FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

خوابِ سبز

 

 

افضال نوید

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

پیچیدگی ہے ہونے کی جو خامہ بند ہے

طبعِ نوید کیا ہے جو مُشکِل پسند ہے

 

کِس سے کروں قیامتِ رفتارِ دِل کی بات

دُنیا ہے جِس کی گَرد یہ ایسا سمند ہے

 

کیا جانے کیا ہے خانۂ حیرت کے اُس طرف

ہم کو تو یہ فصیل بھی خاصی بُلند ہے

 

لو آ گئے ہیں لوٹ کے وحشی وجُود کے

آنکھوں میں خوابِ بے خبَری کا پلند ہے

 

کاریگریِ صُورتِ خاکِستری ہے کیا

صدیوں سے کِس کا ہاتھ یہاں سَر بُلند ہے

 

آوارگی کو کوشِشِ غرقابیِ  وجُود

اور تشنگی کو غُسلِ سمندر پسند ہے

 

اقدامِ واپسیں ہے ہمیشہ کا پاؤں میں

جو در کھُلا ہُوا ہے وہ در اصل بند ہے

 

ڈھوتے ہُوئے وجُود اُکھڑتی ہیں ٹُکڑِیاں

پہنچی ہُوئی نہ جانے کہاں کی گزند ہے

 

تلخی سے کاٹتا ہُوں مَیں تلخیِ مرگ و  زِیست

یک جُرعۂ شراب مِرے مُنہ کو قند ہے

 

یاں شہر میں قدم بھی اُٹھانا گراں ہُوا

جنگل میں ہے غزال جو بھرتا زقند ہے

 

اب آ گئے تو رہنا ہے بے اَنت اِکائی میں

یہ عرصۂ حیات اگرچہ دوچند ہے

 

افسوس سرزنش کی مِری خُو نہیں مگر

یہ حِصّۂ غزَل ہے مگر قطعہ بند ہے

 

دُنیا اُجڑ رہی ہے کہیں مَر ہمیں نہ چھیڑ

ناصِح تُو مار اپنے ہی سَر پر جو پند ہے

 

اُلجھا کے رکھ نہ غیر ضرُوری تضاد میں

وحشت کا حَل نِکال اگر درد مند ہے

 

اعجازِ کُن سے تازہ بشارت ہے ہر گھڑی

تازہ شُعاعِ مِہر ہے تازہ کمند ہے

 

لیکِن تُجھے پسند زیادہ مَیں کرتا ہُوں

معلُوم ہے مُجھے تُو بہت خُود پسند ہے

 

اندھیاروں سے نِکال کے رکھتا ہے آنکھ کو

یک نجمِ خوابِ سبز ہے جو اَرجُمند ہے

 

جُز بادہ مُنہ سے لگتا نہیں کُچھ تِرے بغیر

کھائی ہُوئی نوید نے شاید سوگند ہے

٭٭٭

 

 

 

 

آپ ہی گھر پر دستک دے کر آپ ہی داخِل ہو گئے ہم

آپ گنوایا خُود کو ہم نے آپ ہی حاصِل ہو گئے ہم

 

پتّھر تھے ہم جہاں تھے پھِر خاشاک ہُوئے گِل ہو گئے ہم

کِسی نے ایسا ہاتھ لگایا ہم کو کامِل ہو گئے ہم

 

تنگ ہُوئے حق سچ کہنے سے سُننے والا کوئی نہ تھا

اوّل اوّل حق پر تھے اور بعد میں باطِل ہو گئے ہم

 

بن سکتے تھے ہوش میں رِہ کر کیا سے کیا بد قِسمتی ہے

ایک جماعت رِندوں کی تھی جِس میں شامِل ہو گئے ہم

 

اپنانے میں کوئی کوتاہی تو ہم سے ہُوئی نہیں

کِتنا بیگانہ دِن تھا جِس دِن سے غافِل ہو گئے ہم

 

سخت مُصِیبت سر پر آئی تنہائی نے آن لِیا

دھیرے دھِیرے دہر سے جیسے آخر بے دِل ہو گئے ہم

 

ایک ہمیں نے منزِل کو منزِل نہ سمجھ کر ظُلم کِیا

منزِل پر پہنچے اور اُلٹا خستۂ منزِل ہو گئے ہم

 

سِینے میں بجتے گھڑیال نے گرمِ سفر رکھّا ہم کو

ایک گھڑی بتلائے کوئی جِس دم کاہِل ہو گئے ہم

 

طُوفان آ کر کون طنابیں کھینچے گا ویرانی کی

کوئی سمندر ہو نہیں پایا لیکِن ساحِل ہو گئے ہم

 

ٹُکڑے ٹُکڑے طاقچوں پر رکھنے نے جِگر کے حِدّت کی

اِتنا ہجُومِ تنہائی تھا آپ ہی مِحفِل ہو گئے ہم

 

جذب ہُوئے جو دستو بازُو سَر دھڑ باندھ کے رکھّے تھے

کوئی محبّت جِس کی دھڑک سے دھڑکا ہُوا دِل ہو گئے ہم

 

کبھی کبھی آثار جھلک جاتے ہیں جنموں قرنوں کے

ایسا نہیں ہم ہار گئے اور خُود سے غافِل ہو گئے ہم

 

خوابِ پرِستاں تھا جب اٹھّے اپنا نِشاں پایا نہ نوید

ایک کہیں پر دروازہ تھا جِس میں داخِل ہو گئے ہم

٭٭٭

 

 

آئے دِن کے نہ تعزِئیے ہوتے

کاش پِچھلے ہی مَرثِیے ہوتے

 

کربلائیں نہ خُود کو دُہراتیں

اور مسلسل نہ اَلمِیے ہوتے

 

بے جِہت رکھّا کرنے نے تسلِیم

ڈھُونڈتے ہم جو دِہرِیے ہوتے

 

سِیکھ لیتے قیامتوں سے کُچھ

کُچھ تو اسباب کر لِیے ہوتے

 

مُبتلا کر نہ دیتے خلقت کو

مُتحرّک نہ مافِیے ہوتے

 

آنکھ املاک پر نہ دِکھلاتے

چھِینا جھپٹی میں تصفِیے ہوتے

 

لے نہ جاتا بہاؤ میں ریلہ

بعدِ آغاز ثانِیے ہوتے

 

مُنہ میں آتا جو کہہ نہ دیتے وہ

بات کرنے کے زاوِیے ہوتے

 

بندِ ناچاقی ٹُوٹتا شاید

جوڑ کر سَر جو تصفِیے ہوتے

 

شاید اِس طرح ساتھ رہ پاتے

جائے آدم جو بھیڑِیے ہوتے

 

کھُردرے پن میں کوئی ہَل چلتا

نفسِ بنجر کے تزکِیے ہوتے

 

اپنی رفتار میں نِکل جاتا

چاروں جانِب بھی برقِیے ہوتے

 

پہلے بھرتے خلا تصادم سے

پھِر کوئی اور تخلِیے ہوتے

 

کائناتیں ہی کائناتیں تھِیں

جِسمِ لاغر میں حرکِیے ہوتے

 

ہم نے کیا کر لِیا کہ کام اُس نے

جو کہے تھے وہ کر دِیے ہوتے

 

پِچھلی گلیوں میں کُچھ نہ رہ جاتا

کاش سامان کَس لِیے ہوتے

 

کوئی بَل ہے نِکل نہیں پاتا

ہم یُونہی تو نہیں پِیے ہوتے

 

دھُند لایعنِیت کی چھٹ جاتی

کاش کُچھ اور تجزِیے ہوتے

 

اوپری یُوں نہ لگتی چادرِ تن

رُوح کے سنگ ہو لِیے ہوتے

 

اٹکے ہوتے ہم آنکھ بن کر ساتھ

جِتنے لمبے دورانِیے ہوتے

 

تیری مرضی کی بات کر سکتا

میری مرضی کے قافِیے ہوتے

 

اہتمام ایک درمیاں رہتا

نظمِیے ہوتے نثرِیے ہوتے

 

میرے اجزائے نامیاتی میں جذب

کاش کُچھ اور نامِیے ہوتے

 

بے عِنایت بھی ہوتا احساں مند

ہر عِنایت پہ شُکرِیے ہوتے

 

چھَید منظر میں ہو نہ سکتا نوید

چاروں جانِب جو حاشِیے ہوتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

چُوڑیاں ہاتھ میں اور کان میں بالا پہنا

آ گئی شامِ حِنا اُس نے دو شالا پہنا

 

نورتن چمپئی گردن پہ تھے اُنڈیلے گُلال

کھینچ پلُّو سے دھنک ہار نِرالا پہنا

 

احمریں بادہ سا ساغر میں بھرا آتا تھا

لب سے لگتے ہی لگا مَیں نے اُجالا پہنا

 

جیسے یاقُوت کی لَو باغ کرے چہرے کو

سِحر سِینے میں یُوں اُس آنکھ نے پالا پہنا

 

بانہوں میں بھرتے ہی چِنگارِیاں بھر دیں اُس نے

پھِر سِتاروں بھری چادر کو سنبھالا پہنا

 

اوڑھے آلاپ ابھی گُم تھا بدل ہاتھ سِتار

جوڑ نے بخیۂ شب توڑ کے جھالا پہنا

 

زرِ جوبن نشے میں کر کے نِچھاور اُس نے

چاندنی رات سے پھِر ہو کے دوبالا پہنا

 

پیچ نازُک ہیں مِری بانہوں کو چھُو کر بولی

اپنے ہاتھوں سے گلے میں میرے مالا پہنا

 

بھُول بیٹھی تھی وہ خُود کو کہ مِرے گہنوں کو

ایک دِن اُس نے درازوں سے نِکالا پہنا

 

رکھّا ناراضی کے دِن اُس نے ستائے پھِر شام

سُوٹ مرضی کا مِری بِہرِ اِزالا پہنا

 

کِن بہاروں کو منانے کے لِیے دھُوپ گئی

شاخِ نظّارہ نے کِس برف کا گالا پہنا

 

اب کوئی لہر بھی آ جائے تو نم ہوتا ہُوں

مَیں نے اِک بحر کو بانہوں میں اُچھالا پہنا

 

طرزِ دُنیا میں اُلجھ جاتے ہیں رکھتے ہی قدم

غیر محسُوس ہے مکڑی نے جو جالا پہنا

 

غیر اجرام لپک کو نہ مِری چھُو پائیں

سُرعتِ نجم مِرے تن کو جوالا پہنا

 

سَر پہ سَر بستۂ بادہ ہُوں کوئی ریشمِ شام

جب تلک ختم نہ ہو جائے پیالا پہنا

 

ایک وحشی ہے یہ دِل لا کے کہیں سے زنجیر

اِس سے پہلے کہ پڑے شہر سے پالا پہنا

 

سوزنِ بخیہ گری ہاتھ لگے تو تن کو

دھجّیاں سی کے کوئی لختِ دوبالا پہنا

 

آسمانوں سے نبرد آزما ہونے کے لِیے

مادرِ ارض نے شانوں پہ ہِمالا پہنا

 

ورنہ کب ہونے دیا دہر نے یکجا کِسی دَم

جِسمِ صد چاک نے پیراہنِ بالا پہنا

 

کیفِیت تاکہ کُچھ اَن جانے زمانوں سے جُڑے

بحرِ بیتاب نے گوہر جو اُچھالا پہنا

 

کیا خبَر راہِ عداوت پہ کیوں چل نِکلے ہم

اور پوشاک تلے قتل کا آلا پہنا

 

مَیں بھی کُچھ کر نہ سکا اُس نے بھی ہاتھوں میں نوید

وقت کی اندھی کُٹھالی نے جو ڈھالا پہنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ٹہنی کی جھلک میں جو درختوں کی جھلک ہے

آنکھوں کا سمندر ہے مگر ایک پلک ہے

 

دیکھا ہے کِسی آنکھ نے رُوحوں کا بھٹکنا

آوارگی نظّارے سے نظّارے تلک ہے

 

ہو جاتی ہے محفِل کِسی قِندیل میں مدغم

لَو میں کِسی شیرازۂ زرّیں کی جھلک ہے

 

لگتا ہے کہ میخانے کے باہر ہے تصادم

دالان میں آئی ہُوئی ساغر کی چھلک ہے

 

افلاک کو باندھا ہُوا ہے ایک جگہ پر

دامن ہے مِرا یا تِرے آنچل کی ڈھلک ہے

 

کُہسارِ فنا ہوتا ہُوں ٹکرا کے جنُوں سے

مڈبھِیڑ میں انجان جزیروں کی رلَک ہے

 

بلّوریں ہے احساس گُذرنے کا چمک سے

آنکھوں میں ابھی تک تیرے موتی کی للَک ہے

 

پڑنے کو سمندر نہ پڑے کم تو نہ مِٹ جائے

پانی میں جو اِک پیاس ہے جو ایک ڈلَک ہے

 

شاید اِسی پاداش میں ٹِکتے نہیں پاؤں

نیچے بھی فلک ہے میرے اُوپر بھی فلک ہے
وہ بات جو اُس روز اُسے کہہ نہیں پایا

اُس بات کا افسوس مُجھے آج تلک ہے

 

لیکِن مَیں نوید اور بھی کُچھ دیکھ رہا ہُوں

مانا کہ مِرے چاروں طرف ایک جھلک ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کشید میں تھی غزل بھر کے بادہ لے آیا

مَیں اپنے خُون سے کر اِستفادہ لے آیا

 

مچانے میں رہا اقسامِ غازہ شور تو مَیں

برابری کے لِیے حُسنِ سادہ لے آیا

 

کھُلے نہ تاکہ مظاہر پہ اور ہی ہونا

دِکھاوے کے لِیے تن کا لِبادہ لے آیا

 

یہ سوچ کر کہ زمانے سے جی نہ لگ جائے

مَیں آدھا چھوڑ کے آیا اور آدھا لے آیا

 

یہ وہم تھا کہ پلٹنا نہ ہو سکے گا مِرا

مَیں اب کی بار گیا اور زیادہ لے آیا

 

کِسی نے مِل کے بھی کیا پا لِیا زمانے میں

یہی بہت ہے کہ مِلنے کا وعدہ لے آیا

 

اکیلا سبزہو گُل میں بھٹکتا پھِرتا ہُوں

یہاں تلک مُجھے اندوہِ بادہ لے آیا

 

بِچھا کے نِیند کی وادی میں چلنے لگتا ہُوں

مَیں اُس گلی سے جو صِحنِ کُشادہ لے آیا

 

رِہائی لینے گیا تھا تِرے لِیے لیکِن

کُچھ اور دارو رسَن شاہزادہ لے آیا

 

صوابدید تصرّف کی بھانپ کر شاید

مَیں چیرہ دستیِ ذرّہ زیادہ لے آیا

 

اب اِس کے بعد پلٹ کر کبھی نہ دیکھُوں گا

یہاں سے خالی گیا اور اِرادہ لے آیا

 

وفا کی ایک بھی شِق ہو نہیں سکی مربُوط

مَیں کیا مُحبّتِ عِبرت نہادہ لے آیا

 

جو آرے لے چڑھے جرّاح تو جھنجھوڑ کے مَیں

بچا کھُچا ہُوا دِل کا بُرادہ لے آیا

 

گُماں ہُوا وہ کوئی میرے جیسا ہے باہر

جو میری شکل میں عکسِ اعادہ لے آیا

 

جو راستہ تیرے میرے سِتاروں میں گُم ہے

اُسے اگر کِسی دِن پاپیادہ لے آیا

 

نوید کھینچ کہیں اور جانے کی تھی مُجھے

مَیں اپنے ساتھ کوئی اور جادہ لے آیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

اگرچہ جانِبِ یکسُوئی حَل ہُوا مُجھ کو

نوید شوقِ مُحبّت خلل ہُوا مُجھ کو

 

بھرا تھا پیڑ جنُوں کا غزل ہُوا مُجھ کو

تناورِ سرِ خالی ہی پھل ہُوا مُجھ کو

 

جہانِ غیب جُڑا تھا ہر آتما کے ساتھ

وفا میں حد سے گُذرنا اجَل ہُوا مُجھ کو

 

وہ پل بھی آیا کوئی اور لوگ تھے ہم تُم

عجیب وہم مُحبّت کے پل ہُوا مُجھ کو

 

یہ بازُوؤں سے نِکلتا ازل کا پردۂ خاک

تِرا خُمار اُٹھانے کو جل ہُوا مُجھ کو

 

نہ جانے کِتنی فصیلوں سے جھانکتا ہُوا مِہر

ہر ایک سطحِ رواں پر کنول ہُوا مُجھ کو

 

گھِرا ہُوا شبِ اسرار میں مکان تِرا

جُڑا ہُوا کِسی کُو سے محل ہُوا مُجھ کو

 

برائے خُود روی بازُو جھٹک کے دیکھ لِیا

ہر ایک دستِ دُعا دستِ شل ہُوا مُجھ کو

 

جو اِتنا عالمِ اِمکاں سے دِل لگانا پڑا

تِرا نہ مِلنا مذاقِ ازل ہُوا مُجھ کو

 

بقا تقابلِ جِدّت سے کٹ کے آنی تھی

تضادِ داخلی قہرِ عمل ہُوا مُجھ کو

 

جو مُجھ سے محشرِ روزِ ازل نہیں ٹھہرا

تو ایک روزِ قیامت اٹل ہُوا مُجھ کو

 

سنوارنے کو ہُوا اندرونی ٹیڑھا پن

سُدھارنے کو یہی ایک بل ہُوا مُجھ کو

 

وہ گھر بتانے گیا اور اِنتظار اُس کا

طویل ہوتے ہُوئے آج کل ہُوا مُجھ کو

 

جو اِتنے دِن نہ گُذرنے سے آ لگے تن سے

وہاں سے گُذرا تو ردِّ عمل ہُوا مُجھ کو

 

جو طبعِ پارہ صِفت شاخِ تن ہِلاتی رہی

ذرا سا سانس بھی ردّ و بدل ہُوا مُجھ کو

 

یہ پھِر سمندروں کا ہِجر سامنے آیا

اگرچہ بِچھڑے ہُوئے ایک پل ہُوا مُجھ کو

 

بِچھا ہُوا تھا گُلابوں کی راہ میں لِیکِن

یہ آئے دِن کا لہُو جانگُسل ہُوا مُجھ کو

 

مَیں ایک ذرّے سے بھی جاں چھُڑا نہیں پایا

اور اُس پہ ہونے کا احساس تھل ہُوا مُجھ کو

 

کبھی کبھی تو مِری جان کو امان مِلی

کبھی کبھی تو وہ اپنا بدل ہُوا مُجھ کو

 

یہ مَیں کہ بند نہ دروازے رکھ سکُوں اپنے

جو آج ہونے کو پھِر آیا کل ہُوا مُجھ کو

 

نوید عُنصرِ لافانی ہُوں مگر جِینا

بلا خرامیِ غم سے اجل ہُوا مُجھ کو

٭٭٭

 

 

 

 

جب بھی شہر کو چھوڑ کے جانا پڑتا ہے

اپنا مَلبہ آپ اُٹھانا پڑتا ہے

 

خُود ہی آگ لگانی ہوتی ہے خُود کو

خُود ہی نِکل کر اسے بُجھانا پڑتا ہے

 

اپنی ہی بیڑی میں پتّھر ہوتے ہیں

اور چپُّو بھی آپ چلانا پڑتا ہے

 

سَر میں گُنجائش نہیں رہتی سجدوں کی

پھِر بھی ہر چوکھٹ پہ جھُکانا پڑتا ہے

 

اور کہیں پر بہتی رہتی ہے ندّی

اور کہیں پر ڈُوبنے جانا پڑتا ہے

 

ایک قدم پر راہ دِکھانی ہوتی ہے

ایک قدم پر گام چھُپانا پڑتا ہے

 

ایک قدم کا فاصلہ کِتنا فاصلہ ہے

جِس کی راہ میں ایک زمانہ پڑتا ہے

 

جائے وقُوع پہ کوئی پہنچ نہیں پاتا

افواہوں سے کام چلانا پڑتا ہے

 

روز ہی اُجڑی ہوتی ہے دِل کی بستی

روز ہی اِس بستی کو بسانا پڑتا ہے

 

بدتر سے بھی بدتر ہو جاتا ہے وقت

پھِر بھی اِس کا ساتھ نِبھانا پڑتا ہے

 

اپنی قِسمت آپ بنانی ہوتی ہے

اپنا چکّر آپ چلانا پڑتا ہے

 

کہیں کوئی مصرف نہیں ہوتا ایندھن کا

کہیں پہ ریزہ ریزہ بچانا پڑتا ہے

 

جب تک کام نہیں ہو جاتا وحشی کا

دُوسرے کاموں میں یہ لگانا پڑتا ہے

 

مِلتا ہے ہر موڑ پہ کوئی اپنا سا

مِلنے کی خواہِش کو دبانا پڑتا ہے

 

ابھی ہُوا بس ابھی ہُوا بس تھوڑی دیر

ہر لِحظہ دِل کو سمجھانا پڑتا ہے

 

اُڑنے کو تیّار مِری دیواروں پر

اِک پنچھی ہے جِسے لُبھانا پڑتا ہے

 

سِینہ سامنے رہتا ہے میرا ہر دم

اَن ہونی کو زور لگانا پڑتا ہے

 

سامنے اُس کا گھر ہے میرے گھر کے نوید

راہ میں لیکِن ایک زمانہ پڑتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

زمیں پہ تازہ سا ہونے کا خواب دیکھا تھا

سمے کی اوس میں دَمکا گُلاب دیکھا تھا

 

کلی اُجالے میں آنکھوں کو مَلتی آئی تھی

مہکتے مِہر میں اُلجھا سحاب دیکھا تھا

 

درِ وجُود پہ لمبی قطار پائی تھی

کِسی کو گُمشُدۂ اِنتخاب دیکھا تھا

 

کہاں پہ ہونے کی تھی مُنکشِف اُمید اُس کو

کہاں کی خلوتوں سے باریاب دیکھا تھا

 

جو ہونا اور نہ ہونا تھا اِتنا لایعنی

مگر تہوں میں کہیں اِضطراب دیکھا تھا

 

طلِسمِ طبع میں اِک گُل کھِلانے کے جِتنا

کِسی نے کب اُسے صَرفِ شراب دیکھا تھا

 

سرِشتِ خام کی قِسمت میں تھی بلا خیزی

لہُو میں بے بسی کا اِرتکاب دیکھا تھا

 

شفق گھُلی تو تِرے بازُوؤں کے پاس کہیں

سبُوئے لمس کو لبریزِ ناب دیکھا تھا

 

سُراغ پانے میں خُود کو گنوا لِیا مَیں نے

دراز لالہو گُل کا نِقاب دیکھا تھا

 

مدار ٹُوٹ گئے پر کھُلا طلِسمِ مدار

حصارِ شہر پہ جو قُفلِ باب دیکھا تھا

 

گیا تو لے گئی پگڈنڈی مُجھ کو جنگل میں

جہاں پہ راستوں کو بے حِساب دیکھا تھا

 

کہاں ہے مرکزِ میخانہ گردِشِ دوراں

نجُوم و ماہ نے جِس کو خراب دیکھا تھا

 

طلُوعِ بُعدِ زماں پر بدل گئی عِبرت

نِوالہ بن گئے پر اِجتناب دیکھا تھا

 

کِیا گُریزِ اعادہ شُعار عادت نے

گئی قیامتوں کا سدِّ باب دیکھا تھا

 

گُماں رہا کوئی دریا کے پار اُترنے کا

کِسی کی چشمِ یقیں میں سراب دیکھا تھا

 

دِکھائی دیتا تھا سب وقتی طور پر ایسا

جو کامیاب کو نا کامیاب دیکھا تھا

 

تھی ایک اور ہی رفتار جانے کی منظر

سو جو بھی دیکھا تھا ہم نے شتاب دیکھا تھا

 

بڑھاوا دے کے رکھا تھا اُجاڑ نے آگے

اندھیرا ایک پسِ آبو تاب دیکھا تھا

 

گِرا ہے ٹُوٹ کے مُجھ پر جو آج بادل نے

سَروں میں جانے کہاں کا سحاب دیکھا تھا

 

نہیں نوید بنے گا چھُپانے سے کُچھ بھی

تمام شہر نے تُم کو جناب دیکھا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

روزنِ سَر بھرا اَرواحِ سمٰوات سے ہے

اور مِرا پاؤں اَٹا مجمعِ حشرات سے ہے

 

یہ جو خالی سی گلی بھر گئی برسات سے ہے

اِس میں جِتنا ہے نُمو تیری مِری ذات سے ہے

 

رات دِن ہونے کے احساس میں گُم رہتا ہُوں

جانے کِس وقت کا رِشتہ مِرا دِن رات سے ہے

 

سَر میں خاموشی کا واویلہ مچا رہتا ہے

دھیان کا میرے سَروکار کِن اصوات سے ہے

 

ہو کے مِسمار فزُوں حسرتِ تعمیر رکھُوں

یہی دھُندلا سا تعلّق بسَر اوقات سے ہے

 

ایک دروازہ جو کھول آئینہ رُو بیٹھ گئے

کام اِس سہل پسندی کو مُہِمّات سے ہے

 

بھر دِیا رونقِ اشجار سے اندر مَیں نے

اب مجھے وجد پرندوں کی کرامات سے ہے

 

اِک شرابور سے دریا سے گُذرنے کا فسُوں

اِک تلاطم نفَسِ تیز کا لمحات سے ہے

 

سُن سکُوں بات دھڑکتے ہُوئے دِل کی کیسے

آج کل مُجھ کو شغف اور ہی آلات سے ہے

 

چکنا چُور آئینہ خانے میں پڑا ہُوں اپنے

آئے دِن سامنا سنگینیِ حالات سے ہے

 

قبضہ دارانِ کلیسا و حرَم کے ہاتھوں

آج دوچار زمیں اور ہی خطرات سے ہے

 

معنوِیت سے کِسے کام کہ سرمستِ تپاک

کارِ کج فہم زباں زدگیِ آیات سے ہے

 

مُجھ کو جا کر گُلو لالہ سے لِپٹنا پڑے گا

جو مِری حالتِ پژمُردہ گئی رات سے ہے

 

لے کے آئے گی شبو روزِ گُذشتہ لبِ جُو

مُجھ کو اُمّید گئے وقت کی برسات سے ہے

 

اپنے درجے سے ہم آہنگی ہی ہو جائے نصیب

ورنہ کِس رُوح کا جھگڑا یہاں درجات سے ہے

 

موجِ بادہ سے توہّم بھی جنَم لیتا ہے

گو یہ دریائے رواں کشف و کرامات سے ہے

 

مُنحصِر مُجھ پہ بھی ہے عِشق رکھے یا کہ ہوَس

ایک برتاؤ جو مربُوط مِری ذات سے ہے

 

رتجگے سے مَیں بندھا ہُوں کئی راتوں سے نوید

واسطہ ٹُوٹے ہُوئے خواب کے اثرات سے ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اِمکانِ مرگِ رُوح دھڑک سا ہُوا مُجھے

تَن کے بغیر ہونے پہ شک سا ہُوا مُجھے

 

اندر کی آنکھ کھل گئی اور خواب کا نگِیں

چھنتی ہُوئی برُوں کی دمک سا ہُوا مُجھے

 

دیکھا اُسے تو اور کوئی یاد آ گیا

یُوں دیکھنا بھی ایک کسک سا ہُوا مُجھے

 

تھا باغِ خُود خُمار کہ شاخوں کا ٹُوٹنا

بادِ حِنا چلی تو چھنک سا ہُوا مُجھے

 

کِس وقت کی تھی یاد کہ دھُندلاہٹوں میں کُچھ

ایسا دھُواں اُٹھا جو چمک سا ہُوا مُجھے

 

پیوستِ اُستخواں ہُوں زخُود رفتِ شش جہات

گَو اِرتکازِ مِہر لپک سا ہُوا مُجھے

 

کب دُور تھا درُستگیِ دِہر کا سِرا

اپنی ہی ایک نوک پلک سا ہُوا مُجھے

 

اسرار کا جو ٹُوٹ تسلسل ہُوا ہَو وَا

منظر میں چھید ہو کے جھلک سا ہُوا مُجھے

 

صُورت گُریزِ تن سے نِکل آئی ورنہ تو

مرکز سے اِشتراک دھمک سا ہُوا مُجھے

 

سینے میں قید کب کی ہزیمت شِکن تھی آگ

پنچھی اُڑے تو جال پھڑک سا ہُوا مُجھے

 

نِگراں شُعاعیں توڑ کے زنجیر آ گئیں

اِظہارِ جبرِ سخت کڑک سا ہُوا مُجھے

 

چھلنی ہُوں کِس اُجاڑ پہ ٹُوٹُوں کہ شہرِ سنگ

بست و کُشادِ دِل کو سُبک سا ہُوا مُجھے

 

اندر سمندروں میں کوئی قوس اُٹھ گئی

بوسہ کِنارِ لب کا دھنک سا ہُوا مُجھے

 

رکھتی ہے والہانہ مُجھے چاندنی کی چاپ

زر کا فساد ایک بھِنک سا ہُوا مُجھے

 

خُم بھی نوید کم پڑے لبریزی کے لِیے

ہر سانس ساحِلوں کی بھڑک سا ہُوا مُجھے

٭٭٭

 

 

 

 

لوٹ آنے کے کِسی رنج و تعَب تک رہتا

بادِ رُخصت تھی تِرے کُوچے میں کب تک رہتا

 

تنگیِ جائے نفَس تک نہیں ہو جاتا مُحیط

قِصّۂ عالمِ اسباب سبَب تک رہتا

 

مَیں تِرے نام سے کیا کیا نہ کِیا کرتا کشِید

سوچتا ہُوں کہ تِرا نام جو لَب تک رہتا

 

وہ تو مَیں خُود ہی کِسی صُلح پہ راضی نہ ہُوا

ورنہ اِس طرح کا جھگڑا مِرا اَب تک رہتا

 

دیدہ دانِستہ گھُسا بیٹھا ہے شب رَو گھر میں

ہم غرَض مند سمجھتے جو عقَب تک رہتا

 

خاک ہونے کی کوئی اور نہ رہ جاتی اُمید

پائے عِبرت جو تِرے غیظ و غضَب تک رہتا

 

جلد بازی مُجھے لے جاتی نہ حد سے باہر

اپنے ہم شکلوں میں شامِل کِسی ڈھب تک رہتا

 

نیست رہ سکتا تِرے لا مُتناہی کا کہاں

ذِکرِ حیرت جو تعجّب میں عجَب تک رہتا

 

آنکھ میں سَیل تھا سِینے میں سماتا کیونکر

دِل قناعت میں جو مُجھ مُہر بلب تک رہتا

 

مُنتہا اوروں کی خُوشنُودی ہی ہوتا اے کاش

نشّۂ زر میں بھی مَیں پاسِ ادب تک رہتا

 

صُبح اندیشۂ خُورشِید میں رہتی گرداں

ایک دورانِیۂ شام جو شب تک رہتا

 

کِن جہانوں میں مِری خاک اُڑاتا کوئی

تِیرہ ہو کر نہیں رہتا جو مَیں جب تک رہتا

 

کھینچ سکتا وہ جِگر کاوی سے فُرصت کیسے

ساتھ تیرے بھی جو اندوہِ طلب تک رہتا

 

دھجِّیاں ہو کے بِکھرتا شبِ مظہر سے جُدا

خوفِ بیگانگی رُوٹھے ہُوئے رب تک رہتا

 

کھول لینی تھی گِرہ مَیں نے دِلِ وحشی کی

شورِ دُنیا جو مِرے شور و شغب تک رہتا

 

عالمِ حشر میں ہوتا کہاں ہونے کا فساد

پایۂ عِشرتِ اِدراک جو سب تک رہتا

 

شام ہوتے ہی نوید اور کہیں جانا تھا

مَیں کِسی کُوچۂ تن میں کہاں شب تک رہتا

٭٭٭

 

 

 

 

وقت گُذرا کہ کوئی خستۂ جادہ گُذرا

جِسمِ بوسیدہ پہ کُچھ مُجھ سے زیادہ گُذرا

 

مَیں نے اپنے غمِ دُنیا سے اُسے باندھ لِیا

دِن گُذرتے ہی زمیں سے غمِ بادہ گُذرا

 

اور بھی روزِ قیامت کا گُذر ہوتا ہے

ہم سے اِک دِن ترا بھُولا ہُوا وعدہ گُذرا

 

جا چُکے اور کِسی راہ پہ لیکِن کئی بار

سامنے سے تیرے مِلنے کا اِرادہ گُذرا

 

اِک شرابُور مہک سانس میں ندّی کر کے

میری مٹّی سے کوئی خاک نہادہ گُذرا

 

جِتنا ٹھہرا وہی کافی سے زیادہ تھا مگر

جِتنا ٹھہرا وہی کافی سے زیادہ گُذرا

 

تازہ کر کر کے گُذارا کِیے لمحہ لیکن

جانے کِس وقت کا تھا وہمِ اعادہ گُذرا

 

پا لِیا مَیں نے اُسے تیری زر افشانی میں

ماہ جب چھت سے تِری ہو کے کُشادہ گُذرا

 

میری ہی دِل زدگی راہ میں حائل ٹھہری

سو تِرا رُوپ مِری آنکھ سے آدھا گُذرا

 

تیغِ تنویر نے کیا چِیر دیا سینے کو

بارے اب مرحلۂ تارِ لِبادہ گُذرا

 

دِل گیا ساتھ کوئی عکسِ عجب ہوکے نوید

جو بھی لمحہ در و دیوار سے سادہ گُذرا

٭٭٭

 

 

 

تہی دستِ ہُنر ٹھہرے کہ حیرانی زیادہ ہو

کبھی مٹّی زیادہ ہو کبھی پانی زیادہ ہو

 

زبسکہ غارتِ ایجاد سے مُشکِل رہے قائم

نہ آبادی زیادہ ہو نہ ویرانی زیادہ ہو

 

مداوائے تجاوز بھی تجاوز ساتھ لاتا ہے

فزُوں ہو جائے دانائی تو نادانی زیادہ ہو

 

گُذرتی ہے قیامت اِمتناعِ وصل میں لیکن

کوئی رخنہ پڑے تو حشر سامانی زیادہ ہو

 

کِسی صُورت سروں سے گرمیِ بازار تو نِکلے

گراں گُذرے تو کوئی دم کہ ارزانی زیادہ ہو

 

تلاشِ رہگُذارِ خام ہے پائے مُسافت کو

جِسے دُشوار کر دینے میں آسانی زیادہ ہو

 

رواں رہتی ہے رُوحِ عصر گردِ راہ کے پیچھے

اُسی میں آ رہے جِس نے کہ پہچانی زیادہ ہو

 

تصوّر اور تھا لیکِن اُسے تصویر کرنے میں

یہ لگتا ہے حقیقت کم ہو من مانی زیادہ ہو

 

سرِ آغازِ شب ہی مُوند لُوں آنکھیں کہ خواب اُس کا

ذرا سا پیچ پڑھائے تو طولانی زیادہ ہو

 

چھلکتا ہے خُمِ سیبِ ذقن مابینِ دسترخواں

وفُورِ میزبانی ہو کہ مہمانی زیادہ ہو

 

فروغِ جائے دُنیا پر بھی کوئی جا نِکل آئے

کہ پُرسش کم سے کم ہو خندہ پیشانی زیادہ ہو

 

دریغِ رائیگاں سے دِل کو کِس اُمّید پر روکُوں

کوئی مطلب نکل آئے تو سیلانی زیادہ ہو

 

نِگاہیں دیکھتے ہی دیکھتے تبدیل ہو جائیں

پڑے اک اور ہی پردہ جو عُریانی زیادہ ہو

 

خرامِ روزمرّہ میں قباحت کِس بلا کی ہے

الٹ جائے تو نقشِ پائے امکانی زیادہ ہو

 

جِگر کے چاک اب کُچھ اور روزن کھولے بیٹھے ہیں

ضرُوری تو نہیں ہے چاک دامانی زیادہ ہو

 

نوید آمیزۂ نا یافت کو حاصل بہت ہُوں مَیں

سو قِلّت کم ہو اور عیشِ فراوانی زیادہ ہو

٭٭٭

 

 

 

 

دھڑکا ہے کیا کہ بارِ خطَر ڈُوبتا نہیں

دھڑ ڈُوب جاتا ہے مِرا سَر ڈُوبتا نہیں

 

چڑھتے ہیں کائناتوں کے طُوفاں جنم جنم

اِن پانیوں میں بحرِ سفر ڈُوبتا نہیں

 

اِک اور شام اور گلی میں ہوا کے ساتھ

گُفتار میں صدا کا اثر ڈُوبتا نہیں

 

اِک لہر ہے وجُود سے لے کر وجُود تک

اُبھرا بھی کون کب ہے اگر ڈُوبتا نہیں

 

کیا ساحلِ جُدا ہے کہ جِس کے خیال میں

ڈُوبا ہُوا بھی دامنِ تر ڈُوبتا نہیں

 

رہتا ہُوں ہمکنار کِسی سیلِ خواب سے

اِتنا کہ آنکھ میں یہ نگر ڈُوبتا نہیں

 

کُچھ بند توڑ دیکھ خُود اندوزی میں کبھی

اِتنی ذرا سی بات پہ گھر ڈُوبتا نہیں

 

پایاب ہو تو سامنا دُشوار ہوتا ہے

گہرائی میں تو سینہ سِپر ڈُوبتا نہیں

 

خلقت شبیہِ شائبہ میں ڈُوب جاتی ہے

آئینے میں جو آئینہ گر ڈُوبتا نہیں

 

پامالیِ نِشانِ قدم خام ہونے تک

آتا ہُوں پتّھروں پہ ابھر ڈُوبتا نہیں

 

کُچھ ہاتھ تھام لیتے ہیں اپنی اساس کو

کشتی کے ساتھ رختِ دِگر ڈُوبتا نہیں

 

منعِ مراجعت ہے اِسی واسطے مُجھے

چڑھتا ہے جِس طرف سے اُدھر ڈُوبتا نہیں

 

خالی سا آ ٹھہرتا ہے رُخ پر مِرے نوید

شب کو بھی روزمرّہ اگر ڈُوبتا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

سیّارگاں کی شب میں زمیں سا دِیا تو ہے

یہ خاک اجنبی سہی رہنے کی جا تو ہے

 

اَن دیکھے ہاتھ ہیں جِنہیں چلتا ہُوں تھام کر

اَن جانی منزِلیں ہیں مگر رہنُما تو ہے

 

یہ اپنی اپنی کھوج پہ ہے مُنحصر مگر

اِن مرحلوں میں کھویا ہُوا مرحلہ تو ہے

 

یہ اور بات لفظ کہیں اور کا تھا وہ

مَیں نے سُنا تو ہے کوئی اُس نے کہا تو ہے

 

کِس سے کہیں کہ دیکھے ہُوئے عُمر ہو گئی

اِن تلخ رُو حقیقتوں میں خواب سا تو ہے

 

سونے کی عِشرتیں ہیں سرا سے سرا تلک

سونے کی عِشرتوں میں کوئی رتجگا تو ہے

 

آوارگی کا بوجھ تھا اِس خاک پر بہت

لیکِن ہزار شُکر کہ ہم سے اُٹھا تو ہے

 

یہ عرصۂ حیات اگرچہ ہے کم مگر

پاؤں کِسی مقام پہ آ کر رُکا تو ہے

 

اِتنی تھی سرگرانی کہ جھُکتا نہیں تھا سَر

آ جا کے ایک باب پہ یکسر جھُکا تو ہے

 

معلُوم ہے مُجھے کہ تماشا تو کُچھ نہیں

لیکِن ہجُوم میں کہیں تُو بھی کھڑا تو ہے

 

یہ بھی مآلِ خواہشِ دِل ہے کہ آج وہ

بادل کو دیکھ کر سہی چھت پر چڑھا تو ہے

 

اب دیکھیے نِکلتا ہے کیا اِس فساد سے

اِس سُکھ کی زِندگی میں مِرا دِل دُکھا تو ہے

 

وہ رہگُذر مہکتی ہے خُوش ہُوں یہ جان کر

گر میں نہیں تو کیا ہے کوئی دُوسرا تو ہے

 

اِتنا بھی قحطِ زیست میں ہے دستیاب تو

کُچھ اور وہ نہیں ہے فقط بے وفا تو ہے

 

آ جائے گا نوید وہ اِک روز راہ پر

اچھّا ہے اپنی راہ سے بھٹکا ہُوا تو ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہونٹوں کے اُس کے ذائقہ کلیوں کے رس کا سا

ٹپکا تو تھا نفَس مِرا اُس کے نفَس کا سا

 

گُلچیں کہ ہاتھ رکھتا ہے دستِ ہوَس کا سا

کب تک رہے گا کارِ مُحبّت مگَس کا سا

 

بِچھڑا وہ صُبحِ وصل بُجھی شمع اور گُماں

بانہوں میں دیر تک رہا شُعلے کے مَس کا سا

 

مِلتا نہیں تُو اور حدِ جِسم میں کہیں

پروان چڑھنے لگتا ہے موسم ہوَس کا سا

 

ٹہنی کہیں اناروں بھری مُنتظِر رہی

بِکھرا ہُوا رہا مَیں کہیں خار و خَس کا سا

 

دُوبھر ہو ورنہ جامِ تصادم اگر نہ ہو

آتے برَس میں ذائقہ پِچھلے برَس کا سا

 

میرے بہت قریب سے جیسے گُذرتا ہو

احساسِ کاروں ہے صدائے جرَس کا سا

 

زِندانِ جِسم نے مُجھے آزادی دی مگر

آگے ہے کوئی اور ہی منظر قفَس کا سا

 

اپنا نہیں سکا جو نوید اپنی راہ تھی

تُجھ کو چڑھا رہا جو نشہ پیش و پس کا سا

٭٭٭

 

 

 

 

نہیں سکُون میسّر کوئی بھٹکتا ہے

تُمھارے شہر میں شب بھر کوئی بھٹکتا ہے

 

تُم آ گئے ہو وہاں پر کوئی بھٹکتا ہے

پتہ کرو کبھی جا کر کوئی بھٹکتا ہے

 

وہ کھِڑکِیاں وہ دریچے صدائیں دیتے ہیں

اور اُن مکانوں کے اندر کوئی بھٹکتا ہے

 

پُرانے باغ کا برگد جہاں کُنواں بھی تھا

خِزاں زدہ وہاں اکثر کوئی بھٹکتا ہے

 

تُمھارے رُوپ میں سرشار ہوکے بھُول گیا

تُمھارے رُوپ کا دم بھر کوئی بھٹکتا ہے

 

خبر نہیں کہاں کِس شہر کا قیام تھا وہ

خبر نہیں کہاں یکسر کوئی بھٹکتا ہے

 

وہ جِس کا رُودِ جنُوں اور ساحِلوں کا تھا

سمندروں میں سمندر کوئی بھٹکتا ہے

 

قدم کے ساتھ نئی منزِلوں کی آہٹ ہے

قدم کے ساتھ برابر کوئی بھٹکتا ہے

 

مِرے وجُود کی حد پار ہی نہیں ہوتی

مِرے وجُود کے باہر کوئی بھٹکتا ہے

 

ہمارے ساتھ کِسی روز آ ہی جاؤ تُم

تمہیں پتہ چلے کیونکر کوئی بھٹکتا ہے

 

مَیں نیند میں چلا جاتا ہُوں اور ساری رات

حدِ وجُود و عدم پر کوئی بھٹکتا ہے

 

نوید ہاتھ چھُٹے تھے جہاں پہ ہاتھوں سے

وہاں سفر سے پلٹ کر کوئی بھٹکتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

غُبارِ روز و فردا سے یہ لمحہ چھان لُوں گا مَیں

تِرے گھر پر صدا دینے کی اِک دِن ٹھان لُوں گا مَیں

 

الگ کر کے مَیں دیکھوں گا جو جمگھٹ لگ گیا ہر سُو

نِگاہِ یکسُوئی سے نشّہ گُنجان لُوں گا میں

 

تماشائے فِراق و وصل ہے جب آنکھ کھُلنے تک

تو پھِر اُس خواب سے چہرے کا اِک احسان لُوں گا مَیں

 

ہوا جب چل پڑی تو راہ نِکلے گی زمانوں کی

کھُلے گا کوئی دروازہ اُسے پہچان لُوں گا مَیں

 

اگر مُمِکِن ہُوا تو یہ زرِ آوارگی دے کر

دُکانِ عیش و عِشرت سے کوئی سامان لُوں گا مَیں

 

کِیا گر تنگ مُجھ کو آسماں کی شر پرستی نے

تو اپنے سر پہ کوئی اور چادر تان لُوں گا مَیں

 

مُجھے موجِ نِشاط انگیز سے فُرصت تو مِلنے دے

ہوائے شامِ افسُردہ تُجھے بھی جان لُوں گا مَیں

 

کوئی فُرصت پڑی رہتی ہے کارِ عِشق کی اندر

کِسی دِن موج میں آ کر بلائے جان لُوں مَیں

 

غضب دستِ زمانہ کا اِسی صُورت جو ٹھنڈا ہو

تو اپنے صُلح جُو ہاتھوں پہ اس کا بان لُوں گا مَیں

 

نہیں رکھ سکتا گر عِزّت ہی میری حاکمِ دوراں

تو واپس ایک دِن جابر سے جا کر شان لُوں گا مَیں

 

بہت ٹُوٹا ہُوا ہُوں چل نہیں پاتا مِرا سِکّہ

کبھی بازارِ یکجہتی سے اِس کا بھان لُوں گا مَیں

 

مُسافت سے دِلِ خُوش فہم کو حاصِل نہیں کُچھ بھی

غُبارِ راہ چھٹ جائے تو یہ بھی مان لُوں گا مَیں

 

مَیں اپنی جا بنانے کے لِیے خُود سے نِکل بیٹھا

جو میری جائے خالی ہے وہ اِک دِن آن لُوں گا مَیں

 

مُجھے تقسیم رکھتی ہیں یہ اجزائے مظاہر میں

اکٹھّا کر حواسِ خمسہ کا وجدان لُوں گا مَیں

 

نِگاہِ تشنۂ دیدار جب ہے ہمسفر میری

ہجُومِ نا شناساں میں اُسے پہچان لُوں گا مَیں

 

نوید آوارۂ منزل کو نقشِ یار مِل جائے

تو اس کے بدلے اپنے سر کوئی نُقصان لُوں گا مَیں

٭٭٭

 

 

 

 

قدغن کہاں کی ہے جو گرانباری ہوتی ہے

کِس کی نوید حاشیہ برداری ہوتی ہے

 

سُن لیتا ہُوں جو بات کوئی بھاری ہوتی ہے

کہتا نہیں ہُوں جِس سے دِلآزاری ہوتی ہے

 

جو بچ گئی بِساط وہ آ کر سنبھال لو

باہر کی باگ ڈور تو عیّاری ہوتی ہے

 

دُوں طائرِ خیال کو وُسعت کہاں تلک

ہر بار دِل گرفتگی ہی طاری ہوتی ہے

 

کُچھ اجنبی عِلاقوں میں لے جاتی ہے مُجھے

کارآمد آج کل میری بیکاری ہوتی ہے

 

مصرُوفِ کار نیّتِ شب رَو ہے ہر گھڑی

اب پہرۂ وجُود پہ بیزاری ہوتی ہے

 

بادہ کو کب ہے بادیہ پیمائی کا گِلہ

پہلو میں میرے گرچہ یہ بیچاری ہوتی ہے

 

دھُل جاتی ہے دو روز میں دہلیزِ وقت سے

ہر سُرخیِ خبَر یہاں اخباری ہوتی ہے

 

وہ تو اُسے مُقلّدِ زر آنا پڑتا ہے

دراصل جِنس کب کوئی باز اری ہوتی ہے

 

مت لا مُجھے وہاں نظر اندازیِ مدام

یک جُنبشِ نِگاہ جہاں کاری ہوتی ہے

 

مت پُوچھ کیوں بھڑکتی نہیں آتشِ وجُود

درکار اِس الاؤ کو چِنگاری ہوتی ہے

 

ہر شام دیکھتی ہے ہوا راستہ مِرا

ہوتا نہیں مَیں اور مِری باری ہوتی ہے

 

مرضی تِری اگر نہ پتہ میرے دِل کا لے

بستی ترے بغیر یہ اندھیاری ہوتی ہے

 

ہم دیکھتے بھی رہتے ہیں کہتے بھی کُچھ نہیں

آنکھوں سے جُوئے خُوں بھی مگر جاری ہوتی ہے

 

ہٹ جاتا ہے وہ کوہِ گراں وقت آنے پر

جِس کو ہٹانے کے لیے جاں ماری ہوتی ہے

 

پڑتا ہے اُس کا بوجھ مرے سینے پر نوید

اِک رات بھی کِسی پہ اگر بھاری ہوتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

والِہانہ ہُوں تگو تاز بھی میری نہیں ہے

پَر بھی میرے نہیں پرواز بھی میری نہیں ہے

 

بولتا خُود ہُوں کہ بُلواتا ہے جنگل مُجھ سے

کھینچ پڑتی ہے کہ آواز بھی میری نہیں ہے

 

کون رُوحیں ہیں جو بھرنے چلی آتی ہیں خلا

خاک پر دعوتِ شِیراز بھی میری نہیں ہے

 

وقت جو کٹتا نہیں اور کہیں کا ہے وقت

یعنی یہ رُودِ پس انداز بھی میری نہیں ہے

 

اور ہلچل جو سِتاروں میں کہیں ہوتی ہے

اور یکسُوئیِ سُر ساز بھی میری نہیں ہے

 

اور جانِب سے اُترتا ہُوں مَیں زِینے اپنے

اور یہ سُرعتِ انداز بھی میری نہیں ہے

 

عکس یکجا ہیں نہ جانے کہاں کی سمتوں کے

صُورتِ آئینہ پرداز بھی میری نہیں ہے

 

اور اِک راز کے آثار اُبھرتے ہیں کہیں

مُجھ میں کھُلتی نِگَہِ راز بھی میری نہیں ہے

 

اور کِسی مطمحِ انجام پہ پہنچا نہیں ہُوں

اور کوئی غایتِ آغاز بھی میری نہیں ہے

 

اگلی منزِل کے کرِشمے تنِ سربستہ میں ہیں

یہ خُود آگاہیِ اعجاز بھی میری نہیں ہے

 

تُو کہیں اور کے چشمے سے چلا آتا ہے

ناز برداریِ صد ناز بھی میری نہیں ہے

 

ماورائی ہے کسک دیکھ پلک جھپکاتی

تُجھ پہ وا دستکِ کم باز بھی میری نہیں ہے

 

کُچھ نہیں میرا نہیں کُچھ بھی نہیں ہے میرا

مُجھ میں یک چشمکِ غمّاز بھی میری نہیں ہے

 

کیا کہُوں کِس لِیے سرمست ہُوں دِن رات نوید

ایسی ندّی میں جو دم ساز بھی میری نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

نہ پُوچھ کِس لِیے ہم در پہ تیرے بیٹھے ہیں

نہیں تُو گھر پہ مگر گھر پہ تیرے بیٹھے ہیں

 

جو گھُوم گھُوم کے چکّر پہ تیرے بیٹھے ہیں

خیالِ مہرِ مُنوّر پہ تیرے بیٹھے ہیں

 

اندھیرا چھایا ہُوا ہے وجُود کا ہر سُو

دیارِ غیب کے منظر پہ تیرے بیٹھے ہیں

 

کہ دیکھ دیکھ مری آنکھ ہی نہیں بھرتی

طیُور کون صنوبر پہ تیرے بیٹھے ہیں

 

کِسی طرف سے کوئی رعدِ نُور چل جائے

بس اِک اِشارۂ خنجر پہ تیرے بیٹھے ہیں

 

وفُورِ وقت وگرنہ نہ جان لے لیتا

کِسی ترانۂ ازبر پہ تیرے بیٹھے ہیں

 

یہ ایک محورِ موجُودگی ہے چاروں طرف

یہ ہم کہ دُوسرے محور پہ تیرے بیٹھے ہیں

 

اُڑان اور کہیں کی پروں میں رہتی ہے

مگر مقامِ مُدوّر پہ تیرے بیٹھے ہیں

 

چلو کوئی تو ذریعہ قیامِ قِہر کا ہے

نہیں جو حوصلے پر ڈر پہ تیرے بیٹھے ہیں

 

جو لوگ مُٹّھی میں جُگنو کو لے کے گھُومتے ہیں

وہی تماشۂ گوہر پہ تیرے بیٹھے ہیں

 

ہماری راہ میں تُو چھوڑ کر کہاں نِکلا

کہ بے نِشان سے پتھّر پہ تیرے بیٹھے ہیں

 

تُو آنکھ پھیر کے ہم سے ہم آنکھ دُنیا سے

مچا کے دھُوم برابر پہ تیرے بیٹھے ہیں

 

سمندروں سے ادھر بستیوں میں اڑتے تھے

اب ایک نخلِ تناور پہ تیرے بیٹھے ہیں

 

نہ جانے باری بھی آتی ہے یا نہیں اپنی

اِکائی کے لِیے جوہر پہ تیرے بیٹھے ہیں

 

عزیز یُوں بھی بہت ہے ہمیں یہ چادرِ خاک

پڑھے ہُوئے کِسی منتر پہ تیرے بیٹھے ہیں

 

کہاں نِکلتی کوئی سر چھُپانے کی صُورت

جہاں بھی بیٹھے ہیں ہم سر پہ تیرے بیٹھے ہیں

 

ضرُور ہم کو کوئی لِہر لینے آئے گی

نہ جانے کب سے سمندر پہ تیرے بیٹھے ہیں

 

غزل سُنا دی ہے ہم نے زمانہ بِیت گیا

اب ایک لفظِ مُکرّر پہ تیرے بیٹھے ہیں

 

نوید تُو نے کہا تھا کہ لوٹ آؤں گا

نجُوم و ماہ یہاں در پہ تیرے بیٹھے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کل رات لب وہ بستۂ بوس و کِنار تھا

پِنہاں نوید انار کلی میں انار تھا

 

رُوحیں سمندروں پہ سحَر تیرتی مِلیں

آنکھوں میں چاندنی تھی سَروں میں خُمار تھا

 

پہلُو میں ایک اور ہی پہلُو کی آنچ تھی

اور حُسن کے حصار کے اندر حصار تھا

 

تھی بازگشتِ باد میں رفتارِ وقت گَو

ہم نے پلٹ کے دیکھا نہیں جو غُبار تھا

 

گردو نواح میں میرے یکجا ہُوا تھا مَیں

باہر وگرنہ کون سا کِس کا شُمار تھا

 

پِچھلی گلی میں دِل سے مُلاقات ہو گئی

حالت وہی جنُوں کی تھی اور بیقرار تھا

 

بانہوں میں ڈھُونڈتا رہا احساسِ لَمس مَیں

کیا ہاتھ سے نِکل گیا کیا اِختیار تھا

 

پاتال ماند پڑ گئے اُبھرا نہ ایک دِن

گِرنے کی کھائیوں میں بلا کا اُتار تھا

 

اندھا کُنواں تھا سینۂ خالی جو جامِ آہ

بھرنے گیا تو سانس میں سب اِنتشار تھا

 

سوچا تھا چھوڑ دے گا گریباں وہ ایک دِن

دیکھا جو اب کی بار تو سب تار تار تھا

 

کیا جانے کِس نے سونپ دِیا بہرِ سَرکشی

کِس کا شعُورِ رفتہ تھا کِس کا شُعار تھا

 

پاؤں لہُولہان اگر ہیں تو کیا کروں

رستہ مِرے قدم کے لِیے تیز دھار تھا

 

مَیں ایک لہرِ تُند پہ کر اِکتفا رہا

دریائے صبحو شام مگر بے کنار تھا

 

ہر لمحہ مُجھ میں ہونے کو شامِل تھا بیقرار

میرے شُمار سے جُڑا کُچھ بے شُمار تھا

 

تھا حیلۂ مفَر میں گِراوٹ کا شائبہ

چڑھ کر کھڑے رہے گَو فسادِ ہزار تھا

 

ایسی ہوا چلی کہ کہیں بھَک سے اُڑ گیا

وہ لمحہ جو گُذارا تھا جو پائدار تھا

 

جھنجھٹ گُذر گیا تو وہ جھنجھٹ نہیں رہا

جھنجھٹ سے وصل و ہِجر کے پیدا نِکھار تھا

 

بارِش سے بھر گیا تھا چنبیلی کا گھر نوید

ملہار کا خیال تھا اور پُر بہار تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

بن رہے ہیں یہاں گھر کاٹ دِئیے جائیں گے

کُچھ دِنوں میں یہ شجَر کاٹ دِئیے جائیں گے

 

سخت ہے پہرۂ زَر کاٹ دِئیے جائیں گے

سوچ رکھتے ہیں جو سَر کاٹ دِئیے جائیں گے

 

جانا چاہو گے تو رستہ نہ مِلے گا کوئی

اُڑنا چاہو گے تو پَر کاٹ دِئیے جائیں گے

 

گانٹھ دی جائیں گی منظر میں عِماراتِ بُلند

تارِ تا حدِّ نظر کاٹ دِئیے جائیں گے

 

چند اذہانِ بَلا رکھّیں گے ہاتھوں میں جہاں

اور اذہانِ دِگَر کاٹ دِئیے جائیں گے

 

رکھّا جائے گا درو بام پہ شب خُوں خُفیہ

رابطہ ہائے خبَر کاٹ دِئیے جائیں گے

 

ایک رقبے کے لِیے معدنِ خستہ کے لِیے

ماؤں کے لختِ جِگر کاٹ دِئیے جائیں گے

 

اب لِیا جائے گا بے جان مشینوں سے کام

اور سب دستِ ہُنر کاٹ دئیے جائیں گے

 

اجنبی رُوحیں اُتر آئی ہیں اِنسانوں میں

جِن سے اسرارِ بشَر کاٹ دیئے جائیں گے

 

گام سے گام مِلانا پڑے گا دُنیا کے

ہوں گے جو زیرو زبَر کاٹ دِئیے جائیں گے

 

اِمتحاں سے جو گئے آئیں گے فہرِست میں نام

اور بے خوف و خطَر کاٹ دِئیے جائیں گے

 

شہر پر اور ہی لوگوں کا رہے گا قبضہ

رستۂ شہر بدر کاٹ دِیئے جائیں گے

 

سر بُلندی کو رکھی جائے گی حدِّ مابین

جو بھی اُٹھّیں گے جِدھر کاٹ دِیئے جائیں گے

 

پھر وہی یُورشِ آقا ہے بزورِ آلات

پھِر غُلامانِ نگَر کاٹ دِیئے جائیں گے

 

مرتبانوں میں رکھا جائے گا حسبِ منشا

بار ہوتے ہی ثمر کاٹ دِئیے جائیں گے

 

سر پہ تلوار لٹکتی ہے مگر یُوں بھی نہیں

بے شغَف شمس و قمَر کاٹ دِئیے جائیں گے

 

دُور ہی دُور کہیں تُم سے مِلاتے رستے

ہم کو ہو گی نہ خبر کاٹ دِئیے جائیں گے

 

اب جو بھیجو گے نِشاں بھی نہ مِلے گا اپنا

سب پتے صُبحِ سفَر کاٹ دِیئے جائیں گے

 

اور پھِر تُم کو کبھی دیکھ نہ پائیں گے ہم

اور پھِر شام و سحَر کاٹ دِئیے جائیں گے

 

مَیں اِکائی ہُوں اِکائی ہی رہُوں گا چاہے

دائیں بائیں کے صِفر کاٹ دِئیے جائیں گے

 

کُچھ بھی چاہیں گے اگر ہو نہیں پائے گا نوید

کُچھ بھی بولیں گے اگَر کاٹ دِئیے جائیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

سر کردۂ افلاک ہُوں در بستِ بلا کُچھ

کرتا ہُوں تِرے کُوچۂ وحشت میں صدا کُچھ

 

کب آنکھ لگی کب رُکا ماتم نہیں ہے یاد

جاگا تو پڑا پایا دو عالم میں بپا کُچھ

 

برگشتۂ تاریکِ جنُوں نِکلی شُعاعیں

یا بِجلی گِری لمحۂ باراں پہ سَوا کُچھ

 

قدموں کی دھمک گُونجنے لگ جاتی ہے ہر سُو

صدموں کی کسَک بنتی ہے گَردُوں کی نَوا کُچھ

 

جو مُجھ کو مِلا مَیں نے وہ لوٹایا نہیں ہے

اپنے سے مِلا ڈالا اِس آمیزے میں کیا کُچھ

 

اَنجانی صداؤں سے بھرا اُس کو مَیں پایا

اِس بار مِلا مُجھ کو تو وہ مُجھ کو مِلا کُچھ

 

پیوست ہُوئی رُوحوں کو کیا چُبھتا نہیں ہے

کرتا ہے جُدا وقت تو ہوتا ہے جُدا کُچھ

 

گویا کوئی صُورت بھی برابر نہیں ٹھہری

پامالِ حِنا کُچھ ہُوا پابندِ حِنا کُچھ

 

دریافت کی قِسمت میں نہ تھا اُس کا اُبھرنا

نا یافت کا جب زور لگا خُود سے دبا کُچھ

 

ڈانڈے ہمیں لگتا ہے مِلانے ہی پڑیں گے

حاضر میں کُجا کُچھ ہے تو غائب میں کُجا کُچھ

 

ہر لمحہ جو کانوں کو لگائے ہُوئے ہیں ہم

ہم نے جو سُنا اِس جگہ تُم نے بھی سُنا کُچھ

 

بُت اپنا کہ تمثال سمجھتے جِسے سب لوگ

جو ہم نے بنایا تھا مگر ہم سے بنا کُچھ

 

پھِر دیکھ سَرِ آئینہ کیا ہوتا ہے پَرتَو

جو یاد بہت آنے لگا اس کو بھُلا کُچھ

 

دِل مان ہی جائے گا کہ دھڑکن سے نفَس تک

تھوڑا ہے توقف اِسے باتوں میں لگا کُچھ

 

کِس صُبح کے اُٹھنے نے اُٹھا رکھّی وہاں شام

کِس پنچھی کی آواز نے چھوڑا نہ خَلا کُچھ

 

حیراں ہُوں کہ اُس کا کوئی تیور نہیں بدلا

اوروں کو لگا کُچھ وہ مگر مُجھ کو لگا کُچھ

 

اغیارِ سُخَن ہائے زمُشکِل نہیں اغیار

تُم نے کِسی پیچیدگی کا شعر لِکھا کُچھ

 

شرمِندۂ اوزان ہُوا کیونکہ ترازُو

جو ہاتھ میں رکھّا تھا جہاں پر بھی کھُلا کُچھ

 

نِسبت تن و بے تن کی نہ رکھّے گی کہیں کی

جانا ہے کہاں ہم نے پتہ اِس کا لگا کُچھ

 

جب تک کِسی کو نِہجِ سمندر نہیں آتی

جو شور بھی اُٹھّا وہ دبانے سے دبا کُچھ

 

اِتنا جو تصادم رہا کیا بھایا بِچھڑنا

اب تھک گیا ہُوں مَیں مُجھے اپنی تُو سُنا کُچھ

 

کر سکتا ہُوں یہ سِلسلۂ دِہر برابر

اے سِلسلۂ دہر مِرے دِل کو دُکھا کُچھ

 

آ جائیں گے تُجھ صحنِ مہا خواب میں یُوں ہے

ہم کو جو کھِلانے لگی ہے موجِ صبا کُچھ

 

اب اور سِمٹنے کی سکَت باقی نہیں ہے

ٹُوٹُوں گا پسِ حدِّ جِہت بے سَر و پا کُچھ

 

دیکھ اِتنے سمندر ہُوئے پایاب اور اس کو

اِتنے دِنوں سے سویا ہُوا یہ جگا کُچھ

 

لازم ہے نوید آئیں گے آنکھوں کو نظارے

جو گرد اُتر آئی ہے رستے سے ہٹا کُچھ

٭٭٭

 

 

 

 

شراب میں جو درو بام ہم گُذارتے ہیں

وجُودِ چاک گریباں کو آنکھ مارتے ہیں

 

گھڑی کو رُکتے ہیں گویا مکان سے باہر

وہاں سے اپنے ہی ہمزاد کو پُکارتے ہیں

 

رکاب میں نہیں رکھتے لحاظِ سمتو سکُوں

لگامِ وقت کو دے دے کے دِل پہ مارتے ہیں

 

گُذرتے رہتے ہیں موسم پسِ زمانو مکاں

کبھی کبھی میرے دِل پر بھی ہاتھ مارتے ہیں

 

اُٹھائے پھِرتے ہیں اسبابِ گُمرہی اپنا

سو دیکھِیے کہ یہ ملبہ کہاں اُتارتے ہیں

 

مِثالِ آب بدلتے ہیں بھیس برتن کا

جو ہم کلام ہو اُس کا ہی رُوپ دھارتے ہیں

 

جو ماہو سال کی گردِ ملال دھُلتی ہے

یہ بام و در کِسی چہرے کے نقش اُبھارتے ہیں

 

مگر نہیں ہے یہ چنداں بہادری کی بات

جو چند راتوں سے ہم اپنا آپ مارتے ہیں

 

پھِر اپنی شکل میں واپس کبھی نہیں آتے

جو کوئی دِن یہاں آئینے کو نِکھارتے ہیں

 

نتیجہ کوئی نہ کوئی نِکلتا ہے سو جہاں

نہ جِیتنے کی ہو ہِمّت وہاں پہ ہارتے ہیں

 

دِکھائی دیتے ہیں کارِ جہاں میں مدغم ہم

پر اندرُونی جہانوں میں اِنتظارتے ہیں

 

ابھی ہے وقت میسّر ابھی نہیں معلُوم

گُذر کے وقت سے کیا ڈھنگ اِختیارتے ہیں

 

کُچھ اور ہوتے ہیں ہم وحشیانِ خلوت میں

دیارِ ہوش میں کُچھ اور اِشتہارتے ہیں

 

اِک اور آگ لگا رکھتے ہیں زمانوں کی

اک اور دھن میں شبو روز ہم گُذارتے ہیں

 

ابھی سلام کرو اور ابھی کلام کرو

ابھی وہ خُوش ہیں ابھی زُلف کو سنوارتے ہیں

 

یہ رات ہے تو کِسی کو خبر نہ ہو گی نوید

چلو یہ بوجھ اُٹھاؤ چلو سِدھارتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

پسپائیِ آدم مُجھے منظُور نہیں ہے

بات ایسی بڑھے گی کوئی یکسُو نہ رہے گا

 

پہلے ہی کوئی خاک اُڑانے کی کمی ہے

اب آنکھ میں میری کوئی آنسُو نہ رہے گا

 

کِس گردِشِ ایّام کا اعلان ہُوا ہے

مَیں مَیں نہ رہُوں گا یہاں تُو تُو نہ رہے گا

 

دیواریں اٹھاتا چلا جاتا ہُوں مَیں ہر سُو

اِس طرح تو کوئی مِرا ہر سُو نہ رہے گا

 

آئینے میں ٹپکے گی وہی روز کی صُورت

گر دیکھنے میں رخنۂ پہلُو نہ رہے گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کسی سحر کا کسی شام کا نہیں رہتا

جو تیرا ہو وہ کسی کام کا نہیں رہتا

 

طلسمِ اسم کہ آغوشِ دل میں کھلتا ہے

سرِ زباں تو کسی نام کا نہیں رہتا

 

ٹھہر گیا ہے مرے دل پہ سانس لینے کو

وگرنہ ماہ کسی بام کا نہیں رہتا

 

جو پچھلی رات چھتوں پر گھٹا برستی ہے

وہ بے خودی میں درو بام کا نہیں رہتا

 

شبِ فراق تجھے ایک بار پھر کہہ دوں

یہاں پہ کوئ مرے نام کا نہیں رہتا

 

میں صبح و شام اسی کے خیال میں ہوں نوید!

مجھے خیال کسی کام کا نہیں رہتا

٭٭٭

 

 

 

ازل سے تا بہ ابد سِلسلہ اِمامِ حُسین

چراغِ رہگُذَرِ کربلا اِمامِ حُسین

 

ہر ایک موقع پرستی پہ جان دیتا ہے

عجیب پیدا ہُوا ہے خلا اِمامِ حُسین

 

نہ تھا یزید وہ باطِل نے بھیس بدلا تھا

اسے سمجھتے نہیں تھے بھلا اِمامِ حُسین

 

زمیں پہ ظُلم کو اِک دِن ہزیمت آئے گی

گُذر ہی جائے گا ہر مرحلہ اِمامِ حُسین

 

اِسی خیال میں منزِل دِکھائی دی اُن کو

لُٹا کے آ گئے سب قافلہ اِمامِ حُسین

 

وفا کی راہ میں اَن مِٹ نِشان چھوڑ دِیا

کٹا کے آ گئے اپنا گَلا اِمامِ حُسین

 

چمن کے بیچ ریا کاروں کا پڑاؤ ہے

ہر ایک پیڑ ہُوا کھوکھلا اِمامِ حُسین

 

تُمہیں نے سُود و زیاں کا ہمیں شعُور دِیا

تُمہیں سے رہتا ہے ہر ولولہ اِمامِ حُسین

 

لِیا ہے نامِ علی اور نِکل کھڑے ہوئے ہیں

زیادہ رہتا نہیں فاصلہ اِمامِ حُسین

 

نویدِ خستۂ کو سُولی پہ وقت رکھتا ہے

سِتم کا ٹھہرے گا کب سِلسلہ اِمامِ حُسین

٭٭٭

چار سو سمت ہوئی بیچ میں دروازہ ہوا

آنکھ آواز میں ڈھلنے سے جنوں تازہ ہوا

 

خار بست ایک مرے سینے سے جُڑ کر آیا

سر ترے دشتِ بلا خیز کا خمیازہ ہوا

 

چکنا چور اپنے صنم خانے میں پایا خود کو

کانچ آنکھوں سے جو نکلا تو یہ شیرازہ ہوا

 

اپنے پیکر میں پلٹ جانا نہیں تھا ممکن

اپنی غلطی کا مجھے بعد میں اندازہ ہوا

 

دیکھ کر اُس کو کسی اور نگہ داری میں

دل مری سانس میں اٹکا ہوا آوازہ ہوا

 

دیکھتے رہنے میں اک چھیڑ لگی رہتی ہے

تارِ مژگاں کے اُلجھنے کو ترا غازہ ہوا

 

سنسناتا ہوا دن مہر سے اُترا تو نوید

میری آنکھوں سے اُترنے پہ مگر تازہ ہوا

٭٭٭

 

مَیں نہ جاؤں بھی تو اعلان عدم رِہتا ہے

تیرے کُوچے میں مرا نقشِ قدم رِہتا ہے

 

یُوں بدلتا ہے مری ریت پہ کروٹ پانی

ایک خَم جاتا ہے اور دُوسرا خَم رِہتا ہے

 

ذرّے میں ایسے اُترتی ہے نِگاہِ باریک

ذرّہ رِہتا ہے نہ ذرّے کا بھَرم رِہتا ہے

 

نَشّہ خاک اترتا ہی نہیں آنکھوں کا

ٹُوٹتے پَتّوں میں خمیازۂ نَم رِہتا ہے

 

میری مَٹّی کو اُڑاتی ہے ہَوا دیر تلک

تُم چلے جاتے ہو اور شورِ عَدَم رِہتا ہے

 

ایک مکتُوب کہ منّت کَشِ تحریر نہیں

نَقشِ پائے رَہِ غُربت پہ رقَم رِہتا ہے

 

اور کیا رِہ گیا سَر میں کہ قَسَم دُوں اس کی

دھیان تیرا ہی ترے سَر کی قَسَم رِہتا ہے

 

شور اُٹھّے نہ کِسی اور طَرَف سے کوئی

اِس لِئے رَبطِ کلیسا و حَرَم رِہتا ہے

 

ایسے اُڑتی ہے مِری راکھ کِسی مَرگھَٹ پر

شُعلۂ روزِ قیامت بھی بھَسَم رِہتا ہے

 

آ کے ہر بار پلٹ جاتا ہُوں خالی ہی نوید

یہ سمجھ کر کہ ابھی ایک جَنَم رِہتا ہے

٭٭٭

 

 

آتشِ سبز لگی سر کو تو چنگاری ہوئی

مُجھ میں کھوئے ہُوئے جنگّل کی نمو داری ہُوئی

 

آ بسیں خانۂ خالی میں ہزاروں روحیں

آئینہ داریِ اصنام سے سرشاری ہوئی

 

نیند میں رفتہ کی کلیوں سے تھا باتیں کرتا

دھوپ کا شیشہ چُبھا منہ پہ تو بیداری ہوئی

 

رات بھر زینوں پہ ہوتا رہا ایمن کا الاپ

صبح بارہ دری سے نکلی تو درباری ہوئی

 

دُور اُفتادہ شُعاعوں کا تھا روزن مُجھ میں

ایک سے ایک مرے رتجگوں پر طاری ہُوئی

 

آد ہے پیکر سے ترے پورا لپٹنے لگا میں

ایک پلو سے مرے گرد تری ساری ہوئی

 

جانے کیا تھا نہ ہَوا میں جو تِرے بعد مُجھے

سانس لینے کو ہر اِک موڑ پہ دُشواری ہُوئی

 

گھوم پھر کر مجھے آ جاتی ہے لینے پھِر سے

جوئے پیچیدہ جو رُکنے سے مرے جاری ہوئی

 

واہمہ سیرِ سماوات میں تلخی لایا

قدغنِ دہر کے لگ جانے سے مے کھاری ہوئی

 

ایک دروازہ کھُلا ساتھ کے جنگل میں کہیں

ایک بے انت پہ وا ہونے کی تیاری ہوئی

 

کھینچ کر دوسرے دھاروں میں ملایا خود کو

ایک دھارے میں بہے جانے سے لاچاری ہوئی

 

سارے اپنے تھے مگر دوسرا سمجھا اُن کو

جس سے پیدا دلِ شفاف میں عیاری ہوئی

 

بارے اسباب کوئی اپنا نکل آیا نوید

بارہا اجنبی دنیاؤں کی تیاری ہوئی

٭٭٭

 

 

 

زردیِ ہِجر ہے یا شُعلۂ ساغر میرا

رات بھَر دِل پہ اُچھلتا ہے سمندر میرا

 

تیری آواز اُترتی ہے کِسی ساحِل پر

بھیگ جاتا ہے کِسی لِہر سے پتھّر میرا

 

تابِ تنہا سے اُترتی ہی نہیں شامِ دبیز

جا چمکتا ہے رہِ مِہر میں اَختَر میرا

 

آنکھ نظّارۂ نابُود سے ہٹتی ہی نہیں

شِہر سے ہو کے گُذر جاتا ہے منظَر میرا

 

جانے کِس عالَمِ اَرواح کا چشمہ ہے رواں

دِل دھڑکتا ہے کِسی لَے پہ برابر میرا

 

بادِ نوخیز ٹھہرتی ہے گُذر جاتی ہے

اپنے ہی دھیان میں رہتا ہے صنوبر میرا

 

میں کِسی دِل کے شبو روز سے وابستہ ہُوں

سو نِشاں مِلتا نہیں دِہر کو اکثر میرا

 

ہے اِسی قریۂ حیرت کے مکینوں میں کہیں

ایک مجذوب مِرا ایک قلندر میرا

 

راہ اِک اور پسِ راہ نِکل آتی ہے

کام کُچھ اور بِگڑ جاتا ہے بن کر میرا

 

ہے مَنو تُو کی وہی تشنہ لبی اور وہی

تیرے باہر سے لِپٹتا ہُوا اَندر میرا

 

جو اُٹھی تھی کِسی ہنگامۂ باراں سے نوید

ہے اُسی صَرصَرِ شوریدہ میں کنکر میرا

٭٭٭

 

 

 

کُچھ دِن تو تُجھ کو اپنی روانی میں مِل گیا

پھِر یُوں ہُوا کہ مَیں اُسی پانی میں مِل گیا

 

اپنی جگہ سے ہٹ کے رہی ساری کائنات

مَیں بے نِشاں جو اِس کی نشانی میں مِل گیا

 

رکھ دی بنائے لوحو قلم کِس خیال میں

اُس حرفِ لَغو پر جو معانی میں مِل گیا

 

دُنیا نہیں سُدھرتی تو مرنا نہیں ہمیں

پہلے ہی کِتنا خُوں یہاں پانی میں مِل گیا

 

پِچھلے کِسی سِتم کی گِرہ کھولتا ہُوا

مَیں عہدِ نَو کی ریشہ دوانی میں مِل گیا

 

کیا اشکِ گُم شُدہ تھا جو کل رات دوستو

پِچھلے پہر کی مرثیہ خوانی میں مِل گیا

 

دالان میں ہوا مُجھے سرشار کر گئی

جاگا ہُوا تھا رات کی رانی میں مِل گیا

 

جاتا تھا خدّ و خال کی اپنی مہک لِئے

اِک دِن مُجھے وہ عالمِ فانی میں مِل گیا

 

رکھّا تھا جو فراغِ اَبَد پیری کے لِئے

وہ بھی اِدھر اُدھر سے جوانی میں مِل گیا

 

تُجھ پر نثار کرنے تھے دونوں جہاں نوید

مُجھ کو کہاں تُو اِتنی گرانی میں مِل گیا

٭٭٭

 

 

یہ جو ہم مُہلتِ یک موجِ نَفَس لیتے ہیں

جانے کِس کِس گُلِ اندیشہ سے رَس لیتے ہیں

 

خُوب بازار میں جب رنگ برس لیتے ہیں

ہم بھی جا کر کوئی آزارِ عَبَث لیتے ہیں

 

جو ہنسی ہنسنی تھی ہم نے تیری باتیں سُن کر

اب کِسی گوشۂ غمناک میں ہنس لیتے ہیں

 

وہ تو کہیے کہ کوئی خواب اِدھر آ نِکلا

ورنہ کھُلتا کہ یہ بادل بھی برس لیتے ہیں

 

ایسی تاکیدِ منو تُو ہے ہمارے مابین

دیکھ لیتے ہیں تُجھے اور ترس لیتے ہیں

 

کوئی کنگن مرے سینے میں اُتر جاتا ہے

کوئی بازُو ہیں لِپٹ کر مُجھے ڈس لیتے ہیں

 

اے سمندر تیرا احسان ہے تُو نے ہم کو

جو جگہ خاک پہ دی ہے وہاں بَس لیتے ہیں

 

پھِر تو پانی کی کِسی موج میں مِل جانا ہے

گرمیِ زیست میں کُچھ اور جھُلس لیتے ہیں

 

اب کِسی اور مکاں سے کِسی کُو میں جھانکیں

اب کِسی اور عناصر کا قفس لیتے ہیں

 

آنچ رکھتے ہُوئے تازہ سبھی کُچھ جھونک دِیا

اب لگاؤ میں کِسی آگ سے مَس لیتے ہیں

 

اِس ہَوا نے تو کمَر توڑ کے رکھ دی ہے نوید

کِسی دہلیز پہ جا کر اِسے کَس لیتے ہیں

٭٭٭

 

 

جائے یک ساغرِ مَے کوئی تو جا لے جائے

تنگیِ کُرسی و برخاست ہے آ لے جائے

 

سینہ آشوبیِ مجنُوں کرے آساں غمِ دہر

اِنتہائے شبِ مقہُور بَلا لے جائے

 

سَرگرانی ہے کہ اَفلاک لِئے پھِرتا ہُوں

رائیگانی ہے کہ جھونکا بھی اُڑا لے جائے

 

اِن دیاروں میں ہَوا ٹھیک سے چلتی ہی نہیں

ورنہ تُجھ تک تو مُجھے موجِ صبا لے جائے

 

ہُوں تو نایاب مگر ایسی کوئی بات نہیں

کوئی چاہے تیری باتوں میں لگا لے جائے

 

نہ سہی جانو جِگر مُہلتِ نظّارہ سہی

تیرے در سے جو کوئی آنکھ بچا لے جائے

 

بدگمانی ہے کہ بیکار جلا جاتا ہُوں

کون اُس شوخ کو دیکھے کوئی کیا لے جائے

 

مَیں نے کب نغمۂ دُشوار ابھی چھیڑا ہے

کوئی چاہے تو مِرا ساز اُٹھا لے جائے

 

وحدتِ بحر نے قطرے کا بھرَم رکھّا تھا

بارے اَب موجِ ہَوا کوئی اُڑا لے جائے

 

سامعِ زمزمۂ بادِ بہاراں ہُوں نوید

سُوئے میخانہ مُجھے آب و ہَوا لے جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک شورِ غمِ نا یافت مِرے سَر میں رہا

مَیں سمندر سے نِکل کر بھی سمندر میں رہا

 

موجِ مے باعثِ افشائے تحیُّر نہ ہُوئی

جو نشہ خستۂ ساغر تھا وہ ساغر میں رہا

 

داستاں رُک گئی صِحرا کے کِسی گوشے میں

اشکِ خمیازہ مری آنکھ کے پتھّر میں رہا

 

دُور اُفتادہ زمانوں میں مُجھے پھینک دِیا

چھید کوئی مِرے دامانِ صنوبر میں رہا

 

اِک صدائے دِلِ ناکام تو پہلُو میں رہی

جو کوئی کارِ جہاں تھا مِرے باہر میں رہا

 

آنکھ میں پڑ گئی سُورج کی کوئی چُبھتی کِرن

عکسِ شفّاف کہیں دامنِ گوہر میں رہا

 

تیز تھی میرے چراغِ بُتِ برباد کی لو

اِتنی صدیوں کے گُذرنے پہ بھی منظر میں رہا

 

ایک لمحہ بھی نہ ٹپکا مِرے دِل پر ورنہ

رنگ صدیوں کا تِری سُرمئی چادر میں رہا

 

آنکھ جلتی رہی درگاہِ ہُنر میں میری

اور وہ خوابِ زر و سیم کے چکر میں رہا

 

مَیں نے دُنیائے بلاکش سے تو کیا لینا تھا

میرا اپنا تنِ خالی مری ٹھوکر میں رہا

 

ایک حد ہے مری اور اُس سے زیادہ جو ہے

مَیں اُسے اپنا بنا لینے کے چکر میں رہا

 

گو بہت خُوبیِ بیروں کو اُتارا دِل میں

پھِر بھی باہر کا زمانہ مِرے باہر میں رہا

 

کھینچ دی جِس نے مرے چہرے پہ سُکھ کی چادر

ایک اندر مرے دُکھتے ہُوئے اندر میں رہا

 

وقت سے پہلے کھُلی آنکھ تو پھل پایا نوید

رتجگا کچّے زمانوں کا مرے سر میں رہا

٭٭٭

 

 

نشّۂ مَرگ سَر چڑھا ہُوا تھا

بَر سَرِ گوَر گھر چڑھا ہُوا تھا

 

سُوئے صِحرا تھی خُون کی آندھی

ایک سُولی پہ سَر چڑھا ہُوا تھا

 

پھَل مِرے صبر و اِستقامَت کا

شاخ پر بے ثمَر چڑھا ہُوا تھا

 

ایک طُغیانی میں گھِرا دریا

آنکھ میں رات بھر چڑھا ہُوا تھا

 

ماہ و انجُم جھُکے تھے بستی پر

اور میَں بام پر چڑھا ہُوا تھا

 

ساتھ والے مکان کا شُعلہ

کھِڑکیاں کھول کر چڑھا ہُوا تھا

 

اُس کے اُوپر گُلال جیسے گُلاب

حلقہ سا تا کمَر چڑھا ہُوا تھا

 

مَیں چکا چوند سے نہ گھبرایا

لَوہے پر آبِ زر چڑھا ہُوا تھا

 

جب بھی دیکھا ہے میَں نے مِنبَر پر

شخص نا مُعتبر چڑھا ہُوا تھا

 

اورتو کُچھ نہ تھا غُبارِ دبیز

جو سفر دَر سفر چڑھا ہُوا تھا

 

میرا دریائے عُمر ایک طرف

شہر سے بے خبَر چڑھا ہُوا تھا

 

بعد مُدّت کے اُس کو ہوش آیا

اُس پہ میرا اثَر چڑھا ہُوا تھا

 

روزن آسماں کھُلا تھا نوید

گھر کا گھر بام پر چڑھا ہُوا تھا

٭٭٭

 

 

نوید نیلا سمندر کہاں سے آیا ہے

اور اُس پہ شام کا منظر کہاں سے آیا ہے

 

یہ اَوم کرتا ہُوا کہکشاؤں کی سرگم

یہ گردِشوں میں صدا گر کہاں سے آیا ہے

 

نجوم و ماہ کی یہ رونقیں کہاں تک ہیں

یہ میرے دِل کا قلندر کہاں سے آیا ہے

 

یہ کِس مزار پہ پڑتی ہے دھُول صدیوں کی

یہ ازلوں ابدوں کا محور کہاں سے آیا ہے

 

اُتارتا ہے یہ کِس مِہرِ نَو سے صُورتوں کو

سکُوں کی شکل میں جوہر کہاں سے آیا ہے

 

یہ کِن سِتاروں کی ضَو میں تُو دیکھتا ہے مُجھے

یہ تیری آنکھ کا گوہر کہاں سے آیا ہے

 

تِری گلی میں کہاں کی دھمال کاہے سماں

خُمارِ ذات کا مظہر کہاں سے آیا ہے

 

یہ کون رُوحیں لرزتی چراغِ وقت سے ہیں

دھُواں مکان کے اَندر کہاں سے آیا ہے

 

یہ کون ہٹنے نہیں دیتا خُود سے آنکھ مِری

یہ کون ہے یہ سِتمگر کہاں سے آیا ہے

 

یہ کون مَیں ہُوں یہ ہے کون تُو یہ سب کیا ہے

یہ وصل و ہِجر کا چکّر کہاں سے آیا ہے

 

یہ ایک دُوسرے کو دیکھتے ہیں صدیوں سے

ندی کہاں سے صنوبر کہاں سے آیا ہے

 

ابھی تو پھُول تھمایا تھا تیرے ہاتھوں میں

یہ تیرے ہاتھ میں پتھّر کہاں سے آیا ہے

 

یہ کر دِیا ہے دِلوں کو الگ الگ کِس نے

مکاں مکاں کے برابر کہاں سے آیا ہے

 

ضرُور تُو نے جگہ کوئی چھوڑ دی ہو گی

تِرے وجُود کا مُنکر کہاں سے آیا ہے

 

بندھا نوید کو پایا ہے بارہا ہَم نے

یہ تیرا جھُمکا یہ جھُومر کہاں سے آیا ہے

٭٭٭

 

وہ جو شب مِلا مِری آتما کوئی اور تھا

جو مَیں سو گیا تو کہیں اُٹھا کوئی اور تھا

 

کِسی میکدے میں جلا رہا کوئی اور تھا

میری راکھ پر کوئی بُجھ گیا کوئی اور تھا

 

میرے چار سُو تھیں عَدَم وجُود کی قُوّتیں

میرے دیکھنے کو کھڑا رہا کوئی اور تھا

 

میرے ہست و بُود کا ہست و بُود تھا اور ہی

جِسے دیکھتا رہا آئینہ کوئی اور تھا

 

کوئی اور بارشِ گُفتگُو رہی درمیاں

تِرے بات کرتے ہی آ گیا کوئی اور تھا

 

کوئی لَو عقَب سے تھی وقفے وقفے کا جھانکتی

تیرے میرے بیچ مِہِک رہا کوئی اور تھا

 

سفر اِتنا کر لِیا طے تو آ کے خبَر مِلی

میرے تہہ کدے میں رُکا ہُوا کوئی اور تھا

 

مَیں اگرچہ ریل کے نیچے آیا تھا ایک دِن

مگر ایک شخص جو بچ گیا کوئی اور تھا

 

جِسے دیکھنے کو نہ دیکھنا بھی زیادہ تھا

شبِ رُونُمائی میں رُونُما کوئی اور تھا

 

مگر ایک در سے جو بار بار پلٹ گئے

مگر اپنے طَور جو کھُل رہا کوئی اور تھا

 

مَیں نوید جِس کی صدا پہ کان نہ دَھر سکا

شب و روز مُجھ میں وہ جھانکتا کوئی اور تھا

٭٭٭

 

 

ساغر ہو یا قلَم ہو لہُو مانگتا ہے یار

لاؤں مَیں کِس جِگر سے جو تُو مانگتا ہے یار

 

ہے پیشِ گُل سکَت کی کمی بول سکنے میں

اور صحنِ باغ خارِ گُلو مانگتا ہے یار

 

جھگڑا مدام رکھتا ہے ما بعدِ وصل و ہِجر

جو ہے نہیں وہ عربدہ جُو مانگتا ہے یار

 

جو رائیگاں گیا ہے تلافی پہ ہے مُصِر

جو اُستخواں بچا ہے سبُو مانگتا ہے یار

 

یعنی بنے بنائے پہ کیا اُستوار ہو

ہونا نہ ہونے کی کوئی خُو مانگتا ہے یار

 

بے موجِ رفتگی کہاں رفت اپنے آپ سے

اسبابِ بے خُودی کوئی کُو مانگتا ہے یار

 

ندّی کوئی گُذرتی نہیں گردو پیش سے

اور اہتمامِ سجدہ وضُو مانگتا ہے یار

 

بھر بھر پیالے سامنے والوں کو دے دِئیے

پِچھواڑے کا درخت نمُو مانگتا ہے یار

 

گھبرا گیا نوید یہ دِل شورِ شِہر سے

بھیتر میں کائناتوں کی ہُو مانگتا ہے یار

٭٭٭

 

 

 

 

 

گُذر گیا ہے مِرا وقت اور نہیں گُذرا

جہاں جہاں سے گُذر آیا جاگزیں گُذرا

 

گُریز پائی کے جنگل میں کر تہہ و بالا

مِرے اُفق سے مِرا یارِ احمریں گُذرا

 

پلٹ کے آئی نہیں آتما شریر کے بیچ

پہ بازگشت سے ادغامِ اندریں گُذرا

 

دبی تھی آتشِ انجم کہ اُستخواں سے مرے

ستارۂ سحَری خواب آفریں گُذرا

 

گُلابِ برف تِرے گال پر دمک سا گیا

چھُوا گُلال تو احساسِ مرمَریں گُذرا

 

اُبھارنے میں رہا سَر خطُوطِ آئندہ

سو والہانہ رہا جِتنا بے یقیں گُذرا

 

شعاعِ شمع بھڑک سے تھی کم سو وارفتہ

مَیں کہکشاؤں کے مرکز سے محوریں گُذرا
اُتار لُوں گا تھکن دوڑ دھُوپ کی اپنی

کبھی جو رتجگوں سے مِہرِ واپسیں گُذرا

 

جہاں جہاں سے گُذرنا مَیں ساتھ لایا تھا

وہاں وہاں سے تو شاید ابھی نہیں گُذرا

 

نظر ہجُوم کی غائب پہ پڑ نہیں پائی

ہزار رُوپ میں حاضِر سے رہ نشیں گُذرا

 

کبھی کبھی میرے سُر سے نہ کائنات مِلی

کبھی کبھی مِرا دِن اور ہی کہیں گُذرا

 

پسِ زماں تھا جو بھیتر میں شورِ بالا سے

مِرے غُبار سے دورانِیہ قریں گُذرا

 

گُذارتا ہُوں گُذشتہ میں جا کئی کئی دِن

مگر وہ دِن جو مِرے وقت سے نہیں گُذرا

 

نوید گُذرا نہیں ہُوں گُذر کے دُنیا سے

یہی گُماں ہے کوئی خواب خواب گیں گُذرا

٭٭٭

 

 

پانی شجَر پہ پھُول بنا دیکھتا رہا

اور دشت میں ببُول بنا دیکھتا رہا

 

نامو نمُودِ ہفت جِہت سونپ کر مُجھے

سُورج دھنک میں دھُول بنا دیکھتا رہا

 

پِچھلے کھنڈر سے اگلے کھنڈر تک تھا اِنتظار

مَیں آتما کی بھُول بنا دیکھتا رہا

 

بادہ کشوں کے خُوں سے چھلکتا تھا میکدہ

خمیازۂ مَلُول بنا دیکھتا رہا

 

تُو بازوؤں میں بھر کے گُلابوں کو سو رہی

مَیں بھی خِزاں کا پھُول بنا دیکھتا رہا

 

تھا سبزۂ کشیدہ درختوں کے درمیاں

ناقابلِ قبُول بنا دیکھتا رہا

 

تجسیمِ نَو بہ نَو کا کرِشمہ تھا اور ہی

مَیں اپنا سا اصُول بنا دیکھتا رہا

 

تیرے شجر کی رس بھری ٹہنی سے بندھ کے مَیں

کچّی رُتوں کی جھُول بنا دیکھتا رہا

 

لوح و قلم کی خیر سگالی کے واسطے

شیرازۂ نزُول بنا دیکھتا رہا

 

کونپل سے ایک لب سے فراموش ہو کے مَیں

کِس گُفتگُو میں طُول بنا دیکھتا رہا

 

بنتے ہی مِٹ گیا تھا خبر ہی نہ ہو سکی

مَیں نقش کو فضُول بنا دیکھتا رہا

 

ایّام کے غُبار سے نِکلا تو دیر تک

مَیں راستوں کو دھُول بنا دیکھتا رہا

 

چُٹکی سے بڑھ کے تھا نہ حُجم پھِر بھی مَیں نوید

آمیزے میں حَلول بنا دیکھتا رہا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

کاجل تیری آنکھوں کا میری آنکھوں میں دَر آئے

میں بات کروں تجھ سے اور شام اتر آئے

 

کچھ روز تلک آنگن بھیگا ہوا رہتا ہے

بادل کی سی شال اوڑھے جب تو میرے گھر آئے

 

ہم دیکھتے ہیں تجھ کو بارش کے مہینوں میں

بھیگے ہوئے بالوں میں تو اور نکھر آئے

 

یہ لوگ میرے دل کو پیارے ہیں بہت لیکن

اس شہر سے کچھ پہلے تو مجھ کو نظر آئے

 

جس ہاتھ پہ دھرنا تھی قندیلِ حنا ہم کو

ہم اپنی سیاہی بھی اس ہاتھ پہ دھر آئے

 

سر پھوڑتی پھرتی تھی رخصت کی ہوا ہر سُو

سو ہم تیرے کوچے سے چپ چاپ گزر آئے

 

سر سبز شجر تجھ کو گھیرے ہوئے رہتے ہیں

ہاں یاد یہ پیلا سا دل تجھ کو اگر آئے

٭٭٭

ماخذ:

فیس بک

اور دوسری ویب سائٹس

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید