FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

میری باتوں پہ ہنستی ہے دنیا

 

 

مزاحیہ مضامین

 

 

 

علیم خاں فلکی

 

 

 

 

 

 

 

 

اردو۔ ۔۔ فرضِ کفایہ

 

 

کبھی آپ نے کسی مفلس کا ایسا جنازہ دیکھا ہو گاجس میں پانچ دس رشتہ داروں کے علاوہ جنازہ اُٹھانے کوئی نہیں ہوتا۔ قبرستان بہت دور ہوتا ہے اور لوگ دور سے اِسے دیکھتے ہیں ایک دو آدمی سر پر دستی باندھ کر دو چار قدم ساتھ بھی چلتے ہیں لیکن جنازہ اُٹھانے والے میّت اور لکڑی کے جنازے کا بوجھ اُٹھاتے اُٹھاتے تھک جاتے ہیں لیکن قبرستان تو بہرحال جانا ہی ہے۔

آج اردو کے لیے جو لوگ اپنے اوقات اور توانائیاں صرف کر رہے ہیں ایک جنازے ہی کو اُٹھا کر لے جا رہے ہیں باقی محلہ اِسے فرضِ کفایہ سمجھتا ہے یعنی ایسا فرض جو پورے محلّے سے ایک آدمی بھی ادا کر دے تو سب کا فرض ادا ہو جاتا ہے۔

ہم لوگ کبھی سنجیدہ قاری اور سامع کی گمشدگی کا رونا روتے ہیں جب کہ ہمارا سامع اور قاری جھر جھر آنسو روتا ہوا کمزور پروگراموں کے عذاب خانوں سے رسّیاں تُڑا کر بھاگ چکا ہے۔

کبھی ہم نے ادب کے نام پر اِس کو بے ماجرا کہانیوں کو افسانہ کہہ کر سُنایا کبھی اُردو ے معلی کا بوجھ ڈال کر اُس کے کس بل نکال دیئے جس اسلوب اور الفاظ کو مولوی عبدالحق اور مولانا آزاد نے برتا اپنی قابلیت کی دھونس جمانے وہی الفاظ اور اسلوب عام قاری کو سُنا کر بے دادی کا رونا رونے لگ گئے۔

کبھی علامتوں سے بے وجود منظر دکھا کر اُس کی چشمِ بصیرت کو اور بھی نابینا کر دیا۔کبھی پردیسی تحریکات کا خراج وصول کیا اور کبھی رجحان سازی کے ادب آور ٹولے نے ادبی مافیا بن کر سچّائیوں پر شب خون مارا۔ اب ادیب اور شاعر چندے جمع کر کے اجتماعی جشنِ گریہ کا اہتمام کر رہا ہے اور مرحوم ادب کے مزار پر بیٹھا مجاوری کر رہا ہے۔

اوقاف کی جائدادوں پر قبضے کی طرح سرکاری اکیڈیمیاں اور ادارے بنا کر عرس کیطرح سالانہ پروگرام اور قوّالی کیطرح مشاعرے کروا کر ہر کوئی "میرا رنگ دے بسنتی چولا” کا دھمال ڈالنے میں مصروف ہے۔انگریزی ادب کو پڑھنے والے لاکھوں ہیں لیکن کوئی قاری یا سامع قلم اُٹھا کر ایوانِ ادب میں گُھس نہیں پڑتا۔ نہ ٹائی سوٹ میں تصویریں کھنچوا کر شائع کرواتا ہے۔

اردو کا قاری کہاں ہے؟

وہ تو اپنی بیگمات کے پیچھے مینا بازاروں میں گم ہے۔

عورت کے حُسن کی تکمیل کے لیئے کبھی زیور اور کبھی Beauty parlour کی دوکانوں میں ساتھ گھوم رہا ہے قوم کا حُسن جو زبان ادب اور کلچر میں پوشیدہ ہے جائے بھاڑ میں۔ وہ بچّے پیدا کر رہا ہے بڑے کر رہا ہے ان کی شادیاں کر رہا ہے اور وہ بچّے پھر بچّے پیدا کر رہے ہیں انہیں بڑا کر رہے ہیں اور۔ ۔۔۔۔۔۔یہی کام تو کتّے بلّی اور چھپکلی بھی کر رہے ہیں اس کے علاوہ وہ کچھ اور کر بھی نہیں سکتے کیونکہ نہ ان کو زبان سے دلچسپی ہوتی ہے نہ ادب سے اور نہ کلچر سے۔ وہ کائنات سے اپنے حصّے کی مسرّتیں حاصل کرنا جانتے ہیں کائنات کو کچھ دینا نہیں جانتے۔

٭٭٭

 

 

 

ایک خوددار تارکِ وطن کی ڈائری

 

 

1 جنوری

آج میں نے Resign کر دیا۔ مجھ سے جونیر ایک سعودی کو منیجر بنا دیا گیا۔ یہ میری قابلیت کی توہین ہے۔ ساراکام ہم کریں اور کریڈٹ وہ لے جائیں یہ غلط ہے۔ جس قوم میں ترقی کی بنیاد بجائے تعلیمی قابلیت کے نیشنالٹی یا واسطہ یا کوئی اور چیز دیکھی جائے وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔

 

5 جنوری

آج شیخ صاحب نے خود بُلا کر سمجھانے کی کوشش کی اور تنخواہ دس ہزار ریال کر دینے کا وعدہ کیا لیکن میں اپنی خود داری اور وقار کو ریالوں کے عوض بیچنا نہیں چاہتا۔

 

10جنوری

میں نے واپسی کی سیٹ بُک کروا لی۔ انشاء اللہ جاتے ہی کاروبار شروع کر دوں گا۔ الحمدللہ پورے 25 لاکھ روپئے میرے پاس ہوں گے جو کہ کوئی خوابوں میں بھی نہیں سوچ سکتا کہ اتنے بڑے سرمائے سے وہ کوئی کاروبار شروع کر سکتا ہے۔ میرے دونوں سالے ساجد اور حمید بزنس میں تجربہ کار ہیں دونوں کی مدد سے انشاء اللہ ایک انڈسٹری یا فیکٹری کا آغاز کروں گا۔ میرے اپنے بڑے بھائی احمد اور نوید بھی دوبئی اور امریکہ میں ہیں وہ بھی مدد کرنے میں پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

 

2 فبروری

آج وطن لوٹا ہوں۔ اِس سے بڑی نعمت اللہ تعالیٰ کی اور کیا ہو سکتی ہے کہ آدمی اپنے وطن میں کمائے کھائے اور اپنوں کے درمیان رہے۔ جو محنت لوگ باہر کرتے ہیں اگر یہی اپنے وطن میں رہ کر کریں تو نہ صرف کفیلوں کی غلامی سے آزاد ہو سکتے ہیں بلکہ ملک بھی ترقی کر سکتا ہے۔

 

15 فبروری

ساجد کے مشورے پر میں نے اس کے ساتھ دس لاکھ لگا دئیے۔ اُس نے ایک ایسے علاقے میں پلاٹ خریدا جو ایک سال میں ہی پچیس لاکھ دے جائے گا۔

 

25 فبروری

حمید کنسٹرکشن کے کام میں برسوں سے لگا ہوا ہے میں نے اُس کے کہنے پر پانچ لاکھ اُس کے ساتھ لگا دئیے۔ ایک سال میں دس لاکھ تک وصول ہو جائیں گے۔

 

2 مارچ

باہر رہ کر اِتنے سال capriceچلائی اب مسلسل اِسکوٹر چلانا عجیب لگ رہا ہے۔ اِس سے image بھی خراب ہو رہا ہے کیونکہ سبھی دوستوں کے پاس کاریں ہیں اِسلئے حمید نے اپنے ایک دوست سے دو لاکھ میں ایک پُرانی corollaکی ڈیل کروا دی۔

 

15 مارچ

زرینہ کی ہمیشہ سے شکایت رہتی تھی کہ ہماری شادی کے بعد سے آج تک ہم نے کوئی دعوت نہیں کی ہمیشہ دوسروں کی دعوتوں میں جا کر کھا کر آتے ہیں ہمارا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ ہم بھی کبھی دوسروں کو بُلائیں۔ اسلئے ہم نے ببلو کی بسم اللہ کر ڈالی۔ ہال کا کرایہ کھانا اسٹیج اور ویڈیو وغیرہ کے مِلا کر کُل ایک لاکھ خرچ ہوئے

 

20 اپریل

آج ابّا جان نے بُلا کر کہا کہ شہانہ کے لیے ایک اچّھا رشتہ آیا ہے آجکل لڑکوں کے rates بہت زیادہ ہیں لوگ جہیز وغیرہ کا راست مطالبہ نہیں کرتے صرف یہ کہتے ہیں کہ اپنی خوشی سے جو چاہے دے دیجئے یہ ایک مکّاری ہے وہ رشتہ بھیجتے ہی ایسی جگہ ہیں جہاں سے انہیں بغیر مطالبے کے ہی بہت کچھ مل سکتا ہو۔

 

5 جون

ببلو کو رائل پبلک اسکول میں اڈمیشن کا ایک ذریعہ ملا ہے لیکن پچاس ہزار ڈونیشن کے علاوہ پچیس ہزار تک پرنسپل سمیت درمیان کے لوگوں کو کھلانا ہے۔ بینک میں پیسے ختم ہو چکے ہیں

 

20 جون

ساجد کو میں نے جو بھی قیمت آئے پلاٹ بیچنے کے لیے کہا لیکن جواب ملا کہ اُس پر جہانگیر پہلوان کے لوگوں نے قبضہ کر لیا ہے اُلٹا ساجد مجھ سے ہی پولیس کاروائی کے لیے کم از کم ایک لاکھ مانگ رہا ہے ورنہ کیس دو تین سال کھینچ سکتا ہے

 

25 جون

حمید سے پیسوں کا انتظام کرنے کہا لیکن وہ کہہ رہا ہے کہ بلدیہ والوں نے Illegal construction کا پرچہ پھاڑ دیا ہے کم از کم ایک آدھ لاکھ کھِلانا  پڑے گا ورنہ کوئی گاہک پلاٹ خریدنے نہیں آئے گا اور تعمیر کا کام ایسے ہی رُکا رہے گا۔ بلکہ اسٹیل اور سمنٹ کے بڑھتے ہوئے داموں کی وجہ سے خرچ اور بڑھ جائے گا۔

 

10 جولائی

ابّا جان کو دل کا دورہ پڑا۔ فوری دوا خانے میں شریک کروانا پڑا ڈاکٹر اِس دور کے سب سے بڑے ڈاکو ہیں

فوری ایک لاکھ روپیئے جمع کروانے کے لیے کہا۔

 

25 جولائی

آج بینک سے چھ ہزار ماہانہ شرحِ سود پر ایک لاکھ کا لون لینا پڑا

 

14 اگسٹ

احمد بھائی نے کہا کہ بھابھی کے آپریشن اور زچگی کی وجہ سے وہ مقروض ہیں اور دوبئی میں مکانوں کے کرائے اندھا دھند بڑھا دئیے گئے ہیں جس کی وجہ سے وہ سخت پریشان ہیں واپس آنے کی سوچ رہے ہیں

 

25 اگسٹ

نوید بھائی نے کہا کہ انہوں نے امریکہ میں کریڈٹ پر پٹرول پمپ خریدا ہے مالی حالت خراب ہے

 

20 سپٹمبر

بینک کے قرضے کی قسط ادا کرنی ہے سوچا تھا زرینہ کا کچھ زیور بیچ دوں گا یوں بھی یہ عورتیں مردوں کی کمائی کو لاکرز میں سڑاتی ہیں۔ لیکن زرینہ کا زیور اُنکی امی جان کے لاکر میں ہے اور وہ اپنے بیٹے کے پاس امریکہ گئی ہوئی ہیں۔

 

3 اکتوبر

کار فروخت کر دی۔ یہاں کی ٹرافک میں کار یوں بھی ایک حماقت ہے آدمی اسکوٹر پر کہیں زیادہ آرام سے پہنچ جاتا ہے۔ فضول کی شان میں پٹرول کا اصراف صحیح نہیں ہے۔

 

25 اکتوبر

انڈسٹریل لون کے لیے درمیان کے لوگ اور بینک منیجر ایک لاکھ رشوت مانگ رہے ہیں ادا کرنے پر مکان کے کاغذات رہن رکھ کر پچیس لاکھ دیں گے اور تین سال میں پینتس لاکھ وصول کریں گے پتہ نہیں اِس ملک میں لوگ کیسے زندگی گزارتے ہیں محنت اور ایمانداری سے جینا ناممکن ہے۔

 

1 نومبر

آج شیخ صاحب سے ویزا کے لیے بات کی انہوں نے ایک مہینے بعد فون کرنے کہا

 

1 دسمبر

آج پھر شیخ صاحب سے بات کی اُنہوں نے تین ہزار ریال ماہانہ کا آفر دیا۔ میں نے ہاں کہہ دیا۔ عزّت کے ساتھ یہ بھی مِل جائیں تو بڑی نعمت ہے ورنہ اپنے ملک میں آدمی دن رات محنت کر کے دنیا بھر کے جھوٹ اور چکمے بازیاں کر کے بھی اتنا نہیں کما سکتا جب کہ وہاں کم از کم جھوٹ دھوکہ چکمہ یہ سب تو نہیں کرنا پڑتا

 

15 دسمبر

الحمدللہ آج ویزا آ گیا۔ انشاء اللہ ہفتے دو ہفتے میں اس دوزخ سے نجات مِل جائے گی

 

31 دسمبر

آج دوبارہ سعودی عرب پہنچ گیا الحمدللہ۔ ایک ڈراؤنا خواب تھا جو ختم ہوا۔ اب سوچ لیا ہے کہ جب تک پورے ایک کروڑ روپئے جمع نہیں ہوتے ہرگز واپس نہیں جاؤں گا۔

٭٭٭

 

 

آؤ تقریر سیکھیں

 

 

کس نے کہا کہ تقریر کے لئے آیا کسی علمی یا فنی قابلیت کی ضرورت ہے ؟

ہمارا خیال ہے کہ تقریر کے لئے لیڈری کے ذرا سے شوق کی ضرورت ہے جو کہ آپ میں موجود ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ یہ مضمون آگے پڑھ رہے ہیں ورنہ عنوان دیکھتے ہی آپ صفحہ الٹ دیتے۔  اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم کو تقریر کرنی آتی ہی نہیں،  ہم نے کبھی تقریر کی ہی نہیں۔ ہم آپ کو اس غلط فہمی سے باہر نکالیں گے۔  بے شمار کام ایسے ہوتے ہیں جن کو سابقہ تجربے کے بغیر ہی شروع کر دینا لازمی ہوتا ہے جیسے آپ کا باپ بن جانا۔ بس یوں سمجھ لیجیئے کہ لیڈری اور تقریر بھی ایک ایسا ہی فن ہے جو آپ کے اندر موجود ہے۔ تقریر تو آپ یوں بھی کرتے ہی رہتے ہیں جیسے اخبار پڑھتے ہوئے حکومت کے خلاف آپ کے ذہن میں ایک تقریر ہر روز تیار ہوتی رہتی ہے۔ کبھی بیوی سے لڑائی ہو جائے تو آپ ایک ایک سسرالی کی ایسی کی تیسی کر ڈالتے ہیں۔  منہ سے تھوک اڑنے لگتا ہے گھر اسمبلی ہال میں تبدیل ہو جاتا ہے اور جب تک بیوی ذرا زور کی آواز نہ نکالے آ پ کی شعلہ بیانی ختم نہیں ہوتی۔  بھلا بتایئے اتنی شان دار نان اسٹاپ تقریر کی کیا آپ نے کبھی ریہرسل کی تھی؟ یا کاغذ پر لکھ کر یاد کیا تھا؟ جناب اسی کو تو تقریر کہتے ہیں۔  آپ کو دراصل ” عرفانِ ذات ” حاصل نہیں تھا اسی لیئے آپ سمجھتے تھے کہ آپ کو تقریر نہیں آتی۔ ۔۔

فرق صرف اتنا تھا کہ آپ آج تک تقریر صرف اس وقت کرتے تھے جب آپ خود جذباتی ہو جاتے تھے۔  اب آپ کو اسٹیج کا ایک کامیاب مقرر بننا ہو تو خود جذباتی ہونے کی بجائے دوسروں کو جذباتی بنا دینے کا فن سیکھنا ہو گا۔ جس طرح کسی میت پر آپ نے دیکھا ہو گا کہ کئی محترم اور محترمائیں خاموش سسکیوں میں دبی رہتی ہیں لیکن ایک دو ایسے ہوتے ہیں جو دھاڑیں مار مار کر ” بین ” کرتے ہیں کہ ” پھوپا جان ” ( جان کے الف کو پوری سانس اکھڑنے تک کھینچتے ہوئے ) آپ ہم کو اکیلے چھوڑ کر کہاں چلے گئے ( گئے کے ے کو خوب لمبا کھینچتے ہوئے )۔

تب جا کر محفلِ  ماتم میں جان آ جاتی ہے ہر شخص قائل ہو جاتا ہے کہ مرحوم سے اگر کسی کو سچا خلوص تھا تو انہی کو تھا اور دوسرے کونوں میں بیٹھ کر رونے والوں کو بھی ذرا زور سے رونے کی تلقین ہوتی ہے۔ شائد اسی لیئے میّتوں اور سوگ کے موقعوں پر ہم نے دیکھا کہ لوگ اور بالخصوص خواتین مرنے والے کا ذکر کم اور بین کرنے والوں کا ذکر زیادہ کرتی ہیں اور اسی بنیاد پر محبت کی شرح (Rating) طئے پاتی ہے۔

 

تقریر میں بھی آپ جتنا گلا پھاڑیں گے اور دوسروں کو جذباتی بنانے کی کوشش کریں گے اتنا ہی کامیاب رہیں گے۔ اگر آپ نے فیض احمد فیض کے انداز میں غزل سنائی تو مرنے کے بعد ہی آپ کی قدر ہو گی۔  زندگی میں تو لوگ آپ کو چرائی ہوئی غزل سنانے والا سمجھیں گے۔ اگر آپ آج کل کے ہِٹ شعراء کی طرح گلا پھاڑ پھاڑ کر سنائیں گے تو آپ کی تقریر نہ صرف خوب چلے گی بلکہ اگلے جلسے کے لیئے بھی آپ کی دعوت پکّی سمجھ لیجیئے۔

تقریر سیکھنے کے لیئے آپ کو وہ یقین اپنے اندر پیدا کرنا ہو گا جو کہ علامہ اقبال نے سکھایا ہے۔

” جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں ”

وہ یقین کیا ہے یہ آپ کو ہم بتاتے ہیں کہ تقریر کرتے ہوئے آپ کو یہ ” یقین ” ذہن میں بٹھا لینا چاہیئے کہ سننے والے سارے بہرے ہیں،  اگر بہرے نہیں تو بیوقوف ضرور ہیں ورنہ وہ آپ کی تقریر سننے ہرگز نہیں آتے۔ اور خبر دار ! کسی کو شان دار سوٹ،  کار،  یا شیروانی میں دیکھ کر آپ کو احساسِ کمتری میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ایسے حضرات کو دیکھ کر ان کے سمجھدار اور قابل ہونے کا گمان ہوتا ہے۔  یاد رکھیئے سمجھدار لوگ جب تک ” موسم ” اور "ماحول ” کی ضرورت نہ ہو ٹائی سوٹ نہیں پہنتے اور اگر پہنتے بھی ہیں تو اسی وقت جب انہیں تقریر کر تے ہوئے تصویر کھنچوانے کا شوق ہو۔  ایسے حضرات کے رعب کو اپنے اعصاب پر سے ختم کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنی تقریر کے بیچ بیچ میں آپ یہ کہتے رہیں کہ ” فلاں صاحب ( ان کا نام لیں اور ان کی طرف اشارہ بھی کریں ) یہاں موجود ہیں میری حیثیت ان کے سامنے تو محض ایک طا لبِ علم کی ہے ” بس سمجھ لیجیئے کہ آپ کو ضمانت قبل از گرفتاری مل گیا کیونکہ اپنی تعریف سن کر وہ حضرات اتنے پھولے نہیں سما رہے ہوں گے کہ آپ کی تقریر کی طرف ان کا دھیان ہی نہیں جائے گا۔

تقریر میں جان ڈالنے کے لئے آپ کو تھوڑے سے مطالعے کی بھی زحمت اٹھانی ہو گی اس لئے کہ شعر کے بغیر تقریر پھیکی لگتی ہے جس طرح لڑائی میں گرجدار آواز میں ایک دو گالیاں ہوں تو مقابل شخص ڈرنے لگتا ہے اسی طرح تقریر میں ایک دو اچھے شعر ہوں تو مجمع بھی مرعوب ہو جاتا ہے۔ لیکن کس طرح کے مجمع میں کس طرح کا شعر ہو یہ طئے کرنے کے لئے تھوڑا سا مطالعہ کرنا یا پھر کسی اچھے شاعر سے رجوع کر نا لازمی ہے۔  اگر آپ نے یومِ آزادی کے موقع پر سلیم ناز کا کوئی شعر پڑھ دیا یا کسی مذہبی مجمع کے سامنے کسی ترقی پسند کا شعر پڑھ دیا یا ترقی پسندوں کے کسی مجمع میں کسی جدیدیئے کی نظم پڑھ دی تو آئندہ اسٹیج سے آپ کا پتہ کٹ ہو سکتا ہے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ آپ شاعروں کے بکھیڑے میں پڑنے کی بجائے سیدھے سیدھے علامہ اقبال کے چند شعر یاد کر لیجیئے۔  ان کے اشعار ” روح افزا شربت ” کی طرح ہر موسم میں مہمان نوازی کے لئے موزوں ہوتے ہیں یا یوں سمجھ لیجیئے کہ جس طرح زندہ طلسمات یا ہمدرد کا بام ہر درد کے لئے کام آتا ہے اسی طرح علامہ اقبال کے اشعار ہر مجمع پر اثر ڈالتے ہیں۔ عرسِ شریف کا پوسٹر ہو کہ کمیونسٹوں کا بیانر،  جماعتِ اسلامی کا جلسہ ہو کہ کانگریس،  بی جے پی یا مجلس کی انتخابی مہم آپ کو ہر جگہ اقبال ہی مشترک نظر آئیں گے حتیٰ کہ سورگ باشی ین ٹی آر کو بھی جب شعر کی ضرورت پڑی تو بول اٹھے :

سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا۔ ۔۔

ہم بلبلے ہیں اس کا یہ گلستاں ہمارا

اور علامہ کے اچھے اشعار کے لئے آپ کو کلیات چھانٹنے کی بھی ضرورت نہیں بے شمار آٹو اور ٹرکوں کے پیچھے آپ کو بانگِ درا اور ضر بِ کلیم کے اشعار مل جائیں گے۔  انہی کو یاد کر لیجیئے :

یا رب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے۔ ۔۔۔

"جورو کو جو تڑپا دے جورو کو جو گرما دے”

 

نہیں تیرا نشیمن خسرِ سلطانی کی گنبد پر

وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں زنگ

تعزیتی جلسے ایک مقرر کے لئے شہرت کے زینے ثابت ہوتے ہیں اس لئے ان جلسوں کے انعقاد میں پیش پیش رہیئے۔  اس میں زیادہ کچھ خرچ بھی نہیں ہوتا۔ اس لیئے تھوڑا بہت چندا دے کر صدارت یا مہمانِ خصوصی کی نشست حاصل کر لیجئے۔  آپ کو یہ معلوم رہنا چاہئے کہ سالِ رواں کن کن کے تعزیتی جلسوں کا امکان ہے تعزیتی تقریر کے لیئے یہ ضروری نہیں کہ آپ مرحوم سے ذاتی طور سے واقف رہے ہوں ان کے کسی بھی رشتہ دار سے آپ کی واقفیت کافی ہوتی ہے البتہ مرحوم کا پورا نام آپ کو معلوم ہونا ضروری ہے۔  آپ بڑے سے بڑے ادیب کا کسی مرحوم پر لکھا ہوا تعزیتی مضمون یا تقریر دیکھ لیجئے۔  آپ کو یہی محسوس ہو گا کہ پورے مضمون میں مرحوم مصنف کی انگلی پکڑ کر چل رہے ہیں۔  مرحوم کے کارناموں پر روشنی ڈال کر اپنا قد چھوٹا نہ کریں بلکہ اس پر روشنی ڈالیئے کہ :

مرحوم نے آپ کے کتنے جلسے کروائے ؟

کس کتاب پر کیا تبصرہ کیا ؟

کونسی تقریر پر خوش ہوے ؟

کتنی دعوتوں میں آپ کو مدعو کیا اور آپ کو کن کن دعوتوں میں مدعو کیا ؟

مرحوم کی وہ کونسی کمزوریاں تھیں جنھیں آپ انہیں بتاتے تو وہ برا نہیں مانتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ ۔۔

اپنی تقریر میں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں یہی اگر آپ کو نہیں معلوم تو بھی آپ بہت اچھی تقریر کر سکتے ہیں،  گھبرانے کی ضرورت نہیں۔  بس سامعین میں سسپنس پیدا کر نے کا گُر سیکھئے جو حیدرآباد کے ایک معروف شعلہ بیان مقرر مولانا نے ہمیں سکھایا تھا۔

انہوں نے تقریر شروع کی کہ،  جب ہم نے اندرا گاندھی کے سامنے اصل مسئلے کی حقیقت بیان کی تو وہ حیرت سے ہمارا منہ دیکھنے لگیں۔  اِس سے پہلے کہ میں وہ آپ کو بتاؤں جو میں نے مسز گاندھی سے کیا کہا آیئے میں آپ کو یہ بتاتا ہوں کہ گجرات میں کیا ہوا،  سامعین اس سسپنس میں یہ بھول جاتے ہیں کہ بھلا اندرا گاندھی کا گجرات کے واقعات سے کیا تعلق ہے؟

پھر مقرر اخبارات اور ٹی وی سے ملنے والی ساری گجرات کی جذبات انگیز خبریں سنا کر ایک فاتحانہ مسکراہٹ مجمع پر ڈالتے ہوئے پھر اسی ٹیپ کے مصرعے پر آتے ہیں کہ :

اس سے پہلے کہ میں آپ کو یہ بتاؤں کہ میں نے مسز گاندھی سے کیا کہا تھا آیئے میں آپ کو بتاؤں کہ میرٹھ اور بھیونڈی میں کیا ہوا تھا؟

اگر آپ اصل نکتہ گول کر کے بے مقصد جذباتی تقریر سیکھ لیں تو ایک شان دار مقرر بن سکتے ہیں۔  اس کے لئے آپ کو تھوڑی سی زحمت یہ کر نی ہو گی کہ بعد نمازِ مغرب یا عشاء مسجد سے نکلنے والے وظیفہ خوار حضرات کے ساتھ روزانہ نکڑ پر کھڑے ان کے سامنے زانوئے ادب طئے کریں۔ بغیر کسی موضوع یا مقصد کے ایک دوسرے کے نکتے کو سمجھے بغیر کس طرح گھنٹوں گفتگو ہو سکتی ہے۔ ان کے ساتھ رہ کر یہ آپ خود بہ خود سیکھ جائیں گے۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو تقریر کے لئے بار بار بلایا جائے تو آپ منتظمینِ جلسہ کی تعریف میں کوئی کسر نہ چھوڑیئے ان کا فرداً فرداً نام لے کر کہیئے کہ یہ امید کی کرن ہیں،  انقلاب کی آواز ہیں۔  یہ اپنی جہدِ مسلسل سے ہندوستان کی تقدیر بدلنے والے ہیں،  وغیرہ۔  ان جملوں سے منتظمین کے ذہنوں میں بھی علامہ اقبال کا وہ ” یقین ” پیدا ہو جاتا ہے کہ لاؤڈ اسپیکر اور کرسیوں کے لئے چندے جمع کرنے اور جلسے کرنے میں ہی انقلاب پوشیدہ ہے۔

تقریر کے دوران منتظمین کی جانب سے آپ کو اکثر چھوٹی سی پرچی بھی بھیجی جائے گی جس پر لکھا ہو گا ” آپ کا وقت ہو چکا مختصر کیجیے "،  آپ پوری ڈھٹائی سے مائک پر کھڑے رہیئے اور پرچی کو دور سے سامعین کو دکھا کر کہئے ” مجھے یہ اعلان کر نے کہا گیا ہے کہ باہر کسی صاحب کی سفید ماروتی نمبر۔ ۔۔ غلط کھڑی کی گئی ہے براہِ مہربانی فوری وہاں سے گاڑی ہٹا لیں "۔

جو حضرات تقریر سیکھنے میں واقعی سنجیدہ ہیں اُن سے گزارش ہے کہ اس طرح کے بے شمار زرین مشوروں کے لیئے ہم سے ضرور ملاقات کریں۔

٭٭٭

 

 

 

آؤ لیڈری سیکھیں

 

 

اس سے پہلے کے سبق میں ہم نے فنِ تقریر کی تربیت کی تھی، آیئے آج ہم آپ کو لیڈر بننے کے گُر سکھاتے ہیں۔  ان آزمودہ نسخوں پر اگر آپ نے صد فیصد عمل کیا تو آپ کو ہر پارٹی ٹکٹ آفر کر سکتی ہے۔ اور اگر آپ نے ان تربیتی اصولوں پر پورا عمل نہ کیا تو آپ کو زیادہ سے زیادہ کونسلر یا کسی انجمن کے صدر بننے پر اکتفا کر نا پڑے گا۔

لوگ بڑا آدمی بننے کی غیر شعوری خواہش میں لاکھوں روپئے دے کر میڈیسن اور انجنیرنگ میں داخلہ لیتے ہیں کوئی امریکہ یا لندن جاتا ہے تو کوئی آسٹریلیا وغیرہ۔ جب مزید بڑے ہونے کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں تو پھر کسی لڑکی کے امیر باپ سے لاکھوں کا جوڑا جہیز لے کر اپنی لگائی ہوئی رقم سود سمیت حاصل کر لیتے ہیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر مریضوں کو لوٹتے ہیں اور انجینئر عوام کو۔ کئی ایسے ہوتے ہیں جو سالے یا بہنوئی کی مدد سے خلیج پہنچ کر شیخوں کے رحم و کرم پر زندگی گزارتے ہیں۔ چند ایک شریف حضرات ضرور ایسے ہوں گے جن کو لوٹنے کے مواقع نہیں ملتے کیونکہ مولوی اس وقت تک مولوی ہوتا ہے جب تک اسے پولیس جیسی اوپر کی آمدنی والی نوکری نہیں ملتی۔  خیر کیوں نہ ہم آپ کو ایک ایسا پیشہ بتائیں جس میں نہ آپ کو لاکھوں کا سرمایہ لگانا پڑے نہ برسوں لکھنے پڑھنے میں سر کھپانا پڑے اور نہ ملازمت کر کے ایسی ایسی شکلوں کے Bosses کو خوش رکھنے پر مجبور ہونا پڑے جنہیں دیکھ کریہ قول یاد آتا ہے کہ اللہ غلام بنائے لیکن غلام کی صورت نہ بنائے آمین۔  بہرحال بغیر کوئی ملازمت کئے بھی آپ نہ صرف بڑے آدمی کہلایئں بلکہ لاکھوں کی آمدنی گھر چل کر آتی رہے ؟

یہ صرف لیڈری کے پیشے میں ممکن ہے۔

 

ہر ڈگری کے لیئے میٹرک پاس کرنے کی نا معقول شرط ہوتی ہے۔ جب کہ لیڈری کے ذریعہ آپ میٹرک کے بغیر بھی شان سے مہمانِ خصوصی بن کر یونیورسٹی کے اسٹیج پر لوگوں کو ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں عطا کر سکتے ہیں اور لوگ آپ کے ہاتھوں ڈگری لیتے ہوئے تصویر کھنچوا کر اپنے دیوان خانوں میں سجا سکتے ہیں۔  ہم کو آندھرا پردیش کے ایک ایسے ہی نا ن میٹرک چیف منسٹر کی یاد آ گئی جن کا تعلق کبھی لیبر پیشے سے رہا تھا۔ جب ایک سرکاری دواخانے کے لیبر روم کے افتتاح کے لئے انہیں دعوت دی گئی تو وہاں انہوں نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ :

” کتنے خوش نصیب ہیں آج کے لیبر کہ ان کو آرام کرنے کے لئے لیبر روم کی سہولت دی گئی ہے ورنہ ہمارے زمانے میں تو ہمیں سستانے کے لئے درختوں کے نیچے بیٹھنا پڑتا تھا”

 

آپ کو پہلے یہ طئے کر نا ہے کہ آپ کس قسم کے لیڈر بننا چاہتے ہیں۔  سیاسی یا مذہبی،  سماجی،  یا ادبی وغیرہ ؟۔ یقینا آپ سیاسی لیڈر بننا ہی پسند کریں گے کیونکہ سیاست وہ کافر ادا حسینہ ہے جس کے بارے میں فراز کہتے ہیں کہ "سوالِ سجدہ جب آیا تو در اُسی کا رہا "۔ جس طرح لوگ امریکہ کے خلاف بڑی بڑی شاندار تقریریں اور وعظ فرماتے ہیں۔  لیکن جب ان کے بچّوں کی اعلیٰ تعلیم کا سوال آتا ہے تو یہی لوگ سب سے پہلے امریکہ کے ویزا کے لئے قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ بالکل اِسی طرح سیاست کا بھی میدان ہے۔  سیاست کو چوروں،  ڈاکوؤں،  اور بدمعاشوں کا پیشہ قرار دینے والوں کو اگر موقع ملے تو سب سے پہلے وہی سیاست میں کود پڑ تے ہیں اس لیئے کہ سیاست ہر جگہ جسم میں روح کی طرح موجود ہوتی ہے چاہے وہ کوئی مذہبی جماعت ہو کہ سماجی یا ادبی انجمن۔  ان سب میں سیاست بھری ہوتی ہے۔ ان میں ملکی سیاست نہیں ہوتی بلکہ یہ خود اپنی جگہ ایک سیاسی ملک ہوتے ہیں۔  اگر آپ کو سیاست آتی ہو تو بہت جلد آپ ان غیر سیاسی جماعتوں میں بھی ترقی کرتے ہوئے ایک رکن سے صدر یا جنرل سیکریٹری بن سکتے ہیں۔  ورنہ تبرک کے طور پر آپ کو ایک ’ سینئر،  کا درجہ دے کر آپ سے جلسے کا انتظام،  اناؤنسمنٹ یا آخر میں شکریہ ادا کرنے کا کام لیا جاتا ہے۔ اگر آپ اس ترقی پر خوش ہیں تو مضمون کو آگے پڑھنے کی زحمت نہ کریں۔  صفحہ پلٹائیں۔  آپ جیسوں کے لئے ہی علامہ اقبال (رحمۃ اللہ علیہ) نے کہا ہے :

تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا

ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی تھا

لیڈر بننے کے لیئے سب سے پہلے آپ کا کسی جماعت میں شامل ہونا لازمی ہے۔ جس طرح ایک خوشحال فقیر کے لیئے کسی مسجد یا درگاہ کا دروازہ پکڑنا ضروری ہوتا ہے اسی طرح سیاسی لیڈر بننے کے لیئے کسی جماعت کا در ڈھونڈنا ضروری ہے۔  اگر آپ کی کبھی کسی مذہبی جماعت سے وابستگی رہی ہے تو آپ کا سیاسی لیڈر بننا مشکل ہے کیونکہ مذہبی اُصول سیاست میں آپ کو بہت پریشان کریں گے۔  اس لیئے بہتر ہے کہ آپ کوئی مذہبی،  ادبی یا سماجی لیڈر بن جائیں۔  ان میدانوں میں آپ کو ہمہ اقسام کے اصول اور نظریات کی حامل جماعتیں مل جائیں گی اور کہیں نہ کہیں آپ فِٹ ہو جائیں گے۔  سیاست میں کوئی بھید بھاؤ نہیں ہوتا بظاہر بے شمار جماعتیں ہوتی ہیں اور الگ الگ دستور اور مینوفسٹو ہوتے ہیں لیکن مقصد اور ایجنڈا ایک ہی ہوتا ہے یعنی وہی جمہوری ایجنڈا :

Off the people , Bye the People , Far the People

خبر دار کسی نئی جماعت کی بنیاد ڈالنے کی کوشش نہ کرنا۔  اس کام کے لیئے اللہ تعالی محمد علی جوہر،  ابوالکلام آزاد اور قائدِاعظم وغیرہ جیسے خاص لوگوں کو پیدا کرتا ہے جو پیدائشی لیڈر ہوتے ہیں۔  آپ تو چونکہ ابّا جان کی شادی کی تصدیق میں یوں ہی پیدا ہو چکے ہیں اس لئے آپ سیدھے سیدھے کسی موجودہ جماعت میں شامل ہو جایئے۔

کسی جماعت میں شامل ہونے کا طریقہ کار کیا ہو یہ ایک اہم نکتہ ہوتا ہے۔ جماعت کے انتخاب میں جلد بازی سے کام نہ لیجئے۔  اگر آپ نے شوقِ گُل بوسی میں کانٹوں پر زبان رکھ دی تو مستقبل لہو لہان ہو سکتا ہے۔  پہلے یہ طئے کر لیجیئے کہ کس پارٹی میں شامل ہونا ہے۔  پھر اس کی مخالف پارٹی میں شامل ہو جائیے اس لیئے کہ آپ جس پارٹی میں داخل ہونا چاہیں گے وہاں پہلے ہی سے اتنے بڑے بڑے لیڈر موجود ہوں گے کہ آپ کو کوئی گھاس نہیں ڈالے گا۔ آپ جیسے جونئیر تو سینئر دولہوں کے سامنے باراتیوں کے طور پر کام آتے ہیں۔ اور ویسے بھی بقولِ یونس بٹ کہ "چھوٹے لیڈر پیدا ہونا یوں بھی بند ہو گئے ہیں،، ۔  جتنے پیدا ہوتے ہیں سارے بڑے لیڈر پیدا ہوتے ہیں۔  اس لئے وہاں آپ کی دال گلنا مشکل ہے۔  ترقی کے زینے چڑھتے چڑھتے ماہ و سال نکلتے جائیں گے محنت اور ایمانداری کے ذریعے ترقی کرنے کی آرزو میں آپ بوڑھے ہو جائیں گے۔ اگر تمام بوڑھوں کو اوور ٹیک کرتے ہوئے ان سے بھی بڑا لیڈر بننا چاہتے ہیں تو مخالف پارٹی میں شامل ہونے کے بعد اپنی پسندیدہ پارٹی کے خلاف دھواں دھار تقریریں کرنا شروع کر دیجیئے۔  مہنگائی،  فسادات اور رشوت اور ہر بد انتظامی کی ذمہ داری اسی کے سر ڈالیئے۔ ہو سکے تو طوفان زلزلے اور قحط کا ذمہ دار بھی ان کو قرار دیجیئے۔

جب الیکشن کو پانچ چھ ماہ باقی رہ جائیں تو اپنی امیدواری کا دعوی کر دیجیئے۔  پارٹی میں کھلبلی مچ جائے گی۔  آپ کے خلاف سینئر ٹوٹ پڑیں گے۔  آپ فوری بغاوت کا اعلان کر دیجیئے۔  آپ کو اپنی پسندیدہ پارٹی سے خود ہی ٹکٹ کا آفر مل جائے گا۔  اب دیر نہ کیجیئے اور اپنے تمام کارندوں کے ساتھ اس پارٹی میں شامل ہو جائیے۔  میڈیا میں آپ کا خوب چرچہ ہونا چاہیئے۔  اس پر آپ کو کچھ انوسٹمنٹ کرنا ہو گا جو بعد میں آپ کو سود سمیت واپس مل چائگا۔ اخبارات اور ٹی وی کے ایڈیٹروں اور رپورٹروں کو دعوتوں اور تحفوں کے ذریعے خوش رکھیئے۔

پارٹی بدلنے پر لوگ کیا کہیں گے ؟

یہ فکر ذہن سے نکال دیجیئے لوگوں کا حافظہ کمزور ہوتا ہے اور سیاسی حافظہ تو بہت ہی کمزور۔  دو چار درگاہوں اور مندروں پر حاضری دیجیئے آپ کو سیکولرزم کی نہ صرف سند مل جائے گی بلکہ آپ چاہے کسی فرقہ پرست اور دہشت پسند پارٹی میں بھی کیوں نہ شامل ہوں،  لوگ آپ کی دستار بندی کریں گے اور تلوار پیش کریں گے۔

با خبر لیڈر بننے کے لیئے آپ کا روزانہ اخبار دیکھنا لازمی ہے تاکہ آپ کو یہ خبر رہے کہ کس پر کیا الزامات لگے ہیں اور کس ملزم نے کس ڈھٹائی کے ساتھ الزام لگانے والوں پر اُلٹے الزام لگا کر اپنے مقابل کو کس طرح خاموش کیا ہے۔ سیاسی میدان میں دراصل "الزام” اور "جوابِ الزام” کا میچ ہوتا ہے۔ وہی ہارتا ہے جسے جوابی الزام لگانا نہیں آتا۔  آپ ان میچوں کا بغور مطالعہ کیجیئے اور ہو سکے تو گھر پر بیوی کے ساتھ ریہرسل بھی کیجیئے۔  کامیاب لیڈر اور کامیاب شوہر کی نشانی یہی ہے کہ اگر وہ رنگے ہاتھوں پکڑے بھی جائیں تو صاف مکر جائیں اور چِلّا چِلّا کر سامنے والے کے سراُلٹا الزامات تھوپ دیں۔

یاد رکھیئے الزامات آپ پر بھی ایک دن ضرور لگیں گے۔ اگر اب تک آپ پر کوئی الزامات نہیں لگے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی آپ ایک نا تجربہ کار اور نیم پختہ لیڈر ہیں۔ اپنے اوپر الزامات لگوانے کا آپ کو جلد سے جلد کوئی انتظام کرنا پڑے گا۔ اس کارِ خیر کے لیئے کچھ چمچوں کی ضرورت پڑ تی ہے۔ چمچے کس طرح پیدا کئے جاتے ہیں یہ ہم نے آپ کو پچھلے ورکشاپ میں بتایا تھا۔ الزام اور جوابِ الزام تیار کر لیجیئے۔  اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لئے ISI کی بلانکٹ بہت کام آتی ہے۔ اپنے خلاف ہر الزام کو ISI کی سازش اور الزام لگانے والوں کو آئی ایس آئی کا ایجنٹ قرار دیجیئے۔  آپ اخبارات کی سُرخیوں میں ہوں گے۔

اچھا لیڈر بننے کے لیئے ایک آدھ مرتبہ جیل جانا ضروری ہے۔ مہاتما گاندھی،  نہرو،  ہوں کہ آزاد۔ جتنی مرتبہ یہ جیل گئے اتنا ہی ان کا مرتبہ بڑھتا گیا۔ آپ اگر اتنے بڑے لیڈر نہ بھی بن سکے تو لالو پرساد یادو ضرور بن سکتے ہیں البتہ سیاست میں آنے سے پہلے اگر آپ کبھی جیل جا چکے ہیں تو یہ آپ کے سیاسی کیرئر کے لیئے خطرہ ہے۔ فوری اس تھانے سے فائل غائب کر وائیے۔  سیاست میں آنے کے بعد آپ چاہے کسی بڑے سے بڑے گھٹالے یا فساد میں ہی کیوں نہ ملوّث ہوں آپ کا جیل جانا نیک شگون ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

آؤ چمچہ گِری سیکھیں

 

 

اِس سے قبل کے تربیتی ورکشاپ میں ہم نے آپ کو فنِ لیڈری اور فنِ تقریر کے گُر سِکھائے تھے آیئے آج ہم رموزِ چمچہ گِری بتاتے ہیں۔

ترقی یافتہ ملکوں میں اِسی کام کے کرنے والوں کو king maker یا lobbyist کہا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں نہ جانے کیوں اِنہیں چمچہ کہتے ہیں حالانکہ کام من و عن وہی ہے۔ شائد اس لیئے کہ ہمارے ہاں اس طرح کے افراد کی بہتات ہے۔ ایک ڈھونڈھو ہزار ملتے ہیں۔  وہاں تو چمچے ہمیشہ چمچے ہی بنے رہتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ہم نے اِنہیں صدر اور وزیرِ اعظم بھی بنتے دیکھا ہے۔

کالج اور یونیورسٹیوں میں یوں تو ہر طرح کے اخلاقی اور غیر اخلاقی سبھی موضوعات پر ڈپلوما اور ڈگری کورسس پڑھائے جاتے ہیں لیکن نہ جانے کیوں چمچہ گری کا سبجکٹ نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔  حالانکہ ہمارے نزدیک مصوّری، اداکاری اور شاعری وغیرہ کی طرح چمچہ گری فنونِ لطیفہ میں شامل ہے بلکہ فنونِ لطیفہ میں سرِفہرست ہے۔ خیر مایوسی کی کوئی بات نہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ بہت جلد یہ کورس نہ صرف ہمارے ہاں پڑھایا جائے گا بلکہ مستقبل میں امریکہ یورپ میں بھی اگر چمچہ گری کا کورس پڑھایا جائے گا تو تھیوری اور پراکٹیکل کے جتنے ایکسپرٹ ہوں گے وہ ہند و پاک سے ہی بلائے جائیں گے۔

چمچہ گری ایک مکمل فن ہے جس کی تربیت کے باضابطہ اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔

اِس فن کا موجّد پہلا وہ شخص تھا جس نے نوابوں اورجاگیر داروں کے سامنے سیدھے سیدھے السلام علیکم کہنے کے بجائے سر اور کمر کے بل جھک جھک کر فرشی سلام و آداب عرض ہے کہنے کی تہذیب ایجاد کی۔جو لوگ بغیر تربیت یا ٹریننگ کے چمچہ گری کے چمتکار دکھانا چاہتے ہیں وہ سخت نادان ہیں۔ اِنہی غیر تربیت یافتہ چمچوں کی وجہ سے سارے چمچے بدنام ہوتے ہیں۔ اکثر ہمارے دانشور کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں تعلیم کی کمی ساری بُرائیوں کی جڑ ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ نہ ہمارے ہاں تعلیم کی کمی ہے نہ صلاحیتوں کی اور نہ دانشوروں کی۔  کمی ہے تو صرف چمچوں کے لئے صحیح تربیت گاہوں کی۔

آ تجھ کو بتاؤں میں تقدیرِ امم کیا ہے

ہے چمچہ گِری اوّل طاوس و رباب آخر

آیئے ہم آپ کو چمچہ گری کے چند فضائل و برکات سے آگاہ کریں۔

ہم نے ہزارہا ڈاکٹروں انجینیروں اور شاعر و ادیبوں کو غالب کی طرح فکرِ غمِ ہائے روزگار میں مبتلا دیکھا لیکن کبھی کسی چمچے کو بیروزگار نہیں دیکھا۔ ہر چمچہ کسی نہ کسی بڑے چمچے کا چمچہ ہوتا ہے اور وہ بڑا چمچہ آگے کسی نہ کسی اور بڑے چمچے کا چمچہ ہوتا ہے۔ اور یہ شجرۂ نسب جا کر اُس مہان شخصیت سے ملتا ہے جس نے تخلیقِ کائنات کے وقت خالقِ کائنات کو مطلع کر دیا تھا کہ جسطرح تو اپنے برگزیدہ بندے وقتاً فوقتاً زمین پر بھیجتا رہے گا میں بھی اپنے برگزیدہ بندے ہر دور میں ہر مقام پر بھیجتا رہوں گا۔

یہ ہر جگہ اِس طرح پھیلے ہوئے ہیں جس طرح نظامِ شمسی یعنی solar system میں مختلف تارے اور سیّارے۔ یہ مختلف مداروں میں گردش کرتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی کشش پر زندہ ہیں۔ کبھی کبھی یہ سّیارے ایک دوسرے سے ٹکرا بھی جاتے ہیں جس کے نتیجے میں پورے نظامِ ارضی میں ہلچل مچ جاتی ہے اور زمین کا موسم بدل جاتا ہے۔

فنِ چمچہ گری کو سمجھنے کے لئے اِس واقعے کو غور سے پڑھئیے۔

ایک نواب صاحب ایک دن بہت اچّھے موڈ میں تھے اُس دن دستر خوان پر بیگن کا سالن آیا۔ نواب صاحب نے پہلا لقمہ لیا اور بیگن کی تعریف میں فرمایا :

"واہ بیگن بھی کیا لذیذ غذا ہے”۔

ایک درباری نے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے فوری کہا "جی ہاں سرکار یہ تو تمام ترکاریوں کا بادشاہ ہے اسی لیئے اِس کے سر پر تاج ہوتا ہے۔ قدرت نے اِسمیں ہر بیماری کا علاج رکھ دیا ہے یہ تو جنّت کی ترکاری ہے”۔

ایک دن نواب صاحب کا موڈ بہت خراب تھا اور اتفاقاً اُس دن بیگن کا سالن پکا تھا۔ نواب صاحب نے لقمہ لیا اور ان کو غصّہ آ گیا انہوں نے کہا :

"یہ کیا واہیات سالن ہے بھلا بیگن بھی کوئی کھانے کی چیز ہے؟”

فوری وہی درباری بول پڑا :

"ہاں سرکار یہ تو ایک بد مزہ سستی ترکاری ہے۔ اِسے تو جانور بھی منہ نہیں لگاتے یہ تو کئی بیماریوں کی جڑ ہے”۔

ایک صاحب سے رہا نہیں گیا۔ انہوں نے اس درباری سے کہا ” یار آپ بھی عجیب آدمی ہیں اُس دن تو آپ نے کہا کہ بیگن دافع الامراض ہے جنّت کی ترکاری ہے اور آج کہہ رہے ہیں کہ اِسے جانور بھی منہ نہیں لگاتا۔۔۔۔۔۔”

درباری نے بات کاٹتے ہوئے اُنہیں ڈانٹا اور کہا "میں سرکار کا ملازم ہوں بیگن کا نہیں۔  سمجھے؟؟؟؟؟؟ ”

بس یہی ہے چمچہ گری کا اُصول۔

بڑے صاحب یعنی Bossجس چیز کو جس وقت پسند کریں اُسے آسمان پر بٹھا دیجئیے اور جس چیز کو ناپسند کریں اُسے بیگن میں ملا دیجیئے۔ بڑے صاحب کی ترقی میں آپ کی ترقی مضمر ہے۔اگر وہ لیڈر ہوں تو اُن کے ہر جلسے کو زیادہ سے زیادہ سامعین جمع کر کے کامیاب بنائیے۔جلسے کی صدارت کے لئے مائیک پر اصرار کیجیئے۔ اِس کے بغیر تو وہ یوں بھی نہ آتے اور نہ چندہ دیتے۔ مگر پھر بھی آپ اُنہیں جتنا انکساری دکھانے کا موقی دیں گے اُتنی آپ کی وقعت بڑھے گی۔ اگلے دن اخبارات میں بڑے صاحب کی تصویر اور تقریر شائع ہونی چاہیے۔ اِس کے لئے آپ کو ہر صحافی کو وقتاً فوقتاً چائے یا کھانے پر بلاتے رہنا چاہئے۔

کامیاب چمچہ گری کے لئے انا زہرِ قاتل ہے۔آپ کو خوامخواہ جذباتی یا حسّاس ہونے کی ضرورت نہیں۔ بڑے صاحب چاہے سب کے سامنے جھڑک دیں لاکھ بے عزّت کریں استقامت اور صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیجیئے کہ۔۔

مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے

کہ چمچہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے

دیکھا یہ گیا ہے کہ غصیلی بیویوں کو منانے کا فن جاننے والے شوہروں میں چمچہ گری کے بہترین جوہر پائے جاتے ہیں کیونکہ بیوی میں خوبیا ں تلاش کرنا اُتنا ہی مشکل ہے جتنا اپنے اندر کمزوریاں تلاش کرنا۔  اس لیئے چمچہ گری میں مہارت حاصل کرنا ہوتو اپنی بیوی کو منانے کا فن سیکھیئے۔ اُس کی وہ وہ خوبیاں اس کے سامنے بیان کیجیئے جو نہ کبھی اُسمیں تھیں نہ ہیں اور نہ کبھی ہو سکتی ہیں۔لیکن تعریف کرنا بھی ایک فن ہے اگر سلیقے سے نہ کی جائے تو وہ خوشامد کہلاتی ہے۔ اگرچہ کہ خوشامد چمچہ گری کا لازمی حصّہ ہوتی ہے لیکن کامیاب چمچہ وہی ہوتا ہے جو خوشامد کو محسوس ہونے نہیں دیتا۔ جیسے ایک دفتر میں نیا افسر آیااس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بہت سخت اور اصول پسند ہے۔  جھوٹ،  خوشامد اور چمچہ گری کو بالکل پسند نہیں کرتا۔ تمام چمچوں نے مل کر اُس کا استقبالیہ دیا۔ اور ایک نے کھڑے ہو کر تقریر کی کہ”یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم کو پہلی بار ایک ایسے افسر ملے ہیں جو اصول پسند ہیں جھوٹ اور خوشامد سے نفرت کرتے ہیں اب ہمیں اپنے مسائل ان تک پہنچانے کے لیئے درمیان میں کسی چمچے کی ضرورت نہیں پڑے گی”۔ افسر بے حد خوش ہوا اور اپنی صدارتی تقریر میں کہنے لگا "مجھے خوشی ہے کہ آپ لوگ مجھے اچّھی طرح جان گئے ہیں اب بتائیے آپ لوگوں کے مطالبات کیا ہیں”

چمچہ گری اور خوشامد پسندی میں بڑا فرق ہے۔ خوشامد پسندی سے چھوٹے چھوٹے کام نکلتے ہیں۔ کام ایسا کیجیئے کہ بڑے صاحب سب کے سامنے آپ کی تعریف کریں جیسے اُن کے خلاف افواہ پھیلایئے پھر ہر اخبار رسالے اور جلسے میں زبردست دفاع کیجیئے۔ افطار پارٹی کیجیئے اور اُن کو کھجور پیش کرتے ہوے تصویر لیجیئے اور سارے اخبارات کو بھیجیئے۔ یاد رہے بعض وقت کھجور پیش کرتے وقت یا پھول پہناتے وقت کیمرہ مین تصویر لینے میں دیر کر دیتا ہے۔ کھجور یا ہار کو ہاتھوں میں رہنے دیجیئے بھلے بڑے صاحب بوکڑ کی طرح سر جھکائے آگے بڑھ چکے ہوں۔ اُنہیں اُس وقت تک اُسی طرح کھڑے رہنے دیجیئے جب تک کیمرہ مین تصویر نہ لے لے۔

چمچہ گری میں نہ کوئی دوست ہوتا ہے نہ دشمن۔سب سے دوستی بنائے رکھیئے۔  ورنہ قانون کی زد میں آنے والا تو پھر بھی سنبھل سکتا ہے لیکن چمچوں کی زد میں آنے والا کبھی نہیں سنبھلتا۔ پورا کیرئیر صدّام حسین ہو جاتا ہے۔کیونکہ اِس لڑائی میں لاٹھی یاپستول استعمال نہیں ہوتے بلکہ جو صحیح چمچے ہوتے ہیں وہ ایسی لڑائی سے بہت دور رہتے ہیں۔  یاد رکھیئے چمچوں کا کام لڑانا ہے نہ کہ خود لڑنا۔اگر آپ غصّے میں کسی کا کالر پکڑ لینے کا مزاج رکھتے ہیں تو آپ نہ اچّھے چمچے بن سکتے ہیں نہ ترقی کرسکتے ہیں۔

اِس لڑائی میں جو ہتھیاراستعمال ہوتا ہے اس کا نام "پروپیگنڈا”ہے۔ یہ نیوکلیر بم سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اس لئیے کسی چمچے کو کمزور مت جانیئے۔ بس خیال رہے کہ بڑے صاحب سے کبھی دشمنی نہ ہو۔ بڑے صاحب جو خود بھی آگے کسی کے چمچے ہوتے ہیں جتنا ترقی کرتے جاتے ہیں اُن کے کان اتنے ہی کچّے ہوتے جاتے ہیں۔ اس لیئے اِس سے پہلے کہ کوئی ان کے کان بھرنا شروع کرے آپ ان کو ہر ایک کے بارے میں خبریں پہنچاتے رہئیے۔اپنا امیج درست رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ دوسروں کے بارے میں خود افواہیں پھیلائیے اور بڑے صاحب کے سامنے ان لوگوں کا دفاع کیجیئے تاکہ جب وہ آپ کی شکایت لے کر دربار میں پہنچیں تو خود بخود ان کا پتّہ کٹ جائے۔

ان لوگوں سے دور رہیئے جو بڑے صاحب کی نظر میں کھٹکتے ہیں۔ نہ ان کی محفل میں شرکت کیجیئے نہ انہیں اپنی کسی محفل میں شریک کیجیئے۔  جن قدامت پسندوں کو چمچہ گری کا فن نہیں آتا ان کی سزا یہ ہوتی ہے کہ ہر بڑے آفس یا سرکل میں ان کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔اپنے کام وہ لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہو کر دھکّے کھاتے ہوئے کروانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایسے اصول پسند اپنا جمہوری حق حاصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتے ہیں کہ ا ی میل یا اخبار کے ذریعے اپنا احتجاجی خط شائع کروا لیتے ہیں جس کے پڑھنے والے یا تو وظیفہ یاب بوڑھے ہوتے ہیں یا پھر وہ کلرک ذہن کے گروہ جو چائے خانوں کے اطراف گھنٹوں گروپ بنائے کھڑے رہتے ہیں۔ایسے لوگوں کو جب حق کے لیے لڑنے کا بخار کچھ زیادہ زور مارتا ہے تو بے چارے چندہ کر کے ایک آدھ جلسہ بھی کر لیتے ہیں لیکن سارا بخار اُس وقت اتر جاتا ہے جب جلسہ تو کامیاب ہو جاتا ہے لیکن چندہ کم پڑ جاتا ہے اور خرچ زیادہ ہو جاتا ہے۔اگر بات بگڑ جائے اور تھانے میں طلبی ہو جائے تو اِن حق کے مجاہدین کی حالت عبرتناک ہوتی ہے۔ گھر میں بیوی کی گالیاں پڑتی ہیں اور باہر دوست کنّے کاٹ کر نکل جاتے ہیں۔مشکل کشائی کے لیے کسی نہ کسی چمچے کا سہارا لینا ہی پرتا ہے جو بیچ میں آ کر معاملہ رفع دفع کروا دیتا ہے۔

چمچے دو طرح کے ہوتے ہیں۔  جس طرح عشق کیا نہیں جاتا ہو جاتا ہے اسی طرح پہلی قسم کے چمچے وہ ہوتے ہیں جو چمچہ گری ارادتاً نہیں کرتے بلکہ ان سے ہو جاتی ہے۔محبت کی طرح پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ کب اور کیسے ہو گئی۔ ان کو آپ پارٹ ٹائم چمچے کہہ سکتے ہیں۔یہ زیادہ تر آفسوں میں ہوتے ہیں۔

دوسری قسم فُل ٹائم چمچوں کی ہوتی ہے۔جہاں تک پارٹ ٹائم چمچہ گری کا تعلق ہے یہ کسی بھی شریف انسان سے سرزد ہو جا سکتی ہے۔ اس لیئے کسی چمچے پر لعن طعن کرنے سے پہلے سوچ لیجیئے کہ یہ وقت سب پر آتا ہے جب ہر شریف آدمی کبھی مصلحتاً تو کبھی مجبوراً تھوڑی بہت چمچہ گری کر ہی لیتا ہے۔ اس کے بغیر آپ نہ سیاسی جماعت میں ترقی کر سکتے ہیں نہ دینی جماعتوں میں۔نہ مسجد کی انتظامی کمیٹیاں اس کے بغیر چلتی ہیں نہ انجمنیں، جلسے اور مشاعرے۔

اس کے بغیر نہ سرکاری اردو اکیڈیمیاں چلتی ہیں نہ وہ آپ کی کتابیں شائع کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ چمچوں کو پہچاننے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کسی بھی چمچے سے پوچھیئے کہ کیا آپ چمچہ گری کرتے ہیں وہ انکار کرے گا۔ ضروری نہیں کہ ہر چمچہ صورت سے پہچانا جائے۔ چمچہ ہونا اور بات ہے اور چمچہ لگنا اور بات۔

دیکھا یہ گیا ہے کہ اسکول کی عمر سے ہی جو بچّے مانیٹر بننے کا تجربہ رکھتے ہیں اور ہمشہ اول آتے ہیں وہ بڑے ہوکر سمجھدار چمچے نکلتے ہیں۔ ساتھیوں کی ٹیچروں سے شکایتیں کر کے انہیں پِٹوادینا، جھنڈا وندن میں آگے آگے رہنا، ٹیچروں سے گُڈ بوائے زیادہ سے زیادہ سننے کا شوق رکھنا، اُن کو دوڑ دوڑ کر پان یا سگریٹ لا کر دینا۔  یہی وہ بنیادی خصوصیات ہیں جو بڑے ہو کر ایک کامیاب چمچہ بننے میں مدد کرتی ہیں اس لیئے ضرورت اِس بات کی ہے کہ اسکولوں سے ہی اِس کی تربیت پر زور دیا جائے۔

جس طرح ہم ادب برائے ادب کے مخالف ہیں اُسی طرح چمچہ گری برائے چمچہ گری کے بھی مخالف ہیں ادب برائے مقصد کی طرح چمچہ گری بھی برائے مقصد ہونی چاہیئے۔

آپ پہلے مقصد طئے کر لیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ مال یا شہرت یا حکومت؟ یہ الگ الگ مقاصد ہیں اور ان کے حصول کے لئے چمچہ گری کے طریقے بھی الگ الگ ہیں جو ہم آپ کو مناسب حصہ داری پر سکھا سکتے ہیں اس کے لئے آپ ہم سے علیحدگی میں رجوع فرمائیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

فائدہ سوٹ کا

 

 

بھائی یوسف امتیاز کو کینیڈا سے نہ جانے کیا سوجھی کہ سوٹ پر تنقید کرنے لگے۔

سوٹ پہننا تو ہندوستانیوں،  پاکستانیوں اور بنگلہ دیشیوں کے بنیادی حقوق میں سے ایک ہے۔  جیسے ہمارے اور بنیادی حقوق ہیں مثلاً سڑکوں پر بلا خوف و خطر تھوک دینا،  پان کی پچکاریوں سے اچھی بھلی عمارتوں کی دیواروں کو اشتراکیت کے رنگ سے رنگ دینا۔  دیواروں پر نعرے لکھ کر اور پوسٹرس لگا کر انہیں وال اسٹریٹ جرنل میں تبدیل کر دینا۔ تاخیر سے آ کر قطار توڑنا،  ٹرافک ریس میں ہمیشہ گولڈ میڈل حاصل کرنے کی فکر کرنا، قطع کلامی کرنا،  مشورے دینا وغیرہ وغیرہ۔ سوٹ وہ نعمتِ غیر مترقبہ ہے جسے حاصل کرنے کے لئے بڑی محنت سے مواقع پیدا کرنے پڑتے ہیں جیسے شادی،  ولیمہ،  عقیقہ یا پھر مشاعرہ،  تہنیتی یا تعزیتی جلسہ وغیرہ۔

انگریزوں کو تو ہمارا شکر گزار ہونا چاہئے کہ ہم نے ان کی تہذیب کو کس قدر حفاظت سے اٹھائے رکھا۔  وہ تو ایسے نا شکرے ہیں کہ ذرا درجہ حرارت بیس سے پچیس ہوا انھوں نے سوٹ اتار پھینکا۔ بڑھ کر کبھی تیس ہو جائے تو پھر دیکھئے خواتین کو بدن پر ململ بھی بھاری معلوم ہوتا ہے۔ اتنے قیمتی اور پُر وقار لباس کی یہ توہین ہے۔  جب کہ ہم چالیس ڈگری ٹمپریچر کیوں نہ ہو ہم کسی دعوت کے وقار کو سوٹ اتار کر کم نہیں کر سکتے۔

ابھی پرسوں کی بات ہے ( اپنا حیدرآبادی پرسوں ) ہمارے سالے نے اپنے سالے کے ولیمہ پر ہم کو مدعو کیا۔ سخت گرمی کے باوجود ہم کو سالے کے سسرال والوں کے درمیان رکھ رکھاؤ کا مظاہرہ کرنا ہی تھا سالوں کی خاطر کیا نہیں کیا جاتا۔ اور پھر سوٹ پہننے کے مواقع بار بار کب آتے ہیں۔  ہم نے اپنی شادی والا اکلوتا سو ٹ منتخب کیا۔ اور زیب تن کر کے پہنچے۔ لباس سے ہی تو آدمی کی وقعت ہے۔ ہر شخص ہمیں کو بار بار گھور کر دیکھتا تھا۔ اتنے مہمانوں میں مشکل سے دو چار ہی ایسے کھاتے پیتے گھرانے کے تعلیم یافتہ لوگ نظر آئے جو سوٹ پہنے ہوئے تھے باقی سارے ندیدے ہی لگے۔  سیدھے سادھے شرٹ پتلونوں میں آ کر بیٹھ گئے۔  پھر یہ کہ شرٹ کا بٹن کھولے دستیوں کو مسلسل پنکھا بنائے ہوئے تھے۔ کرنٹ نہ ہونے کی وجہ سے سارے پنکھے بند تھے۔ مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ کم از کم ایسے موقعوں پر سوٹ ہی نہ پہنیں۔  خیر ہم نے گھورنے والوں کو نظر انداز کیا اور آگے جا کر صاحبانِ سوٹ کے برابر بیٹھ گئے۔  برابری والوں کے درمیان اٹھنے بیٹھنے سے سوٹ کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک گھنٹہ گزر گیا۔ کم بخت دلہن والے دلہن کو بیوٹی پارلر سے لے کر شادی خانہ پہنچتے ہی نہ تھے۔ دلہا کا گرمی سے برا حال تھا۔ سہرا اتار کر بازو رکھ دیا گیا۔ شیروانی کے سارے بٹن کھول دیئے گئے۔  خود ہم پسینے میں اندر سے ڈوبے جا رہے تھے ہمارے سالے صاحب ہمارے صبر و ضبط پر ممنون ہوئے جا رہے تھے۔ بار بار آ کر متانت سے کہتے ” بھائی جان گرمی بہت ہے جیکٹ اتار دیجیئے "۔

اتارنا تو ہم بھی چاہ رہے تھے لیکن عقد خوانی اور دلہا کے ساتھ ویڈیو گرافی میں شریک ہونے سے پیشتر یہ مناسب نہ تھا۔  ہم دل ہی دل میں اپنے باس کو دادِ  تحسین دے رہے تھے جو جب سے گزیٹیڈ آفیسر بنے ہیں پابندی سے ہر موسم میں سوٹ پہنتے ہیں۔  بعض اوقات پورا پورا دن بجلی نہیں رہتی فین بند رہتے ہیں لیکن نہ وہ پسینے کی پرواہ کرتے ہیں نہ گرمی کی۔  یہ ہوتا ہے وقار۔ ہم بھی چاہیں تو مستقل سوٹ پہن سکتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں لوگ ابھی اتنے اعلیٰ ظرف نہیں ہوئے ہیں کہ ایک ما تحت کلرک کو اپنی طرح سوٹ میں دیکھ کر خوش ہو جائیں۔  انہیں خدشہ رہتا ہے کہ افسر اور ما تحت کا فرق ہو جائے گا۔

سوٹ پہن کر آدمی بہت مہذب بن جاتا ہے۔ کھانسے گا یا چھینکے گا تو رومال احتیاط کے ساتھ منہ پر رکھ کر،  پھر اسی نفاست کے ساتھ رومال کو تہہ کر کے جیب میں واپس بھی رکھے گا۔ تھوکنے کی احتیاج ہو تو اس طرح احتیاط سے جھک کر تھوکے گا کہ چھینٹ نہ اڑے۔ جب سوٹ پہن کر اسکوٹر چلائے گا تو اس قدر ڈسپلن کے ساتھ کہ جیسے کوئی حاملہ خاتون پیچھے بیٹھی ہو۔ نہ کٹ مارے نہ پانی زمین پہ ہو تو اڑائے گا،  نہ بغیر اشارہ کئے دائیں یا بائیں موڑے گا۔ ہم تو کہتے ہیں کہ بجائے ہیلمٹ کے اسکوٹر چلانے والوں پر سوٹ پہننے کا لزوم ہونا چاہئے بلکہ تمام آٹو ڈرائیوروں اور بس ڈرائیوروں پر بھی یہ پابندی لگا دینی چاہئے۔  اس طرح ٹریفک کے آدھے سے زیادہ مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اگر کہیں کوئی ہلکا پھلکا ایکسیڈنٹ ہو بھی جائے تو ویسا منظر تو ہرگز نہ ہو گا کہ قصور اپنا بھی ہو تو فوری دوسرے کو ایک عدد گالی کے ساتھ کہا جائے گا

” کدر دیک کے چلارا "۔ ( کدھر دیکھ کر چلا رہے ہو )

اور اس کے بعد تھوڑی گرما گرم بحث کے ابتدائی نصاب کو پورا کرنے کے بعد دھکم دھکّا شروع ہو جاتا ہے۔ اگر مقابل کا پلڑا برابر کا ہو تو گتھم گتھا ہو گئے اور اگر مقابل بھاری پڑنے لگے تو کپڑے جھاڑتے ہوئے منہ ہی منہ میں کچھ بڑ بڑا کر اپنی اسکوٹر اُٹھائے خاموشی سے نکل گئے۔

مغرب اور مشرق میں بڑا فرق ہے۔ مغرب میں سوٹ پہننا ایسا ہی عام ہے جیسے بکری کا گھاس کھانا۔ اگر ہر روز کے سوٹ پہننے سے کوئی اکتا جائے یا اس کے پاس سوٹ میسر ہی نہ ہو اور سیدھے سادھے شرٹ پتلونوں میں نکل پڑے تب بھی دیکھنے والے یہی سمجھتے ہیں کہ یہ روزانہ کا سوٹ پہننے والا آج سادہ نکلا ہے۔  جب کہ انڈیا پاکستان میں کوئی سوٹ پہن کر نکلے چاہے وہ روز ہی سوٹ پہننے والا کیوں نہ ہو،  گلی کا ہر فرد یہی تصور کرے گا کہ روزانہ کے دھوتی کرتا یا پاجامہ پہننے والے نے آج سوٹ پہن رکھا ہے۔ اس لئے بعض حضرات محلے والوں کو اس طرح کی بد گمانی سے بچانے کے لئے سوٹ پہننے کے مواقع نکالتے ہی رہتے ہیں۔ اس معاملے میں مصر،  شام اور ترکی والوں نے کافی ترقی کی ہے۔ وہ تو جلوسِ جنازہ میں بھی سوٹ پہن کر شرکت کرتے ہیں جسے دیکھ کر انگریز بھی عش عش کرتے ہوں گے۔  ان کی جدت پسندی کا یہ عالم ہے کہ جلوسِ جنازہ میں کالے رنگ کا سوٹ پہن کر شریک ہوتے ہیں اور دیگر موقعوں پر دوسرے رنگ کا تاکہ دیکھنے والوں کو یہ بد گمانی نہ ہو کہ ان کے پاس ایک عدد ہی سوٹ ہے۔  ہمارے ہاں اب تھوڑی تھوڑی لباس شناسی پیدا ہو رہی ہے۔ مشاعروں میں دو چار شاعر ان کے ” شادی کے جوڑے ” کا سوٹ پہن کر آنے لگے ہیں۔ جو شاعر نہیں ہیں انہوں نے بھی سوٹ سلوا لئے ہیں تاکہ مشاعروں یا کسی بھی قسم کے جلسوں میں کبھی مہمانِ خصوصی یا اناؤنسر کے طور پر مدعو کئے جائیں تو یہ ان کی قابلیت نظر بھی آئے۔ سالگرہ ہو کہ بسم اللہ،اِن پارٹیوں کے علاوہ اب روزہ رکھائی کی تقریب میں بھی لوگ سوٹ پہن کر آنے لگے ہیں تاکہ کوئی حسرت باقی نہ رہے۔

سوٹ کا سب سے بڑا فائدہ ہم کو قطاروں میں نظر آیا۔  چاہے سینما کا کاؤنٹر ہو کہ بس یا ریل کا۔ راشن کی دوکان ہو کہ شادی خانہ۔  اگر ان جگہوں پر ہر ایک کے لئے سوٹ لازم کر دیا جائے تو لوگ بیہودگی دیکھنے ترس جائیں۔  مجاہدین جوانوں سے قطاریں خالی ہو جائیں۔ اور ایسا لگے کہ انگریزوں کی روحیں گشت کر رہی ہیں۔ لوگ شرافت اور بردباری سے گھبرا کر ایک دوسرے سے درخواست کریں گے کہ بھائی ذرا ہمیں دھکا دے کر قطار میں ہم سے پہلے جانے کی کوشش کرو بڑی مہربانی ہو گی۔

دوسرا مہذبانہ انداز میں کہے گا ” معافی چاہتا ہوں میرے سوٹ کی استری خراب ہو جائے گی "۔

سینما کی قطاروں میں لوگ سوٹ سنبھالتے ہوئے اس طرح آگے بڑھیں گے جیسے لڑکیاں غرارے سنبھالتی ہیں۔ کسی کو دادا گیری کرتے ہوئے اچانک نمودار ہو کر قطار کی ایسی تیسی کر کے سیدھے کاؤنٹر پر ہاتھ بڑھاتے ہوئے د یکھنے کے لئے آنکھیں ترس جائیں گی۔  لوگ کھانے کی میزوں پر اس طرح آگے بڑھیں گے جیسے انگریز میت کے پیچھے چل رہا ہو۔ کتنا اچھا ہو گا کہ لوگ راشن کی دوکانوں اور پانی کے سرکاری نلوں پر بھی بجائے لنگی یا دھوتی کے سوٹ پہن کر آئیں۔  بھلے ہی وہ پرانا ہو چکا ہو۔ جس کی آستین تنگ ہو چکی ہو اور ہاضمے کے عروج کی نشانی کے طور پر پیٹ باہر نکل چکا ہو۔  پھر بھی سوٹ پہن کر آدمی اس طرح مہذبانہ قطار میں کھڑا ہو گا جیسے کوئی فزیوتھیراپی کا مریض پہلی بار بیساکھیوں کے بغیر چلنے کی مشق کر رہا ہو۔

مٹی کا گھڑا ٹوٹنے سے زیادہ سوٹ کی حفاظت کی فکر اور احتیاط انہیں اتنا تو مہذب اور مودب بنا دے گی کہ کمزور بوڑھے اور ضعیف بھی اپنی باری سے محروم نہیں رہیں گے۔  مسجدوں میں ہم نے دیکھا کہ ہمارے مصری اور سعودی بھائیوں کی دیکھا دیکھی کئی رفیق حضرات بھی دیر سے داخل ہو کر آگے کی صفوں پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہاتھوں میں چپل تھامے ہر ایک کی ناک کے پاس سے چپلوں کو گزارتے ہوئے پہلے سے بیٹھے ہوئے شریف مصلّیوں کے کندھے پھلانگتے ہوئے کسی نہ کسی طرح یہ اگلی صفوں میں جا گھستے ہیں۔ اگر کبھی یہی حضرات سوٹ میں ہوتے ہیں تو یہ حرکت نہیں کرتے۔  جہاں جگہ ملے وہیں کھڑے ہو جاتے ہیں اور اقامت کا انتظار کرتے ہیں۔ اگر مسجدوں میں بھی سوٹ لازمی کر دیا جائے تو مسجد کی حرمت کی خاطر نہ سہی، سوٹ کی عزت کی خاطر ہی سہی، یہ لوگ کندھے پھلانگ کر دوسرے مصلّیوں کو تکلیف پہنچانا تو بند کریں گے۔

سوٹ کا ایک اور فائدہ جو ہم نے محسوس کیا وہ یہ ہے کہ لباس شخصیت میں جذب ہونے کی بجائے شخصیت لباس میں جذب ہونے لگتی ہے اور آدمی انگریزی بولنے لگتا ہے۔  جس کو انگریزی نہیں بھی آتی ہے وہ کم سے کم

” او آئی سی ”

” او مائی گاڈ ”

” شٹ اپ ”

” بلڈی ایڈیٹ ” تو بولنے لگتا ہے۔

ایک صاحب نے جو چھینکنے کے بعد الحمد للہ آوازِ بلند اس طرح کہتے تھے جیسے مجمع کی تربیت کر رہے ہوں۔ ایک دن سوٹ پہن لیا اور بلکہ یہ کہنے میں مبالغہ نہیں ہو گا کہ سوٹ نے انہیں پہن لیا۔  اتفاق سے انہیں چھینک آئی تو فرمانے لگے Excuse Me۔  اس طرح سوٹ مولوی ملاؤں کی روش سے نکال کر ترقی یافتہ قوموں کی عادتوں سے نوازتا ہے جس سے انگریز بھی خوش ہوتے ہیں۔

سوٹ کے سیاسی فائدے تو بے شمار ہیں۔ جب سے ہم نے شیروانی چھوڑ کر سوٹ پہننا شروع کیا ہے اب ہمیں کوئی نہ قدامت پسند کہتا ہے نہ بنیاد پرست۔  اب تو ہم پورے سیکیولر لگتے ہیں۔ یہی فائدہ کیا کم ہے کہ سوٹ میں نہ آدمی کے مذہب کا پتہ چلتا ہے نہ کلچر کا۔۔  اب ہم سوٹ پہن کر جب بھی کرسمس یا نئے سال کی پارٹی میں جاتے ہیں نہ ہم سے کوئی جھجھکتا ہے نہ بدکتا ہے۔ کوئی ہمارے سامنے شراب پیتے ہوئے شرماتا ہے نہ ناچتے ہوئے گھبراتا ہے بلکہ کبھی کبھی تو کوئی منچلا پیشکش بھی کر دیتا ہے۔ اب ہم کیا کہیں کہ ہم مسلمان ہیں شراب نہیں پیتے۔  یہ کہہ کر دوسرے مسلمانوں کا امیج خراب کرنے سے بہتر ہم یہی کہنا مناسب سمجھتے ہیں کہ :

” شکریہ اب زیادہ ہو جائے گی ”

اس سے سوٹ کا بھی وقار بنا رہتا ہے اور ایسی پارٹیوں میں شرکت کا امکان بھی باقی رہتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

توپ کی شان

 

 

ہمارے نزدیک ثوب یعنی عربوں کا پسندیدہ سفید جُبّہ ایک انتہائی مہذّب لباس ہے یہ ثوب جا کر توپ کیسے ہو گیا یہ جاننے کے لئے لفظوں کے بگاڑ کی تاریخ پڑھنی پڑے گی۔ لفظوں کو بگاڑنے کے اس فن میں صرف حیدرآبادی ہی ماہر نہیں ہیں جنہوں نے اچّھی خاصی تقریب کو تخریب کر ڈالا بلکہ پاکستانی بھی شامل ہیں جو مقدّر کو مکدّر اور علامہ اقبال کو اک بال کر ڈالتے ہیں مصری جو یوں بھی بگاڑ کے ہر فن میں استادوں کے استاد ہیں انہوں نے بھی ج کو گ بنا ڈالا۔  طواف کے دوران جب یہ بآوازِ بلند اللہ گلِّ گلالہ پڑھتے ہیں تو ہمیں بڑا اچّھا لگتا ہے۔

اسی طرح سعودیوں نے ثوب کو توب اور غوترے کو گوترا کر ڈالا۔ پھر توب توپ کیسے ہو گئی اِس کی ہم نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ جب انڈین پاکستانی کُرتے پاجامے اور شلوار قمیص چھوڑ کر توب پہننے لگے تو بڑی توپ چیز نظر آنے لگے اس لئے جب سے اس کا نام توپ پڑ گیا۔

ہماری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ جب ہمارے یہ کالے دیسی بھائی امریکہ لندن جا کر ٹائی سوٹ پہننے لگتے ہیں تو کوئی انہیں کچھ نہیں کہتا لیکن ملکِ عرب آ کر توب پہننے لگتے ہیں تو دوسرے انہیں توپ بھری نظروں سے کیوں دیکھتے ہیں۔ حالانکہ توب پہن کر تو آدمی پکّا مسلمان نظر آنے لگتا ہے اور اِس بات سے بے نیاز ہو جاتا ہے کہ لوگ خود مسلمان کو کیا سمجھتے ہیں اسی لیے ہم توپ کو ایک شانِ بے نیازی والا لباس سمجھتے ہیں۔

توپ ایک انتہائی سادہ اور آرام دہ لباس ہے جدید اور آزاد شاعری کی طرح سہل پسندوں کے لئے تو یہ ایک نعمتِ غیر مترقبہ ہے کیونکہ یہ وہ واحد لباس ہے جسے پہننے کے لئے نہ کمر کی ضرورت ہے نہ ناڑے کی اور نہ بیلٹ کی۔ اندر ایک عدد Elastic کی چڈّی سے کام چل جاتا ہے احتیاطاً پاجامہ پہن لیں تو تھوڑی سی زحمت ضرور ہوتی ہے لیکن اس سے توپ کی شان بڑھ جاتی ہے۔

توپ اپنے نام کے برخلاف ایک انتہائی امن پسند لباس ہے۔

اِسے پہن کر توپ یا بندوق تو کیا ایک پستول بھی نہیں چلائی جا سکتی کیونکہ گولی چلاتے ہوے کچھ بھاگنے اور پھلانگنے کی بھی ضرورت پیش آتی ہے مگر بھاگنے کے لئے توپ کو گھٹنوں تک اُٹھانا لازمی ہے ورنہ آدمی منہ کے بل گِر پڑتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے انسان کے دو ہی ہاتھ ہوتے ہیں جن سے یا تو وہ بندوق اُٹھا سکتا ہے یا توپ۔ ہم نے اُن مسکینوں کو جنہیں” یا رفیق”کہہ کر بلایا جاتا ہے، روس جیسی عظیم طاقت کے سامنے معمولی شلوار قمیصوں میں صرف بندوقیں ہی نہیں بلکہ ٹینک اور میزائیل چلاتے ہوئے شکستِ فاش دیتے ہوئے دیکھا لیکن کسی توپ والے کو کبھی بندوق تو درکنار ڈنڈا اٹھاتے بھی نہیں دیکھا۔

البتہ ایسے دلچسپ مناظر ضرور دیکھے کہ اہلِ توپ غیض و غضب میں پِل پِل کر ایک دوسرے پر جاتے ہیں جیسے اب قتل ہی کر ڈالیں گے لیکن قریب جا کر پلٹ آتے ہیں کبھی غصّہ ایک آدھ ڈگری زیادہ بڑھ جائے تو ایک ہاتھ سے گوترا نکال کر لہرانا شروع کرتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے فوری توپ گھٹنوں تک اُٹھا لیتے ہیں۔ مخالف کا گلا پکڑنے یا مُکّہ مارنے کے لئے چونکہ تیسرا ہاتھ ہوتا نہیں اس لیئے پلٹ آتے ہیں، ۔ اس طرح توپ لڑائی سے روک دیتی ہے کیونکہ یہ ایک امن وسلامتی کا علمبردار لباس ہے۔

اس کی ایک امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اِسے پہننا نہیں پڑتا ! گردن میں ڈالتے ہی کاندھوں پر سے کسی حسینہ کی پتلی کمر کیطرح بل کھاتی ہوئی ٹخنوں تک قومی پرچم کی طرح لہرانے لگتی ہے۔ لباس کو ہونا بھی ایسا ہی چاہیے کہ اِسے پہننے کا عمل تکلیف دہ نہ ہوورنہ مثال کے طور پر ٹائی سوٹ کو ہی لے لیجیے۔  جتنی دیر میں ایک ٹائی باندھی جا سکتی ہے اُتنی دیر میں توپ دس بار پہن کر اُتاری جا سکتی ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ اُتار کر پہنی جا سکتی ہے۔ ٹائی باندھنا یوں بھی آسان کام نہیں ہے اِسی لیے فوٹواسٹوڈیو والے ہمیشہ ٹائی کی گانٹھ تیار رکھتے ہیں تاکہ آپ کم از کم پاسپورٹ سائز کی فوٹو میں تو تعلیم یافتہ نظر آئیں۔

ہم نے اکثر شادی کے دولہوں کو اپنی ہی تقریب میں صرف اِس لیے تاخیر سے آتے دیکھا کہ عین وقت پر کوئی ٹائی باندھنے والا دستیاب نہ تھا۔ سوٹ تو اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ لباس ہے جہیز میں ملا ہوا سوٹ آپ شادی کی پہلی سالگرہ پر نہیں پہن سکتے کیونکہ جب تک آپ کا پیٹ دو چار اِنچ آگے نکل آتا ہے اور سوٹ تنگ ہو جاتا ہے جب کہ توپ ایسا لباس ہے کہ آپ اِسے برسہابرس تک بلکہ غسّال کے حوالے ہونے تک پہن سکتے ہیں۔

توپ کا ایک اور اہم فائدہ یہ ہے کہ کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ آپ کے پاس ایک ہی توپ ہے یا کئی۔ جب کہ شرٹ پتلون پہننے والوں کے بارے میں محلّے اور آفس کے ہر آدمی کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپ کے پاس کتنے شرٹ پتلون ہیں۔ ایک ہی شرٹ آپ بار بار پہننے لگیں تو لوگ اِسے کسی فیکٹری کا یونیفارم سمجھنے لگتے ہیں۔

ایک ہی ٹائی آپ دو چار بار مسلسل پہنئے تو لوگ آپ پر لیموزین ڈرائیور یا سیلزمین ہونے کا گمان کرنے لگتے ہیں جب کہ توپ ایسا لباس ہے کہ آپ ہزار بار پہنیے یہ” ایک ہو کر بھی کئی ہے اور کئی ہو کر بھی ایک”

اس طرح یہ غریب اور امیر کے فرق کو مِٹا دیتی ہے۔  غالباً محمود اور ایاز بھی توپ ہی پہنتے تھے اسی لیے علامہ اقبال نے فرمایا کہ :

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نہ کو ئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

توپ نہ صرف یہ کہ ہر عیب کو ڈھانک دیتی ہے بلکہ درزی کی غلطیاں بھی توپ کو کوئی نہ کوئی شانِ امتیازی عطا کرجاتی ہیں۔ اگر ڈھیلی ہو جائے تو آپ اِس میں مصر کے اصلی سعیدی نظر آتے ہیں۔ تنگ ہو جائے تو دوبئی کے ارباب۔ لانبی ہو جائے تو کویتی شیخ اور اونچی ہو جائے تو سعودی مُتوّے بلکہ اسمیں آپ کو امر بالمعروف ڈپارٹمنٹ کے متوّے سمجھ کر لوگ مجبوراً آپ کا احترام بھی کرنے لگتے ہیں۔

توپ اور تسبیح کے درمیان بڑا معتبر رشتہ ہے۔

اس سے زبان ذکر و شکر اور استغفار سے تر رہتی ہے۔ وہ اس طرح سے کہ سامنے کوئی کافر حسینہ آتی نظر آئے تو آدمی خالق کی حسنِ صنّاعی پر فوری "سبحان اللہ سبحان اللہ "کا وِرد کرنے لگتا ہے اور اگر پیچھے سے اُس کا شوہر بھی نکل آئے تو فوری "استغفراللہ استغفراللہ” کے دانے پڑھنے لگتا ہے۔ اس طرح ہمارا خیال ہے کہ توپ انسان میں ذوقِ نظارہ پیدا کرتی ہے۔

توپ کا سب سے بڑا فائدہ اگر کوئی ہم سے پوچھے تو ہم یہ کہیں گے توپ میں عمر چُھپ جاتی ہے۔ہم نے ساٹھ ساٹھ سال کے بوڑھوں کو بھی دیکھا جن کے گوترے میں نہ بالوں کی سفیدی کا پتہ چلتا ہے نہ چمکتی تالو کا۔ اس لیے حسینائیں ان کو شریعت کی دی گئی چار اجازتوں کا فائدہ اُٹھانے میں آگے بڑھ کر مدد کرتی ہیں اور ایک طرف ہم ہیں کہ ہم نے کئی فنکشنوں میں بہترین سوٹ، شیروانی اور کبھی رنگین ٹی شرٹ پہن کر فیشن پریڈ کی کسی نے ہمیں گھاس بھی نہیں ڈالی۔ اور ہم ” دل کے ارماں آنسووں میں بہہ گئے” گنگناتے رہ گئے۔

اس سے یہ پتہ چلا کہ توپ نہ صرف عمر چُھپاتی ہے بلکہ ہر عمر میں مردانگی کا اعتبار پیدا کرتی ہے۔

اب آیئے ہم آپ کو توپ سے ہماری محبّت کی اصلی وجہ بتائیں۔

یہ نماز میں ہمارے لیے خشوع و خضوع کا بہترین ذریعہ ہے۔ اِس سے ہمیں خشیّتِ خداوندی حاصل ہوتی ہے۔ وہ اس طرح سے کہ اگر ہمارے آگے کی صف میں ہمارے ٹھیک آگے کوئی توپ آ جائے تو ہم پر ایک عجیب سی رِقّت طاری ہونے لگتی ہے۔جیسے ہی سامنے والے صاحب رکوع میں جھکتے ہیں ان کی توپ پچھلی صف جسمیں ہم کھڑے ہیں ہمارے سامنے لہراتے ہوے پوری آدھی صف کو گھیرے میں لے لیتی ہے۔ ان کی توپ میں گردن اٹک جانے کے خوف سے ہم قیام کو طویل کر ڈالتے ہیں تاکہ موصوف جب رکوع سے فارغ ہو جائیں تو ہم رکوع کریں۔ یوں تو نمازوں میں ہم عام طور پر قُل کے سورتوں سے کام چلاتے ہیں لیکن اگر ٹھیک سامنے کوئی توپ آ جائے تو ہم ان کے اور اپنے رکوع کے timing اڈجسٹ کرنے کے لیے سورہ یٰسین جیسے کسی بڑے سورے کا انتخاب کرتے ہیں تاکہ جیسے ہی موصوف رکوع ختم کریں وہیں ہم اپنا ضمِّ سورہ ختم کریں اور رکوع میں جائیں۔

کبھی ہماری اپنی غفلت سے ایسا ہو بھی جاتا ہے کہ ہم سجدے میں ہوتے ہیں اور سامنے والے صاحب ٹھیک اُسی وقت رکوع میں تشریف لے جاتے ہیں۔ اُنکی توپ ہمیں سر اور گردن سمیت آدھی پیٹھ تک ڈھانک لیتی ہے۔ ہمیں ایک جُھرجُھری سی آنے لگتی ہے لرزہ سا طاری ہو جاتا ہے۔ ہمیں عذابِ قبر کا وہ سانپ یاد آنے لگتا ہے جو بے نمازی کو اِس زور سے مارے گا کہ بے نمازی ستّر گز گہرا زمین میں دھنس جائے گا۔

ہمارے حلق میں سانس رُکنے لگتی ہے اور ہم اپنے تمام اگلے پچھلے گناہوں کو یاد کرتے ہوے پوری رقّت و خشیّت کے ساتھ سجدہ طویل سے طویل کر ڈالتے ہیں۔ یوں تو ہم سجدوں میں تین یا پانچ بار ہی تسبیح پڑھتے ہیں لیکن جب کسی توپ کے نیچے آتے ہیں تو تیس چالیس پچاس ہمیں بالکل یاد نہیں رہتا کہ ہم نے کتنی بار پڑھی ہے بس پڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ جب تک توپ کا سایہ سر پر رہتا ہے ہمارا سر سجدے میں رہتا ہے۔

ہمیں ان لوگوں کا انجام یاد آنے لگتا ہے جو ایسے نازک وقت میں صبر اور حوصلے سے کام نہیں لیتے۔  سجدے سے جونہی گردن اُٹھاتے ہیں سر توپ میں اور ٹوپی گود میں۔ یہ تو اچّھا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی تیسری آنکھ تالو میں نہیں جڑ دی ورنہ فقہاء کے درمیان ایک اور کبھی نہ ختم ہونے والی بحث چھِڑ جاتی کہ ایسی صورت میں دوبارہ وضو کرنا لازمی ہے یا تیمم سے کام چل سکتا ہے۔

توپ پہن کر آدمی قاعدے سے بیٹھنا سیکھتا ہے کیونکہ توپ میں صرف قعدہ ہی قاعدے سے ہو سکتا ہے۔ جس طرح آدمی شلوار قمیص یا شرٹ پتلون میں جسطرح چاہے بیٹھ سکتا ہے کہ کبھی ایک گھٹنہ کھڑا کر لیا دوسرا لِٹا لیا کبھی دیوار سے ٹیک لگا کر دونوں گُھٹنے کھڑا کر لیے یہ ساری کرتب بازی آپ توپ میں نہیں کر سکتے جہاں آپ نے اس طرح کی کوئی کوشش کی وہاں سامنے والے کو کسی بہانے کسی دوسری طرف نظر پلٹا لینے پر مجبور ہو جانا پڑتا ہے۔ اس طرح توپ اخلاق سے بیٹھنا سکھاتی ہے۔اخلاق سے بیٹھنا ہی نہیں اخلاق سے کھڑا ہونا بھی سکھاتی ہے اسی لئے سعودی عرب میں ہندوستان کی طرح سڑکوں پر کہیں پبلک ٹوئیلٹ نہیں بنائے جا سکتے۔

توپ کے اور بے شمار فائدے ہیں لیکن اتنے بھی کسی کو حاصل ہو جائیں تو شخصیت میں چار چاند لگ سکتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہر توپ کو اپنی امان میں رکھے آمین۔     ٭٭٭

 

 

 

 

دکنی زبان کی شان

 

 

 

یہ مانا کہ آج نہ وہ حیدرآبادی تہذیب و ثقافت باقی رہی نہ وہ جامعہ عثمانیہ اور نہ وہ دائرة المعارف جہاں سے علم و ادب کے ایسے دریا رواں ہوئے کہ رہتی دنیا تک تشنگانِ اردو سیراب ہوتے رہیں گے۔

اِس کے باوجود دکن کی فضاؤں میں اردو اپنی بول چال کے ذریعے اپنے صدیوں پُرانے مخصوص لب و لہجے کے ساتھ نہ صرف بغیر کسی ملاوٹ کے زندہ ہے بلکہ تابندہ ہے۔ جب کہ لکھنؤ اور دہلی کے باشندے جنہیں کبھی اپنی زبان پر ناز تھا آج سنسکرت اور ہندی کی ملاوٹ کی وجہ سے فکری قبض اور تہذیبی بدہضمی کا شکار ہو چکے ہیں۔ شائد اسی لیئے اہلِ دکن دنیا میں جہاں بھی جاتے ہیں اپنے لب و لہجے کی بِنا آسانی سے پہچانے جاتے ہیں۔

مختصر ترین الفاظ میں بڑے سے بڑے واقعہ کو بیان کر دینا یہ صرف حیدرآبادیوں کا کمال ہے۔مثال کے طور پر جہاں ایک لکھنؤی کو کسی کار ایکسیڈنٹ کو بیان کرنے کے لیئے کئی جملے درکار ہوں گے وہاں ایک دکنی یوں کہے گا کہ :

"گاڑی بیگن میں مِل گئی "۔

اِس میں گاڑی کا اُلٹنا پُلٹنا شیشوں کا ٹوٹنا اور دروازوں کا چَپکنا وغیرہ سب کچھ شامل ہے ساری تفصیلات بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔

حیدرآبادی گالیاں بھی اِتنی مختصر اور مہذّب ہوتی ہیں کہ نہ دوسروں کی طرح زبان آلودہ ہوتی ہے نہ وضو کو کوئی خطرہ ہوتا ہے جیسے

” نِکل گیا کیا؟”

یا "گُڑ ہے کیا”

موسم کی خبریں آپ نے بہت سُنی ہوں گی لیکن مختصر ترین الفاظ میں بارش کی تباہ کاریوں کا منظر جو ایک حیدرآبادی بیان کر سکتا ہے اُس کے لیے دوسروں کو کئی پیراگراف درکار ہوتے ہیں جیسے

” وہ بّارش وہ بّارش وہ بّارش ٹرافکِ سترول،  روڈ پہ ایسے بڑے بڑے پوکّے، سائن بورڈ چندیاں، جگہ جگہ کُنٹے،  پوری برات پِنڈے میں مل گئی "۔

یہ ایسے محاورے ہیں جو کئی کئی تھکا دینے والے جملوں کا نہ صرف نعم البدل ہوتے ہیں بلکہ میوزک کے ساتھ بھرپور تصویر کشی بھی کرتے ہیں جیسے

"بھڑ بول کے دیا،

دھڑ بول کے گِرا،

زپّ بول کے اُٹھا،

گِرررررر بول کے بھاگا”۔

ایک Kidney specialistگردے کے ایک مریض کا x-ray دیکھ کر کہنے لگے :

"پھتری انی پہ ہے۔ پانی خوب دبا کے پیتے رہو بُڑُق بول کے خودیچ گرتی "۔

یہ بُڑُق تو خیر ہم سمجھ گئے لیکن یہ دبا کے پینا کیا ہے یہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ ہم نے کئی بار دبا کے سوچاکہ حیدرآباد میں ہر فعل دبا کے کیوں ہوتا ہے اس کی تحقیق کی ضرورت ہے جیسے دبا کے بھوک لگ رہی تھی،  دبا کے کھایا،  دبا کے پیا،  دبا کے رائٹ لیا، دبا کے 120 کی speed سے نکلا پھر left کو دبایا۔

دکنی زبان کی چاشنی کو مردوں سے زیادہ عورتوں نے بڑھایا ہے۔

اُجاڑ مٹّھی پڑو،

جو ہے سو،

اللہ آپ کو نیکی دے،

پیٹ ٹھنڈا رہو وغیرہ جیسے تکیہ کلام سالن میں کھٹّے کی طرح ہر جملے میں شامل رہتے ہیں۔

جب خواتین اپنی ساس یا نندوں بھاوجوں کے بارے میں کنایتاً محاورے داغتی ہیں وہ بہت دلچسپ ہوتے ہیں جیسے

ندیدی کو ملی ساڑی تو حمام میں جا کے ناپی،

چیل کا کھانا کم چِلّانا زیادہ،

کام نئیں سو کُکڑی کاجل پکڑی،

پیٹ میں پڑا دانا دھیڑ پڑا اُتانا،

دو پیسے کی ہنڈی گئی کُتیا کی ذات پہچانی گئی وغیرہ۔

اَنہی کے بارے میں غالباً غالب نے کہا تھا کہ

اتنے شیریں ہیں اُس کے لب کہ رقیب

گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

مردوں کے تکیے کلام بھی عورتوں سے کچھ کم نہیں ہوتے جیسے

"میں بولا ایں۔۔۔اے لّگا

میں بولا اری اس کی

حیدرآبادیوں کو نہ جانے کیوں سالوں سے اتنی چِڑ ہوتی ہے کہ ہر گالی کے لئے وہ سالے کا شارٹ فارم "سلا” استعمال کرتے ہیں

"سلا اپنے آپ کو کیا سمجھ را؟”

"سلا ہر چیز مہنگی ہو گئی

"سلا صبح سے موسم خراب ہے ”

حتّی کہ اگر اپنے آپ کو بھی کوسنا ہو تو سالے یا سالی کو درمیان میں گھسیٹ لاتے ہیں جیسے

” سلی اپنی بیاڈ لک خراب ہے”۔

دوسری طرف کسی کی تعریف بھی کریں گے تو وہاں بھی سالے یا سالی کو درمیان میں کھینچ لائیں گے جیسے

سلا کیا کھیلا

سلی کیا اسمارٹ ہے یارو۔

ایسا نہیں ہے کہ حیدرآبادیوں کو سالوں سے دشمنی ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ شادی کے بعد وہ جو سب سے پہلا کام کرتے ہیں وہ یہ کہ بیوی کو بلانے کے بعد سالے کے ویزا کے لیئے کفیلوں کے چکّر لگانا شروع کرتے ہیں اگر سعودی عرب یا دوبئی وغیرہ سے سالوں کو خروج لگا دیا جائے تو پورے خلیج سے آدھے حیدرآبادی نکل جائیں گے۔

اکثر غیر حیدرآبادی تمسخرانہ طور پر دعوی کرتے ہیں کہ حیدرآبادیوں کے ساتھ رہ کر وہ حیدرآبادی اچّھی طرح سمجھنے لگے ہیں لیکن جب اُن سے اِن جملوں کے معنے پوچھے جائیں تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں جیسے "پوٹّا بوڑی میں بنڈے بھِرکایا”

"وستاد نقشہ فِٹ کر دیئے”

” تنبّی موچو ”

گھایاں نکّو،

غچّپ رھو۔

ہمارا خیال ہے کہ یہ لوگ خوبانی کے میٹھے کو جب تک "خُربانی ” کا میٹھا کہہ کر نہیں کھائیں گے حیدرآبادی زبان کی مِٹھاس ان کو نہیں آ سکتی۔

کئیکو نکّو ہو جیسے الفاظ پر غیر حیدرآبادی اکثر یہ طعنہ زنی کرتے ہیں کہ اہلِ دکن نے اردو کو بگاڑ دیا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔اردو حیدرآباد کی لاڈلی ہے محبت اور لاڑ میں عمران کو عِمّو اور اظہر کو اجّو کہنے کا حق صرف گھر والوں کا ہوتا ہے۔ ہجرت کر کے پاکستان امریکہ یا یورپ جانے والوں کا سامنا جب مختلف زبانوں کے لوگوں سے ہوا تو وہ تکلّفاً خالص کتابی زبان بولنے پر مجبور ہو گئے۔ اس لئے ان کی زبان میں تکلّف اور تصنّعartificiality ملے گی۔

لیکن اہلِ حیدرآباد کے لئے اردو ان کی لاڈلی بیٹی ہے۔ حیدرآباد اردو کا اپنا گھر ہے اس لیئے یہاں بے ساختگی اور بے تکلّفی ملے گی۔ ہمارے خیال میں جو لوگ حیدرآبادیوں کو زبان اسلوب اور لہجہ بدلنے کی ترغیب دیتے ہیں وہ اُس دُم کٹی لومڑی کی طرح ہیں جس کی ایک بار دُم کٹ گئی تھی تو وہ شرمندگی مٹانے کے لئے دوسری لومڑیوں کو بھی دُم کٹا لینے کی ترغیب دینے لگی۔

اب آئیے حیدرآبادی” پرسوں” پر بھی کچھ گفتگو ہو جائے۔جس طرح قرآن جنّتیوں کے بارے میں کہتا ہے کہ ان کو دنیا میں گزری ہوئی زندگی ایک دن یا اس سے بھی کم کی لگے گی اسی طرح حیدرآبادیوں کے لیئے بھی مہینے سال بلکہ صدیاں بھی سِمٹ کر پرسوں میں سما جاتے ہیں۔ تاریخ مہینہ اور عیسوی انہیں یاد نہیں رہتے اس لئے پرسوں سے کام چلا لیتے ہیں۔ جیسے

"پرسوں انڈیا آزاد ہوا”۔

"پرسوں کویت پر قبضہ ہوا تھا”۔

کئی لوگ ترجمہ در ترجمہ کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ جیسے

بے فضول کا جھگڑا یعنی بہت ہی فضول جھگڑا،

لکس سوپ کا صابن،

آب زم زم کا پانی،

سنگِ مر مر کا پتھر،

شبِ برات کی رات۔

بعض لوگ انگلش مکس کے ذریعے بیان کو سوپر لیٹیو کر دیتے ہیں۔ جیسے

” کیا سالِڈ بَریانی تھی باس فُل دبا کے تڑی دیا”۔

"سالڈ نیند آرہی تھی دو گھنٹے فُل سو کے اُٹھا”۔

ہندوستان اور پاکستان کے بیچ دو مسئلے ایسے ہیں جن کا حل ہونا مشکل ہے ایک ہے کشمیر کا مسئلہ اور دوسرا حرف ق کی ادائے گی کا مسئلہ۔

حیدرآبادی ق کو خ سے ادا کرتے ہیں اور پاکستانی ک سے۔ بیٹی کی شادی کی تقریب حیدرآبادیوں کے لئے تخریب ہے اور پاکستانیوں کے لئے تکریب۔

دکنی زبان کی مقبولیت میں شعر و ادب کا اہم رول رہا ہے اگرچہ کہ نثر میں کسی نے طبع آزمائی نہیں کی۔ واجدہ تبسم جیسے کچھ نثرنگار آگے آئے لیکن منٹو کے راستے پر چل کر فحش نگاری اور پھکّڑ پن کا شکار ہو گئے۔ جہاں تک دکنی شاعری کا تعلق ہے اس نے اردو کو ایک زندہ جاوید شاعری بخشی جس کا ثبوت عالمی مشاعروں سے ملتا ہے۔ اندرونِ ہند ہو کہ کوئی انٹرنیشنل مشاعرہ جب تک نئیں بولے تو سنتے نئیں جیسے ضرب الامثال دینے والے دکنی شاعر نہ ہوں مشاعرہ کامیاب نہیں ہوتا۔

سلیمان خطیب،  غوث خوامخواہ،  گِلّی،  صائب میاں،  سرور ڈنڈا،  اعجاز حسین کھٹّا،  حمایت اللہ،  مصطفٰے علی بیگ وغیرہ نے دکنی زبان کی سنجیدہ اور مزاحیہ شاعری کو ساری دنیا میں پھیلایا بلکہ اردو ادب کا ناقابلِ فراموش باب بنا دیا۔  اِس میں ڈاکٹر مصطفےٰ کمال ایڈیٹر” شگوفہ” کی عظیم خدمات بھی نا قابلِ فراموش ہیں جنہوں 42 سالوں سے مسلسل پرچہ نکالتے ہوئے اردو طنز و مزاح کی تاریخ رقم کی ہے۔

آخر میں آیئے دکنی لب و لہجے اور محاوروں سے بھرپور،  فنّی اعتبار سے کامل اردو ادب کی وہ شاہکار نظمیں جو سلیمان خطیب کے کلام میں ملتی ہیں ملاحظہ فرمایئے جو بظاہر مزاحیہ ہیں لیکن اُن بے شمار تلخ سچّایئوں کو بے نقاب کرتی ہیں جو بد قسمتی سے ایک مسلم معاشرے کا بھی حصّہ بن چکی ہیں۔

مثال کے طور پر ساس اور بہو کی روایتی رقابت جو ہندوستان اور پاکستان میں مشترکہ طور پر ہر ہر جگہ موجود ہے دکنی لب و لہجے میں اُس کی ایک تصویر دیکھیئے۔

ساس بہو سے کہتی ہے :

 

تیری عادت ہے ہات مارِنگی

باتاں باتاں میں بات مارِنگی

امّاں جیسی ہے ویسی بیٹی ہے

پاواں پکڑے تو لات مارِنگی

ہمیں چپ کیچ پاواں دھوتے ہیں

بچّے سانپوں کے سانپ ہوتے ہیں

تیرے لوگاں جو گھر کو آتے ہیں

کس کے باوا کا کھانا کھاتے ہیں

جھاڑو کاں کے اُجاڑ کنگالاں

میرے بچّے کو سب ڈباتے ہیں

نرم لوگاں کو سب لگڑتے ہیں

مٹّھے بیراں میں کیڑے پڑتے ہیں

منجے خنجر کی کاٹ بولی نا

منجے کِڑ کھئی سو ناٹ بولی نا

دِق کے مردوں کی کھاٹ بولی نا

گُھڑ پو پھیکے سو ٹاٹ بولی نا

منجے چپکیا سو چمبو بولی نا

منجے تڑخیا سو بمبو بولی نا

منجے دنیا کی کُٹنی سمجھی گے

لال مرچیاں کی بکنی سمجھی گے

منجے دمّہ کی دُھکنی سمجھی گے

منجے پُھٹّی سو پُھکنی سمجھی گے

مرد آنے دے پیٹھ پھوڑوں گی

تیری تربت بنا کے چھوڑوں گی

کِتّے جاتے ہیں تو بھی جانا گے

آ کے قئے دس تجھے لِجانا گے

پورے پیراں کے ہات جوڑوں گی

مِٹّھے گھوڑے بنا کو چھوڑوں گی

میرے دل کو سکون مل جیئں گا

سُکّی ڈالی پو پھول کھل جئیں گا

 

اب بہو کا جواب ملاحظہ فرمایئے:

 

باتیں کرتی ہو کِس طرح امّی

بات ہیرا ہے بات موتی ہے

بات ہر بات کو نہیں کہتے

بات مشکل سے بات ہوتی ہے

بات سینے کا داغ ہوتی ہے

بات پھولوں کا باغ ہوتی ہے

بات خیرو ثواب ہوتی ہے

بات قہر و عذاب ہوتی ہے

بات برگِ گلاب ہوتی ہے

بات تیغِ عتاب ہوتی ہے

بات کہتے ہیں ربّ اَرِنی کو

بات اُمّ الکتاب ہوتی ہے

یہ نہ بھولو کہ تم بھی بیٹی ہو

بیٹی ہر گھر کی اک امانت ہے

اِک کی بیٹی جو گھر کو آتی ہے

اپنی بیٹی بھی گھر سے جاتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

غزل اور پاپ گانے والوں سے التماس

 

 

 

اچھا ہوا ہم کوئی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نہیں ورنہ سارے کلاسیکل گانے والوں کو بند کر دیتے اور اُسوقت تک بند رکھتے جب تک کے وہ حلف نامہ داخل نہ کریں کہ آئندہ وہ کبھی غزل کو ہاتھ نہیں لگائیں گے۔

اگر مصرعہ اچھا لگے تو ہم اِدھر دوسرا مصرعہ سننے بے تاب ہوتے رہتے ہیں اور وہ کم بخت پہلے مصرعے کی ٹانگ ہی نہیں چھوڑتے۔اکھاڑے میں جسطرح ایک طاقتور پہلوان اپنی دھاک بٹھانے کمزور پہلوان کو لِڑا  لِڑا کر اُس وقت تک مارتا رہتا ہے جب تک وہ کمزور ادھ مرا نہ ہو جائے یہ ظالم بھی اُسی طرح ایک ہی مصرعے سے مسلسل کُشتی کرتے رہتے ہیں اور ہم ادھ مرے ہوتے جاتے ہیں۔جونہی ایک سُر ختم ہوتا ہے ہم کو امید بندھ جاتی ہے کہ اب دوسرا مصرعہ سنادیں گے وہ دوسرے سُر میں شروع ہو جاتے ہیں۔  یہی نہیں بلکہ بیچ بیچ میں آآآآآ اور اوں ں ں ں ں ں کی ایسی لمبی لمبی اونچی نیچی پتلی اور موٹی آوازوں میں مصرعے کو نچاتے ہیں کہ مصرعہ بھی اُنکے پاوں پکڑنے لگتا ہے۔ کبھی ایسے لگتا ہے ان کے گلے میں کچھ اٹک گیاہے اور کبھی لگتا ہے سردی کی وجہ سے ان کی آواز ٹھٹھر گئی ہے۔ کبھی ناک سے کبھی نیچے کے جبڑے سے کبھی اوپر کے جبڑے سے ایک ہی مصرعے کی مسلسل جگالی کر کے ہمیں آخرکار گالی دینے پر مجبور کر ڈالتے ہیں۔

ابھی پچھلے ہفتے ہمیں ایک غزل کی محفل میں بادل ناخواستہ جانا پڑا۔  ہم حتی الامکان ان محفلوں سے دور رہتے ہیں۔ کیونکہ عام طور پر یہ حضرات برسہابرس پرانی غزلیں جیسے "رنجش ہی سہی ” یا "او ستمگر ترا مسکرانا” جنہیں شریف اسلم صاحب کی شادی میں سناچکے تھے وہی اِن کے بیٹے کے ولیمے میں بھی سناتے ہیں۔ دوسروں کی گائی ہوی غزلوں کو گانا ایسا ہی ہے جیسے کسی کے اُتارے ہوئے کپڑے پہن کر شان دکھانا۔

مگر اِس بار ہندوستان سے دو کلاسیکل گانے والے استاد خان برادران آئے ہوے تھے۔ ہم کو برادری کی خاطر جانا پڑا کیونکہ ہم بھی تو آخر خان ہیں۔ وہ اپنے بھانجوں اور بھتیجوں کے ساتھ تشریف لائے تھے۔  پہلے تو بھانجوں اور بھتیجوں نے محمد رفیع مرحوم کی گائی ہوئی غزلیں پیش کیں اور محمد رفیع نے تال اور سُر کی جتنی غلطیاں کی تھیں ان کی اصلاح کر کے پیش کیا۔ پھر اُستاد صاحبان شروع ہوئے۔ انہوں نے غزل نہیں چھیڑی بلکہ ایک نازک اندام حسین غزل کو سرِعام کئی راگوں کو ساتھ لے کر چھیڑنا شروع کیا۔اور ہماری آنکھوں کے سامنے غزل کا وہی حشر ہوا جو کسی رضیہ کے بارے میں سنا تھا۔ غزل فارسی میں ہرنی کی خوف میں ڈوبی ہوئی اُس کانپتی آواز کو کہتے ہیں جو وہ شکاری جانوروں کے بیچ گھِر جانے پر نکالتی ہے۔ یہاں غزل کے مصرعے بھی خطرناک راگوں کے بیچ گھِر کر لرز رہے تھے اور کبھی گڑگڑا رہے تھے۔ ادھر چھوٹے بھائی دوسرے مصرعے کی طرف بڑھنے لگتے کہ فوری بڑے بھائی آآآآ کی ڈانٹ پلا کر پھر پہلے مصرعے پر کھینچ لاتے۔ دونوں بھائیوں کی اس دھیں گا مشتی میں ہم کبھی پہلا مصرعہ بھول جاتے اور کبھی دوسرا۔ ادھر بڑے خانصاحب جب شعر مکمل کرتے تو مسکراتے اور فاتحانہ انداز میں آداب بجا لاتے جیسے کہ شعر بھی انہی نے لکھا ہو۔ ہم جونہی تالیاں بجا کر اب اگلے شعر کی طرف بڑھنے کی خواہش کرتے وہ ہماری داد کو طلبِ مکرر سمجھ کر پھر اُسی مصرعے پر لوٹ جاتے۔ہم غزل کے چاہنے والے ہیں۔ جگجیت سنگھ اور منی بیگم ہمیں اسی لئے پسند ہیں کہ وہ ایک امانت کیطرح غزل کو سامعین تک پہنچاتے ہیں ورنہ جتنے خان ہیں جیسے غلام علی خان، مہدی حسن خان وغیرہ وہ اپنی عادت سے مجبور ہیں۔ مصرعہ تو مصرعہ و ہ لفظوں کو بھی نہیں چھوڑتے۔ بعض اوقات ایک لفظ سے دشمنی پکڑ لیتے ہیں۔ جب تک وہ لفظ آ کر معافی نہ مانگے اُسے نہیں چھوڑتے۔ کلی کو اتنا کھینچتے ہیں کہ وہ پھول بن جاتا ہے اور پتھر کو اتنے راگوں میں کھینچتے ہیں کہ وہ چٹان بن جاتا ہے۔

خان صاحبان نے بھی "یہ نہ تھی ہماری قسمت ” چھیڑی۔

چونکہ غالب بھی خان تھے اور یہ بھی خان ہیں اس لئے ہمیں اعتراض نہیں ہوا۔ برادری والے ایک دوسرے کے مال کو جیسے چاہے استعمال کرنے کا حق تو رکھتے ہیں لیکن جب ان لوگوں نے "یہ نہ تھی۔۔یہ نہ تھی”،  کی رٹ لگانی شروع کی تو ہم نے زِچ ہو کر کاتب تقدیر سے درخواست کرنی چاہی کہ پلیز مان لیں اور ان کی قسمت پلٹ دیں ورنہ یہ ساری رات یہ نہ تھی یہ نہ تھی کرتے رہیں گے۔ قسمت پلٹی یا نہیں پتہ نہیں لیکن ہم تنگ آ کر گھر کی طرف پلٹے۔

غزل گانے والوں کی سب سے اونچی ذات کلاسیکل گانے والوں کی سمجھی جاتی ہے۔ انہیں غزل سے کوئی مطلب نہیں ہوتا بس سُروں کو پیش کرنے کے لئے صرف ایسے مصرعوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے راگ میں فٹ ہو سکیں۔ ۔  پتہ نہیں غزل کیسے ان کے ہتھے چڑھ گئی۔ اس نازک جان غزل کو جب یہ راگ ملہار اور راگ پہاڑی پر چڑھاتے ہیں تو سننے والوں کو بھی بے دم کر ڈالتے ہیں۔  ایک مصرعہ پکڑ لیتے ہیں تو اسی پر ٹوٹی ہوئی گراموفون کی سوئی کی طرح اٹکے رہتے ہیں۔  اس لئے ہمارا خیال ہے کہ کلاسیکی فنکاروں کو غزل کی نہیں بلکہ اچھے موزوں جملوں کی ضرورت ہوتی ہے جوکسی بھی اخبار یا رسالے سے مل سکتے ہیں۔  اگر یہ حضرات کالم پڑھ کر گایا کریں تو زیادہ بہتر ہوتا۔ بعض کالم تو شعری شگفتگی سے بھر پور ہوتے ہیں لگتا ہے جیسے نثری نظم پڑھ رہے ہوں۔  جیسے جمیل الدین عالی کے کالم۔

چونکہ کلاسیکی موسیقی آج تک ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ صرف غزل سننے کے شوق میں اسے ہم نے آج تک برداشت کیا ہے اس لئے آوازوں میں چھپے راگ اور سر سے ہمیں بڑی الرجی ہے۔ یہ ہمیں کسی قبض کے شکار بچے کی تکلیف معلوم ہوتی ہے تو کبھی آپریشن کے بعد رفتہ رفتہ ہوش میں آنے والے مریض کی کراہیں۔  کبھی کمزور بیٹری پر چلنے والے ٹیپ ریکارڈ پر ایل کے سہگل کا گانا لگتا ہے تو کبھی سخت سردی میں کٹکٹاتے ہوئے کسی بغیر چوکڑے کے بزرگ کی مترنم مناجات معلوم ہوتی ہے۔ پتہ نہیں ان حضرات کو غزل سے کیا دشمنی ہے۔ ۔  اپنے فن کے اظہار کے لئے کچھ شعری نوعیت کے الفاظ یا مصرعے ہی درکار ہوں تو آزاد نظمیں گا لیا کریں۔ یوں بھی آزاد نظموں کا مصرف آج تک دریافت نہیں ہو سکا ہے۔ یہ کیوں پیدا ہوئیں اور ان کا طریقِ استعمال کیا ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔  اگر کلاسیکل گانے والے ان کو اپنا لیں تو تمام آزاد نظموں اور آزاد غزلوں کا مقصدِ پیدائش طئے ہوسکتا ہے۔ چونکہ اس میں بڑی، منجھلی، چھوٹی ہر سائز کی بحریں ہوتی ہیں۔ اس لیئے یہ کلاسیکل راگوں میں پوری طرح سے فٹ بھی ہو سکتی ہیں۔ جہاں کھینچنا ہو چھوٹے مصرعے کو اٹھا لیا جہاں بڑا راگ آئے بڑی لائین کو گا لیا۔  اس طرح ایسے آزاد شاعروں کو بھی زندگی مل جائے گی اور نثری نظمو ں کے وجود بھی سمجھ میں آ جائے گا۔

عہدِ حاضر میں اچھی غز ل ا ور بری غزل کا تعین اس کے اچھے یا برے گائے جانے پر ہے۔ اگر اچھے طبلے اور آرکسٹرا پر گائی جائیں تو ندا فاضلی کی غزلیں بھی چل پڑتی ہیں اور میر و غالب کی غزلیں منہ دیکھتی رہ جاتی ہیں۔ لوگ شاعر کا نام نہیں جانتے بلکہ نورجہاں یا سلمیٰ آغا والی غزل کے نام سے غزل کو یاد رکھتے ہیں۔ خود گانے والے اپنے سازندوں سے کہتے ہیں "وہ بارہ سو والی غزل کی تیاری کرو” یعنی وہ غزل جس پر پچھلے پروگرام میں سامعین نے بارہ سو روپیے ہارمونیم پر ڈالے تھے۔

اگر آپ پاپ سنگر ہیں تو جان لیجیئے کہ ہم بھی پاپ موسیقی کے شیدائی ہیں۔ اَس کی گھن گرج سے ہم ہی نہیں ہمارے گھر کے ناسمجھ بچے بھی جھومتے ہیں۔ اس میں نہ سُر کی ضرورت ہے نہ تال کی، نہ غزل کی ضرورت ہے نہ شاعری کی۔ صرف کانوں کو پھاڑ دینے والی میوزک کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب سے ہم نے پاکستانی پاپ گروپ "جنون ” کا گایا ہوا علامہ اقبال کا نغمہ ” مجھے ہے حکمِ اذاں لا الہ الا اللہ ” سنا ہے ہم کو محلّے کی مسجد کی اذان بھی بالکل پھیکی لگنے لگی ہے اگر پاپ گانے والے، بجائے غزل کے،  اپوزیشن لیڈروں کے بیانات گایا کریں تو قومی شعور بیدار ہو سکتا ہے۔

پاپ گانوں میں ایک صدائے فریاد، احتجاج اور ایک انقلاب زند ہ باد والے جلوس کی کیفیت ہوتی ہے۔ ایسا جلوس جس میں کئی نعرے مل کر خود بخود ایک سرُ بن جاتے ہیں۔ اس میں کوئی بینڈ بجا رہا ہے تو کوئی تالی اور کسی کو بجانے کے لئے کچھ نہ ملے تو سڑک کے کنارے پڑا خالی ٹین کا ڈبہ لے کر بجا رہا ہے۔ ایک عجیب عالمِ کیف و مستی میں ہر کوئی جھومتا نظر آتا ہے۔ اس لئے پاپ گانے والوں سے ہماری درخواست ہے کہ وہ قاضی حسین احمد یا لالو پرساد یادو کے بیانات گایا کریں۔

غزل پاپ گانوں میں بالکل نہیں سجتی۔

غزل محبوب سے سرگوشی کرنے کا نام ہے نہ کہ اس کو دروازے پیٹ کر نیند سے بیدار کر نے کا۔ اس طرح سے تو نازک مزاج غزل کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔ غزل میں نہاں محبوب کا تصور تو اتنا حسین و پاکیزہ ہے جیسے چودھویں شب میں تاج محل کا دریا کی لہروں پر پڑنے والا دلنشیں عکس۔ آپ لوگ اس حسین و با حیا تصور کو ایم ٹی وی کے پردے پر نیم برہنہ کر کے غزل کی آبرو برباد کر ڈالتے ہیں۔اگر اپوزیشن کے بیانات نہیں تو گیت یا دوہے ہی گا لیا کریں۔ مشاعروں کو گیت آلود کرنے والے شعراء کی بھی بن آئے گی۔

اگر آپ کو یہ بھی پسند نہیں تو پھر اشتہارات گا یا کریں۔  آمدنی بھی دگنی ہو گی ملکی صنعت بھی ترقی کرے گی ا ور آپ کو نئی نئی غزلوں پر ہفتوں محنت سے نجات بھی مل جائے گی۔ مردانہ علاج کے اشتہارات پاپ میوزک کے لئے سب سے زیادہ مناسب ہیں۔ ” علاج سے پہلے ” والی کیفیت لوگ دیکھ بھی سکیں گے اور سن بھی سکیں گے۔ جو ” ہم مرض ” ہیں وہ ساتھ ساتھ تالیاں بجاتے ہوئے گا بھی سکیں گے۔

غزل گانے والوں سے یہ بھی درخواست ہے کہ ایک تو آپ فیس تو وصول کرتے ہی ہیں پھر سامعین کی طرف سے لٹائے گئے روپیوں کو بھی آپس میں پولیس والوں کی طرح تقسیم بھی کر لیتے ہیں اس کمائی سے شاعر کا بھی حصہ نکالا کریں۔ بے چارے خستہ حال شاعر کیسی کیسی عظیم غزلیں چھوڑ گئے۔  تنگدستی کے عالم میں خونِ جگر جلاتے رہے۔ راتوں کو جاگ جاگ کر دنیا کو غزلوں کا عظیم ورثہ دیا اور گھر والوں کے لئے بغیر کوئی ورثہ چھوڑے دنیا سے گزر گئے ان کے پسماندگان اپنے باپ کے ورثے پر غیروں کی کمائی کو حسرت سے دیکھ رہے ہیں اگر آپ چاہتے ہیں کہ اگلی نسل تک اردو ا ور غزل باقی رہے تو اپنی کمائی سے ان کا حصہ نکالیئے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ہم کس صدی کے ؟

 

 

ابھی خدا خدا کر کے نئی صدی اور نئے ملینیم Millennium کی آمد کا شور و غوغا ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ پلک جھپکتے سال ختم ہو گیا اب اکیسویں صدی کے سالِ آغاز کے جائزے شروع ہو جائیں گے۔  اخبارات و رسائل پھر انہی بوڑھے سیاستدانوں پر تبصرے اور کارکردگی کے جائزے لکھتے رہیں گے جو یوں بھی اوور ٹائم میں جی رہے ہیں۔  کتنا اچھا ہوتا کہ یہ لوگ نئی صدی کے آغاز پر نیک تمناؤں کے اظہار کے ساتھ ہی ایک نیک شگون کے طور پر اپنی سبکدوشی کا اعلان کے نئی صد ی نئی نسل کے حوالے کر دیتے تاکہ ان سب کو ہم پچھلی صدی کی بلکہ ملینئم کی شخصیات میں شامل کر کے تاریخ میں محفوظ کر دیتے۔

دسمبر 99ء کے اختتام کے ساتھ ہی قسم قسم کے لکھنے والے بارش کے کیڑوں کی طرح نکل آئے اور صدی کی شخصیات کی فہرستیں پیش کرنے لگے۔ جب مقابلہ سخت ہو ہو گیا فہرست کل آبادی سے تجاوز کرنے لگی تو پھر ہر ایک نے اپنی اپنی پسندیدہ شخصیت کو صدی سے ترقی دیے کر ملینیم کی شخصیت قرار دیا۔ ہم نے کئی جھگڑے یوں نپٹائے کہ شخصیات کو پہلے تو محلے کی بنیاد پر تقسیم کر دیا کچھ حسینی علم کی صدی شخصیات،  کچھ فلک نما، ملے پلی اور پرانا پل وغیرہ کی۔ بعض نے ضد کی کہ ان کی فہرست میں محلہ کی سطح سے کہیں زیادہ اونچی شخصیات ہیں اس لیئے با دلِ نا خواستہ کئی ایک شخصیات کو شہر اور ریاست کی بنیاد پر ہم نے صدی شخصیات کے طور پر تسلیم کر لیا۔  اس کے باوجود لوگ احتجاج پر قائم تھے بلکہ پرانا شہر میں تو معاملہ ہا تھا پائی تک جا پہنچا ایک گروہ کا دعوی تھا کہ امان اللہ خان صدی کی شخصیت ہیں تو دوسرا گروہ اویسی صاحب کو بلا شرکتِ غیرے پوری صدی کی شخصیت قرار دے رہا تھا۔  اس سے پہلے کہ فساد پھوٹ پڑ تا ہم نے ایک صاحب کو ملینئم کی شخصیت اور ایک صاحب کو صدی کی شخصیت قرار دینے پر کسی طرح لوگوں کو راضی کر لیا۔

اگر چہ قوم میں شاعر، مفکر، سیاست دان، ریفارمرس اور فلسفی وغیرہ سبھی موجود ہوتے ہیں لیکن پوری قوم پر اجا رہ داری سیاست دانوں کی ہوتی ہے۔ اس لئے صدی اور ملینیم شخصیت کہلانے کا ان کا دعویٰ زیادہ قومی ہوتا ہے۔  کوئی سڑک کسی آبلہ پا کے نام سے موسوم نہیں ہوتی بلکہ اس لیڈر کے نام سے موسوم ہوتی ہے جو ٹریفک کو درہم برہم کر کے جلوس نکالتا رہا۔  عوام کی ضرورت کے وقت تو وہ کبھی نہ آیا لیکن جلوس کی قیادت کے لیئے و قت سے پہلے پہنچتا رہا۔ معصوم لوگ سڑکوں پر حادثوں میں جان دیتے رہے اور وہ احتجاج اور بند کے ذریعے پھول پہنتا رہا۔ کھلاڑی اپنے جذبۂ قومی سے دنیا میں ملک کا نام روشن کرتے ہیں اسٹیڈئم کو رونق بخشتے ہیں۔لیکن اسٹیڈیم کو اس لیڈر کے نام موسوم کیا جاتا ہے جس کے باپ نے زندگی بھر بلّے کی شکل ہی نہیں دیکھی شائد اس لئے کہ سیاست کھیلوں میں سب سے بڑا کھیل ہے آپ کہیں گے سیاست میں کیا ہوتا ہے ؟ تو جناب کرکٹ میں رن ہوتے ہیں فٹبال میں گول ہوتے ہیں اور سیاست میں دل بدلی ہوتی ہے۔ اس طرح دوا خانے ہوں کہ لائبریری،  یونیورسٹی ہو کہ کوئی ادارہ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں داخلے کے لیئے کرسی سے زیادہ قابلیت کو اہمیت دی جاتی ہے گویا یہ سیاستدانوں سے محفوظ اور پاک و صاف جگہیں ہیں لیکن یہاں بھی سیاست داں اپنے نام کا جھنڈا گاڑ دیتے ہیں۔  ہم یہ نہیں کہتے کہ سیاست داں پڑھے لکھے نہیں ہوتے،  یہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں لیکن سیاسی مجبوری ہی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ پڑھے لکھے ہونے کا ثبوت نہیں دے سکتے کوئی پڑھا لکھا ہونے کا ثبوت پیش کرے تو اسے فوراً صدر یا گورنر کا عہدہ دے دیا جاتا ہے۔ اصلی سیاست داں کبھی گورنر یا صدر بننا نہیں چاہتا۔

سکھوں نے واجپائی جی کو صدی شخصیت قرار دیا ہے شائد اس لیے کہ وہ ابھی تک واحد ہیں اور شخصیت کا صیغہ بھی واحد۔  ہم نے ایک سردار جی سے وجہ پوچھی تو انہوں نے یہ بتایا کہ واجپائی جی ایک نڈر لیڈر ہیں کسی سے ڈرتے نہیں اس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اب تک شادی نہیں کی۔

اِدھر کے سائنسدانوں نے آئنسٹائن سے لے کر عبد الکلام تک فہرستیں مرتب کیں جس میں عبدالقدیر خاں شامل نہیں تھے اُدھر کی فہرست میں عبدالکلام شامل نہیں تھے۔  مقالہ نگاروں کی بھی بن آئی غالب اور اقبال کے حوالے سے کوئی موضوع اب نیا نہیں رہا لیکن نئی صدی اور نئے ملینیم کے حوالے سے ایک بار پھر جتنا لکھا جا چکا تھا اس میں تھوڑا بہت رد و بدل کر کے دہرانے کا موقع ہاتھ آ گیا۔جہاں تک غالب اور اقبال کا سوال ہے ہمارے اور ان میں بس ذوق اور مزاج کا فرق ہے ہم کو شاعری سے دلچسپی نہیں وہ شاعری کرتے تھے اگر ہم بھی شاعری کرتے تو تب مقابلے کی بات ہوتی اور تب ہی پتہ چلتا کہ وہ بڑے شاعر تھے یا ہم۔ اب اگر کوئی بڑا کام کرنے کا عزم بھی کر لیں اور انجام بھی دے ڈالیں تو اگلی صدی والے ہماری تاریخِ پیدایش کی وجہ سے ہمیں پچھلی صدی کا قرار دیں گے اور پچھلی صدی والوں نے یوں بھی ہم کو اگلی صدی کے در پر آواز دینے کے لیئے کہہ دیا ہے۔ ہم یہ سوچتے ہیں ہماری طرح کے وہ تمام لوگ جو پیدا پچھلی صدی میں ہوئے اور انتقال اس صدی میں فر مائیں گے ان کا شمار کس صدی میں ہو گا کیونکہ صدی شخصیت تو وہی زیرِ غور ہوتی ہے جو صدی کے آخر میں نام پیدا کر لے جس طرح ایک بیٹسمین آخری گیند پر چھکا لگا کر مین آف دی میچ بن جاتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

خامہ بگوش – آزاد شاعری اور جدیدیت پسندوں کے تعاقب میں

 

اگرچیکہ آزاد شاعری کا وجود ترقی پسند تحریک سے قبل بھی تھا جسے خامہ بگوش نے ثابت کیا لیکن ترقی پسندوں کے دور میں یہ خوب پروان چڑھی کیونکہ اس میں سطح پسندی اور سہل پسندی کی آسانیاں تھیں۔ خامہ بگوش نے آزاد جدید شاعری اور نثری نظموں کو ” اسقاطِ سخن ” یعنی Abortion of Adab کا نام دیا۔

اور یہ بڑی حد تک صحیح اس لیئے بھی ہے کہ ادبی تخلیق جو گہرائی فکر، مطالعہ اور محنت چاہتی ہے وہ ہر ایک کو میسر نہیں ہوتے۔  لیکن کیا کریں فطرتِ انسانی کا کہ آدمی عورت کے حسن کی طرح اپنے خیال کا بھی اظہار اور داد چاہتا ہے۔ اس لیئے کوئی نہ کوئی ذریعہ ڈھونڈھ لیتا ہے۔  آزاد شاعری اور ترقی پسندوں کی رد میں وجود میں آنے والی جدیدیت پسندی نے ہر شاعر و نا شاعر، ادیب و غیر ادیب کو اظہار کا جواز ہی نہیں داد حاصل کرنے کا موقع بھی فراہم کر دیا۔

لیجیئے ملاحظہ فرمایئے خامہ بگوش ہی کے الفاظ میں آزاد غزلوں اور نثری نظموں نے اردو ادب میں کیا مقام حاصل کیا ہے؟

"صنفِ نازک کی طرح آزاد غزل میں بھی لچک پائی جاتی ہے۔ اس کے ہر شعر کا پہلا مصرعہ دوسرے مصرعے سے لمبائی میں کم یا زیادہ ہوتا ہوتا دونوں مصرعے برابر اس لیئے ہوتے ہیں کہ کہیں شعر با معنی نہ ہو جائے”۔

نثری نظموں کے بارے میں مجروح صاحب نے بڑی سنسنی خیز گفتگو کی ہے۔ ( انٹر ویو اخبار جنگ)

فرماتے ہیں :

” نثری شاعری آج کل جس چیز کا نام ہے وہ صرف شاعر نہ ہو سکنے کی وجہ سے اپنی ہوس مٹانے کا نام ہے کہ مجھے شاعر کہا جائے۔ ۔۔۔ یہ ایک شکست خوردگی کی علامت ہے آپ شاعر تو ہیں نہیں مگر زبردستی شاعر بننا چاہتے ہیں۔ یہ نثری شاعری کیا ہوتی ہے؟ یا شاعری ہو گی یا نثر ہو گی؟ ”

اس کے آگے خامہ بگوش کچھ اس طرح تبصرہ طراز ہوتے ہیں کہ :

” ہمارے نزدیک اس میں کوئی برائی نہیں ہے کہ کوئی شخص شاعر نہ ہو اور شاعروں کی فہرست میں اپنا نام دیکھنا پسند کر ے۔ بُری بات تو یہ ہے کہ شاعروں کی فہرست میں جن لوگوں کے نام شامل ہیں ان میں بیشتر ایسے ہیں جن کی وجہ سے شاعری بدنام ہوتی ہے۔ استاد لاغر مرادآبادی کا قول ہے کہ برے شعر کہنے سے بہتر ہے کہ آدمی نثری نظم لکھے۔  بالکل اسی طرح جس طرح کوئی شریف آدمی شریفانہ زندگی بسر نہ کر سکے تو اسے خودکشی کر لینی چاہیئے۔

( اسقاطِ سخن تبصرہ بر مجروح سلطان پوری )

سلطان جمیل کا تعلق ایک موقّر ادبی گھرانے سے ہے جس کا ہر دوسرا شخص شاعر ہوتا ہے اور جو پہلا شخص شاعر نہیں ہوتا وہ بھی آخر آخر میں نثری نظم ضرور لکھنے لگتا ہے۔

( ادب کا جعلی شناختی کارڈ تبصرہ بر "کھویا ہوا آدمی” از سلطان جمیل)

قمر جمیل پاکستان کے ایک معروف ادیب و شاعر ہیں جنہوں نے روزنامہ جنگ میں انٹرویو دیتے ہوئے یہ اعلان کیا ہے کہ وہی نثری نظموں کے بانی ہیں کہتے ہیں :

” محمد حسین آزاد،  عبدالحلیم شرر سے ہوتا ہوا نظم کی صورت میں شاعری کا سفر راشد میرا جی اور فیض تک آیا نظم کے اس سفر میں خدا کے فضل سے ایک نیا سفر میری ذات سے بھی شروع ہوا یہ نیا سفر نثری نظم کا تھا۔ نثری نظم کم پڑھے لکھے لوگوں کا کام نہیں ہے”۔

خامہ بگوش اس سفر اور مسافر دونوں کی کچھ اس طرح خبر لیتے ہیں کہ جیسے بلا ٹکٹ سفر کرنے والا پکڑے جانے پر بغلیں جھانکنے لگتا ہے ملاحظہ ہو :

” ہمیں اس دعوے سے اتفاق ہے کہ نثری نظم کے لئے پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے۔  ہم اختلاف کر کے اس اعزاز سے محروم ہونا نہیں چاہتے کہ ہمارا شمار بھی پڑھے لکھے لوگوں میں ہو۔ لیکن استاد لاغر مرادآبادی کو اس سے اتفاق نہیں ہے وہ فرماتے ہیں ” اگر ایسا ہوتا تو نثری نظموں سے اس کا اظہار بھی ہوتا۔ اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ میر و غالب سے لے کر اقبال و فیض تک وہ تمام شعراء جنہوں نے نثری نظمیں نہیں لکھیں ان کا پڑھا لکھا ہونا مشکوک ٹھہرتا ہے۔

استاد گرامی کی خدمت میں عرض ہے کہ جب میر و غالب اور اقبال و فیض نے نثری نظم نہ لکھ کر اپنے پڑھے لکھے ہونے کا کوئی ثبوت نہیں چھوڑا تو ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ان کا پڑھا لکھا ہونا ثابت کیا جائے۔

یہ جان کر خوشی ہوئی کہ نثری نظموں کے ترجمے دنیا کی بڑی بڑی زبانوں میں ہو رہے ہیں ہماری گزارش ہے کہ ان زبانوں میں اردو کو بھی شامل کر لیا جائے ہمیں یقین ہے کہ پھر اردو کا شمار بھی دنیا کی بڑی بڑی زبانوں میں ہونے لگے گا۔

ان حضرات نے نثری نظموں کے لیئے خصوصی نشست کی تجویز رکھی ہے یہ نہایت معقول تجویز ہے مگر رکاوٹ یہ ہو گی کہ سامعین دستیاب نہیں ہوں گے اگر یہ شاعر حضرات خود نثری نظموں کے مشاعروں میں بطورِ سامعین شرکت کی ذمہ داری قبول کر لیں تو اس نیک کام کا آغاز ہو سکتا ہے اس کا ضمنی فائدہ تو یہ ہو گا کہ کلام سنانے کا وسیع تجربہ رکھنے والے ان شاعروں کو کلام سننے کا بھی تجربہ ہو جائے گا اور انہیں یہ معلوم ہو جائے گا کہ کلام سننا کلام سنانے سے زیادہ ٹیڑھا کام ہے۔

ہماری ایک اور تجویز ہے کہ نثری نظمیں ترنم سے پڑھی جائیں ترنم شعری عیبوں کی پردہ پوشی ہی نہیں کرتا بلکہ خوبیوں کو بھی چمکا دیتا ہے بشرطیکہ وہ موجود ہوں۔  مشاعروں کی طرح ایسی محافلِ موسیقی بھی منعقد کی جا سکتی ہیں جن میں صرف نثری نظمیں گائی جائیں گی ان میں ان ہی گلوکاروں کو زحمتِ نغمہ دی جائے جو موزوں کلام کو بھی نا موزوں کر کے سناتے ہیں۔  اس تجویز پر کچھ عرصے عمل ہو گا تو امید ہے کہ نثری نظموں کو فلمی گانوں جیسی مقبولیت حاصل ہو جائے گی۔ اس مقبولیت کو دیکھ کر فلم ساز گیتوں کی بجائے نثری نظموں کو استعمال کرنے لگیں گے۔ ٹی وی کی وجہ سے ہمارے ملک میں فلمی صنعت رُو بہ زوال ہے نثری نظموں کی وجہ سے امید ہے کہ زوال کی رفتار تیز ہو جائے گی اس طرح کم از کم ایک شعبۂ زندگی میں ہم دم توڑتی ہوئی بیسویں صدی کی تیز رفتاری کا ساتھ دے سکیں گے۔

( نئی شاعری یا فرسودہ شاعری۔  تبصرہ بر قمر جمیل )

نثری مزاحمتی اور جدید شاعری پر امجد اسلام امجد جو کہ نئی نسل کی شاعری کے نمائندہ شاعر مانے جاتے ہیں کھل کر تنقید کی ہے وہ اس طرح کی شاعری کو ناموزونیِ طبع کی وجہ سے وجود میں آنے والی قرار دیتے ہیں۔ اس پر خامہ بگوش یوں تبصرہ نواز ہوتے ہیں کہ :

” امجد کی رائے خاصی انتہا پسندانہ ہے۔ فرماتے ہیں کچھ لوگ بنیادی طور پر شاعر نہیں ہوتے لیکن شاعر بننا چاہتے ہیں چونکہ ان کے اندر شاعر بننے کی بنیادی صلاحیت نہیں ہوتی تو وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ شاعرانہ خیال ہی شاعری ہے۔ اس معاملے میں ہمیں امجد سے اتفاق نہیں۔  یہ ضروری نہیں کہ کسی ادبی اصطلاح کا مفہوم ہر زمانے میں یکساں رہے آزادی سے پہلے مزاحمتی شاعری جابر حکمرانوں کے خلاف ہوتی تھی اب خود شاعری کے خلاف ہوتی ہے یعنی مزاحمتی شاعری وہ ہے جس میں کوئی شاعرانہ خوبی نہ ہو اور اس کے باوجود اسے شاعری کا نام دیا جائے۔

نثری نظموں کی معاملے میں بھی ہمیں امجد کی رائے سے اتفاق نہیں۔ جن لوگوں میں شاعری کی صلاحیت نہیں ہوتی انہیں بھی تو بہر حال کچھ نہ کچھ کرنا ہوتا ہے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے سے بہتر ہے نثری شاعری کر لیں۔  نثری شاعری کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کو پڑھنے کی عادت نہیں وہ اپنی اس عادت کے جواز میں نثری شاعری کو پیش کر کے نہایت خوش اسلوبی سے یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ پڑھنے سے نہ پڑھنا بدرجہا بہتر ہے۔

( شگفتہ بیانی یا آشفتہ بیانی۔  تبصرہ بر امجد اسلام امجد )         ٭٭٭

 

 

 

 

خامہ بگوش – ترقی پسندوں کے تعاقب میں

 

 

عجیب شخص تھا !!

ایک ہی نشست میں ساری کی ساری کتاب پڑھ جاتا۔ ایک ہی نشست میں ساری کتاب پڑھ ڈالنے سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ پڑھنے والا صرف تحریر ہی نہیں تحریر رقم کرنے والے کا پورا ذہن پڑھ لیتا ہے۔ اس لئے شاعر و ادیب تو درکنار بڑے بڑے تنقید نگار بھی خامہ بگوش کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے۔ اگر تنقید نگاری،  بِلی کی دُم پر پیر رکھنے کا ہنر ہے توبِلا شبہ خامہ بگوش شیر کی دم پر پاؤں رکھنے والے عظیم قلمکار تھے۔

مروت تو انہیں کبھی چھو کر بھی نہیں گزری۔  اس لئے کسی شاعر نے نہ کبھی انہیں اپنے کلام کے رسمِ اجراء پر مقالہ پڑھنے کی دعوت دی اور نہ کسی ادیب نے ان سے پیش لفظ یا فلیپر لکھانے کی ہمت کی۔ خامہ بگوش نے نہ صرف شعرو ادب پر بھر پور تنقید کی،  بلکہ تاریخ، عمرانیات،  دینیات وغیرہ پر بھی چونکہ انہیں مہارت حاصل تھی ان شعبوں میں بھی لکھی جانے والی کتابوں اور ان کے لکھنے والوں کی کسی غلطی کو نہیں بخشا۔ پھر بھلا وہ ترقی پسند تحریک یا اس کے اسقاط سے پیدا ہونے والی آزاد شاعری یا نثری شاعری کو کیسے بخشتے؟ ترقی پسندی کیا تھی یہ تو خامہ بگوش کے اپنے الفاظ میں آگے واضح ہو جائے گا۔ اس تحریک نے کمیونزم کے چڑھتے سورج کے آگے بے شمار ذہنوں کو جھکا دیا۔

غربت و افلاس کے مارے ہندوستان میں جس میں کبھی پاکستان بھی شامل تھا کسی شاعر یا ادیب کا کسی اخبار یا رسالہ میں شائع ہو جانا یا ریڈیو پر اسے موقع مل جانا اس کے لیئے حاصلِ حیات تھا۔ اور اگر کسی کو ماسکو کا ٹکٹ مل جائے تو واہ، سونے پہ سہاگا، یہ بے چاروں کی تو معراج تھی۔

جلسے اور جلوس ترقی پسند تحریک کا خاصہ تھے۔ اس لیے شاعر و ادیب کی اس بہانے دلی مراد پوری ہو جاتی۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ اسٹیج پر آنے اور داد پانے سے زیادہ اور کیا ترقی ہو سکتی ہے؟ یہی تھی وہ ترقی پسندی جس میں لاکھوں سادہ لوح بہہ گئے۔  ظاہر ہے کہ روایتی ادب اور روایتی شاعری میں آدمی غالب کی طرح جیتے جی تو قرضدار ہی رہتا ہے اور مرنے کے بعد اس کی قدر ہوتی ہے۔ لیکن ترقی پسندوں نے جیتے جی قدردانی کے ایسے ایسے مواقع فراہم کر دیئے کہ ہر ایرے غیرے نے اس گنگا میں ہاتھ دھو لینے کی آرزو کی۔ ادھر نہرو جی نے اور ادھر بھٹو نے سوشلزم کا نعرہ کیا دیا کہ سارے ترقی پسندوں کو گویا لائسنس مل گیا اور اخبار،  رسائل،  ریڈیو اور ٹی وی پر ان کی اجا رہ داری قائم ہو گئی۔ کوئی فلم لائین میں گھس پڑا تو کسی نے صحافتی اداروں میں خوب کمائی کی۔ ترقی پسندی کی دوکان کو تو خیر شکست و ریخت سے دو چار ہونا ہی تھا لیکن ان کی دوکانیں ان کی حیات تک تو خوب چل پڑیں۔

لیکن تاریخ کے اس تیس چالیس سالہ ترقی پسندی کے عروج و زوال پر جس طرح خامہ بگوش نے ہر دور میں بھرپور گرفت کی ہے ایسا لگتا ہے کہ خامہ بگوش ایک مبصر ہے جو حال کا نہیں مستقبل کے کھیل اور اس کے انجام کی کامنٹری دے رہا ہے۔

 

خامہ بگوش نے ترقی پسند ادب ہی کا نہیں پورے نظریئے کا وقتاً فوقتاً جو تنقیدی جائزہ لیا ہے وہ مزاحیہ ہوتے ہوئے بھی سنجیدہ ادب کا ایک شاہکار کہلایا جا سکتا ہے۔ ذیل میں موصوف کی تین کتابوں ” خامہ بگوش کا انتخاب ” سخن ہائے گفتنی ” اور ” سخن در سخن ” سے کچھ اقتباسات پیش کیئے جاتے ہیں۔

 

اگر کوئی شخص ہر وقت یہی کہتا رہے میں عاقل و بالغ ہوں تو اس کا عاقل و بالغ ہونا مشکوک ہو جائے گا۔ یہی حال ترقی پسندوں کا ہے جن کی ترقی پسندی کی عمارت دعووں پر قائم ہے۔  ہم نے آج تک نہیں دیکھا کہ کوئی ایسا رجعت پسندی یا زوال پسندی کا ڈھنڈورا پیٹے۔

زبانی جمع خرچ سے ترقی پسندوں کو کچھ ایسی محبت ہے کہ ایک عرصہ سے انہوں نے لکھنے لکھانے کا کام شروع کرنے سے پہلے ہی چھوڑ رکھا ہے۔ ” گفتگو ” تحریر کا نعم البدل بن چکی ہے حد تو یہ ہے کہ گفتگو کے نام سے کتاب بھی چھپ گئی ہے جس کے سرِ ورق پر درج ہے ” ترقی پسند تحریک کے نظری مسائل،  اثرات اور مخالفین کے اعتراضات مشاہرینِ ادب سے بات چیت "۔

ہم نے استاد لاغر مرادآبادی سے عرض کیا کہ اس میں کچھ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے استاد نے فرمایا ” ہاں اس کا بھی امکان ہے آخر خود ترقی پسند تحریک بھی تو ہماری تاریخِ ادب میں کتابت کی ایک غلطی ہی تو ہے”۔

کتابت کی غلطیوں کی بات چل نکلی ہے تو یہ عرض کر دینا مناسب نہ ہو گا کہ زیرِ نظر کتاب ” گفتگو ” کا شائد ہی کوئی ایسا صفحہ ہو گا جس پر کتابت کی دس یا بارہ غلطیاں نہ ہوں، خصوصاً شعروں پر تو وہ ظلم ڈھائے گئے ہیں کہ اچھے خاصے شعر بھی کیفی اعظمی کے شعر بن کر رہ گئے ہیں”۔

( ترقی پسند تحریک کی لٹیا )

یہ تبصرہ دراصل سردار جعفری اور سید سبط حسن کے ایک انٹرویو پر تھا۔ اسی انٹرویو میں علی سردار جعفری نے کہا کہ

” فیض نے یا میں نے آزاد شاعری میں جو آہنگ اختیار کیا ہے وہ جدید لکھنے والوں تک پہنچتا ہے لیکن راشد اور میرا جی کی شاعری اپنی شناخت کھو چکی ہے”۔

ممکن ہے بعض لوگ یہ کہیں کہ اگر راشد اور میرا جی کی شاعری اپنی شناخت کھو چکی ہے تو پھر ترقی پسند شاعری تو اپنا سب کچھ کھو چکی ہے۔ لیکن ہمیں اس قسم کی انتہا پسندانہ رائے سے اتفاق نہیں ہے۔ راشد جی اور میرا جی کی اپنی شناخت تھی تو انہوں نے کھوئی۔  ترقی پسند شاعری کے پاس کیا تھا جو کھوئے گی؟

سردار جعفری نے دورانِ گفتگو کہا :

” برنارڈ شاہ نے ایک مرتبہ بڑی دلچسپ بات کہی تھی کہ میرا درزی ہر سال آ کے میرا ناپ لے جاتا ہے تو یہ بات حالات اور ہمارے رشتہ پر منطبق ہوتی ہے۔ حالات برنارڈ شاہ ہیں اور ہم درزی "۔

عرض ہے کہ درزیوں کی انجمن بنانے کے لئے درزی کا کام آنا ضروری ہے جب کہ مصنفین کی انجمن بنانے کے لیئے اس قسم کے کسی تکلف کی ضرورت نہیں۔

اسی گفتگو میں سید سبط حسن کا بھی ایک انٹرویو شامل ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ :

” ترقی کا تصور اقبال سے پہلے ہمارے ہاں موجود نہیں تھا،  اقبال نے ان تمام جدید تصورات سے ہمارے فکر و اد ب کو متعارف کروایا اور جس کمالِ خوبی سے شعری قالب میں ڈھالا وہ بجائے خود ایک مثال ہے بلکہ مجھے معاف رکھیں تو عرض کروں کہ ترقی پسند شاعری اپنی تمام توانائی،  دلکشی اور حقیقت آفرینی کے باوجود ملوکیت،  سرمایہ داری اور سامراج پر جو کچھ اقبال نے لکھ دیا اس کے پاسنگ برابر ایک نظم بھی اپنے ہاں سے پیش نہیں کر سکتی”۔

ترقی پسند ادب میں اکابر کا درجہ رکھنے والے ترقی پسند سید سبط حسن کے ترقی پسند ادب پر اس تبصرے پر خامہ بگوش کا یہ تبصرہ ملاحظہ فرمائیے۔

"لیجیئے سید صاحب نے تو ترقی پسند شاعروں کی لٹیا ہی ڈبو دی۔ بیچارے نصف صدی سے شاعری کر رہے ہیں اور شاعری کا ایک بھی ایسا نمونہ پیش نہ کر سکے جو اقبال کی کسی نظم کا پاسنگ ہوتا۔  سید صاحب کو اتنی بے مروتی سے کام نہیں لینا چاہئے تھا۔ حوصلہ افزائی کے خیال سے کم از کم یہی کہہ دینا چاہئے تھا کہ اگلی نصف صدی میں اس کا امکان ہے کہ ترقی پسند ایک آدھ ایسی نظم ضرور لکھ دیں گے جسے کلامِ اقبال کا ‘ پاسنگ برابر ‘ قرار دیا جا سکے”۔

پوری ترقی پسند شاعری پڑھ ڈالیئے چاہے سجاد ظہیر ہوں،  مخدوم،  احمد ندیم قاسمی، جان نثار اختر کہ اخترالایمان، چند ایک بہترین غزلوں کے علاوہ جو ملے گا وہ دار و رسن، سلاسل،  روزنِ زنداں،  کسان، دھاتی،  مقتل، مظلوم و محکوم وغیرہ جیسے الفاظ پر باندھے گئے اشعار سے بھرے ہوئے کلام ملیں گے۔ اس پر خامہ بگوش کا تبصرہ ملاحظہ ہو۔

"ترقی پسند شاعروں کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے زنجیر لفظوں کے استعمال سے آفاقی شاعری کی ہے۔ کسی ترقی پسند سے غلط کام کی توقع نہیں کی جا سکتی سوائے شاعری کے۔ اور شاعری بھی ایسا کوئی غلط کام نہیں ہے جس پر شرمانے کی ضرورت ہو۔  شرمانے کا کام پڑھنے والے بہتر طور پر انجام دے سکتے ہیں

( بائیں ہاتھ کی شاعری از مسلم شمیم)

ایسا بھی نہیں ہے کہ خامہ بگوش نے نظریئے سے اختلاف کرتے ہوئے نظریہ رکھنے والے کو بھی مکمل رد کر دیا ہو شاعری اور ادبی نقطۂ نظر سے اگر شاعر یا ادیب داد کا مستحق ہو تو اس کی بھرپور داد بھی دی ہے مگر یوں کہ پڑھنے والے کے سامنے نظریئے اور نظریہ رکھنے والے کا فرق عیاں رہے۔ مثلاً پاکستان ہی کے مشہور ترقی پسند شاعر حسن عابدی کو انتہائی خوبصورت خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں کہ :

” ترقی پسندوں کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ ان کی شاعری میں نظریہ تو ہوتا ہے نظر نہیں ہوتی حسن عابدی نے اس الزام کو بڑی خوبصورتی سے مسترد کر دیا ہے اور وہ اس طرح کہ ان کے ہاں نظریہ شاعری کو مسخ نہیں کرتا بلکہ بین السطور میں اپنا جادو جگاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ عام ترقی پسندوں کی طرح وہ شعروں سے سمع خراشی نہیں کرتے دل و دماغ دونوں کو نہایت شائستہ پیرائے میں متاثر کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے وہ واحد ترقی پسند شاعر ہیں جن کا نام فیض کے نام کے ساتھ لیا جا سکتا ہے۔

( سوزتنی نہ فرختنی تبصرہ بر ” نوشتِ نور ” حسن عابدی )

ادب کی تخلیق،  فکر و شعور کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کی پختگی کی محتاج ہے لیکن چونکہ ترقی پسندوں نے روزِ ازل سے ہی "ادب برائے مقصد ” کے فریضے کا انکار کر دیا تھا۔ نتیجتاً سطحی جذبات و احساسات رکھنے والے عام تخلیق کاروں کو ادبی دنیا میں سستی دکانیں کھولنے کی آزادی مل گئی۔ ایسی ایسی چیزیں تخلیق ہونے لگیں جن کو آدمی پنی بیٹی یا بہو کے سامنے پیش کرتے ہوئے تو شرمائے لیکن محفل میں خوب داد حاصل کرے۔  سہل پسندی،  آوارگیِ طبع یا نا پختگی شعور کے نتیجے میں جو ادب پیدا ہوا وہ ” امدادِ تحسین باہمی” کے اصول کے تحت خوب بِکا۔

تخلیق کار نہ صرف شرم و حیا کے حصار سے باہر نکل آیا بلکہ اس کا داعی بھی بنا۔  کہیں غیر شادی شدہ ماں کے جذبات پر نظمیں لکھی گئیں۔  کہیں منشور کو پڑھ کر ناری کتھا جیسی واہیات لکھنے والی کشور ناہید تو کہیں جوش ملیح آبادی کے خطوط اور یادوں کی بارات پڑھ کر خورشید علی خاں جیسے مصنف وجود میں آ گئے جن کے بارے میں خامہ بگوش نے بہترین تبصرہ کیا کہ :

” اگر فحش الفاظ اور جذبات کی لغت کبھی لکھی جائے گی تو جوش کے خطوط اور کشور ناہید کی کتھا سے خوب فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے”۔

ایسی ہی ایک تخلیق ” کیفی اعظمی فن اور شخصیت ” کے عنوان سے خورشید علی خان نے کراچی سے شائع کر وائی۔ خورشید صاحب کیفی کے برادرِ نسبتی ہیں۔ اس میں انہوں نے بہن بہنوئی کی جوانی،  ان کی آنکھ لڑ جانے کا منظر بہن کو دیکھ کر ایک غیر مرد (جو اس وقت تک بہنوئی نہیں ہوئے تھے ) کے دل میں اٹھنے والے جذبات کا جو منظر نامہ پیش کیا وہ معاشرے میں غیر اخلاقی سہی ترقی پسند ادب میں اسے ایک اعلیٰ اخلاقی جرأت کا مقام دیا گیا۔  اسی پر خامہ بگوش نے یوں تبصرہ کیا کہ :

” کیفی کی ترقی پسندی ان کی شاعری سے اور خورشید علی خان کی ترقی پسندی ان کی زیرِ نظر کتاب سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ خود ترقی پسندی روزِ روشن میں ذرا کم ہی ہے۔ اگرچیکہ شاعری کے آغاز ہی میں کیفی کو معلوم ہو گیا تھا کہ جن لوگوں کے لیئے وہ شاعری کر رہے ہیں انہیں شاعری سے نہیں بھینس کی جگالی سے دلچسپی ہے اس کے باوجود کیفی نے ہمت نہ ہاری اور زندگی بھر کسانوں اور مزدوروں کے لیئے شاعری کرتے رہے، شائد اسی لیئے بعض محققوں نے ترقی پسند شاعری اور جگالی میں معنوی ربط کی نشاندہی کی ہے۔

( کیفی اعظمی FUN اور شخصیت)۔

خامہ بگوش کا ایک اور دلچسپ نشتر !

شائد اسی لیئے کسی نے لکھا کہ ” خامہ بگوش کے قلم کا ڈسا پانی نہیں مانگتا "۔

ترقی پسند تحریک ہو یا اس کے ردِ عمل میں پیدا ہونے والی جدیدیت – ان دونوں کے علمبرداروں نے ادیبوں سے جو خلوص برتا اسے دیکھ کر حالی کا یہ شعر یاد آ جاتا ہے۔

صحرا میں کچھ بکریوں کو قصاب چراتا پھرتا تھا

دیکھ کے اس کو سارے تمہارے آ گئے یاد احسان ہمیں

بکریاں مولانا حالی کی ہوں،  ترقی پسندوں کی یا جدیدیت کی انجام سب کا ایک ہی جیسا ہوتا ہے”

( نقاد یل گورکن تبصرہ بر قمر جمیل )۔

شکست وریخت ترقی پسندی کا مقدر تو تھی ہی اس زوال نصیب تحریک پر خامہ بگوش یا ان جیسے دوسرے ناقدین نے جو کچھ لکھا اس کو ترقی پسند ایک مخالف تحریک کا بغض یا تعصب پسندی قرار تو دے سکتے ہیں لیکن ان زعمائے تحریک کے بارے میں کیا کہیں گے جنہوں نے شوقِ جنوں میں بے مقصدیت کا ایک طویل سفر تو طئے کر لیا لیکن کافی دو ر نکل جانے کے بعد جب پلٹ کر دیکھا تو انہیں احساس ہوا کہ نہ تو منزل ان کی مقصود تھی نہ کوئی ہمسفر معتبر۔ جس طرح سرخ سویرے کی منادی کرتے ہوئے وہ جس اندھیرے ” زنداں ” اور ” ظُلمات ” سمجھ رہے تھے وہ درحقیقت کسی کا دن دھاڑے سورج سر پر ہونے کے باوجود کمرہ بند کر کے رضائی میں منہ ڈھانپ کر اندھیرا پیدا کر کے ” زنداں و ظلمات ” کا تصور کر لینے کے برابر تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اکابرینِ  تحریک ایک ایک کر کے خود ترقی پسندی اور ترقی پسندوں پر کھل کر تنقید کرنے لگے۔

مجروح اور ظ انصاری نے وغیرہ نے نظریہ سے ارتداد کیا۔

اختر الایمان نے کسی کو بھی شاعر ماننے سے انکار کر دیا۔

ڈاکٹر محمد عقیل،  رفیق چودھری وغیرہ نے خود اپنی جماعت کے سرپرستوں پر مصلحت پسندی اور خود غرضی کے الزامات لگائے۔

خامہ بگوش نے ان ہی رہنمایانِ ترقی پسند تحریک کی تحریروں کو اپنی دلیل بنائی اور اس پر جو بھر پور تبصرہ کیا اس سے قارئین بے حد لطف اندوز ہوں گے۔ ذیل میں خود ترقی پسند زعماء کے تجزئیے اور ان پر خامہ بگوش کا تبصرہ ملاحظہ ہو۔

ڈاکٹر سید محمد عقیل :

” سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کی خود ترقی پسندی کا رشتۂ حیات کیوں منقطع ہوا؟ اس تحریک کا تو ڈاک خانے سے کوئی تعلق نہیں تھا کہ شمس الرحمن فاروقی ( جو کہ پوسٹل ڈپارٹمنٹ میں افسرِ تحقیقات ہوا کرتے تھے) اسے ڈیڈ لیٹر آفس میں تبدیل کر دیتے۔  حسنِ اتفاق سے اس سوال کا جواب خود ڈاکٹر سید محمد عقیل کی کتاب میں مل جاتا ہے فرماتے ہیں:

” ترقی پسندی میں مختلف افراد کی مصلحت پسندیوں اور کسی حد تک خود غرضیوں کے باعث زبردست دراڑیں پڑگیں اگرچیکہ دو ایک سال بعد ترقی پسندوں کو پھر سے مجتمع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر انہیں کوئی باندھ نہیں پاتا۔ ترقی پسندی کے اسٹیج کو اب لوگ اپنے وقتی فائدہ کے لیئے بھی استعمال کرتے رہتے ہیں اور کچھ لوگ محض طلبِ زر کے لیے۔ ترقی پسندوں کے زوال میں عالمی طاقتوں کا بھی دخل ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ زمانۂ حال کے ترقی پسندوں کے پاس ایک شجرۂ نسب ہی رہ گیا ہے جس میں سجاد ظہیر مخدوم وغیرہ کے نام ملتے ہیں۔ جدیدیئے تو جان کا عذاب تھے ہی مگر ڈاکٹر عقیل کے اپنے قبیلے کے لوگ بھی دشمنی میں کسی سے پیچھے نہ تھے، اس کی تفصیل ڈاکٹر صاحب کی زبانِ حقیقت بیان میں یوں بیان کی گئی ہے۔

” ترقی پسندی کی ہزیمت کے اور بہت سے ادبی و فکری اسباب تھے مگر سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ ان میں ٹیم اسپرٹ ختم ہو گئی تھی۔ بلند نام ادیب اسٹابلشمنٹ میں لگ چکے تھے۔  آئیڈیالوجی سے زیادہ اپنی ذات میں دلچسپی پیدا ہو گئی تھی جس کے لئے وہ ترقی پسندوں کے دشمنوں سے بھی ساز باز کرتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو یہ بات بری لگے مگر یہی حقیقت ہے۔ انہیں بس اپنی اور اپنے ہوائی جہاز کی فکر ہوتی اپنی ٹیم کی نہیں۔  ترقی پسندوں میں سرکاری انعامات حاصل کرنے کی دوڑ شروع ہوئی۔  وہ ایک دوسرے کی کاٹ کرنے لگے۔ اپنے دیرینہ رفیقوں کو چھوڑ کر اثر و رسوخ رکھنے والے رفیق ڈھونڈھنے لگے چاہے وہ کسی مکتب کے کیوں نہ ہوں”۔

خامہ بگوش کا ان سطور پر تبصرہ ملاحظہ ہو :

” افسوس کہ ترقی پسندوں پر کیا برا وقت آن پڑا کہ انہیں اپنے حلقے میں کوئی دوستی کے لائق نظر نہیں آتا۔ کسی ترقی پسند کا گوپی چند نارنگ یا شمس الرحمن فاروقی سے دوستی کرنا رہزن کو دعا دینے کے مترادف ہے۔

( آپ بیتی یا مرقعِ عبرت تبصرہ بر ” گٹو دھول ” از ڈاکٹر سید محمد عقیل۔ )

چودھری محمد رفیق :

چودھری صاحب کا ترقی پسندی سے بہت پرانا تعلق ہے اور اس تعلق میں کبھی جھول پیدا نہیں ہوا یہ اور بات ہے کہ خود ترقی پسند تحریک جھول کا شکار ہو چکی ہے۔  البتہ چودھری صاحب کے ہاتھ میں ترقی پسند تحریک کا جو ٹکڑا رہ گیا وہ ابھی تک محفوظ ہے وہ اسے پرچم بنا کر ترقی پسندی کے تنِ مردہ میں جان ڈالنے کی مخلصانہ مگر ناکام کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔  ان کے ادبی مرکز کے مہمان صرف ترقی پسند ہی نہیں ہوتے بلکہ ” شرفائے شہر ” بھی ہوتے ہیں۔ ” میری نیّا ” میں چودھری صاحب نے ترقی پسند تحریک کی سرگرمیوں کا ذکر تفصیل سے کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ترقی پسندوں کا سب سے بڑا کام جلسے کرنا اور جلوس نکالنا تھا۔  ان لوگوں نے کئی کامیاب کانفرنسیں اور کئی میل لمبے جلوس نکالے۔  بعض لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کتاب سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ترقی پسندوں نے ادب کی تخلیق میں بھی حصہ لیا ہے یا نہیں۔

ہمارے خیال میں یہ اعتراض کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ ادب تخلیق نہ کرنا ترقی پسندوں کا مسئلہ نہیں رہا۔  ان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایسے حالات پیدا کئے جائیں جن میں ادب تخلیق ہو سکے۔ افسوس کہ ایسے حالات پیدا نہیں ہو سکے اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ترقی پسند تحریک ادب کے بجائے حالات کا شکار ہو گئی۔ چودھری صاحب نے پرانے ترقی پسندوں کے خلوص اور نئے ترقی پسندوں کی خود غرضیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ 1986ء میں بہت کچھ بدل گیا۔  گروہ بندی کو ختم کرنے کی بجائے اسے ہوا دی گئی۔

اگر چودھری صاحب ذرا غور و فکر سے کام لیتے تو انہیں پرانے اور نئے ترقی پسندوں میں فرق کی وجہ معلوم ہو جاتی۔ پرانے ترقی پسند کم از کم سرکاری مخبروں سے ہا تھا پائی کرنے اور پانی کے ٹب میں غریقِ رحمت ہونے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ اب یہ حال ہے کہ انجمن ترقی پسند مصنفین میں سرکاری مخبر ہی باقی رہ گئے ہیں اسی لئے تو استاد لاغر مراد آبادی نے جو تجویز پیش کی تھی کہ انجمن میں جہاں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں وہاں نام کی تبدیلی بھی عمل میں آنی چاہئے۔ ہمیں اس تجویز سے اتفاق نہیں ہے۔ نام میں کچھ نہیں رکھا اصل چیز کام ہے اور کام جاری رہنا چاہئے۔ کتاب کا دیباچہ پرفیسر عتیق احمد نے لکھا ہے۔  دیباچہ کیا لکھا ترقی پسندی کی قبر پر لات مار دی۔ لکھتے ہیں کہ:

” ترقی پسندوں پر پاکستان سے غداری اور نمک حرامی کا الزام ہے”۔ پرفیسر صاحب کو ایسی باتوں سے اجتناب کرنا چاہیئے کیونکہ بعض سادہ لوح اس قسم کے بیانات کو اعترافات کا درجہ دے دیتے ہیں۔

(ترقی پسندی یا  روایتی کمبل۔  تبصرہ بر میری دنیا از رفیق چودھری)

اختر الایمان نے دورۂ کراچی کے موقع پر ایک انٹرویو دیا جو "طلوعِ افکار ” دسمبر 1989ء کے شمارے میں شائع ہوا اس میں انہوں نے تمام ترقی پسند شاعروں کو یہ کہ کر رد کر دیا کہ اکثر ترقی پسند احباب کی شاعری Verification یعنی کلامِ موزوں ہے۔ مجاز،  فیض،  مخدوم اور فراق کسی حد تک شاعر ہیں باقی کی شاعری تخلیقی شاعری سے باہر کی چیز ہے۔ کیفی اعظمی کو میں Genuine شاعر نہیں سمجھتا وغیرہ وغیرہ۔

اس پر خامہ بگوش کا دلچسپ تبصرہ یوں ہے کہ :

” ترقی پسندوں سے ہمیں بھی بہت سی شکایات ہیں مثلاً ایک شکایت یہ ہے کہ جب شعر و شاعری کے بغیر بھی آدمی ترقی پسند بن سکتا ہے تو پھر شعر کہنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ لیکن اختر صاحب کی ناراضگی کچھ ذاتی قسم کی معلوم ہوتی ہے ورنہ وہ یہ گلہ نہ کرتے میری شاعری پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جا رہی ہے”۔

ترقی پسندوں نے اختر صاحب کو نظر انداز کیا اور اختر صاحب نے سارے ترقی پسندوں کو خارج از آہنگ قرار دے کر معاملہ برابر کر دیا۔ عوض معاوضہ گلہ ندارد۔

( شاعری یا کلامِ موزوں پر اختر الایمان)

مجروح سلطا ن پوری:

مجروح سلطان پوری کے دورۂ پاکستان کے موقع پر روزنامہ ” جنگ ” نے انٹر ویو شائع کیا جس پر خامہ بگوش کا تبصرہ پڑھنے کے لائق ہے۔ لکھتے ہیں :

” خدا جانے مجروح صاحب کس قبیل کے ترقی پسند ہیں جو شاعری کو ترقی پسندی پر ترجیح دیتے ہیں ورنہ ہمارے ہاں تو ترقی پسندی ہی کو سب کچھ سمجھا جاتا ہے۔ باقی ساری چیزیں تو ثانوی اہمیت کی ہیں۔ جب سے ترقی پسند تحریک کی پچاس سالہ برسی منائی گئی ہے تب سے یہ خیال عام ہو گیا ہے کہ لکھنے پڑھنے کی قطعاً ضرورت نہیں اس کے لیئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے ترقی پسند ہونے کا اعلان کر دے۔ مجروح صاحب نے ایک بات بڑی عجیب کہی ہے کہ بڑے شاعر میر و غالب تھے یا پھر جوش اور اقبال۔ باقی تمام شاعروں کی اہمیت اتنی ہے کہ وہ بڑے مشاعروں کے لیئے مٹیریل جمع کرتے ہیں۔ اپنے ہم عصروں میں فیض،  مجاز،  سردار جعفری اور مخدوم وغیرہ کے نام لے کر کہا کہ یہ سب شاعر قد نہیں نکال سکے۔

ان کوتاہ قد شاعروں میں مجروح نے اپنے آپ کو بھی شامل کر لیا اور فرمایا ” ہو سکتا ہے ہمارا مٹیریل لے کر آئندہ کوئی بڑ ا شاعر پیدا ہو۔

قطع نظر اس کے جس مٹیریل کی وجہ سے آپ خود بڑے شاعر نہیں بن سکے اسے لے کر کوئی دوسرا بڑا شاعر کیسے بن سکتا ہے؟

ہمیں تو اس پر حیرت ہے کہ مجروح جیسا مقبول اور ہر دلعزیز شاعر اپنے آپ کو بڑے شاعروں میں شمار نہیں کرتا جب کہ آج کل تو یہ حالت ہے کہ وہ نو مولود شعراء جن کی شاعری اسقاطِ سخن قسم کی کوئی چیز ہے وہ بھی اپنے آپ کو میر کے برابر سمجھتے ہیں”۔

( اسقاطِ سخن تبصرہ بر مجروح سلطان پوری)۔

٭٭٭

 

 

 

اشو بھائی اور کُٹّی صاحب

 

 

لوگ کہتے ہیں کہ چاند اور ماؤنٹ ایورسٹ پر جب پہلی بار امریکیوں نے قدم رکھا تو کٹی صاحب وہاں پہلے سے موجود تھے اور چائے خانہ چلا رہے تھے۔

اس لیئے ہمیں اِس دعویٰ پر بھی حیرت نہیں کہ حضرتِ آدم اور بی بی حوّا بھی پہلے کیرالا ہی میں تشریف لائے۔یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پہلے وہ عرب میں ہی تشریف لائے لیکن اِقامہ اور رخصہ وغیرہ کے مسائل سے ڈر کر کیرالا چلے گئے۔ البتہ یہ تحقیق ہنوز باقی ہے کہ وہ پہلے کٹی صاحب کے ہا ں ٹھہرے یا  کویا صاحب کے ہاں۔

دنیا میں جہاں بھی جایئے کٹی صاحبان وہاں پہلے ہی سے موجود ہوتے ہیں۔ جہاں یہ نہیں پائے جاتے وہاں بقول کسی کے :

"حکومت اپنے خرچے پر اِنہیں رکھوا دیتی ہے کہ اِن کے بغیر یہ جگہ اچھی نہیں لگ رہی ہے”۔

جو قد اور وزن پاسپورٹ پر لکھوا کر لاتے ہیں دس پندرہ سال بعد جب واپس جاتے ہیں تو وہی قد اور وزن ہوتا ہے۔ کسی ملک کا ایک کلو کا بھی احسان نہیں اٹھاتے جب کہ پاشو بھائی دو تین سال میں ہی جب پہلی بار چھٹّی جاتے ہیں تو ان سے پہلے ان کی توند امیگریشن میں داخل ہوتی ہے۔

پاشو بھائی بھی کٹی صاحب سے پیچھے نہیں یہ بھی دنیا کے ہر حصے میں پائے جاتے ہیں۔ پاشو بھائی بھلے کٹی صاحب کی طرح محنت نہ کرتے ہوں لیکن ان سے زیادہ مصروف نظر آتے ہیں۔مصروف نظر آنے کے لیئے جتنی محنت لگتی ہے اگر آدمی اِس سے تھوڑی سی بھی کم کر لے تو واقعی مصروفیت ہاتھ لگ سکتی ہے۔ ہم دوبئی امریکہ یورپ جہاں بھی گئے بے شمار پاشو بھائی اور کٹّی صاحبان ملے۔ ان میں نوّے فیصد سالے یا بہنوئی تھے اور باقی دس فیصد اپنے سالے یا بہنوئی کے لئے ویزا خریدنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔۔  سالوں کی دونوں کے پاس بڑی اہمیت ہوتی ہے شائد اس لئیے کہ

سالے سمجھے تو ساتھ دیتے ہیں

سالے پلٹے تو ہاتھ دیتے ہیں

ہمیں دونوں حضرات بے حد پسند ہیں۔ کٹی صاحب کے پاس طویل گفتگو کے لئے وقت نہیں ہوتا اور پاشو بھائی کے پاس مختصر بات کرنے کا وقت نہیں ہوتا۔

جتنی دیر میں پاشو بھائی ایک چائے میں دو کر کے ایک دوسرے کو سارے محلّے کی خبریں سنائیں گے اتنی دیر میں کٹی صاحب دس چائے سپلائی کر کے دس ریال کما چکے ہوں گے۔ ہم اخبارات خرید کر پیسے ضائع کرنے کے بجائے اکثر پاشو بھائی اسٹریٹ چلے جاتے ہیں سعودی عرب میں اس کو "شارع غیبت” بھی کہتے ہیں ہر شہر میں یہ پائی جاتی ہے۔ حتٰی کہ شکاگو میں بھی۔ ہم کو وہاں ملکی، بین الاقوامی سبھی خبریں تبصروں کے ساتھ سننے کو مل جاتی ہیں بلکہ خود اپنے بارے میں بھی زیادہ تر خبریں ہم کو یہیں سے ملتی ہیں۔

سنا ہے لڑائی میں 555 پینترے ہوتے ہیں۔  پہلا پینترا ہے مخالف کو للکار دو چاہے بعد میں پِٹ جاؤ۔

اور آخری پینترا ہے بھاگ لو۔

پاشو بھائی پہلے پینترے کے استاد ہیں اور کٹی صاحب آخری پینترے کے۔ یہ بھی سنا ہے کہ کیرالا میں شرح خواندگی یعنی literacy rate سو فیصد ہے لیکن کٹی صاحب اتنے منکسرالمزاج ہوتے ہیں کہ literacy کا پتہ نہ ان کی صورت سے چلتا ہے نہ حالت سے۔ جب کہ پاشو بھائی کی صورت سے خواندگی کئی سو فیصد ٹپکتی ہے بشرطیکہ یہ اپنا منہ نہ کھولیں۔ ورنہ شرح خواندگی کم اور شرح خاوندگی زیادہ جھلکنے لگتی ہے۔ کٹی صاحب زیادہ تر فیملی کے بغیر رہتے ہیں اس لئے نڈر اور بے باک ہوتے ہیں کوئی کام کرتے نہیں شرماتے۔

پاشو بھائی کو تاریخ پسند ہے اور کٹی صاحب کو جغرافیہ۔

کٹی صاحب سے پو چھیئے انڈیا کہاں ہے تو کہیں گے کیرالا میں۔ اور پاشو بھائی سے پوچھئیے حیدرآباد کہاں ہے تو کہیں گے نظام سرکار میں۔ پاشو بھائی کا پسندیدہ موضوع یہ ہوتا ہے کہ ان کے آباء و اجداد کیا تھے اور کٹی صاحب اپنی اولاد اور پوتا نواسی کیا بنیں گے اسمیں دلچسپی رکھتے ہیں۔ دونوں مذہب پسند ہوتے ہیں خدا ان کی ہابی میں داخل ہے اس لئیے کمپنی کے اکاؤنٹ میں پڑھی جانے والی نمازوں میں شریک رہتے ہیں۔ پاشو بھائی کے نزدیک غلط کام اگر دوسرے کر رہے ہوں تو غلط ہے لیکن اگر وہ خود کر رہے ہوں تو صحیح ہے۔کٹی صاحب صحیح یا غلط کی بحث میں نہیں پڑتے ان کے نزدیک جب تک پکڑے نہ جاؤ ہر کام صحیح ہے۔

کہتے ہیں کہ عمر کا اندازہ شکل و صورت سے نہیں حرکتوں سے لگایا جاتا ہے۔اِس لحاظ سے پاشو بھائی بڑھاپے میں بھی جوان ہی رہتے ہیں لڑکپن سے چلی آ رہی زنانے میں تاک جھانک کی عادتیں اِنہیں کبھی ضعیف ہونے نہیں دیتیں۔ کٹی صاحب جب تک اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو جاتے نہ یہ زنانے کی طرف دیکھتے ہیں نہ زنانہ ان کی طرف دیکھتا ہے۔ اس لئے یہ کب جوان رہے کب بوڑھے ہوے پتہ ہی نہیں چلتا۔جوانی میں بھی واجپائی واجپائی لگتے ہیں۔ کٹی صاحب ایک بار کی ہوئی غلطی دوبارہ نہیں کرتے لیکن پاشو بھائی مستقل مزاج ہوتے ہیں۔جو غلطی ایک بار کی اُسے نہیں چھوڑتے۔ ساری عمر دوہراتے ہیں۔شائد اسی لیئے ہم نے اکثر پاشو بھائی کو دو دو شادیاں کرتے دیکھا ہے۔ جو دو شادیاں نہیں کرتے ان کو ہم نے دوسری شادی کے موضوع پر مذاق مذاق میں چھیڑتے دیکھا ہے۔ لیکن جونہی بیوی گھور کر دیکھے چپ ہو جاتے ہیں۔

ایک بار ایسے ہی ایک پاشو بھائی نے ہم سے کہا کہ : ہمارے لیئے دوسری شادی کی دعا کیجیئے۔

ہم نے کہا بھائی کس نے کہا کہ اِس کا تعلق دعا سے ہے؟ اس کا تعلق ہمت اور حوصلے سے ہے۔ دعا کا وقت تو بعد میں خود بخود آ جاتا ہے۔ بلکہ اس کے بعد تو بندے کے لئے صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ تاوقتیکہ وہ کوئی شیردل مرد نہ ہو۔

پاشو بھائی کے پاس پیسے زیادہ ہوں تو بچّے کی سالگرہ کر ڈالیں گے لیکن کٹی صاحب کے پاس پیسے آ جائیں تو وہ فکس ڈپازٹ یا انشورنس خریدیں گے۔ کسی اچھی بلڈنگ کو دیکھ کر پاشو بھائی یہ سوچتے ہیں کہ میں اس کا مالک کیوں نہیں۔ اور کٹی صاحب یہ سوچتے ہیں کہ اِسے خریدنے کے لیئے اور کتنے سال کی محنت درکار ہو گی؟

اسیلیئے جہا ں دو چار کٹی صاحبان جمع ہوں وہ محفل Wall Street Journal ہو جاتی ہے۔ اور جہاں دو چار پاشو بھائی جمع ہوں گے وہ جگہ یا تو دارالسلام یا پارلیمنٹ یا ورلڈ فقہ کونسل میں تبدیل ہو جائے گی، جہاں ایک مسئلہ حل ہونے تک دوسرے کئی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ ہر بندہ مسلسل قطع کلامی کرتے ہوئے یوں مخاطب کرتا ہے گویا پورے عالمِ اسلام کو مخاطب کر رہا ہو۔ یہ لوگ جتنا عالمی مسائل پر غور کرتے ہیں اگر اِس سے تھوڑا سا کم اپنے خاندان یا محلّے پر غور کر لیں تو پورے عالمِ اسلام کی صورتِ حال بدل سکتی ہے۔

 

کٹی صاحب کی دوستی ہر اس شخص سے ہوسکتی ہے جو ہم زبان ہو لیکن پاشو بھائی صرف اُسی سے دوستی کرتے ہیں جو ان کا ہم خیال ہو یعنی جو ان کی "ہم” کا "خیال ” رکھے۔  اس لیئے کٹی صاحبان نئی نئی آرگنائزیشن بنانے میں آگے ہیں اور پاشو بھائی آرگنائزیشنس چھوڑنے۔  اتحاد و اتفاق کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا سکتے ہیں۔ ۔۔ سر دوسروں کا اور دھڑ اپنا۔

کئی کئی کٹی صاحبان مل کر ایک آرگنائزیشن چلاتے ہیں جب کہ ایک پاشو بھائی کئی کئی آرگنائزیشنس چلاتے ہیں۔ اکثر پاشو بھائی کی تنظیمیں بنتے ہی ٹوٹ جاتی ہیں۔  نائب صدر اور جنرل سکرٹری صاحبان الگ ہو کر اپنی الگ تنظیم کا اعلان کر ڈالتے ہیں اس لئے کچھ ڈیڑھ ہوشیار پاشو بھائی اکیلے تنظیمیں چلا لیتے ہیں۔

ہم نے ایک بار پاشو بھائی سے پوچھا "آپ قوم کو کیا دے سکتے ہیں ؟”

کہنے لگے "ہم قوم کو مشورے دے سکتے ہیں "۔

لیکن سارے پاشو بھائی ایسے نہیں ہوتے۔ یہ صرف %99 لوگوں کی وجہ سے باقی سارے پاشو بھائی بدنام ہو جاتے ہیں۔

دونوں انگریزی بولنے پر آتے ہیں تو انگریزوں کو بھی مات کر ڈالتے ہیں لیکن کٹی صاحب کی انگریزی سمجھنے کے لیئے انگریزوں کو پہلے ملیالی سیکھنا لازمی ہے۔ جب کہ پاشو بھائی کی انگریزی اردو کا ترجمہ ہوتی ہے۔ ویسے کٹی صاحب جب انگریزی میں غصّہ کرتے ہیں ہمیں بڑا اچھا لگتا ہے۔ دونوں کے مزاج اور رکھ رکھاؤ میں وہی فرق ہے جو دھوتی اور کرتے پاجامے میں ہے۔ شیروانی یا کرتے پاجامے میں آ رام سے جس پہلو چاہے بیٹھیئے اٹھیئے جس کروٹ چاہے لیٹیئے کوئی خطرہ نہیں اس لیئے پاشو بھائی چار سو سال سے آرام ہی آرام کر رہے ہیں صبح کی دعوت دیجیئے آرام سے دوپہر تک پہنچیں گے۔

کٹی صاحب کی چستی اور پھرتی کا راز ان کی دھوتی یا لنگی ہے اِسے دیکھ کر اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ پہنی جا رہی ہے یا اتاری جا رہی ہے۔اِسے پہن کر بیٹھنے اٹھنے یا لیٹنے میں آدمی کو اتنا چوکس رہنا پڑتا ہے کہ اگر دھوتی فِٹ نہ ہوئی تو سامنے والے پر فِٹس پڑ سکتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ ڈارون نے اپنا مقالہ کیرالا میں ہی لکھا تھا۔ ویسے دھوتی پہننے میں ذرا مشکل ہے لیکن اتارنے میں بڑی آسان۔ شائد اسی لیئے امریکہ میں مقیم کٹی صاحبان نے بل کلنٹن کو دھوتی کا تحفہ پیش کیا تھا۔ نہرو نے کہا تھا کہ کشمیر ہندوستان کا سر ہے دہلی اس کی پیشانی اور حیدرآباد اس کا دل ہے۔ اس لحاظ سے کیرالا جس مقام پر آتا ہے وہ ایک جغرافیائی مجبوری ہے۔ اس میں ہنسنے کی کوئی بات نہیں البتہ نہرو صاحب کو اس طرح نہیں کہنا چاہیے تھا۔

پاشو بھائی اور کٹی صاحب کی طرح پاشو بھابھی اور مسز کٹی بھی شاندار شخصیات کی حامل خواتین ہوتی ہیں۔۔  پاشو بھابھی اسکوٹر پر بھی اِس ناز سے بیٹھتی ہیں جیسے کار میں بیٹھ رہی ہوں اور مسز کٹی کار میں بھی اس طرح قدم رکھتی ہیں جیسے اسکوٹر سے اتر رہی ہوں۔ دونوں کو بچّوں سے بہت محبت ہے۔ فرق یہ ہے کہ جب تک کہ مسز کٹی اگلے بچے کی پلاننگ کر رہی ہوتی ہیں پاشو بھابھی دو تین بچّوں کا اضافہ کر چکی ہوتی ہیں۔ کٹی صاحب زیادہ بچّوں سے ڈرتے ہیں اور پاشو بھائی کسی سے نہیں ڈرتے سوائے اپنی ساس کی بچّی کے۔

دوکاندار پاشو بھابھی کو دیکھ کر قیمت دُگنی بتاتے ہیں اور مسز کٹی کو تین گنی۔  اس کے باوجود دونوں محترمائیں اصل قیمت سے بھی کچھ کم کروا کر چھوڑتی ہیں۔یہ ہر چیز چکا کر خریدنے میں ماہر ہیں صرف دولہوں کو نہیں چکا سکتیں۔

کیونکہ کٹی صاحب کے استری دھن یعنی جوڑا جہیز کے Rates وہاں fixed ہوتے ہیں۔ انٹر ایک لاکھ، گریجویٹ دو لاکھ اور انجینیئر چار لاکھ۔ فریج،  ٹی وی،  پلنگ بستر علیحدہ۔

پاشو بھائی انتہائی خوددار واقع ہوئے ہیں یہ جوڑے جہیز کے مخالف ہیں کوئی جہیز نہیں لیتے بلکہ صاف کہتے ہیں جوڑا جہیز مانگنا حرام ہے۔ البتہ رشتہ صرف اّس جگہ بھیجتے ہیں جہاں خوشی سے دیا جائے۔ یہ صاف صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں چاہیئے جو بھی دینا ہو اپنی بیٹی کو دے دیجیے۔

٭٭٭

 

 

 

 

خدا کسی کو ایڈیٹر نہ بنائے

 

 

ہماری دعا ہے کہ ” خدا کسی کو ایڈیٹر نہ بنائے "۔

ایڈیٹروں کے حق میں ہمارے موقف میں اچانک یہ رحمدلانہ تبدیلی پر ہمارے احباب کو اسی طرح حیرانی ہو گی جس طرح کسی مولانا کے بی جے پی یا پیپلز پارٹی سے ہاتھ ملا لینے پر ہو گی ورنہ وہی ہم تھے جو اپنا مضمون شائع ہونے کے انتظار کے کرب میں انہیں کیا کیا الزامات سے نہیں نوازتے۔ انہیں ” حق پسندوں کے دشمن،  سفارش پسند،  اقربا ء نواز، اپنے مضامین خود ہی فرضی ناموں سے چھاپ لینے والے،  مالکوں کے اشارے پر ناچنے والے ” وغیرہ قرار دیتے۔

 

سچ فرمایا رسولِ خد ا (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہ جب کوئی بند ہ بِلا تحقیق کسی پر تہمت لگائے گا تو اللہ تعالی اس بندے سے وہی عمل کروا کر ذلیل کرے گا۔ لہذا ہماری شامتِ اعمال رنگ لائی۔  ہوا یوں کہ احباب نے یومِِ آزادی کے موقع پر ایک عدد مشاعرہ اور اس موقعہ پر ایک عدد سووینیر کے اجراء کا فیصلہ کیا۔ مقصد وہی گھِسا پِٹا۔ ۔۔۔ جِسے بڑے بڑے حرفوں میں شائع ہونا تھا کہ اردو کی ترقی،  ادب کی خدمت و فروغِ ذوقِ مطالعہ وغیرہ۔ یہاں تک تو سب ٹھیک تھا لیکن اس کے بعد احباب نے سووینر کی ایڈیٹری کا قرعۂ فال ہمارے نام نکال دیا۔ ہم نے لاکھ سمجھایا کہ ہمیں صدر یا سرپرست وغیرہ منتخب کر لیں۔ لیکن پتہ چلا کہ صدارت کے لئے دس ہزار روپیئے اور باقی عہدوں کے لئے دو دو ہزار روپیوں کا چندہ دینا لازمی ہے۔  ہمارا جذبۂ تعاون تو اس سخاوت کے لئے تیار ہو گیا۔ لیکن ہمارے ذوقِ شہرت نے ویٹو کر دیا۔  سووینر میں ایک سوٹ والی تصویر چھپوانے کی اتنی زیادہ قیمت ایک احمقانہ سودا تھی وہ بھی ایسے میگزین میں جسے صرف شاعر یا مضمون نگار یا پھر وہی اصحاب پڑھیں گے جن کی تصاویر شائع ہوں گی۔  اس سے بہتر تو یہ ہے کہ کسی اخبار میں اپنی تصویر کے ساتھ اشتہار شائع کروا کر سووینر کی اشاعت پر مبارکباد کا پیغام دیا جائے۔  ہزاروں دیکھ لیں گے، سینکڑوں اتفاقاً پڑھ بھی لیں گے۔ سووینر نکلے نہ نکلے کم ازکم اپنے سرمائے کا فائدہ تو نکل آئے گا۔ اسی لئے تو لوگ گروپ فوٹوز میں شریک ہونے کے لئے ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے کسی تدفین کے وقت قُل کے ڈھیلے ڈالنے کا ثواب حاصل کرنے کے لئے ٹوٹ پڑتے ہیں۔

خیر صاحب تو ہم ایڈیٹر بن گئے۔  اگلے دن سے ہی غزلوں اور مضامین کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔  ایک ہی ہفتہ میں پچاس ساٹھ غزلیں جمع ہو گئیں جو تمام اُن شعرا کی تھیں جن سے بچنے کے لئے ہم مشاعروں میں خاص طور پر ایسے وقت داخل ہونے کا اہتمام کرتے ہیں جب وہ سب سنا چکے ہوں۔ جس کا ظالموں نے ہم سے خوب انتقام لیا۔ ہر ایک نے اپنی تین تین چار چار غزلیں جن میں سے ہر غزل کم سے کم پندرہ اشعار پر مشتمل تھی نواز دیں اور انتخاب کی ذمہ داری ہمارے سر تھوپ دی۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ اچھے شعرا کئی کئی شعر لکھتے اور اُن میں سے پانچ چھ منتخب کر کے باقی کو ردّی کے حوالے کر ڈالتے۔  لیکن آج یہ حال ہے کہ شاعر اپنا فکری اُبال پورا کا پورا سامعین یا قارئین پر اُلٹ دیتے ہیں اِس امید پر کہ وہ کچرے کے ڈھیر سے ہیرا ڈھونڈھ کر اُن کو اطلاع دیں گے۔  ظاہر ہے ہر شاعر کو اپنی ہر غزل اولاد کی طرح پیاری ہوتی ہے اسی لئے اکثر شعراء مشاعرے میں پورے کُنبے کو پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلکہ بعض تو بشیر بدر اور ندا فاضلی کی طرح شعر پیش کرنے سے پہلے ہاتھ جوڑ جوڑ کر داد کی اپیل اس طرح کرتے ہیں جیسے بیوہ ماں یتیم بچوں کی دہائی دے رہی ہو۔

ہم ایڈیٹر کی ذمہ داری بس اتنی ہی سمجھتے تھے کہ وہ مواد جمع کرے اور اپنی پسند کے شاعر یا ادیب کی تخلیق کاتب کے حوالے کر دے لیکن اب پتہ چلا کہ غزلوں اور مضامین کے ڈھیر سے انتخاب کرنا کسی کوڑے کرکٹ کے ڈھیر سے کوئی کھوئی ہوئی چابی تلاش کرنے کے مماثل ہے۔ ایک دوسرا راستہ یہ بھی تھا کہ تمام تخلیقات کو ہمعصر تخلیق کاروں میں بانٹ دیا جائے اور ان سے "ایمان داری ” کی شرط کے ساتھ تنقیدی جائزہ لینے کی قسم لے لی جائے تو ہمیں یقین ہے نہ کوئی غزل لائقِ اشاعت ہو گی اور نہ کوئی مضمون !

سچ کہا خامہ بگوش نے کہ اللہ تعالی ان تخلیق کاروں کو یہ سزا دے گا کہ ان کی تخلیقات ان ہی سے پڑھوائے گا۔ نہ تو ہم ڈاکٹر مصطفٰے کمال صاحب کی طرح اتنے صبر والے ہیں کہ سارے مضامین پڑھتے بیٹھیں اور نہ ہم اطہر ہاشمی کی طرح اتنے بے مروت ہو سکتے ہیں کہ مضامین کے پیراگراف ہی نہیں بعض اوقات تو پورا کا پورا مضمون حذف کر ڈالتے ہیں اور سینہ زوری کا یہ عالم کہ ملتے ہیں تو نہ مسکراہٹ میں کوئی کمی آنے دیتے ہیں نہ تعلقات میں۔

خیر۔۔۔ غزلوں کے بعد مضامین کا سلسلہ شروع ہوا۔  کسی مفکر کا قول ہے کہ کوئی دو مضامین پڑھ کر تیسرا مضمون لکھا جا سکتا ہے۔ بلکہ دلیپ سنگھ آنجہانی نے کہا تھا کہ پرانی ایک دو ساڑیوں کو پھاڑ کر ان سے جو نئے شرٹ شلوار بنائے جاتے ہیں وہ پرانی ساڑیوں سے زیادہ خوبصورت ہوتے ہیں اور مفت بھی تیار ہو جاتے ہیں۔  ایک ہمارے استادِ محترم جناب مصلح الدین سعدی صاحب تھے کہ ایک مضمون کے لئے کئی کئی کتابیں پڑھوا دیتے۔  لیکن آج کی ” ادب خواری "کے لئے ان سب بکھیڑوں کی ضرورت نہیں۔  دو چار مضامین کی کترن سے ایک دو مضمون نکل ہی آتے ہیں۔

ایک صاحب نے جدید فلمی شاعری پر ” کان ریزی "کی۔  کیوں کہ اس شاعری پر تحقیق کے لئے عرق ریزی کی نہیں کان ریزی کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور یہ ثابت کیا کہ فلمی شاعری نہ ہوتی تو اردو شاعری ختم ہو چکی ہوتی۔ ہمارا خیال تھاکہ فلمی شاعری کو پیدا کر نے اردو شاعری کا خاتمہ ناگزیر تھا۔ جیسے :

ہم نے دیکھی ہے اُن آنکھوں کی مہکتی خوشبو

ہاتھ سے چُھو کے اسے رشتوں کا الزام نہ دو

ہمیں ہندوستان چھوڑے ہوئے تیس سال ہو چکے ہیں۔ اس لئے شعری دنیا میں استعاروں، علامتوں،  تشبیہات وغیرہ کے استعمال میں جو انقلابات آ چکے ہیں ہم اُن سے قطعی ناواقف ہیں۔ آنکھوں سے چمک کے بجائے مہک پھوٹنے لگی۔ مہک بھی ایسی کہ اسے سونگھنے یا محسوس کرنے کی بجائے دیکھا جانے لگا۔ ستم بالائے ستم "اس مہک کو چھوا بھی جانے لگا "۔ اور طرفہ تماشہ یہ کہ اس مہک کو چھونے سے رشتوں کا ا لزام بھی آ سکتا ہے ا ور افسوسناک پہلو یہ کہ بین السطور میں نا جائز رشتوں کا الزام۔ ۔۔

اگر ہمیں علم ہوتا کہ اِس قسم کی بے معنی شاعری کی بھی اِسقدر مقبولیت ہو گی تو ہم ہندوستان کبھی نہ چھوڑتے اور فُل ٹائم شاعری کرتے۔  خیر مضمون اِسی طرح کی لغو شاعری سے بھرپور تھا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ مضمون نگار کے بڑے بھائی فلمی اور ٹی وی کے حلقوں میں کافی اثر رکھتے تھے۔  اس مضمون کو قبول کر کے ان سے تعلقات بڑھانے کا ایک موقع ہم کھونا نہیں چاہتے تھے اس لئے اردو کے مستقبل کی خاطر ہم اپنا مستقبل تو داؤ پر لگانے سے رہے اس لئے ہم نے خوشی خوشی ان کا مضمون قبول کر لیا۔

ایک صاحب نے ایک مضمون ” ادب میں ترقی پسندوں کا حصہ ” اس خصوصی ہدایت کے ساتھ تھمایا کہ ” خیال رہے ترقی پسند ادب کو خصوصی جگہ ملنی چاہیئے "۔

ترقی پسند ہونے کے لئے لکھنا اتنی ضروری نہیں ہوتا۔ اس کے لئے صرف قدروں سے باغی ہونا اور فرار حاصل کرنا کافی ہے۔ مثلاً کیفی اعظمی صاحب اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ اُنکے والدین نے انہیں عالمِ دین بنانے کے لئے مدرسے میں ڈال دیا لیکن وہاں کسی مولوی کی ایک بچے کے ساتھ ناشائستہ حرکت کو دیکھ کر انہوں نے مدرسے ہی نہیں دین سے بھی بغاوت کر دی۔ اور بمبئی بھاگ آئے لیکن یہ واضح نہیں ہوا کہ وہ بچہ تھا کون؟ ترقی پسندوں پر ہمارے کئی اعتراضات ہیں۔ لیکن ہم نے مضمون قبول کر لیا کیونکہ مصنف نے ہمارے لڑکے کو نوکری دلانے کا وعدہ کیا ہوا تھا۔

ایک اور صاحب ہیں ناقد لکھنوی۔ سنا ہے کہ ایک عرصے سے تنقید لکھ رہے ہیں۔ لیکن ادبی حلقوں نے انہیں تنقید نگار ماننے سے انکار کر دیا تو مجبوراً انہوں نے اپنا نام ناقد رکھ لیا۔ سووینر کے لئے انہوں نے جو مضمون عنایت فرمایا وہ سب سے شاندار مضمون تھا۔  عنوان تھا ” شعرِ  جدید کا خالق۔ ۔۔ فلکی "۔

ہم عنوان دیکھتے ہی اچھل پڑے۔ خدا گواہ ہے کہ ہم کو آج تک شعرِ جدید و قدیم کا فرق بھی نہیں معلوم۔ ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ شعرِ قدیم عروض،  بحر، ردیف و قافیہ اور پتہ نہیں کیا کیا کا پابند ہوتا ہے اور شعر جدید نہ صرف اِن تمام پابندیوں سے آزاد ہوتا ہے بلکہ معنی و مقاصد سے بھی آزاد ہوتا ہے۔ پتہ نہیں ہمارے کس شعر نے ان کی بارگاہِ سخن میں سعادتِ قبولیت حاصل فرمائی کہ ہم کو شعرِ جدید کے خالق ہونے کا اعزاز نصیب ہو گیا۔  ناقد صاحب ہمارے جلسوں اور مشاعروں کے لئے خاطرخواہ تعداد میں حاضرین فراہم کرنے کے کام آتے ہیں اس لیئے ان کا مضمون از راہِ مروّت شامل کرنا ضروری تھا لیکن اگلے ہی ہفتے ان کی شریکِ حیات نے ایک مضمون عنایت فرمایا : ” تنقیدِ جدید کا خالق۔ ۔۔ ناقد”

جب ناقد صاحب کے کہنے پر ہم نے اپنے آپ کو شعرِ جدید کا خالق تسلیم کر لیا ان کی بیگم نے برا نہ مانا تو ان کی بیگم کے کہنے پر ان کے شوہر کو تنقیدِ جدید کا خالق کہنے پر ہم کو بُرا ماننے کا حق نہیں رہا۔  خواتین کو جہاں پارلیمنٹ میں 33% حصہ دینے کی بات ہو رہی ہے وہیں سووینر میں ایک آدھ مضمون کی جگہ تو خواتین کو ملنی ہی چاہیئے اس لئے یہ مضمون بھی طوعاً و کرہاً قبول کرنا پڑا۔

مضامین کی کثرت کی وجہ سے جب منتظمین کی تصاویر والے صفحات کو خارج کر دینے کی نوبت آئی تو مجبوراً منتظمین نے یہ اعلان کروا دیا کہ بغیر اشتہار کے کو ئی تخلیق شائع نہیں کی جائے گی۔ صرف اور صرف اشتہارات کو شائع کر کے اردو کی خدمت تو کی جا سکتی ہے لیکن مضامین یا شاعری شائع کر کے نہیں کی جا سکتی۔  ہم نے بڑے بڑے مشاعرے جلسے اور سیمینار بھی دیکھے مسندِ صدارت یا مسندِ مہمانِ خصوصی پر اکثر اُن بے ادبوں کا جلوہ ہوتا ہے جو قلم سے نہیں بلکہ جیب سے ادب میں اپنا مقام بناتے ہیں۔ اس لیے اشتہارات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

اشتہار پالیسی کامیاب رہی۔ ایک حکیم صاحب نے اپنے ایجاد کر دہ نسخۂ مردانہ کا اشتہار اسی عنوان سے متعلق ایک عدد مضمون کے ساتھ عنایت فرمایا۔ پھر ” ضرورت رشتہ ” کے دفاتر،  ” روحانی علاج ” کے ماہرین وغیرہ سبھی جوش میں آ گئے۔  نتیجہ یہ ہوا کہ ہم کو پھرکسی مضمون کو ایڈٹ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔  بعض قابلِ اعتراض چیزوں پر منتظمین نے ضرور اعتراض کیا لیکن مشتہرین کی جانب سے جب اشتہار واپس لے لینے کی دھمکی ملی تو وہ بھی خاموش ہو گئے۔ اب ہمارا کام اتنا رہ گیا کہ جو بھی مضمون اشتہار کی رقم کے ساتھ آتا ہم اُسے کسی مفت کے مضمون کی جگہ لگا دیتے۔ ایک صاحب نے کسی بڑی کمپنی سے اشتہار پکڑا اور پانچ ہزار روپیئے کے ساتھ اپنا مضمون "دلیپ کمار سے شاہ رُخ خان تک” پیش کیا۔ ہم نے اُسے طارق غازی کے مضمون "نشاةِ ثانیہ کے روشن امکانات” کی جگہ لگا دیا۔ اسی طرح ہم نے صدر کمیٹی جنہوں نے یوں بھی دس ہزار کا عطیہ دیا تھا ان کی صاحبزادی کا مضمون "فیشن ڈیزائن کیا ہے ” لیا اور نعیم جاوید کے مضمون "اسلام کا تصوّرِلباس ” کی جگہ فِٹ کر دیا۔ کچھ آزاد غزلیں اور نثری نظمیں شاعر کی تصویر اور رقم کے ساتھ موصول ہوئیں لیکن جگہ کہ قلت تھی سکریٹری صاحب نے کہا کہ یہ علامہ اقبال اور غالب والے صفحے نکال دیجیئے کیونکہ تقریباً ہر رسالے میں غالب و اقبال تو یوں بھی شائع ہوتے رہتے ہیں ہمارا فرض ہے کہ ہم نئی نسل کی ہمت افزائی کریں۔

ہم ایڈیٹر کیا بنے ہماری شخصیت میں ایک انقلاب آ گیا۔ سرمایہ داروں کی اہمیت سمجھ میں آئی کہ ہم بھی سرمایہ دار ذہن کے مالک ہو گئے۔ لوگ سمجھتے ہیں سرمایہ دار آزاد ہوتے ہیں دراصل لوگ سرمایہ دارانہ مجبوریاں نہیں سمجھتے۔  ہم بھی کل تک نہیں سمجھتے تھے اِسی لئے آج تک ترقی نہیں کرسکے۔ خونِ جگر جلا کر،  راتوں کی نیندیں برباد کر کے شعلہ بیان تقریریں اور مضامین لکھ کر ہم یہ سمجھتے تھے کہ اِس حق کی آواز کو پڑھتے ہی دنیا کے سارے مظلوم ایک جگہ جمع ہو جائیں گے۔

محلوں اور ایوانوں کی دیواریں کانپنے لگیں گی۔

منصف فیصلہ لکھتے وقت قلم تھام لیں گے۔

ایڈیٹر حضرات ہمارے مشکور ہوں گے اور مزید مضامین کی فرمائش کریں گے وغیرہ وغیرہ۔

لیکن اب سمجھ میں آیا کہ حق کی آواز بلند کرنے کے لئے بھی سرمائے ہی کی ضرورت ہوتی ہے !

اِس کے بغیر نہ جلسہ ہو سکتا ہے نہ کوئی رسالہ یا اخبار نکل سکتا ہے۔ شائد اسی لئے ہمارے ترقی پسند بھائی جب ساری دنیا کے مظلوموں کو جمع کرنے نکلے اتنی دور نکل گئے کہ اُنہیں پتہ ہی نہ چلا کہ وہ خود کب سرمایہ داروں کے ساتھ ہو گئے اور خود بھی سرمایہ دار ہو گئے۔

خیر ہم اُن تمام شعراء اور ادباء سے معذرت خواہ ہیں جن کے ساتھ ہم کل تک تھے اور ایڈیٹروں کو برا بھلا کہتے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

بھائی اُسامہ بن لادن کے نام ایک خط

 

 

السلام علیکم و  رحمۃ اللہ و برکاتہ

 

آپ کی یاد تو ہم قدم قدم پر کرتے ہیں کبھی آپ بھی ہمیں یاد کرتے ہیں یا نہیں؟ اس کا پتہ نہیں۔

خیر ہماری خیریت اِسی میں ہے کہ آپ کبھی بھولے سے بھی ہمیں یاد نہ فرمائیں ورنہ آپ جس کو یاد کر لیتے ہیں پھر وہ ایک یاد ہی بن کر رہ جاتا ہے۔

ہم آپ کو بھولنا بھی چاہیں تو نہیں بھول سکتے ہمیں بندوق کی نالی پر آپ کی یاد دِلائی جاتی ہے۔ پولیس تھانہ ہو کہ ایرپورٹ، کوئی سرکاری عمارت ہو کہ کمپنی ہر جگہ مچّھر جیسی جسامت کے سیکوریٹی والے آنکھیں دِکھا کر آپ کی یاد دلاتے ہیں۔  کبھی آپ کی وجہ سے ہمارے جوتے اتروا دیئے جاتے ہیں تو کبھی بیلٹ اور جیکٹ۔ جگہ جگہ یہ حضرات جیبیں اور بغلیں تلاش کر کے ہمیں گُدگُدی کرتے ہیں اور ہم ہنس بھی نہیں سکتے۔

ایک بار غلطی سے ہنسی نکل گئی تھی۔ اُن لوگوں نے سمجھا کہ ہم اُن پر ہنس رہے ہیں کیونکہ اُس وقت وہاں اُن کے علاوہ کوئی اور تھا بھی نہیں۔ بس انجام یہ ہوا کہ کبھی کسی محفل میں ہنسی آ جائے تو خوف سے ہم اِدھر اُدھر دیکھنے لگتے ہیں کہ کہیں کوئی سیکوریٹی والا ہمیں دیکھ تو نہیں رہا ہے۔

ورنہ ایک وقت وہ تھا جب یہ پہلوان اونگھتے پڑے رہتے کوئی مصروفیت نہیں رہتی۔ آپ نے اِنہیں اتنا چاق و چوبند کر دیا کہ یہ اپنے باپ کو بھی چیکنگ کیئے بغیر نہیں چھوڑتے۔ کسی کسی کی تو پتلون تک اتروا دیتے ہیں۔ چاہے وہ ہمارے ملک کا وزیرِ دفاع ہی کیوں نہ ہو۔ جی ہاں ہمارے ایک شریف وزیرِ دفاع کی امریکہ میں پتلون اتروا دی گئی۔ وہ بے چارے کوئی دفاعِ قبا نہ کر سکے۔ دفاع تو درکنار احتجاج بھی نہ کر سکے۔ دوسرے وزیروں نے احتجاج کیا لیکن پتلون اتر نے کے بعد۔جب یہ خبر ہم نے اخبار میں پڑھی تو ہمیں بہت خوشی ہوئی۔  جی چاہا کہ آپ کو شکریئے کا خط ضرور لکھیں کہ آپ کی وجہ سے ہمارا بدلہ پورا ہو گیا۔

ان کے نزدیک وزیروں کی پتلون اتروانا بدسلوکی ہے لیکن ہم جیسے شریفوں کی پتلون سے یہ خود جو سلوک کرتے ہیں اس کا انہیں کوئی احساس نہیں۔ آپ جیسے خدائی فوجدار کی وجہ سے سلوک کا بدلہ سلوک وجود میں آ گیا۔ اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے کے مصداق اگرچہ کہ آپ بتاتے رہتے ہیں کہ میں یہاں ہوں تو کبھی وہاں ہوں پھر بھی یہ حضرات آپ کو کبھی ہمارے پسِ لباس اور کبھی تہہِ لباس تلاش کرتے رہتے ہیں۔

ہمارا تو چھوڑیئے ہماری فلمی ہیروئینیں جو لباس پہنتی ہیں اُس کی تلاشی میں تو کوئی وقت لگنا ہی نہیں چاہیئے لیکن وہ ہم سے بھی زیادہ دیر میں باہر آتی ہیں۔ راز کی بات بتا دیں کہ اتنا تار تار ہمارا لباس تو حمام میں بھی نہیں ہوتا۔  جی کرتا ہے کہ اب لُنگی پہن کر ہی سفر کیا جائے۔ لُنگی میں نہ تو آزار والے بند ہوتے ہیں نہ پتلون جیسے قفل در قفل۔ ہزاروں میل کے سفر میں سب سے با مشقّت کام یہی ہوتا ہے کہ اِس پار اُتاری کبھی اُس پار اُتاری۔ بہتر یہی ہو گا کہ پہلی تفتیش پر ہی ہماری پتلون وہ جہاز کے عملے کے حوالے کر دیں اور اختتامِ سفر پر لوٹا کر ہمیں با عزّت بری کر دیں۔

ایک بار تو تفتیش کی حد ہو گئی۔  ہمارے شیرخوار بیٹے کی دودھ کی بوتل پر اِن سیکوریٹی والوں کو کچھ شک ہوا۔  پہلے تو الٹ پلٹ کر دیکھا اور کتے کی طرح سونگھا اور ہم کو حکم دیا گیا کہ اِسے پی کر دکھاؤ۔ اب کی بار ہم نے سوچا ہے کہ ناس یا نسوار کی ڈبیا اپنے ساتھ لے جائیں گے اور اُن کو سنگھا کر ہی چھوڑیں۔

آج تک صرف سنا تھا لیکن آج دیکھ رہے ہیں کہ دہشت مٹانے کے لیئے دہشت گردوں ہی کی ضرورت پڑتی ہے۔ محلّے میں جتنے آوارہ اور اوباش تھے جو ہر گزرنے والی کی نظروں سے جامہ تلاشی لینے کی علاوہ سارا دن اور کوئی کام نہیں کرتے، آپ کے طفیل نہ صرف انہیں نوکریاں مل گئیں بلکہ ایسی نوکریاں جو ان کے عین شایانِ شان تھیں۔ ان ساروں کو سیکوریٹی کی نوکریاں مل گئیں۔  کل تک کی ان کی ساری نازیبا حرکتیں آج ان کی فرض شناسی اور مستعدی میں شمار کی جانے لگیں۔ اس طرح آپ ہزاروں خاندانوں کے روزگار کا ذریعہ بن گئے۔ جی تو چاہتا ہے کہ آپ کا نام نوبل پرائز کے لیئے پیش کروں لیکن اگر ان لوگوں نے آپ کا پتہ پوچھ لیا تو ہمارا کیا ہو گا؟ آپ کا پتہ تو یہ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ اگر یہ کسی کو پتہ چل جائے تو ان کے ہتھیار فروخت ہونا بند ہو جائیں۔

ہم سوچتے ہیں اگر کسی دن آپ ہی خراماں خراماں سب کے سامنے تشریف لے آئیں تو ان بے چارے لاکھوں سیکوریٹی والوں کی نوکری کا پھر کیا ہو گا؟ اُن بے شمار پولیس افسروں کا کیا ہو گا جو آئے دن ہم جیسے شریفوں کو "قاعدہ” سکھاتے ہیں۔ اگر کوئی اِن کو "قاعدہ” سکھانے کی کوشش کرے تو اُسے انکاونٹر کر کے تمغے حاصل کرتے ہیں؟

"بڑے بھائی ” کا کیا ہو گا جو آپ کے نام سے ڈرا کر شاہوں اور حکمرانوں سے ہفتہ وصول کر رہا ہے؟

اُن لیڈروں کا کیا ہو گا جو آپ کے نام سے ڈرا کر دھرم رکھشا کر رہے ہیں۔ جن کو آپ کے نام سے ووٹ مل جاتے ہیں۔

معصوم نوجوانوں کے پاس سے فرضی ہِٹ لسٹ برآمد کرواتے ہیں اور اسمیں اپنا نام خود ہی شامل کر کے پبلسٹی حاصل کرتے ہیں۔

بے چارے اُس چوہے کی طرح ہیں جو ایک بار جنگل میں بے تحاشا بھاگے جا رہا تھا۔ دوسرے جانوروں نے پوچھا بھائی کیا بات ہے کیوں بے حال ہو رہا ہے؟ کہنے لگا کہ شیرنی کا اغوا ہو گیا ہے۔ دوسروں نے بڑی حیرانی سے پوچھا کہ اِس میں تجھے اِتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ کہنے لگا کہ شیر مجھ پر بھی شک کر سکتا ہے۔

ہمارے اکثر دیش بھگت لیڈروں پر اسی طرح کا ڈر سوار ہے۔ ڈرا ہوا آدمی کچھ بھی کر سکتا ہے اِسی لیئے ہم ایسے ڈرے ہوئے لوگوں سے بہت ڈرتے ہیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ اگر کبھی تشریف لائیں تو پلیز اپنے پلان سے نہیں بلکہ اُسی پلان کے مطابق تشریف لائیں جس کو ہمارے ذہین پولیس اور سیکوریٹی والوں نے بڑی محنت سے ترتیب دیا ہے۔ اور ہمارا چلنا پھرنا عذاب کر رکھا ہے۔عمارتوں کے آگے سمنٹ کے بلاکس رکھ کر آپ کے آنے کا راستہ فرض کر لیا اور ہمارے لیئے صرف ایک کار کے گزرنے کے راستہ چھوڑ دیا جسمیں ہم گھنٹوں ٹرافک میں پھنس کر پٹرول کا دھواں پیتے رہتے ہیں۔ کہیں مصروف ترین سڑک کے بیچوں بیچ آپ کے استقبال کے لیئے انہوں نے چیک پوائیٹ بنائے رکھے ہیں۔ اِس رینگتی ہوئی قطار میں بہت سارا وقت برباد کرنے کے بعد جب ہماری گاڑی ان کے روبرو ہوتی ہے تو یہ دیکھ کر خون کھول جاتا ہے کہ ایک پولیس والا ہماری طرف پیٹھ کیئے دوسرے پولیس والے سے ہنسی مذاق میں مصروف ہے۔

داڑھی نیکی اور شرافت کی علامت ہے۔

شائد اسی لیئے اس پر نہ صرف doubt at first sight کیا جاتا ہے بلکہ shoot at first sight بھی کر دیا جاتا ہے۔ ہم بھی آج کے مسلمانوں کیطرح اپنی داڑھی کو دل میں بڑھانے کے قائل ہو گئے ہیں۔  بلکہ مصلحت اور دفعِ ضرر کے اصولوں کے تحت فتویٰ بھی حاصل کر چکے ہیں۔ کاش آپ کلین شیو ہوتے آپ خود دیکھتے کہ دنیا کی آدھی آبادی باریش ہو جاتی۔ آدھی اس لئے کہ باقی آبادی عورتوں کی بھی تو ہے۔

آپ کے دوستوں سے پتہ چلا کہ 10 مارچ کو آپ کی سالگرہ تھی۔ آپ کو تو یاد بھی نہیں ہو گا لیکن آپ کے دوستوں نے نہ صرف یاد رکھا بلکہ اپنے چشمِ تصوّر سے یہ بھی دیکھ لیا کہ بہت معمولی پیمانے پر سالگرہ منائی گئی ہو گی۔ کیک کاٹنے کی جگہ آپ نے نماز پڑھی ہو گی "ہاپی برتھ ڈے ٹو یو” کی جگہ آپ کی بیوی بچوں نے دعا کی ہو گی۔

معلوم ہوا کہ آپ 1957ء میں پیدا ہوئے۔  57 کا ہندسہ ہم دونوں کے درمیان مشترک ہے۔ شائد اسی لیئے ہمارے دوست اور دشمن دونوں بھی مشترک ہیں۔ دونوں کو ایک ہی رنگ اور نسل کے دشمنوں نے لوٹا اور بے اقتدار کیا۔ فرق یہ ہے کہ آپ 1957میں پیدا ہوئے اور ہم 1857 ء کی پیداوار ہیں۔

بھائی ایمن کو سلام کہیے گا۔ اور یہ بھی کہیے کہ چھوٹے چھوٹے ویڈیو پیغامات سے دل نہیں بھرتا۔ بقول کسی کہ

خط سے جی بھرتا ہی نہیں اب نین ملیں تو چین ملے

کسی دن تشریف لائیں ورنہ جس طرح بچوں کو سلانے کے لیئے شیر سے ڈراتے ہیں لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ بچے سیانے ہو جاتے ہیں اور شیر کی حقیقت سمجھ جاتے ہیں اسی طرح ہم کو بھی معلوم ہے کہ آپ کی حقیقت کیا ہے لیکن پتہ نہیں کیوں یہ حکمران بچے نہیں سمجھتے۔

آپ کے وجودِ غائبانہ پر ان کا اتنا ایمانِ کامل ہے کہ اپنے خزانے صرف آپ کی خاطر تباہ کر رہے ہیں سیدھے سیدھے ففٹی ففٹی کیجیئے اور ہم کو بھی سکون سے جینے دیجئیے۔

 

امید کرتا ہوں کہ ضرور جواب سے نوازیں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگلی دنیا میں۔

 

فقط

آپ کے جواب کا منتظر

علیم خان فلکی۔  جدہ

٭٭٭

 

 

 

 

ماڈرن دینی مسائل اور ان کے جوابات

 

 

سوال 1 :

کیا رمضان میں برتھ ڈے کرنا جائز ہے؟

جواب :

رمضان میں ایسی رسمیں کرنا معیوب ہے بہتر ہے کہ آپ رمضان سے پہلے کر لیں یا بعد میں قضا کر لیں۔

 

سوال 2 :

میرے سارے پسندیدہ TV پروگرام ٹھیک اسی وقت پر آتے ہیں جب تراویح چلتی رہتی ہے۔ کیا تراویح کو کچھ تاخیر سے ادا کیا جا سکتا ہے؟

جواب :

ہرگز نہیں۔ تراویح کو ٹی وی پروگرام کی خاطر قضا کرنا انتہائی گمراہ کن بات ہے۔ آپ اپنے پسندیدہ پروگرام ریکارڈ کر لینے کا انتظام کر لیں تو بہتر ہے۔

 

سوال 3 :

تھیٹر میں بُرقعوں کو دیکھ کر ہمیں بڑی کوفت ہوتی ہے۔  یہ بُرقعہ کی توہین ہے۔کیا برقعہ پہن کر تھیٹر جانا جائز ہے؟

جواب۔ برقعہ حجاب کی نشانی ہے۔  اسے ہر جگہ پہننا چاہیے ورنہ غیر محرموں کے درمیان بے پردگی ہوتی ہے۔ البتہ تھیٹر کے اندر اگر نقاب الٹ لیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔

 

سوال 4 :

جیسا کہ آپ جانتے ہیں عورت کو اس کے حسن کی آرائش و زیبائش کی اجازت ہے لیکن برقعہ کے نقاب کی وجہ سے بال اور چہرے کا میک اپ بکھر جاتا ہے۔ کیا ایسے وقت میں نقاب کو ترک کیا جا سکتا ہے؟

جواب :

حیا اور شرم دل میں ہونی چاہیئے۔  اگر آپ میک اپ کے بعد ایسی تقریب میں جاتی ہیں جہاں کوئی اجنبی نہیں سارے آپ کے دوست و رشتہ دار ہیں تو آپ کو بغیر نقاب جانے کی اجازت ہے۔

 

سوال 5 :

میری حال حال میں شادی ہوئی۔  میں نے لڑکی والوں سے کچھ نہیں مانگا لیکن انہی لوگوں نے بہت ساری نقدی اور جہیز دیا۔ کیا یہ جائز ہے؟

جواب :

اگر ان لوگوں نے یہ کہہ کر دیا کہ "خوشی سے دے رہے ہیں ” تو آپ پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ اگر آپ نے مانگ کر یا مطالبہ کر کے لیا تو یہ جائز نہیں لیکن جو ہو چکا وہ ہو چکا، اب استغفار کر لیجیئے۔

 

سوال 6 :

میری شادی کی بات چیت میں میرے والدین نے لڑکی والوں سے جوڑا جہیز کے کچھ مطالبات کئے جسمیں میری مرضی شامل نہیں تھی۔ کیا مجھے والدین کی مرضی کی خلاف اب ان چیزوں کو واپس کر دینا چاہئے؟

جواب :

والدین کی نافرمانی سخت گناہ ہے۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں آ پ ہی کی بہتری کے لئے کرتے ہیں۔ یوں بھی ایسے مسائل میں عرف یعنی رائج طریقہ دیکھا جاتا ہے۔ جوڑا جہیز لینا معروف میں داخل ہے۔آپ کی بیٹیاں ہوں گی تو اس سے بھی زیادہ دینا پڑے گا۔ اسی کو جمع کرنے میں ابھی سے لگ جائیے۔

 

سوال 7 :

وضو سے میک اپ اور Nail Polish خراب ہوتے ہیں۔ کیا تیمم کی اجازت ہے؟

جواب :

تیمم تو صرف اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب پانی دستیاب نہ ہو یا کوئی اور مجبوری ہو۔ آپ یہ کیجیئے کہ میک اپ یا Nail Polish کروانے سے پہلے ہی وضو کر لیا کیجیئے۔

 

سوال 8 :

علماءِ حق کِن کو کہا جاتا ہے؟

جواب :

یعنی وہ علماء جن کا تعلق آپ کی جماعت یا مسلک سے ہو یا وہ علماء جو آپ کی جماعت، سلسلے یا عقیدے کی تائید نہیں تو مخالفت بھی نہیں کرتے۔ باقی جتنے ہیں علماء سوء کہلاتے ہیں۔

 

سوال 9 :

مسلمانوں کی ذلّت کا سبب کیا ہے؟

جواب :

سب سے بڑا سبب اتّحاد کی کمی ہے۔ جب تک تمام علماء اور قائدین ہم خیال نہیں ہوتے یعنی ہماری "ہم” کا خیال نہیں رکھتے اُس وقت تک امت میں اتحاد پیدا ہونا ناممکن ہے۔

 

سوال 10 :

ایک فلم میں مسلمان لڑکی کو ہندو لڑکے سے محبت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے کیا ایسی فلم دیکھنا جائز ہے؟

جواب :

ایسی فلم دیکھنا ہرگز جائز نہیں۔ یہ غیرت اور حمیّتِ قومی کے خلاف ہے۔ آپ ایسی تھیٹر کے قریب بھی نہ جائیے۔ کوئی دوسری فلم دیکھ لیجیئے۔

 

سوال 11 :

کیا بچے کی روزہ رکھوائی کرنا ضروری ہے؟

جواب :

جی ہاں۔ جب آپ دوسروں کے گھر افطار پر جاتے ہیں تو دوسروں کو بھی دعوت دینا لازمی ہے۔ دعوتیں رشتہ داروں کے درمیان محبت بڑھانے کا سبب ہوتی ہیں۔ پھر دعوت بجائے بے مقصد کرنے کے کوئی نیک مقصد ہو تو ثواب بھی حاصل ہوتا ہے ورنہ اسراف کہلاتا ہے جو کہ حرام ہے۔ اسی طرح بچے کی بسم اللہ،  ختنہ کے پھول،  ختمِ قرآن، گھر بھراؤنی وغیرہ کے فضائل ہیں۔

 

سوال 12 :

آپ کے جوابات پڑھ کر ایسا نہیں لگتا کہ آپ کوئی فقہی عالم ہیں۔  پھر آپ فتوے کس طرح دے سکتے ہیں؟

جواب :

ہم فقہ کے نہیں فکاہ کے عالم ہیں۔ اور نہ آج تک کبھی ہم نے کوئی فتویٰ دیا ہے۔ فقہی معاملات میں دخل اندازی کی ہم ہرگز جسارت نہیں کر سکتے۔لوگ فقہی مسائل بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔لیکن عمل اس پر کرتے ہیں جن کا حکم ان کے دل کا مفتی دیتا ہے۔ ہم تو صرف ایسے مسائل کا جائزہ لیتے ہیں اور پیش کرتے ہیں۔ ہم نے یہ علم مدرسہ شگوفہ میں علامہ مصطفیٰ کمال کی ارادت میں سیکھا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

مجھے مشوروں سے بچاؤ

 

بخدا ہم ملک الموت سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا مشوروں سے ڈرتے ہیں۔

ہمارا تو جی چاہتا ہے کہ جس طرح بعض لوگ فضائی آلودگی سے بچنے کے لئے ناک پر کپڑا باندھ لیتے ہیں اسی طرح ہم بھی مشوروں کی آلودگی سے بچنے کے لئے کانوں میں کپڑا ٹھونس کر چلیں۔ قیس کے بارے میں ہمارا یہ گمان ہے کہ وہ لیلیٰ کی یاد میں پاگل ہو کر نہیں بلکہ مشوروں کی وجہ سے پاگل ہو کر شہر سے بھاگ نکلا اور صحرا میں پناہ لینے پر مجبور ہو گیا۔ کوئی کہتا تھا کہ لیلیٰ کالی ہے اس سے تیری اولاد بھی کالی پیدا ہو گی۔ پھر کالی بیٹیوں کو بیاہنے تو جوڑا اور جہیز کہاں سے لائے گا۔

دولت مند ملکوں میں مشوروں کی قیمت ہوتی ہے کیونکہ وہاں بچے کم پیدا ہوتے ہیں اس لئیے بوڑھے بھی کم پائے جاتے ہیں۔  نہ گلی کے نکڑ پر چبوترے ہوتے ہیں نہ سرکاری نل۔ نہ پان کی دوکانیں نہ عبادت خانوں میں مشاورت کی فرصت۔  اس لئے وہاں مشیروں کی پیدا وار بہت کم ہے۔ چنانچہ لوگ مشورہ کرنے کے لئے متعلقہ کونسلر یا کنسلٹنٹ سے رجوع ہوتے ہیں اور باضابطہ فیس ادا کرتے ہیں۔  اگر ہم اپنے ملکوں سے ان تمام چبوتروں پر بیٹھنے والوں اور دوکانوں کے باہر کھڑ ے ہوئے تیار جاسوس حضرات کو جو ہر آنے جانے والے کے شجرہ نسب اور ہر ظاہر و باطن کے بارے میں گفتگو کرتے رہتے ہیں امریکہ یا یورپ بھیج دیں تو نہ صرف ان کی بیکاری دور ہو جائے بلکہ ان ملکوں کا نقشہ ہی بدل جائے۔ وہاں کے سارے برسرِ روزگار کنسلٹنٹ چند مہینوں میں بے روزگار ہو جائیں۔  مشوروں کی قلت کا یہ عالم ہے کہ ہر قسم کی معمولی بات کے لئے مشورہ دینے والا الگ اور اس کی فیس بھی الگ۔ شادی کے لئے مشورہ،  طلاق کے لئے مشورہ،  بچوں کی تربیت کے لئے مشورہ۔  یہی نہیں بچے پیدا کرنے کے لئے بھی مشورہ۔ سر درد ہو کہ پیٹ کا درد کینسر ہو کہ ایڈز غرض یہ کہ ہر معاملے کے لئے ایک مخصوص مشورہ دینے والا ہو گا۔

وہاں بغیر مانگے مشورہ دینے والے کو لوگ پاگل سمجھتے ہیں اور نہ چلتے پھرتے مشورہ دینے یا لینے کے قائل ہیں۔ اس لئے کونسلر حضرات جب تک ایک آ فس یا مطب کرایہ پر نہ لے لیں مشورے بھی نہیں دیتے اور الحمدللہ ایک ہماری سوسائیٹی ہے کہ ہر شخص نام و نمود سے بے نیاز بغیر کوئی صلے یا فیس کے نکڑ پر ہو کہ دیوان خانے میں۔  دوکان پر ہو کہ مسجد میں ہر جگہ اپنی زنبیل میں مشوروں کا انبار لیئے پھرتا ہے۔ اور لوگوں کو مشوروں سے مالا مال کر سکتا ہے۔

یہ حضرات قلندرانہ صفات کے حامل اتنے غنی اور سخی ہوتے ہیں کہ ان کا مشورہ آپ نہ بھی مانیں تو برا نہیں مانتے۔البتہ اُس وقت کا انتظار ضرور کرتے رہتے ہیں جب آپ کے ساتھ کوئی ناگہانی واقعہ ہو جائے۔ یہ فوری آپ کا جی جلانے پہنچ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کاش آپ نے ہماری بات مان لی ہوتی۔

(حیدرآبادی ہو گا تو کہے گا : "ہم تو پہلیچ بول دیئے تھے”)۔

آپ کو یقین نہ آئے تو جہاں دو چار افراد جمع ہوں وہاں ذرا آپ سر پکڑ کر بیٹھ جایئے یا ذرا سا چھینک کر یا کھانس کر دیکھیئے۔  نہ صرف وہاں موجود حضرات بلکہ کوئی راستہ سے گزر رہا ہو تو وہ بھی رک کر ایک آدھ مشورے سے ضرور نوازے گا اور آپ کو یقین ہو جائے گا کہ آپ واقعی بیمار ہیں۔ کیا کوئی صحتمند ان مشوروں کی تاب لا سکتا ہے ؟

ایک صاحب کہیں گے :

” آ پکی طبیعت خراب لگتی ہے کوئی گولی فوری لے لیجیئے صبح تک آرام ہو جائے گا”۔

دوسرے صاحب :

” گولیوں سے ری ایکشن کا خطرہ رہتا ہے جوشاندہ لیجیئے دیر سے سہی لیکن دیر پا آرام ہو جائے گا "۔

تیسرے صاحب :

” دو دن سے میری بھی طبیعت خراب تھی ہومیو پیتھی سب سے بہترین ہے دیکھئے میں کیسا ٹھیک ٹھاک ہوں "۔

چوتھے صاحب آپ کے پان یا سگریٹ پر غصہ نکالیں گے۔

تو پانچویں صاحب آپ کو موت سے ڈرائیں گے اور تنبیہاً آپ کو علاج میں دیر کرنے کے نتیجے میں مر جانے والوں کے ایسے ایسے قصے سنائیں گے کہ رات بھر قبر میں جانے کا خوف آپ کی نیند حرام کر دے گا۔

مشوروں کی یہ پانچویں قسم سب سے زیادہ کار گر ہوتی ہے کیونکہ مشورہ دینے والے نے احتیاطی تدابیر کے طور پر مشورہ نہ ماننے کے درد ناک انجام سے بھی باخبر کر دیا۔

ضمانت قبل از گرفتاری کی طرح مشورہ قبل از پریشانی پھر بھی قابلِ  قبول ہوتا ہے لیکن جو مشورے بعد از پریشانی دیئے جاتے ہیں وہ بہت جی کو جلاتے ہیں جی چاہتا ہے ایسے حضرات کو د ھکّے مار کر نکال دیں۔ ایسے حضرات کے سامنے آپ مجرم کی طرح سر جھکائے غلطی کا اعتراف کرنے اور پچھتاوے کے اظہار کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتے۔ واقعہ ہو جانے کے بعد کونے کونے سے مشورے جھیں گروں کی طرح امڈ امڈ کر آتے ہیں۔

ایک صاحب ملامت کرنے والے انداز میں فرماتے ہیں ” ارے حضت ذرا ہم سے پہلے پوچھ لیتے”

دوسرے صاحب: ہم نے تو پہلیچ (پہلے ہی) کہا تھا۔ ( حالانکہ نہ انہوں نے پہلے کچھ کہا تھا نہ آپ نے سنا تھا)۔

تیسرے صاحب: آپ کو ویسا کرنے کی بجائےایسا کرنا چاہئے تھا۔

چوتھے صاحب: اب جو ہونا تھا سو ہو گیا سب اللہ کی طرف ہے۔ (تقدیر پر ایک عدد تقریر کے بعد ) جو ہو گیا اسے بھول جایئے مگر اب ذرا سوچ سمجھ کر قدم اٹھایئے ( گویا اب تک آپ بغیر سوچے سمجھے زندگی گزار رہے تھے۔)۔

پانچویں قسم اُن احمق قسم کے ہمدردوں کی ہوتی ہے جو اچانک نمودار ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں "آپ کو کیا پہلے معلوم نہیں تھا؟ ”

اِس احمقانہ سوال کے ساتھ ہی وہ پورا مسئلے کا یہ حل نکالتے ہیں کہ آپ چونکہ بیوقوف ہیں اس لیئے اب بھگتیئے۔

مشوروں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ حضرتِ انسان میں یہ عادت فرشتوں سے چلی آئی ہے۔

مشورہ حضرتِ آدم سے پہلے پیدا ہو چکا تھا۔ جیسے ہی اللہ تعالی نے آدم کی تخلیق کا ارادہ فرمایا فرشتوں نے مشورہ پیدا کر دیا۔ تخلیقِ کائنات کے process میں سب سے پہلے مشورہ پیدا ہوا پھر آدم پھر زمین و آسمان۔ اب غور کیجیئے تو پتہ چلے کہ پوری کائنات مشوروں پر گھوم رہی ہے جس چیز کو محورِ ارض کہا جاتا ہے وہ بھی دراصل مشورہ ہی ہے۔

پہلا مشورہ یہی تھا کہ اس آدمِ خاکی کو خلیفہ کیسے بنایا جا سکتا ہے اللہ تعالی نے فوری ڈانٹ پلا دی ورنہ پتہ نہیں اور کتنے مشورے آ جاتے۔

حضرتِ انسان نے فرشتوں کے چیلنج کو تو اہمیت نہ دی البتہ مشورے کو serious لے لیا اور فوری مشورہ دینا سیکھ لیا۔ اللہ تعالی نے اس سے کچھ اور عہد لینا چاہا لیکن عہد اس نے یہ کیا کہ وہ مشورے دے گا مگر لے گا نہیں اور یہی عمل روزِ ازل سے پوری استقامت کے ساتھ چلا آ رہا ہے۔

انسان اولاد کو حکماً مشورے دیتا ہے لیکن خود اپنے باپ کے مشوروں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔

علماء اور قائدین اتحاد کے مشورہ دیتے ہیں اور جو اِن سے اتحاد نہ کرے اُس کی تکفیر کر ڈالتے ہیں۔

ایک عام آدمی کو بھی ہم نے دیکھا کہ ایک جنازے کی تدفین کے موقع پر خود تو دور ایک درخت کے سائے میں کھڑا ہے اور چِلا آ رہا ہے :

"میت احتیاط سے اُتارو مِٹّی گرنے مت دو”

تدفین کے لئے قبر میں اترنے والے ایک یا دو ہوتے ہیں لیکن اوپر کھڑے جتنے لوگ ہوتے ہیں اُتنے ہی چِلّا چلّا کر مشورے دیتے ہیں۔ ہم آئے دن مختلف تنظیموں اور جماعتوں کی میٹنگس میں شریک ہونے کا عذاب بھگتتے رہتے ہیں۔ صدر صاحب سے لے کر کرسیاں بچھانے والے اور مائیک لگانے والے صاحب تک ہر شخص مشورے دے دے کر جو بات دس منٹ میں طئے ہوسکتی ہے اُسے ایک دو گھنٹے میں طئے کرتے ہیں۔

ان مشوروں کی شور و پکار میں جو ایک دوسرے سے اختلاف الرائے پیدا ہوتا ہے اُن اختلافات کو ختم کرنے پھر سے میٹنگ ہوتی ہے اور پھر سے مشورے ہوتے ہیں۔ بے شمار انجمنوں کو ہم نے اِنہی مشوروں کے ٹکراؤ کے نتیجے میں ٹوٹتے دیکھا ہے۔ دو چار صاحبین الگ ہو کر ایک نئی جماعت بنانے کے مشورے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ شائد اسی لیئے مشوروں کو تنظیمی شکل دے دی جاتی ہے تاکہ کسی بھی کام کو منظم طریقے پر ہونے سے روکا جا سکے۔

شوریٰ یا مشاورت اسی کم بخت مشورے کی ٹھوس سرپرستی کرنے والی شکلیں ہیں۔ مشیر اس کو کہتے ہیں جس کو مشورہ دینے کا قانونی تحفظ حاصل ہو جائے۔

بات چلی تھی فرشتوں کے مشورے سے۔ اللہ تعالی کی حکمت ماننی پڑتی ہے کہ اس نے پہلے مرد کو پیدا کر دیا ورنہ اگر عورت پہلے پیدا ہو جاتی تو مرد سے پہلے نہ جانے کتنے مشورے پیدا ہو جاتے بقول یونس بٹ کے :

اللہ تعالی یہ کام بغیر کسی مشورے کے کرنا چاہتا تھا اس لئے اس نے پہلے مرد کو پیدا کیا۔

چونکہ مشورہ بھی حضرتِ آدم کے ساتھ ہی پیدا ہوا تھا اس لئے تقسیم کار یہ عمل میں آئی کہ مرد دنیا میں اللہ کا خلیفہ طئے پایا اور عورت مشیر۔ وہ جب تک مرد کے پاس ہے سانسوں کی رفتار سے مشورے دیتی رہے گی۔

افسوس اس بات کا ہے کہ مرد اپنے فرائضِ منصبی تو بھلا چکا لیکن عورت اپنے فرضِ منصبی سے کبھی سبکدوش نہیں ہوئی۔  وہ برابر اپنا فرض نبھاتی رہتی ہے اور مرد کی ناک میں دم کرتی رہتی ہے۔ بعض عورتیں تو ناک ہی میں نہیں سر، آنکھ، منہ، پیٹ وغیرہ کئی جگہ دم کرتی رہتی ہیں۔

عورت دنیا کی ہر ہستی کو مشورے دے سکتی ہے لیکن کسی کا مشورہ سن نہیں سکتی سوائے ایک ہستی کے اور وہ ہے اس کی والدہ محترمہ۔  وہ اپنی والدہ محترمہ کے مشورے کے بغیر نہ خود چلتی ہے نہ مرد کو چلنے دیتی ہے۔ دنیا میں بڑے بڑے تیس مار خان گزرے ہیں حتیٰ کہ مغلِ اعظم شاہ جہاں بھی جن کے پیچھے چلمن کی اوٹ سے انار کلی کندھے پر ہاتھ ٹکائے رکھتی تھی۔ جہاں انہوں نے محترمہ کے مشورہ کے بغیر کوئی فیصلہ صادر فرمایا فوری محترمہ نے پیچھے سے کہنی ماری۔

ہم مشوروں سے نجات پانے وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے لیکن شہر تو شہر ہے جنگل بھی نہ جنگل نکلا،  ہم جہاں جہاں گئے مشورے ہمارا پیچھا کرتے ہوئے وہاں وہاں پہنچ گئے۔

ہم بیمار رہتے ہیں تو علاج در علاج کے مشورے۔

ہم صحتمند رہتے ہیں تو مزید صحتمند رہنے کے لیئے مشورے۔

بے کار تھے تو کام کر نے کے مشورے اور اب بچت اور کاروبار کے مشورے۔

ہم مشوروں کے ڈر سے اپنا ہر غمِ دوراں اور ہر غمِ جاناں چھپاتے ہیں لیکن ہر چیز تو چھپائی نہیں جا سکتی۔  اب کیا کریں اِس پاپی پیٹ کا جو عمر کے ساتھ ساتھ آگے نکلتا جا رہا ہے۔جس سے بھی مصافحہ کیجیئے وہ پیٹ کم کرنے کا ایک مشورہ پیش کر دیتا ہے ہم نے اِن مشوروں سے تنگ آ کر لوگوں سے ملنا چھوڑ دیا۔

اب بیوی کہتی ہے :

"آپ گھر میں بیٹھے بیٹھے پیٹ اور بڑھا لیں گے گھر کے کام کاج میں تھوڑا ہاتھ بٹایا کیجیئے”۔

ان مشوروں سے تنگ آ کر سوچا خودکشی کر لیں لیکن ڈرتے ہیں کہ اگر ناکام ہو گئے تو ہمت سے جینے کے جو مشورے در آئیں گے ان سے تنگ آ کر واقعی ہم کوئی ٹھوس خودکشی کا سامان نہ کر بیٹھیں۔ ڈر کر ہم زندہ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم نے علا مہ اقبال کی یہ دعا اپنے لئے مانگی تھی :

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے

کہ تیر ے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

خدا نے سن لی اور مشورے دینے والوں کو ہمارے اطراف اِس کثرت سے پیدا کر دیا کہ اب ہمارے بحر کی ہر موج ایک ایک مشورے سے آلودہ ہے اور ہم ایک مستقل اضطرابی کیفیت میں ایک ایک آدمی سے ملتے ہیں۔

یہ مضمون پڑھ کر اگر آپ بھی ہماری اصلاح کے لئے کوئی مشورہ عنایت فرمائیں تو نوازش ہو گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

میرا پیغام تعزیت ہے جہاں تک پہنچے

 

 

 

ہم اپنے تمام قدردانوں سے یہ التماس کرنا چاہتے ہیں کہ برائے مہربانی ہمارے سانحۂ انتقال پر کوئی تعزیتی مضمون نہ لکھیں اور تمام شعراء و ادباء سے بھی درخواست ہے کہ وہ اپنے انتقال کے بعد جن جن سے تعزیتی مضامین،  مقالے اور خصوصی نمبر وغیرہ کی توقع کرتے ہیں ان تمام حضرات سے زندگی میں ہی لکھوا کر دستخطِ تصدیق ثبت کر دیں۔

اس کی کئی وجوہات ہیں۔

ایک تو یہ ہے کہ قبل از وقت پتہ چل جانا چاہیے کہ ادب کی دنیا میں ہم میر و غالب سے کتنے بڑے یا چھوٹے ہیں تاکہ انہی مراتب کا خیال رکھتے ہوئے برزخ میں ہم ان بزرگوں سے ملیں۔ دوسرے یہ کہ ہم اس سکرات کے عذاب سے محفوظ رہیں جس سے ہر عظیم شاعر اور ادیب گزرتا ہے یعنی زندگی میں قدر نہ ہونے کا احساس۔ ہمیں مرنے سے پہلے سخت سے سخت جان لیوا بیماری یا کوما منظور ہے لیکن اپنی نا قدری کے احساس کا عذاب منظور نہیں۔  ہمارے قدردان احسان کریں گے اگر وہ اپنے تعزیتی مضامین ہمیں مرنے سے قبل دکھا کر ہمیں خوشی خوشی اس دنیا سے جانے کا موقع دیں۔ اس سے تیسرا فائدہ یہ بھی ہو گا کہ ہمیں پتہ تو چل جائے گا کہ ہم کس حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔  ہمیں اپنے اس جرم یا اس حرکت کا پتہ چل جانا چاہیئے جس کی وجہ سے لوگ ہم پر تعزیتی مضمون لکھیں گے۔

جیسا کہ علامہ اقبال کے ساتھ ہوا۔ محمد طفیل صاحب مدیر ” نقوش” نے اقبال نمبر میں ایک واقعہ لکھا کہ جب وہ علامہ اقبال کی یاد میں جلسے کے لئے چندہ اکٹھا کرنے نکلے تو بھینسوں کے ایک تاجر کے پاس پہنچ گئے۔ وہ ڈاکٹر اقبال سے بڑی والہانہ محبت رکھتا تھا کہنے لگا :

"مرحوم بہترین ڈاکٹر تھے جب تک وہ زندہ تھے میری بھینسوں کو کوئی تکلیف نہیں تھی”۔

اسی طرح ایک او ر واقعہ ماجد دیوبندی نے ایک مشاعرے میں سنایا کہ رفیع احمد قدوائی مرحوم پر جب سمینار کا انعقاد ہوا تو ایک وزیر کو مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا۔ وزیر صاحب نے ا پنی تقریر میں رفیع صاحب کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ آج ہندوستان کا بچہ بچہ رفیع صاحب کی آواز کا دیوانہ ہے۔ انہوں نے پچیس ہزار سے زائد گانے گائے ہیں۔ مجمع سکتے میں آ گیا۔ جب وزیر کو ٹوکا گیا کہ یہ محمد رفیع کا نہیں رفیع احمد قدوائی کا جلسہ ہے تو وزیر صاحب نے ڈانٹا کہ:

” آپ لوگوں کو چاہئے تھا کہ رفیع صاحب کا پورا نام مجھے ہندی میں لکھ کر دیتے کیوں کہ میں اردو سے واقف نہیں ہوں”۔

” خط لکھیں گے گر چہ مطلب کچھ نہ ہو ” کے مصداق کچھ لوگوں نے وطیرہ بنا رکھا ہے کہ:

” تعزیتی مضمون ضرور لکھیں گے چاہے مرحوم سے علاقہ کچھ نہ ہو”۔

زیادہ تر تقاریر یا مضامین وہ ہوتے ہیں جن میں مرحوم کو خراجِ تحسین دیا کم جاتا ہے اور ان سے لیا زیادہ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر محلے میں جب کسی کے انتقال کی خبر سرکاری نل پر یا گلی کے نکڑ پر جمع ہونے والے افراد تک پہنچتی ہے تو ہر شخص اپنا تعزیتی بیان کچھ اس طرح جاری کرتا ہے۔

کوئی صاحب یو ں گویا ہوتے ہیں "یار : کل ہی انہوں نے میرے ساتھ نماز پڑھی اور مجھ سے مصافحہ کیا”۔

حالانکہ یہ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مرحوم نمازی تھے اور نماز کے بعد ہر ایک سے مصافحہ کرتے تھے۔ کچھ تبصرے یہ ہوتے ہیں کہ :

"مرحوم مجھ سے پانچ سال بڑے تھے، مرحوم کو بھی وہی غزلیں پسند تھیں جو مجھے ہیں، مرحوم دو سال تک میرے پڑوسی رہے، مرحوم کو میں ہمیشہ بڑے بھائی کہتا تھا”

ان تمام تبصروں میں "میں، میرے” شامل ہونا کیا ضروری ہے؟ کیا اس حوالے کے بغیر مرحوم کی شخصیت ادھوری رہ جائے گی؟

مرنے کے بعد تو یوں بھی بد سے بدتر آدمی بھی نیک صورت و نیک سیرت اختیار کر جاتا ہے۔ ایک شرابی شخص کی موت پر بھی کسی نے یہ خوبصورت تبصرہ کیا کہ ” لوگ دارو پی کر کیا کیا نہیں کرتے لیکن مرحوم کی ایک خاص بات تھی۔  پی کر نہ انہوں نے کبھی کوئی ہنگامہ کیا نہ کبھی کوئی جھگڑا کیا "۔

بڑی بڑی ہستیوں کو بھی ہم نے دیکھا کہ تعزیتی تقریر یا تحریر میں ان کا رویہ سرکاری نل سے پانی بھرنے والے افراد سے مختلف نہیں ہوتا۔  حاصلِ بیان یہ ہوتا ہے کہ :

مرحوم کو ان کی کون سی عادتیں پسند تھیں؟

مرحوم ان کی کس طرح،  کیوں اور کب قدر کرتے تھے ؟

مرحوم کو یہ کس طرح برداشت کرتے تھے؟

مرحوم پر ان کے کیا کیا احسانات ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔

جامعہ نظامیہ حیدرآباد کے ایک معروف عالمِ دین کا انتقال ہوا۔ ایک خانوادۂ طریقت نے تقریر کرتے ہوئے مرحوم کو اس دور کا معروف عالمِ دین قرار دیا اور ان کی تین وجوہات بتائیں :

ایک تو یہ کہ ان کے والدِ محترم نے مرحوم کو ان کا اتالیق مقرر کیا تھا۔

دوسرے یہ کہ مرحوم کی تصنیف کردہ کتاب میں انہوں نے کچھ غلطیاں پکڑی تھیں مرحوم نے فوراً ان غلطیوں کو تسلیم کر لیا اور تصحیح کی۔

تیسرے یہ کہ مرحوم اسی قبرستان میں دفن کئے گئے جہاں ان کے ابّا جان مدفون ہیں۔

ایک بزرگ سیاسی و سماجی قائد کے انتقال کے موقع پر شہر جدہ کی ایک نامور شخصیت نے کافی پر سوز تقریر کی اور فرمایا کہ :

کئی سال قبل جب مرحوم پہلی بار ہوائی سفر کر رہے تھے یہ ایر پورٹ پر انہیں ملے تھے۔  مرحوم انگریزی سے نا واقف تھے اس لئے ان صاحب نے بورڈنگ پاس لینے میں اور اور ایمیگریشن فارم بھرنے میں کس طرح مدد کی تھی اور دورانِ سفر مرحوم نے ان کے کن کن سوالات کا جواب دیا تھا ا ور کہاں کہاں لاجواب ہو کر ان کی ذہانت کی تعریف کی تھی۔ چونکہ یہ ساری باتیں مرحوم کی ” انکساری ” کے کھاتے میں تھیں اس لئے صاحبِ موصوف نے ضروری سمجھا کہ مرحوم کے انتقال پر سامعین کو اپنے تعزیتی جذبات سے آگاہ فرمائیں۔

مرحوم شفیق الرحمان ہمارے پسندیدہ مزاح نگار ہیں۔  حیدرآباد ہی کے ایک روزنامے کے ادبی صفحے پر ہم نے ایک سرخی دیکھی

” شفیق الرحمان سے ایک ملاقات”۔

مضمون پورے پاؤ صفحے پر مشتمل تھا۔ ہم نے بڑے چاؤ سے مضمون پڑھنا شروع کیا۔ اس توقع میں کہ ہماری ادبی معلومات میں اضافہ ہو گا لیکن اضافہ صرف اس حد تک ہوا کہ شفیق الرحمان مرحوم و حیدرآباد کی امباڑے کی بھا جی بہت پسند تھی۔ مرحوم نے دو خطوں میں اس کا تذکرہ کیا تھا اس لئے وہ خط نہ صرف ادبی دستاویز کی حیثیت رکھتے تھے بلکہ مصنف کے اعلیٰ ترین ادبی روابط کا ثبوت بھی تھے۔ مصنف بھاجی لے کر کراچی پہنچے۔  مرحوم کا گھر ڈھونڈھنے میں پیش آنے والی تکالیف کا تفصیل سے ذکر کیا گیا۔ پھر مرحوم نے کس طرح مصنف کے ابّا جان، امّی جان، بھائی جان، چچا جان، وغیرہ وغیرہ کی فردا ًفرداً خیریت پوچھی اور امباڑے کی بھاجی کے لیے کس انداز میں اظہارِ تشکر کیا۔ ان تفاصیل پر مشتمل مضمون پڑھ کر ہمیں خیال آ یا کہ اگر مرحوم کو یہ اندازہ ہوتا کہ ان کی ادبی خدمات کو لوگ امباڑے کی بھاجی کے ذریعہ خراجِ تحسین ادا کریں گے تو شائد شفیق الرحمان کبھی کچھ نہ لکھتے۔

 

اگر سطحی قسم کے لکھنے والے ایسا کریں تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن نامور ادیب یا شعراء بھی یہی حرکت کریں تو ہمیں شبہ ہوتا ہے کہ آیا یہ مرحوم سے کسی خصومت کا بدلہ تو نہیں لیا جا رہا ہے؟۔  اپنی طویل تقریر یا تحریر میں مرحوم کی فکر و فن یا خدمات کو کئی کلو میٹر دور رکھتے ہوئے وہ باتیں کہتے جائیں گے کہ جن کا تعلق نہ ادب سے ہے اور نہ کسی اور شعبے سے تاکہ قاری یا سامع مرحوم کے بارے میں یہی سوچتا رہ جائے کہ اگر مرحوم پیدا نہ بھی ہوتے تو دنیا میں ادبی دنیا میں کیا فرق پڑتا۔ دلاور فگار پر ایک معروف قلم کار نے قلم اٹھایا اور یہ بیان کیا کہ دلاور فگار اپنے شعروں پر ان سے تبصرہ حاصل کرتے تھے۔ یہ تو مصنف کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ انہوں نے تبصر ہ لکھا حالانکہ وہ تو یہ لکھنا چاہتے تھے کہ وہ دلاور فگار کے اشعار پر اصلاح دیا کر تے تھے۔

تمام تعزیت خواہوں سے ہماری یہ بھی التماس ہے کہ وہ توصیفی کلمات جو ہر تعزیتی جلسے یا مقالے کے اجزا ہیں اور مرحومین کا نام بدل کر چسپاں کر د دئے جاتے ہیں ان کلمات سے سوا بھی کچھ کہہ دیں۔ اگر آپ نے ہمیں کبھی نہیں پڑھا ہے تو ہمیں آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے۔  کیونکہ آپ وہ پیدائشی ا ہلِ  اردو ہیں جو اردو پڑھ کر اپنے Educated ہونے کو مشکوک نہیں ہونے دیتے۔

اور اگر آپ نے ہمیں کبھی مستعار لئے اخبار یا رسالے میں پڑھ لیا ہے تو آپ سچے محبِ اردو ہیں۔  اور اگر آپ نے بغیر پڑھے ہی اردو کا بہترین شاعر یا ادیب مان لیا ہے تو ہم کو یقین ہے کہ آپ ایک بہترین تنقید نگار ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ آپ ہمارے مرنے کے بعد سہی، پڑھ کر ہمیں رد کر دیجئے۔  لیکن خدارا ہم کو ان گھِسے پٹے تعزیتی کلمات سے بنی وہ کِرائے کی شیروانی نہ پہنائیے جو ہر دولہا کو پہنائی جاتی ہے۔  جیسے :

” مرحوم کے گزر جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ نا ممکن ہے کہ کوئی پُر کر سکے”۔

” مرحوم اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ وہ بیک وقت شاعر، ادیب و دانشور اور محقق وغیرہ تھے”۔

” مرحوم نے جو لازوال ادبی سرمایہ چھوڑا ہے وہ نئی نسلوں کی یقیناً رہنمائی کر تا رہے گا "۔

” مرحوم ا پنی ایک انفرادیت رکھتے تھے۔  وہ اس دور کی نئی آواز تھے۔ روایت شکن تھے انہوں نے اپنی ایک پہچان بنائی تھی”۔

اور خبردار اگر کسی نے ہمیں یہ گالی دی کہ "ایسا کہاں سے لاؤں کہ تُجھ سا کہیں جسے "۔

چالیس برسوں سے سنتے سنتے ہمارے کان پک گئے ہیں۔  اب تو مصرعہ نیا لاؤ کہ

” مجھ سا کہیں جسے ”

٭٭٭

 

 

 

 

ایک ہے بادشاہ

 

 

جس وقت یہ آپ بیتی پڑھی جا رہی ہو گی اُس وقت یہ کہانی ایک تھا بادشاہ کے طور پر ہی پڑھی جائے گی۔ شائد اس وقت بادشاہ یا اس کے خاندان پر لکھنے والوں کی کمی نہ ہو گی کونے کونے سے مصنفین ابل پڑیں گے کوئی عروج و زوال کی تاریخ قلمبند کر رہا ہو گا تو کوئی عروج کے مرثیئے اور زوال کے قصیدے ترتیب دے رہا ہو گا تاکہ نئے حکمرانوں کا سفر عروج کی طرف گامزن ہو عروج نہ ہو گا تو زوال بھی نہ ہو گا۔ کچھ نکتہ داں زوال کے اسباب و علل پر اپنی پیش گوئیاں جو زوال تک خوف کے مارے ذہن کے تاریک گوشوں میں چھپی بیٹھی تھیں بڑھ چڑھ کر پیش کر رہے ہوں گے۔ سارے قلم سیاہی کے سمندر بہا کر بہ یک زباں ” یہ تو ہونا ہی تھا ” کہ کر ٹھنڈی ساتس کے ساتھ رک جائیں گے۔ نئے حکمرانوں سے سابق حکمرانوں کی غلطیاں بڑے تپاک سے گلے مل رہی ہوں گی۔ اگر سابق حکمرانوں کی غلطیوں سے سبق لینے کا داعیہ فِطرتِ انسانی میں شامل ہو جائے تو کبھی بھی کسی خاندان کی حکومت ختم ہی نہ ہو قانونِ قدرت چونکہ انصاف پسند ہے اس لیئے ہر خاندان کو کسی نہ کسی درجے میں دربار یا درباری مل ہی جاتی ہے۔ شائد اسی لیئے خاندانی آج تک انہی کو کہا جاتا ہے جن کا سلسلہٴ نسب کسی نہ کسی درباری سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ درباریوں کے درباری بھی اکثر خاندانی اشراف کہلائے جاتے ہیں۔

کسی نہ کسی کے آگے جھکنا فِطرتِ انسانی میں داخل ہے۔ فرشتوں کا مقدر بھی جھکنا اور جھکے رہنا ہے۔ انسان اور فرشتوں میں فرق اختیار کا ہے۔ اللہ تعالی مکمل با اختیار ہونے کے باوجود انسانوں کے جھکنے کے معاملے میں اپنے اختیار کو انسان کے اختیار کے تابع کر دیتا ہے کہ کس کس کے آگے جھکنا ہے وہ خود فیصلہ کر لے۔ انسان یہ سمجھتا ہے کہ اختیار با اختیار ہے سر کو تو بہرحال جھکنا ہی ہے۔ اور پانی! پانی کو تو بہرحال بہنا ہی ہے۔ ہوا! ہوا کو بہرحال چلنا ہی ہے۔ بالکل اسی طرح سر کو بھی بہرحال جھکنا ہی ہے۔ وہ اختیار کے خالق کے آگے نہیں جھکے گا تو بہر حال کہیں نہ کہیں جھکے گا ضرور۔ خالقِ اختیار کے آگے بالاختیار جھکنے سے وہ جہاں ایک لمحے چوکتا ہے بے اختیاری اسے آگے بڑھ کر چوم لیتی ہے۔ کبھی خوف اور کبھی لالچ کی لوریاں سنا کر اطمینان کی نیند سلا دیتی ہے۔ جب آنکھ کھلتی ہے تو پتہ چلتا ہے وہ اختیاری کی نہیں بے اختیاری کی گود میں اس نو زائیدہ معصوم بچے کی طرح بے بس ہے جسے ماں ہاتھ پاؤں اچھی طرح چادر میں کس کر سلا دیتی ہے تا کہ وہ ننھے ننھے ہاتھ پاؤں ہوا میں چلاتے ہوئے کھیلنے کی کوشش میں جاگ نہ جائے۔

یہی کیفیت میں ان شاہوں اور حکمرانوں کی دیکھ رہا ہوں کسی کو تخت نشین ہوئے پندرہ تا بیس سال ہو چکے ہیں اور کسی کو قبضہ جمائے ہوئے پچیس تا تیس سال ہو چکے ہیں ہر سال بے اختیاری کی چادر کی ایک ایک لپیٹ بڑھتی جاتی ہے اور بے چارے اندھیرے میں اپنے اختیار سے تخت چھوڑنے کا بھی اختیار نہیں۔  شاہ حسین بے چارے پچیس برس یہ سمجھتے رہے کہ با اختیار ہیں جب بسترِ مرگ پر پہنچ گئے تو ہاتھ پاؤں مفلوج ہو گئے۔ زبان گنگ ہو گئی تو اختیارات بالاختیار بھائی کے سپرد کر ڈالے لیکن اختیارات کی بے اختیاری کے آگے ایک نہ چلی بے اختیاری نے ڈانٹا زبردست طاقتور انجکشن لگائے اور اس قابل بنا دیا کہ انگلیوں کو حرکت دے سکیں اور قلم اٹھا کر نامزد بادشاہ کو بے دخل کر دیں اور اپنے پچیس سالہ امریکی تعلیم یاقتہ صاحب زادے کو بادشاہ نامزد کریں۔ شائد موت کے فرشتے بھی ایک صاحبِ اختیار کو اس کے اختیارات کی بے بسی محسوس کروانے پر بضد تھے۔  جوں ہی حکم کی تعمیل ہوئی بھائی سے آنکھ چراتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ جسم تو پہلے ہی شل ہو چکا تھا سر جھکنے کے قابل نہ رہا تھا اس لیئے انگلیاں جھکا کر حکمرانِ اعلی حضرت امریکہ مدِظلہ کی فرمانبرداری پر دستخط ثبت کر دیئے۔ بے چارے صدام حسین یہ سمجھتے رہے کہ شط العرب اور کوویت پر حملہ ان کے اختیار میں تھا اور وہاں سے ناکامی و ذلت کے ساتھ واپسی ان کے اختیار میں نہ تھی حالانکہ معاملہ الٹا تھا۔  دونوں جگہ کی حملہ آوری اور معرکہ آرائی کسی اور کے اختیار میں تھی البتہ واپسی پر ان کا اختیار تھا۔ اسرائیل پر میزائیل اندوزی کروانا بھی اسی صاحبِ اختیار کے ہاتھ میں تھا جس کے ہاتھوں بمباری کروانا تھا جہاں تک اسرائیلی حملوں کا ٹھیک نشانوں پر بی بیٹھنے اور عراقی حملوں کے نشانے خطا کر جانے کا سوال ہے یہ بھی نشانہ بازوں کے نہیں بلکہ خود نشانوں کا تعین کرنے والے با اختیار صاحبِ نشان کا کمال تھا۔ اس کا نشانہ نہ شط ا لعرب تھا نہ کوویت نہ اسرائیل۔  وہ تیل کے کنویں تھے جس کو امیر عرب اپنے اختیار میں سمجھ بیٹھے تھے اور وہ کئی بلین ڈالر تھے جو انہوں نے بیرونی ممالک میں اپنا اختیار سمجھ کر جمع کر رکھے تھے۔  ضرورت سے زیادہ ہو تو ہر شئے نقصان دہ ہوتی ہے جس طرح بچہ ضرورت سے زیادہ چاکلیٹ جمع کر لے تو دو تین سے زیادہ کھا نہیں پاتا اور باقی کو تھوڑا تھوڑا چکھ کر تھوکنے لگتا ہے یا پھر اِدھر اُدھر رکھ کر بھول جاتا ہے پھر بالاخر اس کے والد کو آگے بڑھ کر سارے چاکلیٹ چھیننے پڑتے ہیں۔  بچہ تھوڑی ضد کرتا ہے ابو سے بات نہیں کرنے کی دھمکی دیتا ہے کبھی ایک آدھ ہاتھ بھی چلا دیتا ہے لیکن ہر والد کو ایسے بچوں کو چُپ کرنے کا فن آتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

مرو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے مرو

 

 

ایک دوست نے امریکہ سے مجھ پر یہ شعر مارے کہ

عرض کیا ہے :

میرے مرنے کی تو مانگتا ہے دعا

لے گلا گھونٹ دے میں بھی بیزار ہوں

موت اب تک تو دامن بچاتی رہی

تْو بھی دامن بچائے تو میں کیا کروں

 

مجھے مجبوراً یہ جواب سوجھا کہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔

السلام علیکم !

واہ،  مرنا بھی ہے تو مجھے پھنسا کر ؟؟؟؟

بھلا میں کیوں گلا گھونٹوں؟ مرنے کے ہزاروں اور بھی طریقے ہیں۔ سعودی میں گلہ گھونٹنے کی سزا گردن زدنی ہے۔ دبئی میں بھی یہی ہے۔ امریکہ میں تو (CNN) پر نشر کر ڈالتے ہیں اور دہشت گردی کا کیس بنا ڈالتے ہیں۔ انڈیا میں مقدمہ اتنا لمبا چلتا ہے کہ کس کا گلہ گھونٹا تھا وہ بھی یاد نہیں رہتا۔

 

حیات لے کے مرو،  کائنات لے کے مرو

مرو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے مرو

اور اگر مرنا ہی ہے تو لاکھوں کی طرح اس طرح مرو کہ زندہ رہو۔

جس زندگی میں کوئی مقصد نہ ہو۔ ۔۔

اگر عورت،  بچہ پیدا کرنے اور انہیں بڑا کر کے ان کی شادیاں کرنے،  پھر ان کے بچے،  پھر اُن کے بچوں کی شادیاں کرنے کی مشین ہو

اور۔ ۔۔

اگر مرد،  نوکری،  کمائی،  گھر،  بچت،  اور جائیداد جوڑنے میں لگا ہو، کبھی موڈ سے نماز،  کبھی روزہ،  کبھی عمرہ و حج اور کبھی حاتم طائی کی قبر پر لات مار کے دو چار ہزار خیرات زکوٰة بھی کر لیتا ہو، نہ بیوی کو ناراض کر سکتا ہو نہ سماج کے اکثریت کے رواج کو توڑنے کی ہمت رکھتا ہو

قوم،  زبان،  تہذیب،  تمدن،  طریق،  ادب،  معاشرہ سب جائیں جہنم میں،  اْس کو اپنے کام اور کمائی سے مطلب ہو۔ ۔۔۔

توایسی زندگی یوں بھی موت ہے !

ایسے لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ زندہ ہیں،  حالانکہ وہ تو کبھی کے مر چکے ہیں۔ زندہ لاشیں ہیں جو چل پھر رہی ہیں۔ بے مقصد،  بے جان،  بے علم و بے دین۔

اردو جس کی ماں کی زبان ہو اور وہ کہے :

"مجھے اردو نہیں آتی”

۔۔۔ کیا میں اسے زندہ سمجھوں ؟

جس کی قوم بیشمار مسائل میں گھری ہو اور وہ جیب سے ایک پیسہ نہیں نکال سکتا، صرف مشوروں اور تبصروں کی بھرمار کرتا ہو،  کیا اس کو زندہ سمجھوں؟

جس کو اپنی تاریخ کا ایک ورق بھی یاد نہیں،  کیا اسے حال میں زندہ سمجھوں ؟

جو جوڑا جہیز لے کر خود بھی بِکتا ہو اور دین و ایمان بھی بیچ ڈالتا ہو،  کیا اسے زندہ سمجھوں ؟

دنیا جسے دہشت گرد،  بنیاد پرست،  ہریجنوں سے بھی بدتر (سچر کمیٹی رپورٹ)،  کرپٹ اور ملک دشمن کہتی ہے مگر اس میں جواب دینے کی صلاحیت پیدا کرنے اور مقابلہ کرنے کا حوصلہ یا ارمان نہ ہو،  کیا اس کو زندہ سمجھوں ؟

یہ قوم مر چکی ہے۔  اور معاف کرنا میں بھی شائد مر چکا ہوں۔

تم بھی مر چکے ہو۔ خوب کھاؤ پیو،  پارٹیاں کرو،  بچوں کی شادیاں کرو،  تھوڑی بہت ظاہری عبادتیں کر لو،  خوب مال جمع کر کے بیٹوں اور دامادوں کے لڑنے کے لئے چھوڑ دو، اور اپنی قوم کی سیاسی،  اخلاقی،  معاشی،  معاشرتی اور ہر سطح پر ذلت کو اخبار اور ٹی وی پر دیکھ دیکھ کر صرف تبصرے کرتے رہو۔ ۔۔۔۔ یہی سب سے اچھی خودکشی ہے۔ اس لئے کہ تمہیں اس کے حرام ہونے کا احساس نہیں رہے گا کیونکہ یہ تو سبھی کر رہے ہیں۔ جیسے سب جیتے ہیں ویسے ہی جینے کو زندگی کہتے ہیں۔ جو الگ روش اختیار کرنا چاہتے ہیں خودکشی تو وہ کرتے ہیں۔

دوسرے خودکشی کے طریقوں میں آدمی کو پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ مر گیا۔ ایسی بے مزا موت کا کیا فائدہ؟ موت تو وہ ہے کہ جس میں کچھ مرنے کا احساس بھی ہو۔ وقت کے ہاتھوں اپنی موت کو محسوس کرو تو خودکشی کا مزہ بھی آتا ہے۔

اس لئے پیارے !

ضرور مرو لیکن زندہ رہ کر۔ ۔۔ اسی طرح کی خود کشی سے دوسروں کو ایک عبرت تو ملتی ہے، ہوسکتا ہے کسی کو عبرت مل ہی جائے اور وہ کسی انقلاب کا ساتھی بن جائے !!

٭٭٭

 

 

 

 

وجودِ زن سے ہے تخریبِ کائنات میں رنگ

 

 

شادی شدہ جوڑوں کی تاریخ میں آدم و حوا سب سے زیادہ خوش نصیب ترین میاں بیوی گزرے ہیں۔

حضرت آدم کو کبھی یہ طعنہ سننا نہیں پڑا کہ : "یہ میں ہی ہوں جو تمہارے ساتھ نبھا رہی ہوں ورنہ اگر کوئی دوسری ہوتی پتہ چلتا ”

اور بی بی حوا کو کبھی یہ سننا نہیں پڑتا تھا کہ : "کتنی اچھی اچھی لڑکیوں کے آفر موجود تھے میں نے پھر بھی تم کو سلیکٹ کیا ”

دراصل ان کے پاس چوائس کوئی نہیں تھا۔ خوش نصیبی کی یہ تاریخ جب آگے بڑھی تو آبادی بڑھتی گئی اور خود بخود ایک تیسری چیز پیدا ہو گئی جس کا نام چوائس تھا۔ سنا ہے محبت اندھی ہوتی ہے اور شادی آنکھیں کھول دیتی ہے۔ شادی کے بعد جب آنکھیں کھل جاتی ہیں تو دونوں کو ہر طرف چوائس ہی چوائس نظر آتے ہیں جس کا موقع جا چکا ہوتا ہے۔

کسی نے سچ ہی کہا کہ شادی ایک ایسا قلعہ ہے جس میں رہنے والے باہر نکلنے کی تمنا کرتے ہیں اور باہر والے جلد اندر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شادی دراصل ایک ایسے عہد نامہ اتفاق کا نام ہے جس کے بعد ساری زندگی میاں بیوی یہ طئے کرنے میں گزار دیتے ہیں کہ کس بات پر اتفاق کریں۔ جب ان میں سے کوئی ایک گزر جاتا ہے تو دوسرا اس بات پر متفق ہو جا تا ہے کہ : "مرحوم بہت اچھے تھے”

سنا ہے ایک عورت نے خدا سے شکایت کی کہ ساری طاقت مردوں کو کیوں دے دی،  خدا نے کہا "اس لئے تاکہ وہ تمھارا بوجھ اٹھا سکیں”۔عورت نے کہا” دولت بھی ساری مردوں کے حصے میں دیدی! "خدا نے کہا "تاکہ وہ تم پر لُٹا سکیں”، عورت کو بہت غصہ آیا اس نے تنک کر کہا "پھر اسے اتنا بیوقوف کیوں بنا یا؟” خدا نے مسکرا کا کہا "تا کہ وہ تم سے محبت کر سکے” ذہین سے ذہین مرد بھی عورتوں کے معاملے میں کہیں نہ کہیں بیوقوفی کر جاتا ہے،کس حد تک کرتا ہے یہ عورت کے حسن اور ذہانت پر منحصر ہے اور حسین سے حسین عورت بھی کہیں نہ کہیں سمجھداری کا ثبوت دے دیتی ہے، کس حد تک دیتی ہے یہ مرد کی آمدنی پر منحصر ہے۔

رشید احمد صدیقی مرحوم نے لکھا کہ :

ذہین بیوی اور بیوقوف شوہر ہمیشہ ایک دوسرے کی تعریف کرتے ہیں۔

تعریف نے بڑے بڑوں کا بیڑا غرق کیا ہے۔ جہاں بیوی نے شوہر کی تعریف کی سمجھ لیجئے کہ جیب کا صفایا ہونے والا ہے ا ور جہاں شوہر نے بیوی کی تعریف کی سمجھ لیجئے وہ رات دیر گئے گھر لوٹنے والے ہیں یا پھر کسی دعوت کا پکوان کروانے والے ہیں۔ بعض تعریفیں ہمدردی کی شکل میں ہوتی ہیں جس کے ذریعے ڈاکٹر نہ صرف اپنی تگڑی فیس وصول کر لیتے ہیں بلکہ عورتوں کا دل بھی جیت لیتے ہیں، کہتے ہیں :

"آپ دیکھنے میں تو صحتمند لگتی ہیں مگر اندر سے بہت کمزور ہیں، ”

یا کہتے ہیں کہ :

"آپ کے ذہن پر کوئی بوجھ ہے جسے دوسرے سمجھ نہیں سکتے”

حالانکہ بوجھ سارا مردوں کے ذہنوں پر ہوتا ہے جس کا ثبوت ان کی دور سے نظر آ جانے والی تالو ہوتی ہے یہاں تک ہوتا ہے کہ بعض مردوں کو راستہ چلتے ہوے اپنے ارد گرد کی پرواہ کئے بغیر اپنے آپ سے باتیں کرتے دیکھا گیا ہے، شائد بیچاروں کو گھر میں بولنے کی اجازت نہیں ہوتی اگر اجازت ہوتی بھی ہے تو ہمّت نہیں ہوتی۔ عورتوں کا دل جیتنے کے معاملے میں عامل حضرات ڈاکٹروں سے زیادہ چالاک ہوتے ہیں ان کا ایک ہی جملہ کافی ہوتا ہے کہ:

” آپ کو نظر لگی ہے” یا "آپ پر کسی نے سایہ کروایا ہے۔”

عورتیں کہتی ہیں کہ مردوں کی تعریف کا اعتبار نہیں کرنا چاہئے ہم اس سے اتفاق کرتے ہیں، بالخصوص جب وہ اکلوتی بیوی سے کہے کہ” تم سب سے اچھی ہو ”

جسطرح گھوڑ دوڑ میں ایک ہی گھوڑا حصہ لے تو ظاہر ہے وہی پہلے انعام کا مستحق قرار پاے گا،اسی طرح جب بیوی بھی ایک ہی ہو تو وہی اچھی کہلائے گی۔لیکن بلا مقابلہ اسے سب سے ا چھی کہنا جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے،  لیکن بیچاری بیویاں یقین کر لیتی ہیں اور شوہروں کودوسروں کی بیویوں کے جھوٹے سچے قصے سنا سنا کر یقین دلانے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ سب سے اچھی ہیں،بلکہ بہتر ترین ہیں اور اکثر شوہر یقین بھی کر لیتے ہیں سواے چند نظرباز شوہروں کے جو شاید بیوی کے بہترین ہونے کا یقین کرنے کے لیے دوسری عورتوں کو گھور گھور کر دیکھتے رہتے ہیں۔ہمارے ایک ایسے ہی دوست جو بازار اور تقاریب میں خواتین کو تاڑنے کے شوقین تھے جب ان کی بیوی نے ان کو ٹوکا تو کہنے لگے "ڈارلنگ میں اس لیے ہر عورت کو غور سے دیکھتا ہوں کہ کہیں تو کوی خوبصورتی میں تمہاری مثال ملے لیکن واللہ حسن میں تمہارا کوی ثانی نہیں”۔

بیویاں شوہر کو پہلے ہر بات پر ٹوک ٹوک کراسے بدلنے پر مجبور کر دیتی ہیں پھر جب وہ بدل جاتا ہے تو خود ہی شکایت کرتی ہیں "آپ کتنے بدل گئے ہیں پہلے جیسے نہیں رہے”وہ واقعی بدل بھی جاتا ہے شادی کے بعد پہلے سال تک خود کہتا ہے ” ڈارلنگ چلو آج تمہارے لئے ایک اچھی ساڑی خریدنے یا ایک سونے کی انگوٹھی خریدنے کو جی چاہتا ہے” اور بعد میں یہی شوہر بیزاری سے کہتا ہے "پلیز پیسے لے جاؤ اپنی پسند سے جو جی چاہے خرید لو مجھے شاپنگ کے تصور سے وحشت ہوتی ہے” بیوی کے ہاتھ کا پکوان ابتدا میں خوب تعریفیں کر کے کھاتا ہے ایسے جیسے پہلی بار کھا رہا ہو اور بعد میں اسی پکوان کو دسترپردیکھ کر چیختا ہے اور کہتا ہے "پھروہی "۔  شروع میں نئے جوڑے میں دیکھ کر حور پری، ایشوریا رائے، اور پریانکا چوپڑا تک کہہ جاتا ہے اور بعد میں نئے جوڑے میں دیکھ کر کہتا ہے "کتنے کا ہے؟”۔ جو شوہر ابتدا میں بیوی سے کہتا ہے کہ خدا نے تمھیں اپنے ہاتھوں سے بطورِ خاص میرے لئے بنایا ہے وہی کچھ سالوں بعد کہتا ہے”تم میکپ میں بہت اچھی لگتی ہو”۔پہلے دور سے نظر آ جانے والی محبوبہ شادی کے بعد بعض اوقات قریب بھی کھڑی ہو تو نظر نہیں آتی۔

کہتے ہیں خوب صورت بیوی وہ ہے جس کی شوہر ہر بات سنتاہو اور خوب سیرت بیوی وہ ہے جو شوہر کی ہر بات سنتی ہو اور ہمارے معاشرے میں خوبصورت بیویوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اس کا ثبوت اس واقعے سے ملتا ہے کہ ایک خاتون ایک ڈاکٹر کے پاس گئیں اور اپنے شوہر کے نیند میں بڑبڑانے کی شکایت کی ڈاکٹر نے کئ ٹیسٹ کر لئے لیکن بیماری کا کہیں سراغ نہ مل سکا تب ڈاکٹر نے خاتون کو مشورہ دیا کہ ا اپنے شوہر کو بھی کبھی دن میں بھی بولنے کا موقع دیا کرے۔خیر ہم اس بات سے متفق نہیں کہ بیویاں بولنے کا موقعہ نہیں دیتیں یہ عورتوں پر سراسر بہتان ہے البتہ یہ بات مردوں کے حوصلے اور ہمت سے تعلق رکھتی ہے کم از کم ہمارا تجربہ یہی کہتا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو آج آپ کے سامنے عورتوں کے موضوع پر اتنی گفتگو ہرگز نہ کرسکتے۔یہ الگ بات ہے کہ مرد حضرات صرف محفلوں میں ہی دوسری شادی کی باتیں کر کے خوش ہو جاتے ہیں۔ سچ لکھا تھا یونس بٹ نے کہ”امریکی عدالت نے شوہر کو بیوی کی ڈاک کھولنے کا حق تو دے دیا لیکن ہمّت نہ دے سکا”۔

یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ کون کس کی پیداوار ہے۔ پہلے پہل لگتا ہے کہ بیوی کو شوہر نے دریافت کیا ہے لیکن بعد میں ثابت ہوتا ہے کہ شوہر دراصل بیوی کی ایجاد ہے۔لوگ کہتے ہیں بیوی شوہر آپس میں لڑتے ہیں، ہمارا خیال یہ ہے کہ شوہر تو صرف اس کارِ خیر میں بیوی کا ہاتھ بٹاتے ہیں ورنہ اگر وہ اکیلے ہی لڑنے لگے تو نفسیاتی طور پر بیمار ہو جائے، کیونکہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اور اچّھے شوہر یہ نہیں چاہتے کہ بیوی کے کام میں ہاتھ نہ بٹائیں۔

ایک شوہر ایک میگزین کا مطالعہ کر رہے تھے انھوں نے اپنی بیگم سے مخاطب ہو کر کہا "سنو یہاں لکھا ہے کہ عورتیں دن میں تیس ہزار لفظ بولتی ہے اور مرد صرف پندرہ ہزار ”

بیوی نے کہا "وہ اس لئے کہ بیوی کو ہر بات دہرانی پڑتی ہے مرد وں کے سامنے صرف ایک دفعہ کہنے سے ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔

شوہر نے پوچھا "کیا "؟

سنا ہے لڑائی سے محبت بڑھتی ہے ہلکی پھلکی لڑائیاں چلتی رہنی چاہیے، ہم اس سے اتفاق کرتے ہیں، امریکہ یورپ میں بیوی اگر نہ لڑے تو شوہر ڈرتا ہے کہ یہ زیادہ دن ٹکنے والی ہے اس سے پیچھا چھڑانا مشکل بھی ہو سکتا ہے اور ہمارے معاشرے میں اگر نہ لڑے تو شوہر کو شوہر ہونے کا احساس نہیں ہوتا۔  ویسے بھی عورت کی خاموشی ا ور مرد کی زیادہ بک بک کی عادت میں خطرہ ہوتا ہے۔ امریکہ وغیرہ میں اگر بیوی خاموش رہنے لگے تو وکیل آتے ہیں اور ہمارے پاس ساس یا سالے۔ مشرق اور مغرب کا یہ عجیب تضاد ہے وہاں میاں بیوی میں لڑائی ہو تو بچے پیدا ہونا بند ہو جاتے ہیں اور مشرق میں جتنی لڑائیاں اتنے بچے۔اسی لئے کہتے ہیں اختلاف میں رحمت ہے۔ کسی کے گھر میں رحمت کا اندازہ لگانا ہو تو ہم خیر خیریت کے بجائے بچے کتنے ہیں پوچھ لیتے ہیں۔

مارگریٹ تھیچر کے شوہر سے ایک سیمینار میں ایک رپورٹر سے پوچھا :

مسز تھیچر فرماتی ہیں اگلی صدی عورت کی صدی ہو گی آپ کا کیا خیال ہے ؟

مسٹر تھیچر نے جواب دیا "ہاں اگلی صدی بھی عورت ہی کی صدی ہو گی”۔

ان میاں بیوی کی طرح کامیاب زندگی گزارنا ہو تو شادی کے ساتھ ہی یہ بھی طئے ہو جانا چاہیے کہ گھر کے اندر اصل میاں کون ہو گا اور بیوی کون،  اگر شادی کے ایک دو سال میں یہ طئے نہ ہو جائے تو بعد میں کئی مسائل کے پیدا ہو جانے کا اندیشہ ہے،جس کے حل کرنے کے لیے مجبوراً ساس کو آنا پڑتا ہے یا دوسری طرف کے سسرے آتے ہوے دیکھے گئے ہیں، یوں بھی کسی لڑکی کے بارے میں اگر یہ جاننا ہو کہ وہ شادی کے بعد میاں ہو گی کہ بیوی تو اس کی ماں کو دیکھ لینا کافی ہو سکتا ہے اور لڑکے کے بارے میں جاننا ہو تو لڑکے کے والد کو دیکھ لینا چاہیے۔ اگر ابّا جان عام اباّؤں کی طرح گھر کے بارھویں کھلاڑی ہوں تو ٹھیک ہے ورنہ خطرہ ہے۔ ویسے بھی شادی ایک جوا ہے۔

تین چیزیں ایسی ہیں جو کبھی کبھار ہی قسمت سے اچھی نکل آتی ہیں بلکہ لاکھوں میں ایک آدھ بار ورنہ ان کا کوئی اعتبار نہیں کیا جا سکتا :

ایک داماد دوسرے بہو اور تیسرے کفیل۔

یہاں یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ساری ساسیں مزاج کے اعتبار سے شوہر ہوتی ہیں کچھ ساسیں زیادہ شوہر بھی ہوتی ہیں، ایسی بیویوں کو بیٹر ہاف کی بجائے بِٹّر ہاف کہا جاتا ہے۔ عورت کا مزاج شاعری کے اصناف سخن سے قریب ہے۔ پہلے عورتیں غزل کی طرح ہوا کرتی تھیں حیا اور پردہ کی ایسی پابند جیسے کہ غزل ردیف قافیے اوزان اور بحور کی پابند ہوتی ہے۔ اب عورت آزاد شاعری کی طرح ہے !

اور اب جب کہ فلم ٹی وی اور ڈش کلچر کا دور دورہ ہے غزل آزاد شاعری میں تبدیل ہو گئی ہے، بعض عورتیں ایسی علامتوں اور استعاروں کی طرح ہوتی ہیں جسے صر ف بے بحر شعر کہنے والا آزاد شاعر ہی سمجھ سکتا ہے، بعض ایسی طویل نثری نظمیں ہوتی ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہاں سے شروع ہوتی ہیں اور کہاں ختم، آپ کی خیریت اسی میں ہے کہ خاموشی سے سن لیں اگر غلطی سے کہیں داد دیدی تو کم بخت پہلی سطر سے مکرر ہو جاتی ہیں۔ بعض بیویاں ایسی علامتی غزل ہوتی ہیں کہ آپ ان علامتوں کا جو چاہے مطلب نکالیں غلط نہیں ہو گا۔ بعض خواتین قومی ترانے کی طرح ہوتی ہیں جنھیں سرکاری تقاریب یا قونصلیٹ اور ایمبیسی کے فنکشنوں میں دیکھا جا سکتا ہے، عموماً منتظمین کو بھی ایسے قومی ترانے بہت اچھے لگتے ہیں اس لئے انہیں پہلی صفوں میں بٹھا کر محفلوں کی رونق اور مارکٹ بڑھائی جاتی ہے۔

جہاں تک شوہروں کا تعلق ہے وہ اکثر اخباروں اور رسالوں کی طرح لگتے ہیں،بعض سیاسی تجزیہ نگار ہفتہ وار،  بعض مذہبی ماہنامے،  بعض ادبی میگزین اور بعض روزناموں کی طرح تمام تر مضامین اپنے اندر سمیٹے ہوئے یعنی سیاسی سماجی علاقائی اور فلمی تمام موضوعات کا مکسچر ہوتے ہیں۔ لیکن شادی کے دو چار سال بعد یہ پُرانے اخبار ہونے لگتے ہیں آپ باتوں سے ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کون کتنے ہفتے یا کتنے سال پْرانا رسالہ ہے۔ بعض مرد نوکری سے فارغ ہونے کے بعد وظیفہ یاب کہلاتے ہیں اور بعض وظیفہ خوار،  وظیفہ یاب وہ ہوتے ہیں جنھیں سبکدوشی کے بعد بھی کوئی نہ کوئی ذریعہ آمدنی میسر ہوتا ہے اور وظیفہ خوار وہ جنھیں وظیفہ کی رقم کے علاوہ کچھ نہیں ملتا بلکہ اور خواری کے لئے بیوی بچوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے، ایسے شوہر دعاوں اور وظائف کے کتابچوں کی طرح ہوتے ہیں بعض شوہر جدیدیت اور ساختیات کی خشک بحثوں والی کتابوں کی طرح ہوتے ہیں جنہیں صرف شیلف پر رکھا جا سکتا ہے اور کبھی کبھی حوالوں کے لئے دیکھا جا سکتا ہے ایسے شوہر تقاریب میں عموماً بیویوں کے ساتھ انگلی پکڑ کر آتے ہیں اور کسی کونے میں خاموش بیٹھے رہتے ہیں انہیں چھیڑ کر پوچھنا پڑتا ہے کہ وہ کس کے شوہر نامدار ہیں۔

ہم ایک طویل شادی شدہ زندگی گزارنے کے بعد اور کئی شادی شداؤں کا قریب سے مشاہدہ کرنے کے بعد اس من گھڑت روایت پر یقین کرنے لگے ہیں کہ جب خدا نے یہ کائنات کی تخلیق کی اور تمام حیوانات بشمول حیوانِ ناطق پیدا کیے تو سب کے لئے پچیس پچیس سال عمر مختص کر دی، کُتّے گدھے اور اُلّو وغیرہ نے کہا یہ عمر ہمارے لئے بہت زیادہ ہے اور انھوں نے صرف پانچ پانچ سال ہی قبول کئے اور باقی بیس بیس سال واپس کر دئے، اشرف المخلوقات حضرتِ انسان نے کہا پچیس سال کافی نہیں تب خدا نے فرمایا کہ یہ جو بیس بیس سال کتے گدھے اور اُ لّو کے بچے ہیں چاہو تولے لو، انسان خوشی خوشی راضی ہو گیا اسی لئے پہلے پچیس سال وہ اپنی اصلی عمر جیتا ہے ہر بات میں اس کی اپنی مرضی ہوتی ہے اس کے بعد کتے کے بیس سال شروع ہوتے ہیں، زبان باہر نکالے ہڈی کی پیچھے میں بھاگتا رہتا ہے اس کے بعد گدھے کے بیس سال شروع ہوتے ہیں تب وہ بوجھ اٹھائے گھر سے گھاٹ اور گھاٹ سے گھر کا سفر کرتا رہتا ہے اور آخر میں الو کی طرح راتوں کو جاگتے ایک کونے میں باقی عمر گزار دیتا ہے !!

اگر پیدا نہیں ہوتا کوئی احمق تو کیا ہوتا

نہ دیتا داد کوئی اور نہ شاعر کا پتا ہوتا

اگر ا حمق نہیں ہوتا تو شوہر بھی نہیں ہوتا

نہ ہوتے جیٹھ دیور اور نہ بیوی کا سگا ہوتا

( یہ مضمون یوم جمہوریہ تقاریب کے سلسلے میں اردو اکاڈمی جدّہ کی جانب سے منعقدہ یوم مزاح کے موقعے پر پڑھا گیا،  بتاریخ 27/جنوری 2006ء بمقام شاہی رسٹورنٹ،  جدّہ )

٭٭٭

 

 

 

ٹانگ اونچی رہے

 

 

جب سے کانگریس کی حکومت ختم ہوئی ہے ہم خواہ مخواہ خوش تھے جیسے ہم نے کانگریس کو ووٹ نہ دے کر کانگریس سے بہت بڑا انتقام لے لیا ہے۔ ہم اپنے طور پر خود کو ایک کامیاب سیاست دان بھی سمجھنے لگے تھے جو کہ عوام کی سمجھ میں نہ آنے والی چالیں چل کر بڑی بڑی سیاسی بازیاں الٹ دیتے ہیں۔  ویسے تو ہم نے زندگی میں کبھی اپنے نام کا ووٹ استعمال نہیں کیا لیکن ایک مرتبہ ہم نے کسی اور کے نام کا ووٹ ڈالا تھا کیونکہ جب ہم بالغ نہیں ہوئے تھے حالانکہ ہمارے مسلمان لیڈروں نے بی جے پی کے جواب میں اپنی شاندار گرج دار تقریروں کے ذریعے ہم کو شعوری طور پر سیاسی بالغ بنا دیا تھا۔ ان کی تقریریں ایسی شاندار اور جذباتی ہوا کرتی تھیں کہ بچہ بچہ سیاسی طور پر بالغ ہو جاتا تھا۔ تقریروں میں اللہ اور رسول کے ذکر سے بات شروع ہوتی اور کہا جاتا۔ ۔۔۔۔

مسلمانو! یاد رکھو ہم بابری مسجد کی طرف اٹھنے والے ہاتھوں کو قلم کر کے رکھ دیں گے۔ اور قدموں کو کاٹ پھینکیں گے وغیرہ وغیرہ۔ ہر بچے کو یقینِ کامل ہو گیا تھا کہ ایسے دو چار لیڈروں کو منتخب کر کے ہم سارے ہندوستان پر حکومت کر لیں گے۔

دوسری مرتبہ جب ہم بحیثیتِ  بالغ رائے دہندہ پوری شان اور وقار کے ساتھ پولنگ اسٹیشن داخل ہوئے تو پتہ چلا کہ ہمارا ووٹ تو پہلے ہی ڈالا جا چکا ہے۔ اس کے بعد پھر کبھی ہمیں ووٹ ڈالنے کی توفیق نہیں ہوئی لیکن اس مرتبہ تو ہم نے جس استطاعتِ جوش کے ساتھ ووٹ نہیں ڈالا عالمِ تصور میں سارا دن کانگریس ہماری خوش آمد کرتی رہی لیکن ہم اسے تڑپاتے رہے۔ اس کا ایک ایک کارنامہ گناتے رہے اور وہ ر و رو کر معافیاں مانگتی رہی لیکن ہم بھی ٹاڈا کے جیلر کی طرح اس کو دھکے مارتے رہے ہمارا دل پسیجا۔۔۔۔ اتنا بڑا انتقام ہم سوائےعا لم تصور کے اور لے بھی کہاں سکتے تھے؟ الیکشن کا دن گزرا جیسے تیسے نتیجے آنے لگے ہمارا دل باغ باغ ہوتا گیا۔ پھر اسی چشمِ تصوّر سے ہم ہر نتیجے پر کانگریس کو حقارت بھری نظروں سے گھور گھور کر کہ رہے تھے کہ :

"دیکھ لیا ہمارا انتقام ! ابھی تو دیکھتی جا ہمارے ایک ووٹ نہ ڈالنے کا عبرت ناک انجام ”

جب دیوے گوڑا جی نے حکومت سنبھال لی تب ہمیں اطمینان ہوا کہ ہمارا انتقام پورا ہو گیا۔ اپنے تئیں ہم نے نہ صرف کانگریس کا کورٹ مارشیل کر دیا بلکہ سزائے موت دے ڈالی لیکن جب سے نرسمہا راؤ جی کا وہ بیان پڑھا سارا اطمینان جاتا رہا جس میں انہوں نے انکشاف فرمایا تھا کہ :

” اپوزیشن کو حکومت کر نے کا موقعہ ہم نے خود بہت سوچ سمجھکر دیا ہے۔ تاکہ انہیں بھی اور عوام کو پتہ چل جائے کہ حکومت سنبھالنا سب کے بس کی بات نہیں اور اس دوران ہمیں بھی پارٹی کو مستحکم کرنے کا موقع ملے گا۔ ”

گویا ہم ووٹ نہ ڈال کر بھی کانگریس کے استحکام کے کام آ گئے !

بیان آگے اور بھی تھا لیکن اس سے زیادہ پڑھنے کی ہمت ہم میں نہیں تھی بالکل جیسے اخبار میں امتحانی نتائج میں اپنا رول نمبر غائب ہو تو آگے کے نمبر دیکھنا جی نہیں چاہتا۔ ہماری سیاسی چال بازی،  بے وقعت بن کر رہ گئی۔  قبل از الیکشن کے تمام حالات کو حافظے میں لا کر ہم راؤ صاحب کی صداقت کی شہادت دے سکتے ہیں کہ جتنا کوئی جیتنے کے لئے بھاگ دوڑ کر سکتا ہے انہوں نے اس سے کہیں زیادہ ہارنے کے جتن کئے تا کہ ہار کر پارٹی مستحکم ہو جائے۔ جیت کر پارٹیاں مستحکم ہوتی ہیں یہ تو سنا ہے دیکھا بھی ہے۔ اس لئے ہم ان کی ہار پر اکڑ رہے تھے لیکن پارٹی کو ہرا کر مستحکم کرنے کا فارمولہ ہمارے لئے ایسا ہے انکشاف ہے جیسے کوئی استاد پہلوان اپنے شاگرد کو سارے گُر بتا دیتا ہے سوائے ایک کے تاکہ وقتِ ضرورت سبق سکھائے۔

راؤ جی واقعی استاد نکلے۔ کانگریس کے استحکام کے لئے عوام نے اتنے جوش و خروش اور مکمل قومی یکجہتی کے ساتھ تو نہرو اور گاندھی جی کے زمانے میں بھی کوشش نہیں کی تھی جتنی راؤ جی کے لیئے کی۔  ٹاڈا،  بابری مسجد،  بوفورس چارہ و شکر اسکام وغیرہ وغیرہ جیسے اسکینڈلس کو نا خواندہ عوام خواہ مخواہ ان کی بد عنوان سیاست سے تعبیر کر رہے تھے حالانکہ یہ کام تو وہ عوام کی بھلائی کے لئے کر رہے تھے تاکہ اپوزیشن حکومت تشکیل دے او ر عوام کو پتہ چل جائے کہ حکومت چلانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں پھر اپوزیشن اور عوام خود ہی گڑ گڑا کر معافی مانگیں گے کہ آیئے آپ ہی دوبارہ حکومت فرمایئے اتنی دیر میں وہ پارٹی کو مستحکم کر لیں گے۔

اس کوشش میں انہوں نے پوری ایمانداری سے محنت کی اور اس بات کا مکمل خیال رکھا کہ کہیں کوئی ایسا آدمی نہ کھڑا نہ ہو جائے جو الیکشن جیت کر پارٹی کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرے اور کسی حلقۂ انتخاب میں ایسی سہولتیں فراہم نہ کر دی جائں جس سے عوام خوش ہو کر دوبارہ انہی کو نہ منتخب کر لیں۔ جو کہ سراسر اس نادان غلام کے جیسی حرکت ثابت ہو جاتی جو مالک کی محبت میں مالک کی ناک پر بیٹھنے والی مکھی کو پتھر سے دے مارتا ہے۔  ایک ایک آدمی کو چن چن کر پارٹی سے الگ کیا۔ ایک ایک حلقۂ انتخاب کو اپنے سے دور کیا تاکہ اپوزیشن جیتے اور پارٹی مستحکم ہو۔

اس بیان کو پڑھنے سے قبل ہم جب بھی راؤ جی کو ٹی وی پر عدالت کے چکر کاٹتے ہوئے دیکھتے اسی عالمِ تصور میں عورتوں کی طرح کوستے ” دیکھا اللہ بتایا ” لیکن اب ٹی وی پر جب ان کو دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم جیل جا رہے ہیں اور وہ ہمیں دیکھ کر مسکرا رہے ہیں۔

ابھی تو ہم طفلِ مکتبِ سیاست ہیں پتہ نہیں اور کیا کیا سیکھنا ہے۔ اگر مکتب سیاست کا نصاب درسِ نظامی کی طرح ہوتا جو دو سو سال سے نہ بدلا ہے نہ بدلے گا توہم بھی ایڈوانس میں پڑھ کر اندازہ لگا لیتے لیکن یہ تو ہیروئن کے کپڑوں کی طرح ہوتا ہے کب کتنی بار بدلے اور کیا کیا منظر دکھائے پتہ نہیں چلتا۔ آج راؤ جی نے یہ بیان دیا ہو سکتا ہے کل کانگریس سے بچھڑ کر دوبارہ ملنے والے حضرات بھی یہی کہ دیں ہمارا پارٹی سے نکالا جانا اور دوبارہ و اپس لیا جانا ہماری پارٹی کا اپنا منصوبہ تھا تاکہ پارٹی کو استحکام بخشا جائے۔

راؤ جی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف عدالتی کاروائیوں کی رفتار یہ بتا رہی ہے کہ ابھی استحکام میں تاخیر ہے۔ کوئی ایک آدھ کیس ہار بھی جائں تو شا ئد استحکام کے لئے یہ نا گز یر ہونے کی وجہ سے ہاریں ورنہ ذاتی طور پر وہ اتنے خوددار ہیں کہ ہارنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا پھر بھی حب الوطنی اور عوام دوستی کے پیشِ نظر پارٹی کے استحکام کی خاطر ہارنا پڑے تو وہ اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ کیونکہ کیسس اتنے ہیں کہ ان کے ختم ہوتے ہوتے پارٹی مستحکم ضرور ہو جائے گی۔ ہماری نیک تمنائیں کانگریس کے ساتھ ہیں۔

ہم خوش بھی ہیں کہ کانگریس کا ساتھ نہ دے کر جسے ہم ابنی جیت اور خوشی سمجھ رہے ہیں یہی کیفیت ان کو عین مطلوب تھی گویا ہم عملی طور پر کل بھی ان کے معاون تھے آج بھی ثابت ہو گئے اور شائد کل بھی رہیں۔

٭٭٭

 

 

 

ہم بھی وہیں موجود تھے۔۔۔۔ قصہّ ایک مشاعرے کا

 

 

واللہ مزا آ گیا۔

جی چاہ رہا ہے کہ آپ کو مشاعرے کی داستان سے پہلے مشاعرہ گاہ کی داستان سنا یئں۔ سیٹوں کا انتظام دیکھ کر کئی سال بعد یاقوت محل اور ضیا ء ٹاکیز کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ البتہ پیچھے والے ذرا بہتر کرشنا ٹاکیز کا مزا لے رہے تھے۔تالیوں کی گونج تو تھی لیکن سیٹیوں کی کمی تھی۔ ایک بھی سیٹی سننے کو نہیں ملی۔ وہ مدھر شوخ اور چنچل سیٹیاں مارنے والے جانے کدھر چلے گئے۔  شکلوں سے پہچانے تو جا رہے تھے لیکن شائد VIP کارڈ نے ان کے منہ بند کر دیئے تھے۔کئی ایک نے شائد شادیاں کر لی ہیں۔ کوئی بڑی بحر کے ساتھ تھا تو کوی چھوٹی بحر کے ساتھ کوئی آزاد نظم کے ساتھ تو کوی سہلِ ممتنع کے ساتھ اور کئی کے ساتھ قطعات اور مطلعے بھی تھے اس لیے شرافت کا تقاضہ تھا کہ کوی سیٹی نہ مارے۔

کرسیاں اسقدر گتّھم گتّھا اسٹایئل میں جمائی گئی تھیں کہ پاوں رکھنے کی بھی گنجائش نہیں تھی۔  لوگ کرسی پر آلتی پالتی مار کر بیٹھنے پر مجبور تھے بازو والے سے بات کرو تو آگے یا پیچھے تشریف فرما محترمہ سے سرگوشی کا گماں ہوتا تھا اس لیے لوگ سیٹی تو درکنار واہ واہ بھی احتیاط سے کرنے پر مجبور تھے۔ اکثر وزن سے خارج بیگمات نے جن کے وسیع و عریض رقبے کا احاطہ کرنے کے لئے دو کرسیاں بھی ناکافی تھیں بمشکل اپنے آپ کو ایک کرسی پر ڈھیر کیا ہوا تھا جن کو عبور کرنے کے لیے کئی حضرات کو کیں گرو کی طرح پھدکنا پڑ رہا تھا یا پھر لومڑی کیطرح پھلانگنا پڑ رہا تھا۔کئی مولوی حضرات بھی مشاعرہ گاہ میں موجود تھے جو برقعے کے احکامات میں پوشیدہ حکمتوں پر مسلسل غور فرما رہے تھے۔

ڈھانکے کفن نے سارے عیوبِ برہنگی

ورنہ میں ہر لباس میں ننگِ وجود تھا

کچھ مرد حضرات اپنی بے ہنگم توندوں کو سوٹ اور جیکٹ میں ڈھانک رہے تھے بے چاروں کی مجبوری قابلِ فہم تھی کیونکہ عورت کی توند تو عارضی ہوتی ہے ایک نقطۂ عروج پر پہنچ کر اتر بھی جاتی ہے اور نتیجہ بھی نکلتا ہے لیکن مردوں کی کم بخت توند سالہا سال گامزن بہ عروج رہتی ہے نتیجہ تو کو ئی نہیں نکلتا بس ایک بار جو بڑھنا شروع ہوتی ہے اترنے کا نام ہی نہیں لیتی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ اس لیے لوگ اسے چھپانے کوٹ کے کونے بار بار کھینچ کر آگے کر رہے تھے۔

کچھ شیروانیاں بھی نظر آئیں جنہیں دیکھ کر خوشی ہوئی کیونکہ ان حضرات نے انتہائی شریف اور غیر سیاسی ہوتے ہوئے بھی شیروانیاں زیب تن کی ہوئی تھیں۔ اب یہ پتہ نہیں کہ انہوں نے مشاعروں کی تہذیب کو رونق بخشنے شیروانی زیب تن کی تھی یا برسوں میں کبھی کبھار کام آنے والی اپنی شادی کی اکلوتی شیروانی کو رونق بخشنے۔

گرمی اور حبس اتنے عروج پر تھے کہ جسم پر ململ کا کرتا پاجامہ بھی بارِ گراں تھا لیکن کچھ لوگوں کا ٹائی سوٹ میں ذوقِ خوش لباسی موسم سے بے نیاز تھا۔ ہماری اور انگریزوں کی تہذیب کا یہ سنگم بھی بڑا عجیب ہے کہ ہم گرمیوں میں ایک دوسرے کے لباس کا تبادلہ کر لیتے ہیں وہاں گرمی حد سے بڑھے تو وہ ہمارے لباس اختیار کر لیتے ہیں اور یہاں گرمی حد سے بڑھے تو ہم ان کے سوٹ اختیار کر لیتے ہیں۔ تہذیبوں کا یہ باہمی تبادلہ اعلیٰ ظرفی کی نشانی ہے۔ اس ذوقِ خوش پوشی کو دیکھ کر منتظمینِ مشاعرہ کو بھی یہ اطمینان ہو جاتا ہے کہ VIP کارڈ غلط ہاتھوں میں نہیں گیا ہے اور پیچھے بیٹھنے والے تھرڈ کلاس سامعین کو بھی اْن کی اوقات معلوم ہو جاتی ہے جو شرٹ پتلون یا توپ یا شلوار قمیص میں منہ اُٹھائے چلے آتے ہیں گویا کسی مارننگ شو میں آرہے ہیں۔

مشاعرے کے دعوت نامے بے حد شاندار تھے خواتین اِن سے پنکھوں کا کام لے رہی تھیں۔ سارے میک اپ کا بیڑہ غرق ہو رہا تھا۔

ہم مشاعرہ گاہ پہنچے گیٹ کے اندر نظر دوڑائی۔ اندر فری چائے اور سموسوں کے اسٹال پر راشن کی دکان کی طرح بھیڑ تھی۔ ہم نے بھی تیزی سے قدم بڑھائے حالانکہ ہم گھر سے پیٹ بھر کھا کر نکلے تھے لیکن پتہ نہیں کیوں مفت کا مال دیکھتے ہی ہم سب کے منہ میں پانی آ جاتا ہے اور اس دوڑ میں بلا لحاظِ ٹائی سوٹ توپ یا شیروانی سبھی شامل ہو جاتے ہیں۔ اکثر حرم میں بھی یہ منظر ہم نے دیکھا کہ رمضان میں سامنے افطاری کا ڈھیر ہوتا ہے لیکن پھر بھی کوئی کھجور بانٹتا ہوا سامنے آ جائے تو لوگ آگے بڑھ کر دو چار کھجور ضرور کھینچ لیتے ہیں۔ خیر تو ہم تیزی سے گیٹ کی طرف بڑھے۔ گیٹ مین نے کارڈ دیکھا اور بڑی حقارت سے پیچھے کے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ وی آی پی گیٹ ہے۔

ہماری دل آزاری تو ہوئی لیکن ہم نے یہ کہہ کر دل کو تسلّی دی کہ اسقدر گرمی میں چائے پینا تو حماقت ہے اور ہم نے اپنی شانِ خود داری کو اکھٹاّ کیا اور آگے بڑھے اور ایسا کونا ڈھونڈھا جہاں کم سے کم ٹھوکروں کے امکانات تھے۔

اسٹیج اسقدر خوبصورت تھا کہ دیکھ کر ساری کلفت دور ہو گئی۔مشاعرے کی کامیابی کا اندازہ ہمیں اْسی وقت ہو گیا جب مشاعرہ ٹھیک ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوا ورنہ اردو مشاعروں میں ایک گھنٹہ بعد تو اسٹیج پر تھوڑی سی ہلچل ہوتی ہے اور ایک صاحب نمودار ہو کر اعلان فرماتے ہیں کہ حضرات شعراء کرام اور مہمانِ خصوصی بس پہنچنے ہی والے ہیں۔ ٹھیک نو بجے مشاعرے کا آغاز ہوا۔  ایمیسی کے ایک ذمہ دار آفیسر نے مہمان "شعراؤں اور شاعراتوں” کا تعارف کروایا گیا اور ایک ایک کر کے شعراء اسٹیج پر آنے لگے کچھ لائے گئے۔ بعض شعراء عمر اور صحت کے لحاظ سے اس حالت میں تھے کہ ان کو سننا بڑے ثواب کا کام لگ رہا تھا۔ شعراء کا انتخاب کوٹہ سسٹم کے تحت کیا گیا تھا لیکن کرکٹ کیطرح ریاستی بنیادوں پر یا ہاکی طرح سردارجیوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ تیس تا چالیس سال کے ایک۔  چالیس تا پچاس کے دو تین، پچاس تا ساٹھ کے تین چار اور اسی طرح نوّے سو کے پیٹھے سے ایک دو شعراء کو بلایا گیا تھا۔ ایک” شاعرات” تھیں کیونکہ وقت انہوں نے پوری شاعرات کا لیا تھا اور جیسا گاہک ویسی پڑیا کے مصداق سامعین کی دلچسپی کی انہوں نے ہر چیز سنائی یعنی غزل گیت دوہے وغیرہ۔ گیت دوہے وغیرہ شاعرانہ تہذیب تو نہیں لیکن مشاعرانہ تہذیب بن چکے ہیں ان کو بند کرنے کے لیے پہلے ہمیں جمیل الدّین عالی کو بند کرنا پڑے گا۔ البتّہ محترمہ نے نہ پلّو ڈھلکایا نہ اوڑھنی گرائی انتہائی مہذّبانہ داد وصول کی جس پر وہ مبارکباد کی مستحق ہیں۔

مشاعرے کی کامیابی کا ہمیں اس وقت یقین ہو چکا تھا جب ناظمِ مشاعرہ نے اپنے گلے کے آپریشن کی وجہ سے زیادہ بولنے سے معذرت کر لی ورنہ وہ ہر شعر کی شرح پیش کرنے کے لیے مشہور ہیں ایک شاعر نے اپنی گرجدار نظم میں پورے ہندوستان کو للکارتے ہوے مسلمانوں کے احسانات گنوائے۔ ہر بڑے قائد رہنما سائنسداں شاعر ادیب کرکٹر و میچ فکسچر اور فلم اسٹار کے نام وہ اپنی نظم میں لے آئے لیکن صرف ایک خاتون کا نام شامل کیا جس کی وجہ سے خواتین کو بہت افسوس ہوا دلیپ کمار اور نوشاد کا نام آسکتا ہے تو مدھوبالا اور مینا کماری کا کیوں نہیں آسکتا؟ اور نئی نسل میں دیا مرزا اور سوہا علی خان جس شاندار پیمانے پر ہڑپہ اور منجودھارو کی تہذیب کو زندہ کر کے ملک و قوم کا نام بلند کر رہی ہیں ان کا نام شامل نہ کرنا زیادتی ہے ان کا نام اس لیے بھی اہم ہے کہ ہند و پاک دوستی کو آگے بڑھانے میں ان کا بڑا ہاتھ ہے۔ کسی بھی پاکستانی بھائی کے گھر یا گاڑی کی تلاشی لیجیے آپ کو انہی کے ویڈیو سی ڈی اور آڈیو برآمد ہوں گے۔

آزاد شاعری کی بھی ہمّت افزائی کی گئی۔

اب وہ دن دور نہیں جب یہ ترنّم سے بھی پڑھی جائیں گی۔ ایک شاعر نے طویل آزاد نظم سنائی۔  ہمیں یاد نہیں وہ نظم کیا تھی لیکن اتنا یاد ہے کہ وہ گھر کے سامانوں کی طویل فہرست پیش کر رہے تھے۔پابند شاعری میں ردیف قافیے خوامخواہ بڑی جگہ گھیر لیتے ہیں ان کی جگہ گھر کے کئی سامان آتے ہیں جیسے میز کرسیاں رضائیاں چمچے پتیلیاں ہانڈیاں وغیرہ۔ اور شاعر نے بہت خوبصورتی سے ان ساری چیزوں کو جما دیا تھا ویسے نظم کا مرکزی خیال بہت اچّھا تھا۔

حیدرآباد کی کھٹّی شاعری بھی تھی۔ کھٹاس کبھی باسی نہیں ہوتی شائد اسی لیے بیس بیس سال سے وہی لطیفے وہی اشعار جو کئی سامعین کو بھی زبانی یاد ہو گئے ہیں وہی سنائے جا رہے ہیں کیا حیدرآباد نئی تخلیقات کے لیے واقعی بانجھ ہو چکا ہے؟

ہمیں مشاعرہ اس لیے بھی اچّھا لگا کہ اس بار حالاتِ حاضرہ پر چیخ چیخ کر داد و فریاد گفتار و للکار کرنے والے شعراء کوئی نہیں تھے۔ حالاتِ حاضرہ پر کہی جانے والی شاعری ہمیں اْس گْلگلے کی طرح لگتی ہے جو جب تک گرم ہو اچّھا لگتا ہے اس کے بعد وہ ربڑ کا ٹکڑا لگتا ہے۔

بہرحال منتظمینِ مشاعرہ مبارکباد کے مستحق ہیں اس بار انہوں نے پاکستانی سامعین پر سے قد غن ہٹا کر انہوں نے تہذیبی فراخدلی کا ثبوت دیا اور یہ ایک خوش آئند علامت ہے۔ مشاعرہ نہ ناکام رہا نہ بہت زیادہ کامیاب رہا لیکن سی جی صاحب اور ان کے رفقا کی کوشش اور خلوص کامیاب رہے جس پر انہیں مبارکباد نہ دینا اپنے آپ سے بھی اور اردو کے ساتھ بھی زیادتی ہو گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

قحط الرجال

 

 

 

قحط ا لرِّجال

پہلے ہم اسے دانشوروں کا تکیہ کلام سمجھتے تھے۔

جس طرح میکانک حضرات جب اصل خرابی تک پہنچ نہیں پاتے تو ” مینو فیکچرنگ ڈیفیکٹ ” کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں اسی طرح ہمارے قائدین اور دانشور حضرات بھی جب مسائل کا صحیح حل سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں تو قحط الرجال کہہ کر قوم کو مطمئن کر دیتے ہیں تا کہ وہ انہی حضرات کو غنیمت جان کر ان کے جلسوں کو کامیاب بنائیں۔

شائد یہی وجہ ہے کہ اکثر جماعتوں،  اداروں،  مدرسوں،  اور سلسلوں کی باگ ڈور جن کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں وہ سارے "تا حیات صدر” ہوتے ہیں۔ اور جب جانشینی کا سوال آتا ہے تو دور دور تک کوئی قابل نہیں ملتا سوائے انہی کی اولادوں اور دامادوں یا زیادہ سے زیادہ بھانجوں بھتیجوں کے۔ بہر حال لوگوں کے ذہنوں میں جب تک قحط الرجال کا یقین خوب اچھی طرح نہ بٹھایا جائے وہ ان کے جانشینوں کو قبول نہیں کرتے چاہے وہ کتنے ہی نالائق کیوں نہ ہوں۔ خیر یہ تو پھر بھی بہت غنیمت ہے کہ ہمارے ہا ں قحط الرجال دور کرنے پھر بھی رجال مل ہی جاتے ہیں۔ لالو پرساد یادو کی مجبوری کا اندازہ لگائیے کہ کہ قحط الرجال کو دو ر کرنے انہیں اپنی بیوی کو آگے لانا پڑا۔  جس بیچاری نے زندگی میں سوائے بچے پالنے اور دودھ دوہنے کے علاوہ کچھ سیکھا ہی نہیں تھا۔

ممتا بنرجی ہوں کہ جئے للیتا، بے نظیر ہوں کہ حسینہ واجد ان کے نام کی سرخیاں خو د یہ اعلان کر رہی ہیں کہ قحط الرجال ہے اور وہ بھی ایسا کہ انگریزوں کے زمانے والا بنگال کا قحط بھی اس قحط کے سامنے کچھ نہیں۔ مگر پھر بھی ہمیں یقین نہیں آیا کہ واقعی کوئ قحط الرجال ہے۔ ہم اس کی تصدیق کے لیئے نکل پڑے۔ بے شمار جلسے اورسمیناربھگتے، انتہائی دلچسپ موضوعات پر مبنی سیاسی، ادبی، علمی و مذہبی جلسوں کے اشتہارات نے ہمارے اشتیاق کو بھڑکایا۔

جلسہ گاہوں میں کئی ٹائی سوٹ اور شیروانیوں کو دیکھ کر ہم بیحد متاثر ہوئے۔ پھر جلسے کے شاندار بینر کے نیچے قطار میں ان مقررین اور منتظمین کی اخبارات میں تصویریں دیکھ کر ہمیں ڈھارس بندھی کہ کوئی قحط الرجال نہیں ہے۔ اشتہا ر بازی، اسٹیج بازی اور اس کے بعد اخبار بازی کوئ معمولی کام تو نہیں۔  جو بھی اس ہنر میں ماہر ہوں ا نکے ہوتے ہوئے قحط الرجال کیسے ہو سکتا ہے۔ اگر آپ کو اس بات سے اختلاف ہو تو ذرا  اپنی تصویر اخبار میں چھپوا کر بتا دیں۔ ہمارے ہاں تو اخبار میں کسی کا بیان یا تصویر شائع ہونا اس شخص کا ایک عظیم کارنامہ تصور کیا جاتا ہے اور خود موصوف اپنے بیان اور تصویر کو اتنی مرتبہ دیکھتے ہیں جتنی مرتبہ تو دلہا اپنی نئی نویلی دلہن کو بھی نہیں دیکھتا۔

ایک مرتبہ شہر میں فسادات کی و جہ سے کرفیو نافذ تھا۔ دو تین روز بعد جب  کچھ گھنٹوں کے لئے کرفیو اٹھایا گیا تو اتفاق سے ہماری ملاقات ایک بزرگ قائد سے ہو گئی۔  ہم ان کی طرف لپکے کہ تازہ صورتِ حال دریافت کریں۔ لیکن ان کی نظر جونہی ہم پر پڑی، ہم سے پہلے وہ گویا ہوے اور پوچھا ” میاں آج کے اخبار میں میرا بیان پڑھا؟”

ہم سٹپٹا گئے۔ ہم نے اخبار تو بغور دیکھا تھا لیکن ا ن کا بیان کہیں نظر سے نہیں گزرا تھا۔ خیر ہم نے اندازے پر تیر چلایا کہ ان حالات میں یقیناً انہوں نے کوئی زبردست احتجاجی بیان ہی دیا ہو گا۔ ہم نے اثبات میں گرمجوشی سے سر ہلاتے ہوے کہا کہ:

” ہاں،  آ پ کا دلیرانہ بیان پڑھ کر تو  مبارکباد دینے کو جی چاہتا ہے ”

اچانک ان کی آنکھوں سے شوقِ خود ستائی رخصت ہوئی او ر یکلخت بے نیازی چھا گئی۔  فرمایا کہ” خیر یہ تو کچھ بھی نہیں، اخبار والوں کی بزدلی کی وجہ سے پورا بیان شائع نہیں ہوا ورنہ دھوم مچ جاتی”۔ ہم نے بعد میں گھر جا کر دیکھا۔ واقعی ان کا ایک مختصر سا بیان موجود تھا۔ لیکن تیسرے یا چوتھے صفحے پر، ایک انتقالِ پُر ملال کی خبر کے اوپر۔

ایسے قائدین سے مل کر قحط الرجال پر کُچھ یقین آنے لگتا ہے۔ یہی ایک تنہا قوم کے مخلص خدمت گزار لگتے ہیں۔ کسی بھی دوسری اہم شخصیت کے بارے میں ان سے ذرا پوچھ کر دیکھئے یہ ہر ہر شخص اور ہر ہر ادارے اور جماعت کا آپ کے سامنے کچا چٹھا بیان کر دیں گے۔ ایسے ایسے راز افشا کریں گے کہ قحط الرجال پر آپ کو مکمل یقین آ جائے گا۔

ہم نے فیصلہ کیا کہ کچھ اہم حضرات سے قحط الرجال کی تصدیق کروائیں۔  ہماری تمنّا تھی کہ کوئی تو سمجھدار ایسا ملے جو اپنے علاوہ بھی کسی کو اپنے شعبے میں قابل سمجھے۔ کوئی تو یہ کہے کہ :

"نہیں، یہ دشمن کی پھیلائی ہوئی افواہ ہے۔  الحمدللہ ہمارے ہاں کوئی قحط الرجال نہیں، ایک سے اعلیٰ ایک ہیرا قوم میں موجود ہے جن کے سامنے میں تو کچھ بھی نہیں۔”

سب سے پہلے ہم نے ایک سیاسی جماعت کے قائد سے گفتگو کی۔ یہ جماعت اگرچیکہ شہر کے قدیم حصہ پر محیط ہے لیکن کل ہند ہے۔ ہند و پاک کی ہر جماعت چاہے اس کا اکلوتا آفس پرانے شہر کی کسی پتلی سی گلی میں ہی کیوں نہ ہو اس کے بوسیدہ دروازے کے اوپر” کل ہند ” یا "کل پاکستان "کا ہی بورڈ لگا ہوتا ہے۔ صرف اسمبلی یا پارلیمنٹ کیلے ہی نہیں بلکہ اقوامِ متحدہ،  ورلڈ ہیومن رائٹس،  آئی ایم ایف اور رابطۂ عالم اسلامی کے لئے بھی ساری اہم ہدایات و احکامات یہیں سے جاری ہوتے ہیں۔ یہ سیاست کو عبادت سمجھتے ہیں۔ ان کی حرکتوں یا تقریروں سے سیاست کا اندازہ ہویا نہ ہو، یہ اندازہ ضرور ہو جاتا ہے کہ یہ عبادت کو کیا سمجھتے ہیں۔ جو ان کا خیال رکھ سکے اسے ہم خیال سمجھتے ہیں جو ان سے اختلاف کرے وہ ان کی دانست میں یا تو حکومت کا ایجنٹ ہے یا  پھر صیہونی  و امریکی ایجنٹ۔

خیر صاحب ہم نے موصوف سے پوچھا کہ کیا قحط الرجال کی خبر واقعی صحیح ہے ؟

انھوں نے بھاری بھر کم آواز میں پہلے تو تعوذ و تسمیہ پڑھا پھر سلام کے بعد فرمایا کہ” قحط الرجال ہے۔ قحط الرجال ہی قحط الرجال ہے۔ ہم نے قوم کی ترقی کے لئے اتنی بڑی جماعت کھڑی کر رکھی ہے لیکن کوئی پڑھا لکھا اسمیں شریک ہونا نہیں چاہتا۔ سب دور سے مشورے دینا چاہتے ہیں۔

ہم نے ادباً کہا کہ :

سب کے ساتھ معاشی مجبوریاں ہوتی ہیں۔  بفضلِ خدا آپ کی پارٹی کو لاکھوں کی نہیں بلکہ کروڑوں کی آمدنی ہے آپ افراد پر کچھ خرچ کریں تو آپ کو بھی دوسری جماعتوں کی طرح نہ صرف پڑھے لکھے دانشور مل سکتے ہیں،  بلکہ بڑے بڑے فلم اسٹار، کرکٹر، ریٹائرڈ کمشنر،  صحافی اور سفیروغیرہ سبھی مل سکتے ہیں۔  یہی سب کچھ تودوسری جماعتیں بھی کر رہی ہیں۔  وہ ہم پر برس پڑے۔ گویا ہم کوئی اپوزیشن ہیں۔  ظاہر ہے ساری زندگی اپوزیشن میں بیٹھتے بیٹھتے کبھی تو انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ حکمران ہو اور اپوزیشن پر گرجے۔  وہ ہم پر گرجنے لگے :

” نمازمیں لقمہ دینے کے لئے پہلے جماعت میں شامل ہونا ضروری ہوتا ہے۔ پہلے آپ فی سبیل اللہ جماعت میں شامل ہو جائیے اور پھر مشورے د یجیئے،  خدا حافظ "۔

انہیں شائد علم نہیں کہ اگر جماعت کا قبلہ ہی غلط رخ ہو تو توجہ دلانے کے لئے فقہ کے مطابق،  جماعت میں شامل ہونا تو درکنار مسلمان ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا۔

اپوزیشن کے ہاتھ مضبوط کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ جوں ہی اپوزیشن پارٹی حکومت میں آ جائے یہ لوگ سابق حکمراں جماعت کے ساتھ مل کر نئی اپوزیشن کی راہ ہموار کرنے میں جٹ جاتے ہیں۔اور پوری قوم کو اپوزیشن پر ڈٹے رہنے میں ایمان و عقیدے کی سلامتی کا درس دیتے رہتے ہیں۔  اسی کا نتیجہ ہے کہ ساری قوم اتنی پکی اپوزیشن بن چکی ہے کہ اگر کبھی حکمران جماعتیں تھک ہار کر ان سے کسی بات پر اتفاق بھی کر لے تو یہ اپنے آپ سے مخالفت پر اتر آئیں گے۔

ہم نے ایک مذہبی رہنما کو فون کیا۔ پہلے تو انہوں نے ہمارے مسلک و جماعت کے بارے میں استفسار فرمایا۔جب ہم نے انہیں یقین دلایا کہ ہمارا کسی مسلک یا جماعت سے تعلق نہیں ہے تو فرمایا کہ ہاں واقعی زبردست قحط الرجال ہے۔لوگ دین سے دور ہو چکے ہیں جب تک لوگ صحیح مسلک ( یعنی ان کا مسلک ) سے نہ جڑیں اور علماءِ حق ( یعنی وہ علماء جن کا تعلق ان کے مسلک سے ہے ) کی پیروی نہ کریں قحط الرجال دور نہیں کیا جا سکتا۔

پھر ہم نے ایک دانشورسے گفتگو کرنے کی ٹھانی۔ ان حضرات کے پاس دانش ہو یا نہ ہو پی ایچ ڈی کی ڈگری ضرور ہوتی ہے۔  جدید تعلیمی ترقی نے دانشور کو پی ایچ ڈی سے مربوط و مشروط سا کر دیا ہے۔ چلئے اچھا ہی ہوا ورنہ دانشوری کی تعریف متعین کرنے اہلِ علم کے درمیان برسہا برس سے ویسی ہی جنگ اور تکفیر بازی رہی ہے جیسے فاتحہ کے مسئلے پر اہلِ مذہب کے درمیان۔

دانشوروں کے پاس قوم کے ہرمسئلے کا تجزیہ بھی ہوتا ہے اور اس کا حل بھی۔ پوچھیئے تو بتا دیں گے کہ میرے ایم فِل کے مقالے کا صفحہ نمبر فلاں پڑھ لیجیئے۔ کہنے لگے :

"ہم کو دانشور کہہ کہ آپ لوگ چنے کے درخت پر چڑھا دیتے ہیں۔ ہم اپنی عمرِ عزیز صرف کر کے کتابیں اور مقالے لکھتے ہیں،اپنی محنت کی کمائی ان کی چھپوائی پر لُٹا دیتے ہیں تاکہ اس قوم کو کوئی رہنمائی ملے، یہ بد احساس قوم انڈین فلمیں تو پیسے خرچ کر کے خریدتی ہے لیکن ہماری کتاب اگر مفت بھی دیں تو اسے پڑھنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ کوئی اپنی زبان،  تہذیب اور امت کی بقا کے لئے ایک کتاب خرید کر پڑھنے کا روادار نہیں قحط الرجال کا اِس سے بڑا ثبوت اور کیا چاہئے؟۔

لیڈر ہوں کہ مولوی صاحبان ہوں یا کہ دانشور حضرات، قحط الرجال دور کرنے کے لئے سب کے پاس ایک ہی فارمولہ ہے جس کو ہم” چاہیئے ” فارمولہ سے تعبیر ر سکتے ہیں۔  ان تمام کے فرمودات کو اگر آپ ایک جملے میں سمیٹنا چاہیں تو وہ جملہ ایک لفظ ” چاہئیے ” پر ختم ہوتا ہے جیسے

1)۔ ہم کو تعلیمی میدان میں آگے آنا چاہیئے۔

2)۔  سیاسی شعور بیدار ہونا چاہیئے۔

3)۔ اتحاد پیدا ہونا چاہیئے۔

4) وغیرہ وغیرہ پیدا ہونا چاہیئے۔

ایک ایک گھنٹہ طویل تقریر یا کئی کئی صفحات پر مشتمل مقالات سے سامعین کو زبردست متاثر کرنے کے بعد جب یہ حضرات حل کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں تو ” چاہیئے چاہیئے "کا ریکارڈ ہمارے ذہنوں میں پہلے ہی بجنے لگتا ہے۔ ہم ان "چاہئے برادران” سے بڑے تنگ ہیں۔ جگہ جگہ،  موقع بے موقع یہ اپنی قائدانہ اور دانشورانہ مشوروں سے بور کرتے ہیں۔ یہ اپنے طور پر think tank ہوتے ہیں اور ہم جیسے صبر سے سننے والے گویا ان کے ورکر ہیں۔

جس نے اس ” چاہیئے ” کو سب سے پہلے دریافت کیا وہ ایک چوہا تھا۔

جی ہاں چوہا۔

جس نے بلی کے بڑھتے ہوئے جبر و استبداد، قتل و غارتگری کے خلاف سب سے پہلے آواز اٹھائ تھی۔ بلی پوری امریکہ بن چکی تھی جس نے چھوٹے چھوٹے ملکوں پر آزادی حرام کر رکھی تھی۔ و ہ طاقت کے زور پر دندناتے پھرتی،  کوئی اس کا بال بھی بیکا نہیں کرپاتا۔بڑے بڑے چوہے بھی بے بس ہو چکے تھے۔ اپنی اپنی بِلوں پر حکمرانی کے باوجود بلی کو بوقتِ حکم اپنی جانوں کا نذرانہ دینے پر مجبور تھے۔ وہ جس وقت جس پر ہاتھ ڈالنا چاہتی دبوچ لیتی۔ ایسے نازک وقت میں اس بوڑھے مگر ذہین چوہے نے اپنے تجربے اور بصیرت کا ثبوت دیا۔  چوہوں کو اکٹھا کر کے پہلے اس نے ان کے سامنے حالات کی سنگینی رکھی یعنی Current affairs گفتگو کی۔ پھر سب کو ہمت،  دلیری و اتحاد سے کام لیتے ہوئے حالات کا مقابلہ کرنے کی بھرپور شعلہ بیانی کے ساتھ تلقین کی۔ سامعین نے اس کی خوب پذیرائی کی۔  کسی نے اس کے زبردست جرأتِ اظہار پر تالی پیٹی۔

کوئی اس کے منفرد،  اچھوتے اظہارِ بیان،  اسلوبِ زبان اور ایمان پرور اشعار کا دیوانہ ہو گیا۔  جن کی سمجھ میں کچھ نہ آ یا وہ زند ہ با د کے نعرے لگانے لگے۔  جب سماں بندھ گیا تو مقر ر نے فرمایا کہ:

” حل صرف یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھ دی جانی چاہیئے”۔

بس پھرکیا تھا۔ سامعین بوڑھے چوہے کی ذہانت اور تجربے کا لوہا مان گئے۔  یہ ایک ایسا حل تھا جو آج تک نہ کسی دانشور کے ذہن میں آیا تھا نہ آسکتا ہے۔ زبردست تالیوں کی گونج میں جلسے کا اختتام ہوا۔  مقررین اور سامعین نے اپنا اپنا حق ادا کر دیا۔ سب نے سکون کی سانس لی۔ اس حل پر سب ہی مطمئن تھے۔ بوڑھا چوہا اپنی اس تقریر پر پھولا نہیں سما رہا تھا۔  لیکن پھر بھی انکساری سے اپنے قریبی رفیقوں سے داد طلب نظروں سے راز داری میں پوچھ رہا تھا "میری تقریر کیسی تھی؟ میں نے کچھ غلط تو نہیں کہا؟ آپ میر ی اصلاح ضرور فرمایئے "۔

حالانکہ وہ تعریف سننے کے لئے بے چین تھا۔

صدیاں گزر گئیں۔ اس چوہے کے ہزاروں جانشین پیدا ہوئے اور ہوتے رہیں گے۔ اسی گھنٹی کے فارمولے کے ذریعہ ووٹ،  چندے،  اور اپنی دیگر دوکانیں چلاتے رہیں گے۔ اسی کی بنیاد پر ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں عطا ہوتی رہیں گی اور لوگ خطابات و تمغوں سے نوازے جاتے رہیں گے۔ جو یہ سوال اٹھائے گا کہ :

” آخر بلی کے گلے میں گھنٹی کیسے باندھی جا سکتی ہے، کون باندھے گا ”

اس کا انجام یہ ہو گا کہ اپنے ہی حلقوں میں اسے قدامت پسند، فائر برانڈ، باغی یا پھر حُجّتی کہا جائے گا، ہمیشہ اس کو سامعین میں ہی بٹھایا جائے گا۔ یا پھر وہ ٹاڈا،  پوٹا،  یا سی آ ئی اے کے ہتھے چڑھے گایا پھر کسی اردو اخبار میں جگہ پانے کے لئے مالکان و ایڈیٹرانِ اخبار کے آگے منت سماجت کرتے کرتے مر جائے گا اور مرنے کے بعد اس کے تعزیتی جلسوں سے پتہ چلے گا کہ وہ اپنے عہد کا ایک بہت بڑا دانشور،عبقری، شاعر، مفکر اور ریفارمر تھا۔

ہم نے ا س چاہیئے برادری کا منہ بند کرنے کے لیئے ایک ترکیب ڈھونڈ ہی لی۔

جس پر عمل کرنے کے بعد ہم کو قحط الرجال کا یقین آ ہی گیا۔اب جب بھی کوئی ہمارے سامنے” یہ ہونا چاہیئے یاوہ کرنا چاہیئے ” کا حل پیش کرتا ہے ہم اس کی زبردست تائید کرتے ہیں۔اُس کی ذہانت کی پہلے تو خوب تعریف کرتے ہیں او ر فوری حساب لگا کر بتا دیتے ہیں کہ” جناب،  اِس چاہیئے پر عمل درآمد کرنے کے لئے اتنے پیسے او ر اتنے افراد درکار ہیں۔ آپ پیسوں کا بندوبست کر دیجئے افراد ہم مہیا کر یں گے، یا کم از کم آپ آدھے پیسوں کا انتظام کر دیجیئے باقی ہم سنبھال لیں گے "۔

یہ سننے کے ساتھ ہی ان کے چہرے کا رنگ اُ ڑ جاتا ہے۔ جوش و خروش کی جگہ ٹھنڈی آہیں اور بے چارگی چھا جاتی ہے۔ ایسے منہ ڈال دیتے ہیں جیسے بکر ا ذبح ہونے کے بعد سر ڈھلکاتا ہے۔ وہ” انشاء اللہ ضرور ضرور کریں گے” کہہ کر مصافحہ کر کے نکل جاتے ہیں اور دوسری بار اگر نظر آتے ہیں تو دور سے سلام اور جلدی میں ہونے کا اشارہ کرتے ہوئے بعد میں ملنے کا اشارہ کر کے راستہ کاٹ جاتے ہیں۔آپ بھی یہ فارمولہ آزمایئے۔ آ پ کو بھی راستوں،  دیوان خانوں اور جلسوں میں ان "چاہیئے برادران ” کی بکواس سے نجات مل جائے گی۔

خیر صاحب ہم جس جس سے قحط الرجال کی بابت دریافت کرتے رہے ہر شخص اپنے دائرۂ کار کے مطابق گواہی دیتا رہا۔  شاعروں اور ادیبوں نے کہا کہ ہم خونِ جگر سے تخلیق کرتے ہیں اور ہماری غزلیں گا کر قوّال اور غزل گو کماتے ہیں، ہم منہ تکتے رہتے ہیں۔ ساہتیہ اکیڈمی والوں نے کہا اگر قحط الرجال نہ ہوتا تو ایوارڈ دینے کے لئے ہمیں اپنے من پسند افراد کو کیوں ڈھونڈنا پڑتا؟ مشاعروں اور جلسوں کی صدارتوں کے لئے مالداروں کو کیوں مدعو کرنا پڑتا؟۔خدمت خلق کی انجمنوں کے صدور نے کہا کہ قوم کی خدمت کے لئے ہمارے پاس بے شمار منصوبے ہیں لیکن اپنی جیبوں سے مال نکالنے والا کوئی نہیں۔ جو مال آتا ہے اسمیں ہمارا ہی گھر نہیں چلتا انجمن کیا چلے گی؟۔ہم نے پوچھا , آپ کا گھر چلنے کتنا درکار ہے،  ؟ انہوں نے انتہائ خود داری اور جذبہ قلندرانہ سے فرمایا ” بس گھر تعمیر ہو جائے،  مستقل آمدنی کا ایک ذریعہ پیدا ہو جائے،  بچے امریکہ،لندن یا سعودی چلے جائیں بس۔۔۔”۔مسجدکے مولوی صاحب نے کہا کہ قحط الرجال ہے بھی اور نہیں بھی۔کل تک جس گھرسے ایک آدمی مسجدآتا تھا اب پانچ پانچ آتے ہیں لیکن کل بھی اگر وہ دس روپئے چندہ دیتے تھے آج بھی وہی دیتے ہیں۔ ان کے گھروں کی توسیع تو ہو چکی لیکن مسجدیں تنگ پڑ رہی ہیں کوئی جیب سے پیسہ نکالنے تیار نہیں۔  نئی آبادیوں میں مسلمانوں کے بے شمار پلاٹ تو ملتے ہیں دور دور تک کوئی مسجد نہیں ملتی۔

ہم نے مناسب سمجھا کہ خواتین سے بھی قحط الرجال کی تصدیق کریں۔ ان کے پاس قحط الرجال کی تصدیق کے لئے زبردست دلیل تھی۔ کہنے لگیں ” مردوں کا واقعی زبردست قحط ہے اسی لئے دلہوں کو خریدنا پڑتا ہے۔  ڈاکٹر پانچ لاکھ میں،  انجینر چار لاکھ میں،  گریجویٹ یا سرکاری ملازم ایک یا دو لاکھ میں۔  حتٰی کہ رکشے کھینچنے والا بھی پانچ ہزار سے کم میں نہیں ملتا۔ شرم دلاؤ تو پُوچھتا ہے اگر میں ڈاکٹر ہوتا تو کیا آپ خوشی سے مجھ پر پانچ لاکھ نہیں خرچتے؟ اگر ایک ڈاکٹر مرد ہے تو کیا میں مر د نہیں ہوں؟۔ اس طرح قحط مردوں کا ہی نہیں مردانگی کا بھی ہے اس لئے مردانگی حسن کی طرح بکتی ہے۔

خواتین سے مل کر ہمیں ” قحط الجمال ” کا بھی اندازہ ہوا۔ کہاں وہ جمال جسے دیکھ کر زبان پر قدرت کی شان تخلیق پر حمد جاری ہو جاتی تھی اور کہاں یہ حسن کہ دیکھتے ہی بیوٹی پارلر کی تعریف کرنے پر آدمی مجبور ہو جائے۔ زلفیں، گال،  بھنویں،  آنکھیں،  ہونٹ،  ایک ایک عضو کو دیکھ کر لگتا تھا کہ خالقِ حسنِ کائنات نے اس پیکرِ  حسن کو اپنے ہاتھوں سے سوچ سوچ کر بنایا ہے لیکن اب یہ ہے کہ ہر ہر عضو کا ایک الگ بیوٹی ایکسپرٹ ہے۔

قحط الرجال کے غم میں پوری رات جاگتے گزر گئی اور فجر کی اذان ہو گئی۔ہم نے اُس دن فجر پڑھ لینے کا قصد کیا۔ مسجد میں دو تین مصلّیوں نے ہمیں دیکھ کر ایک دوسرے کی طرف حیرانی سے دیکھا۔ ہم سمجھتے تھے کہ ایک ہمیں کاہل ہیں لیکن سارا محلّہ فجر پڑھتا ہو گا۔ وہاں دو تین ہزار افراد کے محلے کے بیچوں بیچ مسجد میں چند وظیفہ یاب بزرگوں اور چند بیروزگار نوجوانوں پر مشتمل ایک ڈیڑھ صف دیکھ کر خیال آیا کہ قحط الرجال اصل میں مسجد سے شروع ہوا ہے۔ مسجد کے لاوڈاسپیکر د ن میں پانچ پانچ مرتبہ قحط الرجال کی لاؤڈ اسپیکروں پر تصدیق کر رہے ہیں جسے ہم غلطی سے موذن کی اذاں سمجھتے ہیں۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

ایک لاکھ روپے کی ضرورت

 

 

ہم اور ہماری قبیل کے کئی دوست یہ عہد کر کے سعودی عرب آئے تھے کہ دو چار سال میں ایک آدھ لاکھ روپیئے جمع کر کے واپس لوٹ جائیں گے اور الحمدللہ ہماری استقامت میں کوئی فرق نہیں آیا۔  آج تیس سال بعد بھی ہم اپنے عہد پر قائم ہیں اور آپ سب بھی ہمارے عہد پرگواہ رہئے کہ جس دن ہمارے ہاتھ میں ایک لاکھ روپئے ہوں گے ہم مزید ایک دن بھی یہاں نہیں رہیں گے۔

ماں باپ اور بھائی بہنوں کو چھوڑ کر غیروں کے در پر دھکّے کھانے سے بہتر ہے آدمی اپنے وطن میں بھوکا مر جائے۔ سوچو تو اپنے وطن میں کیا نہیں ہے۔ صرف دولت نہیں تو کیا ہوا۔  لوگ اپنے،  زمین اپنی،  زبان اپنی اور اختیار اپنا۔  یہاں تو ایک قیدی کی بلکہ اس سے بھی بدتر زندگی ہے۔ اگر ان حالات کا پہلے سے اندازہ ہوتا توہم ہرگز نہ آتے، لیکن کیا کریں آنکھوں پر پردہ جو پڑ گیا تھا۔ ہر باہر جانے والے کو پھول پہنتے، دعوتیں اڑاتے اور امام ضامن بندھواتے دیکھ کر ہمارے سر پر بھی باہر جانے کا بھو ت سوار ہو چکا تھا۔ باہر سے چھٹّی پر آنے جانے والے الگ ہمارا جی جلاتے۔ وہ اپنے لیے تو چار چار بیگ بھر کر لاتے لیکن ہمارے لیے صرف مدینہ کے دوچار کھجور اور ایک گلاس ” آبِ زمزم کا پانی ” !

وہ اپنے سالے اور بہنوئیوں کے ویزے تو ساتھ لاتے لیکن جب ہم اپنے لیے ویزا کی بات کرتے تو یوں ظاہر کرتے جیسے وہاں رہ کر بھی ہم سے زیادہ پریشان حال ہیں۔ کہتے کہ پہلے جیسے حالات نہیں رہے۔ کفیل بہت ستاتے ہیں۔ بغیر اقامے کے باہر نکلو تو پکڑ کر بند کر ڈالتے ہیں اور بند کر کے بھول جاتے ہیں۔ ویزا کے پیسے لے کر کھا جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

عربوں کی سیرت میں یہ گستاخی سن کر ہمیں بڑا غصّہ آتا۔جس قوم کی بہادری و شجاعت، انسانیت اور شرافت کے بارے میں ہم بچپن سے پڑھتے آرہے تھے ہماری آرزو تھی کہ بھلے تنخواہ نہ ملے اُسی مومنانہ صفات سے بھرپور قوم کے ساتھ رہ کر زندگی گزار دیں۔ اور خدا نے ہماری سن لی اور ہم باہر  آ ہی گئے۔

نوکری ملتے ہی ویزا اور ٹکٹ کا قرض اتارنا اور ایک لاکھ جمع کرنا اور واپس آ کر کوئی انڈسٹری یا ایمپورٹ ایکسپورٹ شروع کرنا یہی اب ہمارا مشن تھا۔ ہم ان لوگوں میں سے نہ تھے جو ایک لاکھ جمع ہونے کے بعد دو لاکھ کی حرص کرتے اور جس دن دو لاکھ جمع ہو جائیں چار لاکھ والوں کو دیکھ کر احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے۔ چار لاکھ حاصل ہو جانے کے بعد دس اور بیس لاکھ والوں کو دیکھ کر اتنے غمگین ہو جاتے جتنے بیروزگاری کے زمانے میں بھی نہیں تھے۔ ہماری زندگی کا اصل مقصد قوم کی خدمت کرنا تھا نہ کہ پیسہ جمع کرنا اس لیے جلد سے جلد ایک آدھ لاکھ جمع کرنا اور نکل لینا یہی ہمارا پکّا ارادہ تھا۔۔ آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا۔

اللہ نے وہ دن بھی دکھایا کہ سارے قرض ادا ہو گئے اور ہم نے ایک لاکھ جمع بھی کر لیے۔ اب نہ ہمیں کسی کفیل کی ضرورت تھی نہ نوکری کی اور نہ کسی باہر سے آنے جانے والے کو دیکھ کر احساسِ کمتری میں مبتلا ہونے کا خدشہ تھا۔  البتّہ بار بار یہ خیال آ رہا تھا کہ گھر خالی ہاتھ کیسے جائیں۔ اتنے عرصے بعد جب جا رہے ہیں تو ماں باپ بھائی بہنوں اور دوسرے خیرخواہوں کے لئے کچھ توت حفے لے جانا چاہیے۔ جن لوگوں نے ہمیں مدینے کے کھجوروں اور آبِ زم زم کے پانی پر ٹرخایا تھا اُن کو اخلاق سکھانے کا تو یہ بہترین موقع تھا اس لیئے سب کے حسبِ مراتب ہم نے شاپنگ کی۔ پتہ چلا کہ شاپنگ میں جمع شدہ رقم کا آدھے سے زیادہ حصّہ نکل چکا ہے۔ خیر ہمارے حوصلے ابھی بلند تھے ہم نے فیصلہ کیا کہ اِس بار خروج دخول پر اور اگلی بار انشاء اللہ مستقل چلے جائیں گے۔

گھر پہنچ کر ابھی ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ ہماری طبیعت خراب ہونے لگی۔  پتہ نہیں لوگ وہا ں کسطرح زندگی گزارتے ہیں۔ ایک تو شدید گرمی،  دوسرے گھنٹوں بجلی غائب۔ ایک ہاتھ سے اخبار کو پنکھا بنائے دوسرے ہاتھ سے مچّھروں کو بھگاتے بھگاتے اور یہاں وہاں کھجاتے کھجاتے ساری رات نکل جاتی۔ مرحوم سلیمان خطیب کی نظم یاد آتی :

"کس کا پلنگ ہے باشا ”

کھٹمل کا آشیانہ مچّھر کا ہے ٹھکانہ

کیا کیا مزے ہیں یارو ہر ہر جگہ کھجانا

ہر چول ڈھیلی ڈھیلی ہر کیلا ڈھیلا ڈھیلا

ایک بار میں جو کِیلا سو بار یہ بھی کِیلا

کس کا پلنگ ہے باشا؟

بغیر فریج کے پانی حلق سے نہیں اترتا۔ دوچار بار پڑوسیوں کے فریج کا پانی منگوایا مگر وہ بھی کم ظرف نکلے اور بہانے کرنے لگے۔ ہم نے گھر والوں سے کہہ دیا کہ چاہے مزید قرض کیوں نہ لینا پڑے ہم ہر قیمت پر ایک فریج اور ایرکنڈیشنڈ لگوا کر ہی جائیں گے۔ ابّا جان نے شرم دلائی کہ پہلے آرسی سی کا ایک پختہ مکان بنوا لو ورنہ کویلو کی ٹپکتی چھتوں اور بوسیدہ دیواروں میں اِس قسم کی چیزیں رکھنا ان الکٹرانکس کی توہین ہے۔ واللہ ہم نے یہ نکتہ تو سوچا ہی نہیں تھا۔ واقعی مستقبل میں اگر قوم کی خدمت کرنا ہے تو پہلے ایک شاندار مکان بنانا بے حد ضروری ہے ورنہ ہماری آواز تو مسجد کے امام اور موذّن کی طرح بے اثر ہو کر رہ جائے گی۔

ہم نے فیصلہ کیا کہ پہلے مکان پھر ایک لاکھ۔  چاہے اس کے لیے ہمیں دس سال بھی باہر کیوں نہ رہنا پڑے۔

تعمیر شروع ہوئی۔  جتنی رقم بھیجتے رہے مزید اتنی ہی رقم کا مطالبہ آتا رہا۔ ہمارے تین چار سال نکل گئے اور  خدا خدا کر کے مکان مکمل ہوا اور وہ وقت آیا کہ ہم ایک لاکھ جمع کرنا شروع کریں اور یہاں سے چلیں۔ مکان بنانے سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ بہنوں کے لئے کھاتے پیتے گھرانوں سے رشتے آنے لگے ورنہ بوسیدہ گھر میں پولیس کانسٹبلوں اور کلرکوں کے ہی رشتے آتے تھے۔ مگر نقصان یہ ہوا کہ دولہوں کا rate بڑھ گیا۔ اب ڈاکٹروں اور انجینیروں کے رشتے آنے لگے۔ کوئی بھی پانچ چھ لاکھ سے کم کا نہ تھا۔ لیکن سارے شریف اور خوددار لوگ تھے۔  ہر ایک نے یہی کہا کہ ہمیں جوڑا جہیز وغیرہ کچھ نہیں چاہیے جو بھی دینا ہے خوشی سے اپنی بیٹی کو دے دیجیے لیکن ” شادی معیاری ہونی چاہیے”۔

ایسے شریف اور خوددار نہ جانے اُس وقت کہاں تھے جب ہمارا مکان کویلو کا تھا۔  حالانکہ ہم اور ہماری بہنیں آج بھی وہی ہیں جو کل تھیں۔ شائد RCC کا مکان ہماری شرافت اور خاندان کا سرٹیفکٹ تھا جو لڑکے والوں کو پہلے نظر نہیں آیا۔ ہم نے سوچا کیوں نہ پہلے والے رشتوں پر ہی ازسرِنوغور کیا جائے کیونکہ بعض بعض پولیس والے شریف بھی تو ہوتے ہیں۔  لیکن اب ہمارے خاندان والوں کی رائے بدل چکی تھی۔  ان کا خیال تھا کہ بڑے گھر کی بچّیوں کو چھوٹے گھر میں دینا مناسب نہیں ہے۔ بہرحال بہنوں کی زندگی کا معاملہ تھا اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ پہلے دولہے خریدیں گے پھر ایک لاکھ۔  الحمدللہ بہنیں اپنے اپنے گھر کی ہوئیں اور شادیوں کے قرض ایک ایک کر کے ادا ہوئے اس مہم میں ہمارے اور چار پانچ سال نکل گئے۔ پھر ہم نے فیصلہ سنا دیا کہ اب ہمارے ایک لاکھ جمع کرنے کا وقت آ چکا ہے۔

والدین نے کہا جی نہیں اب آپ کی شادی کا وقت آچکا ہے۔ پہلے اپنی شادی پھر "ایک لاکھ”۔

ہم ہر روز کے اقامہ رخصہ قطع اِشارہ اور کفیلوں کے ظلم سے پہلے ہی تنگ آ چکے تھے مزید ایک عدد بیوی کو سر پر مسلّط کر کے اپنے آپ کو کولہو کا بیل بنانا نہیں چاہتے تھے پھر کئی شادی شداؤں کا انجام دیکھتے ہوئے اپنے پاؤوں میں خود بیڑیاں ڈالنا اور ذلیل ہونا ہمیں منظور نہیں تھا۔ ہم نے چند بزرگوں سے مشورہ کیا اُنہوں نے کہا :

"شادی کر لو دو تین سال میں سب صحیح ہو جائے گا "۔

ہم نے پوچھا "کیا صحیح ہو جائے گا ؟ ”

انہوں نے کہا ” آپ کو عادت ہو جائے گی ”

خیر تو ہم نے ایک لاکھ کا فیصلہ واپس لیا اور سہرا باندھا۔ شبِ عروسی ہی دلہن کو بتا دیا کہ ہم سعودی واپس جا کر جلد از جلد ایک ڈیڑھ لاکھ جمع کریں گے اور واپس لوٹ جائیں گے۔

اُس نے پوچھا "واپس آ کر کیا کریں گے؟ ”

ہم نے کہا "ہم قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ ٹاٹا برلا کیطرح کوئی انڈسٹری قائم کریں گے یا کوئی ٹی وی چینل یا اسکول یا کالج شروع کریں گے۔ الکشن لڑیں گے اور کیا ”

وہ ہنسنے لگی

ہم نے پوچھا کیوں ہنس رہی ہو؟

اُس نے کہا "شائد آپ گووندا کی فلمیں زیادہ دیکھتے ہیں "۔

خیر دنیا نے جب سر سیّد کو نہیں چھوڑا تو ہمیں کیا چھوڑے گی۔  اس لیئے ہم کسی کے مذاق اُڑانے کی پروا کیے بغیر اپنا عہدِ مسلّم لیے واپس آ گئے۔ پھر بیوی نے انتہائی پیار سے التجا کی کہ ایک بار مکہ اور مدینہ دکھا دیجیے پھر زندگی میں کچھ نہیں مانگوں گی۔ یہ بیویاں اپنی ہر خواہش اسی طرح پوری کرواتی ہیں گویا زندگی میں اس کے بعد واقعی کچھ نہیں مانگیں گی اور بے وقوف مرد ہر بار ان کی باتوں میں اس طرح آ جاتے ہیں جیسے واقعی یہ بیوی کی آخری خواہش ہو۔

مختصر یہ کہ پھر فیصلہ بدلا اور سوچا پہلے بیوی کو بلا لیں گے پھر ایک لاکھ۔  ویزا اور ٹکٹ کا انتظام کیا گھر سیٹ کیا کچھ سال اور نکل گئے۔ الحمدللہ ایک کی جگہ دو لاکھ جمع ہو گئے۔ پھر ہم نے فیصلہ سنا دیا کہ اب واپس ہونے کا وقت آ چکا ہے۔

بیوی نے کہا "جی نہیں آپ کی دو عدد بیٹیوں کے لئے ابھی سے کوئی فلیٹ، پلاٹ یا انشورنس پالیسی خریدنے کا وقت آ چکا ہے۔ کل جب جہیز بیس بیس لاکھ کا ہو گا زمینوں کی قیمتیں کروڑوں میں ہوں گی آپ اپنے وطن میں رہ کر کیا خاک کما کر جوڑا جہیز دیں گے ؟”۔

عورتوں کا یہ وہ کامیاب ہتھکنڈا ہے جس کے ذریعے وہ مردوں کو ساری عمر کمانے کے چکّر میں جکڑے رکھتی ہیں۔  جسطرح امریکہ عربوں کو صدّام حسین اور اسامہ بن لادن کا خوف دلا کر ڈرائے رکھتا ہے اسیطرح عورتیں دامادوں اور سمدھیاوؤں کا ڈر دکھا کر بے چار ے مردوں کو ساری زندگی گھر سے گھاٹ اور گھاٹ سے گھر میں مصروف رکھتی ہیں۔

خیر صاحب ہم نے کچھ اور سال لگا دیئے۔  بیوی کی یہ آخری خواہش بھی پوری کر دی اور بیٹیوں کا بھی انتظام مکمل کر دیا۔ اب ہمارے پاس ایک لاکھ کی جگہ دس لاکھ پورے جمع ہو چکے تھے۔ اب ہم نے واپسی کا آخری اعلان کیا۔ ہماری خیر اندیش اور دور اندیش بیوی نے پوچھا :

"جب آپ سعودی عرب آئے تھے اس وقت دس لاکھ ایک کروڑ کے برابر تھے آج ایک کروڑ دس لاکھ کے برابر ہیں۔  جب تک آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ نہ ہو آپ گھر کس طرح چلائیں گے؟”

گھر کی چار دیواری کے اندر رہتے ہوئے بھی world economy پر عورتوں کی نظر کتنی گہری ہوتی ہے اس کا ہمیں اندازہ نہیں تھا۔ واقعی یہ بات قابلِ غور تھی کہ جب تک کے ہم ٹاٹا برلا کے مقابلے پر اترنے کے قابل ہوں اور قوم ہم کو ایک قائد و دانشور تسلیم کرے اُس وقت تک گھر چلانے کے لئے کچھ تو آمدنی کا ذریعہ ہونا چاہئے۔ تیس چالیس ہزار ماہانہ آمدنی کے لیئے اِس دور میں کم سے کم ایک کروڑ کاسرمایہ رکھنا لازمی ہے۔ ہم بیوی کی ذہانت مان گئے۔ اس کی بات صد فی صد صحیح تھی اس لیئے ہم نے اپنا فیصلہ پھر ملتوی کیا اور انتہائی مجبوری سے اِس نئے پروجیکٹ پر لگ گئے۔

لیکن ہم آپ کو بھی اور اپنے آپ کو بھی یہ یقین دلاتے ہیں کہ جونہی یہ پروجیکٹ مکمل ہو گا ہم اپنے لیے ایک ڈیڑھ لاکھ جمع کر کے اپنے وطن لوٹ جائیں گے انشاء اللہ۔

یہ کیسی منزل ہے کیسی راہیں کہ تھک گئے پاؤں چلتے چلتے

مگر وہی فاصلہ ہے قائم جو فا صلہ تھا سفر سے پہلے

٭٭٭

 

 

 

قصہ ناموں کا

 

 

دنیا کی آبادی میں جتنی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ناموں کی قلت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ کوئی نام پکاریئے چار پانچ آدمی پلٹ کر دیکھتے ہیں۔

پہلے یہ مسئلہ صرف چین میں تھا جس میں ہر گھر میں ایک چیانگ دوسرا چونگ اور تیسری لڑکی چیں گ ہوتی تھی۔ کوریا اور تھائی لینڈ سے سارے کِم اور لی کو نکال دیں تو سارا ملک خالی ہو جائے۔

لیکن اب یہ مسئلہ یورپ تک پھیل گیا ہے۔ ہر بستی میں کئی کئی جان، بوب اور مائیک ہونے لگے ہیں۔ وہاں ناموں کی اس قلت کی وجہ جانور بھی بتائے جاتے ہیں کیونکہ لوگ پالنے سے پہلے ہی نام طئے کر لیتے ہیں۔ اس لئے وہاں اب آپ کسی جان یا ٹام کا پتہ پوچھیں تو الٹا سوال ہو گا :

” یہ آدمی ہے یا کتا "؟

ہند و پاک میں بھی یہی مسئلہ ہے لیکن لوگوں نے کچھ نہ کچھ حل ڈھونڈھ لئے ہیں۔ حیدرآباد میں جہاں ہر بستی میں دو قاسم بھائی،  تین غفور صاحبان،  چار جہانگیر اور تھوک کے حساب سے احمد،  رحیم،  کریم،  انور پاشا،  وغیرہ مل جاتے ہیں،  وہاں نانی،  دادی،  یا پھر محلے کے شریر بزرگوں کی طرف سے دئے گئے القابات کے ذریعے آسانی سے پہچان ہو جاتی ہے جیسے۔ ۔۔

گورے وحید میاں،  چھوٹا خالد،  انور تالو ( گنجا ) قاسم پیٹ ( بڑے پیٹ والے )۔

پاکستان میں نوعیت ذرا مختلف ہے۔ وہاں خوبصورت مرکب ناموں کا ایسا سلسلہ چل پڑا ہے کہ بعض اوقات محترم ہیں یا محترمہ پتہ ہی نہیں چلتا مثلاً شمیم کوثر،  حیات گل،  منور سلیم،  فردوس نعیم۔

اب عورتوں نے اپنے نام کے ساتھ ” خان ” لکھنا شروع کر دیا ہے جس کی وجہ سے پٹھانوں کو یہ دشوار ی پیش آتی ہے کہ تذکیر و تانیث کا فرق کیسے کریں۔ وہ تو یوں بھی قوم کو مذکر کر کے ہمارا قوم اور قسمت کو بھی مذکر کر کے "یہ نہ تھا ہمارا قسمت کہ وصالِ یار ہوتی ” کہتے ہیں۔

عربوں میں بھی یہ مسئلہ پایا جاتا ہے جو کہ بعض اوقات بڑا سنگین ہو جاتا ہے اکثر بیٹا بھی محمد،  باپ بھی محمد،  اور دادا بھی محمد ملتے ہیں۔ صالح،  عبداللہ،  فہد،  سلطان وغیرہ تو اِس کثرت سے ملتے ہیں کہ باپ اور خاندان کا بھی نام لینا لازمی ہو جاتا ہے خاص طور پر عورتیں بڑی پریشان رہتی ہیں۔ چونکہ ان کے ہاں شوہر کو بھی،  نام لے کر پکارا جاتا ہے اس لئے جب کسی خاندانی تقریب میں یہ شوہرِ نامدار کو پیار سے یا صالح یا یا عبداللہ کہہ کر پکارتی ہیں تو چار پانچ مرد دوڑ پڑتے ہیں۔

خدا کا شکر ہے ہمارے ہاں عورتیں شوہر کا نام لینے میں شرم محسوس کر تی ہیں۔  ” اجی ” ” سنئے ” وغیرہ سے کام چلاتی ہیں البتہ آج کے ماڈرن زمانے میں جانو ہنی ڈارلنگ وغیرہ زیادہ چلنے لگے ہیں۔ جب کوئی محترمہ جانو کے واؤ کو لمبا کر کے محفل میں بانگ لگاتی ہیں تو اِن کی والدہ محترمہ کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے لیکن جانو کی امّاں کا دل یہ سن کر پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔ عورتوں میں اب منی،  بی بی، چھوٹی وغیرہ کی جگہ شگفتہ،  کہکشاں،  عنبر گُل افشاں وغیرہ نے لے لی ہے مگر اس میں خامی صرف یہ ہے کہ سننے والوں نے اگر محترمہ کو پہلے دیکھا نہیں تھا تو بڑی حسین خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب سامنا ہوتا ہے تو شگفتہ کی شگفتنی اور کہکشاں کی کہکشانی ایسی بجلی گراتی ہے کہ پھر ساری زندگی خوش فہمیوں سے توبہ کر لیتے ہیں۔

خیر یہ سارا مسئلہ تو خاندانی اور محلہ واری تھا۔ اب اس مسئلے کے جو سیاسی،  قومی اور بین الاقوامی طور پر اثرات پڑنے لگے ہیں۔  ان کا اندازہ شہاب الدین صاحب کے واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ اب تک زیادہ سے زیادہ محلے کے پولیس تھانوں تک یہ غلطی محدود تھی کہ ایک مجرم کے ہم نامی کو پکڑ لاتے حتیٰ کہ جرم بھی قبول کر وا لیتے لیکن اب تو صحافی اور لیڈر بھی اس مسئلے کا شکار ہو چکے ہیں۔  جب خبر آئی کہ بہار کے شہاب الدین نامی لیڈر گرفتار ہوئے تو اخبارات نے خبر کے نیچے جس شہاب الدین کی بھی تصویر میسر آئی چھاپ دی۔ جتنے دوسرے شہاب الدین تھے ان کے گھروں پر فون اور ملاقاتیوں کا تانتا سا لگ گیا۔ جدہ کے اردو نیوز ڈیلی کو جناب سید شہاب الدین ایم پی کی تصویر ہاتھ آئی اور اِنہوں نے وہی شائع کر دی۔  جتنے دوسرے شہا ب الدین تھے اُنہوں نے حفظِ ما تقدم کے طور پر اپنی اپنی نیک نامی کے جلسوں اور جلوسوں کا اعلان کر دیا۔ اور مختلف تنظیموں کی طرف سے اپنے نام ایوارڈ جاری کروائے۔

ہمیں پتہ نہیں بنگلہ دیش میں اس مسئلے کو کیسے حل کرتے ہیں۔  وہاں تو اس کثر ت سے عبد السلام اور نذر الاسلام ہیں کہ ایک کے نام وارنٹ نکلے تو پچاس گرفتار ہو جائیں۔

سعودی عرب آ کر تھوڑی سی صورتِ حال بدلی ہے اب القابات کی جگہ لوگوں نے اپنے شیخوں کو اپنی "کنیت ” بنا لیا ہے جس سے عام نام ہونے کے باوجود پہچان آسان ہو گئی ہے۔ جیسے ” انور زاہد ٹریکٹر ” ” کریم جفالی ” ” اطہر سعودیہ ” اور "غوث العیسائی”۔

بہر حال ناموں کی بڑھتی ہوئی قلت کی وجہ سے ہمیں ابنِ انشاء کے مشورے میں معقولیت نظر آر ہی ہے وہ یہ کہ جب تک یہ مسئلہ حل نہ ہو فیملی پلاننگ سختی سے نافذ کی جائے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

اے میرے لختِ جگر

 

 

السلام علیکم۔

تم جہاں بھی رہو اللہ تعالی تمہیں کامران و شادمان رکھے آمین۔

علیم میاں آئے تھے کہہ رہے تھے کہ تم شاہ رخ خان اور ملّیکا  شراوت کی ویڈیو تو پیسے دے کر خریدتے ہو لیکن کسی مقصدی مشاعرے کے بھی کارڈ مفت مانگتے ہو۔

بہت افسوس کے ساتھ انہوں نے بتایا کہ تم مجھے یاد تو کرتے ہو لیکن غمِ روزگار نے تمہیں اتنا مجبور کر دیا ہے کہ تمہارے پاس میرے لیے سوچنے کا وقت نہیں ہے۔

میرے بچے میں تمہاری مجبوری سمجھتی ہوں۔  اگر میں تمہارے ساتھ ہوتی تو آج تمہیں غیروں کے آگے نہ کبھی جھکنا پڑتا نہ کسی احساسِ کمتری میں مبتلا ہونا پڑتا۔ ماں کا سہارا صرف اولاد ہوتی ہے اگر وہی جوان ہو کر ہاتھ چھڑا کر بھاگ جائے جس طرح کہ ایک جانور رسی تڑا کر بھاگ جاتا ہے تو بوڑھی ماں کر بھی کیا سکتی ہے؟ میرے پاس اب رہا بھی کیا جو میں تمہیں دے سکوں۔

میرا حُسن دہلی میں اجڑ گیا،

میرا ایک ایک زیور حیدرآباد کے دائرة المعارف میں چار دن تک جلایا جاتا رہا۔ کوئی بجھانے تک نہیں آیا۔

لکھنؤ والوں نے مجھے مقام تو دیا لیکن صرف شاعری اور مجروں کی حد تک۔

کسی کو میری جوانی کا اندازہ کرنا ہو تو وہ نظام خاندان کی جوانی دیکھے اور کسی کو میری طاقت دیکھنی ہو تو گنگا جمنی تہذیب کا مطالعہ کرے۔ خیر کسی سے کوئی گلہ نہیں جب اپنی اولاد ہی اپنی نہ رہے تو کسی سے کیا گلہ۔ میری جوانی کی کچھ تصویریں آج بھی لکھنؤ کے محلات میں،  کچھ عثمانیہ یونیورسٹی اور لال قلعہ کی دیواروں پر لگی ہیں۔

اگر چیکہ دشمنوں نے میری ایک ایک نشانی پر گیروا رنگ چڑھا کر میری شناخت مٹا دی پھر بھی مجھے ان سے گلہ نہیں کیونکہ خود میری اپنی اولاد نے جسے میں نے گود میں بولنا سکھایا، خاندان ہی نہیں ساری دنیا سے پہچان کروائی،  غیر زبانوں اور غیر تہذیبوں کو سمجھنے کا ذریعہ دیا اسی نے اپنی شخصیت کے گھروندے پر غیر زبان اور غیر تہذیب کے رنگ و روغن چڑھا دیئے۔ آج اگر میرا نام کوئی لیتا ہے تو کہتے ہیں کہ :

” ہم نہیں جانتے”

اگر کچھ جانتے بھی تھے تو دوریوں نے بھلانے پر مجبور کر دیا۔ مگر اتنا یاد رکھو تم مجھ سے لاکھ دور رہو،  لاکھ پہچاننے سے انکار کرو غیر تمہاری صورت دیکھتے ہی کہہ دیں گے کہ تم میری اولاد ہو !!

آج تم غیروں کے گلدانوں میں سج تو چکے ہو لیکن دیکھنے والے تو جانتے ہیں کہ جس شاخ پر تم چٹکے تھے اس کو ہوا پانی اور روشنی میں نے دی تھی۔  پھول جو شاخ پر ہوتا ہے چمن کی زینت ہوتا ہے مرجھاتا بھی ہے تو اس کی خوشبُو نئے گلوں کی خوشبُو میں شامل ہو کر چمن میں ہی رہتی ہے شاخ سے الگ ہو کر وہ صرف بستروں اور قبروں پر سجتا ہے۔

میرے بچے میں تمہیں کیسے سمجھاؤں کہ میرے بغیر تمہاری رُوح گونگی ہے کیونکہ روح تو اسی زبان میں نغمے گاتی ہے جو اسے ممتا کی گود میں لوریاں سنتے ہوئے سب سے پہلے نصیب ہوئی تھی جو توتلا نغمہ بن کر پہلی بار اس کی زبان سے نکلی تھی۔ یہی نہیں بلکہ میرے بغیر تمہارے اندر کا انسان غیرت اور غصے سے بھی محروم ہے کیونکہ انسان کو غیرت اور غصہ اندر سے اسی زبان میں آتا ہے جس زبان میں اس نے پہلی بار گالی دینی سیکھی تھی۔ یاد رکھو جس انسان میں غیرت اور غصہ نہیں ہوتا وہ رفتہ رفتہ بے غیرت و بے حمیت ہوتا چلا جاتا ہے۔کیا تم انکار کر سکتے ہو کہ تم کو کوئی خواب بھی آتا ہے تو صرف میری زبان میں آتا ہے۔ تم دوسری زبان میں اپنا خواب بھی بیان نہیں کر سکتے۔

بیٹا! شعر و ادب کسی زبان کا حسن ہوتا ہے۔  اس معاملے میں اللہ نے مجھے جتنا حسین بنایا ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ آج بھی اگر چیکہ ہندوستان میں میں بے گھر ہوں پھر بھی کوئی فلم ہو کہ سیریل گانے ہوں کہ سیاسی تقریریں میرے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتے۔  حتّیٰ کہ عرب اور افریقی تک جو مجھے نہیں جانتے لیکن مجھے دیکھ کر گنگنانے لگتے ہیں لیکن تمہارا حال ہے کہ میرا کوئی غریب شاعر یا ادیب اپنا رسالہ،  کلام یا کتاب تمہارے آگے پیش کرتا ہے تو کہہ دیتے ہو کہ دلچسپی نہیں ہے یا وقت نہیں۔ اگر یہ غریب فرزند نہ ہوتے تو شائد میں کبھی کے مر چکی ہوتی۔

تم اپنی اور بیوی بچوں کی تفریح کے لئے تو اُن ویڈیو اور آڈیو پر بے دریغ خرچ کرتے ہو۔ واہیات شاعری اگر موسیقی اور ناچ کے ساتھ سامنے آئے تو جھوم جھوم کر دیکھتے ہو بچوں کو دکھاتے ہو لیکن میرے غریب ادیبوں کے لے تمہارے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں۔ مشاعرے کے کارڈ تک تم مفت مانگتے ہو۔ تم بد قسمت ہو جو سڑک پر چُننے اور کھانے کے ایسے عادی ہو گئے ہو کہ محل کے نان و کباب کا تمہیں مزہ چھو کر نہیں گزرا۔ تم ان فضول بے ہودہ تفریحات پر جتنا خرچ کرتے ہو اور جتنا وقت صرف کرتے ہو اگر اس وقت اور مال کا پاؤ بھی میرے لئے خرچ کر سکو تو آج بھی مجھ میں اتنا دم پیدا ہوسکتا ہے کہ میں اپنے مرحوم بیٹے بہادر شاہ ظفر سے چھینا ہوا ہندوستان معہ سلطنتِ آصفیہ کے واپس دلا دوں۔

میں نے تاریخ کی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا ہے لیکن مقدمہ جیتنے کے لئے نہ صرف قابل وکلاء کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ باہر سے آواز اٹھانے والے قابل افراد کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے ایک سے ایک قابل بیٹے ہوتے ہوئے بھی میں بانجھ کی طرح ہوں۔  ڈاکٹر،  انجینئر،  سائنٹسٹ، ایم بی اے،  بی ایس، ایم ایس وغیرہ وغیرہ بہت کچھ ہیں لیکن اتنے خود غرض ہیں کہ جس نے ان کو تر نوالہ دیا اسی کے گُن گانے لگے اسی کی بولی بولنے لگے۔  کوئی ہندی تلگو مرہٹی کی گود میں جا بیٹھا کوئی عربوں کا غلام ہو گیااور کوئی انگریزی سیج پر سج گیا۔ ایسے ہی لوگ ” ابن الوقت ” کہلاتے ہیں۔ میرے اک چہیتے ڈپٹی نذیر احمد نے ایسے لوگوں کے بارے میں کیا خوب لکھا کہ :

"کوئی شخص دولت یا ہنر یا کسی اور وجہ سے کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لے جب تک وہ ایک ذلیل قوم کا آدمی ہے اس کی کوئی عزت نہیں ہے

۔ ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ ذلیل قوموں کے لوگ بڑے مالدار ہو جاتے ہیں مگر اپنی ترقی اور مال سے قومی ذلت کے داغ کو نہیں چھڑا سکتے اور غیر سوسائٹی کبھی ان کی ایسی وقعت نہیں کرتی جس کے وہ اپنے آپ کو مستحق سمجھتے ہیں”۔

بیٹا !

دنیا میں ترقی وہی کرتے ہیں جو اپنی ماں کی زبان اور تہذیب کا دامن نہیں چھوڑتے۔  اس کے ہاتھوں کے سُوکھے نِوالے خوشی سے کھاتے ہیں لیکن غیر ماں کے سونے چاندی کے برتن کو بھی ہاتھ نہیں لگاتے۔  جرمن،  جاپانی، فرینچ، انگریزی، اِسپینش وغیرہ ان سب کو دیکھ تو آج یہ اگر مہذب اور ترقی یافتہ کہلاتے ہیں تو محض اس لئے کہ انہوں نے غربت میں بھی اپنی ماں کا ساتھ نہ چھوڑا۔ جرمن اور جاپانی ابھی پچاس سال پہلے بھیک مانگنے پر مجبور تھے۔ کوریا بھی جنگ کے بعد ایسی غربت کا شکار ہوا تھا کہ عورتیں سڑکوں پر اس طرح بِکتی تھیں جس طرح کہ مرغیاں بکتی ہیں۔  ان میں سے ایک بھی ایسی قوم کا نام بتاؤ جس نے غیر زبان یا غیر تہذیب کا سہارا لے کر ترقی کی ہو۔ خود تلگو یا ملیالی کی مثال لے لو کل تک وہی دھیڑ مانگ کہلاتے تھے لیکن اُنہوں نے ہمارے عہدِ حکومت میں ہماری تہذیب اور حکومت سے مرعوب ہو کر اپنی زبان نہیں چھوڑی اور دیکھ لو آج وہی لوگ تمہارے مالک بن چکے ہیں اور تم اُن کے آگے تحفظات کی بھیک مانگ رہے ہو۔ آج ان کے سارے قابل لوگ ملک کے اندر رہ کر جتنی عزت اور دولت کما رہے ہیں اتنی باہر والے کیا خاک کمائیں گے۔

بیٹا !

آنے والا دور آج سے بھی زیادہ عصبیت کا دور ہو گا۔ ہر شخص وطن،  قوم اور زبان سے پہچانا جائے گا۔  اگر تم اپنی زبان اور تہذیب کو ترقی دینے میں نا کام ہو گئے تو یہ بہت بڑی ناکامی ہو گی۔چاروں سمت سے اٹھنے والی آوازیں سنو۔ دیکھو جس زبان نے تمہیں شناخت دی وہ اپنا حصہ مانگتی ہے جس نے تمہارے ہونٹوں کو چوم چوم کر بچپن، لڑکپن، جوانی اور شعور کی بلندیاں عطا کیں۔  آج بھی جو بھی سوچ تمہارے دماغ میں آتی ہے وہ پہلے اسی زبان میں آتی ہے اس پر تم نے سکتہ طاری کیوں کر دیا؟

ہر پیدا ہونے والے بچے پر ماں کے صرف دودھ کا ہی قرض نہیں ہوتا بلکہ اس پر ماں کی زبان کا،  اس کی تہذیب کا،  اس کی تاریخ اور اس کے دین کا بھی قرض ہوتا ہے۔ جو اس قرض کو نہ چکائے وہ خود بھی ذلیل ہوتا ہے اور اپنے ساتھ اپنی زبان تہذیب، مذہب اور تاریخ کو بھی ذلیل کر تا ہے جس کا ثبوت آج تم اپنے بھائیوں کے ساتھ جو کچھ ہندوستان اور پاکستان میں ہو رہا ہے دیکھ لو۔  تم اس اولاد کو کیا کہو گے جو پڑوس کے گھر ترقی،  آرام و آسائش دیکھ دیکھ کر اپنی غریب اور مفلس ماں کو گھر آ کر طعنے دیتی ہے اور بجائے اپنی غریب ماں کی عزّت رکھنے کے جوان ہوتے ہی اپنی بیویوں کو لے کر الگ ہو جاتی ہے اور عید بقر عید کو تھوڑی سی خیرات بھیج دیتی ہے ؟ یہی کہو گے نا کہ یہ احسان فراموشی ہے؟

ذرا اپنے آپ پر غور کر لو کہ تم کیا کر رہے ہو۔

میں یہ نہیں کہتی کہ تم دوسری زبانیں نہ سیکھو۔  ضرور سیکھو لیکن یہ نہ بھولو کہ دین کے علمی خزانے جتنے میرے کتب خانوں میں آج بھی ہیں پوری دنیا میں اس کا آدھا بھی نہیں۔

تم یہ بھی نہ سمجھو کہ میں انگریزی سے جلتی ہوں میں تو اس کا احسان مانتی ہوں اس نے میرے بے شمار فرزندوں کو روزگار سے لگایا یہی نہیں بلکہ جو جو بھی امریکہ اور یورپ گئے وہاں کے باشندوں نے تمہیں ٹھکانہ دیا،  حقوقِ انسانی دئیے ترقی کے راستے دئیے عربوں کی طرح تمہیں کبھی حقارت سے نہیں دیکھا بلکہ اپنی بیٹیوں سے شادی کی تک اجازت دے دی۔ مگر بیٹا ! اتنا اچھا موقع تم کو ملا کہ انگریزی کے ذریعہ دنیا کے دروازے تم پر کھل گئے لیکن جسطرح اُنہوں ایسٹ انڈیا کمپنی کا بہانہ بنا کر تمہارے ملک میں داخل ہوئے اور تم کو مجھ سے ہی نہیں پوری تہذیب اور دین سے الگ کر ڈالا اور تم پر اپنی زبان اور تہذیب کو مسلّط کر کے تہیں غلام بنا لیا کاش تم بھی اسی طرح بدلہ لیتے لیکن تم تو احساسِ کمتری کے شکار اپنی نوکری کے طلبگار اپنی سستی و کاہلی کے بیمار زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کی ہوس سے دوچار۔

تم کو تو اللہ تعالی نے شیر بن کر چھا جانے کا موقع دیا تھا لیکن تم تو انگریزی چوکھٹ پر بیٹھ کر دم ہلانے گے۔  یہی نہیں بلکہ تم میں تو کئی ایسے نالائق بھی ہیں کہ میرے کسی فرزند نے اگر میری یاد بھی دلا دی تو اس پر غُرّانے لگے۔یاد رکھو انگریزی، عربی یا ہندی تم کو بہتر سے بہتر نوکری تو دیں گی لیکن تم نہ کبھی اُن کی تہذیب کا حصہ بن سکو گے نہ وہ کبھی تمہیں اپنا حصہ بنا سکیں گی۔  تمہارے ذریعہ وہ طاقتور سے طاقتور تو بنتی جائیں گی لیکن ان کے ہاں تمہاری حیثیت کسی پالکڑے منہ بولے بیٹے کی طرح ہی رہے گی۔ انگریزی نے کسی کو اگر مقام دیا بھی ہے تو سلمان رشدی یا تسلیمہ نسرین بنا کر دیا ہے۔  ہندی نے اگر کسی اردو کے لال کو اگر کوئی مقام دیا بھی ہے تو مختار عباس نقوی بنا کر دیا ہے۔

وہ تم کو علامہ اقبال کبھی نہیں بنا سکے گی۔

زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ تم دو چار وقت کی نمازیں پڑھ لو گے اور کبھی کبھار کسی اجتماع میں شرکت کر کے اپنی ضمیر کی ایسے تسلی کر لو گے جیسے کہ تم نے میرا پورا پورا حق ادا کر دیا ہے۔آج تو تم شرماتے ہوئے،  کہتے ہو کہ :

"میں اُردو میں کمزور ہوں ”

کل تمہاری اولاد بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ کہے گی کہ :

” اُردو تو ہمارے والد کی زبان تھی اِس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہم اردو نہیں جانتے”۔

اس طرح اور زبانیں اور تہذیبیں تو ترقی کرتی رہیں گی لیکن تمہاری نسلیں لسانی اور تہذیبی طور پر یتیم رہ جائیں گی۔ یہ ہو سکتا ہے کہ بڑے ہو کر وہ تعلیم یافتہ کہلائیں،  خوب کمائیں خوب گھر بنائیں بچے پیدا کریں ان کی شادیاں کریں پھر وہ بھی بچے پیدا کرتے جائیں دولت جمع کر کر کے اُنکی شادیاں کرتے جائیں جانور بھی تو یہی کرتے ہیں چھپکلی بچے پیدا کرتی ہے پھر وہ بچے بھی بچے پیدا کرتے چلے جاتے ہیں یہی کام کُتُے بلی اور گائے بکریاں بھی کر رہی ہیں لیکن ان کے وجود اور ترقی سے خود ان کے پڑوسی کو فائدہ نہیں پہنچے گا۔ ایک دن وہ تمہاری طرح مر بھی جائیں گے تو ان کو سوائے ان کی اولاد کے کوئی یاد بھی نہیں رکھے گا کیونکہ زبان تہذیب اور تاریخ تو ان کو یاد رکھتی ہے جو انہیں یاد رکھتے ہیں،  جو قوم کے لئے جیتے ہیں،  قوم کے لئے مرتے ہیں۔  تم قوم کے لئے کچھ نہ کر سکے کوئی بات نہیں کم از کم اتنا تو کر دو کہ میری وراثت اپنی اولاد تک پہنچا دواِس کی حفاظت کر نے کی انہیں تاکید کرتے رہو۔  یہ ایک امانت ہے اور امانت کو نہ پہنچانے والا خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔ یہی منافقت ہے۔ منافق کی سزا جہنم کی آگ کا سب سے نچلا حصہ ہے جہاں جلنا پڑے گا۔ مجھے لگتا ہے تم کو یہ سزا دنیا میں ہی ملنی شروع ہو گئی ہے وہ اس طرح سے کہ آج تمہارے بچوں کو اسکولوں میں دوسری زبان کے طور پر کہیں سنسکرت تو کہیں ہندی کہیں فرینچ تو کہیں کچھ زبردستی پڑھایا جا رہا ہے تاکہ یہ اپنی زبان اور تہذیب سے محروم رہ جائیں تم دیکھتے ہوئے خاموش رہنے پر مجبور ہو تمہارے بچے اسکولوں میں کہیں بھجن پڑھ رہے ہیں کہیں وندے  ماترم کہیں پرارتھنا کر رہے ہیں تو کہیں prayer یہ دیکھ دیکھ کر تمہارا دل ضرور جل رہا ہو گا لیکن تم بے بس ہو اور یہی بے بسی تمہاری سزا ہے۔  اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہاری اولاد بھی کل اسی عذاب سے گزرے تو آج ہی اپنی زبان اور اپنی تہذیب کے لئے جتنا تمہاری استطاعت میں ہے کرنے کا عزم کرو۔  روزانہ کم سے کم آدھا گھنٹہ میرے لئے نکالو میری کتابوں میں چھپے ہوے خزانوں کو پانے کے لئے محنت کرو اپنی بیوی اور بچوں پر محنت کرو وہ تمہیں ہو سکتا ہے دنیا کے نقصان سے ڈرائیں اور تمہارا مذاق اڑائیں لیکن مرد بنو۔

” اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے "۔

مانگے کی مفت کتابیں یا رسالے پڑھنے کی بجائے خرید کر پڑھنے کے عادی بنو اور گھر والوں کو بھی عادی بناؤ۔ تمہارے گھر کم سے کم ایک دو اخبار اور رسالے ضرور آنے چاہئیں۔

تمہارے کچھ بھائی سنا ہے خدمتِ خلق میں بڑی دلچسپی لیتے ہیں۔  لوگوں کی غربت دور کرنا،  ان کی تعلیمی،  معاشی، سیاسی و سماجی حالت درست کرنا یقیناً اہم ہے لیکن اس خدمتِ خلق کے ذریعہ چاہے وہ پوری قوم کو سعودی عرب کی طرح امیر بنا دیں یا امریکہ کی طرح پوری قوم کو تعلیم یافتہ بنا دیں اس سے نہ دنیا بدلے گی نہ آخرت۔ جب تک اندر کا انسان نہ بدلے نہ ذہنی سکون پیدا ہوتا ہے نہ معاشرہ بدلتا ہے اور اندر کا انسان صرف مادری زبان اور مادری تہذیب کے ذریعہ بدل سکتا ہے۔ یہی وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعہ تم کو دنیا ہی نہیں دین کے خزانے مل سکتے ہیں۔  اس لئے اپنے بھائیوں سے کہو سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ سوئے ہوئے اندر کے انسانوں کو جگاؤ۔ اسی کام کے لئے سارے پیغمبر آئے تھے۔

آخری گزارش یہ وصیت کرتی ہوں کہ اس خط کو اپنے ان بھائی بہنوں تک پہنچا دو مجھ سے دور ہیں۔

اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے۔  آمین۔

 

فقط تمہاری مادری زبان :

اُردو

٭٭٭

 

 

 

 

پان ہے کوئی مذاق نہیں

 

 

سنا ہے کہ حضرتِ آدم نے جنت میں جو پتہ چبایا تھا وہ پان کا پتہ تھا۔

جب تھوکنے کی حاجت پیش آئی تو وہاں نہ دیواریں تھیں نہ مالکِ مکان کی سیڑھیاں کہ جس کے کارنر میں نظر بچا کر تھوک سکیں۔ آگے پیچھے ساری فرشتوں کی ٹریفک تھی ظاہر ہے کہ وہاں حیدرآباد کی سڑکیں نہیں تھیں جہا ں کسی کی پرواہ کئے بغیر دائیں یا بائیں گردن گھما کر پچکاری ماری جا سکتی تھی۔ اس لئے حضرتِ آدم کو زمین پر آنا پڑا۔

ہم کو یقین ہے کہ یہ تحقیق غلط ہے یہ مولوی حضرات کی اڑائی ہوئی افواہ ہے جو محض پان کی دشمنی میں یوں اس کی تحقیر کرتے ہیں۔ یہی حضرات بھی سگریٹ کے خلاف بھی یوں ڈراتے ہیں کہ اگر جنت میں سگریٹ پینے کی خواہش ہو گی تو اسے سلگانے کے لئے دوزخ میں جانا پڑے گا!

اگر پان کے ساتھ تھوکنے کی مجبوری نہ ہوتی تو پان سے زیادہ لذیذ شئے دنیا میں کوئی نہ تھی اور عجب نہ تھا کہ انگریز ہندوستان میں چائے چھوڑ کر اپنے ساتھ پان لے کر چلے جاتے۔۔۔

پچیس سال سے سعودی عرب میں رہتے ہوئے ہماری بس ایک ہی خواہش ہے کہ یہاں گلی گلی پان کو عام کر دیا جائے تاکہ عربو ں کی روائتی خشک مزاجی تلخ لب و لہجہ حیدرآبادی مروت اور شیریں کلامی میں بدل جائے۔  اس کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ بڑے بڑے کاروباری شیخوں کو مثلاً جفالی، جمجوم،  بترجی وغیرہ کو ہندوستان لا کر ہفتہ دو ہفتے ان کی پانوں سے خوب ضیافت کی جائے۔ دولت مند شیخ جو بھی کسی ملک جاتے ہیں وہاں سے کوئی نہ کوئی ایجنسی ضرور اٹھا لاتے ہیں۔  پان تو ایسی برانڈ ہے جس کی ایجنسی کی بھی ضرورت نہیں۔ اگر یہ شیخ حضرات نکل بھاگنے کی کوشش کریں تو پھر این ٹی آر کا فارمولا آزمایا جائے اور سارے ایم ایل ایز کی طرح ان کو بھی شہر سے باہر ایک ریسٹ ہاؤز میں رکھ کر ان کی مہمان نوازی بالجبر کی جائے۔ پھر دیکھنا یہاں جگہ جگہ پان کے ڈبے بھی کھل جائیں گے۔

سائن بورڈ کچھ اس طرح کے ہوں گے

” جفالی پان شاپ ”

” جمجوم گٹکھا ”

” دبئی پان مسالہ "۔ وغیرہ۔

البتہ ” پان ” کو ” بان ” کہا جائے گا۔ کیونکہ عربی میں ” پ ” نہیں ہوتا۔

چونکہ یہ ایک اشتہاری دَور ہے اس لئے ٹی وی پر دلچسپ اشتہارات آئیں گے۔ ہمارے خیال میں ان اشتہارات کے لئے لالو پرساد یادو سب سے شاندار رہیں گے۔  جب یہ اپنی سرکار کی کارکردگی سے خوش ہوتے ہیں تو منہ میں پان رکھ لیتے ہیں بلکہ بھر لیتے ہیں کیونکہ بہاری پان چارے کی طرح بھرپور ہوتا ہے۔ اسے منہ میں رکھا نہیں جا سکتا بلکہ ذرا ٹھونستے ہوئے بھرنا پڑتا ہے اور جب لالو جی کو بی جے پی پر غصہ آتا ہے تو وہ فورا پیک نکالتے ہیں۔

سعودی عرب ہی نہیں سارے خلیجی ممالک میں پان ممنوع ہے۔ لیکن یہاں ممنوع کو مرغوب میں بدلنے دیر نہیں لگتی۔ میک ڈونالڈ،  کنٹیکی وغیرہ بھی کبھی یہودی امریکی پراڈکٹ ہونے کی وجہ سے یہاں ممنوع تھے جب بڑے شیخوں نے اس کی ایجنسی لے لی تو پھر ممنوع نہیں رہے۔ پان کے کاروبار میں فائدے ہی فائدے ہیں۔  ایک یہ کہ ہندوستان کا ایکسپورٹ بڑھ جائے گا اور دوسرے زیادہ سے زیادہ ملکیوں کو روزگار فراہم ہو گا اور سعودائزیشن میں مدد ملے گی۔

ہندوستان ہمیشہ پان کے معاملے میں خود مکتفی رہا ہے۔ یہاں پانی کی قلت تو بارہا دیکھی گئی لیکن کبھی پان کی قلت نہیں دیکھی بلکہ غریبوں کے لئے تو یہ من و سلویٰ ہے۔  زردے سے بھرا پان منہ میں بھر کر وہ بھوک کو مار دیتے ہیں بھوک روٹی مانگتی ہے اور روٹی عمر کو اور لمبا کر دیتی ہے جسے گزارنے کے لئے مزید روٹیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس لئے یہ پان اور زردے عمر کم کرنے کے کام آتے ہیں۔

ریاستِ  حیدرآباد کی سڑکیں پہلے امراء و نوابوں کے پانوں سے لال ہوا کرتی تھیں پھر نہ جانے کس کی نظر لگی۔ پولیس ایکشن میں لاکھوں معصوم انسانوں کے لہو سے کئی شہروں کی سڑکیں لال ہوئیں۔ آجکل آئے دن حادثات سے لال ہوتی رہتی ہیں۔  اب نہ وہ حیدرآباد رہا اور نہ و ہ تہذیب البتہ اس تہذیب کی کچھ باقیات الصالحات میں سے ایک تو شاعری ہے جسے آٹو رکشا والوں نے بڑی محبت سے باقی ر کھا ہے اور دوسرے وہ پان کے ساتھ فرشی ” آداب عرض ” کی ادا جسے آج بھی چند ایک پان کے ڈبے والوں نے قائم و جاری رکھا ہے۔

جس نیاز مندی سے یہ حضرات پان پیش کرتے ہیں اور جس نوابانہ انداز سے ہم بھی پان قبول کر کے آداب بجا لاتے ہیں خود کو کچھ دیر کے لئے ہم بھی نواب سمجھتے ہیں۔ اگرچہ کچھ بچے کھچے نواب آج بھی پان کھاتے ہیں لیکن کنیزوں کے ہاتھ کے نہیں بلکہ پان کے ڈبوں پر اور زیادہ تر اُدھار کھاتے ہیں۔

بہرحال پان کی وجہ سے ہی سہی کچھ تہذیبی آثار تو موجود ہیں۔ پان کے ڈبوں کے اطراف اکثر کچھ قلندر مزاج توکل و قناعت سے بھرپور دنیا و ما فیہا سے بے خبر حتیٰ کہ اپنے گھر اور بچوں سے بھی بے فکر حضرات کو ہم نے گھنٹوں سیاست و مذہب یا پھر محلے والوں کے چال و چلن پر گفتگو کرتے دیکھا ہے۔ ڈبے والے بڑے مہذبانہ انداز میں بورویل کے گدلے پانی میں پان ڈبو ڈبو کر نکالتے ہیں اور بزرگوں سے چلے آ رہے ایک چیتھڑے سے صاف کرتے ہیں۔

اسی کپڑے سے جن کا اصلی رنگ کیا تھا اور کب تھا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے،  کاؤنٹر بھی صاف کرتے ہیں شیشوں کی گرد بھی دور کر تے ہیں اور پان بھی اسی سے صاف کر تے ہیں۔ آپ ایک پان کا آرڈر دیجیئے وہ دو پتے نکال کر پتے کے ٹھیک سینے پر قینچی چلاتے ہیں اور جیسے کوئی درزی کسی ہیروئن کے کپڑے کاٹ رہا ہو۔ اچھے خاصے دو پانوں کو کتر کے آدھا آدھا کر دینے کا جواز کبھی ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔  یہ سوال ہم نے کئی ڈبے والوں سے پوچھا ہمیں یہی جواب ملا کہ :

” یہی طریقہ بزرگوں سے چلا آ رہا ہے "۔

مذہبیات میں بزرگوں کے طریقہ کو معروف کا درجہ ہے لیکن یہ طریقہ فضولیات تک دراز ہو گا یہ ہمیں نہیں معلوم تھا۔

لوگ پان کھا کر بے حسی سے ادھر اُدھر پچکاری مارتے ہیں۔  اگر یہ لوگ ذرا احتیاط سے تھوک لیں تو دوسروں کے نہیں تو کم ا ز کم اپنے دامن کو تو سرخرُو ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ ہم نے اسی طرح تھوکنے کی وجہ پُوچھی تو ایک صاحب نے فرمایا :

” یہی طریقہ بزرگوں سے چلا آ رہا ہے”۔۔

سائنسداں کہتے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ اگر ہو گی تو پانی کے مسئلے پر ہو گی۔ خیر آپ یہ نہ سمجھیں کہ ہم جئے للیتا کے موقف کی تائد یا مخالفت میں کچھ کہیں گے۔ ہم تو بس اتنا کہہ سکتے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ پانی کے مسلئےپر ہو یا نہ ہو پان کی پیک پر ضرور ہو گی۔ لوگ سڑکوں کو اپنے آباء کی جاگیر سمجھ کر،  پیدل ہوں یا سیکل سوار،  بس میں ہوں کہ اپنی ذاتی کار میں آگے پیچھے دیکھے بغیر حسنِ بے سلیقگی سے پیک تھوکتے ہیں ہمیں یقین ہے ایک دن یہی بُزرگوں کا طریقہ فرقہ وارانہ فساد کا سبب بنے گا۔ مذہبیات ہو کہ فضولیات۔ ۔۔ عقلِ سلیم کو بالائے طاق رکھ کر بُزرگوں کا طریقہ چلے گا تو ہر جگہ فساد برپا کرے گا۔

ویسے پان کے دوسرے فوائد بھی ہیں اس سے قومی یکجہتی بھی پیدا ہوتی ہے۔

کلکتہ پان کی کڑواہٹ کا آدمی ایک با ر عادی ہو جائے پھر ممتا بنر جی جیسے لیڈر کو بھی قومی سطح کا قائد مان لیتا ہے۔

بنارسی پان نارتھ اور ساؤتھ کے لوگوں کو ہم نوالہ و ہم پیالہ بنا دیتا ہے۔

شعر و ادب کا مزہ پان کی وجہ سے دوبالا ہو جاتا ہے۔

اسٹیج پر تشریف فرما شعراء و ادباء اپنی باری کے انتظار میں اور صدر صاحب نیند بھگانے کی سعی میں جس طرح پان کی جگالی فرماتے رہتے ہیں اس کی وجہ سے کم از کم اسٹیج پر کچھ لو گوں کے جاگتے رہنے کا ثبوت ملتا ہے۔

کچھ حضرات جب منہ میں پیک لیئے اچھے شعر یا مضمون کی داد دیتے ہیں تو داد معتبر ہو جاتی ہے۔  ان کے دانتوں کی خوبصورتی ویڈیو میں دیکھنے پر اور نکھر آتی ہے۔

بعض حضرات تو ایک گال میں صبح ایک پان محفوظ کر دیتے ہیں جو شام تک سلامت رہتا ہے دوسرے گال کے راستے کھانا،  چائے اور آئسکریم وغیرہ کی رسد جاری رہتی ہے۔

٭٭٭

 

ماخذ:

علیم خان فلکی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید