FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

آتش رفتہ کا سراغ

ناول

               مشرف عالم ذوقی

 

حصہ دوم

آتشِ رفتہ کا سراغ

(۱۹۸۶ء سے ۱۹۹۲ء تک)

 

 

 (1)

کچھ میری سُن یا خود سُنا

کیا سچ بھی کہنا ہے بُرا

کاشی کی ایسی دل نشیں

کتنی مقدّس سرزمیں

وہ مطربہ وہ قمقمے

گجروں سے وہ بجرے سجے

اسّی کو واپس ہو گئے

ننگے جو تھے ننگے رہے

بھوکے جو تھے بھوکے رہے

پھولوں کی چادر کیا کرے

نغموں سے دوزخ کیا بھرے

فتح و ظفر کا شور اٹھا

صد مرحبا صد مرحبا

جب جشن کا یہ وقت ہے

پھر زندگی کیوں سخت ہے

کہنے کی ساری بات ہے

اس روشنی سے کچھ نہیں

یہ رات پھر بھی رات ہے

دریا کا پانی لال ہے

فطرت کا دل پامال ہے

٭٭

کاشی  —  کاشی کی گلیاں، چھوٹی چھوٹی ان گلیوں میں ہی کاشی آباد ہے۔ یہاں کی صبح مشہور ہے —  صبح ہوتے ہی کاشی کے گھاٹوں کا نظارہ دیکھنے کے لائق ہوتا ہے۔ بازاروں میں دھوم، بنارسی پان اور بنارسی ساڑیاں —  پیتل اور اسٹیل کے برتن، مٹھائیوں کی دکانیں، حکیم اور عطار کی دکانیں —  چھوٹے بڑے گھروں سے جھانکتے ہوئے لوگ —  انجانے لوگوں پر پھبتیاں کستے ہوئے، پان کی دکانوں پر ہنسی ٹھٹھول کرتے ہوئے، کہیں ڈھول باجے کی آوازیں —  بڑی بڑی کوٹھیاں اور پرانی حویلیاں بھی اسی بنارس کا حصہ ہیں۔ مادھو جی کی کوٹھی —  بھارتیندو بھون —  بنگالی کی ڈیوڑھی —  سب کے پیچھے ایک لمبی تاریخ —  پھر پھاٹکوں کا سلسلہ —  گھنٹے والا پھاٹک، شیر والا پھاٹک —  گھنٹہ نہیں رہا پھر بھی اب تک وہ جگہ گھنٹے والا پھاٹک کے نام سے ہی مشہور ہے۔ مندروں کا ایک لمبا سلسلہ —  رادھا رمن جی کا مندر، اور بھی آس پاس کتنے ہی مندر —  مندروں اور گھاٹوں کی نگری ہے یہ کاشی —  گھاٹ کے کنارے کنارے آسن کی مدرا میں سادھوؤں اور تانترکوں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک زمانے میں بنارس کے بھانڈ مشہور تھے۔ شادی بیاہ جیسی تقریب میں ان بھانڈوں کو بلایا جاتا تھا —  مرد عورتوں کے لباس میں ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ بہروپئے بھی ہوتے تھے —  لیکن بہروپئے اور بھانڈ آہستہ آہستہ تاریخی کتابوں میں دفن ہو گئے —  بس، یادیں رہ گئیں یا پھر ان بھانڈوں کے گیت رہ گئے۔

اے پیا بجار جئی یو —  واہ واہ جی واہ واہ

لمبے لمبے سیر اوڑالئی یو  — واہ واہ جی واہ واہ

گرم گرم جلیبی لئی یو  — واہ واہ جی واہ واہ

بڑکے بڑکے لڈّو لئی یو —  واہ واہ جی واہ واہ

سنگھ جی کی کچوڑی لئی یو  — واہ واہ جی واہ واہ

پہلا مہینوا گرم نہیں جانے اوں

حال نہیں جانے اوں، لگ گیا دوسرا مہینوا رے

اے پیا بجار جئی یو  — واہ واہ جی واہ واہ

بنارس —  دور تک گلیوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ دائیں جانب پرانا شہر کے  اور گنگا گھاٹ اور بائیں جانب شہر کے باہری علاقوں کو جوڑتی بے شمار گلیاں ہیں جن میں ایک گلی وشوناتھ گلی کے نام سے ہے —  جہاں با با وشوناتھ لنگ ہے۔ جن کے درشن کے لیے بارہ مہینے عقیدت مندوں کی قطار لگی رہتی ہے —  جن کا درشن کر کے، جنہیں جل اور بیل پتر ارپن کر کے عقیدتمند اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہیں —  وشوناتھ مندر کے آس پاس پنڈوں کا ہجوم گھومتا رہتا ہے، بعض دفعہ غیر ضروری دباؤ ڈال کر کوئی بھی پنڈا اپنے لیے بڑی رقم اینٹھ لیتا ہے —  یہ پنڈے خرید و فروخت میں بھی مدد کرتے ہیں، دکانداروں سے ان کا کمیشن طے رہتا ہے —  یہاں نقلی گہنے،چوڑیوں اور سیندور سے دکانیں بھری ہوئی ہیں —  خاص کر ایک قطار سے ساڑی اور کپڑے کی دکانیں — اور رہ رہ کر ہر ہر مہادیو کی گونج —

کاشی کی کم و بیش ہر گلی کہیں نہ کہیں سے گنگا تٹ تک پہنچ جاتی ہے —  کہا جاتا ہے کہ شیو جی کے ترشول پر آباد ہے کاشی۔ بابا وشوناتھ یہاں براجمان ہیں۔ اس لیے تیرتھ استھلوں میں کاشی کی اپنی اہمیت ہے۔

لیکن کچھ برسوں سے جے گنگے جے گنگے  اور ہر ہر مہادیو کے نعرے بدل گئے ہیں  — اب اس کی جگہ جے شری رام نے لے لی ہے —  مندر کے کنارے کنارے آباد گھروں میں کتنے ہی گھر ایسے ہیں جہاں بھگوا جھنڈے لہرا رہے ہیں —

ان گلیوں میں مسلمانوں کی آبادی بھی اچھی خاصی ہے —  لیکن بابری مسجد سے اٹھنے والی چیخ کی صداؤں نے کاشی کی ان گلیوں کے ماحول کو بھی خراب کر دیا ہے —  یہیں سپرو مندر کے ذرا آگے ، مدن چوک کے دائیں طرف جانے والی گلی میں ایک پرانی حویلی آباد ہے —  پاشاؤں کی حویلی —  وقت نے اس حویلی کی رونق چھین لی —  آن بان شان کے جنازے نکل گئے —  باہر کی سیڑھیاں تک اب ٹوٹ چکی ہیں —  مین سیڑھی کے دونوں طرف کمرے بنے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں کمرے مہمانوں سے ملنے کے لیے بنائے گئے ہیں —  درمیان کی جگہ پر لکڑی کا تخت بچھا ہے۔ مین سیڑھی سے اندر جاتے ہوئے ایک بڑا سا برآمدہ آتا ہے —  برامدے میں ایک بڑا سا امرود کا درخت ہے —  اور اس درخت کے نیچے ہمیشہ ہی ایک پلنگڑی بچھی رہتی ہے —  گرمیوں کے دنوں میں یہ پلنگڑی بی اماں کے لیے تخت طاؤس سے کم نہیں —  یہیں سے ان کی حکومت چلتی ہے …

او  … بسمتیا …

ارے تیرا شرابی مرد کہاں ہے …؟

لو جی … عطار کے یہاں چلے جاؤ —  اور ہاں وہ خیرو میاں رنگ ریز کے پاس بھی چلے جانا —  ساڑی دی ہوئی ہے رنگنے کے لیے … ٹھہرو … کم بخت اس بلّی کو اسی وقت راستہ کاٹنا تھا … ابھی دو منٹ ٹھہر لو میاں —  بلّی بد شگونی کر گئی ہے —

بڑے میاں یعنی تغلق پاشا اب ان باتوں کے عادی ہو چکے ہیں —  وہ بس مسکرا کر رہ جاتے ہیں —

ارے یہ انور میاں کہاں رہ گئے  — ؟

راشدہ کی بچی۔ سر پر آنچل کیوں نہیں — ؟

اور ارشد میاں —  یہ کیا ڈراؤنی شکل بنا رکھی ہے — ؟

پھر رہی سہی کسر بڑے میاں پر نکلتی —  نوج … یہ بی بی، سی سن سن کر آپ کا دماغ چل گیا ہے —  آدھا دماغ کمبخت نے پاکستان خراب کیا —  اور میاں آدھا آپ کے آفس نے … ارے بسمتیا … کلموہی  — سلہٹ پر باریک مصالحہ بھی نہیں پیسا جاتا —  ہاتھ ہی نہیں چلتا تیرا … چل تیزی سے ہاتھ چلا —  مصالحہ اور باریک … ہاں … اب ٹھیک ہے …‘

بابری مسجد کی گونج نے ارشد پاشا کو بھی زخمی کیا تھا —  مگر ارشد پاشا ان نوجوانوں میں تھے جو مسجد مندر سے آگے نکل کر اپنے مستقبل کے گیسو سنوارنے میں دلچسپی رکھتے تھے —  ادھر ان گلیوں میں آباد ایسے نوجوان بھی تھے جو شعر و ادب میں دلچسپیاں رکھتے تھے۔ محفلیں سجائی جاتیں —  کوئی افسانہ لکھ رہا ہے —  کوئی مضمون … کوئی شاعری کر رہا ہے۔ داڑھی بڑھ گئی ہے۔ چائے کے ہوٹلوں پر ان دانشور نوجوانوں کی بھیڑ جمع ہے۔ کوئی سر جھکائے ہے … کسی کی محبوبہ کا تذکرہ چل رہا ہے اور کوئی اپنی محبوبہ کے ذکر سے، شرم سے پانی پانی ہوا جا رہا ہے —

’چائے کون پلائے گا؟‘

’جس کی محبوبہ کی چٹھی آئی ہو گی — ‘

اور کچھ ایسے بھی تھے جو ان پر آشوب ہواؤں سے گھبرا کر ترقی پسند نظریے کی آغوش  میں آسرا تلاش کر رہے تھے —  یہاں مارکس اور اینجل کی باتیں تھیں —  لینن کی کتابوں سے ریڈ بائبل تک کے تذکرے ہوتے —  مسجد اور مندروں پر طنز کیے جاتے —  اور ایسے نوجوانوں میں بدر بھی ایک تھا —  اور شاید اسی لیے ارشد پاشا کی بدر سے کافی بننے لگی تھی۔ چہرے پر معصومیت —  ہلکا سانولا رنگ —  بڑی بڑی آنکھیں —  داڑھی کئی دنوں کی بڑھی ہوئی —  جب سے مندر اور مسجد کا یہ متنازعہ معاملہ شروع ہوا تھا، کاشی میں آنے والی تبدیلیوں کو آسانی سے محسوس کیا جا سکتا تھا۔

بدر اچانک چلتے چلتے رک جاتا —  پھر ارشد پاشا کی طرف دیکھتا —

تمہیں ایسا نہیں لگتا کہ کاشی کے ان گھاٹوں سے اب آگ نکل رہی ہو —  اور آگ کی لپٹیں برسوں کی محبت اور ملت کو جلا رہی ہوں …‘

ارشد پاشا گہری سانس لیتے —

’شاید تم سچ کہتے ہو —  اجودھیا سے نکلی ہوئی آگ گنگا کے ان گھاٹوں تک پہنچ گئی ہے۔ سب کچھ بدلا بدلا سا لگتا ہے۔ آپسی محبت اور بھائی چارہ جیسے کتابوں اور کہانیوں کی باتیں لگتی ہیں —  لگتا ہے جیسے اچانک ہماری طرف اٹھنے والی آنکھوں میں فرق آ گیا ہو —  لوگ لباس سے ہمارے مذہب کی پہچان کر رہے ہوں۔ گھر سے باہر ٹوپی پہن کر جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ آخر کس صدی میں آ گئے ہیں ہم — ‘

بدر کی آنکھیں گہری سوچ میں گم تھیں —  شاید ہم ہمیشہ سے ہی کمزور تھے۔ مذہب نے اس سے پہلے بھی بانٹ رکھا تھا۔ اسی مذہب کے نام پر ملک کی تقسیم بھی ہوئی۔ ہزاروں کے خون بہے۔ صرف مذہب کے نام پر —  اور آج بھی یہی ہو رہا ہے ، ایک بابری مسجد کا سچ کیا سامنے آیا، نگاہیں بدل گئیں۔

ارشد پاشا نے برا سا منہ بنایا —  ’تمہاری تمام باتوں سے اتفاق ہے —  مگر جب تم مذہب کا مرثیہ پڑھنے لگتے ہو تو برا لگتا ہے۔ تم بھی اسی فرقہ پرستی کا شکار لگتے ہو جہاں تم بھی اس پر آشوب موسم کو بدلی بدلی سی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو —  مذہب ہے تو ہے اور مذہب ہمیشہ سے ہے —  اور ہمیشہ رہے گا —  اس کی جڑیں پختہ ہیں۔

بدر زور سے ہنسا —  اتنی پختہ کہ اب رام اور رحیم ایک دوسرے سے لڑنے لگے ہیں —  تمہارے اللہ میاں اور رام جی کے بیچ ٹھن گئی ہے —  ارشد پاشا اس مذہب نے ہمیشہ دنگے کئے ہیں۔ ہمیشہ لڑایا ہی ہے۔ کم از کم اب تو جذبات کو بھڑکانے والے اس مذہبی رویّے سے باہر نکل کر دیکھو —  نہیں دیکھو گے تو نفرت کی یہ آگ بڑھتے پھیلتے تم سب کو کھا جائے گی —  کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔ مذہب کچھ لوگوں کے لیے ایک مضبوط سیاسی مہرہ ہے۔ اس لیے ایسے ٹھیکیداروں کی دکانیں چل رہی ہیں۔‘

ارشد پاشا گہری سوچ میں تھے —  حقیقت یہی تھی کہ اس وقت سب سے بڑا ہیرو مذہب تھا —  ۱۵۲۸ء میں مغل حکمراں بابر کے دور حکومت میں میر باقی نے ایک مسجد بنوائی تھی۔ صدیوں بعد مسجد سے فرقہ پرستی کا بھوت نکل کر سامنے آ گیا۔ ہندو تنظیموں نے دعویٰ کیا کہ یہ مسجد گیارہویں صدی میں ایک مندر کو گرا کر بنائی گئی ہے۔ آگ کی لپٹیں اٹھیں پھر بجھ گئیں۔ لیکن وقفے وقفے یہ لپٹیں اٹھتی رہیں —  اور جب بھی اٹھتیں، محبت اور آپسی اتحاد کو جلا کر رکھ دیتیں۔ اجودھیا میں مسجد کی تعمیر کے کچھ برس بعد سے ہی نفرت کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا —  ۱۸۵۷ کا غدر —  لیکن یہ خونی تاریخ اس مسجد سے بھی وابسطہ تھی۔ ایک مندر کے پجاری نے مسجد کے ایک حصے پر قبضہ کر کے پوجا کا انتظام کیا۔ دو سال بعد برطانوی حکومت نے مسجد کے دالان میں ایک دیوار کھڑی کر دی۔ اس طرح پوجا کرنے والے اور نمازیوں کے الگ الگ حصے ہو گئے۔ ۱۹۳۴ء میں ہندو مسلم فساد ہوا تو بابری مسجد کی دیوار اور گنبد کا ایک  حصہ شہید ہو گیا۔ نفرت کی لپٹیں اب آسمان چھونے لگی تھیں۔ ۱۹۴۹ء میں جبراً کچھ لوگوں نے مسجد میں بھگوان رام کی مورتی نصب کر دی اور اس طرح ہندو مسلمانوں کے پیچ نفرت کی ایک نہ ختم ہونے والی فصل بودی گئی۔ ہندوستانی سیاست کے حکمراں جب سنکٹ میں گھر جاتے تو بابری مسجد کے بھوت کو سامنے لے آتے —  اب وشو ہندو پریشد اور ہندو مہا سبھا کی تحریکیں زور پکڑنے لگی تھیں۔ رام جنم بھوی کو آزاد کرانے کے لیے با ضابطہ کمیٹی بن چکی تھی۔ ملک کے حاشیے پر کتنے ہی بھگوا نیتا تھے جو آگے بڑھ کر متنازعہ مقام پر مندر بنانے کی تحریک کو ہوا دے رہے تھے۔ حلوانی ، چما بھارتی اور بچہ ٹھاکر جیسے لوگوں کے بیانات نے ملک کو بارود کے ڈھیر پر کھڑا کر دیا تھا۔ ۱۹۸۶ء میں فیض آباد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے مسجد کو ہندوؤں کے ذریعہ پوجا کے لیے کھولنے کا حکم دیا —  اور ایک بار پھر رام جنم بھومی کی آزادی کی مانگ ہندستان کے ہر گوشے سے بلند ہونے لگی۔ اب ایک مورچہ کچھ سرپھرے مسلمانوں نے بھی سنبھالا تھا۔ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی بنیاد پڑ چکی تھی۔ ایک دوسرے کے خلاف بیانات کے سلسلے تیز ہو چکے تھے۔ اجودھیا کاشی سے کوئی بہت زیادہ دور نہیں تھا۔ وہاں سے چلنے والی ہر گرم ہوا کاشی کے ماحول کو خراب کر کے رکھ دیتی۔

ارشد پاشا تاریخ کے ایوانوں کی سیر کرتے ہوئے واپس اپنی دنیا میں لوٹ آئے تھے۔

’سیاست اور مذہب دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ تم اکثر ان دونوں کو ملا دیتے ہو بدر — ‘

بدر سنجیدہ تھا —  ’مذہب میں ہمیشہ سے ایک سیاست رہتی ہے —  اسی لیے مذہب نے ہر دور میں ہونے والی جنگوں کو بھی اپنی تاریخ میں جگہ دی ہے۔ اسلامی جنگیں ہوں یا کوروں اور پانڈوں کے بیچ کا مقابلہ —  مذہب سے سیاست کو الگ نہیں ککر سکتے۔ سیاست ہمیشہ سے مذہب کا ایک مضبوط حصہ رہا ہے —

ارشد پاشا خاموش رہ جاتے —  شاید اس بدلی بدلی فضا میں بدر کی باتوں کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا —

لیکن یہ جواب انور پاشا کے یہاں موجود تھا۔ انور پاشا جنہوں نے مذہبی سیاست کی اس بھٹی میں نہ صرف آنکھیں کھولی تھیں بلکہ آج بھی وہ پاکستان کے قصیدے ہی پڑھتے تھے —  انور پاشا ایسے نوجوانوں میں شامل تھے جو اکثر غصے میں کہا کرتے —

’پاکستان الگ سے بنانے کی کیا ضرورت تھی —  ذرا عقلمندی کی ہوتی۔ سارے ہندوستان کو پاکستان بنا لیا ہوتا۔ آخر ہم نے یہاں ۷۰۰ برس حکومت کی ہے —

وہ آج بھی اسی سنہری ماضی کا حصہ تھے —  اور اسی لیے سڑکوں سے ’پولیتھن‘ جمع کیا کرتے تھے —

راشدہ ہنس کر پوچھتی —

’ان میں ماضی تلاش کرتے ہو کیا بھیّا؟‘‘

انور پاشا کو غصہ آ جاتا —  اب ہمارا ماضی اتنا گندہ بھی نہیں تھا —  حکومت کرنے والے رہے ہیں ہم … مغلوں نے عیاش نسل پیدا نہ کی ہوتی تو فرنگی کبھی ہم پر حاوی نہ ہوتے — ‘

انور پاشا کی اپنی منطق تھی —  حالات نے بہت سے نوجوانوں کی طرح اُنہیں اپنے ارادوں کا سخت بنا دیا تھا —  وہ ہندوؤں سے دوستی کو بھی صحیح نہیں سمجھتے تھے —  بلکہ اگر ماحول سازگار ہوتا تو وہ کب کا پاکستان چلے گئے ہوتے —  ان دنوں انہیں ایک نیا شغل مل گیا تھا —  پولیتھن جمع کرنے کا  —  وہ شہر بھر کے پولیتھن لیے جب گھر آتے تو بی اماں دروازے سے ہی چلاتیں —

’میاں —  پہلے واش بیسن پر ہاتھ دھونا —  جانے کہاں سے یہ بری عادت لگ گئی ہے تمہیں — ‘

’ایک دن میری یہی بری عادت پاشاؤں کو ساری دنیا میں مشہور کر دے گی — ‘

انور پاشا ہنستے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ جاتے —

٭٭

بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعہ کے سامنے آنے کے بعد شہر کے کچھ ایسے بھی بڑے لوگ تھے، جواب آگے بڑھ کر سیاست میں روٹیاں سیکنا چاہتے تھے —  یہ وہ دور تھا جب کاشی کے مسلم ہوٹلوں میں پرانی دنیا جیسے اخبارات زور زور سے پڑھے جاتے —  بلکہ اس طرح کے اخبار ہر گھر میں آتے تھے اور آتے ہی ان اخباروں میں چھپی سرخیوں کو لے کر ہنگامہ مچ جاتا تھا —  ایسے ہی لوگوں میں احمد صاحب وکیل بھی تھے۔ مدن پورا میں گھر تھا —  لیکن اب وکیل صاحب کئی دنوں سے پرانی دنیا جیسا ایک اخبار نکالنے کے بارے میں دوستوں سے مشورہ کر رہے تھے —  وہ جانتے تھے کہ اخبار نکالنا جوکھم کا کام ہے —  مگر قوم کے لیے … جیسا وہ ہمیشہ کہا کرتے —

’میاں‘ مزہ تو تب ہے جب آپ قوم کے لیے کچھ کریں …‘

’تو کیا صرف ایک اخبار نکال کر …‘

’اخبار نکالنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے میاں —  اخبار نے بڑے بڑے مورچے فتح کیے ہیں —  بڑے بڑے انقلاب کے پیچھے بھی یہ اخبار رہے ہیں — ‘

’ان سے سوال کیا جاتا — ‘ تو آپ بھی ایسا ہی کوئی مورچہ فتح کرنا چاہتے ہیں — ؟‘

احمد صاحب وکیل اس بات پر خفا ہو جاتے —  ’کیسی بچوں کی طرح باتیں کر رہے ہیں۔ ہم کیا مورچہ فتح کریں گے۔ مورچہ فتح کریں گے آپ —  اپنی قوم کو جگائیں گے —  یہ قوم بیدار ہی نہیں ہوتی — صور پھونکنا پڑتا ہے —  جگانا پڑتا ہے — ‘

احمد صاحب وکیل کی بیٹی صوفیہ ان باتوں کو نہیں مانتی تھی —  وہ نئے زمانے کی تھی —  اسے یقین تھا کہ بہت جلد یہاں آئے لوگ مسجد مندر کے ان ہنگاموں سے گھبرا جائیں گے۔ سیاست کی یہ روٹیاں مذہبی ٹھیکیداروں کے کسی کام نہ آئیں گی — ‘

کاشی کی ان پر پیچ گلیوں میں مذہب جاگ گیا تھا —  اور کتنے ہی چہرے تھے جو اس مذہب کے پس پردہ اپنی اپنی کہانیاں لکھ رہے تھے —

٭٭

 

 

(2)

کائیں … کائیں …کائیں …

چھت کی بالائی منزل سے کوّا چیخا اور ادھر سارے گھر میں آفت مچ گئی۔ بی اماں کے کانوں میں آواز جاتے ہی جیسے پورے جسم میں برقی جھٹکے دوڑ گئے۔ اطمینان کرنے کے لئے دوبارہ کان لگایا … کاؤں … کاؤں … نوج کوّا ہی ہے۔ ہائے اﷲ اب کیسی آفت … جہاں تھیں وہیں سے اپنے لحیم شحیم بدن کو لئے دھب سے کودیں اور زنان خانہ پار کرتے ہوئے برامدے میں نکل آئیں … زنان خانہ … گھر میں ’زنانی‘ ہیں ہی کتنے۔ اگر چھوئی موئی سی راشدہ کو لیا جائے تو … لیکن نوج …تاریخ پر پھٹکار برسے … مرا ہوا ہاتھی بھی بائیس پسیری … بی اماں بس بولتی جا رہی تھیں۔ بکتی جا رہی تھیں۔ ان کی طرح ہی ان کے محاورے بھی عجیب عجیب سے ہوتے … زنان خانہ پار کرتے ہوئے برامدے میں نکل آئیں بی اماں___ نوج کہاں ہے … کہاں سے آئی آواز؟ لو … اڑ گیا کم بخت۔ نصیبوں جلا … مگر اس سے کیا ہوتا ہے۔ بد شگونی تو کر گیا۔ نحوست تو پھیلا گیا … ابھی تو دن بھی پورا نہیں چڑھا ہے۔ آٹھ ہی بجے ہوں گے۔ بی اماں نے ایک لمبی اونہہ کھینچ کر آواز لگائی …

اوبسمتیا … بسمتیا … سب کہاں مر گئیں … ارشد … انور … جسے ڈھونڈھو، کوئی نہیں ملتا۔ پتہ نہیں کہاں سب مر کھب گئے۔ اس بسمتیا کو اب نکالنا ہی پڑے گا۔ رہنے کو ہاتھ پیر جوڑ کر پیچھے کی خالی کوٹھری ہتھیا لی لیکن کام کی نہ کاج کی۔ اوپر سے میاں شرابی … منع کیا تھا میاں کو … یہ ہندوؤں کا بھروسہ کیا۔ پیچھے کی کوٹھری خالی ہے تو رہنے دو۔ کرایہ دار آئیں گے تو سودوسو دے جائیں گے۔ لیکن میاں غریبوں کے ہمدرد جو ٹھہرے۔ بچہ ہے۔ میاں مارتا ہے … رہنے دونا …بس ہو گئی چھٹی … مفت میں گھر مل گیا … اب کیا ہے … کسی دن کہہ دیں گے … میرا ہی گھر ہے … نکلو میاں جی … بس باندھو سامان … چلو پاکستان … یہاں کیا دھرا ہے۔ غیر ملک … غیر ملک نہیں ہوتا تو اتنی مار کاٹ مچتی۔ وہ میرٹھ میں —  احمد آباد میں …باپ رے … رائٹ فساد کی خبریں پڑھتے پڑھتے اخباری ہی بند کروا دیا۔ چلو چھٹی۔ نہ اخبار آئے گا نہ فساد کی خبریں سنوں گی۔ اتنے مسلمان مارے گئے … نوج جی جلتا ہے … دشمنوں کو خدا غارت کرے —  ایک سے چھٹی ملی دوسری بلا آ گئی۔ ٹی وی نہ ہوا جان کا جوکھم ہو گیا۔ جب دیکھو دفتر سے آنے کے بعد میاں سیٹ سے لگے بیٹھے ہیں۔ آواز دو … اوجی کیا ہوا … اب بڑھاپے میں سٹھیا گئے ہیں۔ سنائی بھی کم پڑنے لگا ہے۔ بولو کچھ۔ جواب کچھ … میاں بولیں گے … نوج یہ پاکستان پھر جنگ کروا کے چھوڑے گا۔ تباہی تباہی …‘

بی اماں دھم سے برامدے میں نکلی ہوئی چار پائی پر بیٹھ گئیں … تھوڑا سا بسمتیاسے دھیان ہٹا نہیں کہ آ گئی الم غلم سوچ … یہ بلڈ پریشر بھی کمبخت … خدا غارت کرے دشمنوں کو … سب مرض اس بڑھاپے میں ہی ہونا ہے … ارے کہاں گئی بسمتیا —  کہتی تھی … اماں گھبرائیے نہیں۔ سب کام کر دیں گے … اب دیکھو … آواز دو تو سنتی نہیں ہے …او بسمتیا …

’جی اماں …‘

اندر کے کسی گوشے سے ایک زنانی آواز تیر کی طرح بی اماں کے کانوں کو چیرتی چلی گئی … اُف … آج کل کی لونڈیاں کھاتی کتنا ہیں … آواز تو دیکھو … اتنی تیز کہ بم کا گولہ ہو گیا … اب یہی لو … بسمتیا کی بچی آہستہ سے بھی تو کہہ سکتی تھی … کہ جی اماں … پتہ نہیں کیا ہونے والا ہے … دل دھک دھک کر رہا ہے … صبح ہی صبح کوّا اپنی منحوس آواز سے دل دھڑکا گیا کمبخت … اب دیکھو … آنے میں اتنی دیری …

’بات کیا ہے اماں …‘ آنچل سے سینے کو ڈھکتی ہوئی بی اماں نے شعلہ بار نگاہوں سے بسمتیا کو دیکھا …

’’کہاں تھی …؟‘‘

’’باورچی خانے میں اماں‘‘

’’کیا کر رہی تھی؟‘‘

’’پیاز چھیل رہی تھی اماّں اور کیا … اب یہی پوچھنے کو بلایا ہے …‘‘ بسمتیا جی جان سے جل گئی تھی …

’’نہیں۔ بہت بڑ بڑ کرنے لگی ہے۔‘‘ بی اماں خفا ہو گئی تھیں …’’خیر! تو نے آواز سنی یا نہیں …بول …؟‘‘

’’آواز …؟‘‘

’’ہاں … کائیں …کائیں …‘‘

یہ کیا کہہ رہی ہو اماں …‘‘

’’بدھو لڑکی … تو کہتی ہے کہ باورچی خانے میں تھی اور پیاز چھیل رہی تھی —  مگر تو نے کوّے کے کائیں کائیں کرنے کی آواز نہیں سنی …؟‘‘

’’سنی ہو گی‘‘ … بسمتیا نے دل رکھنے کو کہہ دیا۔

’’سنی ہو گی۔ کیا مطلب ۔ ہائے اﷲ کیسی پاگل خبطی لڑکی سے سابقہ پڑا ہے اور تو چپ بیٹھی رہی … جانتی ہے دن کیا ہے … جمعہ … جمعہ کے روز کوّا بولتا ہے تو کیا ہوتا ہے … وہ بھی صبح صبح … ہائے اﷲ میرا تو دل ڈر رہا ہے …‘‘

’’اب اماں۔ آپ بھی ذرا  ذرا سی بات کو لے کر پریشان ہو جاتی ہیں۔‘‘

’’تو نے کسی کو جگایا نہیں؟ کوّے کی آواز سن کر بھی‘‘___ بی اماں کی آنکھوں میں تشویش تھی … جیسے شک ہو … تو کیوں جگائے گی … مان لو … یہ کوّا ہندوستان پاکستان میں جنگ کی بُری خبر لایا ہو … مارے تو جائیں گے بے چارے مسلمان۔ اتنا سا ملک ٹھہرا بے چارا پاکستان … خیر … بی اماں نے ٹھنڈی سانس بھری … جا … میرا دل ڈر رہا ہے … سب کو جا کر جگا دے …‘‘

’’اماں۔ آپ بھی کمال کرتی ہیں … اب اتنی سی بات پر کس کو جگاؤں میں۔ سارے سوئے پڑے ہیں …‘‘

’’سوئے پڑے ہیں سے کیا مطلب … موئے ارشد کو … رشدو کو … انور کو … اﷲ رکھے انور کے ابا کو … اور کس کو … باؤلی ہو گئی ہے تو۔ کوّا بد شگونی کی نشانی ہے … ہائے اﷲ میرا تو دل دھڑکا جا رہا ہے … اور ہاں … تیرا شرابی مرد کدھر ہے۔‘‘

’’وہ …‘‘ بسمتیا کے ہونٹوں پر نفرت سی پھیل گئی۔ ’’سویا پڑا ہے۔‘‘

’’بچہ کو تو اُٹھا لے کمبخت … زمین میں چھوڑ دیتی ہے … اتنی صبح ہو گئی … دودھ پلا دیا …؟‘‘ بی اماں اچانک رحم دل ہو اُٹھی تھیں …

’’ہاں اماں‘‘

’’ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے … ہاں جا۔ ایک نظر بچہ پر ڈالتی جا۔ پگلی۔ بچے کو زمین پر ایسے چھوڑ دیتے ہیں …؟جیسے جیو جانور ہوں … اور ہاں جا اپنے شرابی مرد کو بھی آواز لگا دینا …اٹھ جائے تو کمبخت کو کمر کا درد نکالنے سے فرصت نہیں … ہزار بار کہا ہے۔ کمبخت پیٹھ اکڑا کر مت چلا کر … نحوست پھیلتی ہے اس سے۔ مگر کیا سروکار … مانتا ہی نہیں … انور کے ابا اس دن پسیجتے نہیں تو کم بخت شرابی کو گھر میں قدم رکھنے نہیں دیتی۔ چھی چھی … مسلمان کے گھر میں شرابی … اے بسمتیا … سن …اپنے مرد کو بول دینا کہ شراب پی کر آیا تو سارا سامان باہر —  یہاں رہنے نہیں دوں گی سمجھا …‘‘

’’اب کی معاف کر دو اماں۔ سمجھادوں گی‘‘

’’ہوں۔ سمجھادوں گی۔ جیسے مان جائے گا … وہ …جا جا …آواز لگا اسے …‘‘

’’اچھا اماں۔‘‘

بسمتیا بُرا سامنہ بناتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ بی اماں نے تیز تیز چلتی ہوئی سانسوں پر قابو پایا … ان کی بک بک کم نہیں ہوئی تھی۔ وہ اب بھی بڑبڑائے جا رہی تھیں … بُرا وقت ہے۔ زمانہ ہی خراب آ گیا ہے … کوئی کسی کی سنتا نہیں … جب پڑے گی تب جانیں گے … اب انہیں کون سمجھائے کہ اسی لئے راج پاٹ سب چوپٹ ہو گیا … سلطنت تباہ ہو گئی … لو جی … اب اتنا کسے پتہ نہیں کہ واجد علی شاہ کا ہے مارے گئے … نوج جوتا نہیں ہوا کہ آ کر وزیر پہنائے تب باہر نکلیں گے۔ اس قوم کا کیا ہو گا … اتنی اتنی دیر سوتے رہیں گے تو؟ اور تو اور … نہ کہیں دیکھا پڑھا نہ سنا … مسلمان کے گھر میں ہندو شرابی … بھائی … یہ بھی کیسی ہمدردی … کسی نے دکھ کے چار بول بولے اور کہہ دیا … آ بیل مجھے مار … آ جاؤ … تمہارا ہی گھر ہے … رہ جاؤ … اسی میں تو چوپٹ ہوئے مسلمان … آج نہ دھان ہے نہ پسیری۔ جب بادشاہت تھی تو نوج دماغ خراب تھا … کافروں کو جاگیریں بخش دیں۔ خوش ہوکے کھیت بدھار زمینیں سونپ دیں … لو … نیلام ہو گیا ناسب … اب بیچو دھان بائیس پسیری … نہ رہے گا راجہ بھوج نہ آئے گا گنگوا تیلی … یہ بسمتیا … کمبخت … اب تک ایک بار بھی بچے کے رونے کی آواز نہیں آئی ہے … بیمار ہے کیا … بی اماں کا دل دھک سے کرتا ہے … سانس کا مرض … ایک بار چارپائی پر دھب سے بیٹھ جاؤ تو اٹھنے میں وقت لگتا ہے … اور رموا … او  رموا … کہاں ہے رے … صبح صبح کوّا کائیں کائیں کر گیا اور سویا پڑا ہے … کمبخت … بچے کا بھی ذرا خیال نہیں … پیئے گا تو رکشہ کیا چلائے گا رے …

’’جی ملکن۔‘‘

رامو ہڑبڑا کر باہر نکل آیا تھا۔

’کہا ں تھا اب تک؟‘

’جی‘

’کل زیادہ پی لی تھی کیا؟‘

’نہیں مالکن‘

’تجھے ہزار بار کہا ہے۔ رہنا ہے تو ٹھیک طرح سے رہ۔ مسلمان کے گھر میں شراب کا ایک قطرہ گرنا بھی گناہ ہے۔ کل سے تو شراب نہیں پئے گا۔ سنا … اور ہاں … تو نے آواز سنی‘

’آواز … کاہے کی مالکن؟‘ رامو اچانک ڈر گیا تھا …

’ارے کوے کی …‘

’کوے کی … دھت …‘

کالے اور ٹیڑھے میڑھے نقشے والے، رامو کے چہرے پر بڑی عجیب سی مسکان ابھر آئی —  ’مالکن آپ بھی مذاق کرو ہو۔‘

’مذاق نہیں رے …‘

بی اماں کو غصہ آ گیا تھا … تو نے سنا نہیں … اب لو۔ بڑے میاں سے پوچھو تو جانتے ہو کیا ہیں گے … کیا؟لڑاکو ہوائی جہاز تو نہیں تھا؟ پاکستان سے پھر جنگ تو نہیں شروع ہو گئی؟ یہاں کے سب لوگ ہی افیم کھائے رہتے ہیں … ہاں تو … تو کر کیا رہا تھا۔ رکشہ چلانے کا ٹائم ہو گیا۔‘‘

’’نہیں مالکن … اب نکلوں گا …‘

’ہاں دیکھ۔ بچے کا خیال رکھنا … اور باہر جو تھوڑے سے پودے ہیں ان کو پانی پٹا دینا … ہاں سچ بتانا۔ تو نے واقعی کوے کی آواز نہیں سنی۔‘

’نہیں مالکن … صبح سے کتنے ہی کوے کاؤں کاؤں کرتے جاچکے ہیں … لگتا ہے کوئی آوے گا …‘

’نہیں رے … اچھا بتا کالیا بہت سارے کوے تھے‘ بی اماں نے آدھی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا …

’ہاں۔بہت سارے کوے — ‘

’ اور تو کان میں روئی ڈالے بیٹھا تھا۔‘

’لو اور سنو … اور کیا کرتا مالکن۔‘

’صبح صبح کو ابو لے تو بد شگونی ہوتی ہے … سمجھا … اچھا انور کہاں ہیں۔ دیکھا ہے؟‘

’دیکھا ہے کیا مالکن‘ —  رامو ٹھٹھا کر ہنس پڑا۔

’تو ہنسا کیوں؟‘

’جس وقت میں اٹھا وہ اُسی وقت باہر کی کواڑ کھول کر چل دیئے …‘

’کہاں؟‘

’کہاں …ارے وہی … پولیتھن جمع کرنے کو___ صبح کا ٹیم ہے۔ لوگ کوڑے پھینکتے ہیں … وہاں بھی اچھا سا پولیتھن مل سکتا ہے … ہم کو مالومے نہیں تھا اس چمکی کا نام مالکن۔ ہم تو چمکئی کہتے رہیں۔ انور بوّا بتائن کہ ای پولیتھن ہے …‘

رامو ایک بار پھر ہنسا۔

’’خبطی کہیں کا … پولیتھن جمع کرے گا … وہ کیا ہے کم بخت کتاب کا نام … ہاں بی اماں نے ذہن پر تھوڑا زور ڈالا …

اس سے پہلے ہی آواز آئی …’تمہیں یاد نہیں آئے گا بیگم۔ کبھی پڑھی ہے انگریزی …‘

’تھو تھو … میں کیوں پڑھتی بھلا فرنگیوں کی زبان۔‘

’فرنگی چلے گئے مگر زبان تو ورثے میں چھوڑ گئے۔ آج جو نہ پڑھے وہ جاہل۔ جو پڑھے وہی قابل … ہاں تو بیگم اس کتاب کا نام ہے گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ …‘

بڑے میاں نے ’وہ مارا‘ کا توپ چھوڑتے ہوئے کہا۔

بی اماں شرمندہ سی ہو گئی تھیں … ہاں ہاں … جیسے تم ہی جانتے ہو …‘ ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ میاں انور بھی ہاتھوں میں کئی ’گندے‘، ’چھنڈے‘ پولیتھن پکڑے چلے آئے۔ آدھی بات اُن کے کان میں بھی پڑچکی تھی اور اُن کا سینہ فخر سے پھول گیا تھا۔ وہ اکڑ کر بولے …

’تم دیکھ لینا اماں۔ ایک دن میرا نام بھی گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں چھپے گا۔ دنیا کا ،سب سے زیادہ پولیتھن کا جمع کرنے والا۔ انور پاشا۔ باپ کا نام …‘‘

’جاؤ … جاؤ … یہ الٹا پاٹھ اماں کو ہی پڑھانا۔ گنیز بک میں باپ کا نام نہیں چھپتا۔‘ یہ راشدہ تھی جو بی اماں کا شور سنتے ہی اچانک سیڑھیوں سے نیچے دالان خانے میں نازل ہو گئی تھی …

’کیوں نہیں چھپتا___ باپ کا نام۔ ماں کا نام بھی چھپنا چاہئے۔ وہی تو پیدا کرتی ہے۔‘ بی اماں نے اپنی منطق پیش کی۔

’بس نہیں چھپتا۔ اب اظہر الدین کے ابا میاں کو کون جانتا ہے … ‘راشدہ ہنسی …

انور میاں نے پھر پٹکا دیا۔ اماں میری آدھی ریک بھر چکی ہے … پولیتھن سے — ‘

’پھر ایک دن پورا گھر بھر جائے گا۔‘ راشدہ نے مذاق اڑایا۔ پھر گھر میں پولیتھن اور باہر ہم … کیوں اماں … کیسا رہے گا تب …‘

’جا … ماروں گا …‘ انور پاشا نے غصّے سے مارنے کو ہاتھ اٹھایا۔

’یہ کیا خبط ہے انور — ، بی اماں کو غصّہ آ گیا تھا … نوج … اب کیسی کیسی کتابیں بننے لگی ہیں … میں تو کہتی ہوں یہ سب قیامت کی نشانی ہے۔ اب تو ایسی ایسی گندی گندی چیزیں کوڑے کے ڈھیر سے اٹھا اٹھا کر گھر میں رکھتا رہے گا تو ہیضہ نہیں پھیلے گا تو اور کیا ہو گا …‘

’یہی تو کمال ہے اماں۔ تاکہ انہیں میری محنت اور مشقت کا بھی اندازہ لگے کہ میں، میاں انور پاشا نے کہاں کہاں سے جمع کئے ہیں۔ تبھی تو چھپتے ہیں گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام …‘

’اچھا بتا نام چھپ گیا تو کیا ہو گا …؟‘

’تم سب کا نام اونچا ہو گا اماں۔‘

انور پاشا قہقہہ لگاتے ہوئے اوپر کی سیڑھیاں چڑھتے چلے گئے۔

’ہائے اﷲ۔اس گھر میں کیسے کیسے بچے بستے ہیں۔ اب دیکھو، ذرا ٹھیک سے بات بھی نہیں کی اور اوپر بھاگ گیا۔ اب کیسے سب کو کہوں کہ کوّا بولا ہے۔ ضرور آفت آئے گی —  مگر کوئی سنتا ہے …اچھا رامو تو جا۔ تیرا ٹیم ہو گیا۔ بسمتیا تو جا۔ ارشد میاں کو جگانا۔ اِتا اِتا دن چڑھ آیا۔ سوتے رہیں گے۔ جوان آدمی۔ صحت کیا رہے گی۔ کیسا پیلا پڑ گیا ہے۔ تو جا اٹھا دے اُسے‘

’جی اماں‘

’’بیگم تم خواہ مخواہ … پورا گھر سرپر اٹھا لیتی ہو۔‘‘ بڑے میاں نے ایک قہقہہ بلند کیا۔ اب کوّا کے آنے پر بھی ٹیکس لگاؤ گی۔‘‘

’نوج تم کو اس بڑھاپے میں مذاق سوجھ رہا ہے۔ کیسا کالا کالا ہوتا ہے موا … صورت سے ہی منحوس لگتا ہے۔‘

’گویا تمہیں صرف رنگ پر اعتراض ہے۔ اگر سفید ہوتا تو؟‘

’سفید کیوں ہونے لگا۔‘ بی اماں کا پارہ چڑھنے لگا تھا۔

’ہوتا ہے اماں۔ امریکہ میں کوے سفید ہی ہوتے ہیں۔ اب دیکھ لو بھلا وہاں کے لوگوں کو تو یہ منحوس نہیں لگتا۔‘ راشدہ نے بھی اپنی پٹاری کھولی۔

ارشد میاں کے کانوں میں بھی صبح صبح کوّا کے چیخنے کی بھنک مل چکی تھی۔ایک تو رات بھر مچھروں نے اپنا بے سُراگیت سناسنا کر پریشان کیا اور صبح صبح اماں نے ایک نیا راگ الاپنا شروع کر دیا۔

جماہی لیتے ہوئے بولے۔ ’اب بولو گی بھی اماں کیوں بلایا ہے۔ اب سب کو جمع کیا ہے تو کوئی خاص بات بھی ہو گی۔ کیوں ہے یہ میٹنگ؟

راشدہ کی طرف شرارتی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے ارشد  میاں بولے۔

’گنبد پر کوّا بیٹھ گیا تھا۔‘

’اب بولوں کیا۔ بس کوّا بولا تو مجھے سب کی فکر ہونے لگی۔ جب تک آنکھ سے دیکھ نہ لوں چین نہیں پڑتا۔ ہاں تو میں کہہ رہی تھی۔ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے۔ اس گھر پر نحوست کا سایہ پڑنے والا ہے …‘

ارشد پاشا نے پھر ایک لمبی جماہی لی —  ’یعنی آج کا اجلاس بلائے جانے کا نیک مقصد ہے کہ صبح ہی صبح کوّے کو آکر اس گھر میں نہیں بولنا چاہئے۔‘

’وہ بھی اماں کے رہتے ہوئے۔‘ راشدہ نے بھی چٹکی لی۔

’لو سمجھداری کی بات کرو ایک تو سنودو۔ بس مل گیا تم لوگوں کو مذاق کا پہلو۔ ان بچوں سے تو خدا سمجھے۔‘

بڑے میاں نے بچوں کو ٹوکا … ’میاں یہ ہر بات کو مذاق میں لینا کوئی اچھی عادت نہیں ہے۔ کوّا آیا یعنی کوئی آنے والا ہے۔ صاف بات ہے …‘

’لو … آنے والا … اب کون آئے گا یہاں اور کیوں آنے لگا بھلا۔ نوج مہمان نہ ہوئے شیطان ہو گئے۔ جب جی سمایا آ دھمکے … میں تو یہ بولی کہ کوّا بد شگونی کی نشانی ہے۔ صبح صبح کوّا بولے اس کا مطلب ضرور کوئی خاص بات ہو گی۔‘

بات ہو گئی‘ … انور پاشا دھم سے سیڑھیوں سے کودے۔ چہرہ تر و تازہ اور شاداب لگ رہا تھا — اماں میری کتابوں کی دوسری ریک بھی پولیتھن سے بھر گئی … بس بننے ہی والا ہے میرا ورلڈ ریکارڈ …‘

وہ مسکرائے۔ فاتح کی نظروں سے سب کو دیکھا اور اکڑتے ہوئے یہ جا وہ جا___ پلک جھپکتے دروازے سے باہر …

’’پاگل — ‘‘ بڑے میاں بڑبڑائے۔ یہ لڑکا بھی نالائق نکل گیا۔ باہر جا کر پولیتھن اکٹھا کرے گا۔ کیسے نرالے کھیل ہیں اس کے …‘‘

راشدہ اکتائی ہوئی بولی۔ ہم بھی چلے … یہ صبح ہی صبح ایک نیا کھیل شروع ہو گیا گھر میں … آپ بھی کمال ہیں اماں۔ کوّا بولا نہیں کہ پریشان … بلی دیکھی نہیں کہ ڈریں … گھر میں کتا آ گیا تو فکر مند … ایسے نہیں چلتا اماں‘‘

’’کیسے نہیں چلتا‘‘۔ اس بار بڑے میاں نے راشدہ کو آنکھیں دکھائی تھیں … مانا تم نئے زمانے کے ہو بچو … مگر یاد رکھو پرانی روایتوں کی بھی اپنی ایک سچائی ہوا کرتی ہے۔ کسی نے دیکھا سنا، تبھی تو اس طرح کی روایت آج بھی جاری ہے …‘‘

ارشد میاں بھولی صورت بنائے ہوئے بولے … ’’اماں۔ آج میرے ساتھ صبح ہی صبح ایک انوکھی بات ہو گئی___  میں بستر پر لیٹا تھا کہ ایک گرگٹ ٹھیک میرے سینے پر گرا …‘‘

’’ہائے اﷲ گرگٹ۔ لو سنو۔ ارشد میاں کی بھی … تم خیریت سے تو ہونا … میرا مطلب کہ … کچھ ہوا تو نہیں … اب بتاؤ صبح ہی صبح کوا چیخا اور ارشد میاں کے سینے پر گرگٹ گرا۔ وہ تو اچھا ہوا سانپ وغیرہ نہیں تھا … ذرا سوچو اگر کوئی بھاری چیز ہوتی تو …‘‘

بی اماں کی باتوں میں دم تھا۔ بڑے میاں سوچ میں پڑ گئے تھے۔

’’تو اب حکم یہ ہے …‘‘ ارشد میاں معصومیت کی گٹھری بنے بولے … ’’کہ کل سے کوّے کو صبح صبح اس گھر میں نہیں آنا چاہئے … میرے خیال میں باہر بورڈ لگانا کیسا رہے گا … کسی بھی جانور، چرند پرند یا آدمی کو گھر میں داخل ہونے سے قبل پرمیشن لینا ضروری ہے …‘‘

’’مذاق نہیں بچے۔‘‘ بڑے میاں اچانک کچھ سوچ کرسنجیدہ ہو گئے تھے … پتہ نہیں کیا ہونے والا ہے … تم دیکھ لینا بیگم یہ پاکستان جنگ کروا کے چھوڑے گا۔ اب بھلا کشمیر کے آتنک وادیوں کو ہتھیار سپلائی کریں گے تو یہاں والوں کو بُرا تو لگے گا ہی … مجھے تو لگتا ہے کہ جنگ کی ساری تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں …‘‘

’’متی ماری گئی ہے تمہاری …‘‘ بی اماں کو غصّہ آ گیا تھا۔ اسی لئے کہتی ہوں ہر وقت ٹی وی کے آگے مت بیٹھا کرو۔ بات کوئی بھی ہولے آؤ گے اپنا پاکستان۔ ارے کوئی جنگ ونگ نہیں ہو گی۔ بس کوّا صبح صبح آ کر  بد شگونی پھیلا گیا … تم لوگ اپنا اپنا خیال رکھو۔ یہی کہنا ہے۔ زمانہ اچھا نہیں۔ کب کیا ہو جائے …‘‘

’’آپ سے تو خدا سمجھے اماں …‘‘ ارشد پاشا دل ہی دل میں بڑبڑائے … اب لو صبح صبح کوّے میاں کے بولنے پر بھی پابندی لگ گئی اور ٹرٹراؤ کوّے میاں۔ کوئی اور گھر نہیں ملا پریشان کرنے کو … چلے آئے بے چارے اتاترک کمال پاشا کے شاہی خاندان کو چھیڑنے کے لئے۔ اب لیجئے فرمان جاری ہو گیا نا … بغیر پرمیشن کے آپ یہاں کائیں کائیں نہیں ککر سکتے …‘‘

نشست برخاست ہو چکی تھی۔ بڑے میاں آہستہ سے بولے … اب چلو بھی … مجھے دفتر بھی جانا ہے …‘‘

بی اماں اپنے ’’لشتم پشتم‘‘ بدن کو سنبھالتے ہوئے چارپائی سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ ٹھیک اُسی وقت اوسارے کے پاس والی چھت سے آواز آئی …

کائیں … کائیں …

اور ایک کوّا اڑان بھرتا ہوا تیزی سے، سب کی آنکھوں کے آگے سے گزر گیا۔ بی اماں اپنی جگہ پتھر کی مورت میں تبدیل ہو گئیں۔ غصّے کے مارے لال پیلی … کمبخت منحوس —  میں نہ کہتی تھی، اس گھر پر نحوست کے قدم پڑنے والے ہیں … خدا خیر کرے …‘‘

ارشد میاں کی ہنسی نکل گئی۔ وہ اپنی ہنسی کو دبائے ہوئے تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔

٭٭

 

 

(3)

راشدہ کو بی اماں کی باتیں پسند نہیں آئی تھیں —  اسے گھر کا ماحول ہی پسند نہیں تھا۔ جب دیکھو تب گھبرائے ہوئے لوگ —  ابّا تو بس پرانی یادوں کے غلام تھے —  کاشی کے گلی کوچوں سے ابّا کو ڈر لگتا تھا —  لیکن انور پاشا ابّا حضور تغلق پاشا کے خیالوں سے مختلف۔ وہ ہمیشہ غصے میں رہتے تھے، اس وقت بھی وہ راشدہ کے پیچھے پیچھے اس کے کمرے میں آ گئے۔

’’اس گھر میں کسی کا بھلا نہیں ہوسکتا — ‘‘

راشدہ نے برا سا منہ بنایا —  ’اب یہ بھلائی کی بات کہاں سے آ گئی — ‘

’کوئی ہمارا بھلا چاہتا ہی نہیں۔ اس گھر میں ہر آدمی اپنے بارے میں سوچتا ہے اور بی اماں تو غضب کرتی ہیں۔ اب ذرا ذرا اسی بات پر بی اماں کا سارا گھر سر پہ اٹھا لینا برا لگتا ہے —  اور ابّا حضور تو ایسے ڈرتے ہیں جیسے قدم قدم پر ہمارے لیے خطرہ ہو —  آنے میں دیر ہو گئی تو یہاں سب کی جان سوکھ جاتی ہے کہ بیٹے کو کسی نے مار نہ دیا ہو۔ ارے ہم کوئی کم ہیں۔ اتنا ہی ڈر تھا تو پھر پاکستان کیوں نہیں چلے گئے —  یہاں غیروں میں رہنے کے لیے کس نے کہا تھا — ‘‘

راشدہ نے غصے سے منہ بنایا —  ‘ بس یہی باتیں ہمیں دوسروں سے الگ کرتی ہیں۔ آپ وہی سوچتے ہیں جو ایک تنگ دل ہندو سوچتا ہے۔ اس لیے آگ نہیں بجھتی۔ ارے ہم میل ملاپ سے بھی تو رہ سکتے ہیں۔ اور جب ایک ملک میں رہنا ہے تو ہم ان کے لیے غیریت اور نفرت بھرے لفظ استعمال ہی کیوں کرتے ہیں؟‘‘

انور پاشا کو غصہ آ گیا تھا —  ’’تم جیسے اس ملک میں رہتی ہی نہیں ہو راشدہ۔ اس وقت اس ملک کی صورتحال کیا ہے۔ سارا ملک بارود کے نشانے پر ہے —  مسلمان تو پہلے ہی مجبور اور بے بس تھے۔ اب اُنہیں اپاہج اور لاچار بنانے کی کوشش ہو رہی ہے — اور یہاں کاشی کے ان گلی کوچوں میں نفرت کا زہر بھرا جا رہا ہے‘‘

’بھیا یہ سب تمہارا وہم ہے —  چند لوگ برے ہو جائیں تو پورا ملک برا نہیں ہو جاتا —  ہم یہاں اب بھی محفوظ اس لیے ہیں کہ یہاں ایک بڑا طبقہ اچھے لوگوں کا بھی ہے —  اور یہ طبقہ ہمیشہ سے ہے، اور یہ طبقہ ہمیشہ مسلمانوں کے لیے مضبوط سہارا بن کر سامنے آ جاتا ہے۔ رہی بنارس کی بات تو تاریخ میں نے بھی پڑھی ہے بھیا —  یہاں ۱۰۱۹ء تک محمود غزنوی کا حملہ ہوچکا تھا —  ۱۱۹۴ میں یہاں قطب الدین ایبک نے حملہ کیا —  مسلمانوں نے حملے کے علاوہ جانا ہی کیا۔ ایک مدت تک یہاں مسلمانوں کی حکومت رہی۔ مندروں کو توڑا گیا۔ ہنمان پھاٹک کے پاس اڑھائی کنگورے کی مسجد بنی —  کچھ اور مسجدیں بھی اسی عہد کی ہیں۔ جون پور کے لال دروازہ مسجد میں آج بھی سنسکرت کا شیلا لیکھ موجود ہے۔ نفرت تو ایک دن جنم لیتی ہی ہے بھیّا —

انور پاشا غصے میں دہاڑے — ’ یہ بس ان کی تاریخ ہے —  یہ حکومت کرنا نہیں جانتے تھے تو اس میں مسلمانوں کی کیا غلطی؟ ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد کے بعد یہاں کی صورتحال بالکل بدل چکی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ شہر گھاٹوں، مندروں اور نفرت کا شہر بن گیا —  لیکن ہم ان کی نفرتیں کیوں برداشت کریں؟ سچ پوچھو تو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا —

’برداشت نہیں ہوتا … تو پاکستان چلے جاؤ —  وہاں بھی ہائے توبہ مچی ہے — ‘‘

ارشد پاشا کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولے —

’’تو آپ ہماری باتیں سن  رہے تھے — ‘‘

انور پاشا نے غصہ سے ارشد پاشا کو دیکھا —

’’ہاں —  سوچ رہا تھا تم نے اپنے اندر کتنی نفرتیں جمع کر لی ہیں۔ اگر ایک نفرت وہاں بھی ہے تو تم میں اور ان لوگوں میں فرق ہی کیا ہے؟‘‘

راشدہ مسکرائی —  ’’ بھیّا ٹھیک کہتے ہیں —  یہ وقت ہوش کھونے کا نہیں ہے —  ہم بھی ہوش کھو دیں گے تو مسائل اور بڑھ جائیں گے — ‘‘

کمرے کے باہر سے ابھی بھی بی اماں کے چلّانے کی آواز آ رہی تھی۔

’’ارے بسمتیا کہاں مر گئی —  تیرا شرابی شوہر کہاں ہے۔ رکشہ چلانے نہیں گیا  —  اس سے کچھ سامان منگوانے ہیں اسٹور سے — ‘‘

ارشد پاشا گہری سوچ میں ڈوبے تھے —  ’’فضا اچھی نہیں ہے —  ادھر پاکستان نے کشمیر کا راگ الاپنا شروع کر دیا ہے۔ ڈونڈا میں بم دھماکے ہوئے اور ادھر بابری مسجد —  اللہ خیر کرے —  یہ معاملہ جب بھی اٹھتا ہے ملک میں آگ لگ جاتی ہے — ‘‘

انور پاشا کی طرف دیکھتے ہوئے وہ باہر نکل گئے۔

انور پاشا نے گھوم کر راشدہ کو دیکھا —  بھیّا کی سنا۔ یہ لوگ انٹلکچول بنتے ہیں۔ ہیں نہیں —  بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج کے زیادہ تر مسلم نوجوان اسی سیکولرزم کے لبادے کو پہن کر انٹلکچول بننے کا ناٹک کر رہے ہیں — ‘‘ انور پاشا ہنسے —  ’’ذرا سی فضا خراب ہو جائے تو ان کی دانشوری کی ہوا نکل جاتی ہے — ‘‘

راشدہ خاموش تھی۔ انور پاشا اپنے کمرے میں لوٹ گئے تھے۔ راشدہ کو اپنے چاروں طرف اندھیرا نظر آ رہا تھا۔ اس گھر میں اس کا مستقبل کیا ہے؟ یا اس ملک میں کسی بھی مسلمان لڑکی کا مستقبل کیا ہے؟ پڑھائی  — پھر کسی گھرکی گھونٹ سے باندھ دیا جانا اور ساری زندگی ایک گھریلو عورت کی طرح جینا۔‘‘

اس کی آنکھوں میں ننھے ننھے آنسو تیر رہے تھے۔ لیکن ان آنسوؤں کو دیکھنے والا کوئی نہیں تھا —

٭٭

 

 

(4)

بڑے میاں، بڑے میاں بس گھر پر تھے۔ آفس میں تو بڑے بابو تھے۔ ہیڈ کلرک … سب کے بڑے بابو … نئے ہوں یا پرانے … بڑے بابو ذرا وہ فائل دیکھ دینا … بڑے بابو ذرا یہ کام دیکھ لیجئے۔ بڑے بابو! وہ کام ہو گیا___ پتلا دبلا جسم۔قد لگ بھگ چھ فٹ … سخت انگلیاں … تجربہ کار آنکھیں۔ آنکھوں پر جھولتی ہوئی موٹے شیشے والی عینک … جہاں بیٹھتے تھے وہاں فائلوں کے ڈھیر لگے ہوتے … گول گول آنکھیں فائل پر تیر رہی ہوتیں … کتنا وقت گزر گیا … شاید ایک لمبا عرصہ ایس ڈی او آفس کی کلرکی کی نذر ہو گیا … کام کرتے کرتے جھنجھلائے سے بڑے میاں اپنے خاندانی وقار اور منصب کا راگ الاپتے رہتے ہیں …

’’مہتہ … پتہ نہیں کس بُرے لمحے نے ایس ڈی او آفس میں ڈال دیا۔ اﷲ رکھے کیا نہیں تھا اپنے پاس … اتاترک کمال پاشا کے شاہی خاندان سے تعلق ہے ہمارا …‘

ٹھنڈی سانس کھینچتے ہیں بڑے میاں …’’کبھی ہمارا بھی زمانہ تھا مہتہ … وہ جو کہتے ہیں کہ دھن گیا تو نوکر بھی گئے … سو سب کچھ ختم ہو گیا … پرکھوں نے جو عیش کئے تو کئے، خوش ہو کر ساری جاگیریں کافروں میں بانٹ دیں … کون کہہ سکتا تھا کہ پاشا خاندان کے وارثوں کو کبھی یہ دن بھی دیکھنا نصیب ہو گا … پھر قسمت کا لکھا اس آفس میں لے آیا …‘‘

’’وہ تو اچھا ہوا بڑے بابو، آپ تھوڑا پڑھ لکھ گئے۔ ورنہ اس کلرکی سے بھی جاتے رہتے …‘‘

پڑوس والی میز سے مہتہ کی آواز بلند ہوتی اور پورے کمرے میں زور سے ٹھہاکے کی آواز گونج جاتی۔

قلم روک کر فائل سے نظر اٹھا کر نرمل بھی ایک نظر بڑے بابو پر ڈالتا___ ’’کیوں تاریخ کے گڑے مردے اکھاڑتے ہو بڑے بابو۔ جو نہیں ہے اُس کا غم ہی کیا کرنا۔ اب دھن نہیں ہے تو پھر کیسا ہاتھی اور کیا ہاتھی کا خریدنا۔ تمہارے پاس تو اور کوئی کہانی ہی نہیں ہے … خالی ہوئے نہیں کہ شروع ہو گئے …‘‘

بڑے بابو کے بدن میں جیسے آگ لگ جاتی … ’’شکر کرو کہ ایک لمبی مدت تک مسلمان بادشاہوں کی حکومت ملی ہے میاں کہ تھوڑے بہت اخلاق سے واقف ہو۔ ورنہ یہ سرمایہ بھی تمہارے پاس نہیں ہوتا …‘‘

غصّہ آنے پر بڑے میاں یہی راگ الاپا کرتے تھے۔ مگر ان کے ساتھ کام کرنے والے کبھی بھی بڑے بابو کی ان باتوں پر بگڑتے نہیں تھے۔ بلکہ مزہ لیتے تھے۔ اب نرمل نے جو یہ بات سنی تو مسکرائے بغیر نہیں رہ سکا۔

’’ٹھیک کہتے ہو بڑے میاں … اب تلوار کے زور پر حکومت تو رہی نہیں کہ اسلام کا بول بالا ہو اور اخلاق کا پاٹھ پڑھایا جا سکے۔نہ نادر شاہ نہ تیمور لنگ … اب جب تم اخلاق سکھاؤ گے تو سیکھیں گے …‘‘

بڑے میاں غصّہ سے جل اٹھتے … جیسے نرمل نے سیدھے ان کی شہ رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہو … تاؤ کھا کر بولے … ’’اب تم اور کہو گے بھی کیا، سٹھیانی بلی کھمبا نوچے … میاں جان لو … اسلام ہمیشہ حق کی آواز پر پھیلا ہے … یہ تمہارے نصاب کا جھوٹ ہے جو پچپن سے تمہیں  گھول گھول کر پلایا جاتا رہا ہے کہ مسلمان بادشاہ ایسے رہے ویسے رہے … تلوار کے زور پر اسلام کو پھیلایا‘‘۔

بڑے میاں کو پتہ نہیں کہاں سے اچانک اورنگ زیب کی یاد آ جاتی۔ پھر لہک کر شعر پڑھتے___

تمہیں لے دے کے ساری داستاں میں یاد ہے اتنا

کہ اورنگ زیب ہندو کش تھا، ظالم تھا، ستمگر تھا

’’میاں ،باپ داداؤں کی جو تاریخ ہے اسے یوں بدلنا چاہو تو بدلے گی تو نہیں۔ اب جو تم لوگ تاریخ کی کتابوں میں جھوٹ جھوٹ لکھ لکھ کر بچوں کی برین واشنگ کرنے پر تلے ہو تو اس میں وقت لگے گا بچو۔ کافی وقت۔ اب لاکھ بتاؤ کہ مکہ معظمہ میں میکسکا کا مندر ہے۔ قطب مینار اشوک کی لاٹ اور تاج محل  … میاں جان لو جو سچ ہے وہ سچ رہے گا اور ایک دن … ہاں کان کھول کر سن لو —  سب کو اسلام کے جھنڈے تلے آنا پڑے گا …‘‘

بولتے بولتے بڑے میاں کی سانسیں اکھڑ جاتیں …دوسری میز سے کسی رامیشور کی آواز اُبھرتی___

’’مسلمانوں میں دم باقی نہیں ہے …‘‘

کھانستے کھانستے بڑے میاں پلٹ پڑے … ’’کس نے کہا —  رامیشور کے بچے —  یہ پکڑو اپنی فائل … میں نہیں دیکھنے کا … میں سب سمجھتا ہوں تم لوگوں کو … کافروں پر کبھی بھروسہ نہیں کرنے کا …‘‘

کھانستے کھانستے بڑے میاں کرسی پکڑ لیتے___

مہتہ اپنی میز سے اٹھ کر ان کے پاس کھڑے ہو جاتے۔ ’’آپ کو پرانا دمّہ ہے بڑے میاں۔ آپ کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھاتے کیوں نہیں …‘‘

’’کس کو دکھاؤں بھائی‘‘۔

بڑے میاں ابھی آئے ہوئے طوفان کو بھول جاتے … ’’ایک پورے خاندان کی ذمہ داری ہے مجھ پر … کیا کیا کروں … لڑکی جوان ہو رہی ہے … اب دو چار پیسوں کے لئے ایمان نہیں بیچا جاتا میاں۔ یہاں سوطریقے ہیں پیسہ کمانے کے … لیکن یہ سب نہیں ہو گا … کئی بار بے ایمانی آئی بھی … لیکن ہر بار اﷲ رسول اور ایمان آڑے آ جاتا ہے … اب جو وقت بچا ہے …

پھر کھانسی اٹھی اور بڑے میاں کی آنکھوں میں لال لال ڈورے تیر گئے …

کچھ دیر کے لئے آفس میں خاموشی چھا گئی۔ آفس کا پرانا چپراسی سعید دوڑ کر بڑے میاں کے لئے گلاس میں پانی لے آیا۔ بڑے میاں آنکھوں میں امڈ آئے آنسوؤںکو پوچھتے ہوئے کہتے …

’’میاں سعید بس تمہاری یہ ادا طبیعت خوش کر دیتی ہے … جیتے رہو۔‘‘

’’اب کیا جیوں گا میاں! اب تو بچوں پوتے پوتیوں کو جینے کی دعا دو۔‘‘

سعید خالی گلاس ہاتھ میں اٹھاتا ہوا کہتا … ’’لیکن دل نہیں مانتا بڑے بابو۔ اتنا ضرور کہوں گا۔ یہ روز جو تم ڈفلی لے کر پرانے راگ الاپنے لگتے ہونا، اس سے اور کچھ تو نہیں ہوتا، کڑھن ہوتی ہے … کیوں گڑے مردے اکھاڑ کر اپنا دل دکھی کرتے ہو۔ اب تو یہی سب کچھ ہے بڑے بابو —  اور ماشاء اﷲ تمہیں فکر کس بات کی …دو دو جوان لڑکے ہیں۔ تمہیں کھلائیں گے۔ عیش کرائیں گے …‘‘

’’اب کا ہے کی عیش سعید میاں‘‘۔ بڑے میاں لمبی سانس کھینچتے۔ بس ہر وقت بچوں کی فکر جان میں دم کئے رہتی ہے … کب کچھ ہونے کے لائق بنیں گے۔ اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں تو چین کی سانس لوں …‘‘

ماحول میں دکھ کے رینگتے ہوئے کیڑے دیکھ کر نرمل پھر چٹکی لیتا … ’’یہ بڑے بابو آپ لوگ ہمیشہ لڑتے کیوں رہتے ہیں۔‘‘

’’کیا مطلب۔‘‘

اب یہ ایران عراق کی جنگ دیکھئے …پاکستان میں دیکھئے … مہاجروں کو کیسا پیٹ رہے ہیں بلوچی پٹھان … یہ چار چار شادیاں کرنے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا بڑے میاں —  یہ شیعہ سنی اور مہاجر، بلوچ کے نام پر لڑتے رہو گے تو ایک دن تمہاری نسل ہی ختم ہو جائے گی … پھر جپتے رہو اسلام کا نام …‘‘

’’کون کہتا ہے …‘‘

بڑے میاں کی آواز پھر پتھر کی طرح سخت ہو جاتی —  کڑا کے دار آواز میں شعر پڑھتے

’ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد … میاں سچی کہوں تو تم لوگ جلتے ہو؟‘

’’اب جلنے کی کوئی وجہ بھی تو ہو گی بڑے بابو … تم یہاں کسی معاملے میں بھی ہمارے برابر نہیں اور جہاں برابر ہو وہاں بھی پٹ رہے ہو …‘‘

’’برابر کیسے نہیں۔ کس معاملے میں کم ہیں ہم …‘‘

’’اب جو کہہ لو بڑے بابو … لیکن اتنا تم خود ایمان سے کہو، پاکستان کی بھول پر آج بھی پچھتا رہے ہو کہ نہیں؟ ایمان سے جواب دو ایسا ہے کہ نہیں …‘‘

’’ہاں بھائی‘‘۔ بڑے میاں سر جھکا لیتے … ’’یہ تمہاری بات سولہ آنے سچ ہے۔ ایک پاکستان کیا بنا، دلوں کے ٹکرے ہو گئے … اپنے تو ٹکڑے کر کے چلے ہی گئے۔ یہاں بھی شرمسار ہوئے کہ میاں تم نے تو اپنا ملک لے ہی لیا اب کرایہ دار بن کر زندگی جیو … ہاں میاں لعنت ہے اُن مسلم نیتاؤں کی سوچ پر جن کے ذہن میں پاکستان بنانے کا خیال آیا تھا …‘‘

بڑے میاں سرد آواز میں کہتے …بولتے ہوئے ان کے چہرے کی رگ رگ تن جاتی۔ چہرہ لال سرخ ہو جاتا … جیسے پرانی کہانی کے زخم ایک دم سے جاگ گئے ہوں … تازہ ہو گئے ہوں … سب کچھ تو آس پاس ہی ہوا لگتا ہے … جیسے ابھی حال میں سب کچھ گزرا ہو … ابھی ابھی آیا ہو طوفان اور سب کچھ سمیٹ کر لے گیا ہو …

 چھوٹے بھائی تاجور پاشا کی اچانک یاد آ جاتی … جو آزادی ملنے کے ٹھیک دس سال بعد پاکستان جابسا تھا۔ سب کچھ چھوڑ کر۔ گھر بار … یہاں ہے کیا بھیا۔ تم بھی چلو …نا … تغلق پاشا کی آنکھوں میں آنسو تھے … باپ دادا کی قبریں تو ہیں یہاں … دکھ میں دو آنسو بہا لوں گا تو چین مل جائے گا … تو یہیں رہ جا، تاجور … یہاں سب ملے گا … لیکن تاجور پاشا کو یہاں کی خاک راس نہ آسکی۔ پاکستان چلا گیا۔ دو سال بعد اُس نے وہاں شادی بھی کر لی۔ کہتے ہیں وہاں کی کسی اچھی فرم میں منیجر ہو گیا ہے۔ اس درمیان کتنی ہی بار تاجور پاشا نے اسے بلایا بھی۔ مگر ان کو نہ جانا تھا نہ گئے۔ ہاں درمیان میں تاجور خود ہی آیا تھا۔ بیوی کو لے کر۔ دو بچے تھے۔ شائمہ اور نصرت … چند دن بچوں سے گھلے ملے رہے۔ پھر جانے کا پروانہ آ گیا … ویزا ختم۔ واپسی کے وقت کتنا رو رہے تھے تاجور … بھیا، وہاں سب کچھ ہے … عزت دولت، شہرت۔ پھر بھی تہی دامن لگتا ہوں بھیا۔ آپ خوش نصیب ہیں کہ باپ داداؤں کی مٹی کے قریب ہیں …

جاتے وقت کیسا پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا تاجور … بچے بھی … اس کی بیوی بھی … چند دنوں میں ہی کیسا پیار امڈ آیا تھا … شائمہ بھی رو رہی تھی … چچا ابا … ہر وقت دل دھڑکتا رہتا ہے … پتہ نہیں کب سرحدیں بند ہو جائیں … آنے جانے پر پابندی لگ جائے … آپ لوگوں کو کبھی دیکھا نہیں تھا۔ چچا ابا … کہانیاں سنی تھیں … کیسے کھیلتے تھے … کیسے ہنگامے ہوتے تھے … اور اب … چند دنوں میں ہی آنکھیں جانے کی تاریخ پر جا کر ٹھہر جاتی ہیں …

آنکھیں آنسوؤں کی داستان لکھ رہی تھیں … تغلق پاشا کے جسم سے جیسے کسی نے سارا لہو نچوڑ لیا ہو … کیا کہیں شائمہ کو … کیا جواب دیں … تاریخ کے رتھ نے چلتے چلتے جو منزل پائی ہے، اس کی وضاحت کیا کریں … آنکھیں جھکا لیں … روتے روتے تاجور پاشا کی بھی آنکھیں پھول گئی تھیں … اب اپنی غلطی کا احساس تو ہوتا ہے بھیا … مگر … آواز درد میں ڈوب جاتی ہے … مگر اب بہت دیر ہو چکی ہے … بہت دیر … جیسے برسوں بعد ایک خاندان میں بٹنے کے بعد میں ملا ہوں، پتہ نہیں یہ بچے آپس میں کب ملیں گے؟ کب ملیں گے …؟‘‘

آنکھیں آنسوؤں سے جل تھل ہیں … فائل سے نظر اٹھاتے ہوئے ڈرتے ہیں بڑے میاں___ یہ آنسو اُن کے درد کی چغلی نہ کھادیں … سر جھکائے فائلیں پلٹ دیتے ہیں … کسی صفحہ پر آنسو کا ایک موٹا سا قطرہ گرا ہے … ہاتھ کانپ رہے ہیں … شہادت کی انگلی اس قطرے تک آ کر ٹھہرتی ہے … صفحہ پر اس جگہ تھوڑی سیاہی پھیل گئی ہے … رب العّزت رحم … رحم کرنا … ٹھنڈی سانس بھرتے ہیں بڑے میاں …

اپنی اپنی میز سے نرمل، مہتہ اور کچھ دوسرے بڑے میاں کے اندر آئے ہوئے طوفان کو دیکھ رہے ہیں … یہی تو باتیں ہیں کہ بڑے میاں سب کو پیارے ہیں … اتنی بار ان کے اندر کے زخم دیکھے ہیں ان لوگوں نے … کہ ہر بار بڑے میاں کے لئے ایک پیار اُمڈا ہے … جانتے ہیں، اندر سے چھلنی چھلنی ہیں بڑے میاں … درد دیکھ کر تڑپ جانے والے …

مہتہ بڑے میاں کو یادوں کے گھنے جنگل سے دور کرنے کے لئے نئی چال چلتا …

’’بڑے میاں!کل ٹی وی پر سماچار دیکھا آپ نے … ایران عراق میں جنگ ختم ہو گئی۔ ضیاء کے بعد پتہ نہیں پاکستان کا کیا ہو گا …‘‘

’’کچھ کہا نہیں جا سکتا …‘‘ بڑے میاں پلٹ کر کہتے  … ویسے یہ اچھا ہوا … چلو آٹھ سال سے چلی آ رہی مصیبت تو ختم ہوئی … یہ اچھا قدم اٹھایا دونوں ملکوں نے …‘‘

’’کہتے ہیں کہ یہ جنرل اسحاق خاں اچھا آدمی ہے۔ضیاء کی حکومت کے دوران تو ہند و پاک کے تعلقات اچھے نہیں رہے …‘‘

’’ہاں سچ کہتے ہو … مگر پاکستان کے مستقبل کے آگے سوالیہ نشان لگ ہی گیا ہے … اب ایمرجنسی لگا کر تو حکومت نہیں ہوسکتی … عوام اتنی ہوشمند ضرور ہے کہ دباؤ اور آزادی میں فرق ککر سکے … میں تو پاکستان سے آئے ہوئے جن جن لوگوں سے ملا ہوں میاں، سب طرف یہی سننے کو ملا ہے کہ ہمارے پرکھوں نے یہ بٹوارہ کر کے اچھا نہیں کیا۔ کوئی خوش نہیں ہے … وہ وہاں چھٹپٹاتے ہیں اور یہاں ہم … ملک کا بٹوارہ نہیں تھا میاں یہ تو دلوں کا بٹوارہ تھا۔ دلوں کی آہ لگی ہے میاں … کچھ تو اثر کرے گی ہی …‘‘

بڑے میاں ٹھنڈی سانس بھر کر چپ ہو گئے۔ پھر فائلیں الٹی پلٹی جانے لگیں … انگلیوں میں قلم کانپتا رہا … اندر کسی گوشے میں بار بار یہ آواز دستک دیتی رہی۔ وہ کیا تھے اور کیا ہو گئے … کیسا شاندار ماضی … وہ بھی کیا دن تھے … کیسے شور غوغا کے دن …یہی گھر تھا جو کبھی شہر میں پاشاؤں کی کوٹھی کے نام سے مشہور تھا … تب شہر میں کیا رعب، دبدبہ تھا۔ جاگیریں تھیں … وہ زمانہ بھی دیکھا کہ کوٹھی کے باہر ہاتھی کھڑے رہتے تھے اور ہاتھی وان ہاتھ جوڑتا ہوا نظریں جھکا کر کہتا __ جناب سواری تیار ہے … چم  چم کرتی براق شیروانی پہنے ابا حضور اجمل پاشا اپنے دونوں بیٹوں تغلق پاشا اور تاجور پاشا کے ساتھ باہر نکل آتے۔ ادب کے ساتھ پیل بان سلام کرتا … اور یہ نکلی راجہ کی سواری … کتنی ہی آنکھیں تھیں جو بچوں کے چم  چم کرتے لباسوں پر جا کر ٹھہر جاتیں اور عش عش کر اٹھتیں …

تب کیسے کیسے لوگ تھے اور کیسے کیسے انوکھے قصّے … پھر اچانک جیسے نیند کھلی ہو … اور سب کچھ غائب۔ جو تھا وہ خواب تھا … ابا حضور اجمل پاشا کو کب دل کا دورہ پڑا … کب انتقال ہوا … سب کچھ آناً فاناً ہو گیا … ہوش تو اس وقت آیا، جب خاموش آنگن اور عمر کی کچی سیڑھیاں، گھر کے سونے بام  و در کو دکھا کر قبل از وقت آئی ہوئی ذمہ داری کو تھام لینے کی پکار کر رہے تھے … دالان کے ایک تنہا گوشے میں اماں حضور کی دھندلی آنکھیں گھر کے مستقبل کے لئے اُس کے کمزور کندھوں کو دیکھ رہی تھیں …

’’اب تو تم ہی سہارا ہو … باپ داداؤں کی جاگیریں تو بند آنکھوں کا خواب ہوا کرتی ہیں …‘‘

نوجوانی کے کمزور کندھے پر ذمہ داری کا بوجھ آیا —  نہ جاگیریں تھیں نہ قارون کا خزانہ … اندھیرا تھا اور اندھیرے میں نہیں سجھائی دینے والے ہاتھ تھے … یہ وہ وقت تھا جب ابا حضور کی نا وقت وفات کے بعد انہیں پڑھائی کو سرے سے بھول جانا پڑا۔ مڈل پاس تھے … زندگی کا ایک نیا سفر شروع ہونے تک امی حضور نے بھی آنکھیں موند لیں … اور اس سے پہلے کہ وہ اپنے مضبوط توانا کندھوں کو تھکا تھکا محسوس کریں … کیا دیکھتے ہیں کہ تاجور پاشا شجرہ قلہ اٹھائے پشیمان سے ان کے سامنے کھڑے ہیں …

’’بھیا! میں پاکستان جا رہا ہوں …‘‘

’’کیا …؟‘‘

وہ اندر سے، ایکدم سے لہولہان ہی تو ہو گئے … پا …کستان … اس ایک لفظ نے ایٹم بم جیسا اثر کیا … کچھ دیر کے لئے تو جیسے ان پر سکتہ سا طاری ہو گیا … کچھ کہہ بھی تو نہیں سکے … کہ بھائی … کیا بگاڑا ہے میں نے … جو اتنی بڑی سزا دیئے جا رہا ہے تو … ابا حضور اور امی حضور کے قافلے کے بعد ایک تو ہی تو سہارا ہے میرا … تو بھی چلا جائے گا …؟

’’بھیا … سب بندوبست ہو گیا …‘‘ ٹکڑے ٹکڑے آوازیں جیسے آتش فشاں کی طرح اس کے پرخچے اڑا رہی تھیں … بہت تھک گیا تھا … مایوس ہو گیا تھا … آزادی کے دس سال غیریت کے احساس کو دھو نہیں سکے بھیا … دل پر میل سی جمی ہے … سچ ہے جب ہم نے اپنا الگ وطن لے لیا تو پھر ہمیں یہاں رہنے کا حق ہی کیا ہے …‘‘

نظریں جھکیں … تغلق پاشا غش ہی تو کھا گئے۔ پل میں لگا، یہ چھوٹا بھائی تاجور نہیں ہے … اُس کی جگہ کسی اور نے لے لی ہے … وہ …جو اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے … پوری نہیں ہونے کی صورت میں ٹوٹ گیا ہے … بُری طرح لہولہان ہو گیا ہے … جسے —  اتنی بڑی آبادی والے ملک میں، بڑے بڑے کمرے والی آفسوں میں کہیں ایک میز بھی نہ مل سکی … وہ آدمی بول رہا ہے … تھکا تھکا اور اپاہج  … غیریت … ورنہ یہ لفظ تو نہ جاگتا … لیکن نہیں … شاید ٹھیک کہہ رہا ہے تاجور … آزادی سوغات کے روپ میں فسادکے جو تحفے لائی ہے … وہ تحفہ ہضم نہیں ہوتا … کتنے ہی سوالات کو جنم دیتا ہے … تم آزاد کب ہو … ہونٹوں پر قفل لگی یہ کیسی آزادی جھیل رہے ہو … پاکستانی … کتنی ہی بار اس لفظ سے اُن کا بھی سابقہ پڑا ہے … تم پاکستان نہیں گئے … میاں! تم لوگ دہری پالیسی رکھتے ہو … وہاں بھی حکومت اور یہاں بھی … تم لوگ غدار ہو … پھٹی پھٹی آنکھوں سے تغلق پاشا چھوٹے چھوٹے بچوں میں اترتے ہوئے فرق کے جراثیم کو دیکھ رہے ہیں … ان کا اپنا چھوٹا لڑکا باہر کھیل رہا ہے … بہت سے دوسرے بچے بھی ہیں … کھیل کبڈی کبڈی … چھوٹی … تی … روتا ہوا ارشد گھر میں داخل ہوا ہے … اور یہ کیا … نجمہ نے اُس کے کان پکڑ کر کھینچ دیئے ہیں … بول کیوں کھیلتا ہے … کافر لڑکوں کے ساتھ … مارا پیٹی کرتا ہے … بول کرے گا … تو ضرور فساد کرائے گا ایک دن  — دنگے کرائے گا …‘‘

ارشد چپ ہے … ذہن میں سناٹا ساپھیل رہا ہے … اور اس سناٹے کی آگ کو لیے وہ نجمہ کے چہرے کو پڑھ رہے ہیں … یہ لفظ آیا کہاں سے۔ جنما کہاں؟ نجمہ کے اندر اندر اترا کیسے …؟ چھوٹا بچہ … دنگا کیا جانے … فساد کیا جانے … یہ باتیں … نجمہ کے کسی تلخ تجربے کا زخم تو نہیں ہیں … جو رستے رستے پھٹ گیا ہے … مواد کی طرح بہہ رہا ہے … بول کیوں کھیلتا ہے کافروں کے ساتھ … تو ضرور ایک دن …‘‘

تاجور پاشا گردن جھکائے کھڑے ہیں … ’’بھیا میری مانو تو آپ بھی … دونوں بھائی ساتھ ہی رہیں گے بھیاّ۔ کچھ بھی کرلیں گے … وہاں بہت سے روزگار مل جائیں گے۔ پھر اپنا ملک ہے وہ …‘‘

’’اپنا ملک …‘‘

مسلسل اُن کے ذہن پر ہتھوڑے پڑ رہے ہیں … تو یہ ملک اب اپنا نہیں رہا۔ یہاں غیریت پلنے لگی ہے … آریہ ورت کے ٹکرے کر کے مسلمانوں نے اس ملک سے اپنا حق بھی ختم کر دیا … اب یہ اپنا نہیں رہا … غیروں کا ہے … غور سے تاجور پاشا کے بے جان سے چہرے کو دیکھتے ہیں تغلق پاشا … آہستہ سے بس اتنا ہی تو کہہ پاتے ہیں …

’’مجھے تو یہ غیروں کا ملک ہی بھلا۔ تمہارا —  خدا حافظ بھائی‘‘

’’بھیا میرے لئے دعا کرنا …‘‘

آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرتے آنسو ہیں … جو زلزلے کے جھٹکے سے زیادہ اثر دار ہیں … جسم تھر تھر کانپ رہا ہے … گلے مل گئے ہیں بھائی سے … پھر پتہ نہیں کب … یا ملاقات ہی نہ ہو … کیا پتہ … کب سرحد پر کانٹے دار تار پاٹ دیئے جائیں … جاؤ بھائی … الوداع … ڈبڈبا آئی آنکھیں الوداعی منظر کو دیکھ سکنے کی تاب نہ لاسکیں … جھر جھر آنسو … کتنا اکیلا پن ہے … تاجور چلا گیا … زندگی کے طویل راستے پر چلنے والا ایک بھائی ملا تھا، سو اُس نے بھی اس وطن کو غیر کا وطن کہہ کر ٹھکرا دیا … آگے بڑھ گیا … اُس دن پہلی بار گھر کاٹنے کو دوڑا تھا … سنسان … ویران … پاشاؤں کی کوٹھی … محراب نما کمرے … تغلق پاشا کمرے کی دیواروں سے گلے مل کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے … اُس وقت تک شادی نہیں ہوئی تھی … گھر کا اکیلا پن اور تنہائی جب بُری طرح ڈسنے لگی تو نجمہ اُن کی زندگی میں ہمسفر بن کر آ گئی … گھر میں کچھ اُجالا سا ہوا … کافی بڑے بڑے کمرے ہیں … نجمہ کو گھر دیکھ کر ڈرسا لگ تھا …

ہاں نجمہ۔ یہ پاشاؤں کی کوٹھی تھی … مگر اب یہاں ایک معمولی سا کلرک بستا ہے … جو کچھ نہیں … کوئی عہدہ نہ رتبہ … ہاں ایک شاندار ماضی ضرور ہے … اگر یہ وراثت قبول کرنا چاہو … میرے پاس گزرے وقت کی سنہری کہانی کے علاوہ اور کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔ اسے سمیٹ سکوتو …‘‘

اور نجمہ نے سب کچھ اپنے دامن میں بھر لیا۔ برابر برابر … خوشی غم … … تب سے یہ سفر جاری ہے اور ایس ڈی اور آفس میں ہیڈ کلرک بننے تک مسلسل وہ سفر میں ہیں … لیکن ماضی سے رشتہ منقطع ہوتا ہی نہیں … سب کچھ جیسے کل کی بات لگتی ہے … سوچو تو سارے منظر آنکھوں کے سامنے جی اٹھتے ہیں … تب بس اتنا ہوتا ہے … کہ گزرے مناظر کے سارے کمھلائے پھول ایک قطرہ آنسو بن کر آنکھوں سے ٹپک پڑتے ہیں … اور بڑے بابو کی بڑبڑاہٹ آفس کے بوجھل سے ماحول میں گونجتی رہتی ہے …

’’کھٹ … کھٹ … بڑے میاں یہ کاغذات …‘‘

وہ موٹے شیشے والی عینک سے کاغذات بڑھانے والے آدمی کو گھورتے ہیں … کاغذ سنبھال کر فائیل پر آنکھیں یوں بھی گھومتی رہتی ہیں … اب تھک چکے ہیں وہ … زندگی کا یہ سفر بھی کتنا طویل ہے … اب تو بس یہی خواہش ہے … بچوں کی شادی ہو جائے … وہ گھر سنبھال لیں … ذمہ داری اپنا لیں … وہ ہنسی خوشی موت اوڑھ لیں گے …

کھٹ کھٹ … ان کی میز سے دھیرے دھیرے فائلیں کھسک رہی تھیں … اور دھیرے دھیرے دھوپ بھی سمٹ رہی تھی …گھڑی کو غور سے دیکھتے ہیں بڑے میاں___ بی اماں کا چہرہ نظروں میں ابھرتا ہے … اُفّ کیسی باؤلی ہو گئی ہے اس عمر میں … اتنا اندھا یقین تو ان کے خاندان میں کسی کا بھی نہیں تھا۔ اب آج ہی کا، لو … کتنی قیامت مچا دی ایک لمحہ میں اُس نے … جیسے کوّا نہیں آیا زلزلہ ہی آ گیا ہو … اب وہ گھر میں ٹھیک طرح سے چھینک بھی سکتے۔ آفس آتے وقت چھینک دو تو دس اُپدیش سننے کو مل جائیں گے … تھوڑا ٹھہر جایئے۔ آج آفس مت جائیے … اُف ہو … اب آج ہی، بے بات ہی تو قیامت آ گئی …

بڑے میاں کو کھانسی پھر گھیرتی ہے … کھاؤں کھاؤں کرنے کے بعد خاموش ہوتے ہیں …آج ارادہ گھر جلدی جانے کا ہے … پتہ نہیں کیوں۔ کبھی کبھی تو وقت سے پہلے پہنچنا اچھا لگتا ہے … ڈھیر سارا وقت ہاتھ میں ہو تو باتیں کرنے میں بھی مزہ ملتا ہے … بسمتیا کے ہاتھوں کی بنی ہوئی گرم گرم چائے …  طبیعت جھوم جاتی ہے … بے چاری غریب عورت … اتنی بڑی کوٹھی میں ایک چھوٹا سا پیچھے والا کمرہ دے کر کون سا احسان کیا ہے انہوں نے … پورا گھر اکیلے کندھے پر سنبھالتی ہے۔ بسمتیا … پھر بھی نجمہ کو کافر لگتی ہے … خود ہی مسکراتے ہیں بڑے میاں … کافر … اتنا مانتی ہے بسمتیا کو، اُس کے بچے کو … پھر بھی  —  کبھی موڈ میں ہوئی تو کہے گی … کافر کا کیا ٹھکانہ۔ کسی دن کہہ دیں گے … اٹھاؤ سامان … جاؤ پاکستان۔

گھر کے لئے نکلتے ہوئے بڑے میاں کے کانوں میں یہ لفظ بار بار بج رہے تھے … کبھی کبھی کچھ لفظوں کا بار بار بجنا اچھا لگتا ہے … آفس سے تھوڑی ہی دور پر ایک چھوٹی سی پلیا ہے … جس کے نیچے ڈوم چماروں کی بستی ہے … جوئیں ’’نکلواتی‘‘ ہوئی عورتیں، بیڑی پھوکتے ہوئے مرد۔ بیلچا، کنسٹر، لے کر ادھم بازی کرتے ہوئے بچے … بچھی ہوئی ’ینواڑ‘ کی پلنگڑی … سوپ ٹوکریاں بنتی ہوئی عورتیں … بچھی ہوئی لکڑی کی کانتی … پلیا کے آس پاس چاروں طرف گندگی  بکھری رہتی ہے … کوڑے کا ڈھیر … وہیں میونسپلٹی کل … چھوٹی چھوٹی جھگی جھونپڑیاں … فضا میں باس پھیلی رہتی ہے … آتے جاتے ناک بند کر کے جانا پڑتا ہے …

پلیا سے گزرتے ہوئے اچانک بڑے میاں ٹھہر جاتے ہیں … ایک طرف پلیا کے کچے بانس کا سہارالئے ایک چھوٹا سا چودہ پندرہ سال کی عمر کا بچہ کھڑا ہے۔ رو رہا ہے۔ تیز آواز میں۔ بکھرے ہوئے بال۔ گندے میلے کپڑے —  گندمی چہرہ  — جیسے تماشے میں گم کوئی بچہ ہو … چاروں طرف روتا پھرتا ہو …

پتہ نہیں کیا سوچ کر ٹھہرتے ہیں بڑے میاں … کلرکی کرتے کرتے سوال  جواب کی عادت جو پڑ گئی ہے۔ ادھر ادھر دیکھتے ہیں … اتنا بڑا لڑکا … کسی چھوٹے بچے کی طرح سے کیوں رو رہا ہے … بڑے میاں کی ہمدردی پا کر لڑکا اور زوروں سے رونے لگتا اٹھتا ہے … اب بڑے میاں کچھ قریب آتے ہیں …

’’بات کیا ہے …‘‘

’’اوں اوں …‘‘

’’کس کے لڑکے ہو …‘‘

’’اوں … اوں …‘‘

لڑکا صرف روئے جا رہا ہے … اور اُس کے آنسو بڑے میاں کے دل پر وزنی ہتھوڑے کی طرح پڑتے ہیں …

’’بولنا نہیں جانتے …‘‘

’’آں …آں …‘‘

لڑکا پہلی بار ہاتھوں کے اشارے سے بتاتا ہے کہ وہ گونگا بھی ہے اور  …

’’کوئی ہے تمہارا … دنیا میں؟‘‘بڑے میاں ہاتھوں کے اشارہ سے پوچھتے ہیں … لڑکا ’’نا‘‘ میں سرہلاتا ہوا اور تیز آواز سے رونے لگتا ہے …

’’اُف … کہاں پھنسادیا۔ کس مصیبت میں پڑ گئے۔ اب اس بلا کا کیا کریں …‘‘

وہ آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو لڑکا لپک کر اُن کے دامن کو پکڑ لیتا ہے … اوں … اوں …

اُس کی طرف عجیب سی نظروں سے دیکھتے ہیں بڑے میاں۔ لڑکے کی آنکھوں میں رحم کی ایک ایسی اپیل تھی جسے وہ نظر انداز نہ ککر سکے … قصائی کے ہاتھوں میں خنجر دیکھ کر کھونٹ تڑا کر بھاگا ہوا جانور جیسے اپنے مالک کے پاس واپس لوٹ کر اپنے لئے رحم کی مانگ کرتا ہے …

’’بھوکے ہو …‘‘

’’اوں …‘‘

’’کچھ کھاؤ گے …‘‘

’’اوں … اوں …‘‘

’’بے چارہ …‘‘

بڑے میاں میں ہمدردی جاگتی ہے … اچھا میرے ساتھ آؤ … سوچا تھا کھلا پلا کر لڑکے کوٹرخا دیں گے … کچھ پیسے تھما دیں گے۔ پتہ نہیں کس گھر کا ہے۔ اب گونگا بہرہ ہے کم بخت۔ بولنا جانتا تو پوچھ بھی لیتے کہ کہاں گھر باڑی ہے … اب کس چکّر میں پڑ گئے ہو … پلیا سے تھوڑی ہی دور چلنے کے بعد نانہوساؤکا ڈھابہ ہے۔ آفس سے چلنے کے بعد یہاں ایک بار ضرور رکتے ہیں بڑے میاں۔ یہاں نیبو کی چائے بڑی اچھی بنتی ہے … نانہو ساؤ خوب پہچانتا ہے انہیں … ڈھابہ پہنچ کر آواز لگاتے ہیں بڑے میاں

’’نانہوساؤ۔ اس بے چارے غریب کو کھانا کھلا دو اور ہاں بڑھیا اسپیشل نیبو کی چائے میرے لئے بنانا …‘‘

’’اسے کہاں سے پکڑ لائے …‘‘گلاس ایک قطار سے رکھتے ہوئے اور نیبو کا رس گاڑتے ہوئے نانہوساؤ نے پلٹ کر بڑے میاں کو دیکھا … اس کا باپ بھکاری تھا۔ کل مر گیا۔ گونگا ہے بابو … کہیں آفس میں لگوا دو تو جوانی سنور جائے …‘‘

’’ہونہہ …‘‘

سوچتے ہیں بڑے میاں … غور سے اُس گونگے کے چہرے کی طرف دیکھتے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں اس بار اچھا لگا وہ … اگر بال سلیقے سے سنوارا جائے۔کپڑے بھی صاف پہنے تو … کیوں نہ گھر لے چلیں … کچھ کام ہی کر دے گا …

چائے پیتے ہوئے بڑے میاں نانہو ساؤ سے پوچھتے ہیں … ’’اچھا بتاؤ۔ اس کے باپ کی ذات کیا تھی …؟‘‘

’’مسلمان فقیر تھا بڑے بابو … آپ رکھ لو نا … جس کھونٹ سے باندھو بندھ جائے گا —  آخر دم تک بندھا رہے گا …‘‘

’’ہونہہ۔‘‘

پھر ایک لمبی ہونہہ کھینچتے ہیں برے بابو —  ادھر چائے ختم اور ادھر اُس گونگے بہرے نے جلدی جلدی کھانا ختم کیا …

’’اور …؟‘‘ وہ پوچھتے ہیں …

’’نہیں …‘‘ لڑکے کی آنکھوں میں پیار بھری چمک ہے … جیسے محبت کے تمام جاگتے لفظ اُس کی آنکھوں کی چمک میں سمٹ آئے ہوں … منہ سے عجیب سی آواز نکالتا ہوا … وہ اُس کا شکریہ ادا کر رہا ہے …

’’نام کیا ہے …؟‘‘

بڑے میاں پوچھتے ضرور ہیں —  پھر فوراً ہی اپنی بھول کا احساس ہوتا ہے انہیں___ اب اگر اس کا کچھ نام ہے بھی تو یہ کیا بتائے گا۔ نہ بول سکتا ہے نہ لکھ سکتا ہے۔

’’بڑے بابو، اس کے باپ کو اکثر میں کھانا دیا کرتا تھا …‘‘ نانہوساؤچائے کا گلاس کھسکارہا ہے … اچھا آدمی تھا بے چارہ … گریبی نے بیکار کر دیا تھا۔ اتنا بڑا چھونڑا … کہیں لگوا دیتا تو زندگی سنورجاتی … لیکن ساتھ ساتھ رکھ کر بھیک منگواتا تھا۔ اسلم کہتا تھا بڑے بابو …‘‘

’’اسلم  …‘‘بڑے میاں تیز آواز میں بولتے ہیں۔

’’اسلم … یہی تمہارا نام ہے …؟‘‘

’’آں …اں …‘‘

گونگا خوشی کا مظاہرہ کرتا ہے …

’’ٹھیک ہے …‘‘

بڑے میاں نے اب اپنے آپ کو مطمئن کر لیا ہے … شاید نجمہ نے جو صبح صبح کوّا کی آمد کا ہنگامہ مچایا، اُس کا مطلب یہی تھا___ گھر میں ایک نئے فرد کا اضافہ … چلو، چلے گا … دنیا میں ہر آدمی اپنا رزق خود لے کر آتا ہے … وہ کیا کھلائیں گے___ کھلانے والا تو اﷲ ہے … وہی دے گا …

وہ وہ مطمئن ہیں۔ آواز دیتے ہیں___

’’چلو لڑکے …‘‘

اسلم سر جھکائے اُن کے پیچھے پیچھے چل پڑتا ہے___

٭٭

 

 

(5)

اُس وقت تک بڑے میاں سوچ بھی نہیں سکے تھے کہ اس گونگے بہرے کو اپنے ساتھ لئے تو جا رہے ہیں لیکن اس کی موجودگی سے گھر میں ہنگامہ بھی مچ سکتا ہے … بی اماں نے اس نئے فتنے کو دیکھا تو خوب واویلا مچایا …

’’تمہیں تو عجوبے پالنے کا شوق ہو گیا ہے۔ گھر نہیں ہوا عجائب خانہ ہو گیا۔ ایک سے ایک نمونے … جسے دیکھو۔ ہمدردی جتائی۔ ترس کھایا۔ اٹھا لائے۔ اب یہی کافر کو لے آئے۔ تین تین جنے۔ اُس پر سے میاں شرابی۔ مسلمان کے گھر میں اور شراب۔ میاں شراب کی ایک بوند بھی اگر ہاتھ پر پڑ جائے تو اﷲ میاں کے یہاں ہاتھ کاٹ دیئے جاتے ہیں۔ توبہ توبہ اس بڑھاپے میں تمہاری متی ہی خراب ہو گئی ہے۔ اب نہ ذات کا پتہ نہ پات کا___ دو دکھ کے بول بولے ہوں گے اور لے کر چلے آئے …‘‘

’’نہیں جی۔ یہ گونگا ہے۔ گونگا بہرہ۔‘‘ بڑے میاں نے تعریف کی۔

’’کیا …؟‘‘ بی اماں ایک دم سے چونک گئیں___ ’’لو اب گونگا بہرہ بھی ہے۔ ایک اور تعریف کی بات۔ اب بولے گا بکے گا کس سے؟ سارا دن سر کھپانا پڑے گا اس سے اور یہ کرے گا کیا ؟ تم تو پورے گھر کو گونگا بہرہ بنا کر رکھو گے۔ اب ٹھکانا کیا … کہیں یہ بھی کافر ہوا تو۔ نوج تمہاری عقل پر پتھر پڑ گیا ہے۔‘‘

’’اب تم پوری بات توسنوگی ہی نہیں۔ پہلے ہی ہنگامہ شروع کر دو گی۔‘‘

’’بڑے میاں کو بھی غصہ آ گیا تھا۔ یہ بے چارا پلیا کے پاس رو رہا تھا۔ غریب مسلمان کا لڑکا ہے۔ اس کا باپ فقیر تھا۔ کل مر گیا …‘‘

’’چہ چہ‘‘ بڑی بی نے افسوس کیا۔ لیکن ان کے تیور فوراً ہی لوٹ آئے۔ ’’اب یہ کہو۔ کہ گھر میں فقیروں کی پوری فوج اکٹھی کرنے کی دھن سوار ہوئی ہے۔ ایک شرابی کبابی، دوسرا فقیر۔ کسی دن تمہاری جو یہ شاندار حویلی ہے نا، اسے بیچ باچ کر کھا جائیں گے یہ۔ پھر لیتے رہنا اپنے پرکھوں کا نام۔ ارے۔ ان فقیر چور اُچکّوں کا ٹھکانہ ہی کیا۔ کسی دن موقع ملا اورسب کچھ لے کر چمپت ہو گئے تو … کیا کر لو گے تم … بتاؤ۔‘‘

’’نہیں یہ ایسا نہیں ہے …‘‘

’’نہیں ایسانہیں ہے۔ جیسے تم اس کے پورے خاندان سے واقف ہو گئے منٹوں میں —  بڑی شناسائی جو ٹھہری۔ اب اس عجوبے کا کیا کریں گے ہم۔‘‘

’’بھئی گھر میں رکھیں گے۔ کام کرے گا۔ جھاڑو تو دے گا۔ کپڑے صاف کرے گا۔ جو کہو گی کرے گا۔‘‘

’’اب کرنے کا ہے ہی کیا اس گھر میں۔ ایک اور مصیبت لے آئے۔ کوئی اور نہیں ملا تو فقیر مل گیا۔ چل رے فقیر۔ حاتم طائی کا دروازہ تو کھلا ہوا ہی ہے۔ میری مانو تو مسلمان بادشاہ اسی ہمدردی دکھانے میں چوپٹ ہوئے۔ ورنہ آج یہ حشر نہیں ہوتا، یہاں ہم پھوٹی کوڑی کوڑی کے محتاج نہ ہوتے۔ آخر کو کل تاج تھا تخت تھا۔ جاگیریں تھیں۔ اپنی سلطنت تھی اور آج … دیکھو تو فقیر بنے آرام سے گھوم رہے ہیں۔ اﷲ کے نام پردے دے … آہ … واہ … کیا کہنے … میاں کان کھول کر سن لو … چور اور فقیر‘ چوری اور فقیری سے باز نہیں آتے۔ کسی دن سن لینا، گھر سے غائب ہے اور سڑک پر بیٹھا بھیک مانگ رہا ہے۔ گھر کی ساری چیزیں نہیں بیچ دیں تو میرا نام بھی بدل دینا …‘‘

بی اماں اپنے اس لمبے لکچر کے بعد ہانپنے لگی تھیں … تیز تیز سانس چلنے لگی تھی۔ اپنے لحیم شحیم بدن کو سنبھالے چارپائی پر لیٹ گئیں۔ غور سے اُس گونگے بہرے جانور کا جائزہ لیا۔ جو غور سے گھر کی چیزوں اور بیگم کے بگڑے تیور کا دل ہی دل میں تجزیہ کر رہا تھا …

’’کیوں رے کیا نام ہے …‘‘ بیگم نے تھوڑی اپنائیت پیدا کرنے کی کوشش کی … پھر جلد ہی معمول پر لوٹ آئیں … ’’اب تو نام کیا بتائے گا۔ گونگا بہرہ جو ٹھہرا …‘‘

’’اسلم نام ہے’’ … بڑے میاں جلدی سے بولے۔

’’اب لو تمہیں نام بھی پتہ چل گیا۔ اب بولو تو پورا شجرہ ہی بتا دو گے۔ آخر کیوں نہیں۔ اس شہر کی پوری تاریخ سے واقف جو ہو …‘‘

’’تم تو سر کھا جاتی ہو بیگم‘‘۔ بڑے میاں نے ناراضگی دکھائی۔ ’’ارے وہ لوٹتے وقت نانہوساؤ کی دکان پر رکا تھا۔ اُس نے بتایا …‘‘

بڑی بی تھوڑا نرم پڑیں ’’ …ٹھیک ہے ٹھیک ہے … چل رے … نہا دھو لے … کیا شکل بنا رکھی ہے … نہانے سے تو مطلب ہی نہیں ہو گا۔ نوج اِن غریبوں کی فوج سے ہی تو ہمارا مذاق اڑتا ہے___ کہیں بھی جاؤدس مسلمان فقیر نظر آ جائیں گے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو اتنے فقیر کسی قوم میں نہیں ہوں گے۔ کچھ کرنا دھرنا ہے نہیں۔ ہاتھ پیر چلانے سے کام نہیں …بس اﷲ کے نام پر دے … نوج انہوں نے پوری قوم کو بدنام کرا کے چھوڑا ہے۔ پتہ نہیں اتنے فقیر کہاں سے نکل آتے ہیں۔ جسے دیکھو محنت سے جی چرائے پھرتا ہے … چل رے کلموہا … نصیب جلا …

بگڑتی بولتی بڑی بی نے اُسے غسل خانہ کا راستہ دکھاتے ہوئے پھر کوسہ دیا … جا جا نہا لے … اب اﷲ یہ کیسی آفت ہے … کھڑا کھڑا منہ کیا دیکھ رہا ہے … اب جا بھی … اُف … بولی تو سمجھتا ہی نہیں۔ کسی جنگل سے چھوٹ کر آیا ہے جیسے … نہا لے … اب بڑی بی نے اشارے سے بتایا … ہاں ایسے … اب جا بھی …‘‘

ڈر کے مارے اسلم کی شکل ایسی ہو گئی تھی کہ بڑے میاں ٹھہاکا لگا کر ہنس پڑے …

’’انور کی اماں! تم تو پہلے ہی دن بے چارے کو قبرستان بھیج دو گی۔ جس نے پانی کی شکل ہی نہ دیکھی ہو، اُسے آتے ہی غسل خانے بھیج دیا۔ اب وہ نہائے گا کیا۔ نہلانا پڑے گا اُسے …‘‘

’’یعنی میں نہاؤں گی؟‘‘ بڑی بی کا پارا چڑھ گیا تھا۔

’’نہیں۔ آج میں محنت کر دیتا ہوں۔ تم جاؤ بسمتیا کو چائے بنانے کو کہہ دو اور ہاں انور میاں کے پرانے کپڑے اس کو فٹ ہو جائیں گے۔ ایک جوڑی پائجامہ کرتا لے آنا …‘‘

’’نوج مصیبت ہے …‘‘ بولتی بکتی بی اماں باورچی خانہ کی طرف چل دیں۔ بڑے میاں ایک بار پھر مسکرائے … ٹھہر کر ایک فقرہ پھر جڑا …

’’اب تم ہی نے تو صبح صبح کوے کا ذکر چھیڑا تھا۔ لو شامت آ گئی نا …‘‘

’’کیا …‘‘

اس سے پہلے کہ بڑی بی پلٹیں، بڑے میاں اسلم کو لے کر جلدی سے غسل خانے میں داخل ہو گئے۔

بڑی بی کے بولنے کی آواز کچھ سکنڈ تک آتی رہی۔ پھر خاموشی چھا گئی۔

نہانے دھونے کے بعد انور میاں کا اترن پہن کر اسلم میاں آدمی لگنے لگے تھے۔ شکل نکل آئی تھی۔ بڑی بی نے لگانے کو تیل بھی دیا تھا۔ کافی تیل بال میں چپوڑنے کے بعد میاں اسلم نے بیچ کی مانگ نکال رکھی تھی اور شکل ایسی ’چنڈق‘ کی طرح ہو رہی تھی کہ راشدہ کا ہنستے ہنستے بُرا حال ہو گیا تھا … وہ قہقہہ لگاتے ہوئے بولی …

’’اباّ۔ اسے کس میوزیم سے لائے آپ!‘‘

’’اب حد ہوتی ہے بدتمیزی کی۔ یہ کیا بد اخلاقی ہے بیٹی۔ غریب آدمی ہے۔‘‘

’’اِسے اتنے تیل چپوڑنے کو کس نے کہا تھا۔‘‘بڑی بی پھر ناراض ہوئیں۔

’’اب لو۔ پوری شیشی اس کے ہاتھ میں تھما دو گی تو یہی ہو گا نا۔‘‘ بڑے میاں کو بھی لطف  آ رہا تھا۔

اسلم ناسمجھوں کے انداز میں سب کو باری باری سے دیکھ رہا تھا … شام کے سات بج گئے تھے۔ بسمتیا کے کھڑبڑ کھڑبڑ کی آوازیں باورچی خانے سے برابر رینگ رہی تھیں … پچھواڑے کمرے سے بچے کے چلانے کی آواز بھی گونج رہی تھی …

بڑی بی نے پھر زبان کا سوئچ آن کیا۔ ’’اب ایسی بھی کیا مصروفیت کہ بچے کو باہر زمین میں چھوڑ کر باورچی خانے میں لگی ہے … اوبسمتیا …‘‘

’’جی اماں‘‘

’’اب اماں اماں کیا کر رہی ہے۔ بچہ رو رہا ہے۔ اُسے چپ کرانا۔ زمین میں ایسے سلاتی ہے جیسے جانور کا بچہ ہو___‘‘

’’اب اماں غریب کا بچہ ایسے ہی پلتا ہے۔‘‘بسمتیا باورچی خانے سے ہی بولی۔

’’تو کھڑا کھڑا منہ کیا دیکھ رہا ہے۔‘‘ بڑی بی نے پھر بسمتیا کو آواز دی۔ آٹا سنے ہاتھوں کو لے کر بولتی بکتی بسمتیا باورچی خانے سے نکل کر باہر آ گئی تھی … ’’اماں! اب کیا ہوا۔ اس اُمر (عمر) میں اتنا نہیں بولا کرتے۔ طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔ ہاں کیا ہے اب — ؟‘

’’لے جا اسے۔ کام سکھا۔ بیٹھے بیٹھے روٹی تو توڑنے نہیں دوں گی۔ کچھ کام وام تو جاننا ہی چاہئے اسے …‘‘

’’اچھا اماں‘‘۔ بسمتیا نے غور سے گونگے کے چہرے کو دیکھا … تیل کے ٹپکنے سے پوری پیشانی تر ہو گئی تھی … شکل ایسی بیوقوفوں جیسی لگ رہی تھی کہ بسمتیا کی بھی ہنسی نکل گئی۔ انور میاں کا تنگ بش شرٹ اور ڈھیلا ڈھالا پائجامہ۔ ساتھ ہی آل پین لگی ہوئی ہوائی چپل۔ عجب سے ہو رہے تھے اسلم میاں …

’’اب بس بھی کر۔ لے جا اسے۔‘‘

بڑی بی نے بھی آدھی ہنسی گلے میں روکتے ہوئے بسمتیا کو حکم دیا … راشدہ تب تک پڑھنے کے لئے جاچکی تھی۔ بڑے میاں ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے تھے … ایک کونے میں ٹی وی کا پورٹیبل سیٹ پڑا تھا۔ ڈرائنگ روم پرانی چیزوں سے بھرا پرا تھا۔ پرانے زمانے کا صوفہ … دیوار پر کچھ پرانی مدھوبنی پینٹنگس … ایک طرف شیر کی کھال … مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی تصویریں … فریم کی گئی۔ ایک طرف ابا حضور اور امی حضور کے ساتھ دونوں بھائیوں کی کافی پرانی تاریخی تصویر … ریک پر ٹوٹا ہوا شیشہ کا گلدستہ —  کافی پرانا — ٹوٹا ہونے کے باوجود یہ ڈرائنگ روم کی زینت اس لئے بھی تھا کہ بڑے میاں اس کی نوعیت کو بھی تاریخی ٹھہراتے تھے___ کہتے ہیں یہ خاندانی تحفہ ہے۔ خود اتاترک کمال پاشا نے اسے اپنے ہاتھوں سے اُن کے خاندان کے کسی وارث کو تحفے میں دیا تھا … اب ایسی چیزیں تو نوادرات میں ہیں ہی۔ اُس کی قیمت کا اندازہ کیا جو شاہ ایران اتاترک کمال پاشا سے تحفہ میں ملا ہو … بہت سنبھال کر رکھا تھا اس نایاب تحفہ کو … ٹوٹنے کے باوجود یہ اس ڈرائنگ روم کا سب سے قیمتی خزانہ تھا۔ روز خود ہی اس پر آئی موٹی دھول جھاڑتے بڑے میاں … خاندانی وقار کی نشانی تھا یہ گلدستہ … ڈرائنگ روم کے صوفہ پر چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے کسی سوچ میں ڈوبے تھے کہ اچانک دروازے پر نظر آئے ارشد پاشا___ خاموش۔کسی فکر میں ڈوبے ہوئے …

’’آؤ آؤ بیٹھو‘‘ ___انہوں نے آواز دی۔

ارشد پاشا نے بھی نشست سنبھال لی۔

’’بات کیا ہے؟‘‘

کچھ نہیں‘‘

’’تمہارا ایم ایس سی کا امتحان کب ہے‘‘

’’ابھی دن ہے …‘‘

’’تیاری کیسی چل رہی ہے‘‘

’’ٹھیک ہے۔‘‘

’’کچھ سست سے لگ رہے ہو …‘‘

اتنا پوچھتے ہوئے دمّہ نے پھر اپنا اثر دکھایا تھا۔ بڑے میاں کھانسنے لگے تھے۔ آنکھوں میں لال لال ڈورے تیر گئے … کھانستے کھانستے بے دم سے ہو گئے۔ گونگا دوڑ کر پانی لے آیا تھا۔ پانی پیتے ہوئے متشکر آنکھوں سے انہوں نے گونگے کو دیکھا۔

’’دیکھا۔ کتنی جلد ہوش مند ہو گیا۔ فوراً سمجھ گیا کہ مجھے پانی کی ضرورت ہے‘‘۔ کھانسی سے کچھ آرام ملا تھا۔

گونگا خالی گلاس لے کر لوٹ گیا___

بڑے میاں نے پھر پوچھا ___ ’’ہاں تو تمہیں تکلیف کس بات کی ہے۔ آج کل کچھ بجھے سے رہتے  ہو — ‘‘

’’ہاں اباّ‘‘___ ارشد پاشا نے غور سے بڑے میاں کی آنکھوں میں جھانکا … عمر کی اُس منزل میں تھے جہاں ہلکی ہلکی مونچھ اُن کے سفید خوبصورت چہرے پر خوب جچ رہی تھی۔ تھوڑی بہت داڑھی بھی نکل آئی تھی … آنکھوں پر کم عمری میں ہی فریم چڑھ گیا تھا۔

بڑے میاں ہنسے … ’’کافی انٹلکچول لگنے لگے ہو …‘‘

’’مسئلہ یہ نہیں ہے اباّ‘‘ …کافی سنجیدہ آواز تھی ارشد پاشا کی۔

’’مسئلہ …‘‘ بڑے میاں نے صوفہ پر پینترا بدلا …‘‘ تمہیں ہوا کیا ہے۔ کیسا مسئلہ___؟

’’اب کیسے بتاؤں میں …‘‘ ارشد نے اپنے ہونٹوں کو دابا … چہرے پر شکن ابھری۔ الجھنوں کی کتنی ہی پرتیں چہرے پر بچھتی چلی گئیں … اب کیسے کہوں میں … اتنی عمر ہو گئی میری …‘‘

’’کون کہتا ہے؟ کوئی خاص عمر نہیں ہوئی تمہاری۔ ماشا اﷲ ابھی پڑھ رہے ہو … کچھ اماں نے کہا کیا‘‘؟

’’نہیں۔‘‘

’’پھر کیا مسئلہ ہے؟‘‘

’’میں کچھ بننا چاہتا ہوں اباّ‘‘ … ارشد پاشا کی آواز جیسے کسی تنگ کنویں سے ابھری۔

’’دھت تری کے …‘‘ بڑے میاں قہقہہ مار کر ہنسے۔ اس میں ایسی کون سی بات ہے پریشانی کی ___ٹھیک ہے … اچھی بات ہے … تمہارے اندر یہ جذبہ تو پیدا ہوا کہ کچھ بننا چاہئے۔ اس عمر میں اس سے اچھی بات اور کیا ہوسکتی ہے …‘‘

’’مسئلہ یہ نہیں ہے اباّ‘‘۔ چہرے کو جھٹکتے ہوئے ارشد پاشا نے جھنجھلایا سا جواب دیا —  آپ سمجھے نہیں … میں کچھ بننا چاہتا ہوں۔‘‘

’’اچھی بات ہے۔ تو میں نے کب کہا کہ تم کچھ بننا نہیں چاہتے‘‘۔

’’یہ بات نہیں اباّ۔ اب میں آپ کو کیسے بتاؤں … میں وہ بننا نہیں چاہتا جو دوسرے چاہتے ہیں … یہ کچھ الگ سا … کچھ مختلف …‘‘

آنکھوں میں چمک لہرائی تھی۔

بڑے میاں نے صوفہ پر پھر پینترا بدلا … ’’مجھے پوری بات سمجھاؤ …‘‘

’’میں اس سلسلے میں کئی دنوں سے کافی پریشان ہوں اباّ۔ یہ مسئلہ صرف میرا نہیں ہے … کبھی کبھی پوری قوم کا مسئلہ لگتا ہے … کبھی کبھی کچھ سمجھ میں نہیں آتا … شاید … مجھے لگتا ہے … میں جو بننا چاہتا ہوں … وہ پوری طرح خود مجھ پر واضح نہیں ہے … کہ میں کیا چاہتا ہوں … کیسا بننا … مگر دیکھئے نا … میں ڈاکٹر … انجینئر … آئی ایس افسرنہیں بننا چاہتا … یہ کتنے دنوں تک اپنے نام کو زندہ رکھ پاتے ہیں؟ … اپنے پیشہ سے انصاف کرنے کے علاوہ اور کیا کر پاتے ہیں؟ اور مرنے کے بعد … میں چاہتا ہوں … میرا نام … میرے بعد بھی … آئی مین … شاید ابھی اچھی طرح وضاحت نہیں کرپاؤں … مگر میں کچھ انوکھا کر کے دکھانا چاہتا ہوں …‘‘

ارشد پاشا کو ٹٹولنے کے باوجود لفظ ہی نہیں مل رہے تھے۔ وہ کافی پریشان دکھ رہے تھے۔ اچانک بولتے بولتے خاموش ہو گئے …

’’تمہیں آرام کی ضرورت ہے … دماغ پر زیادہ زور ڈالنا اچھا نہیں۔‘‘ بڑے میاں نے مشورہ دیا۔

’’جاؤ جا کر سو جاؤ …‘‘

’’آپ نہیں سمجھیں گے اباّ … کوئی نہیں سمجھے گا___‘‘

ارشد پاشا تھکے تھکے سے اٹھ کھڑے ہوئے … اور کمرے سے باہر نکل گئے___

’’باؤلا ہو گیا ہے یہ لڑکا … پتہ نہیں کیا کیا سوچتا رہتا ہے … سچ تو یہ ہے کہ یہ نئی نسل ہی عجیب سی ہو رہی ہے …

بڑے میاں نے چائے ختم کر لی تھی … خالی کپ میز پر رکھ دیا  … پتہ نہیں آج میچ کا کیا ہو گا … کوئی کرکٹ میچ تو تھا نہیں کہ جہاں دیکھو ہر طرف لوگ کھڑے ہیں … اب فٹ بال کا میچ کون سنے۔ کمبخت ٹیلی کاسٹ بھی نہیں۔ اب تو اسپورٹس مین شپ ہی نہیں رہی … پھر بھی —  پتہ نہیں کیا ہوا۔ موہن بگان جیتا یا محمڈن اسپورٹنگ۔ فائنل میں تو یہی دونوں پہنچے …‘‘

بڑے میاں سوچ میں پڑگئے تھے۔ کتنا وقت بدل گیا اور کس تیزی میں بدلا وقت … اب کرکٹ میچ ہو تو لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ ملک کون سا کھیل رہا ہے۔ ہندستان پاکستان کے درمیان میچ ہو تو سنسنی اتنی بڑھتی ہے کہ اﷲ اﷲ فساد کا خدشہ لگا رہتا ہے۔ دل گھبرایا رہتا ہے … نوج پاکستان جیتے یا ہندستان اپنا کیا جاتا ہے … میچ دیکھو … مگر یہ کون سنتا ہے … اب یہی لو … بنگال میں موہن بگان اور محمڈن اسپورٹنگ کے درمیان میچ ہو تو پریسٹیج ایشو بن جاتا ہے …

بڑے میاں کے چہرے پر الجھن پیدا ہوئی۔ ذہن بوجھل ہو گیا … اچانک باہر سے انور میاں کے جوتے کی کھٹ کھٹ سنائی پڑی … اور پھر دکھائی دیا انور میاں کا چمکتا ہوا چہرہ۔ ہاتھوں میں ہیں___ پولیتھین کے کتنے ہی گندے پیکٹ___ چہرے سے خوشی برس رہی تھی۔

’’اب یہ کیا۔ تمہارا تو دماغ خراب ہو گیا ہے‘‘

’’نہیں اباّ۔ ورلڈ ریکارڈ بنانے جا رہا ہوں … یہ پولیتھین شمیم چاچا کے یہاں سے لایا ہوں۔ جانتے ہیں یہ پولیتھین بہت قیمتی ہے … آج اُن کے یہاں صفائی ہو رہی تھی … پرانے پرانے بکس دھوپ کو دکھائے جا رہے تھے … ان کو میرے اس شوق کی معلومات تو تھی ہی۔ آدمی بھیج کر بلایا۔ پورے پچاس سال پرانے پولیتھن ہیں۔ لیکن دیکھئے اب تک خراب نہیں ہوئے … وہ تو خیر ہوا کہ کپڑوں کے بکس میں پڑے تھے یہ پولیتھن۔ لیکن دیکھئے اب تک خراب نہیں ہوئے … بکس میں فنائل کی گولی ڈالی ہوئی تھی۔ اب دیکھ لینا اباّ۔ بس کچھ سالوں کی ہی بات ہے … میرا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہو کر رہے گا …‘‘

’’اچھا اچھا۔‘‘ بڑے میاں ناراض ہوئے___ ’’اب یہ گندگی رکھے گا بھی یا پورے گھر کو دکھاتا پھرے گا۔‘‘

’’اباّ، آپ اسے گندگی کہتے ہیں___‘‘

’’نہیں۔ یہ تو جواہرات ہیں۔ شوکیس میں سجادو‘‘

’’جواہرات ہی ہیں اباّ۔ ابھی ان کی قدر کسی کو نہیں معلوم___ مگر کل …‘‘

انور پاشا خیال کی رو میں بہہ گئے تھے___

’’اچھا۔ آج میچ کا کیا ہوا۔ تو نے سنا کہ نہیں۔‘‘

’’وہ فٹ بال میچ کا …‘‘ انور چہکا …‘‘ وہاں تو ہنگامہ ہو گیا اباّ۔ اب تو یہ موہن بگان یا محمڈن اسپورٹنگ کے بیچ ہونے والے میچ بند ہونے چاہئیں۔‘‘

’’مگر ہوا کیا؟‘‘

’’ارے ہونا کیا تھا۔ محمڈن جیتنے لگی تو دیکھنے  والوں میں سے کچھ نے شور مچائے۔ پھر ہنگامہ شروع ہو گیا۔ توڑ پھوڑ مچنے لگی … پولیس کو لاٹھی چلانی پڑی … آنسو گیس تک چھوڑنے کی نوبت آ گئی …‘‘

’’اچھا‘‘ … بڑے میاں کے ذہن پر دھماکہ ہوا … اﷲ بچائے اس ملک کو … اب کھیل کود میں بھی زہر کے جراثیم آ گئے۔ چاروں طرف آگ لگی ہے … خدا خیر کرے … پتہ نہیں دینا کا کیا ہو گا … ہو گا کیا تغلق پاشا … اندر کے کسی گوشے سے ایک سخت آواز حرکت کرتی ہے … اپنی کمزوریوں پر پردہ کیوں ڈالتے ہو تم! … تم نے بھی تو اُس وقت نجمہ کو نہیں روکا تھا، چھوٹے سے ارشد نے باہر کھیلتے ہوئے اپنی ہی عمر کے بٹوّ کو پیٹ دیا تھا … بچے کیا جانیں مذہب کی بات … مگر نجمہ نے تو اس معمولی سی بات کو بھی دنگے اور فساد سے جوڑ دیا تھا ___اور تم بھی تو خاموشی سے سارا کھیل دیکھ رہے تھے … اب تم مجھے بتاؤ تغلق پاشا، ایسی صورت میں فرق کے جراثیم اُس کے اندر آئیں گے یا نہیں … اور جب آئیں گے تو … تم اُس کی روک تھام کیسے ککر سکو گے …؟

بڑے میاں ٹھنڈی سانس بھرتے ہیں … ایک بار پھر وہی حملہ … خدا خیر کرے … ایک بار پھر لوٹ آئے پاکستان … پتہ نہیں کیا ہونے والا ہے  … ضیاء کے بعد پاکستان کی حالت سدھرتی بھی ہے یا نہیں … تعلقات کیسے ہوتے ہیں؟ اﷲ کرے تعلقات سدھر جائیں … خبر تو یہ بھی ہے کہ کراچی سے لے کر پشاور تک پورے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا جائے گا … اﷲ کرے کچھ ایسی صورت پیدا ہو کہ اپنے بھائی کو دوبارہ بلوا سکیں … صورت دیکھے … کتنی مدت ہو گئی … بچے بھی کتنے بڑے ہو گئے ہوں گے … سب کو دیکھنے کو کتنا جی چاہتا ہے … ابھی کچھ دن پہلے ہی تو تاجور نے تصویریں بھیجی تھیں … پورے خاندان کی تصویر … ایک تصویر اکیلی شائمہ کی تھی …گوری چٹی شائمہ … کتنی پیاری لگ رہی تھی … ہاتھوں میں مہندی لگائے … تصویر کے پیچھے لکھا تھا … پیارے بڑے اباّ کے لئے … وہ کتنا خوش ہوئے تھے … شائمہ تو انور کے ساتھ کی ہے … خواہش کا کیا ہے … اندر مچلتی ہے سو جاتی ہے … اب تعلقات اچھے ہوتے تو وہ شائمہ کو تاجور سے مانگ لیتے … بھائی میری بیٹی مجھے دے دو … مگر کس منہ سے کہیں … نصرت بھی تو کافی بڑا ہو گیا ہو گا … پتہ نہیں کب دیکھیں گے … اب تصویریں آتی ہیں تو عمر کا اندازہ ہوتا ہے … بچے اتنے بڑے ہو گئے … اتنی جلد … پھر اپنی عمر کا بھی اندازہ ہوتا ہے …

اوہ … ہم تو بوڑھے ہو گئے … روز عمر کی لمبی لمبی سیڑھیاں پار کرتے ہوئے اب گمشدہ تاریخ بننے کی تاری کر رہے ہیں … تاجور نے لکھا ہے … بھیاّ پورے خاندان کی تصویر بھجوائیے۔ سچ آپ لوگوں کو دیکھنے کا بڑا جی چاہتا ہے … پتہ نہیں یہ موقع کب آئے گا …

آنکھوں میں پھر وہی تھرکتے آنسو … اندر جذبات میں آیا ہوا انقلاب … ٹکرے ٹکرے ٹوٹتے ہیں بڑے میاں … آنسو کو مشکل سے پی جاتے ہیں … باورچی خانے سے بڑی بی کے بولنے کی آواز اب پھر سے آ رہی ہے۔ بسمتیا کا شوہر بھی آ گیا ہے … وہ کسی بات پر بگڑ رہا ہے … کمبخت کوئی دن ناغہ ہو تو … ہر روز ہی ٹھّرہ پیئے گا … اپنی جگہ سے اٹھنا چاہتے ہیں بڑے میاں۔پھر بیٹھ جاتے ہیں … کیا فائدہ … ٹھنڈی سانس کھینچتے ہیں …

٭٭

دوسرے دن صبح ہی صبح ایک چھوٹا سا حادثہ ہو گیا … مگر یہ پاشا خاندان کے لیے کسی بڑے حادثے سے کم نہیں تھا۔ تغلق پاشا تو جیسے مرنے مارنے پر تل گئے تھے۔ دمہ کے بیمار آدمی —  سانس پھول گئی تھی … انور پاشا اور ارشد پاشا صرف ہنسی روکے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ راشدہ اس منظر سے بور ہو کر اپنے کمرے میں لوٹ گئی تھی …

ہوا کچھ نہیں تھا … بس اتنا کہ اُس تاریخی گلدستہ کو بیکار سمجھ کر میاں گونگے نے صفائی کے دوران باہر کوڑے دان میں پھینک دیا تھا جہاں اب وہ کتنے ہی ٹکروں میں بٹا ہوا، قدیم تاریخ اور شہنشاہیت کے مرثیہ کا مذاق اڑا رہا تھا … بڑی بی نے ہی اُسے ڈرائنگ روم کی صفائی کا حکم نامہ سنایا تھا۔ آٹھ بجے کی مارننگ خبروں کو سننے کے لئے جب ٹی وی آن کرنے بڑے میاں ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تو اچانک سن سے رہ گئے …

یہ کیا … وہ تاریخی گلدستہ ہی غائب تھا …

سانس پھول گئی … چہرہ کتنی ہی آڑی ترچھی لکیروں سے بھر گیا۔ غصّہ میں چیخے … یہ کس نے کیا —  اُن کی زوردار آواز سنتے ہی پورا گھر جیسے ڈرائنگ روم میں جمع ہو گیا …

’’اب ہوا کیا؟ ‘‘بڑی بی نے جو اس طرح میاں کو حواس باختہ دیکھا تو پوچھ پڑیں۔

’’اب ہو گا کیا۔ کچھ باقی رہ گیا ہے —  وہ دیکھو۔‘‘

’’ہائیں …‘‘بڑی بی کی آنکھیں بھی پھٹی پھٹی رہ گئیں … اس گلدستہ کے بارے میں تو اب تک وہ میاں کی زبانی لاکھوں حکایتیں سن چکی تھیں۔ کہاں ہے گلدستہ … اب میاں گونگے کی خیر نہیں …

’’کس نے کی صفائی‘‘

’’اب میں کیا جانوں۔ میں نے تمہارے اسی نمونے کو کہا تھا — ‘‘

بڑے میاں طیش میں تھے۔ اتنے طیش میں اُنہیں گھر کے کسی فرد نے اس سے قبل نہیں دیکھا تھا۔ فوراً ہی بڑے میاں کی عدالت میں اُس گونگے جانور کو پیش کیا گیا۔

بڑے میاں نے پہلے اشارے سے پوچھا۔ ’’تم نے صفائی کی‘‘

اُس نے اثبات میں سرہلایا۔

غصّہ میں اُسے کھینچتے ہوئے بڑے میاں اُسے ریک تک لائے … اشارہ کیا … یہاں کچھ تھا … اتنا بڑا …گلدستہ …

ہاں … اُس نے سمجھ کر کانپتے ہوئے اشارہ کیا … باہر کوڑے دان کی طرف۔ اور یہ دیکھ کر بڑے میاں ویسے ہی چت ہو گئے جیسے اچانک کسی عزیز کے انتقال کی خبر ملی ہو … چہرہ ایک دم سے سرخ ہو گیا۔ جتنی طاقت تھی، پوری طاقت سے اُس گونگے کو دیوار کی طرف ڈھکیل دیا —  اُس وقت کچھ ملا نہیں تو ہاتھوں پیروں سے دھنائی کر دی۔ انور اور راشدہ نے روکا …

بڑے میاں جیسے پاگل ہو گئے تھے … گونگا اوں اوں کر کے کچھ نہ سمجھتے ہوئے رو رہا تھا۔

بڑی بی دہاڑیں … اب مار دو گے کیا … یہی کرنا تھا تو لائے کیوں۔‘‘

’’تم نہیں سمجھتی۔ اس نے کیا کیا ہے۔ آج اس نے میرا خاندانی وقار توڑ دیا … ا سے چھوڑوں گا نہیں … بول کمبخت … اپنے جیسا جانتا ہے … کیا اوقات ہے تیری۔ تجھے چھونا تک نہیں چاہئے تھا اُسے … ایران کے شاہی خاندان کی آخری نشانی تھی میرے پاس —  تو نے اسے توڑ دیا … ختم کر دیا …

رو رہے تھے بڑے میاں … آنسوؤں کے قطرے طوفان بن کر چہرے کو بھگو گئے تھے …

’’گزرتے وقت کے ساتھ یہی کچھ تو باقی بچا تھا بیگم۔ سب کچھ ٹوٹ گیا۔ برباد ہو گیا … خاندانی عزت اور وقار کو آزادی کے بعد ملی تنگدستی اور مفلسی نے نیلام کر دیا … یہی چیزیں تو باقی رہ گئی تھیں جس میں گزرا کل دیکھا کرتا تھا۔ گزرے کل کی سنہری تاریخ دفن تھی جس میں … شاہی خاندان کے ہونے کی عظمت دفن تھی اُس بے جان سے گلدستہ میں۔ اس کمینے، نا اہل نے ذرا بھی پوچھا نہیں … کسی کو دکھایا نہیں … اور اس تاریخی یادگار کو وہ بھی کہاں پھینکا … کوڑے کے ڈھیڑ پر … میں کہتا ہوں نکل جاؤ … نکل جاؤ میاں بھک منگے … میں تمہاری صورت بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔

بڑے میاں چیخے … اتنی زور سے کہ پھر کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔ تیز تیز کھانسنے لگے … آنکھیں  باہر کو نکل گئیں مگر کھانسی تھی کہ رکتی ہی نہ تھی … بے دم کئے دے رہی تھی … کھوں کوں … سینہ سہلا رہے تھے بڑے میاں …

’’لو اور چیخو۔ اب اتنی سی بات پر …‘‘ بڑی بی نے لقمہ دیا …

’’اتنی سی بات … اب تم شاہی تحفے کی بے عزتی کو ایک معمولی بات ٹھہراتی ہو تو تمہارا عقل پر بھی ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے بیگم …‘‘

’’اب مان بھی جاؤ‘‘

’’لیکن …‘‘بڑے میاں پھر پوری طاقت لگا کر چیخے۔ میرے سامنے سے دور ہٹاؤ اسے … میں اس کی صورت تک دیکھنا نہیں چاہتا …‘‘

سانسوں پر قابو پاتے ہوئے وہ کوڑے کے ڈھیر سے اُس شاہی تحفے اور تاریخی یادگار کرچیوں کو جمع کرنے لگے … پاگلوں کی طرح … بڑی بی حیرانی سے میاں کی حرکتوں کو دیکھے جا رہیں تھی۔ ایک ایک ٹکڑا وہ بڑی عقیدت سے سنبھال کر اٹھاتے۔ کنارے رکھتے … اب ٹوٹے ہوئے گدستہ کو عقیدت  اور پاکیزگی کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں بڑے میاں … یہ کانسے کا گلدستہ اب ملتا کہاں ہے … وہ بھی کمال پاشا کے ہاتھوں دیا ہوا … آج تو اس کی قیمت کا ٹھکانہ نہیں ہے … کسی بھی میوزیم میں دے دوں تو مفت کے لاکھوں روپے آ جائیں۔ ہاں لاکھوں روپے … انور میاں منہ مت بناؤ … معمولی حقیر شئے سمجھ رکھا ہے تم نے … مگر میں اسے جوڑوں گا۔ اس گلدستہ کو … پھر وہیں رکھوں گا۔ یہ اس ڈرائنگ روم کا سب سے قیمتی خزانہ ہے … رانگا مل سکتاہے۔ کانسے کا یہ گلدستہ رانگے سے جڑسکتا ہے …‘‘

’’اب بچوں سی باتیں مت کرو … جڑسکتا ہے یہ میں بھی دیکھ رہی ہوں … چلو ہٹو بھی۔ میں اُس گونگے سے جڑوا لیتی ہوں۔‘‘

’’نہیں۔‘‘ بڑے میاں پھر کڑا کے دار آواز میں گرجے … میں اُس کی صورت تک …

’’پھر خود ہی کہو گے کہ کہاں گیا۔ غصّے کا اُبال کم ہوا نہیں کہ ڈھونڈنے نکل جاؤ گے —  پھر کہاں سے لاؤں گی اُسے‘‘

بڑے میاں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔

’’اب یہ تماشہ بند کرو۔ آفس بھی جانا ہے یا نہیں … یہ صبح صبح طبیعت خراب کرنے سے سارا دن ہی موڈ خراب رہتا ہے …‘‘

’’ہاں ٹھیک ہے …‘‘ بڑے میاں مطمئن تھے۔

کچھ ہی دیر بعد بسمتیا نے آ کر بتایا … ناشتہ بن گیا ہے۔ دسترخوان بچھاؤں۔‘‘

’’ہاں بچھا دے …‘‘

بڑے میاں گل کرنے بیٹھ گئے … گلدستہ جوڑنے کے لئے بڑی بی نے بسمتیا کو کہہ دیا تھا۔ ہونٹوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ لئے وہ بادشاہوں کے اس کھلونے کو جوڑنے میں لگ گئی  …

پہلے تو اُس نے برے پیار سے بڑی بی سے کہا … ’’اب اماں! اسے پھینک بھی ڈالو … یوں بھی یہ اتنا پرانا ہے کہ …

’’دھیرے بولو …‘‘ اماں نے اشارہ کیا … وہ غصّہ میں ہیں‘‘

’’اب اس کا کیا ہو گا‘‘

’’ڈرائنگ روم میں سجے گا اور کیا ہو گا‘‘

مسکراتے ہوئے رانگا کی مدد سے بسمتیا گلدستہ جوڑنے میں لگ گئی۔ بڑے میاں جب گل کرنے سے فارغ ہوئے اور ڈرائنگ روم میں آئے تو یہ دیکھ کر خوش ہو گئے کہ گلدستہ دوبارہ اپنی جگہ سجا ہوا ہے … ہاں رانگے کی وجہ سے کئی جگہ جوڑ صاف نظر آ رہے تھے۔ مگر اس سے کیا ہوتا ہے … جڑتو گیا نا۔ وہ کسی سے کہہ توسکتے ہیں کہ ان کے پاس شاہی یادگار موجود ہے —  دل و دماغ اب تک قابو میں آ چکا تھا … وہ پوری طرح معمول میں لوٹ آئے تھے … اچانک انہیں اُس بے جان سے جانور کا خیال آیا۔ کہاں گیا … کتنا ڈانٹ دیا اُسے … اتنا نہیں ڈانٹنا چاہئے تھا۔ اب اُس کا بھی کیا قصور … بیگم نے صفائی کرنے کو کہا تھا۔ اب اُسے کیا معلوم کہ اس کی قدر و قیمت کیا ہے … وہ بھلا اس کا اندازہ کیا کرتا … خیر جو ہو گیاسو گیا … اب وہ یہ غلطی نہیں دہرائے گا …

اُف … جب وہ باہر نکلے تو دیکھا، سیڑھیوں پر پیروں میں منہ  دیے اسلم بیٹھا ہے … آنکھیں لال لال ہو رہی ہیں …

’’جا جا … اندر جا …‘‘

اتنا کہہ کر وہ مسکرائے۔ پھر سائیکل نکالی … اور سائیکل پر بیٹھ کر آفس کے لئے روانہ ہو گئے۔

٭٭

 

 

(6)

چاروں طرف سے سڑک کے منہ کھلے ہوئے تھے۔ دائیں بائیں۔ چاروں طرف گاڑیاں برق رفتاری سے بھاگ رہی ہیں۔ ٹیمپو، بسیں، ٹم  ٹم، گھوڑا گاڑی، رکشہ … آسمان پر چمکتے سورج نے اپنی سخاوت کا خزانہ کھول دیا ہے … اور دھوپ پھیل گئی ہے … چاروں طرف … لوگ بھاگ رہے ہیں … وہ اس بھیڑ کا ایک حصہ بننا چاہتا ہے … جہاں ہر شخص تیز رفتاری کی اس دوڑ میں شریک ہے … آگے چوراہے پر ایک تنگ گلی بائیں طرف مڑ جاتی ہے۔ یہاں مسلمانی گوشت ملتا ہے۔ یعنی بھینس کاٹی جاتی ہے۔ ایک تیز بدبو اُس کی ناک سے ٹکراتی ہے … وہ ایک اچٹتی سی نظر دور تک پھیلی ہوئی گندگی کے ڈھیر پر ڈالتا ہے … کہیں اندر اندر کچھ ٹوٹے پھوٹے سے لفظ تیزی میں بجنے شروع ہوتے ہیں …

یہ مسلمان اتنے گندے کیوں رہتے ہیں؟ نہاتے کیوں نہیں ہیں یہ لوگ … جتنی گندگی مسلمانوں کے محلے میں رہتی ہے اُتنی …

لفظ ہلچل مچا رہے ہیں … فوراً ہی ایک دوسری آواز دستک دیتی ہے … یہ اُس کی اپنی آواز ہے … کمزور سی آواز … تم نے جن کی بات کی ہے وہ مزدور پیشہ لوگ ہیں۔ لیبر کلاس اور تم اس لیبر کلاس سے …آواز ٹوٹ رہی ہے … برسوں حکومت کی ہے نا … تاج تخت سے کھیلے ہیں نا … عیّاشی کی ہے … سستی اور کاہلی آ گئی ہے … تم لوگ … صفائی بھی نہیں رکھ سکتے …

آواز  ہتھوڑے کی طرح اُسے زخمی کر رہی ہے  … ٹھک ٹھک … اب وہ ایک دوسری ہی آواز کی زد میں ہے …

ریلی جن، دھرم، مذہب … ایمان سے کہوں تو … یہ سب گورکھ دھندہ ہے … ہم سب اپنی آسانی کی خاطر اس گورکھ دھندے میں پھنستے چلے گئے ہیں۔ کہاں کے مسلمان … مطلب بھی جانتے ہو مسلمان کا … مسلّم ایمان والا … مسلّم تو چھوڑو … گوشت کی بوٹیاں توڑنے کے علاوہ آدھا ادھورامسلمان بھی ایمان سے اگر بچا ہو تو بولنا … سب گورکھ دھندہ ہے۔ ترقی کی اڑان … بہت پیچھے رہ جاؤ گے ارشد پاشا —  مذہب کی اس بجھی ہوئی قندیل کا پیچھا تو تمہیں چھوڑنا ہی پڑے گا …‘‘

اس وقت ذہن میں کتنے ہی دھماکے ہو رہے تھے۔ ارشد پاشا کو لگ رہا تھا … وہ کچھ چاہتا ہے … کیا … ؟شاید ابھی اس ’کچھ چاہنے کو‘ وہ کوئی نام نہیں دے پاسکتا … لیکن وہ کچھ چاہتا ہے … اور وہ بھی اُن  لوگوں میں شامل ہے جو دیکھ رہے ہیں کہ اُس کی قوم وقت کے حساب سے ترقی نہیں کر رہی ہے بلکہ پچھڑتی جا رہی ہے …اب کوئی نہیں بچا سکتا … بد سے بدتر کی طرف … کہیں کوئی اڑان نہیں … سوئے ہوئے … سب سوئے ہوئے اور منجمد … کہیں کوئی حرکت نہیں —  تحریک نہیں … مگر وہ کچھ چاہتا ہے کہ آن میں علاء الدین کے جادو کے چراغ کی طرح کوئی کارنامہ ہو جائے … اور اُس کی قوم کے تمام لوگ بلندیوں پر نظر آنے لگیں  … مگر یہ کیسے ممکن ہے … وہ چاہتا بہت کچھ ہے … مگر چاہنے کی تصویر واضح نہیں ہے … دھندلی دھندلی سی …وہ بہت زیادہ کنفیوژن کا شکار ہے —  اُن بہت سارے دوسرے مسلمانوں کی طرح جو سوچتے تو بہت کچھ ہیں مگر کچھ کر نہیں پاتے —

ایک بار پھر وہ منہ بناتا ہے … مسلمانوں کا محلہ اتنا گندہ کیوں رہتا ہے … صفائی تو جیسے یہ لوگ جانتے ہی نہیں … آگے گلی کے موڑ پر ہی سلطانی مسجد ہے … یہ پورا علاقہ مسلمانوں کا ہے … آج مسجد میں باہر سے تبلیغی جماعت کے لوگ آئے ہوئے ہیں۔ کل حاتم میاں تاجور پاشا کے پاس پہنچے تھے … حاتم میاں جن کی درزی کی دکان ہے … ایک وقت میں تو وہ دکان حاتم میاں درزی کی دکان کے نام سے ہی مشہور تھی لیکن وقت کے ساتھ حاتم میاں نے بھی سمجھوتا کیا۔ پرانی دکان کا حلیہ بدلا … دروازے، الماریاں، شیشے کے ریک … اور دکان کا نام رکھ دیا … ماڈرن ٹیلرس … پھر تو حاتم میاں کی بن آئی … ادھر دکان کی رنگت بدلی اور ادھر حاتم میاں کی تقدیر … پھر تو بہت کچھ بدل گیا۔ حاتم میاں اب عمامہ اور چوغے میں نظر آنے لگے تھے۔ چھوٹے چھوٹے بال، گندمی رنگ، درمیانہ قد، بڑھی داڑھی … پانچ وقت کے نمازی … اب وہاں اُن کے لڑکے بیٹھتے تھے اور حاتم میاں زیادہ تر اپنے تبلیغی سفر پر نکلے رہتے تھے … کہتے تھے … اب تو بڑھاپا آ گیا۔ دکان بچوں نے سنبھال لی۔ یہی تو وقت ہے اﷲ رسولؐ کرنے کا … عاقبت سدھر جائے … یہی حاتم میاں پہلے تبلیغ کے کاموں کو مذہبی پکنک بتایا کرتے تھے … مگر وقت نے ایسا رنگ بدلا کہ پورے پورے مذہبی رنگ میں رنگ گئے۔ اُس دن حاتم میاں نے جب تغلق پاشا کا دروازہ کھٹکھٹایا تبھی ارشد پاشا ڈر گئے تھے … خدا خیر کرے … ابوّ میاں بھی گئے کام سے …

تغلق پاشا نے دالان کا دروازہ کھلوایا۔ بڑی عقیدت سے حاتم میاں کو اندر دالان خانے میں لا کے بٹھایا۔

’’فرمائیے!‘‘

’’میاں! کل سلطانی مسجد میںجلسہ ہے ۔ پڑوس کے ایک آپ ہی بچے ہیں جو نہ کبھی چلہ پر گئے نہ کبھی تبلیغ کے جلسوں میں شریک ہوئے۔ سو آپ کو دعوت دینے چلے آئے۔ اس بار آپ کا کوئی انکار نہیں چلے گا۔ بچوں کو بھی بھیجئے۔ ماشاء اﷲ وقت کی ضرورت بھی ہے۔‘‘

’’میں تو نہیں جا پاؤں گا حاتم میاں‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’آپ تو جانتے ہی ہیں آفس کا کام … اگر اتوار ہوتا تو …‘‘

’’اب اﷲ کے کام میں کیا اتوار کیا سمبار میاں۔ ایک دن چھٹی کر لینے سے کوئی آفت تو نہیں ٹوٹ پڑنے کی …اور وہ بھی آپ وہاں بڑے بابو ہو … بزرگی آ گئی میاں … اس بزرگی کا کچھ لحاظ کر کے اﷲ حضور دین ایمان کی کچھ باتیں کر لیا کرو۔ یہی کام آئیں گی … کل کیا پتہ۔ کب آنکھیں بند ہو جائیں اور وہاں فرشتے جو گنہ کا حساب لئے چلے آئیں تو شرمسار تو نہ ہونا پڑے گا …‘‘

’’حاتم میاں! سچ کہتے ہیں آپ … مگر میرے ساتھ مجبوری بھی ہے … بڑا بابو ہوں اسی لئے نہیں جا سکتا۔ آپ کہیں تو اپنے لڑکے کو …‘‘

حاتم میاں نے پھسپھسانے والے انداز میں کہا … زمانہ نازک ہے میاں … تبلیغ ضروری چیز بن گئی ہے … آج نوجوانوں کے دلوں میں اﷲ رسولؐ کا ڈر پیدا کرنا ہے … مذہب کی بنیادی باتوں کی جانکاری دینی ہے … ہم ایک غیرملک میں رہتے ہیں میاں۔ یہاں طاقت سے اور اتحاد سے رہنا ہو گا … ورنہ یہ ہندو بوٹی بوٹی کر ڈالیں گے ہماری … تو طے یہ  ہوا آپ نہیں آئیں گے … اپنے لڑکے کو بھیج دیں گے …‘‘

’’ہاں حاتم میاں‘‘

تغلق پاشا بے دلی سے بولے … ارشد پاشا جو پاس ہی بیٹھے تھے، صاف انکار کر گئے۔

’’میں نہیں جانے کا اباّ۔ ایسی جگہوں پر‘‘

’’اب بیٹا۔ میں نے وعدہ کر لیا ہے بات کی بھی عزت رکھنی پڑتی ہے۔ ایک گھٹنے کا اجلاس ہو گا۔ اب انورسے تو کہہ نہیں سکتا۔ چلا جانا بیٹا  —  دین کا کام ہے …‘‘

’’دین کا کام …‘‘

ارشد پاشا کی تیوریاں چڑھ گئیں … غصّے میں بڑبڑائے … یہ لوگ کچھ نہیں ککر سکتے … کچھ نہیں ککر سکتے … صرف باتیں … لمبی لمبی زبان  —  جیسے ہندو چھری، بندوق لے کر بیٹھے ہیں —  جیسے بس یہی تو کام رہ گیا ہو ان کا۔ میاں کو دیکھ اور مار ڈالو … ابا ان لوگوں کی ذہنیت گندی ہو گئی ہے … یہ لوگ پوری قوم کا بھٹّا بیٹھا دیں گے اور آپ ایسی جگہوں پر …‘‘

’’مسجدوں میں جانا کوئی گناہ تو نہیں … تمہیں شراب کے ٹھیکے پر تو نہیں بھیج رہا۔‘‘ تغلق پاشا غصّہ سے اُبل گئے تھے … اور حاتم میاں نے ایسا کیا غلط کہا جو ایک دم سے غصہ میں آ گئے … یہ فساد … روز روز کے دنگے … کون مارا جاتا ہے ان میں … میرٹھ میں، احمد آباد میں، بہار شریف میں، جمشیدپور میں، علی گڑھ میں،مؤناتھ میں … کس کی حکومت ہے … کس کی سرکار؟ کس کی پولیس … کون مارا جاتا ہے … یہ ہندو …؟ پولیس کو ملا کر یہ ڈبل ہو جاتے ہیں … سرکار بھی ان کی اور پولیس بھی …برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر۔ بھیونڈی میں مرادآباد میں … اور تمہیں یہ خون نظر نہیں آتے … نوجوان ہو … جو سیکولرزم تم آج کی کتابوں میں پڑھتے ہو وہ اپنے آپ کو دلاسہ دینے کا، اس ہندو پریس نے ایک ہتھیار بنا لیا ہے … اخبار بھی ان کے … پورے ملک میں آگ لگی ہے۔ ہر جگہ مسلمانوں کو نیست و نابود کر دینے کی سازش ہو رہی ہے … اور تم کہتے ہو کہ … ایسا سوچنے والوں کی ذہنیت گندی ہو گئی ہے …؟‘

تغلق پاشا ہانپ رہے تھے … کمرے کے  دو چکّر دے لگائے … کھانسی کا دورہ پڑا … لیکن بولتے رہے۔

’’وہ کہتے ہیں یہ تمہارا ملک نہیں۔ آفس میں، بھی مذاق میں یہ ہندو اپنے دل کی بات کہہ جاتے ہیں۔ پاکستانی، دوغلے … بھاگو یہاں سے … اپنا وطن الگ لے کر بھی یہاں دال گلانے بیٹھے ہو … شیوسینا، وشو ہندو  پریشد … اُن کے خونی نعرے … مسجدوں پر قبضہ، مندر میں بدلنے کی چال … سب کچھ ایسا ہے کہ تمہیں توڑ دیا جائے … کمزور کر دیا جائے … اپنگ اور اپاہج … ہم کو … ہم جس نے صدیوں حکومت کی ہے۔  بادشاہت کا تاج صدہا … صدہا برسوں تک اپنے سروں پر رکھا تھا … ارے چھوٹا سا خطہ دے کر سمجھتے ہو کہ ہمیں ایک گھر مل گیا، ٹھکانہ مل گیا … ایک پورے گھر کا نناّنواں حصہ اور کہتے ہو کہ خوش رہیں … تم کو حصہ مل گیا … جھوٹ … فساد تو اسی لئے ہوتے ہیں کہ مسلمان ختم ہو جائیں … وہ اتنے کمزور ہو جائیں کہ کبھی سرنہ اٹھاسکیں … ہم تم سب کو خوف سے الگ ایک مضبوطی کا احساس چاہئے  … مضبوطی …‘

تغلق پاشا کھانس رہے تھے … زور زور سے … سانس تیز تیز چل رہی تھی … ارشد پاشا چپ چاپ وہاں سے نکل گئے … مضبوطی … یہ آخری لفظ ہتھوڑے کی طرح اُن کے اندر گونجتا رہا … کتنی دھمک تھی سر میں … یہ وہ تغلق پاشا نہیں تھے جو سرکاری آفس میں نوکری کرتا تھا … جس کے اندر ملک کی وفاداری اور محبت کا جذبہ رہتا تھا … ابا حضور …

آج ابا حضور کے تیور بدلے تھے … شاید یہ چنگاری برسوں سے اندر دبا کر رکھی ہو گی ابا حضور نے —  جو ایک دم سے اُنہیں لہو لہان کر گئی تھی … ہم سب کو ایک مضبوطی چاہئے …

یہاں سے برامدے کا منظر صاف تھا … پتھر کی چوکھٹ پر گونگا بیٹھا بسمتیا سے جوئیں نکلوا رہا تھا … بسمتیا بڑے پیار سے اُس کے سر میں کنگھی دے رہی تھی … ارشد پاشا کچھ دیر کے لئے ٹھہرے …

بسمتیا نے نگاہ اوپر اٹھائی —

’’کیوں! ایک ہی مہینے میں خوب دوستی ہو گئی۔‘‘

’’میرا بیٹا ہے‘‘

بسمتیا نے پیار سے اسلم کے منہ کو سینے میں بھینچ  لیا۔’’میرا بیٹا‘‘ … گونگے نے بھی خوشی کا اظہار کیا …

وہاں سے لوٹتے ہوئے کچھ سوچ کر ارشد پاشا ٹھہر گئے۔ بسمتیا کی آنکھوں میں جھانکا … جیسے پوچھ رہے ہوں — ‘‘

’’تم ہندو ہونا …‘‘

’’ہاں … کیوں …‘‘

’’نہیں … کچھ نہیں۔‘‘

ارشد مسکرائے … آگے بڑھ گئے۔ پتہ نہیں کن مجبور لمحوں میں اُن کے گھر والوں نے اس ہندو عورت اور اُس کے شرابی مرد کو رہنے کے لیے اِس گھر میں ٹھکانہ دیا تھا … اُسے اپنے دوست آدتیہ کی بات یاد آئی …

تم مسلمان اتنے کنزر وٹیو اور آرتھوڈاکس کیوں ہوتے ہو … کٹروادی … اُگروادی … سب سے بڑے آتنک وادی تو تم ہو …‘‘

اندر سے ایک کمزور آواز گونجی … یہی باتیں ہیں جو اندر اندر، بوند بوند کر کے جمع ہوتی ہیں اور زہر بنتی رہتی ہیں پھر ایک دن ابا حضور کی طرح پھٹ جاتی ہیں … سالے سب سے بڑے آتنک وادی تو تم ہو … اُس وقت تو وہ مسکرادیا تھا لیکن اس وقت۔ اگر آدتیہ سے ملاقات ہو جاتی تو وہ اُس کا منہ نوچ لیتا۔

ارشد پاشا سوچتے ہیں … سچ کیا ہے … کیا سچ مچ سیکولرزم اور آدرش کی باتیں کتابوں کا ایک بوسیدہ صفحہ بن چکی ہیں … ؟دراصل وہ دو ناؤ پر سوار ہیں … ایک مذہب ہے … اور دوسری ناؤ برابری اور بھائی چارے کی ہے … مذہب برابری اور مساوات کی بات ضرور کرتا ہے … مگر اسی نظریے کو بنیاد بنا کر وہ اپنی بات کی نفی بھی کر دیتا ہے … یعنی برابری اور مساوات کی بات صرف اُس کی قوم کے ساتھ … اور بہت سارے دوسرے … دوسری قوم … ارشد پاشا کو لگتا ہے … کھیل ہو یا لمبی اڑان … ہر جگہ وہ مسلمان نام سن کر چونکا ہے … عبدالسلام نا … وہی پاکستانی سائنسداں … انٹارٹیکا کی مہم پر عبدالقاسم نے رہبری کے فرض انجام دیئے نا …کھیل میں بھی اُس کی نگاہ فقط مسلمان ناموں پر ہی کیوں جاتی ہے … ہر جگہ اپنا مذہب —  اپنے نام … اپنے لوگ … دفتر سے اسپورٹس اور سیاست کے ایوانوں تک —  ہر جگہ ایک مسلمان نام تمہاری توجہ کا مرکز بن جاتا ہے …

وہ سچ مچ دو ناؤ پر سوار ہے …

یا جو کچھ وہ چاہتا ہے وہ واضح نہیں ہے …

اُف … کتنی بدبو ہے … سرانڈ … اُس کے دوست ٹھیک کہتے ہیں۔ سب سے زیادہ گندگی مسلمانوں کے محلے میں ہی رہتی ہے …

آگے ہی موڑ پر وہ خوبصورت سی مسجد ہے … سلطانی مسجد …

اور اس وقت مسجد کے باہر کافی لوگ کھڑے ہیں …

سورج کا گولہ تیز آگ برسا رہا تھا۔

٭٭

سلطانی مسجد شہر کی پرانی مسجدوں میںسے ایک تھی۔ گذشتہ دو تین سالوں سے اسی مسجد میں تبلیغی جماعت کے جلسے ہوتے رہتے تھے —  اس لئے مسجد کی قسمت بھی کھل گئی تھی۔ گنبد، محراب، دیواریں، کہتے ہیں عرب کے ایک شیخ نے اس مسجد کے لئے چندہ دیا تھا۔ اب تو یہ مسجد شہر کی سب سے خوبصورت مسجد تھی … چم  چم کرتی ہوئی … جیسے شیشہ کی مسجد ہو … سنگ مر مر جڑے ہوں … مسجد کے صحن میں کافی لوگ بیٹھے تھے … سروں پر ٹوپیاں لگائے۔ ان میں کم عمر بچے بھی تھے … نوجوان لڑکے بھی اور کئی بہت ضعیف بوڑھے بھی۔ اب تو تقریباً ہر مہینے یہاں کوئی نہ کوئی اجلاس ہوتا ہی رہتا تھا۔ ارشد پاشا مسلمان تو تھے مگر نماز روزہ سے کیا واسطہ … یاد نہیں تھا کہ عید بقر عید کے علاوہ کبھی جمعہ کی نماز بھی پڑھی ہو …

سلطانی مسجد میں اس وقت کافی لوگ جمع تھے۔ اجلاس شروع ہونے میں ابھی کافی وقت تھا۔ یہاں کتنے ہی چہرے تھے جنہیں وہ پہچان رہا تھا۔ یہ مولوی انیس تھے … کسی کالج میں پروفیسر … مگر سننے میں یہی آتا تھا کہ کلاس نہیں کرتے تھے۔ یوں بھی اردو کا پروفیسر ہونے کا مطلب ہی ہے مفت کا سرکاری پیسہ لینا۔ پروفیسر انیس کبھی کلاس لیتے بھی تھے تو صرف دین و ایمان کی باتیں کرتے تھے۔ لڑکے اسی وجہ سے ،ان سے کافی بگڑے رہتے تھے  — اور بھی کتنے چہرے … مگر ارشد پاشا صرف مسجد کی خوبصورتی دیکھ رہے تھے … اچانک ان کے ذہن میں صرف ایک سال پہلے کا ایک واقعہ گھوم گیا۔ اتفاق سے اپنے پڑوس کی مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے گئے تھے۔ رمضان کا زمانہ تھا۔ اسی درمیان اُس کا دوست بدر آ گیا تھا —  بدر کو مذہب وزہب سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ وہ اسے دنیا کے سارے فساد کی جڑ مانتا تھا —  کام ضروری تھا اس لئے بدر مسجد ہی چلا آیا تاکہ نماز کے خاتمے کے فوراً بعد اُس سے ملا جا سکے … نماز ختم ہوئی اور وہ باہر نکلا تو دیکھا بدر بڑے غور سے مسجد کو دیکھ رہا ہے۔ محلے کی مسجد بھی بہت خوبصورت بنی تھی …

’’کیا ہے میاں؟‘‘

ٹوپی سر سے اتارتے ہوئے وہ بدر سے مخاطب ہوا۔

بدر چونکا … ’’یہ اﷲ کا گھر ہے نا …‘‘

’’ہاں کیا ہوا تمہیں‘‘

’نہیں … بدر کا چہرہ اتر گیا تھا —  بڑا قیمتی گھر ہے۔ آج کے زمانے میں اﷲ میاں کا اتنا قیمتی گھر جبکہ ان کے بندوں کے پاس رہنے کو گھر نہیں ہے … اب بتاؤ اتنے عالیشان گھر میں مجھ غریب کا گزر کیسے ہو گا …؟‘

وہ ہنس رہا تھا …

اس سے پہلے کہ وہ بدر کی باتوں کی حقیقت سمجھ سکتا، اُس کے کان میں آواز آئی —

’’آؤ میاں … اﷲ بھلا کرے تمہارا — تمہیں ہی یاد کر رہا تھا‘‘

اُس نے پلٹ کر دیکھا … صاف شفاف کرتے پائجامے میں حاتم میاں چمک رہے تھے

’’السلام علیکم‘‘

’’وعلیکم السلام ‘‘۔ جواب ملا۔ ’’اباپاشا تو مزے میں ہیں۔‘‘

’’اﷲ کا فضل ہے …‘‘

’’بیٹھو‘‘ …

صحن میں سفید چادر کے علاوہ قالین بچھی تھی۔ چپل کنارے اتار کر وہ حاتم میاں کے ساتھ ہی بیٹھ گیا … بہت سے لوگ ایک دوسرے سے باتوں میں مصروف تھے۔ اڑتی اڑتی باتیں اُس کے کانوں میں پہنچ رہی تھیں … اور ان کا مفہوم یہی تھا کہ مسلمانوں پر بُرا وقت پڑا ہے … اگر اب بھی ہم نہیں جاگے تو ہمیں کوئی نہیں بچاسکتا۔ ہمیں، نوجوان نسل میں نماز پڑھنے کی عادت پیدا کرنی ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے کہ کس نے کتنے دن باہر چلہ کھینچا۔ تبلیغ سے کتنا فائدہ ہوا … کتنے مسلمان ہوئے … اور یہ بھی کہ تبلیغ کرنے والوں کو مشنریوں کی طرح پوری دنیا میں پھیلنے کی  ضرورت ہے … تبلیغ کی مہم کو تیز اور تیز کرنا ہے …

حاتم میاں جب تم تھوڑا انتظار کرو بیٹے‘ کہہ کر باہر چلے گئے تو وہ آس پاس سے آتی باتوں سے لطف اندوز ہونے لگا۔ پاس ہی ایک بڑے میاں بیٹھے تھے۔ بڑی سفید داڑھی  … وہ ایک نوجوان لڑکے کو عیسائی مشنریوں کے بارے میں بتا رہے تھے۔ کیسے وہ لوگ آدمی واسیوں پر چھا گئے۔ اسکول کھولے۔ انگریزی تعلیم شروع کی … ارے انگریزی تعلیم تو بہانہ تھی۔ مقصد وہی تھا عیسائیت کی تبلیغ۔ اسی طرح ہمیں بھی … گاؤں گاؤں شہر شہر قصبہ قصبہ …

’’گستاخی کی معافی چاہوں گا بڑے میاں۔‘‘ وہ اچانک بول پڑا۔

بڑے میاں بات دخل دینے سے ناراض تو تھے ہی … لیکن اُس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی وہ سنبھل گئے۔

’’ہاں کہو … جو دل میں ہو …‘‘

تو آپ بھی عیسائی مشنریوں کی کی طرح تبلیغی مہم تیز کرنا چاہتے ہیں‘‘

’’ہاں میاں۔ ہم کوئی کم ہیں ان سے‘‘

’’آپ نے کوئی مدرٹریسا پیدا کی … ؟کوئی بابا آمٹے …؟ اُس کا لہجہ ناگواری سے بھرا ہوا تھا … بتائیے کس بل بوتے پر آپ تبلیغ کریں گے …؟ وہ کوڑھی بیمار بچوں کو بلا جھجھک اپنی گود میں اٹھا لیتے ہیں … اُن کے ساتھ بیٹھتے ہیں … بیماروں سے ملتے ہیں … اُن کی مدد کرتے ہیں … اُن سے گھلتے ملتے ہیں … آپ … صرف تبلیغ کریں گے … کیونکہ اب صرف آپ لوگوں کو مذہب کا درس یاد رہ گیا ہے … عمل … عمل آپ بھول چکے ہیں …‘‘

اُس کے اندر جیسے آگ لگ گئی تھی … چہرہ آڑی ترچھی کتنی ہی لکیروں سے بھر چکا تھا …’کچھ نہیں ہوسکے گا آپ لوگوں سے …تبلیغ کو پہلے انسانیت سے جوڑنا ہو گا … اور جب انسانیت سے جوڑیں گے تو …‘

اتنا کہہ کر وہ خود ہی ٹھہر گیا تھا … آگے نہیں بولا … صرف ایک بات اندر حرکت کرتی رہی … پھر مذہب کہاں رہے گا … انسانیت ہی مذہب بن جائے گا … اور سارے لوگوں کا درد …

’’تم پہلی بار آئے ہو شاید — ؟ بڑے میاں کو یہی جواب سوجھا تھا۔

’’ہاں اور آخری بار بھی …‘‘

اس سے پہلے کہ بات طویل پکڑتی … حاتم میاں آ گئے … اُس نے ایک لمبی سانس بھری۔ چہرے کو آڑی ترچھی لکیروں سے الگ کیا۔ تاکہ حاتم میاں اُس کے لہجے کی تلخی نہ بھانپ سکیں …

’’ہاں تو میاں! تغلق پاشا نہیں آئے کوئی بات نہیں۔ ضرورت تو اب تم لوگوں کی ہے۔ نوجوان نسل کی  … مذہب کی ڈوبتی نیاّ کو اب تم ہی بچا سکتے ہو … ہم بوڑھے تو قبر میں پیر پھیلائے بیٹھے ہیں۔ آج مرے کل دوسرا دن … اور دنیا کے اس سب سے سچے مذہب کی تبلیغ ہم پر فرض کر گئی ہے …‘‘

حاتم میاں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری۔ اُس کی طرف دیکھا پھر بولے … ’ابھی ابھی تمہاری اڑتی ہوئی کچھ بات میرے کانوں میں بھی گئی ہے … تم سے ناراض نہیں ہوں  … خوش ہوں … کہ اپنے طور پر سوچتے ہو تم …کسی نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہو … ہاں صرف اتنا کہنا چاہوں گا … تمہارے پاس سوچنے کا صرف ایک ہی زاویہ کیوں ہے؟‘

’’مطلب؟‘‘

’’مطلب کہ سب بُرا ہے —  جو ہے غلط ہے … کچھ اچھا بھی تو ہوسکتا ہے … ساری کی ساری باتیں غلط تو نہیں ہوسکتیں … اچھائیاں نکالنی پڑتی ہیں … قوم پر جب بُرا وقت آتا ہے تو اچھائیاں اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ایکدم سے معدوم ہو جاتی ہے … تم نے کنویں کے مینڈھک کے بارے میں سنا ہے … کنواں ہی اُن کے لئے سب کچھ ہے … اُس کے آگے … اُس کے آگے کا آسمان …‘‘ وہ ٹھہرے … پھر گھڑی دیکھی … اجلاس شروع ہونے میں بھی ابھی وقت ہے … اس لئے تم سے کچھ باتیں ہوسکتی ہیں … میں درزی ٹھہرا … جوانی کے ایام میں شراب بھی پی ہے اور جوا بھی کھیلا۔ کتابیں کیا ہوتی ہیں پتہ بھی نہیں تھا۔ وِل پاور تو سمجھتے ہونا … بس اِن آٹھ سالوں میں اپنے وِل پاور کی بدولت میرے اندر ایک انقلاب آ گیا۔ مولوی ہشام الدین کی صحبت کیا ملی دنیا پلٹ گئی۔ میں نے مذہب کو سائنس کے نظریہ سے دیکھا اور  کامیاب پایا … پھر جینے کی جستجو جاگی اور پڑھنے کی … بہت کچھ جاننا چاہتا تھا … یہ دنیا کیا ہے … کائنات کیا ہے … زندگی کے معنی کیا ہیں … سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا … سچ اور جھوٹ بنے ہی کیوں … جب ایک ہی کافی تھا … حرص کیا ہے … خواہشات کیا ہیں …  دنیاوی نظام … جب ایک خاندان میں بٹتے ہیں ہم … خواہشات میں بٹتے ہیں  —  حرص پیدا ہوتا ہے … جھوٹ آتا ہے … اور مذہب کیا ہے … پردہ کیا ہے … سوال درسوال  … یہ سلسلہ اتنا لمبا ہے کہ رونا آ گیا ایک پل کو … پہلے کتابیں کیوں نہیں اٹھائیں … اس عمر میں جب سانس سانس چار دن بھی موت کے نہیں رہ گئے۔ خیر چھوڑو … میں کہہ رہا تھا …

حاتم بھائی کا چہرہ اچانک سرخ ہو گیا تھا …’ لوگ اگر مذہب کو غلط لے لیں۔ اُس کی تعلیمات کو … تو مذہب تو غلط نہیں ہوا نا …؟ تم سے یہی کہنا ہے بیٹے … ہم سب لوگوں کو بالآخر اُس حقیقت کی طرف سفر کرنا ہے جو اٹل ہے … جو موت ہے …ہاں عمل میں اب بھی ہم پیچھے ہیں … جب صحراؤں میں گھوڑے دوڑائے جاتے تھے۔ کشتیاں جلا کر فتح کے پرچم لہرائے جا رہے تھے … تم نے سچ کہا … ہم نے کتنی مدرٹریسا پیدا کی … کتنے بابا آمٹے … ہم صرف بولتے ہیں … صرف بولتے ہیں … لیکن یہ دھند باقی ہے … دھند باقی ہے ابھی —  جب تم آؤ گے … تمہارے جیسے لوگ … اور جب ہم اُن بستیوں میں جائیں گے جہاں تم مثال بنو گے … فرق،نفرت‘ حقارت کے جراثیم کو خود سے الگ کر کے … آج ساری دنیا میں ہمیں شکست مل رہی ہے تو اس کی واحد وجہ ہماری بے عملی ہے …اور صرف باتیں …‘‘

حاتم بھائی چپ ہو گئے تھے …

ارشد پاشا جیسے سناٹے میں ڈوب گئے تھے … حاتم میاں اب بھی غور سے اُن کی طرف دیکھ رہے تھے … ارشد پاشا کے ہونٹوں پر جیسے تالہ لگ گیا تھا۔ جس حاتم میاں کو وہ بیکار سی چیز سمجھتے آئے تھے وہ بھی زندگی کے بارے میں کوئی نظریہ رکھتا ہو گا، یہ سوچنا بھی مشکل تھا … خواہ وہ نظریہ مذہب کو بنیاد بنا کر رکھا گیا ہو مگر زندگی کو سمجھنے کی جستجوتو اس میں بھی پوشیدہ ہے … کیا سچ مچ مذہب کوئی بیکارسی شے ہے … جس کے نام پر اچھے بھلے لوگوں کو بھڑکایا جا سکتا ہو … شیطان بنایا جا سکتا ہو … مرنے مارنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہو … ساری دنیا میں آشانتی پھیلائی جا سکتی ہو … اور جس کا سہارا لے کر …

یہ اجلاس … یہاں آئے ہوئے لوگ … یہ حاتم بھائی … اگر یہ زندگی کو نہیں سمجھ پانے کا ذریعہ بنے تو … زندگی ہے کیا …؟ وہ تو کتنی ہی بار مذہب سے بد دل ہوا تھا … خود اُن کا گھر … اُن کی اندھے یقین والی بی امّاں، اباّ حضور تغلق پاشا —  پرانے  رسم و رواج پر نئے زمانے کی مہر لگانے والے انور پاشا —  اُسے تو شکستگی اور پامالی سے الگ اپنی قوم میں کچھ نظر ہی نہ آتا تھا۔ ہاں  قوم کے لوگوں کو لے کر ہزاروں بار اُس کے اندر کے زخم جاگے تھے —  فلسطین کا زخم ہو …  تکلیف  … شیعہ سنی فساد … پاکستان میں مہاجروں کا قتل عام ہو … ہر بار اُس کے دل پر دھمک سی پڑی تھی … جھگڑالو قوم … لڑاکو قوم … تاریخ ٹھیک ہی لکھتی ہے … اسلام شمشیر کے زور پر پھیلا … یہ قوم سدھرنے والی نہیں … ماننے والی نہیں … یہ زوال کے راستے پر چل نکلی ہے …‘

’’تم چپ ہو گئے میاں۔‘ حاتم میاں کی آواز محبت میں ڈوبی تھی —

وہ ایکدم سے چونکا۔

’’کس سوچ میں پڑ گئے میاں ؟‘‘

’’ہمارے یہاں اسپورٹس مین شپ نہیں ہے …‘‘ وہ جلد بازی میں بول گیا —

اُس کی آنکھیں گہری فکر میں ڈوبی تھیں …

’’اسپورٹس مین شپ …؟‘‘ حاتم بھائی ایکدم سے چونک گئے تھے … دفعتاً اُن کے ہونٹوں پر ہنسی رینگ گئی … یہ تم نے کیا کہا؟ اچانک اسپورٹس مین شپ کا خیال …‘‘

ارشد پاشا پتہ نہیں کیا سوچ کر بولے … یہ خیال ایک دم سے اچانک آیا … یہاں اتنے سارے لوگ ہیں۔ ان میں نوجوان بھی ہیں … کم عمر کے بچے بھی … سب جیسے ایک اوڑھا ہوا مذہب … کچھ بھی کہے لیجئے … یہ لوگ ایک عجیب طرح کا دباؤ لے کر یہاں آئے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں … ان میں وہ گرمی نہیں ہے … وہ حرکت … کیا اسپورٹس مین شپ سے ان میں گرمی نہیں لائی جا سکتی … کوئی تحریک نہیں پیدا کی جا سکتی … اسپورٹس ان کے اندر کی سستی اور کاہلی کو ختم ککر سکتا ہے … انہیں حرکت میں لاسکتا ہے … فی الحال ترقی کی ریس میں ہم اتنے پیچھے ہیں کہ ہم میں حرکت یا گرمی پیدا کرنے کے بارے میں بھی سوچنا بھی محال ہے … اونچی اڑان یا ہر شعبہ میں مضبوطی اور ترقی کیسے لائی جائے۔ ہمارے یہاں ایک بڑا طبقہ غریب ہے … ایک بڑا طبقہ غریبی ریکھا کے نیچے ہے … پڑھتا لکھتا نہیں ہے … یہی طبقہ سوچتا ہے … ہم  میں سے ہی کچھ لوگ مذہب سے الگ ہو جاتے ہیں … کچھ سنجیدگی سے غور کرتے ہیں۔ قوم کا درد محسوس کرتے ہیں … لیکن صرف اس بہت چھوٹے طبقے کی جدوجہد سے تو کام نہیں بننے والا … اور جہاں تک زیادہ بڑے طبقے کی بات ہے … آپ ایکدم سے سوئے ہوئے لوگوں کو تو جگا نہیں سکتے … دھیرے دھیرے آہستہ آہستہ  … میرے خیال میں اگر ان میں زندگی کے احساس کو پیدا کیا جائے تو انکی آنکھیں کھول سکتے ہیں … اسپورٹس مین شپ پیدا کرنے کی ضرورتوں پر توجہ دلائی جائے … تو کہیں دور ایک انقلاب ضرور جھانکتا ہے … پھر ان میں کچھ لوگ آگے آئیں گے۔ زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں جانیں گے —  تعلیم کی اہمیت سمجھیں گے —  اسپورٹس مین شپ —  ہار جیت دونوں کو یکساں طور پر لیں گے —  پھر، کہیں آپ مذہب کی اچھی باتیں بھی ان میں ڈالنے میں کامیاب ہوسکیں گے —

ارشد پاشا کی آنکھیں خلاء میں گم تھیں۔ گول گول دائرے میں بٹی ہوئی … بھنویں سکڑی ہوئی …

حاتم میاں نے فاتحانہ نظروں سے ارشد پاشا کو دیکھا … ’مجھے خوشی ہے نوجوان، تم سوچتے ہو … آج اجلاس کے بعد تمہیں کچھ دوسرے لوگوں سے بھی ملاؤں گا۔ تاکہ بتاسکوں کہ اس جماعت کا کام صرف اور صرف تبلیغ نہیں ہے … بلکہ اس کے پیچھے گہرا مقصد بھی چھپا ہے …‘‘

گھڑی کی سوئی گیارہ بجا رہی تھی … صحن میں کافی لوگ بیٹھ گئے تھے … چاروں طرف ٹوپیاں دکھ رہی تھیں … اجلاس ایک گھنٹہ تک چلا ہو گا۔ ارشد پاشا خاموشی سے سب کی باتیں سنتے رہے … باتیں زیادہ تر اسلام اور مسلمانوں سے متعلق تھیں … اور وہی باتیں جو بار بار کسی نہ کسی بہانے سنائی یا دہرائی جاتی رہی ہیں۔ ان باتوں سے ارشد پاشا کو کوئی زیادہ مطلب نہیں تھا … اِن میں اُس خطرے کی جانب بھی اشارہ کیا گیا تھا کہ ’’شاہی‘‘ مسجد کی فتح کے لئے ہم سب کو مل کر کوشش کرنی ہے … مسجد اﷲ کا گھر ہے اور اﷲ کے گھر میں مورتی بٹھانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی … اس لئے بہت جلد ہی ایک میٹنگ طے پائے گی اور اُس میں یہ اعلان ہو گا کہ ہمیں کب اُس شاہی مسجد میں چلنا ہے اور وہاں نماز ادا کرنی ہے …

ارشد پاشا کو خطرے کی بُو آ رہی تھی … اس کے بعد اجلاس ختم ہو گیا۔ اجلاس کے خاتمے کے فوراً بعد ایک چھوٹا سا واقعہ ہوا۔ سڑک پر ایک غریب بوڑھے آدمی کو ایک سائیکل سوار سے ٹکڑ لگ گئی تھی … زیادہ خون تو نہیں لیکن وہ بیہوش ہو گیا تھا —  کچھ مسلمان اُسے اٹھائے ہوئے مسجد کے صحن میں لے آئے تھے … بوڑھے کو ڈاکٹر کے پاس بھیجنے کا مشورہ ہو رہا تھا۔ اُسے پانی پلایا جا رہا تھا … کوئی شخص دوڑ کر پیش امام صاحب کے پاس سے ڈیٹول کی سیشی لے آیا … اب اُس بوڑھے آدمی کے  چوٹ کی جگہ پر ڈیٹول لگایا جا رہا تھا …

یہ کوئی خاص واقعہ نہیں تھا مگر یہ واقعہ اس لئے اہم تھا کہ بوڑھے کے چلے جانے کے بعد حاتم میاں نے فاتحانہ نظروں سے ارشد پاشا کو دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں … دیکھا ہمارے یہاں صرف تقریر ہی نہیں چلتی … خدمتِ خلق کا جذبہ بھی ہے ہم لوگوں کے پاس … ورنہ بوڑھے کو یہاں اٹھا کر لانے کی کیا ضرورت تھی …

اور ارشد پاشا گھر کی طرف بڑھتے ہوئے سوچ رہے تھے … کہ اگر وہاں مذہب کی آنکھیں اُس بوڑھے میں ایک مسلمان کو نہیں دیکھ رہی ہوتیں، تو کیا وہ لوگ اُسے مسجد میں لاکر اس طرح مرہم پٹی ککر سکتے تھے …؟

٭٭

 

 

(7)

بدر بھی ایم اے کا طالب علم تھا۔ ارشد پاشا کی طرح وہ بھی علم کیمیا میں ہی ایم اے کر رہا تھا۔ ایک طرف دونوں کے سبجیکٹ جہاں ایک تھے وہیں خیالات میں زمین آسمان کا فرق —  اور دیکھا جائے تو وقت کے حساب سے یہ فرق اب رفتہ رفتہ کم ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ بدر نے تو کب کا مذہب کو ماننا چھوڑ دیا تھا۔ اُس کے والد اونچے عہدے پر تھے لیکن پنچ گانہ نمازی۔ انہوں نے بدر کو سمجھاتے سمجھاتے  توبہ کر لی تھی کہ اب تم خود ہی ہوش مند ہو۔ اپنا اچھا بُرا مجھ سے بہتر اب تم ہی سوچ سکتے ہو۔ بدر کے مزاج میں عجب طرح کا چڑچڑا پن بھی تھا۔ جیسے وہ سارے زمانے سے جلا بیٹھا تھا۔ اُس دن وہ ارشد پاشا کے یہاں بارہ بجے  —  آ دھمکا —  اُس وقت بی اماں کی تیز تیز آواز سے پوری فضا محفوظ ہو رہی تھی۔

’’اب اس بسمتیا کی بچّی کو کیسے سمجھاؤ ں کہ جمعہ کا روز ہے۔ زوال کا وقت —  اور چلی ہیں بی جھاڑو دینے —  نوج … مسلمان کے گھر آ گئی —  کمبختی کی ماری کچھ سیکھا بھی نہیں اور وہ دیکھو گونگا۔ صبح ہی صبح بلی کے بچے پر پتھر پھینک رہا تھا۔ اب بلی دودھ پی جاتی ہے تو پی جائے بھلا جمعہ کے روز پتھر مارنے سے اس کے گھر کے مقدر پھوٹیں گے کہ نہیں۔ کوئی خیال ہی نہیں جمعہ کا۔‘‘

’’اماں ٹھیک کہتی ہو‘‘۔

بدر جو دروازے پر کھڑے کھڑے کافی دیر سے بی اماں کی باتیں سن رہے تھے۔ مسکرائے۔ بولے — ’ ٹھیک کہتی ہو اماں۔ جمعہ کے روز بلی کو پتھر مارنے یا زوال کے وقت جھاڑو لگانے سے سچ مچ یہ اﷲ میاں ناراض ہو جائیں گے۔

’مانتے ہونا بیٹے … اب یہ تو پوچھنا بھول ہی گئی کہ تم کب آئے اور کب سے یہاں کھڑے ہو … ’اُف میں بھی کیسی سٹھیاسی گئی ہوں۔ خیر ہاں۔ آج میاں جمعہ ہے اور تم نے پتلون شرٹ چڑھا رکھی ہے۔ میاں کچھ تو خیال کرو۔ ایک تو وہ بندہ گیا گزرا ہے۔ تم بھی ویسے ہی۔ بیٹے جوانی کی عبادت ہی تو قبول ہوتی ہے —  اﷲ میاں خوش ہوتے ہیں۔‘‘

’’اﷲ میاں کی خوشی کا اسٹاک ختم ہو گیا اماں۔ اب دیکھو نا وہ صرف تماشہ دیکھتے ہیں اور آگ لگتی رہتی ہے۔‘‘

’’خیرسے  بیٹا۔ یہ کیا‘‘

’’اب دیکھو نا اماں۔ وہ مولوی کرامت تھے نا، اپنے محلے والے …‘‘

’’ہاں ہاں کیا ہوا ان کو‘‘۔

’’کل اﷲ اﷲ کر کے سڑک پار کر رہے تھے۔ ٹیکسی نے کچل دیا۔ اﷲ نے بلوایا۔‘‘

بیٹا یہ کیا زبان ہوئی تمہاری۔ مولوی کرامت گزر گئے ۔ اِنّا لِلّہِ وَ اِنّا اِلَیْہِ راجعون! اماں کا غصہ سرد ہو گیا …‘‘مگر بیٹا تمہاری باتوں سے کوئی اچھے آثار نہیں لگ رہے … تم بھی لگتا ہے ارشد ہی ہوئے جا رہے ہو۔‘‘

بدر کی آواز سن کر اندر دالان سے ارشد پاشا نکل کر چلے آئے۔ تغلق پاشا دفتر جا چکے تھے تھے اور انور پاشا بھی کالج نکل چکے تھے۔

ارشد پاشامسکرائے۔ ’’اماں سے باتیں چل رہی تھیں۔‘‘

’’اب دیکھو نا یار — یہ اماں دادی اماں وغیرہ ہر بات میں اﷲ میاں کو آسمان سے لے آتی ہیں —  اللہ میاں کو کتنی مشکل ہوتی ہو گی —

’’توبہ توبہ … اے توبہ توبہ۔‘‘

بی اماں سنے خفگی سے اور بلند آواز سے کہا۔ غصیلی نظروں سے دیکھا ۔

’’آؤ آؤ اندر آؤ۔‘‘ ارشد پاشا نے ہنستے ہوئے کہا۔ تم تو لڑائی ہی لگا دو گے۔

’’سالے کہاں تھا اتنے دن — ‘‘ کمرے میں پہنچتے ہی ایک مکاّ دیا بدر نے۔

’’کچھ الجھا ہوا تھا۔‘‘

’’الجھا ہوا تھا ؟ — مطلب …‘‘

’’یار تجھے کیسے بتاؤں — ۔ دراصل میں کچھ بننا چاہتا ہوں …‘‘

’’تو اوپر سے چھلانگ لگا دے نا۔ کل اخبار میں تمہاری بہادری کا ڈنکا بجوا دوں گا‘‘۔

’’مذاق نہیں یار۔ دراصل پوری قوم کے بارے میں … یہ قوم جو تعلیم پڑھائی سے بے بہرہ ہوتی جا رہی ہے …‘‘

’’تیری غلطی یہی ہے کہ تو صرف اپنے قوم کی بات سوچتا ہے اور میں کہوں تو یہ زبردست حماقت ہے … دراصل ہم  ہندوستانی ہی تعلیم سے کٹ گئے ہیں۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں، کس عہد میں آ گئے ہیں ہم —  پڑھ لکھ کر بھی ایک اندھیرے غار میں قید —  اور اس غار میں مذہب کی حکومت ہے۔ مذہب کے ٹھیکیدار ہیں —  اور یہ مذہبی ٹھیکیدار ایک طرف جہاں اپنے کارناموں سے ہمیں تقسیم کر رہے ہیں، وہیں ہمیں فرقہ پرست بھی بنا رہے ہیں۔ میں نے اپنے اُن دوستوں کو قریب سے دیکھا ہے جو مسجد جاتے ہوئے بھی پناہ مانگتے تھے۔ مگر آج اُن کے لباس بدل گئے ہیں۔ داڑھیاں بڑھ گئی ہیں۔ سر پر ٹوپی آ گئی ہے —  اور ان کی آنکھوں میں نفرت کے اُس سیلاب کو دیکھا ہے جو اس ملک کو بہا کر لے جا سکتا ہے —  ترشول اور بھگوا جھنڈوں سے ان ٹوپیوں تک —  ملک کہاں جا رہا ہے۔ بتا سکتے ہو —  ہم نئی صدی میں نہیں جا رہے بلکہ ہم نے خود کو پندرہویں صدی کی گپھاؤں میں بند کر لیا ہے — ‘

وہ ایک لمحے کو ٹھہرا —  فضا ساکت تھی —  باہر ہوا خاموش —  کمرے میں گھٹن کا ماحول تھا —  اور بدر کے الفاظ کی چنگاریاں روشن تھیں —

وہ اس لفظ پر ٹھہرا … جیسے اس ایک لفظ میں کوئی خاص بات ہو۔ غور سے ارشد کو دیکھا۔

’’وقت کے ساتھ ہمارے اندر کی ہندوستانیت کیوں سوتی جا رہی ہے؟ کہیں وہ ولولہ وہ جوش وہ گرمی کہیں نظر نہیں آتی۔ آزادی سے پہلے اگر آج کی طرح ملک کے بارے میں اس طرح کا ٹھنڈا رویہ ہوتا، تو ملک کبھی آزاد نہیں ہوتا۔ دیش بھکتی کے گیتوں کے پرچار پر سار کے باوجود ہمارے اندر کا وہ مشینی آدمی ویسا ہی بے حرکت رہتا … اس جمود کو توڑنا ہو گا۔ آج اُس ہیومین رائٹس کے بارے میں بھی غور کرنا ہے کہ اُسے کہاں کرش کیا جا رہا ہے … کیا یہ جمود ٹوٹے گا … نہیں۔ کم از کم بھاشن سے نہیں … ہم ان ادھیکاروں کو حاصل ککر سکیںگے جو ہم پر لگاتار ایک انکش ایک پرتبندہ لگاتے رہے ہیں … اس لئے پہلے اس سوئے ہوئے آدمی کو جگاؤ —  اُس میں جذبات ، احساسات کے انجکشن لگاؤ کہ وہ درد، دکھ اور تکلیف کو محسوس کرے … اُسے بے حس نہیں چھوڑا جا سکتا —  قطعی نہیں …

اس لمبی چوڑی تقریر سے ارشد سچ مچ بور ہو گیا تھا۔ اُس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر ایک لمبی جماہی سی لی …

’’بیٹے تیرا عشق کیسا چل رہا ہے …؟‘‘

’’عشق  — بدر نے منہ بنایا جیسے کڑوی کسیلی گولیاں نگل لی ہوں —  ان چیزوں پر میرا یقین نہیں ہے۔ یوں بھی میں رومانٹیسزم پر یقین ہی نہیں رکھتا۔ شکنتلا کو ایک مرد چاہئے تھا۔ میری اپنی کچھ ضرورتیں تھیں۔ جو پوری ہوتی رہیں۔‘‘

’’ارشد پاشا نے دھرے سے کہا … ہم خود ایک بات کہتے ہیں جو با وزن ہوتی ہے پھر فوراً ہی اپنی بات کی نفی کر دیتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟‘‘

بدر چونک گیا تھا۔ ’’کیا مطلب؟‘‘

’’نہیں کچھ نہیں۔‘‘

’’تم نے میرے بارے میں کچھ کہا۔‘‘

’’یہ اپنے بارے میں بھی تھا۔ ہماری سوچ جب کئی زاویوں میں کھو کر اپنی سمت بھول جاتی ہے تو یہ سوچنا پڑتا ہے … خیر میں کہہ تھا میں کچھ بننا چاہتا ہوں … اور ہم میں سے ہر آدمی کچھ نہ کچھ بننا چاہتا ہے —  اس بننے سے مطلب ہے کچھ ایسا کرنا جو عام انسانوں کی بھلائی کے لئے ہو اور ہاں بیشک  جس کا سہرا پوری قوم کے سربندھے۔ مگر کیا چاہتا ہوں یہی واضح نہیں ہو پاتا اور یہی میری مشکل ہے …

’’ہم سب من و سلویٰ کے انتظار میں بیٹھے ہیں اور آنکھیں آسمان کی طرف لگی ہیں۔‘‘ بدر ہنسا —  لیکن یہ اُس کی عادت تھی جب بھی کسی سنجیدہ  بات پر آتا فوراً اپنے چہرے پر بلا کی سنجیدگی اوڑھ لیتا —

’’تم نے یہ لفظ سنا ہے۔ پیریستریکا اور گلا سنوست … بیشک سنا ہو گا۔ روس میں اِن دو لفظوں نے جس خوبصورت انقلاب کی داغ بیل ڈالی ہے …اُس میں ہر قسم کی آزادی شامل ہے  — جسمانی بھی —  روحانی بھی —  اور آزادی تو آزادی ہے میرے دوست —  آزادی ایک خوشگوار احساس ہے —  اور مجھے لگتا ہے ملک کی موجودہ فضا میں اس آزادی کا قتل ہو رہا ہے —

ابھی یہ باتیں چل رہی تھیں کہ اسلم ٹرے میں چائے لے آیا … معصوم یتیمی صورت بنائے گونگے نے چائے رکھی اور واپس دبے قدموں لوٹ گیا۔

’’یہ کوئی نیا دھماکہ ہے — ‘‘ بدر نے پوچھا۔

’’ہاں ایک بھکاری کا لڑکا تھا۔ سڑک پر رو رہا تھا۔ ابّا پاشا رحم کھاکر لے آئے۔‘‘

’’اس سے پہلے اُس شرابی عورت کو … وہ ہے کہ نہیں اور اُس کا مرد … ویسے ہی شراب پی کر آتا ہے۔‘‘

’’ہاں!‘‘

’’یہ لڑکا مسلمان ہے؟‘‘

’’ہاں‘‘

’’کیا ایسا نہیں ہے کہ ایک مسلمان نوکر آ جانے کی وجہ سے تم اُس بیچاری کا صفایا کر دو کہ یہ تو سارا کام کر ہی لے گا۔‘‘

’نہیں یار‘ کیسی باتیں کر رہا ہے تو — ‘

’’یہ ناپ تول کی باتیں ہیں بیٹے۔ رشتے ناطے اصول بھی اسی ترازو پر تولے جاتے ہیں۔ کوئی مشکل نہیں اگر تمہارے یہاں اس گونگے میاں کے آنے کے بعد  اُسے نکالنے کے بارے میں سوچا جا رہا ہو …‘‘

’’نہیں یار کیا جھوٹ موٹ کی بحث لے کر بیٹھ گیا۔‘‘

بدر قہقہہ مار کر ہنسا۔’بیٹے! بڑے لوگ جو کہا کرتے ہیں وہ آنے والے سمئے کے لئے بھوشیہ وانی ہوتی ہے … ایک دن اُس کا ہندو ہونا ابھشاپ بن جائے۔ آج چاہے بی امّاں کی دلاری کیوں نہ ہو …‘‘

’’یار بند بھی کر‘‘ … ارشد جھنجھلا گیا تھا۔ تمہاری یہی باتیں سنتا ہوں تو سوچتا ہوں تم سے ملنا بند کر دوں۔ یہ کیا طریقہ ہے تمہارا۔‘‘

بدر نے پھر قہقہہ لگایا —  ایسے جیسے چڑھا رہا ہو …’ تو آپ ملنا بند کر دیں گے۔ چلیے —  ہم ہی ملا کریں گے۔ ہاں یہ تو بھول ہی گیا۔ کس مقصد کے تحت آیا تھا۔ آج کل جو تمہارے مذہب نے شہر میں نفرت کا ماحول پیدا کر دیا ہے اس سلسلے میں احمد صاحب وکیل کے یہاں ایک چھو ٹی سی میٹنگ ہے۔ شام چار بجے۔‘‘

’’میں نہیں جاؤں گا یار۔ وہاں سب کے سب ٹوپیوں والے لوگ ہوں گے۔

’’یار احمد صاحب وکیل پھر بھی نئے زمانے کے ہیں۔ دوسری ان کی لڑکی صوفیہ نہ صرف اسمارٹ ہے بلکہ نئے زمانے کی بھی ہے —  اور اس میٹنگ میں احمد صاحب نے صرف ہم جیسے نوجوانوں کو ہی انوائٹ کیا ہے۔ وہ اس جینس کلچر کو لنگی دھوتی سے زیادہ سیکولر مانتے ہیں۔ تھوڑی تفریح بھی ہو جائے۔‘‘

چائے ختم کرتے ہوئے ارشد پاشا نے آہستہ سے بس اتنا کہا —  ’تیرے اندر بھی کہیں نہ کہیں ایک چھپا ہوا مذہب رہ گیا ہے —  ورنہ احمد صاحب کی میٹنگ سے بھلا تجھے کیا سروکار ہوتا — ‘

٭٭

 

 

(8)

احمد صاحب کے یہاں اس وقت بھی دس بارہ لوگ بیٹھے تھے —  سب نوجوان ہی تھے۔ باہر کھلا ہوا برآمدہ تھا جہاں اکثر وہ اپنے موکلوں سے ملا کرتے تھے۔ احمد صاحب نے ابھی حال ہی میں یہ مکان بنایا ہے۔ پریکٹس اچھی چلتی ہے اور پیسوں کی ریل پیل ہے۔ لے دے کر صرف ایک ہی لڑکی ہے صوفیہ —  جو کالج میں پڑھتی ہے۔ کوئی فکر نہیں ہے احمد صاحب کو اور جب کوئی فکر نہیں ہو تو آدمی دوسری مشغولیت اور مصروفیت میں خود کو بانٹنا چاہتا ہے —  اس لیے احمد صاحب نے سیاست کی طرف رجوع کرنا شروع کیا —  شہر میں کوئی بھی اس طرح کا فنکشن ہو جہاں کوئی بڑے  نیتا یا ایم پی آرہے ہو تے تو احمد صاحب کی شرکت وہاں ضروری ہو جاتی۔ سوشل کاموں میں بھی حصہ لیتے تھے۔ لیکن ادھر انہیں اچانک مسلمانوں کا نیتا بننے کا شوق چرایا۔ یہی جگہ بچ گئی تھی جو انہیں خود سے پر کرنی ہے۔ اور اسے پر کرنا کتنا آسان تھا۔ احمد صاحب نوجوانوں کو لے کر چلنا چاہتے تھے۔ ان کے مطابق ان کے پاس مشن ہیں پروگرام ہیں —  اگر نوجوان چاہیں تو آج مسلمانو ں کی تعلیم کو بلند معیار پر لا کھڑا کیا جا سکتاہے —

بدر اور ارشد ٹھیک وقت پر پہنچ گئے تھے۔ برآمدے میں سفید چادر بچھی تھی —  ایک طرف سنجیدگی کی مورت بنے احمد صاحب بیٹھے تھے۔ چھوٹی سی داڑھی۔ آنکھیں روشن  — چھوٹی پیشانی۔ سر کے بال کافی حد تک اڑے ہوئے تھے۔ اس بیچ ان کا خادم چائے لے کر آ گیا  — سب چائے پینے میں لگ گئے۔ چائے ختم کرنے کے بعد سنجیدگی سے بابری مسجد کے سوال پر غور و فکر شروع ہوئی۔

شفاف سفید چادر پر سب ایسے غمگین صورت بنائے بیٹھے تھے جیسے کسی ماتمی جلسے میں شرکت کر رہے ہوں۔

ارشد پاشا نے بدر کے کان میں آہستہ سے سے کہا۔ ’’یہ لوگ ماتمی چہرہ کیوں بنائے ہوئے ہیں۔‘‘

’’تاکہ زیادہ سے زیادہ اس معاملے میں اپنی سنجیدگی کو ظاہر ککر سکیں —  بدر کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکان پھیلی ہوئی تھی۔

’’اور تم مجھے یہی دکھانے لائے ہو۔‘‘

’’کبھی کبھی ان محفلوں میں بھی شامل ہونا چاہئے۔ کیا مضائقہ ہے۔ اس سے اونٹ کے قد اور چال کا بھی تو پتہ چلتا ہے۔‘‘

وہ اتنے دھیمے سُر میں ہنسا کہ آس پاس کے لوگ اس کے طنز کو سن نہ سکیں —   وہ پھر آہستہ  سے پھسپھسایا۔

’’بڑے میاں جوش میں آنے والے ہیں۔ آؤ ہم دونوں بھی یتیم  بن جائیں۔‘‘

اتنا کہہ کر وہ سچ مچ سنجیدہ ہو گیا —  اور بیٹھے ہوئے تمام لوگوں میں سب سے سنجیدہ نظر آنے لگا —

احمد صاحب میانے قد کے آدمی تھے …چھوٹی سی خشخشی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ نوجوانوں سے مخاطب ہوئے۔

’نوجوانو! آج کا دن اس لئے بھی اہم ہے کہ ہم ایک سنجیدہ فیصلے کے لئے یہاں اکٹھے ہوئے ہیں۔ گوا بھی ہم مٹھی بھر ہیں مگر امن کے خواہاں اگر مٹھی بھر لوگ بھی ہیں تو وہ ہزاروں دہشت پسندوں کو  — وہ دن دور نہیں جب ایک سیدھی سچی راہ پر لاسکتے ہیں۔‘‘

احمد صاحب نے ایک ٹھنڈی سانس بھری —  پھر انہو ں نے ایک نوجوان کو مخاطب کیا … فیروز! تم قلم کاغذ نکال لو۔ آخر تم ملکی آواز میں نائب مدیر ہو —  اس خبر کو خوب سرخیوں میں چھاپنا —  پھر انہوں نے کسی سرفراز کو مخاطب کیا … اور بھائی! پتہ نہیں تمہاری مجھ سے کیا دشمنی ہے —   آج تک تم نے میری کسی خبر کو کبھی اہمیت نہیں دی۔ تمہارے اخبار الہلال کو جب بھی کوئی رپورٹ بھیجی وہ شائع نہیں ہوئی …

’’یہ خبر ضرور شائع ہو گی۔‘‘

احمد صاحب نے پھر کہنا شروع کیا …’ آزادی کے بعد ملک میں جو چیز سب سے زیادہ بڑھی ہے وہ سے فرقہ وارانہ فساد۔ آج وہی سیاستداں کامیاب ہوتا ہے جو فرقہ وارانہ دنگوں کی بنیاد پر سیاست کا مہرہ چلتا ہے۔‘

’’بھائی خوب کہا — ‘‘ ایک صاحب چہکے۔

’’آپ نے حکومت کی نبض پکڑ لی جناب۔‘‘

’’گوشت اور مچھلی کا بھاؤ لگ رہا ہے۔‘‘ بدر دھیرے سے پھسپھسایا۔

 پاشا کو اپنی ہسنی روکنی مشکل ہو گئی۔

احمد صاحب کی تقریر میں اب جوش آ گیا تھا۔ پتلا دبلا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ مٹھیاں کس  گئی تھیں …

’’آج مسلمانوں میں جوش کی نہیں صبرواستقلال کی ضرورت ہے۔ جوش میں انسان ہوش کھو بیٹھتا ہے۔ بابری مسجد کے معاملے پر ان ملا ملاؤں کی باتوں میں آ کر پورے ملک میں آگ لگا دینے والی سیاست کا میں خیرمقدم نہیں کروں گا۔ ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ جلد از جلد کوئی صحیح راستہ نکالے۔ ہم حکومت کو جلد ہی ینگ مسلم فورم کی طرف سے میمورنڈم بھی بھیجنے والے ہیں۔‘‘

’’بوڑھے اب تک اپنے آپ کو ینگ سمجھتے ہیں کیا؟‘‘ بدر نے ہنستے ہوئے پوچھا —

’’یار بس بھی کر‘‘ ارشد پاشا کو احساس ہو رہا تھا جیسے اب ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو جائے گا۔‘‘

’’ … اگر ہو سکا تو ہم پیس مارچ بھی  تیاری بھی کریں گے۔‘‘

’’یعنی قوم کا لیڈر بننے  کی پوری تیاری مکمل ہے۔‘‘ بدر سے رہا نہیں گیا۔ ارشد پاشا اس بار خاموش رہا۔ ہاں وہ اندر ہی اندر وہ سلگ رہا تھا۔ یہ وہ کہاں آ گیا تھا۔ بدر نے یہ کہاں لا کر پھنسا دیا —  خیر ایسی جگہوں پر آنے سے آنکھیں ہی کھلتی ہیں —  یہی ہیں قائد … ایک پوری قوم انہی کے پیچھے بھاگتی ہے۔ قوم کے مسائل کو لے کر یہی بیمار بنتے ہیں۔ یہی جو مسلمانوں کا غم کھاتے ہیں اور ملک  ہندوستان سے جنہیں  سچ مچ بہت زیادہ محبت ہے —  اور شاید ان سے زیادہ وفاداری کا جذبہ کہیں ہے بھی نہیں۔

تقریر اب کافی بلند ہو گئی تھی … تقریر کے بیچ بیچ میں وہ پریس والوں سے پوچھتے ۔ یہ لکھ لیا آپ نے … خوب … آپ اس پوائنٹ کو ضرور اچھالیے … آپ کو جو بھی پوچھنا ہے آپ سوال کیجئے۔ آپ میں سے کسی کو کوئی سوال کرنا ہو تو … بھائی  خوب … یہ خوب ان کا تکیہ کلام تھا۔ بھائی خوب سوال کیا آپ نے … اس جگہ کو اسپتال یا بچوں کا پارک بنا دیا جائے … واہ … یہی تو میں چاہتا ہوں۔ اﷲ کے گھر میں مورتی بٹھا دی گئی۔ یہی غلط ہوا۔ کل اگر مندر تھا اور اسے توڑ کر مسجد بنائی گئی تو یہ بھی غلط۔ اب نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ بس اس پوائنٹ کو بھی نوٹ کر لو پیارے … اس کی جگہ اسپتال یا بچوں کا پارک … خوب … یا یوں لکھو کہ احمد صاحب وکیل نے تمام مسلمانوں کی طرف سے اس مسئلہ کا ایک خوبصورت حل نکالا ہے … چہ  خوب …

ابھی وہ خوب خوب کر ہی رہے تھے کہ دروازے سے ایک ہنسی کی آواز بھری … ’’ابا … جلسہ ابھی چل رہا ہے یا …‘‘

ارشد پاشا جیسے اپنی جگہ جم گئے۔ دروازے پر ایک نازک اندام خوبصورت لڑکی کھڑی تھی۔

’’مہمانوں کو ناشتہ کراؤ بیٹی …‘‘ احمد صاحب مسکرائے …‘‘ یہ میری لڑکی ہے صوفیہ‘‘ ’’آداب‘‘

صوفیہ نے ملائمیت سے ہاتھ اٹھایا  —  اُس کی نگاہوں میں کہیں بغاوت کی ایک آگ بھی روشن تھی۔ جیسے وہ ان چیزوں کو غیر ضروری مانتی ہے —  ہاں ارشد پاشا کے جسم میں اس وقت تیز سنسنی سی دوڑ گئی جب اسے احساس ہوا کہ صوفیہ کی نظریں تیز تیز چلتی ہوئی اس کے وجود پر ٹھہر گئی ہیں … پھر کچھ ہی دیر بعد وہ اندر چلی گئی۔

قریب ایک گھنٹہ بعد یہ میٹنگ ختم ہوئی —  احمد صاحب وکیل نے ’’پیسٹی، چنا جور، حلوہ سوہن، سموسے وغیرہ کا بھی خوبصورت انتظام کیا تھا۔ ایک بار پھر کافی چلی اور آہستہ آہستہ سب لوگ اٹھ کر چل دیئے —  پتہ نہیں بدر کیوں بیٹھا رہا۔ ارشد پاشا نے اٹھنے کی کوشش کی تو بدر نے ہاتھ پکڑ کر روک لیا۔

’’تو چاہتا کیا ہے — ‘‘

’’بس خاموش۔ ابھی دیکھنا‘‘

احمد صاحب نے بدر کی طرف دیکھ کر کہا …

’’آؤ بیٹے۔ تم سے باتیں بھی کرنی تھی اور —  اس نوجوان کا تعارف — ؟‘‘

’’ارشد پاشا‘‘ —  وہ آہستہ سے بولے۔

’’واہ خوب۔ کرتے کیا ہو — ؟‘‘

’’ام، اس سی کر رہا ہوں۔‘‘

’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن کرتے کیا ہوا۔‘‘

’’جی‘‘ ارشد پاشا گڑبڑا گئے  … ’’ابھی ایم ایس سی کر رہا ہوں۔‘‘

’’میں یہ نہیں پوچھ رہا تھا —  میں تو کچھ کرنے کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔‘‘ احمد صاحب مسکرائے —  آؤ ڈرائنگ روم میں —  وہیں باتیں کریں گے۔‘‘

’’ڈرائنگ روم کافی سجا ہوا تھا۔ خوبصورت مخملی قالین —  نئے طرز کے صوفے —  صوفیہ بھی آ کر ایک طرف سمٹ گئی تھی —  تھوڑی دیر تک ماحول میں خاموشی طاری رہی پھر اس خاموشی کو احمد صاحب نے ہی توڑا۔

’’ہاں تو میں کچھ کرنے کے بارے میں پوچھ رہا تھا —  اب دیکھو نا —  مسلمانوں کے یہاں غربت کیوں رہتی ہے —  ایک آدمی کمانے والا اور بیٹا پڑھ رہا ہے تو پڑھ رہا ہے —  تو میاں ارشد پاشا تمہارے یہاں کمانے والے کتنے ہیں … معاف کرنا یہ ذاتی سا سوال ہے اور اس گستاخی کے لئے ایک بار پھر معاف کرنا۔ لیکن یہ پوچھنا ضروری ہے۔‘‘

’’صرف ایک  — ابا پاشا‘‘

’’کیا کرتے ہیں وہ‘‘

’’جی … ڈی او آفس میں کلرک ہیں۔‘‘

’’ٹھیک  — ماشاء اﷲ تم کسی معاملے میں کم نہیں ہو —  پھر کیا تم کچھ کما نہیں سکتے — ؟ آج امریکہ روس، جرمنی کہیں بھی دیکھ لو —  تمہاری عمر کے لوگ پڑھائی کے ساتھ کمانے کا ہنر بھی جانتے ہیں اور ہمارے یہاں مسلم سماج میں زیادہ تر لوگ ایسے ملیں گے جو صرف اور صرف پڑھائی کرتے چلے جا رہے ہیں —  اور بے چارہ بوڑھا باپ اپنے کندھے زخمی کرتا جا رہا ہے۔‘‘

ارشد پاشا کا سرجھک گیا تھا۔ یہ تلخ حقیقت تھی ۔ وہ شخص جو اس جلسہ میں مسخرے جیسا نظر آرہا تھا، اس کی اس حقیقت نے ارشد پاشا کو پانی پانی کر دیا تھا۔

’’میں آپ کی اس بات سے متفق ہوں ابا۔‘‘ بہت دیر بعد صوفیہ نے ہونٹ کھولے … اس کی آواز میں موسیقی کے سات سروں کا جادو موجود تھا —  ’نوجوانوں کو پڑھائی کے ساتھ اپنی دلچسپی اور شوق کے حساب سے کمانے پر بھی دھیان دینا چاہئے —  آج مسلمانوں کی بدحالی کا ایک بڑا سبب ان کی غربت بھی ہے —  دس، دس پندرہ افراد پر مشتمل خاندان کو ایک آدمی اکیلا ڈھوتا ہے —  اور اس کے بچے بچیاں محض تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ کیا ہم اپنے کھیل اور خالی وقت کا ایک بڑا حصہ ایسے کاموں پر نہیں نکال سکتے جو ہماری آمدنی کا سبب بن سکیں … لڑکیوں کو بھی اس میدان میں آنا چاہئے … مردوں کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے …‘‘

ارشد نے تعریفی نظروں سے صوفیہ کی طرف دیکھا۔

بدر نے برا سا منہ بنا کر کہا … محترمہ!لیکن ابھی آپ کا مذہب اس حد تک آزاد نہیں ہوا کہ آپ کو وہ آزادی فراہم ککر سکے جو  آزادی آپ چاہتی ہیں۔‘‘

’’مذہب!‘‘ صوفیہ اس لفظ پر ٹھہری … مذہب میں بہت وسعت ہے —  ہاں اس کے  ماننے والوں نے بہت محدود معنوں میں لے لیا ہے —  اور مجھے ان سے اختلاف ہے۔ ہاں یہ میرا اپنا عقیدہ ہے کہ میں وقت کے ساتھ شریعت میں بھی تھوڑی بہت تبدیلی چاہتی ہوں اور آج مسلم قوم کو وقت کے پیمانے  پر کھرا اترنے کے لئے اس کی ضرورت بھی ہے۔‘‘

’’یہ تبدیلی آپ چاہتی ہیں۔ لیکن آپ ہی کے مذہب کے ماننے والے آپ کو کافر قرار دے دیں گے۔ اس لئے وہ کوئی تبدیل نہیں چاہتے۔‘‘

صوفیہ آہستہ سے بولی … ’’بہرحال تبدیلی ضروری ہے … جیسے چھوٹی سی بات ہے۔ ہمارے یہاں بقر عید ہوتی ہے۔ ایک ایک قربانی کے جانور پر سات سات سو، ایک ایک ہزار روپے یا اس سے زیادہ خرچ کر دئے جاتے ہیں۔ پھر کھا پکا کر سب ہضم … اور خوش ہو لئے کہ اپنا فرض پورا ہو گیا —  اب ذرا قوم کی صورت حال پر ایک نظر ڈالیے اور سوچئے کہ جانور کی قربانی کی جگہ اگر سب لوگ وہ پیسہ ایک بیت المال قائم کر کے وہاں جمع کریں تو قوم میں مفلسی اور غربت کا نام تک نہ رہے —  لیکن یہی نہیں ہوتا اور نہیں ہوسکتا۔

’’بیٹی ایسانہیں ہوسکتا۔‘‘ احمد صاحب سنجیدہ آواز میں بولے —  یہ ممکن نہیں —  اس لئے کہ قرآن میں بھی قربانی کے جانور کا ہی ذکر آیا ہے۔‘‘ وہ ذرا لمحہ کو ٹھہرے … پھر معمول پر لوٹ آئے …

’’ہاں تو نوجوان … بات کہاں سے کہاں نکل جاتی ہے … ہاں تو —  یہ ہمارے لئے بڑی  شرم کی بات ہے کہ …‘‘

آگے بات بدر نے پوری کی … گھر میں ایک کماتا ہے باقی کھاتے ہیں۔ بزرگوار آپ یہ بات میرے بارے میں  نہیں کہہ سکتے۔ میں ٹیوشن کرتا ہوں۔‘‘

’’ٹیوشن‘ — ‘ احمد صاحب نے ایسے منہ بنایا جیسے یہ کام انہیں کچھ زیادہ پسند نہیں آیا ہو —  اور وہ کسی اور جواب کے منتظر ہوں —

انہوں نے پھر پلٹ کر پوچھا ’’تم کیا ککر سکتے ہو ارشد پاشا — ؟‘‘

’’جی …‘‘ وہ بہت سوچ کر بولا … لکھ سکتا ہوں میں … مضمون، کہانی …‘‘

’’آج ان کی ضرورت —  نہیں اور سچ پوچھو تو آج ان کے لئے ایک ہی لفظ ہے۔ مجھے معاف کرنا —  مگر یہی  لفظ صحیح ہے … کوڑا … یہ کچھ نہیں دیں گے —  اور وہ بھی اردو صحافت … یہ اردو صحافت مفت کا مال خریدنے کی عادی ہو گئی ہے … بے شرم … اور ہمارے لکھنے والے ان سے زیادہ بے شرم کہ اپنی تخلیقات مفت  چھپوانے کے لیے …‘‘ ان کا لہجہ کڑوا تھا … اب کیا ہے کہ  … اس سے کہ ہمارے یہاں صحافت کا معیار نہیں رہا —  کوئی آنا نہیں چاہتا اور میں تم کو آنے کا مشورہ بھی نہیں دوں گا —  جہاں دو پیسوں کی آمدنی نہ ہو وہاں کام کرنے سے فائدہ بھی کیا —  اردو میں وہی چیزیں بکتی ہیں جہاں سنسنی ہو  —  Yellowجرنلزم  — ‘بیمار ذہنیت والے اسے خرید لیتے ہیں … کوڑا … انہوں نے ایک بار پھر اس لفظ کو دہرایا۔

’’اس لئے لکھنے کا خیال چھوڑ دو۔‘‘

بدر نے پھر لقمہ دیا ’’عزت مآب محترمہ! آپ اس بات پر کوئی تنقید کرنا چاہیں گی۔‘‘

صوفیہ نے آنکھیں اٹھائیں۔ کچھ دیر تک سوچا گویا ہوئی —  ’’لکھنا کوڑا نہیں ہوسکتا۔ ہاں مقصد … یہ نہیں رہا ہے آج … اور شاید اسی لئے پورے لٹریچر کو ابّا نے کوڑا کہہ دیا۔ میں آج لکھنے کو کل سے زیادہ ضروری محسوس کرتی ہوں اور شدت سے۔ آج صحیح طور پر سوئی ہوئی قوم کو جگانے کی ضرورت ہے۔‘‘

میں ان تمام تر چیزوں کو نہیں مانتا …سوئی قوم … جاگی قوم … لیٹی ہوئی قوم … بدر نے پھر لقمہ دیا … یہ سب نقلی رومانیت کے احساس سے زیادہ نہیں ہیں!‘‘

’’ آپ اس رومانیت کے قائل نہیں؟‘‘ صوفیہ ہنسی —  جبکہ مجھے احساس ہے کہ آپ کو زندگی کے ہر پہلو میں رومانیت نظر آتی  …‘‘ وہ ٹھہری … مگر یقین ہے  آپ ایک دن روئیں گے —  ضرور روئیں گے …‘‘

اس کے چہرے پر رونق پھر سے لوٹ آئی تھی … اب وہ بڑے پیار سے ارشد پاشا کو دیکھ رہی تھی۔

’’میں سائنس کی اسٹوڈینٹس ہوں —  اور میرا خواب ہے ڈاکٹر بننا —   ویسے آپ کا سبجیکٹ کیا ہے۔‘‘

’’علم کیمیا — ‘‘

’’آپ کا‘‘اس نے بدر سے پوچھا۔

’’جو جناب کا ہے۔‘‘

احمد صاحب نے ٹھنڈی سانس بھری … روس میں ایک وقت تھا جب معمولی سے معمولی کسان عورتیں بھی علم کیمیا کی پوری جانکاری رکھتی تھیں اور اس بات پر خاص نظر بھی کہ علم کیمیا میں اور کیا نئے تجربے ہو رہے ہیں لیکن ہماری نسل … آج سائنس گھر گھر پھیلانے کی ضرورت ہے … سائنس کی نئی نئی معلومات —  جیسے عیسائی مشنری کے لوگ اپنے مذہب کے لیے کرتے ہیں۔ اس قوم کے معیار کو بلند کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے … اس لئے ہمیں خود پبلشر بننا ہو گا۔ اس کے لئے پیسے جٹانے ہوں گے۔ پرنٹنگ مشین بٹھانی ہو گی۔ سائنس کی نئی نئی معلومات حاصل کرنی ہو گی  — اور مشن کے ہر شعبوں میں دخل رکھنا ہو گا —  تبھی ہم کسی بہت بڑے انقلاب کا جز بن سکتے ہیں۔‘‘

ارشد پاشا اس درمیان زیادہ تر خاموش رہے۔ شاید یہ صوفیہ کا اثر تھا۔  مگر اس دوران زیادہ نظریں بچا کر صوفیہ کی طرف دیکھتے رہے —  باتیں کافی دیر تک چلیں۔ پھر چلنے کا وقت آیا۔

احمد صاحب نے دونوں نوجوانوں کو آگے بڑھنے کو کہا۔ قوم کا نام روشن کرنے کے لئے … بدر صرف مسکراتا رہا۔

صوفیہ کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔ اس نے پھر ملنے کا وعدہ کیا تھا۔

واپسی میں بدر نے پھر ارشد پاشا سے کہا … ویسے تم کو ماننا ہو گا میں تمہیں کبھی کسی غلط جگہ پر نہیں لے گیا۔ مانتے ہونا … آج کی محفل سے بھلے کچھ نہ حاصل ہوا ہو مگر صوفیہ …‘‘

وہ ہنس رہا تھا۔ ’’ہے نہ حسین لڑکی اور بلا کی ذہین۔ مجھے معلوم ہے میرے گلفام۔ اب تمہاری خیر نہیں … قوم کے درد کی جگہ اب عشق نے لے لی ہے …‘‘

وہ زور زور سے ہنس رہا تھا۔

اور ارشد پاشا سچ مچ صوفیہ کے خیالوں میں گم ہو گیا۔ وہ واقعی اچھی لڑکی تھی۔

٭٭

 

 

(9)

اس درمیان واقعات کے رتھ کافی تیزی سے چلے۔ صوفیہ اور ارشد پاشا کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس میں کوئی عیب کی بات تو نہ تھی مگر جیسا کہ ہر چھوٹے شہر کا اپنا مزاج ہوتا ہے اور خاص کر یہ مرض مسلمانوں کے گھر میں زیادہ دیکھنے میں آتا ہے کہ کہاں کون کیا کر رہا ہے، بس اسی پر نظریں جمی ہوتی ہیں … اس لئے صوفیہ اور ارشد کی کہانی بھی گھر گھر میں گونجنے لگی۔ کہانی بننے میں دیر ہی کہاں لگتی ہے … لیکن جہاں ان دونوں کے ملنے میں کوئی عیب نہیں تھا، وہیں صوفیہ کی آزاد خیالی سے مسلمانوں کے نئے مسیحا مولوی احمد کو ضرور ایک خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ اس لئے کہ اب اس طرح باتیں بھی سننے میں آنے لگی تھیں کہ مولوی احمد پہلے اپنے گھر میں تبلیغ کریں۔ لڑکی کو اتنی آزادی دے رکھی ہے کہ غیر مردوں کے ساتھ گھومتی ہے۔

کہنے والے کتنے ہی تھے —  کہ بھائی پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو۔ پھر مسلمانوں کی بات کرو —  دوسروں کے گریبان دیکھنے چلے ہیں۔

ممکن نہیں تھا کہ یہ باتیں مولوی احمد کے کانوں میں نہ گئی ہوں۔ وکیل صاحب اس چھوٹی سی کانفرنس کے بعد فوراً ہی ہائی لائٹ میں آ گئے تھے۔ ملکی آواز اور الہلال نے بھی سرخیوں میں ان کی خبر کو شائع کیا تھا۔ پرانی دنیا، مسائل اور اخبار وطن، جسے ہفتہ واروں نے بھی —  جن کی پورے ملک میں دھوم تھی —  مولوی احمد کی تقریر کو نمایاں طور پر جلی حروف میں پہلے صفحہ پر ہی جگہ دی گئی تھی —  بڑے بڑے انٹرویو۔ تصویریں  —  یہ وہ اخبارات تھے جو مسلمانوں کے مسائل ہی چھاپتے تھے۔ وہ بھی نمک مرچ اور کہیں تو پورے مصالحے لگا کر اور ان کے مالک مسلمانوں کی نبض پر انگلی رکھ کر بین الاقوامی شہرت کے مالک بن گئے تھے۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ پیڑو ڈالر کے کرشمے نے اخبار کے وطن کے مالک کو کار والا بھی بنا دیا تھا۔ اب تو سارے چھوٹے چھوٹے مدیر کار والے تھے —  اور ہندستان میں جہاں بھی اسلام کو خطرے میں محسوس کرتے ہوئے کوئی جلسہ یا کارروائی ہوتی، ان کی شرکت وہاں لازمی ہو جاتی۔ یہ وہاں دھواں دھار تقریر کرتے۔ آنسو ان کی آنکھوں میں ہر وقت موجود ہوتے۔ اچھے لیڈر کی تمام خصوصیات سے ان میں موجود ہوتی —  اور پھر قوم کا کیا ہے … وہ تو شعلے اُگلتی تقریر کا مطلب جانتی ہے … مکہ معظمہ جل رہا ہے —  آج ہندوستان کے مسلمانوں کو قتل عام جیسی اشتعال انگیز سرخیوں جیسے مصالحے چاہئیں۔ شہید بھٹو اور شہید ضیاء کے کارناموں پر ہی ان کے اخباروں کی بکری منحصر کرتی تھی —  اور انہیں پڑھنے والے ہر جگہ مل جاتے —  مسلم ہوٹلوں میں … مسلم محلوں میں … چائے پیتے ہوئے … گفتگو کرتے ہوئے … باتوں میں حصہ لیتے ہوئے  — اخبار پڑھا ہے … نظریں سرخیوں پر گھوم رہی ہیں … کشمیر سلگ رہا ہے … کب تک مسلمانوں کے خون سے سیاہ تاریخ لکھی جاتی رہے گی۔ کمزور ہاتھ کانپ رہے ہیں … بجھی بجھی آنکھیں غصہ میں سلگ رہی ہیں … ہر طرف قتل و غارت … تم نے وہ خبر پڑھی میاں … نہیں میاں … سارے اخبار بک گئے۔ ایک کاپی بچی نہیں … وہ مولوی احمد والی خبر … کیا تقریر کی ہے … مسلمانوں کو تو ایسا ہی لیڈر چاہئے اور بھی کتنے مسلم رہنما ہیں … مولوی فرقان، سید وہاب الدین، نعمان سیٹھ، مولوی قاسم حسین،امام پشاوری … سب کتنی محبت رکھتے ہیں قوم سے۔ کتنا درد ہے … ہر پل قوم کے دور میں سوکھتے جا رہے ہیں … پوری دنیا میں مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کا گھر جلایا جا رہا ہے … اور اخبار دنادن بک رہے ہیں  … سید وہاب الدین، امام پشاوری کے تذکرے ہر مسلم محلے، ہوٹلوں اور گھر گھر چل رہے ہیں … اور اب مولوی احمد کے بھی … وہ ان خبروں کو کاٹ کر فائیل میں لگاتے ہیں۔

اب باہر ایک آفس بنا رکھا ہے۔ چھوٹا سا کمرہ۔ ایک خوبصورت سی میز لگی ہے ۔شاہی بڑی والی کرسی —  بیٹھنے کے لیے دونوں طرف لال اور نیلے صوفے —  گاڈریج کے سب سے مہنگے صوفے —  ایک طرف اخبارات کی فائل ہے۔ ہندی ، اردو اور انگریزی —   ایک نوجوان صفدر کو سکریٹری کے طور پر بحال کیا گیا ہے۔ جو بی اے گریجویٹ ہے مگر بیکار۔ شروع میں ہی شعر و شاعری کا شوق ہو گیا۔ سودو سو کے قریب غزلیں اردو رسائل سے لوٹ آئیں تو ادب سے جی بھر گیا۔ ادب کو کوڑا کرکٹ اور غزل کو بیکار سی شئے کہہ کر جناب نوکری کی تلاش میں لگ گئے۔ گھر پر بوڑھا باپ، پنشن یافتہ —  دو نوجوان بہن —  ایک بوڑھی ماں —  گزارے کی صورت کیا ہوتی —  شاعر دوستوں کی واہ واہی سے حاصل ہی کیا ہوتا۔ یوں بھی صفدر دیکھ رہا تھا … پہلے سے زیادہ بیکاری آ گئی ہے اب … اور ہر گھر میں ایسے بیکار اور ذہنی طور پر قلاش نوجوان لڑکے لڑکیاں دبستگی کے سامان کے لئے، اپنے لئے ایک مناسب اور آسان راستہ چن لیتے ہیں … شعر و شاعری، افسانے … ان کی تخلیقات چھپتی ہیں۔ چند ایک لوگ ان کے نام بھی جاننے لگتے ہیں اور انہیں اس سے زیادہ کی غرض بھی نہیں ہوتی —  نہ یہ کہ وہ ادب کو کیا دے رہے ہیں … وہ اپنی حسابی کارروائی میں خوش رہتے —  ہاں حساب کارروائی …

صفدر غزل کہنے کو حسابی کاروائی کہتا تھا۔ مغز ماری —  جوڑ گھٹاؤ —  شاید یہ اس کے ایک شاعر کے طور پر ناکامی کی کارروائی تھی یا حقیقت … مگر اتنا ضرور تھا کہ کبھی وہ بھی اس نشے، کا مارا نظر آتا —  اور کبھی کبھی اس ذہنی خرافات پر خوب ہنستا کہ واہیات … اتنا بول بلاکر بھی اس شاعری سے پیچھا نہیں چھٹتا۔ واہیات … مگر مولوی احمد سے وابستہ ہونے کے بعد اسے جیسے ایک نئی منزل مل گئی تھی … وہ قوم کو ایک ایسا ’ٹانک‘ مولوی احمد کے ساتھ مل کر پلانا چاہتا تھا جس سے اس قوم میں ایک نئی جان آ جائے —  وہ سربلند ہوسکیں … محنت اور عقیدت سے وہ اپنے کام میں لگا رہتا —  صبح دس بجے وہ دفتر کا کمرہ کھول دیتا …ٹھیک دس بجے … اس وقت دو بات ہوتی —  بوڑھا نوکر، جو مولوی احمد نے ادھر ہی رکھا تھا، وہ باغبانی کے فرائض انجام دے رہا ہوتا … یہ اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ صفدر کو دیکھ کر وہ بھاگا ہوا آتا اور وہ اتنا عجلت پسند واقع ہوا تھا کہ ہر بار تیز آنے کی صورت میں اسے کمرے کے دروازے سے دھکا ضرور لگتا —  اور صفدر کو کہنا پڑتا … ’بوڑھے میاں! اتنی جلد بازی کا ہے کی … آپ تھوڑا دیکھ کر چلا کیجئے۔

’’اچھا صاحب۔‘‘

بوڑھا سلمان اپنی چھوٹی سی سفید داڑھی پر ہاتھ پھیرتا اور مسکراہٹ سے پھر ایک بار کہتا … بہت اچھا صاحب … پھر اپنے دل میں کہتا … اتنے آہستہ سر میں جیسے خود سے باتیں کر رہا ہو مگر اس کی آواز صفدر کے کان میں داخل ہو جاتی … مگر کیا کروں … آپ لوگ قوم کے لیے یہ کام کر رہے ہیں۔ اﷲ بھلا کرے … بھلا کرے … اتنا کہتا ہوا وہ ایک بار پھر شیشے کی چمچاتی میز پر پوچھا لگاتا۔ اخبار نکال کر سامنے رکھتا اور گلاس میں پانی بھر کرپلاسٹک کے گول ٹکرے سے ڈھک دیتا۔ پھر اچھا صاحب کوئی ضرورت ہو تو … میں یہاں باغیچے میں ہوں  …کہہ کر ادب سے جھکتا۔ ایک بار پھر دروازے سے ٹکراتا اور خود کو کو ستا ہوا باہر نکل جاتا —

ادھر سلمان باہر نکلتا اور ادھر صفدر کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی … وہ گھڑی پر نظر ڈالتا … اور پھر کھلے ہوئے دروازے سے زینہ اترتی صوفیہ پر نظر جاتی جو بُراسامنہ بناتی ہوئی دفتر کی طرف دیکھتی اور ناک بھوں چڑھا کر آگے بڑھ جاتی —

ہے …پتہ نہیں کیا بات ہے … صفدر کے دل کی دھک دھک کافی دیر تک چلتی رہتی۔ پھر وہ اخبارات کی اُلٹ پلٹ شروع کر دیتا۔ مسلم مسائل سے متعلق خبریں ایک طرف —  وہ سرخ روشنائی سے ایسی خبروں کو گھیرتا جاتا … مولوی احمد کے تعلق سے جو خبر ہوتی، اُس کی الگ فائیل بناتا — پھر ایسی خبروں کو نشان لگانے کے بعد کاٹنے کے لئے کال بیل پر انگلی رکھتا —  بوڑھا سلمان ایک بار پھر اس کی خدمت میں حاضر ہوتا …

’’بس آ گیا صاحب …‘‘

’’چائے ملے گی …؟‘‘

’’کیوں نہیں صاحب‘‘

’’سلمان میاں۔ یہ قوم کا کام ہے … اﷲ آپ کو بھی اس کا اجر دے گا۔‘‘ صفدر مسکراتا … یہ اخبارات لیجئے اور قینچی سے اچھی طرح کاٹ لیجئے۔‘‘

’’جیسا حکم صاحب‘‘

سلمان ہر کام کے لئے فوراً تیار رہتا۔ وہ اندر باہر دونوں کا کام کیا کرتا تھا۔ صفدر کو مولوی احمد نے آٹھ سو مہینے کی تنخواہ پر ملازم رکھا تھا۔ یہ تنخواہ بھی اس وقت صفدر کے لئے کافی بڑی رقم تھی۔ ایک تو مکان کا کرایہ نہیں دینا پڑتا تھا۔ پرانا خاندانی مکان ٹھہرا … بے مرمت … مگر مکان تو تھا۔ تھکے ہارے گھر لوٹنے کے بعد ایک سائبان تو تھا جہاں وہ کچھ دیر آرام ککر سکتا تھا۔ اماں جی باورچی خانے میں مشغول رہتیں اور وہاں سے کھانے کی بھینی بھینی خوشبو یہاں تک آتی رہتی۔ دو بہنیں تھیں نکہت اور نشاط  — صفدر علی ان دونوں کے لئے بھی اپنی ذمہ داری محسوس کرتا۔ ابا کو پینشن صرف سات سوروپے ہی ملتی تھی اور بیچارے تھے بھی کیا۔ مڈل اسکول میں معمولی ٹیچر … بڑھاپے نے جھکا دیا تھا۔ ’’اخبار وطن‘‘ اور ’’پرانی دنیا‘‘ کے زبردست مداح تھے۔ ایک اخبار کو اس وقت تک چاٹتے رہتے جب تک کہ دوسرا شمارہ نہیں آ جاتا۔ بار بار پڑھتے … صفدر کو کبھی کبھی چڑھ سی ہوتی … ابا بھی کمال کے ہیں اور کوئی رسالہ نہیں لیتے۔ جب دیکھو اخبار وطن اور پرانی دنیا لے کر بیٹھے ہیں … ہونہہ … وہ دل ہی دل میں بڑبڑاتا … اسی لئے مسلمان ترقی نہیں کرتے … یہ  قوم ختم ہوتی جا رہی ہے … لعنت ہے۔

٭٭

اس درمیان واقعات کے رتھ تیزی سے چلے … جیسے صفدر کو ارشاد پاشا پسند نہیں آئے۔ شاید اس وجہ سے کہ وہ صوفیہ سے زیادہ قریب تھے —  اور صفدر علی یہ قربت خود بھی چاہتے تھے جو ان کے نصیب میں نہیں تھی۔ اس لئے کئی بار وہ بہت ایمانداری سے اور معصومیت سے دفتر سے چھٹی کے وقت جب دوستوں میں گھرے ہوتے تو اپنے کام کی ذمہ داری اور احمد صاحب وکیل کی مسلمان دوستی کا تذکرہ کرتے ہوئے صوفیہ کے تذکرے پر ایک سرد آہ ضرور بھرتے … ’آہ … گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے … اب بتاؤ تم ہی … جب لوگ صوفیہ کے بارے میں کچھ کہتے ہیں تو شرم سے سر جھک جاتا ہے۔ اب ایسی بھی بے پردگی —   آدمی اونچ نیچ بھول جائے … کالج میں کوایجوکیشن کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ انسان اپنی تہذیب چھوڑ دے … اسلام نے عورت مرد کے رشتے کو بہت نازک بتایا ہے مگر … احمد صاحب بیچارے کو کون سمجھائے …‘

یہ الگ بات تھی کہ اس کے دوستوں کو صوفیہ سے کوئی مطلب نہیں ہوتا —  صوفیہ ارشد پاشا سے ملتی ہے، اس کی جانکاری خود ہمارے صفدر میاں ہی دیا کرتے تھے … مگر وہ اپنی کارگزاری پر خوش تھے کہ بڑی اور اہم ذمہ داری نبھا رہے ہیں — مولوی احمد کے ساتھ ساتھ ان کا نام بھی اب اخباروں میں آنے لگا تھا اور اس کا تراشہ الگ سے وہ اپنی فائل میں بھی لگاتے —  اپنے لئے ایک الگ فائل بنا رکھی تھی اور موٹے کوٹ کی فائل پر کافی موٹی روشنائی والے قلم سے لال لال سرخیاں لگائی تھیں … ’صفدر علی کی فائل‘ …جس دن ایسی کسی خبر میں ان کا نام شائع ہوتا، اُس دن وہ دوڑے دوڑے بازار رحمت علی نکل جاتے۔ جہاں اردو کتابوں اور اخبارات کی ایک قطار سے دوچار دکانیں لگتی تھیں۔ پھر اس کے تراشے کاٹے جاتے۔ اپنے نام کو وہ لال روشنائی سے گھیر دیتے … اس مخصوص فائل میں ایسے چھ سات تراشے جمع ہو گئے تھے —  جسے بسا اوقات خالی وقت میں صفدر علی نکال نکال کر دیکھا کرتے اور خوش ہوتے رہتے … سید وہاب الدین اور امام پشاوری کے ساتھ ان کی تصویریں بھی پرانی دنیا اور اخبار وطن میں چھپی تھیں —  اس کے تذکرے بھی انہوں نے دوستوں سے ہزاروں بار کئے ہوں گے … اور مشہور ہے کہ ان کے دوست اب ان سے اس لیے بھی کٹنے لگتے تھے کہ صفدر ملا نہیں کہ وہاب الدین اور امام پشاوری سے ملاقات کی باتیں لے کر بیٹھ جائے گا … احمد میاں وکیل کا چمچا …

لیکن صفدر کو اطمینان تھا کہ وہ بہت بڑا کام کرنے جا رہا ہے۔ ایسا کام جس میں اس کی قوم کی بھلائی ہے —  اور وہ اس بات سے بہت خوش رہتا تھا اور مطمئن … کہ اب وہ دن دور نہیں جب وقت کی گردش دور ہو گی اور اس کا قطب ستارہ بلند ہو گا … بس وہ اسی ایک لمحہ کا منتظر تھا جب وہ بہت اوپر، بلندی کے آسمان پر نظر آئے گا۔ وہ کہتا بھی تھا —

’’ زندگی بہت مختصر ہے … یہاں ہر شخص اس ایک لمحے کی آرزو میں جیتا ہے … اس ایک خوش بخت لمحے کی آرزو میں جو اس کی تقدیر میں آسمان لکھ دے گا۔ اسے بلندیوں پر پہنچا دے گا۔ یہاں ہر شخص اسی ایک لمحے کے لئے جنگ لڑتا ہے … اب یہ جنگ میں نے بھی شروع کی ہے اور دیکھنا ہے تقدیر کب پلٹی مارتی ہے …

صفدر علی اپنے کام کو ایک جنگ تصور کرتے تھے۔ ایک خاص طرح کی جنگ … صبح دس بجے سے شام چھ بجے تک آفس میں فائلوں میں سردیے نظر آتے … کبھی کبھی آٹھ یا نو بج جاتے … کورٹ سے واپس آنے کے بعد احمد علی وکیل کی خواہش ہوتی کہ تھوڑی دیر صفدر میاں سے باتیں کی جائیں۔ وہ کبھی کبھی رات کے کھانے پر بھی زور دیتے اور صفدر علی کو چار و ناچار رکنا پڑ جاتا۔ اس رکنے کے پیچھے ایک اور وجہ تھی کہ اسی بہانے وہ صوفیہ کو زیادہ سے زیادہ دیکھ سکیں گے جوہر آدھے گھنٹے بعد کسی نہ کسی بہانے احمد صاحب کے کمرے میں ضرور پہنچ جاتی … ابا چائے پیجئے … دوائی کا وقت ہو گیا —  کتنے بجے نماز پڑھیں گے —  ہر بار وہ عجیب نظروں سے صفدر علی کی طرف نگاہ غلط ڈالتی اور صفدر علی کو لگتا جیسے آدھی سانس اندر اور آدھی سانس باہر … وہ ترچھی نظر سے صوفیہ کی طرف دیکھتے۔ دل دھک دھک کرنے لگتا … وہ اپنے آپ کو سمجھا پانے میں سو فی صدر ناکام ثابت ہوتے کہ وہ صوفیہ سے پیار کرنے لگے ہیں۔

صوفیہ کے جانے کے بعد مولوی احمد تھوڑی دیر تک کچھ ڈکٹیشن دیتے۔ کچھ بات نوٹ کراتے اور پھر کہتے۔ کیا خوب … بھئی خوب … واہ خوب … میاں طے رہا۔ اس بات سے ہنگامہ مچ جائے گا۔ کیوں کیسی رہی … اب دیکھو نا … یہ دماغ تو کمپیوٹر کا دماغ ہے … کچھ باتیں اچانک آ جاتی ہیں ذہن میں۔ اتنی اچانک کہ ہم تیار بھی نہیں ہوتے … خوب کیا خوب …‘

وہ مسکراتے … ہاں تو میاں صفدر علی —  اب ،اس دن کا واقعہ لو … ملکی آواز اور الہلال کے نائب مدیر تشریف فرما تھے —  کیا خوب … وہ لڑکا بھی تھا … وہی … نوجوان … ارشد پاشا … وہ ذرا ٹھہرے …

صفدر علی کے منہ کا مزہ کڑوا ہو گیا۔ اس نام سے اسے جنم کی چڑھ ہو گئی تھی …

’ہاں تو ارشد پاشا … وہ اچھا بھلا سا لڑکا ہے … بدر … مگر ایک خرابی ہے اس لڑکے میں۔ مذہب نہیں مانتا۔ اب مسلمان لڑکوں میں یہ برائی بھی آ گئی ہے۔ انٹکچلول سمجھتے ہیں اپنے آپ کو اور سمجھتے ہیں کہ مذہب کو برا بھلا کہیں گے تو ان کی تعریف ہو گی … مگر کیا خوب  … میاں یہ بات سب سمجھتے ہیں کہ آدمی وہی کھرا ہے جو اپنے مذہب کا سچا ہے … لکھ لو میاں … شاید یہ بات بھی کسی اخبار میں دینے کے کام آ جائے۔ ایک سچے پنڈت اور سچے مولوی کی قدر سبھی کرتے ہیں۔ نوٹ کرتے جاؤ … یہ آج کے مولوی ملا نہیں …

اتنا کہہ کر وہ ٹھہرے … اپنی بات خود ہی غلط لگی۔ اس لیے فوراً بات بدلی … اب گزرے ہوئے کل کا ہی جائزہ لو … کیا قدر تھی جناب فقیروں کی … پہنچے ہوئے فقیروں کی، پنڈتوں کی … سر آنکھوں پر بٹھائے جاتے تھے۔ مجمع لگا رہتا تھا اور آج … دراصل ہم نے اپنی قدریں خود گھٹائی ہیں۔ مانتے ہونا یہ بات … خوب کہی … اب وہ ملا رہے نہ پنڈت … نہ شیخ رہے نہ برہمن … واہ میاں … مان گئے … ہاں تو میں کہہ رہا تھا …‘‘

’’اس دن ارشد پاشا پہلی بار آئے تھے۔‘‘

’’ہاں میاں خوب یاد دلایا۔ اب دیکھو نا … جب سارے لوگ چلے گئے اور یہ دونوں ٹھہر گئے تو سوچا کیوں نہ کچھ دیر گفتگو بھی کر لی جائے۔ ہوسکتا ہے یہ دونوں کسی ڈیلی یا ہفتہ وار اخبار میں ملازم ہوں … اس لئے پوچھا کہ بھائی کرتے کیا ہو … اتنا کہہ کر احمد میاں ہنسے … جانتے ہو … بندے نے کیا جواب دیا … ام ایس سی کر رہا ہوں … وہ دوبارہ ہنسے … بس کیا تھا میرے کمپیوٹر ذہن میں فوراً ایک نیا خیال آیا۔ میں نے پھر پوچھا —  وہ تو ٹھیک ہے میاں مگر کرتے کیا ہو …؟ اب تو بیچارہ پریشان —  پھر وہی جواب دیا … ام ایس سی کر رہا ہوں۔ بس کیا تھا میں نے ایک بڑی تقریر جھاڑ دی … کہ یہی تو کمزوری ہے قوم کے لوگوں میں۔ ایک آدمی کماتا ہے اور لڑکے جوان ہیں مگر صرف پڑھ رہے ہیں اور ماں باپ کے کندھوں پر بوجھ ہیں … کیوں خوب رہی نا … احمد میاں پھر ہنسے۔

’’مگر آپ کی یہ تقریر تو کئی اخباروں نے شائع کر دی تھی۔‘‘

’’ہاں میاں اور ان باتوں کو خوب سراہا گیا۔ مگر میں یہ کہہ رہا تھا کہ کبھی کبھی ذہن میں پہلے سے کوئی بات نہیں رہتی … اچانک آ جاتی ہے —  جیسے دیکھو ابھی … ابھی اس وقت تم سے باتیں کرتے ہوئے ایک نیا خیال ذہن میں آ رہا ہے … نوٹ کرو میاں … قلم کاغذسنبھال لو … اپنی قوم میں کوئی سائنسداں کیوں نہیں ہے …؟ بولو … جواب دو … ارے ایک عبدالسلام سے کیا ہوتا ہے …؟ جہاں نظر دوڑاؤ وہاں ایسے قابل سائنسداں نظر آنے چاہئیں … قابل انجینئر، وکیل، آئی ایس افسر، ہم کیوں نہیں پیدا کرتے … چشتی اکادمی، امام غزالی اکادمی ان کے انگریزی اسکولوں کی طرح …‘‘

’مگر اردو پڑھ کر …‘ صفدر علی نے قطع کلام معاف کرتے ہوئے کہا … ’کون نوکری دے گا۔ اردو کا کیا مستقبل ہے ہندوستان میں؟‘

’’آہ اسے بھی لکھو … جس زبان کا رشتہ روزی روٹی سے الگ کر دو گے وہ زبان دم توڑ دے گی۔ میاں یہ اردو ہی کا دم ہے جو آزادی کے بعد لگاتار مظالم کو سہتے رہنے کے باوجود زندہ ہے اور شان سے زندہ ہے۔ فلم کی زبان اردو، نغمے کی زبان اردو —  عام روز مرہ کی زبان اردو —  کیا خوب میاں سب نوٹ کرتے جاؤ۔ اور  کل جتنے بھی اخبارات ہیں ہندی، اردو اور انگریزی سب جگہ یہ بیانات دے آؤ …‘‘

صفدر علی نے منہ بنایا۔ ’’ہندی اور انگریزی والے اس طرح کی خبر نہیں چھاپیں گے … ہاں کوئی خاص بات ہوئی تو …‘‘

’’تنگ نظر، متعصب …‘‘ احمد صاحب بڑبڑائے … میں جانتا ہوں سب شرارت ہے ان کی … وہ مسلمانوں کے مسائل میں دلچسپی نہیں لینا چاہتے … اس کو بھی نوٹ کرلو … کہ وہ صرف سیکولر پریس کا بہانہ بنانا چاہتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے … میرے خیال سے اخبار وطن والے اور پرانی دنیا والے ان لائنوں کو سرخیوں میں چھاپیں گے … کیوں صفدر علی …؟‘‘

’’ہاں صحیح فرمایا آپ نے …‘‘

’’متعصب تنگ نظر‘‘ —  وہ ایک بار پھر بڑبڑائے … کیا خوب … یاد آیا ارے وہ سلمان رشدی کی کتاب کا آج کل ہنگامہ چل رہا ہے … کیا نام ہے … لاحول ولا قوۃ … Satanic Verses شیطان کی آیتیں … اﷲ کی آیتیں سنی تھی … یہ شیطان کی آیتیں … تم نے سنا اس کی بیوی فرنگی ہے۔ ایسے لوگوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا میاں … تم یہ خبر دے دو  — اس طرح کی کتابوں کی بھرپور مذمت ہونی چاہئے … اور ہر شخص کو مذمت کرنی چاہئے اور جو نہیں کرتا وہ فاشسٹ ہے … ہاں فاشسٹ ہے لکھ لو …جو شخص اس کی حمایت میں بولتا ہے اس کا مطلب وہ سیکولر نہیں ہے۔ مسلمانوں کا دشمن ہے۔ آگے لکھو … مولوی احمد دنیا کے ہر ملک سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے یہاں اس کتاب پر پابندی لگا دیں …

’’مگر محترم! آپ نے یہ کتاب بڑھی ہے — ؟‘‘

’خوب فرمایا میاں … شیطان کی آیتیں … اب شیطان بھی قرآن پاک نعوذ باﷲ لکھنے لگے اور تم ایسی کتابوں کے پڑھنے کی بات کرتے ہو —  بس ایسی کتابوں پر پابندی لگنی چاہئے … تم دیکھ لینا یہ خبر ہندی اور انگریزی دونوں جگہوں پر شائع ہو گی۔ اس خبر کو سماچار بھارتی یو این آئی ہر جگہ بھیج دو … شابش …

احمد میاں اب مطمئن تھے … ایک نظر انہوں نے پرانی فائلوں پر ڈالی۔ کچھ دیر یونہی ادھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے —  پھر اچانک انہیں یاد آیا۔

’’ہاں تو میاں۔ اب ہمیں خودبھی ایک اچھا سا اخبار جاری کرنا ہو گا۔ کیوں کیسا رہے گا؟‘‘

صفدر علی تو اچھل پڑے … بیٹھے بیٹھے اچانک انہیں خوش نما خواب نظر آنے لگے … ایک خوبصورت سی کار۔ اُن کے آگے پیچھے بھیڑ لگی ہے۔ وہ تقریر کر رہے ہیں۔ مختلف جگہوں پر بلائے جا رہے ہیں۔ یہ سارے خواب ایک لمحہ میں ان کے سامنے سے گزر گئے۔ وہ اس وقت چونکے جب احمد صاحب ان سے پوچھ رہے تھے۔

’’کہاں کھو گئے میاں۔ اخبار کی ذمہ داری بھی تمہیں سنبھالنی ہو گی۔‘‘

’میں بخوشی تیار ہوں — ‘

’’خوب‘‘ وہ آہستہ سے بولے … اب دیکھو نا … آج کے زمانے میں اپنا پریس ہونا بہت ضروری ہے۔ میرے خیال میں سب سے ضروری چیز اپنا لٹریچر چھاپنا ہے اور انہیں ساری دنیا میں تقسیم کرانا۔ پریس کی اہمیت یوں تو ہر زمانے، ہر دور میں رہی ہے —  مگر آج، کل سے کہیں زیادہ اس کی ضرورت ہے۔ اُس دن بدر کی بات سے یہ خیال آیا کہ اپنا پریس ہوئے بغیر کام آگے نہیں بڑھ سکتا —  بس ایک ہندوستانی آفسیٹ پریس ڈھونڈنا شروع کر دو۔ سیکنڈ ہینڈ مل جائے تو کام شروع ہو جائے۔ مگر ہاں میاں۔ تمہارے ذہن میں اخبار کے لئے کوئی اچھا سا نام ہے۔‘‘

’’کیسا اخبار نکالیں گے آپ — ؟‘‘

’’ہفتہ وار‘‘ —  سوچتے ہوئے احمد علی بولے … ٹھیک رہے گا …؟‘‘

’’ہاں بالکل ٹھیک‘‘ صفدر علی کو اب بھی خواب آرہے تھے۔ اس کے ذہن میں اچانک ایک نام اُمڈا … یہ مجاہد نام کیسا رہے گا؟

’’بس میاں … خوب … بہت خوب … جی خوش کر دیا … بس یہ نام چلے گا۔ میں کل ہی اس نام کو رجسٹریشن کرانے کے لئے دے دیتا ہوں۔ میاں تم واقعی کام کے آدمی ہو … کیا نام ڈھونڈھ کر نکالا …‘‘

٭٭

اس طرح طے پایا کہ مجاہد کو جلد ہی ہفتہ وار کے طور پر نکالا جائے گا اور اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ احمد میاں وکیل نے اس کے بعد دو بار منہ پر ہاتھ رکھ کر جماہی لی۔ واضح تھا کہ دفتر کے بعد کی اس مشغولیت سے اب وہ تھک چکے ہیں … اور آرام چاہتے ہیں۔ اچانک دروازے پر پھر وہ سلمان کا بچہ دکھائی دیا جو پانی کا گلاس لئے تیزی سے کمرے میں داخل ہوا تھا —  اور ایک بار پھر دروازے سے ٹکراتے ٹکراتے بچا تھا … اس کی آنکھوں میں اداسی تھی —  جیسے وہ اپنے بار بار دھکا کھانے پر رنج کر رہا ہے۔ احمد میاں مسکرادیئے … صفدر علی  خاموشی میں ڈوب گئے تھے … اب تو صرف ہرے بھرے خواب تھے … جوہر پل آنکھوں میں مچل رہے تھے … مدیر کے طور پر تو انہی کا نام جائے گا … پھر تو ہر وقت فون کی گھنٹی بجتی رہے گی … صفدر صاحب کو فون دیجئے۔ وہ سلمان کی ڈیوٹی یہیں لگا دیں گے … فون ریسیوکرنے کے لئے …

 ہفتہ وار مجاہد میٹنگ کی ختم ہو گئی۔ صفدر علی شان سے اٹھے … احمد میاں بھی اپنے کمرے میں لوٹ گئے تھے … رات کے دس بج گئے ہوں گے … آسمان پر تارے کم تھے … کچھ بادلوں کے ٹکڑوں نے آسمان کے زیادہ تر حصے پر اپنا قبضہ جما رکھا تھا۔ شان بے نیازی سے صفدر علی باہر آئے —  ان کے قدم ہوا میں اٹھ رہے تھے … ایک لمحہ میں انہوں نے خود کو بہت آگے تصور کرلیا۔ یہ مولوی فرقان، قاسم حسین، سید وہاب الدین اور امام پشاوری کیا ہیں … جب صفدر علی کی قلم چلے گی … تب دیکھنا … قوم کے پرانے دن لوٹ آئیں گے … دھواں دھار قلم … اور چاروں طرف صرف صفدر علی کے ہنگامے ہوں گے … چہرے پر عجب سی خاموشی چھا گئی … دروازے سے باہر نکلتے ہوئے چونک گئے … اندھیرے میں آہستہ آہستہ باتیں کرتے ہوئے دو سائے نظر آئے … اس سے پہلے کہ وہ چونکتے، سرد سی آواز صفدر علی کے کانوں سے ٹکرائی …

’’کیوں میاں صفدر علی  — بیمار ہو کیا؟ چہرہ بالکل پیلا پڑا ہوا ہے۔‘‘

صفدر علی نے گھوم کر دیکھا اور جیسے خواب کی وادیوں سے تاڑ کے درخت میں اُلجھ گئے ہو … یہ صوفیہ تھی اور ارشد پاشا … ارشد پاشا طنز سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔

’’بیمار پڑیں میرے دشمن۔‘‘

’’آپ اپنا علاج کرائیے میاں۔ ایسا لگتا ہے یہ قوم کا درد آپ کو کسی خطرناک قسم کی بیماری میں مبتلا کر دے گا …‘‘

’’مجھے ایسی باتیں پسند نہیں‘‘۔

صفدر علی نے منہ بنایا … منہ کا مزہ کسیلا ہو گیا تھا۔ وہ تیز تیز چلتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ دھیمے قہقہے ابل رہے تھے۔ جن میں ایک نقرئی ہنسی بھی شامل تھی۔ اب وہ کچھ سن نہیں رہے تھے بلکہ تیز بہت تیز اپنے گھر کی طرف بڑھتے جا رہے تھے …

 

گزرے ہیں کتنے کارواں

ٍ

آگ بجھی ہوئی ادھر، ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر

کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں

                                     —   اقبال

 

 

(1)

’ہاں بھیا —  کہاں جات ہو —  کا کرت ہو بھیّا‘

’ایک ٹھو پان تو منہ میں داب لو بھیّا — ‘

کاشی میں گنگا کے گھاٹ پر ارشد پاشا کی آنکھیں نم ہیں —  گھاٹ کے نیچے گھاٹیے بیٹھے رہتے ہیں —  جن کے پاس پوجا کے لباس اور پوجا کی ڈالیاں چھوڑ کر آپ اشنان کے لیے بھی جا سکتے ہیں۔ واپس آنے پر وہ آپ کو تلک لگاتے ہیں۔ ابھی ایک ایسے ہی گھاٹیے کے پاس نہانے کے بعد واپس آئے ہوئے ایک مرد اور ایک عورت کھڑے ہیں۔ دونوں کی ابھی شاید حال میں شادی ہوئی ہے —  ان کے ساتھ ایک بوڑھی عورت بھی ہے —  بی اماں کے جیسی۔

گزرے ہوئے مناظر ایک ایک کر کے ارشد پاشا کی آنکھوں کے آگے روشن ہو گئے۔ بسمتیا کے جانے کے بعد بی اماں نے بستر پکڑ لیا —  گھر کے ہنگامے رخصت ہو گئے —  منڈیر پر آنے والے کوّے اب بھی بیٹھے رہتے ہیں۔ لیکن بی اماں تو گونگی بن گئی تھیں۔ اس درمیان صرف اتنا ہوا کہ لکھنؤ سے راشدہ کے لیے ایک رشتہ آیا۔ لڑکا سعودی عرب میں ملازم تھا —  شادی کی جلدی تھی۔ آناً فاناً رشتہ طے ہوا —  اور دو مہینے میں ہی راشدہ کی رخصتی کر دی گئی —  تغلق پاشا اب کمزور ہو گئے تھے —  انور پاشا کو اپنے مستقبل کی فکر کھائے جا رہی تھی  — ان کے کچھ دوست عرب ممالک میں جا کر بس گئے تھے —  وہ دہلی جانا چاہتے تھے اور بار بار ان کی ایک ہی رٹ تھی —  ’’ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ہے —  کوٹھی کے خریدار مل جائیں گے —  اب ان گھاٹوں کے شہر میں کیا رہنا۔ دلّی میں خوش رہیں گے۔ کوٹھی بیچ کر وہاں چھوٹا سا ہی سہی ایک فلیٹ لے لیں گے۔‘

تغلق پاشا آہ بھر کر رہ جاتے، دمّے نے اب پریشان کرنا شروع کر دیا تھا۔ ریٹائرمنٹ میں کچھ ہی مہینے رہ گئے تھے لیکن اب ان سے چل پھر نہیں ہوتا تھا۔ وہ آرام کرنے کے موڈ میں تھے —  ارشد پاشا اُنہیں سمجھاتے تھے۔

 ’ابھی آپ کی ایسی کوئی عمر نہیں ہے۔ آخر دوسرے لوگ بھی تو ہیں آپ ہی کی عمر کے۔ ذرا ان لوگوں کو بھی تو دیکھئے۔ کیسے چاق چوبند رہتے ہیں —  حکومت ریٹائر کر دیتی ہے تو کیا ہوا؟ ساٹھ سال کا آدمی —  کوئی بوڑھا نہیں ہوتا۔‘ تغلق پاشا مسکرانے کی کوشش میں ہانپنے لگ جاتے۔ ارشد پاشا کے سوالوں کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ ادھر بابری مسجد کا معاملہ اور بھی زیادہ گرما گیا تھا۔ ہنگامے پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئے تھے —  ہندو سنگٹھنوں کی طرف سے لگاتار نفرت کی بارش ہو رہی تھی —  اِدھر اے ایس آئی نے مندر کے فیور میں بیان دیا تھا —  محکمۂ آثار قدیمہ کے مطابق یہاں مندر ہونے کے کئی وجوہات ہوسکتے ہیں —

٭  کھدائی کے دوران متنازع مقام سے عیسوی قبل تیسری صدی کے مندر جیسے مذہبی مقام کے نشانات ملے —

٭  نویں صدی کے دائرہ نما شیو مندر کے نشان بھی پائے گئے۔

٭  آثار قدیمہ کے افسران کو دسویں صدی کا ایک وشنو مندر بھی کھدائی کے دوران ملا۔ سریوندی کی باڑھ میں یہ مندر بہہ گیا تھا —

٭  تاریخ کے مطابق ۱۲۲۸ء میں گڑھوالی راجاؤں نے نیا وشنو مندر تعمیر کرایا تھا —  اسی مندر کو بابر کے سپہ سالار میر باقی نے مسمار کر مسجد بنوائی تھی۔

٭  کھدائی کے دوران ملنے والی مندر کی کئی چیزوں کا بیربل ساہنی انسٹی ٹیوٹ آف پولیو باٹنی نے ٹیسٹ کرنے کے بعد اس کی صحیح تاریخ نکالی —  اسے بھی عدالت میں بطور ثبوت رکھا گیا —  ممکن ہے اسے بھی عدالت نے اپنے فیصلے کی بنیاد بنایا ہو گا۔

٭  رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کھدائی کے دوران ملے کئی باقیات کشان کے عہد سے ملتے ہیں۔

٭  کھدائی کے دوران متنازع مقام سے قریب 50 کھمبے، سجے ہوئے پتھر، اینٹ اور دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں ملی ہیں —

٭  ۱۵ ویں، ۱۶ویں صدی میں رائج ایرانی برتنوں کے ٹکڑے —

٭  ۱۵ ویں، ۱۶ ویں صدی کی مقامی کاریگری سے بنی چوڑیاں۔

٭  ۱۲ ویں صدی کا ۲۰ سطور کا ناگری خط اور سنسکرت زبان کا وشنو ہری شیلا لیکھ —

ان ثبوتوں کی بنیاد پر سنگھ کے لوگ وقف کمیٹی کے اس دعوے کو خارج کرتے تھے کہ یہ مسجد مغلیہ حکمراں بابر کے عہد میں بنی تھی —  معاملہ طول پکڑ چکا تھا —  ادھر کشمیر سلگ رہا تھا —  برف پوش وادیوں میں آگ لگ چکی تھی — ‘ کشمیر کو علیحدہ ریاست کے طور پر دیکھنے والی جماعتیں سامنے آ چکی تھیں —

اور ان سب کا اثر عام مسلمان پر پڑ رہا تھا —  جو چاروں طرف سے دہشت میں گھر کر رہ گئے تھے —

ارشد پاشا کی آنکھوں میں آنسو تھے —  ایک دن ایک نفرت بھری آندھی  آئی اور بی اماں کو یہ آندھی اپنے ساتھ لے گئی —  اس دن شہر میں کارسیوک اکٹھے ہونے والے تھے۔ بی اماں نے وضو کا پانی مانگا۔ ظہر کی نماز کا وقت تھا —  انور پاشا پانی لے کر گئے تو بی اماں کی دونوں پتلیاں ساکت ہو چکی تھیں —  انور پاشا نے زور کی چیخ ماری —

جنازہ تیار تھا اور ادھر شہر میں فساد کا خطرہ منڈرا رہا تھا —  تغلق پاشا کا دمہ اکھڑ گیا تھا —  وہ روتے اور ہانپتے ہوئے چیخ رہے تھے —

’نفرت کی یہ آندھی تمہاری اماں کو بہا کر لے گئی —  ایک دن یہ آندھی ہم سب کو بہا کر لے جائے گی۔ دیکھ لینا —  نحوست کے گدھ منڈرا رہے ہیں —  آدم خور ہیں گدھ —  بوٹی بوٹی کھا جائیں گے ہماری — ‘

شہر میں دفاع ۱۴۴ لگی تھی —  اسی دفاع میں خاموشی سے محلے کے چند لوگوں کے کندھے پر سوار بی اماں کا جنازہ اٹھا اور پرانے قبرستان میں بی اماں کو آخری پناہ گاہ نصیب ہوئی —

راشدہ کے شوہر سعودی سے لکھنؤ لوٹ آئے تھے —  خبر ملتے ہی راشدہ بھی بی اماں کے آخری دیدار کو آ گئی تھیں —  عراق نے کویت پر حملہ بول دیا تھا —  عرب ممالک پر اس کے اثرات نمایاں تھے —  اب راشدہ کے شوہر لکھنؤ میں ہی بزنس کے خواہش مند تھے —

برامدے میں خاموشی تھی —  ماحول میں لوبان کی مہک پھیلی ہوئی تھی —  راشدہ نے آنسو بہاتے ہوئے کہا —

’نوج‘ آج پھر کوّے آ گئے ہیں منڈیر پر — ‘

غم کے ماحول میں چپکے سے ایک مسکراہٹ داخل ہوئی —  ٹھیک اسی وقت کارسیوکوں کا ایک دستہ جے شری رام اور ہر ہر مہادیو کی آواز لگاتا ہوا گزرا —  ابّا حضور تغلق پاشا کی آواز گونجی —

’دروازے اور کھڑکیاں بند کر دو —  جانے پھر کوئی مصیبت نہ ٹوٹ پڑے — ‘

اور یہی وقت تھا جب باہر سے گھبرایا ہوا اسلم گھر کے اندر داخل ہوا تھا —

’غضب ہو گیا — ‘

اس کے پیچھے انور پاشا بھی تھے —  انہوں نے بتایا —

’دو فرقوں کے درمیان جھڑپ ہو گئی ہے —  مدن پورا اور مخدوم پورا میں کچھ دکانیں جلا دی گئی ہیں — ‘

انور پاشا چیخ رہے تھے —

’میری تو کوئی سنتا ہی نہیں ہے —  یہ دنگے خاموشی سے بی امّاں کو اپنے ساتھ لے گئے —  ہمیں بھی لے جائیں گے —  روز ان نفرت بھرے نعروں کو سنتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے — ‘

’آگ تو سب جگہ لگی ہے —  کہاں جاؤ گے انور پاشا —  یہ آگ تو چھوٹے چھوٹے گلی کوچوں سے نکل کر پورے ملک میں پھیل چکی ہے۔ کہاں کہاں بھاگتے پھرو گے — ‘ یہ ارشد پاشا تھے —

’اب توبس یہیں کی مٹّی میں دفن ہو جانا ہے —  بی اماّں چلی گئیں۔ میرا انتظار باقی ہے —  کچھ دن اور انتظار کر لو —  پھر بولنے اور بکنے والا کوئی نہیں رہے گا —  دو بھائی ہو اور ایک بہن —  بٹوارہ کر لینا —  مجھے تو کبھی بٹوارہ پسند ہی نہیں رہا —  جیتے جی ملک کے بٹوارے میں، میں بھی جھلسا اور بی اماں بھی —  ساری عمر اس بٹوارے کو روتے رہے —  گھر کا بٹوارہ کیسے کر دیتے — ‘

تغلق پاشا کی آنکھوں میں آنسو تھے —

’لیکن تم لوگوں کو روکوں گا نہیں —  بڑے ہو چکے ہو۔ اپنی مرضی کے مالک ہو۔ میرے مرنے کے بعد جو چاہے کرنا —  لیکن میری زندگی تک اس گھر کا بٹوارہ نہیں ہو گا — ‘

وہ ہانپتے ہوئے اپنے کمرے میں لوٹ گئے تھے —

دوسرے دن راشدہ واپس لکھنؤ چلی گئی —  گھر کے در و بام میں اب خاموشی کی حکومت تھی —  انور پاشا اب دلّی جانے کے لیے خود کو تیار کر رہے تھے —  شہر کی فضا ابھی بھی خراب تھی —  دلّی کی ایک پرائیوٹ فرم سے انور پاشا کے لیے بلاوا آیا تھا —  پھر وہ رُکے نہیں —  ایک ہفتے کے اندر ہی وہ دلّی کے لیے کوچ کر گئے —

٭٭

گھر میں اب صرف تین لوگ رہ گئے تھے —  گونگا اسلم، تغلق پاشا اور ارشد پاشا —  تغلق پاشا اکثر و بیشتر پرانی یادوں کے حجرے میں گم ہو جاتے —  ارشد پاشا اپنے مستقبل کو لے کر پریشان تھے —  کاشی سے نکلنے والے ہفتہ وار مجاہد نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنا ایک مقام بنا لیا تھا —  احمد میاں وکیل کو اب سارا ہندوستان جاننے لگا تھا —  صفدر کی لاٹری نکل آئی تھی۔

لیکن صوفیہ پریشان تھی —  احمد میاں وکیل کی صفدر علی سے نزدیکیاں اب اسے راس نہیں آ رہی تھیں —  لیکن ارشد پاشا کی خاموشی نے بھی اسے شدید نفرت میں مبتلا کر رکھا تھا —  اس دن سنّاٹے میں جب احمد میاں وکیل نے پیار سے اس سے دریافت کیا —  ’’صفدر کیسا لڑکا ہے؟‘ تو صوفیہ کے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی —  وہ اس سوال کا مطلب جانتی تھی —  لیکن ارشد پاشا ابھی بھی اس سچ سے کوسوں دور صرف اپنے بارے میں سوچ رہے تھے۔ صوفیہ کو اپنی دنیا ویران سی نظر آنے لگی تھی —

٭٭

جمعہ کے روز ایک مندر میں پتھراؤ کی خبر آتے ہی شہر کی فضا ایک بار پھر نازک ہو گئی —

یہی وقت تھا جب ارشد پاشا کو حادثے میں بدر کے زخمی ہونے کی خبر ملی تھی۔ وہ باہر نکلنے کو ہوا تو تغلق پاشا نے روک دیا —

’کہاں جا رہے ہو؟‘

جان بوجھ کر ارشد پاشا بدر کی خبر کو چھپا گئے —

’بس ابھی ایک دوست سے مل کر آ رہا ہوں — ‘

’زمانہ خراب ہے، جلدی آ جانا — ‘

اسلم کو دروازہ بند کر دینے کی ہدایت دے کر وہ تیز قدموں سے بدر کی مزاج پرسی کے لیے نکل گئے —

٭٭

سانس تیز تیز چل رہی تھی —  ارشد پاشا کو خبر ملی تھی کہ بدر اسپتال میں ہے —  اور اس کی حالت نازک ہے —

وہ بھاگ رہا ہے —

دوڑ رہا ہے —

واقعات کے گھنے کہرے اس کی آنکھوں کے آگے اکٹھے ہو گئے ہیں … سب ایک ایک کر کے ساتھ چھوڑ رہے ہیں …

بی اماں چلی گئیں —  انور پاشا کو ان کا کیریر لے گیا —  راشدہ دلہن بن کر اپنے گھر چلی گئی اور صوفیہ —

وہ صوفیہ سے لا تعلق ہو کر رہ گیا تھا —  بس خبریں مل رہی تھیں … احمد میاں وکیل صفدر علی سے صوفیہ کی شادی کرنا چاہتے ہیں —  اور یہ خبر بجلی کی طرح اس کے حواس پر گری تھی —

ارشد پاشا دوڑ رہے ہیں …

مگر ہر قدم جیسے موت کا اندھیرا —  اب صرف خاموشی رہ گئی ہے اور گھر —  ایک قید خانہ —  وہ اس قید خانے میں کسی قیدی کی طرح زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں —  اس درمیان اجے سنگھ تھاپڑ اس کے کافی قریب آ گیا تھا —  یہ ملاقاتیں پہلے بھی ہوتی رہی تھیں —  اور تھاپڑ نے ان چند ملاقاتوں میں اس کا دل جیت لیا تھا —

آنکھوں کے آگے کے اندھیرے گہرے ہو گئے ہیں —

ارشد پاشا خود کو زندگی کے اس اندھیرے میں گم ہوتا ہوا محسوس کر رہے تھے —

٭٭

 

 

(2)

اسپتال کے بے رونق کمرے میں دنیا جہان کی ویرانی سمٹ آئی تھی —

’ہاں، ہم نے کرایا ہے یہ فساد … اور یہ فساد بار بار ہوتے رہیں گے … جب جب وہ اپنی حد سے آگے بڑھیں گے، ہم اُنہیں روکیں گے ___ ہم سمجھائیں گے نہیں۔ کہ سمجھانا ہمارا کام ہے___  وہ اس ملک کے لیے کینسر ہیں … ہم اُن کے راستے میں بارود بچھا دیں گے …‘

’ہاں … ہم نے …‘

ارشد پاشا کے کان میں بار بار یہ آواز گونج رہی تھی اور آنکھوں کے آگے بدر کا چہرہ لہرا رہا تھا___  کوئی فائدہ نہیں … میں مارا جاؤں گا تو …؟ کون بتائے گا۔ کہ میری آئیڈیالوجی کیا تھی …؟ میں تو مارکسسٹ تھا …‘ اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے …جمہوری اور اشتراکی نظریہ کو زندگی سمجھنے والا —  جسے مذہب کے نام پر مار دیا گیا___   اب سوچتاہوں … میں خیالات کی سطح پر اتنی دور کیوں نکل گیا تھا، کہ اپنوں سے کٹ گیا___   اپنوں سے …‘

وہ رو رہا تھا___

’’اپنوں سے … کہیں ایک درد جاگ رہا ہے ارشد پاشا___   کہیں مذہب کی بجھی ہوئی ایک قندیل حرکت میں آئی ہے___   کیا میں نے غلط کیا؟___  ‘‘

اسپتال میں چاروں طرف خاموشی تھی … جنرل وارڈ میں، الگ الگ بستروں سے زخمیوں کے کراہنے کی آواز آ رہی تھی …

’نہیں … تم جا نہیں سکتے میرے دوست …سب ٹھیک ہو جائے گا …‘

’وہ …‘

اُس نے دانتوں کو بھینچا … آنکھیں ویران ہو رہی ہیں … دماغ کھو رہا ہے … مگر میرے سوالوں کو کبھی اپنے اندر بھی ٹٹولنا ارشد پاشا اور اس ملک کے حوالے سے سوچنا  … وہ درد سے مسکرایا … ابے سالے … کلمہ یاد ہے …

’ہاں …‘

’تو پڑھ نا کیا___  کیا معلوم اوپر جنت جیسی کوئی شے ہو …؟

اُس کی آواز رفتہ رفتہ کھوتی جا رہی تھی … ہو گی تو … تیرے لئے ایک عدد حور تلاش کر کے رکھوں گا۔ مگر سالے آنے میں جلدی مت کرنا۔ ابھی کافی عمر پڑی ہے تیری___   گھر بسا لینا …‘

آنسو جیسے دریا بن گئے تھے … دریا کی لہریں جوش مار رہی تھیں … لہریں جیسے ایک دوسرے سے ٹکراتی اپنے اپنے راستوں کو تلاش کرنے میں لگی تھیں۔ مگر انور پاشا___   وہ درد سے بلبلائے … اسپتال کے کمرے سے باہر آ گئے___   نہیں …وہ دیر تک بدر کے پاس نہیں رہ سکتے … بدر کے پاس … وہ … وہ جا رہا ہے … اننت گہرائیوں میں … وہ جا رہا ہے … مگر جانے سے قبل اُن سوالوں کی زد میں ہے، جس پر کبھی زندگی میں اُس نے غور نہیں کیا … تو کیا یہ سوال اُس کی آئیڈیالوجی کی عمارت کو مسمار کر کے نکلے تھے … یا …؟

یہ سوال ہمیشہ سے موجود تھے — ؟

یا ان سوالوں سے فرار ممکن ہی نہیں ہے___  ‘

٭٭

شاید زندگی ہمیشہ اپنے کاروبار میں الجھی رہتی ہے —

اور وقت گزر جاتا ہے — ارشد پاشا کو بس یہ خبر ملی تھی کہ شہر میں ہونے والے دنگوں میں بدر کو بھی ذرا سی چوٹ آئی ہے۔ بدر دنگا کرنے والوں کو سمجھانے کے ارادے سے نکلا تھا۔ اور ان لوگوں نے اسے زخمی کر دیا —

 موت کی اجنبی آہٹ کو اب قریب سے ہر کوئی سن سکتا تھا —

مگر وہ آواز —

وہ درد میں ڈوبی ہوئی آواز —

’ہاں ہم نے مارا ہے …‘

آواز اچانک بلند ہو جاتی۔ آواز اچانک نرغے میں لے لیتی … آواز کانوں کے پاس چنگھاڑنے لگتی …

’ہاں ہم نے مارا ہے …‘ مگر اب یہ کوئی نئی بات نہیں رہ گئی تھی … اب تو ایسے حادثوں کے الزامات اپنے سر لینا شرپسند تنظیموں کے لئے فخر کی بات بن گئی تھی … اور گدھ سینک انسانی لاشوں پر کھڑے فخریہ اعلان کر رہے تھے … ہم نے مارا ہے …

اس تشدد کے بارے میں زیادہ تر بس چپ تھے … مگر سنگھ نے نہ صرف اس تشدد کی ذمہ داری قبول کی تھی بلکہ ضرورت پڑنے پر مزید تشدد جاری رکھنے کی کھلے عام دھمکی بھی دے دی تھی___

اس درمیان سنگھیوں کے بیانات لگا تار اخبار کی زینت بنتے رہے … ان بیانات میں ایسا ’بہت‘ کچھ تھا، جس سے روحیں کانپ جاتی تھیں … آنکھوں میں وحشت ناچ جاتی  … اور دل میں جیسے کوئی آگ کی بھٹّی سلگ اٹھتی  …

وہ ہر بار چونکتا اور ہر بار ٹھہر جاتا … یہ بیانات … وہ اندر ہی اندر خوفزدہ ہو جاتا —  مگر___   اُسے ہمیشہ محسوس ہوتا … ان بیانات پر کسی کے اندر بھی کوئی ردّ عمل نہیں ہے … وہ لوگ جو سڑکوں سے گزر رہے ہیں، تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ گھروں میں ٹی وی سیٹ سے لگے بیٹھے ہیں۔ اگر یہ لوگ خوفزدہ ہیں تو پھر ان بیانات پر کسی کا ردّ عمل احتجاج کی صورت میں سامنے کیوں نہیں آتا___   یا وہی اکیلا ہے جو صرف گھبرا جاتا ہے۔ باقی آرام سے جینا چاہتے ہیں۔ ایسی باتوں میں اُلجھنا نہیں چاہتے___   مگر نہیں۔ شاید ایسا ایکدم سے نہیں تھا___

ایسے موقع پربھی اُسے بدر کی یاد آتی تھی جو اچانک لمبی خاموشی حاوی کر کے کہا کرتا تھا___   احتجاج کو بھڑکنے کے لئے بھی کسی خاص موقع کی ضرورت ہوتی ہے … ایک خاص مدت گزر جانے کے بعد احتجاج ٹھنڈا پڑ جاتا ہے یا مر جاتا ہے …

اُسے لگتا تھا … نہیں، شاید ایک تیسری صورت بھی ہے … احتجاج ابھی اندر جمع ہو رہا ہے … تھوڑا تھوڑا کر کے … یہ کبھی بھی، کسی بھی موقع پر آتش فشاں کی طرح پھٹ سکتا ہے …

بدر کے آنسو ابھی بھی اُس کی آنکھوں میں لہرا رہے ہیں … میں تو مارکسٹ تھا … میں مر جاؤں گا تو …؟ کون بتائے گا اُنہیں کہ میری آئیڈیالوجی کیا تھی … سالے کلمہ یاد ہے … کیا معلوم اُوپر جنت جیسی کوئی شئے ہو …‘

بدر ___  وہ ہمت اور حوصلہ کی معراج دیکھ رہا تھا … بدر اور زیادہ تڑپا مت بدر___   لہولہان مت کر___   یہ دل تو پہلے سے ہی لہولہان پڑا ہے … اسے اور زیادہ زخمی مت کر … وہ دیکھ رہا ہے … بدر کے جسم سے زندگی جیسے غبارے کی ہوا کی طرح نکل رہی ہے … پاؤں … ہاتھ … وہ اُنہیں لمحہ لمحہ اکڑتے ہوئے دیکھ رہا ہے … جیسے ساری اذیت، ساری تکلیف آنکھوں میں بھر گئی ہو … ہاں آنکھوں میں … وہ مرتے مرتے بھی مسکرا رہا ہو___   آنکھوں میں گہری تکلیف کے باوجود جینے کی ایک چمک بچ گئی ہو … پڑھ نا سالے … مرنے سے پہلے مسلمان تو بنا دے …

شدت جذبات سے وہ بے قابو سا ہو گیا ہے___   وہ آنکھیںآنسوؤں کے سمندر کو روک پانے میں جیسے ناکام سی ہو گئی ہیں___   لب لرز رہے ہیں … تھرتھراہٹ سے ہونٹ ترچھے ہو گئے ہیں … سارا جسم کانپ رہا ہے … اور …

لا الہ … اللہ … محمدؐرسول اﷲ …

لا الہ …

لفظوں پر جیسے برف کی پرت جمع ہو گئی ہے … وہ … جا رہا ہے … ہمیشہ ہمیشہ کے لئے …اُسے موت نے نہیں سلایا ہے … اُسے بھاجپا کے ترشول نے سلایا ہے … اُسے …

بدر کی مُندتی ہوئی آنکھیں جیسے اُس کی آنکھوں میں سما گئی ہیں … سالے رُکنا مت … جب تک آنکھوں میں زندگی بچی ہے، کلمہ پڑھتے رہنا۔ رُکنا مت …

اب___  آنکھوں کے آنسو خشک ہو چکے ہیں___   شاید۔شاید زندگی اور موت کے درمیان جو فاصلہ ہے … اُس فاصلے کو پہچان گیا ہے وہ … یہ فاصلہ اب ختم ہونے والا ہے … موت کی حقیقت —  ان دیکھی ان جان تسلّیوں سے پہچان بھی کرا دیتی ہے …

خدا حافظ بدر … خدا حافظ …

فرشتوں جیسی مسکراہٹ چہرے پر سمیٹ کر ہمیشہ کے لئے سو گیا ہے بدر۔ اُس کے لب تھرتھرائے … اِناّللہ … واِنا …

زندگی جبر کے ہاتھوں سے نکل کر کھلی ہوا میں پرواز کر گئی ہے … چلو اچھا ہے … کم از کم وہاں بچہ ٹھاکر تو نہیں ہے … گدھ سینکوں کے پاگل کر دینے والے شور شرابے تو نہیں ہیں …سنگھ اور مہا سنگھ کے ہنگامے تو نہیں ہیں —  امام پشاوری اور وہاب الدین جیسوں کا جنون تو نہیں ہے —

٭٭

’کیوں، کیا ہوا، اتنی رات گئے کہاں سے آرہے ہو؟‘

وہ تغلق پاشا کے کمرے کے پاس آ کر ٹھہر گیا ہے___   تغلق پاشا اُس سے پوچھ رہے ہیں___   وہ سرجھکائے خاموش کھڑا ہے___   کمرے میں ہلکا اندھیرا ہے___   تغلق پاشا کی آنکھیں، جیسے اُس کی آنکھوں میں اُتر گئی ہیں___   اُن کا چہرہ برف کی طرح یخ ہو رہا ہے___  جیسے پورے وجود پر برف کی سلّی رکھ دی گئی ہو___   آواز لڑکھڑاتی ہے، ٹوٹتی ہے۔

’بولتے کیوں نہیں؟ جواب کیوں نہیں دیتے۔ کہاں سے آرہے ہو؟‘

پھر جیسے ساری برف یکلخت پگھل گئی___   اُس نے چہرے پر جمے ہوئے برف کو ہاتھوں سے ہٹایا___   آنکھیںاُس بوڑھے وجود پر ٹھہر گئیں، جس نے اُس کے انتظار میں جانے کیسے رات کے اتنے گھنٹے گزارے ہوں گے___

’جواب کیوں نہیں دیتے؟___  ‘

’جواب ہی تو کھو گیا ہے۔‘

وہ بہت آہستہ سے پھسپھسایا___

بوڑھی آنکھوں میں لرزہ طاری تھا___

’کوئی حادثہ تو نہیں ہو گیا — ؟‘

’ہاں۔‘

’کیا ہوا ہے!‘

’ایک آدمی مر گیا ہے۔‘ وہ بہت آہستہ سے بولا___   ایک آدمی بس۔ جس ملک میں ہر روز کسی نہ کسی بہانے لاکھوں لوگوں کی ہتیائیں کر دی جاتی ہوں___   وہاں ایک آدمی کا مرنا کوئی معنی نہیں رکھتا___   ایک آدمی کے مرنے سے انسانی برادری کے وسیع و عریض خطّے میں کوئی کمی نہیں آتی___   برّہ اعظم کا کوئی ٹکرا کم نہیں ہوتا___   ایک آدمی تو کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا اباّ حضور___  بس ایک آدمی کم ہو گیا ہے۔‘

تغلق پاشا نے ذرا سا کھانسا___   بستر سے اُٹھنے کی کوشش کی___   آنکھیں، اُس کی آنکھوں میں جم گئیں___

 ’تمہارا کوئی جان پہچان والا تھا؟‘

’سچ کہا ہے آپ نے___   دُکھ یا غم کو محسوس کرنے کا تعلق بس اسی بات سے ہونا چاہئے کہ وہ آدمی ہمارا کیا لگتا ہے؟ کوئی عزیز،رشتہ دار یا دوست___  ؟ ممکن ہے،آنے والے کل میں ایسا کوئی سوال بھی نہ اُبھرے___   ایسے کسی سوال کی ضرورت ہی پیش نہ آئے___  ‘

بوڑھے ہونٹوں نے پھر پوچھا___   ’پریشان ہو؟‘

’نہیں ___ پریشان ہونا کیسا؟‘اُس کے لہجے میں کڑواہٹ بھری تھی___   ’موت تو تمام پریشانیوں کا سیدھا سادا حل ہے___   جو مر گیا،نجات پاگیا___   جو زندہ ہیں، وہ اس نجات کے بارے میں سوچ رہے ہیں —  کب آئے گی موت؟

’ہار رہے ہو___  ‘

تغلق پاشا بستر سے اُٹھ کر دو قدم چلے___   چال میں لڑکھڑاہٹ سوار تھی  — مگر آنکھیں روشن__آنکھیں جیسے کسی گہری فکر میں ڈوبی ہوئی تھیں__ ’کام نہیں ملا ہو گا۔میری طرف سے بھی پریشان ہو گے___  آگے کیا ہو گا؟ جیسے سوالوں سے___   مگر اِن سے کیا ہو گا ارشد پاشا؟ اِن سب کے باوجود، وہ اپنے لہجے کی تھرتھراہٹ محسوس کر رہے تھے —  ’یعنی جو ہو رہا ہے، جو کچھ ہوا، یا جو آگے ہو گا، اُس کے باوجود___  تمہیں زندگی سے پیار کرنا چاہئے۔ زندگی سے پیار کرنے کا حق ہے تمہیں___   مجھے دیکھو___  کیا ہے اب اس زندگی میں؟ کچھ بھی نہیں۔ کوئی نشہ نہیں___   کوئی خواب نہیں___  تنہائی کا بے جا شکوہ کروں تو جو بھی زندگی ہے، اُسے عذاب بنا لوں___   جینا پڑتا ہے ارشد پاشا___   اس لئے کہ ہر طرح کے مصائب کے باوجود جیتے رہنا ایک ضرورت بن جاتی ہے مجھ سے سبق لو___   تم بتاؤ، مجھے کیوں جینا چاہئے — ؟ جس کے پاس نہ حسرتیں ہیں، نہ کوئی اُمنگ نہ ولولہ___   پھر بھی کچھ باقی رہ جاتا ہے … ہزار حادثے کے باوجود بھی___   جیسے، سارے عذاب سے گزرنے کے بعد اب یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم اپنی زندگی کیسے گزارتے ہو — ؟ اسے سنوارنے کا جتن کرو ارشد پاشا —  اُن سوالوں کو وہیں چھوڑ دو، جس منزل سے بھٹک کر حیران پریشان اس ڈیوڑھی پر آکر مجسم سوال بن کر کھڑے ہو جاتے ہو؟‘تغلق پاشا کی آنکھیں نم تھیں —

’ہم تو سمجھے تھے کہ اے میر! یہ آزار گیا۔ مگر آزار کہاں جاتا ہے___   وہ میرا دوست تھا___   نہیں مجھے اس کا زیادہ غم نہیں ہے، اس کا شکوہ بھی نہیں کہ یہ دنیا ایک آدمی کے مرنے کا غم نہیں منایا کرتی___   مجھے کوئی گلہ نہیں ہے —  مگر ساری زندگی ہم ایک آئیڈیالوجی کو بُننے اور اُس سے زندگی سنوارنے میں گزار دیتے ہیں___   پھر کیا ہوتا ہے  — یہ ساری زندگی کی تلاش کا حاصل ایک نقطہ___   جس کے لئے سو سو جتن کئے جاتے ہیں اُس ایک مرکز، ایک نقطے پر پہنچنے کے لئے —  مگر کیا ہوتا ہے___   ایک بہت بے رحم لمحے میں، وہ آئیڈیالوجی ایسے ٹوٹتی ہے جیسے کانچ کا برتن بھی نہیں ٹوٹتا ہو گا___   ایک بہت بے چین کر دینے والی ساعت میں زندگی کی تمام سانسوں سے بُنی گئی آئیڈیالوجی کا مذاق اُڑانے کی خواہش ہوتی ہے … کہ دھت، اسی لئے جئے —  عمر تمام کی___   زندگی کے فلسفوں کو آلام کوٹھری میں جگہ دی___   اسی دن کے لئے___   صرف ایک شخص مرا نہیں ہے اباّ حضور___   آئیڈیالوجی کی موت ہو گئی ہے___

وہ ٹھہرا تو اُس نے تغلق پاشا کو دیکھا، جن کی آنکھوں سے ایک قطرہ اشک باوجود ضبط اور کوشش کے بہہ کر، رخسار سے ہوتا ہوا کپڑوں میں جذب ہو گیا تھا___

’سچ کہتے ہو — ‘وہ واپس پلٹے۔تھرتھراتے قدموں سے دوبارا بستر پر بیٹھ گئے۔ سچ کہتے ہو___   مرنے سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے آئیڈیالوجی کی موت___   خوابوں کے ٹوٹنے سے کہیں زیادہ اذیت ناک___   کون گزر گیا؟‘

’بدر___  ‘

اُس نے آنکھیں پھیر لیں___

اُس نے تھرتھراتی سی آواز سنی__   اِناّ للّٰہِ واِناّ اِلیہِ راجِعوُن۔

’کیا ہوا تھا اُسے؟‘

ارشد پاشا کا لہجہ کسیلا تھا___   ’آسمان نہیں، زمین پر منڈراتے ہوئے گدھوں نے جان لے لی اُس کی — ‘ وہ چیخ رہا تھا___   ’یہ کیسا ملک ہے اباّ حضور‘ آپ پوچھ سکتے ہیں مجھ سے کہ آج مجھے کیا ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے بھی میں نے لاشیں دیکھی ہیں۔ ایک دو تین نہیں کتنی کتنی لاشیں___  لیکن اس سے قبل کبھی بھی ایسا پاگل پن مجھ پر سوار نہیں ہوا تھا___  تہذیب اور ارتقاء کی اتنی صدیاں گزارنے کے بعد بھی حلوانی اور نابنائی جیسے کرداروں کی اس ملک میں پوجا کیوں ہوتی ہے___ گدھ اُڑانے والے بچہ ٹھاکر ایک ریاست ہی نہیں، ملک کے ایک بڑے حصے کے ہیرو کیسے بن جاتے ہیں … وہ لوگ، جن کے ہر ایک بول میں فرقہ پرستی کا لہو جما ہوتا ہے___ان کے میٹھے اور سنجیدہ چہرہ پر بے گناہوں کے خون کے چھینٹے لوگ محسوس کیوں نہیں کرتے___؟ اِن لوگوں کو گولیاں کیوں نہیں ماری جاتیں___ ختم کیوں نہیں کیا جاتا___ یہ لوگ ایک ملک کے مستقبل، محافظ اور رہنما کیسے بن جاتے ہیں___؟ ایک بڑی جماعت انہیں ہیرو کیسے سمجھ بیٹھتی ہے___ نہیں —  مجھے بتا لئے اباّ حضور___ کچھ اور بھی پوچھنا چاہتا ہوں آپ سے___

ٍ اُ س نے آنکھیں، تغلق پاشا کے کمزور ہوتے وجود پر مرکوز کر دیں  —  ’آج اپنے اور گھر کے بارے میں سوچ رہا تھا۔  آپ کے بارے میں  —  ایک پرانی تواریخ کے گواہ بن گئے ہیں آپ___ ایک زندگی گزاری ہے اس ملک میں ___اس ملک کی بیس کروڑ آبادی سے نہیں، صرف آپ سے پوچھتا ہوں، کہ اگر کہا جائے صرف خاندان کا اتہاس بتانے کے لئے تو کیا بتائیں گے آپ___ نہیں کچھ بھی نہیں ہے آپ کے پاس۔  خزانہ خالی ہے آپ کا اور یہی ہے سچ بات __آپ کیا بتائیں گے اباّ حضور، یہ سچ میں بتا رہا ہوں __

’دو بھائی تھے ___ایک بھائی ملک کی تقسیم کے بعد پاکستان چلا گیا ___اُس ملک کی تقسیم کے بعد جو پلاسی کی جنگ ہارنے کے بعد، انگریزوں کی، 200برسوں کی غلامی کا شکار ہو گیا___ اور دو سو برس سے پہلے کی تواریخ بھی کچھ بہت زیادہ شفاف نہیں ہے___ اس میں بھی وہی تذکرے ہیں  —  اپنی خود غرضی کی، خون آشام جنگوں کی —  اُن نفرتوں کے قصّوں کی کہ بھائی نے اقتدار کے لئے بھائی کا خون بہا دیا___ آپ کے پاس اس سے زیادہ کوئی کہانی نہیں تھی کہ رو پیٹ کر اس بھائی نے اپنی سلامتی کے لئے، اپنی نہیں، اپنے مذہب کی سلامتی کے لئے وہ ملک چُنا جہاں اُس کا مذہب زندہ رہ سکتا تھا ___اور آپ نے ساری زندگی اُس بھائی کا دُکھڑا روتے ہوئے گزار دیا___ ایک خاتون آپ کی زندگی میں شریک سفر تھیں جو میری ماں تھیں ___ خدا ترست اور اندھ وشواس کی ماری___ میرا ایک چھوٹا بھائی تھا، جو گندے پولیتھن کو جمع کرتا تھا___ آپ کی وہ زندگی تھی، جو کلرک کے طور پر ڈی او آفس میں گزر ہی تھی___ ایک زہریلی ہوا چلتی ہے اور پھر___ صرف ہم اور آپ رہ جاتے ہیں ___ اور کیا خبر کہ اس کے بعد چلنے والی زہریلی ہوا زندگی میں اور کیا رنگ دکھائے___ مجھے بتائیے اباّ حضور، کہ اس زندگی میں، لمبی زندگی میں  —  وہ کیا ہے جسے چمکتی، آنکھوں کے ساتھ بتایا جائے___؟ جسے سناتے ہی سب اپنے ہوش کھو دیں ___ کیونکہ حقیقت، یہی ہے، آج انجانے میں ہم سے وہ وراثت چھینی جا رہی ہے —  وہ ہمیں کھوکھلا کر رہے ہیں ___ یہ ملک، اس ملک کے نابنائی اور حلوانی ہمیں توڑ رہے ہیں ___ اگر، یہ ابا حضور المیہ ہے تو اس المیہ کو محسوس کیوں نہیں کیا جاتا___؟  کوئی آدمی گولیوں سے بھری ایک بندوق لے کر، اُن کے درمیان شامل کیوں نہیں ہوتا —  جانوروں  کو راستے سے ہٹانے کے لئے___ گندگی صاف کرنے کے لئے__‘

’نہیں یہ ہر دور میں ہوا ہے۔  ہوتا رہا ہے__‘ تغلق پاشا دھیرے سے بڑبڑائے__ ایک قوم فاتح کہلاتی ہے اور دوسری مفتوح__ ایک اپنے بلند ہونے کا جشن مناتی ہے تو دوسری اپنی بربادیوں کا ماتم منانے کی تیاری کر رہی ہوتی ہے___ بولتے بولتے تھک گئے ہو گے —  اُجڑا میں بھی ہوں ___ تم سے زیادہ اُجڑا ہوں ___ تم اُس عورت کے ساتھ کم رہے___ میں زیادہ رہا ہوں ___ کم وبیش تم سے 20-25سال زیادہ ___اُس عورت کے ساتھ جو تمہاری ماں تھی___ جو کہانی تم نے سنائی، وہ تمہیں میں بھی سنا سکتا تھا۔  مگر یہ سب … دل کی بھڑاس نکال کر کیا کہنا چاہتے ہو تم___ بس اتنی سی بات کہ ایک تہذیبی ورثہ ختم ہو رہا ہے___؟ تہذیب کی قندیلیں بجھ رہی ہیں ___؟ پہلے ہم سے داستانیں چھینی گئیں ___پھر حقیقی زندگی سے جڑی ہوئی وہ کہانیاں جو آنے والی نسلوں کو بتانے کے کام آیا کرتی تھیں  —  مگر تم صرف، اتنی دیر سے صرف ایک قوم کو ہی قصوروار ٹھہراتے کیوں آ رہے ہو___؟ وہاں صرف نابنائی اور حلوانی ہی تو نہیں ہیں ___

تغلق پاشا ہانپ رہے ہیں ___ ’تمہیں صرف زمین پر منڈرانے والے گدھ ہی نظر آئے؟ امام پشاوریوں اور سیّدوہاب الدینوں کی زبان میں لپٹے ہوئے سانپ تمہیں دکھائی نہ دیئے — ؟ آہ، قصور تمہارا نہیں ___ اِن سانپوں کو زیادہ کچلنے کی ضرورت ہے ارشد پاشا___ تم نے سچ کہا —  میں نے ایک لمبی عمر گزاری ہے —  اس لئے تم سے زیادہ تاریخی خزانہ ہے میرے پاس —  اور اس لئے اس حقیقت کو تم سے زیادہ پہچانتا ہوں کہ ان کے یہاں ہم سے زیادہ لبرل اور سیکولر کردار کے لوگ رہتے ہیں ___ہاں وہ لوگ جو ہم سے زیادہ نابنائیوں اور حلوانیوں کو گالیاں دیتے ہیں  —  اور اس جنون کے خاتمے پر ملک کے سیکولر کردار کی فتح کے نام پر جام جشن پیتے ہیں ___ مگر ہمارے یہاں ___ ایک اجودھیا کا المیہ ہوتا ہے___ اور ہم جانتے ہیں  — اس المیہ کا قصوروار نفرت کی بارش کرنے والوں سے زیادہ وہ چہرے ہیں ___ جو ہمیشہ سے بکتے رہے ہیں ___ جن کی خون اُگلتی سرخیاں صرف اخباروں تک نہیں رہتی ہیں ___ پرائم منسٹر کے سامنے جن کی گردنیں خم ہو جاتی ہیں اور جیب نوٹوں کے وزن سے جھک جاتے ہیں اور پھر لمبے وقفے کے لئے یہ اپنی زبانیں خاموش کر لیتے ہیں ___‘

’تمہیں، یہ سب بتانے کی ضرورت نہیں ہے —  کہ یہ سب وہ باتیں ہیں، جو اس ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے___تم ہوا کا رخ پہچاننا ہی نہیں چاہتے ہو تو …

’پہاڑوں کو برابر کرنا ہو گا۔ ‘

ارشد پاشا کی آواز بوجھل تھی___ ’پہاڑوں کے درمیان سے راستہ بنانے کے لئے پہاڑوں کو کاٹنا ہو گا، تراشنا ہو گا___ یہ سب بارود کے دھماکے سے ہی ممکن ہے___ ان کے خاتمہ بالخیر سے ہی ایک نئی تہذیب وجود میں آ سکتی ہے___ آپ نے سچ کہا۔  آپ کی نسل کو سلام___‘

اُس کی آواز درد میں ڈوبی تھی___ ’ہم گمراہ ہو جاتے ہیں  —  ایک حادثہ اچانک ہمارے لبرل کردار کو مشکوک بنا دیتا ہے___ ہم مذہبی بھٹّی میں تپادینے پر مجبور کر دیئے جاتے ہیں ___ شاید اس ملک کے ساتھ یہی ہوتا رہا ہے___ ‘

’کس کے نصیب کو کوس رہے ہو___؟‘

تغلق پاشا اُس کی طرف گھومے___ اس بار اُن کا لہجہ سخت تھا___ باہر شام کا گھنا اندھیرا پھیل چکا تھا___ زور سے بجلی کڑکی تھی___ بجلی کی چمک کھڑکی کے شیشے پر ایک لمحہ کو کوندی اور تغلق پاشا کی آواز میں کھو گئی___

’بہت دیر سے تمہاری یہ باتیں سن رہا ہوں۔  ہمت جواب دے گئی ہے___ اب بوڑھا ہو گیا ہوں ___عقل کام نہیں کرتی ___ورنہ یہ ضرور کہتا کہ یہ سب بکواس کس کے لئے___ کہنے سے خوف کھاتا ہوں کہ گرم خون پلٹ کر بوڑھے وجود میں جواب کی سل نہ اُتار دے___ ہاں، کس سے کہہ رہے ہو یہ سب —  اِن دیواروں سے —  کمرے سے؟ چھت سے یا اپنے آپ سے___ کیا یہ فریاد ہے؟ شکایت ہے یا سب کچھ اندر سے نکال کر خالی ہو جانا چاہتے ہو، انور کی طرح___‘

’شاید آپ سچ کہتے ہیں ___‘وہ آہستہ سے بولا … سچ کہتے ہیں  … اپنا آپ خالی ہو گیا تو …؟ پھر کسی بھی طرح کی جنگ کے لئے اندر قوت کہاں رہ پائے گی ___میں اپنے کمرے میں جا رہا ہوں۔  ضرورت پڑی تو آواز دے دیجئے گا مجھے …‘

قدم نڈھال تھے … آہستہ آہستہ زمین پر پڑ رہے تھے___ اس حادثے نے جیسے اُس کے جسم کا سارا خون ہی نچوڑ لیا تھا___ مگر ارشد پاشا نہیں جانتے تھے کہ ابھی ایک اور حادثہ ان کا انتظار کر رہا ہے —

کچھ دن اور گزر گئے —

 اس درمیان ارشد پاشا صوفیہ سے نہیں ملے —

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں

 جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

 تجربات و حوادث نے ارشد پاشا کو تنہائی کے قید خانے میں ڈال دیا تھا —  اس درمیان میں وہ کسی سے بھی نہیں ملے —   اخبارات اسے کاٹ کھانے کو دوڑتے تھے —

 شاید یہی ہوتا ہے۔  زندگی کبھی کبھی آپ کا امتحان لیتی ہے۔

٭٭

 

 

(3)

باہر ابھی بھی زور زبور سے بادل گرج رہے تھے___ پانی برسنے کی آواز بھی آ رہی تھی … جھم … جھم … جھم … جھم___

باہر بارش ہو رہی ہے … مگر ایک بارش اندر بھی ہو رہی تھی … خیالات کا ایک سیلِ رواں تھا اور وہ مسلسل اندر سے نم ہوا جا رہا تھا … اتنی بڑی کائنات۔  زندگی کا یہ سفر اُسے پتہ نہیں کہاں لے جائے___

بجلی پھر زور سے چمکی تھی___

کھڑکی پر پڑے پردے کو چیرتی ہوئی، آنکھوں میں اُتر گئی تھی بجلی … وہ اپنے اندر کے زخموں کو کریدتے ہوئے ڈر رہا تھا … نہیں، یہ سارے زخم اُس نے چھپا لیے ہیں  … برف کے ٹکڑے ڈال دیے ہیں احساس کے ’زخموں ‘ پر … کہیں زخم رسنے لگا تو …؟

باہر دستک ہو رہی ہے … نہیں، اس وقت کون آئے گا۔  وہ بھی اس طوفانی بارش میں ___ وہم ہے اُس کا۔  اندھیرے اور تنہائی میں انسان کا واہمہ دستکوں میں تبدیل ہو جاتا ہے … ٹھک … ٹھک …

نہیں صرف اُس کا وہم ہے___

آگے بڑھ کر کھڑکی کا پردہ ہٹانے کی خواہش ہوئی تو بی اماں کی آواز نے جیسے قدم پکڑ لیے___ نوج، بارش میں کوئی چمکتی ہوئی بجلی کو دیکھتا ہے …؟‘

ذہن کے دھندلے گوشے میں اب روشنی تھی اور وہاں بی اماں مسکرا رہی تھیں  … اتنی خاموشی___ اس گھر میں تو کبھی ایسی خاموشی نہ تھی۔  پھر کیا ہوا … سارے کے سارے کہاں کھو گئے … آنکھوں کے پاس نمی لہرا رہی ہے …

ٹھک … ٹھک …

نہیں، کوئی واقعی ہے … سچ مچ کی دستک ہو رہی ہے …اُس نے کان لگایا … ہاں سچ مچ کوئی ہے۔  مگر اس طوفانی بارش میں ___ چھت پر بارش کے موٹے موٹے قطرے گرنے کی آواز آسیب زدہ معلوم ہو رہی تھی___

وہ اُٹھ کر چلتا ہوا دروازے تک گیا___ پانی کی بوندیں اُسارے میں بھر گئی تھیں ___ یہیں پاس والا کمرہ اباّ کا ہے۔  اُس نے اباّ حضور کے کمرے کی طرف دیکھا___ تکیہ پر سر ڈھلک گیا تھا۔  سرہانے تسبیح پڑی تھی … مطلب، اباّ حضور کو نیند آ گئی ___وہ باہر والے دروازے کی طرف بڑھا___ اور چٹخنی کھول دی … اور اچانک ایکدم سے تھم کر رہ گیا___

سامنے صوفیہ کھڑی تھی۔  ہاتھ میں چھوٹا سا بریف کیس پکڑے —  بارش سے شرابور___

’تم !اس وقت___‘

’’اندر آنے کو نہیں کہو گے؟‘

صوفیہ کے لہجے میں ٹھہراؤ تھا ___سرکے بال، چہرے سب بارش میں نہائے ہوئے تھے … پانی کی ننھی ننھی بوندیں زلفوں سے ہوتی ہوئی پیشانی، رُخسار اور ہونٹ نم کرتی ہوئی زمین پر گر رہی تھیں  … اُس نے صوفیہ کی آنکھوں میں جھانکا ___اُف کس قدر ہیبت ناک سناّٹا___ ایسا سناّٹا تو، ایسی خاموشی تو کسی آنے والے طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے___

’اس بارش میں  …؟‘

وہ اپنے لہجے کی تھرتھراہٹ خود بھی محسوس کر رہا تھا___

’رات کافی ہو چکی ہے ___اور میں بھیگ بھی چکی ہوں۔  ہاتھ میں بریف کیس بھی ہے___ کیا تمہیں ان سب کے معنی سمجھانے ہوں گے ارشد پاشا___؟‘

اُس نے لاجواب ہو کر صوفیہ کی آنکھوں میں دیکھا___

’معاف کرنا، کچھ عادتیں رہ جاتی ہیں ___ اندر آ جاؤ___‘

اُس نے دروازہ بند کیا___

باہر اب بھی پیٹ پیٹ کر بارش ہو رہی تھی___ گیلری سے گزرتے ہوئے اُس نے اباّ کے کمرے کی طرف نظر ڈالی۔  وہ شاید نیند میں سو گئے تھے___

وہ صوفیہ کو لے کر کمرے میں آ گیا ___صوفیہ کے کپڑے جسم سے چپک گئے تھے___ اُس نے اپنی اُٹھتی چڑھتی سانسوں کو برابر کیا___ اس بار وہ مسکرایا تھا___

’پہلے کپڑے بدل لو___ وہاں۔ وارڈ روب میں کچھ کپڑے ہیں۔  تب تک میں تمہارے لئے کافی گرم کرتا ہوں ___‘

صوفیہ کے لہجے میں اب بھی وہی ٹھہراؤ تھا___

’چائے مل سکتی ہے؟‘

’ہاں کیوں نہیں۔ ‘

’بہت بھیگ چکی ہوں ___اس وقت چائے کی طلب ہو رہی ہے۔ ‘

صوفیہ نے وارڈ روب کھولا، اپنے لئے ایک لباس پسند کیا اور باتھ روم میں داخل ہو گئی___

اُس نے اپنا جائزہ لیا___ نہیں ___اُس کی سانسیں اب بھی برابر نہیں ہوئی تھیں۔  باہر بارش تیز تھی۔  چھت سے ٹپ ٹپ کی تیز صدا بلند ہو رہی تھی۔  اُف! کمرے میں کس قدر اُمس ہے۔  کھڑکی کھول دینی چاہئے۔  کم از کم ٹھنڈی ہوا تو آئے گی۔  آگے بڑھ کر اُس نے کھڑکی کھول دیا اور اچانک ایک لمحے کو ٹھہر گیا___

وہیں کھڑکی کے قریب صوفیہ نے اپنا بریف کیس رکھا تھا۔  بریف کیس کے اردگرد ذرا سا پانی جمع ہو گیا تھا___ اُسے لگا، اُس کے اندر بھی اچانک موسلادھار بارش شروع ہو گئی ہو___ اور بارش سے اُس کا پورا جسم بھیگنے لگا ہو___

ذہن کے گوشے میں کہیں، کوئی اک مسکراہٹ بجلی کی طرح کوندی___ وہ پتہ نہیں کتنے برس پیچھے چلا گیا___ صوفیہ مسکرارہی ہے___ صوفیہ ہوا میں لہرا رہی ہے … صوفیہ کی آنکھوں میں اُس کی اپنی تصویر بن گئی ہے___

زندگی کے ریگستان میں،

چلتے چلتے، اچانک ایک دن بہت تھک جاتے ہیں ہم/

پھر سہارا ڈھونڈتے ہیں ___

پھر اپنی کمزوریاں آڑے آ جاتی ہیں ___

ندی کا ریلا مٹّی کو کاٹتا ہوا گزر جاتا ہے …

پھر سہارا گُم ہو جاتا ہے …

وہ چلتے چلتے کسی ریگستان میں گم ہو گئی___ ایک دم آنکھوں سے اوجھل … چلتے چلتے___ آنکھوں میں صرف پرچھائیاں رہ گئیں ___اور___ پھر پرچھائیاں بھی اوجھل ہونے لگیں  …

کھٹ کی آواز ہوئی___ خیالوں کے سلسلے منتشر ہوئے۔  اُس نے دیکھا___ باتھ روم کا دروازہ کھلا___ اُس کے پینٹ اور شرٹ میں ملبوس صوفیہ کھڑی تھی … نہیں صرف کپڑے اُس کے تھے۔  جسم صوفیہ کا تھا … پھر اچانک … پل میں سب کچھ گڈمڈ ہو گیا … جسم اُس کا تھا اور کپڑے___ صوفیہ کو اُس نے کبھی مرد کی آنکھوں سے نہیں دیکھا___ مگر ابھی … جیسے نظریں اُس کے جسم پر مرکوز ہو کے رہ گئیں ہیں  … اُف، کس قدر شگفتہ اور کھلا کھلا چہرہ … کسی نوخیز پھول کی طرح … بس ابھی ابھی جس کی پنکھڑیاں، شبنم کے قطرے سے زندگی پا کر پھیلی ہوں  … بس ابھی ابھی …

اُس کے بال ابھی ابھی گیلے تھے___ ہاتھ میں ٹاوِل تھا۔  وہ بال سکھا رہی تھی___

اُس نے صوفیہ کی آواز سنی___

’اباّ سو گئے؟‘

’ہاں ‘

اباّ جاگ گئے تو___؟

اُسے لگا، صوفیہ کی آواز میں طنز کی نشتریت ہو___

’کیا کہو گے اپنے اباّ سے___ ایک جوان لڑکی بارش میں بھیگی ہوئی تمہارے گھر آتی ہے___ تمہارا باتھ روم استعمال کرتی ہے۔  تمہارے کپڑے پہنتی ہے، وہ بھی اس طوفانی رات میں  … بارش میں  …‘

’اباّ سے کوئی بہانہ بنا دوں گا___‘

’ابھی بھی سچ کے اظہار سے خوف آتا ہے تمہیں ___؟‘

وہ مستقل ٹاول سے بال سکھانے میں لگی تھی___ ’جھوٹ کیوں بولو گے تم؟‘

اُس کا چہرہ پتھروں جیسا سخت ہو رہا تھا___ بولو؟کیا میں کل غلط تھی؟ تم غلط تھے …؟ اور آج___ اپنی کمزوریوں پر ہم جھوٹ کا پردہ کیوں ڈالتے ہیں ___؟ سچ کہنے کی ہمت کیوں نہیں رکھتے___؟‘

’مزاج___ وہ کہتے کہتے ٹھہر گیا___ بس، ایک مزاج بن جاتا ہے___ ایک موسم دبے پاؤں آ کر زندگی میں ٹھہر جاتا ہے۔  پھر ہم وہی دیکھنا چاہتے ہیں جو بار بار آنکھیں دیکھتی رہی ہوتی ہیں ___‘

’تم پوچھو گے نہیں کچھ؟ سوال نہیں کرو گے؟‘

و ہ ہنس رہی تھی …

اُس کی آنکھوں میں بچوں جیسی کھلکھلاہٹ تھی___

وہ چونک گیا …

’اتنی رات گئے …‘

’یہ تم پہلے بھی کہہ چکے___ اتنے کمزور کیوں ہو تم___ میری طرف نظر اٹھا کر دیکھتے کیوں نہیں ___ کرنٹ لگ جائے گا؟

اُس کا لہجہ سخت تھا___

’وہی … دبے پاؤں موسم___ ‘اُس کے لہجہ میں تھرتھراہٹ تھی …

’افسوس!‘

وہ ہونٹ بھینچ کر تلخی سے مسکرائی___ ’کبھی کبھی مجھے خود پر شرم آتی ہے … ایک وقت تھا جب میں نے تم سے محبت کیا تھا___ تم سے___ جو سیدھے آنکھ اُٹھا کر میری طرف دیکھ بھی نہیں سکتا___ کس بات سے شرمندہ ہو آخر؟ جو ہوا اُس سے___ یا عورت ہونے کی وجہ سے، میری طرف دیکھتے ہوئے شرم آتی ہے تمہیں ___‘

اُسے ہر بار لگا، وہ اُس کے سامنے ننگا ہو رہا ہے … اُس کے، جسم کے چھلکے اُدھڑ رہے ہوں  … ایک ایک چھلکا … وہ اوپر سے لے کر نیچے تک ننگا ہو گیا ہے___

’صفدر کے بارے میں نہیں پوچھو گے؟‘

اُس نے آنکھیں جھکا لیں ___

صوفیہ نے ٹاول کرسی پر رکھ دیا___ کچھ دیر تک وہ غور سے اوپر سے لے کر نیچے تک اُسے بغور دیکھتی رہی___ پھر بستر پر آ کر بیٹھ گئی —  وہ اب بھی سرجھکائے تھا۔  مگر محسوس کر رہا تھا، صوفیہ کی نگاہیں اُس کے جسم پر ٹھہر کر رہ گئی ہوں ___

’بیٹھو۔  یہاں ___ میرے پاس___‘

اُس کا لہجہ حکم دینے والا تھا___ وہ اچانک مڑا۔  غور سے صوفیہ کی طرف دیکھا___ اُس کی آنکھیں بے نشان تھیں ___ بے حرکت___ آواز ٹھوس، پتھر کی طرح تھی___

اُس نے پھر دانتوں کو بھینچا___ کندھے جھٹکے___ ہنسی___ ’کیوں ڈرتے ہو___ یہ ڈر تمہارے وجود میں کیوں سمایا ہوا ہے۔  کس سے ڈرتے ہو؟ بھولو مت، اسی ڈرنے ہمیں جُدا کیا___ اسی ڈرنے میری زندگی اجیرن کی___ تم ہو گنہگار —  تم___‘

وہ سہما ہوا قریب بیٹھ گیا___

صوفیہ نے دھیرے سے اُس کے ہاتھوں کو چھوا___ ہاتھوں کو سیدھا کر کے ہتھیلی دیکھی___

’اُف، کس قدر ٹھنڈی۔  اور کس قدر شگاف بننے لگے ہیں ہتھیلی میں ___ جیسے زندگی کی رمق چھن رہی ہو تم سے___‘

اُس نے ہتھیلی چھوڑ دی___ آہستہ سے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا___

’اتنے سارے سوال اس درمیان جمع ہو گئے تھے کہ … ان سوالوں کو اپنے وجود سے کھرچنا ضروری تھا___ کیونکہ سوالات بار بار مجھے پریشان کر رہے تھے___ سن رہے ہونا___ سوال ناگ کے پھن کی طرح بار بار مجھ سے لپٹ رہے تھے___ اور سارے سوالات تم سے شروع ہوتے تھے اور تم پر ہی ختم ہوتے تھے___ بتاؤ، ہمت کی کمی کیوں تھی تمہارے پاس؟‘

وہ خاموش رہا___

’وہ کون سی کمزوری تھی کہ اِدھر ایک طرف میں دوسرے کی ہوتی رہی اور تم چپ چاپ تماشہ دیکھتے رہے … تم بے حس رہے … اپنی سرد ہتھیلی کی طرح___‘

وہ پاؤں کے ناخنوں سے زمین کھرچ رہا تھا___

’تمہیں کبھی غصّہ بھی نہیں آیا … کہ ایک عورت جو تم سے پیار کرتی تھی، چاہتی تھی___ کبھی مسکراکر تمہارے ہاتھوں کو تھام لیتی تھی اور کبھی بے خود ہو کر بانہوں میں سما جاتی تھی … اور کبھی بات ہونٹوں کے لمس تک آ جاتی تھی___ تمہیں کبھی بھی غصّہ نہیں آیا کہ تم ایسا ہونے سے روک سکو___ یا کم از کم روکنے کی توفیق نہ ہو، تو کچھ جوشیلا کام کر گزرو___ ارے تم جو بھی کرتے، میں پسند کرتی___ میں آواز میں آواز ملاتی___ میں تو پاپا کی وجہ سے چپ رہی، جن کے پاس میرے علاوہ کوئی نہ تھا اور تمہاری خاموشی کی وجہ سے ہوتے ہوئے کو برداشت کرتی رہی___ یہاں تک کہ وہ ہو جانے دیا جس کے بارے میں، میں خواب میں بھی سوچ نہیں سکتی تھی___‘

اُس کے ذہن میں پٹاخے چھوٹ رہے تھے … اُس نے پھر پلٹ کر، کانپتی نظروں سے صوفیہ کی طرف دیکھا … اُس کے کپڑے … پینٹ … شرٹ … نہیں ___ وہ کہیں گم ہو گیا ہے … یا وہ صوفیہ میں منتقل ہو گیا ہے___

وہ بہت دھیرے سے بولا___ ’صفدر کہاں ہے___؟‘

’صفدر___؟‘

اُس کا لہجہ زہر میں ڈوبا تھا___ ’یہ نام کیسے لے لیتے ہو تم … مجھے اس نام سے نفرت کی بُو آتی ہے___ اس سے اچھے تو اَن پڑھ ہوتے ہیں ___ اخبار کا مالک بن گیا ہے —  جھوٹی، ذلیل اور انسانوں کو ذبح کرنے والی خبریں بیچ رہا ہے___ تم کیا سمجھتے ہو، کسی ایسے قصاب کے ساتھ میں زندگی گزاکر سکتی ہوں ___؟‘

اُس کی آنکھوں سے نفرت کی پھلجڑیاں چھوٹ رہی تھیں  … ’بہت چھوٹے سے دماغ والا___ بہت چھوٹے سے___ جہاں مذہب کی دو چار باتیں آم کی گٹھلیوں کی طرح ذہن میں بو دی گئی ہیں ___ بہت چھوٹے سے دماغ والا___ تمہارے اردو اخباروں میں ایسے ہی لوگ بستے ہیں ___ میں اُس کی واہیات باتیں سن سن کر اتنی بار مری کہ ڈھنگ سے مرنا بھول گئی اور وہ___ ابھی تک وہی، مسجد اور مندر بیچنے میں لگا ہے___ پاپا چلے گئے، تم نے خبر تو پڑھی ہو گی؟‘

اُس کے لہجے میں پہلی بار تھرتھراہٹ آئی۔  اُس نے ہاتھوں سے آخری قطرے کو بھی پوچھ لیا___ اتنی بڑی بات —  مگر وہ ایسے کہہ رہی تھی جیسے بہت معمولی سی بات ہو___

’موت کا ایک وقت مقرر ہے۔  کوئی بھی ساری زندگی رہنے نہیں آیا___ پاپا بھی نہیں ___ ایک دن رات میں جو پاپا سوئے تو پھر نہیں اُٹھے___ پاپا کے جانے کا دُکھ ہوا مگر دُکھ کون کرتا___ میں زندہ کہاں تھی___ پاپا نے ہاتھوں سے قتل کر دیا ہوتا تب بھی اتنی تکلیف نہ ہوتی مگر اُس آدمی سے۔  وہ بھی اپنی چند روزہ خوشی کی خاطر —  انا کی تسکین کی خاطر —  مسلمانوں کا بڑا نیتا کہلانے کی غرض سے___ پاپا نے اُس کے سرمونڈھ دیا —  سوچا ہو گا، اُن کے بعد بھی ’مجاہد‘ کا نام زندہ رہے گا اور یہ نام یہی دھان پان سا آدمی زندہ رکھ سکتا ہے___ یہی آدمی۔  صفدر علی۔  جسے نہ زندگی کا پتہ ہے نہ زندگی کے رنگوں کا___ نہ زندگی کی رفتار کا۔  جسے صرف یہ پتہ ہے کہ کون سی خبریں سرخیوں میں چھانپنے سے مجاہد کی سیل بڑھ سکتی ہے___ کمزور، دبوّ اور تھکا ہارا آدمی___ ایسے آدمی سے باندھ دیا پاپا نے مجھے___ اور تم دیکھنے کے علاوہ کچھ نہ کر سکے___‘

وہ ذراسانس لینے کے لئے رُکی پھر بولی___

’بریف کیس۔  بارش کا موسم۔  میرا تمہارے پاس آنا۔  یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں ہے تمہیں کہ میں گھر چھوڑ کر آ گئی ہوں۔ ‘

’تم نے گھر چھوڑ دیا___؟‘ وہ بُری طرح چونکا___

’میں نے سمجھا تھا کہ خود ہی سمجھ گئے ہو گے۔  افسوس تمہیں یہ بھی بتانا پڑا۔  ہاں میں اپنا گھر چھوڑ آئی ہوں  —  اس لئے کہ وہاں میری سانسوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا —  اُٹھتے بیٹھتے … سوتے جاگتے میں اُس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتی تھی … اُف … تم کیسے سمجھو گے کہ وہ کوئی دیکھنے والی مخلوق نہیں ہے___ تم نے ادھر اُسے دیکھا ہے___؟

صوفیہ کے ہونٹوں پر کڑواہٹ بھری ہنسی تھی … ’وہ پہلے سے بھی بہت بدل گیا ہے۔  اُس کی خشخشی داڑھی بڑھ گئی ہے … بھیانک … بہت بھیانک لگنے لگا ہے … پہلے وہ صرف مسخرا لگتا تھا … گھٹنے سے ذرا نیچے تک کا تنگ پائجامہ۔  ڈھیلا ڈھالا کرتا اور سر پر جناح ٹائپ ٹوپی___ اُسے ایک لمحے بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا … میں تو کیا کوئی بھی اُسے برداشت نہیں کر سکتا___ میں تو ہرگز نہیں ___‘

’پھر تم نے اتنے دنوں تک …؟‘

وہ کہتے کہتے رُک گیا___

صوفیہ نے پلٹ کر اُس کی طرف دیکھا۔  اُس کے لہجے میں ناگواری تھی___ ’تم نے کیا سمجھا___ صاف صاف کیوں نہیں پوچھتے کہ اتنے دنوں تک میں نے اُس کے ساتھ زندگی کیسے بسر کی۔  اس کا بس ایک جواب ہے___ اُس کے ساتھ زندگی بسر ہی نہیں کی___

وہ ہنس رہی تھی___ یوں تعجب سے مت دیکھو۔  اُن دنوں کی دھوپ اور صبح کی سپیدی سے نفرت کرنے کو دل چاہتا ہے —  جن دنوں میں تم سے ملا کرتی تھی … تم مجھے اتنا بھی نہیں سمجھ سکے … اتنی ڈھیر ساری ملاقاتوں کے بعد بھی …‘

باہر بجلی پھر چمکی تھی___

وہ ایک لمحے کے لئے ٹھہری___ اور بارش کی طرح جیسے اُس کے اندر کا غبار ایک بار پھر سامنے آ گیا___

’سچ یہ ہے کہ ہم دونوں کے درمیان بس ایک سمجھوتا ہوا تھا۔  سمجھوتہ___ تمہیں عجیب لگے گا —  مگر وہ مجھ سے ڈرتا تھا___ خوف کھاتا تھا۔  رات کے وقت وہ میرے کمرے میں آتے ہوئے ڈرتا تھا۔  ساتھ کمرے میں رہنا مجبوری تھی مگر ہم دونوں الگ سوتے تھے___ شادی کے دن سے، کبھی بھی اُس کی مجھ سے کچھ بھی پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔  یہاں تک کہ وہ کبھی تاخیر سے گھر آتا تو کمرے سے باہر ہی سو جاتا مگر کمرے میں داخل ہونے سے اُس کے بدن کا رواں رواں کانپتا تھا___ بزدل، امپوٹنٹ___‘

وہ پھر ہنسی___ ’ڈرو مت، مجھے غلط مت لو___ ایسے لوگوں کو ایسے ہی ناموں سے یاد کرنا چاہئے___ امپوٹنٹ___ وہ جب تک کمرے میں رہتا، میں دیکھ دیکھ کر کڑھتی تھی۔  کہ وہ کیسے کروٹیں بدلتا ہے … اُس کے بدن کی ہڈیاں کیسے چٹختی ہیں۔  چہرے پر کی خشخشی داڑھی کتنی گھناؤنی دکھتی ہے … اور … تنگ پائجامہ سے نکلا ہوا، اُس کا سکڑا ہوا پیر کتنا بدنما دکھتا ہے___ وہ میرے لئے قابلِ رحم بھی نہیں تھا___

صوفیہ نے پلٹ کر اُس کی طرف دیکھا … ’مگر، تم کیا تھے ارشد پاشا___ فلسفوں کے جنگل میں زندگی تلاش کرنے والے، تم کیا تھے …؟ تمہاری عمر فلسفے کی جس شراب میں ڈوبی تھی، اُس شراب کا کیا ہوا؟ سنو، ادھر دیکھو …‘

بستر سے اُٹھ کر وہ دھیرے دھیرے چلتی ہوئی اُس کے سامنے آ گئی___ باہر بوندا باندی اب بھی زور زور سے ہو رہی تھی … ہوا کے زور سے کھڑکی کے پردے ہل رہے تھے … چھت پر بوندوں کی ٹپ ٹپ سے موسیقی جاری تھی … اُس کے دماغ پر لگاتار ہتھوڑے برس رہے تھے …

سنو، ارشد پاشا … ’دیکھو … ادھر دیکھو___ میری طرف …‘

وہ اُس کے سامنے تن گئی تھی … پینٹ شرٹ___ سچ ہے اُس نے آنکھیں جھکا لیں ___ کبھی اس روپ میں، اس سے قبل اُس نے صوفیہ کو نہیں دیکھا تھا … اُس کے جسم میں ہلچل سی ہو رہی تھی … نہیں  —  جسے وہ شریانوں میں دوڑنے والے، گرم خون کے لاوے سمجھ رہا تھا، دراصل وہ خوف کی قسمیں تھی …  اس سے زیادہ کچھ نہیں  …

میری طرف دیکھو___ ڈرتے کیوں ہو؟

وہ تیز آواز میں چلاّئی___ کیوں ؟میری طرف دیکھو گے تو میرا جسم ننگا ہو جائے گا تمہاری نظر میں  …؟ یا میرے جسم کے اعضاء تمہاری نظر میں چبھنے لگیں گے۔  کوئی قیامت تو نہیں آ جائے گی ارشد پاشا___ میں پھر کہتی ہوں ___ دیکھو میری طرف …؟‘

اُس نے سہما سہما سا اپنا چہرہ اٹھایا___ صوفیہ کے چہرے کی سختی اُسے پہلے سے کہیں زیادہ بڑھی ہوئی لگی۔

’اب سنو ارشد پاشا___ جو پوچھتی ہوں، جواب دو۔  کل، جب ہم ملتے تھے، کبھی تمہیں مجھے کھولنے کا خیال نہیں آیا — ؟ چونکو مت؟ ہاں کھولنے کا خیال —  مجھے پانے کا خیال___ جیسے میں قریب ہوں، تو تمہارے اندر ایک بجلی چمکی ہو … خون میں اُبال آ گیا ہو___ میرے جسم سے بجلی کی ترنگیں پھوٹ رہی ہوں  … یا___ تم نے صرف مجھے ایک مقدس ہستی ہی سمجھا۔  ایک بُت سمجھا۔  اور بُت کو مقدس مان کر ذہن کے فریم میں بند کر لیا۔  سیتا کی طرح، مریم کی طرح___ یعنی  میں اتنی مقدس ہو گئی تمہاری نظر میں کہ تمہیں کبھی خیالوں کی گرہ تک کھولنے کا خیال نہیں آیا … کیوں ارشد پاشا___؟

وہ زور سے کھلکھلائی۔  ’چلو مان لو___ میرے سامنے ڈرتے ہو گے تم۔  مگر ہر مرد کی ایک نفسیات ہوتی ہے۔  نفسیات نہ ہو تب بھی … عورت اور مرد کے درمیان ایک رشتہ تو مشترک ہوتا ہے۔  ضرورت کا رشتہ___ تم لوگ عورت کو تقدس کی دیوی اور بت بنا کر، اُسے فریم میں ’مڑھا‘ کر کیوں رکھ دیتے ہو۔  کیا سمجھتے ہو —  اس سے وہ عورت خوش ہو جائے گی۔  تمہارے بارے میں سوچے گی کہ تم سے زیادہ شریف مرد تو دنیا میں کوئی نہیں ___ اسے گالی مت سمجھنا۔  ایسے شریف مردوں کی نسل سے زیادہ بہتر تو کارتک کے کتّے ہوتے ہیں ___‘

اُس کا چہرہ آڑی ترچھی، جانے کتنی لکیروں سے بھر گیا تھا۔  مگر اُس کی سانسوں میں، لہجے میں توازن برقرار تھا___

’ارشد پاشا، ابھی بھی وقت ہے۔  بدل جاؤ___ اچھا سنو، چلو میرے سامنے تم کبھی نہیں کھلے … مگر اپنی تنہائی میں، اپنی راتوں میں  … جب کوئی بھی نہیں ہوتا تھا تمہارے پاس، تب؟ کیا صرف یادوں میں مجھے دیکھ کر خوش ہوتے تھے، بہلتے تھے — ؟ میں جانتی ہوں ارشد پاشا … تم جیسے لوگ اپنی تنہائی سے بھی ڈرتے ہو۔  تنہائی، جہاں کوئی نہیں ہوتا —  وہاں بھی مجھے ادھیڑنے یا کھولنے کی ہمت نہیں کر سکتے تھے تم … کیوں ارشد پاشا … جانتے ہو … اس کھولنے اور عورت مرد کے کھلنے کے عمل سے کیا جنم لیتا ہے  — ؟‘

اُس کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی___

’تب سچا پیار جنم لیتا ہے ارشد پاشا۔  سچی محبت جنم لیتی ہے۔  تم لوگوں نے انسانی نفسیات کے بھی بٹوارے کر رکھے ہیں۔  احساس کو بھی بوجھ بنا رکھا ہے___ مرد اور عورت کے بیچ تمہارے معاشرے نے اتنا بڑا فاصلہ پیدا کر دیا ہے کہ جذبات اور محبت کی اصل کلید ہی کھوئی لگتی ہے___ وہ، جو دل کو صحیح معنوں میں دل سے جوڑے رکھتی ہے … مگر نہیں  … عمر کے نشے میں تم لوگ صرف ایک گلیمر بھرا پُل بناتے ہو اور جادو کی طرح گزر جاتے ہو___ پھر جو بھی ہوتا ہے وہ انسانی تقاضوں سے الگ ہوتا ہے … اور نقلی ہوتا ہے … جب تم اپنی، اپنے جسم کی مانگوں کو نہیں سمجھ سکتے، تم دنیا کی مانگوں کو کیا خاک سمجھو گے —  یا دنیا کے مسائل کیا خاک سلجھاؤ گے … تم ذبح ہوتے رہو گے … بس اسی طرح … جیسے کہ آج ہو رہے ہو … ابھی اس وقت___ مجھے دیکھو …

صوفیہ بچوں کی طرح مسکرائی … ایک لمحے میں وہ ساری سنجیدگی اُس کے چہرے سے عنقا تھی … جیسے وہ ہر لمحہ اُسے تول رہی ہو … وزن کر رہی ہو … سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو۔  ایک لمحے کو پھر اُس نے اپنی نگاہیں، اُس پر مرکوز کر دیں اور دوسرے لمحے جو ہوا، اُس کی تاب نہ لاکر، وہ ہڑبڑا کر کھڑا ہو گیا۔  جسم میں لرزش سی ہوئی … اُس نے نگاہیں جھکا لیں  …

صوفیہ ایک لمحے کے لئے نہیں جھجھکی … ایک جھٹکے سے اُس نے شرٹ کے سارے بٹن کھول ڈالے … روشنی میں اُس کا روشن شفاف سینہ کسی چھلاوہ کی طرح چمکا___ اور وہ … اچانک خوف سے سہم گیا …

جسم سے جیسے نور ہی نور بہہ رہا تھا … مصفّی سینہ کی گولائیاں روشنی میں یوں چمک رہی تھیں، جیسے سفید شفاف تاروں میں بجلی دوڑ رہی ہو …

وہ چیخی … ’مجھے دیکھو … میں ہوں  … مجھے محسوس کرو___ آنکھیں بند مت کرو ارشد پاشا___ آخر تم کیوں نہیں دیکھ سکتے مجھے۔  تمہاری دوست ہوں میں ___ اور یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں  …دوسروں کے ایسے جسم —  تنہائی میں جانے تمہارے سامنے کتنی بار لہرائے ہوں گے —  مگر یہاں ___ حیا کی، پاکیزگی کی ایک چادر ہم دونوں کے بیچ تان دی ہے تم نے___ دیکھو، میں نے اپنے آپ کو کھول دیا ہے ارشد پاشا___ میں نے اپنے اور تمہارے درمیان سے غیر ضروری حیا کی یہ دیوار اٹھا دی ہے … دیکھ مجھے ارشد پاشا___،

مگر وہ …

اُس کی سانسیں پھول رہی ہیں  …

ذہن پر پتھراؤ چل رہا تھا۔  پاؤں کانپ رہے تھے … جسم ہوا کے زور سے ڈول رہا تھا … ایک عجیب طرح کی لرزش حاوی تھی … ہونٹ لرز رہے تھے … پوری طاقت لگا کر وہ چیخا …

’صوفیہ۔  بند کرو … بند کرو یہ سب …‘

صوفیہ نے نفرت کے ساتھ منہ پھیر لیا۔  سرعت کے ساتھ اُس کے ہاتھ شرٹ کے بٹن بند کرنے لگے___

’جانتی ہوں ___ تم پڑھ بھی نہیں سکتے۔  جسم کو پڑھنا آسان بات نہیں ہے … اور میری طرف سے کوئی غلط فہمی مت پالنا___ میں کوئی گری ہوئی رنڈی نہیں ہوں جو بارش کی اس طوفانی رات اپنے جسم کی جاگی ہوئی بھوک یا بڑھتی ہوئی مانگوں کو لے کر، بریف کیس اٹھا کر تمہارے گھر میں آ گئی___ میں تو صرف تمہیں تمہاری اوقات دکھانا چاہتی تھی ارشد پاشا … کہ تم یہ بھی نہیں کر سکتے۔  تم بند آنکھوں سے نظارے تو کر سکتے ہو۔  مگر___ تم لوگوں نے ضمیر نام کی سنجیدہ چیز کو خواجہ سرا بنا رکھا ہے___ میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتی تھی کہ یہ صدی تم جیسوں کے لئے نہیں ہے___ تم میں اور صفدر علی میں بہت زیادہ فاصلہ نہیں ہے ارشد پاشا … تم دونوں بہت قریب قریب کی چیز ہو___ اور تم دونوں کے ذہن بھی قریب قریب برابر ہیں  …‘

وہ مسکرا رہی تھی … ’چلو بہت ہوا … سو جاؤ تم … رات کافی ہو گئی ہے …’ہاں ‘رات کافی ہو گئی ہے … آج رہوں گی۔  کل سوچوں گی، مجھے کیا کرنا ہے … اب تم بتاؤ۔  تم کہاں سوؤ گے … یا مجھے کہاں سونا چاہئے۔  ڈرو مت … کبھی کبھی صفدر علی بھی میرے کمرے میں سو جاتا تھا … یہ اور بات ہے، میری طرف دیکھتے ہوئے بھی اُس کی روح خوف کھاتی تھی …‘

ارشد پاشا کے قدم زمین میں دھنس گئے تھے … یوں تو کھلی کھڑکی سے ٹکرا کر ٹھنڈی ہوا کمرے میں پھیل رہی تھی، مگر اُس کے جسم کے اندر اُمس بڑھتی جا رہی تھی … جیسے کوئی دھواں ہو، جو پھیلتے پھیلتے دماغ تک پہنچ چکا ہو … لفظ انگارے کی طرح اُسے جلا رہے تھے …وہ جس قدر اپنے کانوں کو بند کرتا، کانوں کے پاس تیز نگاڑے بجنے شروع ہو جاتے … وہ چلتا ہوا کھڑکی کے قریب آ گیا … کھڑکی کی سلاخوں کو اُس نے مضبوطی کے ساتھ تھام لیا … مینہ کی بوندیں ذرا ترچھی ہو کر اُس کے چہرے تک آنے کی کوشش کر رہی ہیں  … اُسے لگا، دنیا کے تمام سمندر اُس کے دل کے گرد پھیلنے جمع ہونے لگے ہوں  …

پانی کے کچھ چھینٹے دوبارہ اُس کے منہ تک آئے … لیکن اس بار اُسے کچھ بھی احساس نہ ہوا … دراصل وہ اندر کی مسلسل بارش سے شرابور ہو چکا تھا … کچھ میلی، مٹ میلی سی، دھندلی سی تصویریں Retinaپر بننے لگی تھیں  …

اُس نے پلٹ کر دیکھا … صوفیہ مسکرارہی تھی … وہ کونسا سال تھا … دن کون سا تھا — ؟ اور تاریخ … اُسے صرف صوفیہ کی باتیں یاد رہی تھیں  …

’سنو، ایک دن جب بوڑھے ہو جاؤ گے تم … تو … کیسے نظر آؤ گے۔  تمہیں ہر وقت دیکھتی اور سوچتی رہی ہوں۔  تمہارے چہرے پر جھرّیوں کا جال پھیل جائے گا … چہرے پر انجانی، مبہم، گہری کتنی ہی لکیریں بن جائیں گی … یہاں  … یہاں  … وہ اُس کے چہرے کو چھو رہی تھی … اور یہاں ماتھے پر … تب جانتے ہو کیا ہو گا۔  بڑھاپے میں  —  ’مسکراتے ہوئے اُس نے منہ بنایا___ مجھے بڑھاپے سے نفرت ہے۔  کتابوں میں بہت دیکھا ہے بڑھاپا___ بڑھاپے کے بارے میں بہت پڑھا ہے … تب ہوس کی ایک چھپی ہوئی آگ تمہارے ہونٹوں پر ناچے گی___ ہوتا ہے … کئی بوڑھے، عمر کی ندیاں پار کر کے خطرناک ہو جاتے ہیں ___ جیل میں بلاتکار کی سزا کاٹنے والے قیدی سے زیادہ خطرناک___ مگر میں اس بڑھاپے کا تذکرہ لے کر کیوں بیٹھ گئی ہوں  …‘

وہ کھلکھلائی … سنو ارشد پاشا___ ’کبھی دیکھا ہے خود کو‘ پہچانا ہے___ تمہارا چہرہ کتنا خوبصورت ہے___ تمہاری آنکھیں ___ تمہارے ہونٹوں پر، ابھی بھی، اس قدر سرخی اور کشش ہے کہ … بولو، کبھی تم سے آج سے پہلے کسی نے اس طرح تمہارے ہونٹوں کے بارے میں تعریف کی ہے۔  تم سچ مچ خوبصورت ہو___ خوبصورتی عظمت کا ایک حصہ ہے۔  خوبصورتی عظمت سے زیادہ بڑی شہ ہے —  کیونکہ خوبصورتی کوئی دلیل نہیں مانگتی —  خوبصورتی کے لئے بس خوبصورت ہونا کافی ہوتا ہے … آنکھوں کو بھلا لگنا … سورج کی روشنی، موسم بہار کا حسن اور چاند کا نیم تاریکی میں، سناّٹے پانی میں عکس___ اِن کے ابدی حسن کے لئے بھی کوئی دلیل نہیں ہے … کیونکہ یہ ہمیشہ سے ہیں، حسین اور آنکھوں میں خوبصورت خوابوں کی طرح اُتر جانے والے … اور میرے لئے خوبصورتی سے بڑھ کر دنیا میں کچھ بھی نہیں ہے … مجھے لگتا ہے … ہم ایک لفظ کہتے ہیں ___ خوبصورت___ اور ایک دنیا ہمارے شامل ہو جاتی ہے … ایک پوری کائنات کا حسن، قدرت کے ہونے کا فلسفہ اور خود پر یقین کرنے کا بھرم …‘

ارشد تیزی سے اُس کی طرف پلٹا … کبھی کبھی تمہاری باتیں سمجھ میں نہیں آتیں  … لڑکیوں کے بارے میں یوں بھی کہا جاتا ہے کہ معمہ ہوتی ہیں، مگر تم تو کچھ زیادہ ہی معمہ ہو۔  ایک ایسی پہیلی، جسے کم از کم میں نہیں بوجھ سکتا___‘

صوفیہ مسکرائی تھی___

’ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ معمہ اور پہیلی کہہ کر تم اُس سامنے والی لڑکی کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے___ اور اپنی آسانی کے لئے اُسے پہیلی کہہ کر فرار کا راستہ اپنا لیتے ہو___ میں تو کچھ اور کہہ رہی تھی ارشد پاشا___ تم خوبصورت ہو تو سمجھ لو، قدرت نے تمہیں بناتے وقت خوشی خوشی آدھی کائنات یوں بھی تمہارے حوالے کر دی … اور تمہیں بس تھوڑی سی جنگ کرنی ہے، اُس باقی بچی کائنات کے لئے___ ذرا سوچو یہ خوبصورتی کتنے دنوں تک محفوظ رکھ سکتے ہو تم …؟ دو سال … چار سال … دس سال … پھر جب آنکھوں کے آگے سیاہ حلقے پڑنے لگیں گے … چہروں پر جھرّیوں کا جال بچھنے لگے گا … قدموں میں تکان آ جائے گی … اور آئینہ تمہیں ڈسنے لگے گا … یعنی جب وہ آدھی جنگ بھی نہیں لڑ پاؤ گے اور تمہاری خوبصورتی کا زوال شروع ہو چکا ہو گا، تب …؟ تمہیں اُس دن سے ڈرنا ہو گا …‘

’تمہاری طرح تمہاری باتیں بھی انوکھی ہیں  …‘ وہ بہت دھیرے سے بولا … اس لئے کبھی کبھی تم سے ڈرسا لگنے لگتا ہے …‘

٭٭

ہوا اچانک تیز ہو گئی___ اُسے لگا، سارا کمرہ ناچ رہا ہو۔  گھوم رہا ہو۔  اُس نے دیوار گھڑی پر نظر ڈالی___ ایک بج کر دس منٹ ہو گئے تھے … رات کے اندھیرے میں ہوا کی سرسراہٹ بدن میں گھبراہٹ پیدا کر رہی تھی …صوفیہ سوگئی تھی___ مگراس رات کے بعد؟

باہر شاید طوفان آیا ہوا ہے … مگر طوفان تو اُس کے اندر اُٹھ رہا تھا … اس رات کے بعد … اس بھیانک رات کے بعد … اس رات کے بعد کی صبح کیسی ہو گی …؟ دیوار گھڑی ٹک …ٹک کر رہی ہے … اُس کی آنکھوں میں نیند کے ڈورے تیر رہے ہیں مگر … الفاظ کی برچھیاں اُسے مسلسل زخمی کر رہی ہیں  …

وہ صوفیہ کو اپنے کمرے میں چھوڑ کر آ گیا۔  اس کے علاوہ وہ کر بھی کیا سکتا تھا … اُس نے اپنا چہرہ آئینہ میں دیکھا اور چونک پڑا___  شکن زدہ چہرہ … چہرے پر پڑی ہوئی اَنگنت لکیریں  … کہیں کہیں بالوں کے درمیان ایک سفید سا بال بھی نظر آ جاتا … آنکھوں کے پاس گہرے حلقے بھی نمایاں ہو رہے تھے …

تو کیا اُس کی خوبصورتی کا زوال شروع ہو گیا ہے؟ کوئی حوصلہ؟ کوئی مضبوطی؟ زندگی جیسے کسی اندھیری سرنگ میں گم ہو گئی لگتی ہے … مگر … وہ کیا کر سکتا ہے …

’تم میں اور … صفدر علی میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے‘

’تم میں اور … صفدر علی میں  …‘

’تم میں اور … صفدر …‘

’تم میں اور …‘

آئینہ کے سامنے وہ حیران ساکھڑا ہے … جسم پسینے سے شرابور … دل بیٹھا جا رہا ہے۔

 ___ بیہوشی اُس پر طاری ہو رہی ہے …

ساری دنیا گھوم رہی ہے …

ساری دنیا رقص کر رہی ہے …

٭٭

 

 

(4)

جانے کب اُسے نیند آ گئی۔  جبکہ عام طور پر ان حالات میں نیند نہیں آتی … نیند اچانک ہی کھلی تھی۔  کھڑکی سے سورج کی نرم شعاعیں کمرے میں داخل ہو گئی تھیں  … اُس نے دیکھا … کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔  مگر سربھاری بھاری تھا … باہر بارش کا نام و نشان تک نہ تھا___  اس کے برخلاف چمکیلی دھوپ کمرے میں بھر گئی تھی … اچانک اُسے سب کچھ یاد آ گیا … اُس نے گھڑی کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا … سانسوں کے زیر و بم میں ہلچل سی مچی___  وہ زمین پر ہی سو گیا تھا۔  کپڑے کی گرد جھاڑتا ہوا اُٹھا اور تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگا___  مگر___  اچانک ہی ٹھہر گیا …

دروازہ کھلا تھا___  کھڑکی کھلی تھی۔  کھڑکی کے پاس رکھا ہوا صوفیہ کا بریف کیس غائب تھا___  اُس نے بستر پر نظر ڈالی___  بستر پر شکن ضرور تھی، جو رات کسی کی موجودگی کی گواہی دینے کے لئے کافی تھا۔  مگر بستر خالی تھا___  وہ اُٹھتی چڑھتی سانسوں کے ساتھ کافی دیر تک کمرے میں کچھ تلاش کرتا رہا۔  مگر اب وہاں تھا ہی کیا — ہاں، مگر ایک عجیب سی خوشبو کمرے میں رچی بسی تھی۔

وہ نیم غنودگی کے عالم میں تھا۔  گھبرا کر وہ دو بارا بستر پر بیٹھ گیا___  اُس کا ذہن سائیں سائیں کر رہا تھا___  اب اس بات پر زیادہ غور کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ صوفیہ جاچکی تھی …

مگر سوال تھا … وہ کب گئی؟

کیا رات میں ہی چلی گئی؟

مگر کہاں گئی ہو گی___ ؟

کیا دوبارا صفدر علی کے یہاں ؟

کیا وہ صبح ہونے کے بعد گئی؟

یا، رات میں ہی اُس کے جانے کے بعد ہی اُس نے یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں سمجھا؟

اگر وہ صفدر علی کے یہاں نہیں گئی تو پھر کہاں گئی___ ؟

اُس کا دل قطعی طور پر یہ ماننے کو تیار نہ تھا کہ وہ دوبارہ صفدر علی کے یہاں گئی ہو گی___  پتہ نہیں اُس نے، اُس کے بارے میں کیا سوچا ہو گا۔  رات میں کہے گئے صوفیہ کے جملے اُسے یاد آ رہے تھے …

اور ایک بار پھر ارشد پاشا کو اپنا ذہن ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا تھا___

٭٭

اُس کی باتیں سن کر بھی تھاپڑ کے چہرے پر کوئی ردّ عمل نہیں تھا … وہ خاموش بیٹھا ہوا میز تھپتھپا رہا تھا۔

’یہ کیا ہو گیا ہے تمہیں۔  ارشد پاشا کو غصّہ آیا___ ’میں اتنا پریشان ہوں اور تم ہو کہ میری کوئی فکر ہی نہیں ___ ‘

’وہ اور کیا کرتی؟‘

’مگر وہ بغیر بتائے چلی گئی۔  اُسے جانا تھا تو وہ کہہ کر بھی جا سکتی تھی؟‘

’تمہیں بتا کر جاتی، جو اتنا کچھ سننے کے بعد بھی نامرد بنا رہا___ ‘تھاپڑ مسکراکر اُس کی طرف دیکھ رہا تھا___

’’مگر جواب میرے پاس بھی تو تھا … میں بھی تو …‘

’اب وہ جواب جو تم صوفیہ کو نہیں کہہ سکے، وہ مجھے بتانا چاہتے ہو۔  یہی ہے نامردی___ ‘

’وہ مجھے سننے کو تیار کب تھی؟‘

اس بار تھاپڑ کے لہجے میں کرختگی تھی___ ’کیا تم وہ سب سننے کو تیار تھے جو صوفیہ تمہیں سنا رہی تھی___  میں نے تمہیں دو بار نامرد کہا___  لیکن تم نے ایک بار بھی مجھے ٹوکا نہیں ___  اعتراض نہیں کیا مجھ پر___  جانتے ہو کیوں ___  اس لئے کہ تم اندر سے مردہ ہو گئے ہو اور صوفیہ بھی اسی لئے چلی گئی___ ‘

’مجھ میں اور میرے بھائی میں یہی فرق تھا۔ ‘

ارشد پاشا نے نظریں جھکا لیں ___  آج تجزیہ کرتا ہوں تو لگتا ہے، کئی مقام ایسے تھے جہاں وہ دوست تھا اور میں غلط___  کم از کم اُس کے اندر بغاوت کا جذبہ تو تھا۔  آگ تو تھی اور میں ___ فقط، مصلحت پسند لفظوں کا کھلاڑی___

’کیوں ہے ایسا؟‘

تھاپڑ کی آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں  — ’کبھی غور کیا ہے تم نے؟ کیونکہ ہم سب کو سسٹم نام کے اجگر نے جکڑ کر مردہ کر رکھا ہے___  ارے، یار یہ وہ ملک ہے، جس پر جتنا غور کرو___  قہقہہ لگانے کو دل چاہتا ہے___  اس ملک میں بیک وقت اکیسویں صدی اور موہن جوداڑو دونوں تہذیبیں یکساں طور پر چل رہی ہیں ___  ایک ترقی کی باتیں کرتا ہے۔  دوسرا رتھ دوڑاتا ہے___  تیسرا آ کر مذہب کی کتابیں تھام لیتا ہے۔  چوتھا آتا ہے اور کہتا ہے کہ ہر تشدد جائز ہے___  کبھی کبھی یہ ذہن چکرا کر رہ جاتا ہے___  اور ایک وقت آتا ہے جب دماغی طور پر ہم کسی لائق نہیں رہ جاتے___  ہمارا دماغ سوچنا سمجھنا بند کر دیتا ہے___ ‘

٭٭

یہ وہی وقت تھا جب حکومت اپاہج ہو کر رہ گئی تھی —  اجودھیا میں دور دور سے سادھوسنت جمع ہونے لگے تھے —  ’ایک دھکّا اور دو بابری مسجد توڑ دو‘ کی صدا ہر گلی کوچے سے بلند ہو رہی تھی —

ہندوستان کی تاریخ ایک نیا باب لکھنے کی تیاری کر رہی تھی —

٭٭

 

 

چل خسرو گھر آپنے

 زہریلی ہوائیں چلتی رہیں۔  ابا حضور تغلق پاشا کو اب موت کا احساس ڈرانے لگا تھا۔  انور پاشا نے خاموشی سے شادی کر لی۔  اب وہ گھر کے بٹوارے کی ضد پر اتر آئے تھے۔  تغلق پاشا آنکھیں بند ہونے سے پہلے ارشد پاشا کی دلہن کو دیکھنا چاہتے تھے۔  صوفیہ نے صفدر علی سے طلاق لے لی تھی۔  اب وہ خود مجاہد کی ذمہ داری سنبھالنے لگی تھیں۔

 وقت تیزی سے گزر رہا تھا —  لیکن حالات ویسے ہی تھے۔  تغلق پاشا نے اپنے ایک قریبی دوست کی لڑکی کا ہاتھ ارشد پاشا کے لیے مانگ لیا۔  رباب دلہن بن کر گھر میں آ گئی —  شادی کے دو مہینے بعد ہی تغلق پاشا نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں  —  تغلق پاشا کے انتقال کی خبر سن کر انور پاشا اکیلے آئے۔  اس بار وہ بٹوارے کے ارادے سے آئے تھے۔  گھر کا بٹوارہ ہو گیا۔  اور انور پاشا اپنے حصے کی زمین بیچ کر بنگلور واپس چلے گئے —  ارشد پاشا بھی اب کاشی میں رہنا نہیں چاہتے تھے۔  تھاپڑ کا خیال تھا کہ کیوں نہ دلی چلا جائے —  تھاپڑ کو یقین تھا کہ دلی کے اخباروں میں کوئی نہ کوئی جاب مل جائے گی —

صورتحال بد سے بد تر ہوتی جا رہی تھی۔

 آسمان میں گدھ ناچ رہے تھے —  اور یہ وہی وقت تھا جب ارشد پاشا اور رباب کی زندگی میں ایک پھول کھلا تھا —  اس پھول کا نام اسامہ رکھا گیا —

زندگی ایک نئی کروٹ لے چکی تھی —

رباب کے آنے سے اچانک زندگی بدل گئی تھی —  شروع میں وہ کھوئی کھوئی رہتی تھی —  لیکن اسامہ کے آنے کے بعد اس میں تبدیلیاں آنے لگی تھیں  — وہ دبی زبان میں کہتی۔

’اب بیٹا آ گیا ہے۔  بیٹے کے لیے تو کچھ کرنا پڑے گا نا …؟‘

 ’ہاں۔ ‘

 ’انور دلی سے بنگلور چلے گئے —  ہم ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں تو آشیانے بدل جاتے ہیں۔  ہے نا۔  راشدہ لکھنؤ چلی گئی — ‘

 ارشد پاشا نے اس کی آنکھوں کی گہرائی میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔  تم کہنا کیا چاہتی ہو۔ ‘

’ تھاپڑ بھائی صاحب کی طرح میں بھی کہوں گی۔  چلو۔  صحافت کے لیے وہاں زیادہ گنجائش ہے۔ ‘

 ارشد پاشا کاشی کے ایک چھوٹے سے اردو اخبار میں تھے۔  لیکن جو تنخواہ ملتی تھی۔  اس سے زندگی کے دن نہیں گزارے جا سکتے تھے۔  پھر یہاں صحافت بھی تسلی بخش نہیں تھی۔  زیادہ تر نقل یا ترجمے کے کام ہوتے تھے —  مہینے کے آخری دن ہوتے ہوتے ان کی پریشانیاں بڑھ جاتیں۔  پریشانیوں کی ایک وجہ حالات کا خراب ہونا بھی تھا —

 اس دن ارشد پاشا، تھاپڑ کا انتظار کر رہے تھے —  تھاپڑ نے دلی جانے کا فیصلہ کر لیا تھا —

 اور ادھر رام جنم بھومی اور بابری مسجد کو لے کر شہر کی فضا ایک بار پھر خراب ہو گئی تھی —

٭٭

 

 

چھ دسمبر ۱۹۹۲ء

حماّم تو برسوں سے ایک ہی

ہے میاں /

یہاں جو کچھ ہو رہا ہے/

تمہیں دیکھنا نہیں چاہئے/

تمہیں سُننا نہیں چاہئے/

تمہیں بولنا نہیں چاہئے/

٭٭

 

 

(1)

ارشد پاشا اُلجھن میں تھے۔

تھاپڑ نے اس کی طرف غور سے دیکھ رہا تھا —  ’ایک دن اس دنیا میں بالکل اکیلے رہ جاؤ گے میاں  — ‘

ارشد پاشا اُس کی طرف گھومے … تھاپڑ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ برس رہی تھی … خیر چھوڑو … جس میڈیا میں ہم تم ہیں  … وہاں زیادہ تر خاموش رہنا ہی پڑتا ہے … اس میڈیا میں آنے کا پہلا اصول ہے … ہونٹ سی لو … کان بند کر لو … اور آنکھوں پر ہاتھ رکھ لو …

وہ ہنس رہا تھا …

ارشد پاشا کی پیشانی پر شکن پڑ گئی …، تم بھی وہی زبان بول رہے ہو تھاپڑ … جو …‘

تھاپڑ نے تھاپڑ کے چہرے پر ناراضگی تھی —  ’اِن برسوں میں جو کچھ ہوا ہے، وہ تم نے بھی دیکھا ہے اور میں نے بھی … اور ایسے کسی بھی معاملے میں نہ دلیلیں کام آتی ہیں نہ منطق، نہ دماغ … ایک چوری چوری کرتا ہے۔  چوری کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے … دیکھنے والے گواہ موجود ہوتے ہیں مگر ہوتا کیا ہے ارشد پاشا___  چوراثررسوخ کا آدمی ہے تو سب کو خریدلیتا ہے___  دیکھتے  ہی دیکھتے میڈیا کا ہیرو بن جاتا ہے___  عدالت میں وہ خریدے گئے وکیل کی زبان اور آنکھوں کے اشارے سمجھتا ہے —  اور کچھ بھی نہیں کہتا —  کیسے بھولا بھولا معصوم بن جاتا ہے___  اس ملک میں پردھان منتری کو کروڑوں کے بریف کیس پہنچائے جاتے ہیں اور سارا معاملہ رفع دفع —  تانترک اور رنڈیوں کے دلال جیسے سادھو سنت سیاست کی بساط بچھاتے ہیں ___  اُن کے پیر چومتے ہیں  … یہاں عورت کو کمرے میں کاٹ کر مکھن اور کریم لگا کر تندور میں ڈال دیا جاتا ہے … اور سارے معاملات ہاضمے کی گولیوں کی طرح ہم چبا لیتے ہیں ___  پھر کوئی نیا اسکینڈل … نیا معاملہ … کوئی متھرا، کاشی، یا بابری مسجد … یہاں ایک کھلاڑی جوتے پر انجانے میں اپنے دستخط کسی کمپنی کو بیچتا ہے اور تمہارے چار داڑھی والے ملاّ اسے پبلک ایشو بنا لیتے ہیں۔  جھٹ سے اللہ اور ایشور کی بے حرمتی پر تیور چڑھ جاتے ہیں مگر تب … جب ڈھابے کے تندور میں کوئی عورت جلائی جاتی ہے …؟‘ کوئی دیوداسی جین رشی منیوں کے آشرم میں روز ہی بلاتکار کا شکار ہوتی رہتی ہے …؟ مندروں کے سادھو اور تنتر منتر کا ناٹک رچنے والے تانترک اس سیاست کا حصہ بن جاتے ہیں  … قصّے ایک نہیں ہیں پاشا، ہزاروں ہیں لاکھوں ہیں  … مگر ___ سوچنا نہیں ہے۔  بولنا نہیں ہے … سننا نہیں ہے___  ایک کان سے سننا ہے اور اُڑا دینا ہے … کیونکہ یہی اب تک ہوتا رہا ہے … بوفورس سے بابری مسجد تک … پرائم منسٹر ہاؤس سے تندور کی آگ تک___  انہیں پچانے والی ہاضمے کی گولیاں نہیں بنتیں تو اس ملک میں ایک آدمی نہیں ہوتا —  تھوڑا سا بھی دل، جگر یا احساس ہوتا نا —  تو کسی نہ کسی ایشو کو اٹھا کر ہم میں سے زیادہ تر لوگ یا تو ہتیارے بن چکے ہوتے یا  آتم ہتیا کر چکے ہوتے … یہ ملک ختم ہو چکا ہوتا یا ملک کا نقشہ بدل گیا ہوتا___  یا روز ہی اس طرح کے واقعات سامنے آتے کہ سنسدبھون میں لاشوں کے ڈھیر لگ گئے —  یہاں پکڑا۔  وہاں مارا —  کہیں زندہ جلایا اور تمہاری ویوستھا میں چلی آ رہی بیماری کا ایک پل میں صفایا___  مگر نہیں دوست، ایسا ممکن ہی نہیں ہے___  جانتے ہو کیوں ؟‘

تھاپڑ نے غصے میں کہا … کیونکہ دراصل ماننے نہ ماننے کے باوجود ایک، مذہبی چڑیل، اپنے بڑے بڑے پنجوں کے ساتھ اندر بیٹھی ہے___  چڑیل ہے نا، وہ ہر پل کوئی نہ کوئی روپ بدل کر سامنے آتی رہتی ہے___

ارشد پاشا کے لب تھرتھرائے___  ’تمہارے اندر کا فریسٹریشن بول رہا ہے … ڈر گئے ہو تم …‘

کیوں ؟ نہیں ڈرنا چاہئے … مجھے …؟‘

تھاپڑ ہنس رہا تھا …’ ہاں کہیں نہ کہیں ڈرتا ہوں میں  —  تم بزدل بھی کہہ سکتے ہو —  لیکن مجھے کیوں نہیں ڈرنا چاہئے ارشد پاشا___ ‘

’پھر اس بھاشن کا مطلب؟‘

’مطلب یہ کہ ہم ابھی کمینے نہیں ہوئے___  ہونا بھی نہیں چاہتے___  آٹھ گھنٹوں کی مزدوری کے بعد ہم میں سے زیادہ تر لوگ ہیں، جو اپنا حق چاہتے ہیں یا مانگتے ہیں ___

تھاپڑ کی آوازسرد تھی …

’کہاں کھوگئے پاشا —  آج تمہیں کچھ دکھانا چاہتا ہوں  … لیکن شاید ابھی وقت نہیں آیا —  وقت آنے دو۔  سیاست کے یہ سارے جوکر بے نقاب ہوں گے اور تم خود بھی اس سیاست کے درمیان ایک مہرہ ہو گے — ‘

’مہرہ …‘

’ہاں  — ہم سب مہرے ہی تو ہیں۔  کھیل، کوئی اور کھیل رہا ہے …‘

’ہونہہ — ‘ ارشد پاشا نے لمبی سانس لی —

تھاپڑہنس رہا تھا … تمہارے پاس آنکھیں ہیں مگر تم کچھ دیکھ نہیں رہے ہو___ لکھنے کے لئے ابھی جو ایک حساس اور جذباتی چڑیا پرکٹا کر تمہارے اندر بستی ہے نا، وہ بے پر کے بھی اڑ جائے گی … پھر تم کچھ بھی لکھ نہیں سکو گے … سیاست کی بات، سادھو سنتوں اور تانترکوں کی بات، منتریوں کی فرمانبرداری کے قصّے … اونچے سے اونچے مسند پر بیٹھا ہوا کوئی بھی شخص تمہیں گندہ یا عیب والا نظر نہیں آئے گا اور سچ تو یہ ہے کہ اس کے بعد تم گناہ، ثواب، جرم، پردہ جیسی تمام چیزوں سے بے نیاز ہو جاؤ گے … سب چیزیں تمہیں ایک جیسی لگیں گی … یعنی اس قدر ملتی جلتی کہ تم فرق نہیں کر پاؤ گے۔  اچھے بُرے میں، بُرے اچھے میں  … اور تمہیں کوئی بھی سودے بازی، سودے بازی، نظر نہیں آئے گی … تم ان کھرے کھوٹے اور اچھے بُرے تصورات سے بہت اوپر اُٹھ جاؤ گے پھر بھول جاؤ گے___ کہ ایک ملک ہے … جہاں امام پشاوری بستے ہیں، جہاں حلوانی اور نانبائی رہتے ہیں۔  جہاں کی قسمت کا فیصلہ ایک تانترک کرتا ہے … جہاں بچہ ٹھاکر جیسا کارٹونسٹ یا جو کر گدھ سینا بناتا ہے … جہاں کوئی بابری مسجد ہوتی ہے جس کی آڑ میں یہ سارے کے سارے سوداگر اپنی اپنی دکان سجا کر، اپنے اپنے قوم کے اندھے بندوں سے دے اﷲ اور دے بھگوان کرنے لگتے ہیں ___ بُرا مت ماننا ارشد پاشا___ مگر تم دیکھو گے … یہ وقت بھی بہت جلد آنے والا ہے …‘

ارشد پاشا کے ہوش اڑ گئے تھے … تھاپڑ کے لفظ، لفظ نہیں تھے … ہر لفظ اپنی جگہ بارود تھا … وہ جیسے بارودی سرنگ کے دہانے پر کھڑا تھا اور بس ایک جلتی ہوئی ماچس کی تیلی … وہ اڑ رہا ہے … نہیں  … اُس کے چیتھڑے اڑ گئے ہیں  …

 شاید یہ سب اس سیکولر ملک میں ہی چلتا ہے جہاں قاتل نیتا کہلاتے ہیں۔  سانپوں کی دودھ پلا کر پرورش کی جاتی ہے … جہاں فرقہ واریت کی کوکھ سے جنمی پارٹی عوام کی پارٹی کہلاتی ہے۔  حکومت بناتی ہے … اور تاش کے باون پتوں کو بکھیر کر اپنی من مانی اور کارناموں پر نہال ہوتی رہتی ہے …

شاید اس جمہوری ملک کا یہی نصیب ہے …

کہاں کھو گئے …؟تھاپڑ اُس سے پوچھ رہا ہے …

نہیں  … کہیں نہیں ___

تھاپڑ کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ تھی —

’زیادہ مت سوچو —  زیادہ سوچنے کا وقت نہیں رہا —  بد نصیبی کی وہ گھڑی اب سامنے آ چکی ہے۔  ہم اور تم فقط تماش بین ہیں  —  اور ہمیں دیکھنا ہے، یہ تماشہ کیا رنگ لاتا ہے — ‘

’تمہیں اب بھی ان لوگوں سے کوئی امید ہے — ؟‘

’نہیں  — ‘ تھاپڑ سنجیدہ تھا —  اجودھیا چلو کے نعرے میں اس وقت جنون اور پاگل پن شامل ہو چکا ہے —  حکومت کے لیے کیا اس جنون کو روکنا آسان ہے — ‘

’کیا ہو گا بابری مسجد کا — ؟‘

’نہیں جانتا —  لیکن شاید ملک کے کورے صفحے پر ایک ایسی کویتا لکھی جانی ہے جو تقسیم کے وقت لکھی گئی تھی —  اور یہ کویتا آنے والے دنوں میں بھیس بدل بدل کر عام ہندستانیوں کے دلوں کو تڑپایا کرے گی — ‘

’یعنی تمہارا مطلب ہے — ؟‘

’شاید حکومت بھی … یہی چاہتی ہے — ‘ تھاپڑ سنجیدہ تھا۔

’اب دن ہی کتنے رہ گئے ہیں  —  حقیقت بہت جلد تمہارے سامنے آنے والی ہے — ‘

تھاپڑ نے مسکرانے کی کوشش کی —  زندگی کتنی جلد بدل گئی دوست —  تمہاری بھی اور میری بھی — سچ کہوں تو اب یہ شہر چھوڑ دو۔  اپنے حصے کا مکان بھی فروخت کر دو اور دلّی میں ایک چھوٹا سا فلیٹ لے لو —  پھر ہم بڑے شہر کی بڑی سیاست کا حصہ بن جائیں گے — ‘

’نہیں مہرے — ‘ میں نے ہنسنے کی کوشش کی  —  مگر شاید تھاپڑ کی گفتگو نے یہ مسکراہٹ بھی اس لمحہ مجھ سے چھین لی تھی —

٭٭

چھ دسمبر ۱۹۹۲ء

کبوتروں کا جھنڈ، انسانوں کے جنون اور پاگل پن کو دیکھ کر گنبد سے اڑا اور آسمان کی جانب پرواز کر گیا —

اجودھیا کے اس علاقے میں اس وقت صرف سر ہی سر دکھائی دے رہے تھے —  امن و شانتی کا پیغام یوں تو پولیس کے ذریعہ لاؤڈ اسپیکٹر پر مسلسل سنایا جا رہا تھا لیکن یہ طے تھا کہ کسی کو بھی اس پیغام میں دلچسپی نہیں ہے —  اب، سب کے سب فتح کے ارادے سے، جشن کی تیاریوں میں شامل ہونے —  تاریخ کی اس انوکھی واردات کو دیکھنے کے لیے جمع ہوئے ہیں  —

لوگ پاگل ہو رہے تھے —  ناچ رہے تھے —

ڈنکے بج رہے تھے —

ماحول میں ابیر اور گلال اچھالے جا رہے تھے —  آناً فاناً کچھ لوگوں کا جتھا، پولیس کے روکتے روکتے گنبد پر چڑھ گیا —

جے شری رام کے نعروں سے آسمان گونج اٹھا —

یہ جنون اور یہ دیوانگی تاریخ کی کتابوں میں نہ اس سے قبل دیکھی گئی نہ کبھی اس کے بعد دیکھی جائے گی —

پولیس خاموش تماش بین کی طرح اس پوری واردات کا ایک حصہ بن گئی تھی —

شور بلند تھے —

نعرے گونج رہے تھے …

اور کبوتر آسمان میں پرواز کیے جا رہے تھے …

ڈم … ڈرم … ڈرم …

گنبد ٹوٹ رہے تھے …

لوگ اچھل اچھل کر ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے —

تاریخ نے اس باب کو ایک قوم کی فتح اور دوسرے قوم کی شکست کے طور پر قبول کر لیا تھا —

٭٭

اس حادثے کے چھ مہینے بعد تھاپڑ دلی چلا گیا —  تھاپڑ کو ایک ہندی اخبار میں جگہ مل گئی —  ارشد پاشا کاشی کے ایک اردو اخبار کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو پڑھانے کی ذمہ داریاں بھی ادا کرنے لگے۔  اسامہ اب بڑا ہو رہا تھا —  اسامہ جیسے جیسے بڑا ہو رہا تھا۔  اس میں نئے پنکھ نکل رہے تھے —  رباب کی آنکھوں میں اب ہلکی سی ناراضگی صاف طور سے دیکھی جا سکتی تھی —

پھر وقت پنکھ لگا کر اڑا — تھاپڑ کے زور دینے کے بعد آخر وہ دلی جانے کے لیے تیار ہو گیا —  اسامہ اب ۸سال کا ہو گیا تھا —  دلی کے کرایہ کا مکان اسامہ کو پسند نہیں آیا تھا —  مگر رباب نے سمجھا دیا تھا۔  ہم جلد ہی اپنا مکان لے لیں گے —

مجاہد کی زبردست مقبولیت کے راستے سے صوفیہ راجیہ سبھا کی ممبر بن گئی —

لیکن کہانی ختم نہیں ہوئی تھی —

کہانی جاری تھی —

دنیا کے نقشے میں دہشت پسندی نے اپنی جگہ بنا لی تھی —

٭٭٭

 

 

حصہ سوم

آبِ روانِ کبیر

’’آبِ روانِ کبیر، تیرے کنارے کوئی

دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب‘‘

                 — اقبال

(۲۰۱۰سے مسلسل …)

 

 

(1)

میں ارشد پاشا …میں واپس اپنی دنیا میں لوٹنے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ دھماکے میرا راستہ روک لیتے ہیں  …

اٹھارہ برسوں کے طویل سفر کے بعد بھی جیسے وہ دھماکے مجھ میں ابھی ابھی زندہ ہیں۔  اور حقیقت یہی ہے کہ میں ان دھماکوں سے کبھی باہر نہیں نکل سکا۔  ابا حضور تغلق پاشا اور بی اماں کی کہانیاں وقت کی قبروں میں دفن ہو گئیں۔  اب بھی آسمان پر کوّے شور کرتے ہیں تو بادلوں کے درمیان سے بی اماں کا جھرّیوں بھرا چہرہ سامنے آ جاتا ہے —  اور دمہ کے مریض تغلق پاشا کا سہماہوا چہرہ …

کتنے پاکستان — ؟یہ ہمارے رہنما اور کتنے پاکستان بنائیں گے؟ ایک پاکستان کو روتے ہوئے بدنصیب زندگی ختم ہو گئی۔  اور یہ … ان کی زہریلی زبان کو نفرت اور تقسیم کا ذائقہ لگ چکا ہے … خدا جانے آگے کیا ہو گا۔  لیکن ہم تو نہیں ہوں گے، آگے آنے والے پر آشوب موسم کا مرثیہ پڑھنے کے لئے  — لیکن تم تو ہو گے نا …؟ تمہاری نسل ہو گی۔ ‘

اس سنّاٹے سے باہر نکلتا ہوں تو دشینت کا چہرہ میراراستہ روک لیتا ہے۔

میڈیا ایک بار پھر کرنل روہت، مرگیہ اور ابھے کار دوبے کی رپورٹ کو دبانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

رباب، شمیمہ کو لے کر پریشان تھی۔ لیکن اب آنندی کی وجہ سے وہ ایک بار پھر بہل گئی تھی۔  رباب کو آنند ی کا ساتھ اچھا لگتا تھا۔  آنند ی مزے مزے کی بات بتاتی تھی۔  جیسے اس نے تھا پڑ کے بارے میں انکشاف کیا۔

’وہ ویسے نہیں ہیں جیسے نظر آتے ہیں ‘ —

مطلب  — ؟رباب نے حیرانی سے پوچھا۔

’اندر سے بہت سخت ہیں۔  غصہ آ جائے تو پھر ہوش میں نہیں رہتے۔ ‘

’بھائی صاحب ایسے تو نہیں لگتے۔ ‘

’نہیں لگتے تو کیا۔  ہر مرد ایک جیسا ہوتا ہے۔ ‘

رباب نے بات کاٹ دی — ’ نہیں یہ تو ایسے بالکل نہیں ہیں۔  بلکہ کبھی کبھی غصہ مجھے ہی آتا ہے۔  لیکن یہ خاموش رہتے ہیں۔ ‘

ان دو برسوں میں بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی کہانیوں پر دھند چھا گئی تھی —  مگر کسی نہ کسی بہانے یہ معاملہ پھر سے زندہ ہو جاتا تھا۔  ایک دن ابھے کار دوبے کی بھی خبر آ گئی۔  انہیں جیل میں ہی زہر دے دیا گیا تھا۔  پولس انوسٹیگیشن میں دونوں باتوں پر غور کیا جا رہا تھا کہ یہ خودکشی ہے یا پھر قتل کی سازش — کیونکہ دوبے پولس دباؤ میں اپنا اقبالیہ بیان درج کرا چکے تھے۔  پولس کو اہم سراغ ملے تھے۔  لیکن یہ اہم سراغ کیا ہیں، اس کی تفصیل نہیں بتائی گئی تھی۔

مرنے سے کچھ روز پہلے کورٹ لے جاتے ہوئے میڈیا نے ان کا ایک انٹرویو بھی ہائی لائٹ کیا تھا۔

’’میں سنگھ کا آدمی ہوں۔  اور سنگھ آدمی کہاں نہیں ہے —  ہو سکتا ہے جو آدمی آپ کو تسلی اور دلاسہ دے رہا ہو، وہ بھی سنگھ کا ہی آدمی ہو۔  جو آدمی آپ کے زخموں پر مرہم رکھ رہا ہو، وہ بھی سنگھ کا آدمی ہو —  جو آدمی آپ کے گھر کا نوکر، خدمتگار یا گہرا دوست ہو، وہ بھی سنگھ کا آدمی —  سنکھ کے آدمی کو کہاں کہاں تلاش کریں گے آپ — ؟ وہ کسی بھی بھیس میں، کسی بھی روپ میں آپ کے پاس ہو سکتا ہے — اور آپ اسے پہچان بھی نہیں پائیں گے۔  ‘

میں ارشد پاشا …میں واپس اپنی دنیا میں آ گیا ہوں۔  یہاں سہمی ہوئی رباب کا چہرہ ہے، جو مجھے بغور دیکھ رہی ہے۔

’تم اجودھیا جا رہے ہونا …؟‘

’  ہاں۔   ‘

’  تھاپڑ بھائی بھی  — ؟‘

’  میں نہیں چاہتا تھا۔  مگر وہ ساتھ چلنے پر بضد ہے۔ ‘

’  یہ تو اچھی بات ہے ۔ ‘

’  میں اسے اکیلا ہی تلاش کرنا چاہتا ہوں۔  ‘

میری آنکھیں سوچ میں ڈوبی تھیں  — ’ تھاپڑ کب تک میرا ساتھ دے گا۔  اور کہاں تک ساتھ دے گا۔ ‘

’مگر اس میں نقصان کیا ہے؟‘

’  نقصان کچھ نہیں۔  اس کی بیوی ہے۔  بیٹا بھی ہاسٹل سے آیا ہوا ہے۔  ‘

’  لیکن تھاپڑ بھائی کو تم تو زور نہیں دے رہے ہو —  وہ خود ہی جانا چاہتے ہیں تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔  ‘

رباب کی آنکھیں کہیں اور دیکھ رہی تھیں  —

’بس۔  اس بار میرا بیٹا مل جائے۔  اسامہ واپس آ جائے۔  پھر ہم یہ علاقہ چھوڑ دیں گے۔ ‘

رباب کی آنکھیں نم تھیں۔

کل صبح ہم دونوں کو فیض آباد کے لئے ٹرین پکڑنی تھی۔  وہاں سے اجودھیا۔  اور پھر ٹھہر کر ہری دوار ہوتے ہوئے دلّی واپس آنا تھا۔  یہ سب کچھ مایوسی میں چراغ جلانے جیسا تھا —  مگر یہ اسامہ کی تلاش کا معاملہ تھا۔  اور اس معاملہ میں، میں اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔

٭٭

فیض آباد ریلوے اسٹیشن سنسان پڑا تھا۔  مسافروں سے زیادہ تعداد اس وقت وہاں بندروں کی تھی۔  جوتا پالش کرنے والا بچہ زور زور سے ہنس رہا تھا —

’ڈریے مت کچھ نہیں کریں گے یہ ۔ ‘

تھاپڑ نے مسکرا کر میری طرف دیکھا۔

’  بندروں سے ڈر تو نہیں لگ رہا۔ ‘

’  نہیں۔ اب انسانوں سے زیادہ ڈر لگتا ہے۔ ‘

جو تا پالش کرنے والا بچہ بندروں کو دیکھ کر انہیں بھگانے کی کوشش کر رہا تھا۔

’  یہاں سب رام بھکت ہیں۔  یہ بندر بھی۔  کیلے کھاتے ہیں۔  آپ کی آنکھوں پر چشمہ ہے تو چشمہ بچا کے چلیے۔ یہ چشمہ اتار لیتے ہیں۔  ساتھ میں کھانے پینے کے سامان ہوں تو لے کر بھاگ جاتے ہیں۔ ‘

’  سنا۔  رام بھکت ہیں  —  تھاپڑ پھر ہنسا —  ان رام بھکتوں نے جو دیش میں تباہی مچائی، اس سے رام کا دل بھی رو رہا ہو گا۔  ‘

فیض آباد اسٹیشن سے باہر نکلنے کے بعد ہم ٹیمپو والوں کی طرف بڑھے۔  ایک قطار سے کھڑے ٹیمپو والے چیخ رہے تھے۔

’  اجودھیا … اجودھیا چلو …‘

یہاں کی فضا میں ایک عجیب سا سنّاٹا چھا یا تھا —  گرد آلود سڑکیں۔  سڑک پر ٹریفک شروع ہو گیا تھا۔  گاڑیوں کے ہارن چیخ رہے تھے۔  لیکن ان سب سے بے نیاز میں صرف اسامہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔

اجودھیا …ہری دوار … پتہ نہیں اس کے دل میں کیا ہے۔ ؟‘

کیا سوچنے لگے …تھاپڑ نے پلٹ پر پوچھا۔

میں نے مسکرا نے کی کوشش کی۔

’   اسامہ کے بارے میں سوچ رہا تھا —  کیا سچ مچ وہ اجودھیا آیا ہو گا۔  اگر ہاں تو کیوں ؟ ہندستان میں اتنی ساری جگہیں ہیں۔  پھر اجودھیا ہی کیوں  … اگر وہ آیا —  تو کوئی نہ کوئی مقصد تو ضرور ہو گا۔ ‘

’ہونہہ۔ ‘ تھاپڑ نے میری طرف دیکھا۔  ’میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔  خیر، کوئی نہ کوئی سراغ تو اس کے بارے میں ملے گا ہی۔ ‘

 اجودھیاکی تنگ گلیاں رام بھکتوں سے روشن تھیں۔  جہاں سے بھی نکلیے … جے شری رام کی آوازیں۔  مندروں سے، لاؤڈسپیکر سے بجتے ہوئے بھجن … عقیدت مندوں کا ہجوم … بھیڑ بھاڑ والے علاقے سے ہوتے ہوئے ہم ہنومان مندر اور سیتا رسوئی کی طرف بڑھ رہے تھے۔  یہاں قدم قدم پر پولس چوکی بھی تھی۔  ہماری آنکھیں چاروں طرف دیکھ رہی تھیں۔  اسامہ کی عمر کا کوئی بچہ نظر آتا توٹیس کی ایک لہر بدن میں سرایت کر جاتی …

’یہاں نو عمر سادھو بھی تھے جو بھگوا کپڑوں میں آتے جاتے ہوئے ہمیں دیکھ کر زور سے جے شری رام کہتے۔

مجھے اندر ہی اندر خوف کا احساس بھی ہو رہا تھا۔

مگر سوال یہ تھا کہ اسامہ کے بارے میں یہاں کس سے پوچھا جائے۔  اور جس سے پوچھا جائے، کیا وہ مشکوک نگاہوں سے ہماری طرف نہ دیکھے گا —  تھاپڑ میری کیفیت کو سمجھ رہا تھا۔  اس نے میرے کندھے کو ہلایا —

’پریشان مت ہو۔ پہلے کچھ دیر اسے خود تلاش کرتے ہیں۔  پھر آگے جو ہو گا دیکھیں گے — ‘

میں کچھ نہیں بولا۔  سامنے سے سادھوؤں کی ٹولی شنکھ بجاتی اور ہوا میں گلاتی اڑاتی ہوئی آ رہی تھی —  ہاتھوں منجیرے بھی تھے۔ یہ نظارے اجودھیا کے گلی کوچوں میں عام ہیں  —

٭٭

دھول اڑنے لگی تھی …

مندروں سے ٹھہر ٹھہر کر گھنٹیوں اور شنکھ کی آوازیں گونج رہی تھیں۔

 سیتا رسوئی سے آگے بڑھنے پر تھاپڑ نے ایک کرتا پائجامہ پہنے ہوئے شخص کو روکا۔  اس نے اپنا نام امام بخش بتایا۔  وہ یہیں، مدتوں سے اجودھیا میں ہے۔  میں نے اسامہ کی تصویر دکھائی —  اس نے نا امیدی میں سرہلایا۔  تصویر میں نے دوبارہ جیب میں رکھ لی۔  امام بخش نے کئی دلچسپ باتیں بتائیں۔  جیسے یہ کہ وہ کنٹھی مالا بناتا ہے۔  یہ اس کا پشتینی کاروبار ہے۔  اس کاروبار میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔  عام طور پر یہاں کے سادھو گلے میں اس کی ہی کنٹھی مالائیں پہنتے ہیں۔

امام بخش ہنسا —

 ’’مندروں میں پھول کا چڑھاوا ہوتا ہے۔  پھول کے کاروبار میں بھی مسلمان چھائے ہوئے ہیں۔  صبح ہوتے ہی پھول لے کر مندر کی سیڑھیوں پر بیٹھ جائیں گے —  اپنا مذہب الگ لیکن ہمارا رزق انہی مندروں اور شردھالوؤں سے وابستہ ہے —  اب جیسے یہاں کے سادھو سنت کھڑاون پہنتے ہیں۔  کھڑاون کو پاؤں میں پہننے کے لئے شدھ مانا جاتا ہے۔  اور یہ کاروبار بھی زیادہ تر مسلمانوں نے سنبھال رکھا ہے۔  لوگ مندر، مسجد کے لئے لڑ رہے ہیں اور یہاں کو ئی فرق نہیں۔  ہمارے کھڑاون بڑے آرام سے وہ پاؤں میں ڈالتے ہیں۔  پھول چڑھاوے پر چڑھاتے ہیں اور کنٹھی مالا گلے میں پہنتے ہیں۔ ‘

’یہاں کے حالات …‘ تھاپڑ نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پھسپھساتے ہوئے پوچھا۔

’  کبھی کبھی بگڑ جاتے ہیں۔  لیکن ان میں باہر والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ‘

’مطلب؟۔ ‘

’یہاں اب بھی بھائی چارہ ہے۔  دونوں قوم کے لوگ ایک دوسرے کی ضرورتوں کو محسوس کرتے ہیں۔ ‘

امام بخش آہستہ سے بولا — ’ اب تین مہینے پہلے ذرا حالات بگڑ گئے —  باہر سے کچھ لوگ آئے تھے۔  پولس والے بتاتے تھے کہ وہ مندر کو تباہ کرنے آئے تھے …دو گھنٹے تک گولیاں چلتی رہیں۔  راکٹ داغے گئے۔  یہ سب ہوتا رہتا ہے۔  لیکن ان واقعات سے مسلمان ڈر جاتے ہیں  —  تب بھیانک آوازیں ہوتی ہیں۔  اب تو ہم عادی ہو گئے ہیں۔  بیس سال سے زیادہ ہو گئے۔ ‘

 امام بخش نے ٹھنڈی آہیں بھریں  —  ’بس کبھی کبھی پرانے زخم تازہ ہو جاتے ہیں۔  مندروں کے سائے میں ہم نے زندگی گزاری۔  رزق بھی یہیں سے ملا۔  جب بابری مسجد توڑی گئی تھی۔  ہمارے بھی گھر جلا دیئے گئے تھے۔  کتنے ہی مسلمان یہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ لیکن ہم نہیں گئے۔  کہاں جائیں باپ داداؤں کی وراثت کو چھوڑ کر۔  یہ بھی کہا گیا کہ ہم مسلمان آتنک وادیوں سے ملے ہوئے ہیں۔  مگر بھلائی اسی میں تھی کہ چپ رہیں۔  بولنے سے فائدہ بھی کیا تھا۔  پہلے ایسا نہیں تھا۔  لیکن بدلے ہوئے حالات میں  … یہاں والوں کی نظریں بھی بدلنے لگی تھی۔ ‘

تھاپڑنے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا —  ’ اچھا‘ یہاں اجودھیا میں مسلمانوں کی کتنی تعداد ہو گی؟

 ’مسلمان تو فیض آباد میں ملیں گے صاحب —  مسجدیں بھی ملیں گی۔  یہاں تو بس یہی کوئی دو ہزار۔  سلائی، جوتے بنانا، پھول، کنٹھی مالا اور کھڑاون کے پشتینی کاروبار —  مگر اب ان دھندوں میں بھی فرق آیا ہے۔  یہ بات بھی اڑائی گئی کہ مسلمان اشدھ ہوتے ہیں۔  ان سے پوجا کی کوئی سامگری نہ لی جائے۔  کچھ سادھو سنت بھلے مانس ہیں۔  وہ ان باتوں پر ہنستے ہیں۔  رام نومی کے موقع پر پچھلے اکھاڑے سے ایک رتھ نکلتا ہے۔  اس کی اگوائی بھی ایک مسلمان ہی کرتا ہے۔  برسہا برس سے —  پہلے تو دونوں مذہب کے لوگ ملے ہوئے لگتے تھے۔  مگر اب فرق آنے لگا ہے۔  اچھا صاحب اب کام کا وقت ہے۔  چلتا ہوں  — ‘ چلتے چلتے امام بخش ٹھہر ا —  ’رام جنم بھومی استھان سے کچھ دور پر ہی ایک خانقاہ ہے۔  کیوں نہیں، آپ وہاں جا کر پتہ لگاتے ہیں۔  ‘

مندروں کی گھنٹیاں بج رہی تھیں۔  بھجن گائے جا رہے تھے۔  سادھو سنتوں کی ٹولیاں اپنے اپنے کام میں مصروف تھیں۔  رام جنم بھومی جانے والے راستوں پر پولس کا پہرہ تھا۔  چاروں طرف خاکی وردی نظر آ رہی تھی۔  خوف کی ایک انجانی لہر میں جسم میں محسوس کر رہا تھا۔

 مگر ایسا کیوں تھا — ؟اس بات کو سمجھنے سے ذہن قاصر تھا۔  اس درمیان کئی لوگوں کو اسامہ کی تصویریں دکھائی گئیں۔  مگر ان لوگوں نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا۔

 پولس کے پہروں اور تلاشی سے گزرتے ہوئے رام جنم بھومی استھان تک جانا آسان نہیں تھا۔  اور تھاپڑ کا خیال تھا، وہاں جانے سے کوئی فائدہ بھی نہیں۔  کیونکہ ایک تو وہاں کسی مسلمان کے ہونے کی گنجائش بہت کم —  اور دوسری اہم بات، اسامہ نام تبدیل کر کے ان لوگوں میں شریک ہو، یہ ممکن نہیں  —  میں یہاں مسجد کے گنبد کو تلاش کر رہا تھا —

اٹھارہ سال پہلے جب میں اس مقام پر آیا تھا تب یہ گلی ویران ہوا کرتی تھی — ایک ویران مسجد، جس کے آس پاس دور دور تک آدم ذات کا نام   تک نہیں۔  لیکن اب یہاں کے ماحول میں خاکی وردی اور سرہی سر نظر آ رہے تھے۔  دور آسمان پر اڑتے ہوئے کبوتر تو نظر آئے لیکن ایسا محسوس ہوا جیسے وہ بھی اس مقام تک آنے سے کترا رہے ہوں۔

رہ رہ کر فضا میں جے شری رام کے بول ابھر جاتے —  یہاں سے کچھ دوری پر ہی وہ خانقاہ تھی جس کے بارے میں امام بخش نے بتا یا تھا۔  میں نے تھاپڑ سے بات کر لی تھی۔  مناسب ہوا تو رات ہم وہیں ٹھہر جائیں گے۔

یہاں ایک اداسی مجھ پر مسلط تھی۔  لیکن اس اداسی کی وجہ میرا بیٹا اسامہ نہیں تھا۔

سیتا رسوئی سے رام جنم بھومی اور وہاں سے خانقاہ کی طرف کوچ کرتے ہوئے ہم دونوں کے درمیان بے حد کم مکالمے ہوئے —  اب اگلا پڑاؤ خانقاہ تھا۔

آسمان پر سورج غروب ہو رہا تھا۔  شام کی سیاہی چھانے لگی تھی۔  جسم ٹوٹ رہا تھا۔  نا امیدی غالب تھی۔  لیکن نا امیدی کے بطن سے ہی امید کا سورج طلوع ہوتا ہے۔

کیا اسامہ کی تلاش میں کامیابی ملے گی؟

میں نہیں جانتا تھا کہ اس سفر میں بھی کوئی کامیابی ہاتھ آئے گی یا نہیں۔  مگر اس تلاش نے ہی مجھے اب تک زندہ رکھا تھا۔

خوف اور دہشت کے گھنے سایوں کے باوجود۔

٭٭

’ جی فرمائیے۔ ‘

خانقاہ کے دروازے پر قدم رکھتے ہی ایک بھاری بھرکم آواز سے واسطہ پڑا۔

 ’  السلام علیکم  ‘

’  وعلیکم السلام  ‘

مصافحہ ہوا۔  یہ انظار صاحب تھے۔  صاف شفاف کرتا پائجامہ اور دو پلّی ٹوپی۔  قد لامبا۔  عمر یہی کوئی ۶۰ کے آس پاس۔  سوال کیا گیا۔

’کہاں سے آنا ہوا ہے ؟‘

’  دلّی سے؟  ‘

’یہاں قیام …؟ ‘

’قیام کے لئے تو ابھی سوچا بھی نہیں ہے ۔ ‘

انظار صاحب کی مسکراتی آنکھوں نے تھاپڑ کو دیکھا۔

’ یہ خانقاہ ہے۔  اب تو یہ ویران ہو گئی۔  پہلے یہاں رونق ہوا کرتی تھی۔  آپ لوگ چاہیں تو یہاں قیام کر سکتے ہیں۔  ‘

باہر دالان میں زمین پر بستر لگا ہوا تھا۔  یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ یہ جگہ انظار صاحب نے مسافروں کے قیام کے لیے رکھی ہے۔  وہ ملنسار آدمی تھے —  مگر تھاپڑ کی موجودگی میں وہ دل کی بات زبان پر لانے سے خوف محسوس کر رہے تھے۔  چائے اور ہلکے ناشتے کے بعد انظار صاحب نے یہاں آنے کی وجہ جاننی چاہی —  میں نے تھاپڑ کی طرف دیکھا۔  تھاپڑ نے اسامہ کی تصویر آگے بڑھا دی۔

’آپ نے دیکھا ہے اس بچے کو ؟‘

میں نے انظار صاحب کے چہرے کا جائزہ لیا —  وہ بغور اس تصویر کو دیکھ رہے تھے۔  پھر انہوں نے آواز لگائی —

 ’مدو میاں۔  ‘

مدو میاں گھر کے پرانے خانساماں تھے۔  ان کا تعارف کرانے کے بعد انظار صاحب نے مدو میاں سے کہا —

’ لپک کر جائیو۔  اور رمتا کو بلا کر لے آؤ۔  ‘

’اچھا صاحب’

مدو میاں چلے گئے۔

 یہ رمتا کون ہے؟ میں نے آہستہ سے کہا۔

 ’چائے اور سگریٹ کی گمتی لگاتا ہے۔  خانقاہ سے بس دو قدم دور اس کی گمتی ہے۔  ‘

’ کیا بات ہے — ؟‘ میں نے پلٹ کر انظار صاحب کی طرف دیکھا۔

’بس دو سکنڈ انتظار کر لیجئے۔  رمتا کو آنے دیجئے۔ ‘

پانچ منٹ کے اندر ہی مدو بھائی اپنے ساتھ رمتا کو لے کر آ گئے —  رمتا پچیس سال کا نوجوان تھا۔  ڈھیلی ڈھالی پتلون۔  شرٹ۔ گیہواں رنگ۔  اور پیشانی پر چمکتا ہوا ٹیکا —

’آپ نے بلایا صاحب۔ ؟‘

’  ہائے رمتا ‘

’کیا بات ہے صاحب — ؟‘ رمتا باری باری سے ہم دونوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔

’یہاں آ کر بیٹھو۔  اور یہ تصویر دیکھ کر بتاؤ کہ کس کی ہے۔ ‘

رمتا قریب آ کر بیٹھ گیا۔  اس نے تصویر ہاتھ میں لی۔  پھر مسکرا کر بولا۔

 ’  یہ تو اپنا علوی ہے۔ ‘

’  علوی؟‘

اس بار ہم دونوں چونک گئے تھے۔

انظار صاحب مسکرائے —  یہ علوی ہے۔  کئی بارمجھ سے بھی مل چکا ہے۔  کمال کا بچہ ہے۔

 رمتا اب ہم دونوں کی طرف دیکھ رہا تھا —

’    لیکن علوی کی یہ تصویر آپ کے پاس کیسے آئی — ؟‘

تھاپڑ آہستہ سے بولے — ’ ہم اس کی تلاش میں نکلے ہیں۔ ‘

میں نے کمزور لہجے میں کہا  — ’ آپ لوگ اس کے بارے میں جو بھی جانتے ہوں بتایئے۔  ہماری مدد کیجئے۔ ‘

 انظار صاحب نے لمبی سانس لی — ’ میں نے ایسے بچے بہت کم دیکھے۔  ایسا بچہ جودوسروں کا مزاج بدل دے۔  علوی کو جب بھی دیکھتا تھا، سو چتا تھا۔  وہ ایسا کیوں کر رہا ہے …کوئی تو وجہ ہو گی — ؟‘

’  مطلب ؟  ‘

’  آپ ایک مسلم شناخت کے ساتھ ایسے لوگوں سے وابستہ ہو تے ہیں جو آپ کے ہم مذہب نہیں ہیں  —  دوسرے مذہب اور دوسرے عقیدے کے ہیں  —  اور وہ آپ کے مذہب کے ساتھ آپ کو قبول کر لیتے ہیں۔   ‘

اب ہم دونوں کے چونکنے کی باری تھی —  تھاپڑ نے کشمکش کے لہجے میں میری طرف دیکھا۔  میں نے رمتا کی طرف دیکھا  —  تم تو ملے ہو گے اس سے۔

’ملے کیا۔  ہم تو دوست تھے۔ ‘

’دوست ؟  ‘

 ’  ہاں۔  وہ کوئی بات مجھ سے چھپاتا نہیں تھا —  نماز بھی پڑھتا تھا۔  جہاں بھی موقع مل جائے۔  اور وہ جو اپنے بابا ہیں نا، ترلوکی بابا۔  وہ تو بہت مانتے تھے اسے۔ ‘

’’ترلوکی بابا۔   ؟ ‘

’  کہتے ہیں۔  تین لوگوں کی خبر ہے ان کو  — سب ترلوکی بابا کہتے ہیں  —  مگر علوی نے تو ترلوکی بابا پربھی جادو کر دیا۔ ‘

’  نہیں۔  مجھے شروع سے بتاؤ۔  علوی نے تمہیں کیا بتایا۔ ‘

’ اپنے بارے میں تو کچھ نہیں صاحب۔  بس یہاں آنے تک کی کہانی معلوم ہے۔ ‘

کمرے میں دھند چھا گئی تھی —

یہ دھند یکایک ہماری آنکھوں کے آگے آ گئی تھی۔  دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔

باہر سے بھجن کی آوازیں یہاں تک سنائی دے رہی تھیں۔

رمتا نے ٹھنڈی سانس بھری۔

 ’وہ گھر سے بھاگ گیا تھا — کیوں  — ؟ یہ نہیں بتایا۔  دلّی سے میرٹھ آ گیا۔  یہاں کا لکا بابا ٹکرائے۔  جو پیدل ہی میرٹھ سے ہری دوار جا رہے تھے۔  سڑک کنارے وہ بیہوش پڑے تھے۔  لیکن ان کی خبر لینے والا کوئی نہیں تھا۔

پھر — ؟‘ یہ تھاپڑ تھا۔

’علوی نے کالکا بابا کو کچھ لوگوں کی مدد سے اسپتال پہنچایا —  انہیں ہوش آ گیا۔ جب معلوم ہوا کہ اس بچے کا کوئی نہیں۔  تو وہ بولے چلو میرے ساتھ۔  ‘

’مسلمان ہونے کے باوجود ؟‘

’ ہاں کٹر کالکا بابو اچانک وچار دھارا کی سطح پر موم ہو گئے —  علوی نماز پڑھتا تھا —  اور وہ پوجا کرتے تھے۔  پھر بابا کالکا نے شملہ جانے کا ارادہ کیا۔  ‘

’شملہ۔  ؟‘ تھاپڑ چونکا۔

’ہاں۔  شملہ کی پہاڑیوں پر کالکا بابا کے گرو بھیرو ناتھ تھے —  یہاں سے دونوں شملہ آ گئے۔  کالکا بابا نے بھیرو ناتھ سے علوی کو ملایا۔  بھیروناتھ نے کہا۔  یہ لڑکا جس مارگ پر ہے اسے نہ تو سمجھ سکتا ہے اور نہ میں  —  اسے سنسار میں رہنے دے۔  اپنے ساتھ لے کر نہ گھوم۔  یہاں سے کالکا بابا اور علوی کے راستے جدا ہو گئے —  پھر علوی نے کچھ دن وہاں کام بھی کیا۔  شاید کسی دکان میں۔  ‘

’ہاں۔ ‘

’پھر …؟‘ رمتا گہری سوچ میں تھا — ’ یہاں اسے وہ سادھو ٹکرائے جو ہمالیہ کی پہاڑیوں میں تپ کیا کرتے تھے —  علوی نے ان کی بھی سیوا کی۔  ‘

’کیا وہ بھی علوی کے بارے میں جانتے تھے؟

’ہاں  —  ان سادھوؤں کے ساتھ علوی یہاں اجودھیا آیا تھا —  یہ سادھو پاس کے آشرم میں ہی ٹھہرے تھے۔  ترلوکی بابا کے آشرم میں۔  اور اتفاق کہ اسی دن ترلوکی بابا سیڑھیوں سے پھسل کر گر پڑے —  اور علوی نے ایک بار پھر اپنی سیوا سے ان کا دل جیت لیا۔  سادھوؤں نے ترلوکی بابا کو بتایا۔  کہ بڑا عجیب لڑکا ہے۔  مسلمان ہے۔  مگر دلوں کو جیتنا جانتا ہے۔  اور ترلوکی بابا نے کہا  — کہ اصل مذہب تو انسان کا کرم ہے۔  باقی دھرم توہم نے بنائے ہیں۔  پھر علوی ترلوکی بابا کے ساتھ رہنے لگا۔  ‘

’اب کہاں ہے۔ ؟‘ مجھ سے کہیں زیادہ تھا پڑ کے تجسس میں اضافہ ہو چکا تھا —

’ترلوکی بابا کے پاس سادھوؤں کا ایک جتھا ہری دوار سے آیا ہوا تھا۔  ‘

’پھر — ؟‘

’ترلوکی بابا کہتے تھے۔ رمتا جو گی ہے علوی —  شاید ہری دوار نکل گیا ہو۔ ‘

ترلوکی بابا کہاں رہتے ہیں۔  ہمیں لے چلو گے ؟ ‘

’کیوں نہیں۔  ابھی چلیے۔ ‘

یہاں سے ہم ترلوکی بابا کے آشرم گئے — یہ وقت ان کے آرام کا وقت تھا —  لیکن جب انہوں نے علوی کے بارے میں سنا تو اٹھ کر بیٹھ گئے۔

’بھگوان کی لیلا۔ اتنا ادھ بھت بچہ میں نے جیون میں کہیں نہیں دیکھا۔  ‘

ترلوکی بابا ۶۰ کی عمر کے ہوں گے۔  چہرہ بڑا اور پر نور —  اس وقت وہ دھوتی اور بنیائن میں تھے۔  انہوں نے کم و بیش وہی باتیں بتائیں جو رمتا بتا چکا تھا۔  مگر وہ علوی کی تعریف کر رہے تھے۔

 ’علوی جیسے بچے ہوں تودھرم یدھ ہی سماپت ہو جائے —  ایک ایشور —  سب اس کی اُپاسنا کرنے والے …‘ انہوں نے انگلیوں سے آسمان کی طرف اشارہ کیا —

ہمارا کام پورا ہو چکا تھا۔  جو معلومات حاصل کرنی تھی، ہم حاصل کر چکے تھے —  اب ہم خانقاہ واپس لوٹ رہے تھے۔

 واپس لوٹتے ہوئے ہم دونوں خاموش تھے —

ذہن میں دھماکے ہو رہے تھے —

بٹلہ ہاؤس سے شروع ہونے والی کہانی اس انجام تک پہنچ سکتی ہے، سوچنا بھی مشکل تھا —

’لیکن اسامہ کیا چاہتا ہے — ؟

وہ کیوں ایسا کر رہا ہے — ؟

ہزاروں سوالات تھے۔  لیکن ہر جواب کی کڑی اسامہ کے پاس ہی تھی —  ہم صرف اپنی تسلیاں کر سکتے تھے۔  ہاں، وہ زندہ ہے۔  یہ بات مجھے حوصلہ دینے کے لیے کافی تھی۔  مگر وہ ہے کہاں  —  واپس کیوں نہیں آتا —  کیا ہری دوار میں ہے —  یا پھر ہری دوار سے بھی کہیں آگے نکل گیا ہے؟

 تھاپڑ سنجیدہ تھا —

’کبھی کبھی زندگی امتحان لیتی ہے۔  صرف سوال کرتی ہے —  اور جواب ہمارے پاس نہیں ہوتے۔ ‘

 جواب صرف اسامہ کے پاس تھا۔

٭٭

 

(2)

ہم خانقاہ واپس آ چکے تھے۔  سنّاٹے میں ڈوبی ہوئی رات —  ہم کمرے سے باہر برآمدے میں آ گئے —  باہر کتے بھونک رہے تھے۔  دور آسیبی پرچھائیوں کا ہجوم تھا —  جیسے اندھیرے میں بہت سے بادل اکٹھے ہو گئے ہوں۔

’  وہ کیا کرنا چاہتا ہے —  ‘ میں چیخا تھا —  آخراسامہ کیا چاہتا ہے۔   ‘

تھاپڑ نے میری طرف دیکھا — ’ میری پریشانی یہ تھی کہ وہ شملہ کیوں گیا؟‘

 ’  ہاں  —  ‘

اس کا بھی جواب مل گیا۔  میرٹھ۔  میرٹھ سے شملہ۔  میرٹھ میں بھی وہ اپنے لوگوں سے نہیں ملا۔   ‘

’  اپنے لوگوں ؟ ‘

’  اپنے ہم مذہب  ‘

’  ہاں۔   ‘ میری آواز ڈوبتی ہوئی تھی —

’وہاں اس نے سڑک پر بیہوش پڑے ایک سادھو کی مدد کی۔  وہاں سے شملہ گیا۔  جس سے ملا۔  ان کے نظریے بدلتے گئے۔  مجھے سوچنے دو ارشد پاشا۔ ‘

 تھاپڑ نے جیب سے سگریٹ نکال لی تھی۔  دھوئیں کے چھلے بناتا ہوا وہ غور و فکر میں ڈوب گیا تھا —

’  وہ ایسے لوگوں سے ملا جو کٹّر تھے۔  اور جیسا انظار صاحب نے کہا۔  وہ اپنی شناخت کے ساتھ ملا۔  شناخت چھپا کر نہیں۔  ‘

’  مطلب ؟ ‘

 ’  میرٹھ۔ شملہ۔  اجودھیا۔  اور اب ہری دوار۔  وہ کٹر سادھوؤں سے ملا۔  وہ بھی ایسے پر آشوب موسم میں۔  جہاں مسلمان نام ادھرم، اوشواس اور آتنک واد کی علامت ہے۔  تم سن رہے ہو ارشد پاشا —  اور یقینی طور پر وہ جن لوگوں سے ملا، وہ مسلمانوں کے بارے میں اچھی رائے یا نظریے نہیں رکھتے ہوں گے۔  ‘

’  ممکن ہے رکھتے ہوں  —  ‘

’  نہیں۔  میں ایسے لوگوں کو قریب سے جانتا ہوں  ‘

تھاپڑ نے سگریٹ کا ایک لبا کش لیا  — ’ جوتم سوچ  رہے ہو، ایسا نہیں ہے۔  مگر سوال وہی ہے۔  آخر اسامہ کے دل میں کیا ہے۔  یہ وہی بتا سکتا ہے۔  ہم صرف قیاس لگا سکتے ہیں۔  یہ اتفاق ہی ہے کہ اس سے ایسے لوگ ٹکرائے جو کٹر دھارمک یا سادھوسنت سے وابستہ تھے  — لیکن وہ ان لوگوں سے خوفزدہ نہیں تھا۔  وہ نماز بھی پڑھتا تھا —  ‘

 میں پھر زور سے چیخا — ’ یہی تو سمجھنا ہے مجھے۔  وہ کیا چاہتا ہے۔  کیا ہے اس کے دل میں  — ؟ ‘

تھاپڑ نے گہری سانس لی — ’اب اس کہانی کو ذرا شروع سے دیکھو ارشد پاشا —  چار معصوم بچے عشا کی نماز کے بعد گھر سے نکلتے ہیں۔  پولس والوں سے ان کی کہا سنی ہوتی ہے۔  بٹلہ ہاؤس کا انکاؤنٹر سامنے آتا ہے۔  پولس اسامہ کے دو دوستوں کو مار گراتی ہے —  اور ایک دوست پولس کی حراست میں ہوتا ہے۔  ‘

’  ہاں ۔ ‘ میں غور سے تھاپڑ کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔

 ’’میں اسامہ کے فیصلے کو ان کڑیوں سے ملانے کی کوشش کر رہا ہوں۔  ایک بار تین سال پہلے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اردو ڈپارٹمنٹ میں گیا تھا۔  غالب پر سے می نار تھا۔  میں نے اردو ڈپارٹمنٹ کے ان بچوں کو غور سے دیکھا —  لڑکیاں سروں پر آنچل رکھے —  معصوم سے لڑکے —  وہاں کی مکمل تہذیبی فضا ایسی تھی، جس نے مجھ پر جادو کر دیا — طالب علم ایسے بھی ہوتے ہیں  —  اتنے معصوم — فرشتہ صفت —  یہ وہ بچے تھے ہی نہیں جن کی وجہ سے آج کے اسٹوڈینٹس بدنام ہیں  — ہنگامہ۔ مار پیٹ۔  لڑائیاں۔  تین سال گزر گئے۔  لیکن جامعہ کے اردو ڈپارٹمنٹ کے ان بچوں کا چہرہ نہیں بھول سکا —  ‘تھاپڑ نے پلٹ کر میری طرف دیکھا —  اسامہ نے اسی ماحول میں آنکھیں کھولیں۔  ایک تہذیب یافتہ ماحول میں۔  لیکن اس نے کیادیکھا — ؟ اس نے فرق کے کیڑے دیکھے۔  ہندو اور مسلمانوں کا فرق —  دہشت کی کارروائیوں کو دیکھتے اور سنتے ہوئے وہ بڑا ہوا۔  اور پھر —  ایک دن اس کے دوست پولس کے نشانے پر آ جاتے ہیں۔  ‘

’  ہاں  ‘

تھاپڑ نے سگریٹ بجھا دی — ’ اسامہ تیزی سے ایک نئے افق یا نئے نظریے کی طرف بڑھ رہا ہے —  اور وہ بھی اپنی مسلم شناخت کے ساتھ —  وہ ایسے لوگوں سے مل رہا ہے جو کٹر ہیں۔  وہ ان سے اپنے نظریے بانٹتا ہے —  اور ان کادل جیت لیتا ہے۔   ‘

تاریکی کے سائے گھنے ہو گئے تھے —

 ’ممکن ہے۔  ایسا ہی ہو۔  لیکن وہ یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ ہمیں اس کی ضرورت ہے۔   ‘

’ کل صبح ہم ہری دوار کے لیے نکل جائیں گے۔   ‘ تھاپڑ نے میرے ہاتھوں کو تھاما۔

’  پریشان مت ہو۔  کیا یہ کم ہے کہ ہر جگہ ہمیں اس کی موجودگی کے سراغ ملتے جا رہے ہیں۔   ‘

 میری آنکھوں میں اسامہ کا چہرہ ناچ رہا تھا۔  ہونٹ خاموش تھے۔

 کتوں کے بھونکنے کی آوازیں اب بند ہو چکی تھیں۔

اب ہمارا اگلا پڑاؤ ہری دوار تھا۔

 ٭٭

 

 

(3)

تلاش

کسی کو تلاش کرنا کتنا مشکل کام ہے۔  وہ بھی جب آپ کے پاس نہ پتہ ہو نہ ٹھکانا۔  سب کچھ اندھیرے میں تیر چلانے جیسا۔  مگر اس تلاش میں جو تجربے ہمیں حاصل ہو رہے تھے، وہ دلچسپ تھے۔  دنیا ایک نئی شکل میں ہمارے سامنے آ رہی تھی۔

جیسے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے بعد جو دنیا ہمیں بے حد ڈراؤنی اور دہشت زدہ معلوم ہو رہی تھی، وہ دنیا حقیقت میں ایسی نہیں تھی —  یہاں سیدھے سادھے مہذب لوگ بھی تھے۔  اور شاید اسی وجہ سے اس حسین دنیا کا تصور بھی زندہ ہے۔

ہری دوار پہنچنے تک ہم خاصا تھک چکے تھے۔

اس لیے یہ طے کیا گیا کہ آج ہوٹل میں آرام کریں گے۔  اور دوسرے دن صبح سے ہی اسامہ کی تلاش شروع کر دی جائے گی۔  یہ مناسب فیصلہ تھا۔

تھاپڑ کی الجھن یہ تھی کہ اسامہ بار بار اپنا نام کیوں تبدیل کر رہا ہے۔

’ شملہ میں وہ بدر تھا۔  یہاں علوی  ‘

 ’  ہاں ۔  لیکن نام بھی جان پہچان والوں کے۔ ایسا کیوں ہے؟  ‘

’  ممکن ہے اس کواس بات کا خیال ہو کہ ہم اسے یہاں تلاش کرنے بھی آ سکتے ہیں۔   ‘

’  ممکن ہے۔   ‘

’  اس طرح وہ ہماری پریشانیوں کو کسی حد تک کم رہا ہے —  کہ وہ زندہ ہے اور ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔   ‘

میں گہری سوچ میں گرفتار تھا — ’ لیکن اگر وہ ہمارے لیے اتنا ہی پریشان ہے تو پھر ملتا کیوں نہیں۔   ‘

’  ممکن ہے جانے انجانے اس کے پاس ایک بڑا مقصد آ گیا ہو  — اور وہ اسی مقصد کی تلاش میں بھٹک رہا ہو —  ابھی جیسے ہم اس کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ ‘

ہری دوار۔ گنگا کی نگری۔  مایا پوری۔  ایک ملک میں رہتے ہوئے یہاں کی گنگا جمنی تہذیب کو جاننا مجھے اچھا لگتا ہے —  میں یہاں پہلے بھی آ چکا تھا۔

 دوسرے دن صبح میں ناشتہ کے بعد ہم نے ہوٹل چھوڑ دیا۔  صبح نکھری نکھری سی تھی —  ہوا شائیں شائیں چل رہی تھی۔

 چلتے ہوئے تھاپڑ ہمیں اس شہر کے بارے میں بتا رہے تھے —  اس شہر کا قدیم نام مایا تھا —  مایا پوری —  مایا پوری کو دھرتی کا نا بھی استھل کہا جاتا ہے۔  یعنی انسانی جسم میں ناف کو جو حیثیت حاصل ہے وہی دنیا کے نقشہ میں ہری دوار کو —  راجہ دکش کے یگیہ توڑنے کے بعد شیو بھگوان کو غصہ آ گیا اور اپنی اہلیہ ستی کے جسم کو کندھے پر اٹھا کر تانڈو کرنے لگے۔  کہتے ہیں اسی تانڈو میں ستی کی نا بھی ٹوٹ کر ہری دوار میں گری تھی —  کہتے ہیں راجہ بھگیرتھ جب گنگا کو لے کر آئے تو گنگا اس برہم کنڈسے ہوتی ہوئی بہی —  یہ بھگوان بدری ناتھ دھام جانے کا دروازہ ہے۔  اسی لیے اس جگہ کو ہری دوار کہا گیا۔ ‘

 تھاپڑ مسکرایا — ’ کسی کسی شہر سے کیسی کیسی کہانیاں وابستہ ہو جاتی ہیں  —  یہیں ہری دوار کے نیل پروت پر بیٹھ کر شیو نے منتھن میں نکلا ہوا ہلاہل، پیا تھا۔  زہر  یعنی وش کو کنٹھ یعنی گلے میں روک کر شیو، نیل کنٹھ بن گئے۔  اور یہاں کی شوالک پروت مالا نیل پروت بن گئی —  کہتے ہیں وش کا تاپ مٹانے کے لیے شیو نے گنگا کی جس لہر میں غوطے لگائے، وہ لہر اب بھی نیل لہر بن کر بہہ رہی ہے۔

 سمندر منتھن —

 میں اس لفظ پر آ کر ٹھہر گیا ہوں  —  ایک وش ہے، جسے میں نے پی رکھا ہے —  شاید جسے مجھ سے کہیں زیادہ اسامہ نے پیا ہے — پھر اس کے بعد اس نے گھر بھی چھوڑ دیا۔

راکشس اور دیوتاؤں کا یدھ۔

سمندرمنتھن —

شیو کا تانڈو —

ایک تانڈو اس وقت میرے جسم میں بھی چل رہا ہے۔  مگر لب سلے ہوئے ہیں  —  جسم بے حرکت —

اپنے ہی جسم کا ایک حصہ گم ہے —

 اور بس۔  اس کی تلاش رہ گئی ہے —

 ہم دیر تک ہری دوار کے چکر لگاتے رہے۔  وہاں کے مین بازار، موتی بازار بھی گئے۔  دوپہر کا کھانا وہیں کے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں کھایا۔  برہمکنڈ، ہڑ کی پوری … گنگا کی دودھیا دھار —  عقیدت مندوں کی اپنی دنیائیں ہوتی ہیں۔

 اب صبح سے شام ہو گئی تھی۔  ہم کتنے ہی لوگوں سے ملے۔  دکانوں میں پوچھا۔  سادھوؤں سے بات کی۔  شام گہری ہو گئی تھی۔  ایک سادھو نے ٹھہر کر بتایا۔  آگے سادھو آشرم ہیں۔  وہاں بہت سے سادھو ملیں گے۔  ناگا سادھو بھی ہیں۔  سنیاسی روڈ کہلاتی ہے وہ جگہ —  کنکھل کے نام سے بھی لوگ بتا دیں گے۔  وہاں دکش مندر بھی ہے۔  اکھاڑے بھی ملیں گے —  جیسے پنچایتی اکھاڑہ، نرمل اکھاڑہ —  اتنی معلومات ہمارے لیے کافی تھی۔  لیکن کنکھل کا پروگرام ہم نے دوسرے دن صبح پر ٹال دیا تھا — تھاپڑ نے کہا تھا، یہ وہ وقت ہوتا ہے جب سادھو مدرا پی کر بھگوان شیو کی طرح تانڈو کرنے لگتے ہیں۔

٭٭

 دوسرے دن صبح سنیاسی روڈ یا کنکھل کی تلاش میں ہمیں زیادہ پریشانی نہیں ہوئی۔  وہاں ایک قطار سے کئی آشرم یا اکھاڑے بنے ہوئے تھے۔  گیروا کپڑوں میں بے نیازی سے آتے جاتے سادھوؤں کو ہم سے کوئی مطلب نہیں تھا۔  ہوا تیز تھی —  دھول اڑ رہی تھی —  اکھاڑوں میں چہل پہل شروع ہو چکی تھی۔  عام طور پر گنگا میں ڈبکیاں لگا کر ہی یہ سادھو اپنی صبح کی شروعات کرتے ہیں۔  مجھے بتایا گیا تھا کہ ان اکھاڑوں میں غیر ملکوں سے آنے والے لوگوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔

ممکن ہے یہ اتفاق ہو یا کرشمہ کہ ہم نے جس سادھو کو پہلی بار اسامہ کی تصویر دکھائی وہ اسے پہچاننے والا نکلا۔

’  علوی …‘  سادھو نے مسکراتے ہوئے اشارہ کیا۔ ’ وہ بانس کا پھاٹک دیکھ رہے ہیں  — ؟‘

’  ہاں ‘

’  سیدھے وہاں چلے جائیے۔  وہ آچاریہ منی کا آشرم ہے۔  سب انہیں آچاریہ جی کہتے ہیں۔  کچھ ہی دیر میں وہ گھاٹ کے لیے روانہ ہو جائیں گے۔   ‘

ہم تیزی سے آچاریہ منی کے آشرم میں داخل ہو گئے۔  یہ باقی آشرم یا اکھاڑے سے مختلف تھا۔  یہاں سادگی بہت تھی۔  باہر دو تین چار پائیاں نکلی ہوئی تھیں۔  چھت کی جگہ لکڑیوں کے بڑے بڑے لٹھے تھے جن پر کھپڑوں سے چھاونی کی گئی تھی۔  اس کے ٹھیک نیچے تین دروازے بنے تھے۔  ایک دروازے کی طرف اشارہ کر کے بتایا گیا —  آچاریہ ابھی پوجا پاٹھ سے فارغ ہوئے ہیں۔  آپ مل سکتے ہیں۔

 اندر داخل ہونے کے بعد تھاپڑ اور میں نے ہاتھ جوڑ کر نمستے کیا۔

 آچاریہ مسکرائے —  آشیرواد دیا۔  آنے کا مقصد پوچھا۔  زمین پر چادر بچھی تھی۔  اور تخت لگا تھا۔ لکڑی کا تخت —  جس کے دونوں طرف مورتیاں رکھی ہوئی تھیں۔  آچاریہ اسی تخت پر بیٹھے تھے۔  کمرے میں پوجا کی اگر بتیاں جل رہی تھیں۔

وقت ضائع کیے بغیر تھاپڑ نے علوی کی تصویر آگے بڑھا دی —

 مسکراتے ہوئے آچاریہ بولے۔

 ’  علوی۔  اوہ  … اپنا بچہ ہے۔  رمتا جو گی —  ایک مہان آتمابستی ہے اس میں۔  ‘

مجھے حیرت ہوئی۔ آچاریہ نے میری طرف دیکھا۔  آنکھیں موند لیں  —  پھر کہا۔

’  تو آپ دلّی سے آئے ہیں۔  اس کے پتا  — ؟ ‘

’  جی ہاں۔  ‘

اور یہ آپ کے دوست؟ ۔ ‘

’  ہاں۔  اجے سنکھ تھاپڑ۔ ‘

’آچاریہ مسکرائے — مجھے پتہ تھا۔  ایک دن آپ لوگ اس کی تلاش میں آئیں گے۔  مگر کہاں تلاش کریں گے اسے — ؟ ‘

’  مطلب؟  ‘ میری دھڑکنیں بڑھ گئی تھیں۔

 ’  رمتا جو گی ہے —  میں نے بتایا نا۔  عام بچہ نہیں ہے۔  بھگوان نے کسی بڑے کاریہ کے لئے بھیجا ہے اسے۔  ایک مسلمان بچہ اس طرح ہم سادھو سنیاسیوں کا ہردے جیت لے۔  اسمبھو۔  وہ بھی اپنے دھرم کا پالن کرتے ہوئے۔  ‘

آچاریہ ہنسے۔  ورشوں بعد اس کی اُپستیتھی نے آبھاس دلایا۔  کہاں کا دھرم۔ سارے دھرم تو ایک ہیں  —  سرو دھرم کی شاکھائیں جہاں ملتی ہیں۔  وہ اومکار ہے۔  وحدہ ٗ لا شریک لہٗ …‘

’  وہ آپ کے ساتھ اجودھیاسے یہاں آیا۔  مطلب ہری دوار؟  ‘

تھاپڑ نے بے چینی کی کیفیت میں پوچھا —

 ’ہاں۔

’پھر کہاں گیا وہ  —  ؟‘

 آچاریہ مسکرائے — ’تھوڑا دھیریہ رکھیے۔  کہاں گیا، اس سے زیادہ یہ جاننا ضروری ہے کہ کیوں گیا —  ہم سادھو کہلاتے ہیں۔  جیون بھر بھگوان کو جاننے میں اس کی تپسیا میں لین رہتے ہیں۔ لیکن کیا ملتا ہے۔  کیا ملتا ہے بھگوان؟ کبھی کبھی سب پاکھنڈ لگتا ہے —  دھرم تو دلوں کو جوڑتا ہے —  لیکن دیش میں جوہو رہا ہے —  وہ ہندومسلم —  دھرموں کے بٹوارے —  وہ ہندو یہ مسلم۔  ایک سمے تھا جب ہم بھی اسی رنگ میں رنگ گئے تھے۔  اور شاید اس سے باہر بھی نہیں نکلتے۔   ‘

آچاریہ نے کسی کو آواز دی — پاٹھک جی۔ ‘

دھوتی سنبھالتے ہوئے کندھے پر گیروا شال لپیٹے پاٹھک جی آ گئے۔

’  ذرا بتایئے انہیں۔  جب ہم ترلوکی بابا کے آشرم میں گئے تھے —  کیا دیکھا — ؟ ‘

پاٹھک جی مسکرائے۔ ’  عجیب نظارہ تھا۔  ترلوکی بابا پوجا میں لین تھے۔  اور وہیں کچھ فاصلے پر وہ بالک نماز پڑھ رہا تھا —  ہم چھ سات لوگ تھے —  سب کے لیے یہ کرشمہ تھا۔  کیونکہ ہم ترلوکی بابا کو بھی اچھی طرح جانتے تھے۔  ادھر بابا نے پوجا ختم کی۔ اور ادھر اس نے نماز — دو بجے کا سمے رہا ہو گا۔  آچاریہ نے ہنس کر پوچھا تھا۔  بابا، یہ کیا چل رہا ہے۔  تب تک بالک نماز پڑھ چکا تھا۔

’  پھر۔ ؟  ‘

’  اس سے پہلے کہ ترلوکی بابا ہمیں کچھ بتاتے — بالک پوتر ہردے سے ہمارے پاؤں دھلانے کے لیے پانی لے آیا۔  ہمیں شردھا سے پرنام کیا۔  میرے ایک ساتھی کو صبح سے بخار چڑھ رہا تھا۔  بالک نے یہ کیفیت بھانپ لی۔  اسی سمے اس نے ساتھی کے لیے دوا کا انتظام بھی کر دیا —  پھر میں نے دیکھا۔  اکھاڑے میں آنے والوں کے ساتھ وہ جو ادب دکھا رہا ہے‘ اچھے اچھے سنتوں میں یہ بھاؤ نہیں ہو گا۔  ‘

’  جائیے پاٹھک جی۔   ‘

پاٹھک جی کو بھیج کر آچاریہ گمبھیر آواز میں بولے — ’ ترولوکی نے کہا، مجھے پتہ ہے —  وہ میرے دھرم کا نہیں  —  دھرم تو انسانوں کا ہوتا ہے نا آچاریہ جی۔  اور اس بالک کا سوا بھاؤ — ترلوکی نے کہا۔  یہ بالک سویم نہیں آیا۔  یہ دیو دوت ہے۔  یہ بھیجا گیا ہے ہمارے مارگ درشن کے لئے۔ ‘

آچاریہ نے ٹھنڈی سانس لی — ’ہم نے علوی کی کہانی جان رکھی تھی۔  ترلوکی بابا نے سب بتایا تھا۔  وہاں سے وہ میرے ساتھ ہولیا۔  اور یہاں جتنے بھی اکھاڑے ہیں اس نے سب کا دل جیت لیا۔  جب سب کا مالک ایک تو انتر کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں۔  ‘

’  لیکن آپ کو کبھی ایسا نہیں لگا کہ وہ ایسا کرنے پر کیوں مجبور ہے —  ؟‘

تھاپڑ نے پوچھا —

 ’ آہ۔ مجبور نہیں۔  وہ مجبور نہیں ہے —  یہ سمے ہے۔  ہم نیئتی کہتے ہیں اسے۔  اور اسی لیے ہم نے اسے رمتا جو گی کہا ہے۔  وہ ایک جگہ نہیں ٹھہرے گا۔  میں نے سوچا تھا۔  بہت سوچا —  کہ وہ یہ سب کیوں کر رہا ہے — وہ اپنے دھرم کے لوگوں کے درمیان کیوں نہیں۔  ‘

’ہاں  —  یہی بات۔  ‘

آچاریہ ہنسے  — ہمارے دھرم سے کوئی علوی اٹھے اور وہ پہنچے تمہارے لوگوں کے بیچ —  علوی اپنے لوگوں کو کیا سمجھاتا —  لیکن کہیں کوئی ایک بات اس کے دماغ میں پھنس گئی تھی۔   ‘

وہ کہتے کہتے ٹھہرے —

میں بغور ان کی باتیں سن رہا تھا —

 تھاپڑ نے میری طرف دیکھا۔  آچاریہ سنجیدہ تھے —

’ میں آپ سے پوچھوں گا نہیں کہ علوی کے ساتھ کیا ہوا —  وہ گھر سے کیوں بھاگا۔  اور بھاگنے کے بعد اپنے دھرم پر قائم رہتے ہوئے وہ ہمارے لوگوں سے کیوں ملا —  بھاگیہ —  نہیں کیول بھاگیہ نہیں۔  رہسیہ —  بھگوان کا رہسیہ ہے۔  شاید وہ  سدھ کرنا چاہتا تھا کہ …‘

آچاریہ مسکرائے — ’جب کہ اسے سدھ کرنے کی اوشکتا نہیں تھی۔  جو سداسے اندھکار میں ہیں، ہم ان کی آنکھیں نہیں کھول سکتے —  بھگوان بھی نہیں کھول سکتا  — لیکن جیسا کہ ترلوکی بابا نے کہا —  وہ دیو دوت بن کر ہمارے بیچ آیا —  ہم میں ایک نئی الکھ جگانے۔   ‘

’  تو کیا اب وہ یہاں نہیں ہے — ؟ ‘

’  ہاں  ‘

پھر کہاں گیا ہو گا — ؟‘

’یہ تو وہی بتائے گا …‘

 ’ آپ نے پوچھا نہیں  — ؟‘

 ’رمتا جو گیوں کا کوئی ٹھکانہ ہوتا ہے —  آج یہاں، کل وہاں  — ،

’  پھر بھی۔  ‘

 کوئی انہیں جانتا —  لیکن آپ اداس مت ہوئیے —  کیونکہ وہ عام بچہ نہیں ہے۔  ‘

’  لیکن مجھے بیحد عام بچہ چاہیے — خاص نہیں۔  ‘ میری آواز کمزور تھی۔  آچاریہ نے غور سے میری طرف دیکھا —  بھگوان بدھ نے مرت انسان کو دیکھا اور دنیا کا موہ چھوڑ کر نکل پڑے — ایسی ہزاروں کہانیاں ہر دھرم میں مل جائیں گی۔  میرا وشواس ہے —  بھگوان آپ کے بیٹے سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے۔  آپ پتا ہیں۔  آپ کی چنتا واجب ہے۔  ‘

’  پھر بھی جاتے ہوئے کچھ تو بولا ہو گا —  یاد کیجئے آچاریہ جی — ‘ تھاپڑ کی آواز میں تجسس تھا۔

آچاریہ جی نے پھر آواز دے کر پاٹھک کو بلایا۔  پاٹھک جی دندناتے ہوئے آ گئے۔

’  آدیش  …؟‘

’ آپ کو یاد ہے، جس دن وہ بالک گیا تھا۔   … ‘

’ ہاں آچاریہ جی۔  سبھا سے کچھ لوگ آئے تھے۔  رات میں وشرام کیا تھا یہاں۔  ‘

’  کتنے لوگ تھے۔   ‘

’  کل سات لوگ۔  ‘

’  کیا یہ کسی کو پتہ ہے کہ وہ لوگ کہاں سے آئے تھے  — ؟‘

’نہیں آچاریہ جی۔   ‘

’  ذرا کسی سے پوچھ کر دیکھئے۔  ‘

’  کوئی لابھ نہیں۔  اکثر سبھاسے لوگ آتے ہیں۔  رکتے ہیں اور چلے جاتے ہیں  —  آپ ہی کا آدیش ہے کہ سادھوؤں کو زیادہ تنگ نہ کیا جائے۔ ‘

’  جائیے پاٹھک جی۔  ‘

پاٹھک جی کے جانے کے بعد آچاریہ جی دل ہی دل میں کچھ سوچتے رہے پھر بولے۔

’ وہ لوگ ہندو مہاسبھا سے آئے تھے۔  یا سنگھ سے۔  علوی ان لوگوں کے ساتھ جانا چاہتا تھا —  ‘ وہ ہنسے —  ’چلا گیاہو گا۔  بہتے پانی اور جو گی کو کون روک سکا ہے۔  لیکن اس کی کوئی سوچنا جب بھی ہمیں ملے گی تو ہم آپ کو ضرور بتائیں گے۔ ‘

’  کیا  — ‘ اس بار میں نے چونک کر تھاپڑ کی طرف دیکھا۔

تھاپڑ نے آچاریہ کی طرف۔

آچاریہ سنجیدہ تھے — ’ سنسار ایک بھید ہے۔  رہسیہ ہے۔  یہ بالک بھی ایک رہسیہ ہے۔  وہ من کی شانتی چاہتا ہے۔  اور اس شانتی کے پیچھے وہ بھٹک رہا ہے۔  کبھی اس دوار۔  کبھی اس دوار۔  لیکن وہ غلط نہیں ہے۔  وہ کچھ برا نہیں کر رہا۔  بلکہ وہ کچھ اچھا ہی کر رہا ہے۔  تو اسے کرنے دیجئے۔  ‘

٭٭

اب ہم بڑے بازار سے گزر رہے تھے۔  یہ ہری دوار کے بھیڑ والا علاقہ تھا۔  مجھے بار بار غصہ آ رہا تھا۔

’  وہ دنیا بدلنے چلا ہے۔  اور وہ اب ہندو مہاسبھا یا آر ایس ایس کے لوگوں کے ساتھ ہے۔  مگر کہاں  — نہیں معلوم ‘

’  یہ تم سوچ رہے ہو کہ وہ دنیا بدلنے چلا ہے۔   ‘

 ’  پھر کیا سوچوں ؟ ان ساری باتوں کا مطلب کیا نکلتا ہے۔  ‘

تھاپڑ گہری سوچ میں تھا —

’مطلب وہی ہے جو ایک نظر میں ہمارے سامنے ہے —  کیا وہ سچ مچ خود کو ثابت کرنا چاہتا ہے —  یہ کہ ہر مسلمان برا نہیں ہے —  ‘

’ہاں  —  ‘ اس بار میں نے غصہ کا مظاہرہ کیا —  مگر کیا اس کے لیے وہ سب کرنا ضروری ہے جو اسامہ کر رہا ہے۔  وہ بھی الگ الگ نام کے ساتھ۔  ‘

’مگر ایک شناخت کے ساتھ۔  ‘

’  یہ تم پہلے بھی بتا چکے ہو۔  مگر اس سے فائدہ کیا —  وہ اس سے ہندستان کی تقدیر بدل دے گا۔  ‘

’  میں یہ نہیں جانتا کہ وہ ہندستان کی تقدیر بدلے گا یا نہیں۔  لیکن اس نے اپنی طرف سے ایک چھوٹی سی کارروائی شروع کی ہے۔   ‘

’ لیکن جیسا آچاریہ نے بتایا، اب وہ سنگھ کے لوگوں کے ساتھ ہے —  اور سنکھ کے لوگوں کے ساتھ ہونے کا مطلب جانتے ہو؟‘

تھاپڑ سنجیدہ تھا — ’ وہ اپنا راستہ بنا رہا ہے —  تم سے اور دوسروں سے الگ کا راستہ۔  اسے بنانے دو۔  ‘

’  کیا وہ واپس آئے گا؟  ‘

 اس بار میری آواز میں تھرتھراہٹ شامل تھی —

’ضرور آئے گا —  ‘

٭٭

 اب دلّی واپس لوٹنا تھا۔

قدم بوجھل تھے۔  اور کہیں نہ کہیں ایک شکست کا احساس بھی شامل —  مجھے رباب کی یاد آ رہی تھی۔  رباب کو کیا جواب دوں گا۔

تب تک فیصلہ نہیں آیا تھا —

لیکن فیصلہ آنے میں چند ہی دن رہ گئے تھے۔

(۳)

بٹلہ ہاؤس علاقے میں زندگی لوٹ آئی تھی۔  لوگ بھولنے لگے تھے کہ کبھی اس علاقے میں انکا ؤنٹر کی بے رحم اور سنسنی خیز واردات بھی ہوئی تھی۔  میں ارشد پاشا …اجودھیا اور ہری دوار سے ناکام و نا مراد واپس تو لوٹ آیا تھا لیکن جیسے جیسے فیصلے کی گھڑی قریب آ رہی تھی، میری دھڑکنیں بڑھتی جا رہی تھیں۔  علوی، اسامہ کے اسقدر قریب تھا کہ وہ اجودھیا اور ہری دوار میں اسی نام سے جانا گیا —  اور اتنے سارے ناموں میں اس نام کو اپنانے کا مطلب صاف تھا —  اسامہ کے لیے اس نام میں کتنی کشش، کتنی مضبوطی تھی۔

 رباب ڈری ہوئی تھی —

’  کیا تم سچ مچ علوی کے خلاف  …؟‘

آنکھوں میں دہشت کا چہرہ ابھرتا ہے۔  میں زور سے چیختا ہوں اور کوئی راستہ ہے۔ بتا سکتی ہو؟ کوئی راستہ ؟‘

’  ہونہہ  ‘

 رباب خاموش ہے — ’ فیصلہ کیا ہو گا؟  ‘

’ یہ میں بھی نہیں جانتا  ‘

’  فیصلے کو کیا ہونا چاہئے — ؟  ‘

 ’  یہ بھی میں نہیں جانتا۔  مگر …‘

’  مگر کیا …‘

میں نے آنکھیں جھکا لیں  — ان کے حق میں  …‘

’  یعنی اپنے حق میں نہیں ؟ ‘رباب کا چہرہ پتھر ہو رہا تھا — ہاں میں بھی یہی سوچتی ہوں۔  فیصلہ ہمارے حق میں نہ ہو تو بہتر ہے۔

رباب نے گہری سانس لی۔

 دشینت کی دھمکیوں نے گھر میں خوف کے انجکشن لگا دئیے تھے۔  میں نے یہ باتیں جان بوجھ کر تھاپڑ کو نہیں بتائی تھیں۔  اور بتانے سے فائدہ بھی کیا تھا۔  اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے اچانک ریڑھ کی ہڈی میں داخل ہوتی ہوئی سرد لہروں کو محسوس کر لیتا۔  ڈراؤنے خواب مجھے گھیر کر بیٹھ جاتے۔  ہوش میں آنے تک جسم کانپ رہا ہوتا۔

 کیاسارے فیصلے ڈر ڈر کے لینے ہوں گے — ؟ کیا ساری زندگی اسی ڈر کی آغوش میں بسر کرنی ہو گی — ؟ یہ سوالات مجھے زخمی کرتے رہتے۔  مضبوط ہوتے ہوتے دشینت کی دھمکیوں کی زد میں آ جاتا۔  اور پھر اندر کی کمزوری پیر تسمہ پا کی طرح مجھے اپنے قابو میں کر لیتی —

مگر اس کے باوجود مجھے فیصلے کا انتظار تھا۔

 وہ فیصلہ جو مجھے خوفزدہ کر رہا تھا —  جس سے میرے گھر کا سکون، امن چین، یا بربادی اب وابستہ ہو گئی تھی —  لیکن اس دھمکی کے باوجود میں یہ فیصلہ اپنے حق میں چاہتا تھا۔

٭٭

میں ارشد پاشا —

ہندستان کی پچیس کروڑ اقلیت میں سے ایک۔  ایک ڈراسہما مسلمان۔  اور مجھے یہ کنفیس کرتے ہوئے ذرا بھی ہچک یا گھبراہٹ نہیں ہے کہ بیحد سیکولر ہونے کے باوجود میں آنے والے فیصلے کو اپنے نام دیکھنا چاہتا تھا —

لیکن کیوں  — ؟

جہاں میری زندگی خود داؤ پر لگی تھی —

جیسے میری اپنی چیخ میرے گلے میں پھنس گئی تھی —

 شام میں تھاپڑ آیا۔

وہ ایک ٹک میرے چہرے کو دیکھ رہا تھا —

’’تمہیں کیا لگتا ہے۔  اس بار ڈرامے کے رنگ بدل جائیں گے —  ڈرامہ ہر بار ایک ہی ہوتا ہے —  لیکن ہم لوگ کٹھ پتلیوں کی طرح ان ڈراموں کا ایک حصہ بنے رہتے ہیں۔  حکومت تمہیں خوش کرنے کے لیے کچھ کمیٹیاں بنا دیتی ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد کتنا عمل ہوا —  رنگ ناتھ مشرا کمیشن میں کیا ہوا؟ اور تمہاری لبراہن کمیشن  — ؟‘

 تھاپڑ ہنسا —

’جو حادثے کے سب سے بڑے مجرم ہوتے ہیں  — یہ قانون اور انصاف ان کا کچھ نہیں بگاڑ پاتے۔  اٹھارہ سال پہلے کی ساری کہانی ابھی بھی لوگوں کے سامنے ہے۔  رپورٹس ہیں  —  بیانات ہیں اور سب سے بڑھ کر سی ڈی اور تصویریں ہیں  —  لیکن لبراہن کمیشن نے سارے بڑے ملزموں کو انصاف دلا دیا — اور جھٹ بھیئے کاریہ سیوکوں کو مجرم قرار دیا۔  وہ کاریہ سیوک جو چند سکوں یا پاگل پن کے جنون میں ان بڑے لوگوں کے اکسانے پر مسجد توڑ رہے تھے۔  بس وہی مجرم گردانے گئے اور باقی لوگوں کو کمیشن نے راحت کی سانس لینے پر مجبور کر دیا۔ ‘

 تھاپڑ نے غور سے ارشد پاشا کی طرف دیکھا — ’’اور ابھی بھی تم کسی اندھیرے میں بھٹک رہے ہو’ تو میں کہوں گا کہ اس اندھیرے سے باہر نکل آؤ ارشد پاشا —  یہاں کوئی اخلاقیات نہیں ہے۔  نہ کوئی دلیل ہے نہ انصاف ہے۔   ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہو گا۔  ‘

میری آنکھیں ابھی دھند میں کھوئی ہوئی تھیں۔  بیک وقت ان میں اسامہ کا بھی چہرہ تھا اور دشینت کا بھی۔ میری آواز بوجھل تھی۔

 ’کچھ بھی ہو۔  لیکن ہم ایک فیصلہ چاہتے ہیں۔  اپنی حمایت میں ہونے والا ایک فیصلہ —  اس فیصلہ کا انتظار ہمیں آزادی کے بعد سے رہا ہے —  آزادی سے اب تک کوئی فیصلہ ہماری حمایت میں نہیں آیا —  جھوٹے دلاسے دیئے گئے۔  تسلیاں بہت ملیں۔  یہاں تک کہ ہم اس ملک کا ایک مضبوط ووٹ بینک بھی بن گئے —  وہ ووٹ بینک جو کسی حکومت کو بنا سکتی ہے اور گرا بھی سکتی ہے۔  لیکن میرے دوست تھاپڑ —  ہم ایک صحیح فیصلے کو ترس گئے۔  مجھے نہیں معلوم کہ آنے والا فیصلہ کتنا تاریخی ہو گا۔  ہماری حمایت میں ہو گا یا نہیں لیکن ہم خاموش ہیں  —  لب سی دیئے گئے ہیں  — ملک کی پچیس کروڑ آبادی۔ سانس روکے اس فیصلے کا انتظار کر رہی ہے۔  جانتے ہو تم کیوں ؟ ‘

تھاپڑ خاموش تھا —  اس کی آنکھیں بغور میرا جائزہ لے رہی تھیں۔

میں نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔  پھر بولنا شروع کیا —  ’جیسا کہ میں نے پہلے کہا۔  آزادی سے لے کر اب تک ہم ایک صحیح فیصلے کو ترس گئے —  اپنے حق، اپنی حمایت میں ہونے والے فیصلے کو —  ہمیں مضبوط کرنے کی ہر کارروائی کبھی کبھی دوغلی لگتی ہے۔  کہاجاتا ہے کہ مسلمان مین اسٹریم میں نہیں ہے۔  کیسے رہیں گے مسلمان آپ کی مین اسٹریم میں ؟ جہاں ہر بار انہیں خوش کرنے کے لیے حکومت بچوں کی ایک ڈگڈگی تھما دیتی ہے —  بہت سے چھوٹے چھوٹے فیصلے  …اور یہاں جامعہ میں جو کچھ ہوا۔  اپنے بٹلہ ہاؤس میں  —  ساری دنیا اس سچ کو جاننے کے باوجود خاموش ہے —  دو معصوم بچے مار دیئے جاتے ہیں۔  تیرہ معصوم بچوں کا کیریئر چھین لیا جاتا ہے اور خود کو صحیح ثابت کرنے کے لیے میرا بچہ اسامہ گم ہو جاتا ہے — ہری دوار سے اجودھیا تک بھٹکتا ہوا —  ایک انصاف مجھے بھی چاہئے۔  میرے بیٹے کو ملنے والا انصاف — اور شاید اسی لیے میری نظریں اس بڑے انصاف کا راستہ دیکھ رہی ہیں۔  مجھے نہیں معلوم آنے والے کچھ برسوں میں میرا کیا ہو گا۔  اسامہ واپس آئے گا یا نہیں  — ؟ یا خود کو اس ملک کا سیکولر شہری ثابت کرنے کے لیے اپنی شناخت کے ساتھ بھٹکتا پھرے گا۔ ‘

 میری آنکھوں میں آنسوتھے  — ’ شاید تم اس سچ کو اس گہرائی سے نہیں سمجھ پاؤ تھاپڑ کہ مجھے اس فیصلے میں ’ اپنی چھوٹی سی مضبوطی کی امید کیوں نظر آ رہی ہے۔  لیکن 64برسوں سے ہم امید لگائے اپنی حمایت میں ہونے والے ایک فیصلے کے منتظر ہیں۔  ‘

کمرے میں خاموشی چھا گئی تھی۔  تھاپڑ چپ تھا۔  نظریں جھکی ہوئی تھیں  —  ان اٹھارہ برسوں میں ایک دنیا تبدیل ہو چکی تھی —  اس درمیان کتنی حکومتیں گئیں اور کتنی نئی حکومتوں نے مورچہ سنبھالا۔  عالمی افق پر کیسے کیسے حادثے رونما ہوئے —  اب نئی حکومت تھی اور اٹھارہ برسوں کا رکا ہوا فیصلہ آنے والا تھا۔  معاملہ سنگین تھا۔  میڈیا، بھائی چارگی اور محبت کو فروغ دہے رہے تھے۔  یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ جو بھی فیصلہ آئے گا وہ ہندومسلم دونوں دل سے قبول کریں گے۔  لیکن پھر بھی سیاست کا ماحول گرم تھا —  اور سب کی نگاہیں آنے والے تاریخی فیصلے پر ٹکی ہوئی تھیں۔

 کچھ دیر بعد اس بھیانک خاموشی کو توڑتے ہوئے تھاپڑ نے لمبی سانس بھری۔

’ شاید تم ٹھیک کہتے ہو۔  ایک بڑا فیصلہ کئی چھوٹے چھوٹے زخموں کو بھر دیتا ہے۔  ایک بڑے فیصلے سے کئی چھوٹے فیصلوں کے لیے ایک امید کی کرن جاگ جاتی ہے۔  ‘

میری آنکھوں میں چمک لہرائی —

’اور شاید اسی لیے میں اس فیصلہ کا منتظر ہوں۔  یہ فیصلہ میرے حق میں ہوتا ہے تو یہ مجھے سکون دینے کے لیے کافی ہو گا۔  ‘

تھاپڑ نے کرسی پر کروٹ بدلی۔

’تو سکون مل جائے گا تمہیں ؟ کیوں ارشد پاشا —  اور تم ابھی بھی سوچ رہے ہو کہ فیصلہ تمہارے حق میں آنے والا ہے؟

’  ہاں ‘

 ’  اور ایسا سوچنے کی وجہ ہے تمہارے پاس —  یہ تمہارا میڈیا —  اور اس کی بریکنگ نیوز —  جس نے اس بار پھر جھوٹے دلاسوں سے تم مسلمانوں کا پیٹ بھر دیا ہے۔   ‘

 ’  مطلب — ؟ ‘

 تھاپڑ ہنسا —  میڈیا پر مت جاؤ۔  حکومت، میڈیا، فیصلے، یہ سب پہلے سے طے ہوتے ہیں۔  ابھی تمہاری حمایت کی ہوا بہہ رہی ہے —   تاکہ تم لوگوں کے جذباتی بیانات بھی آ جائیں۔  کہ جو بھی فیصلہ ہو گا تمہیں منظور  —  کیونکہ میڈیا نے اپنی خبروں سے کچھ ایسا ہی ماحول پیدا کیا ہے —  جیسے اس بار یہ فیصلہ تمہارے حق میں جانے والا ہو۔   ‘

’  ہاں  ‘

’  اور تمہارے مسلم لیڈران کے بیانات بھی آنے لگے۔  کہ جو بھی فیصلہ آئے گا وہ انہیں منظور ہو گا —  یہ ان کی خوش فہمیوں کا نتیجہ ہے —  مگر ارشد پاشا  — تمہیں کیا معلوم کہ فیصلے کی بھنک انہیں نہیں لگی ہو۔   ‘

’  ممکن ہے۔  ماحول کو بارودی اور بھیانک بنانے سے بچنے کے لیے حکومت جوا کھیلنا چاہتی ہے۔   ‘

’  مطلب  — ؟ ‘

’  پہلے فیصلے کی ایک تاریخ رکھی گئی۔  اب دوسری تاریخ دے دی گئی —   کیوں ؟   ‘

’  نہیں جانتا  ‘

’  تاکہ گرمائے ہوئے ماحول کو کچھ تو شانت کیا جا سکے —  اور اس لیے مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے کہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہے — اور یہ فیصلہ کبھی کسی قیمت پر تمہارے حق میں نہیں آنے والا  — ممکن ہے تمہارے لیڈران بھی خریدے جا چکے ہوں۔  اور ان سے یہ بیانات بھی حکومت کی شہہ پر دلائے جا رہے ہوں۔  ارے اس ملک میں سب ممکن ہے دوست  —   میں اب بھی کہتا ہوں۔  خوش فہمیوں کی دنیا سے باہر نکل کر اس پورے معاملے کو دیکھو اور سمجھو۔  ‘

’  میرا دل نہیں مانتا ۔ ‘

’اور میرا دل کہتا ہے۔  تم اس بار بھی یہ جنگ ہار چکے ہو ہمیشہ کی طرح۔  اس بار بھی یہ فیصلہ تمہاری حمایت میں نہیں جائے گا۔  دن ہی کتنے بچے ہیں۔ مجھے اپنی آنکھوں کے آگے یہ ساری سیاسی کارروائی اب صاف دکھائی دے رہی ہے۔  جو تم نہیں دیکھ پا رہے ہو میرے دوست،  ‘

میں نے نڈھال ہو کر کرسی پر سر ٹیک دیا۔

’ تم نے ہمت توڑ دی۔  ‘

 ’نہیں۔  صرف تمہیں تمہاری خوش فہمیوں سے نکال باہر کر رہا ہوں۔  ‘

 ’  اس فیصلے میں کہیں نہ کہیں میرا بیٹا بھی ہے۔   ‘

 ’تمہارا ساٹھ برس۔  آزاد ہندستان کے ساٹھ برس۔  ساٹھ برسوں کے زخم —  اور اس لیے تم اس ایک تاریخی فیصلے کے ساتھ ان سارے زخموں کو بھرنا چاہتے ہو۔  ‘

 ’شاید۔   ‘ میری آواز درد میں ڈوبی ہوئی تھی —   مجھے انتظار ہے۔  شاید اس لیے بھی کہ ایک بے انصافی کہیں نہ کہیں میرے بچے اور میری قوم کے ساتھ ہوئی ہے۔  ‘

’ تمہارے لیڈر بھی تمہاری قوم کی اس ٹھگی کے ذمہ دار ہیں  —  ‘

’ میں وہ پرانے صفحے نہیں کھولنا چاہتا تھاپڑ —  میں صرف اپنے بیٹے کے لیے ایک انصاف چاہتا ہوں  —   ایک بڑے انصاف کے پردے میں اس چھوٹے انصاف کا بہانہ بھی تلاش کر لوں گا کہ آنے والی سیاست میرے مسلمان بیٹے کے کیریئر سے کھلواڑ نہیں کرے گی … وہ ایک دن واپس لوٹے گا —  اپنی سچ مچ کی آزادی اور خود داری کے ساتھ۔   ‘

’  میں بھی چاہتا ہوں کہ وہ واپس آئے۔  لیکن میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ تم پتھریلی زمین پر کھڑے ہو کر اس سچ کو جانو، جس سچ کو دیکھنے سے تمہاری آنکھیں آج بھی کترا رہی ہیں۔   ‘

 تھاپڑ نے معنی خیز انداز میں میری طرف دیکھا —  پھر کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا —

’ اب چلتا ہوں دوست۔  مگر میرا ایک مشورہ ہے۔  مان لو تو بہتر۔  زیادہ خوش فہمیاں مت پالو۔  خوش فہمیاں اکثر زندگیاں چھین لیا کرتی ہیں  —  ‘

 پھر وہ ٹھہرا نہیں۔  ہاتھ ملا کر تیزی سے باہر نکل گیا —

میں گہرے سناٹے میں تھا —

اور شاید ابھی اس لمحہ، اس گہرے سناٹے سے باہر نکلنا میرے لیے مشکل تھا —

٭٭

قدم شل تھے۔  میں دیر تک کمرے میں ٹہلتا رہا۔  یادوں کی پرچھائیاں ایک بار پھر آنکھوں کے آگے جمع ہو گئی تھیں۔

ان میں دشینت بھی تھا — ’ فیصلہ ہمارے حق میں آتا ہے تو ٹھیک، ورنہ علوی کے خلاف … سمجھ رہے ہو نا ملاجی۔   ‘

تھاپڑ کاسنجیدہ چہرہ سامنے ہوتا —  ’تم یہ جنگ ہار چکے ہو۔  یہ فیصلہ تمہارے حق میں کبھی نہیں جائے گا۔  ‘

معزز قارئین ‘

اور انہی دنوں میں بھیانک خوابوں کی زد میں تھا — رات ہوتے ہی اچانک کسی لمحہ میری نیند کھل جاتی۔  اور کمرے میں ہلتی ڈولتی پرچھائیوں کا رقص مجھے خوفزدہ کرنے کے لیے کافی ہوتا —   نیند میں آسیبی چہرے ہوتے … جو مجھے گھیر کر بیٹھ جاتے۔  اور میں دیر تک ان ڈراؤنے خوابوں سے باہر نہیں نکل پاتا —  ان دنوں میں نے ایسے کئی ڈراؤنے خواب دیکھے جن میں کچھ کا ذکر آگے آئے گا۔  مگر یہ خواب حیران کرنے والے تھے۔  اور میرے سامنے یہ خواب اس نئی دنیا کا ایک بالکل ہی نیا منظر نامہ پیش کر رہے تھے۔

زندگی کے اس موسم میں بھیانک وارداتوں کے درمیان، کبھی کبھی ہلکی دھیمی بارش کے قطروں کا احساس آپ کو توانائی دینے کے لیے کافی ہوتا ہے — یہ رم جھم بارش کی سوغاتیں آپ کو نئے سرے سے جینے کے لیے تیار کرتی ہیں۔  اور اس رات ایسا ہی ہوا تھا —  تھاپڑ نے ہمت توڑ دی تھی اور رباب زخموں پر مرہم لگانے کی تیاری کے ساتھ میرے سامنے تھی۔

 اور ایک بار پھر میں خدا کے آگے سجدہ کرنے کو مجبور تھا کہ اس سفر میں رباب کا ساتھ نہ ملا ہوتا تو میں کتنا ٹوٹ چکا ہوتا۔  بیٹے کی گمشدگی کے باوجود میرے لیے وہ اپنے غم اور صدمے کو بھول گئی تھی۔

 سنو نا …

رات گہری ہو گئی تھی۔  باہر کتے بھونک رہے تھے۔

’ہاں بولو …‘

ایک سر پرائز۔  دینی ہے تمہیں۔

میں چونک گیا تھا۔  اس خوں آشام موسم میں سرپرائز کی بات۔ ؟

 میں رباب کی طرف دیکھتا ہوں۔

’ سنونا۔  بچے ایک دن بڑے ہو جاتے ہیں۔  اور پھر ماں باپ کا گھر چھوڑ دیتے ہیں۔ ‘

’ہاں  ‘

’بیٹیاں بھی اور بیٹے —  اب تو دونوں ہی اپنی اپنی منزلوں اور زندگیوں کے لیے گھر چھوڑ دیتے ہیں۔ ‘

 ’  ہاں  ‘

 ’  میں نے بھی سوچ لیا ہے۔  اسامہ اپنے کیریئر، اپنی منزل کے لیے باہر گیا ہوا ہے۔  لوٹ آئے گا ایک دن۔ ‘

رباب کے چہرے پر کشمکش کے آثار تھے —

’پھر چلا جائے گا۔  ہے نا … بچے تو پرندے ہوتے ہیں۔  پرندوں کو روک سکتے ہیں آپ …؟‘

رباب میری آنکھوں میں جھانک رہی تھی —

’  میں نے بھی دل پر پتھر رکھ لیا ہے۔  شمیمہ یاد ہے  …؟‘

’  ہاں  ‘

’  کل شمیمہ کولے آؤں گی۔  ‘

 باہر کتے اب بھی بھونک رہے ہیں۔  میں اچانک چونک جاتا ہوں۔  رباب مسکرارہی ہے —

’  وہ کہاں جا سکتی ہے —  میں برابر یہ سوچتی رہی۔  پھر خیال آیا کہ ان لوگوں کے پاس کوئی تو پتہ ہو گا۔  پھر مجھے اس کے ایک جاننے والے کا پتہ ملا۔  وہ دلشاد کالونی رہتے ہیں  —  جمنا پار  —  میں بھٹکتے ہوئے وہاں پہنچ گئی۔  اور اتفاق دیکھو —  شمیمہ وہاں مل گئی۔  میلے کچیلے لباس میں۔  چہرے پر ہوائی اڑتی ہوئی۔  دو ہی دنوں بعد وہاں سے وہ کلکتہ جانے والی تھی۔   ‘

 رباب نے میری طرف دیکھا۔  پھر پلکیں جھکا لیں  —

’  مجھے یقین تھا، اس بار تم کچھ نہیں بو لو گے۔  وہ میرے ساتھ ہی آ جاتی۔  مگر اس نے ایک دن کا وقت مانگا۔  ان آنکھوں کا بیان ممکن نہیں  — مجھے دیکھ کر کیسے کھل گئی تھی —  بالکل ننھی سی بچی کی طرح وہ میرے گلے سے لگ گئی۔  ‘

’تو تم اسے لینے جاؤ گی۔  ؟‘

’  نہیں۔  اس کا ایک چاچا ہے۔  اس کو پتہ اور پیسے دے آئی ہوں۔  شمیمہ گھر آ چکی ہے۔  اس لیے پریشانی نہیں ہو گی۔   ‘

رباب کی آنکھیں کہیں دور دیکھ رہی تھیں  — ’ اب وہ ساتھ رہے گی۔  اسامہ آئے گا تو اسے بھی اچھا لگے گا۔  وہ ہمیشہ کہتا تھا۔  ایک بہن لے آؤ میرے لیے۔  مجھے امید ہے شمیمہ ایک بار پھر اس گھر کو گلزار کر دے گی۔   ‘

 میں نے ٹھنڈی سانس لی۔  رباب کے آخری جملے سے جسم میں ایک ٹھنڈی لہر دوڑتی چلی گئی تھی۔  گھر کو گلزار  …؟ وہ بھی ایسے موسم میں جب دشینت کی دھمکیاں مجھے کمزور کر رہی ہیں اور میری نظر آنے والے فیصلے پر ہے —  لیکن میں نے کچھ بھی کہنا مناسب نہیں سمجھا۔  اٹھ کر بیڈروم میں آ گیا۔  نیند مجھ پر آہستہ آہستہ سوار ہو رہی تھی۔

٭٭

 

 

(4)

سلسلہ ڈراؤنے خوابوں کا

 اور جیسا کہ میں نے ذکر کیا تھا، کئی دنوں سے میں بھیانک خوابوں کی زد میں تھا۔  یہ خواب اتنے ڈراؤنے ہوتے کہ نیند کے عالم میں بھی میری چیخ نکل جاتی —  جسم میں لرزہ طاری ہو جاتا۔  اور جب آنکھیں کھلتیں تو سارا جسم پسینے میں تر بتر ہوتا۔  کچھ خواب حقیقت سے بھی زیادہ قریب ہوتے ہیں اور اتنے قریب ہوتے ہیں کہ فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ خواب ہیں یا حقیقت  — اس لیے معزز قارئین، یہ آپ پر منحصر ہے کہ مندرجہ ذیل سطور میں جن بھیانک خوابوں کی تفصیل آپ پڑھنے والے ہیں اسے آپ کن معنوں میں لیتے ہیں  — ایک سہمے ہوئے آدمی کا ڈراؤنا خواب —  یا پھر آپ اس خواب میں زندہ حقیقتوں کی شناخت کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ان دنوں خواب اور حقیقت میں فاصلہ ہی کتنا رہ گیا ہے —

وہ خواب تھا یا حقیقت کہنا مشکل تھا —

تھاپڑ تاریخی فیصلے کے بارے میں اپنی گفتگو کا دھماکہ کر کے جا چکا تھا۔  اور رباب نے شمیمہ کے ذکر سے موجودہ صورتحال کو کسی قدر قابو میں کرنے کا کام کیا تھا —

اس رات موسم ابرآلود تھا —

اور باہر کتے زور زور سے بھونک رہے تھے —

اور اس رات مکمل سورج گرہن بھی لگا تھا —  چینلس بریکنگ نیوز میں مکمل سورج گرہن کو آنے والے، مستقبل کے خطرات اور اندیشوں سے وابستہ کر چکے تھے —

نیند کے عالم میں سب سے پہلے مجھے یہ مکمل سورج گرہن دکھائی دیا —  تاریکی میں، گم ہوتی شعاعوں میں جیسے ہزاروں کی تعداد میں آسیب اکٹھے ہو گئے تھے …

یہ آسیب میری طرف دیکھ رہے تھے —

پھر اچانک بے ہنگم صدائیں ٹھہر گئیں  — اب تھاپڑ کا چہرہ روشن تھا۔  وہ مجھ سے کہہ رہا تھا  —

’سنو ارشد پاشا —  میں تمہیں ایک جگہ لے جانا چاہتا ہوں  —  مگر سنو۔  اور یاد رکھو۔  وہاں تم گاندھی جی کے تین بندر کی طرح ہو گے۔  دیکھو گے مگر نہیں دیکھو گے — اور بولنا تو ہے ہی نہیں۔  تم صرف دیکھو گے اور بھول جاؤ گے۔  سنو گے مگر نہیں سنو گے —  سنو گے اور دھول کی طرح اڑا دو گے۔  ‘

 میرے جسم میں کپکپی طاری تھی۔  ’میں سمجھا نہیں تھاپڑ۔  اور مجھے ایسا کیوں کرنا پڑے گا۔  ‘

تھاپڑ مسکرایا — ’ کیوں کہ ہم ایک سیکرٹ مشن پر جائیں گے۔  وہاں گنے چنے صحافیوں کو بلایا جاتا ہے اور یہ صحافی بھی اس سیکرٹ مشن کو بخوبی جان رہے ہوتے ہیں۔  کوئی کسی کو لے کر اس پارٹی میں جا نہیں سکتا۔  مگر گھبراؤ مت۔  میں تمہارے لیے خصوصی اجازت نامہ حاصل کروں گا۔  ‘

’ہونہہ۔  ‘

 میں گہری نظروں سے تھاپڑ کی طرف دیکھ رہا تھا۔

 تھاپڑ سنجیدہ تھا — ’ اور دیکھو تو … کبھی کبھی ہنسی آتی ہے۔  ہم ٹی وی دیکھتے ہیں۔  اخبار پڑھتے ہیں  —  خبریں سنتے اور پڑھتے ہوئے کبھی کبھی ہم بھی سونامی لہروں کی طرح بہتے چلے جاتے ہیں۔  ہے نا؟ حساس اور جذباتی لیکن مورکھ —  پرلے درجے کے مورکھ —  ہم اس سیاست کو قریب سے جان رہے ہوتے ہیں۔  لیکن پھر بھی بیوقوف بنے رہتے ہیں۔  ذرا ذرا سی خبروں پر آنکھیں چڑھ جاتی ہیں  —  دماغ میں گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں  — ‘

میں ابھی بھی تھاپڑ کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا —

تھاپڑ نے میری طرف پلٹ کر دیکھا۔  اس بار وہ مسکرایا تھا۔ ’ کیونکہ حقیقت جانتے ہوئے بھی ہر بار ہم دوستوفسکی کا ایڈیٹ بننے کے لیے تیار رہتے ہیں۔  اس لیے میرے بھائی۔ گاندھی جی کے تین بندر … برا مت دیکھو۔  برا مت سنو۔  برا مت بولو —  وہ ہنس رہا تھا — دیکھنا اور سننا ہے بس —  بولنا نہیں ہے۔  ‘

اندھیرے میں روشنی کا حملہ ہوتا ہے۔  تھاپڑ کے ساتھ ماسک لگائے چہرے ہوتے ہیں۔  ڈراؤنے —  ان کے ساتھ تھا پڑ بھی قہقہہ لگا رہا تھا —

بدن ہیں ہزاروں چیونٹیاں سرسرارہی ہیں۔

’ انتخاب قریب ہے۔  سمجھ رہے ہو نا … اور   … سب کچھ تم ان آنکھوں سے دیکھو گے … ننگی آنکھوں سے  …تمہیں معلوم ہے نا —  ننگی آنکھوں سے سورج گرہن دیکھنے کو منع کیا گیا ہے …‘

 ’  ہاں  ‘

 لیکن وہاں اس کی اجازت ہو گی تمہیں۔  لیکن تمہارے ہوش وحواس تمہارا ساتھ نہیں دیں گے  … ہہ …ہا …ہا …‘

تھاپڑ ہنس رہا ہے —

جسم میں میزائلیں گرج رہی ہیں  —

بارودی دھماکے ہو رہے ہیں  —

باہر کتے بھونک رہے ہیں۔  یہ حقیقت ہے یا خواب۔  کوئی منظر اتنا ڈراؤنا کیسے ہو سکتا ہے …؟

’  سیاست ہر بار ڈراؤنی ہوتی ہے۔  پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک اور بھیانک۔  ‘

’  ہونہہ —  ‘ لفظ خاموش ہیں۔

’ چلو میرے ساتھ۔  ‘

 ’ہونہہ ‘  — میرے جسم میں اس وقت لہو کا ایک قطرہ بھی نہیں ہے۔

’اور باقی باتیں تمہیں سمجھا دی گئی ہیں۔  ‘

 ’ہاں ‘

’ وہی … گاندھی جی کے تین بندر!‘

’جو ہم ہمیشہ سے ہیں۔  ‘

تھاپڑ نے قہقہہ لگایا۔ ’ سمجھدار ہوتے جا رہے ہو۔  ‘

٭٭

باہر اس کی گاڑی لگی تھی —  ہم گاڑی میں بیٹھ گئے —   رات کے اندھیرے میں گاڑی انجانی سمتوں کی جانب بھاگ رہی تھی —   اور یقیناً اس وقت میرے جسم میں طوفان آیا ہوا تھا۔

یا یوں کہنا چاہئے —   تھاپڑ کی باتوں نے مجھے ڈرا دیا تھا۔  میں یہ بھی نہیں پوچھ سکتا تھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔  کیا دیکھنے جا رہے ہیں۔  مگر شاید ایک نئے ڈرامے کی شروعات ہو گئی تھی۔

ایک مہذب ترین دنیا میں کھیلا جانے والا بھیانک ڈرامہ …

بے ہنگم آوازیں چاروں طرف سے مجھے حصار میں لے رہی ہیں  — میں کروٹ بدلتا ہوں  —  اور اب میں دوسرے منظر کی زد میں ہوں۔

ایک دوسرا منظر —

یا خوفناک خوابوں کا ایک نہ ختم ہونے والا دوسرا سلسلہ …

لیکن کیا جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں۔ وہ سچ ہے۔

معاذ اللہ۔  یا خدا … میرے رب …میری آنکھیں چھین لے —  میرے رب … اور  …

جیسے حسین الحق کی کہانی کا ایک کردار زور سے چیختا ہے —

’سنکٹ کا سمے ہے۔  شنکر میری آنکھیں واپس مت کرنا۔   ‘

میں اندھیرے میں ڈوبتا جا رہا ہوں۔

٭٭

اور میرے پیارے قارئین،

مندرجہ ذیل سطور میں اب جس بھیانک خواب کی تفصیل پڑھنے جا رہے ہیں، ممکن ہے تو مت پڑھیے —   یہ ڈراکیولا کی کہانی سے زیادہ بھیانک ہے —  کسی آسیبی فلم سے زیادہ خطرناک۔  رونگٹے کھڑے کرنے والا …

میں تھاپڑ کے ساتھ اس بڑے سے ہال میں داخل ہو گیا تھا۔

اور میری آنکھیں پھیلتی جا رہی تھیں۔

اس بڑے سے ہال میں کسی سیون اسٹار ہوٹل کی چمک دمک سے بھی زیادہ رنگینیاں دکھائی دے رہی تھیں۔  فرش پر بچھی ہوئی قیمتی قالین۔  فانوس۔  مہنگے قیمتی صوفے۔  جا بجا پتھر کی مورتیوں کے ساتھ سجے ہوئے کھانے کے سامان —  گفتگو اور ٹھہاکوں کی آوازیں  —  اور جیسا کہ آپ جان چکے ہیں یہ پارٹی ایسے موقع پر دی گئی جب ملک مکمل سوریہ گرہن کی کہانی لکھ چکا تھا —  اور انتخاب میں کچھ ہی مہینے باقی رہ گئے تھے —  اس پارٹی میں میڈیا اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے منتخب لوگوں کو ہی دعوت دی گئی تھی۔  اور جیسا کہ تھاپڑ نے مجھے بتایا تھا —   انتخاب نزدیک ہے  — ایک پارٹی کوبرسراقتدار آنا ہے اور ایک پارٹی حزب مخالف کا رول ادا کرے گی۔  اور ارشد پاشا … تم سب کچھ دیکھو گے ‘ مگر خاموش رہو گے …

میری آنکھیں پارٹی میں موجود  ہر شخص کو دیکھ رہی تھیں۔  ان میں ہر شخص اپنے اپنے میدان کا بڑا کھلاڑی تھا۔  بزنس کا برانڈ امبیسڈر —  مختلف صوبوں میں اپنی نمائندگی ثابت کرنے والے۔ بڑے بڑے اخباروں کے مدیر —  صحافی —  سیاست کے علمبردار —  الگ الگ پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے تمام بڑے چہرے۔  جیوتش —  گیانی —  چینلس کے مالک … اور  — ٹھہاکوں کی آوازیں  —

یہ نمبانی برادرز ہیں نا …؟

ہاں  …

مندر والے بھی ہیں  —  ؟

اس بار تھاپڑ نے غصے سے میری طرف دیکھا تھا — ’ میں نے جو کچھ کہا، وہ یاد نہیں۔ ‘

 ایک گہری خاموشی مجھ پر حاوی ہو گئی —  مگر میری نگاہیں اب بھی چاروں طرف دیکھ رہی تھیں۔  سیاست کے تمام مہرے جمع تھے یا جوکر —

 میڈیا کے تمام بڑے چہرے — بو فورس کے سوداگر —

تمام بڑے بزنس مین —

کچھ غیر ملکی مہمان بھی۔  جیسے بطروچی کے بھتیجے، اور کچھ ایسے بھی جن کے ناموں سے میڈیا اپنی بریکنگ نیوز تیار کرتا ہے …

پارٹی شروع ہو چکی تھی۔  اور مجھے اب چکر آنے بھی شروع ہو گئے تھے۔

حلوانی، کسما بن راج۔  ورون کیتلی، ساحل گاندھی، ترون گاندھی … اور وہ  …سخت سنگھ … بھانو پرساد یادو …ناکام پاسبان …وہ امام صاحب … اور وہ  …ہندو مہا سبھا کے لوگ …پنج تنتر سے لے کر پرانی دنیا اردو تک کے مدیر …

نمبانی بردارز گلے مل رہے ہیں  …

اور وہ آیوجا …ساٹا …

اور اچانک میں ٹھہر گیا ہوں  …مسجد کمیٹی کے سنجیدہ نظر آنے والے چہرے —  ہندو مہاسبھا اور مندر کمیٹی کے لوگوں کے ساتھ ٹھہا کے لگاتے ہوئے۔

کیا میں انہیں سن سکتا ہوں ؟

کیوں نہیں  —

کیا ان کے قریب جا سکتا ہوں۔ ؟

 ’بالکل …‘

اب میں ان کے قریب ہوں۔  ان کی باتیں سننا چاہتا ہوں  …

تھاپڑ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

’  پہلے ڈھنگ سے تماشائی تو بن جاؤ۔  ابھی بہت کچھ دیکھنا ہے۔ ‘ اس نے ہاتھ تھام لیا —

ادھر آؤ —

میں اس کے قدموں کا تعاقب کرتے ہوئے ٹھہر گیا۔  اور جیسے سناٹا میرے وجود پر حاوی ہوتا جا رہا تھا۔

وہ ہنس رہے تھے۔ قہقہہ بکھیر رہے تھے۔  یہاں سیاست گم تھی۔  سب مداری تھے۔  کسی میں کوئی فرق نہیں تھا۔

ہندو مہاسبھا کے لکھی بھائی، راشٹر یہ سویم سیوک سنگھ کے کاندی، رام جنم بھومی مندر کے آچاریہ، اور مسجد کمیٹی کے کچھ اراکین۔

ہاتھ میں جام۔  ٹھہاکے لگ رہے ہیں  —

’  ارے دیش کی فکر کرو  ‘

’جیب کی فکر نہ کریں۔  سب جیب سے چلتا ہے۔  ‘

’ بالکل سچ کہا۔  جیب بھاری تو سب اپنی مٹھیوں میں۔ ‘

ٹھہاکہ  —

’  آپ نے تھال میں سجا کر مندر ہمیں دے دیا۔   ‘

کیسے نہیں دیتا بھائی —   بھاؤ سے میٹنگ ہوئی تھی۔  بھاؤ بھی تو یہی چاہتے تھے۔ ‘

  ٹھہاکہ …

’  دراصل آپ بھی یہی چاہتے تھے۔   ‘

اور آپ نے اس کی منہ مانگی قیمت بھی تولے لی۔  سارے سگے سمبندھیوں کے لیے پٹرول پمپ مانگ لیے۔  ‘

’  آپ دے رہے تھے، ہم مانگ رہے تھے  ‘

’  اور آپ بھی تو دے رہے تھے۔  ایک مشت اس ملک کی تقدیر۔  کیوں جگو بھائی —  ؟‘

ٹھہاکہ — قہقہہ —

’  ادھر دیکھو —  ‘تھاپڑ نے اشارہ کیا —

مونیا گاندھی، الکا گاندھی، ترون، اور ساحل، حلوانی اور سخت سنگھ یادو کے ساتھ کسی بات پر زور زور سے ہنس رہے تھے۔  کچھ اور پارٹیوں کے لوگ بھی اس مسکراہٹ کا حصہ تھے۔

’ اب دیکھیے —  آپ نے اپنا ٹرم پورا کر لیا۔  ‘

’ ہاں تو آپ بھی پورا کیجئے نا۔  ‘مونیا گاندھی نے ہنستے ہوئے کہا۔   ‘  آپ اور ہم  —  پارٹی بدلتی رہے گی —   ایک پارٹی آپ ایک پارٹی ہم  —  ‘

’  اور ہماری پاری کب آئے گی۔  ‘ یہ سخت سنکھ یادو تھے۔

 بھائی آپ تو صوبے کی سیاست میں رہتے ہیں۔  آپ اپنے ہی بندھو میں الجھ گئے۔  فلم والے ہو گئے۔   ‘

’  ہمیں کیا پتہ تھا۔   ‘

ٹھہاکا گونجا  —

’  اس نے راستہ ہی ایسا دکھا یا کہ پھنستے چلے گئے۔   ‘

’  تو اب اپنی پاری کا انتظار کیجئے۔   ‘

حلوانی ہنسے  —   آپ نے سارے ملک کو گھوٹالوں میں الجھا دیا۔  اتنا گھوٹالہ تو ہم نے کبھی نہیں کیا۔   ‘

’  اب زبان مت کھلوائیے۔   ‘

’  مونیا گاندھی نے ہنستے ہوئے کہا  —  ہمارے پاس پوری سی بی آئی رپورٹ ہے۔  ‘

’  سی بی آئی  —  حلوانی ہنسے  —  سی بی آئی بیچاری اور کرتی کیا ہے۔  آپ کے ٹکڑوں پر پلتی ہے۔  آج آپ   — کل ہماری باری  ‘۔

تو اس بار ہم آپ کو راستہ دے رہے ہیں نا۔  ‘

’راستہ آپ نہیں دے رہے ہیں۔  جنتا دے رہی ہے۔  اور یہ سب پہلے سے ہی طے ہے۔  طے کر کے آپ ہی نے ہمیں آگے کیا۔  بھول گئے  —  مونیا ہنس رہی تھی۔  انڈیا شائننگ کے نعروں کے باوجود آپ کو یہ تلخ حقیقت پتہ تھی کہ ننبائی اور بہت سارے دوسرے آپ کے خلاف مورچہ لینے کے لیے تیار ہیں  — آپ نے گیند ہماری طرف بڑھا دی  …‘

ہو …ہو  … حلوانی مسکرائے — عینک کے اندر ان کی آنکھیں بے حد معصوم لگ رہی تھیں۔

 ’سب کچھ پہلے سے طے شدہ —  اور آپ کو پتہ تھا کب کتنے گھوٹالوں کی پرتیں آپ کو کھولنی ہیں۔   ‘

’ہو …ہو  …‘

’کل آپ کو بھی یہی کرنا ہے۔  اور وہ بھالو سنگھ یادو — بھائی، سب اپنے اپنے گھر کی ذمہ داریاں ہی تو ادا کر رہے ہیں۔   ‘

 ’ لو۔  میں کب خلاف ہوں ان سے ۔  ‘ مونیا کی آزادانہ ہنسی میں حلوانی اور سخت سنگھ یادو بہتے چلے گئے۔

سخت سنگھ یادو نے پہلی بار منہ کھولا —  لیکن اس بار ہمیں بھی چانس چاہئے۔ مرکزی سرکار میں۔  ‘

’  پہلے بہن جی سے راستہ تو لیجئے۔   ‘

راستہ بھی آپ دلوائیں گی۔  ‘ سخت سنگھ یادو سنجیدہ تھے۔

’بہن جی بھی تاش کے وہی پتّے چلتی ہیں۔  جوان سے ہم چلنے کو کہتے ہیں مگر کبھی کبھی بے دردی سے وہ اپنے کھیل بھی کھیلنے لگتی ہیں۔  ‘

’  بہنوں کو سکھانا آسان نہیں۔  کولکتہ ہو یا ممبئی۔  حلوانی ہنسے —  ہم تو سب کا کرشمہ جھیل چکے۔  ‘

’  چما بھارتی کا کرشمہ بھی۔   ‘

’  اب سیاست میں سنیا سینوں کا کیا کام … حلوانی ہنسے۔  ’کچھ لوگ اپنی چلتے ہیں۔  اور ایسے لوگ ناعاقبت اندیش ہوتے ہیں۔ ا نہیں سیاست میں نہیں آنا چاہئے —  یہ سیاسی کھیل بگاڑ دیتے ہیں۔  ہمیں دیکھئے۔  رتھ پر چڑھے۔  پاکستان گئے تو جناح کے مزار پر ہولیے۔  جناح کے مزار کی چادر لے کر انڈیا آئے تو احساس تھا‘ ایک تیر سے کئی شکار۔  ‘

’وہی تو — ‘ مونیا نے گہری سانس لی۔

’لیکن اپنی ہی پارٹی۔ پہلے سے سب کچھ طے شدہ ہونے کے باوجود کھیل کی دشا بدل گئی۔ ‘

’ کچھ لوگ مورکھ ہوتے ہیں۔  جاننے کے باوجود کھیل کی دشا بدل دیتے ہیں  — حلوانی سنجیدہ تھے —  جانے دیجئے — ‘

’اچھا وہ فیصلے کی بات ہو گئی۔  ؟‘

’  فیصلہ …‘

’ارے وہی۔  جس کو ہم اپنے اپنے پارٹی کے اصولوں کے طور پر گھما رہے ہیں  …

’  نہیں نچا رہے ہیں  …‘

’  ہاں وہی۔  مندر مسجد۔  فیصلہ …اُف آپ نے اٹھارہ سال لگا دیئے۔  ‘

’  کیا آپ سچ مچ چاہتے تھے فیصلہ ہونا …؟‘

’  نہیں۔   ‘

’  اور اب بھی وہی ہو گا جو آپ چاہیں گے … عدلیہ اور انتظامیہ کی باتیں ہم پر چھوڑئیے۔

 ’ ہو  …ہو …‘

’  لیجئے۔  وہ بنگھل صاحب اور امام صاحب بھی ادھر ہی آ رہے ہیں۔  ‘

’آنے دیجئے۔  ‘

باہر کی دنیا میں یہ سب ایک دوسرے کے کٹّر دشمن —  لیکن یہاں  … ‘ بی۔  ام۔  کے کی ایک پارٹی ورکر نے کہا۔

’یہاں سب دوست ہیں۔  عوام کے لیے جو چہرہ ہو۔  وہ عوام جانیں۔  سب کو اپنے اپنے تاش کے پتّے دے دیئے گئے ہیں اور سب اسی پتّے کی حکومت تسلیم کر رہے ہیں  — ہم اور آپ بھی تو وہی کر رہے ہیں۔   ‘

حلوانی کی آنکھیں چشمہ کے اندر پھر سنجیدہ تھیں  —

’  لیکن اس بار پردھان منتری بننے کا خواب — ؟ ‘

’  ہم تھال میں سجا کے حکومت آپ کو دے سکتے ہیں۔  باقی کام آپ کو دیکھنا ہے۔   ‘

 ’ہو …ہو …‘ حلوانی مسکرائے۔

’السلام علیکم۔  ‘

’جے شری رام۔  ‘

مسجد کمیٹی اور مندر کمیٹی کے دونوں نامور چہرے ہنستے مسکراتے ہوئے سامنے تھے۔

’  فیصلہ دیکھ لیجئے گا —  ہمیں بھی قوم کو جواب دینا پڑتا ہے۔  ‘

’ اور ہمیں بھی۔  ‘

’  تو فیصلہ آپ دونوں مل کر ساتھ کیجئے —  ‘ ہنسی کی آواز ابھری —  ’وہی فیصلہ سنادیا جائے گا۔  ‘

ٹھہاکے۔  شور  …

تھاپڑ نے آہستہ سے میرے ہاتھوں کو تھاما — ’ چلو میرے ساتھ۔  ابھی تو بہت کچھ دیکھنا باقی ہے …‘

’  اب —  اب کیا دیکھنے کو باقی رہ گیا ہے۔   ‘

’ ابھی دیکھا ہی کہاں ہے  ‘

وہ مجھے لے کر کنارے آ گیا —

’تمہاری سانس پھولتی ہے نا ہر بات پر —  ٹی وی دیکھتے ہو تو چکر آ جاتا ہے —  اخبار پڑھتے ہو تو لرز جاتے ہو — یہاں وہ بھی ہیں جنہوں نے گھوٹالے کیے —  وہ بھی جنہوں نے سزا تجویز کی —  یہاں سب ایک تھالی میں کھا رہے ہیں  —  سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے —  مندر مسجد —  لڑتے ہم تم ہیں  —  جذباتی ہم تم ہوتے ہیں  —  اور یہاں  … سب ایک  —  سب پہلے سے طے شدہ …وہ دیکھو … وہ نمبانی برادرز …؟

’  ہاں۔  ‘

لیکن ان کے درمیان تو  …‘

جھگڑا ہے …؟

’  ہاں  ‘

’کوئی جھگڑا نہیں ہے —  ایک پارٹی کی دم پکڑتا ہے۔  دوسرا سر۔  ایک کان کو پیچھے سے پکڑتا ہے اور دوسرا آگے سے ‘

تھاپڑ ہنسا۔ ’ یہاں وہ سارے چہرے موجود ہیں، جنہیں تم بڑے لوگ کہتے ہو۔  اپنے اپنے شعبے کے بڑے لوگ … وہ بھی جن سے تم محبت کرتے ہو۔  اور محبت اس لیے کرتے ہو کہ آئے دن وہ تمہیں سہلاتے رہتے ہیں  —  اور وہ بھی موجود ہیں جن سے تم حد درجہ نفرت کرتے ہو۔  اس لیے کہ وہ تمہارے لیے نفرت بوتے رہتے ہیں۔  مگر یہاں دونوں ہیں۔  ایک ساتھ۔ ہاتھ میں ہاتھ دیے … ‘

وہ دیکھو …

سیاسی چہرے —

برانڈ امبیسڈر —

بزنس ورلڈ کے بادشاہ —

انڈر ورلڈ کے لوگ …

ان میں کچھ فلمی چہرے بھی ہیں  —  وہ دیکھو …

اور وہ … تمہارے میڈیا کے رہبر — اخباروں کے مدیران …وہ اخبار بھی، جن کی سرخیوں پر تم ایک طرح کا تحفظ محسوس کرتے ہو۔  اور وہ بھی جو اپنی زہریلی سرخیوں سے تم، تمہاری قوم کو جلاتے رہتے ہیں  —  لیکن یہاں۔  ان سرخیوں کا کرشمہ دیکھ لو —  سب طے شدہ۔  ایک کو ایک بھومیکا انجام دینی ہے۔  اور دوسرے کو دوسری …‘

’  نہیں  ‘

آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا تھا —

’دیکھو۔ ‘ تھاپڑ چلایا — ’ لڑکھڑا نے سے گرنے سے کام نہیں چلے گا۔ یہ ہارر شو دیکھو۔  کسی بھی انتخاب سے پہلے کا ایک ہارر شو —  صرف پارٹی اور بھومیکائیں بدلتی ہیں۔  سب ایک ہیں۔  اور ہم کیا ہیں  …‘

آنکھوں کے آگے ہزاروں بھوت تانڈو کر رہے ہیں۔  مونیا گاندھی۔ حلوانی —  کسمابن راج …

بھوت تانڈو کر رہے ہیں  …

ڈرم …ڈر م …

مندر اور مسجد تحریک سے وابستہ لوگ …

بھوت تانڈو کر رہے ہیں  —

سیاست کے وہ چہرے، جن پر اب تک بھروسہ کرتا آیا تھا —

بھوت رقص کر رہے ہیں  …

وہ چہرے جنہیں اپنا جانتا تھا کہ یہ میری لڑائیاں لڑ رہے ہیں  —  میری قوم کی لڑائیاں  …

ڈر م …ڈرم  …

کمزور آواز سرنکالتی ہے —

’کیا یہ سب ایک ہیں ؟‘

’ہاں  — ‘

’اور پارٹی …؟‘

’پارٹی بھی ایک …‘

’ اور وہ بھگوا پارٹی … اس کا منی فیسٹو  …؟‘

’سب ایک …‘

’نیشنل کانگریس پارٹی …؟‘

’ سب ایک …‘

بھومیکائیں  …؟ ڈری آواز سہمی ہوئی آواز —

’ بس بھومیکائیں بدل جاتی ہیں۔  اور یہاں اس وقت یہی ہو رہا ہے۔  یہاں طے ہو رہا ہے۔  آنے والے کل میں کس کی حکومت ہو گی۔  کون پارٹی برسراقتدار آئے گی۔  جو حکومت کرے گی، اس کی بھومیکائیں کیا ہوں گی۔  جو پارٹی حزب اختلاف میں ہو گی، اس کا رول کیا ہو گا …‘

’  اور  …‘

’ اور یہ کہ میڈیا میں کون کیا لکھے گا۔  کون مسلمانوں کی نبض پر ہاتھ رکھے گا … کون کس کو سہلائے گا۔ کون کس کو رلائے گا … دیکھتے جاؤ۔  یہاں سب کچھ۔ کچھ ہی دیر میں طے ہونے والا ہے …‘

’ کیا یہ سب یہاں موجود سارے لوگ جانتے ہیں ؟ ‘

’   ہاں  ‘

’  اخبار والے بھی …؟‘

ہاں

’  چینلس والے بھی؟‘

 ’  ہاں  ‘

’  یہ مٹا دھیش … عدلیہ کے لوگ۔  جیوتشا چاریہ … سنگھ اور بزنس ورلڈ سے وابستہ لوگ …؟

’  ہاں۔ اس حقیقت سے سب واقف ہیں ‘

’ہاں  —  کہ بس پارٹی بدلتی ہے — ؟ ‘

’  ہاں بدلتی صرف پارٹی ہے۔  جنتا ایک پارٹی سے بور ہو جاتی ہے۔  پھر دوسری آتی ہے —  اس لیے بھومیکاؤں کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے …‘

یعنی … یہاں موجود ہر شخص جانتا ہے …؟ ‘آواز بوجھل ہو گئی ہے۔  سرد۔  برف جیسی۔

’ یہاں موجود ہر شخص جانتا ہے۔  ‘

‘ پھر — ؟‘

 ’  پھر کیا ؟ ‘

 میں نے تھاپڑ کی آنکھوں میں غور سے دیکھا۔

’ پھر یہ سچ ہم کیوں نہیں جانتے — ؟‘

’  نٹوے ہیں ہم —  تھاپڑ نے گالی بکی — ’ جنتا سب جانتی ہے۔  لیکن عام جنتا کی حالت کسی بھڑوے جیسی ہے۔  جو جانتی سب ہے پھر بھی کٹھ پتلی کا تماشہ بنتے ہوئے اسے مزہ آتا ہے —  اور اسی لیے نچاتی ہے یہ سیاست۔  اور یہ لوگ — ‘

’  تو میں بھی ناچوں  …؟ ‘

’  ہاں۔   ‘

آگے بڑھ کر ویٹر سے دو گلاس تیار کرنے کے لیے کہا …

شراب کی بوند زہر کی طرح اندر جا رہی ہے …

میں ناچوں نا …؟

ہاں  … یہاں سب ناچ رہے ہیں  …

 رقص —  رقص میں لیلیٰ رہی  …لیلیٰ کے دیوانے رہے …

ذرا نچ کے دکھا … ذرا ٹھمکا لگا …

 چیرئس … ایک پیگ … دوپیگ … تیسراپیگ … جسم جھول رہا ہے … تین پیگ پینے کے باوجود کہیں کوئی نشہ نہیں  —  دماغ میں میزائلیں چھوٹ رہی ہیں۔

سب سے بڑی جمہوریت والا ملک … ذرا جھوم کے دکھا … تھاپڑ یار …تم بھی تو لڑکھڑا رہے ہو … سب سے بڑی جمہوریت —  آزادی کے بعد بھی تقسیم کا دور —  ملک کی ہر بڑی پارٹی تقسیم ہوتی رہی —  1978کے بعد سے تین بار کانگریس کو تقسیم ہوتے دیکھا —  1989کے بعد جنتا دل تقسیم پر تقسیم ہوتا گیا۔  جن سنگھ کے خیالوں سے جنمی بھگوا پارٹی بھی اپنے اصولوں میں تقسیم ہوتی رہی۔  اور کتنی عجیب بات … ملک، ہندستان، بھارت اور انڈیا میں مسلسل تقسیم ہوتا رہا ہے۔  شہر بدل گئے۔  چمک دمک بدل گئی۔  جبکہ70فیصدی گاؤں میں غریبی بڑھی ہے۔  یہاں آج بھی دنیا کے 44فیصد غریب رہتے ہیں۔  اور کتنی عجیب بات … ہم مسلسل تقسیم ہو رہے ہیں  …‘

رقص میں لیلیٰ رہی …

لیلیٰ کے دیوانے رہے …

 تقسیم ہونے کے باوجود سب ایک ہیں۔  ایک چہرے … ایک نام … ایک پارٹی  …آنکھوں میں گھنے اندھیرے اتر آئے ہیں  —  میں لڑکھڑا تا ہوا تھاپڑ کی طرف دیکھتا ہوں۔

 کیا ہم سچ مچ سب جانتے ہیں ؟

 ہاں  …

کیا ساری پارٹیاں ایک ہیں  …؟

ہاں  …

’تو پھر ہمارے جذبات کیوں تقسیم ہوئے — ؟ بتا سکتے ہو —  سب ایک ہیں تو ایک پارٹی ہمارے نفرت کی مستحق بن جاتی ہے اور دوسری میں ہم اپنا مستقبل دیکھنے لگتے ہیں۔  ‘

’   ہونہہ۔  ایک کی بنیاد ہی وش پر ہے۔  لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ جو دوسری پارٹی ہے … اس کی بنیاد بھلے وش پر نہ ہو مگر وہ زیادہ زہریلی ہے …یہ بھی تو دیکھو کہ کہیں کوئی فرق نہیں  —  سب ایک ہیں۔  ایک زہر اگلتی ہے یہ زہر اگلنا بھی پہلے سے طے شدہ رہتا ہے اور دوسری مرہم لگاتی ہے تو یہ بھی پہلے سے ہی طے ہو چکا ہوتا ہے …‘

میری آواز کمزور تھی۔

’پھر ہم انتخاب کا انتظار کیوں کرتے ہیں۔  ووٹ دینے کیوں جاتے ہیں  — ؟ ہم ایک ناجائز سسٹم کا کھوکھلا ووٹ بینک بن کر کیوں رہ گئے ہیں  — ؟

’تماشہ۔  ایک بڑا جشن۔  اور ہم ہنستے مسکراتے اس جشن کا حصہ بن جاتے ہیں۔  برسوں سے یہی ہوتا رہا ہے۔  بھیس بدل بدل کر ایک ہی پارٹی اس ملک پر حکومت کرتی رہی ہے۔  اور ہم ہر بار دیوانوں کی طرح اپنے جذبات کا مظاہرہ کرتے رہے … کرپشن، گھوٹالہ … ملک کو فروخت کرنے والے مہنگائی، مندر مسجد، گجرات، کو فورس سے فرقہ وارانہ دنگوں تک —  اخبار پڑھتے ہوئے مٹھیاں کس جاتی ہیں  —  ٹی وی دیکھتے ہوئے آنکھوں میں کسی کے لیے حیرانی جاگتی ہے، کسی کے لیے نفرت — کوئی بیگانہ لگتا ہے تو کوئی اپنا —  کسی کو قتل کر دینے کی خواہش ہوتی ہے۔  تو کسی کے ہاتھوں اپنا مستقبل محفوظ نظر آتا ہے —  مگر حقیقت تو دیکھو۔  حقیقت یہاں روشن ہے۔  یہاں سب مل رہے ہیں۔  اور سب کو پتہ ہے، ایک پارٹی کو حکومت میں آنا ہے اور دوسری کو حزب مخالف کا رول ادا کرنا ہے …

جام چل رہے ہیں۔

ہنگامے۔  ٹھہاکے … سیاست کی ڈیل چل رہی ہے۔  ہر شعبے کے لوگ ہیں۔  بزنس سے فلم اور مذہب سے سیاست تک —

چیئرئس۔

 ایک پیگ۔  آنے والے کل کے لیے —

اور دوسرا —  عوام کے لیے۔ سلامتی کے لیے —

تیسرا …روپیوں کے لیے  … سب سے بڑا روپیہ  …

اب سب ناچ رہے ہیں۔

صرف میں ٹھہر گیا ہوں  —  میں اور تھاپڑ —

قدیم قبیلے جاگ گئے ہیں۔  پاشان یگ۔  آدی مانو …ازلی انسان …

رقص میں لیلیٰ رہی … لیلیٰ کے دیوانے رہے …

میں تھاپڑ کی طرف مڑتا ہوں  … ’اب مجھے اسامہ کا خوف نہیں۔  ہمیں خوشی ہے کہ وہ اس بھیانک سسٹم اور انتظامیہ کا حصہ ہوتے ہوئے بھی کہیں اپنی موجودگی درج کرا رہا ہے —  تواریخ کے کسی انجانے صفحے پر —  ممکن ہے یہ موجودگی کل سب کی نظروں میں آ جائے  — ‘

لو گ جھوم رہے ہیں  …

ناچ رہے ہیں  …

میں لڑکھڑا تا ہوا سامنے کی دیوار سے ٹکراتا ہوں  …

٭٭

 آنکھیں کھل گئی ہیں  —

 باہر کتے بھونک رہے ہیں  —

پتہ نہیں رات کتنی گزر چکی ہے  —

میں قریب لیٹا ہوا رباب کو دیکھتا ہوں۔  میرا جسم پسینے میں ڈوب چکا ہے … اور اس خیال سے باہر نکلنا مشکل کہ میں نے ابھی کچھ لمحے پہلے جو کچھ بھی دیکھا، وہ محض ایک خواب تھا۔

مگر اس دوران ایسے لامتناہی خوابوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ میرے ساتھ شروع ہو چکا تھا۔

تب تک فیصلہ نہیں آیا تھا۔

٭٭

 

(5)

’’یہ زمین کا ایک چھوٹاساٹکڑا ہے۔  جس پر چلنے سے فرشتے بھی ڈرتے ہیں۔  زمین میں چاروں طرف بارودی سرنگیں بچھی ہیں۔  ہم سے کہا گیا ہے کہ اسے صاف کیا جائے۔  کچھ سمجھدار لوگوں نے صلاح دی ہے کہ اسے صاف کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔  لیکن یہ خطرہ اٹھانا ہو گا۔ ‘‘

 تاریخی فیصلہ سنانے والے جج سبغت اللہ خاں کے شروعاتی بیان کا حصہ۔

 یہ صبح عام صبح جیسی نہیں تھی۔  ایک انقلاب ریت کے سمندر سے سر نکال رہا تھا۔  فضا گرد آلود تھی … اور سرخ آندھیوں نے اپنے آنے کی اطلاع دے دی تھی۔  ملک ایک بار پھر بارود کے دہانے پر تھا۔  سہمے ہوئے چہروں پر دعائیں کانپ رہی تھیں۔

 نیند سے اٹھا تو دشینت کا چہرہ آنکھوں میں تھا۔  یہ چہرہ مجھے خوفزدہ کرنے کے لیے کافی تھا۔

 دروازے پر دستک ہوئی تو مسکراتی ہوئی رباب کے ساتھ ہاتھوں میں چائے لیے شمیمہ کھڑی تھی۔  اور یقیناً اس لمحے اسامہ کو سوچتے ہوئے میری دھڑکن تیز ہو گئی تھی۔

 ’ ابو چائے …‘

 اس کے پیچھے کھڑی ہوئی رباب مسکرارہی تھی۔

 ’یہ چائے شمیمہ نے خود بنائی ہے۔  اپنے ہاتھوں سے  ‘

میں نے مسکرانے کی کوشش کی۔

’اللہ تمہیں تقدیر کا بڑا بنائے بیٹی۔  ‘

میں نے ایک بار پھر مسکرانے کی کوشش کی — لیکن کامیابی نہیں ملی۔  میں باہر نکل کر آج کے ماحول کا جائزہ لینا چاہتا تھا۔

بابری مسجد اور اجودھیا کے زخم تازے ہو گئے تھے۔  تاریخ کا اعلان ہوتے ہی فوجی دستے چاروں طرف چھا چکے تھے۔  پولس گشت بڑھا دی گئی تھی۔  اجودھیا جانے والے سبھی راستوں پر بیر یئر لگا دیئے گئے تھے۔  پولس اور پی اے سی کے جوان چوکنے تھے۔  لوگوں کی تلاشیاں لی جا رہی تھیں۔

ٹی وی پر بریکنگ نیوز میں بابری مسجد فیصلے کو لے کر ماحول کو پکر سکون بنانے کی کوشش ہو رہی تھی۔ لیکن کیا سچ مچ؟ خبروں سے کچھ ایسا اشارہ دیا جا رہا تھا کہ اس بار فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہو گا۔  بٹلہ ہاؤس اور آس پاس کی گلیاں سنسان تھیں۔  بازار کھلے تھے لیکن ایک عجیب سے خوف اور دہشت کے رنگ کو چہرے پر دیکھا جا سکتا تھا۔

 کچھ دیر تک یونہی چہل قدمی کے بعد میں گھر لوٹ آیا تھا —  دماغ بوجھل تھا۔  اٹھارہ سال پرانی یادیں دل و دماغ پر شب خون مار رہی تھیں  —  اٹھارہ سال پہلے کی یادیں  — ان خوفناک یادوں کے ساتھ اب اسامہ کی یادیں مجھے پریشان کر رہی تھیں۔  ان یادوں سے باہر نکلنے کے لیے میں پھر ٹی وی کا رخ کرتا ہوں۔  ٹی وی پر اجودھیا اور وہاں کے ماحول کے بارے میں بتایا جا رہا ہے —  اجودھیا میں صبح روز کی طرح ہوئی —  لیکن ماحول بدلا ہوا تھا۔  صبح 5:20 بجے کے قریب سرجوندی کے کنارے نیا گھاٹ پر اڑیسہ سے آئے 50-55لوگوں کا پہلا جتھا پہنچا —

 سبھی عقیدت مند ٹرین سے آئے تھے اور فیض آباد اسٹیشن پر اترنے کے بعد راستے میں ڈھیر ساری حفاظتی چیکنگ سے گزرتے ہوئے گھاٹ پر پہنچے —   اڑیسہ کے عقیدت مندوں نے سرجو کے گھاٹ پر آ کر نہانے کی بھی ہمت نہیں کی —  وہ متنازعہ احاطے میں رام کا درشن کر کے روانہ ہو گئے۔

گھاٹوں پر جہاں صبح 10بجے تک خاموشی چھا گئی —  سناٹے کا منظر طلوع آفتاب کے بعد سے مسلسل بنا ہوا تھا۔  گھاٹ پر واقع رادھا کرشن مندر میں رہنے والے سنت اور سادھو منجیرے کی گونج کے درمیان رام دھن گا رہے تھے۔

 صبح گیارہ بجے کے قریب زیادہ تر بازاروں میں دکانیں کھلی رہیں۔  لیکن بند دکانوں کی بھی تعداد کم نہیں رہی۔  ممکنہ خوف کے چلتے کاروباریوں نے مخصوص جگہ پر آنے سے پرہیز کیا۔  سنت تلسی ادھان کے پاس والی سڑک پر صبح سے ہی جلیبی اور کھچڑی کی دکان سجائے ایک لڑکے نے بتایا کہ تھوڑی بہت بکری ہی ہوئی  —  عقیدتمند تو آئے نہیں  —  مقامی لوگ بھی کم ہی نکلے۔  کھانے کے ہوٹل مالک کے مطابق گاہکوں کا بالکل ٹونا ہے —  صبح تک کھلے بازار تین بجتے بجتے بند ہونے لگے —  ہنومان گڑھی کے آس پاس سناٹا پسر گیا۔  تین بجے تک تو چڑھاوے کے لیے پرشاد اور مالا بیچنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔

 ہنومان گڑھی جانے والی خاص شاہ را ہوں پر بیریئر گرا دیا گیا —  فورس مستعدتھی۔  آنے جانے والوں سے پوچھ تاچھ ہوئی —  تب آگے بڑھنے کی اجازت ملتی۔  تناؤ کافی تھا —  حالانکہ اس بازار میں کھلی اکا دکا دکانیں زندگی کا احساس کرا رہی تھیں۔  فیصلے سے کچھ پہلے فورس کی تعداد بڑھ گئی تھی۔  آر اے ایف، پی اے سی اور پولیس کے جوانوں سے بھری بسیں پہنچنے لگیں۔

 کیمرہ اجودھیا کی سڑکوں، گلی کوچوں پر پین ہو رہا تھا۔  لیکن میری آنکھیں کیا تلاش کر رہی تھیں  —  اسامہ کو؟ کچھ دن پہلے کی یادیں تازہ ہو گئی تھیں۔

 سراب بھی بھاری تھا —  گھوم پھر کر پھر اسی مقام تک آ کر ٹھہر جاتا۔  فیصلے میں کیا ہو گا؟ کس کے حق میں آئے گا فیصلہ — ؟

 آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا جیسی تنظیموں نے پہلے سے کہنا شروع کر دیا تھا کہ اگر فیصلہ ان کے حق میں نہیں آتا ہے تو وہ اسے قبول نہیں کریں گے۔  اور اس کے بعد اگر پورے ملک میں گجرات جیسا ماحول بنتا ہے تو یہ ان کی ذمہ داری نہیں ہو گی۔

 کتنے ہی سوال تھے جو راستہ روکے کھڑے تھے۔

 اجودھیا کی متنازعہ زمین پر کس کا حق قبول کیا جائے گا  — ؟ہندو تنظیموں کا یا مسلم وقف بورڈ کا — ؟ چاروں طرف خوف کا منظر ہے —  اس فیصلے پر دنیا بھر کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔  لیکن میں کچھ اور بھی سوچ رہا ہوں  —  فیصلے کے بعد بھی کیا ہمیں کسی قسم کا تحفظ ملے گا؟

 دشینت کا چہرہ ایک بار پھر نظروں کے سامنے ہے۔

 یقیناً یہ چہرہ اس وقت رباب کی آنکھوں کے سامنے بھی ہو گا —  لیکن وہ شمیمہ میں خود کو بہلانے کی کوشش کر رہی ہے۔  وقت جیسے جیسے گزر رہا ہے، دھڑکنوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے —

تین بج گئے —

رباب اور شمیمہ بھی صوفے پر آ کر بیٹھ گئے۔  سب خاموش ہیں۔  شاید ایک دوسرے سے نظریں ملانے کی بھی ہمت نہیں۔  اور کچھ ہی دیر میں وہ تاریخی فیصلہ آنے والا ہے۔  ایک ایک سکنڈ جیسے صدیوں کے برابر ہو گیا ہے … میں ایک بار پھر خود سے الجھتا ہوں۔  اس فیصلے میں کیا ہے؟ کیوں اس فیصلے کو جاننے کی بیقراری ہے؟

 میزائلیں ایک بار پھر گرج رہی ہیں  —  آزادی کے بعد کا ہندستان سامنے ہے — ہندستان، جہاں کی ایک بڑی اقلیت اپنے حق میں ہونے والے ایک فیصلے کے لیے ترستی رہ گئی —

رم …جھم  … بارش کی پھواریں میرا راستہ روکتی ہیں۔

 اس فیصلے کے بعد بھی محفوظ نہیں ہو تم …

پہلے فیصلہ تو آ جائے —

آنکھیں بند ہیں  —  کتنی ہی تصویریں روشن ہیں  —  اس تاریخ سے، اس فیصلے سے ایک ذہنی وابستگی بھی رہی ہے میری —  اسامہ کی پیدائش —  اس کے ننھے معصوم سراپے کو دیکھنا۔  گود میں لینا۔  اور پھر اسی آزاد ہندستان میں ایک دن اس کا گم ہو جانا … یہ صرف ایک فیصلہ نہیں ہے —

 مجھے ایک تسلی چاہئے —  اپنے لیے  — اپنے بیٹے کے لیے —  اپنی آزادی کے احساس کے لیے —

 رباب اور شمیمہ میرے چہرے کے اتار چڑھاؤ کا جائزہ لے رہے ہیں۔  میں اس گہری نہ ختم ہونے والی دھند میں اتر گیا ہوں  —

آزادی کے بعد کے فسادات مجھے گھیر رہے ہیں۔

اچانک میں آنکھیں کھولتا ہوں  …

سامنے ہائی کورٹ کی عالیشان عمارت ہے۔  اور اینکر اس عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چلارہا ہے …

فیصلہ آ چکا ہے۔

 ایک تاریخی فیصلہ سننے کے لیے آپ تیار ہو جائیے۔

فیصلہ آنے والا ہے —  وہ تاریخی فیصلہ جس کے انتظار میں اٹھارہ سال کاٹے ہیں میں نے — ایک ایسا فیصلہ جس کے لیے عدلیہ نے 8189صفحات میں اپنا فیصلہ سنایاہے۔

 دھڑکنیں تیز ہیں۔  اندر جیسے اٹھنے والی آندھی بھیانک ہو چکی ہے۔

فیصلہ آنے والا ہے —

 دل جیسے ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔  میری حالت اس جوکر کی طرح ہو رہی ہے جو نہ ہنس سکتا ہے نہ روسکتا … بس وہ ایک تماشہ کا حصہ ہے۔  یا خود تماشہ ہے … اور اس کو دیکھنے والے مسلسل ہنس رہے ہیں۔  ٹھہا کا لگا رہے ہیں  —

قارئین، یہاں ایک بار پھر آپ کو رکنا پڑے گا۔  کچھ باتیں ہیں جن کی جانب اشارہ کرنا ضروری ہے۔  فیصلہ کی رات سے فیصلہ آنے تک ایسی کتنی ہی باتیں ہوئیں جنہیں آپ کے سامنے رکھنا ضروری ہے۔

 جیسے رات کچن میں چوہوں کے شور کے باوجود رباب اطمینان سے شمیمہ سے باتیں کرتی رہی۔  میں بالکنی میں آیاتو …

 نہیں  … یہ میرا وہم تھا … اور یقیناً آپ میری بات پر بھروسہ نہیں کریں گے —

 آسمان غائب تھا۔  حد نگاہ تک پھیلا ہوا نیلگوں آسماں  … نہیں۔  مجھے اس طرح شک کی نگاہ سے نہیں دیکھیے۔  تارے نہیں تھے۔ چاند نہیں تھا۔  وہاں ایک گڈھا سا تھا۔  نیلی آسمانی چادر کی جگہ ایک بدنما سا گڈھا … میں اتنا خوفزدہ ہوا کہ اپنے کمرے میں آ گیا۔

میں رباب سے کہنا چاہتا تھا … کہ آسمان تو ہے ہی نہیں۔  یعنی اگر تم میری بات کا یقین نہیں کر رہی تو خد ا کے لیے بالکنی پر جاؤ۔  اور آسمان کی طرف دیکھو۔ ‘

 مگر حیرانی کی بات یہ تھی کہ میں بولنے کی کوشش ضرور کر رہا تھا مگر منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔

 کچھ اور بھی واقعات پیش آئے تھے —

 کمرے کی کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔  اور ایک لمحے کے لیے محسوس ہوا، سیلاب کا پانی کھڑکی کے راستہ اندر کمرے میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔  میں چیخنا چاہتا ہوں۔  رباب کو آواز دے کر جگانا چاہتا ہوں۔  مگر بے سود۔  سنامی لہریں تب تک ہمیں بہا کر دور لیے جاچکی ہوتی ہیں۔  رباب کی آواز پر میں جیسے خواب سے جاگا تھا۔

’ ایسے کیا دیکھ رہے ہو …‘

’ وہ …‘ کہتا ہوا میں ٹھہر گیا تھا۔

’  پریشان ہونے سے کوئی فائدہ ہے۔  جو بھی ہونا ہے، وہ کل تک سامنے آ جائے گا۔

 اس رات تین بار مجھے اپنی چوکھٹ سے چوٹ لگی تھی۔  اور اس رات میری گھڑی پھر گم ہو گئی تھی۔  بہت دیر تک تلاش کرنے کے باوجود نہیں ملی۔

’  چلو، نکاحی گھڑی سے چھٹکارا ملا۔  رباب نے ہنستے ہوئے کہا۔  اب مت تلاش کرو۔  کل نئی لے آنا۔ ‘

لیکن مجھے اسی لمحے ایسا کیوں محسوس ہوا، جیسے وقت کی سوئیاں چلتے چلتے اچانک رک گئی ہوں۔  رباب غور سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔

’ کیا ہوا۔ ؟‘

’کچھ نہیں ‘

’گھڑی کے گم ہونے سے پریشان ہو …؟‘

’ارے نہیں  …‘ کہہ کر سر جھٹکنے کی کوشش کی۔  مگر وقت جیسے ٹھہر گیا تھا —

 مجھے یاد آیا، اس دن علوی کے ابو ملے تھے۔  کمزور اور تھکے ہوئے۔  سلام مصافحے کے بعد بابری مسجد فیصلہ کا ذکر آتے ہی ان کی آنکھوں میں عجیب سی چمک جاگی تھی۔

 ’بس فیصلہ آ جائے …‘

’  لیکن اس فیصلے سے آپ کو کیا حاصل ہو گا۔ ‘

’یہ فیصلہ میرے حق میں آتا ہے تو احساس ہو گا، علوی کو انصاف مل گیا ہے۔  برسوں سے ساری لڑائی انصاف کی ہے۔  انصاف ہی تو نہیں ملا۔ ‘

آنکھیں نم تھیں۔  پھر علوی کے ابو رکے نہیں، آگے بڑھ گئے — میں یادوں کے جزیرے سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہوں۔

لیکن ہر بار باہر نکلنے کی کوشش میں وہ گھڑی سامنے آ جاتی ہے۔

 اس بار کہاں بھول آیا — ؟ بیسن سے بیڈروم اور صوفے تک سب جگہ تلاش کرنے کے باوجود گھڑی نہیں ملی — وقت دیکھنے کی عادت پڑگئی ہے۔  یہ جانتے ہوئے بھی کہ اب کوئی وقت، میرا نہیں ہے —  اندر ایک ہنسی کی آواز ابھرتی ہے۔

 فیصلہ تمہارے حق میں آیا تو …؟ تب بھی تم خطرے میں ہو ارشد پاشا۔

 اور اگر خلاف آیا تو —  تب بھی …

 اور یقیناً عینک کی تلاش میں ہی میں بالکونی پر آیا تھا۔

 اور تا حد نظر پھیلے آسمان کی جگہ گڈھوں کو دیکھ کر ڈر گیا تھا …

 پھر گڈھے ہلنے لگے …

جیسے سرخ پانی کی لہریں ہوں  —  تیز لہریں۔

 ’  ان لہروں سے مسجد جیسی ایک شکل تعمیر ہو رہی تھی …

یقیناً یہ ایک مسجد تھی۔  مسجد کا تعاقب کرتے ہوئے کچھ سائے تھے۔  خوفناک شکلوں والے … پھر آن کی آن میں مسجد ڈھا دی گئی … اب وہاں گڈھے تھے۔  سرخ گڈھے … اور ان گڈھوں کے درمیان …

 میں حیرت سے دیکھ رہا تھا۔  اور مجھے پہچاننے میں قطعی کوئی دشواری نہیں ہوئی۔  وہ میری گھڑی تھی۔  اور عجیب بات اس کی ٹک ٹک کی آواز  … یہاں تک مجھے سنائی دے رہی تھی …

 میں رباب اور شمیمہ کو چیخ چیخ کر آواز دینا چاہتا تھا —  شاید میں ہنس رہا تھا … وہاں دیکھو تو … میری گھڑی ہے۔  لیکن گھڑی چل رہی ہے … تم لوگوں تک بھی اس کی ٹک ٹک کی آواز پہنچ رہی ہے نا … میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہے …

میرے پیچھے شمیمہ کھڑی ہے۔

 ’ ابو … دیر ہو گئی۔  سو جائیے۔  آپ کی طبیعت خراب ہو جائے گی …‘

 میں پلٹ کر شمیمہ کو دیکھتا ہوں  … ایک لمحہ کو لگتا ہے … شمیمہ میں اسامہ زندہ ہو گیا ہے۔

 میں جیسے گہری نیند سے بیدار ہو گیا ہوں۔  ٹی وی اسکرین روشن ہے۔  اور فیصلہ آ چکا ہے …

٭٭

تاریخی فیصلہ آ چکا ہے۔  نگاہیں ٹی وی اسکرین پر جمی ہوئی ہیں۔

 زمین کی تقسیم تو ہو گی لیکن رام لللہ وہیں رہیں گے۔  8189صفحات پر مشتمل رپورٹ میں تمام حقائق سامنے رکھنے کے بعد یہ فیصلہ سنایا گیا کہ وہ جگہ وقف بورڈ کی نہیں ہندوؤں کی ہے —  اور درمیانی گنبد سے نیچے رکھی گئی مورتیاں اسی جگہ سے ہٹائی نہیں جائیں گی — عدلیہ نے وقف بورڈ کے مالکانہ حق کے دعویٰ کو خارج کر دیا۔  متنازعہ زمین ہندومسلم اور اکھاڑے میں برابر تقسیم کی جائے گی۔  اس طرح دو تہائی حصوں پر ہندوؤں کا حق ہو گا۔  زمین کا ایک تہائی حصہ مسلمانوں کو ملے گا۔  رام لللہ کی مورتیوں والا حصہ ہندوؤں کو دیا جائے گا۔  رام چبوترہ، بھنڈار اور سیتا رسوئی پر اکھاڑے کا حق ہو گا۔

میں گہرے سناٹے میں رہوں۔  اس سناٹے کا کوئی انت نہیں۔  کیا عقیدے کو بنیاد بنا کر جمہوریت کا مذاق اڑایا گیا ہے — ؟ اور اس مذاق میں عدلیہ کے تین ستونوں میں سے ایک ستون کے طور پر اقلیت کی آواز بھی شامل ہے —  کیا سب کو برابر کا حصہ دے کر خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے —  لیکن خوش کون ہے ؟ اور ہارا ہوا کون ہے؟ پانچ سو سال سے جو متنازعہ زمین بابری مسجد کی شکل میں سامنے تھی، کورٹ نے اس کے بارے میں ایک لفظ بھی کہنا گوارا نہیں کیا —  یہ بھی نہیں کہ جو مورتیاں ۱۹۴۹ء میں وہاں رکھی گئیں وہ وہاں کیسے آئیں  — ؟

 اس کی دیکھ بھال کرنے والے، زمین کے کاغذات رکھنے والے لوگ تو پیڑھیوں سے موجود رہے —  اقلیت ہمیشہ حاشیے پر رہی ہے۔  فیصلہ سن کرمحسوس ہوا، جیسے کورٹ کہہ رہا ہے کہ ہندو راشٹر میں آپ کا سواگت ہے —  دراصل یہی ہندستانی سماج کی اصلیت ہے۔  جو لوگ کہہ رہے تھے کہ 1992میں بابری مسجد گرنے کے بعد سے معاملہ ختم ہو گیا انہیں آج دیکھنا چاہئے کہ یہ اب کتنی بھیانک شکل اختیار کر چکی ہے۔

 دھوکہ … میں آہستہ سے چلاتا ہوں  …

 دروازہ پر دستک ہوئی ہے۔  اجے سنکھ تھاپڑ کی موجودگی اس وقت مجھے گراں گزر رہی ہے —

 وہ صوفے پر بیٹھ چکا ہے۔  چہرہ ہر طرح کے تاثر سے عاری …

 لیکن میرے سوئے ہوئے لفظوں کو زبان مل گئی ہے —

 ’  کیا یہ سیاست ہے؟  ‘

 ’  ایک بے رحم سیاست  ‘

’  اچھا یہ بتاؤ تھاپڑ۔  اگر یہ فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوتا تو کیا تم اسی خاموشی سے قبول کر لیتے جس طرح میں نے کیا ہے …؟‘

تھاپڑ چپ ہے —

 ’  یہ ملک جیسے تمہارا ہے، ویسے پچیس کروڑ مسلمانوں کا بھی —  ایک بڑے تاریخی مقدمے کے فیصلے کے لیے تین لوگوں کو بیٹھا دیا جاتا ہے —  ایک جج جو ماتھے پر ٹیکا لگاتا ہے اور ریٹائر ہونے والا ہے۔  کیا تم اس سے امید کرتے ہو کہ وہ انصاف کرتے ہوئے اپنے مذہب کو بھول جائے گا — ؟ سونے پر سہاگا، تم اقلیت کے ایک کمزور اور دبو آدمی کو بھی جج کی کرسی پر بیٹھا دیتے ہو کہ وہ پچیس کروڑ مسلمانوں کے تحفظ کے بارے میں غور کرتے ہوئے سچ بھول جائے اور ایک نکمے فیصلے پر اپنی منظوری کی مہر لگا دے —  تم وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہو کہ ہائی کورٹ کے بعد اگر سپریم کورٹ کی باری آتی ہے تو ہمیں انصاف مل جائے گا؟

 تھاپڑ کی نظریں جھکی ہیں  —

’  یہ صرف ایک فیصلہ نہیں تھا تھاپڑ —  ہماری زندگیاں لگی تھیں داؤ پر —  اٹھارہ برسوں کے بعد آیا یہ فیصلہ اگرسیاست کی نذر نہ ہوتا تو جانتے ہو کیا ہوتا —  صرف یہ ایک فیصلہ آزادی کے بعد کے ہزاروں نکمے فیصلوں کے داغ دھو کر ہمیں مین اسٹریم میں لے آتا — علوی کے باپ اپنے بیٹے کے درد کو بھول جاتے۔  مجھے اسامہ کی گمشدگی میں بھی انصاف ملنے کی امید نظر آتی۔  گودھرہ سے مالیگاؤں اور بٹلہ ہاؤس تک کی نا انصافیوں کو ایک موہوم سی امید کی کرن مل جاتی۔  بار بار ہماری وفاداریوں کو چیلنج کرتے ہو تم —  جبکہ ہماری وفاداریاں کھلی کتاب کی طرح روشن ہیں۔  لیکن تھاپڑ اب تمہاری وفاداری کو اس تاریخی فیصلہ کی آڑ میں ہم چیلنج کرنے آئے ہیں  — جھوٹی ہیں تمہاری حکومتیں  — مکار —  ساری حکومتوں کے چہرے ایک ہیں۔  ‘

میں ایک لمحے کے لیے ٹھہر تا ہوں  — ’ آج ہم میں سے کوئی بھی اپنے بچوں کو سنہری ماضی کی کہانیاں نہیں سناتا۔  پدرم سلطان بود … یہ ایک واہیات حقیقت تھی، جس کے پیچھے تباہ ہوتی ہوئی نسلوں کو دیکھا ہے ہم نے —  آنکھیں کھلتے ہی ہم اپنے بچوں کو حقیقت کی پتھریلی زمین پر چلنا سکھاتے ہیں  —  مگر ہوتا کیا ہے۔  آنکھیں کھلتے ہی اسامہ جیسے بچوں کو ایک بٹلہ ہاؤس مل جاتا ہے — کہیں دنگے ہوتے ہیں تو وہ ڈر جاتے ہیں۔  اسکول میں دوستوں کے درمیان بھی ڈرے ڈرے ہوتے ہیں۔  ڈر کے یہ انجکشن ان کے جسم میں ہم بھی پیوستہ کرتے رہتے ہیں  —  اور اس لیے کرتے ہیں کہ حکومت سے میڈیا تک بار بار ہمیں ڈرا رہی ہوتی ہے۔  ہم اخباروں میں مسلسل خوف و دہشت کی کہانیاں سنتے رہتے ہیں۔ چینلس پر دہشت گردوں کی یلغار دیکھتے ہوئے سہمے رہتے ہیں۔  اور یہ سب مسلمان ہوتے ہیں  —  دہشت کی ہر کارروائی کے پیچھے ایک مسلمان —  ٹی وی دیکھتے، اخبار پڑھتے ہوئے ہمیں اپنے ہی مذہب اور اپنی قوم کے لوگوں سے نفرت ہونے لگتی ہے — پھر احساس ہوتا ہے کہ ارے اس کے پیچھے تو تم تھے۔  یہ سب کچھ سوچی سمجھی کارروائیوں کا حصہ تھا —  ہم سکون کی سانس لیتے ہیں۔  پھر کوئی دوسری مسلم دہشت پسند کارروائی سامنے آ جاتی ہے —  اور تم ہر بار کہیں نہ کہیں ان کارروائیوں سے ہمیں جوڑ دیتے ہو —  ایک عام مسلمان کو —  جو صبح آفس جاتا ہے اور رات گھر آتا ہے —  ایک عام سیدھا سادا مسلمان جو تمہاری طرح اپنے وطن اپنے ملک سے اتنی ہی محبت کرتا ہے۔  اس لیے وہ اپنے ملک میں اپنے لیے دیئے جانے والے انصاف کی امید بھی کرتا ہے —  مگر کیا ملتا ہے اسے انصاف کے بدلے  — ہر بار ایک دھوکہ۔   ‘

 ’ ابھی سپریم کورٹ کا دروازہ کھلا ہے … ‘ تھاپڑ کی کمزور آواز ابھری۔

 ’  سارے ملک میں مسلمان جشن منا رہے ہیں۔  ٹی وی دیکھو۔  مٹھائیاں تقسیم جا رہی ہیں۔  جانتے ہو کیوں ؟ کیونکہ دنگے نہیں ہوئے۔  شانتی رہی۔  92نہیں دہرایا گیا —  یہ مٹھائیاں نہیں تقسیم جا رہی ہیں دوست۔  تم سے ایک حقیقت بتائی جا رہی ہے کہ ہم ہر حال میں خوش ہیں۔  ہم دبے رہیں گے۔  ہمارے انصاف یہی رہیں گے۔  اور ہمارا کام مسکرانا ہو گا۔  جشن منانا ہو گا۔  مٹھائیاں تقسیم کرنا ہو گا۔  بات کسی قوم کی شکست اور فتح کی نہیں ہے۔  انصاف کے لیے حقائق ہوتے ہیں۔  دستاویز ہوتے ہیں۔  ثبوت ہوتے ہیں۔  مذہب کا آدرش یا مکھوٹا نہیں ہوتا —  لیکن آدرش کا ایک مکھوٹا لگایا گیا  — اور عدلیہ کی کرسی پر ایک بے زبان مسلم جج کو بیٹھا کر تاریخ کا اتنا بڑا فیصلہ لے لیا گیا —  فیصلہ لینے والے جج نہیں تھے۔  دو الگ الگ مذہب کے لوگ تھے۔  اگر فیصلہ یہی تھا تو اس کے لیے اٹھارہ سال انتظار کرنے کی کیا ضرورت تھی — مذہب یا آدرش کی کسی بھی بوسیدہ کتاب سے یہ فیصلہ برسوں پہلے بھی سنایا جا سکتا تھا۔ ‘

میں زور زور سے بول رہا تھا اور اب میرے منہ سے جھاگ نکلنے لگی تھی۔  تھاپڑ غور سے میرے چہرے کے اتار چڑھاؤ کا جائزہ لے رہا تھا۔  اس کی آنکھیں سوچ میں گم تھیں  —

’شاید تم ٹھیک کہتے ہو … شاید پہلے میں بھی ایسا ہی سوچتا تھا۔  اور ہزاروں بار اس موضوع کو لے کر تم سے بات بھی ہوئی ہے۔  تم سے زیادہ میں ناراض ہوا کرتا تھا۔  ملک کے اس کرپٹ سسٹم پر۔ مگر ایک بات میں بھی بھول رہا تھا اور تم بھی …‘

میں نے تھاپڑ کی طرف دیکھا۔  اس نے اپنا بولنا جاری رکھا —

’  یہ آستھاؤں کا دیش ہے —  پھر انصاف میں ان آستھاؤں کو تھوڑی سی جگہ کیوں نہیں مل سکتی ارشد پاشا  — ؟ یہ فیصلہ آستھا بنام انصاف کے نام ہے۔  بہت کچھ بدلا ہے۔  جو صورتحال ۱۸ برس پہلے تھی وہ اب نہیں ہے —  مگر آستھائیں موجود ہیں۔  اور آستھائیں اس ملک کی شانتی بھنگ ہونے سے روکتی ہیں تو غلط کیا ہے ارشد پاشا —  اٹھارہ سال پہلے صرف مندر مسجد کا معاملہ تھا اور جوش سے بھرے دیوانے تھے —  لیکن ان اٹھارہ برسوں میں دنیا کے ساتھ اپنا ملک بھی بدلا ہے۔  انڈیا شائننگ بھلے بھگوا پارٹی کا ایک باسی نعرہ بن کر رہ گیا ہو، جسے اچھالنے کے باوجود وہ اپنی قسمت نہیں چمکا سکے —  لیکن انڈیا شائن تو کر رہا ہے۔  اور ایک بڑی طاقت، ایک بڑی حقیقت تو بن چکا ہے —  اٹھارہ برس بعد خوشحالی کی ریس میں دوڑتے ہوئے نوجوان ہیں  —  جو جانتے ہیں مسجد مندر سے روٹی نہیں ملنے والی —  کیریئر نہیں بننے والا۔  اس لیے اس بار فیصلے کو لے کر میڈیا کے ہنگامے کے باوجود عام آدمی خاموش رہا —  اور سب سے بڑی بات کہ یہ فیصلہ کوئی آخری فیصلہ نہیں ہے‘

مجھے احساس ہوا، تھاپڑ، پہلی بار، مجھ سے نگاہیں بچانے کی کوشش کر رہا ہے —

’  تو یہ فیصلہ کہاں ہے تھاپڑ؟ سمجھو تہ ہے نا —  آستھا کے نام پر ایک سمجھوتا کیا گیا۔  اگر یہ فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوتا تو کیا سنگھ کے لوگ اسی طرح خاموشی اختیار کر لیتے؟ کیا وہ اس فیصلے کو منظور کرتے؟ کیا تب اس ملک کی شانتی بھنگ نہیں ہوتی؟‘

  ’  ہونہہ ۔ ‘ تھاپڑ نے گہری سانس کھینچی۔

’ یعنی تم بھی یہ تسلیم کرتے ہو کہ سنگھ خاموش نہیں رہتا۔  لیکن مسلمان خاموش رہ جائیں گے — کیونکہ مسلمان آزادی کے بعد کے ہر معاملے میں اب خاموش رہنا جان چکے ہیں۔   ‘

 ’  تمہاری آواز میں آزادی کے باسٹھ برسوں کی کڑواہٹ شامل ہے …‘

’  کیوں نہیں شامل ہونی چاہئے تھاپڑ؟ صرف اس لیے کہ ہر بار ہمیں اپنی ناکامیوں کے لیے بھی جشن کا انتظام کرنا پڑتا ہے —  میں زور سے چلایا —  میرا بیٹا غائب ہوا ہے۔  تمہاری اس جمہوریت میں۔ جہاں آستھاؤں کے نام پر کسی بھی فیصلے پر ہماری مہر نہیں لگتی —  میں صرف اس لیے اس آستھا بنام انصاف کی حمایت نہیں کر سکتا کہ دنگے نہیں ہوئے —  فیصلہ دنگے بھڑکانے والوں کے نام ہوا ہے۔  ‘

’دنگے بھڑکانے والوں کے نام — ؟ تھاپڑ چونک کر بولا —

’  تم کیا سمجھتے ہو۔  وہ کل تک ا س بات کا اعلان کر رہے تھے کہ اگر فیصلہ ان کے حق میں نہیں آیا تو پرانی کہانی دہرائی جا سکتی ہے۔  یعنی اس جمہوریت کے قربان ہو جانے کے لیے صرف ہم بچتے ہیں  —  جسے آزادی کے بعد سے کھلونا دے کر بہلانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔  لیکن کب تک بہلاؤ گے — ؟ہم چین سے اور سکون سے رہتے ہیں تو تم بٹلہ ہاؤس لے کر آ جاتے ہو۔  ‘

تھاپڑ نے مسکرانے کی کوشش کی —

 ٹھیک یہی وقت تھا جب شمیمہ چائے کی ٹرے لے کر اندر آئی۔  اس کے ٹھیک پیچھے رباب تھی۔

 ’کیا باتیں چل رہی ہیں بھائی صاحب۔ ‘

 ’ارے کچھ نہیں۔  ‘

شمیمہ نے چائے کی ٹرے میز پر رکھ دی۔  تھاپڑ غورسے شمیمہ کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔

 ’ یہ میری بیٹی ہے۔ ‘

 رباب نے اپنے پاس ہی اسے صوفے پر بیٹھنے کے لیے کہا۔  میں نے نارمل ہونے کی کوشش کی —  لیکن شاید اس لمحے ایسا کرنا میرے لیے ناممکن ہو گیا تھا۔  شمیمہ سہمی ہوئی تھی۔  رباب نے مسکرانے کی کوشش کی۔

’چلیے۔  جو فیصلہ آیا ہے، اب اس کے بارے میں باتیں کرنے سے کیا فائدہ۔  ہم تو بس شانتی چاہتے ہیں بھائی صاحب۔  سب لوگ امن سے رہیں۔   ‘

میں نے رباب کی طرف دیکھا۔ یقیناً اس کی آنکھوں میں دہشت اب بھی موجود تھی —  اور شاید رباب کو اس بات سے تقویت ملی تھی کہ اب مجھے علوی کے خلاف بیان دینے کے حادثے سے نہیں گزرنا ہو گا —  کیونکہ فیصلہ ان کی حمایت میں آیا ہے۔

تھاپڑ نے پھر مسکرانے کی کوشش کی — ’ تب سے اس بیوقوف کو یہی تو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں بھابھی۔  مگر آج تو جیسے کریلے کی سبزی کھا کر  اٹھا ہے۔  آپ کریلا کیوں پکاتی ہیں بھابھی۔ ‘

’ہمارے یہاں کوئی کریلا نہیں کھاتا۔ ‘ رباب نے پھیکی ہنسی ہنستے ہوئے کہا —

چائے ختم ہو چکی تھی۔  رباب، شمیمہ کو لے کر واپس اپنے کمرے میں لوٹ گئی —

میری سوئی اب بھی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔  میں نے تھاپڑ کی طرف دیکھا۔  جانتے ہو تھاپڑ ہماری ناراضگی کی اصل وجہ کیا ہے؟ ہم نے ان فیصلوں میں اپنے بچوں کے لیے انصاف کی شکست دیکھی ہے۔ ‘

 میری آنکھیں نم تھیں  — ’ اس ملک کے کسی بھی فیصلے سے اب یقین اٹھ چکا ہے — ایک فیصلہ امن کی شرطوں پر —  امن کی امید صرف ہم سے کی جاتی ہے — ؟ ‘ارے ہم تو پہلے ہی صدمے سے جھکے ہوئے ہیں۔  یہ درمیان کا کیساراستہ ہے جہاں سب کو خوش کرنے کے لیے صرف ہمیں ہار کا تحفہ دے دیا جاتا ہے —  کورٹ کی ذمہ داری یہ نہیں تھی کہ سیتا رسوئی کہاں تھی اور بھگوان کہاں پیدا ہوئے —  یہاں تو مذہبی کہانی ہی گواہ بن گئی —  شاید دنیا میں ایسا پہلی بار ہوا۔  جب یقین اور آستھا نے ایک اہم تاریخی فیصلہ سنانے میں مدد کی ہو —  اور ان  کٹّر وادیوں کے لیے اشارہ بس اتنا ہے کہ ہم ہار چکے ہیں  —  اگر کل کاشی اور متھرا کی باری آتی ہے تو ہم پہلے سے ہی اپنی ہار تسلیم کر لیتے ہیں۔  ‘

’دنیا اب بدل چکی ہے — ‘ تھاپڑ اب بھی مجھ سے نظریں چرانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ’ اس لیے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آنے والے وقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔  آنے والے وقت میں ہم مندر مسجد معاملوں سے آگے نکل چکے ہوں گے۔‘

 ’شاید۔  لیکن تب بھی بٹلہ ہاؤس ہوتے رہیں گے —  میں نے ہنسنے کی ایک ناکام کوشش کی —

فضا بوجھل ہو چکی تھی۔  اب اس فضا کو مزید بوجھل نہیں کرنا چاہتا تھا۔  مگر جانے کیوں، آج تھاپڑ مجھے بدلا بدلا سالگ رہا تھا۔ یہ وہ تھاپڑ نہیں تھا۔  سسٹم کے بھوت کو گالیاں دینے والا تھاپڑ۔  مجھ سے کہیں زیادہ غصہ کرنے والا تھاپڑ۔  اور یقیناً میرے لیے یہ نئی اور حیران کرنے والی بات تھی۔

مگر شاید حیران کرنے والی بات اب سامنے آنے والی تھی —

تھاپڑ نے اچانک دھماکہ کیا تھا —

’میں گم ہونے جا رہا ہوں۔   ‘

’  مطلب ؟  ‘

گم کا مطلب نہیں جانتے کیا …؟‘

’  ہاں جانتا ہوں۔  مگر گم ہونا  …‘

’میں اچانک گم ہو جاؤں گا تمہارے درمیان سے۔  مگر میں چاہتا ہوں۔  اس سے پہلے ہم ایک بار ضرور ملیں۔  ‘

’ میں سمجھا نہیں۔  پہیلیاں مت بجھاؤ۔  کیا تم کاشی واپس لوٹ رہے ہو ؟۔

’  نہیں  ‘

’  لکھنؤ ؟  ‘

’  نہیں  ‘

’  تو پھر یہ گم ہونا؟ کیا گھر والے بھی …؟

’  ارے جہاں میں رہوں گا۔  وہیں تو گھر والے رہیں گے۔  ‘

تھاپڑ نے ہنسنے کی کوشش کی  —

’  مگر کہاں گم ہو جا ؤ گے۔   ‘

’ یہ ٹاپ سیکرٹ ہے۔  لیکن کل تمہیں کہیں لے جانا چاہتا ہوں۔   ‘

’  کہاں ؟ کس جگہ؟ اور کیوں ؟‘

’کتنے سوالات ہیں تمہارے اندر۔  شاید انہی سوالات کو تمہارے اندر سے نکالنے۔  یا ان میں سے بہت سارے سوالوں کے جواب تلاش کرنے کے لیے  …‘

تھاپڑ نے فلسفیانہ انداز میں کہنا شروع کیا —  دراصل کبھی کبھی ہم وہ نہیں ہوتے جو نظر آتے ہیں۔  جیسے یہ کائنات بھی کبھی مجھے کسی بلیک ہول کا ایک حصہ لگتی ہے —  ایک زندگی، تلاش کے نام پر ختم ہو جاتی ہے۔  کچھ لوگ آستھاؤں اور بھگوان کی تلاش کو زندگی کہتے ہیں۔  کچھ محبت کو۔  کچھ اشتراکی اور دوسرے نظریوں میں زندگی کی پناہ تلاش کرتے ہیں۔  اس لیے دراصل …

تھاپڑ کہتے کہتے رکا — ’ہم وہ نہیں ہوتے جو اصل میں ہوتے ہیں۔  تمہارا ابھی کا چہرہ وہ نہیں تھا۔  جو تم اصل میں ہو۔  میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہم میں ایک وقت میں کئی چہرے ہوتے ہیں  —  ملٹی پل ڈس آرڈر۔  یہ کچھ اور ہے —  ایک چہرے کو بنانے اور سنوارنے میں ہم کئی برس لگا دیتے ہیں۔  تب ایک بنیاد بنتی ہے۔  ایک یقین کی عمارت تیار ہوتی ہے۔  شاید ایک آئیڈیا لوجی بنتی ہے — ‘

میں غور سے تھاپڑ کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا —

تھاپڑ مسکرایا۔

’  اس لیے گم ہونے سے پہلے آخری بار تم سے ملنا چاہتا ہوں۔  اس کے بعد تم پر منحصر ہے کہ تم ملنا چا ہو گے یا نہیں  —  ممکن ہوا تو ملاقات کے راستہ آگے بھی کھلیں گے اور یہ ممکن ہے کہ یہ راستے ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں۔  ‘

’پہیلیاں  …‘ مجھے غصہ آ رہا تھا۔

’  نہیں اس میں کوئی پہیلی یا معمہ نہیں ہے میرے دوست —  یہ فیصلہ میں نے بہت سوچ سمجھ کر لیا ہے کہ تم کو وہاں لے جانا چاہیے یا نہیں  —  میرے دل نے کہا۔  نہیں لے جانا چاہئے —  شاید بدلتی ہوئی اس دنیا میں تم اپنے نظریہ کو ایک نیا موڑ دینے کے لیے تیا رہو سکو۔  جس کی امید مجھے کم لگتی ہے — مگر میں نے امید نہیں ہاری ہے — ‘

’ تھاپڑ۔ آج تمہاری کوئی بھی بات میرے پلّے نہیں پڑرہی ہے۔  مجھے لگتا ہے، کہیں نہ کہیں اس فیصلے نے تمہیں بھی متاثر کیا ہے۔  ‘

’  پتہ نہیں۔  تھاپڑ نے مسکرانے کی کوشش کی۔  مگر تمہار ا شکریہ دوست۔  تم نے میرا بہت ساتھ دیا ہے۔ بلکہ قدم قد م پر۔  اور سچ یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو تلاش کر رہے تھے اور میں تمہیں سمجھنا چاہتا تھا۔  ‘

 ’ سمجھ پائے  ؟‘

 ’تھوڑا تھوڑا —  یا تم سے کہیں زیادہ تم کو سمجھ پانے کی کوشش کی۔  ‘

اس بار اس نے زور سے ٹھہاکا لگا یا تھا  —

اس نے اٹھنے کی کوشش کی —

’ اب چلوں گا دوست۔  ‘

 ’ مگر خدا کے واسطے یہ تو بتا دو کہ چلنا کہاں ہے۔  ‘

’ وہ تمہیں پتہ چل جائے گا۔  ٹھیک دو بجے۔  وقت یاد رہے گانا … میں تمہارے پاس آ جاؤں گا۔  ‘

 ’تم مجھے الجھن میں ڈال رہے ہو۔  ‘

’زندگی ہی الجھن ہے۔   ‘

’ اور گم ہونا  …؟

’  نجات میں داخل ہونے کی کارروائی۔  ‘

’ یہ تو مذہب کو ماننا ہوا۔  تم مذہب کو کب سے ماننے لگے؟ ‘

تھاپڑ ہنسا —  تم ہی تو کہتے تھے، ہم میں سے ہر آدمی کے اندر کہیں نہ کہیں ایک سویا ہوا مذہب موجود رہتا ہے۔  ‘

 ’ تو کیا میں یہ سمجھوں کہ یہ مذہب جاگ گیا ہے۔  ‘

 ’ ہونہہ  ‘

’  یہ تبدیلی فیصلے سے پہلے آئی یا بعد میں ؟  ‘

 ’ اس تبدیلی میں اس فیصلے کا کوئی دخل نہیں  —  ‘ تھاپڑ زور سے مسکرا یا  —

’  تو یہ مذہب تمہارے اندر پہلے سے ہی موجود تھا اور تم مجھ سے چھپا رہے تھے۔  ‘

’جرنلسٹ مت بنو۔  اردو کے ہی صحافی رہو تو بہتر ہے۔  سب کچھ آج جان لو گے تو کل کیا کرو گے ارشد پاشا۔  ‘

’  کل  …؟

’ ارے دو بجے۔  بھول گئے کیا — ذہن پر زیادہ زور مت ڈالو۔  بس کل میرے ساتھ چلنا۔  اور اس سے زیادہ سوچنے کی ابھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔  ‘

٭٭

تھاپڑ جا چکا ہے۔  لیکن مجھے پہیلیوں کی دنیا میں چھوڑ گیا ہے۔  یہ ماننے کو دل نہیں چاہتا کہ تھا پڑ کے اندر کہیں سویا ہوا ایک مذہب بھی رہ سکتا ہے۔  تھاپڑ کی اب تک کی زندگی مجھے ایک معمہ کی طرح لگنے لگی — آج کی طرح بدلا بدلا وہ مجھے کبھی نظر نہیں آیا —

لیکن الجھن یا پہیلی سے زیادہ وہ مجھے دہشت میں مبتلا کر گیا ہے —  اس نے میرا شکریہ کیوں ادا کیا؟ وہ کہنا کیا چاہتا تھا؟

 کھل جا سم سم …

لیکن اس طلسم کی چابی ابھی میرے پاس نہیں تھی اور اس کے لیے مجھے آنے والے کل کا انتظار کرنا تھا —

تھاپڑ کے جاتے ہی رباب آ گئی تھی۔

 ’  بھائی صاحب آج کچھ بدلے ہوئے نہیں لگے؟  ‘

’  ہاں  ‘

’ سب کچھ بدل گیا ہے۔   ‘

’ زیادہ مت سوچو۔  دیکھو میں نے کچھ لکھنے کی کوشش کی ہے۔  پڑھو نا  …

رباب نے ایک کاغذ میری طرف بڑھایا۔  میں نے پیار سے مسکرا تے ہوئے کاغذاس کے ہاتھوں سے لے لیا —  رباب کی یہ ادا مجھے پسند ہے۔  جب وہ گھبراتی ہے یا پریشان ہوتی ہے تو اسے نظم یا کہانی کی صورت میں لکھ لیتی ہے۔  شاید ایسا کرتے ہوئے وہ اندر کے سارے غبار نکال کر خود کو ہلکا کر دیتی ہے۔  اور یہی میں نہیں کر پاتا۔

 میری آنکھیں نظم کا جائزہ لے رہی تھیں۔  آج اس نظم میں اس کا لہجہ مختلف تھا —

’  نہیں، سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے۔

 نہیں، سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔

 تیزی سے بدلنے کے عمل کو۔

 آپ، نیوٹن کا، سائنس کا فارمولا، نہیں کہہ سکتے

 نہیں کہہ سکتے

 گھبرائیے مت

 کہنے اور نہیں کہہ سکنے کے درمیان

 کھڑی ہے ایک مخدوش عمارت سیاست کی

 ایک جلتا ہوا شطرنج ہے۔

آگ میں جھلستے مہرے

اور ان کے شامل ہے

 ایک جلتا ہوا فیصلہ

 سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے

 یا سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے

 سب کچھ اچھا ہے

یا سب کچھ اچھا نہیں ہے

جب آپ بچانا چاہتے ہوں

 مہروں کو، اور پیادوں کو

 جلتی ہوئی شطرنج سے

 فی الحال سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے

 فی الحال سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے‘‘

 میری آنکھیں ان الفاظ میں ڈوب گئی ہیں۔  جیسے رباب نے خاموشی سے اس وقت کی کیفیت کو لفظوں کا لباس پہنا دیا ہو —

اس لمحہ میرے لیے وہ اپنے قد سے اور بڑی ہو گئی ہے —

٭٭

 

 

(6)

تھاپڑ کے جانے کے بعد رباب، شمیمہ کے ساتھ کیرم بورڈ نکال کر بیٹھ گئی۔  میں شمیمہ میں تیزی سے نئی اور خوشگوار تبدیلی کے آثار دیکھ رہا تھا۔  وہ خوش نظر آ رہی تھی۔  نئی زندگی اسے پسند آنے لگی تھی۔  ہاں، مجھ سے باتیں کرتے ہوئے ابھی بھی اسے گھبراہٹ سی ہوتی تھی۔  لیکن میری نفسیات بھلا وہ کیا سمجھتی۔  میں جب بھی اسے دیکھتا، اسامہ کی یادیں چاروں طرف سے شب خون مانے لگتیں۔  پھر میری ہمت نہیں ہوتی کہ میں شمیمہ کی طرف مسکرا کر دیکھوں یا اس سے باتیں کروں۔

’  وہ تم سے ڈرتی ہے … رباب نے بتایا تھا۔

’  اس سے کہو …بس کچھ دنوں میں سب ٹھیک ہو جائے گا  …‘

اسی درمیان دروازے پر دستک ہوئی تھی۔  دروازہ کھولا تو سامنے اکبری مسجد کے امام صاحب کا بیٹا صفدر کھڑا تھا۔  گھبرایا ہوا۔

’  کیا بات ہے صفدر …؟

’  غضب ہو گیا۔  علوی کے ابو کا انتقال ہو گیا۔  ہارٹ اٹیک۔ ‘

 ’ کب ؟ ‘

’  کچھ دیر پہلے۔  سارا محلہ جمع ہے۔  ‘

’ چلو میں آتا ہوں۔ ‘

میں کسی پتھر کے مجسمے میں تبدیل ہو چکا ہوں۔  جسم بے حرکت … آنکھیں بجھی ہوئی۔  آنکھوں میں بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی تصویر ایک بار پھر روشن ہو گئی  … علوی کے ابو کا معصوم سانورانی چہرہ۔  وہ اس تاریخی فیصلے کو برداشت نہیں کر پائے —

قدموں میں لرزش تھی۔  رباب مجھے گھبرائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

 ’ٹھہر جائیے۔  میں بھی چلتی ہوں۔

آنکھوں کے آگے جھلملا تے اندھیرے کا رقص ہے۔  اس لمحے مجھے اپنی دنیا کہیں کھو گئی لگتی ہے۔

 ٭٭

رات کے آٹھ بجے کا وقت۔  گاڑیوں کے ہارن کی تیز آوازیں۔  رکشے والے اور ٹیمپو والوں کے شور۔  تاریخی فیصلے کا شور علوی کے ابو مرنے کے شور میں کہیں گم ہو گیا تھا —  نوجوان، ادھیڑ عمر، بزرگ عورتیں، محلے والے جمع ہونے لگے تھے۔  دیکھتے ہی دیکھتے کالونی کے باہر بھیڑ لگ گئی۔  اور اس بھیڑ سے ٹریفک میں خلل پیدا ہو گیا۔  لوگ بیحد غصے میں تھے۔  حکومت کو گالیاں دی جا رہی تھیں۔  بالائی منزل اور سیڑھیوں سے ٹھہر ٹھہر کر رونے کی آوازیں آ رہی تھیں۔

 بھیڑ بڑھتی جا رہی تھی۔  شور بڑھتا جا رہا تھا۔  لوگ اب بھی چیخ رہے تھے —

’ فیصلہ کھا گیا علوی کے ابو کو‘

 ’ ارے بالکل ٹھیک تھے۔  فیصلے کے آنے تک بالکل ٹھیک تھے۔  کہتے تھے فیصلہ حق میں آیا تو علوی کے حق میں بھی فیصلہ آ جائے گا۔  پھر ہم علوی کو گھر لے آئیں گے …‘

 ’  پھر  …‘

’  ساڑھے تین بجے فیصلہ آیا۔  ۴ بجے سینے کے پاس تکلیف کی شکایت کی۔  لیٹ گئے۔  گھر والوں نے ڈاکٹر کو بلانے کے لیے کہا تو منع کر دیا۔  اور چھ بجے دل کا سخت دورہ پڑا۔  ‘

’ رہی سہی امید بھی دم توڑ گئی تو زندگی کہاں سے ملتی۔  ‘

’ اور دیکھو تو مرے بھی تو کس دن  …فیصلے کے دن۔  جیسے جاتے جاتے اپنا آخری پیغام دے گئے ہوں کہ فیصلہ نامنظور۔  ‘

 بھیڑ بڑھتی جا رہی تھی۔  امام صاحب، ڈاکٹر اجمل، راشد کے ابو، انجینئر صاحب عبدالمتین، زاہد صاحب، عمر شیخ، دوا کی دکان والے ڈاکٹر، علوی کے دوست اور رشتہ دار —

 لوگ آنسو بہا رہے تھے۔  چیخ رہے تھے۔

 ’دیکھا۔  مسلمانوں کو جھوٹادلاسہ دیا۔  اور سنگھ کے لوگوں کو خوش کر دیا۔  ‘

’ ارے کمی ہم میں ہی ہے۔  ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں تو مجال ہے کہ ہماری آواز دب جائے۔  ‘

’  بس مسلمانوں کو مشورہ کہ ہم خاموش رہیں۔  ہم خاموش کیوں رہیں صاحب  —  ‘

’ صاحب۔  بٹلہ ہاؤس کے معاملے کو پھر سے اٹھانے کی ضرورت ہے —  علوی جیل میں ہے اور انصاف کی امید کرتے کرتے علوی کے ابو دنیا سے کوچ کر گئے۔ ‘

’ ہم ہر بار دب جاتے ہیں۔  اس بار نہیں۔  اس بار ہم خاموش نہیں رہیں گے۔

’تو جائیے۔  چیخئے۔ چلائیے — ‘یہ امام صاحب تھے جو غصے میں چلتے ہوئے ان لوگوں کے پاس آ گئے تھے۔

 ’جائیے۔  ہنگامہ کیجئے۔  یہی تو وہ چاہتے ہیں  — اور آپ کے ہنگاموں کو بابری مسجد فیصلے کی مخالفت کے طور پر لیا جائے گا۔  یعنی عدالت کا فیصلہ آپ کو منظور نہیں  —  اور اس کے بعد کیا ہو گا جانتے ہیں۔  جانتے ہیں آپ لوگ …؟‘

امام صاحب زور زور سے بول رہے تھے — ’پہلے ایک بٹلہ ہاؤس ہوا تھا۔  وہ ہزاروں بٹلہ ہاؤس پیدا کر دیں گے۔  آپ، ہمیں۔  چھوٹے چھوٹے بچوں کو دہشت گرد بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر دیں گے۔  طاقت ہے آپ میں اپنے دفاع کی —  طاقت ہوتی تو پھر انکاؤنٹر کرنے والوں کو سرکاری تمغہ نہیں ملتا —  طاقت ہوتی تو حکومت اکھڑ گئی ہوتی —  بات مت بڑھائیے۔  سکون کی زندگی جینے دیجئے۔  ‘

’ سکون کہاں ہے امام صاحب …‘راشد کے ابو پوچھ رہے تھے —  میرے بیٹے کو مار دیا ظالموں نے۔  مجھے گھٹ گھٹ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔  قصور بتائے گی حکومت کہ میرے بیٹے کا قصور کیا تھا — قصور تھا نوجوان ہونا —  قصور تھا مسلمان ہونا —  قصور تھا کہ وہ اپنا کیریئر بنانا چاہتا تھا — کچھ بننا چاہتا تھا —  مار دیا سالوں نے۔  ٹیررسٹ بنا دیا —  ناراض مت ہوئیے امام صاحب ان لوگوں پر۔  یہ سب دکھی ہیں۔  علوی کے ابو تو چلے گئے۔  ہم کون سا زندہ ہیں ؟ اور یہ کوئی زندگی ہے امام صاحب —  ڈر ڈر کے جی رہے ہیں ہم اور آپ —  ایک ہی خوف کہ پھر کوئی بٹلہ ہاؤس سامنے نہ آ جائے۔  لیکن کب تک ڈریں گے —  کچھ تو کریں گے آپ؟ کوئی تو مورچہ لے گا۔  اس طرح تو حکومت اور سازشی جماعتیں مسلمانوں کا استعمال کرتی جائیں گی۔  کہیں تو کوئی آواز بلند ہو گی — ؟ ‘

’ ٹھیک کہتے ہیں آپ — ‘ ڈاکٹر اجمل سخت غصے میں نظر آ رہے تھے — ’ہماری زندگیاں بھی جائیں اور ہم اف بھی نہ کریں۔  صرف اس لیے مرغی کے دربے میں بند ہو جائیں کہ ہمیں دہشت گرد نہ کہہ دیا جائے —  صرف اس لیے کہ ہم داڑھی رکھتے ہیں اور ٹوپی پہنتے ہیں۔  موت سے بدتر لگنے لگی ہے یہ زندگی۔  ‘

 ڈاکٹر اجمل چیخ کر بولے — ’ سہنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔  آزادی کے بعد صرف سہتے ہی تو آئے ہیں مسلمان۔  ۱۸ سال ایک فیصلے کے انتظار کے بعد دھوکہ ملتا ہے۔  اس ملک سے کس انصاف کی امید رکھی جائے —  کوئی بولنے والا ہے ہمارے لیے — ؟ اردو اخبار لکھ لکھ کر، چیخ چیخ کر ہار گئے۔  حکومت کے کان میں جوں نہیں رینگی — ؟ نہیں نا۔  حکومت جانتی ہے کہ لکھنے سے کچھ نہیں ہوتا۔  حکومت بھی انہی کی ہے۔  اور انہی کے تلوے چاٹتی ہے۔  اور ہم سب جھوٹی امید کی دنیا میں رہتے ہیں۔  میں تو کہتا ہوں  …‘

’ آپ ٹھیک کہتے ہیں۔  اور میں آپ لوگوں کے جذبات سمجھ رہا ہوں۔ ‘

 ’ لیجئے میر صاحب بھی آ گئے۔  ‘

میر صاحب نے امام صاحب اور آس پاس کھڑے لوگوں کے تیور کو دیکھتے ہوئے کہا  —

’  میری مانیے —  اور اگر اسے سیاست سے نہ جوڑیے تو میں ایک بات کہنے کی اجازت چا ہوں گا۔  ‘

 ’ کہیے۔ ‘ امام صاحب کے لہجے میں تلخی برقرار تھی۔

 ’ میں پھر کہوں گا۔  میری تجویز کو سیاست نہ سمجھا جائے —  جیسا کہ ہمارے بھائیوں کا خیال ہے، ان دنوں ہمارے ساتھ سخت نا انصافیاں ہوئی ہیں۔  آج ہی تاریخی فیصلہ آیا اور آج ہی علوی کے ابو اس فیصلے کی تاب نہ لا کر جام شہادت پی گئے —  جی ہاں۔  جام شہادت —  اس فیصلے کی مخالفت ضروری ہے۔  اس مسلم مخالف فیصلے نے ہمارے دل توڑ دیئے اور بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی یادیں تازہ کر دیں۔  ‘

’ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں  —  ‘ امام صاحب کو یہ سیاست راس نہیں آ رہی تھی۔

 ’ میر صاحب کو کہنے تو دیجئے۔  ‘

’  ہاں میر صاحب اپنی بات پوری کیجئے۔   ‘

 ’  ہم سننا چاہتے ہیں کہ آخر آپ کے دل میں کیا ہے — ؟ ‘

’  اور آپ کی تجویز کیا ہے۔  ‘

میر صاحب کے حمایتی اچھی خاصی تعداد میں جمع ہو گئے تھے —

میر صاحب نے آسمان کی طرف دیکھا  — پھر گویا ہوئے —

’ علوی کے ابو کی موت رائیگاں نہیں جائے گی۔  کیوں نہ ہم ایک تیر سے دو شکار کریں۔  ‘

 ’ ایک تیر سے دو شکار، وہ کیسے — ؟ ڈاکٹر اجمل نے پوچھا۔

 ’سیدھی سی بات ہے۔  ‘ میر صاحب مسکرائے۔  ہم ایک طرف اس فیصلے کی مخالفت کا اعلان کر دیں  —  دوسری طرف بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے لیے احتجاج۔  کہ یہ زخم نہ بھرے ہیں۔  نہ بھریں گے۔  ‘

’لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟‘

 ’  کیا آپ پریس کو بلائیں گے؟‘

’  چینلس والوں کو  …؟‘

’  کیسے کریں گے احتجاج — ؟‘

’  میں اپنی تجویز رکھتا ہوں۔  سوچنا اور ماننا آپ کا کام ہے۔  ‘

 میر صاحب آہستہ سے بولے۔

 ’ تو پھر اپنی تجویز ہمارے سامنے رکھیے — ، امام صاحب نے کہا۔

’ ہاں ہم سننا چاہیں گے — ڈاکٹر اجمل بولے۔

’ تو سنیے —  ہم علوی کے ابو کے جنازے کو بطور احتجاج سڑک کے چوراہے پر رکھ دیں گے۔  نماز جنازہ وہیں ادا کی جائے گی۔  ‘

’  مطلب؟‘ امام صاحب زور سے چیخے —

’  نمبر ایک۔ وہ بھیڑ بھاڑ والا چوراہا ہے۔  ٹریفک جام ہو جائے گا۔  پریس اور چینلس کے لوگوں کو وہاں تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔  حکومت تک اپنا غصہ، اپنا احتجاج پہنچانے کا یہ بھی ایک راستہ ہے۔  مگر یہ تب ممکن ہے، جب آپ لوگ اس تجویز پر غور کریں۔  ‘

’  لیکن جنازہ چوک پر کب تک رکھا جائے گا — ؟ ‘

 ’  جب تک حکومت نہ جاگ جائے۔  ‘

’  لاش بدبو دینے لگے گی۔  ‘

 ’ ہم برف کی سلّیوں کا انتظام کریں گے —  ہمارے ساتھ اس جنازے میں ہزاروں لاکھوں لوگ ہوں گے۔  ‘

’ پھر تجہیز و تکفین ؟‘

 ’  انشاء اللہ کل ظہر کی نماز کے بعد۔  اتنی دیر میں حکومت اور سار ی دنیا تک ہمارا پیغام اور احتجاج پہنچ چکا ہو گا۔  ‘

میر صاحب خاموش ہو گئے تھے۔

 شور و غل میں اضافہ ہو چکا تھا —  اتنی دیر میں میر صاحب کی چھوڑی ہوئی آتش بازی اپنا کام کر چکی تھی —

’  مسلمانوں کو کسی نہ کسی صورت میں اپنا احتجاج حکومت تک پہنچانا ہی چاہئے۔  کیوں بھائی۔  ‘

 ’ میر صاحب کی بات میں وزن ہے۔  دوسال ہو گئے لیکن ہم میں سے کوئی بھی بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کو نہیں بھول سکا۔ ‘

 ’  قوم کے لیڈر ہمارے کام نہیں آئیں گے۔  میڈیا کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔  اگر میڈیا کا ساتھ مل جاتا ہے تو یقیناً ہم اپنا غصہ بخوبی درج کرانے میں کامیاب ہوں گے۔  ‘

’  پولس؟ لاء اینڈ آرڈر؟ ‘ بھیڑ میں کسی نے سوال کیا۔

 ’  کچھ موقع آتے ہیں جب لاء اینڈ آرڈر کو توڑ نا پڑتا ہے۔  ایک کر سک لینا پڑتا ہے۔  ‘

امام صاحب خاموش تھے۔

’ کیا علوی کے رشتہ دار اس کے لیے تیار ہو جائیں گے۔  ؟‘

’کیوں نہیں تیار ہوں گے؟‘

’علوی جیل میں ہے  — بے قصور —  اور انتقال کے بعد بھی علوی کو آخری بار باپ کو دیکھنے کی اجازت نہیں ملی — ‘

اس بات پر لوگوں کا غصہ دوبارہ پھوٹ پڑا —

’اجازت کیوں نہیں ملی — ‘

’  کیونکہ علوی کا معاملہ دوسرے کریمنل معاملات سے مختلف ہے۔  ‘

’ ہم جیل کی دیواریں توڑ دیں گے۔  ‘

’ ہم ایسا کچھ بھی نہیں کریں گے۔  یہ ایک خاموش احتجاج ہو گا۔  ‘

میر صاحب نے دوبارہ اس بحث میں حصہ لیا۔

’ اس بار انشاء اللہ سب ٹھیک رہا تو حکومت کو جھکنے پر مجبور کر دیں گے۔  اب اور بٹلہ ہاؤس نہیں۔  ‘

 ’  نعرہ ٔ تکبیر اللہ اکبر۔ ‘

کسی نے زور سے آواز لگائی۔

’  اللہ اکبر۔ ‘

 ایک ساتھ بہت ساری آوازیں بلند ہوئیں۔

سیڑھیوں سے تیزی سے بھاگتی ہوئی رباب نیچے آئی۔  ا س کی آنکھیں بھیڑ میں مجھے تلاش کر رہی تھیں۔  میں نے اسے پہلے ہی دیکھ لیا تھا۔

 رباب خوفزدہ تھی۔ ’ یہ سب کیا ہو رہا ہے — ؟‘

 ’  سیاست گرما گئی ہے …‘

’  لاش کو لے کر …؟

’  نہیں کہہ سکتا۔   ‘

’  یہ کون سا وقت ہے، مرے ہوئے کی سیاست کرنے کا — ؟ ‘

 میں نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔

 ’  مٹی منزل کب ہو گی؟‘

’  نہیں جانتا۔ ‘

 بھیڑ بڑھتی جا رہی تھی۔  ٹریفک کے شور بڑھ گئے تھے۔  اب مختلف گروپ بن گئے تھے۔  میر صاحب، امام صاحب اور راشد کے ابو الگ الگ اپنے اپنے لوگوں کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھے۔

رباب خوفزدہ تھی۔

’  مجھے یہاں ڈر لگ رہا ہے۔  شمیمہ اکیلی ہے۔  تم بھی گھر چلو۔  ‘

’  تم جاؤ۔  میں انتظار کروں گا۔  ابھی جانا مناسب نہیں۔  ‘

’  پھر میں بھی ابھی ہوں۔ ‘

رباب نے چاروں طرف دیکھا پھر پھسپھسا کر بولی۔  کیا ایسے موقع پر سیاست ضروری ہے — ؟ ‘

’  ابھی اسکا جواب میرے پاس نہیں۔  ‘

’  انہیں کس کا انتظار ہو رہا ہے۔   ‘

’مرحوم کے بھائی اور ماموں آنے والے ہیں۔  ان سے مشورے کے بعد ہی تجویز کو عملی شکل دی جائے گی۔ ‘

٭٭

میر صاحب کے خیمے کے لوگ جوش میں تھے  —

’  آپ کی بات میں وزن ہے۔  ‘

’نا انصافیاں ہی تو ہوئی ہیں مسلمانوں کے ساتھ۔  اس کے سوا مسلمانوں کے حق میں اچھا کیا ہوا — ؟ ہماری اپنی ایک آواز نہیں۔  ‘

 ’  میر صاحب آگے بڑھیے۔  ہم آپ کے ساتھ ہیں۔  ‘

 ’  اللہ اکبر ۔ ‘

 ’  نعرۂ تکبیر۔  ‘

 میر صاحب نے ہاتھوں سے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔

 ’  میں آپ کے جذبات سمجھتا ہوں۔  اور میں نہیں سمجھوں گا تو کون سمجھے گا، آپ کے جذبات — اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ دو سال قبل آپ لوگوں پر کیا گزری۔  اور آج کے دن حکومت نے نفرت کی ایک اور کیل ہمارے سینے میں ٹھوک دی۔  یہ کون بتائے گا انہیں کہ ہمارے زخم اب رسنے لگے ہیں۔  سہے نہیں جاتے۔  برداشت سے باہر ہو گئے ہیں  —  ہم ساری دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔  اور یہاں اپنے ہی ملک میں آزادی کے بعد کی یہ ذلت اب برداشت کے باہر ہو چکی ہے۔  اور یہ سب اس لیے ہے کہ حکومت تک ہماری آواز پہنچانے والا کوئی نہیں۔  حکومت ہمیں گونگا اور مردہ سمجھتی ہے۔  اس لیے ہمیں اذیت پہنچانے اور مارنے کے حیلے بہانے تلاش کرتی ہے۔  ‘

’ بجا فرمایا۔  ‘

 ’  میر صاحب۔  زندہ باد۔  ‘

 ’  مسلمانوں کے قائد۔  میر صاحب۔  زندہ باد‘

 اللہ اکبر …

 نعرۂ تکبیر۔  اللہ اکبر …

’  سبحان اللہ۔  ‘

’  ہماری فکر کرنے والا تو کوئی ہو۔  ‘

بھیڑ سے پھرا یک نیا نعرہ اچھلا —

’  میر صاحب آگے بڑھیے۔  ہم آپ کے ساتھ ہیں۔  ‘

میر صاحب نے مسکراتے ہوئے لوگوں کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔

 ’ یہ وقت ہوش کھونے کا نہیں۔  ہوش میں رہتے ہوئے سمجھداری سے اپنے مہرے چلنے کا وقت ہے۔  سیاست کی بساط بچھ چکی ہے —  تو ہم کیوں خاموش رہیں ؟ کیوں مارے جائیں ؟ کیوں ان کے ظلم وستم کو اپنا مقدر مان لیں ؟ آواز کیوں نہ بلند کریں۔  احتجاج کیوں نہ کریں۔  اور یہ بہتر وقت ہے اپنی آواز ان لوگوں تک پہنچانے کے لیے …‘

 راشد کے ابو بھی اس وقت بہت سارے لوگوں سے گھرے ہوئے تھے۔  ان کی آواز بوجھل اور کمزور تھی۔

’ اس حقیقت سے وہی واقف ہے جس نے خود اس صدمے کو جھیلا ہے۔ ‘

 ’  ٹھیک کہتے ہیں آپ۔  ‘

 ’  میری آنکھوں کے سامنے میرا بیٹا مارا گیا۔  گولیاں چلیں۔  میری آنکھوں کے سامنے۔  میں نے اپنے پھول جیسے معصوم بچے کو آنکھوں کے سامنے مرتے ہوئے دیکھا ہے —  اس پر بھی ظالموں نے بس نہیں کیا —  میرے بچے کو دہشت گرد بنا دیا —  میں اپنے بچے کی موت پر دو آنسو بھی نہیں بہا سکا۔  اہلیہ اور گھر والوں کو دلاسہ کیا دیتا۔  ‘

ہم میں سے زندہ کون تھا —  اور اب کون زندہ ہے  …‘

’  صحیح فرمایا۔  ‘

 الحمدللہ۔  ان کا خون خون، مسلمانوں کا خون پانی۔  ‘

 ’ اس لیے … راشد کے ابو کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے — ’ میں نے یہ زخم کھایا ہے اور جانتا ہوں، یہ زخم کیسا ہے —  علوی جیل میں ہے۔  بے قصور اور اس کے ابو فیصلے میں ہوئی نا انصافی کی تاب نہ لا کر انتقال کر چکے ہیں۔  کیا ہم سب اسی طرح ہارے جائیں گے —  کیا مسلمانوں کے لیے اب اسی طرح گھٹ گھٹ کر مرنا ہی مقدر رہ گیا ہے۔  ‘

 ’  بالکل بھی نہیں۔  ‘

 ’ آپ سچ کہتے ہیں۔  ‘

’  ان کی حقیقت اب سب کے سامنے آ چکی ہے۔  ‘

’ تو پھر ہم حقیقت کو کب سمجھیں گے؟ جب پانی سر سے اونچا ہو جائے گا؟ اب کتنا اونچا ہو گا پانی۔  اس لیے۔  میر صاحب سچ کہتے ہیں۔  ہمیں میر صاحب کی بات مان لینی چاہئے۔

 ’   اللہ اکبر …

نعرۂ تکبیر —

امام صاحب اپنی کمزور آواز میں لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے  میر صاحب کی باتوں میں نہیں آئیے۔  وہ سیاست داں ہیں۔  ساری زندگی ناکام سیاست کرتے رہے۔  سیاست میں کچھ نہیں ملا تو اب مسلمانوں کی سیاست پر اتر آئے ہیں۔  میری بات مانیے۔  لاشوں کی سیاست مت ہونے دیجئے۔

 لوگ خاموش تھے۔

’ زمانہ برا ہے۔  مسلمانوں پر بہت برا وقت آیا ہے۔  صبر سے کام لیجئے۔  ‘

’کب تک صبر کریں امام صاحب۔  صبر کی تو انتہا ہو چکی ہے۔ ‘

’  اور میر صاحب نے غلط کیا کہا؟‘

کچھ لوگ اما صاحب کی طرفداری کر رہے تھے —

 ’امام صاحب ٹھیک کہتے ہیں ‘

’  یہ وقت سیاست کا نہیں ہے‘

 ’  اس سیاست کو بابری مسجد فیصلے کی نا منظوری کے طور پر دیکھا جائے گا۔  ‘

 ’ ابھی امن ہے۔  لوگ ہمیں امن مخالف سمجھیں گے۔  ‘

 ’  دنگے بھی بھڑک سکتے ہیں۔  ‘

 ایک نوجوان غصے میں سامنے آیا —  بھڑکنے دیجئے۔  لیکن کل پولس والے ہمارا فرضی انکاؤنٹر تو نہیں کریں گے۔  انکاؤنٹر سے پہلے انہیں دس بار سوچنا ہو گا۔  ‘

’امام صاحب ہمیں سمجھائیے مت۔  سمجھانا ہے تو حکومت کو سمجھائیے۔  انہیں سمجھائیے جو بھید بھاؤ کے ساتھ فیصلہ کرتے ہیں۔  ان کو سمجھائیے جو بٹلہ ہاؤس کے، امن کے دشمن بن جاتے ہیں۔  ‘

امام صاحب کی آواز کمزور تھی —  میرا کام کہنا تھا۔  آگے آپ کی مرضی۔  آپ جانیں۔  اللہ سب کو اپنی امان میں رکھے۔ ‘ وہ کمزور قدموں سے آگے بڑھ گئے۔

 دس بجے تک علوی کے ابو کے رشتے دار آ گئے۔  کچھ لوگ علی گڑھ اور میرٹھ سے آئے تھے۔  کچھ ریلوے سے اور کچھ بس پکڑ کر۔  ابھی تک یہاں جو کچھ بھی ہو رہا تھا، اس کی اطلاع یا بھنک پولس کو نہیں ہوئی تھی —  دس بجے تک ٹریفک بہت حد تک کم ہو گیا —  آس پاس کے بہت سے دکاندار بھی دکان بند کر کے جنازے میں شریک ہونے کی غرض سے آ گئے تھے۔  جتنے منہ تھے اتنی ہی باتیں تھیں۔

ساڑھے دس بج گئے تھے۔

 میر صاحب علوی کے ابو کے رشتہ داروں سے گفتگو کرتے ہوئے سیڑھیوں سے نیچے آ گئے۔  یہ چار لوگ تھے —  بزرگ ہستیاں۔  کرتے پائجامہ میں  —  یہ لوگ میر صاحب کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے۔

’ بہت ممکن ہے، اس سے علوی کو باہر لانے میں مدد ملے۔  ‘

’  ہونہہ  ‘

’اور یہ فیصلہ آپ ہی لوگوں کو کرنا ہے۔  کیا آپ چاہیں گے کہ علوی زندگی بھر جیل میں سڑتا رہے —  کیا آپ علوی کے ابو کی خواہش کا احترام نہیں کریں گے۔ جو علوی کو جیل سے واپس لانا چاہتے تھے۔  جو چاہتے تھے کہ علوی کے کیریئر پر لگا ہوا داغ دھل جائے۔  کس کے بھروسے ہیں آپ لوگ؟ ایسے تو وہ لوگ علوی کو جیل میں مار ڈالیں گے — اور جیل کی زندگی تو مردوں سے بد تر ہے —  بس یہی ایک راستہ ہے۔  لیکن یہ راستہ آپ لوگوں کی حمایت پر منحصر ہے۔  آپ ساتھ دیتے ہیں تو علوی کے لیے ایک امید جاگتی ہے۔  نہیں دیتے تو علوی کی رہائی کا آخری راستہ بھی بند۔   ‘

’  آپ بجا فرماتے ہیں۔   ‘

’  انشاء اللہ ایسا ہی ہو گا۔ ‘

’  ایک بہتر سوچ علوی کو واپس لانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔  ‘

میر صاحب نے سرگوشیوں میں کہا —  لیکن یہ کام ہمیں خاموشی سے اور بغیر شور مچائے انجام دینا ہو گا — اور اس لیے بہتر ہے کہ لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے آپ لوگ میرے گھر چلیں  —  اس طرح بھیڑ لگانے سے یہ بات فورا پولس کی نوٹس میں آ سکتی ہے کہ ہم کیا کرنے جا رہے ہیں۔  اس لیے جو لوگ ہمارے ساتھ تعاون کرنا چاہیں وہ ہمارے غریب خانے پر چلیں۔  ‘

’  آپ کو ہم سب کا تعاون ملے گا۔   ‘

’  میر صاحب زندہ باد۔ ‘

علوی کے ابو کے خاندان والوں کی رضامندی ملتے ہی میر صاحب اور ان کے رفقاء میں جوش آ گیا۔  نوجوان بھی میر صاحب کے ساتھ تھے۔  اس لیے کہ مسلسل خوف و دہشت کی فضا میں جیتے ہوئے وہ اس پر آشوب موسم سے باہر آنا چاہتے تھے۔

کچھ ہی دیر میں یہ قافلہ میر صاحب کے گھر کی طرف چل پڑا —

رات کے ساڑھے گیارہ بج گئے تھے۔

 میر صاحب کے گھر کے اس بڑے سے ہال میں اس وقت ساٹھ سے ستر لوگ آندھی طوفان کی طرح جمع ہو گئے تھے۔  اور اسی کے ساتھ مین گیٹ کو بند کر دیا گیا —  میر صاحب کے دماغ نے احتجاج کے تمام پہلوؤں کو سوچ رکھا تھا۔  انہوں نے نوجوانوں کو آگے آنے کا اشارہ کیا۔  پھر کہا —  ’فرحان۔  مونس، ذیشان، آپ لوگ بینر تیار کریں گے —

 وہاں میز سے قلم اور کاپی اٹھائیے۔  اور بینر بنانے کی تیاری کیجئے —  بینر میں کیا لکھا ہو گا۔  یہ میں بتاتا ہوں۔  فرحان، مونس اور ذیشان کی عمر بیس سے پچیس کے درمیان ہو گی۔  یہ لڑکے شان سے آگے بڑھے۔  میز سے قلم اور کاپی سنبھال لی۔  میر صاحب سوچتے ہوئے بولے — کچھ عنوانات اس طرح ہوں گے۔  اور یہ عنوانات اردو ہندی اور انگریزی تینوں زبان میں لکھے جائیں گے۔  بینر ایسے ہوں گے جو دور سے پڑھے جا سکیں۔  آپ عنوانات لکھیے۔

٭ اب اور بٹلہ ہاؤس نہیں۔  No more Batla House

٭ہم دہشت گرد نہیں ہیں۔  We are not terrorist

٭ علوی کو رہا کرو۔

٭ مسلم نوجوان کی زندگی سے مت کھیلو

٭مسلم بستیوں کو نشانہ بنانا بند کرو۔

٭ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی فائلیں دوبارہ کھولی جائیں۔

٭ مظلوموں کے داغ دھوئے جائیں۔

 میر صاحب نے مجمع کی طرف دیکھا — پھر کہنا شروع کیا۔  اب غور سے میری بات پر توجہ دیجئے۔  یہ ایک خاموش احتجاج ہو گا۔  ہم کسی بھی حال میں کچھ نہیں بولیں گے۔  ہمارے بینر سب کچھ کہہ دیں گے۔ رات کے اندھیرے میں ہی ہم جنازے کو لے کر چوک کی طرف بڑھیں گے۔  اس وقت اگر چوکسی کرنے والے پولس نے پوچھا یا روکا تو ہم کہہ دیں گے —  قبرستان جا رہے ہیں  —  بینر چوک پر پہنچنے کے بعد ہی کھلیں گے۔  رات کے وقت چوراہے پر بہت کم ٹریفک ہوتا ہے۔  جیسے ہی ہم چوراہے پر پہنچیں گے ہمارے لوگ آنے والے ٹریفک کو روک دیں گے۔  ہم لاش چوراہے کے درمیان میں رکھ دیں گے —  لاش سے تھوڑی تھوڑی جگہ چھوڑ کر ہم بطور احتجاج زمین پر بیٹھ جائیں گے — آپ میں سے جو لوگ چادر تکیہ وغیرہ لے جانا چاہیں اس کی اجازت ہے —  کیونکہ ضرورت ہو سکتی ہے۔  چوراہے تک پہنچنے سے پہلے تک اس بات کی کانوں کان خبر نہیں ہونی چاہئے کہ ہم کیا کرنے جا رہے ہیں۔  ہمارے بچے چوراہے پر پہنچتے ہی اپنی اپنی پوزیشن لے لیں گے اور بینر اونچا کر دیں گے —  ٹریفک رکتے ہی، کچھ ہی دیر میں اس کی اطلاع نزدیکی تھانوں کو ہو جائے گی —  لیکن ہم جنازہ لے کر وہاں پہنچتے ہی اپنی کارروائی شروع کر دیں گے۔  یہاں ہم میں سے کئی لوگ ہیں جن کے پاس مووی کیمرے ہیں یا جو نیوز چینل میں کام کرتے ہیں۔  وہ فوری طور پر یہاں سے اپنی خبریں چینلس کو بھیجنے لگیں گے۔  تب تک ہماری خبریں ٹی وی پر آنی شروع ہو جائیں گی۔  دوسری اہم بات۔   …‘

میر صاحب نے غور سے لوگوں کے چہرے جا ئزہ لیا۔  پھر کہنا شروع کیا —

’  مقصد ہے حکومت تک اپنی بات پہچانا۔  اور علوی جیسے معصوم بچوں کو انصاف دلانا۔  یہ ممکن ہے کہ صبح تک حکومت کے کان میں جوئیں نہ رینگے۔  کوئی بات نہیں۔  ہم یہ وقفہ بڑھا دیں گے۔  فجر سے ظہر۔ ظہر سے عصر۔  عصر سے مغرب —  ہمارا مقصد ہو گا، حکومت اور انتظامیہ کو جھکانا — تاکہ آنے والے وقت میں حکومت اور پولس مسلمانوں کے فرضی انکاؤنٹرس سے دور رہیں  —  ہمارا احتجاج ہر حال میں خاموش احتجاج ہو گا۔  ہم ہنگامہ نہیں کریں گے۔  اور آپ یقین رکھیں۔  پولس ہم پر کسی طرح کا کوئی حملہ نہیں کرے گی۔  نہ لاٹھیاں برسائے گی۔  کیوں کہ چوراہے پر پہنچنے کے ساتھ ہی ہمارے دوسرے ہزاروں ساتھی بھی اس مقام پر پہنچ چکے ہوں گے۔ ہم اس چوراہے پر ایک دو نہیں لاکھوں مسلمان کو دیکھنا چاہتے ہیں۔  اور جب چینلس والے انٹرویو لینے پہنچیں گے تو ہم عام مسلمانوں کو یہاں تک پہنچنے کی دعوت دے چکے ہوں گے — کسی کو اور کچھ جاننا اور پوچھنا ہے۔  ‘

ایک صاحب آگے بڑھے — ’ کیا یہ احتجاج کسی مخصوص پارٹی یا ان جی اوز کی طرف سے ہو گا — ؟ ‘

 ’  نہیں۔  عام مسلمان کی طرف سے جو ملک کے کسی بھی گوشے میں رہتا ہو —  مگر خوفزدہ ہو۔  یہ احتجاج ہم اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ رکھنے کے لیے کریں گے۔ ‘

 ’  اور اگر حکومت ایک دن میں جھکنے پر راضی نہیں ہوتی تو ؟‘

 ’  تو ہم یہ مدت بڑھا دیں گے۔  یہ مت بھولیے کہ ہمارے ساتھ ایک جنازہ بھی ہو گا۔  حکومت یا پولس زندوں کا احترام بھلے نہ کرے، مردوں کا ضرور کرتی ہے۔  علوی کو میڈیا کی ہمدردی بہر طور ملے گی۔  اور انشاء اللہ تعالیٰ۔  ہم پہلے ایک قدم تو بڑھیں۔  بڑھیں گے تبھی تو تقدیر بھی ہمیں راستہ دے گی۔

 ’  الحمد للہ۔  ‘

’  کیا کہنے میر صاحب ۔ ‘

’  انشاء اللہ ہم فاتح ہوں گے۔   ‘

 ’  علوی کو انصاف ضرور ملے گا۔   ‘

 میر صاحب نے لوگوں کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا —  وقت کم ہے اور دو تین گھنٹہ ہی ہمارے پاس ہیں۔  اتنے ہی عرصے میں بینر بھی بننے ہیں۔  جنازہ بھی لے جانا ہے۔  اس لیے میٹنگ برخاست۔  آپ لوگ خاموشی سے اور سرعت سے اپنے اپنے کاموں میں لگ جائیے۔  اور خبردار۔  چوراہے تک پہنچنے سے قبل یہ خبر لیک نہیں ہونی چاہیے۔  ورنہ بنا بنایا کھیل بگڑ بھی سکتا ہے۔   ‘

میر صاحب کے خاموش ہوتے ہی جوش میں ڈوبے ہوئے لوگ آگے کی کارروائیوں کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔

٭٭

آسمان پر چاند ستاروں کا رقص جاری تھا۔  درختوں سے گزرتی سرسراتی ہوا میں اداسی کا نغمہ گھلا ہوا تھا —

 لوگ جا چکے تھے۔

 سڑک سنسان تھی۔  کبھی کبھی کتوں کے بھونکنے کی آواز ابھرتی۔  پھر کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا جاتی۔

میں ارشد پاشا …میں ان تمام واقعات کا گواہ ہوں  …

آنکھیں بے نور ہو گئی ہیں۔  اور دل پر پتھر جیسا بوجھ … میں یہ بھی نہیں جانتا کہ یہ سیاست کیا رنگ لائے گی۔

 یا، جو کچھ ہو رہا ہے یا پیش آنے والا ہے، اسے سیاست کا نام دینا چاہئے یا نہیں۔  برسوں سے یا صدیوں سے سلگتی ہوئی چنگاری کبھی کسی ایک لمحے، ایک بیمار اور سڑے ہوئے نظام کے خاتمے کی گواہ بن جاتی ہے۔

 کیا اس بار بھی ایسا ہو گا۔ ؟

باہر نکلتے ہوئے میں نے آسمان سے ٹوٹے اک تارے کو دیکھا تھا۔  کیا میں خوفزدہ تھا — ؟

یا اسامہ کی یادیں مجھ پر حاوی ہو رہی تھیں ؟

میں سب سے آخر میں گیٹ کھول کر باہر آیا تھا —

 اور اب سنسان سڑک پر میرے جوتوں کے بجنے کی آواز، وحشت کے گھنگھروؤں کی آواز میں شامل ہو رہی تھی  —

٭٭

 

 

(7)

’  ایک دن ہم ہار جاتے ہیں ؍

 اور ایک دن ؍

ہم پھر سے جینا سیکھ لیتے ہیں ‘

چنگی پر پولس کے سپاہی بیٹھے اونگھ رہے تھے۔  پلیا سنسان پڑی تھی۔  عبدل اور باری کی چائے کی دکانیں کھلی تھیں۔  دو ایک سگریٹ کی گمتیاں بھی کھلی تھیں۔  فٹ پاتھ کی دکانوں کے پاس ایک قطار سے سوئے ہوئے لوگوں کے خراٹے گونج رہے تھے۔  ان کے آس پاس کتے بھی اب بھونکتے بھونکتے سوگئے تھے  —

رات کے تین بجنے والے تھے۔  جنازے کو اندھیرے میں خاموشی سے لے جانے کی تیاری مکمل تھی۔  الگ الگ گروپ میں تھوڑے تھوڑے وقفے بعد لوگوں کو چوراہے تک پہنچنے کے لیے کہا گیا تھا۔  جنازہ لے کر چلنے والوں میں لگ بھگ ۵۰ سے ۶۰ لوگ شامل تھے۔  نوجوانوں نے بینر کو کپڑوں اور سامانوں میں چھپا لیا تھا۔  عورتوں کو یہ بتانے سے منع کیا گیا تھا کہ جنازے کو کہاں لے کر جایا جا رہا ہے۔  ممکن ہے۔  اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ عورتیں عام طور پر راز رکھنے کے فن سے واقف نہیں ہوتیں  —  امام صاحب ابھی بھی ناراض تھے۔  گو انہیں منانے کی بہت کوشش کی گئی۔  وہ چار قدم جنازے کے ساتھ چلنے کے بعد واپس لوٹ گئے تھے۔

 پلیا سے گزرتے ہوئے پٹرولنگ کرتے پولس کے سپاہی الرٹ تو ہوئے لیکن اتنے سارے لوگوں کے ساتھ جنازے کو دیکھ کر وہ پھر اپنی جگہ آ کر بیٹھ گئے  —  اندھیرے میں دور سے جنازے کے ساتھ سوگواروں کی بھیڑ کو دیکھ کر قطعی ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ یہ کسی نئے انقلاب کی تیاری ہے۔

 میر صاحب خاموشی سے آگے آگے جا رہے تھے۔  پلیا اور تنگ سڑکوں سے گزرتے ہوئے چوراہے سے پہلے بھی ایک قبرستان کی چہار دیواری دور سے نظر آتی ہے۔  اب ۴ بجنے والے تھے۔  سڑک اب بھی سنسان تھی۔  یہ مشہور چوراہا تھا، ایک ایسا چوراہا جہاں سے دلی کے مختلف علاقوں کے لیے بسیں آرام سے مل جاتی ہیں۔  صبح ہوتے ہی ۷ بجے کے بعد سے ہی اس چوراہے پر جو ٹریفک کے ہنگامے شروع ہوتے ہیں وہ رات ۱۰-۱۱ بجے تک چلتے رہتے ہیں۔  لیکن اس وقت چوراہے پر خاموشی تھی۔  ٹھہر ٹھہر کر کوئی گاڑی یا بس مختلف سمت کی جانب بھاگتی ہوئی نظر آتی  — اور اندھیرے میں دورسے یہ قافلہ ایسانظر آ رہا تھا جیسے بہت ساری روحیں ایک جگہ جمع ہو گئی ہوں۔

 کبھی فضا میں اللہ اکبر کی مدھم سی آواز گونجتی۔  عام طور پر کندھا بدلنے والے اللہ اکبر کی آواز کے ساتھ جنازے کو لے کر دو قدم چلتے۔  پھر ان کی جگہ کوئی دوسرا کندھا دینے والا آ جاتا …

اب چوراہا آ گیا تھا  —

سناٹے میں ڈوبا ہوا چوراہا۔  سگنلس گرین تھے۔  میر صاحب نے اشارہ کیا۔  اور سرعت سے ۶۰۔ ۷۰ لوگوں کا یہ قافلہ چوراہا پر پہنچ گیا۔  لاش درمیان میں رکھ دی گئی۔  لاش سے دو گز کا فاصلہ بنا کر چوراہے کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا۔  نوجوانوں نے بینر کھول لیے۔  آنے جانے والی گاڑیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔  یہ خاموش احتجاج تھا۔

 دس منٹ کے وقفہ کے بعد الگ الگ گروپ میں سینکڑوں لوگوں کا جتھا وہاں پہنچ چکا تھا۔  اور اس درمیان پیٹرولنگ، گشتی پولس کے سپاہی بھی وہاں پہنچ چکے تھے۔  میر صاحب نے انہیں بینر پڑھنے کا اشارہ کیا۔

 جنازے کے ساتھ شامل لوگوں نے چوراہے کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔  کچھ بزرگ لوگ زمین پر بیٹھ گئے۔  میر صاحب پولس والوں سے باتیں کر رہے تھے۔

 ’ آپ کی مرضی۔  آپ گولیاں چلائیں۔  گولیاں برسائیں۔  لاشوں کے ڈھیر لگائیں  —  لیکن ہم میں سے کوئی نہیں جائے گا۔  ہم انصاف کے لیے آئے ہیں۔  اور ابھی کچھ دیر میں یہاں لاکھوں کی بھیڑ ہو گی —  آپ کیسے روک پائیں گے۔

 پولس والوں کی پریشانیاں بڑھ چکی تھیں۔  وائر لیس سے چاروں طرف فون کیے جا رہے تھے۔  میسج بھیجے جا رہے تھے۔  اور ادھر چاروں طرف سے احتجاجی جلسے میں شامل ہونے والے مسلمانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔  جامعہ، بٹلہ ہاؤس، ذاکر نگر، اوکھلا، یہاں تک کہ جمنا پور، نئی دہلی، سیلم پور اور دور دراز علاقوں سے، جسے بھی خبر مل رہی تھی، وہ کسی بھی طرح اس احتجاج میں شامل ہونے کے لیے چلا آ رہا تھا۔  کپڑے لباسوں کے ساتھ، پانی کی بوتل لیے۔  کھانے پینے کے انتظام کے ساتھ۔

 کچھ ہی دیر بعد یہ علاقہ اچھی خاصی پولس چھاؤنی میں تبدیل ہو چکا تھا۔  چینلس کی گاڑیاں پہنچنے لگی تھی۔  چینلس والوں سے ابھی بات چیت کی اجازت صرف دو ایک ناموں کو دی گئی تھی۔  اور یہ مورچہ پوری طرح میر صاحب نے سنبھال رکھا تھا  —

پانچ بجے تک ہلکی ہلکی صبح نمودار ہو چکی تھی۔  دلی الرٹ ہو گئی تھی۔  ہندستان کے بڑے بڑے چینلس ہل گئے تھے۔  زیادہ تر چینلس اس احتجاج کے خلاف تھے۔  سرکاری مشینریاں جاگ گئی تھیں۔  ہوم منسٹر سے پی ایم او تک مسلسل فون ہو رہے تھے  —

اب تک خاموشی تھی۔  میر صاحب کے مطابق، ذرا صبح ہو جانے دیجئے —  ہم اپنا موقف آپ کے اور حکومت کے سامنے رکھیں گے  —  ٹھیک چھ بجے میر صاحب چینلس والوں کے سامنے آئے۔  ایک قطار سے مائک اور کیمرے لگے تھے۔  فلیش چمک رہے تھے۔  میر صاحب نے گلا صاف کیا۔  اور پھر کہنا شروع کیا —

’’  ہم ایک لاش کے ساتھ آئے ہیں۔  جنازہ رکھا ہے۔  مگر اپنا خاموش احتجاج ہم آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔  آزادی کے بعد سے آپ وعدے کرتے رہے اور ہم سنتے رہے  — سہتے رہے —  اس لاش کو دیکھے۔  یہ اس آدمی کی لاش ہے جس کے معصوم بیٹے کو دوسال قبل آپ نے جیل کی سلاخوں میں بھیج دیا۔  بٹلہ ہاؤس میں ایک انکاؤنٹر ہوتا ہے۔  مجھے کہنے دیجئے ایک فرضی انکاؤنٹر —  اور ایسا صرف میں نہیں کہہ رہا۔  یہ آپ بھی جانتے ہیں اور آپ کی میڈیا اور پولس بھی —  شواہد بھی ہیں آپ کے پاس۔  اور ایسے تمام شواہد ہیں جو اس پورے معاملے کو فرضی انکاؤنٹر ثابت کرتے ہیں  —  علوی جیل میں ہے۔  دوبے قصور بچے مارے جاتے ہیں۔  تیرہ سے زیادہ معصوم بچوں کو آپ کی پولس گرفتار کرتی ہے اور ان پر چارج شیٹ لگاتی ہے۔  اس جنازہ کو لے کر اس چوراہے پر رکھنے اور احتجاج کرنے کے مطلب کو سمجھئے —  اسے سمجھانا ضروری ہے — پہلی بات یہ ہے کہ اب تک ہمیں آپ ایک سرد لاش سمجھتے رہے —  اور ہم بے قصور ہو کر بھی مرتے رہے۔  بے جان اور سرد لاش میں تبدیل ہوتے رہے —  لیکن اسی کا دوسرا پہلو بھی ہے کہ اب ہم آپ کے اس منصوبے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جہاں برسوں سے آپ ہمیں سرد لاش میں تبدیل کرتے رہے ہیں  —  یہاں چاروں طرف دیکھیے۔  آپ کو سرہی سر نظر آئیں گے۔  اور یہ سب بس کچھ ہی دیر میں ہوا۔  اس میں زیادہ وقت نہیں لگا۔  اور اب آپ جتنا وقت لگائیں گے —  یہاں یہ تعداد بڑھتی جائے گی۔  اور آپ اسے روک نہیں پائیں گے …‘

 یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ہم لاش کی سیاست کرنے نہیں آئے — اپنا غم و غصہ ظاہر کرنے آئے ہیں اور آپ سے وعدہ لینے کہ آپ ہمارے ساتھ انصاف کریں گے —  جبکہ یہ آپ بھی بہتر جانتے ہیں کہ آزادی کے بعد آج تک ہم ایک معمولی انصاف کو بھی ترس گئے۔  آپ سے کچھ بھی نہیں چھپا کہ سچ کیا ہے۔  ہم کتنے گنہگار ہیں یا بے گناہ۔  آپ کی خفیہ ایجنسیاں ہیں اور آپ سے بہتر اس حقیقت سے کون واقف ہو گا کہ اکثر دہشت پسندی کی اس واردات میں ہم نہیں ہوتے۔  پھر بھی ہمیں پھنسایا جاتا ہے۔ کسی کو بھی کرتا پائجامہ پہنا کر کھڑا کر دیا جاتا ہے۔  میڈیا کے سامنے   — کتنے بچے ہیں جو گھر سے باہر نکلتے ہوئے کرتا پائجامہ پہنتے ہیں ؟ یا اردو جانتے ہیں  —  او ر آپ ہمارے ساتھ مسلسل بے رحم مذاق کیے جا رہے ہیں۔  افسوس یہ کہ ہمارے بیٹے تک آج اردو نہیں جانتے۔  مگر آپ ان کے ہاتھ میں اردو میں لکھی ہوئی ایک پرچی تھما دیتے ہیں۔  اور میڈیا کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔  جسے اپنے اپنے ٹی وی سیٹ کے آگے دیکھتے ہوئے نہ صرف ہم شرمندہ ہوتے ہیں بلکہ اندر اندر تک لرز جاتے ہیں۔   ‘‘

 میڈیا کے فلیش چمک رہے ہیں۔  اس وقت ہندستان کے تمام چینلس کی بریکنگ نیوز یہی ہے۔  مسلمانوں کا احتجاج  —

چینلس چیخ رہے ہیں  —  باغی مسلمانوں کا احتجاج۔  ہندستان کی مکمل تاریخ میں مسلمانوں کا ایسا احتجاج کبھی سامنے نہیں آیا —

حزب مخالف اس احتجاج کو دہشت پسندوں کی حمایت بتا رہے ہیں  —

چینلس چیخ رہے ہیں  —  حکومت کیا کارروائی کرے گی؟ کیا ہزاروں مسلمانوں پر گولیاں چلوائے گی —

حکومت بظاہر جھکنے کو تیار  نظر نہیں آ رہی تھی۔  مگر حکومت اس وقت لاچار تھی۔  پی ایم او آفس میں ایمرجنسی میٹنگ بلائی گئی تھی۔  وزیر داخلہ کے بیان جاری کیے گئے تھے —  جس میں پولس کو گولی نہ چلانے کی ہدایت کے ساتھ مسلمانوں سے امن کی اپیل کی گئی تھی —

میر صاحب مسلسل سرخیوں میں تھے۔  چینلس بار بار ان کے انٹرویو کو ہائی لائٹ کر رہا تھا …

’آپ مسلمان ہیں تو یہ جنگ آپ کی بھی ہے۔  آپ اب تک گھروں میں کیوں بیٹھے ہیں۔  باہر نکلیے۔  اور ہمارے اس پر امن احتجاج کا حصہ بنیے۔  اگر آج آپ نے کوئی آواز بلند نہیں کی تو تیار رہیے، مستقبل میں آپ کی ہر آواز دبا دی جائے گی۔ ‘

’ کیا آپ ایک مسلمان باپ ہیں ؟ ایمان سے کہیے، کبھی آپ کو ڈر محسوس نہیں ہوتا کہ آپ کی بچی کالج سے خیر خوبی سے واپس آئے گی یا نہیں۔  یا آپ کا بیٹا باہر ہے تو آپ گھر میں آرام کی نیند سو سکتے ہیں  — ؟‘

٭٭

یہ آدمی ٹھیک کہتا ہے …‘

’ابھی بھی سوگئے تو آنے والا وقت کبھی معاف نہیں کرے گا۔ ‘

لوگوں کا ہجوم اپنے گھروں سے باہر نکل رہا ہے —

پولس مجبور و بے بس —  دور دراز علاقوں سے آنے والوں کا قافلہ —  اور حکومت کو خوف کہ کہیں معاملہ ہاتھ سے نہ نکل جائے —

٭٭

میں ارشد پاشا —  ٹی وی سیٹ کے آگے جھکا ہوا انقلاب کی اس نئی آہٹ کا تجزیہ کر رہا ہوں تو پاؤں شل ہے اور دماغ بے جان۔  جسم سرد —

مجھ سے کچھ فاصلے پر شمیمہ کھڑی ہے —

 رباب کی خوفزدہ آنکھوں نے میری طرف دیکھا —

’ چائے پئیں گے؟‘

’نہیں  — ‘

رباب کے چہرے پر وحشت کی پرچھائیاں تیر رہی ہیں۔

’یہ سب کیا ہے؟‘

’نہیں جانتا — ‘

’کیا ان لوگوں کو یہ سب کرنا چاہئے تھا — ؟‘

میری آواز کمزور ہے — ’ نہیں جانتا —  لیکن بتاؤ رباب راستہ کیا ہے۔  راستے بند ہیں۔  جب سارے راستے بند ہو جاتے ہیں، سانس گھٹنے لگتی ہے تو ہم کیا کرتے ہیں رباب —  آخری بار حوصلہ کرتے ہیں  … کبھی کبھی یہ حوصلے خطرناک بھی ہو جاتے ہیں  …‘

’وہ دیکھیے …‘ رباب نے اشارہ کیا —  میرٹھ، بلند شہر، مرادآباد … لوگ اپنے اپنے گھروں سے نکل کر، بسوں پر سوار دلی کی طرف کوچ کر رہے ہیں  —  چینلس کے نمائندے مختلف شہروں سے اپنے پیغامات بھیج رہے ہیں  —  بہار، یوپی، ممبئی، اڑیسہ، کولکتہ، کیرل، چینئی … تمام جگہوں پر مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر —

’یہ سب بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا۔ ‘

’پچیس کروڑ کی آبادی دوسرے درجے کا شہری بنا کر رکھ دی گئی — ‘

حزب مخالف کے ہوش اڑ گئے تھے … بٹلہ ہاؤس چوک پولس چھاؤنی میں تبدیل ہو چکا تھا —  بہت سارے این جی اوز مسلم حمایت میں سامنے آ گئے تھے۔  کمیونسٹ پارٹی اور کئی دوسرے پارٹیوں نے بلا شرط علوی کو رہا کرنے کی مانگ اٹھائی تھی۔  راشٹریہ کانگریس کے نیتا رگ وید سنگھ کا بیان آ گیا —

’میں پہلے ہی کہتا تھا کہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر ایک فرضی انکاؤنٹر ہے — ‘

چاروں طرف سر ہی سر —  حکومت کی طرف سے بیان آ گیا تھا۔  قانون کو اپنا فیصلہ کرنے دیجئے۔  حکومت ان مانگوں کو ماننے سے قاصر ہے۔

میں ڈرائنگ روم میں آیا تو رباب اسامہ کی ایک بڑی سی تصویر ہاتھ میں لیے، شیشہ پر پڑی گرد صاف کر رہی تھی۔  شمیمہ کی آنکھیں بے نور اور بے حرکت ہو رہی تھیں  —  مجھے دیکھ کر رباب ٹھہر گئی —

’بیٹے کی یاد آ رہی ہے؟‘

’ہاں  — ‘ رباب نے آہستہ سے کہا۔  اس کی آنکھوں میں نمی صاف نظر آ رہی تھی —  اس نے پھر پلٹ کر میری طرف دیکھا …

’شاید ان لوگوں کے ایسا کرنے سے …‘

بولتے بولتے وہ ٹھہر گئی تھی —

’ہونہہ — ‘ میں نے گہری سانس لی — ’ تمہاری الجھنیں سمجھ سکتا ہوں رباب —  ممکن ہے وہ جہاں بھی ہو، یہ منظر وہ بھی دیکھ رہا ہو …‘

’ہاں  — ‘ رباب کو تسلی ملی تھی … بہت ممکن ہے، اسے اس بات کا احساس ہو کہ اس کی لڑائی بھی لڑی جا سکتی ہے۔ ‘

’ہاں  — ‘

 شمیمہ غور سے ہم دونوں کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔  اس کی پتلیوں میں لرزش تھی۔

’بھائی جان آ جائیں گے …؟‘

’ہاں کیوں نہیں۔  ضرور آئیں گے — ‘رباب نے شمیمہ کو پیار سے لپٹا لیا۔  اور تجھے معلوم، وہ سارا سارادن تمہارے پیچھے پیچھے گھوما کرے گا۔ ‘

شمیمہ کے چہرے پر ایک نامعلوم سی مسکراہٹ تھی، جسے لفظوں کا لباس پہنانا اس وقت میرے لیے ناممکن ہو گیا تھا —

میں دوبارہ ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھ گیا۔  تھاپڑ کی آواز میرے کانوں میں گونج رہی تھی۔  اس نے دو بجے کا وقت دیا تھا —  مجھے ہر حال میں اس سے ملنے جانا تھا —  لیکن ابھی اس وقت گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر جو کہانی لکھی جا رہی تھی اس نے مجھے خوف و دہشت میں مبتلا کر دیا تھا —  میرا دل کہہ رہا تھا، اس احتجاج سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا —  بلکہ الٹا اس سے مسلمان سوالیہ گھیرے میں آ جائیں گے —

میں ایک لمحے کو ٹھہر جاتا ہوں۔  ٹی وی پر مون ٹی وی کا نمائندہ پر تیوش اشارے سے لاکھوں کی بھیڑ کی طرف اشارہ کرتا ہوا چیخ رہا ہے۔

’آپ اس بڑھتی ہوئی بھیڑ کو دیکھیے اور نظرانداز مت کیجئے —

یہ وہی لوگ ہیں۔ یا وہی مسلمان جو روزانہ ہم سے ملتے ہیں۔  دفتروں میں کام کرتے ہیں۔  ہمارے دوست، ہمارے کلیگ ہوتے ہیں۔  لیکن وہ ہم سے کوئی گلہ کوئی شکایت نہیں کرتے۔  اپنے درد کو پی جاتے ہیں۔  کسی بھی آتنک وادی کارروائی میں ان کی قوم، ان کے مذہب کا آدمی سامنے آ جاتا ہے۔  اور وہ ہم سے منہ چھپائے پھرتے ہیں۔  لیکن ایک سچ یہ بھی ہے اور اس سچ کو اب مان لینا چاہئے کہ ہر جگہ، ہر آتنک وادی کارروائی میں کوئی مسلمان نہیں ہوتا —  ہندستان کی جیلوں میں آتنک واد کے نام پر ہزاروں لاکھوں بے قصور مسلم بچے سڑرہے ہیں۔  ان کے پاس بھوشیہ، فیوچر یا مستقبل کے نام پر کوئی بھی خواب اب باقی نہیں بچا ہے —  کون ہے اس کا ذمہ دار —  اس بھیڑ کو پہچانیے۔  یہ اپنا حق مانگ رہے ہیں۔  یہ آپ کے اپنے ہیں۔  اور اب ان کے برداشت کرنے کی حد ختم ہو چکی ہے تو یہ اپنی مانگوں کو لے کر سڑکوں پر آ گئے ہیں  — ‘

ٹھیک یہی وقت تھا، جب حکومت کے نمائندے شاہی امام سے مل رہے تھے۔  اور کچھ ہی دیر بعد شاہی امام کا فرمان بھی آ گیا—

’مسلمان ہوش میں رہیں اور ملک کے آئین پر اعتبار کرنا سیکھیں کسی کے کہنے پر نہ آئیں  —  احتجاج کے دوسرے بھی پرامن طریقے ہیں  —  علوی کو حکومت سے انصاف ہم دلائیں گے — ‘

لکھنؤ، بریلی، دارالعلوم سے بھی مسلمانوں کو ہوشیار کرنے والے ردّ عمل سامنے آ گئے تھے —

صبح کے آٹھ بج گئے تھے۔  سیاست الجھ گئی تھی۔  مسلم لیڈران دو حصوں میں  تقسیم ہو چکے تھے۔

 اور یہاں، بٹلہ ہاؤس چوک پر ایک لاش رکھی ہوئی تھی۔  آسمان میں کہیں دور اڑتے ہوئے گدھ بھی تھے —  اور ان سے الگ سیاست کی گرم ہوا تھی۔

 سب اپنے اپنے مہرے چل رہے تھے۔

 میر صاحب کی آواز ٹی وی اسکرین پر گونج رہی تھی —

’علوی جیل میں ہے۔  معصوم اور بے قصور … اور ہندستان کی دورسری جیلوں میں اب بھی ہزاروں لاکھوں معصوم علویوں کو قیدی بنا کر رکھا گیا ہے۔  اور ان سب کا ایک ہی جرم ہے۔  ان نوجوانوں کا مسلمان ہونا۔  اگر آپ ایسے ہی کسی علوی کے رشتہ دار ہیں، باپ ہیں تو انصاف کی آس لگائے بیٹھے نہ رہے۔  گھرسے باہر نکلیے۔  اور ہماری اس حق کی لڑائی میں ہمارا ساتھ دیجئے۔ ‘

میں ارشد پاشا … میں بالکنی پر آ گیا ہو … صبح کے آٹھ بج چکے ہیں۔  دھوپ چاروں طرف پھیل چکی ہے —  آنکھیں نیلے آسمان کی طرف اٹھتی ہیں۔  ایک چہرہ نمودار ہوتا ہے … میرے چہرے پر مسکراہٹ پیدا ہوتی ہے … پھر ایک کمزور آواز سرنکالتی ہے …

’یہ تم کہاں بھٹک رہے ہو اسامہ …؟‘

’کہیں تو نہیں  — ‘

’کبھی اجودھیا، ہری دوار … کبھی سنگھ کے لوگوں کے شامل …؟‘

’ہاں  …‘

’لیکن کیوں  …؟‘

’یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم …‘

تمہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ یہاں کوئی تمہارا انتظار بھی کر رہا ہے۔  مجھ سے خفا تھے۔ چلو کوئی بات نہیں۔  مگر سچ بتانا، تمہیں کبھی ماں کی یاد بھی نہیں آتی …‘

’آتی ہے …‘

’پھر آ کیوں نہیں جاتے۔  چلے آؤ —  ا س گھر کی اداسی اور ویرانی تمہارا انتظار کر رہی ہے — ‘

یقیناً میری آنکھیں نم تھیں  … میں اس وقت چونکا، جب رباب پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔

’تم نے سنا۔ ‘

’کیا …؟‘

’اب فسادات بھی شروع ہو گئے۔ اعظم گڑھ اور مالیگاؤں میں جلوس کے لے کر دو گروپ میں جھڑپ ہو گئی۔ ‘

میں نے مسکرانے کی کوشش کی — ’ میں نہیں جانتا، اس بغاوت کا نتیجہ کیا ہو گا۔  مگر بغاوت اکثر تشدد کی آگ کو لے کر آگے بڑھتی ہے — ‘

۹بجے تک وزیر داخلہ کا بیان آ گیا۔  علوی کو چھوڑنا ناممکن ہے۔  مسلمانوں کی مانگوں پر غور کیا جا سکتا ہے۔  لیکن اس کے لیے وقت چاہیے۔  مسلمان انصاف اور قانون پربھروسہ بنائے رکھیں  —  حکومت نے تمام پارٹیوں کی میٹنگ بلائی ہے جہاں اس مسئلے پر غور  و خوض کیا جائے گا۔ ‘

اپوزیشن اس بغاوت کومسئلہ ماننے کو تیار نہیں تھی —

 وہ آتنک وادیوں کے آگے جھکنے کو تیار نہیں تھی —

اپوزیشن اسے پاکستان کی نئی سازش قرار دے رہی تھی۔  لاش کے لیے برف کی سلیوں کا انتظام کیا گیا تھا۔  دھوپ کی تمازت سے برف تیزی سے پگھلتی جا رہی تھی —  اوکھلا چوک کا نظام درہم برہم ہو چکا تھا۔  سیاست میں مزید گرمی آ چکی تھی —

دس بجتے بجتے تھاپڑ کا فون آ گیا —

’کہاں ہو تم …‘

’میں تو یہیں ہوں۔ ‘

 دوسری طرف سے ہنسنے کی آواز آئی۔  ’یہ کیا کرنے لگے ہو۔  یہ تمہیں نہیں کرنا چاہئے تھا۔ ‘

’مجھے کیا کرنا چاہئے تھا۔ ‘

’ وہی جو تم کر رہے ہو۔ ‘

 ’میں کیا کر رہا ہوں۔ ‘

’اب اتنے بھولے بھی مت بنو —  سیاست —  ایک لاش کی سیاست۔ ‘

اب مجھے غصہ آ گیا تھا —  ایک لاش اگر پچیس کروڑ مسلمانوں کا حق مانگتی ہے تو گناہ کیا ہے۔ ‘

’گناہ یہ ہے کہ لاش بول نہیں سکتی۔  کیا پچیس کروڑ کی آبادی ایک لاش میں تبدیل ہو چکی ہے، تم یہ کہنا چاہتے ہو۔ ‘

’نہیں۔  پچیس کروڑ کی آبادی اب لاش میں تبدیل نہیں ہو گی۔  یہ کہنا چاہتا ہوں۔ ‘

 ’ہونہہ۔ ‘ دوسری طرف کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی۔  جیسے تھاپڑ کے چہرے پر فکر کی چادر تن گئی ہو۔

میرے لیے یہ تھاپڑ کا نیا چہرہ تھا۔

 تھاپڑ کی آواز دوبارہ ابھری —

’اس کے باوجود ڈرامہ بٹلہ ہاؤس چوراہے پر کھیلا جا رہا ہے۔  میں اس کی حمایت نہیں کروں گا —  اس طرح کوئی انقلاب پیدا نہیں ہوتا۔  اور انقلاب کے نمائندے کون ہیں۔  میر صاحب —  میں نے ان کے بارے میں پتہ کیا ہے۔  انہیں کوئی نہیں جانتا۔  یہ ان لوگوں میں شامل ہیں جو مسلم ٹکڑوں کی سیاست میں زندگی گزار دیتے ہیں لیکن ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا — ‘

میری آواز زخمی تھی۔  میر صاحب غلط ہو سکتے ہیں لیکن یہ احتجاج غلط نہیں ہے۔  کوئی بھی اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو کب تک برداشت کر سکتا ہے۔  ہزاروں بے قصور نوجوان جیلوں میں بند ہیں۔  آتنک واد کی ہر کارروائی کے بعد پولس ایک اسلامی جہاد ی تنظیم اور چند مسلمان چہروں کوسامنے لا کر بچ نکلتی ہے۔  کبھی تو انصاف ہو گا — ‘

’تو انصاف چاہتے ہو تم …؟‘

’ہاں  — ‘

’اور انصاف کے لیے میر صاحب جیسے لوگوں کا آسرا ہے۔ ‘

’نہیں  — ‘

 اس بار میں زور سے ہنسا — ’ لگتا ہے کہ ٹی وی نہیں دیکھتے  — بٹلہ ہاؤس چوک کیوں نہیں آ جاتے۔  ہزاروں لاکھوں کے اس ہجوم کو دیکھ کر تم بھی ڈر گئے ہوتھاپڑ۔  اور یہ ہجوم صرف چند گھنٹوں میں اکٹھا ہوا ہے۔  صرف ۷۔ ۶ گھنٹوں میں ایک بڑی مسلم آبادی اگر احتجاج کے لیے جمع ہو سکتی ہے توسوچ سکتے ہو، چھ سات دنوں میں اس کا اثر کیا ہو سکتا ہے۔  یہ آزادی کے ۶۵ برسوں کی دبی ہوئی آگ ہے تھاپڑ، جنہیں اب نکلنے کا موقع ملا ہے۔ ‘

تھاپڑ کی آواز کمزور تھی —  ’پھر بھی میں کہتا ہوں۔  یہ ٹھیک نہیں ہو رہا۔  مسلمانوں نے احتجاج کے لیے صحیح وقت کا انتخاب نہیں کیا —  کیا اب بھی تم سمجھتے ہو کہ حکومت خود سے کوئی فیصلہ لے سکتی ہے۔  اور دوسری پارٹیاں خاموش رہ جائیں گی — ‘

’ابھی میں یہ سب جاننا بھی نہیں چاہتا — ‘

’خیر چھوڑو۔  دو بجے آ رہے ہونا …‘

 مجھے اچانک تھاپڑ کی آواز میں ایک خاص چمک محسوس ہوئی تھی۔

’ہاں۔ ضرور آؤں گا — ‘

 ’میں تمہارا انتظار کروں گا۔ ‘

فون کاٹ دیا گیا تھا —

میں گہرے سناٹے میں تھا۔  ایک ایسے سناٹے میں جس کا کوئی انت نہیں۔  کیا یہ سچ مچ تھاپڑ تھا۔  وہی تھاپڑ جو کاشی کی گلیوں سے اب تک میرے ساتھ تھا — میرے لیے نوکری کی تلاش کرنے والا، میرے زخموں پر مرہم رکھنے والا۔  میرے بچوں کی دلجوئی کرنے والا، اسامہ کے لیے میرے ساتھ شہر شہر مارا مارا پھرنے والا —  مسلمانوں کی حمایت میں آواز بلند کرنے والا —

پھر یہ تھاپڑ کون تھا، جو فون پر مجھ سے مخاطب تھا …

میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا تھا —

دھوپ چاروں طرف پھیل گئی تھی۔

 بارہ بجے تک میر صاحب کا نیا اعلان بھی سامنے آ گیا۔  جب تک حکومت علوی کو رہا کرنے کا فیصلہ نہیں لیتی، یہ لاش یہاں سے نہیں ہٹے گی —  ہم تب تک یہیں ڈٹے رہیں گے۔  علوی کے ساٹھ بٹلہ ہاؤس حادثے میں جن معصوم نوجوانوں کو پولس نے گرفتار کیا ہے، حکومت انہیں بھی آزاد کرے —  حکومت بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کو فرضی انکاؤنٹر  گھوشت کرے —  اور مقتول انسپکٹر ورما  کو دیا جانے والا سرکاری تمغہ حکومت واپس لے — ‘

میں اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گیا ہوں۔  سب کچھ تیزی سے بدلتا ہوا —  ایک بدلتی ہوئی دنیا —  بدلتا ہوا نظام —  اور اس نظام میں سانس لیتا ہوا انقلاب۔  اور دوسری طرف  —  وہ سہمے ہوئے نوجوان مسلم چہرے جنہیں ٹی وی اسکرین پر دیکھتے ہوئے گھبراہٹ ہونے لگی تھی —

یہ سیاست اس وقت مجھے پاگل بنا رہی تھی۔  مجھے تھاپڑ سے بھی ملنا تھا —  ساڑھے بارہ بجے تھاپڑ  کا فون آ گیا —

’تم کسی طرح کناٹ پلیس ریولی سینما پہنچ جاؤ۔  میرا ایک آدمی تمہیں لینے آئے گا —  پریشان مت ہونا۔  وہ آدمی تمہیں پہچانتا ہے۔ ‘

فون کاٹ دیا گیا —

میرے جسم میں ہزاروں کی تعداد میں چیونٹیاں سرسرا رہی تھیں۔  جو سوال اندر پیدا ہو رہے تھے ان کا جواب صرف اور صرف تھاپڑ کے پاس تھا —

٭٭

 

 

(8)

بندے ماترم

یقیناً تم وہ سب کچھ نہیں دیکھ پاؤ گے/

جنہیں تم دیکھنا چاہتے ہو/

ریڈ الرٹ۔ سڑ ک پر چاروں طرف پولس چھائی ہوئی تھی۔  میں باہر نکلا تو زیادہ تر علاقے کی دکانیں بند نظر آئیں۔  چاروں طرف سناٹے کی حکمرانی تھی۔  چائے کے ہوٹل اور پان کی گمتیاں بھی بند تھیں  —  مجھے یقین تھا، بس کی تلاش بے سود ہو گی —  سڑک پر ایسا ماحول تھا جیسے عام طور پر کرفیو کے موقع پر ہوتا ہے۔  مگر یہی بات بٹلہ چوک کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی تھی —

 یہاں ان اطلاعات کی چنداں ضرورت نہیں کہ میں ریولی سینما تک کیسے پہنچا۔  یہ تفصیلات بے رنگ ہیں اور ان کا جاننا کوئی ضروری نہیں۔  مگر ٹھہرئیے۔  کیا آپ جادو پر یقین رکھتے ہیں ؟ طلسمی کہانیوں پر —  جیسے عام طور پر آپ کسی عجوبہ یا واقعہ کوسن کر کہہ دیتے ہیں۔  یہ کہانی تو فلمی ہے —

مگر اس وقت میں حیران کرنے والی ایسی ہی ایک دنیا کا مسافرتھا —  اور ان چاند تاروں کی گواہی میں یہ کنفیشن میرے لیے ضروری ہے کہ مندرجہ ذیل سطور میں جو کہانی آپ پڑھنے جا رہے ہیں، وہ حرف بہ حرف سچ پر مبنی ہے۔  کبھی کبھی سچ بالکل سامنے ہوتا ہے۔  اور ہم اس سچ سے کتنے بیگانہ ہوتے ہیں  —

ایک ایسی کہانی جس کے آگے طلسم ہوشربا کی کہانیوں کی چمک بھی دھندلی پڑ جائے —  میں ارشد پاشا، میں اس طلسمی دنیا سے واپس آ گیا ہوں۔  میرے قلم میں اس وقت لرزش ہے اور بہت ممکن ہے، میر ی چشم نم نے جو بے رحم نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھاہے … وہ میں اس طرح بیان بھی نہ کرپاؤں اور اس کے لیے میں معافی کا خواستگار ہوں  —  میری آنکھوں کی پتلیاں ابھی بھی ساکت اور بے جان  … اور ہاتھوں میں قلم کا نپتا ہوا …

جیسے ہی میں ریولی پہنچا، ایک نیلے رنگ کی پرانی فیٹ کار میرے پاس آ کر رک گئی —

’بیٹھ جائیے — ‘

میں پیچھے والی سیٹ پر بیٹھ گیا —  میرے ساتھ والی سیٹ پر پچیس سال کی ایک خوبصورت سی لڑکی تھی —  وہ سامنے کی طرف دیکھ رہی تھی۔  ڈرائیور نے بھی ایک بار بھی پلٹ کر میری طرف نہیں دیکھا تھا۔  بارہ کھمبا روڈ کراس کراتے ہی لڑکی نے بغیر میری طرف دیکھے ایک سیاہ رنگ کا چشمہ میری طرف بڑھایا  —  وہ شستہ اردو میں بات کر رہی تھی۔

’معاف کیجئے گا۔  آپ کو تکلیف ہو گی۔  مگر آپ اسے پہن لیجئے۔  اسے کچھ دور تک، جب تک ہم منزل تک پہنچ نہیں جاتے، آپ اسے پہنے رکھیے گا۔ ‘

میں خود کو نظر بند محسوس کر رہا تھا۔  چشمہ آنکھوں پر لگاتے ہی میں اپنی دنیا کا قیدی بن گیا تھا —  ظاہر ہے، میرے لیے اس سیاہ چشمہ کو پہننے کے بعد یہ قیاس کرنا مشکل ہو گیا تھا کہ ہم کن راستوں سے گزر رہے ہیں۔

کھڑ کی کے شیشے چڑھے ہوئے تھے۔  مجھے اندازہ ہے کہ جائے مقصود پر پہنچنے میں مجھے تیس سے پینتیس منٹ لگے ہوں گے۔  گاڑی کے کسی عمارت میں داخل ہونے تک مجھے گیٹ کے بند ہونے کی آواز سنائی دی۔  کچھ ہی لمحے بعد پاس والی سیٹ پر بیٹھی لڑکی کی آواز میرے کانوں میں گونجی۔  اس بار لہجے میں ملائمیت اور اپنائیت شامل تھی۔

’اب چشمہ اتار دیجئے۔ ‘

 گاڑی سے اترتے ہی سامنے ایک دروازہ تھا۔  مجھے دروازے سے اندر لے جانے والا ایک نوجوان تھا، جس نے لڑکی کو کچھ اشارہ کیا —  یہ ایک چھوٹا سا ہال تھا —  دو صوفے لگے تھے۔  میں نے جائزہ لیا تو دیواروں پر کسی بھی طرح کی کوئی پینٹنگ نہیں تھی۔  مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ مجھے یہاں کیوں اور کس ارادے سے لایا گیا ہے۔  میں یہ سمجھنے سے بھی قاصر تھا کہ آخر تھا پڑ جیسے دوست سے ملنے کے لیے اتنے انتظامات کیوں کیے گئے ہیں  — ؟ وہ بھی خفیہ انتظامات … جیسے میں یہ جگہ حفظ نہ کر لوں  … جو بعد میں تھاپڑ جیسوں کے لیے مصیبت ثابت ہو —

یہ کون سا علاقہ ہے —  کون سی جگہ ہے، میں یہ بھی سمجھنے سے قاصر تھا۔  اور حقیقت یہ ہے کہ میں تھاپڑ سے ملنے کے سوا کچھ بھی نہیں جاننا چاہتا تھا۔ یہ بھی نہیں کہ معمولی سا دکھنے والے تھاپڑ نے خود کے لیے اتنے سارے پردے کیوں بنا رکھے ہیں  —  مگر ان سب سے بڑی حقیقت اس وقت یہ تھی کہ میرے دل نے تیز تیز دھڑکنا شروع کر دیا تھا۔

 مجھے ایک چھوٹی سی سرنگ سے گزار کر ایک بڑے ہال نما کمرے میں لے جایا گیا۔  اور اچانک میں ٹھہر گیا۔  کمرے سے بندے ماترم کے بول ابھر رہے تھے۔

 سنگھ کے مخصوص لباس میں ۱۸ سے ۲۰ لڑکے تھے جو قطار میں کھڑے سر میں بندے ماترم گا رہے تھے۔  ان کے پشت کی دیوار سفید اور خالی تھی۔  جو لڑکے بندے ماترم گا رہے تھے، وہ تربیت یافتہ لگ رہے تھے۔  اور ان میں سب سے الگ وہ آدمی بھی تھا جس کا نام اجے سنگھ تھاپڑ تھا۔

ایک بجلی چمکی اور مجھے حیران کر گئی —

گیت ختم ہو چکا تھا۔  تھاپڑ میرے سامنے تھا۔  اس کی شکل بدلی ہوئی تھی۔  لباس بدلا ہوا تھا۔  اس وقت وہ سفید کرتا پائجامہ میں تھا۔  سر پر سفید سی ٹوپی تھی، جیسی ٹوپیاں عام طور پر سنگھ کے لوگ پہنتے ہیں  —  مجھے دیکھ کر بھی اس کے چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہیں تھی۔

’آؤ میرے ساتھ۔ ‘

اس کا لہجہ برف کی طرح سرد تھا —

اب ہم اس کمرے میں تھے جو ایک طرح سے اس کی لیبارٹری تھی۔  کمرے میں ایک قطار سے چار کمپیوٹر تھے جن کو آپریٹ کرنے والے چار لڑکے تھے۔  کمرے میں خوشبودار اگر بتی کی مہک پھیلی ہوئی تھی۔  کچھ کتابچے اور پوسٹر تھے جو آسانی سے اپنی کہانی بیان کر گئے تھے کہ اس وقت میں کہاں ہوں  …

ایک معمولی سی میز اور کرسی تھی۔  سامنے والی کرسی پر تھاپڑ بیٹھ گیا۔  اور مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا —

 اس کی آنکھیں مجھے بغور دیکھ رہی تھیں  …

’شاید تمہارے لیے اب یہ سمجھنا مشکل نہیں ہو گا کہ میں کون ہوں ؟‘

’ہاں۔ ‘ میری آواز بھی سرد تھی۔

’کچھ اشارے ان پوسٹرس اور ان کتابچوں سے مل گئے ہوں گے۔  میں نمائش میں یقین نہیں رکھتا۔  اس لیے میرے آفس سنبھالنے کے بعد دیواروں سے ساری تصویریں اُتار لی گئیں۔  کوئی ایسا پمفلٹ بھی مشکل سے ملے گا جس سے نشاندہی ہو سکے کہ ہم کیا کرنے جا رہے ہیں  — یہاں ۳۰ بچے ہیں جو میری نگرانی میں کام کرتے ہیں  — ‘ اس نے ٹھنڈی سانس بھری —  ’میں کالج کے دنوں سے ہی اس تحریک سے وابستہ تھا۔  مگر میری وابستگی کی شکل مختلف تھی۔  میں نے سنگھ کو جوائن کرنے کے بعد ہی اپنا فیصلہ سنا دیا تھا —  مجھے مسلمانوں کو سمجھنے دیجئے۔  اس میں زندگی بھی گزر سکتی ہے۔  لیکن مسلمانوں کو سمجھنا ضروری ہے۔  اور مشکل یہ ہے کہ ابھی تک ہم بغیر مسلمانوں کو سمجھے اپنا کام کیے جا رہے تھے … سنگھ کی طرف سے ہری جھنڈی ملتے ہی میں اپنے کام میں لگ گیا —  اور یقینی طور پر سنگھ مسلسل میرے کاموں پر نظر رکھ رہا تھا۔  پھر مجھے تم مل گئے … مجھے ایک مسلمان کو مکمل طور پر جاننے اور سمجھنے کے لیے ایک مسلمان گھر کی ضرورت تھی —  اور تم میری یہ مشکل آسان کیے جا رہے تھے …‘

تھاپڑ سنبھل سنبھل کے بول رہا تھا۔  میرے جسم میں جیسے برف جم چکی تھی۔  سرد برف … میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔  تھاپڑ کی بے جان آنکھوں میں میرے لیے نہ کوئی جذبات تھے، نہ احساس بلکہ آنکھوں کی پتلیاں ساکت اور بے جان معلوم ہوئیں—

’میں اپنی کیفیت، اپنے تجربے تحریری طور پر سنگھ کو دے رہا تھا۔  اور میرا مقصد واضح تھا۔  آپ ایک جنگ اس وقت تک نہیں لڑسکتے جب تک آپ ایک مسلمان فکر کو اندر اندر تک سمجھ سکنے سے محروم رہتے ہیں  —  میں نے کہہ رکھا تھا، ہو سکتا ہے میری زندگی اس تجربے میں ختم ہو جائے مگر میرے بعد یہ تحریریں سنگھ کے کام آئیں گی —  کیونکہ آزادی کے بعد کے مسلمانوں کو سمجھنا آسان کام نہیں۔  یہ کئی حصوں میں بٹے ہوئے لوگ ہیں۔  ایک بڑی آبادی تعلیم سے بے بہرہ ہے —  مڈل کلاس مذہب اور سیکولرزم کے درمیان پناہ تلاش کر رہا ہے۔  ایلٹ کلاس کے طبقے کی فکر الگ ہے۔  ایک نظام ایسا بھی ہے جہاں اسلام کی ترویج و ارتقاء کے لیے باہر سے پٹرو ڈالر آ رہے ہیں۔  ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر نظر رکھتے تھے —  ان باتوں سے زیادہ یہ سمجھنا کہ تم لوگ عام زندگی کیسے گزارتے ہو۔  تمہاری زمین کیا ہے؟ تمہاری زمین کے مسائل کیا ہیں ؟ تم کن سطحوں پر سوچتے اور جھکتے ہو۔  تمہیں کیسے کمزور کیا جا سکتا ہے۔  ہاں۔  تمہیں کیسے داس بنایا جا سکتا ہے —  اور میں کہہ سکتا ہوں، یقینی طور پر اس تجربے میں تم میرا پورا ساتھ دے رہے تھے —

 تھاپڑ ایک لمحے کو ٹھہرا —

اب وہ بغور میری طرف دیکھ رہا تھا، جسے اس وقت کے میرے جذبات یا احساس کو سمجھنا چاہتا ہو —

 میری مٹھیاں بار بار بند اور کھل رہی تھیں۔  آنکھوں میں اندھیرا اتر آیا تھا —

’ایک بڑی جنگ —  ایک عقیدے کو باریکی سے سمجھنے کے لیے ایک زندگی بھی کم ہوتی ہے —  میں تمہاری مضبوطی اور تمہاری کمزور یوں کو سمجھنا چاہتا تھا۔  اور میں بہت حد تک سمجھ بھی گیا تھا۔  میرے لیے چھوٹی چھوٹی باتوں کو جاننا ضروری تھا۔  تمہارا بادشاہ بابر جب پہلی بار ہندستان آیا تھا تو جانتے ہو اس نے اپنے فوجیوں سے کیا کہا تھا —  یہ ہندوؤں کا ملک ہے۔  ہندو سیدھے اور شریف ہوتے ہیں۔  انہیں سمجھنا ہے تو قوت بازو سے نہیں۔  ان سے گھل مل کر انہیں سمجھنا شروع کرو —  ہم تمہیں یعنی ایک عام مسلمان کو اتنا ہی جانتے تھے، جتنا باہر کی دنیا میں دیکھتے تھے، پھر تمہاری کمزوریوں سے، تمہاری عام روٹین سے واقف کیسے ہوتے۔  اور ان کے بغیر تم پر حکومت کیسے کرتے۔ ‘

تھاپڑ کی آواز سرد تھی۔ ’ ہم شانتی سے رہنے والے لوگ تھے۔  یہ ہماری زمین تھی —  آریہ ورت۔  اور یہاں تم نے اپنے ناپاک پاؤں پھیلا دیئے۔ ۷۰۰ برسوں کی غلامی ہمارے نام لکھ دی۔  ہم سب کچھ برداشت کرتے رہے۔  یہ سوچ کر۔  کہ ایک دن … ایک دن ہم تمہارے وجود سے اس زمین کو پاک کر دیں گے۔  سمجھ رہے ہو نا تم … اس کام میں وقت لگے گا۔  لیکن … یہ کریں گے ہم۔  ہم بھارت کو ایک جمہوری مملکت کے بجائے ایک ہندو راشٹریہ بنانا چاہتے ہیں۔  ایک ایسی ہندو مملکت جہاں صرف ہماری حکومت ہو۔  اور اس لیے آزادی ملنے کے بعد سے ہی ہم نے سابق فوجی افسروں کو ملانا شروع کیا۔  چھوٹی موٹی کامیابیوں سے ہمارے حوصلے بلند ہوئے۔  ناکامیوں سے ہم گھبراتے نہیں  —  کیوں کہ ہر ناکامی آگے آنے والی کامیابی کی دلیل ہوتی ہے —  لیکن …‘

تھاپڑ کے چہرے کا رنگ بدلا تھا —  تمہارے بیٹے نے سب گڑ بڑ کر دیا۔  وہ اسی راستے پر چلا، جس راستہ پر ہم چلے تھے۔  ہم اسے مار سکتے تھے۔  لیکن ہم دیکھنا چاہتے تھے کہ وہ کیا کرتا ہے۔  اس نے وہ کیا، جو سوسال میں ہم نہیں کر پائے۔  اس نے ہندو تیرتھ استھانوں کو چنا —  مندروں اور آشرم کوچنا —  اور اپنی شناخت کے ساتھ ہمارے دھرم گروؤں کا دل جیتتا چلا گیا —  سنگھ میں گھبراہٹ تھی۔  لوگ جاننا چاہتے تھے کہ وہ کون ہے اور کیا کرنا چاہتا ہے۔ ‘

تھاپڑ ایک لمحے کو ٹھہرا۔  وہ کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔  پشت پر ہاتھ باندھے وہ ٹہلنے لگا —  مجھے ساری زمین گھومتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی —  ذہن و دماغ پر مسلسل دھماکے ہو رہے تھے۔  میں کچھ بھی نہیں دیکھ رہا تھا۔  آنکھوں کے آگے گہرے سناٹے کا جال بن دیا گیا تھا —

تھاپڑ کرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔ اس نے میری طرف دیکھا۔

’اسامہ ہم سے دور دو قدم آگے تھا۔  جانے انجانے وہ اپنی قوم کے لیے ہمارے مشن جیسا کام کر رہا تھا۔  وہ بھی ہم سے دو قدم آگے بڑھ کر۔  ہر جگہ اپنی پہچان کو محفوظ رکھتے ہوئے —  تم سمجھ رہے ہونا، اور ہم … اب تک نا کامیاب اس لیے رہے کہ ہم مہرے تو چلتے رہے لیکن اپنی پہچان چھپا کر …‘

 میرے اندر خوف کی بارش ہو رہی تھی۔

’تم لوگ اسے مار تو نہیں ڈالو گے۔ ‘

 ’بالکل بھی نہیں۔ ‘

 تھاپڑ کا لہجہ سرد تھا — ’ انسان کو مارا جا سکتا ہے — و چار دھارا کو نہیں۔  وہ ایک وچار دھارا ہے کہ ہوا کا رخ یوں بھی بدلا جا سکتا ہے —  ہمارے لیے وہ جب تک زندہ ہے۔  ایک ادھین کیندر ہے۔  سمجھ رہے ہو نا —  سیکھنے کی جگہ ہے وہ  — اسے مار دیں گے تو بہت کچھ سمجھنے سے ونچت رہ جائیں گے۔  اسے سمجھنا ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے۔  چھپ کر اس کی کارروائیوں کو دیکھنا ہے۔  اور مورکھ، تم سمجھ رہے تھے کہ میں تمہاری مدد کر رہا ہوں  —  جبکہ میں اپنے سوا رتھ میں اسے تلاش کر رہا تھا۔  یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ نہیں ملے گا — ‘

تھاپڑ مسکرایا۔ ’ آؤ تمہیں اپنے مشن کے کچھ ساتھیوں سے ملواؤں  …‘

میں اٹھ کھڑا ہوا۔  اس وقت میری موجودگی کسی روبوٹ یا غلام جیسی تھی جسے اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کرنی تھی۔

 ایک چھوٹے سے ہال میں لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر اسکرین پر کام کرتے ہوئے آپریٹر ہمارے قدموں کی آہٹ کے باوجود اپنے کاموں میں مصروف تھے۔  اسکرین پر عربی الفاظ جگمگا رہے تھے … میں حیرت سے لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر اسکرین کو دیکھ رہا تھا …

’یہ سب۔ ‘

 ’تمہاری تحریکیں ڈیزائن کی جا رہی ہیں۔  اسلامی ویب سائٹس تیار کیے جا رہے ہیں۔ ‘

’مطلب؟‘

’ایک بڑی جنگ کے لیے تمہارا Shadow بننے کی تیاری — ‘

 ان لوگوں سے ملو۔  یہ رابن ہے۔  یہ اروند پارلیکر، یہ ارجن رامدیو … یہ گنیش شریواستو … یہ سارے لوگ عربی جانتے ہیں۔  یہ سب اپنے اپنے کام میں ماہر ہیں  —  دراصل تم سے ملنے کے بعد …‘

تھاپڑ مجھے لے کر ایک دوسرے کمرے میں آیا … اور اچانک میرے جسم میں میزائلیں چھوٹنے لگیں۔  میں ہکا بکا ساوہ منظر دیکھ رہا تھا۔  سامنے کمرے میں ایک شخص نماز پڑھ رہا تھا۔  اس کے پیچھے جماعت کھڑی تھی۔  میں نے گھڑی دیکھی۔  ساڑھے تین بجے تھے۔  یہ کوئی نماز کا وقت نہیں تھا۔

 امامت کرنے والے شخص کی قرأت میری روح کو معطر کر رہی تھی۔  ایسی شاندار قرأت میں نے کیو ٹی وی اور پیس ٹی وی پر توسنی تھی مگر یہاں، اس ماحول میں اس تعلق سے سوچنا میرے لیے کسی خواب کی مانند تھا …

میں حیران نظروں سے تھاپڑ کو دیکھ رہا تھا …’ یہ  … یہ لوگ …‘

’آؤ۔  میرے ساتھ۔  نماز پڑھنے کے بعد یہ لوگ سیدھے میرے کمرے میں آئیں گے۔  تمہیں یاد ہے۔  میں نے بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔  یعنی تم سے ملنے کے بعد …‘

 تھاپڑ مجھے لے کر دوبارا اپنے کمرے میں لوٹ آیا تھا —  ہم آمنے سامنے کی کرسیوں پر بیٹھ گئے تھے —

’تم سے ملنے کے بعد سنگھ کو میرا یہی مشورہ تھا۔  کیا جانتے ہیں آپ مسلمانوں کو — پہلے انہیں جانیے — ان میں گھلیے ملیے۔  ان کا بن جائیے۔  اردو سیکھیے۔ عربی سیکھیے۔ تلفظ اور قرآن شریف کو سمجھنا سیکھیے۔  مجھے ایک ایسی فوج چاہیے جو اردو جانتی ہو۔  عربی جانتی ہو۔  صحیح تلفظ کے ساتھ قرآن شریف پڑھ سکتی ہو۔  ان کے معنی سمجھتی ہو —  ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت کم تھی جو ہندی یا سنسکرت جانتے ہیں۔  کیونکہ وہ لوگ تو ہمارے ہیں ہی۔  جادو تو اصل میں تم لوگوں پر کرنا ہے۔  اور تم پر حکومت کرنے کے لیے سب سے پہلے تمہیں قریب سے سمجھنا ہے — ‘

دروازے پر آہٹ ہوئی تھی۔  میں نے نگاہیں اٹھائیں تو اٹھارہ سے بیس لوگ تھے، جو کمرے میں داخل ہو رہے تھے۔  ان کے سرپر ٹوپیاں تھیں۔  پیشانی پرسیاہ نشان تھا، جس کے بارے میں عام روایت ہے کہ قیامت کے روز یہاں سے نور پھوٹے گا — ان میں کچھ کے چہرے پر داڑھیاں بھی تھیں۔  یہ ایک قطار سے کمرے میں آ کر کھڑے ہو گئے۔  ‘

’گھبراؤ مت۔  آؤ۔  ان میں سے کچھ کا تعارف کراؤں۔ ‘

’ یہ ورون ہے۔  ورون امامت کر رہا تھا۔ ‘

 ’السلام علیکم‘

 ورون نے وہیں کھڑے کھڑے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا —

’یہ باگیشور۔  یہ گھنشیام … یہ سمت … یہ اروند …‘

 میں پاگلوں کی طرح ان لوگوں کو دیکھ رہا ہوں  … پیشانی کے سیاہ نشان کو … ان کے چہروں کو … دنیا گھوم رہی تھی …مجھے چکر آ رہے تھے۔

 ’جاؤ تم لوگ۔ ‘

تھاپڑ نے اشارہ کیا۔  میرے ہاتھوں کو تھاما۔  مجھے لے کر کرسی پر بیٹھایا —

 ’ڈرو مت۔  نماز صرف تم ہی نہیں پڑھتے۔  انہیں باضابطہ صحیح نماز پڑھنے کی ٹریننگ دی گئی ہے۔  اور ان کی …پیشانیوں پر جوسیاہ داغ ہے وہ بھی نقلی نہیں۔  یہاں کچھ بھی نقلی نہیں ہے دوست۔  ہم انہیں اور یجنل اسامہ … یعنی مسلمان بن کر تمہارے درمیان اتار رہے ہیں۔ ‘

کمرے میں سناٹا پھیل گیا ہے۔  جیسے ہزاروں کی تعداد میں سانپ مجھے ڈس رہے ہوں  … میں بے جان آواز میں پوچھتا ہوں  …

’اجے سنگھ تھاپڑ۔  لیکن تم یہ سب کیوں کر رہے ہو …؟‘

دو خوفناک آنکھیں نفرت سے میری طرف دیکھ رہی ہیں  —

’تو سنو ارشد پاشا —  اس کا جواب بھی سن لو —  ہم تم میں گھل مل رہے ہیں  … جیسے دودھ میں پانی گھل مل جاتا ہے —  کیا دودھ میں پانی دیکھ سکتے ہو تم …؟ ہم تم میں ایسے ہی گھل مل جائیں گے کہ تم اپنوں کی شناخت بھی نہ کر سکو۔  ہر جگہ ہر موڑ پر —  ہم تمہارا سایہ بن کر ساتھ ساتھ چلیں گے —  تم ہمیں پہچان بھی نہیں سکو گے اور ہم تمہارا آسانی سے شکار کر سکیں گے …‘

تھاپڑ کی آنکھوں میں اپنائیت لوٹ آئی تھی۔

’ڈرو مت۔  جیسے تمہیں یہاں با عزت لایا گیا ہے۔  ویسے ہی ہم تمہیں یہاں سے با عزت باہر بھی نکالیں گے۔  اور ہمیں تم سے کوئی ڈر کوئی خطرہ نہیں ہے —  دو باتیں ممکن ہیں۔  یا تو تم باہر کے لوگوں کو یہ باتیں بتاؤ گے۔  یا نہیں بتاؤ گے۔  نہیں بتاؤ گے، اس کی امید زیادہ ہے۔  کیونکہ کاشی سے دلی تک تم میں ایک نپنسک صحافی کو دیکھا ہے میں نے۔  اس صحافی کے پاس قلم بھی نہیں ہے۔  اور اگر تم بتاؤ گے تب بھی، ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔  کسے بتاؤ گے؟ کس کس کو بتاؤ گے۔  ممکن ہے تم جسے بتا رہے ہو، وہ تمہارے حلیے میں ہمارا ہی آدمی ہو … وہ تمہارے لباس میں ہمارا ہو۔  تمہارے نام میں ہمارا ہو۔  تمہارے مذہب میں ہمارا ہوا …‘

اس بار تھاپڑ نے تیز ٹھہا کا لگایا تھا۔  اور اس لمحے اس میں پرانا والا تھاپڑ زندہ ہو گیا تھا —

٭٭

 

 

(9)

قارئین،

میں ارشد پاشا … اگر میرے بس میں ہوتا تو میں ان حقائق کو قلمبند کرنے کے بعد بحر اوقیانوس کی تہہ میں ڈال دیتا۔  یا نذر آتش کر دیتا —  لیکن تھاپڑ کے اس نپنسک صحافی کے لیے ایک سادہ لوح امید کی پرورش کرنا نسبتاً زیادہ آسان تھا۔

قارئین، کہانی یہاں اپنے انجام کو نہیں پہنچتی، بلکہ سچ پوچھیے تو کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔

 آب روان کبیر تیرے کنارے کوئی

 دیکھ رہا ہے کسی او زمانے کا خواب …

تھاپڑ کے قید خانے سے باہر نکلا تو شام کی پرچھائیاں مسلط ہو چکی تھیں۔

 میں بھاگ رہا تھا …

جیسے ہزاروں کی تعداد میں آسیب میرے پیچھے پڑے ہوں  …

 میں بھاگ رہا تھا …

 اور شاید اس لمحے کے احساس کو میں کوئی نام نہ دے پاؤں۔ میری روح زخمی تھی۔  جسم میں خون کا نام و نشان نہیں۔  آنکھیں خیرہ۔  ہونٹ گویائی سے محروم … لیکن ان سب کے باوجود میں بھاگ رہا تھا … میرے لیے یقین کرنا مشکل تھا کہ میں زندہ ہوں۔  میرے لفظ گم تھے۔  یا گم کر دیے گئے تھے —

میں کب اس بھیڑ میں شامل ہوا مجھے خود بھی نہیں پتہ چلا۔  اور میں کس ارادے کے تحت اس بھیڑ کا حصہ بنا، مجھے یہ بھی نہیں معلوم … میرے قدم بٹلہ ہاؤس چوک کی جانب کیوں بڑھے، میں یہ بھی بتانے کے لائق نہیں  —

وہاں دور تک سرہی سر تھے۔  یہ پورا علاقہ پولس چھاؤنی میں تبدیل کیا جا چکا تھا —  اور پولس وہاں پہنچنے والی ہزاروں کی بھیڑ کو روک پانے میں ناکام ثابت ہو رہی تھی —  مجھے یہ اطلاع مل چکی تھی کہ مغرب تک لاش کی تجہیز و تکفین روک دی گئی —  میر صاحب اور ان کے رفقاء کو حکومت کے فیصلے کا انتظار تھا۔  لاش کے لیے برف کی بڑی بڑی سلیاں منگوائی گئی تھیں  —  مختلف چینلس والوں کے کیمرے لگے تھے —  فلیش چمک رہے تھے۔

 بھیڑ بڑھتی جا رہی تھی —

یہ اطلاع بھی مجھے مل گئی تھی کہ حکومت کی مختلف پارٹیوں کے ساتھ میٹنگس سے بھی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا —  حکومت کوئی بھی سخت قدم اٹھا سکتی تھی۔  مگرسخت قدم اٹھا کرمسلم ووٹ بینک کو کھونے کی حماقت نہیں کرنا چاہتی تھی —

میر صاحب تقریر کر رہے تھے —  تقریر کے درمیان ہزاروں کی بھیڑ زور سے نعرے لگاتی …

 نعرۂ تکبیر … اللہ اکبر …

 نعرۂ تکبیر …

بھیڑ میں جگہ بناتا ہوا اچانک میں ٹھہر جاتا ہوں  … میرے لیے یقین کرنا مشکل تھا کہ رباب یہاں بھی آ سکتی ہے … بھیڑ میں جگہ بناتا ہوا رباب کی طرف بڑھتا ہوں۔  اس کے ہاتھوں میں اسامہ کی تصویر ہے۔  آگے بڑھ کر میں آہستہ سے اس کا ہاتھ تھامتا ہوں  …

’تم … ؟‘

 ’یہاں بہت سے لوگ ہیں، جن کے بچے بچھڑ گئے ہیں  … وہ دیکھو … ماں باپ اپنے اپنے بچوں کی تصویریں لے کر آئے ہیں۔  انہیں تلاش کرنے …‘

’چلو یہاں سے …‘

 ’لیکن کیوں  …؟‘

 رباب میری آنکھوں میں جھانک رہی ہے۔  میں اس سے کیا کہوں  … کیا جواب دوں  … کس پر بھروسہ کروں  … اور کس پر بھروسہ نہ کروں  … میں اس لمحے بھی تھاپڑ کی آواز کی زد میں ہوں  … ہم تم میں گھل مل رہے ہیں  … جیسے دودھ میں پانی گھل مل جاتا ہے … کیا دودھ سے پانی کو الگ کر سکتے ہو تم؟ ہم تم میں ایسے ہی گھل مل جائیں گے کہ تم اپنوں کی شناخت بھی نہ کر سکو گے … ہم تمہارا سایہ بن کر تمہارے ساتھ ساتھ چلیں گے … تم ہمیں پہچان بھی نہ پاؤ گے … اور ہم تمہارا آسانی سے شکار کر سکیں گے …

 ’کیا سوچنے لگے؟‘ رباب پوچھ رہی ہے —

 شاید اس وقت میرے پاس رباب کی کسی بات کا کوئی جواب نہیں  —

رباب کا ہاتھ تھامے میں ہزاروں کے اس مجمع سے دور نکل آیا ہوں  —

٭٭

رات ہو گئی ہے۔  میں خاموشی سے بالکنی پر نکل آیا ہوں  —

 مجھے نہیں معلوم کہ حکومت نے کون ساراستہ اختیار کیا … بٹلہ ہاؤس چوک پر کیا ہوا —  بغاوت کتنی آگے بڑھی —  یا بغاوت کچل دی گئی —  میں یہ بھی نہیں سوچنا چاہتا کہ ان بغاوتوں سے امید و یقین کے راستے پیدا بھی ہوتے ہیں یا نہیں—

میں اس وقت کچھ بھی نہیں سوچنا چاہتا …

آسمان پر تاروں کا رقص جاری ہے … اور مجھے اس بات کا یقین کہ یہ کہانی ابھی اپنے انجام کو نہیں پہنچی —  بلکہ یہ کہانی ابھی ابھی شروع ہوئی ہے —

                              —  —  — مسلسل

٭٭٭

مصنف کی اجازت اور تشکر کے ساتھ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید