FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

زبدۃ الفقہ

 

 

 

 

جلد۔ ۱، کتاب ایمان

 

 

سید زوار حسین شاہ

 

 

 

 ایمان کا بیان

 

 

جب آدمی عاقل اور بالغ ہو جاتا ہے تو اس کو ایمان لانا یعنی اللّٰہ کو ایک اور رسولوں کو برحق ماننا فرض ہو جاتا ہے۔جس کی تفصیل آگے آتی ہے، ایمان لانے کے بعد تمام عبادات فرائض و واجبات وغیرہ اس پر لازم ہو جاتے ہیں اور تمام ممنوعات و محرمات حرام ہو جاتے ہیں

فرض دو قسم کے ہیں

۱. دائمی جو ہمیشہ فرض ہو اور وہ ایمان پر ثابت قدم رہنا اور حرام و کفر و شرک سے بچنا ہے۔( یہ عقائد سے تعلق رکھتا ہے )

۲. وقتی جیسے نماز،روزہ،زکوٰۃ،حج وغیرہ ( ان کا حامل علمِ فِقہ ہے ) فرائض کا علم حاصل کرنا فرض ہے۔یعنی جب کسی فرض کا وقت آ جائے تو اس فرض کے متعلق احکامِ شرع کا علم حاصل کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے،مثلاً جب آدمی مسلمان ہوا یا بالغ ہوا تو ان چیزوں کا جاننا ضروری ہے جن کے بغیر ایمان صحیح نہیں ہوتا۔اور جب نماز فرض ہو گئی تو نماز کے احکام کا سیکھنا فرض ہے،ماہ رمضان المبارک کے آنے پر روزے کے احکام اور مالدار صاحبِ نصاب ہونے پر زکوٰۃ کے احکام کا سیکھنا علیٰ ہذالقیاس،حج و نکاح و طلاق و حیض و نفاس و بیع و شرا (خرید و فروخت) وغیرہ کے احکام کا سیکھنا اپنے اپنے وقت پر فرض ہو جاتا ہے۔ایمان و نماز روزہ اور حیض و نفاس کے احکام کا علم بقدر ضرورت حاصل کرنا ہر مومن مرد و عورت پر فرضِ عین ہے

 

اسلام

 

اسلام ہی سچا مذہب ( دین) ہے جو تمام دین و دنیا کی بھلائیاں اور نیک باتیں سکھاتا ہے اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول و پسندیدہ دین اسلام ہی ہے بقولہ تعالیٰ

اِنَّ الدِّینَ عِندَاللّٰہِ الاِسلَامُ (آل عمران آیت ۲)

” بیشک دین اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہی ہے ”

ایضاً قال اللّٰہ تعالیٰ

 وَرَضِیتُ لَکمُ الاِسلَامَ دِینَا ( سورہ المائدہ آیت ۱)

” میں نے تمہارے لئے دینِ اسلام کو پسند فرما لیا ہے۔”

اور اسلام کو ماننے والے لوگ مسلمان کہلاتے ہیں۔

 

اسلام کا پہلا رکن کلمہ

 

اسلام کا پہلا رکن کلمہ ہے اور وہ یہ ہے

 لَا اِلَہَ اِلّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللّٰہِ

"اللّٰہ کو سوا کوئی عبادت کو لائق نہیں، محمد ( صلی اللّٰہ علیہ وسلم) اللّٰہ کے رسول ہیں ”

اس کو کلمہ طیبہ، کلمہ توحید اور پہلا کلمہ کہتے ہیں۔

دوسرا کلمہ جو کلمہ شہادت کہلاتا ہے یہ ہے۔

 اَشھَدُ اَن لَّا اِلَہَ اِلّا اللّٰہُ و اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّد عَبدُہُ وَ رَسُوُلُہ

” میں گواہی دیتا ہوں کہ اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں محمد ( صلی اللّٰہ علیہ وسلم) اللّٰہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں "۔

جس نے کلمہ طیبہ یا کلمہ شہادت کے معنی سمجھ کر دل سے یقین اور زبان سے اقرار کر لیا وہ مسلمان ہے۔

 

 

صفت ایمان

 

 

ایمان مجمل یہ ہے

 اٰمَنٰتُ بِاللّٰہِ کما ھُوَ بِاَسمَآۂ وَصِفَاتِہِ وَ قَبِلتُ جَمِیعَ اَحکَامِہِ

” میں اللّٰہ پر ایمان لایا جیسا کہ وہ اپنے ناموں اور صفتوں کے ساتھ ہے اور میں نے اس کے تمام احکام قبول کئے ”

 

ایمان مفصل یہ ہے

 اٰمَنتُ بِاللّٰہِ وَ مَلئِکَتِہِ وَ کُتُبِہِ وَ رَسُلِہِ وَ لیَومِ الاٰخِرِ وَ القَدِر خَیرِہِ وَ شَرِّہِ مِنَ اللّٰہِ تَعَالیٰ وَالبَعثِ بَعدَالمَوتِ

” میں اللّٰہ تعالیٰ پر اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور قیامت کے دن پر اور اس پر کہ اچھی اور بری تقدیر اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور موت کے بعد اٹھائے جانے پر ایمان لایا ”

 

ایمان مفصل میں جن سات چیزوں کا ذکر ہوا ہے ان پر ہر مسلمان کو ایمان لانا ضروری ہے اور وہ سات چیزیں یہ ہیں:

۱. اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لانا۔

۲. اس کے فرشتوں پر ایمان لانا۔

۳. اللّٰہ تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان لانا۔

۴. اس کے رسولوں پر ایمان لانا۔

۵. یومِ آخرت پر ایمان لانا۔

۶. تقدیر کا منجانب اللّٰہ ہونا۔

۷. موت کے بعد اٹھائے جانے پر ایمان لانا۔

 

۱. اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لانا

 

اللّٰہ یہ اس ذات کا اسم ذات ہے جو واجب الوجود ہے۔ یعنی جو خودبخود ہر وقت ہر جگہ موجود ہے، ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، نہ اس کی کوئی ابتدا ہے نہ انتہا اور اُس کا عدم یعنی کسی وقت کسی جگہ نہ ہونا محال ہے، اللّٰہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی چیز واجب الوجوب نہیں، اس اسمِ ذاتی کے علاوہ اُس ذات کے بہت سے صفاتی نام ہیں مثلاً خالق،  رازق،  حی و قیوم وغیرہ جو لاتعداد ہیں۔ ایک حدیث شریف میں ننانوے یعنی ایک کم سو نام آئے ہیں اور بعض دوسری احادیث میں ان کے علاوہ اور نام بھی آئے ہیں۔ قرآن و حدیث میں آئے ہوئے ناموں کے علاوہ اپنے بنائے ہوئے عقلی و عرفی ناموں سے اللّٰہ کو پکارنا ہرگز جائز نہیں ہے۔ چاہے وہ صحیح ناموں کے مطابق ہوں۔ مثلاً اللّٰہ تعالیٰ کو عالم کہیں گے،  لیکن عاقل کہنا جائز نہیں،  اللّٰہ تعالیٰ کے اسماءو صفات اللّٰہ تعالیٰ کی ذات مقدس سے اس طرح پر متعلق ہیں کہ نہ عینِ ذات ہیں اور نہ غیر ذات،  اسی لئے اللّٰہ تعالیٰ کی صفات یعنی علم و قدرت وغیرہ کو اللّٰہ نہیں کہہ سکتے اور نہ اس کا غیر ہی کہہ سکتے ہیں،  اللّٰہ تعالیٰ کی صفات کو صفاتِ ذاتی یا صفاتِ کمالیہ کہتے ہیں اور وہ یہ ہیں

۱. وحدت یعنی اللّٰہ تعالیٰ ایک ہے۔اس کی ذات و صفات میں اس کا کوئی شریک۔ نہیں اور وہی عبادت کے لائق ہے،  اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں

۲. قِدَم یعنی وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا،  جو ہمیشہ سے ہو اس کو ازلی کہتے ہیں اور جو ہمیشہ رہے اس کو ابدی کہتے ہیں،  پس اللّٰہ تعالیٰ ازلی۔بھی ہے اور ابدی بھی اور قدیم ہونے کے یہی معنی ہیں۔

۳. حیوٰۃ ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا،  وہ حی و قیوم ہے

۴. قدرت کائنات کے پیدا کرنے اور قائم رکھنے پھر فنا کرنے اور پھر موجود۔ کرنے اور ہر چیز پر قادر ہے

۵. علم کوئی چیز چھوٹی ہو یا بڑی اس کے علم سے باہر اور اس سے پوشیدہ نہیں،  اور وہ اس کو موجود ہونے سے پہلے اور مٹ جانے کے بعد بھی جانتا ہے،۔وہ ہر بات کو خوب اچھی طرح جانتا ہے

۶. ارادہ اللّٰہ تعالیٰ جس چیز کو چاہتا ہے اپنے اختیار و ارادہ سے پیدا کرتا اور مٹاتا ہے۔ کائنات کی کوئی چیز اس کے ارادہ اور اختیار سے باہر نہیں اور وہ کسی کام میں مجبور نہیں،  جو چاہتا ہے کرتا ہے کوئی اس کو روک ٹوک کرنے۔والا نہیں

۷. سمع و

۸. بصر وہ ہر بات کو سنتا اور ہر چیز کو دیکھتا ہے،  ہلکی سے ہلکی آواز کو سنتا اور چھوٹی سے چھوٹی چیز کو دیکھتا ہے،  نزدیک و دور اندھیرے اور اُ جالے۔کا کوئی فرق نہیں

٩. کلام یعنی بات کرنا،  یہ صفت بھی اللّٰہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہے،  اس کا کلام آواز سے پاک ہے اور وہ اس کے لئے زبان وغیرہ کسی چیز کا محتاج نہیں۔ اس نے اپنے رسولوں اور پیغمبروں کے ذریعے اپنا کلام اپنے بندوں کو پہنچایا ہے،  تمام آسمانی کتابیں اور صحیفے اس کا کلام ہیں۔

۱۰. خلق و تکوین یعنی پیدا کرنا اور وجود میں لانا، اسی نے زمین، آسمان، چاند، سورج، ستارے، فرشتے، آدمی، جن، غرض کہ تمام کائنات کو پیدا کیا۔ تمام کائنات پہلے سے بلکل ناپید تھی، پھر اللّٰہ تعالیٰ کے پیدا کرنے سے موجود ہوئی اور وہی تمام کائنات کا مالک ہے ان مذکورہ صفات کو صفاتِ ثابتہ یا صفاتِ ثبوتیہ کہتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی صفات ہیں۔ مثلاً مارنا، زندہ کرنا، عزت دینا، ذلت دینا، رزق دینا وغیرہ جو سب ازلی و ابدی و قدیم ہیں، ان میں کمی و بیشی و تغیر و تبدیل نہیں ہو سکتا۔ اس کی تمام صفات بے کیف اور ہمیشہ رہنے والی ہیں، وہ رحمان اور رحیم مالک الملک ہے سب کا بادشاہ ہے، اپنے بندوں کو آفتوں سے بچاتا ہے، عزت و بزرگی والا ہے، گناہوں کو بخشنے والا، زبردست ہے، بہت دینے والا ہے، تمام مخلوق کو روزی دیتا ہے، جس کی چاہے روزی زیادہ کرے اور جس کو چاہے روزی تنگ کر دے، جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت دے، جس کو چاہے پست کرے اور جس کو چاہے بلند کرے، انصاف اور تحمل اور برداشت والا، خدمت و عبادت کی قدر کرنے والا، دعا قبول کرنے والا ہے، سب پر حاکم ہے اس پر کوئی حاکم نہیں، اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں، سب کے کام بنانے والا ہے، وہی جِلاتا اور مارتا ہے، توبہ قبول کرنے والا، ہدایت دینے والا، جو سزا کے قابل ہیں ان کو سزا دینے والا ہے، اس کے حکم کے بغیر ایک ذرہ بھی حرکت نہیں کر سکتا اور تمام عالم کی حفاظت سے نہیں تھکتا، تمام ناقص صفتیں اس کی بارگاہ سے دور ہیں، وہ سب عیبوں سے پاک ہے مخلوق کی صفتوں سے بری ہے۔ وہ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے نہ سوتا ہے نہ اونگھتا ہے، نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ اس سے کوئی پیدا ہوا، اور نہ اس کا باپ ماں ہے اور نہ بیٹا بیٹی ہے، وہ بہن بھائی بیوی رشتہ داروں وغیرہ تمام تعلقات سے پاک ہے۔ زمان و مکان، اطراف و جہات، طول و عرض، جسم و جوہر، شکل و صورت، رنگ و بو، موت و ہلاکت غرض کہ ہر عیب و حدوث سے پاک و بری ہے۔ قرآن مجید اور حدیثوں میں بعض جگہ جو اللّٰہ تعالیٰ کے لے ایسی باتوں کی خبر دی گئی ہے ان کی حقیقت اللّٰہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، ان کے معنی اللّٰہ تعالیٰ کے حوالہ کئے جائیں، وہ کسی کا محتاج نہیں، سب اس کے محتاج ہیں، اس کو کسی چیز کی حاجت نہیں وہ بے مثل ہے کوئی چیز اس کے مثل و مشابہ نہیں، تمام کمالات اُس کو حاصل ہیں۔

 

۲. فرشتوں پر ایمان لانا

 

فرشتوں پر ایمان لانے سے مراد یہ ماننا ہے کہ فرشتے اللّٰہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہیں، وہ سب نور سے پیدا ہوئے ہیں، دن رات عبادتِ الہی میں مشغول رہتے ہیں، ہماری نظروں سے غائب ہیں، وہ نہ مرد ہیں نہ عورت، رشتہ ناتے کرنے اور کھانے پینے کے محتاج نہیں، تمام فرشتے معصوم ہیں اللّٰہ کی نافرمانی اور گناہ نہیں کرتے۔ جن کاموں پر اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں مقرر فرما دیا ہے انہی میں لگے رہتے ہیں اور تمام کام و انتظام اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کے موافق پورا کرتے ہیں۔وہ بے شمار ہیں ان کی گنتی اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، ان میں سے چار فرشتے مقرب اور مشہور ہیں۔

۱. حضرت جبرائیل علیہم السلام۔جو اللّٰہ تعالیٰ کی کتابیں اور احکام و پیغام پیغمبروں کے پاس لاتے تھے بعض مرتبہ انبیاء علیہم السلام کی مدد کرنے اور اللّٰہ و رسول کے دشمنوں سے لڑنے کے لئے بھی بھیجے گئے بعض مرتبہ اللّٰہ۔تعالیٰ کے نافرمان بندوں پر عذاب بھی ان کے ذریعے سے بھیجا گیا

۲. حضرت میکائیل علیہم السلام۔جو بارش وغیرہ کا انتظام کرنے اور مخلوق کو روزی پہچانے کے کام پر مقرر ہیں اور بے شمار فرشتہ ان کی ماتحتی میں کام کرتے ہیں۔ بعض بادلوں کے انتظام پر مقرر ہیں، بعض ہواؤں کے انتظام پر مامور ہیں اور بعض دریاؤں اور تالابوں اور نہروں پر مقرر ہیں اور ان تمام چیزوں کا انتظام اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کرتے ہیں۔

۳. حضرت اسرافیل علیہم السلام۔جو قیامت میں صور پھونکیں گے

۴. حضرت عزرائیل علیہم السلام۔جو مخلوق کی روحیں قبض کرنے یعنی جان نکالنے پر مقرر ہیں، ان کو ملک الموت بھی کہتے ہیں، ان کی ماتحتی میں بھی بے شمار فرشتے کام کرتے ہیں، نیک بندوں کی جان نکالنے والے فرشتے علیحدہ اور بدکار آدمیوں کی جان نکالنے والے علیحدہ ہیں،

 

یہ چاروں فرشتے باقی سب فرشتوں سے افضل ہیں ان کے علاوہ اور فرشتے بھی ہیں جو آپس میں کم زیادہ مرتبہ رکھتے ہیں، یعنی کوئی زیادہ مقرب ہے کوئی کم۔

ان میں سے مشہور فرشتے یہ ہیں

کراماً کاتبین۔ حفظہ۔ منکر نکیر۔ مجالس ذکر تلاوت و دیگر اعمال خیر میں حاضر ہونے والے فرشتے۔ رضوان یعنی داروغۂ جنّت اور ان کے ماتحت فرشتے مالک یعنی داروغۂ جہنم۔اللّٰہ تعالیٰ کا عرش اٹھانے والے فرشتے۔ ہر وقت اللّٰہ تعالیٰ کی یاد و عبادت و تسبیح و تحمید و تہلیل و تقدیس میں مشغول رہنے والے فرشتے، سب فرشتے معصوم ہیں، ان میں سے بعض دو پر رکھتے ہیں بعض تین اور بعض چار پر بھی رکھتے ہیں اور بعض بہت زیادہ، ان پروں کی حقیقت اللّٰہ ہی بہتر جانتا ہے یہ سب باتیں قرآن مجید اور صحیح حدیثوں میں مذکور ہیں ان میں شک کرنا یا ان کی توہین و دشمنی کفر وبال ہے۔

 

۳. اللّٰہ تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان لانا

 

اللّٰہ تعالیٰ کی کتابوں سے مراد وہ صحیفے ( چھوٹی کتابیں ) اور کتابیں ہیں جو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں پر نازل فرمائیں ہیں۔یہ صحیفے اور کتابیں بہت سی ہیں جن کی گنتی یقینی طور پر معلوم نہیں۔ان میں سے یہ چار کتابیں مشہور ہیں۔

۱. توریت جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر عبرانی زبان میں نازل کی گئی۔

۲. زبور جو حضرت داؤد علیہ السلام پر سُریانی زبان میں نازل کی گئی۔

۳. انجیل جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر عبرانی زبان میں نازل کی گئی۔

۴. قرآن مجید جو ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر عربی زبان میں نازل کی گئی۔

 

ان چار کتابوں کے علاوہ کچھ صحیفے ( چھوٹی کتابیں ) حضرت آدم علیہ السلام پر اور کچھ حضرت شیث علیہ السلام پر اور کچھ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور کچھ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئے۔ان کے علاوہ کچھ اور بھی صحیفے ہیں جو بعض دوسرے پیغمبروں پر نازل ہوئے۔ یہ سب کچھ قرآن مجید سے ثابت ہے اور ان کو نہ ماننے والا شخص کافر ہے۔لیکن قرآن مجید سے یہ ثابت ہے کہ موجودہ توریت و زبور و انجیل جو یہودیوں اور عیسٰائیوں کے پاس ہیں اصلی نہیں ہیں۔بلکہ ان لوگوں نے اصل کتابوں کو رد و بدل کر دیا ہے اس لئے ان کے متعلق یہ اعتقاد نہ رکھنا چاہئے کہ یہ اصلی آسمانی کتابیں ہیں بلکہ یہ اعتقاد رکھے کہ یہ اصلی نہیں ہیں اور ان ناموں کی کتابیں اُن انبیاء کرام پر نازل ہوئی تھیں۔قرآن مجید کے نازل ہونے سے وہ کتابیں اور ان کی شریعت منسوخ ہو گئی اور قرآن مجید سب سے آخری کتاب ہے اس کے احکام قیامت تک جاری رہیں گے۔یہ ہر قسم کے رد و بدل(تحریف) سے محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گی۔آسمانی کتابوں میں سب سے افضل قرآن مجید ہے یعنی اس میں ثواب اور اس کا فائدہ مند ہونا سب سے زیادہ ثابت ہے اس کی چند فضیلتیں یہ ہیں۔

۱. اس کا ایک ایک حرف اور ایک ایک لفظ حتیٰ کہ زبر زیر پیش یا شوشہ تک ہر قسم کی کمی بیشی سے قیامت تک محفوظ ہے۔

۲. اس کی چھوٹی سے چھوٹی سورۃ کے مثل بھی کوئی نہیں بنا سکتا۔

۳. اس نے پہلی سب کتابوں اور شریعتوں کے بہت سے احکام منسوخ کر دئے ہیں۔

۴. سب کتابیں اپنے اپنے وقت میں ایک ہی دفعہ نازل ہوئی ہیں لیکن قرآن مجید کو دو فضیلتیں حاصل ہیں۔اول یہ کہ ایک ہی دفعہ میں ماہ رمضان المبارک کو لیلتہ القدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل ہوا، پھر وہاں سے تیئس برس تک ضرورت کے وقت تھورا تھورا نازل ہوتا رہا اور اس طرح سے لوگوں کے دلوں میں اترتا گیا۔یہ سب حکمت الٰہی پر مبنی تھا۔

۵. اس کے احکام ایسے معتدل ہیں کہ قیامت تک ہر زمانہ اور ہر قوم کے لئے مناسب ہیں۔

۶. حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے زمانے سے آج تک تواتر کے ساتھ نقل ہوتا چلا آ رہا ہے جو اس کے یقینی و قطعی ہونے اور تحریف و تبدیل سے محفوظ ہونے کی بین دلیل ہے۔

۷. قرآن مجید ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کے سینوں میں صدر اسلام سے آج تک محفوظ چلا آ رہا ہے اور انشاء اللّٰہ قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے دشمنوں کو کسی وقت اس میں کمی بیشی کرنے کا موقع نہیں مل سکا اور نہ انشاء اللّٰہ قیامت تک مل سکے گا۔

 

۴. رسولوں پر ایمان لانا

 

رسولوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے بندوں تک اپنے احکام پہچانے کے لئے ان ہی میں سے کچھ بندوں کو چن لیا ہے۔جن کو نبی اور رسول کہتے ہیں۔ نبی اور رسول اللّٰہ تعالیٰ کے بندے اور انسان ہوتے ہیں وہ سچے ہوتے ہیں، کبھی جھوٹ نہیں بولتے، ہر قسم کے صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں۔اللّٰہ تعالیٰ کے احکام پوری طرح سے پہچا دیتے ہیں اور ان میں کمی بیشی نہیں کرتے اور نہ کسی پیغام کو چھپاتے ہیں۔

رسول اس پیغمبر کو کہتے ہیں جس کو نئی شریعت اور کتاب دی گئی ہو اور نبی ہر پیغمبر کو کہتے ہیں خواہ اسے نئی شریعت اور کتاب دی گئی ہو یا نہ دی گئی ہو بلکہ وہ پہلی شریعت اور کتاب کا تابع ہو، پس ہر رسول نبی ہے اور ہر نبی رسول نہیں ہے۔ ( بعض علما نے نبی اور رسول کو ایک ہی معنی میں لیا ہے )

نبوت اور رسالت اپنے کسب و کوشش سے حاصل نہیں ہوتی۔ بلکہ جس کو اللّٰہ تعالیٰ بنائے وہی بنتا ہے۔پس یہ مرتبہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے۔ سب نبی مرد ہوئے ہیں کوئی عورت نبی نہیں ہوئی دنیا میں بہت سے رسول اور نبی آئے بعض روایتوں میں ان کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار آئی ہے اور بعض میں ایک لاکھ چونتیس ہزار اور بعض میں دو لاکھ چوبیس ہزار، یہ تعداد قطعی نہیں ہے،غالباً کثرت کے بیان کے لئے ہے، ان کی صحیح تعداد اللّٰہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ہمیں اور آپ کو اس طرح ایمان لانا چاہیے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے جتنے رسول اور نبی بھیجے ہم اُن سب کو برحق اور رسول اور نبی مانتے ہیں۔ ان میں تین سو تیرہ رسول ہیں۔

سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ الاسلام ہیں اور سب سے آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہیں، یعنی آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر رسالت و نبوت ختم ہو گئی ہے آپ قیامت تک تمام انسانوں اور جنوں کے لئے رسول ہیں۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک حقیقی یا ظلّی یا بروزی کسی قسم کا کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد جو شخص حقیقی یا ظلّی یا بروزی کسی بھی قسم کی پیغمبری کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا اور کافر و دجال ہے۔

حضرت آدم علیہ الاسلام اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے درمیان میں جو پیغمبر آئے ان میں سے بعض کے اسمائے گرامی قران مجید و احادیث میں آئے ہیں۔ ان میں سے مشہور نام یہ ہیں حضرت نوح، حضرت شیث، حضرت ابراہیم، حضرت اسحٰق، حضرت اسمٰعیل، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت ایوب، حضرت موسیٰ، حضرت ہارون، حضرت زکریا، حضرت یحییٰ، حضرت الیاس، حضرت الیسع، حضرت یونس، حضرت لوط، حضرت ادریس، حضرت ذوالکفل، حضرت صالح، حضرت ہود، حضرت شعیب، حضرت عیسیٰ علیٰ نبینّا و علیہم الصلوت واسلام۔رسولوں پیغمبروں میں بعض کا مرتبہ بعض سے بڑا ہے۔ ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تمام نبیوں اور رسولوں سے افضل اور بزرگ ہیں۔اللّٰہ تعالیٰ کے تو آپ بھی بندے اور فرمانبردار ہیں اللّٰہ تعالیٰ کے بعد آپ کا مرتبہ سب سے بڑھا ہوا ہے۔

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

آپ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں ہیں اور عرب کے مشہور و بزرگ ترین خاندانِ قریش میں سے ہیں اور ملکِ عرب کے مشہور شہر مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے، عرب کے تمام خاندانوں میں خاندانِ قریش کی عزت اور مرتبہ سب سے زیادہ تھا اور یہ دوسرے خاندانوں کے سردار مانے جاتے تھے، پھر خاندانِ قریش کی ایک شاخ بنی ہاشم تھی، جو قریش کی دوسری شاخوں سے زیادہ عزت رکھتی تھی، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس شاخ بنی ہاشم میں سے ہیں، اس لئے حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو ہاشمی بھی کہتے ہیں، ہاشم آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پردادا کا نام ہے، آپ کا سلسلہ نسب چار پشت تک ہر مسلمان کو یاد رکھنا چاہئے، وہ اس طرح ہے محمد (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) بن عبداللّٰہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدالمناف۔ چالیس برس میں آپ پر وہی کا نزول ہوا۔ یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے اپنا کلام قرآن مجید اور اپنے احکام اتارنے شروع کئے۔ اس کے بعد آپ تئیس سال زندہ رہے، ظہور نبوت سے تیرہ سال تک یعنی کل ترپن سال مکہ معظمہ میں اور دس سال مدینہ منورہ میں قیام پزیر رہے۔ جب آپ نے مکہ معظمہ میں دینِ اسلام کی تبلیغ شروع کی تو مکہ معظمہ کے کفار و مشرکین نے آپ کو طرح طرح کی تکلیفیں پہنچانی شروع کر دیں آپ برداشت کرتے رہے۔

 

۵. آخرت پر ایمان لانا

آخرت پر ایمان لانا یوم آخرت پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کا دن اور اس کی سختیاں حق ہیں۔قبر میں منکر نکیر کا سوال جواب اور سب کافروں اور بعض گنہگار مومنوں کو قبر کا عذاب ہونا حق ہے۔

 

 

 ہجرت

 

آخر جب ان کی دشمنی کی کوئی حد نہ رہی اور سب نے مل کر آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا تو حضور انور صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے پیارے وطن مکہ معظمہ کو چھوڑ کر مدینہ منورہ تشریف لے گئے اس کو ہجرت کہتے ہیں اور اسی مناسبت سے مسلمانوں کا سن ہجری جاری ہوا ہے۔ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ تشریف لے جانے کی خبر سن کر اور مسلمان بھی جن کو کافر ستاتے رہتے تھے آہستہ آہستہ مدینہ منورہ چلے گئے، ان مسلمانوں کو جو مکہ مکرمہ سے اپنے گھر بار چھڑ کر مدینہ طیبہ چلے آئے مہاجرین کہتے ہیں اور مدینہ طیبہ کے مسلمان جنہوں نے آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور مہاجرین کی مدد کی انصار کہلاتے ہیں۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دس سال مدینہ منورہ کے قیام کے زمانے میں اللّٰہ پاک نے آپ کو دو فتوحات نصیب فرمائیں کہ جن کی برکت سے آج اسلام دنیا کے گوشہ گوشہ میں رائج ہے۔ چند دن اوپر تریسٹھ سال کی عمر میں بروایتِ مشہور بتاریخ ۱۲ ربیع الاول سن ۱۱ ہجری بروز دو شنبہ آپ کے جسد اطہر سے روح مبارک نے سوئے رفیقِ اعلی پرواز کی،

 اِنَّک مَیتُ وَ اِنَّھم مِیِّتُونَ اِنَّا لِلّٰہ واِنَّا اِلِیہِ رَاجِعُونَ

(آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے مفصل حالات و اخلاق و عادات وغیرہ کتب احادیث و شمائل و سیر و تواریخ میں ملاحظہ کریں۔)

 

 

 

عقیدہ

 

انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی قبروں میں اسی طرح بہ حیاتِ حقیقی زندہ ہیں، جیسا کہ دنیا میں تھے، کھاتے پیتے ہیں، جہاں چاہیں آتے جاتے ہیں، تصدیق و وعدہ الٰہی کے لئے ایک آن کو ان پر موت طاری ہوئی، پھر زندہ ہو گئے، ان کی یہ حیات شہدا کی حیات سے بہت ارفع و اعلیٰ ہے لیکن اس کی کیفیت اللّٰہ ہی بہتر جانتا ہے۔

 

صحابہ کرام

 

ہر پیغمبر کے زمانے میں جو لوگ اس پیغمبر پر ایمان لائے وہ اس کے صحابی ہیں آنحضرت کے بھی صحابی ہیں، صحابی اس شخص کو کہتے ہیں جس نے ایمان کی حالت میں آنحضرت کو دیکھا ہو، یا آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہو، اور اس شخص کی موت ایمان پر ہوئی ہو۔ صحابی ہزاروں ہیں، جو آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہوئے اور اسلام پر ان کی وفات ہوئی صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم کے مرتبے آپس میں کم زیادہ ہیں، لیکن تمام صحابہ باقی امت سے افضل ہیں، اگر کسی دوسرے مومن نے اپنی ساری عمر نیک اعمال کرنے میں گزاری ہو اور احد پہاڑ کے برابر سونا اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا ہو کسی صحابہ کے ایک ادنیٰ عمل اور ایک مد (تقریباً ایک سیر) جو کے خیرات کرنے کے برابر بھی نہیں ہو سکتا اور کوئی بڑے سے بڑا غیر صحابی ولی ایک ادنیٰ صحابی کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا تمام امت کا اس پر اجماع ہے کہ تمام صحابہ میں سب سے افضل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ ہیں، جو تمام امت سے افضل ہیں ان کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ تمام امت سے افضل ہیں، ان کے بعد حضرت عثمانِ غنی رضی اللّٰہ عنہ، پھر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللّٰہ عنہ تمام امت سے افضل ہیں، یہی چاروں بزرگ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد اسی ترکیب سے جو اوپر بیان ہوئی آپ کے خلیفہ ہوئے آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد دین کا کام سنبھالنے اور جو انتظامات آپ فرماتے تھے انہیں قائم رکھنے کے لئے جو شخص تمام مسلمانوں کی اتفاق رائے سے آپ کا قائم مقام ہوا اسے خلیفہ کہتے ہیں چنانچہ سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ پھر حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ پھر حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ اور ان کے بعد حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ خلیفہ ہوئے ان چاروں کو خلفاء اربع و خلفائے راشدین و چار یار کہتے ہیں، ان چاروں کے بعد حضرت امام حسن بن علی رضی اللّٰہ عنہ خلیفہ ہوئے اور ان کی مدت خلافت تک تمام خلفاء کی خلافت کی مدت تیس سال ہے،اس کو خلافت راشدہ کہتے ہیں۔ جس کا ذکر حدیث شریف میں ہے، ان چار یار کے بعد مجموعی طور پر سب اہل بیت باقی صحابہ سے افضل ہیں، اہل بیت میں تمام ازواج مطہرات اور حضرت علی (جن کا ذکر چار میں آ چکا ہے ) حضرت فاطمہ زہرہ، حضرت حسن و حسین رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیم اجمعین شامل ہیں ازواج مطہرات میں حضرت عائشہ و حضرت خدیجہ الکبریٰ سب سے افضل ہیں اور صاحب زادیوں میں حضرت فاطمہ الزہرہ رضی اللّٰہ عنہ سب سے افضل ہیں فتح مکہ سے قبل اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرنے والے اور جہاد میں شامل ہونے والے صحابہ بعد والوں سے افضل ہیں، نیز جنگ بدر میں شامل ہونے والے صحابہ سابقین و افضل ہیں۔ ان کے علاوہ باقی صحابہ میں ایک کو دوسرے پر فضیلت نہ دی جائے سب کو افضل جانے اور کسی کی شان میں ادنیٰ سی گستاخی بھی نہ کرے ورنہ ایمان ضائع ہو جائے گا۔ صحابہ کرام کے اندرونی جھگڑوں اور ان کے آپس کے اختلافات کو نیک نیتی پر قیاس کرنا چاہئے۔ تمام صحابہ مجتہد تھے۔ مجتہد سے خطا و ثواب دونوں صادر ہوتے ہیں لیکن ان کی خطا اجتہادی خطا ہے جس پر وہ ایک درجہ ثواب پائیں گے غیر صحابی نے جس صحابی کی تقلید کی وہ نجات پا گیا اس لئے تمام صحابہ کرام مطبوع و معیار شریعت ہیں، ان کی شان میں زبان طعن دراز کرنا اللّٰہ تعالیٰ اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا سبب اور سخت حرام ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اس وبال سے بچائے آمین۔ حضرت امام حسن و امام حسین رضی اللّٰہ عنہ یقیناً اعلی درجہ کے شہدا کرام سے ہیں۔ ان کی شہادت کا منکر گمراہ و بے دین ہے

 

ولایت و اولیاء اللّٰہ

 

جو مسلمان اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی پیروی کرے، کثرت سے ذکر و عبادت کرے، گناہوں سے بچتا رہے، اللّٰہ رسول کی محبت دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ رکھتا ہو وہ اللّٰہ کا مقرب و پیارا ہو جاتا ہے۔ایسے شخص کو ولی کہتے ہیں، ویسے تو ہر مومن ولی ہے۔لیکن جو شخص قرب باری تعالیٰ کا ایک خاص مقام حاصل کر لیتا ہے اصطلاح شرع میں اس کو ولی کہتے ہیں اور اس کی پہچان یہ ہے کہ وہ مسلمان متقی پرہیزگار ہو عبادت بہت زیادہ کرتا ہو، اللّٰہ اور رسول کی محبت ہر چیز سے زیادہ رکھتا ہو، دنیا کی حرس نہ ہو اور آخرت کا خیال اس کو ہر وقت لگا رہتا ہو۔ تمام صحابہ ولی ہوئے ہیں، بلکہ وہ غیر صحابی ولی کے مقابلہ میں اعلیٰ درجے کے ولی ہیں، جس طرح کوئی صحابی یا ولی خواہ کتنا ہی بڑا درجہ رکھتا ہو کسی نبی کے برابر نہیں ہو سکتا، اسی طرح صحابی ہونے کی فضیلت بھی بہت بڑی ہے اور کوئی غیر صحابی ولی خواہ کتنا ہی بڑا درجہ رکھتا ہو کسی ادنیٰ صحابی کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔صحابہ کے بعد اولیاء اللّٰہ میں تابعین کا مرتبہ ہے۔پھر تبع تابعین کا، اولیاء اللّٰہ کے بہت سے سلسلے ہوئے ہیں۔ جن میں سے چار سلسلے بہت مشہور اور دنیا میں رائج ہیں۔وہ یہ ہیں چشتیہ، قادریہ، نقشبندیہ، سہروردیہ ایسا شخص جو خلاف شرع کام کرے مثلاً نماز نہ پڑھے یا داڑھی منڈائے یا کوئی اور شریعت کے خلاف کرے اس کو ولی سمجھنا بالکل غلط ہے خواہ اس سے کتنی ہی خارق عادت باتیں ظاہر ہوں اور خواہ وہ ہوا پر اڑنے یا پانی پر چلنے لگے، جب تک کوئی شخص اپنے ہوش و ہواس میں ہے اور اس کو عبادت کرنے کی طاقت حاصل ہے ایمان لانے کے بعد اس کو شریعت کی پابندی کرنا فرض ہے کوئی عبادت اس کو معاف نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی گناہ کی بات اس کے لئے جائز ہوتی ہے ایسے شخص سے جو خلاف شرع باتوں پر عمل کرتا ہو کشف و خوارق عادات کا ظاہر ہونا استدراج اور دھوکا ہے۔لیکن اگر کوئی شخص غلبہ محبت الٰہی میں مستغرق ہو کر یا کسی دماغی صدمہ کی وجہ سے اپنے آپ سے بے خبر ہو جائے حتیٰ کہ اپنے کھانے پینے پہنے وغیرہ سے بھی بے خبر ہو جائے تو وہ شرع کی پابندی سے بری اور آزاد ہو جاتا ہے، ایسے شخص کو برا نہ کہنا چاہئے اور اس کی پیروی بھی نہیں کرنی چاہئے

 

 

 معجزہ و کرامات

 

 ۱. معجزہ

بعض خلاف عادت باتیں اللّٰہ پاک اپنے رسولوں اور نبیوں کے ہاتھ سے ظاہر کرا دیتا ہے، جن کے کرنے سے دنیا کے لوگ عاجز ہوتے ہیں، تاکہ لوگ ان باتوں کو دیکھ کر اسی نبی کی نبوت کو سمجھ لیں، نبیوں اور رسولوں کی ایسی خلاف عادت باتوں کو معجزہ کہتے ہیں،

بعض پیغمبروں کے مشہور معجزے یہ ہیں

۱. حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا ( لاٹھی) سانپ کی شکل میں بن کر جادوگروں کے جادو کے سانپوں کو نگل گیا اور سب جادوگر عاجز ہو گئے اور ایمان لے آئے۔

۲. ید بیضا، یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ہاتھ ایسے روشن کر دیتا کہ اس کی چمک آفتاب کی روشنی پر غالب آ جاتی تھی۔

۳. حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے سمندر پر لاٹھی ماری جس سے بارہ راستے بن گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ہمراہی ان راستوں سے پار اتر گئے فرعون اور اس کے ساتھی جب ان راستوں سے گزرنے لگے اور وہ سب دریا میں داخل ہو گئے تو سب پانی آپس میں مل گیا اور فرعون مع لشکر غرق ہو گیا۔

۴. خضرت عیسیٰ علیہ السلام اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے مردوں کو زندہ کر دیتے ۵. اور مادر زاد اندھوں کو آنکھوں والا کر دیتے۔

۶. اور کوڑھیوں کو اچھا کر دیتے تھے۔

۷. اور مٹی کا جانور( چڑیا) بنا کر زندہ کر کے اڑا دیتے تھے۔

۸. حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھ سے لوہا نرم ہو جاتا تھا وہ اس سے زرہ وغیرہ بنا لیتے تھے۔

٩. حضرت داؤد علیہ السلام کی سریلی آواز سے پرندے جانور اور پانی وغیرہ ٹھہر جاتے تھے۔

اور بھی بہت سے معجزے ان پیغمبروں اور دوسرے پیغمبروں سے ظاہر ہوئے ہیں۔ ہمارے حضور پر نور صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے بھی بکثرت بلکہ تمام انبیاء علیہ السلام سے زیادہ معجزے ظاہر ہوئے ہیں

چند مشہور معجزے یہ ہیں

۱. آپ کا سب سے بڑا اور تا قیامت زندہ معجزہ قرآن مجید ہے، دنیا کے بڑے بڑے عالم و فاضل عربی دان انتہائی کوشش کے باوجود اس کی چھوٹی سے چھوٹی سورۃ کی مانند نہ بنا سکے اور نہ قیامت تک بنا سکیں گے۔

۲. معراج شریف، حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے رات کو جاگتے میں اپنے جسم مبارک کے ساتھ براق پر سوار ہو کر مکہ معظمہ سے بیت المقدس تک اور وہاں سے ساتوں آسمانوں اور سدرۃ المنتہیٰ تک پھر وہاں سے جہاں تک اللّٰہ تعالیٰ کو منظور تھا تشریف لے گئے اور آپ کو اللّٰہ تعالیٰ کے قرب کا وہ مقام حاصل ہوا کہ آج تک کسی پیغمبر کو بھی حاصل نہیں ہوا اور نہ ہو گا اور اس کی کیفیت کو نہ کوئی آج تک بیان کر سکا اور نہ آئندہ کبھی بیان کرسکے گا، اسی رات میں آپ کو جنت و دوزخ کی سیر کرائی گئی، آپ نے تمام ملکوت السموات و الارض کو دیکھا اور پھر اپنے مقام پر واپس آ گئے، یہ سب کچھ رات کے ایک ذرہ سے وقت میں ہوا، حتیٰ کہ آپ کا بسترہ بھی گرم تھا اور مکان کی زنجیر ابھی تک ہل رہی تھی۔ اس سیر کو معراج کہتے ہیں۔ یہ معراج جسمانی تھی اور حق تھی اور اس میں شبہ کرنا اور نہ ماننا کفر ہے، اس معراج جسمانی سے پہلے غالباً چار یا پانچ مرتبہ خواب میں بھی معراجیں ہوتی تھیں ان کو منامی معراجیں کہتے ہیں، کیونکہ منام خواب کو کہتے ہیں انبیاء علیہ السلام کے خواب سچے اور غلطی و خطا سے محفوظ ہوتے ہیں، دیگر انبیاء علیہ السلام کو بھی اپنے اپنے مقام کے مطابق معراجیں ہوئیں لیکن حضور انور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی جسمانی معراج سب سے اعلیٰ و افضل ہے۔

۳. شق القمر، کفار مکہ کے معجزہ طلب کرنے پر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے چاند کے دو ٹکڑے کر دئے۔ ایک ٹکڑا مشرق میں اور دوسرا مغرب میں چلا گیا اور بالکل اندھیرا ہو گیا۔ سب حاضرین نے دیکھ لیا پھر وہ دونوں ٹکڑے آپس میں مل گئے اور چاند اصلی حالت پر ہو گیا

۴. آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اللّٰہ تعالیٰ کے علم غیب سے بہت سی آنے والی باتوں کی پہلے سے خبر کر دی اور وہ اسی طرح واقع ہوئیں

۵. آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے ایک دو آدمیوں کا کھانا سیکڑوں آدمیوں نے پیٹ بھر کھایا اس کے علاوہ آپ کی انگلیوں سے پانی کا ابلنا درختوں، پتھروں اور جانوروں کا آپ کو سلام کرنا و سجدہ کرنا، کنکریوں کا کلمہ پڑھنا وغیرہ آپ کے بے شمار معجزات ہیں . جو خرق عادت کسی نبی سے نبوت سے پہلے ظاہر ہو اس کو ارہاس کہتے ہیں

 

۲. کرامت

جو خرق عادت کسی نبی کے پیرو سے ظاہر ہو اور وہ شخص ولی ہو تو اس کو کرامت کہتے ہیں، اللّٰہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی لوگوں کے دلوں میں عزت و بزرگی بڑھانے کے لئے ان سے کرامات ظاہر کر دیتا ہے، اولیاء اللّٰہ اور نیک بندوں سے کرامت کا ظاہر ہونا حق ہے، اگر مومن صالح سے خرق عادت ظاہر ہو تو اس کو معونت کہتے ہیں، اور اگر یہ خرق عادت ایسے شخص سے ظاہر ہو جو خلاف۔شریعت چلتا ہو خواہ وہ مدعی اسلام ہو یا کافراس کو قضائے حاجت کہتے ہیں، پھر اگر وہ ظاہری و خفیہ اسباب کے بغیر ہو تو اس کو استدراج کہتے ہیں اور اگر اس کا کوئی ظاہری یا خفیہ سبب ہو تو سحر (جادو) ہے۔ صاحبِ استدراج و سحر کو ولی سمجھنا اور اس کی خرقِ عادت کو کرامت سمجھنا سخت غلطی اور شیطانی دھوکہ ہے۔ ایسے کافر سے جو نبوت کا دعویٰ کرے خرق عادت اس کے دعویٰ کے خلاف ظاہر ہوتا ہے، جیسا کہ مسیلمہ کذاب نے کسی ایک آنکھ والے کی اندھی آنکھ کے صحیح ہونے کی دعا کی تو اس کی دوسری آنکھ بھی اندھی ہو گئی، اس کو احانت کہتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر ولی سے ضرور کوئی کرامت ظاہر ہو بلکہ ممکن ہے کہ کوئی شخص اللّٰہ کا ولی ہو اور ساری عمر میں اس سے ایک بھی کرامت ظاہر نہ ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جس سے زیادہ کرامتیں ظاہر ہوں وہ زیادہ افضل ہو۔

 

 

 

 

 

 عذاب قبر

 

ہر جاندار کو موت کا مزا چکھنا ہے اور مرنے کے بعد ہر انسان کواس کے عملوں کی جزا یا سزا ملے گی اس کے دو درجے ہیں۔ایک مرنے کے بعد سے قیامت تک اس کو عالم برزخ کہتے ہیں اور دوسرا درجہ قیامت سے لے کر ابدالاباد تک ہے اس کو حشر و نشر کہتے ہیں۔اس میں پوری پوری جزا و سزا ہو گی۔سب کفار اور بعض گنہگار مومنوں کو قبر کا عذاب ہوتا ہے۔

بعض گناہگار مومنون سے قبر کا عذاب بھی معاف ہو جاتا ہے یا وہ گناہ کے مطابق عذاب پا کر نجات پا جاتے ہیں۔صالح مومن مرد و عورت قبر میں عیش و آرام سے رہتے ہیں۔وارثوں اور دیگر مسلمانوں کی خیر خیرات کرنے قران مجید و نوافل وغیرہ پڑھنے اور اس کا ایصال ثواب و دعا کرنے سے بھی میت کے عذاب قبر میں تخفیف ہو جاتی ہے مگر کافر کو مرنے کے بعد کوئی خیرات یا دعا وغیرہ نفع نہیں دیتی خواہ کوئی مومن ہی ایسا کرے۔ اسی طرح اگر کوئی کافرکسی کافر یا مومن مردے کے لئے دعا کرے یا صدقہ دے تو ہرگز اس کو نفع نہ دے گا۔ ثواب پہچانے کے لئے کسی خاص چیز یا کسی خاص وقت یا خاص طریقہ کی پابندی شرع شریف میں نہیں ہے۔ایسی پابندی سے بچنا چاہئے بلکہ جس وقت جو کچھ میسر ہو وہ مالی یا بدنی ثواب کا کام ادا کر کے اس کا ثواب بخش دیا جائے۔ایصال ثواب کا کام رسم کی پابندی، دکھاوے اور نام و شہرت کے لئے نہ کرے اور بلا ضرورت ادھار اور قرض لے کر رسوم کی پابندی کرنا اور بھی گناہ ہے کسی ایسی مصلحت سے وقت وغیرہ کی پابندی کی جائے جو شرعاً جائز ہو اور اس کو شرع کی طرف سے لازمی نہ سمجھا جائے تو کوئی حرج نہیں مگر آج کل جاہلوں کی رسمی پابندی کے خوف سے بچنا ضروری ہے ورنہ وہ دلیل بنائیں گے۔

قبر میں مُردے سے سوال و جواب کی تفصیل یہ ہے کہ جب مُردے کو اس کے خویش و اقارب قبر میں رکھ کر واپس جاتے ہیں تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہتے ہیں۔ جو اس کو بیٹھا کر پوچھتے ہیں

مَن رَّبُّکَ (تیرا رب کون ہے )

مومن بندہ جواب دیتا ہے

رَبِّیَ اللّٰہ (میرا رب اللّٰہ تعالیٰ ہے )

مَن نَّبِیُّکَ ( تیرا نبی کون ہے )

مومن بندہ جواب دیتا ہے نَبِیِّی مُحَمَّد ( میرے نبی محمد (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) ہیں )

مَا دِینُکَ ( تیرا دین کیا ہے )

مومن بندہ جواب دیتا ہے

دِینِیَ الاِ سلاَمُ ( میرا دین اسلام ہے )

بعض روایات میں دوسرا سوال اس طرح ہے

مَا کُنتَ تَقُوُلُ فِی ھٰذَا الرُّجُلِ ( تو اس آدمی (محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم) کے بارے میں کیا کہتا تھا)

مومن بندہ جواب دیتا ہے

ھُوَ رَسُولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (وہ اللّٰہ کے رسول (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) ہیں )

وہ فرشتے کہیں گے تجھے کس نے بتایا وہ کہے گا میں نے اللّٰہ کی کتابیں پڑھیں، اس پر ایمان لایا اور تصدیق کی۔ پس اس کے لئے قبر میں جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دیا جائے گا۔ جس سے جنت کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اور خوشبو اس کے پاس آتی رہے گی اور اس کی قبر کشادہ اور نورانی کر دی جائے گی۔ اگر وہ بندہ کافر یا منافق ہوتا ہے تو سوالوں کے جواب میں کہتا ہے ھَاہ ھَا لَا اَدرِی ( افسوس میں کچھ نہیں جانتا)

وہ فرشتے اس کو لوہے کے گرزوں ( ہتھوڑوں ) سے ایسے مارتے ہیں کہ سوائے جن و انس کے تمام مخلوق اس کی چیخیں سنتی ہے اور قبر اُس کو اِس قدر دباتی ہے کہ اس کی پسلیاں اِدھر کی اُدھر اور اُدھر کی اِدھر نکل جاتی ہیں پھر دوزخ کی کھڑکی اس پر کھول دی جاتی ہے۔ اور وہ حشر تک اس عذاب میں مبتلا رہتا ہے، البتہ بعض مومنوں کو بقدر گناہ عذاب پورا ہو کر اس سے پہلے بھی اس عذاب سے رہائی ہو جاتی ہے اور کبھی محض اللّٰہ پاک کے فضل و کرم سے اور کبھی دنیا کے لوگوں کی دعا اور صدقہ و خیرات وغیرہ کے ایصال ثواب سے بھی عذاب سے رہائی حاصل ہو جاتی ہے۔ جمعہ کے روز کی برکت سے بھی ہر گناہگار مومن کو اس روز عذاب سے رہائی ہو جاتی ہے۔ ضغطہ قبر ( قبر کی تنگی و گھبراہٹ) نیک بندوں کو بھی ہوتا ہے جو کسی گناہ کے سبب یا کسی نعمت کا شکر ادا نہ کرنے کے سبب ذرا سی دیر کے لئے ہوتا ہے پھر اّسی وقت دور ہو جاتا ہے، بعض کو اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے نہیں بھی ہوتا۔ مرنے کے بعد ہر روز صبح اور شام کے وقت ہر مُردے کو اس کا ٹھکانا دکھا دیا جاتا ہے جنتی کو جنت دکھا کر خوشخبری دیتے ہیں اور دوزخی کو دوزخ دکھا کر اس کی حسرت بڑھاتے ہیں

جو لوگ قبر میں دفن نہیں کئے جاتے بلکہ جلا دئے جاتے ہیں یا پانی میں ڈوب کر مر جاتے یا جانور کھا جاتے ہیں وغیرہ، ان کو بھی عذاب قبر ہوتا ہے، قبر سے مراد وہ گڑھا نہیں جو زمین کھود کر میت کو اس میں دفن کیا جاتا ہے۔ بلکہ وہ مقام ہے جہاں مرنے کے بعد برزخ میں روح کو رکھا جاتا ہے۔ نیکوں کی روح کے مقام کو عالمِ بالا یعنی علیین کہتے ہیں اور بروں کے مقام کو عالمِ پست یعنی سجین کہتے ہیں اور وہ عذاب سانپ بچھو لوہے کی سلاخیں وغیرہ سے جیسی اس عالم کے مناسب ہوں روح کو دیا جاتا ہے اور جسم کے ساتھ روح کا ایک ادنیٰ سا تعلق باقی رہنے کی وجہ سے زمینی گڑھے کو بھی قبر کہہ دیتے ہیں اور بعض اوقات اس قبر میں رکھے ہوئے جسم پر بھی اس عذاب و ثواب کے اثرات مرتب ہو کر اہلِ دنیا کی عبرت کے لئے ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔

علماء نے مسلمان کے گناہ معاف ہونے کے دس سبب لکھے ہیں :

۱. توبہ،

۲. استغفار،

۳. نیک اعمال،

۴. دنیا میں کسی بلا میں گرفتار ہونا،

۵. ضغطہ قبر،

۶. مسلمانوں کی دعا کی برکت،

۷. مسلمانوں کا صدقہ جو اس کی طرف سے دیں،

۸. قیامت کی سختی،

٩. نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شفاعت،

۱۰. محض رحمت الٰہی،

جو لوگ قبر کے عذاب اور منکر نکیر کے سوال و جواب سے محفوظ رہیں گے یہ ہیں،

۱. غازی یا شہید،

۲. جمعہ کی رات یا جمعہ کے دن مرنے والا،

تناسخ (آواگون) مسلمانوں کے عقیدے کے بالکل خلاف ہے یہ ہندوؤں اور بعض کافر فلسفیوں کا عقیدہ ہے جو غلط ہے انبیاء علیہم السلام اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد اپنی قبروں میں اپنے اجسام کے ساتھ زندہ ہیں۔ اور اس زندگی کی کیفیت اللّٰہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ شہدا بھی زندہ ہیں، لیکن انبیاء علیہم السلام کی زندگی سب سے قوی تر ہے، صدیقین و دیگر اولیاء اللّٰہ و حفاظ بھی زندہ ہیں۔ اولیاء اللّٰہ اور شہدا کی روحیں سبز پرندوں کے جسم میں داخل کر دی جاتی ہیں وہ بہشت میں پھرتی اور اس کی نہروں کا پانی پیتی ہیں۔ ان کی ارواح کو اجازت ہوتی ہے کہ جہاں چاہیں پھریں، کاملین کی ارواح کبھی کبھی اللّٰہ تعالیٰ کی اجازت سے اس جسمانی دنیا میں ظاہر ہو کر تصرف بھی کرتی ہیں اور اپنے دوستوں کی مدد کرتی اور دشمنوں کو سزا دیتی ہیں

 


قیامت

 

قیامت کا دن اس دن کو کہتے ہیں جب اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے، قیامت کا آنا برحق ہے۔ اس کا ٹھیک وقت اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اتنا معلوم ہے کہ جمعہ کا دن اور محرم کی دسویں تاریخ ہو گی۔ اس کی جو نشانیاں حضورِ انور صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرمائیں ہیں، سب حق ہیں اور وہ دو قسم پر ہیں

۱. علاماتِ صغریٰ،

۲. علاماتِ کبریٰ،

 

علامات صغریٰ

 

جو حضور انور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے وصال مبارک سے لے کے مہدی علیہ السلام کے ظہور تک ظاہر ہوں گی، بہت زیادہ ہیں ان میں سے کچھ مختصراً یہ ہیں۔

۱. حضور انور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا اس دارِ فانی سے پردہ فرمانا،

۲. بیت المقدس کا فتح ہونا،

۳. ایک عام وبا کا ہونا( یہ دو نشانیاں حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے زمانے میں پوری ہوئی)،

۴. مال کا زیادہ ہونا( یہ حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے زمانے میں ہوا)،

۵. ایک فتنہ جو عرب کے گھر گھر میں داخل ہو گا (یہ شہادتِ عثمان رضی اللّٰہ عنہ کا سبب تھا)،

۶. مسلمانوں اور نصاریٰ میں صلح ہو گی، پھر نصاریٰ غدر کریں گے، (یہ علامات آئندہ ہونے والی ہے )،

۷. علم اٹھ جائے گا جہل بڑھ جائے گا،

۸. زنا اور شراب خوری کی بہت ہی کثرت ہو گی،

٩. عورتیں زیادہ اور مرد کم ہوں گے ( یہ غالباً حضرت امام مہدی علیہ السلام کے زمانے میں جہاد میں مردوں کے بکثرت شہید ہونے سے ہو گا)،

۱۰. جھوٹ بولنا کثرت سے ہو گا،

۱۱. بڑے بڑے کام نااہلوں کے سپرد ہوں گے، بے علم اور کم علم لوگ پیشوا بن جائیں گے، کم درجہ کے لوگ بڑی بڑی اونچی عمارتیں بنائیں گے،

۱۲. لوگ مصیبتوں کی وجہ سے موت کی آرزو کریں گے،

۱۳. سردار لوگ مالِ غنیمت کو اپنا حصہ سمجھیں گے،

۱۴. امانت میں خیانت بڑھ جائے گی،

۱۵. زکوٰۃ دینے کو جرمانہ سمجھیں گے،

۱۶. علم دنیا حاصل کرنے کے لئے پڑھیں گے،

۱۷. لوگ اپنے ماں باپ کی نافرمانی اور ان پر سختیاں کریں گے،

۱۸. مرد عورت کا فرمانبردار اور ماں باپ کا نافرمان ہو گا اور دوست کو نزدیک اور باپ کو دور کرے گا،

۱٩. مسجدوں میں لوگ شور کریں گے،

۲۰. فاسق لوگ قوم کے سردار ہوں گے اور رذیل لوگ قوم کے ضامن ہوں گے، ۲۱. بدی کے خوف سے شریر آدمی کی تعظیم کی جائے گی،

۲۲. باجے علانیہ ہوں گے، گانے بجانے اور ناچ رنگ کی زیادتی ہو جائے گی، ۲۳. امت کے پچھلے لوگ پہلے بزرگوں پر لعنت کریں گے،

۲۴. سرخ آندھی،

۲۵. زلزلے،

۲۶. زمین میں دھنسنا،

۲۷. صورتیں بدل جانا،

۲۸. پتھر برسنا وغیرہ دیگر علامات ظاہر ہوں گی اور اس طرح پے درپے آئیں گی، جس طرح تاگا ٹوٹ کر تسبیح کے دانے گرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ اچھے کام اٹھتے جائیں گے اور برے کاموں اور گناہوں کی کثرت ہوتی جائے گی،

۲٩. نصاریٰ تمام ملکوں پر چھا جائیں گے،

۳۰. مسلمانوں میں بڑی ہل چل مچ جائے گی اور گھبرا کر حضرت امام مہدی علیہ السلام کی تلاش میں مدینہ منورہ میں آئیں گے اور امام مہدی علیہ السلام مکہ چلے جائیں گے۔ بعض اور علامات بھی ہوں گی مثلاً

۳۱. درندے جانور آدمی سے کلام کریں گے،

۳۲. کوڑے پر ڈالی ہوئی جوتی کا تسمہ کلام کرے گا اور آدمی کو اس کے گھر کے بھید بتائے گا۔ بلکہ خود انسان کی ران اُسے خبر دے گی،

۳۳. وقت میں برکت نہ ہو گی، سال مہینے کی مانند اور مہینہ ہفتہ کی اور ہفتہ دن کی مانند ہو گا اور دن ایسا ہو جائے گا جیسا کہ کسی چیز کو آگ لگی اور جلدی بھڑک کر ختم ہو گئی،

۳۴. ملک عرب میں کھیتی اور باغ اور نہریں ہو جائیں گی، مال کی کثرت ہو گی،

۳۵. نہر فرات اپنے خزانے کھول دے گی کہ وہ سونے کے پہاڑ ہوں گے،

۳۶. اس وقت تک تیس بڑے دجال ہوں گے وہ سب نبوت کا دعویٰ کریں گے حالانکہ نبوت حضور انور صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر ختم ہو چکی ہے، ان میں سے بعض گزر چکے ہیں مثلاً مسیلمہ کذاب، طلحہ بن خولید، اسودعنسی، سجاح عورت جو کہ بعد میں اسلام لے آئی وغیرہم اور جو باقی ہیں ضرور ہوں گے اور بھی بہت سی علامات حدیثوں میں آئی ہیں۔

 

علامات کبٰریٰ

 

حضرت امام مہدی رضی اللّٰہ عنہ کے ظہور سے نفحِ صور تک مندرجہ ذیل علامتیں ظاہر ہوں گی۔

۱.  حضرت امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہو گا۔ مہدی کے معنی ہیں ہدایت پایا ہوا۔ امام مہدی موعود یعنی جن کا علاماتِ قیامت میں ذکر ہے اور قربِ قیامت میں جن کے ظہور کا وعدہ ہے ایک خاص شخص ہے جو دجال موعود( یعنی جس دجال کا امام مہدی سے پہلے ہونے کا وعدہ ہے ) کے وقت میں ظاہر ہوں گے اور دجال کے ظاہر ہونے سے پہلے وہ نصاریٰ سے جنگ کر کے فتحیاب ہوں گے، آپ کا نام محمد والد کا نام عبداللّٰہ والدہ کا نام آمنہ ہو گا آپ حضرت امام حسن رضی اللّٰہ عنہ کی اولاد سے ہوں گے مدینے کے رہنے والے ہوں گے قد مائل بہ درزی، قوی الجثہ، رنگ سفید سرخی مائل چہرہ کشادہ، ناک باریک و بلند زبان میں قدرے لکنت، جب کلام کرنے میں تنگ ہوں گے تب زانو پر ہاتھ ماریں گے، آپ کا علم لدنی ہو گا، چالیس برس کی عمر میں ظاہر ہوں گے اس کے بعد سات یا آٹھ برس تک زندہ رہیں گے جب مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ آئیں گے لوگ ان کو پہچان کر ان سے بیت کریں گے اور اپنا بادشاہ بنائیں گے اس وقت غیب سے یہ آواز آئے گی

 ھَذا خَلِیفَہّ اللّٰہِ المَھدِی فَاستَمِعُو  وَ اطِیعُوا ” یہ اللّٰہ تعالیٰ کا خلیفہ مہدی ہے اس کی بات سنو اور اطاعت کرو”

۲.  اس سال ماہ رمضان میں تیرہویں تاریخ کو چاند اور ستائسویں تاریخ کوسورج گرہن ہو گا۔

۳.  امام مہدی رضی اللّٰہ عنہ کے زمانے میں اسلام خوب پھیلے گا امام مہدی سنت نبوی پر عمل کریں گے عرب کی فوج ان کی مدد کو جمع ہو گی کعبہ کے دروازہ کے آگے جو خزانہ مدفون ہے جس کو تاج الکعبہ کہتے ہیں نکالے گے اور مسلمانوں میں تقسیم فرمائیں گے، دمشق کے قریب نصاریٰ کے لشکر جرار کے ساتھ جنگ ہو گی مسلمانوں کے تین فریق ہوں گے ایک وہ جو نصاریٰ کے خوف سے بھاگ جائیں گے ان کی توبہ کبھی قبول نہ ہو گی اور وہ حالت کفر میں مر جائیں گے ایک فریق شہید ہو جائے گا اور افضل شہدا کا مرتبہ پائے گا تیسرا فریق فتح۔پائے گا اور ہمیشہ فتنے سے امن میں رہے گا۔

۴.  دجال موعود ایک خاص شخص ہے یہ قوم یہود سے ہو گا اور اس کا لقب مسیح ہو گا داہنی آنکھ اندھی ہو گی اور اس میں انگور کے دانے کی مانند ناخونہ ہو گا اس کے بال حبشیوں کے بالوں کی مانند نہایت پیچیدہ ہوں گے، ایک بڑا گدھا اس کی سواری کے لئے ہو گا اور اس کے ماتھے کے عین بیچ میں کافر اس طرح لکھا ہو گا” ک ف ر” جس کو ہر ذی شعور پڑھ لے گا، اول وہ ملک شام و عراق کے درمیان ظاہر ہو کر نبوت کا دعویٰ کرے گا پھر اسفہان میں آئے گا اور ستر ہزار یہودی اس کے تابی ہوں گے وہ خدائی کا دعویٰ کرے گا اس کے ساتھ آگ ہو گی جس کو وہ دوزخ کہے گا اور ایک باغ ہو گا جس کا نام وہ بہشت رکھے گا دراصل اس کی دوزخ جنت کی تاثیر رکھتی ہو گی اور اس کی جنت دوزخ کے اثر والی ہو گی، زمین میں دائیں بائیں فساد ڈالتا پھرے گا اور بادل کی طرح پھیل جائے گا، اس سے پہلے سخت قحط ہو گا وہ عجیب عجیب کرشمے دکھائے گا، جو استدراج کے حکم میں ہوں گے، مسلمانوں کو ان کی تسبیح و تہلیل روٹی اور پانی کا کام دے گی پھر مکہ کی طرف آئے گا، لیکن فرشتوں کی حفاظت کے سبب مکہ معظمہ میں داخل نہ ہو سکے گا، پھر مدینہ منورہ کا ارادہ کرے گا اور اُحد پہاڑ کے پاس ڈیرہ لگائے گا مدینہ منورہ کے اس وقت سات دروازے ہوں گے ہر دروازے پر دو محافظ فرشتے ہوں گے اس لئے دجال اندر نہ جا سکے گا۔ پھر دمشق کی طرف روانہ ہو گا جہاں امام مہدی ہوں گے وہ امام مہدی سے مقابلہ کرے گا، امام مہدی رضی اللّٰہ عنہ لشکر درست کر کے جنگ کے لئے تیار ہوں۔گے

۵.  اتنے میں عصر کا وقت دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی سفید منارہ پر زرد لباس پہنے ہوئے دو فرشتوں کے بازوؤں پر ہاتھ دہرے ہوئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتریں گے، جب سر نیچا کریں گے تو پسینے سے قطرے ٹپکیں گے، جب سر اٹھائیں گے تو موتیوں کے دانوں کی مانند قطرے گریں گے پھر امام مہدی رضی اللّٰہ عنہ سے ملاقات کریں گے اور ایک دوسرے کو امامت کے لئے کہیں گے غالباً پہلے امام مہدی رضی اللّٰہ عنہ امام ہو کر نمازپڑھائیں گے تاکہ تکریم امت ہو، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام امامت فرمائیں گے، کیونکہ آپ نبی ہیں حضرت عیسی علیہ السلام دجال کے قتل کے لئے آمادہ ہوں گے آپ کے دم کی یہ تاثیر ہو گی کہ جس کافر کو وہ ہوا لگ جائے گی وہ مر جائے گا اور جہاں تک ان کی نظر جائے گی وہ ہوا بھی وہاں تک جائے گی، آپ دجال کا تعاقب کریں گے باب لُد( ملک شام کا پہاڑ یا گاؤں ) کے پاس اسے گھیر لیں گے اور نیزے سے قتل کر کے اس کا خون لوگوں کو دکھائیں گے اگر اس کے قتل میں حضرت عیسیٰ جلدی نہ کریں تو وہ کافر نمک کی طرح خود بخود پگھل جائے پھر لشکرِاسلام دجال کے لشکر کو کہ اکثر یہودی ہوں گے بکثرت قتل کرے گا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام حکم دیں گے کہ خنزیر قتل کئے جائیں اور صلیب کہ جس کو نصاریٰ پوجتے ہیں توڑ دی جائے اور کسی کافر سے جزیہ نہ لیا جائے بلکہ وہ اسلام لائے پس اس وقت تمام دنیا میں دین اسلام پھیل جائے گا کفر مٹ جائے گا خوب انصاف راج ہو گاجور وظلم دنیا سے دور ہو جائے گا۔ امام مہدی رضی اللّٰہ عنہ کی خلافت سات یا آٹھ یا نو برس ہو گی ( باخلافِ روایات) پھر آپ دنیا سے تشریف لے جائیں گے خضرت عیسی علیہ اسلام اور مسلمان ان کے۔جنازے کی نماز پڑھ کر دفن کریں گے۔

 

علامات کبریٰ

 

۶.  اس کے بعد تمام انتظام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اختیار میں ہو گا اور دنیا اچھی حالت پر ہو گی پھر یکایک وحی الہی سے حضرت عیسی علیہ السلام لوگوں کو کوہ طور کی طرف لے جائیں گے اور قوم یاجوج ماجوج کا خروج ہو گا جو یافث بن نوح کی اولاد میں سے ہیں، ذوالقرنین بادشاہ نے ان کے راستے کو جو دو پہاڑوں کے درہ میں تھا مستحکم بند کر دیا تھا، اخیر زمانہ میں اسوقت وہ دیوار ٹوٹ جائے گی اور یہ غارت گر قوم پھیل جائے گی، کوئی ان سے مقابلہ نہ کر سکے گا آخرکار آسمانی بلا سے خود بخود مر جائیں گے پھر زمین میں خیر برکت ظاہر ہو گی لوگوں کو مال کی کچھ پرواہ نہ ہو گی ایک سجدہ کرنا دنیا و مافیا سے اچھا جانیں گے یہ خیر و برکت سات برس تک رہے گی، اس عرصہ میں خضرت عیسی علیہ السلام نکاح بھی کریں گے اور ان کی اولاد بھی ہو گی پھر دنیا سے انتقال فرمائیں گے اور آنحضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے روزہ مبارک میں دفن ہوں گے۔ اور قیامت میں وہیں سے اٹھیں گے

۷.  حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک شخص کو خلیفہ مقرر فرمائیں گے وہ اچھی طرح عدل کے ساتھ حکومت کرے گا لیکن شر و فساد و کفر و الحاد پھیل جائے گا اسی طرح دو تین شخص یکے بعد دیگرے حاکم ہوں گے، لیکن کفر و الحاد بڑھتا جائے گا پھر اس زمانے میں ایک مکان مشرق میں اور ایک مکان مغرب میں دھنس جائے گا جہاں منکرین تقدیر رہتے ہوں گے۔

۸.انہی دنوں آسمان سے ایک دھواں نمودار ہو گا کہاس سے مومنین کو زکام سا معلوم ہو گا اور کافروں کو نہایت تکلیف ہو گی

٩.  انہی دنوں ماہ ذوالحجہ میں قربانی (۱۰ ذی الحجہ)کے دن کے بعد کی رات بہت دراز ہو گی یہاں تک کہ بچے چلا اٹھے گے اور مسافر تنگ دل ہوں جائیں گے اور مویشی چرا گاہ میں جانے کے لئے بہت شور کریں گے لیکن صبح نہ ہو گی یہاں تک کہ لوگ ڈر کر کے روئیں چلائیں گے اور توبہ توبہ پکاریں گے اس رات کی درازی تین یا چار رات کے برابر ہو جائے گی۔

۱۰.  پھر قرصِ آفتاب تھوڑے نور کے ساتھ جیسا کہ گہن کے وقت ہوتا ہے مغرب کی جانب سے طلوع کرے گا اور اتنا بلند ہو کر جتنا کہ چاشت کے وقت ہوتا ہے پھر غروب ہو جائے گا اور حسب عادت مشرق سے طلوع کرے گا اس کے بعد کسی کی توبہ قبول نہ ہو گی۔

۱۱.  اس کے دوسرے روز مکہ کا پہاڑ صفا (نام) زلزلہ آ کر شک ہو جائے گا اور ایک جانور جس کی عجیب صورت ہو گی باہر آئے گا اور لوگوں سے کلام کرے گا اس کو دابتہ الارض کہتے ہیں، اس کے ایک ہاتھ میں عصائے موسیٰ اور دوسرے میں مُہر سلیمانی ہو گی، عصا موسیٰ سے ہر مسلمان کی پیشانی پر ایک نورانی خط بنائے گا اور مہر سے ہر کافر کی پیشانی پر ایک سخت سیاہ دھبہ لگائے گا، اس وقت تمام مسلمان و کافر کھلم کھلا پہچانے جائیں گے اور یہ علامت کبھی نہ بدلے گی، کافر پھر ہرگز ایمان نہ لائے گا اور مسلمان ہمیشہ ایمان پر رہے گا، اس کے سو برس بعد قیامت آئے گی

۱۲.  پس دابتہ الارض کے نکلنے کے کچھ عرصہ بعد یعنی جب قیامت میں چالیس برس رہ جائیں گے تو شام کی طرف سے ایک خوشبودار ٹھنڈی ہوا( ہوائے سرد)چلے گی جو بغلوں کے نیچے سے گزرے گی جس کے اثر سے کوئی اہل ایمان اور اہل خیر زمیں پر نہ رہے گا سب مر جائیں گے حتیٰ کہ اگر کوئی مومن پہاڑ کے غار میں چھپا ہو گا تو یہ ہوا پہاڑ کے غار میں پہنچ کر اس کو مارے گی پھر سب کافر ہی کافر رہ جائیں گے

۱۳.  پھر حبشہ کے کفار کا غلبہ ہو گا وہ خانہ کعبہ کو گرا دیں گے اور اس کے نیچے سے خزانے نکالیں گے ظلم و فساد پھیلے گا جانوروں کی طرح لوگ کوچہ و بازار میں ماں بہن سے جماع کریں گے، قران کاغذوں سے اٹھ جائے گا شہر اجڑ جائیں گے، قحط و وبا کا ظہور ہو گا اس کے بعد ملک شام میں کچھ ارزانی ہو گی اور کچھ امن ہو گا دوسری جگہ کے لوگ وہاں آئیں گے جس سے وہاں لوگوں کی کثرت ہو گی۔

۱۴.  کچھ مدت کے بعد جنوب کی طرف سے ایک آگ نمودار ہو گی اور لوگوں کو گھیر کر ملک شام کی طرف لائے گی جہاں مرنے کے بعد حشر ہو گا۔

۱۵.  اس کے بعد پانچ برس تک پھر لوگوں کو خوب عیش و آرام میسر ہو گا۔ لوگ شیطان کے بہکانے سے بتوں کی عبادت کریں گے، ان کو روزی کی فراخی حاصل ہو گی اور زمین پر کوئی اللّٰہ اللّٰہ کہنے والا نہ باقی رہے گا تب صور پھونکا جائے گا اور قائم ہو جائے گی۔ لوگ اس وقت عیش و آرام میں ہوں گے اور مختلف کاموں میں مصروف ہوں گے کہ یکایک جمعہ کے روز جبکہ محرم کا عشرہ ہو گا علیٰ الصباح آواز آئے گی لوگ حیران ہوں گے کہ یہ کیا ہے وہ آواز آہستہ آہستہ بلند ہوتی جائے گی یہاں تک کہ کڑک اور رعد کے برابر ہو گی تب لوگ مرنے شروع ہوں گے۔ صور ایک چیز بگل کی مانند ہے حضرت اسرافیل علیہ السلام اس کو منھ سے بجائیں گے اس کی آواز کی شدت سے ہر چیز فنا ہو جائے گی جاندار مر جائیں گے درخت اور پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے، آسمان کے تارے چاند سورج ٹوٹ کر گر پڑیں گے، آسمان پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا زمین معدوم ہو جائے گی۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ فنائے کلی سے یہ آٹھ چیزیں مستثنیٰ ہیں ان کو فنا نہ ہو گی

۱.  عرش،

۲.  کرسی،

۳.  لوح،

۴.  قلم،

۵.  بہشت،

۶.  دوزخ،

۷.  صور،

۸.  ارواح،

لیکن ارواح پر ایک قسم کی بیہوشی طاری ہو گی اور بعض علماء فرماتے ہیں سوائے اللّٰہ تعالیٰ کے ہر چیز فنا ہو جائے گی اور ان آٹھ مذکورہ چیزوں میں بھی ایک دم بھر کے لئے فنا آئے گی، اس وقت اللّٰہ تعالیٰ فرمائے گا

لِمَنِ المُلکُ الیَوم "آج کس کا ملک ہے ”

جب کوئی جواب نہ دے گا تو اللّٰہ تعالیٰ آپ ہی فرمائے گا

ِللّٰہِ الَواحِدِ القَھَّارِ "ملک اللّٰہ واحد و قہار ہی کا ہے۔”

یہ پہلے نفخے کا بیان تھا۔ چالیس سال کے بعد پھر صور پھونکا جائے گا اس سے ہر چیز دوبارہ ہو جائے گی، اس کی کیفیت ولبعث بعد الموت میں درج ہے۔۔

 

۶. قدر خیر و شر

 

قدر خیر و شر کے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بندے کے افعال خواہ نیک ہوں یا بد سب کا خالق اللّٰہ تعالیٰ ہے اور بندے فاعل و کاسب ہیں اور کسب پر جزا اور سزا مرتب ہے، نیکی کے کسب سے اللّٰہ پاک راضی ہے اور بدی کی کسب سے ناراض ہوتا ہے، تقدیر کا خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ بَھلا یا برا ہوتا ہے اللّٰہ تعالیٰ کے علم میں اس کا ایک اندازہ مقرر ہے۔ کوئی اچھی یا بری بات اللّٰہ تعالیٰ کے علم اور اندازے سے باہر نہیں اور اس کے ہونے سے پہلے بلکہ ہر چیز کے پیدا کرنے سے پہلے اللّٰہ تعالیٰ سب کچھ ہمیشہ سے جانتا ہے اور اپنی علم اور اندازے کے موافق اس کو پیدا کرتا ہے پس بندوں کے سب افعال اللّٰہ تعالیٰ کے ارادے اور مشیت و قضا و قدر سے ظاہر ہوتے ہیں، لیکن بندے کو اس کے افعال میں اختیار دیا ہے، پس جب بندہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو ایک قسم کی قدرت اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے عنایت ہوتی ہے۔ پس اگر وہ بندہ اس قدرت کو نیک کام پر لگا دے تب بھی اس کو اختیار ہے اور اس اختیار کے نیک کام میں استعمال کرنے کی اس کو جزا یعنی اچھا بدلہ ملے گا اور اگر برے کام میں خرچ کرے تب بھی اس کو اختیار ہے اور اس اختیار کو برے کام میں استعمال کرنے کی سزا یعنی برا بدلہ ملے گا، اسی قدرت و اختیار پر شرعی احکامات کا دارومدار ہے۔ تقدیر یعنی قدر خیر و شر پر ایمان لانا تواتر کی حد کو پہنچ گیا ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔ لیکن اس مسئلہ میں زیادہ بحث مباحثہ نہ کرے، کیونکہ گمراہی کا خطرہ ہے اور کچھ فائدہ نہیں، اسی لئے۔نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے تاکید کے ساتھ اس بحث سے منع فرمایا ہے اگرچہ اللّٰہ تعالیٰ نیکی و بدی کا خالق ہے مگر صرف خالقِ خیر( یزدان) یا صرف خالقِ شر (اہرمن) کہنا کفر ہے اور مجوس کا عقیدہ ہے۔ وہ اس طرح دو خدا مانتے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہئے

 خَالِقُ الخَیرِ وَ الشَّر یَا خَالِق کُلِّ شَئی

ہر چیز کا خالق و متصرف اللّٰہ کو جانے، ستاروں و دیگر زمینی وآسمانی علامات کو کسی چیز کے ہونے میں موثرِ حقیقی نہ جانے کہ یہ شرک ہے، اسباب کے درجہ میں جاننا جائز ہے، یعنی مجازاً اس فعل کو اس سبب کی طرف منسوب کرنا اور یہ سمجھنا کہ یہ تاثیرات ان چیزوں میں اللّٰہ تعالیٰ نے رکھی ہیں اور اسی کے ارادہ و اختیار سے ان کی تاثیرات ظاہر ہوتی ہیں جائز ہے

 

قضا کی تین قسمیں

 

قضا کی تین قسمیں ہوتی ہیں

۱. مبرمِ حقیقی یعنی جو علم الٰہی میں کسی شے پر معلق نہیں

۲. معلق محض جس کا کسی چیز پر معلق ہونا فرشتوں کے صحیفوں میں ظاہر فرما دیا گیا ہے

۳. معلق جو مبرم

 

۷. بعث بعد موت

 

ولبعث بعد الموت کا مطلب ہے کہ مرنے کے بعد سب کو قیامت کے دن دو بارا زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔ پس اول صور پھونکنے کے بعد جب چالیس برس کا عرصہ گزر جائے گا اور اتنی مدت تک احادیثِ صرفہ کا ظہور ہو چکے گا تو اللّٰہ تعالیٰ اسرافیل علیہ الاسلام کو زندہ کرے گا پھر وہ صور پھونکیں گے جس کو نقحہ ثانی کہتے ہیں، جس سے اوّل عرش کو اٹھانے والے فرشتے پھر جبرائیل و میکائل اور عزرائیل علیہم الاسلام اٹھیں گے پھر نئی زمین و آسمان اور چاند وسورج موجود ہوں گے، پھر ایک مینہ برسے گا جس سے سبزہ کی طرح ہر روح والی چیز جسم کے ساتھ زندہ ہو جائے گی۔ اس دوبارہ پیدا کرنے اور حساب و کتاب کر کے جزا و سزا کے طور پر جنت و دوزخ میں بھیجنے کو شرع میں بعث و نشر اور حشر و نشر کہتے ہیں اور اس دن کو یوم الحشر، یوم الجزاء، یوم الدین اور یوم حساب کہتے ہیں۔ اس کا منکر کافر ہے سب سے پہلے ہمارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قبر مبارک سے اس طرح باہر تشریف لائیں گے کہ آپ کے داہنی ہاتھ میں حضرت ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ کا ہاتھ ہو گا اور بائیں ہاتھ میں حضرت فاروق اعظم کا ہاتھ ہو گا پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام پھر اور انبیاء علیم صلٰوۃ والسلام پھر صدیقین پھر شہدا پھر صالحین پھر اور مومنین یہ کہتے ہوئے اٹھیں گے

 اَلحَمدُ لِلّٰہِ الَّذِی اَذھَبَ عَنَّا الَحَزَنَ ط اِنَّ رَبَّنَا لَغَفّور شَکّور

پھر اور کفار اور اشرار یہ کہتے ہوئے اٹھیں گے :

یَا وَیلَنَا مَن بَعَثَنَا مِن مَّر قَدِنَا

نیکوں کا گروہ الگ ہو گا اور بروں کی جماعت الگ، ہر شخص برہنہ بے ختنہ اٹھے گا سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جنت کا سفید لباس پہنایا جائے گا ان کے بعد حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو ان سے بہترلباس پہنایا جائے گا، ان کے بعد اور رسولوں اور نبیوں کو پھر مؤذنوں کو لباس پہنایا جائے گا پھر کوئی پیدل کوئی سوار ہو کر میدان حشر میں جائیں گے، کافر منھ کے بل چلتا ہوا جائے گا، کسی کو ملائکہ گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے، کسی کو آگ جمع کرے گی اس روز آفتاب ایک میل کے فاصلہ پر ہو گا اس دن کی تپش ناقابل بیان ہے اللّٰہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے، بھیجے ( مغز) کھولتے ہوں گے، اس کثرت سے پسینہ نکلے گا کہ ستر گز زمین میں جذب ہو جائے گا پھر جب زمین جذب نہ کر سکے گی تو اوپر چڑھے گا کسی کے ٹخنوں تک ہو گا کسی کے گھٹنوں تک، کسی کے گلے تک اور کافر کے تو منھ تک چڑھ کر لگام کی طرح جکڑ لے گا، جس میں وہ ڈبکیاں کھائے گا، پیاس کی شدت سے زبانیں سوکھ کر کانٹا ہو جائیں گی اور بعض کی منھ سے باہر نکل آئیں گی، دل ابل کر گلے میں آ جائیں گے، ہر شخص بقدر گناہ اس تکلیف میں مبتلا ہو گا پھر سب کو نامہ اعمال دئے جائیں گے۔ مومنون کو سامنے سے دائیں ہاتھ میں اور کافروں کو پیچھے سے بائیں ہاتھ میں ملیں گے۔

نیکیاں اور بدیاں میزان عدل میں تولی جائیں گی، جس کا نیکی کا پلہ بھاری ہو گا وہ جنت میں جائے گا جس کا وہ پلہ ہلکا ہو گا وہ دوزخ میں جائے گا جس کے دونوں پلے برابر ہوں گے وہ کچھ مدت اعراف میں رہے گا، پھر اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں جائے گا۔ میزان میں اعمال تولنے کی کیفیت اللّٰہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ حقوق العباد کا بدلہ اس طرح دلایا جائے گا کہ ظالم کی نیکیاں مظلوم کو دلائی جائیں گی اور جب نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو مظلوم کی برائیاں ظالم پر ڈالی جائیں گی، چرندوں پرندوں اور وحشی جانوروں وغیرہ کا بھی حساب ہو گا اور سب کو بدلہ دلا کر سوائے جن و انس کے سب کو نیست و نابود کر دیا جائے گا۔ میزان حق ہے اس کا منکر کافر ہے پل صراط حق ہے اور اس کا منکر بھی کافر ہے، میدان حشر کے گرداگرد دوزخ محیط ہو گی جنت میں جانے کے لئے اس دوزخ پر ایک پل ہو گا جو کہ بال سے زیادہ باریک، تلوار سے زیادہ تیز، رات سے زیادہ سیاہ ہو گا، یعنی اس پر اندھیرا ہو گا، سوائے ایمان کی روشنی کے اور کوئی روشنی نہ ہو گی، اس کی سات گھاٹیاں ہیں، سب لوگوں کو اس پر چلنے کا حکم ہو گا، سب سے پہلے نبیوں کے سردار محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس پر سے گزریں گے آپ کے بعد آپ کی امت گزرے گی، پھر اور مخلوق باری باری گزرے گی، سوائے انبیاء علیہ السلام کے۔اور کوئی کلام نہ کرے گا اور انبیاء علیہم السلام کا کلام یہ ہو گا

 اَللّٰھُمَّ سَلِّم سَلِّم

اے اللّٰہ سلامت رکھنا سلامت رکھنا

جہنم میں پل صراط کے دونوں طرف کانٹوں کی طرح کے آنکڑے ہوں گے، جن کی لمبائی اللّٰہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، وہ لوگوں کو ان کے عملوں کے مطابق اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے پکڑیں گے، بعض کو پکڑ کر جہنم میں گرا دیں گے اور بعض کا گوشت چھیل ڈالیں گے لیکن زخمی کو اللّٰہ تعالیٰ نجات دے گا، مومن سب گزر جائیں گے، بعض بجلی کی مانند بعض تیز ہوا کی مانند بعض پرندوں کی مانند، بعض تیز گھوڑے کی مانند، بعض تیز اونٹ کی مانند جلد گزر جائیں گے، بعض تیز دوڑنے والے آدمی کی مانند، بعض تیز چلنے والی پیدل کی مانند، بعض عورتوں کی طرح آہستہ، بعض سرین پر گھسیٹتے ہوئے اور بعض چیونٹی کی چال چلیں گے، کفار و منافق سب کٹ کر دوزخ میں گر جائیں گے، جس کو اس دنیا میں۔شریعت پر چلنا آسان ہو گا اتنا ہی پل صراط پر چلنا آسان ہو جائے گا اور جتنا یہاں۔شریعت پر چلنا مشکل ہو گا، اتنا ہی وہاں پل صراط پر چلنا اس کے لئے دشوار ہو گا حضور انور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شفاعت حق ہے، قیامت کے روز آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے گناہگار بندوں کی شفاعت فرمائیں گے۔

حضور انور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شفاعت حق ہے، قیامت کے روز آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے گناہگار بندوں کی شفاعت فرمائیں گے۔ حضور کو یہ فضیلت عطا ہو چکی ہے پھر بھی اللّٰہ تعالیٰ کے جلال و جبروت کے ادب کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ سے شفاعت کی اجازت مانگیں گے۔ اور سجدے میں گر کر اللّٰہ پاک کی بے شمار حمد وثنا کریں گے، پھر آپ کو شفاعت کی  اجازت ہو گی، آپ بار بار شفاعت کرتے رہیں گے اور اللّٰہ پاک بخشتا رہے گا، یہاں تک کہ جس نے سچے دل سے لا الہ الا اللّٰہ کہا اور اس پر مرا ہو گا، اگرچہ اس نے کبیرہ گناہ بھی کئے ہوں لیکن شرک نہ کیا ہو وہ دوزخ سے نکالا جائے گا اور جنت میں داخل کیا جائے گا خواہ کسی نبی کا امتی ہو آنحضرت سب کی شفاعت کریں گے اور اللّٰہ پاک قبول فرمائے گا سوائے کفر و شرک کے باقی تمام گناہوں کی معافی کے لئے شفاعت ہو سکتی ہے کبیرہ گناہوں والے شفاعت کے زیادہ محتاج ہوں محتاج ہوں گے کیونکہ صغیرہ گناہ تو دنیا میں بھی عبادتوں سے معاف ہو جاتے ہیں پھر آپ کے بعد اور انبیا کرام و اولیا و شہدا و علما و حفاظ و حجاج بلکہ ہر وہ شخص جسے کوئی دینی منصب ملا ہو اپنے اپنے متعلقین کی شفاعت کرے گا، لیکن بلا اجازت کوئی شخص شفاعت نہ کر سکے گا۔ نبی کریم بعض اموات کی قبر میں شفاعت فرمائیں گے بعض کی حشر میں دوزخ میں جانے سے پہلے شفاعت کریں گے اور بعض کو دوزخ میں جانے کے بعد شفاعت کر کے دوزخ سے نکالیں گے، بعض کی جنت میں ترقی درجات و بلندی مراتب کے لئے شفاعت فرمائیں گے۔ بعض کی شفاعت کا آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے خاص وعدہ فرما لیا ہے مثلاً

۱. جو حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی مزار مبارک کی زیادت کرے،

۲. جو حضور پر کثرت سے درود بھیجے،

۳. جو ثواب جان کر مکہ یا مدینہ میں رہے تاکہ وہاں وفات پائے، ان کے لئے آپ نے شفاعت کا وعدہ فرمایا ہے،

کافروں یا مشرکوں کے لئے آپ کی یا کسی اور کی شفاعت بالاتفاق نہیں ہو گی، بعض گناہگار مسلمانوں کے لئے بھی آپ کی شفاعت نہ ہو گی، جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ قدریہ اور مرجۂ کو میری شفاعت نہ ہو گی، ظالم بادشاہ کی بھی میں شفاعت نہیں کروں گا اور شرع سے تجاوز کرنے والے کی بھی شفاعت نہیں کروں گا اگر اس کا ظاہر مطلب لیا جائے تو اہل کبائر سے یہ لوگ مستثنیٰ ہوں گے، یا یوں کہا جائے گا کہ ترقی درجات کی شفاعت ان کے لئے نہ ہو گی۔ بعض لوگوں سے خفیہ حساب لیا جائے گا اور اللّٰہ تعالیٰ ستاری فرما کر ان کو بخش دے گا اور کسی سے سختی کے ساتھ ایک ایک چیز کی باز پرس ہو گی، اللّٰہ تعالیٰ اس قیامت کے دن کو جو ہمارے حساب سے پچاس ہزار برس کا دن ہے اپنے خاص بندوں پر اس قدر ہلکا کر دے گا کہ ان کو اتنا وقت معلوم ہو گا جتنا کہ ایک فرض نماز میں صرف ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی کم یہاں تک کہ بعض کو ایک پلک جھپکنے  میں سارا دن طے ہو جائے گا۔

اللّٰہ پاک حضور اقدس محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو مقام محمود عطا فرمائے گا کہ تمام اولین و آخرین حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حمد و ستائش کریں گے نیز آپ کو ایک جھنڈا مرحمت ہو گا جس کو لواء حمد کہتے ہیں۔ تمام مومنین حضرتِ آدم علیہ السلام سے لے کر آخر دنیا تک سب اس کے نیچے ہوں گے

 

حوضِ کوثر

 

قیامت کے دن ہر نبی کے لئے ایک حوض ہو گا اور ہر نبی کی امت کی الگ الگ پہچان ہو گی، ہمارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے حوض کا نام کوثر ہے، وہ سب حوضوں سے بڑا ہے آپ کی امت کی پہچان یہ ہے کہ ان کے وضو کے اعضا نہایت روشن ہوں گے۔ آپ کا حوض کوثر ایک ماہ کی مسافت کی درازی میں ہو گا اس کے کنارے زاویہ قائمہ بناتے ہیں اور کناروں پر موتی کے قبے ہیں، اس کی مٹی نہایت خوشبودار مشک کی ہے اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید، شہد سے زیادہ میٹھا، گلاب اور مشک سے زیادہ خوشبودار، سورج سے زیادہ روشن اور برف سے زیادہ ٹھنڈا ہے۔ اس کے پینے کے برتن ستاروں کی مانند چمکدار اور بکثرت ہیں، آنحضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنے دستِ مبارک سے جام بھر بھر کر پلائیں گے جو ایک بار پی لے گا پھر میدانِ حشر میں پیاسا نہ ہو گا مرتد و کافر و مشرک حوض کوثر کے پانی سے محروم رہیں گے۔ بعض علماء کے نزدیک گمراہ فرقے بھی اس نعمت سے محروم رہیں گے۔ حوض کوثر حق ہے البتہ اس کی کیفیات جو بیان ہوئیں خبر احادیث سے ثابت ہیں اس لئے مرتبہ ظن میں ہیں۔

 

 

 

 دوزخ کا بیان

 

دوزخ کے سات طبقے ہیں

۱. جہنم،

۲. لظیٰ،

۳. حطمہ،

۴. سقر،

۵. سعیر،

۶. جحیم،

۷. ہاویہ،

ان ساتوں طبقوں میں کم و بیش اور مختلف قسم کا عذاب ہے۔ اگر دوزخ سے ایک خشخاش کے برابر آگ لائی جائے تو تمام زمین و آسمان کو ذرا سی دیر میں فنا کر دے۔ دنیا کی آگ اس کا ستّرواں جزو (۱/۷۰) ہے، آدمی اور پتھر اس کا ایندھن ہیں، اگر دوزخ کا کوئی داروغہ دنیا والوں پر ظاہر ہو تو زمین کے سب رہنے والے اس کی ہیبت سے مر جائیں گے۔ دوزخیوں کے کپڑے کا ایک پرزہ بھی اتنا بدبو دار اور گندہ ہو گا کہ اگر تمام مخلوق مر جائے تب بھی ان کی بدبو اس کی بدبو اور گندگی کو نہ پہنچ سکے، دوزخ کی بعض وادیاں ایسی ہیں کہ خود دوزخ بھی ہر روز ستر یا زیادہ مرتبہ ان سے پناہ مانگتی ہے۔ دوزخ کا ادنیٰ عذاب یہ ہو گا کہ آگ کی جوتیاں جو دوزخی کو پہنائی جائیں گی ان سے اس کا دماغ ہانڈی کی طرح ابلے گا وہ سمجھے گا کہ سب سے زیادہ عذاب اس پر ہو رہا ہے، دوزخ میں طرح طرح کے عذاب ہوں گے آگ کا مکان، آگ کا فرش، کھانے کو زقوم (توھر)، پینے کو پیپ، نہایت ہی کھولتا ہوا پانی، پہننے کو گندھک کے کپڑے، گلے میں گرم طوق و زنجیر، کفار کو سر کے بل چلایا جانا، بڑے بڑے کانٹے چبھونا، بھاری گرزوں سے مارنا، بڑی قسم کی اونٹوں کی گردن کے برابر بچھو اور بہت بڑے بڑے سانپ کہ اگر ایک بھی ڈس لے تو اس کی سوزش و درد و بیچینی ہزار برس تک رہے وغیرہ، دوزخیوں کے منھ کالے اور شکلیں بدنما ہوں گی، جسم بہت بڑا کر دیا جائے گا، ایک شانے سے دوسرے شانے تک تیز سوار کے تین دن کے سفر کے برابر اور ایک ایک ڈاڑھ اُحد پہاڑ کے برابر ہو گی۔ کفار کی شکل نہایت مکروہ اور غیر انسانی ہو گی، ہر لحظہ عذاب الٰہی ان کو لئے سخت ہوتا جائے گا وہ موت مانگیں گے مگر ان کو موت نہ آئے گی، ہمیشہ ہمیشہ دوزخ کے عذاب میں گرفتار رہیں گے، مومن گناہگار بقدر گناہ عذاب بھگت کر یا نبی کریم صلی اللّٰہ۔علیہ وسلم کی برکت و شفاعت سے نجات پالیں گے

 نَساَلُ اللّٰہُ العَفوَ والعَافِیَتَ فِی الدِّینَ وَالدُّنیَا وَ الاخِرَۃ، رَبَّنَا اَدخِلنَا الفِردَوسَ وَاَجِرنَا مِنَ النَّارِ ۔

  


 

 جنت کا بیان

 

 

جنت ایک ایسا مقام ہے جو اللّٰہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لئے بنایا ہے اور اس میں وہ نعمتیں مہیا کی ہیں جن کو نہ آنکھوں نے دیکھا اور نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی آدمی کے دل پر ان کا خیال گزرا، جو مثالیں قرآن مجید اور حدیثوں میں آئی ہیں سمجھانے کے لئے ہیں، حساب کے بعد مومن جنت کی طرف روانہ ہوں گے راستہ میں چشمہ رضوان آئے گا اس میں تمام مومن غسل کریں گے ان کی منھ چودہویں رات کی چاند کی مانند چمکتے ہوں گے اور بدن صاف ہو گا، ان کی خوبصورتی بے حد ہو گی، عورتیں ایسے زیب و زینت والی ہوں گی کہ حوریں بھی ان کا جمال دیکھ کر رشک کریں گی، تمام امتیں صف بستہ ہو جائیں گی، ہر ایک گروہ کو ایک بلند نشان ملے گا، نشان محمدی علی صاحبہاالصلوۃ و السلام سب سے پسندیدہ ہو گا، ایک لاکھ فرشتے نورانی معطر تھال لے کر ان کے استقبال کو آئیں گے، ہر ایک کے سر پر تاج ہو گا، سب سے اول حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت بہشت کی طرف چلے گی پھر باقی گروہ آگے پیچھے چلیں گے، فرشتے نورانی معطر تھال آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کریں گے پھر اور پیغمبروں کو پھر اور لوگوں کو پیش کریں گے۔ سب سے آگے نبی کریم علیہ الصلوۃ و السلام گزریں گے اور ستر ہزار فرشتے جبرئیل علیہ السلام کے ہمراہ آپ کے ہم رکاب ہوں گے اور دس کروڑ خوش الحان غلمان خوش الحانی سے قرآن شریف پڑھتے ہوں گے، ستر ہزار چست و چالاک اور کمال زیب و زینت والے کوتل براق ہوں گے، نوری فرشتے باگیں پکڑ کر چلیں گے، تمام فرشتوں میں خوشی کا غلغلہ ہو گا، جنت میں ہر طرف شادیانے بجیں گے، جنت کے دروازے کھل جائیں گے، سب سے پہلے انحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم قدم رنجہ فرمائیں۔گے اور پیچھے پیچھے مومنین حمدِ باری تعالیٰ پڑھتے ہوئے داخل ہوں گے

بہشت کے آٹھ درجے ہیں

۱. دارلاخلد، یہ عام لوگوں کے واسطے ہے،

۲. دارالسلام، جو فقیروں اور صابروں کا مقام ہے،

۳. دارالمقام، جو مالدار شکر گزاروں کا مقام ہے،

۴. عدن، یہ عابدوں، زاہدوں، غازیوں، سخیوں اور اماموں کے واسطے ہے،

۵. دار القرار، اس میں حافظ و عالم رہیں گے،

۶. جنت النعیم، یہ شہدوں اور مؤذنوں کے لئے ہے،

۷. جنت الماویٰ، جو شہدائے اکبر محسنین اور اولیاءکرام کا مقام ہے،

۸. جنت الفردوس، جو نبیوں اور رسولوں اور علماء عاملین کی جگہ ہے،۔

 

فردوس بریں کے اوپر غرفہ نور ہے یہ مقام سرور حضرت خاتم الانبیا صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے واسطے ہے، مقام محمود اور وسیلہ جنت کا خاص درجہ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو عطا ہو گا۔ ان آٹھوں بہشتوں کے بھی بے شمار درجے ہیں، اگر دنیا کے سونا چاندی کو آٹھ گناہ کیا جائے تو ایک ادنیٰ بہشتی بھی اس سے زیادہ نعمت پائے گا، ادنیٰ سے ادنی مومن کو جو مکان ملے گا اس کی ایک ایک اینٹ سونے کی اور ایک ایک چاندی کی ہو گی زعفران اور مشک کا گارا ہو گا اس کر کنگرے لال اور زمرد کے ہوں گے، مشک و عنبر سے گچ ہو گا اور لال و گوہر سے گندھا ہوا ہو گا۔ اس مکان میں ستر ہزار دالان ہوں گے، جن میں سے ہر ایک پانچ سو میل کی مسافت پر فراغ ہو گا اور طرح طرح کی بیٹھکیں ہوں گی، جن میں حور وغلمان اور گانے والے بے شمار ہوں گے، اس میں قسم قسم کے گلزار و چمن ہوں گے،جنت کے میوے بہت لذیذ ہوں گے اگر ان میں سے ذرا سا ٹکڑا بھی کسی مردے کے منھ میں ڈال دیا جائے تو وہ فی الفور زندہ ہو جائے اور وہ میوے ہمیشہ ایک حال پررہیں گے، کبھی کم نہ ہوں گے۔ جنت میں چار نہریں ہیں

۱. ایسے پانی کی نہریں ہیں جن کا پانی زیادہ دیر رہنے سے متغیر نہیں ہوتا، بلکہ وہی اصلی ذائقہ رہتا ہو،

۲. دودھ کی نہریں جن کا مزہ بھی دیر تک رہنے سے نہیں بگڑتا،

۳. شراب کی نہریں جو نہایت خوش ذائقہ ہیں

۴. خالص اور صاف شہد کی نہریں، نہ اس شہد اور دودھ جیسی میٹھی دنیا کی کوئی چیز ہے اور نہ پانی اور شراب کی مثال دنیا میں مل سکتی ہے اور وہ شراب ایسی نہیں ہے جس میں بدبو، کڑواہٹ اور نشہ ہو اور جس کے پینے سے عقل جاتی رہے اور آپے سے باہر ہو کر بیہودہ بکتے پھریں، بلکہ وہ شراب ان سب عیبوں سے پاک ہے، جنت میں ایک ایسا درخت ہے کہ اگر سوار سو برس تک اس کے سایہ میں چلے تو بھی ختم نہ ہو، ہر ایک جنتی کے لئے سنہرے تخت نہایت ہی زیب و زینت کے ساتھ ہو گا، ہر طرف حور و قصور ہوں گے، غلمان سامنے۔ہوں گے،وریں نورانی مخلوق ہیں، جن کی خوبصورتی کی کوئی حد نہیں جنت کے کھانے اور لباس کی خوبیاں بیان سے باہر اور قیاس سے دور ہیں، کھانا پینا، آرام، خوشی، جماع، لذت وغیرہ بہشتیوں کو بہت حاصل ہو گا اور جو چیزیں چاہیں گے اسی وقت ان کے سامنے موجود ہو جائیں گی اور ان کی لذت دنیا کی لذتوں سے سیکڑوں گنا زیادہ ہوں گی اور وہ بے ضرر ہوں گی، میووں کی شکل اگرچہ دیکھنے میں ایک جیسی ہو گی مگر مزہ مختلف ہو گا، وہاں نجاست، گندگی، پاخانہ، پیشاب،، تھوک، رینٹھ، کان کا میل، بدن کا میل ہرگز نہ ہوں گے، بلکہ خواہ کتنا ہی کھائیں ایک خوشبودار فرحت بخش ڈکار آئے گی یا خوشبودار فرحت بخش پسینہ آئے گا اور کھانا پینا ہضم ہو کر سب بوجھ و گرانی ختم ہو جائے گی، ہر وقت زبان سے تسبیح و تکبیر وتحمید قصد کے ساتھ و بلا قصد سانس کی مانند جاری ہو گی۔ ہر جنتی کے سرہانے اور پائنتی دو حوریں نہایت اچھے آواز سے گائیں گی، مگر ان کا گانا یہ شیطانی مزا میر نہیں بلکہ اللّٰہ جل شانہ کی حمد و پاکی ہو گا وہ ایسی خوش گلو ہوں گی کہ مخلوق نے ویسی آواز کبھی نہ سنی ہو گی، اگر جنت کا کپڑا دنیا میں پہنایا جائے تو جو دیکھے وہ بیہوش ہو جائے، لوگوں کی نگاہیں اس کا تحمل نہ کر سکیں اگر بہشت کی نعمتوں میں زمین و آسمان کو ڈال دیا جائے تو اس طرح مل جائے کہ کچھ پتا نہ چلے

جنت میں ایک بازار ہو گا جس کا نام سوق الجنہ ہے۔ اس بازار میں طرح طرح کی نعمتیں لا کر ڈھیر کر دی جائیں گی، ان میں جنتیوں کے لئے یاقوت، زمرد، موتی، لال، زبرجد اور دیگر قسم کی جواہرات اور سونے چاندی کی نورانی کرسیاں اور منبر ہوں گے، جو صرف مومنوں کو لئے موجود ہوں گے اور اعمال کے مطابق ہر ایک جنتی کو دئے جائیں گے، ادنیٰ سے ادنیٰ جنتی مشک و کافور کے ٹیلے پر بیٹھے گا اور کوئی اپنے آپ کو ادنیٰ نہیں سمجھے گا بلکہ یہ کرسی والوں کو بھی اپنے سے بڑھ کر نہ سمجھیں گے، سب سرور کی حالت میں بیٹھے ہوں گے، اللّٰہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوں گے اور اللّٰہ تعالیٰ کی حمد پڑھیں گے، جنت کی تمام نعمتیں بھول جائیں گے اور پھر جوش میں آ جائیں گے، اللّٰہ تعالیٰ کا دیدار ایسا صاف ہو گا جیسا کہ آفتاب اور چودہویں رات کے چاند کو ہر ایک اپنی اپنی جگہ سے دیکھتا ہے اور ایک کا دیکھنا دوسرے کے دیکھنے کو نہیں روکتا وہ سب اسی حالت پر ہوں گے کہ ابر چھا جائے گا اور ان پر ایسی خوشبو برسائے گا جو لوگوں نے کبھی نہ پائی تھی پھر اللّٰہ جل شانہ فرمائے گا کہ اس بازار سے تمہیں جس چیز کی خواہش ہے پسند کر لیں اور ہر قسم کے ریشمی لباس اور نہایت آبدار بیشمار موتیوں وغیرہ سے لے لیں، جب جنتی اپنی اپنی خواہش کے مطابق پسند کر لیں گے تو فرشتے جو اس بازار کو گھیرے ہوئے ہوں گے ان تحفوں کو ان جنتیوں کے گھر پہنچا دیں گے،جنتی اس بازار میں آپس میں ملیں گے پھر وہاں سے اپنے اپنے مکانوں کے واپس آئیں گے ان کی بیویاں استقبال کریں گی اور مبارک باد دیں گی، عام مومنین کو اللّٰہ پاک کا دیدار ہر ہفتہ جمعہ کے دن ہو گا اور خاص مومنوں کو ہر روز دو بار فجر اور عصر کے وقت اور خاص الخاص مومنوں کو ہر وقت ہر گھڑی یہ نعمت حاصل ہو گی اور جنت میں اللّٰہ تعالیٰ کے دیدار سے بڑھ کر کوئی نعمت نہ ہو گی۔ اہل جنت مرد و عورت بہت حسین ہوں گے، سب بے ریش ہوں گے، سر کے بال اور پلکوں اور بھووں کے سوا بدن پر کہیں بال نہ ہوں گے، سب کی آنکھیں قدرتی سرمگیں ہوں گی، مرد و عورت خواہ کسی عمر کے ہو کر دنیا سے گزرے ہوں وہاں سب نوجوان ہوں گے اور ہمیشہ نوجوان رہیں گے، آپس میں اختلاف اور دشمنی نہیں ہو گی ایک دوسرے کو سلام کہیں گے کوئی فحش اور گناہ کی بات وہاں سننے میں نہ آئے گی،جو شخص ایک دفعہ جنت میں داخل ہو جائے گا پھر وہاں سے نہ نکالا جائے گا، بلکہ ابدالآباد تک وہیں رہے گا، جنت میں نہ موت ہے نہ نیند، غرض کہ جنت کی نعمتیں بیشمار، قرآن و احادیث میں ان کی تفصیل موجود ہے مزید اللّٰہ تعالیٰ جس کو نصیب کرے گا وہاں جا کر دیکھ لے گا

 اَللَّھُمَّ ھَب لَنَا جَنتَ الفِردَوسِ وَارزُقنَا زَیِارَۃ وَ جھِکَ الکَرِیم بِجَاہ حَبِیبِکَ الَّرحِیم عَلَیہِ الصَّلوٰۃ وَالتَّسلِیم اٰمِینَ

 

 

 اعراف کا بیان

 

 

اعراف کا بیان جن کی نیکیاں اور بدیاں برابر ہوں گی وہ نہ دوزخ کے مستحق ہوں گے نہ جنت کے، لیکن جنت کی طمع رکھتے ہوں گے، وہ شروع میں اعراف میں رہیں گے اور آخر کار اللّٰہ تعالیٰ کے فضل سے جنت میں جائیں گے، اعراف بلند جگہ کو کہتے ہیں۔ جنت و دوزخ کے درمیان ایک دیوار ہے، جو جنت کی لذتوں کو دوزخ تک اور دوزخ کی تکلیفوں کو جنت تک پہنچنے سے روکتی ہے، اس دیوار کی بلندی پر جو مقام ہو گا اس کو اعراف کہتے ہیں، بعض نے کہا کہ اعراف بمعنی معرفت ہے کہ اس مقام سے اہل جنت و اہل دوزخ ان کی پیشانیوں سے پہچانے جائیں گے، اصحابِ اعراف کے بارے میں مختلف اقوال ہیں راجح و صحیح یہ ہے کہ جن کی نیکیاں اور بدیاں برابر ہوں گی وہ اصحاب اعراف ہیں یہ لوگ درمیان میں ہونے کی وجہ سے جنت و دوزخ دونوں طبقوں کی کیفیتوں سے متاثر ہوں گے، اعراف اور اس پر آدمیوں کا ہونا حق ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔

 

فائدہ

 

جنت و دوزخ پیدا ہو چکی ہیں، حضرت آدم و حضرت حوا علیہماالسلام کے جنت میں رہنے اور پھر وہاں سے زمین پر اتارے جانے کا واقعہ قرآن مجید میں موجود ہے اور بھی بہت سی آیات و احادیث سے جنت و دوزخ کا موجود ہونا ثابت اور حد تواتر کے پہنچ چکا ہے اس کا انکار کفر ہے، ان کی حقیقت میں اختلاف ہے بعض روحانی اور بعض جسمانی کہتے ہیں مگر یہ ان کی لفظی بحث ہے، البتہ بعض احادیث سے یہ بات ضرور معلوم ہوتی ہے کہ ان نعمتوں کے علاوہ جو جنت میں پیدا ہو چکی ہیں دن بدن اور نعمتیں بھی پیدا ہوتی جاتی ہیں، یعنی جنت کا بعض حصہ ایسا ہے کہ اس میں ذکر و تسبیح و اعمالِ صالحہ سے اشجار !وغیرہ پیدا ہو جاتے ہیں۔ واللہ عالم بصواب

 

 

 ایمان کے ارکان

 

ایمان کے ارکان ایمان کے دو رکن ہیں

ا. اقرار بللسان یعنی دین کے احکام جو تواتر کے ساتھ مجمل اور مفصل طور پر ہم تک پہچے ہیں ان کا زبان سے اقرار کرے ( ان احکام کی تفصیل صفت ایمان مجمل اور مفصل میں ہے )۔

ب. تصدیق بالقلب یعنی ایمان مجمل اور ایمان مفصل کی دل سے تصدیق کرے ان کو دل سے مانے اور یقین کرے، اقرار اور تصدیق کی چار صورتیں ہیں

۱. جس نے زبان سے اقرار اور دل سے صدیق کی وہ اللہ کے نزدیک بھی مومن ہے اور جنت کا مستحق ہے اور دنیا کے لوگوں کے نزدیک بھی مومن اور دنیا میں مومنوں کے حقوق کا حقدار ہے۔

۲. جو ان دونوں ارکان سے محروم ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی کافر ہے اور ہمیشہ کے لئے دوزخ کا مستحق ہے اور لوگوں کے نزدیک بھی کافر اور دنیا میں مومنون کے حقوق سے محروم ہے۔

۳. جس نے دل سے تصدیق کی اور زبان سے اقرار نہیں کیا تو دنیا کے احکام میں اس کو مومن نہیں کہیں گے اور حقوق مومنین سے محروم رہے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ مومن ہے اور آخرت میں جنت کا مستحق ہے۔ پس حالت اضطرار میں کلمہ کفر کہنے سے وہ شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک مومن ہے اگرچہ لوگ اسے کافر کہیں۔ اس طرح گونگے آدمی کا ایمان اقرار زبانی کے بغیر بھی معتبر ہے

۴. جس نے زبان سے اقرار کیا اور دل سے تصدیق نہیں کی وہ لوگوں کو نزدیک ظاہراً احکام میں مومن ہے اور اللہ کو نزدیک وہ کافر ہے۔ اس کو شرع میں منافق کہتے ہیں۔ منافقین دنیا میں مومن کہلا کر اپنے آپ ان شرعی حدود سے جو کفار کے متعلق ہیں بچا لیں گے لیکن آخرت میں ان کے لئے ہمیشہ کی دوزخ اور دردناک عذاب ہے۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں منافقین کو قران مجید اور وحی الہی کے ذریعہ سے ظاہر و متعین کر دیا گیا تھا آپ کے بعد کے کسی زمانے میں کسی خاص شخص کو یقین کے ساتھ منافق نہیں کہ سکتے

 

ایمان کے احکام

 

ایمان کے احکام مومن کے لئے ایمان کے سات احکام ہیں ان کو حقوق مومن بھی کہتے ہیں۔ جن میں سے پانچ دنیا کے متعلق ہیں اور دو آخرت کے متعلق

 

 دنیا کے متعلق

۱. حکم شرعی کے بغیر قتل نہیں کیا جائے گا

۲. حکم شرعی کے بغیر قید نہیں کیا جائے گا

۳. اس کا مال ناحق نہ کھایا جائے گا

۴. اس کو تکلیف نہیں دی جائے گی

۵. اس پر برائی کا ظن جائز نہیں ہے جب تک کہ ظاہر نہ ہو جائے

 

 آخرت کے متعلق

۱. مومن قطعی یعنی دائمی دوزخی نہ ہو گا سوائے شرک کے خواہ کتنے ہی بڑے بڑے گناہ کئے ہوں۔ آخر کسی وقت میں جنت میں جائے گا

۲. جب نیکیوں اور بدیوں کا وزن کیا جائے گا تو جس کی نیکیاں بھاری ہونگی وہ کامیاب ہو گا اس پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہو گا اور اس کو حساب کے بغیر جنت میں داخل کریں گے اور جس کی بدیاں غالب ہونگی وہ بقر گناہ سزا بھگت کر جنت میں جائے گا اور اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کو محض اپنے فضل و کرم سے یا حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے یا دیگر انبیاء و  اولیاء کی شفاعت سے بخش دے اور چاہے تو گناہ کے مطابق عذاب دے کر جنت میں داخل کر دے۔ مومن کو کبھی ناامید نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی بے خوف رہنا چاہیے

 

 

 شرائط ایمان

 

ایمان کی سات شرطیں ہیں

۱. ایمان بالغیب یعنی اللہ تعالیٰ ایمان لانا۔ اگرچہ اسے دیکھا نہیں۔ لیکن ایمان بالبئاس یعنی موت کے فرشتے کو دیکھ کر ایمان لانا غیر معتبر اس وقت مومن کی طوبہ بھی قبول نہیں ہے

۲. عالم غیب اللہ ہے یہ اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے اور اسی کی شان ہے ۳. ایمان اختیار اور عقل و ہوش سے لانا۔ کافر کو مار کر کلمہ پڑھایا تو اس کا اعتبار نہیں اسی طرح مست اور بیہوش کے ایمان کا اعتبار نہیں

۴. اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیز کو حلال جاننا

۵. اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیز کو حرام جاننا

۶. قبر الہی اور اس کے عذاب سے ڈرنا

۷. اس کی رحمت کا امیدوار ہونا۔ دل اور زبان سے ایمان قبول کرنا اس کی حقیقت ہے اور عمر بھر مین ایک دفعہ ایمان لانا اور مرتے دم تک اس پر قائم رہنا فرض ہے اور اس کے بعد تکرار ایمان سنت ہے

ایمان کے باقی رہنے کی تین شرطیں ہیں

۱. ایمان کا شکر ادا کرنا

۲. خوف زوال یعنی اس نعمت کے جاتے رہنے کا خوف رہنا۔

۳. اللہ کی مخلوق پر ظلم نہ کرنا ان پر عمل کرنے سے ایمان باقی رہتا ہے

 

شش کلمہ

 

کلمہ میِں چار فرض ہیں

۱. زبان سے کہنا

۲. معنی سمجھنا

۳. اعتبار اور دل سے تصدیق کرنا

۴. مرتے دم تک اس پر قائم رہنا

 

 ۱. کلمہ طیبہ

 لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّہِ

ترجمہ : اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ محمد (مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم)اللہ کے رسول ہیں

 

۲. کلمہ شہادت

 اَشہَدُ اَن لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشہَدُ اَنَّ مُحَمَّدَا عَبدُہُ وَ رَسُوُلُہُ

ترجمہ: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں

 

۳. کلمہ تمجید

سُبحَانَ اللّٰہِ وَالحَمدُ لِلّہِ وَلآ اِلَّہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکبَرُ زوَلَا حَولَ وَلَا قُوَّہَاِلَّا بِاللَّہِ العَلِیِّ العَظِیم

ترجمہ: اللہ تعالیٰ پاک ہے اور سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ تعالیٰ بڑا ہے اور ہم میں گناہ سے بچنے اور عبادت کرنے کی طاقت نہیں ہے مگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو بزرگ و برتر ہے

 

۴. کلمہ توحید

 لَآ اِلٰہَ اِلَّا وَحدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ المُلکُ وَلَہُ الحَمدُ وَ ھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَئِ قَدِیرُ

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ یکتا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اسی کا ملک ہے اور اس کے لئے سب تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے

 

۵. کلمہ رد کفر

اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوذُبِکَ مِن اَن اُشرِکَ بِکَ شَیئَاوَّ اَنَا اَعلَمُ بِہِ وَاَستَغفِرُکَ لِمَا لَآ اَعلَم بِہ تُبتُ عَنہُ وَتَبَرَّاتُ مِنَ الکَفرِ وَالشِّرکِ وَالمَلعَاصِی کُلِّھَا وَاَسلَمتَ وَاَمَنتُ وَاَقُوالُ لَآ اِلٰہَ اِللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللّٰہِ

ترجمہ: اے اللہ بیشک میں پناہ مانگتا ہوں تجھ سے اس بات کی کے میں کسی چیز کو تیرے ساتھ شریک کروں اور حالانکہ میں اس کو جانتا ہوں اور بخشش چاہتا ہیں تجھ سے اس کی کہ جس کو میں نہیں جانتا ہوں، میں نے تجھ سے توبہ کی اور میں کفر شرک اور سب گناہوں سے بیزار ہوں اور میں اسلام لایا اور کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں

 

۶. کلمہ سیدالاستغفار

 اَللّٰھُمَّ اَنتَ رَبِّی لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنتَ خَلَقتَنِی وَاَنَا عَبدُکَ وَاَنَا عَلیٰ عَھدِکَ مَااستَطَعتُ اَعُوذُ بِکَ مِن شَرِّ مَا صَنَعتُ اَبُوئُ لَکَ بِنِعمَتِکَ عَلَیَّ وَاَبُو ئُ فَاغفِرلِی فَاِنَّہُ لَا یَغفِرُ الذُّنُوبَ اِلَّا اَنتَ

ترجمہ: اے اللہ تو میرا رب ہے تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، تو نے مجھ کوپیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور میں تیرے عہد اور وعدہ پر قائم ہوں جب تک اور جتنی طاقت رکھتا ہوں میں اپنے افعال کی بڑائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور تیری نعمتوں کاجو مجھے حاصل ہوئی ہیں اور اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں، پس تو مجھے بخش دے، تیرے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخشتا۔

 

 

شش کلمہ

 ۶. کلمہ سیدالاستغفار

 اَللّٰھُمَّ اَنتَ رَبِّی لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنتَ خَلَقتَنِی وَاَنَا عَبدُکَ وَاَنَا عَلیٰ عَھدِکَ مَااستَطَعتُ اَعُوذُ بِکَ مِن شَرِّ مَا صَنَعتُ اَبُوئُ لَکَ بِنِعمَتِکَ عَلَیَّ وَاَبُو ئُ فَاغفِرلِی فَاِنَّہُ لَا یَغفِرُ الذُّنُوبَ اِلَّا اَنتَ

ترجمہ: اے اللہ تو میرا رب ہے تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، تو نے مجھ کو پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور میں تیرے عہد اور وعدہ پر قائم ہوں جب تک اور جتنی طاقت رکھتا ہوں میں اپنے افعال کی بڑائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور تیری نعمتوں کاجو مجھے حاصل ہوئی ہیں اور اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں، پس تو مجھے بخش دے، تیرے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخشتا۔

 

کلمات کفر اور اس کے موجبات

 تعریف کفر

جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اس سے انکار کرنا کفر ہے وہ ایک ہی چیز کا انکار ہو جو بالاتفاق تواتر سے ثابت ہو پس کفر ایمان کی ضد ہے

 

 شرائط لزوم کفر

۱. عقل یعنی نشہ اور بیہوشی نہ ہو

۲. قصد یا ارادے سے ہو یعنی غلطی اور سہو سے نہ ہو

۳. اختیار سے یعنی قتل وغیرہ کا جبر و اکراہ نہ ہو

 

 احکام کفر

اگر کوئی مسلمان کافر ہو جائے تو اس کے لئے یہ چار احکام ہیں

۱. اس کی بیوی اس پر حرام ہو جاتی ہے

۲. اس کا ذبیحہ حرام ہو جاتا ہے

۳. شرعی قاضی اس کو مرتد کی سزا دے سکتا ہے

۴. اس کے نیک اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔ اگر ترک اسلام کا ارادہ نہ ہو بلکہ کسی سے نادانی سے کفر کی بات واقع ہو جائے تو احتیاطا اس کو دوبارہ نکاح کرنا واجب ہے اور اس کا ذبیحہ پھینک دیا جائے اور اس کو کفر سے توبہ کرنی چاہیے

 

وہ چیزیں جن سے کفر لازم ہو جاتا ہے

 قسم اول

۱. جس کی فرضیت قرآن مجید کی ظاہر عبارت سے یا حدیث متواتر سے معلوم ہو جائے اس کا انکار کرنا۔ جیسے نماز۔ روزہ۔حج و زکات وغیرہ

۲. حلال کو حرام اور حرام کو حلال جاننا۔ جبکہ وہ دلیل قطعی سے ثابت ہو اور حرام لعینہ ہو جیسے سود۔ زنا۔ جھوٹ بولنا۔ناحق قتل کرنا وغیرہ

۳. اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار کرنا

۴. اللہ تعالیٰ کی کسی صفات کا انکار کرنا

۵. اللہ تعالیٰ کے کسی نام کا انکار (خواہ ذاتی ہو یا صفاتی)

۶. اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی بری صفت ثابت کرنا یا اہانت کرنا۔ مثلاً یوں کہنا ( نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ ظلم کرتا ہے یا بھائی بہن اور اولاد والا ہے وغیرہ

۷. جھوٹی باتوں پر اللہ تعالیٰ کو گواہ کرنا یا قسم کھانا کیونکہ یہ اہانت میں داخل ہے۔

۸. اللہ تعالیٰ کے قطعی احکام میں سے کسی حکم کا انکار

٩. اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں کسی کو شریک کرنا

۰۱۰ فرشتوں کا انکار

۱۱. کسی کتاب الہی اور اس کے جز کا انکار یا توہین کرنا

۱۲. کسی نبی کا انکار یا اہانت کرنا۔

۱۳. تقدیر کا انکار کرنا

۱۴. قیامت اور حشر و نشر کا انکار کرنا

 

 قسم دوم

وہ کلمات ہیں جن سے اشارہ انکار ثابت ہو مثلاً کسی نجومی یا کاہن کو سچا کہنا

 

قسم سوم

وہ کلمات ہیں جن سے شک صراحت ثابت ہو مثلاً کسی نے کہا مجھے اللہ کے کریم یا رزاق یا عادل ہونے میں شک ہے یا کہا کا مجھے فرشتوں یا اللہ تعالیٰ کے رسولوں یا کتابوں کے وجود میں شک ہے یا قیامت کے ہونے میں شک ہے یا کسی اور قطعی الثبوت چیز مین سک کیا

 

 قسم چہارم

وہ کلمات ہیں جن سے اشارۃً شک ثابت ہو مثلاً کسی نے کہا کہ جنت میں مومنوں کو بڑی بڑی نعمتیں ملیں گی اور کافر کو دوزخ میں بڑے بڑے عذاب ملیں گے اس نے سن کر کہا” کیا خبر”

 

قسم پنجم

وہ افعال ہیں جن سے انکار یا شک صراحتاً یا اشارۃً سمجھا جائے مثلاً کسی نے اہانت کی غرض سے قران مجید کو نجاست یا آگ میں ڈال یا اہانت کی غرض سے کعبہ کی طرف پیشاب کیا بعض علماء کے نزدیک جہالت عذر نہیں ہے۔ پس بے خبری میں کلمہ کفر کہنے سے بھی کافر ہو جائے گا۔

بعض کے نزدیک جہالت عذر ہے وہ کافر نہیں ہوا البتہ دو بارا نکاح پڑھوانا اور توبہ کرنی چاہیے

کسی نے جس وقت کفر کی نیت کی اسی وقت کافر ہو گیا۔ خواہ نیت کتنی ہی مدت بعد کے لئے ہو

مفتی کے لئے ضروری ہے کہ جب تک کسی سے کفر لازم کرنے والی بات نہ دیکھے بے دھڑک کسی مسلمان کو کافر نہ بنا دیا کرے ہو سکتا ہے کہ اس سے بلا قصد کلمہ کفر نکل گیا ہو یااس بات کے معنی سمجھ میں نہ آئے ہوں علماء نے لکھا ہے کہ جس مسئلے میں ننانوے احتمال کفر کے ہوں اور ایک احتمال اسلام کا ہو تو مفتی اور قاضی کو اس ایک احتمال اسلام پر فتوی دینا چاہئے۔ اگر کوئی شخص کلمہ کفر کہے اور پھر انکار کر دے تو یہ بھی ایک قسم کی توبہ ہے اور اس کو کافر کہنا جائز نہیں ہے۔

ایمان سے زیادہ کوئی نعمت نہیں۔ اس کی ہر وقت حفاظت کرنا واجب ہے اور اس کے ترقی کے لئے ہر وقت گناہوں سے بچنا اور عبادت میں لگے رہنا ضروری ہے، یہ نہ سوچے کہ پھر کبھی توبہ کر لیں گے، معلوم نہیں کس وقت موت آ جائے اور توبہ کی مہلت ملے یا نہ ملے پس ہر وقت توبہ استغفار کرتے رہنا چاہئے۔

 

 

 

 

 نفاق کا ذکر

 

 

 

ایمان اور کفر کے درمیان تیسری صورت کوئی نہیں ہے اس لئے آدمی مسلمان ہو گا یا کافر،زبان سے اسلام کا دعویٰ کرنا اور دل میں اسلام سے انکار کرنا نفاق کہلاتا ہے، یہ بھی خالص کفر ہے بلکہ کفر کا اشد درجہ ہے اور ایسے لوگوں کے لئے جہنم کا نیچے کا طبقہ ہے

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں کچہ لوگ اس برائی کے ساتھ مشہور ہوئے اور قرآن مجید نے ان کے باطنی کفر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی اور آپ نے ایک ایک کو پہچانا اور فرمایا کہ فلاں فلاں شخص منافق ہے۔ لیکن آپ کے بعد کسی شخص کو قطعی طور پر منافق نہیں کہا جا سکتا ہے بلکہ ہمارے سامنے جو اسلام کا دعویٰ کرے ہم اس کو مسلمان سمجھیں اور کہیں گے جب تک کہ اس سے کوئی فعل یا قول ایمان کے خلاف واقع نہ ہو اور جو شخص ایسا ہو اس کے نفاق کو عملی نفاق اور ایسے شخص کو عملی منافق کہیں گے یعنی یہ کہ عمل منافقوں جیسے ہیں۔ نفاق عملی نفاق حقیقی کا سبب بن سکتا ہے

 

شرک کی تعریف و اقسام

شرک کی تعریف و اقسام اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات میں کسی دوسرے کو شریک کرنا یا اس کے برابر کسی کو سمجھنا یا کسی کی ایسی تعظیم یا فرمانبرداری کرنا جیسی کہ اللہ تعالیٰ کی کی جاتی ہے شرک کہلاتا ہے۔ بعض شرک سخت حرام ہیں اور بعض شرک کفر میں داخل ہیں۔

شرک کی چند اقسام یہ ہیں

اول شرک فی الذات۔ اللہ تعالیٰ کی ذات میں کسی کو شریک کرنا مثلاً دو یا زیادہ خدا ماننا

دوم شرک فی الصفات۔ اللہ تعالیٰ کی صفات میں کسی کو شریک ٹھہرانا۔ اس کی بہت سی قسمیں ہیں مشہور یہ ہیں

۱. شرک فی العلم یعنی کسی دوسرے کے لئے اللہ تعالیٰ کی مانند علم کی صفت ثابت کرنا۔

۲. شرک فی القدرۃ یعنی اللہ تعالیٰ کی مانند نفع و نقصان دینے یا کسی چیز کی موت و زندگی یا کسی اور کام کی قدرت کسی اور کے لئے ثابت کرنا۔ کسے پیغمبر یا ولی یا شہید کو یہ سمجھنا کہ وہ پانی برسا سکتے ہیں۔

۳. شرک فی السمع یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نزدیک و دور خفی و جہر اور دل کی بات سنتا ہے۔ کسی نبی یا ولی وغیرہ بھی ایسا سننے والا سمجھنا۔

۴. شرک فی البصر یعنی کسی مخلوق نبی یا ولی یا شہید وغیرہ کو یوں سمجھنا کہ چھپی کھلی اور دور و نزدیک کی ہر چیز کو اللہ کی مانند دیکھتا ہے اور ہمارے کاموں کو ہر جگہ دیکھتا ہے۔

۵. شرک فی الحکم یعنی اللہ تعالیٰ کی طرح کسی اور کو حاکم سمجھنا اور اس کو اللہ کے حکم کی مانند ماننا۔

۶ . شرک فی العبادۃ۔ یعنی اللّٰہ تعالیٰ کی طرح کسی اور کو عبادت کا مستحق سمجھنا یا کسی مخلوق کے لئے عبادت کی قسم کا کوئی فعل کرنا مثلاً کسی پیر یا قبر کو سجدہ کرنا یا کسی پیر یا نبی یا ولی کے نام کا روزہ رکھنا یا غیر اللّٰہ کی نذر ماننا یا کسی جگہ مکان گھر یا قبر کا خانہ کعبہ کی طرح طواف کرنا۔ ان کے علاوہ اور جس قدر اللّٰہ تعالیٰ کی صفات ہیں خواہ وہ صفات فعالیہ ہوں جیسے رزق دینا، مارنا، زندہ کرنا، عزت دینا وغیرہ یا شؤنِ ذاتیہ یا صفات ثبوتیہ یا صفات سلبیہ ہوں ان میں کسی مخلوق کو اللّٰہ تعالیٰ کے برابر سمجھنا شرک ہے۔ ہمارے بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں جن میں شرک کی ملاوٹ ہو جاتی  ہے ان سے پرہیز لازمی ہے

 

رسوم کفار و جہال

۱. بادشاہ یا حاکم وغیرہ کو سجدہ کرنا خواہ عبادت کی نیت سے ہو یا کسی اور نیت، مثلاً تعظیم وغیرہ سے ہو، شرک فی العبادۃ ہے،

۲. درختوں کو پوجنا جیسا کہ بعض برگد، پیپل و جنڈ وغیرہ کو پوجتے ہیں، اس طرح قبروں پر یا نئی عمارت بنانے یا نیا کنواں کھدوانے وغیرہ پر ذبح کرنا یا دیووں، پریوں اور مردہ روحوں کی خوشی حاصل کرنے کے لئے ذبح کرنا شرک۔ہے اور یہ ذبیحہ حرام ہے

۳. بد شگونی لینا شرک ہے جیسا کہ جانوروں کی بولیوں سے یا دیگر چیزوں مثلاً اعضا کے پھڑکنے اور چھینک وغیرہ سے لوگ بد فالی لیتے ہیں، نیک فال جائز ہے اور اگر فال پر یقین کیا جائے اور اس کو موثرِ حقیقی سمجھا جائے تو کفر ہے، خواہ وہ فال نیک ہو یا بد، اور اگر ان امور کے موثرِ حقیقی ہونے کا۔اعتقاد نہ ہو تو کفر نہیں بلکہ فالِ نیک جائز ہے۔ لیکن فالِ بد پھر بھی منع ہے

۴. آفات سے محفوظ رہنے اور بلاؤں سے امن میں رہنے کے لئے دھاگے، منکے، کوڑیاں وغیرہ باندھنا اور ان کو موثرِ حقیقی سمجھنا شرک ہے، اگر اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے تاثیر کو جانے اور کسی طبیب کے کہنے پر تجربہ کی بنا پر۔استعمال کرے تو مضائقہ نہیں

۵. چھوٹی بڑی چیچک یا کسی اور بیماری کی تعظیم کرنا اور اس کو ماتا دیوی ماتا رانی وغیرہ نام رکھ کر ان کی خوشنودی کو اس بیماری کے دفعیے کا ذریعہ سمجھنا سراسر شرک ہے۔

۶. تعزیہ بنانا، علم بنانا و چڑھانا

۷. قبروں پر چڑھاوا چڑھانا نذر و نیاز دینا

۸. اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کسی کے نام کی قسم کھانا

٩. تصویریں بنانا یا تصویروں کی تعظیم کرنا

۱۰. کسی پیر یا ولی کو حاجت روا، مشکل کشا کہہ کر پکارنا

۱۱. کسی پیر کے نام کی چوٹی رکھنا یا محّرم میں اماموں کے نام کا فقیر بننا، قبروں پر میلہ لگانا وغیرہ زندگی میں اور بھی بہت سی رسمیں، بیاہ، شادی اور مرنے وغیرہ کے موقع پر جاہلوں میں رائج ہیں، اور بہت سے کفار کی رسمیں اور تہوار مسلمان بھی کرتے ہیں، ان سب سے پرہیز کرنا لازمی ہے،

 

 

 

 بدعت کا بیان

 

 

کفر اور شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ بدعت ہے بدعت کی تعریف بدعت اُن چیزوں کو کہتے ہیں جن کی اصل۔شریعت سے ثابت نہ ہو۔ اور شرع شریف کی چاروں دلیلوں یعنی کتاب اللّٰہ وسنت رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم و اجماع امت و قیاس مجتہدین سے ثبوت نہ ملے اور اس کو دیں کا کام سمجھ کر کیا جائے یا چھوڑا جائے۔ بدعت بری چیز ہے خواہ اس کا موجد کوئی بھی کیوں نہ ہو۔ حضورِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ایسی ہر بدعت کو گمراہی اور دوزخ میں پہچانے والی فرمایا ہے، لوگوں نے ہزارہا بدعتیں پیدا ہونے سے مرنے تک نکالی ہیں جو ہر زمانے اور ہر ملک میں مختلف ہیں۔ جن کا احاطہ کرنا نہایت مشکل ہے اور یہی بدعت کی بڑی شناخت ہے۔ کیونکہ سنت ہر جگہ اور ہر زمانے میں یکساں ہے۔لوگوں میں بکثرت بدعتیں رائج ہیں جن کو اکثر لوگ جائز سمجھتے ہیں یا گناہ بھی سمجھتے ہیں تو ہلکا سمجھ کر پرواہ نہیں کرتے نہ خود رکتے ہیں اور۔نہ دوسروں کو روکتے ہیں

چند مشہور بدعتیں یہ ہیں

۱. پختہ قبر بنانا، قبروں پر گنبد بنانا، قبروں پر دھوم دھام سے میلہ اور چراغاں کرنا، عورتوں کا وہاں جانا قبروں پر چادریں اور غلاف چڑھانا، اپنے خیال میں بزرگوں کو راضی کرنے کے لئے قبروں کی حد سے زیادہ تعظیم کرنا،

۲. تعزیہ یا قبر کو چومنا چاٹنا، قبروں کی خاک ملنا، قبروں کی طرف نماز پڑھنا،۔ مٹھائی، گلگلے، چوری وغیرہ چڑھانا

۳. تعزیہ کوسلام کرنا،

۴. تیجا دسواں اور چالیسواں وغیرہ ضروری سمجھ کر کرنا،

۵. نکاح ختنہ بسم اللّٰہ وغیرہ میں رسمیں کرنا خصوصاً قرض لے کر ناچ گانا کرنا،

۶. سلام کی جگہ بندگی آداب وغیرہ کہنا یا سر پر ہاتھ رکھ کر جھک جانا،

۷. راگ با جا، گانا سننا خصوصاً اس کو عبادت سمجھنا، ڈومنیوں وغیرہ کو نچانا اور دیکھنا اور اس پر خوش ہو کر ان کو انعام دینا،

۸. نسب پر فخر کرنا،

٩. دولہا کو خلاف شرع لباس پہنانا،

۱۰. آتش بازی وغیرہ کا سامان کرنا،

۱۱. فضول آرائش کرنا،

 

 

 کبیرہ گناہوں کا بیان

 

 

کفر و شرک اور بدعت کے علاوہ اور بہت سے بڑے گناہ ہیں جن کو کبیرہ گناہ کہتے ہیں۔ کبیرہ گناہ شرع میں اس گناہ کو کہتے ہیں جس کو شرع شریف میں حرام کہا گیا ہو اور اس پر کوئی عذاب مقرر کیا ہو یا اور طرح سے اس کی مذمت کی ہو اور یہ وعید حرمت و مذمت قرآن پاک یا کسی حدیث سے ثابت ہو، :کبیرہ گناہ بہت سے ہیں جن کا احاطہ مشکل ہے

کچھ کبائر یہ ہیں غیبت یعنی کسی کے پیٹھ پیچھے برائی کرنا، جھوٹ بولنا، بہتان یعنی کسی کے ذمہ جھوٹی بات لگانا، غیر عورت کو شہوت سے دیکھنا، شہوت سے غیر عورت کی آواز سننا یا کلام کرنا یا اس کی طرف چلنا اور چھونا وغیرہ، مالداروں کی خوشامد کرنا اور دنیا دار کی طرف دنیا کے لئے چلنا، خلاف شرع باتوں کا سننا، مردے پر یا کسی مصیبت پر چلا کریا بین کر کے رونا اور سر و سینہ پیٹنا کپڑے پھاڑنا، بآ جا وغیرہ ساز بجانا ناچ کرنا اور اس کو دیکھنا یا سننا، کسی کی پوشیدہ باتیں چھپ کر سننا، نماز نہ پڑھنا، روزہ نہ رکھنا، زکوٰۃ نہ دینا، مال اور طاقت ہونے کے باوجود حج نہ کرنا، شراب پینا، چوری کرنا، زنا کرنا، جھوٹی گواہی دینا، کسی کو ناحق مارنا یا ستانا، چغلی کھانا، دھوکہ دینا، ماں باپ یا استاد کی نافرمانی کرنا، اپنے گھروں اور کمرے میں جاندار کی تصویر لگانا، امانت میں خیانت کرنا، لوگوں کے حقیر و ذلیل سمجھنا، گالی دینا، سود لینا اور دینا، رشوت لینا و دینا، داڑھی منڈھوانا اور مونچھیں بڑھانا، گٹوں سے نیچے پآ جامہ پہننا، فضول خرچی کرنا، کھیل تماشا ناٹکوں تھیٹروں اور سینماؤں میں جانا، ٹونے ٹوٹکے کرانا، جانوروں کو ساتھ جمع کرنا یا اغلام کرنا، راستہ لوٹنا، یتیم کا مال ناحق کھانا، جھوٹے فیصلے کرنا، بدعہدی کرنا، شرکیہ منتر یا جادو کرنا، مسئلہ کا جواب بے تحقیق دینا، نفع دینے والے علم کو چھپانا، عورت کا اپنے خاوند کی نافرمانی کرنا، عورتوں کا بے پردہ باہر آنا اور بلا ضرورت پردہ کے ساتھ بھی باہر آنا، دکھانے یا سُنانے کے لئے عبادت و نیکی کرنا، مسلمانوں کو کافر کہنا، اپنی عبادت یا تقویٰ کا دعویٰ کرنا، یہ قسم کھانا کہ مرتے وقت کلمہ نصیب نہ ہو یا ایمان پر خاتمہ نہ ہو، کسی مسلمان کو بے ایمان یا اللّٰہ کی مار یا پھٹکار یا اللّٰہ کا دشمن کہنا وغیرہ

 

 

 

 احکامِ شریعت کا بیان

 

۱.فرض

اس حکم کو کہتے ہیں جو قطعی اور یقینی دلیل سے ثابت ہو اور اس میں میں کوئی دوسرا احتمال نہ ہو جیسے فرض نماز۔ روزہ وغیرہ اس کا منکر کافر ہوتا اور بغیر عذر چھوڑنے والا فاسق ہوتا ہے

 

۲.واجب

واجب وہ حکم ہے جو دلیل ظنی سے ثابت ہوں یعنی جس کی دلیل میں دوسرا ضعیف احتمال بھی ہو جس کا منکر کافر نہیں ہوتا بلکہ فاسق ہو جاتا ہے یہ عمل کے اعتبار سے فرض کے برابر ہے اس لئے اس کو فرض عملی بھی کہتے ہیں

 

۳.سنّتِ موکدہ

سنًت موکدہ وہ فعل ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عموماً اور اکثر کیا ہو اور کبھی بغیر کسی عذر کے ترک بھی کیا ہو۔ اس کا ترک گناہ اور ترک کی عادت فسق ہے

 

۴.مستحب

مستحب وہ ہے کہ جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یا آپ کے صحابہ نے کیا ہو یا اس کو اچھا خیال کیا ہو یا تابعین نے اس کو اس کو اچھا سمجھا ہو۔ لیکن اس کو ہمیشہ یا اکثر نہ کیا ہو بلکہ کبھی کیا اور کبھی ترک کیا ہو۔ اس کا کرنا ثواب ہے اور نہ کرنا گناہ نہیں۔ اس کو سنًت زائدہ یا عادیہ یا سنًت غیر موکدہ بھی کہتے ہیں اور فقہاء کے نزدیک نفل بھی کہتے ہیں۔ بعض نے سنًت غیر موکدہ اور مستحب کو الگ الگ بیان کیا ہے اور تھوڑا فرق کیا ہے

 

۵.مباح

مباح وہ حکم ہے جس کرنے میں ثواب نہ ہو اور نہ کرنے میں عذاب نہ ہو

 

۶.مکروہ تنزیہی

مکروہ تنزیہی وہ ہے جس کے نہ کرنے میں ثواب ہو اور کرنے میں عذاب نہ ہو

 

۷.مکروہ تحریمی

مکروہ تحریمی جو حرام کے قریب ہے یہ بھی ظنی دلیل سے ثابت ہوتا ہے اشد ضرورت میں یہ بھی جائز ہے۔ یہ واجب کے بالمقابل ہے اس کا منکر فاسق اور بلا عذر کرنے والا گنہگار ہے

 

۸.حرام

حرام وہ ہے جس پر ممانعت کا حکم پایا جائے اور جواز کی دلیل نہ ہو یہ بھی فرض کی طرح دلیل قطعی سے ثابت ہوتا ہے۔ سنًت موکدہ کے بالمقابل اسائت اور مستحب کے مقابل خلاف اولیٰ ہے

 

 

 

 فرائض اسلام

 

 

فرض کی دو قسمیں ہیں

 

۱.فرض عین

فرض عین یعنی جس کا کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے اور جس پر وہ لازم ہے اسی کے ادا کرنے سے ادا ہو گا دوسرے کے کرنے سے اس کے ذمہ سے نہیں اترتا جیسے پنج وقتہ نماز ماہ رمضان کے روزے وغیرہ

 

۲.فرض کفایہ

فرض کفایہ وہ ہے کہ بعض کے ادا کرنے سے باقی دوسروں کے ذمہ سے بھی اتر جائے گا لیکن اگر کوئی بھی ادا نہ کرے تو سب گناہگار ہوں گے جیسے نماز جنازہ۔ اسی طرح سنًت موکدہ علی الکفایہ بھی ہے جس کی مثال رمضان مبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف ہے۔

اسلام میں مشہور فرض عین یہ ہیں

کلمہ شہادت کا دل و زبان سے اقرار، رات دن میں پانچ وقت کی نمازیں، زکوٰۃ، حج، ایما، نماز، روزہ اور طہارت کے احکام کا بقدر ضرورت علم، ماں، باپ، استاد، علماء، بادشاہ اور سید کی حق باتوں میں فرمانبرداری اور ادب، ماں، باپ، بیوی اور چھوٹی عمر کی اولاد کا نفقہ، تمام گناہوں سے توبہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب چار پشتوں تک یاد رکھنا اور وہ اس طرح ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدالمناف، مرد اور عورت کے لئے ستر عورت، عورت کا بلا اجازت خاوند و بلا پردہ شرعی گھر سے باہر نہ جانا اور خاوند کا بیوی کو غیر شرعی موقع میں جانے سے روکنا(چند مواقع ایسے ہیں جن میں خاوند کی اجازت کے بغیر جانا جائز ہے )، چاروں مذاہب اہل سنًت و جماعت حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کو برحق جاننا، رمضان کے ہر روزہ اور حج و زکوٰۃ کی نیت( نیت کے بغیر کوئی عمل صحیح نہیں ہوتا)، اخلاص عمل و ترکِ ریا، موت کے خوف کے وقت کھانا پینا، جب کافر غلبہ کریں تو ان سے جہاد کرنا، کسب حلال، نماز کے اٹھارہ فرض ہیں، وضو میں چار، تیمّم میں تین، غسل میں تین، بقدر جوازِ نماز قرآن یاد کرنا، نصِ قرآن و حدیث و قیاس ائمہ و اجماع امت پر عمل کرنا، نماز میں یا خارج نماز جب قرآن مجید پڑھا جائے اس کو سننا، فرض نمازوں، نماز جنازہ، سجدہ، تلاوت اور اللہ کی کتابوں کو چھونے کے لئے وضو کرنا، جب غسل فرض ہو غسل کرنا، پیشاب یا پاخانہ کا مقام ایک درم سے زیادہ ملوث ہو جائے تو استنجا کرنا، زنا کا خوف ہو تو نکاح کرنا، عورت کا خاوند کا حکم ماننا، خاوند کے مال میں خیانت و نقصان نہ کرنا، آگ میں جلنے والے یا ڈوبنے والے یا درندے کی زد والے یا مصیبت زدہ یعنی دیوار کے نیچے دبے ہوئے کو بچانا، بادشاہوں کے لئے عدل کرنا اور علماء عاجزین، مسکین اور غازیوں کو نفقہ دینا، اللہ تعالیٰ کا نام سننے پر جل جلالہ کہنا، عمر میں ایک دفعہ درود شریف پڑھنا، قدرت ہوتے ہوئے اللہ و رسول کی گستاخی سے روکنا قدرت ہے تو ہاتھ سے روکے پرنہ زبان سے روکے اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو دل سے برا جانے، زخم وغیرہ سے خون وغیرہ روکنے کے لئے پٹی باندھنا یا قطرہ پیشاب و ندی وغیرہ جاری رہنے سے روکنی کے لئے روئی رکھنا کہ نماز صحیح حالت میں ہو، بقدر ضرورت علمِ فقہ کا پڑھنا

اسلام میں مشہور فرض کفایہ یہ ہیں

سلام کا جواب دینا، چھینک کا جواب دینا یعنی یَرحَمُکَ اللّٰہ کہنا، عیادت مریض جبکہ مرض شدید ہو، مسلمان میت کا غسل و کفن و نماز جنازہ و دفن وغیرہ، ہر شہر میں ایام جمعہ و عیدین میں قاضی مفتی و امیر(حاکم) و خطیب کا موجود ہونا، فرض عین علم سے زائد علومِ شرعیہ فقہ و اصول وغیرہ کا پڑھنا، تمام قران مجید کا حفظ کرنا،امر بالمعروف و نہی عن منکر کرنا، بادشاہ کے لئے طاقت اور عالم کے لئے زبان سے کرنا اور عوام کے لئے جبکہ فتنہ کا ڈر ہو دل سے منکرات کو برا جاننا فرض کفایہ ہے، اولاد کی تعلیم و تربیت و نکاح کرنا، کسی پیغام دینے والے کا پیغام پہچانا، طالب علموں کا خرچ و امداد، مومن بھوکا مر رہا ہو تو اس کو کھانا دینا اور خود توفیق نہ ہو تو لوگوں میں اعلان کرنا، جب کفار غلبہ کریں تو ان سے لڑنا فرضِ عین ہے اور جب کفار غلبہ نہ کریں تو ان سے جہاد کرنا فرض کفایہ ہے

 

 

 واجبات اسلام

 

 

اسلام میں مشہور واجبات یہ ہیں

نماز وتر، غنی پر صدقہ فطر، غنی پر عید الاضحیٰ کی قربانی، اپنے اقارب کا نفقہ جبکہ وہ عاجز ہوں، ماں باپ کی خدمت اور زیارت کرنا، عورت پر خاوند کی خدمت کرنا، کسی پیغمبر کا اسم مبارک پڑھتے یا سنتے وقت درود شریف پڑھنا بعض کے نزدیک ہر بار پڑھنا واجب ہے بعض کے نزدیک تین دفعہ پڑھنا واجب ہے اور بعض کے نزدیک ایک دفعہ واجب اور ہر بار مستحب ہے اور بعض کے نزدیک واجب نہیں بلکہ ہر بار مستحب ہے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک سُنے یا پڑھے تو آپ پر درود شریف پڑھنا پہلی دفعہ واجب اور ہر بار پڑھنا مستحب ہے، جب کسے صحابی کا نام سنے تو رضی اللہ عنہ کہنا بعض کے نزدیک واجب اور بعض کے نزدیک مستحب ہے، ہمسایہ کا حق ادا کرنا اس پر ظلم نہ کرنا اور اس کو نفع پہچانا، طواف کعبہ کے لئے وضو، کافر جنبی جب اسلام لائے توغسل کرنا واجب ہے اگر جنبی نہ ہو تو اس کا غسل کرنا مستحب ہے، جب نابالغ عمر کے لحاظ سے بالغ ہو اور اس کے بعد اس کو احتلام۔ ہو یا بلوغ کی ابتدائی عمرسے پہلے احتلام کے ساتہ بالغ ہو تو اس کو غسل کرنا

 

 

 سُننِ اسلام

 

 

اسلام میں مشہور سنّتیں یہ ہیں ختنہ کرنا، مسواک کرنا، لبوں کے بال صاف کرنا، زیر ناف بال صاف کرنا، بغلوں کے بال صاف کرنا، ناخن کاٹنا، سر منڈوانا یا سارے سر پر بال رکھنا اور بیچ سے مانگ نکالنا

 

مستحبات و سننِ زوائد

اسلام میں مشہور مستحبات و سنّنزوائد یہ ہیں

غسل جمعہ، غسل عیدیں، غسل عرفہ، غسل احرام، سر میں خشک کنگھی پھیرنا، ڈاڑھی مین تر کنگھی پھیرنا، دعوت ولیمہ، سلام کہنا، مصافحہ کرنا، ضیافت قبول کرنا، چھینک حتیٰ الامکان آہستہ سے لینا اور الحمد اللہ اونچی آواز سے کہنا بیمارپرسی عیادت جبکہ مرض شدید نہ ہو اگر مرض شدید ہو تو بیمار پرسی فرض کفایہ ہے، بالوں کے تیل و خوشبو لگانا، اچھا لباس پہننا، کبھی کبھی آئینہ دیکھنا، سبز و سفید و سیاہ پوشاک افضل ہے، پا جامہ پہننا، سیاہ موزہ پہننا، صافہ میں شملہ پہننا، نیک اور افضل کام سیدھے ہاتھ سے کرنا مثلاً کھانا پینا, قرآن مجید و دینی کتب اور دوسری اشیاء لینا دینا، ناک منھ میں پانی ڈالنا وغیرہ، ناپسندیدہ کام بائیں ہاتھ سے کرنا مثلاً استنجاءخواہ پتھر و ڈھیلہ سے کرے یا پانی سے، کپڑوں و لباس کا بقدر کفایت چھوٹا رکھنا کیونکہ لباس کا حاجت سے زیادہ لمبا رکھنا مکروہ ہے اور اس میں تکبر و ناز پایا جاتا ہے، جب چالیس سال کی عمر تو ہاتھ میں لاٹھی (عصا) رکھنا، سوائے ممنوعہ اور منکرہ موقعوں کہ ہر ہال میں قبلہ کی طرف منہ کر کے بیٹھنا، عزیزوں اور دوستوں کا تحفہ قبول کرنا اور ان کواس کا بدلہ دینا، مسلمانوں کی ضرورتوں میں اللہ کے واسطے کوشش کرنا، صدقہ کی نیت سے حاجت سے زیادہ کسب کرنا، نیکوں ،عابدوں ، زاہدوں اور علماء و صلحاء کی صحبت حاصل کرنا، آنکھوں میں نماز عشاء کے بعد سرمہ لگانا، قیلولہ کرنا، علم طب سیکھنا، فصد کھلوانا، سفر کے لئے دن کے وقت روانا ہونا اور ہفتہ یا جمعرات کی فجر کو سفر کرنا، بیمار کا توبہ استغفار کرنا، رونا، صدقہ کرنا اور صحتیاب ہونے پر غسل صحت کرنا، کھانے پینے سے پہلے بسم اللہ کہنا سنًت ہے اور ہر لقمہ پر کہنا مستحب، کھانے پینے کے بعد الحمد اللہ کہنا سنًت ہے اور ہر لقمہ پر کہنا مستحب، کھانے سے پہلے اور بعد میں دونوں ہاتھوں کو پہنچوں تک دھونا، دائیں ہاتھ سے کھانا، کھانے میں آخر وقت تک دوستوں کا ساتھ دینا، کھاتے وقت جوتا اتار کر بیٹھنا، مل کر کھانا( سہارا لگا کر یا پاؤں لٹکا کر کھانا مکروہ ہے )، با وضو کھانا، جب سچی بھوک لگے تو کھانا اور کچھ بھوک باقی ہو تو ہاتھ روک لینا، تین انگلیوں سے کھانا کھانا محض ایک انگلی سے نہ کھائے ، اگر ضرورت ہو تو چوتھی اور پانچویں انگلی بھی ملائے، لکڑی اور مٹی کے برتنوں میں کھانا پینا افضل ہے بہ نسبت تانبے ،لوہے وغیرہ دھاتوں کے برتنوں میں، کپڑے وغیرہ کا دسترخواں بچھا کر کھانا اس پر رکھنا تاکہ کھانے وغیرہ کے ریزے گر کر پاؤں سے بے ادبی نہ ہو، دعوت میں سبزیات ، پھل وغیرہ اور سرکہ حاضر کرنا، کھاتے وقت دایاں پاؤں کھڑا رکھنا اور بایاں بچھا کر بیٹھنا، کھانے کے اول و آخر نمکیں چیز چکھنا یا نمک چکھنا، کھانا اپنے آگے سے کھانا، کھانے کا برتن خالی ہونے پر انگلی سے چاٹنا، کھانے کے ریزہ کو کھا لے پھینکے نہیں، دھونے کے بعد ہاتھوں کونہ جھٹکنا، کھانے کے بعد کھلانے والے کے لئے دعا کرنا

 

 

 

مکروہات تحریمی

 

اسلام میں بہت سے امور مکروہات تحریمی ہیں۔

مثلاً ہر وقت فضول اور لایعنی کلام کرنا یا کام کرنا،جنازہ کے نزدیک یا قبرستان میں یا مصیبت زدہ یا نماز پڑھنے والے کے پاس ہنسی مذاق کرنا اور ہنسنا، دنیا کے فائدہ و شہرت و ریا کے لئے۔ وعظ کہنا وغیرہ بہت سے امور مکروہ تنزیہی ہیں مثلاً اندھیرے میں کھانا، مسجد میں داخل ہوتے وقت بایاں پاؤں پہلے داخل کرنا اور نکلتے وقت بایاں پاؤں نکالنا، رات کو چراغ جلتا چھوڑنا وغیرہ۔

٭٭٭

ماخذ:

مجذوب ڈاٹ کام

مواد کی فراہمی میں تعاون: سعادت

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید