات ہے۔ اس میں  وہی مضامین ہیں  جو پہلی مناجات میں ہیں۔ عادل کی یہ دونوں  حمد و مناجات ان کے  تبحر علمی کو نمایاں  کرتی ہے۔ عادل کے  بعد حاجی الٰہی بخش کی مناجاتیں  توجہ کے  دامن کو الجھاتی ہیں۔ موصوف نے  پچاس سال سے  زائد جامع مسجد ناگپور میں  امامت کا فریضہ انجام دیا اور ۲۴ دسمبر ۱۹۵۳ء کو ۱۰۳ سال کی عمر پا کر رحلت فرمائی۔ اپنے  وقت کے  مشہور فقیہ اور جید عالم تھے۔ ہمیں  ان کی جو مناجاتیں  ان کی غیر مطبوعہ کتابوں  میں  ملی ہیں  انھیں  وہ اکثر فرض نماز کے  بعد دعا میں  پڑھا کرتے  تھے۔ ان میں  جو ایمانی حرارت و کیفیت ہے  وہ دلوں  کو متاثر کرنے  والی ہے۔ دیکھئے  وہ خدا کے  سامنے  کس اخلاص سے  ہاتھ پھیلا کر التجا کر رہے  ہیں :

یا الٰہی، یا کریم و یا رحیم

التجا کرتا ہوں  تجھ سے  یا علیم

یا الٰہی ہاتھ میں  کر کے  دراز

یہ دعا کرتا ہو تجھ سے  کارساز

یا الٰہی دل مرا ناشاد ہے

شاد کر اس کو یہی فریاد ہے

یا الٰہی سر پہ ہے  بار خطا

بخش دے  تو واسطے  خیرالورا

یا الٰہی دے  شعورِ بندگی

ذکر میں  تیرے  بسر ہو زندگی

یا الٰہی موت جب آئے  قریب

کلمۂ طیب زباں  کو ہو نصیب

یا الٰہی جب کہ ہو محشر بپا

رکھ مجھے  زیر لوائے  مصطفیؐ

یا الٰہی جب کہ میزاں  پر مرا

نامۂ اعمال ہو مجھ کو بچا

یا الٰہی تیرا دیدار حسیں

واں  کرا ہے  یہ تمنا دل نشیں

یا الٰہی تو ہے  رحمن و رحیم

بخش دے  میرے  گنا ہوں  کو کریم

یا الٰہی بخش دے  استاد کو

والدہ، والد، مرے  اجداد کو

ہے  یہی حاجی کی تجھ سے  التجا

اپنی رحمت سے  تو کر جنت عطا

ایک مومن کا جو ایمان اور اس کے  دل میں  جو تمنائیں  ہوتی ہیں  وہ اس مناجات کے  لفظ لفظ سے  ٹپک رہی ہے۔ بارِ خطا سے  گھبرا کر جس انداز سے  دعا مانگی جاتی ہے  وہ اس کے  ہر شعر سے  ظاہر ہے۔ ایک اور مناجات کے  یہ چار شعر دیکھئے  اپنے  گنا ہوں  کا اعتراف کر کے  کس عاجزی سے  کہہ رہے  ہیں :

بندہ یہ خاکسار ہے  اور ننگ و خوار ہے

غافل ہے  بندگی سے  خطا بے  شمار ہے

بخشش کی آرزو ہے  اسے  بخش دے  کریم

اس فیصلے  کا تجھ کو فقط اختیار ہے

فضل و کرم سے  اس کے  گنا ہوں  کو ڈھانپ دے

 اور بخش دے  اسے  کہ یہ تقصیر وار ہے

سن لے  مرے  کریم یہ حاجیؔ کی التجا

اپنی خطا پہ عرصے  سے  یہ بے  قرار ہے

یہی حسرت، تڑپ، بے  چینی اور آرزو ان کی اس مناجات میں  بھی ہے :

یا ربنّا، یا ربنّا، ستار تو، غفار تو

رحمن ہے، رحیم ہے، پروردگار ہے

چاہے  جسے  عزت تو دے، چاہے  جسے  تو ذلت

چاہے  بہشت دے  اسے  جو لائقِ فی النّار ہے

امت محمد   مصطفی کی بخش دے، تو بخش دے

یا ربنّا، یا ربنّا، یہ عرض تجھ دربار ہے

یہ ہے  گنا ہوں  میں  گھرا، کرتا ہے  تجھ سے  التجا

حاجی کو بھی تو بخش دے، رحمت تری بسیار ہے

خدا کو اول، آخر، ظاہر، باطن، قادر، عادل، رحمن، رحیم، جبار، رزاق، خالق اور رب العالمین وغیرہ تسلیم کرنا ہی اصل ایمان ہے۔ وہی حاجت روا، مشکل کشا، عالم الغیب والشھادہ اور مالک الملک ہے۔ وہ سب کی سنتا ہے۔ زمیں  پر چلنے  والی چیونٹی کے  پیروں  کی آواز سے  بھی با خبر ہے۔ وہی ہے  جو پتھر میں  رہنے  والے  کیڑوں  کو بھی رزق عطا کرتا ہے  لہٰذا دست سوال اسی کے  آگے  دراز ہونا چاہئے۔ اسی سے  التجا و التماس کرنا چاہئے۔ یہ بزرگ شعرا اس حقیقت سے  پوری طرح باخبر تھے  اس لیے  ان کی حمد و مناجات میں اعتماد و یقین کا لہجہ ملتا ہے۔ ان میں  وہ سوز دروں  بھی ہے  جو محبت الٰہی سے  پیدا ہوتا ہے  اور صراط مستقیم پر گامزن کرتا ہے۔

بیسویں  صدی کے  بزرگ اور استاد شعرا میں  مولانا ناطق، نواب غازی، حمید ناگپوری، حکیم واقف برہانپوری اور طرفہ قریشی اہمیت کے  حامل ہیں۔ ان میں  ناطق نے  اپنے  دیوان اور حمید نے  اپنے  مجموعہ کلام حرف خاموش میں اپنے  عجز کا اس طرح اعتراف کیا ہے :

اعتراف نارسائی ہے  مقام آگاہ کا

حمد باری لکھنے  والے  نام لے  اللہ کا

۔۔۔ ناطقؔ

تری حمد و ثنا لفظ و بیاں  میں  آ نہیں  سکتی

کمالِ عجز ہے  یا رب جو ساکت ہے  زباں  میری

۔۔۔ حمیدؔ

طرفہ قریشی کے  مجموعۂ کلام:پہلی کرن، نصف النہار، فانوسِ حرم اور شہید اکبر حمد و مناجات سے  خالی ہیں۔ نواب غازی کی دعائیہ نظموں  کا ایک مختصر سا کتابچہ نوائے  نیم شب شائع ہوا ہے۔ اس میں  جو دعائیں  شامل ہیں  وہ فانی و لافانی دنیا کے  فرق اور زندگی و موت کی حقیقت کو واضح کرتی ہیں۔ ایک دعائیہ نظم ترانۂ حق کے  یہ تین بند دیکھئے :

ایمان صافی، داروئے  شافی

دم ساز وافی، شبلی نہ حافی

اللہ کافی، ہر شے  اضافی

کیا زر کا رونا، آخر یہ ہونا

مٹی میں  سونا، کنکر بچھونا

اللہ کافی، ہر شے  اضافی

درویش غازی، کیا خانہ سازی

دنیا مجازی، دو دن کی بازی

اللہ کافی، ہر شے  اضافی

نواب غازی کی ایک مناجات جسے  اکثر مکتبوں  کے  طلبہ پڑھتے  رہے  ہیں  بہت مقبول ہے  اس کے  تین شعر ملاحظہ کیجئے :

پھر شان مسلماں  کو اے  خالق اکبر دے

پھر تختِ سلیماں  دے، پھر بختِ سکندر دے

پھر مردِ مسلماں  کو بوبکر و عبیدہ کر

بھٹکی ہوئی امت کو پھر حبِّ پیمبر دے

آوازِ دلِ پر خوں  تا عرش پہنچ جائے

غازی کی دعاؤں  کو جبریل کا شہپر دے

اب حمد رب کائنات دیکھئے۔ اس میں  نواب غازی نے  خدا کی خدائی کی عکاسی عالمانہ انداز سے  کی ہے۔ خدا پاسبان زماں  و مکاں، مالک دوجہاں، وحدہ لاشریک، حکمران کائنات اور خالق انس و جاں  ہے۔ اس یقین کامل سے  شاعر کا دل معمور ہے  اور وہ خدا کی حمد و ثنا کے  ساتھ ساتھ اس سے  التجا بھی کر رہا ہے :

اے  خدا پاسبانِ زمان و مکاں، مالکِ دوجہاں، وحدہ لاشریک

ارض تا کہکشاں، آسماں  آسماں، ایک تو حکمراں، وحدہ لاشریک

قبضۂ سلطنت، فرش سے  عرش تک، سطوت و مقدرت ازسماتا  سمک

تو ہی لاریب و شک، فاطرنہ فلک، خالق انس و جاں  وحدہ لاشریک

کس قدر عام فیضانِ انعام ہے، محفل جام آشام خوش کام ہے

اژدہام امم صبح تا شام ہے، ساقی تشنہ گاں  وحدہ لاشریک

صوفی و برہمن، پارسا پاک تن، عندلیبِ چمن، قمریِ بانگ زن

برگ و بارِ سمن، ذا کر ذوالمنن، لذتِ ہر زباں،وحدہ لاشریک

ناوک افگن کمانِ فلک برملا، صف بصف ہر طرف لشکر کربلا

فضل سے، عدل سے، ٹال دے  ہر بلا، داورِ مہرباں وحدہ لاشریک

دشمنانِ قوی ہوں  کمیں  در کمیں، دشنۂ بغض و کیں  آستیں  آستیں

اے  معینِ متیں  غم نہیں  غم نہیں، مامنِ دوستاں،وحدہ لاشریک

کجکلاہ عجم، لعبتِ محتشم، ننگِ آدم سرِ خم بپائے  صنم

غازیؔ کم خدم، کیوں  جھکے  پیشِ جم، قبلۂ عاشقاں  وحدہ لاشریک

حکیم واقف حکمت کے  فن میں  بھی ماہر تھے۔ وہ کامیابی سے  مطب چلاتے  تھے۔ اپنے  اسی پیشے  کی رعایت سے  انھوں  نے  جو حمد کہی ہے  وہ ایک نئے  اسلوب کی غمازی کرتی ہے :

عالم میں  اے  خدا ہے  تو ہی عام کا حکیم

تیرے  سوا نہیں  کوئی بیدام کا حکیم

دی تو نے  مہر و ماہ کو حکمت کی روشنی

اک صبح کا حکیم ہے، اک شام کا حکیم

میری طرف علاج ہے، تیری طرف شفا

میں  نام کا حکیم ہوں، تو کام کا حکیم

ملتی ہے  تجھ سے  نبض کی تشخیص میں  مدد

محتاج ہے  ہر اک ترے  الہام کا حکیم

تشخیص دے، شفا بھی دے، واقفؔ ہے  مجھ سے  تو

یا رب بنا بھی دے  مجھے  کچھ کام کا حکیم

ان کے  بعد جن شعرا کی حمد مطبوعہ شکل میں  ملتی ہے  ان میں  محمد  حسن ندیم، منشاء الرحمن منشاء، مولانا اکبر علی اکبر، جلیل ساز، فرید تنویر، شارق جمال اور خضر کے  اسمائے  گرامی قابل احترام ہیں۔ ندیم کے  مجموعۂ کلام قوسِ سخن میں چار حمد اور چار حمدیہ قطعات ہیں۔ اس سلسلے  میں  ان کا یہ عقیدہ و ایمان ہے :

سدا جو آنکھ، تری حمد پاک سے  تر ہے

وہ تیرے  فضل سے  ایمان کا سمندر ہے

نہ ہو زبان کو جنبش کبھی جو حمد کے  ساتھ

صدف میں  رہ کے  وہ گویا حقیر پتھر ہے

ندیم نے  اپنی حمد و ثنا میں خدا کی قدرت کاملہ کو واضح کرنے  کے  لیے  جس زورِ فکر کا سہارا لیا ہے  وہ حقائق پر مبنی ہیں۔ اس کا اندازہ ان اشعار سے  لگایا جا سکتا ہے :

سراپا عیب ہوں  میں  لائق ثنا تو ہے

خود اپنی حمد مقدس کا منتہیٰ تو ہے

ازل سے  تابہ ابد اپنی کبریائی کی

صدائے  کن سے  حقیقت سنا رہا تو ہے

زبانِ بحر پہ تسبیح حباب کی رکھ دی

طواف کرتے  بگولے  اڑا رہا تو ہے

جلال مہر و جمال مہ و نجوم کے  ساتھ

مزاجِ خلدو جہنم بتا رہا تو ہے

زبان جہل کہاں  اور حمد پاک کہاں

ندیمؔ اپنی حقیقت بھی جانتا تو ہے

ڈاکٹر منشاء کے  یہاں  جو حمد و مناجات ملتی ہیں  وہ فکری لحاظ سے  بالکل سہل اور عام فہم ہیں۔ ان میں  شاعرانہ فنکاری معدوم ہے۔ مثلاً:

تو مختار کون و مکاں  ہے  الٰہی

تو ہی مالک دو جہاں  ہے  الٰہی

تری حمد آخر بیاں  ہو تو کیسے

ہماری زباں  ناتواں  ہے  الٰہی

بظاہر تجھے  ہم نے  دیکھا نہیں  ہے

تو آنکھوں  سے  یوں  تو نہاں  ہے  الٰہی

زمیں  آسماں  کی ہر اک شے  سے  لیکن

ترا حسن قدرت عیاں  ہے  الٰہی

مولانا اکبر علی اکبر کے  مجموعۂ نعت ’’نعت النبیؐ‘‘ میں  دو حمد و ثنا(غزل کے  فارم میں) اور مجموعۂ منقبت ’’زمزمۂ مدحت‘‘ میں  ایک حمد یہ مسدس شامل ہے۔ اپنے  حمدیہ کلام کو مولانا اکبر نے  علمیت و ذکاوت سے  مزین کیا ہے۔ حمدیہ مسدس کا یہ بند دیکھئے :

وہ خواہ عرض ہو، یا جوہر

مرجان ہو، یا لعل و گوہر

ہر برگ و ثمر، ہر شاخ و شجر

ہر غنچہ و گل، ہر شام و سحر

پڑھتے  ہیں  سبھی تیرا کلمہ

سبحان اللہ، سبحان اللہ

یہ حمدیہ اشعار بھی اس حقیقت کے  شاہد ہیں۔ دیکھئے  فلسفہ و منطق سے  کس طرح فائدہ اٹھایا ہے :

یکتا ہے، کوئی ضد ہے  نہ ند، خلق و امر میں

طاعت کا اپنی اس لیے  حقدار ہے  خدا

جوہر ہے، نہ عرض ہے، نہ ہے  جسم اور نہ شے

عقلاً حلول اس لیے  دشوار ہے  خدا

بے  حاسہ کے  کرتا ہے  ادراک رنگ و بو

ہر رفع صوت سمع کا اقرار ہے  خدا

جلیل ساز کے  مجموعہ کلام نگاہ میں  جو حمد ہے  وہ فکری لحاظ سے  منفرد رنگ میں  ڈوبی ہوئی ہے۔ انھوں  نے  جو سوالات قائم کیے  ہیں  وہی خدا کے  وجود کو ثابت کرتے  ہیں۔ ملاحظہ کیجئے :

مفہوم کو الفاظ سے  جوڑا کس نے ؟

دھرتی کی کہانی کو جھنجھوڑا کس نے ؟

آکاش پہ ناہید کے  نغمے  جاگے

ظلمات کے  سناٹے  کو توڑا کس نے ؟

ذہنوں  میں  جما تھا جو لہو برسوں  سے

حدت کو فزوں  کر کے  نچوڑا کس نے ؟

اے  سازؔ گہر تھا جو صدف میں  پنہاں

گہرائی میں  جا کر اسے  توڑا کس نے ؟

شارق جمال کے  مجموعۂ کلام عکس برعکس اور نقش در نقش میں  ایک ایک  حمد ہے۔ ان میں  خدا کی تعریف و توصیف شاعر نے  اپنی ذات کے  حوالے  سے  نئے  انداز سے  کی گئی ہے :

لیے  ہوئے  ہر اک آہنگ ساز کا تو ہے

جو گونجتی ہے  تخیل میں وہ صدا تو ہے

الگ نہیں  تو مرے  جسم سے  کسی بھی طرح

رگوں  میں  خون کے  ہمراہ دوڑتا تو ہے

شعور ذہن میں  پیکر بنائے  کیسے  ترا

نہ خاک کا ہے  ترا تن، نہ کانچ کا تو ہے

سوچئے  مجھ سے  کب جدا وہ ہے

مجھ میں  اب بھی چھپا ہوا وہ ہے

اب بھی شامل ہے  میرے  نغموں  میں

ہے  زباں  میری اور صدا وہ ہے

ایک پل بھی جدا نہیں  ہوتا

دیکھئے  سامنے  کھڑا وہ ہے

فرید تنویر کی جو مطبوعہ حمد ملی ہے  وہ مخمس کی صورت میں  ہے۔ ا س میں  زمین وآسماں، گلستاں  و صحرا، فرش و عرش، علم و حکمت، عقل و دانش، ماہ و خورشید، شجر و حجر، توریت و زبور اور انجیل و قرآن کے  حوالے  سے  خدا کی قدرت و حکمت کو ظاہر کیا گیا ہے۔ ایک بند دیکھئے :

یہ شجر، یہ حجر، یہ گل بوٹے

ماہ و خورشید، نور کے  چشمے

تیری صنعت ہے، کام ہے  تیرا

ہر طرف جلوہ عام ہے  تیرا

سب سے  اعلا مقام ہے  تیرا

خضر ناگپوری کے  مجموعۂ کلام راز حیات میں  جو حمد ہے  اس میں  بھی اسی قسم کے  جذبات و احساسات ملتے  ہیں۔ وہ گنگناتی ہوا، مسکراتی فضا، جگمگاتی ضیا اور دل لبھاتی ادا میں جلوۂ قدرت کی تلاش کرتے  ہیں۔ وہ کہتے  ہیں  کہ ماہ و انجم میں اسی کی چمک، لعل و یاقوت میں  اسی کی دمک، شاخ نازک میں  اسی کی لچک اور غنچہ و گل میں  اسی کی مہک ہے۔ یہی نہیں  بلکہ وہ خدا کی قدرت کو یوں  بھی نمایاں  کرتے  ہیں :

آئینہ خانۂ حیات میں  تو

لمحہ لمحہ مشاہدات میں  تو

سچ تو یہ ہے  کہ کائنات میں  تو

پھر بھی تنہا ہے  اپنی ذات میں  تو

یعنی کوئی نہیں  ہے  تیرے  سوا

اے  زہے  لا الہٰ الا اللہ

عرفان قنوجی کے  مجموعہ کلام سرحدِ عرفاں، لطیف ی اور کے  مجموعۂ کلام گریۂ سنگ، امیر اللہ عنبر خلیقی کے  مجموعۂ کلام احساس کا سفر، رحمت اللہ راشد کے  مجموعہ کلام مخزنِ نور و شجرِ نور اور کلیم یزدانی کے  مجموعۂ کلام جہدِ مسلسل کا آغاز بھی حمد سے  ہوا ہے۔ ان شعرا کے  یہ چند شعر دیکھئے :

خالقِ کونین ربِ ذوالجلال

تو خدائے  لم یزل ہے  لا یزال

قبضۂ قدرت میں  ہے  سب کچھ ترے

قادرِ مطلق ہے  تو بے  قیل و قال

(عرفان قنوجی)

ہر چند نہیں  آتا ہے  آنکھوں  سے  نظر تو

انسانوں  کی شہ رگ سے  ہے  نزدیک مگر تو

معراجِ شہنشاہ دو عالم سے  ہے  ثابت

لمحوں  میں  سمو سکتا ہے  صدیوں  کا سفر تو

(لطیف یاور)

یہ کائنات کی وسعت، یہ رفعتِ کونین

سبھی بنائے  ہوئے  کارخانے  تیرے  ہیں

ذلیل کر یا جسے  چاہے  آبرو دیدے

یہ انتظامِ عروج و زوال تیرا ہے

(امیر اللہ عنبر خلیقی)

نہیں  ہے  راز کسی کا بھی تجھ سے  پوشیدہ

ہر ایک شخص کے  حالات جانتا تو ہے

نہیں کوئی اور ترے  سوا تری شان جلِّ جلا لہ

تو ہی ابتدا تو ہی انتہا تری شان جلِ جلا لہ

(کلیم یزدانی)

ناگپور میں  جدید لب و لہجے  کے  جو شعرا ہوئے  ہیں  ان میں  شاہد کبیر، پروفیسر یونس، شریف احمد شریف، ظفر کلیم اور شکیب غوثی کے  کلام کے  مجموعے  زیور طبع سے  آراستہ ہو چکے  ہیں۔ ان سب میں  مناجات شامل ہے۔ شاہد کبیر نے  رب العزت کی بارگاہ میں  ادب و احترام سے  یہ دعا مانگی ہے :

کیے  ہیں  اتنے  جہاں  ایک اور کرم کر دے

مرے  خدا تو مری خواہشوں  کو کم کر دے

میں ہر کسی کا طبیعت سے  احترام کروں

مری نظر میں  مجھے  اتنا محترم کر دے

شکست میرا مقدر ہے  تو مجھے  یا رب

مری شکست کے  اسباب ہی بہم کر دے

ستم رقم سے  سوا، غم بیان سے  باہر

زبان کاٹ دے، ان ہاتھوں  کو قلم کر دے

شاہد نے  انتقال سے  ایک دن پہلے  جو چار مصرعے  کہے  ہیں ان میں  خدا کی حمد و ثنا کا منفرد انداز ملتا ہے :

ایک اللہ ثباتی ہے

باقی سب لمحاتی ہے

ڈال پہ بیٹھی ہر چڑیا

حمد اسی کی گاتی ہے

پروفیسریونس عاجزی و انکساری سے  اپنی مناجات میں  یہ التماس کرتے  ہیں :

کوئی تعویذ بھیج، ہیکل بھیج

روح کی مشکلات کا حل بھیج

اُف زمیں  کے  تنازعے  یا رب

آسمانوں  سے  قول فیصل بھیج

میں  نے  کاٹی ہے  جبر کی اک عمر

کوئی تو اختیار کا پل بھیج

میری آنکھوں  میں  سرخ آنسو ہیں

اپنی رحمت کا سبز آنچل بھیج

شریف احمد شریف کا لہجہ باغیانہ ہے۔ وہ بڑی بے  باکی سے  خدا سے  اس طرح شکایت کرتے  ہیں :

بتا کہ تجھ سے  مناجات کیوں کرے  کوئی

رہے  خموش جو تو، بات کیوں  کرے  کوئی

ہمارے  حال کی جب ہے  تجھے  خبر داتا

تجھی سے  شکوۂ حالات کیوں  کرے  کوئی

تجھے  یہ ضد کہ غریبوں  کو کچھ نہیں  دے  گا

تو پھر دراز یہاں  ہات کیوں  کرے  کوئی

ظفر کلیم اپنے  گنا ہوں  کا اعتراف کر کے  یوں  دستِ سوال دراز کرتے  ہیں :

خدا تو مقدس، گنہگار میں

تری ذات بے  عیب ہے، خوار میں

تری رحمتوں  کا تجھے  واسطہ

تری بخششوں  کا طلب گار میں

مرا ہر نفس تیرا ممنون ہے

تری دین کا، فرد اقرار میں

شہنشاہ سارے  جہانوں  کا تو

اے  معبود تیرا نمک خوار میں

شکیب غوثی کی مناجاتیں  بڑی پر تاثیر ہیں۔ ان کی سوچ کا کینواس وسیع ہے۔ ان کا لہجہ نرم، شائستہ اور مہذب ہے۔ ثبوت میں  یہ چند شعر حاضر ہیں :

چل رہا ہوں  خود کو اندھا جان کر

یا خدا روشن کوئی امکان کر

سب کو یکساں  ہے  ترا دست سخا

ہم گنہگاروں  کا بھی نروان کر

سخت ہے  بے  سمت را ہوں  کا سفر

تو ہماری منزلیں  آسان کر

سوکھے  پیڑوں  کو دوبارہ کر ہرا

دیدۂ مایوس کو حیران کر

پھر زمینوں  پر من و سلویٰ اتار

خشک میدانوں  کو دستر خوان کر

سفر تمام بھی ہو ابتدائے  روشن دے

مسافر شب غم ہوں  دعائے  روشن دے

بہت نہیں  کہ چمک جائے  کوئی اک لمحہ

نواح عمر میں  تھوڑی سی جائے  روشن دے

کھڑا ہے  چاروں  طرف ایک لشکر جرار

مقابلہ ہے  بلا کا عصائے  روشن دے

شکیب غوثی عہد حاضر کے  جواں  فکر شاعر ہیں۔ انھی کی فکر پر حمد و مناجات میں  ناگپور کے  شعرا کا فکری سفرتمام ہوتا ہے۔

***

 

ڈاکٹر اشفاق احمد

۴۱ اے، ٹیچرس کالونی، جعفر نگر، ناگپور ۴۴۰۰۱۳(مہاراشٹر)

ضلع آکولہ کی حمدیہ و مناجاتی شاعر ی

علاقہ برار کی سرزمین بہت ہی زرخیز اور مردم خیز واقع ہوئی ہے  یہاں  بیسویں  صدی کے  اوائل ہی سے  علمی، تہذیبی، سماجی و ادبی تحریکوں  کا آغاز ہو چکا تھا خطہ برار کے  بزرگان دین، علما و صلحا، ادبا و شعرا اور سیاسی رہنماؤں  نے  اپنی خداداد صلاحیتوں  کی بنا پر زندگی کے  ہر شعبے  میں  کا رہائے  نمایاں  انجام دیئے  ہیں  اور ملک و قوم کی خدمت کے  ساتھ ساتھ علاقہ برار کا بھی نام روشن کیا ہے۔ اردو زبان و ادب کے  فروغ میں  جہاں  ماہرین تعلیم و تعلیمی اداروں  کا اہم رول رہا ہے  وہیں  یہاں  کے  ادبا  و شعرا نے  بھی اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں  اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہاں  پروفیسر منظور حسین شور، گل شیر خاں  ببر، حضرت شائق کھام گاونوی، بسمل ناندوروی، حکیم شیخ محبوب جراح، عبدالرحمن خاں، حضرت عبدالرؤف شاہ عاصی، حضرت حبیب الرحمن صدیقی، منشی حیات مظہر، حسام الدین کاکوروی، ارمان بالاپوری، بشیراحمد شہید ملکاپوری، اثر بالاپوری، رشید کیفی، شارق نیازی، مصور کارنجوی، صابر براری، مشکل افکاری، ماسٹر حمزہ خاں  جذبی ناندوروی، غلام یٰسین، عبدالکریم شائق، حافظ محمد  ولایت اللہ خاں  حافظ، قیصر بدنیروی، حفیظ اللہ خاں  بدر، بسم اللہ بیرنگ، مردان علی خاں  نشاط اور قدرت ناظم جیسے  بزرگ اور کہنہ مشق شعرا ہوئے  ہیں  جنھوں  نے  اپنے  جوہر طبع کی تابانیوں  سے  برار کی فضائے  شعر و ادب کو روشن اور تابناک بنایا اور ان میں  بعض شعرا ایسے  بھی گزرے  ہیں  جو صاحب دیوان بھی تھے۔

علاقہ برار کا ایک ضلع اکولہ بھی ہے  جو اردو آبادی کے  اعتبار سے  گنجان شہر ہے  یہاں  تعلیمی اداروں  کا بھی ایک جال ساپھیلا ہوا ہے  ضلع اکولہ کی بھی شعر ی و ادبی روایات بڑی قدیم ہیں یہاں  کے  شعرا و ادبا بھی اردو زبان و ادب کے  فروغ اور نشر و اشاعت میں  سرگرم عمل رہتے  ہیں۔ موجودہ شعرا میں  حضرت راز بالاپوری، محبوب راہی، فصیح اللہ نقیب، غنی اعجاز، مصطفی جمیل بالاپوری، منظور ندیم، قاضی رؤف انجم، جہانگیر خاں  جوہر، رفیق شا کر، ضمیر ساجد، انوار نشتر، نور احمد نور پاتوروی، افسوس اکولوی، حسین احمد واصف، شفق آکوٹوی، عظیم وقار، خان حسنین عاقب، رفیق سراجی، انیس انور، رفیق عثمان، قدیر ایاز اور حمید خاں  اثر وغیرہ ہیں جنھوں  نے  آسمان ادب میں  ستارے  ٹانکے  ہیں  شعرائے  اکولہ نے  جہاں  متنوع اصناف میں خامہ فرسائی فرمائی ہے  وہیں  حمدیہ نظمیں  و  مناجات بھی تخلیق کر کے  اللہ تعالیٰ کی شان کبریائی بیان کی ہے  یہاں  چند شعرائے  ضلع اکولہ کی حمدیہ اور مناجاتی شاعر ی کا سرسری جائزہ پیش کرنے  کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔

شاہد انصاری(مرحوم):اصل نام عبدالرؤف شاہد انصاری، مومن پورہ، اکولہ کے  بزرگ اور کہنہ مشق شاعر تھے۔ آپ کی دو کتابیں  اردو رسم الخط میں  اور تین کتابیں  دیوناگری رسم الخط میں  شائع ہو چکی ہیں۔ آپ کی نعتوں  کا ایک مجموعہ طیبات بھی شائع ہو کر عاشقان رسولؐ میں  مقبول ہو چکا ہے  موصوف کو اہل بیت رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے  خاص شغف رہا آپ نے  رب کریم کی بارگاہ میں  اپنے  خیالات شعر ی پیکر میں  اس طرح رقم کئے  ہیں :

خداوند دو عالم لائق حمد و ثنا تو ہے

اس عالم کا خدا تو ہے  اس عالم کا خدا تو ہے

گلوں  کے  رنگ و بو میں  تو ہے  موجوں  کی ادا تو ہے

ستاروں  کی چمک تو چاند سورج کی ضیا تو ہے

خدائے  لم یزل ہر ایک کا حاجت روا تو ہے

سہارا بے  کسوں  کا غمزدوں  کا آسرا تو ہے

تیرے  بندے  کہاں  جائیں  کہیں  کیا ہاتھ پھیلائیں

ہماری مشکلیں  آسان کر مشکل کشا تو ہے

غلام حسین راز بالاپوری:غلام حسین راز علاقہ ودربھ کے  بزرگ اور کہنہ مشق استاد شاعر ہیں  آپ کے  تین شعر ی مجموعے :متاع احساس، دامن شب اور جام سفال منظر عام پر آ چکے  ہیں۔ بارہا آل انڈیا مشاعروں  میں شرکت کر چکے  ہیں۔ اب عمر کی ۸۲ ویں  منزل میں  ہیں۔ آپ کے  کلام میں  روایت پسندی کے  ساتھ ساتھ جدت طرازی بھی پائی جاتی ہے۔ آپ نے  بھی بطور سعادت و برکت حمدیں  کہی ہیں۔ الحمد لللہ آپ کو حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہو چکی ہے۔ اس موقع پر کہے  گئے  چند حمدیہ اشعار ملاحظہ فرمائیں :

میں  تجھ سے  ہدایت کی دولت کی طلب لے  کر

نادان ہوں  آیا ہوں  عزت کی طلب لے  کر

ہے  کتنی امنگوں  سے  سرگرم سفر یارب

آئینہ دل میرا حسرت کی طلب لے  کر

اخلاص کا مارا ہوں  دل کھینچ کے  لایا ہے

آیا نہیں  میں  آقا شہرت کی طلب لے  کر

مولیٰ ترا اک بندہ کوتاہ نظر دل تنگ

پہنچا ہے  تیرے  در تک وسعت کی طلب لے  کر

را ہوں  کی فضاؤں  کو دے  اذن مسیحائی

بیمار اک آتا ہے  صحت کی طلب لے  کر

غنی اعجاز:غنی اعجاز اکولہ کے  بزرگ اور کہنہ مشق شاعر ہیں  اصلاً غزل گو ہیں  آپ مشاعروں  کے  اسٹیج اور رسائل دونوں  کی زینت بنتے  ہیں۔ آپ کے  دو شعر ی مجموعے : دشت آرزو اور گرد سفر شائع ہو کر داد و تحسین حاصل کر چکے  ہیں۔ معروف شاعر و پرنسپل فصیح اللہ نقیب نے  اپنی تصنیف ایک شخص ایک شاعر غنی اعجاز شائع کر کے  موصوف کے  فکر و فن اور شخصیت کے  مختلف پہلوؤں  کو اجاگر کیا ہے۔ حضرت غنی اعجاز نے  اللہ رب العزت کی عطا کردہ عنایات کو بڑے  ہی دل پذیر انداز میں بیان کیا ہے :

شمس و بدر و ہلال سب تیرے

یہ جلال و جمال سب تیرے

ہو رہی ہے  زمین تہ و بالا

یہ عروج و زوال سب تیرے

تو نے  بخشا ہے  جذبۂ تحقیق

ہیں  جواب و سوال سب تیرے

ایک پل بھی نہیں  میرا اپنا

روز و شب ماہ و سال سب تیرے

میرا ہر شعر ہے  تیرا اعجاز

یہ ہنر یہ کمال سب تیرے

ڈاکٹر محبوب راہی(بارسی  ٹاکلی):ڈاکٹر محبوب راہی مشہور و معروف شاعر ہیں۔ متنوع اصناف میں  طبع آزمائی کرتے  ہیں۔ غلام نبی آزاد کالج میں بحیثیت پرنسپل سبکدوش ہو چکے  ہیں  آپ کو کئی انعامات و اعزازات سے  بھی نوازا جا چکا ہے۔ ثبات، تردید، بازیافت، پیش رفت آپ کی غزلوں  کے  مجموعے  ہیں  بچوں  کے  لئے  گل بوٹے  اور رنگارنگ نظموں  کے  مجموعے  پیش کر چکے  ہیں۔ میری آواز مکے  اور مدینے  اور سرمایۂ نجات نعتوں  کے  مجموعے  ہیں۔ مظفر حنفی حیات و شخصیت موصوف کا تحقیقی کارنامہ ہے۔ سرمایہ نجات میں  نعتوں  کے  علاوہ ۲۰ حمدیں  اور اتنی مناجات شامل ہیں۔ ان کے  علاوہ آپ کے  حمدیہ دوہے، حمدیہ رباعیات اور دعائیہ اشعار بھی اسی مجموعے  میں  پڑھنے  کو ملتے  ہیں۔ آپ کی تخلیقات کثرت سے  ہندوستان کے  مختلف رسائل و جرائد میں  شائع ہوتی رہتی ہیں۔ آپ کو نظم کے  ساتھ نثرنگاری پربھی عبور حاصل ہے۔ موصوف علاقہ ودربھ کے  واحد شاعر ہیں  جن کی حمدیں  و مناجات آئے  دن مختلف رسائل میں  شائع ہوتی ہیں۔ موصوف نے  جو حمدیں  کہی ہیں  ان میں  سے  چند کے  متفرق اشعار حاضر کر رہا ہوں :

ہر دن ہے  تیرا ہر رات تیری

بخشی ہوئی ہر سوغات تیری

خدایا تو ہی خالق بحر و بر ہے

خدایا  تو ہی مالک خشک و تر ہے

شہر میں  گاؤں  میں دھوپ میں چھاؤں  میں

تیرے  چرچے  تیری گفتگو چار سو

روشنی تیری ترے  جلوے  افق تابہ افق

گفتگو تیری ترے  چرچے  افق تابہ افق

ایک ہی رشتہ ہے  بس خالق و مخلوق کے  بیچ

تو سبھی کا ہے  سبھی تیرے  افق تابہ افق

ستاروں  میں  گلوں  میں  کہکشاں  میں

تو ہی جلوہ بہ جلوہ عکس در عکس

وجہ غم باعث طرب تو ہے

سب کے  ہونے  کا اک سبب تو ہے

ہو لبوں  پہ صرف نام اللہ کا

ذکر ہو ہر صبح و شام اللہ کا

اے  جہاں  بھر کے  پالنے  والے

جان مٹی میں  ڈالنے  والے

تازگی ہے  تیری بہاروں  میں

تیرے  جلوے  حسین قطاروں  میں

موصوف کی مناجات کے  چند متفرق اشعار پیش خدمت ہے :

ساری محفلوں  کو کن کہہ کے  بنانے  والے

اے  خدا تیرے  ہیں  محتاج زمانے  والے

نگاہ لطف و کرم ہو مجھ پر خدائے  برتر خدائے  برتر

کہ میں  سراپا گناہ پیکر خدائے  برتر خدائے  برتر

شمع ایماں  کی ہر اک دل میں  جلا دے  مولا

کفر و بدعت کے  اندھیروں  کو مٹانے  والے

خدا تیرے  در پہ آتے  ہیں  ہم

تمنائیں  کچھ ساتھ لاتے  ہیں  ہم

میں ظلمتوں  میں  بھٹک رہا ہوں  میرے  خدا مجھ کو نور دیدے

بصیرت زندگی عطا کر کچھ عاقبت کا شعور دیدے

حمدیہ رباعیات میں  سے  ایک رباعی ملاحظہ فرمائیں :

احسان بھی کس درجہ ہیں  ہم پر تیرے

محتاج ہیں  ہر اک قدم پر تیرے

ہر پل ہے  تیرا تابع فرماں  یارب

ہم جیتے  ہیں  بس رحم و کرم پر تیرے

محبوب راہی کے  حمدیہ دوہے   کا یہ انداز بھی دیکھئے :

داتاؤں  کے  داتا سارے  جگ کے  پالن ہار

ذات تو تیری ایک ہے  لیکن روپ ہزار

جیون کیا ہے  جیون داتا کے  ہاتھوں  کا کھیل

موت کہ جیسے  اسٹیشن پہ رک جاتی ہو ریل

منظور ندیم(بالاپور):منظور ندیم جدید لب و لہجہ کے  معروف شاعر ہیں۔ آپ کا کلام معیاری ادبی رسائل میں  مسلسل شائع ہوتا رہتا ہے  ادبی محفلوں  اور مشاعروں  میں  بھی مدعو کئے  جاتے  ہیں۔ ان دنوں  ناگپور میں  ایڈیشنل سیشن جج کی حیثیت سے  اپنی خدمات انجام دے  رہے  ہیں۔ اپنی تمام تر مصروفیات کے  باوجود ناگپور کی ادبی محفلوں  میں شرکت فرماتے  ہیں  اور اپنے  کلام سے  نوازتے  ہیں  آپ نے  ماہ رمضان کے  موقع پر ایک حمدیہ نظم التجا کے  عنوان سے  تحریر کی تھی اسی کے  چند اشعار یہاں  پیش کئے  جا رہے  ہیں :

خیال و فکر کو اونچا مقام دے  اللہ

قلم کو میرے  نیا اہتمام دے  اللہ

دل و نگاہ کو پاکیزگی عطا کر دے

زبان کو شوق درود و سلام دے  اللہ

میرے  بھی نام لکھی جائے  صبح مکہ کی

کبھی مجھے  بھی مدینہ کی شام دے  اللہ

گداز قلب جو حاصل ہے  ماہ رمضاں  میں

بقاء نصیب کر اس کو دوام دے  اللہ

بڑے  دکھوں  سے  ہے  دوچار مسلماں  امت

تو اس کو عید کی خوشیاں  تمام دے  اللہ

رفیق شا کر:اصل نام مرزا رفیق تخلص شا کر، محکمہ تعلیم سے  بحیثیت آفیسر وظیفہ یاب ہوئے۔ طنز و مزاح نگار ہیں۔ سیکنڈ ہینڈ، بنئے  کا دھنیا ا ور جھنجھٹ کی شادی طنزیہ و مزاحیہ مضامین پر مشتمل مجموعے  منظر عام پر آ چکے  ہیں۔ برار کے  ادب پر خصوصی نظر رکھتے  ہیں۔ اس ضمن میں  تذکرہ شعرائے  بلڈانہ تصنیف بھی شائع ہو چکی ہے۔ شاعر ی بھی کرتے  ہیں  مگر اسے  بڑی سنجیدگی سے  برتتے  ہیں۔ آپ نے  حمدیہ اشعار بھی کہے  ہیں۔ درج ذیل اشعار سورۃ فاتحہ کے  ترجمے  کی ترجمانی کرتے  ہیں :

ابتدا تیرے  نام سے  ہے  کریم

تو خدا ہے  بڑا غفور الرحیم

روز محشر کا مالک و مختار

ہم گناہ گار اور تو غفار

رات دن تیری ہی عبادت ہے

مانگتے  ہیں  تجھی سے  ہر اک شئے

سیدھا راستہ ہمیں  دکھا یارب

کج روی سے  ہمیں  بچا یارب

جس پہ نازل تیرا غضب ہو گا

ایسے  رستے  سے  تو بچا یارب

فصیح اللہ نقیب:فصیح اللہ نقیب عثمان آزاد جونیئر کالج میں  درس و تدریس کے  مقدس پیشے  سے  منسلک تھے  بعد ازاں  اس کالج میں  پرنسپل کے  عہدے  سے  سبکدوش ہوئے  ہیں۔ معروف شاعر ہیں  اور نظامت کے  فرائض بھی بڑی حسن و خوبی کے  ساتھ نبھاتے  ہیں۔ آپ کی غزلیں  موقر جرائد میں  شائع ہوتی رہتی ہیں۔ آپ کا شعر ی مجموعہ ’’سیپیاں ‘‘ منظر عام پر آ چکا ہے۔ اس کے  علاوہ ایک شخص ایک شاعر غنی اعجاز اور شخص و عکس تصانیف بھی منظر عام پر آ چکی ہیں۔ فصیح اللہ نقیب نے  اپنی حمد میں  خالق کائنات سے  اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے :

تیری تلاش ہر سو ہر سو تیرے  نظارے

ہر دل ہے  تیرا مسکن ہر لب تجھے  پکارے

تو ماں  کی مامتا بھی تو باپ کی دعا بھی

تو جسم کا عصا بھی تو جاں  کا مدعا بھی

تیری عنایتیں  ہیں  رشتے  جہاں  کے  سارے

تیری تلاش ہر سو ہر سو تیرے  نظارے

دنیا بھی تو سنوارے  عقبیٰ بھی تو سنوارے

تیری تلاش ہر سو ہر سو تیرے  نظارے

انوار نشتر:انوار نشتر قریشی شعر و شاعر ی کا صاف ستھرا ذوق رکھتے  ہیں۔ ادبی تقریبات میں  بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے  ہیں۔ گاہے  بہ گاہے  نظامت بھی کر لیتے  ہیں۔ مشاعروں  میں  اپنا کلام ترنم سے  سناتے  ہیں۔ موصوف کا ایک شعر ی مجموعہ ’’ زنجیر بجا لی جائے ‘‘ منظر عام پر آ چکا ہے۔ آپ نے  اللہ رب العزت کی عظمت اور اس کی شان کبریائی کو یوں  بیان کیا ہے :

کیا ہو بیاں  کسی سے  تیری صفات ربی

ادراک سے  پرے  ہے  جب تیری ذات ربی

سب کچھ زوال پیکر ہر چیز کو فنا ہے

ایک تیری ذات کو ہے  زیبا ثبات ربی

تو ہے  علیم یارب تو ہے  نصیر بے  شک

تیری نگاہ میں  ہے  شش جہات ربی

انسان کی عقل میں  کیا قدرت تیری سمائے

ایک لفظ کن کا حاصل یہ کائنات ربی

جہانگیر خان جوہر(پاتور):شہر پاتور کے  کہنہ مشق اور معروف شاعر صدر مدرس کے  عہدے  سے  سبکدوش ہو چکے  ہیں۔ آپ کا مجموعہ غزلیات و منظومات ’’حسن تخیل‘‘ کے  عنوان سے  شائع ہو چکا ہے۔ اصلاً غزل کے  شاعر ہیں  اور کلاسیکی انداز میں  شعر کہتے  ہیں۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنا اور اس کے  احسانات کا ذکر کرنا ایک انسان کے  بس کی بات نہیں ہماری زبان اور قلم اس کے  کمال صنعت گری اور کرشمات بے  مثال کو بیان کرنے  سے  قاصر ہیں  جہانگیر خاں  جوہر اسی خیال کی ترجمانی اپنے  اشعار میں  اس طرح کرتے  ہیں :

تیری حمد و ثنا کرنے  سے  ہے  سارا جہاں  قاصر

جہاں کیا چیز ہے  بلکہ ہے  یہ کون و مکان قاصر

ازل سے  آج تک بھی ذات کا عرفان کرنے  سے

خرد قاصر، جنون قاصر یقین قاصر گماں  قاصر

عروج علم و فن دانش کدے  بے  بس ہے  عالم کے

سمندر کوہ کیا شجر و حجر ہیں  ناتواں  قاصر

ہوائیں  کیا فضائیں  کیا کہ موجودات عالم میں

علوم ارض بے  بس میں  حدود کہکشاں  قاصر

اقبال خلش:اقبال حسین تخلص خلش، مجموعہ اثاثہ(غزلیات) اشاعت پذیر ہو کر (مقبول خاص و عام ہو چکا ہے۔ غزل کے  شاعر ہیں  اور ترنم سے  پڑھتے  ہیں۔ ہندوستان کی مختلف ریاستوں  میں  منعقدہ آل انڈیا مشاعروں  میں  مدعو کئے  جاتے  ہیں۔ مختلف رسائل میں  بھی گاہے  بہ گاہے  آپ کا کلام شائع ہوتا ہے۔ آپ کی زبان سادہ سلیس اور انداز بیاں  بڑا موثر ہوتا ہے۔ آپ نے  بھی مٹھی بھر حمدیں  تخلیق کی ہیں  جن کے  چند متفرق اشعار ملاحظہ فرمائیں :

جب آنکھ دی ہے  نگاہ دینا خدائے  برتر

تمیز خیر و گناہ دینا خدائے  برتر

منافقت کا چلن یہاں  عام ہو چلا ہے

خلوص دل بے  پناہ دینا خدائے  برتر

کلی میں  گل میں  خوشبو میں  میرا معبود رہتا ہے

جہاں  محسوس کرتا ہوں  وہیں  موجود رہتا ہے

خدا سے  سرکشی کا مرتکب ابلیس کہلائے

جسے  اللہ رد کر دے  سدا مردود رہتا ہے

بس اتنا کرم اتنی عنایت مرے  مولا

مقبول ہو میری عبادت میرے  مولا

توفیق ہو بچوں  کو مرے  حسن عمل کی

بیکار نہ جائے  میری محنت مرے  مولا

مصطفیٰ جمیل بالاپوری:غلام مصطفی تخلص جمیل، تاریخی شہر بالاپور میں  درس و تدریس کے  پیشے  سے  وابستہ رہے  بعد ازاں  بحیثیت صدر مدرس وظیفہ یاب ہوئے  عرصہ دراز سے  اردو اخبارات و رسائل میں  آپ کا کلام باقاعدگی سے  شائع ہوتا رہا ہے۔ مشاعروں  میں  بھی مدعو کئے  جاتے  ہیں۔ آپ کو مختلف انعامات و اعزازات سے  نوازا جا چکا ہے۔ آپ مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکادمی کے  بھی رکن رہ چکے  ہیں۔ مختلف اصناف سخن میں  طبع آزمائی فرماتے  ہیں۔ آپ نے  حمدیہ اشعار میں  خالق دوجہاں  کی تعریف و توصیف کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے :

میرے  اشعار میں  چھپا تو ہے

میری غزلوں  میں  بولتا تو ہے

خوف طوفاں  مجھے  بھلا کیوں  ہو

میری کشتی کا ناخدا تو ہے

صورتیں  دونوں  ایک جیسی ہیں

چہرہ میرا ہے  آئینہ تو ہے

خود کو تجھ سے  جدا کروں  کیسے

میری رگ رگ میں  بس گیا تو ہے

قاضی رؤف انجم(بارسی ٹاکلی):نام عبد الرؤف خاں  تخلص انجم محکمہ تعلیمات سے  منسلک رہ کر نگراں  نائب افسر کے  عہدے  سے  وظیفہ یاب ہوئے  ہیں۔ ایک کامیاب اور معتبر معروف شاعر ہیں۔ آپ کاقلم  بڑا جاندار ہے۔ ہندوستان کے  مختلف رسائل میں  آپ کا کلام شائع ہوتا ہے  آپ کی شاعر ی میں  جہاں  روایت کی پاسداری ملتی ہے  وہیں  جدید لب و لہجہ کا رنگ بھی پایا جاتا ہے۔ آپ نے  بھی چند حمدیہ نظمیں  کہی ہیں  ایک طویل حمد کے  چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :

سارے  جہاں  کے  داتا

کون و مکاں  کے  آقا

حور و ملک کے  والی

جن و بشر کے  مولا

پروردگار سب کے

سب کے  خدا تعالیٰ

دنیا بنائی تو نے

دنیا سجائی تو نے

تو نے  کھلائے  گلشن

ندیاں  بہائی تو نے

دانا حکیم تو ہے

رب کریم تو ہے

نور احمد نور(پاتوری):نور احمد نور قادر الکلام شاعر ہیں۔ آپ کا مجموعہ کلام ’’امانت‘‘ کے  عنوان سے  شائع ہو چکا ہے۔ صدر مدرس کے  عہدے  پر فائز ہیں۔ علاوہ ازیں  نورانی پرنٹنگ پریس اکولہ کے  مالک ہیں۔ آپ کی شاعر ی میں  اسلامی شعار کا پرتو نظر آتا ہے۔ خالق دوجہاں  کی تعریف و توصیف میں  موصوف کے  خیالات کی رفعت ملاحظہ فرمائیں :

رقم کیسے  کروں  تعریف کے  کلمات یا اللہ

زباں  پر عیاں  ہے  تیری ہر ہر بات یا اللہ

صداقت نظم عالم سے  ہے  ظاہر تیرے  ہونے  کی

شہادت دے  رہے  ہیں  مہر و مہ دن رات یا اللہ

تیری تسبیح کے  دانے  میں  بکھرے  شبنمی قطرے

ہواؤں  میں تیرے  پیغام کے  ذرات یا اللہ

کرم عفو و عنایت مہربانی اور غفاری

کئی ماؤں  کا جس میں  پیار تو وہ ذات یا اللہ

عبد الصمد قیصر:اصل نام عبدالصمد خان تخلص قیصر، ابتدائی تعلیم نگر پریشد اردو پرائمری اسکول گھائنجی ضلع ایوت محل، اعلیٰ تعلیم کے  لئے  مارس کالج ناگپور میں  داخلہ لیا۔ جولائی ۱۹۷۰ء سے  ۱۹۹۷ء تک عثمان آزاد ہائی اسکول اکولہ میں  مدرس رہے  بعد ازاں  مولانا ابوالکلام آزاد ہائی اسکول ناگپور میں  بحیثیت مدرس تقرر ہوا اور یہیں  سے  ۳ مارچ ۲۰۰۳ء کو وظیفہ یاب ہوئے۔ یوں  تو آپ کا ذریعہ تعلیم مراٹھی رہا لیکن اردو فارسی زبانوں  پربھی دسترس حاصل ہے۔ غزلیں  اردو مراٹھی دونوں  زبانوں  میں  کہتے  ہیں۔ پانچویں  جماعت میں  بال جبرئیل پڑھی تب ہی سے  شاعر ی کا شوق ہوا بعد کو اکولہ کی ادبی ماحول، ماہانہ نشستیں، پروفیسر منشاء الرحمن خان منشاء اور پروفیسر سید رفیع الدین صاحبان کی رہنمائی علاوہ ازیں  ڈاکٹر شیخ زینت اللہ جاوید، عبدالرحیم نشتر، انوار نشتر، فصیح اللہ نقیب اور انیس الدین انور کی صحبتوں  نے  انھیں  شاعر بنا دیا۔ موصوف ناگپور امراؤتی میں  منعقد ہونے  والی ادبی محفلوں  میں  اپنے  کلام سے  نوازتے  ہیں۔ آپ کو پاکستان میں  یوم آزادی کے  مشاعرہ میں  مہمان شاعر کی حیثیت سے  کلام پڑھنے  کا شرف حاصل ہو چکا ہے۔ آپ نے  حمد کے  چند اشعار میں رب کائنات کی صفات و کمالات کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے :

اے  بحر و بر کے  مالک عوارض و سماں  کے  مالک

ہے  تیری ذات اقدس حمد و ثنا کے  لائق

کل کائنات تیری سب میں  صفات تیری

فانی جہاں  کی ہر شئے   باقی ہے  ذات تیری

انسان کو بنایا جینے  کا گہر سکھایا

جنت کی منزلوں  کا رستہ ہمیں  دکھایا

دکھ درد بھی دیا ہے  یوں  امتحان لیا ہے

اعمال کی بناء پر سب کو صلہ دیا ہے

عبد الحمید خاں اثرؔ:الحاج عبدالحمید خاں  اثر اکولہ کے  بزرگ شعرا میں  شمار کئے  جاتے  ہیں۔ آپ کا ایک شعر ی مجموعہ ’’اشک و تبسم‘‘ شائع ہو کر داد و تحسین حاصل کر چکا ہے۔ موصوف ۱۹۵۵ء سے  ہی درس و تدریس کے  مبارک پیشے  سے  منسلک ہو گئے  تھے۔ ضلع پریشد میں  ہونے  کی وجہ سے  آکولہ ضلع کے  مختلف تعلیمی اداروں  میں  تدریسی خدمات انجام دیں  اور ۱۹۹۵ء میں  چالیس سالہ تدریسی تجربہ حاصل کر کے  ضلع پریشد اردو جونیئر کالج سے  بحیثیت پرنسپل وظیفہ یاب ہوئے۔ علاقہ ودربھ کی ٹیچرس برادری کا ایک بڑا حلقہ آپ کی شخصیت سے  متعارف ہے۔

اثر صاحب کے  دادا اور والد محترم بھی اسی پیشے  سے  وابستہ رہے  اب موصوف کے  بچے  بھی کار تدریس انجام دے  رہے  ہیں۔ آپ نے  میٹرک کے  بعد ملازمت کرتے  ہوئے  اپنی تعلیمی سرگرمیوں  کو بھی جاری رکھا اور خانگی طور پر بی اے، ایم اے  اردو ، ایم اے  فارسی اور بی ایڈ کی ڈگریاں  حاصل کیں۔ آپ نے  اپنی زندگی میں  بڑی تکالیف کا سامنا کیا ہے۔ مختلف مسائل سے  دوچار ہوئے  لیکن ہمت نہ ہاری اور اپنی ذاتی محنتوں  اور مسلسل کوششوں  کی بنا پر زندگی کے  ہر مرحلہ پر کامیابی حاصل کی۔ بلاشبہ تعلیم کے  حصول کے  لئے  محنتیں، ملازمت اور گھریلو ذمہ داریوں  کو نبھاتے  ہوئے  اپنی ادبی خدمات کو جاری رکھنا یہ سب ایک سرگرم فعال و متحرک شخص ہی کر سکتا ہے۔ موصوف نے  بھی بطور سعادت و برکت چند حمدیہ نظمیں  کہی ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :

عالم عالم ظہور تیرا ہے

ذرے  ذرے  میں  نور تیرا ہے

کر حفاظت کہ خاک کر دے  تو

جلوہ تیرا ہے  طور تیرا ہے

خوبیاں  سب تری عطا کردہ

عقل تیری شعور تیرا ہے

غنچہ و گل میں  ہے  تیری خوشبو

چاند تاروں  میں  نور تیرا ہے

لطف تیرا ہے  سب دماغوں  پر

سب دلوں  میں  سرور تیرا ہے

یا الٰہی اثرؔ کی بخشش کر

نام رب غفور تیرا ہے

اشفاق کارنجوی(پاڑے  گاؤں):اصل نام اشفاق احمد قریشی ہے۔ لیکن اشفاق کارنجوی کے  نام سے  ادبی دنیا میں  معروف ہیں۔ آپ غلام نبی آزاد اردو ہائی اسکول، باڑے  گاؤں  میں  مدرس ہیں۔ آپ نے  ۱۹۹۴ء میں شاعر ی کا آغاز کیا۔ غزل آپ کی پسندیدہ صنف ہے۔ مگر حمد، نعت، نظم و گیت میں بھی طبع آزمائی فرماتے  ہیں۔ ماہنامہ ’’گونج‘‘ ، ’’اردو میلہ‘‘ ، ’’قرطاس‘‘ ، ’’بزم اطفال‘‘ ا ور ’’نئی دنیا‘‘ وغیرہ رسائل میں  آپ کی تخلیقات میری نظر سے  گزری ہیں۔ نومبر ۲۰۰۰ء میں موصوف کا نعتیہ کلام کا مجموعہ ’’کاغذ کا مقدر‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ آپ نے  جو حمدیہ نظمیں  کہی ہیں  ان کے  چند متفرق اشعار ملاحظہ فرمائیں :

یہ جہاں  تیرا ہے  وہ جہاں  تیرا ہے

یہ زمیں  تیری ہے  آسماں  تیرا ہے

ہر مکاں  لامکاں  تجھی سے  ہے

ہر زمیں  آسماں  تجھی سے  ہے

ذرے  ذرے  میں  نور ہر پل ہے

قطرے  قطرے  میں  تیری ہلچل ہے

ڈھیل دینا بھی تنگ کرنا بھی

تیری قدرت کا ایک پہلو ہے

اپنے  بندوں  کو آزمانا بھی

تیری حکمت کا ایک پہلو ہے

ساری مخلوق کا تو خالق ہے

تیری تخلیق ہے  محمد  ؐ بھی

تیری تخلیق سنگ اسود ہے

تیرے  دم سے  ہے  مسجد اقصیٰ

 

 شاغل ادیب(ایم اے)

زیب منزل، مشیر آباد، حیدرآباد۔۴۸(آندھراپردیش)

حیدرآباد میں  حمدیہ و مناجاتی شاعر ی بیسویں  صدی کے  دوسرے  نصف میں

اردو شعر و ادب کی ابتدا کے  لئے  شہر حیدرآباد کو ایک تاریخی و بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے  بانی محمد  قلی قطب نے  (جو اردو کے  پہلے  صاحب دیوان شاعر تھے) بارگاہ خداوندی میں دعا کی تھی:

مرا شہر لو گاں  سوں  معمور کر

رکھیا جوں  تو دریا میں  من یا سمیع

اللہ تبارک و تعالیٰ نے  محمد  قلی کی دعا قبول کر لی اور اس نے  حیدرآباد کو صرف لوگوں  سے  ہی نہیں  بلکہ ان میں  قطب شاہ معانی کی طرح شاعر بھی پیدا کئے۔ حیدرآباد فرخندہ بنیاد میں  محمد  قلی قطب شاہ سے  آج تک ان گنت شاعر پیدا ہوئے۔ آج حیدرآباد کے  قیام کو چار صدیوں  سے  زیادہ عرصہ گزر گیا اور یہاں  ہر صدی میں  شاعروں  کو تعداد میں  کثرت میں  رہی ہے۔ یہاں  جب ہم بیسویں  صدی دوسرے  نصف یعنی (۲۰۰۰ء۔ ۱۹۵۱ء)میں  اردو شاعر ی کا جائزہ لیتے  ہیں  تو ہمیں  اس عرصہ میں  بھی شاعروں  کو تعداد میں کوئی کمی نہیں  ملتی۔ آئیے  ہم حیدرآباد میں اس دور کی حمدیہ و مناجاتی شاعر ی کا جائزہ لینے  سے  پہلے  حمد و مناجات کے  مفہوم و معنیٰ پر ایک نظر ڈالیں۔

حمد کے  لغوی معنی اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف ہے  اور مناجات کے  معنی ہیں  اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتے  ہوئے  دعا مانگتا۔ دنیا و عقبیٰ کی ہر حمد و ثنا، ہر تعریف  و توصیف بس اسی ایک مالک کون و مکاں، اسی ایک خالق دوجہاں  اور اس ایک آقائے  انس و جاں  کے  لئے  مختص ہے۔ ہر حمد کی ابتدا بھی وہی ذات پاک لاشریک لہ ہے  اور ہر تعریف و توصیف کی انتہا بحق وہی خدائے  جل جلالہ ہے۔ لہٰذا جس شعر میں  جس کلام میں  اللہ تبارک و تعالیٰ کی برتری و توصیف شامل ہو وہ حمد کہلاتا ہے  اور جس شعر میں  جس کلام میں  اللہ تبارک و تعالیٰ کی برتری و عظمت کے  ساتھ دعائیہ انداز ہوتا ہے  وہ مناجات کہلاتا ہے۔ مگر حمد کی نعمت اور مناجات کی رحمت ہر شاعر کے  حصے  میں  نہیں  آئی۔ اس لئے  حیدر آباد میں  بیسویں  صدی کے  دوسرے  نصف میں  پائے  جانے  والے  بیشتر ترقی پسند شعرا کے  یہاں  نہ ہی کوئی حمد ملتی ہے  اور نہ ہی کوئی مناجات۔ اسی طرح جدیدیوں  کے  ہاں  بھی حمدیہ و مناجاتی کلام کم ہی ملتا ہے۔ علاوہ ازیں  حیدرآباد میں  اس نصف میں موجود چند اساتذہ کے  ہاں  بھی نعتیں  اور منقبتیں  تو ملتی ہیں  لیکن حمدیں  و مناجاتیں  نہیں  ملتیں۔

حیدرآباد میں بیسویں  صدی کے  دوسرے  نصف میں  جن شعرائے  کرام کے  ہاں  حمدیں  مناجاتیں  ملتی ہیں  ان کے  اسمائے  گرامی یوں ہیں۔ امجد حسین امجد، شاذ تمکنت، صفی اور نگ آبادی، طالب رزاقی، ڈاکٹر علی احمد جلیلی، خواجہ شوق، رحمن جامی، صلاح الدین نیر، رئیس اختر، ڈاکٹر عقیل ہاشمی، داؤد نقیب، ڈاکٹر محمد   علی اثر، مظفر الدین خان صاحب، ابوالفضل سیدمحمد  ، نصیرالدین بسمل، ڈاکٹر غیاث عارف، وقار خلیل، اثر غوری، علی الدین نوید، رؤف خیر، محسن جلگانوی، شاغل ادیب، ریاست علی تاج، ڈاکٹر راہی، مومن خان شوق، جوہر ہاشمی، یوسف یکتا، دلاور حزیں، مسرور عابدی، قوی سیت، خورشید جنیدی، اطیب اعجاز، انجم عارفی، شوکت علی درد، رشید جلیلی، مسعود جاوید ہاشمی، معلم عبیدی،معین فیاضی، صادق نوید، منوہر لعل بہار، بے  ہوش نگری، ڈاکٹر طیب پاشا قادری، رحمت سکندرآبادی، عزیز الدین رضواں، عزم رحمانی، ستار صدیقی، عباس متقی، شمیم نصرتی، فریدسحر، شکیل مظہر، اسحاق ملک، یوسف الدین یوسف، باسط نقوی، بصیر افضل اور شاعر ات میں م محترمہ تہنیت النساء زور، اشرف رفیع، زبیدہ تحسین اور بانو طاہرہ سعید کے  ہاں  بھی حمدیں  و مناجاتیں  ملتی ہیں۔ آئیے  ان میں  سے  چند شعرائے  کرام کے  سوانحی کوائف و منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیے  گا:

امجدحسین امجد(۱۹۶۵ء۔ ۱۸۸۸ء):امجد حسین امجد حیدرآباد کے  ایک عظیم صوفی شاعر تھے۔ آپ صنعت رباعی کی جانب شدت سے  متوجہ رہے  اور اپنی رباعی گوئی میں  کمال و مہارت کے  سبب شہنشاہ رباعی کہلائے۔ اہل نقد و نظر نے  انہیں  سعدیِ دکنی اور سرحد ثانی کے  خطابات سے  بھی نوازا۔ دو حمدیہ رباعیات ملاحظہ فرمائیے :

واجب ہی کو ہے  دوام باقی فانی

قیوم کو ہے  قیام، باقی فانی

کہنے  کو زمین و آسمان سب کچھ ہے

باقی ہے  اسی کا نام باقی فانی

٭

ہر ذرہ پہ فضل کبریا ہوتا ہے

اک چشم زدن میں  کیا سے  کیا ہوتا ہے

اصنام دبی زباں  سے  یہ کہتے  ہیں

وہ چاہے  تو پتھر بھی خدا ہوتا ہے

شاذ تمکنت:آپ بیسویں  صدی کے  چھٹے  دہے  میں حیدرآباد میں  نظم کے  اہم شاعر رہے  ہیں۔ آپ نمائندہ ترقی پسند شعرا مخدوم محی الدین، سلیمان اریب، وحید اختر، قمر ساحری اور پروفیسر مغنی تبسم کے  ہم عصر رہے  ہیں۔ آپ کی ایک مناجات جسے  پدم شری عزیز احمد وارثی نے  گایا ہے، واقعی جادو اثر ہے۔ چند بند ملاحظہ ہوں :

اک حرف تمنا ہوں، بڑی دیر سے  چپ ہوں۔۔۔ کب تک مرے  مولا

اے  دل کے  مکیں  دیکھ یہ دل ٹوٹ نہ جائے

داتا مرے  ہاتھوں  سے  کہیں  چھوٹ نہ جائے

میں  آس کا بندہ ہوں۔ بڑی دیر سے  چپ ہوں۔۔۔ کب تک مرے  مولا

یہ اشک کہاں  جائیں  گے  دامن مجھے  دے  دے

اے  باد بہاری مرا گلشن مجھے  دے  دے

میں  راندۂ صحرا ہوں۔ بڑی دیر سے  چپ ہوں۔۔۔ کب تک مرے  مولا

اے  کاشف اسرار نہانی ترے  صدقے

اب شاذ کو دے  حکم روانی ترے  صدقے

ٹھہرا ہوا دریا ہوں۔ بڑی دیر سے  چپ ہوں۔۔۔ کب تک مرے  مولا

(ریاض شام)

صفی اور نگ آبادی(پ:۱۸۱۱ء۔ م:۱۹۵۱ء):غزل کے  نمائندہ استاد شاعر تھے۔ زبان کی سادگی، لفظیات کے  کمال اور محاوروں  کے  استعمال میں ان کا جواب نہیں  تھا۔ شاگردوں  کا ایک وسیع حلقہ رکھتے  تھے۔ ان کی حمد کا ایک شعر دیکھئے  گا:

تو وہ ہے  جو ہر ایک کی بگڑی سنوار دے

میری مراد بھی مرے  پروردگار دے

طالب رزاقی:طالب رزاقی ۱۹۲۰ء میں  حیدرآباد میں  پیدا ہوئے۔ آپ ایک پختہ مشق و قادر الکلام شاعر تھے۔ آپ کے  ترنم سے  سامعین پر وجد کی کیفیت طاری ہوتی تھی۔ آپ مولانا عبد ا لماجد  دریابادی کے  بھتیجے  تھے۔ آپ کی شاعر ی کا مجموعہ ’’نوائے  طالب‘‘ آندھراپردیش اردو اکاڈمی نے  آپ کی وفات کے  بعد ۱۹۷۹ء میں  شائع کیا ہے۔ آپ کی حمد کے  دو شعر ملاحظہ ہوں :

گلستان دو عالم کی بہار جانفزا تو ہے

ترا کیا پوچھنا صورت گر ارض و سما تو ہے

مری منزل ہے  تیری جستجو کی انتہا یارب

طلب کی راہ میں  طالب کا واحد رہنما تو ہے

ڈاکٹر علی احمد جلیلی(پ:۲۲!جون ۱۹۲۱ء۔ م:۱۲!اپریل۲۰۰۵ء):فصاحت جنگ جلیل استاد شاہ کے  روشن چشم و چراغ تھے۔ نظم و نثر دونوں میں  کمال رکھتے  تھے۔ ہمیشہ درس و تدریس سے  جڑے  رہے  اور وظیفہ کے  بعد اپنے  والد مرحوم ہی پر تحقیقی مقالہ لکھ کر جامعہ عثمانیہ سے  ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کی تصانیف نظم و نثر کی تعداد پندرہ ہے۔ جنھیں  بیشتر پردیشوں  کی اردو اکادمیوں  اور سرکاری اداروں  نے  انعامات سے  نوازا ہے۔ ان کی حمد کے  چند شعر دیکھئے  گا:

مدح خواں  جس کے  نوری و خاکی

جس کے  حور و ملک تمنائی

یاد جس کی سکون ہے  دل کا

جس سے  آباد میری تنہائی

جس سے  قربت سلام و رحمت ہے

جس سے  دوری تمام رسوائی

ہے  وظیفہ مرا ثنا اس کی

وہ جور رکھتا ہے  شان یکتائی

(ذکر حبیب)

خواجہ شوق:خواجہ شوق ۱۸ جولائی ۱۹۲۵ء  کو پیدا ہوئے۔ تکمیل تعلیم کے  بعد بہ سلسلہ ملازمت نظام اسٹیشن سے  جڑے  رہے  اور بعد ازاں  روزنامہ رہنمائے  دکن کے  ادبی صفحہ کے  ایڈیٹر بن گئے۔ حیدرآباد میں  شعرا کے  کلام کے  ساتھ تصاویر کی اشاعت کی پہل آپ ہی نے  کی تھی۔ صفی اور نگ آبادی کے  شاگرد ارشد رہے  ہیں۔ تصانیف دو ہیں۔ چشم نگراں (شعر ی مجموعہ) اور صل علیٰ(نعتیہ، منقبتوں  اور سلاموں  کا مجموعہ)۔ اگست ۲۰۰۰ء میں  آندھرا پردیش اردو اکادمی نے  ایک لاکھ روپیوں  کے  مخدوم ادبی ایوارڈ سے  سرفراز فرمایا۔ موصوف کے  چند شعر ملاحظہ ہوں :

شہود کس کو کہیں  اور نجیب کس کو کہیں

یہاں  تو سب ہیں  بہم لا الہ الا اللہ

زبان بن نہیں  سکتی نظر کی کیفیت

تجلیات حرم لا الہ الا اللہ

جلے  جو دامن دل شوق شعلہ غم سے

کہو بہ دیدہ نم لا الہ الا اللہ

(چشم نگراں)

رحمن جامی:آپ کہنہ مشق استاد شاعر ہیں۔ ۱۹۳۴ء میں  محبوب نگر میں  پیدا ہوئے۔ تکمیل تعلیم کے  بعد حیدرآباد منتقل ہو گئے  اور یہیں  مستقل طور پر قیام پذیر ہیں۔ آپ غزل، نظم، حمد، نعت، ہائیکو، سانیٹ، ماہیے  اور شاعر ی کی بیشتر قدیم و جدید اصناف میں طبع آزمائی کا کمال رکھتے  ہیں۔ پہلا شعر ی مجموعہ ’’جام انا‘‘ ہے۔ ادھر ادھر خطاط اور دیگر کئی مجموعے  ایک ساتھ شائع ہو کر منظر عام پر آئے  ہیں۔ آپ کا کلام اردو کے  ان گنت اعلیٰ و معیاری رسائل کی زینت بنتا ہے۔ ان کی مناجات سے  چند شعر سنئے  گا:

گناہ گار ہوں  دوزخ میں  مجھ کو ڈال نہ دے

مرے  کریم سزا، میرے  حسب حال نہ دے

جہاں  کے  آگے  نہ کر مجھ کو اور شرمندہ

برا ہوں  میں  تو بہت، تو مری مثال نہ دے

کھڑا ہے  تیرے  کرم کی امید میں  جامیؔ

ترے  کرم کی قسم اب تو اس کو ٹال نہ دے

(خطاط)

صلاح الدین نیر:آپ اردو دنیا میں  کسی تعارف کے  محتاج نہیں۔ آپ ایک فعال، سرگرم و  متحرک شاعر و ادیب ہیں۔ آپ کی تصانیف نظم و نثر کی تعداد تیس سے  زائد ہے۔ آپ گذشتہ دس سالوں  سے  ماہنامہ خوشبو کا سفر کے  توسط سے  ادبی صحافت سے  جڑے  ہوئے  ہیں۔ آپ کی بیشتر تصانیف نظم و نثر تو ان گنت اکاڈمی ایوارڈز سے  نوازی ہی جا چکی ہیں  لیکن آپ کے  کمال اداریہ نگاری و ادبی صحافت کی مہارت کا اعتراف ارباب شمال نے  بھی کیا ہے۔ چند سال پہلے  آپ کو صنم کمیونیکیشن، نئی دہلی نے  سر سید صحافتی ایوارڈ سے  نوازا تھا اور ابھی چند ماہ پہلے  حکومت آندھر پردیش نے  ریاستی ادبی ایوارڈ سے  سرفراز فرمایا ہے۔ ان کی شعر ی مطبوعات میں غزلوں  اور نظموں  کے  مجموعوں  کے  ساتھ ایک مجموعہ ان کی حمدوں، نعتوں  اور منقبتوں  پربھی مشتمل ملتا ہے۔ جس کا نام ’’میں  کب سے  مدینے  کی طرف دیکھ رہا ہوں ‘‘ ہے۔ لیجئے  اس مجموعے  سے  جناب نیر کے  چند اشعار ملاحظہ فرمائیے :

قدم قدم پہ کیوں  ہے  میرا امتحاں  یارب

زمین ہوں  تو بنا مجھ کو آسماں  یارب

جہاں  کہیں  بھی ہو، اپنی پناہ میں  رکھنا

بھٹکتا رہتا ہے  انساں  کہاں  کہاں  یارب

یہ روشنی مرے  پرکھوں  کا اک تسلسل ہے

اسی طرح رہے  آباد یہ مکاں  یارب

ڈاکٹر محمد  علی اثر:آپ اردو کے  ممتاز شاعر و معتبر ادیب ہی نہیں  بلکہ ایک موقر نقاد و بلند پایہ محقق بھی ہیں۔ آپ بہ اعتبار ملازمت شعبہ درس و تدریس سے  جڑے  ہوئے  ہیں  اور فی الحال ویمنس کالج جامعہ عثمانیہ کوٹھی میں پروفیسر کی خدمات انجام دے  رہے  ہیں۔ آپ کی تصانیف نظم و نثر کی تعداد تیس سے  زائد ہے۔ آپ کی حمدوں  و نعتوں  کا ایک مجموعہ ’’انوار خط روشن‘‘ چند سال پہلے  شائع ہو کر بے  حد پذیرائی حاصل کر چکا ہے۔ لیجئے  ’’انوار خط روشن‘‘ ہی کی ایک حمد سے  چند اشعار دیکھئے  گا:

زمیں  سے  تابہ فلک ہیں  عنایتیں  کیا کیا

محیط کون و مکاں  پر ہیں  نعمتیں  کیا کیا

شجر حجر بھی ہیں  محو ثنائے  رب کریم

دکھا رہا ہے  وہ آئینہ صورتیں  کیا کیا

اثر اسی سے  منور ہیں  جسم و جاں  میرے

بصیرتیں  بھی ہیں  کیا کیا، بصارتیں  کیا کیا

نصیرالدین بسمل:آپ علامہ قدر عریض کے  شاگردوں  میں  شامل ہیں۔ گذشتہ چالیس پینتالیس سالوں  سے  طبع آزمائی کر رہے  ہیں۔ آپ کی مطبوعات میں  نعتوں  کا مجموعہ ’’ پلکوں  کی دستک‘‘ منقبتوں  کا مجموعہ ’’آواز کے  بوسے ‘‘ ، غزلوں  کا مجموعہ ’’کشکول میں سورج‘‘ ، رباعیات و قطعات کا مجموعہ ’’بوند بوند سمندر‘‘ اور حمدوں، نعتوں  اور منقبتوں  کا مجموعہ ’’اجالوں  کا سفر‘‘ شامل ہیں۔ لیجئے  ’’اجالوں  کا سفر‘‘ سے  ان کی حمد کے  چند اشعار ملاحظہ فرمائیے :

تو اول بھی تو آخر بھی تو ظاہر بھی تو باطن بھی

پایہ نہ کسی نے  پایا ترا سبحان اللہ سبحان اللہ

تو خالق ہے  تو رازق ہے  تو صلحا ہے  تو ماویٰ ہے

جو کچھ بھی کہوں  ہے  تجھ کو روا، سبحان اللہ سبحان اللہ

تو یکتا ہے  تو تنہا ہے  تو زندہ ہے  تو گویا ہے

تو دانا ہے  تو ہے  بینا سبحان اللہ سبحان اللہ

ڈاکٹر غیاث الدین عارف:آپ حضرت نذیر علی عدیل مرحوم کے  شاگرد رشید ہیں  اور انہی کے  وسیلے  سے  آپ کا سلسلہ شاعر ی دبستان صفی اور نگ آبادی سے  جا ملتا ہے۔ آپ نے  غزلیں  بھی کہی ہیں  لیکن ان کی مذہبی شاعر ی کا سرمایہ ان کی سنجیدہ و ادبی شاعر ی سے  بہت زیادہ ہے۔ ان مطبوعات میں شعر ی مجموعہ ’’آبشار خیال‘‘ کے  ساتھ حمدوں  و نعتوں  کے  دو مجموعے  ’’فیضان رسولؐ‘‘ اور ’’سبز اجالا‘‘ شامل ہیں۔ لیجئے  ان کی حمد کے  چند شعر ملاحظہ فرمائیے  گا:

نظر تیری قطرے  پہ ہو گر خدایا

تو بن جائے  وہ اک سمندر خدایا

ہے  گر کوئی تیرا گداگر خدایا

مقدر کا وہ ہے  سکندر خدایا

اثر غوری:آپ جدید لب و لہجہ کے  جانے  پہچانے  شاعر ہیں۔ حیدرآباد کے  مشاعروں  میں  اپنی خاص شناخت رکھتے  ہیں۔ شعر ی مجموعہ ’’بوند بوند روشنی‘‘ (۱۹۸۳ء) کے  بعد دوسرا شعر ی مجموعہ ’’لہو لہو سائبان‘‘ اس سال ماہ جون میں  شائع ہو کر منظر عام پر آیا ہے۔ لیجئے  اس شعر ی مجموعے  سے  اثر غوری صاحب کی حمد کے  چند شعر ملاحظہ فرمائیے :

عرش اعظم پہ ضو فشاں  تو ہے

کیا بتاؤں  کہاں  کہاں  تو ہے

مجھ میں  کعبہ بھی ہے  مدینہ بھی

ذات میں  میری بیکراں  تو ہے

علی الدین نوید(پ:۱۹۴۴ء۔ م:۲۰۰۴ء):آپ جدیدیت کے  نمائندہ شاعر تھے  اور جدیدیت سے  وابستہ ادبی انجمن ’’حلف‘‘ کے  بنیادی رکن بھی۔ انھوں  نے  بچپن میں  پولیس ایکشن میں اپنے  والدہ، چچا اور دیگر افراد خاندان کا قتل اپنی معصوم آنکھوں  سے  دیکھا تھا۔ اس اندوہناک حادثے  کا ان کے  دل و دماغ پر ایسا اثر ہوا کہ تا حیات ان کے  شعور میں  یہ حادثہ ایک زخمی پرندے  کی طرح پھڑپھڑاتا رہا نوید مرحوم نے  اپنے  ذاتی و انفرادی کرب کو بڑے  فنکارانہ انداز میں اپنی شاعر ی میں  پیش کیا ہے۔ ان کے  دو شعر ی مجموعے  ’’صدف تمام ریت ریت‘‘ اور ’’دھواں  دھواں  چراغ‘‘ شائع ہو کر بے  حد مقبولیت حاصل کر چکے  ہیں۔ لیجئے  ان کے  موخر الذکر مجموعے  سے  ان کی مناجات کے  چند شعر سنئے  گا:

مری رگ رگ میں اپنا نور بھر دے

میں  پتھر ہوں  مجھے  آئینہ کر دے

قلم جب ہاتھ میں  تو نے  دیا ہے

تو کاغذ پر بھی چلنے  کا ہنر دے

نوید جانفزا پھر سے  سنا دے

مرے  مولا مدینے  کا سفر دے

رؤف خیر:آپ اردو کے  شعر ی و ادبی حلقوں میں  اپنی ایک خاص شناخت رکھتے  ہیں۔ نظم و نثر دونوں  کی جانب متوجہ ہیں۔ ان کی تخلیقات نظم و نثر تمام اعلیٰ و معیاری ادبی رسائل و جرائد میں  پابندی سے  چھپتی ہیں۔ آپ حمد، نعت، غزل، نظم، ماہئے، ہائیکو، یک مصرعی نظمیں  اور دیگر کئی اصناف شعر ی میں  اچھی اور سچی طبع آزمائی کرتے  ہیں۔ آپ تنقید و تحقیق میں بھی دلچسپی رکھتے  ہیں۔ آپ کی تصانیف نظم و نثر میں  چار شعر ی مجموعے ’’اقرا‘‘ ، ’’ایلاف‘‘ ، ’’شہداب ‘‘ اور ’’سخن ملتوی‘‘ ، ’’ علامہ اقبال کے  لالہ طور کا منظوم اردو ترجمہ‘‘ ، تحقیقی مقالہ ’’ حیدرآباد کی خانقاہیں ‘‘ اور تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’قنطار‘‘ شامل ہیں۔ لیجئے  ان کے  شعر ی مجموعہ ’’سخن ملتوی‘‘ سے  ان کی حمد کے  چند شعر ملاحظہ فرمائیے :

سننے  کا ہے  کس کو کہاں  اختیار سن

تیرے  سوائے  کون ہے  پروردگار سن

سیکھا نہیں  ہے  میں  نے  کسی کو پکارنا

تجھ کو پکارتا ہوں  تو میری پکار سن

محسن جلگانوی:آپ ایک فعال،سرگرم و متحرک اہل قلم ہیں۔ حیدرآباد کے  جدید شعرا میں  اپنی ایک الگ پہچان رکھتے  ہیں۔ آپ جدیدیت کے  تمام تر لوازمات و تقاضات  کو اپنے  فکر پاروں  کا حصہ ضرور بناتے  ہیں  لیکن انہیں  لا معنویت کا شکار ہونے  سے  بچاتے  بھی ہیں۔ آپ نے  سکندرآباد میں جب ریلوے  جوائن کی تو اس وقت معمولی میٹرکیولیٹ تھے  لیکن اپنی دفتری و گھریلو ذمہ داریوں  کو سنبھالتے  ہوئے  جامعہ عثمانیہ سے  گریجویشن کیا اور بعد ازاں  ایم اے  کی تکمیل کے  بعد حیدرآباد یونیورسٹی حیدرآباد سے  ایم فل اور پی ایچ ڈی کی اعلیٰ ڈگریاں  بھی حاصل کیں۔ اعلیٰ تعلیم کی تحصیل کے  لئے  آپ کو ریلوے  کی ملازمت کو خیرباد کہنا پڑا۔ اب پی ایچ ڈی کی تکمیل کے  بعد آپ روزنامہ اعتماد سے  منسوب ہو گئے  ہیں  اور اس کا ادبی صفحہ ’’اوراق ادب‘‘ نہایت ہی عرق ریزی و دقت نظری سے  ترتیب دے  رہے  ہیں۔ جسے  بے  حد پسند کیا جا رہا ہے۔ محسن جلگانوی کی تصانیف و تالیفات میں  تین شعر ی مجموعے ’’انصاف‘‘ ، ’’تھوڑا سا آسمان زمین پر‘‘ اور ’’آنکھ سچ بولتی ہے ‘‘ ، ایک تالیف ’’پس مرگ‘‘ اور ایک تحقیقی تصنیف ’’سکندر آباد کی ادبی دستاویز‘‘ شامل ہیں۔ ان کی حمد کے  یہ شعر دیکھئے  گا:

نا دانستہ منصوبوں  کا خالق میں

دانستہ تقدیر بنانے  والا تو

خود کو شہ آفاق سمجھنے  والا میں

مجھ کو مری اوقات بتانے  والا تو

میری ذات کی قیمت مٹی سے  بدتر

میرے  نام میں  وقعت لانے  ولا تو

مسرور عابدی:آپ گذشتہ چالیس سالوں  سے  شعر و ادب سے  جڑے  ہوئے  ہیں۔ تعلیم کے  اعتبار سے  آپ سائنس کے  گریجویٹ ہیں۔ لیکن شعر و ادب سے  گہرے  لگاؤ نے  انہیں  شعر ی تخلیق افروزیوں  کی جانب موڑ لیا۔ ابتدا میں  جانشین صفی اور نگ آبادی حضرت نذیر علی عدیل سے  شرف تلمذ حاصل رہا بعد ازاں  پروفیسر عنوان چشتی سے  بھی منسوب رہے۔ جس کی تفصیل پروفیسر عنوان چشتی کی کتاب اصلاح نامہ (جلد اول، مطبوعہ :۱۹۹۷ء) میں  بھی درج ہے۔ مسرور صاحب خود ایک استاد شاعر ہو گئے  ہیں۔ لیجئے  ان کے  تازہ ترین شعر ی مجموعہ ’’دل برابر روشنی‘‘ سے  ان کی حمد کے  دو شعر سنئے  گا:

آگ کو پھول بنانے  کی جو تدبیریں  ہیں

وہ فقط ایک ترے  حکم کی تاثیریں  ہیں

صورت نور مری روح کی دیواروں  پر

تری تعریف میں لکھی ہوئی تحریریں  ہیں

بے  ہوش محبوب نگری:آپ حمد و نعت کے  کہنہ مشق بزرگ شاعر ہیں۔ آپ نے  اپنی ساری زندگی مذہبی شاعر ی کے  لئے  وقف کر دی۔ آپ کو مولانا معز الدین ملتانی سے  شرف تلمذ حاصل رہا۔ آپ کی شعر ی کامیابیوں  میں  آپ کے  سحر آگیں  ترنم کا بھی بڑا دخل رہا ہے۔ ان کی حمد کے  دو شعر ملاحظہ کیجئے  گا:

تو دلیل رحمت بیکراں  تری شان جل جلالہ

تو ثبوت حق کی ہے  ایں  و آں  تری شان جل جلالہ

تری حمد اور مری زباں  تری شان جل جلالہ

ہے  عطائے  نطق کا امتحاں، تری شان جل جلالہ

خورشید جنیدی(پ:۱۹۲۴ء۔ م:۱۹۹۰ء):آپ حیدرآباد کے  استاد شاعر تھے۔ فرزندان جامعہ عثمانیہ میں نمایاں  مقام رکھتے  تھے۔ ان کے  رفقائے  جامعہ میں  مخدوم محی الدین، سکندر علی وجد، میکش حیدر آبادی اور امیر احمد خسرو کے  اسمائے  گرامی قابل ذکر ہیں۔ آپ کو اپنے  دور کے  اساتذہ حضرات علی منظور، علامہ نجم آفندی اور حضرت امجد حسین امجد سے  فیض رحمت و شرف مشاورت حاصل رہا ہے۔ آپ کا دیوان ’’آتش گفتار‘‘ ۱۹۸۲ء میں شائع ہو کر بے  حد مقبول ہوا ہے۔ لیجئے  اس دیوان سے  ان کی حمد کے  چند شعر ملاحظہ فرمائیے :

بنام گنج مخفی تو عدم ہے

ازل تیرا ظہور محترم ہے

ترے  جلوؤں  کا پر تو قصہ طور

ترا دیدار معراج اتم ہے

جہاں  تک ہے  گداز دل کی رونق

وہاں  تک وسعت دیر و حرم ہے

منوہر لعل بہار:آپ ۳۱ مئی ۱۹۱۳ء کو حسینی علم حیدرآباد میں  پیدا ہوئے۔ مدرسہ چار محل و سٹی کالج میں  تعلیم کی تکمیل کے  محکمہ زراعت حکومت آصفیہ سے  منسوب ہوئے  اور منتظم نظامت زراعت کے  عہدہ پر وظیفہ یاب ہوئے۔ حضرت فصاحت جنگ جلیل سے  شرف تلمذ حاصل رہا۔ اس طرح ان کا سلسلہ سخن حضرت امیر مینائی سے  جا ملتا ہے۔ آپ بنیادی طور پر غزل کے  شاعر تھے۔ لیکن حمد و نعت  و منقبت سے  بھی شغف رکھتے  تھے۔ حضرت صوفی اعظم کے  سالانہ نعتیہ مشاعرہ کی نظامت کا اعزاز تا حیات آپ ہی کو حاصل رہا۔ آپ کے  شعر ی ورثہ میں  چھ مجموعے  ’’بہارستان‘‘ ، ’’تکرار تمنا‘‘ ، ’’افکار نورانی‘‘ ، ’’فردوس بہار‘‘ ، ’’لہریں  ‘‘ اور ’’ سخن در سخن‘‘ شامل ہیں۔ مجموعی خدمات کے  لیے  آندھراپردیش اردو اکاڈمی نے  ایوارڈ سے  بھی سرفراز فرمایا تھا۔ حمد کے  چند شعر ملاحظہ ہوں :

اے  دو جہاں  کے  مالک، خالق ہے  نام تیرا

ثانی ترا نہ ہم سر ہے  وہ مقام تیرا

ہندو ہوں  یا مسلماں، سکھ ہوں  یا کہ ہوں  مسیحی

الفاظ گو جدا ہوں  لیتے  ہیں  نام تیرا

اک روز ہو شگفتہ اس کا چمن بھی یارب

جو ہے  بہار غم میں  ادنیٰ غلام تیرا

بیگم تہنیت النسا زور(پ:۱۹۰۰ء۔ م:۱۹۵۲ء):آپ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان کی بیٹی تھیں  اور ممتاز ماہر دکنیات  ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور کی شریک حیات تھیں۔ آپ اپنے  شوہر کی ہم سفر حیات ہی نہیں  رہیں  بلکہ ان کے  علمی و ادبی سفر میں بھی ان کا قدم قدم پر ساتھ دیا۔ آج حیدرآباد میں جہاں  ادارۂ ادبیات کی عمارت کھڑی ہے  جہاں  عظیم الشان ایوان اردو ایستادہ ہے  وہ زمین بیگم تہنیت النساء زور کی ذاتی ملکیت تھی جو انھوں  نے  بطور عطیہ زور صاحب کودی تھی۔ بیگم تہنیت النسا زور تا دم آخر نعت، حمد اور منقبت ہی لکھتی رہیں۔ ان کی نعتوں  کے  تین مجموعے  ’’ذکر و فکر‘‘ ، ’’صبر و شکر‘‘ اور ’’تسلیم و رضا‘‘ ۔ جن میں  نعتوں  کے  علاوہ حمد، سلام اور منقبت بھی شامل ہیں۔ لیجئے  ان کے  تیسرے  مجموعہ نعت ’’تسلیم و رضا‘‘ سے  ان کی حمد کے  چند اشعار ملاحظہ فرمائیے :

عرش پر دیکھ رہا ہے  ترا جلوہ کوئی

برسر طور ہے  مصروفِ تقاضا کوئی

تیرے  دینے  کے  ہیں  انداز نرالے  سب سے

تو جو دیتا ہے  تو ہوتا نہیں  چرچا کوئی

کوئی پا لیتا ہے  تجھ کو یہیں  شہ رگ کے  قریب

 اور ڈھونڈ رہے  سر عرش معلیٰ کوئی

میرے  اس مضمون کی فہرست میں (جو میں  نے  اس کی ابتدا میں  دی ہے) چون شعرا اور چار شاعر ات کے  اسمائے  گرامی شامل ہیں۔ لیکن ان سب کے  سوانحی کوائف پیش کرنے  کئے  جائیں  تو مضمون طول پکڑ لے  گا۔ اس لئے  معذرت کے  ساتھ میں  باقی شعرا شاعر ات کے  صرف منتخب اشعار ہی پیش کرنے  پر اکتفا کروں  گا۔ البتہ اشعار کے  اختتام پر ان کے  ماخذ کا حوالہ ضرور شامل رہے  گا۔ لیجئے  ذیل میں  باقی شعرا و شاعر ات کی حمدوں  اور مناجاتوں  کے  اشعار ملاحظہ فرمائیے :

رئیس اختر:

ہے  فیض مسلسل ترا پیغام خدایا

قرآن ہے  خود اک کرم عام خدایا

الفاظ تیری حمد کو لاؤں  میں  کہاں  سے

ہے  سوچ یہی بس سحر و شام خدایا

(روح دل)

ڈاکٹر عقیل ہاشمی:

سمیع’‘ بصیر’‘ قدیر’‘ عظیم’‘

 تو ارفع و اعلیٰ و اکبر خدایا

تری عظمتیں  رفعتیں  کیا بیاں  ہوں

قلم ناتواں  نطق کمتر خدایا

(بیاض نور)

داؤد نصیب:

رب مطلق ہے  کبریا تو ہے

صرف اک قابل ثنا تو ہے

ہوکے  تو آشکار عالم میں

ذرہ ذرہ میں  بھی چھپا تو ہے

(راستہ)

مظفر الدین خاں  صاحب:

(رباعی)

یارب مرے  عصیاں  کی سیاہی توبہ

اعمال کا یہ رنگ تباہی توبہ

تو بخش دے  صدقے  میں  محمد  ؐ کے  مجھے

توبہ ہے  گنا ہوں  کی الٰہی توبہ

(سخن در سخن)

ابوالفضل سید محمود:

الٰہی کام لے  ظلمت میں  مجھ سے  ماہ و انجم کا

مرے  اس داغ دل کو شمع راہ گمرہاں  کر دے

دل فطرت شناس و دیدۂ خود بیں  عطا فرما

مجھے  بھی واقف راز جہان کن فکاں  کر دے

(دعائے  نیم شبی)

وقار خلیل:

نوائے  بربط ناہید و نغمہ زہرہ

حدیث کن فیکون، حسن ایں  و آں  تجھ سے

خطا معاف کہ مقطع میں سر جھکاتا ہوں

وقار سجدہ ہے  تو اور آستاں  تجھ سے

(شاعر ی)

ریاست علی تاج:

اے  خدائے  لم یزل خالق کرو بیاں

تیرے  آگے  سرنگوں  ہر رفعت کون و مکاں

عزت و ناموس کا میری فقط حافظ ہے  تو

 ’’دولت ایماں ‘‘ کا مری صرف تو ہے  پاسباں

(نقوش حیات)

ڈاکٹر راہی:

مرا ہر اک نفس وقف سبحان اللہ بحمدی ہے

مری ہر سانس میں  ہے  آپ کی حمد و ثنا یارب

ترے  بندے  ہیں  تجھ سے  ہی طلب کرتے  رہیں  گے  ہم

ہمارا کون ہے  تیرے  سوا حاجت روا یارب

(دھنک)

مومن خان شوق:

غموں  کی دھوپ میں  دل کو قرار دے  یارب

خزاں  کی رت میں  بھی ابر بہار دے  یارب

تری ہی حمد کریں  اور سیدھی راہ چلیں

ہماری زیست کو ایسا نکھار دے  یارب

(یہ موسم گل)

جوہر ہاشمی:

ابتدا ہے  اور نہ کوئی انتہا تیرے  بغیر

کچھ نہیں  ہے  مالک ارض و سما تیرے  بغیر

فضل ہے  تیرا یہ جوہر ہاشمی کی زندگی

سانس تلک وہ لے  نہیں  سکتا خدا تیرے  بغیر

(نگار سحر)

یوسف یکتا:

دین و دنیا میں  سرخرو کر دے

اے  مرے  دو جہان کے  مالک

تو ہی حمد و ثنا کے  ہے  لائق

اے  زمین و آسماں  کے  مالک

(غنچۂ عطر بیز)

دل اور حزیں :

ہر اک منزل پہ تو ہی بے  سہاروں  کا سہارا ہے

تو بے  شک حق تعالیٰ ہے  تو بے  شک حق تعالیٰ ہے

تری رحمت میں  بڑھ کر لے  لیا آغوش رحمت میں

مصیبت میں  تڑپ کر اے  خدا جس نے  پکارا ہے

(شہر خیال)

قوی سیف:

ہمارا ذوق نظر لا الہ الا اللہ

ہمارا حسن بیاں  لا الہ الا اللہ

تمام روح و بدن تر ہیں  تیری خوشبو سے

مشام نطق و دہاں  لا الہ الا اللہ

(اک چٹکی آگ)

اطیب اعجاز:

ذکر یہ صبح و شام کس کا ہے

ذرہ ذرہ پہ نام کس کا ہے

آپ اپنے  پہ ہے  یقیں  اطیبؔ

عقل کل میں  وہ نام کس کا ہے

(لمس کی خوشبو)

انجم عارفی:

آنکھوں  کو میری نور بصیرت دے  دے

گمراہ ہوں  میں  مجھ کو ہدایت دے  دے

کونین کی دولت کی نہیں  مجھ کو ہوس

یارب مجھے  سرکار کی الفت دے  دے

(انجم زار)

شوکت علی درد:

تو ہی ماوا تو ہی ملجا تو ہی مولا تو ہی آقا

سوا تیرے  نہیں  کوئی ہمارا آسرا یارب

بشر کا ذکر کیا پیغمبروں  تک نے  کہا یارب

کس سے  ہو سکے  گی کیا تری حمد و ثنا یارب

(متاع درد)

رشید جلیلی:

دل سے  سب غم نکال دے  یارب

چھاؤں  رحمت کی ڈال دے  یارب

اپنے  پیارے  نبیؐ کے  صدقے  میں

ہر بلا سر سے  ٹال دے  یارب

(آرزو کے  چراغ)

مسعود جاوید ہاشمی:

رکھا تھا ذات کے  پردے  میں  کل نہاں  مجھ کو

تو قسط قسط میں  کرتا رہا عیاں  مجھ کو

ہزار ذروں  کی پیوند کاریاں  کر کے

ترا کرم کہ بنایا ہے  اک جہاں  مجھ کو

(دسترس)

معلم عبیدی:

نکلنا ہے  جو گرفت لا الہ باطل سے

تو پڑھئے  آٹھوں  پہر لا الہ الا اللہ

ہمارا مقصد ہستی سپردگی اپنی

بہار زادِ سفر لا الہ الا اللہ

(پرواز نظر)

معین فیاضی:

یارب تو اپنی راہ میں  یوں  کر فنا مجھے

مل جائے  اس فنا ہی میں  راہ بقا مجھے

(سحر سے  پہلے)

صادق نوید:

ماورائے  خرد ہیں  ترے  کام سب

تیرے  قبضے  میں  ہے  نظم کون و مکاں

اے  خدا سب کو معبود واحد ہے  تو

کوئی تجھ سا نہیں، سب کا تو پاسباں

(خد و خال)

باسط نقوی:

دن نکلتا رات سے  مٹی سے  اگنا بیج کا

ہے  حیات و موت کا کتنا عجب یہ فلسفہ

بے  سہارا یہ فلک ہے  کتنی صدیوں  سے  کھڑا

تیری دانائی و حکمت تو ہی جانے  اے  خدا

سب عیاں  تیرے  نشاں  ہیں

 اور تو ہے  بے  نشاں

(تازہ ہوا کا جھونکا)

ڈاکٹر طیب پاشا قادری:

جب سے  رواں  دواں  ہے  زمانے  کا کارواں

خلقت کے  سر پہ ہے  تری رحمت کا سائباں

سب ہیں  ترے  ظہور کی زندہ نشانیاں

دریا پہاڑ کھیت بیابان و گلستاں

رحمت سکندر آبادی:

گنا ہوں  کے  دریا میں  ڈوبا ہے  لیکن

یہ ہے  تیرا بندہ ترے  سامنے  ہے

یہ سر کیا بھلا اس کی قیمت ہی کیا ہے

مرا دل خمیدہ ترے  سامنے  ہے

(سوغات رحمت)

عزیز الدین رضواں :

زمین روح پر دیکھو رقم اللہ ہی اللہ ہے

زبان دم پہ یارو دم بہ دم اللہ ہی اللہ ہے

زمیں  کیا آسماں کیا عرش کیا جنت و دوزخ کیا

قسم اللہ کی لوح و قلم اللہ ہی اللہ ہے

(نظارۂ نور)

عزم رحمانی:

تیرے  تابع چاند سورج، تیرے  تابع رات دن

تو ہے  رب العالمیں  تو نے  بنائی کائنات

بارگاہ ایزدی میں  عزم پہنچوں  تو ذرا

وہ ہے  رحمن الرحیم اور کرتا ہے  التفات

(نوائے  عزم)

ستار صدیقی:

بنایا بے  ستوں  اس آسماں  کو

ہے  بے  شک لائق حمد و ثنا تو

ہے  نور و نار تیرے  استعارے

حقیقت میں  ہے  سب سے  ماورا تو

(حرف خط کشیدہ)

عباس متقی:

کیا ذکر مرے  دل کا

رگ رگ میں  تو مکیں  ہے

ہر شعر متقی کا

تسبیح دل نشیں  ہے

(تنہائیاں)

شمیم نصرتی:

دے  کے  دنیا میں  عزت و توقیر

جس کو چاہا نوازتا ہے  کوئی

اپنی رحمت کے  کھارے  پانی سے

میٹھے  چشمے  نکالتا ہے  کوئی

فرید سحر:

ترے  ہی ہاتھ میں  دنیا کی ہے  زمام اللہ

ہر ایک شخص یہاں  ہے  ترا غلام اللہ

غذا بھی دیتا ہے  پتھر کے  ایک کیڑے  کو

ہے  کتنا پیارا یہ ترا نظام اللہ

شکیل مظہر:

اے  خدا بندہ ہوں  تیرا میں  رہا عاصی سدا

سایہ رحمت کا مگر سر پر مرے  پیہم رہا

مجھ کو مخلوقات کل پر تو نے  بخشا ہے  شرف

ہے  بہت احسان مجھ پر اے  خدا تیرا بڑا

(کانچ کا گھر)

اسحاق ملک:(ماہیے)

یزداں  کے  غضب سے  ڈر/خوف گنہ کیسا/سر توڑ کے  سجدے  کر

اللہ ہی مدد دے  گا/کیا طاقت انسانی/ وہ تابہ عدد دے  گا(نگینۂ سخن)

یوسف الدین یوسف:

مالک بحر و بر خالق جز و کل

ابتدا تجھ سے  ہے  انتہا تجھ سے  ہے

(پیکر کردار)

بصیر افضل:

تا عمر مجھ کو رکھنا سرشار مرے  مولا

کشتی مری لگانا اس پار مرے  مولا

تیرے  سوا نہیں  ہے  کوئی جہاں  میں  میرا

میں دل سے  کر رہا ہوں  اقرار مرے  مولا

(آئینہ بولتا ہے)

اشرف رفیع:

تو ہے  اول تو ہے  آخر تو ہے  ظاہر تو ہے  باطن

خود اپنی ہستی ذات قدم کا راز داں  تو ہے

ظہور جزو کل تفصیل تیرے  علم مطلق کی

بصیر انس و جاں  تو ہے  قدیر کن فکاں  تو ہے

(عود غزل)

زبیدہ تحسین:

کہیں  آدم کی عظمت کو نئی پرواز دی تو نے

کہیں  آئین فطرت کو کلید راز دی تو نے

کہیں  خاموشیوں  کو تو نے  سکھلایا بیاں  ہونا

شکستہ دل کے  تاروں  کو صدائے  ساز دی تو نے

(دشت تمنا)

بانو طاہرہ سعید:

جو خبر میں  نے  سنی ہے  نہ سنائے  اللہ

کیسے  بچ سکتا ہے  جس کو نہ بچائے  اللہ

ظلمتیں، بے  بسی، تنہائیاں، دشت و دقت

دستگیری کے  لئے  کوئی تو آئے  اللہ

اب آخر میں  راقم الحروف شاغل ادیب کی ایک حمدیہ نظم ہے ’’قرآن گواہ‘‘ ملاحظہ کیجئے  جو سورۂ لقمان کی چند آیات کی ترجمانی لئے  ہوئے  ہے :

کوئی کاٹ کر/پیڑ سارے  جہاں کے /بنا لے  قلم اک/کوئی جل سے /سب ساگروں  کے  بنا لے /سیاہی/کہ لکھے  ثنا و حمد و تعریف تیری/مگر اس سے / ممکن نہیں  ہے  مرے  رب/ کہ لکھے  ثنا و حمد  و تعریف تیری/ مکمل/مرے  رب/ ثنا و حمد و تعریف تیری/ہے  لا انتہا/اے  مرے  رب/تری خوبیوں  کی/ ستائش کی تیری/کوئی حد نہ سرحد/ہے  قرآں  گواہ

***

رفیق شاہین

تعلیم منزل، مارس روڈ، علی گڑھ ۲۰۲۰۰۲(یوپی)

راجستھان کی حمدیہ شاعر ی اور ڈاکٹر فراز حامدی

حمد کی لغوی معنی تعریف کے  ہیں جبکہ لفظ حمد معنوی اعتبار سے  خدا کی توصیف و ستائش سے  مختص ہے۔ بابا آدم آسمان کی جانب نظر مرتکز کر کے  لا الہ اللہ محمد   الرسول اللہ پڑھا کرتے  تھے۔ کلمہ طیبہ کی روسے  سوائے  اللہ کے  باقی سارے  معبودوں  کی نفی بذات خود اللہ کی حمد ہے۔ بابا آدم روئے  زمین پر جبکہ تن تنہا تھے  اور تحریری زبان عالم وجود میں  نہیں  آئی تھی ایسے  میں  ان کا کلمہ طیبہ پڑھنا جو عربی زبان میں  ہے  سوال پیدا کرتا ہے  کہ عربی زبان کیا جنت کی آسمانی زبان ہے  جسے  آدم علیہ السلام اپنے  ساتھ زمین پر لائے  تھے۔ یہ ایک الگ ہی نکتہ ہے  جس پر غور و فکر علما کا کام ہے۔ ہم تو یہاں  صرف یہ کہنا چاہتے  ہیں  کہ اللہ کی تخلیق کردہ اس وسیع ترین کائنات میں  اللہ کی پہلی تعریف بابا آدم نے  کی تھی وہی پہلے  حامد اور پہلے  حمد گو ہیں۔ کرہ ارض پر موقع بہ موقع جب جب جس طور سے  وہ خالق کائنات کی توصیف و ستائش بیان کرتے  اور اس کا شکرانہ ادا کرتے  تھے  اگر اسے  باقاعدہ ضبط تحریر میں  لایا گیا ہوتا تو کم از کم وہ نثری یا معریٰ حمد کی شکل میں  ضرور برآمد ہوتا۔

رسول مقبول ﷺ کی حیات طیبہ میں  نعت گوئی کے  ساتھ ہی حمد کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ بدخواہ مشرکین رسول مقبول صلعم کی ہجو کیا کرتے  تھے  جس کا جواب خلفائے  راشدین اور صحابہ کرام نے  نعت کہہ کر دیا اور نعت کہنے  والوں  نے  اس کے  ساتھ ہی اللہ کی تعریف بھی نظم کرنی شروع کر دی۔ جو تحریری سطح پر حمد کہلائی۔

عصر حاضر میں  حمد و نعت کا شمار مقبول ترین اصناف میں  ہوتا ہے۔ حمد اور نعت پر مشتمل مجموعہ کلام کا خاصہ ذخیرہ موجود ہے۔ ان کے  علاوہ بھی تقریباً سبھی شعرا کی یہ روایت بن چکی ہے  کہ وہ اپنی شعر کتب کا آغاز حمد اور نعت سے  کرتے  ہیں۔ حمد اور نعت کوتو پاکستان میں  ادب کی باقاعدہ اصناف تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اس کے  علاوہ بیرون ملک کی نو آبادیوں  میں  بھی حمد و نعت کی مقبولیت اور تخلیقی عمل شدت اختیار کر چکا ہے۔

ہندوستان میں  حمد اور نعت کے  حوالے  سے  راجستھان سب سے  آگے  ہے۔ اس مردم خیز سرزمین کی کوکھ سے  بڑے  بڑے  ہیرے  برآمد ہوئے  ہیں  جن سے  افق ادب جگمگا اٹھا ہے۔ ڈاکٹر فراز حامدی بھی معروف شاعر رومان اختر شیرانی کی اسی سرزمین کے  نونہال ہیں  اور آپ کا آبائی وطن ٹونک ہے۔ آپ کا حمد و نعت کا مشترکہ مجموعہ ’’دیار مدینہ‘‘ ۱۹۶۷ء میں منصہ شہود پر آ کر مقبول عام ہوا تھا۔ تقسیم ملک کے  بعد فراز حامدی  کا یہ مجموعہ راجستھان کے  باقی سبھی شعرا پر سبقت لے  گیا ہے  کیونکہ تقسیم ملک کے  بعد ان کے  اس مجموعے  کو اولیت حاصل رہی ہے۔ حمد و نعت کے  باقی سبھی مجموعے  فراز حامدی کے  مجموعہ کلام ’’دیار مدینہ‘‘ کے  بعد ہی عالم ظہور میں  آئے  ہیں۔ ان کے  بعد اسی سال کے  اواخر میں نواب محمد  اسماعیل علی خاں  تاج کا مجموعہ ’’تاجدار مدینہ‘‘ شائع ہوا تھا۔ دل ایوبی کا ’’نذر رسالت‘‘ طلوع ہوا ا ور ۱۹۸۰ء میں  امداد علی خاں  شمیم کا ’’مخزن نعت‘‘ منظر عام پر آیا تھا۔ سیف ٹونکی کا حمدیہ و نعتیہ مجموعہ بھی کافی مقبول ہوا تقسیم ملک سے  پہلے  کیف ٹونکی کا حمدیہ و نعتیہ مجموعہ کلام اپنے  وقت میں  جتنا مقبول تھا اتنا ہی مقبول آج بھی ہے۔ لیکن ڈاکٹر فراز حامدی کے  ’’دیار مدینہ‘‘ کو جو مقبولیت ملی وہ کسی کے  حصے  میں  بھی نہیں  آئی۔ آپ کا حمدیہ و نعتیہ کلام ’’میوزک انڈیا‘‘ نامی گراموفون رکارڈ کمپنی کے  بینر تلے  تیار کئے  گئے  ’’نور اسلام‘‘ ، ’’یارب‘‘ اور ’’چلو مدینے  چلیں ‘‘ نام کے  گراموفون رکارڈز میں  نغمہ بند ہیں۔

آپ کا حمدیہ و نعتیہ کلام تیس پینتیس سال سے  میلاد پارٹیاں  لگاتار پڑھتی چلی آ رہی ہیں۔ خوش آواز موسیقار اور گائک محمد  طاہر محفل محفل ان کی حمد و نعت کو ترنم سے  ادا کر کے  سماں  باندھتا رہا ہے  اور اس سے  ہمیشہ ہی فراز حامدی کے  حمد یہ و نعتیہ کلام پیش کرنے  کی فرمائش کی جاتی رہی ہیں  اور ان کے  ’’دیار مدینہ‘‘ کو راجستھان بھرمیں  قدر و منزلت کی نگاہ سے  دیکھا جاتا ہے  اور داد و ستائش میں  کوئی کمی باقی نہیں  رکھی جاتی۔ ’’دیار مدینہ‘‘ منظر عام پرلا کر جو عزت شہرت راجستھان بھر میں  ڈاکٹر فراز حامدی کو حاصل ہوئی وہ کسی کے  بھی حصے  میں  نہیں  آئی۔

راجستھان میں  حمد اور نعت گوئی سے  والہانہ عشق، اس صنف میں  غیر معمولی دلچسپی اور اس کے  احیا و ترویج کا بنیادی سبب یہ بھی ہے  کہ ٹونک کو اسلامی ریاست کا درجہ حاصل رہا ہے۔ یہاں  کے  مسلمان اسلامی جذبے  سے  سرشار اللہ کی حمد و عبادت اور محمد  صلعم سے  عقیدت و محبت کے  اظہار میں  حمد و نعت کے  حوالے  سے  بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے  رہے  ہیں۔ انھوں نے  وسیع پیمانے  پر حمد و نعت تخلیق کی ہیں۔ یہاں  کے  نوابین اور امراء اور رؤسا بھی حمد اور نعت کی تخلیق میں  خود بھی برابر شریک رہتے  تھے۔ اس موقع پر اگر نواب حافظ محمد  ابراہیم علی خانصاحب (ٹونک) کا ذکر نہ کیا جائے  تو مضمون تشنہ ہی رہ جائے  گا۔ خانصاحب حمد اور نعت  تو تخلیق کیا ہی کرتے  تھے۔ اس کے  ساتھ ہی آپ کے  مرتب کردہ سالانہ میلاد النبی بعنوان ’’میلاد خلیل‘‘ کو بھی یہاں  زبردست اہمیت و مقبولیت حاصل رہی ہے۔ یہ محفل میلاد نواب صاحب کے  شاہی محل میں  منعقد ہوتی تھی اور لگاتار سات دن تک جاری رہتی تھی۔ جلسہ میلاد میں  نوابین اور امراء اور رؤساء تو شریک ہوتے  ہی تھے  ساتھ ہی اس میں  شرکت کے  لئے  رعایا پربھی شاہی محل کے  دروازے  کھلے  رہتے  تھے۔ بزم میلاد النبی میں مقامی اور دور دور سے  تشریف لائے  ہوئے  معزز مہمان شعرا حمد اور نعتیں  پڑھا کرتے  تھے  اور ساتوں  دن ایک پاؤ بوندی کے  لڈوؤں  کی فردا ًفرداً تقسیم ٹونک کی روایت بن گئی تھی۔

ٹونک:راجستھان کی اسلامک اسٹیٹ ٹونک کاشعر و ادب میں  ہمیشہ بلند مقام حاصل رہا۔ یہاں  بڑے  بڑے  بانکے  حمد اور نعت گو شعرا اپنا کمال ہنر دکھاتے  رہے  ہیں۔ جن میں ذیل کے  شعرا کے  نام قابل ذکر ہیں۔

استاد آبرو جام ٹونکی، احمد سعید خاں  ساحل ٹونکی، محمد  صدیق صاحب، سیف ٹونکی، کیف ٹونکی، نواب محمد   اسماعیل خاں  تاج ٹونکی، فاخر اعجازی، دل ایوبی، ابن احسن بزمی، بسمل سعیدی، احمد رضا خاں  صاحب وغیرہ۔ ٹونک کے  موجودہ شعرا کرام میں  جو حمد اور نعت بھی کہتے  ہیں  وہ ہیں  جناب سید مختار ٹونکی، صفدر ٹونکی، امداد علی خاں  شمیم اور ڈاکٹر فراز حامدی۔

جے  پور:جے  پور کے  نامور شعرا جنھوں  نے  حمد اور نعت میں  بھی اپنے  جوہر دکھائے  ہیں  ان میں  جناب چاند بہاری لعل صائب، چاند نارائن ٹکومہر، اثر عثمانی، قمر واحدی، حسین کوثری، راہی شہابی، فضا جے  پوری، خدا داد مونس، چراغ جے  پوری اور رفیق جے  پوری خصوصی اہمیت کے  شعرا ہیں۔

اجمیر:اجمیر کے  ممتاز و مقتدر شعرا میں  جنھوں  نے  حمد اور نعت گوئی میں  بھی اپنی فنی بصیرت و مہارت کا ثبوت پیش کیا جناب عرشی اجمیری، رئیس اجمیری، نسیم اجمیری، فضل متین، ممتاز راشد اور احتشام اختر کے  نام گنوائے  جا سکتے  ہیں۔

جودھپور:جودھ پور میں  کالے  خاں  ابر، امجد جودھپوری، عبد الحفیظ بیکس، پارس رومانی، عبد الغفور راز، الہ دین راہی اور وفا رحمانی نے  بھی حمد اور نعتوں  کی تخلیق میں اپنا کردار نبھایا۔

شیخاوٹی:شیخاوٹی کے  نمائندہ شاعر جنھوں  نے  حمد اور نعت نگاری میں نام کمایا ان میں  حکیم یوسف، سالک عزیزی، منصور چودھری، غلام محمد  کلیم اور نذیر فتح پوری کے  نام نامی پیش کر دینا کافی ہو گا۔

اودے  پور:ادے  پور میں  خلیل تنویر، شاہد عزیز اور عابد ادیب نے  حمد اور نعت کی تخلیق میں  سرگرمی کے  ساتھ حصہ لیا۔

کوٹہ:راجستھان میں  کوٹہ کو بھی ادب کی تخلیق میں  ایک خاص مقام حاصل رہا ہے۔ یہاں  جہاں  دیگر اصناف میں شعر ی اور نثری ادب تخلیق ہوا ہے  وہیں  حمد و نعت میں بھی یہاں  کے  شعرا نے  اپنا لوہا منوایا ہے۔ حمد اور نعت کے  حوالے  سے  ذیل کے  شعرا اپنا ثانی نہیں  رکھتے۔ وہ ہیں  مفتوں  کوئٹوی، ظفر غوری، عقیل شاداب، امیر علی  صابر اور محمد  توفیق برق۔

مندرجہ بالا شواہد سے  یہ بات اپنے  آپ واضح ہو جاتی ہے  کہ حمد اور نعت گوئی کے  تعلق سے  ملک کے  دیگر صوبوں  کے  بہ مقابلے  راجستھان ابتدا سے  ہی شعر و ادب کی تخلیق میں کچھ زیادہ ہی با عمل پر جوش اور فعال رہا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے  مفر ممکن نہیں  کہ نعت کے  مقابلے  میں  حمد کا ذخیرہ کمتر درجے  کا ہے۔ ایسے  مجموعہ کلام جن میں  کہ صرف حمد ہی شامل ہوں  کم از کم راقم الحروف کی نظر سے  تو گزرے  نہیں  اور وہ اگر ہونگے  بھی تو تعداد میں زیادہ نہیں ہونگے۔

ڈاکٹر فراز حامدی کی شناخت حلقہ ادب میں  محض اس لئے  نہیں ہے  کہ وہ اچھے  حمد نگار اور نعت گو ہیں  اور بعد آزادی ان کا حمدیہ و نعتیہ مجموعہ ’’دیار مدینہ‘‘ کو راجستھان میں ان اصناف میں پہلا مجموعہ قرار دیا گیا ہے۔ درحقیقت ان کی ادب میں  شناخت اور شہرت و مقبولیت کا دار و مدار ادب میں  انجام دہے  ان کے  کارناموں  پر ہے۔ ان کا یہ کارنامہ کہ انھوں  نے  جاپانی اصناف سخن ’’تنکا‘‘ ، ’’رنیگا‘‘ اور ’’سیڈوکا‘‘ کو اردو ادب میں  متعارف کرایا ادب کی تاریخ بن چکا ہے۔ تحقیق، تنقید اور تخلیق تینوں  سطح پر انھوں  نے  جم کرکام کیا ہے۔ وہ نصف درجن کتابوں  کے  خالق ہیں  اور تقریباً اتنی ہی کتب تالیف کر چکے  ہیں۔ ان کی مزید چھ کتابیں  دو دو ماہ کے  وقفے  سے  منصہ شہود پر آنے  والی ہیں۔ گیت اور دوہا نگاری ابتدا سے  ہی ان کی ترجیحات میں  شامل رہے  ہیں  گیت کو انھوں  نے  اردو کا لباس فاخرہ عطا کیا ہے۔ دوہا ادب کو نشاۃ ثانیہ سے  ہمکنار کر کے  اس اوج ثریا پر پہنچانا انہیں  کا کام ہے۔ اردو دوہا، مردف دوہا، معرا دوہا، مثلث دوہا، مثلث معرا دوہا، دوہا غزل، دوہا نظم، دوہا گیت، دوہا قطعہ، دوہا ترائیلہ اور دوہا سانیٹ بھی انہیں  کی ایجادات میں شامل ہیں۔ انہیں  فخر حاصل ہے  کہ ان اصناف میں  ادب تخلیق کرنے  والے  شعرا ان کے  مقلد کہلانے  سے  بچ نہیں  پائیں  گے  اور اس ادب کو ان کا شرمندہ احسان ہونا پڑے  گا۔ ان کے  انہی زبردست کارناموں  کی بدولت آج ان کا نام نامی آسمان ادب پر مہر نصف النہار کی طرح تاباں  و درخشاں  ہے۔ سورج کی کرنوں  کا جہاں  جہاں  گزر ہے  وہاں  وہاں  ان کے  چاہنے  والے  موجود ہیں ا ور عالمی سطح پر ادب کی فلک بوس عمارات کے  پر شکوہ ایوانوں  میں  بھی فراز حامدی  کا نام سنائی دینے  لگا ہے۔

یہ تمام باتیں  فراز حامدی کے  ادبی پس منظر میں  بیان کی گئی ہیں  ویسے  ہمارا اصل مقصد ہے  فراز حامدی  کا  بحیثیت حمد گو جائزہ لینا۔ کسی بھی صنف کی شاعر ی کیوں  نہ ہو اس میں زبان اور اسلوب کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ فراز حامدی فکر و فن کے  ساتھ زبان اور اسلوب پربھی خاصی توجہ دیتے  ہیں۔ ان کے  یہاں  فکر گہری ہے  اور زبان سادہ، لہجے  کی کھنک اور چست بندش کے  سبب کسے  تاروں  والے  ستار کی سی جھنکار ان کی شاعر ی میں ترنم کی چاشنی گھول دیتی ہے۔ اس بات کو ان کے  حمدیہ اشعار میں  بھی بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے  مجموعہ کلام ’’دیار مدینہ‘‘ میں موجود ان کے  حمدیہ اشعار کو دیکھ کر ورڈس ورتھ کا یہ مقولہ بے  ساختہ یاد آ جاتا ہے : ’’شعر ایک لا ابالی جذبہ ہے  جو دل سے  پھوٹ کر دلوں  میں پیوست ہو جاتا ہے۔ ‘‘

خالق کائنات کے  اشرف المخلوقات پر لاکھوں  احسانات اور اس کی عطا کردہ طرح طرح کی نعمتوں  کے  تصور سے  فراز حامدی  کا جذبہ تشکر لا ابالی طور پر شعر بن کر ان کے  دل سے  پھوٹتا ہے  اور دلوں  میں  پیوست ہو جاتا ہے۔ ایک طرح سے  اسے  ورڈس ورتھ کی تائید بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ ملاحظہ کیجئے :

تہی دل کی آرزو ہے  تہی دل کا مدعا ہے

اسے  کیا کمی ہے  یارب جسے  تیرا آسرا ہے

ترا لطف بیکراں  ہے  ترا فیض بے  بہا ہے

میں  تجھی سے  کیوں  نہ مانگوں  مجھے  جو بھی مانگنا ہے

غنائیت، موسیقیت اور ترنم کی چاشنی کے  لحاظ سے  بھی ملاحظہ ہو:

مرے  نغمہ طرب میں  تر لئے  تری صدا ہے

یہ تری عنایتیں  ہیں مجھے  جو بھی کچھ ملا ہے

واحد کو کثرت میں تلاشنے  کا متصوفانہ انداز بھی ان کی حمد کا ایک رنگ، ایک رویہ، ایک زاویہ، ایک اسلوب اور ایک ادائے  دلبرانہ ہے :

تہی چاند میں نہاں  ہے  تہی پھول میں بسا ہے

ترے  حسن کے  ہیں  جلوے  ترے  نور کی ضیا ہے

خدا عالم الغیب ہے۔ غیب کے  اسرار و رموز سے  واقفیت کی خواہش کسے  نہیں  ہوتی لیکن یہ بندے  کے  بس کی بات نہیں۔ فراز حامدی بندہ اور بندہ نواز کے  رشتے  سے  آگے  بڑھنے  کی ہمت نہیں  کرتے  اور انکشاف اسرار و رموز میں ہاتھ لگی ناکامی کو اپنی کج فہمی تسلیم کر لیتے  ہیں۔ جوان کے  معصوم اور سیدھے  سچے  انسان ہونے  کا عندیہ بھی ہے۔ ملاحظہ ہو:

ترے  راز تو ہی جانے  مری فہم سے  سوا ہے

مجھے  صرف یہ خبر ہے  میں ہوں  بندہ تو خدا ہے

ہے  ترا کرم سبھی پر تری شان ہی جدا ہے

تو رفیق ہر سخی ہے  تو انیس ہر گدا ہے

تجاہل عارفانہ اردو شاعر ی کی ایک مقبول صنعت ہے  جس کا مطلب جان کر انجان بننا ہے۔ مظاہر فطرت کی بوالعجبی اپنی تمام تر سحر طرازیوں  کے  ساتھ کچھ سوالات کو بھی جنم دیتی ہے۔ کچھ سوال ایسے  بھی ہوتے  ہیں  جن کا جواب معلوم نہ ہو مگر فراز حامدی کے  دل میں  پیدا ہونے  والے  سوال ایسے  نہیں  ہیں جن کے  جوابات سے  وہ انجان ہوں  مگر وہ پھر بھی فطرت کی نیرنگیوں  سے  متاثر ہو کر سوال پر سوال کرتے  چلے  جاتے  ہیں  اور سوالات ان کا اسلوب بن جاتے  ہیں۔ اس طرح ان کا ہر سوال اپنے  خاموش جواب میں حمدیہ اشعار کا پیکر بن جاتا ہے۔ ان کی اس انداز کی تکنیک پر استوار کئے  گئے  ان کی حمد کے  دو بند ملاحظہ کیجئے :

چاند سورج کو کس نے  یہ دی روشنی

 اور ستاروں  میں  آخر ضیا کس کی ہے

رنگ و بو کس نے  پھولوں  کو بخشا فرازؔ

لب پہ غنچوں  کے  حمد و ثنا کس کی ہے

کس نے  دریا کو کی ہے  روانی عطا

کوہساروں  کو بخشا ہے  کس نے  فرازؔ

کس نے  کی ہیں  شفق کو عطا سرخیاں

کائناتِ حسیں  میں  ادا کس کی ہے

ڈاکٹر فراز حامدی نے  حمدیہ دوہے ، حمدیہ ماہئے  اور حمدیہ ہائیکوز بھی تخلیق کئے  ہیں۔ دوہا دو برابر کے  ہم وزن مصرعوں  کے  اتصال سے  تشکیل پاتا ہے  جس کے  ہر مصرعے  کے  درمیان وقفہ ہوتا ہے۔ وقفے  سے  قبل کا ٹکڑا دشم چرن کہلاتا ہے  جس میں  تیرہ ماترائیں  ہوتی ہیں  اور وقفے  کے  بعد کا حصہ سم چرن کہلاتا ہے  جو اپنے  آپ میں  گیارہ ماتراؤں   کا پابند ہوتا ہے۔ اس طرح مع وقفہ ایک مصرعہ چوبیس ماتراؤں   پر مشتمل ہوتا ہے  اور اس طرح دوہے  کو اڑتالیس ماتراؤں  کے  اہتمام کے  ساتھ تخلیق کرنا لازمی امر ہے۔ دوہا چھند ماتراؤں  کی کمی بیشی کو تسلیم کرنے  سے  یکسر قاصر ہے۔ ڈاکٹر فراز حامدی نے  دوہا چھند کی تعریف بڑے  جامع اور بلیغ انداز میں  نظم کی ہے :

تیرہ گیارہ ماترا بیچ بیچ وشرام

دو مصرعوں  کی شاعر ی دوہا جس کا نام

دوہا نگاری قدرے  مشکل اور باریک بینی کا فن ہے  جسے  ماتراؤں  کے  التزام کے  ساتھ نظم کرنا کار دارد ہے  کسی طرح کم نہیں  ہے  جبکہ حیرت اس بات پر ہوتی ہے  کہ یہ اپنی سادگی کے  سبب پڑھنے  میں  بڑا آسان سا دکھائی پڑتا ہے۔ دوہے  میں ہندی کے  الفاظ پھر بھی بآسانی شامل بحر ہو جاتے  ہیں  جبکہ اردو کے  الفاظ اس کی ٹیڑھی بحر سے  ایسے  بدکتے  ہیں  جیسے  زخم پر مکھی بیٹھ جائے  پر گھوڑا بدک اٹھتا ہے۔ دوہے  میں ہندی الفاظ کی روایت کو توڑ کر اس میں  اردو الفاظ داخل کرنا بھی فراز حامدی کی اختراع ہے  جسے  مقبولیت کی سند بھی مل چکی ہے۔ دیکھئے  اردو دوہے  میں انھوں  نے  اللہ کی حمد و ثنا سے  متعلق اپنے  جذبات و احساسات کی ترجمانی کیسے  دلکش و دلآویز لب و لہجے  میں  کی ہے۔ دوہے  کا آہنگ اور لئے  رس کی پچکاریاں  چھوڑ رہے  ہیں :

تیرا نام رحیم ہے  تو ہی ہے  رحمان

میری بھی بگڑی بنا مشکل کر آسان

٭

تیری ذات عظیم ہے  تیرا نام قدیر

بیشک تیرا نام ہی اول اور اخیر

٭

تیرے  نافرمان بھی کرتے  ہیں  تسلیم

دھرتی سے  آکاش تک تیری ہی تنظیم

٭

میرے  مالک دے  مجھے  ایک الگ پہچان

چٹانوں  میں پھول ہوں  پھولوں  میں  چٹان

اردو ماہیا نگاری پنجاب سے  مستعار لی گئی ہے۔ اردو ماہیا کے  بانی ہمت رائے  شرما ہیں۔ حیدر قریشی جو عالمگیر سطح پر اردو ماہیا تحریک کے  سرخیل اور قافلہ سالا رہیں  انھوں  نے  اردو ماہیا کی جڑیں  جمانے  اور اسے  استحکام عطا کرنے  میں قابل تحسین و آفرین کردار نبھایا ہے۔ فراز حامدی نے  بھی اردو ماہیا پر سب سے  زیادہ پچاس مضمون لکھ کر اور شائع کرا کر اس کی بنیاد میں  فولاد نصب کیا ہے  اور آج یہ صنف سخن سب سے  زیادہ مقبول صنف کا تمغہ حاصل کر چکی ہے  اور تیزی سے  پھل پھول رہی ہے۔ ڈاکٹر فراز حامدی نے  اردو ماہیا میں  بھی حمد نگاری کے  جوہر دکھائے  ہیں۔ اگرچہ مفعول مفاعیلن /فعلن فعلن فع/مفعول مفاعیلن جیسی بحر جو  ۷  +  ۵  +  ۷  ارکان پر مشتمل ہے  اور مختصر بھی ہے  اس میں  محدود ہو کر حمدیہ مضامین باندھنا بھی سخت مشکل کام ہے۔ لیکن فراز حامدی کے  پھولوں  کی طرح مہکتے  مسکراتے  ماہیوں  کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ انہیں نظم کرتے  ہوئے  انہیں کسی طرح کی دقت پیش آئی ہو گی۔ انھوں  نے  اللہ کے  اسماء اتحسنیٰ، خالق، رازق، غالب، قادر، غائب اور حاضر وغیرہ کو اپنے  حمدیہ اشعار میں  ڈھال کر اردو ماہیا کو معراج پر پہنچایا ہے۔ انھوں  نے  اپنے  ماہیوں  میں  اللہ کی وحدت و عظمت کو بطور عقیدہ پیش کیا ہے  ساتھ ہی اعتراف گناہ اور بخشش طلبی کے  مضامین کو بھی حمدیہ ماہیوں  کا لباس عطا کر دیا ہے۔ ملاحظہ کیجئے :

خالق ہے  خدایا تو

رزق بڑھا میرا

رازق ہے  خدایا تو

غالب بھی ہے  قادر بھی

واہ تری قدرت

غائب بھی ہے  حاضر بھی

ہر شے  میں  تری خوشبو

وقت ترا تابع

دن رات میں  تو ہی تو

میں  عیش نہ غم چا ہوں

عرض فقط یہ ہے

بس تیرا کرم چا ہوں

بھارت کا نواسی ہوں

فضل ترا چا ہوں

میں بندہ عاصی ہوں

یارب تیرا مجرم ہوں

اپنے  گنا ہوں  پر

میں  واقعی نادم ہوں

 ماہیا کی طرح ہائیکو بھی اختصار سے  متصف ہیئت ہے۔ اس میں پہلا اور تیسرا مصرعہ ۵۔ ۵ ارکان کا پابند ہوتا ہے  جبکہ وسطی مصرعے  میں سات ارکان کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوتا ہے۔ اس ہیئت میں بھی حمدیہ مضامین باندھنے  کے  لئے  قادر الکلام ہونا شرط اول ہے۔ لہٰذا فراز حامدی کے  لئے  یہ کام بھی مشکل نہیں  ہے۔ انھوں  نے  ہائیکوز میں  بھی حمد کے  گل بوٹے  خوب کھلائے  ہیں۔ اللہ کی قدرت کاملہ اور اس کی عظمت و فضیلت کو انھوں  نے  بڑے  دلکش اور مؤثر پیرائے  میں بیان کیا ہے۔ اللہ کی وحدت بسم اللہ کی برکت، الوحی قرآن کی تقدیس، ظہور شب و روز میں  اللہ کے  دخل جیسے  مضامین کو انھوں  نے  ہائیکوز میں  جمال و کمال کے  ساتھ پیش کر کے  اپنی فنکارانہ عظمت کا لوہا  منوا لیا ہے۔ ملاحظہ ہو:

اللہ اکبر

بس اللہ کا نام

سب سے  بالاتر

بسم اللہ پڑھو

اس کی راہ نمائی میں

اپنا کام کرو

ذرے  ذرے  میں

تیرا جلوہ ہے  موجود

ہر آئینے  میں

اے  سب کے  معبود

سب تیرے  سجدہ گزار

تو سب کا مسجود

قرآنی آیات

وہی جانتا ان کے  بھید

جو پڑھتا دن رات

دل کے  گوشے  میں

تو ہی رہتا ہے  یارب

ہر آئینے  میں

غرض کہ فراز حامدی نے  جس صنف کو بھی شعار کیا ہے  وہ اس کی بالائی منزل پر پہنچے  ہیں۔ تاریخ ادب میں  انھوں  نے  اپنے  بے  مثل اور ناقابل فراموش کارناموں  سے  اپنا اپنے  خاندان کا اپنے  شہر کا اپنے  صوبے  کا اور اپنے  ملک کا دنیا بھر میں  نام روشن کیا ہے۔ دنیا بھر میں  جہاں جہاں  اردو کے  گلشن کھلے  ہوئے  ہیں وہاں  وہاں  ڈاکٹر فراز حامدی  کا نام گلاب گلاب خوشبو بن کر مہک رہا ہے۔

 

شمع ناسمین نازاں

ریسرچ اسکالر، ویر کنور سنگھ یونیورسٹی، آرہ(بہار)

شہر آرا کی حمدیہ شاعر ی

حمد کے  لغوی معنی تعریف و توصیف کے  ہیں۔ یہ تعریف و توصیف اللہ رب العزت کے  لئے  مخصوص ہے۔ ماسوا اللہ کی تعریف کو حمد نہیں  کہا جاتا۔ شاعر ی کی اصطلاح میں  حمد اس تخلیق پارہ کو کہا جاتا ہے  جس میں  شاعر اپنے  عجز کا اعتراف کرتے  ہوئے  اپنے  مالک سے  مغفرت و استعانت کا طالب ہوتا ہے۔ حمد و مناجات موضوعی صنفوں  کی ذیل میں  آتی ہے۔ یعنی ان کے  موضوعات متعین ہیں۔ البتہ ہیئت کی کوئی قید نہیں۔ چنانچہ حمد ہو یا مناجات شاعر ی کی مختلف ہیئتوں  میں  دستیاب ہیں۔

حمد و مناجات داخلی شاعر ی سے  تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا تعلق انسان کی داخلی کیفیات و احساسات سے  ہے۔ ایک فنکار اپنے  باطن میں خدائے  پاک کی عظمت و کبریائی کا تجربہ کرتا ہے  اور ذات باری کے  مقابلے  پر اپنے  عجز کا ادراک کرتا ہے۔ اس طرح حمد و مناجات ایک تجربی شاعر ی ہے۔ یہ تجربہ انفرادی بھی ہوتا ہے  اور اجتماعی بھی۔ کوئی ضروری نہیں  کہ ہر فن کار خدائے  تعالیٰ کی ذات والا صفات کا تجربہ یکساں  طور پر کرے  یا پھر اس تجربہ کو یکساں  شدت کے  ساتھ پیش کرے۔ کیفیت و شدت کے  اعتبار سے  اس میں  فرق ہو سکتا ہے۔ ایک فنکار جب اسباب عالم پر غور و فکر کرتا ہے  تو اس کے  دل میں احسان تشکر کے  بے  پناہ جذبات پیدا ہوتے  ہیں۔ وہ انہی جذبات کو الفاظ کا جامہ پہناتا ہے۔ پھر جب وہ اس عالم اسباب میں  اپنی حیثیت پر غور کرتا ہے  تو خود کو مجبور، محتاج اور عاجز پاتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے  کہ اسے  کسی پناہ کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی ہستی کی ضرورت ہے  جس سے  وہ لو لگا سکے۔ اپنی حاجتوں  اور ضرورتوں  کو اس کے  سامنے  پیش کر سکے۔ اس کے  سامنے  گڑگڑا سکے  اور اس سے  استعانت کا طالب ہو، یوں  اس کی زبان پر مناجات کے  کلمے  جاری ہوتے  ہیں۔ گویا حمد و مناجات خدائے  رب العزت کی ذات بے  ہمتا اور انسان کی عبودیت و عجز کا فنکارانہ  اظہار ہے۔

خالق حقیقی کے  اوصاف کا احاطہ کرنا محال بلکہ ناممکن ہے  حق تو یہ ہے  کہ ایک فنکار ذات باری تعالیٰ کی انہی صفتوں  کو گرفت میں لیتا ہے  یا لے  سکتا ہے  جواس کے  تجرباتی معمل میں جلوہ گر ہوتی ہیں۔ خدا لا محدود ہے  اور انسان کی عقل و ادراک محدود۔ انسانی عقل میں  خدا کی ذات سے  متعلق اوصاف کا تصور بھی محدود ہوتا ہے۔ وہ خدا کی لامحدود صفتوں  کا احاطہ نہیں  کر سکتی۔ اس حقیقت کو قرآن پاک میں  اس طرح پیش کیا گیا ہے :

 ’’کہہ دیجئے  کہ اگر سمندر میرے  پروردگار کی باتوں  کو لکھنے  کے  لئے  سیاہی بنا دئے  جائیں  تو قبل اس کے  کہ میرے  پروردگار کی باتیں  تمام ہوں، سمندر ختم ہو جائے  گا اگر ہم ایسا ہی اور سمندر بھی مدد کو لائیں  تو بھی ممکن نہ ہو پائے  گا۔ ‘‘ (سورۂ کہف،رکوع:۱۱، آیت:۱۰۸)

یہ صحیح ہے  کہ پروردگار کی ذات صفات کا بدرجہ کمال احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ تاہم بندوں  کو یہ بھی حکم دیا گیا ہے  کہ وہ خدائے  تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کریں۔ نیز اس کے  طریقے  بھی بنائے  گئے  ہیں۔ اسی احکام ربانی کے  پیش نظر فنکاروں  نے  اظہار تشکر و بندگی کے  طور پر ہر زبان اور ہر عہد میں  حمد و مناجات کی ڈالیاں  سجائی ہیں۔ مگر حسب توفیق و حسب استطاعت بعض فنکاروں  نے  عقیدتاً اور بعض نے  تبرکاً حمدیہ کلمات کہے  ہیں۔

 آرہ شہر صوبہ بہار کا قدیم علمی و ادبی مرکز رہا ہے۔ یہاں  ہر عہد میں  شاعروں  اور ادیبوں  کی اچھی خاصی تعداد موجود رہی ہے۔ ان شعرائے  کرام میں  ایسے  شاعروں  کی تعداد بھی کم نہیں  جنھوں  نے  حمدیہ اشعار کہے۔ جن حضرات نے  اس صنف سخن میں  طبع آزمائی کی ہے۔ ان کا مختصر تعارف اور نمونہ کلام درج ذیل ہیں۔ یہ تعارف مکمل نہیں۔ اس کی حیثیت مشتے  نمونہ از خروارے  کی ہے۔ دراصل میرا مقصد یہ دکھانا ہے  کہ آرہ شہر کے  شعرا نے  بھی جہاں  شاعر ی کی دوسری صنفوں  میں  طبع آزمائی کی وہیں  حمد و مناجات کے  اشعار بھی کہے۔ فی الوقت یہ کام اجمالی طور پرہی ممکن ہے۔ تفصیلی جائزہ تحقیق طلب بھی ہے  اور دقت طلب بھی۔ امید ہے  کہ محققین شاعر ی کے  اس گوشے  کو اپنی تحقیق کا موضوع بنائیں  گے  تاکہ متعلقہ فنکاروں  کی فنکارانہ کاوشوں  کے  ساتھ انصاف کیا جا سکے۔

 حمدیہ اشعار کہنے  والے  شعرا کے  کچھ نام اس میں  شامل ہونے  سے  رہ جاتے  ہیں  تو اس کی وجہ یہ نہیں  کہ انہیں  نظرانداز کیا گیا ہے  یا ان کی محنت پر پردہ ڈالنے  کی کوشش کی گئی ہے۔ بلکہ اس کا سبب یہ ہے  کہ ان کا کلام مجھے  دیکھنے  کا موقع نہ مل سکا۔ ان حضرات میں شیخ انور علی یاس آروی، سید نصرت حسین نصرت آروی،  امیر آروی، مانوس سہسرامی، بے  باک بھوجپوری اور پروفیسر انیس امام بطور خاص شامل ہیں۔ کلام کی عدم فراہمی میری کوتاہ نظری کی دلیل تو ہو سکتی ہے  میری متعصبانہ ذہنیت کی ہرگز نہیں۔ بہرکیف ذیل میں  چند شعرا کا ذکر کیا جاتا ہے :

صفیر بلگرامی:سید فرزند احمد صفیر بلگرامی ۸ اپریل ۱۸۳۴ء  کو بلگرام میں  پیدا ہوئے۔ پھر صغر سنی میں  آرہ آ گئے۔ سحر لکھنوی، ضمیر لکھنوی اور غالب دہلوی کے  شاگرد رہے۔ عظیم شاعر کے  علاوہ ماہر صحافی، نقاد، ناول نویس اور قواعد داں  تھے۔ کئی اخباروں  کے  علاوہ بے  شمار تصنیفات آپ کی یادگار ہیں۔ آپ کے  والد کا نام سید عبدالحق تھا۔ آپ کی وفات ۱۲ مئی ۱۸۹۰ء  کو ہوئی۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہوں :

جوانان مضامین پر ہے  سایہ رب سبحاں  کا

بنا طغراۓ بسم اللہ سے  تاج اپنے  دیواں  کا

دنیا کے  قیل و قال سے  کیا کام ہے  صفیر

میں  بندۂ خدا ہوں  اسی کے  پناہ کا

خواجہ فخر الدین حسین سخن:آپ کی ولادت ۱۰ جولائی ۱۸۳۹ء کو ہوئی۔ آپ کے  والد کا نام خواجہ محمد  جلال الدین حسین المعروف بہ حضرت مصب تھا۔ صرف ایک سال کی عمر میں  والدہ کا انتقال ہو جانے  کے  سبب سخن کو ان کی نانی جو قلعہ معلی میں استانی تھیں  نے  اپنے  پاس رکھ لیا۔ سخن کو غالب سے  شرف تلمذ حاصل تھا۔ ۱۸۶۲ء سے  ۱۸۶۷ء تک آرہ میں وکالت کی اور شعر  و سخن کو پروان چڑھایا۔ سب جج کے  عہدہ سے  ۱۸۹۴ء میں ریٹائرڈ ہوئے۔ ’’دیوان سخن‘‘ کلام کا مجموعہ ہے۔ کئی کتابیں  شائع ہو چکی ہیں۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو:

کلیم و خرقہ ہو جب تک فقیروں  کی پوشش

زبانوں  پر ہو روا جب تلک کہ نام خدا

مرتے  دم تک مجھ کو فراموش ہو سب کچھ لیکن

نام محبوب خدا، نام خدا یاد رہے

ضمیر الحق قیس آروی:آپ مولوی نبی بخش کے  فرزند تھے۔ آپ کی ولادت ۱۸۷۴ء میں ہوئی۔ ۲۹ ستمبر ۱۹۳۵ء میں رحلت فرما گئے۔ حضرت شمشاد لکھنوی کے  ارشد تلامذہ میں تھے  آپ کے  کلام کا مجموعہ ’’بہارستان خلد،معروف بہ جذبات قیس‘‘ کے  نام سے  شائع ہو چکا ہے۔ حمد کے  اشعار ملاحظہ ہوں :

اے  مالک ملک کبریائی

زیبا ہے  تجھے  تیری خدائی

تو ذات و صفات میں  ہے  یکتا

تجھ سا کوئی تھا نہ ہے  نہ ہو گا

بدر آروی:مولوی امیر حسن بدر آروی سید محمد  ہاشم کے  فرزند ارجمند تھے۔ آپ کی ولادت ۱۸۷۵ء میں ہوئی۔ آپ صفیر بلگرامی کے  ارشد تلامذہ میں  تھے۔ نہایت خو ش آواز اور خوش الحسان شاعر تھے۔ آپ کا دیوان ’’خمخانۂ بدر‘‘ کے  نام سے  مشہور ہے۔ حمد کا شعر ملاحظہ ہو:

بندہ ازل سے  ہوں  میں  خدائے  کریم کا

حلقہ ہے  گوش دل میں  محمد  ؐ کے  میم کا

عاشق دہان و زلف و قد مستقیم کا

کرتا ہے  حل عقدہ الف لام میم کا

قتیل دانا پوری:آپ کا اصل نام محمد  قائم رضوی اور تخلص قتیل داناپوری تھا۔ آپ بدر آروی کے  جانشیں  اور شاگرد تھے۔ آپ کی پیدائش ۱۸  نومبر ۱۸۹۴ء  کو ہوئی۔ آپ بڑے  عالم اور خوش الحان شاعر تھے۔ کئی مجموعے  اردو اور فارسی غزلوں  کے  شائع ہو چکے  ہیں۔ آپ کی وفات ۲۵  جولائی ۱۹۸۵ء کو ہوئی۔ بنیادی طور پر آپ کا شمار نعت گو شعرا میں  ہوتا ہے۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو:

نشان منزل اول سراغ مقصد آخر

ہے  سنگ شاہراہ عشق الف اللہ اکبر کا

بجا یکتا ہے  دل پر نقش اتر کر قد دلبر کا

قلم ہے  دست قدرت میں  الف اللہ اکبر کا

واقف آروی:آپ کاپورا نام سید شاہ فضل امام اور تخلص واقف تھا۔ آپ کی ولادت ۱۸ مارچ ۱۹۱۶ء میں  ہوئی۔ آپ کے  والد شاہ منظر امام ارول کے  رئیس و زمیندار تھے۔ آپ نے  اپنے  ننہال محلہ چودھرانہ میں ہی اپنا مکان بنا رکھا تھا۔ شاعر ی میں تمنا عمادی سے  اصلاح سخن لیا۔ بڑے  زود گو اور خوش آواز شاعر تھے۔

بتائیں  ہم کہ اس دنیا میں  کیا لیتے  ہوئے  آئے

خدا کا ذکر نام مصطفی لیتے  ہوئے  آئے

حفیظ بنارسی:آپ کا نام ایم اے  حفیظ ہے۔ آپ ۱۹۲۳ء میں بنارس میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۷ء سے  ریٹائرمنٹ تک مہاراجہ کالج آرہ میں بحیثیت انگریزی پروفیسر درس و تدریس کے  فرائض انجام دیتے  رہے۔ اردو میں  آپ کی کئی کتابیں  منظر عام  پر آ چکی ہیں۔ آپ کے  یہاں  شیرینی، سادگی اور صفائی خوب ہے :

جنت الفردوس کے  وارث وہی ہوں  گے  حفیظ

ہیں  جو دل سے  تابع فرمان رب العالمین

ماہر آروی:آپ کا پورا نام شیخ محمد  عارف اور ماہر تخلص ہے۔ آپ موضع برہ بترہ آرہ میں  اکتوبر ۱۹۲۶ء میں پیدا ہوئے۔ آپ نے  تمام اصناف سخن پر طبع آزمائی کی ہے۔ اردو شاعر ی میں  آزاد نظم میں  سب سے  پہلی نعت ماہر آروی نے  ہی کہی ہے۔ آپ بڑے  کہنہ مشق اور عظیم شاعر ہیں۔ بڑھتی عمر کے  باوجود لکھنے  پڑھنے  کا حوصلہ برقرار رکھا ہے۔ آپ کی کئی کتابیں  منظر عام پر آ چکی ہیں :

ظاہر و باطن اس دنیا میں  ہر اک جلوہ تیرا ہے

باطن میں جو پوشیدہ ہے  وہ بھی مولا تیرا ہے

رکھتا ہے  امید کرم کی تیرے  وہ

ماہر تیرا فاسق و فاجر یا اللہ

تاج پیامی:آپ کا نام تاج الدین احمد خاں  اور تاج تخلص ہے۔ ۲۵ جنوری ۱۹۴۰ء کو جگدیش پور میں  تولد ہوئے۔ آپ کے  والد عبد الحامد خاں  حامد بھی شاعر تھے۔ آپ نے  عطا کاکوری اور قتیل داناپوری سے  اصلاح سخن لیا۔ مختلف اصناف پر آپ نے  طبع آزمائی کی ہے۔ کئی کتابیں  منظر عام پر آ چکی ہیں۔ شاعر ی کے  علاوہ افسانہ نگاری اور تنقید نگاری میں بھی اپنا لوہا منوا چکے  ہیں :

حیراں  ہے  اپنی عقل کہ تعریف کیا کروں

کچھ بھی سمجھ میں  آئے  تو حمد و ثنا کروں

خدا معلوم کس کو ڈھونڈتا ہے  آئینہ اب تک

ہزاروں  جلوے  اس کے  سامنے  ہیں پھر بھی حیراں  ہے

طلحہ رضوی برقؔ:اصل نام سید شاہ محمد  طلحہ رضوی اور برق تخلص ہے۔ آپ اعلیٰ پایہ شاعر قتیل داناپوری کے  فرزند ہیں  آپ کی پیدائش ۱۹۴۰ء میں  ہوئی۔ جین کالج آرہ میں  بحیثیت لکچر ر بحال ہونے  کے  بعد شہر آرہ کے  شعرا و ادبا میں  آپ نے  نمایاں  مقام بنا لیا۔ ’’شایگاں ‘‘ اور ’’شمعاب سخن‘‘ مشہور کتابیں  ہیں۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہوں :

ہے  چہرہ چشم عقل و دل جدھر ہے  اور جہاں  تک ہے

یہ کس کے  حس کا جلوہ زمیں سے  آسماں  تک ہے

سلطان اختر:اردو کے  شعر ی افق پر ۱۹۶۰ء کے  بعد اپنی پہچان قائم کرنے  والے  چند اہم شاعروں  میں  سلطان اختر کا شمار ہوتا ہے۔ آپ کی پیدائش ۱۶ ستمبر ۱۹۴۰ء  کو سہسرام میں ہوئی۔ کافی دنوں  تک آرہ میں  قیام رہا ہے۔ مانوس سہسرای سے  مشورہ سخن کیا۔ والد کا نام الحاج شرف الدین ہے۔ حکومت بہار کے  محکمہ جیل میں  ملازم ہیں۔ اردو کے  جدید شعرا میں  آپ کا اہم مقام ہے۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو:

کوئی نہیں  ہے  تیرا ثانی یا اللہ

ہر شئے  فانی تو لافانی یا اللہ

آئینوں  کو بھی حیرانی یا اللہ

کہاں  گئے  چہرہ نورانی یا اللہ

شاہد کلیم:محمد  کلیم الدین خاں  عرف شاہد کلیم ۱۲ جنوری ۱۹۵۱ء میں دودھ کٹورہ آرہ میں  تولد ہوئے۔ والد کا نام عبد الخالق خاں  ہے۔ علیم اللہ حالی سے  شرف تلمذ رہا۔ کئی تصانیف کے  مالک ہیں  اور بہت سارے  اعزازات و انعامات سے  نوازے  گئے  ہیں۔ اس وقت سپرنٹنڈنٹ کسٹم کے  عہدہ پر مامور ہیں۔ غزل کے  علاوہ نظم، رباعی اور نعت بھی خوب کہتے  ہیں۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہوں :

پلا کے  آب بقا بھی ہے  زہر تیرا

ترا کرم ہے  مجھے  یاد قہر بھی تیرا

جمیل اختر:آپ کا نام جمیل اختر اور محبی تخلص ہے۔ جائے  پیدائش شیام نگر پنماں، شیر گھاٹی، گیا اور سال پیدائش ۱۹۵۹ء ہے۔ والد کا نام حاجی محب الرحمن مرحوم ہے۔ ملازمت لیکچر ر ایچ ڈی جین کالج آرہ اور مشغلہ درس و تدریس و تصنیف و تالیف ہے۔ اردو ، فارسی اور انگریزی زبان پر گہری دسترس حاصل ہے۔ بڑے  ذہین اور وسیع خیال شخصیت کے  مالک ہیں :

گناہ گار ہیں  ہم پھر بھی تیرے  بندے  ہیں

سوائے  در کے  ترے  کس کا آستاں  دیکھیں

میں سارے  بندھنوں  کو توڑ کر آزاد ہو جاتا

مگر دل میں کسی کا خوف رہ رہ کر چمکتا ہے

حافظ محمد  اسرار عالم سیفی:۱۶ مئی ۱۹۶۳ء کو اسلام پور ضلع نالندہ میں  تولد ہوئے۔ آپ کے  والد مولوی محفوظ عالم مرحوم صوفی منش اور مذہبی خیال آدمی تھے۔ آپ کو علم و ادب سے  گہری دلچسپی تھی۔ سیفی صاحب ہائی اسکول میں  معلم ہیں اور علم و ادب کی خدمت میں مصروف ہیں۔ بنیادی طور پر یوں  تو آپ غزل کے  شاعر ہیں، لیکن مرثیہ، حمد، نعت کا بھی ذوق رکھتے  ہیں۔ پروفیسر کلیم عاجز کے  ارشد تلامذہ میں  ہیں  اور ان سے  کافی متاثر ہیں۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو:

ہے  منور نور بھی اور نور کا محور بھی تو

تو ہی ہے  تحسین فطرت اور مہ و اختر بھی تو

بخش دے  سیفی کو مولا ہے  کرم تیرا بڑا

بندۂ ناچیز یہ ہے  بحر عصیاں  میں  پڑا

 

ڈاکٹر کبیر الدین خاں  وارثی

جگدیش پور، بھوجپور(بہار)

حکیم جامی وارثی:حمد و مناجات کے  آئینے  میں

حکیم فرید الدین جامی وارثی جگدیش پوری(مرحوم) کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ اردو ادب میں  درخشاں  ستارے  کی طرح جگمگاتے  رہے۔ مگر موت نے  انہیں  ہم سے  ۲۹ مارچ ۱۹۹۴ء کو ہمیشہ ہمیشہ کے  لئے  جدا کر دیا۔ مگر ان کی شاعر ی انہیں  رہتی دنیا تک زندۂ جاوید بنائے  رکھے  گی۔

حکیم جامی وارثی ۱۹ فروری ۱۹۱۹ء کو بھوجپور ضلع کے  ایک تاریخی قصبہ جگدیش پور بہ مقام پٹھان ٹولی پیدا ہوئے۔ آپ کے  والد کا نام حکیم عبدالمجید وارثی تھا جو اپنے  زمانہ کے  ایک نامور طبیب تھے۔ آپ بچپن سے  ہی نہایت ہی ذہین واقع ہوئے  اور قدرت الٰہی نے  انہیں  بے  پناہ گویائی سے  بھی نوازا تھا۔

 حکیم جامی وارثی نے  ابتدائی تعلیم قاری عبدالرزاق صاحب جگدیش پور کے  مقامی مدرسہ سے  حاصل کی اور اس کے  بعد عربی، فارسی اور اردو کی مزید تعلیم کے  لئے  مدرسہ وحیدیہ آرا میں  داخلہ لیا اور فوقانیہ کی تعلیم حاصل کی۔ دوران تعلیم آپ ہمیشہ ہی مدرسہ کے  ہونہار طلباء میں  شمار کئے  جاتے  رہے  اور اپنے  اساتذہ کے  درمیان بھی ہر دل عزیز رہے۔ بعد ازاں  اپنے  خاندانی روایات کے  مطابق حصول علم طب کے  لیے  پہلے  پٹنہ میں  داخلہ لیا اور طب کی تعلیم مکمل کی اور پھر جامعہ طبیہ کالج دہلی سے  بھی مدت تعلیم ختم کر کے  ۱۹۴۱ء میں  طب کی اعلیٰ سند حاصل کر کے  اپنے  وطن جگدیش پور بھوجپور(بہار) چلے  آئے  اور زندگی کے  آخری ایام تک یہیں  مطب کرتے  رہے  اور ساتھ ہی شعر و شاعر ی کا مشغلہ بھی دامن گیر رہا۔ بقول پروفیسر علیم رضوی برق کہ:

وہ حکیم خوش نوا وہ عامل دست شفا

پیکر اخلاص و یکتائے  فن شاعر ی

دہلی کے  دوران قیام شعر و شاعر ی کا دبا ہوا جذبہ شعلہ بار ہوا۔ فن شاعر ی میں  اپنا استاد مولانا احقر موہانی وارثی مدیر جام جہاں  نما لکھنو کو تسلیم کیا اور کچھ عرصہ تک ان سے  مشورہ سخن لیتے  رہے  اس کے  علاوہ فاضل توریت و انجیل خطیب الہند حضرت محمد  شاہ قائم چشتی نظامی علامہ قتیل داناپوری (پٹنہ) سے  بھی اصلاح سخن لی اس طرح دونوں  بزرگ استادوں  سے  فیضان سخن حاصل کر کے  اپنے  فطری شعر ی میلان کو ریاض فن سے  پروان چڑھایا جس کا اظہار انھوں  نے  اپنے  مقطع کے  اس شعر میں  یوں کیا ہے :

ہے  کرم یہ حضرت افقرؔ کا اور فیض قتیلؔ

دیکھتے  ہی دیکھتے  جامیؔ سخن ور ہو گیا

جہاں  تک حکیم جامی وارثی کی شاعر ی کا سوال ہے  انھوں  نے  شاعر ی کی ہر صنف میں  طبع آزمائی کی ہے۔ آپ کی شاعر ی داخلی اور خارجی کیفیتوں  کے  اظہار کا ایک خوشنما آئینہ ہے۔ یہ ایک ایسا گل دستہ ہے  جس میں  طرح طرح کے  پھول چنے  گئے  ہیں۔ کہیں  تصوف کے  گہرے  راز بیان ہوئے  ہیں  تو کہیں  عشق و محبت کی جھلکیاں  ہیں۔ کہیں  زندگی کے  تجربات نظم ہوئے  ہیں  تو کہیں  نفسیات انسانی کا گہرا مطالعہ ہے  مگر یہ بات ضرور ہے  کہ ان کی شاعر ی میں  تصوف کا رنگ غالب ہے  چونکہ آپ سلسلہ وارثیہ سے  منسلک تھے  اور جیسا کہ معلوم ہے  کہ اس وسیع وارثی سلسلہ میں  بے  شمار مشہور صوفی شاعر گزرے  ہیں  جن میں  ایک نام جامی وارثی کا بھی شمار میں  آتا ہے۔ جامی وارثی ۱۹۴۹ء میں  انیسویں  صدی کے  ایک صوفی حضرت حاجی حافظ سید وارث علی شاہ، دیویٰ شریف ضلع بارہ بنکی (یوپی) کے  ایک فقیر، بلند شاعر ، مشہور ادیب حضرت اوگھٹ شاہ وارثی بنچھرایوں  ضلع مرادآباد(یوپی) کے  ذریعہ داخل سلسلہ ہوئے۔

حکیم جامی وارثی تقریباً تیس برسوں  تک آل انڈیا ریڈیو پٹنہ سے  قلمی طور پر وابستہ رہے  اور یہاں  کے  اردو پروگرام میں  کبھی بحیثیت کلام شاعر کبھی محفل سخن کے  تحت اور کبھی نعتیہ کلام میں  شرکت فرماتے  رہے  اس کے  علاوہ آپ کے  کلام ہند و پاک کے  مشہور رسالوں  اور اخباروں  میں بھی اکثر و بیشتر شائع ہوتے  رہے  ہیں۔ ابھی حال ہی میں  ویر کنور سنگھ یونیورسٹی آرا(بہار) کے  زیر اہتمام ان پر تحقیقی کام بھی مکمل ہو چکا ہے  اور ڈاکٹر ایس ایس حسین احمد، صدر شعبہ اردو و فارسی ویر سنگھ یونیورسٹی، آرا کی زیر نگرانی، نیاز احمد خان ساکن جگدیش پور، بھوجپور(آرا) نے  پی ایچ ڈی کی گراں  قدر سند حاصل کی ہے۔

حکیم جامی وارثی صاحب دیوان شاعر ہیں۔ افکار جامی آپ کے  کلام کا انتخاب ہے  جو زیور طبع سے  آراستہ ہو کر جلد ہی منظر عام پر آنے  والا ہے۔ زینت حیات حکیم جامی وارثی کا ایک مختصر مجموعہ حمد و مناجات، نعت و منقبت بھی زیر اشاعت ہے  آپ کے  اس مختصر دیوان میں چند حمد باری تعالیٰ کے  علاوہ مناجات، نعت پاک اور منقبت شامل ہیں۔

حکیم جامی وارثی نے  اصناف حمد، مناجات، نعت، منقبت، غزل، قطعات، رباعیات اور نظم وغیرہ میں  کامیاب طبع آزمائی کی ہے  لیکن وہ فطرتاً غزل کے  شاعر ہیں۔ لہٰذا انھوں  نے  غزل کی ہیئت میں  ہی حمد و مناجات بھی کہی ہیں  کیونکہ وہی حمد و مناجات مقبول ہوئی ہیں  جو غزل کے  اسلوب میں  کہی جاتی رہی ہیں  اور یہ بھی سچ ہے  کہ حمد و مناجات گوئی ایک مشکل فن ہے  اور ہر ایک کے  بس کی بات نہیں  ہے۔ حمد و مناجات صرف وہی شعرا کہہ پائے  ہیں  جو عشق خدائے  تعالیٰ میں  سرشار رہے  ہیں۔ لہٰذا حکیم جامی وارثی بھی عشق الٰہی میں  سرشار نظر آتے  ہیں  اور انھوں  نے  حمد و مناجات کے  تمام آداب اور لوازمات کی پابندی بھی کی ہے  اور بڑی احتیاط سے  حمد و مناجات کہی ہیں۔

حکیم جامی وارثی کی ایک حمد باری تعالیٰ کے  چند اشعار ملاحظہ فرمائیں  اور دیکھیں  کہ وہ بذات خود عشق الٰہی کے  ا تھاہ سمندر میں  کس قدر غوطہ زن نظر آتے  ہیں :

اے  خالق دو عالم ہر سمت تو ہی تو ہے

جلوہ ہر ایک شئے  میں  تیرا ہی چار سو ہے

ہر سمت جا کے  ہم نے  باغ جہاں  میں دیکھا

تجھ سا کوئی حسیں  ہے  تجھ سا نہ خوبرو ہے

تو رونق چمن ہے، تو زینت گلستاں

ہر شئے  میں  تیری رنگت ہر گل میں  تیری بو ہے

بلبل ہو یا کہ قمری کویل ہو یا پپیہا

ہر ایک کی زباں  پر گلشن میں  تو ہی تو ہے

تنہا دل حزیں  کو سودا نہیں  ہے  تیرا

پروانہ اک زمانہ تیرا ہی شمع رو ہے

دیر و حرم میں  تجھ کو کیوں  کر بھلا میں  ڈھونڈوں

تو جان آرزو جب قرب رگ گلو ہے

در پر انہیں  کے  جامی یہ جان تن سے  نکلے

ارماں  یہی اپنا یہ دل کی آرزو ہے

مناجات دراصل اسی سلسلے  کی ایک اہم کڑی ہے۔ حکیم جامی وارثی اس میں  بھی اپنا ایک مقام رکھتے  ہیں  اور خوب خوب مناجات کہی ہیں۔ ایک مناجات کے  کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں  اور دیکھیں  کہ دربار رب العزت میں  وہ کتنی عجز و انکساری کے  ساتھ اس کی حمد و ثنا میں گم نظر آتے  ہیں :

اس کی زباں  پر کیوں  نہ صدا اللہ ہو رہے

جس کی نظر کے  سامنے  جب تو ہی تو رہے

پائے  گا وہ ضرور تجھے  راہ عشق میں

دل سے  اگر کسی کو تیری جستجو رہے

مٹ جاؤں  تیری یاد میں  اسطرح ہم نشیں

باقی نہ میں  رہوں  نہ میری آرزو رہے

دل میں کچھ آرزو ہے  تو بس اتنی آرزو

مہماں  ہمارے  دل میں  فقط ذات ہو رہے

جامی وہ آج خانۂ دل ہی میں  مل گئے

مدت سے  جن کو ڈھونڈھتے  ہم کو بکو رہے

غرضیکہ حکیم جامی وارثی کی تمام کاوشیں  اسی معبود حقیقی کی محبت کا آئینہ دا رہیں  اور انھوں  نے  بلاشبہ اسے  اپنی دینی و دنیوی زندگی کا طرۂ امتیاز بھی سمجھا ہے۔

***

ڈاکٹرسید یحییٰ نشیط

 ’’کاشانہ‘‘ پوسٹ کل گاؤں  ۴۴۵۲۰۳، ضلع ایوت محل(مہاراشٹر)

ساحل کی حمدیہ شاعر ی اور مناجاتی نغمے

عبودیت کا شعور فطرتِ انسانی کا مقتضیٰ ہے۔ انسانیت کی تاریخ کے  بابِ اول سے  آج کے  متمدن دور تک علم و حکمت کی مختلف النوع و متواتر کوششیں  اور حیاتیات و علم الاجسام کے  حیرتناک تجربے  بھی آدمی کے  ذہن سے  یہ شعور مٹا نہیں  سکے۔ ’’عبودیت‘‘ احساسِ عجز کا نتیجہ ہے۔ آدمی کی حیاتِ متعینہ چونکہ منفعت و مضرت سے  عبارت ہے۔ رنج و مسرت، تکلیف و راحت، پریشانی و شادمانی، ناکامی و کامرانی، تنگی و تونگری، فقر و فراغ، اضطراب و قرار اور سود و زیاں  راہ حیات کے  ناگزیر مراحل ہیں، جو وحشت ناک بھی ہیں  اور فرحت بخش بھی۔ ان گھاٹیوں  کی دشواریوں  کے  سامنے  جب آدمی اپنے  آپ کو بے  بس و مجبور سمجھتا ہے  تو استعانت و اعانت کے  لیے  وہ ایسی ہستی کا وجود ب اور کر لیتا ہے  جواس کے  لیے  معین و مستعین بن سکے۔ اسی کو وہ وکیل و کار ساز اور حاکم و مولیٰ تسلیم کر لیتا ہے  اور اپنے  ذل افتقار کے  تحت اس کی بندگی کو اپنا شعار بنا لیتا ہے۔ اس سے  لو لگائے  رکھنے  میں اسے  اطمینانِ قلب نصیب ہوتا ہے  اور انبساط و سرور کے  کیف سے  اس کارواں  رواں  جھوم اٹھتا ہے۔ اب اس کے  لیے  قابلِ اعتصام ہے  تو وہی ذات، حل المشکلات ہے  تو وہی ذات۔ محافظ و مستجیب بھی اسی ذات کو تسلیم کرتے  ہوئے  وہ اپنے  احتیاجات کی رفع رسانی کے  لیے  اسی کے  آگے  ہاتھ پھیلاتا ہے، اسی کے  آگے  جھکتا ہے  اور اسی کے  قدموں  پر اپنا سر ٹیکتا ہے۔ اگرچہ یہ عملِ غایب تذلل کا مظہر ہے  لیکن عزتِ نفس کا دستور یہی ہے۔ اسی میں بندے  کی معراج ہے۔ اپنے  مولیٰ سے  اس طرح کی سرگوشی اسے  احتیاجات سے  مستغنی کر دیتی ہے۔ تفکرات و وساوس سے  اس کے  قلب و ذہن خالی ہو جاتے  ہیں۔ آقا کی معیت و قربت اسے  نہال کر دیتی ہے  اور فرطِ عقیدت و جوشِ محبت میں  نغمہ ہائے  توصیف و تمجید وارفتہ وار اس کی زبان سے  نکلنے  لگتے  ہیں۔ اصطلاحاً یہی ثنا خوانی ’’حمد‘‘ کہلاتی ہے  اور اس وراء الورا ذات کے  آگے  اپنی فروتنی کا اقرار، عجز اور خود سپردگی کا اعتراف ’’مناجات‘‘ کہلاتا ہے۔

ڈاکٹر شرف الدین ساحل علاقۂ ودربھ کی اردو ادب میں قد آور شخصیت ہے۔ ادب کی خدمت وہ تحقیق و تنقید کے  ذریعہ کرتے  رہے  ہیں۔ ادب میں  تحقیق ان کا خاص میدان رہا ہے  اور ابھی تک بیسیوں  کتابیں  لکھ چکے  ہیں۔ وہ شاعر ی میں بھی شغف رکھتے  ہیں  اور اپنے  چار مجموعۂ کلام وہ قارئین کودے  چکے  ہیں۔ اس کے  علاوہ سماجی(ملی) اور دینی کام بھی وہ کرتے  رہتے  ہیں۔ ان کا مذہبی شعور بڑا بالیدہ ہے  اور دینی کتابوں  پران کی نظر بڑی گہری ہے۔ ان کی حمدوں ا ور مناجاتوں  میں  جاں  سوزی اور اضطراب والی کیفیات پائی جاتی ہیں۔ رسمیت سے  مبریٰ ان کی حمدوں  میں وجد آفرینی اور قلبی وارفتگی نمایاں  ہے۔

ذرۂ خاک کی کیا بساط کہ وہ خورشیدِ درخشاں  کی تعریف کرے۔ قطرۂ شبنم میں  وہ طاقت کہاں  کہ بحر بیکراں  کے  وصف بیانی میں رطب اللسان رہے۔ خشک تنکا کبھی اڑ کر آسماں  کو چھو نہیں  سکتا۔ ریگ زاروں  کی وسعت بھلا ریت کے  ذرے  کیا جانے۔ سنگِ پامال پہاڑوں  کی رفعت کا اندازہ نہیں  کر سکتا۔ اللہ رب العزت کا جب کہ یہ اعلان ہے  کہ ’’مانفدت کلمت اللہ‘‘ (سورۃ لقمان:۲۷) تو بندۂ عاجز لاکھ زور مارے  اللہ کی تعریف وہ کر ہی نہیں سکتا، ساحل اسی لیے  کہتے  ہیں :

کس زباں  سے  میں  کروں  حمدِ خدائے  قیوم

کام دیتی ہے  یہاں  پر نہ فراست نہ علوم

اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کی آیات و نشانیوں  کو انھوں  نے  تاریخی واقعات اور قرآنی آیات میں  تلاش کیا ہے  اور ان کی مثالوں  سے  حمدیہ نظموں  کو سجایا ہے۔ ایک حمدیہ نظم میں  توہر شعر میں  صنعتِ تلمیح کا برجستہ استعمال کیا ہے :

سینۂ کوہ چیر کر تو نے

حاملہ اونٹنی کیا پیدا

سرفرازیِ اہلِ حق کے  لیے

تیری قدرت سے  پھٹ گیا دریا

امر سے  اپنے  ابنِ مریمؑ کو

کر کے  ظاہر، شرف جہاں  میں  دیا

مذکورہ بالا اشعار میں حضرت صالحؑ،حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ کے  واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ دوسرے  شعر کو پڑھ کر ذہن حضرت خالد بن ولیدؓ کی فتوحات کی طرف بھی پلٹا کھاتا ہے۔ نہایت صاف اور سادہ زبان میں  شاعر نے  خدا کے  تئیں  اپنی دلی کیفیات کو نہایت موثر انداز میں  پیش کر دیا ہے۔ زبان سادہ ہونے  کے  با وصف اس میں شیرینی اور شعریت دونوں  موجود ہیں۔

ساحل کی حمدیہ شاعر ی میں  عجزِ شاعرانہ کے  بالمقابل بندے  کا عجز نمایاں  ہے۔ استقامت و استمداد اور ذل و افتقار میں ڈوبا ہوا لہجہ ان کے  اشعار میں جذب کی کیفیت طاری کر دیتا ہے۔ بندے  کی مجبوری اور آقا کی آقائی کا احساس ان کے  حمدیہ اشعار کا خاص وصف ہے۔ وہ اوصاف بیانی میں تخیلات کی دنیا میں نہیں  کھو جاتے  بلکہ قلب کی گہرائیوں  میں خدا کے  استحضار کو وہ محسوس کرتے  ہیں۔ یہی وجہ ہے  کہ ’’لاتدرک الابصار‘‘ کے  قرآنی اعلان کے  باوجود ساحل کے  حمدیہ ترانوں  میں محسوسات کی دنیا آباد دکھائی دیتی ہے :

تیری قدرت کے  شاہکار حسیں

پھول، برگِ حنا و موج صبا

بحر، دریا، ندی، پہاڑ، دھنک

گلستاں، کھیت، وادی و صحرا

بیج کو قوتِ نمو دے  کر

شق کیا ارضِ سخت کا سینا

حمدیہ نغمات کے  لیے  نہ افسردگی کی کیفیت اور نہ طمطراق کے  رویے  کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان دونوں  حالتوں  کے  بین بین عجز و انکسار والی بندے  کی بے  خودی زیادہ موزوں  ہوتی ہے۔ حمد نگار شاعر کے  لہجے  میں  بادِ صرصر کی خوفناکی کی تند و تیزی غیر موثر ہوتی ہے۔ دم گھٹا دینے  والی خاموش فضا کی سی کیفیت بھی حمد نگاری کے  لیے  ناموزوں  ہوتی ہے۔ بلکہ یہاں  تو بادِ نسیم کے  جھونکوں  سا احساس حمدیہ اشعار میں  بندے  کی دل بستگی اور شگفتہ سری کے  لیے  ضروری ہوتا ہے۔ حمدیہ اشعار میں  نہ پہاڑی دریاؤں  کا سا شور چاہئے، نہ خاموش سمندروں  کی سی ہیبت ناکی بلکہ جھرنوں  کی سی مدھم گنگناہٹ چاہئے۔ مہرِ نیم روز کی تمازت اور شبِ دیجور کے  مہیب اندھیروں  والی کیفیت پیدا کرنے  والا لہجہ بھی حمدیہ شاعر ی کو راس نہیں  آتا۔ وہاں  تو آسمانوں  میں  چٹخی چاندنی کی مدھم لیکن فرحت بخش روشنی کی سی کیفیت چاہئے۔ روح پرور خنکی سے  معمور فضا کی ٹھنڈک چاہئے۔ قلب کو مضطرب کرنے  والا نہیں  قلب کو مطمئن کرنے  والا لہجہ حمدیہ نغمات کے  لیے  ضروری ہے۔ کیونکہ حمد اللہ کا ذکر ہے  اور ذکر اللہ اضطراب کا نہیں  اطمینان کا باعث ہوتا ہے۔ ’’الا بذکر اللہ تطمئین القلوب‘‘ میں  اس کی شہادت موجود ہے۔ غرض کہ حمدیہ شاعر ی کے  اندر فطرت کی تمام خوبیاں  در آنی چاہئیں۔ رنگ و نکہت کی تمام دلآویزیوں  سے  دامنِ حمد مزین ہونا چاہئے۔ ایسی حمدیں  کیف پرور اور روح افزا ہوتی ہیں۔ ان میں  اللہ تعالیٰ کے  تئیں  بندوں  کا تعبدانہ جذبہ بڑا پر کیف اور وجد آفریں  ہوتا ہے۔ بندے  کا انتہائی تذلل اور رب العالمین کی رفعتِ شان حمد کے  ہر شعر سے  عیاں  ہوتی ہے۔ ان خوبیوں  کی حامل حمدیہ شاعر ی میں پاکیزہ خیالات اور مطہر جذبات کا ایک دریا امڈ آتا ہے۔ جو ہمارے  گنا ہوں  کے  خس و خاشاک کو بہا لے  جاتا ہے  اور  بد عملیوں  کی کثافت دور ہو جاتی ہے۔ حمدیہ شاعر ی کبھی بھی برائے  شعر گفتن نہیں  رہی بلکہ بندے  کے  عبدیت سے  معمور جذبات سے  تحریک پا  کر وجود پاتی ہے۔ اس کا مقصدی پہلو بڑا مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے۔ ساحلؔ کی حمدیہ شاعر ی میں  یہ تمام خصوصیات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ خیالات کی بلند پروازی اور جذبات کی روانی ان کی حمدیہ شاعر ی کا خاص وصف رہے  ہیں۔

حمد کا کینواس بڑا وسیع ہوتا ہے۔ اس میں ساری کائنات سما جاتی ہے۔ کہکشاؤں  کا مشاہدہ کرتے  وقت خدا کا یاد آ جانا ہی حمد ہے۔ اپنی ذات پر غور کرنے  کے  بعد اللہ کی قدرت کاملہ کا یقین حمد ہے۔ اللہ کی بے  حد و حساب نعمتوں  کا اعتراف حمد ہے، قدرت کی بے   شمار نشانیوں  پر غور و فکر بھی حمد ہے۔ الفاظ کے  ذریعہ جہاں  اللہ کی بڑائی حمد ہے۔ وہاں  اللہ کی بے  پایاں  قدرت کے  آگے  بندے  کی معاجزانہ خاموشی بھی حمد کے  دائرے  میں  شمار ہوتی ہے۔ بقول رومیؒ:

خود ثنا گفتن زمن ترک ثناست

کیں  دلیلِ ہستی و ہستی خطاست

یعنی خدا کی ہستی کے  سامنے  ہماری ہستی ہی کیا ہے۔ اے  خدا!اگر میں  تیری تعریف کرتا ہوں  تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میرا بھی وجود ہے۔ لیکن تیری ہستی کے  سامنے  میری ہستی کا تصور ہی غلط ہے۔ چنانچہ میں  اگر تیری تعریف کرنے  لگوں  تو یہ بات تعریف کے  بالکل صد ہو جائے  گی۔ رومی آگے  یہ بھی کہتے  ہیں  کہ تیری تعریف نہ کرنا ہی دراصل تیری تعریف ہے  کہ بندے  کی یہ اوقات اور اس کی کیا بساط کہ خدائے  برتر کی تعریف کرے۔ ساحلؔ نے  انفس و آفاق کو اپنی حمدوں  میں  سمانے  کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتے  ہیں :

حمد ہے  آفتاب کا منظر

گردشِ انقلاب کا منظر

بادلوں  کے  سیاہ جھرمٹ میں

تیز  رو ماہتاب کا منظر

تتلیوں  کے  پروں  کی نقاشی

حسنِ رنگِ گلاب کا منظر

فرشِ مخمل پہ کروٹیں  لیتا

زندگی کے  عذاب کا منظر

حالتِ بیکسی میں  کانٹوں  پر

شوقِ کارِ ثواب کا منظر

عہدِ طفلی سے  عہد پیری تک

نعمتِ بے  حساب کا منظر

فکرِ ساحل کو روک دیتا ہے

حیرت و استعجاب کا منظر

اس ضمن میں مولانا آزاد کا ایک قول یاد آتا ہے۔ جو بڑا معنی خیز ہے۔ آپ نے  فرمایا تھا کہ:

 ’’ذات الہٰ کے  بارے  میں  آدمی جو کچھ جانتا ہے  اور جان سکتا ہے  وہ عقل کے  تحیر اور ادراک کی درماندگی کے  سوا کچھ نہیں  ہے۔ ‘‘

ساحل کی حمد کے  مذکورہ آخری شعر میں  آزاد کے  خیالات کا پرتو صاف دکھائی دے  رہا ہے۔ واقعی میر کا یہ کہنا کہ:

خرد کنہ میں  اس کی حیران ہے

گماں  یا پریشاں  پشیمان ہے

معرفتِ الٰہی میں  بندے  کی عاجزی کا مظہر ہے۔ درد نے  بھی تو یہی صدا لگائی تھی:

یارب! یہ کیا طلسم ہے  ادراک و فہم یاں

دوڑے  ہزار آپ سے  باہر نہ جا سکے

ساحل کی حمدوں  میں  صنعتوں  کا بھی استعمال ہوا ہے۔ تشبیہہ و استعاروں  کے  علاوہ تلمیح، مرأت النظیر، ابہام وغیرہ صنعتیں  ان کے  یہاں  پائی جاتی ہیں۔ اس کے  علاوہ قرآنی آیات کی پیوند کاری اور ان کے  منظوم ترجمے  بھی حمدیہ شاعر ی میں ملتے  ہیں۔ جو ساحل کی قرآن فہمی پر دلالت کرتے  ہیں۔

ساحل نے  حمدوں  کے  ساتھ ساتھ مناجاتیں  بھی کہی ہیں۔ ان میں  رقتِ قلبی اور حزینہ پہلو نمایاں  ہے۔ رفعِ احتیاج کے  لیے  بارگاہ ایزدی میں  ہاتھ پھیلا کر نہایت بیچارگی کی حالت میں  وہ مدد و  اعانتِ الٰہی کی درخواست کرتے  ہیں۔ فقر و ذل کی کیفیتوں  سے  بھرپور ان کی مناجاتوں  میں  استعانت، استمداد و استغاثہ کے  پہلو غالب ہیں۔ مناجاتوں  میں ان کا لب  و لہجہ نیاز مندانہ اور تعبدانہ ہے۔ عجز و انکسار کے  ساتھ وہ جب بارگاہ الٰہی میں دست بہ دعا ہوتے  ہیں  تو رقت آمیز جذبات ان پر طاری ہو جاتے  ہیں۔ ان جذبات و کیفیات سے  مملو ان کی مناجاتوں  میں  زبردست اثر آفرینی پائی جاتی ہے۔ اپنی مناجاتوں  میں  جہاں  انھوں  نے  اپنی ذات کا رونا رویا ہے  وہاں  کائنات (عالم انسانیت) کے  لیے  بھی گڑگڑایا ہے :

کر حفاظت کہ بہت ہی کم ہے

روشنی میری نگاہوں  میں  خدا

امنِ عالم کے  لیے  انسان اکمل بھیج دے

العطش کا شور ہے  رحمت کے  بادل بھیج دے

ساحل کثیر المطالعہ اور زود رقم شخص ہے۔ لکھنے  پڑھنے  کے  شوق میں  انھوں  نے  اپنی بینائی کی طرف مطلق توجہ نہیں  دی۔ اس لیے  نظر نہایت کمزور ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کا انھیں  بہت قلق ہے۔ مناجات کے  پہلے  شعر میں  انھوں  نے  اللہ سے  اپنی بینائی کی بھیک مانگی ہے  اور دوسرے  شعر میں  امنِ عالم کے  لیے  استعانت کی درخواست کی ہے۔ ان کی مناجاتوں  میں  تضرع و زاری اور عاجزی و انکساری کی کیفیات میں  بھی شوقِ وارفتگی اور والہانہ انداز پایا جاتا ہے۔

ساحل کے  نزدیک ’’دعا‘‘ بندے  کا حق ہے  اور آقا اس حق کو پورا کرتا ہے۔ اس لیے  ان کی مناجاتوں  میں  تذبذب نہیں  وثوق کارفرما دکھائی دیتا ہے۔ عبادتوں  کے  بعد دعا ہی ایسا عمل ہے  جس میں  عبد و معبود کے  رشتہ کا غایت اظہار ملتا ہے۔ ساحل کی مناجاتوں  میں  اس رشتے  کا اظہار بڑے  موثر انداز میں  ہوا ہے۔ ساحل کی بعض مناجاتوں  میں  معبود کی شانِ استغنیٰ اور بندے  کے  غایت تذلل کی انمل حالت کو باہم مربوط کرنے  کی کوشش کی گئی ہے۔ بڑی شان والا مالک جب اپنے  پھٹے  حال غلام پر توجہ کرتا ہے  تو وہ لمحہ ہر دو جانب افتخار و انبساط کا ہوتا ہے۔ آقا کو اپنے  توجہ فرمانے  پر خوشی اور فخر محسوس ہوتا ہے  تو غلام کو آقا کے  توجہ فرمانے  پر خوشی ہوتی ہے  اور فخر سے  اس کا سینہ پھولنے  لگتا ہے۔ ’’عشقنی  و عشقنہ‘‘ کی یہ کیفیت کتنی وجد آفریں  ہے۔ ساحل کی مناجاتوں  میں بندہ ایسی کیفیات کو بارہا محسوس کرتا ہے۔

چونکہ دعا و مناجات احتیاج کے  موقع پر زبان سے  نکلے  ہوئے  برجستہ کلمات ہوتے  ہیں۔ اس لیے  ان میں  حسن کاری تو نہیں  ہوتی لیکن دلآویزی بدرجہ اتم ہوتی ہے۔ ساحل کی مناجاتوں  میں  آپ کو حسن شعر ی کے  دلکش و دلربا نمونے  نہیں ملیں  گے  مگر دلوں  کو تڑپا دینے  والا آہنگ ضرور ملے  گا کہ تضرع و اضطراب ہی مناجاتی شاعر ی کا صحیح حسن ہوتا ہے۔

ساحل اگر اپنی تمام حمدوں  اور مناجاتوں  کا ایک علاحدہ مجموعہ ترتیب دے  دیں  تو یقیناً یہ اردو ادب کے  سرمایہ میں بیش بہا اضافہ ہو گا۔ پاکستان کے  شعرا اب اس طرف توجہ دینے  لگے  ہیں  اور حمد و مناجات کے  سیکڑوں  مجموعے  منظرِ عام پر آ چکے  ہیں، ہند میں ابھی شعرا خلوص و انہماک کے  ساتھ اس جانب متوجہ نہیں  ہوئے۔ ایسی حالت میں  ساحل کی چند حمدیں  و مناجاتیں  بسا غنیمت ہے۔

***

 

عاجز ہنگن گھاٹی

ہنگن گھاٹ، ضلع وردھا(مہاراشٹر)

منصور اعجاز کی آزاد نظموں  میں حمد و مناجات کا مظاہرہ

آزاد نظموں  کے  خدوخال کا تعین صحیح معنوں  میں  ن م راشد اور میرا جی کے  ذریعے  ہوا ہے  اور انہیں  کے  زمانے  میں  یہ نظم نہ صرف ہیئت کی سطح پر تبدیل ہوئی بلکہ اس کے  مواد میں  بھی انقلابی تبدیلیاں  ہوئی ہیں۔ آزاد نظم کے  تعلق سے  یہ بات فراموش نہیں  کی جا سکتی کہ اس کی ہیئت پابندیوں  کی حامل رہی ہے۔ سچ پوچھئے  تو آزاد نظم آزاد نہیں  ہے۔ اس میں  جو بحر اختیار کی جاتی ہے  اس بحر کے  تمام ارکان جذبے  اور خیال کے  تابع ہوا کرتے  ہیں  جب ارکان کی کمی بیشی مصرعے  کو چھوٹا بڑا کرتی ہے  تو مصرعے  کی ساخت میں  طوالت یا اختصار سے  کام لیا جاتا ہے۔ اس میں  مروجہ الفاظ اور تراکیب کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ بلکہ زندگی کے  نئے  محرکات، نئے  احساسات، نئے  خیالات، نئے  اسالیب، نیا لب  و لہجہ اور آج کی زندگی کی سچائی ان کی نظموں  میں  کھ کر لطف دیتی ہے۔ غرض موجودہ نظم قدیم نظم کے  ڈھانچے  سے  بہت مختلف ہے  یعنی اس نظم کا کینوس مسلسل اسی انداز سے  وسیع ہو رہا ہے  جیسے  آدمی مادی اور سائنسی لحاظ سے  آگے  بڑھ رہا ہے۔ اس کینوس پر وجودی تنہائی، قلبی اضطراب، ذہنی خلفشار، حسیاتی روئیے، زندگی کی گرانباری، روحانی آسودگی کی تلاش، اقتصادی ناہمواری، تاجرانہ جبر، روزگار و ہجرت مکانی اور تعصبانہ فسادات کی گوناگوں  تصویریں  دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس نظم کی کل کائنات جدت طرازی ہی ہے۔ پچھلے  دس برسوں  میں  یہ نظم جس سج دھج کے  ساتھ سامنے  آئی ہے  وہ اپنے  طرز احساس اور طرز فکر ہی میں جدید نہیں  بلکہ دنیا بھر میں  کی جانے  والی شاعر ی کے  بھی بہت سے  رنگ اپنے  اندر سموئے  ہوئے  ہیں  اور یہ کار نامے  جنہوں  نے  اعجاز کی طرح آشکار کئے  ہیں  ان میں کچھ مخصوص شعرا کی طرف نشان دہی کی جا سکتی ہے۔ مثلاً وزیر آغا، ساقی فاروقی، اختر الایمان، منیر نیازی، صلاح الدین پرویز، محمد  علوی، ندا فاضلی، شہر یار اور زبیر رضوی وغیرہ ان شہرہ آفاق قلمکاروں  کی بھیڑ میں  آزاد نظم کے  تعلق سے  ودربھ کے  نامور کتابی شاعر منصور اعجاز کا قد بھی کم نہیں  ہے۔ ان کے  یہاں  بھی ہیئت کے  نئے  تجربے  ملتے  ہیں  یہ مختصر اور پر تاثیر نظموں  کی وجہ سے  ان گنت رسائل کے  علاوہ ادب پرور ’’ شب خون‘‘ ، ’’شاعر ‘‘ ، ’’توازن‘‘ ، ’’اسباق‘‘ اور ’’قرطاس‘‘ وغیرہ میں بھی اپنا ایک خاص مقام رکھتے  ہیں۔

منصور اعجاز کی نظمیں  آج کے  عہد کے  مسائل کی منھ بولتی تصویریں  ہیں  ان کی نظموں  میں  علامت، استعارے، تشبیہہ، تمثیل، اشارے، کنائے  وغیرہ کے  جلوے  ہی نہیں دکھاتی دیتے  بلکہ حیات انسانی کا انتشار، رشتوں  کی شکست، سیاست کی شعبدہ گری، تعلیمی الجھنیں، عظمت، ماضی کی بازیافت، لہجہ کا بے  ساختہ پن، سچائی اور صاف گوئی، اسلوب میں جدت طرازی، جذبات و احساسات میں  شدت و توانائی، سماجی اخلاق کا بکھراؤ اور عصر حاضر کے  رنگ ڈھنگ کا مظاہرہ ان کی فکر و سوچ کا واحد یقین ہے۔ ان کی بامعنی نظمیں  پڑھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے  کہ انھوں  نے  اپنے  ذاتی جذبات و احساسات سے  ہٹ کر زندگی و کائنات کی دوسری حقیقتوں  کو نظر انداز نہیں  کیا ان کی نظموں  کے  موضوعات کو اگر گہرائی و گیرائی سے  جانچا اور  پرکھا جائے  تو اسلوب کا اظہار ہی انہیں  آفاقیت کی منزل تک پہنچاتا ہوا محسوس ہو گا اور یہ بات بھی پورے  وثوق سے  کہی جا سکتی ہے  کہ ان کی شاعر ی میں  وقت کے  المیہ کا جو نوحہ سنائی دیتا ہے  ایک دن انہیں  تاریخی طور پر لافانی بنا سکتا ہے۔

بہر نوع ان کی تخلیقات میں حقائق کا سمندر موجزن دکھائی دیتا ہے۔ یہ تاثیر انہیں  کہیں  مستعار لینے  کی ضرورت نہیں  پڑی چونکہ حساس شاعر اپنے  اظہار و ابلاغ کی راہ کو ہموار کرنے  کے  لئے  ہمہ وقت چوکس ذہن، وسیع النظر اور کشادہ دل سے  کام لیا کرتا ہے  اس شاعر نے  بھی اپنی تقدس پذیر چھوٹی چھوٹی نظموں  میں بڑی بات کو مختصر الفاظ میں  کہنے  کا ہنر پیش کیا ہے۔ بعض جگہ تو عالم کونین کی وسعتیں  سمٹ آئی ہوئی محسوس ہوتی ہیں  مشاہدے  کے  طور پر یہ نظم ملاحظہ فرمائیں :

کربلا:تمہارے  ظلم کی/میرے  صبر کی

جب انتہا ہو گی/ تو پھر ایک کربلا ہو گی

بصورت دیگر مضمون قلمبند کرنے  کا مقصدی جواز اور حیرت انگیز انکشاف یہ ہے  کہ ایوت محل کے  منفرد لہجے  کے  منصور اعجاز نے  اپنی فن شناسی کی قدرت کے  مد نظر شہرت یافتہ آزاد نظم جیسی صنف کے  سینے  پر حمد و مناجات کی تقدس پذیر فکر و سوچ کی مہر ثبت کر کے  ایمان کی تازگی کا اعلان کیا ہے۔ بایں  ہمہ ’’تخلیق کائنات‘‘ یہ آزاد نظم غور فرمائیں۔ اس نظم میں  خالق دوجہاں  کی حمد و ثنا کے  ساتھ ساتھ مناجات کا وہ جذبہ بھی پنہاں  ہے  جسے  ہم دعائے  مستجاب تصور کرتے  ہیں :

تخلیق کائنات:اگر تو یہ زمیں  نہ بناتا/ہم خلاؤں  میں تیرتے  رہتے / تو نے  زمیں  کی کوکھ میں / آبی ذخیرے  نہ سموئے  ہوتے / ہم فضاؤں  میں نمی چوستے  ہوتے / تو نے  خورشید کو تپش دے  کر/ چمکایا نہ ہوتا / فصلیں  اگتی اور پکتی کیسے ؟/ ہماری دنیا اندھی/ اندھیاری ہو جاتی/ رب اللعالمین!/ تو نے  زمین و آسمان کی/ بے  پناہ دولت اور خلافت/ہمیں عطا کر دی(کتنا سخت امتحان ہے)/ قیامت قریب ہے  اور ہم/ بے  چین و پریشان/ بے  حس و حرکت/ یا غفور الرحیم!/ ہمیں  ایمان کی حرارت سے  پگھلا دے / کل کائنات پر پھیلا دے / ہم پر امید ہیں / تجھے  بھی یہی مقصود ہے  نا۔ ؟

میں  تو راضی ہوں  اسی میں  جو رضا تیری ہے۔ اس علم حکمت کے  بعد ایک اور حمد و ثنا کے  زمرے  میں  خدائے  ذوالجلال کی عرفانیت، معرفت اور وحدانیت کی عبدیت کا یہ یقین بھی اہل ایمان کو دعوت تقویٰ دیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کی ذات اقدس ہی پائیدار اور دائمی ہے۔ خدا کا وصف اور اس کی مدحت سرائی کا یہ انداز بھی خوب ہے :

آئندہ و پائندہ:خدا/چھو لینے  کی/نظروں  میں سما لینے  کی/کوئی شئے  نہیں ہے / خدا انصاف ہے / احساس ہے /حوصلہ ہے / خدا مجبور و بے  کس کی تلوا رہے / مظلوم کی ڈھال ہے / خدا آئندہ و پائندہ ہے / ازل تا ابد

اور پر امید مناجات کی یہ کیفیت بھی روح کی آسودگی کا ضامن محسوس ہوتی ہے :

پر امید ندامت:جہاں  جتنا بڑا ہے /گناہ اتنے  بہت/میرے  گناہ میری عمر سے  بھی زیادہ ہیں  / مگر خدا۔۔۔ / تیری رحمت کی انتہا بھی نہیں

احساس گناہ بھی یقیناً بخشش کا ذریعہ ہے :

اندیشہ:جب تیری مرضی بغیر/پتہ کوئی ہلتا نہیں /سانس بھی چلتی نہیں / پھر یہ گناہ ہم کیوں  کرتے  ہیں /کیا ہم دوزخ کا ایندھن ہیں ؟

اور آخر میں  مناجات کی اس انفرادی کیفیت پر قربان جائیے :

ماں :میری ماں /مصلے  پہ بیٹھ کر/یقیں  کے  ہاتھ اٹھا کر/دعا مانگتی رہی/ یارب!۔۔۔ / ہمارے  دن پھیر دے

مختصر یہ کہ منصور اعجاز کی کچھ اور داخلی و خارجی افکار کی لائق مطالعہ نظمیں  بھی ہیں، جو متنوع سماجی

مسائل سے  مکالمہ کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ شاعر نے  معنی خیز لفظیات، رموز علائم اور استعارات کو برت کر اپنی نظموں  کی ایک خوبصورت فکر انگیز دنیا آباد کی ہے۔ برائے  تصدیق ان کی نظمیں  دیگر شعرا کی بھیڑ میں  ان کے  اپنے  لب و لہجے  اور اسلوب سے  بجا طور پر پہچانی جا سکتی ہیں۔ کیونکہ اچھے  شاعر کے  یہاں  ماتم کائنات کا ذکر کچھ زیادہ ہی ہوا کرتا ہے  اور منصور اعجاز ہر نکتہ نگاہ سے  مندرجہ بالا موضوعات پر پوری طرح قابض نظر آتے  ہیں۔ فسادات اور بابری مسجد کی مسماری کے  تعلق سے  ۱۹۹۳ء میں  ’’آواز جرس‘‘ اور ۱۹۹۴ء میں  نظموں  اور غزلوں  کا مجموعہ ’’چاندنی کا درد‘‘ علاوہ ازیں  گجرات فسادات پر نظموں  کا مراٹھی ترجمہ مارچ ۲۰۰۳ء میں  شائع ہو کر طشت از بام ہو چکے  ہیں۔ ان دنوں  بقول منصور اعجاز:

زمانہ ہو کوئی بھی بربریت ساتھ ہے  ساقی

کبھی طائف کبھی کوفہ کبھی گجرات ہے  ساقی

اسی نفس مضمون کے  مابین بنام ’’زجز‘‘  آزاد نظموں  کا مجموعہ بھی اشاعت کے  مراحل طے  کر رہا ہے۔ ’’بازگشت‘‘ کے  نام سے  ایک نثری تخلیق کا مسودہ اور مراٹھی نظموں  کے  اردو ترجمے  کا کام بھی بڑی عرق ریزی سے  جاری ہے۔ خداوند تعالیٰ منصور اعجاز کو اپنے  ادبی مقصد میں لمحہ لمحہ کامیابی و کامرانی عطا کرے۔ تاکہ اردو ادب کے  ارتقائی سفر کا پرچم آنے  والی نسلوں  کی رہنمائی کے  لئے  ہمیشہ ہمیشہ لہراتا رہے  آمین ثم آمین۔

***

ہارون رشید عادل

کامٹی(ضلع ناگپور)مہاراشٹر

مہاراشٹر میں  رائج درسی کتب میں  حمد و مناجات

قرآن مجید میں سورۃ نور میں  اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  کہ: ’’کائنات کی ہر شے  اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان کرتی ہے۔ ‘‘ قرآن شریف میں  کم از کم مندرجہ ذیل پانچ سورتیں  (۱)سورۃ فاتحہ،(۲)سورۃ الانعام، (۳)سورۃ کہف، (۴)سورۃ سبا اور (۵)سورۃ فاطر لفظ ’’الحمد‘‘ سے  شروع ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے  ننانوے  اسمائے  حسنیٰ ہیں۔ جن سے  اللہ تعالیٰ کی صفات ظاہر ہوتی ہیں۔ دنیا کی ہر زبان میں  اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا نثر و نظم کی صورت میں  بیان کی گئی ہے  ہمارے  اردو کے  شعرا نے  بھی حمد و مناجات تحریر فرمائی ہیں  ان میں سے  طلبا کی عمر اور صلاحیت کے  اعتبار سے  درسی کتب میں  حمد و مناجات ہر درجے  ہر جماعت میں شامل نصاب ہیں۔

ریاست مہاراشٹر میں جو درسی کتب رائج ہیں  ان کا نام اول تا ہشتم ’’بال بھارتی‘‘ ہے۔ نویں  اور دسویں  جماعت کی کتابوں  کا نام ’’کمار بھارتی‘‘ اور گیارہویں  و بارہویں  جماعت کی کتابوں  کا نام ’’یوک بھارتی‘‘ رکھا گیا ہے۔

مہاراشٹر ریاست کی اردو لسانی کمیٹی نے  اول جماعت کے  لئے  جو نصابی کتاب تیار کی ہے  اس کے  دو حصے  ہیں  بال بھارتی حصہ اول، بھارتی حصہ دوم اور ان دونوں  ہی کتابوں  میں حمد و مناجات شامل ہیں۔ پہلے  حصے  میں  جو مناجات ہے  اس کے  بول یوں  ہیں :

خدا تو بڑا ہے

تجھی سے  دعا ہے

بنا ہم کو اچھا

بنا ہم کو سچا

ہمیں  ایک کر دے

ہمیں  نیک کر دے

 اور دوسرے  حصے  میں  نظم کے  بول اس طرح ہیں :

بولو بچو اللہ اللہ

کون ہے  مالک

کون ہے  آقا

کون ہے  حاکم

کون ہے  راجا

بولو بچو اللہ اللہ

حمد و مناجات کا یہ سلسلہ بارہویں  جماعت تک جاری ہے۔ دوسری جماعت میں  جو حمد شامل نصاب ہے  اس کے  ابتدائی اشعار یہ ہیں :

اللہ سب کا مالک ہے

سب کا داتا ہے  اللہ

ساری دنیا پر اپنا

پیار لٹاتا ہے  اللہ

تیسری جماعت کا ہر طالب علم اللہ تعالیٰ سے  یوں  مخاطب ہے :

اے  میرے  خدا ہے  تجھ سے  دعا

تو مجھ کو بنا ہمت والا

دے  عقل مجھے  سوچوں  سمجھوں

کیا اچھا ہے  کیا کام برا

چوتھی جماعت میں  تاجدار تاج کی تحریر کردہ حمد ہے  جس کے  ابتدائی اشعار یہ ہیں :

اے  خدائے  پاک اے  پروردگار

دونوں  عالم پر ہے  تیرا اختیار

تیرے  در پر سر جھکاتے  ہیں  سبھی

تیری رحمت کے  ہیں  سب امیدوار

پانچویں  جماعت کی درسی کتاب میں  محمد  اسمٰعیل میرٹھی کی حمد شامل ہیں۔ جس کی ابتدا ان اشعار سے  ہوتی ہے:

تعریف اس خدا کی جس نے  جہاں  بنایا

کیسی زمیں  بنائی کیا آسماں  بنایا

پیروں  تلے  بچھایا کیا خوب فرش خاکی

 اور سر پہ لاجوردی اک سائباں  بنایا

چھٹی جماعت میں  ادارہ بال بھارتی کی اردو لسانی کمیٹی نے  سرور احمد کی تحریر کردہ حمد شامل نصاب کی ہے۔ فرماتے  ہیں :

سب کا تو حاجت روا ہے  اے  خدا

ہر گھڑی انعام ہے  ہم پر ترا

حد نہیں  ہے  تیرے  احسانات کی

شکر تیرا ہو نہیں  سکتا ادا

ساتویں  جماعت میں  روش صدیقی کی جو حمد شریک نصاب ہے  اس کے  بول کچھ اس طرح ہیں :

آغاز تیرے  نام سے

اے  کار ساز دو جہاں

رحمت تری سب سے  سوا

تو سب سے  بڑھ کر مہرباں

اے  مالک روز جزا

ہم کو دکھا راہ ہدیٰ

آٹھویں  جماعت میں  جو حمد پڑھائی جاتی ہے  وہ سراج الحق حافظ لدھیانوی کی ہے۔ جس کے  آخر کے  دو اشعار یہ ہیں :

راز فطرت بتائے  ہیں  تو نے

علم کیا کیا سکھائے  ہیں  تو نے

تو نے  بخشا ہے  نطق کا اعجاز

کر دیا آدمی کو محرمِ راز

درسی کتاب ’’کمارتی بھارتی‘‘ جو نویں  جماعت سے  رائج ہوتی ہے  اس جماعت میں  جو حمد شامل نصاب ہے  وہ حضرت داغ دہلوی کی ہے۔ جس کا آخری شعر اور مقطع یوں  ہے :

مجھ گنہ گار کو جو بخش دیا

تو جہنم کو کیا دیا تو نے

داغؔ کو کون دینے  والا تھا

جو دیا اے  خدا تو دیا تو نے

دسویں  جماعت میں  نظیر اکبرآبادی کی تحریر کردہ حمد شامل کی گئی ہے :

بو ہو کے  ہر اک پھول کی پتی میں  بسا ہے

موتی میں  ہوا آب ستاروں  میں  ضیا ہے

تنہا نہ ہمارے  ہی وہ شہ رگ سے  ملا ہے

نزدیک ہے  وہ سب سے  جہاں  اس سے  بھرا ہے

جب چشم کھلی دل کی تو پہچان میں  آیا

گیارہویں  سے  درسی کتاب کا نام ’’یوک بھارتی‘‘ ہو جاتا ہے  اور اس جماعت میں  شاعر مشرق ڈاکٹر محمد  اقبال کی شہرہ آفاق مناجات کے  پندرہ اشعار شامل نصاب ہیں  ان میں  سے  چند منتخب اشعار قارئین کی نذر ہیں :

خرد کو غلامی سے  آزاد کر

جوانوں  کو پیروں  کا استاد کر

تڑپنے  پھڑکنے  کی توفیق دے

دل مرتضیؓ سوز صدیقؓ دے

جوانوں  کو سوز جگر بخش دے

مرا عشق میری نظر بخش دے

بارہویں  جماعت کے  نوجواں  طلبا کو اردو کے  پہلے  صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ معانی کی یہ مناجات پڑھنے  کے  لئے  دی جاتی ہے :

 قلب محزوں  کی صدائے  درد ہے  سنتا ہوا

رہ کے  شہ رگ سے  قریں  وہ دھڑکنیں  بنتا ہوا

زندگی کی ابتدا ہو یا کہ اس کی انتہا

ہر جگہ موجود ہے  وہ تھپکیاں  دیتا ہوا

اس کی مرضی پر ہے  مبنی دو جہاں  کا ہر نظام

اک صدائے  کن پہ اس کے  ہر عمل ہوتا ہوا

تیرگی ہو یا کوئی خطرہ ہو تو موجود ہے

نور میں  ڈھلتا، عصائے  موسوی بنتا ہوا

بے  سکوں  ماحول میں  محرومیوں  کے  درمیاں

بس ترا ہی آسرا ہے  حوصلہ دیتا ہوا

گلشن ارض کے  پھولوں  کی ادا میں  تو ہے

دشت افلاک کی خاموش فضا میں  تو ہے

رعد میں  برق میں  بادل میں  گھٹا میں  تو ہے

صبح میں  شام میں  ظلمت میں ضیا میں  تو ہے

میرے  اس دل میں  ہے  تو دل کی دعا میں  تو ہے

درد میں  تو ہے  مرے، میری دوا میں  تو ہے

دشت و صحرا میں ہے، گلشن کی فضا میں  تو ہے

خار کی نوک میں، پھولوں  کی قبا میں  تو ہے

اپنے  اشعار پہ ہے  فخر عطاؔ کو تو بجا

تہہ میں  معنی کی ہے  تو حرف و نوا میں  تو ہے

مناجات میرا تو سن یا سمیع

منجے  خوش توں  رکھ رات دن سمیع

بھلا کر بھلا منج سوں  جو ہوئیگا

برا کر برا منج سوں  جن یا سمیع

مرے  دوستاں  کوں  تو نت دے  جنت

مرے  دشمناں  کو اگن یا سمیع

ابادان کر ملک میرا سوتوں

بسا سوتوں  دے  مرا من یا سمیع

ریاست مہاراشٹر کی کئی یونیورسٹیوں  میں گریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ تک اردو پڑھائی جاتی ہے  اور پی ایچ ڈی اردو زبان میں  کرنے  کے  مواقع حاصل ہیں۔ گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کی درسی کتب میں  بھی حمد و مناجات شامل ہے۔ میرے  خیال میں  ناگپور یونیورسٹی سے  اس موضوع پر ڈاکٹریٹ آف فلاسفی کی ڈگری بھی تفویض کی گئی ہے۔

***

 تشکر محمد رفیع الدین ولد شرف الدین ساحلؔ، ساحل کمپیوٹرس، ناگپور جن کے توسط سے ان پیج فائل کا حصول ہوا

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید